2010

جنوری ۲۰۱۰ء

دہشت گردی کے خلاف جنگ اور علماءمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مساجد و مدارس کے ملازمین کے معاشی مسائلمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اصطلاحات کا مسئلہ : ایک تنقیدی مطالعہعثمان احمد
پاکستانی عدلیہ: ماضی کا کردار اور آئندہ توقعاتچوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
حضرت شیخ الحدیثؒ اور حضرت صوفی صاحبؒ کی چند مجالسسید مشتاق علی شاہ
اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب (۱)محمد زاہد صدیق مغل
مکاتیبادارہ
تعارف و تبصرہادارہ

دہشت گردی کے خلاف جنگ اور علماء

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علماء کرام سے ملک کے بعض حلقوں کا یہ مسلسل مطالبہ ہے کہ وہ خود کش حملوں کے خلاف اجتماعی فتویٰ جاری کریں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومتی پالیسی کی حمایت کا دو ٹوک اعلان کریں، لیکن موجودہ صورت حال میں یہ بات بہت مشکل ہے کہ علماء کرام حکومت کی پالیسیوں کی آنکھیں بند کر کے حمایت کریں اور نہ ہی حکومت کو اس کی توقع کرنی چاہیے، اس لیے کہ جو بات جس حد تک درست ہوگی، اس کی ضرور حمایت کی جائے گی، لیکن جو بات درست نہیں ہوگی، اس کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ بالخصوص موجودہ صورت حال میں دینی جماعتوں اور علماء کرام کے کچھ تحفظات ہیں جن کو دور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مثلاً:
  • دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومت دینی حلقوں کی بھرپور حمایت کی خواہش تو رکھتی ہے، لیکن اپنی پالیسیوں پر انھیں اعتماد میں لینے کی ضرورت حکمران حلقوں نے کبھی محسوس نہیں کی۔ اگر آپ حمایت چاہتے ہیں تو اعتماد میں بھی لیجیے کہ جب تک صحیح صورت حال سے واقفیت نہیں ہوگی اور اعتماد نہیں ہوگا تو حمایت بھی مشکل ہوگی۔
  • قومی خود مختاری کے حوالے سے ملک بھر کے عوام کی طرح دینی حلقے بھی شدید تحفظات اور بے چینی کا شکار ہیں اور ان کا اضطراب بڑھتا جا رہا ہے۔ بعض حکومتی پالیسیاں اور اقدامات کنفیوژن میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ حکومت کو اس سلسلے میں بھی دینی حلقوں اور علماء کرام کو اعتماد میں لینا ہوگا، ورنہ کنفیوژن اور بے اعتمادی کی اس فضا میں دینی حلقے حکومتی پالیسیوں کے بارے میں تذبذب کا شکار رہیں گے۔
  • ۷۳ء کے دستور میں واضح طور پر ضمانت دی گئی ہے کہ ملک میں قرآن وسنت کے قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے گا اور قرآن وسنت کے منافی کوئی قانون نافذ نہیں کیا جائے گا۔ اس دستوری ضمانت کو چھتیس برس گزر چکے ہیں، مگر ابھی تک صورت حال جوں کی توں ہے اور حکومت اس سلسلے میں کسی پیش رفت پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی۔ ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ رکاوٹ کون ہے اور رکاوٹیں کہاں کہاں ہیں؟ جب تک اس کی وضاحت نہیں ہوتی، تذبذب کی فضا باقی رہے گی۔
  •  جہاں تک دہشت گردی اور خود کش حملوں کا تعلق ہے، علماء کرام متعدد بار یہ موقف پیش کر چکے ہیں اور اس کی وضاحت کر چکے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حدود میں کسی بھی مطالبہ اور مقصد کے لیے ہتھیار اٹھانا اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرنا شرعاً درست نہیں ہے اور جو لوگ ایسا کر رہے ہیں، وہ غلط کر رہے ہیں۔ بالخصوص پرامن شہریوں، مساجد اور امام بارگاہوں کو اس کا نشانہ بنانا انتہائی مذموم فعل ہے جس کی ہم نے ہمیشہ پرزور مذمت کی ہے اور اب بھی کرتے ہیں۔ یہ موقف بالکل واضح ہے اور اس میں کوئی تردد نہیں ہے، لیکن یہ موقف الگ چیز ہے اور حکومتی پالیسیوں کی حمایت اور اس کے ساتھ کھڑا ہونا اس سے مختلف امر ہے۔
  • دہشت گردی کے ان مذموم واقعات میں بیرونی عوامل، بالخصوص امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ اور اس کے مقاصد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس سلسلے میں ملکی رائے عامہ اور دینی حلقوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔
اصل یہ ہے کہ فتویٰ میں ذمہ دار مفتیان کرام کو صرف یہ نہیں دیکھنا ہوتا کہ مسئلہ کی نوعیت کیا ہے، بلکہ یہ دیکھنا بھی مفتی کی ذمہ داری ہوتا ہے کہ فتویٰ کیوں لیا جا رہا ہے اور فتویٰ پوچھنے والے کے مقصد کو سمجھنا بھی ضروری ہے تاکہ فتویٰ کسی غلط کام کے لیے استعمال نہ ہو سکے۔ اس لیے ذمہ دار علماء کرام جب کسی مسئلے پر فتویٰ دیں گے تو پوری صورت حال اور سارے پہلووں کو سامنے رکھ کر دیں گے اور پوری صورت حال اور تمام پہلووں کو سامنے لانا فتویٰ پوچھنے والوں کی ذمہ داری بنتی ہے۔ ہمارے خیال میں موجودہ صورت حال میں علماء کرام کو اگر مجموعی طور پر کوئی اجتماعی فتویٰ دینا ہے تو وہ باہمی مشورہ سے تمام مکاتب فکر کے ذمہ دار مفتیان کرام کو مل کر جاری کرنا چاہیے اور اس کے لیے استفتاء کی ترتیب میرے ذہن میں کچھ اس طرح بنتی ہے:
’’کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
  • پاکستان کے قیام کا مقصد قائد اعظم محمد علی جناح نے واضح طور پر یہ بتایا تھا کہ اس میں قرآن وسنت کی حکمرانی ہوگی اور دستور پاکستان میں بھی اس بات کی واضح طور پر ضمانت دی گئی ہے۔ جو لوگ گزشتہ ساٹھ برس سے اس میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، ان کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
  • جن لوگوں نے ملک میں نفاذ شریعت کے نام پر ہتھیار اٹھا رکھے ہیں اور حکومتی رٹ کو چیلنج کر کے بد امنی اور قتل وغارت کا باعث بنے ہوئے ہیں، بالخصوص مساجد، عبادت گاہوں اور پر امن شہریوں پر خود کش حملے کرنے والوں کا شرعی حکم کیا ہے؟
  • ملک میں دہشت گردی کے تمام عوامل کی چھان بین کرنا اور اس کے اندرونی وبیرونی محرکات کا سراغ لگا کر انھیں بے نقاب کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ اور تحقیق کے بغیر ان سب کارروائیوں کا الزام کسی ایک طبقے پر لگا دینا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ بینوا توجروا۔‘‘

مساجد و مدارس کے ملازمین کے معاشی مسائل

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

کراچی کے جناب افتخار احمد کی طرف سے بجھوایا جانے ولا ایک استفتاء ان دنوں ملک کے مختلف مفتیان کرام کے ہاں زیر غور ہے جو مساجد اور دینی مدارس میں کام کرنے والے ملازمین اور ائمہ واساتذہ کی تنخواہوں اور دیگر حقوق کے معیار ومقدار کے حوالے سے ہے۔ راقم الحروف کو بھی اس کی کاپی موصول ہوئی ہے۔ میں عام طور پر فتویٰ نہیں دیا کرتا، البتہ عمومی تناظر میں کچھ اصولی گزارشات ضرور کرنا چاہوں گا۔
مساجد ومدارس کے ملازمین کو تنخواہیں اور دیگر مراعات ان کے معاشرتی مقام سے بہت کم ملتی ہیں اور ان کی بنیادی ضروریات کے حوالے سے یہ بہت ہی کم ہیں۔ یہ ایک معروضی حقیقت ہے جس کا چند بڑے اور معیاری اداروں کو چھوڑ کر، جن کا تناسب مجموعی طور پر شاید پانچ فیصد بھی نہ ہو، ملک میں ہر جگہ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، لیکن امام، خطیب، مدرس، مفتی، حافظ، قاری اور موذن قسم کے لوگ اپنی تربیت کے لحاظ سے تنخواہ اور معاشی مفادات کے لیے احتجاج، ہڑتال، جلوس، مظاہرہ اور بائیکاٹ وغیرہ کے عادی نہیں ہیں اور اسے قناعت اور خلوص کے خلاف سمجھتے ہیں اور جو لابیاں اور این جی اوز ملک میں اس قسم کے مسائل کے لیے آواز اٹھاتی ہیں، انھیں اس مخلوق کے وجود اور بقا سے سرے کوئی دل چسپی نہیں ہے، بلکہ بہت سے حلقوں کے نزدیک اس قسم کے لوگوں کا معاشرے میں موجود نہ رہنا ہی ان کے لیے عافیت کا باعث ہے، اس لیے مساجد ومدارس کے نظام سے تعلق رکھنے والے ملازمین کی معاشی ضروریات، معاشرتی اسٹیٹس اور حقوق عام طور پر بہت کم زیر بحث آتے ہیں۔ لیکن اگر کچھ باہمت اور باذوق صحافی ملک کے کسی بھی حصے میں ایک علاقے کو مخصوص کر کے وہاں کی مساجد ومدارس کے ملازمین کی، جن میں خطباء، اساتذہ اور دیگر ملازمین شامل ہیں، تنخواہوں، مراعات، معیار زندگی اور بنیادی ضروریات کے بارے میں ایک معروضی اور تجزیاتی رپورٹ مرتب کر سکیں تو یہ انتہائی چشم کشا رپورٹ ہوگی اور آپ دیکھیں گے کہ دنیا میں الزامات کا سب سے زیادہ ہدف بننے والے اس طبقے کی غالب اکثریت کس کس مپرسی اور بے سر وسامانی کے ماحول میں زندگی بسر کر رہی ہے۔
یہ دراصل ایک بڑے اجتماعی مسئلہ بلکہ المیہ کا ایک جزوی پہلو ہے جس کا تعلق ہمارے مجموعی معاشی نظام اور معاشرتی رویوں سے ہے۔ ہمارے موجودہ معاشی نظام کی بنیاد جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام اور سوچ پر ہے، اس لیے یہ معاشی اور معاشرتی دونوں حوالوں سے طبقاتی ہے، اونچ نیچ کی نفسیات کے حوالے سے ہے اور بعض طبقوں کی ہر حال میں بالاتری اور بالادستی کی اساس پر ہے جس کے افسوس ناک مظاہر ہمیں قدم قدم پر دکھائی دیتے ہیں، مگر ہم خاموشی کے ساتھ آنکھیں بند کر کے وہاں سے گزر جاتے ہیں۔ میں پنجاب میں پیدا ہوا ہوں اور پنجاب میں ہی رہتا ہوں، مگر میرا اصل تعلق مانسہرہ (ہزارہ) کی سواتی برادری سے ہے۔ گزشتہ ماہ میں مانسہرہ گیا تو مجھے بتایا گیا کہ وہاں محکمہ مال کے کاغذات میں امام مسجد اور مولوی کو ’’کمین‘‘ کے خانے میں لکھا جاتا ہے اور وہ اسی اسٹیٹس کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ خدا جانے پنجاب اور اور سندھ کی کیا صورت حال ہے، لیکن ہزارہ کے بارے میں مجھے یہی بتایا گیا ہے۔ 
یہاں دو سوال سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ کیا مالک اور کمین کی یہ اصطلاح اورمعاشرتی درجہ بندی شرعی احکام کے حوالے سے درست ہے؟ اور دوسرا سوال یہ کہ خدا نخواستہ اس تقسیم کو کسی درجے میں تسلیم بھی کر لیا جائے تو کیا مولوی، امام اور دینی خدمات سرانجام دینے والے لوگ اسی حیثیت کے حامل ہیں کہ انھیں ’’کمین‘‘ کے کھاتے میں شمار کیا جائے؟ میرے نزدیک یہ دونوں سوال سنجیدگی کے ساتھ غور وخوض کے متقاضی ہیں۔ اس صورت حال کی اصلاح کے لیے معاشی نظام اور معاشرتی رویے دونوں میں انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر ایک اسلامی ریاست کی تشکیل اور اسلامی معاشرہ کے قیام میں ہمارے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور خلافت راشدہ کے فیصلے معیار اور راہ نما ہیں تو ہمیں جاگیردارانہ نظام اور جاگیردارانہ کلچر دونوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی اور سرمایہ دارانہ نفسیات اور سوچ سے پیچھا چھڑانا ہوگا جس کے لیے طبقاتی نظام کا خاتمہ سب سے زیادہ ضروری ہے۔ یہ بات بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ معاشرتی انقلاب اور تبدیلیاں محض قانون سے نہیں ہوا کرتیں۔ قانون بھی ایک درجے میں ضروری ہے، لیکن اصل تبدیلی اور اصلاح ایمان وعقیدہ اور اخلاق وعادات کے ذریعے ہوتی ہے اور اس کے لیے مسلسل فکری اور سماجی جدوجہد درکار ہے۔ ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ہر سماجی تبدیلی اور معاشرتی اصلاح کے لیے سیاسی نعرے بازی کو ضروری قرار دے لیا ہے اور صرف قانون کے نفاذ کو کافی سمجھ رکھا ہے جس کی وجہ سے کسی صحیح مقصد کے لیے بھی ہماری جدوجہد ایک حد سے آگے بڑھ کر ناکامی کا شکار ہو جاتی ہے۔
جمعیۃ علماء اسلام نے ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات کے موقع پر مولانا محمد عبد اللہ درخواستی، مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولاناپیر محسن الدین احمد (مشرقی پاکستان) اور مولانا عبید اللہ انور رحمہم اللہ کی قیادت میں اپنے انتخابی منشور میں اس مسئلے کے حل کی طرف پیش رفت کے لیے سرکاری زمینیں بے زمین کاشت کاروں میں تقسیم کرنے، انگریزی استعمار کے دور میں دی گئی جاگیریں ضبط کرنے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ہوش ربا تفاوت کو ختم کر کے پہلے ایک اور دس کے تناسب پر لانے اور پھر بتدریج ایک اور پانچ کے تناسب پر فکس کر دینے کا وعدہ کر کے مسئلے کے حل کے آغاز کی ایک صورت پیش کی تھی۔ جمعیۃ علماء اسلام کی موجودہ قیادت کو اپنے مرحوم بزرگوں کا یہ موقف اور ۱۹۷۰ء کا یہ انتخابی منشور خواب میں بھی شاید یاد نہ آتا ہو، مگر جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام، کلچر اور نفسیات کے خاتمے کا آغاز اسی قسم کی کارروائیوں سے ہوگا اورکسی انقلابی عمل کے بغیر محض نعروں سے کچھ نہیں ہوگا۔
مسجد ومدرسہ کا نظام بھی اسی معاشرے اور کلچر کا حصہ ہے اور عام طور پر دینی تعلیم وتربیت کے باوجود اسے اس کلچر اور مجموعی نفسیات سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ظاہر بات ہے کہ جب مولوی اور امام مسجد کمیوں اور لاگیوں میں شمار ہوگا تو اس کے ساتھ معاملہ بھی اسی جیسا ہوگا، خصوصا جب اس کمی اور لاگی کو معاشرے کے لیے غیر ضروری، بلکہ معاشرے پر بوجھ سمجھا جائے گا تو وہی کچھ ہوگا جو ہو رہا ہے، اس لیے اصل ضرورت تو اس نظام اور کلچر کو بدلنے کی ہے اور اس کے لیے عوامی سطح پرمنظم اور مربوط تحریک اور جدوجہد ناگزیر ہے، لیکن اس سے ہٹ کر اس مسئلے سے نمٹنے اوراس کی تلخی کو کم کرنے کے لیے دینی جماعتوں، بڑے مدارس کے منتظمین اور خاص طور پر دینی مدارس کے وفاقوں کو اس پر غور کرنا چاہیے اور میں طالب علمانہ حیثیت سے اس سلسلے میں دو اصولوں کی طرف مساجد ومدارس کے منتظمین اور ان کو چلانے والی کمیٹیوں کو توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔
شاید کہ اتر جائے ’’کسی‘‘ دل میں مری بات
ایک یہ کہ جب کوئی شخص خود کو کسی اجتماعی دینی کام کے لیے وقف کر دے اور کسی ادارے سے اس طور پر وابستہ ہو جائے کہ وہ اپنی ضروریات کے لیے اور کوئی کام نہ کر سکتا ہو تو اس کی اور اس کے زیر کفالت افراد کی معاشی کفالت شرعاً اس ادارے کے ذمے ہوتی ہے اور کفالت کا معیار اس ادارے کے افراد اپنی مرضی سے نہیں طے کریں گے، بلکہ انھیں دوسرے عام شہریوں کے معیار زندگی کو لا وکس فیہا ولا شطط کے درجے میں بنیاد بنانا ہوگا۔ 
دوسری بات یہ کہ صاحب ہدایہ نے حضرت امام ابو حنیفہؒ کا بیان کردہ یہ اصول ذکر کیا ہے کہ لا رضاء مع الاضطرار، یعنی مجبوری کی رضا کا اعتبار نہیں ہے۔ اس کامطلب مذکورہ مسئلہ کے حوالے سے میری سمجھ میں یہی آتا ہے کہ کوئی شخص اگر اضطرار یا مجبوری کی وجہ سے اپنے معروف حق سے کم پر راضی ہو گیا ہے تو اس کی اس رضا کا اعتبار نہیں ہے اور شرعاً وہ اسی حق کا حقدار ہے جو معروف حق کے طور پر اسے حاصل ہونا چاہیے۔
میرا خیال ہے کہ اگر چند بڑے دار الافتاء اور وفاق المدارس العربیہ اس سلسلے میں تمام پہلووں کا جائزہ لے کر ملک بھر کی مساجد ومدارس کے لیے کوئی اجتماعی ضابطہ اخلاق طے کر دیں تو دینی خدمات سرانجام دینے والے، معاشرے کے اس مظلوم ترین طبقے کی داد رسی کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔

اصطلاحات کا مسئلہ : ایک تنقیدی مطالعہ

عثمان احمد

علوم و فنون اپنی مرتب، مکمل اور مدون شکل میں اصطلاحات کے ذریعے ظہور پذیر ہوتے ہیں اور با لعموم مخصوص اصطلاحات کا نظام ہی کسی فکر،علم یا فن کی شناخت ہوتاہے۔ فرہنگ آصفیہ کے مطابق ’’جب کوئی قوم یا فرقہ کسی لفظ کے معنی موضوع کے علاوہ یا اس سے ملتے جلتے کوئی اور معنی ٹھہرا لیتا ہے تو اسے اصطلاح یا محاورہ کہتے ہیں، کیونکہ اصطلاح کے لغوی معنی باہم مصلحت کرکے کچھ معنی مقرر کر لینے کے ہیں ۔اسی طرح وہ الفاظ جن کے معنی بعض علوم کے واسطے مختص کر لیے جاتے ہیں، اصطلاحِ علوم میں داخل ہیں۔ خیال رہے کہ اصطلاحی اور لغوی معنوں میں کچھ نہ کچھ نسبت ضرور ہوتی ہے۔‘‘ (۱)
علی بن محمد بن علی الجرجانی لکھتے ہیں:
’’الاصطلاح: عبارۃ عن اتفاق قوم علیٰ تسمےۃ الشیء با سم ما ےُنقَل عن موضعہ الاول ، واخراج اللفظ من معنی لغویّ الیٰ آخر لمناسبۃ بینھما۔ وقیل :الاصطلاح :اتفاق طائفۃ علیٰ وضع اللفظ بازاء المعنی۔ وقیل : الاصطلاح:اخراج الشیء عن معنی لغوی الی معنی آخر ، لبیان المراد۔وقیل: الاصطلاح: لفظ معین بین قوم معیَّنِین‘‘ (۲)
’’اصطلاح کسی قوم کا کسی شے کے نام پر اتفاق کر لینا ہے جو کہ اس کے پہلے معنی موضوع سے منتقل کر دے اور لغوی معنی کی بجائے کسی مناسبت کے باعث دوسرے معنی مراد لینا ہے۔ اور کہا جاتاہے کہ اصطلاح کسی گروہ کا کسی مخصوص معنی کے لیے لفظ کا وضع کر نا ہے ۔اور کہا جاتاہے کہ اصطلاح مراد کے بیان کے لیے کسی چیز کا اس کے لغوی معنی سے کسی دوسرے معنی کی طرف لے جانا ہے۔اور کہا جاتاہے کہ اصطلاح کسی متعین لفظ کو کہتے ہیں جو متعین کرنے والوں کے درمیان متعین معنوں میں مستعمل ہو۔‘‘
انگریزی میں اصطلاح کے لیے مستعمل لفظ TERM ہے:
Terms are words and compound words that are used in specific context. (3)
اصطلاحات وہ مفرد اور مرکب الفاظ ہیں جو مخصوص پس منظر میں ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔ اصطلاحات کا وضع کرنا حقائق کی تخلیق یا اظہار کا نام نہیں بلکہ ادنیٰ یا اعلی ٰموجو د اتِ ذہنی و مادی کو مخصوص الفاظ کے ساتھ معروف کر نے کا نام ہے۔بسا اوقات بالکل عام اور سطحی باتیں اور ادنی ٰ انسانی جذبات وخواہشات کو سنہری اصطلاحات کے ذریعے مستورمگر مقبول کیا جاتا ہے جیسا کہ جدید انتظامی علوم انہی اصطلاحات کا مجموعہ ہیں۔ (۴) بعض علوم تو اصطلاحات کا ایسا گورکھ دھندا ہیں کہ اس کا کل سرمایہ مغلق اصطلاحات ہیں ۔ ایسی اصطلاحات جن کے معنی کا تعین ناممکن حد تک مشکل ہے۔ (۵)
صاحب کشاف اصطلاحات الفنون اصطلاح کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’ان اکثر ما یحتاج بہ فی تحصیل العلوم المدونہ و لفنون المروجہ الی الاساتذہ ھو اشتباہ الاصطلاح ، فان لکل اصطلاح خاص بہ اذا لم یعلم بذلک لایتیسر للشارع فیہ الاھتداء الیہ سبیلا والی ٰانغمامہ دلیلا فطریق علمہ اما الرجوع الیہم‘‘ (۶)
’’مدون علوم اور مروج فنون کے حصول میں اکثر جس چیز کی احتیاج اساتذہ کی طرف رجوع پر مجبور کرتی ہے وہ اصطلاح کا اشتباہ ہے ۔ ہر اصطلاح کے خاص معنی ہوتے ہیں اوران کو جانے بغیر (علم کی راہ پر) کسی چلنے والے کے لیے کوئی راہ ہدایت اور تاریکی میں کو ئی دلیل نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ ان اصطلاحات کے علم کے لیے ان (اساتذہ) کی طرف رجوع کرے۔ ‘‘
محمد اسلم سہیل لکھتے ہیں:
ًً’’یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ علوم مدونہ اور فنون مروجہ میں ہر قسم کے علم و فن کے اصول و مبادی اور کلیات و جز ئیات تک رسائی اور ان پر مکمل دسترس کا دارو مدار، ان علوم کے متعین بنیادی اصطلاحات کی صحیح تفہیم و تحقیق ، ان کے معانی و مطالب کی صحیح تعبیر و تشریح، ایک جیسی مختلف اصطلاحات میں موجود لطیف نکتہء اتحاد اور دقیق فنی اختلاف کے ادراک و شعور،اور اسی طرح مختلف علوم و فنون کے متفرق مباحث سے متعلق اصطلاحات کی باہمی مماثلت و مشابہت کے درمیان نازک اور بادی النظر میں غیر محسوس فرق کو سمجھ کر ان کی صحیح تو ضیح و تعریف کرنے اور ان کے مناسب استعمال کی اعلیٰ درجے کی صلاحیت و قابلیت اور غیر معمولی علمی و فنی مہارت پر موقوف ہے ‘‘(۷)
اصطلاحات کے سلسلے میں درج ذیل اصولی باتوں کو ملحوظ رکھنا خلط مبحث سے بچنے ، معانی کے صحیح ابلاغ اور انتشار سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے:
۱۔ کوئی اصطلاح مجرد لفظ نہیں ہوتی ۔ہر اصطلاح کا اپنا مخصوص فکری،علمی یا مذہبی پس منظر ہوتا ہے اور اس کے معانی کا تعین اس کے مخصوص پس منظر سے صرفِ نظر کرکے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر کوئی فرد کسی مخصوص اصطلاح کو محض لغوی معنی میں استعمال کرنا چاہے تو اسے صراحتاً اس کا ذکر کرنا چاہیے کہ اس کی مراد محض لغوی نہ کہ اصطلاحی۔ کسی اصطلاح کا واضع ہی وہ بنیادی منبع ہے جو کسی اصطلاح کے معانی کے تعین میں بنیادی حوالہ ہوتا ہے ۔مثلاً DEMOCRACY کی اصطلاح کے معنی متعین کرنے کے لیے افلاطون،جان مل ، روسو اور مغربی تاریخ (انقلاب فرانس ، تحریک تنویروغیرہ)بنیادی ذریعہ ہیں نہ کہ قرآن و سنت۔ (۸) کیا کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ DEMOCRACYکا تصور کوئی مخصوص تاریخی ،علمی، ثقافتی اور اخلاقی پس منظر نہیں رکھتا ۔ یقیناًرکھتا ہے تو یہ کس طرح درست ہو گا کہ اس کے معنی کا تعین قرآن و سنت سے کیا جائے(قرآن و سنت سے تو محاکمہ ہوگا)۔یا اس کے وہ معنی متعین کیے جائیں جو اس کے مخصوص تاریخی ،علمی، ثقافتی اور اخلاقی پس منظر سے علاقہ نہ رکھتے ہوں۔ 
اگر ہم اس بات کو رد کرتے ہیں کہ جہاد کی اسلامی اصطلاح کے معنی کا تعین کرنے کا استحقاق مستشرقین یا مغربی سکالرز کو نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں فقہاء عظام نے جو معنی متعین کیے ہیں وہی اصل ہیں تو مسلم علماء کو حق کیسے حاصل ہے کہ وہ مخصوص تاریخی ،علمی، ثقافتی اور اخلاقی پس منظر کو نظر انداز کرکے DEMOCRACY کے معنی متعین کریں۔اسی طرح کسی اصطلاح کے ساتھ اسلامی کا سابقہ یا لاحقہ لگانے سے یہ سمجھنا کہ وہ اپنے مخصوص فکری،علمی ، اخلاقی اورمذہبی پس منظر سے کٹ گئی ہے محض خوش فہمی ہے ۔ اس کے نتیجے میں باطل افکار کو فروغ و جواز تو مل سکتا ہے لیکن اصطلاحات کی تطہیر نہیں ہو سکتی۔ کیا سوشلزم، جمہوریت، بنکنگ اور انشورنس کی اصطلاحات کے ساتھ ’’اسلامی‘‘ لگانے سے سوشلزم، جمہوریت، بنکنگ اورانشورنس میں جوہری تبدیلی واقع ہو جائے گی اور وہ اپنی مخصوص تاریخی، علمی، ثقافتی اور اخلاقی پس منظرسے کٹ جائیں گی؟
۲۔ہر اصطلاح ایک کل کی حیثیت رکھتی ہوتی ہے اور اس کے معانی بھی کلی حیثیت سے طے کیے گئے ہوتے ہیں ۔ کسی بھی اصطلاح کو بالاقساط یا بالاجزاء بیان کرکے یہ کہنا کہ اس میں یہ جز درست اور یہ جز باطل ہے غلط ہے۔ مثلاً Democracy ایک مکمل نظام ہے۔ اس کا جائزہ مکمل نظام کی حیثیت سے لیا جائے گا نہ کہ ووٹ، پارلیمنٹ، اقتدار اعلیٰ کو علیحدہ علیحدہ کرکے۔اس کے نتیجے میں کیا گیا تجزیہ غیر حقیقی ہو گا۔
۳۔ کسی اصطلاح کا ترجمہ دوسری زبان میں پورے معانی کے ساتھ ممکن نہیں ہوتا اور اس کے لیے اقرب ترین لفظ ہی استعمال ہو سکتا ہے ۔ اور اکثر اصطلاحات کا ترجمہ مسائل کا باعث بنتا ہے ۔اللہ جل شانہ کا اسم ذاتی اللہ ہے۔ اس کا کوئی ترجمہ ممکن نہیں لفظِ اللہ کا متبادل GOD خدا یا ایشور یا رام نہیں اور یہ تمام الفاظ اپنا مخصوص پس منظر رکھتے ہیں ۔اسی طرح اردو میں اکثر مغربی اصطلاحات کا ترجمہ الفاظ کا ترجمہ ہے نہ کہ مکمل اصطلاحی معنی اس میں سمٹ آئے ہیں۔ HUMAN RIGHTS کا ترجمہ انسانی حقوق کیا جاتا ہے جو محض لفظی ترجمہ ہے ۔ اس کے معانی کے بیان کے لیے وہ مکمل مخصوص فکری،علمی ، ثقافتی اور تاریخی پس منظر سے واقفیت ضروری ہے جہاں سے اس اصطلاح نے نشو و نما پائی ہے۔
۴۔ کوئی اصطلاح اگر کسی دوسری فکر،فن،عمل یا چیز کے لیے اس کثرت سے استعمال کی جائے کہ وہ اپنے مخصوص فکری،علمی یا مذہبی پس منظر سے بالکل لاتعلق (Detach ) ہو جائے تو نئے معانی اس کے اصل معانی قرار پائیں گے اور گزشتہ معانی کی حیثیت لغوی یا تاریخی رہ جائے گی۔اب اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ نماز تو دراصل مجوسیوں کی عبادت کا نام ہے (۹) لہٰذا مسلمانوں کی تکبیر تحریمہ ،قیام ،رکوع و سجودپر مشتمل عبادت کو نماز کہنا درست نہیں تو یہ دعویٰ باطل ہو گا کیونکہ بر صغیر پاک و ہند کے مسلمان معاشرے میں یہ لفظ انہی معنوں میں معروف اور مستعمل ہونے کے بعد متعین ہو چکا ہے کہ اس کے کوئی اور معنی کسی کے ذہن میں نہیں آتے ۔ کسی اصطلاح کے اپنے مخصوص فکری،علمی یا مذہبی 
پس منظر سے لاتعلق ہوجانے کی علامت یہ ہے کہ اس اصطلاح کے استعمال سے اس کے سابقہ معانی کا گمان بھی نہ ہو۔ 

حوالہ جات و حواشی

۱۔خاں صاحب مولوی سید احمد دہلوی، فرہنگ آصفیہ ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، وزارت ترقی انسانی وسائل، حکومت ہند، ویسٹ بلاک۔I ،آر۔کے۔پورم۔ نئی دہلی،طبع چہارم،ج1،ص184 ،1998 ء
۲۔جرجانی، علی بن محمد بن علی،کتاب التعریفات،دارالکتاب العربی بیروت،ص30 ،2002 ء
۳۔
Http://en.wikipedia.org/wiki/terminology
۴۔ Management Sciences نے مارکیٹنگ کے نام سے جس علم کی بنیاد رکھی ہے وہ انسانی سطحی جذبات و خواہشات کی اصطلاحاتی تشکیل اور تصور حلال و حرام کے بغیر اشیاء و سہولیات کو فروخت کرنے کے لیے تزویراتی جال ہے ۔ مسابقت کا بے لگام جذبہCompetition کا اصطلاحاتی نام پاتا ہے ۔ انسانی ذہن پر مسحور کن تصویری ماحول کے ذریعے اپنی گرفت کرنے کا نام Advertising ہے ۔
۵۔ جیسا کہ فلسفہ کی اصطلاحات۔بعض فلاسفہ کی اختراع کردہ اصطلاحات ہمیشہ سے اہلِ علم میں معرکہ آرائی کا باعث ہیں۔
۶۔ محمد علی بن علی الفاروقی التھانوی، کشاف اصطلاحات الفنون،سہیل اکیڈمی ،اردو بازارلاہور،طبع اول،ص:۱، جز اول، ۱۹۹۳ء
۷۔ محمد اسلم سہیل ،اردو مقدمہ کشاف اصطلاحات الفنون، سہیل اکیڈمی اردو بازارلاہور،طبع اول،ص:ا، جزاول ، ۱۹۹۳ء
۸۔ 
 Plato, The Republic, revised/trans. by Desmond Lee, Harmondsworth, UK: Penguin Books, 1974, 2nd edition.
Mill, J. S., 1861, Considerations on Representative Government, 
Buffalo, NY: Prometheus Books, 1991. 
Rousseau, J.-J., 1762, The Social Contract, trans. Charles Frankel, 
New York: Hafner Publishing Co., 1947. 
۹۔ عمادالحسن فاروقی، دنیا کے بڑے مذاہب ،مکتبہ تعمیر انسانیت ، اردو بازار لاہور،ص۱۸۷ ،۱۸۹، س ن

پاکستانی عدلیہ: ماضی کا کردار اور آئندہ توقعات

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

پاکستان کی دستوری تاریخ میں، مولوی تمیزالدین کیس پہلا اہم کیس ہے۔ اس کیس کے پس منظر میں اختیار کی وہی لڑائی موجود ہے جو آج تک جاری ہے۔ دستور اور مقننہ توڑنے کے شوق کا اظہار ۲۴؍اکتوبر ۱۹۵۴ کو ہوا اور پھر ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء، ۲۵؍ مارچ ۱۹۶۹ء، ۵؍جولائی ۱۹۷۷ء اور ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کی تاریخوں کو بھی سپہ سالاران فوج نے اسی ہوسِ غصب کا مظاہرہ کیا۔ البتہ ۹؍مارچ ۲۰۰۷ء اور ۳؍نومبر ۲۰۰۸ء کے مشرفی اقدام کا نشانہ ، مقننہ کے بجائے بالترتیب چیف جسٹس اور پھر سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس تھے۔ پہلے اقدامات میں مقننہ اور حکومت نشانہ بنتی تھی، مگر اس بار مقننہ نے بطور یرغمالی کے، اعلیٰ عدلیہ کے خلاف سپہ سالار کا ساتھ دیا۔ پہلے اقدامات میں، ہٹائے جانے والے حکمرانوں نے پر سکوت تعاون اختیار کی، لیکن عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے اس بار غیر دستوری اقدام کے خلاف فیصلہ کن مزاحمت کا اعلان کیا۔ وکلا برادری اور سول سوسائٹی، غرض پوری قوم، اپنی تاریخ کے ہر اہم موقعے کی طرح، گلی گلی اور روش روش صف آرا ہو گئی۔ حالات نے اپنا رخ اور سمت تبدیل کر لی ہے، مگر جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، بلکہ جنگ جاری ہے۔ آج کا ’’جمہوری‘‘ صدر بھی، ماضی کے حکمرانوں کی طرح پارلیمنٹ کو یرغمال بنائے ہوئے ہے اور غریبوں کے نام پر غریبوں کا جینا حرام کر رہا ہے۔ حکمرانوں کی آمرانہ روش ایک سی ہے۔ پس منظر میں سپہ سالار فوج کا کردار کار فرما ہے۔ یہ سلسلہ روز و شب ۱۹۵۴ء سے شروع ہوا اور تواتر کے ساتھ چل رہا ہے۔ 
اگر دستور کو تعمیر یا عمارت تصور کر لیا جائے تو اس کی پہلی اینٹ تو یقیناًقاعد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ نے رکھی۔ انہوں نے اسے سیدھا ہی رکھا۔ اینٹ کا سیدھا ہونا مضبوط تعمیر کے لیے کتنا ضروری ہے، کہنے کی بات نہیں۔ ہر کوئی جانتا اور مانتا ہے۔ اس کے باوجودقائد کی رحلت کے بعدحضرت قائد کے جانشینوں نے اسے ٹیڑھا نصب کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بگاڑ کی ابتدا میں اینٹ کو سیدھا رکھنے کی تمام تر کوشش مولوی تمیز الدین کے کھاتے میں جا ئے گی۔ یہ کوشش کسی طرح بھی کمزور نہیں تھی، مگر یہ حقیقت ہے کہ کوشش کرنے والا شخص بے حد کمزور تھا۔ لہٰذا ہر کمزور شخص کی کوشش کی طرح یہ کوشش بھی ناکام ہو گئی۔ ٹیڑھی اینٹ رکھنے والے طاقتور اور مکار تھے، لہٰذا وہ کامیاب ہوئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ اینٹ ایسی ٹیڑھی ہوئی کہ آج تک سیدھی نہ ہو سکی۔ 
منیر ایسے ججوں کا پورا سلسلہ ، انوارالحق، ارشاد حسن خان، عبدالحمیدڈوگر جیسے ناموں کے تحت، کل تک غصب و عبث میں غرق رہا۔ کمزور اور طاقتور کے مابین کشمکش میں غلبہ طاقت ور کو ہی نصیب ہوتا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخ نے سربلندی کا اعزاز کمزوروں کو ہی عطا کیا ہے۔ مولوی تمیزالدین خان کو، پاکستان کی دستوری تاریخ کا معمارِ اول کہا جاسکتا ہے۔ ان کے مقابل، مسمار اول، ملک غلام محمد گورنرجنرل تھے۔ ان کے سر پر ماما جی کی طرز پر عدالت بیٹھی تھی۔ یاد رہے کہ اس عدالت کو فیڈرل کورٹ کہتے تھے اور اس کے چیف جسٹس محمد منیر تھے۔ مسمار اول کو چیف کی صورت میں عدالتی ’’مزدور‘‘ مل گیا۔ ان کے فیصلے غالب آئے اور آج تک اپنے غالب اثرات کے ساتھ دستور کے اندر بطور ٹائم بم موجود ہیں۔ مگر ان فیصلوں کے ساختہ پرداختہ کتنے رو سیاہ ہوئے ہیں، یہاں ان کے ذکر کا موقع نہیں۔
قیام پاکستان کے بعد ابتدائی دور تھا۔ اس دور میں بھی مولوی تمیزالدین کو اکیلا نہ سمجھا جائے۔ وہ خوف و ہراس کی فضا کو توڑ کر سندھ چیف کورٹ پہنچے تو پوری سندھ چیف کورٹ کے درِ انصاف سے داد رسی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ سندھ چیف کورٹ کے فل بنچ نے ان کے حق میں فیصلہ دیا اور ملک غلام محمد کے دستوریہ توڑنے کے فیصلے کو حرفِ غلط قرار دیا۔ عدالت کے چیف جسٹس کونسٹین ٹائن تھے۔ ساتھی ججوں میں جسٹس ویلانی، جسٹس محمد باچل اور جسٹس محمد بخش میمن شامل تھے۔ تمام ججوں کا فیصلہ متفقہ تھا۔ وفاق کی جانب سے،فیصلے کے خلاف، فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر ہوئی۔ ملک غلام محمد کے ’’ماموں‘‘ محمد منیرچیف جسٹس تھے۔ انہوں نے فیصلے کو تلپٹ کر دیا۔ اپیل کنندگان کے طور پر روسیاہ ہونے والوں میں، بعد ازاں آئین، قانون، انصاف اور جمہوریت کے بننے والے چیمپئن بھی شامل تھے۔ ان میں سے چودھری محمد علی کا نام لکھتے ہوئے مجھے اذیت محسوس ہوتی ہے۔ ان کو خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی صف میں بیٹھے دیکھنا کتنا بڑا مذاق ہے۔ آخر کار سروس کی بھائی بندی بھی کوئی چیز ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس کیس میں سندھ چیف کورٹ میں مولوی صاحب کی جانب سے ایک جونیر کونسل کے طور پر سید شریف الدین پیرزادہ بھی پیش ہوئے۔ ریکارڈ میں اس وقت وہ سید بھی نہیں تھے اور پیرزادہ بھی نہیں۔ کیوں کہ سید شریف الدین پیرزادہ کے طور پر وہ اب تک زندہ ہیں مگر شریف الدین کے طور پر صرف اورصرف سندھ چیف کورٹ کے ریکارڈ پر ہیں۔ (تصدیق کے لیے ملاحظہ ہو پی ایل ڈی ۱۹۵۵ سندھ بر صفحہ نمبر ۱۰۱)۔ اسی صفحے پر مولوی صاحب کے ایک اور وکیل صاحب کا نام ہے، وہ ہیں وحید الدین احمد، جن کے فرزند سعادت مآب جناب جسٹس وجیہ الدین احمد ہیں کہ ہماری دستوری تاریخ کے سب سے بڑے غاصب، جنرل پرویز مشرف کے مقابلے پر وکلا کے صدارتی امیدوار ہونے کا اعزازپا گئے ۔
’’جسٹس ماما محمد منیر‘‘نے گورنرجنرل کو اشیر باد دے دی۔ دوسرے لفظوں میں اینٹ کے ٹیڑھ کو سیدھا قرار دے دیا۔ باقی چار مسلمان ججوں نے اس ٹیڑھ میں حصہ داری کا پورا ثواب کمایا۔ البتہ ایک غیر مسلم جج، جناب اے آر کارنیلیس نے پاکستان کی دستوری عمارت کی بنیاد میں پہلی اینٹ کو، ٹیڑھا نصب کرنے پر، چیف جسٹس کے ہاتھوں پر تیشی اور کانڈی کے ساتھ زور دار ضربیں لگائیں۔ باقی مسلمان ججوں نے ’’ماما‘‘ جج کے فیصلے سے اتفاق کیا، مگر غیر مسلم جج نے اختلافی فیصلہ لکھنے کی جسارت کی۔ جسارت ہی نہیں بلکہ حقیقتاً اس خشت اول کو سیدھا کرنے کے لیے ایسی بنیاد فراہم کر دی کہ جب بھی اینٹ سیدھی کی جائے گی تو یہی بنیاد بروئے کار آئے گی۔ جسٹس اے آر کار نیلیس کا اختلافی فیصلہ آج بھی روشن ہے۔ 
دستوریہ توڑنے کے اقدام کو کالعدم کروانے کے لیے مولوی صاحب نے سندھ چیف کورٹ میں رٹ درخواست دائر کی۔ دستوریہ نے سو روز قبل مورخہ ۱۶؍ جولائی ۱۹۵۴ کو، ہائیکورٹس کو writ رٹ کا اختیار فراہم کیا تھا۔ اس کے لیے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ میں دفعہ ۲۲۳۔الف ایزاد کی گئی تھی۔ اس وقت تک یہ دستوری روایت بڑی مستحکم ہو چکی تھی کہ دستوریہ جو قانون بھی بناتی، دستوریہ کے صدر اس پر تصدیقی دستخط کرتے اور اپنے اختیار کے تحت سرکاری گزٹ میں شائع کر ادیتے۔ اس طرح اسے جائز قانون کا درجہ مل جاتا۔ یہ دستوریہ کے قواعد کار کے قاعدہ نمبر ۶۲ کے تحت تھا۔ قاعدہ کا متن درج ذیل ہے:
’’بلوں کی تصدیق: جب دستوریہ ایک بل پاس کرتی ہے تو اس کی ایک نقل پر صدر دستخط کریں گے اور پھر صدر کے اختیار سے گزٹ میں اشاعت کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔ ‘‘
یہ امر اہم ہے کہ دستوریہ کا وہ اجلاس جس نے رول ۶۲ پاس کیا، اس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی۔ قائد اعظم کی رہنمائی میں پاس ہونے والے رول کو قانون نہ ماننے والے کس منہ سے بات کرتے ہیں۔ مگر یہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ قائد کے لیگی جانشینوں (بقول قائد کھوٹے سکوں) نے قائد، ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح علیہا الرحمہ کے ساتھ کیا کیا؟ محترمہ کی موت کو غیر طبعی قرار دینے والے، سید شریف الدین پیرزادہ، ہر فرعونِ وقت کے نفس ناطقہ اور دماغ بن کر رہے، اس کے باجود، انہوں نے آج تک اس امر کی رپورٹ ابتدائی تک درج کرانے کی کوشش نہیں کی۔ ان کے ساتھ ہی نہیں، ان کے دیے ہوئے وطن کو کس انجام سے دوچار کیا۔ ایسے لوگوں نے رول، قانون، دستوراور اصول کو نہ مانا تو تبصرہ کرنے کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے۔ 
بہر صورت سندھ چیف کورٹ کے فیصلے پر، سب سے بڑا بنیادی عذر یہ لیا گیا کہ ہائیکورٹ کو رٹ کا اختیار دینے والا قانون جائز نہیں کیونکہ اس کی منظوری گورنرجنرل نے نہیں دی۔ سندھ چیف کورٹ نے اس بنیادی عذر کو تفصیلی غور و خوض کے بعد مسترد کر دیا۔ فیڈرل کورٹ نے چیف جسٹس کی قیادت میں باقی ججوں کے ساتھ اس عذر کو قبول کیا اور اسی ایک فنی نکتے پر فیصلہ کرتے ہوئے وفاق کی اپیل منظور، سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کو منسوخ اور مولوی صاحب کی رٹ درخواست خارج کردی۔ اس طرح فیڈرل کورٹ نے متنازعہ اعلان کے دیگر فنی اور واقعاتی میرٹس کو ایک طرف رکھ دیا اور فنی سہارے پر گورنر جنرل کو قائم و دائم کر دیا۔ بنیادی سوال آج بھی جواب طلب ہے کہ اگر سندھ چیف کورٹ کو ۲۲۳۔الف کے تحت اختیار سماعت نہیں تھا اور اس کی وجہ یہ قرار دی گئی کہ عدالت کو یہ اختیار دینے والی ترمیم کی منظوری گورنر جنرل نے نہیں دی تھی تو فیڈرل کورٹ کا قیام جس قانون کے تحت ہوا، وہ بھی تو گورنرجنرل کی منظوری کے بغیر تھا۔ پاکستان کی فیڈرل کورٹ کے قیام سے پہلے لندن میں پریوی کونسل، عدالت عظمیٰ کے طرز پر کام کرتی تھی۔ پریوی کونسل کی جگہ فیڈرل کورٹ قائم کی گئی۔ اس کے قیام کے لیے جو قانون، دستوریہ نے پاس کیا اس کا نام:
The privy Council (Abolition of Jurisdiction) Act 1950 
تھا۔ اس قانون کی بھی گورنرجنرل نے منظوری نہیں دی تھی۔ اسی طرح دستوریہ توڑنے کے چار دن پہلے تک وفاق، حکومت، مقننہ کا متواتر طرز عمل اور موقف، اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے، یہاں تک کہ برطانوی حکومت اور پارلیمنٹ کا رویہ بھی یہی تھا کہ دستوریہ کامل مقتدر ہے۔ اس کا دستوری قانون، گورنرجنرل کی منظوری کے بغیر ہی جائز اور موثر قانون ہے۔ اس کے علاوہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قیام پاکستان، ۱۹۴۷ سے لے کر دستوریہ تحلیل کرنے کے حکم ۲۴۔اکتوبر ۱۹۵۴ تک، دستوریہ ۴۶ قوانین پاس کر چکی تھی۔ ان میں سے کسی ایک کی بھی منظوری کا کوئی سوال نہیں اٹھا۔ ان سب قوانین کو گورنر جنرل کی منظوری کے بغیر ہی جائز قانون کا مقام حاصل رہا۔ ان کو گورنر جنرل سمیت سب نے جائز قانون مانا۔ مگر ستم ظریفی کی انتہا ’’ماما جی‘‘ کا فیصلہ ہے۔ فیصلے کی منطق کی رو سے تو فیڈرل کورٹ، ہائیکورٹ (سندھ چیف کورٹ) کی طرح اختیار سماعت نہیں رکھتی تھی۔ اس طرح فیڈرل کورٹ کو خود کو تحلیل کر کے پریوی کونسل سے رجوع کی ہدایت کے ساتھ کیس نبٹا دینا چاہیے تھا۔ جناب اے آر کار نیلیس نے ماما جی کے فیصلے کی جس طرح ٹھوس فنی حوالوں، دلائل اور پھر پوری دلیری کے ساتھ دھجیاں بکھیری ہیں، ان کو صدیوں تک بھی جمع کیا جائے تو جمع نہیں ہو سکتیں۔ منیر کے فیصلے میں الجھاؤ، تضادات، مکذبات اور محرفات اتنے کہ پڑھنے والے کو پڑھنے سے پیشتر، اپنے ذہن کی سلامتی کا بیمہ کرانا ہو گا۔ میں کہ ایک ادنیٰ سیاسی کارکن ہوں، میں نے اس طور ، اپنی سی سطح پر، آئین، قانون اور انصاف کے لیے عمر بھر کام کیا ہے۔ اگر میرے کھاتے میں کوئی نیکی ہو تو اسے جناب اے آر کارنیلیس کے ایصالِ ثواب کے لیے نثار کرنے کوتیار ہوں۔ اسی لیے میں نے، اپنی تازہ تالیف ’’انصاف کرو گے؟‘‘ کو جناب اے آر کار نیلیس کے نام منسوب کیا ہے۔
تاریخ جب معماران قوم اور مسماران قوم کی فہرست مرتب کرے گی تو مولوی تمیزالدین کے ساتھ کارنیلیس کانام آئے گا۔ ان کے ساتھ اس فہرست میں سندھ چیف کورٹ کے تمام ججوں (چیف جسٹس کونسٹین ٹائن، جسٹس ویلانی، جسٹس محمد باچل، جسٹس محمد بخش میمن) کے نام بھی ستاروں کی طرح چمکتے رہیں گے۔ چاند اور ستاروں کی یہ کہکشاں ہماری تاریخ کا اثاثہ ہے۔ اس میں بھی جسٹس محمدبخش میمن کا مفصل، مدلل اور ٹھوس فیصلہ، درجے میں تو ہائیکورٹ کا فیصلہ ہے، اس وجہ سے اس کو جناب اے آر کار نیلیس کے فیصلے کے ساتھ میزان میں نہیں رکھا جاسکتا کہ اس میں حفظ مراتب حائل ہو گا، لیکن سند ھ چیف کورٹ کے ججوں کے فیصلوں میں ایک بات بطور خاص برتر ہے کہ ان میں اختیار سماعت کے نکتے کے علاوہ باقی متعلقہ واقعات اور حقائق کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے، جب کہ فیڈرل کورٹ میں صرف اختیار سماعت سے متعلقہ امور پر فیصلہ فرمایا گیا۔ اسی طرح چیف کورٹ کے ججوں نے حالات کو وسیع اور حقیقی تناظر میں طے کیا ہے، جب کہ فیڈرل کورٹ کے ججوں نے صرف ایک نکتے کو پھیلا کر اسی پر کیس کو نبٹا دیا۔ پھر یہ کہ کہ سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ چیف جسٹس کی قیادت میں متفقہ تھا۔ ملک میں عمومی فضا بھی اس کے حق میں تھی۔ اگر اس وقت وکلا کو اعتزاز احسن، منیر اے ملک، علی کرد، طارق محمود، حامد خان، فخرالدین جی ابراہیم، ایم انور (مرحوم) جیسے لوگوں کی قیادت نصیب ہوتی تو شاید ہماری تاریخ کی سمت گم نہ ہوتی۔ 
یہاں واضح کر دوں کہ ہماری برادری کے قائدین کا جو کچھ بھی کردار سامنے آیا، اس کا بھی حقیقی کریڈٹ یقیناًچیف جسٹس افتخار کو ہی جائے گا۔ وجہ یہ ہے کہ جس طرح وہ ایوان صدر سے رخصت کر کے گھر میں بند کر دیے گئے، لفٹر کے ذریعے ان کی سرکاری رہائش سے گاڑیاں اٹھا لی گئیں، فون منقطع کر دیے گئے، قائم قام چیف جسٹس کو جنگی بنیادوں پر حلف دیا گیا، سی۔۱۳۰ کے براقی ذریعے سے ابلیس کی مجلس شوریٰ کی طرز پر سپریم جوڈیشل کونسل جمع کی گئی، چار دن بعد چیف، اس کونسل کے سامنے پیش ہونے کے لیے اپنے گھر سے باہر آئے تو پولیس نے ان سے ہاتھا پائی کی، ان کا کوٹ پھاڑ ڈالا، مگر یہ کوہ گراں اللہ پر بھروسہ کر کے بر سر پیکار ہو گئے۔ جبری قید کے ان چار دنوں میں باہر کا منظر بدل چکا تھا۔ پیشی والے دن شاہراہ دستور پر وکلا فوج در فوج، رواں دواں تھے، ہر طرف ایک نعرہ تھا: ’’چیف تیرے جاں نثار،بے شمار بے شمار‘‘۔
یہ منظر مولوی تمیزالدین خان سے مشابہہ بھی ہے اور متفرق بھی۔ دستوریہ کے صدر کے طور پر جانشینِ قائد، مقننہ کے سپیکر، سرکاری رہائش گاہ پر مقید، رہائش خالی کرنے کا نوٹس دیا جا چکا تھا۔ سرکاری رہائش پر حکومت کی جانب سے متعینہ ملازم ان کی جاسوسی پر مامور کر دیا گیا۔ مسلم لیگی قیادت کم و بیش روپوش ہو گئی۔ وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نئے بھی ہوگئے۔ مولوی صاحب کی جیب بھی خالی تھی۔ وہ مایوسی اور حزن کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ اس کے باوجود دل میں طوفان لیے ہوئے تھے۔ ایسے میں جماعت اسلامی کے قیم جناب میاں طفیل محمد مرحوم، سید مودودی علیہ الرحمہ کی ہدایت پر، رات گئے ان سے ملنے آتے ہیں۔ اس ملاقات کے لیے جانے سے پہلے، میاں صاحب رشید پارک اچھرہ کے ٹھیکیدار عبدالرشید سے پانچ ہزار روپے کا عطیہ لے کر گئے۔ میاں صاحب نے یہ رقم ان کی جیب میں ڈال دی تاکہ خالی جیب کا معاملہ تو دور ہو اور ان کے دل میں موجزن طوفان کی حدوں کو توڑ کر باہر نکلنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جاسکے۔ اس کے بعد ان سے عدالتی چارہ جوئی کی درخواست کی تو انہوں نے مسلم لیگی رہنماؤں سے مشورہ کی مہلت لی۔ میاں صاحب ان کے متوقع مشیروں کو، اپنے تئیں، سیدھا کرنے کی ضرورت کے تحت ملتے ہیں۔ آخر کار مولوی صاحب ایک موجِ بلا خیز کی صورت میں باہر آتے ہیں۔ ۷۔نومبر کا دن، ۱۹۵۴ کا سال، انصاف کی راہ کا پہلا قدم اٹھنا شروع ہوا۔ مولوی صاحب رٹ دائر کرنے نکلتے ہیں تو برقعہ پوشی کی احتیاط کے ساتھ رکشا پر سوار، ہو کر سندھ چیف کورٹ جاتے ہیں۔ اس منظر اور ۱۳ مارچ ۲۰۰۷ کے منظر میں گہری مشابہت کے باوجود، فرق بھی بہت ہے۔ 
اس وقت وکلا برادری کے قائدین اے کے بروہی، شیخ منظور قادر جیسے لوگ مستقبل کے شریف الدین پیرزادہ اور ملک محمد قیوم کے ’’ارادت مند‘‘ معلوم ہوتے ہیں۔ اس سے فرق یہ ہو اکہ مولوی تمیز الدین کے ساتھ سول سوسائٹی اور وکلا برادری میدان میں نہ آئی، وگرنہ دستوریہ بھی بحال ہوتی اور مولوی تمیزالدین خان بھی چیف جسٹس افتخار کی طرح اپنے منصب پر واپس آتے۔ لیکن صورت حال یہ تھی کہ قائد اعظم علیہ الرحمہ سے قوم محروم ہو چکی تھی۔ لیاقت علی خان اپنے گرد سازشیوں کو جمع کرنے کے بعد، ان کی سازشوں کا نشانہ بن گئے۔ مسلم لیگی قیادت، نئی شیروانیوں کے ساتھ پی سی او کا حلف لینے پر تیار قطاروں میں کھڑی ہو گئی۔ملک بھر میں سکون کی لہریں بہہ رہی تھیں۔ قبرستان کی سی خاموشی طاری تھی۔ ایسے میں فیڈرل کورٹ کے لیے سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کرنا کچھ مشکل نہ تھا ۔ طالع آزماؤں اور غاصبوں کی موج ہو گئی۔ ان کے خریدے ہوئے بے ضمیر ججوں کو وہی کچھ کرنا تھا جو بے ضمیری کا تقاضا تھا۔ مگر ایک روشن ضمیر، روشن دماغ اور روشن کردار جسٹس اے آر کار نیلیس اپنے ضمیر پر قائم ہوا۔ آج کے نوجوانوں کو ایسے روشن مینار سے روشناس کرانا میرے لیے سعادت ہے۔
بہر صورت جناب اے آر کارنیلیس کافیصلہ چیف جسٹس سے اختلاف کرتے ہوئے صادر ہوا۔ اختلاف کی جرات اور جسارت، تاریخ میں اتنا بلند مقام پیدا کر لیتی ہے کہ اس پر کوئی حسد بھی نہ کر سکے۔ 
تمیزالدین کیس میں حکومتی وکلا نے دلائل میں یہ کہا کہ:
’’انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ کے تحت، پاکستان برطانیہ کی ایک ڈومینین dominionہے۔ جب تک قانون سازی کے ذریعے اس حیثیت کو تبدیل نہ کیا جائے، ہر ڈومینین، جہاں مقننہ موجود ہے، تاج برطانیہ کو کامن لا کے تحت مقننہ کی تحلیل کا اختیار ہے۔ البتہ اگر تحلیل کا یہ اختیار ختم کر دیا جائے تو دوسری صورت ہو گی۔ مقننہ کی تحلیل تاج کی پری راگیٹو ہے۔ یہ پری راگیٹو prerogative گورنر جنرل کو انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ کی دفعہ ۵ کے تحت حاصل ہے۔ اس طرح دستوریہ کی تحلیل مکمل طور پر جائز ہے۔‘‘
اگر میں یہ پوچھوں کہ اس طرح کا استدلال پیش اور قبول کرنا، مملکت خدا داد پاکستان کی آزادی کی نفی نہیں؟ کیا اس سے مملکت کے وجود کو چیلنج نہیں کیا گیا؟ کیا اس سے مملکت اور اس کے نظام سے بغاوت کی بو نہیں آتی؟ اگر میں مطالبہ کروں کہ ایسے استدلا ل کو پیش اور قبول کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دو، تو کیا میرا یہ مطالبہ غلط ہو گا۔ میرا مطالبہ مانا جائے یا نہ مانا جائے، مجھے بتایا جائے کہ میں اس مطالبے سے پیچھے کیسے ہٹ جاؤں؟ ساٹھ سال کی جد و جہد میں میری جدو جہد کے پینتالیس سال بھی تو شامل ہیں۔ میں اپنی جد و جہد کے یہ ماہ و سال فروخت کر دوں؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟
سلام و افتخار اس پر کہ جو حالات کو یہاں تک لے آئے کہ آج غاصبوں کو کٹہرے کی جانب کھینچا جا رہا ہے۔ اس نے ہم کو بھی سر بلند کیا ہے۔ ہم اس کے ساتھ ہیں اور جہاں تک ماحول کا تعلق ہے تو یقیناً، ہم اس سے باغی ہیں اور باغی رہیں گے۔ میرا ایمان ہے، عافیہ صدیقی کی قید و بند کے ایک ایک لمحے کاحساب ہو گا۔ لال مسجد کو خون سے نہلانے والوں کو ایک ایک قطرے کا حساب دینا پڑے گا۔ مالاکنڈ کے جری لوگوں کو جس طرح مار مار کر دہشت گرد بنایا گیا، ہمارے سپہ سالار، پلٹن میدان ڈھاکہ کی وہ صبح بھول گئے ہیں جب جنرل ٹائیگر (جنرل امیر عبداللہ خان نیازی) نے اروڑا سنگھ کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔ میں تو آج بھی اس منظر کو عزیز جانتا ہوں۔ آج مالا کنڈ میں اپنے شہریوں کے خلاف فضائیہ، توپخانہ، غرض پوری فوجی طاقت استعمال کی جا رہی ہے۔ لگتا ہے کہ آخری چارہ کار کے طور پر امریکہ، بحیرہ عرب کو اٹھا کر مالا کنڈ ڈویژن میں لا بسائے گا تاکہ جری، خود دار اور حریت پر جان دینے والے قبائل پر بحری قوت بھی بروئے کار لائی جاسکے۔ کیا کوئی اخلاق، قانون، ملکی و غیر ملکی اپنے شہریوں کے خلاف، اس طرح کے طاقت کے استعمال کی اجازت دیتا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ لوگ دہشت گرد ہو گئے۔ ایجنسیوں کے ہاتھوں بک گئے۔ سوال یہ ہے اس خطہ امن کو اس صورتِ ظلمت تک لانے کے ذمہ دار کون ہیں؟جس طرح مشرقی پاکستان کو، پاکستان سے دھکے دے دے کر نکالا گیا تھا، وہی صورت یہاں حکمرانوں نے پیدا کی اور یہ طے ہے کہ حکمرانی بہر صورت فوج ہی کی رہی، براہ راست یا بالواسطہ۔ اس میں سپہ سالار ہی ذمہ دار نہیں ہو گا، تمام جرنیل ذمہ دار بنتے ہیں۔ یہ کوئی ڈسپلن نہیں کہ سپہ سالار صاحب جو حکم دیں، اسے ’’اندھوں، بہروں، گونگوں اور مہر زدہ لوگوں‘‘ کی طرح مان لیا جائے۔ ایسے میں
میرے وطن کے رقبے تمام 
بے غیرت جرنیلوں کے نام
کی حد تک تو صورت حال قابل برداشت ہے مگر بیٹیوں کو فروخت کرنے اور اپنے شہریوں پر فوجی طاقت کے استعمال کا جرم، جنگی جرم بھی ہے اور خدا کے خلاف جنگ بھی۔ ایسے جنگجوؤں کو ہم اپنا پیٹ کاٹ کر اس لیے نہیں پال سکتے کہ وہ نہتے شہریوں کو لوہے اور بارود کی بارش سے بھسم کردیں۔ ہماری فوج کو ڈسپلنڈ فورس کہنے والے احمق جواب دیں کہ ساٹھ سال میں سپہ سالاران نے کس موقع پر ڈسپلن کا مظاہرہ کیا؟ اپنی قوم کو مارنے اور فتح کرنے کی مشق کے سوا جرنیلوں کا کردار ہی کیا ہے؟ اگر یہ ڈسپلن ہے تو پھر انڈسپلن indisciplineکیا ہوتا ہے؟ آزاد ملکوں میں اسلحہ رکھنا شہریوں کا بنیادی دستوری حق ہے۔ امریکی دستور میں دوسری ترمیم (بل آف رائٹس)کے الفاظ اس طرح ہیں:
''Amendment 2` Right to keep arms:
the right of the people to keep and bear arms shall not be infringed.
’’لوگوں کے اسلحہ رکھنے اور اٹھانے کے حق کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔‘‘
یہاں پر امن رہنے بھی نہ دیا جائے، اسلحہ رکھنے کا حق بھی تسلیم نہ کیا جائے، ایجنسیاں بندے اٹھالیں، غیر ملکیوں کے حوالے کر دیں، بیچ دیں، پھر اسلامی مملکت کی سالاری کا دعویٰ بھی رکھیں،
ایسے امام سے گزر ، ایسے سالار سے گزر
باسٹھ سال کے تمام تر حالات کے ذمہ دار فوجی جرنیل، سول انتظامیہ اور پھر سیاستدان ہیں۔ سب کو ٹھکانے لگا دینا انصاف کا تقاضا ہے۔ سوات جیسے خطہ امن کو دہشت گردی کی آماجگاہ کس نے بنایا، کیا مجھے یہ سوال کرنے کی بھی اجازت نہیں؟ میں یہ سوال کسی حاکم کا گریبان پکڑ کر نہیں کر رہا (حالانکہ مجھے اس کا پورا پورا حق ہے)۔ یہ تو ابھی خود کلامی کی صورت میں ہے۔ کیا مجھے اپنے آپ سے بھی پوچھنے کی اجازت نہیں؟ یہ سعودی عرب نہیں کہ جہاں امام کعبہ کو بھی حق سچ بات کہنے کی توفیق ہے اور نہ اجازت۔ میں سعودی شہری بھی نہیں، پاکستانی شہری ہوں۔ یہاں میں سب کچھ کہنے کے لیے آزاد ہوں، مجھے اپنی آزادی جان سے عزیز تر ہے:
تو تیر آزما، ہم جگر آزمائیں 
خدا موجود ہے۔ اس کا اپنا نظام ہے۔ مکافات عمل بھی موجود ہے۔ دنیاوی اور اخروی مکافات سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ کسی کو وہم ہو تو پچھلوں کا انجام دیکھ لے۔ کوئی نہیں دیکھنا چاہتا، بلی کی طرح آنکھیں بند رکھنا چاہتا ہے تو وہ اس کا اختیار رکھتا ہے، لیکن ایسے کو جان لینا چاہیے کہ آنکھیں نہیں کھولیں گے تو آنکھیں پھاڑنے والے بھی آ سکتے ہیں۔ ذرا انتظار کر لو۔ مکافات اپنا کام کر رہی ہے، لیکن ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ کا خود حساب کریں۔ اس تباہی اور خوں آشامی کے ذمہ داروں کو پکڑ کر کٹہرے تک لایا جائے۔ میں تو ۱۹۵۴ سے احتساب کا قائل ہوں۔ نئے دور کی تخلیق کے لیے تاریخ میں حق و ناحق کا تعین لازم ہے۔ پوری تاریخ کو غسل دے کر پاک و صاف کرنا ہو گا۔ اس کے بغیر قومی تعمیر نو کا کوئی امکان نہیں ہو سکتا، لیکن اب اس جانب سفر شروع ہوا چاہتا ہے۔ یہاں میں اپنی بات کو مکمل کرنے کے لیے جناب مسعود مفتی کے تازہ انٹرویو سے چند سطور مستعار لیتا ہوں:
’’آج کی بظاہر بد امنی، در اصل زچگی کا وہ درد اور کرب ہے جس کے ذریعے ہماری قوم بالآخر ایک متحرک معاشرے (سول سوسائٹی) اور عوامی قوت کو جنم دے رہی ہے۔ وکلا کا تعلیم یافتہ گروپ یہ چاہتا ہے کہ یہ جنم قدرتی طریقے سے ہو مگر شدت پسند اسے آپریشن کے تشدد سے جنم دینا چاہتے ہیں۔ مقصد دونوں کا ایک ہی ہے کہ قوم کے اندر چھپے ہوئے جذباتی ہیجان کو اب ایک فعال بدن اور احتجاجی روح میں بدل دیا جائے جو کھلی فضاؤں میں اپنی آواز بلند کر سکے۔‘‘  (سنڈے ایکسپریس، ۳۰ اگست ۲۰۰۹ صفحہ نمبر ۷ کالم نمبر ۲)

حضرت شیخ الحدیثؒ اور حضرت صوفی صاحبؒ کی چند مجالس

سید مشتاق علی شاہ

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ سے احقر کی پہلی ملاقات چودہ پندرہ سال کی عمر میں ہوئی۔ اس کے بعد مسلسل تعلق قائم رہا۔ میں کافی عرصہ تک حضرت کے ترجمہ وتفسیر کے درس اور بخاری شریف کے سبق کا سماع کرتا رہا۔ پھر ۱۹۸۶ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے شعبہ نشر واشاعت میں ملازمت اختیار کر لی جو ۱۳ سال تک جاری رہی۔ اس دوران حضرت شیخ الحدیث اور حضرت صوفی صاحب سے استفادہ کا مسلسل موقع ملتا رہا۔ یہاں اس دوران اپنے مشاہدے میں آنے والی چند باتیں اور تاثرات تحریر کیے جا رہے ہیں۔
۱۔ جس دن میں نے ملازمت اختیار کی، اس سے اگلے دن حضرت شیخ نے مجھے بلا کر بہت سی باتیں سمجھائیں اور خاص طور پر فرمایا کہ اگر میری اولاد میں سے بھی کوئی آپ سے ادھار کتاب مانگے تو نہ دینا یا میری وجہ سے رعایت یا لحاظ کا معاملہ نہ کرنا، میں ہرگز کسی بات کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ 
۲۔ حضرت شیخ الحدیثؒ علم کے سمندر اور ہر فن مولا تھے۔ احقر نے ایک مرتبہ حضرت صوفی صاحب سے عرض کیا کہ اس وقت علم حدیث کا سب سے بڑا عالم کون ہے؟ صوفی صاحب نے فرمایا کہ ایمان داری کی بات یہ ہے کہ میرے علم کے مطابق حضرت شیخ سے بڑا محدث اس وقت کوئی نہیں ہے۔ فرمایا کہ یہ بات میں اللہ کو حاظر وناظر جان کر کہہ رہا ہوں، نہ کہ ان کے ساتھ اپنی رشتہ داری کی وجہ سے۔ یہی سوال احقر نے مولانا عبد القیوم ہزاروی دامت برکاتہم سے کیا تو انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا کہ جنی دیا بچیا! میں نے بہت پہلے حضرت کو محدث اعظم مان لیا تھا۔ پھر ایک واقعہ سنایا کہ ۱۹۵۳ء کے لگ بھگ قادیانیوں کی طرف سے کچھ سوالات شائع کیے گئے جن کے جوابات ہماری جماعت مجلس تحفظ ختم نبوت نے دینے تھے۔ اس سلسلے میں مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوا اور یہ طے پایا کہ جو آدمی بھی لکھ سکتا ہے، وہ اپنے جوابات لکھ کر لائے تاکہ ان کا جائزہ لیا جا سکے۔ میں بھی اجلاس میں شریک تھا اور میں نے یہ رائے پیش کی کہ ان سوالات کے جوابات میرے استاذ حضرت شیخ الحدیثؒ ہی دے سکتے ہیں۔ پھر میں اجلاس میں طے ہونے والی بات کے مطابق خود گکھڑ حاضر ہوا اور حضرت شیخ کو اس پر آمادہ کیا۔ چونکہ قادیانیوں کی کتب زیادہ تر ختم نبوت کے دفتر میں تھیں، اس لیے جوابات لکھنے کے لیے دفتر میں قیام کرنے کی بھی ضرورت تھی۔ حضرت شیخ ایک دن اس کام کے لیے دفتر تشریف لے گئے تو میں موجود نہیں تھا اور دفتر کا ناظم حضرت کو نہیں جانتا تھا۔ اس نے حضرت سے کہا کہ کیا آپ لکھنے کے لیے کاغذ قلم وغیرہ ساتھ لائے ہیں؟ حضرت اس پر واپس تشریف لے گئے اور اپنی جیب سے کاغذ قلم وغیرہ خرید کر دوبارہ دفتر گئے اور تین دن تک جوابات کے سلسلے میں کام کرتے رہے۔ 
جب مقررہ تاریخ پر اجلاس ہوا تو اس میں سب نے اپنے اپنے تحریر کردہ جوابات پیش کرنے تھے اور آپس میں بحث ومباحثہ کے بعد یہ فیصلہ کیا جانا تھا کہ کس کے جوابات سب سے بہتر ہیں۔ اجلاس میں پاکستان کے بڑے بڑے علما، مفتیان کرام اور مناظر حضرات بھی موجود تھے جن میں مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ ، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ ، مولانا خیر محمد جالندھریؒ اور علامہ محمد یوسف بنوریؒ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مختلف حضرات کے جوابات پڑھ کر سنائے جاتے اور پھر ان پر تنقید کی جاتی۔ زیادہ تر حضرت شیخ الحدیثؒ ہی تنقید فرماتے تھے۔ جب مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کا مضمون پڑھ کر سنایا گیا تو اس میں زیادہ تر مواد امام سیوطیؒ کے حوالے سے نقل کیا گیا تھا۔ حضرت شیخ نے غالباً اس میں نقل کردہ روایات کی اسنادی حیثیت پر تنقید کی تو مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ ، جو حضرت شیخ کے استاذ بھی تھے، غصے میں آ گئے اور فرمایا کہ اگر سیوطیؒ جیسا محدث بھی معتبر نہیں تو اور کون ہوگا؟ بہرحال آخر میں حضرت شیخ الحدیثؒ کے لکھے ہوئے جوابات پڑھے گئے اور حضرت نے کہا کہ اس پر تنقید کریں، لیکن کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا اور اجلاس میں وہی جوابات منظور کر لیے گئے۔ 
یہ واقعہ سنا کر مولانا عبد القیوم ہزاروی مدظلہ نے فرمایا کہ میں نے تو اسی وقت سمجھ لیا تھاکہ حضرت استاذ سے بڑا محدث اس وقت او رکوئی نہیں ہے۔
۳۔ جب شیعہ کی تکفیر کے بارے میں ایک استفتا پورے ملک کے علما کے سامنے پیش کیا گیا تو حضرت شیخ نے اس پر تائیدی دستخط کیے جبکہ حضرت صوفی صاحب کی رائے اس کے حق میں نہیں تھی۔ حضرت شیخ نے احقر سے کہا کہ: صوفی اپنے موقف کا پکا ہے اور میری بات تسلیم نہیں کرتا۔ تم صوفی کے پاس اٹھتے بیٹھتے ہو، اسے سمجھاؤ کہ وہ اپنی رائے رکھے، لیکن ایک ہی ادارے سے متضاد قسم کی باتیں عوام کے سامنے نہیں آنی چاہییں۔ اس سے لوگ برا تاثر لیں گے کہ بڑا بھائی کچھ کہتا ہے اور چھوٹا کچھ۔ 
حضرت صوفی صاحب کی رائے یہ تھی کہ کسی گروہ کو مطلقاً تکفیرکا نشانہ بنانا درست نہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جو شخص مثلاً شیخین کی تکفیرکا قائل ہو، سیدہ عائشہ پر تہمت لگاتا ہو یا قرآن کومحرف مانتا ہو، وہ کافر ہے۔ ایک موقع پر مولانا عزیز الرحمن صاحب مرحوم نے حضرت صوفی صاحب سے اس پر بحث کی کہ اس وقت کوئی شیعہ ایسا نہیں جو امامت کو اپنا بنیادی عقیدہ نہ مانتا ہو تو پھر تکفیر کے لیے تخصیص کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن حضرت صوفی صاحب یہی اصرار کرتے رہے کہ بس یہ کہنا چاہیے کہ جو شخص فلاں فلاں عقیدہ رکھتا ہو، وہ کافرہے۔ اسی طرح حضرت جلسے جلوسوں میں کافر کافر کے نعرے لگانے کو بھی پسند نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جو طریقہ اس سے پہلے ہمارے بزرگوں کا چلا آرہا ہے، وہی ٹھیک ہے۔ *
۴۔ ایک مرتبہ احقر نے حضرت شیخ سے گزارش کی کہ آپ نے ’’تنقید متین‘‘ میں لکھا ہے کہ میں نور وبشر کے مسئلے پر ایک مستقل کتاب لکھوں گا، مگر ابھی تک نہیں لکھی۔ آپ نے علم غیب، حاظر ناظر اور مختار کل میں سے ہر مسئلے پر دو دو کتابیں لکھی ہیں، لیکن نور وبشر پر ایک بھی نہیں لکھی۔ حضرت نے فرمایا کہ میں کاروباری آدمی نہیں ہوں۔ میں نے جو لکھا ہے، وہ ضرورت کے تحت اور عقیدہ کی اصلاح کے لیے لکھا ہے۔ میری دیگر کتابوں میں نور وبشر کا مسئلہ تفصیل سے آ چکا ہے اور الگ کتاب لکھنے کی ضرورت نہیں۔ میں نے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو آپ کی مختلف کتابوں سے مواد جمع کر کے ایک یکجا مرتب کر دیا جائے؟ حضرت نے فوراً اجازت مرحمت فرما دی اور احقر نے مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی صاحب کے ساتھ مل کر ’’نور وبشر‘‘ کے نام سے ایک الگ کتاب مرتب کر دی۔
۵۔ جب ملک میں عورت کی حکمرانی کے جواز وعدم جواز کی بحث چلی تو مدرسہ نصرۃ العلوم کے دار الافتاء کے پاس بھی یہ سوال آیا۔ اس وقت دار الافتاء کے صدر مفتی محمد عیسیٰ صاحب مدظلہ نے اس سلسلے میں حضرت صوفی صاحب سے مشورہ کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ جب تک آپ شیخ الحدیث صاحب سے مشورہ نہ کر لیں، فتویٰ نہ لکھیں۔ اگلے دن جب حضرت شیخ اسباق سے فارغ ہو کر صوفی صاحب کے پاس چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے تو مولانا مفتی محمد عیسیٰ صاحب مدظلہ اور مولانا مفتی عبد الشکور کشمیری مدظلہ دونوں حاضر ہوئے اور جہاں تک مجھے یاد ہے، حضرت تھانویؒ کا ’’امداد الفتاویٰ‘‘ بھی ساتھ لے آئے۔ حضرت شیخ نے دیکھتے ہی فرمایا: ’’امداد الفتاویٰ کو ہاتھ بھی نہ لگانا۔ حضرت تھانویؒ نے آپ حضرات کے لیے کوئی گنجایش نہیں چھوڑی۔‘‘ پھر دونوں مفتی حضرات کو فتویٰ کے متعلق ہدایات دیں اور حکم دیا کہ جب تک لکھ کر مجھے دکھا نہ لیا جائے، فتویٰ جاری نہ کیا جائے۔
۶۔ ایک مرتبہ میں نے دریافت کیا کہ جمعیت اشاعت التوحید والسنۃ کے حضرات کہتے ہیں کہ مولانا سرفراز صاحب نے اپنی کتاب ’’راہ سنت‘‘ میں تحریف کر دی ہے، کیونکہ پہلے ایڈیشنوں میں انھوں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ
’’شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان صاحب خطیب راول پنڈی پر پشاور میں اور شیخ التفسیر حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ صاحب بخاری گجراتی پر منڈی بہاؤ الدین میں قاتلانہ حملہ ہوا۔‘‘
لیکن بعد میں یہ عبارت نکال دی گئی۔ حضرت نے فرمایا کہ اس کو تحریف نہیں کہتے۔ مصنف کو اپنی زندگی میں حق ہوتا ہے کہ وہ کتاب میں جیسے چاہے، رد وبدل اور کمی بیشی کرے اور ہمیشہ اس کی آخری بات کا اعتبار ہوتا ہے۔ فرمایا کہ میں نے ’’راہ سنت‘‘ میں عرض حال لکھتے ہوئے حضرت شیخ القرآن اور سید عنایت اللہ شاہ صاحب بخاری کے بارے میں یہ لکھا تھا، لیکن جب شاہ صاحب نے علماے دیوبند سے الگ راہ نکالی اور اس پر محاذ آرائی شروع کر دی تو بہت سے احباب نے مشورہ دیا کہ یہ عبارت حذف کر دی جائے، اس لیے میں نے اکابر علما کے مشورے سے یہ عبارت نکال دی ہے۔
۷۔ ایک مرتبہ احقر نے عرض کیا کہ بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ آپ نے ’’گلدستہ توحید‘‘ کی طبع اول میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے کفر وایمان سے متعلق جو کچھ لکھا تھا، اس سے رجوع کر لیا ہے کیونکہ اگلے ایڈیشنوں میں وہ عبارت موجود نہیں ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ ہاں، گلدستہ توحید کی طبع اول میں، میں نے یہ بات لکھی تھی، لیکن پھر مولانا محمد علی جالندھریؒ یا سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاریؒ (حضرت نے دونوں بزرگوں میں سے ایک کا نام لیا) نے فرمایا کہ یہ بات آپ کو لکھنے کی ضرورت نہیں، اسے کتاب سے نکال دیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا یہ بات غلط ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ بات غلط ہے، لیکن یہ ہمارا حکم ہے، اس لیے میں نے اکابر کا حکم سمجھتے ہوئے وہ عبارت کتاب سے نکال دی۔ (گلدستہ توحید، طبع دوم کے ص ۲۱ پر اس کی وضاحت موجود ہے۔)
۸۔ ایک دفعہ احقر نے حضرت صوفی صاحب سے سوال کیا کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ مولانا سرفراز صاحب، قاضی شمس الدین صاحب کے شاگرد ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے؟ فرمایا کہ استاذ نہیں، وہ تو ہمارے استاذ الاستاذ ہیں۔ میں یہ سمجھا کہ حضرت نے اس سوال کا برا منایا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے وضاحت چاہی تو فرمایا کہ ہمارے استاذ مفتی عبد الواحد صاحبؒ تھے اور ان کے استاذ قاضی شمس الدین صاحبؒ تھے۔ اس طرح قاضی صاحب ہمارے استاذ الاستاذ ہوئے۔ پھر میں نے پوچھا کہ مفتی صاحب نے قاضی صاحب سے کیا پڑھا تھا؟ حضرت نے فرمایا کہ یہ دونوں بزرگ علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے شاگرد ہیں۔ قاضی صاحب نے ایک کتاب شاہ صاحب سے پڑھی ہوئی تھی جو مفتی صاحب نے نہیں پڑھی تھی تو انھوں نے نسبت قائم کرنے کے لیے قاضی صاحب سے کہا کہ آپ مجھے یہ کتاب پڑھا دیں۔ اسی طرح ایک کتاب قاضی صاحب نے بھی مفتی صاحب سے پڑھی تھی اور دونوں ایک دوسرے کے استاذ بھی تھے اور شاگرد بھی۔ فرمایا کہ ہم قاضی صاحب کا ادب واحترام اپنے اساتذہ ہی کی طرح کرتے ہیں۔ وہ ہمارے بزرگ تھے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
۹۔ حضرت صوفی صاحب نے دار العلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کا یہ واقعہ سنایا کہ ہم دونوں بھائی علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے صاحبزادے مولانا ازہر شاہ قیصرؒ سے ملاقات کی غرض سے ان کی رہائش گاہ پر گئے۔ وہاں بہت ہجوم تھا اور ملاقات کے لیے لوگوں کی قطار لگی ہوئی تھی۔ ہم بھی لائن میں لگ گئی، لیکن کافی تاخیر ہو گئی۔ شیخ الحدیث صاحب کے گھٹنوں میں درد بھی تھا۔ مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے کہ صوفی! میں ایک نسخہ آزماتا ہوں، ہو سکتا ہے کامیاب ہو جائے۔ پھر انھوں نے اپنی جیب سے ایک چٹ نکال کر اس پر لکھا کہ ’’احسن الکلام‘‘ اور ’’عمدۃ الاثاث‘‘ کا مصنف آیا ہے اور آپ کے دروازے پر ملاقات کے لیے کھڑا ہے۔ اندر آنے کی اجازت مرحمت فرما دیں۔ جو صاحب دروازے پر کھڑے تھے، انھوں نے وہ چٹ جا کر ان کو دے دی۔ حضرت نے جب چٹ پڑھی تو فوراً ہمیں اندر بلا لیا اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور شیخ صاحب کو اپنی جگہ پر بٹھا دیا۔ لوگ بہت حیران ہوئے کہ یہ کون بزرگ آئے ہیں۔ شاہ صاحب نے حضرت شیخ کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا کہ اس زمانے کے امام الموحدین تشریف لائے ہیں۔ یہ احسن الکلام اور عمدۃ الاثاث کے مصنف ہیں۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ ان کا یہ کہنا تھا کہ لوگ ملنے کے لیے اس طرح لپکے کہ ہمیں جان چھڑانی مشکل ہو گئی۔
۱۰۔ حضرت شیخ نے ایک مرتبہ ذکر فرمایا کہ میں نے مشکوٰۃ شریف کی ایک کاپی سالہا سال کی محنت سے تیار کی تھی جس میں زمانہ طالب علمی میں حضرت مولانا عبد القدیر صاحبؒ سے سنے ہوئے درسی افادات بھی شامل تھے اور پھر میں نے دوران تدریس اپنے مطالعے سے اس میں بہت سے اضافے بھی کیے تھے۔ فرمایا کہ ایک دفعہ یہ کاپی مجھ سے صوفی نے لے لی اور اس سے کوئی آدمی مانگ کر یا چرا کر لے گیا۔ کچھ عرصے کے بعد میں نے کاپی کے بارے میں پوچھا تو صوفی نے آرام سے کہہ دیا کہ وہ تو گم ہو گئی ہے۔ میں نے کہا کہ تم نے تو بس زبان ہلا دی کہ گم ہو گئی ہے اورمیری سالہا سال کی محنت ضائع ہو گئی۔ اس پر صوفی کہنے لگا کہ ’’چلیں جو بھی لے کر گیا ہے، وہ پڑھے گا ہی نا! تو آپ کو ثواب ہوگا۔‘‘ فرمایا کہ میں اسی لیے اسے ’’صوفی‘‘ کہتا ہوں۔
۱۱۔ ایک دفعہ حضرت شیخ کے پاس ایک عورت آئی جس کے گھر میں جنات کے اثرات تھے۔ اس نے تعویذ مانگا تو حضرت نے کہا کہ بی بی، تعویذ لینا ہے تو لے لے، لیکن میں جنات کا عامل نہیں ہوں۔ وہ خاتون اصرار کر کے تعویذ لے گئی، لیکن اس سے جنات اور چڑ گئے اور اس کے گھر میں پاخانہ اور گندگی پھینکنا شروع کر دی۔ وہ تعویذ واپس لے آئی اور کہا کہ اس سے تو معاملہ زیادہ خراب ہو گیا ہے۔ حضرت شیخ نے فرمایا کہ میں نے تو پہلے ہی تم سے کہا تھا کہ میں جنات کا عامل نہیں ہوں۔
۱۲۔ ایک مرتبہ حضرت صوفی صاحب مدرسے کے صحن میں دھوپ سینکنے کے لیے چارپائی پر تشریف فرما تھے کہ قاضی عصمت اللہ صاحب تشریف لائے۔ میں نے حضرت کو بتایا تو باوجودیکہ حضرت سے اٹھا نہیں جا رہا تھا، اٹھ کر ان کا استقبال کرنے کی کوشش کی۔ پھر بڑے اکرام اور محبت سے انھیں بٹھایا اور خصوصی طو رپر گھر سے پر تکلف چائے منگوائی۔ قاضی صاحب بھی بڑے مودبانہ انداز میں حضرت کے پاس بیٹھے رہے۔ حضرت صوفی صاحب نے ان سے فرمایا کہ آپ کے والد مولانا قاضی نور محمد صاحبؒ ہمارے بزرگ تھے اور اہل اللہ تھے۔ آپ ان کی اولاد ہیں، آپ ہمارے لیے دعا فرمائیں کہ خاتمہ ایمان پر ہو۔ قاضی نور محمد صاحب کا ذکر کرتے ہوئے صوفی صاحب رونے لگ گئے۔ پھر قاضی صاحب کو رخصت کرنے کے لیے اٹھنے لگے تو قاضی صاحب نے ان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ دیے اور کہا کہ حضرت، آپ تشریف رکھیں، لیکن صوفی صاحب ان کو مدرسے کے گیٹ تک رخصت کر کے آئے۔
۱۳۔ حضرت صوفی صاحب فروعی اختلافی مسائل کے بارے میں تشدد کو بالکل پسند نہیں فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ ہمارے ساتھی قاری عبید الرحمن صاحب سے، جو مکہ مکرمہ میں مقیم ہیں، پوچھا کہ بھئی، وہاں تمہارے ساتھ کوئی سختی والا معاملہ تو نہیں ہوتا؟ پھر فرمایا کہ بابا، وہاں کے ماحول میں رفع یدین کر لیا کرو۔ کوئی حرج کی بات نہیں۔ حضرت صوفی صاحب نے ’’نماز مسنون‘‘ لکھی تو اس کا ایک نسخہ مولانا امین صفدر اوکاڑوی کو بھی بھیج دیا۔ مولانا اوکاڑویؒ نے بتایا کہ اسی دن میرے پاس ایک پروفیسر صاحب آئے تو میں نے کتاب مطالعے کے لیے انھیں دے دی۔ وہ کچھ دنوں کے بعد کتاب لے کر آئے اور کہا کہ آپ تو رفع یدین اور آمین بالجہر وغیرہ کے متعلق بہت سخت موقف رکھتے ہیں، جبکہ اس کتاب میں یہ لکھا ہے کہ دونوں طریقے حدیث سے ثابت ہیں اور دونوں کی گنجایش موجود ہے۔ اوکاڑوی صاحب کہتے تھے کہ یہ کتاب مدرسہ نصرۃ العلوم کی چار دیواری کے اندر رہنی چاہیے، عوام تک نہیں جانی چاہیے۔ اوکاڑوی صاحب مجھے کہتے تھے کہ صوفی صاحب ان مسائل کے بارے میں بہت نرم ہیں۔ تم حضرت کے پاس اٹھتے بیٹھتے ہو، حضرت کو ’’پکا‘‘ کرنے کی کوشش کرو۔ میں نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ تو کہا کہ غیر مقلدین کی طرف سے ہمارے خلاف جو بھی کتاب یا رسالہ لکھا جائے، وہ حضرت تک پہنچایا کرو۔ 
۱۴۔ ایک مرتبہ میں نے حضرت صوفی صاحب سے پوچھا کہ آپ کے بارے میں سنا ہے کہ آپ شاعری کا بڑا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ حضرت کی اپنی ایک بیاض بھی تھی جو حضرت نے اپنے دوسرے مسودات کے ساتھ حاجی محمد فیاض صاحب کے سپرد کر دی تھی۔ حضرت نے فرمایا کہ میں تو نہیں، البتہ استاد (حضرت شیخ الحدیث صاحب) اس فن کے بڑے ماہر ہیں۔ اس پر ایک واقعہ سنایا کہ جب ہم دار العلوم دیوبند میں پڑھتے تھے تو ہر سال دیوبند میں بیت بازی کا ایک مقابلہ ہوا کرتا تھا جو ہمیشہ لکھنو سے آنے والے ایک بابا جی جیت جایا کرتے تھے۔ ہمارے استاذ (مولانا اعزاز علی صاحبؒ یا مولانا مفتی ریاض الدین صاحبؒ ) نے کہا کہ یہ تو بڑی شرم کی بات ہے۔ اس پر مولانا سرفراز صفدر صاحب مقابلے کے لیے تیار ہو گئے۔ جب مقابلہ ہوا تو لکھنو والے بابا جی نے عربی، فارسی، اردو وغیرہ کے اشعار پڑھنے شروع کر دیے۔ وہ جس زبان کے اشعار پڑھتے، شیخ صاحب بھی اسی زبان میں اس کے مقابلے میں شعر پڑھتے۔ آخر حضرت شیخ نے اپنی مادری زبان ہندکو میں شعر پڑھنا شروع کر دیے جس پر وہ بابا جی لاجواب ہو گئے اور شیخ نے مقابلہ جیت لیا۔ اس پر اساتذہ کی طرف سے بھی حضرت کو بہت داد اور انعام ملا اور لکھنو والے بابا جی نے بھی ان کی شعری مہارت کو تسلیم کیا۔
۱۵۔ حضرت صوفی صاحب نے یہ واقعہ سنایا کہ دار العلوم دیوبند کے قیام کے دوران ایک مرتبہ رات کے وقت گھنٹی بجی اور اعلان ہوا کہ حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ تشریف لائے ہیں۔ سب طلبہ ان کے پاس جمع ہو گئے۔ حضرت کی شخصیت کا بڑا رعب اور دبدبہ تھا اور کوئی ان سے بات کرنے کی جرات نہیں کرتا تھا۔ ایک طالب نے حضرت سے کہا کہ کوئی نصیحت فرما دیں۔ حضرت کچھ دیر خاموش رہے، پھر ایک دم کہا: ’’موت ہے، موت ہے، موت ہے۔‘‘ اس کے بعد وضاحت کی کہ نصیحت تو قرآن کی صورت میں بہت پہلے آ چکی ہے۔ اب نئی نصیحت کیا کروں! جب قرآن سے نصیحت حاصل نہیں کرتے تو پھر تو موت کے سوا کوئی نصیحت نہیں۔
صوفی صاحب نے فرمایا کہ ایک مرتبہ پیر صبغت اللہ بختیاری سفر میں حضرت سندھی کے ساتھ تھے۔ پیر صاحب جبہ قبہ اور چوغا پہنے رکھتے تھے جبکہ حضرت سندھی چست لباس پہنتے تھے۔ انھوں نے دیوبند کے اسٹیشن سے ریل پر سوار ہونا تھا۔ جب گاڑی مختصر وقفے کے لیے رکی تو حضرت سندھی تو فوراً دوڑ کر سوار ہو گئے جبکہ پیر صاحب اپنا لباس سنبھالتے رہے اور مشکل ہی سے سوار ہو سکے۔ اس پر حضرت سندھی نے انھیں وہیں بے نقط سنانا شروع کر دیں کہ اس دور میں ایسے بھاری بھرکم لباس کے ساتھ کیسے دنیا میں کام کر سکو گے!
۱۶۔ حضرت صوفی صاحب نے فرمایا کہ ہمارے سب سے پہلے مربی اور دیوبندیت سے ہمیں روشناس کرانے والی شخصیت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی تھی۔ ہم ان کا احسان کبھی نہیں بھلا سکتے۔ حضرت نے فرمایا کہ ہم سیاسی طور پر مفتی محمود صاحبؒ کے موقف کی تائید کرتے ہیں، لیکن جو لوگ حضرت ہزاروی کی ذات پر طعن اور الزام طرازی کرتے ہیں، وہ بہت زیادتی کرتے ہیں۔ حضرت ہزاروی تو ایسے تھے کہ ایک مرتبہ ہم ان کے گھر گئے تو ان کے گھر میں کچھ بھی نہیں تھا، حتیٰ کہ صابن بھی نہیں تھا۔ ہم نے ایک پروگرام پر جانا تھا اور حضرت کے پاس ایک ہی جوڑا تھا۔ میں ان کے ساتھ دوکان پر گیا جہاں سے انھوں نے ادھار صابن خریدا۔ پھر میرے کہنے کے باوجود خود ہی اپنا پہنا ہوا لباس اتار کر اسے دھویا اور خشک ہونے کے بعد اسے ہی پہن کر جس پروگرام کے لیے جانا تھا، اس کے لیے روانہ ہو گئے۔
۱۷۔ حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگ سمجھ ہی نہیں سکے کہ وہ کتنے بڑ ے آدمی تھے اور کس درجے پر فائز تھے۔ فرمایا کہ وہ مرد قلندر تھے۔ ایک واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ میں مری میں مقیم تھا کہ مولانا عبید اللہ انور بھی وہاں آئے اور میرا پتہ چلنے پر میری قیام گاہ پر تشریف لے آئے۔ وہاں ان سے ملنے کے لیے بہت سے لوگ اور عقیدت مند آ گئے جنھوں نے مری کے لوگوں کے طریقے کے مطابق کپڑے کی پوٹلیوں میں باندھ کر کثرت سے نذرانے پیش کیے۔ اب جو بھی نذرانہ آتا، مولانا عبید اللہ انور اسے میرے سپرد کر دیتے، حتیٰ کہ میرا کمرہ نذرانوں سے بھر گیا، لیکن انھوں نے کسی چیز کو کھول کر دیکھا تک نہیں کہ اس میں کیا ہے۔ پھر جب رخصت ہونے لگے تو مجھے اس سارے سامان کا امین بنا دیا اور کہا کہ آپ اپنی صواب دید کے مطابق اسے مستحقین میں تقسیم کر دیں۔ ہم نے اسے کھول کر دیکھا تو اس میں نقد رقم، سونا چاندی اور بہت سی قیمتی چیزیں تھیں جو ہم نے تقسیم کر دیں۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ ہم نے ایسا پیر نہیں دیکھا۔
راقم نے حضرت مولانا عبید اللہ انور کی بیعت کی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد حضرت شیخ سے نئی بیعت کے لیے کہا تو حضرت نے فرمایا کہ مرنے سے بیعت نہیں ٹوٹتی اور میں بیعت ثانی کا قائل نہیں۔ آپ کے مرشد جو اوراد ووظائف آپ کو بتا گئے ہیں، ان کا معمول جاری رکھیں۔ حضرت صوفی صاحب کو علم ہوا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ مولانا انورؒ نے آپ کو کیا وظیفہ بتایا ہے؟ میں نے کہا کہ وہ فرماتے تھے کہ ہر وقت اللہ اللہ کرتے رہا کرو۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ یہ بہت بڑا وظیفہ ہے، اسے معمولی نہ سمجھنا۔
۱۸۔ میں نے صوفی صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ کسی کے خلیفہ بھی ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ بلیک میلنگ نہیں کرتا۔ میں حضرت مدنی کا مرید ہوں، لیکن خلیفہ کسی کا نہیں ہوں۔ فرمایا کہ ہم نے بیعت سے پہلے بے شمار بزرگوں اور پیروں کی زیارت کی، حتیٰ کہ تھانہ بھون میں حضرت تھانویؒ کی زیارت کے لیے بھی حاضر ہوئے لیکن کہیں دل کا اطمینان نہیں ہوا۔ آخر اللہ نے دل میں یہ خیال ڈالا کہ اپنے استاد ہی کی بیعت کر لو۔ فرمایا کہ مولانا عبیداللہ انورؒ نے ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا تھا کہ آپ کچھ عرصہ ہمارے طریقے کے مطابق اوراد ووظائف کر لیں، میں آپ کو خلافت دے دیتا ہوں، لیکن میں نے ان سے کہا کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔
۱۹۔ میں نے حضرت صوفی صاحب سے پوچھا کہ یتیمۃ البیان میں مولانا یوسف بنوریؒ نے مولانا ابو الکلام آزادؒ کو ملحد اور زندیق لکھا ہے۔ فرمایا کہ یہ زیادتی ہے۔ اسی طرح مولانا ادریس کاندھلویؒ نے عین اس وقت جب مسلم لیگ او رکانگریس کی سیاسی کشمکش چل رہی تھی، مولانا آزاد کی تفسیر پر تنقید شائع کر کے زیادتی کی۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ مولانا آزاد عظیم انسان تھے۔ میری ان سے ایک ملاقات ہوئی ہے۔ جب ہم دیوبند میں دورۂ حدیث کے طالب علم تھے تو کچھ دوست ان سے ملاقات کے لیے دہلی میں ان کے دفتر گئے۔ وہاں ملاقات کے لیے بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔ ہم نے بتایا کہ ہم دیوبند کے طالب علم ہیں تو انھوں نے سب سے پہلے ہمیں اندر بلایا۔ گفتگو میں انھوں نے ہمیں انگریز کے خلاف نصیحتیں کیں اور جب ہم نے ایک کاپی پر ان سے آٹو گراف مانگا تو اس میں بھی یہی لکھا کہ کبھی انگریز کو اپنا خیر خواہ نہ سمجھنا۔ مولانا نے ہمیں چائے بھی پلائی اور ہمیں رخصت کرنے کے لیے اٹھ کر دروازے تک ہمارے ساتھ آئے۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ شخص علم کا بہت قدردان ہے۔
۲۰۔ میں نے عرض کیا کہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اپنا شجرۂ نسب مولانا آزاد سے ملاتے ہیں کہ میں نے مولانا مودودیؒ سے استفادہ کیا ہے اور مولانا مودودیؒ نے مولانا آزادؒ سے۔ فرمایا کہ مودودی صاحبؒ کے دس صفحے ابوالکلامؒ کی دس سطروں کے برابر بھی نہیں ہیں۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ جب مولانا حسین احمد مدنی او ر مولانا آزاد اکٹھے چلتے تھے تو مولانا آزاد ہمیشہ ان سے چار پانچ قدم پیچھے رہتے تھے، کبھی ان سے آگے نہیں بڑھتے تھے۔
۲۱۔ جس زمانے میں حضرت صوفی صاحب فجرکے بعد درس قرآن دیا کرتے تھے، ان کے کمرے کی الماری مختلف تفاسیر رکھی ہوتی تھیں جن کا حضرت مطالعہ کیا کرتے تھے۔ میں اس الماری کی صفائی کیاکرتا تھا۔ ان کتابوں میں دوسری تفاسیر کے علاوہ تفسیر عثمانی بھی پڑی ہوتی تھی۔ میں نے ایک دن حضرت سے اس تفسیر کے متعلق پوچھا تو حضرت نے فرمایا کہ بابا! یہ مختصر تفسیروں میں بہترین تفسیر ہے۔ بعض جگہ بڑی بڑی تفسیروں میں وہ نکتے کی بات نہیں ملتی جو اس میں مل جاتی ہے۔ اسی طرح حضرت درس قرآن کے لیے جن کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے، ان میں مودودی صاحب کی تفہیم القرآن اور پرویز صاحب کی مفہوم القرآن وغیرہ بھی شامل تھیں۔ میں نے حضرت سے ان کتابوں کے مطالعے کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ عوام کو تو ہم منع کرتے ہیں، لیکن اہل علم کو، جو صحیح اور غلط بات کا فرق سمجھتے ہیں، ان کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ فرمایا کہ ان میں بھی بعض اوقات ایسی کام کی باتیں مل جاتی ہیں جو دوسری کتابوں میں نہیں ملتیں۔
۲۲۔ ایک مرتبہ میں نے حضرت صوفی صاحب سے عرض کیا کہ مختلف آیات کی تشریح میں ہمارا بریلوی حضرات سے جو اختلاف ہے، کیا اس کے تصفیے کے لیے ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ کسی ایک مستند تفسیر مثلاً روح المعانی یا مظہری وغیرہ کو معیار قرار دے لیا جائے اور ہر جگہ دونوں فریق اس میں درج تشریح کو قبول کریں؟ حضرت نے فرمایا کہ نہ بابا نہ، اس طرف بالکل نہیں جانا۔ ہر تفسیر میں کہیں نہ کہیں ایسی بات مل جاتی ہے جس سے بریلوی حضرات کی تائید ہوتی ہے۔
۲۳۔ ایک دفعہ میں نے حضرت صوفی صاحب سے مولانا اللہ یار خان چکڑالوی کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ دیوبندی تھے؟ حضرت نے فرمایا کہ بالکل نہیں۔ ان کو حیض (صوفیا کی اصطلاح میں کشف وغیرہ) زیادہ آنا شروع ہو گیا تھا اور ہمارے اکابر ان کے ہاں تصوف کے اس رنگ سے نالاں تھے۔
۲۴۔ روزے کی حالت میں انجکشن لگوانے سے متعلق حضرت صوفی صاحب کی رائے مفتیان کرام کی عام رائے سے مختلف تھی اور حضرت اسے روزے کے لیے ناقض سمجھتے تھے۔ حضرت نے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ایک تفصیلی مقالہ تحریر کیا جو ’’مقالات سواتی‘‘ میں شامل ہے۔ حضرت نے یہ مقالہ ملک کے تمام بڑے مفتیان کرام کو بھیجا اور ان سے ان کی رائے طلب کی، لیکن مفتی جمیل احمد صاحب تھانوی اور مفتی عبد الستار صاحب کے علاوہ کسی نے جواب نہیں دیا۔ یہ مقالہ تنقید کے لیے حضرت شیخ الحدیث صاحب کو بھی دیا گیا تھا۔ حضرت نے اسی مقالے پر اپنا مختصر تبصرہ یوں تحریر کیا کہ: ’’صوفی کی تحریر عمدہ ہے۔ احقر کا مسلک جمہور والا ہے۔‘‘ مولانا عبد القیوم ہزاروی صاحب نے فرمایا کہ صوفی صاحب کے دلائل وزنی ہیں، لیکن میں اکیلے صوفی صاحب کا فتویٰ نہیں مانتا۔ اگر دو تین اور مفتی اس کی تائید کر دیں تو پھر میرا موقف بھی یہی ہے۔ حضرت صوفی صاحب نے فرمایا کہ مفتیوں نے میری بات کو اہمیت نہیں دی۔ مفتی عبد الستار صاحب تو میری بات ہی نہیں سمجھے جبکہ مفتی جمیل احمد صاحب بات تو سمجھ گئے ہیں، لیکن انھوں نے جواب بہت مختصر لکھا ہے۔ فرمایا کہ دیکھنا، آج نہیں تو کل ان حضرات کو میرے موقف پرہی آنا پڑے گا۔
۲۵۔ حضرت صوفی صاحب کسی علمی غلطی کو قبول کرنے میں بالکل تردد ظاہر نہیں فرماتے تھے، بلکہ بات سمجھ میں آنے پر فوراً تسلیم کر لیتے تھے۔ حضرت نے ’’فیوضات حسینی‘‘ کا ترجمہ شائع کیا تو ایک جگہ اس کے متن کی ایک عبارت کا ترجمہ بلاارادہ چھوٹ گیا۔ عبارت یہ تھی کہ ’’اول ما خلق اللہ نوری‘‘ کی روایت کے بارے میں شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے لکھا ہے کہ اس کی کچھ اصل ہے۔ اس پر بریلوی عالم مولانا ابو داؤد محمد صادق نے تحریف کا الزام لگایا تو حضرت صوفی صاحب نے فرمایا کہ بخدا، ہم نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا، غلطی سے ہو گیا ہے، اس لیے اس کو فوراً ٹھیک کر دو۔ چنانچہ اس وقت جو ایڈیشن دستیاب ہے، اس میں مذکورہ عبارت کا ترجمہ شامل ہے۔
اسی طرح ’’مقالات سواتی‘‘ میں حضرت صوفی صاحب کا جو مضمون مودودی صاحب کے بارے میں شائع ہوا ہے، اس میں ایک جگہ حضرت نے ’’خلافت وملوکیت‘‘ کے حوالے سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اقربا نوازی کے الزام کا ایسے انداز میں ذکر کیا تھا جو ’’خلافت وملوکیت‘‘ میں اس طرح نہیں ملتا۔ میں نے حضرت سے عرض کیا کہ یہ بات اصل کتاب میں تو یوں نہیں ہے تو فرمایا کہ مودودی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے، ا س سے یہی اخذ ہوتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اخذ کرنے میں تو پھر بھی کمی بیشی کا امکان ہے تو فرمایا کہ اچھاتم اصل کتاب کو سامنے رکھ کر اس عبارت کو ٹھیک کر دو۔ چنانچہ حضرت کے کہنے پر ہم نے اصل کتاب کی روشنی میں عبارت درست کر کے حضرت کو دکھا دی۔
۲۶۔ حضرت صوفی صاحب فرماتے تھے کہ مودودی صاحب کا ترجمہ قرآن بڑا آسان اور عام فہم ہے، البتہ ان کی تفسیر میں گڑبڑ ہے۔ فرماتے تھے کہ اس سے بھی زیادہ آسان اور بہتر ترجمہ مولانا محمد علی کاندھلوی کا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ میری مولانا مودودی کے ایک معتقد سے بات ہوئی تو اس نے کہا کہ آپ مولانا حسین احمد مدنی کا شاگرد ہونے کی وجہ سے مولانا مودودی کی مخالفت کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ حاشا وکلا، ہرگز ایسا نہیں ہے۔ ہم مودودی صاحب کی باتوں کو واقعی قابل اعتراض سمجھتے ہیں اور اگر وہ ان باتوں سے رجوع کر لیں تو ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔
۲۷۔ ایک مرتبہ حضرت صوفی صاحب نے فرمایا کہ میرا زندگی بھر کا تجربہ یہ ہے کہ غیر مقلد حضرات اپنے مسلک یا جماعت کا فائدہ دیکھے بغیر دین یا علم کا کوئی کام نہیں کرتے، جبکہ ہمارے بزرگ خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے اور دین اور علم کی خدمت کے جذبے سے کام کرتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ ایک مرتبہ اہل حدیث عالم مولانا خالد گرجاکھی نے علامہ ابن حزم کی کتاب ’’جوامع السیرۃ‘‘ شائع کی تو میں بڑا حیران ہوا کہ اس سے ان کو کیسے دلچسپی پیدا ہوئی۔ مجھے یقین تھا کہ اس میں بھی یقیناًان کے مسلک کا کوئی نہ کوئی فائدہ ہوگا۔ میں نے یہ سمجھنے کے لیے پوری کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا تو واقعی اس میں دو تین باتیں ایسی موجود تھیں جس سے ان کے مسلک کی تائید ہوتی تھی۔ فرمایا کہ نصرۃ العلوم کے کتب خانے میں جو نسخہ موجود ہے، اس پر میرے نشانات لگے ہوں گے۔
ذیل کے واقعات راقم نے ماسٹر محمد صدیق صاحب کی زبانی سنے ہیں۔ ماسٹر محمد صدیق صاحب کی عمر اس وقت ۷۵ سال کے قریب ہے۔ وہ کافی عرصہ گکھڑ میں رہے ہیں، اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور حافظ محمد یوسف صاحب گکھڑویؒ کے شاگرد ہیں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ بھی ان کا عقیدت واحترام پر مبنی بہت قریبی تعلق رہا ہے۔ یہ واقعات انھی کی زبانی یہاں درج کیے جا رہے ہیں: 
۲۸۔ ایک مرتبہ ہمارے ہاں کوئی تقریب تھی جس کے لیے ہم نے مولانا سرفراز صاحب اور ان کے اہل خانہ کو بھی مدعو کیا اور دعوت نامہ پر ’’بیگم مولانا محمد سرفراز خان صفدر‘‘ کے الفاظ لکھے۔ جب میں دعوت نامہ لے کر حاضر ہوا تو مولانا نے ’’بیگم‘‘ کا لفظ کاٹ کر ’’زوجہ‘‘ لکھ دیا اور فرمایا کہ صدیق صاحب! بیگم بڑے آدمیوں کی بیوی کو کہتے ہیں، ہم تو چھوٹے ہیں۔
۲۹۔ ایک مرتبہ میں نے مسئلہ رفع یدین کے متعلق سوال کیا تو مولانا نے فرمایا کہ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ رفع یدین کرنے اور نہ کرنے، دونوں کے حق میں احادیث موجود ہیں۔ چونکہ ہم مقلد ہیں اور ہمارے امام نہ کرنے کے قائل ہیں، اس لیے ہم رفع یدین نہیں کرتے۔
۳۰۔ ایک مرتبہ گکھڑ میں بریلوی حضرات نے علم غیب اور حاظر ناظر وغیرہ مسائل پر بہت چیلنج بازی کی اور مولانا عبد الصبور ہزاروی اور مولانا ابو النور بشیر (کوٹلی لوہاراں والے) کو مناظرے کے لیے بلایا گیا۔ مولانا سرفراز صاحب نے جواب میں ان سے فرمایا کہ مسئلہ علم غیب اور حاظر ناظر پر میں خود مناظرہ کروں گا جبکہ دوسرے چھوٹے موٹے مسائل پر حافظ محمد یوسف صاحب مناظرہ کریں گے۔ جب مولانا نے یہ اعلان کیا تو بریلوی حضرات چپ ہو گئے اور مناظرہ کی طرف نہیں آئے۔
۳۱۔ ایک دفعہ گوجرانوالہ اور لاہور سے کچھ اہل حدیث علما قراء ۃ خلف الامام کے موضوع پر مولانا سرفراز صاحب سے مناظرہ کرنے کے لیے گکھڑ پہنچ گئے، لیکن حضرت نے فرمایا کہ میری صحت ٹھیک نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ مناظرہ نہیں کر سکتے تھے یا معاذ اللہ ان کے پاس علم نہیں تھا، کیونکہ میں نے ’’احسن الکلام‘‘ پڑھی ہوئی ہے۔ استغفر اللہ، ہم ایسی بات مولانا کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتے۔ لیکن معلوم نہیں کہ واقعتا اس دن ان کی طبیعت ناساز تھی یا وہ اس موضوع پر مناظرہ کرنے کو ویسے ہی پسند نہیں کرتے تھے۔
۳۲۔ حضرت اپنی تقریر میں اکثر یہ جملہ بڑے خاص انداز میں فرمایا کرتے تھے کہ ’’سمجھ آئی؟‘‘ یہ جملہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔
۳۳۔ ایک مرتبہ میں کافی عرصے کے بعد مولانا سرفراز صفدر سے ملاقات اور تعویذ لینے کے لیے مدرسہ نصرۃ العلوم میں حاضر ہوا۔ جب حضرت گاڑی سے باہر نکلے تو میں آگے بڑھ کر ملا اور پوچھا کہ حضرت! مجھے پہچانا ہے؟ حضرت ہنس پڑے اور فرمایا کہ ’’صدیق! ایہہ وی کوئی گل اے کہ تینوں بھل جاواں؟‘‘ (صدیق، یہ بھی کوئی بات ہے کہ تمھیں بھول جاؤں؟)
۳۴۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں، میں جوان تھا اور ہم نے دن رات مولاناسرفراز صاحب کے ساتھ کام کیا۔ ہم مولانا کا جوش اور ولولہ دیکھ کر حیران ہو جاتے تھے جو ہم نوجوانوں کے جوش کو مات دیتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔

اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب (۱)

محمد زاہد صدیق مغل

مروجہ سودی بینکاری کو ’مسلمان بنانے‘ کی مہم پچھلی دو دہائیوں سے اپنے عروج پر ہے اور نہ صرف یہ کہ مجوزین اسلامی بینکاری بلکہ ان کے ناقدین کی ایک اکثریت نے بھی یہ فرض کرلیا ہے کہ اس مہم کے ذریعے نظام بینکاری کو کسی نہ کسی درجے (زیادہ یا کم کے اختلاف کے ساتھ) اسلامی بنا ہی لیا گیا ہے۔ اگر اصولاً یہ مقدمات درست مان لیے جائیں کہ (۱) اپنے مقاصد اور طریقہ کار (procedure) دونوں اعتبارات سے بینک کی اسلام کاری ممکن ہے، نیز (۲) اسلامی بینکاری درست سمت میں رواں دواں ہیں تو ان کے منطقی لازمے کے طور پر جو بحث ابھرے گی، وہ اس نظام میں ’مزید اصلاح‘ کی کوشش کرنے ہی کی ہوگی نہ کہ اس جدوجہد کو ’لاحاصل قرار دے کر ترک‘ کر دینے کی۔ چنانچہ اسلامی بینکاری کی اسلامیت کے ضمن میں مجوزین اور ناقدین کی ایک اکثریت کے درمیان اختلاف کی بنیاد یہ نہیں کہ بینکاری اصولاً اسلامی ہو ہی نہیں سکتی بلکہ یہ رہی ہے کہ ’مروجہ ‘ اسلامی بینکاری ’کتنی اسلامی‘ ہے۔ مجوزین کے نزدیک مروجہ اسلامی بینکاری میں موجود ’اسلامیت کی مقدار‘ اس نظام کو اسلامی کہنے کے لیے بہت کافی ہے جبکہ ناقدین کے خیال میں مروجہ نظام میں ابھی تک ’مطلوبہ اسلامیت‘ پیدا نہیں کی جاسکی۔ گویا ناقدین بھی اس مفروضے کو قبول کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی خرابی ہے، وہ ’مروجہ‘ اسلامی بینکاری میں ہے، لہٰذا کوئی ایسی ’غیر مروجہ‘ اسلامی بینکاری بھی ممکن ہے جو ان خرابیوں سے پاک ہوگی۔ مجوزین اور ناقدین اسلامی بینکاری کی ایک اکثریت کے درمیان یہ قدر مشترک اس لیے پائی جاتی ہے کہ دونوں گروہ درج بالا مفروضہ مقدمات کو قبول کرتے ہیں۔ 
اس کے برخلاف ناقدین کا دوسرا گروہ وہ ہے جس کے خیال میں بینکاری اپنے مقاصد اور عمل دونوں لحاظ سے غیر اسلامی شے ہے اور اس کی اسلامیت ناممکن ہے۔ چونکہ اس گروہ اور مجوزین کے مقدمات ہی میں بنیادی فرق ہے، لہٰذا ان دونوں کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں اور دونوں کی بحث کا حاصل ’مروجہ اسلامی بینکاری کی اصلاح‘ نہیں بلکہ اس جدوجہد کی ’بقا و عدم ‘ کا ہے، یعنی مجو زین کے نزدیک اسے جاری رہنا چاہیے جبکہ ناقدین کے خیال میں یہ جدوجہد احیائے اسلام کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہے، لہٰذا اسے لازماً ترک کرنا ہوگا۔ ناقدین اسلامی بینکاری کے دونوں گروہوں کا مجوزین سے اختلاف کرنے میں نوعیت اختلاف کا فرق درحقیقت اس بنا پر ہے کہ اسلامی بینکاری کا تنقیدی مطالعہ کرتے وقت تین سطحوں پر گفتگو کرنا ممکن ہے : 
۱۔ اسلامی و سودی بینکاری کا تطبیقی جائزہ: یعنی یہ سمجھنے کی کوشش کرنا کہ آیا اسلامی بینک اور سودی بینکوں کے مقاصد میں کیسا تعلق ہے، کیا یہ دونوں کسی ایک ہی نظام زندگی (سرمایہ داری) کے مقاصد حاصل کرنے کے دو مختلف وسائل ہیں یا ان کے مقاصد میں کوئی تفریق موجود ہے۔ اس بحث میں اسلامی بینکاری کو جزوی طور پر نہیں بلکہ ایک بڑے نظامہائے زندگی کے ایک پرزے کے طور پر جانچ کر یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آیا اس طریقہ کار سے مقاصد الشریعہ کا حصول ممکن ہے بھی یا نہیں۔ گویا یہاں گفتگو کا محور ’جزو‘ نہیں بلکہ ’کل‘ ہوتا ہے۔
۲۔ اسلامی بینکاری کے امکانات کا جائزہ: یعنی یہ تجزیہ کرنا کہ آیا موجودہ نظام بینکاری کو اسلامیانے کا کوئی طریقہ ممکن بھی ہے یا نہیں۔ اس تجزیئے میں یہ بحث کی جاتی ہے کہ بینکنگ اصلاً کیا ہے؟ کیا واقعی بینک ایک زری ثالث (financial intermediary) ہوتا ہے جیسا کہ مجوزین اسلامی بینکاری کا خیال ہے؟ اگر اس کی حقیقت اس کے علاوہ کچھ اور ہے تو کیا اسے اسلامی بنانا ممکن ہے؟ 
۳۔ اسلامی بینکاری کے طریقہ کاروبار کا فقہی جائزہ: اس سطح پر جزواً جزواً یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسلامی بینک جو زری سروسز اور پراڈکٹس (Financial products and services) مہیا کررہے ہیں، وہ قواعد شریعہ کی شرائط پر پورا اترتی ہیں یا نہیں۔ اس تجزیئے میں اسلامی اور مروجہ بینکاری نظام کا اس اعتبار سے تطبیقی موازنہ بھی کیا جاتا ہے کہ آیا واقعی اسلامی بینک موجودہ بینکاری نظام سے علیحدہ کوئی کام کربھی رہے ہیں یا محض ’نئی بوتل میں پرانی شراب‘ والا معاملہ ہے۔ گویا یہاں بحث کا مرکزی نکتہ ’جزو‘ ہوتا ہے۔ ناقدین کی وہ اکثریت جو اپنے مقدمات میں مجوزین کے مماثل ہے، درحقیقت پہلی دونوں سطحوں سے سہو نظر (by pass) کرتے ہوئے اپنی تنقید کی بنیاد اس تیسری سطح پر رکھتی ہے۔ گویا مجوزین اور ناقدین کی اس اکثریت کے درمیان قدر مشترک تنقید کی اول دو نوں سطحوں کو نظر انداز کرنا ہے۔
اسلامی بینکاری بطور ایک ’کل‘، یعنی اس کے مقاصد کے شرعاً باطل ہونے کی بحث پر راقم الحروف نے دو الگ مضامین تحریر کیے ہیں جن کی تفصیلات وہاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ (۱) ز یر نظر مضمون کا نفس موضوع اسلامی بینکاری پر تنقید کی دوسری سطح پر بحث کرنا ہے، یعنی یہاں ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ آیااپنے عمل کے اعتبار سے بینک کی اسلام کاری ممکن ہے یا نہیں؟ ہم دیکھیں گے کہ مجوزین (اور ناقدین کی ایک اکثریت) بینکنگ کے جس تصور کو بنیاد بنا کر اس کی اسلام کاری ممکن سمجھتے ہیں (یا اس پر تنقید کرتے ہیں)، درحقیقت وہ تصور بینکنگ ہی سرے سے غلط ہے، گویا ان کی دلائل کی عمارت ہی بے بنیاد ہے۔ مجوزین کے خیال میں بینک محض ایک زری ثالث (financial intermediary) ہے جس کا کام بچتوں اور سرمایہ کاری میں تعلق پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں موجودہ بینکنگ کی ’اصل خرابی ‘ یہ ہے کہ اس تعلق کے قیام کے لیے وہ ’سود‘ کا راستہ اختیار کرتی ہے، لہٰذا اگر اس کے طریقہ کار کی اصلاح کر کے اس تعلق کو سود کے بجائے ’شرکت و مضاربت‘ وغیرہ کے اصولوں پر قائم کردیا جائے تو بینک کو کلمہ پڑھانا ممکن ہے۔ مگر ہم دیکھیں گے کہ بینکنگ کا یہ تصور درست نہیں اور نہ ہی بینکنگ کو شرکت وغیرہ کے اصولوں پر چلانا ممکن ہے۔ بینکنگ کو درست طور پر نہ سمجھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجوزین مسئلے کی اصل حقیقت تک پہنچ نہ سکے اور اس ظاہر بینی کا نقصان یہ ہوا کہ سرمایہ داری کے سب سے بڑے ادارے یعنی بینک کو اسلامی لبادہ اوڑھادیا گیا۔ چنانچہ اسلامی بینکاری پر تنقید کے درج بالا ڈھانچے کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ مجوزین اسلامی بینکاری دوہری غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں: 
  • ایک طرف جب وہ احیائے اسلام کے لیے ’سودی بینکنگ کا متبادل کیا ہے‘ کا سوال اٹھا کر اس کا حل پیش کرنے کا بیڑا اٹھاتے ہیں تو اپنے مقاصد کے اعتبار سے ایک غلط سوال اٹھا کر اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ (مجوزین کا سوال کیونکر غلط ہے؟ اس کا تعلق تنقید کی اول سطح سے ہے ) ۔
  • اور دوسری طرف اس کا متبادل دینے کی کوشش میں بھی وہ پوری تحقیق سے کام لیے بغیر ’بینکنگ کیا ہے‘ کا ایک غلط جواب دے کر اپنی عمارت قائم کرتے ہیں۔ (گویا ظلمت بعضہا فوق بعض)۔ دوسرے لفظوں میں مجوزین کا سوال اور جواب دونوں ہی غلط ہیں۔ 
مجوزین کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سرمایہ داری کو فطری انسانی تقاضوں کا ارتقا سمجھتے ہیں اور اسی لیے وہ ہر سرمایہ دارانہ ادارے کی اسلام کاری ممکن سمجھتے ہیں۔ (۲) مجوزین کا عمومی طریقہ کار یہ ہے کہ وہ بینکاری نظام میں جاری لین دین کی ’مخصوص شکلوں‘ (transactions forms) کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر وہ لین دین جس ’معاشی ماحول اور حالات ‘ میں ہورہی ہیں، اس سے یکسر سہو نظر کرتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امرکی ہے کہ اس معاشی ماحول (economic environment) کا درست تجزیہ کرنے کی کوشش کی جائے جس کے اندر بینک کا وجود ممکن ہے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ آیا اس معاشی ماحول کو ختم کردینے کے بعد بھی بینکاری ممکن رہتی ہے یا نہیں، نیز کیا اس معاشی ماحول کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنا ممکن ہے یا نہیں۔ 
بینک کی اسلامیت کا امکان ثابت کرنے کے لیے دو شرائط کا پورا ہونا لازم ہے: 
۱) یہ ثابت کرنا کہ fractional reserve banking اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والانظام زر شرعاً جائز ہے۔
۲) بینک کے سود کو شرکت و مضاربت کے اصولوں سے تبدیل کرنا ممکن ہے۔
ہم دیکھیں گے کہ اسلامی بینکار دونوں میں سے پہلی شرط سے کلیتاً سہو نظر کرتے ہوئے بحث کا سارا رخ ’سود‘ کو ’نفع‘ سے تبدیل کردینے کی طرف موڑ دیتے ہیں جبکہ اس دوسری بحث کی نوبت تب آتی ہے جب پہلی شرط پوری ہونا ممکن ہو (جو کہ ہم دیکھیں گے کہ ممکن نہیں ہے)۔ درحقیقت پہلی شرط کا تعلق اس معاشی ماحول سے ہے جس میں بینکاری ممکن ہوپاتی ہے، لہٰذا اس مضمون میں اسی پہلو سے متعلق تفصیلات واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ 
اپنے مضمون کو ہم تین حصوں میں تقسیم کریں گے۔ پہلے حصے میں مجوزین اسلامی بینکاری کا نظریہ بینکنگ بیان کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ہم پاکستان میں اسلامی بینکاری کے سرخیل مولانا تقی عثمانی صاحب کے نظریات کو بنیاد بنائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ہم علم معاشیات کی روشنی میں مجوزین اسلامی بینکاری کے نظریہ بینکنگ کی علمی بنیادیں و فکری پس منظر واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ دوسرے حصے میں مجوزین اسلامی بینکاری کے نظریہ بینکنگ کی بنیادی خامیاں نیز بینکنگ کا مختصر تاریخی ارتقاء بیان کرکے درست نظریہ بینکنگ کی وضاحت کی جائے گی۔ اس تجزئیے کے بعد آخری حصے میں بینکاری نظام کی اسلامیت اور اس کے امکانات کا مختصر جائزہ پیش کرکے دفاع بینکاری کی چند دلیلوں کا جواب دیا جائے گا۔ وما توفیقی الا باللہ 

۱) مجوزین اسلامی بینکاری کے نظریہ بینکنگ کی فکری بنیادیں 

مجوزین اسلامی بینکاری اوپر بیان کردہ جس تصور بینکنگ کو بنیاد بنا کر بینک کی اسلام کاری ممکن سمجھتے ہیں، وہ درحقیقت علم معاشیات کے نیو کلاسیکل مکتبہ ہائے فکر سے ماخوذ ہے (۳) جو سرمایہ دارانہ معیشت کو ایک Barter اکانومی کے طور پر سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مکتبہ فکر کے مطابق معاشی لین دین میں زر ایک غیر فعال (neutral) سیال کے طور پر کام کرتا ہے، نیزبینک محض بچتوں اور سرمایہ کاری میں توازن پیدا کرنے کا ایک ادارہ ہے۔ گویا ان مفکرین کے خیال میں بینکنگ ’بچتیں سرمایہ کاری کو جنم دیتی ہیں‘ (savings create loan model) کے اصول پر کام کرتی ہے۔ اس نکتے کی تفصیل سے قبل ہم مولانا تقی عثمانی صاحب کی کتاب ’اسلام اور جدید معیشت و تجارت‘ سے ان کا نظریہ بینکاری واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ 

۱.۱: مجوزین کا نظریہ زر و بینکاری 

مولانا کا نظریہ بینکنگ درج بالا تصور کی ہو بہو تصویب ہے۔ (۴) چونکہ نظریہ زر و بینکنگ باہم مربوط تصورات ہیں، لہٰذا پہلے ہم مولانا کا نظریہ زر بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ مولانا تقی عثمانی صاحب زر کی تعریف اس طرح فرماتے ہیں: 
’’جو چیز آلہ مبادلہ (exchange of goods) کے طور پر استعمال ہوتی ہو اور وہ قدر کا پیمانہ (unit of account) ہو اور اس کے ذریعے مالیت کو محفوظ کیا جاتا (store of value) ہو، اسے زر کہتے ہیں۔‘‘ (ص: ۹۵) 
پھر نوٹ کی فقہی حیثیت پر مختلف نظریات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس نقطہ نظر کہ ’نوٹ قرض کی رسیدیں ہیں‘ کو رد کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’صحیح نقطہ نظر یہ ہے کہ نوٹ رسید نہیں بلکہ خودمال ہیں، سونے چاندی کی طرح ثمن حقیقی نہیں بلکہ ثمن عرفی ہیں۔‘‘ (ص: ۱۰۴-۱۰۶) اس سے معلوم ہوا کہ مولانا تقی عثمانی صاحب کے نزدیک مروجہ رائج زر جسےfiat money کہتے ہیں، بنیادی طور پر قرض کی رسید نہیں بلکہ آلہ مبادلہ اور ثمن عرفی ہے۔ پھر مولانا بینکاری کی بحث اس تعریف سے شروع کرتے ہیں: 
’’بینک ایک ایسے تجارتی ادارے کا نام ہے جو لوگوں کی رقمیں اپنے پاس جمع کرکے تاجروں، صنعت کاروں اور دیگر ضرورت مندافراد کو قرض فراہم کرتا ہے۔‘‘ (ص: ۱۱۵) 
’’بینک عوام کی بچتوں کو یکجا جمع کرکے تاجروں اور صنعت کاروں کو سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔‘‘ (غیر سودی بینکاری: ص ۳۱) 
’’بینک ..... لوگوں کی منتشر بچتوں کو یکجا کرکے انہیں صنعت و تجارت میں استعمال کرنے کا ذریعہ بنتا ہے ..... بینک کی حیثیت محض ایک ایسے ادارے کی ہے جو روپے کا لین دین کرتا ہے۔‘‘ (ص: ۱۳۳ -۱۳۴) 
ان اقتباسات سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ اولاً مولانا تقی عثمانی صاحب کے نزدیک بینک کا بنیادی مقصد سرمایہ کاروں (investers) اور بچت کرنے والوں (savers) کے درمیان تعلق پیدا کرنا ہوتا ہے۔ دوئم بینک محض زر کی لین دین (exchange of money) سر انجام دینے کا ذریعہ ہے۔ پھر مولانا کھاتوں (deposits) کی مختلف اقسام (کرنٹ اکاؤنٹ، سیونگ اکاؤنٹ، فکسڈ اکاؤنٹ) کا تعارف کرانے کے بعد فرماتے ہیں کہ جب ان ڈپازٹس سے بینک کے پاس سرمایہ جمع ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ بینک بھی اپنا ابتدائی سرمایہ لگا دیتا ہے تو اس تمام سرمایے کو درج ذیل طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے : 
۱۔ سرمایے کا ایک حصہ سیال شکل میں اسٹیٹ بینک کے پاس جمع کرادیا جاتا ہے ۔
۲۔ بینک کچھ سرمایہ اپنے پاس رکھتے ہیں تاکہ کھاتے داروں کے مطالبات پورے کرسکیں ۔
۳۔ اس کے بعد بینک کئی وظائف ادا کرتے ہیں، مثلاً تمویل (financing)، درآمدات و برآمدات میں ادائیگی کی سہولت فراہم کرنا، تخلیق زر ۔ (ص: ۱۱۶ ) 
اس تفصیل سے یہ اہم بات معلوم ہوئی کہ مجوزین کے نزدیک بینک پہلے بچتیں جمع کرتا ہے اور پھر انہیں قرض پر دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بینک ’بچتیں قرضوں کا باعث بنتی ہیں‘ کے اصول پر کام کرتا ہے۔ اس مقام پر یہ تضاد بھی نوٹ کرلینا چاہیے کہ ایک طرف تو مولانا تقی عثمانی صاحب بینک کا کام یہ بتاتے ہیں کہ ’بینک محض زر کی لین دین کرتا ہے‘ مگر ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ ’بینک کے وظائف میں تخلیق زر بھی شامل ہوتا ہے‘۔ ظاہر ہے اگر بینک محض زر کی لین دین (exchange of money) کرتا ہے تو تخلیق زر (creation of money)کسی بھی طرح اس کے وظائف میں شامل نہیں ہوسکتا، کیونکہ تخلیق زر کسی بھی طرح ’زر کی لین دین‘ میں شامل نہیں کیا جاسکتا ، اور اگر بینک تخلیق زر کا باعث بنتا ہے تو بینک کی یہ تعریف درست نہیں کہ وہ محض زر کی لین دین کرتا ہے۔ اس تضاد کو رفع کرنے کی ذمہ داری مجوزین کے ذمہ ہے۔ ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ مجوزین کے اس تضاد کی وجہ ان کا بینکاری نظام اور تخلیق زر کی اصل حقیقت کو درست طور پر نہ سمجھ پانا ہے۔ المختصر مجوزین کے نظریہ زر و بینکاری کو ہم تین نکات میں سمو سکتے ہیں: 
i۔ موجودہ دور میں رائج شدہ زر ’آلہ مبادلہ ‘ (means of exchange) ہے جسے شرعاً ثمن عرفی کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے ۔
ii۔ بینک سرمایہ کاروں اور بچت کرنے والوں کے درمیان تعلق پیدا کرتا ہے، یعنی بینک محض زر کا لین دین سرانجام دیتا ہے۔ اس بات کو علم معاشیات کی اصطلاح میں یوں کہا جائے گا کہ بینک اصلاً ایک financial intermediary (ترسیل زر کے ثالث ) کا کردار ادا کرتا ہے ۔
iii۔ بینک ’بچتیں قرضوں کا باعث بنتی ہیں‘ کے اصول پر کام کرتا ہے ۔
بینکاری کا یہ روایتی تصور درج ذیل تصویر میں دکھایا گیا ہے جس کے مطابق بینک فرد الف (عموماً صارفین) سے رقم وصول کر کے فرد ب (عام طور پر سرمایہ کار) کو قرض فراہم کرتاہے۔ اس کے بدلے بینک ب سے چند فیصد سود لے کر اس سود کا ایک حصہ الف کو دے دیتا ہے اور سود کی وصولی و ادائیگی کا یہ فرق اس کی آمدنی ہوتی ہے۔ مجوزین کے اسلامی بینک کا ماڈل شکل نمبر ۲ میں دکھایا گیا ہے۔ 

۱.۲: مجوزین اور نیوکلاسیکل اکنامکس کے نظریات کا تعلق 

اب ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ مجوزین اسلامی بینکاری کا درج بالا نظریہ بینکاری درحقیقت علم معاشیات کے (رد شدہ ) مکتبہ فکر نیوکلاسیکل اکنامکس نظریات کا ہو بہو چربہ ہے۔ نیوکلاسیکل اکنامکس پورے معاشرے کو ایک مارکیٹ کے طور پر دیکھتی ہے جہاں اپنی ذاتی اغراض کی تکمیل میں مصروف افراد اشیاء کی لین دین کے لیے دوسرے افراد کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہیں۔ نیوکلاسیکل نظرئیے کے مطابق ایک Barter (اشیاء کی براہ راست لین دین پر مبنی) اکانومی اور monetary (زرپر مبنی) اکانومی میں اصلاً کوئی فرق نہیں، یعنی دونوں میں اشیاء کی اصل قیمتیں اور مقدار یکساں متعین ہوتی ہیں۔ ان مفکرین کے خیال میں لوگ اشیاء کی براہ راست لین دین کے بجائے زر کو اس لئے ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اشیاء کے تبادلے میں متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مثلاً سامان کے نقل و حمل میں مشکلات، طلب و رسد کا ایک ساتھ ملاپ لازم ہونا (یعنی اگر ایک شخص گندم کے بدلے مرغی لینا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ دوسرا شخص مرغی کے بدلے گندم لینے کے لیے تیار ہو) وغیرہ۔ لہٰذا زر کے استعمال سے مارکیٹ کی استعداد کار (efficiency) میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اشیاء کا تبادلہ تیز رفتاری سے ممکن ہوپاتا ہے۔ چنانچہ زر کے ذریعے ایک طرف اشیاء کا تبادلہ ہوتا ہے اور دوسری طرف ان کی قدر کی نقدی اکائیوں (monetary units) میں پیمائش ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ایک کلو گندم کی قیمت 30 روپے ہو اور ایک کلو چینی کی قیمت 60 روپے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک کلو گندم کی قدر آدھا کلو چینی جبکہ ایک کلو چینی کی قدر دو کلو گندم ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں زر کا کام اشیاء کی باہمی قدر کو نقدی اکائیوں میں بیان کرنا ہے۔ 
نیوکلاسیکل مفکرین زر کے درج بالا تصور (کہ اصلاً یہ آلہ مبادلہ ہے) سے دو اہم نتائج اخذ کرتے ہیں: 
  • اولاً یہ کہ زر ایک غیر فعال (neutral) سیال ہے، یعنی زر کے زیادہ یا کم ہوجانے سے اشیاء کی مقدار (quantities) میں کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ محض ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ بطور ایک سادہ مثال فرض کریں کسی ملک میں محض دس کلو گندم پیدا ہوئی اور 100 روپے کرنسی جاری کی گئی (۵)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ گندم کی قیمت 10 روپے فی کلو متعین ہوگی۔ اگر کرنسی کی مقدار بڑھا کر 200 روپے کردی جائے مگر گندم کی مقدار میں کوئی تبدیلی نہ آئے تو گندم کی قیمت بڑھ کر 20 روپے ہوجائے گی۔ دوسرے لفظوں میں جتنے تناسب سے زر کی مقدار بڑھائی جائے گی اتنے ہی تناسب سے قیمتوں میں بھی اضافہ ہوجائے گا ۔
  • ثانیاً زر ایک exogenous (لین دین کے عمل سے ماوراء ) عنصر ہے یعنی اسکی مقدار اشیاء کی لین دین سے کوئی تعلق نہیں رکھتی بلکہ یہ اس سے باہر اور علاوہ متعین ہوتی ہے۔ یہ سوال کہ اسکی مقدار کون اور کیسے متعین کرتا ہے نیوکلاسیکل مفکرین کے خیال میں یہ ذمہ داری ریاست (state) ادا کرتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مرکزی بینک (Central Bank) ریاست کو قرض دیتی ہے جو دو میں سے کسی ایک شکل میں ہوتا ہے: (۱) مرکزی بینک T-Bill (۶) جاری کرتی ہے جنہیں مختلف فائنانشل ادارے وغیرہ خرید تے ہیں اور اس طرح حکومت قرض حاصل کرتی ہے، (۲) مرکزی بینک براہ راست نوٹ جاری کرکے حکومت کو قرض دیتا ہے۔ دونوں صورتوں میں زر بصورت قرض تخلیق ہوتا ہے (۷)۔ اکثر و بیشتر یہ قرض حکومت کا مالیاتی خسارہ (fiscal deficit) پورا کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ درحقیقت آج جسے زر قانونی (legal tender or fiat money) کہا جاتا ہے وہ یہی قرضہ ہے (۸)۔ دھیان رہے کہ مرکزی بینک T-Bills اور نوٹوں کی صورت میں یہ قرضہ کسی حقیقی اثاثے کی بنیاد پر نہیں بلکہ بلا کسی عوض تخلیق کرتا ہے نیز یہ قرضہ کسی بھی چیز کی ملکیت (ownership) کی رسید یا دعوی (claim) نہیں ہوتا یعنی جس شخص کے پاس یہ نوٹ موجود ہے مرکزی بینک اسے کچھ بھی ادا کرنے کا پابند نہیں ہوتا بلکہ ان کی حیثیت محض ’قانونی دستاویز‘ کی ہے جسے ریاست ’بذریعہ قانونی جبر‘ لین دین کے عمل کے لیے قابل قبول بناتی ہے (۹)۔ 
اوپر ذکر کیا گیا کہ اکثر و بیشتر حکومتیں اپنا مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے نوٹ (fiat money) چھاپ کر جاری کرتی ہیں۔ جیسا کہ درج بالا بحث سے واضح ہواکہ نیوکلاسیکل مفکرین کے مطابق اگر زر کی مقدار میں اضافہ کردیا جائے تو اس کے نتیجے میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے (۱۰)۔ قیمتوں میں اضافے سے زر کی قوت خرید کم ہوجاتی ہے۔ نتیجتاً عام لوگ جو حکومت کے شائع کردہ نوٹ استعمال کرتے ہیں ان کی قوت خرید کم ہوجاتی ہے اور اس کمی کے برابر اصل اشیاء و خدمات حکومت کو منتقل ہوجاتی ہیں۔ زر کی مقدار بڑھنے سے بوجہ افراط زر جو قوت خرید زر استعمال کرنے والے فرد سے زر تخلیق کرنے والے ایجنٹ کی طرف منتقل ہوتی ہے اسے افراط زر ٹیکس (inflation tax) کہا جاتا ہے۔ (اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے، کیونکہ ذیل میں ہم اسے زیر بحث لائیں گے)۔ 
اب تک نیوکلاسیکل نظریہ زر بیان کیاگیا اب ہم اس سے اخذ ہونے والا نظریہ بینکنگ واضح کرتے ہیں۔ نیوکلاسیکل مفکرین کے خیال میں بینک کا بنیادی کام بچتوں کو یک جا کرکے کاروباری حضرات کی سرمایہ کاری کے لیے فراہم کرنا ہے یعنی اس کا کردار بچت کرنے والوں اور سرمایہ کاری کرنے والوں کے درمیان زری ثالثی (financial intermediary) کا ہے ۔ اس تصور بینکنگ کے خدوخال درج ذیل ہیں (۱۱): 
الف: لوگوں کی بچتوں کو قرض پر دینے سے ’پہلے ‘ ڈپازٹ کی صورت میں جمع کیا جاتا ہے۔ بینک کے پاس ڈپازٹ تب آتے ہیں جب کوئی شخص اپنی بچت بینک کے پاس جمع کراتا ہے۔ بینک ان بچتوں کو سرمایہ کاری کے لیے بطور قرض (۱سلامی بینکاری کی اصطلاح میں بطور بیع) فراہم کرتا ہے ۔
ب: معاشی توازن (macroeconomic equilibrium) قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ بچتیں سرمایہ کاری کے برابر ہوں (۱۲)، چونکہ بینک بچتوں اور سرمایہ کاری کے درمیان واسطے کا کام کرتے ہیں لہٰذا بینکاری نظام کا ’درست طرزعمل‘ پورے معاشی عمل کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔
ج:بینکنگ کا درست طرز عمل یہ ہے کہ وہ ’بچتوں سے زائد قرضے جاری نہ کرے‘، یعنی اس کے مجموعی قرضے اسکی مجموعی بچتوں سے زیادہ نہ ہوں۔ جب کبھی بینک اس اصول کی خلاف ورزی کرے گا تو وہ پورے معاشی عمل کو عدم توازن سے دوچار کرے گا۔
د:اگر بینک اس اصول پر کابند رہے تواس کے عمل سے زر کی مقدار میں بحیثیت مجموعی کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ 

حواشی

۱۔ اسلامی بینکاری پر نظاماتی حوالے سے تنقید کے لیے دیکھیے راقم الحروف کے مضامین: 
  • ’اسلامی معاشیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز‘ ، ماہنامہ الشریعہ اگست تا اکتوبر ۲۰۰۸ 
  • ’سودی بینکاری کے فلسفہ اسلامی متبادل کا جائزہ ‘ ، مضمون مکمل مگر اشاعت کا منتظر ہے 
اس ضمن میں پروفیسر محمد امین صاحب کا مضمون ’اسلامی بینکاری کی شرعی حیثیت: ایک اصولی بحث‘ بھی لائق مطالعہ ہے۔ دیکھئے ماہنامہ محدث، شمارہ ستمبر- اکتوبر ۲۰۰۹، لاہور۔ اس کے علاوہ ماہنامہ ساحل کراچی میں بھی اس موضوع پر قیمتی مواد موجود ہے ۔
۲۔ مجوزین کس طرح تمام سرمایہ دارانہ محرکات اور اداروں کی اسلام کاری کرتے ہیں، اس کی تفصیلات مولانا تقی عثمانی صاحب کی کتاب ’اسلام اور جدید معیشت و تجارت‘ میں دیکھی جا سکتی ہیں جس کا تجزیہ راقم نے اپنے مضمون ’اسلامی معاشیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز‘ میں پیش کیا ہے ۔
۳۔ اسلامی بینکاری کے مجوزین علماء کی تحریروں سے مانوس قاری شدت کے ساتھ یہ تاثر لیتا ہے کہ جب خالصتاً دینی مسائل پر ان علماء کی کتب کا مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ علم کا کوئی بحر بیکراں ہے جو ایک طرف اسلاف کی کتب کا وسیع مطالعہ رکھتا ہے تو دوسری طرف علم و حکمت کے موتی بکھیرنے میں بھی ید طولیٰ رکھتا ہے، مگر جونہی ان علماء کی ان کتب کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جو دور جدید کے معاشی یا فائنانشل نظاموں سے متعلق ہیں تو حقیقت کچھ یوں عیاں ہوتی ہے گویا یہ سب باتیں کسی سے سن کر یا دوسرے اور تیسرے درجے کے مصنفین کی کتابوں سے پڑھ کر اور حق سمجھ کر لکھ دی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ علماء کرام روایتی مکتبہ فکر پر کی جانے والی تنقیدات اور جدیدنظریات سے واقف نہیں ہوتے۔
۴۔ درحقیقت نظریہ بینکنگ ہی نہیں بلکہ جس چیز کو ’اسلامی معاشیات‘ کے نام پر فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ سب نیوکلاسیکل (یا لبرل) اکنامکس ہی کا چربہ ہے۔ چونکہ اسلامی معاشیات کی حیثیت نیوکلاسیکل اکنامکس کے محض ایک فٹ نوٹ (foot-note) کی سی ہے، لہٰذا یہ نیوکلاسیکل نظریہ زر و بینکاری کو مفروضے کے طور پر قبول کرنے پر مجبور ہے۔
۵۔ زر ، اشیاء کی قیمتوں اور ان کی مقدار کا تعلق جس مساوات سے ظاہر کیا جاتا ہے، اسے Quantity Theory of Money کہتے ہیں ۔ یہ مساوات درج ذیل ہے: 
M x V = P x Y
یہاں M سے مراد زر کی رسد  (money supply)۔ V سے  Velocity of money۔ P سے قیمتوں کا اشاریہ (price level)۔ اورY سے مجموعی پیداوار (output or GDP) ہے۔ نیوکلاسیکل مفکرین کے خیال میں Y (مقدار پیداوار)کا انحصار رسد سے متعلق عناصر پر ہوتا ہے لہذا زر کی رسد بڑھانے سے یہ غیر متبدل رہتا ہے۔ اسی طرح V کی مقدار بھی ایک عرصے تک غیر متبدل رہتی ہے، لہٰذا اس مساوات سے ظاہر ہے کہ اگر V اور Y کی مقدار تبدیل نہ ہو اور M میں اضافہ کردیا جائے تو اس کا نتیجہ صرف P یعنی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ مضمون کی مثال میں V کی مقدار ’ایک ‘ فرض کی گئی ہے ۔
۶۔ T-Bill ایک قلیل المدت فائنانشل دعوی ہوتا ہے جو مرکزی بینک حکومت کے لیے قرض پر رقم کے حصول کے لیے جاری کرتا ہے ۔
۷۔ دونوں میں فرق یہ ہوتا ہے کہ T-Bills کے ذریعے حاصل کردہ قرض پر سود کی شرح زیادہ ہوتی ہے جبکہ نوٹوں پر واجب الاداء سود نہایت کم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ IMF وغیرہ حکومتوں پر یہ دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ نوٹ چھاپنے کے بجائے T-Bills وغیرہ کے ذریعے قرض حاصل کریں کیونکہ زیادہ سود کی ادائیگی حکومتوں کو کم قرض لے کر زر کی رسد میں کم اضافہ کرنے پر مجبور کرے گی ۔
۸۔ نیوکلاسیکل نظریات میں زر کی رسد کو درج ذیل مساوات کی صورت میں ظاہر کیا جاتا ہے: 
M(t) = M(t-1) + G - T - [Bg(t) - Bg(t-1)]
 یہاں M سے مراد زر کی رسد، G سے حکومتی اخراجات، T سے ٹیکس وصولیاں اور Bg سے سرکاری بانڈز ہیں (t اور t-1 سے مراد موجودہ اور پچھلا سال ہے)۔ اس مساوات سے عین واضح ہے کہ زر کی رسد سے مراد وہ حکومتی اخراجات ہیں جو حکومت ٹیکس وصولیوں کے بغیر قرض پر مبنی زر سے پورا کرتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ مولانا تقی عثمانی صاحب اپنی کتاب ’اسلام اور جدید معیشت و تجارت‘ میں زر قانونی کی بات تو کرتے ہیں مگر اس چیز کا کوئی ذکر نہیں کرتے کہ یہ قرض ہوتا ہے ۔
۹۔ نیوکلاسیکل مفکرین کا یہ خیال کہ سرمایہ دارانہ (یعنی قرض پر مبنی ) زر کسی فطری ارتقا کی پیداوار ہے ایک جھوٹا دعویٰ ہے، بلکہ یہ لعنت معاشروں پر بذریعہ ریاستی جبر اور نظام بینکاری مسلط کی جاتی ہے۔ نوعیت و ارتقاء زر پر نیوکلاسیکل مفکرین کے خیالات کے لیے دیکھیے Menger کا مضمون
 On the Origins of Money 
۱۰۔ نیو کلاسیکل اکنامکس کے جدید (مثلاً کنیزین) نظریات میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ زر میں اضافہ اشیاء کی مقدار میں اضافے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اس صورت میں اشیاء کی قیمتوں اور مقدار دونوں میں کتنا اضافہ ہوگا، اس کا انحصار Elasticity of the supply of goods (رسد کی لچک ) پر ہے، اگر رسد مکمل طور پر غیر لچک دار ہو (جیسا کہ روایتی نیوکلاسیکل مفکرین کا خیال ہے کہ وہ قلیل اور طویل دونوں مدتوں میں ہوتی ہے) تو زر کا نتیجہ صرف و صرف افراط زر ہوتا ہے 
۱۱۔ دیکھئےHayek کی کتاب Prices and Production (1935) یا Money and Banking کی کوئی سی کتاب جیسے The Economics of Money, Banking and Financial Markets by Frederic Mishkin 
۱۲۔ saving-investment equilibrium درحقیقت نیوکلاسیکل macroeconomics میں کسی معیشت کی حالت توازن بیان کرنے کی ایک اہم مساوات ہے، یعنی کوئی معیشت اس وقت حالت توازن میں ہوتی ہے جب وہاں بچتیں سرمایہ کاری کے برابر ہوں ۔
(جاری)

مکاتیب

ادارہ

(۱)
عزیزنا الوفی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قرأت مقالتکم فی فرصۃ یسیرۃ۔ أرید أن ألفت أنظارکم إلی الامور التالیۃ الناشءۃ عن الفکرۃ التی قدمتم إلی الجمہور۔
۱۔ لا یجوز للمسلمین أن یقوموا ضد العدو الغاشم مہما کانت الظروف والاحوال إذا لم یکن لدیہم الاستعداد الکامل۔
۲۔ الحرکات الجہادیۃ المعاصرۃ لا علاقۃ لہا بالجہاد وبالتالی ہذا العمل إضاعۃ للنفوس والمال لا یترتب أی أثر علی الامۃ الاسلامیۃ بل ہو ضار للمسلمین لأن العصابات لا تقوم مقام الخلیفۃ أو الإمام۔
۳۔ ہناک مصطلح جدید من حضرتکم، ألا وہو ’’کلاسیکل فقہ‘‘۔ أخی العزیز! بون شاسع بین الفقہ الکلاسیکی وبین الفقہ الاسلامی۔ الفقہ الاسلامی مستورد ومستنبط من المنابع الاسلامیۃ وہما القرآن والسنۃ۔ أما الفقہ الکلاسیکی، بما یسمی ’’روایتی فقہ‘‘، فمستنبط وماخوذ من آراء الناس وأعرافہم، لا علاقۃ لہا بالقرآن والسنۃ، وإن کان ہناک بعض القواعد تتوافق عشوائیا مع القرآن والسنۃ کالاقدار العالمیۃ (Universal Truth) مثل الحمیۃ، الحق، الملک، التصرف للمالک، الخیار۔ ولکن الفقہ من حیث المجموع مرتبط بالاحکام القرآنیۃ والسنۃ النبویۃ۔لذا أری أن ہذا المصطلح خطیر جدا یجب الحذر منہ۔
۴۔ ہل ہناک ’’إمام المسلمین‘‘ فی العالم الاسلام الذی یقوم باداء مہمات المسلمین؟ جمیع من یسمون أنفسہم بأئمۃ المسلمین أو لڈراۂم ہم عملاء الاستعمار الغربی أو الشیوعی۔ فما رأیکم فی الاحوال الراہنۃ؟
۵۔ ما رأیکم حول تحریر الأراضی المسلمۃ من أیدی الکفار وما ہو المقیاس للإستعداد؟ ہل قام أبو بصیر بإقامۃ منظمۃ إرہابیۃ بإذن الرسول علیہ السلام أم قام من عند نفسہ ورأیہ؟
أنصح لک: قبل أن تطبع الکتاب وأن یوضع الکتاب علی المکاتب التجاریۃ، قدم الکتاب إلی العلماء الراسخین حتی لا یکون جہدک ہباء ا منثورا۔
محمد رویس خان الأیوبی
میر پور۔ کشمیر الحرۃ
(۲)
برادر عزیز مولانا حافظ محمد عمار خان ناصر صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
اہل علم کی کئی محافل میں احقر سے الشریعہ کی خصوصی اشاعت بیاد امام اہل السنۃ کی مندرجہ ذیل عبارت کے بارے میں استفسار ہوا ہے:
’’وہ (امام اہل السنۃ) نزول مسیح کو ایک اعتقادی مسئلہ قرار دے کر اس کا انکار کرنے والے کو کافر کہتے تھے، جبکہ حضرت صوفی صاحب کی رائے اس سے مختلف تھی۔‘‘ (ص ۷۱۹)
نیز صفحہ ۳۸۱  میں افتخار تبسم صاحب کے حوالے سے جو بات نقل کی گئی ہے اور اس کے متعلق آپ نے جو توجیہ کی ہے، وہ درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ حضرت صوفی صاحب نے تفسیر معالم العرفان فی دروس القرآن ج ۵ ص ۶۴۷ میں بڑی وضاحت کے ساتھ فرمایا ہے:
’’عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نزول کا عقیدہ بنیادی عقیدہ ہے۔ اہل حق میں سے اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ متواتر اور صحیح احادیث اس کثرت سے ہیں کہ ان کا انکار کفر ہے۔ ایسا شخص اسلام سے خارج سمجھا جائے گا۔‘‘
نیز ’’مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے علوم وافکار‘‘ ص ۷۳ میں لکھتے ہیں:
’’عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور رفع الی السماء اور نزول، یہ اہل اسلام کے نزدیک اتفاقی عقائد ہیں۔ یہود ونصاریٰ میں البتہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ مسئلہ حیات ونزول مسیح علیہ السلام امت کے جمیع طبقات کے درمیان ایک مسلمہ مسئلہ ہے اور یہ اعتقادی مسئلہ ہے۔ اس میں تشکیک پیدا کرنا ازحد غلط اور گمراہ کن بات ہے۔ قرآنی آیات میں اورصحیح اور صریح احادیث مبارکہ میں اس کی مکمل تشریح موجود ہے۔ حضرت حکیم الامت امام شاہ ولی اللہؒ اور ان کے تمام پیروکار اور علماء دیوبند کا متفقہ عقیدہ ہے اور مولانا سندھیؒ کا بھی یہی عقیدہ ہے۔‘‘ 
ہم نے اسباق، دروس اور خطبات کے علاوہ کسی نجی محفل میں بھی اس کے خلاف نہیں سنا۔ قرین قیاس یہ ہے کہ تبسم صاحب صحیح طور پر انگیخت نہیں کر سکے جس سے شکوک وشبہات کا باب وا ہوا ہے۔
(مولانا حاجی) محمد فیاض خان سواتی
مہتمم مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
(۳)
عزیز القدر عامر سلمہ اللہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے مزاج اور صحت بعافیت ہوں گے اور معمولات بخیر وخوبی جاری ہوں گے۔
منکرین حدیث کے ساتھ انٹرنیٹ پر جاری جس مباحثے کا آپ نے ذکر کیا ہے، میرے لیے اس میں براہ راست شریک ہونا بوجوہ ممکن نہیں، البتہ اس حوالے سے اپنے فہم کے مطابق چند بنیادی نکات عرض کر دیتا ہوں۔ ان کی روشنی میں امید ہے کہ آپ اس مباحثے میں درست موقف کی موثر ترجمانی کر سکیں گے۔
جو حضرات قرآن مجید کے ابلاغ وتبلیغ سے ہٹ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریعی مقام کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں، میرے خیال میں ان کی غلطی حسب ذیل نکات کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے:
۱۔ ایک مسلمان اصلاً واساساً اور براہ راست قرآن پر ایمان نہیں لاتا، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاتا ہے، کیونکہ قرآن کو خدا کا کلام ماننے سے پہلے اس کو پیش کرنے والی ہستی کو اللہ کا پیغمبر ماننا ضروری ہے۔ پیغمبر کے واسطے کے بغیر خدا کے کلام تک رسائی یا اس پر ایمان کی کوئی صورت ممکن نہیں۔
۲۔ کسی انسان کو پیغمبر ماننے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ خدا کی طرف سے اس کا دین لوگوں تک پہنچانے پر مامور ہے اور وہ جو چیز بھی اس اعلان کے ساتھ لوگوں کو دے گا کہ یہ خدا کا دین ہے، اسے ماننا لازم ہوگا۔ چنانچہ وہ خدا کے نازل کردہ کلام کے طور پر کوئی چیز پیش کرے یا اس کے علاوہ کوئی حکم یا ہدایت یہ کہہ کر لوگوں کو دے کہ یہ خدا کا دین ہے، ہر صورت میں اس کے پیش کردہ دین کو ماننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے۔ فرض کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رسالت کا اعلان کرنے کے بعد کلام الٰہی کے طو رپر قرآن کو سرے سے پیش ہی نہ کرتے اور اس کے بجائے محض یہ فرماتے کہ میں خدا کا رسول ہوں اور اس حیثیت سے تمھیں فلاں بات کا حکم دیتا اور فلاں بات سے روکتا ہوں تو بھی اس کی اطاعت بدیہی طور پر لازم ہوتی، کیونکہ اس کے بغیر آپ کو ’’رسول‘‘ ماننے کا کوئی مطلب ہی نہیں بنتا۔ دوسرے لفظوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقلاً اور مطلقاً واجب الاطاعت ہونا قرآن پر ایمان لانے سے مقدم ہے، وہ اس پر موقوف نہیں کہ اس کے حق میں قرآن سے دلیل پیش کی جائے۔ یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مستقلاً مطاع ہیں، قرآن سے بھی ثابت ہے، لیکن اس پر موقوف نہیں۔ فرض کر لیں کہ پورے قرآن میں کہیں یہ بات مذکور نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت مطلقاً فرض ہے، تب بھی صورت حال میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، کیونکہ یہ چیز قرآن پر ایمان سے پہلے آپ کو ’’رسول‘‘ مان کر الگ سے تسلیم کی جا چکی ہے۔ قرآن، رسول کے مقام ومنصب کی تعیین کے لیے ماخذ نہیں۔ وہ تو خود کلام الٰہی کی حیثیت سے اپنا استناد تسلیم کرانے میں اس کا محتاج ہے کہ اسے رسول کی تائید وتصدیق حاصل ہو۔ 
البتہ اگر قرآن نے کسی مقام پر رسول کی ذمہ داری اور منصب اور اس کے دائرہ کار کی کوئی ایسی تحدید بیان کی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبر اللہ کا کلام لوگوں تک پہنچانے کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رکھتا تو یقیناًوہ زیر بحث آنی چاہیے۔ ہمارے فہم کے مطابق قرآن میں کوئی ایسی تحدید بیان نہیں ہوئی۔ اگر کسی آیت یا بعض آیات سے کسی کو شبہ ہوا ہے تو ان مقامات کو سیاق وسباق کی روشنی میں الگ الگ زیر بحث لانا چاہیے۔
۳۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح امت کو قرآن دیا ہے، اسی طرح قرآن کے علاوہ بھی بہت سے احکام اور ہدایات بطور دین دی ہیں اور ان کی پابندی امت پر لازم ٹھہرائی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دین کی اس دوسری صورت کی نسبت اسی طرح یقینی ہے جس طرح قرآن کی نسبت یقینی ہے۔ امت جس طرح اپنے دور اول سے آج تک قرآن کو اس حیثیت سے مانتی آئی ہے کہ یہ اللہ کا وہ کلام ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیا ہے، اسی طرح قرآن سے الگ دین کے ایک مفصل عملی ڈھانچے اور اس کی تعبیر وتشریح کے ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو بھی اسی حیثیت سے اور اسی یقین کے ساتھ مانتی چلی آ رہی ہے کہ اللہ کے رسول نے یہ چیزیں بھی دین ہی کی حیثیت سے امت کو دی ہیں۔ بعض جزوی امور کی نسبت آپ کی طرف درست ہونے یا نہ ہونے میں یقیناًاہل علم کے مابین اختلاف ہوتا رہا ہے، لیکن اصولی طور پر قرآن سے باہر بھی دین کا پایا جانا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت کو یقینی سمجھنا امت کے اہل علم کے ہاں ہمیشہ متفق علیہ اور اجماعی رہا ہے۔ اس لحاظ سے قرآن کے اندر اور قرآن سے باہر پائے جانے والے ’’دین‘‘ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثبوت یکساں درجے کا ہے۔ اگر قرآن سے باہر پائے جانے والے دین کی نسبت اور ثبوت میں امت کا اجماع اور تعامل قابل اعتبار نہیں تو وہ قرآن کی نسبت او ر ثبوت کے معاملے میں بھی قابل اعتماد نہیں ہو سکتا۔ ہذا ما عندی والعلم عند اللہ
محمد عمارخان ناصر
(۴)
بخدمت جناب مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
ماہنامہ الشریعہ کا ضخیم ’’امام اہل سنت‘‘ نمبر باصرہ نواز ہوا۔ محسوس ہوتا ہے کہ ایک ایک سطر خوش رنگ شگوفوں اور گلِ تر سے لکھی گئی ہے۔ اہل علم مشک وخستن اور صندل وعنبر سے اس کی تائید لکھیں گے۔ راقم الحروف نے بھی اپنے نحیف وناتواں قلم کے اشہب کو جولانی دی ہے اور تبصرہ لکھا ہے جو ماہنامہ ’’طائفہ منصورہ‘‘ اور ماہنامہ ’’فقاہت‘‘ میں شائع ہوگا۔ آپ کو بھی ارسال کر دوں گا۔ آنکھوں میں جچا تو زہے نصیب ورنہ ڈسٹ بن تو ہے ہی۔ 
آج ہی اپنی مسجد سے واپس گھر پہنچا تو اکتوبر ونومبر کا خوبصورت شمارہ آنگن کو روشن کیے ہوئے تھا۔ بھوکے کو کیا چاہیے؟ کھانا۔ بس مطالعہ شروع کیا اور ۱۶۸ صفحات پر مشتمل رسالہ پڑھ ڈالا۔ ماشاء اللہ، آپ کے حوصلوں کا بانکپن جوان ہے۔ آپ کے مضامین میں بعض اقتباسات سے بدہضمی سی ہوتی ہے، تاہم آپ کی نثر نگاری اور اسلوب تحریر کا قتیل ہوں۔ ’’دینی مدارس کا نظام: بین الاقوامی تناظر میں‘‘ کے زیر عنوان ڈاکٹر ممتاز احمد صاحب کی گفتگو پڑھ کر تارے رقص کرنے لگے۔ اللہ، اللہ! باریک عنوان پر ایسا گھاگ اور بے لاگ تبصرہ متاثر کیے بغیر نہ رہ سکا۔ کلمہ حق میں مولانا زاہدالراشدی کا اداریہ کافی فکر انگیز تھا۔ 
مکاتیب میں سید مہر حسین بخاری کا یہ کہنا کہ ’’تحریف قرآن کی لچر اور بیہودہ روایات تو بعض کتب اہل سنت میں بھی موجود ہیں‘‘ بذات خود لچر اور بے ہودہ پن ہے۔ بخاری صاحب جن روایات کو تحریف کہہ رہے ہیں، وہ دراصل نسخ اور اختلاف قراء ت کی روایات ہیں۔ خود اہل سنت کے علماء نے اس کی تصریح کر دی ہے۔ نیز اہل سنت کی یہ روایات اخبار آحاد ہیں، متواتر نہیں ہیں۔ اہل تشیع تحریف قرآن کے قائل ہیں یانہیں؟ قمی، کلینی اور علامہ نوری طبرسی کی جمع کردہ تحریف قرآن کی روایات کی بنا پر کل شیعہ آبادی کو محرف قرآن ٹھہرایا جاسکتاہے یا نہیں؟ یہ ایک الگ اورمستقل بحث ہے، لیکن اس ضمن میں اہل سنت کی نسخ والی روایات کو لچر، بے ہودہ اور تحریف کہنا اہل تحقیق کا مزاج نہیں ہے۔ یہ دفاع تشیع ہی ہے جس سے بخاری صاحب انکاری ہیں۔ اسی طرح بخاری صاحب کایہ کہنا کہ راقم آثم اہل تشیع کے کفر کا قائل نہیں، یہ فتویٰ کی زبان ہے، رائے نہیں۔ لیکن چونکہ پہلے وہ لکھ آئے ہیں کہ ایک محقق شیعہ نوجوان عالم میرے دوست ہیں، اس لیے اب علمی وفکری طور پر کچھ لکھنا عبث ہے، کیونکہ ہمارے ہاں دوستی میں سب چلتا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے۔ والد گرامی کی خدمت میں سلام مسنون پیش فرما دیں۔ 
حافظ عبدالجبار سلفی 
جامع مسجد ختم نبوت، لاہور
(۵)
محترم المقام معالی الشیخ حافظ محمد عمار خان ناصرصاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ 
الشریعہ کا انتہائی جامع ومبسوط خصوصی شمارہ موصول ہوا۔ کتابت، طباعت، ترتیب وتہذیب اور عناوین کے اعتبار سے یہ ایک مثالی اور تاریخی اشاعت ہے۔ جب اس نمبرکو پہلی بار دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا اور جب اسے پڑھ لیا تو ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔ اللہ اکبر! اتنی عظیم شخصیت کے متعلق ایسی دلچسپ اور مفید معلومات اتنی کم مدت میں آپ اور آپ کے رفقاے کرام نے جمع کر کے پیش کردیں۔ میں اسے حضرت امام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی مذہبی وعلمی خدمات کا زندہ معجزہ اور کرامت کہہ سکتا ہوں اور آپ کی محنت اور کوشش کا نتیجہ کہہ کر اس کی غیرمعمولی اہمیت کوکم کرنا پسند نہیں کر سکتا۔ 
الشریعہ کی خصوصی اشاعت بیاد مولانا سرفراز خان صفدرؒ دینی، مذہبی اور ادبی رسالوں کی تاریخ میں اپنی نظیر نہیں رکھتی۔ حضرت کی شخصیت اور ان کے متعلق قلم کاروں کی بوقلمونیاں، رسالے کی ضخامت، اس کی حسین طباعت، غرض ہر ایک چیز آپ کی اور آپ کے معاونین کی خوش ذوقی، بے پناہ محبت اور اولو العزمی کا پتہ دیتی ہے۔ یہ خصوصی اشاعت ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جو آئندہ آنے والی کئی نسلوں اور مورخین کے لیے قابل قدر ماخذ کا کام دے گی۔ یہ بہت بڑا کارنامہ ہے جو آپ نے سرانجام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول ومقبول فرمائے۔ اس اشاعت کے گراں بہاہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ اس تاریخی خصوصی اشاعت کی قدر نہ کرنا پرلے درجے کی سنگدلی ہے۔ اللہ تعالیٰ الشریعہ کو آسمان صحافت کا چمکتا دمکتا آفتاب بنائے۔
راقم آثم اس خصوصی اشاعت پر آپ کو، آپ کے والد گرامی مولانا زاہدالراشدی حفظہ اللہ کو اور آپ کے رفقاے کار کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہے۔ 
ابوسفیان محمد خان محمد ی
ملکانی شریف، ضلع بدین سندھ
(۶)
محترمی جناب سید مہرحسین بخاری 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماہنامہ الشریعہ نومبر /دسمبر ۲۰۰۹ء کے شمارے میں ایک دوست نے آنجناب کا مکتوب دکھلایا جس میں چند باتیں احقر کی ناقص معلومات کے مطابق خلاف حقیقت تھیں۔ ارادہ ہوا کہ ماہنامہ الشریعہ کے ذریعے ہی آنجناب کو مطلع کیا جائے۔ امیدہے کہ اس طالب علم کی گزارشات پر غور فرمائیں گے۔ 
۱۔ آپ نے لکھا کہ ’’ راقم آثم حضرت مولانا صوفی عبدالحمیدخان سواتی ؒ کی طرح اہل تشیع کے کفر کا قائل نہیں ہے‘‘، حالانکہ حضرت صوفی صاحبؒ کے خطبات ودروس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اہل تشیع کی تکفیر فرماتے تھے۔ چند عبارات پیش خدمت ہیں: 
۱لف۔ ’’غرضیکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کا ایمان اس قدر پختہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود جو لوگ ان کے ایمان میں شک کرتے ہیں اور ان کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرتے ہیں، وہ یقیناًمنافق، زندیق اور کافر ہیں۔‘‘ (معالم العرفان ۱۷/۲۱۶)
ب۔ ’’ ہم تو صحابہ کرامؓ کی توہین کرنے والوں کو بھی ملعون ہی سمجھتے ہیں۔ روافض کے ساتھ ہمارا یہی جھگڑا ہے۔ خوارج کے ساتھ بھی ہمارا یہی تنازعہ ہے۔ اہل بیت کی توہین کرنے والا بھی مردود ہے۔ کسی بھی صحابی کی توہین کرنے والا مومن نہیں ہو سکتا۔‘‘ (خطبات سواتی، ۴/۳۶)
ج۔ ’’شیعہ حضرات کی کتب میں ان کا یہ نظریہ موجود ہے کہ خلفاے ثلاثہ مسلمان ہی نہیں تھے، صرف چوتھے خلیفہ حضرت علی ہی کامل ایمان تھے۔ یہ درحقیقت کفر کی بات ہے جو آدمی کو ایمان اور اسلام سے ہی خارج کر دیتی ہے۔‘‘ (خطبات ۵/۴۴)
د۔ اذ یقول لصاحبہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:
’’ صاحب سے مراد حضرت ابوبکر صدیق ہیں۔ گویا آپ کی صحابیت نص قرآنی سے ثابت ہے، اس لیے حضرت صدیق کی صحابیت کے منکر کے خلاف علماء حق کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں، کیوں کہ یہ نص قرآنی کا انکار ہے۔‘‘ ( معالم العرفان ۸/۳۷۳)
ہ۔ ’’نبی کی بیویوں کی توہین کرنے والا شخص یا تو منافق ہے یا بے ایمان۔ رافضی لو گ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی توہین کے مرتکب ہوئے، حالانکہ ان کی براء ت کا ذکر ہم سورۂ نور میں پڑھ چکے ہیں۔‘‘ ( معالم العرفان ۱۶/۲۰۵ بحوالہ ’’رافضی کیا ہیں؟‘‘ جمع وترتیب مولانا عبد القدوس خان قارن مدظلہ)
۲۔ آنجناب رقم طراز ہیں کہ ’’ اگر چہ بعض کتب شیعہ میں تحریف قرآن کی روایا ت پائی جاتی ہیں، لیکن شیعہ عقائد کی کتابوں میں وہ تحریف قرآن کے قائل نہیں‘‘، حالانکہ شیعہ عقائد کی ایک کتاب میں تو یوں لکھا ہے:
’’قرآن کے متعلق ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے سامنے موجود ہے، حرف بحرف خدا کا کلام ہے لیکن یہ موافق تنزیل نہیں۔ اس میں مکی اورمدنی سورے ملے ہوئے ہیں، حالانکہ اول مکی ہونے چاہیے تھے، پھر مدنی۔ سورۃ اقرا جو سب سے پہلی سورۃ تھی، وہ پارہ آخر میں ہے اور ’’اکملت لکم دینکم‘‘ جو آخری آیت تھی، وہ سورۃ مائدہ میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آیات کی ترتیب میں بھی فرق ہے، بعض سوروں سے آیات کم بھی کر دی گئی ہیں۔‘‘ (عقائد الشیعہ ص ۳۸ مولفہ ادیب اعظم مترجم اصول کافی سید ظفر حسین امروہوی) 
۳۔ آنجناب فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مجددالف ثانیؒ پر خود بھی کفر کا فتویٰ لگایا گیا ہے، وہ کیسے دوسروں کو کافر کہہ سکتے ہیں؟ ‘‘ حالانکہ حضرت امام اہل السنۃ ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے ’’رد روافض‘‘ میں رافضیوں کے مسلمان نہ ہونے کی تین وجوہ بیان فرمائی ہیں: 
(۱) وہ اس قرآن کو اصلی قرآن نہیں مانتے اور ظاہر بات ہے کہ جو شخص موجودہ قرآن کو اصلی قرآن نہ مانے، وہ کیسے مسلمان ہو سکتا ہے؟
(۲) مہاجرین اور انصار صحابہ کو کافر کہتے ہیں، جبکہ رب تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا ہے: اولئک ہم المومنون حقا، یہ پکے مومن ہیں۔ اور پارہ ۲۶ میں فرمایا: لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ۔ البتہ راضی ہوگیا اللہ ان ایمان والوں سے جنھوں نے آپ کی بیعت کی درخت کے نیچے۔ 
(۳) یہ ائمہ کو معصوم مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اماموں پر وحی نازل ہوتی ہے۔ تو پھر نبی اور امام میں کیا فرق ہوا؟ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بارہ نبی مانتے ہیں، یہ ختم نبوت کا انکار ہوا۔ (ذخیرۃ الجنان، ۸/۱۲۸) 
آنجناب کے مکتوب گرامی کے حوالے سے یہ چند گزارشات ذہن میں آئی تھیں جو اخلاص کے ساتھ عرض کر دی ہیں۔ خداوند قدوس تادم آخر اکابرین اہل السنۃ والجماعۃ علماء دیوبند کے دامن سے وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم 
حسین احمدمدنی 
متعلم دارالعلوم مدنیہ، بہاولپور 
(۷)
محترم جناب مدیر الشریعہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ماہنامہ الشریعہ کے نومبر دسمبر کے شمارے میں حافظ محمد زبیر صاحب کا مضمون باصرہ نواز ہوا۔ حافظ صاحب کے مضمون میں بہت سی باتیں قابل غور ہیں۔ بندہ ان میں سے چند اہم نکات پر بحث کرنا ضروری سمجھتا ہے۔
۱۔ حافظ صاحب نے مولانا فضل محمد صاحب کے مضمون کو علماء دیوبند کامتفقہ موقف قرار دیا ہے جو کہ حقائق سے چشم پوشی یا علماء دیوبند کی غلط ترجمانی کے مترادف ہے۔ یہ درست ہے کہ مولانا فضل محمد صاحب کے مضمون کے لہجے میں تندی وتیزی تھی، لیکن حافظ صاحب کو ان کے جواب میں حقائق کو اصل روپ میں پیش کرنا چاہیے تھا۔ انھوں نے ایسا نہیں کیا جس کی وجہ سے ان کے مضمون کی ثقاہت کو نقصان پہنچا اور ایک پوری جماعت کی دل آزاری ہوئی۔
۲۔ حافظ صاحب نے پاکستانی حکومت کی تکفیر، اس کے خلاف خروج اور خود کش حملوں کی تحریک کو اصلاً دیوبندی تحریک کہا ہے جو کہ دیوبندی فکر ومزاج رکھنے والوں پر محض الزام ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ حافظ صاحب جیسی باشعور شخصیت کے قلم سے ایسا غیر محتاط تبصرہ کیسے نکل گیا۔ علماء دیوبند نے ہمیشہ ملک وقوم کے مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھا۔ ملک میں خصوصاً قبائلی علاقوں میں موجودہ شورش وفساد میں اکثر وہ جماعتیں شامل ہیں جو باوجود اپنے آپ کو علماء دیوبند کی طرف منسوب کرنے کے، علماء دیوبند سے بعض عقائد ومسائل میں شدید اختلاف رکھتی ہیں۔ مثلاً سوات کے مولوی فضل اللہ، باجوڑ کے مولوی فقیر محمد اور باڑہ کے منگل باغ وغیرہ کا تعلق اشاعۃ التوحید والسنۃ (پنج پیر) سے ہے جن کا علماء دیوبند سے اختلاف کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس کے باوجود علماء دیوبند نے تمام اختلافات کوپس پشت ڈال کر وسعت فکری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس آگ کو بجھانے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ اہل حدیث کی ایک بڑی جماعت (شاہ جی گروپ) باجوڑ میں حکومت کے خلاف لڑ رہی ہے۔ یہ گروپ بعض مسائل (طالبان) میں بھی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا تھے، مگر کسی دیوبندی مولوی یا سیاست دان نے یہ نہیں کہا کہ یہ نہیں کہا کہ یہ اہل حدیث یا اشاعۃ التوحید والسنۃ کا مسئلہ ہے۔ بے چارے دیوبندی تو یہی صدا بلند کرتے رہے:
میں خود غرض نہیں، میرے آنسو پرکھ کے دیکھ
فکر چمن ہے مجھ کو، غم آشیاں نہیں
۳۔ حافظ صاحب کو شکوہ ہے کہ علماء دیوبند نے دہشت گردی کے مسئلے میں کوئی بنیادی کردار ادا نہیں کیا۔ غالباً حافظ صاحب تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں، ورنہ یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مفتی نظام الدین شامزئ سے لے کرمولانا شیخ حسن جان مدنی تک نابغہ روزگار شخصیات کی شہادت کا اصل سبب ملک میں موجودہ شورش وفساد کے خلاف ان کا بنیادی کردار تھا۔ کیا حافظ صاحب اپنی جماعت کے کسی بھی فرد کا نام بتا سکتے ہیں جس کو اس مسئلے کے حل میں بال برابر بھی نقصان اٹھانا پڑا ہو؟
۴۔ حافظ صاحب کو ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی ایک دو پریس کانفرنسیں تو نظر آتی ہیں، لیکن یہ نظر نہیں آتا کہ جب سوات میں حکومت نے آپریشن کا ارادہ کیا تو معروف دیوبندی عالم دین مولانا رشید احمد سواتی نے سوات کے دو لاکھ لوگوں کو طالبان اور حکومتی آپریشن کے خلاف احتجاج کے لیے نکالا جس کے نتیجے میں حکومت نے مولانا سواتی کو اشتہاری مجرم قرار دے دیا اور کئی ہفتے قید وبند میں رکھا اور ان کے مدرسے کو بلڈوز کیا گیا۔
۵۔ حافظ صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ علماء دیوبند کی سیاسی نمائندگی کرنے والی تمام شخصیات نے طالبان کے طرز عمل کی شدید مخالفت کی اور موجودہ صورت حال میں حکومت کے خلاف خروج کو ناجائز کہنے کے باوجود حکومت کی ناقص پالیسیوں کو صورت حال کے بگاڑ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ پشاور جیسی حساس جگہ میں شیعہ، اہل حدیث اور جماعت اسلامی وغیرہ کے قائدین کو جمع کر کے ایک لاکھ کے قریب عوام پر مشتمل کانفرنس منعقد کرنے والے صرف دیوبندی علماء تھے۔ اس کانفرنس کا اعلامیہ ریکارڈ پر موجود ہے جس میں ایک طرف مسلح جدوجہد کو ناجائز ٹھہرایا گیا ہے اور دوسری طرف ڈرون حملوں اور افواج پاکستان کے ظلم وبربریت پر بھی انتہائی بے چینی کا اظہار کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ کانفرنس لاہور کے کسی آڈیٹوریم یا قرآن اکیڈمی کی وسیع مسجد میں نہیں، بلکہ پشاور جیسے خطرناک علاقے میں منعقد ہوئی۔
۶۔ حافظ صاحب کا خیال ہے کہ علماء دیوبند ایک طرف تو مختلف فروعی مسائل میں الجھ کر ایک دوسرے کے خلاف کتابیں لکھ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وقت کے اہم مسئلے یعنی ملک کی موجودہ بد امنی کی صورت حال سے اغماض برت رہے ہیں۔ حافظ صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ جن فروعی مسائل کا حوالہ آپ نے دیا ہے، وہ بغیر بحث وتحقیق اور تصنیف وتالیف کے حل نہیں ہوتے، جبکہ موجودہ صورت حال کا واحد حل جدوجہد ہے نہ کہ تحریریں اور مقالہ جات۔
آخر میں حافظ صاحب سے مخلصانہ گزارش ہے کہ وہ جماعت یا مسلک کے کسی ایک فرد کی تحریر کو پوری جماعت کاموقف نہ سمجھیں اور نہ اس کی وجہ سے پوری جماعت کو معتوب بنائیں۔ ان کے مضمون سے یقیناًدیوبندی جماعت کی دل آزاری ہوئی ہے جس پر ان کو معذرت کرنی چاہیے اور حالات کی درست تحقیق پیش کرنی چاہیے۔ 
یاد رہے کہ سرحد میں جتنے بھی دیوبندی یا دوسرے مکاتب فکر کے علما نے مصالحت کی کوشش کی، ان تمام حضرات کو مشق ستم بنایا گیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
ابن مدنی 
ایڈیٹر اذان حق
(۸)
محترم جناب حافظ محمد زبیر صاحب! 
السلام علیکم 
الشریعہ نومبر/دسمبر ۲۰۰۹ء کے شمارے میں ’’مولانا فضل محمد صاحب کے جواب میں‘‘ آپ کا مضمون پڑھا جس میں آپ نے بہت سی ادھر ادھر کی باتیں جمع فرما کر خواہ مخواہ بحث کو طول دیا ہے۔ اسی مضمون کے حوالے سے چند سوالات آپ کی خدمت میں پیش ہیں:
۱۔ آپ نے تحریر فرمایاہے کہ : ’’ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ عمامہ باندھ کر، داڑھی چھوڑ کرا ور شلوار ٹخنوں سے اوپر کر کے جہاد کا نعرہ لگا نے والے ہر شخص کی اندھا اور بہرا ہو کر حمایت نہیں کرنی چاہیے‘‘۔
جناب من! آپ کا ارشاد سر آنکھوں پر، لیکن مولانا فضل محمد صاحب نے یہ دعویٰ کیا ہی کب تھاکہ عمامہ باندھ کر، داڑھی چھوڑ کر اور شلوار ٹخنوں سے اوپر کر کے جہاد کا نعرہ لگانے والے ہر شخص کی اندھا اور بہرا ہو کر ضرورحمایت کرنی چاہیے؟ آپ نے خود ہی ایک دعویٰ ان کے سر منڈھ دیا اور خود ہی اس کا جواب دینا شروع کر دیا۔ اگر ناراض نہ ہوں تو اپنے اس زریں اصول میں چند الفاظ کا اضافہ بھی فرما لیں، وہ یہ کہ جس طرح جہاد کا نعرہ لگانے والے ہر شخص کی حمایت نہیں کرنی چاہیے، اسی طرح جہاد کا نعرہ لگانے والے ہر شخص کی اندھا اور بہرا ہو کر مخالفت بھی نہیں کرنی چاہیے اور چند غلط افراد کی آڑ لے کرمجاہدین فی سبیل اللہ کی مخالفت پر بھی کمربستہ نہ ہونا چاہیے۔ 
آپ نے فرمایا ہے کہ ’’امریکہ بدمعاش نے افغانستان میں لڑنے والے طالبان کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔ اس طرح اس نے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں، اپنی جان بھی بچالی ہے اور پاکستان کو کمزور بھی کیا ہے۔‘‘
حافظ صاحب! آپ کی رائے قطعاً درست نہیں۔ امریکہ بدمعاش نے طالبان کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا نہیں کیا، بلکہ امریکہ بدمعاش نے پاکستان کے بدمعاش حکمرانوں کو طالبان کے خلاف کھڑا کیا ہے۔ تعجب ہے کہ ایک طرف آپ ان طالبان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : ’’ ان قبائلیوں کا یہ دفاعی جہاد اور ان کا اپنے اوپر حملہ کرنے والے مقاتل ومحارب سیکیورٹی فورسز کو قتل کرناہمارے نقطہ نظر میں بالکل درست تھا۔ اب تک ہمارے علم کی حد تک یہ ایک دفاعی جہاد ہے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ اگر ان طالبان کو امریکہ نے مسلمانوں کے خلاف کھڑا کیا ہے توان کا جہاد دفاعی کیسے ہے؟ کیا محترم حافظ صاحب اس گتھی کو سلجھا سکیں گے؟ کیا جہاد امریکہ کے کھڑا کرنے سے بھی ہوتا ہے؟ 
آپ نے امام باڑوں اورمساجد پر حملوں سے متعلق مولانا فضل محمد صاحب کی رائے نقل فرما کر بڑے شاہانہ جلال اور طنطنے سے فرمایاہے کہ 
’’یہاں آپ کی دینی حمیت اور غیرت کو کیا ہو گیا ہے؟ حافظ زبیرنے تو ایک علمی رائے کا اظہار کیا تھا اور آپ نے اسے راندۂ درگاہ، ملحد اور ظالم تک قرار دے دیا اور یہاں جہاد کے نام پر معصوم شہریوں کو شہید کیا جا رہا ہے اور آپ اس کو بس ’’ناجائز‘‘ کہہ کر گزر جاتے ہیں۔ کیوں نہیں کہتے کہ ایسے خود کش حملہ آور’’ مردار‘‘ ہیں اوریہ جہاد نہیں ’’فساد فی الارض ‘‘ ہے؟‘‘
بالکل بجا فرمایا۔ مولانا فضل محمد صاحب کوچاہیے کہ ہر فتویٰ لکھنے سے پہلے اس کے الفاظ کی منظوری حافظ زبیر سے لے لیاکریں کہ عالی جاہ! کس کس مقام پر صرف ناجائز لکھنا چاہیے اور کون کون سے مقام ایسے ہیں جہاں’’ مردار، حرام‘‘ اور فساد وغیرہ کے پر جلال الفاظ ضروری ہیں۔ لیکن حافظ صاحب! کیا میں آپ سے پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ جب مولانا فضل محمد صاحب ایک کام کو ناجائز کہتے ہیں تو آپ کو اسے ’’حرام‘‘ قرار دینے بلکہ انہی سے ’’حرام‘‘ قرار دلوا نے پرہی کیوں اصرار ہے؟ اور آپ کے سینے میں وہ کون سی آگ بھڑک رہی ہے جسے ’’مردار‘‘ وغیرہ الفاظ استعمال کیے بغیر سکون ہی نہیں ملتا؟ اور اگر ان ظالموں کومردار کہنا ایسا ہی ضروری ہے تو وزیرستان اور لال مسجد پر حملہ کرنے والوں کے بارے میں آپ نے کیوں یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ وہ ’’مردار ‘‘ ہیں، حرام کام کر رہے ہیں؟ کیا محترم حافظ زبیر صاحب اس بات پر غور فرمانا پسند فرمائیں گے؟
حافظ صاحب موصوف نے ’’وما کان المومنون لینفروا کافۃ‘‘ کی آیت سے علماے کرام کے جہاد سے استثنا پر ناراض ہوتے ہوئے نرالی بات ارشاد فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں کہ 
’’طائفۃ جمع کا صیغہ ہے اور تین سے جمع شروع ہو جاتی ہے۔ پس مولانا کے نقطہ نظر کے مطابق جامعہ بنوری ٹاؤن کے تین اساتذہ کے علاوہ بقیہ پر تو جہاد فرض عین ہو جاتا ہے‘‘۔
سبحان اللہ! اس آسمان کے نیچے ایسے ایسے لطائف اور شگوفے بھی پھوٹتے ہیں۔ محترم طائفۃ جمع کاصیغہ نہیں، بلکہ اسم جمع ہے۔ اس کے معنی جماعت اور گروہ کے ہیں اوراس کی جمع طائفات اور طوائف آتی ہے۔ اگر یہ جمع کا صیغہ بھی ہوتا تو بھی اس سے آنجناب کامندرجہ بالا استدلال انتہائی مضحکہ خیز ہوتا، کیونکہ جمع کم از کم تین کے لیے استعمال ہوتی ہے، مگر اس سے تین سے زیادہ افراد پر جمع کا اطلا ق کیسے ممنوع ہوا؟ کیا تین سے زیادہ افراد پر جمع کا اطلاق نہیں ہو سکتا؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قبیلے والوں سے یہ فرمایا تھاکہ تم میں سے صرف اور صرف تین آدمی حصول علم دین کے لیے نکلیں، خبردار کوئی چوتھا نہ نکلنے پائے ورنہ جمع کااطلاق غلط ہو جائے گا؟ 
حضرت! اس آیت سے علماء وطلبہ کرام کا فرضیت جہاد سے استثنا بالکل درست ہے، کیوں کہ پاکستان کی ہر قوم اور ہر قبیلہ ایک ’’فرقہ‘‘ ہے اور ہرفرقے میں سے چند منتخب لوگوں کا ایک ’’طائفۃ‘‘ حصول علم دین کے لیے مدارس کی خاک چھانتا ہے۔ اور پھر آپ نے یہ کیسے فرض کرلیا کہ دیوبند کے ساڑھے بارہ ہزار مدارس کے ۳۰ لاکھ طلبہ میں سے کوئی بھی جہاد کے لیے نہیں جاتا؟ آپ کا کیا خیال ہے کہ جو جہاد پر جایا کرے، وہ اشتہار دیا کرے یا لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کر کے جایا کرے؟ اگر آپ زمینی حقائق دیکھنے سے معذور ہیں تو حسن ظن سے کام لینے میں آخر کیا قباحت ہے؟
آنجناب نے قبائلیوں کی پاک فوج کے خلاف جنگ کو دفاعی جہاد قرار دیا ہے اور پاکستان میں ہونے والے فدائی حملوں کو ناجائز قرار دیا ہے۔ کیوں؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ پاکستان میں فوجیوں پر ہونے والے حملے اسی ’’دفاعی جہاد‘‘ کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہیں؟ مجاہدین وزیرستان نے مسلسل کئی سال کی ظالمانہ بمباریوں، آپریشنوں اور ڈرون حملوں پر مجبور ہو کر جنگ کی حکمت عملی کو تبدیل کیا ہے اور اس کا دائرہ کار وزیرستان کی پہاڑیوں سے پنجاب کے شہروں تک پھیلا دیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ وزیر ستان میں موجود فوج پر حملہ کرنا جائز اور پنجاب میں ناجائز ہے؟ کیا یہ فوج ان کے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہے؟ اگرنہیں تو وزیرستان میں فوج کے قلعوں اور کیمپوں پر ہونے والے حملے کیونکر جائز ہیں جبکہ ان میں موجود فوج بھی بالفعل جنگ میں شریک نہیں؟ وہاں جائز اور یہاں ناجائز ہونے کی وجہ؟ پاکستانی فوج نے تو وتیرہ بنا رکھا ہے کہ آئے روز ان پر وحشیانہ بمباریاں اور ڈرو ن حملے کرتے رہتے ہیں۔ کیا وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں؟ کیوں؟ 
آپ نے فرمایا ہے کہ: ’’ جب ایک خود کش حملہ آور کو معلوم ہے کہ اس کے حملے سے پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ عام شہری بھی شہید ہوں گے تو کیا اب بھی یہ قتل عمد نہیں ہے؟‘‘ 
محترم! آپ کی حالت قابل رحم ہے۔ ذرا بتلائیے کہ اس زمانے میں حملے کا وہ کون سا طریقہ ہے جس میں کسی بے گناہ شہری کی ہلاکت کا کوئی امکان بھی نہ ہو اور وہ کون سا ہتھیار ہے جو پھٹنے سے پہلے بے گناہوں کو تو ایک کونے میں لے جا کر کھڑا کر دے اور پھر سب گناہگاروں کے درمیان جا کر پھٹ جائے جس سے گناہگاروں کے تو پرخچے اڑ جائیں اور بے گناہ شہریوں کو خراش بھی نہ آئے؟ جناب من! کیا افغانستان اورعراق میں امریکی افواج پر ہونے والے فدائی حملوں کی زد میں بھی عام شہری نہیں آجاتے؟ ان فدائی حملہ آوروں کے بارے میں آنجناب کا کیا فتویٰ ہے؟ کیا وہ بھی قتل عمد کے سنگین جر م کی وجہ سے ملعون، جہنمی اور مغضوب علیہم ہیں؟ اگر نہیں تو پھر یہ کیوں؟ اس زمانے میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں سے تو عام شہریوں کو بالکل بچانا تو بے حد مشکل ہے۔ توآپ کا کیا مشورہ ہے کہ مجاہدین صرف ڈنڈوں اور سونٹوں سے جنگ کیا کریں؟ 
آپ نے فرمایاہے کہ : ’’ اورجب تک پاکستان میں شریعت نافذ نہیں ہوتی، اس وقت تک کشمیر کوآزاد کروا کر پاکستان سے اس کے الحاق کے لیے ہونے والے اس جہاد کو اعلائے کلمۃاللہ کے لیے ہونے والا جہاد فی سبیل اللہ قرار دینا ایک زیادتی اور خلاف واقعہ امر ہے۔ کشمیر کا موجودہ جہاد بھی جہاد ہے، لیکن جہاد آزادی ہے۔‘‘
بندہ اس بات کامفہوم بالکل بھی نہیں سمجھا۔ یہ جہاد آزادی کیا ہوتا ہے؟ اس کی کیا حیثیت ہے؟ اور کفار سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جہاد کرناکیوں جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہے؟ اور کشمیر کا یہ جہاد آزادی جائز ہے یا ناجائز؟ نیز فلسطینیوں کے جہاد آزادی کے بارے میں محترم کی کیا رائے ہے؟
آخری بات آپ کی خدمت میںیہ عرض ہے کہ موجودہ حالات میں علماء دیوبند سے آپ کا شکوہ کسی حد تک بجا ہے، لیکن اگر آپ ان کی مجبوریوں پر ایک نگاہ ڈال لیتے تو ان سے اس قدر خفا نہ ہوتے۔ اس وقت ملک میں افراتفری اور نفسانفسی کا عالم ہے۔ حکومتی پروپیگنڈا مشینری رات دن پورے زور وشور سے ان کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف ہے۔ ان کی حمایت کرنا یا ان کے موقف کو بیان کرنا حکومت سے ٹکر لینے کے مترادف ہے۔ میں خود تو ٹی وی نہیں دیکھتا، مگر سنا ہے کہ جب کسی چینل پر حکومتی مفادات کے خلاف کوئی بات دکھائی جانے لگے تو اسی وقت اس کی اسکرین آف کردی جاتی ہے۔ ضرب مومن پر کئی بار پابندی لگ چکی ہے اوراب ’’اسلام‘‘ حکومتی دباؤ کے نیچے سسک رہا ہے۔ دن رات پھیلائے جانے والے مکروہ پروپیگنڈے کی رو میں بڑے بڑے بہہ رہے ہیں۔ دیوبندی علماء کرام تک جو خبریں پہنچ رہی ہیں، وہ حکومتی ذرائع سے نشرشدہ ہیں جن پر یقین کرناحماقت ہے۔ مجاہدین کاعلماء کرام سے ملنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے کہ وہ انہیں صحیح حالات بتاسکیں اور نہ ہی علماے کرام کے لیے ہرایک پر اعتماد کرناممکن ہے۔ ایک دھند چھائی ہوئی ہے جس میں صحیح حالت کا پتہ لگانا بے حد مشکل ہے۔ اور پھر علماء کرام کواس بات کاخیال کرنا بھی ضروری ہے کہ اگر وہ عمومی فتویٰ جاری کریں توکوئی غلط گروہ اس سے فائدہ نہ اٹھائے۔ لہٰذا ان حالات میں اگر دیوبندی علماء کرام کسی نتیجے پرنہیں پہنچ پاتے یا اپنے موقف کا برسر عام اظہار نہیں کرسکتے تو انہیں مطعون کرناکوئی شرافت نہیں۔ حافظ صاحب ! اس وقت پاکستانی حکومت مجاہدین کو ملیا میٹ کرنے پر تلی ہوئی ہے اور یوں کہا جائے تو بے جانہ ہو گا کہ اس وقت ان مجاہدین کی چند غلطیوں کی یا چند ایک غلط افراد کی آڑ لے کر ان کے خلاف نفرت پھیلانا اور مضمون با زی کابازار گرم کرنا امریکہ کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔
انھی گزارشات پر اکتفا کرتا ہوں۔ گستاخی پر معذرت!
عبد الرحیم خان
زیرگی، ڈومل، بنوں
(۹)
مولانا عمار خان ناصر صاحب زیدت معالیکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج مع الخیرہوں گے۔
الشریعہ کے نومبر دسمبر کے شمارے میں جہاد کے حوالے سے آپ کا مقالہ نہایت پر مغز اور منطقی استدلال کی قوت سے بہرہ ور ہے۔ اسلوب کی ندرت، استدلال، موضوع کا پہلو دار تجزیہ غالب کے الفاظ میں ’’گنجینہ معنی کا طلسم‘‘ ہوتا ہے اور ذہن میں کسی کہنہ مشق مفکر کا تاثر ابھرتا ہے اور دینی مدارس کی خاموش فضا کے پروردہ دانش ور کا تصور کر کے شعور کے نقار خانے میں گفتہ اقبال کا زمزمہ گونجنے لگتا ہے کہ
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی
اللہ تعالیٰ آپ کی فکر ارجمند کو امت کے نفع اور آخرت میں اپنی رضا کا ذریعہ بنائے اور ا س نہج پر استوار رکھے جو اس کے ہاں فی الواقع درست ہو، اگرچہ ’متفق گردید راے بو علی با راے من‘ کامصداق نہ بھی ہو۔
سید عبد المتین کشمیری
ایم فل اسکالر، کلیہ اصول الدین
اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد
(۱۰)
محترم عزیزی محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ 
مجھے افسوس ہے کہ میں محترم استاذ گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب کی یاد میں ’’الشریعہ‘‘ کے وقیع خصوصی شمارے کے لیے تحریری شکل میں کوئی حصہ نہیں ڈال سکا۔ دیگر بے شمار لوگوں کی طرح مجھے بھی حضرت مرحوم ومغفور کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کرنے کا شرف حاصل ہے۔ میں نے ۱۴۰۳ھ کے شعبان اور رمضان میں مسجد نور میں انعقاد پذیر ہونے والے دورۂ تفسیر میں شرکت کی تھی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، اس دورے میں کوئی ساٹھ کے قریب طلبہ شامل تھے اور ان میں سے بعض کا تعلق پاکستان کے دور دراز علاقوں سے تھا۔
استاذ گرامی آیات اور سور کا ربط بڑے اہتمام سے بیان فرماتے تھے اور تشریح طلب نکات کے لیے بیضاوی سے لے کر روح المعانی تک کے حوالہ جات بیان فرماتے تھے۔ اس سے طلبہ بجا طورپر یہ محسوس کرتے کہ گویا کتب تفسیر ان کے سامنے کھول کر رکھ دی گئی ہیں۔ تمام طلبہ آپ کے قوی حافظے اور ضبط علم کے بڑے معترف تھے۔ ضعف وپیری کے باوجود حوالہ جات کے لیے آپ کی یادداشت سب کے لیے قابل رشک تھی۔ استاذ گرامی اشعار کا حوالہ بھی بکثرت دیا کرتے۔ بعض اوقات تاریخ، جغرافیہ اور فلسفے کے حوالے سے کوئی بات ہوتی تو آپ میری طرف خصوصی التفات فرماتے۔ شاید ان کی نگاہ میں، میں ان علوم سے کسی قدر آشنا تھا، حالانکہ مجلس میں بڑے بڑے صاحبان علم بھی موجود ہوتے تھے۔ بہرحال حصول علم کے وہ ایام میری زندگی کے قیمتی ترین ایام تھے۔ اولاً اس لیے کہ دن کا ایک معتد بہ حصہ مسجد میں گزرتا۔ ثانیاً کثیر اہل علم کی صحبت میسر آتی اور ثالثاً فہم قرآن کے لیے استاذ گرامی کے تبحر علمی سے فائدہ ملتا۔ 
استاذ گرامی کے تقویٰ وورع کا تو ایک جہان معترف ہے، آپ کا شمار یقیناًاللہ تعالیٰ کے مقربین میں بھی ہوتا ہے۔ اس کا واضح ثبوت آپ کی نماز جنازہ کے لیے خلق خدا کا کثیر تعداد میں حاضر ہونا تھا۔ میں نے زندگی بھر کسی جنازے پر لوگوں کا اس قدر جم غفیر نہیں دیکھا۔ ہزاروں نے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور ہزاروں حاضر ہونے کے باوجود شرکت سے محروم رہ گئے۔ میں بھی ایسے ہی محرومین میں شامل تھا۔ اس کی بڑی وجوہات بندگان خدا کا انبوہ کثیر، نقل وحرکت میں بے پناہ دقت اور جنازہ گاہ میں مزید گنجائش کا فقدان تھیں۔ اللہ تعالیٰ حاضر ہونے والے محرومین کو بھی اجر عطا فرمائے۔ آمین
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ راحتیں ارزاں فرمائے اور تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ 
ڈاکٹر محمد شریف چودھری
کوٹلی رستم، گلی 1، گوجرانوالہ
(۱۱)
محترم المقام جناب حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب
سلام مسنون مع نیاز مقرون
حضرت شیخ ؒ کے نمبر کے مضامین کے ظاہری ومعنوی حسن نے شیخ کے موفق من اللہ ہونے کی مہر ثبت کر دی ہے۔ شیخ کے نمبر نے علم کلام کو جدید انداز میں پیش کر کے ماخذ قدیم، دلائل جدید کی بنیاد فراہم کر دی ہے۔ مبارک ہو۔
نمبر میں مولانا عبد الحق خان بشیر صاحب کے مضمون نے شیخ کے علوم کی جو شرح کی ہے، وہ پوری کتاب کا متن ہے۔ آنے والا مورخ اسی ایک مختصر پر کئی مطول تیار کرے گا۔ مولانا بشیر صاحب کے مضمون سے قلمی نسبت شاید ان کے حصے میں آئی۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ! البتہ مولانا عبد الحق صاحب کے مضمون کے حوالے سے مفتی محمد عیسیٰ صاحب کے ارشاد پر عمل مفید معلوم ہوتا ہے۔
ماہنامہ الشریعہ نومبر/دسمبر میں مولانا یاسین ظفر صاحب نے مولانا مفتی محمد طیب صاحب پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اختلاف امتی رحمۃ‘‘ حدیث نہیں ہے اورمزید فرمایا کہ کسی ضعیف سند کے ساتھ بھی اس کا ذکر نہیں ملتا۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ امام بیہقی کی کتاب ’’المدخل‘‘ میں یہ روایت موجود ہے، امام زرکشی وغیرہ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے اور امام سیوطی کے ہاں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے مولانا ظفر اقبال صاحب کی کتاب ’’موضوع روایات‘‘ (شائع کردہ مکتبہ رحمانیہ) ص ۳۱ ملاحظہ فرمائیں۔
مولانا فضل محمد صاحب کے جواب میں حافظ زبیر صاحب کا مضمون عالمانہ سے زیادہ مجادلانہ ہے۔ تحقیق وانصاف کی عدالت میں دلائل کو دیکھا جاتا ہے، الزامات اہل قلم کے شایان شان نہیں ہوتے۔ 
نصرۃ العلوم، دسمبر ۲۰۰۹ء کے شمارے میں مولانا فیاض خان صاحب کا مضمون ’’جانشین امام اہل السنۃ کے ناقدین کے نام کھلا خط‘‘ بڑا اچھا ہے۔ اگر مولانا ابو الحسن علی ندویؒ زندہ ہوتے تو یقیناًفیاض صاحب کو اس پر انعام دیتے۔
(مولانا قاری) محمد عبد اللہ
سوکڑی کریم جان، بنوں

تعارف و تبصرہ

ادارہ

مجلہ ’’المصطفیٰ‘‘ کا امام اہل سنت نمبر

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی وفات کے موقع پر ملک کے متعدد جرائد نے ان کی یاد میں مختصر نوعیت کی خصوصی اشاعتیں پیش کیں، جبکہ جامعہ مدنیہ بہاولپور کے ترجمان مجلہ ’’المصطفیٰ‘‘ کی طرف سے ایک مفصل اشاعت پیش کرنے کا اعلان کیا گیا جو زیرنظر ضخیم مجلد کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس کی تیاری اور ترتیب وتدوین کا سہرا زیادہ تر ہمارے عم زاد، برادرم حافظ سرفراز حسن خان حمزہ کے سر ہے جنھوں نے بڑی محنت اور کاوش سے متنوع مضامین جمع کیے اور سلیقے سے انھیں قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔
اس اشاعت کے مندرجات کا ایک بڑا حصہ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے اہل خاندان کے معلوماتی اور تاثراتی مضامین پر مشتمل ہے اور یہی حصہ اس نمبر کی اصل زینت ہے۔ خاندان کے بزرگ اہل قلم کے علاوہ نوجوانوں میں سے برادرم ممتاز الحسن احسن اور برادرم سرفراز خان حمزہ نے اپنے تفصیلی مضامین میں حضرت کی خدمت میں گزارے ہوئے اوقات سے متعلق اپنی یادداشتیں بہت خوبی سے جمع کی ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے اکابر علما ومشائخ اور معروف اہل قلم کے مضامین کی بڑی تعداد جبکہ حضرت رحمہ اللہ کے مکاتیب اور تحریروں کا ایک مختصر انتخاب بھی شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ یہ تمام مواد حضرت رحمہ اللہ کی شخصیت، مزاج، کردار، طرز عمل اور ان کی حیات وخدمات کے مختلف گوشوں پر بھرپور روشنی ڈالتا ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت کی شخصیت اور خدمات سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے ذوق کی تسکین کے لیے اس نمبر میں بہت عمدہ لوازمہ موجود ہے۔ چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:
’’طبیعت میں ظرافت کا عنصربھی نمایاں تھا۔ تقاریر میں بسا اوقات ظرافت کا یہ عنصر سامعین کو بے حد ’’محظوظ‘‘ کرتا، لیکن عام پیشہ ور مقررین کی طرح آپ کی ’’ظرافت‘‘ خلاف حقیقت اور خلاف واقعہ نہ ہوتی تھی بلکہ اس ظرافت میں بھی آپ پورا مسئلہ سمجھا دیتے تھے۔ ایک دفعہ جمعہ کی تقریر میں ایک شخص نے چٹ لکھی کہ ’’جیب میں اگر تصویر ہو تو نماز ہوتی ہے یا نہیں؟‘‘ آپ نے ازراہ مزاح فرمایا کہ جس کو شبہ ہو، وہ اپنی جیب میں سے وہ تمام نوٹ جن پر بانی پاکستان کی تصویر ہے، مجھے دے دیں۔‘‘ (ص ۳۲، مضمون از مولانا عبد الحق خان بشیر)
’’وہ عام جلسہ، خطبہ جمعہ اور عمومی درس میں اصلاحی عنوانات پر گفتگو کرتے تھے اور بالکل سادہ لہجے میں عقیدۂ توحید کی وضاحت، سنت کی اہمیت، عام مسلمانوں کی اخلاقی اصلاح اور حلال وحرام کے مسائل پر بات کیا کرتے تھے، البتہ اختلافی سمجھے جانے والے مسائل میں سے کوئی مسئلہ درمیان میں آ جاتا تو اسے نظر انداز کرکے آگے نہیں گزر جاتے تھے، بلکہ ا س پر اپنا موقف دوٹوک انداز مین بیان کر کے ضروری دلائل کا حوالہ بھی دیتے تھے۔ حضرت امام اہل السنۃ رحمہ اللہ کے طرز عمل کا یہ پہلو عام طور پر سب حضرات کے سامنے نہیں ہوتا، اس لیے بسا اوقات الجھن پیدا ہونے لگتی ہے۔‘‘ (ص ۷۴، مضمون از مولانا زاہد الراشدی)
’’ایک دفعہ محترم جناب حاجی اللہ دتہ صاحب کے ساتھ ایک وکیل آیا جو غالباً ڈسکہ کا رہنے والا تھا۔ ان کو بیٹھک میں بٹھایا گیا اور ان کے لیے چائے تیار کی جا رہی تھی کہ اچانک بیٹھک سے حضرت کی زور دار آواز گونجنے لگی۔ میں دوڑ کر گیا تو دیکھا کہ حضرت کے ہاتھ میں کلہاڑی پکڑی ہوئی ہے اور محترم بٹ صاحب درمیان میں حائل ہیں اور وہ وکیل ایک جانب کھڑا ہے۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ بٹ صاحب کو کہہ رہے تھے کہ اس کو فوراً میری بیٹھک سے نکال دو، میں اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔ جلدی سے اس کونکال دیا گیا۔ کچھ اور حضرات بھی جمع ہو گئے اور حضرت سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ وکیل صاحب نے باتوں باتوں میں کہہ دیا کہ اسلام کو نقصان پہنچانے والے بنو امیہ ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ سارے بنو امیہ کے بارے میں ایسا نہ کہیں، اس لیے کہ اس میں حضرت عثمان اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما بھی آتے ہیں تو اس نے کہا کہ اصل تو یہی ہیں۔ اس کے ان الفاظ پر مجھے غصہ آیا اور بٹ صاحب سے کہا، اسے یہاں سے نکال دو۔‘‘ (ص ۸۳، مضمون از مولانا عبد القدوس خان قارن)
’’ایک مرتبہ مجھے خود بتایا کہ تعلیم کے زمانے میں مجھے اور صوفی کو دن رات میں صرف ایک روٹی ملتی تھی، وہ بھی بغیر سالن کے۔ میں اپنے حصے کی روٹی بھی صوفی کو دے دیتا تھا کہ یہ چھوٹا ہے، بھاگ نہ جائے۔ میں نے پوچھا کہ پھر آپ خود کیا کھاتے تھے؟ فرمایا کہ لوگ بھینسوں کو شلجم وغیرہ کے پتے ڈالتے تھے۔ وہ بچے ہوئے میں دھو کر کھا لیتا تھا۔‘‘ (ص ۲۰۳، مضمون از حافظ ممتاز الحسن خان احسن)
’’۲۰۰۲ء کے الیکشن سے قبل جب دینی جماعتوں کا اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کی شکل میں سامنے آیا تو آپ نے اس کی بھرپور حمایت اور تائید فرمائی اور باقاعدہ جمعہ میں ان کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا، حالانکہ وہ دیوبندی بھی نہیں تھا۔ بعض حضرات نے راقم کے سامنے اس سلسلے میں آپ رحمہ اللہ سے گزارش کی کہ اگر صرف اہل السنۃ والجماعۃ والے ہی سب مل جائیں اور کسی دوسرے کو نہ ملائیں تو کیا یہ بہتر نہیں تھا؟ تو آپ نے فرمایا کہ مولانا! ان کی مجبوری ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو حکومت کو بہانہ مل جاتا۔ ایک صاحب نے زیادہ الجھنے کی کوشش کی تو آپ نے ان کو خاموش کرا دیا۔‘‘ (ص ۳۰۸، مضمون از حافظ سرفراز خان حمزہ)
اس خصوصی اشاعت میں فطری طور پر حضرت شیخ الحدیث رحمہ کا منہج فکر اور مسلک ومشرب بھی زیر بحث آیا ہے اور مختلف اہل قلم نے اس کے مختلف پہلووں کو اپنے اپنے ذوق اور انداز سے واضح کیا ہے۔ اسی ضمن میں بعض تحریروں میں مولانا محمد طارق جمیل کے خیالات، مولانا محمد الیاس گھمن کا طرز عمل اور راقم الحروف کی بعض آرا بھی نقد وتبصرہ کا موضوع بنی ہیں، لیکن ’’بے لاگ احقاق حق‘‘ کی یہ روایت ہر جگہ برقرار نہیں رکھی جا سکی۔ ذرا دار العلوم کراچی کے مہتمم مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کی درج ذیل تحریر ملاحظہ فرمائیے:
’’۱۹۸۶ء عیسوی کی دہائی میں ناچیز لاہور سے سفر کر کے آپ کی خدمت میں گکھڑ منڈی خاص اس مقصد کے لیے حاضر ہوا کہ دیوبندی اوربریلوی مکاتب فکر کے درمیان جو خلیج بڑھتی جا رہی ہے، اسے کم بلکہ ختم کرنے کی راہ تلاش کی جائے۔ اس مقصد کے لیے پہلے ہی ہماری کئی ملاقاتیں مولانا مفتی محمد حسین نعیمی صاحب سابق مہتمم دار العلوم نعیمیہ لاہور، مفتی ظفر علی نعمانی سابق مہتمم دار العلوم امجدیہ کراچی، علامہ عبد المصطفیٰ ازہری سابق شیخ الحدیث دار العلوم امجدیہ کراچی اور مولانا محمد شفیع اوکاڑوی وغیرہم سے ہو چکی تھیں۔ان سب حضرات کا تعلق بریلوی مکتبہ فکر سے ہے۔ ان ملاقاتوں سے میں ا س نتیجہ پر پہنچا تھا کہ عقائد کے باب میں دونوں مکاتب فکر کا اختلاف بڑی حد تک صرف تعبیر اور الفاظ کا اختلاف ہے۔ حقیقت میں ایسا کوئی اختلاف عقائد کے باب میں نہیں ہے جس کی بنا پر ایک دوسرے کو گمراہ یا فاسق قرار دیا جائے۔ ہاں بہت سے اعمال میںیہ اختلاف ضرور ہے کہ ہم انھیں بدعت کہتے ہیں اور ان کے نزدیک وہ بدعت میں داخل نہیں۔‘‘ (ص ۳۷۴)
’’یہ تھا وہ پس منظر جس کے تحت ناچیز امام اہل السنۃ شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ سے ملاقات کرنے اور رہنمائی حاصل کرنے کے لیے گکھڑ منڈی حاضر ہوا تھا۔ حضرت نے بہت شفقت فرمائی اور جس مقصد کے لیے حاضر ہوا تھا، اس پر مسرت کا بھی اظہار فرمایا اور اس کی تائید فرمائی، لیکن طبیعت ناساز تھی۔ زیادہ گفتگو نہ ہو سکی۔‘‘ (ص ۳۷۶)
بریلوی دیوبندی اختلاف سے متعلق مفتی صاحب کا یہ تجزیہ حضرت شیخ الحدیث کے منہج فکر اور نظریات سے کتنا ہم آہنگ ہے، یہ نکتہ زیادہ محتاج وضاحت نہیں، لیکن کسی وضاحتی یا اختلافی نوٹ کے بغیر اس کی شمولیت نہ اس اشاعت کے مرتبین کو کھٹکی ہے اور نہ موصولہ مواد پر نظر ثانی کر کے اس کی منظوری دینے والے بزرگوں کو۔ اس کے وجوہ اور مصالح غالباً زیادہ ناقابل فہم نہیں ہیں۔
ص ۲۳۲ پر اسلامی ٹی وی چینل کے جواز وعدم جواز کے تناظر میں حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا موقف بیان کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ: ’’دادا جان آخر تک سختی سے ٹی وی کی حرمت کے قائل رہے اور اس بارے میں ان کا رویہ بے لچک رہا۔‘‘ یہ بات واقعاتی طور پر پوری طرح درست نہیں، اس لیے کہ حضرت رحمہ اللہ کی طرف سے ٹی وی چینل کے عدم جواز کا فتویٰ سامنے آنے کے بعد عم مکرم مولانا قاری حماد الزہراوی مدظلہ نے اس مسئلے پر ان کے ساتھ متعدد مواقع پر گفتگو کی اور یہ گزارش کی کہ جب شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے لیے تصویر بنوانے کو ایک دینی ضرورت کے تحت جائز قرار دیا جا رہا ہے کہ حج وغیرہ دینی فرائض اس پر موقوف ہیں بلکہ وفاق المدارس کے امتحانات کے لیے محض ایک عملی ضرورت کے تحت تصویر کو نہ صرف جائز بلکہ لازم قرار دیا گیا ہے تو آخر اسلام کے دفاع وتحفظ اور دین دشمن عناصر کی فکری یلغار سے نئی نسل کو بچانے کے لیے ٹی وی چینل کو کیوں عملی جواز کے دائرے میں نہیں لایا جا سکتا؟ عم مکرم کی روایت کے مطابق حضرت رحمہ اللہ نے اس پر ان سے فرمایا کہ تمہارا یہ نکتہ قابل غور ہے، اس لیے تم اپنا موقف تحریری صورت میں مولانا محمد تقی عثمانی اور مولانا سلیم اللہ خان کے پاس بھیجو اور ان کی طرف سے جو جواب آئے، اس سے مجھے آگاہ کرو۔ اس کے بعد حضرت رحمہ اللہ نے ازخود دو تین مرتبہ عم مکرم کو اس کی یاد دہانی کرائی اور تاکید کی کہ وہ اپنی تحریر جلد مذکورہ دونوں بزرگوں کی خدمت میں روانہ کریں۔ عم مکرم کی اس روایت کی روشنی میں یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ حضرت کا رویہ اس معاملے میںآخر تک ’’بے لچک‘‘ رہا۔
خصوصی اشاعت کے مضامین کا عمومی انداز اور اسلوب سنجیدہ اور باوقار ہے، لیکن بعض تحریروں کا معیار خاصا پست اور کسی مزاحیہ اسٹیج ڈرامے کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ معلوم نہیں، اہل سنت کے ایک بلند پایہ عالم اور محقق کے افکار وتحقیقات کے تعارف کے لیے اس اسلوب کو کیسے گوارا کیا گیا ہے۔
مضامین کے آخر میں خالی جگہ کو پر کرنے کے لیے حضرت رحمہ اللہ کے مختلف واقعات درج کیے گئے ہیں جو زیادہ تر ماہنامہ ’’ہدی للناس‘‘ گوجرانوالہ کی خصوصی اشاعت میں شائع ہونے والے ایک مضمون سے ماخوذ ہیں۔ بہتر تھا کہ ان کا حوالہ درج کر دیا جاتا تاکہ قارئین کے سامنے اصل ماخذ بھی آ جاتا اور صحافیانہ اخلاقیات کی بھی پاس داری ہو جاتی۔
۸۶۲ صفحات پر مشتمل یہ اشاعت دار العلوم مدنیہ، ماڈل ٹاؤن بی، بہاول پور نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۳۵۰ روپے ہے۔
(تبصرہ نگار: محمد عمار خان ناصر)

’’حدود وتعزیرات۔ چند اہم مباحث‘‘

پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل ایک اعلیٰ سطحی علمی ادارہ ہے جسے سرکاری سرپرستی حاصل ہے اور وقت کے جید علماء کرام، ماہرین شریعت وقانون اس سے وابستہ رہے ہیں۔ یہ بات اور ہے کہ پاکستان کے اہل سیاست اور اہل اقتدار جو کہ نفاذ اسلام کے سلسلے میں سنجیدہ ومخلص کبھی نہیں رہے، بلکہ نفاذ اسلام کو ایک سیاسی نعرے کے طورپر استعمال کیا گیا، اس لیے اس کونسل کی سفارشات بھی سرد خانے کی نذر زیادہ ہوتی رہی ہیں۔ 
۲۰۰۷ء میں حدود وتعزیرات سے متعلق اسلامی نظریاتی قوانین کے نفاذکے بارے میں کونسل نے اپنی ۱۰ نکاتی سفارشات پیش کی تھیں جن پر وقت کے اہل علم واصحاب رائے سے کونسل نے تبصرہ کرنے کی گزارش کی تھی۔ ان سفارشات پر تنقید، جائزہ واحتساب اور رد عمل کے سلسلے میں ایک تحریر جناب مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب نے بھی لکھی تھی جسے خود کونسل نے شائع کیا۔ زیرنظر کتاب اصلاً اسی علمی تبصرے کی توسیع شدہ صورت ہے۔
کتاب کے مصنف محمد عمار خان ناصر ایک علمی خانوادے کے چشم وچراغ ہیں۔ ان کے دادا مشہور محدث مولانا سرفرازخاں صفدرؒ ہیں جبکہ والد مولانا زاہد الراشدی بھی پاکستان کے علماء میں علمی تبحر، فکری پختگی، وسعت مطالعہ اور عصری ضرورتوں کے ادراک کے لحاظ سے اپنی نمایاں اور ممتاز شناخت رکھتے ہیں۔ محمد عمار خان ناصر معروف علمی مجلہ ’’الشریعہ‘‘ کے مدیر ہیں۔ انھوں نے اس کتاب میں شرعی احکام کے نفاذ کے حوالے سے روایتی فقہی موقف سے مختلف بعض نئی آرا وافکار پر تبصرہ بھی کیا ہے اور ان کے علمی پس منظر اور بنائے استدلال کو بھی واضح کیا ہے۔ اس زاویے سے یہ کتاب فکر اسلامی اور فقہیات کے ذخیرے میں متعدد نئے اور معرکۃ الآراء مباحث کا اضافہ کرتی ہے۔
دیباچہ، پیش لفظ اور تمہید کے علاوہ کتاب تیرہ اہم مباحث پر مشتمل ہے جن میں شرعی سزاؤں کی ابدیت، سزاؤں کے نفاذ اور اطلاق کے اصول، قصاص کے معاملے میں ریاست کا اختیار، دیت کی بحث، قصاص ودیت میں مسلم وغیر مسلم کا امتیاز، زنا، قذف، سرقہ، حرابہ، ارتداد اور توہین رسالت کی سزائیں، شہادت کا معیار اور نصاب، غیر مسلموں پر شرعی قوانین کا نفاذ، قصاص اور شہادت کے لیے غیر مسلموں کی اہلیت جیسے مباحث پر مشتمل ہے۔ مصنف نے اکثر مباحث میں فقہاء قدیم وجدید کے موافق اور ان کی آرا کے پہلو بہ پہلو بعض نئے علما ومفکرین اور ان کے خیالات بھی پیش کیے ہیں، مختلف آرا کا جائزہ لیا ہے اور بے لاگ، منصفانہ وتنقیدی محاکمہ کر کے دلائل کی روشنی میں جو پہلو یا رائے قابل ترجیح محسوس ہوئی، اس کا اظہار جرات سے کر دیا ہے۔ آخر میں ایک ضمیمہ ’’شریعت، مقاصد شریعت اور اجتہاد‘‘ بھی کتاب میں شامل کیا ہے۔
مولف کا طرز بیان سادہ رواں، اسلوب منطقی وسائنٹفک اور مجموعی اپروچ غیر جانب دارانہ اور منصفانہ ہے۔ علمی امانت ودیانت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ہر مبحث پر سیر حاصل گفتگو کرنے کی انھوں نے کوشش کی ہے اور اس میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ان کی تمام رایوں اور نتیجوں سے اتفاق کیا جائے، تاہم مولف اس لحاظ سے قابل مبارک باد ہیں کہ انھوں نے ماضی کے علمی ورثے اور فقہی ذخیرے سے استفادہ کرتے ہوئے اور اس کے مسلمہ اصولوں کو برتتے ہوئے بین الاقوامی مسائل اورمطالبات کے حل کی عملی صورتیں نکالنے کی اجتہادی کوشش کی ہے۔
فقہاء نے فساد فی الارض کے اصول کے تحت مبتدعانہ افکار کو پھیلانے والے اور اہل بدعت وزندیقوں کے لیے سزائے موت کا جواز اخذ کیا ہے، لیکن فقہا کی اس رائے پر عصر حاضر کے پس منظر میں مصنف نے بہترین محاکمہ کیا ہے۔ ان کا جامع ومختصر نوٹ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ (دیکھیے صفحہ ۱۹۸، ۱۹۹) رجم کے سلسلے میں بھی انھوں نے تمام مباحث کو اختصار وجامعیت کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ رجم کے سلسلے میں مختلف روایات اور قرآن مجید کے ساتھ اس حکم کی توفیق وتطبیق کرتے ہوئے اس ضمن میں جو قدیم وجدید علمی توجیہات پیش کی گئی ہیں، ان کا ذکر کرتے ہوئے بیشتر پر تنقید کی ہے۔ انھوں نے خود کوئی حتمی رائے نہیں دی، تاہم ان کاکہنا ہے کہ ’’اس ضمن میں اب تک جو توجیہات سامنے آئی ہیں، وہ اصل سوال کا جواب کم دیتی اور مزید سوالات پیدا کرنے کی موجب زیادہ بنتی ہیں۔‘‘ (ص ۱۶۵) اس کے بعد انھوں نے عقلاً ترجیح کے اصول پر کسی متعین رائے کو اختیار کرنے کے طریقے بیان کیے ہیں۔ البتہ اس بحث میں مبصر کی رائے یہ ہے کہ عبادہ بن صامت والی روایت: خذوا عنی خذوا عنی قد جعل اللہ لہن سبیلا ... جلد ماءۃ وتغریب عام  پر سند ومتن کے لحاظ سے کلام کیا گیا ہے اور ایک جدید تحقیق کی رو سے یہ روایت کمزور ہے، لہٰذا اسے مدار بحث بناتے وقت اس کی اس پوزیشن کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔ (دیکھیں: علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی، مفتاح القرآن، سورۃ النساء ص ۳۱ تا ۲۳)
موجودہ دور میں سب سے زیادہ زیر بحث موضوع ارتداد کی سزا ہے۔ جناب عمار خان ناصر اس سلسلے میں کلاسیکل فقہی رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ انھوں نے اپنی جامع بحث میں قدیم فقہا کا موقف اوران کے دلائل بیان کر دیے ہیں اور اس سلسلے میں جدید اہل علم ونظر کا موقف بھی بیان کر دیا ہے۔ ا س سلسلے میں ایک جدید نقطہ نظر یہ ہے کہ ’’قتل مرتد کا حکم شریعت کا عمومی ضابطہ نہیں، بلکہ اس کا تعلق صرف مشرکین بنی اسماعیل سے ہے جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد براہ راست اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت موت کی سزا نافذ کی گئی تھی۔‘‘ (جاوید احمد غامدی، برہان ۱۳۹-۱۴۳) ناصر صاحب اصولی طور پر اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے اس میں یہ توسیع کرتے ہیں کہ ’’اہل کتاب کو بھی اس کے دائرۂ اطلاق میں شامل سمجھنے میں کوئی مانع نہیں۔‘‘ (ص: ۲۲۷)
کتاب کے تمام مباحث کا جائزہ لینے سے تبصرہ طویل ہو جائے گا اور تبصرہ کی حدود سے نکل کر مضمون کی شکل اختیار کرلے گا، اس لیے مختصراً یہ کہنا مناسب ہوگا کہ یہ کتاب اسلامی حدود وتعزیرات سے متعلق نئے مباحث کی تفہیم میں مفید ومددگار بھی ہے اور علمی بحث ومباحثہ کو آگے بڑھانے کی ایک صحت مندانہ کوشش بھی۔ امید ہے کہ اہل علم اس سے کماحقہ استفادہ کریں گے اور علمی تنقید وتنقیح کے ذریعے اس سلسلہ بحث کو آگے بڑھایا جا سکے گا۔
(تبصرہ نگار: ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی۔ بشکریہ مجلہ ’’ترجمان دار العلوم‘‘ انڈیا)

فروری ۲۰۱۰ء

دینی جدوجہد کے عصری تقاضے اور مذہبی طبقاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
موجودہ عیسائیت کی تشکیل تاریخی حقائق کی روشنی میںڈین براؤن
خواجہ حسن نظامی کی خاکہ نگاریپروفیسر میاں انعام الرحمن
اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب (۲)محمد زاہد صدیق مغل
یہ جواب نہیں ہےمولانا عبد المالک طاہر
مکاتیبادارہ
’’مسلمان مثالی اساتذہ ، مثالی طلبہ‘‘چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

دینی جدوجہد کے عصری تقاضے اور مذہبی طبقات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

متحرک جماعتی زندگی سے کنارہ کشی کے بعد گزشتہ دو عشروں سے راقم الحروف دینی جدوجہد کے عصری تقاضوں اور دینی جماعتوں اور طبقات کی ذمہ داریوں کے حوالے سے کچھ نہ کچھ گزارشات پیش کر رہا ہے۔ معروضی حالات کے تناظر میں اس ’’صدائے فقیر‘‘ کے بعض پہلووں کو یہاں دہرانا مناسب معلوم ہوتا ہے:
  • پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے صرف سیاسی اور پارلیمانی جدوجہد کافی نہیں ہے، بلکہ پبلک دباؤ اور عوامی قوت بھی اس کی ناگزیر ضرورت ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ماضی کی طرح غیر سیاسی دینی قوتیں اور جماعتیں بھی میدان میں متحرک رہیں۔ بالخصوص اس وقت ایک نئی دینی جماعت کی ضرورت ہے جو غیر سیاسی ہو اور مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کرتی ہو۔ ’’غیر سیاسی‘‘ سے میری مراد یہ ہے کہ وہ جماعت ووٹ، الیکشن اور اقتدار کی سیاست سے الگ رہے، پاور پالیٹکس کا حصہ بننے کی بجائے مشترکہ دینی، ملی اور قومی مقاصد کے لیے تحریکی انداز میں کام کرے اور رائے عامہ، عوامی دباؤ اور اسٹریٹ پاور کے اس خلاکو پر کرنے کی کوشش کرے جو دینی تحریکات کی اصل قوت ہوا کرتی تھی اور جو ہم نے خاصی حد تک کھو دی ہے۔
  • دینی جماعتوں اور حلقوں کے درمیان کشمکش اور ایک دوسرے کے کام کی نفی اور استخفاف واستحقار کا روز افزوں ذوق ومزاج ہمارے لیے زہر قاتل ہے۔ اس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے اور دینی جدوجہد کو صحیح رخ پر آگے بڑھانے کے لیے انتہائی درجہ میں لازم ہے کہ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کیا جائے، ایک دوسرے کے کام کا احترام کیا جائے اور باہمی مشاورت، مفاہمت اور تعاون کی فضا قائم کی جائے۔
    ہماری دینی جدوجہد خصوصاً نفاذ اسلام کی تحریک کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس سلسلے میں کام کرنے والی بہت سی جماعتیں مسلکی دائروں میں محدود ہیں جس کی وجہ سے وہ ایک خاص حد سے آگے بڑھ نہیں پا رہیں۔ میں اس سلسلے میں یہ حوالہ دینا چاہوں گا کہ انقلاب ایران کے بعد مجھے علماء کرام اور وکلا کے ایک وفد کے ساتھ ایران جانے کا موقع ملا جس میں مولانا منظور احمد چنیوٹی اور حافظ حسین احمد بھی شامل تھے۔ یہ ۱۹۸۷ء کی بات ہے۔ اس موقع پر ایک مجلس میں یہ سوال سامنے آیا کہ کیا پاکستان میں کوئی عالم دین اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ خمینی صاحب کی طرح ایک عوامی انقلاب کی قیادت کر سکے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک نہیں بلکہ ہمارے پاس دو شخصیات ایسی موجود تھیں جو خمینی بن سکتی تھیں۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی کے بعد مولانا مفتی محمود یا مولانا شاہ احمد نورانی میں سے جو بھی آگے بڑھتا، قوم اس کو خمینی کا مقام دینے کے لیے تیار ہوتی، مگر مصیبت یہ ہے کہ مولانا مفتی محمود آگے بڑھتے تو مولانا شاہ احمد نورانی کے پیروکار ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے اور اگر مولانا شاہ احمد نورانی پیش رفت کرتے تو یہ بات مولانا مفتی محمود کے پیروکاوں کے لیے قابل قبول نہ ہوتی۔
    ہمارے ہاں نفاذ اسلام کی جدوجہد کا گیئر ہمیشہ اس مقام پر آکر پھنس جاتا ہے۔ یہ ایک معروضی حقیقت ہے جس کی جتنی بھی تاویل کر لی جائے، مگر اس کے وجود سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے میرے نزدیک کسی دینی جدوجہد یا تحریک کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلکی ترجیحات سے بالاتر ہو اور اس کے لیے میرے خیال میں قیام پاکستان سے پہلے کی ’’مجلس احرار اسلام‘‘ ایک اچھی مثال ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام اور دیگر طبقات کے اہل دانش نے مل کر ایک جماعت تشکیل دی اور مسلکی ترجیحات سے بالاتر ہو کر ملی وقومی مقاصد کے لیے عوامی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔
  • ہمارے دینی مدارس فکری تربیت کے حوالے سے بانجھ ہو چکے ہیں اور وہ فضا اب کسی حد تک بھی موجود نہیں ہے جو اب سے تیس برس پہلے تک مدارس میں فکری، اخلاقی بلکہ دینی تربیت کے حوالے سے دکھائی دیتی تھی۔ ہمارے طلبہ بلکہ مدرسین کی اکثریت کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ہماری ماضی قریب کی دینی وملی تحریکات کن مقاصد کے لیے تھیں، جنگ آزادی میں کون کون سے حضرات نے قائدانہ کردار ادا کیا اور دیگر ملی تحریکات کے اہداف کیا تھے۔ ہمارے مدارس میں ذہنی تیاری اور فکری تربیت کے دائرے محدود سے محدود تر ہوتے جا رہے ہیں جس سے کنفیوژن اور ذہنی انتشار بڑھتا جا رہا ہے اور اسی کیفیوژن اور ذہنی انتشار سے بہت سی پس پردہ قوتیں مسلسل ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ یہ مسئلہ بڑے دینی مدارس اور وفاق المدارس کے سوچنے کا ہے، مگر وہاں بھی اس کے بظاہر کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
    اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ کئی برس سے میرا معمول ہے کہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں دورۂ حدیث کے طلبہ کو ہفتہ وار لیکچر کی صورت میں انسانی حقوق، معاصر مذاہب کے تعارف، ماضی قریب کی دینی تحریکات اور پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کے فکری وعلمی پہلووں کی طرف سرسری انداز میں توجہ دلانے کی کوشش کرتا ہوں تو بہت سے طلبہ میرے منہ کی طرف یوں دیکھتے ہیں جیسے میں اس دنیا کی نہیں، بلکہ کسی اور دنیا کی بات کر رہا ہوں اور شاید میں انھیں اس طرح گمراہ کر کے ’’اکابر‘‘ کے مسلک سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہوں۔
  • ہمارے ہاں فکری تربیت کے فقدان کا ایک نامحمود نتیجہ اور ثمرہ یہ بھی ہے کہ ہم سب نے خود کو اختلاف او ر تنقید سے بالاتر سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک دوست میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ فلاں صاحب نے آپ کے خلاف کتاب لکھی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اگر انھیں میری کچھ باتوں سے اختلاف ہے تو ان پر لکھنا ان کا حق ہے۔ فرمانے لگے کہ انھوں نے آپ پر سخت تنقید کی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ بھی ان کا حق ہے۔ اس پر انھوں نے کہا کہ آپ اس کا جواب لکھیں۔ میں نے عرض کیا کہ میں اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ میرا موقف بھی لوگوں کے سامنے ہے، ان کا موقف بھی آ گیا ہے۔ لوگ خود فیصلہ کر لیں گے کہ کس کی بات درست ہے۔ میں نے ان سے یہ بھی گزارش کی کہ جماعت اسلامی کے ساتھ ہمارا نصف صدی سے یہ اختلاف چلا آ رہا ہے کہ انھوں نے اپنے دستور میں صحابہ کرام کو تنقید سے بالاتر تسلیم نہیں کیا، حالانکہ اہل سنت کا صدیوں سے یہ موقف ہے کہ صحابہ کرام تنقید سے بالاتر ہیں، مگر اب صورت حال یہ ہے کہ ہم نے صحابہ کرام کے ساتھ تنقید سے بالاتر ہونے والوں کا دائرہ بہت زیادہ وسیع کر لیا ہے جسے مزید وسیع کرتے جا رہے ہیں اور خود بھی اس میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
  • نفاذ شریعت کا راستہ روکنے کا کام عالمی سطح پر ہے اور بین الاقوامی لابیاں اس کے لیے مسلسل متحرک ہیں۔ ان کے کام کو سمجھنا، طریق واردات سے واقفیت حاصل کرنا اور ان کے سد باب کے لیے منصوبہ بندی کرنا بھی دینی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ نفاذ شریعت کے لیے سطحی نعرے بازی اور جذباتی تقریروں سے آگے بڑھ کر ذہن سازی، ہوم ورک، لابنگ، ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال اور دینی قوتوں کا باہمی ربط وتعاون بھی ضروری ہے۔ ہمارے مدارس کے طلبہ، مدرسین، دینی جماعتوں کے راہ نما اور کارکن اور مساجد کے ائمہ وخطبا کی غالب اکثریت اسلام اور مغرب کے درمیان انسانی حقوق کے عنوان سے لڑی جانے والی عالمی ثقافتی جنگ سے سرے سے واقف نہیں ہے، اس لیے مدرسین اور طلبہ کو اس کے لیے تیار کرنا اور یونانی فلسفہ کی طرح مغربی فلسفہ کو تدریسی نصاب میں شامل کرنا دینی مدارس کے فرائض میں شامل ہے۔ اسی طرح علمی مسائل اور خاص طور پر جدید فکری اور ثقافتی مسائل پر باہمی بحث ومباحثہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور محاذ آرائی سے ہٹ کر علمی انداز میں اس بحث ومباحثہ کو آگے بڑھانے اور اس کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔



الحاج حافظ شیخ بشیر احمد کا انتقال

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ کے امیر الحاج حافظ شیخ بشیر احمد گزشتہ دنوں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ اور ان کے والد محترم حاجی شیخ علم الدین مرحوم، امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر اور مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمہما اللہ تعالیٰ کے ابتدائی ساتھیوں میں سے تھے۔ ایک عرصہ تک انھوں نے مدرسہ نصرۃ العلوم اور جامع مسجد نور کی انتظامیہ کے سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، مگر بعد میں ایک مرحلے پر اختلافات کی وجہ سے وہ مدرسہ اور مسجد کی انتظامیہ سے الگ ہو گئے۔ وہ شہر کی متعدد مساجد اور مدارس کی خدمت کرتے تھے اور نیک دل اور مخیر بزرگ تھے۔ انھوں نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں جمعیۃ علماء اسلام کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا اور جمعیۃ علماء اسلام کی جماعتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ آخری عمر میں کئی برسوں سے وہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ کے امیر تھے اور دلچسپی کے ساتھ جماعتی سرگرمیوں میں شریک ہوتے تھے۔
ان کی نماز جنازہ ان کے فرزندان کی خواہش پر راقم الحروف نے پڑھائی جس میں شہر کے بزرگ علماء حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی ار حضرت مولانا مفتی محمد اویس سمیت علماء کرام اور دینی کارکنوں اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ 
مدرسہ نصرۃ العلوم میں میری طالب علمی کا سارا زمانہ ان کے دور میں گزرا ہے اور بعد میں بھی جماعتی ودینی سرگرمیوں میں ان کے ساتھ مسلسل رفاقت رہی ہے۔ ان کی وفات کے اس غم میں ہم ان کے فرزندان اور دیگر اہل خاندان کے ساتھ شریک ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت مرحوم کی حسنات کو قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور سب پس ماندگان کو صبر وحوصلہ کے ساتھ ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

موجودہ عیسائیت کی تشکیل تاریخی حقائق کی روشنی میں

ڈین براؤن

مترجم: عمران الحق چوہان ایڈووکیٹ
(ڈین براؤن گزشتہ چند برسوں میں مقبولیت حاصل کرنے والے مصنف ہیں اور ان کا شمار اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مصنفین میں ہوتا ہے۔ ان کی حقیقی شہرت کا آغاز ان کے ناول ’’دا ڈاونچی کوڈ‘‘ (ناشر: کورگی بکس، سال اشاعت: ۲۰۰۳ء) سے ہوا۔ یہ ناول اگرچہ ایک دلچسپ روایتی جاسوسی ناول ہے، لیکن اس میں مروجہ عیسائی مذہبی اعتقادات اور رسوم کے متعلق کچھ ایسی باتیں تحریر کی گئیں جن سے مغربی معاشرے میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا اوردیکھتے ہی دیکھتے یہ ناول عام موضوع بحث کی صورت اختیار کر گیا۔ معاملات عدالت تک بھی پہنچے، لیکن اس کے باوجود اس کی شہرت ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلتی گئی اور اس کی مقبولیت کودیکھتے ہوئے ہالی وڈ نے اس پر فلم بھی بنا ڈالی۔ مروجہ عیسائیت کے عقائد سے متعلق مصنف کے نظریات سے آگہی مسلم قارئین کے لیے دل چسپی اورمعلومات کا باعث ہو سکتی ہے۔ ذیل میں ان کے ناول کے باب ۵۵ کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ مترجم)

لینگڈن کے پہلو میں دیوان پر بیٹھی سوفی نے چائے کا گھونٹ بھرا اور کیفین کے خوشگوار اثرات محسوس کرنے لگی۔ سرلیہ ٹی بنگ آتش دان کے سامنے ڈگمگاتے ہوئے ٹہل رہے تھے۔ ان کی ٹانگوں پر چڑھے آہنی شکنجے کی آواز پتھر کے فرش پر گونج رہی تھی۔ 
مقدس جام ٹی بنگ نے خطیبانہ لہجہ میں کہا: ’’ اکثر لوگ مجھ سے صرف اس کے مقام کے متعلق پوچھتے ہیں اور شاید اس کا جواب میں کبھی نہیں دے پاؤں گا‘‘۔ وہ مڑا اور براہ راست سوفی کی طرف دیکھا۔ ’’تاہم اس سے کہیں زیادہ متعلقہ سوال یہ ہے کہ ’’ مقدس جام ہے کیا؟ ‘‘
سوفی نے اپنے دونوں مرد ساتھیوں میں علمی تجسس پیدا ہوتے محسوس کیا۔ ’’ جام کومکمل طور پر سمجھنے کے لیے‘‘، ٹی بنگ نے بات جاری رکھی، ’’ہمیں پہلے بائبل کو سمجھنا چاہیے۔ تم عہد نامہ جدید کے متعلق کس حد تک جانتی ہو؟ ‘‘
سوفی نے کندھے اچکائے۔ ’’حقیقتاًکچھ بھی نہیں۔ دراصل میری پرورش ایسے شخص نے کی ہے جو لیونار ڈو ڈاونچی کا پجاری تھا‘۔‘ 
ٹی بنگ بہ یک وقت متحیر اور مسرور دکھائی دیا۔ ’’ایک منور روح، شان دار۔ پھر تو تمہیں علم ہی ہو گا کہ لیونار ڈو مقدس جام کے راز آشناؤں میں سے ایک تھا اور اس نے اپنے فن میں اس کے سراغ چھپائے تھے‘‘۔
اس حد تک رابرٹ نے مجھے بتایا ہے۔ 
’’اور عہد نامہ جدید کے متعلق ڈاونچی کے نظریات؟ ‘‘
’’ مجھے کوئی اندازہ نہیں۔‘‘
ٹی بنگ نے مسکراتی آنکھوں کے ساتھ کمرے کے دوسرے سرے پر رکھے بک شیلف کی طرف اشارہ کیا۔ ’’رابرٹ، تم تکلیف کرو گے؟ سب سے نچلے شیلف میں۔ لیونا ڈوکی کہانیاں‘‘۔ لینگڈن کمرے کے دوسرے سرے پر گیا۔ ایک بڑی سی آرٹ کی کتاب ڈھونڈی اور واپس لا کر دونوں کے بیچ میز پر رکھ دی۔ کتاب کا رخ سوفی کی طرف گھما کر ٹی بنگ نے وزنی جلد کھولی اور پس ورق پرلکھے متعدد اقوال کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ڈاونچی کی یوں مکس اینڈ سپیکیولیشن کے دفتر سے‘‘ ۔ اس نے خصوصاً ایک قول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’ میراخیال ہے کہ یہ تمہیں موضوعِ گفتگو سے متعلق محسوس ہوگا۔‘‘
سوفی نے الفاظ پڑھے:
’’ بہت سے لوگوں نے احمقوں کو دھوکہ دیتے ہوئے جھوٹے معجزوں اورفریب کی تجارت کی ہے۔ ‘‘
لیونارڈوڈاونچی 
’’یہ ایک اور رہا ۔‘‘ ٹی بنگ نے ایک دیگر قول کی طرف اشارہ کیا:
’’اندھی جہالت ہمیں گم راہ کرتی ہے۔ اسے بد نصیب فاتیو! آنکھیں کھولو!‘‘
لیونارڈوڈاونچی 
سوفی کو سردی سی محسوس ہوئی۔ ’’ڈاونچی بائبل کے متعلق کہہ رہا ہے؟ ‘‘
ٹی بنگ نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’بائبل کے متعلق لیونار ڈو کے محسوسات کا تعلق براہ راست مقدس جام سے ہے۔‘‘
درحقیقت ڈاونچی نے حقیقی جام کو مصوربھی کیا ہے جو میں ابھی تمہیں دکھاؤں گا، لیکن پہلے بائبل پر بات ہونی چاہیے۔ ٹی بنگ مسکرایا۔ ’’اور ہر وہ چیز جو بائبل کے متعلق تمہیں جاننا چاہیے، اس کا خلاصہ عظیم ڈاکٹر مارٹن پر سی نے یوں کیا ہے، ’’ ٹی بنگ نے گلاصاف کرتے ہوئے کہا:’’ بائبل آسمان سے بذریعہ فیکس نہیں اتری۔ ‘‘
’’میں معافی چاہتی ہوں؟؟‘‘
’’بائبل، میری عزیز! انسان کی تخلیق ہے، اللہ کی نہیں۔ بائبل جادوئی طریقے سے بادلوں سے نہیں ٹپکی تھی۔ انسان نے پر آشوب ادوار کا تاریخی ریکارڈ رکھنے کے لیے اسے تخلیق کیا تھا اور یہ بے شمار ترجموں، اضافوں اور نظرثانیوں کے بعد وجود میں آئی ہے۔ تاریخ میں کبھی اس کتاب کاکوئی مصدقہ نسخہ نہیں رہا‘‘۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’عیسیٰ مسیح غیر معمولی موثر تاریخی شخصیت تھے، شاید دنیا کے سب سے پراسرار او راثر انگیز راہ نما۔ بطور مسیح موعود، عیسیٰ نے شہنشاہوں کے تخت الٹے، لاکھوں لوگوں کومتاثر کیا اور نئے فلسفیوں کی بنیاد رکھی۔ شہنشاہ سلیمان اور شہنشاہ داؤد کی نسل سے ہونے کے ناتے عیسیٰ یہودیوں کے بادشاہ کے تخت کے جائز حق دار بھی تھے۔ قابل فہم طورپر ان کے حالات زندگی علاقے کے ہزارہا پیروکاروں نے محفوظ کیے۔‘‘
ٹی بنگ چائے کا گھونٹ بھرنے کے لیے رکا اور پھر کپ واپس مینٹل پر رکھا۔ ’’عہدنامہ جدید کے لیے اسی سے زیادہ اناجیل پر غور کیا گیا اور صرف چند متعلقہ اناجیل کو شمولیت کے لیے چنا گیا جن میں میتھیو، مارٹ، لیوک اور جان بھی تھے‘‘۔
’’شمولیت کے لیے اناجیل کا انتخاب کس نے کیا؟‘‘ سوفی نے پوچھا۔
’’آہا! ٹی بنگ نے جوش سے کہا۔ ’’عیسائیت کا بنیادی تضاد۔ بائبل، جس انداز میں ہمیں آج ملتی ہے، اس کی تالیف ملحد رومی شہنشاہ قسطنطین اعظم نے کی تھی۔ ‘‘
’’میرے خیال میں تو قسطنطین عیسائی تھا۔‘‘ سوفی نے کہا۔
’’بہ مشکل‘‘۔ ٹی بنگ کھکارا۔ ’’ وہ تا حیات ملحد رہا جسے بستر مرگ پر بپتسمہ دیا گیا۔ وہ اتنا نحیف ہو چکا تھا کہ احتجاج بھی نہ کر سکا۔ قسطنطین کے عہد میں روم کا سرکاری مذہب سورج پرستی تھا، یعنی ناقابل تسخیر سورج کا مذہب اور قسطنطین اس کا بڑا پروہت تھا۔ اس کی بدقسمتی سے بڑھتی ہوئی مذہبی بے چینی روم کو گرفت میں لے رہی تھی۔ عیسیٰ کے مصلوب کیے جانے کے صدیوں بعد عیسیٰ کے پیروکاروں میں غیر معمولی اضافہ ہوا تھا۔ عیسائیوں اورملحدوں میں لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ یہ اختلاف اس قدر بڑھاکہ روم کی تقسیم کا خطرہ لاحق ہو گیا ۔ قسطنطین نے سوچا کہ کچھ کرناپڑے گا۔ ۳۲۵ (ب ،م) میں اس نے روم کوایک مذہب، عیسائیت کے تحت متحد کرنے کا فیصلہ کیا۔‘‘
سوفی بہت حیران ہوئی۔ ’’لیکن ایک ملحد بادشاہ نے سرکاری مذہب کے طورپر عیسائیت کا انتخاب کیوں کیا؟‘‘
ٹی بنگ ہنسا۔ ’’ قسطنطین بڑا اچھا کاروباری تھا۔ اس نے دیکھا کہ عیسائیت عروج حاصل کر رہی ہے۔ لہٰذا اس نے جیتنے والے گھوڑے پر داؤ کھیل دیا۔ یہ بات آج بھی مورخین کو ورطہ حیرت میں ڈالے ہوئے ہے کہ قسطنطین نے کس عمدگی سے سورج پرست ملحدوں کوعیسائیت کی طرف مائل کیا۔ ملحدانہ علاقوں، تاریخوں اور رسموں کو پھیلتی ہوئی عیسائی روایت میں ملا کر اس نے ایک ایسا دوغلا مذہب بنایاجو ہر دو فریقین کے لیے قابل قبول تھا۔‘‘
لینگڈن نے کہا:’’ عیسائی شعائر میں ملحدانہ مذہب کے سراغ ناقابل تردید ہیں۔ مصریوں کا کرہ سورج کیتھولک اولیاء کا ہالہ بنا۔ معجزانہ طور پر پیدا ہونے والے بیٹے ہورس کو دودھ پلاتی ہوئی آئسس (isis) کی شبیہ ہمارے ہاں ننھے یسوع کو دودھ پلاتی کنواری مریم میں بدل گئی، اور درحقیقت کیتھولک رسوم کے سارے عناصر، بشپ کی کلاہ، قربان گاہ، حمد ربانی اور عشائے ربانی، خدا خوری کا عمل ، براہ راست سابق ملحدانہ باطنی مذاہب سے لیے گئے ہیں۔‘‘
ٹی بنگ نے گہری آواز میں کہا: ’’ اس ماہر علامات کو عیسائی آئی کنز کے متعلق نہ چھیڑ لینا۔ عیسائیت میں کچھ بھی حقیقی نہیں ہے۔ قبل از عیسائیت خدامت ھراس جسے خدا کا بیٹا اور نورجہاں کہا جاتا ہے، ۲۵؍دسمبر کو پیدا ہوا، مرا، ایک چٹانی مقبرے میں دفنایا گیا اور پھر تین یوم بعد دوبارہ زندہ ہوا۔ برسبیل تذکرہ ، ۲۵؍دسمبر ، اوسائی رس، اڈنس اورڈائی اونی سس کی بھی تاریخ پیدا ئش ہے۔ نومولود کرشن کوبھی تحفۃً سونا اور عودولوبان پیش کیے گئے تھیحتی کہ عیسائیت کاہفتہ وار مقدس دن بھی ملحدوں سے چرایا گیا تھا۔‘‘
کیا مطلب ہے آپ کا؟
’’دراصل‘‘، لینگڈن بولا، ’’عیسائیت بھی یہودیوں کے ہفتہ کے سبت کا احترام کرتی تھی۔ لیکن قسطنطین نے ملحدوں کے سورج کی تعظیم کے دن سے مطابقت کے لیے اسے بدل دیا۔‘‘ وہ رکا، مسکرایا۔ ’’تاحال زیادہ تر گرجا جانے والے اتوار کی صبح سروس میں شریک ہوتے ہیں، اس بات سے قطعی لا علم کہ وہ کافروں کے سورج دیوتا کی ہفتہ وار تعظیم کے دن کی بنیاد پر آئے ہیں۔ ‘‘
سوفی کا سرگھوم رہا تھا۔ ’’اور سب کا تعلق جام سے ہے؟‘‘
بالکل۔ ٹی بنگ نے کہا۔ ذرا متوجہ رہنا۔ اس مذہبی ادغام کے دوران قسطنطین کو عیسائی روایت کو مضبوط کرنے کی ضرورت تھی۔ عالمی عیسائی اتحاد کے لیے اس نے مشہور اجتماع کیا جو کونسل آف نقایہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘‘
سوفی اس سے محض Nicene creedکی جائے پیدائش کے حوالے سے واقف تھی۔ 
’’اس اجتماع میں ‘‘، ٹی بنگ نے کہا، ’’عیسائیت کے بہت سے پہلوؤں پر بحث اور رائے شماری ہوئی۔ مثلاً قیام مسیح کی تاریخ، بشپس کاکردار، مذہبی رسوم کاطریقہ کار، اور رہاں، یسوع کی الوہیت بھی‘‘۔
’’ میں سمجھی نہیں، ان کی الوہیت؟‘‘
’’ میری عزیز!‘‘ ٹی بنگ نے بتایا، ’’تاریخ کے اس لمحے تک ، یسوع کے پیروکار اسے ایک فانی نبی کے طور پر ہی دیکھتے تھے، ایک عظیم اور طاقت ور آدمی لیکن بہ ہر حال ایک آدمی ،ایک فانی۔‘‘
’’ اللہ کا بیٹا نہیں؟‘‘
’’صحیح‘‘۔ ٹی بنگ نے کہا۔ ’’ یسوع کو بطور ’’ابن اللہ ‘‘ کونسل آف نقایہ میں سرکاری طور پر تجویز کیا گیا اور رائے شماری کروائی گئی۔‘‘
’’ ذرا ٹھہریں، آپ کہہ رہے ہیں کہ عیسیٰ کی الوہیت رائے شماری کا نتیجہ تھی؟ ‘‘
’’نسبتاً کافی قریبی تناسب سے‘‘۔ ٹی بنگ نے بات بڑھائی۔ ’’یوں بھی یسوع کی الوہیت رومی سلطنت اور نئے مرکز طاقت ویٹی کن کے مزید اتحاد کے لیے اہم تھی۔ سرکاری طور پر عیسیٰ کو ابن اللہ قرار دے کر قسطنطین نے عیسیٰ کوایک ایسی روحانی شخصیت بنادیا جو انسانی دنیاسے ماورا تھی۔ ایسی ذات جس کی طاقت ناقابل تسخیر تھی۔جس نے عیسائیت پر مزید ملحدانہ چیلنجوں کی راہ مسدود کر دی، لیکن اس سے عیسیٰ کے پیروکاروں کے پاس نجات کے لیے صرف ایک ہی طے شدہ مقدس ذریعہ رہ گیا، رومن کیتھولک چرچ۔‘‘ 
سوفی نے لینگڈن پر نظر ڈالی اور تائید کے طور پر سر کو جنبش دی۔
’’یہ سب کچھ طاقت کے حصول کے لیے تھا۔ عیسیٰ بطور مسیحا، چرچ اور ریاست کی کارکردگی کے لیے بے حد اہم تھا۔ ’’ ٹی بنگ نے بات جاری رکھی۔ ’’بہت سے علماء کا دعوی ہے کہ ابتدائی چرچ نے حقیقی معنوں میں عیسیٰ کو ان کے پیروکاروں سے چرا لیا۔ ان کے انسانی پیغام کے اغوا کے بعد اسے الوہیت کے ناقابل عبور لبا دے میں لپیٹ دیا گیا اور اسے اپنی طاقت کے پھیلاؤ کے لیے استعمال کیا گیا۔ میں نے اس موضوع پر بہت سی کتب تحریر کی ہیں۔‘‘
’’ اور میرا خیال ہے کہ سرگرم عیسائی روزانہ آپ کو نفرت آمیز خطوط ارسال کرتے ہوں گے؟‘‘
’’ وہ ایسا کیوں کرنے لگے؟‘‘ ٹی بنگ نے جواب دیا۔ ’’پڑھے لکھے عیسائیوں کی کثیر تعداد اپنے مذہب کی تاریخ سے واقف ہے۔ بے شک یسوع ایک عظیم اور طاقت ور شخصیت تھے۔ قسطنطین کی خفیہ سیاسی چالیں بھی حیات عیسیٰ کی عظمت کم نہیں کر سکیں۔ کوئی نہیں کہتا کہ عیسیٰ دھوکے باز تھے۔ نہ کوئی اس سے انکار کر سکتا ہے کہ وہ اسی زمین پر چلتے پھرتے تھے اور انہوں نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں بہتری کے اثرات مرتب کیے۔ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ قسطنطین نے عیسٰی کے رسوخ اور اہمیت سے فائدہ اٹھایا اورایسا کرتے ہوئے اس نے عیسائیت کو وہ شکل دی جس میں ہم آج اسے دیکھتے ہیں۔ ‘‘
سوفی نے سامنے رکھی آرٹ کی کتاب پر نگاہ ڈالی۔ اس کے دل میں صفحے الٹ کر ڈاونچی کی ’’ مقدس جام‘‘ کی تصویر دیکھنے کا اشتیاق تھا۔ 
’’اس میں دلچسپ بات یہ ہے‘‘، ٹی بنگ نے تیز تیز بولتے ہوئے کہا ’’ کہ قسطنطین نے عیسیٰ کی وفات کے چار صدیوں بعد ان کا مرتبہ بڑھایا تھا، مگر تب تک بطور ایک فانی انسان کے ان کی ہزاروں سو انحی دستاویزات لکھی جا چکی تھیں۔ قسطنطین کو علم تھا کہ تاریخ کی کتب کو از سر نو لکھنے کے لیے بڑا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس سے عیسائیت کی تاریخ کا سب سے اہم لمحہ جو وقوع پذیر ہوا۔‘‘ ٹی بنگ رکا اور سوفی کو دیکھا۔ ’’قسطنطین نے نئی بائبل کے لیے کمیشن بٹھایا اور سرمایہ فراہم کیا جس نے ان تمام اناجیل کوحذف کردیاجن میں عیسیٰ کے انسانی خصائل کا ذکر تھا اوران اناجیل کو سجا سنوار کر پیش کیا گیا جو انہیں اللہ کا مثل بتاتی تھیں۔ سابق اناجیل کو متروک قرار دے کر اکٹھا کرکے نذر آتش کر دیا گیا۔‘‘
’’ ایک دل چسپ بات۔‘‘ لینگڈن نے اضافہ کیا۔ ’’جس کسی نے قسطنطین والی اناجیل کے بجائے ممنوعہ اناجیل کا چناؤ کیا، اسے ’’بدعتی ‘‘ قرار دے دیا گیا۔ تاریخ میں بدعتی کالفظ وہاں سے شروع رائج ہوا۔ لاطینی لفظ (Heareticas) کا مطلب ہے ’’انتخاب‘‘۔ وہ لوگ جنہوں نے عیسیٰ کی حقیقی تاریخ کا انتخاب کیا، دنیا کے پہلے بدعتی تھے۔‘‘
’’مورخین کی خوش قسمتی سے‘‘، ٹی بنگ بولا، ’’ان گاسپلز میں سے جنہیں قسطنطین نے مٹانے کی سعی کی تھی، کچھ بچ گئیں۔ بحر مردار کے طومار (the dead sea scrolls) ۱۹۵۰ء میں Judacan desert میں قمر ان کے قریب واقع ایک غار سے دریافت ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ ۱۹۴۵ء میں nag Hammadi سے ملنے والے coptic scrolls بھی تھے۔ جام کی اصل کہانی بیان کرنے کے علاوہ وہ عیسیٰ کے انسانی خصائل کا ذکر بھی کرتے تھے۔ ویٹی کن نے گم راہ کنی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے ان طوماروں کو دبانے کی بھرپور کوشش کی اور وہ ایسا کیوں نہ کرتے؟ ان طوماروں نے اظہر من الشمس تاریخی تضادات اور خود ساختہ کہانیوں کو کھول کر رکھ دیا تھا اور اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ جدید بائبل ان لوگوں نے مرتب کی ہے جن کا واضح سیاسی ایجنڈا تھا، جوایک بشر عیسیٰ مسیح کی الوہیت کو فروغ دے کر ان کے اثر کو اپنے مرکز قوت کی مضبوطی کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔‘‘ 
’’لیکن پھر بھی‘‘،لینگڈن نے دفاع کیا، ’’یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ان طوماروں کو چھپانے کی چرچ کی خواہش ان کے عیسیٰ کے متعلق طے شدہ نظریات پر مخلصانہ اعتقاد کی بنا پر تھی۔ ویٹی کن انتہائی نیک لوگوں پر مشتمل ہے جو ایمان داری سے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ متضاد دستاویزات جھوٹ کا پلندہ ہیں۔‘‘
ٹی بنگ، سوفی کے مقابل کرسی میں دراز ہوتے ہوئے ہنسا۔ ’’جیسا کہ تم دیکھ سکتی ہو کہ روم کے لیے میری نسبت ہمارا پروفیسر کہیں زیادہ نرم گوشہ رکھتا ہے۔ تاہم اس حد تک وہ درست ہے کہ جدید کلرجی ان مخالف دستاویزات کو جھوٹ سمجھتی ہے۔ یہ بات قابل فہم ہے۔ قسطنطین کی بائبل صدیوں سے ان کے لیے سچائی بنی ہوئی ہے۔ بنیاد رکھنے والے سے زیادہ بنیاد پرست کوئی نہیں ہوتا۔‘‘
’’ اس کا مطلب ہے،، لینگڈن نے کہا ’’ کہ ہم اپنے اجداد کے خداؤں کی پرستش کرتے ہیں؟‘‘
’’میرا مطلب یہ ہے‘‘ ٹی بنگ نے وضاحت کی ’’کہ ہمارے آبا واجداد نے جو کچھ بھی ہمیں عیسیٰ کے متعلق بتایاہے، وہ جھوٹ ہے۔ بالکل مقدس جام کی کہانیوں کی طرح۔ ‘‘ 
سوفی نے پھر سامنے پڑے ڈاونچی کے قول کودیکھا۔ ’’اندھی جہالت ہمیں گمراہ کرتی ہے۔ او بدنصیب انسانو! اپنی آنکھیں کھولو۔ ‘‘
ٹی بنگ نے کتاب اٹھائی اوروسط کے صفحے الٹنے لگا۔ ’’اور آخر میں قبل اس کے کہ میں تمہیں ڈاونچی کی بنائی ہوئی مقدس جام کی تصویر دکھاؤں، میں چاہوں گا کہ تم اس پر ایک سرسری نگاہ ڈال لو۔‘‘ اس نے کتاب کے دوصفحوں پر پھیلی خوش رنگ تصویر کھولی۔ ’’میرا خیال ہے تم اس فریسکو کو پہچانتی ہو۔‘‘
’’ وہ مذاق کر رہے ہیں، ہے نا؟‘‘ سوفی دنیا کی مشہور ترین فریسکو کو ٹکٹکی لگا کر دیکھ رہی تھی۔ آخری عشائیہ میلان کے santa Masca delle Grazie کی دیوار پر بنی ڈاونچی کی دیو مالائی شہرت کی تصویر ان سے غداری کرے گا۔ ہاں میں ، اس فریسکو کوجانتی ہوں۔ ‘‘
’’پھر تو شاید تم میرے ساتھ ایک چھوٹے سے کھیل میں شریک ہونا چاہو گی۔ مناسب سمجھو تو ذرا آنکھیں بند کرو۔‘‘ سوفی نے ہچکچاتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔ 
’’ یسوع کہاں بیٹھے ہیں؟‘‘ ٹی بنگ نے پوچھا۔
’’ وسط میں‘‘۔
’’ بہت اچھے، اور وہ اوران کے حواری کون سی غذا کے لقمے توڑ کر کھا رہے ہیں؟‘‘
’’روٹی، ظاہر ہے۔ ‘‘
’’ واہ۔ اوران کا مشروب؟‘‘
’’ انگور کی شراب ۔ انہوں نے وائن پی تھی۔‘‘
’’ کیا بات ہے! اوراب آخری سوال۔ میز پر شراب کے کتنے گلاس ہیں؟‘‘
سوفی رکی۔ اسے احساس ہوا کہ یہ الجھاؤ والا سوال ہے۔ اورعشائیے کے بعد، اپنے حواریوں کے ساتھ بانٹتے ہوئے عیسیٰ نے شراب کا گلاس اٹھایا۔ ’’ایک گلاس‘‘، اس نے کہا۔ the chaliceعیسیٰ کا پیالہ۔ مقدس جام، ’’عیسیٰ نے شراب کا واحد جام ہی پھرایا تھا، جیساآج کل کے عیسائی عشائے ربانی کے موقع پر کرتے ہیں۔ ‘‘
ٹی بنگ نے لمبی سانس لی۔ ’’اپنی آنکھیں کھولو۔ ‘‘
اس نے ایسا ہی کیا۔ ٹی بنگ شرارت سے مسکرا رہا تھا۔ سوفی نے نیچے تصویر پر نگاہ ڈالی اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ عیسیٰ سمیت میز پر موجود ہر شخص کے پاس جام شراب تھا۔ تیرہ کپ، مزید یہ کہ یہ کپ چھوٹے، بے تنے کے اور شیشے کے تھے۔ تصویر میں کوئی پیالہ ، کوئی مقدس جام نہیں تھا۔
ٹی بنگ کی آنکھیں چمکیں۔ ’’تھوڑا عجیب ہے نا؟ کیا خیال ہے؟ ذرا سوچو، ہماری بائبل اورہماری مروجہ جام کہانی اسی لمحہ کومقدس جام کی آمد کے طور پر مناتی ہے۔ حیران کن طور پر لگتا ہے کہ ڈاونچی عیسیٰ کاپیالہ مصور کرنا بھول گیا ہے۔‘‘ 
’’یقیناًماہرین فن نے اس بات پر غور کیا ہوگا۔ ‘‘
’’تمہیں یہ جان کر صدمہ ہوگا کہ جو غیر از معمول باتیں ڈاونچی نے شامل کی ہیں، زیادہ تر ماہرین فن کویا تو دکھائی نہیں دیںیا محض نظرا نداز کر دی گئیں۔ یہ فریسکو دراصل مقدس جام کے راز کی مکمل کلید ہے۔ آخری عشائیہ میں ڈاونچی نے ہر بات کھول کر آگے رکھ دی ہے۔‘‘
سوفی نے غور سے فن پارے کاجائزہ لیا۔ ’’کیایہ فریسکو جام کی حقیقت بتاتی ہے؟‘‘
’’یہ نہیں کہ وہ کیا ہے۔‘‘ ٹی بنگ نے آہستگی سے کہا۔ ’’یہ کہ وہ کون ہے۔ مقدس جام کوئی شے یا چیز نہیں ہے۔ یہ دراصل ایک شخصیت ہے۔‘‘ 

خواجہ حسن نظامی کی خاکہ نگاری

پروفیسر میاں انعام الرحمن

اردو ادب میں شاید ہی کوئی دوسرا انشاپرداز ہو جو خواجہ حسن نظامی مرحوم (۱۸۷۸۔۱۹۵۵)سے بہتر طور پر ’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ‘ کا مصداق ہو ، حال آں کہ خواجہ صاحب کا شمار اردو ادب کے ان خاکہ نگاروں میں کیا جا سکتا ہے جنہوں نے اس ادبی صنف کو بال و پر عطا کیے اور یہ صنف ’فن‘ سمجھی جانے لگی ۔ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری نے ’’خواجہ حسن نظامی: خاکے اور خاکہ نگاری ‘‘ کے عنوان سے تالیف پیش کرکے اس اوجھل پہاڑ کو منظرِ عام پر لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس مدون تالیف میں ڈاکٹر معین الدین عقیل کے حوصلہ افزا وقیع پیش لفظ کے بعد ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہان پوری ’’ شذراتِ تقدیم‘ ‘ کے زیرِ عنوان خواجہ حسن نظامی کی شخصیت و فن کے مختلف پہلو زیرِ بحث لائے ہیں جس کے مطالعہ سے قارئین، خواجہ صاحب کی شخصیت کے تقریباََ تمام ادبی و شخصی پہلوؤں سے متعارف ہو جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری نے خواجہ حسن نظامی کی خود غرضانہ تلون مزاجی کا جو نقشہ ’’شذراتِ تقدیم‘‘ میں کھینچا ہے، ہم بوجوہ اس کا مطالعہ اور فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ یہاں یہ بیان کرنا بھی مناسب ہو گا کہ طوالت سے بچنے کی خاطر، ہم آیندہ آنے والی سطور میں صرف اور صرف خواجہ حسن نظامی کے رشحاتِ قلم ، موضوع سخن بنائیں گے۔ 
اس تالیف میں مذکور خاکوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ حصہ اول میں مذہبی علمی فنی ادبی شخصیات کے خاکے اور حصہ دوم میں تاریخی و سیاسی شخصیات کے خاکے ہیں۔ حصہ سوم میں’ ’تصویرِ خصایل : ایک نفسیاتی مطالعہ‘ ‘ کے عنوان سے ، قومی، وطنی، طبقاتی، پیشہ وارانہ ، کاروبارِ شیطنت اور فن کار کے دلچسپ خاکے پیش کیے گئے ہیں ۔ آخر میں۲۳ صفحات پر مشتمل ایک ضمیمہ ہے جس میں خود ڈاکٹر صاحب نے’’بہارستانِ ناز‘‘ اور ’’آبِ حیات‘‘ کو ایک نئے رخ سے دیکھتے ہوئے مختلف عنوانات کے تحت خاکہ نگاری کی تاریخ اور اقسام بیان کی ہیں ۔
اس مدون تالیف کا پہلا خاکہ ہی چونکا دینے والا ہے ، اسلوبِ نگارش یا مواد وغیرہ کی یک تائی کی وجہ سے نہیں ، بلکہ اس ہستی کی وجہ سے جس کا خاکہ پیش کرنے کی کاوش کی گئی ہے ۔ یہ کوئی بڑی ادبی شخصیت نہیں ، نہ ہی کوئی قدآور سیاسی مدبر ہے اور نہ ہی تاریخ کا دھارا بدل دینے والا کو ئی نابغہ روزگار۔ یہ ہستی ہے اللہ میاں کی۔ جی ہاں! اللہ میاں۔ خاکے کے لیے اللہ میاں کے چناؤ جیسی خیال کی ندرت اور اسے پیش کرنے کے نرالے ڈھنگ جیسے اسالیب کی بدولت ہی خواجہ صاحب اردو ادب کے غیر روایتی اور عام فہم انشا پرداز ہیں۔عام فہم، زبان و بیان کے اعتبار سے بھی اور اس پہلو سے بھی کہ اللہ میاں سے سارا جہان واقف ہے ، اس لیے عام سطح کا قاری بھی خاکے میں مذکور ہستی کو مستور خیال نہیں کرتا اورپوری طرح لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس اولین خاکے کا عنوان، ایک لحاظ سے خواجہ صاحب کی ان جسارتوں اور بے باکیوں کا نقیب بھی ہے جن سے قارئین کو دیگر خاکوں میں واسطہ پڑتا ہے۔اگر بات یہیں تک رہتی تو ٹھیک تھی لیکن خواجہ صاحب کی خوبات بڑھانے والی ہے۔ وہ اپنے خاکوں کو صوفیانہ مشرب میں رنگنے کی کوشش کرتے ہیں، ملاحظہ کیجیے:
’’آگے جا کر جس موجودات اور مخلوقات کے حلیے ایک خاکی بشر کے قلم سے نکل نکل کر کاغذی مجلس میں آراستہ ہوئے ہیں ، بس یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان سب کے اندر اللہ میاں کا حلیہ موجود ہے ، کیوں کہ اس نے خود اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے فرمایا ہے :
ان اللہ خلق ادم علےٰ صورتہٖ 
اللہ نے آدمؑ کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے ۔ جو اس کو مانے وہ بھی ان جان اور جو نہ مانے وہ بھی نادان! لہٰذا یہ کہہ کر ختم کر دینا چاہیے کہ واہ سبحان، واہ سبحان! تو تو بس بے صورت کی ایک مورت ہے‘‘۔ (غیر مرئی وجود: اللہ میاں، ص۱۰۲)
لاادری اور ہمہ اوست کے اس آمیزے کو خاکہ نگاری کی بنیاد کے طور پر ، ادبی اعتبار سے کہاں تک قابلِ قبول قرار دیا جا سکتا ہے ، اس سے قطع نظر کہ اس کا فیصلہ طویل بحث کا متقاضی ہے ، یہاں ایک احساس بہرحال کسی بھی مسلم قاری کو رکنے اوریہ تاثر لینے پر مجبور کر دیتا ہے کہ خاکہ نگار کسی نہ کسی درجے میں ’’صلح کل‘‘ کا پرچار کر رہا ہے اور شاید اس کا قلم مذہبی حد ود کو پامال کرنے سے رک نہ پائے گا ۔ یہ تاثر صفحہ نمبر ۱۶۱ پر قاری کی مذہبی حساسیت کو بیدار کرتا ہے جہاں آنجہانی چوہدری سر ظفراللہ خاں کے خاکے میں لکھا گیا ہے ’’قوم مسلمان، عقیدہ قادیانی‘‘۔ پھر صفحہ نمبر ۱۸۷ پرمولانا محمد علی جوہر کے خاکے میں قادیانیوں کی اسلامیت پر گواہی اس طرح دی گئی ہے : 
’’ تین بھائی ہیں ۔ بڑے بھائی شوکت علی ہیں ، ایک بھائی کا نام ذوالفقار علی ہے، وہ قادیانی ہو گئے ہیں۔ گویا ماں باپ کی تین یادگاریں ہیں اور تینوں دین و قوم و ملک پر قربان ہیں‘‘ ۔
اس کے بعد راہ ہم وار ہونے پر ’’ضمیمہ‘‘ کے عنوان سے صفحہ نمبر ۱۹۱، ۱۹۲ پر تین قادیانیوں کے خاکے، ان کی مذہبی عقل کے اعتراف کے ساتھ دیے گئے ہیں۔کوئی بھی مسلم قاری اس مطالعہ سے دو قسم کے تاثرات لیتا ہے : ایک ، فوری ، دوسراتاخیری۔ فوری تاثر میں خواجہ مرحوم موردِ الزام ٹھہرتے ہیں لیکن ذرا غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کے اس دور میں جب یہ خاکے لکھے گئے تھے ، برِ عظیم پاکستان و ہند کے مسلمانوں کی فکری قیادت کرنے والی اکثر شخصیات قادیانیوں کی بابت بہت نرم گوشہ رکھے ہوئے تھیں حتیٰ کہ علامہ اقبال ؒ جیسی صاحبِ بصیرت شخصیت بھی ان کے حق میں رطب للسان تھی۔ یہ بہت بعد میں ہوا کہ اقبالؒ ، علامہ انور شاہ کشمیریؒ سے مکالمے کے نتیجے میں قادیانیت کی اصلیت سے آگاہ اور تائب ہوئے۔ لہٰذا تاخیری تاثر میں خواجہ حسن نظامی مرحوم رعایتی نمبر وں سے خلاصی پا جاتے ہیں۔ اب اگر سوال اٹھتا ہے تو فقط اس تالیف کے پیش کار کی آنکھ مچولی کی بابت اٹھتا ہے کہ صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے نہیں جیسے اطوار اپنائے ہوئے ہیں۔ موصوف ، تاریخی اعتبار سے ایسے دور میں ہیں جہاں امت کے اجتماعی ضمیر اور ریاستی قانون نے قادیانیت کو نہایت صراحت سے خارج از اسلام قرار دیا ہے، تو پھر وہ غیر محسوس انداز میں ظفراللہ اور ذوالفقار کی اسلام شناسی کی شہادت دے کر ضمیمے کے تھیلے میں سے بلی نکال کر ، کس قسم کی ادبی خدمت سر انجام دینا چاہتے ہیں؟ بہتر تو یہ تھا کہ ڈاکٹر ابوسلمان صاحب sugar coated چھابڑی لگانے کے بجائے قادیانیت کی ’’حقانیت‘‘ کے حق میں مفصل کتب کی دکان سجاتے ۔ ہم برملا کہیں گے کہ اس قسم کی نفسیاتی چھیڑ چھاڑ کا مقصد اگر مسلمانوں کی حساسیت کے گراف کو چیک کرنا ہے اور انہیں آہستہ آہستہ قادیانیت کی قبولیت کے لیے تیار کرنا ہے تو ڈاکٹر صاحب جیسے ’’دور اندیشوں‘‘ کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ 
زیرِ نظر تالیف میں اللہ میاں کے خاکے کے بعد حسبِ توقع فرشتوں کا خاکہ ہے جس میں فرشتوں کے بارے میں ضروری معلومات دی گئی ہیں۔ اس کے بعد گناہ گاروں کے لیڈر شیطان کا خاکہ ہے جو کافی دلچسپ ہے، ملاحظہ کیجیے: 
’’ فرشتوں کی ملکوت یونی ورسٹی میں پرنسپل بن کر سبق پڑھا چکا ہے۔ ذاتِ اقدس کی تجلیاتِ جباری او رکبریائی میں فنا ہو کر منصور کی طرح انا الخیر (میں اچھا) ہوں، (انا من النار) میں آگ سے بنا ہوں ! نعرے لگا چکا ہے ۔ مگر کوئی مولوی اس وقت عالمِ وجود میں موجود نہ تھا جو اس کی انانیت کو سولی پر چڑھاتا ، اس واسطے خدا نے اس کو خود سولی پر چڑھایا‘‘۔ (غیر مرئی وجود: گناہ گاروں کے لیڈر شیطان کا حلیہ، ص۱۰۳) 
یہ درست ہے کہ مولوی حضرات ’انانیت‘ کو سولی پرچڑھا کر ہی دم لیتے ہیں۔ شاید اسی لیے اقبالؒ نے انانیت کو خودی کا نام دے کر اپنی جان بچائے رکھی اور مولویوں کے تیر و تفنگ کے آگے ’شکوہ‘ کر دیا۔ خواجہ صاحب بھی اکثر ادیبوں کی طرح مولوی پر وار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ان کے کئی خاکوں میں بے چارہ مولوی تختہ مشق بنا ہے ، ملاحظہ کیجیے کہ طنز کے تیر کیسے ٹھاہ نشانے پر لگے ہیں:
’’ ان کے والد صوفی تھے ، خود ان کا دل بھی صوفی ہے مگر دل کے اوپر مولویت کا پردہ ڈالے رکھتے ہیں ۔ دوستوں کے ساتھ مروت وخلوص سے پیش آتے ہیں۔ بہت کھانے کا شوق نہیں ہے اور اس لحاظ سے ان کی مولویت میں نقص ہے۔‘‘ (علمائے کرام: مولانا سید سلیمان ندوی، ص۱۱۲) 
’’مزاج میں غرور و تمکنت نہیں ہے، دیکھنے میں مولوی بھی نہیں معلوم ہوتے۔‘‘ (علمائے کرام: مفتی کفایت اللہ، ص۱۱۴)
’’ ملا رموزی بھوپال میں رہتے ہیں ۔ ان کے مضامین سے سمجھا جاتا ہے کہ وہ کوئی مولوی ہیں مگر درحقیقت نئے زمانے کے ایک مہذب نوجوان ہیں۔‘‘ (اردو کے ظرافت نگار، ص۱۲۲)
’’ اگر امریکہ میں ہوتے تو فورڈ موٹر والے سے کوئی بڑا کارخانہ بناتے ۔ ہندوستان میں پیدا ہوئے ہیں ، اس لیے جتنا کماتے ہیں اس سے زیادہ کھلا دیتے ہیں ۔ ذہین ہیں ، حرفتی سمجھ بہت اچھی ہے ۔ کئی بچوں کے باپ ہیں ، مگر کئی بیویوں کے شوہر نہیں ہیں ، حالاں کہ مولوی کے لیے یہ بہت عجیب ہے کہ وہ ایک ہی بیوی رکھتا ہو۔‘‘ (تاجر:مولوی محمد ادریس ہاشمی، ص۱۳۸)
’’ اگران کی ڈاڑھی لمبی ہوتی تو شاید وہ بھی مولویوں کی طرح فقط دعوت کھایا کرتے، کھلانے سے احتیاط کرتے اور مجرد بھی نہ رہتے بلکہ چار نکاح کرتے۔‘‘ (ممبرانِ اسمبلی و کونل آف سٹیٹ : سر محمد یعقوب، ص۱۶۵)
’’ اگر وہ انگریز ہوتیں تو لیڈی ولنگٹن کی طرح مشہور ہوتیں اور ہندو ہوتیں تو مسز نیڈو سے زیادہ شہرہ آفاق مانی جاتیں، مگر خدا کے فضل سے مسلمان ہیں اس لیے ان کی قوم دلوں میں تو ان پر فخر کرتی ہے مگر زبان سے کچھ نہیں کہتی کہ ایک تارک پردہ عورت کی تعریف کرے تو مولوی صاحب فتوی نہ دے دیں ۔ جہاں آرا نے ثابت کیا ہے کہ پردہ اٹھانے والی عورتیں ایسی ہو سکتی ہیں۔‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم:بیگم میاں شاہ نواز، ص۱۷۸)
مولوی محمد ادریس ہاشمی کے خاکے میں’’حال آں کہ مولوی کے لیے یہ بہت عجیب ہے کہ وہ ایک ہی بیوی رکھتا ہو‘‘ کے بجائے اگر ایسا کہا جاتا کہ ’’حال آں کہ مولوی ہیں‘‘ تو کفایت لفظی کنائے کا لطف بھی دے جاتی۔ بہر حال ! یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ خواجہ صاحب نے تیر برسانے سے قبل انہیں حقیقت کے زہر میں خوب بھگویا ہے ، اب مولوی اگر سخت جان نکلے تو بے چارے خواجہ کا کیا قصور؟ بات مولویوں کی چل نکلی ہے تو اسی رو میں ہم برِ عظیم کے چند معروف علما کے خاکوں کی جھلکیاں پیش کیے دیتے ہیں:
’’ کفر کا فتوی دینے میں بڑی مہارت تھی ۔ ایک شخص کو ایک گناہ کے عوض کئی کئی ہزار کے کفر کے فتوے دیتے تھے اور عجیب و غریب باریکیاں کفر سازی کی ان کے ذہن میں آتی تھیں ‘‘ (علمائے کرام:مولانا احمد رضا خان، ص۱۰۹)
ہمیں تو ایسی ’’کفر ساز مولویانہ خو‘‘ نے قدیم ایتھنز کے مقنن ڈریکو کی یاد دلا دی ہے جس کے بارے میں طنزاََ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے قوانین روشنائی کے بجائے خون سے تحریر کیے تھے، مثلاََ سبزی چور اور توہینِ مذہب دونوں کے لیے موت کی سزا مقرر کی تھی۔جب ڈریکو سے اس سنگ دلی کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے جواب دیا کہ خفیف جرایم، سزائے موت ہی کے مستحق ہیں اور رہے بڑے جرم تو ان کی سزا اس مجبوری سے مقرر کئی گئی کہ کوئی اور بڑی سزا ہو نہ سکتی تھی۔ خواجہ حسن نظامی کو خدا کا شکر بجا لانا چاہیے کہ مولانا اور ڈریکو ہم عصر نہ تھے، ورنہ باریک بین اور فربہ نظر مل کر نجانے کیا قیامت ڈھاتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ صاحب کی مولانا احمد سعید دہلوی ؒ سے گاڑھی چھنتی تھی اس لیے وہ ان کے بارے میں یہاں تک کہتے ہیں: ’’خلوت میں کچھ اور جلوت میں کچھ اور‘‘۔ یہ تعریف ہے یا تنقیص ؟ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ غالباََ ، جمعیت علما ہند کے ناظم کی حیثیت میں ان کی سیاسی حکمت عملی خواجہ صاحب کو ضرورت سے زیادہ ’’بھا‘‘ گئی ہے، تبھی تو وہ لکھتے ہیں: 
’’ دل میں کچھ اور ہوتا ہے ، کہتے کچھ اور ہیں ۔ ... ان کی زندگی امیر معاویہ کے اصحاب سے مشابہ ہے اس لیے ایک نمونے کی زندگی ہے ، کمان ایک طرف کھینچتے ہیں، تیر دوسری طرف چلاتے ہیں۔‘‘ (علمائے کرام:مولانا احمد سعید، ص۱۱۰)
تقریباََ ہر معروف عالمِ دین سے خواجہ صاحب چونچ لڑاتے نظر آتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ کی زندگی کے مختلف ادوار (۱۹۲۲، ۱۹۳۶، ۱۹۴۳) کے تین خاکے ، خاکہ نگار کی ان سے قلبی قربت اور میلانِ طبع کی غمازی تو کرتے ہی ہیں، لیکن مولاناآزادؒ کی ذاتِ گرامی کے احترام سے بڑھ کر شاید ان کی انشاپردازی کی جولانی کا خوف ہے کہ خواجہ صاحب قلم کو پوری ہوش مندی سے حرکت میں لاتے ہیں ، گو چوٹ کرنے سے باز نہیں آتے : 
’’ تصور کی طاقت ، چیونٹی کی ناک اور چیل کی آنکھ سے بڑھی ہوئی ہے .... اگر ان کو ہندوستان کا بادشاہ بنا دیا جائے تو ایک دن کم بارہ مہینے سوتے رہیں ، صرف ایک دن بیدار ہو کر کام کریں کیونکہ یہ کسی کام کو جلدی کرنے کے عادی نہیں ہیں .....سر سٹیفورڈ کرپس کے دل سے کوئی پوچھے تو یہ جواب ملے کہ ہندوستان میں گاندھی جی سیاسی درویش ہیں ، جواہر لال یورپ کی سیاست کا عکس ہیں کیونکہ جو دل میں ہوتا ہے وہی زبان سے کہتے ہیں، حال آں کہ نئے زمانے کی سیاست میں یہ بات گناہ کبیرہ ہے ۔ صرف مولانا ابوالکلام چالیس کروڑ باشندوں میں ایک ایسے ہندوستانی ہیں جو یورپ کی سیاست کو انگریزی نہ جاننے کے باوجود سمجھتے بھی ہیں اور اس کے وار کو بغیر ڈھال کے روکتے بھی ہیں اور مسکرا کر ایک نکیلا سیاسی نشتر حریف کے مارتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں ’ ’غالباََ کچھ زیادہ تکلیف نہ ہوئی ہو گی ، یہ انجکشن آپ کی بیماری کے لیے بہت ہی مفید ہے‘ ‘ ...... ہوش سنبھالتے ہی مسلم لیگ کو سمجھ لیا تھا ۔ ۱۹۰۸ میں مسٹر زاہد سہروردی کے مکان پر انھوں نے حسن نظامی کے ایک کاغذ پر یہ لکھا تھا ’’ سب باتیں منظور ہیں با ستثنائے شرکتِ مسلم لیگ‘‘ ..... بہرحال مولانا ابوالکلام آزاد موجودہ ہندوستان کے لیے سیاسی سورج ہیں اور سیاسی چاند ہیں ۔ ان کو سیاسی چراغ بھی کہا جا سکتا تھا ، اگر دوسرے سیاسی چراغوں کو روشن کر سکتے ، جس کی کوئی مثال نظر نہیں آتی۔ ‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم : مولان ابوالکلام آزاد، ص۱۷۲، ۱۷۳، ۱۷۴)
بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر جناح کا خاکہ بھی قارئین کی نذر کر دیا جائے کہ آزاد و جناح کی تقابلی تصویر جو خواجہ حسن نظامی نے کھینچی ہے شاید کسی نگاہ میں جچ جائے:
’’ان کی سیاسی سمجھ مسلمان قوم میں سب سے زیادہ ہے ۔ ان کے ہم نام محمد علی مرحوم اس گہری بات کو جانتے تھے اس لیے اپنے دور میں محمد علی جناح کے میدان میں نمایاں ہونے کی مزاحمت کرتے تھے۔ مگر ان کے جوہرنے اِن کو ان کی زندگی ہی میں نمایاں کر دیا تھا اور اِن کے چودہ نکات مرحوم نے بھی قبول کر لیے تھے .... مولانا ابوالکلام انگریزی جانتے ہوتے تو مسٹر جناح ہوتے اور مسٹر جناح عربی اردو جانتے ہوتے تو مولانا ابوالکلام ہوتے۔‘‘(رہنمایانِ ملک و قوم : مسٹر جناح کی صورت و سیرت، ص۱۷۸، ۱۷۹)
مولانا محمد علی جوہر کے متعلق خواجہ صاحب کے ارشاد نے ہمیں اکسایا ہے کہ یہیں اسی مقام پر ان کے خاکے کی ایک جھلک دکھائی جائے:
’’ قیامت تک زندہ رہیں گے مگر قیامت کے بوریے نہیں سمیٹیں گے..... وہ بڑے وضع دار ہیں۔ جس سے جو برتاؤ شروع ہو جائے تو آخر دم تک نباہنے کا خیال رکھتے ہیں ااور یہی جوہر اصلی مشرقی میں ہونا چاہیے ‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم : مولانا محمد علی ، ص۱۸۷)
اصلی مشرقی کہہ کر شاید علامہ عنایت اللہ مشرقی پر چوٹ کی گئی ہے۔ چوں کہ زیرِ نظر تالیف میں علامہ کا خاکہ نہیں ہے اس لیے اس چوٹ کے زخم پر نمک چھڑکنا یا مرہم لگانا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ لہذا چوٹ قیاس کر لینا ہی کافی ہے۔مولانا محمد علی جوہر کے بھائی مولانا شوکت علی کا خاکہ، جہاں ان کی سادگی کا آئینہ دار ہے وہاں برِ عظیم میں انگریز کے خلاف تحریکِ آزادی میں ان کے سیاسی کردار کو بھی اجاگر کرتا ہے:
’’ ایک زمانے میں پورے صاحب بہادر تھے اب پورے وحشی مسلمان ہیں ۔ شوکت علی نہ ہوتے تو محمد علی کا کام ادھورا رہتا ۔ مگر بعد کے تجربے سے معلوم ہوا کہ شوکت علی جیسا آدمی مسلمانوں میں پیدا نہ ہوتا تومہاتما گاندھی کی شخصیت بھی ناقص رہ جاتی ...... وہ بولنے میں بونگے اور غیر مدبر معلوم ہوتے ہیں ...... سرسری بات چیت سے آدمی خیال کرتا ہے کہ وہ مہذب و سنجیدہ نہیں ہیں ، لیکن کچھ دیر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ سنجیدگی کی تہہ میں جو خود پسندی ہوا کرتی ہے اس کو مٹانے کے لیے وہ غیر مہذب باتیں کرتے ہیں ...... انگریزوں میں آج کل قوت پر بھروسہ کرنے والے بہت ہیں ، اپنی ذات و خصلت کی خوبی پر اعتماد کرنے والا کوئی ہوتا تو شوکت علی اس قدر نہ چمکنے پاتے ...... اگرچہ آج کل وہ جیل خانہ میں ہیں مگر ہندوستان کے بچے بچے کو انہوں نے اپنا اسیر بنا رکھا ہے‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم:مولانا شوکت علی، ص۱۸۱، ۱۸۲)
دو مختلف جہتوں میں رواں دواں دو مختلف لفظوں(جیل خانہ ، اسیر) کی معنوی تکرار، سلاست کے ساتھ ادبی شان لیے ہوئے ہے اور اس تاریخی حقیقت کی ترجمانی کر رہی ہے کہ آزادی کی تحاریک میں سرکاری جیلوں کے اسیر، ہمیشہ سے جیل سے باہر کے پورے سماج کو اسیر بنائے رکھتے ہیں۔رہی اس فقرے کی بات کہ ’’انگریزوں میں آج کل قوت پر بھروسہ کرنے والے بہت ہیں ، اپنی ذات و خصلت کی خوبی پر اعتماد کرنے والا کوئی ہوتا تو شوکت علی اس قدر نہ چمکنے پاتے ‘‘، خواجہ صاحب قاری کو گومگو میں مبتلا کر جاتے ہیں ا گرچہ انگریز کوواضح طور پر بری طرح لتاڑتے ہیں لیکن شوکت علی کے ساتھ وہی کچھ کر گئے ہیں جو انہوں نے مولانا احمد سعید کے بارے میں کہا ہے کہ’ کمان ایک طرف کھینچتے ہیں اور تیر دوسری طرف چلاتے ہیں‘۔ کیا خیال ہے کہ خواجہ صاحب کے ترکش سے نکلا ہوا تیر شوکت علی کی ’’اسیری پر قایم ہیروشپ‘‘ کے غبارے سے ہوا نکال نہیں دیتا؟
زیرِ نظر تالیف میں مولانا حسرت موہانی کا خاکہ ، ان کے ایثار، خلوص ، حب الوطنی اور بے لوث کردار کی بھر پور نمائندگی کرتاہے، ملاحظہ کیجیے: 
’’ پستہ قد ، گداز جسم ، گندمی رنگ ، گول چہرہ ، لمبی ڈاڑھی ، آنکھیں بڑی بڑی ، آواز عورتوں کی طرح نازک اور گوش نواز ، جلدی جلدی گھبرا گھبرا کر بولتے ہیں ، تیز چلتے ہیں ، جس شہر میں جاتے ہیں وہاں کے ہر اچھے برے ملکی کام کرنے والے سے ملتے ہیں ۔ صبح سے شام تک سڑکوں ، گلیوں اور عام راستوں پر ان کے پیچھے دوڑتے دوڑتے سی آئی ڈی والے سپاہی پسینہ پسینہ ہو جاتے ہیں ااور دل ہی دل میں ان کو اور اپنے خفیہ محکمہ کو گالیاں دیتے ہیں مگر یہ خدا کا آہنی بندہ ذرا نہیں تھکتا اور پنکھے کی طرح برابر گردش میں رہتا ہے ...... جیل خانہ گئے ، گھر نیلام ہوا، پریس ضبطی میں آیا، چکیاں پیسیں۔ مگر جب رہا ہوکر گھر پہنچے تو پھر وہی گناہ گاری کی باتیں کرنے لگے ، معصوم لوگوں کا دل دکھانے لگے ...... مہاتما گاندھی نے ان کو خبطی کا خطاب دیا ہے اور اس میں کچھ شک بھی نہیں کہ ان کی ملکی محبت کا شوق خبط کی حد تک پہنچ گیا ہے ...... چالاک لیڈر آگے بڑھ گئے اور یہ غرارے دار پاجامہ پہننے والا جوتیاں چٹخاتا پیچھے چلتا رہ گیا ، کیونکہ اس کو خفیہ آدمی میسر نہ تھے جو دلالوں کی طرح اس کو بڑاآدمی بڑا آدمی ہر جگہ کہتے پھرتے ‘‘(رہنمایانِ ملک و قوم:مولانا حسرت موہانی، ص۱۷۹، ۱۸۰، ۱۸۱) 
تعجب ہے کہ اس زمانے میں بھی قایدین ’’خفیہ اداروں‘‘ کے پروردہ تھے، آج کل تو خیر سے خفیہ ہاتھ کی مدد کے بغیر قیادت ہو ہی نہیں سکتی۔ مہاتما گاندھی زمینی حقایق کے مطابق پینترے بدلنے میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے ، شاید اسی لیے مولانا کا آئیڈیل ازم ان کی نظر میں خبط ٹھہرا ہے۔خود گاندھی بھی خبط سے مبرا نہیں تھے لیکن ان کے خبط کی نوعیت بہت مختلف تھی، خواجہ حسن نظامی کی زبان سے ہی سنیے: 
’’ان میں ذہنی اور دماغی تدبر اور دور اندیشی کی بہت کمی ہے مگر یہ عیب ان کے خداداد جوہرِ صداقت و استقلال کی چادر میں چھپا رہتا ہے ......وہ توحید و رسالت کا علی الاعلان اقرار کرتے ہیں مگر ہندو ہونے کے فخر کو آخر تک ہاتھ سے نہیں دیتے ...... گاندھی جی کی جیب عمرو عیار کی زنبیل ہے کہ بڑے بڑے موٹے موٹے آدمی ان کی جیب میں آ جاتے ہیں اور وہ خود بھی چھوٹی سے چھوٹی جیب کے اندر سما جاتے ہیں۔‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم:مہاتما گاندھی ، ص۱۸۴، ۱۸۵)
مطلب یہ ہوا کہ آنجہانی گاندھی اپنے ہندو ہونے کے فخر کے خبط میں ایسے مبتلا تھے کہ دیکھی ان دیکھی اور سنی ان سنی کر دیتے تھے۔ باقی رہی بات ، بڑے بڑے موٹے موٹے آدمیوں اور گاندھی کی جیب کی، تو تاریخی قراین بتاتے ہیں کہ صرف مولانا شوکت علی مرحوم ہی ماشاء اللہ اتنے لحیم شحیم تھے کہ گاندھی کی جیب چوہے کے بِل کا منظر پیش کرتی ہو گی ، تبھی تو موصوف چھوٹی سے چھوٹی جیب میں سما جاتے ہوں گے۔ اب ذرا ذایقہ بدلنے کے لیے چند ایسے خاکوں پر نظر ڈالتے ہیں جن میں خواجہ حسن نظامی نیم رضامندی سے کمان گلے میں لٹکا کر قلم سنبھالے دکھائی دیتے ہیں: 
’’ان کے ڈراموں سے ان کے ذوق کی بلندی ہفت افلاک تک پہنچی ہوئی نظر آتی ہے۔ آنے والے ہندوستانی ان کو شیکسپیر سے زیادہ اونچے درجے پر بٹھائیں گے لیکن وہ ہندو ہوں گے کیوں کہ مسلمان یہی سوچتے رہ جائیں گے کہ ڈرامہ نویس کی عزت ااور قدر کرنی جایز بھی ہے یا نہیں ؟‘‘ (آغا حشر، ص۱۱۹)
’’اردو کے حوصلہ مند اور بہادر سپاہی ، ان کی تحریر ہندی روڑوں کے لیے سڑک دبانے کا بیلن ہے ...... ان کے کریکٹر کی ٹھیک تعریف یہ ہے کہ یہ گنبد کی آواز ہیں کہ جیسی کہو ویسی سنو‘‘ (مدیرانِ اخبارات و رسایل :سید بقائی، ص۱۲۴)
’’ ان کے عقاید وہابی ہیں مگر انہوں نے لقب صوفی رکھا ہے‘‘ (مدیرانِ اخبارات و رسایل :مولانا سالک، ص۱۲۴)
’’قادر الکلام ہیں مگر قادرالمزاج نہیں ہیں ۔ بھک سے اڑ جانے والی ایک قسم کی انسانی بارود ہیں ...... قادیانی ہوتے تو اپنی بے نظیر اور دل و دماغ پر نقش ہو جانے والی نظموں کو وحی اور الہام کہتے ۔ ہندو ہوتے تو کسی بنیہ کو کنجوس نہ رہنے دیتے ، انگریز ہوتے تو برٹش قوم کا شاہ خرچی سے دیوالا نکال دیتے ‘‘(مدیرانِ اخبارات و رسایل :مولانا ظفر علی خاں، ص۱۲۵)
’’ والیانِ ریاست کی طرح زیادہ سوتے ہیں ۔ ہندوؤں کی طرح کفایت شعار نہیں ہیں‘‘ (مدیرانِ اخبارات و رسایل :مفتی شوکت علی فہمی، ص۱۲۶)
’’باوجود اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے مزاج میں بچوں کا سا بھولپن ہے‘‘(لقمان الملک حکیم نابینا صاحب، ص۱۳۴)
’’ کانوں سے ذرا کم سنتے ہیں اس لیے جب کسی سے بات کرتے ہیں تو اس کو بہرا سمجھ کر آواز سے بولتے ہیں‘‘ (ڈاکٹر سید سجاد، ڈینٹسٹ، ص۱۳۴)
’’ ان کے دل کی بات اور روپیہ جمع کرنے کے مقصد کو سوائے ان کے دوسرا دنیا میں کوئی بھی نہیں جانتا ‘‘ (ریاست حیدر آباد دکن: حضور نظام، ص۱۴۹)
’’ اردو اور انگریزی کے بہت ماہر مضمون نگار ہیں ۔ اگر وزیرِ اعظم نہ ہوتے تو کسی سرکار پسند اخبار کے ایڈیٹر ہوتے‘‘ (نواب قاضی سر عزیزالدین احمد، ص۱۵۷)
’’ حدِ شرع کے اندر رہ کر عقد کرنا امرائے قدیم کی ایک وضع تھی ، یہ بھی اسی پر عمل کرتے ہیں اور ستر برس کی عمر میں بھی ان کے عقد کی خبریں سنی جاتی ہیں ‘‘ (نواب سر امیرالدین احمد، ص۱۵۹)
’’ مچھلی کی طرح ان کے خیالات کبھی دریا کی تہہ میں جاتے ہیں اور کبھی دریا کی سطح پر اچھلنے لگتے ہیں ۔ اگر یہ اسمبلی میں نہ ہوں تو ایسا معلوم ہو کہ اسمبلی ہال جگر کے بیماروں کا اسپتال ہے کیوں کہ جگر کے مریض ہمیشہ بد مزاج اور ناک بھوں چڑھائے رہتے ہیں اور ان کے اندر خوش طبعی کے جذبات بہت ہی کم پائے جاتے ہیں ‘‘ (ممبرانِ اسمبلی و کونسل آف سٹیٹ : کبیرالدین احمد، ص۱۶۴)
’’ ہندو ہوتے تو خلوص کے دیوتا اور دھرماتما مانے جاتے، انگریز ہوتے تب بھی سیاسی میدان میں وعدہ پورا کرتے ، کانگرسی ہوتے تو اعتدال پسندوں کے ساتھ رہتے ، صوفی ہوتے تب بھی قوالی نہ سنتے ‘‘ (ممبرانِ اسمبلی و کونسل آف سٹیٹ : حاجی وجیہ الدین، ص۱۶۶)
’’ انگریز سرکار کے عشق میں قیس عامری ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ قیس کو عشق بے نتیجہ نے لاغر کر دیا تھا اور یہ نتیجہ خیز عشق کے سبب فربہ ہوگئے ہیں۔ قدرت نے ان کو جسم عرض و طول مربع دیا ہے اور جس رخ سے دیکھو مساوی نظر آتا ہے ۔ ایسے ہی دماغ اور دل میں یکسانیت ہے ...... اردو کو انگریزی لباس پہنا کر انگریزی زبان بنا دینا ان کو خوب آتا ہے ۔ مگر میری تحریر کا انگریزی ترجمہ یہ بھی نہیں کرسکتے ، اس لیے جو چاہتا ہوں لکھ ڈالتا ہوں اور جو دل میں آتا ہے کہہ دیتا ہوں ‘‘ (گورنمنٹ کے ستون : سید جعفری، ص۱۶۷) 
’’ ہنستے کم ہیں ، طبی ضرورت سے شاید کبھی مسکرا لیتے ہوں گے ......سنجیدگی اور کم سخنی کے بازوؤں پر ہاتھ کر زندگی کا راستہ چلتے ہیں ‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم :ڈاکٹر انصاری ، ص۱۷۴، ص۱۷۵)
’’ ان کا کمال یہ ہے کہ کسی قوم کے خلاف یا کسی مضمون کے خلاف تقریر کرتے ہیں تو حریف کسی لفظ کی گرفت نہیں کر سکتا اور یہ سب کچھ کہہ جاتے ہیں اور حریف مبہوت رہ جاتا ہے ...... وہ اقوام کی دماغی تبدیلی کا گر سب سے زیادہ جانتے ہیں اور چند جملوں میں لاکھوں ، کروڑوں آدمیوں کی ذہنیت بدل دیتے ہیں اس لیے مالوی ہندوؤں کے سب سے بڑے آدمی ہیں‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم :مالوی جی، ص۱۸۶)
’ ’نرم چوب ہیں مگر ایسی نرمی نہیں ، جس کو کیڑا لگ جائے ۔ شریفانہ وضع داری کی ملائمت ہے ۔ سب کو خوش کر سکتے ہیں اور کمال یہ ہے کہ سب سے خوش رہ بھی سکتے ہیں ‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم:ڈاکٹر سید محمود، ص۱۸۸)
’’ پہلے ڈاڑھی منڈواتے تھے ، پھر ڈاڑھی بڑھائی ، اور میں نے کئی سال تک ان کی ڈاڑھی کی سال گرہ کے جلسے کیے ، جس میں دہلی کے عماید اور ممبرانِ اسمبلی بھی نہایت لطف و دل چسپی کے ساتھ شریک ہوتے تھے ‘‘ (خان نعمت اللہ خان، ص ۱۸۹)
خواجہ صاحب نے سکندر حیات خان کو شرارتی سیلوٹ کیا ہے ، ذرا دیکھیے: 
’’ پنجاب کے قایم مقام گورنر رہ چکے ہیں ۔ ان کے دادا فوجی افسر تھے ۔ ایک انگریز کی جاں نثاری کے صلے میں اس خاندان کو عروج ہوا ......میں انگریز ہوتا تو ان کو وایسرائے بنادیتا اور اپنی سوسایٹی سے کہتا کہ دیکھو میری حکمت کہ نام ایک ہندوستانی کا ہے مگر کام میری قوم کا ہو رہا ہے ‘‘ (ممبرانِ اسمبلی و کونسل آف سٹیٹ :سر سکندر حیات خاں، ص۱۶۰)
پنجاب کے سر فضل حسین برطانوی ہندوستان کے مرکز اور پنجاب میں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ غالباََ مسلمانوں کے لیے ان کی گراں قدر خدمات نے خواجہ صاحب کو خاکہ کشی کی ترغیب دی ہے: 
’’ ہندوؤں میں متعصب مسلمان مشہور ہیں ، لیکن عقل کا کمال تعصب سے اونچا رہتا ہے اس واسطے یہ ہر قسم کے تعصب سے اعلیٰ و برتر ہیں ، البتہ بعض اوقات دل ہی دل میں اپنی عقل پر تعلّی کرنے لگتے ہیں۔‘‘ (ممبرانِ اسمبلی و کونسل آف سٹیٹ : میاں سر فضل حسین، ص۱۶۴)
سر فضل حسین ، ہندوؤں میں متعصب کیوں مشہور تھے اس کی ایک وجہ ہم بیان کیے دیتے ہیں۔ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں مانٹیگو چیمسفورڈ آئینی اصلاحات کی سکیم نافذ کی گئی۔ حال آں کہ یہ مسلمانوں کے حقوق ملحوظ رکھتے ہوئے نہیں بنائی گئی تھی، لیکن اس کے تحت مسلمانوں کو خاطر خواہ فایدہ ہوا۔ اس سکیم کے تحت پنجاب کے پہلے وزیرِ تعلیم سر فضل حسین (۱۹۲۱۔۱۹۲۶) نے انتظامی اقدامات کے ذریعے سرکاری تعلیمی اداروں میں مسلمان طلبا کے ۴۰222 داخلوں کو یقینی بنادیا۔ اس وقت پنجاب کی مسلم آبادی ۵۵222 تھی، اس لحاظ سے یہ ایک معتدل اور قدرے معذرت خواہانہ قدم تھا ، مگر اس پر بھی ہندوؤں نے ہر مرحلے پر اسے سختی سے چیلنج کیا۔خیال رہے کہ اس وقت پنجاب یونی ورسٹی اور اس سے ملحق ادارے غیر مسلم کنٹرول میں تھے اور انہیں اکثر غیر مسلم مفادات کے لیے ہی استعمال کیا جاتا تھا۔ یہاں یہ بیان کرنا بھی بر محل ہو گا کہ اس وقت کے برطانوی ہندوستان میں صرف پنجاب ہی واحد مسلم اکثریتی صوبہ تھا ۔ بنگال میں مسلمان بمشکل ہندوؤں کے برابر تھے۔ ۱۹۰۵ کی تقسیم بنگال کے تحت مشرقی بنگال اور آسام پر مشتمل مسلم اکثریتی صوبہ وجود میں آیا تو ہندوؤں نے اس پر خوب واویلا کیا اور ۱۹۱۱ میں تقسیم کی تنسیخ کرا کے ہی دم لیا۔ 
ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم کو خواجہ حسن نظامی ایوارڈ دیا جانا چاہیے، اگرچہ کافی تاخیر ہوگئی ہے لیکن بعد از مرگ، دیر آید درست آید کے مصداق ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن قبل از قیامت کی شرط بھی ضروری ہے۔ قارئین حیران ہو رہے ہوں گے کہ ہم اتنی شدومد کے ساتھ ڈاکٹر ذاکر مرحوم کو ایوارڈ دینے کی وکالت کیوں کر رہے ہیں، لیجیے خود ہی فیصلہ کیجیے: 
’’ ڈاکٹر ذاکر حسین دو صدی پہلے پیدا ہو جاتے تو ہماری سلطنت غارت نہ ہوتی ۔ وہ سلطنت قایم کرنے کے لیے پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ ہندوستانیوں کو انسان بنانے کے لیے انہیں پیدا کیا گیا ہے ۔ اگر عمر کا منتقل کرنا ممکن ہوتا تو میں اپنی زندگی کے پانچ مہینے ان کو دے سکتا تھا، زیادہ نہیں کیوں کہ میں فضول خرچی کو برا سمجھتا ہوں‘‘ ( ڈاکٹر ذاکر حسین، ص۱۳۵)
حیرت ہوتی ہے کہ خواجہ صاحب غلامی کے دور میں بھی برطانوی پارلیمانی نظام کو اچھی طرح سمجھتے تھے ، جب کہ اچھے اچھوں کو آزادی کے بعد بھی (بلکہ ابھی تک) اس کی الف ب پلّے نہیں پڑی۔مولوی تمیزالدین کیس میں خواجہ صاحب کا درج ذیل خاکہ پیش کیا جاتا تو شاید ’’ماماجج‘‘ درست فیصلہ کر پاتا: 
’’ ان کی حکومت کے اراکین سب کام ان کے نام پر کرتے ہیں اور دنیا کو بے علم سمجھتے ہیں کہ سارا اختیار شہنشاہ جارج کے ہاتھ میں ہے ۔ حال آں کہ سب اختیار اراکینِ حکومت نے آپس میں بانٹ لیے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھر کے دادا جان ایک بڑے پلنگ پر دری چاندنی بچھائے گاؤ تکیے سے لگے بیٹھے ہیں اور ان کے چاروں طرف ان کے بیٹے پوتے جمع ہیں ۔ ایک کہتا ہے کہ ایک کروڑ کے ہوائی جہاز خرید لو ، بادشاہ سلامت کا ارشاد ہے۔ دوسرا کہتا ہے کہ فلاں قوم کے ہتھیار چھین لو ، بادشاہ سلامت حکم دیتے ہیں ۔ تیسرا کہتا ہے ، حضور جہاں پناہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہندوستان ابھی مکمل آزادی کے قابل نہیں ہوا ہے ۔ 
بادشاہ سلامت سب کی باتیں سنتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ نہ میں نے ایک کروڑ روپے کے ہوائی جہاز خریدنے کے لیے کہا ، نہ میں نے کسی قوم کو ہتھیاروں سے محروم کرنے کا حکم دیا اور نہ میرا یہ خیال ہے کہ ہندوستانی آزادی کے لایق نہیں ہیں! مگر یہ میری اولاد کیسی گستاخ اور دلیر ہے کہ میرے ہی سامنے جھوٹ بولتی ہے ۔ میں تو چاہتا ہوں کہ میری ساری رعایا آزاد ہو ، میری ساری رعایا امن پسند ہو ، میری ساری رعایا عیش میں ہو ، میں کچھ چاہتا ہوں یہ کچھ کہتے ہیں! پھر بھی غنیمت ہے کہ انہوں نے مجھے گاؤ تکیے سے لگا کر بٹھا تو رکھا ہے ‘‘ (شہنشاہ جارج پنجم کا حلیہ، ص۱۴۴) 
جارج پنجم کے اس خاکے میں نہایت لطیف کنائے میں جمہوریت پر چوٹ بھی کی گئی ہے اور بادشاہت کی وضع دار صفات کی عقدہ کشائی بھی۔ ذرا غور کیجیے کہ جب شہنشاہ ہر پہلو سے اپنی ’’رعایا‘‘ کی بہتری کا خواہاں ہے تو پھر آخر رعایا کے نام پر اقتدار سنبھالنے والے رعایا کا جینا کیوں حرام کیے ہوئے ہیں؟۔ یہ سوال آج بھی اتنا ہی جواب طلب ہے جتنا خواجہ مرحوم کے دور میں تھا۔ زیرِ نظر تالیف میں ایک بہت دل چسپ خاکہ ، خواجہ صاحب کی مشاہداتی حس کی بھر پور نمایندگی تو کرتا ہی ہے مگر اس کے ساتھ کسی مکروہ حقیقت کو انتہائی مناسب الفاظ میں ڈھال کر سماجی ضمیر کو کچوکے لگانے کے فن کی نیو بھی رکھتا ہے ، بغور پڑھیے: 
’’ ٹھگنا قد جیسے ورزش کا مگدر ، موٹا بدن ، جیسے ڈنلاپ ٹایر کی اشتہاری تصویر ، رنگ نہ گورا نہ کالا ، نہ گندمی نہ سانولا، نہ پھیکا نہ میٹھا، نہ کڑوا نہ کسیلا، بلکہ کالے سفید تلوں کی ملی ہوئی بھوسی کی رنگت ہے۔ چہرہ سلولائٹ ساخت کے کھولوں سے مشابہ ہے ، نہ گول ہے نہ کتابی۔ دیکھنے میں انسانی صورت ہے مگر فرشتوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی نہیں بلکہ شداد نے اپنی بہشت بناتے وقت کسی کمہار سے بنوائی ہو گی۔ آنکھیں مگرمچھ کی طرح چھوٹی چھوٹی، زمین کی طرف جھکی ہوئی ۔ گردن صراحی دار نہیں ہے ، نہ لمبی ہے بلکہ بہت کوتا ہ ہے۔ پیشانی کنجوس کا دل ہے۔ بولنے کا ڈھنگ نہ چینی ہے نہ جاپانی ، ایرانی ہے نہ تورانی۔ جب بولتا ہے تو الفاظ منہ سے اس طرح اچھل اچھل کر، ابل ابل کر، چٹخ چٹخ کرباہر گرتے ہیں جیسے مکئی کے دانے بھاڑ سے بھن بھن کر باہر گرا کرتے ہیں یا جیسے ربڑ کی پچکاری سے جیبی قلم میں روشنائی کے قطرے ٹپکائے جاتے ہیں۔ ازل کے دن جب خندہ پیشانی تقسیم ہو رہی تھی تو یہ ذرا سو گیا تھا اس لیے اس کا منہ ہر وقت غصہ سے سوجا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اپنی عارضی چند روزہ نوکری کی خاطر سے کبھی مسکرانا چاہتا ہے تو اجالے میں اندھیرا ہو جاتا ہے اور کاینات کی زندہ دلی سہم کر چھپ جاتی ہے۔ چلتا ہے تو مکھنے ہاتھی یا ارنے بھینسے کی طرح جھومتا ہوا چلتا ہے اور فارسی کا یہ مصرع پڑھنا پڑتا ہے کہ
مردم بہ ایں طرز خرا میدانِ تو!
عمر چالیس سال سے زیادہ ہے اور خود اس کے کان میں کہا کرتی ہے کہ 
’’چہل سال عمرِ عزیز ت گزشت ۔ مزاجِ تو از حالِ طفلی نہ گشت‘‘ 
تین ہزار روپے ماہوار کماتا ہے مگر تین پیسے ماہوار کی حیثیت میں دکھائی دیتا ہے۔ آدمی ہے مگر آدمیت سے محروم۔ ہندوستانی ہے لیکن اگر اس کے سارے جسم کو کھرچ ڈالا جائے تو تین ماشے چار رتی ہندوستانیت بھی اندر سے نہ نکلے گی مگر نخوت، تکبر، خود پسندی، بے رحمی، مردم آزاری کے برادے کا ایک انبار پایا جائے گا۔ اس کا نام مسلمانوں کا سا ہے مگر اسلامی نام سے نفرت کرتا ہے اور مسلمانوں کو ستانے اور نقصان پہنچانے میں اس کو مزہ آتا ہے۔ نماز پڑھنے والوں کو مکار، روزہ رکھنے والوں کو احمق، زکوۃ دینے والوں کو فضول خرچ ، حج کرنے والوں کوعقل باختہ تصور کرتا ہے ۔ 
اپنی ساری زندگی میں کبھی کسی مسلمان کو فایدہ پہنچانے کا گناہ نہیں کیا۔ صبح سے شام تک سوچتا رہتا ہے کہ مسلمانوں کو کیوں کر نقصان پہنچائے!‘‘(نئی روشنی کا فرعون: ایک سرکاری آفیسر، ص۱۶۹، ۱۷۰)
خیال رہے زیرِ نظر تالیف میں دہلی کے ایک کمشنر ، دو ڈپٹی کمشنرز اور دو مجسٹریٹس کے خاکے بھی شامل ہیں۔خواجہ صاحب نے ان سبھوں کے اخلاق اور کام میں پختگی کی تعریف کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سرکاری آفیسر کا جو خاکہ ابھی آپ نے ملاحظہ کیا ، کسی بیوروکریٹ کا نہیں بلکہ عام چھوٹے موٹے افسر کا ہے۔ ہمیں خواجہ صاحب کی خوش قسمتی پر رشک آرہا ہے کہ ان کے دور میں کم از کم اعلیٰ سرکاری افسران تو بااخلاق اور عوام کے لیے بے لوث کام کرنے والے تھے ، ان کی بدولت نچلے افسران بھی کچھ نہ کچھ عوامی انداز اپنا لیتے ہوں گے۔ جب کہ ہمارے زمانے میں بیورو کریٹس ، ذہنی اعتبار سے اتنے پست ہو چکے ہیں کہ خاکہ پڑھ کر سب سے پہلے انہی کی طرف دھیان جاتا ہے۔ چلیں! یہ تو ہو گیا آج کے بیوروکریٹ کا خاکہ، سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کے عام سرکاری افسر کا خاکہ کس کا قلم کھینچے گا؟
خواجہ صاحب نے ایک مثالی جوڑے کا خاکہ بھی پیش کیا ہے۔ اس جوڑے کی داخلی دنیا کیسی تھی، اس سے ہمیں زیادہ تعرض نہیں کرنا چاہیے، ویسے خواجہ مرحوم نے خانگی امور کی عمدگی کی بابت بھی دو چار اشارے کیے ہیں ، لیکن اس جوڑے کا جو روپ دنیا کے سامنے تھا ، بلاشبہ قابلِ تعریف اور بے مثال تھا۔ دیکھیے خواجہ نے کتنے دل نشین پیرائے میں خامہ فرسائی کی ہے :
’’بولتے ہیں تو چہرے کے اعصاب کی حرکات میں موسیقی کے پردوں کی جنبش پیدا ہو جاتی ہے اور دل کا مطلب ایک عمدہ شعر کی صورت بن کر ان کے چہرہ پر آ جاتا ہے ...... فرشتوں نے پیرس کی مٹی سے ان کا پتلا بنایا ہو گا اور دہلی اور لکھنو کی خاک سے رنگ آمیزی کی ہو گی‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم : مسٹر آصف علی، ص۱۷۱)
’’ عورت کا غرور ، عورت کی ضد ، عورت کی خود پسندی ، عورت کی نازک مزاجی سے کوسوں دور ہیں ، اس لیے عورتوں کے روپ میں مرد ہیں۔ مرد کی بے وفائی ، مرد کی خود غرضی ، مرد کی حاکمیت ، مرد کی تلون مزاجی نہیں ہے ، اس لیے اصلی اور خالص عورت ہیں ‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم: بیگم آصف علی، ص۱۷۶) 
ہمیں تو ریاست رام پور کے حکم ران کا خاکہ پڑھ کر وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف یاد آگئے جنہیں یار لوگوں نے ’’بلڈ پریشر وزیرِ اعلیٰ‘‘ کا خطاب دے رکھا ہے کہ نہ خود آرام کرتے ہیں اور نہ ہی کام میں ہر وقت جٹے ہوئے معصوم بیورو کریٹس کے آرام کا خیال کرتے ہیں ۔ شاید تاج دارِ رام پور کی روح وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف میں حلول کر گئی ہے ، ملاحظہ کیجیے:
’’ ایک بڑی سڑک بنانے کا حکم دیا کہ آٹھ روز میں تیار ہو جائے! حال آں کہ وہ آٹھ مہینے میں تیار ہونے کے لایق تھی ۔ یہ حکم دیتے ہی انہوں نے محمود و تیمور کی طرح کام کی یلغار شروع کر دی اور آٹھ دن مسلسل کام کراتے رہے اور خود اپنی ذات کا آرام ترک کر دیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ سڑک آٹھ روز میں تیار ہو گئی‘‘ (ریاست رام پور: تاج دار رام پور، ص۱۵۳)
لیکن رام پور کے تاج دار ایک لحاظ سے ہمارے وزیرِ اعلیٰ پر کافی بھاری ہیں ۔ ظاہر ہے اتنا مستعد بندہ جسمانی اعتبار سے بھاری نہیں ہو سکتا ، اس لیے وہ کم از کم وزن میں تو بھاری نہیں ہیں ، وہ بھاری ہیں تو صرف اور صرف اپنی صفتِ مردم شناسی میں۔ ان کے مقرر کردہ پولیٹیکل منسٹر کا خاکہ کافی متاثر کن ہے ۔ ایک دو سطریں نمونے کے لیے حاضر ہیں : 
’’ دنیا میں جو دماغی اور ذہنی تبدیلیاں ہو رہی ہیں ان کو اس طرح سمجھتے ہیں یا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں گویا قدرت نے ان کو اسی کام کے لیے بنایا ہے ‘‘ (انتظامیہ رام پور: زیدی صاحب، ص۱۵۴)
گویا بیسیویں صدی کے پہلے نصف میں دنیا کی سطح پر جو تبدیلیاں ہو رہی تھیں موصوف کی ان پر گہری نظر تھی ، حال آں کہ اس دور کی دنیا گلوبل ولیج بننے سے کوسوں دور تھی ، اس لیے گہری کے بجائے سرسری نظر سے بھی کام چل سکتا تھا۔ جب کہ ہمارے وزیرِ اعلیٰ کی ٹیم اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کے تقریباََ اختتام پر ، گلوبل ولیج کو بیسویں صدی کے آغاز کی دنیا تسلیم کیے ہوئے ہے۔کاش! زیدی صاحب کی روح بھی کسی ’’بٹ‘‘ میں حلول کر جاتی۔ 
برِ عظیم کی مسلم ریاستوں کے زوال میں مسلم حکم رانوں کے لچھن کس حد تک دخیل تھے ، اس کی ایک جھلک خواجہ حسن نظامی نے ریاست مانگرول کے نواب جہانگیر میاں کے توصیفی خاکے میں جملہ معترضہ کے طور پر پیش کی ہے:
’’ان کی ریاست جونا گڑھ کے برابر ہوتی تو ہندوستان کے ہر صوبے میں ایک قومی یونی ورسٹی اپنے خرچ سے بنا دیتے اور جونا گڑھ کی طرح کتوں میں روپیہ برباد نہ کرتے‘‘ (ریاست مانگرول: نواب صاحب مانگرول، ص۱۵۶)
اب ہم حصہ سوم کے خاکوں کاجایزہ لیتے ہیں جنہیں ’تصویرِ خصایل: ایک نفسیاتی مطالعہ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ انگریز وں کو خواجہ مرحوم نے قریب سے دیکھا تھا اس لیے ان کا خاصا دل چسپ اور مبنی بر حقیقت خاکہ سپردِ قلم کیا ہے : 
’’ وہ دبتا ہے تو چیونٹی بن کر کاٹتا ہے، دباؤ سے نکلتا ہے تو بھی ہاتھی بن کر سونڈ ہلاتا ہے ...... اس کو جاہل اور بے عقل آدمیوں سے ایسا کام لینا آتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے ...... تجارتی مال دکانوں پر سجانے اور ان کے پارسلوں کو عمدہ بنا کر بیچنے میں کمال حاصل ہے‘‘(قومی خصایل: انگریز کے خصایل، ص۱۹۵)
خواجہ صاحب نے یہ جو فرمایا ہے کہ ’’اس کو جاہل اور بے عقل آدمیوں سے ایسا کام لینا آتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے‘‘، ہمارے لیے حیرت انگیز نہیں ہے ۔ کیوں کہ ہم اس آفاقی سچ سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ہر انسان کے اندر’عزتِ نفس‘ نامی ایک میٹر لازماََ لگا ہوتا ہے چاہے وہ جاہل ہو یا عالم۔ اس لیے جس انسان سے کام لینا مقصود ہو ،اگر اس کی عزتِ نفس کو مسلسل ملحوظ رکھا جائے تو ایسا واقعہ استثنائی ہو گا کہ انسان بھر پور لگن ، دل جمعی اور دیانت داری سے کام نہ کرے۔ خواجہ صاحب کی حیرت بھی بجا ہے کیوں کہ مسلم سوسائٹی میں ، چاہے وہ ان کے زمانے کی ہو یا ہمارے عہد کی، سرے سے عزتِ نفس کے وجود سے ہی انکار کیا جاتا ہے چہ جائے کہ اس کا احترام کیا جائے۔اب ذرا ہندو کے خصایل دیکھ لیجیے: 
’’روپے کے معاملے میں بڑا ہوشیار ، پتھر میں جونک لگانے والا، سود لینے میں بے رحم اور ہر سچائی کو چھوڑ سکنے والا ہے ...... ہندو کو کیمیا آتی ہے مگر اس کیمیا کے شوق سے بھاگتا ہے جہاں کچھ خرچ کرنا پڑے‘‘(قومی خصایل: ہندو کے خصایل، ص۱۹۶) 
مسلمان کے خصایل سپردِ قلم کرتے ہوئے خواجہ صاحب کا قلم ڈگمگایا نہیں ، دیکھیے ذرا:
’’لمبی ڈاڑھی، مونچھ کتری ہوئی اور آج کل ڈاڑھی منڈوائے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ پہلے ہندوستان کا حاکم تھا اب انگریزوں اور ہندوؤں سے حکومت مانگا کرتا ہے اور قدیمی ہمت کو بھول گیا ہے۔ مذہب کا دیوانہ ہے ۔ فرہاد سے زیادہ عقیدے کو شیریں سمجھتا ہے ۔ مذہب کی معمولی بات پر جان دے ڈالتا ہے ۔ بڑا بھولا ہے ، ملائی کی رکابی چرا کر لے لو اور اس کے بدلے دھنکی ہوئی روئی رکھ دو مگر ذرا تعریف کر لو تو روئی کو ملائی تسلیم کرکے روکھی روٹی اس کو لگا کر کھا لیتا ہے ’’چکھ ڈال مال دھن کو ، کوڑی نہ رکھ کفن کو‘‘ اس کا مقولہ بھی ہے اور اسی پر اس کا عمل بھی ہے ایک روپے کی آمدنی ہو تو ایک سو روپے خرچ کرنا پڑتا ہے ۔ عورتوں اور سود خواروں سے تعلق پیدا کرنا اس کی عادت ہو گئی ہے ۔ ...... سیاسی عقل کم زور ہے ۔ تاج و تخت لینے کی بات ہو تو مسجد کے سامنے نفیری بند کرانے کو اپنے لیے کافی سمجھ لیتا ہے اور تاج کی پرواہ نہیں کرتا ۔ دنیا میں سب سے بڑا فضول خرچ مگر سب سے بڑا شجاع ہے ۔ آج کل اس کو غصہ جلدی آ جاتا ہے اور غصہ پی جانے کا قرآنی حکم یاد نہیں کرتا ۔ اس کو مولوی اور سیاسی لیڈر بہت جلدی گرفتار کر سکتے ہیں اس لیے چالاک لوگ مذہب کا نام لے کر اس کو احمق بناتے رہتے ہیں ‘‘ (قومی خصایل : مسلمان کے خصایل ، ص۱۹۶، ۱۹۷) 
خواجہ صاحب کو انگریز پر حیرت تھی لیکن ہمیں مسلمان پر حیرت ہے کہ متلون اشتعالی نفسیات کا مظاہرہ کرنے میں اتنا زیادہ’’ مستقل مزاج‘‘ واقع ہوا ہے کہ استقلال کو اس پر رشک آتا ہے(اگر استقلال مونث ہوتا تو رشک کے بجائے حسد کرتا)۔ کئی عشروں کے بعدبھی اور زمینی حقایق میں انقلابی تبدیلی کے باوجود بھی مسلمان کے خصایل میں بہتری رونما کیوں نہیں ہوئی ، اس کا جواب خواجہ مرحوم کے اسی خاکے میں مل جاتا ہے کہ ’’ اس کو مولوی اور سیاسی لیڈر بہت جلدی گرفتار کر سکتے ہیں اس لیے چالاک لوگ مذہب کا نام لے کر اس کو احمق بناتے رہتے ہیں‘‘ ، مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ مسلمان کی راہنمائی کر کے صورتِ حال کو بہتر کر سکتے ہیں درحقیقت وہی لوگ اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ کی خاطر اسے ذہنی پستی میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں۔ 
جب سکھوں کی بات ہو اور کوئی لطیفہ پیش نہ کیا جائے تو اسے بھی لطیفہ ہی سمجھا جاتا ہے ۔ خواجہ صاحب نہایت لطافت سے ’سکھ کے خصایل ‘ میں خاکے کے تقاضے نبھاگئے ہیں:
’’ جسم مضبوط ، دل قوی ، مزاج کا ضدی ، بات کا پورا ، اس کو جس پہلو سے الٹو ہر رخ سے سکھ نظر آتا ہے ...... اس کی عقل جان بل کی طرح ذرا موٹی ہے مگر اس کی جرات کو دیکھ کو سب اس کی عقل کو نازک اندام کہنے لگتے ہیں‘‘ (قومی خصایل : سکھ کے خصایل ،ص ۱۹۷)
پنجاب کے دریاؤں سے اٹھتی ، اس کی زمین سے وابستہ ’’پنجابی‘‘ کی تعریف و تنقیص ملاحظہ کیجیے:
’’پانچ دریاؤں کی زمین میں رہنے کے سبب اس کا خیال بھی پانی کی طرح پتلا ہو جاتا ہے جس میں نئی بات اور نئے عقیدے کا رنگ فوراََ مل جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جو نئی تحریکیں ملک میں پیدا ہوتی ہیں ان کو سب سے زیادہ پنجاب میں مقبولیت ہوتی ہے ۔ پنجابی کی محنت و جفا کشی نے اس کو بنگالی کی ذہانت پر غالب کر دیا ہے ۔ وہ دنیا کے ہر ملک اور ہندوستان کے ہر مقام میں موجود ہے اور ہر کام میں اس کا دخل ہے ۔ مگر دریا کی طرح اس کی خصلت میں اتار چڑھاؤ جاری رہتا ہے‘‘ (وطنی خصایل : پنجاب والہ کے خصایل، ص۱۹۸، ۱۹۹) 
یو پی کے لوگوں کے خصایل بھی خواجہ صاحب نے خوب پیش کیے ہیں:
’’نازک اندام ، نازک خرام، عقل کا پتلا، کام چور، محنت کوخلافِ انسانیت سمجھنے والا۔ سازش میں کامل، ظاہرداری کا بادشاہ، ذکاوت و ذہانت کا خزانے دار، بناؤ سنگار کا شوقین، بول چال کی نفاست کا شیدا۔ پنجابیوں کی جفاکشی کو آدمیت کے خلاف سمجھنے والا۔ قدامت کی خوبیوں کا گرویدہ۔ تقریر و تحریر میں اعجاز دکھانے والا، مگر پنجابی کی طرح تحریروں کا انبار نہیں لگا سکتا‘‘ (وطنی خصایل : یوپی والہ کے خصایل، ص ۱۹۹)
سرکاری افسر کے خاکے کی طرز کی ایک خاصے کی چیز ماڈرن معشوق کے خصایل ہیں، ملاحظہ کیجیے خواجہ کے طرح دار قلم نے انہیں کیسے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے:
’’پہلے سرو کی طرح لمبا، کھجور کی ٹہنی کی مثل دبلا ، گیسو سانپ ، ماتھا چاند ، رخسار سیب ، ٹھوڑی کنواں ، ہونٹ یاقوت اور لعل ، دانت موتی ، گردن صراحی ، چھتیاں سنگ خارا ، کمر غائب ، بھویں کمان ، پلکیں برچھیاں ، آنکھیں شراب کا جام، نظریں تیر تلوارخنجر تھیں اور شاعر ان تشبیہات کو مختلف طریقوں سے بیان کرتے تھے ، مگر آج کل کے ماڈرن معشوق کا حلیہ اور اس کی تشبیہات یہ ہیں ؛
قد ایسا جیسا اخبار کا کالم ، بال ایسے جیسے تن خواہوں کی تخفیف ، پیشانی ایسی جیسے وہائٹ پیپر ، بھویں ایسی جیسے اسمبلی ہال ، پلکیں لکھنے کا باریک نب ، آنکھیں ایکشا نمبر ون کے ننھے ننھے دو گلاس ، نگاہیں کنزرویٹو گورنمنٹ کی پالیسی ، رخسار بالشویک یا سرحدی سرخ پوش ، تھوڑی برٹش ڈپلومیسی ، ہونٹ انگریزی کھانے کی لال جیلی ، دانت کانگرسی زبان کا جیل خانہ ، گردن جودھ پوری برجس ، چھاتیاں پنیر کی چکتیاں ، کمر ہندوستان کا اتفاق ، بالوں کی کتر شامیانے کی جھالر ، بالوں کا تیل چھچھوندر کے آنسو ، چہرے کا پوڈر ملکی ہم دردی ۔ ایسا نازک جیسے خطاب پرست کا دل ، ایسا ضدی جیسے پولیس کا سپاہی ، ایسا بے وفا جیسے دیسی لیڈر اور ایسا ہرجائی جیسے تمباکو اور ایسا منہ چڑھا جیسے چائے کی پیالی ۔ چلتا ہے تو سگریٹ کے دھوئیں کی طرح بل کھاتا ہوا ، دیکھتا ہے تو خورد بین بن جاتا ہے ، بولتا ہے تو پیانو معلوم ہوتا ہے ۔ وہ پہلے درخت تھا جانور تھا اور ایک ڈراؤنا ہوّا تھا ۔ اب آدمی تو بن گیا ہے مگر کچھ گورا ہے ، کچھ کالا ہے ، کچھ کچا ہے ، کچھ پکا ہے ۔ 
پہلے فرہاد ، مجنوں اور رانجھا اس کے عاشق تھے اور وہ شیریں ، لیلی ، ہیر کے نام سے پکارا جاتا تھا اور اب سب عورت مرد معشوق بن گئے ہیں ۔ کیوں کہ ہر شخص مخاطب کو چاہے عورت ہو یا مرد ، ڈیر(پیارا ۔پیاری) کہتا اور لکھتا ہے ۔ گویا معشوقیت میں بھی جمہوریت ہو گئی ہے ۔ 
پہلے جوانی میں یاد آتا تھا ، اب طبی کمپنی دہلی کے فاسفورس کے تیل کی طرح بچپن اور بڑھاپے میں کام آتا ہے ، پہلے رقیب ہی پر مہربان تھا ، شاعر کو بہت ستاتا تھا ۔ اب بہت ملن سار ہو گیا ہے ، اچھوت ذاتوں کے آغوش میں بھی چلا جاتا ہے ، پہلے دل لیتا تھا اب روپیہ لیتا ہے ۔ پہلے گلیوں میں رہتا تھا اب کوٹھیوں اور بنگلوں میں رہتا ہے ۔ پہلے کافر تھااب عیسائی ہو گیا ہے ۔ پہلے بت تھا بولتا نہ تھا اب باتونی ہو گیا ہے ۔ 
نئی روشنی کا یہ معشوق مہنگا نہیں ہے ارزاں ہے ، ہر جگہ مل جاتا ہے۔‘‘ (طبقاتی خصایل :ماڈرن معشوق کے خصایل : ص۲۰۱، ۲۰۲) 
’’ڈاکٹر کے خصایل‘‘ میں خواجہ صاحب نے ضمنی طور پر بعض ایسی باتیں کہی ہیں جن کی عام طور پر اس قسم کی انشا پردازی میں توقع نہیں کی جاتی۔ذرا دیکھیے کہ درآمد و برآمد میں توازن اور زرِ مبادلہ کے ذخایر کی اہمیت سے خواجہ حسن نظامی نہ صرف واقف ہیں بلکہ موقع پا کر مطلب کی بات بھی کہہ گئے ہیں: 
’’ڈاکٹر پڑھتا ہے تو ایسی محنت سے کہ اس کی آنکھ اور اس کا دماغ اور اس کا دل اور اس کا معدہ بیمار ہو جاتا ہے اور پڑھ کر فارغ ہوتا ہے تو ہر مرض کی دوا بن جاتا ہے ...... ڈاکٹر غریب و مفلس ہندوستان میں بہت مہنگا معالج ہے اور اس کی وجہ سے ہر سال ۹۵ کروڑ روپے کی دوائیں اور آلات غیر ملک سے آکر اس ملک میں بِک جاتے ہیں اور ملک کی دولت باہر چلی جاتی ہے ۔ ڈاکٹر لکیر کا فقیر نہیں ہوتا ‘‘ (پیشہ وارانہ خصایل؛ ڈاکٹر کے خصایل، ص۲۰۲)
خواجہ صاحب کا یہ کہنا کہ’’ ڈاکٹر لکیر کا فقیر نہیں ہوتا‘‘، جارج برنارڈ شاہ کے فرمودہ سے بالکل مختلف ہے۔ شاہ نے اپنے مضمون Are Doctors Men of Science? میں ڈاکٹرز کے لکیر کے فقیر ہونے کو ثابت کرکے ان کا کافی تمسخر اڑایا ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ خواجہ مرحوم نے ڈاکٹرز کے مقابل حکیموں کی خوب درگت بنائی ہے ،ذرا تصور کیجیے کہ اگر برنارڈ شاہ حکیموں پر قلم اٹھاتا تو کیا قیامت ڈھاتا: 
’’کنوئیں کے اندر رہتا ہے اور کہتا ہے کہ دنیا بس یہی ہے باہر کچھ بھی نہیں ہے۔ حکیم کو اس عقیدے پر اتنا اصرار ہے کہ اپنی طب کی ایک لمبی لکیر کا فقیر بنا بیٹھا رہتا ہے ...... حکیم پیشے کی رقابت میں ہر پیشہ ور سے بڑھا ہوا ہے۔ اپنے نسخے کو اکسیر اور دوسرے کے نسخے کو زہر کہتا رہتا ہے اور ڈاکٹری اس کی اس خصلت سے فایدہ اٹھاتی رہتی ہے ...... حکیم مفید دواؤں کو اپنی اولاد سے بھی مخفی رکھتا ہے اور کسی کو نہیں بتاتا اور قبر میں ساتھ لے جاتا ہے ‘‘ (پیشہ وارانہ خصایل؛ حکیم کے خصایل، ص۲۰۳)
سرجن حضرات کیسے کیسے گل کھلاتے ہیں ، خواجہ صاحب کی زبان سے ہی سنیے:
’’ ہندوستان میں ڈاکٹر اور ڈاکٹری کا جب سے رواج ہے ، بیماریاں بڑھ گئی ہیں ...... یہ بے ضرورت آپریشن یعنی جراحی کرتے ہیں ...... لکھنو کے ایک ڈاکٹر کا حال سنا کہ اس نے ایک مریض کے آپریشن کی فیس تین سو روپے بتائی اور جب معاملہ طے ہو گیا اور مریض کو آپریشن کے کمرے میں میز پر لٹا دیا گیا تو ڈاکٹر نے مریض کے وارثوں سے کہا کہ میں نے فیس کم کہی ، اب مریض کو اچھی طرح دیکھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ آپریشن بہت بڑا ہے اور پانچ سو روپے سے کم اس کی فیس نہ ہو گی ۔ وارثوں نے مجبوراََ پانچ سو روپے منظور کر لیے اور ڈاکٹر نے مریض کو بے ہوش کر کے پیٹ میں شگاف بھی دے دیے ۔ اس کے بعد ڈاکٹر کمرے کے باہر آیا اور وارثوں سے کہا کہ شگاف دینے کے بعد یہ ظاہر ہوا کہ آپریشن بہت پیچیدہ ہے اور اس میں مجھے بہت زیادہ محنت کرنی پڑے گی ورنہ مریض کی جان کا خطرہ ہے ۔ لہذا آپریشن کی فیس ایک ہزار روپے لوں گا ۔ وارثوں نے یہ بات سنی تو اپنے بیمار کی جان بچانے کے لیے بادلِ نخواستہ ہزار روپے فیس منظور کر لی اور تب اس ڈاکٹر نے آپریشن کو مکمل کیا ...... وکالت اور ڈاکٹر اور رنڈی کا پیشہ یہ سب ہندوستان کو مفلس بنانے والے ہیں۔‘‘(پیشہ وارانہ خصایل : آپریشن کے ڈاکٹر، ص۲۰۳، ۲۰۴)
خواجہ صاحب وکیلوں کی خبر لینے سے بھی نہیں چوکے۔ شاید تحریکِ خلافت میں وکلا نے ایسا پرجوش کردار ادا نہ کیا ہو جیسا ہمارے دور میں چیف جسٹس کی بحالی میں ان کا رہا ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو ، وکلا حضرات اپنا خاکہ پڑھ کر بغلیں جھانکتے نظر آئیں گے: 
’’اکثر جرایم پیشہ لوگوں کے لیڈر وکیلوں اور بیرسٹروں کے علاوہ رشوت خور پولیس والے بھی ہوتے ہیں لیکن مجرموں کی لیڈری کا بڑا حصہ وکیلوں ہی کے حصے میں آتا ہے ...... ہندوستان میں جتنے سیاسی لیڈر ہیں وہ سب یا اکثر پہلے وکالت کا پیشہ کرتے تھے ، ان میں سے بعض اس پیشے کی برائیوں کو محسوس کرکے تارک ہو گئے ، جیسے کہ گاندھی جی ہیں اور مالوی جی ہیں اور مسٹر سی آر داس تھے اور نہرو جی تھے ۔ مگر بعض لیڈر ایسے ہیں جو اب تک وکالت کا پیشہ بھی کرتے ہیں اور لیڈری بھی کرتے ہیں ...... ہندوستان میں آدھی تباہی رنڈیوں کے ہاتھوں سے ہو رہی ہے اور آدھی تباہی وکیلوں کے اور مقدمے بازیوں کے ذریعے ہو رہی ہے۔‘‘ (پیشہ وارانہ خصایل : مجرموں کے لیڈر وکیل ، ص۲۰۴، ۲۰۵) 
اب نجانے کون سی بات درست ہے کہ سیاسی لیڈر ، وکالت کے پیشے کی برائیوں کو محسوس کرکے تارک ہوگئے تھے اور ہو جاتے ہیں یا وکالت کی نسبت سیاست میں برائیوں کے زیادہ امکانات کی وجہ سے پورے سیاس ہوگئے تھے اور ہو جاتے ہیں؟ ہم فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔البتہ ایک پتے کی بات گوش گزار کریں گے کہ اگر بیرسٹر اعتزاز احسن کے کرداری پنڈولم پر نظر رکھی جائے تو فیصلہ کرنے میں آسانی رہے گی۔
خواجہ مرحوم کی خاکہ نگاری کم نگاہی سے مملو نہیں ہے۔ انہوں نے سستی شہرت کے لیبل سے بچنے کی خاطر ایسے متنازعہ موضوعات پر قلم اٹھانے سے گریز نہیں کیا، جن کی بابت مشرقی معاشرے میں کافی حساسیت پائی جاتی ہے۔ خواجہ حسن نظامی ، ایک ناول نگار کے مانند زندگی کو اس کی پوری جزئیات سمیت دیکھتے اور قبول کرتے ہیں، یہ جزئیات چاہے کتنی ہی مکروہ ہوں۔ اس لیے ان کے خاکے یک رخے ہونے کے بجائے تنوع کے حامل ہیں ۔ آنکھیں بند کرنے سے حقیقت بدل نہیں جاتی، لہذا آنکھیں کھول کر زندگی کے اس روپ کو بھی دیکھیے: 
’’نایکہ ظاہر میں ایک سن رسیدہ ، خاموش اور دنیا سے بے زار عورت معلوم ہوتی ہے ، لیکن وہ شیطان کی خالہ ہے اور گربہ مسکین ہے ۔ دنیا کے تمام سیاسی مدبرین ترازو کے ایک پلڑے میں رکھے جائیں ااور دوسرے پلڑے میں ہندوستان کی کسی نایکہ کو رکھ دیا جائے تب بھی ڈپلومیسی اور فریب کاری اور غلط بیانی میں نایکہ کا پلہ جھک جائے گا ‘‘(کاروبارِ شیطنت : نایکہ کے خصایل ، ص۲۰۶) 
اگر قارئین تصرف کی اجازت دیں تو معروضی حالات کے پیشِ نظر یہاں ’’ ہندوستانی نایکہ‘‘ کے بجائے’’ ہندوستان‘‘ حقیقت کی بہتر ترجمانی کرے گا۔ خیر! یہ ایک جملہ معترضہ تھا۔ خواجہ صاحب نے نایکہ کے کردار کا درست نقشہ کھینچا ہے ...... لیکن اگر اسے نایکہ ہی کا نقشہ تصور کیا جائے ، کیونکہ ذرا غور کرنے سے یہ پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ دنیا کے تمام سیاسی مدبرین، فریب کاری اور غلط بیانی میں ایسا یدطولیٰ رکھتے ہیں کہ خاکہ نگار کی نظروں میں نایکہ کی بدکرداری کے ابلاغ کے لیے اور کوئی کردار جچا ہی نہیں ۔ یہ نکتہ پہلودارضرور ہے لیکن دوراز کار ہرگز نہیں ، کیونکہ عمومی طور پر سیاسی مدبرین کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے جب کہ نایکہ کا کردار دنیا کے ہر سماج میں منفی اور قابلِ مذمت سمجھا جاتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ خواجہ صاحب نے کنائے میں سیاسی مدبرین کی ایک نمایاں ’خصوصیت ‘ کاخوب خاکہ اڑایا ہے ۔ اپنے سماج کے مختلف طبقات کے طور اطوار پر خواجہ صاحب کی اتنی کڑی نظر ہے کہ بعض اوقات گمان ہوتا ہے کہ کہیں وہ خود بھی انہی کا حصہ نہ ہوں۔دیکھیے ذرا ، زبان و بیان کی لطافت کا لبادہ اوڑھا کر سماجی کثافت کا اظہار کتنے حقیقی پیرائے میں کیا گیا ہے : 
’’ یہاں ہر رنڈی کے گھر میں ایک مکھی مار کاغذ رہتا ہے جس پر بہت سی عیاش مکھیاں آ کر بیٹھتی ہیں اور چپک کر رہ جاتی ہیں اور بہت عرصے تک جان کنی میں مبتلا رہ کر مر جاتی ہیں ...... یہ رنڈی ہندوستان کی آدھی تباہی کا باعث ہے ۔ جتنی جائیدادیں سود خواروں کے پاس دولت مندوں کی رہن اور بیع کے ذریعے جاتی ہیں ، ان میں زیادہ حصہ رنڈی بازی کی وجہ سے ہوتا ہے ‘‘ (کاروبارِ شیطنت : رنڈی، ص۲۰۷)
آج بھی غیر جانب دارانہ سروے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی کہ وطنِ عزیز کی تباہی کے جملہ عناصر میں رنڈی بازی بدرجہ اتم موجود ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہی ایک اداکارہ اور ایک سرمایہ دار کی توں تکار میڈیا میں موضوع سخن بنی رہی ۔خواجہ صاحب کی خاکہ کشی سے قطع نظر، حکیم الامت علامہ اقبال ؒ نے اپنے تصورِ خودی کے تناظر میں اداکاری کو پسندیدگی سے نہیں دیکھا تھا کہ اس سے اداکار پنی خودی کو مسل کر شترِ بے مہار بن جاتا ہے ۔ اب اگر پورا سماج ، شترِ بے مہار کی پیروی پر اتر آئے (خیال رہے اتباع و پیروی ، مقصود بھی ہوتی ہے کہ تفریح سے ہٹ کر ، ہر ڈرامے فلم وغیرہ کا مرکزی خیال عام طور پر اصلاحی ہوتا ہے جس کے ابلاغ کے ذریعے معاشرتی سدھار کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن زیادہ تر ہوتا یہ ہے کہ تماشائی، اصلاحی پیغام کے بجائے کسی فن کار کی اداؤں پر فریفتہ ہو جاتے ہیں ، اس کے اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے بولنے اور لباس پہننے [معاف کیجیے گا، اتارنے تک] کی اندھا دھند تقلید کرتے جاتے ہیں ، اور اصلاحی مقصد دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے )، تو غور کیجیے گا کہ کتنی خودیوں کا خون ہوتا ہے اور وہ بھی کسی بڑی خودی کے بے مہابا فروغ کے باعث نہیں ، بلکہ کسی فن کار کی اپنی خودی کی نفی سے۔ خواجہ حسن نظامی نے اسی اقبالی فکر کو اپنے الفاظ کا جامہ اس طرح پہنایا ہے : 
’’ وہ اور اس جیسی سب خوب صورت ایکٹرسیں جب ڈرامہ نوسیوں کے ان الفاظ کو تماشائیوں کے سامنے بولتی ہیں جن میں بیسوا کی برائیاں ہوتی ہیں تو ان کا دل ہنسا کرتا ہے کیوں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ان الفاظ سے طوایف بازی کا ذوق کم نہیں ہوتا بلکہ جذبات میں نیکی آمیز گناہ پیدا ہو جاتے ہیں ‘‘ (فن کار : کجن ، ص۲۰۸) 
’’نیکی آمیز گناہ‘‘ پر غور کیجیے کہ اس ترکیب سے ایک نفسیاتی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ انسان اپنے گناہ کے جواز کے لیے عموماََ ایسا افسانہ گھڑ لیتا ہے جس سے اس کا گناہ ، مزین ہو کر اس کے سامنے آتا ہے اور احساسِ گناہ کا تڑپا دینے والا جذبہ رخصت ہو جاتا ہے ۔ایسا نیکی آمیز گناہ ، حقیقی گناہ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ اس میں ندامت دلانے والی بے کیف رکھنے والی ضمیری رگ کو تھپک تھپک کر سلا دیا جاتا ہے، جبکہ حقیقی گناہ میں ضمیر کی خلش انسان کو سکون و چین کی نیند نہیں سونے دیتی اور انسان کروٹیں بدل بدل کر بے حال ہو جاتا ہے ۔ 
’’فن‘‘ کے نام پر ’’فن کار‘‘ کیا کیا گل کھلاتے ہیں ، جھوٹ و غلط بیانی کے کتنے لق و دق صحرا ہر روز عبور کرتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کو سراب میں مبتلا کر کے ان کی جمع پونجی اینٹھ کر نو دولتیوں کا ایک جاہل مگر بااثر طبقہ کیسے کھڑا کرتے ہیں، خواجہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں اس کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے :
’’ عمر تم پوچھو تو سولہ ، وہ پوچھیں تو کبھی سولہ سے کم ، کبھی سولہ سے بہت زیادہ ، ااور کبھی ان جان ہو کر کہے اماں کو معلوم ہے کہ میں کتنے برس کی ہوں ...... اس کا اثر فلم دیکھنے والے ہندوستان کے لیے طاعون اور ہیضے اور ملیریا کے جراثیم سے زیادہ متعدی ہے ۔ وہ اسٹیج کی حکم ران ہے جو توپوں ، ہوائی جہازوں اور تباہ کن کشتیوں کے بغیر سینما دیکھنے والوں پرحکومت کرتی ہے ۔ اس کے دیکھنے میں ، اس کے بولنے میں اور اس کے متحرک ہونے میں ایک جادو چھپا رہتا ہے ...... وہ بولتی ہوئی جھاڑو ہے جو غریب ہندوستانیوں کی جیب صاف کر کے دولت کا سارا کوڑا فلم کمپنیوں کی جیب میں پھینکتی رہتی ہے ‘‘ (فن کار : سلوچنا ، ص۲۰۹)
اس تالیف کو پورب اکادمی اسلام آباد نے نہایت خوب صورتی سے پیش کیا ہے ۔ ۲۳۲ صفحات کی اوسط درجے کے کاغذ پر طبع کتاب کی قیمت ۲۲۵روپے بہت زیادہ نہیں ہے۔ آج کل ان پیج کمپوزڈ کتب، پروف ریڈنگ کے اعتبار سے قاری کو مطمئن نہیں کر پا رہی ہیں لیکن اس کتاب میں پروف ریڈنگ کا معیار نہایت اعلیٰ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پورب اکادمی کے ذمہ داران ادبی ذوق رکھنے کے علاوہ جدیدتکنیکی تقاضوں سے بھی کافی آگاہ ہیں، اس لیے پوری کتاب میں ہمزہ کے ترک کے ساتھ ساتھ لفظوں کو ممکن حد تک توڑ کر املا کیا گیا ہے جس پر پورب اکادمی کے ذمہ داران مبارک باد کے مستحق ہیں۔
ویب سائٹ www.poorab.com.pk ، ای میل:info@poorab.com.pk 

اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب (۲)

محمد زاہد صدیق مغل

۲) مجوزین کے نظریہ بینکاری کا جائزہ 

اس مختصر وضاحت کے بعد ہم درج بالا نظریہ بینکنگ (جو درحقیقت مجوزین اسلامی بینکاری کا نظریہ بینکنگ بھی ہے) کا تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہیں۔ بحث کو سادہ اور عام فہم رکھنے کے لیے حد امکان تک علم معاشیات کے ٹیکنکل مواد سے صرف نظر کرنے کی کوشش کی جائے گی، اسی لیے بہت سی دیگر تفصیلات کونظر انداز کرتے ہوئے ہم درج بالا تصور بینکنگ کی دو خامیوں پر اکتفا کریں گے (۱۳)۔ 

۲.۱: نیوکلاسیکل نظریہ بینکنگ کی بنیادی خامیاں 

نیوکلاسیکل مفکرین کا یہ اصول کہ ’بینک کو بچتوں سے زائد قرض فراہم نہیں کرنے چاہیے ‘ ان مفروضوں پر مبنی ہے کہ (۱) چونکہ بینک کے قرضوں کا منبع لوگوں کی بچتیں ہوتی ہیں لہذا بچتوں کے بغیر بینک قرض نہیں دے سکتا، نیز (۲) اس کے قرضے بچتوں کے برابر ہوسکتے ہیں۔ ذیل میں ان دونوں دعووں کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ 

بینک کے قرض بچتوں کے برابر ہوسکنے کا دعویٰ

اس بینکاری نظام (جسے fractional reserve banking کہتے ہیں) میں بینکوں کے قرض اس کی بچتوں کے برابر ہونا ایک امر محال ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بینک اپنے قرض لوگوں کی بچتوں سے نہیں دیتا بلکہ وہ ’بلا کسی عوض‘ (out of nothing)قرض دے کر تخلیق زر کا باعث بنتا ہے۔ (اس عمل کی مکمل تفصیل مضمون کے ضمیمے میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے یہاں صرف خلاصہ بیان کیا گیا ہے) محض دوباتوں پر غور کرلینے سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے: 
اولاً ایک شخص مثلاً زید جب بینک میں اپنا اکاؤنٹ کھلواتا ہے تو وہ اپنی رقم (liquidity) خرچ کرنے سے دستبردار نہیں ہوجاتا بلکہ وہ ’کسی بھی وقت ‘ اپنی ’جمع شدہ کل رقم کے برابر‘ قوت خرید استعمال کرسکتا ہے (چاہے یہ استعمال بذریعہ چیک ہو یا Debit کارڈ ) ۔
ثانیاً بینک جب کسی شخص مثلاً ناصر کو نیا قرض جاری کرتا ہے تو وہ زید کے اکاؤنٹ سے کوئی رقم منہا نہیں کرتا بلکہ ناصر کو ’نئی قوت خرید‘ دیتاہے ۔
فرض کریں زید بینک الف میں سو روپے جمع کراتا ہے اور اب وہ کسی بھی وقت سو روپے تک چیک لکھ کر اشیا خرید سکتا ہے- (اس مثال میں سمجھانے کے لیے مجوزین کے اس مفروضے کو درست تسلیم کر لیا گیا ہے کہ بچت قرضوں سے پہلے آرہی ہے جبکہ یہ بھی غلط ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے)۔ اب فرض کریں بینک ناصر کو پچاس روپے کی قوت خرید (liquidity) قرض دیتا ہے۔ اگر تو یہ پچاس روپے زید کے اکاونٹ سے نکال کر دئیے گئے ہوتے تو بینک زید کے اکاؤنٹ کو پچاس سے منہا کردیتا مگر بینک ایسا کبھی نہیں کرتا بلکہ زید اب بھی سو ہی روپے کی قوت خرید کامالک رہتا ہے اور ناصر کو بھی پچاس روپے مل جاتے ہیں۔ ظاہر ہے جو پچاس روپے ناصر کو دئیے گئے ہیں وہ یا تو ناصر کے پاس ہونگے یا پھر بینک کے، اس رقم کا ایک ساتھ دو لوگوں کی ملکیت میں ہونا محال ہے۔ عموماً بینک قرض اکاؤنٹ کی شکل میں دیتا ہے یعنی ہماری مثال میں وہ ناصر کا پچاس روپے کا اکاؤنٹ کھول کر اسے بذریعہ چیک پچاس روپے تک خریداری کی اجازت دے گا۔ یوں مجموعی اکاؤنٹس بڑھ کر ایک سو پچاس روپے ہوجاتے ہیں (یعنی سو زید کے اور پچاس ناصر کے)۔ دیکھئے یہاں بچت تو سو روپے ہی رہی مگر زید و ناصر دونوں کے ڈپازٹس بڑھ کر ایک سو پچاس روپے ہوگئے۔ لہذا جب بینک قرض دیتا ہے تو وہ ایک شخص سے قوت خرید لے کر کسی دوسرے شخص کو نہیں دیتا بلکہ نئے سرے سے قوت خرید تخلیق کرتا ہے اور یہ قوت خرید بینک بلا کسی عوض تخلیق کرتا ہے جس کے بدلے دینے کے لیے اس کے پاس (سوائے ایک ناممکن الوقوع جھوٹے وعدے کے ) کچھ نہیں ہوتا (۱۴)۔ 
ایک اہم غلط فہمی کا ازالہ: مجوزین اسلامی بینکاری کو یہ غلط فہمی لاحق ہے کہ چونکہ وہ قرض کے بجائے اثاثوں پر مبنی بینکنگ کرتے ہیں، لہٰذا اسلامی بینکاری درج بالا تمام برائیوں سے پاک بینکنگ ہے۔ مجوزین کا یہ دعویٰ محض سطح بینی کا نتیجہ ہے۔ اوپر دی گئی مثال میں فرض کریں زید سو روپے بینک میں جمع کرواتا ہے اور اب ناصر اسلامی بینک کے پاس آکر مشین خرید نے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے جس کی قیمت پچاس روپے ہے۔ اسلامی بینک ناصر سے بیع مرابحہ کرکے اسے پچاس روپے کی مشین ساٹھ روپے میں بیچ دیتا ہے۔ فرض کریں یہ مشین صہیب سے خریدی گئی تھی۔ اب صورت حال یہ ہوگی: 
  • زید کے پاس بدستور سو روپے کی قوت خرید موجود ہے، یعنی وہ سور وپے تک اشیا خرید سکتا ہے ۔
  • ناصر اسلامی بینک کا مقروض ہوگیا ۔
  • صہیب پچاس روپے کی قوت خرید کا مالک بن گیا ۔
دیکھئے یہاں پھر وہی صورت حال درپیش ہے جو اوپر بیان کی گئی۔ دونوں میں فرق ’نوعیت مسئلہ اور نتیجے ‘ کا نہیں بلکہ محض کاروائی درج کرنے کے طریقے کا ہے یعنی جو کام عام بینک ایک کاروائی میں کرتے ہیں اسلامی بینک اسے دو اندراجوں میں مکمل کرتے ہیں۔ عام بینکوں میں ناصر بینک کا مقروض ہونے کے ساتھ پچاس روپے کی (فرضی) قوت خرید کا مالک بھی بن جاتا ہے جبکہ اسلامی بینکوں میں یہ قوت خرید ناصر کے بجائے صہیب کو ملتی ہے۔ جس طرح عام بینک یہ قوت خرید کسی عوض کے بغیر محض کمپیوٹر کی یاداشت (memory) میں ایک نمبر تحریر کرکے تخلیق کرتے ہیں، اسی طرح اسلامی بینک بھی یہی کام کرتے ہیں۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے یعنی ’بلا کسی عوض قرض پر مبنی زر کی تخلیق‘ (مزید تفصیل ضمیمے میں)۔ چنانچہ یہ خیال کہ اثاثوں پر مبنی بینکاری سے تخلیق زر کی صورت پیدا نہیں ہوتی، قلت تدبر کا نتیجہ ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ عام بینک بھی جو قرض جاری کرتے ہیں، قرض خواہ ان سے بھی کسی نہ کسی اثاثے کی خرید وفروخت عمل میں لاتے ہی ہیں، یہاں فرق صرف اتنا ہورہا ہے کہ قرض خواہ کے بجائے اسلامی بینک خود اس فرضی قوت خرید سے خریدوفروخت کا معاملہ کرتا ہے اور بس۔ 
یہ غلط فہمی کہ اثاثوں پر مبنی بینکاری سے تخلیق زر کی صورت پیدا نہیں ہوتی اس خیال سے بھی پیدا کی جاتی ہے کہ چونکہ روایتی بینک بیع کے بجائے اپنے گاہک کو اکاؤنٹ (deposit) کی صورت میں قرض دیتے ہیں، اسی وجہ سے یہ جعلی زر تخلیق کرتے ہیں، اس کے مقابلے میں اسلامی بینک چونکہ اثاثے کی خرید کے لیے پوری قیمت ادا کردیتے جسکے نتیجے میں قوت خرید اسلامی بینک کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے لہذا یہ اس برائی سے پاک ہیں۔ درحقیقت یہ دعوی بھی اصل معاملے پر غور نہ کرنے کا ہی کا نتیجہ ہے کیونکہ تخلیق زر کا تعلق اس بات سے نہیں کہ آیا بینک کرنسی کی صورت میں کوئی ادائیگی کرتا ہے یا نہیں بلکہ اس امر سے ہے کہ ادا کردہ رقم پوری یا اس کا ایک حصہ دوبارہ بینکنگ نظام میں واپس آتا ہے یا نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو معاملہ یوں بنتا ہے کہ اسلامی بینک جو قیمت ادا کرتا ہے وہ دو میں سے کسی ایک حال سے خالی نہیں ہوتی، فرض کریں اسلامی بینک ٹویوٹا کمپنی سے دس لاکھ روپے مالیت کی ایک گاڑی خرید تا ہے: 
۱) اس کی قیمت یاتو چیک کی صورت میں ادا کی جاتی ہے یعنی اسلامی بینک ٹویوٹا کمپنی کو اپنا جاری کردہ دس لاکھ روپے مالیت کا چیک دیتا ہے جسے ٹویوٹا کمپنی اپنے بینک میں بھیج کر رقم منتقل کروالیتی ہے۔ اس صورت میں پوری ادا کردہ رقم دوبارہ بینکنگ نظام میں واپس آجاتی ہے اور یوں بینکاری نظام مجموعی طور پر دس لاکھ روپے کے نئے ڈپازٹ تخلیق کردیتا ہے کیونکہ اس ادائیگی کے بعد بینک اپنے کسی بھی گاہک کی قوت خرید کو منہا کئے بغیر کمپنی کے کھاتے میں دس لاکھ روپے جمع کردیتا ہے ۔
۲) زیادہ تر قیمت کی ادائیگی اوپر بیان کردہ یعنی بینک چیک کی صورت ہی میں ادا کی جاتی ہے، مگر اس کا دوسرا امکان یہ ہے کہ اسلامی بینک یہ قیمت کرنسی کی صورت میں ادا کرے، یعنی اسلامی بینک ٹویوٹا کمپنی سے دس لاکھ روپے مالیت کی گاڑی بعوض کرنسی خرید لیتا ہے۔ اس صورت میں کمپنی یا تو پوری کی پوری رقم یا اس کے محض ایک حصے کو اپنے پاس کیش کی صورت میں رکھ کر بقیہ (فرض کریں آٹھ لاکھ روپے) کو اپنے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرادیتی ہے اور یوں پھر پہلی صورت ہی کی طرح نئے ڈپازٹ تخلیق ہوجاتے ہیں ۔
یہاں یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ کمپنی پوری کی پوری قیمت کو بصورت کیش اپنے پاس رکھ لے۔ اس میں شک نہیں کہ کمپنی کے لیے ایسا کرنا ممکن ہے، مگر یہ طرز عمل بینک کے کسی ایک گاہک کے لیے تو تصور کیا جا سکتا ہے لیکن اگر تمام لوگ اسی طرح ہر معاہدے کے بعد ادا کردہ کیش اپنے پاس رکھنے لگیں اور ہر بیع بعوض کیش ہی کرنے لگیں تو بینک دیوالیہ ہوجائیں گے۔ ایسا اس لیے کہ اگر رقم یوں ہی بینکوں سے نکلتی رہے تو بینک اپنے کھاتے داروں کو رقم کی ادائیگی کہاں سے کرے گا؟ لہذا یہ سمجھنا کہ اسلامی بینکوں کا اثاثوں پر مبنی بینکنگ کرنا انہیں روایتی بینکوں سے ممیز کردیتا ہے ایک غلط فہمی کے سواء اور کچھ نہیں کیونکہ تخلیق زر کے عمل کا تعلق بذریعہ قرض یا بیع بینکاری کرنے سے نہیں بلکہ fractional reserve banking (اصل زر کے محض ایک مخصوص حصے کو بطور کرنسی اپنے پاس رکھنے ) کے اصول سے ہے۔ 

بینک ڈپازٹ کی قرض پر اولیت کا دعویٰ 

اب تک کی بحث سے یہ واضح ہوجانا چاہیے کہ چاہے مرکزی بینک ہو یا کمرشل بینک، دونوں جس زر کو تخلیق کرتے ہیں، وہ ’قرض‘ کی رسید (promise of payment) سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا (۱ور وہ بھی ایسا قرض جسکا عوض ادا کرنا ناممکن الوقوع ہوتا ہے جیسا کہ ضمیمے سے واضح ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ مالیاتی و زری نظام کو Debt or Credit Money System (قرض پر مبنی نظام زر ) کہتے ہیں۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سمجھنا بالکل آسان ہوجاتا ہے کہ بینک ’بچتیں قرض کا باعث بنتی ہیں‘ کے بجائے ’قرضے ڈپازٹس کو جنم دیتے ہیں‘ (loans create deposits model) کے اصول پر کام کرتا ہے (اور کرسکتا ہے)۔ ہم دیکھیں گے کہ ایک بینک اکاؤنٹ قائم ہونے سے ’قبل‘ ایک قرض تخلیق ہونا ضروری امر ہے۔ سادہ تفہیم کے لیے (۱۵) بات یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ فرض کریں ایک شخص (زید) کسی خدمت کے عوض حکومت سے نوٹ (legal tender) وصول کرتا ہے۔ اس موقع پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ شخص اس رقم (یا اس کے ایک حصے ) کو کسی کمرشل بینک میں جمع کراتا ہے تو یہ اکاؤنٹ بنا کسی ماقبل قرض قائم ہوجائے گا، لہٰذا ثابت ہوا کہ ڈپازٹ قرض سے ماقبل ہوتاہے۔ یہ خیال درست نہیں کیونکہ سوال یہ ہے کہ حکومت نے زید کو یہ رقم کس مد سے ادا کی؟ اس کا جواب دو میں سے کسی ایک صورت سے ہوسکتا ہے: 
۱۔ اگر یہ قوت خرید ٹیکسوں کی آمدنی سے ادا کی گئی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت نے عوام کی قوت خرید عوام کو واپس لوٹا دی (کیونکہ ٹیکس کی آمدن عوام سے ہی وصول کی گئی تھی)۔ اس صورت میں زر کی مقدار پر حکومت کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور کسی قسم کی کوئی قوت خرید وجود میں نہیں آئے گی۔ دوسرے لفظوں میں اس صورت حال میں گویا ہم ایک غیر سرمایہ دارانہ مالیاتی نظام میں ہونگے جہاں نہ تو تخلیق زر کا عمل ہوگا اور نہ ہی زر اعتباری کا کوئی وجود، لہٰذا کمرشل بینک بھی کوئی ڈپازٹ لینے کے لائق نہ ہوں گے (اس لیے کہ ڈپازٹ قائم کرکے وہ زر اعتباری یعنی ’بینک ڈپازٹس ‘ ہی تو تخلیق کرتے ہیں ) ۔
۲۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ حکومت نے یہ رقم نئے نوٹ وغیرہ چھاپ کر ادا کی۔ مگر اوپر ہم دیکھ آئے ہیں کہ نوٹ چھاپنے کا مطلب حکومت کا خود کو قرض دینا ہوتا ہے کیونکہ نوٹ سرکاری قرضہ ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس صورت میں ڈپازٹ سے پہلے قرض پایا گیا۔ الغرض بینک ڈپازٹ قائم ہونے کے لیے پہلے قرض کا پایا جانا ضروری ہے ۔
ایک دفاع کا ازالہ: مشہور نیوکلاسیکل (زیادہ صحیح الفاظ میں کنیزین) معیشت دان Tobin نے روایتی اصول ’بچتیں قرض کا باعث بنتی ہیں‘ کا ایک دفاع پیش کرنے کی کوشش کی۔ Tobin اس بات پر زور دیتا ہے کہ بینک ڈپازٹ وجود میں آنے کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ معاشرے میں ایک ایسا ایجنٹ (صارف، فرم وغیرہ) موجود ہو جو اس اکاؤنٹ کا مالک بننا چاہتا ہو بصورت دیگر بینک ڈپازٹ کبھی قائم نہیں ہوسکتا۔ اس سادہ بحث سے Tobin یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ بینک ڈپازٹ کے وجود کا انحصار بینک کے قرض دینے یا نہ دینے پر نہیں بلکہ فرد کے اس فیصلے پر ہے کہ وہ اپنی دولت کا ایک حصہ بینک اکاؤنٹ کی صورت میں رکھنا چاہتا ہے یا نہیں۔ اگر تمام افراد اپنی دولت بینک ڈپازٹ کے بجائے کسی دوسری صورت (مثلاً سونا، اشیا یا سیکیورٹیز وغیرہ) میں رکھنے کا فیصلہ کرلیں تو بینک ڈپازٹ کا وجود ختم ہوجائے گا۔ لہٰذا Tobin کے خیال میں بینک ڈپازٹ کی مقدار کا تعین بینکوں کے جاری کردہ قرضوں کی مقدار سے نہیں بلکہ بینک ڈپازٹ کی طرف لوگوں کی ترجیحات سے ہوتا ہے۔ بظاہر Tobin کی یہ دلیل خاصی وزنی معلوم ہوتی ہے البتہ ذرا غور کرنے سے اس کی غلطی واضح ہوجاتی ہے۔ پہلی بات یہ کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ اپنی دولت کو مختلف شکلوں میں محفوظ رکھنے کی ترجیحات خود طے کرتے ہیں مگر فرد کی اس فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اپنے فیصلے اور ترجیحات سے بینک کے ’مجموعی ڈپازٹس‘ کی مقدار زیادہ یا کم کر سکتا ہے۔ مثلاً فرض کریں زید اپنی دولت کی حفاظت سے متعلق اپنی ترجیحات کو تبدیل کرنا چاہتا ہے (دھیان رہے کہ اس مثال کا تعلق ایسے مالیاتی نظام سے متعلق ہے جہاں صرف ’بینک زر‘ بطور زر استعمال کیے جاتے ہیں) ۔ اگر زید اپنے بینک ڈپازٹ کو بڑھانا چاہتا ہے تو ایسا کرنے کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی دولت کے کسی دوسرے اثاثے (مثلاً اشیا، سونے یا سیکیورٹیز وغیرہ) کو بیچے ۔ اسی طرح اگر وہ اپنے بینک ڈپازٹ کو کم کرنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ بینک ڈپازٹ سے کچھ رقم نکال کر کوئی دوسرا اثاثہ خریدلے۔ زید کے ان دونوں فیصلوں کے روبا عمل ہونے کے لیے معاشرے میں کسی ایسے دوسرے فرد (مثلاً ناصر ) کا ہونا ضروری ہے جو زید کے فیصلے کا بالکل الٹ کرنے کے لیے تیار ہو۔ اس پوری صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجموعی بینک ڈپازٹس کی مقدار جوں کی توں بدستور برقرار رہی جس سے ثابت ہوا کہ بینک کے مجموعی ڈپازٹس کا افراد کی ترجیحات سے کوئی تعلق نہیں۔ 
یہ سوال کہ اگر بینک ڈپازٹس کی مقدار میں اضافے یا کمی کا انحصار افراد کی ترجیحات پر نہیں ہوتا تو پھر کس چیز پر ہوتا ہے، تو اس کا جواب ہے بینکوں کا قرض زیادہ یا کم ہوجانا۔ ڈپازٹس کی مقدار میں اضافہ تب ہوتا ہے جب بینک قرضوں کی مقدار میں اضافہ کرتا ہے اور کمی اس وقت ہوتی ہے جب فرد ڈپازٹ کی شکل میں بینک کا قرض واپس کرتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہاں دلیل کا رخ یہ نہیں کہ بینک کا ہر قرض لازماً ڈپازٹ کی شکل اختیار کرتا ہے بلکہ یہ ہے کہ بینک ڈپازٹ قائم ہونے سے قبل ایک قرض کا پایا جانا ضروری ہے اور Tobin کی وضاحت اس پہلو کو رد کرنے میں کوئی مدد فراہم نہیں کرتی۔ 
اس ساہ مثال کے بعد اب ایسے مالیاتی نظام کی مثال لیجئے جہاں بینک ڈپازٹس کے علاوہ زر قانونی بھی بطور کرنسی استعمال ہوتا ہو یعنی جہاں دو چیزیں بطور آلہ مبادلہ (means of payment) چلتی ہوں ایک بینک ڈپازٹس دوسری زر قانونی (جیسا کہ دور حاضر کا حال ہے)۔ فرض کریں زید اپنے بینک ڈپازٹ کی مقدار کم کر کے زر قانونی کی زیادہ مقدار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ اگر ڈپازٹس کے بجائے کرنسی کی ترجیح میں اضافہ ہوجائے تو بینکوں کی قرض دینے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے (دیکھئے ضمیمہ) لہذا اس صورت میں بینک اپنے قرض اور نتیجتاً ڈپازٹس کم کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ مگر قرضوں میں کمی کا یہ عمل ڈپازٹس میں کمی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ بینک قانوناً اس پر مجبور ہوتے ہیں کہ انہیں Reserves کی ایک کم از کم مقدار اپنے پاس محفوظ رکھنا ہوتی ہے۔ 
قرضوں کے پس پشت ڈپازٹس کا وجود ثابت کرنے کا آخری امکان یہ فرض کیا جاسکتا ہے کہ بحیثیت مجموعی لوگوں کی اپنی بچت ڈپازٹس کی صورت میں جمع کرنے کی ترجیح میں اضافہ ہوجائے (یعنی مثلاً پہلے اگر وہ دس فیصد بچت ڈپازٹس میں رکھتے تھے تو اب بیس فیصد رکھنے لگے)۔ ایسی صورت حال میں عموماً بینکوں کے جاری کردہ قرض زیادہ ہوجاتے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بینک قرض اپنے ڈپازٹس سے جاری کرتا ہے۔ البتہ یہ امکان بھی درست نہیں کیونکہ مفروضہ صورت حال کا مطلب یہ ہوا کہ بچتوں کا زیادہ حصہ اب ڈپازٹس کی طرف جانے لگا جبکہ تمسکات (۱۶) (securities) وغیرہ کی مد میں محفوظ کیا جانے والا حصہ کم ہوگیا۔ ایسی صورت حال میں کمپنیاں بینکوں سے زیادہ قرض لینے پر مجبور ہوں گی اور یوں وہ زیادہ مقدار میں بینکوں کی مقروض ہوجائیں گی۔ گو یہاں بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بینک کے قرضوں کی مقدار میں اضافہ بینک ڈپازٹس کی طلب بڑھ جانے کی وجہ سے ہوا مگر قرضو ں میں یہ اضافہ کمپنیوں کی قرض کی طلب بڑھ جانے کی وجہ سے ہوتا ہے نہ کہ بچت کی رسد بڑھ جانے سے۔ 
’بچت قرضوں کا باعث بنتی ہے ‘ کا اصول اپنالینے کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ معیشت دان ’ایک بینک ‘ کے اس عمل کو سامنے رکھ کر نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہر بینک زیادہ سے زیادہ reserves اور ڈپازٹس حاصل کرنے کے لیے دوسرے بینکوں سے مسابقت کرتا ہے جس سے یہ محسوس ہوتا ہے گویا قرضے ڈپازٹس سے دئیے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بینک کے reserves بڑھ جانے سے اس کی قرض دینے کی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے مگر (ا) یہ اصول کسی ’ایک بینک ‘ کے لیے تو درست ہے البتہ ’بینکنگ بحیثیت مجموعی ‘ کے لیے قابل عمل نہیں کیونکہ بینکوں کے مجموعی ڈپازٹس میں اضافہ صرف اس وقت ممکن ہے جب مرکزی بینک نیا قرض جاری کرے، علی الرغم اس سے کہ یہ قرض ایک بینک کو دیا جائے یا حکومت کو (ب) اس کی وجہ ڈپازٹس کے پس پشت مخصوص مقدار میںreserves رکھنے کی قانونی پابندی سے ہے، اگر اس پابندی کو ختم کردیا جائے تو بینکوں کی قرض دینے کی صلاحیت لامحدود ہوجائے گی۔ پس ایسا مالیاتی نظام جہاں (۱) زر قانونی بطور کرنسی استعمال ہو اور (۲) بینکنگ نافذ العمل ہو، وہاں ہر ڈپازٹ سے ’ قبل‘ ایک قرض کا پایا جانا منطقی لازمہ ہے۔ پس ہم نظام بینکاری کے اصل تصور کو درج ذیل شکل سے سمجھ سکتے ہیں۔ اس تصویر میں یہ بات دکھائی گئی ہے کہ بینک قرض کی صورت میں قوت خرید کی منتقلی لوگوں کی بچتوں سے نکال کر نہیں دیتا بلکہ محض کمپیوٹر میں چند اعداد وشمار لکھ کر تخلیق کرلیتا ہے ۔ اس قرض پر بینک سود کماتا ہے۔ دوسری طرف بینک کھاتے داروں سے ڈپازٹس وصول کرتا ہے تاکہ بینک کو اپنی فرضی رسیدوں کی پشت پناہی کے لیے کچھ رقم ملتی رہے اور اس کا کاروبار محفوظ طریقے سے چلتا رہے۔ بینک اپنے کھاتے داروں کو رقم کی ادائیگی اسلیے کرتا ہے کہ وہ بینک کے ساتھ مخلص رہیں اور بینک ڈپازٹس کھلواتے رہیں۔ 

۲.۲: بینکاری تاریخی پس منظر میں 

اس مقا م پر موجودہ بینکنگ کو اس کے تاریخی پس منظر میں سمجھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ موجودہ بینکاری (بشمول اسلامی بینکاری) نظام اسی دھوکے اور جھوٹ پر مبنی ہے جو سولہویں اور سترہویں صدی کے صراف یورپ کے عیسائیوں اور دیگر اہل مذاہب کو دیا کرتے تھے۔ بینکنگ کے ارتقاء کو ہم چند ادوار (stages) میں تقسیم کرکے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں (یہ تقسیم واقعاتی ترتیب کے اعتبار سے نہیں بلکہ محض تفہیم کے نقطہ نظر اختیار کی گئی ہے، تاریخی طور پر یہ سارے ادوار اس ترتیب سے گزرے یا نہیں ایک الگ موضوع ہے)۔ 
پہلا دور:  یورپ میں بینکنگ کا پہلا دور یہ تھا کہ لوگ اپنا سونا و چاندی (زر اصلی) بطور امانت صرافوں کے پاس رکھوا دیتے۔ یہ امانتیں عموماً حفاظتی و سفری ضرورتوں کی بناء پر جمع کرائی جاتی تھیں۔ صراف ان امانتوں کے بدلے ’صاحب امانت کے نام‘ رسیدلکھ دیتے جو اس بات کی ضمانت ہوتی تھی کہ رسید پر درج نامی شخص فلاں مقدار سونے کا مالک ہے جسے وہ جب چاہے صراف سے واپس لے سکتا ہے۔ ابتداً یہ رسیدیں بذات خود زر یا مال تصور نہیں کی جاتی تھیں، بلکہ محض ’قرض کی رسید‘ (debt receipts or promise of payment)سمجھی جاتی تھیں۔
دوسرا دور: رفتہ رفتہ یورپ میں ان رسیدوں پر اعتماد بڑھنے کے ساتھ لوگوں نے ہر دفعہ سونا نکال کر اشیا خریدنے کے بجائے براہ راست ان رسیدوں کو اشیا کے تبادلے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ دھیان رہے کہ اب بھی یہ رسیدیں محض ’قرض کی رسیدیں‘ ہی سمجھی جاتی تھیں مگر اب انہیں بطور ’سونے کے متبادل‘ آلہ مبادلہ استعمال کرنا شروع کردیا گیا۔ (یہیں سے ساری خرابی شروع ہوتی ہے جیسا کہ آگے واضح کیا جائے گا۔) 
تیسرا دور: جب یورپی صرافوں نے دیکھا کہ لوگ عموماً رسیدوں ہی سے معاملات کر لیتے ہیں اور سونا نکلوانے کم ہی آتے ہیں تو انہوں نے جمع شدہ سونے کو سود پر ادھار دیکر پیسہ بنانا شروع کردیا۔ البتہ انہیں اپنی جاری کردہ رسیدوں کا کچھ فیصد سونا بہر حال اپنے پاس رکھنا پڑتا تھا تاکہ اگر کوئی صاحب سونا لینے آئیں تو ان کی یہ طلب فوراً پوری کی جا سکے۔ اس مقام پر آکر ایک اہم فرق رونما ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ ’سونے کے بدلے جاری کردہ قرض کی رسیدیں ‘ اور ’بعینہ وہی سونا‘ ’ایک ساتھ ‘ بطور آلہ مبادلہ استعمال ہونے لگے اور یوں یورپی صراف خفیہ طور پر زر کی رسد بڑھانے کا باعث بننے لگے۔ مثلاً فرض کریں تمام لوگوں نے مجموعی طور پر 100گرام سونا صرافوں کے پاس جمع کرایا جس کے بدلے 100 رسیدیں (فی رسید ایک گرام سونا کے حساب سے) جاری کردی گئیں۔ اگر پچاس گرام سونا قرض دے دیا گیا تو ایک طرف قرض خواہ سو رسیدیں (یعنی سو گرام سونا) بطور آلہ مبادلہ استعمال کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف صرافوں کے مقروض پچاس گرام سونا بھی استعمال کررہے ہیں۔ یوں زر کی کل رسد بڑھ کر 150 گرام سونے کے برابر ہوگئی۔ اس مقام پر پہنچتے ہی گویا بینک پیدا ہوگئے (کہ بینک کا اصل کام زری ثالثی نہیں بلکہ بلا کسی عوض تخلیق زر ہے جیسا کہ واضح کیا گیا)۔ دوسرے لفظوں میں ’قرض کی رسید‘ (Promise of payment) اب دو افراد کا باہمی معاملہ (private contract) نہیں رہا بلکہ اسے بطور زر عام خریدا اور بیچا جانے لگا ۔
چوتھا دور: یہ روش آگے بڑھتی گئی اور لوگ زیادہ بڑی مقدار میں سونا یورپی صرافوں کے پاس جمع کرانے لگے۔ جب ان صرافوں نے غور کیا کہ چونکہ لوگ ہماری کل جاری کردہ رسیدوں کی ایک خاص مقدار (فرض کریں 20 فیصد) سے زیادہ سونا کبھی نکلواتے ہی نہیں نیز لوگ ہماری جاری کردہ رسید کی صورت میں بھی قرض وصول اور ادا کرنا قبول کرلیتے ہیں (کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان رسیدوں کے بدلے اشیاء کی خریدوفروخت کے لیے تیار ہیں) تو انہیں یہ ترکیب سوجھی کہ سونے کے بجائے رسیدوں کی صورت میں قرض دینا شروع کیا جائے اور چونکہ لوگ جاری کردہ رسیدوں کی محض مخصوص مقدار کے برابر سونا نکلواتے ہیں تو جمع شدہ سونے سے زیادہ رسیدیں جاری کردینے میں کچھ حرج نہیں، لہٰذا انہوں نے ایسا کرنا شروع کردیا۔ فرض کریں اگر سب لوگوں نے مل کر 100گرام سونا جمع کروایا اور لوگ جاری کردہ رسیدوں کے بیس فیصد سے زیادہ سونا کبھی نہیں نکلواتے تو اس صورت میں صراف 100 گرام سونے کے بدلے 500 گرام ’تک‘ رسیدیں جاری کرسکتے (500 رسیدوں کا بیس فیصد یعنی 100 گرام سونا وہ اپنے پاس رکھتے، گویا 100 گرام سونا 500 رسیدوں کی پشت پناہی کرنے کے لیے کافی ہوسکتا تھا، مزید تفصیل ضمیمے میں دیکھئے)۔ دھیان رہے کہ ان پانچ سو رسیدوں میں سے صرف سو رسیدوں کے برابر سونا اکانومی میں موجود ہوتا جبکہ بقیہ چار سو قرض کی رسیدیں محض فرضی و جعلی طور پر وجود میں لائی جاتیں جن کے عوض ادا کرنے کے لیے صرافوں کے پاس کوئی اثاثہ موجود نہ ہوتا۔ اب نوعیت معاملہ میں یہ واضح تبدیلی آگئی کہ قرض کی جن رسیدوں (promise of payments)کو ’ذریعہ ادائیگی‘ (means of payment) کے طور پر استعمال کیا جانے لگا تھا، ابتداً جب تک ان کے پیچھے مساوی مقدار میں سونا موجود تھا، اس وقت تک یہ کسی ’حقیقی دعوے و وعدے‘ (factual claim and true promise of payment) کی رسیدیں تھیں، مگر اب یہ محض ’فرضی دعوی و وعدہ‘ (fictious claim and false promise of payment) بن کر رہ گئیں، ایک ایسا وعدہ جسے پورا کرنا عملاً ناممکن الوقوع تھا۔ ظاہر ہے 100 گرام سونا 500 رسیدوں کے بدلے کبھی ادا نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی صرافوں کے کاروبار کا انحصار اس بات پر تھا کہ لوگ کبھی ان کی تمام رسیدوں کے برابر سونے کی طلب نہ کریں، جس دن ایسا ہوا صرافوں کے دھوکے کی پول کھل جائے گی۔ 
اس مقام پر ذہنوں میں یہ سوال آسکتا ہے کہ بینک رسیدیں لکھ کر اور پھر انہیں قرض پر دیکر سود کمانے کے لمبے چکر میں کیوں پڑ تے تھے، اس کے بجائے وہ ان رسیدوں کو براہ راست اشیاء و خدمات کی خریداری کے لیے بذات خود کیوں استعمال نہ کرتے؟ درحقیقت یہ حکمت عملی بارآور ثابت نہ ہوسکتی تھی کیونکہ خریدی گئی اشیاء کا مالک ان رسیدوں کے عوض بینک سے سونے کی طلب کرے گا اور بینکوں کے پاس یہ سونا ہوتا ہی کب تھا۔ چونکہ اس طرح سے خرچ کی گئی رسیدیں گھوم کر پھر انہی بینکوں کے سامنے سونے کی طلب کے ساتھ آنا تھیں لہذا بینکوں کے لیے اپنی ہی تخلیق کردہ رسیدیں خود استعمال کرنا اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ پس بینکوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ ان رسیدوں (جو اس وقت زر کی حیثیت اختیار کر چکی تھیں) کو سود کے بدلے قرض پر دے کیونکہ اس کا فائدہ یہ تھا کہ جب بینکوں کا قرض بذات خود ان رسیدوں کی ہی شکل میں ادا کیا جاتا تھا تو رسیدوں کی صورت میں تخلیق کیا گیا زر خود بخود ختم ہوجاتا اور اس کا کوئی ثبوت باقی نہ رہتا جبکہ بینک اپنا ’نفع‘ کھرا کرلیتا۔ اسی طرح بینکوں کے لیے یہ بھی ممکن نہ تھا کہ وہ شرکت وغیرہ کی بنیاد پر قرض دیکر کاروبار کرتے کیونکہ ان کا کاروبار پہلے ہی ایک بڑے خطرے (risk) سے دو چار تھا کہ وہ اصل زر (سونے) کی واپسی کے وعدہ پر اصل سے بہت زیادہ فرضی زر تخلیق کئے بیٹھے تھے اور یہ وعدہ نبھانا انکے لیے ممکن نہ تھا۔ شرکت پر کاروبار کرنے کا مطلب اپنے اس کاروبار کو دہرے خطرے سے دوچار کرنے کے مترادف ہوتا کہ اگر ان قرضوں پر نقصان ہوا تو بینک اس نقصان کا ذمہ دار ہوگا اور جو سونے کی شکل میں قابل ادا ہوگا۔ اس لیے بینک سودی قرضے دیتے جن سے ایک طرف انکا نفع یقینی ہوجاتا اور دوسری طرف اصل بھی محفوظ رہتا۔ اس اصل کو مزید محفوظ بنانے کے لیے بینک قرض کے برابر شے بطور رہن رکھوانے کی شرط بھی رکھتے۔ اس طرح یہ ایک محفوظ و مامون کاروبار کی صورت اختیار کرتا چلا گیا (۱۷) ۔ 
یورپ کے اندر اس سارے عمل کے نتیجے میں بینکاری ایک انتہائی ’نفع بخش‘ (بصورت سود) کاروبار بن گیا کیونکہ معاملہ گویا یہ تھا کہ صرافوں کے ہاتھ زر تخلیق کرکے پیسہ کمانے کا دھندہ آگیا تھا۔ حالات کا اندازہ لگا کر دیگر چالاک لوگوں نے بھی اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ کاروبار شروع کردیا۔ اب یورپی صراف قرض کی رسیدیں ’قرض خواہ کے نام‘ (bearers name) کے بغیر ’اپنے نام سے جاری کرتے‘ تاکہ ان کی قبولیت مزید بڑھ جائے (جیسے آج کل حکومت وقت کا نوٹ ہوتا ہے جس پر وصول کنندہ کا نام تحریر نہیں ہوتا)۔ اس کاروبار کے پھیلاؤ اور رسیدوں کے عام استعمال میں آنے سے اکانومی میں قرض پر مبنی زر (debt money) بڑھنے لگا اور آہستہ آہستہ معاشرے صرافوں (قدیم بینکوں) کے مقروض ہونے لگے (کیونکہ بینک کی جاری کردہ رسید لازماً کسی نہ کسی پر قرض ہی ہوتی ہے)۔ جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا کہ بینکوں کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنی جاری کردہ رسیدوں کا کچھ فیصد سونے کی صورت میں سنبھال رکھیں تاکہ لوگوں کی سونے (آج کل کے محاورے میں Cash) کی روز مرہ ضروریات پوری کی جاس کیں۔ جب لوگ زیادہ مقدار میں بینک سے سونا نکلواتے تو بینک مصیبت میں پھنس جاتے اور بینک اس طلب کو دوسرے بینکوں سے سونا قرض پر اٹھا کر پورا کرتے۔ یورپ و امریکہ میں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں جنہیں "Note Wars" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یعنی ایک بینک اپنے مد مقابل بینک کی زیادہ سے زیادہ رسیدیں اکھٹی کرکے اس کے سامنے ایک ہی دن میں ادائیگی کے لیے پیش کرنے کی کوشش کرتا تاکہ دوسرا بینک دیوالیہ ہوجائے اور اس کے لیے میدان صاف ہوجائے۔ 
مزے کی بات یہ ہے کہ یہی وہ دور ہے جب یورپ میں سود کے جواز کی فکری و علمی بنیادیں نیز اس کے ’مذہبی متبادل‘ فراہم کرنے کی روش عام ہوئی، گویا سود کے جواز ومتبادل کا مسئلہ کسی علمی و فطری ارتقاء کی وجہ سے نہیں بلکہ بینکنگ کا ادارہ عام ہوجانے کے بعد پیدا ہوا۔ اس سلسلے میں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ آج اسلامی معاشیات و بینکاری کے نام پر جس طرح سرمایہ دارانہ اداروں کی تھوک کے حساب سے اسلام کاری کی مہم جاری ہے بعینہہ یہی عمل عیسائی یورپ میں ’اصلاح مذہب‘ کا نعرہ لگانے والے حضرات کرگزرے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں گروہوں کے طریقہ واردات اور دلائل میں بھی حیرت انگیز طور پر یکسانیت پائی جاتی ہے (۱۸) ۔ 
پانچواں دور: یہ دور نجی سطح پر جاری بینکنگ کے حکومتی تحویل و نگرانی میں آکر مرکزی بینک میں تبدیل ہوجانے سے تعلق رکھتاہے۔ یہ سوال کہ یہ عمل کس طرح رونما ہوا مختلف معیشت دان اس کے مختلف جواب دیتے ہیں۔ نیوکلاسیکل طرز کے معیشت دان جو ہر سرمایہ دارانہ ادارتی تنظیم کو فطری ارتقاء کا نتیجہ قرار دیتے ہیں انکے خیال میں بینکاری کا یہ ارتقاء بھی ایک رضاکارا نہ فطری عمل کا نتیجہ تھا۔ یعنی نظام بینکاری بحیثیت مجموعی جس خطرے سے دوچار تھا اسے اس سے محفوظ رکھنے کے لیے چند اصول و اصلاحات (rules and regulations) کا فریم ورک وضع کرکے نافذ کرنا ضروری تھا اور ظاہر ہے یہ کام ریاستی جبر کے تحت ہی ممکن تھا۔ انکے نزدیک مرکزی بینکنگ اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سامنے آئی، یعنی جس طرح دیگر سرمایہ دارانہ حکومتی ادارے مارکیٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے حکمت عملی وضع کرتے ہیں اسی طرح مرکزی بینک کا کام نجی بینکوں کی کارگزاری (operations) کو کنٹرول کرنے کے لیے زری پالیسی (monetary policy) بنانا ہوتاہے۔ مگر تاریخی شواہد اس ’ارتقائی تعبیر ‘ کا ساتھ نہیں دیتے۔ دیگر معیشت دانوں کے مطابق (۱۹) یورپ میں مرکزی بینک کی صورت اس وقت پیدا ہوئی جب قوم پرستانہ سرمایہ دارانہ ریاستوں کے بادشاہوں کو اپنی طویل جنگی مہمات کے اخراجات پورا کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ ان بھاری اخراجات کو پورا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہوسکتا تھا کہ عوام الناس پر بھاری ٹیکس عائد کردئیے جائیں، مگر جنگی حالات کی ماری ہوئی عوام ان ٹیکسوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھی۔ ان حالات میں بادشاہوں کو یہ ترکیب سوجھی کہ بڑے بڑے بینکوں کو نجی تحویل میں لیکر انہیں مرکزی بینک کا درجہ دے دیا جائے اور بینکوں کی رسیدوں کو سرکاری نوٹوں میں تبدیل کرکے نوٹ چھاپ چھاپ کر اپنے اخراجات پورے کرنا شروع کردئیے جائیں۔ گویا اس موقع پر جھوٹ اور فریب پر مبنی نظام بینکاری کو قانونی سند عطا کردی گئی اور پہلے جو بدمعاشی و ظلم نجی سطح پر عام بینکار کیا کرتے تھے اب اسے ریاستی پشت پناہی فراہم کردی گئی۔ ابتداً ان نوٹوں کی پشت پر سونے کی ایک مخصوص مقدار رکھنا ضروری سمجھی جاتی تھی مگر گردش زمانہ اور حالات کی تبدیلی کے تحت اس خانہ پوری سے جان چھڑا لی گئی اور اب جس چیز کو ’سرکاری نوٹ‘ کہا جاتا ہے وہ محض ’زر قانونی‘ (legal tender) کی حیثیت رکھتا ہے جسکے پس پشت کسی قسم کا کوئی اثاثہ موجود نہیں ہوتا بلکہ یہ محض ایک ’قرض کی رسید‘ ہے جو مرکزی بینک حکومت کو اپنے اخراجات وغیرہ پورا کرنے کے لیے جاری کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید ماہرین معاشیات موجودہ مالیاتی نظام پر مبنی اکانومی کو Barter نہیں مانتے بلکہ وہ اس کا تجزیہ Credit economy کے تحت کرتے ہیں۔ Barter اکانومی وہ ہوتی ہے جہاں اشیاء کی لین دین مساوی قدر کی اشیاء سے ہوتی ہو اور اس کے لیے ضروری ہے کہ جس شے کو بطور آلہ مبادلہ یا زر استعمال کیا جائے وہ ’حقیقی قدر‘ (نہ کہ قانونی قدر یا Token value ) کی متحمل ہو جیسے کہ سونا یا چاندی وغیرہ (۲۰) ۔ 
نظام بینکاری کے ارتقا سے متعلق یہ تفصیلات جاننے کے بعد اس حوالے سے مولانا تقی عثمانی صاحب کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے : 
’’لوگ اپنا سونا بطور امانت صرافوں کے پاس رکھ دیتے تھے اور سنار رسید لکھ دیتے تھے، پھر رفتہ رفتہ ان رسیدوں سے ہی معاملات شروع ہوگئے۔ لوگ اپنا سونا واپس لینے کم آتے تھے تو یہ صورتحال دیکھ کر صرافوں نے سونا قرض دینا شروع کردیا۔ پھر جب یہ دیکھا کہ لوگ عموماً رسیدوں سے ہی معاملات کرتے ہیں تو صرافوں نے بھی قرض خواہوں کو سونے کے بجائے رسیدیں دینا شروع کردیں۔ اس طرح بینک کی صورت پیدا ہوئی۔‘‘ (ص: ۱۱۵) 
ہو سکتا ہے مولانا نے یہ مختصر انداز بیان محض ’سمندر کو کوزے میں بند کرنے‘ کی خاطر اپنا یا ہو، مگر اس تحریر کو پڑھنے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مولانا بینکاری نظام کو کسی قسم کے جھوٹ، فریب اور دھوکہ دھی پر مبنی نہیں سمجھتے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس ’جھوٹ اور فریب‘ کا ’اسلامی متبادل‘ ممکن سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر (اور ضمیمے میں) واضح کیا گیا کہ موجودہ نظام بینکاری درحقیقت اسی جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے جو پچھلے دور کے صراف عوام الناس کو دیا کرتے تھے، فرق صرف یہ ہے کہ پہلے اسے دھوکہ سمجھا جاتا تھا اور اب قانون کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ مگر یہ بات بالکل بدیہی ہے کہ کسی باطل عمل کو قانونی سند عطا کردینے سے وہ ’حق‘ نہیں بن جا تا۔ اگر آج تمام لوگ اپنے ڈپازٹس میں جمع شدہ رقوم کی وصولی کے لیے بینکوں کا دروازہ کھٹکھٹانے لگیں تو بینکوں کا جھوٹ اور فریب روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گا۔ 

خلاصہ مباحث 

آگے بڑھنے سے قبل ہم اب تک کے مباحث کا خلاصہ بیان کیے دیتے ہیں: 
۱۔ بینک کو ’زری ثالث ‘ سمجھنا غلط فہمی اور دھوکے کے سوا اور کچھ نہیں ۔
۲۔ حقیقتاً اور اصلاً بینک زر کی لین دین نہیں بلکہ اس کی تخلیق کا کام سر انجام دیتا ہے ۔
۳۔ بینک جو قوت خرید و زر تخلیق کرتا ہے، وہ ’قرض‘ کی صورت میں ہوتا ہے، اسی لیے مروجہ زر کو debt money (قرض پر مبنی زر ) کہتے ہیں ۔
۴۔ بینک کے قرض بچتوں کے برابر ہونا نا ممکن الوقوع شے ہے ۔
۵۔ بینک قرضے ڈپازٹس سے نہیں دیتا بلکہ اس کے برعکس اس کے ڈپازٹس قرضوں سے وجود میں آتے ہیں ۔
۶۔ بینکنگ کا اصل دھندہ بلا کسی عوض قرض پر سود (اور اسلامی بینکوں کا ’سود نما‘ نفع) کمانا ہے۔
۷۔ بینکنگ اصلاً جھوٹ، فریب اور چال بازی پر مبنی ہے ۔
۸۔ مرکزی بینکنگ کا مقصد جھوٹ و فریب پر مبنی زری نظام کو محفوظ طریقے سے چلانے کے لیے حکمت عملی تیار کرنا ہوتا ہے ۔
۹۔ مرکزی بینک جو نوٹ جاری کرتا ہے وہ محض قرض کی رسید (promise of payment) ہے ۔
۱۰۔ قرض کی یہ رسید ان معنوں میں جعلی ہے کہ اسے جاری کرنے سے قبل اس کی پشت پر ادائیگی کے لیے کوئی اثاثہ موجود نہیں ہوتا ہے۔ 

حواشی

۱۳۔ نیوکلاسیکل مکتبہ ہائے فکر کی ایک بنیادی خامی موجودہ زر کو exogenous فرض کرکے سرمایہ دارانہ معیشتوں کا تجزیہ کرنا ہے۔ یہ مفروضہ علم معاشیات کے تقریباً ہر جدید نظریے میں رد کیا جا چکا ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ یا مروجہ زر ایک endogenous (داخلی) عنصر کی حیثیت رکھتا ہے جس کی مقدار کا تعین اشیا کی لین دین کے لیے کی جانے والی طلب سے ہوتا ہے ، دیکھئے Post-Keynasian Theories، مثلاً: 
  • Philip Arestis and Thanos Skouras کی کتا ب Post Keynesian Economic Theory 
  • Louis Philippe and Sergio Rossi کی کتا ب Modern Theories of Money 
  • Philip Arestis and Malcom Sawyer کی کتا ب A Handbook of Alternative Monetary Economics
۱۴۔ مشہور معیشت دان Schumpeter نے یہ بات 1934 میں اپنی کتاب Theory of Economic Development, Chap 3 part I میں بیان کردی تھی 
۱۵۔ نیوکلاسیکل نظریہ معاشیات میں بچتوں کو سرمایہ کاری سے قبل فرض کرنے کی کوئی علمی بنیاد موجود نہیں کیونکہ ان کے نظریہ تقسیم دولت (جسے marginal productivity theory کہتے ہیں ) کے مطابق تمام ذرائع پیداوار کو ان کی اجرت وغیرہ پیداواری عمل مکمل ہونے کے بعد ادا کی جاتی ہے، لہٰذا ان نکے ماڈل میں پیداواری عمل شروع کرنے سے قبل کسی سرمایہ کاری کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اسکے برعکس کلاسیکل مفکرین (جیسے ریکارڈو اور مارکس) وغیرہ کے خیال میں اجرتیں پیداواری عمل مکمل ہونے سے قبل ادا کی جاتی ہیں لہٰذا ایک ابتدائی سرمایہ کاری فرض کرنا لازم ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف کلاسیکل مفکرین تقسیم دولت کی marginal productivity theory کو تسلیم نہیں کرتے (جو نیوکلاسیکل مکتبہ فکر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے) اور دوسری طرف انکے خیال میں بچت اور سرمایہ کاری معیشت کے دو علیحدہ ایجنٹ (بالترتیب عام صارفین اور کاروباری طبقہ) نہیں کرتے جیسا کہ نیوکلاسیکل مفکرین کا خیال ہے بلکہ یہ دونوں کام ایک ہی ایجنٹ یعنی سرمایہ کار کرتے ہیں 
۱۶۔ تمسکات (securities) بھی فائنانشل دعوے ہوتے ہیں جنہیں عام طور پر کاروباری و مالیاتی ادارے جاری کرتے ہیں اور ان کا مقصد قرض پر رقم کا حصول ہوتا ہے ۔
۱۷۔ ظاہر ہے اس عمل کے نتیجے میں تقسیم دولت کے نظام پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوئے کیونکہ اب قرض کی صورت میں دولت کا جھکاؤ ان لوگوں کی طرف ہوگیا جو پہلے سے اتنے امیر ہوں کہ قرض کی مطلوبہ رقم سے زیادہ رہن جمع کرواسکتے ہوں۔ بینکنگ کی اسی حکمت عملی پر یہ طنزکسا گیا ہے کہ ’بینک آپ کو قرض تب دے گا جب پہلے آپ یہ ثابت کردیں کہ آپ کو اس قرض کی ضرورت نہیں‘۔ موجودہ دور میں دولت کی ہوش ربا غیر منصفانہ تقسیم در حقیقت نتیجہ ہے اس ظلم کا جو صدیوں تک نظام بینکاری کے نام پر قانوناً لوگوں پر روا رکھا گیا۔ افسوس کہ مجوزین کو اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے اسی بینکاری کا حصہ بن جانے کی فکر لاحق ہے ۔
۱۸۔ یہ تمام تفصیلات نفس موضوع سے متعلق نہیں، اس کے لیے دیکھئےTawney کی کتاب Religion and the Rise of Capitalism (خصوصی طور پر باب نمبر دو The Continental Reformers ) 
۱۹۔ دیکھئے Malcolm Sawyer کی کتاب The Political Economy of Central Banking 
۲۰۔ Barter economy، monetary economy اور credit economy کا فرق سمجھنے کے لیے دیکھئے Augusto Graziani کی کتاب The Monetary Theory of Production, Chap 3
(جاری)

یہ جواب نہیں ہے

مولانا عبد المالک طاہر

ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ (مئی/جون ۲۰۰۹ء) کے صفحہ ۱۴۵تا ۱۴۸ پر حافظ زبیر صاحب کامضمون شائع ہوا جو انہوں نے راقم کے مضمون بعنوان ’’جہادی تنظیموں کے تنقیدی جائزہ پرایک نظر‘‘ (الشریعہ، مارچ ۲۰۰۹ء، صفحہ ۴۳ تا ۴۷) میں اٹھائے جانے والے اعتراضات وسوالات کے جواب کے طورپر لکھا ہے۔ مضمون کا عنوان ’’عبد المالک طاہر کے اعتراضات کے جواب میں‘‘ دیکھ کر یہ گمان ہوا کہ راقم کی طرف سے اپنے مضمون میں اٹھائے جانے والے اعتراضات کے جوابات ہوں گے، لیکن عنو ان اور نفس مضمون کا باہمی تعلق ایسا ہی ہے جیساکہ جناب کا (اپنی تحریروں کی روشنی میں) جہاد و مجاہدین کے ساتھ ہے۔ جناب نے منطقی انداز کو اختیار کرنے کی کوشش میں خلط مبحث کی طرف پہلا قدم اٹھایا ہے جو بحث کے نتیجہ خیز ہونے میں نہ صرف مانع ہوگا بلکہ ایسی بحث بے فائدہ اور شاید مضر بھی ہو۔ لہٰذاراقم اولاً اپنے سابقہ مضمون (مارچ ۲۰۰۹ء) کے سوالات واعتراضات کاذکر ضروری سمجھتا ہے تاکہ قارئین کو علم ہو کہ یہ راقم کے سوالات کے جواب نہیں بلکہ مزید اعتراضات ہیں۔ 
سوالات کچھ یوں ہیں:
اول: جناب نے اپنے مضمون بعنوان ’’پاکستان کی جہادی تحریکیں: ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ‘‘ (الشریعہ نومبر؍دسمبر ۲۰۰۸ء) میں لکھا ہے کہ لاعلم، سیدھے سادھے جذباتی نوجوانوں کے لیے جہادی تحریکوں کے معسکرات خرکار کیمپ ثابت ہوتے ہیں۔ جناب نے ان مجبور مجاہدین کے کچھ الفاظ بھی نقل کیے ہیں۔ اس پر سوال یہ تھاکہ ان خرکار کیمپوں کی لسٹ اور ان مجبور مجاہدین کے کوائف قوم کے سامنے لائیں تاکہ قارئین کو حقائق کا علم ہو سکے۔ جواب کے جلی عنوان کے باوصف اس سوال پر جناب کی نظر کرم نہیں ہوتی۔ 
ثانی: آ پ نے لکھا کہ روس کو افغان جہاد میں شکست مجاہدین نے نہیں بلکہ امریکہ وپاکستان نے دی۔ اس پر راقم نے تین سوالات کیے تھے۔
(الف) اس بات کا ثبوت کہ امریکہ وپاکستان کا عمل جارحیت کے کتنے سال بعد ہوا تھا؟
(ب) اس دخل سے قبل جنگی صورت حال کیا تھی؟
(ج) امریکی وپاکستانی عمل دخل کس نوعیت کا تھا؟
ثالث: آپ نے جہاد کو نماز پر قیاس کیا۔ اس پر سوال تھاکہ 
(الف) ایسا جہاد جس میں تمام مسلمانوں پر صرف لڑنا ہی فرض ہو، مسلسل کیسے چلے گا؟ 
(ب) طبعی ضروریات کا نظام کیونکر چلے گا؟ 
(ج) نئے افراد کی ذہن سازی وتربیت کے بغیر ایک مکمل نظام کتنا عرصہ چل سکے گا؟
رابع: حافظ صاحب نے بعض مفروضوں (یا جزوی واقعات) کو بنیاد بنا کر انتہا پسندانہ رائے قائم کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا اور ثبوت طلب کرنے پر جوابی تحریر میں کسی قسم کی شہادت پیش کرنے کی بجائے مزید سوالات کے ضمن میں پھر وہی لہجہ اختیار کیا جس میں مجاہدین کے طریقہ کار پر تنقید کی بجائے جہاد سے تنفر زیادہ نظر آرہا ہے۔ 
خامس: زبیر صاحب کے مطابق غیر سرکاری جہاد سے کفار کو شکست دینا ناممکن ہے، جب کہ امریکی نمائندے مارک اسمتھ سمیت دیگر عسکری کمانڈروں نے اپنی شکست تسلیم کی ہے۔ ان مبتلیٰ بہ امریکی افواج کی (اب تک) کی تسلیم شدہ شکست کے مقابلہ میں زبیر صاحب اپنے نظریہ پر کوئی ثبو ت پیش کریں۔ 
سادس: حافظ صاحب نے اپنے مضمون میں علت قتال ظلم کو قرار دیا۔ اس پر سوال تھاکہ بالفرض اگر کوئی کفریہ اسٹیٹ غیر ظالم ہوتو اس کے خلاف جہاد ہو گا کہ نہیں؟ 
یہ چند سوالات اٹھائے گئے تھے جس پر حافظ صاحب نے جواب دینے کی بجائے بحث کارخ دوسری طرف پھیرنے کی کوشش کی ہے۔ کاش ! جواب والے جلی عنوان کی طرح مضمون کے اندر جوابات بھی اسی تناسب کے ساتھ ہوتے۔ گزارش ہے کہ ان سوالات کی طرف اورا پنے جوابی مضمون کی طرف نظر فرمائیں۔ 
جہاں تک حافظ صاحب کے مضمون (بعنوان ’’عبدالمالک طاہر کے اعتراضات کے جواب میں‘‘، مئی ؍جون ۲۰۰۹ء) میں اٹھائے گئے سوالات کاتعلق ہے تو ان کا جواب حوالہ قلم کرنے سے قبل عرض ہے کہ آئندہ بحث میں اگر محترم کایہی طرز (اعتراض برائے اعتراض، جواب کے نام پر بھی سوال) رہا تو بندہ کے لیے قارئین کے وقت اور الشریعہ کے صفحات کی قدر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایسی بے نتیجہ بحث کو جاری رکھنا مشکل ہو گا۔
اب الشریعہ مئی ؍جون ۲۰۰۹ء کے شمارے میں اٹھائے گئے سوالات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 
سوال نمبر۱: موجودہ حالات میں جہادفرض عین ہے کہ نہیں؟ اگر ہے تو جہادی تحریکوں کے امراء ومسؤلین تو قتال نہیں کر رہے۔ (الشریعہ مئی ؍جون ۲۰۰۹ء، ص ۱۴۵) 
اس سوال کا منشا اورا س کی تفصیل میں چھپے استہزا پرمبنی اعتراضات در حقیقت جہاد کی اقسام ،ان اقسام کے حکم اور کس پر کون سا جہاد فرض ہے جیسے امور سے لاعلمی کا نتیجہ ہیں۔ شریعت اسلامیہ کے احکامات کے مطا بق جہاں کفار حملہ آور ہیں، ان مسلمانوں پر جہاد (قتال) فرض عین ہے، جب کہ پڑوس کے مسلمانوں پر بدرجہ ضرورت اقرب فالاقرب کے اصول کے تحت ضروریات کا پورا کرنا استطاعت کے مطابق فرض ہے۔ یعنی سب سے اول فرض ان مسلمانوں پر متوجہ ہوتا ہے جن پر کفار نے حملہ کیا ہے۔ ان کی کمزوری کی صورت میں آس پاس والے مسلمانوں پر الاقرب کے اصول کے تحت فرض ہے۔ 
فقہاے اسلام جہاد کو دوقسموں پر تقسیم کرتے ہیں: اقدامی جہاد جسے جہاد الطلب بھی کہتے ہیں اور دفاعی جہادجسے جہاد الدفع بھی کہا جاتاہے۔ اقدامی جہاد یہ ہے کہ ازخود مجاہدین کفار پرحملہ کریں۔ دفاعی جہاد کا مطلب ہے کفار کے مسلما ن ملک پر حملہ کی صورت میں مسلمانوں کا دفاعی لڑائی کرنا۔ صاحب قدوری اقدامی جہاد کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
الجہاد فرض علی الکفایۃ اذا قام بہ فریق من الناس سقط عن الباقین وان لم یقم بہ احد اثم جمیع الناس بترکہ، وقتال الکفار واجب وان لم یبدء ونا ( المختصر للقدوری، کتاب السیر، ص ۲۲۴) 
’’جہاد (عمومی حالات میں) فرض کفایہ ہے۔ اگر ایک جماعت اس فرض کو ادا کرے تو باقی کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گااورا گر کوئی بھی اس فرض کفایہ کو ادا نہ کرے تو سب گناہ گار ہوں گے۔ اگر کفار از خود لڑائی کی ابتدا نہ بھی کریں تو جہاد واجب ہے۔‘‘
کنزالدقائق میں جہاد کی پہلی قسم (اقدامی جہاد ) کا ذکر ان الفاظ میں ہے:
الجہاد فرض کفایۃ ابتداء فان قام بہ قوم سقط عن الکل والا اثموا بترکہ (ص ۱۹۹) 
کنزالدقائق کی مذکورہ بالاعبارت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ ابن نجیم ؒ فرماتے ہیں: ’’بیان لحکم فرض کفایۃ‘‘ کہ مذکورہ حکم فرض کفایہ جہاد کا حکم ہے۔ (البحرالرائق ، کتاب السیر ۵/۷۱)
اقدامی جہاد سے متعلق علامہ ابن عابدین ؒ فرماتے ہیں:
فیجب علی الامام ان یبعث سریۃ الی دارالحرب کل سنۃ مرۃ او مرتین وعلیٰ الرعیۃ اعانتہ الا اخذ الخراج فان لم یبعث کان کل الاثم علیہ۔
یعنی مسلمانوں کے امام ی ذمہ داری ہے کہ وہ سال میں ایک مرتبہ یا دو مرتبہ دارالحرب کی طرف لشکرروانہ کرے اور رعایا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں امام کی اعانت کرے سوائے اس کے کہ امام پہلے کفار سے جزیہ وصول کرتا ہو۔ اگر امام لشکر نہ بھیجے تو گناہ کا بو جھ اسی پر ہوگا۔ (حاشیہ ابن عابدین ۳/۲۳۹) 
جہاد کی دو سری قسم یعنی دفاعی جہاد کے متعلق صاحب قدوری فرماتے ہیں:
فان ہجم العدو علی بلد وجب علی جمیع المسلمین الدفع تخرج المراۃ بغیر اذن زوجہا والعبد بغیر اذن الولی ( المختصر للقدوری، کتاب السیر ص ۲۲۳) 
یعنی اگر دشمن مسلمانوں کے کسی علاقے پر حملہ آور ہو تو تمام مسلمانوں پر دفاع (دشمن کو روکنا اور نکالنا) واجب ہے، حتی کہ عورت خاوند کی اجازت کے بغیر اور غلام آقا کی اجازت کے بغیر نکلے گا۔
دفاعی جہاد کے متعلق کنزالدقائق کی عبارت یوں ہے:
وفرض عین ان ہجم العدو فتخرج المراۃ والعبد بلا اذن زوجہا وسیدہ (کنزالدقائق، ص ۲۰۰)
اسی عبارت پرعلامہ ابن نجیم ؒ فرماتے ہیں:
لان المقصود عند ذلک لا یحصل الا باقامۃ الکل فیفترض علی الکل فرض عین فلا یظہر ملک الیمین ورق النکاح فی حقہ کما فی الصلوۃ والصوم۔
آگے چل کر ارشاد فرماتے ہیں:
والمراد ہجومہ علی بلدۃ معینۃ من بلاد المسلمین۔ فیجب علی جمیع اہل تلک البلد، وکذا من یقرب منہم ان لم یکن باہلھا کفایۃ۔ وکذا ممن یقرب ممن یقرب ان لم یکن ممن یقرب کفایۃ او تکاسلوا عصوا وہکذا الی ان یجب علی جمیع اہل الاسلام شرقا وغربا کتجہیز المیت والصلوۃ علیہ یجب اولاً علی اہل محلیۃ فان لم یفعلوا عجزاً وجب علی من بعدہم علی ما ذکرنا۔ (البحراالرائق، کتاب السیر ۵/۷۲) 
یعنی عورت اور غلام پر خاوند اور آقا کی اجازت اس لیے ضروری نہیں کہ مقصود (دشمن کادفع کرنا) تمام لوگوں کے جہاد پر نکلے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا سب پر فرض عین قرار دیاجائے گا۔ اس لیے ملک یمین اور رق النکاح کے اثرات اس کے حق میں ظاہر نہ ہوں گے جیسے کہ نماز روزہ ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ حملہ سے مراد کفار کا مسلمانوں کے کسی معینہ شہر پر حملہ کرنا ہے۔ جب ایسی صورت پیدا ہو تواس شہر کے تمام باشندوں پر دفاع فرض ہوگا۔ یہ لوگ اگر کافی نہ ہوں تو قریب والوں پر فرض ہوگا۔ اگر وہ بھی کفایت نہ کریں یا سستی ونافرمانی کا مظاہرہ کریں توان کے قریب والوں پر دشمن کو روکنا فرض ہو گا۔ اس طرح مشرق ومغرب کے تمام مسلمانوں پر جہاد فرض ہوگا۔ جیسے کہ میت کی تجہیز اوراس پر نماز جنازہ اولاً اس کے محلہ والوں پر فرض ہے ۔ اگر وہ عاجز ہوں تو یہ فریضہ ادا نہ کرسکیں توا ن کے بعدوالوں پر ایسے ہی فرض ہے، جیساکہ ہم نے ذکر کیا۔
دفاعی جہاد کے متعلق علامہ ابن عابدینؒ فرماتے ہیں کہ اگر دشمن کسی اسلامی سرحد پر حملہ آور ہو جائے تو وہاں بسنے والوں پر جہاد فرض عین ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ان کے قرب وجوار والوں پر بھی فرض عین ہو جاتا ہے۔ البتہ جو لوگ ان سے پیچھے دشمن سے فاصلہ پر ہوں، ان پر جہاد اس وقت تک فرض کفایہ ہوتا ہے جب تک ان کی ضرورت نہ پڑے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے ان کی ضرورت پڑ جائے۔ مثلاً 
۱۔ جس علاقے پر دشمن حملہ آور ہو، اس کے قرب وجوار کے لوگ دشمن کی مزاحمت کرنے میں بے بس ہو جائیں۔ 
۲۔ یا بے بس تو نہ ہوں، لیکن سستی کی وجہ سے جہاد نہ کریں۔ ایسی صورت میں ان کے ارد گرد بسنے والوں پر جہاد نماز روزہ کی طرح فرض عین ہو جاتا ہے اوراسے ترک کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ پھر فرضیت کا دائرہ اس کے بعد اورپھر اس کے بعد والوں تک حسب ضرورت پھیلتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اسی تدریج سے بڑھتے ہوئے ایک (ہی) وقت میں مشرق ومغرب میں بسنے والے ہر مسلمان پر جہاد فرض عین ہو جاتا ہے۔ ( حاشیہ ابن عابدین ۳/۲۳۸۔ نیز بدائع الصنائع جلد ۷ و فتح القدیر لابن ہمام جلد ۵۔ بحوالہ ’’ایمان کے بعد اہم ترین فرض عین‘‘ از عبداللہ عزام) 
مذکورہ بالاعبارات میں ہر مسلمان پر جہاد کو فرض عین قرار دینے سے یہ بات ہی واضح ہو جاتی ہے کہ ایسی حالت میں صرف حکومت پر جہاد فرض قراردینا اور خود سے فرضیت کو (از خود بلادلیل شرعی) ساقط کرنا غلط ہے۔ بندہ کے اس دعوی پر بین دلیل شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کی مندرجہ ذیل عبارت ہے:
واما قتال الدفع فھو اشد انواع دفع الصائل عن الحرمۃ والدین فواجب اجماعاً۔ فالعدو الصائل الذی یفسد الدین والدنیا لا شئ اوجب بعد الایمان من دفعہ فلا یشترط لہ شرط (کالزاد والراحلۃ) بل یدفع بحسب الامکان۔ وقد نص علی ذلک العلماء، اصحابنا وغیرہم۔ 
’’اور جہاں تک با ت ہے دفاعی قتال کی تو حرمتوں اور دین پر حملہ آور دشمن کو پچھاڑنے کے لیے یہ قتال کی اہم ترین قسم ہے اوراسی لیے اس کے فرض ہونے پر امت کا اجماع ہے۔ ایمان لانے کے بعد سب سے اہم فریضہ دین ودنیا کو برباد کرنے والے حملہ آور دشمن کو پچھاڑنا ہے۔ اس کی فرضیت کے لیے کوئی شرط نہیں۔ (مثلاً زاد راہ اورسواری موجود ہونے کی شرط بھی ساقط ہو جاتی ہے) بلکہ جس طرح بھی ممکن ہو، دشمن کو پچھاڑا جائے گا۔ یہ بات علماء نے صراحتاً کہی ہے، خواہ وہ ہمارے فقہی مذہب کے علماء ہوں یا دیگر فقہی مذاہب سے ہوں۔‘‘ ( الفتاوی الکبرٰی ۴/۵۲۰، بحوالہ ایما ن کے بعد اہم ترین فرض عین۔ اردو ترجمہ: الدفاع عن اراضی المسلمین اہم فروض العیان بعد الایمان۔ از ڈاکٹر عبداللہ عزام شہیدؒ )
مذکورہ فقہی عبارات کی روشنی میں جن علاقوں پر کفار حملہ آور ہیں ،ان پر جہاد فرض عین ہے۔ اس ادائیگی جہاد میں اصل مقصود تو لوجہ اللہ قتال ہے۔ دیگر تمام شعبے اسی کی مضبوطی اور قیام کے لیے ہوں گے۔ جبکہ دوسرے درجہ میں پڑوسی ممالک کے مسلمانوں پر ان مظلوم مسلمانوں کی مقدور بھر امداد وتعاون واجب ہے۔ 
پاکستانی جہادی نظم اسی دوسرے درجے میں مقدور بھر امداد وتعاون کی راہ اپنائے ہوئے ہے جو صرف تحریر وتقریر کی حد تک محدود نہ ہے بلکہ عملی قتال بھی ان نظموں کا اصل کام ہے۔ جہاں تک ان کے امراء، مسؤلین اور غیر جماعتی حمایتی لوگوں کی کاوشوں، تحریر و تقریر کے ذریعے ( جب کہ وہ حقیقتاً جہاد کے لیے مفید بھی ہو نہ کہ تنقید کے نام پر الزامات کا پلندہ) جہاد کی حمایت کے درمیان فرق کا ذکر ہے کہ مسؤول پاکستان میں یہی کام کرے تو جہاد میں شریک کہلائے جب کہ دوسری طرف غیر جماعتی لوگ اسی کام کے کرنے کے باوجود جہاد میں شریک نہ کہلائیں، دونوں میں فرق کیا ہے؟ تو جہادی نظموں کے طریقہ کار پر غور کرنے سے یہ فرق سمجھ آ سکتاہے۔کہ جہادی نظم صرف تحریر وتقریر تک اپنی حمایت کو محدود نہیں رکھتے، بلکہ عملی طور پر اصلی میدان (قتال) سے وابستہ ہونے کی بنا پر انہیں قتال کی حقیقی ضروریات کا علم ہوتا ہے اوروہ یہ ضروریات تمام تر مشکلات ومصائب کے باوجود بطریق احسن پوری کرتے ہیں۔ اس میں صرف تجزیہ کے نام پر بے جاتنقید، تبصرہ کے نام پر الزامات یا بند کمرے میں بیٹھ کر مفت مشورے دینے تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ اموال کی بہم ترسیل، افراد کی مسلسل فراہمی اور تمام ضروریات کو مد نظر رکھ کر نظام کار وضع ہوتا ہے جس کی کچھ تفصیل آئندہ سطور میں بھی آ رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں حافظ زبیر صاحب جیسے افراد ایک طرف جہاد ومجاہدین کے متعلق ہتک آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں اور دوسری طرف خود کوجہاد میں معروف منوانے پر بھی مصر ہیں۔ 
حافظ صاحب ہی بتائیں کہ کیاجہادی علماء، مسؤلین کی طرح تحریروں سے ہٹ کر بھی ان کی عملی کاوشیں میدان قتال کے لیے ہیں؟ افراد کی فراہمی، امداد کی ترسیل، اپنی تیاری، ضرورت پڑنے پر میدان قتال میں وقتاً فوقتاً خود اترنا اور ان کاموں پر مشتمل کوئی نظام ہے؟ انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام لکھوانے کی روایت ماضی سے چلی آرہی ہے۔ حافظ صاحب توقلم گھسا کر شہیدوں میں نام لکھوانے کی ریت ڈالنا چاہتے ہیں۔ (وہ بھی حمایت کی بجائے مخالفت کر کے) 
امید ہے کہ ان سطور سے حافظ صاحب کواپنے تعاون (وہ بھی اپنے تئیں) اورجہادی علماء و امراء کے تعاون کا فرق معلوم ہو گیا ہوگا۔ مقصدیہ ہے کہ حافظ صاحب جس تنقید کو تعاون ہی کی صورت قرار دے رہے ہیں، اگر فی الواقع وہ مثبت تنقید ہو تو تب بھی صرف تنقید، تائید تحریر وتقریر اور جہادی نظموں سے متعلق افراد کے کام میں بہت بڑا فرق موجود ہے۔ جہادی نظموں کا حدود اربعہ تنظیم اسلامی کی طرح صرف اخبارات، میڈیا کے کیمروں اورائیر کنڈیشن دفاتر تک محدود نہیں، بلکہ اسلام آباد کے دفاتر اور بعض اداروں سے کشمیر وافغانستان کے پہاڑوں تک اموال ودیگر ضروریات اور افراد کی تسلسل کے ساتھ فراہمی، پاکستان کے سینکڑوں مجاہدین کا ان پہاڑوں پر بکھرا ہوا خوشبو بکھیرتا سرخ لہو، اس بات پر شاہد ہے کہ یہ جماعتیں ممکنہ وسائل کی حد تک مظلوم مسلمانوں کی ضروریات پوری کر رہی ہیں۔ اگر پاکستان کی قومی پالیسی پر بزدلی کی دھند نہ ہوتی توان مقدس ہستیوں کے اسماے گرامی نقل کرتا جو علم کی دنیا سے متعلق ہیں، لیکن ان جماعتوں کے ذریعہ نہ صرف عملی جہاد ( قتال) میں شریک رہے بلکہ اب بھی شریک ہیں۔
اپنے مضمون کے نکتہ نمبر ۲ کے ضمن میں حافظ صاحب حق تنقید کاجواز ثابت کرکے اپنی تحریری کاوشوں کوجہاد منوانے پر مصر ہیں۔ (الشریعہ مئی؍جون ۲۰۰۹ء، ص ۱۴۶) یقیناًاہل علم کوجہادی نظموں کے طریق کار پر بحث، تنقید کا حق نہ صرف حاصل ہے بلکہ آئندہ بھی رہے گا، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ اہل علم کا فریضہ ہے کہ وہ تنقید وبحث کے ذریعے نظام کار کی خامیوں کی نشاندہی کریں، مفید مشورے دیں اور حق تنقید ادا کریں، لیکن یہ تنقید حقیقی تنقید ہو نہ کہ بلا ثبوت الزامات ۔ صرف اتہامات کو تنقید قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 
دوسری بات یہ کہ بند کمروں میں محض تحریر، یا جلسوں کی تقاریر اور مثبت تنقید جب کہ اپنی حدود وشرائط کے ساتھ ہوتو یقیناًجہادو مجاہدین کے ساتھ بہترین تعاون ہے۔ لیکن یہ جہادی نظموں کے کام کے برابر یا فریضہ جہادکی ادائیگی کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ ان نظموں سے منسلک علماء، امراء کی تحریر، تقریر اور فتاوٰی پر اپنی تنقید کو قیاس کرنا اس لیے بھی محل نظر ہے کہ یہ علماء عظام، مسوولین ، مفتیان کرام ایک نظم کے تحت یہاں مامور ہوتے ہیں ۔ اگر میدان قتال میں ان کی تشکیل کی جائے تو نہ صرف تیار بلکہ اس کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ مجاہدین کی نصرت میں لگے یہ علماء کرام دھکے اور دھونس سے عملی مجاہدین کے فضائل کو خود پر منطبق کرنے پر اصرار نہیں کرتے بلکہ وہ خود کو ان مجاہدین کے خادم کہلوانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان تحریکوں کی خدمات اور دیگر افراد کی انفرادی کوششوں، تعاون اورمشاورت کے درمیان یہی بنیادی فرق ہے کہ جہادی نظم عملی طور پر شعبہ قتال سے متعلق ہونے کی بنا پر اپنی ہمتوں کا اصل میدان جہاد (قتال) کو بناتے ہیں۔ عملاً وابستہ ہونے کی وجہ سے انہیں قتال کی حقیقی اور واقعی ضروریات کا مکمل ادراک ہوتا ہے۔ دیگر شعبہ جات عموماً اسی اصل کو مضبوط کرنے کے لیے قائم کرتے ہیں جیسے میدان قتال میں اموال کی فراہمی، افراد کی تشکیل ، خالص جہادی مسلمان بنانے کے لیے اورعملاً وابستہ کرنے کے لیے ذہنی وفکری تربیت۔ اس کے علاوہ مستند علماء کی زیر نگرانی کام کرنے والے نظموں میں کامل دین پر عمل پیرا ہونے کے لیے دین کے تمام شعبوں کے احیا کی تڑپ دیکھی جا سکتی ہے جس میں مثال کے طور پر اپنی اصلاح کے لیے فکر مند ہونا اور دیگر مسلمانوں کو متوجہ کرنا، اصلاحی مجالس قائم کرنا، معروف معنوں میں باقاعدہ اصلاحی بیعت، تصوف اور ذکر اللہ کی مجالس کا قیام، تمام کارکنوں کی اصلاحی تربیت کے لیے مستند علما کی کتب کا مطالعہ لازمی قرار دینا، ہر ماہ عام لوگوں کے لیے بنیادی دینی مسائل سکھانے کا منظم طریقہ، نماز جیسے اہم فریضہ کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کرنے کے لیے ملک گیر اقامت صلوٰۃ مہم، دعوت جہاد، دورات تفسیر آیات جہاد کا سلسلہ، ادائیگی عشر وزکوٰۃسمیت دیگر اجتماعی وانفرادی فرائض کی طرف عامۃ الناس کو متوجہ کرنے کی ملک گیر مہمات، زلزلہ زدگان اور متاثرین سوات جیسے ہزاروں بے سہارا وبے گھر افراد کی کفالت۔ 
ان جہادی نظموں کی خدمات کا وہ روشن باب ہے جس کا اعتراف جنرل پرویز مشرف جیسا لبرل ( مجاہدین کش) لیڈر بھی کرتا رہا۔ مورخہ ۲۵؍جون ۲۰۰۹ء کو نوائے وقت لاہور کی خبر کے مطابق اقوام متحدہ اور واشنگٹن پوسٹ کے ایک گروپ کے مطابق اب تک کی رپورٹوں کے مطابق جہادی گروپ سوات متاثرین کی امداد میں سب سے آگے ہیں۔ اس کے علاوہ نکاح مسنون کو آسان اور سہل طریقہ پر کرنے کے لیے اداروں کی صورت میں خدمات اور اس جیسے دیگر اسلامی احکامات کی طرف عامۃ المسلمین کو متوجہ کرنا ان جہادی نظموں کی تاریخ کا حسین باب کہلائیں گے۔ 
تیسرے نمبر کے ضمن میں حافظ صاحب نے لکھا ہے کہ جب جہادی تحریکوں میں جہاد (قتال) کے طریقہ کار، منہج اور تطبیق کے حوالے سے اختلافات ہو جائیں تواس کے باوجود وہ مجاہدین اور غازی کہلاتے ہیں۔ (الشریعہ مئی؍جون ۲۰۰۹ء ص۱۴۶) 
اس عبارت میں حافظ صاحب نے بنیادی طور پر دو چیزیں لکھی ہیں: 
(الف) اگر جہادی تحریکوں کے باہمی شدید اختلافات ، اختلافی نظریات کے باوجود بھی وہ جہاد کر رہے ہیں توان کی ( حافظ صاحب کی) مخالفت کیسے جہاد نہیں قرار دی جا سکتی؟ جواباً عرض خدمت ہے کہ اس حوالے سے سابقہ سطور کو مد نظر رکھنا ہی مفید ہوگا کہ کفار کے خلاف کفار کے مقبوضہ علاقوں میں جہاد کرنے والے تمام نظم باہمی اختلافات کے باوجود بہرحال جہاد کررہے ہیں۔ یہ لوگ محض قلمی ٹارزن نہیں ہیں۔ ( ہماری بحث سے مسلم ممالک میں برسرپیکار نوجوان خارج ہیں)۔ مقبوضہ مسلم علاقوں میں کفار کے خلاف لڑنے والی جماعتوں میں تمام تر نظریاتی وفکری اختلافات کے باوصف، طریقہ کار کے فرق کے باوجود ان کا اصل میدان قتال فی سبیل اللہ ہے نہ کہ تنقید کے نام پہ تنقیص۔ 
محترم بحث کے نام پر بے جا الزامات لگا کر بھی مجاہدین کی صف میں کھڑے نظر آنا چاہتے ہیں۔ اگر جناب کو فضائل جہاد اتنے اچھے لگتے ہیں (کہ ہر سطر میں وہ خود کو ان نظموں کے برابر جہاد کرنے و الا باور کروانا چاہتے ہیں) اور قرآن کی آیات جہاد آنکھوں کے سامنے ہیں تو طریقہ یہ ہے کہ آئیے خود کو خطرات میں ڈالیے، گھر سے دور تشکیل، ایجنسیوں کا واچ اورنگرانی کے نام پر تنگ کرنا، اپنوں کے طعنے، ساتھیوں کی گرفتاری کا غم، پیاروں کی شہادت کا دکھ، اپنی گرفتاری کا خوف، ذمہ داریوں کے بکھیڑے، ہمہ وقت صرف لاالہ الااللہ کا ویزا قرار دے کر باڈر کراس کرنے پر تیار، عملی میدان میں آگ وبارود کو سامنا، یہ تمغے سینے پر سجائیے، پھر اختلافی آرا دیجیے، بحث کیجیے، تنقید کا فرض ادا کیجیے اور خود کو مجاہد بھی کہلوائیے۔ 
(ب) زبیر صاحب کے مطابق جہادی تحریکوں کے اختلافات عامۃ الناس کے لیے کنفیوژن کا سبب ہیں کہ اگر سب جہاد ہی کر رہے ہیں تو ان میں اتنے دھڑے کیوں ہیں او ر عام آدمی کس تنظیم کے ساتھ مل کر جہاد کرے۔ 
حافظ صاحب نے اعتراض کے اس حصے میں ایک گھسا پٹا سوال کر کے چلے ہوئے کارتوس کو چلانے کی کوشش او ر سعی کی ہے۔ گزارش ہے کہ اگر اختلاف کو بنیاد بنا کر یہی سوال کوئی مسلکی اختلافات کے بارے میں کرے یا مسلمانوں میں موجود متعدد طبقوں کے مختلف نظریات کو سامنے رکھ کر اس اختلاف کو سلام سے چھٹی کاعذر بنائے تو کیا اس کا یہ نقطہ نظر درست ہوگا؟ یا کوئی فلسفی انسانوں کے اختلافات بلکہ فسادات، قتل وغارت کو بنیاد بنا کر جانوروں کی کسی پرامن قسم میں جا پہنچے اور خود کو انہیں میں سے قرار دے تو کیا اس کا یہ عمل دیگر عقل انسانوں کے ہاں درست قرار دیا جائے گا؟ 
اگر اختلاف کی بنیاد پر اسلام سے نکل کر کفر میں جانااور انسانیت سے نکل کر جانوروں میں جانا درست ہے تو فرمائیں۔ اور اگر درست نہیں اور یقیناًدرست نہیں تو پھر جہادی تحریکوں کے اختلاف کی بنا پر ترک جہاد کیسے درست ہوگا؟ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ انسان ان مختلف لوگوں میں سے کس کے ساتھ ہو تو انسانوں کے اختلاف پر، مسلمانوں کے اختلاف پر جیسے عامی آدمی کرتا ہے، ویسے ہی یہاں بھی کرے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل کو استعمال کرے، مختلف نظموں کے حالات سے واقفیت پیدا کرے اورجس نظم کومعتبر علماء واکابر کی تائیدات حاصل ہوں، اس نظم سے تعلق جوڑے۔
چوتھے نمبر کے ضمن میں حافظ صاحب رقم طراز ہیں کہ امریکہ، اسرائیل، انڈیا کے خلاف جہاد فرض عین ہے، لیکن کس پر ؟ اس کے جواب میں خود ہی کہا ہے کہ حکمرانوں پر نہ عوام پر، بلکہ عوام پر پرامن طریقوں، جلسوں، مظاہروں کے ذریعے حکمرانوں کو مجبور کرنے کی ذمہ داری ہے یا عوام الناس کی اصلاح کی کوششوں میں معروف ہونے کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بعض نظموں کی مثال دے کر عدم تشدد پرمبنی جدوجہد کا سبق مجاہدین کو دینے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی جہاد فرض عین کے فتاویٰ جاری کرنے والے علما پر پھبتی کسی ہے۔ 
ان سطور کے جواب کاایک حصہ تو گزشتہ صفحات میں آ چکا ہے۔ خلاصہ کے طور پر مکرر عرض ہے کہ جہاد کی دو قسمیں ہیں۔ اقدامی جہاد اصلاً حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ از خود کفار پر حملہ آور ہو جس کے ترک پر حکمران گناہ گار ہیں۔ (بحوالہ حاشیہ ابن عابدین ۳؍۲۳۹) اگرچہ بعض مخصوص صورتو ں میں نان اسٹیٹ ایکٹرز کی اقدامی کاروائیاں بھی حقیقی اقدامی جہاد کا حکم رکھتی ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں المبسوط للسرخسی،کتاب السیر، باب مااصیب فی الغنیمۃ مما کان المشرکون اصابوہ من مال المسلم، ۱۰؍۸۲بحوالہ ماہنامہ الشریعہ نومبر ؍دسمبر ۲۰۰۸ء، ص۷۳) 
موجودہ حالات میں جن خطوں میں جہاد ہو رہا ہے، وہ دفاعی ہیں نہ کہ اقدامی۔ ان عبارات سے واضح معلوم ہو رہا ہے، کہ دفاع کی ذمہ داری (اگرچہ اولاً حکمرانوں کی ہے) عام لوگوں کی بھی ہے۔ فقہاء کی عبارات میں ’’فان ھجم العدو وجب علی جمیع المسلمین الدفع‘‘ کے الفاظ ہیں کہ کافروں کے حملے کی صورت میں تمام مسلمانوں پر سرزمین اسلام کا دفاع اور دشمن کا روکنا فرض ہے، جیساکہ راقم مذکورہ بالا سطور میں امام ابن تیمیہؒ اور علامہ ابن عابدین ؒ کی عبارات سے کافی وضاحت کر چکا ہے، بلکہ یہ الفاظ بھی فقہی کتابوں میں نمایاں ہیں کہ ’’تخرج المراۃ بغیر اذن زوجہا، والعبد بغیر اذن المولی‘‘ کہ ایسے حالات میں عورت خاوند کی اجازت کے بغیر اور غلام آقا کی اجازت کے بغیر نکلیں گے۔ 
فقہاء کرام جس فرض پر علی جمیع المسلمین کے واضح الفاظ لا رہے ہیں اور ابن تیمیہ ’’ فلایشترط لہ شرط‘‘ فرما رہے ہیں، حافظ صاحب اس کو ’’ہمارے نزدیک یہ گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے‘‘ کہہ کر بغیر ثبوت ودلیل اور حجت کے قرآن وسنت سے متصادم نظریہ پیش کر کے پھر منوانے پر مصر بھی ہیں۔ حکمرانوں کو فرائض ادائیگی کی طرف دعوت اور مختلف طریقوں سے ان کا قبلہ درست کرنے کی کوشش یقیناًعلمائے کرام اور عوام کی ذمہ داری ہے، اس سے مفر نہیں اور جہادی نظموں سے منسلک افراد اس فریضے کی ادائیگی بھی بحمداللہ کرتے ہیں اوراس کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑتی ہے، لیکن اس کایہ مطلب بھی نہیں کہ حکمرانوں کی درستگی تک تعطل جہاد کا علم تھا م لیاجائے۔ زبیر صاحب نے مجاہدین کو پرامن مظاہروں کی ترغیب دیتے ہوئے مفتیان کرام کے فتاویٰ کو ان کی نفسیاتی تسکین کی حد تک مقید کہا ہے تو جناب عرض ہے کہ ان مفتیان کرام ( فنافی اللہ کادرجہ پانے والوں) کے فتاوی کی قوت آج بھی بطور مثال پیش کیے جانے والے مظاہروں سے سو فی صد زیادہ ظاہر اور نتیجہ خیز ہے۔ 
آپ کے ان مظاہروں سے، جلسوں سے قوم کو جو کچھ ملا، وہ اور اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ جب کہ آپ کے مطعون علماء کے فتاویٰ کی روشنی میں جو قوت جہاد ومجاہدین کی شکل میں سامنے آئی، وہ ماضی اورحال میں دو سپر پاوروں کو مکمل شکست دینے کے بعد تیسری سپر پاور کو بھی شکست دینے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ زبیر صاحب سرپھڑوانے کی مثالیں ان کو دے رہے ہیں جوان راہوں پر چلتے چلتے جانیں تک لٹا رہے ہیں، جن پر یہ آیت صاد ق آتی ہے: ’’فمنہم من قضی نحبہ ومنہم من ینتظر‘‘۔
آخر میں دو باتوں کی طرف متوجہ کرنا مفید سمجھتا ہوں۔ ایک یہ کہ حافظ صاحب نے اپنی تحریر میں کسی دلیل شرعی اور حجت وثبوت کے بغیر ’’ہمارے نزدیک‘‘ کا لفظ استعمال کیا اور پھر اپنے قائم کردہ نظریہ پر کوئی حجت شرعی نہیں لا سکے۔ وہ مجاہدین کو اخلاص کے ساتھ علم سے مزین ہونے کا صائب مشورہ (اشارۃً) دیتے ہیں، لیکن خود ’’ہمارے نزدیک‘‘ جیسے جملے استعمال کر کے یوں سمجھ رہے ہیں جیسے یہ تحریر الشریعہ کے قارئین کے لیے نہیں بلکہ تصوف کے سلسلے کے مریدین کے لیے ہے۔ گزارش ہے کہ اپنے نظریات وافکار کو سند تصور کر کے لوگوں پر مسلط کرنے کی بجائے دلیل وحجت کی دنیا میں تشریف لائیں۔ 
دوسری بات کہ انہوں نے مجاہدین کو تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے نہج پرکام کرنے کی دعوت دی ہے۔ وضاحت کے طور پر کچھ سطور تحریر کی جاتی ہیں کہ تنظیم اسلامی کے متعلق گذشتہ صفحات میں جو سطور آ چکی ہیں، وہی مجاہدین کے نظم اور تنظیم اسلامی کے درمیان موجود واضح فرق کو بیان کر نے کے لیے کافی ہیں۔ جہاں تک بات جماعت اسلامی اورتحریک نفاذ شریعت محمدی کی ہے (بعض جزوی اختلافات کے باوجود) یہ واضح ہونا چاہیے کہ یہ جماعتیں صرف قلمی جہاد اور دفتری اسلام کے قائل نہیں ہیں بلکہ دین کے تمام شعبوں پر عمل کی فکر کے ساتھ قربانیوں کی لازوال تاریخ رکھتی ہیں جن میں کشمیر وافغانستان کے پہاڑوں کی گواہیاں بھی موجود ہیں جو کہ حافظ صاحب کے مطابق درست نہیں۔ رہا تبلیغی جماعت کا معاملہ تو اب ان کی اکثریت ایک محدود نصاب تربیت کوکل دین تصور کرتی اور (مزعومہ مجہول درجہ کے) یقین کے حصول تک تعطل جہاد کی فکر رکھتی ہے جو الگ درد ناک موضوع ہے۔ تبلیغی جماعت کی اصلاحی کوششوں اور ان کے مفید نتائج سے انکار نہیں ، تاہم ان کی فکری بے اعتدالیوں کو علماء حق کی سوچ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 

مکاتیب

ادارہ

(۱)
مکرمی جناب عمار خاں ناصر صاحب 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
سب سے پہلے تو آپ کا شکر گذار ہوں کہ آپ نے میری تحریر ’’پر تشدد تحریکیں اور دیوبندی فکر ومزاج ‘‘ کو ’الشریعہ‘ کے نومبر/ دسمبر ۲۰۰۹ء کے شمارے میں جگہ دے کر ان خیالات کو اس قابل سمجھا کہ انہیں اپنے قارئین تک پہنچائیں۔ اس سے پہلے شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خاں صاحب ؒ کے بارے میں الشریعہ کا ضخیم خصوصی نمبر ملا۔ اتنے قلیل عرصے میں اتنی ضخیم اور معیاری پیش کش پر آپ، حضرت ؒ کے تمام عقیدت مندوں اور مداحوں کی طرف سے مبارک باداور شکریے کے مستحق ہیں، البتہ حضرت کے تلامذہ اور اور اولاد واحفاد کے حوالے سے ایک مستقل باب کی کمی محسوس ہوئی، اس لیے کہ حضرت جیسی شخصیت کا تعارف اس کے بغیر نامکمل سا محسوس ہوتا ہے ۔
الشریعہ کے دسمبر/ نومبر کے شمارے میں آپ کا مضمون بعنوان: ’’ جہاد کی فرضیت اور اس کا اختیار : چند غلط فہمیاں ‘‘ بھی نظر نواز ہوا ۔ ایک طالب علم کے طور پر مضمون کا اپنے استفادے کے لیے مطالعہ کیا۔ اسی وقت سے ارادہ ہورہا تھا کہ اس پر کچھ عرض کروں، لیکن ماشاء اللہ آپ کے مضامین میں علمی گہرائی اور گیرائی ہوتی ہے، اس لیے اس پر کچھ کہنے کے لیے بھی محنت اور مراجعتِ کتب کی ضرورت ہوتی ہے جس کا موقع نہیں مل سکا۔ خیال ہواکہ کچھ غیر مربوط سے خیالات ہی آپ کے ملاحظے کے لیے پیش کردیے جائیں۔
مضمون کے دو مرکزی سوالات (۱) جہاد کی فرضیت میں عملی حالات اور کسی پالیسی کے ممکنہ اثرات ونتائج کا دخل (۲) جہاد کا فیصلہ کرنے کا اختیار کس کو حاصل ہے، ان دونوں سوالات پر اپنے نقطۂ نظر کو فقہی عبارات کی روشنی میں ثابت کرنے میں آپ کامیاب رہے ہیں۔ جس انداز سے آپ نے مختلف مقامات سے فقہی عبارات کو جمع کردیا ہے، وہ صرف قابلِ مباک باد ہی نہیں قابلِ رشک بھی ہے۔ حضرت شیخ الحدیث ؒ کی تیسری نسل میں کتابی کیڑا ہونے کا وائرس اور علمی عرق ریزی کی روایت منتقل ہوتا دیکھ کر خوشی ہوتی ہے،اللہم زد فزد۔
میرے ناقص سے خیال میں ان دو سوالوں میں سے پہلے سوال کو مزید بعض پہلوؤں سے بھی دیکھا جاسکتا ہے ، مثلاً :
(۱) آپ کا موضوع اگرچہ ان دونوں سوالوں کو فقہی زاویے سے دیکھنا ہے ، لیکن ان میں سے پہلے سوال پر سیرتِ طیبہ کی روشنی میں بھی کافی کام کی گنجائش ہے ۔ عہدِ رسالت کے غزوات اور سرایا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طرزِ عمل میں اس حوالے سے کافی روشنی ملنے کی امید ہے۔
(۲) یہ بات فقہاء واصولیین کے ہاں مسلّمہ ہے کہ ہر حکمِ شرعی میں استطاعت کی شرط ملحوظ ہوتی ہے۔ جہاد جیسے حکم میں استطاعت ہونے یا نہ ہونے کا معیار بظاہر کسی کاروائی کے ممکنہ نتائج کو بنایا جاسکتاہے۔ اس وقت بالتعیین حوالہ تو یاد نہیں آرہا، لیکن مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے کسی جگہ تغییرِمنکر والی مشہور حدیث ’’ من رأی منکم منکراً الخ ‘‘ کی تشریح میں یہ فرمایاہے کہ تغییر بالید یا تغییر باللسان کی استطاعت سے مراد محض یہ نہیں کہ انکارِ منکر کے لیے آپ کوئی عملی یا زبانی قدم اٹھا سکیں ، بلکہ مراد یہ ہے کہ اس اقدام کے نتائج کا تحمل بھی ہوسکے۔ مولانا تھانوی ؒ کا استدلال یہ ہے کہ مثلاً ایک آدمی شراب کا جام پینے کے لیے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہے ۔ اس موقع پر یہ تو ہوسکتاہے کہ ایک شخص میں اتنی جسمانی طاقت ہو کہ وہ اس سے یہ جام چھین لے یا اسے چھَلکا کر شراب گرا دے اور دوسرا شخص اتنی طاقت نہ رکھتا ہو، لیکن زبان سے کہنے کی حد تک تو ہر وہ شخص جو گونگا نہیں ہے، اسے یہ کہنے کی طاقت رکھتا ہے کہ یہ حرام ہے، اسے مت پیجئے، جبکہ حدیث میں تغییر باللسان کے بارے میں بھی ’’فإن لم یستطع‘‘ کے لفظ ہیں جو زبان کے بارے میں بھی استطاعت کے پائے جانے یا نہ پائے جانے کی دوصورتوں کو فرض کررہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہاں استطاعت سے مراد محض زبان سے کہہ دینے کا کام نہیں ہے، بلکہ اس سے آگے کی کوئی چیز مراد ہے اور وہ یہی ہے کہ بات کہہ دینے کے بعد اس کے ممکنہ نتائج کا تحمل بھی ہو۔ اگر کسی شخص میں ان نتائج کا تحمل نہیں ہے تو اس میں تغییر باللسان کی استطاعت نہیں ہے۔ بظاہر استطاعت کی یہی تشریح حدیث کے تغییر بالید والے حصے اور اسی نوعیت کے دیگر ا حکام میں ہونی چاہیے۔
(۳) استطاعت ہی کے سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ سورۂ انفال کی آیت ’’الآن خفف اللہ عنکم الخ‘‘ کا مطلب تمام فقہاء کے ہاں یہی ہے کہ اگر دشمن کی تعداد دوگنی سے زائد ہو تو میدان سے بھاگنے کی گنجائش ہے۔ جہاں میدان سے بھاگنے کی گنجائش ہوگی، وہاں قتال نہ کرنے یا دشمن کی طاقت دیکھ کر جو بچتاہے، کم ازکم وہ بچانے کی خاطر کسی قدر کمپرومائز کی بھی گنجائش ہوگی۔ موجودہ حالات میں یہ بات دیکھنے کی ہے مسلمان اور مدّ مقابل کافر طاقت میں صرف تعداد ہی کا توازن دیکھا جائے گا یا طاقت کے دوسرے پہلوؤں کو بھی مدّنظر رکھا جائے گا؟ اس لیے کہ جدید ذرائعِ جنگ نے تعداد کی اہمیت کم کردی ہے۔ عین ممکن ہے کہ تلاش کرنے سے قدیم فقہاء اور مفسّرین کے ہاں بھی اس سوال کا صریح جواب مل جائے۔ ۲۰۰۱ء میں جب طالبان نے کابل ،بگرام اور قندھار سمیت بہت سے شہروں اور محاذوں سے باقاعدہ انخلا کا فیصلہ کیا تھا جسے شکست کی بجائے ’’ حکمت عملی‘‘ سے تعبیر کیا گیا تھا، اس کے لیے مجھے یاد نہیں کہ ان حضرات کے پیشِ نظر کیا شرعی دلیل تھی۔ بظاہر ان کے پاس شرعی جواز یہی ہوگا کہ انہوں نے محسوس کیا ہوگا کہ دشمن کی طاقت اتنی زیادہ ہے کہ اب ان محاذوں پر رہتے ہوئے مقابلہ کرنا مشکل ہے۔
(۴) فقہاء واصولیین کے ہاں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ جہاد حسن لغیرہ ہے ، حسن لعینہ نہیں ہے۔ حسن لغیرہ ہونے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ حسن تب بنے گا جبکہ اس کے ذریعے وہ غیر حاصل کرنا ممکن ہو جس کے لیے اسے حسن قرار دیا گیا ہے۔ اس کا حاصل بھی یہی نکلتاہے کہ جہاد یا قتال جیسے امور میں ان مرتب ہونے والے ممکنہ نتائج کی خاص اہمیت ہے۔ غالباً اسی امر کی طرف حضرت ابنِ عمرؓ نے اپنے اس جملے میں اشارہ کیا ہے: ’’ وأنتم تریدون أن تقاتلوا حتی تکون فتنۃ ویکون الدین لغیر اللہ‘‘ ۔
(۵) اسی طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کی برّ صغیر میں آمد سے لے کر ۱۹۴۷ء تک یہاں کے فقہا اور مسلمان مفکرین کی سوچ اور اس میں ارتقا کا جائزہ بھی موضوع کے کئی گوشے مزید واضح کرسکتاہے۔
آپ کے اس مضمون میں میرے لیے خوشی کا باعث بننے والی ایک بات یہ بھی ہے کہ آپ نے (ص ۴۲ ) غزوۂ بدر کے بارے میں ابنِ ہشام کے حوالے سے یہ تحریر کیاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں صحابہ کو نکلنے کی جو ترغیب دی تھی، وہ قریش کے تجارتی قافلے کے حوالے سے تھی، جبکہ جس حلقۂ فکر کی طرف عموماً لوگ آپ کو منسوب کرتے ہیں، اس کی بعض شخصیات سے میں نے سنا کہ وہ اس بات کو نہ صرف قرآن کے خلاف قرار دیتے تھے بلکہ اسے لوٹ مار کی ایک شکل قرار دیتے تھے جس کی نسبت ظاہر ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں کی جاسکتی۔ آپ کی ذکر کردہ بات سے اندازہ ہوا کہ آپ اپنے حلقۂ فکر میں پائے جانے والی آرا سے اختلاف بھی فرماتے ہیں اور یہی اہلِ علم کا طریقہ رہا ہے۔
ص ۶۰ پر آپ نے رد المحتار کی جو عبارت ’’کل مصر فیہ والٍ مسلم الخ‘‘ پیش کی ہے، اس سے آپ نے یہ ثابت کیا ہے کہ غیر مسلم حکومت کے زیرِ سایہ مسلمانوں کو دیے گئے اختیارت سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے، لیکن اس ناچیز کو اس عبارت سے ایسا کرنے کا جواز تو واضح طور پر ثابت ہوتا معلوم ہورہا ہے، وجوب پر اس عبارت کی دلالت راقم الحروف سمجھ نہیں سکا۔ ممکن ہے جناب کے ذہن میں وجوب ثابت کرنے کے لیے کوئی اضافی مقدمہ ہو جو ذکر سے رہ گیا ہو ۔ 
مسلم علاقوں پر غیر مسلموں کے تسلّط کی جو تقسیم آپ نے کی ہے، وہ آپ کی دقیقہ رسی کی آئینہ دار ہے ، لیکن اس سلسلے میں مزید دو صورتوں پر شاید مستقل بحث کی ضرورت ہو۔ آپ نے جو چار امکانات بیان کیے ہیں، وہ اس صورت سے متعلق معلوم ہوتے ہیں جبکہ کوئی کافر قوم محض عسکری قوت کے بل بوتے پر مسلمانوں کے کسی خطے پر قابض ہوجائے یا اس کی ابھی کوشش کرہی ہو ، جبکہ ایک ممکنہ صورت یہ ہے کہ کسی کافر قوم کی عمل داری محض عسکری طاقت کے ذریعے سے نہ ہو، بلکہ کچھ لڑ کر، کچھ آنکھیں دکھاکر، کچھ بہلا پھسلا کر اور سب سے بڑھ کر مسلمان حکومت کی اپنی اندورونی کمزوریوں اور مجبوریوں سے فائدہ اٹھاکر خود ان کے حکمرانوں ہی سے پروانے حاصل کرکے بتدریج اپنی عمل داری قائم کرلی جائے اور ’’ خلق خدا کی، ملک [مسلمان] بادشاہ کا ، حکم کمپنی کا‘‘ والی صورتِ حال پیدا ہو جائے، جیساکہ ہندوستان میں مغلیہ دور کے آخر میں تھی۔ یہ صورتِ حال اس لیے قابلِ غور معلوم ہوتی ہے کہ اس صورت میں اگرچہ شاہ عبد العزیز وغیرہ نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتوی دیا تھا اور اس کی تائید میں بر صغیر کے دیگر علما کے فتاوی بھی موجود ہیں، لیکن اول تو اسے متفقہ فتویٰ قرار دینا مشکل ہے، اس سے مختلف فتاوی بھی مل سکتے ہیں۔ دوسرے جہاں تک میری یاد داشت اور معلومات کا تعلق ہے، شاہ عبدالعزیز کے دارالحرب کے فتوے میں بھی جہاد کی فرضیت وغیرہ کا ذکر نہیں ہے۔ نہ تو انگریزوں کے خلاف جہاد کا ذکر ہے اورنہ ہی مسلمان بادشاہ یا دیگر مسلم حکام کے خلاف جنہوں نے انگریزاور اس کی فوج کو بہت سی سہولتیں دے رکھی تھیں جنہیں آج کل کی زبان میں انگریزوں کے ایجنٹ یا ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے والا کہا جا سکتا ہے۔ بعد کے بعض واقعات کی کڑیاں شاہ عبد العزیز سے ملاتے ہوئے ہمارے کئی تاریخ نگار حضرات نے لگتا ہے ’’نکتہ بعد الوقوع‘‘ سے بھی کام لیا ہے۔ ۱۸۵۷ء کے واقعات اچانک ایک وقتی معاملے (انگریزی فوج میں کام کرنے والے ہندوستانی فوجیوں کے زیرِ استعمال کارتوس کا مسئلہ) سے پھوٹے تھے ، وگرنہ انگریزوں کے خلاف بے چینی کی وجوہات (جن کا ذکر سرسید احمد خاں نے ’’اسبابِ بغاوتِ ہند ‘‘ میں بھی کیا ہے) کے باوجود علما اورعامۃ المسلمین کا عام رویّہ صورتِ حال کو برداشت کرنے ہی کا تھا۔ ہندوستان کے دار الحرب ہونے کا فتوی جاری کرنے کے باوجود نہ صرف اسے دار الاسلام بنانے کے لئے فوری طور پر جہاد کی فرضیت کا فتوی نہیں دیا گیا بلکہ انگریزوں وغیرہ کی ایسی ملازمتیں جن میں کوئی ناجائز کام نہ کرنا پڑے، انہیں ناجائز قرار بھی نہیں دیاگیا۔ تحقیق کی جائے تو بہت سے اچھے اچھے لوگوں کا اس زمانے میں سرکار کی ملازمت اختیار کرنا بھی ثابت ہوجائے گا۔ (اس سلسلے میں مولانا مملوک علی پرنسپل عربک کالج دہلی کی مثال دی جاسکتی ہے جو مولانامحمد یعقوب نانوتویؒ کے والد اور مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے استاذ تھے) ۔ خود ۱۸۵۷ء کے واقعات کے اولین کرداربننے والے فوجی بھی اب تک سرکار کی ملازمت ہی کررہے تھے۔ ۱۸۵۷ء کے حوالے سے انگریزں کے مستامن ہونے کا شبہ سرسید احمد خاں کے حوالے سے تو معروف ہے ہی، ممکن ہے دیگر حضرات کے ہاں بھی مل جائے۔
۱۸۵۷ء کا جہاد کا فتوی بھی کوئی متفقہ نہیں تھا۔ خود شاہ اسحاق صاحب کے بعض شاگردوں کو بھی اس سے اختلاف تھا۔ اس مسئلے پر شاہ اسحاق صاحب کے شاگردوں میں اختلافِ رائے کا تذکرہ تو مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے بھی کیا ہے، اور اس فتوے سے اتفاق نہ کرنے والوں کے لیے کثیر ‘کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ان واقعات کے لیے جہادِ آزادی کی بجائے ’’غدر ‘‘ کا لفظ صرف سرسید جیسے لوگوں کے ہاں ہی نہیں، دیگر کئی علما کے ہاں بھی ملتاہے ، مثلاً مولانا تھانویؒ کے ملفوظات میں بکثرت یہ لفظ مل جائے گا،مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ کی مولانا محمد قاسم نانوتویؒ پر سوانحی رسالے میں۔ اس دور کا یہ اختلافِ رائے بھی ظاہر ہے فقہی تراث میں ہی آتا ہے۔ ان اقوال اور ان کے دلائل کی روشنی میں اس مخصوص صورتِ حال کے حکم پر بحث ہوسکتی ہے ۔
دوسری صورت جس پر شاید ذرا تفصیل سے بحث کرنے کی ضرورت ہو یہ ہے کہ پہلے تو عموماً یہ ہوتا تھا کہ کسی علاقے کے دارالحکومت، اہم شہروں اور آبادیوں پر جب کسی طاقت کا تسلّط ہوجاتا تھاتو عملًا یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ ان کا استیلا ہوگیا ہے اور عموما شکست کو تسلیم کرلیا جاتا تھا اور ایک طرح سے لڑائی کا خاتمہ ہوجاتا تھا، لیکن اب افغانستان اور عراق میں بظاہر شہروں کی حد تک امریکی تسلط یا طالبان کے’’ حکتِ عملی‘‘ پر مبنی انخلا کے باوجود وضعت الحرب أوزارہا  والی کیفیت پیدا نہیں ہوئی، بلکہ پہاڑوں ، جنگلوں اور غاروں میں جاکر قابض فورسز کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کردیاگیا۔ دوسری طرف قابض قوّت نے ظاہری طور پر اپنی عمل داری قائم کرنے کی بجائے اسی ملک کے کچھ لوگوں کو آگے لا کر ان کی حکومت قائم کردی۔ کٹھ پتلی ہی سہی، حکمران ہیں تو مسلمان اور اسی ملک کے باشندے، پھرانتخابات کراکے ان پر عوامی نمائندگی کاغازہ بھی مل دیا گیا اور سارے نظام کو ایک دستورکے بھی تابع کردیا گیا جس پر الفاظ کی حد تک شایدزیادہ اعتراض کی گنجائش موجود نہ ہو۔ افغانستان کے حالیہ دستور میں تو اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے بارے میں ہماری قرار دادِ مقاصد سے ملتے جلتے الفاظ بھی موجود ہیں۔ ایسے ملک کو مسلمانوں کی عمل داری والا ملک کہا جائے گا یا کافروں کی؟ یہ دار الحرب ہوگا یا دار الاسلام؟ وہاں کے سیاسی نظام کا حصہ بننے کا کیا حکم ہوگا؟ ( برِّ صغیر میں تو اکابر علماء نے انگریزکے بنائے ہوئے اور انہی کی ماتحتی میں چلنے والے سیاسی نظام میں شرکت بھی کی تھی اور اسی سے آزادی کی راہ کے متلاشی بھی تھے ) کیا کسی مسلمان کو محض اس نظام کا حصہ بننے کی وجہ سے غدار اور مباح الدم قرار دیا جا سکے گا ؟ ان سوالات پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔
مطالعے کے دوران آپ کے مضمون کے بعض حصّے کشمیر اور فلسطین جیسے مقبوضہ خطوں کے حوالے سے کھٹکتے رہے ، البتہ مضمون کے آخر میں آپ نے وضاحت کردی کہ اس طرح کے مسائل میں مروّجہ بین الأقوامی عرف کو بھی مدّ نظر رکھا جانا چاہیے، یعنی کفار کے ایسے مقبوضہ علاقے جن پر قابض قوتوں کے قبضے کے جواز کو نہ تو وہاں کے باشندوں نے باقاعدہ طور پر تسلیم کیا ہے اور نہ ہی بین الاقوامی عرف اور قانون اسے تسلیم کرتاہے، وہاں کا حکم مختلف ہوگا۔ ایسے علاقے کے باسیوں کے لیے تو اپنے حقِّ خود ارادیت کے لیے لڑنے کے حق کو آپ نے ایک شرط کے ساتھ شرعی طور پر تسلیم کیا ہے، لیکن بحیثیتِ مجموعی آپ کے مضمون سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ آپ ایسے علاقے کے کسی ہمسایہ مسلم ملک کے اس حق کو تسلیم نہیں کرتے کہ وہ اس معاملے میں فوجی مداخلت کرے یا اپنے شہریوں کو ان کی مدد کے لیے جانے کی اجازت دے، خاص طور پر جبکہ اس ہمسایہ مسلمان ریاست کا ظاہری اور علانیہ موقف یہی ہو کہ وہ عسکری مداخلت نہیں کررہی ، صرف خفیہ طورپر اپنے لوگوں بھیج رہی ہو یا اس کی اجازت دے رہی ہو۔ بظاہر آپ کی بات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ مداخلت واضح طور پر اخلاقی جواز سے خالی ہے، اس لیے کہ یہ دونوں ملک اقوامِ متحدہ اور بعض دیگر تنظیموں کے رکن ہونے کی وجہ سے یا دو کسی دو طرفہ معاہدے کی وجہ سے ایک دوسرے کے معاہد ہیں۔ میرے خیال میں یہ بحث اتنی سادہ نہیں ہے۔ اس وقت اس پر کچھ لکھنے کا موقع نہیں ہے۔ اس پر مولانا مودودی ؒ اور علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کے درمیان خط وکتابت بھی موجود ہے جس کا آپ نے بھی حوالہ دیاہے۔ ( اگر یہ خط وکتابت بھی الشریعہ میں چھپ جائے تو بہت سے لوگوں کے علم میں اضافے کا باعث ہوگی۔ ویسے بھی مولانا انوار الحسن شیرکوٹی کی جس کتاب میں یہ خط وکتابت شامل ہے، وہ آج کل عموماً دستیاب نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کے علاوہ کسی اور عام دستیاب کتاب میں بھی یہ خط وکتابت شامل ہے یا نہیں) 
مجھے اس وقت دو باتوں کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ ایک یہ کہ آج کل صلح کے بین االأقوامی معاہدات موجود ہونے کے باوجود بھی بعض ملک بالخصوص بڑی طاقتیں دوسرے ملکوں میں (covert actions)کرتی ہیں اور انہیں عملاً برداشت بھی کیا جاتا ہے۔ ایسی خفیہ کاروائیوں کی خود بین الاقوامی قانون اور عرف میں کیا حیثیت ہے اور اس عرف سے آج کے دور میں مقبوضہ مسلمان خطوں کے ہمسایہ ملک (خاص طور پر جو بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کے مسلمہ فریق بھی ہیں) کس حد تک استفادہ کرکے اپنی کاروائیاں کرسکتے ہیں؟ یہ سوال قابلِ غورہے۔ اگر بین الاقوامی عرف کے ہم پابند ہیں تو جہاں یہ عرف ہمارے حق میں جاتا ہو، اس سے فائدہ اٹھانا بھی ہمارا حق ہے۔ اگر معاہدات آج کے ہیں تو ان کی خلاف ورزی ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ بھی آج ہی کے عرف کی روشنی میں بظاہر ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ کسی کاروائی کو محض اس وجہ سے غیر قانونی یا خلافِ عرف ومعاہدہ نہیں کہا جاسکتاکہ مسلمانوں کے ہاں اس کا نام جہاد ہے۔ میرا مقصد کوئی رائے قائم کرنا نہیں، محض سوال ہی سامنے رکھنا ہے، اس لیے کہ میں خود بین الاقوامی قانون اور عسکری امور سے ناواقف ہوں، لیکن میرا یہ سوال صرف ہمسایہ ریاست کے حوالے سے ہے، خود اس غیر مسلم ملک کے شہریوں کے بارے میں نہیں اور وہ بھی صرف اس صورت سے متعلق ہے جبکہ ایک ذمہ دار ریاست تما م عواقب ونتائج دیکھ کر اس طرح کی کسی مداخلت کا فیصلہ کرتی ہے۔ فرض کریں فلسطین کی کوئی ہمسایہ ریاست اس طرح کا فیصلہ کرتی ہے اور اس بات کا بھی یقین ہے کہ وہ کاروائیاں اس ریاست کے ہاتھ ہی میں رہیں گی، غیر ذمہ دارانہ ہاتھوں میں نہیں چڑھ جائیں گی۔
دوسری بات جس کی طرف اس وقت توجہ دلانا مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ فقہا کے ہاں ایک اصول ’’ ظفر بالحق ‘‘ کا بھی ہے جس میں یہی ہوتا ہے کہ ایک چیز جس طریقے سے آپ حاصل کررہے ہوتے ہیں، وہ بذاتِ خود کوئی اچھا طریقہ نہیں ہوتا لیکن آپ چونکہ اس ذریعے سے جو کچھ حاصل کررہے ہوتے ہیں، وہ آپ کا حق ہوتا ہے اور آپ کو یقین ہوتا ہے کہ معروف طریقے سے یہ حق مجھے ملنے والا اور سیدھی انگلیوں سے یہ گھی نکلنے والانہیں ہے، اس لیے آپ اپنے حق کے حصول کے لیے کوئی ایسا راستہ اختیار کرتے ہیں جو عام حالات میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اس کی متعدد فقہا بعض احادیث کی روشنی میں اجازت دیتے ہیں۔ جن جگہوں پر کسی قوت کا قبضہ بین الاقوامی طور پر غیر قانونی ہونا مسلمہ ہے ، اس کے باوجود بین الاقوامی برادری کا رویہ بے حسی ہی نہیں، مجرمانہ طور پر دوہرے معیار کا شکار ہو ، جیسے ہم دیکھ رہے ہیں کہ کشمیری ساٹھ سال سے استصواب اور حق خودارادیت کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں اور بھارت کے وعدوں پر عمل در آمد کا انتظار کررہے ہیں اور اب کم ازکم بزبانِ حال تقادم کا بہانہ بناکر ’’ رات گئی بات گئی ‘‘ پر عمل کا مسئلے کے متعلقہ فریقوں کو مشورہ دیا جارہا ہے۔ یہی صورتِ حال فلسطین کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی متعدد قرار دادوں کی ہے۔ اس کے بر عکس مشرقی تیمور میں ( جہاں عیسائی اکثریت آباد ہے ) دیکھتے ہی ریفرنڈم بھی ہوتاہے اورعیسائی اکثریت پر مشتمل آزاد خود مختار ریاست بھی وجود میں آجاتی ہے، سوڈان کو جنوب میں ریفرنڈم کرانے کا اعلان کرنا پڑتا ہے، دار فور کے لوگوں کی داد رسی کے لیے دنیا بھر کا سوڈان پردباؤ ہے۔ ایسے میں اگر کسی مقبوضہ علاقے کی ہمسایہ ذمہ دار ریاست کو اس بات کا یقین ہوجاتاہے کہ یوں بیٹھے رہنے یا محض رسمی طور پر انٹر نیشنل فورمز پر آواز اٹھاتے اور لابنگ کرتے رہنے سے بات نہیں بنے گی، اس کے ساتھ یہ ذمہ دار ریاست تمام عواقب ونتائج پر اچھی طرح غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اس مسلمہ حق کے حصول کے لیے فلاں قسم کی کاروائی ناگزیر ہے جو دوسرے ذمہ دار ممالک بھی کرلیتے ہیں اور انہیں کوئی نہیں پوچھتا، اگرچہ علانیہ طور پر وہ اس طرح کی کاروائیوں کو own نہیں کرتی، لیکن اس میں حصہ لینے والوں کو پتا ہے کہ یہ ریاست کا ذمہ دارانہ فیصلہ ہے تو کیا اسے بھی محض ظاہری اور تکنیکی طور پر عہد کی خلاف ورزی قرار دے کر اخلاقی اصولوں سے خارج قرار دیا جائے گا؟
روسی مداخلت کے خلاف افغانستان میں ہونے والی مزاحمت کے دوران امریکا یا اس وقت کی آزاد دنیا کہلانے والے ملکوں نے کبھی بھی سرکاری سطح پر اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ وہ وہاں مسلح کاروائیوں کی حمایت کرہے ہیں، یہی کہا جاتا تھاکہ ہم افغان مجاہدین کی اخلاقی اور سفارتی مدد کرتے رہیں گے، لیکن اصل حقیقت اس وقت بھی بچے بچے کو معلوم تھی۔ بین الاقوامی قانون اور عرف میں اس طرزِ عمل کو بین الاقوامی معاہدات کی خلاف ورزی کس حد تک سمجھاگیا تھا؟ اس سے بھی زیادہ واضح مثال ۱۹۷۰ء میں بہارت کی مکتی باہنی اور دسرے ذرائع سے مشرقی پاکستان میں مسلح مداخلت کی دی جاسکتی ہے۔ افغانستان میں تو کم از کم روس کی شکل میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کا بہانہ تھا، مشرقی پاکستان میں تو یہ بات بھی نہیں تھی۔ پھر کشمیر اور فلسطین میں مسلمہ بین الاقوامی سرحد کا معاملہ نہیں ہے۔ پاکستانی اور ہندوستانی کشمیر کے درمیان بین الاقوامی سرحد نہیں ہے، صرف کنٹرول لائن ہے ، اور کشمیر وفلسطین دونوں تصفیہ طلب متنازعہ خطے تسلیم کیے جاتے ہیں، جبکہ مشرقی پاکستان متنازعہ خطہ بھی نہیں تھا اور بھارت نے باقاعدہ بین الاقوامی سرحد پار سے مسلح مداخلت کی تھی۔ اس پر بھارت کے خلاف بین الاقوامی قانون کتنا حرکت میں آیا؟ چلو ریاستوں کا معاملہ تو الگ رہا، مکتی باہنی کے ہاتھوں لٹ پٹ کر آنے والے عام خاندان اب بھی موجود ہیں۔ اب یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آچکی ہے کہ مکتی باہنی اس وقت بھارت ہی کا ایک ہاتھ تھا۔ کیا مکتی باہنی کا کوئی متاثرہ خاندان بھارت کے خلاف کسی فورم پرکوئی قانونی چارہ جوئی کرسکتاہے ؟
میرا مقصد اپنی رائے قائم کرنا نہیں ہے ، بلکہ بین الاقوامی قانون ، معاہدات اور عرف کے بارے میں اہلِ علم کے سامنے سوال ہی رکھنا ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال میں بین الاقوامی عرف اور قانون کیا کہتاہے؟ کیا ایسے حالات میں کسی نظر انداز شدہ مقبوضہ اور تصفیہ طلب علاقے کے لوگوں کے لیے قضیے کے مسلّمہ ہمسایہ فریق کے لیے مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی اور کیا اس کے لیے فقہا کے ’’ ظفر بالحق ‘‘ والے اصول سے کوئی سند نہیں ملتی؟ اسی بات کو یوں بھی کہا جاسکتاہے کہ ایک ملک کے دوشہری بھی ایک دوسرے کے معاہد ہوتے ہیں۔ فرض کریں کہ اس طرح کا ایک شہری دوسرے کا موبائل چھیننے کی کوشش کرتاہے ، دوسرا اپنا موبائل بچانے کی پوری کوشش کرتا ہے، اس کا روائی میں چھیننے والے کا بازو مروڑ دیتاہے یا اسے دوچار طمانچے رسید کردیتاہے جسے فقہا دفع الصائل سے تعبیر کرتے ہیں ، کیا اس کے اس عمل کا ان کے اس باہمی معاہدے پر اثر پڑے گا یا کیا ان کا باہمی معاہد ہونا اس کے اس عمل کے جواز پر اثر انداز ہوگا؟ قضیہ کشمیر کی ابتدا کی صورتِ حال ( خاص طور پر سیز فائر سے پہلے ) کم از کم یہی تھی۔ بھارت کی طرف سے تقسیمِ ہند کے طے شدہ فامولوں اور اصولوں سے انحراف ہورہا تھا، اگر کسی ریاست کے حکمرانوں کے فیصلے کا بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق میں اعتبار تھا جیسا کہ کشمیر میں بھارت کی پوزیشن تھی تو اسی اصول کے مطابق حیدرآباد اور جونا گڑھ پر اس کا کوئی حق نہیں بنتا تھا اور عوام کی رائے کا اعتبار تھا تو کشمیر پر اس کا حق نہیں بنتا تھا، کیونکہ اب تو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ اُس وقت تو کشمیری عوام کی بہت بھاری اکثریت واضح طور پر پاکستان کے سا تھ الحاق کے حق میں تھی۔ برّ صغیر کی عمومی فضا ہی کچھ ایسی تھی۔ اس لحاظ سے تو استصواب اب اگر ہو بھی جائے تو تب بھی محض تاخیر بھی عالمی برادری کی طرف سے مجرمانہ ناانصافی ہوگی۔
اس سے بحث نہیں کہ ایسے حالات میں بہتر اور مفید پالیسی کیا ہوسکتی ہے اور کیا مذکورہ بالا نوعیت کی مداخلت کاراستہ اختیار کرنا مقصد کے حصول کا واقعی ذریعہ ہوسکتا ہے یامقبوضہ علاقے کے لوگوں کی پر امن سیاسی جدو جہد کی بھر حمایت کرنا زیادہ فائدہ مند ہوسکتاہے۔ اس بحث سے قطع نظر ہمسایہ ملک کی مسلح مداخلت کے بارے میں مذکورہ بالا سوالات بہرحال موجود ہیں اور ایسی مداخلت کا اخلاقی جواز سے عاری ہونا اتنا بھی واضح اور بدیہی نہیں لگتا ، بالخصوص جبکہ اس بات کا یقین ہو کہ اس پالیسی سے کسی دوسری جماعت کو ہم خطرات سے دو چار نہیں کررہے ، جس کی مثالی صورت یہی ہے کہ لوگوں کی نمائندہ ذمہ دار حکومت اس طرح کا فیصلہ کرے ، یعنی اس طرح کا اگر فیصلہ ہو تو وہ واقعی پولٹیکل فیصلہ ہو۔ ایسا نہ ہوکہ وہ دکھاوے کی حدتک تو حکومتی اور سیاسی فیصلہ ہو حقیقت میں محض پروفیشنل فیصلہ ہو، اور اس فیصلے میں حکومت اپنے ہی کسی ماتحت ادارے کے آگے مجبور ہو۔ ( عالمِ اسلام میں بدقسمتی یہ ہے کہ اس میں یا تو صحیح معنی میں نمائندہ حکومتیں ہوتی ہی نہیں ہیں۔ اگر ہوں بھی تو ٹیکنو کریسی والی ذہنیت بہت سی جگہوں پر غالب نظر آتی ہے۔ یا تو چند پڑے لکھے ’’بابو‘‘ سیاسی قیادت کو بے وقوف سمجھنے پرتلے ہوتے ہیں یا بعض اداروں کی طرف سے اسے بزدل قرار دے کر فیصلے کرنے کا صحیح موقع نہیں دیا جاتا۔) اگرریاست کا کوئی ماتحت ادارہ یا اس کے کچھ افراد اپنی حدود سے تجاوز کرکے حکومتِ وقت کو غافل رکھ کر اس کی اس اجازت کے بغیر اس طرح کا کوئی قدم اٹھاتاہے (جس کی ایک مثال شاید کارگل کا واقعہ ہو) تو اس طرح کا ایکشن بظاہر rogue ہوگا، اس میں اور کسی پرائیویٹ تنظیم کے از خود اسی طرح کے کسی اقدام میں بڑا فرق ڈھونڈنا مشکل ہوگا ۔ 
یہ تو چند باتیں بطور سوال کے عرض کی ہیں۔ مزید دوباتوں پر اپنے ناقص خیال کا بھی اظہار کرنا چاہتاہوں۔ ایک تو یہ کہ آپ نے اپنے مضمون میں کلاسیکل فقہ کی اصطلاح استعمال کی ہے اور بظاہر آپ کی گفتگو سے یہ تأثر ابھرتا ہے (ہو سکتا ہے میں غلط سمجھاہوں) کہ بعض مسائل میں کلاسیکل فقہ تو کوئی راہ نمائی نہیں کررہی، البتہ اس سے ہٹ کر بعض دیگر زاویوں سے دیکھا جائے تو مسئلے کا جواب مل جاتاہے۔ میں کلاسیکل فقہ کی اصطلاح کے مفہوم سے تو واقف نہیں، البتہ اتنی بات واضح ہے کہ اس وقت فقہی مسائل، بالخصوص اجتماعی مسائل کے بارے میں تین بڑے رجحانات موجود ہیں: 
ایک یہ کہ فقہی کتب اور وہ بھی متاخرین کی کتب کی عبارات اور جزئیات کو اساس بنایا جائے اور حتی الامکان ان سے باہر نہ نکلا جائے۔ ہمارے ہاں فتوی سے متعلق بیشتر حضرات اسی رجحان پر عمل پیرا ہیں۔ 
دوسرا رجحان یہ ہے کہ فقہا کی کاوشوں سے استفادہ تو ضرور کیا جائے لیکن استدلال کی اصل بنیاد براہِ راست قرآن وسنت اور مقاصدِ دین اور ایک وسیع دائرہ رکھنے والے اجتہاد کو بنایا جائے۔
تیسرا رجحان ان دونوں کے درمیان ہے ، وہ یہ کہ اصل راہ نمائی تو مدوّن فقہ سے ہی لی جائے البتہ فقہاء کی جزئیات پر انحصار کرنے کی بجائے ان کی تعلیلات اور ادلہ کو بھی مدِّنظررکھا جائے جس بنیاد پران فقہا نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کی صورت اگر تبدیل ہوگئی ہو تو اس کے مطابق حکم بھی تبدیل کرلیا جائے ، اگرچہ وہ حکم بظاہر بعض عبارات سے متصادم ہو ۔ مخصوص فقہ کے ساتھ ساتھ دوسرے فقہا سے بھی استفادہ کرلیا جائے ۔
آپ نے مضمون کے آخر میں بعض مسائل میں عصرِ حاضر کے بین الاقوامی قانون اور عرف کو بنیاد بنانے کی بات کی ہے جو بذاتِ خود درست ہے ، لیکن کلاسیکل فقہ سے آپ کی مراد اگر صرف پہلا رجحان ہے تو آپ کی یہ بات بھی درست ہوسکتی ہے کہ اس کلاسیکل فقہ میں اس مسئلے کا حل نہیں ملتا یا اس سے کچھ اور مستفادہوتاہے۔ اگر تیسرا رجحان بھی کلاسیکل فقہ میں داخل ہے تو چونکہ فقہا کے ذکرکردہ بہت سے احکام کی وجہ ہی اس زمانے کا بین الاقوامی عرف تھا، اس لے اس بنیاد یعنی عرف کے بدلنے سے حکم کی تبدیلی بذاتِ خود کلاسیکل فقہ کے اس شعبے کا تقاضاہے۔ اس وقت اس سے بحث نہیں کہ ان رجحانات میں سے کون سا زیادہ قابلِ عمل ہے یا سب ہی سے مختلف دائروں اور سطحوں پر استفادہ ہوسکتا ہے، کہنا یہ مقصود ہے کہ جس چیز کو آپ کلاسیکل فقہ کہہ رہے ہیں، اس میں فقہاء کی تعلیلات اور ان سے استفادہ بھی شامل ہے تو یہ تاثر صحیح نہیں ہوگا کہ ان مسائل میں اس فقہ نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں اور وہ ہمارے سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے ۔
دوسری بات جو اگرچہ آپ کے مضمون سے متعلق تو نہیں لیکن اسے عرض کرنا بہت ضروری معلوم ہوتاہے، وہ یہ کہ جناب حافظ محمد زبیر صاحب نے اپنے ایک مضمون میںیہ لکھا ہے کہ موجودہ حکمران چونکہ غاصب اور ظالم ہیں، اس لیے بذاتِ خود تو اس قابل ہیں کہ ان کے خلاف خروج نہ صرف جائز بلکہ واجب بھی ہو، مسئلہ صرف استطاعت کاہے۔ یہ بات دیگر بعض علما سے بھی سننے میں آئی ہے۔ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کی پالیسیوں پر اور لوگوں کی طرح مجھے بھی بہت سے اعتراضات ہیں، لیکن انہیں غاصب کہنا درست معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ غاصب وہ ہوتا ہے جس نے کوئی چیز ناجائز ذریعے سے حاصل کی ہو۔ پاکستان میں ایک آئین موجود ہے اور اس آئین میں حکمرانی حاصل کرنے کا طریقہ بھی درج ہے۔ اس آئین اور اس طریقۂ کار پر دینی حلقوں سمیت سب نے بنیادی طور پر اتفاق کیا ہواہے۔ موجودہ حکومت بنیادی طورپر اسی طریقِ کار کے مطابق برسرِ اقتدار آئی ہے، عوام نے اسے حقِ حکمرانی دیاہے اور تقریباً تین سال بعد اس نے اپنی پانچ سالہ کارکردگی لے کر دوبارہ عوام کے سامنے پیش ہوناہے۔ ساتھ ساتھ بھی اس کی کارکردگی مختلف سطحوں پر جانچی جاتی رہتی ہے۔ ایسے میں اسے غاصب قرار دینے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ اگر یہ بھی غاصب ہیں تو جائز حق حکمرانی کس کو حاصل ہے؟ اس کے علاوہ حکمرانی حاصل کرنے کا ذریعہ تو ڈنڈا ہی ہوسکتا ہے۔ کیا ایک فریق کے لیے طاقت کے زور پر حکومت کے حصول کو جائز اور دوسرے کے لیے ناجائز کہا جاسکتا ہے ؟مذکورہ بالا نوعیت کی آرا کے اظہار کے نتائج بڑے دور رس ہوتے ہیں، اس لیے ان کے اظہار سے پہلے تمام پہلوؤں پر اچھی طرح غور کرلینا چاہیے۔
یہ کچھ سرسری سی بے ربط سی باتیں عرض کی ہیں جن میں سے بیشتر کا مقصد چند سوالات ہی اہلِ علم کے سامنے رکھنا ہے۔ ممکن ہے آپ یا کسی اور صاحبِ علم کی طرف سے ان پر مزید روشنی ڈالی جاسکے۔ میں خود کو اس وقت سوال کرنے سے زیادہ کی پوزیشن میں نہیں پاتا۔ ان سطور سے اگر آپ کی تضییع وقت ہوئی ہوتو معذرت خواہ ہوں۔
(مولانا مفتی) محمد زاہد 
جامعہ اسلامیہ امدادیہ، ستیانہ روڈ، فیصل آباد
zahidimdadia@yahoo.com
(۲)
مخدوم محترم حضرت مولانا زاہد الراشدی زیدت معالیکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ کرے مزاج گرامی بعافیت ہوں۔ الشریعۃ کی خصوصی اشاعت ابھی چند دن پہلے موصول ہوئی۔ اللہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے، پڑھ کر طبیعت بے انتہا متأثر ہوئی۔ برا ہو ان سرحدوں کا، ہم کیسے عظیم خیر سے محروم رہے۔ لکھنے والوں نے جو حالات لکھے ہیں اور ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر لکھے ہیں، وہ واضح طور پر صدیقیت کی علامت ہیں۔ ’’والذین آمنوا باللہ ورسولہ اولٰئک ہم الصدیقون والشہداء عند ربہم، لہم اجرہم ونورہم‘‘ کے مصداق ان حضرات کی زندگی میں ایک خاص نور نظر آتا ہے۔
آپ اور سارے ہی اہل خانہ قابل رشک ہیں کہ ایسی عظیم نعمت پائی۔ ہمارے گھر میں حضرت مولانا صدیق صاحب باندوی ؒ کا تذکرہ بہت رہتا ہے۔ حضرت والد ماجدمولانا محمد زکریا سنبھلی مد ظلہم حضرت کی خدمت میں آٹھ سال رہے ہیں۔ اسی نسبت سے والد صاحب کے یہاں ان کا بڑا تذکرہ رہتا ہے۔ الشریعہ کا نمبر آیا تو گھر کی خواتین نے بھی پڑھا۔اب حضرت کے ایمان افروزحالات ہر مرد وزن کی زبان پر ہیں اور اسی طرح ہر مجلس میں بات بات پر حضرت کے واقعات ، حالات اور ملفوظات سنائے جارہے ہیں۔ لوگوں نے حضرت کو ایک عالم کی حیثیت سے تو بہت جانا ہے مگر مجھے تو خالص علمی پہلو سے کہیں زیادہ اہم ایک داعی ومصلح اور ربانی عالم کی شخصیت دیدہ زیب نظر آرہی ہے۔ اور الشریعہ اس اعتبار سے بڑی مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے ان پہلووں کو اور یہاں تک کہ گھریلو زندگی کو بھی خالص عالمانہ پہلو سے دبنے نہیں دیا ہے۔ اللہم لا تحرمنا أجرہ ولا تفتننا بعدہ۔ 
دعاؤں کا طالب ہوں ، کاش آپ حضرات کی خدمت میں حاضری زیادہ مشکل نہ ہوتی۔
والسلام
نیاز مند: یحییٰ نعمانی
(مدیر ماہنامہ الفرقان، لکھنو)
(۳)
گرامی قدر مولانا عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم 
الشریعہ کے شمارہ نومبر/دسمبر ۲۰۰۹ء کے اکثر مضامین کامطالعہ کیا۔ ان میں خاص طورپر حضرت الاستاذ مولانا زاہد الراشدی صاحب کا انٹرویو، محترم جناب ڈاکٹر ممتاز احمد کی گفتگو اور محترم زاہد صدیق مغل کا مضمون کافی پسند آیا۔ مکتوبات میں محترم جناب سید مہرحسین بخاری کا خط پڑھ کر حیرت ہوئی کہ موصوف حضرت شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدرؒ سے عقیدت بھی رکھتے ہیں، اس کے باوجود حضرت شیخؒ کے شیعہ کے بارے میں بیان کردہ موقف کے برعکس اپنے مکتوب میں شیعہ کے کفر کے قائل نہ ہونے کا بھی اظہار کر رہے ہیں۔ موصوف حضرت شیخ الحدیثؒ کی رد شیعیت میں لکھی گئی کتاب ’’ارشاد الشیعہ‘‘ کا ہی مطالعہ کر لیتے تو اتنی بڑی ٹھوکر نہ کھاتے۔ مذکورہ کتاب میں حضرت شیخؒ نے واضح الفاظ میں شیعہ کے کفر کا اظہا ر کیا ہے۔ لگے ہاتھوں موصوف نے حضرت مولانا صوفی عبدالحمیدخان سواتی ؒ کی طرف بھی شیعہ کے کفر کے قائل نہ ہونے کی نسبت کر دی، حالانکہ حضرت صوفیؒ صاحب علی الاطلاق شیعہ کے کفر کے قائل نہ تھے، لیکن شیعہ اثنا عشریہ کو وہ بھی کافر ہی سمجھتے تھے۔ اس مسئلے پر صوفی صاحبؒ کے بڑے بیٹے محتر م مولانا فیاض خان سواتی سے میری تفصیلی بات ہوئی۔ وہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ ہم تمام شیعہ فرقوں کو کافر نہیں کہتے، لیکن شیعہ اثنا عشریوں کو ہم بھی کافر سمجھتے ہیں جو کہ پاکستان میں شیعوں کا اکثریتی فرقہ ہے۔ 
موصوف نے شیعہ کی طرف تحریف قرآن کی نسبت کو بھی غلط کہاہے، جبکہ حضرت صوفیؒ اپنی مشہور تفسیر معالم العرفان کی جلد اول کے صفحہ ۸۳ پر اصول کافی (جو کہ شیعہ کی معتبر ترین حدیث کی کتاب ہے) کی مشہور روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو قر آن حضرت جبرائیل حضورعلیہ الصلوۃوالسلام پر لائے تھے، اس کی سترہ ہزار آیتیں تھیں۔ اس سے معلوم ہو اکہ حضرت صوفی صاحبؒ کے نزدیک بھی شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں۔ تحریف قرآن کے قائل کو بھلا حضرت صوفی صاحبؒ کیسے مسلمان کہہ سکتے ہیں!
علاوہ ازیں موصوف نے حضرت مولانا تقی عثمانی کی طرف بھی شیعہ کو کافر نہ کہنے کی نسبت کی ہے۔ ہماری حضرت تقی عثمانی سے تو کبھی ملاقات نہیں ہوئی، البتہ حضرت تقی مدظلہ کے والد گرامی مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ کا فتویٰ ہماری نظر سے گزرا ہے۔ اس میں مفتی صاحبؒ نے شیعہ کے بعض فرقوں کو کافر لکھاہے۔ مذکورہ فتویٰ ماہنامہ بینات کی خصوصی اشاعت بعنوان ’’خمینی اور اثناعشریہ کے بارے میں علماء کرام کا متفقہ فیصلہ‘‘ میں موجود ہے۔ مفتی تقی صاحب مدظلہ اپنے والد گرامی کے اس فتوی سے کیسے عدول کر سکتے ہیں؟ 
علاوہ ازیں، علماء کرام کے متفقہ فیصلہ میں مفتی اعظم ہندوستان حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکیؒ نے متفقہ طور پر شیعہ اثنا عشریہ کوکافر لکھا ہے۔ مذکورہ فتویٰ پر ہندوستان اور پاکستان کے تقریباً تمام جید علماء کرام اورمفتیان عظام نے دستخط کیے ہیں۔ پاکستان کے جن علماء کرام نے اس فتوی پر دستخط کیے ہیں، ان کے نام سن کر یقیناًبخاری صاحب بھی حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ دستخط کرنے والوں میں چند نام یہ ہیں:
مفتی نظام الدین شامزئی شہید، کراچی۔ مفتی زین العابدین، فیصل آباد۔ مفتی عبدالستار، خیرالمدارس ملتان۔ حضرت خواجہ خان محمد، امیرعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت۔مولانا عبداللہ شہید، اسلام آباد۔ مولانا سرفراز خان صفدرؒ ، گوجرانوالہ۔ مولانا عبداللہ آزاد۔ مولانا عبید اللہ، مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور۔ مولانا محمد مالک کاندھلویؒ ۔ شیخ موسیٰ خان روحانی بازیؒ ، جامعہ اشرفیہ۔ مولانامحمد اجمل قادری۔ مولانا عبدالحق خان، اکوڑہ خٹک۔ مولانا عادل خا ن ۔ سیدنفیس الحسینی شاہؒ ۔ قاضی عبداللطیف جہلمیؒ ۔ مولانا عبدالمجید کہروڑپکا۔ حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ ۔ مفتی رشید احمد لدھیانویؒ اورمولانا یوسف لدھیانویؒ ۔ 
یہ وہ حضرات ہیں جن کے علم وتقویٰ پر تمام اہل علم اعتماد کرتے ہیں۔ یہ سب متفقہ طور پر شیعہ کو کافر لکھ رہے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی پاک وہند برطانیہ اور دیگر ممالک کے سینکڑوں علماء کرام کے دستخط اس فتویٰ پرموجود ہیں۔ گویا کہ شیعہ کے کفر پر تمام علماء کا اجماع ہے۔ مزید اگر تسلی مقصود ہوتو محترم بخاری صاحب سے گزارش ہے کہ شیعہ کے بارے میں علماء کے متفقہ فیصلہ کے علاوہ حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی تصنیف ’’ارشاد الشیعہ‘‘، مولانا منظور احمد نعمانی کی ’’ایرانی انقلاب اور شیعیت‘‘، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی کی ’’خمینی ازم اوراسلام‘‘، مولانا مہر محمد کی ’’تحفہ امامیہ‘‘ اور بریلوی مسلک کے عالم دین مولانا محمد علی کی ’’تحفہ جعفریہ‘‘اور علامہ احسان الٰہی ظہیر کی ’’الشیعہ والقرآن‘‘ کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔ قوی امید ہے کہ ان شاء اللہ شیعہ کے کفر پر شرح صدر نصیب ہو جائے گا۔ 
حافظ محمد عثمان 
فاضل جامعہ اشرفیہ ، لاہور
(۴)
برادر مکرم مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔
ماہنامہ ’الشریعہ‘ (جنوری ۲۰۱۰ء) میں مجلہ المصطفیٰ کے ’’امام اہل سنت نمبر‘‘ پر آپ کا تبصرہ پڑھا۔ ماشاء اللہ آپ نے بہت خوب لکھا اور کمال ذکاوت سے چند اقتباسات کا انتخاب کر کے انھیں بیچ میں سجا دیا۔ جزاک اللہ خیراً۔ البتہ ایک بات آپ کے علم میں نہ ہونے کی وجہ سے آپ کو اعتراض ہوا، اس کی وضاحت کرتا چلوں۔ 
آپ نے بہت اچھا کیا کہ حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب مدظلہ کے مضمون سے وہ اقتباس جو دادا جان رحمہ اللہ کے موقف کی درست ترجمانی نہیں کرتا، نقل کر کے ہم پر گرفت کی کہ دیگر مضامین کی طرح اس مضمون کے ان اقتباسات کے بارے میں ’’بے لاگ احقاق حق‘‘ کی روایت برقرار نہیں رکھی جا سکی۔ واقعتا ایسا ہی ہے کہ جلد بازی کی وجہ سے احقر اس مضمون کے حاشیے میں اختلافی ووضاحتی نوٹ نہ لگا سکا۔ آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ کس قدر جلد بازی میں ہم نے یہ نمبر ترتیب دیا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ’’کسی وضاحتی نوٹ کے بغیر اس کی شمولیت نہ اس اشاعت کے مرتبین کو کھٹکی اور نہ موصولہ مواد پر نظر ثانی کر کے منظوری دینے والے بزرگوں کو۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ یہ مضمون مرتب بے چارے کو بھی کھٹکا اور نظر ثانی کرنے والے بزرگوں (تایا جان مولانا عبد القدوس خان قارن مدظلہ) نے بھی اس کے نیچے حاشیہ میں ایک نوٹ لگانے کا حکم فرمایا تھا۔ فرمایا کہ حاشیے میں ابا جی (حضرت امام اہل سنتؒ ) کی وہ گفتگو جو مولانا نیازی سے ہوئی تھی، درج کر دینا اور وہ تمہارے ابو (مولانا عبد الحق خان بشیر مدظلہ) کو یاد ہوگی، ان سے لکھوا لینا۔ احقر نے والد مکرم کو مضمون دکھایا تو انھوں نے چند جملے حذف کرنے کے بعد فرمایا کہ میں ان شاء اللہ جلد ہی نوٹ لکھ کر بھیج دوں گا، لیکن اپنی شدید مصروفیات کی وجہ سے وہ نوٹ تحریر کر کے ارسال نہ فرما سکے جس کی وجہ سے وہ شامل اشاعت نہ ہو سکا۔
بہرحال توجہ دلانے کا ازحد شکریہ۔ آئندہ ایڈیشن میں ان شاء اللہ العزیز دادا جان رحمہ اللہ کا وہ مکتوب گرامی جو مولانا عبد الستار خان نیازی مرحوم کی طرف سے دیوبندی بریلوی مصالحت کے لیے کی جانے والی کوشش کے سلسلے میں ’الشریعہ‘ کی اشاعت خاص میں شائع ہوا ہے، حضرت مفتی صاحب مدظلہ کے مضمون کے حاشیہ میں درج کر دیا جائے گا۔ آپ بھی اگر مناسب سمجھیں تو احقر کے اس مکتوب کو ’الشریعہ‘ میں شائع فرما دیں تاکہ حضرت مفتی صاحب کے اس مضمون سے (جو ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ اور روزنامہ ’’اسلام‘‘ میں بھی طبع ہو چکا ہے) دادا جان کے موقف کے بارے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیاں دور ہو سکیں اور حضرت امام اہل سنت کے متعلقین ان کے درست موقف سے آگاہ ہو سکیں۔ 
باقی رہی بات ماہنامہ ’’ہدی للناس‘‘ گوجرانوالہ سے ماخوذ مواد بلا حوالہ درج کرنے کی تو وہ واقعتا احقر کی غلطی ہے جس پر میں ماہنامہ ’’ہدی للناس‘‘ کے منتظمین سے معذرت خواہ ہوں۔ دراصل جلد بازی، وقت کی کمی، ناتجربہ کاری، اکیلے پن، بجلی کی بے ڈھنگی لوڈ شیڈنگ کے باعث پریشانی اور دیگر بہت سے عوارض کی وجہ سے خصوصی نمبر میں بہت سی غلطیاں اور کمیاں کوتاہیاں رہ گئی ہیں جس کا اندازہ جابجا آپ کو بھی ہوا ہوگا۔ چند ایک کا تذکرہ آپ نے اپنے تبصرے میں بھی کیا۔ بہرحال بہت شکریہ۔ احسن بھائی جان نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے۔ جزاکم اللہ تعالیٰ خیراً۔ دوسرے ایڈیشن میں ان شاء اللہ ماخذ کا ذکر کر دیا جائے گا۔
نمبر کے بعض حصے پر جاندار تبصرہ فرمانے کا بھرپور شکریہ!
سرفراز حسن خان حمزہ
متعلم دار العلوم مدنیہ، بہاولپور
(۵)
مکرم جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب زیدت معالیکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
راقم الحروف نے ایک نجی نوعیت کا عریضہ آنجناب کی خدمت عالیہ میں ارسال کیا تھا جو ماہنامہ الشریعہ دسمبر کے شمارے میں شائع کر دیا گیا۔ اس کے رد عمل کے طور پر جنوری ۲۰۱۰ء کے شمارے میں حافظ عبد الجبار سلفی صاحب نے تبصرہ فرمایا ہے اور دار العلوم مدنیہ بہاول پور کے ایک طالب علم نے مفصل مکتوب لکھا ہے۔ 
حسین احمد صاحب متعلم دار العلوم مدنیہ کی خدمت میں عرض ہے کہ الشریعہ جنوری ۲۰۱۰ء ہی کے شمارے میں سید مشتاق علی شاہ صاحب کے مضمون پر جو حاشیہ صفحہ ۲۰ پر آنجناب کے قلم سے ہے، وہی ان کے لیے کافی ہے۔ مشہور مقولہ ہے کہ ’’صاحب البیت ادریٰ بما فیہ‘‘، یعنی گھر والا بہتر جانتا ہے جو گھر میں ہے۔ یقیناًآنجناب حضرت شیخ الحدیث صاحبؒ اور حضرت صوفی عبد الحمید صاحبؒ کے علوم ومعارف کے حقیقی وارث اور شارح ہیں۔ حسین احمد مدنی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ آنجناب کے مذکورہ حاشیہ کو کھلے دل سے دو تین بار مطالعہ فرمائیں، ان شاء اللہ سکون قلب میسر ہوگا۔ * مزید تسلی کے لیے دار العلوم دیوبند کے پہلے مفتی صاحب کا فتویٰ پیش خدمت ہے:
’’محققین حنفیہ شیعہ تبرا گو اور منکر خلفاء ثلاثہ کو کافر نہیں کہتے۔ اگرچہ بعض فقہاء نے ان کی تکفیر کی ہے، مگر صحیح قول محققین کا ہے کہ سب شیخین اور انکار خلافت خلفاء کفر نہیں ہے، فسق وبدعت ہے۔‘‘ (فتاویٰ دار العلوم دیوبند (عزیز الفتاویٰ) کتاب المیراث جلد۷ و ۸، ص ۳۵۰، مطبوعہ کتب خانہ امدادیہ دیوبند)
حافظ عبد الجبار سلفی صاحب نے اپنے تبصرہ میں میری اس عبارت پر کہ ’’تحریف قرآن کی لچر اور بے ہودہ روایات تو بعض کتب اہل سنت میں بھی موجود ہیں‘‘ یہ خامہ فرسائی کی ہے کہ یہ عبارت بذات خود لچر اور بے ہودہ ہے۔ راقم نے لچر اور بے ہودہ کے الفاظ قرآن حکیم کے مخالف پر استعمال کیے ہیں، جیسا کہ مشہور ناصبی اور منکر حدیث تمنا عمادی نے ’’جمع القرآن‘‘ نامی کتاب میں ایسی بہت سی روایات اکٹھی کی ہیں اور مسلمانوں کا قرآن پر ایمان متزلزل کرنے کی سعی نامشکور کی ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہے کہ اسلامی مدارس کے علماء وفضلا بھی مہذب اور شستہ زبان کے استعمال سے قاصر ہیں۔ 
حافظ عبد الجبار سلفی صاحب شاید نسخ اور اختلاف قراء ت کی اصل حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہے۔ مکتب دیوبند کے سرمایہ افتخار انور شاہ صاحب کشمیری نور اللہ مرقدہ نے بھی فیض الباری ج ۳ ص ۳۹۵ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ بعض علما نے اس عبارت کا جواب دینے کی کوشش کی ہے ، تاہم عقلی ونقلی طور پر وہ صحیح نہیں ہے اور اس جواب سے یہود ونصاریٰ کی براء ت ہوتی ہے جو خود قرآن حکیم کے خلاف ہے۔ نسخ، اختلاف قراء ت اور تحریف میں نمایاں فرق ہے۔ سلفی صاحب کے اضافہ معلومات کے لیے گزارش ہے کہ جماعتی وابستگی سے ہٹ کر درج ذیل کتب کی طرف مراجعت فرمائیں:
(۱) فضائل القرآن، تالیف الامام ابی عبید القاسم بن سلام، المتوفی ۲۴ھ، مطبع دا ر الکتب المصریہ ص ۱۶۱، ۱۹۰، ۱۹۳ و۱۹۵ وغیرہ۔
(۲) کتاب المصاحف للحافظ ابوبکر عبد اللہ بن داؤد السجستانی، المتوفی ۳۱۶ھ، مطبع دار الکتب العلمیہ بیروت، ص ۴۳ و ۱۳۰۔
(۳) ’’الفرقان‘‘ لابن الخطیب، مطبع دار الکتب المصریہ قاہرہ،ص ۴۱، ۴۲، ۴۳، ۴۵ و ۵۰۔
چونکہ الشریعہ کے صفحات ایسی فرقہ وارانہ بحث کی اجازت نہیں دیتے، اس لیے تفصیل سے گریز کیا گیا ہے۔ راقم اثیم کو نہ مفتی ہونے کا دعویٰ ہے نہ عالم ہونے کا۔ حقائق سے رو گردانی اہل اہوا کا شیوہ ہے اور بات بات پر کفر کے فتوے، یہ اسلام کی خدمت نہیں ہے۔ ہر فرقہ دوسرے کو کافر کہہ رہا ہے۔ اگر یہ اسلام کی خدمت ہے تو حافظ عبد الجبار سلفی صاحب بتائیں کہ اسلام کہاں ہے اور مسلمان کہاں ہیں؟ 
تمام اسلامی فرقے جن کی وضاحت امام ابو الحسن اشعریؒ ، عبد القاہر بغدادیؒ اور شہرستانیؒ جیسے علما وفضلا کر چکے ہیں، قرآن مجید کی حقانیت پر کامل ایمان رکھتے ہیں، جیسا کہ ’’اظہار الحق‘‘ کے عالی قدر مصنف مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے بھی تحریر فرمایا ہے۔ دار العلوم کراچی سے شائع ہونے والے اس کتاب کے ترجمہ ’’بائبل سے قرآن تک‘‘ میں، جو مولانا تقی عثمانی صاحب جیسے نابغہ روزگار عالم کے محققانہ قلم سے نکلنے والے علمی مقدمہ سے مزین ہے، یہ عبارت موجود ہے، تاہم اب سعودیہ سے شائع ہونے والے نئے عربی ایڈیشن میں ناشرین نے علمی خیانت کا ارتکاب کرتے ہوئے یہ عبارت حذف کر دی ہے جو نہایت افسوس ناک امر ہے۔ شیعہ حضرات کی عقائد کی کتابیں ’’اعتقادات شیخ صدوق‘‘، ’’اوائل المقالات للشیخ مفید‘‘، ’’تصحیح الاعتقاد للشیخ مفید‘‘، ’’اعتقادات شیخ بہائی‘‘، ’’عقائد الامامیہ للشیخ محمد رضا مظفر‘‘ قرآن مجید کے غیر محرف ہونے پر شاہد ہیں۔
آخر میں سلفی صاحب کی خدمت میں گزارش ہے کہ جو فنی سہولتیں اپنے لیے پسند فرماتے ہیں، وہ دیگر تمام فرقوں کے لیے بھی پسند فرمائیں تو ان شاء اللہ اختلاف کی گنجائش ختم ہوگی۔ اللہ تعالیٰ قدیم وجدید تمام فتنوں سے حفاظت فرمائے اور اسلاف کے دامن سے وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔
راقم ناکارہ گزشتہ ایک ماہ سے ریڑھ کی ہڈی میں شدید تکلیف کے باعث چارپائی پر ہے اور لیٹے لیٹے یہ عریضہ ارسال کیا ہے۔ بہت سی کتابوں کی طرف مراجعت نہ کر سکا۔ محض یادداشت کی بنا پر چند گزارشات پیش کی ہیں۔ یہ عریضہ بھی بحث برائے بحث نہیں ہے۔ ناقدین حضرات اس بات کو ملحوظ خاطر رکھیں۔
سید مہر حسین بخاری
کامرہ
* اس ضمن میں ماہنامہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے ’’مفسر قرآن نمبر‘‘ (اگست تا اکتوبر ۲۰۰۸ء) کے صفحہ ۴۷۱ پر حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ کے ایک خطبہ جمعہ سے نقل کیا جانے والا حسب ذیل اقتباس بھی قابل ملاحظہ ہے:
’’ایران وعراق گزشتہ دوسال سے آپس میں دست وگریبان ہیں۔ ہزاروں مسلمان ہلاک ہوچکے ہیں، املاک تباہ ہوچکی ہیں مگر ان کے درمیان صلح کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ دونوں ملکوں کی آبادی کلمہ گو مسلمان ہیں۔ شیعہ اور سنی کہلانے والے بھی دونوں ممالک میں موجود ہیں، مگر پستی کا یہ عالم ہے کہ صلح کے متعلق کسی کی بات بھی سننے کے لیے تیار نہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر مسلمان آپس کے حالات کو درست نہیں کریں گے، آپس میں ہی لڑ لڑ کر کمزور ہوجائیں گے تو بیرونی طاقتیں تم پر چھا جائیں گی۔ تمہارا ملک اور دولت بھی چھین لیں گے اور تمہاری عزت و آبرو کو خاک میں ملادیں گے۔ اس وقت تمہاری یہ سودخوری، رشوت خوری اور عیش وعشرت سب ختم ہوجائیں گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، اے ایمان والو! واصلحوا ذات بینکم آپس کے حالات کو درست کرلو، وگرنہ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۳۰ ؍اپریل ۱۹۸۲ء) 
(مدیر)
(۶)
محترم جناب محمد عمار خان ناصر صاحب 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں نے آج کل سرگودھا یونیورسٹی جوائن کر لی ہے۔’الشریعہ‘ باقاعدگی کے ساتھ گھر کے پتہ پر موصول ہو رہا ہے۔آپ کی علمی کاوشیں انتہائی قابل قدر اور لائق ستائش ہیں۔ ہمارے شعبہ اسلامیات میں چند ماہ بعد پی ایچ ڈی پروگرام شروع ہونے والا ہے۔ آپ کی محققانہ کاوش ’’حدود تعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ پی ایچ ڈی پروگرام کے کورس ورک کے تیسرے پیپر Shariah Law کی مجوزہ کتب میں شامل کی گئی ہے۔ ع 
اللہ کرے زورقلم اور زیادہ
’الشریعہ‘ جنوری ۲۰۱۰ میں مجلہ ’المصطفیٰ‘ کے امام اہل سنت نمبرپر آپ کے تبصرہ کے حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ آپ نے بریلوی دیوبندی اختلاف کے ضمن میں مذکورہ مجلہ میں جناب مولانا مفتی رفیع عثمانی صاحب کے پیش کردہ تصور پرتحفظات ظاہر کیے ہیں۔ راقم دو جملوں کے حوالے سے، جو آپ نے انڈر لائن کیے ہیں، آپ کی توجہ کا طالب ہے۔پہلا جملہ ہے: ’’(بریلوی اور دیوبندی مکاتب فکر میں) حقیقت میں ایساکوئی اختلاف عقائد کے باب میں نہیں ہے جس کی بنا پر ایک دوسرے کو گمراہ یا فاسق قرار دیا جائے۔‘‘ اور دوسرا جملہ ہے: ’’(مفتی صاحب نے دیوبندی بریلوی ہم آہنگی کے حوالے سے مولانا سرفراز خاں صفدر مرحوم کے حضور اپنا مدعا بیان کیا تو انہوں نے) اس پر مسرت کا اظہار کیااور اس کی تائید فرمائی۔‘‘
آپ کا کہنا ہے کہ ’’بریلوی دیوبندی اختلاف سے متعلق مفتی صاحب کا یہ تجزیہ حضرت شیخ الحدیث کے منہج فکر سے کتنا ہم آہنگ ہے، یہ نکتہ زیادہ محتاج وضاحت نہیں، لیکن کسی وضاحتی یا اختلافی نوٹ کے بغیر اس کی شمولیت نہ اس اشاعت کے مرتبین کو کھٹکی ہے اور نہ موصولہ موادپر نظر ثانی کر کے اس کی منظوری دینے والے بزرگوں کو۔‘‘
میری گزارش یہ ہے کہ آپ جس نکتے کو زیادہ محتاج وضاحت نہیں سمجھ رہے، وہ بہت سے لوگوں کے نزدیک سخت محتاج وضاحت ہے۔ آپ براہ کرم یہ وضاحت ضرور شائع فرمائیں کہ مفتی رفیع عثمانی صاحب کا یہ خیال کہ’’ عقائد کے باب میں دونوں مکاتب فکر (بریلوی دیوبندی) کا اختلاف بڑی حد تک صرف تعبیر اور الفاظ کا اختلاف ہے،‘‘ آپ کے نزدیک کیوں محل نظر ہے۔ فرض کریں دونوں مکاتب فکر کا یہ اختلاف بڑی حد تک الفاظ کا اختلاف نہ بھی ہوتو بھی مفتی صاحب کا یہ جذبہ بے حد قابل تحسین ہے کہ دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر میں بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹنا چاہیے اور ایک دوسرے کو گمراہ و فاسق قرار دینے سے احتراز کا رویہ اپنانے کی راہ ہموار کرنا چاہیے۔ ورنہ اگر بدقت نظر دیکھیں تو مفتی صاحب سے سو فیصد اتفاق کرنا پڑے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بریلوی دیوبندی اختلافات کی بنیادوں میں بالعموم ہر دو طرف سے ضد، تعصبات اور حسد کے جذبات کارفرما نظر آتے ہیں۔ دونوں مکاتب فکر کے بڑے بڑے ناموں کے بے حد احترام کے باوصف میں یہ کہنے کی جسارت کروں گاکہ یہ نور بشر، علم غیب اور حاضر ناظر وغیرہ پر نفیاً یا اثباتاً تالیفات عام طور پر سطحی محرکات کی پیداوار ہیں۔ یہ بات کتنی حیرت انگیز ہے کہ شارع ؐنے تو واضح طور پر بتا دیا کہ ان ان کا عقائدکا حامل مسلمان ہے اور یہ وہ عقائد ہیں جن کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق ہر مسلمان کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر وہ مسلمان نہیں، مگر ہمارے کرم فرما ہیں کہ ان کے بیان کردہ عقائد کو شاید ہی کوئی سادہ مسلمان سمجھ سکتا ہو۔شارع ؐکے ہدایت فرمودہ عقائد تو ایک سطر میں بیان ہو سکتے ہیں مگر ہمارے مہربانوں نے دفتروں کے دفتر سیاہ کر دیے ہیں لیکن عقائد کا بیان ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ مان لیتے ہیں کہ عقائد کی بہت ساری تفصیلات ہوتی ہیں جن کی تعبیر وتشریح اہل علم کو کرنا ہوتی ہے۔ تو جی بسم اللہ کرتے رہیے، لیکن اپنی اپنی ان موضوعی تعبیرات وتفصیلات کو خدارا عوام الناس پر تو یوں نہ تھوپیے کہ وہ شارع ؐ کے تعلیم فرمودہ عقائد کو ماننے کے باوجود اس وقت تک صحیح مسلمان (صحیح کا لفظ میں مروۃًاستعمال کر رہا ہوں، ورنہ زیر نظر اختلافات میں بہت سے مواقع پرتو اس کی گنجائش بھی نہیں چھوڑی جاتی) کہلانے کے مستحق نہ ہوں جب تک آپ کے پیش فرمودہ عقائد کو دل و جان سے نہ مان لیں۔ کاش مذکورہ قسم کے عقائدبرصغیر کے علماء میں بحث اور معرکے کا میدان نہ بنے ہوتے اور ان لایعنی مجادلوں پرکتابیں اور مضامین لکھ لکھ کر وقت اور انرجی کا ضیاع نہ کیا جاتا۔ یوں نہ صرف یہ قوم فتنہ و فساد میں مبتلا ہونے سے بچ جاتی بلکہ اقبال کی تعبیر کے مطابق قابل فخر’’ذہن ہندی‘‘کا مذہبی عنصردیگر واقعی مطلوب علمی معرکے سر کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کر سکتا۔ مگرع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
محترم عمار صاحب! مفتی رفیع عثمانی صاحب کے مذکورہ الفاط راقم آثم کے نزدیک توبریلویوں اور دیوبندیوں کو اپنے اپنے مدارس کے باہر سائن بورڈز پر لکھ کرآویزاں کر لینے چاہییں کہ یہ ان کا بالخصوص موجودہ حالات میں ملک و ملت پر بہت بڑا احسان ہو گا۔
جہاں تک مفتی صاحب کے اس جملے پر آپ کے تحفظات کا تعلق ہے ،جس میں انہوں نے اپنی مذکورہ خواہش پر حضرت شیخ الحدیث کی مسرت و تائید کا ذکر فرمایا ہے تو اس کی وضاحت تو بطور خاص آپ کو لازماً کرنا چاہیے کہ کیا پھرآپ کے جد محترم اس خواہش پر ناراض ہوئے ہوں گے اور اس کی تائید نہیں فرمائی ہو گی؟ (جیسا کہ آپ کے تحفظات سے لگتا ہے کہ ایسا ہی ہوا ہو گا۔) نیز پھرحضرت شیخ الحدیث مرحوم ومغفور کے اس دوسرے رویہ کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر محمد شہباز منج
یونیورسٹی آف سرگودھا
drshahbazuos@hotmail.com

’’مسلمان مثالی اساتذہ ، مثالی طلبہ‘‘

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

مولف: سید محمد سلیمؒ 
ناشر : زوار اکیڈیمی پبلیکیشنز،۴۔۱۷ ناظم آباد نمبر ۴ کراچی
اشاعت سوئم:۲۰۰۸۔ صفحات:۱۳۶۔ قیمت: ۱۳۰ روپے
پروفیسر محمدسلیمؒ نامور استاد اور تنظیم اساتذہ پاکستان کے رہنماؤں میں سے تھے۔ موضوع بالا پر ان کا قلم اٹھانا ان کا حق اور منصب ہے۔ کتاب طلبہ اور اساتذہ کے لیے رہنما حیثیت رکھتی ہے۔ مستند مواد کی مدد سے با کمال ترتیب سے پیش کی گئی ہے۔ اس میں ان کا قلم رسا بھی پوری شان کے ساتھ کار فرما ہے۔ یہ مختصر سی کتاب ہے مگر اپنے اندر بے پناہ تاثیر رکھتی ہے۔ کتاب پڑھ کر، گردو پیش پر نظر ڈالی جائے تو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ وہ اساتذہ اور طلبہ جن میں تدریس اور مطالعے کا جنوں اپنی معراج پر تھا، اب کہاں ہیں۔ تنظیم اساتذہ اور جمعیت طلبہ بھی اس طرح کے جنوں کو فروغ دینے کو اپنی ترجیحات میں رکھنے میں سنجیدہ نہیں رہیں۔ وہاں ٹریڈ یونین ازم چھا چکا ہے۔ کتاب اس پہلو سے تدریس و مطالعہ کا جنوں دینے میں پورا اثر رکھتی ہے۔ اس سے مولف کے خلوص کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ اختصار کے باوجود اپنے مقصد کے لحاظ سے بڑی کامیاب کوشش ہے۔ پڑھ کر ہل من مزید کی طلب ہوتی ہے۔
البتہ دو چیزیں کھٹکتی ہیں۔ ایک تو حوالوں کا فقدان ہے۔ اقتباسات کتاب کو کافی معتبر بناتے ہیں مگر حوالہ جات کم ہی درج ہوئے ہیں۔ آخر پر مآخذ کی فہرست کفایت نہیں کر سکتی۔ حوالوں سے یہ بے نیازی سید صاحب کے مقام سے کچھ فرو تر ہے۔ زوار اکیڈیمی کے سید عزیز الرحمن صاحب نے پیش گفتارمیں لکھا ہے کہ کتاب میں اشعار کی اصلاح کے لیے ایک صاحب سے تعاون حاصل کیا گیا۔ ہمارے نزدیک حوالوں کی تکمیل کے لیے بھی کسی کا تعاون حاصل کر لیا جاتا تو کتاب کا معیار اور بھی بہتر ہو جاتا۔
دوسری کھٹکنے والی بات موضوع سے غیر متعلقہ مواد کا جزوِ کتاب ہو جانا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس پہلو سے میری رائے عمومی سطح پر سخت محسوس ہو۔ وجہ یہ ہے کہ پیشے کے لحاظ سے ہمارے ہاں ربط و تعلق کا زیادہ لحاظ رکھا جاتا ہے۔ غیر متعلق مواد کی چھانٹ ہمارے ہاں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ بہر صورت میری اس رائے کی درستی کا اندازہ کرنے کے لیے فہرست مضامین پر ایک نظر ڈالنا پڑے گی۔ اختصار کی حدوں کے اندر رہ کر موضوع سے کافی زیادتی کی گئی ہے۔ 

مارچ ۲۰۱۰ء

مسلکی اختلافات اور امام اہل سنتؒ کا ذوق و مزاجمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
علوم اسلامی کی تجدید اور شاہ ولی اللہؒمحمد سلیمان اسدی
مادری زبانوں کا عالمی دن ۔ کیا ہم شرمندہ ہیں؟پروفیسر شیخ عبد الرشید
بنگلہ دیش کا ایک مطالعاتی سفرمحمد عمار خان ناصر
اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب (۳)محمد زاہد صدیق مغل
مکاتیبادارہ
الشریعہ اکادمی میں مولانا سید عدنان کاکاخیل کی آمدادارہ
تعارف و تبصرہادارہ

مسلکی اختلافات اور امام اہل سنتؒ کا ذوق و مزاج

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آج کی نشست میں، میں مسلکی اختلافات ومعاملات کے حوالے سے والد محترم، امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور ان کے دست راست حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمہما اللہ کے ذوق وفکر اور طرز عمل کا ایک سرسری خاکہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں، اس لیے کہ گزشتہ نصف صدی کے دوران پورے برصغیر میں حضرت والدمحترم کو علماء دیوبند کے مسلکی ترجمان کی حیثیت حاصل رہی ہے اور پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے دیوبندی علما انھیں اپنا مسلکی اور علمی راہ نما سمجھتے آ رہے ہیں۔
مسلکی اختلافات اور ان کے حوالے سے طرز فکر اور راہ عمل کے سلسلے میں حضرت والد محترم کے ذوق واسلوب کو تین حصوں میں تقسیم کروں گا:
  • موجودہ معروضی حالات میں مسلکی اختلافات کے بارے میں ان کا اصولی موقف کیا تھا؟
  • دوسرے مسالک کے حضرات کے ساتھ ان کے معاشرتی تعلقات ومعاملات کی نوعیت کیا تھی؟
  • مشترکہ ملی مقاصد کے لیے جدوجہد کے میدان میں دوسرے مسالک کے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں ان کا طریقہ اور ذوق کیا تھا؟
اس وقت کے موجودہ معروضی حالات میں مسلکی تقسیم کو مندرجہ ذیل دائروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
  • سنی شیعہ اختلافات،
  • دیوبندی بریلوی اختلافات،
  • حنفی اہل حدیث اختلافات،
  • جماعت اسلامی کے ساتھ اختلافات،
  • حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سماع موتی کا تنازعہ۔
سنی شیعہ اختلافات کے حوالے سے حضرت والد محترم کا موقف یہ تھا کہ یہ اصولی اختلافات ہیں اور ان کا تعلق ایمان وعقیدہ سے ہے۔ انھوں نے اس پر ’’ارشاد الشیعہ‘‘ کے نام سے مستقل کتاب لکھی ہے جس میں انھوں نے اس موقف کی تفصیل کے ساتھ وضاحت کی ہے۔ وہ اہل تشیع کی اور ان میں سے خاص طورپر اثنا عشریہ کی تکفیر کرتے تھے اور اس سلسلے میں ان کے موقف میں کوئی لچک نہیں تھی جبکہ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی اصولی طورپر اس موقف سے متفق ہوتے ہوئے بھی اس کے اظہار کے لیے الگ اسلوب رکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ لفظ شیعہ کو تکفیر کی بنیاد بنانے کی بجائے عقائد کی بنیاد پر تکفیر کرنی چاہیے، مثلاً یہ کہ جو شخص قرآن کریم میں تحریف کا قائل ہے یا صحابہ کرام کی تکفیر کرتا ہے وغیر ذالک تو وہ کافر ہے۔ خود میرا ذوق بھی اس حوالے سے حضرت صوفی صاحب والا ہے، اس لیے کہ عالم اسلام میں شیعہ کہلانے والے ایسے گروہ بھی موجود ہیں جن کی ائمہ اہل سنت نے تکفیر نہیں کی۔ مثلاً یمن میں زیدی فرقہ کے لوگوں کی تعداد پچیس فی صد سے زائد ہے۔ ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو زیدی اور شیعہ کہلانے کے باوجود اہل سنت جیسے عقائد رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں پاکستان میں بھی ایسے بزرگ موجود ہیں جو متصلب سنی ہیں لیکن زیدی کہلاتے ہیں۔ حضرت سید نفیس شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے نام کے ساتھ زیدی لکھتے تھے، امام زید کے ساتھ گہری عقیدت رکھتے تھے، امام زید بن علی پر انھوں نے الاستاذ ابو زہرہ کی کتاب ’’الامام زید بن علی‘‘ بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کی تھی۔ اپنے مکان کے قریب انھوں نے جو دینی مدرسہ قائم کیا، اس کا نام ’’مدرسہ زید بن علی‘‘ ہے اور وہ فرمایا کرتے تھے کہ میری پسندیدہ ترین شخصیتیں تین ہیں۔ ایک امام زید بن علی، دوسرے خواجہ گیسو دراز اور تیسرے سید احمد شہیدؒ ۔
ایران کے اہل تشیع زیدیوں کو شیعہ کا فرقہ قرار دیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ایران کے دستور میں زیدیوں کو شیعہ اکثریت کا حصہ تسلیم کرنے کی بجائے حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کے ساتھ اقلیتوں میں شمار کیا گیا ہے۔ اس لیے اثنا عشری شیعہ کی تکفیر میں کوئی کلام نہ ہونے کے باوجود عمومی تکفیر میں عالم اسلام کے مجموعی تناظر کو ملحوظ رکھنا بھی میرے نزدیک ضروری ہے، البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت والد محترمؒ کا موقف اس بارے میں بے لچک تھا اور جن تحفظات کا ہم اظہار کرتے ہیں، وہ ان کو چنداں اہمیت نہیں دیتے تھے۔
دیوبندی بریلوی اختلافات کے حوالے سے بھی ان کا موقف یہ تھا کہ یہ عقائد کے اختلافات ہیں اور اصولی اختلافات ہیں۔ انھوں نے ان اختلافات کے ہر پہلو پر کتابیں لکھی ہیں اور تفصیل کے ساتھ لکھی ہیں۔ ان اختلافات کی تنقیح وتوضیح میں وہ جس گہرائی تک گئے ہیں، وہ انھی کا امتیاز ہے اور یہی انھیں دیوبندیوں کا علمی ترجمان قرار دیے جانے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
دیوبندی بریلوی اختلافات کو کم کرنے اور باہمی مفاہمت کا ماحول پیدا کرنے کے لیے مختلف مواقع پر کوششیں ہوئی ہیں اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ ،حضرت مولانا سید حامدمیاںؒ اور حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ جیسی شخصیات بھی ان مساعی کا حصہ رہی ہیں۔ عام طور پر اس سلسلے میں جب بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اصل تنازعہ اکابر علماء دیوبند کی چند مبینہ طو رپر متنازعہ عبارات ہیں جن پرمولانا احمد رضا خان اور ان کے رفقا نے علماء دیوبند کی تکفیر کی ہے۔ اگر ان عبارات کو حذف کر دیا جائے یا ان سے براء ت کا اظہار کر دیا جا ئے یا ان کی فریقین کے اتفاق سے کوئی متفقہ تاویل وتعبیر کر دی جائے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ لیکن حضرت والد محترم کا موقف اس سے مختلف تھا۔ وہ یہ فرماتے تھے کہ:
  • تنازعہ صرف چند عبارات کا نہیں بلکہ عقائد اور ان کی تعبیرات کا بھی ہے، اس لیے عبارات کے ساتھ ساتھ متنازعہ عقائد اور ان کی تعبیرات پر بھی بات ہونی چاہیے۔
  • عبارات میں صرف یک طرفہ طور پر علماء دیوبند کی عبارات مابہ النزاع نہیں ہیں، بلکہ اسی نوعیت کی بریلوی علماء کی بعض عبارات پر بھی اختلاف ہے، اس لیے عبارات کے حوالے سے گفتگو دو طرفہ بنیاد پر ہونی چاہیے۔
اس سلسلے میں مولانا عبد الستار خان نیازی نے ایک بار دیوبندی بریلوی اتحاد کے لیے چار نکاتی فارمولا پیش کیا تھا جس پر میں نے حضرت والد محترم سے بات کی۔ انھوں نے فرمایا کہ اس بارے میں خود ان کی مولانا عبد الستار خان نیازی کے ساتھ حرم مکہ میں گفتگو ہوئی تھی اور انھوں نے نیازی صاحب سے کہا تھا کہ معاملہ صرف ایک طرف کی عبارات کا نہیں، بلکہ دوسری طرف کی عبارات بھی مابہ النزاع ہیں، اس لیے اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ علماء دیوبند کی متنازعہ عبارات کی نشان دہی کریں اور ہم بریلوی علماء کی متنازعہ عبارات کی نشان دہی کرتے ہیں اور ان پر آپس میں بیٹھ کر خالص علمی ماحول میں گفتگو کر لیتے ہیں اور درمیان میں ہائی کورٹ کے جج صاحبان کاایک پینل بٹھا لیتے ہیں۔ ہم جن عبارات پر اس پینل کی موجودگی مں آپ حضرات کومطمئن نہ کر سکے، ان پر ہم نظر ثانی کر لیں گے اور جن عبارات پر آپ حضرات ہمیں مطمئن نہ کر سکے، ان سے آپ کو براء ت کرنا ہوگی۔ اس پر مولانا نیازی نے وطن واپس پہنچ کر اپنے ساتھیوں سے مشورہ کے بعد جواب دینے کا وعدہ کیا لیکن اس کی تکمیل کی نوبت نہ آ سکی۔
یہ بات جو حضرت والد محترم نے مجھے زبانی طور پر فرمائی تھی، بعد میں میرے نام ایک خط میں بھی انھوں نے لکھ دی جو ان کی یاد میں شائع ہونے والی ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کی خصوصی اشاعت میں شائع ہو چکا ہے۔
حنفی اہل حدیث اختلافات بھی حضرت والد محترم کی تدریس وتصنیف کا مستقل موضوع رہے ہیں اور وہ نہ صرف ترمذی شریف کی تدریس میں ان مباحث پر باحوالہ تحقیقی گفتگو کرتے تھے بلکہ ان میں سے بہت سے مسائل پر انھوں نے مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں،لیکن یہ تنازعہ ان کے نزدیک دیوبندی بریلوی تنازعہ کی طرح اصولی نہیں تھا بلکہ وہ ان مسائل کو فروعی مسائل کا درجہ دیتے تھے۔ حضرت والد محترمؒ کے شاگرد مولانا حافظ محمد یوسف (الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ) نے اپنے ایک مضمون میں جو ’’امام اہل سنت کی قرآنی خدمات اور تفسیری ذوق‘‘ کے عنوان سے الشریعہ کی خصوصی اشاعت میں شائع ہوا ہے، جامعہ نصرۃ العلوم میں سالانہ دورۂ تفسیر کے آغاز کے موقع پر حضرت امام اہل سنت کے خطاب کا ایک پورا اقتباس یوں درج کیا ہے کہ:
’’قرآن کریم کی تفسیر میں ہم ان مسائل کو نہیں چھیڑیں گے جو فروعی مسائل کہلاتے ہیں، کیونکہ اتنا وقت نہیں ہوتا۔ اگر ہم یہ بحث شروع کر دیں کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنی ہے یا نہیں پڑھنی، آمین جہر کے ساتھ ہے یا سر کے ساتھ تو مہینہ اسی میں گزر جائے گا۔‘‘
یعنی اہل حدیث حضرات کے اعتراضات کے جواب میں وہ حنفی موقف کی مدلل وضاحت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے تھے، لیکن ان اختلافات کا درجہ ان کے نزدیک عقیدہ اور اصول کے اختلاف کا نہیں تھا اور وہ اسی درجے میں ان مسائل پر بات کرتے تھے۔
جماعت اسلامی کے ساتھ اختلافات میں وہ جمہور کے ساتھ تھے اور ہر ضروری موقع پر جمہور اہل سنت کے موقف کی ترجمانی اور وضاحت کرتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک اہم واقعہ بھی ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں۔
یہ اس دور کی بات ہے جب جمعیۃ علماء اسلام درخواستی گروپ اور فضل الرحمن گروپ کے نام سے دو دھڑوں میں تقسیم تھی۔ ایک دھڑے کے امیر حضرت درخواستی اور دوسرے کے امیر حضرت مولانا سید حامدمیاں تھے۔ لاہور میں حضرت درخواستی کے نائب امیر کے طور پر حضرت مولانا محمد اجمل خان جماعتی قیادت کی ذمہ داریاں سرانجام دیتے تھے، جبکہ قاضی حسین احمد صاحب جماعت اسلامی کے قیم (سیکرٹری جنرل) ہوا کرتے تھے۔ قاضی صاحب محترم نے حضرت مولانا سید حامد میاں اور حضرت مولانا محمد اجمل خان سے رابطہ قائم کر کے یہ پیش کش کی کہ مولانا مودودی کی جن عبارات پر علماء اہل سنت کو اعتراض ہے، ان کے بارے میں ہم جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ میں قرارداد منظور کر دیتے ہیں کہ یہ مولانا مودودی کی ذاتی آرا ہیں، جماعت اسلامی کا بحیثیت جماعت یہ موقف نہیں ہے اور جماعت اسلامی اس حوالے سے وہی موقف رکھتی ہے جو جمہور اہل سنت کا ہے۔ اگر ہم یہ قرارداد کر دیں تو کیا جمعیۃ علماء اسلام ہمارے ساتھ مذہبی اختلاف ختم کرنے کا اعلان کر سکتی ہے؟
دونوں بزرگوں یعنی حضرت مولانا سید حامد میاں اور حضرت مولانا محمد اجمل خان نے باہمی مشورہ سے راقم الحروف کے ذمے لگایا کہ میں اس سلسلے میں تین بزرگوں یعنی حضرت مولانا قاضی مظہر حسین، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ سے بات کر کے ان کا موقف معلوم کروں، اس کی روشنی میں ہم فیصلہ کریں گے۔ میں نے تینوں بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہو کر بات کی۔ تینوں بزرگوں کا جواب مختلف تھا۔ حضرت مولانا قاضی مظہر حسین نے فرمایا کہ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کو اپنی قرارداد میں مولانا مودودی کی عبارات کے ساتھ ساتھ خود مولانا مودودی کے بارے میں بھی اپنے موقف کا اظہار کرنا ہوگا۔ والد محترم نے فرمایا کہ اگر جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ قرارداد منظور کر کے مولانا مودودی کی متنازعہ عبارات سے براء ت کا اعلان کر دیتی ہے تو ہمارے پاس اختلافات کو باقی رکھنے کا کوئی شرعی اور اخلاقی جواز باقی نہیں رہ جائے گا۔ جبکہ حضرت علامہ خالد محمود نے فرمایا کہ خالی قرارداد سے بات نہیں بنے گی، اس لیے کہ اصل تنازعہ جماعت اسلامی کے دستور کی اس دفعہ سے شروع ہوا تھا جس میں جماعت اسلامی کا رکن بننے کے لیے پر کیے جانے والے حلف نامے میں موجود یہ اقرار نامہ تھا کہ وہ ’’رسول خدا کے سوا کسی کو معیار حق نہیں سمجھے گا، کسی کو تنقید سے بالاتر نہیں سمجھے گا اور کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہیں ہوگا۔‘‘
اس اقرار نامے پر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نے اعتراض کیا تھا کہ اس میں صحابہ کرا م کے معیار حق ہونے اور ان کے تنقید سے بالاتر ہونے کی نفی کی گئی ہے اور ذہنی غلامی کے نام سے تقلید کو رد کیا گیا ہے جبکہ صحابہ کرام کا معیار حق اور تنقید سے بالاتر ہونا اہل سنت کے مسلمات میں سے ہے۔ علامہ خالد محمود صاحب کا ارشاد یہ تھا کہ جب تک دستور میں یہ شق موجود ہے، جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کی قرارداد کے باوجود اصل تنازعہ باقی رہے گا، اس لیے اگر جماعت اسلامی دینی حلقوں کے ساتھ مصالحت چاہتی ہے تو قرارداد کے ساتھ دستور کی اس شق میں بھی ترمیم کرے، ورنہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
میں نے یہ رپورٹ جمعیۃ علماء اسلام کے دونوں بزرگوں کو پیش کی تو انھوں نے حضرت علامہ خالد محمود صاحب کی رائے سے اتفاق کیا اور میری ہی ڈیوٹی لگائی کہ میں قاضی حسین احمد صاحب کو یہ بات پہنچا دوں۔ قاضی صاحب محترم نے یہ بات سن کر فرمایا کہ میں مجلس شوریٰ میں قرارداد تو کروا سکتا ہوں، مگر دستور میں ترمیم کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ اس پر یہ گفتگو اس وقت آگے نہ بڑھ سکی۔ بعدمیں اس گفتگو کے اور مراحل بھی آئے جن کا ذکر کسی اور مضمون میں تفصیل سے کروں گا، لیکن تازہ صورت حال یہ ہے کہ میری معلومات کے مطابق جماعت اسلامی کی موجودہ مجلس شوریٰ نے اس دستوری دفعہ میں ترمیم کا اصولی طور پر فیصلہ کر لیا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ خدا کرے کہ کوئی بہتر صورت نکل آئے۔ آمین یا رب العالمین۔
جہاں تک سماع موتی، حیات النبی اور ان کے ساتھ چند دیگر مسائل کا تعلق ہے تو والد محترم نے ان مسائل پر بھی تفصیلی گفتگو کی ہے بلکہ جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے جماعتی موقف کا تعین حضرت والد محترم کے ذمے لگایا تھا جس پر انھوں نے ’’تسکین الصدور‘‘ نامی کتاب لکھی اور اکابر جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود، حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری اور حضرت مولانا شمس الحق افغانی نے اسے حرف بہ حرف سن کر اس کی تصدیق کی اور اسے جمعیۃ اسلام کا جماعتی موقف قرار دیا۔ حضرت والد محترم کا موقف یہ تھا کہ عام اموات کے سماع میں امت کے اہل علم میں شروع سے اختلاف چلا آ رہا ہے اور دونوں طرف دلائل موجود ہیں، اس لیے جس کا جس موقف پر اطمینان ہو، وہ وہی موقف رکھے لیکن اسے دوسرے موقف والوں کی تکفیر، تضلیل اور تحقیر کا حق نہیں ہے۔ البتہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عند القبر سماع اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی قبر میں حیات پر اہل السنۃ والجماعۃ کا شروع سے اتفاق چلا آ رہا ہے، اس لیے اس کا انکار اہل السنۃ کے اجماعی موقف سے انحراف ہے۔
یہ میں نے ایک ہلکا سا خاکہ موجودہ معروضی صورت حال میں فرقہ وارانہ اختلافات کے حوالے سے حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے موقف کے بارے میں پیش کیا ہے اور کم وبیش یہی موقف ان مسائل کے بارے میں حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کا بھی تھا۔ لیکن مختلف سطح پر ان اختلافات کے باوجود دوسرے مکاتب فکر کے اہل علم کے ساتھ ان کے معاشرتی تعلقات کی صورت حال یہ تھی کہ شیعہ اور بریلوی حضرات کے ساتھ کسی اشد مجبوری کے سوا ان کا رابطہ وتعلق نہیں ہوتا تھا، جبکہ اہل حدیث حضرات کے ساتھ ان کے روابط رہتے تھے۔ حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کے جنازے میں یہ دونوں بزرگ شریک ہوئے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ حضرت مولانا حافظ محمد گوندلویؒ کی وفات کا حضرت والد محترم کو دوسرے دن بتایا گیا تو انھوں نے ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ مجھے کل کیوں نہیں بتایا گیا؟ میں ان کے جنازے میں شریک ہونا چاہتا تھا۔ حضرت مولانا قاضی شمس الدینؒ کے جنازے میں بھی دونوں بزرگوں نے شرکت کی ہے بلکہ حضرت قاضی صاحب کی وفات سے چند دن قبل حضرت والد محترم ان کی عیادت کے لیے گئے تو میں اور عزیزم عمار ناصر بھی ہمراہ تھے۔ میں نے اس موقع پر قاضی صاحب سے عرض کیا کہ ’’حضرت! تین پشتیں حاضر ہیں‘‘ تو حضرت قاضی صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ صاحب مدظلہ حضرت والد محترم کی عیادت کے لیے متعدد بار گکھڑ گئے ہیں اور علالت کے باوجود جنازے کے لیے بھی گکھڑ پہنچے ہیں۔ حضرت والد محترم بھی ایک موقع پر قلعہ دیدار سنگھ کے ایک سفر میں قاضی صاحب محترم سے ملاقات کے لیے ان کے گھر گئے ہیں۔ حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ صاحب کی والدہ محترمہ کا جنازہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے پڑھایا ہے اور میرا تو معمول ہے کہ جب بھی قلعہ دیدار سنگھ کسی حوالے سے حاضری ہوتی ہے تو حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی بیمار پرسی کرتا ہوں اور ان سے دعا کی درخواست کرتا ہوں۔ میں اپنے دوستوں سے اکثر یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ حضرت والد محترم کی وفات کے بعد ہمارے ارد گرد دو ہی بزرگ رہ گئے ہیں جن کی خدمت میں دعا اور استفادہ کے لیے حاضری کو جی چاہتا ہے۔ ایک ڈسکہ کے حضرت مولانا محمد فیروز خان ثاقب فاضل دیوبند اور دوسرے قلعہ دیدار سنگھ کے حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ صاحب۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں کو صحت وعافیت سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
حیات النبی کے مسئلے کے سلسلے میں ایک بات اور بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ چند سال قبل علاقہ چھچھ کے علماء کرام نے حضرو کے حضرت مولانا عبد السلام صاحب مدظلہ کی راہ نمائی میں اس تنازعہ کے حل کے لیے کوشش کی اور اس کے لیے یہ راستہ اختیار کیا کہ ایک موقع پر حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ نے پاکستان تشریف لا کر راول پنڈی میں دونوں طرف کے بزرگوں کو جمع کر کے ایک متفقہ تحریر لکھوائی تھی جس پر دونوں طرف کے ذمہ دار حضرات نے دستخط کر دیے تھے، لیکن بعد میں یہ اتفاق قائم نہ رہ سکا۔ مولانا عبد السلام صاحب اور ان کے رفقا نے اس تحریر پر دوبارہ دستخط کرانے کی مہم شروع کی۔ اس پر شیخ الحدیث حضرت مولانا قاری سعید الرحمن نے میری رائے دریافت کی کہ کیا اس تحریر پر دستخط سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ میں نے عرض کیا کہ ذاتی طور پر تو میرے نزدیک مسئلہ حل ہو جانا چاہیے، لیکن حضرت والد محترم سے بات کرنے کے بعد ہی حتمی طورپر کچھ عرض کر سکوں گا۔ چنانچہ میں نے اس پر حضرت والدمحترم سے بات کی تو انھوں نے کھلے دل سے فرمایا کہ جو حضرات، حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی والی تحریر پر دستخط کر دیں گے، ان سے ہمارا کوئی اختلاف باقی نہیں رہے گا۔ میں نے یہ بات مولانا قاری سعید الرحمن کو بتائی تو وہ بہت خوش ہوئے اور اس کے بعد مولانا عبد السلام کی قیادت میں علاقہ چھچھ کے بہت سے علماء کرام نے اس تحریر پر دستخط کر کے اس کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔
آخر میں حضرت والد محترم اور حضرت صوفی صاحب کے حوالے سے یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تمام تر اختلافات کے باوجود مشترکہ دینی مقاصد کے لیے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کی مشترکہ جماعتوں اور متحدہ محاذوں میں ہمارے یہ دونوں بزرگ شریک رہے ہیں اور ان میں عملی کردار ادا کیا ہے۔ حضرت والد محترم نے اپنی خود نوشت سوانح میں جو ’الشریعہ‘ کی خصوصی اشاعت میں چھپ چکی ہے، خود لکھا ہے کہ وہ قیام پاکستان سے پہلے دس سال تک مجلس احرار اسلام کے کارکن رہے ہیں اور یہ دور وہ تھا جب مجلس احرار اسلام کی مرکزی قیادت میں حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی اور امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے ساتھ ساتھ مولانا سید محمد داؤد غزنوی، صاحب زادہ سید فیض الحسن آف آلو مہار شریف اور مولانا مظہر علی اظہر بھی شامل تھے اور اس مشترکہ قیادت کے تحت حضرت والد محترم دس سال تک ایک کارکن کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد ۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں حضرت والد محترمؒ اور حضرت صوفی صاحبؒ دونوں نے حصہ لیا ہے، دونوں جیل میں گئے ہیں اور کئی ماہ تک جیل میں رہے ہیں۔ اس تحریک کی قیادت میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے ساتھ مولانا سید ابو الحسنات قادری، مولانا سید محمد داؤد غزنوی اور حافظ کفایت حسین مجتہد شامل تھے۔
جمعیۃ علماء اسلام کے ضلعی امیر کی حیثیت سے حضرت والد محترم مسلسل پچیس برس تک خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اس دوران جمعیۃ علماء اسلام نے متعدد بار متحدہ محاذوں میں شرکت کی ہے اور ہر متحدہ محاذ میں والد محترمؒ نے بھی کردار ادا کیا ہے، حتیٰ کہ جمعیۃ علماء اسلام میں جب حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی اور حضرت مولانا مفتی محمود کے درمیان اختلاف ہوا تو حضرت مولانا ہزاروی کا موقف یہ تھا کہ مفتی صاحب نے مودودیوں سے اتحاد کر لیا ہے اور وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں مسٹر ذو الفقار بھٹو کے مقابلے میں مولانا شاہ احمد نورانی کو امیدوار بنا کر مسلکی حمیت سے انحراف کیا ہے۔ حضرت مولانا ہزاروی ہمارے ان دونوں بزرگوں کے استاذ تھے اور ایک استاذ کی حیثیت سے وہ ان کا بہت احترام کرتے تھے، لیکن جب مولانا ہزارویؒ ان دونوں شاگردوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے گوجرانوالہ آئے تو دونوں بزرگوں نے عرض کیا کہ آپ ہمارے مخدوم اور بزرگ ہیں، لیکن ہم مولانا مفتی محمود کے موقف کو صحیح سمجھتے ہیں، اس لیے اس اختلاف میں ان کے ساتھ ہیں۔
حضرت والد محترم اور حضرت صوفی صاحب نے ۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی میں کئی جلوسوں کی قیادت کی اور حضرت والد محترم ایک ماہ تک جیل میں بھی رہے، حتیٰ کہ ایف ایس ایف کے کمانڈر کی طرف سے گولی مار دینے کی دھمکی کے باوجود کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے ریڈ لائن کراس کرنے کا واقعہ بھی اسی تحریک کا ہے۔ 
۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت اور ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت بھی مشترکہ قیادت کے تحت چلائی گئی تھی اور ان قیادتوں میں حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری، حضرت مولانا خواجہ خان محمد مدظلہ اور حضرت مولانا مفتی محمود کے ساتھ ساتھ مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبد الستار خان نیازی، مولانا معین الدین لکھوی، علامہ احسان الٰہی ظہیر، قاضی حسین احمد، پروفیسر غفور احمد، سید مظفر علی شمسی اور علامہ علی غضنفر کراروی بھی شامل تھے۔ ہمارے ان دونوں بزرگوں یعنی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی نے ان تحریکات میں سرگرم کردار ادا کیا اور متعدد جلوسوں کی قیادت کی، بلکہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر جمعیۃ علماء اسلام کے ضلعی امیر کی حیثیت سے ان متحدہ محاذوں کا باقاعدہ حصہ رہے اور ان کی حیات کے آخری دور میں تمام مکاتب فکر کے مشترکہ پلیٹ فارم ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کی بھی حضرت والد محترم نے حمایت کی اور اس کے امیدواروں کو کھلم کھلا سپورٹ کیا۔ اس لیے مسلکی اختلافات اور فرقہ وارانہ ترجیحات میں واضح اور دوٹوک موقف اور رویہ رکھنے کے باوجود ملک میں نفاذ شریعت اور ختم نبوت کی تحریکات میں یہ دونوں بزرگ متحدہ محاذوں اور مشترکہ پلیٹ فارم کا آخر دم تک حصہ رہے ہیں۔
آخر میں ان دونوں بزرگوں کے حوالے سے اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ مسلکی اختلافات کے اظہار میں ان دونوں بزرگوں نے ہمیشہ تصنیف اور تدریس کو ہی ذریعہ بنایا ہے اور ان دو دائروں سے ہٹ کر عام جلسوں، جمعۃ المبارک کے خطبات اور مسجد میں دیے جانے والے عام دروس میں مسلکی اختلافات پر، خواہ وہ دیوبندی بریلوی ہوں، حنفی اہل حدیث ہوں یا حیات النبی کا مسئلہ ہو، گفتگو سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ جہاں ضروری ہوا ہے، وہاں مسئلہ کی وضاحت ضرور کی ہے اور اس کے دلائل بھی پیش کیے ہیں، لیکن کسی اختلافی مسئلے کو موضوع بنا کر خطبہ جمعہ، پبلک اجتماع کی تقریر یا عمومی درس میں بات نہیں کی۔ اگر کوئی دوست ان بزرگوں کے طرز عمل کا جائزہ لینا چاہیں تو دونوں بزرگوں کے خطبات جمعہ اور عمومی دروس کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان خطبات اور دروس کے مرکزی اور ذیلی عنوانات کی فہرست پر نظر ڈال لیں۔ اختلافی مسائل کا تناسب شاید کھینچ تان کر بمشکل پانچ فی صد تک پہنچ جاتا ہو، ورنہ ان کے خطبات جمعہ اور عمومی درس کے موضوعات اصلاحی مضامین اور مثبت انداز میں عقائد واعمال کی اصلاح کے حوالے سے ہوتے تھے۔
اس سلسلے میں یہ واقعہ ایک سابقہ مضمون میں ذکر کر چکا ہوں کہ ایک مجلس میں گکھڑ کے ایک جدید تعلیم یافتہ دوست نے حضرت والد محترم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ فرقہ وارانہ اختلافات میں نہیں پڑتے تھے اور مثبت انداز میں لوگوں کی دینی راہ نمائی کرتے تھے۔ ان صاحب کے چلے جانے کے بعد حضرت کے ایک شاگرد نے مجھ سے سوال کیا کہ یہ صاحب کیا کہہ رہے تھے؟ اگر حضرت امام اہل سنت فرقہ وارانہ اختلافات میں نہیں پڑتے تھے تو اور کون پڑتا تھا؟ ان کی ساری تصانیف فرقہ وارانہ اختلافات کے حوالے سے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ بھی ٹھیک کہہ رہے ہیں اور یہ صاحب بھی درست فرما رہے تھے، اس لیے کہ آپ نے حضرت کی کتابیں پڑھی ہیں اور ان سے حدیث کے اسباق پڑھے ہیں جن میں مسلکی اختلافات کی پورے دلائل کے ساتھ وضاحت کی گئی ہے اور یہ صاحب حضرت کامسجد کا عمومی درس اور جمعۃ المبارک کے خطابات سنتے رہے ہیں جن میں عام طور پر ایسے مسائل پر بحث نہیں ہوتی تھی۔ بس یہی توازن ہے جس کا حضرات شیخین کریمین کے حوالے سے لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

علوم اسلامی کی تجدید اور شاہ ولی اللہؒ

محمد سلیمان اسدی

اسلام خالق کائنات کی طرف سے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے آیا ہے۔ کائنات اور زمانہ ترقی پذیر ہے۔ اس کے تقاضے اور ضروریات ہر آن بدلتے رہتے ہیں۔ نئے نئے تقاضے اور پہلو سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس لیے قرآن وسنت میں اتنی گہرائی، وسعت اور ہمہ گیری قدرت نے پنہاں کر دی کہ قیامت تک ہر ہر زمانہ ومکان کی انسانی ضروریات کے لیے کافی ہوں، مگر قرآن وسنت کی گہرائی میں غواصی کر کے وقت کے تقاضوں میں ان سے رہبری حاصل کرنا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر صدی میں ایسے اشخاص رونما ہوتے رہے ہیں جو دین کو ہر طرح کی آمیزش، تحریف اور غلط تاویلات سے نکھار کر اسے اپنی اصل شکل وصورت میں لے آتے ہیں جیسے کسی بیش قیمت ہیرے پر سے گرد وغبار کو صاف کر دیا جائے تو وہ اصل حالت میں چمکنے دمکنے لگتا ہے اور مرور زمانہ کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
ان میں سے بعض شخصیات ایسی جامعیت وعبقریت لیے ہوتی ہیں کہ ان کی فکری اور دماغی قوت وبصیرت اپنے دور سے بہت بعد تک کے حالات کا احاطہ کر لیتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ وقت آ جاتا ہے تو ان کے علوم وافکار اور نتائج اجتہاد نکھر کر سامنے آتے ہیں۔ مثلاً شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے علوم وافکار سے اگرچہ محدود طور پر ہر زمانے میں اہل علم واقف تھے، مگر ان کی وفات کے تقریباً ۶۰۰ سال بعد سعودی عرب میں آل سعود کی حکومت قائم ہوئی جس نے حنبلی فقہ ومسلک کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ امام ابن تیمیہ کے اجتہادات کا وکیل اور ترجمان بن کر اپنے وسیع وسائل سے امام موصوف کی تمام کتب آب وتاب سے شائع کر کے دنیا بھر میں پھیلا دیں۔ اسی طرح امام ولی اللہ دہلویؒ (۲۱؍ فروری ۱۷۰۳-۲۰؍ اگست ۱۷۶۲ھ) کے افکار ونظریات ایک طویل زمانے تک زاویہ خمول میں رہے اور ان سے بس خاص خاص اہل علم ہی واقف تھے۔ 
امام ولی اللہ دہلوی کے متعلق مولانا شبلی نعمانی علم الکلام پر اپنی مایہ ناز تصنیف میں لکھتے ہیں:
’’ابن تیمیہؒ اور ابن رشد ؒ کے بعد بلکہ خود انھی کے زمانے میں مسلمانوں میں جو عقلی تنزل پیدا ہوا تھا، اس کے لحاظ سے یہ امید نہ رہی تھی کہ پھر کوئی صاحب دل ودماغ پیدا ہوگا، لیکن قدرت کو اپنی نیرنگیوں کا تماشا دکھلانا تھا کہ اخیر زمانے میں جبکہ اسلام کا نفس باز پسیں تھا، شاہ ولی اللہ جیسا شخص پیدا ہوا جس کی نکتہ سنجیوں کے آگے غزالی، رازی اور ابن رشد کے کارنامے ماند پڑ گئے۔‘‘(۱)
آپ کی پہلی کتاب آپ کی وفات سے تقریباً ۱۲۰ سال بعد ۱۸۸۰ء میں محدودتعداد میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد ۱۹۱۱ء میں مصر کے مشہور مطبع بولاق نے ’’حجۃ اللہ البالغہ ‘‘ شائع کی جس سے امام ولی اللہ دہلوی کا چرچا برصغیر سے نکل کر عرب دنیا میں شروع ہوا۔ بیسویں صدی کے آخر تک آپ کی بیشتر کتب برصغیر کے مختلف اداروں سے شائع ہو کر گھر گھر پہنچ چکی تھیں۔ جگہ جگہ آپ کے نام پر ادارے، اکیڈیمیاں اور ریسرچ سنٹر قائم ہوئے۔ آپ کے نام پر ایوارڈز کا سلسلہ شروع ہوا۔ برصغیر اور دنیا بھر کی یونیورسٹیوں نے آپ کے نام پر چیئرز اور تحقیقی شعبے قائم کیے۔ آپ کی فکر اور علوم پر وسیع کام شروع ہوا، حتیٰ کہ امریکہ کی ایک نومسلم اسکالر ڈاکٹر مارسیا کے ہرمینسن (Marcia K. Hermansen) نے آپ کی فکر پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا۔
حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کی حیات طیبہ سے قدر مشترک تین پہلو نمایاں ہوتے نظر آتے ہیں:
(۱) دینی علوم کو اسلام کے بنیادی مآخذ قرآن وحدیث سے منسلک کرنا۔
(۲) نصوص شرعیہ سے استنباط واستخراج کے ذریعے احکام شرعیہ سے آگاہی اور معرفت کی راہ ہموار کرنا اور امت مسلمہ میں اجتہادی فکری بیداری پیدا کر کے اجتماعیت پر کھڑا کرنا۔
(۳) نصوص شرعیہ کے ذریعے فقہی احکام ومسائل میں جمع وتطبیق کی راہ ہموار کی جائے اور حتی الوسع مذاہب مشہورہ میں جمع وتطبیق پیدا کی جائے اور اختلاف کی وجہ سے جمع ممکن نہ ہوتو اس مذہب کو اختیار کیا جائے جو ازروئے حدیث زیادہ قوی اور قریب ہو۔ (۲) 
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کی سب سے نمایاں خصوصیت جامعیت وتطبیق ہے۔ شیخ محمد اکرام کے بقول: ’’وہ اختلافی مسائل میں ایسا راستہ ڈھونڈتے ہیں اور اپنی علمی وسعت اور ذہانت کی مدد سے اکثر ایسا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس پر فریقین متفق ہو سکیں۔‘‘ (۳) شاہ صاحب خود اپنا مسلک یوں بیان کرتے ہیں کہ:
’’بقدر امکان جمع می کنم در مذاہب مشہورہ مثلاً : صوم وصلوۃ ووضوء وغسل وحج بوصفی واقع میشود کہ ہمہ اہل مذاہب صحیح دانند وعند تعذرالجمع باقوی مذاہب از روئے دلیل موافقت صریح حدیث عمل می نمایم‘‘۔ (۴)
اس کی مزید توضیح آپ کے درج ذیل قول سے نمایاں ہوتی ہے :
’’اس وقت جو امر حق ملا اعلیٰ کے علوم سے مطابقت رکھتا ہے، وہ یہ ہے کہ (فقہ حنفی وفقہ شافعی) دونوں کو ایک مذہب کی طرح کر دیا جائے۔ دونوں کے مسائل کو حدیث نبوی کے مجموعوں سے مقابلہ کر کے دیکھا جائے۔ جو کچھ ان کے موافق ہو، اس کو رکھا جائے اور جس کی کچھ اصل نہ ہو، اس کو ساقط کر دیا جائے۔ پھر جو چیزیں تنقید کے بعد ثابت نکلیں، اگر وہ دونوں میں متفق علیہ ہوں تو مسئلہ میں دونوں قول تسلیم کیے جائیں۔‘‘ (۵)
جہاں تک کہ اول الذکر مسئلہ کا تعلق ہے توحضرت شاہ صاحب ؒ سے قبل برصغیر پاک وہند میں علماء کرام کا دستور یہ تھا کہ پہلے تو قرآن حکیم کومحض تلاوت کی خاطر پڑھا دیتے اور پھر اگر انہی طلبہ کو قرآن کے مطالب ومعانی کی تعلیم دینا مقصود ہوتا تو جس فن سے خود انہیں دلچسپی اورلگن ہوتی، اس فن کے نقطہ نظر سے قرآن مجید کی جو تفسیر وتشریح وہ مناسب جانتے ، انہیں پڑھا دیتے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ طلبہ کے نزدیک قرآن شریف صرف اسی فن کی ایک اعلیٰ کتاب بن جاتی اور اس سلسلے میں جو خیالات اورتصورات استاد کے ذہن میں پہلے سے موجود ہوتے ، تفسیر پڑھنے سے وہی باتیں طلبہ کے ذہنوں میں نقش ہو جاتیں بلکہ وہ اور راسخ ہو جاتیں۔ حضرت شاہ صاحب ؒ نے اس رجحان سے ہٹ کر متن قرآن کو شروع تا آخر بڑی تحقیق اور بصیرت کے ساتھ پڑھا دیتے جس سے طلبہ کی قرآن کے جملہ مطالب اور معانی تک براہ راست رسائی اورپیغام قرآن سے مجموعی طور پر آشنائی ہو جاتی ،بجائے اس کے کہ متن قرآن محض تلاوت کی غرض سے پڑھا جائے یا کسی خاص فن کی تحصیل کے لیے قرآن کے مطالب تفسیر کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ حضرت شاہ صاحب ؒ اپنی جستجو اورکاوش میں کافی حد تک کامیاب رہے اور برصغیر پاک وہندمیں قرآن وحدیث کا سلسلہ تدریس وتصنیف کی صورتوں میں جاری رکھا جو وسیع تر ہوتا گیا اور اپنی نوعیت کی ایک مثال بن کر منظر عام پر آیا۔ مزید برآں حضرت شاہ صاحب ؒ کے زمانے میں ہندوستانی مسلمانوں کی رسمی زبان فارسی تھی۔چنانچہ آپ نے قرآن کریم کے متن کا ہندوستانی مسلمانوں کے لیے قابل فہم بنانے کی خاطر ’’ فتح الرحمن‘‘ کے نام سے فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ اس پر مستزادیہ کہ شاہ صاحب ؒ نے قرآن مجید کے مطالب کو ا س شکل میں پیش کرنے پر صرف اکتفا نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اپنے صحبت یافتہ لوگوں میں سے اس طریقے پر سوچنے والی ایک جماعت بھی پید اکر دی۔
علم حدیث کے مطالعہ اور اس کی تحقیق کے ضمن میں عام طور پر اہل علم میں جو ناہمواریاں اور خرابیاں پیدا ہوگئی تھی، ان کو دور کرنے کے لیے بھی شاہ صاحب نے بہت کام کیا۔ حدیث شریف میں اس طرح سے تحقیق کاسلسلہ بہم کرنے کامیلان مسلمانوں میں مدتوں سے ناپید تھا اور خاص طور پر تیسری صدی ہجری کے بعد تو اس کی مثال کہیں مشکل سے ملتی ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے محققین محدثین پیدا کرکے سلف کے طریقے کو زندہ کر دیا۔ 
یہ بات بھی بعید از فہم نہیں کہ لوگوں میں حدیث شریف کے معاملے میں زیادہ تر ذہنی اختلال اس وجہ سے ہوا کہ فن حدیث میں محض تقلید سے کام لیا جاتا اور خاص طور پر کسی حدیث کی صحت جانچنے کے لیے تو تمام تر دوسروں کی رائے پر ہی اکتفا کیا جاتا۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے محسوس کیا کہ یہ کام مشکل ہو گیا ہے، کیوں کہ ایک تو راویوں کے طویل سلسلے کو پرکھنا اور جانچنا ہوتا ہے ، اس میں مزید الجھن یہ پڑتی ہے کہ ان رواۃ کے متعلق ’’ اسما ء الرجال‘‘ والوں کی آراایک سی نہیں۔ کسی راوی کو اسماء الرجال کا ایک نقاد ضعیف قرار دیتاہے ، لیکن دوسرا اس کی ثقاہت کا دعوے دارہے۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ صحیح حدیث کی تعریف میں کئی آرا ہیں ۔ یہ دشواریاں ہیں جو علم حدیث کے متعلق طلبہ میں کوئی ملکہ پیدا نہیں ہونے دیتیں۔ نتیجتاً طلبہ مجبوراً حدیث شریف کو چھوڑ کر فقہ پڑھتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب ؒ نے بڑی جانکاہی سے اس مرض کی تشخیص کی اور پھر اس کے ازالہ کے لیے نصاب تیار کیا اور کے مطابق تعلیم دینا بھی شروع کر دی۔
احادیث کی تدریس میں امام ولی اللہ دہلویؒ کا طریقہ جو آپ نے موطا امام مالک کی عربی وفارسی شروح ’المسویٰ‘ اور ’المصفیٰ‘ میں اختیار فرمایا تھا، جاری رہتا تو بڑی حد تک فقہی اختلافات کی شدت اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی ہی میں ختم ہو جاتی اور ملت اسلامیہ کے عوام الناس کے لیے دین پر چلنے کی ایک متفقہ شاہراہ سامنے ہوتی۔ مگر بدقسمتی سے حضرت شاہ ولی اللہؒ کے فوراً بعد ہندوستان کا علمی مرکز ثقل دہلی سے لکھنو منتقل ہو گیا جہاں غالی اہل تشیع کی حکومت نے قرآن وحدیث کے درس کو ختم کرنے اور معقولات کی ترویج کی ہر امکانی کوشش کی۔ خود دہلی میں ابو المنصور صفدر جنگ نے مغلیہ سلطنت پر غاصبانہ قبضہ کر کے یہی کچھ کیا۔
جہاں تک کہ مختلف فقہی مذاہب اور ان کے پیروکاروں کے جمود کا تعلق ہے تو شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ لوگوں کے مختلف اقوال کو شدّومدّکے ساتھ بیان کرنا، ایک مخصوص شخص کے مذہب پر فتویٰ صادر کرنا، اس کے قول کو اختیار کر کے اسی کے مذہب و مسلک پر اعتماد کرنا پہلی اور دوسری صدی ہجری کے مسلمانوں کا دستور یا وطیرہ نہ تھا۔ (۶) پھر فرماتے ہیں کہ یہی صورت ایک زمانہ میں اہل ایمان کو پیش آئی کہ مخصوص مسلک کے پیروکار ہونے کی وجہ سے باہمی منازعت شدت اختیار گئی اور لوگوں کے دلوں سے قرآن وحدیث کے صحیح فہم وادراک کی امانت رخصت ہوئی اور وہ تقلیدمیں پڑکر دین کے معاملے میں غوروفکر سے بیگانہ ہو گئے۔ اب ان کے لیے یہ امر ہی باعث تسکین تھا کہ یہی سب ہمارے آبا و اجداد بھی کیا کرتے تھے اورہم انہیں کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔ (۷)
شاہ صاحب نے تقلید جامد کی مخالفت اور شدید مذمت کی اور تقلید کے ضمن میں ارباب فقہ کے غلو کو توڑنے کی کوشش فرمائی۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ اس وقت عالم اسلام کے ہر علاقے میں لوگ متقدمین کے فقہی مذاہب میں سے کسی ایک خاص مذہب کی پابندی کرتے ہیں اور اس سے خروج کو، چاہے وہ کسی ایک آدھ مسئلے میں ہی ہو، ملت سے نکل جانے کے مترادف سمجھتے ہیں، یوں جیسے اس مذہب کا امام کوئی نبی مبعوث ہو جس کی طاعت ان پر فرض کی گئی ہو۔ (۸) چنانچہ آپ نے لوگوں میں تقلید کے جمود کو توڑنے کے لیے اور نصوص شرعیہ میں اجتہادکی ضرورت کے پیش نظر آپ نے حدیث کے مطالعے اور اس کی تحقیق پر کافی زور دیا ہے۔آپ نے تعصب کو بھولے سے بھی پاس نہ پھٹکنے دیا اور تفریع الفروعات اور تخریج المخرجات میں عدل وانصاف کے دامن کو ہاتھ سے کبھی نہ جانے دیا۔ (۹)
حضرت شاہ صاحب ؒ نے مروجہ تقلید پر شدید تنقیدیں بھی کی ہیں کہ لوگوں میں علمی شعور ومناسبت کم ہوگئی ہے۔ وہ قرآن وحدیث کے مقابلے میں عام اور غیر معصوم بشری آرا و اقوال کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ کہہ دیتے ہیں کہ ’’ چونکہ یہ قول ہمارے امام، مقتدا اور پیشوا کا ہے، لہٰذا یہ درست اور حرف آخر ہے ‘‘۔ اس صورت حال پر حضرت شاہ صاحب ؒ نے اپنی تصانیف میں سخت رد عمل ظاہر کیا (۱۰) بلکہ جب لوگوں میں یہ شدت مزید بڑھتی دیکھی تو اسے دین قیم میں تحریف کے اسباب میں شمار کیا، کیوں کہ لوگ دین حنیف کی اصل صورت سے اتنے بیگانہ اور دور گئے ہیں کہ غیر معصوم افراد کے ذہنی تخیلات اور تصورات کو اہمیت دیتے ہوئے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور حقیقی اسلامی مآخذ کو ترک کر دیتے ہیں۔ (۱۱)
شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ امت مسلمہ میں یہ ذوق اور جذبہ اجا گر کرنا چاہیے کہ نصوص شرعیہ سے متفقہ طرق کے ذریعے راہنمائی حاصل کی جائے اور اس لحاظ سے صحابہ کرامؓ کو ایک مضبوط اتھارٹی سمجھا جائے۔ ہاں، اگر ان میں بھی اختلاف رائے نظر آئے تو پھر اصل نصوص شرعیہ کی طرف رجوع کرنے میں ہی بہتری ہے۔ فرماتے ہیں:
’’چون صحابہ مختلف شوند و مأخذ اقوال ایشان از کتاب و سنت ظاہر شود تأمل درآن مأخذ باید کرد و ازان جہت باب ترجیح باید کشاد‘‘ (۱۲)
’’جب کسی مسئلے میں صحابہ کرامؓ کا آپس میں اختلاف ہو، نیز ان کے اقوال کے مأخذ قرآن و سنت سے ظاہر ہو جائیں تو اس صورت میں مأخذ ہی پر غور و فکر کیا جائے ۔ اس سے کسی چیز کو راجح اور وزنی قرار دینے کا راستہ کھلے گا۔‘‘ 
شاہ صاحب نے دیکھا کہ نصوص شرعیہ سے امت مسلمہ بے بہرہ ہو کر رہ گئی ہے جو کہ ایک خطرناک اورگھمبیر صورت حال ہے۔ لوگ اسلام کے بنیادی مآخذ سے دور ہو چکے ہیں اور ان کے رہنما وپیشوا اسلام کی صحیح ترجمانی کرنے کی بجائے گمراہی وضلالت کی طرف لیے گامزن ہیں۔ اس کی سب سے بڑی اوراہم وجہ اجتہاد سے عدم التفات ہے۔ ان دنوں برصغیر میں وعاظ اور مبلغین کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنی تقاریر میں بے محابہ موضوع اور محرف احادیث بیان کرتے تھے جس سے سادہ لوح، ضعیف اور رکیک القلب افراد دین اسلام سے اچھی طرح واقف نہ رہے تھے۔ (۱۳)
حضرت شاہ صاحب ؒ کے دورکا آج کے دورکے ساتھ تقابل کیا جائے تو بآسانی کہا جا سکتا ہے جو چیزیں حضرت شاہ صاحب ؒ نے تجویز فرمائی تھی، بجا طور پر درست تھیں۔ خصوصاً عصر حاضر میں اختلافات کی شدت کم کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ زمین کی طنابیں کھینچ دی گئی ہیں اور پوری دنیا ایک بستی (گلوبل ولیج) بن چکی ہے اور پوری دنیا پر اہل شر وفساد اور معاندین اسلام کا پوری طرح تسلط قائم ہو چکا ہے۔ ان احوال میں فروعی اختلافات اور مسلک وذوق کے اختلافات میں فکر ولی اللہی کے مطابق اعتدال وتوازن اور وسعت ظرفی کے ساتھ تطبیق کی اشد ضرورت ہے۔ یہ اس دور کا اہم تقاضا ہے کہ فروعی اختلافات میں شدت کو ختم کر کے دین کو ایک متفقہ لائحہ عمل کے طور پر سامنے لایا جائے۔

حوالہ جات

۱۔ شبلی نعمانی: علم الکلام والکلام، ( نفیس اکیڈمی ، اردو بازار ، کراچی، ۱۹۷۹ء) ،ص۸۷ 
۲۔ شاہ ولی اللہ : انصاف فی بیان سبب الاختلاف، (محکمہ اوقاف ، لاہور، ۱۹۷۱ء )ص۷۰
۳۔شیخ محمد اکرام : رود کوثر،( ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور،۱۹۹۷ء) ص ۵۳۶ 
۴۔ رحیم بخش :حیات ولی ،( مکتبہ سلفیہ ، لاہور، ۱۹۵۵ء) ص۲۹۶
۵۔ شیخ محمد اکرام :رود کوثر ،ص ۵۸۲ ۶۔شاہ ولی اللہ : الانصاف فی بیان سبب الاختلاف، ۴۱
۷۔ المرجع السابق، ص۶۶ ۸۔ شاہ ولی اللہ : تفہیمات الہیہ،( مدینہ برقی پریس، بجنور) ۱/ ۲۰۹ ۔۲۱۰ 
۹۔ شاہ ولی اللہ :حجۃ اللہ البالغہ ،( المکتبۃ السلفیہ، لاہور، سن ندارد ) ۱؍۱۰
۱۰۔ شاہ ولی اللہ : عقد الجید فی احکام الاجتہاد والتقلید، (مطبع مجتبائی ،دہلی ، سن ندارد)۷۱۔۷۲
۱۱۔ شاہ ولی اللہ : حجۃ اللہ البالغہ،۱؍۱۲۱ ۱۲۔شاہ ولی اللہ : المصفی فی احادیث موطا ( مکتبہ رحیمیہ، دہلی، سن ندارد ) ۱؍۲۷
۱۳۔ شاہ ولی اللہ : تفہیمات الہیہ، ا؍۱۵ 

مادری زبانوں کا عالمی دن ۔ کیا ہم شرمندہ ہیں؟

پروفیسر شیخ عبد الرشید

زبان فکر و خیال یا جذبے کے اظہارو ابلاغ کا ذریعہ ہے۔ اس کاکام یہ ہے کہ لفظوں اور فقروں کے توسط سے انسانوں کے ذہنی مفہوم و دلائل اور ان کے عام خیالات کی ترجمانی کرے۔ Oliver Wendell Holmesکے مطابق:
"Language is the blood of the soul into which thoughts run and out of which they grow."
زبان ایک ایسا سماجی عطیہ ہے جو زمانے کے ساتھ ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو ملتا رہتا ہے اس طرح زبان انسان کی تمام پچھلی اور موجودہ نسلوں کا ایک قیمتی سرمایہ اور اہم میراث ہے ۔زبان ایک ایسے لباس کی طرح نہیں ہے کہ جسے اُتار کر پھینکا جا سکے بلکہ زبان تو انسان کے دل کی گہرائیوں میں اُتری ہوئی ہوتی ہے۔یہ خیالات کی حامل اور آئینہ دار ہی نہیں ہوتی بلکہ زبان کے بغیر خیالات کا وجودممکن نہیں۔ کہتے ہیں کہ کوئی ایسا خیال کہ جس کے لیے کوئی لفظ نہ ہو دماغ میں نہیں آ سکتا۔ شاید اسی لیے یونانی زبان کا ترجمہ کرتے ہوئے انسان کو حیوانِ ناطق کہا گیا۔ حیوان ناطق سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ انسان بول سکتا ہے، بولتے تو سب جانور ہیں اِس سے مراد ہے کہ انسان سوچ سمجھ کر بول سکتا ہے۔ لارڈ ٹینی سن (Lord Tennyson)نے کیا خوب کہا تھا کہ 
"Words like nature, half reveal 
And half conceal the soul within"
زبان انسانی زندگی کا اہم جُز ہے اسی لیے مولوی عبدالحق کہا کرتے تھے کہ ’’زبان پر جو چوٹ پڑتی ہے، وہ زبان پر نہیں پڑتی، دلوں پر پڑتی ہے‘‘۔ مقامی یا مادری زبانوں کوانسان کی دوسری جلد (Second Skin)بھی کہا جاتا ہے۔ مادری زبانوں کے ہر ہرلفظ اور جملے میں قومی روایات ، تہذیب وتمدن، ذہنی و روحانی تجربے پیوست ہوتے ہیں، اسی لیے انہیں ہمارے مادی اور ثقافتی ورثے کی بقا اور اس کے فروغ کا سب سے مؤثر آلہ سمجھا جاتا ہے چنانچہ کسی قوم کو مٹانا ہو تو اس کی زبان مٹا دو تو قوم کی روایات اس کی تہذیب ، اس کی تاریخ ، اس کی قومیت سب کچھ مٹ جائے گا۔ Berton کی کہاوت ہے کہ "Help brezhoneg, breizh ebat'، یعنی(without Breton, there is no Brittany) (برٹن زبان کے بغیربرٹنی بھی نہیں ہے)۔ بلاشبہ مادری زبان کسی بھی انسان کی ذات اور شناخت کا اہم ترین جزو ہے اسی لیے اسے بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے۔ اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق پر بین الاقوامی معاہدے کے مشمولات کے علاوہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت کی قرار دادوں کی صورت میں اس حق کی ضمانت دی گئی ہے۔قومیتی شناخت او ر بیش قیمت تہذیبی و ثقافتی میراث کے طور پر مادری زبانوں کی حیثیت مسلمہ ہے چنانچہ مادری زبانوں کے فروغ اور تحفظ کی تمام کوششیں نہ صرف لسانی رنگا رنگی اور کثیر اللسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں بلکہ یہ دنیا بھر میں پائی جانے والی لسانی اور ثقافتی روایات کے بارے میں بہتر آگہی بھی پیدا کرتی ہیں اور عالمی برادری میں افہام و تفہیم،رواداری اور مکالمے کی روایات کی بنیاد بنتی ہے۔ 
اسی لیے اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیمUNESCOکے رُکن ممالک کے نیز تنظیم کے صدر دفتر میں ہر برس21فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن (IMLD)منایا جاتا ہے اس دِن کا مقصد لسانی و ثقافتی رنگا رنگی اور کثیر اللسانیت کو فروغ دینا ہے۔ اس وقت کرۂ ارض پر انسان ۶۷۰۰ سے زیادہ زبانیں بولتے ہیں مگر ان مادری اور مقامی زبانوں کو چند زبانوں کے وائرس سے شدیدخطرات لاحق ہیں۔ خاص طور پر انگریزی زبان دنیا کی ہزاروں مقامی زبانوں کو نگل گئی ہے اور ابھی بھی اس کی زبان خوری ختم نہیں ہوئی۔ چند اقوام اور طبقات کی لسانی دہشت گردی سے زبانیں محبت و اُخّوت کی بجائے نفرت و تقسیم کا موجب بننے لگی ہیں۔ اس سے عالمگیر یت کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ عالمی امن کے لیے مادری اور مقامی زبانوں کا تحفظ و احترام نا گذیر ہے تاکہ لسانی رنگا رنگی سے برداشت و رواداری کا کلچر فروغ پائے۔ چنانچہ نومبر ۱۹۹۹ء میں یونیسکو کی انسانی ثقافتی میراث کے تحفظ کی جنرل کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ ہر سال ۲۱ فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جائے گا ۔ ایسے زمانے میں جب عالمگیریت کی ترجیحات میں صرف چند زبانیں ہی خاص اہمیت کی حامل ہیں ۔ اقوامِ متحدہ اور یونیسکو نے لسانی تنوع اور کثیر ا للسانی تعلیم و تدریس کے فروغ و تحفظ کا بیڑہ اُٹھایا ہے۔ مادری زبانوں کے عالمی دن کا تصور یونیسکو کو کینیڈا کی ایک تنظیم "Mother Language Lovers of the World"نے تجویز کیا اس پر یونیسکو کا کہنا تھا کہ یہ تجویز کسی ممبر ملک کی طرف سے آنی چاہیے۔ چنانچہ بنگلہ دیش نے یہ مہربانی کی اور اس دن کے لیے۲۱ فروری کے دن کوبھی بنگالی زبان کی لسانی تحریک کے دن کے حوالے سے اہمیت دیتے ہوئے منتخب کیا گیا۔ 
مادری زبانوں کا عالمی دن مشرقی پاکستان میں ’’لسانی تحریک کے دن‘‘ ۲۱؍ فروری۱۹۵۲ء کی یاد میں منایا جاتا ہے جب ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا لسانی مسئلے پر دفعہ ۱۴۴ کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ صبح سوا گیارہ بجے سے یہ ہڑتال اور احتجاج جاری تھا۔ دوپہر ۲ بجے دستور ساز اسمبلی کے اراکین کا راستہ روکا گیا تو پولیس حرکت میں آگئی۔ سہ پہر ۳بجے کے قریب فائرنگ ہو گئی جس سے طلبا عبدالجبار اور رفیق الدین احمد موقع پر جاں بحق ہو گئے جبکہ ابوالبر کات زخمی ہو کر رات ۸بجے دم توڑ گیا۔ اس سے سارا مشرقی پاکستان سراپا احتجاج بن گیا۔ ۲۲ فروری کو بڑا احتجاج ہو ا جس پر فائرنگ سے ۴سے۸لوگ مارے گئے ۔ لسانی مسئلے پر ریاستی پولیس نے بنگالی بولنے والوں کا قتل عام کیا ۔بنگلہ دیش(مشرقی پاکستان) میں لوگ غیر سرکاری طور پر یہ دن مناتے رہے، تا ہم ۱۹۵۶ء میں پہلی مرتبہ ۲۱ فروری کو حکومتی سرپرستی میں یہ دن منایا گیا اور اسی روز مادری زبان کی جدوجہد کی تحریک میں جاں بحق ہونے والوں کی یاد میں شہید مینار کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ پھر ۲۹فروری۱۹۵۶ء کو بنگالی کو سرکاری سطح پر پاکستان کی بنیادی ریاستی زبانوں میں سے ایک کا درجہ دے دیا گیا۔ یہی لسانی تحریک بعد ازاں سقوط ڈھاکہ کا ایک اہم سبب ثابت ہوئی۔ اسی دن کی یاد میں یونیسکو کے ممبر کی حیثیت سے بنگلہ دیش نے مادری زبانوں کے عالمی دن کی تجویز منظور کروائی۔ 
مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر آسٹریلیا میں مقیم ہنگری نژاد پروفیسر سٹیفن و ورم Stephen Wurmکو بھی خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے جو خود پچاس سے زیادہ زبانوں کو جانتا اور مہارت رکھتا ہے اور جس نے"Atlas of the world's Language in Danger of Disappearing" مرتب کیا ۔ اس اٹلس میں پروفیسر سٹیفن وورم نے وضاحت کی ہے کہ اس وقت دنیا میں تین ہزار سے زیادہ مادری اور مقامی زبانیں خطرات کا شکار ہیں اور کرۂ ارض سے آہستہ آہستہ ماں بولیاں معدوم ہوتی جار ہی ہیں ان کا تحفظ اور بقاء ضروری ہے ۔ مادری زبانوں کی بقاء اور تحفظ کی کاوشوں کے ثمرات کی ایک مثال انگلینڈ کی ایک مقامی ماں بولی کورنش "Cornish"کی ہے جو کہ متروک ہو گئی تھی مگر حالیہ کاوشوں سے اس ماں بولی کا کامیابی سے احیاء ہوا ہے اور اب ایک ہزار سے زائد لوگ کورنش زبان بولنے لگے ہیں۔ مادری زبانیں بطور ذریعۂ اظہار و ابلاغ فرد کی شخصیت کی تشکیل و تکمیل میں موثر کردار اداکرتی ہیں۔ چیک ری پبلک کے صدر Jan Kavanنے جنرل اسمبلی سے مادری زبانوں کے حوالے سے خطاب میں کہا تھا کہ 
"Mother Language is the most powerful instrument of preserving and developing our tangible and intangible heritage."
یونیسکو کے۳۱ ویں سالانہ اجلاس منعقدہ ۲نومبر۲۰۰۱ء کے بعد یونیسکو نے ثقافتی رنگا رنگی کے حوالے سے جاری کردہ عالمی اعلامیے کی منظوری دی جس میں یونیسکو کی تنظیم نے لسانی رنگا رنگی کی حوصلہ افزائی کرنے والے رُکن ممالک کو مکمل تعاون فراہم کرنے کا عہد کیا۔ زبانیں ہمارے مادی اور ثقافتی ورثے کی بقا اور اس کے فروغ کا سب سے مؤثر آلہ ہیں۔ مادری زبانوں کے فروغ اور تحفظ کی تمام کاوشیں نہ صرف لسانی رنگا رنگی اور کثیر اللسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں بلکہ یہ دنیا بھر میں پائی جانے والی لسانی اور ثقافتی روایات کے بارے میں بہتر آگہی بھی پیدا کرتی ہیں اور عالمی برادری میں افہام و تفہیم ، رواداری اور مکالمے کی روایات کی بنیاد پر بین الاقوامی یکجہتی کو بڑھا وا دینے کا اہم ذریعہ ثابت ہوتی ہیں۔ لسانی اور ثقافتی رنگارنگی اُن آفاقی اقدار کی نمائندگی کرتی ہے جو معاشروں کے اتحاد اور ہم آہنگی کو تقویت دیتی ہیں۔ لسانی رنگا رنگی ہر انسان کے لیے اس کی مادری زبان اور خاص کر اس میں بنیادی تعلیم کی اہمیت کے ادراک نے یونیسکو جیسے ادارے کو مادری زبانوں کا عالمی دن منانے کے بارے میں فیصلہ کرنے پر مائل کیا۔ 
اسے بد قسمتی کے سوا کیا کہیے کہ مادرِ وطن میں مادری زبانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک عام ہے اور ہم نے عصری اور عالمی فکرو دانش سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ متحدہ پاکستان میں لسانی مسئلے سے دنیا بھرنے سبق سیکھ لیااور عالمی سطح پر مادری زبانوں کا دن منایا جاتا رہے مگر ہم آج بھی لسانی رنگا رنگی کی مہک سے محروم اور زبانوں کے مسئلے کا شکار ہیں۔ ہم سے سبق سیکھ کر کئی ممالک نے اپنی لسانی پالیسوں کو از سرِ نو مرتب کیا اور اب بہت سے ممالک اپنے علاقوں میں روایتی طور پر نظر انداز کی جانے والی یا خطرات سے دو چار زبانوں کو تحفظ اور فروغ دے رہے ہیں۔ جبکہ ہم آج بھی علاقائی ، مادری اور قومی زبانوں کی کشمکش سے دو چار ہیں۔ ہمارے ہاں لسانی مسئلے نے جو گہرے اور منفی اثرات مرتب کیے، ان کی قیمت ہم ۱۹۷۱ء میں بھی چکا چکے ہیں۔ جمہوری ممالک میں جمہور کی زبان یا زبانیں ہی قومی یا سرکاری زبانیں ہو سکتی ہیں۔عوام کا دل موہ لینے کے لیے عوام ہی کی بولی کارگر ہو سکتی ہے۔ ہم نے علاقائی اور مادری زبانوں سے جس سوتیلے سلوک کو روا رکھا اس کا خمیازہ ہم بھگت رہے۔ آج ہم تہذیبی شناخت اور تاریخی سانجھ سے محروم ہو کر قومیتی مسائل میں دھنس کر رہ گئے ہیں۔ ہم نے لسانی مسئلے کو غیر فطری طور پر حل کرنے کی کوشش کی اور قوم کو اپنی اپنی علاقائی زبانوں سے محروم کرنے کا جبر روارکھا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری قوم نے کھرے، سچے اور سماجی تناظر میں سوچنے کی بجائے غیروں کی زبانوں سے غیروں کے انداز میں سوچنا شروع کر دیا۔ ہم نے انگریزی اور اردو کے ذریعے قومی یکجہتی کے حصول کی کوشش کی اور جارج برنارڈ شاہ کی اس بات کو فراموش کر دیا ہے کہ 
"England and America are two countries divided by common language" 
بلاشبہ پھولوں کی رنگارنگی گلدستے کا حُسن اور طاقت ہوتی ہے قباحت اور کمزوری نہیں۔ جس قوم کو اپنی کوئی چیز اچھی نہ لگے اور دوسروں کی ہر ادا پر فریفتہ ہو وہ کیا زندہ رہ سکتی ہے۔ قوم بے جان افراد کے مجموعے کا نام نہیں ہوتا بلکہ قوم معتقدات، تاریخ، عصبیت ، ثقافت اور انفرادیت پر اصرار سے ہی وجود میں آتی ہے اور استحکام حاصل کرتی ہے ۔ مذکورہ قومی عناصر کے اظہارکا اہم ذریعہ زبان ہی تو ہوتی ہے۔ جب لوگوں سے انکی زبان چھین لی جائے تو ان سے سب کچھ چھین لینے کے مترادف ہی ہوتا ہے۔ ہمیں بھی قومی یکجہتی کے گلدستے کی تشکیل کے لیے زبانوں کی رنگا رنگی کو اہمیت اور فروغ دینا ہو گا۔ ہمارے ہاں سندھی، پشتو، بلوچی ، پنجابی ، سرائیکی جیسی زبانیں ہماری اجتماعی غفلت کا شکار ہیں۔ جب تک ہم مادری زبانیں بولنا، انہی میں سوچنا اور انہیں تعلیم و تحقیق کا ذریعہ نہیں بنائیں گے قومی یکجہتی سے محروم رہیں گے۔یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ہم اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں دینگے۔ مادری زبان کے ذریعے ہی وہ تعلیم و تربیت مانوس اور جانے پہچانے ماحول میں حاصل کرسکتا ہے۔ اپنے ماحول اور مٹی سے جڑے رہنے اور اس کے ساتھ اُنسیت سے ہی بچوں میں اعتماد، توازن، احساسِ ملکیت اور قومی یکجہتی پیدا ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں تعلیم و تدریس کے جدید نظریات میں بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہی دی جاتی ہے۔ آج کے جدید دور میں مادری زبان میں تعلیم بنیادی انسانی حق ہے ۔کسی ملک، علاقے یا صوبے کے لوگوں کو ان کی مادری زبان سے محروم رکھنا انسانی حقوق کی کُھلی خلاف ورزی ہے ۔کیا ایسی ریاستیں جہاں انسانی حقوق کی کُھلے عام خلاف ورزی ہو آئینی، قانونی، اخلاقی ، سیاسی اور سماجی حوالے سے جدید جمہوری ریاستیں کہلانے کی حقدار ہو سکتی ہیں؟ ستم ظریفی دیکھئے کہ پاکستان میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص ہمار ا اجتماعی رویہ اور حکمرانی انسانی حقوق کی کھلی خلا ف ورزی کر رہا ہے اور ہم پھربھی خود کو مہذب انسان سمجھنے کے فریب میں متبلا ہیں۔ ڈاکٹر ہرشندر کور نے درست تجزیہ کیا ہے کہ مادری زبان بچے کی شخصیت کو اُبھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اپنی ماں بولی کو حقیر اور چھوٹا سمجھنے والے اپنے آپ کو اور اپنی تہذیب کو بھی کم تر اور حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور جن کی تہذیب حقیر ہو، وہ زمانے میں معتبر نہیں ہوسکتے۔ پنجابیوں نے پنجابی زبان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے، اس نے دھیرے دھیرے پنجابیوں کو ان کی اصل سے دور کر دیا ہے۔ ہمیں یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کی زبان کے راستے میں رکاوٹ بنے۔ 
۲۱ فروری کو ہر سال منعقد ہونے والامادری زبانوں کا عالمی دن ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ہم کب تک اپنی مادری زبان سے یہ سلوک جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہم نے اپنی مادری زبان کے ساتھ جو کیا ہے ہم سب اس پر شرمندہ ہیں میں اپنی بات کو مشہور شاعرہ میری ڈورو کی نظم ’’زبان کا سوگ‘‘ پر ختم کرنا چاہتا ہوں جس کا ترجمہ خالد سہیل نے کیا تھا۔ دیکھنا یہ ہے کہ میری ڈورو کی یہ نظم ہمیں شرمندہ کرپاتی ہے کہ نہیں۔ کہتے ہیں کہ شرمندگی کا پسینہ قوموں کی زندگی میں ترقی کے سفر میں زادِ راہ کا کام کرتاہے۔ میری ڈورو لکھتی ہے کہ 

’’زبان کا سوگ‘‘

میں اپنی مادری زبان ڈائرنگن سے محروم ہو گئی ہوں 

میں افسردہ ہوں 

اس تباہی پر میری آنکھیں پرنم ہیں 

میری زبان کے نرم و گداز الفاظ 

چکنا چور ہو کر ماضی میں بکھر گئے ہیں 

ہم پر جب انگریزی مسلط ہو گئی 

تو ہم اپنی مادری زبان ڈائرنگن بُھلا بیٹھے 

اور اسے تہذیب و ثقافت کی بھینٹ چڑھا دیا 

اے میری مادری زبان 

تمہیں کھونے پر 

ہم بہت شرمندہ ہیں


بنگلہ دیش کا ایک مطالعاتی سفر

محمد عمار خان ناصر

۱۰ جنوری سے ۱۴ جنوری ۲۰۱۰ء تک مجھے ڈھاکہ میں منعقد ہونے والے Leaders of Influence (LOI) Exchange Program میں شرکت کے سلسلے میں بنگلہ دیش کا سفر کرنے کا موقع ملا۔ یہ پروگرام US-AID یعنی یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فار انٹر نیشنل ڈویلپمنٹ اور ایشیا فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام منعقد ہوا اور اس میں پاکستان، بھارت، نیپال، تھائی لینڈ اور افغانستان سے آئے ہوئے وفود نے شرکت کی۔ پاکستانی وفد میں راقم الحروف کے علاوہ شریعہ اکیڈمی، اسلام آبا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی، بہاؤ الدین زکریا یونی ورسٹی ملتان کے شعبہ اسلامیات کے صدر ڈاکٹر محمد اکرم رانا اور اسلام آباد سے سما ٹی وی کی نمائندہ محترمہ مریم وقار شامل تھیں۔ اس تین روزہ پروگرام کا بنیادی مقصد شرکا کو ان کوششوں اور تجربات سے متعارف کرانا تھا جو US-AID اور ایشیا فاؤنڈیشن، بنگلہ دیش میں اسلامک فاؤنڈیشن کے تعاون سے ائمہ اور خطبا کو سماجی ترقی میں متحرک کردار ادا کرنے اور مختلف سماجی مسائل ومشکلات کے حل کے لیے اپنی مذہبی حیثیت اور اثر ورسوخ کو استعمال کرنے کے سلسلے میں کر رہی ہے۔ 
تین روزہ پروگرام کا پہلا دن LOI پروگرام کے پس منظر، مقاصد، مختلف پہلوؤں اور اس میں کردار ادا کرنے والے اداروں، خاص طور پر اسلامک فاؤنڈیشن اور امام ٹریننگ اکیڈمی کے حوالے سے تعارفی بریفنگ کے لیے مخصوص تھا۔ دوسرے دن شرکاکو دو مختلف گروپوں کی صورت میں اس پروگرام کے بعض عملی مراکز اور سرگرمیوں کے مشاہدہ کے لیے چٹا گانگ اور سلہٹ لے جایا گیا، جبکہ تیسرے دن کے اختتامی سیشن میں شرکا کو خاص طور پر اس پہلو سے اپنے تاثرات کے اظہار کا موقع دیا گیا کہ اس پروگرام سے انھوں نے کیا سیکھا ہے اور وہ اپنے اپنے ملکوں کے مخصوص حالات میں عملی طور پر اس سے کیا رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔
پہلے دن کے تعارفی سیشن میں یو ایس اے آئی ڈی کے مسٹر رسل پے پے، ایشیا فاؤنڈیشن بنگلہ دیش کے مسٹر نذر الاسلام اور اسلامک فاؤنڈیشن کے مسٹر مسعود اور مسٹر شہاب الدین کے علاوہ بنگلہ دیش کی قومی مسجد کے خطیب مولانا صلاح الدین نے گفتگو کی۔ ان سب حضرات کی گفتگو سے ہمیں جو معلومات حاصل ہوئیں، ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
بنگلہ دیش میں رجسٹرڈ مساجد کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق ڈھائی سے تین لاکھ ہے اور ہر مسجد میں اوسطاً تین افراد امام، خطیب اورموذن وخادم کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی آبادی پندرہ کروڑ کے لگ بھگ ہے اور عام لوگوں میں مذہبی رجحان غالب ہے جس کا ایک مظہر یہ ہے کہ کم وبیش آٹھ کروڑ لوگ ہر جمعے کے دن جمعہ کی نماز مسجد میں باجماعت ادا کرتے اور جمعے کا خطبہ سنتے ہیں۔ مساجد کے ائمہ وخطبا اور مذہبی راہ نماؤں کو عمومی طور پر احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور لوگ ان کی بات پر توجہ دیتے اور ان کی گفتگو کا اثر قبول کرتے ہیں۔ اس تناظر میں بنگلہ دیش میں حکومتی سطح پر یہ احساس پیدا ہوا کہ مذہبی راہ نماؤں کے معاشرتی مقام ورسوخ کو بنگلہ دیش کے مختلف اور متنوع سماجی مسائل کے حل اور معاشرے کی ترقی جیسے مثبت مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے، چنانچہ ۱۹۸۹ء میں وزارت مذہبی امور کے تحت اسلامک فاؤنڈیشن کے نام سے ایک خود مختار ادارہ قائم کیا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ بنگلہ دیشی ائمہ مساجد اور خطبا کو درپیش سماجی مسائل کے حوالے سے ادراک وشعور سے بہرہ ور کیا جائے، انھیں ان مسائل پر عوام کی راہ نمائی کی تربیت دی جائے اور انھیں آمادہ کیا جائے کہ وہ معاشرے کی بہبود اور ترقی کے لیے بھرپور، موثر اور قائدانہ کردار ادا کریں ۔ اسلامک فاؤنڈیشن نے اس مقصد کے لیے امام ٹریننگ اکیڈمی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس میں ائمہ وخطبا کو ایک ۴۵ روزہ تربیتی کورس کے مرحلے سے گزارا جاتا ہے۔ اس تربیتی پروگرام کے نصاب میں چھ بنیادی موضوعات یعنی اسلامیات، توہمات کے خاتمے، ایڈز سے حفاظت کی تدابیر، پولٹری اور فشریز سے متعلق شرکا کو راہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ ۱۹۸۹ء سے اب تک بیس سال کے عرصے میں پینسٹھ ہزار ائمہ کو اس تربیتی مرحلے سے گزارا جا چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ۲۰۰۴ء سے US-AID اور ایشیا ٰفاؤنڈیشن کے تعاون سے امام ٹریننگ اکیڈمی سے تربیت حاصل کرنے والے ائمہ کے لیے مزید تین روزہ تربیتی ورک شاپس کے انعقاد کا اہتمام کیا جاتا ہے جسے Leaders of Influence (LOI) Program کا عنوان دیا گیا ہے اور اس پروگرام کے تحت اب تک دس ہزار ائمہ کو اضافی تربیت دی جا چکی ہے۔
ہمیں بتایا گیا کہ امام ٹریننگ اکیڈمی سے تربیت پانے والے ائمہ اور خطبا کی سرگرمیوں اور خدمات میں حسب ذیل تبدیلیاں مشاہدے میں آئی ہیں:
  • o تربیت یافتہ ائمہ اپنے خطبات جمعہ میں بڑے اہتمام سے انسانی حقوق، سماجی انصاف، خواتین کے حقوق، کرپشن، ایڈز، تعلیم، خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ، خاندانی منصوبہ بندی اور اس طرح کے دوسرے سماجی موضوعات پر گفتگو کرتے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عوام کی راہ نمائی کرتے ہیں۔
  • o بعض علاقوں میں امام حضرات نے خود بھی مچھلی فارم اور مرغی فارم قائم کیے ہیں جس سے وہ انفرادی طور پر اپنے ذرائع آمدن میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک کی خام قومی پیداوار (GDP) میں بھی اضافے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
  • o بعض علاقوں میں امام حضرات نے ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کے لیے درختوں کی کاشت کاری کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور ایک خاص علاقے میں امام حضرات کی کوشش سے پینتیس ہزار درخت لگائے گئے ہیں۔
  • o دیہی علاقوں میں ائمہ وخطبا ابتدائی تعلیم کے فروغ کے لیے مساجد کو بطور تعلیمی مراکز استعمال کر رہے ہیں۔
پروگرام کا دوسرا دن فیلڈ اسٹڈی کے لیے مخصوص تھا جس کے لیے پانچ ملکی وفود کو دو ٹیموں میں تقسیم کر کے افغانستان اور تھائی لینڈ کے وفود کو چٹا گانگ جبکہ پاکستان، بھارت اور نیپال کے وفودکو سلہٹ لے جایا گیا۔ سلہٹ میں ہم نے یو ایس اے آئی ڈی کے زیر اہتمام کام کرنے والے ایک مرکز صحت The Smiling Sun health Centre کا دورہ کیا جہاں متوسط اور زیریں طبقات کی خواتین کو علاج معالجہ کی ارزاں سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں اور جو مریض استطاعت نہ رکھتے ہوں، ان کا مکمل طور پر مفت علاج بھی کیا جاتا ہے ۔ ہمیں اس سنٹر کے مختلف شعبے دکھائے گئے اور وفد کے شرکا نے ان شعبوں میں کام کرنے والے حضرات سے مختلف سوالات کر کے عملی تفصیلات معلوم کیں۔ 
اسی دن ہوٹل Fortune Garden سلہٹ میں ایشیا فاؤنڈیشن کے LOI پروگرام کے تحت ائمہ کے لیے ایک ورک شاپ جاری تھی جس میں ہمیں مہمان کے طور پر لے جایا گیا۔ یہاں ہم نے مختلف سماجی مسائل مثلاً کرپشن، خواتین کی اسمگلنگ، ناخواندگی، کثرت آبادی، ایڈز اور خواتین کے مسائل جیسے موضوعات پر آٹھ مختلف presentations سنیں جو شرکا نے مختلف گروپوں کی صورت میں باہمی مشاورت سے تیار کی تھیں اور ان میں ہر مسئلے کی مشکلات اور چیلنجز کی نشان دہی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حل کے لیے عملی اقدامات تجویز کیے گئے تھے۔ خواتین کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے ایک امام صاحب نے جن مشکلات کا ذکر کیا، ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ جیسے ہی کوئی امام یا خطیب منبر پر خواتین کے مسائل یا حقوق کی بات کرتا ہے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ امام صاحب ایک سیاسی تقریر کر رہے ہیں۔ میرے ذہن میں فوراً یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ مشکل لوگوں کی نہیں، بلکہ خود ائمہ اور خطبا کی پیدا کردہ ہے، کیونکہ لوگوں میں اس تاثر کا پیدا ہونا کہ خواتین کے مسائل یا حقوق کی بات مذہب سے نہیں بلکہ سیاست کے دائرے سے تعلق رکھتی ہے، خود مذہبی راہ نماؤں کی اس روش کا نتیجہ ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ اپنے خطبات وتقاریر میں اس موضوع کو کبھی نہیں چھیڑتے، بلکہ اس موضوع کو مکمل طور پر اس طرح نام نہاد لبرل طبقات کے سپرد کر دیا گیا ہے کہ خواتین کے حقوق یا مسائل کے حوالے سے اٹھنے والی کوئی بھی بحث عام طور پر قوم کو مذہبی اور غیر مذہبی کیمپوں میں تقسیم کر دیتی ہے جس میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کا علم لبرل طبقات کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور مذہبی طبقات ان کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے امام صاحب نے کثرت آبادی کے حوالے سے اپنی گفتگو میں یہ نعرہ دہرایا کہ ’’بچہ، ایک ہی اچھا‘‘۔ اس پر ہمارے وفد کی رکن محترمہ مریم وقار نے حیرت کا اظہار کیا اورکہا کہ ایک مولوی صاحب کی زبان سے انھوں نے یہ بات پہلی مرتبہ سنی ہے، کیونکہ عام طور پر مذہبی لوگ خاندانی منصوبہ بندی کو مطلقاً مذہبی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہیں۔ 
اسی نشست میں ایڈز یا نشے کے مریضوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے معاشرتی سلوک کا نکتہ زیر بحث آیا تو میں نے گزارش کی کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ نفرت گناہ سے کرنی چاہیے نہ کہ گناہ گار سے، اور خاص طور پر نشے یا اس کی طرح کی کسی دوسری علت میں گرفتار ہو جانے والے افراد ایک خطا کار اور کمزور انسان کی حیثیت سے اس بات کے مستحق ہیں کہ انھیں ہمدردی اور محبت کے ساتھ اس سے نجات دلانے کی کوشش کی جائے۔ اس پر میں نے یہ واقعہ بھی بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک صحابی شراب نوشی کی عادت کی وجہ سے بار بار پکڑ کر آپ کی خدمت میں لائے جاتے اور آپ کے حکم پر انھیں سزا دی جاتی۔ اسی طرح کے ایک موقع پر کسی شخص نے ان پر لعنت کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند کیا اور فرمایا کہ لا تعینوا الشیطان علی اخیہ،یعنی اپنے بھائی کے خلاف شیطان کے مددگار نہ بنو۔ میں نے عرض کیا کہ مذہبی لوگ اسلام کی اس روحانی اور اخلاقی تعلیم کو معاشرے میں عام کرنے کے سلسلے میں زیادہ موثر کردار ادا کر سکتے ہیں اور انھیں یہ کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔
۱۲؍ جنوری کے دورۂ سلہٹ میں ہماری مصروفیات کا آخری حصہ سلہٹ میں امام ٹریننگ اکیڈمی کے سنٹر کا مختصر دورہ تھا۔ یہاں زیر تربیت ائمہ کی ایک کلاس کے سامنے اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جناب فرید الدین نے مہمانوں کو اس تربیتی پروگرام کے مختلف پہلووں کے حوالے سے بریفنگ دی جس کے آخر میں مہمانوں میں سے ایک نمائندے سے اپنے تاثرات کے اظہار کی فرمائش کی گئی۔ یہ خدمت جناب ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی نے انجام دی اور اپنی مختصر لیکن موثر گفتگو میں حصول علم کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر حاضرین پر واضح کیا۔ ڈاکٹر فاروقی نے کہا کہ اسلام علم کے حصول کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اور اس ضمن میں ذرائع اور ماخذ کے بارے میں متعصبانہ رویے کی آبیاری کے بجائے یہ تلقین کرتا ہے کہ کوئی مفید بات جہاں سے بھی ملتی ہو، اسے لے لینا چاہیے۔ نیز یہ کہ اسلام میں دینی اور دنیاوی علم کی کوئی تفریق نہیں، کیونکہ علم اللہ کی صفت ہے اور اللہ کا علم ہر طرح کی باتوں کو محیط ہے، اس لیے مذہبی وغیر مذہبی اور دینی ودنیاوی ہر طرح کا علم اسلام کی نظر میں مطلوب ہے۔ ڈاکٹر فاروقی کی گفتگو پر حاضرین نے بہت پرجوش انداز میں اپنے مثبت تاثر کا اظہار کیا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ڈاکٹر فاروقی نے اپنی گفتگو میں انھی کے جذبات واحساسات کی ترجمانی کی ہے جس پر وہ بے حد خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ وقت چونکہ بہت مختصرتھا، اس لیے تقریب کے اختتام پر منتظمین نے فوراً واپسی کا حکم نامہ جاری کر دیا اور زیر تربیت ائمہ سے گفتگو اور تبادلہ خیال نہ ہو سکنے کی تشنگی نہ صرف ہمیں بلکہ ائمہ کرام کو بھی محسوس ہوئی۔ میں ہال سے نکلنے والا آخری فرد تھا، چنانچہ ائمہ میرے قریب جمع ہونا شروع ہو گئے اور مصافحہ اور خیر سگالی کے جذبات کا اظہار ہونے لگا۔ ایک بزرگ امام صاحب نے فرط محبت سے مجھے سینے سے لگا لیا۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ باقی سب مہمان جا چکے ہیں، میں جلدی سے اجازت لے کر نکلنے لگا کہ دور سے کچھ امام حضرات ’’پاکستانی بھائی‘‘ پکارتے ہوئے بھاگ کر آئے اور آکر مصافحہ کیا۔ سب حضرات کی محبت دیدنی اور اپنے پاکستانی بھائیوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے اور تبادلہ خیال کا اشتیاق دیدنی تھا۔ یہ دیکھتے ہوئے منتظمین کو مداخلت کرنا پڑی اور انھوں نے آکر ائمہ کرام کو سختی سے روک دیا اور مجھ سے کہا کہ آپ چلیے، کیونکہ گاڑیاں ڈھاکہ واپسی کے لیے تیار ہیں۔
پروگرام کے تیسرے روز آخری سیشن میں تمام شرکا سے فرداً فرداً اپنے تاثرات کے اظہار کی فرمائش کی گئی۔ میں نے عرض کیا کہ ان تین دنوں میں بنگلہ دیش کی حکومت، مذہبی طبقات اور سماجی مسائل سے دلچسپی رکھنے والی این جی اوز کے مابین تعاون واشتراک کی جو صورت حال ہمارے سامنے رکھی گئی ہے، وہ پاکستان کے معروضی تناظر میں بھی بے حد سبق آموز اور قابل استفادہ ہے، کیونکہ تیسری دنیا کے ممالک کے سیاسی اور سماجی مسائل کم وبیش ایک نوعیت کے ہیں اور ایک ملک کی معاشرتی صورت حال کے حوالے سے کیے جانے والے تجزیے اور اس ضمن میں کیے جانے والے تجربات دوسرے ممالک کے لیے بھی اتنے ہی بامعنی اور مفید (relevant) ہوتے ہیں۔ میں نے اس ضمن میں پاکستان کے حوالے سے خاص طور پر تین نکات کی طرف توجہ دلائی:
ایک یہ کہ بنگلہ دیش میں مساجد کی عمارتوں اور ائمہ مساجد کی کھیپ کو ابتدائی سطح کی تعلیم کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کا جو منصوبہ اس وقت روبعمل ہے، پاکستان میں اسی نوعیت کا ایک منصوبہ کافی عرصہ پہلے غالباً جنرل ضیاء الحق کے دور میں ’’مسجد مکتب اسکیم‘‘ کے نام سے شروع کیا گیا تھا جسے کاغذی سطح پر باقاعدہ منظوری حاصل ہونے کے باوجود بغیر کوئی ظاہری سبب بتائے ختم کر دیا گیا، البتہ باخبر ذرائع کے مطابق اس فیصلے کے پیچھے مذہب بیزار سیکولر بیورو کریسی کے یہ تحفظات کار فرما تھے کہ اگر نئی نسل کو سرکاری وسائل سے مساجد کے ائمہ کے ہاتھوں تعلیم اورتربیت کے مواقع فراہم کیے گئے تو یہ انتہا پسندی کے عمل (Radicalization) کو فروغ دینے کے مترادف ہوگا۔ میں نے عرض کیا کہ بنگلہ دیشی حکومت کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے سماجی مسائل اور مختلف سماجی طبقات کی صلاحیتوں اور ان سے استفادہ کے امکانات کے معاملے میں زیادہ forward-looking اور بصیرت کی حامل ہے اور پاکستان کے مقتدر طبقات کو اپنی محدود سوچ سے نجات حاصل کرنے اور ملک کی تعمیر وترقی کے لیے تمام طبقات کی صلاحیتوں اور کردار سے استفادہ کا حوصلہ اور بصیرت پیدا کرنے میں بنگلہ دیش کے اس تجربے سے بھرپور راہ نمائی لینی چاہیے۔
دوسرے یہ کہ بنگلہ دیش میں ائمہ مساجد کو سماجی موضوعات پر عوام کی راہ نمائی اور ان میں سماجی مسائل کے حل میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے جو منظم کوشش کی گئی ہے، اس سے بھی روشنی لی جانی چاہیے اور ائمہ وخطبا کے ہاں عمومی طور پر اپنے آپ کو مسجد کی چار دیواری تک محدود اور معاشرتی مسائل سے لاتعلق کر لینے کا جو مزاج پایا جاتا ہے، اس کی اصلاح کے لیے بنگلہ دیش کے ائمہ کے کردار اور سرگرمیوں کو ایک قابل تقلید نمونے کے طور پر سامنے رکھنا چاہیے۔
تیسرے یہ کہ مذہبی طبقات اور مختلف سماجی مسائل پر ارتکاز کرنے والی تنظیموں اور اداروں کے مابین باہمی رابطے کے فقدان اور اس سے جنم لینے والی بد اعتمادیوں اور غلط فہمیوں کی فضا ہمارے ہاں بھی پوری طرح موجود ہے اور دونوں طرح کے طبقات ایک دوسرے کے بارے میں شدید تحفظات کا شکار ہیں۔ اس صورت حال کے ازالے کے لیے اسی طرح مختلف فورمز وجود میں آنے چاہییں جو فریقین کے مابین رابطے کا کام دیں، مختلف موضوعات پر مکالمے کا اہتمام کریں اور افہام وتفہیم پر مبنی ایک مثبت فضا میں سوسائٹی کے ان الگ الگ فکری دھاروں کو اس بات کا موقع بہم پہنچائیں کہ وہ ایک دوسرے کو براہ راست سمجھیں، تحفظات وخدشات پر باہم گفتگو کریں، ایک دوسرے کے زاویہ نظر اور تجربات سے استفادہ کریں، خیر خواہی اور ہمدردی پر مبنی تنقید کے ذریعے ایک دوسرے کی اصلاح کریں اور معاشرتی بہبود اور ترقی کے لیے باہمی تعاون کے امکانات اور دائروں کو دریافت کریں۔
اختتامی سیشن میں ہی ہر ملک کے نمائندہ وفود سے کہا گیا کہ وہ باہمی مشاورت کے بعد متعین نکات پرمبنی ایسا لائحہ عمل تیار کریں جو وہ بنگلہ دیش کے تجربے کی روشنی میں اپنے اپنے معاشرے کے معروضی حالات کے تناظر میں تجویز کر سکتے ہیں۔ پاکستانی وفد کے شرکا نے باہمی مشاورت سے حسب ذیل لائحہ عمل مرتب کیا جسے وفدکی نمائندگی کرتے ہوئے محترمہ مریم وقار نے شرکا کے سامنے پیش کیا:
  • پاکستان میں ناخواندگی کو ختم کرنے اور ابتدائی سطح کی تعلیم کے فروغ کے لیے مسجد مکتب اسکیم کا احیا کیا جائے۔
  • کسی مستند اور با اعتماد علمی ادارے (مثلاً دعوہ اکیڈمی) کے زیر اہتمام ائمہ وخطبا کی راہنمائی کے لیے مختلف سماجی ومعاشرتی موضوعات پر ماڈل خطبے تیار کروائے جائیں تاکہ موضوعات کے انتخاب اور مستند علمی مواد کی فراہمی میں خطبا کو سہولت ہو اور وہ معاشرتی اصلاح کے سلسلے میں دین کا پیغام موثر طریقے سے لوگوں تک پہنچا سکیں۔
  • ایسے فورمز قائم کیے جائیں جہاں معاشرے کے مختلف طبقات، خاص طور پر مذہبی وغیر مذہبی طبقات بلکہ خود مختلف مذہبی مکاتب فکر کو باہمی مکالمہ کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
  • دینی مدارس سے وابستہ لوگوں کو دوسرے سماجی اداروں اور تنظیموں کا دورہ کروایا جائے اور ان کی سرگرمیوں اور خدمات سے واقفیت حاصل کرنے کا موقع دیا جائے۔ اسی طرح مختلف این جی اوز کو مدارس اور مذہبی اداروں کے دورے کروائے جائیں اور وہاں کے ماحول اور نظام کا براہ راست مشاہدہ کرنے کا موقع مہیا کیا جائے۔
  • مختلف سماجی مسائل پر میڈیا میں جو تشہیری مہمیں چلائی جاتی ہیں، ان میں عام طور پر مذہبی راہ نما دیکھنے میں نہیں آتے، اس لیے میڈیا کو توجہ دلائی جائے کہ وہ رائے عامہ کوباشعور بنانے اور انھیں مطلوبہ اقدامات پر آمادہ کرنے کے لیے مذہبی راہ نماؤں کے اثر ورسوخ کو بھی استعمال کریں اور ان کے پیغامات کو شامل کر کے اپنی مہم کو زیادہ موثر بنائیں۔
  • ائمہ وخطبا کی تربیت اور ان میں سماجی سطح پر موثر کردار ادا کرنے کی استعداد پیدا کرنے کے سلسلے میں دعوہ اکیڈمی کا تربیتی پروگرام بہت مفید ہے ، لیکن وسائل کے لحاظ سے اس کا دائرہ بہت محدود ہے۔ یہ سلسلہ زیادہ بڑے اور وسیع پیمانے پر شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ائمہ وخطبا کو معاشرہ کی اصلاح اور ترقی کے عمل کا حصہ بنایا جا سکے۔
بہت سے دوسرے شرکا نے اپنی گفتگو میں جو نکات اٹھائے، ان میں سے اہم حسب ذیل ہیں:
بعض شرکا نے اس طرف توجہ دلائی کہ ائمہ مساجد اورخطبا کے وژن اور عملی کردار کے حوالے سے LOI پروگرام کے حقیقی عملی اثرات اور نتائج پر خاطر خواہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں اور مہیا کردہ معلومات سے یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ تربیتی پروگراموں میں شریک ہونے والے ائمہ اور خطبا جب واپس اپنے ماحول میں جاتے ہیں تو کس حد تک مطلوبہ سماجی مسائل ومشکلات میں دلچسپی لیتے ہیں اور یہ کہ اس پروگرام کی قدر پیمائی (evaluation ) کے لیے کوئی قابل اعتماد نظام موجود ہے یا نہیں۔ مسٹر رسل پے پے نے اس کے جواب میں بتایا کہ LOIپروگرام میں شرکت کرنے والے ائمہ اورخطبا کو کورس کے اختتام پر ایک گائیڈ بک مہیا کی جاتی ہے جس میں اس بات کی تفصیلی راہ نمائی موجود ہے کہ وہ مختلف سماجی مسائل کے حوالے سے عملاً کام کرنا چاہیں تو اس کا طریقہ کیا ہے اور اس ضمن میں وہ کون کون سے اداروں سے رابطہ کر کے مزید راہ نمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ مزید برآں ہر چار ماہ کے بعد شرکا کو ایک سوال نامہ بھیجا جاتا ہے اور اس کی مدد سے یہ جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ سماجی سطح پر کس حد تک مطلوبہ مقاصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً مختلف علاقوں کا دورہ کر کے عملی صورت حال معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مسٹر رسل نے کہا کہ اس سے زیادہ فرداً فرداً ہر شخص کی کارکردگی جانچنے کا کوئی نظام ان کے پاس موجود نہیں ہے۔
ایک سوال یہ اٹھایا گیا کہ جن سماجی مقاصد کے لیے پروگرام ترتیب دیا گیا ہے، وہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ترقی پسندانہ (Progressive) ہیں جبکہ مذہبی لوگ قدامت پسند ہوتے ہیں تو انھیں ان مقاصد کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرنے پر کیونکر آمادہ کیا جا سکتا ہے؟ اس پر مسٹر رسل پے پے نے کہا کہ تربیتی پروگرام کے شرکا کو مختلف مراکز میں لے جا کر عملی صورت حال کا مشاہدہ کرنے اور اس طرح سماجی مسائل سے براہ راست واقفیت حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے جس سے ان کا exposure وسیع ہوتا ہے اور ان کے اندر کردار ادا کرنے کا داعیہ بیدار ہوتا ہے۔ انھوں نے مثال کے طورپر یہ واقعہ سنایا کہ ایک موقع پر پروگرام کے شرکا کو ایک HIV-AIDS سنٹر لے جایا گیا جہاں ایڈز سے متعلق لوگوں کوراہنمائی فراہم کی جا رہی تھی۔ وہاں ایک نوجوان قحبہ (Prostitute) بھی موجود تھی۔ شرکا سے جب اس کا تعارف کرایا گیا تو ایک مولوی صاحب نے بہت سخت لہجے میں اسے وعظ کرنا شروع کر دیا کہ تم جو کام کرتی ہو، وہ حرام اور گناہ ہے، اس لیے تمہیں چاہیے کہ اس پیشے کو فوراً ترک کر دو۔ اس کے جواب میں اس خاتون نے دو باتیں کہیں۔ ایک یہ کہ اس پیشے سے وابستہ خواتین یہ پیشہ شوق سے نہیں، بلکہ غربت اور مجبوری کی وجہ سے اختیار کرتی ہیں، اس لیے اگر آپ لوگ ان کفالت کا ذمہ اٹھا لیں تو وہ یہ پیشہ چھوڑ دینے کے لیے تیار ہیں۔ دوسری یہ کہ آپ جیسی معزز اور شریفانہ شکل وصورت رکھنے والے حضرات دن کے وقت ہمیں گناہ اور ثواب کا وعظ کرتے ہیں اور رات کو ہماری خدمات حاصل کرنے کے لیے ہمارے پاس پہنچے ہوتے ہیں جو ایک منافقانہ روش ہے۔ خاتون کی اس بات پر مولوی صاحب ذرا ٹھنڈے ہوئے اور انھیں اندازہ ہوا کہ اس نوعیت کے سماجی مسائل اتنے سادہ نہیں ہوتے کہ انھیں محض وعظ کے ذریعے حل کیا جا سکے۔ مسٹر رسل نے یہ واقعہ بطور مثال بیان کر کے کہا کہ ان کا ادارہ ائمہ اور خطبا کو اسی طرح مشاہدہ، تجربے اور میل جول کے ذریعے سماجی مسائل اور ان کی پیچیدگیوں سے عملی طور پر روشناس کرانے کی کوشش کرتا ہے اور اس مقصد میں انھیں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ (اس پر مجھے چند سال قبل عالمی ادارۂ صحت کی وہ رپورٹ یاد آ گئی جس میں ایشیائی ممالک میں جسم فروشی کے کاروبار اور اس کے ساتھ وابستہ خطرات اور بیماریوں کی نشان دہی کے باوجود یہ کہا گیا تھا کہ بعض ممالک میں اس کاروبار پر علی الفور قانونی پابندی عائد کرنے کی سفارش نہیں کی جا سکتی، اس لیے کہ غربت اور افلاس کا یہ عالم ہے کہ بے شمار خواتین محض جسم وجان کا تعلق قائم رکھنے کے لیے بھی اپنا جسم بیچنے پر مجبور ہیں۔)
مسٹر نذر الاسلام نے اس پرمزید یہ اضافہ کیا کہ ایک امام صاحب جو پہلے اپنے خطبات جمعہ میں ایڈز کا شکار ہونے والے مریضوں کے خلاف سخت تقریریں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ لوگ حرام کاری اور گناہ میں ملوث ہیں، اس لیے انھیں سماج میں الگ تھلگ کر دینا چاہیے، LOIپروگرام کے ذریعے اس مسئلے سے قریبی واقفیت حاصل کرنے کے بعد انھوں نے ایک ماڈل خطبہ تیار کیا ہے جس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں کی راہ نمائی کی گئی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کریں۔ (اس موقع پر مجھے وہ حدیث یاد آ گئی جس میں بیان ہوا ہے کہ جب ایک شخص نے رات کے اندھیرے میں نادانستہ صدقے کا مال ایک چور اور ایک بدکار عورت کو دے دیا اور پھر پتہ چلنے پر اپنے صدقے کے رائیگاں چلے جانے پر افسوس کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے خواب میں یہ بتایا گیا کہ اس کا صدقہ ضائع نہیں ہوا، کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس رقم سے اپنی ضرورت پوری ہو جانے کی وجہ سے چور، چوری سے اور بدکار عورت بدکاری سے باز آ گئی ہو۔) 
اختتامی سیشن میں ایشیا فاؤنڈیشن بنگلہ دیش کے نمائندہ مسٹر حسان نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے جب وہ ایشیا فاؤنڈیشن کے ساتھ وابستہ ہوئے اور انھیں LOI پروگرام کا علم ہوا تو وہ اس کی کامیابی کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار تھے اور ان کا خیال تھا کہ امام صاحبان خاصے قدامت پسند ہوتے ہیں اور صرف مذہبی موضوعات پر ہی بات کرنا پسند کرتے ہیں، اس لیے انھیں سماجی مسائل کے حوالے سے کوئی مثبت کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنے میں زیادہ کامیابی نہیں ہوگی، لیکن عملی تجربے کے بعد اب ان کے شکوک وشبہات باقی نہیں رہے۔ مسٹر حسان نے بتایا کہ انھوں نے ایک پروگرام کے شرکا کے ساتھ تبادلہ خیال کیا تو وہ ان کے خیالات سن کر بے حد متاثر ہوئے، کیونکہ امام صاحبان ان مسائل میں گہری دلچسپی لے رہے تھے اور بہت اشتیاق اور گہرے مخلصانہ جذبے کے ساتھ معاشرتی اصلاح اور سماجی تبدیلی کے لیے متحرک کردار ادا کرنا چاہتے تھے۔
مسٹر رسل پے پے نے کہا کہ LOI پروگرام کے سلسلے میں انھیں عملی طور پر جس مشکل کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ مذہبی لوگوں اور لبرل طبقات کے مابین بداعتمادی کی فضا ہے، کیونکہ مذہبی لوگوں کے ذہنوں میں این جی اوز کا ایک عجیب وغریب تصور جاگزیں ہے اور لبرل طبقے مذہبی لوگوں کا نام سنتے ہی بدک جاتے ہیں۔
بنگلہ دیش کا یہ تین روزہ دورہ وہاں کے مذہبی و لبرل طبقات کے باہمی تعاون واشتراک پر مبنی اس سماجی تجربے کے بارے میں جاننے کے حوالے سے بے حد مفید رہا اور مجھے ذاتی طور پر اس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، البتہ ایک تشنگی محسوس ہوتی رہی کہ پورے پروگرام میں نہ تو منتظمین کی طرف سے اس کا اہتمام کیا گیا تھا کہ مہمانوں کو LOI پروگرام کے تحت تربیت حاصل کرنے والے ائمہ اور خطبا کے ساتھ براہ راست تبادلہ خیال کا موقع فراہم کیا جاے اور نہ شیڈول میں اس کی گنجائش نکل سکی کہ ازخود اس کا موقع پیدا کر لیا جائے۔ میری خواہش تھی کہ اس تجربے کے حوالے سے خود ائمہ اور خطبا کے خیالات و تاثرات نیز خدشات اور تحفظات براہ راست ان سے معلوم کیے جائیں تاکہ صورت حال کا معروضی تجزیہ کرنے میں مدد مل سکے، لیکن افسوس کہ اس کا کوئی مناسب موقع نہ مل سکا اور منتظمین کے مرتب کردہ بے لچک شیڈول میں رسمی علیک سلیک کے علاوہ ہم بنگلہ دیش کے ائمہ وخطبا سے کوئی تفصیلی تبادلہ خیال نہ کر سکے۔ میری تجویز ہوگی کہ اس نوعیت کے آئندہ پروگراموں میں یہ پہلو بطور خاص شیڈول کا حصہ بنایا جائے اور مقامی ائمہ وخطبا کے ساتھ مہمانوں کی ملاقات اور تبادلہ خیال کے لیے ایک مستقل سیشن وقف کیا جائے تاکہ انھیں ایک کھلے ماحول میں اس تجربے میں شریک تمام فریقوں کا زاویہ نگاہ سمجھنے اور اپنے تجزیے کی بنیاد مکمل اور براہ راست حاصل کردہ معلومات پر رکھنے میں مدد ملے۔
۱۱؍ جنوری کی شب کو یو ایس اے آئی ڈی کے نمائندہ مسٹر رسل پے پے نے مہمانوں کے اعزاز میں اپنی رہائش گاہ پر ایک پرتکلف عشائیے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ مسٹر رسل پے پے کیتھولک ہیں اور کینیڈا سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں کیتھولک مسیحیوں کی روایتی مذہبی اسپرٹ پوری طرح زندہ محسوس ہوئی اور انھوں نے متعدد مواقع اپنے کیتھولک ہونے کا ذکر بڑے تاثر کے ساتھ کیا۔ آخری ملاقات میں جب میں نے ان سے کہا کہ میں نے آپ کا ای میل ایڈریس لے لیا ہے اور ان شاء اللہ ہم رابطے میں رہیں گے تو انھوں نے ’’ان شاء اللہ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں بھی بالکل یہی روایت ہے، کیونکہ میری والدہ کیتھولک تھیں اور جب میں تعلیم کے زمانے میں ہاسٹل سے انھیں فون پر بتاتا کہ اس ویک اینڈ پر میں ان سے ملنے آؤں گا تو وہ کہتیں: God willing، یعنی ان شاء اللہ۔ 
مسٹر رسل کی رہائش گاہ پر ہماری ملاقات کینیڈا ہی کے ایک دراز قد، ذہین اور خوش مزاج نوجوان Daniel Jones سے ہوئی۔ جب میری پہلی نظر ڈینئل پر پڑی تو وہ نیپال سے آئے ہوئے ہمارے نوجوان دوست نرجن رائے سے محو گفتگو تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر ان کی گفتگو میں مخل ہوتے ہوئے دونوں سے مصافحہ کیا اور مذاق کے طور پر ڈینئل سے پوچھا کہ کیا آپ بھی نیپال سے ہیں؟ وہ حیرانی سے بولے کہ کیا میں شکل سے نیپالی لگتا ہوں؟ میں نے کہا کہ مجھے بھی اسی بات پر حیرت ہے کہ آپ شکل سے تو نیپالی نہیں لگتے۔ میرے اس مذاق پر وہ بہت ہنسے اور ہمارے درمیان فوراً بے تکلفی کی فضا قائم ہو گئی۔ ڈینیئل نے بتایا کہ وہ سوشل سائنسز میں ایم فل کی ڈگری کے امیدوار ہیں اور اپنے مقالے کی تکمیل ہی کے سلسلے میں بنگلہ دیش آئے ہوئے ہیں۔ میں نے ان سے مقالے کا عنوان پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ انھوں نے "Men's Sexual Health" (مردوں کی جنسی صحت) کے موضوع پر ریسرچ کی ہے اور ان کا مقالہ www.icddrb.org پر دستیاب ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تو بہت دلچسپ اور حساس موضوع ہے تو ڈینئل نے اس کی تائید کی اور کہا کہ یہاں بنگلہ دیش میں انھیں لوگوں سے اس موضوع پر بات کرنے اور ان سے معلومات حاصل کرنے میں خاصی دقت پیش آئی، کیونکہ مشرقی معاشروں میں جنسی مسائل اور موضوعات پر سنجیدہ گفتگو نہیں کی جاتی۔ ڈینئل نے کہا کہ یہاں بے شمار لوگ شادی سے پہلے جنسی تعلق قائم کرتے ہیں، موبائل فون پر جنسی تفریح کرتے ہیں اور مختلف جنسی مسائل اور بیماریوں کا شکار ہیں، لیکن اس پر گفتگو کرنے سے شرماتے ہیں۔ ڈینئل نے بتایا کہ انھوں نے نوجوانوں سے اس موضوع پر معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک دلچسپ طریقہ اختیار کیا۔ وہ یہ کہ وہ کالج یا یونی ورسٹی میں کسی جگہ جا کر بیٹھ جاتے اور بہت سے نوجوان یہ دیکھتے ہوئے کہ ایک انگریز یہاں بیٹھا ہوا ہے، تجسس سے ان کے پاس آکر بیٹھ جاتے اور ان سے مختلف سوال کرنا شروع کر دیتے کہ تم یہاں کیوں بیٹھے ہو اور کس مقصد کے لیے بنگلہ دیش آئے ہو؟ اس طرح آہستہ آہستہ وہ ان نوجوانوں سے بے تکلفی پیدا کر لیتے جو مطلوبہ معلومات کے حصول کے لیے خاصی مدد دیتی۔ 
ڈینئل نے کہا کہ ان کا مشاہدہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی نئی نسل مختلف عوامل کے تحت زیادہ کھلے ذہن سے سوچتی ہے اور بہت سے سوالات پر ازسرنو غور کرنے کے لیے تیار ہے۔ میں نے کہا کہ پاکستان میں بھی بلکہ کم وبیش ہر جگہ یہی صورت حال ہے۔ ڈینئل نے پوچھا کہ تم اس صورت حال کو کیسے دیکھتے ہو؟ میں نے کہا کہ یہ ایک اچھی اور مثبت تبدیلی ہے۔ ایک مولوی کے منہ سے یہ جواب سن کر ڈینئل خاصے حیران ہوئے اور پوچھا کہ کیا تم اپنی بات کی وضاحت کرو گے؟ میں نے کہا کہ میری رائے میں اس وقت ہمیں سیاسی، سماجی اور مذہبی سطح پر جو مسائل درپیش ہیں، ان کا ایک بڑا سبب بہت سے لگے بندھے خیالات (Stereotypes) ہیں جو ایک تیزی سے بدلتے ہوئے سماج میں اپنی معنویت کھو چکے ہیں، اس لیے اگر نئی نسل سوالات اٹھانے اور نئے سرے سے مسائل پر غور کرنے پر آمادہ ہے تو یہ یقیناًایک مثبت چیز ہے جسے اگر دانش مندی اور بصیرت کے ساتھ استعمال کیا جائے تو وہ درپیش مسائل کے حل میں کارآمد ثابت ہوگی۔
۱۴؍ جنوری کو ہم بنگلہ دیش سے واپسی کے لیے روانہ ہوئے۔ ہمارا سفر امارات کی ایئر لائن کے ذریعے سے تھا، چنانچہ ۱۴ اور ۱۵ جنوری کی درمیانی شب ہمیں دوبئی ایئر پورٹ پر گزارنا پڑی۔ دبئی ایئر پورٹ فی الواقع بہت بڑا ہے او ر سہولتوں اور انتظامات کے لحاظ سے اس کا شمار دنیا کے بہترین ایئرپورٹوں میں ہوتا ہے۔ ہم نے بارہ گھنٹے کو محیط اپنے قیام کا وقت زیادہ تر یہاں بنائی گئی وسیع وعریض مارکیٹ کی دوکانوں پر گھومتے پھرتے گزرا۔ دبئی ایک اسلامی ملک ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے دنیا کے ایک بڑے تجارتی مرکز کی حیثیت بھی حاصل ہے اور مشرق ومغرب کے عین وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے دبئی ایئر پورٹ دنیا بھر کے مختلف ملکوں، نسلوں اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے مسافروں کی اجتماع گاہ ہے۔ ایک طرف روایتی طور پر اسلام کے ساتھ وابستگی کے تقاضوں کو نباہنے اور دوسری طرف دنیا بھر کے سیاحوں اور کاروباری لوگوں کے لیے کشش پیدا کرنے کی خواہش کی بدولت یہاں کی حکومتی پالیسیوں میں ’دین‘ اور ’دنیا‘ کا ایک عجیب امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ اس ’امتزاج‘ کا نمونہ ایئر پورٹ پر بھی دیکھنے کوملتا ہے جہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ مسجدیں موجود ہیں اور ہر نماز کے لیے لاؤڈ اسپیکر پر باقاعدہ اذان دی جاتی ہے جو ایئر پورٹ کے ہر کونے میں سنائی دیتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ شراب کی بڑی بڑی دکانیں بھی پوری آب وتاب کے ساتھ سجی ہوئی ہیں جہاں دنیا بھر سے منگوائی جانے والی مختلف برانڈ کی مہنگی ترین اور نفیس ترین شرابیں سرعام میسر ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آ سکا کہ سوائے تجارتی مقاصد یا لبرل ازم کی نمائش کے، ایسی کون سی حقیقی مجبوری ہو سکتی ہے جس کے تحت ایک مسلمان ملک کے ایئر پورٹ پر ام الخبائث کی ایسی پر رونق دکانیں سجانے کی اجازت دی جائے۔ بنگلہ دیش کے ایئر پورٹ پر بھی یہی منظر دیکھنے میں آیا۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ملک کے ایئر پورٹ اس ’’کفر بواح‘‘ سے محفوظ ہیں۔ جناب ڈاکٹر یوسف فاروقی سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ عرب امارات کے حکمرانوں نے اس خطے کے جغرافیائی محل وقوع اور خدا کے دیے ہوئے وسائل کے تناظر میں دنیا بھر کے تاجروں کی توجہ حاصل کرنے اور عالمی سرمایے کو کھینچ کر یہاں لانے کے لیے تو بہت منظم منصوبہ بندی کی ہے، لیکن افسوس ہے کہ عالمی روابط اور مشرق ومغرب کی قوموں کے اختلاط کے اس ماحول کو اسلام کا پیغام دنیا تک پہنچانے کے لیے استعمال کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ میرے ذہن میں آیا کہ یہاں شراب کی دکانوں جتنا بڑا نہ سہی، لیکن کسی نمایاں جگہ پر اگر ایک ایسا ڈیسک قائم کیا جاتا جہاں دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن وحدیث اور کتب سیرت کے تراجم اور اسلامی تعلیمات کے تعارف پر مبنی لٹریچر مفت دستیاب ہوتا اور اس منصوبے کو حکومت امارات کی سرپرستی حاصل ہوتی تو شایدوہ خدا کے دیے ہوئے مال کے بارے میں ’فیم انفقہ‘ کے سوال کا بہتر جواب دینے کی پوزیشن میں ہوتی۔
دبئی ایئر پورٹ کی مختلف دکانوں پر کاروباری خندہ پیشانی چہرے پر سجائے مرد اور خواتین تو ہر جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں، لیکن مجھے یہاں ایک حقیقی خوش اخلاقی کا تجربہ بھی ہوا۔ ایک بک اسٹال پر کتابیں دیکھتے دیکھتے مجھے مشہور امریکی مستشرق جان ایل اسپوزیٹو کی کتاب ’’Who Speaks for Islam?‘‘ کا عربی ترجمہ بعنوان ’’من یتحدث باسم الاسلام؟‘‘ نظر پڑ گیا جو دار الشروق، مصر کے زیر اہتمام طبع ہوا ہے۔ کتاب پر قیمت ۴۸ درہم درج تھی، جبکہ میرے پاس کھلی رقم ۴۵ درہم کی تھی اور سردست کوئی بڑا نوٹ کھلا کرانے کا ارادہ نہیں تھا۔ میں کتاب کاؤنٹر پر کھڑی سیلز گرل کے پاس لے گیا، جس کا تعلق غالباً فلپائن یا کوریا سے تھا، اور اس سے پوچھا کہ کیا تم یہ کتاب مجھے ۴۵ درہم میں دے سکتی ہو؟ اس نے ذرا تردد کے بعد پوچھا کہ کیا تمھارے پاس صرف ۴۵ درہم ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے، اتنے ہی دے دو۔ میں نے جیب سے ۴۵ درہم نکال کر اسے دے دیے، لیکن جب اس نے مشین سے بل نکال کر میرے ہاتھ میں تھمایا تو وہ ۴۸ درہم کا تھا۔ مجھے اس پر سخت خلش محسوس ہوئی، کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ رعایت کر کے قیمت میں سے ۳ درہم کم کر دے گی، لیکن غالباً یہ اس کے اختیار میں نہیں تھا۔ میں پلٹ کر اس کے پاس گیا اور کہا کہ بل پر تو قیمت ۴۸ درہم ہی درج ہے۔ اس نے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تین درہم یقیناًتمھیں اپنے پاس سے ادا کرنا پڑیں گے جو مجھے ہرگز پسند نہیں۔ اس پر وہ ہنس پڑی اور تھوڑا سوچ کر کہنے لگی کہ ہمارے پاس حساب کتاب کی کمی بیشی کو پورا کرنے کے لیے کچھ زائد رقم موجود ہوتی ہے۔ تاہم میں مطمئن نہیں ہوا اور اس سے کہا کہ میرے پاس درہم تو نہیں، البتہ سو ڈالر کا نوٹ موجود ہے، تم اس میں سے یہ رقم منہا کر لو، لیکن اس نے انکار کر دیا اور اصرار سے کہنے لگی کہ تم کتاب لے جاؤ، یہ صرف تین درہم کی تو بات ہے۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور بڑے تردد کے ساتھ وہاں سے چلا آیا، لیکن تھوڑی دیر کے بعد سو درہم کا نوٹ لے کر دوبارہ اس کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ اس میں سے تین درہم کاٹ لو۔ اس نے پیسے لینے سے انکار کر دیا اور بڑی معصومیت سے باربار It's OK, sir (بس ٹھیک ہے جناب) کہتی رہی۔ میں پھر وہاں سے واپس چلا آیا، لیکن کافی دیر کے بعد جب کچھ مزید خریداری کرتے ہوئے میرے پاس چند سکے جمع ہو گئے تو میں تین درہم کا قرض ادا کرنے کے لیے خاصا فاصلہ طے کر کے دوبارہ اسی بک اسٹال پر پہنچ گیا، لیکن اب کاؤنٹر پر ایک دوسری خاتون کھڑی تھی۔ میں نے صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے تین درہم اس کو دیے اور وہاں سے واپس آ گیا۔ 
۱۵ جنوری کو رات کے پچھلے پہر امارات کی ایئر لائن دوبئی سے روانہ ہو کر صبح ۸ بجے کے قریب اسلام آباد ایئر پورٹ پر اتری اور اس طرح یہ مطالعاتی سفر اختتام کو پہنچا۔ میں ان تمام اداروں اور حضرات کا شکر گزار ہوں جن کے تعاون اور انتظام سے اس تین روزہ مطالعاتی دورے میں شرکت اور استفادہ کا موقع میسر ہوا۔ بنگلہ دیش میں قیام ایک پر سکون اور دوستانہ ماحول میں رہا جس کے لیے ایشیا فاؤنڈیشن بنگلہ دیش کے منتظمین کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے، جبکہ ایشیا فاؤنڈیشن، پاکستان کی سینئر پروگرام آفیسر محترمہ نادیہ طارق علی اور ان کے معاونین اس پہلو سے شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے بعض الجھنوں کے باوجود بڑے خلوص اور دلچسپی کے ساتھ کوشش کر کے اس سفر کو ممکن بنایا۔

اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب (۳)

محمد زاہد صدیق مغل

۳) اسلامی بینکنگ کے امکانات کا جائزہ 

بینکنگ کے درست تصور کو سمجھ لینے کے بعد اب ہم اس کی اسلامیت کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بحث کو ہم درج ذیل امور پر تقسیم کرتے ہیں۔ 

۳.۱: بینکنگ کی شرعی حیثیت 

جیسا کہ ابتدائے مضمون میں ذکر کیا گیا تھا کہ بینکنگ کی اسلام کاری ممکن ہونے کا دعوی دوشرائط کی تکمیل پر منحصر ہے۔ اول fractional reserve banking کاشرعاً جائز ہونا، دوئم نظام بینکاری کو سود کے بجائے بیع میں تبدیل کرلینا۔ مجوزین بینکاری نظام کا غلط تصور قائم کرنے کی وجہ سے صرف ’غیر سودی بینکاری ‘ کے امکانات کی ثانوی بحث میں الجھے رہتے ہیں ، گویا ان کے نزدیک بینکنگ کی واحد خرابی اس کا ’سود‘ استعمال کرنا ہے، اور جواز بینکاری کی ساری بحث کو وہ اسی ایک مسئلے پر مرتکز کردیتے ہیں۔ اس ناقص فہم کے باعث وہ fractional reserve banking کی پوری بحث پس پشت ڈال دیتے ہیں، جبکہ بینکنگ کی اسلام کاری ممکن ہونے کی بحث میں بینک کا سودی یاغیر سودی ہونا ثانوی مسئلہ ہے بنیادی بحث یہ ہے کہ بینک جو زر تخلیق کرتا ہے اسکی شرعی حیثیت کیا ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل درج بالا گفتگو سے اخذ ہونے والے تین اہم مقدمات اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے: 
۱۔ جب تک اکانومی میں ایک ایسا ایجنٹ موجود رہے گا جو بیک وقت لوگوں سے رقم (deposit) وصول بھی کرے اور ادھار (financing) بھی دے، اس وقت تک ’فرضی زر کی تخلیق‘ کا عمل جاری رہے گا اور یہ ایجنٹ (یا ادارہ) لازماً (جعلی) ’قرض کی رسید‘ (promise of payment) کو آلہ مبادلہ (means of payment) کی حیثیت دے کر اصل زر کے خاتمے کا باعث بنے گا۔ ظاہر ہے اگر بینک ڈپازٹس (جو promise of payments کی رسید ہوتے ہیں) کو بطور آلہ مبادلہ استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو تو اس صورت میں بینک کی قرض دینے کی صلاحیت ختم ہوجائے گی اور وہ محض ایک ایسے ادارے کی حیثیت اختیار کرلے گا جہاں لوگ اپنی امانت حفاظتی نقطہ نگاہ سے جمع کراتے ہوں ۔ مگر ایسے کسی ادارے کو کسی بھی تعریف (یہاں تک کہ مجوزین کی تعریف ) کی رو سے بینک نہیں کہا جاسکتا۔ چنانچہ ثمن حقیقی پر مبنی مالیاتی نظام میں ’بیت المال‘ وغیرہ تو ہوسکتے ہیں، مگر بینک نہیں ہوسکتے ۔
۲۔ لہٰذا بینکنگ ’صرف اور صرف ‘ ایک ایسے مالیاتی نظام ہی میں ممکن ہے جہاں ثمن حقیقی یا اصل زر کے بجائے قرض پر مبنی زر (promise of payment) بطور آلہ مبادلہ (means of payment) استعمال ہو اور ایک ایسا مالیاتی نظام جہاں ثمن حقیقی یا اصل زر بطور قانون رائج ہو وہاں بینک کا وجود کالعدم ہوجائے گا۔ یعنی وجود بینکنگ کے لیے لازم ہے کہ قرض لوگوں کا ذاتی معاملہ نہ رہے بلکہ اسے بطور آلہ مبادلہ استعمال کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ اکانومی میں ایک شخص قرض دینے اور ڈپازٹس وصول کرنے کا کام بھی کررہا ہو مگر قرض کی رسید بطور آلہ مبادلہ استعمال نہ ہورہی ہو ۔
۳۔ یہی وجہ ہے کہ بینکنگ کو شرکت و مضاربت کے اصولوں پر چلانا نا ممکن ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شرکت و مضاربت کے معاہدات میں تخلیق زر کی صورت قطعاً پیدا نہیں ہوتی، کیونکہ یہ ’نجی معاہدات ‘ ہوتے ہیں نہ کہ آلہ مبادلہ کے طور پر استعمال ہونے والے مالی دعوے۔ شرکت و مضاربت کے اصولوں پر بینکاری ممکن ہونے کا وہم صرف انہی حضرات کو ہوسکتا ہے جو بینک کو غلط طور پر زری ثالث سمجھ بیٹھے ہوں۔ (۲۱) 
ان بنیادی مقدمات کو ذہن نشین کرلینے کے بعد نظام بینکاری کی شرعی حیثیت سمجھ لینا بالکل آسان ہوجاتا ہے۔ اس گفتگو کے دوتناظر ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ بینک ڈپازٹس کی شکل میں جو زر تخلیق کرتا ہے، وہ ’جعلی قرض کی رسید ‘ ہوتا ہے۔ دوئم یہ زر کسی حقیقی اثاثے کی بنیاد پر قائم شدہ قرض ہوتا ہے۔ (یہ دوسری صورت محض بحث کے لیے فرض کی گئی ہے، کیونکہ fractional reserve banking میں یہ بہر حال امر محال ہے)۔ 

بینک زر بطور حقیقی قرض کی رسید

قرض کی رسید کو بطور آلہ مبادلہ استعمال کرنے کا عدم جواز علماء کرام کیلئے کوئی نئی بحث نہیں اور اسکے دلائل ذکر کرنا تحصیل حاصل کے زمرے میں شمار ہوگا لہذا خوف طوالت کی بنا پر اس سے سہو نظر کرتے ہیں، اس ضمن میں موطا امام مالک ؒ میں یحیی سے روایت شدہ درج ذیل واقعہ راہنمائی کیلئے کافی ہے: 
  • مروان بن حکم کے دور میں جب مرکز سے رقم (درہم و دینار) پہنچنے میں تاخیر ہوئی تو صوبے کے گورنر نے لوگوں کو بازار کی اشیاء خریدنے کیلئے رسیدیں جاری کر دیں جنہیں لوگوں نے خرید نا اور بیچنا شروع کردیا۔ حضرت زید بن ثابتؓ نے مروان سے کہا کہ کیا تم سود کو حلال کررہے ہو؟ مروان نے کہا کہ میں اس چیز سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں؟ آپؓ نے فرمایا کہ پھر یہ رسیدیں کیا ہیں جنہیں لوگ خرید اور بیچ رہے ہیں؟ اسکے بعد مروان نے وہ رسیدیں لوگوں سے واپس لے لیں۔ اس روایت میں اہم بات یہ ہے کہ حضرت زید بن ثابتؓ نے ان رسیدوں (promise of payment) کے استعمال کو سود کہا جنہیں لوگ اشیا کی خرید و فروخت کیلئے استعمال کررہے تھے۔ معلوم ہوا کہ قرض کی رسید (دین) کو بطور آلہ مبادلہ استعمال کرنا شرعاً ناجائز ہے، یعنی قرض (دین) جس مال (عین) کی رسید ہو مبادلے سے قبل اس مال پر قبضہ کئے بغیر رسیدوں ہی کو بطور آلہ مبادلہ استعمال کرنا درست نہیں۔ اسی اصول کو یوں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ قرض کی خرید و فروخت ناجائز ہے۔ شرع قرض کو ایک نجی معاہدے کی حیثیت دیتی ہے اور معاہدے کو نجی حیثیت سے نکال کر ’بطور آلہ مبادلہ ‘ استعمال کرنا درست نہیں اور بینکاری (بشمول اسلامی بینکاری) درحقیقت اسی عمل کی آفاقیت کا دوسرا نام ہے۔ 

بینک زر بطور جعلی قرض کی رسید

اس صورت پر درج بالا کے علاوہ دو مزید اشکالات پیدا ہوتے ہیں: 

۱۔ کیا شرعاً ایسا وعدہ کرنا جائز ہے جسے پورا کرنا عملاً ناممکن ہو اور وعدہ کرنے والا اس حقیقت سے واقف بھی ہو؟ اگر یہ جائز ہے تو کیا صرافوں کا ایسا کرنا بھی جائز تھا؟ اس سلسلے میں مجوزین کے نظریہ زر کے مطابق دوسری اہم بات یہ ہے کہ بینک کا زر درحقیقت افراط زر کا باعث بھی بنتا ہے جسکے نتیجے میں لوگوں کی قوت خرید اور اثاثوں کی مالیت میں کمی واقع ہوجا تی ہے اور اس کا اثر ہر خاص و عام پر بلکہ غریب عوام پر زیادہ پڑتا ہے (۲۲) ۔ یوں قوت خرید زر استعمال کرنے والے ایجنٹ سے زر تخلیق کرنے والے ایجنٹ (حکومت و بینک) کی طرف منتقل ہوجاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طریقے سے لوگوں کی مال و دولت ہتھیا لینا شرعاً جائز ہے؟ قرآن مجید میں ارشاد ہوا: 
لاَ تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَکُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ (نساء: ۲۹) 
’آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے مت کھاؤ، بلکہ باہمی رضا مندی سے لین دین ہونا چاہئے‘‘’
ظاہر ہے فرضی زر تخلیق کرکے لوگوں کے مال ہتھیا لینے کا شمار تجارت میں نہیں ہوسکتا، پس اس طرح مال کھانا ’باطل‘ طریقوں سے لوگوں کے مال کھانے کے زمرے میں شامل ہوگا۔ 
۲۔ آخر اس بات کی کیا شرعی و عقلی دلیل ہے کہ ایک ایجنٹ (بینک یا حکومت) کو تخلیق زر کی کھلی اجارہ داری دے دی جائے اور وہ محض زر تخلیق کرکے رقم بناتا پھرے (۲۳) ؟ ظاہر ہے بینک جو زر تخلیق کرتا ہے ایک طرف وہ اسے قرض پر دیکر نفع کماتا ہے تو دوسری طرف ان (جعلی ) قرضوں کو بطور اثاثہ بنا کر ان کا مالک بن بیٹھتا ہے۔ اگر ایسا کرنا ٹھیک ہے تو سب لوگوں کو اس چیز کی قانونی اجازت ملنی چاہئے کہ وہ اپنے اپنے نوٹ چھاپ کر (یا سرکاری نوٹوں کی فوٹو کاپیاں بنا کر) استعمال کریں۔ 

۳.۲: دفاع بینکاری کے لایعنی عذر 

جب بینکنگ کے درست تصور کی حقیقت واضح کردی جائے تو مجوزین بے سروپا تاویلوں اور عذروں کی بنیاد پر اسکا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن میں چند ایک کا ذیل میں مختصر تجزیہ کیا جاتا ہے۔ 
  • تمام لوگ کبھی بینک سے اصل زر نکلوانے نہیں آتے، لہذا بینکنگ درست ہوئی: اس عذر کا اصل بحث سے کچھ لینا دینا ہی نہیں، دھوکہ آخر دھوکہ ہے چاہے کوئی اس کی شکایت کرے یا نہ کرے۔ اگر کوئی شخص مہارت کے ساتھ لوگوں کی جیب کاٹتا رہے اور کسی کو معلوم نہ ہو نیز کوئی اسکے خلاف مقدمہ بھی درج نہ کرائے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ اس طرح چوری کرنا درست عمل ہے؟ 
  • بینک یہ سب حکومت کی اجازت سے کرتا ہے: یہ عذر بھی غیر متعلق ہے کیونکہ حکومت کا کسی فعل کو جائز کہہ دینا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ شرعاً بھی جائز ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یورپ میں شراب کی خرید وفروخت اور زنا حکومت اور قانون کی اجازت سے کیے جاتے ہے تو کیا یہ سب بھی جائز ہونگے؟ اسی طرح مسلم ممالک میں سود ی لین دین بھی حکومت کی اجازت ہی سے ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ حکومت کو شریعت کی پابند ی کرنا ہے نہ کہ شرع کو حکومت کی 
  • سو فیصد reserve  بینکنگ کے ساتھ بینکاری جائز ہوگی (۲۴): یہ کہنے والے حضرات درحقیقت بینکاری کو سمجھے نہیں، اوپر یہ واضح کیا گیا کہ جب تک اکانومی میں ایک ایسا ایجنٹ موجود رہتا ہے جو بیک وقت رقوم وصول کرنے اور قرض دینے کا کام کرتا ہے اس وقت تک فرضی زر کی تخلیق کا عمل جاری رہے گا۔ یہ عمل صرف اس وقت ختم ہوگا جب اصل زر کے علاوہ اور کوئی شے بطور آلہ مبادلہ استعمال نہ کی جائے۔ ظاہر ہے اگر بینک سو فیصد reserve بینکنگ کے اصول پر کام کرنے لگیں تو وہ سرے سے بینک رہیں گے ہی نہیں کیونکہ اس صورت میں انکی قرض دینے کی صلاحیت سلب ہوجائے گی۔ پھر فرض کریں اگر اس اصول کے مطابق بینکاری کی بھی جانے لگے تو یقین مانئے صفحہ ہستی سے ختم ہونے والا سب سے پہلا کاروبار بینکاری ہی ہوگا کیونکہ اس صورت میں یہ ہرگز بھی نفع بخش نہ رہے گا۔ بینکوں کی آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں، خوبصورت فرنیچر، ان کے ملازمین کی لاکھوں روپے کی تنخواہیں وغیرہ درحقیقت وہ ثمرات ہیں جن کا حصول سو فیصد reserve بینکنگ میں ممکن نہیں رہتا۔ آخری بات یہ کہ فی الوقت دنیا میں اس اصول کے مطابق بینکاری (بشمول اسلامی بینکاری) کی ہی کہاں جارہی ہے کہ ہم اس فرضی اور غیر موجود امکان کو بنیاد بنا کر حاضر و موجود کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کریں؟ 
  • بینک زر کا استعمال عموم بلویٰ کی بنا پر ناگزیر ضرورت بن چکا ہے:  مجوزین کا یہ ایک عمومی حربہ ہے کہ اولاً وہ اپنے حق میں اصولی جواز اور دلائل پیش کرتے ہیں مگر جب ان کے تمام دلائل کو علمی طور پر رد کردیا جائے تو پھر ’ضرورت کی دہائی‘ دینا شروع کردیتے ہیں۔ اسلامی بینکاری کے حق میں نظریہ ضرورت کا تجزیہ راقم نے اپنے مضمون ’سودی بینکاری کے فلسفہ متبادل کا جائزہ‘ میں تفصیل سے پیش کیا ہے، قارئین اسے وہاں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ فرض کریں یہ مان لیا کہ بینک زر ایک ایسی برائی ہے جو عام ہوچکی ہے، مگر اس کے بعد سوال یہ ہے کہ اسلامی بینکاری کے نام پر برائی کے فروغ میں حصے دار بن جانا کہاں کی عقل مندی ہے؟ درحقیقت ضرورت کے تحت حرام کو حلال کرنے کا مقصد ایسے ماحول کو ختم کردینا ہوتا ہے جو حرام کو ضرورت بناتا ہے نہ یہ کہ اس ماحول کو ہمیشہ کیلئے قائم و دائم رکھنا۔ دوسری بات یہ کہ کسی حرام فعل کا عام ہوجانا اسکے حلال ہوجانے کی دلیل نہیں بن جاتی۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر سب سے پہلے تو سود ہی کو حلال ہوجانا چاہئے کہ موجودہ دور میں اس سے زیادہ عام اور کوئی دوسری وبا نہیں 
  • جزوی اصلاح کی کوشش میں خرابی کیا ہے؟  درج بالا بحث کے بعد اسلامی بینکاری کے حق میں ایک عذر یہ بھی پیش کردیا جاتا ہے کہ اس میں شک نہیں کہ موجودہ نظام باطل مگر غالب نظام ہے، نیز فی الحال ہمارے پاس اتنی قوت نہیں کہ ہم اسے تہس نہس کرسکیں۔ لہذا اگر پورے شر سے بچنے کیلئے موجود نظام کی جتنی اصلاح فی الحال ممکن ہو وہ کرلی جائے تو اس میں کیا خرابی ہے؟ ظاہر ہے بڑے شر کے مقابلے میں چھوٹے شر کو اپنانا شرع کا بھی حکم ہے اور عقل کا تقاضا بھی۔ اصولی طور پر یہ دعوی درست ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اس حکمت عملی کے تحت جس شے کو اپنایا جارہا ہے اسے ’شر‘ سمجھ کر احساس گناہ کے ساتھ ہی اختیار کیا جائے، اس پر ’اسلامی‘ کا لیبل چسپاں کرکے نہ تو اسلام کو بدنام کیا جائے اور نہ ہی آنے والی نسلوں کو ’شر‘ پر راضی رہنے کا جواز فراہم کیا جائے۔ موجود نظام کی کسی ادارتی تنظیم کی اصلاح کرکے اسے اسلامی قرار دینے کے لیے دو شرائط کا پورا ہونا لازم ہے:
    (۱) تبدیلی کے بعد اس شے کا قواعد شریعہ کے مطابق ہونا ممکن ہو اور واقعتا وہ ایسی ہو بھی جائے
    (۲) تبدیلی کے بعد وہ شے مقاصد الشریعہ کے حصول کا ذریعہ بھی بن جائے 
اگر ماہرین اسلامی بینکاری یہ ثابت کردیں کہ اسلامی بینکاری ان دونوں شرائط پر پوری اترتی ہے تو فبہا، ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ مگر اصل مسئلہ یہی ہے کہ اولاً نہ تو قواعد شریعہ کے مطابق بینکاری ممکن ہے اور جو شے عملاً ’اسلامی بینکاری‘ کے نام پر موجود ہے وہ بھی قواعد شریعہ کے مطابق نہیں، دوئم موجود اسلامی بینکاری مقاصد الشریعہ کے بجائے سرمایہ دارانہ مقاصد کے حصول میں مصروف عمل ہے۔ جب اسلامی بینکاری کے معاملے میں یہ دونوں شرائط ہی مفقود ہیں تو پھر اسے ’اسلامی‘ کہنے کا جواز ہی کیا ہے؟ اگر مجوزین یہ مان لیں کہ اسلامی بینکاری اصولاً ’ناجائز بینکاری ‘ ہے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں رہے گا کیونکہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ ماہرین اسلامی معاشیات اسلام کے نام پر ایک غیر اسلامی شے کو کیوں فروغ دے رہے ہیں؟ بلکہ اسلامی بینکاری کو ضرورت کا شاخسانہ کہنے کا تقاضا ہی یہ ہے کہ اس کا نام اسلامی بینکاری کے بجائے ’حرام بینکاری‘ رکھا جائے تاکہ لوگ ا سے بطور ایک برائی سمجھ کر کم سے کم استفادہ کریں نیز ان میں اس سے بچنے کا جذبہ بھی بیدار ہو۔ 

۳.۳: متبادل کیا ہے؟ 

یہ سوال کہ اگر بینکاری نہ کریں تو کیا کریں، تو اسکا اصولی جواب یہ ہے کہ ہماری جدوجہد کے دو بنیادی مقاصد ہونے چاہئیں: 
  • اولاً سرمایہ داری اور اسکے تمام مظاہر اداروں (خصوصاً کارپوریشن، بینک اور اسٹاک ایکسچینج ) سے گلو خلاصی حاصل کرنا ۔
  • ثانیاً زر حقیقی (سونے چاندی) پر مبنی مالیاتی نظام کا احیا۔
ایسی ہر جدوجہد جو سرمایہ دارانہ ریاستی و ادارتی صف بندی ’کے اندر ‘ رہتے ہوئے اسلامی اصلاح کو مطمع نظر بنائے گی وہ بالآخر سرمایہ داری ہی کی تصویب کا باعث بنے گی (۲۵)۔ یہ مسئلہ کہ درج بالا مقاصد کے حصول کو ممکن بنانے والی جدوجہد کیسے مرتب کی جا سکتی ہے تو یہ الگ موضوع ہے جسکی تفصیلات بیان کرنا یہاں ممکن نہیں ، اس نوع کی جدوجہد اور اسکے خدوخال جاننے کیلئے نوٹ نمبر ۲۶ میں جن کتب کا حوالہ دیا گیا ہے انکا مطالعہ کیا جاسکتا ہے (۲۶)۔ 

نتائج 

مضمون کا اختتام ہم چند اصولی کلمات پر کرتے ہیں: 
۱۔ مجوزین جس نظریہ بینکنگ کی بنیاد پر اس کی اسلام کاری ممکن سمجھتے ہیں، وہ نظریہ ہی سرے سے غلط ہے۔ دوسرے لفظوں میں جواز اور امکان اسلامی بینکاری کی کل عمارت غلط نظریات پر قائم ہے ۔
۲۔ جس چیز کو بینکاری کہتے ہیں اسکی اسلام کاری کا کوئی امکان موجود نہیں کیونکہ بینکاری کی اسلام کاری ثابت کرنے کے لیے یہ ماننا لازم ہے کہ شرعاً قرض کو بطور آلہ مبادلہ استعمال کرنا جائز ہے، اتنا ہی نہیں بلکہ یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ شرعاً جھوٹا وعدہ کرنا اور جعلی قرض کی رسیدیں چلانا بھی جائز ہے۔ ظاہر ہے یہ تمام مفروضات باطل ہیں ۔
۳۔ شرکت و مضاربت کے اصولوں کے مطابق تمویل درست ہوسکتی ہے بشرطیکہ یہ معاہدات دو افراد کا نجی معاملہ رہیں۔ ثمن حقیقی پر مبنی مالیاتی نظام میں بینک کو شرکت و مضاربت کے اصولوں پر چلانا ممکن نہیں ۔
در حقیقت درست اسلامی تمویل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے مدارس اور اسلامی تحریکات کے تحت منظم نہ کیا جائے۔ نفع خوری کو بڑھاوا دینے کے لیے قائم کردہ نجی تمویلی نظام سرمایہ داری ہی کی تقویت کا باعث بنے گا نہ کہ احیائے اسلام کا۔ 
اگر اہل علم حضرات مضمون کے تجزئیے میں کوئی سقم اور غلطی محسوس کریں تو اسپر مطلع کرکے ہماری راہنمائی فرمائیں۔ وما علینا الا البلاغ 

ضمیمہ بابت ’اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب‘

اس ضمیمے میں ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ موجودہ بینکاری نظام fractional reserve banking کے جس اصول کے تحت چلتا ہے، وہ کیسے کام کرتا ہے۔ تفیہم مباحث کیلئے اپنی گفتگو کو ہم چند سطحوں پر تقسیم کئے دیتے ہیں۔ 

پہلی سطح

ایک ایسی اکانومی کا تصور کیجئے جہاں کسی قسم کا کوئی بینک موجود نہیں اور تخلیق زر کا واحد ذریعہ صرف حکومت کا مرکزی بینک ہے۔ فرض کریں مرکزی بینک 1000 روپے کے نوٹ چھاپ دیتا ہے (یہ نوٹ وہ کس چیز کے عوض چھاپتا ہے یہاں ہم اس بحث سے اغماز کرتے ہیں) اور حکومت یہ اعلان کردیتی ہے کہ آج کے بعد قرضوں کی ادائیگی صرف ان نوٹوں کی صورت میں ہی تسلیم کی جائے گی۔ مرکزی بینک کی بیلنس شیٹ کچھ اس طرح دکھائی دے گی: 

اس صورت حال میں چونکہ سارا کا سارا زر کرنسی کی صورت میں موجودہ ہے لہذا زر کی رسد برابر ہوگی کل کرنسی کی رسد کے، یعنی: 
زر کی رسد 236 کرنسی نوٹ 

دوسری سطح

فرض کریں کہ ایسے کمرشل ادارے یا بینک قائم ہوتے ہیں جو قرض نہیں دیتے بلکہ انکا مقصد محض لوگوں کی بچتوں وغیرہ کی حفاظت کرنا ہے ۔ بحث کو آسان کرنے کیلئے فرض کریں کہ لوگ سارے سرکاری نوٹ ان بینکوں میں جمع کرادیتے ہیں اور خرید و فروخت کیلئے بینکوں کی رسیدیں استعمال کرنے لگتے ہیں (ارتقاء بینکنگ میں صرافوں کا دوسرا دور)۔ اس مثال میں چونکہ بینکوں نے تمام ڈپازٹس اپنے پاس بطور reserves رکھے ہیں لہذا اس بینکاری نظام کو 100% reserve banking (سو فیصد reserve بینکنگ) کہتے ہیں۔ کمرشل بینکوں کی بیلنس شیٹ کچھ یوں ہوگی: 

اب چونکہ سارا کا سارا زر ڈپازٹس کی صورت میں استعمال ہورہا ہے لہذا زر کی رسد برابر ہوگی بینکوں کے کل ڈپازٹس کے، یعنی: 
زر کی رسد 236 بینک ڈپازٹس 

تیسری سطح

درج بالا دو سطحیں محض تفہیم کے لیے بیان کی گئیں تھیں کیونکہ حقیقتاً کوئی بھی بینک سو فیصد reserve بینکنگ کے اصول پر کام نہیں کرتا (اور نہ ہی کرسکتا ہے)۔ اب فرض کریں کہ بینک اپنے ڈپازٹس کا ایک حصہ (مثلاً 20% ) اپنے پاس بطور reserves رکھ کر بقیہ رقم قرض کے طور پر چلاتے ہیں۔ کیونکہ اب بینک اپنے ڈپازٹس کا محض ایک حصہ اپنے پاس رکھتے ہیں لہذا اس نظام بینکاری کو fractional reserve banking (سو فیصد سے کم reserve بینکاری) کہتے ہیں۔ بینک کل ڈپازٹس کے جتنے فیصدی حصے کو بطور reserves رکھتے ہیں اسے reserve requirement (rr) یا reserve ratio کہا جاتا ہے (ہماری مثال میں rr بیس فیصد ہے)۔ reserve ratio کتنا ہونا چاہئے اسکا فیصلہ عموماً مرکزی بینک کرتا ہے۔ ان reserves کواپنے پاس رکھنے کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ لوگ اپنی روز مرہ ضروریات کی تکمیل کے لیے کرنسی نوٹ بینکوں سے نکلواتے رہتے ہیں (وہ اور بات ہے کہ یہ نوٹ بالآخر گھوم کر پھر بینکوں کے پاس ہی آجاتے ہیں، کسی مخصوص وقت میں کرنسی نوٹوں کا ایک محدود حصہ ہی نظام بینکاری سے باہر لوگوں کے پاس موجود ہوتا ہے)۔ بینکوں کے پاس زیادہ reserves بچ رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کے انہیں خاطر خواہ مقدار میں قرض کے قابل بھروسہ طلب گار نہیں مل پاتے۔ الغرض اس نظام میں ڈپازٹس کے دوحصے ہوجاتے ہیں، ایک وہ جو reserves کی شکل میں رکھ لیا جاتا ہے اور دوسرا وہ جو قرض کی صورت میں دے دیا گیا۔ بینک موخر الذکر پر سود کماتا ہے جبکہ اول الذکر پر وہ کچھ نہیں کماتا۔ 
اس اصول بینکاری کو سمجھنے کے لیے فرض کریں کہ اکانومی میں بہت سے بینک ہیں اور ابتداً سو روپے کے ڈپازٹس بینک الف میں جمع کرائے گئے تھے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ اب 1000 روپے کے ڈپازٹس کا بیس فیصد یعنی 200 روپے بطور reserves بینک الف کے پاس محفوظ ہونگے جبکہ بقیہ 800 روپے وہ زید کو قرض پر دے دیتا ہے (عملاً بینک کچھ رقم ذاتی سرمایہ کاری کیلئے بھی استعمال کرتا ہے مگر یہاں ہم اس سے سہو نظر کرتے ہیں کیونکہ اسکا تخلیق زر کے عمل سے کوئی تعلق نہیں )۔ اب بینک الف کی بیلنس شیٹ کچھ یوں ہوگی: 

بینک عموماً قرض نوٹوں وغیرہ کی صورت میں نہیں دیتے بلکہ اسکا طریقہ صرف یہ ہوتا ہے کہ زید کا ایک اکاؤنٹ کھول کر اسے چیک بک جاری کردی جاتی ہے اور یوں قوت خرید زید کو منتقل ہوجاتی ہے۔ مگر فرض کریں کہ بینک الف زید کو نوٹوں کی صورت میں قرض دیتا ہے۔ چونکہ اس سطح تک ہم نے یہ فرض کیا ہے کہ لوگ نوٹوں کے بجائے صرف بینکوں کی رسیدیں ہی بطور کرنسی استعمال کرتے ہیں تو زید یا تو اس رقم کو بینک الف میں اپنا اکاؤنٹ کھول کر جمع کروادے گا اور یا پھر کسی دوسرے بینک (مثلاً بینک ب) میں جمع کروائے گا۔ فرض کریں یہ رقم وہ بینک ب میں جمع کرواتا ہے۔ چونکہ بینک ب بھی اپنے ڈپازٹس کا محض بیس فیصد ہی اپنے پاس reserves کی صورت میں رکھتا ہے، لہٰذا وہ 800 روپے میں سے 160 روپے اپنے پاس رکھے گا جبکہ بقیہ 640 روپے بطور قرض آگے برھا دے گا۔ بینک ب کی بیلنس شیٹ کچھ اس طرح دکھائی دے گی: 

نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اب دونوں بینکوں کے کل ڈپازٹس ملا کر 1800 روپے ہوگئے، یعنی اب زرکی کل مقدار 1800 روپے ہوگئی کیونکہ اب بینکوں کی 1800 روپے مالیت کی رسیدیں یا چیک بطور زر استعمال ہورہے ہیں۔ ظاہر ہے قرض دینے کا یہ عمل ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ اگر بینک ب نے 640 روپے کا یہ قرض ناصر کو دیا ہے تو ناصر اسے اسی بینک میں یا بینک ج میں کروادے گا۔ بینک ج بھی اس رقم 640 روپے کا بیس فیصد اپنے پاس رکھ کر بقیہ ادھار پر چلا دے گا جسکے نتیجے میں بینک ج کی بیلنس شیٹ ذیل ہوگی: 

اب مجموعی ڈپازٹس یعنی زر کی کل رسد بڑھ کر 2,440 روپے ہوگئی۔ یہ عمل بینک ج سے آگے چلتا رہے گا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہر چکر میں قرضوں سے تخلیق ہونے والے ڈپاذٹس کم ہوتے چلے جارہے ہیں لہذا یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ عمل کسی مقا م پر جا کر ضرور ختم ہوجائے گا۔ یہ سوال کہ اس عمل کے اختتام پر کل ڈپازٹس کتنے ہوں گے تو اسے درج ذیل فارمولے سے اخذ کیا جا سکتا ہے: 
زر کی کل رسد 236 (rr/1 ) 235 اول ڈپازٹس 
ہماری مثال میں rr بیس فیصد جبکہ اول ڈپازٹس 1,000 روپے فرض کئے گئے تھے، تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ بینک 1,000 روپے کے ڈپازٹس سے مجموعی طور پر 5,000 روپے کے ڈپازٹس تخلیق کردے گا: 
زر کی کل رسد 236 (0.20/1 ) 235 1000 236 5000
ان پانچ ہزار کے ڈپازٹس میں سے ایک ہزار کی پشت پر تو مرکزی بینک کے اصل نوٹ (جنہیں اصل ڈپازٹس کہا گیا ہے) ہونگے جبکہ دیگر چار ہزار قرض کی صورت میں تخلیق ہوئے۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کرلینی چاہئے کہ نئے بینک ڈپازٹس درحقیقت قرضوں سے جنم لے رہے ہیں۔ تمام بینکوں کی مجموعی بیلنس شیٹ کچھ اس طرح دکھائی دے گی: 

دھیان رہے کہ نظام بینکاری چار ہزار کے یہ قرض ان معنی میں بلا کسی عوض تخلیق کرتے ہیں کہ انہیں ادا کرنے کیلئے انکے پاس کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ زر کی یہ مقدار محض کمپیوٹر کی یاداشت میں محفوظ ہوتی ہے۔ ڈپازٹس تخلیق کرتے وقت اصولاً بینک یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ان تمام ڈپازٹس کے مالکان جب چاہیں اپنے ڈپازٹس کو حکومتی نوٹوں میں تبدیل کرواسکتے ہیں مگر حقیقتاً یہ ایک ناممکن الوفا وعدہ ہوتا ہے۔ اگر تمام لوگ ایک ہی وقت میں بینکوں سے اپنے ڈپازٹس طلب کر لیں تو بینک دیوالیہ ہوجائیں گے کیونکہ انکے پاس ڈپازٹس کے مساوی رقم کبھی موجود ہی نہیں ہوتی۔ جب کبھی ایسے حالات پیش آئیں کہ لوگ بینکوں کے پاس موجود reserves سے زائد رقم طلب کرنے لگیں تو ایسی صورت میں بینک مصیبت سے دوچار ہو جاتے ہیں اور اس موقع پر مرکزی بینک انہیں قرض فراہم کرکے ان کے reserves میں اضافہ کر دیتا ہے (مرکزی بینک کے اس کردار کو lender of the last resort کہتے ہیں)۔ یاد رہے کہ مرکزی بینک بھی یہ قرض بلا کسی عوض تخلیق کرتا ہے۔ گویا جھوٹ اور فریب کے اس نظام کو بحران سے بچانے کے لیے ریاستی جبر بھی استعمال کیا جاتاہے۔ کھاتے داروں کی ڈپازٹس سے زیادہ رقم طلب کرنے کی وجہ سے بینکوں کے مصیبت میں پھنس جانے کی ایک مثال سن ۱۹۸۵ میں شمال مشرقی امریکی ریاستوں کے بینکوں کا دیوالہ ہوجانا تھا ۔ اسی طرح ۲۰۰۱ میں ارجنٹائن کے بینکوں کی مثال بھی موجود ہے جہاں کھاتے داروں کو اپنے ڈپازٹس سے رقم نکلوانے اور بینک کے اندر داخل ہونے سے روکنے کے لیے باقاعدہ پولیس فورس کا استعمال کیا گیا۔ بعض اوقات پورے بینکاری نظام کو دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے کسی ایک بینک کو بند کرکے اس کی قربانی دے دی جاتی ہے۔ اسی طرح ماضی قریب میں پاکستان میں جب بینک الفلاح سے متعلق افواہیں اڑنے لگیں تو لوگ بڑی تعداد میں اپنے ڈپازٹس بینک سے نکلوانے لگے اور بینک کی مالی ساخت بری طرح متاثر ہونے لگی ۔ اس موقع پر عوام میں بینک کی ساخت بحال کرنے کیلئے حکومت و مرکزی بینک کو مداخلت کرنا پڑی اور اعداد وشمار کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ بینک الفلاح ایک نہایت مضبوط اور قابل اعتبار بینک ہے۔ الغرض بینکاری کا جو نظام بظاہر نہایت ہموار اور محفوظ طرز پر چلتا دکھائی دیتا ہے، اس کی وجہ اس کی پشت پر ریاستی جبر وذرائع کا موجود ہونا ہے۔ 
بینک زر کی یہ فرضی مقدار کیسے تخلیق کرتے ہیں اسکی وضاحت اصل مضمون میں کی گئی تھی کہ بینک جب کسی شخص کو قرض دیتا ہے تو وہ کسی ایک شخص کی قوت خرید کسی دوسرے فرد کو منتقل نہیں کرتا بلکہ نئے سرے سے نئی قوت خرید تخلیق کرتا ہے۔ اس بحث سے یہ سمجھنا بھی آسان ہو جاتا ہے کہ آخر بینک کرنسی (cash) کے بجائے اپنے کارڈز (ATM, Debit and Credit cards) کو فروغ دینے کی کوشش کیوں کرتے ہیں۔ بینکار (ابتداً صراف) خوب جانتے تھے (اور جانتے ہیں) کہ وہ عوام الناس کو محض دھوکہ دے کر جھوٹے وعدے کررہے ہیں لہٰذا وہ شعوری طور پر اس چیز کی کوشش کرتے کہ لوگ کرنسی (سونے چاندی یا نوٹوں) کے بجائے بینک کی رسیدیں و چیک بطور آلہ مبادلہ استعمال کریں اور لوگوں کی ترجیحات میں یہ تبدیلی لانے کے لیے کئی مارکیٹنگ ہتھکنڈے بطور ہتھیار استعمال کیے گئے (اور کیے جاتے ہیں)، مثلاً: 
  • لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے بینکوں کی برانچیں شہر کے اہم مقامات پر کھولی جاتیں اور ان برانچوں کو خوبصورت بنانے کے لیے ہر قسم کے سامان تعیش سے مزین کیا جاتا ۔
  • مختلف حیلوں بہانوں سے لوگوں کو یہ باور کرایا جاتا کہ سونے اور نوٹ وغیرہ استعمال کرنا ٹھیک نہیں (مثلاً انہیں استعمال کرنا محفوظ نہیں وغیرہ)۔
  • اشتہار ات کے ذریعے لوگوں کو بینکوں کے فراہم کردہ کرنسی کے متبادل ذرائع (مثلاً کارڈز اور ٹریولرز چیک وغیرہ) استعمال کرنے کی ترغیب دینا۔
  • ہر بڑے شاپنگ سینٹر وغیرہ پر کرنسی کی جگہ بذریعہ بینک کارڈز خریداری کی سہولت فراہم کرنا (یورپ وغیرہ میں اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ اگر آپ کے پاس بینک کارڈ کے بجائے سرکاری نوٹ ہیں تو آپ کے لیے خریداری کرنا مشکل ہوجائے گی کیونکہ ہر بڑا دوکاندار اور شاپنگ سینٹر کیش کے بجائے کارڈ کی صورت میں ادائیگی کوترجیح دیتا ہے) ۔
  • حکومتی مدد سے بہت سی خریدوفروخت اور ادائیگیوں کیلئے کرنسی کے بجائے بینک زر کو قانوناً لازم قرار دینا ۔
ان سب کا مقصد صرف یہ ہے کہ جھوٹ اور دھوکے پر مبنی بینکاری نظام کو محفوظ طریقے سے قابل عمل رکھا جاسکے اور بینکوں کو کم از کم رقم اپنے پاس بطور reserves رکھنا پڑے کیونکہ اوپر دئیے گئے فارمولے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ reserve ratio (rr) جتنا زیادہ ہوگا بینکوں کی قرض دینے کی صلاحیت اتنی ہی کم ہوگی۔ اگر reserve ratio صفر کردیا جائے تو بینک لامحدود قرض دینے کی صلاحیت حاصل کرلیں گے، یعنی لوگ جس قدر قرض چاہیں بینک سے حاصل کرکے ادائیگیوں کیلئے استعمال کرسکیں گے اور بینک ان کی یہ طلب پوری کرنے کا مکلف ہو گا (معاشیات کے Post Keynasian فرقے خصوصاً Kaldor  وغیرہ کے پیروکار اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں کہ بینک جتنی قوت خرید چاہے پیدا کرسکتا ہے، مرکزی بینک کا کام ایسی زری پالیسی بنانا ہوتا ہے جو زر کی کسی بھی مخصوص طلب کے جواب میں تخلیق کئے گئے زر کو regulate سکے)۔ درحقیقت Electronic money کا استعمال جس رفتار سے بڑھے گا بینکوں کی لامحدود قرض دینے کی صلاحیت میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور یہی وجہ ہے کہ بینک ہمیشہ electronic money کے استعمال اوراسکے فروغ کو ترویج دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

چوتھی سطح

اس تجزئیے کی چوتھی سطح یہ ہوگی کہ ہم یہ فرض کریں کہ لوگ بینک ڈپازٹس کے علاوہ سرکاری نوٹ بھی بطور آلہ مبادلہ استعمال کرتے ہیں۔ اس صورت میں درج بالا فارمولا ذرا پیچیدہ ہوجائے گا جس کی تفصیلات بیان کرنا یہاں ایک تو نہایت مشکل امر ہے، نیز اس بحث سے درج بالا نتیجے (کہ بینک فرضی زر تخلیق کرتا ہے) میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی (سوائے اس سے کہ بینک کی اس صلاحیت میں ذرا کمی آجاتی ہے)۔ لہٰذا ہم اس بحث سے صرف نظر کرتے ہیں، شوقین حضرات اسکی تفصیلات macroeconomics کی درسی کتب میں ملاحظہ کرسکتے ہیں (مثلاً دیکھئے Abel and Barnanke کی کتاب Macroeconomics )۔ 
اس بحث سے درج ذیل باتیں واضح ہوئیں: 
۱۔ بینک قرض بچتوں سے نہیں دیتے، یعنی بینک ہرگز ایک زری ثالث نہیں ہوتا ۔
۲۔ بینک ’قرضے ڈپازٹس کا باعث بنتے ہیں‘ کے اصول پر کام کرتا ہے۔
۳۔ بینک کے قرض کبھی بھی بچتوں کے برابر نہیں ہوسکتے۔
۴۔ بینک جو زر تخلیق کرتا ہے، وہ قرض کی صورت میں (یعنی debt money) ہوتا ہے ۔
۵۔ نظام بینکاری مالیاتی و زری نظام کو قرض پر مبنی زر پر منتج کرتا ہے ۔
۶۔ چونکہ مرکزی اور کمرشل بینک یہ قرض سود پر دیتے ہیں، لہٰذا بینک سود کو بذریعہ debt money پورے معاشروں پر غالب کردیتے ہیں۔ (انہی معنی میں آج ہر وہ شخص جو ریاستی نوٹ اور بینک کے چیک استعمال کرتا ہے درحقیقت سود کھا رہا ہے ) ۔
۷۔ بینکنگ فی الحقیقت جھوٹ، فریب اور چال بازی پر مبنی ہے ۔
۸۔ بینک کی اصل آمدن کا ذریعہ یہی جھوٹ اور فریب پر مبنی وعدے ہوتے ہیں ۔
۹۔ مرکزی بینک کے بغیر بینکاری کا یہ نظام محفوظ طریقے سے چلنا نہایت مشکل امر ہے ۔
بینک سرکاری نوٹوں کے مقابلے میں کس قدر زیادہ زر جاری کرتے ہیں اسے سمجھنے کیلئے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جون ۲۰۰۸ کے یہ اعداد و شمار ہی کافی ہیں: 

اس کا مطلب یہ ہوا کہ کمرشل بینکوں نے مرکزی بینک کے ہر ایک نوٹ کے بدلے تقریباً پونے پانچ روپے تک ڈپازٹس جاری کردیے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اکانومی میں کل زر کا صرف بیس فیصد نوٹوں کی شکل میں جبکہ بقیہ قرض پر مبنی جاری کردہ رسیدوں (ڈپازٹس ) کی صورت میں موجودہ ہے (یہاں بینکوں کا اپنے کھاتے داروں سے یہ وعدہ بھی یاد رہے کہ وہ جب چاہیں اپنے ڈپازٹس کو نوٹوں میں تبدیل کرواسکتے ہیں)۔ پاکستان کے مقابلے میں دیگر ترقی یافتہ ممالک جہاں زر کی مارکیٹیں بھی بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں وہاں یہ تناسب اس سے بھی زیادہ ہے (مثلاً برطانیہ میں یہ تناسب نوے فیصد سے بھی زیادہ ہے)۔ ان اعداد وشمار سے دوسری بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ کل زر کا بڑا حصہ کمرشل بینک جاری کرتے ہیں نہ کہ مرکزی بینک (جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے)۔ 

حواشی 

۲۱۔ جو لوگ نظام بینکاری کی حقیقت اور وہ معاشی ماحول جس میں یہ کام کرتا ہے اسے درست طریقے سے سمجھنے سے قاصر رہے وہ اسلامی تاریخ میں بینک تلاش کرنے کی غلط فہمی کا شکار ہوگئے۔ مجوزین میں سے بعض کا یہ دعوی ہے کہ بینکاری کی ابتدا امام ابوحنیفہؒ سے ہوئی جن کے پاس لوگ اپنی امانتیں رکھواتے اور وہ انہیں کاروبار کیلئے آگے قرض وغیرہ پر دے دیا کرتے۔ فرض کریں مجوزین کا یہ دعوی تاریخی طور پر درست ہے کہ امام صاحب ایسا کیا کرتے تھے، مگر سوال تو یہ ہے کہ اس سارے عمل سے بینک کی صورت کہاں پیدا ہوئی؟ بینکنگ کی صورت حال تب پیدا ہوتی ہے جب قرض نجی معاملے سے آگے بڑھ کر آلہ مبادلہ کی حیثیت اختیار کرلیتا۔ کیا امام صاحب (۱) پھر انہی مقروض لوگوں سے دوبارہ امانتیں (deposits) وصول کرکے اپنے فنڈ میں جمع کرلیا کرتے تھے جنہیں وہ قرض دیا کرتے تھے؟ اور (۲) اپنے قرض خواہوں اور مقروضوں کو اصل زر کے بجائے قرض کی رسیدیں بطور آلہ مبادلہ استعمال کیلئے جاری کیا کرتے تھے؟ اگر کوئی یہ کہے کہ امام صاحبؒ ایسا کرتے تھے تو وہ ان کی ذات پر بہت بڑا بہتان باندھے گا ۔ درحقیقت امام صاحبؒ کے طرز عمل کو وہی شخص بینکنگ کہہ سکتا ہے جو نیوکلاسیکل نظریہ بینکاری کو درست سمجھنے کی غلط فہمی کا شکار ہو ۔
۲۲۔ غریب طبقے پر زیادہ اثرات اس لیے پڑتے ہیں کہ اسے اضافی (relative) اعتبار سے قوت خرید میں زیادہ کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
۲۳۔ یعنی ایک مزدور دن رات محنت کرکے اپنی روزی کمائے، کارخانے دار اپنے سرمائے کو کاروبار میں لگا کر آمدن کمائے مگر بینک محض زر تخلیق کرکے مزے کرتا پھرے؟ 
۲۴۔ Reserve سے مراد کل ڈپازٹس کا وہ حصہ ہے جسے بینک کرنسی (Cash) کی شکل میں اپنے اور مرکزی بینک کے پاس جمع رکھتے ہیں۔ سو فیصد reserve banking کامطلب ایسی بینکاری ہے جہاں بینک کل ڈپازٹس کے برابر (یعنی ڈپازٹس کا سو فیصد) reserve کی شکل میں اپنے پاس محفوظ رکھیں اور کسی قسم کا قرضہ جاری نہ کریں 
۲۵۔ یہ بات درست ہے کہ موجودہ حالات میں علماء خود کو اس امر پر مجبور پاتے ہیں کہ وہ لوگوں کو ’قابل عمل فتوے‘ دیں کیونکہ لوگ ان سے اسی مقصد کیلئے سوال کرتے اور اپنے مسائل کے حل کیلئے رجوع کرتے ہیں۔ مگر سرمایہ دارانہ نظام کا مسلط کردہ یہ ’دائرہ جبر‘ تب ہی تو کم ہوگا جب علماء اس نظام سے باہر ’دائرہ اختیار‘ قائم کرنے اور اسے بڑھانے کی کوئی جدوجہد کریں گے۔ ہمیشہ ایسے فتوے دینے کی حکمت عملی پر کاربند رہنا جس کا مقصد لوگوں کے لیے خود کو موجود نظام کے اندر سمونا ممکن بنانا ہو (how to fit in the given environment) درحقیقت دائرہ جبر کو مزید بڑھانے کی حکمت عملی ہے۔ اسلامی بینکاری نہ صرف اس دائرہ جبر کو بڑھا رہی ہے بلکہ اس کے جبر ہونے کا احساس بھی دلوں سے نکال رہی ہے ۔
۲۶۔ سرمایہ دارانہ نظام کیا ہے اور اس کا مکمل انہدام کیوں ضروری ہے، اس کے لیے دیکھئے : 
  • ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری، ’Rejecting Freedom and Progress‘، جریدہ ۲۹، کراچی یونیورسٹی 
  • ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری، ’عالم اسلام اور مغرب کی کشمکش‘، کتاب ’سرمایہ دارانہ نظام ایک تنقیدی جائزہ‘ (ص: ۱۹۲-۲۴۵) 

سرمایہ دارانہ معاشی و ریاستی صف بندی کی حقیقت جاننے کے لیے دیکھئے : 

  • ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری، ’سرمایہ دارانہ معیشت‘، کتاب ’سرمایہ دارانہ نظام ایک تنقیدی جائزہ‘ (ص: ۱۱۰-۱۲۱) 
  •  ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری، ’لبرل سرمایہ دارانہ ریاست‘، کتاب ’سرمایہ دارانہ نظام ایک تنقیدی جائزہ‘ (ص: ۱۶۰-۱۸۲) 
سرمایہ داری کے خلاف اسلامی انقلابی جدوجہد کے خدو خال کیا ہوسکتے ہیں اس کے لئے دیکھئے : 
  • ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری، ’جماعت اسلامی کی انقلابی جدوجہد برائے ۲۰۰۸-۲۰۱۳‘، کتاب ’جمہوریت یا اسلام‘ (ص: ۲۶۳-۲۷۸) 
بینکاری کا متبادل کیا ہوسکتا ہے، نیز زر اصلی کی طرف کیسے لوٹا جاسکتا ہے، اس کے لیے دیکھئے : 
  • یونس قادری، ’کھاتے دار تمویلی ادارے: ایک متبادل‘، جریدہ ۳۷، کراچی یونیورسٹی پریس 
  • یونس قادری ،’Can we create our own Currency?‘، Pakistan Business Review Vol 11 (1) 
  • Tarek Al Dewani، History of Banking: An Analysis، www.islamic-finance.com 
  • Tarek Al Dewani، The Problem with Interest ، Polity Press

مکاتیب

ادارہ

(۱)
ڈیئر عمار خان ناصر صاحب
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ خداوند تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو۔
عرض یہ ہے کہ پڑھنے کے لیے اتنا کچھ سامنے پڑا ہوتا ہے کہ زندگی اور اس کے تمام لمحات انتہائی قلیل دکھائی دیتے ہیں۔ مجبوراً انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ روایتی مذہبی میگزین یا رسالوں کے لیے تو کوئی گنجائش نہیں نکلتی، لیکن آپ کا ’الشریعہ‘ جب ہاتھوں میں آتا ہے تو نہ نہ کرتے ہوئے بھی محض ورق گردانی کے دوران اس کے بیشتر حصے پڑھتا چلا جاتا ہوں۔ یہ آپ کے میگزین کی خوبی یا دلچسپی ہے کہ چھٹتی نہیںیہ کافر منہ کو لگی ہوئی۔ آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ ہر ماہ مجھے یہ دارو فی سبیل اللہ ارسال فرما دیتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ میں آپ ہی کا نہیں، آپ کے باپ دادا کا بھی قدیمی ماننے والاہوں۔ ویسے آپ کے والد محترم بڑے خطرناک آدمی ہیں۔ ہم نئی نسل کو جس مذہبیت سے بچانے کے لیے کوشاں ہیں، روایتی علماء دین ہمارے کام کو جس قد سہل بناتے ہیں، آپ کے والد محترم عصری تقاضوں سے آگہی اورشعوری ہتھیاروں کی کارفرمائی سے اسے اتنا ہی مشکل بنا دیتے ہیں۔ بہرحال ناچیز ان کے انسانی جذبے کو سلام پیش کرتا ہے۔
محترم عمار صاحب! آج مجھے آپ سے بات کرنے کے لیے کاغذ قلم کا سہارا س لیے لینا پڑا ہے کہ مجھے آپ کے حالیہ شمارے کے دو مضامین بہت پسند آئے ہیں۔ ایک ’’موجودہ عیسائیت کی تشکیل تاریخی حقائق کی روشنی میں‘‘ اور دوسرا ’’خواجہ حسن نظامی کی خاکہ نگاری‘‘ جس کے لیے ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری کے ساتھ پروفیسر میاں انعام الرحمن بھی لائق تحسین ہیں۔ عمران چوہان صاحب نے ڈین براؤن کے ناول ’’دا ڈاونچی کوڈ‘‘ کے جس حصے کا انتخاب کیا ہے، یہ یقیناًخوب صورت کاوش ہے۔ اس اتنی بڑی کاوش یا جسارت پر میں جناب کی خدمت میں ایک سوال رکھنا چاہتا ہوں کہ جسے اپنے نظریے اور شعورکی سچائی پر کامل اعتماد یا ایقان ہوتا ہے، کیا اسے شدید ترین تنقید یا اعتراضات کی بوچھاڑ سے گھبرانا چاہیے؟ ’’دا ڈانچی کوڈ‘‘ لکھنے پر جناب ڈین براؤن کی حقیقت بیانی وحقیقت نگاری ہی ہمارے سامنے نہیں آتی ہے، بلکہ مغربی تہذیب ومعاشرت کی عظمت اور مسیحیت کے جذبہ برداشت کو بھی داد دینی پڑتی ہے۔ مغرب میں حریت فکر اور آزادئ اظہار رائے کو سامنے رکھ کر جب میں اپنی سوسائٹی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے یہ بونوں کی سوسائٹی دکھائی دیتی ہے۔ 
آپ کی خدمت میں میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہماری مسلم سوسائٹی اپنے کسی ڈین براؤن کو ’’دا ڈاونچی کوڈ‘‘ لکھنے کی اجازت دے سکتی ہے؟ مجھے معلوم ہے آپ کا فوری جواب یہ ہوگا کہ ہمارے ہاں تو کوئی ’’قسطنطین‘‘ ہوا ہی نہیں۔ ہماری تو ہر چیز ’’لاریب‘‘ ہے۔ جب ہم راسخ العقیدہ مسیحیوں کو ملتے ہیں تو ان کے احساسات یا تعصبات بھی اسی نوع کے ہوتے ہیں۔ آخر دنیا میں کون سا ایسا مذہبی شخص ہے جس کو اپنے مذہب سے پیار نہ ہو اور جسے اپنے عقیدے کی سچائی پر ایمان کامل نہ ہو؟ بحیثیت مسلمان میں بھی یہی کہوں گا کہ میرا مذہب کائنات کا سب سے پکا سچا دین ہے اور یہ آخری دین ہے۔ گزارش صرف یہ ہے کہ اگر ہمارا ایمان واعتماد اتنا پختہ ہے تو پھر ذرا ذرا سی بات پر آگ بگولا کیوں ہو جاتے ہیں؟ مغرب میں سیدنا مسیح (Jesus) کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا، لکھا اور دکھایا جا رہا؟ آفرین ہے اس سوسائٹی پر کہ وہ تو اس پر کہیں آپے سے باہر نہیں ہو رہی۔ شعور انسانی کی عظمت پر اس قدر مطمئن ہے کہ ہر منطقی وغیر منطقی سوال یا استدلال کو خندہ پیشانی سے قبول کرتی ہے اور ہم ہیں کہ محض عقیدے کی بنیاد پر دنیا کو آگ لگا کربھسم کر دینا چاہتے ہیں۔ کوئی ہمارے عقیدے میں آئے تو مولفۃ القلوب کا حق دار ٹھہرے اور واپس جائے تو گردن زدنی قرار پائے! اس پر ابدی دعویٰ یہ ہے کہ دنیا میں ہم سے زیادہ عادل وروادار کوئی پیدا نہیں ہوا۔
اگر آج ہمارے درمیان کوئی سرپھرا یہ جائزہ لینا چاہے کہ پیغمبر اسلام اور قرآن نے جو کچھ چودہ سو سال پہلے پیش فرمایا، اس کی تمام تر جڑیں اس دور کے عرب کلچر اورعرب سوسائٹی سے پھوٹتی ہیں، کوئی ایک چیز بھی زمان ومکان سے ہٹ کر نہیں ہے تو کیا میں اور آپ ایسے شخص کو اس نوع کے جائزے لینے اور ان کی تفصیلات پیش کرنے کی اجازت دیں گے؟ نوم چومسکی کو ہمارے یہاں بڑا ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ اصل ہیرو وہ مغربی سوسائٹی اور اس کے خواص وعوام ہیں جہاں چومسکی دھڑلے سے وہ سب کچھ کہہ رہا ہے اور کوئی اس کی طرف غلط نظر ڈالنا بھی جائز نہیں سمجھتا۔ کیا کوئی مسلم سوسائٹی اپنے درمیان کسی نوم چومسکی یا ڈین براؤن کو قبول اور برداشت کرنے کے لیے تیار ہے؟ مجھے، آپ کو اور ہماری قوم کو آج یہی سوال درپیش ہے کہ ہم اپنی مسلم سوسائٹی کی شعوری سطح اتنی بلند کیسے اور کب کر پائیں گے؟
آج پوری دنیا ہم مسلمانوں سے اور ہمارے عقیدے سے خوف زدہ ہے۔ پوری دنیا کو ہم نے آگے لگایا ہوا ہے، لیکن دعویٰ یہ ہے کہ ہم توپیدا ہی انسانوں سے محبت کی خاطر ہوئے ہیں۔ میں اس وقت پوری دنیا میں بدمعاشی، قتل وغارت گری اور دہشت گردی کے پیچھے اپنی اس عدم برداشت اور رواداری کے فقدان کو دیکھ رہا ہوں۔ جس روز فکری آزادی کو ہم نے انسانیت کی مسلمہ مثبت واعلیٰ قدر کی حیثیت سے مان لیا، اس روز دنیا میں قیام امن کو کوئی نہیں روک سکے گا۔
افضال ریحان
۴۱۔ جیل روڈ، لاہور
(۲)
محترم المقام جناب حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! مزاج گرامی بخیر 
ماہنامہ الشریعہ کا گذشتہ پانچ سال سے باقاعدہ قاری ہوں۔آپ نے آزادانہ علمی بحث کے ذریعے مسائل کو سمجھنے کا بہترین طریقہ اختیار فرمایا ہے جو انتہائی قابل قدر ہے اور اس سے ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے کا بہت اچھا فائدہ حاصل ہوا ہے۔ ماہنامہ الشریعہ کا نومبر، دسمبر ۲۰۹ء کا مشترکہ شمارہ میرے سامنے ہے۔ مکاتیب کے عنوان تلے صفحہ۱۱۵ پر برادر مکرم جناب عمار خان ناصرزید مجدہم کے نام کامرہ کلاں ضلع اٹک سے سید مہر حسین بخاری صاحب کا ایک خط شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’’میں شیعہ کے کفر کا قائل نہیں جیسے صوفی عبد الحمید سواتی ؒ قائل نہ تھے‘‘۔ حضرت صوفی عبد الحمید سواتیؒ شیعہ کے علی الاطلاق کفر پر تحفظات رکھتے تھے، لیکن شیعہ اثنا عشریہ کے متعلق ان کا وہی عقیدہ تھا جو حضرت صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے استاذ امام اہل سنت حضرت مولانا علامہ عبد الشکور لکھنوی فاروقیؒ کا تھا۔ بخاری صاحب اگلی لائن میں لکھتے ہیں کہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب شیعہ کو زیادہ سے زیادہ بدعتی کہتے ہیں، کافر نہیں کہتے حالانکہ رابطۃ العالم الاسلامی کے ایک اجلاس میں مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدہم نے شیعہ نمائندہ کے ساتھ بیٹھنے سے انکار اور خمینی کے کفر کا اظہار بھی کیا تھا۔ میری معلومات کے مطابق شیخ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کے تحفظات بھی علی الاطلاق کفر پر ہیں، شیعہ اثنا عشریہ کو وہ بھی کافر سمجھتے ہیں۔میں نہیں سمجھتا کہ وہ اپنے والد گرامی قدر مفتی اعظم حضرت مفتی محمد شفیعؒ کے اس فتویٰ سے جو فتاویٰ دارالعلوم دیوبند کی جلد نمبر۲صفحہ نمبر ۵۰۶ پر درج ہے، روگردانی کریں گے۔
اگلے پیرے میں سید مہر حسین بخاری صاحب لکھتے ہیں کہ’’ اگرچہ بعض کتب شیعہ میں تحریف قرآن کی روایات پائی جاتی ہیں لیکن شیعہ اپنی عقائد کی کتابوں میں تحریف کے قائل نہیں‘‘۔ دلیل دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ’’ جیساکہ قرآن مجید کی متعدد تفاسیر شیعہ علماء نے لکھی ہیں‘‘۔
جناب والا!یہی وہ الفاظ ہیں جو آپ کو خط لکھنے کا سبب بنے ہیں۔ ایک سنی مسلمان ہونے کے ناتے اپنے مذہب کا دفاع ضروری سمجھتا ہوں اور آپ کے مؤقر جریدہ کے ذریعے سید مہر حسین بخاری صاحب کی یہ غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں کہ’’ شیعہ عقائد کی کتابوں میں تحریف کے قائل نہیں‘‘۔ یہ محض جھوٹ اور دھوکہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ شیعہ اثنا عشریہ کی بنیادی اور مسلمہ کتابوں کے مطالعہ سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اثنا عشریہ کا عقیدہ یہ ہے کہ موجودہ قرآن محرف ہے، اس میں اسی طرح تحریف ہوئی ہے جیسی اگلی آسمانی کتابوں تورات، انجیل وغیرہ میں ہوئی تھی، وہ بعینہ وہ کتاب اللہ نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت جبرئیل امین کے واسطے سے نازل فرمائی گئی تھی۔اثناعشریہ کی حدیث کی ان کتابوں میں جن میں ائمہ معصومین کی روایات جمع کی گئی ہیں اور جن پر شیعہ مذہب کا دارومدار ہے، خود ان کے اکابرین، محدثین ومجتہدین کے بیانات کے مطابق دوہزار سے زیادہ ائمہ معصومین کی وہ روایات ہیں جن سے قرآن کا محرف ہونا ثابت ہوتا ہے اور ان کے ان علماء ومجتہدین نے جو اثنا عشری مذہب میں سند کا درجہ رکھتے ہیں، اپنی کتابوں میں اعتراف کیا ہے کہ یہ روایات متواتر ہیں اورتحریف قرآن پر ان کی دلالت صاف اور صریح ہے جس میں کوئی ابہام واشتباہ نہیں ہے اور یہ کہ یہی ہمارا عقیدہ ہے اور تیسری صدی ہجری کے آخر بلکہ چوتھی صدی ہجری کے قریباً نصف تک پوری شیعہ دنیا کا یہی عقیدہ رہا۔ اس صدی کے قریباً وسط میں سب سے پہلے صدوق ابن بابویہ قمی (متوفی ۳۸۱ھ) نے اور اس کے بعد پانچویں صدی ہجری میں شریف مرتضیٰ (متوفی ۴۳۶ھ) اور شیخ ابو جعفر طوسی(متوفی ۴۶۰ھ) نے اور چھٹی صدی ہجری میں علامہ طبرسی مصنف ’’تفسیر مجمع البیان‘‘ (متوفی ۵۴۸ھ) نے اپنا یہ عقیدہ ظاہر کیا ہے کہ وہ قرآن کو عام مسلمانوں کی طرح محفوظ اور غیر محرف مانتے ہیں، لیکن شیعہ نے ان کی اس بات کو قبول نہیں کیابلکہ ائمہ معصومین کی متواتر اور صریح روایات کے خلاف ہونے کی وجہ سے رد کردیا۔ 
مختلف زمانوں میں شیعوں کے اکابر واعاظم علماء ومجتہدین نے قرآن کے محرف ہونے کے موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔اس سلسلے کی سب سے اہم کتاب شیعوں کے ایک بڑے مجتہد اور خاتم المحدثین علامہ حسین محمد تقی نوری طبرسی کی کتاب ہے جس کا نام ’’فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب‘‘ ہے۔ یہ عربی زبان میں باریک قلم سے لکھی ہوئی ۳۹۸ صفحات پر مشتمل کتاب ہے۔ اس کے مصنف نے یہ بات ثابت کرنے کے لیے کہ قرآن میں ہر طرح کی تحریف ہوئی ہے، دلائل کے انبار لگادیے ہیں۔اس کے علاوہ مصنف نے ان کتابوں کی طویل فہرست دی ہے جو مختلف زمانوں میں شیعہ اثنا عشریہ کے اکابر علماء ومجتہدین نے قرآن کو محرف ثابت کرنے کے لیے لکھی ہیں۔اس کتاب کا مطالعہ کرلینے کے بعد اس میں شک نہیں رہتا کہ شیعہ کا عقیدہ قرآن پاک کے بارے میں یہی ہے کہ اس میں تحریف ہوئی ہے اور ہر طرح کی تحریف ہوئی ہے۔ شیعہ کے جن علماء ومصنفین نے تحریف کے عقیدہ سے انکار کیا، اس کی سمجھ میں آنے والی کوئی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے یہ انکار کچھ مصلحتوں کے تقاضے سے کیا ہے (یعنی تقیہ کیا ہے)۔ سید نعمت اللہ الجزائری جنہیں شیعی دنیا میں نہایت بلند پایہ عالم ومصنف،جلیل القدراور عظیم المرتبت محدث وفقیہ اور ملا باقر مجلسی کا خصوصی اور قابل اعتماد شاگرد مانا جاتا ہے، بڑی صفائی کے ساتھ لکھتے ہیں کہ 
’’والظاہر ان ہذا القول صدر منہم لاجل مصالح کثیرۃ .... کیف وھؤلاء رووا فی مؤلفاتھم اخباراً کثیرۃ تشتمل علیٰ تلک الامور فی القرآن وان الآیۃ ھکذ انزلت ثم غیرت الیٰ ھذا‘‘ (الانوار النعمانیہ صفحہ ۳۵۷جلد۲)
ترجمہ: ’’اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ ہمارے ان حضرات (شریف مرتضیٰ، صدوق،شیخ طبرسی)نے یہ بات بہت سی مصلحتوں کی وجہ سے (اپنے عقیدہ اور ضمیر کے خلاف) لکھی ہے۔یہ ان کا عقیدہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ خود انہوں نے اپنی کتابوں میں بڑی تعداد میں وہ حدیثیں روایت کی ہیں جو بتلاتی ہیں کہ قرآن میں مذکورہ بالا ہر طرح کی تحریف ہوئی ہے اوریہ کہ فلاں آیت اس طرح نازل ہوئی تھی،پھر اس میںیہ تبدیلی کردی گئی۔‘‘
آخر میں ایک عبارت ایسی نقل کررہا ہوں جس سے شیعہ کے اکابر علماء ومشائخ کے تحریف قرآن کے متعلق عقیدہ کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ ملا محسن فیض کاشانی اپنی مایہ ناز تفسیر ’’تفسیر صافی‘‘ کی پہلی جلد میں مقدمہ نمبر۶ کے تحت لکھتے ہیں :
واما اعتقاد مشائخنا فی ذالک فالظاہر من ثقۃ الاسلام محمد ابن یعقوب الکلینی طاب ثراہ انہ کان یعتقد التحریف والنقصان فی القرآن وکذالک استاذہ علی ابن ابراہیم القمی فان تفسیرہ مملوء منہ ولہ غلو فیہ وکذالک شیخ احمد بن ابی طالب الطبری فانہ ایضاً نسخ علی منوالھما فی کتاب الاحتجاج (تفسیر صافی صفحہ ۳۴جلد۱مطبوعہ ایران)
ترجمہ:’’جہاں تک تحریف کے بارے میں ہمارے مشائخ کا اعتقاد ہے تو یہ بات ظاہر ہے کہ محمد بن یعقوب کلینی قرآن مجیدکی تحریف اور اس میں کمی واقع ہوے کا عقیدہ رکھتے تھے اور اسی طرح ان کے استاذ علی بن ابراہیم قمی کیونکہ ان کی تفسیر تو تحریف روایات سے بھری ہوئی ہے اور تحریف کے موضوع پر ان کے ہاں بڑی شدت ہے۔ اسی طرح احمد بن ابی طالب طبرسی بھی اپنی مشہور کتاب ’’الاحتجاج‘‘ میں انہی کے طریق پر چلے ہیں‘‘۔
اب اس عبارت کے بعد بھی کیا یہ بات باقی رہ جاتی ہے کہ شیعہ عقائد کی کتابوں میں تحریف کے قائل نہیں اور شیعہ کے اکابر واعاظم نے تحریف قرآن کے قائل ہونے سے انکار کیا ہے؟
میں طوالت کے پیش نظر یہاں ’’فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب‘‘ کی عبارتیں نقل نہیں کررہا بلکہ سید مہر حسین بخاری صاحب کی خدمت میں عرض گذار ہوں کہ وہ بنظر عمیق اس کتاب کا مطالعہ فرمالیں۔ اگر یہ نہیں کرسکتے تو کم ازکم اپنے اکابر علماء اہل سنت کی رد شیعیت پر مشتمل کتب کا مطالعہ کرلیں۔ اس حوالے سے امام اہل سنت حضرت علامہ عبد الشکور لکھنوی فاروقی ؒ کی’’ تنبیہ الحائرین‘‘، شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی ’’شیعہ سنی اختلافات اور صراط مستقیم‘‘ اور امام اہل سنت حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی کتاب ’’ارشاد الشیعہ‘‘ کا مطالعہ بہت مفید رہے گا۔ 
باقی یہ کہنا کہ تحریف قرآن کی لچر اور بیہودہ روایات تو بعض کتب اہل سنت میں بھی موجود ہیں تویہ صرف اور صرف کذب بیانی اور جہالت پر مبنی بات ہے۔ ناسخ اور منسوخ کی روایات کو تحریف قرآن کی روایات پر محمول کرنا جہالت نہیں تو اور کیا ہوسکتا ہے؟ اگر کسی مفسر یا مصنف نے ناسخ ومنسوخ یا اسی طرح قراء ات شاذہ کی روایات کو تحریف کی روایات کہا تو وہ سنی نہیں، بلکہ اس نے سنی بن کر مذہب اہل سنت کو بدنام کرنے اور بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ شیعہ کے ہاں ناسخ ومنسوخ کی روایات نہیں ہیں، جیساکہ فصل الخطاب نوری طبرسی میں لکھا ہے کہ’’ان نسخ التلاوۃ غیر واقع عندنا‘‘ (فصل الخطاب نوری طبرسی صفحہ ۱۰۶)۔
اہل سنت کی عقائد کی کتابوں میں شیعوں کو اسلامی فرقہ شمار نہیں کیا گیا۔ اگر کیا گیا ہے تو ہم اسے محدث عظیم حضرت سید انور شاہ کاشمیریؒ کی کتاب فیض الباری میں منقول اس عبارت من لم یکفرہم لم یدر عقائدہم (جن حضرات کو ان کے عقائد کا علم نہیں ہو سکا، انہوں نے ان کی تکفیر نہیں کی) پر محمول کرتے ہیں۔یہ کہنا کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ پر خودبھی کفر کا فتویٰ لگا تھا تو وہ دوسروں کو کیسے کافر کہہ سکتے ہیں تو جناب سید مہر حسین بخاری صاحب ! اس حوالہ سے گذارش یہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے ’’رد روافض‘‘ نامی ایک رسالہ تحریر فرمایا تھا جو دراصل علماء ماوراء النہرکے اس فتویٰ کی تائید میں تھا جو انھوں نے روافض کی تکفیر کے سلسلہ میں تحریر فرمایا تھا۔ اس رسالہ کی اشاعت کے بعدحضرت مجدد الف ثانیؒ پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا تھا اور یہ کفر کا فتویٰ لگانے والے شیعہ ہی تھے جو بظاہر سنی بن کر حضرت مجددصاحبؒ کی شخصیت کو مجروح کررہے تھے۔ آج تک کسی بھی ایسے شخص نے جس نے شیعہ کے کفر پر اختلاف کیا ہو، اس بات کو بطور دلیل کے پیش نہیں کیا سوائے آپ کے۔ دشمن کی اس سازش سے صرف آپ متأثر ہوئے ہیں اور اس کی وجہ ان بدطینت لوگوں کی صحبت ہے۔اللہ رب العزت ہم سب کو دین حق اسلام پر استقامت عطافرمائے اور مذہب اہل سنت والجماعت کی پیروی اور حفاظت کرنے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
محمد یونس قاسمی 
ایڈیٹر: نظام خلافت راشدہ فیصل آباد
(۳)
مولانا حافظ محمدعمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
فروری ۲۰۱۰ء کا شمارہ ملا اور ولولہ تازہ نصیب ہوا۔ ’’دینی جدوجہد کے عصری تقاضے اور مذہبی طبقات‘‘ کے حوالے سے مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کی تحریر کافی فکر انگیز تھی۔ ’’خواجہ حسن نظامی کی خاکہ نگاری‘‘ پڑھ کر ڈاکٹر اقبال مرحوم کا ایک قول یاد آ گیا کہ ’’اگر مجھے خواجہ حسن نظامی کی سی نثر نگاری پر قدرت ہوتی تو میں شاعری کو کبھی ذریعہ اظہار نہ بناتا۔‘‘
سید مہر حسین بخاری صاحب نے ایک بار پھر ہمیں یاد فرمایا ہے۔ یہ پڑھ کر کہ وہ ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف میں مبتلا ہیں، قلبی صدمہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ انھیں جلد صحت یاب فرمائے۔ فی زمانہ علمی وتحقیقی انداز میں اپنا نقطہ نظر پیش کرنے والوں کو صدمات میں گھرا دیکھ کر دل ڈوب اور جی اوب جاتا ہے۔
بخاری صاحب نے اپنے پہلے مکتوب میں لکھا تھا کہ ’’تحریف قرآن کی لچر اور بے ہودہ روایات تو بعض کتب اہل سنت میں بھی موجود ہیں۔‘‘ راقم السطور نے جب اس پر گرفت کی تو انھوں نے یوں جواب دیا کہ ’’راقم نے لچر اور بے ہودہ کے الفاظ قرآن حکیم کے مخالف پر استعمال کیے ہیں، جیسا کہ مشہور ناصبی اور منکر حدیث تمنا عمادی نے ’’جمع القرآن‘‘ نامی کتاب میں بہت سی روایات اکٹھی کی ہیں۔‘‘ حیرت واستعجاب کے بھنور میں ہوں کہ دعوے کے مطابق بے ہودہ روایات کتب اہل سنت میں ہیں اور دلیل میں تمنا عمادی جیسے ناصبی اور منکر حدیث کی جمع القرآن؟کیا ناصبی اور منکر حدیث کی لکھی کتاب بھی ’’کتب اہل سنت‘‘ میں شمار کی جاتی ہے؟ دعوے اور دلیل میں کچھ تو مطابقت ہو۔
بخاری صاحب نے شعلہ بداماں ہو کر شکوہ کیا ہے کہ ’’مجھے بڑی حیرت ہے کہ اسلامی مدارس کے علما وفضلا بھی مہذب اور شستہ زبان کے استعمال سے قاصر ہیں۔‘‘ حالانکہ راقم السطور نے ’’لچر‘‘ اور ’’بے ہودہ‘‘ کے جملے انھی کے نقل کیے ہیں تو پھر غیر شستگی کس کی جانب سے ہوئی؟ دراصل آج کل اپنے آپ کو ماڈرن اور لبرل منوانے کا مختصر اور آسان طریقہ یہی ہے کہ اسلامی مدارس اور ان کے فضلا پر ’’ملاعین وطواغیت‘‘ کی تہمت لگا دی جائے۔
راقم نے اپنے مکتوب میں لکھا تھا کہ ’’قمی وکلینی اور علامہ نوری طبرسی کی جمع کردہ تحریف قرآن کی روایات کی بنا پر کل شیعہ آبادی کو محرف قرآن ٹھہرایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ یہ ایک الگ اور مستقل بحث ہے۔‘‘ اس کے جواب میں جو کچھ لکھا گیا، وہ میری اس عبارت کا جواب نہیں ہے۔ اور مغلوب الغضب ہو کر بخاری صاحب لکھتے ہیں کہ ’’حافظ عبد الجبار سلفی شاید نسخ اور اختلاف قراء ت کی اصل حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہے۔ نسخ، اختلاف قراء ت اور تحریف میں نمایاں فرق ہے۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے تین عدد کتب کے نام لکھ کر راقم کو جماعتی وابستگی سے ہٹ کر ان کی مراجعت کا مشورہ دیا ہے۔ جماعتی وابستگی سے بخاری صاحب کی مراد تحریک خدام اہل سنت ہے، حالانکہ جماعتی وابستگی کے ہوتے ہوئے بھی ان کتب کا مطالعہ ہو سکتا ہے اور بفضل اللہ تعالیٰ راقم نے اس سے پہلے بالاستیعاب کر رکھا ہے۔ تبادلہ فکر وخیال میں وابستگیوں اور نسبتوں پر طنز نہیں کیا جاتا۔ راقم نے تو نہیں کہا کہ بخاری صاحب نے شیعہ محقق دوست کی وابستگی سے ہٹ کر تحریف قرآن پر فلاں فلاں کتاب کا مطالعہ کریں۔
جہاں تک شیعہ مذہب کے علما کا تعلق ہے تو سوائے چار کے (شیخ صدوق، ابن طالب طبرسی، شریف رضی، علامہ طوسی) سب تحریف کے قائل ہیں۔ یہی بات علامہ نوری طبرسی نے اپنی کتاب ’’فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب‘‘ ص ۳۱ اور ۳۵ پر لکھی ہے اور اسی موقف کو بعد ازاں اپنی کتاب ’’رد الشبہات عن فصل الخطاب‘‘ میں ثابت کیا ہے۔ شیخ صدوق (جنھیں ابن بابویہ قمی بھی کہا جاتا ہے) کے رسالہ اعتقادی کی مفصل شرح شیعہ عالم محمد حسین ڈھکو صاحب (فاضل نجف اشرف عراق) نے لکھی ہے۔ ڈھکو صاحب برملا کہتے ہیں کہ ’’ہاں یہ درست ہے کہ ہمارے بعض علماء تحریف کے قائل ہیں۔‘‘ (احسن الفوائد ص ۴۹۱) اسی سے ملتی جلتی بات علامہ الحائری نے اپنی تفسیر ’’لوامع التنزیل‘‘ پارہ ۱۴ ص ۱۵ پر لکھی ہے، بلکہ علامہ نوری طبرسی نے تویہاں تک لکھا ہے کہ تحریف قرآن کی روایات ہماری کتابوں میں دو ہزار سے متجاوزہیں اور یہ قول انھوں نے مشہور شیعہ عالم علامہ نعمت اللہ الجزائری سے نقل کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو فصل الخطاب ص ۲۵۱ مطبوعہ عراق)
بخاری صاحب فرقوں کے مابین اختلاف ختم کرنے کی گنجائش مانگتے ہیں، حالانکہ اختلاف تو علمی وسعت کی دلیل ہے جو بہرحال رہے گا۔ ہاں صبر وتحمل اور رواداری کے ساتھ اپنا نقطہ نظر پیش کرکے ’’مخالفت‘‘ ختم کی جا سکتی ہے۔ اختلاف میں نظر دلائل پر ہوتی ہے اور مخالفت میں محض اسٹائل پر۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم نصیب فرمائیں۔ آمین ثم آمین
حافظ عبد الجبار سلفی
خطیب جامع مسجد ختم نبوت
ملتان روڈ، لاہور
(۴)
محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مقام مسرت ہے کہ آنجناب اور ’الشریعہ‘ کے باصلاحیت نوجوان مدیر جناب عمار خان ناصر صاحب اس سوسائٹی کے جذباتیت اور سطحیت زدہ مذہبی ماحول میں واقعی تعمیری فکر و جذبے کے ساتھ سر گرم کار ہیں۔’الشریعہ‘کا ہر صاحب دل ونظر قاری محسوس کر سکتا ہے کہ آپ جیسے صاحبانِ علم کا قلم نفرتوں کی بھسم کرتی ہوئی آگ پر محبتوں کی برکھا برسانے اور قومی وجود پر جگہ جگہ موجود زخموں پر پھاہے رکھنے کی اپنی سی کوشش میں مصروف ہے۔ہر چند کہ کم ہیں، مگر اپنی خاکستر میں موجود اس نوع کی چنگاریاں امید بندھاتی ہیں کہ محبت، تحمل، برداشت، رائے کا احترام، اخوت و اتحاداور اعلیٰ اخلاقی اقدار پرسوسائٹی اور نظمِ اجتماعی کی تشکیل،جیسا کہ ہمارے اجداد کا ورثہ ہے،اب بھی ناممکن الحصول نہیں۔
یہ کافروہ فاسق،یہ گمراہ وہ بدعتی،یہ مشرک وہ گستاخ، شیعہ فلاں فلاں’ ’اکابر‘‘ کے فتاویٰ کی روشنی میں کافر، بریلوی ان ان وجوہ سے مشرک، دیوبندی اس اس لحاظ سے منافق، وہابی اس دلیل سے گستاخ، غیر مقاتلین کا قتل یوں جائز، خود کش بمباروں کابے گناہ شہریوں اور معصوم مسلمانوں کو خاک وخوں میں نہلا دینا اس دلیل سے روا۔ خدا کی پناہ! یہ کس علم کی خدمت ہے؟ یہ کس دین کی نصرت ہے؟ ؂
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
بخدادل سے دعا نکلتی ہے، اس صاحب فکر وقلم کے لیے جواس غایت درجہ سطحی اور ابنائے ملت کے لیے سم قاتل اپروچ سے اوپراٹھ کر سوچتا اور لکھتا ہے۔میرے دونوں ممدوح بے شبہ اسی قبیل کے صاحبانِ فکر وقلم ہیں۔ ’الشریعہ‘ کے صفحات گواہی دے رہے ہیں کہ محترم عمار خان ناصرمسلمانوں کی تکفیر وتفسیق کے آگے ڈھال بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ابھی پچھلے ہی دو ماہ یعنی جنوری اور فروری ۲۰۱۰ء کے شماروں میں تکفیر شیعہ کے حوالے سے مضمون نگاروں کی تحریروں پر موصوف کے وضاحتی نوٹ قابل ملاحظہ ہیں۔ایک نوٹ میں آپ نے برصغیر کے مذہبی عبقری شاہ ولی اللہؒ اوردوسرے نوٹ میں اپنے مفسرِقرآن عم محترم صوفی عبدالحمید خاں سواتی کے ایک خطبہ جمعہ کے حوالے سے تکفیر شیعہ سے برأت کے رویے کو قرین صواب باور کرانے کی سعی کی ہے۔یہ ایک قابل تعریف وتقلید مثال ہے۔ اگر آپ برداشت، اعتدال، احترام اور محبت و ہمدردی کا رویہ اپنائیں گے تو نہ صرف سوسائٹی میں ان اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ دوسرے کو اس کی غلطی کا احساس دلانے اور باہمی اختلافات میں کسی نتیجہ خیزی کی بھی توقع کی جا سکے گی۔آپ کسی مسلمان کو کافر قرار دیں گے تو وہ جواب میں آپ کو پھولوں کے ہار تو نہیں پہنانے والا۔ وہ بھی آپ کو کافر کہے گا۔کافر کافر کی اس رٹ کا نتیجہ؟ یہی نفرتیں، دوریاں، بغض، کینے، فساد، تشدد، قتل وغارت، انارکی، مذہب اوراہل مذہب کی بدنامی۔کاش مذہب کے یہ ہمدرد اور اسلام کے یہ شیدائی،ان دونوں صورتوں کے بدیہی نتائج کا ادراک کرسکیں۔
مولانا زاہد الراشدی کی ملک وملت کے لیے درد مندانہ اور مصالحانہ فکر و مساعی پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے،لیکن یہاں میں طوالت سے بچنے کی غرض سے فروری ۲۰۱۰ء کے شمارہ میں موصوف کے ’کلمہ حق‘ کا حال دینے پر اکتفا کروں گا۔زیر نظر تناظر میں مذکورہ کلمہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔بلا شبہ دینی حلقوں کی باہمی کشمکش ،عدم برداشت اور ایک دوسرے کا استخفاف واستحقاراس قوم کے لیے زہر قاتل ہے۔ہمارے مذہبی طبقات آج اس قوم کی سب سے بڑی خدمت اگر کوئی کر سکتے ہیں تو وہ یہی ہے کہ وہ باہمی منافرت پر قابو پائیں اورایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے مشترکہ اعلیٰ اسلامی آئیڈیلز کے حصول کی خاطرباہمی احترام اور مشاورت و مفاہمت کی فضا قائم کریں۔مولانا کو تعجب ہے کہ جب وہ اپنے طلبہ کوانسانی حقوق، معاصر مذاہب کے تعارف،ماضی قریب کی دینی تحریکات اور پاکستان میں نفاز اسلام کی جدو جہد کے فکری وعلمی پہلوؤں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ان کے منہ کی طرف دیکھتے ہیں کہ جیسے وہ اس دنیا کی نہیں بلکہ کسی اور دنیا کی بات کر رہے ہوں اور شاید وہ انہیں گمراہ کر کے ’اکابر سے مسلک سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں مولانا کی خدمت میں عرض گذار ہوں کہ آپ بالکل متعجب نہ ہوں۔ آپ واقعی اپنے طلبہ سے ان کی ’’دنیا‘‘ کی بات نہیں کر رہے۔ آپ بلاشبہ ان کو ’’اکابر‘‘ کے مسلک سے ہٹانے کی کوشش میں مصروٖف ہیں۔ آپ سچ مچ اپنے طلبہ کو مشکل میں ڈال رہے ہیں۔ ؂
آئین نوسے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
مگرمولانا !آپ کو اپنے ’’نو نہالوں‘‘کو اس ’’دوسری دنیا‘‘ کی یہ’’ انرجیٹک غذا‘‘ دیتے رہنا پڑے گا تا آنکہ یہ ’’سن شعور‘‘ کو پہنچ جائیں۔
محترم ناظرین !کیا آپ نے کبھی غور کیاکہ آج تقریباً ہر جگہ مذہب کے بجائے سیکولرزم اور مذہبی قوتو ں کے بجائے سیکولر قوتیں غالب کیوں نظر آتی ہیں؟ میری ناچیزرائے میں اس کی بہت کچھ ذمہ داری مذہبی طبقات پر عائد ہوتی ہے۔مذہبی لوگوں کے بارے میں پوری دنیا میں ایک عمومی تاثر شدت پسندی،عدم برداشت اور رجعت پسندی کا پایا جاتا ہے۔مذہبی لوگ جب تک اس تاثر کو زائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے ،مذہب سیکولرزم اور مذہبی قوتیں سیکولر قوتوں کی جگہ نہیں لے سکتیں۔اگر ہم مغرب کی بات کریں تو وہاں نشاۃ ثانیہ کے بعد سے یہ تصور انتہائی پختہ ہو گیاکہ مذہب رجعت ،تشدد، جہالت اور خلاف عقل و منطق تصورات و نظریات سے عبارت ہے۔ لہٰذا کوئی وجہ نہ تھی کہ وہاں مذہب اور اہل مذہب کو قائدانہ کردار ادا کرتے رہنے دیا جاتا۔آج مغرب میں یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ کوئی ایک انسان یا جماعت مذہب کے عنوان کے تحت کسی سوسائٹی یا ملک کی رہنمائی کی اہل ہو سکتی ہے۔اگرچہ اسلام عیسائیت سے یکسر مختلف ہے اور مسلمان بجا طور پر یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ اسلام آج بھی انسانی سوسائٹی اور سٹیٹ کی بہتری ،ٖفلاح و بہبود اور ترقی و کامرانی کے لیے وہی کردار ادا کر سکتا ہے، جو وہ سینکڑوں سال پہلے اداکر چکا ہے۔لیکن مغرب اس بات کو بالکل تسلیم نہیں کرتا۔ہم یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے یا حقائق سے آنکھیں چرا لیتے ہیں کہ مغرب تو اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ہے،وہ اسلام کو انسانی فلاح کے ضامن کے طور پر کیوں مانے گا؟مگر نہ جانے ہم اس بات پر کیوں غور نہیں کرتے کہ کیا ابتدائے اسلام میں سارے لوگ اسلام کو انسانی فلاح کے ضامن کے طور پر ماننے کے لیے تیار بیٹھے تھے کہ ادھر وحی آئی اور ادھر لوگ اسے اپنے درد کا درماں سمجھ کربے تابانہ اس کی طرف لپک پڑے۔ظاہر ہے اسلام کے بارے میں ان لوگوں کے تعصبات و تحفظات آج کے انسانوں سے کہیں زیادہ تھے۔آج توعلم ہے ،روشنی ہے اورسب سے بڑھ کر یہ کہ سائنسی اور تحقیقی وتجرباتی علم نے بہت سے لوگوں میں اپنے مخالف نظریات وافکارکے حوالے سے معروضی رویہ پیدا کردیا ہے۔جبکہ اس دور میں ،جہالت تھی،تاریکی تھی اور مخالف افکار ونظریات سے متعلق اکثر لوگوں میں موضوعی رویہ پایا جاتا تھا۔ 
پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کی مذہب کی جس شدت کے ساتھ مزاحمت کا ماحول اس عہد میں پایا جاتا تھاعصر رواں میں اس کی تمام تر خرابیوں کے باوجود وہ ماحول نہیں پایا جاتا۔ابتدائے اسلام میں اسلام کی مزاحمت کی شدت کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے جس میں آنحضورؐ نے فرمایا تھاکہ اللہ کی راہ میں جس قدر میں ستایا گیا ہوں،کوئی نبی نہیں ستایا گیا۔پھر کیا وجہ تھی کی اجڈ،جاہل،وحشی ،موضوعی سوچ کے حامل اور اسلام کی مزاحمت میں انتہائی سخت لوگ کچھ ہی عرصہ میں اسلام کے سایہ میں عافیت محسوس کرنے لگے؟بات بالکل واضح ہے کہ حضورؐ اورآپ کے ساتھیوں کے رحمت و رافت،احسان و مروت،صبر وتحمل اور نیکی وخیر خواہی کے عملی رویے نے ان پر روز روشن کی طرح عیاں کر دیا تھاکہ ان لوگوں کے مذہب کا مقصدانسانیت کی فلاح و کامرانی اور بہتری و بھلائی کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔آج کامذہب بھی اگر اس طرح کے عملی رویے پیش کر سکے توکوئی وجہ نہیںآج کا انسان اس دور کی تپتی ہوئی دھوپ سے بچنے کے لیے اس کے سایہ میں پناہ لینے پر آمادہ نہ ہو۔مگر افسوس اے اسلام کے نام لیواؤ!’’تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے‘‘؟ ؂
تم ہو آپس میں غضبناک وہ آپس میں رحیم
تم خطا کار وخطا بیں،وہ خطا پوش وکریم
خود کشی شیوہ تمہارا وہ غیور وخوددار
تم اخوت سے گریزاں، وہ اخوت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو وہ گلستاں بکنار
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم
آج کے مذہبی حلقے غیر مسلموں اورمذہب سے یکسر دورلوگوں کو نظم اجتماعی کے ضمن میں مذہب کی اہمیت سے متعلق قائل کرنے میں تو کیا کامیاب ہوں گے،وہ خود مسلمانوں اوراسلام کے بارے میں اپنے دلوں میں نہایت اچھے جذبات رکھنے والے افراد کو بھی اس حوالے سے قائل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ مسلم معاشرے میں مسلم عوام بالعموم مذہبی طبقات کی بجائے اپنی سیاسی و سماجی رہنمائی کا فریضہ ان لوگوں کو سونپنے پر آمادہ ہوتے ہیں جن کا جھکاؤ سیکولرزم کی طرف ہو یا جن کی شناخت اور پہچان روایتی اعتبار سے مذہبی نہ ہو؟ کیا ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ سیکولر شناخت کے حامل لوگ عوام کے زیادہ ہمدرد، زیادہ دیانتدار، زیادہ پاک وصاف، معاملات کازیادہ فہم رکھنے والے اور زیادہ قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں؟ظاہر کہ ایسا نہیں ہے اور کوئی بھی باشعورآدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ چیزیں سیکولر شناخت رکھنے والے افراد سے خاص ہیں، بلکہ ممکن ہے کہ عوام کی اکثریت ان چیزوں میں سے بیشتر کو مذہبی لوگوں سے خاص سمجھے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے عہد اور ہماری سوسائٹی بلکہ ماضی قریب میں بھی مسلمانوں نے قیادت و رہنمائی کے سوال پراپناوزن ہمیشہ مذہبی شناخت نہ رکھنے والے افراد اور جماعتوں ہی کے پلڑے میں ڈالا ہے؟ اس سوال کو تو شایدناقابل معافی جرم سمجھا جائے کہ قائد اعظمؒ کی جگہ کوئی مذہبی رہنما کھڑا ہوتا تو کیا کبھی پاکستان بن پاتا؟یہی بتا دیجیے کہ ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجوداسلام کے نام پر پاکستان کی خاطرسب کچھ قربان کر دینے والوں نے مذہبی رہنماؤں اور جماعتوں کو ہر دور میں کیوں مسترد کیا؟
راقم الحروف کے نزدیک اس کے دو بنیادی اسباب ہیں۔پہلا سبب یہ ہے کہ تمام مذہبی طبقے عوام کو یہ یقین دلانے میں ناکام رہے ہیں کہ وہ اپنے زیر قیادت اپنے سے مختلف مذہبی فکر ونظریات کے حامل افراد سے روادارانہ اور پر امن بقائے باہمی کا رویہ اپنائیں گے،تشدد اور عدم برداشت سے گریز کریں گے،دوسروں کی رائے کا احترام کریں گے اوراپنے مذہبی نظریات کو عوام الناس پر جبراً مسلط نہیں کریں گے۔ دوسرا یہ کہ مذہبی طبقوں نے اپنے اپنے زیر اثر لوگوں کو مذہبی حوالے سے اس قدر متعصب اور تنگ نظر بنا دیا ہے کہ وہ کسی بھی مذہبی شخصیت یا جماعت کومسلکی عینک لگائے بغیر دیکھتے ہی نہیں۔ لہٰذا کسی بھی مذہبی شخصیت یا جماعت کا ایک مشترکہ مسلم رہنماکے طور پر سامنے آنا محال بن کر رہ گیا ہے۔ کوئی مذہبی شخصیت خواہ وہ کتنی بھی پارسا اور دیانتدار ہو، اگر کسی دوسرے مسلک سے تعلق رکھتی ہے تو اس کے مقابلے میں مذہبی شناخت نہ رکھنے والی ایک کرپٹ اور بددیانت شخصیت بھی قابل ترجیح ٹھہرتی ہے۔یہ چیز عام دیکھنے میں آتی ہے کہ مختلف دفاتراور اداروں وغیرہ میں عام حالات میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ نہایت ہنسی خوشی اور بغیر کسی مسلکی تعصب کے کام کر رہے ہوتے ہیں،لیکن جونہی مذہب کے عنوان کے تحت کسی قائد و رہنما کے بارے میں رائے کا سوال آتا ہے ،وہ فوراًشیعہ،بریلوی ،دیوبندی اور وہابی وغیرہ بن جاتے ہیں۔ سوسائٹی میں مسلکی تعصبات کی گہرائی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اگر کوئی اجنبی کسی جگہ مذہبی تناظر میں اپنا تعارف کراتے ہوئے خود کو صرف مسلمان کہنے پر اکتفا کرے تو لوگ متعجب ہوتے ہیں کہ گویا وہ شخص اپنے اصلی ’’مذہب‘‘کو چھپا رہا ہے اور انہیں اس وقت تک اطمینان قلب نصیب نہیں ہوتا جب تک وہ کسی نہ کسی مسلکی وابستگی کا اظہار نہ کرے۔گویا اللہ اور اس کے رسول کی دی ہوئی پہچان، پہچان ہی نہیں اور ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِنَ (الحج۲۲:۷۸) جیسے نصوص کے کوئی معنی ہی نہیں۔
مذہبی طبقات اگر واقعی اس بات کے خواہشمند ہیں کہ سیکولرزم کے مقابلہ میں مذہب کو غلبہ حاصل ہو تو ان کو نہ صرف خودمسلکی تعصبات سے بالاتر ہو کراسلامی نظام کے قیام کے لیے باہم مل جل کر اور ایک ہو کر مشترکہ جدوجہد کرنا ہوگی، دوسروں کے مذہبی جذبات اور رائے کے احترام کا رویہ اپنانا ہو گا،عوام الناس کے مذہبی قوتوں کے تحت تشدد و تصلب، رجعت پسندی،عدم رواداری اور ترقیٔ معکوس کے اندیشوں کو دور کرنا ہوگا،بلکہ اپنے اپنے حلقۂ اثر کے لوگوں میں مسلکی تعصبات کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی اور انہیں اس بات پر آمادہ کرناہو گاکہ وہ مذہبی قوتوں کی حمایت کے سلسلہ میں مذہبی اختلاف رائے کو آڑے نہ آنے دیں۔اگر کچھ مذہبی قوتیں تطہیر اور خود احتسابی کے اس عمل سے گزرے بغیرمذہب کو سیکولرزم پر غالب کرنا چاہتی ہیں تو انہیں جان لینا چاہیے کہ ایں خیال است و محال است و جنوں۔
ڈاکٹر محمد شہباز منج
شعبہ ا سلامیات،یونیورسٹی آف سرگودھا
drshahbazuos@hotmail.com

الشریعہ اکادمی میں مولانا سید عدنان کاکاخیل کی آمد

ادارہ

(مولانا سید عدنان کاکا خیل ۱۲؍ فروری بروز جمعۃ المبارک جامعۃ الرشید کے ایک وفد کے ہمراہ تعلیمی دورے پر گوجرانوالہ تشریف لائے۔ مدرسہ نصرۃ العلوم میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمانے کے بعد انھوں نے ’’الشریعہ اکادمی‘‘ میں حاضرین سے ایک مختصر خطاب کیا جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

امابعد! ھوالذی ارسل رسولہ بالھدٰی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔
مفسرین کے ایک گروہ کا خیا ل ہے کہ آیت میں مذکور غلبہ و اظہار دلیل و حجت کا غلبہ ہوگا ۔سیاسی و عسکری غلبہ کا جہاں تک تعلق ہے، اس میں تو دو رائیں ہو سکتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدینؓ کے زمانے میں حاصل ہو نے والا سیاسی و عسکری غلبہ اب موجود ہے یا نہیں؟ یعنی اس غلبہ کی نوعیت بدل سکتی ہے، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی دلیل و حجت ہر زمانہ میں تمام ادیان پر غالب و ظاہر رہے گی، یعنی اس نوعیت کا غلبہ ہر وقت موجود رہے گا۔ گویا اس آیت کا کم از کم یہ مفہوم ہر زمانے میں مراد لیا جا سکتا ہے۔
ا س ضمن میں یہ بات بھی گوش گزار کروں گا کہ عصر حاضر کو ڈائیلاگ کا دور کہا جاتا ہے۔ آج وہ فورمز بہت زیادہ ابھر کر سامنے آئے ہیں جن میں گفت و شنید کے ذریعے کسی بات کا حق یا نا حق ہونا طے ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے اداروں کی بہت زیادہ ضرورت ہے جو اس کلچر کو رواج دیں۔ معاشرے میں ابھی تک اہل حق کی جانب سے ایسے ٹھوس فکری ادارے بہت کم تعداد میں وجود میں آئے ہیں۔ دوسرے طبقات نے تو اس ماحول سے خاطر خواہ فائدہ بھی اٹھایا ہے اور اس حوالے سے بہت ساری چیزیں بھی منظر عام پر لائے ہیں، اس لیے ہمیں خوشی ہوتی ہے کہ اس نسبتاً چھوٹے شہر سے ایک بڑے کام کی ابتدا ہوئی۔ ایسا ادارہ قائم ہوا جس کی بنیاد اس سوچ اور فکر پر ہے کہ یہاں دلیل سے بات ہو گی، یہاں حجت سے بات ہو گی،یہاں گفتگو ہو گی، بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کیا جائے گا۔ 
زمانہ طالب علمی میں عام طور پر بغاوت کا شوق ہوتا ہے خواہ ماحول کے اثر کے باعث ہو یا پھر نظام سے موافقت نہ ہونے کی وجہ سے، اور دل چاہتا ہے کہ پہلے سے طے شدہ چیزوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جائے ۔میں نے بھی طالب علمی کے دور میں منصوبہ بنایا تھا کہ میں ایسا رسالہ نکالوں گا جس پر لکھا ہوگا کہ ’’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ‘‘ اور اس میں ہر کسی کو اپنی بات کہنے کی کھلی اجازت ہوگی، ہر چیز لکھنے کی اجازت ہو گی۔ میرے خیال میں مولانا زاہد الراشدی نے بھی اسی نقطہ نظر سے یہ رسالہ شروع کیا ہے،اس لیے اس رسالہ کو پڑھ کر ہمارے زمانہ طالب کے ان باغیانہ جذبات کی تسکین ہوتی ہے جو ہمارے اندر سر اٹھایا کرتے تھے۔
موجودہ دور میں دوطبقات باہم گفتگو کے فریق ہیں۔ ایک فریق وہ ہے جس کی نظریاتی بنیادیں اپنے ماضی کے ساتھ پورے طور پر وابستہ نہیں۔ وہ فکری و نظریاتی طور پر آزاد سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے ہاں گفتگو کے لیے کسی بھی وقت کوئی بھی مسئلہ کھڑا کیا جا سکتاہے اور کوئی بھی اس پر بحث کر سکتا ہے۔ جبکہ دوسرا فریق وہ ہے جو بات چیت سے پہلے یہ طے کرتا ہے کہ ایسے کون سے مسائل ہیں کہ جن پر بات ہونی چاہیے یا ہو سکتی ہے؟ کون سا مسئلہ مجتہد فیہ ہے اور کون سا حکم معلو ل بالعلۃ ہے؟ کس مسئلے کا مدار عرف پر ہے اور کس کی اساس میں تعامل الناس کا اصول کار فرما ہے؟ پھر گفتگو کرنے والوں کی اہلیت کیا ہو گی؟ ان کے مصادر و مراجع کیا ہوں گے جن کی طرف بحث کو لوٹایا جائے گا؟یہ تمام باتیں طے ہوں گی تو پھر بحث کا آغاز ہو گا اور گفتگو کا ماحول بنایا جائے گا۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ جس طرح ریاضی کی درسی کتب میں سوالوں کے جوابات آخر میں دیے ہوتے ہیں اور سوال حل کرنے کا خواہ کوئی طریقہ اختیار کیا جائے ،جواب وہی آنا چاہیے جو آخر میں درج ہے۔ اسی طرح متفق علیہ مسائل میں تحقیق کا چاہے جو بھی راستہ چنا جائے، جواب وہی آنا چاہیے جس پر امت اتفاق کر چکی ہے۔ اگر اس طرز کو چھوڑ کر تحقیق کار کو آزادی دی جائے گی تو معاملہ بگڑنے کا اندیشہ ہے، جیسا کہ مودودی صاحب مرحوم جب تحقیق شروع کرتے تو فرماتے کہ میری تحقیق مجھے جہاں لے جائے گی، وہی میرا نتیجہ ہو گا۔ اسی وجہ سے بعض اوقات ان کے اور جمہور امت کے نتائج تحقیق میں فرق آیا ہے۔ ایسے تحقیق کاروں کی زندگی کے ابتدائی، درمیانی اور آخری حالات میں بڑا تغیر و تبدل نظر آتا ہے، جبکہ دیگر حضرات کے ہاں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کے ابتدائی و انتہائی حالات میں کوئی بڑی تبدیلی آئے ۔عصر حاضر میں اسے جمود کا نا م دیا گیا ہے لیکن ہم اسے ثبوت و استقرار کہتے ہیں۔
[ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘ کی خصوصی اشاعت بیاد حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ] اکابر میں سے جب کسی کا انتقال ہوتا ہے تو ان سے متعلق مجلات کی طرف سے ان پر خصوصی نمبر شائع کرنے کا رواج ہے اور تقریباً تمام ہی اکابرین پر یہ نمبر شائع ہو چکے ہیں۔ جب ہمیں ’’الشریعہ ‘‘ کا امام اہل سنت نمبر پڑھنے کا موقع ملا تو ہم سب کی رائے یہ تھی کہ ’’اس کو پڑھ کر لطف آیا‘‘۔ کہیں بھی کسی قسم کی ملمع سازی یا اطرا کا رنگ نظر نہیں آیا۔واقعی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم ایک انسان کی سیرت کا مطالعہ کر رہے ہیں، پندرہویں صد ی ہجری کے ایک عالم دین کی سیرت پڑھ رہے ہیں۔ تمام معلومات اپنی اپنی جگہ حقیقت کے خانے میں فٹ معلوم ہوتی ہیں۔ مولانا ندویؒ نے اپنے والد محترم کی کتاب ’’نزہۃ الخواطر‘‘ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ بر صغیر میں اکابر و اولیا کی سیرتیں ایسے لکھی گئی ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ آدمی فطرت اور اللہ تعالیٰ کی سنت کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ اللہ کی طرف سے دنیا کو چلانے کے لیے جو عادات طے ہیں اور وہ جس ڈھب اور جس طریقے پر دنیا کو چلانا چاہتے ہیں، اولیا کا کام اس کے خلاف کرنا ہے۔ اگر وہ نظام فطرت کے ساتھ توافق میں چل رہے ہیں تو ان کی ولایت میں ضرور گڑ بڑ ہے۔ اس زمانے میں سیرو سوانح لکھنے کا ایک عمومی رواج تھا جس کو ’’نزہۃ الخواطر‘‘ میں تبدیل کیا گیا اور اولیا و اکابر کے تذکرے کو حقیقی انداز میں بیان کیا گیا۔ بالکل یہی رنگ ہمیں ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘ کے خصوصی شمارے میں نظر آیا۔
(ترتیب وتدوین: حافظ عبد الرشید)

مولانا لالہ عبد العزیز رحمہ اللہ کی وفات

مولانا عبد العزیز صاحب مرحوم و مغفور ۱۷ ؍نومبر ۲۰۰۹ ء کو دار البقاء کی طرف کوچ کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم ملک کی عظیم دینی درسگاہ مدرسہ نصرۃ العلوم کے ابتدائی مدرسین میں سے تھے ۔ مدرسہ سے وابستگی کی طویل مدت ( جو تقریبا ۴۰ سال بنتی ہے) میں انہوں نے ناظم ، ناظم کتب خانہ ، ناظم امتحانات اور مدرس کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔ ہمارے زمانہ طلب علمی میں وہ ناظم امتحانات تھے ۔ اس وقت وہ اگرچہ خاصے معمر تھے مگر حوصلہ و ہمت وہی جوانوں والی۔ امتحانات کے لیے پرچے بنوانا، انھیں چیک کروانا، رزلٹ تیار کرنا، تمام امور مناسب وقت پر بطریق احسن انجام پاتے تھے۔ اگر کبھی نتیجہ میں تاخیر ہوتی تو پوچھنے پر بعض ایسے جملے ارشاد فرماتے جن کی معنی آفرینی پنجابی کے ’’ ادب لطیف‘‘ کا خاص حصہ ہے۔ 
وہ آخر عمر تک مدرسہ سے متعلق رہے اور اتنی طویل مدت کی وابستگی کسی ’’ مکین ‘‘ کو ’’ مکان ‘‘ سے وہی تعلق عطاکر دیتی ہے جو مجنوں کو صحرا سے، لیکن مولانا نے قدرت اللہ شہاب کی ’’ماں جی ‘‘ کی طرح کہ ’’ جس خاموشی سے دنیا میں رہی تھیں، اسی خاموشی سے عقبیٰ کو سدہار گئیں‘‘، گمنامی کی چادر یوں اوڑھی کہ خود اس گلشن کے رہنے والوں کو جس کی یاسمین و نسترن اور روشوں کی پھبن کو انہوں نے جگر کا خون دے کر سینچا تھا، اس کی خبر حافظ مہر محمد صاحب کے خط کے پرزے سے کئی دنوں بعد ملی جو گویا ساغر کی زبان سے یوں شکوہ سنج تھی :
یاد رکھنا ہماری تربت کو 
قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا 
مولانا ۲۰۰۳ ء تک مدرسہ سے متعلق رہے اور ہزاروں تلامذہ کو اپنا علمی وارث چھوڑا جن میں شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی جیسے بالغ نظر صاحب فکر اور مولانا عبد القدوس قارن مدظلہ جیسے محدث شامل ہیں۔ مدرسہ نصرۃ العلوم کے ارباب بست وکشاد کو چاہیے کہ مولانا کی حیات کو تذکرے کی شکل میں سینہ قرطاس پہ محفوظ کریں۔ شاید کبھی ’ نصرۃ العلوم ‘ کے متعلقین میں سے کوئی اسے دیکھے تو امرؤ القیس کے الفاظ میں ’’قفا نبک من ذکری حبیب ومنزل‘‘ کہتے ہوئے اشکبار آنکھوں سے کلمات دعا ادا کرے۔ 
اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت کرے اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے ۔ آمین
(وقار احمد ۔ ایم فل کلیہ اصول الدین
بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد)

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’علامہ اقبال اور قادیانیت‘‘

انیسویں صدی کے آخر میں مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی ظلی نبوت کے عنوان سے برصغیر میں ایک نیا باب الفتن کھولا تو سادہ لوح عوام کو اس کے دجل وفریب سے آگاہ کرنے کے لیے اہل حق کو میدان میں آنا پڑا اور اہل علم نے علمی وتحقیقی اور مناظرانہ ومجادلانہ، ہر دو انداز میں پوری مستعدی سے قادیانی نبوت کی تاویلات وتحریفات کا پردہ چاک کیا۔ اہل دین کی کم وبیش پون صدی کی مسلسل جدوجہد قادیانی فرقے کو عالم اسلام میں قانونی اور آئینی سطح پر غیر مسلم قرار دینے پر منتج ہوئی۔ اس تحریک کی قیادت اور راہ نمائی بنیادی طور پر علما نے کی، تاہم اس کی کامیابی میں بہت سی ایسی شخصیات کا حصہ بھی کم نہیں جو روایتی مذہبی حلقے کی نمائندہ نہیں سمجھے جاتیں۔ ان شخصیات میں علامہ محمد اقبالؒ کا نام سرفہرست ہے۔ 
قادیانی گروہ نے اپنی معاشرتی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے لوگوں کو مذہبی تاویلات اور گورکھ دھندوں میں الجھانے کے ساتھ ساتھ کئی سیاسی اور سماجی عوامل کا بھی سہارا لینے کی کوشش کی۔ برصغیر کی فضا مختلف مذہبی گروہوں کی طرف سے ایک دوسرے کی تکفیر کے واقعات سے مانوس تھی، جبکہ مرزا غلام احمد دعواے نبوت سے پہلے کئی سال تک ہندووں اور عیسائیوں کے مقابلے میں دفاع اسلام کے محاذ پر محنت کر کے اپنے حق میں ہمدردی کی فضا بڑے پیمانے پر پیدا کر چکے تھے، چنانچہ جب ان کے دعواے نبوت پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا تو ایک وقت تک ناواقف مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اسے روایتی مذہبی فتوے بازی ہی کا ایک نمونہ سمجھتی رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ نہ صرف انگریز سرکار بلکہ اسلام سے محض نسبت کا تعلق رکھنے والے نام نہاد لبرل طبقات کی ہمدردیاں بھی اس نوزائیدہ گروہ کو حاصل تھیں۔ اس تناظر میں علامہ اقبال جیسی قد آور اور معتبر ملی شخصیت کا قادیانی نبوت کے خلاف دو ٹوک اور واضح موقف اختیار کرنا ان تمام طبقات پر مذہبی علما کے موقف کا وزن واضح کرنے میں بے حد موثر ثابت ہوا جو کسی بھی وجہ سے اس معاملے میں تردد یا دو ذہنی کا شکار تھے۔ 
زیر نظر کتابچہ میں مولانا مشتاق احمد چنیوٹی نے، جو اس موضوع کے متخصص ہیں، قادیانیت کے بارے میں علامہ محمد اقبال کی تحریروں، گفتگووں اور بیانات کا ایک مختصر مگر نمائندہ انتخاب جمع کر دیا ہے جو اس حوالے سے ان کے زاویہ نظر اور استدلال کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اقبال کے طرز استدلال کا ایک امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے عقیدۂ ختم نبوت کے حوالے سے مسلمانوں کا مقدمہ خالص کلامی بنیاد پر پیش کرنے کے بجائے پنے مخاطب طبقات کی ذہنی رعایت سے، اس عقیدے کی اہمیت کو سماجی اصولوں کی روشنی میں واضح کیا اور یہ بتایا کہ بحیثیت ایک گروہ کے مسلمانوں کے مذہبی تشخص کی بنیاد اسی عقیدے پر ہے اور اس کی حفاظت کے لیے یہ ان کا مذہبی، اخلاقی اور جمہوری حق ہے کہ کسی نئی نبوت پر ایمان لانے والے گروہ کو ان کا حصہ سمجھنے کے بجائے ایک نیا مذہبی گروہ قرار دے کر قانونی اعتبار سے ان سے الگ کر دیا جائے۔ (ص ۱۶، ۱۷) 
اسی طرح انھوں نے قادیانی گروہ پر زندقہ وارتداد کے روایتی فقہی احکام (یعنی سزاے موت) جاری کرنے کے بجائے جدید جمہوری تناظر میں یہ تجویز کیا کہ قادیانیوں کو ایک الگ جماعت تسلیم کر لیا جائے اور پھر مسلمان ان کے بارے میں ویسے ہی مذہبی اور معاشرتی رواداری سے کام لیں گے جیسے وہ دوسرے مذاہب کے بارے میں لیتے ہیں۔ (ص ۱۱) یہ بات اس پہلو سے بہت اہم اور حکیمانہ تھی کہ قانونی تکفیر کے باوجود اس سے آگے چل کر ان ہزاروں لوگوں کے لیے اسلام کی طرف واپسی کا راستہ کھلا رہتا جو مختلف وجوہ سے قادیانیت کے پرفریب جال کا شکار ہو کر جادۂ حق سے بھٹک گئے، جبکہ موجودہ صورت حال میں مسلمان مناظرین کے اختیار کردہ لب ولہجہ اور طرز استدلال نیز قادیانیوں کی نئی نسل کا مسلمانوں کے ساتھ اختلاط بالکل مفقود ہونے کی وجہ سے یہ راستہ کم وبیش بند دکھائی دیتا ہے، چنانچہ مرزا طاہر احمد کے دست راست حسن محمود عودہ نے بیس سال قبل اپنے قبول اسلام کے موقع پر ایک انٹرویو میں قادیانی امت کے اپنی گمراہی پر قائم رہنے کا ایک بڑا سبب اس چیز کو قرار دیا تھا کہ ان کی مسلمان علما تک رسائی نہیں ہے اور قادیانی قیادت اس خلیج کو برقرار رکھنے میں ہی اپنا بھلا سمجھتی ہے۔
بہرحال اس نازک مسئلے پر اقبال جیسے بالغ نظر مدبر کے نقطہ نگاہ اور طرز استدلال کو سمجھنے کے لیے زیر نظر کتابچہ بہت مفید ہے۔ ۳۲ صفحات پر مشتمل یہ مختصر رسالہ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ پاکستان کی طرف سے شائع کیا گیا ہے اور اسے جامعہ عربیہ چنیوٹ، مکتبہ سید احمد شہید، اردو بازار لاہور اور مکتبہ رشیدیہ، راجہ بازار راول پنڈی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
(محمد عمار خان ناصر)

’’مسلمان مثالی اساتذہ ، مثالی طلبہ‘‘

مولف: سید محمد سلیم
ناشر : زوار اکیڈیمی پبلی کیشنز، ۴۔۱۷ ناظم آباد نمبر ۴، کراچی
صفحات: ۱۳۶۔ قیمت: ۱۳۰ روپے
پروفیسر محمدسلیم نامور استاد ہیں۔ تنظیم اساتذہ پاکستان کے رہنماؤں میں سے ہیں۔ موضوع بالا پر ان کا قلم اٹھانا ان کا حق اور منصب ہے، کتاب طلبہ اور اساتذہ کے لئے رہنما حیثیت رکھتی ہے۔ مستند مواد کی مدد سے با کمال ترتیب پیش کی گئی ہے۔ اس میں ان کا قلم رسا بھی پوری شان کے ساتھ کار فرما ہے۔ میں نے ان کی پہلی ہی کتاب دیکھی ہے۔ اس لیے ان کے انداز نگارش سے شناسائی کا پہلا موقع ہے۔ 
مختصر سی کتاب ہے مگر اپنے اندر بے پناہ تاثیر رکھتی ہے۔ کتاب پڑھ کر، گردو پیش پر نظر ڈالی جائے تو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ وہ اساتذہ اور طلبہ جن میں تدریس اور مطالعے کا جنوں اپنی معراج پر تھا، اب کہاں ہیں۔ تنظیم اساتذہ اور جمعیت طلبہ بھی اس طرح کے جنوں کو فروغ دینے کو اپنی ترجیحات میں رکھنے میں سنجیدہ نہیں رہیں۔ وہاں ٹریڈ یونین ازم چھا چکا ہے۔
کتاب میں بعض چیزیں البتہ کھٹکتی ہیں۔ ایک تو اختصار کی حدوں کے اندر رہ کر موضوع سے کافی زیادتی کی گئی ہے۔ حوالوں کا فقدان ہے۔ اقتباسات کتاب کو کافی معتبر بناتے ہیں مگر حوالہ جات کم ہی درج ہوئے ہیں۔ آخر پر مآخذ کی فہرست کفایت نہیں کر سکتی۔ حوالوں سے یہ بے نیازی سید صاحب کے مقام سے کچھ فرو تر ہے۔ اکیڈیمی کے سید عزیزالرحمن صاحب نے پیش گفتارمیں لکھا ہے کہ کتاب میں اشعار کی اصلاح کے لیے ایک صاحب کا تعاون حاصل کیا گیا۔ ہمارے نزدیک حوالوں کی تکمیل کے لیے بھی کسی کا تعاون حاصل کر لیا جاتا تو کتاب کا معیار اور بھی بہتر ہو جاتا۔
ایک اور کھٹکنے والی بات موضوع سے غیر متعلق مواد کا جزوِ کتاب ہو جانا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس پہلو سے میری رائے عمومی سطح پر سخت محسوس ہو۔ وجہ یہ ہے کہ پیشے کے لحاظ سے ہمارے ہاں ربط و تعلق کا زیادہ لحاظ رکھا جاتا ہے۔ غیر متعلق مواد کی چھانٹ ہمارے ہاں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ بہر صورت میری اس رائے کی درستی کا اندازہ کرنے کے لیے فہرست مضامین پر ایک نظر ڈالنا پڑے گی۔ 
بہرحال کتاب تدریس و مطالعے کا جنوں پیدا کرنے میں پورا اثر رکھتی ہے۔ اس سے مولف کے خلوص کا اعتراف کرنا پڑے گا۔کتاب اختصار کے باوجود اپنے مقصد کے لحاظ سے بڑی کامیاب کوشش ہے۔ پڑھ کر ہل من مزید کی طلب ہوتی ہے۔
(چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ)

اپریل ۲۰۱۰ء

دستوری ترامیم اور حکمران طبقے کا رویہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
سید ابوالحسن علی ندویؒ: فکری امتیازات و خصائصڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
اسلامی اخلاقیات کے سماجی مفاہیم (۱)پروفیسر میاں انعام الرحمن
علمِ حدیث پر مستشرقین کے اعتراضات (جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ کے افکار کا خصوصی مطالعہ)پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک
ایک نئی دینی تحریک کی ضرورتڈاکٹر محمد امین
مذہبی شدت پسندی اور اس کے سدباب کی حکمت عملیخورشید احمد ندیم
ایک تربیتی ورک شاپ کی روداد (۱)محمد عمار خان ناصر
مکاتیبادارہ
حالات و واقعاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
الشریعہ اکادمی میں سیرت النبیؐ کے حوالے سے مختصر تقریبادارہ

دستوری ترامیم اور حکمران طبقے کا رویہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دستور پاکستان ایک بار پھر ترامیم کا سامنا کر رہا ہے اور ان سطور کی اشاعت تک دستور پر نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ کی قائم کردہ کمیٹی کی سفارشات منظر عام پر آ چکی ہوں گی۔ ۱۹۷۳ء میں منتخب دستور ساز اسمبلی نے یہ دستور منظور کیا تھا اور اس وقت کی پارلیمنٹ کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا کہ اس نے قیام پاکستان کے ربع صدی بعد ملک کو ایک ایسا متفقہ دستور دیا جو قوم کے تمام طبقوں اور علاقوں کے لیے قابل قبول تھا اور پوری قوم نے اس پر اتفاق کرتے ہوئے ایک نئی دستوری زندگی کا آغاز کیا تھا۔ اس دستور کی بنیاد تین امور پر تھی: اسلام، جمہوریت اور وفاق۔ یہی تین دستوری بنیادیں قوم کے اتفاق واتحاد کی علامات قرار پائیں، مگر ۱۹۷۳ء سے اب تک یہ دستور سترہ ترامیم کے مراحل سے گزر چکا ہے اور اب اٹھارویں ترمیمی بل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان دستوری ترامیم میں سے بعض ایسی بھی ہیں جو قوم کے اجتماعی مطالبے پر کی گئیں اور ایسی بھی ہیں جو کسی نہ کسی ڈکٹیٹر نے اپنی آمرانہ ترجیحات اور ضروریات کے مطابق دستور میں شامل کر دیں۔ ان آمرانہ ترامیم نے دستور کو موم کی ناک بنا دیا جو آمروں اور ڈکٹیٹروں کے رحم وکرم پر تھا اور اس کا نقشہ وقتاً فوقتاً بدلتا رہا۔ یہ آمر طاقت کی نمائندگی بھی کرتے تھے اور کچھ آمر وہ بھی تھے جنھوں نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ لیا تھا اور اس کی آڑ میں انھوں نے آمرانہ مزاج اور روایات کو دستور کا حصہ بنا دیا۔
ہمارے ہاں اصل میں دو مغالطے ہمیشہ کار فرما رہے۔ ایک یہ کہ آمریت اور جمہوریت میں فرق یہ ہے کہ حکمرانی کے منصب پر فائز شخص عوام کا نمائندہ ہے یا صرف طاقت کی نمائندگی کرتا ہے، حالانکہ آمریت کا تعلق ووٹ سے نہیں بلکہ مزاج اور نفسیات سے ہوتا ہے اور اس کا فیصلہ عوامی رجحانات کا احترام کرنے یا اسے پامال کر دینے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس مغالطے نے ووٹ اور الیکشن کے ذریعے آنے والے بعض حکمرانوں کے ہاتھ میں بھی آمریت کی تلوار تھما دی اور اس کا نشانہ غریب دستور بنتا چلا گیا۔ دوسرا مغالطہ یہ کہ شاید سارے کام دستور ہی کرتا ہے اور اس میں رد وبدل کرنے سے پالیسیاں اور طرز عمل بھی خود بخود تبدیل ہو جایا کرتے ہیں، جبکہ اصل بات دستور کو چلانے والوں کی ذہنیت، نفسیات اور طرز عمل ہے۔ اگر عمل کرنے والوں کی نیت درست ہے، وہ قومی مفادات کو اپنے ذاتی، گروہی اور طبقاتی مفادات سے مقدم رکھتے ہیں اور عوام کی رائے ان کے نزدیک محترم ہے تو دستور وقانون اس کے مطابق حرکت کرتے ہیں اور اگر حکمرانوں کی نفسیات اور ترجیحات اس سے مختلف ہیں تو دستور وقانون کے لیے ان کے اشارۂ ابرو کے مطابق گھومتے چلے جانے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہوتا اور پاکستان کے دستور وقانون کے ساتھ اب تک یہی ہوتا آ رہا ہے۔
پاکستان کے دستور کی تینوں بنیادوں پر نظر ڈال لیجیے کہ اسلام، جمہوریت اور وفاق میں سے کس کے ساتھ اب تک وفا کی گئی ہے اور ہماری رولنگ کلاس کا رویہ ان میں سے کس کے ساتھ مثبت رہا ہے! ہمارے حکمران طبقات نے جب چاہا ہے، ضرورت پڑنے پر ان میں سے ہر بنیاد کو ہتھیار کے طو رپر ضرور استعمال کیا ہے لیکن ملک کے نظام اور معاشرتی ماحول میں ان میں سے کسی کو بھی عمل داری کے لیے آزاد نہیں چھوڑا گیا اور پھر ستم بالاے ستم یہ کہ ہماری رولنگ کلاس کے اوپر ایک اور ’’رولنگ کلاس‘‘ ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کی صورت میں مسلط ہے جو پہلے ان دیکھی اور خفیہ ہوتی تھی، اب کھلم کھلا ملک کے ہر شہری کو دکھائی دے رہی ہے اور صورت حال یہ ہے کہ دستور وقانون کی جو صورت ان دونوں کے مفاد میں ہوتی ہے اور اس پر عمل درآمد سے ان میں سے کسی کا مفاد مجروح نہیں ہوتا، وہ کسی درجے میں عمل میں آ جاتی ہے، لیکن جمہوریت، راے عامہ اور دستور وقانون کی جو تعبیر ان میں سے کسی کی ترجیحات کے لیے رکاوٹ بنتی ہے، وہ ان دیکھے فریزر میں منجمد ہو کر رہ جاتی ہے۔
دستور کی اسلامی دفعات پر عمل درآمد، پارلیمنٹ کی بالادستی اور وفاق کے تقاضوں کے مطابق صوبوں کے حقوق اور اسٹیٹس کی بحالی کے مسائل ربع صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود جوں کے توں پڑے ہیں اور اس کی تازہ ترین عملی مثال یہ ہے کہ مبینہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے قوم کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد کی صورت میں جو قومی موقف طے کیا تھا، وہ خدا جانے کون سے فریزر میں منجمد پڑا ہے اور جن پالیسیوں کو عوام نے دو سال قبل عام انتخابات میں کھلم کھلا مسترد کر دیا تھا، ان کا تسلسل نہ صرف جاری ہے بلکہ اسے تحفظ فراہم کر کے عوامی رائے اور مینڈیٹ کا کھلم کھلا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ دستور پاکستان پر جتنی بار چاہیں، نظر ثانی کر لیں اور جتنے بھی ترمیمی بل منظور کرا لیں، اگر رولنگ کلاس کا رویہ، نفسیات اور ترجیحات تبدیل نہیں ہوں گی تو بار بار کی دستوری ترامیم سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اصل ضرورت فدویانہ طرز عمل کو بدلنے کی ہے، نوآبادیاتی نظام اور سوچ سے پیچھا چھڑانے کی ہے، ملک کی دستوری بنیادوں اسلام، جمہوریت اور وفاق کے تقاضوں کو بروے کار لانے کی ہے اور عوام کے جذبات ورجحانات کے آگے سرنڈر کرنے کی ہے۔ اگر رولنگ کلاس اس کے لیے تیار ہے تو حالات میں اصلاح کی توقع کی جا سکتی ہے، ورنہ
گر یہ نہیں ہے بابا پھر سب کہانیاں ہیں

سید ابوالحسن علی ندویؒ: فکری امتیازات و خصائص

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

انیسویں صدی کے اواخر میں عالم اسلام سیاسی، عسکری اور علمی و فکری زوال کی انتہا کو پہنچ رہا تھا اور بیسویں صدی کے آغاز تک مغربی استعمار عالم اسلام کے حصے بخیے کرنے اور خلافت کے ادارہ کو توڑنے میں کامیاب ہوچکاتھا۔اس ناگفتہ بہ صورت حال نے عالم اسلام میں بے چینی کی ایک لہر دوڑادی اور ہر طرف علماے راسخین اور مجاہدین آزادی اٹھ کھڑے ہوئے۔ مختلف اسلامی تحریکات اور شخصیات دنیائے اسلام کے کونے کونے میں پان اسلام ازم اور احیائے اسلام کے مبارک و مقدس کاز کے لیے سرگرم عمل ہوگئیں۔ 
یہ زمانہ افکار و نظریات کی شکست و ریخت کا زمانہ تھا۔ مغرب کے صنعتی و سائنسی انقلاب نے وہاں کے حالات یکسر بدل دیے تھے۔ افکار و خیالات کی دنیا میں ایک نمایاں تغیر آچکا تھا، اب جاگیر داری ختم ہورہی تھی اور اس کی جگہ شراکت جمہور نے لے لی تھی۔ سرمایہ داری کی پرانی شکلیں تبدیل ہوکر اب بین الاقوامی تجارتی ادارے (M.N.C.S) قائم ہورہے تھے۔ موروثی بادشاہت اور آمریت کی طنابیں بیسویں صدی کی ہوائے حریت سے یکے بعد دیگرے ٹوٹ رہی تھیں۔ مزدوروں کے استحصال نے سرمایہ دارانہ نظام اور بورژروا طبقہ کے خلاف سخت معاندانہ رجحانات پیداکردیے تھے۔انفرادی ملکیت کی بجائے اب سیاست و معیشت کے اداروں میں پرولتاریہ خیالات کی گونج سنائی دے رہی تھی اور یہ فکر زندگی کے ہر شعبہ کو شدت سے متاثر کرنے لگا تھا۔
مغربی نشاۃ ثانیہ کی پرورش و پرداخت اصلاً یہودی دماغ نے کی تھی، چنانچہ الحاد، بے دینی اور اخلاق سے بیزاری اس نئی تہذیب اور نئی بیداری کی نمایاں علامتیں بن گئیں۔ اب عقل انسانی ہی ہر چیز کی میزان، اور افادیت و نفع بخش ہی تمام اعمال کے خیروشر ہونے کا پیمانہ بن گئے۔ مذہبیات اور روحانیات پر الحادو تشکیل کی ہوائیں چلنے لگیں اور نئی نسلوں کے اذہان و قلوب کو متاثر کرنے لگیں۔ قومیت اور نیشنل ازم کی آوازیں اس زور سے اٹھیں کہ وطن پرستی ہی ’’روح عصر‘‘ سمجھی جانے لگی۔ عالم اسلام خود مختلف عصبیتوں اور قومیتوں کا شکار ہوگیا۔ فکری زعامت اور علمی و تحقیقی امامت بھی مشرق سے چھن کر اب مغرب کو منتقل ہوچکی تھی۔عالم اسلام پر اب عسکری و سیاسی حملوں کے بجائے علمی و فکری یلغار یں زیادہ ہورہی تھیں اورحکومت و ریاست اور سیاست ومعیشت کے مختلف اور متعدد نظریات سامنے آرہے تھے۔
ایسی صورت حال میں عالم اسلام میں اٹھنے والی مختلف تحریکات اور ان کے فکری رہنماؤں کی تحریرو ں اور تعبیروں میں خارج کے دباؤ کے تحت کچھ افراط و تفریط کا آجاناکچھ زیادہ تعجب کی بات نہیں ہے، کیونکہ انسان ہر حال میں اپنے ماحول اور اردگرد کی فضا سے اثر پزیر ہوتاہے۔چنانچہ برصغیر میں مدرسہ مودودیؒ کے پیداکردہ لٹریچر اور اس کے بانی کی خاص مصطلحات میں اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ ۱ ؂ اسی طرح عالم عرب میں عظیم اسلامی تحریک ’’الاخوان المسلمون‘‘ کے ایک بڑے فکری رہنما اور مجاہد سید قطبؒ شہید کی بعض تحریروں میں بھی انہیں خیالات کی بازگشت ملتی ہے۔ ۲؂ بر صغیر کی بعض دوسری اور تحریکوں میں بھی افراط و تفریط کی یہی صورت حال نظر آتی ہے۔ ان میں سے بعض مغربی انقلاب سے شدید طور پر متاثر تھیں اور بعض خالص صوفیانہ نقشہ کے ساتھ اصلاح کا کام کرنا چاہتی تھیں۔ ۳؂ 
تحریکی و انقلابی تصور دین کی علمبردار جماعتوں اور تحریکوں نے بلاشبہ دین کی مدافعت ونصرت کی ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ انھوں نے کئی نسل کو الحاد و تشکیک کے حملوں سے بچایا، مستشرقین اور متجددین کے اعتراضات کے جواب دیے، اسلام سے متعلق مختلف پہلؤوں پر عصری اسلوب و آہنگ میں لٹریچر فراہم کیا۔بایں ہمہ چونکہ ان میں سے بیشتر اسلامی تحریکات کا پہلا دور جوش و خروش اور انقلابی جزیات اور تبدیلی کے ایک عمومی نشانہ کو لے کر ہوا تھا، اس بڑھی ہوئی انقلابیت کی وجہ سے کہیں پر جابر و مستبد مسلمان حکمرانوں سے ٹکراؤ اورتصادم کی کیفیت پیدا ہوگئی اور کہیں پر بنیادی فکر اور لٹریچر میں دین کی تعبیر و تشریح کے سلسلہ میں افراط و تفریط نے راستہ پالیا،حتی کہ جو شیلے نوجوان کارکن اور نسبتاً زیادہ انقلابی افراد ان تحریکوں سے بھی مایوس ہوکر الگ الگ گروپ بنانے میں جٹ گئے اور نیا خون کم ملنے کی وجہ سے اب اکثر تحریکیں تعصب وتحزب اور جمود فکری کا شکار ہونے لگی ہیں۔ 
دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلہ میں بحکم ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ‘‘ امت مسلمہ کی ۱۴ سو سالہ تاریخ زوال و ادبار، انحطاط و تنزل کے ساتھ ہی اصلاح و تجدید سے بھی معمور رہی ہے۔امت کی اس پوری تاریخ میں عام روایت یہ رہی ہے کہ مصلحین و مجددین بلا استثنا پوری قوم کو اپنا مخاطب بناتے تھے۔ انھوں نے کسی تحریک و تنظیم کے تصور کی اساس پر کام نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاح و تجدید کی تاریخ میں عمر بن عبدا لعزیز رضی اللہ عنہ سے لے کر حسن بصریؒ ، عبدالقادر جیلانیؒ ، غزالیؒ واشعریؒ تک اور ابن تیمیہؒ وابن خلدون ؒ سے لے کر امام ربانی مجدد الف ثانی سرہندیؒ اور امام ولی اللہ محدث دہلویؒ تک سب کے سب امت کی مشترکہ میراث بن گئے اور آنے والی نسلوں نے ان سے بلا استثنا کسب فیض کیا۔ ان عبقری شخصیات نے فقہی جمود، مسلکی اور جماعتی تعصب کی تنگ نائیوں اور محدود یتوں سے نکل کر فکر اسلامی کے آفاقی اور وسیع تصور کو سامنے رکھا۔
بیسویں صدی میں اٹھنے والی انقلابی تحریکیں امت میں ایک نئی روایت کا آغاز تھیں۔ ان سے امت کی اصلاح و تجدید کا یہی نکتہ پوشیدہ رہ گیا۔ بطور خاص بر صغیر میں دین کی تعبیر کے لیے جو اسلوب اختیار کیا گیا، جو لب ولہجہ اپنایا گیا، وہ یہاں کے لیے ایک نئی اور نامانوس بات تھی۔ اس کے باعث، نیز یہاں کے مخصوص حالات کے پیش نظر علما کی بڑی تعداد اس تحریک سے دور و نفور ہی رہی۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک مخصوص فکری حلقہ پیدا کرنے کے علاوہ یہ تحریکیں کوئی ہمہ گیر شکل اختیار نہ کر سکیں۔ عوام قابل ذکر تعداد میں ان کی طرف متوجہ نہ ہوئے اور ساری صلاحیتوں اور امکانات کے باوجود ان کے اثرات عام طور پر بہت محدود ہوکر رہ گئے۔
مذکورہ تحریکات کی نشوونما اور ارتقا کا زمانہ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے عنفوان شباب کا زمانہ ہے۔مولانا نے ان میں سے بیشتر تحریکات اور ان کے بانیوں کو دیکھا، پرکھا اور برتا تھا۔ کئی ایک سے ان کی عملی وابستگی بھی رہی اپنے فکری سفر کے ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے بالآخر وہ خود ’’ایک شخص ایک کاروان‘‘ کی شکل اختیار کرگئے۔گزشتہ نصف صدی کی عظیم علمی و فکری شخصیات کے مابین مولانا تنہا ایک ایسے داعی ومفکر اور روحانی قائد اور مرشد امت ہیں جو ان ساری محدودیتوں سے نکل کر بذات خود ایک مدرسہ فکر کی حیثیت اختیار کرگئے۔ مولانا ندوی ؒ کی زندگی ، ان کی عقلیت کے تکوینی عناصر، ان کا خاندانی پس منظر، ان کے اساتذہ گرامی قدر، ان کی تعلیم و تربیت اور فکری نشوونما، ان کی تصنیفات، ان کے عملی کارناموں اور ان کی اصلاحی و دعوتی جد وجہد کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے، بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، اور آیندہ بھی ان پہلووں پر بہت ساکام ہوگا۔ میں یہاں اختصار کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہتاہوں کہ مولانا کا فکری خمیر تحریک شہیدین کی جامع روح پرور اور انقلابی و تجدیدی دعوت سے اٹھا تھا۔یہی تحریک تھی جو ان کے دل میں جاگزیں ہوگئی تھی اور کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد وہ اسی تحریک کو مثالی اور آئیڈیل نمونہ تصور کرتے تھے، اور اسی کے عملی مظاہر اور تقاضوں کی تلاش و جستجو میں انھوں نے مختلف شخصیات اور مختلف مراکز دعوت و فکر کی طرف قدم بڑھائے تھے۔ سید مودودی ؒ سے ان کا فکری رشتہ اسی کی خاطر استوار ہواتھا۔ بستی نظام الدین کے مرکزتبلیغ کی طرف ان کے قدم تبلیغی تحریک کے وسیع تناظر کو دیکھتے ہوئے ہی اٹھے تھے جو افسوس کہ بانی تبلیغ ،مصلح ا مت مولانا محمدالیاس کاندھلویؒ کے ذہن ہی میں رہا اور ان کی وفات پر ان کے ساتھ ہی رخصت ہوگیا۔ عالم عربی کے مجدد امام حسن البناءؒ کی تحریک اور ان کا منہج عمل اپنے جلال و جمال میں اسی تحریک کا پر تو نظر آیااور مولانا نے اس سے فیض اٹھانے میں کمی نہیں کی۔غرض یہ کہ ان کا اصل مایہ خمیر تحریک شہیدین تھی، اسی مشن کو انھوں نے اپنا مشن بنایا اور تاحیات اس مشن کے وفادار رہے، اور خود ان کا وجود مسعود بھی اس تحریک کا معنوی و امتداد و تسلسل بن گیا۔ 
مولانا ندوی کا بنیادی وصف یہ تھا کہ وہ عالم اسلام میں منصب توجیہ و ترشید پر فائز تھے۔عصر حاضر میں دین کی نئی تعبیر و تشریح کا مسئلہ پیش آیا اور بعض مفکرین سے اس سلسلہ میں بعض تسامحات ہونے لگے تو مولانا نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور اس ضمن میں اپنے بعض محبوب رفقا اور دوستوں پر بھی علمی تنقیدو محاسبہ کا فرض انجام دیااورعصرحاضرمیں دین کی تشریح و توضیح کے سلسلہ میں مولانا مودودیؒ کی تعبیری فر و گزاشتوں کا بھی مؤاخذہ کیا۔ ۴؂  ارید ان اتحدث الی الاخوان اور کتاب ’’البصائر‘‘، ’’عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح‘‘ اور ترشید الصحوۃ الاسلامیۃ سب اسی ترشیدی و توجیہی سلسلہ کی مختلف کڑیاں ہیں۔جب بر صغیر کے ایک تحریکی حلقہ میں یہ مسئلہ بڑے شد و مد کے ساتھ اٹھایا گیا کہ قرآن کے مخصوص مصطلحات کے معنی و مفہوم پر صدیوں پردہ پڑا رہ گیا تھا تو مولانا نے اس بات کی شدت کے ساتھ تردید کی اور علمی اور مثبت انداز میں ’’دعوت و عزیمت‘‘ کا ایک تاریخی سلسلہ لکھا۔ یہ پورا سیٹ اصلاً ان کے اس دعوے کا علمی ثبوت تھا کہ امت میں اصلاح و تجدید کا ایک تاریخی تسلسل قائم رہا ہے اور کسی مرحلہ میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ دین کے مجموعی مفاہیم امت سے مستور ہوگئے ہوں۔ ماذا خسرالعالم بانحطاط المسلمین اور ’’الصراع بین الفکرۃ الغربیۃ والفکرۃ الاسلامیۃ‘‘ میں انھوں نے مختلف اسلامی ممالک میں امت کے ماضی حال و مستقبل کا ایک بصیر ت افروز اور مؤر خانہ و ناقدانہ جائزہ لیا، زوال و ادبار کے عوامل کی نشاندہی بھی کی اور موجودہ حالات میں عالم اسلام کس راستہ کو اختیار کرے، اس سوال کا جواب دیا اور واضح منہج عمل مسلمانوں کے سامنے رکھا۔ واقعہ یہ ہے کہ عالم اسلام نے مولانا کی اس توجیہ و ترشید کو دل سے قبول کیا ہے، چنانچہ تحریکات اسلامیہ کے موجودہ منہاج عمل اور عملی طریقہ ہائے کار میں اس کے اثرات کو صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔اس لحاظ سے مولانا اس صدی کے بہت بڑے فکری قائد اور روحانی مرشد ہیں۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ کا دوسرا بڑا وصف یہ ہے کہ وہ فقہی توسع کے قائل اور اس کے علمبردار تھے۔ انھوں نے جمود و تقلید کے بجائے ہمیشہ اجتہاد کی دعوت دی۔ عشق رسول، اتباع سنت، اور احترام سلف کے ساتھ تربیت باطن اور تزکیہ و احسان کو مطلوب شرعی قرار دیتے رہے۔ انھوں نے تصوف کو بدعات و خرافات اور عجمی اثرات سے پاک کرنے کی دعوت دی اور کتاب وسنت پر مبنی تصوف (احسان) کو روح دین سے کبھی متصادم نہیں سمجھا بلکہ اگر دیکھا جائے تو صحیح معنی میں انھوں نے ہی برصغیر میں پہلی بار علم تزکیہ (تصوف) کی تجدید کی اور اسے بدعات و شرکیہ اعمال سے اس کی تطہیر کی بنارکھی۔ اسی سلسلہ میں ان کے گہربار قلم سے ربانیۃ لا رھبانیۃ نکلی۔انھوں نے پوری ملت کو اپنا مخاطب سمجھا اور بنایا۔ جماعت دیوبند سے بھی انھیں ویسی ہی محبت تھی جیسی تحریک ندوہ سے۔ محدثین کے مسلک سے بھی انھیں عقیدت تھی اور متبع سنت صوفیا اور سلاسل تصوف کے بھی وہ قدر دان تھے۔گویا ان کی ذات میں تحریک ندوہ کی بازیافت ہوئی تھی اور اس کی اصل روح عود کرآئی تھی۔ المیہ یہ ہے کہ مولانا کے اس فکری اور عملی توسع کو بعض خوردہ بیں اور کوتاہ چشم فکر و عمل کا تضاد سمجھتے ہیں۔
مولانا ندوی ؒ نے دین کی سیاسی تعبیر پر تنقید کی، تاہم وہ اپنی زندگی کے کسی لمحہ میں بھی دین و سیاست کی دوئی اور تفریق کے قائل نہیں رہے۔انھوں نے اسلا م کی شوکت،خلافت کے ادارہ کے احیا اور عالم اسلام کے اتحاد اور قوت کی آرزو کی، اس کے لیے کوششیں کیں اور عالم اسلام کے سربراہوں، امرا، مفکروں اور دانشوروں سے جماعتوں اور ان کے قائدین سے اس سلسلہ میں کھلی باتیں کیں۔ ان کا سلسلہ ’’اسعمیات‘‘‘ اس پر شاہدعدل ہے۔ انھوں نے عالم اسلام کے مسائل سے ہمیشہ تعلق رکھا، مسلمان امرا کو ان کے فرائض سے متعلق آگاہ کرتے رہے، انھوں نے مصر کی ناصریت، عربی قومیت اور ترکی کی کمالیت پر تنقید کی، مسجد اقصیٰ اور مقبوضہ فلسطین کے مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
امت کے ضیاع پر مولاناابوالحسن علی ندوی (جوعرف عام میں علی میاں ندوی کے نام سے معروف ہیں)انگاروں پر لوٹتے تھے، لیکن ان کا یہ درد محض احساس و شعور اور قرطاس و قلم تک ہی محدود نہ تھا، انھوں نے امت کا مرثیہ پڑھنے اور آہ وبکا کرنے پر بھی اکتفا نہیں کیا۔ وہ قنوطیت اور یاسیت کے بھی شکار نہ تھے نہ ہی خوش فہمیوں میں مبتلا رہے، بلکہ میدان عمل میں آکر ایک دیدہ ور سپاہی کی طرح اور ایک با شعور اور بابصیر ت قائد کی طرح ہر محاذ پر آگے نظر آئے۔ وہ ڈرائنگ روم مفکروں، گوشہ نشین علما و مدرسین اور زمانے کے اندھیروں اور اجالوں سے بے خبر ’’ہو حق‘‘ کی ضربیں لگانے والے عابدوں اور زاہدوں میں سے نہیں تھے بلکہ ان کی پوری زندگی تمام تر علمی و تحقیقی مشغولیتوں، عبادات کے ذوق و شوق اور روحانی ریاضتوں کے باوجود سر تاپا جہد وعمل سے عبارت تھی۔ وہ عالم اسلام میں ہونے والے ہر قسم کے تعلیمی و تربیتی، دعوتی اور اصلاحی کاموں میں تعاون کرتے اور اصلاحی تحریکات کے پشت پناہ اور مؤید اور ان کے لیے دعا گو بھی تھے۔
مولاناندویؒ کو فکر ارجمند کے ساتھ دل درد مند بھی عطا ہواتھا۔ دین ظلم سے، کفر اور شرک سے نفرت سکھاتا ہے، لیکن ایک انسان کے ساتھ (چاہے وہ کافر و مشرک ہی کیوں نہ ہو) وہ فرخ دلانہ، مصلحانہ اور ناصحانہ رویہ کا طالب ہے۔ ہر نبی کی کی دعوت میں یہ چیز نہایت ابھر ی ہوئی ہے کہ ہر نبی نے اس راہ کی تمام مشکلات کو خندہ جبینی سے برداشت کیااور قوم کی طرف سے پیش آنے والی مصیبتوں اور اذیتوں کے باوجود انا لکم ناصح امین ہی کہا۔ علماے حق اور مصلحین امت بھی انبیا کی نیابت کرتے ہیں۔بنی آدم کے لیے ہمدردی و غم گساری، بلند انسانی قدروں کی حفاظت، حق کی طرف داری، مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانا، اور ظلم کے خلاف احتجاج کرنا وغیرہ جیسے عناصر کا پایا جانا دعوت واصلاح کی تاریخ کا ایک ناگزیر حصہ ہے ۔مولانا کی ’’پیام انسانیت‘‘ کی تحریک دراصل ایسی جذبہ واحساس کی ایک تعبیر ہے۔
آج عقلیت کا دوردورہ ہے۔ سائنٹفک ریسرچ و تحقیق کے نام پر الحادی تہذیب اور تشکیک کی فضا پھیلائی جارہی ہے۔ اس صورت حال میں دینی مفاہیم اور تعلیمات کی تشریح کے لیے عصری اسلوب کا استعمال و قت کا تقاضا اور ایک ناگزیر دعوتی ضرورت ہے۔ اس صدی کے کئی بہترین دماغوں نے عقلی اور استدلالی اسلحوں سے لیس ہوکر اسلام کی نصرت و اشاعت کاکام کیا ہے جس کی مثال میں مولانا وحیدالدین خان کی شاہکار کتاب ’’مذہب اورعلم جدید کا چیلنج‘‘ کو پیش کیا جاسکتاہے اور ان کا یہ کام اپنی جگہ نہایت مہتم بالشان اور ضروری ہے اور مولانا ندوی ؒ عصری اسلوب میں کام کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ تاہم یہ ایک نفسیاتیحقیقت ہے کہ انسان عقل و منطق کے سہارے زندگی نہیں گزارسکتا۔ عقل اور سائنس انسان کے دل میں شکوک و شبہات کے بیج بو سکتے ہیں، اسے ایمان و یقین کی حرارت اور طمانیت قلب کی دولت نہیں دے سکتے ۔ یہ چیز تو اسے صرف قلب و روح کی تسکین اور جذبہ و ضمیر کے اطمینان کے راستے سے مل سکتی ہے۔مولانا کا یہ ایک بہت بڑا امتیاز ہے کہ وہ عقل سے زیادہ جذبہ کی تطہیر اور فکر سے زیادہ عمل کی دعوت دیتے ہیں۔ یہی انبیا و مصلحین کی دعوتوں کا مزاج بھی رہا ہے۔ ایک صحیح حدیث میں اس حقیقت کو ان الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ’’الا ان فی الجسد لمضغۃ اذا صلح صلح الجسد کلہ واذا فسد فسد الجسد کلہ، الا وھی القلب‘‘۔ 
موجودہ زمانہ فن کا زمانہ ہے۔ آج فن سے کا م لے کر لوگ اس فکر و خیال کی بھی جاندار و شاندار ترجمانی کردیتے ہیں جن سے انہیں کوئی قلبی تعلق اور دلی وابستگی نہیں ہوتی۔غالباً یہ بھی ایک وجہ ہے کہ داعیوں کی کثرت اور مطبوعہ اور مسموعہ لٹریچر کی زیادتی کے باوجود متوقع اثرات و نتائج حاصل نہیں ہورہے ہیں۔ آج کتنے ہی سحر انگیز خطیب، کتنے ہی وسیع المطالعہ دانشور اور بلیغ طرز ادا کے مالک مصنفین اور جادو نگار ادیب اور محقق مل جائیں گے جن کے فکر وعمل میں واضح تضاد ملتا ہے، جن کے بولنے اور لکھنے پر فدا ہونے والے اور سن کر مسحور ہوجانے والے ان کی سیرت و کردار کو دیکھیں تو یقیناًانہیں ان کی سطح سے بہت گرا خیال کریں اور ان پر نفرین بھیجنے لگیں۔ دانشوروں کی اس بھیڑ میں مولاناعلی میاںؒ کا ایک امتیاز یہ ہے کہ ان کے ہاں دانش و بنیش بھی ہے اور ایمان ایقان کی سرور آگیں کیفیت بھی ۔ان کے حرف حرف سے اخلاص و للٰہیت ٹپکی پڑتی ہے۔ ان کی پرشکوہ اور خطیبانہ طرز کی تحریروں و تقریروں میں فصاحت و بلاغت کی چاشنی بھی ہے ، حرارت قلب اور جوش عشق کا سامان بھی۔ کثرت معلومات اور تحقیق کے اعلیٰ درجہ پر ہوتے ہوئے بھی ان کے بول بول میں ایک عجیب طرح کی روحانی کشش ولذت پائی جاتی ہے۔ ان کا قاری انہیں پڑھ کر جوش عمل سے سرشار ہوجاتا ہے اور اسے کہیں بھی قول وفعل میں تضاد یا دورنگی کا احساس نہیں ہوتااور مصنوعیت اور لفاظی کا خیال نہیں ہوتا۔
مولانا علی میاںؒ کے ہاں فن بھی ہے اور فنی نزاکتوں کا بھر پور احساس بھی ، تاہم فن سے زیادہ مقصدیت ان کے پیش نظر ہوتی ہے۔ وہ ادب برائے ادب کی تخلیق نہیں کرتے بلکہ ادب کو ایک اعلیٰ اور بلند انسانی زندگی کی تعمیر کے لیے استعمال کرتے ہیں اور عالمی رابطہ ادب اسلامی ۵؂ دراصل ان کے اسی ادبی فکر کا عملی مظاہرہ ہے۔ کوئی شک نہیں کہ وہ اردو و عربی دونوں کے ایک صاحب طرز انشا پرداز ادیب ہیں، اسی طرح وہ ایک کامیاب سوانح نگار، اور صاحب نظر ناقد و مؤرخ ہیں،لیکن اس سب سے زیادہ وہ ایک دل درد مند رکھنے والے داعی، دیدہ ور مصلح اور صاحب فراست مربی ہیں۔

حواشی 

۱؂ مولانا مودودی اور سید قطب کی تحریروں میں دین کے سیاسی پہلو پر غیر ضروری زور دیاگیا اور ان کی تشریح کی رو سے دین کی سماجی واجتماعی نظام زندگی کی حیثیت زیادہ ابھر کر سامنے آئی اور اس کا تعبدی پہلوکمزور پڑگیا جس کے اثرات ان کے پیداکردہ لٹریچر میں بھی صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔ مولانا مودوی کا یہ فکر تفہیم القرآن ،اسلامی عبادات پر ایک تحقیقی نظر ،اور ’خطبات ‘میں نظر آتا ہے، تاہم اس کو خاص منضبط انداز میں انہوں نے’ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحوں‘میں پیش کیاہے جس میں انہوں نے الٰہ، رب ،عبادت اور دین کے معانی ومفاہیم لغت عرب کی بنیاد پر متعین کیے ہیں،ان کے مطابق صفات الٰہیہ میں حاکمیت الٰہ اور اقتدار اعلی ہی اصل او ر بنیادی صفت ہے ۔اس فکر پر مفصل نقد کے لیے ملاحظہ ہو ’’تعبیر کی غلطی‘‘ مؤلفہ مولاناوحیدالدین خان اور ’’عصرحاضرمیں دین کی تفہیم و تشریح پر ایک نظر‘‘ از مولانا ابوالحسن علی ندوی۔
۲؂ سید قطب نے بھی معالم فی الطریق اور فی ظلال القرآن میں متعدد مقامات پر اس فکر کی ہم نوائی کی ہے،وہ لکھتے ہیں کہ اخص خصائص الالوھیۃ الحاکمیۃ۔ 
۳ ؂ اصل میں دین کی عصری تعبیر ایک دودھاری تلوار کی طرح ہے جس میں اگر ذرا سا بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے اور حد سے تجاوز ہوجائے تو بات کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔چنانچہ عنایت اللہ مشرقی جیسے عبقری اور ذہین انسان نے جب ٹھوکر کھائی تو خاکسار تحریک چلائی اور دین کی عصری تعبیر کے نام پر علما کی شدید و بے جا مخالفت شروع کردی۔عبادات کے نظام اور قرآن کی ترتیب اور نظم کی تفہیم میں من مانی تاویلات کیں،نماز کو فوجی پریڈ بنادیا۔ علما سے سائنس داں مراد لیے ۔مشرقی صاحب کی یہ نئی تاویلات ان کی کتاب تذکرہ میں خاص طور پر نمایاں ہیں۔اس کتاب اوراس کے تکملہ میں انہوں قرآن کی نزولی ترتیب وضع کی ہے،اور اسی کو اصل قرار دیاہے ،نیز علما کی مخالفت میں ’’ملاکا نیادین‘‘ ۱۔۲۔۳ نہایت استہزائیہ انداز میں لکھی۔ اسی طرح غلام احمد پرویز نے دین کی معاشی اور سوشلسٹ تعبیر کی اور زکوٰۃ کا پوراسسٹم انہیں ذاتی ملکیت کے خلاف نظر آیا جیساکہ ان کی کتاب ’’لغات القرآن‘‘ اور ’’نظام ربوبیت ‘‘ سے معلوم ہوتاہے ۔ان کے ہاں انکار حدیث کا رجحان اس پر مستزاد ہے ۔ 
۴؂یہ نقطہ نظراصلاً صوفیا کا تھا جن کے ہاں مخاطب کی رعایت، انسان دوستی و خدمت خلق کے فلسفہ کے باعث کفر واسلام کے مابین امتیاز بھی ختم سا ہوگیاتھا۔ بعض اوقات انھوں نے مقامی تصورات و رسوم کو بھی وسیلہ تبلیغ کے طورپراختیار کرلیا۔ بلاشبہ محقق صوفیا ہمیشہ ان غالی خیالات کی تردید کرتے رہے، لیکن ان کے اکثر طبقات و سلاسل پر یہی رجحانا ت غالب رہے جس میں وحدت الوجود کے فلسفہ نے توحید و شرک کے مابین سارے فاصلے ہی ختم کر دیے۔ دور جدید میں تصوف کے زیر اثر حلقوں میں ایک اور فلسفہ نمودار ہوا جس کی ترجمانی بر صغیر میں تبلیغی جماعت کا پیٹرن کرتا ہے۔یہ صحیح ہے کہ مسلمان عوام پر اصلاح و تبلیغ کے اس فکر کے گہرے اثرات پڑے ہیں، تاہم اس کا یہ پہلو بہت کھٹکتا ہے کہ اس میں نھی عن المنکر کے پہلو کو مکمل طور پر فراموش کرکے امر بالمعروف اور بشارت کے پہلو پر زیر صرف کیا جاتا ہے اور احادیث فضائل سے خاص طور پر مددلی جاتی ہے۔
۵؂ ملاحظہ ہو عصر حاصر میں دین کی تشریح وتفہیم پر ایک نظر ۔
۶ ؂ یہ خیال مولانا مودودی نے اپنی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ کے مقدمہ میں ( ص ۴تا۶)میں ظاہر کیاہے۔
۷ ؂ مصرمیں ناصری مظالم کی شدت کے وقت جیلوں میں بندچند اخوانی نوجوانوں میں ردعمل کی کیفیت پیداہوئی اور انہوں نے صدر ناصر اور اس کے حواری مواریوں کی تکفیر شروع کردی تو اس شدت کے خلاف اخوان کے مرشد عام استاذ حسن الہضیبی نے ایک کتاب لکھی ’دعاۃ لاقضاۃ‘ کہ ہم داعی ہیں، خدائی فوجدار نہیں۔یہ کتاب گویا مولاناعلی میاں ؒ کے خیالات کی تائید ہی تھی۔

اسلامی اخلاقیات کے سماجی مفاہیم (۱)

پروفیسر میاں انعام الرحمن

(’’راہ عمل‘‘ کا ایک مطالعہ۔)

خالد سیف اللہ رحمانی ، ہندوستان کے معروف عالمِ دین ہیں ۔ ان کے مختلف اوقات میں لکھے گئے مضامین کے مجموعے عوامی پذیرائی حاصل کر چکے ہیں ۔ اب ان مجموعوں کا مجموعہ ، پاکستان میں زم زم پبلشرز کراچی نے ’راہِ عمل ‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ راہِ عمل دو جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کے پانچ حصے ہیں ۔ جلد اول میں تین اور جلد دوم میں دو حصے ہیں۔ ان حصوں کے عنوانات بالترتیب (۱) نقوشِ موعظت، کل صفحات ۳۶۶ (۲) حقائق اور غلط فہمیاں، کل صفحات ۲۱۲ (۳) نئے مسائل ، اسلامی نقطہ نظر، کل صفحات ۲۷۰ (۴)عصرِ حاضر کے سماجی مسائل، کل صفحات ۲۲۴(۵) دینی و عصری تعلیم اور درس گاہیں:مسائل اورحل، کل صفحات ۲۶۰ہیں۔ یوں ’راہِ عمل ‘ کی دو جلدوں اور پانچ حصوں کے مجموعی صفحات ۱۳۳۲ ہیں۔ 
اس تالیف کے عنوان اور مولف کے نام کے ساتھ ’مولانا‘ کے سابقے سے ہماری یہ گھڑی گھڑائی رائے تھی کہ کاغذ قلم جیسے انتہائی اہم وسائل اور قارئین کے قیمتی اوقات کے ضیاع کی خاطر ، روایتی طرز کے مباحث مولویانہ اسلوب میں بیان کیے گئے ہوں گے، لیکن ’راہِ عمل‘ کی ورق گردانی نے خوش گوار حیرت سے دوچار کردیا کہ طبقہ علما میں اپنے زمانے اپنے معاشرے سے جڑے ہوئے خالد سیف اللہ رحمانی جیسے صاحبِ نظر جہاں دیدہ افراد بھی پائے جاتے ہیں جو زندہ معاشرتی موضوعات پر نہ صرف سوچنے کی جرات کر سکتے ہیں بلکہ اپنی سوچ کو انتہائی دلکش ادبی اسلوب میں الفاظ کا جامہ پہنانے پر بھی قادر ہیں ۔اس لیے کم از کم علما کو تو ’راہِ عمل ‘ کا سنجیدگی سے لازماََمطالعہ کرنا چاہیے تاکہ انہیں معاصر مسائل سے کما حقہ آگاہی حاصل ہو سکے ، اگرچہ بحیثیت مجموعی اس تالیف کے مخاطب عوام الناس ہیں ۔ 
خالد سیف اللہ رحمانی نے قلم اٹھاتے ہوئے، وقت کی نزاکت، قلم کی حرمت اور اپنے مقام (بطور عالم دین) کا بہت دھیان رکھا ہے ۔ اس لیے ’راہِ عمل ‘ کا تنقیدی مطالعہ قاری پر یہ تاثر چھوڑتا ہے کہ خالد صاحب بہت سنبھل کر اور نہایت محتاط انداز میں اپنا مافی الضمیر اس ڈھنگ سے بیان کرنے کے خوگر ہیں کہ ابلاغ بھی ہو جائے اور کتمانِ حق کی تہمت بھی ان کے دامن کو تر نہ کر سکے ۔ان کے اس اسلوب کی شہادت زیرِ نظر تالیف کے ایسے سینکڑوں صفحات با بانگِ دہل دے رہے ہیں جن میں مولف محترم نے ہندوستان جیسی کثیر مذہبی کثیر لسانی کثیر ثقافتی کثیر نسلی ریاست میں ، جہاں مسلمان اقلیت کی حیثیت میں جی رہے ہیں ، مسلم شناخت کی بازیافت کی صدا اس سلیقے سے لگائی ہے کہ نہ صرف ان کے غیر مسلم ہم وطنوں کی کوئی دکھتی رگ نہ چھڑے بلکہ ممکن حد تک تو وہ اس صدا کی سلیقگی پر ریجھ بھی سکیں ۔
’’راہِ عمل‘‘ کے مضامین اخباری ہوتے ہوئے بھی اخباری نہیں ہیں۔ مولف محترم نے دعوت و ابلاغ کے لیے پلیٹ فارم کے انتخاب میں زمینی حقائق کو پیشِ نظر رکھا ہے، لیکن طرزِ تحریر اور اسلوبِ بیان میں صحافتی سطح سے بہت بلند ہو کر تحقیقی، علمی، تنقیدی، تقابلی، تنقیحی اور توضیحی اسلوب دیدہ و دانستہ اپنایا ہے اورخوب نبھایا ہے ۔ ہمارے بیان کو مبالغہ آرائی پر محمول خیال نہ کیا جائے ، کیونکہ زیرِ نظر تالیف کے مضامین میں بیسیوں کتب کے حوالے، قرآن مجید اور احادیث نبوی کا استناد کے ساتھ بیان اور ان سے استدلال کے جاں فزا نمونے ہماری رائے کی ثقاہت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اگرچہ بعض مقامات پر موضوع کی حساسیت نے خالد صاحب کو جذباتی اظہار پر مائل کیا ہے، لیکن ان کے قلم کی جولانی کہیں بھی ایسی متلاطم دھارا کا روپ نہیں دھار سکی جو ان کی فکری لگام سے مکمل آزادا ور بے نیاز ہو سکے، لہٰذا آج کے انتہائی پر آشوب ماحول کی مناسبت سے مولف محترم کے اسلوب کوبلا خوفِ تردید ’’ذمہ دارانہ‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔
زبان و محاورے پر گرفت کے باوجود ہمارے ممدوح کہیں کہیں تسامح کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اگر ایسا کسی نام نہاد ترقی پسند ادیب سے سرزد ہوا ہوتا تو شایدہم گرفت نہ کرتے، لیکن خالد سیف اللہ صاحب رحمانی اپنی تحریر کے بین السطور جس فکری بلندی پر متمکن نظر آتے ہیں، اس سے ہمیں ہرگز توقع نہ تھی کہ وہ بعض محاوروں میں مستور اس ’تحقیر ‘سے آگاہ نہ ہوں گے جو اپنی اصل میں ہمارے زوال کی زندہ علامت ہے اور اقوامِ عالم میں بالعموم اور ہندوستان میں بالخصوص، ہر اعتبار سے ہماری ذہنی خجالت کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔ مثلاً ’’گداگری اور اس کا سدِ باب‘‘ کے زیرعنوان خالد صاحب رقم طراز ہیں : 
’’ کچھ فرزانے ایسے بھی ہیں جو آپ کو دو چار صلواتیں سنانے سے بھی نہیں چوکتے۔ وہ اس طرح سوال کرتے ہیں کہ ناواقف آپ کو ان کا مقروض سمجھ بیٹھے‘‘۔ (ج۲، ح۴، ص۱۱۲)
ظاہری اعتبار سے یہ فقرہ بہت زبردست ہے ، چست ، تیکھا ، تیر بہدف۔اس فقرے کا دوسرا حصہ : ’’وہ اس طرح سوال کرتے ہیں کہ ناواقف آپ کو ان کا مقروض سمجھ بیٹھے‘‘ خالد صاحب کی ایسی ظرافت کا غماز ہے جس کے پیچھے انتہائی سنجیدہ مشاہداتی مزاج پوشیدہ ہے لیکن اس فقرے کا پہلا حصہ جس میں ’صلواتیں سنانے ‘ کا ذکر کیا گیا ہے ، محاورۃََ ہمارے تہذیبی زوال کا تراشیدہ تو ہے ہی، اس کا مسلم لکھاریوں کے ہاں برتا جانا ایسی پس ماندہ نفسیات کا آئینہ دار ہے جس کے بعد ذہنی خود کفالت کی بابت سوچنا بھی محال ہے۔ ہمارے دین میں صلوٰۃ کا جو مقام ہے، خالد سیف اللہ صاحب ہم سے بہتر جانتے ہیں، اسی لیے ان کا اس محاورے کو اپنے احاطہ تحریر میں لانا ہمیں چبھ گیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک مقام پرخود لکھتے ہیں کہ :
’’کسی بھی زبان میں ایک لفظ کا جو حقیقی معنی ہوتا ہے، وہ براہ راست اور بالواسطہ مناسبتوں کی وجہ سے نئے نئے پیکر میں ڈھلتا رہتا ہے۔‘‘ (ج ۱، ح ۲، ص ۹۴)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ خالد صاحب کی تنقیدی نظر سے زبان و بیان کے اطراف و اکناف کا کوئی پہلو پوشیدہ نہیں۔ لفظ کا اپنی اصل کی مناسبت سے نئے نئے پیکروں میں ڈھلنابتا رہا ہے کہ ان کی نگاہِ ناز الفاظ کی ساخت و ماہیت کے اسرار و رموز پر بھی ہے، جبھی تو یوں رقم طراز ہیں:
’’شعرا اور نئی روشنی کے لوگ تو ان کی تحقیر سے بھی نہیں چوکتے تھے اور ان کو ’’تنگ نظر ملا‘‘ اور ’’ دورکعت کا امام‘‘ جیسے الفاظ سے یاد کرتے تھے‘‘۔ (ج ۲، ح ۵، ص ۴۴)
اسے ستم ظریفی ہی کہیے کہ اس کے باوجود نادانستگی میں سہی، لیکن اسی تحقیر کے بقلم خود مرتکب ہوئے ہیں اور تحقیر بھی کسی فرد یا طبقے کی نہیں بلکہ دینِ اسلام کے ایک بنیادی رکن کی ۔ اس واحد تسامح کے علاوہ اور کہیں ان سے زبان و بیان کی حد تک غالباً چوک نہیں ہوئی ، بلکہ جابجا ایسے دل کش فقرے بکھرے ہوئے ہیں کہ قاری نہ صرف حقیقت آفرینی کا لطف اٹھاتا ہے بلکہ زبان کا چٹخارہ بھی لیتا ہے، مثلاً : 
’’حقیقت یہ ہے کہ رائی کو پہاڑ بنانے اور پہاڑ کو رائی میں سمیٹنے کی مثال کوئی شخص دیکھنا چاہے تو صحافت کی ’’افسانوی دنیا‘‘ میں دیکھ سکتا ہے۔‘‘ (ج ۲، ح ۴، ص ۷۱)
’’ فرقہ بندیوں اور باہمی عداوتوں نے ہمیں سمندر کی سی طاقت رکھنے کے باوجود قطروں میں تقسیم کر دیا ہے، ایسا قطرہ جسے دھوپ کی ہلکی سی تمازت اور ہوا کا معمولی سا جھونکا بھی وجود سے محروم کر سکتا ہے‘‘۔ (ج ۱، ح۱، ص ۱۷۴)
’’قومی یک جہتی نفرت کا پتھر پھینک کر حاصل نہیں کی جا سکتی ، اس کے لیے محبت اور پیار کے پھول برسانے ہوں گے۔ ‘‘ (ج ۲، ح ۴، ص ۷۰)
’’جس سفینہ کا ناخدا ہی آدابِ سفر سے بے بہرہ ہو، کون ہے جو اسے ساحل سے ہم کنار کرے؟‘‘ (ج ۲، ح۴، ص۱۵۶)
’’یلغار کے مظالم یا افغانستان کی جنگ سے مسلمانوں کے حوصلے پست نہیں کیے جا سکتے اور نہ ان کے ایمان کا سودا کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ نشہ ہے کہ جس قدر اتارنے کی کوشش کی جائے، اسی قدر چڑھتا ہے ، یہ وہ پودا ہے کہ جس قدر تراشا جاتا ہے، اسی قدر سربلند اور سایہ دار ہوتا جاتا ہے۔‘‘ (ج ۱، ح ۱، ص ۲۵۸)
’’یہ عجیب بات ہے کہ یہ ملک جس کو مسلمانوں نے وسعت و وحدت عطا کی، معاشی فراخی دی، امن و امان دیا، عدل و مساوات سے آشنا کیا، سماجی انصاف کی دولت دی، اس کے چپہ چپہ پر تاریخی عظمت کے نقوش سجائے اور اسی زمین کو اپنا مسکن اور مدفن بنایا، ان کی قربانیوں کو وہ لوگ مسخ کرنا چاہتے ہیں جن کے تلووں میں اس ملک کے بنانے، سنوارنے اور بچانے میں شاید ایک کانٹا بھی نہ چبھا ہو۔‘‘ (ج ۱، ح ۱، ص ۲۸۶)
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ تحریر شخصیت کی عکاسی کرتی ہے اور اہلِ نظر کہتے ہیں کہ کسی شخص کی اصلیت دیکھنی ہو تو اسے غم و غصہ کی حالت میں دیکھو۔ معلو م ہوتا ہے کہ ہمارے محترم کی جمالیاتی حس غم و غصہ میں بطورِ خاص بیدار ہو جاتی ہے، اسی لیے ان کے مزاج میں موجود عمومی شائستگی نے ایک دل خراش واقعہ یوں قلم بند کیا ہے:
’’آہ ، اے مظلومانِ گجرات ! اور صد آہ، اے ستم زدگانِ دنیائے بے ثبات !! جو مظالم تم بے گناہوں پر ڈھائے جارہے ہیں، کیوں کر ان کا بیان ہو ؟ قلم کا جگر شق ہو جائے تو تعجب نہ ہونا چاہیے ، کہ اگر پتھروں کو دیکھنے کی قوت میسر ہوتی تو شاید وہ بھی اس بربریت کو دیکھ کر ریزہ ریزہ ہو جاتے اور سمندر کو رونے والی آنکھیں نصیب ہوتیں تو شاید ان کے بھی سوتے خشک ہوجاتے۔ ایسا جورو جفا جنہیں دیکھ کر درندے بھی شرم سے پانی پانی ہو جائیں اور ایسا ظلم و ستم جنہیں سن کر تاریخ کے ستم شعار لوگوں کی روح بھی وجد میں آ جائے۔ زبان و قلم کی کیامجال کہ ان مظالم کے شایانِ شان مرثیہ کہے، ان آنکھوں کے سفید اور ٹھنڈے آنسو اس انسانیت سوزی پر کیا قربان ہوں! اگر قلب و جگر کی آنکھیں ہوتیں اور وہ گرم و حرارت انگیز خون و لہو کے آنسو نچھاور کر سکتیں تو شاید کچھ اس غم کا بیان ہو سکتا۔...... صدہزار رحمتیں ہوں تمہاری جان پر سوز اور روحِ شہادت شعار پر جو جرمِ بے گناہی کی سزا پا رہے ہیں اور جنہیں صرف اس لیے آتشِ نمرود میں جھونکے جانے کی سنت ادا کرنی پڑ رہی ہے کہ وہ خوئے آزری کو قبول کرنے کو تیار نہیں اور دینِ ابراہیمی کا علم تھامے ہوئے ہے۔ ..... تم پر خدا کی بے پناہ رحمتیں ہوں اور تمہارے لیے خدا کے نام پر مرنا مبارک ہو !!‘‘ (مردم سوزی ۔۔ انسانیت سوزی کا بدترین نمونہ: ج۱، ح۱، ص۱۹۹)
اس تالیف میں ہمارے محترم نے دینی مدارس کے نظام و نصاب اور طریقہ تعلیم وغیرہ پر بھی خامہ فرسائی کی ہے۔ دینی مدارس کی اصلاحِ احوال کا گہرا احساس رکھنے کے سا تھ ساتھ ان کی نظر مدارس سے وابستہ لوگوں کی امتیازی صفات پر بھی ہے، اسی لیے بہت طمطمراق سے لکھتے ہیں : 
’’یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی ’’اجرت‘‘ کے بجائے ’’اجر‘‘ پر نظر رکھنے، تعلیم کو ایک مقدس فریضہ سمجھنے اور طلبہ سے محبت و شفقت کا برتاؤ کرنے کی جو روایت باوجود بہت سارے انحطاط کے ان مدارس میں پائی جاتی ہے، شاید ہی کہیں اور اس کی مثال مل سکے ‘‘۔ (ج۲، ح۵، ص۱۴۰)
’’اجرت کے بجائے اجر‘‘ میں حرفی تکرار سے قاری کو نعرے کی طرز کی قوتِ محرکہ ملتی محسوس ہوتی ہے ۔ اسے ’’اجرت نہیں، اجر‘‘ کے روپ میں باقاعدہ نعرہ بھی بنایا جا سکتا ہے، لیکن کوئی ستم ظریف اسے ’’ اجرت، نہیں اجر ‘‘ کا لبادہ اوڑھا سکتا ہے، اس لیے ہم نعروں میں خوامخواہ الجھنے کے بجائے خالد صاحب کے بیان ’’اجرت کے بجائے اجر‘‘ پر قناعت کرنا پسند کریں گے کہ پہلے نعرے میں مذہب، افیون بنتا نظر آتا ہے اور دوسرے نعرے میں اخلاقیات کا جنازہ نکلتا دکھائی دیتا ہے۔ بہر حال ! اسی قبیل کی بحث مولف محترم نے ’’اپنی عیال کو آگ سے بچائیے‘‘ (ج ۱، ح ۱، ص ۱۳۲، ۱۳۳) کے عنوان سے کی ہے:
’’ قابلِ فکر امر یہ ہے کہ آخر علمِ دین کی طرف سماج کے اونچے طبقے کی توجہ کیوں نہیں ہے؟ حال آں کہ ہر شخص کو اس بات کا اعتراف ہے کہ جو بچے دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان میں تہذیب و شائستگی اور بڑوں کی توقیر ، چھوٹوں کے ساتھ شفقت ، اپنے پرائے کے ساتھ حسنِ سلوک ، نگاہ اور زبان کی حفاظت اور اپنے فرائض کے تئیں جواب دہی کے احساس کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن کیا بات ہے کہ اس کے باوجود علم کا یہ شعبہ لوگوں کے التفات سے محروم ہے؟ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ جو لوگ دین اور علمِ دین کی خدمت میں مشغول ہیں ، ان کے پاس مادی وسائل کم ہیں، ان کو کم تن خواہوں پر اکتفا کرنا پڑتا ہے ، یہی ایک بات ہے جس نے مادہ پرست اذہان اور حریصانہ فکر و ذہن کے حاملین کو علمِ دین کی طرف آنے سے روکا ہوا ہے ، وہ سمجھتا ہے کہ ان کے بچوں کا مستقبل کیا ہو گا ؟وہ کیا کھائیں گے ؟ اور کیوں کر زندگی گزاریں گے؟ اس سلسلے میں مسلمان سماج کے لیے دو باتیں قابلِ توجہ ہیں : اول یہ کہ کیا مسلمانوں کا معاشرہ اپنے دینی تحفظ کے لیے ایک ایسے طبقہ کی صحیح طریقہ پر کفالت نہیں کر سکتا جن کی تعداد بہ مشکل ایک فی ہزار ہو گی؟ اگر مسلمان اپنی دوسری ضروریات کی طرح دینی خدمت گزاروں کو بھی اپنے لیے ایک ضرورت باور کریں اور فراخ حوصلگی کے ساتھ ان کے تعاون کے لیے ہاتھ بڑھائیں اور خادمینِ دین کو کم سے کم معاشی اعتبار سے اس لائق بنائیں کہ وہ متوسط طریقہ پر سماج میں اپنی زندگی بسر کر سکیں تو یقیناًاس علم سے بے اعتنائی اور بے رغبتی کی یہ کیفیت باقی نہیں رہے گی۔‘‘ 
اس اقتباس پر تنقیدی نظر ڈالیے کہ خالد صاحب نے ایک ہی سانس میں کم تن خواہوں کی وجہ سے علمِ دین کی طرف راغب نہ ہونے والوں کو ’’مادہ پرست اذہان اور حریصانہ فکروذہن‘‘ کے حاملین قرار دیا ہے اور مسلم سماج کی توجہ اس طرف بھی مبذول کرائی ہے کہ وہ خادمینِ دین کی کم سے کم متوسط طریقہ پر گزر بسر کے لیے اپنا کردار ادا کرے ۔ ہم گزارش کریں گے کہ مذہبی طبقے کی کم زور معاشی حالت کی وجوہات میں سے ایک وجہ دنیا کی مکمل نفی پر مبنی ’’مادہ پرست اذہان اور حریصانہ فکروذہن‘‘ جیسی طعنہ دینے والی غیر حقیقی سوچ کا معاشرے میں رواج پانا بھی ہے جس کے نتیجے میں، جیسا کہ سطورِ بالا میں اشارتاً ذکر ہوا، مذہب عوام کے لیے واقعتا افیون بن کر رہ گیا ہے۔ اسی سلسلے کی دوسری بات یہ ہے کہ خالد سیف اللہ صاحب مذہبی طبقے کی متوسط درجے میں کفالت کے خواہش مند ہیں تو کیا یہ حقیقت ان سے ڈھکی چھپی ہے کہ زرعی دور کی فرسودہ دینی تعبیر سے طبقہ علما جس شدت سے چمٹا ہوا ہے، اس کے انتہائی تباہ کن اثرات کے بعد مسلم معاشرے کے متوسط طبقے کی اتنی پسلی رہ جاتی ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی طبقہ علما کو معاشی اعتبار سے اوسط درجے میں لے آئے؟جب کہ حقیقت یہ ہے کہ علما کی فرسودہ دینی تعبیرات سے متاثر یہ طبقہ تو خود اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ یہ نکتہ تو ہمارے محترم پر واضح ہی ہو گا کہ امرا اور جاگیرداروں کو لوٹ کھسوٹ کے نت نئے حربوں کو عملی جامہ پہنانے سے فرصت نہیں ملتی، اس لیے مجموعی طور پر ہمیشہ غریب اور متوسط طبقہ ہی آگے بڑھ کر کفایت کے درجے میں سہی، لیکن حفاظتِ دین میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتا آیاہے۔اسی بحث کے ضمن میں ’’مسلم پرسنل لا : ایک غلط فہمی کا ازالہ ‘‘ کے زیرِ عنوان خالد سیف اللہ صاحب کا مضمون اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں اجمالی طور پر سہی، لیکن کم ازکم دینی تعبیر کی ماہیت کی بابت اصولی بحث تو کی گئی ہے ، ملاحظہ کیجیے:
’’ آپ محسوس کریں گے کہ تغیر پذیر محض اسباب ہیں، انسان کی فطرت اپنی جگہ قائم ہے ۔ وہ جس طرح کل کبھی رنج و غم اور کبھی مسرت و شادمانی محسوس کرتا تھا، آج بھی کرتا ہے۔ پہلے آہ واہ سے اس کا اظہار کرتا تھا، اب بھی کرتا ہے ۔ کل جس طرح اس کے دل میں اپنے دشمنوں کے خلاف انتقام کا شعلہ سلگتا تھا ، آج بھی سلگتا ہے اور جس طرح کل اس کا سینہ مال و دولت اور حرص و ہوس کی آماج گاہ تھا، آج بھی اقتصادی ترقی کا بھوت اس کے ہوش و حواس پر سوار ہے۔ آج بھی اس کا نفس اس کو اخلاقی تقاضوں کے بالائے طاق رکھ دینے کی تلقین کرتا رہتا ہے ، جس طرح ماضی کا نقشہ ہمارے سامنے ہے ۔ جس طرح کل جاگیرداری اور زمین داری کی تمنا اس کو بے چین کیے رہتی تھی ، آج بھی اس کے دل میں حکومت اور اقتدار کی آرزوئیں چٹکیاں لیتی رہتی ہیں ۔ ..... اسلام اور اس کے قانونی نظام کا اصل موضوع اسباب و وسائل نہیں ہیں بلکہ اس کا موضوع انسان اس کی فطرت اور اس کے فطری تقاضوں کی مناسب حدود میں تکمیل ہے ، پس جس طرح انسان ایک غیر متبدل حقیقت ہے اسی طرح ظاہر ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والا قانون بھی ابدی اور دائمی ہو گا۔
لیکن اس کے باوجود ان نو دریافت وسائلِ زندگی، بدلتے ہوئے عرف اور زندگی کے معاشرتی ، معاشی اور سیاسی ڈھانچہ میں غیر معمولی تبدیلی ضرور چاہے گی کہ قانون میں اس کی کچھ رعایت کی جائے اور ان تقاضوں اور وسائل سے اسلامی قانون کو ہم آہنگ کیا جائے اور جزوی اور فروعی حدود میں اسلام ان تقاضوں کو قبول کرے۔ اس سلسلہ میں ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ اسلام نے بعض قانونی اور فکری امتیاز اور بنیادی اصول کو جوں کا توں باقی رکھتے ہوئے ایک مخصوص حد میں ضروری تغیر و تبدل اور واقعی تقاضوں کی تکمیل کے لیے ایسی لچک باقی رکھی ہے جو اس کو فرسودگی سے بچائے رکھے۔ چنانچہ مشہور فقیہ اور مزاجِ شریعت کے رمز شناس حافظ ابنِ قیم ؒ اپنی گراں قدر کتاب ’’ اعلام الموقعین ‘‘ میں اس موضوع پرایک مستقل باب(جلد دوم میں ) قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 
’’عرف و عادت ، حالات و مقاصد اور زمان و مکان کے تغیر کی بنا پر مسائل میں اختلاف اور تغیر و تبدل کا بیان ، یہ بڑی مفید اور اہم بحث ہے جس سے ناواقفیت کی بنا پر شریعت میں بڑی غلطیاں واقع ہوئی ہیں ، جس نے دشواری ، تنگی اور استطاعت سے ماورا تکلیف پیدا کر دی ہے ، جب کہ یہ بات معلوم ہے کہ شریعت جو مصالح کی غیر معمولی رعایت کرتی ہے ، ان ناقابلِ برداشت کلفتوں کو گوارا نہیں کرتی ، اس لیے کہ شریعت کی اساس سراپا رحمت اور سراپا مصلحت ہے ، لہٰذا جب کوئی حکم عدل کے دائرہ سے نکل کر ظلم و زیادتی ، رحمت کی حدوں سے گزر کر زحمت ، مصلحت کی جگہ خرابی اور کارآمد ہونے کے بجائے بے کار قرار پائے تو وہ شرعی حکم نہیں ہو گا۔‘‘ (ج۱، ح۲، ص۱۴۸، ۱۴۹، ۱۵۰) 
حافظ ابنِ قیم ؒ نے کھلے الفاظ میں دینی تعبیرات میں ملحوظ مقصدیت کی صراحت کی ہے اور خود ہمارے ممدوح مولف کا رجحان بھی اسی جانب ہے لیکن اس رجحان پر نفسیاتی تحفظات غالب آتے نظر آتے ہیں ۔ تغیر و تبدل جیسی حقیقت سے آشنائی کے بعد بھی ان کا یہ کہنا کہ’’ اسلام نے بعض قانونی اور فکری امتیاز اور بنیادی اصول کو جوں کا توں باقی رکھتے ہوئے ایک مخصوص حد میں ضروری تغیر و تبدل اور واقعی تقاضوں کی تکمیل کے لیے ایسی لچک باقی رکھی ہے جو اس کو فرسودگی سے بچائے رکھے‘‘، بعض سوالات پیدا کرتا ہے کہ زرعی دور میں تراشے گئے ’’بنیادی اصول‘‘ آخر کیوں کر اتنے بنیادی ہیں کہ فقط انہی کے دائرے میں رہتے ہوئے واقعی تقاضوں کی تکمیل کی جائے ؟ اس نظری سوال سے قطع نظر ، کیا واقعی ان کی مدد سے واقعی تقاضوں کی تکمیل (نظری اعتبار سے نہیں بلکہ) عملی طور پر ثمر آور نتائج کے ساتھ ممکن ہے؟ سوال تو یہ ہے کہ آخر آج کے دور میں قرآن و سنت سے براہ راست ’’بنیادی اصول‘‘ کیوں دریافت نہیں کیے جا سکتے؟ ہم گزارش کریں گے کہ جس پہلو سے انسان غیر متبدل حقیقت ہے ، اس پہلو سے اسلامی قانون کی ابدیت صرف اور صرف قرآن و سنت سے مخصوص ہے نہ کہ کسی دور یا کسی امام کے اختراع کردہ بنیادی اصولوں سے ، چاہے یہ قرآن و سنت سے اخذ شدہ ہی ہوں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اس کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اماموں کو شارح کے بجائے شارع تسلیم کرلیا جائے۔ 
سطورِ بالا میں علمِ دین سے لوگوں کی عدم دلچسپی پر خالد سیف اللہ صاحب کی فکر مندی کا جو جائزہ لیا گیا ہے، اس کے تناظر میں ہم خود کو یہ رائے دینے کا پابند خیال کرتے ہیں کہ مولف محترم کی دردمندی و غم گساری نے انہیں مسلم معاشرے کی زبوں حالی کی طرف متوجہ تو ضرور کیا ہے لیکن ان کی یہ توجہ ایسی ’’مربوط فکر‘‘ میں نہیں ڈھل سکی جو زرعی دور کی نفسیاتی حدود کو پھلانگ کر آج کے دور کے سنجیدہ مسائل کا عملی حل پیش کر سکتی ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولف محترم چھکڑے میں بیٹھ کر جہاز کی سی تیزی سے سفر کرنا چاہتے ہیں۔ 
’ ’راہِ عمل‘‘ کی جلد دوم حصہ چہارم صفحہ نمبر ۸۹ پر اپنے ایک مضمون ’’گناہ جو کبھی معاف نہیں ہوگا‘‘ میں خالد صاحب نے سورۃ النساء آیت ۹۳ کے حوالہ سے مومن کے قاتل پر انتہائی شدت سے گرفت کی ہے، لیکن ہمیں حیرت ہے کہ خالد سیف اللہ رحمانی جیسی صاحبِ نظرشخصیت بھی مومن کے قاتل کے لیے مقتول کے اولیا کی طرف سے معافی اور دیت کی قائل ہے اور اس کے لیے انھوں نے استدلال سورۃ البقرۃ آیت ۱۷۸ سے کیا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں آیات کے جدا جدا محل ہیں۔ سورۃ البقرۃ آیت ۱۷۸ کے مطابق مقتول کے ورثا کو واضح طور پر فریق تسلیم کرتے ہوئے معاف کرنے اور دیت لینے کا حق دیا گیا ہے جبکہ سورۃ النساء آیت ۹۳ کے مطابق مسلمانوں کی کوئی اجتماعی ہیئت (ریاست وغیرہ) ہی قاتل کی فریق معلوم ہوتی ہے۔ دیت لینا اور معاف کرنا تو کجا، قاتل کو قصاص یعنی برابری ملحوظ رکھتے ہوئے قتل کرنے سے بہت بڑھ کر، عبرت انگیز انداز میں قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس کی داخلی شہادت آیتِ مبارکہ میں قصاص کے بجائے ’’جزا‘‘ کالفظ دے رہا ہے اور جزا کے قرآنی اطلاقات کے مطالعہ سے یہی قرآنی منشا ابھر کر سامنے آتا ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ خالد سیف اللہ رحمانی جیسی قدآور علمی شخصیت کی فقیہانہ نگاہوں سے’’ قصاص اور جزا ‘‘ کے انتخاب و اطلاق میں مضمر حکمت کیسے چھپی رہ گئی؟حالانکہ اس نوع کے قرآنی و نبوی اسلوب کی شہادت وہ خود ایک مقام پر دیتے ہیں:
’’ قرآن مجید میں عورت کی عدت کے لیے تین’قرء‘ گزارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ’قرء‘ کے معنی حیض کے بھی ہیں اور زمانہ پاکی کے بھی، اسی لیے بعض فقہا نے تین حیض مدت قرار دی ہے اور بعض نے تین پاکی۔ ظاہر ہے کہ ’قرء‘ کے دونوں معانی اللہ تعالیٰ کے علمِ محکم میں پہلے سے تھے، اگر اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ہوتا کہ احکامِ شرعیہ میں کوئی اختلافِ رائے نہ ہو تو قرآن میں بجائے’قرء‘ کے صریحاََ حیض یا طہر کا لفظ استعمال کیا جاتا ۔ یہی صورتِ حال احادیث نبوی میں بھی ہے، مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حالتِ اغلاق کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اغلاق کے معنی جنون و پاگل پن کے ہیں اور اکراہ و مجبوری کے بھی، چنانچہ اپنے اپنے فہم کے مطابق بعضوں نے ایک معنی کو ترجیح دی ہے اور بعضوں نے دوسرے معنی کو، حال آں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افصح العرب یعنی عرب کے سب سے زیادہ فصیح شخص تھے، اگر آپ چاہتے تو ایسی واضح تعبیر اختیار فرماتے کہ ایک ہی معنی متعین ہو جاتا، دوسرے معنی کی کوئی گنجایش باقی نہ رہتی‘‘۔ (اختلاف میں اعتدال: ج۲، ح۴، ص۳۲)
تشویش ناک بات یہ ہے کہ مولف محترم (ج۱، ح۲، ص۱۰۱،۱۰۲) اسلامی ریاست میں مرتد کے قتل کے اس لیے قائل ہیں کہ اس کا ارتداد ملک و سیاسی نظام سے بغاوت کے متراف ہے ، لیکن جناب کی نگہِ التفات مومن کے قتل کے ’’بالفعل ارتداد‘‘ کی جانب نہیں اٹھی۔ اس موضوع پر چونکہ ہم قدرے تفصیلی بحث ماہنامہ الشریعہ میں ’’قرآن مجید میں قصاص کے احکام‘‘ کے زیرِ عنوان کر چکے ہیں، لہٰذایہاں محض توجہ دلانے پر اکتفا کرتے ہیں۔
تاریخ کاایک ادنیٰ طالب علم بھی یہ بات جانتا ہے کہ برِ عظیم میں مغلیہ سلطنت کے زوال اور انگریزوں کی آمد کے بعد مسلم فکر دو متوازی دھاروں میں منقسم رہی ہے: ایک دھارا علی گڑھ تحریک کی صورت میں نمودار ہوا ، اور دوسرا دھارا جو اس تحریک سے بھی پہلے کسی نہ کسی روپ میں موجود تھا، اس تحریک کے بعد اس کی مخالفت میں زیادہ شدت سے ابھرا ۔ اس خطہ کے مسلم سماج کی داخلی تقسیم میں ان دونوں دھاروں کاتقریباً یکساں کردار رہا ہے۔ اگرچہ ہر دو نے اپنے اپنے فکری منہج کے مطابق مسلم سماج کی تشکیل و احیا میں بھی اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے، لیکن یہ دوئی اور تفریق اکیسویں صدی میں بھی پوری آب و تاب سے موجود ہے اور صورتِ حال کو تشویش ناک حد تک بگاڑنے کا باعث بن رہی ہے۔ خالد سیف اللہ صاحب کو اس بگاڑ کا پورا پورا احساس ہے، اس لیے ’’کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مئے حیات‘‘ کے عنوان سے وسیع المشربی کا ثبوت دیتے ہوئے علما کی توجہ مسلم سماج کے اس اہم پہلو کی جانب مبذول کراتے ہیں : 
’’ امت کا ایک بہت بڑا طبقہ وہ ہے جس نے جدید علوم کو حاصل کیا ہے ، جیسے ہمارے علما دین کا وجود ایک ضرورت ہے ویسے ہی عصری علوم کے ماہرین بھی ہمارے لیے بہت بڑی ضرورت ہیں ہم ان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کر سکتے ، یہ قوم کا بہت بڑا اثاثہ ہیں ، یہ عام طور پر اسلام کے بارے میں مخلص بھی ہیں ، اگر کچھ لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں جو دین کے مزاج و مذاق کے خلاف ہیں ، تو یہ زیادہ تر ان کی ناواقفیت اور نہ آگہی کی وجہ سے ہے اور باہمی غلط فہمی کی وجہ سے ، علما اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے درمیان ایک خلیج سی پیدا ہوتی جارہی ہے ، یہ بہت افسوس ناک ہے اور اس میں زیادہ تر محض باہمی دوری اور غلط فہمی کو دخل ہے ۔ علما کا فریضہ ہے کہ وہ اس طبقہ کو امت کی بہترین امانت سمجھ کر قریب کریں ، ان کے شکوک و شبہات کو تحمل کے ساتھ سنیں اور محبت کے ساتھ ان شکوک کے کانٹوں کو ان کے دلوں سے نکالیں ۔ امت میں جو لوگ فکری اعتبار سے راہِ مستقیم سے منحرف ہوں ، ان کے ساتھ ہمارا سلوک وہی ہونا چاہیے جو ایک ہم درد اور فرض شناس معالج کا اپنے نا سمجھ مریض کے ساتھ ہوتا ہے ۔ ہمارا رویہ ان کے ساتھ فریق اور رقیب کا نہ ہو ، بلکہ رفیق اور صدیق کا ہو ‘‘(ج۲، ح۵، ص۷۲، ۷۳) 
(جاری)

علمِ حدیث پر مستشرقین کے اعتراضات (جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ کے افکار کا خصوصی مطالعہ)

پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

ڈاکٹر محمد اکرم وِرک (شعبہ اسلامیات، گورنمنٹ ڈگری کالج، پیپلز کالونی، گوجرانوالہ)
محمد ریاض محمود (شعبہ اسلامیات، گورنمنٹ مولانا ظفر علی خان ڈگری کالج، وزیرآباد)

سترھویں، اٹھارویں اور کسی حد تک انیسویں صدی کے آغاز میں مستشرقین کی جو کتابیں منصہ شہود پر آئیں، ان میں بیشتر حملے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر کیے گئے ۔اس مہم کے قافلہ سالار مشہور مستشرق سر ولیم میور(م ۱۹۰۵ء) (Sir william Muir) ہیں جنھوں نے چار جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب The Life of Muhammad میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو ہدفِ تنقید بنایا۔ یہ کتاب بڑی تہلکہ خیز ثابت ہوئی جس نے مسلمان اہلِ علم کو شدید اضطراب میں مبتلا کردیا۔ سر سید احمد خانؒ (م ۱۸۹۸ء )،اللہ تعالیٰ ان کو غریقِ رحمت فرمائے، وہ اوّلین شخص تھے جنھوں نے ۱۸۷۰ء میں ’’ خطباتِ احمدیہ‘‘ میں مستشرق مذکور کے اعتراضات کاعلمی اسلوب میں جواب دیا۔ سرسید نے اس کتاب کو محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جس جذبے سے سر شار ہو کر مرتب کیا اوراس کی تکمیل کے لیے انگلستان کے سفر سمیت جو صعوبتیں برداشت کیں، وہ ان کے عشقِ رسول اور ایمانی حرارت کا بین ثبوت ہے۔ (1) علامہ شبلی نعمانی ؒ (م ۱۹۱۴ء ) کی قابلِ قدر تصنیف ’’ سیرۃ النبی‘‘ بھی دراصل سیرت پر مستشرقین کے اعتراضات ہی کا ردِ عمل ہے۔ عالمِ اسلام کے دیگرحصوں میں بھی مسلمان اہلِ علم نے مستشرقین کا علمی تعاقب کیا۔
اس دور میں مستشرقین کی یہ حکمتِ عملی نظر آتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات چونکہ اسلام کا مرکز و محور ہے، اس لیے کسی طرح اہلِ اسلام کے دلوں میں رسولِ خدا کی والہانہ محبت کو، جو دراصل اسلام کی روح ہے، ختم کیا جائے ۔ شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال ؒ نے (م ۱۹۳۸ء) اہلِ مغرب کی اس سازش کو بھانپتے ہوئے ان الفاظ میں اس کا پردہ چاک کیاہے :
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو 
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو 
(ضرب کلیم)
بہت جلد مستشرقین کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر ان کے یہ الزامات اتنے کمزور اور بودے ہیں کہ علمی دیا نت کا خو گر کوئی بھی منصف مزاج انسان ان الزامات کو قبول نہیں کر سکتا ۔ دوسری طرف مسلمان اہلِ علم نے سیرت پر مستشرقین کے اعتراضات کی سطحیت کو دلائل و براہین کے ترازو میں رکھ کران کی علمی بد دیانتی کو مبرہن کرکے رکھ دیا۔ نتیجے کے طور پر مستشرقین میں سے ہی کئی معتدل مزاج اہلِ علم نے اپنے بھائی بندوں کے اس نوعیت کے اعتراضات پر افسوس کا اظہار کیا،چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کے دور میں مستشرقین نے اپنی تحریروں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نسبتاً احترام کے ساتھ کیا ہے۔(2) 
سیرت کے محاذ پر جب مستشرقین کو منہ کی کھانی پڑی تو انھوں نے اپنا رخ قرآن مجید کی طرف موڑ دیا اوران لوگوں نے ان تمام اعتراضات کو قرآن پرلوٹانے کی کوشش کی جو عام طور پر بائیبل پر کیے جاتے ہیں ۔ اس مہم کا آغاز ۱۸۶۱ء میں جارج سیل (Gorge Sale) نے "The Koran"سے کیا اورمعروف آسٹریلوی مستشرق آرتھر جیفری Jeffery) (Arthur نے اس تحریک کو نقطۂ عروج تک پہنچایا ۔ موصوف نے اپنی کتابوں"The Koran: selected Suras"،اور"Islam, Muhammad and his Religion" نیز قرآنیات پر اپنی مشہور کتاب Materials for the history of the Text of the Quran" "میں قرآن کے متن کے غیرمحفوظ ہونے کے اعتراضات اٹھائے، لیکن مستشرقین کی یہ مہم بھی بہت جلد کمزور ہوگئی۔ صرف چالیس پچاس سال کی محنت کے بعد ہی مستشرقین کو اندازہ ہوگیا کہ قرآن اتنی مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے کہ اس کو محض الزامات سے ہلانا ممکن نہیں۔ (3) 
اب ایک اور مہم شروع ہوئی اور ان لوگوں نے اپنا رخ حدیثِ رسول کی طرف کرلیا ، لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ مستشرقین نے سیرت اورقرآن پر اعتراضات سے کلی طور پر صرفِ نظر کر لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اب بھی سیرت اور قرآن پر اعتراضات کرتے ہیں، لیکن ان میں اب وہ پہلے جیسی شدت نہیں ہے ۔ حالات کے جبر نے مستشرقین کو مجبور کیا کہ وہ اسلام کے خلاف کسی اور محاذ پر نئی صف بندی کریں چنانچہ انھوں نے قرآن کے بعد اسلام کے دوسرے بنیادی مأخذ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تختۂ مشق بنانے کا فیصلہ کیا ۔
ڈاکٹر اسپرنگر (Sprenger) نے تین جلدوں میں سیرت پر کتاب لکھی تو اس میں حدیث کی روایت اور اس کی حیثیت پر بھی تنقید کی۔ سرولیم میور نے سیرت پر اپنی کتا ب میں حدیث پر اس بحث کو مزید آگے بڑھایا ، لیکن حدیث پر جس شخص نے سب سے پہلے تفصیلی بحث کی ،وہ مشہور جرمن مستشرق گولڈ زیہر (م ۱۹۲۱ء) (Gold Zehr)ہے۔ اس نے اپنی کتاب "Muslim Studies"کی دوسری جلد میں علمِ حدیث پر تجزیاتی انداز میں تنقید کی ہے۔ بعد کے دور میں تمام مستشرقین نے گولڈ زیہر ہی کے اصولوں کا اتباع کیا ہے۔ پروفیسر الفرڈ گیوم (Alfred Guillaume)نے اپنی کتاب "Islam" اور "Traditions of Islam"میں گولڈ زیہر کی تحقیق کو آگے بڑھایا ہے۔ جوزف شاخت (Joseph Schacht)نے اپنی کتاب "The Origins of Muhammadan Jurisprudence" میں گولڈ زیہر کے اصولوں کی روشنی میں اسلامی قانون کے مصادر ومنابع کاتجزیہ کیا ہے اور حدیث کے ظہور اور ارتقا پر بحث کرتے ہوئے حدیث کی نبوی کی ؑ حیثیت کو مشکوک قرار دیا ہے۔اس کے علاوہ مارگولیتھ (م ۱۹۴۰ء) (Margoliouth)، رابسن(Robson)، گب(م ۱۹۶۵ء)(Gibb)،ول ڈیورانٹ(م ۱۹۸۱ء) (Will Durant)،آرتھر جیفری (Arthur Jaffery)، منٹگمری واٹ (م ۱۹۷۹ء)(Montgomery Watt) ، ہوروفیتش (Worowitz)، وان کریمر (Von Kremer)، کیتانی (Caetani) ،اور نکلسن(Nicholson) وغیرہ نے بھی اپنے حدیث مخالف نظریات پیش کیے۔
عصر حاضر میں مستشرقین نے اسلام کے خلاف ایک اور محاذ کھول رکھا ہے اور ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح اسلامی تعلیمات کو غیر عقلی اور غیر فطری ثابت کیا جائے اور یہ باور کروایا جائے کہ اسلامی احکامات بنیادی انسانی حقوق سے متصادم اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے ناقابلِ عمل ہیں ۔ اس وقت یہ محاذ مسلمان اہلِ علم کی فوری توجہ کا متقاضی ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ (م ۱۷۶۴ء ) نے ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ میں جس طرح مقاصدِ شریعت کو واضح کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو انسانی عقل و دانش کا تقاضا قرار دیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کی زبان اور محاورے میں دین کی تعبیر و تشریح کے اس اسلوب کو جدید علمِ کلام کی روشنی میں بیان کیا جائے ۔ فی الوقت یہ موضوع ہمارے پیشِ نظر نہیں ہے، اس لیے ان سطور میں ہم اپنی گفتگو کو علم حدیث تک ہی محدود رکھیں گے۔ 
مستشرقین میں سے علمِ حدیث پر بنیادی کام گولڈ زیہراورشاخت ہی کا ہے۔ یہ دونوں یہودی ہیں اوران کا تعلق جرمن سے ہے۔ جن دیگر مستشرقین نے حدیث نبوی کو اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا ہے، انھوں نے اسلامی مصادر سے براہِ راست استفادہ کرنے کی بجائے زیادہ تر گولڈ زیہر اور شاخت کی تحقیقات کو ہی اپنے خیالات کی بنیادبنایا ہے ۔ آزادانہ تحقیق کے دعوے دار مغربی اہلِ علم کے اس اسلوبِ تحقیق پرجسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ (م۱۹۱۸ ۔۱۹۹۸ء) تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’حیرت کی بات ہے کہ اصولِ حدیث اور تاریخِ حدیث پر مسلمانوں کی بے شمار کتابیں دنیا کی لائبریریوں میں موجود ہیں۔ حدیث طیبہ کے بارے مسلمانوں کا جو موقف ابتدا سے رہا ہے، وہ ہر دور کی تصانیف میں درج ہے لیکن مستشرق محققین نہ تو مسلمانوں کے موقف کی طرف اپنی توجہ مبذول کرتے ہیں اور نہ ہی حدیث کے متعلق مسلمانوں کے چودہ سو سالہ ادب کو کوئی اہمیت دیتے ہیں، بلکہ ان پر جب حدیث کے متعلق تحقیق کا بھوت سوار ہوتا ہے تو گولڈ زیہر اور اس کے نقالوں کی تصانیف کو ہی قابلِ اعتماد مصادر قرار دیتے ہیں۔‘‘ (4) 
حضرت پیرمحمد کرم شاہ الازہری ؒ نے علم حدیث کے دِفاع پر اپنی مستقل کتاب ’’سنت خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ میں مستشرقین اور منکرینِ حدیث کے اہم اعتراضات کا جائزہ پیش کیا ہے ،تاہم فاضل مصنفؒ نے موقع کی مناسبت سے سیرت پر اپنی کتاب ’’ضیاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ میں بھی علم حدیث پر مستشرقین کے اعتراضات کا جائزہ لیا ہے۔ پیر صاحب ؒ کی اس قابلِ قدر تصنیف کی یہ ایک نمایاں خصوصیت ہے کہ اس کی پہلی پانچ جلدوں میں سیرت کے عمومی بیان کے بعد آخری دو جلدوں میں اسلام کے بنیادی مآخذ، سیرت رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن حکیم اور حدیثِ رسول پرمستشرقین کے بنیادی اعتراضات کا خالص علمی اسلوب میں تجزیہ کیا گیا ہے۔سیرت کے موضوع پرلکھی گئی کتابوں میں ’’ضیاء النبی‘‘ کا یہ خاص امتیاز ہے کہ اس میں قرآن و حدیث کو شعوری طور پر سیرت ہی کا لازمی حصہ سمجھتے ہوئے موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ اس کتاب کی یہ خصوصیت بذات خود اس حقیقت کی غماز ہے کہ فاضل مصنفؒ کی نظر میں قرآن مجید در حقیقت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بیان اور حدیث و سنت اس کی عملی تشریح و تعبیر ہے، اس لیے ان کی نظر میں مستشرقین کا قرآن و سنّت کو تنقید کا نشانہ بنانا براہِ راست سیرت پر تنقید ہی کے مترادف ہے۔ مستشرقین نے حدیثِ رسول کو من گھڑت اور جعلی قرار دینے میں جو سخت مشقتیں اٹھائی ہیں، پیر صاحب ؒ اس کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے رقمطرازہیں:
’’ قرآن حکیم کی مخالفت کرتے ہوئے مستشرقین کو یہ مشکل پیش آئی کہ وہ قرآن حکیم کی من مانی تشریح نہیں کرسکتے تھے کیونکہ قرآن حکیم کی وہ تشریح جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کی تھی، وہ احادیث طیبہ کی شکل میں مسلمانوں کے پاس موجود تھی۔ تاریخ کے کسی دور میں جب کسی قسمت آزما نے قرآن حکیم کو اپنی مرضی کے معانی پہنانے کی کوشش کی تو ملتِ اسلامیہ کے علمائے ربانیین نے احادیثِ طیبہ کی مدد سے ان کا منہ توڑ جواب دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن حکیم کی معنوی تحریف کی کوششیں ہمیشہ احادیثِ طیبہ کی مضبوط چٹان کے ساتھ ٹکرا کر پاش پاش ہوئیں۔ ‘‘ (5) 
’’مستشرقین جب قرآن حکیم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام کہتے تھے تو وہ مجبور تھے کہ احادیث طیبہ کے متعلق کوئی اور مفروضہ تراشیں ۔یہ با ت انھیں مناسب معلوم نہ ہوتی تھی کہ قرآن حکیم اور احادیث طیبہ دونوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام قرار دیں ۔مستشرقین کے تخیل کی پرواز ویسے ہی بہت بلند ہوتی ہے، اس لیے انھوں نے احادیث طیبہ کے مصادر تلاش کرنے کے لیے بھی اپنے تخیل کے گھوڑے دوڑائے اور ایک نہیں بلکہ احادیث طیبہ کے کئی مصادر تلاش کر لیے ۔‘‘(6) 

علمِ حدیث پر مستشرقین کے بنیادی اعتراضات

مستشرقین نے علمِ حدیث پرجو بنیادی اعتراضات کیے ہیں، سب سے پہلے تو ہم اپنے قارئین کی خدمت میں ان کا خلاصہ پیش کریں گے اور پھرجسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ کے افکار کی روشنی میں ان اعتراضات کا جائزہ لیں گے۔ 
(۱)مستشرقین نے حدیث کے بارے میں یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ دورِ اوّل کے مسلمان حدیث کو حجت نہیں سمجھتے تھے ،مسلمانوں میںیہ خیال بعد کے دور میں پیدا ہوا۔ (7) جوزف شاخت نے لکھا ہے کہ امام شافعی ؒ (م ۲۰۴ھ) سے دو پشت پہلے احادیث کی موجودگی کا کوئی اشارہ ملتا ہے تو یہ شاذ اور استثنائی واقعہ ہے۔ (8) آرتھر جیفری (Arthur Jeffery)کہتا ہے کہ پیغمبر ؑ کے انتقال کے بعد ان کے پیرو کاروں کی بڑھتی ہوئی جماعت نے محسوس کیا کہ مذہبی اور معاشرتی زندگی میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کے متعلق قرآن میں کوئی راہنمائی موجود نہیں ہے،لہٰذا ایسے مسائل کے حل کے لیے احادیث کی تلاش شروع کی گئی۔(9) 
(۲)محدثین کے ہاں اسناد کی جو اہمیت ہے، وہ دلائل کی محتاج نہیں ہے حتی کہ انھوں نے اسناد کو دین قرار دیا ۔ مستشرقین چونکہ اسناد کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہیں، اس لیے انھوں نے اسناد کے من گھڑت ہونے کا اعتراض کرکے احادیث کو ناقابلِ اعتبار قرار دینے کی کوشش کی اور دعویٰ کیا کہ اُس دور میں لوگ مختلف اقوال اور افعال کو محمد ؑ کی طرف منسوب کردیا کرتے تھے ۔کتانی (Caetani) (10) اور اسپرنگر (Springer) (11) ان مستشرقین میں شامل ہیں جن کے نزدیک اسناد کاآغاز دوسری صدی کے آواخر یا تیسری صدی کے شروع میں ہوا۔گولڈ زیہر موطأ امام مالک ؒ پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ امام مالک ؒ (م ۱۷۹ھ) نے اسناد کی تفصیل بیان کرنے کے لیے کوئی مخصوص طریقہ اختیار نہیں کیا بلکہ اکثر و بیشتر وہ عدالتی فیصلوں کے لیے ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جن کا سلسلۂ اسناد صحابہ تک ملا ہوا نہیں اور اس میں متعدد خامیاں ہیں۔ (12) جبکہ جوزف شاخت کا کہنا ہے کہ اس مفروضے کو قائم کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ اسناد کے باقاعدہ استعمال کارواج دوسری صدی ہجری سے قبل ہو چکا تھا۔(13) منٹگمری واٹ (Montgomery Watt)نے اسناد کے مکمل بیان کو امام شافعی ؒ (م ۲۰۴ھ) کی تعلیمات کا نتیجہ قرار دیا ہے۔(14) 
(۳) مستشرقین نے قرآن مجید کی طرح احادیث پر بھی یہ اعتراض کیا ہے کہ بہت ساری روایات یہودو نصاریٰ کی کتب سے متأثر ہوکر گھڑی گئی ہیں ۔وہ احادیث جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی معجزانہ شان کا ذکر ہے،ان پر تبصرہ کرتے ہوئے ول ڈیورانٹ(م ۱۹۸۱ء) (Will Durant)کہتاہے کہ بہت ساری احادیث نے مذہبِ اسلام کو ایک نیارنگ دے دیا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ ان کے پاس معجزات دکھانے کی قوت ہے ، لیکن سینکڑوں حدیثیں ان کے معجزانہ کارناموں کا پتہ دیتی ہیں جس سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اکثر احادیث عیسائی تعلیمات کے زیر اثر تشکیل پذیر ہوئیں۔ (15) اس قسم کا دعویٰ کرنے والوں میں فلپ کے حتی (Philip.K.Hitti) بھی قابلِ ذکرہے۔ (16) 
(۵)مستشرقین کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کی کتابت سے منع کردیا تھا، اس لیے دورِ اوّل کے علما نے علمِ حدیث کی حفاظت میں سستی اور لاپرواہی سے کام لیا جس کے نتیجہ میں احادیث یا تو ضائع ہوگئیں یا پھران میں اس طرح کا اشتباہ پیدا ہوگیا ہے کہ پور ے یقین کے ساتھ کہنا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ، ممکن نہیں ہے۔مستشرق الفرڈگیوم (Alfred Guillaume) لکھتا ہے کہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ حدیث کے بعض مجموعے اموی دورکے بعد جا کر مدون ہوئے۔ (17) مشہور مستشرق میکڈونلڈ (Macdonold) لکھتا ہے کہ بعض محدّثین کا صرف زبانی حفظ پر اعتماد کرنا اور اُن لوگوں کو بدعتی قرار دینا جو کتابتِ حدیث کے قائل تھے، یہ طرزِ عمل بالآخر سنّت کے ضائع ہونے کا سبب بنا۔ (18) 
مستشرقین نے ایک خاص حکمتِ عملی کے تحت ان عظیم شخصیات کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو حدیث و سنّت کی جمع و تدوین اور حفاظت میں بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مستشرقین نے اس مقصد کے لیے جن شخصیات کو خاص طور اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے ان میں ایک تو مشہور صحابی حضرت ابو ہریرہؓ( م ۵۹ھ) اور دوسرے نامور تابعی امام ابنِ شہاب زہری ؒ (م ۱۲۴ھ) ہیں۔ گولڈ زیہر (م ۱۹۲۱ء )نے حضرت ابو ہریرہؓ پر وضعِ حدیث کا الزام عائد کیا ہے اور محدّث امام ابنِ شہاب زہریؒ پر اِتّہام باندھا ہے کہ وہ بنو اُمیّہ کے دینی اور سیاسی مقاصد کوپورا کرنے کے لیے احادیث وضع کیا کرتے تھے۔ (19) جوزف شاخت (Joseph Schacht)امام اوزاعی ؒ (م ۱۵۷ھ ) پر وضعِ حدیث کا الزام عائد کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ان کے زمانے میں مسلمانوں میں جو بھی عمل جاری تھا ،اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردینے کا رجحان تھا تاکہ اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویب حاصل ہو جائے، خواہ احادیث اس عمل کی تائید کرتی ہوں یا نہ کرتی ہوں۔امام اوزاعی ؒ کا یہی عمل تھا اور اس رجحان میں عراقی فقہا امام اوزاعیؒ کے ساتھ شریک تھے۔(20) 

اعتراضات کا تنقیدی جائزہ

علمِ حدیث کے بارے مستشرقین کے ان گمراہ کن نظریات کی ایک وجہ تو ان کی ہٹ دھرمی اور اسلام سے عدوات کو قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ مستشرقین کا طریقۂ واردات ہی یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو ان کے اہداف کے حصول میں رکاوٹ بنتی ہے، اگر اس کو کلی طور پر رد کرنا ممکن نہ ہو توکم از کم اس میں اشتباہ ضرور پیدا کردیا جائے ۔علمِ حدیث کے بارے میں یہ لوگ اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں، اس کا اندازہ ہر وہ شخص آسانی سے کر سکتا ہے جو عالمِ اسلام میں برپا ہونے والے ’’فتنۂ انکارِ حدیث ‘‘ سے واقفیت رکھتا ہے۔اہلِ علم سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ فتنہ انکارِ حدیث کی تحریک کا فکری سر چشمہ مستشرقین کے افکار و نظریات ہی ہیں ۔ مستشرقین کے حدیث مخالف نظریات کی دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ چونکہ زیادہ تر مستشرقین نے حقائق کی جستجو میں اسلام کے اصل مصادرو مراجع کی طرف رجوع کرنے کی بجائے ثانوی مأ خذ پر ہی اکتفا کیا ہے، اس لیے حقیقت ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئی ہے۔ بدقسمتی سے حدیث پر تحقیق کرتے ہوئے مستشرقین کے ہاں گولڈ زیہر کو ’’امام معصوم‘‘ کا درجہ حاصل ہے اور اس کی تحقیقاتِ حدیث ہر طرح کی تنقید سے بالا تر سمجھی جاتی ہیں۔ چونکہ دیگر مستشرقین گولڈ زیہر کے قائم کردہ معیارات اور اصولوں کی روشنی میں ہی حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں، اس لیے منطقی طور پر اس اندازِ فکر نے مستشرقین کوایک بنیادی غلطی میں مبتلا کردیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گولڈ زیہر نے جہاں جہاں غلطیاں کی ہیں، دیگر مستشرقین بھی اس کے اصولوں کی پیروی میں اس جیسی غلطیوں ہی کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ مابعددور کے مستشرقین پر گولڈ زیہر کی تحقیقاتِ حدیث کے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر فواد سیزگین لکھتے ہیں :
’’گولڈزیہر نے اپنے خیالات کا اظہار اپنی کتاب ’’دراساتِ محمدیہ‘‘ میں کیا جو1890ء میں جرمن زبان میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کے شائع ہونے کے بعد حدیث پر تحقیق کے لیے یہ کتاب اہلِ مغرب کے لیے بنیادی دستاویز بن گئی ۔بیشتر مستشرقین اس کتاب کے حوالے سے اپنے نتائج فکر پیش کرتے رہے۔پروفیسر شاخت (J.Schacht) نے فقہی احکام سے متعلق احادیث پر کام کیا ،گلیوم (A.Guillaume)کی’’ ٹریڈیشنز آف اسلام ‘‘ وجود میں آئی ،جو گولڈ زیہر کی تحقیقات کا چربہ تھی ۔مار گولیتھ (Margoliouth)نے گولڈ زیہر کے افکار کی روشنی میں اپنے نظریات پیش کیے ۔علاوہ ازیں ہوروفتش (J.Horowitz) ہورست (H.Hosrt)، فون کریمر (A.Von.Kremer)، مویر (W.Wuir) ، کتانی(L.Caetani)، اور نکلسن (A.R.Nicholoson) وغیرہ نے بھی اس میدان میں اپنے اپنے نتائج فکر بیان کیے ہیں جو سارے کے سارے کم و بیش گولڈ زیہر ہی کے افکار کی صدائے باز گشت ہیں‘‘۔(21) 
مستشرقین کایہ الزام کہ مسلمانوں میں حدیث کی اہمیت اور اس کی حجیت کا تصور بعد کے دور کی پیدا وار ہے ، انتہائی خطرناک ہے ۔اس الزام کو تسلیم کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کو اس کے اصل تشخص ہی سے محروم کردیا جائے ۔ پیر صاحب ؒ مستشرقین کے اس الزام پرتنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اگر احادیث طیبہ کی اہمیت اور حجیت کا ثبوت صرف احادیث طیبہ اور تاریخِ اسلام کی مدد سے پیش کرنا پڑتا تو مستشرقین اپنے مزعومات کے مطابق اسے بڑی آسانی سے رد کرسکتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ ’’بکل شئ علیم‘‘ ہے۔ وہ اسلام کے خلاف اٹھنے والے ان سب فتنوں کو جانتا تھا، اس لیے اس نے احادیث طیبہ کی اہمیت اور حجیت کو قرآن حکیم کے ذریعے بیان کردیا۔ قرآن حکیم کی بے شمار آیتیں احادیث طیبہ کی اہمیت کو ثابت کر رہی ہیں۔ مستشرقین کی ایک معقول تعداد اب یہ تسلیم کرتی ہے کہ آج مسلمانوں کے ہاتھوں میں جو قرآن ہے ، یہ بعینہ وہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے سامنے پیش کیا تھا۔ اس لیے وہ قرآن حکیم کی کسی آیت کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بعد کے مسلمانوں نے خود گھڑی ہے ۔جب قرآن حکیم کی بے شمار آیات کریمہ احادیث طیبہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت کو بیان کرر ہی ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دورِ رسالت کے مسلمانوں نے احادیثِ طیبہ کو کوئی اہمیت نہ دی ہو اور صدی، ڈیڑھ صدی بعد مسلمانوں کو مجبوراً احادیث کی طرف متوجہ ہونا پڑا ہو؟‘‘(22) 
پیر صاحب ؒ کے استدلال کی بنیاد وہ تمام آیات ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کا حکم ہے کہ جب مستشرقین کی ایک معقول تعداد بھی یہ تسلیم کرتی ہے کہ قرآن مجید اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے تویہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمانوں نے ان آیات کو کوئی اہمیت ہی نہ دی ہوجن میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو جزوِ ایمان قرار دیا گیا ہے ۔ کئی صفحات پر پھیلی ہوئی اس بحث میں پیر صاحب ؒ نے متعدد آیات سے استدلال کیا ہے اور پوری بحث کو سمیٹتے ہوئے مستشرقین کے سامنے جو بنیادی سوالات رکھے ہیں، ان سے صرفِ نظر کرنامستشرقین کے لیے آسان نہیں ہے۔ فرماتے ہیں: 
’’کیا قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کو ان تمام آیاتِ قرآنی کا علم نہ تھا جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے؟کیا ان مسلمانوں کو قرآن حکیم کو سمجھنے اور اس کے احکام پر منشائے خداوندی کے مطابق عمل کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی؟کیاانہیں یہ معلوم نہ ہوسکا تھا کہ ان کا نبی صرف مبلغ کتاب ہی نہیں بلکہ معلمِ کتاب و حکمت بھی ہے؟وہ چیزیں جن کی حرمت کا فیصلہ قرآن حکیم نے نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، کیا قرونِ اولیٰ کے مسلمان ان چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے تھے؟ بڑی عجیب بات ہے کہ مستشرقین اور ان کے ہم نوا دیگر اہلِ مغرب چودہویں صدی کے مسلمانوں کو تو بنیاد پرست سمجھتے ہیں اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ قرآن حکیم کی بے شمار آیات جو اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم دے رہی تھیں، ان آیات کی طرف ان کی توجہ ہی نہ تھی۔ اگر یہ سچ ہے کہ ہر زمانے کے مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو فرض سمجھتے تھے، قرآن حکیم کے اسرار و رموز کو سمجھنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کو ضروری سمجھتے تھے ، وہ احکامِ قرآنی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی نمونے کی روشنی پر عمل کرتے تھے، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معلم کتاب و حکمت اور مزکئ قلوب سمجھتے تھے تو پھر یہ بھی سچ ہے کہ وہ جس طرح قرآن حکیم کو دین کا اول مصدر سمجھتے تھے، اسی طرح وہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور احادیثِ طیبہ کو دین کا مصدرِ ثانی سمجھتے تھے۔‘‘ (23) 
قرآن مجید کے کتنے ہی احکامات ایسے ہیں جن پر اس وقت تک عمل ممکن ہی نہیں جب تک حدیث و سنّت کو ساتھ نہ ملایا جائے۔ مثلاً : نماز ،روزہ ،زکوٰ ۃ اور حج جیسی بنیادی عبادات پر اس وقت تک عمل نہیں کیا جا سکتا جب تک سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہادی اور راہنما نہ بنایا جائے ۔فاضل مصنفؒ نے لفظ ’’حکمت ‘‘ کو خصوصی طور پر اپنی توجہ سے نوازا ہے اور پختہ دلائل سے ثابت کیا ہے کہ حکمت سے مراد حدیث و سنّت ہے اور وہ بھی قرآن حکیم کی طرح منز ل من اللہ ہے ۔ (24) 
پیر صاحب ؒ مستشرقین پر طنز کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان لوگوں نے وضعِ حدیث کے جس فتنے کا ذکر کیا ہے یہ کوئی ایسا ’’انکشاف‘‘ نہیں ہے جس سے مسلمان آگاہ نہیں تھے اور محض مستشرقین ہی ہیں جنھوں اپنی تحقیقات سے یہ پتہ چلایا ہے کہ دورِ اوّل میں احادیث وضع کی گئی تھیں، بلکہ حفاظتِ حدیث کے پورے نظام پر نظر رکھنے والا کوئی بھی شخص باور کر سکتا ہے کہ محض یہ کہہ دینے سے کہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے لوگ مطمئن نہیں ہو جاتے تھے بلکہ خبر کی پوری تحقیق کے بعد ہی اسے کو قبول کیا جاتا تھا۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں یہودو نصاریٰ اور منافقین اہلِ ایمان کے خلاف مسلسل بر سر پیکار تھے ، مسلمانوں کے لیے ضروری تھا کہ کسی بھی خبر کو قبول کرنے سے پہلے خبر لانے والے کے کرداراور عمومی طرزِ عمل کو بھی پیشِ نظر رکھیں۔ اس لیے ایک ایسا معاشرہ جس کے افراد کی تربیت روایت اور درایت کے لازوال اصولوں کی روشنی میں ہو ئی ہو، ان میں موضوع روایات کارواج پذیر ہونا کسی صورت ممکن نہ تھا ۔پیر صاحبؒ وضعِ حدیث کے فتنے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اس بات سے انکار نہیں کہ دشمنانِ اسلام نے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمۂ صافی کو گدلا کرنے کی کوشش کی اور انہوں نے ایسی باتوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کی کوشش بھی کی جو آپ نے نہ فرمائی تھیں، لیکن صورتِ حال یہ نہ تھی کہ ایسے کم بختوں کی مذموم کارروائیوں کو کسی نے روکا نہ ہو ۔ حدیث گھڑنے والے گھڑتے رہے، لیکن وہ لوگ جن کی نظریں قرآن حکیم کی ان آیات پر تھیں جو کسی خبر پر یقین کرنے سے پہلے تحقیق کرنے کا سبق دیتی ہیں یا جو افتراء علی اللہ کو ظلم عظیم قرار دیتی ہیں اور جن لوگوں کی نظریں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پاک پر تھیں جو جھوٹی حدیث گھڑنے والوں کو دوزخ کا ٹھکانا دکھا رہی ہے، ایسے لوگوں نے کبھی ان لوگوں کو کھل کھیلنے کا موقع نہیں دیا جو احادیث طیبہ کے چشمۂ صافی کو گدلا کرنا چاہتے تھے ۔قرآن حکیم نے انہیں فاسق کی خبر کے متعلق محتاط رہنے کا حکم دیا تھا۔‘‘(25) 
اسماء الرجال جیسے فن کی ایجاد کا سہرا مسلمانوں کے سر ہے جس میں دنیا کی کوئی قوم ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ اس علم کی بدولت محدثین نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کے شب و روز، ان کے اخلاق و کردار اور ان کے اندازِ زیست کا ریکارڈ جمع کردیا اور ہر خبر کے راویوں کے سلسلے کا کھوج لگایا تاکہ یہ پتہ چلایا جاسکے کہ کسی حدیث کے سلسلۂ سند میں کسی فاسق و فاجر اور کذاب کا نام تو نہیں آتا۔ محدثین کی ان عظیم الشان کوششوں کا اعتراف مستشرقین نے بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر اسپرنگر (Springer) لکھتے ہیں :
"The glory of the literature of the Mohammadans is its literary biography. There is no nation nor has there been any which like them has during the 12 centuries recorded the life of every man of letters. If the biographical records of the musalmans are collected, we should probably have accounts of the lives of half a million of distinguished persons, and it would be found that there is not a decennium of their history, nor a place of importance which has not its representatives"(26) 
’’مسلمانوں کے علمی ذخیرے کی شان ان کے سوانحی ادب میں نمایاں ہوتی ہے۔ (دنیا میں) ایسی کوئی قوم نہ تھی نہ ہے جس نے مسلمانوں کی طرح بارہ صدیوں میں علم وادب سے تعلق رکھنے والے ہر آدمی کے حالات زندگی محفوظ کیے ہوں۔ اگر مسلمانوں کے سوانحی ذخیرے کو جمع کیا جائے تو ہمیں کم وبیش پانچ لاکھ ممتاز افراد کے حالات زندگی میسر ہوں گے اور یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ان کی تاریخ کا کوئی عشرہ یا کوئی اہم مقام نہیں جس کی نمائندگی کرنے والے لوگ (اس ذخیرے میں) نہ پائے جاتے ہوں۔‘‘
مشکوٰ ۃ المصابیح کا مترجم رابنسن (Robson)کہتا ہے:
"In the gospels as they stand we don't have the various elements of the sources separated out for us as we do through the "Island" of muslim traditions where at least apparently, the transmission is traced back to the source"(27) 
’’اناجیل میں، جیسا کہ وہ ہمارے پاس موجود ہیں، ہمیں یہ شکل دکھائی نہیں دیتی کہ مختلف مآخذ سے لی جانے والی معلومات الگ الگ ہمارے سامنے پیش کی گئی ہوں، جیساکہ ہمیں مسلمانوں کی روایات میں یہ چیز دکھائی دیتی ہے جہاں کم از کم ظاہری طور پر روایات کی کڑی ان کے اصل ماخذ کے ساتھ ملائی جاتی ہے۔‘‘
لہٰذا روایت اور درایت کے ان سنہری اصولوں کی موجودگی میں ،جس کا اعتراف مستشرقین کو بھی ہے، کسی جعلی روایت کا لوگوں میں قبولیت حاصل کرنا ممکن نہ تھا ۔ اسلامی احکامات کو کذب و افترا سے محفوظ رکھنے کے لیے اسلام نے لوگوں کی جو تربیت کی، اس کی بنیاد پر یہ بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ صحابہ کرامؓ اور راسخ العقیدہ اہلِ ایمان کی طرف سے تو اس کا کوئی امکان نہ تھا کہ وہ کسی بات کو اپنی طرف سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیں جبکہ دیگر لوگوں کی روایت کو سخت شرائط کے ساتھ ہی قبول کیا جاتا تھا ۔اس پس منظر میں مستشرقین کا یہ الزام کہ بہت ساری احادیث عیسائی اور یہودی روایات کے زیر اثر تشکیل پذیر ہوئی ہیں ، اپنے اندر کوئی وزن نہیں رکھتا ۔ہم یہ وضاحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ تمام الہامی ادیان کی بنیادی تعلیمات ایک ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے یہ دعویٰ کبھی نہیں کیا کہ وہ کسی نئی دعوت کا علمبردار ہے ،بلکہ اسلام تو پہلے ہی اس بات کا داعی ہے کہ اس کی دعوت سابقہ انبیا کی دعوت کا تسلسل ہے اور اسلام اس دین کا مکمل ترین ایڈیشن ہے جس کی ابتدا حضرت آدم ؑ سے ہوئی تھی۔ لہٰذا اگر اسلام کی بنیادی تعلیمات کی اصالت سابقہ الہامی کتابوں میں پائی جائے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے ، کیونکہ اصولی طور پر اسلام اور سابقہ انبیا کی دعوت کے بنیادی نکات ایک ہی ہیں۔ خود قرآن کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ سابقہ الہامی کتابوں کی غیر محرّف تعلیمات کی تصدیق کرنے والا ہے اور اس کی اصل شکل کو بیان کرنے والا ہے۔ (28) یہی وہ پسِ منظر ہے جس میں قرآن نے اہلِ کتاب کو خطاب کرتے ہوئے صاف طور پر کہا ہے: ’’اے اہلِ کتاب ! آؤ اس کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان ایک ہے وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔‘‘ (آل عمران،۳:۶۴)دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسلام کا مرکز ومحور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور کسی بھی شخص کا دعواے اسلام اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں رکھتا جب تک اس کادل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے لبریز نہ ہواور وہ اپنی جبین نیاز کو آپ کے حضور خم نہ کردے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسل کی اطاعت کے وجوب پر کثیر آیات نازل فرمائی ہیں۔ (29) 
دوسری طرف خود جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ بولنے والوں اور آپ کی طرف جھوٹی بات کو منسوب کرنے والوں کوسخت الفاظ میں وعید سنائی ہے: ’’من کذب علیّ متعمدًا فلیتبوّأ مقعدہ من النار‘‘ (30) ، ’’جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا، اس کا ٹھکانہ آگ ہے۔‘‘ مزید فرمایا: ’’من حدّث عنی بحدیث یری أنہ کذب فھو أحد الکاذبین‘‘ (31) ’’جس شخص نے علم کے باوجود جھوٹی حدیث کو میری طرف منسوب کیا، وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔‘‘ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ کتاب کی اتباع اور اقتدا سے بھی سختی سے منع کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لتتّبعنّ سنّۃ من کان قبلکم باعًا بباع وذراعًا بذراعٍ وشبرًا بشبرٍ، حتی لودخلوا فی جحر ضب لدخلتم فیہ ، قالوا: یارسول اللّٰہ! الیہود والنصاری؟ قال:فمن،اِذًا؟‘‘ (32) ’’تم اپنے سے پہلے لوگوں کے نقش قدم کی ہو بہو پیروی کرو گے، حتیٰ کہ اگر وہ بجو کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھسو گے۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ! آپ کی مراد یہود ونصار یٰ ہیں؟ آپ نے فرمایا: تو اور کس سے ہے۔‘‘ 
یہی وجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ ایسے اعمال سے بچتے رہے جن سے یہود و نصاریٰ سے مشابہت پیدا ہوتی ہے ۔ صحابہ کرامؓ نے ہمیشہ اس بات کی حوصلہ شکنی کی کہ لوگ قرآن کی موجودگی میں اہلِ کتاب کی روایات کو آگے بیان کریں۔ حضرت عمر فاروقؓ کو علم ہوا کہ ایک شخص کتابِ دانیال دوسروں کو نقل کرواتا ہے تو آپؓ نے اس کو بلایا اس کی پٹائی کی اور حکم دیا کہ جو کچھ اس نے لکھا ہے اس کو مٹا دے اور وعدہ کرے کہ آئندہ نہ تو وہ اس کتاب کو پڑھے گا اور نہ ہی کسی کو پڑھائے گا اور پھر حضرت عمر فارووقؓ نے یہود و نصاریٰ کی کتب کے نقل کرنے کی ممانعت کے سبب کے طور پر خود اپنا واقعہ بیان کیاکہ ایک موقع پر جب انھوں نے یہی عمل کیا تھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر شدید غصے اور ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ (33) اس لیے مستشرقین کے اس اعتراض میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ احادیث کا مأخذ بائیل اور اسرائیلی روایات ہیں ۔
ہماری یہ دیانت دارانہ رائے ہے کہ علوم الحدیث کے فن سے متعارف کوئی بھی شخص مستشرقین کے مذکورہ دعویٰ کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ اس میں شک نہیں کہ کئی تابعین نے اسرائیلی روایات کو بیان کیا ہے تاہم ان کی نقل کردہ روایات محض کسی حکم کی تائید یاتوضیح کے لیے ہیں نہ کہ ہدایت اور راہنمائی کے لیے اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اسرائیلی روایات اسلامی عقائد و نظریات کی بنیاد نہیں ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اہلِ کتاب کے اس طرزِ عمل کا خاص طور پر ذکر کیا ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی نازل کردہ کتابوں کو بازیچۂ اطفال بنا رکھا تھا اور ان کتابوں میں اپنی خواہشِ نفس سے کمی بیشی کرتے رہتے تھے ۔ قرآن مجیدنے اسی پس منظر میں مسلمانوں کو تنبیہ کی ہے کہ وہ اس فعل شنیع کے قریب نہ جائیں ۔ پیر صاحب ؒ نے ’’احادیث طیّبہ کو کذب و افتراء سے محفوظ رکھنے کا اہتمام ‘‘ کے زیر عنوان سیر حاصل بحث کی ہے۔ (34) 
جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ نے مستشرقین کے اس اعتراض پر کہ روایات دو اڑھائی صدیوں کے کہیں بعد جا کر مدون ہوئی ہیں، تنقید کرتے ہوئے اپنے استدلال کی بنیاد ایک بارپھر قرآنی آیات پر رکھی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن تو مسلمانوں کو حکم دے رہا ہو کہ ان میں سے ہر قبیلے اور خاندان میں ایک ایسا گروہ ہونا چاہے جو قرآن کا فہم حاصل کرے۔ (سورۂ ال عمران،۳:۱۰۴ )پیر صاحب ؒ کا استد لال یہ ہے کہ اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ حدیث و سنّت کو نہ صرف خود سمجھا جائے بلکہ دوسروں بھی سکھایا جائے ۔پیر صاحب ؒ نے خطبہ حجۃ الوداع اور اس کے پس منظر میں متعدد احادیث اور واقعات سے استدلال کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو متعدد مواقع پر تاکید فرمائی کہ وہ مجھ سے سنی ہوئی باتوں کو یاد رکھیں اور اس کو دوسرے لوگوں تک پہنچائیں ۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے حدیث کی حفاظت اور ترویج و اشاعت میں اپنی زندگیاں وقف کردیں ۔پیر صاحب ؒ کو مستشرقین کے اس نقطۂ نظر سے بھی شدید اختلاف ہے کہ حفاظتِ حدیث کا صرف ایک ہی قابلِ اعتماد ذریعہ ہے اور وہ ہے تدوینِ حدیث ۔آپؒ فرماتے ہیں : 
’’عام مصنفین نے ’’تدوینِ حدیث‘‘ کے عنوان کے تحت ہی حفاظت حدیث کے متعلق اپنے نتائج فکر کو بیان کیا ہے۔ ہم نے ’’تدوین حدیث‘‘ کی بجائے ’’ حفاظتِ حدیث‘‘ کو اپنے موضوع کا عنوان بنانا مناسب سمجھا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے حدیث طیبہ کی حفاظت کے لیے صرف تدوین حدیث کے طریقے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس کار خیر کے لیے متعدد ایسے طریقے اپنائے ہیں جن کی مستشرقین کو ہوا بھی نہیں لگی۔ مستشرقین کے ساتھ مباحثے میں ضروری نہیں کہ ہم ہمیشہ اسی محاذ پر ان کا مقابلہ کریں جس محاذ کو وہ خود منتخب کریں۔ اگر تدوین کے بغیر دینی پیغام کی حفاظت کا کوئی طریقہ مستشرقین کے ہاں مروج نہیں تو یہ ان کا قصور ہے ، ہم ان کی اس کوتاہی کی وجہ سے امت مسلمہ کی ان خصوصیات کو کیوں نظرانداز کردیں جو اس ملت کا طرۂ امتیاز ہیں؟‘‘ (35) 
عربوں کے بے مثل حافظے کے ساتھ ساتھ ان کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو والہانہ محبت تھی، اس کی بنا پر انھوں نے آپ کے اقوال کو اپنے دل و دماغ میں پوری طرح محفوظ کرلیا ۔ ’’حدیثِ تقریری ‘‘ اور سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت میں مفہوم کی یکسانیت کے باوجود الفاظ کا مختلف ہوجانا عین ممکن ہے لیکن جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کا معاملہ ہے، اگرچہ ان کی روایت میں محدثین نے صحابہ کرامؓ کے لیے روایت بالمعنی کے جواز کو تسلیم کیا ہے، کیونکہ وہ رسولِ خدا کے براہِ راست مخاطب ہونے کی وجہ سے مرادِ رسول کو پوری طرح سمجھتے تھے لیکن اس کے باوجود صحابہ کرامؓ جس لفظی صحت کے ساتھ ان اقوال کو محفوظ رکھتے تھے، پیر صاحب ؒ نے اس پرکئی واقعات بطور دلیل ذکر کیے ہیں۔(36) 
پیر صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ مستشرقین کا یہ دعویٰ کہ تدوین کا کام کرنے والوں کا بھروسہ صرف اور صرف زبانی مصادر پر تھا، اس لیے ان کے خیال میں جو چیز صدیوں غیر مدون شکل میں رہی، اس کے متعلق یہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنی اصلی حالت میں ہے۔ گو مستشرقین کا یہ شوشہ بھی بالکل بے بنیاد ہے کہ تدوین کے بغیر کسی چیز کی حفاظت ممکن نہیں اور ا س کی ایک بہت بڑی دلیل یہ ہے کہ برطانیہ جو اکثر مستشرقین کا وطن ہے، اس ملک کا آئین تحریری شکل میں موجود نہیں لیکن مدون نہ ہونے کے باوجود وہ آئین محفوظ ہے اور برطانوی لوگ اسی آئین کے مطابق اپنے ملک کو چلارہے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا ملک ہی اصل جمہوری ملک ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان کا آئین ان کی قومی زندگی کا حصہ بن چکا ہے، اس لیے تحریری شکل میں موجود نہ ہونے کے باوجود زندہ ہے اور ان آئینوں کی نسبت زیادہ قوت کے ساتھ زندہ ہے جو تحریری شکل میں موجود تو ہیں لیکن متعلقہ قوموں کی زندگیوں میں ان کی روح نظر نہیں آتی۔ مسلمانوں نے جس انداز میں احادیثِ طیبہ کو اپنی زندگیوں میں نافذ کیا تھا، اگر احادیث تحریری شکل میں موجود نہ ہوتیں تو بھی احادیث کی صحت ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر رہتی لیکن یہ تصور کرنا بالکل غلط ہے کہ مسلمانوں نے پورے دو سو سال احادیث طیبہ کی تدوین کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ حق یہ ہے کہ گو مسلمانوں نے حفاظتِ حدیث کے سلسلہ میں کتابت کے علاوہ دیگر وسائل پر زیادہ بھروسہ کیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے احادیث کی کتابت کو بالکل نظر انداز کردیا۔ حضرت پیر کرم شاہ الازہری ؒ نے ’’حفاظتِ حدیث ‘‘ کے زیرعنوان ۷۵ صفحات پر مشتمل جو معرکہ آرا بحث کی ہے، وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
پیر صاحب ؒ نے ’’احادیث لکھنے کی ممانعت کا مسئلہ ‘‘ کے زیر عنوان حضرت ابو سعید الخدریؓ (م ۷۴ھ )سے مروی صحیح روایت ’’لا تکتبوا عنی شیئاً غیر القرآن‘‘ کی اہلِ علم کی آرا کی روشنی میں ایسی توجیہ کی ہے جس سے مستشرقین کا اعتراض رفع ہوجاتا ہے ، اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ:
(۱) کتابتِ حدیث کی ممانعت والی روایات منسوخ ہیں، کیونکہ ان روایات کا سیاق و سباق ، تاریخی پس منظر اور دیگر شواہداس مؤقف کی تائید کرتے ہیں اور پھر صحابہ کرامؓ کی کثیر تعدادکا کتابتِ حدیث کی طرف عملی رجحان ان احادیث کے مفہوم کو متعین کرنے میں ہمارے لیے حجت ہے ۔
(۲) جمع و تطبیق کے اصول کی روشنی میں بھی ان روایات کا مفہوم متعین کیا سکتا ہے یعنی نہی نزولِ قرآن کے وقت التباس کی وجہ سے کی گئی ہے، لیکن جب التباس کا خطرہ نہ رہا تو آپ نے احادیث لکھنے کی اجازت دے دی۔
(۳) ان روایات کی ایک توجیہ یہ بھی کی جا سکتی ہے کہ آ پ نے ایک ہی صفحہ پر قرآن مجید کے ساتھ احادیث لکھنے سے منع فرمایا تھا ،جیسا کہ کئی روایات سے یہ اشارہ ملتا ہے جبکہ احادیث کو الگ صفحات پر لکھنے کی اجازت تھی۔ 
(۴) یا ممانعت کا حکم ان لوگوں کے لیے تھاجو حدیث کے حفظ کرنے میں اور باہم مذاکرہ کرنے میں کاہلی کا شکار ہو رہے تھے اور صرف کتابتِ حدیث پر تکیہ کیے ہوئے تھے،شاید اسی پسِ منظر میں آپ نے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی جو حدیث کو یاد کرتے ہیں اور اس کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔جبکہ جولوگوں حفظ کے خو گر تھے، ان کو آپ کی طرف سے احادیث لکھنے کی اجازت تھی۔(37) 
جہاں تک مستشرقین کے اس اعتراض کا تعلق ہے کہ دورِ اوّل میں صحابہ کرامؓ تذبذب شکار رہے کہ ا حادیث کو لکھا جائے یا نہ لکھا جائے جس کی وجہ سے ابتدائی دور میں حدیث کی حفاظت کے لیے کوئی منظم کوشش نہ کی جاسکی اور جب دوسری اور تیسری صدی ہجری میں احادیث کی جمع و تدوین کا کام شروع ہوا تو اس وقت تک حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا حصّہ ضائع ہو چکا تھا، اہلِ علم نے اپنی تحقیقات کے نتیجے میں مستشرقین کے اس اعتراض کو بے وزن کردیا ہے ۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ (م ۲۰۰۱ء) نے اپنی مرتب کردہ کتاب’’الوثائق السیاسیۃ ‘‘میں ۲۸۱ ایسے خطوط اور وثائق کا ذکر کیا ہے جن کاتعلق صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرمی سے ہے۔ (38) اسی طرح ڈاکٹر صاحبؒ موصوف نے ہمام بن منبّہ(م ۱۰۱ھ) جو ابو ہریرہؓ (م ۵۹ھ) کے شاگرد ہیں،کی طرف منسوب ’’صحیفہ ہمام بن منبّہ‘‘ ایڈٹ کرکے شائع کیا ہے جس میں ۱۳۸ ؍ا حادیث درج ہیں، اس مخطوطے کی دریافت قرنِ اوّل میں کتابتِ حدیث کی بہت بڑی شہادت ہے۔ (39) علاوہ ازیں ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ نے شاہانِ عالم کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی خطوط بھی دریافت کیے ہیں۔ چونکہ ان میں سے کئی خطوط حدیث کی مستند کتابوں میں بھی منقول ہیں، اس لیے نو دریافت شدہ خطوط اور کتبِ حدیث میں مطابقت کا پایا جانا بھی کتبِ حدیث کے مستند ہو نے اور قرنِ اوّل ہی میں کتابتِ حدیث پر دلالت کرتے ہیں۔ (40) اس موضوع پر ڈاکٹر محمد مصطفی الاعظمی کا پی ایچ ڈی کا مقالہ "Studies in Early Hadith Litereture" جو ’’دراسات فی الحدیث النبوی وتاریخ تدوینہ‘‘ کے عنوان سے دو جلدوں میں عربی زبان میں شائع ہو چکا ہے ، خاص طور پر قابلِ مطالعہ ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب موصوف نے نہ صرف حدیثِ نبوی کی جمع و تدوین کی تاریخ کا تفصیلی حال بیان کیا ہے بلکہ باون (۵۲) صحابہ کرامؓ اور دو سو باون(۲۵۲) تابعین عظام ؒ کے صحائف کا ذکر کیا ہے جس سے قرنِ اوّل میں حدیث کی کتابت اور حفاظت کے لیے کی جانے والی ہمہ گیر کوششوں پر روشنی پڑتی ہے۔ (41) پیر صاحبؒ نے بھی عہدِ نبوی سے لے کر صحاح ستّہ کی تدوین تک کی مختصر تاریخ بیان کرکے مستشرقین کے اعتراضات کی سطحیت کو واضح کردیا ہے۔ (42) نتیجۃ البحث کے طور پر پیر صاحب ؒ فرماتے ہیں :
’’مسلمانوں نے اپنے علمی سرمائے کو محفوظ رکھنے کے لیے جو کوششیں کی ہیں وہ کسی دوسری قوم نے اپنے علمی سرمائے کی حفاظت کے لیے نہیں کیں۔ حیرت کی بات ہے کہ جن لوگوں کواپنے دینی اور علمی ورثے کی حفاظت کا سلیقہ نہ تھا، وہ اس ملت کے علمی سرمائے پر ہاتھ صاف کرتے ہیں جس ملت نے اپنے علمی سرمائے کی حفاظت کے لیے بے نظیر کام کیا ہے۔ احادیث طیبہ کی حفاظت کے لیے مسلمانوں نے مختلف طریقے استعمال کیے ۔ احادیث طیبہ کے حصول کے لیے محیر العقول کاوشیں، احادیث طیبہ کو سینوں میں محفوظ کرنا، احادیث طیبہ کے پیغام اور تعلیم کو فردوقوم کی عملی زندگی میں جذب کرنا، احادیث سننے اور سنانے کی محفلیں منعقد کرنا، تدریسِ حدیث کے حلقے، حدیث کی کتابت، حدیث کی تدوین، فنِ اصولِ حدیث متعارف کرانا، احادیث کی سندوں کی چھان بین ، احادیث کے متن پرکھنا، رواۃِ حدیث کے حالاتِ زندگی اور ان کے اخلاق و کردار کو محفوظ کرنا، احادیث کے مختلف درجے متعین کرنا،ایسی کتابوں کی تیاری جن سے صرف صحیح احادیث کا بیان ہو، ہر حدیث کی فنی حیثیت متعین کرنا، ان راویوں سے ملت کو آگاہ کرنا جو وضعِ حدیث کے لیے مشہور ہیں اور ایسی کتابیں مرتب کرنا جن میں تمام موضوع روایات کو جمع کردیا جائے تاکہ لوگ ان موضوع روایات کو قولِ رسول سمجھ کر دھوکا نہ کھا جائیں ۔ یہ وہ مختلف طریقے تھے جو مسلمانوں نے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیش بہا خزانے کی حفاظت کے لیے استعمال کیے۔‘‘ (43) 
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مستشرقین جس فکری کج روی کا شکار ہوئے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حدیث سے متعلق اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے قرآن مجید کو بالکل ہی نظر انداز کردیا ہے حالانکہ قرآن مجید میں حدیث کی حجیت اور اس کی حفاظت کے واضح شواہد موجود ہیں۔ پیر صاحب محترمؒ نے مستشرقین کو قرآن مجید کی طرف متوجہ کیا ہے کہ جب وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن اپنی اصل شکل میں موجود ہے تو اسی قرآن کی متعدد آیات کا تقاضا ہے کہ حدیث و سنت بھی محفوظ ہو ورنہ قرآن کا فہم اور اس کے متعدد احکام پر عمل ممکن ہی نہیں۔
یہ بات بڑی قابلِ قدر ہے کہ پیر صاحبؒ نے حدیث کا دفاع کرتے ہوئے معذرت خواہانہ انداز اختیار نہیں فرمایا بلکہ مستشرقین کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنے خیالاتِ فاسدہ کو مسلمانوں کے خیالات بنا کر پیش کرنے کے بجائے مسلمہ علمی طریقے کے مطابق مسلمانوں کے بنیادی مصادر کی طرف رجو ع کریں کیونکہ انہیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اسلام کی عمارت کو اپنے نظریات پر تعمیر کرنے کی کوشش کریں۔ غور کیا جائے تو مستشرقین کا بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ کسی بھی اسلامی مسئلہ پر مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے بحث نہیں کرتے بلکہ غلط طور پر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں یہی مسلمانوں کا نقطۂ نظر ہے۔ شاید یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس نے مستشرقین کے مطالعات میں عجیب و غریب قسم کے نتائج پیدا کر دیے ہیں۔

حواشی و تعلیقات

(1) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :
’’حیا ت جاوید ‘‘ (از مولانا الطاف حسین حالی ؒ ) ۲/۱۲ تا ۱۸، (ارسلان بکس علامہ اقبال روڈ ،میرپور ،آزاد کشمیر ،مئی ۲۰۰۰ء) 
(2)مثلاً اس حوالے سے، رچرڈ سائمن ، پیئربائیل ،سائمن اوکلے ،ھادریان ریلانڈ ،مائیکل ایچ ہارٹ ،ڈاکٹر مورس بکائے، تھامس کارلائل کیرن آرم سٹرانگ ، منٹگمری واٹ،جان بیگٹ ، الفریڈ اسمتھ اور کئی دیگر مستشرقین کے نام بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں ۔
(3)مثلاً :Kenneth Craggانجیل اور بائبل کاقرآن سے تقابلی جائزہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : بائیبل اور انجیل کو صدیوں بعد جمع کیا گیا جبکہ قرآن محمد ﷺ کی زندگی میں ہی وجود میں آ چکا تھا۔(''The Event of The Quran-Islam in its Scripture'', P:178,(George Allen & Unwin, London)۔ اسی طرح انیسویں صدی کے مشہور مستشرق سر ولیم میور قرآن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: یہ ایک حقیقت ہے کہ آیات کی ترتیب صرف اور صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تھی اور ہی کی ہدایت پر حفظ کی جاتی تھیں یا لکھ لی جاتی تھیں ۔چنانچہ اس طور پر عہدِ رسالت میں قرآ ن سامنے آچکا تھا یہی نہیں بلکہ اس پر یقین کرنے کی کافی وجوہا ت ہیں کہ آپ کی زندگی میں ہی آپ کے صحابہ کے پاس قرآن کے بہت سے نسخے موجود تھے ۔(Sir william Muir:"The Life of Muhammad",John Grant-1894 edition,P:xix)،اسی حقیقت کا اعتراف سٹینٹن (H.U.W.Stanton) جان برٹن (John Burton)اورکئی دوسرے مستشرقین نے بھی کیا ہے ۔ ملاحظہ ہو:
H.U.W.Stanton:"The teaching of Quran" Darf Publications Ltd, London, 1919 Revised 1987,P:11
John Burton:"The collection of Quran" University of St Andrews,University Press 1977 P:4) 
(4) ضیاء النبی ﷺ، 25/7،(ضیاء القرآن پبلی کیشنز ،لاہور،۱۴۱۸ھ)
(5) ضیاء النبیﷺ ، 15-16/7
(6) ضیاء النبیﷺ ، 17/7
(7) Gibb,(1965) "Islam" "The Encyclopedia Of Loving Faith", p:171, (London,1884)
(8) "The origins of Muhammadan Jurisprudence".(Oxford press 1950),P:3 
(9) Arthur Jeffery,"Islam,Muhammad And His Religion", P:12, (Indiana,1979)
(10) J.Robson,"The Isnad in Muslim Tradition"P:18 (Glasgow University,Oriential Society) 1955
(11) Ibid,P"18
(12) Gold zhiher,(1921)"Muslim Studies"p:213,Vol:2,(George Allen & Unwin LTD,London,1971)
(13) Josefh Schacht, "The origins of Muhammadan Jurisprudence" P:36 -37, (Oxford at the clarendon prss 1950)
(14) Watt,Montgomery,(1979) "Muhammad At Medina",p:318,(Oxford Press London),1956
(15) Will Durant,(1981)"The Age of Faith",211-212, (New York,1950)
"Islam and the west" , (New jersey, U.S.A,1962) p:105-107 (16) Philip.K.Hitti,
(17) Alfred Guillaume,"Islam" , p:89-90 ,(London 1963) 
(18) Dancan B.Macdonald,"Muslim Theology , Jurisprudence and constitution Theory", p:76-77,(Beirut Khayats, 1965)
(19) "Muslim Studies",P:56,40-45,Vol:2
(20) "The origins of Muhammadan Jurisprudence"P:72-73 
(21) ڈاکٹر فواد سیز گین،’’مقدمہ تاریخ تدوین حدیث‘‘،(مترجم:سعید احمد)،ص:18،(ادارہ تحقیقاتِ اسلامی ،اسلام آباد، 1985)
(22) ضیاء النبیﷺ ، 28/7
(23) ضیاء النبی ﷺ،54/7
(24) ضیاء النبیﷺ ،56-40/7
(25) ضیاء النبیﷺ ، 60-61/7
(26) Abn-Hajar, "Al-Isabah"(Introduction by Springer) Biship's College Press Calcutta, 1856)
(27) Robson, "Ibn-i-Ishaq's use of Isnad" ,P.449, (Bulletin of the John Rylands library Manchster,March 2, 1956)
(28) (النساء ، ۴/۴۷)،(المائدۃ،۵/۴۸)
(29) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:(الانفال، ۸/۱)،(الانفال ،۸/۲۰)،(محمد،۴۷/۳۳)،(التغابن، ۶۴/۱۲)،(ال عمران، ۳/۳۲)،)ال عمران،۳/۱۳۲)، (النساء، ۴/۵۹)مذکورہ بالا آیات میں اطاعتِ رسولصلی اللہ علیہ وسلم کو لازمی حکم کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سی آیات ایسی بھی ہیں ، جن میں اطاعتِ رسول اور اس کی جزا ذکر کی گئی ہے، چند آیات ملاحظہ ہوں مثلاً: (النساء،۴/۱۳)، (الاحزاب،۳۳/)، (النساء، ۴:۶۹)، (النساء،۴:۸۰)، (الاحزاب،۳۳:۳۶) (الجن،۷۲:۲۳)
(30) مسلم بن حجاج بن مسلم القشیریؒ ، الامام ابو الحسین ، (۲۰۴۔۲۶۱ھ) صحیح مسلم، مقدمہ، باب تغلیظ الکذب علی رسول اللّٰہ ﷺ ،ح: ۴ ،ص:۸ ،( دارالسلام للنشر والتوزیغ، الریاض، ۱۹۹۸ء )
(31) صحیح مسلم، مقدمہ، باب وجوب الروایۃ عن الثقات وترک الکذابین،ح:۱ ،ص:۷
(32) ابن ماجہؒ ، محمد بن یزید، (۲۰۹۔۲۷۳ھ) ابن ماجۃ ،کتاب الفتن، باب افتراق الامم ، ح:۳۹۹۴ ،ص:۵۷۴ ، (دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، ۱۹۹۹ء )
(33) الخطیب البغدادیؒ ، ابوبکر احمد بن علی بن ثابت، (۳۹۲۔۴۶۳ھ) ’’ تقیید العلم‘‘، (تحقیق : یوسف العش)، ص:۵۰،۵۱،(دار احیاء السنۃ النبویۃ،انقرہ، ۱۹۷۴ء)
(34) ملاحظہ ہو:ضیاء النبی ﷺ،۷/۵۶۔۷۱
(35) ضیاء النبیﷺ ، ۷/۷۵
(36) تفصیل کے ملاحظہ:ضیاء النبیﷺ ، ۷/۷۷۔۸۲
(37) ضیاء النبیﷺ ، ۷/۱۱۲۔۱۲۴
(38) محمد حمید اللہ ،ڈاکٹر ،(م ۲۰۰۱ ء) ’’مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ فی العھد النبوی والخلافۃ الراشدۃ‘‘، (قاہرۃ، ۱۹۴۱ء)
(39) ’’صحیفہ ہمام بن منبّہ‘‘، (بیکن بکس، لاہور، 2005ء)
(40) ’’رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی‘‘،(دار الاشاعت ،کراچی،1987ء)
(41) محمد مصطفی الاعظمی ،ڈاکٹر، ’’دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ‘‘، ۱؍۹۲۔۳۲۵ (المکتب الاسلامی ، بیروت ،۱۹۹۵ء) 
(42) ضیاء النبیﷺ ، 155-124/7
(43) ضیاء النبیﷺ ، 76-77/7

ایک نئی دینی تحریک کی ضرورت

ڈاکٹر محمد امین

یہ چند سال پہلے کی بات ہے کہ ہم نے ایک دن شہید ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب سے کہا کہ ہمارے دینی سیاسی لوگ اکٹھے نہیں ہوتے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہاں ’کرسی‘ کا مسئلہ ہے لیکن دعوت و اصلاح جیسے غیر سیاسی کام میں دینی لوگ کیوں جمع نہیں ہوسکتے جبکہ اس کام کی بڑی سخت ضرورت بھی ہے۔ کہنے لگے کہ اس میں کوئی بڑی رکاوٹ بظاہر تونظر نہیں آتی ۔ چنانچہ ہم نے باہم مشورہ کر کے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور سول سوسائٹی کے دیندار افراد کا ایک اجتماع جامعہ نعیمیہ میں رکھا جس کا ایجنڈا اور ورکنگ پیپر راقم نے تیار کرکے شرکا کو بھجوا دیا۔ اس اجلاس کی دونشستیں عصر سے عشا تک ہوئیں۔ ایجنڈے کا اہم نکتہ دعوت و اصلاح اور فرد کی تربیت تھا لیکن افغانستان اور عراق کا مسئلہ اور پاکستان کے سیاسی حالات جیسے اجتماعی مسائل شرکاء کے ذہنوں پر چھائے رہے اور ہم کوشش کے باوجود شرکا کو دعوت و اصلاح کی کسی اجتماعی حکمت عملی کی طرف نہ لاسکے۔
یہ بات ہمیں اس حوالے سے یاد آئی کہ مولانا زاہد الراشدی صاحب نے اپنے جریدے ماہنامہ ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ کے فروری۲۰۱۰ء کے شمارے میں منجملہ دوسری باتوں کے پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے سارے مکاتب فکر کے علماء کرام پر مشتمل ایک نئی دینی جماعت کے قیام کی ضرورت کا ذکر کیا ہے جو انتخاب و اقتدار کی سیاست میں پڑے بغیر اجتماعی جدوجہد کرے۔ مولاناکی بات سرسری اور مجمل ہے اور غالباً کوئی منضبط اور تفصیلی تجویز پیش کرنا ان کے مدنظر نہیں تھا۔ ہم چونکہ اس موضوع پر سوچتے رہتے ہیں لہٰذا ہمارے ذہن میں ایک نئی دینی تحریک کا پورانقشہ موجود ہے جو ہم اہل فکر و نظر کے سامنے رکھ رہے ہیں تاکہ وہ اس پر غور فرمائیں اور اس کے حسن و قبح پر بحث کے نتیجے میں کوئی اچھی اور قابل عمل بات سامنے آسکے۔

(۱)

بنیادی بات یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اپنی موجودہ زندگی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق گزارنا ہے تاکہ ہم اخروی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرسکیں اور اس کی نعمتوں کے سزاوار ٹھہریں۔ اگر ہم بحیثیت معاشرہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی زندگی گزاریں گے تو ہم ان شاء اللہ اس دنیا میں بھی کامیاب ہوں گے اور زوال کے گڑھے سے نکل کر عزت و عظمت کی راہ پر گامزن ہو سکیں گے۔ دنیا میں ہمارے زوال کا ایک بنیادی سبب ہماری اپنے نظریۂ حیات (اسلام) سے دوری اور اس کے تقاضوں پر عمل نہ کرنا ہے جس کی وجہ سے ہمارے اندر وہ صلاحیتیں پنپ نہیں پارہیں جو دنیا میں جمع اسباب اور ترقی و غلبے کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ 
یہ بنیادی فکری پہلو ہم نے ابتدا ہی میں اس لیے واضح کردیا کہ ہمارے نزدیک یہی دنیا میں مسلمانوں کی ترقی اور کامیابی کی اساس ہے نہ کہ اس مغربی فکر و تہذیب کی پیروی جواپنی اساس میں غیر اسلامی ہے۔ دنیا اور آخرت میں بیک وقت کامیابی کے اسی نظریے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے کی بنیاد رکھی جسے آپؐ کے صحابہ کرام نے بھی جاری رکھا اور وہ ربع صدی کے اندر نہ صرف جزیرہ نما عرب بلکہ اس وقت کی ورلڈ پاورز پر غالب آگئے اور ایسی خوشحالی پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ مسلم معاشرے میں زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ رہا۔ لہٰذا آج بھی ہماری ترقی اور کامیابی کی اساس دین سے ایسی وابستگی ہے جو ہمارے دنیا کے مسائل بھی حل کر دے اور آخرت میں بھی ہماری کامیابی کے راستے کھول دے۔

(۲) 

اس نظریاتی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئیے یہ دیکھیں کہ وہ کون سے گھمبیر مسائل ہیں جو ہمیں (پاکستان کے مسلم معاشرے میں) درپیش ہیں اور جن کا حل ہمیں ڈھونڈنا ہے۔ ہمارے نزدیک اہم ترین مسائل چار ہیں: i۔ اخلاقی ابتری، ii۔ افتراق ، iii۔ جہالت، iv۔ غربت۔ لیکن پیشتر اس کے کہ ہم ان مسائل کے حل کے لائحہ عمل کے بارے میں کچھ عرض کریں ، کچھ حقائق کا ادراک اور کچھ تصورات کا صحیح فہم ضروری ہے جن کے بغیر شائد ہماری بات صحیح تناظر میں سمجھی نہ جاسکے:

اولاً

بدقسمتی سے ہماری حکومتیں اکثر وبیشتر عامۃ الناس کی خواہشات اور تمناؤں کے برعکس عمل پیرا ہیں اور یہ عموماً یورپ و امریکہ کی دریوزہ گر ہیں جن کی فکر و تہذیب اس وقت دنیا پر غالب ہے لہٰذا ہم ان بنیادی مسائل کے حل کے لیے صرف اپنی حکومت پر انحصار نہیں کر سکتے۔اگرچہ ہم ان دینی قوتوں کی حمایت کرتے ہیں جو موجودہ حکومتوں کو مؤثراسلامی حکومتوں میں بدلنے کی کوشش کر رہی ہیں یا ان پر دباؤ ڈال کر ان سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ ان مسائل کو حل کریں، لیکن ان بنیادی مسائل کو بہرحال صرف ایسی حکومتوں کی صوابدید اور رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا جنہیں ان مسائل کے حل سے نہ صرف یہ کہ کوئی حقیقی دلچسپی نہیں بلکہ وہ انہیں اسلام کی بجائے مغربی فکر و تہذیب کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش میں انہیں مزید الجھا رہی ہیں جن سے بگاڑکم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے، بلکہ ہمیں عوام کی حمایت سے ان مسائل کو صحیح اسلامی تناظر میں حل کرنے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر میں خود مقدور بھر کوشش کرناہے جس کی وسیع گنجائش موجودہے۔

دوم

’نفاذِ شریعت ‘ کے بارے میں ہمارے ذہن بالکل واضح نہیں۔ ہمارا عمومی تصور یہ رہاہے کہ یہ صرف ’حکومت‘ کے کرنے کا کام ہے۔ چنانچہ پہلے تو بعض دینی عناصر یہ تصور پیش کرتے رہے کہ نفاذِ شریعت کا مطلب ہے ’اسلامی قانون کا نفاذ‘ اور وہ ہر حکومت سے مطالبہ کرتے تھے کہ شریعت اور اسلامی نظام نافذ کرو مطلب یہ کہ اسلامی قوانین نافذ کرو۔چنانچہ جب ضیاء الحق صاحب نے ۱۹۷۹ء میں اسلامی حدود نافذ کردیں تو دینی لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد یں دیتے تھے کہ اسلامی قوانین نافذ ہوگئے ہیں۔ پھر جب ان قوانین پر نہ عمل ہوا اور نہ ان کے خوشگوار اثرات ظاہر ہوئے تو نفاذِ شریعت بذریعہ اسلامی قوانین کے تصور کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔پھر یہ تصور ابھارا گیا کہ ہمارے دنیا دار سیاستدان شریعت نافذ کرنے کے نہ اہل ہیں اور نہ اس کی سچی خواہش و جذبہ رکھتے ہیں بلکہ جب علماء اور دینی عناصر کی حکومت آئے گی تو وہ شریعت نافذ کرے گی لیکن صوبہ سرحد میں ملک کے اہم دینی عناصر کو اقتدار مل گیا تو وہاں بھی شریعت نافذ نہ ہوسکی۔اب یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس صوبے میں اختیارات کم تھے اگر مرکز میں ہماری حکومت ہوتی تو ہم شریعت نافذ کردیتے۔ ہم کہتے ہیں کہ ان کو مرکز میں حکومت بنانے کا موقع مل جائے تو بھی یہ مؤثر طور پر شریعت نافذ نہیں کرسکتے سوائے چند قوانین پاس کردینے یا کچھ سطحی قسم کے ظاہری اقدامات کر دینے کے۔ کیونکہ شریعت تو معاشرے میں اس وقت نافذ ہوگی جب ہر فرد اپنے آپ کو شریعت کے مطابق بدلنا چاہے گا یعنی جب لوگوں کے ذہن وقلوب بدلیں گے اور اداروں کے اور ان کے چلانے والوں کی سوچ اور ڈھب بدلیں گے۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ موجودہ سیاسی نظام، تعلیمی اداروں، میڈیا، پولیس، وکلاء،عدلیہ اور بیوروکریسی کے ہوتے ہوئے اور ان کے ذریعے شریعت نافذ ہوسکتی ہے تومعاف کیجئے وہ جنت الحمقاء میں بستا ہے ۔
پس جب نفاذِ شریعت کی حقیقی ضرور ت یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن و قلوب کو بدلاجائے اور ان کی سوچ، ان کے کردار اور ماحول کو بدلاجائے تاکہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی احکام پر خوشی سے عمل کرنے لگیں تو اس کے لیے اقتدار کا انتظار کیوں ضروری ہے؟ دینی عناصر عوام کے تعاون سے اور اقتدار کے بغیر، جو بھی وسائل میسر ہیں ان کو استعمال میں لاتے ہوئے یہ کام کیوں نہیں کرتے اور کس نے ان کا ہاتھ پکڑا ہے کہ وہ یہ کام نہ کریں؟ خلاصہ یہ کہ نفاذِ شریعت کا صحیح مفہوم اور طریقہ یہ ہے کہ دینی عناصر کوایک ہمہ گیر دینی تحریک کے ذریعے تعمیر اخلاق، خاتمۂ افتراق، صحیح رخ میں تعلیمی اداروں اور میڈیا چینلز کے قیام اور غربت کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت سے بھی ان کاموں کا مطالبہ کرتے رہنا چاہئے اور جو لوگ ایک صالح حکومت کے قیام کے لیے عملی کوششیں کر رہے ہیں، ان کی بھی حمایت کرنی چاہیے۔

سوم

ہم جس دینی تحریک کی بات کر رہے ہیں اس سے مراد محض علماء کرام کی کوئی نئی جماعت نہیں بلکہ یہ پاکستانی مسلمانوں کے دینی و دنیاوی اہداف کے حصول کی ایک اجتماعی تحریک ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ’ اسلامی‘ اور’ دینی‘ کا سابقہ یا لاحقہ اس کے نام کا حصہ ہو تاہم اس تحریک کا تناظر اور اہداف دینی ہیں اور رہیں گے ۔ مختلف مکاتب فکر کے معتدل مزاج علماء کرام، جو دین کے عصری تقاضوں کا ادراک رکھتے ہیں، یقینااس تحریک کا ہراول دستہ ہوں گے لیکن اس کی حقیقی قوت سول سوسائٹی کے اسلام پسند افراد ہوں گے بلکہ ہر وہ مسلمان اس کا فعال حصہ ہوسکتا ہے جو اچھے مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا خواہاں ہو،انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسلامی اصولوں پر استوار کیے جانے کا متمنی ہو اور دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی چاہتا ہو۔

چہارم

مجوزہ دینی تحریک غیر سیاسی ہوگی۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خدانخواستہ سیاست میں حصہ لینا غیر اسلامی حرکت ہے بلکہ سیاسی قوت کو دینی مقاصد کے لیے استعمال کرنا اور موجودہ سیاسی نظام کی اسلامی حوالے سے اصلاح کی کوشش کرنا ایک اہم دینی ضرورت ہے لیکن سیاسی جدوجہد کی صرف ایک ہی صورت نہیں کہ پاور پالیٹکس میں حصہ لیا جائے اور حصول اقتدار کے لیے انتخابی اکھاڑے میں کودا جائے لہٰذا مجوزہ دینی تحریک اجتماعی سیاسی قوت کو اسلام کے حق میں استعمال کرنے کے لیے حسب ضرورت متعدد اقدامات کر سکتی ہے لیکن انتخابی سیاست میں حصہ نہ لے گی کیونکہ آج کل کے معروضی حالات میں انتخابی جدوجہد ایک کُل وقتی کام ہے اور اس کے کرتے ہوئے دوسرے اہم دعوتی، اصلاحی اور عملی کام نظر انداز ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے اور مجوزہ تحریک چونکہ ان غیر سیاسی دینی کاموں کو بھی اہمیت دیتی اور اس پرافراد کی صلاحیتیں لگانا چاہتی ہے لہٰذا نہ وہ پاور پالیٹکس میں حصہ لے گی اور نہ کسی کی حریف بنے گی۔

پنجم

مجوزہ تحریک بنیادی طور پردعوت و اصلاح کی تحریک ہوگی ۔ دعوت و اصلاح کا کام نیچے سے شروع ہوکر اوپر کو جاتا ہے یعنی پہلے فرد کی اصلاح ، پھر اہل خانہ اور اعزہ و اقربا، برادری و قبیلہ ، گلی و محلے کی اصلاح اور پھر اداروں اور ریاست و معاشرے کی اصلاح ۔ معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے جب افراد کی اصلاح ہوگی تو معاشرے اور ریاستی اداروں کی بھی بتدریج اصلاح ہوتی چلی جائے گی۔
فرد کی اصلاح ہمارے نزدیک بنیادی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ:
  • قرآن حکیم سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ تمام انبیاء کرام اور خصوصاًآخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطبین کی اصلاح کا جو لائحہ عمل دیا گیا تھا وہ تعلیم کتاب و حکمت کے ذریعے ان کے نفوس کے تزکیہ و تربیت ہی کا تھا لہٰذا تبدیلی کا نبوی منہاج بھی یہی ہے کہ فرد کی تبدیلی پر ترکیز کی جائے۔ 
  • یہ فرد ہے جسے آخرت میں اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہونا ہے نہ کہ کسی تحریک یا قوم کو۔
  • معاشرے اور ریاست کے قیام اور ان کی ضرورت و اہمیت کی کنہ پر اگر غور کیا جائے تو ہم بالآخر اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس کا سبب بھی یہی ہے کہ فرد کو راہ راست پر چلنے میں معاونت ملے اور اس کی زندگی سکھ اور سکون سے گزرے۔
  • دنیا میں آج تک جتنے بھی انقلاب آئے ہیں اور تہذیبیں قائم ہوئی ہیں ان کی اساس فرد میں تبدیلی تھی نہ کہ محض نظم اجتماعی کی بہتری بلکہ اوّل الذکر ایک لحاظ سے ثانی الذکر کی پیشگی ضرورت (pre-requisite) ہے۔
  • لاریب اجتماعی تبدیلی بھی اہم اور مطلوب ہے لیکن اس کی بنیاد فرد کی تبدیلی ہی ہے لہٰذا فرد اور اس کی سیرت، اس کی تمناؤں، آدرشوں اور اہداف کو تبدیل کیے بغیر، تبدیلی کو محض ریاستی قوت سے اور اوپر سے تھونپا اور مسلط نہیں کیا جا سکتا اور اگر بالفرض کر بھی دیا جائے تو وہ عارضی اور نا پائیدار ثابت ہوتی ہے لہٰذامعاشرے میں پائیدار تبدیلی لانے کے لیے فرد کی تبدیلی اہم تر ہے۔
خلاصہ یہ کہ مجوزہ تحریک جو تبدیلی پاکستان کے مسلم معاشرے میں اجتماعی سطح پر لانا چاہتی ہے اس کے لیے وہ فرد کی تبدیلی کا راستہ اختیار کرے گی۔

ششیم

بعض علماء کرام اور دینی لوگوں کو اس مجوزہ تحریک کا لائحہ عمل دیکھ کریہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس میں عقیدے کی اصلاح اور نماز، روزے اور داڑھی وغیرہ پر زور نہیں دیا گیا تو یہ کیسی دینی تحریک ہے؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو تصور دین شائع اورمروج ہے، اس میں علماء کرام ان باتوں پر پہلے سے خوب توجہ دے رہے ہیں اس لیے ہم نے ان پر زور دینا ضروری نہیں سمجھا کہ یہ تحصیل حاصل ہوگا۔ دوسرے یہ کہ ہمارے ہاں جوتصور دین بدقسمتی سے شائع اورمروج ہے اس میں دو باتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں ہمارے ہاں کے سارے مکاتب فکر کے ثقہ اور سنجیدہ علماء کرام خوب جانتے اور مانتے ہیں کہ وہ غلط ہیں لیکن حالات کے جبر نے انہیں نمایاں کردیا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک تو دین و دنیا کی تفریق کا مسئلہ ہے (جسے آج کل کی زبان میں سیکولرزم کہا جاتا ہے)۔ سارے علماء کرام جانتے اور مانتے ہیں کہ اسلام میں دین و دنیا کی کوئی تفریق نہیں ہے اور اسلام ادخلوا فی السلم کا فۃ کا علم بردار ہے لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ اگر محلے کے لوگ نماز نہ پڑھیں تو یہ ’اسلامی مسئلہ‘ ہے لیکن محلے کا ایک مسلمان بھوک سے مر رہا ہو تو یہ ’اسلامی مسئلہ‘ نہیں ہے۔ ہماری رائے میںیہ غلطی مضمون سب پر واضح ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج کل مسلک کو دین کا مترادف سمجھ لیا گیاہے جو کہ ظاہر ہے سارے سنجیدہ علماء کرام جانتے اور مانتے ہیں کہ غلط ہے ۔
غرض یہ کہ دینیاتی امور اور عبادات وغیرہ کو ہم نے بظاہر اس تحریک میں براہ راست فوکس اور نمایاں نہیں کیا لیکن پوری تحریک کا تناظر اور فریم ورک ایسا رکھا ہے کہ یہ مقصد ان شاء اللہ بالواسطہ طور پرحاصل ہوجائے گا۔

ہفتم

اس وقت ملک میں کئی دینی سیاسی جماعتیں اسلامی حوالے سے سیاست کے میدان میں کام کر رہی ہیں اور بہت سی دعوتی و اصلاحی تحریکیں ، تنظیمیں اور ادارے دعوتی و اصلاحی میدان میں کام کررہے ہیں ۔ مجوزہ نئی تحریک ان میں سے کسی کی حریف نہیں ہوگی اور ان پر تنقید اوران کی تنقیص نہیں کرے گی بلکہ تحریک کا ماٹو سب کے لیے محبت اور ہر خیر سے تعاون ہوگا۔

(۳)

اس ناگزیر تمہیدی گفتگو کے بعد آئیے اب مذکورہ چار بنیادی مسائل کے حل کے لائحہ عمل کی طرف۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے حل کے لیے مجوزہ تحریک کو چار شعبے یا چار طرح کے ادارے قائم اور متحرک کرنے پڑیں گے:

۱۔ تعمیر اخلاق

اگر آپ دقت نظرسے دیکھیں اور غور کریں تو آپ پر عیاں ہوجائے گا کہ ہمارا اصل بحران اخلاقی ہے۔ حبِّ دنیا، حبِّ مال، حبِّ جاہ، جھوٹ، فریب، دھوکہ، رشوت، کرپشن،چوری، ڈاکے ، فحاشی ، عریانی وغیرہ ہماری سیرت بن چکے ہیں اور اس اخلاقی ابتری نے ہمیں دنیا میں کمزور ، رسوا اور تماشا بنا کر رکھ دیا ہے اور مسلم روایت میں اس کا علاج ہے ایمان اور تعلق باللہ کی مضبوطی اور فکر آخرت لہٰذا اس تناظر میں مجوزہ تحریک لوگوں کے تعمیر اخلاق کے لیے چار سطحوں پر کام کرے گی:
i۔ نسل نو کی تربیت کے لیے تعلیمی اداروں میں صحیح تعلیم و تربیت کا فعال نظام۔
ii۔ بڑوں (grown ups) کے لیے ایسی تربیت گاہوں کے قیام کی حوصلہ افزائی جن میں فرد میں تبدیلی کے لیے صحبت صالح اور کثرت ذکر جیسے منصوص اور آزمودہ وسائل استعمال ہوں اور جن میں تصوف کی مروجہ غیر اسلامی رسوم و بدعات قطعاً نہ ہوں۔
iii۔ میڈیا کے ذریعے مناسب ذہن اور ماحول کی تیاری۔
iv۔ گلی محلے کی سطح پر اخلاق سدھار کمیٹیوں کا قیام جو منکرات کو پھیلنے سے روکیں اور اوامر و معروفات پر عمل کرائیں اور اس کے لیے سازگار ماحول پیدا کریں۔

۲۔ اتحاد

باہمی افتراق و انتشار نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اختلاف رائے کو ہم بڑی مہارت سے دشمنی اورنفرت میں بدل لیتے ہیں اور حق کو صرف اپنی رائے اور مسلک تک محدود اور اس میں محصور سمجھتے ہیں۔ مجوزہ تحریک کا قیام ہی تحمل، بردباری اور اختلاف رائے کو برداشت کرنے کامظہر ہوگا کیونکہ اس میں مختلف دینی مسالک اور متنوع سیاسی مکاتب فکر کے لوگ باہم مل جل کر کام کریں گے۔ اس تحریک کا تعلیمی شعبہ بھی کوشش کرے گا کہ دینی تعلیم میں فرقہ واریت اور مسلک پرستی کا رجحان کمزور ہو اور مشترکہ پہلوؤں کو ابھارا جائے۔ اسی طرح اس تحریک کے تحت جو تربیت گاہیں کام کریں گی یا بزنس فورم قائم ہوں گے یا فلاحی مرکز بنیں گے وہ بھی بلا لحاظ دینی و سیاسی مسلک کام کریں گے اور اس طرح قوم میں اتحاد و یکجہتی کی فضا پروان چڑھے گی۔ اسی طرح تحریک بین الاقوامی سطح پر اتحاد امت اور قوموں کے درمیان پُر امن بقائے باہمی کی نقیب ہوگی۔

۳۔ تعلیم اور میڈیا

جہالت ہمارے معاشرے کا ایک انتہائی بنیادی مسئلہ ہے کہ کم شرح تعلیم نہ صرف بیروزگاری کا سبب ہے اور اس نے سیاسی عمل کی افادیت کو گہنا دیا ہے بلکہ ہمیں اخلاقی و معاشرتی مسائل سے بھی دوچار کر رکھا ہے کیونکہ یہ صحیح تعلیم و تربیت ہی ہے جو دماغوں کو روشن کرتی اور دلوں کو بدلتی ہے۔ ترکی اور انڈونیشیا میں ہزاروں سکول اور بیسیوں کالج اور یونیورسٹیاں وہاں کی دینی تحریکیں چلارہی ہیں تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ لہٰذا تحریک کوشش کرے گی کہ ہر سطح کے ماڈل تعلیمی ادارے قائم کرے(اور موجودہ اداروں کی اصلاح کرے)تاکہ جو طلبہ جدید تعلیم حاصل کریں وہ دینی تعلیم و تربیت سے بھی بہرہ ور ہوں اور اچھے ڈاکٹر، انجنئیر۔۔۔بننے کے ساتھ ساتھ وہ اچھے مسلمان بھی ہوں ۔ اور جو طلبہ دینی مدارس میں اسلام کی تخصصی تعلیم حاصل کریں وہ جدید علوم سے ناآشنا اور عصری تقاضوں سے غافل نہ ہوں تاکہ آج کے معاشرے کی مؤثر رہنمائی کرسکیں۔ ظاہر ہے اس کے لیے نصابات اور تربیت اساتذہ کے موجودہ مناہج پر نظر ثانی کرناہوگی اور تعلیمی اداروں کے موجودہ ماحول کو بدلنا ہوگا جس کا بنیادی نکتہ یہ ہوگا کہ تعلیم اسلامی اقدار کے تناظر میں دی جائے نہ کہ مغربی تہذیب کی اندھی پیروی کرتے ہوئے۔
میڈیا آج کل غیر رسمی تعلیم کا بہت بڑا ذریعہ ہے جو لوگوں کے اذہان و قلوب اور فکر و عمل پر شدت سے اثر انداز ہو رہاہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر جو عناصر مسلمانوں کی راہ کھوٹی کرنا چاہتے ہیں وہ تعلیم اور میڈیا کو اسلام اور اسلامی اقدار سے انحراف کے لیے استعمال کر رہے ہیں ۔ اس لیے تحریک نہ صرف اپنا ٹی وی چینل کھولے گی بلکہ موزوں تعلیم و تربیت سے ایسے ماہرین بھی تیار کرے گی جو ابلاغ کے فن میں مہارت رکھتے ہوں اور اسلامی ذہن بھی رکھتے ہوں تاکہ وہ جہاں بھی کام کریں اسلامی نظریات و اقدارکی حفاظت کی کوشش بھی کریں۔

۴۔ غربت کا خاتمہ

مجوزہ تحریک غربت کے خاتمے اور غریبوں کی مد دکے لیے مندرجہ ذیل پہلوؤں پر کام کرے گی:
i۔ بزنس فورم کا قیام: تحریک ان لوگوں کو جو صنعت و تجارت کے شعبے میں کام کررہے ہیں اور تحریک کے مقاصد سے اتفاق رکھتے ہیں منظم کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس سے ان کو اپنی صنعت و تجارت کوبڑھانے کا موقع ملے گا، باہمی روابط اور مواقع بڑھیں گے اور ان کا کاروبار پھلے پھولے گا۔تجارت کے غیر شرعی طریقوں سے بچنے کی مشاورت کے ساتھ ساتھ تحریک ان کو فی سبیل اللہ انفاق پر ابھارے گی اور ایسے شعبوں میں کام کرنے کا مشورہ دے گی جو اسلامی اور ملی لحاظ سے زیادہ اہمیت و افادیت رکھتے ہوں مثلاً تعلیم ،میڈیااور دیہی علاقوں میں چھوٹی صنعتوں کا قیام۔۔۔وغیرہ
ii۔ فلاحی مراکز کا قیام: تحریک گلی محلے کی سطح پر ایک ملک گیر نیٹ ورک قائم کرے گی جو اس علاقے کے کھاتے پیتے لوگوں کی اعانتوں سے ایک فنڈ قائم کرے گا اور اسی علاقے کے مستحق غریبوں ، یتیموں ، بیواؤں اور بیروزگاروں پر خرچ کرے گا تاکہ ان کے علاقے میں کوئی بھو ک سے خود کشی نہ کرے، لوگ بنیادی ضروریات کو نہ ترسیں اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوں۔ اس فنڈ سے علاقے میں فری ڈسپنسریاں قائم کی جائیں گی، غریب بچیوں کی شادیاں کی جائیں گی اور دیگر فلاحی کام کیے جائیں گے۔
iii۔ تحریک عمومی تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات کے ووکیشنل ٹریننگ سنٹر قائم کرے گی تاکہ غریبوں کے بچے وہاں کوئی ہنر سیکھ کر جلد اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔

مجوزہ تحریک کی ضرورت و اہمیت

کسی ذہن میں یہ سوال آسکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں پہلے سے بہت سے دینی ادارے ، تنظیمیں اور جماعتیں موجود ہیں تو اب ایک نئی دینی تحریک کی ضرورت کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کسی جماعت اور تنظیم کے کام کی تنقیص نہیں کرتے لیکن جو تنظیمیں اور ادارے اس وقت موجود ہیں اور کام کر رہے ہیں، ان کی محنت و کوشش کے باوجود معاشرے کے بگاڑ کا حال ہمارے سامنے ہے۔ اس کاواضح مطلب یہ ہے کہ بگاڑ کی قوتیں زیادہ منظم اور طاقتور ہیں اور ان کے برے اثرات کا رد کرنے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ نیز یہ کہ کام کرنے کے جو منہاج یہ جماعتیں اور ادارے اختیار کرچکے ہیں، ان کی ممکنہ افادیت تو حاصل ہوچکی اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی کام کے نئے منہاج سوچے اور آزمائے جائیں۔ موجودہ کاوشوں کے ناکافی ہونے کے دو ثبوت اظہر من الشمس ہیں:
ایک: یہ کہ پاکستانی معاشرہ بڑی تیزی سے مغربی فکر و تہذیب کے سیلاب میں بہتاچلاجا رہاہے اور اسلامی اقدار پر عمل دن بدن کم اور کمزور ہوتا جارہا ہے۔
دوم: دینی عناصر کی اصلاح کی موجودہ پُر امن کوششوں کے غیر مؤثر ہونے اور حکومتوں کے ناروا غیر اسلامی رویوں سے مایوس ہو کر اور تنگ آکر شمال مغربی سرحدی قبائلی علاقوں کے بعض دینی عناصر نے بذریعہ قوت اصلاح کا طریقہ اختیار کر لیاہے ۔ حکومت پاکستان اور ان عناصر کے درمیان مسلح جنگ نے خطے کے پیچیدہ حالات اور یورپ و امریکہ اور بھارت کی موجودگی اور مداخلت کی وجہ سے خطرناک صورت اختیار کر لی ہے جس کے نتیجے میں دونوں طرف سے مسلمانوں کا خون بے دردی سے بہہ رہا ہے۔ مطلب یہ کہ مذکورہ بالا حالات یہ ثابت کرر ہے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کو اسلامی اساس پر قائم رکھنے کے لیے کی جانے والی موجودہ پُر امن کوششیں ناکافی ہیں اور یہ کہ موجودہ حالات پر غور کر کے کام کے نئے راستے نکالنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ چنانچہ ایک نئی دینی تحریک کی ہماری تجویز ایک بہت بڑے خلا کو پُر کرسکتی ہے بشرطیکہ یہ بھر پور قوت سے معاشرے میں روبہ عمل آجائے۔

کیا یہ سب کچھ ممکن ہے؟

کئی لوگ یہ تحریرپڑھ کر تبصرہ کریں گے کہ یہ ایک یوٹوپیا ہے، ایک تصوراتی بات ہے جو قابل عمل نہیں ہے ۔ ہم کہتے ہیں نہیں، یہ بالکل قابل عمل منصوبہ ہے۔ ایسی تحریک چل سکتی ہے بلکہ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور ایسی تحریک ضرور چلنی چاہئے ۔ دیکھئے، آپ کے سامنے مثالیں موجود ہیں، خود پاکستان کی مثال لیجیے۔ اکیلا ایدھی زبردست فلاحی نیٹ ورک چلا رہا ہے ۔ ’اخوت‘ کروڑوں کے چھوٹے قرضے دے کر غریبوں کے چولہے جلا رہی ہے، اسی طرح کا کام بنگلہ دیش میں گرامین بنک کر رہا ہے۔انڈونیشیا کی جماعت نہضۃ العلماء ۱۳ یونیورسٹیاں، بیسیوں کالج اور ہزاروں سکول چلا رہی ہے۔ ترکی کی نورسی تحریک نے اپنے ملک میں تعلیمی اداروں کا جال پھیلانے کے علاوہ وسط ایشیائی ریاستوں میں ۶یونیورسٹیاں اور ۳۰۰ اسکول قائم کردیے ہیں۔ ان کے ۱۰۰ سکول امریکہ میں قائم ہیں جہاں امریکی بچے پڑھتے ہیں۔ غرض یہ نہ کہیے کہ کام نہیں ہوسکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو تو اچھی پلاننگ اور مؤثر لیڈر شپ سے یہ کام ہوسکتے ہیں اور ہمارے ملک میں ، الحمدللہ، ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ چونکہ اس تحریک کی بنیاد دینی ہے لہٰذا سب سے پہلے ایسے علماء کرام کو سامنے آنا چاہئے جو اس طرح کی تحریک کی بنیاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ ساتھ پھراگر اخلاص ، محنت، حکمت اور جذبہ آپ کے ساتھ رہا تو اس سوسائٹی سے آپ کو ایسے افراد ، ان شاء اللہ، بڑی تعداد میں مل جائیں گے جو اس تحریک کو اٹھا سکیں۔ اس کام کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اس موضوع پر سوچ بچار کی جائے۔ ہم نے محض کچھ تجاویز سامنے رکھی ہیں جن میں سے کوئی چیزحرفِ آخر نہیں۔ ضروری ہے کہ بحث و تنقید سے اس تصور کو منقح کیا جائے تاکہ کوئی متفقہ اور قابل عمل بات سامنے آسکے۔

تلخیص مباحث

ہماری گزارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے کو اسلام پر قائم رکھنے کے حوالے سے موجودہ دینی کاوشیں ناکافی ثابت ہورہی ہیں اور وقت کا تقاضا ہے کہ ایک نئی دینی تحریک اٹھے جس کے خدوخال یہ ہوں:
  • یہ ایک غیر سیاسی اصلاحی تحریک ہو۔
  • اس میں سارے دینی مسالک ، سیاسی مکاتب فکر اور سول سوسائٹی کے لوگ شامل ہوں۔
  • یہ تحریک سوسائٹی کے مؤثر طبقات اور افراد کو گراس روٹ لیول پر منظم اور متحرک کرے، ماڈل تعلیمی ادارے اور میڈیا چینلز قائم کرے، بزنس فورم اور فلاحی مراکز قائم کرے اور ان کے ذریعے تعمیر اخلاق اور غربت و جہالت کے خاتمے کی جدوجہد کرے۔ ھذا ما عندنا والعلم عند اللہ۔

مذہبی شدت پسندی اور اس کے سدباب کی حکمت عملی

خورشید احمد ندیم

صدمے کے شدید احساس کے ساتھ مولانا سعید احمد جلال پوری کی شہادت پر لکھنے کے لیے قلم اُٹھایا ہی تھا کہ لاہور میں قتل عام کی خبر نے اپنے حصار میں لے لیا۔
آج وطن کی فضا لہو رنگ ہے۔کراچی میں دو المناک واقعات ایک ہی دن ہوئے۔ گزشتہ روز خبر ملی کہ مولانا عبدالغفور ندیم اپنے بیٹے سمیت گولیوں کی زد میں تھے۔رات گہری ہونے لگی تو مولانا جلال پوری کی شہادت کی خبر سنی۔شب بھر ماضی کی راکھ کریدتا رہا۔ ۱۲؍ربیع الاوّل کا فیصل آباد، ۱۰؍محرم کا کراچی۔ بہت کچھ یاد آیااور نہیں معلوم کب صدمے کی شدت پر نیند نے غلبہ پا لیا۔ آج جمعہ کی نماز کے بعدکالم لکھنے کے لیے بیٹھا ہی تھا کہ ٹیلی ویژن کی سکرین پرنظرپڑی اور لاہور میں ایک اور بڑے حادثے کی خبر نے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ مولانا سعید احمد جلال پوری کی شہادت کا دکھ مزید گہرا ہو گیا۔ جو بات میرے لیے اس سارے معاملے کو مزید المناک بناتی ہے،وہ یہ ہے کہ ان تمام واقعات میں کہیں نہ کہیں مذہب کا ذکر ہے، وہ مذہب جو عالم انسانیت کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کی نوید سنانے آیا ہے۔ 
ان واقعات میں مذہب دو حوالوں سے زیر بحث ہے۔ایک مسلکی اور دوسرا سیاسی۔ مولانا عبدالغفور ندیم پر حملہ اور فیصل آباد کے واقعات کا رشتہ مسلکی اختلافات سے جوڑا جا رہا ہے۔مولانا سعید احمد جلال پوری کی شہادت پر مجلس تحفظ نبوت نے جن کوملزم ٹھہرایا ہے،ان سے اختلاف بھی مذہبی بنیاد پر تھا۔ مجلس کے ذمہ داران کے پاس ممکن ہے کچھ شواہد ہوں لیکن میرا احساس ہے کہ کسی حتمی رائے کے اظہار سے پہلے تمام ممکنہ پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ یہ سب لوگ پاکستانی ہیں اور مسلمان بھی۔ہم نے کم و بیش تین عشرے اس معرکہ آرائی میں صرف کر ڈالے کہ بندوق کے زور پر دوسرے مسلک والوں کو مٹایا جا سکتا ہے۔ آج تیس برس بعد ہمیں حساب کرنا چاہیے کہ ہم نے اپنے کتنے لوگ گنوائے ہیں اور دوسروں کو ختم کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ میرا خیال ہے مسلکی تشدد میں گرفتار ہر گروہ جب اس کا جائزہ لے گا تو اسے احساس ہو گا کہِ اس کا حاصل زیاں کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے ان سب لوگوں سے میری درخواست ہوگی کہ وہ رک جائیں اور تحمل کے ساتھ یہ سوچیں کہ کیا اس حکمت عملی پر اصرار درست ہے؟ میری یہ بھی خواہش ہوگی کہ مسلکی بنیاد پر قائم تنظیمیں مل بیٹھیں اور ایک ضابط اخلاق کا تعین کریں۔ اس ضابطہ اخلاق میں چند نکات کی حیثیت بنیادی ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر:
  • ہر مسلک کے لوگ اپنے نقطہ نظر کو علمی طور پر بیان کریں گے اور اسے دعوت تک محدود رکھیں گے۔
  • دوسرے مسلک کے نزدیک برگزیدہ شخصیات کو سب و شتم کا عنوان نہیں بنائیں گے۔ اگر کسی گروہ میں سے کوئی فرد تحریراً، تقریراً یا کسی اور طرح سے اس جرم میں ملوث پایا گیا تو وہ گروہ اس سے اعلانِ برأت کرے گا اور اس کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔
  • ہر مسلکی اجتماع پبلک مقامات کے بجائے عبادت گاہوں میں منعقد ہو گا۔
  • جمعہ اور عوامی خطبات میں مسلکی اختلافات کو موضوع بنانے سے اجتناب کیا جائے گا۔
یہ آخری بات کچھ ایسی مشکل نہیں ہے، اگر کوئی علمی مباحث اور اصلاحی خطبات کے فرق کو جانتا ہو۔اس کی ایک مثال مسلکِ دیوبند کے نامور عالم مولانا سرفراز خان صفدر کا طرزِ عمل ہے۔ ان کا اکثر تصنیفی کام ان موضوعات پر مشتمل ہے جن کا تعلق مسلکی اختلافات سے ہے، لیکن اگر ان کے جمعہ اور عوامی خطبات کو دیکھا جائے تو خیال ہوتا ہے کہ جیسے یہ اختلاف کبھی ان کا موضوع نہیں رہا۔
اگر کسی ثالث کی موجودگی میں مسلکی مبلغین مل بیٹھیں اور ایسے نکات پر مشتمل ایک ضابطہ اخلاق تشکیل دے سکیں تو میرا خیال ہے کہ اس میں مسلمانوں کے لیے خیر ہے۔
لاہور کے واقعات کا تعلق سیاسی اختلاف سے ہے۔ہمارے ہاں ایک گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ پاکستان کی فوج امریکا کی لڑائی لڑ رہی ہے اور یوں اس کے خلاف لڑنا مسلمانوں کے مفاد کا تقاضا ہے کیونکہ امریکا مسلمانوں کا دشمن ہے۔اس مقدمے کواگر ہم کچھ دیر کے لیے درست مان لیں اور یہ سوچیں کہ پاکستانی فوج کو کمزور کرنے سے امریکا کو فائدہ ہے یا نقصان؟ہم اس سوال پر جتنا غور کریں گے، اس نتیجے تک پہنچیں گے کہ اس سے پاکستان کمزور ہوگا، پاکستانی فوج کمزور ہوگی اور یہ وہ دیرینہ خواب ہے جو اسلام اور پاکستان کے دشمن مدت سے دیکھ رہے ہیں۔ پھر یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ لاہور جیسے واقعات میں بے شمار بے گناہ مسلمان مارے جاتے ہیں۔ کیا کوئی مسلمان ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی جان لے اور یہ سمجھے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے حضور میں اپنے اقدام کا دفاع کر سکے گا؟ جو لوگ ان واقعات میں ملوث ہیں، انہیں ضرور اس سوال پر غور کرنا چاہیے۔ اگر انہیں پاکستانی حکومت اور فوج سے شکایت ہے تو اس کا ایک طریقہ ہمارے پاس موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ جمہوری طریقے سے جدوجہد کرتے ہوئے، ان لوگوں کو اقتدار تک پہنچایا جائے جو ان امور میں دوسری رائے رکھتے ہیں۔اس سے ممکن ہے کامیابی نہ ہو، لیکن یہ ضرور ہوگا کہ لوگ اﷲ تعالیٰ کے حضور میں مواخذے سے بچ جائیں گے اور ان کے ہاتھوں پر کسی بے گناہ کا خون نہیں ہوگا۔ موجودہ حکمت عملی کا یہ نتیجہ تو ہمارے سامنے ہے کہ دنیا کا وہ واحد ملک جو اسلام کو اپنے وجود کی اساس مانتا ہے، کمزور سے کمزور تر ہو رہا ہے۔
پاکستان کی حکومت میں خرابیاں ہو سکتی ہیں۔ اس ملک میں ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو ظالم ہیں یا جو ہمارے مسلک کے لیے نقصان دہ ہیں، لیکن اس میں پاکستان کا کوئی قصور نہیں۔ہم نے اگر پاکستان میں اپنے خوابوں کی تعبیر تلاش کرنی ہے تو اس اقدام سے گریز کرنا ہوگا جس سے پاکستان کمزور ہوتا ہے۔ یہ ۱۰؍ محرم کا واقعہ ہو یا ۱۲؍ربیع الاوّل کا حادثہ، مولانا عبدالغفور ندیم پر حملہ ہو یا مولانا سعید احمد جلال پوری کی شہادت، لاہور کا سانحہ ہو یا پشاور کا، ان سب کا ایک نتیجہ ہے کہ پاکستان بطور ملک اور پاکستانی بحیثیت قوم کمزور سے کمزور تر ہو رہے ہیں۔ اگر ہم اسلام اور پاکستان سے مخلص ہیں تو ہمیں ہر ایسے اقدام سے گریز کرنا ہو گا جس کے نتیجے میں پاکستان کمزور ہوتا ہے۔ اسلام کو پاکستان کی مضبوطی کا عنوان بننا چاہیے، کمزوری کا نہیں۔

کالعدم تنظیمیں اور حکومت

گورنر پنجاب کو تو معذور سمجھنا چاہیے، اس لیے ان کی گل افشانی پر کچھ کہنا وقت کا بہترمصرف نہیں۔ صاحب حال، نہیں معلوم کب اناالحق کانعرہ بلندکر دے۔ اس بنا پرانہوں نے کالعدم تنظیموں کے بارے میں جو کچھ کہا، اس پر مجھے کچھ نہیں کہنا۔ تاہم وزیر داخلہ کا معاملہ دوسرا ہے کہ انہیں میں ذی شعور اور ذی فہم خیال کرتا ہوں۔ اس لیے جب انہوں نے کالعدم تنظیموں کو یہ وارننگ دی کہ وہ سیاسی سرگرمیوں سے دور رہیں تو مجھے ان کی بصیرت پر شبہ ہونے لگا۔ سادہ سا سوال ہے کہ یہ تنظیمیں اگر سیاسی میدان سے دور رہیں گی تو پھر کیاکریں گی؟ ظاہر ہے وہی کچھ جس پر اس وقت وزیر داخلہ کو اعتراض ہے۔ کالعدم تنظیمیں کیا کہتی اور کیا کرتی ہیں؟ اس سوال پر غور کرنے کے بعد یہ معلوم ہو سکے گا کہ مجھے وزیر داخلہ کی بصیرت پر کیوں شبہ ہوا ہے۔
اس وقت ملک میں جن تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، وہ دو طرح کی ہیں۔ ایک وہ جو فرقہ وارانہ اور مسلکی معاملات میں ایک رائے رکھتی ہیں۔ دوسری وہ جو سیاسی نقطہ نظر رکھتی ہیں۔ ان دونوں طرح کی تنظیموں پر یہ اعتراض ہے کہ ان کی حکمت عملی تشدد پر مبنی ہے جس کی وجہ سے ریاست کا قانون انہیں گوارا نہیں کرتا۔ فرقہ واریت کے حوالے سے جو تنظیمیں کالعدم قرار دی گئی ہیں، ان میں سے ایک کا تعلق اہل سنت اور دوسری کا اہل تشیع سے ہے۔ ان تنظیموں نے جو مؤقف اپنایا ہے، وہ نیا نہیں۔اس سے پہلے بھی ملک میں ایسی تنظیمیں موجود تھیں اور افراد بھی جو ایک دوسرے کے بارے میں اسی طرح کے خیالات رکھتے تھے۔ اس طرح کی تنظیمیں کبھی کالعدم نہیں قرار پائیں کیونکہ ان کی حکمت عملی تشدد پر مبنی نہیں تھی۔وہ اپنی بات تحریر کے ذریعے، تقریر سے یا کسی موجود ذریعہ ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے دوسروں تک پہنچاتے تھے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مؤقف میں شدت ہوتی تھی لیکن اس کا ظہور ان کے طرزِ عمل میں نہیں ہوتاتھا۔
مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب بعض ایسی تنظیمیں وجود میں آئیں جنہوں نے اپنے نقطہ نظر کے فروغ کے لیے تشدد کو بطور حکمت عملی اختیار کیا۔ اس کے بعد ریاست کو مداخلت کی ضرورت پیش آئی اور انہیں کالعدم قرار دیا گیا۔اس سارے معاملے میں جو بات قابلِ غور ہے، وہ یہ ہے کہ جب کالعدم تنظیموں پر پابندی لگی تو اس سے یہ تو ہوا کہ وہ علانیہ اپنی سرگرمیوں کوجاری نہیں رکھ سکیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کانقطہ نظر بھی کالعدم ہو گیا۔ وہ نقطہ ہائے نظر اپنی جگہ موجود رہے اور جب انہیں تنظیمی وحدت میں ظہور کرنے کی اجازت نہ ملی تو انہوں نے خفیہ سرگرمیاں شروع کر دیں۔ تشدد ظاہر ہے کہ پہلے بھی اعلانیہ نہیں ہوتا تھا۔ لہٰذا تشدد کا سلسلہ تو روکا نہ جا سکا، البتہ ان تنظیموں کو ایک خاص نام کے ساتھ کام کرنے سے روک دیا گیا۔اب اس مسئلے کا حل یہ تھا کہ ریاست ان تنظیموں کو پابند کرتی کہ وہ ایک ضابطہ اخلاق بنائیں اور اس کے تحت اعلانیہ اپنی سرگرمیوں کا آغاز کریں۔ اس سے ریاست کے لیے یہ جاننے کا موقع تھا کہ کیا بات خلافِ قانون ہو رہی ہے اور وہ اس پر قانونی کاروائی کر سکتی تھی۔ ریاست کے قانون کے تحت، اپنی بات کہنے کا ایک جائز طریقہ سیاست ہے۔ حکومت اگر حکیمانہ طرزِ عمل اختیار کرتی تو ان تنظیموں کا رخ سیاست کی طرف کر دیتی۔
سیاست کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ آدمی میں وسعت پیدا کرتی ہے اور اس سے یہ موقع پیدا ہوتا ہے کہ آپ دوسرے کے نقطہ نظر کو جانیں اور ایک دوسرے کے ساتھ سماجی نظم و ضبط بڑھائیں۔سیاسی عمل جب جاری رہتا ہے تو اس سے تشدد میں کمی آتی ہے کیونکہ اس سے گھٹن پیدا نہیں ہوتی۔کالعدم تنظیموں کے افراد نے جب سیاست میں حصہ لینا شروع کیا تو یہ ایک مثبت پیش رفت تھی۔ مثال کے طور پر سپاہ صحابہ یا تحریک جعفریہ سے متعلق شخصیات جب سیاست میں متحرک ہوئیں تو ایک طرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ جیسی قومی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے عمل کا آغاز ہوا اور دوسری طرف وہ میڈیا پر دوسری تنظیموں اور جماعتوں کی قیادت کے ساتھ مکالمے کے ایک عمل کا حصہ بنے ۔مکالمہ وہ ایک مثبت عمل ہے جو ایک دفعہ شروع ہو جائے تو پھر تشدد میں یقیناًکمی آنے لگتی ہے۔اس کا ایک اور فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک تنظیم کا نقطہ نظر اور طرزِ عمل دونوں قوم کے سامنے زیرِ بحث آتے ہیں اور جو لوگ اس حوالے سے کسی غلط یا بے بنیاد مؤقف پر کھڑے ہوتے ہیں، وہ قوم کی نظروں میں نا قابلِ اعتبار ٹھہرتے ہیں۔ حکومت میں اگر بصیرت ہوتی تو وہ اس تبدیلی کا خیر مقدم کرتی اور ان تنظیموں کو یہ دعوت دیتی کہ وہ مکالمے کا حصہ بنیں اور اپنی بات کو دلائل کے ساتھ قوم کے سامنے رکھیں۔میرا خیال اس سے خود بخود اس تشدد میں کمی آتی، حکومت جسے ختم کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔
حکومت کو اس معاملے میں جو کردار ادا کرنا چاہیے، اس کا تعلق ایک ضابطہ اخلاق کی تشکیل سے ہے یا پھر اس باب میں موجود قوانین کے نفاذ سے۔ فرقہ وارانہ اختلاف نہ تو نئے ہیں نہ انہیں ختم کیا جا سکتا ہے،انہیں صرف آداب کا پابند بنانے کی ضرورت ہے۔واقعہ یہ ہے کہ فرقہ واریت کے حوالے سے تشدد اس طرح در آتا ہے جس طرح عام سیاسی و سماجی معاملات میں تشدد کا آغاز ہوتا ہے۔جب کسی ملک میں قانون مغلوب ہو جاتا ہے یا ظالم کے سامنے قانون بے بس ہوتا ہے اور مظلوم کی داد رسی نہیں کرتا تو پھر لوگ قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں۔ پھر وہ اپنے ہاتھوں سے ظلم ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جب مذہبی معاملات میں قانون متحرک نہیں ہوتا اور لوگوں کے مذہبی جذبات کے احترام سے معذور ہوتا ہے تو پھر لوگ اپنے جذبات کی تسکین کے لیے خود میدان میں نکل آتے ہیں۔مثال کے طور پر اس ملک میں قانون موجود ہے کہ کہ مسلمانوں کی برگزیدہ شخصیات پر سب و شتم ممنوع ہے۔ جب ایسے واقعات ہوتے ہیں اور قانون مجرموں کو سزا نہیں دیتا تو پھر تشدد جنم لیتا ہے۔حکومت اگر اس معاملے میں سنجیدہ ہے تو اسے تین کام کرنے چاہییں:
۱۔ مذہبی حوالے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
۲۔ حکومت اس کی حوصلہ افزائی کرے کہ یہ جماعتیں دعوتی، علمی اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہوں اور اعلانیہ کام کریں۔
۳۔ ان کی مشاورت سے ایک ضابطہ اخلاق وضع کیا جائے جس پر عمل درآمد کو حکومتی انتظام سے یقینی بنایا جائے۔
سیاسی حوالے سے حکومت نے لشکر طیبہ پر پابندی لگائی ہے ، ہمیں معلوم ہے کہ یہ پابندی دوسرے ممالک کے مطالبے پر لگائی گئی ہے۔ان سے امریکا کو شکایت تھی اور بھارت کو۔ وہ داخلی طور پر کسی پر تشدد کاروائی میں ملوث نہیں رہے۔ ان کے حوالے سے اربابِ اقتدار کو یہ دیکھنا چاہیے کہ حکومت کی بین الاقوامی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریاں کیا ہیں اور وہ انہیں کس حد تک ادا کر رہی ہے۔جہاں تک جماعت الدعوہ کا تعلق ہے تو وہ اصلاً دعوت اور خدمت خلق کا کام کرتی ہے، اس لیے اس پر پابندی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اسی طرح خود حکومت یہ کہتی ہے کہ حافظ سعید صاحب پر بھارت جو الزام عا ئد کر تا ہے،اس کے تسلی بخش ثبوت مو جو دنہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو حکومت کو پابندی کا حق ہے نہ گرفتاری کا۔ بظاہر اس معاملے میں حکومت کا مقدمہ اتنا کمزور ہے کہ اگر جماعت الدعوہ عدالت میں چلی جائے تو شاید حکومت اپنا موقف ثابت نہ کر سکے۔
اس دراز نفسی کا حاصل یہ ہے کہ اگر کالعدم جماعتیں تشدد کی جگہ سیاسی میدان میں کام کرتی ہیں تو حکومت کو اس کی حوصلہ افزائی کر نی چا ہیے اور جن کے بارے میں اس کا اپنا موقف یہ ہے کہ ان کے خلاف کو ئی ثبوت نہیں تو ان پر اسے پا بندی کا کوئی حق نہیں۔

طالبان اور شہباز شریف

جناب شہباز شریف نے الفاظ کے انتخاب میں ممکن ہے احتیاط روا نہ رکھی ہو، لیکن دانا الفاظ کے پیچ و خم میں نہیں الجھتے۔ ان کی نظر مفہوم پر ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے مفہوم اور معانی واضح ہیں اور ان پر بھی بات ہونی چاہیے!
شہباز شریف کی تقریر اور پھر اس کی شرح کو سامنے رکھیں تو ان کا کہنا یہ ہے کہ طالبان بظاہر جو خیال پیش کر رہے ہیں،انہیں اس پر اعتراض نہیں ہے لیکن طالبان نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے، ا نہیں اس سے اتفاق نہیں ہے۔ میرا تأثر ہے کہ اس وقت پاکستانی عوام کی اکثریت کا مؤقف بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ دیگر باتوں کے ساتھ طالبان کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان کو ایک خود مختار ملک کی طرح اپنی ترجیحات خود متعین کرنی چاہییں اور امریکا کی غلامی سے خود کو آزاد کرنا چاہیے اور یہ کہ ہمیں اس خطے میں امریکا کی جنگ نہیں لڑنی چاہیے۔
اس مؤقف پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ سوال یہ ہے، اس چاہیے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ طالبان بزبانِ حال اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ ایک منظم گروہ کو مسلح کرکے حکومت پر قبضہ کر لینا چاہیے اور اس طرح نظامِ حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لینی چاہیے۔ اگر اس میں ملک کی فوج مزاحم ہوتو اسے ہدف بنانا چاہیے۔ اگر خود کش حملوں کے ذریعے اس فوج کو کمزور کیا جا سکتا ہے، تو یہ راہ بھی اپنائی جا سکتی ہے۔اس کے نتیجے میں اگر عام لوگ مرتے ہیں تو اسے ایک ناگزیر نقصان کے طور پر قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ گیہوں کے ساتھ گھن تو پستا ہی ہے۔مزید یہ کہ بین الاقوامی قوانین اور سرحدوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہم انہیں قبول کرنے پر آمادہ نہیں اور انہیں راہ میں حائل نہیں ہونے دیں گے۔
شہباز شریف کہتے ہیں کہ انہیں اس حکمت عملی سے اتفاق نہیں۔ وہ جمہور ی طریقے سے تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ اس پر اہلِ دانش میں گفتگو ہونی چاہیے کہ تبدیلی کیسے ممکن ہے۔ اگر ہم معاشرے میں مسلح جدوجہد کے ذریعے تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں تو عملاً یہ کس حد تک ممکن ہے؟ پھریہ کہ اس طرح کیا کسی کوشرعاً اور اخلاقاً حق اقتدار حاصل ہو جاتا ہے؟
دوسرے سوال کو پہلے دیکھیے! اگر بندوق اور اسلحہ کے زور پر اقتدار پر قبضہ جائز ہے تو پھر ملک میں آنے والی تمام فوجی حکومتوں پر کوئی اخلاقی اعتراض نہیں اُٹھایا جا سکتا۔ یہی نہیں، اس کی جلو میں اور بہت سے سوالات بھی ہمارے منتظر ہیں۔
ہم آج ایک عمرانی معاہدے کے تحت ایک ریاست کی صورت میں رہ رہے ہیں۔ یہ معاہدہ ۱۹۷۳ء کا آئین ہے۔اس ملک میں بسنے والے تمام لوگوں نے اپنے نمائندوں کے ذریعے اس کو قبول کیا ہے۔اس معاہدے میں یہ طے ہے کہ ملک میں تبدیلی کیسے آئے گی۔اخلاقی اور شرعی اعتبار سے اس معاہدے سے روگردانی جائز نہیں ہے۔ اگر اس پس منظر میں مسلح جدوجہد کا جائزہ لیا جائے تو یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ اس کو کسی طرح قبول نہیں کیا جا سکتا۔
جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے تو اسے تاریخی تناظر میں سمجھنا چاہیے۔ تاریخ کا کہنا یہ ہے کہ تشدد پر مبنی تحریک دنیا کے کسی معاشرے میں کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ یہ تحریک صحیح مؤقف پر اُٹھی ہو یا غلط بنیاد پر، اس سے یہ تو ہوا کہ صفحہ ہستی پر ایک عرصے کے لیے ہنگامہ برپا رہا، لیکن دس بیس سال سے زیادہ اس کی عمر نہیں ہوئی۔خوارج ہوں یا مختار ثقفی، یہ ابن سبا کی تحریک ہو یا سعودی حکومت کے خلاف بیسویں صدی کی بغاوت، ریاست کے مقابلے میں ایسی تحریکیں ہمیشہ ناکام رہی ہیں۔ تاہم ان کے نتیجے میں معاشرہ جس عذاب اور فساد سے گزرتا ہے، اس کی تلافی مدتوں نہیں ہو سکتی۔اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ طالبان کا سیاسی مؤقف اگر درست ہو تو بھی اس حکمت عملی سے کامیابی ممکن نہیں۔میرا خیال ہے کہ شہباز شریف بھی شاید یہ کہنا چاہ رہے ہیں۔
شہباز شریف صاحب کی گفتگو پر البتہ یہ سوال ضرور اُٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا وہ فی الواقع یہی مؤقف رکھتے ہیں اور اگر کل اقتدار ان کے حوالے کر دیا جائے تو کیا قوم یہ امید کر سکتی ہے کہ وہ طالبان کے مؤقف کے مطابق تبدیلی لے آئیں گے، یعنی پاکستان امریکی اثرات سے آزاد ہو جائے گااور یہ ملک اپنے فیصلوں میں خود مختار ہوگا؟ میرا خیال ہے، یہ بات کہنا اتنا آسان نہیں ہے۔واقعہ یہ ہے کہ شہباز شریف جانتے ہیں کہ اس ملک کے عام آدمی کی سوچ یہی ہے۔ سیاست دان عوامی جذبات کا سوداگر ہوتا ہے،وہ ان کی رعایت سے گفتگو کرتاہے۔شہباز شریف بھی یہی کر رہے ہیں۔اس طرح کا ایک مظاہرہ چند روز پہلے قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف نے بھی کیا تھا۔ حامد کرزئی جب پاکستان کے دورے پر آئے تو وہ اس ضیافت میں شریک نہیں ہوئے جو ان کے اعزاز میں وزیر اعظم نے دی۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ کرزئی پاکستان کے خلاف بیان دیتے ہیں اور امریکی ڈکٹیشن پر چلتے ہیں، اس لیے وہ احتجاجاً اس دعوت میں شریک نہیں ہوں گے۔ ان کی خدمت میں یہ سادہ سا سوال رکھا جا سکتا ہے کہ امریکا سے آنے والے ہر تیسرے درجے کے افسر کے ساتھ ملاقات کے لیے وہ شریف برادران کے شانہ بشانہ پنجاب ہاؤس میں موجود ہوتے ہیں۔ اب ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے کسی امریکی افسر سے محض اس بنا پر ملنے سے انکار کیا ہو کہ وہ پاکستان کے مفاد کے خلاف کاروائیوں میں ملوث ہیں۔
شہباز شریف صاحب بھی اگر طالبان کی تائید کررہے ہیں تو یہ ایک سیاسی ضرورت ہے۔ جہاں تک اقتدار کی ضروریات ہیں تو وہ ان سے واقف ہیں اور ان کو معلوم ہے کہ اس وقت تیسری دنیا کا کوئی ملک خود مختاری کا دعویٰ تو کر سکتا ہے، اپنے طرز عمل سے اس کی دلیل فراہم نہیں کر سکتا۔ ان کو معلوم ہے کہ کارگل کی لڑائی بند کرانی ہو تو وزیر اعظم پاکستان کو امریکا کے صدر ہی سے درخواست کرنی پڑتی ہے۔ اس بنا پر میر اکہنا یہ ہے کہ شہباز شریف صاحب جو کچھ کہہ رہے ہیں، اسے بہت سنجیدہ نہ لیا جائے۔اس میں جو بات قابل غور ہے، اس پر توجہ دی جائے اور وہ میں نے اس کالم میں لکھ دی ہے۔اہل سیاست کی اپنی ضروریات ہیں۔ان کے بیانات کو اس حوالے سے دیکھنا چاہیے۔جو کچھ گورنر صاحب فرما رہے ہیں، اس پربھی کسی سنجیدگی کی ضرورت نہیں۔ان کا اپنا کام ہے، سو وہ ان کو مبارک۔ کارخانہ سیاست میں اس طرح کی رونق رہے گی۔
یہ چمن یوں ہی رہے گا اور ہزاروں جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اُڑ جائیں گے
(بشکریہ ’’اوصاف‘‘ اسلام آباد)

ایک تربیتی ورک شاپ کی روداد (۱)

محمد عمار خان ناصر

جنوری ۲۰۱۰ء کے آغاز میں مجھے پاکستان کے دینی جرائد کے مدیران اور نمائندوں کے ایک گروپ کے ہمراہ نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں ’’میڈیا کے چیلنج اور پیغام کی اثر انگیزی‘‘کے زیر عنوان منعقد کی جانے والی ایک سہ روزہ تربیتی ورک شاپ (۳ تا ۵ جنوری ۲۰۱۰ء) میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ اس ورک شاپ کا اہتمام اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے الائنس آف سویلائزیشنز (AoC) نے کیا تھا۔ اس ادارے کے قیام کی تجویز ۲۰۰۵ء میں اقوام متحدہ کی ۵۹ ویں جنرل اسمبلی میں اسپین کے صدر Jos233 Luis Rodrguez Zapatero نے ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان کی تائید کے ساتھ دی تھی۔ اس کے پس منظر میں بنیادی طو رپر یہ سوچ کارفرما ہے کہ دنیا میں مختلف تہذیبوں کے مابین تصادم کا نظریہ درست نہیں اور انسانی حیثیت سے تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کی اقدار اور ضروریات آپس میں ملتی جلتی ہیں، اس لیے تہذیبوں کے مابین اختلافات کے بجائے مشترکات کو اجاگر کرنا چاہیے اور اختلاف اور تنوع کو ایک منفی چیز سمجھنے کے بجائے انسانوں کے باہمی استفادہ اور ذہنی وعملی ترقی کا ایک ذریعہ سمجھنا چاہیے۔ الائنس آف سولائزیشنز کے ساتھ اس ورک شاپ کے انتظام وانصرام میں ایک دوسری بین الاقوامی تنظیم سرچ فار کامن گراؤنڈ (SFCG) شریک تھی جو مذکورہ مقاصد ہی کے لیے سرگرم ہے۔ اس کا ہیڈ کوارٹر بلجیم میں ہے اور بہت سی دوسری سرگرمیوں کے علاوہ یہ ’’انسانیت میں شریک کار‘‘ (Partners in Humanity) کے عنوان سے ایک ہفتہ وار نیوز سروس بھی جاری کرتی ہے جس میں تہذیبی، مذہبی اور سیاسی اختلافات کے حوالے سے ایسے تجزیاتی مضامین شائع کیے جاتے ہیں جو مسئلے کے پرامن حل کے لیے مفید ہوں۔ یہ نیوز سروس پانچ زبانوں میں شائع ہوتی ہے اور http://www.commongroundnews.org/ پر اس کے مضامین ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ ورک شاپ میں الائنس آف سولائیزیشنز کی نمائندگی دانش مسعود جبکہ سرچ فار کامن گراؤنڈ کی نمائندگی راشد بخاری اور ان کے معاون مظہر حسین کر رہے تھے۔ واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک آئی سی آر ڈی کے نمائندے اظہر حسین اور اسلام آباد کے کہنہ مشق صحافی اور روزنامہ ’’آج کل‘‘ کے کالم نگار ارشاد محمود اس سفر میں بطور ٹرینر ہمارے ساتھ رہے۔ 
ورک شاپ میں پاکستان کے بہت سے نمایاں جرائد کے نمائندے شامل تھے، مثلاً ماہنامہ ’’السعید‘‘ ملتان کے مدیر طاہر سعید کاظمی، ماہنامہ ’’عرفات‘‘ لاہور کے مدیر راغب حسین نعیمی، ماہنامہ ’’منہاج القرآن‘‘ لاہور کے مدیر ڈاکٹر علی اکبر الازہری، ماہنامہ ’’پیام‘‘ اسلام آباد کے مدیر ثاقب اکبر، ماہنامہ ’’الخیر‘‘ ملتان کے مدیر مولانا محمد ازہر، ماہنامہ ’’العصر‘‘ پشاور کے نمائندہ مولانا حسین احمد، ماہنامہ ’’ضیاے حرم‘‘ کے نائب مدیر محبوب الرحمن، روزنامہ اوصاف اور روزنامہ اسلام کے کالم نگار مولانا عبد القدوس محمدی، ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کے مدیر حافظ احمد شاکر، ماہنامہ ’’وائس آف پیس‘‘ کے ایڈیٹر قاضی عبدالقدیر خاموش، ماہنامہ ’’نداء الاسلام‘‘ پشاور کے مقصود احمد سلفی، ہفت روزہ ’’حدیبیہ‘‘ کراچی کے سید عامر نجیب، ماہنامہ ’’میثاق‘‘ لاہور کے وسیم احمد، ’’ندائے خلافت‘‘ کے مرزا محمد ایوب بیگ، ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ اور ماہنامہ ’’آئین‘‘ لاہور کے مرزا محمد الیاس، پندرہ روزہ ’’صحیفہ اہل حدیث‘‘ کراچی کے عبد الخالق آفریدی اور ماہنامہ ’’اذان فجر‘‘ لاہور کے مولانا محمد عزیر روحانی بازی۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے مختلف قومی ومقامی اخبارات وجرائد کی نمائندگی کرتے ہوئے قاضی عبد الصمد، عبد الواحد شہوانی اور عبد القادر قریشی نے بھی اس ورک شاپ میں شرکت کی۔ ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے نائب مدیر امجد عباسی اور ماہنامہ ’’محدث‘‘ کے مدیر حافظ حسن مدنی کسی وجہ سے اس ورک شاپ کے لیے نیپال کا سفر نہ کر سکے، البتہ وہ اس ورک شاپ کے پہلے حصے میں، جو اکتوبر ۲۰۰۹ء میں بھوربن کے پی سی ہوٹل میں منعقد کیا گیا تھا، شریک تھے اور اس حوالے سے حسن مدنی صاحب کے تفصیلی تاثرات ’’محدث‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں شائع ہو چکے ہیں۔ 
پروگرام کے اصل شیڈول کے مطابق ان سب حضرات کو ۲ جنوری کو اسلام آباد سے کھٹمنڈو کی فلائٹ پر اکٹھے سفر کرنا تھا، لیکن دھند کی وجہ سے لاہور سے تعلق رکھنے والے حضرات بروقت اسلام آباد نہ پہنچ سکے، چنانچہ وہ بعد میں ۴ جنوری کو نیپال پہنچے۔ باقی سب حضرات ایک ہی فلائٹ سے سفر کر رہے تھے۔ اتنی نمایاں تعداد میں ڈاڑھی اور ٹوپی سے مزین مذہبی لوگوں کا ایک جگہ جمع ہونا لوگوں کے لیے اچنبھے کا باعث بنا رہا۔ ہم اسلام آباد سے پی آئی اے کے جس جہاز پر بیٹھے، اس کے عملے کے ایک آفیسر خاصی معلومات رکھنے والے اور باتونی قسم کے تھے۔ وہ اڑان کے آغاز میں ہی میرے اور وفاقی وزیر مذہبی امور جناب حامد سعید کاظمی کے چھوٹے بھائی اور ماہنامہ ’’السعید‘‘ ملتان کے مدیر برادرم طاہر سعید کاظمی کے سامنے اپنے لیے مخصوص نشست پر بیٹھ گئے اور سارا راستہ دلچسپ باتیں کرتے رہے۔ بیٹھتے ہی گفتگو کا آغاز انھوں نے ذرا تحیر آمیز انداز میں اس سوال سے کیا کہ اتنے سارے مولوی حضرات اکٹھے ہو کر نیپال کس غرض سے جا رہے ہیں؟ مجھے مذاق سوجھا اور میں نے ان سے کہا کہ ہم اپنا پروگرام وقت سے پہلے نہیں بتایا کرتے۔ میرے جواب سے ان کے چہرے پر کچھ پریشانی کے آثار دکھائی دینے لگے تو میں نے فوراً وضاحت کی کہ آپ بے فکر رہیں، یہ صرف ایک مذاق تھا۔ نیپال میں بھی ہمارا گروپ اپنی مخصوص مذہبی شناخت کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا، بلکہ اپنی والدہ کے ہمراہ غالباً سیاحت کی غرض سے آئی ہوئی ایک نوجوان انگریز لڑکی نے، جو اسی ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھی، ہمارے منتظم دوست مظہر حسین سے باقاعدہ دریافت کیا کہ یہ اتنے سارے مولوی صاحبان یہاں کر رہے ہیں؟ اس نے کہا کہ وہ اتنے سارے باریش لوگوں کو دیکھ کر خوف زدہ ہو گئی ہے اور اس نے اپنی والدہ سے کہا ہے کہ وہ صورت حال پر غور کریں۔ مظہر حسین نے اسے اس گروپ کی آمد کا پس منظر بتایا تو اسے کچھ اطمینان محسوس ہوا اور اس نے کہا کہ اچھا، آپ ان لوگوں کو اعتدال پسند بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔
ورک شاپ کا بنیادی موضوع، جیسا کہ اس کے عنوان سے ظاہر ہے، یہ تھا کہ ابلاغ عامہ کے دائرے میں کیا چیلنجز درپیش ہیں اور مذہبی صحافت سے وابستہ لوگ اس میں کیا کردار ادا کر سکتے اور اپنے پیغام کو کیسے موثر طریقے سے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ عنوان اپنی نوعیت کے اعتبار سے خاصا وسیع تھا، تاہم ورک شاپ میں عملاً جس نکتے پر زیادہ ارتکاز رہا، وہ یہ تھا کہ نفسیاتی اور سماجی اعتبار سے ’’شناخت‘‘ کی اہمیت کیا ہے، کسی گروہ کا سماجی رویہ اور کردار متعین کرنے میں اس کا کس قدر دخل ہے، شناخت کے قائم رہنے یا کسی خطرے کی زد میں آنے کا سوال کیسے سماجی سطح پر مختلف گروہوں کے مابین تنازعات کو جنم دیتا ہے اور ایسے تنازعات کو حل کرنے کی تدابیر کیا ہو سکتی ہیں۔ ورک شاپ کے پہلے حصے (اکتوبر ۲۰۰۹ء) میں اظہر حسین کے علاوہ سرچ فار کامن گراؤنڈ کے راشد بخاری اور ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور کے حافظ عبد الغنی اور سلیم قیصر عباس نے الگ الگ نشستوں میں متعلقہ عنوانات پر گفتگو کی تھی، تاہم کھٹمنڈو کی ورک شاپ میں گفتگو کی ذمہ داری زیادہ تر اظہر حسین نے انجام دی، جبکہ راشد بخاری اور دانش مسعود وقتاً فوقتاً ان کا ساتھ دیتے رہے۔ جناب ارشاد محمود نے ایک مستقل نشست میں اس موضوع پر تفصیلی اور معلومات افزا گفتگو کی کہ مذہبی صحافت سے وابستہ لوگ اگر عمومی صحافت میں اپنی جگہ بنانا چاہیں تو اس کے لیے انھیں کون سے راہ نما اصولوں کو سامنے رکھنا چاہیے۔ 
اظہر حسین پاکستانی ہیں۔ ان کی پیدائش اور ابتدائی تعلیم وتربیت کراچی میں ہوئی۔ تقریباً چار دہائیاں قبل وہ اپنے والد کے مشورے پر امریکہ منتقل ہو گئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ چالیس سال قبل یہاں کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ان کے والد نے اپنی بصیرت کی بنا پر اس بات کی پیش بینی کر لی تھی کہ پاکستانی معاشرہ جن خطوط پر آگے بڑھ رہا ہے، اس کا نتیجہ شدید نسلی ولسانی منافرتوں کی صورت میں نکلے گا، چنانچہ انھوں نے ایک تفصیلی خط لکھ کر انھیں آنے والے منظر کی ایک جھلک دکھائی اور انھیںآمادہ کیا کہ وہ امریکہ منتقل ہو جائیں، البتہ انھوں نے انھیں اس بات کا بھی پابند کیا کہ وہ دنیا میں جہاں بھی رہیں، پاکستان اور پاکستانی معاشرے کی بہتری کے لیے کوشش کرتے رہیں اور جس قدر ممکن ہو، اس میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں۔ 
اظہر حسین اس وقت امریکہ میں قائم ایک تھنک ٹینک انٹر نیشنل سنٹر فار ریلجن اینڈ ڈپلومیسی (ICRD) کے نائب صدر ہیں۔ مغرب کے سماجی علوم میں تنازعات کے تصفیے (Conflict Resolution) کے موضوع سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں اور اس موضوع سے متعلق نظری وعلمی بحثوں کے علاوہ دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں پائے جانے والے لسانی، مذہبی اور نسلی تنازعات کی نوعیت اور صورت حال پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ جس ادارے سے وابستہ ہیں، اس کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ دنیا میں موجود مختلف تنازعات کے حل کے لیے مذہب اور مذہبی راہ نماؤں کا کردار بہت اہم ہے اور ان تنازعات کے حل کے عمل میں مذہبی عناصر کو شریک کرنا اور ان کے اثر ورسوخ سے مدد لینا بہت مفید، معاون اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہے۔ ان کی سرگرمیوں اور تعلقات کا دائرہ پاکستان کے مذہبی وسیاسی راہ نماؤں سے لے کر سعودی عرب کے شاہی خاندان اور امریکی سینٹ اور ہیئت مقتدر ہ کے کارپردازوں تک وسیع ہے اور وہ اپنے موضوع سے متعلق ان سب دائروں میں راہ نماؤں اور سماجی کارکنوں کی تربیت اور راہ نمائی کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے اظہر حسین کی دلچسپی اور کاوشوں کا مرکز ومحور یہ نکتہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ نسلی، لسانی، علاقائی اور مذہبی بنیادوں پر جس تقسیم اور تشتت کا شکار ہے، اسے اس سے نکالا جائے اور مختلف گروہوں کے مابین تناؤ کو دور اور تنازعات کو حل کرنے کے لیے مکالمہ اور برداشت کی فضا پیدا کی جائے۔ 
اظہر حسین نے شناخت اور تنازعات کا باہمی تعلق واضح کرتے ہوئے کہا کہ کسی نہ کسی مذہبی، تاریخی اور سماجی حوالے اپنی شناخت متعین کرنا افراد اور گروہوں کی شخصیت کا ایک ناگزیر حصہ ہے، لیکن جب شناخت میں یہ چیز شامل ہو جائے کہ ہم دوسروں سے برتر ہیں تو یہ تباہ کن بن جاتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی گروہ اپنی شناخت کو خطرے میں محسوس کرتا ہے تو اس میں تشدد پیدا ہوتا ہے جو تنازع کو جنم دیتا ہے۔ جو سیاسی یا سماجی تنازعات مفادات کے ٹکراؤ پر مبنی ہوں، ان کا حل نسبتاً آسان ہوتا ہے جبکہ نظریہ اور اقدار پر مبنی تصادم صدیوں چلتے ہیں۔ اس لحاظ سے تصادم کے اسباب میں سے ایک بہت بڑا سبب مذہب رہا ہے، کیونکہ مذہب اپنی اصل تعلیمات کے لحاظ سے پرامن اور ایثار اور اخلاص پر مبنی ہوتا ہے، لیکن انسانوں