جنوری ۲۰۱۰ء
دہشت گردی کے خلاف جنگ اور علماء
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
علماء کرام سے ملک کے بعض حلقوں کا یہ مسلسل مطالبہ ہے کہ وہ خود کش حملوں کے خلاف اجتماعی فتویٰ جاری کریں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومتی پالیسی کی حمایت کا دو ٹوک اعلان کریں، لیکن موجودہ صورت حال میں یہ بات بہت مشکل ہے کہ علماء کرام حکومت کی پالیسیوں کی آنکھیں بند کر کے حمایت کریں اور نہ ہی حکومت کو اس کی توقع کرنی چاہیے، اس لیے کہ جو بات جس حد تک درست ہوگی، اس کی ضرور حمایت کی جائے گی، لیکن جو بات درست نہیں ہوگی، اس کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ بالخصوص موجودہ صورت حال میں دینی جماعتوں اور علماء کرام کے کچھ تحفظات ہیں جن کو دور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مثلاً:
- دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومت دینی حلقوں کی بھرپور حمایت کی خواہش تو رکھتی ہے، لیکن اپنی پالیسیوں پر انھیں اعتماد میں لینے کی ضرورت حکمران حلقوں نے کبھی محسوس نہیں کی۔ اگر آپ حمایت چاہتے ہیں تو اعتماد میں بھی لیجیے کہ جب تک صحیح صورت حال سے واقفیت نہیں ہوگی اور اعتماد نہیں ہوگا تو حمایت بھی مشکل ہوگی۔
- قومی خود مختاری کے حوالے سے ملک بھر کے عوام کی طرح دینی حلقے بھی شدید تحفظات اور بے چینی کا شکار ہیں اور ان کا اضطراب بڑھتا جا رہا ہے۔ بعض حکومتی پالیسیاں اور اقدامات کنفیوژن میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ حکومت کو اس سلسلے میں بھی دینی حلقوں اور علماء کرام کو اعتماد میں لینا ہوگا، ورنہ کنفیوژن اور بے اعتمادی کی اس فضا میں دینی حلقے حکومتی پالیسیوں کے بارے میں تذبذب کا شکار رہیں گے۔
- ۷۳ء کے دستور میں واضح طور پر ضمانت دی گئی ہے کہ ملک میں قرآن وسنت کے قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے گا اور قرآن وسنت کے منافی کوئی قانون نافذ نہیں کیا جائے گا۔ اس دستوری ضمانت کو چھتیس برس گزر چکے ہیں، مگر ابھی تک صورت حال جوں کی توں ہے اور حکومت اس سلسلے میں کسی پیش رفت پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی۔ ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ رکاوٹ کون ہے اور رکاوٹیں کہاں کہاں ہیں؟ جب تک اس کی وضاحت نہیں ہوتی، تذبذب کی فضا باقی رہے گی۔
- جہاں تک دہشت گردی اور خود کش حملوں کا تعلق ہے، علماء کرام متعدد بار یہ موقف پیش کر چکے ہیں اور اس کی وضاحت کر چکے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حدود میں کسی بھی مطالبہ اور مقصد کے لیے ہتھیار اٹھانا اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرنا شرعاً درست نہیں ہے اور جو لوگ ایسا کر رہے ہیں، وہ غلط کر رہے ہیں۔ بالخصوص پرامن شہریوں، مساجد اور امام بارگاہوں کو اس کا نشانہ بنانا انتہائی مذموم فعل ہے جس کی ہم نے ہمیشہ پرزور مذمت کی ہے اور اب بھی کرتے ہیں۔ یہ موقف بالکل واضح ہے اور اس میں کوئی تردد نہیں ہے، لیکن یہ موقف الگ چیز ہے اور حکومتی پالیسیوں کی حمایت اور اس کے ساتھ کھڑا ہونا اس سے مختلف امر ہے۔
- دہشت گردی کے ان مذموم واقعات میں بیرونی عوامل، بالخصوص امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ اور اس کے مقاصد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس سلسلے میں ملکی رائے عامہ اور دینی حلقوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔
اصل یہ ہے کہ فتویٰ میں ذمہ دار مفتیان کرام کو صرف یہ نہیں دیکھنا ہوتا کہ مسئلہ کی نوعیت کیا ہے، بلکہ یہ دیکھنا بھی مفتی کی ذمہ داری ہوتا ہے کہ فتویٰ کیوں لیا جا رہا ہے اور فتویٰ پوچھنے والے کے مقصد کو سمجھنا بھی ضروری ہے تاکہ فتویٰ کسی غلط کام کے لیے استعمال نہ ہو سکے۔ اس لیے ذمہ دار علماء کرام جب کسی مسئلے پر فتویٰ دیں گے تو پوری صورت حال اور سارے پہلووں کو سامنے رکھ کر دیں گے اور پوری صورت حال اور تمام پہلووں کو سامنے لانا فتویٰ پوچھنے والوں کی ذمہ داری بنتی ہے۔ ہمارے خیال میں موجودہ صورت حال میں علماء کرام کو اگر مجموعی طور پر کوئی اجتماعی فتویٰ دینا ہے تو وہ باہمی مشورہ سے تمام مکاتب فکر کے ذمہ دار مفتیان کرام کو مل کر جاری کرنا چاہیے اور اس کے لیے استفتاء کی ترتیب میرے ذہن میں کچھ اس طرح بنتی ہے:
’’کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
- پاکستان کے قیام کا مقصد قائد اعظم محمد علی جناح نے واضح طور پر یہ بتایا تھا کہ اس میں قرآن وسنت کی حکمرانی ہوگی اور دستور پاکستان میں بھی اس بات کی واضح طور پر ضمانت دی گئی ہے۔ جو لوگ گزشتہ ساٹھ برس سے اس میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، ان کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
- جن لوگوں نے ملک میں نفاذ شریعت کے نام پر ہتھیار اٹھا رکھے ہیں اور حکومتی رٹ کو چیلنج کر کے بد امنی اور قتل وغارت کا باعث بنے ہوئے ہیں، بالخصوص مساجد، عبادت گاہوں اور پر امن شہریوں پر خود کش حملے کرنے والوں کا شرعی حکم کیا ہے؟
- ملک میں دہشت گردی کے تمام عوامل کی چھان بین کرنا اور اس کے اندرونی وبیرونی محرکات کا سراغ لگا کر انھیں بے نقاب کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ اور تحقیق کے بغیر ان سب کارروائیوں کا الزام کسی ایک طبقے پر لگا دینا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ بینوا توجروا۔‘‘
مساجد و مدارس کے ملازمین کے معاشی مسائل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
کراچی کے جناب افتخار احمد کی طرف سے بجھوایا جانے ولا ایک استفتاء ان دنوں ملک کے مختلف مفتیان کرام کے ہاں زیر غور ہے جو مساجد اور دینی مدارس میں کام کرنے والے ملازمین اور ائمہ واساتذہ کی تنخواہوں اور دیگر حقوق کے معیار ومقدار کے حوالے سے ہے۔ راقم الحروف کو بھی اس کی کاپی موصول ہوئی ہے۔ میں عام طور پر فتویٰ نہیں دیا کرتا، البتہ عمومی تناظر میں کچھ اصولی گزارشات ضرور کرنا چاہوں گا۔
مساجد ومدارس کے ملازمین کو تنخواہیں اور دیگر مراعات ان کے معاشرتی مقام سے بہت کم ملتی ہیں اور ان کی بنیادی ضروریات کے حوالے سے یہ بہت ہی کم ہیں۔ یہ ایک معروضی حقیقت ہے جس کا چند بڑے اور معیاری اداروں کو چھوڑ کر، جن کا تناسب مجموعی طور پر شاید پانچ فیصد بھی نہ ہو، ملک میں ہر جگہ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، لیکن امام، خطیب، مدرس، مفتی، حافظ، قاری اور موذن قسم کے لوگ اپنی تربیت کے لحاظ سے تنخواہ اور معاشی مفادات کے لیے احتجاج، ہڑتال، جلوس، مظاہرہ اور بائیکاٹ وغیرہ کے عادی نہیں ہیں اور اسے قناعت اور خلوص کے خلاف سمجھتے ہیں اور جو لابیاں اور این جی اوز ملک میں اس قسم کے مسائل کے لیے آواز اٹھاتی ہیں، انھیں اس مخلوق کے وجود اور بقا سے سرے کوئی دل چسپی نہیں ہے، بلکہ بہت سے حلقوں کے نزدیک اس قسم کے لوگوں کا معاشرے میں موجود نہ رہنا ہی ان کے لیے عافیت کا باعث ہے، اس لیے مساجد ومدارس کے نظام سے تعلق رکھنے والے ملازمین کی معاشی ضروریات، معاشرتی اسٹیٹس اور حقوق عام طور پر بہت کم زیر بحث آتے ہیں۔ لیکن اگر کچھ باہمت اور باذوق صحافی ملک کے کسی بھی حصے میں ایک علاقے کو مخصوص کر کے وہاں کی مساجد ومدارس کے ملازمین کی، جن میں خطباء، اساتذہ اور دیگر ملازمین شامل ہیں، تنخواہوں، مراعات، معیار زندگی اور بنیادی ضروریات کے بارے میں ایک معروضی اور تجزیاتی رپورٹ مرتب کر سکیں تو یہ انتہائی چشم کشا رپورٹ ہوگی اور آپ دیکھیں گے کہ دنیا میں الزامات کا سب سے زیادہ ہدف بننے والے اس طبقے کی غالب اکثریت کس کس مپرسی اور بے سر وسامانی کے ماحول میں زندگی بسر کر رہی ہے۔
یہ دراصل ایک بڑے اجتماعی مسئلہ بلکہ المیہ کا ایک جزوی پہلو ہے جس کا تعلق ہمارے مجموعی معاشی نظام اور معاشرتی رویوں سے ہے۔ ہمارے موجودہ معاشی نظام کی بنیاد جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام اور سوچ پر ہے، اس لیے یہ معاشی اور معاشرتی دونوں حوالوں سے طبقاتی ہے، اونچ نیچ کی نفسیات کے حوالے سے ہے اور بعض طبقوں کی ہر حال میں بالاتری اور بالادستی کی اساس پر ہے جس کے افسوس ناک مظاہر ہمیں قدم قدم پر دکھائی دیتے ہیں، مگر ہم خاموشی کے ساتھ آنکھیں بند کر کے وہاں سے گزر جاتے ہیں۔ میں پنجاب میں پیدا ہوا ہوں اور پنجاب میں ہی رہتا ہوں، مگر میرا اصل تعلق مانسہرہ (ہزارہ) کی سواتی برادری سے ہے۔ گزشتہ ماہ میں مانسہرہ گیا تو مجھے بتایا گیا کہ وہاں محکمہ مال کے کاغذات میں امام مسجد اور مولوی کو ’’کمین‘‘ کے خانے میں لکھا جاتا ہے اور وہ اسی اسٹیٹس کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ خدا جانے پنجاب اور اور سندھ کی کیا صورت حال ہے، لیکن ہزارہ کے بارے میں مجھے یہی بتایا گیا ہے۔
یہاں دو سوال سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ کیا مالک اور کمین کی یہ اصطلاح اورمعاشرتی درجہ بندی شرعی احکام کے حوالے سے درست ہے؟ اور دوسرا سوال یہ کہ خدا نخواستہ اس تقسیم کو کسی درجے میں تسلیم بھی کر لیا جائے تو کیا مولوی، امام اور دینی خدمات سرانجام دینے والے لوگ اسی حیثیت کے حامل ہیں کہ انھیں ’’کمین‘‘ کے کھاتے میں شمار کیا جائے؟ میرے نزدیک یہ دونوں سوال سنجیدگی کے ساتھ غور وخوض کے متقاضی ہیں۔ اس صورت حال کی اصلاح کے لیے معاشی نظام اور معاشرتی رویے دونوں میں انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر ایک اسلامی ریاست کی تشکیل اور اسلامی معاشرہ کے قیام میں ہمارے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور خلافت راشدہ کے فیصلے معیار اور راہ نما ہیں تو ہمیں جاگیردارانہ نظام اور جاگیردارانہ کلچر دونوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی اور سرمایہ دارانہ نفسیات اور سوچ سے پیچھا چھڑانا ہوگا جس کے لیے طبقاتی نظام کا خاتمہ سب سے زیادہ ضروری ہے۔ یہ بات بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ معاشرتی انقلاب اور تبدیلیاں محض قانون سے نہیں ہوا کرتیں۔ قانون بھی ایک درجے میں ضروری ہے، لیکن اصل تبدیلی اور اصلاح ایمان وعقیدہ اور اخلاق وعادات کے ذریعے ہوتی ہے اور اس کے لیے مسلسل فکری اور سماجی جدوجہد درکار ہے۔ ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ہر سماجی تبدیلی اور معاشرتی اصلاح کے لیے سیاسی نعرے بازی کو ضروری قرار دے لیا ہے اور صرف قانون کے نفاذ کو کافی سمجھ رکھا ہے جس کی وجہ سے کسی صحیح مقصد کے لیے بھی ہماری جدوجہد ایک حد سے آگے بڑھ کر ناکامی کا شکار ہو جاتی ہے۔
جمعیۃ علماء اسلام نے ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات کے موقع پر مولانا محمد عبد اللہ درخواستی، مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولاناپیر محسن الدین احمد (مشرقی پاکستان) اور مولانا عبید اللہ انور رحمہم اللہ کی قیادت میں اپنے انتخابی منشور میں اس مسئلے کے حل کی طرف پیش رفت کے لیے سرکاری زمینیں بے زمین کاشت کاروں میں تقسیم کرنے، انگریزی استعمار کے دور میں دی گئی جاگیریں ضبط کرنے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ہوش ربا تفاوت کو ختم کر کے پہلے ایک اور دس کے تناسب پر لانے اور پھر بتدریج ایک اور پانچ کے تناسب پر فکس کر دینے کا وعدہ کر کے مسئلے کے حل کے آغاز کی ایک صورت پیش کی تھی۔ جمعیۃ علماء اسلام کی موجودہ قیادت کو اپنے مرحوم بزرگوں کا یہ موقف اور ۱۹۷۰ء کا یہ انتخابی منشور خواب میں بھی شاید یاد نہ آتا ہو، مگر جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام، کلچر اور نفسیات کے خاتمے کا آغاز اسی قسم کی کارروائیوں سے ہوگا اورکسی انقلابی عمل کے بغیر محض نعروں سے کچھ نہیں ہوگا۔
مسجد ومدرسہ کا نظام بھی اسی معاشرے اور کلچر کا حصہ ہے اور عام طور پر دینی تعلیم وتربیت کے باوجود اسے اس کلچر اور مجموعی نفسیات سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ظاہر بات ہے کہ جب مولوی اور امام مسجد کمیوں اور لاگیوں میں شمار ہوگا تو اس کے ساتھ معاملہ بھی اسی جیسا ہوگا، خصوصا جب اس کمی اور لاگی کو معاشرے کے لیے غیر ضروری، بلکہ معاشرے پر بوجھ سمجھا جائے گا تو وہی کچھ ہوگا جو ہو رہا ہے، اس لیے اصل ضرورت تو اس نظام اور کلچر کو بدلنے کی ہے اور اس کے لیے عوامی سطح پرمنظم اور مربوط تحریک اور جدوجہد ناگزیر ہے، لیکن اس سے ہٹ کر اس مسئلے سے نمٹنے اوراس کی تلخی کو کم کرنے کے لیے دینی جماعتوں، بڑے مدارس کے منتظمین اور خاص طور پر دینی مدارس کے وفاقوں کو اس پر غور کرنا چاہیے اور میں طالب علمانہ حیثیت سے اس سلسلے میں دو اصولوں کی طرف مساجد ومدارس کے منتظمین اور ان کو چلانے والی کمیٹیوں کو توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔
شاید کہ اتر جائے ’’کسی‘‘ دل میں مری بات
ایک یہ کہ جب کوئی شخص خود کو کسی اجتماعی دینی کام کے لیے وقف کر دے اور کسی ادارے سے اس طور پر وابستہ ہو جائے کہ وہ اپنی ضروریات کے لیے اور کوئی کام نہ کر سکتا ہو تو اس کی اور اس کے زیر کفالت افراد کی معاشی کفالت شرعاً اس ادارے کے ذمے ہوتی ہے اور کفالت کا معیار اس ادارے کے افراد اپنی مرضی سے نہیں طے کریں گے، بلکہ انھیں دوسرے عام شہریوں کے معیار زندگی کو لا وکس فیہا ولا شطط کے درجے میں بنیاد بنانا ہوگا۔
دوسری بات یہ کہ صاحب ہدایہ نے حضرت امام ابو حنیفہؒ کا بیان کردہ یہ اصول ذکر کیا ہے کہ لا رضاء مع الاضطرار، یعنی مجبوری کی رضا کا اعتبار نہیں ہے۔ اس کامطلب مذکورہ مسئلہ کے حوالے سے میری سمجھ میں یہی آتا ہے کہ کوئی شخص اگر اضطرار یا مجبوری کی وجہ سے اپنے معروف حق سے کم پر راضی ہو گیا ہے تو اس کی اس رضا کا اعتبار نہیں ہے اور شرعاً وہ اسی حق کا حقدار ہے جو معروف حق کے طور پر اسے حاصل ہونا چاہیے۔
میرا خیال ہے کہ اگر چند بڑے دار الافتاء اور وفاق المدارس العربیہ اس سلسلے میں تمام پہلووں کا جائزہ لے کر ملک بھر کی مساجد ومدارس کے لیے کوئی اجتماعی ضابطہ اخلاق طے کر دیں تو دینی خدمات سرانجام دینے والے، معاشرے کے اس مظلوم ترین طبقے کی داد رسی کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔
اصطلاحات کا مسئلہ : ایک تنقیدی مطالعہ
عثمان احمد
علوم و فنون اپنی مرتب، مکمل اور مدون شکل میں اصطلاحات کے ذریعے ظہور پذیر ہوتے ہیں اور با لعموم مخصوص اصطلاحات کا نظام ہی کسی فکر،علم یا فن کی شناخت ہوتاہے۔ فرہنگ آصفیہ کے مطابق ’’جب کوئی قوم یا فرقہ کسی لفظ کے معنی موضوع کے علاوہ یا اس سے ملتے جلتے کوئی اور معنی ٹھہرا لیتا ہے تو اسے اصطلاح یا محاورہ کہتے ہیں، کیونکہ اصطلاح کے لغوی معنی باہم مصلحت کرکے کچھ معنی مقرر کر لینے کے ہیں ۔اسی طرح وہ الفاظ جن کے معنی بعض علوم کے واسطے مختص کر لیے جاتے ہیں، اصطلاحِ علوم میں داخل ہیں۔ خیال رہے کہ اصطلاحی اور لغوی معنوں میں کچھ نہ کچھ نسبت ضرور ہوتی ہے۔‘‘ (۱)
علی بن محمد بن علی الجرجانی لکھتے ہیں:
’’الاصطلاح: عبارۃ عن اتفاق قوم علیٰ تسمےۃ الشیء با سم ما ےُنقَل عن موضعہ الاول ، واخراج اللفظ من معنی لغویّ الیٰ آخر لمناسبۃ بینھما۔ وقیل :الاصطلاح :اتفاق طائفۃ علیٰ وضع اللفظ بازاء المعنی۔ وقیل : الاصطلاح:اخراج الشیء عن معنی لغوی الی معنی آخر ، لبیان المراد۔وقیل: الاصطلاح: لفظ معین بین قوم معیَّنِین‘‘ (۲)
’’اصطلاح کسی قوم کا کسی شے کے نام پر اتفاق کر لینا ہے جو کہ اس کے پہلے معنی موضوع سے منتقل کر دے اور لغوی معنی کی بجائے کسی مناسبت کے باعث دوسرے معنی مراد لینا ہے۔ اور کہا جاتاہے کہ اصطلاح کسی گروہ کا کسی مخصوص معنی کے لیے لفظ کا وضع کر نا ہے ۔اور کہا جاتاہے کہ اصطلاح مراد کے بیان کے لیے کسی چیز کا اس کے لغوی معنی سے کسی دوسرے معنی کی طرف لے جانا ہے۔اور کہا جاتاہے کہ اصطلاح کسی متعین لفظ کو کہتے ہیں جو متعین کرنے والوں کے درمیان متعین معنوں میں مستعمل ہو۔‘‘
انگریزی میں اصطلاح کے لیے مستعمل لفظ TERM ہے:
Terms are words and compound words that are used in specific context. (3)
اصطلاحات وہ مفرد اور مرکب الفاظ ہیں جو مخصوص پس منظر میں ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔ اصطلاحات کا وضع کرنا حقائق کی تخلیق یا اظہار کا نام نہیں بلکہ ادنیٰ یا اعلی ٰموجو د اتِ ذہنی و مادی کو مخصوص الفاظ کے ساتھ معروف کر نے کا نام ہے۔بسا اوقات بالکل عام اور سطحی باتیں اور ادنی ٰ انسانی جذبات وخواہشات کو سنہری اصطلاحات کے ذریعے مستورمگر مقبول کیا جاتا ہے جیسا کہ جدید انتظامی علوم انہی اصطلاحات کا مجموعہ ہیں۔ (۴) بعض علوم تو اصطلاحات کا ایسا گورکھ دھندا ہیں کہ اس کا کل سرمایہ مغلق اصطلاحات ہیں ۔ ایسی اصطلاحات جن کے معنی کا تعین ناممکن حد تک مشکل ہے۔ (۵)
صاحب کشاف اصطلاحات الفنون اصطلاح کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’ان اکثر ما یحتاج بہ فی تحصیل العلوم المدونہ و لفنون المروجہ الی الاساتذہ ھو اشتباہ الاصطلاح ، فان لکل اصطلاح خاص بہ اذا لم یعلم بذلک لایتیسر للشارع فیہ الاھتداء الیہ سبیلا والی ٰانغمامہ دلیلا فطریق علمہ اما الرجوع الیہم‘‘ (۶)
’’مدون علوم اور مروج فنون کے حصول میں اکثر جس چیز کی احتیاج اساتذہ کی طرف رجوع پر مجبور کرتی ہے وہ اصطلاح کا اشتباہ ہے ۔ ہر اصطلاح کے خاص معنی ہوتے ہیں اوران کو جانے بغیر (علم کی راہ پر) کسی چلنے والے کے لیے کوئی راہ ہدایت اور تاریکی میں کو ئی دلیل نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ ان اصطلاحات کے علم کے لیے ان (اساتذہ) کی طرف رجوع کرے۔ ‘‘
محمد اسلم سہیل لکھتے ہیں:
ًً’’یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ علوم مدونہ اور فنون مروجہ میں ہر قسم کے علم و فن کے اصول و مبادی اور کلیات و جز ئیات تک رسائی اور ان پر مکمل دسترس کا دارو مدار، ان علوم کے متعین بنیادی اصطلاحات کی صحیح تفہیم و تحقیق ، ان کے معانی و مطالب کی صحیح تعبیر و تشریح، ایک جیسی مختلف اصطلاحات میں موجود لطیف نکتہء اتحاد اور دقیق فنی اختلاف کے ادراک و شعور،اور اسی طرح مختلف علوم و فنون کے متفرق مباحث سے متعلق اصطلاحات کی باہمی مماثلت و مشابہت کے درمیان نازک اور بادی النظر میں غیر محسوس فرق کو سمجھ کر ان کی صحیح تو ضیح و تعریف کرنے اور ان کے مناسب استعمال کی اعلیٰ درجے کی صلاحیت و قابلیت اور غیر معمولی علمی و فنی مہارت پر موقوف ہے ‘‘(۷)
اصطلاحات کے سلسلے میں درج ذیل اصولی باتوں کو ملحوظ رکھنا خلط مبحث سے بچنے ، معانی کے صحیح ابلاغ اور انتشار سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے:
۱۔ کوئی اصطلاح مجرد لفظ نہیں ہوتی ۔ہر اصطلاح کا اپنا مخصوص فکری،علمی یا مذہبی پس منظر ہوتا ہے اور اس کے معانی کا تعین اس کے مخصوص پس منظر سے صرفِ نظر کرکے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر کوئی فرد کسی مخصوص اصطلاح کو محض لغوی معنی میں استعمال کرنا چاہے تو اسے صراحتاً اس کا ذکر کرنا چاہیے کہ اس کی مراد محض لغوی نہ کہ اصطلاحی۔ کسی اصطلاح کا واضع ہی وہ بنیادی منبع ہے جو کسی اصطلاح کے معانی کے تعین میں بنیادی حوالہ ہوتا ہے ۔مثلاً DEMOCRACY کی اصطلاح کے معنی متعین کرنے کے لیے افلاطون،جان مل ، روسو اور مغربی تاریخ (انقلاب فرانس ، تحریک تنویروغیرہ)بنیادی ذریعہ ہیں نہ کہ قرآن و سنت۔ (۸) کیا کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ DEMOCRACYکا تصور کوئی مخصوص تاریخی ،علمی، ثقافتی اور اخلاقی پس منظر نہیں رکھتا ۔ یقیناًرکھتا ہے تو یہ کس طرح درست ہو گا کہ اس کے معنی کا تعین قرآن و سنت سے کیا جائے(قرآن و سنت سے تو محاکمہ ہوگا)۔یا اس کے وہ معنی متعین کیے جائیں جو اس کے مخصوص تاریخی ،علمی، ثقافتی اور اخلاقی پس منظر سے علاقہ نہ رکھتے ہوں۔
اگر ہم اس بات کو رد کرتے ہیں کہ جہاد کی اسلامی اصطلاح کے معنی کا تعین کرنے کا استحقاق مستشرقین یا مغربی سکالرز کو نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں فقہاء عظام نے جو معنی متعین کیے ہیں وہی اصل ہیں تو مسلم علماء کو حق کیسے حاصل ہے کہ وہ مخصوص تاریخی ،علمی، ثقافتی اور اخلاقی پس منظر کو نظر انداز کرکے DEMOCRACY کے معنی متعین کریں۔اسی طرح کسی اصطلاح کے ساتھ اسلامی کا سابقہ یا لاحقہ لگانے سے یہ سمجھنا کہ وہ اپنے مخصوص فکری،علمی ، اخلاقی اورمذہبی پس منظر سے کٹ گئی ہے محض خوش فہمی ہے ۔ اس کے نتیجے میں باطل افکار کو فروغ و جواز تو مل سکتا ہے لیکن اصطلاحات کی تطہیر نہیں ہو سکتی۔ کیا سوشلزم، جمہوریت، بنکنگ اور انشورنس کی اصطلاحات کے ساتھ ’’اسلامی‘‘ لگانے سے سوشلزم، جمہوریت، بنکنگ اورانشورنس میں جوہری تبدیلی واقع ہو جائے گی اور وہ اپنی مخصوص تاریخی، علمی، ثقافتی اور اخلاقی پس منظرسے کٹ جائیں گی؟
۲۔ہر اصطلاح ایک کل کی حیثیت رکھتی ہوتی ہے اور اس کے معانی بھی کلی حیثیت سے طے کیے گئے ہوتے ہیں ۔ کسی بھی اصطلاح کو بالاقساط یا بالاجزاء بیان کرکے یہ کہنا کہ اس میں یہ جز درست اور یہ جز باطل ہے غلط ہے۔ مثلاً Democracy ایک مکمل نظام ہے۔ اس کا جائزہ مکمل نظام کی حیثیت سے لیا جائے گا نہ کہ ووٹ، پارلیمنٹ، اقتدار اعلیٰ کو علیحدہ علیحدہ کرکے۔اس کے نتیجے میں کیا گیا تجزیہ غیر حقیقی ہو گا۔
۳۔ کسی اصطلاح کا ترجمہ دوسری زبان میں پورے معانی کے ساتھ ممکن نہیں ہوتا اور اس کے لیے اقرب ترین لفظ ہی استعمال ہو سکتا ہے ۔ اور اکثر اصطلاحات کا ترجمہ مسائل کا باعث بنتا ہے ۔اللہ جل شانہ کا اسم ذاتی اللہ ہے۔ اس کا کوئی ترجمہ ممکن نہیں لفظِ اللہ کا متبادل GOD خدا یا ایشور یا رام نہیں اور یہ تمام الفاظ اپنا مخصوص پس منظر رکھتے ہیں ۔اسی طرح اردو میں اکثر مغربی اصطلاحات کا ترجمہ الفاظ کا ترجمہ ہے نہ کہ مکمل اصطلاحی معنی اس میں سمٹ آئے ہیں۔ HUMAN RIGHTS کا ترجمہ انسانی حقوق کیا جاتا ہے جو محض لفظی ترجمہ ہے ۔ اس کے معانی کے بیان کے لیے وہ مکمل مخصوص فکری،علمی ، ثقافتی اور تاریخی پس منظر سے واقفیت ضروری ہے جہاں سے اس اصطلاح نے نشو و نما پائی ہے۔
۴۔ کوئی اصطلاح اگر کسی دوسری فکر،فن،عمل یا چیز کے لیے اس کثرت سے استعمال کی جائے کہ وہ اپنے مخصوص فکری،علمی یا مذہبی پس منظر سے بالکل لاتعلق (Detach ) ہو جائے تو نئے معانی اس کے اصل معانی قرار پائیں گے اور گزشتہ معانی کی حیثیت لغوی یا تاریخی رہ جائے گی۔اب اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ نماز تو دراصل مجوسیوں کی عبادت کا نام ہے (۹) لہٰذا مسلمانوں کی تکبیر تحریمہ ،قیام ،رکوع و سجودپر مشتمل عبادت کو نماز کہنا درست نہیں تو یہ دعویٰ باطل ہو گا کیونکہ بر صغیر پاک و ہند کے مسلمان معاشرے میں یہ لفظ انہی معنوں میں معروف اور مستعمل ہونے کے بعد متعین ہو چکا ہے کہ اس کے کوئی اور معنی کسی کے ذہن میں نہیں آتے ۔ کسی اصطلاح کے اپنے مخصوص فکری،علمی یا مذہبی
پس منظر سے لاتعلق ہوجانے کی علامت یہ ہے کہ اس اصطلاح کے استعمال سے اس کے سابقہ معانی کا گمان بھی نہ ہو۔
حوالہ جات و حواشی
۱۔خاں صاحب مولوی سید احمد دہلوی، فرہنگ آصفیہ ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، وزارت ترقی انسانی وسائل، حکومت ہند، ویسٹ بلاک۔I ،آر۔کے۔پورم۔ نئی دہلی،طبع چہارم،ج1،ص184 ،1998 ء
۲۔جرجانی، علی بن محمد بن علی،کتاب التعریفات،دارالکتاب العربی بیروت،ص30 ،2002 ء
۳۔
Http://en.wikipedia.org/wiki/terminology
۴۔ Management Sciences نے مارکیٹنگ کے نام سے جس علم کی بنیاد رکھی ہے وہ انسانی سطحی جذبات و خواہشات کی اصطلاحاتی تشکیل اور تصور حلال و حرام کے بغیر اشیاء و سہولیات کو فروخت کرنے کے لیے تزویراتی جال ہے ۔ مسابقت کا بے لگام جذبہCompetition کا اصطلاحاتی نام پاتا ہے ۔ انسانی ذہن پر مسحور کن تصویری ماحول کے ذریعے اپنی گرفت کرنے کا نام Advertising ہے ۔
۵۔ جیسا کہ فلسفہ کی اصطلاحات۔بعض فلاسفہ کی اختراع کردہ اصطلاحات ہمیشہ سے اہلِ علم میں معرکہ آرائی کا باعث ہیں۔
۶۔ محمد علی بن علی الفاروقی التھانوی، کشاف اصطلاحات الفنون،سہیل اکیڈمی ،اردو بازارلاہور،طبع اول،ص:۱، جز اول، ۱۹۹۳ء
۷۔ محمد اسلم سہیل ،اردو مقدمہ کشاف اصطلاحات الفنون، سہیل اکیڈمی اردو بازارلاہور،طبع اول،ص:ا، جزاول ، ۱۹۹۳ء
۸۔
Plato, The Republic, revised/trans. by Desmond Lee, Harmondsworth, UK: Penguin Books, 1974, 2nd edition.
Mill, J. S., 1861, Considerations on Representative Government,
Buffalo, NY: Prometheus Books, 1991.
Rousseau, J.-J., 1762, The Social Contract, trans. Charles Frankel,
New York: Hafner Publishing Co., 1947.
۹۔ عمادالحسن فاروقی، دنیا کے بڑے مذاہب ،مکتبہ تعمیر انسانیت ، اردو بازار لاہور،ص۱۸۷ ،۱۸۹، س ن
پاکستانی عدلیہ: ماضی کا کردار اور آئندہ توقعات
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
پاکستان کی دستوری تاریخ میں، مولوی تمیزالدین کیس پہلا اہم کیس ہے۔ اس کیس کے پس منظر میں اختیار کی وہی لڑائی موجود ہے جو آج تک جاری ہے۔ دستور اور مقننہ توڑنے کے شوق کا اظہار ۲۴؍اکتوبر ۱۹۵۴ کو ہوا اور پھر ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء، ۲۵؍ مارچ ۱۹۶۹ء، ۵؍جولائی ۱۹۷۷ء اور ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کی تاریخوں کو بھی سپہ سالاران فوج نے اسی ہوسِ غصب کا مظاہرہ کیا۔ البتہ ۹؍مارچ ۲۰۰۷ء اور ۳؍نومبر ۲۰۰۸ء کے مشرفی اقدام کا نشانہ ، مقننہ کے بجائے بالترتیب چیف جسٹس اور پھر سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس تھے۔ پہلے اقدامات میں مقننہ اور حکومت نشانہ بنتی تھی، مگر اس بار مقننہ نے بطور یرغمالی کے، اعلیٰ عدلیہ کے خلاف سپہ سالار کا ساتھ دیا۔ پہلے اقدامات میں، ہٹائے جانے والے حکمرانوں نے پر سکوت تعاون اختیار کی، لیکن عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے اس بار غیر دستوری اقدام کے خلاف فیصلہ کن مزاحمت کا اعلان کیا۔ وکلا برادری اور سول سوسائٹی، غرض پوری قوم، اپنی تاریخ کے ہر اہم موقعے کی طرح، گلی گلی اور روش روش صف آرا ہو گئی۔ حالات نے اپنا رخ اور سمت تبدیل کر لی ہے، مگر جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، بلکہ جنگ جاری ہے۔ آج کا ’’جمہوری‘‘ صدر بھی، ماضی کے حکمرانوں کی طرح پارلیمنٹ کو یرغمال بنائے ہوئے ہے اور غریبوں کے نام پر غریبوں کا جینا حرام کر رہا ہے۔ حکمرانوں کی آمرانہ روش ایک سی ہے۔ پس منظر میں سپہ سالار فوج کا کردار کار فرما ہے۔ یہ سلسلہ روز و شب ۱۹۵۴ء سے شروع ہوا اور تواتر کے ساتھ چل رہا ہے۔
اگر دستور کو تعمیر یا عمارت تصور کر لیا جائے تو اس کی پہلی اینٹ تو یقیناًقاعد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ نے رکھی۔ انہوں نے اسے سیدھا ہی رکھا۔ اینٹ کا سیدھا ہونا مضبوط تعمیر کے لیے کتنا ضروری ہے، کہنے کی بات نہیں۔ ہر کوئی جانتا اور مانتا ہے۔ اس کے باوجودقائد کی رحلت کے بعدحضرت قائد کے جانشینوں نے اسے ٹیڑھا نصب کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بگاڑ کی ابتدا میں اینٹ کو سیدھا رکھنے کی تمام تر کوشش مولوی تمیز الدین کے کھاتے میں جا ئے گی۔ یہ کوشش کسی طرح بھی کمزور نہیں تھی، مگر یہ حقیقت ہے کہ کوشش کرنے والا شخص بے حد کمزور تھا۔ لہٰذا ہر کمزور شخص کی کوشش کی طرح یہ کوشش بھی ناکام ہو گئی۔ ٹیڑھی اینٹ رکھنے والے طاقتور اور مکار تھے، لہٰذا وہ کامیاب ہوئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ اینٹ ایسی ٹیڑھی ہوئی کہ آج تک سیدھی نہ ہو سکی۔
منیر ایسے ججوں کا پورا سلسلہ ، انوارالحق، ارشاد حسن خان، عبدالحمیدڈوگر جیسے ناموں کے تحت، کل تک غصب و عبث میں غرق رہا۔ کمزور اور طاقتور کے مابین کشمکش میں غلبہ طاقت ور کو ہی نصیب ہوتا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخ نے سربلندی کا اعزاز کمزوروں کو ہی عطا کیا ہے۔ مولوی تمیزالدین خان کو، پاکستان کی دستوری تاریخ کا معمارِ اول کہا جاسکتا ہے۔ ان کے مقابل، مسمار اول، ملک غلام محمد گورنرجنرل تھے۔ ان کے سر پر ماما جی کی طرز پر عدالت بیٹھی تھی۔ یاد رہے کہ اس عدالت کو فیڈرل کورٹ کہتے تھے اور اس کے چیف جسٹس محمد منیر تھے۔ مسمار اول کو چیف کی صورت میں عدالتی ’’مزدور‘‘ مل گیا۔ ان کے فیصلے غالب آئے اور آج تک اپنے غالب اثرات کے ساتھ دستور کے اندر بطور ٹائم بم موجود ہیں۔ مگر ان فیصلوں کے ساختہ پرداختہ کتنے رو سیاہ ہوئے ہیں، یہاں ان کے ذکر کا موقع نہیں۔
قیام پاکستان کے بعد ابتدائی دور تھا۔ اس دور میں بھی مولوی تمیزالدین کو اکیلا نہ سمجھا جائے۔ وہ خوف و ہراس کی فضا کو توڑ کر سندھ چیف کورٹ پہنچے تو پوری سندھ چیف کورٹ کے درِ انصاف سے داد رسی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ سندھ چیف کورٹ کے فل بنچ نے ان کے حق میں فیصلہ دیا اور ملک غلام محمد کے دستوریہ توڑنے کے فیصلے کو حرفِ غلط قرار دیا۔ عدالت کے چیف جسٹس کونسٹین ٹائن تھے۔ ساتھی ججوں میں جسٹس ویلانی، جسٹس محمد باچل اور جسٹس محمد بخش میمن شامل تھے۔ تمام ججوں کا فیصلہ متفقہ تھا۔ وفاق کی جانب سے،فیصلے کے خلاف، فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر ہوئی۔ ملک غلام محمد کے ’’ماموں‘‘ محمد منیرچیف جسٹس تھے۔ انہوں نے فیصلے کو تلپٹ کر دیا۔ اپیل کنندگان کے طور پر روسیاہ ہونے والوں میں، بعد ازاں آئین، قانون، انصاف اور جمہوریت کے بننے والے چیمپئن بھی شامل تھے۔ ان میں سے چودھری محمد علی کا نام لکھتے ہوئے مجھے اذیت محسوس ہوتی ہے۔ ان کو خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی صف میں بیٹھے دیکھنا کتنا بڑا مذاق ہے۔ آخر کار سروس کی بھائی بندی بھی کوئی چیز ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس کیس میں سندھ چیف کورٹ میں مولوی صاحب کی جانب سے ایک جونیر کونسل کے طور پر سید شریف الدین پیرزادہ بھی پیش ہوئے۔ ریکارڈ میں اس وقت وہ سید بھی نہیں تھے اور پیرزادہ بھی نہیں۔ کیوں کہ سید شریف الدین پیرزادہ کے طور پر وہ اب تک زندہ ہیں مگر شریف الدین کے طور پر صرف اورصرف سندھ چیف کورٹ کے ریکارڈ پر ہیں۔ (تصدیق کے لیے ملاحظہ ہو پی ایل ڈی ۱۹۵۵ سندھ بر صفحہ نمبر ۱۰۱)۔ اسی صفحے پر مولوی صاحب کے ایک اور وکیل صاحب کا نام ہے، وہ ہیں وحید الدین احمد، جن کے فرزند سعادت مآب جناب جسٹس وجیہ الدین احمد ہیں کہ ہماری دستوری تاریخ کے سب سے بڑے غاصب، جنرل پرویز مشرف کے مقابلے پر وکلا کے صدارتی امیدوار ہونے کا اعزازپا گئے ۔
’’جسٹس ماما محمد منیر‘‘نے گورنرجنرل کو اشیر باد دے دی۔ دوسرے لفظوں میں اینٹ کے ٹیڑھ کو سیدھا قرار دے دیا۔ باقی چار مسلمان ججوں نے اس ٹیڑھ میں حصہ داری کا پورا ثواب کمایا۔ البتہ ایک غیر مسلم جج، جناب اے آر کارنیلیس نے پاکستان کی دستوری عمارت کی بنیاد میں پہلی اینٹ کو، ٹیڑھا نصب کرنے پر، چیف جسٹس کے ہاتھوں پر تیشی اور کانڈی کے ساتھ زور دار ضربیں لگائیں۔ باقی مسلمان ججوں نے ’’ماما‘‘ جج کے فیصلے سے اتفاق کیا، مگر غیر مسلم جج نے اختلافی فیصلہ لکھنے کی جسارت کی۔ جسارت ہی نہیں بلکہ حقیقتاً اس خشت اول کو سیدھا کرنے کے لیے ایسی بنیاد فراہم کر دی کہ جب بھی اینٹ سیدھی کی جائے گی تو یہی بنیاد بروئے کار آئے گی۔ جسٹس اے آر کار نیلیس کا اختلافی فیصلہ آج بھی روشن ہے۔
دستوریہ توڑنے کے اقدام کو کالعدم کروانے کے لیے مولوی صاحب نے سندھ چیف کورٹ میں رٹ درخواست دائر کی۔ دستوریہ نے سو روز قبل مورخہ ۱۶؍ جولائی ۱۹۵۴ کو، ہائیکورٹس کو writ رٹ کا اختیار فراہم کیا تھا۔ اس کے لیے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ میں دفعہ ۲۲۳۔الف ایزاد کی گئی تھی۔ اس وقت تک یہ دستوری روایت بڑی مستحکم ہو چکی تھی کہ دستوریہ جو قانون بھی بناتی، دستوریہ کے صدر اس پر تصدیقی دستخط کرتے اور اپنے اختیار کے تحت سرکاری گزٹ میں شائع کر ادیتے۔ اس طرح اسے جائز قانون کا درجہ مل جاتا۔ یہ دستوریہ کے قواعد کار کے قاعدہ نمبر ۶۲ کے تحت تھا۔ قاعدہ کا متن درج ذیل ہے:
’’بلوں کی تصدیق: جب دستوریہ ایک بل پاس کرتی ہے تو اس کی ایک نقل پر صدر دستخط کریں گے اور پھر صدر کے اختیار سے گزٹ میں اشاعت کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔ ‘‘
یہ امر اہم ہے کہ دستوریہ کا وہ اجلاس جس نے رول ۶۲ پاس کیا، اس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی۔ قائد اعظم کی رہنمائی میں پاس ہونے والے رول کو قانون نہ ماننے والے کس منہ سے بات کرتے ہیں۔ مگر یہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ قائد کے لیگی جانشینوں (بقول قائد کھوٹے سکوں) نے قائد، ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح علیہا الرحمہ کے ساتھ کیا کیا؟ محترمہ کی موت کو غیر طبعی قرار دینے والے، سید شریف الدین پیرزادہ، ہر فرعونِ وقت کے نفس ناطقہ اور دماغ بن کر رہے، اس کے باجود، انہوں نے آج تک اس امر کی رپورٹ ابتدائی تک درج کرانے کی کوشش نہیں کی۔ ان کے ساتھ ہی نہیں، ان کے دیے ہوئے وطن کو کس انجام سے دوچار کیا۔ ایسے لوگوں نے رول، قانون، دستوراور اصول کو نہ مانا تو تبصرہ کرنے کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے۔
بہر صورت سندھ چیف کورٹ کے فیصلے پر، سب سے بڑا بنیادی عذر یہ لیا گیا کہ ہائیکورٹ کو رٹ کا اختیار دینے والا قانون جائز نہیں کیونکہ اس کی منظوری گورنرجنرل نے نہیں دی۔ سندھ چیف کورٹ نے اس بنیادی عذر کو تفصیلی غور و خوض کے بعد مسترد کر دیا۔ فیڈرل کورٹ نے چیف جسٹس کی قیادت میں باقی ججوں کے ساتھ اس عذر کو قبول کیا اور اسی ایک فنی نکتے پر فیصلہ کرتے ہوئے وفاق کی اپیل منظور، سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کو منسوخ اور مولوی صاحب کی رٹ درخواست خارج کردی۔ اس طرح فیڈرل کورٹ نے متنازعہ اعلان کے دیگر فنی اور واقعاتی میرٹس کو ایک طرف رکھ دیا اور فنی سہارے پر گورنر جنرل کو قائم و دائم کر دیا۔ بنیادی سوال آج بھی جواب طلب ہے کہ اگر سندھ چیف کورٹ کو ۲۲۳۔الف کے تحت اختیار سماعت نہیں تھا اور اس کی وجہ یہ قرار دی گئی کہ عدالت کو یہ اختیار دینے والی ترمیم کی منظوری گورنر جنرل نے نہیں دی تھی تو فیڈرل کورٹ کا قیام جس قانون کے تحت ہوا، وہ بھی تو گورنرجنرل کی منظوری کے بغیر تھا۔ پاکستان کی فیڈرل کورٹ کے قیام سے پہلے لندن میں پریوی کونسل، عدالت عظمیٰ کے طرز پر کام کرتی تھی۔ پریوی کونسل کی جگہ فیڈرل کورٹ قائم کی گئی۔ اس کے قیام کے لیے جو قانون، دستوریہ نے پاس کیا اس کا نام:
The privy Council (Abolition of Jurisdiction) Act 1950
تھا۔ اس قانون کی بھی گورنرجنرل نے منظوری نہیں دی تھی۔ اسی طرح دستوریہ توڑنے کے چار دن پہلے تک وفاق، حکومت، مقننہ کا متواتر طرز عمل اور موقف، اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے، یہاں تک کہ برطانوی حکومت اور پارلیمنٹ کا رویہ بھی یہی تھا کہ دستوریہ کامل مقتدر ہے۔ اس کا دستوری قانون، گورنرجنرل کی منظوری کے بغیر ہی جائز اور موثر قانون ہے۔ اس کے علاوہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قیام پاکستان، ۱۹۴۷ سے لے کر دستوریہ تحلیل کرنے کے حکم ۲۴۔اکتوبر ۱۹۵۴ تک، دستوریہ ۴۶ قوانین پاس کر چکی تھی۔ ان میں سے کسی ایک کی بھی منظوری کا کوئی سوال نہیں اٹھا۔ ان سب قوانین کو گورنر جنرل کی منظوری کے بغیر ہی جائز قانون کا مقام حاصل رہا۔ ان کو گورنر جنرل سمیت سب نے جائز قانون مانا۔ مگر ستم ظریفی کی انتہا ’’ماما جی‘‘ کا فیصلہ ہے۔ فیصلے کی منطق کی رو سے تو فیڈرل کورٹ، ہائیکورٹ (سندھ چیف کورٹ) کی طرح اختیار سماعت نہیں رکھتی تھی۔ اس طرح فیڈرل کورٹ کو خود کو تحلیل کر کے پریوی کونسل سے رجوع کی ہدایت کے ساتھ کیس نبٹا دینا چاہیے تھا۔ جناب اے آر کار نیلیس نے ماما جی کے فیصلے کی جس طرح ٹھوس فنی حوالوں، دلائل اور پھر پوری دلیری کے ساتھ دھجیاں بکھیری ہیں، ان کو صدیوں تک بھی جمع کیا جائے تو جمع نہیں ہو سکتیں۔ منیر کے فیصلے میں الجھاؤ، تضادات، مکذبات اور محرفات اتنے کہ پڑھنے والے کو پڑھنے سے پیشتر، اپنے ذہن کی سلامتی کا بیمہ کرانا ہو گا۔ میں کہ ایک ادنیٰ سیاسی کارکن ہوں، میں نے اس طور ، اپنی سی سطح پر، آئین، قانون اور انصاف کے لیے عمر بھر کام کیا ہے۔ اگر میرے کھاتے میں کوئی نیکی ہو تو اسے جناب اے آر کارنیلیس کے ایصالِ ثواب کے لیے نثار کرنے کوتیار ہوں۔ اسی لیے میں نے، اپنی تازہ تالیف ’’انصاف کرو گے؟‘‘ کو جناب اے آر کار نیلیس کے نام منسوب کیا ہے۔
تاریخ جب معماران قوم اور مسماران قوم کی فہرست مرتب کرے گی تو مولوی تمیزالدین کے ساتھ کارنیلیس کانام آئے گا۔ ان کے ساتھ اس فہرست میں سندھ چیف کورٹ کے تمام ججوں (چیف جسٹس کونسٹین ٹائن، جسٹس ویلانی، جسٹس محمد باچل، جسٹس محمد بخش میمن) کے نام بھی ستاروں کی طرح چمکتے رہیں گے۔ چاند اور ستاروں کی یہ کہکشاں ہماری تاریخ کا اثاثہ ہے۔ اس میں بھی جسٹس محمدبخش میمن کا مفصل، مدلل اور ٹھوس فیصلہ، درجے میں تو ہائیکورٹ کا فیصلہ ہے، اس وجہ سے اس کو جناب اے آر کار نیلیس کے فیصلے کے ساتھ میزان میں نہیں رکھا جاسکتا کہ اس میں حفظ مراتب حائل ہو گا، لیکن سند ھ چیف کورٹ کے ججوں کے فیصلوں میں ایک بات بطور خاص برتر ہے کہ ان میں اختیار سماعت کے نکتے کے علاوہ باقی متعلقہ واقعات اور حقائق کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے، جب کہ فیڈرل کورٹ میں صرف اختیار سماعت سے متعلقہ امور پر فیصلہ فرمایا گیا۔ اسی طرح چیف کورٹ کے ججوں نے حالات کو وسیع اور حقیقی تناظر میں طے کیا ہے، جب کہ فیڈرل کورٹ کے ججوں نے صرف ایک نکتے کو پھیلا کر اسی پر کیس کو نبٹا دیا۔ پھر یہ کہ کہ سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ چیف جسٹس کی قیادت میں متفقہ تھا۔ ملک میں عمومی فضا بھی اس کے حق میں تھی۔ اگر اس وقت وکلا کو اعتزاز احسن، منیر اے ملک، علی کرد، طارق محمود، حامد خان، فخرالدین جی ابراہیم، ایم انور (مرحوم) جیسے لوگوں کی قیادت نصیب ہوتی تو شاید ہماری تاریخ کی سمت گم نہ ہوتی۔
یہاں واضح کر دوں کہ ہماری برادری کے قائدین کا جو کچھ بھی کردار سامنے آیا، اس کا بھی حقیقی کریڈٹ یقیناًچیف جسٹس افتخار کو ہی جائے گا۔ وجہ یہ ہے کہ جس طرح وہ ایوان صدر سے رخصت کر کے گھر میں بند کر دیے گئے، لفٹر کے ذریعے ان کی سرکاری رہائش سے گاڑیاں اٹھا لی گئیں، فون منقطع کر دیے گئے، قائم قام چیف جسٹس کو جنگی بنیادوں پر حلف دیا گیا، سی۔۱۳۰ کے براقی ذریعے سے ابلیس کی مجلس شوریٰ کی طرز پر سپریم جوڈیشل کونسل جمع کی گئی، چار دن بعد چیف، اس کونسل کے سامنے پیش ہونے کے لیے اپنے گھر سے باہر آئے تو پولیس نے ان سے ہاتھا پائی کی، ان کا کوٹ پھاڑ ڈالا، مگر یہ کوہ گراں اللہ پر بھروسہ کر کے بر سر پیکار ہو گئے۔ جبری قید کے ان چار دنوں میں باہر کا منظر بدل چکا تھا۔ پیشی والے دن شاہراہ دستور پر وکلا فوج در فوج، رواں دواں تھے، ہر طرف ایک نعرہ تھا: ’’چیف تیرے جاں نثار،بے شمار بے شمار‘‘۔
یہ منظر مولوی تمیزالدین خان سے مشابہہ بھی ہے اور متفرق بھی۔ دستوریہ کے صدر کے طور پر جانشینِ قائد، مقننہ کے سپیکر، سرکاری رہائش گاہ پر مقید، رہائش خالی کرنے کا نوٹس دیا جا چکا تھا۔ سرکاری رہائش پر حکومت کی جانب سے متعینہ ملازم ان کی جاسوسی پر مامور کر دیا گیا۔ مسلم لیگی قیادت کم و بیش روپوش ہو گئی۔ وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نئے بھی ہوگئے۔ مولوی صاحب کی جیب بھی خالی تھی۔ وہ مایوسی اور حزن کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ اس کے باوجود دل میں طوفان لیے ہوئے تھے۔ ایسے میں جماعت اسلامی کے قیم جناب میاں طفیل محمد مرحوم، سید مودودی علیہ الرحمہ کی ہدایت پر، رات گئے ان سے ملنے آتے ہیں۔ اس ملاقات کے لیے جانے سے پہلے، میاں صاحب رشید پارک اچھرہ کے ٹھیکیدار عبدالرشید سے پانچ ہزار روپے کا عطیہ لے کر گئے۔ میاں صاحب نے یہ رقم ان کی جیب میں ڈال دی تاکہ خالی جیب کا معاملہ تو دور ہو اور ان کے دل میں موجزن طوفان کی حدوں کو توڑ کر باہر نکلنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جاسکے۔ اس کے بعد ان سے عدالتی چارہ جوئی کی درخواست کی تو انہوں نے مسلم لیگی رہنماؤں سے مشورہ کی مہلت لی۔ میاں صاحب ان کے متوقع مشیروں کو، اپنے تئیں، سیدھا کرنے کی ضرورت کے تحت ملتے ہیں۔ آخر کار مولوی صاحب ایک موجِ بلا خیز کی صورت میں باہر آتے ہیں۔ ۷۔نومبر کا دن، ۱۹۵۴ کا سال، انصاف کی راہ کا پہلا قدم اٹھنا شروع ہوا۔ مولوی صاحب رٹ دائر کرنے نکلتے ہیں تو برقعہ پوشی کی احتیاط کے ساتھ رکشا پر سوار، ہو کر سندھ چیف کورٹ جاتے ہیں۔ اس منظر اور ۱۳ مارچ ۲۰۰۷ کے منظر میں گہری مشابہت کے باوجود، فرق بھی بہت ہے۔
اس وقت وکلا برادری کے قائدین اے کے بروہی، شیخ منظور قادر جیسے لوگ مستقبل کے شریف الدین پیرزادہ اور ملک محمد قیوم کے ’’ارادت مند‘‘ معلوم ہوتے ہیں۔ اس سے فرق یہ ہو اکہ مولوی تمیز الدین کے ساتھ سول سوسائٹی اور وکلا برادری میدان میں نہ آئی، وگرنہ دستوریہ بھی بحال ہوتی اور مولوی تمیزالدین خان بھی چیف جسٹس افتخار کی طرح اپنے منصب پر واپس آتے۔ لیکن صورت حال یہ تھی کہ قائد اعظم علیہ الرحمہ سے قوم محروم ہو چکی تھی۔ لیاقت علی خان اپنے گرد سازشیوں کو جمع کرنے کے بعد، ان کی سازشوں کا نشانہ بن گئے۔ مسلم لیگی قیادت، نئی شیروانیوں کے ساتھ پی سی او کا حلف لینے پر تیار قطاروں میں کھڑی ہو گئی۔ملک بھر میں سکون کی لہریں بہہ رہی تھیں۔ قبرستان کی سی خاموشی طاری تھی۔ ایسے میں فیڈرل کورٹ کے لیے سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کرنا کچھ مشکل نہ تھا ۔ طالع آزماؤں اور غاصبوں کی موج ہو گئی۔ ان کے خریدے ہوئے بے ضمیر ججوں کو وہی کچھ کرنا تھا جو بے ضمیری کا تقاضا تھا۔ مگر ایک روشن ضمیر، روشن دماغ اور روشن کردار جسٹس اے آر کار نیلیس اپنے ضمیر پر قائم ہوا۔ آج کے نوجوانوں کو ایسے روشن مینار سے روشناس کرانا میرے لیے سعادت ہے۔
بہر صورت جناب اے آر کارنیلیس کافیصلہ چیف جسٹس سے اختلاف کرتے ہوئے صادر ہوا۔ اختلاف کی جرات اور جسارت، تاریخ میں اتنا بلند مقام پیدا کر لیتی ہے کہ اس پر کوئی حسد بھی نہ کر سکے۔
تمیزالدین کیس میں حکومتی وکلا نے دلائل میں یہ کہا کہ:
’’انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ کے تحت، پاکستان برطانیہ کی ایک ڈومینین dominionہے۔ جب تک قانون سازی کے ذریعے اس حیثیت کو تبدیل نہ کیا جائے، ہر ڈومینین، جہاں مقننہ موجود ہے، تاج برطانیہ کو کامن لا کے تحت مقننہ کی تحلیل کا اختیار ہے۔ البتہ اگر تحلیل کا یہ اختیار ختم کر دیا جائے تو دوسری صورت ہو گی۔ مقننہ کی تحلیل تاج کی پری راگیٹو ہے۔ یہ پری راگیٹو prerogative گورنر جنرل کو انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ کی دفعہ ۵ کے تحت حاصل ہے۔ اس طرح دستوریہ کی تحلیل مکمل طور پر جائز ہے۔‘‘
اگر میں یہ پوچھوں کہ اس طرح کا استدلال پیش اور قبول کرنا، مملکت خدا داد پاکستان کی آزادی کی نفی نہیں؟ کیا اس سے مملکت کے وجود کو چیلنج نہیں کیا گیا؟ کیا اس سے مملکت اور اس کے نظام سے بغاوت کی بو نہیں آتی؟ اگر میں مطالبہ کروں کہ ایسے استدلا ل کو پیش اور قبول کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دو، تو کیا میرا یہ مطالبہ غلط ہو گا۔ میرا مطالبہ مانا جائے یا نہ مانا جائے، مجھے بتایا جائے کہ میں اس مطالبے سے پیچھے کیسے ہٹ جاؤں؟ ساٹھ سال کی جد و جہد میں میری جدو جہد کے پینتالیس سال بھی تو شامل ہیں۔ میں اپنی جد و جہد کے یہ ماہ و سال فروخت کر دوں؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟
سلام و افتخار اس پر کہ جو حالات کو یہاں تک لے آئے کہ آج غاصبوں کو کٹہرے کی جانب کھینچا جا رہا ہے۔ اس نے ہم کو بھی سر بلند کیا ہے۔ ہم اس کے ساتھ ہیں اور جہاں تک ماحول کا تعلق ہے تو یقیناً، ہم اس سے باغی ہیں اور باغی رہیں گے۔ میرا ایمان ہے، عافیہ صدیقی کی قید و بند کے ایک ایک لمحے کاحساب ہو گا۔ لال مسجد کو خون سے نہلانے والوں کو ایک ایک قطرے کا حساب دینا پڑے گا۔ مالاکنڈ کے جری لوگوں کو جس طرح مار مار کر دہشت گرد بنایا گیا، ہمارے سپہ سالار، پلٹن میدان ڈھاکہ کی وہ صبح بھول گئے ہیں جب جنرل ٹائیگر (جنرل امیر عبداللہ خان نیازی) نے اروڑا سنگھ کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔ میں تو آج بھی اس منظر کو عزیز جانتا ہوں۔ آج مالا کنڈ میں اپنے شہریوں کے خلاف فضائیہ، توپخانہ، غرض پوری فوجی طاقت استعمال کی جا رہی ہے۔ لگتا ہے کہ آخری چارہ کار کے طور پر امریکہ، بحیرہ عرب کو اٹھا کر مالا کنڈ ڈویژن میں لا بسائے گا تاکہ جری، خود دار اور حریت پر جان دینے والے قبائل پر بحری قوت بھی بروئے کار لائی جاسکے۔ کیا کوئی اخلاق، قانون، ملکی و غیر ملکی اپنے شہریوں کے خلاف، اس طرح کے طاقت کے استعمال کی اجازت دیتا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ لوگ دہشت گرد ہو گئے۔ ایجنسیوں کے ہاتھوں بک گئے۔ سوال یہ ہے اس خطہ امن کو اس صورتِ ظلمت تک لانے کے ذمہ دار کون ہیں؟جس طرح مشرقی پاکستان کو، پاکستان سے دھکے دے دے کر نکالا گیا تھا، وہی صورت یہاں حکمرانوں نے پیدا کی اور یہ طے ہے کہ حکمرانی بہر صورت فوج ہی کی رہی، براہ راست یا بالواسطہ۔ اس میں سپہ سالار ہی ذمہ دار نہیں ہو گا، تمام جرنیل ذمہ دار بنتے ہیں۔ یہ کوئی ڈسپلن نہیں کہ سپہ سالار صاحب جو حکم دیں، اسے ’’اندھوں، بہروں، گونگوں اور مہر زدہ لوگوں‘‘ کی طرح مان لیا جائے۔ ایسے میں
میرے وطن کے رقبے تمام
بے غیرت جرنیلوں کے نام
کی حد تک تو صورت حال قابل برداشت ہے مگر بیٹیوں کو فروخت کرنے اور اپنے شہریوں پر فوجی طاقت کے استعمال کا جرم، جنگی جرم بھی ہے اور خدا کے خلاف جنگ بھی۔ ایسے جنگجوؤں کو ہم اپنا پیٹ کاٹ کر اس لیے نہیں پال سکتے کہ وہ نہتے شہریوں کو لوہے اور بارود کی بارش سے بھسم کردیں۔ ہماری فوج کو ڈسپلنڈ فورس کہنے والے احمق جواب دیں کہ ساٹھ سال میں سپہ سالاران نے کس موقع پر ڈسپلن کا مظاہرہ کیا؟ اپنی قوم کو مارنے اور فتح کرنے کی مشق کے سوا جرنیلوں کا کردار ہی کیا ہے؟ اگر یہ ڈسپلن ہے تو پھر انڈسپلن indisciplineکیا ہوتا ہے؟ آزاد ملکوں میں اسلحہ رکھنا شہریوں کا بنیادی دستوری حق ہے۔ امریکی دستور میں دوسری ترمیم (بل آف رائٹس)کے الفاظ اس طرح ہیں:
''Amendment 2` Right to keep arms:
the right of the people to keep and bear arms shall not be infringed.
’’لوگوں کے اسلحہ رکھنے اور اٹھانے کے حق کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔‘‘
یہاں پر امن رہنے بھی نہ دیا جائے، اسلحہ رکھنے کا حق بھی تسلیم نہ کیا جائے، ایجنسیاں بندے اٹھالیں، غیر ملکیوں کے حوالے کر دیں، بیچ دیں، پھر اسلامی مملکت کی سالاری کا دعویٰ بھی رکھیں،
ایسے امام سے گزر ، ایسے سالار سے گزر
باسٹھ سال کے تمام تر حالات کے ذمہ دار فوجی جرنیل، سول انتظامیہ اور پھر سیاستدان ہیں۔ سب کو ٹھکانے لگا دینا انصاف کا تقاضا ہے۔ سوات جیسے خطہ امن کو دہشت گردی کی آماجگاہ کس نے بنایا، کیا مجھے یہ سوال کرنے کی بھی اجازت نہیں؟ میں یہ سوال کسی حاکم کا گریبان پکڑ کر نہیں کر رہا (حالانکہ مجھے اس کا پورا پورا حق ہے)۔ یہ تو ابھی خود کلامی کی صورت میں ہے۔ کیا مجھے اپنے آپ سے بھی پوچھنے کی اجازت نہیں؟ یہ سعودی عرب نہیں کہ جہاں امام کعبہ کو بھی حق سچ بات کہنے کی توفیق ہے اور نہ اجازت۔ میں سعودی شہری بھی نہیں، پاکستانی شہری ہوں۔ یہاں میں سب کچھ کہنے کے لیے آزاد ہوں، مجھے اپنی آزادی جان سے عزیز تر ہے:
تو تیر آزما، ہم جگر آزمائیں
خدا موجود ہے۔ اس کا اپنا نظام ہے۔ مکافات عمل بھی موجود ہے۔ دنیاوی اور اخروی مکافات سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ کسی کو وہم ہو تو پچھلوں کا انجام دیکھ لے۔ کوئی نہیں دیکھنا چاہتا، بلی کی طرح آنکھیں بند رکھنا چاہتا ہے تو وہ اس کا اختیار رکھتا ہے، لیکن ایسے کو جان لینا چاہیے کہ آنکھیں نہیں کھولیں گے تو آنکھیں پھاڑنے والے بھی آ سکتے ہیں۔ ذرا انتظار کر لو۔ مکافات اپنا کام کر رہی ہے، لیکن ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ کا خود حساب کریں۔ اس تباہی اور خوں آشامی کے ذمہ داروں کو پکڑ کر کٹہرے تک لایا جائے۔ میں تو ۱۹۵۴ سے احتساب کا قائل ہوں۔ نئے دور کی تخلیق کے لیے تاریخ میں حق و ناحق کا تعین لازم ہے۔ پوری تاریخ کو غسل دے کر پاک و صاف کرنا ہو گا۔ اس کے بغیر قومی تعمیر نو کا کوئی امکان نہیں ہو سکتا، لیکن اب اس جانب سفر شروع ہوا چاہتا ہے۔ یہاں میں اپنی بات کو مکمل کرنے کے لیے جناب مسعود مفتی کے تازہ انٹرویو سے چند سطور مستعار لیتا ہوں:
’’آج کی بظاہر بد امنی، در اصل زچگی کا وہ درد اور کرب ہے جس کے ذریعے ہماری قوم بالآخر ایک متحرک معاشرے (سول سوسائٹی) اور عوامی قوت کو جنم دے رہی ہے۔ وکلا کا تعلیم یافتہ گروپ یہ چاہتا ہے کہ یہ جنم قدرتی طریقے سے ہو مگر شدت پسند اسے آپریشن کے تشدد سے جنم دینا چاہتے ہیں۔ مقصد دونوں کا ایک ہی ہے کہ قوم کے اندر چھپے ہوئے جذباتی ہیجان کو اب ایک فعال بدن اور احتجاجی روح میں بدل دیا جائے جو کھلی فضاؤں میں اپنی آواز بلند کر سکے۔‘‘ (سنڈے ایکسپریس، ۳۰ اگست ۲۰۰۹ صفحہ نمبر ۷ کالم نمبر ۲)
حضرت شیخ الحدیثؒ اور حضرت صوفی صاحبؒ کی چند مجالس
سید مشتاق علی شاہ
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ سے احقر کی پہلی ملاقات چودہ پندرہ سال کی عمر میں ہوئی۔ اس کے بعد مسلسل تعلق قائم رہا۔ میں کافی عرصہ تک حضرت کے ترجمہ وتفسیر کے درس اور بخاری شریف کے سبق کا سماع کرتا رہا۔ پھر ۱۹۸۶ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے شعبہ نشر واشاعت میں ملازمت اختیار کر لی جو ۱۳ سال تک جاری رہی۔ اس دوران حضرت شیخ الحدیث اور حضرت صوفی صاحب سے استفادہ کا مسلسل موقع ملتا رہا۔ یہاں اس دوران اپنے مشاہدے میں آنے والی چند باتیں اور تاثرات تحریر کیے جا رہے ہیں۔
۱۔ جس دن میں نے ملازمت اختیار کی، اس سے اگلے دن حضرت شیخ نے مجھے بلا کر بہت سی باتیں سمجھائیں اور خاص طور پر فرمایا کہ اگر میری اولاد میں سے بھی کوئی آپ سے ادھار کتاب مانگے تو نہ دینا یا میری وجہ سے رعایت یا لحاظ کا معاملہ نہ کرنا، میں ہرگز کسی بات کا ذمہ دار نہیں ہوں۔
۲۔ حضرت شیخ الحدیثؒ علم کے سمندر اور ہر فن مولا تھے۔ احقر نے ایک مرتبہ حضرت صوفی صاحب سے عرض کیا کہ اس وقت علم حدیث کا سب سے بڑا عالم کون ہے؟ صوفی صاحب نے فرمایا کہ ایمان داری کی بات یہ ہے کہ میرے علم کے مطابق حضرت شیخ سے بڑا محدث اس وقت کوئی نہیں ہے۔ فرمایا کہ یہ بات میں اللہ کو حاظر وناظر جان کر کہہ رہا ہوں، نہ کہ ان کے ساتھ اپنی رشتہ داری کی وجہ سے۔ یہی سوال احقر نے مولانا عبد القیوم ہزاروی دامت برکاتہم سے کیا تو انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا کہ جنی دیا بچیا! میں نے بہت پہلے حضرت کو محدث اعظم مان لیا تھا۔ پھر ایک واقعہ سنایا کہ ۱۹۵۳ء کے لگ بھگ قادیانیوں کی طرف سے کچھ سوالات شائع کیے گئے جن کے جوابات ہماری جماعت مجلس تحفظ ختم نبوت نے دینے تھے۔ اس سلسلے میں مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوا اور یہ طے پایا کہ جو آدمی بھی لکھ سکتا ہے، وہ اپنے جوابات لکھ کر لائے تاکہ ان کا جائزہ لیا جا سکے۔ میں بھی اجلاس میں شریک تھا اور میں نے یہ رائے پیش کی کہ ان سوالات کے جوابات میرے استاذ حضرت شیخ الحدیثؒ ہی دے سکتے ہیں۔ پھر میں اجلاس میں طے ہونے والی بات کے مطابق خود گکھڑ حاضر ہوا اور حضرت شیخ کو اس پر آمادہ کیا۔ چونکہ قادیانیوں کی کتب زیادہ تر ختم نبوت کے دفتر میں تھیں، اس لیے جوابات لکھنے کے لیے دفتر میں قیام کرنے کی بھی ضرورت تھی۔ حضرت شیخ ایک دن اس کام کے لیے دفتر تشریف لے گئے تو میں موجود نہیں تھا اور دفتر کا ناظم حضرت کو نہیں جانتا تھا۔ اس نے حضرت سے کہا کہ کیا آپ لکھنے کے لیے کاغذ قلم وغیرہ ساتھ لائے ہیں؟ حضرت اس پر واپس تشریف لے گئے اور اپنی جیب سے کاغذ قلم وغیرہ خرید کر دوبارہ دفتر گئے اور تین دن تک جوابات کے سلسلے میں کام کرتے رہے۔
جب مقررہ تاریخ پر اجلاس ہوا تو اس میں سب نے اپنے اپنے تحریر کردہ جوابات پیش کرنے تھے اور آپس میں بحث ومباحثہ کے بعد یہ فیصلہ کیا جانا تھا کہ کس کے جوابات سب سے بہتر ہیں۔ اجلاس میں پاکستان کے بڑے بڑے علما، مفتیان کرام اور مناظر حضرات بھی موجود تھے جن میں مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ ، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ ، مولانا خیر محمد جالندھریؒ اور علامہ محمد یوسف بنوریؒ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مختلف حضرات کے جوابات پڑھ کر سنائے جاتے اور پھر ان پر تنقید کی جاتی۔ زیادہ تر حضرت شیخ الحدیثؒ ہی تنقید فرماتے تھے۔ جب مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کا مضمون پڑھ کر سنایا گیا تو اس میں زیادہ تر مواد امام سیوطیؒ کے حوالے سے نقل کیا گیا تھا۔ حضرت شیخ نے غالباً اس میں نقل کردہ روایات کی اسنادی حیثیت پر تنقید کی تو مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ ، جو حضرت شیخ کے استاذ بھی تھے، غصے میں آ گئے اور فرمایا کہ اگر سیوطیؒ جیسا محدث بھی معتبر نہیں تو اور کون ہوگا؟ بہرحال آخر میں حضرت شیخ الحدیثؒ کے لکھے ہوئے جوابات پڑھے گئے اور حضرت نے کہا کہ اس پر تنقید کریں، لیکن کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا اور اجلاس میں وہی جوابات منظور کر لیے گئے۔
یہ واقعہ سنا کر مولانا عبد القیوم ہزاروی مدظلہ نے فرمایا کہ میں نے تو اسی وقت سمجھ لیا تھاکہ حضرت استاذ سے بڑا محدث اس وقت او رکوئی نہیں ہے۔
۳۔ جب شیعہ کی تکفیر کے بارے میں ایک استفتا پورے ملک کے علما کے سامنے پیش کیا گیا تو حضرت شیخ نے اس پر تائیدی دستخط کیے جبکہ حضرت صوفی صاحب کی رائے اس کے حق میں نہیں تھی۔ حضرت شیخ نے احقر سے کہا کہ: صوفی اپنے موقف کا پکا ہے اور میری بات تسلیم نہیں کرتا۔ تم صوفی کے پاس اٹھتے بیٹھتے ہو، اسے سمجھاؤ کہ وہ اپنی رائے رکھے، لیکن ایک ہی ادارے سے متضاد قسم کی باتیں عوام کے سامنے نہیں آنی چاہییں۔ اس سے لوگ برا تاثر لیں گے کہ بڑا بھائی کچھ کہتا ہے اور چھوٹا کچھ۔
حضرت صوفی صاحب کی رائے یہ تھی کہ کسی گروہ کو مطلقاً تکفیرکا نشانہ بنانا درست نہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جو شخص مثلاً شیخین کی تکفیرکا قائل ہو، سیدہ عائشہ پر تہمت لگاتا ہو یا قرآن کومحرف مانتا ہو، وہ کافر ہے۔ ایک موقع پر مولانا عزیز الرحمن صاحب مرحوم نے حضرت صوفی صاحب سے اس پر بحث کی کہ اس وقت کوئی شیعہ ایسا نہیں جو امامت کو اپنا بنیادی عقیدہ نہ مانتا ہو تو پھر تکفیر کے لیے تخصیص کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن حضرت صوفی صاحب یہی اصرار کرتے رہے کہ بس یہ کہنا چاہیے کہ جو شخص فلاں فلاں عقیدہ رکھتا ہو، وہ کافرہے۔ اسی طرح حضرت جلسے جلوسوں میں کافر کافر کے نعرے لگانے کو بھی پسند نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جو طریقہ اس سے پہلے ہمارے بزرگوں کا چلا آرہا ہے، وہی ٹھیک ہے۔ *
۴۔ ایک مرتبہ احقر نے حضرت شیخ سے گزارش کی کہ آپ نے ’’تنقید متین‘‘ میں لکھا ہے کہ میں نور وبشر کے مسئلے پر ایک مستقل کتاب لکھوں گا، مگر ابھی تک نہیں لکھی۔ آپ نے علم غیب، حاظر ناظر اور مختار کل میں سے ہر مسئلے پر دو دو کتابیں لکھی ہیں، لیکن نور وبشر پر ایک بھی نہیں لکھی۔ حضرت نے فرمایا کہ میں کاروباری آدمی نہیں ہوں۔ میں نے جو لکھا ہے، وہ ضرورت کے تحت اور عقیدہ کی اصلاح کے لیے لکھا ہے۔ میری دیگر کتابوں میں نور وبشر کا مسئلہ تفصیل سے آ چکا ہے اور الگ کتاب لکھنے کی ضرورت نہیں۔ میں نے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو آپ کی مختلف کتابوں سے مواد جمع کر کے ایک یکجا مرتب کر دیا جائے؟ حضرت نے فوراً اجازت مرحمت فرما دی اور احقر نے مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی صاحب کے ساتھ مل کر ’’نور وبشر‘‘ کے نام سے ایک الگ کتاب مرتب کر دی۔
۵۔ جب ملک میں عورت کی حکمرانی کے جواز وعدم جواز کی بحث چلی تو مدرسہ نصرۃ العلوم کے دار الافتاء کے پاس بھی یہ سوال آیا۔ اس وقت دار الافتاء کے صدر مفتی محمد عیسیٰ صاحب مدظلہ نے اس سلسلے میں حضرت صوفی صاحب سے مشورہ کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ جب تک آپ شیخ الحدیث صاحب سے مشورہ نہ کر لیں، فتویٰ نہ لکھیں۔ اگلے دن جب حضرت شیخ اسباق سے فارغ ہو کر صوفی صاحب کے پاس چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے تو مولانا مفتی محمد عیسیٰ صاحب مدظلہ اور مولانا مفتی عبد الشکور کشمیری مدظلہ دونوں حاضر ہوئے اور جہاں تک مجھے یاد ہے، حضرت تھانویؒ کا ’’امداد الفتاویٰ‘‘ بھی ساتھ لے آئے۔ حضرت شیخ نے دیکھتے ہی فرمایا: ’’امداد الفتاویٰ کو ہاتھ بھی نہ لگانا۔ حضرت تھانویؒ نے آپ حضرات کے لیے کوئی گنجایش نہیں چھوڑی۔‘‘ پھر دونوں مفتی حضرات کو فتویٰ کے متعلق ہدایات دیں اور حکم دیا کہ جب تک لکھ کر مجھے دکھا نہ لیا جائے، فتویٰ جاری نہ کیا جائے۔
۶۔ ایک مرتبہ میں نے دریافت کیا کہ جمعیت اشاعت التوحید والسنۃ کے حضرات کہتے ہیں کہ مولانا سرفراز صاحب نے اپنی کتاب ’’راہ سنت‘‘ میں تحریف کر دی ہے، کیونکہ پہلے ایڈیشنوں میں انھوں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ
’’شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان صاحب خطیب راول پنڈی پر پشاور میں اور شیخ التفسیر حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ صاحب بخاری گجراتی پر منڈی بہاؤ الدین میں قاتلانہ حملہ ہوا۔‘‘
لیکن بعد میں یہ عبارت نکال دی گئی۔ حضرت نے فرمایا کہ اس کو تحریف نہیں کہتے۔ مصنف کو اپنی زندگی میں حق ہوتا ہے کہ وہ کتاب میں جیسے چاہے، رد وبدل اور کمی بیشی کرے اور ہمیشہ اس کی آخری بات کا اعتبار ہوتا ہے۔ فرمایا کہ میں نے ’’راہ سنت‘‘ میں عرض حال لکھتے ہوئے حضرت شیخ القرآن اور سید عنایت اللہ شاہ صاحب بخاری کے بارے میں یہ لکھا تھا، لیکن جب شاہ صاحب نے علماے دیوبند سے الگ راہ نکالی اور اس پر محاذ آرائی شروع کر دی تو بہت سے احباب نے مشورہ دیا کہ یہ عبارت حذف کر دی جائے، اس لیے میں نے اکابر علما کے مشورے سے یہ عبارت نکال دی ہے۔
۷۔ ایک مرتبہ احقر نے عرض کیا کہ بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ آپ نے ’’گلدستہ توحید‘‘ کی طبع اول میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے کفر وایمان سے متعلق جو کچھ لکھا تھا، اس سے رجوع کر لیا ہے کیونکہ اگلے ایڈیشنوں میں وہ عبارت موجود نہیں ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ ہاں، گلدستہ توحید کی طبع اول میں، میں نے یہ بات لکھی تھی، لیکن پھر مولانا محمد علی جالندھریؒ یا سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاریؒ (حضرت نے دونوں بزرگوں میں سے ایک کا نام لیا) نے فرمایا کہ یہ بات آپ کو لکھنے کی ضرورت نہیں، اسے کتاب سے نکال دیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا یہ بات غلط ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ بات غلط ہے، لیکن یہ ہمارا حکم ہے، اس لیے میں نے اکابر کا حکم سمجھتے ہوئے وہ عبارت کتاب سے نکال دی۔ (گلدستہ توحید، طبع دوم کے ص ۲۱ پر اس کی وضاحت موجود ہے۔)
۸۔ ایک دفعہ احقر نے حضرت صوفی صاحب سے سوال کیا کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ مولانا سرفراز صاحب، قاضی شمس الدین صاحب کے شاگرد ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے؟ فرمایا کہ استاذ نہیں، وہ تو ہمارے استاذ الاستاذ ہیں۔ میں یہ سمجھا کہ حضرت نے اس سوال کا برا منایا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے وضاحت چاہی تو فرمایا کہ ہمارے استاذ مفتی عبد الواحد صاحبؒ تھے اور ان کے استاذ قاضی شمس الدین صاحبؒ تھے۔ اس طرح قاضی صاحب ہمارے استاذ الاستاذ ہوئے۔ پھر میں نے پوچھا کہ مفتی صاحب نے قاضی صاحب سے کیا پڑھا تھا؟ حضرت نے فرمایا کہ یہ دونوں بزرگ علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے شاگرد ہیں۔ قاضی صاحب نے ایک کتاب شاہ صاحب سے پڑھی ہوئی تھی جو مفتی صاحب نے نہیں پڑھی تھی تو انھوں نے نسبت قائم کرنے کے لیے قاضی صاحب سے کہا کہ آپ مجھے یہ کتاب پڑھا دیں۔ اسی طرح ایک کتاب قاضی صاحب نے بھی مفتی صاحب سے پڑھی تھی اور دونوں ایک دوسرے کے استاذ بھی تھے اور شاگرد بھی۔ فرمایا کہ ہم قاضی صاحب کا ادب واحترام اپنے اساتذہ ہی کی طرح کرتے ہیں۔ وہ ہمارے بزرگ تھے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
۹۔ حضرت صوفی صاحب نے دار العلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کا یہ واقعہ سنایا کہ ہم دونوں بھائی علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے صاحبزادے مولانا ازہر شاہ قیصرؒ سے ملاقات کی غرض سے ان کی رہائش گاہ پر گئے۔ وہاں بہت ہجوم تھا اور ملاقات کے لیے لوگوں کی قطار لگی ہوئی تھی۔ ہم بھی لائن میں لگ گئی، لیکن کافی تاخیر ہو گئی۔ شیخ الحدیث صاحب کے گھٹنوں میں درد بھی تھا۔ مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے کہ صوفی! میں ایک نسخہ آزماتا ہوں، ہو سکتا ہے کامیاب ہو جائے۔ پھر انھوں نے اپنی جیب سے ایک چٹ نکال کر اس پر لکھا کہ ’’احسن الکلام‘‘ اور ’’عمدۃ الاثاث‘‘ کا مصنف آیا ہے اور آپ کے دروازے پر ملاقات کے لیے کھڑا ہے۔ اندر آنے کی اجازت مرحمت فرما دیں۔ جو صاحب دروازے پر کھڑے تھے، انھوں نے وہ چٹ جا کر ان کو دے دی۔ حضرت نے جب چٹ پڑھی تو فوراً ہمیں اندر بلا لیا اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور شیخ صاحب کو اپنی جگہ پر بٹھا دیا۔ لوگ بہت حیران ہوئے کہ یہ کون بزرگ آئے ہیں۔ شاہ صاحب نے حضرت شیخ کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا کہ اس زمانے کے امام الموحدین تشریف لائے ہیں۔ یہ احسن الکلام اور عمدۃ الاثاث کے مصنف ہیں۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ ان کا یہ کہنا تھا کہ لوگ ملنے کے لیے اس طرح لپکے کہ ہمیں جان چھڑانی مشکل ہو گئی۔
۱۰۔ حضرت شیخ نے ایک مرتبہ ذکر فرمایا کہ میں نے مشکوٰۃ شریف کی ایک کاپی سالہا سال کی محنت سے تیار کی تھی جس میں زمانہ طالب علمی میں حضرت مولانا عبد القدیر صاحبؒ سے سنے ہوئے درسی افادات بھی شامل تھے اور پھر میں نے دوران تدریس اپنے مطالعے سے اس میں بہت سے اضافے بھی کیے تھے۔ فرمایا کہ ایک دفعہ یہ کاپی مجھ سے صوفی نے لے لی اور اس سے کوئی آدمی مانگ کر یا چرا کر لے گیا۔ کچھ عرصے کے بعد میں نے کاپی کے بارے میں پوچھا تو صوفی نے آرام سے کہہ دیا کہ وہ تو گم ہو گئی ہے۔ میں نے کہا کہ تم نے تو بس زبان ہلا دی کہ گم ہو گئی ہے اورمیری سالہا سال کی محنت ضائع ہو گئی۔ اس پر صوفی کہنے لگا کہ ’’چلیں جو بھی لے کر گیا ہے، وہ پڑھے گا ہی نا! تو آپ کو ثواب ہوگا۔‘‘ فرمایا کہ میں اسی لیے اسے ’’صوفی‘‘ کہتا ہوں۔
۱۱۔ ایک دفعہ حضرت شیخ کے پاس ایک عورت آئی جس کے گھر میں جنات کے اثرات تھے۔ اس نے تعویذ مانگا تو حضرت نے کہا کہ بی بی، تعویذ لینا ہے تو لے لے، لیکن میں جنات کا عامل نہیں ہوں۔ وہ خاتون اصرار کر کے تعویذ لے گئی، لیکن اس سے جنات اور چڑ گئے اور اس کے گھر میں پاخانہ اور گندگی پھینکنا شروع کر دی۔ وہ تعویذ واپس لے آئی اور کہا کہ اس سے تو معاملہ زیادہ خراب ہو گیا ہے۔ حضرت شیخ نے فرمایا کہ میں نے تو پہلے ہی تم سے کہا تھا کہ میں جنات کا عامل نہیں ہوں۔
۱۲۔ ایک مرتبہ حضرت صوفی صاحب مدرسے کے صحن میں دھوپ سینکنے کے لیے چارپائی پر تشریف فرما تھے کہ قاضی عصمت اللہ صاحب تشریف لائے۔ میں نے حضرت کو بتایا تو باوجودیکہ حضرت سے اٹھا نہیں جا رہا تھا، اٹھ کر ان کا استقبال کرنے کی کوشش کی۔ پھر بڑے اکرام اور محبت سے انھیں بٹھایا اور خصوصی طو رپر گھر سے پر تکلف چائے منگوائی۔ قاضی صاحب بھی بڑے مودبانہ انداز میں حضرت کے پاس بیٹھے رہے۔ حضرت صوفی صاحب نے ان سے فرمایا کہ آپ کے والد مولانا قاضی نور محمد صاحبؒ ہمارے بزرگ تھے اور اہل اللہ تھے۔ آپ ان کی اولاد ہیں، آپ ہمارے لیے دعا فرمائیں کہ خاتمہ ایمان پر ہو۔ قاضی نور محمد صاحب کا ذکر کرتے ہوئے صوفی صاحب رونے لگ گئے۔ پھر قاضی صاحب کو رخصت کرنے کے لیے اٹھنے لگے تو قاضی صاحب نے ان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ دیے اور کہا کہ حضرت، آپ تشریف رکھیں، لیکن صوفی صاحب ان کو مدرسے کے گیٹ تک رخصت کر کے آئے۔
۱۳۔ حضرت صوفی صاحب فروعی اختلافی مسائل کے بارے میں تشدد کو بالکل پسند نہیں فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ ہمارے ساتھی قاری عبید الرحمن صاحب سے، جو مکہ مکرمہ میں مقیم ہیں، پوچھا کہ بھئی، وہاں تمہارے ساتھ کوئی سختی والا معاملہ تو نہیں ہوتا؟ پھر فرمایا کہ بابا، وہاں کے ماحول میں رفع یدین کر لیا کرو۔ کوئی حرج کی بات نہیں۔ حضرت صوفی صاحب نے ’’نماز مسنون‘‘ لکھی تو اس کا ایک نسخہ مولانا امین صفدر اوکاڑوی کو بھی بھیج دیا۔ مولانا اوکاڑویؒ نے بتایا کہ اسی دن میرے پاس ایک پروفیسر صاحب آئے تو میں نے کتاب مطالعے کے لیے انھیں دے دی۔ وہ کچھ دنوں کے بعد کتاب لے کر آئے اور کہا کہ آپ تو رفع یدین اور آمین بالجہر وغیرہ کے متعلق بہت سخت موقف رکھتے ہیں، جبکہ اس کتاب میں یہ لکھا ہے کہ دونوں طریقے حدیث سے ثابت ہیں اور دونوں کی گنجایش موجود ہے۔ اوکاڑوی صاحب کہتے تھے کہ یہ کتاب مدرسہ نصرۃ العلوم کی چار دیواری کے اندر رہنی چاہیے، عوام تک نہیں جانی چاہیے۔ اوکاڑوی صاحب مجھے کہتے تھے کہ صوفی صاحب ان مسائل کے بارے میں بہت نرم ہیں۔ تم حضرت کے پاس اٹھتے بیٹھتے ہو، حضرت کو ’’پکا‘‘ کرنے کی کوشش کرو۔ میں نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ تو کہا کہ غیر مقلدین کی طرف سے ہمارے خلاف جو بھی کتاب یا رسالہ لکھا جائے، وہ حضرت تک پہنچایا کرو۔
۱۴۔ ایک مرتبہ میں نے حضرت صوفی صاحب سے پوچھا کہ آپ کے بارے میں سنا ہے کہ آپ شاعری کا بڑا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ حضرت کی اپنی ایک بیاض بھی تھی جو حضرت نے اپنے دوسرے مسودات کے ساتھ حاجی محمد فیاض صاحب کے سپرد کر دی تھی۔ حضرت نے فرمایا کہ میں تو نہیں، البتہ استاد (حضرت شیخ الحدیث صاحب) اس فن کے بڑے ماہر ہیں۔ اس پر ایک واقعہ سنایا کہ جب ہم دار العلوم دیوبند میں پڑھتے تھے تو ہر سال دیوبند میں بیت بازی کا ایک مقابلہ ہوا کرتا تھا جو ہمیشہ لکھنو سے آنے والے ایک بابا جی جیت جایا کرتے تھے۔ ہمارے استاذ (مولانا اعزاز علی صاحبؒ یا مولانا مفتی ریاض الدین صاحبؒ ) نے کہا کہ یہ تو بڑی شرم کی بات ہے۔ اس پر مولانا سرفراز صفدر صاحب مقابلے کے لیے تیار ہو گئے۔ جب مقابلہ ہوا تو لکھنو والے بابا جی نے عربی، فارسی، اردو وغیرہ کے اشعار پڑھنے شروع کر دیے۔ وہ جس زبان کے اشعار پڑھتے، شیخ صاحب بھی اسی زبان میں اس کے مقابلے میں شعر پڑھتے۔ آخر حضرت شیخ نے اپنی مادری زبان ہندکو میں شعر پڑھنا شروع کر دیے جس پر وہ بابا جی لاجواب ہو گئے اور شیخ نے مقابلہ جیت لیا۔ اس پر اساتذہ کی طرف سے بھی حضرت کو بہت داد اور انعام ملا اور لکھنو والے بابا جی نے بھی ان کی شعری مہارت کو تسلیم کیا۔
۱۵۔ حضرت صوفی صاحب نے یہ واقعہ سنایا کہ دار العلوم دیوبند کے قیام کے دوران ایک مرتبہ رات کے وقت گھنٹی بجی اور اعلان ہوا کہ حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ تشریف لائے ہیں۔ سب طلبہ ان کے پاس جمع ہو گئے۔ حضرت کی شخصیت کا بڑا رعب اور دبدبہ تھا اور کوئی ان سے بات کرنے کی جرات نہیں کرتا تھا۔ ایک طالب نے حضرت سے کہا کہ کوئی نصیحت فرما دیں۔ حضرت کچھ دیر خاموش رہے، پھر ایک دم کہا: ’’موت ہے، موت ہے، موت ہے۔‘‘ اس کے بعد وضاحت کی کہ نصیحت تو قرآن کی صورت میں بہت پہلے آ چکی ہے۔ اب نئی نصیحت کیا کروں! جب قرآن سے نصیحت حاصل نہیں کرتے تو پھر تو موت کے سوا کوئی نصیحت نہیں۔
صوفی صاحب نے فرمایا کہ ایک مرتبہ پیر صبغت اللہ بختیاری سفر میں حضرت سندھی کے ساتھ تھے۔ پیر صاحب جبہ قبہ اور چوغا پہنے رکھتے تھے جبکہ حضرت سندھی چست لباس پہنتے تھے۔ انھوں نے دیوبند کے اسٹیشن سے ریل پر سوار ہونا تھا۔ جب گاڑی مختصر وقفے کے لیے رکی تو حضرت سندھی تو فوراً دوڑ کر سوار ہو گئے جبکہ پیر صاحب اپنا لباس سنبھالتے رہے اور مشکل ہی سے سوار ہو سکے۔ اس پر حضرت سندھی نے انھیں وہیں بے نقط سنانا شروع کر دیں کہ اس دور میں ایسے بھاری بھرکم لباس کے ساتھ کیسے دنیا میں کام کر سکو گے!
۱۶۔ حضرت صوفی صاحب نے فرمایا کہ ہمارے سب سے پہلے مربی اور دیوبندیت سے ہمیں روشناس کرانے والی شخصیت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی تھی۔ ہم ان کا احسان کبھی نہیں بھلا سکتے۔ حضرت نے فرمایا کہ ہم سیاسی طور پر مفتی محمود صاحبؒ کے موقف کی تائید کرتے ہیں، لیکن جو لوگ حضرت ہزاروی کی ذات پر طعن اور الزام طرازی کرتے ہیں، وہ بہت زیادتی کرتے ہیں۔ حضرت ہزاروی تو ایسے تھے کہ ایک مرتبہ ہم ان کے گھر گئے تو ان کے گھر میں کچھ بھی نہیں تھا، حتیٰ کہ صابن بھی نہیں تھا۔ ہم نے ایک پروگرام پر جانا تھا اور حضرت کے پاس ایک ہی جوڑا تھا۔ میں ان کے ساتھ دوکان پر گیا جہاں سے انھوں نے ادھار صابن خریدا۔ پھر میرے کہنے کے باوجود خود ہی اپنا پہنا ہوا لباس اتار کر اسے دھویا اور خشک ہونے کے بعد اسے ہی پہن کر جس پروگرام کے لیے جانا تھا، اس کے لیے روانہ ہو گئے۔
۱۷۔ حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگ سمجھ ہی نہیں سکے کہ وہ کتنے بڑ ے آدمی تھے اور کس درجے پر فائز تھے۔ فرمایا کہ وہ مرد قلندر تھے۔ ایک واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ میں مری میں مقیم تھا کہ مولانا عبید اللہ انور بھی وہاں آئے اور میرا پتہ چلنے پر میری قیام گاہ پر تشریف لے آئے۔ وہاں ان سے ملنے کے لیے بہت سے لوگ اور عقیدت مند آ گئے جنھوں نے مری کے لوگوں کے طریقے کے مطابق کپڑے کی پوٹلیوں میں باندھ کر کثرت سے نذرانے پیش کیے۔ اب جو بھی نذرانہ آتا، مولانا عبید اللہ انور اسے میرے سپرد کر دیتے، حتیٰ کہ میرا کمرہ نذرانوں سے بھر گیا، لیکن انھوں نے کسی چیز کو کھول کر دیکھا تک نہیں کہ اس میں کیا ہے۔ پھر جب رخصت ہونے لگے تو مجھے اس سارے سامان کا امین بنا دیا اور کہا کہ آپ اپنی صواب دید کے مطابق اسے مستحقین میں تقسیم کر دیں۔ ہم نے اسے کھول کر دیکھا تو اس میں نقد رقم، سونا چاندی اور بہت سی قیمتی چیزیں تھیں جو ہم نے تقسیم کر دیں۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ ہم نے ایسا پیر نہیں دیکھا۔
راقم نے حضرت مولانا عبید اللہ انور کی بیعت کی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد حضرت شیخ سے نئی بیعت کے لیے کہا تو حضرت نے فرمایا کہ مرنے سے بیعت نہیں ٹوٹتی اور میں بیعت ثانی کا قائل نہیں۔ آپ کے مرشد جو اوراد ووظائف آپ کو بتا گئے ہیں، ان کا معمول جاری رکھیں۔ حضرت صوفی صاحب کو علم ہوا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ مولانا انورؒ نے آپ کو کیا وظیفہ بتایا ہے؟ میں نے کہا کہ وہ فرماتے تھے کہ ہر وقت اللہ اللہ کرتے رہا کرو۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ یہ بہت بڑا وظیفہ ہے، اسے معمولی نہ سمجھنا۔
۱۸۔ میں نے صوفی صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ کسی کے خلیفہ بھی ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ بلیک میلنگ نہیں کرتا۔ میں حضرت مدنی کا مرید ہوں، لیکن خلیفہ کسی کا نہیں ہوں۔ فرمایا کہ ہم نے بیعت سے پہلے بے شمار بزرگوں اور پیروں کی زیارت کی، حتیٰ کہ تھانہ بھون میں حضرت تھانویؒ کی زیارت کے لیے بھی حاضر ہوئے لیکن کہیں دل کا اطمینان نہیں ہوا۔ آخر اللہ نے دل میں یہ خیال ڈالا کہ اپنے استاد ہی کی بیعت کر لو۔ فرمایا کہ مولانا عبیداللہ انورؒ نے ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا تھا کہ آپ کچھ عرصہ ہمارے طریقے کے مطابق اوراد ووظائف کر لیں، میں آپ کو خلافت دے دیتا ہوں، لیکن میں نے ان سے کہا کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔
۱۹۔ میں نے حضرت صوفی صاحب سے پوچھا کہ یتیمۃ البیان میں مولانا یوسف بنوریؒ نے مولانا ابو الکلام آزادؒ کو ملحد اور زندیق لکھا ہے۔ فرمایا کہ یہ زیادتی ہے۔ اسی طرح مولانا ادریس کاندھلویؒ نے عین اس وقت جب مسلم لیگ او رکانگریس کی سیاسی کشمکش چل رہی تھی، مولانا آزاد کی تفسیر پر تنقید شائع کر کے زیادتی کی۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ مولانا آزاد عظیم انسان تھے۔ میری ان سے ایک ملاقات ہوئی ہے۔ جب ہم دیوبند میں دورۂ حدیث کے طالب علم تھے تو کچھ دوست ان سے ملاقات کے لیے دہلی میں ان کے دفتر گئے۔ وہاں ملاقات کے لیے بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔ ہم نے بتایا کہ ہم دیوبند کے طالب علم ہیں تو انھوں نے سب سے پہلے ہمیں اندر بلایا۔ گفتگو میں انھوں نے ہمیں انگریز کے خلاف نصیحتیں کیں اور جب ہم نے ایک کاپی پر ان سے آٹو گراف مانگا تو اس میں بھی یہی لکھا کہ کبھی انگریز کو اپنا خیر خواہ نہ سمجھنا۔ مولانا نے ہمیں چائے بھی پلائی اور ہمیں رخصت کرنے کے لیے اٹھ کر دروازے تک ہمارے ساتھ آئے۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ شخص علم کا بہت قدردان ہے۔
۲۰۔ میں نے عرض کیا کہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اپنا شجرۂ نسب مولانا آزاد سے ملاتے ہیں کہ میں نے مولانا مودودیؒ سے استفادہ کیا ہے اور مولانا مودودیؒ نے مولانا آزادؒ سے۔ فرمایا کہ مودودی صاحبؒ کے دس صفحے ابوالکلامؒ کی دس سطروں کے برابر بھی نہیں ہیں۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ جب مولانا حسین احمد مدنی او ر مولانا آزاد اکٹھے چلتے تھے تو مولانا آزاد ہمیشہ ان سے چار پانچ قدم پیچھے رہتے تھے، کبھی ان سے آگے نہیں بڑھتے تھے۔
۲۱۔ جس زمانے میں حضرت صوفی صاحب فجرکے بعد درس قرآن دیا کرتے تھے، ان کے کمرے کی الماری مختلف تفاسیر رکھی ہوتی تھیں جن کا حضرت مطالعہ کیا کرتے تھے۔ میں اس الماری کی صفائی کیاکرتا تھا۔ ان کتابوں میں دوسری تفاسیر کے علاوہ تفسیر عثمانی بھی پڑی ہوتی تھی۔ میں نے ایک دن حضرت سے اس تفسیر کے متعلق پوچھا تو حضرت نے فرمایا کہ بابا! یہ مختصر تفسیروں میں بہترین تفسیر ہے۔ بعض جگہ بڑی بڑی تفسیروں میں وہ نکتے کی بات نہیں ملتی جو اس میں مل جاتی ہے۔ اسی طرح حضرت درس قرآن کے لیے جن کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے، ان میں مودودی صاحب کی تفہیم القرآن اور پرویز صاحب کی مفہوم القرآن وغیرہ بھی شامل تھیں۔ میں نے حضرت سے ان کتابوں کے مطالعے کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ عوام کو تو ہم منع کرتے ہیں، لیکن اہل علم کو، جو صحیح اور غلط بات کا فرق سمجھتے ہیں، ان کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ فرمایا کہ ان میں بھی بعض اوقات ایسی کام کی باتیں مل جاتی ہیں جو دوسری کتابوں میں نہیں ملتیں۔
۲۲۔ ایک مرتبہ میں نے حضرت صوفی صاحب سے عرض کیا کہ مختلف آیات کی تشریح میں ہمارا بریلوی حضرات سے جو اختلاف ہے، کیا اس کے تصفیے کے لیے ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ کسی ایک مستند تفسیر مثلاً روح المعانی یا مظہری وغیرہ کو معیار قرار دے لیا جائے اور ہر جگہ دونوں فریق اس میں درج تشریح کو قبول کریں؟ حضرت نے فرمایا کہ نہ بابا نہ، اس طرف بالکل نہیں جانا۔ ہر تفسیر میں کہیں نہ کہیں ایسی بات مل جاتی ہے جس سے بریلوی حضرات کی تائید ہوتی ہے۔
۲۳۔ ایک دفعہ میں نے حضرت صوفی صاحب سے مولانا اللہ یار خان چکڑالوی کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ دیوبندی تھے؟ حضرت نے فرمایا کہ بالکل نہیں۔ ان کو حیض (صوفیا کی اصطلاح میں کشف وغیرہ) زیادہ آنا شروع ہو گیا تھا اور ہمارے اکابر ان کے ہاں تصوف کے اس رنگ سے نالاں تھے۔
۲۴۔ روزے کی حالت میں انجکشن لگوانے سے متعلق حضرت صوفی صاحب کی رائے مفتیان کرام کی عام رائے سے مختلف تھی اور حضرت اسے روزے کے لیے ناقض سمجھتے تھے۔ حضرت نے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ایک تفصیلی مقالہ تحریر کیا جو ’’مقالات سواتی‘‘ میں شامل ہے۔ حضرت نے یہ مقالہ ملک کے تمام بڑے مفتیان کرام کو بھیجا اور ان سے ان کی رائے طلب کی، لیکن مفتی جمیل احمد صاحب تھانوی اور مفتی عبد الستار صاحب کے علاوہ کسی نے جواب نہیں دیا۔ یہ مقالہ تنقید کے لیے حضرت شیخ الحدیث صاحب کو بھی دیا گیا تھا۔ حضرت نے اسی مقالے پر اپنا مختصر تبصرہ یوں تحریر کیا کہ: ’’صوفی کی تحریر عمدہ ہے۔ احقر کا مسلک جمہور والا ہے۔‘‘ مولانا عبد القیوم ہزاروی صاحب نے فرمایا کہ صوفی صاحب کے دلائل وزنی ہیں، لیکن میں اکیلے صوفی صاحب کا فتویٰ نہیں مانتا۔ اگر دو تین اور مفتی اس کی تائید کر دیں تو پھر میرا موقف بھی یہی ہے۔ حضرت صوفی صاحب نے فرمایا کہ مفتیوں نے میری بات کو اہمیت نہیں دی۔ مفتی عبد الستار صاحب تو میری بات ہی نہیں سمجھے جبکہ مفتی جمیل احمد صاحب بات تو سمجھ گئے ہیں، لیکن انھوں نے جواب بہت مختصر لکھا ہے۔ فرمایا کہ دیکھنا، آج نہیں تو کل ان حضرات کو میرے موقف پرہی آنا پڑے گا۔
۲۵۔ حضرت صوفی صاحب کسی علمی غلطی کو قبول کرنے میں بالکل تردد ظاہر نہیں فرماتے تھے، بلکہ بات سمجھ میں آنے پر فوراً تسلیم کر لیتے تھے۔ حضرت نے ’’فیوضات حسینی‘‘ کا ترجمہ شائع کیا تو ایک جگہ اس کے متن کی ایک عبارت کا ترجمہ بلاارادہ چھوٹ گیا۔ عبارت یہ تھی کہ ’’اول ما خلق اللہ نوری‘‘ کی روایت کے بارے میں شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے لکھا ہے کہ اس کی کچھ اصل ہے۔ اس پر بریلوی عالم مولانا ابو داؤد محمد صادق نے تحریف کا الزام لگایا تو حضرت صوفی صاحب نے فرمایا کہ بخدا، ہم نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا، غلطی سے ہو گیا ہے، اس لیے اس کو فوراً ٹھیک کر دو۔ چنانچہ اس وقت جو ایڈیشن دستیاب ہے، اس میں مذکورہ عبارت کا ترجمہ شامل ہے۔
اسی طرح ’’مقالات سواتی‘‘ میں حضرت صوفی صاحب کا جو مضمون مودودی صاحب کے بارے میں شائع ہوا ہے، اس میں ایک جگہ حضرت نے ’’خلافت وملوکیت‘‘ کے حوالے سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اقربا نوازی کے الزام کا ایسے انداز میں ذکر کیا تھا جو ’’خلافت وملوکیت‘‘ میں اس طرح نہیں ملتا۔ میں نے حضرت سے عرض کیا کہ یہ بات اصل کتاب میں تو یوں نہیں ہے تو فرمایا کہ مودودی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے، ا س سے یہی اخذ ہوتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اخذ کرنے میں تو پھر بھی کمی بیشی کا امکان ہے تو فرمایا کہ اچھاتم اصل کتاب کو سامنے رکھ کر اس عبارت کو ٹھیک کر دو۔ چنانچہ حضرت کے کہنے پر ہم نے اصل کتاب کی روشنی میں عبارت درست کر کے حضرت کو دکھا دی۔
۲۶۔ حضرت صوفی صاحب فرماتے تھے کہ مودودی صاحب کا ترجمہ قرآن بڑا آسان اور عام فہم ہے، البتہ ان کی تفسیر میں گڑبڑ ہے۔ فرماتے تھے کہ اس سے بھی زیادہ آسان اور بہتر ترجمہ مولانا محمد علی کاندھلوی کا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ میری مولانا مودودی کے ایک معتقد سے بات ہوئی تو اس نے کہا کہ آپ مولانا حسین احمد مدنی کا شاگرد ہونے کی وجہ سے مولانا مودودی کی مخالفت کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ حاشا وکلا، ہرگز ایسا نہیں ہے۔ ہم مودودی صاحب کی باتوں کو واقعی قابل اعتراض سمجھتے ہیں اور اگر وہ ان باتوں سے رجوع کر لیں تو ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔
۲۷۔ ایک مرتبہ حضرت صوفی صاحب نے فرمایا کہ میرا زندگی بھر کا تجربہ یہ ہے کہ غیر مقلد حضرات اپنے مسلک یا جماعت کا فائدہ دیکھے بغیر دین یا علم کا کوئی کام نہیں کرتے، جبکہ ہمارے بزرگ خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے اور دین اور علم کی خدمت کے جذبے سے کام کرتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ ایک مرتبہ اہل حدیث عالم مولانا خالد گرجاکھی نے علامہ ابن حزم کی کتاب ’’جوامع السیرۃ‘‘ شائع کی تو میں بڑا حیران ہوا کہ اس سے ان کو کیسے دلچسپی پیدا ہوئی۔ مجھے یقین تھا کہ اس میں بھی یقیناًان کے مسلک کا کوئی نہ کوئی فائدہ ہوگا۔ میں نے یہ سمجھنے کے لیے پوری کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا تو واقعی اس میں دو تین باتیں ایسی موجود تھیں جس سے ان کے مسلک کی تائید ہوتی تھی۔ فرمایا کہ نصرۃ العلوم کے کتب خانے میں جو نسخہ موجود ہے، اس پر میرے نشانات لگے ہوں گے۔
ذیل کے واقعات راقم نے ماسٹر محمد صدیق صاحب کی زبانی سنے ہیں۔ ماسٹر محمد صدیق صاحب کی عمر اس وقت ۷۵ سال کے قریب ہے۔ وہ کافی عرصہ گکھڑ میں رہے ہیں، اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور حافظ محمد یوسف صاحب گکھڑویؒ کے شاگرد ہیں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ بھی ان کا عقیدت واحترام پر مبنی بہت قریبی تعلق رہا ہے۔ یہ واقعات انھی کی زبانی یہاں درج کیے جا رہے ہیں:
۲۸۔ ایک مرتبہ ہمارے ہاں کوئی تقریب تھی جس کے لیے ہم نے مولانا سرفراز صاحب اور ان کے اہل خانہ کو بھی مدعو کیا اور دعوت نامہ پر ’’بیگم مولانا محمد سرفراز خان صفدر‘‘ کے الفاظ لکھے۔ جب میں دعوت نامہ لے کر حاضر ہوا تو مولانا نے ’’بیگم‘‘ کا لفظ کاٹ کر ’’زوجہ‘‘ لکھ دیا اور فرمایا کہ صدیق صاحب! بیگم بڑے آدمیوں کی بیوی کو کہتے ہیں، ہم تو چھوٹے ہیں۔
۲۹۔ ایک مرتبہ میں نے مسئلہ رفع یدین کے متعلق سوال کیا تو مولانا نے فرمایا کہ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ رفع یدین کرنے اور نہ کرنے، دونوں کے حق میں احادیث موجود ہیں۔ چونکہ ہم مقلد ہیں اور ہمارے امام نہ کرنے کے قائل ہیں، اس لیے ہم رفع یدین نہیں کرتے۔
۳۰۔ ایک مرتبہ گکھڑ میں بریلوی حضرات نے علم غیب اور حاظر ناظر وغیرہ مسائل پر بہت چیلنج بازی کی اور مولانا عبد الصبور ہزاروی اور مولانا ابو النور بشیر (کوٹلی لوہاراں والے) کو مناظرے کے لیے بلایا گیا۔ مولانا سرفراز صاحب نے جواب میں ان سے فرمایا کہ مسئلہ علم غیب اور حاظر ناظر پر میں خود مناظرہ کروں گا جبکہ دوسرے چھوٹے موٹے مسائل پر حافظ محمد یوسف صاحب مناظرہ کریں گے۔ جب مولانا نے یہ اعلان کیا تو بریلوی حضرات چپ ہو گئے اور مناظرہ کی طرف نہیں آئے۔
۳۱۔ ایک دفعہ گوجرانوالہ اور لاہور سے کچھ اہل حدیث علما قراء ۃ خلف الامام کے موضوع پر مولانا سرفراز صاحب سے مناظرہ کرنے کے لیے گکھڑ پہنچ گئے، لیکن حضرت نے فرمایا کہ میری صحت ٹھیک نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ مناظرہ نہیں کر سکتے تھے یا معاذ اللہ ان کے پاس علم نہیں تھا، کیونکہ میں نے ’’احسن الکلام‘‘ پڑھی ہوئی ہے۔ استغفر اللہ، ہم ایسی بات مولانا کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتے۔ لیکن معلوم نہیں کہ واقعتا اس دن ان کی طبیعت ناساز تھی یا وہ اس موضوع پر مناظرہ کرنے کو ویسے ہی پسند نہیں کرتے تھے۔
۳۲۔ حضرت اپنی تقریر میں اکثر یہ جملہ بڑے خاص انداز میں فرمایا کرتے تھے کہ ’’سمجھ آئی؟‘‘ یہ جملہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔
۳۳۔ ایک مرتبہ میں کافی عرصے کے بعد مولانا سرفراز صفدر سے ملاقات اور تعویذ لینے کے لیے مدرسہ نصرۃ العلوم میں حاضر ہوا۔ جب حضرت گاڑی سے باہر نکلے تو میں آگے بڑھ کر ملا اور پوچھا کہ حضرت! مجھے پہچانا ہے؟ حضرت ہنس پڑے اور فرمایا کہ ’’صدیق! ایہہ وی کوئی گل اے کہ تینوں بھل جاواں؟‘‘ (صدیق، یہ بھی کوئی بات ہے کہ تمھیں بھول جاؤں؟)
۳۴۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں، میں جوان تھا اور ہم نے دن رات مولاناسرفراز صاحب کے ساتھ کام کیا۔ ہم مولانا کا جوش اور ولولہ دیکھ کر حیران ہو جاتے تھے جو ہم نوجوانوں کے جوش کو مات دیتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔
اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب (۱)
محمد زاہد صدیق مغل
مروجہ سودی بینکاری کو ’مسلمان بنانے‘ کی مہم پچھلی دو دہائیوں سے اپنے عروج پر ہے اور نہ صرف یہ کہ مجوزین اسلامی بینکاری بلکہ ان کے ناقدین کی ایک اکثریت نے بھی یہ فرض کرلیا ہے کہ اس مہم کے ذریعے نظام بینکاری کو کسی نہ کسی درجے (زیادہ یا کم کے اختلاف کے ساتھ) اسلامی بنا ہی لیا گیا ہے۔ اگر اصولاً یہ مقدمات درست مان لیے جائیں کہ (۱) اپنے مقاصد اور طریقہ کار (procedure) دونوں اعتبارات سے بینک کی اسلام کاری ممکن ہے، نیز (۲) اسلامی بینکاری درست سمت میں رواں دواں ہیں تو ان کے منطقی لازمے کے طور پر جو بحث ابھرے گی، وہ اس نظام میں ’مزید اصلاح‘ کی کوشش کرنے ہی کی ہوگی نہ کہ اس جدوجہد کو ’لاحاصل قرار دے کر ترک‘ کر دینے کی۔ چنانچہ اسلامی بینکاری کی اسلامیت کے ضمن میں مجوزین اور ناقدین کی ایک اکثریت کے درمیان اختلاف کی بنیاد یہ نہیں کہ بینکاری اصولاً اسلامی ہو ہی نہیں سکتی بلکہ یہ رہی ہے کہ ’مروجہ ‘ اسلامی بینکاری ’کتنی اسلامی‘ ہے۔ مجوزین کے نزدیک مروجہ اسلامی بینکاری میں موجود ’اسلامیت کی مقدار‘ اس نظام کو اسلامی کہنے کے لیے بہت کافی ہے جبکہ ناقدین کے خیال میں مروجہ نظام میں ابھی تک ’مطلوبہ اسلامیت‘ پیدا نہیں کی جاسکی۔ گویا ناقدین بھی اس مفروضے کو قبول کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی خرابی ہے، وہ ’مروجہ‘ اسلامی بینکاری میں ہے، لہٰذا کوئی ایسی ’غیر مروجہ‘ اسلامی بینکاری بھی ممکن ہے جو ان خرابیوں سے پاک ہوگی۔ مجوزین اور ناقدین اسلامی بینکاری کی ایک اکثریت کے درمیان یہ قدر مشترک اس لیے پائی جاتی ہے کہ دونوں گروہ درج بالا مفروضہ مقدمات کو قبول کرتے ہیں۔
اس کے برخلاف ناقدین کا دوسرا گروہ وہ ہے جس کے خیال میں بینکاری اپنے مقاصد اور عمل دونوں لحاظ سے غیر اسلامی شے ہے اور اس کی اسلامیت ناممکن ہے۔ چونکہ اس گروہ اور مجوزین کے مقدمات ہی میں بنیادی فرق ہے، لہٰذا ان دونوں کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں اور دونوں کی بحث کا حاصل ’مروجہ اسلامی بینکاری کی اصلاح‘ نہیں بلکہ اس جدوجہد کی ’بقا و عدم ‘ کا ہے، یعنی مجو زین کے نزدیک اسے جاری رہنا چاہیے جبکہ ناقدین کے خیال میں یہ جدوجہد احیائے اسلام کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہے، لہٰذا اسے لازماً ترک کرنا ہوگا۔ ناقدین اسلامی بینکاری کے دونوں گروہوں کا مجوزین سے اختلاف کرنے میں نوعیت اختلاف کا فرق درحقیقت اس بنا پر ہے کہ اسلامی بینکاری کا تنقیدی مطالعہ کرتے وقت تین سطحوں پر گفتگو کرنا ممکن ہے :
۱۔ اسلامی و سودی بینکاری کا تطبیقی جائزہ: یعنی یہ سمجھنے کی کوشش کرنا کہ آیا اسلامی بینک اور سودی بینکوں کے مقاصد میں کیسا تعلق ہے، کیا یہ دونوں کسی ایک ہی نظام زندگی (سرمایہ داری) کے مقاصد حاصل کرنے کے دو مختلف وسائل ہیں یا ان کے مقاصد میں کوئی تفریق موجود ہے۔ اس بحث میں اسلامی بینکاری کو جزوی طور پر نہیں بلکہ ایک بڑے نظامہائے زندگی کے ایک پرزے کے طور پر جانچ کر یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آیا اس طریقہ کار سے مقاصد الشریعہ کا حصول ممکن ہے بھی یا نہیں۔ گویا یہاں گفتگو کا محور ’جزو‘ نہیں بلکہ ’کل‘ ہوتا ہے۔
۲۔ اسلامی بینکاری کے امکانات کا جائزہ: یعنی یہ تجزیہ کرنا کہ آیا موجودہ نظام بینکاری کو اسلامیانے کا کوئی طریقہ ممکن بھی ہے یا نہیں۔ اس تجزیئے میں یہ بحث کی جاتی ہے کہ بینکنگ اصلاً کیا ہے؟ کیا واقعی بینک ایک زری ثالث (financial intermediary) ہوتا ہے جیسا کہ مجوزین اسلامی بینکاری کا خیال ہے؟ اگر اس کی حقیقت اس کے علاوہ کچھ اور ہے تو کیا اسے اسلامی بنانا ممکن ہے؟
۳۔ اسلامی بینکاری کے طریقہ کاروبار کا فقہی جائزہ: اس سطح پر جزواً جزواً یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسلامی بینک جو زری سروسز اور پراڈکٹس (Financial products and services) مہیا کررہے ہیں، وہ قواعد شریعہ کی شرائط پر پورا اترتی ہیں یا نہیں۔ اس تجزیئے میں اسلامی اور مروجہ بینکاری نظام کا اس اعتبار سے تطبیقی موازنہ بھی کیا جاتا ہے کہ آیا واقعی اسلامی بینک موجودہ بینکاری نظام سے علیحدہ کوئی کام کربھی رہے ہیں یا محض ’نئی بوتل میں پرانی شراب‘ والا معاملہ ہے۔ گویا یہاں بحث کا مرکزی نکتہ ’جزو‘ ہوتا ہے۔ ناقدین کی وہ اکثریت جو اپنے مقدمات میں مجوزین کے مماثل ہے، درحقیقت پہلی دونوں سطحوں سے سہو نظر (by pass) کرتے ہوئے اپنی تنقید کی بنیاد اس تیسری سطح پر رکھتی ہے۔ گویا مجوزین اور ناقدین کی اس اکثریت کے درمیان قدر مشترک تنقید کی اول دو نوں سطحوں کو نظر انداز کرنا ہے۔
اسلامی بینکاری بطور ایک ’کل‘، یعنی اس کے مقاصد کے شرعاً باطل ہونے کی بحث پر راقم الحروف نے دو الگ مضامین تحریر کیے ہیں جن کی تفصیلات وہاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ (۱) ز یر نظر مضمون کا نفس موضوع اسلامی بینکاری پر تنقید کی دوسری سطح پر بحث کرنا ہے، یعنی یہاں ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ آیااپنے عمل کے اعتبار سے بینک کی اسلام کاری ممکن ہے یا نہیں؟ ہم دیکھیں گے کہ مجوزین (اور ناقدین کی ایک اکثریت) بینکنگ کے جس تصور کو بنیاد بنا کر اس کی اسلام کاری ممکن سمجھتے ہیں (یا اس پر تنقید کرتے ہیں)، درحقیقت وہ تصور بینکنگ ہی سرے سے غلط ہے، گویا ان کی دلائل کی عمارت ہی بے بنیاد ہے۔ مجوزین کے خیال میں بینک محض ایک زری ثالث (financial intermediary) ہے جس کا کام بچتوں اور سرمایہ کاری میں تعلق پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں موجودہ بینکنگ کی ’اصل خرابی ‘ یہ ہے کہ اس تعلق کے قیام کے لیے وہ ’سود‘ کا راستہ اختیار کرتی ہے، لہٰذا اگر اس کے طریقہ کار کی اصلاح کر کے اس تعلق کو سود کے بجائے ’شرکت و مضاربت‘ وغیرہ کے اصولوں پر قائم کردیا جائے تو بینک کو کلمہ پڑھانا ممکن ہے۔ مگر ہم دیکھیں گے کہ بینکنگ کا یہ تصور درست نہیں اور نہ ہی بینکنگ کو شرکت وغیرہ کے اصولوں پر چلانا ممکن ہے۔ بینکنگ کو درست طور پر نہ سمجھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجوزین مسئلے کی اصل حقیقت تک پہنچ نہ سکے اور اس ظاہر بینی کا نقصان یہ ہوا کہ سرمایہ داری کے سب سے بڑے ادارے یعنی بینک کو اسلامی لبادہ اوڑھادیا گیا۔ چنانچہ اسلامی بینکاری پر تنقید کے درج بالا ڈھانچے کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ مجوزین اسلامی بینکاری دوہری غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں:
- ایک طرف جب وہ احیائے اسلام کے لیے ’سودی بینکنگ کا متبادل کیا ہے‘ کا سوال اٹھا کر اس کا حل پیش کرنے کا بیڑا اٹھاتے ہیں تو اپنے مقاصد کے اعتبار سے ایک غلط سوال اٹھا کر اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ (مجوزین کا سوال کیونکر غلط ہے؟ اس کا تعلق تنقید کی اول سطح سے ہے ) ۔
- اور دوسری طرف اس کا متبادل دینے کی کوشش میں بھی وہ پوری تحقیق سے کام لیے بغیر ’بینکنگ کیا ہے‘ کا ایک غلط جواب دے کر اپنی عمارت قائم کرتے ہیں۔ (گویا ظلمت بعضہا فوق بعض)۔ دوسرے لفظوں میں مجوزین کا سوال اور جواب دونوں ہی غلط ہیں۔
مجوزین کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سرمایہ داری کو فطری انسانی تقاضوں کا ارتقا سمجھتے ہیں اور اسی لیے وہ ہر سرمایہ دارانہ ادارے کی اسلام کاری ممکن سمجھتے ہیں۔ (۲) مجوزین کا عمومی طریقہ کار یہ ہے کہ وہ بینکاری نظام میں جاری لین دین کی ’مخصوص شکلوں‘ (transactions forms) کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر وہ لین دین جس ’معاشی ماحول اور حالات ‘ میں ہورہی ہیں، اس سے یکسر سہو نظر کرتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امرکی ہے کہ اس معاشی ماحول (economic environment) کا درست تجزیہ کرنے کی کوشش کی جائے جس کے اندر بینک کا وجود ممکن ہے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ آیا اس معاشی ماحول کو ختم کردینے کے بعد بھی بینکاری ممکن رہتی ہے یا نہیں، نیز کیا اس معاشی ماحول کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنا ممکن ہے یا نہیں۔
بینک کی اسلامیت کا امکان ثابت کرنے کے لیے دو شرائط کا پورا ہونا لازم ہے:
۱) یہ ثابت کرنا کہ fractional reserve banking اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والانظام زر شرعاً جائز ہے۔
۲) بینک کے سود کو شرکت و مضاربت کے اصولوں سے تبدیل کرنا ممکن ہے۔
ہم دیکھیں گے کہ اسلامی بینکار دونوں میں سے پہلی شرط سے کلیتاً سہو نظر کرتے ہوئے بحث کا سارا رخ ’سود‘ کو ’نفع‘ سے تبدیل کردینے کی طرف موڑ دیتے ہیں جبکہ اس دوسری بحث کی نوبت تب آتی ہے جب پہلی شرط پوری ہونا ممکن ہو (جو کہ ہم دیکھیں گے کہ ممکن نہیں ہے)۔ درحقیقت پہلی شرط کا تعلق اس معاشی ماحول سے ہے جس میں بینکاری ممکن ہوپاتی ہے، لہٰذا اس مضمون میں اسی پہلو سے متعلق تفصیلات واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اپنے مضمون کو ہم تین حصوں میں تقسیم کریں گے۔ پہلے حصے میں مجوزین اسلامی بینکاری کا نظریہ بینکنگ بیان کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ہم پاکستان میں اسلامی بینکاری کے سرخیل مولانا تقی عثمانی صاحب کے نظریات کو بنیاد بنائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ہم علم معاشیات کی روشنی میں مجوزین اسلامی بینکاری کے نظریہ بینکنگ کی علمی بنیادیں و فکری پس منظر واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ دوسرے حصے میں مجوزین اسلامی بینکاری کے نظریہ بینکنگ کی بنیادی خامیاں نیز بینکنگ کا مختصر تاریخی ارتقاء بیان کرکے درست نظریہ بینکنگ کی وضاحت کی جائے گی۔ اس تجزئیے کے بعد آخری حصے میں بینکاری نظام کی اسلامیت اور اس کے امکانات کا مختصر جائزہ پیش کرکے دفاع بینکاری کی چند دلیلوں کا جواب دیا جائے گا۔ وما توفیقی الا باللہ
۱) مجوزین اسلامی بینکاری کے نظریہ بینکنگ کی فکری بنیادیں
مجوزین اسلامی بینکاری اوپر بیان کردہ جس تصور بینکنگ کو بنیاد بنا کر بینک کی اسلام کاری ممکن سمجھتے ہیں، وہ درحقیقت علم معاشیات کے نیو کلاسیکل مکتبہ ہائے فکر سے ماخوذ ہے (۳) جو سرمایہ دارانہ معیشت کو ایک Barter اکانومی کے طور پر سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مکتبہ فکر کے مطابق معاشی لین دین میں زر ایک غیر فعال (neutral) سیال کے طور پر کام کرتا ہے، نیزبینک محض بچتوں اور سرمایہ کاری میں توازن پیدا کرنے کا ایک ادارہ ہے۔ گویا ان مفکرین کے خیال میں بینکنگ ’بچتیں سرمایہ کاری کو جنم دیتی ہیں‘ (savings create loan model) کے اصول پر کام کرتی ہے۔ اس نکتے کی تفصیل سے قبل ہم مولانا تقی عثمانی صاحب کی کتاب ’اسلام اور جدید معیشت و تجارت‘ سے ان کا نظریہ بینکاری واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
۱.۱: مجوزین کا نظریہ زر و بینکاری
مولانا کا نظریہ بینکنگ درج بالا تصور کی ہو بہو تصویب ہے۔ (۴) چونکہ نظریہ زر و بینکنگ باہم مربوط تصورات ہیں، لہٰذا پہلے ہم مولانا کا نظریہ زر بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ مولانا تقی عثمانی صاحب زر کی تعریف اس طرح فرماتے ہیں:
’’جو چیز آلہ مبادلہ (exchange of goods) کے طور پر استعمال ہوتی ہو اور وہ قدر کا پیمانہ (unit of account) ہو اور اس کے ذریعے مالیت کو محفوظ کیا جاتا (store of value) ہو، اسے زر کہتے ہیں۔‘‘ (ص: ۹۵)
پھر نوٹ کی فقہی حیثیت پر مختلف نظریات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس نقطہ نظر کہ ’نوٹ قرض کی رسیدیں ہیں‘ کو رد کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’صحیح نقطہ نظر یہ ہے کہ نوٹ رسید نہیں بلکہ خودمال ہیں، سونے چاندی کی طرح ثمن حقیقی نہیں بلکہ ثمن عرفی ہیں۔‘‘ (ص: ۱۰۴-۱۰۶) اس سے معلوم ہوا کہ مولانا تقی عثمانی صاحب کے نزدیک مروجہ رائج زر جسےfiat money کہتے ہیں، بنیادی طور پر قرض کی رسید نہیں بلکہ آلہ مبادلہ اور ثمن عرفی ہے۔ پھر مولانا بینکاری کی بحث اس تعریف سے شروع کرتے ہیں:
’’بینک ایک ایسے تجارتی ادارے کا نام ہے جو لوگوں کی رقمیں اپنے پاس جمع کرکے تاجروں، صنعت کاروں اور دیگر ضرورت مندافراد کو قرض فراہم کرتا ہے۔‘‘ (ص: ۱۱۵)
’’بینک عوام کی بچتوں کو یکجا جمع کرکے تاجروں اور صنعت کاروں کو سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔‘‘ (غیر سودی بینکاری: ص ۳۱)
’’بینک ..... لوگوں کی منتشر بچتوں کو یکجا کرکے انہیں صنعت و تجارت میں استعمال کرنے کا ذریعہ بنتا ہے ..... بینک کی حیثیت محض ایک ایسے ادارے کی ہے جو روپے کا لین دین کرتا ہے۔‘‘ (ص: ۱۳۳ -۱۳۴)
ان اقتباسات سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ اولاً مولانا تقی عثمانی صاحب کے نزدیک بینک کا بنیادی مقصد سرمایہ کاروں (investers) اور بچت کرنے والوں (savers) کے درمیان تعلق پیدا کرنا ہوتا ہے۔ دوئم بینک محض زر کی لین دین (exchange of money) سر انجام دینے کا ذریعہ ہے۔ پھر مولانا کھاتوں (deposits) کی مختلف اقسام (کرنٹ اکاؤنٹ، سیونگ اکاؤنٹ، فکسڈ اکاؤنٹ) کا تعارف کرانے کے بعد فرماتے ہیں کہ جب ان ڈپازٹس سے بینک کے پاس سرمایہ جمع ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ بینک بھی اپنا ابتدائی سرمایہ لگا دیتا ہے تو اس تمام سرمایے کو درج ذیل طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے :
۱۔ سرمایے کا ایک حصہ سیال شکل میں اسٹیٹ بینک کے پاس جمع کرادیا جاتا ہے ۔
۲۔ بینک کچھ سرمایہ اپنے پاس رکھتے ہیں تاکہ کھاتے داروں کے مطالبات پورے کرسکیں ۔
۳۔ اس کے بعد بینک کئی وظائف ادا کرتے ہیں، مثلاً تمویل (financing)، درآمدات و برآمدات میں ادائیگی کی سہولت فراہم کرنا، تخلیق زر ۔ (ص: ۱۱۶ )
اس تفصیل سے یہ اہم بات معلوم ہوئی کہ مجوزین کے نزدیک بینک پہلے بچتیں جمع کرتا ہے اور پھر انہیں قرض پر دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بینک ’بچتیں قرضوں کا باعث بنتی ہیں‘ کے اصول پر کام کرتا ہے۔ اس مقام پر یہ تضاد بھی نوٹ کرلینا چاہیے کہ ایک طرف تو مولانا تقی عثمانی صاحب بینک کا کام یہ بتاتے ہیں کہ ’بینک محض زر کی لین دین کرتا ہے‘ مگر ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ ’بینک کے وظائف میں تخلیق زر بھی شامل ہوتا ہے‘۔ ظاہر ہے اگر بینک محض زر کی لین دین (exchange of money) کرتا ہے تو تخلیق زر (creation of money)کسی بھی طرح اس کے وظائف میں شامل نہیں ہوسکتا، کیونکہ تخلیق زر کسی بھی طرح ’زر کی لین دین‘ میں شامل نہیں کیا جاسکتا ، اور اگر بینک تخلیق زر کا باعث بنتا ہے تو بینک کی یہ تعریف درست نہیں کہ وہ محض زر کی لین دین کرتا ہے۔ اس تضاد کو رفع کرنے کی ذمہ داری مجوزین کے ذمہ ہے۔ ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ مجوزین کے اس تضاد کی وجہ ان کا بینکاری نظام اور تخلیق زر کی اصل حقیقت کو درست طور پر نہ سمجھ پانا ہے۔ المختصر مجوزین کے نظریہ زر و بینکاری کو ہم تین نکات میں سمو سکتے ہیں:
i۔ موجودہ دور میں رائج شدہ زر ’آلہ مبادلہ ‘ (means of exchange) ہے جسے شرعاً ثمن عرفی کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے ۔
ii۔ بینک سرمایہ کاروں اور بچت کرنے والوں کے درمیان تعلق پیدا کرتا ہے، یعنی بینک محض زر کا لین دین سرانجام دیتا ہے۔ اس بات کو علم معاشیات کی اصطلاح میں یوں کہا جائے گا کہ بینک اصلاً ایک financial intermediary (ترسیل زر کے ثالث ) کا کردار ادا کرتا ہے ۔
iii۔ بینک ’بچتیں قرضوں کا باعث بنتی ہیں‘ کے اصول پر کام کرتا ہے ۔
بینکاری کا یہ روایتی تصور درج ذیل تصویر میں دکھایا گیا ہے جس کے مطابق بینک فرد الف (عموماً صارفین) سے رقم وصول کر کے فرد ب (عام طور پر سرمایہ کار) کو قرض فراہم کرتاہے۔ اس کے بدلے بینک ب سے چند فیصد سود لے کر اس سود کا ایک حصہ الف کو دے دیتا ہے اور سود کی وصولی و ادائیگی کا یہ فرق اس کی آمدنی ہوتی ہے۔ مجوزین کے اسلامی بینک کا ماڈل شکل نمبر ۲ میں دکھایا گیا ہے۔
۱.۲: مجوزین اور نیوکلاسیکل اکنامکس کے نظریات کا تعلق
اب ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ مجوزین اسلامی بینکاری کا درج بالا نظریہ بینکاری درحقیقت علم معاشیات کے (رد شدہ ) مکتبہ فکر نیوکلاسیکل اکنامکس نظریات کا ہو بہو چربہ ہے۔ نیوکلاسیکل اکنامکس پورے معاشرے کو ایک مارکیٹ کے طور پر دیکھتی ہے جہاں اپنی ذاتی اغراض کی تکمیل میں مصروف افراد اشیاء کی لین دین کے لیے دوسرے افراد کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہیں۔ نیوکلاسیکل نظرئیے کے مطابق ایک Barter (اشیاء کی براہ راست لین دین پر مبنی) اکانومی اور monetary (زرپر مبنی) اکانومی میں اصلاً کوئی فرق نہیں، یعنی دونوں میں اشیاء کی اصل قیمتیں اور مقدار یکساں متعین ہوتی ہیں۔ ان مفکرین کے خیال میں لوگ اشیاء کی براہ راست لین دین کے بجائے زر کو اس لئے ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اشیاء کے تبادلے میں متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مثلاً سامان کے نقل و حمل میں مشکلات، طلب و رسد کا ایک ساتھ ملاپ لازم ہونا (یعنی اگر ایک شخص گندم کے بدلے مرغی لینا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ دوسرا شخص مرغی کے بدلے گندم لینے کے لیے تیار ہو) وغیرہ۔ لہٰذا زر کے استعمال سے مارکیٹ کی استعداد کار (efficiency) میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اشیاء کا تبادلہ تیز رفتاری سے ممکن ہوپاتا ہے۔ چنانچہ زر کے ذریعے ایک طرف اشیاء کا تبادلہ ہوتا ہے اور دوسری طرف ان کی قدر کی نقدی اکائیوں (monetary units) میں پیمائش ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ایک کلو گندم کی قیمت 30 روپے ہو اور ایک کلو چینی کی قیمت 60 روپے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک کلو گندم کی قدر آدھا کلو چینی جبکہ ایک کلو چینی کی قدر دو کلو گندم ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں زر کا کام اشیاء کی باہمی قدر کو نقدی اکائیوں میں بیان کرنا ہے۔
نیوکلاسیکل مفکرین زر کے درج بالا تصور (کہ اصلاً یہ آلہ مبادلہ ہے) سے دو اہم نتائج اخذ کرتے ہیں:
- اولاً یہ کہ زر ایک غیر فعال (neutral) سیال ہے، یعنی زر کے زیادہ یا کم ہوجانے سے اشیاء کی مقدار (quantities) میں کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ محض ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ بطور ایک سادہ مثال فرض کریں کسی ملک میں محض دس کلو گندم پیدا ہوئی اور 100 روپے کرنسی جاری کی گئی (۵)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ گندم کی قیمت 10 روپے فی کلو متعین ہوگی۔ اگر کرنسی کی مقدار بڑھا کر 200 روپے کردی جائے مگر گندم کی مقدار میں کوئی تبدیلی نہ آئے تو گندم کی قیمت بڑھ کر 20 روپے ہوجائے گی۔ دوسرے لفظوں میں جتنے تناسب سے زر کی مقدار بڑھائی جائے گی اتنے ہی تناسب سے قیمتوں میں بھی اضافہ ہوجائے گا ۔
- ثانیاً زر ایک exogenous (لین دین کے عمل سے ماوراء ) عنصر ہے یعنی اسکی مقدار اشیاء کی لین دین سے کوئی تعلق نہیں رکھتی بلکہ یہ اس سے باہر اور علاوہ متعین ہوتی ہے۔ یہ سوال کہ اسکی مقدار کون اور کیسے متعین کرتا ہے نیوکلاسیکل مفکرین کے خیال میں یہ ذمہ داری ریاست (state) ادا کرتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مرکزی بینک (Central Bank) ریاست کو قرض دیتی ہے جو دو میں سے کسی ایک شکل میں ہوتا ہے: (۱) مرکزی بینک T-Bill (۶) جاری کرتی ہے جنہیں مختلف فائنانشل ادارے وغیرہ خرید تے ہیں اور اس طرح حکومت قرض حاصل کرتی ہے، (۲) مرکزی بینک براہ راست نوٹ جاری کرکے حکومت کو قرض دیتا ہے۔ دونوں صورتوں میں زر بصورت قرض تخلیق ہوتا ہے (۷)۔ اکثر و بیشتر یہ قرض حکومت کا مالیاتی خسارہ (fiscal deficit) پورا کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ درحقیقت آج جسے زر قانونی (legal tender or fiat money) کہا جاتا ہے وہ یہی قرضہ ہے (۸)۔ دھیان رہے کہ مرکزی بینک T-Bills اور نوٹوں کی صورت میں یہ قرضہ کسی حقیقی اثاثے کی بنیاد پر نہیں بلکہ بلا کسی عوض تخلیق کرتا ہے نیز یہ قرضہ کسی بھی چیز کی ملکیت (ownership) کی رسید یا دعوی (claim) نہیں ہوتا یعنی جس شخص کے پاس یہ نوٹ موجود ہے مرکزی بینک اسے کچھ بھی ادا کرنے کا پابند نہیں ہوتا بلکہ ان کی حیثیت محض ’قانونی دستاویز‘ کی ہے جسے ریاست ’بذریعہ قانونی جبر‘ لین دین کے عمل کے لیے قابل قبول بناتی ہے (۹)۔
اوپر ذکر کیا گیا کہ اکثر و بیشتر حکومتیں اپنا مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے نوٹ (fiat money) چھاپ کر جاری کرتی ہیں۔ جیسا کہ درج بالا بحث سے واضح ہواکہ نیوکلاسیکل مفکرین کے مطابق اگر زر کی مقدار میں اضافہ کردیا جائے تو اس کے نتیجے میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے (۱۰)۔ قیمتوں میں اضافے سے زر کی قوت خرید کم ہوجاتی ہے۔ نتیجتاً عام لوگ جو حکومت کے شائع کردہ نوٹ استعمال کرتے ہیں ان کی قوت خرید کم ہوجاتی ہے اور اس کمی کے برابر اصل اشیاء و خدمات حکومت کو منتقل ہوجاتی ہیں۔ زر کی مقدار بڑھنے سے بوجہ افراط زر جو قوت خرید زر استعمال کرنے والے فرد سے زر تخلیق کرنے والے ایجنٹ کی طرف منتقل ہوتی ہے اسے افراط زر ٹیکس (inflation tax) کہا جاتا ہے۔ (اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے، کیونکہ ذیل میں ہم اسے زیر بحث لائیں گے)۔
اب تک نیوکلاسیکل نظریہ زر بیان کیاگیا اب ہم اس سے اخذ ہونے والا نظریہ بینکنگ واضح کرتے ہیں۔ نیوکلاسیکل مفکرین کے خیال میں بینک کا بنیادی کام بچتوں کو یک جا کرکے کاروباری حضرات کی سرمایہ کاری کے لیے فراہم کرنا ہے یعنی اس کا کردار بچت کرنے والوں اور سرمایہ کاری کرنے والوں کے درمیان زری ثالثی (financial intermediary) کا ہے ۔ اس تصور بینکنگ کے خدوخال درج ذیل ہیں (۱۱):
الف: لوگوں کی بچتوں کو قرض پر دینے سے ’پہلے ‘ ڈپازٹ کی صورت میں جمع کیا جاتا ہے۔ بینک کے پاس ڈپازٹ تب آتے ہیں جب کوئی شخص اپنی بچت بینک کے پاس جمع کراتا ہے۔ بینک ان بچتوں کو سرمایہ کاری کے لیے بطور قرض (۱سلامی بینکاری کی اصطلاح میں بطور بیع) فراہم کرتا ہے ۔
ب: معاشی توازن (macroeconomic equilibrium) قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ بچتیں سرمایہ کاری کے برابر ہوں (۱۲)، چونکہ بینک بچتوں اور سرمایہ کاری کے درمیان واسطے کا کام کرتے ہیں لہٰذا بینکاری نظام کا ’درست طرزعمل‘ پورے معاشی عمل کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔
ج:بینکنگ کا درست طرز عمل یہ ہے کہ وہ ’بچتوں سے زائد قرضے جاری نہ کرے‘، یعنی اس کے مجموعی قرضے اسکی مجموعی بچتوں سے زیادہ نہ ہوں۔ جب کبھی بینک اس اصول کی خلاف ورزی کرے گا تو وہ پورے معاشی عمل کو عدم توازن سے دوچار کرے گا۔
د:اگر بینک اس اصول پر کابند رہے تواس کے عمل سے زر کی مقدار میں بحیثیت مجموعی کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔
حواشی
۱۔ اسلامی بینکاری پر نظاماتی حوالے سے تنقید کے لیے دیکھیے راقم الحروف کے مضامین:
- ’اسلامی معاشیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز‘ ، ماہنامہ الشریعہ اگست تا اکتوبر ۲۰۰۸
- ’سودی بینکاری کے فلسفہ اسلامی متبادل کا جائزہ ‘ ، مضمون مکمل مگر اشاعت کا منتظر ہے
اس ضمن میں پروفیسر محمد امین صاحب کا مضمون ’اسلامی بینکاری کی شرعی حیثیت: ایک اصولی بحث‘ بھی لائق مطالعہ ہے۔ دیکھئے ماہنامہ محدث، شمارہ ستمبر- اکتوبر ۲۰۰۹، لاہور۔ اس کے علاوہ ماہنامہ ساحل کراچی میں بھی اس موضوع پر قیمتی مواد موجود ہے ۔
۲۔ مجوزین کس طرح تمام سرمایہ دارانہ محرکات اور اداروں کی اسلام کاری کرتے ہیں، اس کی تفصیلات مولانا تقی عثمانی صاحب کی کتاب ’اسلام اور جدید معیشت و تجارت‘ میں دیکھی جا سکتی ہیں جس کا تجزیہ راقم نے اپنے مضمون ’اسلامی معاشیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز‘ میں پیش کیا ہے ۔
۳۔ اسلامی بینکاری کے مجوزین علماء کی تحریروں سے مانوس قاری شدت کے ساتھ یہ تاثر لیتا ہے کہ جب خالصتاً دینی مسائل پر ان علماء کی کتب کا مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ علم کا کوئی بحر بیکراں ہے جو ایک طرف اسلاف کی کتب کا وسیع مطالعہ رکھتا ہے تو دوسری طرف علم و حکمت کے موتی بکھیرنے میں بھی ید طولیٰ رکھتا ہے، مگر جونہی ان علماء کی ان کتب کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جو دور جدید کے معاشی یا فائنانشل نظاموں سے متعلق ہیں تو حقیقت کچھ یوں عیاں ہوتی ہے گویا یہ سب باتیں کسی سے سن کر یا دوسرے اور تیسرے درجے کے مصنفین کی کتابوں سے پڑھ کر اور حق سمجھ کر لکھ دی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ علماء کرام روایتی مکتبہ فکر پر کی جانے والی تنقیدات اور جدیدنظریات سے واقف نہیں ہوتے۔
۴۔ درحقیقت نظریہ بینکنگ ہی نہیں بلکہ جس چیز کو ’اسلامی معاشیات‘ کے نام پر فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ سب نیوکلاسیکل (یا لبرل) اکنامکس ہی کا چربہ ہے۔ چونکہ اسلامی معاشیات کی حیثیت نیوکلاسیکل اکنامکس کے محض ایک فٹ نوٹ (foot-note) کی سی ہے، لہٰذا یہ نیوکلاسیکل نظریہ زر و بینکاری کو مفروضے کے طور پر قبول کرنے پر مجبور ہے۔
۵۔ زر ، اشیاء کی قیمتوں اور ان کی مقدار کا تعلق جس مساوات سے ظاہر کیا جاتا ہے، اسے Quantity Theory of Money کہتے ہیں ۔ یہ مساوات درج ذیل ہے:
M x V = P x Y
یہاں M سے مراد زر کی رسد (money supply)۔ V سے Velocity of money۔ P سے قیمتوں کا اشاریہ (price level)۔ اورY سے مجموعی پیداوار (output or GDP) ہے۔ نیوکلاسیکل مفکرین کے خیال میں Y (مقدار پیداوار)کا انحصار رسد سے متعلق عناصر پر ہوتا ہے لہذا زر کی رسد بڑھانے سے یہ غیر متبدل رہتا ہے۔ اسی طرح V کی مقدار بھی ایک عرصے تک غیر متبدل رہتی ہے، لہٰذا اس مساوات سے ظاہر ہے کہ اگر V اور Y کی مقدار تبدیل نہ ہو اور M میں اضافہ کردیا جائے تو اس کا نتیجہ صرف P یعنی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ مضمون کی مثال میں V کی مقدار ’ایک ‘ فرض کی گئی ہے ۔
۶۔ T-Bill ایک قلیل المدت فائنانشل دعوی ہوتا ہے جو مرکزی بینک حکومت کے لیے قرض پر رقم کے حصول کے لیے جاری کرتا ہے ۔
۷۔ دونوں میں فرق یہ ہوتا ہے کہ T-Bills کے ذریعے حاصل کردہ قرض پر سود کی شرح زیادہ ہوتی ہے جبکہ نوٹوں پر واجب الاداء سود نہایت کم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ IMF وغیرہ حکومتوں پر یہ دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ نوٹ چھاپنے کے بجائے T-Bills وغیرہ کے ذریعے قرض حاصل کریں کیونکہ زیادہ سود کی ادائیگی حکومتوں کو کم قرض لے کر زر کی رسد میں کم اضافہ کرنے پر مجبور کرے گی ۔
۸۔ نیوکلاسیکل نظریات میں زر کی رسد کو درج ذیل مساوات کی صورت میں ظاہر کیا جاتا ہے:
M(t) = M(t-1) + G - T - [Bg(t) - Bg(t-1)]
یہاں M سے مراد زر کی رسد، G سے حکومتی اخراجات، T سے ٹیکس وصولیاں اور Bg سے سرکاری بانڈز ہیں (t اور t-1 سے مراد موجودہ اور پچھلا سال ہے)۔ اس مساوات سے عین واضح ہے کہ زر کی رسد سے مراد وہ حکومتی اخراجات ہیں جو حکومت ٹیکس وصولیوں کے بغیر قرض پر مبنی زر سے پورا کرتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ مولانا تقی عثمانی صاحب اپنی کتاب ’اسلام اور جدید معیشت و تجارت‘ میں زر قانونی کی بات تو کرتے ہیں مگر اس چیز کا کوئی ذکر نہیں کرتے کہ یہ قرض ہوتا ہے ۔
۹۔ نیوکلاسیکل مفکرین کا یہ خیال کہ سرمایہ دارانہ (یعنی قرض پر مبنی ) زر کسی فطری ارتقا کی پیداوار ہے ایک جھوٹا دعویٰ ہے، بلکہ یہ لعنت معاشروں پر بذریعہ ریاستی جبر اور نظام بینکاری مسلط کی جاتی ہے۔ نوعیت و ارتقاء زر پر نیوکلاسیکل مفکرین کے خیالات کے لیے دیکھیے Menger کا مضمون
On the Origins of Money
۱۰۔ نیو کلاسیکل اکنامکس کے جدید (مثلاً کنیزین) نظریات میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ زر میں اضافہ اشیاء کی مقدار میں اضافے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اس صورت میں اشیاء کی قیمتوں اور مقدار دونوں میں کتنا اضافہ ہوگا، اس کا انحصار Elasticity of the supply of goods (رسد کی لچک ) پر ہے، اگر رسد مکمل طور پر غیر لچک دار ہو (جیسا کہ روایتی نیوکلاسیکل مفکرین کا خیال ہے کہ وہ قلیل اور طویل دونوں مدتوں میں ہوتی ہے) تو زر کا نتیجہ صرف و صرف افراط زر ہوتا ہے
۱۱۔ دیکھئےHayek کی کتاب Prices and Production (1935) یا Money and Banking کی کوئی سی کتاب جیسے The Economics of Money, Banking and Financial Markets by Frederic Mishkin
۱۲۔ saving-investment equilibrium درحقیقت نیوکلاسیکل macroeconomics میں کسی معیشت کی حالت توازن بیان کرنے کی ایک اہم مساوات ہے، یعنی کوئی معیشت اس وقت حالت توازن میں ہوتی ہے جب وہاں بچتیں سرمایہ کاری کے برابر ہوں ۔
(جاری)
مکاتیب
ادارہ
(۱)
عزیزنا الوفی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قرأت مقالتکم فی فرصۃ یسیرۃ۔ أرید أن ألفت أنظارکم إلی الامور التالیۃ الناشءۃ عن الفکرۃ التی قدمتم إلی الجمہور۔
۱۔ لا یجوز للمسلمین أن یقوموا ضد العدو الغاشم مہما کانت الظروف والاحوال إذا لم یکن لدیہم الاستعداد الکامل۔
۲۔ الحرکات الجہادیۃ المعاصرۃ لا علاقۃ لہا بالجہاد وبالتالی ہذا العمل إضاعۃ للنفوس والمال لا یترتب أی أثر علی الامۃ الاسلامیۃ بل ہو ضار للمسلمین لأن العصابات لا تقوم مقام الخلیفۃ أو الإمام۔
۳۔ ہناک مصطلح جدید من حضرتکم، ألا وہو ’’کلاسیکل فقہ‘‘۔ أخی العزیز! بون شاسع بین الفقہ الکلاسیکی وبین الفقہ الاسلامی۔ الفقہ الاسلامی مستورد ومستنبط من المنابع الاسلامیۃ وہما القرآن والسنۃ۔ أما الفقہ الکلاسیکی، بما یسمی ’’روایتی فقہ‘‘، فمستنبط وماخوذ من آراء الناس وأعرافہم، لا علاقۃ لہا بالقرآن والسنۃ، وإن کان ہناک بعض القواعد تتوافق عشوائیا مع القرآن والسنۃ کالاقدار العالمیۃ (Universal Truth) مثل الحمیۃ، الحق، الملک، التصرف للمالک، الخیار۔ ولکن الفقہ من حیث المجموع مرتبط بالاحکام القرآنیۃ والسنۃ النبویۃ۔لذا أری أن ہذا المصطلح خطیر جدا یجب الحذر منہ۔
۴۔ ہل ہناک ’’إمام المسلمین‘‘ فی العالم الاسلام الذی یقوم باداء مہمات المسلمین؟ جمیع من یسمون أنفسہم بأئمۃ المسلمین أو لڈراۂم ہم عملاء الاستعمار الغربی أو الشیوعی۔ فما رأیکم فی الاحوال الراہنۃ؟
۵۔ ما رأیکم حول تحریر الأراضی المسلمۃ من أیدی الکفار وما ہو المقیاس للإستعداد؟ ہل قام أبو بصیر بإقامۃ منظمۃ إرہابیۃ بإذن الرسول علیہ السلام أم قام من عند نفسہ ورأیہ؟
أنصح لک: قبل أن تطبع الکتاب وأن یوضع الکتاب علی المکاتب التجاریۃ، قدم الکتاب إلی العلماء الراسخین حتی لا یکون جہدک ہباء ا منثورا۔
محمد رویس خان الأیوبی
میر پور۔ کشمیر الحرۃ
(۲)
برادر عزیز مولانا حافظ محمد عمار خان ناصر صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
اہل علم کی کئی محافل میں احقر سے الشریعہ کی خصوصی اشاعت بیاد امام اہل السنۃ کی مندرجہ ذیل عبارت کے بارے میں استفسار ہوا ہے:
’’وہ (امام اہل السنۃ) نزول مسیح کو ایک اعتقادی مسئلہ قرار دے کر اس کا انکار کرنے والے کو کافر کہتے تھے، جبکہ حضرت صوفی صاحب کی رائے اس سے مختلف تھی۔‘‘ (ص ۷۱۹)
نیز صفحہ ۳۸۱ میں افتخار تبسم صاحب کے حوالے سے جو بات نقل کی گئی ہے اور اس کے متعلق آپ نے جو توجیہ کی ہے، وہ درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ حضرت صوفی صاحب نے تفسیر معالم العرفان فی دروس القرآن ج ۵ ص ۶۴۷ میں بڑی وضاحت کے ساتھ فرمایا ہے:
’’عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نزول کا عقیدہ بنیادی عقیدہ ہے۔ اہل حق میں سے اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ متواتر اور صحیح احادیث اس کثرت سے ہیں کہ ان کا انکار کفر ہے۔ ایسا شخص اسلام سے خارج سمجھا جائے گا۔‘‘
نیز ’’مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے علوم وافکار‘‘ ص ۷۳ میں لکھتے ہیں:
’’عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور رفع الی السماء اور نزول، یہ اہل اسلام کے نزدیک اتفاقی عقائد ہیں۔ یہود ونصاریٰ میں البتہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ مسئلہ حیات ونزول مسیح علیہ السلام امت کے جمیع طبقات کے درمیان ایک مسلمہ مسئلہ ہے اور یہ اعتقادی مسئلہ ہے۔ اس میں تشکیک پیدا کرنا ازحد غلط اور گمراہ کن بات ہے۔ قرآنی آیات میں اورصحیح اور صریح احادیث مبارکہ میں اس کی مکمل تشریح موجود ہے۔ حضرت حکیم الامت امام شاہ ولی اللہؒ اور ان کے تمام پیروکار اور علماء دیوبند کا متفقہ عقیدہ ہے اور مولانا سندھیؒ کا بھی یہی عقیدہ ہے۔‘‘
ہم نے اسباق، دروس اور خطبات کے علاوہ کسی نجی محفل میں بھی اس کے خلاف نہیں سنا۔ قرین قیاس یہ ہے کہ تبسم صاحب صحیح طور پر انگیخت نہیں کر سکے جس سے شکوک وشبہات کا باب وا ہوا ہے۔
(مولانا حاجی) محمد فیاض خان سواتی
مہتمم مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
(۳)
عزیز القدر عامر سلمہ اللہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے مزاج اور صحت بعافیت ہوں گے اور معمولات بخیر وخوبی جاری ہوں گے۔
منکرین حدیث کے ساتھ انٹرنیٹ پر جاری جس مباحثے کا آپ نے ذکر کیا ہے، میرے لیے اس میں براہ راست شریک ہونا بوجوہ ممکن نہیں، البتہ اس حوالے سے اپنے فہم کے مطابق چند بنیادی نکات عرض کر دیتا ہوں۔ ان کی روشنی میں امید ہے کہ آپ اس مباحثے میں درست موقف کی موثر ترجمانی کر سکیں گے۔
جو حضرات قرآن مجید کے ابلاغ وتبلیغ سے ہٹ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریعی مقام کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں، میرے خیال میں ان کی غلطی حسب ذیل نکات کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے:
۱۔ ایک مسلمان اصلاً واساساً اور براہ راست قرآن پر ایمان نہیں لاتا، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاتا ہے، کیونکہ قرآن کو خدا کا کلام ماننے سے پہلے اس کو پیش کرنے والی ہستی کو اللہ کا پیغمبر ماننا ضروری ہے۔ پیغمبر کے واسطے کے بغیر خدا کے کلام تک رسائی یا اس پر ایمان کی کوئی صورت ممکن نہیں۔
۲۔ کسی انسان کو پیغمبر ماننے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ خدا کی طرف سے اس کا دین لوگوں تک پہنچانے پر مامور ہے اور وہ جو چیز بھی اس اعلان کے ساتھ لوگوں کو دے گا کہ یہ خدا کا دین ہے، اسے ماننا لازم ہوگا۔ چنانچہ وہ خدا کے نازل کردہ کلام کے طور پر کوئی چیز پیش کرے یا اس کے علاوہ کوئی حکم یا ہدایت یہ کہہ کر لوگوں کو دے کہ یہ خدا کا دین ہے، ہر صورت میں اس کے پیش کردہ دین کو ماننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے۔ فرض کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رسالت کا اعلان کرنے کے بعد کلام الٰہی کے طو رپر قرآن کو سرے سے پیش ہی نہ کرتے اور اس کے بجائے محض یہ فرماتے کہ میں خدا کا رسول ہوں اور اس حیثیت سے تمھیں فلاں بات کا حکم دیتا اور فلاں بات سے روکتا ہوں تو بھی اس کی اطاعت بدیہی طور پر لازم ہوتی، کیونکہ اس کے بغیر آپ کو ’’رسول‘‘ ماننے کا کوئی مطلب ہی نہیں بنتا۔ دوسرے لفظوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقلاً اور مطلقاً واجب الاطاعت ہونا قرآن پر ایمان لانے سے مقدم ہے، وہ اس پر موقوف نہیں کہ اس کے حق میں قرآن سے دلیل پیش کی جائے۔ یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مستقلاً مطاع ہیں، قرآن سے بھی ثابت ہے، لیکن اس پر موقوف نہیں۔ فرض کر لیں کہ پورے قرآن میں کہیں یہ بات مذکور نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت مطلقاً فرض ہے، تب بھی صورت حال میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، کیونکہ یہ چیز قرآن پر ایمان سے پہلے آپ کو ’’رسول‘‘ مان کر الگ سے تسلیم کی جا چکی ہے۔ قرآن، رسول کے مقام ومنصب کی تعیین کے لیے ماخذ نہیں۔ وہ تو خود کلام الٰہی کی حیثیت سے اپنا استناد تسلیم کرانے میں اس کا محتاج ہے کہ اسے رسول کی تائید وتصدیق حاصل ہو۔
البتہ اگر قرآن نے کسی مقام پر رسول کی ذمہ داری اور منصب اور اس کے دائرہ کار کی کوئی ایسی تحدید بیان کی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبر اللہ کا کلام لوگوں تک پہنچانے کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رکھتا تو یقیناًوہ زیر بحث آنی چاہیے۔ ہمارے فہم کے مطابق قرآن میں کوئی ایسی تحدید بیان نہیں ہوئی۔ اگر کسی آیت یا بعض آیات سے کسی کو شبہ ہوا ہے تو ان مقامات کو سیاق وسباق کی روشنی میں الگ الگ زیر بحث لانا چاہیے۔
۳۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح امت کو قرآن دیا ہے، اسی طرح قرآن کے علاوہ بھی بہت سے احکام اور ہدایات بطور دین دی ہیں اور ان کی پابندی امت پر لازم ٹھہرائی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دین کی اس دوسری صورت کی نسبت اسی طرح یقینی ہے جس طرح قرآن کی نسبت یقینی ہے۔ امت جس طرح اپنے دور اول سے آج تک قرآن کو اس حیثیت سے مانتی آئی ہے کہ یہ اللہ کا وہ کلام ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیا ہے، اسی طرح قرآن سے الگ دین کے ایک مفصل عملی ڈھانچے اور اس کی تعبیر وتشریح کے ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو بھی اسی حیثیت سے اور اسی یقین کے ساتھ مانتی چلی آ رہی ہے کہ اللہ کے رسول نے یہ چیزیں بھی دین ہی کی حیثیت سے امت کو دی ہیں۔ بعض جزوی امور کی نسبت آپ کی طرف درست ہونے یا نہ ہونے میں یقیناًاہل علم کے مابین اختلاف ہوتا رہا ہے، لیکن اصولی طور پر قرآن سے باہر بھی دین کا پایا جانا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت کو یقینی سمجھنا امت کے اہل علم کے ہاں ہمیشہ متفق علیہ اور اجماعی رہا ہے۔ اس لحاظ سے قرآن کے اندر اور قرآن سے باہر پائے جانے والے ’’دین‘‘ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثبوت یکساں درجے کا ہے۔ اگر قرآن سے باہر پائے جانے والے دین کی نسبت اور ثبوت میں امت کا اجماع اور تعامل قابل اعتبار نہیں تو وہ قرآن کی نسبت او ر ثبوت کے معاملے میں بھی قابل اعتماد نہیں ہو سکتا۔ ہذا ما عندی والعلم عند اللہ
محمد عمارخان ناصر
(۴)
بخدمت جناب مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماہنامہ الشریعہ کا ضخیم ’’امام اہل سنت‘‘ نمبر باصرہ نواز ہوا۔ محسوس ہوتا ہے کہ ایک ایک سطر خوش رنگ شگوفوں اور گلِ تر سے لکھی گئی ہے۔ اہل علم مشک وخستن اور صندل وعنبر سے اس کی تائید لکھیں گے۔ راقم الحروف نے بھی اپنے نحیف وناتواں قلم کے اشہب کو جولانی دی ہے اور تبصرہ لکھا ہے جو ماہنامہ ’’طائفہ منصورہ‘‘ اور ماہنامہ ’’فقاہت‘‘ میں شائع ہوگا۔ آپ کو بھی ارسال کر دوں گا۔ آنکھوں میں جچا تو زہے نصیب ورنہ ڈسٹ بن تو ہے ہی۔
آج ہی اپنی مسجد سے واپس گھر پہنچا تو اکتوبر ونومبر کا خوبصورت شمارہ آنگن کو روشن کیے ہوئے تھا۔ بھوکے کو کیا چاہیے؟ کھانا۔ بس مطالعہ شروع کیا اور ۱۶۸ صفحات پر مشتمل رسالہ پڑھ ڈالا۔ ماشاء اللہ، آپ کے حوصلوں کا بانکپن جوان ہے۔ آپ کے مضامین میں بعض اقتباسات سے بدہضمی سی ہوتی ہے، تاہم آپ کی نثر نگاری اور اسلوب تحریر کا قتیل ہوں۔ ’’دینی مدارس کا نظام: بین الاقوامی تناظر میں‘‘ کے زیر عنوان ڈاکٹر ممتاز احمد صاحب کی گفتگو پڑھ کر تارے رقص کرنے لگے۔ اللہ، اللہ! باریک عنوان پر ایسا گھاگ اور بے لاگ تبصرہ متاثر کیے بغیر نہ رہ سکا۔ کلمہ حق میں مولانا زاہدالراشدی کا اداریہ کافی فکر انگیز تھا۔
مکاتیب میں سید مہر حسین بخاری کا یہ کہنا کہ ’’تحریف قرآن کی لچر اور بیہودہ روایات تو بعض کتب اہل سنت میں بھی موجود ہیں‘‘ بذات خود لچر اور بے ہودہ پن ہے۔ بخاری صاحب جن روایات کو تحریف کہہ رہے ہیں، وہ دراصل نسخ اور اختلاف قراء ت کی روایات ہیں۔ خود اہل سنت کے علماء نے اس کی تصریح کر دی ہے۔ نیز اہل سنت کی یہ روایات اخبار آحاد ہیں، متواتر نہیں ہیں۔ اہل تشیع تحریف قرآن کے قائل ہیں یانہیں؟ قمی، کلینی اور علامہ نوری طبرسی کی جمع کردہ تحریف قرآن کی روایات کی بنا پر کل شیعہ آبادی کو محرف قرآن ٹھہرایا جاسکتاہے یا نہیں؟ یہ ایک الگ اورمستقل بحث ہے، لیکن اس ضمن میں اہل سنت کی نسخ والی روایات کو لچر، بے ہودہ اور تحریف کہنا اہل تحقیق کا مزاج نہیں ہے۔ یہ دفاع تشیع ہی ہے جس سے بخاری صاحب انکاری ہیں۔ اسی طرح بخاری صاحب کایہ کہنا کہ راقم آثم اہل تشیع کے کفر کا قائل نہیں، یہ فتویٰ کی زبان ہے، رائے نہیں۔ لیکن چونکہ پہلے وہ لکھ آئے ہیں کہ ایک محقق شیعہ نوجوان عالم میرے دوست ہیں، اس لیے اب علمی وفکری طور پر کچھ لکھنا عبث ہے، کیونکہ ہمارے ہاں دوستی میں سب چلتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے۔ والد گرامی کی خدمت میں سلام مسنون پیش فرما دیں۔
حافظ عبدالجبار سلفی
جامع مسجد ختم نبوت، لاہور
(۵)
محترم المقام معالی الشیخ حافظ محمد عمار خان ناصرصاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
الشریعہ کا انتہائی جامع ومبسوط خصوصی شمارہ موصول ہوا۔ کتابت، طباعت، ترتیب وتہذیب اور عناوین کے اعتبار سے یہ ایک مثالی اور تاریخی اشاعت ہے۔ جب اس نمبرکو پہلی بار دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا اور جب اسے پڑھ لیا تو ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔ اللہ اکبر! اتنی عظیم شخصیت کے متعلق ایسی دلچسپ اور مفید معلومات اتنی کم مدت میں آپ اور آپ کے رفقاے کرام نے جمع کر کے پیش کردیں۔ میں اسے حضرت امام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی مذہبی وعلمی خدمات کا زندہ معجزہ اور کرامت کہہ سکتا ہوں اور آپ کی محنت اور کوشش کا نتیجہ کہہ کر اس کی غیرمعمولی اہمیت کوکم کرنا پسند نہیں کر سکتا۔
الشریعہ کی خصوصی اشاعت بیاد مولانا سرفراز خان صفدرؒ دینی، مذہبی اور ادبی رسالوں کی تاریخ میں اپنی نظیر نہیں رکھتی۔ حضرت کی شخصیت اور ان کے متعلق قلم کاروں کی بوقلمونیاں، رسالے کی ضخامت، اس کی حسین طباعت، غرض ہر ایک چیز آپ کی اور آپ کے معاونین کی خوش ذوقی، بے پناہ محبت اور اولو العزمی کا پتہ دیتی ہے۔ یہ خصوصی اشاعت ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جو آئندہ آنے والی کئی نسلوں اور مورخین کے لیے قابل قدر ماخذ کا کام دے گی۔ یہ بہت بڑا کارنامہ ہے جو آپ نے سرانجام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول ومقبول فرمائے۔ اس اشاعت کے گراں بہاہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ اس تاریخی خصوصی اشاعت کی قدر نہ کرنا پرلے درجے کی سنگدلی ہے۔ اللہ تعالیٰ الشریعہ کو آسمان صحافت کا چمکتا دمکتا آفتاب بنائے۔
راقم آثم اس خصوصی اشاعت پر آپ کو، آپ کے والد گرامی مولانا زاہدالراشدی حفظہ اللہ کو اور آپ کے رفقاے کار کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہے۔
ابوسفیان محمد خان محمد ی
ملکانی شریف، ضلع بدین سندھ
(۶)
محترمی جناب سید مہرحسین بخاری
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماہنامہ الشریعہ نومبر /دسمبر ۲۰۰۹ء کے شمارے میں ایک دوست نے آنجناب کا مکتوب دکھلایا جس میں چند باتیں احقر کی ناقص معلومات کے مطابق خلاف حقیقت تھیں۔ ارادہ ہوا کہ ماہنامہ الشریعہ کے ذریعے ہی آنجناب کو مطلع کیا جائے۔ امیدہے کہ اس طالب علم کی گزارشات پر غور فرمائیں گے۔
۱۔ آپ نے لکھا کہ ’’ راقم آثم حضرت مولانا صوفی عبدالحمیدخان سواتی ؒ کی طرح اہل تشیع کے کفر کا قائل نہیں ہے‘‘، حالانکہ حضرت صوفی صاحبؒ کے خطبات ودروس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اہل تشیع کی تکفیر فرماتے تھے۔ چند عبارات پیش خدمت ہیں:
۱لف۔ ’’غرضیکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کا ایمان اس قدر پختہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود جو لوگ ان کے ایمان میں شک کرتے ہیں اور ان کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرتے ہیں، وہ یقیناًمنافق، زندیق اور کافر ہیں۔‘‘ (معالم العرفان ۱۷/۲۱۶)
ب۔ ’’ ہم تو صحابہ کرامؓ کی توہین کرنے والوں کو بھی ملعون ہی سمجھتے ہیں۔ روافض کے ساتھ ہمارا یہی جھگڑا ہے۔ خوارج کے ساتھ بھی ہمارا یہی تنازعہ ہے۔ اہل بیت کی توہین کرنے والا بھی مردود ہے۔ کسی بھی صحابی کی توہین کرنے والا مومن نہیں ہو سکتا۔‘‘ (خطبات سواتی، ۴/۳۶)
ج۔ ’’شیعہ حضرات کی کتب میں ان کا یہ نظریہ موجود ہے کہ خلفاے ثلاثہ مسلمان ہی نہیں تھے، صرف چوتھے خلیفہ حضرت علی ہی کامل ایمان تھے۔ یہ درحقیقت کفر کی بات ہے جو آدمی کو ایمان اور اسلام سے ہی خارج کر دیتی ہے۔‘‘ (خطبات ۵/۴۴)
د۔ اذ یقول لصاحبہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:
’’ صاحب سے مراد حضرت ابوبکر صدیق ہیں۔ گویا آپ کی صحابیت نص قرآنی سے ثابت ہے، اس لیے حضرت صدیق کی صحابیت کے منکر کے خلاف علماء حق کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں، کیوں کہ یہ نص قرآنی کا انکار ہے۔‘‘ ( معالم العرفان ۸/۳۷۳)
ہ۔ ’’نبی کی بیویوں کی توہین کرنے والا شخص یا تو منافق ہے یا بے ایمان۔ رافضی لو گ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی توہین کے مرتکب ہوئے، حالانکہ ان کی براء ت کا ذکر ہم سورۂ نور میں پڑھ چکے ہیں۔‘‘ ( معالم العرفان ۱۶/۲۰۵ بحوالہ ’’رافضی کیا ہیں؟‘‘ جمع وترتیب مولانا عبد القدوس خان قارن مدظلہ)
۲۔ آنجناب رقم طراز ہیں کہ ’’ اگر چہ بعض کتب شیعہ میں تحریف قرآن کی روایا ت پائی جاتی ہیں، لیکن شیعہ عقائد کی کتابوں میں وہ تحریف قرآن کے قائل نہیں‘‘، حالانکہ شیعہ عقائد کی ایک کتاب میں تو یوں لکھا ہے:
’’قرآن کے متعلق ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے سامنے موجود ہے، حرف بحرف خدا کا کلام ہے لیکن یہ موافق تنزیل نہیں۔ اس میں مکی اورمدنی سورے ملے ہوئے ہیں، حالانکہ اول مکی ہونے چاہیے تھے، پھر مدنی۔ سورۃ اقرا جو سب سے پہلی سورۃ تھی، وہ پارہ آخر میں ہے اور ’’اکملت لکم دینکم‘‘ جو آخری آیت تھی، وہ سورۃ مائدہ میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آیات کی ترتیب میں بھی فرق ہے، بعض سوروں سے آیات کم بھی کر دی گئی ہیں۔‘‘ (عقائد الشیعہ ص ۳۸ مولفہ ادیب اعظم مترجم اصول کافی سید ظفر حسین امروہوی)
۳۔ آنجناب فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مجددالف ثانیؒ پر خود بھی کفر کا فتویٰ لگایا گیا ہے، وہ کیسے دوسروں کو کافر کہہ سکتے ہیں؟ ‘‘ حالانکہ حضرت امام اہل السنۃ ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے ’’رد روافض‘‘ میں رافضیوں کے مسلمان نہ ہونے کی تین وجوہ بیان فرمائی ہیں:
(۱) وہ اس قرآن کو اصلی قرآن نہیں مانتے اور ظاہر بات ہے کہ جو شخص موجودہ قرآن کو اصلی قرآن نہ مانے، وہ کیسے مسلمان ہو سکتا ہے؟
(۲) مہاجرین اور انصار صحابہ کو کافر کہتے ہیں، جبکہ رب تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا ہے: اولئک ہم المومنون حقا، یہ پکے مومن ہیں۔ اور پارہ ۲۶ میں فرمایا: لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ۔ البتہ راضی ہوگیا اللہ ان ایمان والوں سے جنھوں نے آپ کی بیعت کی درخت کے نیچے۔
(۳) یہ ائمہ کو معصوم مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اماموں پر وحی نازل ہوتی ہے۔ تو پھر نبی اور امام میں کیا فرق ہوا؟ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بارہ نبی مانتے ہیں، یہ ختم نبوت کا انکار ہوا۔ (ذخیرۃ الجنان، ۸/۱۲۸)
آنجناب کے مکتوب گرامی کے حوالے سے یہ چند گزارشات ذہن میں آئی تھیں جو اخلاص کے ساتھ عرض کر دی ہیں۔ خداوند قدوس تادم آخر اکابرین اہل السنۃ والجماعۃ علماء دیوبند کے دامن سے وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
حسین احمدمدنی
متعلم دارالعلوم مدنیہ، بہاولپور
(۷)
محترم جناب مدیر الشریعہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ماہنامہ الشریعہ کے نومبر دسمبر کے شمارے میں حافظ محمد زبیر صاحب کا مضمون باصرہ نواز ہوا۔ حافظ صاحب کے مضمون میں بہت سی باتیں قابل غور ہیں۔ بندہ ان میں سے چند اہم نکات پر بحث کرنا ضروری سمجھتا ہے۔
۱۔ حافظ صاحب نے مولانا فضل محمد صاحب کے مضمون کو علماء دیوبند کامتفقہ موقف قرار دیا ہے جو کہ حقائق سے چشم پوشی یا علماء دیوبند کی غلط ترجمانی کے مترادف ہے۔ یہ درست ہے کہ مولانا فضل محمد صاحب کے مضمون کے لہجے میں تندی وتیزی تھی، لیکن حافظ صاحب کو ان کے جواب میں حقائق کو اصل روپ میں پیش کرنا چاہیے تھا۔ انھوں نے ایسا نہیں کیا جس کی وجہ سے ان کے مضمون کی ثقاہت کو نقصان پہنچا اور ایک پوری جماعت کی دل آزاری ہوئی۔
۲۔ حافظ صاحب نے پاکستانی حکومت کی تکفیر، اس کے خلاف خروج اور خود کش حملوں کی تحریک کو اصلاً دیوبندی تحریک کہا ہے جو کہ دیوبندی فکر ومزاج رکھنے والوں پر محض الزام ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ حافظ صاحب جیسی باشعور شخصیت کے قلم سے ایسا غیر محتاط تبصرہ کیسے نکل گیا۔ علماء دیوبند نے ہمیشہ ملک وقوم کے مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھا۔ ملک میں خصوصاً قبائلی علاقوں میں موجودہ شورش وفساد میں اکثر وہ جماعتیں شامل ہیں جو باوجود اپنے آپ کو علماء دیوبند کی طرف منسوب کرنے کے، علماء دیوبند سے بعض عقائد ومسائل میں شدید اختلاف رکھتی ہیں۔ مثلاً سوات کے مولوی فضل اللہ، باجوڑ کے مولوی فقیر محمد اور باڑہ کے منگل باغ وغیرہ کا تعلق اشاعۃ التوحید والسنۃ (پنج پیر) سے ہے جن کا علماء دیوبند سے اختلاف کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس کے باوجود علماء دیوبند نے تمام اختلافات کوپس پشت ڈال کر وسعت فکری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس آگ کو بجھانے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ اہل حدیث کی ایک بڑی جماعت (شاہ جی گروپ) باجوڑ میں حکومت کے خلاف لڑ رہی ہے۔ یہ گروپ بعض مسائل (طالبان) میں بھی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا تھے، مگر کسی دیوبندی مولوی یا سیاست دان نے یہ نہیں کہا کہ یہ نہیں کہا کہ یہ اہل حدیث یا اشاعۃ التوحید والسنۃ کا مسئلہ ہے۔ بے چارے دیوبندی تو یہی صدا بلند کرتے رہے:
میں خود غرض نہیں، میرے آنسو پرکھ کے دیکھ
فکر چمن ہے مجھ کو، غم آشیاں نہیں
۳۔ حافظ صاحب کو شکوہ ہے کہ علماء دیوبند نے دہشت گردی کے مسئلے میں کوئی بنیادی کردار ادا نہیں کیا۔ غالباً حافظ صاحب تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں، ورنہ یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مفتی نظام الدین شامزئ سے لے کرمولانا شیخ حسن جان مدنی تک نابغہ روزگار شخصیات کی شہادت کا اصل سبب ملک میں موجودہ شورش وفساد کے خلاف ان کا بنیادی کردار تھا۔ کیا حافظ صاحب اپنی جماعت کے کسی بھی فرد کا نام بتا سکتے ہیں جس کو اس مسئلے کے حل میں بال برابر بھی نقصان اٹھانا پڑا ہو؟
۴۔ حافظ صاحب کو ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی ایک دو پریس کانفرنسیں تو نظر آتی ہیں، لیکن یہ نظر نہیں آتا کہ جب سوات میں حکومت نے آپریشن کا ارادہ کیا تو معروف دیوبندی عالم دین مولانا رشید احمد سواتی نے سوات کے دو لاکھ لوگوں کو طالبان اور حکومتی آپریشن کے خلاف احتجاج کے لیے نکالا جس کے نتیجے میں حکومت نے مولانا سواتی کو اشتہاری مجرم قرار دے دیا اور کئی ہفتے قید وبند میں رکھا اور ان کے مدرسے کو بلڈوز کیا گیا۔
۵۔ حافظ صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ علماء دیوبند کی سیاسی نمائندگی کرنے والی تمام شخصیات نے طالبان کے طرز عمل کی شدید مخالفت کی اور موجودہ صورت حال میں حکومت کے خلاف خروج کو ناجائز کہنے کے باوجود حکومت کی ناقص پالیسیوں کو صورت حال کے بگاڑ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ پشاور جیسی حساس جگہ میں شیعہ، اہل حدیث اور جماعت اسلامی وغیرہ کے قائدین کو جمع کر کے ایک لاکھ کے قریب عوام پر مشتمل کانفرنس منعقد کرنے والے صرف دیوبندی علماء تھے۔ اس کانفرنس کا اعلامیہ ریکارڈ پر موجود ہے جس میں ایک طرف مسلح جدوجہد کو ناجائز ٹھہرایا گیا ہے اور دوسری طرف ڈرون حملوں اور افواج پاکستان کے ظلم وبربریت پر بھی انتہائی بے چینی کا اظہار کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ کانفرنس لاہور کے کسی آڈیٹوریم یا قرآن اکیڈمی کی وسیع مسجد میں نہیں، بلکہ پشاور جیسے خطرناک علاقے میں منعقد ہوئی۔
۶۔ حافظ صاحب کا خیال ہے کہ علماء دیوبند ایک طرف تو مختلف فروعی مسائل میں الجھ کر ایک دوسرے کے خلاف کتابیں لکھ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وقت کے اہم مسئلے یعنی ملک کی موجودہ بد امنی کی صورت حال سے اغماض برت رہے ہیں۔ حافظ صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ جن فروعی مسائل کا حوالہ آپ نے دیا ہے، وہ بغیر بحث وتحقیق اور تصنیف وتالیف کے حل نہیں ہوتے، جبکہ موجودہ صورت حال کا واحد حل جدوجہد ہے نہ کہ تحریریں اور مقالہ جات۔
آخر میں حافظ صاحب سے مخلصانہ گزارش ہے کہ وہ جماعت یا مسلک کے کسی ایک فرد کی تحریر کو پوری جماعت کاموقف نہ سمجھیں اور نہ اس کی وجہ سے پوری جماعت کو معتوب بنائیں۔ ان کے مضمون سے یقیناًدیوبندی جماعت کی دل آزاری ہوئی ہے جس پر ان کو معذرت کرنی چاہیے اور حالات کی درست تحقیق پیش کرنی چاہیے۔
یاد رہے کہ سرحد میں جتنے بھی دیوبندی یا دوسرے مکاتب فکر کے علما نے مصالحت کی کوشش کی، ان تمام حضرات کو مشق ستم بنایا گیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
ابن مدنی
ایڈیٹر اذان حق
(۸)
محترم جناب حافظ محمد زبیر صاحب!
السلام علیکم
الشریعہ نومبر/دسمبر ۲۰۰۹ء کے شمارے میں ’’مولانا فضل محمد صاحب کے جواب میں‘‘ آپ کا مضمون پڑھا جس میں آپ نے بہت سی ادھر ادھر کی باتیں جمع فرما کر خواہ مخواہ بحث کو طول دیا ہے۔ اسی مضمون کے حوالے سے چند سوالات آپ کی خدمت میں پیش ہیں:
۱۔ آپ نے تحریر فرمایاہے کہ : ’’ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ عمامہ باندھ کر، داڑھی چھوڑ کرا ور شلوار ٹخنوں سے اوپر کر کے جہاد کا نعرہ لگا نے والے ہر شخص کی اندھا اور بہرا ہو کر حمایت نہیں کرنی چاہیے‘‘۔
جناب من! آپ کا ارشاد سر آنکھوں پر، لیکن مولانا فضل محمد صاحب نے یہ دعویٰ کیا ہی کب تھاکہ عمامہ باندھ کر، داڑھی چھوڑ کر اور شلوار ٹخنوں سے اوپر کر کے جہاد کا نعرہ لگانے والے ہر شخص کی اندھا اور بہرا ہو کر ضرورحمایت کرنی چاہیے؟ آپ نے خود ہی ایک دعویٰ ان کے سر منڈھ دیا اور خود ہی اس کا جواب دینا شروع کر دیا۔ اگر ناراض نہ ہوں تو اپنے اس زریں اصول میں چند الفاظ کا اضافہ بھی فرما لیں، وہ یہ کہ جس طرح جہاد کا نعرہ لگانے والے ہر شخص کی حمایت نہیں کرنی چاہیے، اسی طرح جہاد کا نعرہ لگانے والے ہر شخص کی اندھا اور بہرا ہو کر مخالفت بھی نہیں کرنی چاہیے اور چند غلط افراد کی آڑ لے کرمجاہدین فی سبیل اللہ کی مخالفت پر بھی کمربستہ نہ ہونا چاہیے۔
آپ نے فرمایا ہے کہ ’’امریکہ بدمعاش نے افغانستان میں لڑنے والے طالبان کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔ اس طرح اس نے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں، اپنی جان بھی بچالی ہے اور پاکستان کو کمزور بھی کیا ہے۔‘‘
حافظ صاحب! آپ کی رائے قطعاً درست نہیں۔ امریکہ بدمعاش نے طالبان کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا نہیں کیا، بلکہ امریکہ بدمعاش نے پاکستان کے بدمعاش حکمرانوں کو طالبان کے خلاف کھڑا کیا ہے۔ تعجب ہے کہ ایک طرف آپ ان طالبان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : ’’ ان قبائلیوں کا یہ دفاعی جہاد اور ان کا اپنے اوپر حملہ کرنے والے مقاتل ومحارب سیکیورٹی فورسز کو قتل کرناہمارے نقطہ نظر میں بالکل درست تھا۔ اب تک ہمارے علم کی حد تک یہ ایک دفاعی جہاد ہے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ اگر ان طالبان کو امریکہ نے مسلمانوں کے خلاف کھڑا کیا ہے توان کا جہاد دفاعی کیسے ہے؟ کیا محترم حافظ صاحب اس گتھی کو سلجھا سکیں گے؟ کیا جہاد امریکہ کے کھڑا کرنے سے بھی ہوتا ہے؟
آپ نے امام باڑوں اورمساجد پر حملوں سے متعلق مولانا فضل محمد صاحب کی رائے نقل فرما کر بڑے شاہانہ جلال اور طنطنے سے فرمایاہے کہ
’’یہاں آپ کی دینی حمیت اور غیرت کو کیا ہو گیا ہے؟ حافظ زبیرنے تو ایک علمی رائے کا اظہار کیا تھا اور آپ نے اسے راندۂ درگاہ، ملحد اور ظالم تک قرار دے دیا اور یہاں جہاد کے نام پر معصوم شہریوں کو شہید کیا جا رہا ہے اور آپ اس کو بس ’’ناجائز‘‘ کہہ کر گزر جاتے ہیں۔ کیوں نہیں کہتے کہ ایسے خود کش حملہ آور’’ مردار‘‘ ہیں اوریہ جہاد نہیں ’’فساد فی الارض ‘‘ ہے؟‘‘
بالکل بجا فرمایا۔ مولانا فضل محمد صاحب کوچاہیے کہ ہر فتویٰ لکھنے سے پہلے اس کے الفاظ کی منظوری حافظ زبیر سے لے لیاکریں کہ عالی جاہ! کس کس مقام پر صرف ناجائز لکھنا چاہیے اور کون کون سے مقام ایسے ہیں جہاں’’ مردار، حرام‘‘ اور فساد وغیرہ کے پر جلال الفاظ ضروری ہیں۔ لیکن حافظ صاحب! کیا میں آپ سے پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ جب مولانا فضل محمد صاحب ایک کام کو ناجائز کہتے ہیں تو آپ کو اسے ’’حرام‘‘ قرار دینے بلکہ انہی سے ’’حرام‘‘ قرار دلوا نے پرہی کیوں اصرار ہے؟ اور آپ کے سینے میں وہ کون سی آگ بھڑک رہی ہے جسے ’’مردار‘‘ وغیرہ الفاظ استعمال کیے بغیر سکون ہی نہیں ملتا؟ اور اگر ان ظالموں کومردار کہنا ایسا ہی ضروری ہے تو وزیرستان اور لال مسجد پر حملہ کرنے والوں کے بارے میں آپ نے کیوں یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ وہ ’’مردار ‘‘ ہیں، حرام کام کر رہے ہیں؟ کیا محترم حافظ زبیر صاحب اس بات پر غور فرمانا پسند فرمائیں گے؟
حافظ صاحب موصوف نے ’’وما کان المومنون لینفروا کافۃ‘‘ کی آیت سے علماے کرام کے جہاد سے استثنا پر ناراض ہوتے ہوئے نرالی بات ارشاد فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں کہ
’’طائفۃ جمع کا صیغہ ہے اور تین سے جمع شروع ہو جاتی ہے۔ پس مولانا کے نقطہ نظر کے مطابق جامعہ بنوری ٹاؤن کے تین اساتذہ کے علاوہ بقیہ پر تو جہاد فرض عین ہو جاتا ہے‘‘۔
سبحان اللہ! اس آسمان کے نیچے ایسے ایسے لطائف اور شگوفے بھی پھوٹتے ہیں۔ محترم طائفۃ جمع کاصیغہ نہیں، بلکہ اسم جمع ہے۔ اس کے معنی جماعت اور گروہ کے ہیں اوراس کی جمع طائفات اور طوائف آتی ہے۔ اگر یہ جمع کا صیغہ بھی ہوتا تو بھی اس سے آنجناب کامندرجہ بالا استدلال انتہائی مضحکہ خیز ہوتا، کیونکہ جمع کم از کم تین کے لیے استعمال ہوتی ہے، مگر اس سے تین سے زیادہ افراد پر جمع کا اطلا ق کیسے ممنوع ہوا؟ کیا تین سے زیادہ افراد پر جمع کا اطلاق نہیں ہو سکتا؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قبیلے والوں سے یہ فرمایا تھاکہ تم میں سے صرف اور صرف تین آدمی حصول علم دین کے لیے نکلیں، خبردار کوئی چوتھا نہ نکلنے پائے ورنہ جمع کااطلاق غلط ہو جائے گا؟
حضرت! اس آیت سے علماء وطلبہ کرام کا فرضیت جہاد سے استثنا بالکل درست ہے، کیوں کہ پاکستان کی ہر قوم اور ہر قبیلہ ایک ’’فرقہ‘‘ ہے اور ہرفرقے میں سے چند منتخب لوگوں کا ایک ’’طائفۃ‘‘ حصول علم دین کے لیے مدارس کی خاک چھانتا ہے۔ اور پھر آپ نے یہ کیسے فرض کرلیا کہ دیوبند کے ساڑھے بارہ ہزار مدارس کے ۳۰ لاکھ طلبہ میں سے کوئی بھی جہاد کے لیے نہیں جاتا؟ آپ کا کیا خیال ہے کہ جو جہاد پر جایا کرے، وہ اشتہار دیا کرے یا لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کر کے جایا کرے؟ اگر آپ زمینی حقائق دیکھنے سے معذور ہیں تو حسن ظن سے کام لینے میں آخر کیا قباحت ہے؟
آنجناب نے قبائلیوں کی پاک فوج کے خلاف جنگ کو دفاعی جہاد قرار دیا ہے اور پاکستان میں ہونے والے فدائی حملوں کو ناجائز قرار دیا ہے۔ کیوں؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ پاکستان میں فوجیوں پر ہونے والے حملے اسی ’’دفاعی جہاد‘‘ کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہیں؟ مجاہدین وزیرستان نے مسلسل کئی سال کی ظالمانہ بمباریوں، آپریشنوں اور ڈرون حملوں پر مجبور ہو کر جنگ کی حکمت عملی کو تبدیل کیا ہے اور اس کا دائرہ کار وزیرستان کی پہاڑیوں سے پنجاب کے شہروں تک پھیلا دیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ وزیر ستان میں موجود فوج پر حملہ کرنا جائز اور پنجاب میں ناجائز ہے؟ کیا یہ فوج ان کے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہے؟ اگرنہیں تو وزیرستان میں فوج کے قلعوں اور کیمپوں پر ہونے والے حملے کیونکر جائز ہیں جبکہ ان میں موجود فوج بھی بالفعل جنگ میں شریک نہیں؟ وہاں جائز اور یہاں ناجائز ہونے کی وجہ؟ پاکستانی فوج نے تو وتیرہ بنا رکھا ہے کہ آئے روز ان پر وحشیانہ بمباریاں اور ڈرو ن حملے کرتے رہتے ہیں۔ کیا وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں؟ کیوں؟
آپ نے فرمایا ہے کہ: ’’ جب ایک خود کش حملہ آور کو معلوم ہے کہ اس کے حملے سے پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ عام شہری بھی شہید ہوں گے تو کیا اب بھی یہ قتل عمد نہیں ہے؟‘‘
محترم! آپ کی حالت قابل رحم ہے۔ ذرا بتلائیے کہ اس زمانے میں حملے کا وہ کون سا طریقہ ہے جس میں کسی بے گناہ شہری کی ہلاکت کا کوئی امکان بھی نہ ہو اور وہ کون سا ہتھیار ہے جو پھٹنے سے پہلے بے گناہوں کو تو ایک کونے میں لے جا کر کھڑا کر دے اور پھر سب گناہگاروں کے درمیان جا کر پھٹ جائے جس سے گناہگاروں کے تو پرخچے اڑ جائیں اور بے گناہ شہریوں کو خراش بھی نہ آئے؟ جناب من! کیا افغانستان اورعراق میں امریکی افواج پر ہونے والے فدائی حملوں کی زد میں بھی عام شہری نہیں آجاتے؟ ان فدائی حملہ آوروں کے بارے میں آنجناب کا کیا فتویٰ ہے؟ کیا وہ بھی قتل عمد کے سنگین جر م کی وجہ سے ملعون، جہنمی اور مغضوب علیہم ہیں؟ اگر نہیں تو پھر یہ کیوں؟ اس زمانے میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں سے تو عام شہریوں کو بالکل بچانا تو بے حد مشکل ہے۔ توآپ کا کیا مشورہ ہے کہ مجاہدین صرف ڈنڈوں اور سونٹوں سے جنگ کیا کریں؟
آپ نے فرمایاہے کہ : ’’ اورجب تک پاکستان میں شریعت نافذ نہیں ہوتی، اس وقت تک کشمیر کوآزاد کروا کر پاکستان سے اس کے الحاق کے لیے ہونے والے اس جہاد کو اعلائے کلمۃاللہ کے لیے ہونے والا جہاد فی سبیل اللہ قرار دینا ایک زیادتی اور خلاف واقعہ امر ہے۔ کشمیر کا موجودہ جہاد بھی جہاد ہے، لیکن جہاد آزادی ہے۔‘‘
بندہ اس بات کامفہوم بالکل بھی نہیں سمجھا۔ یہ جہاد آزادی کیا ہوتا ہے؟ اس کی کیا حیثیت ہے؟ اور کفار سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جہاد کرناکیوں جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہے؟ اور کشمیر کا یہ جہاد آزادی جائز ہے یا ناجائز؟ نیز فلسطینیوں کے جہاد آزادی کے بارے میں محترم کی کیا رائے ہے؟
آخری بات آپ کی خدمت میںیہ عرض ہے کہ موجودہ حالات میں علماء دیوبند سے آپ کا شکوہ کسی حد تک بجا ہے، لیکن اگر آپ ان کی مجبوریوں پر ایک نگاہ ڈال لیتے تو ان سے اس قدر خفا نہ ہوتے۔ اس وقت ملک میں افراتفری اور نفسانفسی کا عالم ہے۔ حکومتی پروپیگنڈا مشینری رات دن پورے زور وشور سے ان کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف ہے۔ ان کی حمایت کرنا یا ان کے موقف کو بیان کرنا حکومت سے ٹکر لینے کے مترادف ہے۔ میں خود تو ٹی وی نہیں دیکھتا، مگر سنا ہے کہ جب کسی چینل پر حکومتی مفادات کے خلاف کوئی بات دکھائی جانے لگے تو اسی وقت اس کی اسکرین آف کردی جاتی ہے۔ ضرب مومن پر کئی بار پابندی لگ چکی ہے اوراب ’’اسلام‘‘ حکومتی دباؤ کے نیچے سسک رہا ہے۔ دن رات پھیلائے جانے والے مکروہ پروپیگنڈے کی رو میں بڑے بڑے بہہ رہے ہیں۔ دیوبندی علماء کرام تک جو خبریں پہنچ رہی ہیں، وہ حکومتی ذرائع سے نشرشدہ ہیں جن پر یقین کرناحماقت ہے۔ مجاہدین کاعلماء کرام سے ملنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے کہ وہ انہیں صحیح حالات بتاسکیں اور نہ ہی علماے کرام کے لیے ہرایک پر اعتماد کرناممکن ہے۔ ایک دھند چھائی ہوئی ہے جس میں صحیح حالت کا پتہ لگانا بے حد مشکل ہے۔ اور پھر علماء کرام کواس بات کاخیال کرنا بھی ضروری ہے کہ اگر وہ عمومی فتویٰ جاری کریں توکوئی غلط گروہ اس سے فائدہ نہ اٹھائے۔ لہٰذا ان حالات میں اگر دیوبندی علماء کرام کسی نتیجے پرنہیں پہنچ پاتے یا اپنے موقف کا برسر عام اظہار نہیں کرسکتے تو انہیں مطعون کرناکوئی شرافت نہیں۔ حافظ صاحب ! اس وقت پاکستانی حکومت مجاہدین کو ملیا میٹ کرنے پر تلی ہوئی ہے اور یوں کہا جائے تو بے جانہ ہو گا کہ اس وقت ان مجاہدین کی چند غلطیوں کی یا چند ایک غلط افراد کی آڑ لے کر ان کے خلاف نفرت پھیلانا اور مضمون با زی کابازار گرم کرنا امریکہ کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔
انھی گزارشات پر اکتفا کرتا ہوں۔ گستاخی پر معذرت!
عبد الرحیم خان
زیرگی، ڈومل، بنوں
(۹)
مولانا عمار خان ناصر صاحب زیدت معالیکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج مع الخیرہوں گے۔
الشریعہ کے نومبر دسمبر کے شمارے میں جہاد کے حوالے سے آپ کا مقالہ نہایت پر مغز اور منطقی استدلال کی قوت سے بہرہ ور ہے۔ اسلوب کی ندرت، استدلال، موضوع کا پہلو دار تجزیہ غالب کے الفاظ میں ’’گنجینہ معنی کا طلسم‘‘ ہوتا ہے اور ذہن میں کسی کہنہ مشق مفکر کا تاثر ابھرتا ہے اور دینی مدارس کی خاموش فضا کے پروردہ دانش ور کا تصور کر کے شعور کے نقار خانے میں گفتہ اقبال کا زمزمہ گونجنے لگتا ہے کہ
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی
اللہ تعالیٰ آپ کی فکر ارجمند کو امت کے نفع اور آخرت میں اپنی رضا کا ذریعہ بنائے اور ا س نہج پر استوار رکھے جو اس کے ہاں فی الواقع درست ہو، اگرچہ ’متفق گردید راے بو علی با راے من‘ کامصداق نہ بھی ہو۔
سید عبد المتین کشمیری
ایم فل اسکالر، کلیہ اصول الدین
اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد
(۱۰)
محترم عزیزی محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مجھے افسوس ہے کہ میں محترم استاذ گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب کی یاد میں ’’الشریعہ‘‘ کے وقیع خصوصی شمارے کے لیے تحریری شکل میں کوئی حصہ نہیں ڈال سکا۔ دیگر بے شمار لوگوں کی طرح مجھے بھی حضرت مرحوم ومغفور کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کرنے کا شرف حاصل ہے۔ میں نے ۱۴۰۳ھ کے شعبان اور رمضان میں مسجد نور میں انعقاد پذیر ہونے والے دورۂ تفسیر میں شرکت کی تھی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، اس دورے میں کوئی ساٹھ کے قریب طلبہ شامل تھے اور ان میں سے بعض کا تعلق پاکستان کے دور دراز علاقوں سے تھا۔
استاذ گرامی آیات اور سور کا ربط بڑے اہتمام سے بیان فرماتے تھے اور تشریح طلب نکات کے لیے بیضاوی سے لے کر روح المعانی تک کے حوالہ جات بیان فرماتے تھے۔ اس سے طلبہ بجا طورپر یہ محسوس کرتے کہ گویا کتب تفسیر ان کے سامنے کھول کر رکھ دی گئی ہیں۔ تمام طلبہ آپ کے قوی حافظے اور ضبط علم کے بڑے معترف تھے۔ ضعف وپیری کے باوجود حوالہ جات کے لیے آپ کی یادداشت سب کے لیے قابل رشک تھی۔ استاذ گرامی اشعار کا حوالہ بھی بکثرت دیا کرتے۔ بعض اوقات تاریخ، جغرافیہ اور فلسفے کے حوالے سے کوئی بات ہوتی تو آپ میری طرف خصوصی التفات فرماتے۔ شاید ان کی نگاہ میں، میں ان علوم سے کسی قدر آشنا تھا، حالانکہ مجلس میں بڑے بڑے صاحبان علم بھی موجود ہوتے تھے۔ بہرحال حصول علم کے وہ ایام میری زندگی کے قیمتی ترین ایام تھے۔ اولاً اس لیے کہ دن کا ایک معتد بہ حصہ مسجد میں گزرتا۔ ثانیاً کثیر اہل علم کی صحبت میسر آتی اور ثالثاً فہم قرآن کے لیے استاذ گرامی کے تبحر علمی سے فائدہ ملتا۔
استاذ گرامی کے تقویٰ وورع کا تو ایک جہان معترف ہے، آپ کا شمار یقیناًاللہ تعالیٰ کے مقربین میں بھی ہوتا ہے۔ اس کا واضح ثبوت آپ کی نماز جنازہ کے لیے خلق خدا کا کثیر تعداد میں حاضر ہونا تھا۔ میں نے زندگی بھر کسی جنازے پر لوگوں کا اس قدر جم غفیر نہیں دیکھا۔ ہزاروں نے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور ہزاروں حاضر ہونے کے باوجود شرکت سے محروم رہ گئے۔ میں بھی ایسے ہی محرومین میں شامل تھا۔ اس کی بڑی وجوہات بندگان خدا کا انبوہ کثیر، نقل وحرکت میں بے پناہ دقت اور جنازہ گاہ میں مزید گنجائش کا فقدان تھیں۔ اللہ تعالیٰ حاضر ہونے والے محرومین کو بھی اجر عطا فرمائے۔ آمین
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ راحتیں ارزاں فرمائے اور تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
ڈاکٹر محمد شریف چودھری
کوٹلی رستم، گلی 1، گوجرانوالہ
(۱۱)
محترم المقام جناب حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب
سلام مسنون مع نیاز مقرون
حضرت شیخ ؒ کے نمبر کے مضامین کے ظاہری ومعنوی حسن نے شیخ کے موفق من اللہ ہونے کی مہر ثبت کر دی ہے۔ شیخ کے نمبر نے علم کلام کو جدید انداز میں پیش کر کے ماخذ قدیم، دلائل جدید کی بنیاد فراہم کر دی ہے۔ مبارک ہو۔
نمبر میں مولانا عبد الحق خان بشیر صاحب کے مضمون نے شیخ کے علوم کی جو شرح کی ہے، وہ پوری کتاب کا متن ہے۔ آنے والا مورخ اسی ایک مختصر پر کئی مطول تیار کرے گا۔ مولانا بشیر صاحب کے مضمون سے قلمی نسبت شاید ان کے حصے میں آئی۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ! البتہ مولانا عبد الحق صاحب کے مضمون کے حوالے سے مفتی محمد عیسیٰ صاحب کے ارشاد پر عمل مفید معلوم ہوتا ہے۔
ماہنامہ الشریعہ نومبر/دسمبر میں مولانا یاسین ظفر صاحب نے مولانا مفتی محمد طیب صاحب پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اختلاف امتی رحمۃ‘‘ حدیث نہیں ہے اورمزید فرمایا کہ کسی ضعیف سند کے ساتھ بھی اس کا ذکر نہیں ملتا۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ امام بیہقی کی کتاب ’’المدخل‘‘ میں یہ روایت موجود ہے، امام زرکشی وغیرہ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے اور امام سیوطی کے ہاں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے مولانا ظفر اقبال صاحب کی کتاب ’’موضوع روایات‘‘ (شائع کردہ مکتبہ رحمانیہ) ص ۳۱ ملاحظہ فرمائیں۔
مولانا فضل محمد صاحب کے جواب میں حافظ زبیر صاحب کا مضمون عالمانہ سے زیادہ مجادلانہ ہے۔ تحقیق وانصاف کی عدالت میں دلائل کو دیکھا جاتا ہے، الزامات اہل قلم کے شایان شان نہیں ہوتے۔
نصرۃ العلوم، دسمبر ۲۰۰۹ء کے شمارے میں مولانا فیاض خان صاحب کا مضمون ’’جانشین امام اہل السنۃ کے ناقدین کے نام کھلا خط‘‘ بڑا اچھا ہے۔ اگر مولانا ابو الحسن علی ندویؒ زندہ ہوتے تو یقیناًفیاض صاحب کو اس پر انعام دیتے۔
(مولانا قاری) محمد عبد اللہ
سوکڑی کریم جان، بنوں
تعارف و تبصرہ
ادارہ
مجلہ ’’المصطفیٰ‘‘ کا امام اہل سنت نمبر
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی وفات کے موقع پر ملک کے متعدد جرائد نے ان کی یاد میں مختصر نوعیت کی خصوصی اشاعتیں پیش کیں، جبکہ جامعہ مدنیہ بہاولپور کے ترجمان مجلہ ’’المصطفیٰ‘‘ کی طرف سے ایک مفصل اشاعت پیش کرنے کا اعلان کیا گیا جو زیرنظر ضخیم مجلد کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس کی تیاری اور ترتیب وتدوین کا سہرا زیادہ تر ہمارے عم زاد، برادرم حافظ سرفراز حسن خان حمزہ کے سر ہے جنھوں نے بڑی محنت اور کاوش سے متنوع مضامین جمع کیے اور سلیقے سے انھیں قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔
اس اشاعت کے مندرجات کا ایک بڑا حصہ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے اہل خاندان کے معلوماتی اور تاثراتی مضامین پر مشتمل ہے اور یہی حصہ اس نمبر کی اصل زینت ہے۔ خاندان کے بزرگ اہل قلم کے علاوہ نوجوانوں میں سے برادرم ممتاز الحسن احسن اور برادرم سرفراز خان حمزہ نے اپنے تفصیلی مضامین میں حضرت کی خدمت میں گزارے ہوئے اوقات سے متعلق اپنی یادداشتیں بہت خوبی سے جمع کی ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے اکابر علما ومشائخ اور معروف اہل قلم کے مضامین کی بڑی تعداد جبکہ حضرت رحمہ اللہ کے مکاتیب اور تحریروں کا ایک مختصر انتخاب بھی شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ یہ تمام مواد حضرت رحمہ اللہ کی شخصیت، مزاج، کردار، طرز عمل اور ان کی حیات وخدمات کے مختلف گوشوں پر بھرپور روشنی ڈالتا ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت کی شخصیت اور خدمات سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے ذوق کی تسکین کے لیے اس نمبر میں بہت عمدہ لوازمہ موجود ہے۔ چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:
’’طبیعت میں ظرافت کا عنصربھی نمایاں تھا۔ تقاریر میں بسا اوقات ظرافت کا یہ عنصر سامعین کو بے حد ’’محظوظ‘‘ کرتا، لیکن عام پیشہ ور مقررین کی طرح آپ کی ’’ظرافت‘‘ خلاف حقیقت اور خلاف واقعہ نہ ہوتی تھی بلکہ اس ظرافت میں بھی آپ پورا مسئلہ سمجھا دیتے تھے۔ ایک دفعہ جمعہ کی تقریر میں ایک شخص نے چٹ لکھی کہ ’’جیب میں اگر تصویر ہو تو نماز ہوتی ہے یا نہیں؟‘‘ آپ نے ازراہ مزاح فرمایا کہ جس کو شبہ ہو، وہ اپنی جیب میں سے وہ تمام نوٹ جن پر بانی پاکستان کی تصویر ہے، مجھے دے دیں۔‘‘ (ص ۳۲، مضمون از مولانا عبد الحق خان بشیر)
’’وہ عام جلسہ، خطبہ جمعہ اور عمومی درس میں اصلاحی عنوانات پر گفتگو کرتے تھے اور بالکل سادہ لہجے میں عقیدۂ توحید کی وضاحت، سنت کی اہمیت، عام مسلمانوں کی اخلاقی اصلاح اور حلال وحرام کے مسائل پر بات کیا کرتے تھے، البتہ اختلافی سمجھے جانے والے مسائل میں سے کوئی مسئلہ درمیان میں آ جاتا تو اسے نظر انداز کرکے آگے نہیں گزر جاتے تھے، بلکہ ا س پر اپنا موقف دوٹوک انداز مین بیان کر کے ضروری دلائل کا حوالہ بھی دیتے تھے۔ حضرت امام اہل السنۃ رحمہ اللہ کے طرز عمل کا یہ پہلو عام طور پر سب حضرات کے سامنے نہیں ہوتا، اس لیے بسا اوقات الجھن پیدا ہونے لگتی ہے۔‘‘ (ص ۷۴، مضمون از مولانا زاہد الراشدی)
’’ایک دفعہ محترم جناب حاجی اللہ دتہ صاحب کے ساتھ ایک وکیل آیا جو غالباً ڈسکہ کا رہنے والا تھا۔ ان کو بیٹھک میں بٹھایا گیا اور ان کے لیے چائے تیار کی جا رہی تھی کہ اچانک بیٹھک سے حضرت کی زور دار آواز گونجنے لگی۔ میں دوڑ کر گیا تو دیکھا کہ حضرت کے ہاتھ میں کلہاڑی پکڑی ہوئی ہے اور محترم بٹ صاحب درمیان میں حائل ہیں اور وہ وکیل ایک جانب کھڑا ہے۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ بٹ صاحب کو کہہ رہے تھے کہ اس کو فوراً میری بیٹھک سے نکال دو، میں اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔ جلدی سے اس کونکال دیا گیا۔ کچھ اور حضرات بھی جمع ہو گئے اور حضرت سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ وکیل صاحب نے باتوں باتوں میں کہہ دیا کہ اسلام کو نقصان پہنچانے والے بنو امیہ ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ سارے بنو امیہ کے بارے میں ایسا نہ کہیں، اس لیے کہ اس میں حضرت عثمان اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما بھی آتے ہیں تو اس نے کہا کہ اصل تو یہی ہیں۔ اس کے ان الفاظ پر مجھے غصہ آیا اور بٹ صاحب سے کہا، اسے یہاں سے نکال دو۔‘‘ (ص ۸۳، مضمون از مولانا عبد القدوس خان قارن)
’’ایک مرتبہ مجھے خود بتایا کہ تعلیم کے زمانے میں مجھے اور صوفی کو دن رات میں صرف ایک روٹی ملتی تھی، وہ بھی بغیر سالن کے۔ میں اپنے حصے کی روٹی بھی صوفی کو دے دیتا تھا کہ یہ چھوٹا ہے، بھاگ نہ جائے۔ میں نے پوچھا کہ پھر آپ خود کیا کھاتے تھے؟ فرمایا کہ لوگ بھینسوں کو شلجم وغیرہ کے پتے ڈالتے تھے۔ وہ بچے ہوئے میں دھو کر کھا لیتا تھا۔‘‘ (ص ۲۰۳، مضمون از حافظ ممتاز الحسن خان احسن)
’’۲۰۰۲ء کے الیکشن سے قبل جب دینی جماعتوں کا اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کی شکل میں سامنے آیا تو آپ نے اس کی بھرپور حمایت اور تائید فرمائی اور باقاعدہ جمعہ میں ان کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا، حالانکہ وہ دیوبندی بھی نہیں تھا۔ بعض حضرات نے راقم کے سامنے اس سلسلے میں آپ رحمہ اللہ سے گزارش کی کہ اگر صرف اہل السنۃ والجماعۃ والے ہی سب مل جائیں اور کسی دوسرے کو نہ ملائیں تو کیا یہ بہتر نہیں تھا؟ تو آپ نے فرمایا کہ مولانا! ان کی مجبوری ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو حکومت کو بہانہ مل جاتا۔ ایک صاحب نے زیادہ الجھنے کی کوشش کی تو آپ نے ان کو خاموش کرا دیا۔‘‘ (ص ۳۰۸، مضمون از حافظ سرفراز خان حمزہ)
اس خصوصی اشاعت میں فطری طور پر حضرت شیخ الحدیث رحمہ کا منہج فکر اور مسلک ومشرب بھی زیر بحث آیا ہے اور مختلف اہل قلم نے اس کے مختلف پہلووں کو اپنے اپنے ذوق اور انداز سے واضح کیا ہے۔ اسی ضمن میں بعض تحریروں میں مولانا محمد طارق جمیل کے خیالات، مولانا محمد الیاس گھمن کا طرز عمل اور راقم الحروف کی بعض آرا بھی نقد وتبصرہ کا موضوع بنی ہیں، لیکن ’’بے لاگ احقاق حق‘‘ کی یہ روایت ہر جگہ برقرار نہیں رکھی جا سکی۔ ذرا دار العلوم کراچی کے مہتمم مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کی درج ذیل تحریر ملاحظہ فرمائیے:
’’۱۹۸۶ء عیسوی کی دہائی میں ناچیز لاہور سے سفر کر کے آپ کی خدمت میں گکھڑ منڈی خاص اس مقصد کے لیے حاضر ہوا کہ دیوبندی اوربریلوی مکاتب فکر کے درمیان جو خلیج بڑھتی جا رہی ہے، اسے کم بلکہ ختم کرنے کی راہ تلاش کی جائے۔ اس مقصد کے لیے پہلے ہی ہماری کئی ملاقاتیں مولانا مفتی محمد حسین نعیمی صاحب سابق مہتمم دار العلوم نعیمیہ لاہور، مفتی ظفر علی نعمانی سابق مہتمم دار العلوم امجدیہ کراچی، علامہ عبد المصطفیٰ ازہری سابق شیخ الحدیث دار العلوم امجدیہ کراچی اور مولانا محمد شفیع اوکاڑوی وغیرہم سے ہو چکی تھیں۔ان سب حضرات کا تعلق بریلوی مکتبہ فکر سے ہے۔ ان ملاقاتوں سے میں ا س نتیجہ پر پہنچا تھا کہ عقائد کے باب میں دونوں مکاتب فکر کا اختلاف بڑی حد تک صرف تعبیر اور الفاظ کا اختلاف ہے۔ حقیقت میں ایسا کوئی اختلاف عقائد کے باب میں نہیں ہے جس کی بنا پر ایک دوسرے کو گمراہ یا فاسق قرار دیا جائے۔ ہاں بہت سے اعمال میںیہ اختلاف ضرور ہے کہ ہم انھیں بدعت کہتے ہیں اور ان کے نزدیک وہ بدعت میں داخل نہیں۔‘‘ (ص ۳۷۴)
’’یہ تھا وہ پس منظر جس کے تحت ناچیز امام اہل السنۃ شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ سے ملاقات کرنے اور رہنمائی حاصل کرنے کے لیے گکھڑ منڈی حاضر ہوا تھا۔ حضرت نے بہت شفقت فرمائی اور جس مقصد کے لیے حاضر ہوا تھا، اس پر مسرت کا بھی اظہار فرمایا اور اس کی تائید فرمائی، لیکن طبیعت ناساز تھی۔ زیادہ گفتگو نہ ہو سکی۔‘‘ (ص ۳۷۶)
بریلوی دیوبندی اختلاف سے متعلق مفتی صاحب کا یہ تجزیہ حضرت شیخ الحدیث کے منہج فکر اور نظریات سے کتنا ہم آہنگ ہے، یہ نکتہ زیادہ محتاج وضاحت نہیں، لیکن کسی وضاحتی یا اختلافی نوٹ کے بغیر اس کی شمولیت نہ اس اشاعت کے مرتبین کو کھٹکی ہے اور نہ موصولہ مواد پر نظر ثانی کر کے اس کی منظوری دینے والے بزرگوں کو۔ اس کے وجوہ اور مصالح غالباً زیادہ ناقابل فہم نہیں ہیں۔
ص ۲۳۲ پر اسلامی ٹی وی چینل کے جواز وعدم جواز کے تناظر میں حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا موقف بیان کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ: ’’دادا جان آخر تک سختی سے ٹی وی کی حرمت کے قائل رہے اور اس بارے میں ان کا رویہ بے لچک رہا۔‘‘ یہ بات واقعاتی طور پر پوری طرح درست نہیں، اس لیے کہ حضرت رحمہ اللہ کی طرف سے ٹی وی چینل کے عدم جواز کا فتویٰ سامنے آنے کے بعد عم مکرم مولانا قاری حماد الزہراوی مدظلہ نے اس مسئلے پر ان کے ساتھ متعدد مواقع پر گفتگو کی اور یہ گزارش کی کہ جب شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے لیے تصویر بنوانے کو ایک دینی ضرورت کے تحت جائز قرار دیا جا رہا ہے کہ حج وغیرہ دینی فرائض اس پر موقوف ہیں بلکہ وفاق المدارس کے امتحانات کے لیے محض ایک عملی ضرورت کے تحت تصویر کو نہ صرف جائز بلکہ لازم قرار دیا گیا ہے تو آخر اسلام کے دفاع وتحفظ اور دین دشمن عناصر کی فکری یلغار سے نئی نسل کو بچانے کے لیے ٹی وی چینل کو کیوں عملی جواز کے دائرے میں نہیں لایا جا سکتا؟ عم مکرم کی روایت کے مطابق حضرت رحمہ اللہ نے اس پر ان سے فرمایا کہ تمہارا یہ نکتہ قابل غور ہے، اس لیے تم اپنا موقف تحریری صورت میں مولانا محمد تقی عثمانی اور مولانا سلیم اللہ خان کے پاس بھیجو اور ان کی طرف سے جو جواب آئے، اس سے مجھے آگاہ کرو۔ اس کے بعد حضرت رحمہ اللہ نے ازخود دو تین مرتبہ عم مکرم کو اس کی یاد دہانی کرائی اور تاکید کی کہ وہ اپنی تحریر جلد مذکورہ دونوں بزرگوں کی خدمت میں روانہ کریں۔ عم مکرم کی اس روایت کی روشنی میں یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ حضرت کا رویہ اس معاملے میںآخر تک ’’بے لچک‘‘ رہا۔
خصوصی اشاعت کے مضامین کا عمومی انداز اور اسلوب سنجیدہ اور باوقار ہے، لیکن بعض تحریروں کا معیار خاصا پست اور کسی مزاحیہ اسٹیج ڈرامے کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ معلوم نہیں، اہل سنت کے ایک بلند پایہ عالم اور محقق کے افکار وتحقیقات کے تعارف کے لیے اس اسلوب کو کیسے گوارا کیا گیا ہے۔
مضامین کے آخر میں خالی جگہ کو پر کرنے کے لیے حضرت رحمہ اللہ کے مختلف واقعات درج کیے گئے ہیں جو زیادہ تر ماہنامہ ’’ہدی للناس‘‘ گوجرانوالہ کی خصوصی اشاعت میں شائع ہونے والے ایک مضمون سے ماخوذ ہیں۔ بہتر تھا کہ ان کا حوالہ درج کر دیا جاتا تاکہ قارئین کے سامنے اصل ماخذ بھی آ جاتا اور صحافیانہ اخلاقیات کی بھی پاس داری ہو جاتی۔
۸۶۲ صفحات پر مشتمل یہ اشاعت دار العلوم مدنیہ، ماڈل ٹاؤن بی، بہاول پور نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۳۵۰ روپے ہے۔
(تبصرہ نگار: محمد عمار خان ناصر)
’’حدود وتعزیرات۔ چند اہم مباحث‘‘
پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل ایک اعلیٰ سطحی علمی ادارہ ہے جسے سرکاری سرپرستی حاصل ہے اور وقت کے جید علماء کرام، ماہرین شریعت وقانون اس سے وابستہ رہے ہیں۔ یہ بات اور ہے کہ پاکستان کے اہل سیاست اور اہل اقتدار جو کہ نفاذ اسلام کے سلسلے میں سنجیدہ ومخلص کبھی نہیں رہے، بلکہ نفاذ اسلام کو ایک سیاسی نعرے کے طورپر استعمال کیا گیا، اس لیے اس کونسل کی سفارشات بھی سرد خانے کی نذر زیادہ ہوتی رہی ہیں۔
۲۰۰۷ء میں حدود وتعزیرات سے متعلق اسلامی نظریاتی قوانین کے نفاذکے بارے میں کونسل نے اپنی ۱۰ نکاتی سفارشات پیش کی تھیں جن پر وقت کے اہل علم واصحاب رائے سے کونسل نے تبصرہ کرنے کی گزارش کی تھی۔ ان سفارشات پر تنقید، جائزہ واحتساب اور رد عمل کے سلسلے میں ایک تحریر جناب مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب نے بھی لکھی تھی جسے خود کونسل نے شائع کیا۔ زیرنظر کتاب اصلاً اسی علمی تبصرے کی توسیع شدہ صورت ہے۔
کتاب کے مصنف محمد عمار خان ناصر ایک علمی خانوادے کے چشم وچراغ ہیں۔ ان کے دادا مشہور محدث مولانا سرفرازخاں صفدرؒ ہیں جبکہ والد مولانا زاہد الراشدی بھی پاکستان کے علماء میں علمی تبحر، فکری پختگی، وسعت مطالعہ اور عصری ضرورتوں کے ادراک کے لحاظ سے اپنی نمایاں اور ممتاز شناخت رکھتے ہیں۔ محمد عمار خان ناصر معروف علمی مجلہ ’’الشریعہ‘‘ کے مدیر ہیں۔ انھوں نے اس کتاب میں شرعی احکام کے نفاذ کے حوالے سے روایتی فقہی موقف سے مختلف بعض نئی آرا وافکار پر تبصرہ بھی کیا ہے اور ان کے علمی پس منظر اور بنائے استدلال کو بھی واضح کیا ہے۔ اس زاویے سے یہ کتاب فکر اسلامی اور فقہیات کے ذخیرے میں متعدد نئے اور معرکۃ الآراء مباحث کا اضافہ کرتی ہے۔
دیباچہ، پیش لفظ اور تمہید کے علاوہ کتاب تیرہ اہم مباحث پر مشتمل ہے جن میں شرعی سزاؤں کی ابدیت، سزاؤں کے نفاذ اور اطلاق کے اصول، قصاص کے معاملے میں ریاست کا اختیار، دیت کی بحث، قصاص ودیت میں مسلم وغیر مسلم کا امتیاز، زنا، قذف، سرقہ، حرابہ، ارتداد اور توہین رسالت کی سزائیں، شہادت کا معیار اور نصاب، غیر مسلموں پر شرعی قوانین کا نفاذ، قصاص اور شہادت کے لیے غیر مسلموں کی اہلیت جیسے مباحث پر مشتمل ہے۔ مصنف نے اکثر مباحث میں فقہاء قدیم وجدید کے موافق اور ان کی آرا کے پہلو بہ پہلو بعض نئے علما ومفکرین اور ان کے خیالات بھی پیش کیے ہیں، مختلف آرا کا جائزہ لیا ہے اور بے لاگ، منصفانہ وتنقیدی محاکمہ کر کے دلائل کی روشنی میں جو پہلو یا رائے قابل ترجیح محسوس ہوئی، اس کا اظہار جرات سے کر دیا ہے۔ آخر میں ایک ضمیمہ ’’شریعت، مقاصد شریعت اور اجتہاد‘‘ بھی کتاب میں شامل کیا ہے۔
مولف کا طرز بیان سادہ رواں، اسلوب منطقی وسائنٹفک اور مجموعی اپروچ غیر جانب دارانہ اور منصفانہ ہے۔ علمی امانت ودیانت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ہر مبحث پر سیر حاصل گفتگو کرنے کی انھوں نے کوشش کی ہے اور اس میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ان کی تمام رایوں اور نتیجوں سے اتفاق کیا جائے، تاہم مولف اس لحاظ سے قابل مبارک باد ہیں کہ انھوں نے ماضی کے علمی ورثے اور فقہی ذخیرے سے استفادہ کرتے ہوئے اور اس کے مسلمہ اصولوں کو برتتے ہوئے بین الاقوامی مسائل اورمطالبات کے حل کی عملی صورتیں نکالنے کی اجتہادی کوشش کی ہے۔
فقہاء نے فساد فی الارض کے اصول کے تحت مبتدعانہ افکار کو پھیلانے والے اور اہل بدعت وزندیقوں کے لیے سزائے موت کا جواز اخذ کیا ہے، لیکن فقہا کی اس رائے پر عصر حاضر کے پس منظر میں مصنف نے بہترین محاکمہ کیا ہے۔ ان کا جامع ومختصر نوٹ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ (دیکھیے صفحہ ۱۹۸، ۱۹۹) رجم کے سلسلے میں بھی انھوں نے تمام مباحث کو اختصار وجامعیت کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ رجم کے سلسلے میں مختلف روایات اور قرآن مجید کے ساتھ اس حکم کی توفیق وتطبیق کرتے ہوئے اس ضمن میں جو قدیم وجدید علمی توجیہات پیش کی گئی ہیں، ان کا ذکر کرتے ہوئے بیشتر پر تنقید کی ہے۔ انھوں نے خود کوئی حتمی رائے نہیں دی، تاہم ان کاکہنا ہے کہ ’’اس ضمن میں اب تک جو توجیہات سامنے آئی ہیں، وہ اصل سوال کا جواب کم دیتی اور مزید سوالات پیدا کرنے کی موجب زیادہ بنتی ہیں۔‘‘ (ص ۱۶۵) اس کے بعد انھوں نے عقلاً ترجیح کے اصول پر کسی متعین رائے کو اختیار کرنے کے طریقے بیان کیے ہیں۔ البتہ اس بحث میں مبصر کی رائے یہ ہے کہ عبادہ بن صامت والی روایت: خذوا عنی خذوا عنی قد جعل اللہ لہن سبیلا ... جلد ماءۃ وتغریب عام پر سند ومتن کے لحاظ سے کلام کیا گیا ہے اور ایک جدید تحقیق کی رو سے یہ روایت کمزور ہے، لہٰذا اسے مدار بحث بناتے وقت اس کی اس پوزیشن کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔ (دیکھیں: علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی، مفتاح القرآن، سورۃ النساء ص ۳۱ تا ۲۳)
موجودہ دور میں سب سے زیادہ زیر بحث موضوع ارتداد کی سزا ہے۔ جناب عمار خان ناصر اس سلسلے میں کلاسیکل فقہی رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ انھوں نے اپنی جامع بحث میں قدیم فقہا کا موقف اوران کے دلائل بیان کر دیے ہیں اور اس سلسلے میں جدید اہل علم ونظر کا موقف بھی بیان کر دیا ہے۔ ا س سلسلے میں ایک جدید نقطہ نظر یہ ہے کہ ’’قتل مرتد کا حکم شریعت کا عمومی ضابطہ نہیں، بلکہ اس کا تعلق صرف مشرکین بنی اسماعیل سے ہے جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد براہ راست اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت موت کی سزا نافذ کی گئی تھی۔‘‘ (جاوید احمد غامدی، برہان ۱۳۹-۱۴۳) ناصر صاحب اصولی طور پر اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے اس میں یہ توسیع کرتے ہیں کہ ’’اہل کتاب کو بھی اس کے دائرۂ اطلاق میں شامل سمجھنے میں کوئی مانع نہیں۔‘‘ (ص: ۲۲۷)
کتاب کے تمام مباحث کا جائزہ لینے سے تبصرہ طویل ہو جائے گا اور تبصرہ کی حدود سے نکل کر مضمون کی شکل اختیار کرلے گا، اس لیے مختصراً یہ کہنا مناسب ہوگا کہ یہ کتاب اسلامی حدود وتعزیرات سے متعلق نئے مباحث کی تفہیم میں مفید ومددگار بھی ہے اور علمی بحث ومباحثہ کو آگے بڑھانے کی ایک صحت مندانہ کوشش بھی۔ امید ہے کہ اہل علم اس سے کماحقہ استفادہ کریں گے اور علمی تنقید وتنقیح کے ذریعے اس سلسلہ بحث کو آگے بڑھایا جا سکے گا۔
(تبصرہ نگار: ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی۔ بشکریہ مجلہ ’’ترجمان دار العلوم‘‘ انڈیا)
فروری ۲۰۱۰ء
دینی جدوجہد کے عصری تقاضے اور مذہبی طبقات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
متحرک جماعتی زندگی سے کنارہ کشی کے بعد گزشتہ دو عشروں سے راقم الحروف دینی جدوجہد کے عصری تقاضوں اور دینی جماعتوں اور طبقات کی ذمہ داریوں کے حوالے سے کچھ نہ کچھ گزارشات پیش کر رہا ہے۔ معروضی حالات کے تناظر میں اس ’’صدائے فقیر‘‘ کے بعض پہلووں کو یہاں دہرانا مناسب معلوم ہوتا ہے:
- پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے صرف سیاسی اور پارلیمانی جدوجہد کافی نہیں ہے، بلکہ پبلک دباؤ اور عوامی قوت بھی اس کی ناگزیر ضرورت ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ماضی کی طرح غیر سیاسی دینی قوتیں اور جماعتیں بھی میدان میں متحرک رہیں۔ بالخصوص اس وقت ایک نئی دینی جماعت کی ضرورت ہے جو غیر سیاسی ہو اور مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کرتی ہو۔ ’’غیر سیاسی‘‘ سے میری مراد یہ ہے کہ وہ جماعت ووٹ، الیکشن اور اقتدار کی سیاست سے الگ رہے، پاور پالیٹکس کا حصہ بننے کی بجائے مشترکہ دینی، ملی اور قومی مقاصد کے لیے تحریکی انداز میں کام کرے اور رائے عامہ، عوامی دباؤ اور اسٹریٹ پاور کے اس خلاکو پر کرنے کی کوشش کرے جو دینی تحریکات کی اصل قوت ہوا کرتی تھی اور جو ہم نے خاصی حد تک کھو دی ہے۔
- دینی جماعتوں اور حلقوں کے درمیان کشمکش اور ایک دوسرے کے کام کی نفی اور استخفاف واستحقار کا روز افزوں ذوق ومزاج ہمارے لیے زہر قاتل ہے۔ اس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے اور دینی جدوجہد کو صحیح رخ پر آگے بڑھانے کے لیے انتہائی درجہ میں لازم ہے کہ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کیا جائے، ایک دوسرے کے کام کا احترام کیا جائے اور باہمی مشاورت، مفاہمت اور تعاون کی فضا قائم کی جائے۔
ہماری دینی جدوجہد خصوصاً نفاذ اسلام کی تحریک کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس سلسلے میں کام کرنے والی بہت سی جماعتیں مسلکی دائروں میں محدود ہیں جس کی وجہ سے وہ ایک خاص حد سے آگے بڑھ نہیں پا رہیں۔ میں اس سلسلے میں یہ حوالہ دینا چاہوں گا کہ انقلاب ایران کے بعد مجھے علماء کرام اور وکلا کے ایک وفد کے ساتھ ایران جانے کا موقع ملا جس میں مولانا منظور احمد چنیوٹی اور حافظ حسین احمد بھی شامل تھے۔ یہ ۱۹۸۷ء کی بات ہے۔ اس موقع پر ایک مجلس میں یہ سوال سامنے آیا کہ کیا پاکستان میں کوئی عالم دین اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ خمینی صاحب کی طرح ایک عوامی انقلاب کی قیادت کر سکے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک نہیں بلکہ ہمارے پاس دو شخصیات ایسی موجود تھیں جو خمینی بن سکتی تھیں۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی کے بعد مولانا مفتی محمود یا مولانا شاہ احمد نورانی میں سے جو بھی آگے بڑھتا، قوم اس کو خمینی کا مقام دینے کے لیے تیار ہوتی، مگر مصیبت یہ ہے کہ مولانا مفتی محمود آگے بڑھتے تو مولانا شاہ احمد نورانی کے پیروکار ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے اور اگر مولانا شاہ احمد نورانی پیش رفت کرتے تو یہ بات مولانا مفتی محمود کے پیروکاوں کے لیے قابل قبول نہ ہوتی۔
ہمارے ہاں نفاذ اسلام کی جدوجہد کا گیئر ہمیشہ اس مقام پر آکر پھنس جاتا ہے۔ یہ ایک معروضی حقیقت ہے جس کی جتنی بھی تاویل کر لی جائے، مگر اس کے وجود سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے میرے نزدیک کسی دینی جدوجہد یا تحریک کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلکی ترجیحات سے بالاتر ہو اور اس کے لیے میرے خیال میں قیام پاکستان سے پہلے کی ’’مجلس احرار اسلام‘‘ ایک اچھی مثال ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام اور دیگر طبقات کے اہل دانش نے مل کر ایک جماعت تشکیل دی اور مسلکی ترجیحات سے بالاتر ہو کر ملی وقومی مقاصد کے لیے عوامی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔ - ہمارے دینی مدارس فکری تربیت کے حوالے سے بانجھ ہو چکے ہیں اور وہ فضا اب کسی حد تک بھی موجود نہیں ہے جو اب سے تیس برس پہلے تک مدارس میں فکری، اخلاقی بلکہ دینی تربیت کے حوالے سے دکھائی دیتی تھی۔ ہمارے طلبہ بلکہ مدرسین کی اکثریت کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ہماری ماضی قریب کی دینی وملی تحریکات کن مقاصد کے لیے تھیں، جنگ آزادی میں کون کون سے حضرات نے قائدانہ کردار ادا کیا اور دیگر ملی تحریکات کے اہداف کیا تھے۔ ہمارے مدارس میں ذہنی تیاری اور فکری تربیت کے دائرے محدود سے محدود تر ہوتے جا رہے ہیں جس سے کنفیوژن اور ذہنی انتشار بڑھتا جا رہا ہے اور اسی کیفیوژن اور ذہنی انتشار سے بہت سی پس پردہ قوتیں مسلسل ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ یہ مسئلہ بڑے دینی مدارس اور وفاق المدارس کے سوچنے کا ہے، مگر وہاں بھی اس کے بظاہر کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ کئی برس سے میرا معمول ہے کہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں دورۂ حدیث کے طلبہ کو ہفتہ وار لیکچر کی صورت میں انسانی حقوق، معاصر مذاہب کے تعارف، ماضی قریب کی دینی تحریکات اور پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کے فکری وعلمی پہلووں کی طرف سرسری انداز میں توجہ دلانے کی کوشش کرتا ہوں تو بہت سے طلبہ میرے منہ کی طرف یوں دیکھتے ہیں جیسے میں اس دنیا کی نہیں، بلکہ کسی اور دنیا کی بات کر رہا ہوں اور شاید میں انھیں اس طرح گمراہ کر کے ’’اکابر‘‘ کے مسلک سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ - ہمارے ہاں فکری تربیت کے فقدان کا ایک نامحمود نتیجہ اور ثمرہ یہ بھی ہے کہ ہم سب نے خود کو اختلاف او ر تنقید سے بالاتر سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک دوست میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ فلاں صاحب نے آپ کے خلاف کتاب لکھی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اگر انھیں میری کچھ باتوں سے اختلاف ہے تو ان پر لکھنا ان کا حق ہے۔ فرمانے لگے کہ انھوں نے آپ پر سخت تنقید کی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ بھی ان کا حق ہے۔ اس پر انھوں نے کہا کہ آپ اس کا جواب لکھیں۔ میں نے عرض کیا کہ میں اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ میرا موقف بھی لوگوں کے سامنے ہے، ان کا موقف بھی آ گیا ہے۔ لوگ خود فیصلہ کر لیں گے کہ کس کی بات درست ہے۔ میں نے ان سے یہ بھی گزارش کی کہ جماعت اسلامی کے ساتھ ہمارا نصف صدی سے یہ اختلاف چلا آ رہا ہے کہ انھوں نے اپنے دستور میں صحابہ کرام کو تنقید سے بالاتر تسلیم نہیں کیا، حالانکہ اہل سنت کا صدیوں سے یہ موقف ہے کہ صحابہ کرام تنقید سے بالاتر ہیں، مگر اب صورت حال یہ ہے کہ ہم نے صحابہ کرام کے ساتھ تنقید سے بالاتر ہونے والوں کا دائرہ بہت زیادہ وسیع کر لیا ہے جسے مزید وسیع کرتے جا رہے ہیں اور خود بھی اس میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
- نفاذ شریعت کا راستہ روکنے کا کام عالمی سطح پر ہے اور بین الاقوامی لابیاں اس کے لیے مسلسل متحرک ہیں۔ ان کے کام کو سمجھنا، طریق واردات سے واقفیت حاصل کرنا اور ان کے سد باب کے لیے منصوبہ بندی کرنا بھی دینی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ نفاذ شریعت کے لیے سطحی نعرے بازی اور جذباتی تقریروں سے آگے بڑھ کر ذہن سازی، ہوم ورک، لابنگ، ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال اور دینی قوتوں کا باہمی ربط وتعاون بھی ضروری ہے۔ ہمارے مدارس کے طلبہ، مدرسین، دینی جماعتوں کے راہ نما اور کارکن اور مساجد کے ائمہ وخطبا کی غالب اکثریت اسلام اور مغرب کے درمیان انسانی حقوق کے عنوان سے لڑی جانے والی عالمی ثقافتی جنگ سے سرے سے واقف نہیں ہے، اس لیے مدرسین اور طلبہ کو اس کے لیے تیار کرنا اور یونانی فلسفہ کی طرح مغربی فلسفہ کو تدریسی نصاب میں شامل کرنا دینی مدارس کے فرائض میں شامل ہے۔ اسی طرح علمی مسائل اور خاص طور پر جدید فکری اور ثقافتی مسائل پر باہمی بحث ومباحثہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور محاذ آرائی سے ہٹ کر علمی انداز میں اس بحث ومباحثہ کو آگے بڑھانے اور اس کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔
الحاج حافظ شیخ بشیر احمد کا انتقال
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ کے امیر الحاج حافظ شیخ بشیر احمد گزشتہ دنوں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ اور ان کے والد محترم حاجی شیخ علم الدین مرحوم، امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر اور مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمہما اللہ تعالیٰ کے ابتدائی ساتھیوں میں سے تھے۔ ایک عرصہ تک انھوں نے مدرسہ نصرۃ العلوم اور جامع مسجد نور کی انتظامیہ کے سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، مگر بعد میں ایک مرحلے پر اختلافات کی وجہ سے وہ مدرسہ اور مسجد کی انتظامیہ سے الگ ہو گئے۔ وہ شہر کی متعدد مساجد اور مدارس کی خدمت کرتے تھے اور نیک دل اور مخیر بزرگ تھے۔ انھوں نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں جمعیۃ علماء اسلام کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا اور جمعیۃ علماء اسلام کی جماعتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ آخری عمر میں کئی برسوں سے وہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ کے امیر تھے اور دلچسپی کے ساتھ جماعتی سرگرمیوں میں شریک ہوتے تھے۔
ان کی نماز جنازہ ان کے فرزندان کی خواہش پر راقم الحروف نے پڑھائی جس میں شہر کے بزرگ علماء حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی ار حضرت مولانا مفتی محمد اویس سمیت علماء کرام اور دینی کارکنوں اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مدرسہ نصرۃ العلوم میں میری طالب علمی کا سارا زمانہ ان کے دور میں گزرا ہے اور بعد میں بھی جماعتی ودینی سرگرمیوں میں ان کے ساتھ مسلسل رفاقت رہی ہے۔ ان کی وفات کے اس غم میں ہم ان کے فرزندان اور دیگر اہل خاندان کے ساتھ شریک ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت مرحوم کی حسنات کو قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور سب پس ماندگان کو صبر وحوصلہ کے ساتھ ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
موجودہ عیسائیت کی تشکیل تاریخی حقائق کی روشنی میں
ڈین براؤن
مترجم: عمران الحق چوہان ایڈووکیٹ
(ڈین براؤن گزشتہ چند برسوں میں مقبولیت حاصل کرنے والے مصنف ہیں اور ان کا شمار اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مصنفین میں ہوتا ہے۔ ان کی حقیقی شہرت کا آغاز ان کے ناول ’’دا ڈاونچی کوڈ‘‘ (ناشر: کورگی بکس، سال اشاعت: ۲۰۰۳ء) سے ہوا۔ یہ ناول اگرچہ ایک دلچسپ روایتی جاسوسی ناول ہے، لیکن اس میں مروجہ عیسائی مذہبی اعتقادات اور رسوم کے متعلق کچھ ایسی باتیں تحریر کی گئیں جن سے مغربی معاشرے میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا اوردیکھتے ہی دیکھتے یہ ناول عام موضوع بحث کی صورت اختیار کر گیا۔ معاملات عدالت تک بھی پہنچے، لیکن اس کے باوجود اس کی شہرت ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلتی گئی اور اس کی مقبولیت کودیکھتے ہوئے ہالی وڈ نے اس پر فلم بھی بنا ڈالی۔ مروجہ عیسائیت کے عقائد سے متعلق مصنف کے نظریات سے آگہی مسلم قارئین کے لیے دل چسپی اورمعلومات کا باعث ہو سکتی ہے۔ ذیل میں ان کے ناول کے باب ۵۵ کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ مترجم)
لینگڈن کے پہلو میں دیوان پر بیٹھی سوفی نے چائے کا گھونٹ بھرا اور کیفین کے خوشگوار اثرات محسوس کرنے لگی۔ سرلیہ ٹی بنگ آتش دان کے سامنے ڈگمگاتے ہوئے ٹہل رہے تھے۔ ان کی ٹانگوں پر چڑھے آہنی شکنجے کی آواز پتھر کے فرش پر گونج رہی تھی۔
مقدس جام ٹی بنگ نے خطیبانہ لہجہ میں کہا: ’’ اکثر لوگ مجھ سے صرف اس کے مقام کے متعلق پوچھتے ہیں اور شاید اس کا جواب میں کبھی نہیں دے پاؤں گا‘‘۔ وہ مڑا اور براہ راست سوفی کی طرف دیکھا۔ ’’تاہم اس سے کہیں زیادہ متعلقہ سوال یہ ہے کہ ’’ مقدس جام ہے کیا؟ ‘‘
سوفی نے اپنے دونوں مرد ساتھیوں میں علمی تجسس پیدا ہوتے محسوس کیا۔ ’’ جام کومکمل طور پر سمجھنے کے لیے‘‘، ٹی بنگ نے بات جاری رکھی، ’’ہمیں پہلے بائبل کو سمجھنا چاہیے۔ تم عہد نامہ جدید کے متعلق کس حد تک جانتی ہو؟ ‘‘
سوفی نے کندھے اچکائے۔ ’’حقیقتاًکچھ بھی نہیں۔ دراصل میری پرورش ایسے شخص نے کی ہے جو لیونار ڈو ڈاونچی کا پجاری تھا‘۔‘
ٹی بنگ بہ یک وقت متحیر اور مسرور دکھائی دیا۔ ’’ایک منور روح، شان دار۔ پھر تو تمہیں علم ہی ہو گا کہ لیونار ڈو مقدس جام کے راز آشناؤں میں سے ایک تھا اور اس نے اپنے فن میں اس کے سراغ چھپائے تھے‘‘۔
اس حد تک رابرٹ نے مجھے بتایا ہے۔
’’اور عہد نامہ جدید کے متعلق ڈاونچی کے نظریات؟ ‘‘
’’ مجھے کوئی اندازہ نہیں۔‘‘
ٹی بنگ نے مسکراتی آنکھوں کے ساتھ کمرے کے دوسرے سرے پر رکھے بک شیلف کی طرف اشارہ کیا۔ ’’رابرٹ، تم تکلیف کرو گے؟ سب سے نچلے شیلف میں۔ لیونا ڈوکی کہانیاں‘‘۔ لینگڈن کمرے کے دوسرے سرے پر گیا۔ ایک بڑی سی آرٹ کی کتاب ڈھونڈی اور واپس لا کر دونوں کے بیچ میز پر رکھ دی۔ کتاب کا رخ سوفی کی طرف گھما کر ٹی بنگ نے وزنی جلد کھولی اور پس ورق پرلکھے متعدد اقوال کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ڈاونچی کی یوں مکس اینڈ سپیکیولیشن کے دفتر سے‘‘ ۔ اس نے خصوصاً ایک قول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’ میراخیال ہے کہ یہ تمہیں موضوعِ گفتگو سے متعلق محسوس ہوگا۔‘‘
سوفی نے الفاظ پڑھے:
’’ بہت سے لوگوں نے احمقوں کو دھوکہ دیتے ہوئے جھوٹے معجزوں اورفریب کی تجارت کی ہے۔ ‘‘
لیونارڈوڈاونچی
’’یہ ایک اور رہا ۔‘‘ ٹی بنگ نے ایک دیگر قول کی طرف اشارہ کیا:
’’اندھی جہالت ہمیں گم راہ کرتی ہے۔ اسے بد نصیب فاتیو! آنکھیں کھولو!‘‘
لیونارڈوڈاونچی
سوفی کو سردی سی محسوس ہوئی۔ ’’ڈاونچی بائبل کے متعلق کہہ رہا ہے؟ ‘‘
ٹی بنگ نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’بائبل کے متعلق لیونار ڈو کے محسوسات کا تعلق براہ راست مقدس جام سے ہے۔‘‘
درحقیقت ڈاونچی نے حقیقی جام کو مصوربھی کیا ہے جو میں ابھی تمہیں دکھاؤں گا، لیکن پہلے بائبل پر بات ہونی چاہیے۔ ٹی بنگ مسکرایا۔ ’’اور ہر وہ چیز جو بائبل کے متعلق تمہیں جاننا چاہیے، اس کا خلاصہ عظیم ڈاکٹر مارٹن پر سی نے یوں کیا ہے، ’’ ٹی بنگ نے گلاصاف کرتے ہوئے کہا:’’ بائبل آسمان سے بذریعہ فیکس نہیں اتری۔ ‘‘
’’میں معافی چاہتی ہوں؟؟‘‘
’’بائبل، میری عزیز! انسان کی تخلیق ہے، اللہ کی نہیں۔ بائبل جادوئی طریقے سے بادلوں سے نہیں ٹپکی تھی۔ انسان نے پر آشوب ادوار کا تاریخی ریکارڈ رکھنے کے لیے اسے تخلیق کیا تھا اور یہ بے شمار ترجموں، اضافوں اور نظرثانیوں کے بعد وجود میں آئی ہے۔ تاریخ میں کبھی اس کتاب کاکوئی مصدقہ نسخہ نہیں رہا‘‘۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’عیسیٰ مسیح غیر معمولی موثر تاریخی شخصیت تھے، شاید دنیا کے سب سے پراسرار او راثر انگیز راہ نما۔ بطور مسیح موعود، عیسیٰ نے شہنشاہوں کے تخت الٹے، لاکھوں لوگوں کومتاثر کیا اور نئے فلسفیوں کی بنیاد رکھی۔ شہنشاہ سلیمان اور شہنشاہ داؤد کی نسل سے ہونے کے ناتے عیسیٰ یہودیوں کے بادشاہ کے تخت کے جائز حق دار بھی تھے۔ قابل فہم طورپر ان کے حالات زندگی علاقے کے ہزارہا پیروکاروں نے محفوظ کیے۔‘‘
ٹی بنگ چائے کا گھونٹ بھرنے کے لیے رکا اور پھر کپ واپس مینٹل پر رکھا۔ ’’عہدنامہ جدید کے لیے اسی سے زیادہ اناجیل پر غور کیا گیا اور صرف چند متعلقہ اناجیل کو شمولیت کے لیے چنا گیا جن میں میتھیو، مارٹ، لیوک اور جان بھی تھے‘‘۔
’’شمولیت کے لیے اناجیل کا انتخاب کس نے کیا؟‘‘ سوفی نے پوچھا۔
’’آہا! ٹی بنگ نے جوش سے کہا۔ ’’عیسائیت کا بنیادی تضاد۔ بائبل، جس انداز میں ہمیں آج ملتی ہے، اس کی تالیف ملحد رومی شہنشاہ قسطنطین اعظم نے کی تھی۔ ‘‘
’’میرے خیال میں تو قسطنطین عیسائی تھا۔‘‘ سوفی نے کہا۔
’’بہ مشکل‘‘۔ ٹی بنگ کھکارا۔ ’’ وہ تا حیات ملحد رہا جسے بستر مرگ پر بپتسمہ دیا گیا۔ وہ اتنا نحیف ہو چکا تھا کہ احتجاج بھی نہ کر سکا۔ قسطنطین کے عہد میں روم کا سرکاری مذہب سورج پرستی تھا، یعنی ناقابل تسخیر سورج کا مذہب اور قسطنطین اس کا بڑا پروہت تھا۔ اس کی بدقسمتی سے بڑھتی ہوئی مذہبی بے چینی روم کو گرفت میں لے رہی تھی۔ عیسیٰ کے مصلوب کیے جانے کے صدیوں بعد عیسیٰ کے پیروکاروں میں غیر معمولی اضافہ ہوا تھا۔ عیسائیوں اورملحدوں میں لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ یہ اختلاف اس قدر بڑھاکہ روم کی تقسیم کا خطرہ لاحق ہو گیا ۔ قسطنطین نے سوچا کہ کچھ کرناپڑے گا۔ ۳۲۵ (ب ،م) میں اس نے روم کوایک مذہب، عیسائیت کے تحت متحد کرنے کا فیصلہ کیا۔‘‘
سوفی بہت حیران ہوئی۔ ’’لیکن ایک ملحد بادشاہ نے سرکاری مذہب کے طورپر عیسائیت کا انتخاب کیوں کیا؟‘‘
ٹی بنگ ہنسا۔ ’’ قسطنطین بڑا اچھا کاروباری تھا۔ اس نے دیکھا کہ عیسائیت عروج حاصل کر رہی ہے۔ لہٰذا اس نے جیتنے والے گھوڑے پر داؤ کھیل دیا۔ یہ بات آج بھی مورخین کو ورطہ حیرت میں ڈالے ہوئے ہے کہ قسطنطین نے کس عمدگی سے سورج پرست ملحدوں کوعیسائیت کی طرف مائل کیا۔ ملحدانہ علاقوں، تاریخوں اور رسموں کو پھیلتی ہوئی عیسائی روایت میں ملا کر اس نے ایک ایسا دوغلا مذہب بنایاجو ہر دو فریقین کے لیے قابل قبول تھا۔‘‘
لینگڈن نے کہا:’’ عیسائی شعائر میں ملحدانہ مذہب کے سراغ ناقابل تردید ہیں۔ مصریوں کا کرہ سورج کیتھولک اولیاء کا ہالہ بنا۔ معجزانہ طور پر پیدا ہونے والے بیٹے ہورس کو دودھ پلاتی ہوئی آئسس (isis) کی شبیہ ہمارے ہاں ننھے یسوع کو دودھ پلاتی کنواری مریم میں بدل گئی، اور درحقیقت کیتھولک رسوم کے سارے عناصر، بشپ کی کلاہ، قربان گاہ، حمد ربانی اور عشائے ربانی، خدا خوری کا عمل ، براہ راست سابق ملحدانہ باطنی مذاہب سے لیے گئے ہیں۔‘‘
ٹی بنگ نے گہری آواز میں کہا: ’’ اس ماہر علامات کو عیسائی آئی کنز کے متعلق نہ چھیڑ لینا۔ عیسائیت میں کچھ بھی حقیقی نہیں ہے۔ قبل از عیسائیت خدامت ھراس جسے خدا کا بیٹا اور نورجہاں کہا جاتا ہے، ۲۵؍دسمبر کو پیدا ہوا، مرا، ایک چٹانی مقبرے میں دفنایا گیا اور پھر تین یوم بعد دوبارہ زندہ ہوا۔ برسبیل تذکرہ ، ۲۵؍دسمبر ، اوسائی رس، اڈنس اورڈائی اونی سس کی بھی تاریخ پیدا ئش ہے۔ نومولود کرشن کوبھی تحفۃً سونا اور عودولوبان پیش کیے گئے تھیحتی کہ عیسائیت کاہفتہ وار مقدس دن بھی ملحدوں سے چرایا گیا تھا۔‘‘
کیا مطلب ہے آپ کا؟
’’دراصل‘‘، لینگڈن بولا، ’’عیسائیت بھی یہودیوں کے ہفتہ کے سبت کا احترام کرتی تھی۔ لیکن قسطنطین نے ملحدوں کے سورج کی تعظیم کے دن سے مطابقت کے لیے اسے بدل دیا۔‘‘ وہ رکا، مسکرایا۔ ’’تاحال زیادہ تر گرجا جانے والے اتوار کی صبح سروس میں شریک ہوتے ہیں، اس بات سے قطعی لا علم کہ وہ کافروں کے سورج دیوتا کی ہفتہ وار تعظیم کے دن کی بنیاد پر آئے ہیں۔ ‘‘
سوفی کا سرگھوم رہا تھا۔ ’’اور سب کا تعلق جام سے ہے؟‘‘
بالکل۔ ٹی بنگ نے کہا۔ ذرا متوجہ رہنا۔ اس مذہبی ادغام کے دوران قسطنطین کو عیسائی روایت کو مضبوط کرنے کی ضرورت تھی۔ عالمی عیسائی اتحاد کے لیے اس نے مشہور اجتماع کیا جو کونسل آف نقایہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘‘
سوفی اس سے محض Nicene creedکی جائے پیدائش کے حوالے سے واقف تھی۔
’’اس اجتماع میں ‘‘، ٹی بنگ نے کہا، ’’عیسائیت کے بہت سے پہلوؤں پر بحث اور رائے شماری ہوئی۔ مثلاً قیام مسیح کی تاریخ، بشپس کاکردار، مذہبی رسوم کاطریقہ کار، اور رہاں، یسوع کی الوہیت بھی‘‘۔
’’ میں سمجھی نہیں، ان کی الوہیت؟‘‘
’’ میری عزیز!‘‘ ٹی بنگ نے بتایا، ’’تاریخ کے اس لمحے تک ، یسوع کے پیروکار اسے ایک فانی نبی کے طور پر ہی دیکھتے تھے، ایک عظیم اور طاقت ور آدمی لیکن بہ ہر حال ایک آدمی ،ایک فانی۔‘‘
’’ اللہ کا بیٹا نہیں؟‘‘
’’صحیح‘‘۔ ٹی بنگ نے کہا۔ ’’ یسوع کو بطور ’’ابن اللہ ‘‘ کونسل آف نقایہ میں سرکاری طور پر تجویز کیا گیا اور رائے شماری کروائی گئی۔‘‘
’’ ذرا ٹھہریں، آپ کہہ رہے ہیں کہ عیسیٰ کی الوہیت رائے شماری کا نتیجہ تھی؟ ‘‘
’’نسبتاً کافی قریبی تناسب سے‘‘۔ ٹی بنگ نے بات بڑھائی۔ ’’یوں بھی یسوع کی الوہیت رومی سلطنت اور نئے مرکز طاقت ویٹی کن کے مزید اتحاد کے لیے اہم تھی۔ سرکاری طور پر عیسیٰ کو ابن اللہ قرار دے کر قسطنطین نے عیسیٰ کوایک ایسی روحانی شخصیت بنادیا جو انسانی دنیاسے ماورا تھی۔ ایسی ذات جس کی طاقت ناقابل تسخیر تھی۔جس نے عیسائیت پر مزید ملحدانہ چیلنجوں کی راہ مسدود کر دی، لیکن اس سے عیسیٰ کے پیروکاروں کے پاس نجات کے لیے صرف ایک ہی طے شدہ مقدس ذریعہ رہ گیا، رومن کیتھولک چرچ۔‘‘
سوفی نے لینگڈن پر نظر ڈالی اور تائید کے طور پر سر کو جنبش دی۔
’’یہ سب کچھ طاقت کے حصول کے لیے تھا۔ عیسیٰ بطور مسیحا، چرچ اور ریاست کی کارکردگی کے لیے بے حد اہم تھا۔ ’’ ٹی بنگ نے بات جاری رکھی۔ ’’بہت سے علماء کا دعوی ہے کہ ابتدائی چرچ نے حقیقی معنوں میں عیسیٰ کو ان کے پیروکاروں سے چرا لیا۔ ان کے انسانی پیغام کے اغوا کے بعد اسے الوہیت کے ناقابل عبور لبا دے میں لپیٹ دیا گیا اور اسے اپنی طاقت کے پھیلاؤ کے لیے استعمال کیا گیا۔ میں نے اس موضوع پر بہت سی کتب تحریر کی ہیں۔‘‘
’’ اور میرا خیال ہے کہ سرگرم عیسائی روزانہ آپ کو نفرت آمیز خطوط ارسال کرتے ہوں گے؟‘‘
’’ وہ ایسا کیوں کرنے لگے؟‘‘ ٹی بنگ نے جواب دیا۔ ’’پڑھے لکھے عیسائیوں کی کثیر تعداد اپنے مذہب کی تاریخ سے واقف ہے۔ بے شک یسوع ایک عظیم اور طاقت ور شخصیت تھے۔ قسطنطین کی خفیہ سیاسی چالیں بھی حیات عیسیٰ کی عظمت کم نہیں کر سکیں۔ کوئی نہیں کہتا کہ عیسیٰ دھوکے باز تھے۔ نہ کوئی اس سے انکار کر سکتا ہے کہ وہ اسی زمین پر چلتے پھرتے تھے اور انہوں نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں بہتری کے اثرات مرتب کیے۔ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ قسطنطین نے عیسٰی کے رسوخ اور اہمیت سے فائدہ اٹھایا اورایسا کرتے ہوئے اس نے عیسائیت کو وہ شکل دی جس میں ہم آج اسے دیکھتے ہیں۔ ‘‘
سوفی نے سامنے رکھی آرٹ کی کتاب پر نگاہ ڈالی۔ اس کے دل میں صفحے الٹ کر ڈاونچی کی ’’ مقدس جام‘‘ کی تصویر دیکھنے کا اشتیاق تھا۔
’’اس میں دلچسپ بات یہ ہے‘‘، ٹی بنگ نے تیز تیز بولتے ہوئے کہا ’’ کہ قسطنطین نے عیسیٰ کی وفات کے چار صدیوں بعد ان کا مرتبہ بڑھایا تھا، مگر تب تک بطور ایک فانی انسان کے ان کی ہزاروں سو انحی دستاویزات لکھی جا چکی تھیں۔ قسطنطین کو علم تھا کہ تاریخ کی کتب کو از سر نو لکھنے کے لیے بڑا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس سے عیسائیت کی تاریخ کا سب سے اہم لمحہ جو وقوع پذیر ہوا۔‘‘ ٹی بنگ رکا اور سوفی کو دیکھا۔ ’’قسطنطین نے نئی بائبل کے لیے کمیشن بٹھایا اور سرمایہ فراہم کیا جس نے ان تمام اناجیل کوحذف کردیاجن میں عیسیٰ کے انسانی خصائل کا ذکر تھا اوران اناجیل کو سجا سنوار کر پیش کیا گیا جو انہیں اللہ کا مثل بتاتی تھیں۔ سابق اناجیل کو متروک قرار دے کر اکٹھا کرکے نذر آتش کر دیا گیا۔‘‘
’’ ایک دل چسپ بات۔‘‘ لینگڈن نے اضافہ کیا۔ ’’جس کسی نے قسطنطین والی اناجیل کے بجائے ممنوعہ اناجیل کا چناؤ کیا، اسے ’’بدعتی ‘‘ قرار دے دیا گیا۔ تاریخ میں بدعتی کالفظ وہاں سے شروع رائج ہوا۔ لاطینی لفظ (Heareticas) کا مطلب ہے ’’انتخاب‘‘۔ وہ لوگ جنہوں نے عیسیٰ کی حقیقی تاریخ کا انتخاب کیا، دنیا کے پہلے بدعتی تھے۔‘‘
’’مورخین کی خوش قسمتی سے‘‘، ٹی بنگ بولا، ’’ان گاسپلز میں سے جنہیں قسطنطین نے مٹانے کی سعی کی تھی، کچھ بچ گئیں۔ بحر مردار کے طومار (the dead sea scrolls) ۱۹۵۰ء میں Judacan desert میں قمر ان کے قریب واقع ایک غار سے دریافت ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ ۱۹۴۵ء میں nag Hammadi سے ملنے والے coptic scrolls بھی تھے۔ جام کی اصل کہانی بیان کرنے کے علاوہ وہ عیسیٰ کے انسانی خصائل کا ذکر بھی کرتے تھے۔ ویٹی کن نے گم راہ کنی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے ان طوماروں کو دبانے کی بھرپور کوشش کی اور وہ ایسا کیوں نہ کرتے؟ ان طوماروں نے اظہر من الشمس تاریخی تضادات اور خود ساختہ کہانیوں کو کھول کر رکھ دیا تھا اور اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ جدید بائبل ان لوگوں نے مرتب کی ہے جن کا واضح سیاسی ایجنڈا تھا، جوایک بشر عیسیٰ مسیح کی الوہیت کو فروغ دے کر ان کے اثر کو اپنے مرکز قوت کی مضبوطی کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔‘‘
’’لیکن پھر بھی‘‘،لینگڈن نے دفاع کیا، ’’یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ان طوماروں کو چھپانے کی چرچ کی خواہش ان کے عیسیٰ کے متعلق طے شدہ نظریات پر مخلصانہ اعتقاد کی بنا پر تھی۔ ویٹی کن انتہائی نیک لوگوں پر مشتمل ہے جو ایمان داری سے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ متضاد دستاویزات جھوٹ کا پلندہ ہیں۔‘‘
ٹی بنگ، سوفی کے مقابل کرسی میں دراز ہوتے ہوئے ہنسا۔ ’’جیسا کہ تم دیکھ سکتی ہو کہ روم کے لیے میری نسبت ہمارا پروفیسر کہیں زیادہ نرم گوشہ رکھتا ہے۔ تاہم اس حد تک وہ درست ہے کہ جدید کلرجی ان مخالف دستاویزات کو جھوٹ سمجھتی ہے۔ یہ بات قابل فہم ہے۔ قسطنطین کی بائبل صدیوں سے ان کے لیے سچائی بنی ہوئی ہے۔ بنیاد رکھنے والے سے زیادہ بنیاد پرست کوئی نہیں ہوتا۔‘‘
’’ اس کا مطلب ہے،، لینگڈن نے کہا ’’ کہ ہم اپنے اجداد کے خداؤں کی پرستش کرتے ہیں؟‘‘
’’میرا مطلب یہ ہے‘‘ ٹی بنگ نے وضاحت کی ’’کہ ہمارے آبا واجداد نے جو کچھ بھی ہمیں عیسیٰ کے متعلق بتایاہے، وہ جھوٹ ہے۔ بالکل مقدس جام کی کہانیوں کی طرح۔ ‘‘
سوفی نے پھر سامنے پڑے ڈاونچی کے قول کودیکھا۔ ’’اندھی جہالت ہمیں گمراہ کرتی ہے۔ او بدنصیب انسانو! اپنی آنکھیں کھولو۔ ‘‘
ٹی بنگ نے کتاب اٹھائی اوروسط کے صفحے الٹنے لگا۔ ’’اور آخر میں قبل اس کے کہ میں تمہیں ڈاونچی کی بنائی ہوئی مقدس جام کی تصویر دکھاؤں، میں چاہوں گا کہ تم اس پر ایک سرسری نگاہ ڈال لو۔‘‘ اس نے کتاب کے دوصفحوں پر پھیلی خوش رنگ تصویر کھولی۔ ’’میرا خیال ہے تم اس فریسکو کو پہچانتی ہو۔‘‘
’’ وہ مذاق کر رہے ہیں، ہے نا؟‘‘ سوفی دنیا کی مشہور ترین فریسکو کو ٹکٹکی لگا کر دیکھ رہی تھی۔ آخری عشائیہ میلان کے santa Masca delle Grazie کی دیوار پر بنی ڈاونچی کی دیو مالائی شہرت کی تصویر ان سے غداری کرے گا۔ ہاں میں ، اس فریسکو کوجانتی ہوں۔ ‘‘
’’پھر تو شاید تم میرے ساتھ ایک چھوٹے سے کھیل میں شریک ہونا چاہو گی۔ مناسب سمجھو تو ذرا آنکھیں بند کرو۔‘‘ سوفی نے ہچکچاتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔
’’ یسوع کہاں بیٹھے ہیں؟‘‘ ٹی بنگ نے پوچھا۔
’’ وسط میں‘‘۔
’’ بہت اچھے، اور وہ اوران کے حواری کون سی غذا کے لقمے توڑ کر کھا رہے ہیں؟‘‘
’’روٹی، ظاہر ہے۔ ‘‘
’’ واہ۔ اوران کا مشروب؟‘‘
’’ انگور کی شراب ۔ انہوں نے وائن پی تھی۔‘‘
’’ کیا بات ہے! اوراب آخری سوال۔ میز پر شراب کے کتنے گلاس ہیں؟‘‘
سوفی رکی۔ اسے احساس ہوا کہ یہ الجھاؤ والا سوال ہے۔ اورعشائیے کے بعد، اپنے حواریوں کے ساتھ بانٹتے ہوئے عیسیٰ نے شراب کا گلاس اٹھایا۔ ’’ایک گلاس‘‘، اس نے کہا۔ the chaliceعیسیٰ کا پیالہ۔ مقدس جام، ’’عیسیٰ نے شراب کا واحد جام ہی پھرایا تھا، جیساآج کل کے عیسائی عشائے ربانی کے موقع پر کرتے ہیں۔ ‘‘
ٹی بنگ نے لمبی سانس لی۔ ’’اپنی آنکھیں کھولو۔ ‘‘
اس نے ایسا ہی کیا۔ ٹی بنگ شرارت سے مسکرا رہا تھا۔ سوفی نے نیچے تصویر پر نگاہ ڈالی اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ عیسیٰ سمیت میز پر موجود ہر شخص کے پاس جام شراب تھا۔ تیرہ کپ، مزید یہ کہ یہ کپ چھوٹے، بے تنے کے اور شیشے کے تھے۔ تصویر میں کوئی پیالہ ، کوئی مقدس جام نہیں تھا۔
ٹی بنگ کی آنکھیں چمکیں۔ ’’تھوڑا عجیب ہے نا؟ کیا خیال ہے؟ ذرا سوچو، ہماری بائبل اورہماری مروجہ جام کہانی اسی لمحہ کومقدس جام کی آمد کے طور پر مناتی ہے۔ حیران کن طور پر لگتا ہے کہ ڈاونچی عیسیٰ کاپیالہ مصور کرنا بھول گیا ہے۔‘‘
’’یقیناًماہرین فن نے اس بات پر غور کیا ہوگا۔ ‘‘
’’تمہیں یہ جان کر صدمہ ہوگا کہ جو غیر از معمول باتیں ڈاونچی نے شامل کی ہیں، زیادہ تر ماہرین فن کویا تو دکھائی نہیں دیںیا محض نظرا نداز کر دی گئیں۔ یہ فریسکو دراصل مقدس جام کے راز کی مکمل کلید ہے۔ آخری عشائیہ میں ڈاونچی نے ہر بات کھول کر آگے رکھ دی ہے۔‘‘
سوفی نے غور سے فن پارے کاجائزہ لیا۔ ’’کیایہ فریسکو جام کی حقیقت بتاتی ہے؟‘‘
’’یہ نہیں کہ وہ کیا ہے۔‘‘ ٹی بنگ نے آہستگی سے کہا۔ ’’یہ کہ وہ کون ہے۔ مقدس جام کوئی شے یا چیز نہیں ہے۔ یہ دراصل ایک شخصیت ہے۔‘‘
خواجہ حسن نظامی کی خاکہ نگاری
پروفیسر میاں انعام الرحمن
اردو ادب میں شاید ہی کوئی دوسرا انشاپرداز ہو جو خواجہ حسن نظامی مرحوم (۱۸۷۸۔۱۹۵۵)سے بہتر طور پر ’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ‘ کا مصداق ہو ، حال آں کہ خواجہ صاحب کا شمار اردو ادب کے ان خاکہ نگاروں میں کیا جا سکتا ہے جنہوں نے اس ادبی صنف کو بال و پر عطا کیے اور یہ صنف ’فن‘ سمجھی جانے لگی ۔ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری نے ’’خواجہ حسن نظامی: خاکے اور خاکہ نگاری ‘‘ کے عنوان سے تالیف پیش کرکے اس اوجھل پہاڑ کو منظرِ عام پر لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس مدون تالیف میں ڈاکٹر معین الدین عقیل کے حوصلہ افزا وقیع پیش لفظ کے بعد ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہان پوری ’’ شذراتِ تقدیم‘ ‘ کے زیرِ عنوان خواجہ حسن نظامی کی شخصیت و فن کے مختلف پہلو زیرِ بحث لائے ہیں جس کے مطالعہ سے قارئین، خواجہ صاحب کی شخصیت کے تقریباََ تمام ادبی و شخصی پہلوؤں سے متعارف ہو جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری نے خواجہ حسن نظامی کی خود غرضانہ تلون مزاجی کا جو نقشہ ’’شذراتِ تقدیم‘‘ میں کھینچا ہے، ہم بوجوہ اس کا مطالعہ اور فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ یہاں یہ بیان کرنا بھی مناسب ہو گا کہ طوالت سے بچنے کی خاطر، ہم آیندہ آنے والی سطور میں صرف اور صرف خواجہ حسن نظامی کے رشحاتِ قلم ، موضوع سخن بنائیں گے۔
اس تالیف میں مذکور خاکوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ حصہ اول میں مذہبی علمی فنی ادبی شخصیات کے خاکے اور حصہ دوم میں تاریخی و سیاسی شخصیات کے خاکے ہیں۔ حصہ سوم میں’ ’تصویرِ خصایل : ایک نفسیاتی مطالعہ‘ ‘ کے عنوان سے ، قومی، وطنی، طبقاتی، پیشہ وارانہ ، کاروبارِ شیطنت اور فن کار کے دلچسپ خاکے پیش کیے گئے ہیں ۔ آخر میں۲۳ صفحات پر مشتمل ایک ضمیمہ ہے جس میں خود ڈاکٹر صاحب نے’’بہارستانِ ناز‘‘ اور ’’آبِ حیات‘‘ کو ایک نئے رخ سے دیکھتے ہوئے مختلف عنوانات کے تحت خاکہ نگاری کی تاریخ اور اقسام بیان کی ہیں ۔
اس مدون تالیف کا پہلا خاکہ ہی چونکا دینے والا ہے ، اسلوبِ نگارش یا مواد وغیرہ کی یک تائی کی وجہ سے نہیں ، بلکہ اس ہستی کی وجہ سے جس کا خاکہ پیش کرنے کی کاوش کی گئی ہے ۔ یہ کوئی بڑی ادبی شخصیت نہیں ، نہ ہی کوئی قدآور سیاسی مدبر ہے اور نہ ہی تاریخ کا دھارا بدل دینے والا کو ئی نابغہ روزگار۔ یہ ہستی ہے اللہ میاں کی۔ جی ہاں! اللہ میاں۔ خاکے کے لیے اللہ میاں کے چناؤ جیسی خیال کی ندرت اور اسے پیش کرنے کے نرالے ڈھنگ جیسے اسالیب کی بدولت ہی خواجہ صاحب اردو ادب کے غیر روایتی اور عام فہم انشا پرداز ہیں۔عام فہم، زبان و بیان کے اعتبار سے بھی اور اس پہلو سے بھی کہ اللہ میاں سے سارا جہان واقف ہے ، اس لیے عام سطح کا قاری بھی خاکے میں مذکور ہستی کو مستور خیال نہیں کرتا اورپوری طرح لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس اولین خاکے کا عنوان، ایک لحاظ سے خواجہ صاحب کی ان جسارتوں اور بے باکیوں کا نقیب بھی ہے جن سے قارئین کو دیگر خاکوں میں واسطہ پڑتا ہے۔اگر بات یہیں تک رہتی تو ٹھیک تھی لیکن خواجہ صاحب کی خوبات بڑھانے والی ہے۔ وہ اپنے خاکوں کو صوفیانہ مشرب میں رنگنے کی کوشش کرتے ہیں، ملاحظہ کیجیے:
’’آگے جا کر جس موجودات اور مخلوقات کے حلیے ایک خاکی بشر کے قلم سے نکل نکل کر کاغذی مجلس میں آراستہ ہوئے ہیں ، بس یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان سب کے اندر اللہ میاں کا حلیہ موجود ہے ، کیوں کہ اس نے خود اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے فرمایا ہے :
ان اللہ خلق ادم علےٰ صورتہٖ
اللہ نے آدمؑ کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے ۔ جو اس کو مانے وہ بھی ان جان اور جو نہ مانے وہ بھی نادان! لہٰذا یہ کہہ کر ختم کر دینا چاہیے کہ واہ سبحان، واہ سبحان! تو تو بس بے صورت کی ایک مورت ہے‘‘۔ (غیر مرئی وجود: اللہ میاں، ص۱۰۲)
لاادری اور ہمہ اوست کے اس آمیزے کو خاکہ نگاری کی بنیاد کے طور پر ، ادبی اعتبار سے کہاں تک قابلِ قبول قرار دیا جا سکتا ہے ، اس سے قطع نظر کہ اس کا فیصلہ طویل بحث کا متقاضی ہے ، یہاں ایک احساس بہرحال کسی بھی مسلم قاری کو رکنے اوریہ تاثر لینے پر مجبور کر دیتا ہے کہ خاکہ نگار کسی نہ کسی درجے میں ’’صلح کل‘‘ کا پرچار کر رہا ہے اور شاید اس کا قلم مذہبی حد ود کو پامال کرنے سے رک نہ پائے گا ۔ یہ تاثر صفحہ نمبر ۱۶۱ پر قاری کی مذہبی حساسیت کو بیدار کرتا ہے جہاں آنجہانی چوہدری سر ظفراللہ خاں کے خاکے میں لکھا گیا ہے ’’قوم مسلمان، عقیدہ قادیانی‘‘۔ پھر صفحہ نمبر ۱۸۷ پرمولانا محمد علی جوہر کے خاکے میں قادیانیوں کی اسلامیت پر گواہی اس طرح دی گئی ہے :
’’ تین بھائی ہیں ۔ بڑے بھائی شوکت علی ہیں ، ایک بھائی کا نام ذوالفقار علی ہے، وہ قادیانی ہو گئے ہیں۔ گویا ماں باپ کی تین یادگاریں ہیں اور تینوں دین و قوم و ملک پر قربان ہیں‘‘ ۔
اس کے بعد راہ ہم وار ہونے پر ’’ضمیمہ‘‘ کے عنوان سے صفحہ نمبر ۱۹۱، ۱۹۲ پر تین قادیانیوں کے خاکے، ان کی مذہبی عقل کے اعتراف کے ساتھ دیے گئے ہیں۔کوئی بھی مسلم قاری اس مطالعہ سے دو قسم کے تاثرات لیتا ہے : ایک ، فوری ، دوسراتاخیری۔ فوری تاثر میں خواجہ مرحوم موردِ الزام ٹھہرتے ہیں لیکن ذرا غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کے اس دور میں جب یہ خاکے لکھے گئے تھے ، برِ عظیم پاکستان و ہند کے مسلمانوں کی فکری قیادت کرنے والی اکثر شخصیات قادیانیوں کی بابت بہت نرم گوشہ رکھے ہوئے تھیں حتیٰ کہ علامہ اقبال ؒ جیسی صاحبِ بصیرت شخصیت بھی ان کے حق میں رطب للسان تھی۔ یہ بہت بعد میں ہوا کہ اقبالؒ ، علامہ انور شاہ کشمیریؒ سے مکالمے کے نتیجے میں قادیانیت کی اصلیت سے آگاہ اور تائب ہوئے۔ لہٰذا تاخیری تاثر میں خواجہ حسن نظامی مرحوم رعایتی نمبر وں سے خلاصی پا جاتے ہیں۔ اب اگر سوال اٹھتا ہے تو فقط اس تالیف کے پیش کار کی آنکھ مچولی کی بابت اٹھتا ہے کہ صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے نہیں جیسے اطوار اپنائے ہوئے ہیں۔ موصوف ، تاریخی اعتبار سے ایسے دور میں ہیں جہاں امت کے اجتماعی ضمیر اور ریاستی قانون نے قادیانیت کو نہایت صراحت سے خارج از اسلام قرار دیا ہے، تو پھر وہ غیر محسوس انداز میں ظفراللہ اور ذوالفقار کی اسلام شناسی کی شہادت دے کر ضمیمے کے تھیلے میں سے بلی نکال کر ، کس قسم کی ادبی خدمت سر انجام دینا چاہتے ہیں؟ بہتر تو یہ تھا کہ ڈاکٹر ابوسلمان صاحب sugar coated چھابڑی لگانے کے بجائے قادیانیت کی ’’حقانیت‘‘ کے حق میں مفصل کتب کی دکان سجاتے ۔ ہم برملا کہیں گے کہ اس قسم کی نفسیاتی چھیڑ چھاڑ کا مقصد اگر مسلمانوں کی حساسیت کے گراف کو چیک کرنا ہے اور انہیں آہستہ آہستہ قادیانیت کی قبولیت کے لیے تیار کرنا ہے تو ڈاکٹر صاحب جیسے ’’دور اندیشوں‘‘ کو منہ کی کھانی پڑے گی۔
زیرِ نظر تالیف میں اللہ میاں کے خاکے کے بعد حسبِ توقع فرشتوں کا خاکہ ہے جس میں فرشتوں کے بارے میں ضروری معلومات دی گئی ہیں۔ اس کے بعد گناہ گاروں کے لیڈر شیطان کا خاکہ ہے جو کافی دلچسپ ہے، ملاحظہ کیجیے:
’’ فرشتوں کی ملکوت یونی ورسٹی میں پرنسپل بن کر سبق پڑھا چکا ہے۔ ذاتِ اقدس کی تجلیاتِ جباری او رکبریائی میں فنا ہو کر منصور کی طرح انا الخیر (میں اچھا) ہوں، (انا من النار) میں آگ سے بنا ہوں ! نعرے لگا چکا ہے ۔ مگر کوئی مولوی اس وقت عالمِ وجود میں موجود نہ تھا جو اس کی انانیت کو سولی پر چڑھاتا ، اس واسطے خدا نے اس کو خود سولی پر چڑھایا‘‘۔ (غیر مرئی وجود: گناہ گاروں کے لیڈر شیطان کا حلیہ، ص۱۰۳)
یہ درست ہے کہ مولوی حضرات ’انانیت‘ کو سولی پرچڑھا کر ہی دم لیتے ہیں۔ شاید اسی لیے اقبالؒ نے انانیت کو خودی کا نام دے کر اپنی جان بچائے رکھی اور مولویوں کے تیر و تفنگ کے آگے ’شکوہ‘ کر دیا۔ خواجہ صاحب بھی اکثر ادیبوں کی طرح مولوی پر وار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ان کے کئی خاکوں میں بے چارہ مولوی تختہ مشق بنا ہے ، ملاحظہ کیجیے کہ طنز کے تیر کیسے ٹھاہ نشانے پر لگے ہیں:
’’ ان کے والد صوفی تھے ، خود ان کا دل بھی صوفی ہے مگر دل کے اوپر مولویت کا پردہ ڈالے رکھتے ہیں ۔ دوستوں کے ساتھ مروت وخلوص سے پیش آتے ہیں۔ بہت کھانے کا شوق نہیں ہے اور اس لحاظ سے ان کی مولویت میں نقص ہے۔‘‘ (علمائے کرام: مولانا سید سلیمان ندوی، ص۱۱۲)
’’مزاج میں غرور و تمکنت نہیں ہے، دیکھنے میں مولوی بھی نہیں معلوم ہوتے۔‘‘ (علمائے کرام: مفتی کفایت اللہ، ص۱۱۴)
’’ ملا رموزی بھوپال میں رہتے ہیں ۔ ان کے مضامین سے سمجھا جاتا ہے کہ وہ کوئی مولوی ہیں مگر درحقیقت نئے زمانے کے ایک مہذب نوجوان ہیں۔‘‘ (اردو کے ظرافت نگار، ص۱۲۲)
’’ اگر امریکہ میں ہوتے تو فورڈ موٹر والے سے کوئی بڑا کارخانہ بناتے ۔ ہندوستان میں پیدا ہوئے ہیں ، اس لیے جتنا کماتے ہیں اس سے زیادہ کھلا دیتے ہیں ۔ ذہین ہیں ، حرفتی سمجھ بہت اچھی ہے ۔ کئی بچوں کے باپ ہیں ، مگر کئی بیویوں کے شوہر نہیں ہیں ، حالاں کہ مولوی کے لیے یہ بہت عجیب ہے کہ وہ ایک ہی بیوی رکھتا ہو۔‘‘ (تاجر:مولوی محمد ادریس ہاشمی، ص۱۳۸)
’’ اگران کی ڈاڑھی لمبی ہوتی تو شاید وہ بھی مولویوں کی طرح فقط دعوت کھایا کرتے، کھلانے سے احتیاط کرتے اور مجرد بھی نہ رہتے بلکہ چار نکاح کرتے۔‘‘ (ممبرانِ اسمبلی و کونل آف سٹیٹ : سر محمد یعقوب، ص۱۶۵)
’’ اگر وہ انگریز ہوتیں تو لیڈی ولنگٹن کی طرح مشہور ہوتیں اور ہندو ہوتیں تو مسز نیڈو سے زیادہ شہرہ آفاق مانی جاتیں، مگر خدا کے فضل سے مسلمان ہیں اس لیے ان کی قوم دلوں میں تو ان پر فخر کرتی ہے مگر زبان سے کچھ نہیں کہتی کہ ایک تارک پردہ عورت کی تعریف کرے تو مولوی صاحب فتوی نہ دے دیں ۔ جہاں آرا نے ثابت کیا ہے کہ پردہ اٹھانے والی عورتیں ایسی ہو سکتی ہیں۔‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم:بیگم میاں شاہ نواز، ص۱۷۸)
مولوی محمد ادریس ہاشمی کے خاکے میں’’حال آں کہ مولوی کے لیے یہ بہت عجیب ہے کہ وہ ایک ہی بیوی رکھتا ہو‘‘ کے بجائے اگر ایسا کہا جاتا کہ ’’حال آں کہ مولوی ہیں‘‘ تو کفایت لفظی کنائے کا لطف بھی دے جاتی۔ بہر حال ! یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ خواجہ صاحب نے تیر برسانے سے قبل انہیں حقیقت کے زہر میں خوب بھگویا ہے ، اب مولوی اگر سخت جان نکلے تو بے چارے خواجہ کا کیا قصور؟ بات مولویوں کی چل نکلی ہے تو اسی رو میں ہم برِ عظیم کے چند معروف علما کے خاکوں کی جھلکیاں پیش کیے دیتے ہیں:
’’ کفر کا فتوی دینے میں بڑی مہارت تھی ۔ ایک شخص کو ایک گناہ کے عوض کئی کئی ہزار کے کفر کے فتوے دیتے تھے اور عجیب و غریب باریکیاں کفر سازی کی ان کے ذہن میں آتی تھیں ‘‘ (علمائے کرام:مولانا احمد رضا خان، ص۱۰۹)
ہمیں تو ایسی ’’کفر ساز مولویانہ خو‘‘ نے قدیم ایتھنز کے مقنن ڈریکو کی یاد دلا دی ہے جس کے بارے میں طنزاََ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے قوانین روشنائی کے بجائے خون سے تحریر کیے تھے، مثلاََ سبزی چور اور توہینِ مذہب دونوں کے لیے موت کی سزا مقرر کی تھی۔جب ڈریکو سے اس سنگ دلی کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے جواب دیا کہ خفیف جرایم، سزائے موت ہی کے مستحق ہیں اور رہے بڑے جرم تو ان کی سزا اس مجبوری سے مقرر کئی گئی کہ کوئی اور بڑی سزا ہو نہ سکتی تھی۔ خواجہ حسن نظامی کو خدا کا شکر بجا لانا چاہیے کہ مولانا اور ڈریکو ہم عصر نہ تھے، ورنہ باریک بین اور فربہ نظر مل کر نجانے کیا قیامت ڈھاتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ صاحب کی مولانا احمد سعید دہلوی ؒ سے گاڑھی چھنتی تھی اس لیے وہ ان کے بارے میں یہاں تک کہتے ہیں: ’’خلوت میں کچھ اور جلوت میں کچھ اور‘‘۔ یہ تعریف ہے یا تنقیص ؟ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ غالباََ ، جمعیت علما ہند کے ناظم کی حیثیت میں ان کی سیاسی حکمت عملی خواجہ صاحب کو ضرورت سے زیادہ ’’بھا‘‘ گئی ہے، تبھی تو وہ لکھتے ہیں:
’’ دل میں کچھ اور ہوتا ہے ، کہتے کچھ اور ہیں ۔ ... ان کی زندگی امیر معاویہ کے اصحاب سے مشابہ ہے اس لیے ایک نمونے کی زندگی ہے ، کمان ایک طرف کھینچتے ہیں، تیر دوسری طرف چلاتے ہیں۔‘‘ (علمائے کرام:مولانا احمد سعید، ص۱۱۰)
تقریباََ ہر معروف عالمِ دین سے خواجہ صاحب چونچ لڑاتے نظر آتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ کی زندگی کے مختلف ادوار (۱۹۲۲، ۱۹۳۶، ۱۹۴۳) کے تین خاکے ، خاکہ نگار کی ان سے قلبی قربت اور میلانِ طبع کی غمازی تو کرتے ہی ہیں، لیکن مولاناآزادؒ کی ذاتِ گرامی کے احترام سے بڑھ کر شاید ان کی انشاپردازی کی جولانی کا خوف ہے کہ خواجہ صاحب قلم کو پوری ہوش مندی سے حرکت میں لاتے ہیں ، گو چوٹ کرنے سے باز نہیں آتے :
’’ تصور کی طاقت ، چیونٹی کی ناک اور چیل کی آنکھ سے بڑھی ہوئی ہے .... اگر ان کو ہندوستان کا بادشاہ بنا دیا جائے تو ایک دن کم بارہ مہینے سوتے رہیں ، صرف ایک دن بیدار ہو کر کام کریں کیونکہ یہ کسی کام کو جلدی کرنے کے عادی نہیں ہیں .....سر سٹیفورڈ کرپس کے دل سے کوئی پوچھے تو یہ جواب ملے کہ ہندوستان میں گاندھی جی سیاسی درویش ہیں ، جواہر لال یورپ کی سیاست کا عکس ہیں کیونکہ جو دل میں ہوتا ہے وہی زبان سے کہتے ہیں، حال آں کہ نئے زمانے کی سیاست میں یہ بات گناہ کبیرہ ہے ۔ صرف مولانا ابوالکلام چالیس کروڑ باشندوں میں ایک ایسے ہندوستانی ہیں جو یورپ کی سیاست کو انگریزی نہ جاننے کے باوجود سمجھتے بھی ہیں اور اس کے وار کو بغیر ڈھال کے روکتے بھی ہیں اور مسکرا کر ایک نکیلا سیاسی نشتر حریف کے مارتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں ’ ’غالباََ کچھ زیادہ تکلیف نہ ہوئی ہو گی ، یہ انجکشن آپ کی بیماری کے لیے بہت ہی مفید ہے‘ ‘ ...... ہوش سنبھالتے ہی مسلم لیگ کو سمجھ لیا تھا ۔ ۱۹۰۸ میں مسٹر زاہد سہروردی کے مکان پر انھوں نے حسن نظامی کے ایک کاغذ پر یہ لکھا تھا ’’ سب باتیں منظور ہیں با ستثنائے شرکتِ مسلم لیگ‘‘ ..... بہرحال مولانا ابوالکلام آزاد موجودہ ہندوستان کے لیے سیاسی سورج ہیں اور سیاسی چاند ہیں ۔ ان کو سیاسی چراغ بھی کہا جا سکتا تھا ، اگر دوسرے سیاسی چراغوں کو روشن کر سکتے ، جس کی کوئی مثال نظر نہیں آتی۔ ‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم : مولان ابوالکلام آزاد، ص۱۷۲، ۱۷۳، ۱۷۴)
بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر جناح کا خاکہ بھی قارئین کی نذر کر دیا جائے کہ آزاد و جناح کی تقابلی تصویر جو خواجہ حسن نظامی نے کھینچی ہے شاید کسی نگاہ میں جچ جائے:
’’ان کی سیاسی سمجھ مسلمان قوم میں سب سے زیادہ ہے ۔ ان کے ہم نام محمد علی مرحوم اس گہری بات کو جانتے تھے اس لیے اپنے دور میں محمد علی جناح کے میدان میں نمایاں ہونے کی مزاحمت کرتے تھے۔ مگر ان کے جوہرنے اِن کو ان کی زندگی ہی میں نمایاں کر دیا تھا اور اِن کے چودہ نکات مرحوم نے بھی قبول کر لیے تھے .... مولانا ابوالکلام انگریزی جانتے ہوتے تو مسٹر جناح ہوتے اور مسٹر جناح عربی اردو جانتے ہوتے تو مولانا ابوالکلام ہوتے۔‘‘(رہنمایانِ ملک و قوم : مسٹر جناح کی صورت و سیرت، ص۱۷۸، ۱۷۹)
مولانا محمد علی جوہر کے متعلق خواجہ صاحب کے ارشاد نے ہمیں اکسایا ہے کہ یہیں اسی مقام پر ان کے خاکے کی ایک جھلک دکھائی جائے:
’’ قیامت تک زندہ رہیں گے مگر قیامت کے بوریے نہیں سمیٹیں گے..... وہ بڑے وضع دار ہیں۔ جس سے جو برتاؤ شروع ہو جائے تو آخر دم تک نباہنے کا خیال رکھتے ہیں ااور یہی جوہر اصلی مشرقی میں ہونا چاہیے ‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم : مولانا محمد علی ، ص۱۸۷)
اصلی مشرقی کہہ کر شاید علامہ عنایت اللہ مشرقی پر چوٹ کی گئی ہے۔ چوں کہ زیرِ نظر تالیف میں علامہ کا خاکہ نہیں ہے اس لیے اس چوٹ کے زخم پر نمک چھڑکنا یا مرہم لگانا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ لہذا چوٹ قیاس کر لینا ہی کافی ہے۔مولانا محمد علی جوہر کے بھائی مولانا شوکت علی کا خاکہ، جہاں ان کی سادگی کا آئینہ دار ہے وہاں برِ عظیم میں انگریز کے خلاف تحریکِ آزادی میں ان کے سیاسی کردار کو بھی اجاگر کرتا ہے:
’’ ایک زمانے میں پورے صاحب بہادر تھے اب پورے وحشی مسلمان ہیں ۔ شوکت علی نہ ہوتے تو محمد علی کا کام ادھورا رہتا ۔ مگر بعد کے تجربے سے معلوم ہوا کہ شوکت علی جیسا آدمی مسلمانوں میں پیدا نہ ہوتا تومہاتما گاندھی کی شخصیت بھی ناقص رہ جاتی ...... وہ بولنے میں بونگے اور غیر مدبر معلوم ہوتے ہیں ...... سرسری بات چیت سے آدمی خیال کرتا ہے کہ وہ مہذب و سنجیدہ نہیں ہیں ، لیکن کچھ دیر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ سنجیدگی کی تہہ میں جو خود پسندی ہوا کرتی ہے اس کو مٹانے کے لیے وہ غیر مہذب باتیں کرتے ہیں ...... انگریزوں میں آج کل قوت پر بھروسہ کرنے والے بہت ہیں ، اپنی ذات و خصلت کی خوبی پر اعتماد کرنے والا کوئی ہوتا تو شوکت علی اس قدر نہ چمکنے پاتے ...... اگرچہ آج کل وہ جیل خانہ میں ہیں مگر ہندوستان کے بچے بچے کو انہوں نے اپنا اسیر بنا رکھا ہے‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم:مولانا شوکت علی، ص۱۸۱، ۱۸۲)
دو مختلف جہتوں میں رواں دواں دو مختلف لفظوں(جیل خانہ ، اسیر) کی معنوی تکرار، سلاست کے ساتھ ادبی شان لیے ہوئے ہے اور اس تاریخی حقیقت کی ترجمانی کر رہی ہے کہ آزادی کی تحاریک میں سرکاری جیلوں کے اسیر، ہمیشہ سے جیل سے باہر کے پورے سماج کو اسیر بنائے رکھتے ہیں۔رہی اس فقرے کی بات کہ ’’انگریزوں میں آج کل قوت پر بھروسہ کرنے والے بہت ہیں ، اپنی ذات و خصلت کی خوبی پر اعتماد کرنے والا کوئی ہوتا تو شوکت علی اس قدر نہ چمکنے پاتے ‘‘، خواجہ صاحب قاری کو گومگو میں مبتلا کر جاتے ہیں ا گرچہ انگریز کوواضح طور پر بری طرح لتاڑتے ہیں لیکن شوکت علی کے ساتھ وہی کچھ کر گئے ہیں جو انہوں نے مولانا احمد سعید کے بارے میں کہا ہے کہ’ کمان ایک طرف کھینچتے ہیں اور تیر دوسری طرف چلاتے ہیں‘۔ کیا خیال ہے کہ خواجہ صاحب کے ترکش سے نکلا ہوا تیر شوکت علی کی ’’اسیری پر قایم ہیروشپ‘‘ کے غبارے سے ہوا نکال نہیں دیتا؟
زیرِ نظر تالیف میں مولانا حسرت موہانی کا خاکہ ، ان کے ایثار، خلوص ، حب الوطنی اور بے لوث کردار کی بھر پور نمائندگی کرتاہے، ملاحظہ کیجیے:
’’ پستہ قد ، گداز جسم ، گندمی رنگ ، گول چہرہ ، لمبی ڈاڑھی ، آنکھیں بڑی بڑی ، آواز عورتوں کی طرح نازک اور گوش نواز ، جلدی جلدی گھبرا گھبرا کر بولتے ہیں ، تیز چلتے ہیں ، جس شہر میں جاتے ہیں وہاں کے ہر اچھے برے ملکی کام کرنے والے سے ملتے ہیں ۔ صبح سے شام تک سڑکوں ، گلیوں اور عام راستوں پر ان کے پیچھے دوڑتے دوڑتے سی آئی ڈی والے سپاہی پسینہ پسینہ ہو جاتے ہیں ااور دل ہی دل میں ان کو اور اپنے خفیہ محکمہ کو گالیاں دیتے ہیں مگر یہ خدا کا آہنی بندہ ذرا نہیں تھکتا اور پنکھے کی طرح برابر گردش میں رہتا ہے ...... جیل خانہ گئے ، گھر نیلام ہوا، پریس ضبطی میں آیا، چکیاں پیسیں۔ مگر جب رہا ہوکر گھر پہنچے تو پھر وہی گناہ گاری کی باتیں کرنے لگے ، معصوم لوگوں کا دل دکھانے لگے ...... مہاتما گاندھی نے ان کو خبطی کا خطاب دیا ہے اور اس میں کچھ شک بھی نہیں کہ ان کی ملکی محبت کا شوق خبط کی حد تک پہنچ گیا ہے ...... چالاک لیڈر آگے بڑھ گئے اور یہ غرارے دار پاجامہ پہننے والا جوتیاں چٹخاتا پیچھے چلتا رہ گیا ، کیونکہ اس کو خفیہ آدمی میسر نہ تھے جو دلالوں کی طرح اس کو بڑاآدمی بڑا آدمی ہر جگہ کہتے پھرتے ‘‘(رہنمایانِ ملک و قوم:مولانا حسرت موہانی، ص۱۷۹، ۱۸۰، ۱۸۱)
تعجب ہے کہ اس زمانے میں بھی قایدین ’’خفیہ اداروں‘‘ کے پروردہ تھے، آج کل تو خیر سے خفیہ ہاتھ کی مدد کے بغیر قیادت ہو ہی نہیں سکتی۔ مہاتما گاندھی زمینی حقایق کے مطابق پینترے بدلنے میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے ، شاید اسی لیے مولانا کا آئیڈیل ازم ان کی نظر میں خبط ٹھہرا ہے۔خود گاندھی بھی خبط سے مبرا نہیں تھے لیکن ان کے خبط کی نوعیت بہت مختلف تھی، خواجہ حسن نظامی کی زبان سے ہی سنیے:
’’ان میں ذہنی اور دماغی تدبر اور دور اندیشی کی بہت کمی ہے مگر یہ عیب ان کے خداداد جوہرِ صداقت و استقلال کی چادر میں چھپا رہتا ہے ......وہ توحید و رسالت کا علی الاعلان اقرار کرتے ہیں مگر ہندو ہونے کے فخر کو آخر تک ہاتھ سے نہیں دیتے ...... گاندھی جی کی جیب عمرو عیار کی زنبیل ہے کہ بڑے بڑے موٹے موٹے آدمی ان کی جیب میں آ جاتے ہیں اور وہ خود بھی چھوٹی سے چھوٹی جیب کے اندر سما جاتے ہیں۔‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم:مہاتما گاندھی ، ص۱۸۴، ۱۸۵)
مطلب یہ ہوا کہ آنجہانی گاندھی اپنے ہندو ہونے کے فخر کے خبط میں ایسے مبتلا تھے کہ دیکھی ان دیکھی اور سنی ان سنی کر دیتے تھے۔ باقی رہی بات ، بڑے بڑے موٹے موٹے آدمیوں اور گاندھی کی جیب کی، تو تاریخی قراین بتاتے ہیں کہ صرف مولانا شوکت علی مرحوم ہی ماشاء اللہ اتنے لحیم شحیم تھے کہ گاندھی کی جیب چوہے کے بِل کا منظر پیش کرتی ہو گی ، تبھی تو موصوف چھوٹی سے چھوٹی جیب میں سما جاتے ہوں گے۔ اب ذرا ذایقہ بدلنے کے لیے چند ایسے خاکوں پر نظر ڈالتے ہیں جن میں خواجہ حسن نظامی نیم رضامندی سے کمان گلے میں لٹکا کر قلم سنبھالے دکھائی دیتے ہیں:
’’ان کے ڈراموں سے ان کے ذوق کی بلندی ہفت افلاک تک پہنچی ہوئی نظر آتی ہے۔ آنے والے ہندوستانی ان کو شیکسپیر سے زیادہ اونچے درجے پر بٹھائیں گے لیکن وہ ہندو ہوں گے کیوں کہ مسلمان یہی سوچتے رہ جائیں گے کہ ڈرامہ نویس کی عزت ااور قدر کرنی جایز بھی ہے یا نہیں ؟‘‘ (آغا حشر، ص۱۱۹)
’’اردو کے حوصلہ مند اور بہادر سپاہی ، ان کی تحریر ہندی روڑوں کے لیے سڑک دبانے کا بیلن ہے ...... ان کے کریکٹر کی ٹھیک تعریف یہ ہے کہ یہ گنبد کی آواز ہیں کہ جیسی کہو ویسی سنو‘‘ (مدیرانِ اخبارات و رسایل :سید بقائی، ص۱۲۴)
’’ ان کے عقاید وہابی ہیں مگر انہوں نے لقب صوفی رکھا ہے‘‘ (مدیرانِ اخبارات و رسایل :مولانا سالک، ص۱۲۴)
’’قادر الکلام ہیں مگر قادرالمزاج نہیں ہیں ۔ بھک سے اڑ جانے والی ایک قسم کی انسانی بارود ہیں ...... قادیانی ہوتے تو اپنی بے نظیر اور دل و دماغ پر نقش ہو جانے والی نظموں کو وحی اور الہام کہتے ۔ ہندو ہوتے تو کسی بنیہ کو کنجوس نہ رہنے دیتے ، انگریز ہوتے تو برٹش قوم کا شاہ خرچی سے دیوالا نکال دیتے ‘‘(مدیرانِ اخبارات و رسایل :مولانا ظفر علی خاں، ص۱۲۵)
’’ والیانِ ریاست کی طرح زیادہ سوتے ہیں ۔ ہندوؤں کی طرح کفایت شعار نہیں ہیں‘‘ (مدیرانِ اخبارات و رسایل :مفتی شوکت علی فہمی، ص۱۲۶)
’’باوجود اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے مزاج میں بچوں کا سا بھولپن ہے‘‘(لقمان الملک حکیم نابینا صاحب، ص۱۳۴)
’’ کانوں سے ذرا کم سنتے ہیں اس لیے جب کسی سے بات کرتے ہیں تو اس کو بہرا سمجھ کر آواز سے بولتے ہیں‘‘ (ڈاکٹر سید سجاد، ڈینٹسٹ، ص۱۳۴)
’’ ان کے دل کی بات اور روپیہ جمع کرنے کے مقصد کو سوائے ان کے دوسرا دنیا میں کوئی بھی نہیں جانتا ‘‘ (ریاست حیدر آباد دکن: حضور نظام، ص۱۴۹)
’’ اردو اور انگریزی کے بہت ماہر مضمون نگار ہیں ۔ اگر وزیرِ اعظم نہ ہوتے تو کسی سرکار پسند اخبار کے ایڈیٹر ہوتے‘‘ (نواب قاضی سر عزیزالدین احمد، ص۱۵۷)
’’ حدِ شرع کے اندر رہ کر عقد کرنا امرائے قدیم کی ایک وضع تھی ، یہ بھی اسی پر عمل کرتے ہیں اور ستر برس کی عمر میں بھی ان کے عقد کی خبریں سنی جاتی ہیں ‘‘ (نواب سر امیرالدین احمد، ص۱۵۹)
’’ مچھلی کی طرح ان کے خیالات کبھی دریا کی تہہ میں جاتے ہیں اور کبھی دریا کی سطح پر اچھلنے لگتے ہیں ۔ اگر یہ اسمبلی میں نہ ہوں تو ایسا معلوم ہو کہ اسمبلی ہال جگر کے بیماروں کا اسپتال ہے کیوں کہ جگر کے مریض ہمیشہ بد مزاج اور ناک بھوں چڑھائے رہتے ہیں اور ان کے اندر خوش طبعی کے جذبات بہت ہی کم پائے جاتے ہیں ‘‘ (ممبرانِ اسمبلی و کونسل آف سٹیٹ : کبیرالدین احمد، ص۱۶۴)
’’ ہندو ہوتے تو خلوص کے دیوتا اور دھرماتما مانے جاتے، انگریز ہوتے تب بھی سیاسی میدان میں وعدہ پورا کرتے ، کانگرسی ہوتے تو اعتدال پسندوں کے ساتھ رہتے ، صوفی ہوتے تب بھی قوالی نہ سنتے ‘‘ (ممبرانِ اسمبلی و کونسل آف سٹیٹ : حاجی وجیہ الدین، ص۱۶۶)
’’ انگریز سرکار کے عشق میں قیس عامری ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ قیس کو عشق بے نتیجہ نے لاغر کر دیا تھا اور یہ نتیجہ خیز عشق کے سبب فربہ ہوگئے ہیں۔ قدرت نے ان کو جسم عرض و طول مربع دیا ہے اور جس رخ سے دیکھو مساوی نظر آتا ہے ۔ ایسے ہی دماغ اور دل میں یکسانیت ہے ...... اردو کو انگریزی لباس پہنا کر انگریزی زبان بنا دینا ان کو خوب آتا ہے ۔ مگر میری تحریر کا انگریزی ترجمہ یہ بھی نہیں کرسکتے ، اس لیے جو چاہتا ہوں لکھ ڈالتا ہوں اور جو دل میں آتا ہے کہہ دیتا ہوں ‘‘ (گورنمنٹ کے ستون : سید جعفری، ص۱۶۷)
’’ ہنستے کم ہیں ، طبی ضرورت سے شاید کبھی مسکرا لیتے ہوں گے ......سنجیدگی اور کم سخنی کے بازوؤں پر ہاتھ کر زندگی کا راستہ چلتے ہیں ‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم :ڈاکٹر انصاری ، ص۱۷۴، ص۱۷۵)
’’ ان کا کمال یہ ہے کہ کسی قوم کے خلاف یا کسی مضمون کے خلاف تقریر کرتے ہیں تو حریف کسی لفظ کی گرفت نہیں کر سکتا اور یہ سب کچھ کہہ جاتے ہیں اور حریف مبہوت رہ جاتا ہے ...... وہ اقوام کی دماغی تبدیلی کا گر سب سے زیادہ جانتے ہیں اور چند جملوں میں لاکھوں ، کروڑوں آدمیوں کی ذہنیت بدل دیتے ہیں اس لیے مالوی ہندوؤں کے سب سے بڑے آدمی ہیں‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم :مالوی جی، ص۱۸۶)
’ ’نرم چوب ہیں مگر ایسی نرمی نہیں ، جس کو کیڑا لگ جائے ۔ شریفانہ وضع داری کی ملائمت ہے ۔ سب کو خوش کر سکتے ہیں اور کمال یہ ہے کہ سب سے خوش رہ بھی سکتے ہیں ‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم:ڈاکٹر سید محمود، ص۱۸۸)
’’ پہلے ڈاڑھی منڈواتے تھے ، پھر ڈاڑھی بڑھائی ، اور میں نے کئی سال تک ان کی ڈاڑھی کی سال گرہ کے جلسے کیے ، جس میں دہلی کے عماید اور ممبرانِ اسمبلی بھی نہایت لطف و دل چسپی کے ساتھ شریک ہوتے تھے ‘‘ (خان نعمت اللہ خان، ص ۱۸۹)
خواجہ صاحب نے سکندر حیات خان کو شرارتی سیلوٹ کیا ہے ، ذرا دیکھیے:
’’ پنجاب کے قایم مقام گورنر رہ چکے ہیں ۔ ان کے دادا فوجی افسر تھے ۔ ایک انگریز کی جاں نثاری کے صلے میں اس خاندان کو عروج ہوا ......میں انگریز ہوتا تو ان کو وایسرائے بنادیتا اور اپنی سوسایٹی سے کہتا کہ دیکھو میری حکمت کہ نام ایک ہندوستانی کا ہے مگر کام میری قوم کا ہو رہا ہے ‘‘ (ممبرانِ اسمبلی و کونسل آف سٹیٹ :سر سکندر حیات خاں، ص۱۶۰)
پنجاب کے سر فضل حسین برطانوی ہندوستان کے مرکز اور پنجاب میں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ غالباََ مسلمانوں کے لیے ان کی گراں قدر خدمات نے خواجہ صاحب کو خاکہ کشی کی ترغیب دی ہے:
’’ ہندوؤں میں متعصب مسلمان مشہور ہیں ، لیکن عقل کا کمال تعصب سے اونچا رہتا ہے اس واسطے یہ ہر قسم کے تعصب سے اعلیٰ و برتر ہیں ، البتہ بعض اوقات دل ہی دل میں اپنی عقل پر تعلّی کرنے لگتے ہیں۔‘‘ (ممبرانِ اسمبلی و کونسل آف سٹیٹ : میاں سر فضل حسین، ص۱۶۴)
سر فضل حسین ، ہندوؤں میں متعصب کیوں مشہور تھے اس کی ایک وجہ ہم بیان کیے دیتے ہیں۔ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں مانٹیگو چیمسفورڈ آئینی اصلاحات کی سکیم نافذ کی گئی۔ حال آں کہ یہ مسلمانوں کے حقوق ملحوظ رکھتے ہوئے نہیں بنائی گئی تھی، لیکن اس کے تحت مسلمانوں کو خاطر خواہ فایدہ ہوا۔ اس سکیم کے تحت پنجاب کے پہلے وزیرِ تعلیم سر فضل حسین (۱۹۲۱۔۱۹۲۶) نے انتظامی اقدامات کے ذریعے سرکاری تعلیمی اداروں میں مسلمان طلبا کے ۴۰222 داخلوں کو یقینی بنادیا۔ اس وقت پنجاب کی مسلم آبادی ۵۵222 تھی، اس لحاظ سے یہ ایک معتدل اور قدرے معذرت خواہانہ قدم تھا ، مگر اس پر بھی ہندوؤں نے ہر مرحلے پر اسے سختی سے چیلنج کیا۔خیال رہے کہ اس وقت پنجاب یونی ورسٹی اور اس سے ملحق ادارے غیر مسلم کنٹرول میں تھے اور انہیں اکثر غیر مسلم مفادات کے لیے ہی استعمال کیا جاتا تھا۔ یہاں یہ بیان کرنا بھی بر محل ہو گا کہ اس وقت کے برطانوی ہندوستان میں صرف پنجاب ہی واحد مسلم اکثریتی صوبہ تھا ۔ بنگال میں مسلمان بمشکل ہندوؤں کے برابر تھے۔ ۱۹۰۵ کی تقسیم بنگال کے تحت مشرقی بنگال اور آسام پر مشتمل مسلم اکثریتی صوبہ وجود میں آیا تو ہندوؤں نے اس پر خوب واویلا کیا اور ۱۹۱۱ میں تقسیم کی تنسیخ کرا کے ہی دم لیا۔
ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم کو خواجہ حسن نظامی ایوارڈ دیا جانا چاہیے، اگرچہ کافی تاخیر ہوگئی ہے لیکن بعد از مرگ، دیر آید درست آید کے مصداق ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن قبل از قیامت کی شرط بھی ضروری ہے۔ قارئین حیران ہو رہے ہوں گے کہ ہم اتنی شدومد کے ساتھ ڈاکٹر ذاکر مرحوم کو ایوارڈ دینے کی وکالت کیوں کر رہے ہیں، لیجیے خود ہی فیصلہ کیجیے:
’’ ڈاکٹر ذاکر حسین دو صدی پہلے پیدا ہو جاتے تو ہماری سلطنت غارت نہ ہوتی ۔ وہ سلطنت قایم کرنے کے لیے پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ ہندوستانیوں کو انسان بنانے کے لیے انہیں پیدا کیا گیا ہے ۔ اگر عمر کا منتقل کرنا ممکن ہوتا تو میں اپنی زندگی کے پانچ مہینے ان کو دے سکتا تھا، زیادہ نہیں کیوں کہ میں فضول خرچی کو برا سمجھتا ہوں‘‘ ( ڈاکٹر ذاکر حسین، ص۱۳۵)
حیرت ہوتی ہے کہ خواجہ صاحب غلامی کے دور میں بھی برطانوی پارلیمانی نظام کو اچھی طرح سمجھتے تھے ، جب کہ اچھے اچھوں کو آزادی کے بعد بھی (بلکہ ابھی تک) اس کی الف ب پلّے نہیں پڑی۔مولوی تمیزالدین کیس میں خواجہ صاحب کا درج ذیل خاکہ پیش کیا جاتا تو شاید ’’ماماجج‘‘ درست فیصلہ کر پاتا:
’’ ان کی حکومت کے اراکین سب کام ان کے نام پر کرتے ہیں اور دنیا کو بے علم سمجھتے ہیں کہ سارا اختیار شہنشاہ جارج کے ہاتھ میں ہے ۔ حال آں کہ سب اختیار اراکینِ حکومت نے آپس میں بانٹ لیے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھر کے دادا جان ایک بڑے پلنگ پر دری چاندنی بچھائے گاؤ تکیے سے لگے بیٹھے ہیں اور ان کے چاروں طرف ان کے بیٹے پوتے جمع ہیں ۔ ایک کہتا ہے کہ ایک کروڑ کے ہوائی جہاز خرید لو ، بادشاہ سلامت کا ارشاد ہے۔ دوسرا کہتا ہے کہ فلاں قوم کے ہتھیار چھین لو ، بادشاہ سلامت حکم دیتے ہیں ۔ تیسرا کہتا ہے ، حضور جہاں پناہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہندوستان ابھی مکمل آزادی کے قابل نہیں ہوا ہے ۔
بادشاہ سلامت سب کی باتیں سنتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ نہ میں نے ایک کروڑ روپے کے ہوائی جہاز خریدنے کے لیے کہا ، نہ میں نے کسی قوم کو ہتھیاروں سے محروم کرنے کا حکم دیا اور نہ میرا یہ خیال ہے کہ ہندوستانی آزادی کے لایق نہیں ہیں! مگر یہ میری اولاد کیسی گستاخ اور دلیر ہے کہ میرے ہی سامنے جھوٹ بولتی ہے ۔ میں تو چاہتا ہوں کہ میری ساری رعایا آزاد ہو ، میری ساری رعایا امن پسند ہو ، میری ساری رعایا عیش میں ہو ، میں کچھ چاہتا ہوں یہ کچھ کہتے ہیں! پھر بھی غنیمت ہے کہ انہوں نے مجھے گاؤ تکیے سے لگا کر بٹھا تو رکھا ہے ‘‘ (شہنشاہ جارج پنجم کا حلیہ، ص۱۴۴)
جارج پنجم کے اس خاکے میں نہایت لطیف کنائے میں جمہوریت پر چوٹ بھی کی گئی ہے اور بادشاہت کی وضع دار صفات کی عقدہ کشائی بھی۔ ذرا غور کیجیے کہ جب شہنشاہ ہر پہلو سے اپنی ’’رعایا‘‘ کی بہتری کا خواہاں ہے تو پھر آخر رعایا کے نام پر اقتدار سنبھالنے والے رعایا کا جینا کیوں حرام کیے ہوئے ہیں؟۔ یہ سوال آج بھی اتنا ہی جواب طلب ہے جتنا خواجہ مرحوم کے دور میں تھا۔ زیرِ نظر تالیف میں ایک بہت دل چسپ خاکہ ، خواجہ صاحب کی مشاہداتی حس کی بھر پور نمایندگی تو کرتا ہی ہے مگر اس کے ساتھ کسی مکروہ حقیقت کو انتہائی مناسب الفاظ میں ڈھال کر سماجی ضمیر کو کچوکے لگانے کے فن کی نیو بھی رکھتا ہے ، بغور پڑھیے:
’’ ٹھگنا قد جیسے ورزش کا مگدر ، موٹا بدن ، جیسے ڈنلاپ ٹایر کی اشتہاری تصویر ، رنگ نہ گورا نہ کالا ، نہ گندمی نہ سانولا، نہ پھیکا نہ میٹھا، نہ کڑوا نہ کسیلا، بلکہ کالے سفید تلوں کی ملی ہوئی بھوسی کی رنگت ہے۔ چہرہ سلولائٹ ساخت کے کھولوں سے مشابہ ہے ، نہ گول ہے نہ کتابی۔ دیکھنے میں انسانی صورت ہے مگر فرشتوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی نہیں بلکہ شداد نے اپنی بہشت بناتے وقت کسی کمہار سے بنوائی ہو گی۔ آنکھیں مگرمچھ کی طرح چھوٹی چھوٹی، زمین کی طرف جھکی ہوئی ۔ گردن صراحی دار نہیں ہے ، نہ لمبی ہے بلکہ بہت کوتا ہ ہے۔ پیشانی کنجوس کا دل ہے۔ بولنے کا ڈھنگ نہ چینی ہے نہ جاپانی ، ایرانی ہے نہ تورانی۔ جب بولتا ہے تو الفاظ منہ سے اس طرح اچھل اچھل کر، ابل ابل کر، چٹخ چٹخ کرباہر گرتے ہیں جیسے مکئی کے دانے بھاڑ سے بھن بھن کر باہر گرا کرتے ہیں یا جیسے ربڑ کی پچکاری سے جیبی قلم میں روشنائی کے قطرے ٹپکائے جاتے ہیں۔ ازل کے دن جب خندہ پیشانی تقسیم ہو رہی تھی تو یہ ذرا سو گیا تھا اس لیے اس کا منہ ہر وقت غصہ سے سوجا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اپنی عارضی چند روزہ نوکری کی خاطر سے کبھی مسکرانا چاہتا ہے تو اجالے میں اندھیرا ہو جاتا ہے اور کاینات کی زندہ دلی سہم کر چھپ جاتی ہے۔ چلتا ہے تو مکھنے ہاتھی یا ارنے بھینسے کی طرح جھومتا ہوا چلتا ہے اور فارسی کا یہ مصرع پڑھنا پڑتا ہے کہ
مردم بہ ایں طرز خرا میدانِ تو!
عمر چالیس سال سے زیادہ ہے اور خود اس کے کان میں کہا کرتی ہے کہ
’’چہل سال عمرِ عزیز ت گزشت ۔ مزاجِ تو از حالِ طفلی نہ گشت‘‘
تین ہزار روپے ماہوار کماتا ہے مگر تین پیسے ماہوار کی حیثیت میں دکھائی دیتا ہے۔ آدمی ہے مگر آدمیت سے محروم۔ ہندوستانی ہے لیکن اگر اس کے سارے جسم کو کھرچ ڈالا جائے تو تین ماشے چار رتی ہندوستانیت بھی اندر سے نہ نکلے گی مگر نخوت، تکبر، خود پسندی، بے رحمی، مردم آزاری کے برادے کا ایک انبار پایا جائے گا۔ اس کا نام مسلمانوں کا سا ہے مگر اسلامی نام سے نفرت کرتا ہے اور مسلمانوں کو ستانے اور نقصان پہنچانے میں اس کو مزہ آتا ہے۔ نماز پڑھنے والوں کو مکار، روزہ رکھنے والوں کو احمق، زکوۃ دینے والوں کو فضول خرچ ، حج کرنے والوں کوعقل باختہ تصور کرتا ہے ۔
اپنی ساری زندگی میں کبھی کسی مسلمان کو فایدہ پہنچانے کا گناہ نہیں کیا۔ صبح سے شام تک سوچتا رہتا ہے کہ مسلمانوں کو کیوں کر نقصان پہنچائے!‘‘(نئی روشنی کا فرعون: ایک سرکاری آفیسر، ص۱۶۹، ۱۷۰)
خیال رہے زیرِ نظر تالیف میں دہلی کے ایک کمشنر ، دو ڈپٹی کمشنرز اور دو مجسٹریٹس کے خاکے بھی شامل ہیں۔خواجہ صاحب نے ان سبھوں کے اخلاق اور کام میں پختگی کی تعریف کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سرکاری آفیسر کا جو خاکہ ابھی آپ نے ملاحظہ کیا ، کسی بیوروکریٹ کا نہیں بلکہ عام چھوٹے موٹے افسر کا ہے۔ ہمیں خواجہ صاحب کی خوش قسمتی پر رشک آرہا ہے کہ ان کے دور میں کم از کم اعلیٰ سرکاری افسران تو بااخلاق اور عوام کے لیے بے لوث کام کرنے والے تھے ، ان کی بدولت نچلے افسران بھی کچھ نہ کچھ عوامی انداز اپنا لیتے ہوں گے۔ جب کہ ہمارے زمانے میں بیورو کریٹس ، ذہنی اعتبار سے اتنے پست ہو چکے ہیں کہ خاکہ پڑھ کر سب سے پہلے انہی کی طرف دھیان جاتا ہے۔ چلیں! یہ تو ہو گیا آج کے بیوروکریٹ کا خاکہ، سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کے عام سرکاری افسر کا خاکہ کس کا قلم کھینچے گا؟
خواجہ صاحب نے ایک مثالی جوڑے کا خاکہ بھی پیش کیا ہے۔ اس جوڑے کی داخلی دنیا کیسی تھی، اس سے ہمیں زیادہ تعرض نہیں کرنا چاہیے، ویسے خواجہ مرحوم نے خانگی امور کی عمدگی کی بابت بھی دو چار اشارے کیے ہیں ، لیکن اس جوڑے کا جو روپ دنیا کے سامنے تھا ، بلاشبہ قابلِ تعریف اور بے مثال تھا۔ دیکھیے خواجہ نے کتنے دل نشین پیرائے میں خامہ فرسائی کی ہے :
’’بولتے ہیں تو چہرے کے اعصاب کی حرکات میں موسیقی کے پردوں کی جنبش پیدا ہو جاتی ہے اور دل کا مطلب ایک عمدہ شعر کی صورت بن کر ان کے چہرہ پر آ جاتا ہے ...... فرشتوں نے پیرس کی مٹی سے ان کا پتلا بنایا ہو گا اور دہلی اور لکھنو کی خاک سے رنگ آمیزی کی ہو گی‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم : مسٹر آصف علی، ص۱۷۱)
’’ عورت کا غرور ، عورت کی ضد ، عورت کی خود پسندی ، عورت کی نازک مزاجی سے کوسوں دور ہیں ، اس لیے عورتوں کے روپ میں مرد ہیں۔ مرد کی بے وفائی ، مرد کی خود غرضی ، مرد کی حاکمیت ، مرد کی تلون مزاجی نہیں ہے ، اس لیے اصلی اور خالص عورت ہیں ‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم: بیگم آصف علی، ص۱۷۶)
ہمیں تو ریاست رام پور کے حکم ران کا خاکہ پڑھ کر وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف یاد آگئے جنہیں یار لوگوں نے ’’بلڈ پریشر وزیرِ اعلیٰ‘‘ کا خطاب دے رکھا ہے کہ نہ خود آرام کرتے ہیں اور نہ ہی کام میں ہر وقت جٹے ہوئے معصوم بیورو کریٹس کے آرام کا خیال کرتے ہیں ۔ شاید تاج دارِ رام پور کی روح وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف میں حلول کر گئی ہے ، ملاحظہ کیجیے:
’’ ایک بڑی سڑک بنانے کا حکم دیا کہ آٹھ روز میں تیار ہو جائے! حال آں کہ وہ آٹھ مہینے میں تیار ہونے کے لایق تھی ۔ یہ حکم دیتے ہی انہوں نے محمود و تیمور کی طرح کام کی یلغار شروع کر دی اور آٹھ دن مسلسل کام کراتے رہے اور خود اپنی ذات کا آرام ترک کر دیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ سڑک آٹھ روز میں تیار ہو گئی‘‘ (ریاست رام پور: تاج دار رام پور، ص۱۵۳)
لیکن رام پور کے تاج دار ایک لحاظ سے ہمارے وزیرِ اعلیٰ پر کافی بھاری ہیں ۔ ظاہر ہے اتنا مستعد بندہ جسمانی اعتبار سے بھاری نہیں ہو سکتا ، اس لیے وہ کم از کم وزن میں تو بھاری نہیں ہیں ، وہ بھاری ہیں تو صرف اور صرف اپنی صفتِ مردم شناسی میں۔ ان کے مقرر کردہ پولیٹیکل منسٹر کا خاکہ کافی متاثر کن ہے ۔ ایک دو سطریں نمونے کے لیے حاضر ہیں :
’’ دنیا میں جو دماغی اور ذہنی تبدیلیاں ہو رہی ہیں ان کو اس طرح سمجھتے ہیں یا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں گویا قدرت نے ان کو اسی کام کے لیے بنایا ہے ‘‘ (انتظامیہ رام پور: زیدی صاحب، ص۱۵۴)
گویا بیسیویں صدی کے پہلے نصف میں دنیا کی سطح پر جو تبدیلیاں ہو رہی تھیں موصوف کی ان پر گہری نظر تھی ، حال آں کہ اس دور کی دنیا گلوبل ولیج بننے سے کوسوں دور تھی ، اس لیے گہری کے بجائے سرسری نظر سے بھی کام چل سکتا تھا۔ جب کہ ہمارے وزیرِ اعلیٰ کی ٹیم اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کے تقریباََ اختتام پر ، گلوبل ولیج کو بیسویں صدی کے آغاز کی دنیا تسلیم کیے ہوئے ہے۔کاش! زیدی صاحب کی روح بھی کسی ’’بٹ‘‘ میں حلول کر جاتی۔
برِ عظیم کی مسلم ریاستوں کے زوال میں مسلم حکم رانوں کے لچھن کس حد تک دخیل تھے ، اس کی ایک جھلک خواجہ حسن نظامی نے ریاست مانگرول کے نواب جہانگیر میاں کے توصیفی خاکے میں جملہ معترضہ کے طور پر پیش کی ہے:
’’ان کی ریاست جونا گڑھ کے برابر ہوتی تو ہندوستان کے ہر صوبے میں ایک قومی یونی ورسٹی اپنے خرچ سے بنا دیتے اور جونا گڑھ کی طرح کتوں میں روپیہ برباد نہ کرتے‘‘ (ریاست مانگرول: نواب صاحب مانگرول، ص۱۵۶)
اب ہم حصہ سوم کے خاکوں کاجایزہ لیتے ہیں جنہیں ’تصویرِ خصایل: ایک نفسیاتی مطالعہ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ انگریز وں کو خواجہ مرحوم نے قریب سے دیکھا تھا اس لیے ان کا خاصا دل چسپ اور مبنی بر حقیقت خاکہ سپردِ قلم کیا ہے :
’’ وہ دبتا ہے تو چیونٹی بن کر کاٹتا ہے، دباؤ سے نکلتا ہے تو بھی ہاتھی بن کر سونڈ ہلاتا ہے ...... اس کو جاہل اور بے عقل آدمیوں سے ایسا کام لینا آتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے ...... تجارتی مال دکانوں پر سجانے اور ان کے پارسلوں کو عمدہ بنا کر بیچنے میں کمال حاصل ہے‘‘(قومی خصایل: انگریز کے خصایل، ص۱۹۵)
خواجہ صاحب نے یہ جو فرمایا ہے کہ ’’اس کو جاہل اور بے عقل آدمیوں سے ایسا کام لینا آتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے‘‘، ہمارے لیے حیرت انگیز نہیں ہے ۔ کیوں کہ ہم اس آفاقی سچ سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ہر انسان کے اندر’عزتِ نفس‘ نامی ایک میٹر لازماََ لگا ہوتا ہے چاہے وہ جاہل ہو یا عالم۔ اس لیے جس انسان سے کام لینا مقصود ہو ،اگر اس کی عزتِ نفس کو مسلسل ملحوظ رکھا جائے تو ایسا واقعہ استثنائی ہو گا کہ انسان بھر پور لگن ، دل جمعی اور دیانت داری سے کام نہ کرے۔ خواجہ صاحب کی حیرت بھی بجا ہے کیوں کہ مسلم سوسائٹی میں ، چاہے وہ ان کے زمانے کی ہو یا ہمارے عہد کی، سرے سے عزتِ نفس کے وجود سے ہی انکار کیا جاتا ہے چہ جائے کہ اس کا احترام کیا جائے۔اب ذرا ہندو کے خصایل دیکھ لیجیے:
’’روپے کے معاملے میں بڑا ہوشیار ، پتھر میں جونک لگانے والا، سود لینے میں بے رحم اور ہر سچائی کو چھوڑ سکنے والا ہے ...... ہندو کو کیمیا آتی ہے مگر اس کیمیا کے شوق سے بھاگتا ہے جہاں کچھ خرچ کرنا پڑے‘‘(قومی خصایل: ہندو کے خصایل، ص۱۹۶)
مسلمان کے خصایل سپردِ قلم کرتے ہوئے خواجہ صاحب کا قلم ڈگمگایا نہیں ، دیکھیے ذرا:
’’لمبی ڈاڑھی، مونچھ کتری ہوئی اور آج کل ڈاڑھی منڈوائے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ پہلے ہندوستان کا حاکم تھا اب انگریزوں اور ہندوؤں سے حکومت مانگا کرتا ہے اور قدیمی ہمت کو بھول گیا ہے۔ مذہب کا دیوانہ ہے ۔ فرہاد سے زیادہ عقیدے کو شیریں سمجھتا ہے ۔ مذہب کی معمولی بات پر جان دے ڈالتا ہے ۔ بڑا بھولا ہے ، ملائی کی رکابی چرا کر لے لو اور اس کے بدلے دھنکی ہوئی روئی رکھ دو مگر ذرا تعریف کر لو تو روئی کو ملائی تسلیم کرکے روکھی روٹی اس کو لگا کر کھا لیتا ہے ’’چکھ ڈال مال دھن کو ، کوڑی نہ رکھ کفن کو‘‘ اس کا مقولہ بھی ہے اور اسی پر اس کا عمل بھی ہے ایک روپے کی آمدنی ہو تو ایک سو روپے خرچ کرنا پڑتا ہے ۔ عورتوں اور سود خواروں سے تعلق پیدا کرنا اس کی عادت ہو گئی ہے ۔ ...... سیاسی عقل کم زور ہے ۔ تاج و تخت لینے کی بات ہو تو مسجد کے سامنے نفیری بند کرانے کو اپنے لیے کافی سمجھ لیتا ہے اور تاج کی پرواہ نہیں کرتا ۔ دنیا میں سب سے بڑا فضول خرچ مگر سب سے بڑا شجاع ہے ۔ آج کل اس کو غصہ جلدی آ جاتا ہے اور غصہ پی جانے کا قرآنی حکم یاد نہیں کرتا ۔ اس کو مولوی اور سیاسی لیڈر بہت جلدی گرفتار کر سکتے ہیں اس لیے چالاک لوگ مذہب کا نام لے کر اس کو احمق بناتے رہتے ہیں ‘‘ (قومی خصایل : مسلمان کے خصایل ، ص۱۹۶، ۱۹۷)
خواجہ صاحب کو انگریز پر حیرت تھی لیکن ہمیں مسلمان پر حیرت ہے کہ متلون اشتعالی نفسیات کا مظاہرہ کرنے میں اتنا زیادہ’’ مستقل مزاج‘‘ واقع ہوا ہے کہ استقلال کو اس پر رشک آتا ہے(اگر استقلال مونث ہوتا تو رشک کے بجائے حسد کرتا)۔ کئی عشروں کے بعدبھی اور زمینی حقایق میں انقلابی تبدیلی کے باوجود بھی مسلمان کے خصایل میں بہتری رونما کیوں نہیں ہوئی ، اس کا جواب خواجہ مرحوم کے اسی خاکے میں مل جاتا ہے کہ ’’ اس کو مولوی اور سیاسی لیڈر بہت جلدی گرفتار کر سکتے ہیں اس لیے چالاک لوگ مذہب کا نام لے کر اس کو احمق بناتے رہتے ہیں‘‘ ، مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ مسلمان کی راہنمائی کر کے صورتِ حال کو بہتر کر سکتے ہیں درحقیقت وہی لوگ اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ کی خاطر اسے ذہنی پستی میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں۔
جب سکھوں کی بات ہو اور کوئی لطیفہ پیش نہ کیا جائے تو اسے بھی لطیفہ ہی سمجھا جاتا ہے ۔ خواجہ صاحب نہایت لطافت سے ’سکھ کے خصایل ‘ میں خاکے کے تقاضے نبھاگئے ہیں:
’’ جسم مضبوط ، دل قوی ، مزاج کا ضدی ، بات کا پورا ، اس کو جس پہلو سے الٹو ہر رخ سے سکھ نظر آتا ہے ...... اس کی عقل جان بل کی طرح ذرا موٹی ہے مگر اس کی جرات کو دیکھ کو سب اس کی عقل کو نازک اندام کہنے لگتے ہیں‘‘ (قومی خصایل : سکھ کے خصایل ،ص ۱۹۷)
پنجاب کے دریاؤں سے اٹھتی ، اس کی زمین سے وابستہ ’’پنجابی‘‘ کی تعریف و تنقیص ملاحظہ کیجیے:
’’پانچ دریاؤں کی زمین میں رہنے کے سبب اس کا خیال بھی پانی کی طرح پتلا ہو جاتا ہے جس میں نئی بات اور نئے عقیدے کا رنگ فوراََ مل جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جو نئی تحریکیں ملک میں پیدا ہوتی ہیں ان کو سب سے زیادہ پنجاب میں مقبولیت ہوتی ہے ۔ پنجابی کی محنت و جفا کشی نے اس کو بنگالی کی ذہانت پر غالب کر دیا ہے ۔ وہ دنیا کے ہر ملک اور ہندوستان کے ہر مقام میں موجود ہے اور ہر کام میں اس کا دخل ہے ۔ مگر دریا کی طرح اس کی خصلت میں اتار چڑھاؤ جاری رہتا ہے‘‘ (وطنی خصایل : پنجاب والہ کے خصایل، ص۱۹۸، ۱۹۹)
یو پی کے لوگوں کے خصایل بھی خواجہ صاحب نے خوب پیش کیے ہیں:
’’نازک اندام ، نازک خرام، عقل کا پتلا، کام چور، محنت کوخلافِ انسانیت سمجھنے والا۔ سازش میں کامل، ظاہرداری کا بادشاہ، ذکاوت و ذہانت کا خزانے دار، بناؤ سنگار کا شوقین، بول چال کی نفاست کا شیدا۔ پنجابیوں کی جفاکشی کو آدمیت کے خلاف سمجھنے والا۔ قدامت کی خوبیوں کا گرویدہ۔ تقریر و تحریر میں اعجاز دکھانے والا، مگر پنجابی کی طرح تحریروں کا انبار نہیں لگا سکتا‘‘ (وطنی خصایل : یوپی والہ کے خصایل، ص ۱۹۹)
سرکاری افسر کے خاکے کی طرز کی ایک خاصے کی چیز ماڈرن معشوق کے خصایل ہیں، ملاحظہ کیجیے خواجہ کے طرح دار قلم نے انہیں کیسے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے:
’’پہلے سرو کی طرح لمبا، کھجور کی ٹہنی کی مثل دبلا ، گیسو سانپ ، ماتھا چاند ، رخسار سیب ، ٹھوڑی کنواں ، ہونٹ یاقوت اور لعل ، دانت موتی ، گردن صراحی ، چھتیاں سنگ خارا ، کمر غائب ، بھویں کمان ، پلکیں برچھیاں ، آنکھیں شراب کا جام، نظریں تیر تلوارخنجر تھیں اور شاعر ان تشبیہات کو مختلف طریقوں سے بیان کرتے تھے ، مگر آج کل کے ماڈرن معشوق کا حلیہ اور اس کی تشبیہات یہ ہیں ؛
قد ایسا جیسا اخبار کا کالم ، بال ایسے جیسے تن خواہوں کی تخفیف ، پیشانی ایسی جیسے وہائٹ پیپر ، بھویں ایسی جیسے اسمبلی ہال ، پلکیں لکھنے کا باریک نب ، آنکھیں ایکشا نمبر ون کے ننھے ننھے دو گلاس ، نگاہیں کنزرویٹو گورنمنٹ کی پالیسی ، رخسار بالشویک یا سرحدی سرخ پوش ، تھوڑی برٹش ڈپلومیسی ، ہونٹ انگریزی کھانے کی لال جیلی ، دانت کانگرسی زبان کا جیل خانہ ، گردن جودھ پوری برجس ، چھاتیاں پنیر کی چکتیاں ، کمر ہندوستان کا اتفاق ، بالوں کی کتر شامیانے کی جھالر ، بالوں کا تیل چھچھوندر کے آنسو ، چہرے کا پوڈر ملکی ہم دردی ۔ ایسا نازک جیسے خطاب پرست کا دل ، ایسا ضدی جیسے پولیس کا سپاہی ، ایسا بے وفا جیسے دیسی لیڈر اور ایسا ہرجائی جیسے تمباکو اور ایسا منہ چڑھا جیسے چائے کی پیالی ۔ چلتا ہے تو سگریٹ کے دھوئیں کی طرح بل کھاتا ہوا ، دیکھتا ہے تو خورد بین بن جاتا ہے ، بولتا ہے تو پیانو معلوم ہوتا ہے ۔ وہ پہلے درخت تھا جانور تھا اور ایک ڈراؤنا ہوّا تھا ۔ اب آدمی تو بن گیا ہے مگر کچھ گورا ہے ، کچھ کالا ہے ، کچھ کچا ہے ، کچھ پکا ہے ۔
پہلے فرہاد ، مجنوں اور رانجھا اس کے عاشق تھے اور وہ شیریں ، لیلی ، ہیر کے نام سے پکارا جاتا تھا اور اب سب عورت مرد معشوق بن گئے ہیں ۔ کیوں کہ ہر شخص مخاطب کو چاہے عورت ہو یا مرد ، ڈیر(پیارا ۔پیاری) کہتا اور لکھتا ہے ۔ گویا معشوقیت میں بھی جمہوریت ہو گئی ہے ۔
پہلے جوانی میں یاد آتا تھا ، اب طبی کمپنی دہلی کے فاسفورس کے تیل کی طرح بچپن اور بڑھاپے میں کام آتا ہے ، پہلے رقیب ہی پر مہربان تھا ، شاعر کو بہت ستاتا تھا ۔ اب بہت ملن سار ہو گیا ہے ، اچھوت ذاتوں کے آغوش میں بھی چلا جاتا ہے ، پہلے دل لیتا تھا اب روپیہ لیتا ہے ۔ پہلے گلیوں میں رہتا تھا اب کوٹھیوں اور بنگلوں میں رہتا ہے ۔ پہلے کافر تھااب عیسائی ہو گیا ہے ۔ پہلے بت تھا بولتا نہ تھا اب باتونی ہو گیا ہے ۔
نئی روشنی کا یہ معشوق مہنگا نہیں ہے ارزاں ہے ، ہر جگہ مل جاتا ہے۔‘‘ (طبقاتی خصایل :ماڈرن معشوق کے خصایل : ص۲۰۱، ۲۰۲)
’’ڈاکٹر کے خصایل‘‘ میں خواجہ صاحب نے ضمنی طور پر بعض ایسی باتیں کہی ہیں جن کی عام طور پر اس قسم کی انشا پردازی میں توقع نہیں کی جاتی۔ذرا دیکھیے کہ درآمد و برآمد میں توازن اور زرِ مبادلہ کے ذخایر کی اہمیت سے خواجہ حسن نظامی نہ صرف واقف ہیں بلکہ موقع پا کر مطلب کی بات بھی کہہ گئے ہیں:
’’ڈاکٹر پڑھتا ہے تو ایسی محنت سے کہ اس کی آنکھ اور اس کا دماغ اور اس کا دل اور اس کا معدہ بیمار ہو جاتا ہے اور پڑھ کر فارغ ہوتا ہے تو ہر مرض کی دوا بن جاتا ہے ...... ڈاکٹر غریب و مفلس ہندوستان میں بہت مہنگا معالج ہے اور اس کی وجہ سے ہر سال ۹۵ کروڑ روپے کی دوائیں اور آلات غیر ملک سے آکر اس ملک میں بِک جاتے ہیں اور ملک کی دولت باہر چلی جاتی ہے ۔ ڈاکٹر لکیر کا فقیر نہیں ہوتا ‘‘ (پیشہ وارانہ خصایل؛ ڈاکٹر کے خصایل، ص۲۰۲)
خواجہ صاحب کا یہ کہنا کہ’’ ڈاکٹر لکیر کا فقیر نہیں ہوتا‘‘، جارج برنارڈ شاہ کے فرمودہ سے بالکل مختلف ہے۔ شاہ نے اپنے مضمون Are Doctors Men of Science? میں ڈاکٹرز کے لکیر کے فقیر ہونے کو ثابت کرکے ان کا کافی تمسخر اڑایا ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ خواجہ مرحوم نے ڈاکٹرز کے مقابل حکیموں کی خوب درگت بنائی ہے ،ذرا تصور کیجیے کہ اگر برنارڈ شاہ حکیموں پر قلم اٹھاتا تو کیا قیامت ڈھاتا:
’’کنوئیں کے اندر رہتا ہے اور کہتا ہے کہ دنیا بس یہی ہے باہر کچھ بھی نہیں ہے۔ حکیم کو اس عقیدے پر اتنا اصرار ہے کہ اپنی طب کی ایک لمبی لکیر کا فقیر بنا بیٹھا رہتا ہے ...... حکیم پیشے کی رقابت میں ہر پیشہ ور سے بڑھا ہوا ہے۔ اپنے نسخے کو اکسیر اور دوسرے کے نسخے کو زہر کہتا رہتا ہے اور ڈاکٹری اس کی اس خصلت سے فایدہ اٹھاتی رہتی ہے ...... حکیم مفید دواؤں کو اپنی اولاد سے بھی مخفی رکھتا ہے اور کسی کو نہیں بتاتا اور قبر میں ساتھ لے جاتا ہے ‘‘ (پیشہ وارانہ خصایل؛ حکیم کے خصایل، ص۲۰۳)
سرجن حضرات کیسے کیسے گل کھلاتے ہیں ، خواجہ صاحب کی زبان سے ہی سنیے:
’’ ہندوستان میں ڈاکٹر اور ڈاکٹری کا جب سے رواج ہے ، بیماریاں بڑھ گئی ہیں ...... یہ بے ضرورت آپریشن یعنی جراحی کرتے ہیں ...... لکھنو کے ایک ڈاکٹر کا حال سنا کہ اس نے ایک مریض کے آپریشن کی فیس تین سو روپے بتائی اور جب معاملہ طے ہو گیا اور مریض کو آپریشن کے کمرے میں میز پر لٹا دیا گیا تو ڈاکٹر نے مریض کے وارثوں سے کہا کہ میں نے فیس کم کہی ، اب مریض کو اچھی طرح دیکھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ آپریشن بہت بڑا ہے اور پانچ سو روپے سے کم اس کی فیس نہ ہو گی ۔ وارثوں نے مجبوراََ پانچ سو روپے منظور کر لیے اور ڈاکٹر نے مریض کو بے ہوش کر کے پیٹ میں شگاف بھی دے دیے ۔ اس کے بعد ڈاکٹر کمرے کے باہر آیا اور وارثوں سے کہا کہ شگاف دینے کے بعد یہ ظاہر ہوا کہ آپریشن بہت پیچیدہ ہے اور اس میں مجھے بہت زیادہ محنت کرنی پڑے گی ورنہ مریض کی جان کا خطرہ ہے ۔ لہذا آپریشن کی فیس ایک ہزار روپے لوں گا ۔ وارثوں نے یہ بات سنی تو اپنے بیمار کی جان بچانے کے لیے بادلِ نخواستہ ہزار روپے فیس منظور کر لی اور تب اس ڈاکٹر نے آپریشن کو مکمل کیا ...... وکالت اور ڈاکٹر اور رنڈی کا پیشہ یہ سب ہندوستان کو مفلس بنانے والے ہیں۔‘‘(پیشہ وارانہ خصایل : آپریشن کے ڈاکٹر، ص۲۰۳، ۲۰۴)
خواجہ صاحب وکیلوں کی خبر لینے سے بھی نہیں چوکے۔ شاید تحریکِ خلافت میں وکلا نے ایسا پرجوش کردار ادا نہ کیا ہو جیسا ہمارے دور میں چیف جسٹس کی بحالی میں ان کا رہا ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو ، وکلا حضرات اپنا خاکہ پڑھ کر بغلیں جھانکتے نظر آئیں گے:
’’اکثر جرایم پیشہ لوگوں کے لیڈر وکیلوں اور بیرسٹروں کے علاوہ رشوت خور پولیس والے بھی ہوتے ہیں لیکن مجرموں کی لیڈری کا بڑا حصہ وکیلوں ہی کے حصے میں آتا ہے ...... ہندوستان میں جتنے سیاسی لیڈر ہیں وہ سب یا اکثر پہلے وکالت کا پیشہ کرتے تھے ، ان میں سے بعض اس پیشے کی برائیوں کو محسوس کرکے تارک ہو گئے ، جیسے کہ گاندھی جی ہیں اور مالوی جی ہیں اور مسٹر سی آر داس تھے اور نہرو جی تھے ۔ مگر بعض لیڈر ایسے ہیں جو اب تک وکالت کا پیشہ بھی کرتے ہیں اور لیڈری بھی کرتے ہیں ...... ہندوستان میں آدھی تباہی رنڈیوں کے ہاتھوں سے ہو رہی ہے اور آدھی تباہی وکیلوں کے اور مقدمے بازیوں کے ذریعے ہو رہی ہے۔‘‘ (پیشہ وارانہ خصایل : مجرموں کے لیڈر وکیل ، ص۲۰۴، ۲۰۵)
اب نجانے کون سی بات درست ہے کہ سیاسی لیڈر ، وکالت کے پیشے کی برائیوں کو محسوس کرکے تارک ہوگئے تھے اور ہو جاتے ہیں یا وکالت کی نسبت سیاست میں برائیوں کے زیادہ امکانات کی وجہ سے پورے سیاس ہوگئے تھے اور ہو جاتے ہیں؟ ہم فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔البتہ ایک پتے کی بات گوش گزار کریں گے کہ اگر بیرسٹر اعتزاز احسن کے کرداری پنڈولم پر نظر رکھی جائے تو فیصلہ کرنے میں آسانی رہے گی۔
خواجہ مرحوم کی خاکہ نگاری کم نگاہی سے مملو نہیں ہے۔ انہوں نے سستی شہرت کے لیبل سے بچنے کی خاطر ایسے متنازعہ موضوعات پر قلم اٹھانے سے گریز نہیں کیا، جن کی بابت مشرقی معاشرے میں کافی حساسیت پائی جاتی ہے۔ خواجہ حسن نظامی ، ایک ناول نگار کے مانند زندگی کو اس کی پوری جزئیات سمیت دیکھتے اور قبول کرتے ہیں، یہ جزئیات چاہے کتنی ہی مکروہ ہوں۔ اس لیے ان کے خاکے یک رخے ہونے کے بجائے تنوع کے حامل ہیں ۔ آنکھیں بند کرنے سے حقیقت بدل نہیں جاتی، لہذا آنکھیں کھول کر زندگی کے اس روپ کو بھی دیکھیے:
’’نایکہ ظاہر میں ایک سن رسیدہ ، خاموش اور دنیا سے بے زار عورت معلوم ہوتی ہے ، لیکن وہ شیطان کی خالہ ہے اور گربہ مسکین ہے ۔ دنیا کے تمام سیاسی مدبرین ترازو کے ایک پلڑے میں رکھے جائیں ااور دوسرے پلڑے میں ہندوستان کی کسی نایکہ کو رکھ دیا جائے تب بھی ڈپلومیسی اور فریب کاری اور غلط بیانی میں نایکہ کا پلہ جھک جائے گا ‘‘(کاروبارِ شیطنت : نایکہ کے خصایل ، ص۲۰۶)
اگر قارئین تصرف کی اجازت دیں تو معروضی حالات کے پیشِ نظر یہاں ’’ ہندوستانی نایکہ‘‘ کے بجائے’’ ہندوستان‘‘ حقیقت کی بہتر ترجمانی کرے گا۔ خیر! یہ ایک جملہ معترضہ تھا۔ خواجہ صاحب نے نایکہ کے کردار کا درست نقشہ کھینچا ہے ...... لیکن اگر اسے نایکہ ہی کا نقشہ تصور کیا جائے ، کیونکہ ذرا غور کرنے سے یہ پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ دنیا کے تمام سیاسی مدبرین، فریب کاری اور غلط بیانی میں ایسا یدطولیٰ رکھتے ہیں کہ خاکہ نگار کی نظروں میں نایکہ کی بدکرداری کے ابلاغ کے لیے اور کوئی کردار جچا ہی نہیں ۔ یہ نکتہ پہلودارضرور ہے لیکن دوراز کار ہرگز نہیں ، کیونکہ عمومی طور پر سیاسی مدبرین کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے جب کہ نایکہ کا کردار دنیا کے ہر سماج میں منفی اور قابلِ مذمت سمجھا جاتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ خواجہ صاحب نے کنائے میں سیاسی مدبرین کی ایک نمایاں ’خصوصیت ‘ کاخوب خاکہ اڑایا ہے ۔ اپنے سماج کے مختلف طبقات کے طور اطوار پر خواجہ صاحب کی اتنی کڑی نظر ہے کہ بعض اوقات گمان ہوتا ہے کہ کہیں وہ خود بھی انہی کا حصہ نہ ہوں۔دیکھیے ذرا ، زبان و بیان کی لطافت کا لبادہ اوڑھا کر سماجی کثافت کا اظہار کتنے حقیقی پیرائے میں کیا گیا ہے :
’’ یہاں ہر رنڈی کے گھر میں ایک مکھی مار کاغذ رہتا ہے جس پر بہت سی عیاش مکھیاں آ کر بیٹھتی ہیں اور چپک کر رہ جاتی ہیں اور بہت عرصے تک جان کنی میں مبتلا رہ کر مر جاتی ہیں ...... یہ رنڈی ہندوستان کی آدھی تباہی کا باعث ہے ۔ جتنی جائیدادیں سود خواروں کے پاس دولت مندوں کی رہن اور بیع کے ذریعے جاتی ہیں ، ان میں زیادہ حصہ رنڈی بازی کی وجہ سے ہوتا ہے ‘‘ (کاروبارِ شیطنت : رنڈی، ص۲۰۷)
آج بھی غیر جانب دارانہ سروے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی کہ وطنِ عزیز کی تباہی کے جملہ عناصر میں رنڈی بازی بدرجہ اتم موجود ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہی ایک اداکارہ اور ایک سرمایہ دار کی توں تکار میڈیا میں موضوع سخن بنی رہی ۔خواجہ صاحب کی خاکہ کشی سے قطع نظر، حکیم الامت علامہ اقبال ؒ نے اپنے تصورِ خودی کے تناظر میں اداکاری کو پسندیدگی سے نہیں دیکھا تھا کہ اس سے اداکار پنی خودی کو مسل کر شترِ بے مہار بن جاتا ہے ۔ اب اگر پورا سماج ، شترِ بے مہار کی پیروی پر اتر آئے (خیال رہے اتباع و پیروی ، مقصود بھی ہوتی ہے کہ تفریح سے ہٹ کر ، ہر ڈرامے فلم وغیرہ کا مرکزی خیال عام طور پر اصلاحی ہوتا ہے جس کے ابلاغ کے ذریعے معاشرتی سدھار کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن زیادہ تر ہوتا یہ ہے کہ تماشائی، اصلاحی پیغام کے بجائے کسی فن کار کی اداؤں پر فریفتہ ہو جاتے ہیں ، اس کے اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے بولنے اور لباس پہننے [معاف کیجیے گا، اتارنے تک] کی اندھا دھند تقلید کرتے جاتے ہیں ، اور اصلاحی مقصد دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے )، تو غور کیجیے گا کہ کتنی خودیوں کا خون ہوتا ہے اور وہ بھی کسی بڑی خودی کے بے مہابا فروغ کے باعث نہیں ، بلکہ کسی فن کار کی اپنی خودی کی نفی سے۔ خواجہ حسن نظامی نے اسی اقبالی فکر کو اپنے الفاظ کا جامہ اس طرح پہنایا ہے :
’’ وہ اور اس جیسی سب خوب صورت ایکٹرسیں جب ڈرامہ نوسیوں کے ان الفاظ کو تماشائیوں کے سامنے بولتی ہیں جن میں بیسوا کی برائیاں ہوتی ہیں تو ان کا دل ہنسا کرتا ہے کیوں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ان الفاظ سے طوایف بازی کا ذوق کم نہیں ہوتا بلکہ جذبات میں نیکی آمیز گناہ پیدا ہو جاتے ہیں ‘‘ (فن کار : کجن ، ص۲۰۸)
’’نیکی آمیز گناہ‘‘ پر غور کیجیے کہ اس ترکیب سے ایک نفسیاتی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ انسان اپنے گناہ کے جواز کے لیے عموماََ ایسا افسانہ گھڑ لیتا ہے جس سے اس کا گناہ ، مزین ہو کر اس کے سامنے آتا ہے اور احساسِ گناہ کا تڑپا دینے والا جذبہ رخصت ہو جاتا ہے ۔ایسا نیکی آمیز گناہ ، حقیقی گناہ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ اس میں ندامت دلانے والی بے کیف رکھنے والی ضمیری رگ کو تھپک تھپک کر سلا دیا جاتا ہے، جبکہ حقیقی گناہ میں ضمیر کی خلش انسان کو سکون و چین کی نیند نہیں سونے دیتی اور انسان کروٹیں بدل بدل کر بے حال ہو جاتا ہے ۔
’’فن‘‘ کے نام پر ’’فن کار‘‘ کیا کیا گل کھلاتے ہیں ، جھوٹ و غلط بیانی کے کتنے لق و دق صحرا ہر روز عبور کرتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کو سراب میں مبتلا کر کے ان کی جمع پونجی اینٹھ کر نو دولتیوں کا ایک جاہل مگر بااثر طبقہ کیسے کھڑا کرتے ہیں، خواجہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں اس کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے :
’’ عمر تم پوچھو تو سولہ ، وہ پوچھیں تو کبھی سولہ سے کم ، کبھی سولہ سے بہت زیادہ ، ااور کبھی ان جان ہو کر کہے اماں کو معلوم ہے کہ میں کتنے برس کی ہوں ...... اس کا اثر فلم دیکھنے والے ہندوستان کے لیے طاعون اور ہیضے اور ملیریا کے جراثیم سے زیادہ متعدی ہے ۔ وہ اسٹیج کی حکم ران ہے جو توپوں ، ہوائی جہازوں اور تباہ کن کشتیوں کے بغیر سینما دیکھنے والوں پرحکومت کرتی ہے ۔ اس کے دیکھنے میں ، اس کے بولنے میں اور اس کے متحرک ہونے میں ایک جادو چھپا رہتا ہے ...... وہ بولتی ہوئی جھاڑو ہے جو غریب ہندوستانیوں کی جیب صاف کر کے دولت کا سارا کوڑا فلم کمپنیوں کی جیب میں پھینکتی رہتی ہے ‘‘ (فن کار : سلوچنا ، ص۲۰۹)
اس تالیف کو پورب اکادمی اسلام آباد نے نہایت خوب صورتی سے پیش کیا ہے ۔ ۲۳۲ صفحات کی اوسط درجے کے کاغذ پر طبع کتاب کی قیمت ۲۲۵روپے بہت زیادہ نہیں ہے۔ آج کل ان پیج کمپوزڈ کتب، پروف ریڈنگ کے اعتبار سے قاری کو مطمئن نہیں کر پا رہی ہیں لیکن اس کتاب میں پروف ریڈنگ کا معیار نہایت اعلیٰ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پورب اکادمی کے ذمہ داران ادبی ذوق رکھنے کے علاوہ جدیدتکنیکی تقاضوں سے بھی کافی آگاہ ہیں، اس لیے پوری کتاب میں ہمزہ کے ترک کے ساتھ ساتھ لفظوں کو ممکن حد تک توڑ کر املا کیا گیا ہے جس پر پورب اکادمی کے ذمہ داران مبارک باد کے مستحق ہیں۔
ویب سائٹ www.poorab.com.pk ، ای میل:info@poorab.com.pk
اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب (۲)
محمد زاہد صدیق مغل
۲) مجوزین کے نظریہ بینکاری کا جائزہ
اس مختصر وضاحت کے بعد ہم درج بالا نظریہ بینکنگ (جو درحقیقت مجوزین اسلامی بینکاری کا نظریہ بینکنگ بھی ہے) کا تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہیں۔ بحث کو سادہ اور عام فہم رکھنے کے لیے حد امکان تک علم معاشیات کے ٹیکنکل مواد سے صرف نظر کرنے کی کوشش کی جائے گی، اسی لیے بہت سی دیگر تفصیلات کونظر انداز کرتے ہوئے ہم درج بالا تصور بینکنگ کی دو خامیوں پر اکتفا کریں گے (۱۳)۔
۲.۱: نیوکلاسیکل نظریہ بینکنگ کی بنیادی خامیاں
نیوکلاسیکل مفکرین کا یہ اصول کہ ’بینک کو بچتوں سے زائد قرض فراہم نہیں کرنے چاہیے ‘ ان مفروضوں پر مبنی ہے کہ (۱) چونکہ بینک کے قرضوں کا منبع لوگوں کی بچتیں ہوتی ہیں لہذا بچتوں کے بغیر بینک قرض نہیں دے سکتا، نیز (۲) اس کے قرضے بچتوں کے برابر ہوسکتے ہیں۔ ذیل میں ان دونوں دعووں کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
بینک کے قرض بچتوں کے برابر ہوسکنے کا دعویٰ
اس بینکاری نظام (جسے fractional reserve banking کہتے ہیں) میں بینکوں کے قرض اس کی بچتوں کے برابر ہونا ایک امر محال ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بینک اپنے قرض لوگوں کی بچتوں سے نہیں دیتا بلکہ وہ ’بلا کسی عوض‘ (out of nothing)قرض دے کر تخلیق زر کا باعث بنتا ہے۔ (اس عمل کی مکمل تفصیل مضمون کے ضمیمے میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے یہاں صرف خلاصہ بیان کیا گیا ہے) محض دوباتوں پر غور کرلینے سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے:
اولاً ایک شخص مثلاً زید جب بینک میں اپنا اکاؤنٹ کھلواتا ہے تو وہ اپنی رقم (liquidity) خرچ کرنے سے دستبردار نہیں ہوجاتا بلکہ وہ ’کسی بھی وقت ‘ اپنی ’جمع شدہ کل رقم کے برابر‘ قوت خرید استعمال کرسکتا ہے (چاہے یہ استعمال بذریعہ چیک ہو یا Debit کارڈ ) ۔
ثانیاً بینک جب کسی شخص مثلاً ناصر کو نیا قرض جاری کرتا ہے تو وہ زید کے اکاؤنٹ سے کوئی رقم منہا نہیں کرتا بلکہ ناصر کو ’نئی قوت خرید‘ دیتاہے ۔
فرض کریں زید بینک الف میں سو روپے جمع کراتا ہے اور اب وہ کسی بھی وقت سو روپے تک چیک لکھ کر اشیا خرید سکتا ہے- (اس مثال میں سمجھانے کے لیے مجوزین کے اس مفروضے کو درست تسلیم کر لیا گیا ہے کہ بچت قرضوں سے پہلے آرہی ہے جبکہ یہ بھی غلط ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے)۔ اب فرض کریں بینک ناصر کو پچاس روپے کی قوت خرید (liquidity) قرض دیتا ہے۔ اگر تو یہ پچاس روپے زید کے اکاونٹ سے نکال کر دئیے گئے ہوتے تو بینک زید کے اکاؤنٹ کو پچاس سے منہا کردیتا مگر بینک ایسا کبھی نہیں کرتا بلکہ زید اب بھی سو ہی روپے کی قوت خرید کامالک رہتا ہے اور ناصر کو بھی پچاس روپے مل جاتے ہیں۔ ظاہر ہے جو پچاس روپے ناصر کو دئیے گئے ہیں وہ یا تو ناصر کے پاس ہونگے یا پھر بینک کے، اس رقم کا ایک ساتھ دو لوگوں کی ملکیت میں ہونا محال ہے۔ عموماً بینک قرض اکاؤنٹ کی شکل میں دیتا ہے یعنی ہماری مثال میں وہ ناصر کا پچاس روپے کا اکاؤنٹ کھول کر اسے بذریعہ چیک پچاس روپے تک خریداری کی اجازت دے گا۔ یوں مجموعی اکاؤنٹس بڑھ کر ایک سو پچاس روپے ہوجاتے ہیں (یعنی سو زید کے اور پچاس ناصر کے)۔ دیکھئے یہاں بچت تو سو روپے ہی رہی مگر زید و ناصر دونوں کے ڈپازٹس بڑھ کر ایک سو پچاس روپے ہوگئے۔ لہذا جب بینک قرض دیتا ہے تو وہ ایک شخص سے قوت خرید لے کر کسی دوسرے شخص کو نہیں دیتا بلکہ نئے سرے سے قوت خرید تخلیق کرتا ہے اور یہ قوت خرید بینک بلا کسی عوض تخلیق کرتا ہے جس کے بدلے دینے کے لیے اس کے پاس (سوائے ایک ناممکن الوقوع جھوٹے وعدے کے ) کچھ نہیں ہوتا (۱۴)۔
ایک اہم غلط فہمی کا ازالہ: مجوزین اسلامی بینکاری کو یہ غلط فہمی لاحق ہے کہ چونکہ وہ قرض کے بجائے اثاثوں پر مبنی بینکنگ کرتے ہیں، لہٰذا اسلامی بینکاری درج بالا تمام برائیوں سے پاک بینکنگ ہے۔ مجوزین کا یہ دعویٰ محض سطح بینی کا نتیجہ ہے۔ اوپر دی گئی مثال میں فرض کریں زید سو روپے بینک میں جمع کرواتا ہے اور اب ناصر اسلامی بینک کے پاس آکر مشین خرید نے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے جس کی قیمت پچاس روپے ہے۔ اسلامی بینک ناصر سے بیع مرابحہ کرکے اسے پچاس روپے کی مشین ساٹھ روپے میں بیچ دیتا ہے۔ فرض کریں یہ مشین صہیب سے خریدی گئی تھی۔ اب صورت حال یہ ہوگی:
- زید کے پاس بدستور سو روپے کی قوت خرید موجود ہے، یعنی وہ سور وپے تک اشیا خرید سکتا ہے ۔
- ناصر اسلامی بینک کا مقروض ہوگیا ۔
- صہیب پچاس روپے کی قوت خرید کا مالک بن گیا ۔
دیکھئے یہاں پھر وہی صورت حال درپیش ہے جو اوپر بیان کی گئی۔ دونوں میں فرق ’نوعیت مسئلہ اور نتیجے ‘ کا نہیں بلکہ محض کاروائی درج کرنے کے طریقے کا ہے یعنی جو کام عام بینک ایک کاروائی میں کرتے ہیں اسلامی بینک اسے دو اندراجوں میں مکمل کرتے ہیں۔ عام بینکوں میں ناصر بینک کا مقروض ہونے کے ساتھ پچاس روپے کی (فرضی) قوت خرید کا مالک بھی بن جاتا ہے جبکہ اسلامی بینکوں میں یہ قوت خرید ناصر کے بجائے صہیب کو ملتی ہے۔ جس طرح عام بینک یہ قوت خرید کسی عوض کے بغیر محض کمپیوٹر کی یاداشت (memory) میں ایک نمبر تحریر کرکے تخلیق کرتے ہیں، اسی طرح اسلامی بینک بھی یہی کام کرتے ہیں۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے یعنی ’بلا کسی عوض قرض پر مبنی زر کی تخلیق‘ (مزید تفصیل ضمیمے میں)۔ چنانچہ یہ خیال کہ اثاثوں پر مبنی بینکاری سے تخلیق زر کی صورت پیدا نہیں ہوتی، قلت تدبر کا نتیجہ ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ عام بینک بھی جو قرض جاری کرتے ہیں، قرض خواہ ان سے بھی کسی نہ کسی اثاثے کی خرید وفروخت عمل میں لاتے ہی ہیں، یہاں فرق صرف اتنا ہورہا ہے کہ قرض خواہ کے بجائے اسلامی بینک خود اس فرضی قوت خرید سے خریدوفروخت کا معاملہ کرتا ہے اور بس۔
یہ غلط فہمی کہ اثاثوں پر مبنی بینکاری سے تخلیق زر کی صورت پیدا نہیں ہوتی اس خیال سے بھی پیدا کی جاتی ہے کہ چونکہ روایتی بینک بیع کے بجائے اپنے گاہک کو اکاؤنٹ (deposit) کی صورت میں قرض دیتے ہیں، اسی وجہ سے یہ جعلی زر تخلیق کرتے ہیں، اس کے مقابلے میں اسلامی بینک چونکہ اثاثے کی خرید کے لیے پوری قیمت ادا کردیتے جسکے نتیجے میں قوت خرید اسلامی بینک کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے لہذا یہ اس برائی سے پاک ہیں۔ درحقیقت یہ دعوی بھی اصل معاملے پر غور نہ کرنے کا ہی کا نتیجہ ہے کیونکہ تخلیق زر کا تعلق اس بات سے نہیں کہ آیا بینک کرنسی کی صورت میں کوئی ادائیگی کرتا ہے یا نہیں بلکہ اس امر سے ہے کہ ادا کردہ رقم پوری یا اس کا ایک حصہ دوبارہ بینکنگ نظام میں واپس آتا ہے یا نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو معاملہ یوں بنتا ہے کہ اسلامی بینک جو قیمت ادا کرتا ہے وہ دو میں سے کسی ایک حال سے خالی نہیں ہوتی، فرض کریں اسلامی بینک ٹویوٹا کمپنی سے دس لاکھ روپے مالیت کی ایک گاڑی خرید تا ہے:
۱) اس کی قیمت یاتو چیک کی صورت میں ادا کی جاتی ہے یعنی اسلامی بینک ٹویوٹا کمپنی کو اپنا جاری کردہ دس لاکھ روپے مالیت کا چیک دیتا ہے جسے ٹویوٹا کمپنی اپنے بینک میں بھیج کر رقم منتقل کروالیتی ہے۔ اس صورت میں پوری ادا کردہ رقم دوبارہ بینکنگ نظام میں واپس آجاتی ہے اور یوں بینکاری نظام مجموعی طور پر دس لاکھ روپے کے نئے ڈپازٹ تخلیق کردیتا ہے کیونکہ اس ادائیگی کے بعد بینک اپنے کسی بھی گاہک کی قوت خرید کو منہا کئے بغیر کمپنی کے کھاتے میں دس لاکھ روپے جمع کردیتا ہے ۔
۲) زیادہ تر قیمت کی ادائیگی اوپر بیان کردہ یعنی بینک چیک کی صورت ہی میں ادا کی جاتی ہے، مگر اس کا دوسرا امکان یہ ہے کہ اسلامی بینک یہ قیمت کرنسی کی صورت میں ادا کرے، یعنی اسلامی بینک ٹویوٹا کمپنی سے دس لاکھ روپے مالیت کی گاڑی بعوض کرنسی خرید لیتا ہے۔ اس صورت میں کمپنی یا تو پوری کی پوری رقم یا اس کے محض ایک حصے کو اپنے پاس کیش کی صورت میں رکھ کر بقیہ (فرض کریں آٹھ لاکھ روپے) کو اپنے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرادیتی ہے اور یوں پھر پہلی صورت ہی کی طرح نئے ڈپازٹ تخلیق ہوجاتے ہیں ۔
یہاں یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ کمپنی پوری کی پوری قیمت کو بصورت کیش اپنے پاس رکھ لے۔ اس میں شک نہیں کہ کمپنی کے لیے ایسا کرنا ممکن ہے، مگر یہ طرز عمل بینک کے کسی ایک گاہک کے لیے تو تصور کیا جا سکتا ہے لیکن اگر تمام لوگ اسی طرح ہر معاہدے کے بعد ادا کردہ کیش اپنے پاس رکھنے لگیں اور ہر بیع بعوض کیش ہی کرنے لگیں تو بینک دیوالیہ ہوجائیں گے۔ ایسا اس لیے کہ اگر رقم یوں ہی بینکوں سے نکلتی رہے تو بینک اپنے کھاتے داروں کو رقم کی ادائیگی کہاں سے کرے گا؟ لہذا یہ سمجھنا کہ اسلامی بینکوں کا اثاثوں پر مبنی بینکنگ کرنا انہیں روایتی بینکوں سے ممیز کردیتا ہے ایک غلط فہمی کے سواء اور کچھ نہیں کیونکہ تخلیق زر کے عمل کا تعلق بذریعہ قرض یا بیع بینکاری کرنے سے نہیں بلکہ fractional reserve banking (اصل زر کے محض ایک مخصوص حصے کو بطور کرنسی اپنے پاس رکھنے ) کے اصول سے ہے۔
بینک ڈپازٹ کی قرض پر اولیت کا دعویٰ
اب تک کی بحث سے یہ واضح ہوجانا چاہیے کہ چاہے مرکزی بینک ہو یا کمرشل بینک، دونوں جس زر کو تخلیق کرتے ہیں، وہ ’قرض‘ کی رسید (promise of payment) سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا (۱ور وہ بھی ایسا قرض جسکا عوض ادا کرنا ناممکن الوقوع ہوتا ہے جیسا کہ ضمیمے سے واضح ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ مالیاتی و زری نظام کو Debt or Credit Money System (قرض پر مبنی نظام زر ) کہتے ہیں۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سمجھنا بالکل آسان ہوجاتا ہے کہ بینک ’بچتیں قرض کا باعث بنتی ہیں‘ کے بجائے ’قرضے ڈپازٹس کو جنم دیتے ہیں‘ (loans create deposits model) کے اصول پر کام کرتا ہے (اور کرسکتا ہے)۔ ہم دیکھیں گے کہ ایک بینک اکاؤنٹ قائم ہونے سے ’قبل‘ ایک قرض تخلیق ہونا ضروری امر ہے۔ سادہ تفہیم کے لیے (۱۵) بات یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ فرض کریں ایک شخص (زید) کسی خدمت کے عوض حکومت سے نوٹ (legal tender) وصول کرتا ہے۔ اس موقع پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ شخص اس رقم (یا اس کے ایک حصے ) کو کسی کمرشل بینک میں جمع کراتا ہے تو یہ اکاؤنٹ بنا کسی ماقبل قرض قائم ہوجائے گا، لہٰذا ثابت ہوا کہ ڈپازٹ قرض سے ماقبل ہوتاہے۔ یہ خیال درست نہیں کیونکہ سوال یہ ہے کہ حکومت نے زید کو یہ رقم کس مد سے ادا کی؟ اس کا جواب دو میں سے کسی ایک صورت سے ہوسکتا ہے:
۱۔ اگر یہ قوت خرید ٹیکسوں کی آمدنی سے ادا کی گئی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت نے عوام کی قوت خرید عوام کو واپس لوٹا دی (کیونکہ ٹیکس کی آمدن عوام سے ہی وصول کی گئی تھی)۔ اس صورت میں زر کی مقدار پر حکومت کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور کسی قسم کی کوئی قوت خرید وجود میں نہیں آئے گی۔ دوسرے لفظوں میں اس صورت حال میں گویا ہم ایک غیر سرمایہ دارانہ مالیاتی نظام میں ہونگے جہاں نہ تو تخلیق زر کا عمل ہوگا اور نہ ہی زر اعتباری کا کوئی وجود، لہٰذا کمرشل بینک بھی کوئی ڈپازٹ لینے کے لائق نہ ہوں گے (اس لیے کہ ڈپازٹ قائم کرکے وہ زر اعتباری یعنی ’بینک ڈپازٹس ‘ ہی تو تخلیق کرتے ہیں ) ۔
۲۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ حکومت نے یہ رقم نئے نوٹ وغیرہ چھاپ کر ادا کی۔ مگر اوپر ہم دیکھ آئے ہیں کہ نوٹ چھاپنے کا مطلب حکومت کا خود کو قرض دینا ہوتا ہے کیونکہ نوٹ سرکاری قرضہ ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس صورت میں ڈپازٹ سے پہلے قرض پایا گیا۔ الغرض بینک ڈپازٹ قائم ہونے کے لیے پہلے قرض کا پایا جانا ضروری ہے ۔
ایک دفاع کا ازالہ: مشہور نیوکلاسیکل (زیادہ صحیح الفاظ میں کنیزین) معیشت دان Tobin نے روایتی اصول ’بچتیں قرض کا باعث بنتی ہیں‘ کا ایک دفاع پیش کرنے کی کوشش کی۔ Tobin اس بات پر زور دیتا ہے کہ بینک ڈپازٹ وجود میں آنے کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ معاشرے میں ایک ایسا ایجنٹ (صارف، فرم وغیرہ) موجود ہو جو اس اکاؤنٹ کا مالک بننا چاہتا ہو بصورت دیگر بینک ڈپازٹ کبھی قائم نہیں ہوسکتا۔ اس سادہ بحث سے Tobin یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ بینک ڈپازٹ کے وجود کا انحصار بینک کے قرض دینے یا نہ دینے پر نہیں بلکہ فرد کے اس فیصلے پر ہے کہ وہ اپنی دولت کا ایک حصہ بینک اکاؤنٹ کی صورت میں رکھنا چاہتا ہے یا نہیں۔ اگر تمام افراد اپنی دولت بینک ڈپازٹ کے بجائے کسی دوسری صورت (مثلاً سونا، اشیا یا سیکیورٹیز وغیرہ) میں رکھنے کا فیصلہ کرلیں تو بینک ڈپازٹ کا وجود ختم ہوجائے گا۔ لہٰذا Tobin کے خیال میں بینک ڈپازٹ کی مقدار کا تعین بینکوں کے جاری کردہ قرضوں کی مقدار سے نہیں بلکہ بینک ڈپازٹ کی طرف لوگوں کی ترجیحات سے ہوتا ہے۔ بظاہر Tobin کی یہ دلیل خاصی وزنی معلوم ہوتی ہے البتہ ذرا غور کرنے سے اس کی غلطی واضح ہوجاتی ہے۔ پہلی بات یہ کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ اپنی دولت کو مختلف شکلوں میں محفوظ رکھنے کی ترجیحات خود طے کرتے ہیں مگر فرد کی اس فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اپنے فیصلے اور ترجیحات سے بینک کے ’مجموعی ڈپازٹس‘ کی مقدار زیادہ یا کم کر سکتا ہے۔ مثلاً فرض کریں زید اپنی دولت کی حفاظت سے متعلق اپنی ترجیحات کو تبدیل کرنا چاہتا ہے (دھیان رہے کہ اس مثال کا تعلق ایسے مالیاتی نظام سے متعلق ہے جہاں صرف ’بینک زر‘ بطور زر استعمال کیے جاتے ہیں) ۔ اگر زید اپنے بینک ڈپازٹ کو بڑھانا چاہتا ہے تو ایسا کرنے کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی دولت کے کسی دوسرے اثاثے (مثلاً اشیا، سونے یا سیکیورٹیز وغیرہ) کو بیچے ۔ اسی طرح اگر وہ اپنے بینک ڈپازٹ کو کم کرنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ بینک ڈپازٹ سے کچھ رقم نکال کر کوئی دوسرا اثاثہ خریدلے۔ زید کے ان دونوں فیصلوں کے روبا عمل ہونے کے لیے معاشرے میں کسی ایسے دوسرے فرد (مثلاً ناصر ) کا ہونا ضروری ہے جو زید کے فیصلے کا بالکل الٹ کرنے کے لیے تیار ہو۔ اس پوری صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجموعی بینک ڈپازٹس کی مقدار جوں کی توں بدستور برقرار رہی جس سے ثابت ہوا کہ بینک کے مجموعی ڈپازٹس کا افراد کی ترجیحات سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ سوال کہ اگر بینک ڈپازٹس کی مقدار میں اضافے یا کمی کا انحصار افراد کی ترجیحات پر نہیں ہوتا تو پھر کس چیز پر ہوتا ہے، تو اس کا جواب ہے بینکوں کا قرض زیادہ یا کم ہوجانا۔ ڈپازٹس کی مقدار میں اضافہ تب ہوتا ہے جب بینک قرضوں کی مقدار میں اضافہ کرتا ہے اور کمی اس وقت ہوتی ہے جب فرد ڈپازٹ کی شکل میں بینک کا قرض واپس کرتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہاں دلیل کا رخ یہ نہیں کہ بینک کا ہر قرض لازماً ڈپازٹ کی شکل اختیار کرتا ہے بلکہ یہ ہے کہ بینک ڈپازٹ قائم ہونے سے قبل ایک قرض کا پایا جانا ضروری ہے اور Tobin کی وضاحت اس پہلو کو رد کرنے میں کوئی مدد فراہم نہیں کرتی۔
اس ساہ مثال کے بعد اب ایسے مالیاتی نظام کی مثال لیجئے جہاں بینک ڈپازٹس کے علاوہ زر قانونی بھی بطور کرنسی استعمال ہوتا ہو یعنی جہاں دو چیزیں بطور آلہ مبادلہ (means of payment) چلتی ہوں ایک بینک ڈپازٹس دوسری زر قانونی (جیسا کہ دور حاضر کا حال ہے)۔ فرض کریں زید اپنے بینک ڈپازٹ کی مقدار کم کر کے زر قانونی کی زیادہ مقدار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ اگر ڈپازٹس کے بجائے کرنسی کی ترجیح میں اضافہ ہوجائے تو بینکوں کی قرض دینے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے (دیکھئے ضمیمہ) لہذا اس صورت میں بینک اپنے قرض اور نتیجتاً ڈپازٹس کم کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ مگر قرضوں میں کمی کا یہ عمل ڈپازٹس میں کمی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ بینک قانوناً اس پر مجبور ہوتے ہیں کہ انہیں Reserves کی ایک کم از کم مقدار اپنے پاس محفوظ رکھنا ہوتی ہے۔
قرضوں کے پس پشت ڈپازٹس کا وجود ثابت کرنے کا آخری امکان یہ فرض کیا جاسکتا ہے کہ بحیثیت مجموعی لوگوں کی اپنی بچت ڈپازٹس کی صورت میں جمع کرنے کی ترجیح میں اضافہ ہوجائے (یعنی مثلاً پہلے اگر وہ دس فیصد بچت ڈپازٹس میں رکھتے تھے تو اب بیس فیصد رکھنے لگے)۔ ایسی صورت حال میں عموماً بینکوں کے جاری کردہ قرض زیادہ ہوجاتے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بینک قرض اپنے ڈپازٹس سے جاری کرتا ہے۔ البتہ یہ امکان بھی درست نہیں کیونکہ مفروضہ صورت حال کا مطلب یہ ہوا کہ بچتوں کا زیادہ حصہ اب ڈپازٹس کی طرف جانے لگا جبکہ تمسکات (۱۶) (securities) وغیرہ کی مد میں محفوظ کیا جانے والا حصہ کم ہوگیا۔ ایسی صورت حال میں کمپنیاں بینکوں سے زیادہ قرض لینے پر مجبور ہوں گی اور یوں وہ زیادہ مقدار میں بینکوں کی مقروض ہوجائیں گی۔ گو یہاں بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بینک کے قرضوں کی مقدار میں اضافہ بینک ڈپازٹس کی طلب بڑھ جانے کی وجہ سے ہوا مگر قرضو ں میں یہ اضافہ کمپنیوں کی قرض کی طلب بڑھ جانے کی وجہ سے ہوتا ہے نہ کہ بچت کی رسد بڑھ جانے سے۔
’بچت قرضوں کا باعث بنتی ہے ‘ کا اصول اپنالینے کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ معیشت دان ’ایک بینک ‘ کے اس عمل کو سامنے رکھ کر نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہر بینک زیادہ سے زیادہ reserves اور ڈپازٹس حاصل کرنے کے لیے دوسرے بینکوں سے مسابقت کرتا ہے جس سے یہ محسوس ہوتا ہے گویا قرضے ڈپازٹس سے دئیے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بینک کے reserves بڑھ جانے سے اس کی قرض دینے کی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے مگر (ا) یہ اصول کسی ’ایک بینک ‘ کے لیے تو درست ہے البتہ ’بینکنگ بحیثیت مجموعی ‘ کے لیے قابل عمل نہیں کیونکہ بینکوں کے مجموعی ڈپازٹس میں اضافہ صرف اس وقت ممکن ہے جب مرکزی بینک نیا قرض جاری کرے، علی الرغم اس سے کہ یہ قرض ایک بینک کو دیا جائے یا حکومت کو (ب) اس کی وجہ ڈپازٹس کے پس پشت مخصوص مقدار میںreserves رکھنے کی قانونی پابندی سے ہے، اگر اس پابندی کو ختم کردیا جائے تو بینکوں کی قرض دینے کی صلاحیت لامحدود ہوجائے گی۔ پس ایسا مالیاتی نظام جہاں (۱) زر قانونی بطور کرنسی استعمال ہو اور (۲) بینکنگ نافذ العمل ہو، وہاں ہر ڈپازٹ سے ’ قبل‘ ایک قرض کا پایا جانا منطقی لازمہ ہے۔ پس ہم نظام بینکاری کے اصل تصور کو درج ذیل شکل سے سمجھ سکتے ہیں۔ اس تصویر میں یہ بات دکھائی گئی ہے کہ بینک قرض کی صورت میں قوت خرید کی منتقلی لوگوں کی بچتوں سے نکال کر نہیں دیتا بلکہ محض کمپیوٹر میں چند اعداد وشمار لکھ کر تخلیق کرلیتا ہے ۔ اس قرض پر بینک سود کماتا ہے۔ دوسری طرف بینک کھاتے داروں سے ڈپازٹس وصول کرتا ہے تاکہ بینک کو اپنی فرضی رسیدوں کی پشت پناہی کے لیے کچھ رقم ملتی رہے اور اس کا کاروبار محفوظ طریقے سے چلتا رہے۔ بینک اپنے کھاتے داروں کو رقم کی ادائیگی اسلیے کرتا ہے کہ وہ بینک کے ساتھ مخلص رہیں اور بینک ڈپازٹس کھلواتے رہیں۔
۲.۲: بینکاری تاریخی پس منظر میں
اس مقا م پر موجودہ بینکنگ کو اس کے تاریخی پس منظر میں سمجھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ موجودہ بینکاری (بشمول اسلامی بینکاری) نظام اسی دھوکے اور جھوٹ پر مبنی ہے جو سولہویں اور سترہویں صدی کے صراف یورپ کے عیسائیوں اور دیگر اہل مذاہب کو دیا کرتے تھے۔ بینکنگ کے ارتقاء کو ہم چند ادوار (stages) میں تقسیم کرکے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں (یہ تقسیم واقعاتی ترتیب کے اعتبار سے نہیں بلکہ محض تفہیم کے نقطہ نظر اختیار کی گئی ہے، تاریخی طور پر یہ سارے ادوار اس ترتیب سے گزرے یا نہیں ایک الگ موضوع ہے)۔
پہلا دور: یورپ میں بینکنگ کا پہلا دور یہ تھا کہ لوگ اپنا سونا و چاندی (زر اصلی) بطور امانت صرافوں کے پاس رکھوا دیتے۔ یہ امانتیں عموماً حفاظتی و سفری ضرورتوں کی بناء پر جمع کرائی جاتی تھیں۔ صراف ان امانتوں کے بدلے ’صاحب امانت کے نام‘ رسیدلکھ دیتے جو اس بات کی ضمانت ہوتی تھی کہ رسید پر درج نامی شخص فلاں مقدار سونے کا مالک ہے جسے وہ جب چاہے صراف سے واپس لے سکتا ہے۔ ابتداً یہ رسیدیں بذات خود زر یا مال تصور نہیں کی جاتی تھیں، بلکہ محض ’قرض کی رسید‘ (debt receipts or promise of payment)سمجھی جاتی تھیں۔
دوسرا دور: رفتہ رفتہ یورپ میں ان رسیدوں پر اعتماد بڑھنے کے ساتھ لوگوں نے ہر دفعہ سونا نکال کر اشیا خریدنے کے بجائے براہ راست ان رسیدوں کو اشیا کے تبادلے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ دھیان رہے کہ اب بھی یہ رسیدیں محض ’قرض کی رسیدیں‘ ہی سمجھی جاتی تھیں مگر اب انہیں بطور ’سونے کے متبادل‘ آلہ مبادلہ استعمال کرنا شروع کردیا گیا۔ (یہیں سے ساری خرابی شروع ہوتی ہے جیسا کہ آگے واضح کیا جائے گا۔)
تیسرا دور: جب یورپی صرافوں نے دیکھا کہ لوگ عموماً رسیدوں ہی سے معاملات کر لیتے ہیں اور سونا نکلوانے کم ہی آتے ہیں تو انہوں نے جمع شدہ سونے کو سود پر ادھار دیکر پیسہ بنانا شروع کردیا۔ البتہ انہیں اپنی جاری کردہ رسیدوں کا کچھ فیصد سونا بہر حال اپنے پاس رکھنا پڑتا تھا تاکہ اگر کوئی صاحب سونا لینے آئیں تو ان کی یہ طلب فوراً پوری کی جا سکے۔ اس مقام پر آکر ایک اہم فرق رونما ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ ’سونے کے بدلے جاری کردہ قرض کی رسیدیں ‘ اور ’بعینہ وہی سونا‘ ’ایک ساتھ ‘ بطور آلہ مبادلہ استعمال ہونے لگے اور یوں یورپی صراف خفیہ طور پر زر کی رسد بڑھانے کا باعث بننے لگے۔ مثلاً فرض کریں تمام لوگوں نے مجموعی طور پر 100گرام سونا صرافوں کے پاس جمع کرایا جس کے بدلے 100 رسیدیں (فی رسید ایک گرام سونا کے حساب سے) جاری کردی گئیں۔ اگر پچاس گرام سونا قرض دے دیا گیا تو ایک طرف قرض خواہ سو رسیدیں (یعنی سو گرام سونا) بطور آلہ مبادلہ استعمال کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف صرافوں کے مقروض پچاس گرام سونا بھی استعمال کررہے ہیں۔ یوں زر کی کل رسد بڑھ کر 150 گرام سونے کے برابر ہوگئی۔ اس مقام پر پہنچتے ہی گویا بینک پیدا ہوگئے (کہ بینک کا اصل کام زری ثالثی نہیں بلکہ بلا کسی عوض تخلیق زر ہے جیسا کہ واضح کیا گیا)۔ دوسرے لفظوں میں ’قرض کی رسید‘ (Promise of payment) اب دو افراد کا باہمی معاملہ (private contract) نہیں رہا بلکہ اسے بطور زر عام خریدا اور بیچا جانے لگا ۔
چوتھا دور: یہ روش آگے بڑھتی گئی اور لوگ زیادہ بڑی مقدار میں سونا یورپی صرافوں کے پاس جمع کرانے لگے۔ جب ان صرافوں نے غور کیا کہ چونکہ لوگ ہماری کل جاری کردہ رسیدوں کی ایک خاص مقدار (فرض کریں 20 فیصد) سے زیادہ سونا کبھی نکلواتے ہی نہیں نیز لوگ ہماری جاری کردہ رسید کی صورت میں بھی قرض وصول اور ادا کرنا قبول کرلیتے ہیں (کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان رسیدوں کے بدلے اشیاء کی خریدوفروخت کے لیے تیار ہیں) تو انہیں یہ ترکیب سوجھی کہ سونے کے بجائے رسیدوں کی صورت میں قرض دینا شروع کیا جائے اور چونکہ لوگ جاری کردہ رسیدوں کی محض مخصوص مقدار کے برابر سونا نکلواتے ہیں تو جمع شدہ سونے سے زیادہ رسیدیں جاری کردینے میں کچھ حرج نہیں، لہٰذا انہوں نے ایسا کرنا شروع کردیا۔ فرض کریں اگر سب لوگوں نے مل کر 100گرام سونا جمع کروایا اور لوگ جاری کردہ رسیدوں کے بیس فیصد سے زیادہ سونا کبھی نہیں نکلواتے تو اس صورت میں صراف 100 گرام سونے کے بدلے 500 گرام ’تک‘ رسیدیں جاری کرسکتے (500 رسیدوں کا بیس فیصد یعنی 100 گرام سونا وہ اپنے پاس رکھتے، گویا 100 گرام سونا 500 رسیدوں کی پشت پناہی کرنے کے لیے کافی ہوسکتا تھا، مزید تفصیل ضمیمے میں دیکھئے)۔ دھیان رہے کہ ان پانچ سو رسیدوں میں سے صرف سو رسیدوں کے برابر سونا اکانومی میں موجود ہوتا جبکہ بقیہ چار سو قرض کی رسیدیں محض فرضی و جعلی طور پر وجود میں لائی جاتیں جن کے عوض ادا کرنے کے لیے صرافوں کے پاس کوئی اثاثہ موجود نہ ہوتا۔ اب نوعیت معاملہ میں یہ واضح تبدیلی آگئی کہ قرض کی جن رسیدوں (promise of payments)کو ’ذریعہ ادائیگی‘ (means of payment) کے طور پر استعمال کیا جانے لگا تھا، ابتداً جب تک ان کے پیچھے مساوی مقدار میں سونا موجود تھا، اس وقت تک یہ کسی ’حقیقی دعوے و وعدے‘ (factual claim and true promise of payment) کی رسیدیں تھیں، مگر اب یہ محض ’فرضی دعوی و وعدہ‘ (fictious claim and false promise of payment) بن کر رہ گئیں، ایک ایسا وعدہ جسے پورا کرنا عملاً ناممکن الوقوع تھا۔ ظاہر ہے 100 گرام سونا 500 رسیدوں کے بدلے کبھی ادا نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی صرافوں کے کاروبار کا انحصار اس بات پر تھا کہ لوگ کبھی ان کی تمام رسیدوں کے برابر سونے کی طلب نہ کریں، جس دن ایسا ہوا صرافوں کے دھوکے کی پول کھل جائے گی۔
اس مقام پر ذہنوں میں یہ سوال آسکتا ہے کہ بینک رسیدیں لکھ کر اور پھر انہیں قرض پر دیکر سود کمانے کے لمبے چکر میں کیوں پڑ تے تھے، اس کے بجائے وہ ان رسیدوں کو براہ راست اشیاء و خدمات کی خریداری کے لیے بذات خود کیوں استعمال نہ کرتے؟ درحقیقت یہ حکمت عملی بارآور ثابت نہ ہوسکتی تھی کیونکہ خریدی گئی اشیاء کا مالک ان رسیدوں کے عوض بینک سے سونے کی طلب کرے گا اور بینکوں کے پاس یہ سونا ہوتا ہی کب تھا۔ چونکہ اس طرح سے خرچ کی گئی رسیدیں گھوم کر پھر انہی بینکوں کے سامنے سونے کی طلب کے ساتھ آنا تھیں لہذا بینکوں کے لیے اپنی ہی تخلیق کردہ رسیدیں خود استعمال کرنا اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ پس بینکوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ ان رسیدوں (جو اس وقت زر کی حیثیت اختیار کر چکی تھیں) کو سود کے بدلے قرض پر دے کیونکہ اس کا فائدہ یہ تھا کہ جب بینکوں کا قرض بذات خود ان رسیدوں کی ہی شکل میں ادا کیا جاتا تھا تو رسیدوں کی صورت میں تخلیق کیا گیا زر خود بخود ختم ہوجاتا اور اس کا کوئی ثبوت باقی نہ رہتا جبکہ بینک اپنا ’نفع‘ کھرا کرلیتا۔ اسی طرح بینکوں کے لیے یہ بھی ممکن نہ تھا کہ وہ شرکت وغیرہ کی بنیاد پر قرض دیکر کاروبار کرتے کیونکہ ان کا کاروبار پہلے ہی ایک بڑے خطرے (risk) سے دو چار تھا کہ وہ اصل زر (سونے) کی واپسی کے وعدہ پر اصل سے بہت زیادہ فرضی زر تخلیق کئے بیٹھے تھے اور یہ وعدہ نبھانا انکے لیے ممکن نہ تھا۔ شرکت پر کاروبار کرنے کا مطلب اپنے اس کاروبار کو دہرے خطرے سے دوچار کرنے کے مترادف ہوتا کہ اگر ان قرضوں پر نقصان ہوا تو بینک اس نقصان کا ذمہ دار ہوگا اور جو سونے کی شکل میں قابل ادا ہوگا۔ اس لیے بینک سودی قرضے دیتے جن سے ایک طرف انکا نفع یقینی ہوجاتا اور دوسری طرف اصل بھی محفوظ رہتا۔ اس اصل کو مزید محفوظ بنانے کے لیے بینک قرض کے برابر شے بطور رہن رکھوانے کی شرط بھی رکھتے۔ اس طرح یہ ایک محفوظ و مامون کاروبار کی صورت اختیار کرتا چلا گیا (۱۷) ۔
یورپ کے اندر اس سارے عمل کے نتیجے میں بینکاری ایک انتہائی ’نفع بخش‘ (بصورت سود) کاروبار بن گیا کیونکہ معاملہ گویا یہ تھا کہ صرافوں کے ہاتھ زر تخلیق کرکے پیسہ کمانے کا دھندہ آگیا تھا۔ حالات کا اندازہ لگا کر دیگر چالاک لوگوں نے بھی اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ کاروبار شروع کردیا۔ اب یورپی صراف قرض کی رسیدیں ’قرض خواہ کے نام‘ (bearers name) کے بغیر ’اپنے نام سے جاری کرتے‘ تاکہ ان کی قبولیت مزید بڑھ جائے (جیسے آج کل حکومت وقت کا نوٹ ہوتا ہے جس پر وصول کنندہ کا نام تحریر نہیں ہوتا)۔ اس کاروبار کے پھیلاؤ اور رسیدوں کے عام استعمال میں آنے سے اکانومی میں قرض پر مبنی زر (debt money) بڑھنے لگا اور آہستہ آہستہ معاشرے صرافوں (قدیم بینکوں) کے مقروض ہونے لگے (کیونکہ بینک کی جاری کردہ رسید لازماً کسی نہ کسی پر قرض ہی ہوتی ہے)۔ جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا کہ بینکوں کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنی جاری کردہ رسیدوں کا کچھ فیصد سونے کی صورت میں سنبھال رکھیں تاکہ لوگوں کی سونے (آج کل کے محاورے میں Cash) کی روز مرہ ضروریات پوری کی جاس کیں۔ جب لوگ زیادہ مقدار میں بینک سے سونا نکلواتے تو بینک مصیبت میں پھنس جاتے اور بینک اس طلب کو دوسرے بینکوں سے سونا قرض پر اٹھا کر پورا کرتے۔ یورپ و امریکہ میں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں جنہیں "Note Wars" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یعنی ایک بینک اپنے مد مقابل بینک کی زیادہ سے زیادہ رسیدیں اکھٹی کرکے اس کے سامنے ایک ہی دن میں ادائیگی کے لیے پیش کرنے کی کوشش کرتا تاکہ دوسرا بینک دیوالیہ ہوجائے اور اس کے لیے میدان صاف ہوجائے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہی وہ دور ہے جب یورپ میں سود کے جواز کی فکری و علمی بنیادیں نیز اس کے ’مذہبی متبادل‘ فراہم کرنے کی روش عام ہوئی، گویا سود کے جواز ومتبادل کا مسئلہ کسی علمی و فطری ارتقاء کی وجہ سے نہیں بلکہ بینکنگ کا ادارہ عام ہوجانے کے بعد پیدا ہوا۔ اس سلسلے میں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ آج اسلامی معاشیات و بینکاری کے نام پر جس طرح سرمایہ دارانہ اداروں کی تھوک کے حساب سے اسلام کاری کی مہم جاری ہے بعینہہ یہی عمل عیسائی یورپ میں ’اصلاح مذہب‘ کا نعرہ لگانے والے حضرات کرگزرے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں گروہوں کے طریقہ واردات اور دلائل میں بھی حیرت انگیز طور پر یکسانیت پائی جاتی ہے (۱۸) ۔
پانچواں دور: یہ دور نجی سطح پر جاری بینکنگ کے حکومتی تحویل و نگرانی میں آکر مرکزی بینک میں تبدیل ہوجانے سے تعلق رکھتاہے۔ یہ سوال کہ یہ عمل کس طرح رونما ہوا مختلف معیشت دان اس کے مختلف جواب دیتے ہیں۔ نیوکلاسیکل طرز کے معیشت دان جو ہر سرمایہ دارانہ ادارتی تنظیم کو فطری ارتقاء کا نتیجہ قرار دیتے ہیں انکے خیال میں بینکاری کا یہ ارتقاء بھی ایک رضاکارا نہ فطری عمل کا نتیجہ تھا۔ یعنی نظام بینکاری بحیثیت مجموعی جس خطرے سے دوچار تھا اسے اس سے محفوظ رکھنے کے لیے چند اصول و اصلاحات (rules and regulations) کا فریم ورک وضع کرکے نافذ کرنا ضروری تھا اور ظاہر ہے یہ کام ریاستی جبر کے تحت ہی ممکن تھا۔ انکے نزدیک مرکزی بینکنگ اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سامنے آئی، یعنی جس طرح دیگر سرمایہ دارانہ حکومتی ادارے مارکیٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے حکمت عملی وضع کرتے ہیں اسی طرح مرکزی بینک کا کام نجی بینکوں کی کارگزاری (operations) کو کنٹرول کرنے کے لیے زری پالیسی (monetary policy) بنانا ہوتاہے۔ مگر تاریخی شواہد اس ’ارتقائی تعبیر ‘ کا ساتھ نہیں دیتے۔ دیگر معیشت دانوں کے مطابق (۱۹) یورپ میں مرکزی بینک کی صورت اس وقت پیدا ہوئی جب قوم پرستانہ سرمایہ دارانہ ریاستوں کے بادشاہوں کو اپنی طویل جنگی مہمات کے اخراجات پورا کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ ان بھاری اخراجات کو پورا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہوسکتا تھا کہ عوام الناس پر بھاری ٹیکس عائد کردئیے جائیں، مگر جنگی حالات کی ماری ہوئی عوام ان ٹیکسوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھی۔ ان حالات میں بادشاہوں کو یہ ترکیب سوجھی کہ بڑے بڑے بینکوں کو نجی تحویل میں لیکر انہیں مرکزی بینک کا درجہ دے دیا جائے اور بینکوں کی رسیدوں کو سرکاری نوٹوں میں تبدیل کرکے نوٹ چھاپ چھاپ کر اپنے اخراجات پورے کرنا شروع کردئیے جائیں۔ گویا اس موقع پر جھوٹ اور فریب پر مبنی نظام بینکاری کو قانونی سند عطا کردی گئی اور پہلے جو بدمعاشی و ظلم نجی سطح پر عام بینکار کیا کرتے تھے اب اسے ریاستی پشت پناہی فراہم کردی گئی۔ ابتداً ان نوٹوں کی پشت پر سونے کی ایک مخصوص مقدار رکھنا ضروری سمجھی جاتی تھی مگر گردش زمانہ اور حالات کی تبدیلی کے تحت اس خانہ پوری سے جان چھڑا لی گئی اور اب جس چیز کو ’سرکاری نوٹ‘ کہا جاتا ہے وہ محض ’زر قانونی‘ (legal tender) کی حیثیت رکھتا ہے جسکے پس پشت کسی قسم کا کوئی اثاثہ موجود نہیں ہوتا بلکہ یہ محض ایک ’قرض کی رسید‘ ہے جو مرکزی بینک حکومت کو اپنے اخراجات وغیرہ پورا کرنے کے لیے جاری کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید ماہرین معاشیات موجودہ مالیاتی نظام پر مبنی اکانومی کو Barter نہیں مانتے بلکہ وہ اس کا تجزیہ Credit economy کے تحت کرتے ہیں۔ Barter اکانومی وہ ہوتی ہے جہاں اشیاء کی لین دین مساوی قدر کی اشیاء سے ہوتی ہو اور اس کے لیے ضروری ہے کہ جس شے کو بطور آلہ مبادلہ یا زر استعمال کیا جائے وہ ’حقیقی قدر‘ (نہ کہ قانونی قدر یا Token value ) کی متحمل ہو جیسے کہ سونا یا چاندی وغیرہ (۲۰) ۔
نظام بینکاری کے ارتقا سے متعلق یہ تفصیلات جاننے کے بعد اس حوالے سے مولانا تقی عثمانی صاحب کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے :
’’لوگ اپنا سونا بطور امانت صرافوں کے پاس رکھ دیتے تھے اور سنار رسید لکھ دیتے تھے، پھر رفتہ رفتہ ان رسیدوں سے ہی معاملات شروع ہوگئے۔ لوگ اپنا سونا واپس لینے کم آتے تھے تو یہ صورتحال دیکھ کر صرافوں نے سونا قرض دینا شروع کردیا۔ پھر جب یہ دیکھا کہ لوگ عموماً رسیدوں سے ہی معاملات کرتے ہیں تو صرافوں نے بھی قرض خواہوں کو سونے کے بجائے رسیدیں دینا شروع کردیں۔ اس طرح بینک کی صورت پیدا ہوئی۔‘‘ (ص: ۱۱۵)
ہو سکتا ہے مولانا نے یہ مختصر انداز بیان محض ’سمندر کو کوزے میں بند کرنے‘ کی خاطر اپنا یا ہو، مگر اس تحریر کو پڑھنے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مولانا بینکاری نظام کو کسی قسم کے جھوٹ، فریب اور دھوکہ دھی پر مبنی نہیں سمجھتے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس ’جھوٹ اور فریب‘ کا ’اسلامی متبادل‘ ممکن سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر (اور ضمیمے میں) واضح کیا گیا کہ موجودہ نظام بینکاری درحقیقت اسی جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے جو پچھلے دور کے صراف عوام الناس کو دیا کرتے تھے، فرق صرف یہ ہے کہ پہلے اسے دھوکہ سمجھا جاتا تھا اور اب قانون کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ مگر یہ بات بالکل بدیہی ہے کہ کسی باطل عمل کو قانونی سند عطا کردینے سے وہ ’حق‘ نہیں بن جا تا۔ اگر آج تمام لوگ اپنے ڈپازٹس میں جمع شدہ رقوم کی وصولی کے لیے بینکوں کا دروازہ کھٹکھٹانے لگیں تو بینکوں کا جھوٹ اور فریب روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گا۔
خلاصہ مباحث
آگے بڑھنے سے قبل ہم اب تک کے مباحث کا خلاصہ بیان کیے دیتے ہیں:
۱۔ بینک کو ’زری ثالث ‘ سمجھنا غلط فہمی اور دھوکے کے سوا اور کچھ نہیں ۔
۲۔ حقیقتاً اور اصلاً بینک زر کی لین دین نہیں بلکہ اس کی تخلیق کا کام سر انجام دیتا ہے ۔
۳۔ بینک جو قوت خرید و زر تخلیق کرتا ہے، وہ ’قرض‘ کی صورت میں ہوتا ہے، اسی لیے مروجہ زر کو debt money (قرض پر مبنی زر ) کہتے ہیں ۔
۴۔ بینک کے قرض بچتوں کے برابر ہونا نا ممکن الوقوع شے ہے ۔
۵۔ بینک قرضے ڈپازٹس سے نہیں دیتا بلکہ اس کے برعکس اس کے ڈپازٹس قرضوں سے وجود میں آتے ہیں ۔
۶۔ بینکنگ کا اصل دھندہ بلا کسی عوض قرض پر سود (اور اسلامی بینکوں کا ’سود نما‘ نفع) کمانا ہے۔
۷۔ بینکنگ اصلاً جھوٹ، فریب اور چال بازی پر مبنی ہے ۔
۸۔ مرکزی بینکنگ کا مقصد جھوٹ و فریب پر مبنی زری نظام کو محفوظ طریقے سے چلانے کے لیے حکمت عملی تیار کرنا ہوتا ہے ۔
۹۔ مرکزی بینک جو نوٹ جاری کرتا ہے وہ محض قرض کی رسید (promise of payment) ہے ۔
۱۰۔ قرض کی یہ رسید ان معنوں میں جعلی ہے کہ اسے جاری کرنے سے قبل اس کی پشت پر ادائیگی کے لیے کوئی اثاثہ موجود نہیں ہوتا ہے۔
حواشی
۱۳۔ نیوکلاسیکل مکتبہ ہائے فکر کی ایک بنیادی خامی موجودہ زر کو exogenous فرض کرکے سرمایہ دارانہ معیشتوں کا تجزیہ کرنا ہے۔ یہ مفروضہ علم معاشیات کے تقریباً ہر جدید نظریے میں رد کیا جا چکا ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ یا مروجہ زر ایک endogenous (داخلی) عنصر کی حیثیت رکھتا ہے جس کی مقدار کا تعین اشیا کی لین دین کے لیے کی جانے والی طلب سے ہوتا ہے ، دیکھئے Post-Keynasian Theories، مثلاً:
- Philip Arestis and Thanos Skouras کی کتا ب Post Keynesian Economic Theory
- Louis Philippe and Sergio Rossi کی کتا ب Modern Theories of Money
- Philip Arestis and Malcom Sawyer کی کتا ب A Handbook of Alternative Monetary Economics
۱۴۔ مشہور معیشت دان Schumpeter نے یہ بات 1934 میں اپنی کتاب Theory of Economic Development, Chap 3 part I میں بیان کردی تھی
۱۵۔ نیوکلاسیکل نظریہ معاشیات میں بچتوں کو سرمایہ کاری سے قبل فرض کرنے کی کوئی علمی بنیاد موجود نہیں کیونکہ ان کے نظریہ تقسیم دولت (جسے marginal productivity theory کہتے ہیں ) کے مطابق تمام ذرائع پیداوار کو ان کی اجرت وغیرہ پیداواری عمل مکمل ہونے کے بعد ادا کی جاتی ہے، لہٰذا ان نکے ماڈل میں پیداواری عمل شروع کرنے سے قبل کسی سرمایہ کاری کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اسکے برعکس کلاسیکل مفکرین (جیسے ریکارڈو اور مارکس) وغیرہ کے خیال میں اجرتیں پیداواری عمل مکمل ہونے سے قبل ادا کی جاتی ہیں لہٰذا ایک ابتدائی سرمایہ کاری فرض کرنا لازم ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف کلاسیکل مفکرین تقسیم دولت کی marginal productivity theory کو تسلیم نہیں کرتے (جو نیوکلاسیکل مکتبہ فکر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے) اور دوسری طرف انکے خیال میں بچت اور سرمایہ کاری معیشت کے دو علیحدہ ایجنٹ (بالترتیب عام صارفین اور کاروباری طبقہ) نہیں کرتے جیسا کہ نیوکلاسیکل مفکرین کا خیال ہے بلکہ یہ دونوں کام ایک ہی ایجنٹ یعنی سرمایہ کار کرتے ہیں
۱۶۔ تمسکات (securities) بھی فائنانشل دعوے ہوتے ہیں جنہیں عام طور پر کاروباری و مالیاتی ادارے جاری کرتے ہیں اور ان کا مقصد قرض پر رقم کا حصول ہوتا ہے ۔
۱۷۔ ظاہر ہے اس عمل کے نتیجے میں تقسیم دولت کے نظام پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوئے کیونکہ اب قرض کی صورت میں دولت کا جھکاؤ ان لوگوں کی طرف ہوگیا جو پہلے سے اتنے امیر ہوں کہ قرض کی مطلوبہ رقم سے زیادہ رہن جمع کرواسکتے ہوں۔ بینکنگ کی اسی حکمت عملی پر یہ طنزکسا گیا ہے کہ ’بینک آپ کو قرض تب دے گا جب پہلے آپ یہ ثابت کردیں کہ آپ کو اس قرض کی ضرورت نہیں‘۔ موجودہ دور میں دولت کی ہوش ربا غیر منصفانہ تقسیم در حقیقت نتیجہ ہے اس ظلم کا جو صدیوں تک نظام بینکاری کے نام پر قانوناً لوگوں پر روا رکھا گیا۔ افسوس کہ مجوزین کو اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے اسی بینکاری کا حصہ بن جانے کی فکر لاحق ہے ۔
۱۸۔ یہ تمام تفصیلات نفس موضوع سے متعلق نہیں، اس کے لیے دیکھئےTawney کی کتاب Religion and the Rise of Capitalism (خصوصی طور پر باب نمبر دو The Continental Reformers )
۱۹۔ دیکھئے Malcolm Sawyer کی کتاب The Political Economy of Central Banking
۲۰۔ Barter economy، monetary economy اور credit economy کا فرق سمجھنے کے لیے دیکھئے Augusto Graziani کی کتاب The Monetary Theory of Production, Chap 3
(جاری)
یہ جواب نہیں ہے
مولانا عبد المالک طاہر
ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ (مئی/جون ۲۰۰۹ء) کے صفحہ ۱۴۵تا ۱۴۸ پر حافظ زبیر صاحب کامضمون شائع ہوا جو انہوں نے راقم کے مضمون بعنوان ’’جہادی تنظیموں کے تنقیدی جائزہ پرایک نظر‘‘ (الشریعہ، مارچ ۲۰۰۹ء، صفحہ ۴۳ تا ۴۷) میں اٹھائے جانے والے اعتراضات وسوالات کے جواب کے طورپر لکھا ہے۔ مضمون کا عنوان ’’عبد المالک طاہر کے اعتراضات کے جواب میں‘‘ دیکھ کر یہ گمان ہوا کہ راقم کی طرف سے اپنے مضمون میں اٹھائے جانے والے اعتراضات کے جوابات ہوں گے، لیکن عنو ان اور نفس مضمون کا باہمی تعلق ایسا ہی ہے جیساکہ جناب کا (اپنی تحریروں کی روشنی میں) جہاد و مجاہدین کے ساتھ ہے۔ جناب نے منطقی انداز کو اختیار کرنے کی کوشش میں خلط مبحث کی طرف پہلا قدم اٹھایا ہے جو بحث کے نتیجہ خیز ہونے میں نہ صرف مانع ہوگا بلکہ ایسی بحث بے فائدہ اور شاید مضر بھی ہو۔ لہٰذاراقم اولاً اپنے سابقہ مضمون (مارچ ۲۰۰۹ء) کے سوالات واعتراضات کاذکر ضروری سمجھتا ہے تاکہ قارئین کو علم ہو کہ یہ راقم کے سوالات کے جواب نہیں بلکہ مزید اعتراضات ہیں۔
سوالات کچھ یوں ہیں:
اول: جناب نے اپنے مضمون بعنوان ’’پاکستان کی جہادی تحریکیں: ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ‘‘ (الشریعہ نومبر؍دسمبر ۲۰۰۸ء) میں لکھا ہے کہ لاعلم، سیدھے سادھے جذباتی نوجوانوں کے لیے جہادی تحریکوں کے معسکرات خرکار کیمپ ثابت ہوتے ہیں۔ جناب نے ان مجبور مجاہدین کے کچھ الفاظ بھی نقل کیے ہیں۔ اس پر سوال یہ تھاکہ ان خرکار کیمپوں کی لسٹ اور ان مجبور مجاہدین کے کوائف قوم کے سامنے لائیں تاکہ قارئین کو حقائق کا علم ہو سکے۔ جواب کے جلی عنوان کے باوصف اس سوال پر جناب کی نظر کرم نہیں ہوتی۔
ثانی: آ پ نے لکھا کہ روس کو افغان جہاد میں شکست مجاہدین نے نہیں بلکہ امریکہ وپاکستان نے دی۔ اس پر راقم نے تین سوالات کیے تھے۔
(الف) اس بات کا ثبوت کہ امریکہ وپاکستان کا عمل جارحیت کے کتنے سال بعد ہوا تھا؟
(ب) اس دخل سے قبل جنگی صورت حال کیا تھی؟
(ج) امریکی وپاکستانی عمل دخل کس نوعیت کا تھا؟
ثالث: آپ نے جہاد کو نماز پر قیاس کیا۔ اس پر سوال تھاکہ
(الف) ایسا جہاد جس میں تمام مسلمانوں پر صرف لڑنا ہی فرض ہو، مسلسل کیسے چلے گا؟
(ب) طبعی ضروریات کا نظام کیونکر چلے گا؟
(ج) نئے افراد کی ذہن سازی وتربیت کے بغیر ایک مکمل نظام کتنا عرصہ چل سکے گا؟
رابع: حافظ صاحب نے بعض مفروضوں (یا جزوی واقعات) کو بنیاد بنا کر انتہا پسندانہ رائے قائم کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا اور ثبوت طلب کرنے پر جوابی تحریر میں کسی قسم کی شہادت پیش کرنے کی بجائے مزید سوالات کے ضمن میں پھر وہی لہجہ اختیار کیا جس میں مجاہدین کے طریقہ کار پر تنقید کی بجائے جہاد سے تنفر زیادہ نظر آرہا ہے۔
خامس: زبیر صاحب کے مطابق غیر سرکاری جہاد سے کفار کو شکست دینا ناممکن ہے، جب کہ امریکی نمائندے مارک اسمتھ سمیت دیگر عسکری کمانڈروں نے اپنی شکست تسلیم کی ہے۔ ان مبتلیٰ بہ امریکی افواج کی (اب تک) کی تسلیم شدہ شکست کے مقابلہ میں زبیر صاحب اپنے نظریہ پر کوئی ثبو ت پیش کریں۔
سادس: حافظ صاحب نے اپنے مضمون میں علت قتال ظلم کو قرار دیا۔ اس پر سوال تھاکہ بالفرض اگر کوئی کفریہ اسٹیٹ غیر ظالم ہوتو اس کے خلاف جہاد ہو گا کہ نہیں؟
یہ چند سوالات اٹھائے گئے تھے جس پر حافظ صاحب نے جواب دینے کی بجائے بحث کارخ دوسری طرف پھیرنے کی کوشش کی ہے۔ کاش ! جواب والے جلی عنوان کی طرح مضمون کے اندر جوابات بھی اسی تناسب کے ساتھ ہوتے۔ گزارش ہے کہ ان سوالات کی طرف اورا پنے جوابی مضمون کی طرف نظر فرمائیں۔
جہاں تک حافظ صاحب کے مضمون (بعنوان ’’عبدالمالک طاہر کے اعتراضات کے جواب میں‘‘، مئی ؍جون ۲۰۰۹ء) میں اٹھائے گئے سوالات کاتعلق ہے تو ان کا جواب حوالہ قلم کرنے سے قبل عرض ہے کہ آئندہ بحث میں اگر محترم کایہی طرز (اعتراض برائے اعتراض، جواب کے نام پر بھی سوال) رہا تو بندہ کے لیے قارئین کے وقت اور الشریعہ کے صفحات کی قدر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایسی بے نتیجہ بحث کو جاری رکھنا مشکل ہو گا۔
اب الشریعہ مئی ؍جون ۲۰۰۹ء کے شمارے میں اٹھائے گئے سوالات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
سوال نمبر۱: موجودہ حالات میں جہادفرض عین ہے کہ نہیں؟ اگر ہے تو جہادی تحریکوں کے امراء ومسؤلین تو قتال نہیں کر رہے۔ (الشریعہ مئی ؍جون ۲۰۰۹ء، ص ۱۴۵)
اس سوال کا منشا اورا س کی تفصیل میں چھپے استہزا پرمبنی اعتراضات در حقیقت جہاد کی اقسام ،ان اقسام کے حکم اور کس پر کون سا جہاد فرض ہے جیسے امور سے لاعلمی کا نتیجہ ہیں۔ شریعت اسلامیہ کے احکامات کے مطا بق جہاں کفار حملہ آور ہیں، ان مسلمانوں پر جہاد (قتال) فرض عین ہے، جب کہ پڑوس کے مسلمانوں پر بدرجہ ضرورت اقرب فالاقرب کے اصول کے تحت ضروریات کا پورا کرنا استطاعت کے مطابق فرض ہے۔ یعنی سب سے اول فرض ان مسلمانوں پر متوجہ ہوتا ہے جن پر کفار نے حملہ کیا ہے۔ ان کی کمزوری کی صورت میں آس پاس والے مسلمانوں پر الاقرب کے اصول کے تحت فرض ہے۔
فقہاے اسلام جہاد کو دوقسموں پر تقسیم کرتے ہیں: اقدامی جہاد جسے جہاد الطلب بھی کہتے ہیں اور دفاعی جہادجسے جہاد الدفع بھی کہا جاتاہے۔ اقدامی جہاد یہ ہے کہ ازخود مجاہدین کفار پرحملہ کریں۔ دفاعی جہاد کا مطلب ہے کفار کے مسلما ن ملک پر حملہ کی صورت میں مسلمانوں کا دفاعی لڑائی کرنا۔ صاحب قدوری اقدامی جہاد کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
الجہاد فرض علی الکفایۃ اذا قام بہ فریق من الناس سقط عن الباقین وان لم یقم بہ احد اثم جمیع الناس بترکہ، وقتال الکفار واجب وان لم یبدء ونا ( المختصر للقدوری، کتاب السیر، ص ۲۲۴)
’’جہاد (عمومی حالات میں) فرض کفایہ ہے۔ اگر ایک جماعت اس فرض کو ادا کرے تو باقی کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گااورا گر کوئی بھی اس فرض کفایہ کو ادا نہ کرے تو سب گناہ گار ہوں گے۔ اگر کفار از خود لڑائی کی ابتدا نہ بھی کریں تو جہاد واجب ہے۔‘‘
کنزالدقائق میں جہاد کی پہلی قسم (اقدامی جہاد ) کا ذکر ان الفاظ میں ہے:
الجہاد فرض کفایۃ ابتداء فان قام بہ قوم سقط عن الکل والا اثموا بترکہ (ص ۱۹۹)
کنزالدقائق کی مذکورہ بالاعبارت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ ابن نجیم ؒ فرماتے ہیں: ’’بیان لحکم فرض کفایۃ‘‘ کہ مذکورہ حکم فرض کفایہ جہاد کا حکم ہے۔ (البحرالرائق ، کتاب السیر ۵/۷۱)
اقدامی جہاد سے متعلق علامہ ابن عابدین ؒ فرماتے ہیں:
فیجب علی الامام ان یبعث سریۃ الی دارالحرب کل سنۃ مرۃ او مرتین وعلیٰ الرعیۃ اعانتہ الا اخذ الخراج فان لم یبعث کان کل الاثم علیہ۔
یعنی مسلمانوں کے امام ی ذمہ داری ہے کہ وہ سال میں ایک مرتبہ یا دو مرتبہ دارالحرب کی طرف لشکرروانہ کرے اور رعایا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں امام کی اعانت کرے سوائے اس کے کہ امام پہلے کفار سے جزیہ وصول کرتا ہو۔ اگر امام لشکر نہ بھیجے تو گناہ کا بو جھ اسی پر ہوگا۔ (حاشیہ ابن عابدین ۳/۲۳۹)
جہاد کی دو سری قسم یعنی دفاعی جہاد کے متعلق صاحب قدوری فرماتے ہیں:
فان ہجم العدو علی بلد وجب علی جمیع المسلمین الدفع تخرج المراۃ بغیر اذن زوجہا والعبد بغیر اذن الولی ( المختصر للقدوری، کتاب السیر ص ۲۲۳)
یعنی اگر دشمن مسلمانوں کے کسی علاقے پر حملہ آور ہو تو تمام مسلمانوں پر دفاع (دشمن کو روکنا اور نکالنا) واجب ہے، حتی کہ عورت خاوند کی اجازت کے بغیر اور غلام آقا کی اجازت کے بغیر نکلے گا۔
دفاعی جہاد کے متعلق کنزالدقائق کی عبارت یوں ہے:
وفرض عین ان ہجم العدو فتخرج المراۃ والعبد بلا اذن زوجہا وسیدہ (کنزالدقائق، ص ۲۰۰)
اسی عبارت پرعلامہ ابن نجیم ؒ فرماتے ہیں:
لان المقصود عند ذلک لا یحصل الا باقامۃ الکل فیفترض علی الکل فرض عین فلا یظہر ملک الیمین ورق النکاح فی حقہ کما فی الصلوۃ والصوم۔
آگے چل کر ارشاد فرماتے ہیں:
والمراد ہجومہ علی بلدۃ معینۃ من بلاد المسلمین۔ فیجب علی جمیع اہل تلک البلد، وکذا من یقرب منہم ان لم یکن باہلھا کفایۃ۔ وکذا ممن یقرب ممن یقرب ان لم یکن ممن یقرب کفایۃ او تکاسلوا عصوا وہکذا الی ان یجب علی جمیع اہل الاسلام شرقا وغربا کتجہیز المیت والصلوۃ علیہ یجب اولاً علی اہل محلیۃ فان لم یفعلوا عجزاً وجب علی من بعدہم علی ما ذکرنا۔ (البحراالرائق، کتاب السیر ۵/۷۲)
یعنی عورت اور غلام پر خاوند اور آقا کی اجازت اس لیے ضروری نہیں کہ مقصود (دشمن کادفع کرنا) تمام لوگوں کے جہاد پر نکلے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا سب پر فرض عین قرار دیاجائے گا۔ اس لیے ملک یمین اور رق النکاح کے اثرات اس کے حق میں ظاہر نہ ہوں گے جیسے کہ نماز روزہ ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ حملہ سے مراد کفار کا مسلمانوں کے کسی معینہ شہر پر حملہ کرنا ہے۔ جب ایسی صورت پیدا ہو تواس شہر کے تمام باشندوں پر دفاع فرض ہوگا۔ یہ لوگ اگر کافی نہ ہوں تو قریب والوں پر فرض ہوگا۔ اگر وہ بھی کفایت نہ کریں یا سستی ونافرمانی کا مظاہرہ کریں توان کے قریب والوں پر دشمن کو روکنا فرض ہو گا۔ اس طرح مشرق ومغرب کے تمام مسلمانوں پر جہاد فرض ہوگا۔ جیسے کہ میت کی تجہیز اوراس پر نماز جنازہ اولاً اس کے محلہ والوں پر فرض ہے ۔ اگر وہ عاجز ہوں تو یہ فریضہ ادا نہ کرسکیں توا ن کے بعدوالوں پر ایسے ہی فرض ہے، جیساکہ ہم نے ذکر کیا۔
دفاعی جہاد کے متعلق علامہ ابن عابدینؒ فرماتے ہیں کہ اگر دشمن کسی اسلامی سرحد پر حملہ آور ہو جائے تو وہاں بسنے والوں پر جہاد فرض عین ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ان کے قرب وجوار والوں پر بھی فرض عین ہو جاتا ہے۔ البتہ جو لوگ ان سے پیچھے دشمن سے فاصلہ پر ہوں، ان پر جہاد اس وقت تک فرض کفایہ ہوتا ہے جب تک ان کی ضرورت نہ پڑے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے ان کی ضرورت پڑ جائے۔ مثلاً
۱۔ جس علاقے پر دشمن حملہ آور ہو، اس کے قرب وجوار کے لوگ دشمن کی مزاحمت کرنے میں بے بس ہو جائیں۔
۲۔ یا بے بس تو نہ ہوں، لیکن سستی کی وجہ سے جہاد نہ کریں۔ ایسی صورت میں ان کے ارد گرد بسنے والوں پر جہاد نماز روزہ کی طرح فرض عین ہو جاتا ہے اوراسے ترک کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ پھر فرضیت کا دائرہ اس کے بعد اورپھر اس کے بعد والوں تک حسب ضرورت پھیلتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اسی تدریج سے بڑھتے ہوئے ایک (ہی) وقت میں مشرق ومغرب میں بسنے والے ہر مسلمان پر جہاد فرض عین ہو جاتا ہے۔ ( حاشیہ ابن عابدین ۳/۲۳۸۔ نیز بدائع الصنائع جلد ۷ و فتح القدیر لابن ہمام جلد ۵۔ بحوالہ ’’ایمان کے بعد اہم ترین فرض عین‘‘ از عبداللہ عزام)
مذکورہ بالاعبارات میں ہر مسلمان پر جہاد کو فرض عین قرار دینے سے یہ بات ہی واضح ہو جاتی ہے کہ ایسی حالت میں صرف حکومت پر جہاد فرض قراردینا اور خود سے فرضیت کو (از خود بلادلیل شرعی) ساقط کرنا غلط ہے۔ بندہ کے اس دعوی پر بین دلیل شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کی مندرجہ ذیل عبارت ہے:
واما قتال الدفع فھو اشد انواع دفع الصائل عن الحرمۃ والدین فواجب اجماعاً۔ فالعدو الصائل الذی یفسد الدین والدنیا لا شئ اوجب بعد الایمان من دفعہ فلا یشترط لہ شرط (کالزاد والراحلۃ) بل یدفع بحسب الامکان۔ وقد نص علی ذلک العلماء، اصحابنا وغیرہم۔
’’اور جہاں تک با ت ہے دفاعی قتال کی تو حرمتوں اور دین پر حملہ آور دشمن کو پچھاڑنے کے لیے یہ قتال کی اہم ترین قسم ہے اوراسی لیے اس کے فرض ہونے پر امت کا اجماع ہے۔ ایمان لانے کے بعد سب سے اہم فریضہ دین ودنیا کو برباد کرنے والے حملہ آور دشمن کو پچھاڑنا ہے۔ اس کی فرضیت کے لیے کوئی شرط نہیں۔ (مثلاً زاد راہ اورسواری موجود ہونے کی شرط بھی ساقط ہو جاتی ہے) بلکہ جس طرح بھی ممکن ہو، دشمن کو پچھاڑا جائے گا۔ یہ بات علماء نے صراحتاً کہی ہے، خواہ وہ ہمارے فقہی مذہب کے علماء ہوں یا دیگر فقہی مذاہب سے ہوں۔‘‘ ( الفتاوی الکبرٰی ۴/۵۲۰، بحوالہ ایما ن کے بعد اہم ترین فرض عین۔ اردو ترجمہ: الدفاع عن اراضی المسلمین اہم فروض العیان بعد الایمان۔ از ڈاکٹر عبداللہ عزام شہیدؒ )
مذکورہ فقہی عبارات کی روشنی میں جن علاقوں پر کفار حملہ آور ہیں ،ان پر جہاد فرض عین ہے۔ اس ادائیگی جہاد میں اصل مقصود تو لوجہ اللہ قتال ہے۔ دیگر تمام شعبے اسی کی مضبوطی اور قیام کے لیے ہوں گے۔ جبکہ دوسرے درجہ میں پڑوسی ممالک کے مسلمانوں پر ان مظلوم مسلمانوں کی مقدور بھر امداد وتعاون واجب ہے۔
پاکستانی جہادی نظم اسی دوسرے درجے میں مقدور بھر امداد وتعاون کی راہ اپنائے ہوئے ہے جو صرف تحریر وتقریر کی حد تک محدود نہ ہے بلکہ عملی قتال بھی ان نظموں کا اصل کام ہے۔ جہاں تک ان کے امراء، مسؤلین اور غیر جماعتی حمایتی لوگوں کی کاوشوں، تحریر و تقریر کے ذریعے ( جب کہ وہ حقیقتاً جہاد کے لیے مفید بھی ہو نہ کہ تنقید کے نام پر الزامات کا پلندہ) جہاد کی حمایت کے درمیان فرق کا ذکر ہے کہ مسؤول پاکستان میں یہی کام کرے تو جہاد میں شریک کہلائے جب کہ دوسری طرف غیر جماعتی لوگ اسی کام کے کرنے کے باوجود جہاد میں شریک نہ کہلائیں، دونوں میں فرق کیا ہے؟ تو جہادی نظموں کے طریقہ کار پر غور کرنے سے یہ فرق سمجھ آ سکتاہے۔کہ جہادی نظم صرف تحریر وتقریر تک اپنی حمایت کو محدود نہیں رکھتے، بلکہ عملی طور پر اصلی میدان (قتال) سے وابستہ ہونے کی بنا پر انہیں قتال کی حقیقی ضروریات کا علم ہوتا ہے اوروہ یہ ضروریات تمام تر مشکلات ومصائب کے باوجود بطریق احسن پوری کرتے ہیں۔ اس میں صرف تجزیہ کے نام پر بے جاتنقید، تبصرہ کے نام پر الزامات یا بند کمرے میں بیٹھ کر مفت مشورے دینے تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ اموال کی بہم ترسیل، افراد کی مسلسل فراہمی اور تمام ضروریات کو مد نظر رکھ کر نظام کار وضع ہوتا ہے جس کی کچھ تفصیل آئندہ سطور میں بھی آ رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں حافظ زبیر صاحب جیسے افراد ایک طرف جہاد ومجاہدین کے متعلق ہتک آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں اور دوسری طرف خود کوجہاد میں معروف منوانے پر بھی مصر ہیں۔
حافظ صاحب ہی بتائیں کہ کیاجہادی علماء، مسؤلین کی طرح تحریروں سے ہٹ کر بھی ان کی عملی کاوشیں میدان قتال کے لیے ہیں؟ افراد کی فراہمی، امداد کی ترسیل، اپنی تیاری، ضرورت پڑنے پر میدان قتال میں وقتاً فوقتاً خود اترنا اور ان کاموں پر مشتمل کوئی نظام ہے؟ انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام لکھوانے کی روایت ماضی سے چلی آرہی ہے۔ حافظ صاحب توقلم گھسا کر شہیدوں میں نام لکھوانے کی ریت ڈالنا چاہتے ہیں۔ (وہ بھی حمایت کی بجائے مخالفت کر کے)
امید ہے کہ ان سطور سے حافظ صاحب کواپنے تعاون (وہ بھی اپنے تئیں) اورجہادی علماء و امراء کے تعاون کا فرق معلوم ہو گیا ہوگا۔ مقصدیہ ہے کہ حافظ صاحب جس تنقید کو تعاون ہی کی صورت قرار دے رہے ہیں، اگر فی الواقع وہ مثبت تنقید ہو تو تب بھی صرف تنقید، تائید تحریر وتقریر اور جہادی نظموں سے متعلق افراد کے کام میں بہت بڑا فرق موجود ہے۔ جہادی نظموں کا حدود اربعہ تنظیم اسلامی کی طرح صرف اخبارات، میڈیا کے کیمروں اورائیر کنڈیشن دفاتر تک محدود نہیں، بلکہ اسلام آباد کے دفاتر اور بعض اداروں سے کشمیر وافغانستان کے پہاڑوں تک اموال ودیگر ضروریات اور افراد کی تسلسل کے ساتھ فراہمی، پاکستان کے سینکڑوں مجاہدین کا ان پہاڑوں پر بکھرا ہوا خوشبو بکھیرتا سرخ لہو، اس بات پر شاہد ہے کہ یہ جماعتیں ممکنہ وسائل کی حد تک مظلوم مسلمانوں کی ضروریات پوری کر رہی ہیں۔ اگر پاکستان کی قومی پالیسی پر بزدلی کی دھند نہ ہوتی توان مقدس ہستیوں کے اسماے گرامی نقل کرتا جو علم کی دنیا سے متعلق ہیں، لیکن ان جماعتوں کے ذریعہ نہ صرف عملی جہاد ( قتال) میں شریک رہے بلکہ اب بھی شریک ہیں۔
اپنے مضمون کے نکتہ نمبر ۲ کے ضمن میں حافظ صاحب حق تنقید کاجواز ثابت کرکے اپنی تحریری کاوشوں کوجہاد منوانے پر مصر ہیں۔ (الشریعہ مئی؍جون ۲۰۰۹ء، ص ۱۴۶) یقیناًاہل علم کوجہادی نظموں کے طریق کار پر بحث، تنقید کا حق نہ صرف حاصل ہے بلکہ آئندہ بھی رہے گا، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ اہل علم کا فریضہ ہے کہ وہ تنقید وبحث کے ذریعے نظام کار کی خامیوں کی نشاندہی کریں، مفید مشورے دیں اور حق تنقید ادا کریں، لیکن یہ تنقید حقیقی تنقید ہو نہ کہ بلا ثبوت الزامات ۔ صرف اتہامات کو تنقید قرار نہیں دیا جا سکتا۔
دوسری بات یہ کہ بند کمروں میں محض تحریر، یا جلسوں کی تقاریر اور مثبت تنقید جب کہ اپنی حدود وشرائط کے ساتھ ہوتو یقیناًجہادو مجاہدین کے ساتھ بہترین تعاون ہے۔ لیکن یہ جہادی نظموں کے کام کے برابر یا فریضہ جہادکی ادائیگی کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ ان نظموں سے منسلک علماء، امراء کی تحریر، تقریر اور فتاوٰی پر اپنی تنقید کو قیاس کرنا اس لیے بھی محل نظر ہے کہ یہ علماء عظام، مسوولین ، مفتیان کرام ایک نظم کے تحت یہاں مامور ہوتے ہیں ۔ اگر میدان قتال میں ان کی تشکیل کی جائے تو نہ صرف تیار بلکہ اس کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ مجاہدین کی نصرت میں لگے یہ علماء کرام دھکے اور دھونس سے عملی مجاہدین کے فضائل کو خود پر منطبق کرنے پر اصرار نہیں کرتے بلکہ وہ خود کو ان مجاہدین کے خادم کہلوانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان تحریکوں کی خدمات اور دیگر افراد کی انفرادی کوششوں، تعاون اورمشاورت کے درمیان یہی بنیادی فرق ہے کہ جہادی نظم عملی طور پر شعبہ قتال سے متعلق ہونے کی بنا پر اپنی ہمتوں کا اصل میدان جہاد (قتال) کو بناتے ہیں۔ عملاً وابستہ ہونے کی وجہ سے انہیں قتال کی حقیقی اور واقعی ضروریات کا مکمل ادراک ہوتا ہے۔ دیگر شعبہ جات عموماً اسی اصل کو مضبوط کرنے کے لیے قائم کرتے ہیں جیسے میدان قتال میں اموال کی فراہمی، افراد کی تشکیل ، خالص جہادی مسلمان بنانے کے لیے اورعملاً وابستہ کرنے کے لیے ذہنی وفکری تربیت۔ اس کے علاوہ مستند علماء کی زیر نگرانی کام کرنے والے نظموں میں کامل دین پر عمل پیرا ہونے کے لیے دین کے تمام شعبوں کے احیا کی تڑپ دیکھی جا سکتی ہے جس میں مثال کے طور پر اپنی اصلاح کے لیے فکر مند ہونا اور دیگر مسلمانوں کو متوجہ کرنا، اصلاحی مجالس قائم کرنا، معروف معنوں میں باقاعدہ اصلاحی بیعت، تصوف اور ذکر اللہ کی مجالس کا قیام، تمام کارکنوں کی اصلاحی تربیت کے لیے مستند علما کی کتب کا مطالعہ لازمی قرار دینا، ہر ماہ عام لوگوں کے لیے بنیادی دینی مسائل سکھانے کا منظم طریقہ، نماز جیسے اہم فریضہ کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کرنے کے لیے ملک گیر اقامت صلوٰۃ مہم، دعوت جہاد، دورات تفسیر آیات جہاد کا سلسلہ، ادائیگی عشر وزکوٰۃسمیت دیگر اجتماعی وانفرادی فرائض کی طرف عامۃ الناس کو متوجہ کرنے کی ملک گیر مہمات، زلزلہ زدگان اور متاثرین سوات جیسے ہزاروں بے سہارا وبے گھر افراد کی کفالت۔
ان جہادی نظموں کی خدمات کا وہ روشن باب ہے جس کا اعتراف جنرل پرویز مشرف جیسا لبرل ( مجاہدین کش) لیڈر بھی کرتا رہا۔ مورخہ ۲۵؍جون ۲۰۰۹ء کو نوائے وقت لاہور کی خبر کے مطابق اقوام متحدہ اور واشنگٹن پوسٹ کے ایک گروپ کے مطابق اب تک کی رپورٹوں کے مطابق جہادی گروپ سوات متاثرین کی امداد میں سب سے آگے ہیں۔ اس کے علاوہ نکاح مسنون کو آسان اور سہل طریقہ پر کرنے کے لیے اداروں کی صورت میں خدمات اور اس جیسے دیگر اسلامی احکامات کی طرف عامۃ المسلمین کو متوجہ کرنا ان جہادی نظموں کی تاریخ کا حسین باب کہلائیں گے۔
تیسرے نمبر کے ضمن میں حافظ صاحب نے لکھا ہے کہ جب جہادی تحریکوں میں جہاد (قتال) کے طریقہ کار، منہج اور تطبیق کے حوالے سے اختلافات ہو جائیں تواس کے باوجود وہ مجاہدین اور غازی کہلاتے ہیں۔ (الشریعہ مئی؍جون ۲۰۰۹ء ص۱۴۶)
اس عبارت میں حافظ صاحب نے بنیادی طور پر دو چیزیں لکھی ہیں:
(الف) اگر جہادی تحریکوں کے باہمی شدید اختلافات ، اختلافی نظریات کے باوجود بھی وہ جہاد کر رہے ہیں توان کی ( حافظ صاحب کی) مخالفت کیسے جہاد نہیں قرار دی جا سکتی؟ جواباً عرض خدمت ہے کہ اس حوالے سے سابقہ سطور کو مد نظر رکھنا ہی مفید ہوگا کہ کفار کے خلاف کفار کے مقبوضہ علاقوں میں جہاد کرنے والے تمام نظم باہمی اختلافات کے باوجود بہرحال جہاد کررہے ہیں۔ یہ لوگ محض قلمی ٹارزن نہیں ہیں۔ ( ہماری بحث سے مسلم ممالک میں برسرپیکار نوجوان خارج ہیں)۔ مقبوضہ مسلم علاقوں میں کفار کے خلاف لڑنے والی جماعتوں میں تمام تر نظریاتی وفکری اختلافات کے باوصف، طریقہ کار کے فرق کے باوجود ان کا اصل میدان قتال فی سبیل اللہ ہے نہ کہ تنقید کے نام پہ تنقیص۔
محترم بحث کے نام پر بے جا الزامات لگا کر بھی مجاہدین کی صف میں کھڑے نظر آنا چاہتے ہیں۔ اگر جناب کو فضائل جہاد اتنے اچھے لگتے ہیں (کہ ہر سطر میں وہ خود کو ان نظموں کے برابر جہاد کرنے و الا باور کروانا چاہتے ہیں) اور قرآن کی آیات جہاد آنکھوں کے سامنے ہیں تو طریقہ یہ ہے کہ آئیے خود کو خطرات میں ڈالیے، گھر سے دور تشکیل، ایجنسیوں کا واچ اورنگرانی کے نام پر تنگ کرنا، اپنوں کے طعنے، ساتھیوں کی گرفتاری کا غم، پیاروں کی شہادت کا دکھ، اپنی گرفتاری کا خوف، ذمہ داریوں کے بکھیڑے، ہمہ وقت صرف لاالہ الااللہ کا ویزا قرار دے کر باڈر کراس کرنے پر تیار، عملی میدان میں آگ وبارود کو سامنا، یہ تمغے سینے پر سجائیے، پھر اختلافی آرا دیجیے، بحث کیجیے، تنقید کا فرض ادا کیجیے اور خود کو مجاہد بھی کہلوائیے۔
(ب) زبیر صاحب کے مطابق جہادی تحریکوں کے اختلافات عامۃ الناس کے لیے کنفیوژن کا سبب ہیں کہ اگر سب جہاد ہی کر رہے ہیں تو ان میں اتنے دھڑے کیوں ہیں او ر عام آدمی کس تنظیم کے ساتھ مل کر جہاد کرے۔
حافظ صاحب نے اعتراض کے اس حصے میں ایک گھسا پٹا سوال کر کے چلے ہوئے کارتوس کو چلانے کی کوشش او ر سعی کی ہے۔ گزارش ہے کہ اگر اختلاف کو بنیاد بنا کر یہی سوال کوئی مسلکی اختلافات کے بارے میں کرے یا مسلمانوں میں موجود متعدد طبقوں کے مختلف نظریات کو سامنے رکھ کر اس اختلاف کو سلام سے چھٹی کاعذر بنائے تو کیا اس کا یہ نقطہ نظر درست ہوگا؟ یا کوئی فلسفی انسانوں کے اختلافات بلکہ فسادات، قتل وغارت کو بنیاد بنا کر جانوروں کی کسی پرامن قسم میں جا پہنچے اور خود کو انہیں میں سے قرار دے تو کیا اس کا یہ عمل دیگر عقل انسانوں کے ہاں درست قرار دیا جائے گا؟
اگر اختلاف کی بنیاد پر اسلام سے نکل کر کفر میں جانااور انسانیت سے نکل کر جانوروں میں جانا درست ہے تو فرمائیں۔ اور اگر درست نہیں اور یقیناًدرست نہیں تو پھر جہادی تحریکوں کے اختلاف کی بنا پر ترک جہاد کیسے درست ہوگا؟ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ انسان ان مختلف لوگوں میں سے کس کے ساتھ ہو تو انسانوں کے اختلاف پر، مسلمانوں کے اختلاف پر جیسے عامی آدمی کرتا ہے، ویسے ہی یہاں بھی کرے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل کو استعمال کرے، مختلف نظموں کے حالات سے واقفیت پیدا کرے اورجس نظم کومعتبر علماء واکابر کی تائیدات حاصل ہوں، اس نظم سے تعلق جوڑے۔
چوتھے نمبر کے ضمن میں حافظ صاحب رقم طراز ہیں کہ امریکہ، اسرائیل، انڈیا کے خلاف جہاد فرض عین ہے، لیکن کس پر ؟ اس کے جواب میں خود ہی کہا ہے کہ حکمرانوں پر نہ عوام پر، بلکہ عوام پر پرامن طریقوں، جلسوں، مظاہروں کے ذریعے حکمرانوں کو مجبور کرنے کی ذمہ داری ہے یا عوام الناس کی اصلاح کی کوششوں میں معروف ہونے کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بعض نظموں کی مثال دے کر عدم تشدد پرمبنی جدوجہد کا سبق مجاہدین کو دینے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی جہاد فرض عین کے فتاویٰ جاری کرنے والے علما پر پھبتی کسی ہے۔
ان سطور کے جواب کاایک حصہ تو گزشتہ صفحات میں آ چکا ہے۔ خلاصہ کے طور پر مکرر عرض ہے کہ جہاد کی دو قسمیں ہیں۔ اقدامی جہاد اصلاً حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ از خود کفار پر حملہ آور ہو جس کے ترک پر حکمران گناہ گار ہیں۔ (بحوالہ حاشیہ ابن عابدین ۳؍۲۳۹) اگرچہ بعض مخصوص صورتو ں میں نان اسٹیٹ ایکٹرز کی اقدامی کاروائیاں بھی حقیقی اقدامی جہاد کا حکم رکھتی ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں المبسوط للسرخسی،کتاب السیر، باب مااصیب فی الغنیمۃ مما کان المشرکون اصابوہ من مال المسلم، ۱۰؍۸۲بحوالہ ماہنامہ الشریعہ نومبر ؍دسمبر ۲۰۰۸ء، ص۷۳)
موجودہ حالات میں جن خطوں میں جہاد ہو رہا ہے، وہ دفاعی ہیں نہ کہ اقدامی۔ ان عبارات سے واضح معلوم ہو رہا ہے، کہ دفاع کی ذمہ داری (اگرچہ اولاً حکمرانوں کی ہے) عام لوگوں کی بھی ہے۔ فقہاء کی عبارات میں ’’فان ھجم العدو وجب علی جمیع المسلمین الدفع‘‘ کے الفاظ ہیں کہ کافروں کے حملے کی صورت میں تمام مسلمانوں پر سرزمین اسلام کا دفاع اور دشمن کا روکنا فرض ہے، جیساکہ راقم مذکورہ بالا سطور میں امام ابن تیمیہؒ اور علامہ ابن عابدین ؒ کی عبارات سے کافی وضاحت کر چکا ہے، بلکہ یہ الفاظ بھی فقہی کتابوں میں نمایاں ہیں کہ ’’تخرج المراۃ بغیر اذن زوجہا، والعبد بغیر اذن المولی‘‘ کہ ایسے حالات میں عورت خاوند کی اجازت کے بغیر اور غلام آقا کی اجازت کے بغیر نکلیں گے۔
فقہاء کرام جس فرض پر علی جمیع المسلمین کے واضح الفاظ لا رہے ہیں اور ابن تیمیہ ’’ فلایشترط لہ شرط‘‘ فرما رہے ہیں، حافظ صاحب اس کو ’’ہمارے نزدیک یہ گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے‘‘ کہہ کر بغیر ثبوت ودلیل اور حجت کے قرآن وسنت سے متصادم نظریہ پیش کر کے پھر منوانے پر مصر بھی ہیں۔ حکمرانوں کو فرائض ادائیگی کی طرف دعوت اور مختلف طریقوں سے ان کا قبلہ درست کرنے کی کوشش یقیناًعلمائے کرام اور عوام کی ذمہ داری ہے، اس سے مفر نہیں اور جہادی نظموں سے منسلک افراد اس فریضے کی ادائیگی بھی بحمداللہ کرتے ہیں اوراس کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑتی ہے، لیکن اس کایہ مطلب بھی نہیں کہ حکمرانوں کی درستگی تک تعطل جہاد کا علم تھا م لیاجائے۔ زبیر صاحب نے مجاہدین کو پرامن مظاہروں کی ترغیب دیتے ہوئے مفتیان کرام کے فتاویٰ کو ان کی نفسیاتی تسکین کی حد تک مقید کہا ہے تو جناب عرض ہے کہ ان مفتیان کرام ( فنافی اللہ کادرجہ پانے والوں) کے فتاوی کی قوت آج بھی بطور مثال پیش کیے جانے والے مظاہروں سے سو فی صد زیادہ ظاہر اور نتیجہ خیز ہے۔
آپ کے ان مظاہروں سے، جلسوں سے قوم کو جو کچھ ملا، وہ اور اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ جب کہ آپ کے مطعون علماء کے فتاویٰ کی روشنی میں جو قوت جہاد ومجاہدین کی شکل میں سامنے آئی، وہ ماضی اورحال میں دو سپر پاوروں کو مکمل شکست دینے کے بعد تیسری سپر پاور کو بھی شکست دینے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ زبیر صاحب سرپھڑوانے کی مثالیں ان کو دے رہے ہیں جوان راہوں پر چلتے چلتے جانیں تک لٹا رہے ہیں، جن پر یہ آیت صاد ق آتی ہے: ’’فمنہم من قضی نحبہ ومنہم من ینتظر‘‘۔
آخر میں دو باتوں کی طرف متوجہ کرنا مفید سمجھتا ہوں۔ ایک یہ کہ حافظ صاحب نے اپنی تحریر میں کسی دلیل شرعی اور حجت وثبوت کے بغیر ’’ہمارے نزدیک‘‘ کا لفظ استعمال کیا اور پھر اپنے قائم کردہ نظریہ پر کوئی حجت شرعی نہیں لا سکے۔ وہ مجاہدین کو اخلاص کے ساتھ علم سے مزین ہونے کا صائب مشورہ (اشارۃً) دیتے ہیں، لیکن خود ’’ہمارے نزدیک‘‘ جیسے جملے استعمال کر کے یوں سمجھ رہے ہیں جیسے یہ تحریر الشریعہ کے قارئین کے لیے نہیں بلکہ تصوف کے سلسلے کے مریدین کے لیے ہے۔ گزارش ہے کہ اپنے نظریات وافکار کو سند تصور کر کے لوگوں پر مسلط کرنے کی بجائے دلیل وحجت کی دنیا میں تشریف لائیں۔
دوسری بات کہ انہوں نے مجاہدین کو تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے نہج پرکام کرنے کی دعوت دی ہے۔ وضاحت کے طور پر کچھ سطور تحریر کی جاتی ہیں کہ تنظیم اسلامی کے متعلق گذشتہ صفحات میں جو سطور آ چکی ہیں، وہی مجاہدین کے نظم اور تنظیم اسلامی کے درمیان موجود واضح فرق کو بیان کر نے کے لیے کافی ہیں۔ جہاں تک بات جماعت اسلامی اورتحریک نفاذ شریعت محمدی کی ہے (بعض جزوی اختلافات کے باوجود) یہ واضح ہونا چاہیے کہ یہ جماعتیں صرف قلمی جہاد اور دفتری اسلام کے قائل نہیں ہیں بلکہ دین کے تمام شعبوں پر عمل کی فکر کے ساتھ قربانیوں کی لازوال تاریخ رکھتی ہیں جن میں کشمیر وافغانستان کے پہاڑوں کی گواہیاں بھی موجود ہیں جو کہ حافظ صاحب کے مطابق درست نہیں۔ رہا تبلیغی جماعت کا معاملہ تو اب ان کی اکثریت ایک محدود نصاب تربیت کوکل دین تصور کرتی اور (مزعومہ مجہول درجہ کے) یقین کے حصول تک تعطل جہاد کی فکر رکھتی ہے جو الگ درد ناک موضوع ہے۔ تبلیغی جماعت کی اصلاحی کوششوں اور ان کے مفید نتائج سے انکار نہیں ، تاہم ان کی فکری بے اعتدالیوں کو علماء حق کی سوچ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مکاتیب
ادارہ
(۱)
مکرمی جناب عمار خاں ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
سب سے پہلے تو آپ کا شکر گذار ہوں کہ آپ نے میری تحریر ’’پر تشدد تحریکیں اور دیوبندی فکر ومزاج ‘‘ کو ’الشریعہ‘ کے نومبر/ دسمبر ۲۰۰۹ء کے شمارے میں جگہ دے کر ان خیالات کو اس قابل سمجھا کہ انہیں اپنے قارئین تک پہنچائیں۔ اس سے پہلے شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خاں صاحب ؒ کے بارے میں الشریعہ کا ضخیم خصوصی نمبر ملا۔ اتنے قلیل عرصے میں اتنی ضخیم اور معیاری پیش کش پر آپ، حضرت ؒ کے تمام عقیدت مندوں اور مداحوں کی طرف سے مبارک باداور شکریے کے مستحق ہیں، البتہ حضرت کے تلامذہ اور اور اولاد واحفاد کے حوالے سے ایک مستقل باب کی کمی محسوس ہوئی، اس لیے کہ حضرت جیسی شخصیت کا تعارف اس کے بغیر نامکمل سا محسوس ہوتا ہے ۔
الشریعہ کے دسمبر/ نومبر کے شمارے میں آپ کا مضمون بعنوان: ’’ جہاد کی فرضیت اور اس کا اختیار : چند غلط فہمیاں ‘‘ بھی نظر نواز ہوا ۔ ایک طالب علم کے طور پر مضمون کا اپنے استفادے کے لیے مطالعہ کیا۔ اسی وقت سے ارادہ ہورہا تھا کہ اس پر کچھ عرض کروں، لیکن ماشاء اللہ آپ کے مضامین میں علمی گہرائی اور گیرائی ہوتی ہے، اس لیے اس پر کچھ کہنے کے لیے بھی محنت اور مراجعتِ کتب کی ضرورت ہوتی ہے جس کا موقع نہیں مل سکا۔ خیال ہواکہ کچھ غیر مربوط سے خیالات ہی آپ کے ملاحظے کے لیے پیش کردیے جائیں۔
مضمون کے دو مرکزی سوالات (۱) جہاد کی فرضیت میں عملی حالات اور کسی پالیسی کے ممکنہ اثرات ونتائج کا دخل (۲) جہاد کا فیصلہ کرنے کا اختیار کس کو حاصل ہے، ان دونوں سوالات پر اپنے نقطۂ نظر کو فقہی عبارات کی روشنی میں ثابت کرنے میں آپ کامیاب رہے ہیں۔ جس انداز سے آپ نے مختلف مقامات سے فقہی عبارات کو جمع کردیا ہے، وہ صرف قابلِ مباک باد ہی نہیں قابلِ رشک بھی ہے۔ حضرت شیخ الحدیث ؒ کی تیسری نسل میں کتابی کیڑا ہونے کا وائرس اور علمی عرق ریزی کی روایت منتقل ہوتا دیکھ کر خوشی ہوتی ہے،اللہم زد فزد۔
میرے ناقص سے خیال میں ان دو سوالوں میں سے پہلے سوال کو مزید بعض پہلوؤں سے بھی دیکھا جاسکتا ہے ، مثلاً :
(۱) آپ کا موضوع اگرچہ ان دونوں سوالوں کو فقہی زاویے سے دیکھنا ہے ، لیکن ان میں سے پہلے سوال پر سیرتِ طیبہ کی روشنی میں بھی کافی کام کی گنجائش ہے ۔ عہدِ رسالت کے غزوات اور سرایا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طرزِ عمل میں اس حوالے سے کافی روشنی ملنے کی امید ہے۔
(۲) یہ بات فقہاء واصولیین کے ہاں مسلّمہ ہے کہ ہر حکمِ شرعی میں استطاعت کی شرط ملحوظ ہوتی ہے۔ جہاد جیسے حکم میں استطاعت ہونے یا نہ ہونے کا معیار بظاہر کسی کاروائی کے ممکنہ نتائج کو بنایا جاسکتاہے۔ اس وقت بالتعیین حوالہ تو یاد نہیں آرہا، لیکن مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے کسی جگہ تغییرِمنکر والی مشہور حدیث ’’ من رأی منکم منکراً الخ ‘‘ کی تشریح میں یہ فرمایاہے کہ تغییر بالید یا تغییر باللسان کی استطاعت سے مراد محض یہ نہیں کہ انکارِ منکر کے لیے آپ کوئی عملی یا زبانی قدم اٹھا سکیں ، بلکہ مراد یہ ہے کہ اس اقدام کے نتائج کا تحمل بھی ہوسکے۔ مولانا تھانوی ؒ کا استدلال یہ ہے کہ مثلاً ایک آدمی شراب کا جام پینے کے لیے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہے ۔ اس موقع پر یہ تو ہوسکتاہے کہ ایک شخص میں اتنی جسمانی طاقت ہو کہ وہ اس سے یہ جام چھین لے یا اسے چھَلکا کر شراب گرا دے اور دوسرا شخص اتنی طاقت نہ رکھتا ہو، لیکن زبان سے کہنے کی حد تک تو ہر وہ شخص جو گونگا نہیں ہے، اسے یہ کہنے کی طاقت رکھتا ہے کہ یہ حرام ہے، اسے مت پیجئے، جبکہ حدیث میں تغییر باللسان کے بارے میں بھی ’’فإن لم یستطع‘‘ کے لفظ ہیں جو زبان کے بارے میں بھی استطاعت کے پائے جانے یا نہ پائے جانے کی دوصورتوں کو فرض کررہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہاں استطاعت سے مراد محض زبان سے کہہ دینے کا کام نہیں ہے، بلکہ اس سے آگے کی کوئی چیز مراد ہے اور وہ یہی ہے کہ بات کہہ دینے کے بعد اس کے ممکنہ نتائج کا تحمل بھی ہو۔ اگر کسی شخص میں ان نتائج کا تحمل نہیں ہے تو اس میں تغییر باللسان کی استطاعت نہیں ہے۔ بظاہر استطاعت کی یہی تشریح حدیث کے تغییر بالید والے حصے اور اسی نوعیت کے دیگر ا حکام میں ہونی چاہیے۔
(۳) استطاعت ہی کے سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ سورۂ انفال کی آیت ’’الآن خفف اللہ عنکم الخ‘‘ کا مطلب تمام فقہاء کے ہاں یہی ہے کہ اگر دشمن کی تعداد دوگنی سے زائد ہو تو میدان سے بھاگنے کی گنجائش ہے۔ جہاں میدان سے بھاگنے کی گنجائش ہوگی، وہاں قتال نہ کرنے یا دشمن کی طاقت دیکھ کر جو بچتاہے، کم ازکم وہ بچانے کی خاطر کسی قدر کمپرومائز کی بھی گنجائش ہوگی۔ موجودہ حالات میں یہ بات دیکھنے کی ہے مسلمان اور مدّ مقابل کافر طاقت میں صرف تعداد ہی کا توازن دیکھا جائے گا یا طاقت کے دوسرے پہلوؤں کو بھی مدّنظر رکھا جائے گا؟ اس لیے کہ جدید ذرائعِ جنگ نے تعداد کی اہمیت کم کردی ہے۔ عین ممکن ہے کہ تلاش کرنے سے قدیم فقہاء اور مفسّرین کے ہاں بھی اس سوال کا صریح جواب مل جائے۔ ۲۰۰۱ء میں جب طالبان نے کابل ،بگرام اور قندھار سمیت بہت سے شہروں اور محاذوں سے باقاعدہ انخلا کا فیصلہ کیا تھا جسے شکست کی بجائے ’’ حکمت عملی‘‘ سے تعبیر کیا گیا تھا، اس کے لیے مجھے یاد نہیں کہ ان حضرات کے پیشِ نظر کیا شرعی دلیل تھی۔ بظاہر ان کے پاس شرعی جواز یہی ہوگا کہ انہوں نے محسوس کیا ہوگا کہ دشمن کی طاقت اتنی زیادہ ہے کہ اب ان محاذوں پر رہتے ہوئے مقابلہ کرنا مشکل ہے۔
(۴) فقہاء واصولیین کے ہاں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ جہاد حسن لغیرہ ہے ، حسن لعینہ نہیں ہے۔ حسن لغیرہ ہونے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ حسن تب بنے گا جبکہ اس کے ذریعے وہ غیر حاصل کرنا ممکن ہو جس کے لیے اسے حسن قرار دیا گیا ہے۔ اس کا حاصل بھی یہی نکلتاہے کہ جہاد یا قتال جیسے امور میں ان مرتب ہونے والے ممکنہ نتائج کی خاص اہمیت ہے۔ غالباً اسی امر کی طرف حضرت ابنِ عمرؓ نے اپنے اس جملے میں اشارہ کیا ہے: ’’ وأنتم تریدون أن تقاتلوا حتی تکون فتنۃ ویکون الدین لغیر اللہ‘‘ ۔
(۵) اسی طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کی برّ صغیر میں آمد سے لے کر ۱۹۴۷ء تک یہاں کے فقہا اور مسلمان مفکرین کی سوچ اور اس میں ارتقا کا جائزہ بھی موضوع کے کئی گوشے مزید واضح کرسکتاہے۔
آپ کے اس مضمون میں میرے لیے خوشی کا باعث بننے والی ایک بات یہ بھی ہے کہ آپ نے (ص ۴۲ ) غزوۂ بدر کے بارے میں ابنِ ہشام کے حوالے سے یہ تحریر کیاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں صحابہ کو نکلنے کی جو ترغیب دی تھی، وہ قریش کے تجارتی قافلے کے حوالے سے تھی، جبکہ جس حلقۂ فکر کی طرف عموماً لوگ آپ کو منسوب کرتے ہیں، اس کی بعض شخصیات سے میں نے سنا کہ وہ اس بات کو نہ صرف قرآن کے خلاف قرار دیتے تھے بلکہ اسے لوٹ مار کی ایک شکل قرار دیتے تھے جس کی نسبت ظاہر ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں کی جاسکتی۔ آپ کی ذکر کردہ بات سے اندازہ ہوا کہ آپ اپنے حلقۂ فکر میں پائے جانے والی آرا سے اختلاف بھی فرماتے ہیں اور یہی اہلِ علم کا طریقہ رہا ہے۔
ص ۶۰ پر آپ نے رد المحتار کی جو عبارت ’’کل مصر فیہ والٍ مسلم الخ‘‘ پیش کی ہے، اس سے آپ نے یہ ثابت کیا ہے کہ غیر مسلم حکومت کے زیرِ سایہ مسلمانوں کو دیے گئے اختیارت سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے، لیکن اس ناچیز کو اس عبارت سے ایسا کرنے کا جواز تو واضح طور پر ثابت ہوتا معلوم ہورہا ہے، وجوب پر اس عبارت کی دلالت راقم الحروف سمجھ نہیں سکا۔ ممکن ہے جناب کے ذہن میں وجوب ثابت کرنے کے لیے کوئی اضافی مقدمہ ہو جو ذکر سے رہ گیا ہو ۔
مسلم علاقوں پر غیر مسلموں کے تسلّط کی جو تقسیم آپ نے کی ہے، وہ آپ کی دقیقہ رسی کی آئینہ دار ہے ، لیکن اس سلسلے میں مزید دو صورتوں پر شاید مستقل بحث کی ضرورت ہو۔ آپ نے جو چار امکانات بیان کیے ہیں، وہ اس صورت سے متعلق معلوم ہوتے ہیں جبکہ کوئی کافر قوم محض عسکری قوت کے بل بوتے پر مسلمانوں کے کسی خطے پر قابض ہوجائے یا اس کی ابھی کوشش کرہی ہو ، جبکہ ایک ممکنہ صورت یہ ہے کہ کسی کافر قوم کی عمل داری محض عسکری طاقت کے ذریعے سے نہ ہو، بلکہ کچھ لڑ کر، کچھ آنکھیں دکھاکر، کچھ بہلا پھسلا کر اور سب سے بڑھ کر مسلمان حکومت کی اپنی اندورونی کمزوریوں اور مجبوریوں سے فائدہ اٹھاکر خود ان کے حکمرانوں ہی سے پروانے حاصل کرکے بتدریج اپنی عمل داری قائم کرلی جائے اور ’’ خلق خدا کی، ملک [مسلمان] بادشاہ کا ، حکم کمپنی کا‘‘ والی صورتِ حال پیدا ہو جائے، جیساکہ ہندوستان میں مغلیہ دور کے آخر میں تھی۔ یہ صورتِ حال اس لیے قابلِ غور معلوم ہوتی ہے کہ اس صورت میں اگرچہ شاہ عبد العزیز وغیرہ نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتوی دیا تھا اور اس کی تائید میں بر صغیر کے دیگر علما کے فتاوی بھی موجود ہیں، لیکن اول تو اسے متفقہ فتویٰ قرار دینا مشکل ہے، اس سے مختلف فتاوی بھی مل سکتے ہیں۔ دوسرے جہاں تک میری یاد داشت اور معلومات کا تعلق ہے، شاہ عبدالعزیز کے دارالحرب کے فتوے میں بھی جہاد کی فرضیت وغیرہ کا ذکر نہیں ہے۔ نہ تو انگریزوں کے خلاف جہاد کا ذکر ہے اورنہ ہی مسلمان بادشاہ یا دیگر مسلم حکام کے خلاف جنہوں نے انگریزاور اس کی فوج کو بہت سی سہولتیں دے رکھی تھیں جنہیں آج کل کی زبان میں انگریزوں کے ایجنٹ یا ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے والا کہا جا سکتا ہے۔ بعد کے بعض واقعات کی کڑیاں شاہ عبد العزیز سے ملاتے ہوئے ہمارے کئی تاریخ نگار حضرات نے لگتا ہے ’’نکتہ بعد الوقوع‘‘ سے بھی کام لیا ہے۔ ۱۸۵۷ء کے واقعات اچانک ایک وقتی معاملے (انگریزی فوج میں کام کرنے والے ہندوستانی فوجیوں کے زیرِ استعمال کارتوس کا مسئلہ) سے پھوٹے تھے ، وگرنہ انگریزوں کے خلاف بے چینی کی وجوہات (جن کا ذکر سرسید احمد خاں نے ’’اسبابِ بغاوتِ ہند ‘‘ میں بھی کیا ہے) کے باوجود علما اورعامۃ المسلمین کا عام رویّہ صورتِ حال کو برداشت کرنے ہی کا تھا۔ ہندوستان کے دار الحرب ہونے کا فتوی جاری کرنے کے باوجود نہ صرف اسے دار الاسلام بنانے کے لئے فوری طور پر جہاد کی فرضیت کا فتوی نہیں دیا گیا بلکہ انگریزوں وغیرہ کی ایسی ملازمتیں جن میں کوئی ناجائز کام نہ کرنا پڑے، انہیں ناجائز قرار بھی نہیں دیاگیا۔ تحقیق کی جائے تو بہت سے اچھے اچھے لوگوں کا اس زمانے میں سرکار کی ملازمت اختیار کرنا بھی ثابت ہوجائے گا۔ (اس سلسلے میں مولانا مملوک علی پرنسپل عربک کالج دہلی کی مثال دی جاسکتی ہے جو مولانامحمد یعقوب نانوتویؒ کے والد اور مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے استاذ تھے) ۔ خود ۱۸۵۷ء کے واقعات کے اولین کرداربننے والے فوجی بھی اب تک سرکار کی ملازمت ہی کررہے تھے۔ ۱۸۵۷ء کے حوالے سے انگریزں کے مستامن ہونے کا شبہ سرسید احمد خاں کے حوالے سے تو معروف ہے ہی، ممکن ہے دیگر حضرات کے ہاں بھی مل جائے۔
۱۸۵۷ء کا جہاد کا فتوی بھی کوئی متفقہ نہیں تھا۔ خود شاہ اسحاق صاحب کے بعض شاگردوں کو بھی اس سے اختلاف تھا۔ اس مسئلے پر شاہ اسحاق صاحب کے شاگردوں میں اختلافِ رائے کا تذکرہ تو مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے بھی کیا ہے، اور اس فتوے سے اتفاق نہ کرنے والوں کے لیے کثیر ‘کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ان واقعات کے لیے جہادِ آزادی کی بجائے ’’غدر ‘‘ کا لفظ صرف سرسید جیسے لوگوں کے ہاں ہی نہیں، دیگر کئی علما کے ہاں بھی ملتاہے ، مثلاً مولانا تھانویؒ کے ملفوظات میں بکثرت یہ لفظ مل جائے گا،مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ کی مولانا محمد قاسم نانوتویؒ پر سوانحی رسالے میں۔ اس دور کا یہ اختلافِ رائے بھی ظاہر ہے فقہی تراث میں ہی آتا ہے۔ ان اقوال اور ان کے دلائل کی روشنی میں اس مخصوص صورتِ حال کے حکم پر بحث ہوسکتی ہے ۔
دوسری صورت جس پر شاید ذرا تفصیل سے بحث کرنے کی ضرورت ہو یہ ہے کہ پہلے تو عموماً یہ ہوتا تھا کہ کسی علاقے کے دارالحکومت، اہم شہروں اور آبادیوں پر جب کسی طاقت کا تسلّط ہوجاتا تھاتو عملًا یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ ان کا استیلا ہوگیا ہے اور عموما شکست کو تسلیم کرلیا جاتا تھا اور ایک طرح سے لڑائی کا خاتمہ ہوجاتا تھا، لیکن اب افغانستان اور عراق میں بظاہر شہروں کی حد تک امریکی تسلط یا طالبان کے’’ حکتِ عملی‘‘ پر مبنی انخلا کے باوجود وضعت الحرب أوزارہا والی کیفیت پیدا نہیں ہوئی، بلکہ پہاڑوں ، جنگلوں اور غاروں میں جاکر قابض فورسز کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کردیاگیا۔ دوسری طرف قابض قوّت نے ظاہری طور پر اپنی عمل داری قائم کرنے کی بجائے اسی ملک کے کچھ لوگوں کو آگے لا کر ان کی حکومت قائم کردی۔ کٹھ پتلی ہی سہی، حکمران ہیں تو مسلمان اور اسی ملک کے باشندے، پھرانتخابات کراکے ان پر عوامی نمائندگی کاغازہ بھی مل دیا گیا اور سارے نظام کو ایک دستورکے بھی تابع کردیا گیا جس پر الفاظ کی حد تک شایدزیادہ اعتراض کی گنجائش موجود نہ ہو۔ افغانستان کے حالیہ دستور میں تو اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے بارے میں ہماری قرار دادِ مقاصد سے ملتے جلتے الفاظ بھی موجود ہیں۔ ایسے ملک کو مسلمانوں کی عمل داری والا ملک کہا جائے گا یا کافروں کی؟ یہ دار الحرب ہوگا یا دار الاسلام؟ وہاں کے سیاسی نظام کا حصہ بننے کا کیا حکم ہوگا؟ ( برِّ صغیر میں تو اکابر علماء نے انگریزکے بنائے ہوئے اور انہی کی ماتحتی میں چلنے والے سیاسی نظام میں شرکت بھی کی تھی اور اسی سے آزادی کی راہ کے متلاشی بھی تھے ) کیا کسی مسلمان کو محض اس نظام کا حصہ بننے کی وجہ سے غدار اور مباح الدم قرار دیا جا سکے گا ؟ ان سوالات پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔
مطالعے کے دوران آپ کے مضمون کے بعض حصّے کشمیر اور فلسطین جیسے مقبوضہ خطوں کے حوالے سے کھٹکتے رہے ، البتہ مضمون کے آخر میں آپ نے وضاحت کردی کہ اس طرح کے مسائل میں مروّجہ بین الأقوامی عرف کو بھی مدّ نظر رکھا جانا چاہیے، یعنی کفار کے ایسے مقبوضہ علاقے جن پر قابض قوتوں کے قبضے کے جواز کو نہ تو وہاں کے باشندوں نے باقاعدہ طور پر تسلیم کیا ہے اور نہ ہی بین الاقوامی عرف اور قانون اسے تسلیم کرتاہے، وہاں کا حکم مختلف ہوگا۔ ایسے علاقے کے باسیوں کے لیے تو اپنے حقِّ خود ارادیت کے لیے لڑنے کے حق کو آپ نے ایک شرط کے ساتھ شرعی طور پر تسلیم کیا ہے، لیکن بحیثیتِ مجموعی آپ کے مضمون سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ آپ ایسے علاقے کے کسی ہمسایہ مسلم ملک کے اس حق کو تسلیم نہیں کرتے کہ وہ اس معاملے میں فوجی مداخلت کرے یا اپنے شہریوں کو ان کی مدد کے لیے جانے کی اجازت دے، خاص طور پر جبکہ اس ہمسایہ مسلمان ریاست کا ظاہری اور علانیہ موقف یہی ہو کہ وہ عسکری مداخلت نہیں کررہی ، صرف خفیہ طورپر اپنے لوگوں بھیج رہی ہو یا اس کی اجازت دے رہی ہو۔ بظاہر آپ کی بات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ مداخلت واضح طور پر اخلاقی جواز سے خالی ہے، اس لیے کہ یہ دونوں ملک اقوامِ متحدہ اور بعض دیگر تنظیموں کے رکن ہونے کی وجہ سے یا دو کسی دو طرفہ معاہدے کی وجہ سے ایک دوسرے کے معاہد ہیں۔ میرے خیال میں یہ بحث اتنی سادہ نہیں ہے۔ اس وقت اس پر کچھ لکھنے کا موقع نہیں ہے۔ اس پر مولانا مودودی ؒ اور علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کے درمیان خط وکتابت بھی موجود ہے جس کا آپ نے بھی حوالہ دیاہے۔ ( اگر یہ خط وکتابت بھی الشریعہ میں چھپ جائے تو بہت سے لوگوں کے علم میں اضافے کا باعث ہوگی۔ ویسے بھی مولانا انوار الحسن شیرکوٹی کی جس کتاب میں یہ خط وکتابت شامل ہے، وہ آج کل عموماً دستیاب نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کے علاوہ کسی اور عام دستیاب کتاب میں بھی یہ خط وکتابت شامل ہے یا نہیں)
مجھے اس وقت دو باتوں کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ ایک یہ کہ آج کل صلح کے بین االأقوامی معاہدات موجود ہونے کے باوجود بھی بعض ملک بالخصوص بڑی طاقتیں دوسرے ملکوں میں (covert actions)کرتی ہیں اور انہیں عملاً برداشت بھی کیا جاتا ہے۔ ایسی خفیہ کاروائیوں کی خود بین الاقوامی قانون اور عرف میں کیا حیثیت ہے اور اس عرف سے آج کے دور میں مقبوضہ مسلمان خطوں کے ہمسایہ ملک (خاص طور پر جو بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کے مسلمہ فریق بھی ہیں) کس حد تک استفادہ کرکے اپنی کاروائیاں کرسکتے ہیں؟ یہ سوال قابلِ غورہے۔ اگر بین الاقوامی عرف کے ہم پابند ہیں تو جہاں یہ عرف ہمارے حق میں جاتا ہو، اس سے فائدہ اٹھانا بھی ہمارا حق ہے۔ اگر معاہدات آج کے ہیں تو ان کی خلاف ورزی ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ بھی آج ہی کے عرف کی روشنی میں بظاہر ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ کسی کاروائی کو محض اس وجہ سے غیر قانونی یا خلافِ عرف ومعاہدہ نہیں کہا جاسکتاکہ مسلمانوں کے ہاں اس کا نام جہاد ہے۔ میرا مقصد کوئی رائے قائم کرنا نہیں، محض سوال ہی سامنے رکھنا ہے، اس لیے کہ میں خود بین الاقوامی قانون اور عسکری امور سے ناواقف ہوں، لیکن میرا یہ سوال صرف ہمسایہ ریاست کے حوالے سے ہے، خود اس غیر مسلم ملک کے شہریوں کے بارے میں نہیں اور وہ بھی صرف اس صورت سے متعلق ہے جبکہ ایک ذمہ دار ریاست تما م عواقب ونتائج دیکھ کر اس طرح کی کسی مداخلت کا فیصلہ کرتی ہے۔ فرض کریں فلسطین کی کوئی ہمسایہ ریاست اس طرح کا فیصلہ کرتی ہے اور اس بات کا بھی یقین ہے کہ وہ کاروائیاں اس ریاست کے ہاتھ ہی میں رہیں گی، غیر ذمہ دارانہ ہاتھوں میں نہیں چڑھ جائیں گی۔
دوسری بات جس کی طرف اس وقت توجہ دلانا مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ فقہا کے ہاں ایک اصول ’’ ظفر بالحق ‘‘ کا بھی ہے جس میں یہی ہوتا ہے کہ ایک چیز جس طریقے سے آپ حاصل کررہے ہوتے ہیں، وہ بذاتِ خود کوئی اچھا طریقہ نہیں ہوتا لیکن آپ چونکہ اس ذریعے سے جو کچھ حاصل کررہے ہوتے ہیں، وہ آپ کا حق ہوتا ہے اور آپ کو یقین ہوتا ہے کہ معروف طریقے سے یہ حق مجھے ملنے والا اور سیدھی انگلیوں سے یہ گھی نکلنے والانہیں ہے، اس لیے آپ اپنے حق کے حصول کے لیے کوئی ایسا راستہ اختیار کرتے ہیں جو عام حالات میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اس کی متعدد فقہا بعض احادیث کی روشنی میں اجازت دیتے ہیں۔ جن جگہوں پر کسی قوت کا قبضہ بین الاقوامی طور پر غیر قانونی ہونا مسلمہ ہے ، اس کے باوجود بین الاقوامی برادری کا رویہ بے حسی ہی نہیں، مجرمانہ طور پر دوہرے معیار کا شکار ہو ، جیسے ہم دیکھ رہے ہیں کہ کشمیری ساٹھ سال سے استصواب اور حق خودارادیت کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں اور بھارت کے وعدوں پر عمل در آمد کا انتظار کررہے ہیں اور اب کم ازکم بزبانِ حال تقادم کا بہانہ بناکر ’’ رات گئی بات گئی ‘‘ پر عمل کا مسئلے کے متعلقہ فریقوں کو مشورہ دیا جارہا ہے۔ یہی صورتِ حال فلسطین کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی متعدد قرار دادوں کی ہے۔ اس کے بر عکس مشرقی تیمور میں ( جہاں عیسائی اکثریت آباد ہے ) دیکھتے ہی ریفرنڈم بھی ہوتاہے اورعیسائی اکثریت پر مشتمل آزاد خود مختار ریاست بھی وجود میں آجاتی ہے، سوڈان کو جنوب میں ریفرنڈم کرانے کا اعلان کرنا پڑتا ہے، دار فور کے لوگوں کی داد رسی کے لیے دنیا بھر کا سوڈان پردباؤ ہے۔ ایسے میں اگر کسی مقبوضہ علاقے کی ہمسایہ ذمہ دار ریاست کو اس بات کا یقین ہوجاتاہے کہ یوں بیٹھے رہنے یا محض رسمی طور پر انٹر نیشنل فورمز پر آواز اٹھاتے اور لابنگ کرتے رہنے سے بات نہیں بنے گی، اس کے ساتھ یہ ذمہ دار ریاست تمام عواقب ونتائج پر اچھی طرح غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اس مسلمہ حق کے حصول کے لیے فلاں قسم کی کاروائی ناگزیر ہے جو دوسرے ذمہ دار ممالک بھی کرلیتے ہیں اور انہیں کوئی نہیں پوچھتا، اگرچہ علانیہ طور پر وہ اس طرح کی کاروائیوں کو own نہیں کرتی، لیکن اس میں حصہ لینے والوں کو پتا ہے کہ یہ ریاست کا ذمہ دارانہ فیصلہ ہے تو کیا اسے بھی محض ظاہری اور تکنیکی طور پر عہد کی خلاف ورزی قرار دے کر اخلاقی اصولوں سے خارج قرار دیا جائے گا؟
روسی مداخلت کے خلاف افغانستان میں ہونے والی مزاحمت کے دوران امریکا یا اس وقت کی آزاد دنیا کہلانے والے ملکوں نے کبھی بھی سرکاری سطح پر اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ وہ وہاں مسلح کاروائیوں کی حمایت کرہے ہیں، یہی کہا جاتا تھاکہ ہم افغان مجاہدین کی اخلاقی اور سفارتی مدد کرتے رہیں گے، لیکن اصل حقیقت اس وقت بھی بچے بچے کو معلوم تھی۔ بین الاقوامی قانون اور عرف میں اس طرزِ عمل کو بین الاقوامی معاہدات کی خلاف ورزی کس حد تک سمجھاگیا تھا؟ اس سے بھی زیادہ واضح مثال ۱۹۷۰ء میں بہارت کی مکتی باہنی اور دسرے ذرائع سے مشرقی پاکستان میں مسلح مداخلت کی دی جاسکتی ہے۔ افغانستان میں تو کم از کم روس کی شکل میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کا بہانہ تھا، مشرقی پاکستان میں تو یہ بات بھی نہیں تھی۔ پھر کشمیر اور فلسطین میں مسلمہ بین الاقوامی سرحد کا معاملہ نہیں ہے۔ پاکستانی اور ہندوستانی کشمیر کے درمیان بین الاقوامی سرحد نہیں ہے، صرف کنٹرول لائن ہے ، اور کشمیر وفلسطین دونوں تصفیہ طلب متنازعہ خطے تسلیم کیے جاتے ہیں، جبکہ مشرقی پاکستان متنازعہ خطہ بھی نہیں تھا اور بھارت نے باقاعدہ بین الاقوامی سرحد پار سے مسلح مداخلت کی تھی۔ اس پر بھارت کے خلاف بین الاقوامی قانون کتنا حرکت میں آیا؟ چلو ریاستوں کا معاملہ تو الگ رہا، مکتی باہنی کے ہاتھوں لٹ پٹ کر آنے والے عام خاندان اب بھی موجود ہیں۔ اب یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آچکی ہے کہ مکتی باہنی اس وقت بھارت ہی کا ایک ہاتھ تھا۔ کیا مکتی باہنی کا کوئی متاثرہ خاندان بھارت کے خلاف کسی فورم پرکوئی قانونی چارہ جوئی کرسکتاہے ؟
میرا مقصد اپنی رائے قائم کرنا نہیں ہے ، بلکہ بین الاقوامی قانون ، معاہدات اور عرف کے بارے میں اہلِ علم کے سامنے سوال ہی رکھنا ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال میں بین الاقوامی عرف اور قانون کیا کہتاہے؟ کیا ایسے حالات میں کسی نظر انداز شدہ مقبوضہ اور تصفیہ طلب علاقے کے لوگوں کے لیے قضیے کے مسلّمہ ہمسایہ فریق کے لیے مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی اور کیا اس کے لیے فقہا کے ’’ ظفر بالحق ‘‘ والے اصول سے کوئی سند نہیں ملتی؟ اسی بات کو یوں بھی کہا جاسکتاہے کہ ایک ملک کے دوشہری بھی ایک دوسرے کے معاہد ہوتے ہیں۔ فرض کریں کہ اس طرح کا ایک شہری دوسرے کا موبائل چھیننے کی کوشش کرتاہے ، دوسرا اپنا موبائل بچانے کی پوری کوشش کرتا ہے، اس کا روائی میں چھیننے والے کا بازو مروڑ دیتاہے یا اسے دوچار طمانچے رسید کردیتاہے جسے فقہا دفع الصائل سے تعبیر کرتے ہیں ، کیا اس کے اس عمل کا ان کے اس باہمی معاہدے پر اثر پڑے گا یا کیا ان کا باہمی معاہد ہونا اس کے اس عمل کے جواز پر اثر انداز ہوگا؟ قضیہ کشمیر کی ابتدا کی صورتِ حال ( خاص طور پر سیز فائر سے پہلے ) کم از کم یہی تھی۔ بھارت کی طرف سے تقسیمِ ہند کے طے شدہ فامولوں اور اصولوں سے انحراف ہورہا تھا، اگر کسی ریاست کے حکمرانوں کے فیصلے کا بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق میں اعتبار تھا جیسا کہ کشمیر میں بھارت کی پوزیشن تھی تو اسی اصول کے مطابق حیدرآباد اور جونا گڑھ پر اس کا کوئی حق نہیں بنتا تھا اور عوام کی رائے کا اعتبار تھا تو کشمیر پر اس کا حق نہیں بنتا تھا، کیونکہ اب تو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ اُس وقت تو کشمیری عوام کی بہت بھاری اکثریت واضح طور پر پاکستان کے سا تھ الحاق کے حق میں تھی۔ برّ صغیر کی عمومی فضا ہی کچھ ایسی تھی۔ اس لحاظ سے تو استصواب اب اگر ہو بھی جائے تو تب بھی محض تاخیر بھی عالمی برادری کی طرف سے مجرمانہ ناانصافی ہوگی۔
اس سے بحث نہیں کہ ایسے حالات میں بہتر اور مفید پالیسی کیا ہوسکتی ہے اور کیا مذکورہ بالا نوعیت کی مداخلت کاراستہ اختیار کرنا مقصد کے حصول کا واقعی ذریعہ ہوسکتا ہے یامقبوضہ علاقے کے لوگوں کی پر امن سیاسی جدو جہد کی بھر حمایت کرنا زیادہ فائدہ مند ہوسکتاہے۔ اس بحث سے قطع نظر ہمسایہ ملک کی مسلح مداخلت کے بارے میں مذکورہ بالا سوالات بہرحال موجود ہیں اور ایسی مداخلت کا اخلاقی جواز سے عاری ہونا اتنا بھی واضح اور بدیہی نہیں لگتا ، بالخصوص جبکہ اس بات کا یقین ہو کہ اس پالیسی سے کسی دوسری جماعت کو ہم خطرات سے دو چار نہیں کررہے ، جس کی مثالی صورت یہی ہے کہ لوگوں کی نمائندہ ذمہ دار حکومت اس طرح کا فیصلہ کرے ، یعنی اس طرح کا اگر فیصلہ ہو تو وہ واقعی پولٹیکل فیصلہ ہو۔ ایسا نہ ہوکہ وہ دکھاوے کی حدتک تو حکومتی اور سیاسی فیصلہ ہو حقیقت میں محض پروفیشنل فیصلہ ہو، اور اس فیصلے میں حکومت اپنے ہی کسی ماتحت ادارے کے آگے مجبور ہو۔ ( عالمِ اسلام میں بدقسمتی یہ ہے کہ اس میں یا تو صحیح معنی میں نمائندہ حکومتیں ہوتی ہی نہیں ہیں۔ اگر ہوں بھی تو ٹیکنو کریسی والی ذہنیت بہت سی جگہوں پر غالب نظر آتی ہے۔ یا تو چند پڑے لکھے ’’بابو‘‘ سیاسی قیادت کو بے وقوف سمجھنے پرتلے ہوتے ہیں یا بعض اداروں کی طرف سے اسے بزدل قرار دے کر فیصلے کرنے کا صحیح موقع نہیں دیا جاتا۔) اگرریاست کا کوئی ماتحت ادارہ یا اس کے کچھ افراد اپنی حدود سے تجاوز کرکے حکومتِ وقت کو غافل رکھ کر اس کی اس اجازت کے بغیر اس طرح کا کوئی قدم اٹھاتاہے (جس کی ایک مثال شاید کارگل کا واقعہ ہو) تو اس طرح کا ایکشن بظاہر rogue ہوگا، اس میں اور کسی پرائیویٹ تنظیم کے از خود اسی طرح کے کسی اقدام میں بڑا فرق ڈھونڈنا مشکل ہوگا ۔
یہ تو چند باتیں بطور سوال کے عرض کی ہیں۔ مزید دوباتوں پر اپنے ناقص خیال کا بھی اظہار کرنا چاہتاہوں۔ ایک تو یہ کہ آپ نے اپنے مضمون میں کلاسیکل فقہ کی اصطلاح استعمال کی ہے اور بظاہر آپ کی گفتگو سے یہ تأثر ابھرتا ہے (ہو سکتا ہے میں غلط سمجھاہوں) کہ بعض مسائل میں کلاسیکل فقہ تو کوئی راہ نمائی نہیں کررہی، البتہ اس سے ہٹ کر بعض دیگر زاویوں سے دیکھا جائے تو مسئلے کا جواب مل جاتاہے۔ میں کلاسیکل فقہ کی اصطلاح کے مفہوم سے تو واقف نہیں، البتہ اتنی بات واضح ہے کہ اس وقت فقہی مسائل، بالخصوص اجتماعی مسائل کے بارے میں تین بڑے رجحانات موجود ہیں:
ایک یہ کہ فقہی کتب اور وہ بھی متاخرین کی کتب کی عبارات اور جزئیات کو اساس بنایا جائے اور حتی الامکان ان سے باہر نہ نکلا جائے۔ ہمارے ہاں فتوی سے متعلق بیشتر حضرات اسی رجحان پر عمل پیرا ہیں۔
دوسرا رجحان یہ ہے کہ فقہا کی کاوشوں سے استفادہ تو ضرور کیا جائے لیکن استدلال کی اصل بنیاد براہِ راست قرآن وسنت اور مقاصدِ دین اور ایک وسیع دائرہ رکھنے والے اجتہاد کو بنایا جائے۔
تیسرا رجحان ان دونوں کے درمیان ہے ، وہ یہ کہ اصل راہ نمائی تو مدوّن فقہ سے ہی لی جائے البتہ فقہاء کی جزئیات پر انحصار کرنے کی بجائے ان کی تعلیلات اور ادلہ کو بھی مدِّنظررکھا جائے جس بنیاد پران فقہا نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کی صورت اگر تبدیل ہوگئی ہو تو اس کے مطابق حکم بھی تبدیل کرلیا جائے ، اگرچہ وہ حکم بظاہر بعض عبارات سے متصادم ہو ۔ مخصوص فقہ کے ساتھ ساتھ دوسرے فقہا سے بھی استفادہ کرلیا جائے ۔
آپ نے مضمون کے آخر میں بعض مسائل میں عصرِ حاضر کے بین الاقوامی قانون اور عرف کو بنیاد بنانے کی بات کی ہے جو بذاتِ خود درست ہے ، لیکن کلاسیکل فقہ سے آپ کی مراد اگر صرف پہلا رجحان ہے تو آپ کی یہ بات بھی درست ہوسکتی ہے کہ اس کلاسیکل فقہ میں اس مسئلے کا حل نہیں ملتا یا اس سے کچھ اور مستفادہوتاہے۔ اگر تیسرا رجحان بھی کلاسیکل فقہ میں داخل ہے تو چونکہ فقہا کے ذکرکردہ بہت سے احکام کی وجہ ہی اس زمانے کا بین الاقوامی عرف تھا، اس لے اس بنیاد یعنی عرف کے بدلنے سے حکم کی تبدیلی بذاتِ خود کلاسیکل فقہ کے اس شعبے کا تقاضاہے۔ اس وقت اس سے بحث نہیں کہ ان رجحانات میں سے کون سا زیادہ قابلِ عمل ہے یا سب ہی سے مختلف دائروں اور سطحوں پر استفادہ ہوسکتا ہے، کہنا یہ مقصود ہے کہ جس چیز کو آپ کلاسیکل فقہ کہہ رہے ہیں، اس میں فقہاء کی تعلیلات اور ان سے استفادہ بھی شامل ہے تو یہ تاثر صحیح نہیں ہوگا کہ ان مسائل میں اس فقہ نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں اور وہ ہمارے سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے ۔
دوسری بات جو اگرچہ آپ کے مضمون سے متعلق تو نہیں لیکن اسے عرض کرنا بہت ضروری معلوم ہوتاہے، وہ یہ کہ جناب حافظ محمد زبیر صاحب نے اپنے ایک مضمون میںیہ لکھا ہے کہ موجودہ حکمران چونکہ غاصب اور ظالم ہیں، اس لیے بذاتِ خود تو اس قابل ہیں کہ ان کے خلاف خروج نہ صرف جائز بلکہ واجب بھی ہو، مسئلہ صرف استطاعت کاہے۔ یہ بات دیگر بعض علما سے بھی سننے میں آئی ہے۔ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کی پالیسیوں پر اور لوگوں کی طرح مجھے بھی بہت سے اعتراضات ہیں، لیکن انہیں غاصب کہنا درست معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ غاصب وہ ہوتا ہے جس نے کوئی چیز ناجائز ذریعے سے حاصل کی ہو۔ پاکستان میں ایک آئین موجود ہے اور اس آئین میں حکمرانی حاصل کرنے کا طریقہ بھی درج ہے۔ اس آئین اور اس طریقۂ کار پر دینی حلقوں سمیت سب نے بنیادی طور پر اتفاق کیا ہواہے۔ موجودہ حکومت بنیادی طورپر اسی طریقِ کار کے مطابق برسرِ اقتدار آئی ہے، عوام نے اسے حقِ حکمرانی دیاہے اور تقریباً تین سال بعد اس نے اپنی پانچ سالہ کارکردگی لے کر دوبارہ عوام کے سامنے پیش ہوناہے۔ ساتھ ساتھ بھی اس کی کارکردگی مختلف سطحوں پر جانچی جاتی رہتی ہے۔ ایسے میں اسے غاصب قرار دینے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ اگر یہ بھی غاصب ہیں تو جائز حق حکمرانی کس کو حاصل ہے؟ اس کے علاوہ حکمرانی حاصل کرنے کا ذریعہ تو ڈنڈا ہی ہوسکتا ہے۔ کیا ایک فریق کے لیے طاقت کے زور پر حکومت کے حصول کو جائز اور دوسرے کے لیے ناجائز کہا جاسکتا ہے ؟مذکورہ بالا نوعیت کی آرا کے اظہار کے نتائج بڑے دور رس ہوتے ہیں، اس لیے ان کے اظہار سے پہلے تمام پہلوؤں پر اچھی طرح غور کرلینا چاہیے۔
یہ کچھ سرسری سی بے ربط سی باتیں عرض کی ہیں جن میں سے بیشتر کا مقصد چند سوالات ہی اہلِ علم کے سامنے رکھنا ہے۔ ممکن ہے آپ یا کسی اور صاحبِ علم کی طرف سے ان پر مزید روشنی ڈالی جاسکے۔ میں خود کو اس وقت سوال کرنے سے زیادہ کی پوزیشن میں نہیں پاتا۔ ان سطور سے اگر آپ کی تضییع وقت ہوئی ہوتو معذرت خواہ ہوں۔
(مولانا مفتی) محمد زاہد
جامعہ اسلامیہ امدادیہ، ستیانہ روڈ، فیصل آباد
zahidimdadia@yahoo.com
(۲)
مخدوم محترم حضرت مولانا زاہد الراشدی زیدت معالیکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ کرے مزاج گرامی بعافیت ہوں۔ الشریعۃ کی خصوصی اشاعت ابھی چند دن پہلے موصول ہوئی۔ اللہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے، پڑھ کر طبیعت بے انتہا متأثر ہوئی۔ برا ہو ان سرحدوں کا، ہم کیسے عظیم خیر سے محروم رہے۔ لکھنے والوں نے جو حالات لکھے ہیں اور ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر لکھے ہیں، وہ واضح طور پر صدیقیت کی علامت ہیں۔ ’’والذین آمنوا باللہ ورسولہ اولٰئک ہم الصدیقون والشہداء عند ربہم، لہم اجرہم ونورہم‘‘ کے مصداق ان حضرات کی زندگی میں ایک خاص نور نظر آتا ہے۔
آپ اور سارے ہی اہل خانہ قابل رشک ہیں کہ ایسی عظیم نعمت پائی۔ ہمارے گھر میں حضرت مولانا صدیق صاحب باندوی ؒ کا تذکرہ بہت رہتا ہے۔ حضرت والد ماجدمولانا محمد زکریا سنبھلی مد ظلہم حضرت کی خدمت میں آٹھ سال رہے ہیں۔ اسی نسبت سے والد صاحب کے یہاں ان کا بڑا تذکرہ رہتا ہے۔ الشریعہ کا نمبر آیا تو گھر کی خواتین نے بھی پڑھا۔اب حضرت کے ایمان افروزحالات ہر مرد وزن کی زبان پر ہیں اور اسی طرح ہر مجلس میں بات بات پر حضرت کے واقعات ، حالات اور ملفوظات سنائے جارہے ہیں۔ لوگوں نے حضرت کو ایک عالم کی حیثیت سے تو بہت جانا ہے مگر مجھے تو خالص علمی پہلو سے کہیں زیادہ اہم ایک داعی ومصلح اور ربانی عالم کی شخصیت دیدہ زیب نظر آرہی ہے۔ اور الشریعہ اس اعتبار سے بڑی مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے ان پہلووں کو اور یہاں تک کہ گھریلو زندگی کو بھی خالص عالمانہ پہلو سے دبنے نہیں دیا ہے۔ اللہم لا تحرمنا أجرہ ولا تفتننا بعدہ۔
دعاؤں کا طالب ہوں ، کاش آپ حضرات کی خدمت میں حاضری زیادہ مشکل نہ ہوتی۔
والسلام
نیاز مند: یحییٰ نعمانی
(مدیر ماہنامہ الفرقان، لکھنو)
(۳)
گرامی قدر مولانا عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم
الشریعہ کے شمارہ نومبر/دسمبر ۲۰۰۹ء کے اکثر مضامین کامطالعہ کیا۔ ان میں خاص طورپر حضرت الاستاذ مولانا زاہد الراشدی صاحب کا انٹرویو، محترم جناب ڈاکٹر ممتاز احمد کی گفتگو اور محترم زاہد صدیق مغل کا مضمون کافی پسند آیا۔ مکتوبات میں محترم جناب سید مہرحسین بخاری کا خط پڑھ کر حیرت ہوئی کہ موصوف حضرت شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدرؒ سے عقیدت بھی رکھتے ہیں، اس کے باوجود حضرت شیخؒ کے شیعہ کے بارے میں بیان کردہ موقف کے برعکس اپنے مکتوب میں شیعہ کے کفر کے قائل نہ ہونے کا بھی اظہار کر رہے ہیں۔ موصوف حضرت شیخ الحدیثؒ کی رد شیعیت میں لکھی گئی کتاب ’’ارشاد الشیعہ‘‘ کا ہی مطالعہ کر لیتے تو اتنی بڑی ٹھوکر نہ کھاتے۔ مذکورہ کتاب میں حضرت شیخؒ نے واضح الفاظ میں شیعہ کے کفر کا اظہا ر کیا ہے۔ لگے ہاتھوں موصوف نے حضرت مولانا صوفی عبدالحمیدخان سواتی ؒ کی طرف بھی شیعہ کے کفر کے قائل نہ ہونے کی نسبت کر دی، حالانکہ حضرت صوفیؒ صاحب علی الاطلاق شیعہ کے کفر کے قائل نہ تھے، لیکن شیعہ اثنا عشریہ کو وہ بھی کافر ہی سمجھتے تھے۔ اس مسئلے پر صوفی صاحبؒ کے بڑے بیٹے محتر م مولانا فیاض خان سواتی سے میری تفصیلی بات ہوئی۔ وہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ ہم تمام شیعہ فرقوں کو کافر نہیں کہتے، لیکن شیعہ اثنا عشریوں کو ہم بھی کافر سمجھتے ہیں جو کہ پاکستان میں شیعوں کا اکثریتی فرقہ ہے۔
موصوف نے شیعہ کی طرف تحریف قرآن کی نسبت کو بھی غلط کہاہے، جبکہ حضرت صوفیؒ اپنی مشہور تفسیر معالم العرفان کی جلد اول کے صفحہ ۸۳ پر اصول کافی (جو کہ شیعہ کی معتبر ترین حدیث کی کتاب ہے) کی مشہور روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو قر آن حضرت جبرائیل حضورعلیہ الصلوۃوالسلام پر لائے تھے، اس کی سترہ ہزار آیتیں تھیں۔ اس سے معلوم ہو اکہ حضرت صوفی صاحبؒ کے نزدیک بھی شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں۔ تحریف قرآن کے قائل کو بھلا حضرت صوفی صاحبؒ کیسے مسلمان کہہ سکتے ہیں!
علاوہ ازیں موصوف نے حضرت مولانا تقی عثمانی کی طرف بھی شیعہ کو کافر نہ کہنے کی نسبت کی ہے۔ ہماری حضرت تقی عثمانی سے تو کبھی ملاقات نہیں ہوئی، البتہ حضرت تقی مدظلہ کے والد گرامی مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ کا فتویٰ ہماری نظر سے گزرا ہے۔ اس میں مفتی صاحبؒ نے شیعہ کے بعض فرقوں کو کافر لکھاہے۔ مذکورہ فتویٰ ماہنامہ بینات کی خصوصی اشاعت بعنوان ’’خمینی اور اثناعشریہ کے بارے میں علماء کرام کا متفقہ فیصلہ‘‘ میں موجود ہے۔ مفتی تقی صاحب مدظلہ اپنے والد گرامی کے اس فتوی سے کیسے عدول کر سکتے ہیں؟
علاوہ ازیں، علماء کرام کے متفقہ فیصلہ میں مفتی اعظم ہندوستان حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکیؒ نے متفقہ طور پر شیعہ اثنا عشریہ کوکافر لکھا ہے۔ مذکورہ فتویٰ پر ہندوستان اور پاکستان کے تقریباً تمام جید علماء کرام اورمفتیان عظام نے دستخط کیے ہیں۔ پاکستان کے جن علماء کرام نے اس فتوی پر دستخط کیے ہیں، ان کے نام سن کر یقیناًبخاری صاحب بھی حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ دستخط کرنے والوں میں چند نام یہ ہیں:
مفتی نظام الدین شامزئی شہید، کراچی۔ مفتی زین العابدین، فیصل آباد۔ مفتی عبدالستار، خیرالمدارس ملتان۔ حضرت خواجہ خان محمد، امیرعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت۔مولانا عبداللہ شہید، اسلام آباد۔ مولانا سرفراز خان صفدرؒ ، گوجرانوالہ۔ مولانا عبداللہ آزاد۔ مولانا عبید اللہ، مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور۔ مولانا محمد مالک کاندھلویؒ ۔ شیخ موسیٰ خان روحانی بازیؒ ، جامعہ اشرفیہ۔ مولانامحمد اجمل قادری۔ مولانا عبدالحق خان، اکوڑہ خٹک۔ مولانا عادل خا ن ۔ سیدنفیس الحسینی شاہؒ ۔ قاضی عبداللطیف جہلمیؒ ۔ مولانا عبدالمجید کہروڑپکا۔ حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ ۔ مفتی رشید احمد لدھیانویؒ اورمولانا یوسف لدھیانویؒ ۔
یہ وہ حضرات ہیں جن کے علم وتقویٰ پر تمام اہل علم اعتماد کرتے ہیں۔ یہ سب متفقہ طور پر شیعہ کو کافر لکھ رہے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی پاک وہند برطانیہ اور دیگر ممالک کے سینکڑوں علماء کرام کے دستخط اس فتویٰ پرموجود ہیں۔ گویا کہ شیعہ کے کفر پر تمام علماء کا اجماع ہے۔ مزید اگر تسلی مقصود ہوتو محترم بخاری صاحب سے گزارش ہے کہ شیعہ کے بارے میں علماء کے متفقہ فیصلہ کے علاوہ حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی تصنیف ’’ارشاد الشیعہ‘‘، مولانا منظور احمد نعمانی کی ’’ایرانی انقلاب اور شیعیت‘‘، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی کی ’’خمینی ازم اوراسلام‘‘، مولانا مہر محمد کی ’’تحفہ امامیہ‘‘ اور بریلوی مسلک کے عالم دین مولانا محمد علی کی ’’تحفہ جعفریہ‘‘اور علامہ احسان الٰہی ظہیر کی ’’الشیعہ والقرآن‘‘ کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔ قوی امید ہے کہ ان شاء اللہ شیعہ کے کفر پر شرح صدر نصیب ہو جائے گا۔
حافظ محمد عثمان
فاضل جامعہ اشرفیہ ، لاہور
(۴)
برادر مکرم مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔
ماہنامہ ’الشریعہ‘ (جنوری ۲۰۱۰ء) میں مجلہ المصطفیٰ کے ’’امام اہل سنت نمبر‘‘ پر آپ کا تبصرہ پڑھا۔ ماشاء اللہ آپ نے بہت خوب لکھا اور کمال ذکاوت سے چند اقتباسات کا انتخاب کر کے انھیں بیچ میں سجا دیا۔ جزاک اللہ خیراً۔ البتہ ایک بات آپ کے علم میں نہ ہونے کی وجہ سے آپ کو اعتراض ہوا، اس کی وضاحت کرتا چلوں۔
آپ نے بہت اچھا کیا کہ حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب مدظلہ کے مضمون سے وہ اقتباس جو دادا جان رحمہ اللہ کے موقف کی درست ترجمانی نہیں کرتا، نقل کر کے ہم پر گرفت کی کہ دیگر مضامین کی طرح اس مضمون کے ان اقتباسات کے بارے میں ’’بے لاگ احقاق حق‘‘ کی روایت برقرار نہیں رکھی جا سکی۔ واقعتا ایسا ہی ہے کہ جلد بازی کی وجہ سے احقر اس مضمون کے حاشیے میں اختلافی ووضاحتی نوٹ نہ لگا سکا۔ آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ کس قدر جلد بازی میں ہم نے یہ نمبر ترتیب دیا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ’’کسی وضاحتی نوٹ کے بغیر اس کی شمولیت نہ اس اشاعت کے مرتبین کو کھٹکی اور نہ موصولہ مواد پر نظر ثانی کر کے منظوری دینے والے بزرگوں کو۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ یہ مضمون مرتب بے چارے کو بھی کھٹکا اور نظر ثانی کرنے والے بزرگوں (تایا جان مولانا عبد القدوس خان قارن مدظلہ) نے بھی اس کے نیچے حاشیہ میں ایک نوٹ لگانے کا حکم فرمایا تھا۔ فرمایا کہ حاشیے میں ابا جی (حضرت امام اہل سنتؒ ) کی وہ گفتگو جو مولانا نیازی سے ہوئی تھی، درج کر دینا اور وہ تمہارے ابو (مولانا عبد الحق خان بشیر مدظلہ) کو یاد ہوگی، ان سے لکھوا لینا۔ احقر نے والد مکرم کو مضمون دکھایا تو انھوں نے چند جملے حذف کرنے کے بعد فرمایا کہ میں ان شاء اللہ جلد ہی نوٹ لکھ کر بھیج دوں گا، لیکن اپنی شدید مصروفیات کی وجہ سے وہ نوٹ تحریر کر کے ارسال نہ فرما سکے جس کی وجہ سے وہ شامل اشاعت نہ ہو سکا۔
بہرحال توجہ دلانے کا ازحد شکریہ۔ آئندہ ایڈیشن میں ان شاء اللہ العزیز دادا جان رحمہ اللہ کا وہ مکتوب گرامی جو مولانا عبد الستار خان نیازی مرحوم کی طرف سے دیوبندی بریلوی مصالحت کے لیے کی جانے والی کوشش کے سلسلے میں ’الشریعہ‘ کی اشاعت خاص میں شائع ہوا ہے، حضرت مفتی صاحب مدظلہ کے مضمون کے حاشیہ میں درج کر دیا جائے گا۔ آپ بھی اگر مناسب سمجھیں تو احقر کے اس مکتوب کو ’الشریعہ‘ میں شائع فرما دیں تاکہ حضرت مفتی صاحب کے اس مضمون سے (جو ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ اور روزنامہ ’’اسلام‘‘ میں بھی طبع ہو چکا ہے) دادا جان کے موقف کے بارے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیاں دور ہو سکیں اور حضرت امام اہل سنت کے متعلقین ان کے درست موقف سے آگاہ ہو سکیں۔
باقی رہی بات ماہنامہ ’’ہدی للناس‘‘ گوجرانوالہ سے ماخوذ مواد بلا حوالہ درج کرنے کی تو وہ واقعتا احقر کی غلطی ہے جس پر میں ماہنامہ ’’ہدی للناس‘‘ کے منتظمین سے معذرت خواہ ہوں۔ دراصل جلد بازی، وقت کی کمی، ناتجربہ کاری، اکیلے پن، بجلی کی بے ڈھنگی لوڈ شیڈنگ کے باعث پریشانی اور دیگر بہت سے عوارض کی وجہ سے خصوصی نمبر میں بہت سی غلطیاں اور کمیاں کوتاہیاں رہ گئی ہیں جس کا اندازہ جابجا آپ کو بھی ہوا ہوگا۔ چند ایک کا تذکرہ آپ نے اپنے تبصرے میں بھی کیا۔ بہرحال بہت شکریہ۔ احسن بھائی جان نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے۔ جزاکم اللہ تعالیٰ خیراً۔ دوسرے ایڈیشن میں ان شاء اللہ ماخذ کا ذکر کر دیا جائے گا۔
نمبر کے بعض حصے پر جاندار تبصرہ فرمانے کا بھرپور شکریہ!
سرفراز حسن خان حمزہ
متعلم دار العلوم مدنیہ، بہاولپور
(۵)
مکرم جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب زیدت معالیکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
راقم الحروف نے ایک نجی نوعیت کا عریضہ آنجناب کی خدمت عالیہ میں ارسال کیا تھا جو ماہنامہ الشریعہ دسمبر کے شمارے میں شائع کر دیا گیا۔ اس کے رد عمل کے طور پر جنوری ۲۰۱۰ء کے شمارے میں حافظ عبد الجبار سلفی صاحب نے تبصرہ فرمایا ہے اور دار العلوم مدنیہ بہاول پور کے ایک طالب علم نے مفصل مکتوب لکھا ہے۔
حسین احمد صاحب متعلم دار العلوم مدنیہ کی خدمت میں عرض ہے کہ الشریعہ جنوری ۲۰۱۰ء ہی کے شمارے میں سید مشتاق علی شاہ صاحب کے مضمون پر جو حاشیہ صفحہ ۲۰ پر آنجناب کے قلم سے ہے، وہی ان کے لیے کافی ہے۔ مشہور مقولہ ہے کہ ’’صاحب البیت ادریٰ بما فیہ‘‘، یعنی گھر والا بہتر جانتا ہے جو گھر میں ہے۔ یقیناًآنجناب حضرت شیخ الحدیث صاحبؒ اور حضرت صوفی عبد الحمید صاحبؒ کے علوم ومعارف کے حقیقی وارث اور شارح ہیں۔ حسین احمد مدنی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ آنجناب کے مذکورہ حاشیہ کو کھلے دل سے دو تین بار مطالعہ فرمائیں، ان شاء اللہ سکون قلب میسر ہوگا۔ * مزید تسلی کے لیے دار العلوم دیوبند کے پہلے مفتی صاحب کا فتویٰ پیش خدمت ہے:
’’محققین حنفیہ شیعہ تبرا گو اور منکر خلفاء ثلاثہ کو کافر نہیں کہتے۔ اگرچہ بعض فقہاء نے ان کی تکفیر کی ہے، مگر صحیح قول محققین کا ہے کہ سب شیخین اور انکار خلافت خلفاء کفر نہیں ہے، فسق وبدعت ہے۔‘‘ (فتاویٰ دار العلوم دیوبند (عزیز الفتاویٰ) کتاب المیراث جلد۷ و ۸، ص ۳۵۰، مطبوعہ کتب خانہ امدادیہ دیوبند)
حافظ عبد الجبار سلفی صاحب نے اپنے تبصرہ میں میری اس عبارت پر کہ ’’تحریف قرآن کی لچر اور بے ہودہ روایات تو بعض کتب اہل سنت میں بھی موجود ہیں‘‘ یہ خامہ فرسائی کی ہے کہ یہ عبارت بذات خود لچر اور بے ہودہ ہے۔ راقم نے لچر اور بے ہودہ کے الفاظ قرآن حکیم کے مخالف پر استعمال کیے ہیں، جیسا کہ مشہور ناصبی اور منکر حدیث تمنا عمادی نے ’’جمع القرآن‘‘ نامی کتاب میں ایسی بہت سی روایات اکٹھی کی ہیں اور مسلمانوں کا قرآن پر ایمان متزلزل کرنے کی سعی نامشکور کی ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہے کہ اسلامی مدارس کے علماء وفضلا بھی مہذب اور شستہ زبان کے استعمال سے قاصر ہیں۔
حافظ عبد الجبار سلفی صاحب شاید نسخ اور اختلاف قراء ت کی اصل حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہے۔ مکتب دیوبند کے سرمایہ افتخار انور شاہ صاحب کشمیری نور اللہ مرقدہ نے بھی فیض الباری ج ۳ ص ۳۹۵ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ بعض علما نے اس عبارت کا جواب دینے کی کوشش کی ہے ، تاہم عقلی ونقلی طور پر وہ صحیح نہیں ہے اور اس جواب سے یہود ونصاریٰ کی براء ت ہوتی ہے جو خود قرآن حکیم کے خلاف ہے۔ نسخ، اختلاف قراء ت اور تحریف میں نمایاں فرق ہے۔ سلفی صاحب کے اضافہ معلومات کے لیے گزارش ہے کہ جماعتی وابستگی سے ہٹ کر درج ذیل کتب کی طرف مراجعت فرمائیں:
(۱) فضائل القرآن، تالیف الامام ابی عبید القاسم بن سلام، المتوفی ۲۴ھ، مطبع دا ر الکتب المصریہ ص ۱۶۱، ۱۹۰، ۱۹۳ و۱۹۵ وغیرہ۔
(۲) کتاب المصاحف للحافظ ابوبکر عبد اللہ بن داؤد السجستانی، المتوفی ۳۱۶ھ، مطبع دار الکتب العلمیہ بیروت، ص ۴۳ و ۱۳۰۔
(۳) ’’الفرقان‘‘ لابن الخطیب، مطبع دار الکتب المصریہ قاہرہ،ص ۴۱، ۴۲، ۴۳، ۴۵ و ۵۰۔
چونکہ الشریعہ کے صفحات ایسی فرقہ وارانہ بحث کی اجازت نہیں دیتے، اس لیے تفصیل سے گریز کیا گیا ہے۔ راقم اثیم کو نہ مفتی ہونے کا دعویٰ ہے نہ عالم ہونے کا۔ حقائق سے رو گردانی اہل اہوا کا شیوہ ہے اور بات بات پر کفر کے فتوے، یہ اسلام کی خدمت نہیں ہے۔ ہر فرقہ دوسرے کو کافر کہہ رہا ہے۔ اگر یہ اسلام کی خدمت ہے تو حافظ عبد الجبار سلفی صاحب بتائیں کہ اسلام کہاں ہے اور مسلمان کہاں ہیں؟
تمام اسلامی فرقے جن کی وضاحت امام ابو الحسن اشعریؒ ، عبد القاہر بغدادیؒ اور شہرستانیؒ جیسے علما وفضلا کر چکے ہیں، قرآن مجید کی حقانیت پر کامل ایمان رکھتے ہیں، جیسا کہ ’’اظہار الحق‘‘ کے عالی قدر مصنف مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے بھی تحریر فرمایا ہے۔ دار العلوم کراچی سے شائع ہونے والے اس کتاب کے ترجمہ ’’بائبل سے قرآن تک‘‘ میں، جو مولانا تقی عثمانی صاحب جیسے نابغہ روزگار عالم کے محققانہ قلم سے نکلنے والے علمی مقدمہ سے مزین ہے، یہ عبارت موجود ہے، تاہم اب سعودیہ سے شائع ہونے والے نئے عربی ایڈیشن میں ناشرین نے علمی خیانت کا ارتکاب کرتے ہوئے یہ عبارت حذف کر دی ہے جو نہایت افسوس ناک امر ہے۔ شیعہ حضرات کی عقائد کی کتابیں ’’اعتقادات شیخ صدوق‘‘، ’’اوائل المقالات للشیخ مفید‘‘، ’’تصحیح الاعتقاد للشیخ مفید‘‘، ’’اعتقادات شیخ بہائی‘‘، ’’عقائد الامامیہ للشیخ محمد رضا مظفر‘‘ قرآن مجید کے غیر محرف ہونے پر شاہد ہیں۔
آخر میں سلفی صاحب کی خدمت میں گزارش ہے کہ جو فنی سہولتیں اپنے لیے پسند فرماتے ہیں، وہ دیگر تمام فرقوں کے لیے بھی پسند فرمائیں تو ان شاء اللہ اختلاف کی گنجائش ختم ہوگی۔ اللہ تعالیٰ قدیم وجدید تمام فتنوں سے حفاظت فرمائے اور اسلاف کے دامن سے وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔
راقم ناکارہ گزشتہ ایک ماہ سے ریڑھ کی ہڈی میں شدید تکلیف کے باعث چارپائی پر ہے اور لیٹے لیٹے یہ عریضہ ارسال کیا ہے۔ بہت سی کتابوں کی طرف مراجعت نہ کر سکا۔ محض یادداشت کی بنا پر چند گزارشات پیش کی ہیں۔ یہ عریضہ بھی بحث برائے بحث نہیں ہے۔ ناقدین حضرات اس بات کو ملحوظ خاطر رکھیں۔
سید مہر حسین بخاری
کامرہ
* اس ضمن میں ماہنامہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے ’’مفسر قرآن نمبر‘‘ (اگست تا اکتوبر ۲۰۰۸ء) کے صفحہ ۴۷۱ پر حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ کے ایک خطبہ جمعہ سے نقل کیا جانے والا حسب ذیل اقتباس بھی قابل ملاحظہ ہے:
’’ایران وعراق گزشتہ دوسال سے آپس میں دست وگریبان ہیں۔ ہزاروں مسلمان ہلاک ہوچکے ہیں، املاک تباہ ہوچکی ہیں مگر ان کے درمیان صلح کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ دونوں ملکوں کی آبادی کلمہ گو مسلمان ہیں۔ شیعہ اور سنی کہلانے والے بھی دونوں ممالک میں موجود ہیں، مگر پستی کا یہ عالم ہے کہ صلح کے متعلق کسی کی بات بھی سننے کے لیے تیار نہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر مسلمان آپس کے حالات کو درست نہیں کریں گے، آپس میں ہی لڑ لڑ کر کمزور ہوجائیں گے تو بیرونی طاقتیں تم پر چھا جائیں گی۔ تمہارا ملک اور دولت بھی چھین لیں گے اور تمہاری عزت و آبرو کو خاک میں ملادیں گے۔ اس وقت تمہاری یہ سودخوری، رشوت خوری اور عیش وعشرت سب ختم ہوجائیں گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، اے ایمان والو! واصلحوا ذات بینکم آپس کے حالات کو درست کرلو، وگرنہ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۳۰ ؍اپریل ۱۹۸۲ء)
(مدیر)
(۶)
محترم جناب محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں نے آج کل سرگودھا یونیورسٹی جوائن کر لی ہے۔’الشریعہ‘ باقاعدگی کے ساتھ گھر کے پتہ پر موصول ہو رہا ہے۔آپ کی علمی کاوشیں انتہائی قابل قدر اور لائق ستائش ہیں۔ ہمارے شعبہ اسلامیات میں چند ماہ بعد پی ایچ ڈی پروگرام شروع ہونے والا ہے۔ آپ کی محققانہ کاوش ’’حدود تعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ پی ایچ ڈی پروگرام کے کورس ورک کے تیسرے پیپر Shariah Law کی مجوزہ کتب میں شامل کی گئی ہے۔ ع
اللہ کرے زورقلم اور زیادہ
’الشریعہ‘ جنوری ۲۰۱۰ میں مجلہ ’المصطفیٰ‘ کے امام اہل سنت نمبرپر آپ کے تبصرہ کے حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ آپ نے بریلوی دیوبندی اختلاف کے ضمن میں مذکورہ مجلہ میں جناب مولانا مفتی رفیع عثمانی صاحب کے پیش کردہ تصور پرتحفظات ظاہر کیے ہیں۔ راقم دو جملوں کے حوالے سے، جو آپ نے انڈر لائن کیے ہیں، آپ کی توجہ کا طالب ہے۔پہلا جملہ ہے: ’’(بریلوی اور دیوبندی مکاتب فکر میں) حقیقت میں ایساکوئی اختلاف عقائد کے باب میں نہیں ہے جس کی بنا پر ایک دوسرے کو گمراہ یا فاسق قرار دیا جائے۔‘‘ اور دوسرا جملہ ہے: ’’(مفتی صاحب نے دیوبندی بریلوی ہم آہنگی کے حوالے سے مولانا سرفراز خاں صفدر مرحوم کے حضور اپنا مدعا بیان کیا تو انہوں نے) اس پر مسرت کا اظہار کیااور اس کی تائید فرمائی۔‘‘
آپ کا کہنا ہے کہ ’’بریلوی دیوبندی اختلاف سے متعلق مفتی صاحب کا یہ تجزیہ حضرت شیخ الحدیث کے منہج فکر سے کتنا ہم آہنگ ہے، یہ نکتہ زیادہ محتاج وضاحت نہیں، لیکن کسی وضاحتی یا اختلافی نوٹ کے بغیر اس کی شمولیت نہ اس اشاعت کے مرتبین کو کھٹکی ہے اور نہ موصولہ موادپر نظر ثانی کر کے اس کی منظوری دینے والے بزرگوں کو۔‘‘
میری گزارش یہ ہے کہ آپ جس نکتے کو زیادہ محتاج وضاحت نہیں سمجھ رہے، وہ بہت سے لوگوں کے نزدیک سخت محتاج وضاحت ہے۔ آپ براہ کرم یہ وضاحت ضرور شائع فرمائیں کہ مفتی رفیع عثمانی صاحب کا یہ خیال کہ’’ عقائد کے باب میں دونوں مکاتب فکر (بریلوی دیوبندی) کا اختلاف بڑی حد تک صرف تعبیر اور الفاظ کا اختلاف ہے،‘‘ آپ کے نزدیک کیوں محل نظر ہے۔ فرض کریں دونوں مکاتب فکر کا یہ اختلاف بڑی حد تک الفاظ کا اختلاف نہ بھی ہوتو بھی مفتی صاحب کا یہ جذبہ بے حد قابل تحسین ہے کہ دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر میں بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹنا چاہیے اور ایک دوسرے کو گمراہ و فاسق قرار دینے سے احتراز کا رویہ اپنانے کی راہ ہموار کرنا چاہیے۔ ورنہ اگر بدقت نظر دیکھیں تو مفتی صاحب سے سو فیصد اتفاق کرنا پڑے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بریلوی دیوبندی اختلافات کی بنیادوں میں بالعموم ہر دو طرف سے ضد، تعصبات اور حسد کے جذبات کارفرما نظر آتے ہیں۔ دونوں مکاتب فکر کے بڑے بڑے ناموں کے بے حد احترام کے باوصف میں یہ کہنے کی جسارت کروں گاکہ یہ نور بشر، علم غیب اور حاضر ناظر وغیرہ پر نفیاً یا اثباتاً تالیفات عام طور پر سطحی محرکات کی پیداوار ہیں۔ یہ بات کتنی حیرت انگیز ہے کہ شارع ؐنے تو واضح طور پر بتا دیا کہ ان ان کا عقائدکا حامل مسلمان ہے اور یہ وہ عقائد ہیں جن کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق ہر مسلمان کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر وہ مسلمان نہیں، مگر ہمارے کرم فرما ہیں کہ ان کے بیان کردہ عقائد کو شاید ہی کوئی سادہ مسلمان سمجھ سکتا ہو۔شارع ؐکے ہدایت فرمودہ عقائد تو ایک سطر میں بیان ہو سکتے ہیں مگر ہمارے مہربانوں نے دفتروں کے دفتر سیاہ کر دیے ہیں لیکن عقائد کا بیان ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ مان لیتے ہیں کہ عقائد کی بہت ساری تفصیلات ہوتی ہیں جن کی تعبیر وتشریح اہل علم کو کرنا ہوتی ہے۔ تو جی بسم اللہ کرتے رہیے، لیکن اپنی اپنی ان موضوعی تعبیرات وتفصیلات کو خدارا عوام الناس پر تو یوں نہ تھوپیے کہ وہ شارع ؐ کے تعلیم فرمودہ عقائد کو ماننے کے باوجود اس وقت تک صحیح مسلمان (صحیح کا لفظ میں مروۃًاستعمال کر رہا ہوں، ورنہ زیر نظر اختلافات میں بہت سے مواقع پرتو اس کی گنجائش بھی نہیں چھوڑی جاتی) کہلانے کے مستحق نہ ہوں جب تک آپ کے پیش فرمودہ عقائد کو دل و جان سے نہ مان لیں۔ کاش مذکورہ قسم کے عقائدبرصغیر کے علماء میں بحث اور معرکے کا میدان نہ بنے ہوتے اور ان لایعنی مجادلوں پرکتابیں اور مضامین لکھ لکھ کر وقت اور انرجی کا ضیاع نہ کیا جاتا۔ یوں نہ صرف یہ قوم فتنہ و فساد میں مبتلا ہونے سے بچ جاتی بلکہ اقبال کی تعبیر کے مطابق قابل فخر’’ذہن ہندی‘‘کا مذہبی عنصردیگر واقعی مطلوب علمی معرکے سر کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کر سکتا۔ مگرع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
محترم عمار صاحب! مفتی رفیع عثمانی صاحب کے مذکورہ الفاط راقم آثم کے نزدیک توبریلویوں اور دیوبندیوں کو اپنے اپنے مدارس کے باہر سائن بورڈز پر لکھ کرآویزاں کر لینے چاہییں کہ یہ ان کا بالخصوص موجودہ حالات میں ملک و ملت پر بہت بڑا احسان ہو گا۔
جہاں تک مفتی صاحب کے اس جملے پر آپ کے تحفظات کا تعلق ہے ،جس میں انہوں نے اپنی مذکورہ خواہش پر حضرت شیخ الحدیث کی مسرت و تائید کا ذکر فرمایا ہے تو اس کی وضاحت تو بطور خاص آپ کو لازماً کرنا چاہیے کہ کیا پھرآپ کے جد محترم اس خواہش پر ناراض ہوئے ہوں گے اور اس کی تائید نہیں فرمائی ہو گی؟ (جیسا کہ آپ کے تحفظات سے لگتا ہے کہ ایسا ہی ہوا ہو گا۔) نیز پھرحضرت شیخ الحدیث مرحوم ومغفور کے اس دوسرے رویہ کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر محمد شہباز منج
یونیورسٹی آف سرگودھا
drshahbazuos@hotmail.com
’’مسلمان مثالی اساتذہ ، مثالی طلبہ‘‘
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
مولف: سید محمد سلیمؒ
ناشر : زوار اکیڈیمی پبلیکیشنز،۴۔۱۷ ناظم آباد نمبر ۴ کراچی
اشاعت سوئم:۲۰۰۸۔ صفحات:۱۳۶۔ قیمت: ۱۳۰ روپے
پروفیسر محمدسلیمؒ نامور استاد اور تنظیم اساتذہ پاکستان کے رہنماؤں میں سے تھے۔ موضوع بالا پر ان کا قلم اٹھانا ان کا حق اور منصب ہے۔ کتاب طلبہ اور اساتذہ کے لیے رہنما حیثیت رکھتی ہے۔ مستند مواد کی مدد سے با کمال ترتیب سے پیش کی گئی ہے۔ اس میں ان کا قلم رسا بھی پوری شان کے ساتھ کار فرما ہے۔ یہ مختصر سی کتاب ہے مگر اپنے اندر بے پناہ تاثیر رکھتی ہے۔ کتاب پڑھ کر، گردو پیش پر نظر ڈالی جائے تو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ وہ اساتذہ اور طلبہ جن میں تدریس اور مطالعے کا جنوں اپنی معراج پر تھا، اب کہاں ہیں۔ تنظیم اساتذہ اور جمعیت طلبہ بھی اس طرح کے جنوں کو فروغ دینے کو اپنی ترجیحات میں رکھنے میں سنجیدہ نہیں رہیں۔ وہاں ٹریڈ یونین ازم چھا چکا ہے۔ کتاب اس پہلو سے تدریس و مطالعہ کا جنوں دینے میں پورا اثر رکھتی ہے۔ اس سے مولف کے خلوص کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ اختصار کے باوجود اپنے مقصد کے لحاظ سے بڑی کامیاب کوشش ہے۔ پڑھ کر ہل من مزید کی طلب ہوتی ہے۔
البتہ دو چیزیں کھٹکتی ہیں۔ ایک تو حوالوں کا فقدان ہے۔ اقتباسات کتاب کو کافی معتبر بناتے ہیں مگر حوالہ جات کم ہی درج ہوئے ہیں۔ آخر پر مآخذ کی فہرست کفایت نہیں کر سکتی۔ حوالوں سے یہ بے نیازی سید صاحب کے مقام سے کچھ فرو تر ہے۔ زوار اکیڈیمی کے سید عزیز الرحمن صاحب نے پیش گفتارمیں لکھا ہے کہ کتاب میں اشعار کی اصلاح کے لیے ایک صاحب سے تعاون حاصل کیا گیا۔ ہمارے نزدیک حوالوں کی تکمیل کے لیے بھی کسی کا تعاون حاصل کر لیا جاتا تو کتاب کا معیار اور بھی بہتر ہو جاتا۔
دوسری کھٹکنے والی بات موضوع سے غیر متعلقہ مواد کا جزوِ کتاب ہو جانا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس پہلو سے میری رائے عمومی سطح پر سخت محسوس ہو۔ وجہ یہ ہے کہ پیشے کے لحاظ سے ہمارے ہاں ربط و تعلق کا زیادہ لحاظ رکھا جاتا ہے۔ غیر متعلق مواد کی چھانٹ ہمارے ہاں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ بہر صورت میری اس رائے کی درستی کا اندازہ کرنے کے لیے فہرست مضامین پر ایک نظر ڈالنا پڑے گی۔ اختصار کی حدوں کے اندر رہ کر موضوع سے کافی زیادتی کی گئی ہے۔
مارچ ۲۰۱۰ء
مسلکی اختلافات اور امام اہل سنتؒ کا ذوق و مزاج
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
آج کی نشست میں، میں مسلکی اختلافات ومعاملات کے حوالے سے والد محترم، امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور ان کے دست راست حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمہما اللہ کے ذوق وفکر اور طرز عمل کا ایک سرسری خاکہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں، اس لیے کہ گزشتہ نصف صدی کے دوران پورے برصغیر میں حضرت والدمحترم کو علماء دیوبند کے مسلکی ترجمان کی حیثیت حاصل رہی ہے اور پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے دیوبندی علما انھیں اپنا مسلکی اور علمی راہ نما سمجھتے آ رہے ہیں۔
مسلکی اختلافات اور ان کے حوالے سے طرز فکر اور راہ عمل کے سلسلے میں حضرت والد محترم کے ذوق واسلوب کو تین حصوں میں تقسیم کروں گا:
- موجودہ معروضی حالات میں مسلکی اختلافات کے بارے میں ان کا اصولی موقف کیا تھا؟
- دوسرے مسالک کے حضرات کے ساتھ ان کے معاشرتی تعلقات ومعاملات کی نوعیت کیا تھی؟
- مشترکہ ملی مقاصد کے لیے جدوجہد کے میدان میں دوسرے مسالک کے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں ان کا طریقہ اور ذوق کیا تھا؟
اس وقت کے موجودہ معروضی حالات میں مسلکی تقسیم کو مندرجہ ذیل دائروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
- سنی شیعہ اختلافات،
- دیوبندی بریلوی اختلافات،
- حنفی اہل حدیث اختلافات،
- جماعت اسلامی کے ساتھ اختلافات،
- حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سماع موتی کا تنازعہ۔
سنی شیعہ اختلافات کے حوالے سے حضرت والد محترم کا موقف یہ تھا کہ یہ اصولی اختلافات ہیں اور ان کا تعلق ایمان وعقیدہ سے ہے۔ انھوں نے اس پر ’’ارشاد الشیعہ‘‘ کے نام سے مستقل کتاب لکھی ہے جس میں انھوں نے اس موقف کی تفصیل کے ساتھ وضاحت کی ہے۔ وہ اہل تشیع کی اور ان میں سے خاص طورپر اثنا عشریہ کی تکفیر کرتے تھے اور اس سلسلے میں ان کے موقف میں کوئی لچک نہیں تھی جبکہ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی اصولی طورپر اس موقف سے متفق ہوتے ہوئے بھی اس کے اظہار کے لیے الگ اسلوب رکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ لفظ شیعہ کو تکفیر کی بنیاد بنانے کی بجائے عقائد کی بنیاد پر تکفیر کرنی چاہیے، مثلاً یہ کہ جو شخص قرآن کریم میں تحریف کا قائل ہے یا صحابہ کرام کی تکفیر کرتا ہے وغیر ذالک تو وہ کافر ہے۔ خود میرا ذوق بھی اس حوالے سے حضرت صوفی صاحب والا ہے، اس لیے کہ عالم اسلام میں شیعہ کہلانے والے ایسے گروہ بھی موجود ہیں جن کی ائمہ اہل سنت نے تکفیر نہیں کی۔ مثلاً یمن میں زیدی فرقہ کے لوگوں کی تعداد پچیس فی صد سے زائد ہے۔ ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو زیدی اور شیعہ کہلانے کے باوجود اہل سنت جیسے عقائد رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں پاکستان میں بھی ایسے بزرگ موجود ہیں جو متصلب سنی ہیں لیکن زیدی کہلاتے ہیں۔ حضرت سید نفیس شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے نام کے ساتھ زیدی لکھتے تھے، امام زید کے ساتھ گہری عقیدت رکھتے تھے، امام زید بن علی پر انھوں نے الاستاذ ابو زہرہ کی کتاب ’’الامام زید بن علی‘‘ بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کی تھی۔ اپنے مکان کے قریب انھوں نے جو دینی مدرسہ قائم کیا، اس کا نام ’’مدرسہ زید بن علی‘‘ ہے اور وہ فرمایا کرتے تھے کہ میری پسندیدہ ترین شخصیتیں تین ہیں۔ ایک امام زید بن علی، دوسرے خواجہ گیسو دراز اور تیسرے سید احمد شہیدؒ ۔
ایران کے اہل تشیع زیدیوں کو شیعہ کا فرقہ قرار دیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ایران کے دستور میں زیدیوں کو شیعہ اکثریت کا حصہ تسلیم کرنے کی بجائے حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کے ساتھ اقلیتوں میں شمار کیا گیا ہے۔ اس لیے اثنا عشری شیعہ کی تکفیر میں کوئی کلام نہ ہونے کے باوجود عمومی تکفیر میں عالم اسلام کے مجموعی تناظر کو ملحوظ رکھنا بھی میرے نزدیک ضروری ہے، البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت والد محترمؒ کا موقف اس بارے میں بے لچک تھا اور جن تحفظات کا ہم اظہار کرتے ہیں، وہ ان کو چنداں اہمیت نہیں دیتے تھے۔
دیوبندی بریلوی اختلافات کے حوالے سے بھی ان کا موقف یہ تھا کہ یہ عقائد کے اختلافات ہیں اور اصولی اختلافات ہیں۔ انھوں نے ان اختلافات کے ہر پہلو پر کتابیں لکھی ہیں اور تفصیل کے ساتھ لکھی ہیں۔ ان اختلافات کی تنقیح وتوضیح میں وہ جس گہرائی تک گئے ہیں، وہ انھی کا امتیاز ہے اور یہی انھیں دیوبندیوں کا علمی ترجمان قرار دیے جانے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
دیوبندی بریلوی اختلافات کو کم کرنے اور باہمی مفاہمت کا ماحول پیدا کرنے کے لیے مختلف مواقع پر کوششیں ہوئی ہیں اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ ،حضرت مولانا سید حامدمیاںؒ اور حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ جیسی شخصیات بھی ان مساعی کا حصہ رہی ہیں۔ عام طور پر اس سلسلے میں جب بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اصل تنازعہ اکابر علماء دیوبند کی چند مبینہ طو رپر متنازعہ عبارات ہیں جن پرمولانا احمد رضا خان اور ان کے رفقا نے علماء دیوبند کی تکفیر کی ہے۔ اگر ان عبارات کو حذف کر دیا جائے یا ان سے براء ت کا اظہار کر دیا جا ئے یا ان کی فریقین کے اتفاق سے کوئی متفقہ تاویل وتعبیر کر دی جائے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ لیکن حضرت والد محترم کا موقف اس سے مختلف تھا۔ وہ یہ فرماتے تھے کہ:
- تنازعہ صرف چند عبارات کا نہیں بلکہ عقائد اور ان کی تعبیرات کا بھی ہے، اس لیے عبارات کے ساتھ ساتھ متنازعہ عقائد اور ان کی تعبیرات پر بھی بات ہونی چاہیے۔
- عبارات میں صرف یک طرفہ طور پر علماء دیوبند کی عبارات مابہ النزاع نہیں ہیں، بلکہ اسی نوعیت کی بریلوی علماء کی بعض عبارات پر بھی اختلاف ہے، اس لیے عبارات کے حوالے سے گفتگو دو طرفہ بنیاد پر ہونی چاہیے۔
اس سلسلے میں مولانا عبد الستار خان نیازی نے ایک بار دیوبندی بریلوی اتحاد کے لیے چار نکاتی فارمولا پیش کیا تھا جس پر میں نے حضرت والد محترم سے بات کی۔ انھوں نے فرمایا کہ اس بارے میں خود ان کی مولانا عبد الستار خان نیازی کے ساتھ حرم مکہ میں گفتگو ہوئی تھی اور انھوں نے نیازی صاحب سے کہا تھا کہ معاملہ صرف ایک طرف کی عبارات کا نہیں، بلکہ دوسری طرف کی عبارات بھی مابہ النزاع ہیں، اس لیے اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ علماء دیوبند کی متنازعہ عبارات کی نشان دہی کریں اور ہم بریلوی علماء کی متنازعہ عبارات کی نشان دہی کرتے ہیں اور ان پر آپس میں بیٹھ کر خالص علمی ماحول میں گفتگو کر لیتے ہیں اور درمیان میں ہائی کورٹ کے جج صاحبان کاایک پینل بٹھا لیتے ہیں۔ ہم جن عبارات پر اس پینل کی موجودگی مں آپ حضرات کومطمئن نہ کر سکے، ان پر ہم نظر ثانی کر لیں گے اور جن عبارات پر آپ حضرات ہمیں مطمئن نہ کر سکے، ان سے آپ کو براء ت کرنا ہوگی۔ اس پر مولانا نیازی نے وطن واپس پہنچ کر اپنے ساتھیوں سے مشورہ کے بعد جواب دینے کا وعدہ کیا لیکن اس کی تکمیل کی نوبت نہ آ سکی۔
یہ بات جو حضرت والد محترم نے مجھے زبانی طور پر فرمائی تھی، بعد میں میرے نام ایک خط میں بھی انھوں نے لکھ دی جو ان کی یاد میں شائع ہونے والی ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کی خصوصی اشاعت میں شائع ہو چکا ہے۔
حنفی اہل حدیث اختلافات بھی حضرت والد محترم کی تدریس وتصنیف کا مستقل موضوع رہے ہیں اور وہ نہ صرف ترمذی شریف کی تدریس میں ان مباحث پر باحوالہ تحقیقی گفتگو کرتے تھے بلکہ ان میں سے بہت سے مسائل پر انھوں نے مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں،لیکن یہ تنازعہ ان کے نزدیک دیوبندی بریلوی تنازعہ کی طرح اصولی نہیں تھا بلکہ وہ ان مسائل کو فروعی مسائل کا درجہ دیتے تھے۔ حضرت والد محترمؒ کے شاگرد مولانا حافظ محمد یوسف (الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ) نے اپنے ایک مضمون میں جو ’’امام اہل سنت کی قرآنی خدمات اور تفسیری ذوق‘‘ کے عنوان سے الشریعہ کی خصوصی اشاعت میں شائع ہوا ہے، جامعہ نصرۃ العلوم میں سالانہ دورۂ تفسیر کے آغاز کے موقع پر حضرت امام اہل سنت کے خطاب کا ایک پورا اقتباس یوں درج کیا ہے کہ:
’’قرآن کریم کی تفسیر میں ہم ان مسائل کو نہیں چھیڑیں گے جو فروعی مسائل کہلاتے ہیں، کیونکہ اتنا وقت نہیں ہوتا۔ اگر ہم یہ بحث شروع کر دیں کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنی ہے یا نہیں پڑھنی، آمین جہر کے ساتھ ہے یا سر کے ساتھ تو مہینہ اسی میں گزر جائے گا۔‘‘
یعنی اہل حدیث حضرات کے اعتراضات کے جواب میں وہ حنفی موقف کی مدلل وضاحت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے تھے، لیکن ان اختلافات کا درجہ ان کے نزدیک عقیدہ اور اصول کے اختلاف کا نہیں تھا اور وہ اسی درجے میں ان مسائل پر بات کرتے تھے۔
جماعت اسلامی کے ساتھ اختلافات میں وہ جمہور کے ساتھ تھے اور ہر ضروری موقع پر جمہور اہل سنت کے موقف کی ترجمانی اور وضاحت کرتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک اہم واقعہ بھی ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں۔
یہ اس دور کی بات ہے جب جمعیۃ علماء اسلام درخواستی گروپ اور فضل الرحمن گروپ کے نام سے دو دھڑوں میں تقسیم تھی۔ ایک دھڑے کے امیر حضرت درخواستی اور دوسرے کے امیر حضرت مولانا سید حامدمیاں تھے۔ لاہور میں حضرت درخواستی کے نائب امیر کے طور پر حضرت مولانا محمد اجمل خان جماعتی قیادت کی ذمہ داریاں سرانجام دیتے تھے، جبکہ قاضی حسین احمد صاحب جماعت اسلامی کے قیم (سیکرٹری جنرل) ہوا کرتے تھے۔ قاضی صاحب محترم نے حضرت مولانا سید حامد میاں اور حضرت مولانا محمد اجمل خان سے رابطہ قائم کر کے یہ پیش کش کی کہ مولانا مودودی کی جن عبارات پر علماء اہل سنت کو اعتراض ہے، ان کے بارے میں ہم جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ میں قرارداد منظور کر دیتے ہیں کہ یہ مولانا مودودی کی ذاتی آرا ہیں، جماعت اسلامی کا بحیثیت جماعت یہ موقف نہیں ہے اور جماعت اسلامی اس حوالے سے وہی موقف رکھتی ہے جو جمہور اہل سنت کا ہے۔ اگر ہم یہ قرارداد کر دیں تو کیا جمعیۃ علماء اسلام ہمارے ساتھ مذہبی اختلاف ختم کرنے کا اعلان کر سکتی ہے؟
دونوں بزرگوں یعنی حضرت مولانا سید حامد میاں اور حضرت مولانا محمد اجمل خان نے باہمی مشورہ سے راقم الحروف کے ذمے لگایا کہ میں اس سلسلے میں تین بزرگوں یعنی حضرت مولانا قاضی مظہر حسین، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ سے بات کر کے ان کا موقف معلوم کروں، اس کی روشنی میں ہم فیصلہ کریں گے۔ میں نے تینوں بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہو کر بات کی۔ تینوں بزرگوں کا جواب مختلف تھا۔ حضرت مولانا قاضی مظہر حسین نے فرمایا کہ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کو اپنی قرارداد میں مولانا مودودی کی عبارات کے ساتھ ساتھ خود مولانا مودودی کے بارے میں بھی اپنے موقف کا اظہار کرنا ہوگا۔ والد محترم نے فرمایا کہ اگر جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ قرارداد منظور کر کے مولانا مودودی کی متنازعہ عبارات سے براء ت کا اعلان کر دیتی ہے تو ہمارے پاس اختلافات کو باقی رکھنے کا کوئی شرعی اور اخلاقی جواز باقی نہیں رہ جائے گا۔ جبکہ حضرت علامہ خالد محمود نے فرمایا کہ خالی قرارداد سے بات نہیں بنے گی، اس لیے کہ اصل تنازعہ جماعت اسلامی کے دستور کی اس دفعہ سے شروع ہوا تھا جس میں جماعت اسلامی کا رکن بننے کے لیے پر کیے جانے والے حلف نامے میں موجود یہ اقرار نامہ تھا کہ وہ ’’رسول خدا کے سوا کسی کو معیار حق نہیں سمجھے گا، کسی کو تنقید سے بالاتر نہیں سمجھے گا اور کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہیں ہوگا۔‘‘
اس اقرار نامے پر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نے اعتراض کیا تھا کہ اس میں صحابہ کرا م کے معیار حق ہونے اور ان کے تنقید سے بالاتر ہونے کی نفی کی گئی ہے اور ذہنی غلامی کے نام سے تقلید کو رد کیا گیا ہے جبکہ صحابہ کرام کا معیار حق اور تنقید سے بالاتر ہونا اہل سنت کے مسلمات میں سے ہے۔ علامہ خالد محمود صاحب کا ارشاد یہ تھا کہ جب تک دستور میں یہ شق موجود ہے، جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کی قرارداد کے باوجود اصل تنازعہ باقی رہے گا، اس لیے اگر جماعت اسلامی دینی حلقوں کے ساتھ مصالحت چاہتی ہے تو قرارداد کے ساتھ دستور کی اس شق میں بھی ترمیم کرے، ورنہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
میں نے یہ رپورٹ جمعیۃ علماء اسلام کے دونوں بزرگوں کو پیش کی تو انھوں نے حضرت علامہ خالد محمود صاحب کی رائے سے اتفاق کیا اور میری ہی ڈیوٹی لگائی کہ میں قاضی حسین احمد صاحب کو یہ بات پہنچا دوں۔ قاضی صاحب محترم نے یہ بات سن کر فرمایا کہ میں مجلس شوریٰ میں قرارداد تو کروا سکتا ہوں، مگر دستور میں ترمیم کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ اس پر یہ گفتگو اس وقت آگے نہ بڑھ سکی۔ بعدمیں اس گفتگو کے اور مراحل بھی آئے جن کا ذکر کسی اور مضمون میں تفصیل سے کروں گا، لیکن تازہ صورت حال یہ ہے کہ میری معلومات کے مطابق جماعت اسلامی کی موجودہ مجلس شوریٰ نے اس دستوری دفعہ میں ترمیم کا اصولی طور پر فیصلہ کر لیا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ خدا کرے کہ کوئی بہتر صورت نکل آئے۔ آمین یا رب العالمین۔
جہاں تک سماع موتی، حیات النبی اور ان کے ساتھ چند دیگر مسائل کا تعلق ہے تو والد محترم نے ان مسائل پر بھی تفصیلی گفتگو کی ہے بلکہ جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے جماعتی موقف کا تعین حضرت والد محترم کے ذمے لگایا تھا جس پر انھوں نے ’’تسکین الصدور‘‘ نامی کتاب لکھی اور اکابر جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود، حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری اور حضرت مولانا شمس الحق افغانی نے اسے حرف بہ حرف سن کر اس کی تصدیق کی اور اسے جمعیۃ اسلام کا جماعتی موقف قرار دیا۔ حضرت والد محترم کا موقف یہ تھا کہ عام اموات کے سماع میں امت کے اہل علم میں شروع سے اختلاف چلا آ رہا ہے اور دونوں طرف دلائل موجود ہیں، اس لیے جس کا جس موقف پر اطمینان ہو، وہ وہی موقف رکھے لیکن اسے دوسرے موقف والوں کی تکفیر، تضلیل اور تحقیر کا حق نہیں ہے۔ البتہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عند القبر سماع اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی قبر میں حیات پر اہل السنۃ والجماعۃ کا شروع سے اتفاق چلا آ رہا ہے، اس لیے اس کا انکار اہل السنۃ کے اجماعی موقف سے انحراف ہے۔
یہ میں نے ایک ہلکا سا خاکہ موجودہ معروضی صورت حال میں فرقہ وارانہ اختلافات کے حوالے سے حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے موقف کے بارے میں پیش کیا ہے اور کم وبیش یہی موقف ان مسائل کے بارے میں حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کا بھی تھا۔ لیکن مختلف سطح پر ان اختلافات کے باوجود دوسرے مکاتب فکر کے اہل علم کے ساتھ ان کے معاشرتی تعلقات کی صورت حال یہ تھی کہ شیعہ اور بریلوی حضرات کے ساتھ کسی اشد مجبوری کے سوا ان کا رابطہ وتعلق نہیں ہوتا تھا، جبکہ اہل حدیث حضرات کے ساتھ ان کے روابط رہتے تھے۔ حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کے جنازے میں یہ دونوں بزرگ شریک ہوئے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ حضرت مولانا حافظ محمد گوندلویؒ کی وفات کا حضرت والد محترم کو دوسرے دن بتایا گیا تو انھوں نے ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ مجھے کل کیوں نہیں بتایا گیا؟ میں ان کے جنازے میں شریک ہونا چاہتا تھا۔ حضرت مولانا قاضی شمس الدینؒ کے جنازے میں بھی دونوں بزرگوں نے شرکت کی ہے بلکہ حضرت قاضی صاحب کی وفات سے چند دن قبل حضرت والد محترم ان کی عیادت کے لیے گئے تو میں اور عزیزم عمار ناصر بھی ہمراہ تھے۔ میں نے اس موقع پر قاضی صاحب سے عرض کیا کہ ’’حضرت! تین پشتیں حاضر ہیں‘‘ تو حضرت قاضی صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ صاحب مدظلہ حضرت والد محترم کی عیادت کے لیے متعدد بار گکھڑ گئے ہیں اور علالت کے باوجود جنازے کے لیے بھی گکھڑ پہنچے ہیں۔ حضرت والد محترم بھی ایک موقع پر قلعہ دیدار سنگھ کے ایک سفر میں قاضی صاحب محترم سے ملاقات کے لیے ان کے گھر گئے ہیں۔ حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ صاحب کی والدہ محترمہ کا جنازہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے پڑھایا ہے اور میرا تو معمول ہے کہ جب بھی قلعہ دیدار سنگھ کسی حوالے سے حاضری ہوتی ہے تو حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی بیمار پرسی کرتا ہوں اور ان سے دعا کی درخواست کرتا ہوں۔ میں اپنے دوستوں سے اکثر یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ حضرت والد محترم کی وفات کے بعد ہمارے ارد گرد دو ہی بزرگ رہ گئے ہیں جن کی خدمت میں دعا اور استفادہ کے لیے حاضری کو جی چاہتا ہے۔ ایک ڈسکہ کے حضرت مولانا محمد فیروز خان ثاقب فاضل دیوبند اور دوسرے قلعہ دیدار سنگھ کے حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ صاحب۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں کو صحت وعافیت سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
حیات النبی کے مسئلے کے سلسلے میں ایک بات اور بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ چند سال قبل علاقہ چھچھ کے علماء کرام نے حضرو کے حضرت مولانا عبد السلام صاحب مدظلہ کی راہ نمائی میں اس تنازعہ کے حل کے لیے کوشش کی اور اس کے لیے یہ راستہ اختیار کیا کہ ایک موقع پر حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ نے پاکستان تشریف لا کر راول پنڈی میں دونوں طرف کے بزرگوں کو جمع کر کے ایک متفقہ تحریر لکھوائی تھی جس پر دونوں طرف کے ذمہ دار حضرات نے دستخط کر دیے تھے، لیکن بعد میں یہ اتفاق قائم نہ رہ سکا۔ مولانا عبد السلام صاحب اور ان کے رفقا نے اس تحریر پر دوبارہ دستخط کرانے کی مہم شروع کی۔ اس پر شیخ الحدیث حضرت مولانا قاری سعید الرحمن نے میری رائے دریافت کی کہ کیا اس تحریر پر دستخط سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ میں نے عرض کیا کہ ذاتی طور پر تو میرے نزدیک مسئلہ حل ہو جانا چاہیے، لیکن حضرت والد محترم سے بات کرنے کے بعد ہی حتمی طورپر کچھ عرض کر سکوں گا۔ چنانچہ میں نے اس پر حضرت والدمحترم سے بات کی تو انھوں نے کھلے دل سے فرمایا کہ جو حضرات، حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی والی تحریر پر دستخط کر دیں گے، ان سے ہمارا کوئی اختلاف باقی نہیں رہے گا۔ میں نے یہ بات مولانا قاری سعید الرحمن کو بتائی تو وہ بہت خوش ہوئے اور اس کے بعد مولانا عبد السلام کی قیادت میں علاقہ چھچھ کے بہت سے علماء کرام نے اس تحریر پر دستخط کر کے اس کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔
آخر میں حضرت والد محترم اور حضرت صوفی صاحب کے حوالے سے یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تمام تر اختلافات کے باوجود مشترکہ دینی مقاصد کے لیے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کی مشترکہ جماعتوں اور متحدہ محاذوں میں ہمارے یہ دونوں بزرگ شریک رہے ہیں اور ان میں عملی کردار ادا کیا ہے۔ حضرت والد محترم نے اپنی خود نوشت سوانح میں جو ’الشریعہ‘ کی خصوصی اشاعت میں چھپ چکی ہے، خود لکھا ہے کہ وہ قیام پاکستان سے پہلے دس سال تک مجلس احرار اسلام کے کارکن رہے ہیں اور یہ دور وہ تھا جب مجلس احرار اسلام کی مرکزی قیادت میں حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی اور امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے ساتھ ساتھ مولانا سید محمد داؤد غزنوی، صاحب زادہ سید فیض الحسن آف آلو مہار شریف اور مولانا مظہر علی اظہر بھی شامل تھے اور اس مشترکہ قیادت کے تحت حضرت والد محترم دس سال تک ایک کارکن کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد ۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں حضرت والد محترمؒ اور حضرت صوفی صاحبؒ دونوں نے حصہ لیا ہے، دونوں جیل میں گئے ہیں اور کئی ماہ تک جیل میں رہے ہیں۔ اس تحریک کی قیادت میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے ساتھ مولانا سید ابو الحسنات قادری، مولانا سید محمد داؤد غزنوی اور حافظ کفایت حسین مجتہد شامل تھے۔
جمعیۃ علماء اسلام کے ضلعی امیر کی حیثیت سے حضرت والد محترم مسلسل پچیس برس تک خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اس دوران جمعیۃ علماء اسلام نے متعدد بار متحدہ محاذوں میں شرکت کی ہے اور ہر متحدہ محاذ میں والد محترمؒ نے بھی کردار ادا کیا ہے، حتیٰ کہ جمعیۃ علماء اسلام میں جب حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی اور حضرت مولانا مفتی محمود کے درمیان اختلاف ہوا تو حضرت مولانا ہزاروی کا موقف یہ تھا کہ مفتی صاحب نے مودودیوں سے اتحاد کر لیا ہے اور وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں مسٹر ذو الفقار بھٹو کے مقابلے میں مولانا شاہ احمد نورانی کو امیدوار بنا کر مسلکی حمیت سے انحراف کیا ہے۔ حضرت مولانا ہزاروی ہمارے ان دونوں بزرگوں کے استاذ تھے اور ایک استاذ کی حیثیت سے وہ ان کا بہت احترام کرتے تھے، لیکن جب مولانا ہزارویؒ ان دونوں شاگردوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے گوجرانوالہ آئے تو دونوں بزرگوں نے عرض کیا کہ آپ ہمارے مخدوم اور بزرگ ہیں، لیکن ہم مولانا مفتی محمود کے موقف کو صحیح سمجھتے ہیں، اس لیے اس اختلاف میں ان کے ساتھ ہیں۔
حضرت والد محترم اور حضرت صوفی صاحب نے ۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی میں کئی جلوسوں کی قیادت کی اور حضرت والد محترم ایک ماہ تک جیل میں بھی رہے، حتیٰ کہ ایف ایس ایف کے کمانڈر کی طرف سے گولی مار دینے کی دھمکی کے باوجود کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے ریڈ لائن کراس کرنے کا واقعہ بھی اسی تحریک کا ہے۔
۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت اور ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت بھی مشترکہ قیادت کے تحت چلائی گئی تھی اور ان قیادتوں میں حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری، حضرت مولانا خواجہ خان محمد مدظلہ اور حضرت مولانا مفتی محمود کے ساتھ ساتھ مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبد الستار خان نیازی، مولانا معین الدین لکھوی، علامہ احسان الٰہی ظہیر، قاضی حسین احمد، پروفیسر غفور احمد، سید مظفر علی شمسی اور علامہ علی غضنفر کراروی بھی شامل تھے۔ ہمارے ان دونوں بزرگوں یعنی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی نے ان تحریکات میں سرگرم کردار ادا کیا اور متعدد جلوسوں کی قیادت کی، بلکہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر جمعیۃ علماء اسلام کے ضلعی امیر کی حیثیت سے ان متحدہ محاذوں کا باقاعدہ حصہ رہے اور ان کی حیات کے آخری دور میں تمام مکاتب فکر کے مشترکہ پلیٹ فارم ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کی بھی حضرت والد محترم نے حمایت کی اور اس کے امیدواروں کو کھلم کھلا سپورٹ کیا۔ اس لیے مسلکی اختلافات اور فرقہ وارانہ ترجیحات میں واضح اور دوٹوک موقف اور رویہ رکھنے کے باوجود ملک میں نفاذ شریعت اور ختم نبوت کی تحریکات میں یہ دونوں بزرگ متحدہ محاذوں اور مشترکہ پلیٹ فارم کا آخر دم تک حصہ رہے ہیں۔
آخر میں ان دونوں بزرگوں کے حوالے سے اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ مسلکی اختلافات کے اظہار میں ان دونوں بزرگوں نے ہمیشہ تصنیف اور تدریس کو ہی ذریعہ بنایا ہے اور ان دو دائروں سے ہٹ کر عام جلسوں، جمعۃ المبارک کے خطبات اور مسجد میں دیے جانے والے عام دروس میں مسلکی اختلافات پر، خواہ وہ دیوبندی بریلوی ہوں، حنفی اہل حدیث ہوں یا حیات النبی کا مسئلہ ہو، گفتگو سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ جہاں ضروری ہوا ہے، وہاں مسئلہ کی وضاحت ضرور کی ہے اور اس کے دلائل بھی پیش کیے ہیں، لیکن کسی اختلافی مسئلے کو موضوع بنا کر خطبہ جمعہ، پبلک اجتماع کی تقریر یا عمومی درس میں بات نہیں کی۔ اگر کوئی دوست ان بزرگوں کے طرز عمل کا جائزہ لینا چاہیں تو دونوں بزرگوں کے خطبات جمعہ اور عمومی دروس کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان خطبات اور دروس کے مرکزی اور ذیلی عنوانات کی فہرست پر نظر ڈال لیں۔ اختلافی مسائل کا تناسب شاید کھینچ تان کر بمشکل پانچ فی صد تک پہنچ جاتا ہو، ورنہ ان کے خطبات جمعہ اور عمومی درس کے موضوعات اصلاحی مضامین اور مثبت انداز میں عقائد واعمال کی اصلاح کے حوالے سے ہوتے تھے۔
اس سلسلے میں یہ واقعہ ایک سابقہ مضمون میں ذکر کر چکا ہوں کہ ایک مجلس میں گکھڑ کے ایک جدید تعلیم یافتہ دوست نے حضرت والد محترم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ فرقہ وارانہ اختلافات میں نہیں پڑتے تھے اور مثبت انداز میں لوگوں کی دینی راہ نمائی کرتے تھے۔ ان صاحب کے چلے جانے کے بعد حضرت کے ایک شاگرد نے مجھ سے سوال کیا کہ یہ صاحب کیا کہہ رہے تھے؟ اگر حضرت امام اہل سنت فرقہ وارانہ اختلافات میں نہیں پڑتے تھے تو اور کون پڑتا تھا؟ ان کی ساری تصانیف فرقہ وارانہ اختلافات کے حوالے سے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ بھی ٹھیک کہہ رہے ہیں اور یہ صاحب بھی درست فرما رہے تھے، اس لیے کہ آپ نے حضرت کی کتابیں پڑھی ہیں اور ان سے حدیث کے اسباق پڑھے ہیں جن میں مسلکی اختلافات کی پورے دلائل کے ساتھ وضاحت کی گئی ہے اور یہ صاحب حضرت کامسجد کا عمومی درس اور جمعۃ المبارک کے خطابات سنتے رہے ہیں جن میں عام طور پر ایسے مسائل پر بحث نہیں ہوتی تھی۔ بس یہی توازن ہے جس کا حضرات شیخین کریمین کے حوالے سے لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
علوم اسلامی کی تجدید اور شاہ ولی اللہؒ
محمد سلیمان اسدی
اسلام خالق کائنات کی طرف سے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے آیا ہے۔ کائنات اور زمانہ ترقی پذیر ہے۔ اس کے تقاضے اور ضروریات ہر آن بدلتے رہتے ہیں۔ نئے نئے تقاضے اور پہلو سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس لیے قرآن وسنت میں اتنی گہرائی، وسعت اور ہمہ گیری قدرت نے پنہاں کر دی کہ قیامت تک ہر ہر زمانہ ومکان کی انسانی ضروریات کے لیے کافی ہوں، مگر قرآن وسنت کی گہرائی میں غواصی کر کے وقت کے تقاضوں میں ان سے رہبری حاصل کرنا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر صدی میں ایسے اشخاص رونما ہوتے رہے ہیں جو دین کو ہر طرح کی آمیزش، تحریف اور غلط تاویلات سے نکھار کر اسے اپنی اصل شکل وصورت میں لے آتے ہیں جیسے کسی بیش قیمت ہیرے پر سے گرد وغبار کو صاف کر دیا جائے تو وہ اصل حالت میں چمکنے دمکنے لگتا ہے اور مرور زمانہ کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
ان میں سے بعض شخصیات ایسی جامعیت وعبقریت لیے ہوتی ہیں کہ ان کی فکری اور دماغی قوت وبصیرت اپنے دور سے بہت بعد تک کے حالات کا احاطہ کر لیتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ وقت آ جاتا ہے تو ان کے علوم وافکار اور نتائج اجتہاد نکھر کر سامنے آتے ہیں۔ مثلاً شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے علوم وافکار سے اگرچہ محدود طور پر ہر زمانے میں اہل علم واقف تھے، مگر ان کی وفات کے تقریباً ۶۰۰ سال بعد سعودی عرب میں آل سعود کی حکومت قائم ہوئی جس نے حنبلی فقہ ومسلک کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ امام ابن تیمیہ کے اجتہادات کا وکیل اور ترجمان بن کر اپنے وسیع وسائل سے امام موصوف کی تمام کتب آب وتاب سے شائع کر کے دنیا بھر میں پھیلا دیں۔ اسی طرح امام ولی اللہ دہلویؒ (۲۱؍ فروری ۱۷۰۳-۲۰؍ اگست ۱۷۶۲ھ) کے افکار ونظریات ایک طویل زمانے تک زاویہ خمول میں رہے اور ان سے بس خاص خاص اہل علم ہی واقف تھے۔
امام ولی اللہ دہلوی کے متعلق مولانا شبلی نعمانی علم الکلام پر اپنی مایہ ناز تصنیف میں لکھتے ہیں:
’’ابن تیمیہؒ اور ابن رشد ؒ کے بعد بلکہ خود انھی کے زمانے میں مسلمانوں میں جو عقلی تنزل پیدا ہوا تھا، اس کے لحاظ سے یہ امید نہ رہی تھی کہ پھر کوئی صاحب دل ودماغ پیدا ہوگا، لیکن قدرت کو اپنی نیرنگیوں کا تماشا دکھلانا تھا کہ اخیر زمانے میں جبکہ اسلام کا نفس باز پسیں تھا، شاہ ولی اللہ جیسا شخص پیدا ہوا جس کی نکتہ سنجیوں کے آگے غزالی، رازی اور ابن رشد کے کارنامے ماند پڑ گئے۔‘‘(۱)
آپ کی پہلی کتاب آپ کی وفات سے تقریباً ۱۲۰ سال بعد ۱۸۸۰ء میں محدودتعداد میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد ۱۹۱۱ء میں مصر کے مشہور مطبع بولاق نے ’’حجۃ اللہ البالغہ ‘‘ شائع کی جس سے امام ولی اللہ دہلوی کا چرچا برصغیر سے نکل کر عرب دنیا میں شروع ہوا۔ بیسویں صدی کے آخر تک آپ کی بیشتر کتب برصغیر کے مختلف اداروں سے شائع ہو کر گھر گھر پہنچ چکی تھیں۔ جگہ جگہ آپ کے نام پر ادارے، اکیڈیمیاں اور ریسرچ سنٹر قائم ہوئے۔ آپ کے نام پر ایوارڈز کا سلسلہ شروع ہوا۔ برصغیر اور دنیا بھر کی یونیورسٹیوں نے آپ کے نام پر چیئرز اور تحقیقی شعبے قائم کیے۔ آپ کی فکر اور علوم پر وسیع کام شروع ہوا، حتیٰ کہ امریکہ کی ایک نومسلم اسکالر ڈاکٹر مارسیا کے ہرمینسن (Marcia K. Hermansen) نے آپ کی فکر پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا۔
حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کی حیات طیبہ سے قدر مشترک تین پہلو نمایاں ہوتے نظر آتے ہیں:
(۱) دینی علوم کو اسلام کے بنیادی مآخذ قرآن وحدیث سے منسلک کرنا۔
(۲) نصوص شرعیہ سے استنباط واستخراج کے ذریعے احکام شرعیہ سے آگاہی اور معرفت کی راہ ہموار کرنا اور امت مسلمہ میں اجتہادی فکری بیداری پیدا کر کے اجتماعیت پر کھڑا کرنا۔
(۳) نصوص شرعیہ کے ذریعے فقہی احکام ومسائل میں جمع وتطبیق کی راہ ہموار کی جائے اور حتی الوسع مذاہب مشہورہ میں جمع وتطبیق پیدا کی جائے اور اختلاف کی وجہ سے جمع ممکن نہ ہوتو اس مذہب کو اختیار کیا جائے جو ازروئے حدیث زیادہ قوی اور قریب ہو۔ (۲)
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کی سب سے نمایاں خصوصیت جامعیت وتطبیق ہے۔ شیخ محمد اکرام کے بقول: ’’وہ اختلافی مسائل میں ایسا راستہ ڈھونڈتے ہیں اور اپنی علمی وسعت اور ذہانت کی مدد سے اکثر ایسا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس پر فریقین متفق ہو سکیں۔‘‘ (۳) شاہ صاحب خود اپنا مسلک یوں بیان کرتے ہیں کہ:
’’بقدر امکان جمع می کنم در مذاہب مشہورہ مثلاً : صوم وصلوۃ ووضوء وغسل وحج بوصفی واقع میشود کہ ہمہ اہل مذاہب صحیح دانند وعند تعذرالجمع باقوی مذاہب از روئے دلیل موافقت صریح حدیث عمل می نمایم‘‘۔ (۴)
اس کی مزید توضیح آپ کے درج ذیل قول سے نمایاں ہوتی ہے :
’’اس وقت جو امر حق ملا اعلیٰ کے علوم سے مطابقت رکھتا ہے، وہ یہ ہے کہ (فقہ حنفی وفقہ شافعی) دونوں کو ایک مذہب کی طرح کر دیا جائے۔ دونوں کے مسائل کو حدیث نبوی کے مجموعوں سے مقابلہ کر کے دیکھا جائے۔ جو کچھ ان کے موافق ہو، اس کو رکھا جائے اور جس کی کچھ اصل نہ ہو، اس کو ساقط کر دیا جائے۔ پھر جو چیزیں تنقید کے بعد ثابت نکلیں، اگر وہ دونوں میں متفق علیہ ہوں تو مسئلہ میں دونوں قول تسلیم کیے جائیں۔‘‘ (۵)
جہاں تک کہ اول الذکر مسئلہ کا تعلق ہے توحضرت شاہ صاحب ؒ سے قبل برصغیر پاک وہند میں علماء کرام کا دستور یہ تھا کہ پہلے تو قرآن حکیم کومحض تلاوت کی خاطر پڑھا دیتے اور پھر اگر انہی طلبہ کو قرآن کے مطالب ومعانی کی تعلیم دینا مقصود ہوتا تو جس فن سے خود انہیں دلچسپی اورلگن ہوتی، اس فن کے نقطہ نظر سے قرآن مجید کی جو تفسیر وتشریح وہ مناسب جانتے ، انہیں پڑھا دیتے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ طلبہ کے نزدیک قرآن شریف صرف اسی فن کی ایک اعلیٰ کتاب بن جاتی اور اس سلسلے میں جو خیالات اورتصورات استاد کے ذہن میں پہلے سے موجود ہوتے ، تفسیر پڑھنے سے وہی باتیں طلبہ کے ذہنوں میں نقش ہو جاتیں بلکہ وہ اور راسخ ہو جاتیں۔ حضرت شاہ صاحب ؒ نے اس رجحان سے ہٹ کر متن قرآن کو شروع تا آخر بڑی تحقیق اور بصیرت کے ساتھ پڑھا دیتے جس سے طلبہ کی قرآن کے جملہ مطالب اور معانی تک براہ راست رسائی اورپیغام قرآن سے مجموعی طور پر آشنائی ہو جاتی ،بجائے اس کے کہ متن قرآن محض تلاوت کی غرض سے پڑھا جائے یا کسی خاص فن کی تحصیل کے لیے قرآن کے مطالب تفسیر کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ حضرت شاہ صاحب ؒ اپنی جستجو اورکاوش میں کافی حد تک کامیاب رہے اور برصغیر پاک وہندمیں قرآن وحدیث کا سلسلہ تدریس وتصنیف کی صورتوں میں جاری رکھا جو وسیع تر ہوتا گیا اور اپنی نوعیت کی ایک مثال بن کر منظر عام پر آیا۔ مزید برآں حضرت شاہ صاحب ؒ کے زمانے میں ہندوستانی مسلمانوں کی رسمی زبان فارسی تھی۔چنانچہ آپ نے قرآن کریم کے متن کا ہندوستانی مسلمانوں کے لیے قابل فہم بنانے کی خاطر ’’ فتح الرحمن‘‘ کے نام سے فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ اس پر مستزادیہ کہ شاہ صاحب ؒ نے قرآن مجید کے مطالب کو ا س شکل میں پیش کرنے پر صرف اکتفا نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اپنے صحبت یافتہ لوگوں میں سے اس طریقے پر سوچنے والی ایک جماعت بھی پید اکر دی۔
علم حدیث کے مطالعہ اور اس کی تحقیق کے ضمن میں عام طور پر اہل علم میں جو ناہمواریاں اور خرابیاں پیدا ہوگئی تھی، ان کو دور کرنے کے لیے بھی شاہ صاحب نے بہت کام کیا۔ حدیث شریف میں اس طرح سے تحقیق کاسلسلہ بہم کرنے کامیلان مسلمانوں میں مدتوں سے ناپید تھا اور خاص طور پر تیسری صدی ہجری کے بعد تو اس کی مثال کہیں مشکل سے ملتی ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے محققین محدثین پیدا کرکے سلف کے طریقے کو زندہ کر دیا۔
یہ بات بھی بعید از فہم نہیں کہ لوگوں میں حدیث شریف کے معاملے میں زیادہ تر ذہنی اختلال اس وجہ سے ہوا کہ فن حدیث میں محض تقلید سے کام لیا جاتا اور خاص طور پر کسی حدیث کی صحت جانچنے کے لیے تو تمام تر دوسروں کی رائے پر ہی اکتفا کیا جاتا۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے محسوس کیا کہ یہ کام مشکل ہو گیا ہے، کیوں کہ ایک تو راویوں کے طویل سلسلے کو پرکھنا اور جانچنا ہوتا ہے ، اس میں مزید الجھن یہ پڑتی ہے کہ ان رواۃ کے متعلق ’’ اسما ء الرجال‘‘ والوں کی آراایک سی نہیں۔ کسی راوی کو اسماء الرجال کا ایک نقاد ضعیف قرار دیتاہے ، لیکن دوسرا اس کی ثقاہت کا دعوے دارہے۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ صحیح حدیث کی تعریف میں کئی آرا ہیں ۔ یہ دشواریاں ہیں جو علم حدیث کے متعلق طلبہ میں کوئی ملکہ پیدا نہیں ہونے دیتیں۔ نتیجتاً طلبہ مجبوراً حدیث شریف کو چھوڑ کر فقہ پڑھتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب ؒ نے بڑی جانکاہی سے اس مرض کی تشخیص کی اور پھر اس کے ازالہ کے لیے نصاب تیار کیا اور کے مطابق تعلیم دینا بھی شروع کر دی۔
احادیث کی تدریس میں امام ولی اللہ دہلویؒ کا طریقہ جو آپ نے موطا امام مالک کی عربی وفارسی شروح ’المسویٰ‘ اور ’المصفیٰ‘ میں اختیار فرمایا تھا، جاری رہتا تو بڑی حد تک فقہی اختلافات کی شدت اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی ہی میں ختم ہو جاتی اور ملت اسلامیہ کے عوام الناس کے لیے دین پر چلنے کی ایک متفقہ شاہراہ سامنے ہوتی۔ مگر بدقسمتی سے حضرت شاہ ولی اللہؒ کے فوراً بعد ہندوستان کا علمی مرکز ثقل دہلی سے لکھنو منتقل ہو گیا جہاں غالی اہل تشیع کی حکومت نے قرآن وحدیث کے درس کو ختم کرنے اور معقولات کی ترویج کی ہر امکانی کوشش کی۔ خود دہلی میں ابو المنصور صفدر جنگ نے مغلیہ سلطنت پر غاصبانہ قبضہ کر کے یہی کچھ کیا۔
جہاں تک کہ مختلف فقہی مذاہب اور ان کے پیروکاروں کے جمود کا تعلق ہے تو شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ لوگوں کے مختلف اقوال کو شدّومدّکے ساتھ بیان کرنا، ایک مخصوص شخص کے مذہب پر فتویٰ صادر کرنا، اس کے قول کو اختیار کر کے اسی کے مذہب و مسلک پر اعتماد کرنا پہلی اور دوسری صدی ہجری کے مسلمانوں کا دستور یا وطیرہ نہ تھا۔ (۶) پھر فرماتے ہیں کہ یہی صورت ایک زمانہ میں اہل ایمان کو پیش آئی کہ مخصوص مسلک کے پیروکار ہونے کی وجہ سے باہمی منازعت شدت اختیار گئی اور لوگوں کے دلوں سے قرآن وحدیث کے صحیح فہم وادراک کی امانت رخصت ہوئی اور وہ تقلیدمیں پڑکر دین کے معاملے میں غوروفکر سے بیگانہ ہو گئے۔ اب ان کے لیے یہ امر ہی باعث تسکین تھا کہ یہی سب ہمارے آبا و اجداد بھی کیا کرتے تھے اورہم انہیں کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔ (۷)
شاہ صاحب نے تقلید جامد کی مخالفت اور شدید مذمت کی اور تقلید کے ضمن میں ارباب فقہ کے غلو کو توڑنے کی کوشش فرمائی۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ اس وقت عالم اسلام کے ہر علاقے میں لوگ متقدمین کے فقہی مذاہب میں سے کسی ایک خاص مذہب کی پابندی کرتے ہیں اور اس سے خروج کو، چاہے وہ کسی ایک آدھ مسئلے میں ہی ہو، ملت سے نکل جانے کے مترادف سمجھتے ہیں، یوں جیسے اس مذہب کا امام کوئی نبی مبعوث ہو جس کی طاعت ان پر فرض کی گئی ہو۔ (۸) چنانچہ آپ نے لوگوں میں تقلید کے جمود کو توڑنے کے لیے اور نصوص شرعیہ میں اجتہادکی ضرورت کے پیش نظر آپ نے حدیث کے مطالعے اور اس کی تحقیق پر کافی زور دیا ہے۔آپ نے تعصب کو بھولے سے بھی پاس نہ پھٹکنے دیا اور تفریع الفروعات اور تخریج المخرجات میں عدل وانصاف کے دامن کو ہاتھ سے کبھی نہ جانے دیا۔ (۹)
حضرت شاہ صاحب ؒ نے مروجہ تقلید پر شدید تنقیدیں بھی کی ہیں کہ لوگوں میں علمی شعور ومناسبت کم ہوگئی ہے۔ وہ قرآن وحدیث کے مقابلے میں عام اور غیر معصوم بشری آرا و اقوال کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ کہہ دیتے ہیں کہ ’’ چونکہ یہ قول ہمارے امام، مقتدا اور پیشوا کا ہے، لہٰذا یہ درست اور حرف آخر ہے ‘‘۔ اس صورت حال پر حضرت شاہ صاحب ؒ نے اپنی تصانیف میں سخت رد عمل ظاہر کیا (۱۰) بلکہ جب لوگوں میں یہ شدت مزید بڑھتی دیکھی تو اسے دین قیم میں تحریف کے اسباب میں شمار کیا، کیوں کہ لوگ دین حنیف کی اصل صورت سے اتنے بیگانہ اور دور گئے ہیں کہ غیر معصوم افراد کے ذہنی تخیلات اور تصورات کو اہمیت دیتے ہوئے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور حقیقی اسلامی مآخذ کو ترک کر دیتے ہیں۔ (۱۱)
شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ امت مسلمہ میں یہ ذوق اور جذبہ اجا گر کرنا چاہیے کہ نصوص شرعیہ سے متفقہ طرق کے ذریعے راہنمائی حاصل کی جائے اور اس لحاظ سے صحابہ کرامؓ کو ایک مضبوط اتھارٹی سمجھا جائے۔ ہاں، اگر ان میں بھی اختلاف رائے نظر آئے تو پھر اصل نصوص شرعیہ کی طرف رجوع کرنے میں ہی بہتری ہے۔ فرماتے ہیں:
’’چون صحابہ مختلف شوند و مأخذ اقوال ایشان از کتاب و سنت ظاہر شود تأمل درآن مأخذ باید کرد و ازان جہت باب ترجیح باید کشاد‘‘ (۱۲)
’’جب کسی مسئلے میں صحابہ کرامؓ کا آپس میں اختلاف ہو، نیز ان کے اقوال کے مأخذ قرآن و سنت سے ظاہر ہو جائیں تو اس صورت میں مأخذ ہی پر غور و فکر کیا جائے ۔ اس سے کسی چیز کو راجح اور وزنی قرار دینے کا راستہ کھلے گا۔‘‘
شاہ صاحب نے دیکھا کہ نصوص شرعیہ سے امت مسلمہ بے بہرہ ہو کر رہ گئی ہے جو کہ ایک خطرناک اورگھمبیر صورت حال ہے۔ لوگ اسلام کے بنیادی مآخذ سے دور ہو چکے ہیں اور ان کے رہنما وپیشوا اسلام کی صحیح ترجمانی کرنے کی بجائے گمراہی وضلالت کی طرف لیے گامزن ہیں۔ اس کی سب سے بڑی اوراہم وجہ اجتہاد سے عدم التفات ہے۔ ان دنوں برصغیر میں وعاظ اور مبلغین کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنی تقاریر میں بے محابہ موضوع اور محرف احادیث بیان کرتے تھے جس سے سادہ لوح، ضعیف اور رکیک القلب افراد دین اسلام سے اچھی طرح واقف نہ رہے تھے۔ (۱۳)
حضرت شاہ صاحب ؒ کے دورکا آج کے دورکے ساتھ تقابل کیا جائے تو بآسانی کہا جا سکتا ہے جو چیزیں حضرت شاہ صاحب ؒ نے تجویز فرمائی تھی، بجا طور پر درست تھیں۔ خصوصاً عصر حاضر میں اختلافات کی شدت کم کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ زمین کی طنابیں کھینچ دی گئی ہیں اور پوری دنیا ایک بستی (گلوبل ولیج) بن چکی ہے اور پوری دنیا پر اہل شر وفساد اور معاندین اسلام کا پوری طرح تسلط قائم ہو چکا ہے۔ ان احوال میں فروعی اختلافات اور مسلک وذوق کے اختلافات میں فکر ولی اللہی کے مطابق اعتدال وتوازن اور وسعت ظرفی کے ساتھ تطبیق کی اشد ضرورت ہے۔ یہ اس دور کا اہم تقاضا ہے کہ فروعی اختلافات میں شدت کو ختم کر کے دین کو ایک متفقہ لائحہ عمل کے طور پر سامنے لایا جائے۔
حوالہ جات
۱۔ شبلی نعمانی: علم الکلام والکلام، ( نفیس اکیڈمی ، اردو بازار ، کراچی، ۱۹۷۹ء) ،ص۸۷
۲۔ شاہ ولی اللہ : انصاف فی بیان سبب الاختلاف، (محکمہ اوقاف ، لاہور، ۱۹۷۱ء )ص۷۰
۳۔شیخ محمد اکرام : رود کوثر،( ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور،۱۹۹۷ء) ص ۵۳۶
۴۔ رحیم بخش :حیات ولی ،( مکتبہ سلفیہ ، لاہور، ۱۹۵۵ء) ص۲۹۶
۵۔ شیخ محمد اکرام :رود کوثر ،ص ۵۸۲ ۶۔شاہ ولی اللہ : الانصاف فی بیان سبب الاختلاف، ۴۱
۷۔ المرجع السابق، ص۶۶ ۸۔ شاہ ولی اللہ : تفہیمات الہیہ،( مدینہ برقی پریس، بجنور) ۱/ ۲۰۹ ۔۲۱۰
۹۔ شاہ ولی اللہ :حجۃ اللہ البالغہ ،( المکتبۃ السلفیہ، لاہور، سن ندارد ) ۱؍۱۰
۱۰۔ شاہ ولی اللہ : عقد الجید فی احکام الاجتہاد والتقلید، (مطبع مجتبائی ،دہلی ، سن ندارد)۷۱۔۷۲
۱۱۔ شاہ ولی اللہ : حجۃ اللہ البالغہ،۱؍۱۲۱ ۱۲۔شاہ ولی اللہ : المصفی فی احادیث موطا ( مکتبہ رحیمیہ، دہلی، سن ندارد ) ۱؍۲۷
۱۳۔ شاہ ولی اللہ : تفہیمات الہیہ، ا؍۱۵
مادری زبانوں کا عالمی دن ۔ کیا ہم شرمندہ ہیں؟
پروفیسر شیخ عبد الرشید
زبان فکر و خیال یا جذبے کے اظہارو ابلاغ کا ذریعہ ہے۔ اس کاکام یہ ہے کہ لفظوں اور فقروں کے توسط سے انسانوں کے ذہنی مفہوم و دلائل اور ان کے عام خیالات کی ترجمانی کرے۔ Oliver Wendell Holmesکے مطابق:
"Language is the blood of the soul into which thoughts run and out of which they grow."
زبان ایک ایسا سماجی عطیہ ہے جو زمانے کے ساتھ ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو ملتا رہتا ہے اس طرح زبان انسان کی تمام پچھلی اور موجودہ نسلوں کا ایک قیمتی سرمایہ اور اہم میراث ہے ۔زبان ایک ایسے لباس کی طرح نہیں ہے کہ جسے اُتار کر پھینکا جا سکے بلکہ زبان تو انسان کے دل کی گہرائیوں میں اُتری ہوئی ہوتی ہے۔یہ خیالات کی حامل اور آئینہ دار ہی نہیں ہوتی بلکہ زبان کے بغیر خیالات کا وجودممکن نہیں۔ کہتے ہیں کہ کوئی ایسا خیال کہ جس کے لیے کوئی لفظ نہ ہو دماغ میں نہیں آ سکتا۔ شاید اسی لیے یونانی زبان کا ترجمہ کرتے ہوئے انسان کو حیوانِ ناطق کہا گیا۔ حیوان ناطق سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ انسان بول سکتا ہے، بولتے تو سب جانور ہیں اِس سے مراد ہے کہ انسان سوچ سمجھ کر بول سکتا ہے۔ لارڈ ٹینی سن (Lord Tennyson)نے کیا خوب کہا تھا کہ
"Words like nature, half reveal
And half conceal the soul within"
زبان انسانی زندگی کا اہم جُز ہے اسی لیے مولوی عبدالحق کہا کرتے تھے کہ ’’زبان پر جو چوٹ پڑتی ہے، وہ زبان پر نہیں پڑتی، دلوں پر پڑتی ہے‘‘۔ مقامی یا مادری زبانوں کوانسان کی دوسری جلد (Second Skin)بھی کہا جاتا ہے۔ مادری زبانوں کے ہر ہرلفظ اور جملے میں قومی روایات ، تہذیب وتمدن، ذہنی و روحانی تجربے پیوست ہوتے ہیں، اسی لیے انہیں ہمارے مادی اور ثقافتی ورثے کی بقا اور اس کے فروغ کا سب سے مؤثر آلہ سمجھا جاتا ہے چنانچہ کسی قوم کو مٹانا ہو تو اس کی زبان مٹا دو تو قوم کی روایات اس کی تہذیب ، اس کی تاریخ ، اس کی قومیت سب کچھ مٹ جائے گا۔ Berton کی کہاوت ہے کہ "Help brezhoneg, breizh ebat'، یعنی(without Breton, there is no Brittany) (برٹن زبان کے بغیربرٹنی بھی نہیں ہے)۔ بلاشبہ مادری زبان کسی بھی انسان کی ذات اور شناخت کا اہم ترین جزو ہے اسی لیے اسے بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے۔ اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق پر بین الاقوامی معاہدے کے مشمولات کے علاوہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت کی قرار دادوں کی صورت میں اس حق کی ضمانت دی گئی ہے۔قومیتی شناخت او ر بیش قیمت تہذیبی و ثقافتی میراث کے طور پر مادری زبانوں کی حیثیت مسلمہ ہے چنانچہ مادری زبانوں کے فروغ اور تحفظ کی تمام کوششیں نہ صرف لسانی رنگا رنگی اور کثیر اللسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں بلکہ یہ دنیا بھر میں پائی جانے والی لسانی اور ثقافتی روایات کے بارے میں بہتر آگہی بھی پیدا کرتی ہیں اور عالمی برادری میں افہام و تفہیم،رواداری اور مکالمے کی روایات کی بنیاد بنتی ہے۔
اسی لیے اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیمUNESCOکے رُکن ممالک کے نیز تنظیم کے صدر دفتر میں ہر برس21فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن (IMLD)منایا جاتا ہے اس دِن کا مقصد لسانی و ثقافتی رنگا رنگی اور کثیر اللسانیت کو فروغ دینا ہے۔ اس وقت کرۂ ارض پر انسان ۶۷۰۰ سے زیادہ زبانیں بولتے ہیں مگر ان مادری اور مقامی زبانوں کو چند زبانوں کے وائرس سے شدیدخطرات لاحق ہیں۔ خاص طور پر انگریزی زبان دنیا کی ہزاروں مقامی زبانوں کو نگل گئی ہے اور ابھی بھی اس کی زبان خوری ختم نہیں ہوئی۔ چند اقوام اور طبقات کی لسانی دہشت گردی سے زبانیں محبت و اُخّوت کی بجائے نفرت و تقسیم کا موجب بننے لگی ہیں۔ اس سے عالمگیر یت کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ عالمی امن کے لیے مادری اور مقامی زبانوں کا تحفظ و احترام نا گذیر ہے تاکہ لسانی رنگا رنگی سے برداشت و رواداری کا کلچر فروغ پائے۔ چنانچہ نومبر ۱۹۹۹ء میں یونیسکو کی انسانی ثقافتی میراث کے تحفظ کی جنرل کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ ہر سال ۲۱ فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جائے گا ۔ ایسے زمانے میں جب عالمگیریت کی ترجیحات میں صرف چند زبانیں ہی خاص اہمیت کی حامل ہیں ۔ اقوامِ متحدہ اور یونیسکو نے لسانی تنوع اور کثیر ا للسانی تعلیم و تدریس کے فروغ و تحفظ کا بیڑہ اُٹھایا ہے۔ مادری زبانوں کے عالمی دن کا تصور یونیسکو کو کینیڈا کی ایک تنظیم "Mother Language Lovers of the World"نے تجویز کیا اس پر یونیسکو کا کہنا تھا کہ یہ تجویز کسی ممبر ملک کی طرف سے آنی چاہیے۔ چنانچہ بنگلہ دیش نے یہ مہربانی کی اور اس دن کے لیے۲۱ فروری کے دن کوبھی بنگالی زبان کی لسانی تحریک کے دن کے حوالے سے اہمیت دیتے ہوئے منتخب کیا گیا۔
مادری زبانوں کا عالمی دن مشرقی پاکستان میں ’’لسانی تحریک کے دن‘‘ ۲۱؍ فروری۱۹۵۲ء کی یاد میں منایا جاتا ہے جب ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا لسانی مسئلے پر دفعہ ۱۴۴ کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ صبح سوا گیارہ بجے سے یہ ہڑتال اور احتجاج جاری تھا۔ دوپہر ۲ بجے دستور ساز اسمبلی کے اراکین کا راستہ روکا گیا تو پولیس حرکت میں آگئی۔ سہ پہر ۳بجے کے قریب فائرنگ ہو گئی جس سے طلبا عبدالجبار اور رفیق الدین احمد موقع پر جاں بحق ہو گئے جبکہ ابوالبر کات زخمی ہو کر رات ۸بجے دم توڑ گیا۔ اس سے سارا مشرقی پاکستان سراپا احتجاج بن گیا۔ ۲۲ فروری کو بڑا احتجاج ہو ا جس پر فائرنگ سے ۴سے۸لوگ مارے گئے ۔ لسانی مسئلے پر ریاستی پولیس نے بنگالی بولنے والوں کا قتل عام کیا ۔بنگلہ دیش(مشرقی پاکستان) میں لوگ غیر سرکاری طور پر یہ دن مناتے رہے، تا ہم ۱۹۵۶ء میں پہلی مرتبہ ۲۱ فروری کو حکومتی سرپرستی میں یہ دن منایا گیا اور اسی روز مادری زبان کی جدوجہد کی تحریک میں جاں بحق ہونے والوں کی یاد میں شہید مینار کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ پھر ۲۹فروری۱۹۵۶ء کو بنگالی کو سرکاری سطح پر پاکستان کی بنیادی ریاستی زبانوں میں سے ایک کا درجہ دے دیا گیا۔ یہی لسانی تحریک بعد ازاں سقوط ڈھاکہ کا ایک اہم سبب ثابت ہوئی۔ اسی دن کی یاد میں یونیسکو کے ممبر کی حیثیت سے بنگلہ دیش نے مادری زبانوں کے عالمی دن کی تجویز منظور کروائی۔
مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر آسٹریلیا میں مقیم ہنگری نژاد پروفیسر سٹیفن و ورم Stephen Wurmکو بھی خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے جو خود پچاس سے زیادہ زبانوں کو جانتا اور مہارت رکھتا ہے اور جس نے"Atlas of the world's Language in Danger of Disappearing" مرتب کیا ۔ اس اٹلس میں پروفیسر سٹیفن وورم نے وضاحت کی ہے کہ اس وقت دنیا میں تین ہزار سے زیادہ مادری اور مقامی زبانیں خطرات کا شکار ہیں اور کرۂ ارض سے آہستہ آہستہ ماں بولیاں معدوم ہوتی جار ہی ہیں ان کا تحفظ اور بقاء ضروری ہے ۔ مادری زبانوں کی بقاء اور تحفظ کی کاوشوں کے ثمرات کی ایک مثال انگلینڈ کی ایک مقامی ماں بولی کورنش "Cornish"کی ہے جو کہ متروک ہو گئی تھی مگر حالیہ کاوشوں سے اس ماں بولی کا کامیابی سے احیاء ہوا ہے اور اب ایک ہزار سے زائد لوگ کورنش زبان بولنے لگے ہیں۔ مادری زبانیں بطور ذریعۂ اظہار و ابلاغ فرد کی شخصیت کی تشکیل و تکمیل میں موثر کردار اداکرتی ہیں۔ چیک ری پبلک کے صدر Jan Kavanنے جنرل اسمبلی سے مادری زبانوں کے حوالے سے خطاب میں کہا تھا کہ
"Mother Language is the most powerful instrument of preserving and developing our tangible and intangible heritage."
یونیسکو کے۳۱ ویں سالانہ اجلاس منعقدہ ۲نومبر۲۰۰۱ء کے بعد یونیسکو نے ثقافتی رنگا رنگی کے حوالے سے جاری کردہ عالمی اعلامیے کی منظوری دی جس میں یونیسکو کی تنظیم نے لسانی رنگا رنگی کی حوصلہ افزائی کرنے والے رُکن ممالک کو مکمل تعاون فراہم کرنے کا عہد کیا۔ زبانیں ہمارے مادی اور ثقافتی ورثے کی بقا اور اس کے فروغ کا سب سے مؤثر آلہ ہیں۔ مادری زبانوں کے فروغ اور تحفظ کی تمام کاوشیں نہ صرف لسانی رنگا رنگی اور کثیر اللسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں بلکہ یہ دنیا بھر میں پائی جانے والی لسانی اور ثقافتی روایات کے بارے میں بہتر آگہی بھی پیدا کرتی ہیں اور عالمی برادری میں افہام و تفہیم ، رواداری اور مکالمے کی روایات کی بنیاد پر بین الاقوامی یکجہتی کو بڑھا وا دینے کا اہم ذریعہ ثابت ہوتی ہیں۔ لسانی اور ثقافتی رنگارنگی اُن آفاقی اقدار کی نمائندگی کرتی ہے جو معاشروں کے اتحاد اور ہم آہنگی کو تقویت دیتی ہیں۔ لسانی رنگا رنگی ہر انسان کے لیے اس کی مادری زبان اور خاص کر اس میں بنیادی تعلیم کی اہمیت کے ادراک نے یونیسکو جیسے ادارے کو مادری زبانوں کا عالمی دن منانے کے بارے میں فیصلہ کرنے پر مائل کیا۔
اسے بد قسمتی کے سوا کیا کہیے کہ مادرِ وطن میں مادری زبانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک عام ہے اور ہم نے عصری اور عالمی فکرو دانش سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ متحدہ پاکستان میں لسانی مسئلے سے دنیا بھرنے سبق سیکھ لیااور عالمی سطح پر مادری زبانوں کا دن منایا جاتا رہے مگر ہم آج بھی لسانی رنگا رنگی کی مہک سے محروم اور زبانوں کے مسئلے کا شکار ہیں۔ ہم سے سبق سیکھ کر کئی ممالک نے اپنی لسانی پالیسوں کو از سرِ نو مرتب کیا اور اب بہت سے ممالک اپنے علاقوں میں روایتی طور پر نظر انداز کی جانے والی یا خطرات سے دو چار زبانوں کو تحفظ اور فروغ دے رہے ہیں۔ جبکہ ہم آج بھی علاقائی ، مادری اور قومی زبانوں کی کشمکش سے دو چار ہیں۔ ہمارے ہاں لسانی مسئلے نے جو گہرے اور منفی اثرات مرتب کیے، ان کی قیمت ہم ۱۹۷۱ء میں بھی چکا چکے ہیں۔ جمہوری ممالک میں جمہور کی زبان یا زبانیں ہی قومی یا سرکاری زبانیں ہو سکتی ہیں۔عوام کا دل موہ لینے کے لیے عوام ہی کی بولی کارگر ہو سکتی ہے۔ ہم نے علاقائی اور مادری زبانوں سے جس سوتیلے سلوک کو روا رکھا اس کا خمیازہ ہم بھگت رہے۔ آج ہم تہذیبی شناخت اور تاریخی سانجھ سے محروم ہو کر قومیتی مسائل میں دھنس کر رہ گئے ہیں۔ ہم نے لسانی مسئلے کو غیر فطری طور پر حل کرنے کی کوشش کی اور قوم کو اپنی اپنی علاقائی زبانوں سے محروم کرنے کا جبر روارکھا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری قوم نے کھرے، سچے اور سماجی تناظر میں سوچنے کی بجائے غیروں کی زبانوں سے غیروں کے انداز میں سوچنا شروع کر دیا۔ ہم نے انگریزی اور اردو کے ذریعے قومی یکجہتی کے حصول کی کوشش کی اور جارج برنارڈ شاہ کی اس بات کو فراموش کر دیا ہے کہ
"England and America are two countries divided by common language"
بلاشبہ پھولوں کی رنگارنگی گلدستے کا حُسن اور طاقت ہوتی ہے قباحت اور کمزوری نہیں۔ جس قوم کو اپنی کوئی چیز اچھی نہ لگے اور دوسروں کی ہر ادا پر فریفتہ ہو وہ کیا زندہ رہ سکتی ہے۔ قوم بے جان افراد کے مجموعے کا نام نہیں ہوتا بلکہ قوم معتقدات، تاریخ، عصبیت ، ثقافت اور انفرادیت پر اصرار سے ہی وجود میں آتی ہے اور استحکام حاصل کرتی ہے ۔ مذکورہ قومی عناصر کے اظہارکا اہم ذریعہ زبان ہی تو ہوتی ہے۔ جب لوگوں سے انکی زبان چھین لی جائے تو ان سے سب کچھ چھین لینے کے مترادف ہی ہوتا ہے۔ ہمیں بھی قومی یکجہتی کے گلدستے کی تشکیل کے لیے زبانوں کی رنگا رنگی کو اہمیت اور فروغ دینا ہو گا۔ ہمارے ہاں سندھی، پشتو، بلوچی ، پنجابی ، سرائیکی جیسی زبانیں ہماری اجتماعی غفلت کا شکار ہیں۔ جب تک ہم مادری زبانیں بولنا، انہی میں سوچنا اور انہیں تعلیم و تحقیق کا ذریعہ نہیں بنائیں گے قومی یکجہتی سے محروم رہیں گے۔یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ہم اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں دینگے۔ مادری زبان کے ذریعے ہی وہ تعلیم و تربیت مانوس اور جانے پہچانے ماحول میں حاصل کرسکتا ہے۔ اپنے ماحول اور مٹی سے جڑے رہنے اور اس کے ساتھ اُنسیت سے ہی بچوں میں اعتماد، توازن، احساسِ ملکیت اور قومی یکجہتی پیدا ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں تعلیم و تدریس کے جدید نظریات میں بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہی دی جاتی ہے۔ آج کے جدید دور میں مادری زبان میں تعلیم بنیادی انسانی حق ہے ۔کسی ملک، علاقے یا صوبے کے لوگوں کو ان کی مادری زبان سے محروم رکھنا انسانی حقوق کی کُھلی خلاف ورزی ہے ۔کیا ایسی ریاستیں جہاں انسانی حقوق کی کُھلے عام خلاف ورزی ہو آئینی، قانونی، اخلاقی ، سیاسی اور سماجی حوالے سے جدید جمہوری ریاستیں کہلانے کی حقدار ہو سکتی ہیں؟ ستم ظریفی دیکھئے کہ پاکستان میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص ہمار ا اجتماعی رویہ اور حکمرانی انسانی حقوق کی کھلی خلا ف ورزی کر رہا ہے اور ہم پھربھی خود کو مہذب انسان سمجھنے کے فریب میں متبلا ہیں۔ ڈاکٹر ہرشندر کور نے درست تجزیہ کیا ہے کہ مادری زبان بچے کی شخصیت کو اُبھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اپنی ماں بولی کو حقیر اور چھوٹا سمجھنے والے اپنے آپ کو اور اپنی تہذیب کو بھی کم تر اور حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور جن کی تہذیب حقیر ہو، وہ زمانے میں معتبر نہیں ہوسکتے۔ پنجابیوں نے پنجابی زبان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے، اس نے دھیرے دھیرے پنجابیوں کو ان کی اصل سے دور کر دیا ہے۔ ہمیں یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کی زبان کے راستے میں رکاوٹ بنے۔
۲۱ فروری کو ہر سال منعقد ہونے والامادری زبانوں کا عالمی دن ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ہم کب تک اپنی مادری زبان سے یہ سلوک جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہم نے اپنی مادری زبان کے ساتھ جو کیا ہے ہم سب اس پر شرمندہ ہیں میں اپنی بات کو مشہور شاعرہ میری ڈورو کی نظم ’’زبان کا سوگ‘‘ پر ختم کرنا چاہتا ہوں جس کا ترجمہ خالد سہیل نے کیا تھا۔ دیکھنا یہ ہے کہ میری ڈورو کی یہ نظم ہمیں شرمندہ کرپاتی ہے کہ نہیں۔ کہتے ہیں کہ شرمندگی کا پسینہ قوموں کی زندگی میں ترقی کے سفر میں زادِ راہ کا کام کرتاہے۔ میری ڈورو لکھتی ہے کہ
’’زبان کا سوگ‘‘
میں اپنی مادری زبان ڈائرنگن سے محروم ہو گئی ہوں
میں افسردہ ہوں
اس تباہی پر میری آنکھیں پرنم ہیں
میری زبان کے نرم و گداز الفاظ
چکنا چور ہو کر ماضی میں بکھر گئے ہیں
ہم پر جب انگریزی مسلط ہو گئی
تو ہم اپنی مادری زبان ڈائرنگن بُھلا بیٹھے
اور اسے تہذیب و ثقافت کی بھینٹ چڑھا دیا
اے میری مادری زبان
تمہیں کھونے پر
ہم بہت شرمندہ ہیں
بنگلہ دیش کا ایک مطالعاتی سفر
محمد عمار خان ناصر
۱۰ جنوری سے ۱۴ جنوری ۲۰۱۰ء تک مجھے ڈھاکہ میں منعقد ہونے والے Leaders of Influence (LOI) Exchange Program میں شرکت کے سلسلے میں بنگلہ دیش کا سفر کرنے کا موقع ملا۔ یہ پروگرام US-AID یعنی یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فار انٹر نیشنل ڈویلپمنٹ اور ایشیا فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام منعقد ہوا اور اس میں پاکستان، بھارت، نیپال، تھائی لینڈ اور افغانستان سے آئے ہوئے وفود نے شرکت کی۔ پاکستانی وفد میں راقم الحروف کے علاوہ شریعہ اکیڈمی، اسلام آبا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی، بہاؤ الدین زکریا یونی ورسٹی ملتان کے شعبہ اسلامیات کے صدر ڈاکٹر محمد اکرم رانا اور اسلام آباد سے سما ٹی وی کی نمائندہ محترمہ مریم وقار شامل تھیں۔ اس تین روزہ پروگرام کا بنیادی مقصد شرکا کو ان کوششوں اور تجربات سے متعارف کرانا تھا جو US-AID اور ایشیا فاؤنڈیشن، بنگلہ دیش میں اسلامک فاؤنڈیشن کے تعاون سے ائمہ اور خطبا کو سماجی ترقی میں متحرک کردار ادا کرنے اور مختلف سماجی مسائل ومشکلات کے حل کے لیے اپنی مذہبی حیثیت اور اثر ورسوخ کو استعمال کرنے کے سلسلے میں کر رہی ہے۔
تین روزہ پروگرام کا پہلا دن LOI پروگرام کے پس منظر، مقاصد، مختلف پہلوؤں اور اس میں کردار ادا کرنے والے اداروں، خاص طور پر اسلامک فاؤنڈیشن اور امام ٹریننگ اکیڈمی کے حوالے سے تعارفی بریفنگ کے لیے مخصوص تھا۔ دوسرے دن شرکاکو دو مختلف گروپوں کی صورت میں اس پروگرام کے بعض عملی مراکز اور سرگرمیوں کے مشاہدہ کے لیے چٹا گانگ اور سلہٹ لے جایا گیا، جبکہ تیسرے دن کے اختتامی سیشن میں شرکا کو خاص طور پر اس پہلو سے اپنے تاثرات کے اظہار کا موقع دیا گیا کہ اس پروگرام سے انھوں نے کیا سیکھا ہے اور وہ اپنے اپنے ملکوں کے مخصوص حالات میں عملی طور پر اس سے کیا رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔
پہلے دن کے تعارفی سیشن میں یو ایس اے آئی ڈی کے مسٹر رسل پے پے، ایشیا فاؤنڈیشن بنگلہ دیش کے مسٹر نذر الاسلام اور اسلامک فاؤنڈیشن کے مسٹر مسعود اور مسٹر شہاب الدین کے علاوہ بنگلہ دیش کی قومی مسجد کے خطیب مولانا صلاح الدین نے گفتگو کی۔ ان سب حضرات کی گفتگو سے ہمیں جو معلومات حاصل ہوئیں، ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
بنگلہ دیش میں رجسٹرڈ مساجد کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق ڈھائی سے تین لاکھ ہے اور ہر مسجد میں اوسطاً تین افراد امام، خطیب اورموذن وخادم کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی آبادی پندرہ کروڑ کے لگ بھگ ہے اور عام لوگوں میں مذہبی رجحان غالب ہے جس کا ایک مظہر یہ ہے کہ کم وبیش آٹھ کروڑ لوگ ہر جمعے کے دن جمعہ کی نماز مسجد میں باجماعت ادا کرتے اور جمعے کا خطبہ سنتے ہیں۔ مساجد کے ائمہ وخطبا اور مذہبی راہ نماؤں کو عمومی طور پر احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور لوگ ان کی بات پر توجہ دیتے اور ان کی گفتگو کا اثر قبول کرتے ہیں۔ اس تناظر میں بنگلہ دیش میں حکومتی سطح پر یہ احساس پیدا ہوا کہ مذہبی راہ نماؤں کے معاشرتی مقام ورسوخ کو بنگلہ دیش کے مختلف اور متنوع سماجی مسائل کے حل اور معاشرے کی ترقی جیسے مثبت مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے، چنانچہ ۱۹۸۹ء میں وزارت مذہبی امور کے تحت اسلامک فاؤنڈیشن کے نام سے ایک خود مختار ادارہ قائم کیا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ بنگلہ دیشی ائمہ مساجد اور خطبا کو درپیش سماجی مسائل کے حوالے سے ادراک وشعور سے بہرہ ور کیا جائے، انھیں ان مسائل پر عوام کی راہ نمائی کی تربیت دی جائے اور انھیں آمادہ کیا جائے کہ وہ معاشرے کی بہبود اور ترقی کے لیے بھرپور، موثر اور قائدانہ کردار ادا کریں ۔ اسلامک فاؤنڈیشن نے اس مقصد کے لیے امام ٹریننگ اکیڈمی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس میں ائمہ وخطبا کو ایک ۴۵ روزہ تربیتی کورس کے مرحلے سے گزارا جاتا ہے۔ اس تربیتی پروگرام کے نصاب میں چھ بنیادی موضوعات یعنی اسلامیات، توہمات کے خاتمے، ایڈز سے حفاظت کی تدابیر، پولٹری اور فشریز سے متعلق شرکا کو راہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ ۱۹۸۹ء سے اب تک بیس سال کے عرصے میں پینسٹھ ہزار ائمہ کو اس تربیتی مرحلے سے گزارا جا چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ۲۰۰۴ء سے US-AID اور ایشیا ٰفاؤنڈیشن کے تعاون سے امام ٹریننگ اکیڈمی سے تربیت حاصل کرنے والے ائمہ کے لیے مزید تین روزہ تربیتی ورک شاپس کے انعقاد کا اہتمام کیا جاتا ہے جسے Leaders of Influence (LOI) Program کا عنوان دیا گیا ہے اور اس پروگرام کے تحت اب تک دس ہزار ائمہ کو اضافی تربیت دی جا چکی ہے۔
ہمیں بتایا گیا کہ امام ٹریننگ اکیڈمی سے تربیت پانے والے ائمہ اور خطبا کی سرگرمیوں اور خدمات میں حسب ذیل تبدیلیاں مشاہدے میں آئی ہیں:
- o تربیت یافتہ ائمہ اپنے خطبات جمعہ میں بڑے اہتمام سے انسانی حقوق، سماجی انصاف، خواتین کے حقوق، کرپشن، ایڈز، تعلیم، خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ، خاندانی منصوبہ بندی اور اس طرح کے دوسرے سماجی موضوعات پر گفتگو کرتے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عوام کی راہ نمائی کرتے ہیں۔
- o بعض علاقوں میں امام حضرات نے خود بھی مچھلی فارم اور مرغی فارم قائم کیے ہیں جس سے وہ انفرادی طور پر اپنے ذرائع آمدن میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک کی خام قومی پیداوار (GDP) میں بھی اضافے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
- o بعض علاقوں میں امام حضرات نے ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کے لیے درختوں کی کاشت کاری کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور ایک خاص علاقے میں امام حضرات کی کوشش سے پینتیس ہزار درخت لگائے گئے ہیں۔
- o دیہی علاقوں میں ائمہ وخطبا ابتدائی تعلیم کے فروغ کے لیے مساجد کو بطور تعلیمی مراکز استعمال کر رہے ہیں۔
پروگرام کا دوسرا دن فیلڈ اسٹڈی کے لیے مخصوص تھا جس کے لیے پانچ ملکی وفود کو دو ٹیموں میں تقسیم کر کے افغانستان اور تھائی لینڈ کے وفود کو چٹا گانگ جبکہ پاکستان، بھارت اور نیپال کے وفودکو سلہٹ لے جایا گیا۔ سلہٹ میں ہم نے یو ایس اے آئی ڈی کے زیر اہتمام کام کرنے والے ایک مرکز صحت The Smiling Sun health Centre کا دورہ کیا جہاں متوسط اور زیریں طبقات کی خواتین کو علاج معالجہ کی ارزاں سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں اور جو مریض استطاعت نہ رکھتے ہوں، ان کا مکمل طور پر مفت علاج بھی کیا جاتا ہے ۔ ہمیں اس سنٹر کے مختلف شعبے دکھائے گئے اور وفد کے شرکا نے ان شعبوں میں کام کرنے والے حضرات سے مختلف سوالات کر کے عملی تفصیلات معلوم کیں۔
اسی دن ہوٹل Fortune Garden سلہٹ میں ایشیا فاؤنڈیشن کے LOI پروگرام کے تحت ائمہ کے لیے ایک ورک شاپ جاری تھی جس میں ہمیں مہمان کے طور پر لے جایا گیا۔ یہاں ہم نے مختلف سماجی مسائل مثلاً کرپشن، خواتین کی اسمگلنگ، ناخواندگی، کثرت آبادی، ایڈز اور خواتین کے مسائل جیسے موضوعات پر آٹھ مختلف presentations سنیں جو شرکا نے مختلف گروپوں کی صورت میں باہمی مشاورت سے تیار کی تھیں اور ان میں ہر مسئلے کی مشکلات اور چیلنجز کی نشان دہی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حل کے لیے عملی اقدامات تجویز کیے گئے تھے۔ خواتین کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے ایک امام صاحب نے جن مشکلات کا ذکر کیا، ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ جیسے ہی کوئی امام یا خطیب منبر پر خواتین کے مسائل یا حقوق کی بات کرتا ہے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ امام صاحب ایک سیاسی تقریر کر رہے ہیں۔ میرے ذہن میں فوراً یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ مشکل لوگوں کی نہیں، بلکہ خود ائمہ اور خطبا کی پیدا کردہ ہے، کیونکہ لوگوں میں اس تاثر کا پیدا ہونا کہ خواتین کے مسائل یا حقوق کی بات مذہب سے نہیں بلکہ سیاست کے دائرے سے تعلق رکھتی ہے، خود مذہبی راہ نماؤں کی اس روش کا نتیجہ ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ اپنے خطبات وتقاریر میں اس موضوع کو کبھی نہیں چھیڑتے، بلکہ اس موضوع کو مکمل طور پر اس طرح نام نہاد لبرل طبقات کے سپرد کر دیا گیا ہے کہ خواتین کے حقوق یا مسائل کے حوالے سے اٹھنے والی کوئی بھی بحث عام طور پر قوم کو مذہبی اور غیر مذہبی کیمپوں میں تقسیم کر دیتی ہے جس میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کا علم لبرل طبقات کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور مذہبی طبقات ان کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے امام صاحب نے کثرت آبادی کے حوالے سے اپنی گفتگو میں یہ نعرہ دہرایا کہ ’’بچہ، ایک ہی اچھا‘‘۔ اس پر ہمارے وفد کی رکن محترمہ مریم وقار نے حیرت کا اظہار کیا اورکہا کہ ایک مولوی صاحب کی زبان سے انھوں نے یہ بات پہلی مرتبہ سنی ہے، کیونکہ عام طور پر مذہبی لوگ خاندانی منصوبہ بندی کو مطلقاً مذہبی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہیں۔
اسی نشست میں ایڈز یا نشے کے مریضوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے معاشرتی سلوک کا نکتہ زیر بحث آیا تو میں نے گزارش کی کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ نفرت گناہ سے کرنی چاہیے نہ کہ گناہ گار سے، اور خاص طور پر نشے یا اس کی طرح کی کسی دوسری علت میں گرفتار ہو جانے والے افراد ایک خطا کار اور کمزور انسان کی حیثیت سے اس بات کے مستحق ہیں کہ انھیں ہمدردی اور محبت کے ساتھ اس سے نجات دلانے کی کوشش کی جائے۔ اس پر میں نے یہ واقعہ بھی بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک صحابی شراب نوشی کی عادت کی وجہ سے بار بار پکڑ کر آپ کی خدمت میں لائے جاتے اور آپ کے حکم پر انھیں سزا دی جاتی۔ اسی طرح کے ایک موقع پر کسی شخص نے ان پر لعنت کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند کیا اور فرمایا کہ لا تعینوا الشیطان علی اخیہ،یعنی اپنے بھائی کے خلاف شیطان کے مددگار نہ بنو۔ میں نے عرض کیا کہ مذہبی لوگ اسلام کی اس روحانی اور اخلاقی تعلیم کو معاشرے میں عام کرنے کے سلسلے میں زیادہ موثر کردار ادا کر سکتے ہیں اور انھیں یہ کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔
۱۲؍ جنوری کے دورۂ سلہٹ میں ہماری مصروفیات کا آخری حصہ سلہٹ میں امام ٹریننگ اکیڈمی کے سنٹر کا مختصر دورہ تھا۔ یہاں زیر تربیت ائمہ کی ایک کلاس کے سامنے اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جناب فرید الدین نے مہمانوں کو اس تربیتی پروگرام کے مختلف پہلووں کے حوالے سے بریفنگ دی جس کے آخر میں مہمانوں میں سے ایک نمائندے سے اپنے تاثرات کے اظہار کی فرمائش کی گئی۔ یہ خدمت جناب ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی نے انجام دی اور اپنی مختصر لیکن موثر گفتگو میں حصول علم کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر حاضرین پر واضح کیا۔ ڈاکٹر فاروقی نے کہا کہ اسلام علم کے حصول کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اور اس ضمن میں ذرائع اور ماخذ کے بارے میں متعصبانہ رویے کی آبیاری کے بجائے یہ تلقین کرتا ہے کہ کوئی مفید بات جہاں سے بھی ملتی ہو، اسے لے لینا چاہیے۔ نیز یہ کہ اسلام میں دینی اور دنیاوی علم کی کوئی تفریق نہیں، کیونکہ علم اللہ کی صفت ہے اور اللہ کا علم ہر طرح کی باتوں کو محیط ہے، اس لیے مذہبی وغیر مذہبی اور دینی ودنیاوی ہر طرح کا علم اسلام کی نظر میں مطلوب ہے۔ ڈاکٹر فاروقی کی گفتگو پر حاضرین نے بہت پرجوش انداز میں اپنے مثبت تاثر کا اظہار کیا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ڈاکٹر فاروقی نے اپنی گفتگو میں انھی کے جذبات واحساسات کی ترجمانی کی ہے جس پر وہ بے حد خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ وقت چونکہ بہت مختصرتھا، اس لیے تقریب کے اختتام پر منتظمین نے فوراً واپسی کا حکم نامہ جاری کر دیا اور زیر تربیت ائمہ سے گفتگو اور تبادلہ خیال نہ ہو سکنے کی تشنگی نہ صرف ہمیں بلکہ ائمہ کرام کو بھی محسوس ہوئی۔ میں ہال سے نکلنے والا آخری فرد تھا، چنانچہ ائمہ میرے قریب جمع ہونا شروع ہو گئے اور مصافحہ اور خیر سگالی کے جذبات کا اظہار ہونے لگا۔ ایک بزرگ امام صاحب نے فرط محبت سے مجھے سینے سے لگا لیا۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ باقی سب مہمان جا چکے ہیں، میں جلدی سے اجازت لے کر نکلنے لگا کہ دور سے کچھ امام حضرات ’’پاکستانی بھائی‘‘ پکارتے ہوئے بھاگ کر آئے اور آکر مصافحہ کیا۔ سب حضرات کی محبت دیدنی اور اپنے پاکستانی بھائیوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے اور تبادلہ خیال کا اشتیاق دیدنی تھا۔ یہ دیکھتے ہوئے منتظمین کو مداخلت کرنا پڑی اور انھوں نے آکر ائمہ کرام کو سختی سے روک دیا اور مجھ سے کہا کہ آپ چلیے، کیونکہ گاڑیاں ڈھاکہ واپسی کے لیے تیار ہیں۔
پروگرام کے تیسرے روز آخری سیشن میں تمام شرکا سے فرداً فرداً اپنے تاثرات کے اظہار کی فرمائش کی گئی۔ میں نے عرض کیا کہ ان تین دنوں میں بنگلہ دیش کی حکومت، مذہبی طبقات اور سماجی مسائل سے دلچسپی رکھنے والی این جی اوز کے مابین تعاون واشتراک کی جو صورت حال ہمارے سامنے رکھی گئی ہے، وہ پاکستان کے معروضی تناظر میں بھی بے حد سبق آموز اور قابل استفادہ ہے، کیونکہ تیسری دنیا کے ممالک کے سیاسی اور سماجی مسائل کم وبیش ایک نوعیت کے ہیں اور ایک ملک کی معاشرتی صورت حال کے حوالے سے کیے جانے والے تجزیے اور اس ضمن میں کیے جانے والے تجربات دوسرے ممالک کے لیے بھی اتنے ہی بامعنی اور مفید (relevant) ہوتے ہیں۔ میں نے اس ضمن میں پاکستان کے حوالے سے خاص طور پر تین نکات کی طرف توجہ دلائی:
ایک یہ کہ بنگلہ دیش میں مساجد کی عمارتوں اور ائمہ مساجد کی کھیپ کو ابتدائی سطح کی تعلیم کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کا جو منصوبہ اس وقت روبعمل ہے، پاکستان میں اسی نوعیت کا ایک منصوبہ کافی عرصہ پہلے غالباً جنرل ضیاء الحق کے دور میں ’’مسجد مکتب اسکیم‘‘ کے نام سے شروع کیا گیا تھا جسے کاغذی سطح پر باقاعدہ منظوری حاصل ہونے کے باوجود بغیر کوئی ظاہری سبب بتائے ختم کر دیا گیا، البتہ باخبر ذرائع کے مطابق اس فیصلے کے پیچھے مذہب بیزار سیکولر بیورو کریسی کے یہ تحفظات کار فرما تھے کہ اگر نئی نسل کو سرکاری وسائل سے مساجد کے ائمہ کے ہاتھوں تعلیم اورتربیت کے مواقع فراہم کیے گئے تو یہ انتہا پسندی کے عمل (Radicalization) کو فروغ دینے کے مترادف ہوگا۔ میں نے عرض کیا کہ بنگلہ دیشی حکومت کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے سماجی مسائل اور مختلف سماجی طبقات کی صلاحیتوں اور ان سے استفادہ کے امکانات کے معاملے میں زیادہ forward-looking اور بصیرت کی حامل ہے اور پاکستان کے مقتدر طبقات کو اپنی محدود سوچ سے نجات حاصل کرنے اور ملک کی تعمیر وترقی کے لیے تمام طبقات کی صلاحیتوں اور کردار سے استفادہ کا حوصلہ اور بصیرت پیدا کرنے میں بنگلہ دیش کے اس تجربے سے بھرپور راہ نمائی لینی چاہیے۔
دوسرے یہ کہ بنگلہ دیش میں ائمہ مساجد کو سماجی موضوعات پر عوام کی راہ نمائی اور ان میں سماجی مسائل کے حل میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے جو منظم کوشش کی گئی ہے، اس سے بھی روشنی لی جانی چاہیے اور ائمہ وخطبا کے ہاں عمومی طور پر اپنے آپ کو مسجد کی چار دیواری تک محدود اور معاشرتی مسائل سے لاتعلق کر لینے کا جو مزاج پایا جاتا ہے، اس کی اصلاح کے لیے بنگلہ دیش کے ائمہ کے کردار اور سرگرمیوں کو ایک قابل تقلید نمونے کے طور پر سامنے رکھنا چاہیے۔
تیسرے یہ کہ مذہبی طبقات اور مختلف سماجی مسائل پر ارتکاز کرنے والی تنظیموں اور اداروں کے مابین باہمی رابطے کے فقدان اور اس سے جنم لینے والی بد اعتمادیوں اور غلط فہمیوں کی فضا ہمارے ہاں بھی پوری طرح موجود ہے اور دونوں طرح کے طبقات ایک دوسرے کے بارے میں شدید تحفظات کا شکار ہیں۔ اس صورت حال کے ازالے کے لیے اسی طرح مختلف فورمز وجود میں آنے چاہییں جو فریقین کے مابین رابطے کا کام دیں، مختلف موضوعات پر مکالمے کا اہتمام کریں اور افہام وتفہیم پر مبنی ایک مثبت فضا میں سوسائٹی کے ان الگ الگ فکری دھاروں کو اس بات کا موقع بہم پہنچائیں کہ وہ ایک دوسرے کو براہ راست سمجھیں، تحفظات وخدشات پر باہم گفتگو کریں، ایک دوسرے کے زاویہ نظر اور تجربات سے استفادہ کریں، خیر خواہی اور ہمدردی پر مبنی تنقید کے ذریعے ایک دوسرے کی اصلاح کریں اور معاشرتی بہبود اور ترقی کے لیے باہمی تعاون کے امکانات اور دائروں کو دریافت کریں۔
اختتامی سیشن میں ہی ہر ملک کے نمائندہ وفود سے کہا گیا کہ وہ باہمی مشاورت کے بعد متعین نکات پرمبنی ایسا لائحہ عمل تیار کریں جو وہ بنگلہ دیش کے تجربے کی روشنی میں اپنے اپنے معاشرے کے معروضی حالات کے تناظر میں تجویز کر سکتے ہیں۔ پاکستانی وفد کے شرکا نے باہمی مشاورت سے حسب ذیل لائحہ عمل مرتب کیا جسے وفدکی نمائندگی کرتے ہوئے محترمہ مریم وقار نے شرکا کے سامنے پیش کیا:
- پاکستان میں ناخواندگی کو ختم کرنے اور ابتدائی سطح کی تعلیم کے فروغ کے لیے مسجد مکتب اسکیم کا احیا کیا جائے۔
- کسی مستند اور با اعتماد علمی ادارے (مثلاً دعوہ اکیڈمی) کے زیر اہتمام ائمہ وخطبا کی راہنمائی کے لیے مختلف سماجی ومعاشرتی موضوعات پر ماڈل خطبے تیار کروائے جائیں تاکہ موضوعات کے انتخاب اور مستند علمی مواد کی فراہمی میں خطبا کو سہولت ہو اور وہ معاشرتی اصلاح کے سلسلے میں دین کا پیغام موثر طریقے سے لوگوں تک پہنچا سکیں۔
- ایسے فورمز قائم کیے جائیں جہاں معاشرے کے مختلف طبقات، خاص طور پر مذہبی وغیر مذہبی طبقات بلکہ خود مختلف مذہبی مکاتب فکر کو باہمی مکالمہ کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
- دینی مدارس سے وابستہ لوگوں کو دوسرے سماجی اداروں اور تنظیموں کا دورہ کروایا جائے اور ان کی سرگرمیوں اور خدمات سے واقفیت حاصل کرنے کا موقع دیا جائے۔ اسی طرح مختلف این جی اوز کو مدارس اور مذہبی اداروں کے دورے کروائے جائیں اور وہاں کے ماحول اور نظام کا براہ راست مشاہدہ کرنے کا موقع مہیا کیا جائے۔
- مختلف سماجی مسائل پر میڈیا میں جو تشہیری مہمیں چلائی جاتی ہیں، ان میں عام طور پر مذہبی راہ نما دیکھنے میں نہیں آتے، اس لیے میڈیا کو توجہ دلائی جائے کہ وہ رائے عامہ کوباشعور بنانے اور انھیں مطلوبہ اقدامات پر آمادہ کرنے کے لیے مذہبی راہ نماؤں کے اثر ورسوخ کو بھی استعمال کریں اور ان کے پیغامات کو شامل کر کے اپنی مہم کو زیادہ موثر بنائیں۔
- ائمہ وخطبا کی تربیت اور ان میں سماجی سطح پر موثر کردار ادا کرنے کی استعداد پیدا کرنے کے سلسلے میں دعوہ اکیڈمی کا تربیتی پروگرام بہت مفید ہے ، لیکن وسائل کے لحاظ سے اس کا دائرہ بہت محدود ہے۔ یہ سلسلہ زیادہ بڑے اور وسیع پیمانے پر شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ائمہ وخطبا کو معاشرہ کی اصلاح اور ترقی کے عمل کا حصہ بنایا جا سکے۔
بہت سے دوسرے شرکا نے اپنی گفتگو میں جو نکات اٹھائے، ان میں سے اہم حسب ذیل ہیں:
بعض شرکا نے اس طرف توجہ دلائی کہ ائمہ مساجد اورخطبا کے وژن اور عملی کردار کے حوالے سے LOI پروگرام کے حقیقی عملی اثرات اور نتائج پر خاطر خواہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں اور مہیا کردہ معلومات سے یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ تربیتی پروگراموں میں شریک ہونے والے ائمہ اور خطبا جب واپس اپنے ماحول میں جاتے ہیں تو کس حد تک مطلوبہ سماجی مسائل ومشکلات میں دلچسپی لیتے ہیں اور یہ کہ اس پروگرام کی قدر پیمائی (evaluation ) کے لیے کوئی قابل اعتماد نظام موجود ہے یا نہیں۔ مسٹر رسل پے پے نے اس کے جواب میں بتایا کہ LOIپروگرام میں شرکت کرنے والے ائمہ اورخطبا کو کورس کے اختتام پر ایک گائیڈ بک مہیا کی جاتی ہے جس میں اس بات کی تفصیلی راہ نمائی موجود ہے کہ وہ مختلف سماجی مسائل کے حوالے سے عملاً کام کرنا چاہیں تو اس کا طریقہ کیا ہے اور اس ضمن میں وہ کون کون سے اداروں سے رابطہ کر کے مزید راہ نمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ مزید برآں ہر چار ماہ کے بعد شرکا کو ایک سوال نامہ بھیجا جاتا ہے اور اس کی مدد سے یہ جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ سماجی سطح پر کس حد تک مطلوبہ مقاصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً مختلف علاقوں کا دورہ کر کے عملی صورت حال معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مسٹر رسل نے کہا کہ اس سے زیادہ فرداً فرداً ہر شخص کی کارکردگی جانچنے کا کوئی نظام ان کے پاس موجود نہیں ہے۔
ایک سوال یہ اٹھایا گیا کہ جن سماجی مقاصد کے لیے پروگرام ترتیب دیا گیا ہے، وہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ترقی پسندانہ (Progressive) ہیں جبکہ مذہبی لوگ قدامت پسند ہوتے ہیں تو انھیں ان مقاصد کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرنے پر کیونکر آمادہ کیا جا سکتا ہے؟ اس پر مسٹر رسل پے پے نے کہا کہ تربیتی پروگرام کے شرکا کو مختلف مراکز میں لے جا کر عملی صورت حال کا مشاہدہ کرنے اور اس طرح سماجی مسائل سے براہ راست واقفیت حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے جس سے ان کا exposure وسیع ہوتا ہے اور ان کے اندر کردار ادا کرنے کا داعیہ بیدار ہوتا ہے۔ انھوں نے مثال کے طورپر یہ واقعہ سنایا کہ ایک موقع پر پروگرام کے شرکا کو ایک HIV-AIDS سنٹر لے جایا گیا جہاں ایڈز سے متعلق لوگوں کوراہنمائی فراہم کی جا رہی تھی۔ وہاں ایک نوجوان قحبہ (Prostitute) بھی موجود تھی۔ شرکا سے جب اس کا تعارف کرایا گیا تو ایک مولوی صاحب نے بہت سخت لہجے میں اسے وعظ کرنا شروع کر دیا کہ تم جو کام کرتی ہو، وہ حرام اور گناہ ہے، اس لیے تمہیں چاہیے کہ اس پیشے کو فوراً ترک کر دو۔ اس کے جواب میں اس خاتون نے دو باتیں کہیں۔ ایک یہ کہ اس پیشے سے وابستہ خواتین یہ پیشہ شوق سے نہیں، بلکہ غربت اور مجبوری کی وجہ سے اختیار کرتی ہیں، اس لیے اگر آپ لوگ ان کفالت کا ذمہ اٹھا لیں تو وہ یہ پیشہ چھوڑ دینے کے لیے تیار ہیں۔ دوسری یہ کہ آپ جیسی معزز اور شریفانہ شکل وصورت رکھنے والے حضرات دن کے وقت ہمیں گناہ اور ثواب کا وعظ کرتے ہیں اور رات کو ہماری خدمات حاصل کرنے کے لیے ہمارے پاس پہنچے ہوتے ہیں جو ایک منافقانہ روش ہے۔ خاتون کی اس بات پر مولوی صاحب ذرا ٹھنڈے ہوئے اور انھیں اندازہ ہوا کہ اس نوعیت کے سماجی مسائل اتنے سادہ نہیں ہوتے کہ انھیں محض وعظ کے ذریعے حل کیا جا سکے۔ مسٹر رسل نے یہ واقعہ بطور مثال بیان کر کے کہا کہ ان کا ادارہ ائمہ اور خطبا کو اسی طرح مشاہدہ، تجربے اور میل جول کے ذریعے سماجی مسائل اور ان کی پیچیدگیوں سے عملی طور پر روشناس کرانے کی کوشش کرتا ہے اور اس مقصد میں انھیں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ (اس پر مجھے چند سال قبل عالمی ادارۂ صحت کی وہ رپورٹ یاد آ گئی جس میں ایشیائی ممالک میں جسم فروشی کے کاروبار اور اس کے ساتھ وابستہ خطرات اور بیماریوں کی نشان دہی کے باوجود یہ کہا گیا تھا کہ بعض ممالک میں اس کاروبار پر علی الفور قانونی پابندی عائد کرنے کی سفارش نہیں کی جا سکتی، اس لیے کہ غربت اور افلاس کا یہ عالم ہے کہ بے شمار خواتین محض جسم وجان کا تعلق قائم رکھنے کے لیے بھی اپنا جسم بیچنے پر مجبور ہیں۔)
مسٹر نذر الاسلام نے اس پرمزید یہ اضافہ کیا کہ ایک امام صاحب جو پہلے اپنے خطبات جمعہ میں ایڈز کا شکار ہونے والے مریضوں کے خلاف سخت تقریریں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ لوگ حرام کاری اور گناہ میں ملوث ہیں، اس لیے انھیں سماج میں الگ تھلگ کر دینا چاہیے، LOIپروگرام کے ذریعے اس مسئلے سے قریبی واقفیت حاصل کرنے کے بعد انھوں نے ایک ماڈل خطبہ تیار کیا ہے جس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں کی راہ نمائی کی گئی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کریں۔ (اس موقع پر مجھے وہ حدیث یاد آ گئی جس میں بیان ہوا ہے کہ جب ایک شخص نے رات کے اندھیرے میں نادانستہ صدقے کا مال ایک چور اور ایک بدکار عورت کو دے دیا اور پھر پتہ چلنے پر اپنے صدقے کے رائیگاں چلے جانے پر افسوس کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے خواب میں یہ بتایا گیا کہ اس کا صدقہ ضائع نہیں ہوا، کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس رقم سے اپنی ضرورت پوری ہو جانے کی وجہ سے چور، چوری سے اور بدکار عورت بدکاری سے باز آ گئی ہو۔)
اختتامی سیشن میں ایشیا فاؤنڈیشن بنگلہ دیش کے نمائندہ مسٹر حسان نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے جب وہ ایشیا فاؤنڈیشن کے ساتھ وابستہ ہوئے اور انھیں LOI پروگرام کا علم ہوا تو وہ اس کی کامیابی کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار تھے اور ان کا خیال تھا کہ امام صاحبان خاصے قدامت پسند ہوتے ہیں اور صرف مذہبی موضوعات پر ہی بات کرنا پسند کرتے ہیں، اس لیے انھیں سماجی مسائل کے حوالے سے کوئی مثبت کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنے میں زیادہ کامیابی نہیں ہوگی، لیکن عملی تجربے کے بعد اب ان کے شکوک وشبہات باقی نہیں رہے۔ مسٹر حسان نے بتایا کہ انھوں نے ایک پروگرام کے شرکا کے ساتھ تبادلہ خیال کیا تو وہ ان کے خیالات سن کر بے حد متاثر ہوئے، کیونکہ امام صاحبان ان مسائل میں گہری دلچسپی لے رہے تھے اور بہت اشتیاق اور گہرے مخلصانہ جذبے کے ساتھ معاشرتی اصلاح اور سماجی تبدیلی کے لیے متحرک کردار ادا کرنا چاہتے تھے۔
مسٹر رسل پے پے نے کہا کہ LOI پروگرام کے سلسلے میں انھیں عملی طور پر جس مشکل کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ مذہبی لوگوں اور لبرل طبقات کے مابین بداعتمادی کی فضا ہے، کیونکہ مذہبی لوگوں کے ذہنوں میں این جی اوز کا ایک عجیب وغریب تصور جاگزیں ہے اور لبرل طبقے مذہبی لوگوں کا نام سنتے ہی بدک جاتے ہیں۔
بنگلہ دیش کا یہ تین روزہ دورہ وہاں کے مذہبی و لبرل طبقات کے باہمی تعاون واشتراک پر مبنی اس سماجی تجربے کے بارے میں جاننے کے حوالے سے بے حد مفید رہا اور مجھے ذاتی طور پر اس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، البتہ ایک تشنگی محسوس ہوتی رہی کہ پورے پروگرام میں نہ تو منتظمین کی طرف سے اس کا اہتمام کیا گیا تھا کہ مہمانوں کو LOI پروگرام کے تحت تربیت حاصل کرنے والے ائمہ اور خطبا کے ساتھ براہ راست تبادلہ خیال کا موقع فراہم کیا جاے اور نہ شیڈول میں اس کی گنجائش نکل سکی کہ ازخود اس کا موقع پیدا کر لیا جائے۔ میری خواہش تھی کہ اس تجربے کے حوالے سے خود ائمہ اور خطبا کے خیالات و تاثرات نیز خدشات اور تحفظات براہ راست ان سے معلوم کیے جائیں تاکہ صورت حال کا معروضی تجزیہ کرنے میں مدد مل سکے، لیکن افسوس کہ اس کا کوئی مناسب موقع نہ مل سکا اور منتظمین کے مرتب کردہ بے لچک شیڈول میں رسمی علیک سلیک کے علاوہ ہم بنگلہ دیش کے ائمہ وخطبا سے کوئی تفصیلی تبادلہ خیال نہ کر سکے۔ میری تجویز ہوگی کہ اس نوعیت کے آئندہ پروگراموں میں یہ پہلو بطور خاص شیڈول کا حصہ بنایا جائے اور مقامی ائمہ وخطبا کے ساتھ مہمانوں کی ملاقات اور تبادلہ خیال کے لیے ایک مستقل سیشن وقف کیا جائے تاکہ انھیں ایک کھلے ماحول میں اس تجربے میں شریک تمام فریقوں کا زاویہ نگاہ سمجھنے اور اپنے تجزیے کی بنیاد مکمل اور براہ راست حاصل کردہ معلومات پر رکھنے میں مدد ملے۔
۱۱؍ جنوری کی شب کو یو ایس اے آئی ڈی کے نمائندہ مسٹر رسل پے پے نے مہمانوں کے اعزاز میں اپنی رہائش گاہ پر ایک پرتکلف عشائیے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ مسٹر رسل پے پے کیتھولک ہیں اور کینیڈا سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں کیتھولک مسیحیوں کی روایتی مذہبی اسپرٹ پوری طرح زندہ محسوس ہوئی اور انھوں نے متعدد مواقع اپنے کیتھولک ہونے کا ذکر بڑے تاثر کے ساتھ کیا۔ آخری ملاقات میں جب میں نے ان سے کہا کہ میں نے آپ کا ای میل ایڈریس لے لیا ہے اور ان شاء اللہ ہم رابطے میں رہیں گے تو انھوں نے ’’ان شاء اللہ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں بھی بالکل یہی روایت ہے، کیونکہ میری والدہ کیتھولک تھیں اور جب میں تعلیم کے زمانے میں ہاسٹل سے انھیں فون پر بتاتا کہ اس ویک اینڈ پر میں ان سے ملنے آؤں گا تو وہ کہتیں: God willing، یعنی ان شاء اللہ۔
مسٹر رسل کی رہائش گاہ پر ہماری ملاقات کینیڈا ہی کے ایک دراز قد، ذہین اور خوش مزاج نوجوان Daniel Jones سے ہوئی۔ جب میری پہلی نظر ڈینئل پر پڑی تو وہ نیپال سے آئے ہوئے ہمارے نوجوان دوست نرجن رائے سے محو گفتگو تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر ان کی گفتگو میں مخل ہوتے ہوئے دونوں سے مصافحہ کیا اور مذاق کے طور پر ڈینئل سے پوچھا کہ کیا آپ بھی نیپال سے ہیں؟ وہ حیرانی سے بولے کہ کیا میں شکل سے نیپالی لگتا ہوں؟ میں نے کہا کہ مجھے بھی اسی بات پر حیرت ہے کہ آپ شکل سے تو نیپالی نہیں لگتے۔ میرے اس مذاق پر وہ بہت ہنسے اور ہمارے درمیان فوراً بے تکلفی کی فضا قائم ہو گئی۔ ڈینیئل نے بتایا کہ وہ سوشل سائنسز میں ایم فل کی ڈگری کے امیدوار ہیں اور اپنے مقالے کی تکمیل ہی کے سلسلے میں بنگلہ دیش آئے ہوئے ہیں۔ میں نے ان سے مقالے کا عنوان پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ انھوں نے "Men's Sexual Health" (مردوں کی جنسی صحت) کے موضوع پر ریسرچ کی ہے اور ان کا مقالہ www.icddrb.org پر دستیاب ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تو بہت دلچسپ اور حساس موضوع ہے تو ڈینئل نے اس کی تائید کی اور کہا کہ یہاں بنگلہ دیش میں انھیں لوگوں سے اس موضوع پر بات کرنے اور ان سے معلومات حاصل کرنے میں خاصی دقت پیش آئی، کیونکہ مشرقی معاشروں میں جنسی مسائل اور موضوعات پر سنجیدہ گفتگو نہیں کی جاتی۔ ڈینئل نے کہا کہ یہاں بے شمار لوگ شادی سے پہلے جنسی تعلق قائم کرتے ہیں، موبائل فون پر جنسی تفریح کرتے ہیں اور مختلف جنسی مسائل اور بیماریوں کا شکار ہیں، لیکن اس پر گفتگو کرنے سے شرماتے ہیں۔ ڈینئل نے بتایا کہ انھوں نے نوجوانوں سے اس موضوع پر معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک دلچسپ طریقہ اختیار کیا۔ وہ یہ کہ وہ کالج یا یونی ورسٹی میں کسی جگہ جا کر بیٹھ جاتے اور بہت سے نوجوان یہ دیکھتے ہوئے کہ ایک انگریز یہاں بیٹھا ہوا ہے، تجسس سے ان کے پاس آکر بیٹھ جاتے اور ان سے مختلف سوال کرنا شروع کر دیتے کہ تم یہاں کیوں بیٹھے ہو اور کس مقصد کے لیے بنگلہ دیش آئے ہو؟ اس طرح آہستہ آہستہ وہ ان نوجوانوں سے بے تکلفی پیدا کر لیتے جو مطلوبہ معلومات کے حصول کے لیے خاصی مدد دیتی۔
ڈینئل نے کہا کہ ان کا مشاہدہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی نئی نسل مختلف عوامل کے تحت زیادہ کھلے ذہن سے سوچتی ہے اور بہت سے سوالات پر ازسرنو غور کرنے کے لیے تیار ہے۔ میں نے کہا کہ پاکستان میں بھی بلکہ کم وبیش ہر جگہ یہی صورت حال ہے۔ ڈینئل نے پوچھا کہ تم اس صورت حال کو کیسے دیکھتے ہو؟ میں نے کہا کہ یہ ایک اچھی اور مثبت تبدیلی ہے۔ ایک مولوی کے منہ سے یہ جواب سن کر ڈینئل خاصے حیران ہوئے اور پوچھا کہ کیا تم اپنی بات کی وضاحت کرو گے؟ میں نے کہا کہ میری رائے میں اس وقت ہمیں سیاسی، سماجی اور مذہبی سطح پر جو مسائل درپیش ہیں، ان کا ایک بڑا سبب بہت سے لگے بندھے خیالات (Stereotypes) ہیں جو ایک تیزی سے بدلتے ہوئے سماج میں اپنی معنویت کھو چکے ہیں، اس لیے اگر نئی نسل سوالات اٹھانے اور نئے سرے سے مسائل پر غور کرنے پر آمادہ ہے تو یہ یقیناًایک مثبت چیز ہے جسے اگر دانش مندی اور بصیرت کے ساتھ استعمال کیا جائے تو وہ درپیش مسائل کے حل میں کارآمد ثابت ہوگی۔
۱۴؍ جنوری کو ہم بنگلہ دیش سے واپسی کے لیے روانہ ہوئے۔ ہمارا سفر امارات کی ایئر لائن کے ذریعے سے تھا، چنانچہ ۱۴ اور ۱۵ جنوری کی درمیانی شب ہمیں دوبئی ایئر پورٹ پر گزارنا پڑی۔ دبئی ایئر پورٹ فی الواقع بہت بڑا ہے او ر سہولتوں اور انتظامات کے لحاظ سے اس کا شمار دنیا کے بہترین ایئرپورٹوں میں ہوتا ہے۔ ہم نے بارہ گھنٹے کو محیط اپنے قیام کا وقت زیادہ تر یہاں بنائی گئی وسیع وعریض مارکیٹ کی دوکانوں پر گھومتے پھرتے گزرا۔ دبئی ایک اسلامی ملک ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے دنیا کے ایک بڑے تجارتی مرکز کی حیثیت بھی حاصل ہے اور مشرق ومغرب کے عین وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے دبئی ایئر پورٹ دنیا بھر کے مختلف ملکوں، نسلوں اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے مسافروں کی اجتماع گاہ ہے۔ ایک طرف روایتی طور پر اسلام کے ساتھ وابستگی کے تقاضوں کو نباہنے اور دوسری طرف دنیا بھر کے سیاحوں اور کاروباری لوگوں کے لیے کشش پیدا کرنے کی خواہش کی بدولت یہاں کی حکومتی پالیسیوں میں ’دین‘ اور ’دنیا‘ کا ایک عجیب امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ اس ’امتزاج‘ کا نمونہ ایئر پورٹ پر بھی دیکھنے کوملتا ہے جہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ مسجدیں موجود ہیں اور ہر نماز کے لیے لاؤڈ اسپیکر پر باقاعدہ اذان دی جاتی ہے جو ایئر پورٹ کے ہر کونے میں سنائی دیتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ شراب کی بڑی بڑی دکانیں بھی پوری آب وتاب کے ساتھ سجی ہوئی ہیں جہاں دنیا بھر سے منگوائی جانے والی مختلف برانڈ کی مہنگی ترین اور نفیس ترین شرابیں سرعام میسر ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آ سکا کہ سوائے تجارتی مقاصد یا لبرل ازم کی نمائش کے، ایسی کون سی حقیقی مجبوری ہو سکتی ہے جس کے تحت ایک مسلمان ملک کے ایئر پورٹ پر ام الخبائث کی ایسی پر رونق دکانیں سجانے کی اجازت دی جائے۔ بنگلہ دیش کے ایئر پورٹ پر بھی یہی منظر دیکھنے میں آیا۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ملک کے ایئر پورٹ اس ’’کفر بواح‘‘ سے محفوظ ہیں۔ جناب ڈاکٹر یوسف فاروقی سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ عرب امارات کے حکمرانوں نے اس خطے کے جغرافیائی محل وقوع اور خدا کے دیے ہوئے وسائل کے تناظر میں دنیا بھر کے تاجروں کی توجہ حاصل کرنے اور عالمی سرمایے کو کھینچ کر یہاں لانے کے لیے تو بہت منظم منصوبہ بندی کی ہے، لیکن افسوس ہے کہ عالمی روابط اور مشرق ومغرب کی قوموں کے اختلاط کے اس ماحول کو اسلام کا پیغام دنیا تک پہنچانے کے لیے استعمال کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ میرے ذہن میں آیا کہ یہاں شراب کی دکانوں جتنا بڑا نہ سہی، لیکن کسی نمایاں جگہ پر اگر ایک ایسا ڈیسک قائم کیا جاتا جہاں دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن وحدیث اور کتب سیرت کے تراجم اور اسلامی تعلیمات کے تعارف پر مبنی لٹریچر مفت دستیاب ہوتا اور اس منصوبے کو حکومت امارات کی سرپرستی حاصل ہوتی تو شایدوہ خدا کے دیے ہوئے مال کے بارے میں ’فیم انفقہ‘ کے سوال کا بہتر جواب دینے کی پوزیشن میں ہوتی۔
دبئی ایئر پورٹ کی مختلف دکانوں پر کاروباری خندہ پیشانی چہرے پر سجائے مرد اور خواتین تو ہر جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں، لیکن مجھے یہاں ایک حقیقی خوش اخلاقی کا تجربہ بھی ہوا۔ ایک بک اسٹال پر کتابیں دیکھتے دیکھتے مجھے مشہور امریکی مستشرق جان ایل اسپوزیٹو کی کتاب ’’Who Speaks for Islam?‘‘ کا عربی ترجمہ بعنوان ’’من یتحدث باسم الاسلام؟‘‘ نظر پڑ گیا جو دار الشروق، مصر کے زیر اہتمام طبع ہوا ہے۔ کتاب پر قیمت ۴۸ درہم درج تھی، جبکہ میرے پاس کھلی رقم ۴۵ درہم کی تھی اور سردست کوئی بڑا نوٹ کھلا کرانے کا ارادہ نہیں تھا۔ میں کتاب کاؤنٹر پر کھڑی سیلز گرل کے پاس لے گیا، جس کا تعلق غالباً فلپائن یا کوریا سے تھا، اور اس سے پوچھا کہ کیا تم یہ کتاب مجھے ۴۵ درہم میں دے سکتی ہو؟ اس نے ذرا تردد کے بعد پوچھا کہ کیا تمھارے پاس صرف ۴۵ درہم ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے، اتنے ہی دے دو۔ میں نے جیب سے ۴۵ درہم نکال کر اسے دے دیے، لیکن جب اس نے مشین سے بل نکال کر میرے ہاتھ میں تھمایا تو وہ ۴۸ درہم کا تھا۔ مجھے اس پر سخت خلش محسوس ہوئی، کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ رعایت کر کے قیمت میں سے ۳ درہم کم کر دے گی، لیکن غالباً یہ اس کے اختیار میں نہیں تھا۔ میں پلٹ کر اس کے پاس گیا اور کہا کہ بل پر تو قیمت ۴۸ درہم ہی درج ہے۔ اس نے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تین درہم یقیناًتمھیں اپنے پاس سے ادا کرنا پڑیں گے جو مجھے ہرگز پسند نہیں۔ اس پر وہ ہنس پڑی اور تھوڑا سوچ کر کہنے لگی کہ ہمارے پاس حساب کتاب کی کمی بیشی کو پورا کرنے کے لیے کچھ زائد رقم موجود ہوتی ہے۔ تاہم میں مطمئن نہیں ہوا اور اس سے کہا کہ میرے پاس درہم تو نہیں، البتہ سو ڈالر کا نوٹ موجود ہے، تم اس میں سے یہ رقم منہا کر لو، لیکن اس نے انکار کر دیا اور اصرار سے کہنے لگی کہ تم کتاب لے جاؤ، یہ صرف تین درہم کی تو بات ہے۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور بڑے تردد کے ساتھ وہاں سے چلا آیا، لیکن تھوڑی دیر کے بعد سو درہم کا نوٹ لے کر دوبارہ اس کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ اس میں سے تین درہم کاٹ لو۔ اس نے پیسے لینے سے انکار کر دیا اور بڑی معصومیت سے باربار It's OK, sir (بس ٹھیک ہے جناب) کہتی رہی۔ میں پھر وہاں سے واپس چلا آیا، لیکن کافی دیر کے بعد جب کچھ مزید خریداری کرتے ہوئے میرے پاس چند سکے جمع ہو گئے تو میں تین درہم کا قرض ادا کرنے کے لیے خاصا فاصلہ طے کر کے دوبارہ اسی بک اسٹال پر پہنچ گیا، لیکن اب کاؤنٹر پر ایک دوسری خاتون کھڑی تھی۔ میں نے صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے تین درہم اس کو دیے اور وہاں سے واپس آ گیا۔
۱۵ جنوری کو رات کے پچھلے پہر امارات کی ایئر لائن دوبئی سے روانہ ہو کر صبح ۸ بجے کے قریب اسلام آباد ایئر پورٹ پر اتری اور اس طرح یہ مطالعاتی سفر اختتام کو پہنچا۔ میں ان تمام اداروں اور حضرات کا شکر گزار ہوں جن کے تعاون اور انتظام سے اس تین روزہ مطالعاتی دورے میں شرکت اور استفادہ کا موقع میسر ہوا۔ بنگلہ دیش میں قیام ایک پر سکون اور دوستانہ ماحول میں رہا جس کے لیے ایشیا فاؤنڈیشن بنگلہ دیش کے منتظمین کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے، جبکہ ایشیا فاؤنڈیشن، پاکستان کی سینئر پروگرام آفیسر محترمہ نادیہ طارق علی اور ان کے معاونین اس پہلو سے شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے بعض الجھنوں کے باوجود بڑے خلوص اور دلچسپی کے ساتھ کوشش کر کے اس سفر کو ممکن بنایا۔
اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب (۳)
محمد زاہد صدیق مغل
۳) اسلامی بینکنگ کے امکانات کا جائزہ
بینکنگ کے درست تصور کو سمجھ لینے کے بعد اب ہم اس کی اسلامیت کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بحث کو ہم درج ذیل امور پر تقسیم کرتے ہیں۔
۳.۱: بینکنگ کی شرعی حیثیت
جیسا کہ ابتدائے مضمون میں ذکر کیا گیا تھا کہ بینکنگ کی اسلام کاری ممکن ہونے کا دعوی دوشرائط کی تکمیل پر منحصر ہے۔ اول fractional reserve banking کاشرعاً جائز ہونا، دوئم نظام بینکاری کو سود کے بجائے بیع میں تبدیل کرلینا۔ مجوزین بینکاری نظام کا غلط تصور قائم کرنے کی وجہ سے صرف ’غیر سودی بینکاری ‘ کے امکانات کی ثانوی بحث میں الجھے رہتے ہیں ، گویا ان کے نزدیک بینکنگ کی واحد خرابی اس کا ’سود‘ استعمال کرنا ہے، اور جواز بینکاری کی ساری بحث کو وہ اسی ایک مسئلے پر مرتکز کردیتے ہیں۔ اس ناقص فہم کے باعث وہ fractional reserve banking کی پوری بحث پس پشت ڈال دیتے ہیں، جبکہ بینکنگ کی اسلام کاری ممکن ہونے کی بحث میں بینک کا سودی یاغیر سودی ہونا ثانوی مسئلہ ہے بنیادی بحث یہ ہے کہ بینک جو زر تخلیق کرتا ہے اسکی شرعی حیثیت کیا ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل درج بالا گفتگو سے اخذ ہونے والے تین اہم مقدمات اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے:
۱۔ جب تک اکانومی میں ایک ایسا ایجنٹ موجود رہے گا جو بیک وقت لوگوں سے رقم (deposit) وصول بھی کرے اور ادھار (financing) بھی دے، اس وقت تک ’فرضی زر کی تخلیق‘ کا عمل جاری رہے گا اور یہ ایجنٹ (یا ادارہ) لازماً (جعلی) ’قرض کی رسید‘ (promise of payment) کو آلہ مبادلہ (means of payment) کی حیثیت دے کر اصل زر کے خاتمے کا باعث بنے گا۔ ظاہر ہے اگر بینک ڈپازٹس (جو promise of payments کی رسید ہوتے ہیں) کو بطور آلہ مبادلہ استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو تو اس صورت میں بینک کی قرض دینے کی صلاحیت ختم ہوجائے گی اور وہ محض ایک ایسے ادارے کی حیثیت اختیار کرلے گا جہاں لوگ اپنی امانت حفاظتی نقطہ نگاہ سے جمع کراتے ہوں ۔ مگر ایسے کسی ادارے کو کسی بھی تعریف (یہاں تک کہ مجوزین کی تعریف ) کی رو سے بینک نہیں کہا جاسکتا۔ چنانچہ ثمن حقیقی پر مبنی مالیاتی نظام میں ’بیت المال‘ وغیرہ تو ہوسکتے ہیں، مگر بینک نہیں ہوسکتے ۔
۲۔ لہٰذا بینکنگ ’صرف اور صرف ‘ ایک ایسے مالیاتی نظام ہی میں ممکن ہے جہاں ثمن حقیقی یا اصل زر کے بجائے قرض پر مبنی زر (promise of payment) بطور آلہ مبادلہ (means of payment) استعمال ہو اور ایک ایسا مالیاتی نظام جہاں ثمن حقیقی یا اصل زر بطور قانون رائج ہو وہاں بینک کا وجود کالعدم ہوجائے گا۔ یعنی وجود بینکنگ کے لیے لازم ہے کہ قرض لوگوں کا ذاتی معاملہ نہ رہے بلکہ اسے بطور آلہ مبادلہ استعمال کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ اکانومی میں ایک شخص قرض دینے اور ڈپازٹس وصول کرنے کا کام بھی کررہا ہو مگر قرض کی رسید بطور آلہ مبادلہ استعمال نہ ہورہی ہو ۔
۳۔ یہی وجہ ہے کہ بینکنگ کو شرکت و مضاربت کے اصولوں پر چلانا نا ممکن ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شرکت و مضاربت کے معاہدات میں تخلیق زر کی صورت قطعاً پیدا نہیں ہوتی، کیونکہ یہ ’نجی معاہدات ‘ ہوتے ہیں نہ کہ آلہ مبادلہ کے طور پر استعمال ہونے والے مالی دعوے۔ شرکت و مضاربت کے اصولوں پر بینکاری ممکن ہونے کا وہم صرف انہی حضرات کو ہوسکتا ہے جو بینک کو غلط طور پر زری ثالث سمجھ بیٹھے ہوں۔ (۲۱)
ان بنیادی مقدمات کو ذہن نشین کرلینے کے بعد نظام بینکاری کی شرعی حیثیت سمجھ لینا بالکل آسان ہوجاتا ہے۔ اس گفتگو کے دوتناظر ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ بینک ڈپازٹس کی شکل میں جو زر تخلیق کرتا ہے، وہ ’جعلی قرض کی رسید ‘ ہوتا ہے۔ دوئم یہ زر کسی حقیقی اثاثے کی بنیاد پر قائم شدہ قرض ہوتا ہے۔ (یہ دوسری صورت محض بحث کے لیے فرض کی گئی ہے، کیونکہ fractional reserve banking میں یہ بہر حال امر محال ہے)۔
بینک زر بطور حقیقی قرض کی رسید
قرض کی رسید کو بطور آلہ مبادلہ استعمال کرنے کا عدم جواز علماء کرام کیلئے کوئی نئی بحث نہیں اور اسکے دلائل ذکر کرنا تحصیل حاصل کے زمرے میں شمار ہوگا لہذا خوف طوالت کی بنا پر اس سے سہو نظر کرتے ہیں، اس ضمن میں موطا امام مالک ؒ میں یحیی سے روایت شدہ درج ذیل واقعہ راہنمائی کیلئے کافی ہے:
- مروان بن حکم کے دور میں جب مرکز سے رقم (درہم و دینار) پہنچنے میں تاخیر ہوئی تو صوبے کے گورنر نے لوگوں کو بازار کی اشیاء خریدنے کیلئے رسیدیں جاری کر دیں جنہیں لوگوں نے خرید نا اور بیچنا شروع کردیا۔ حضرت زید بن ثابتؓ نے مروان سے کہا کہ کیا تم سود کو حلال کررہے ہو؟ مروان نے کہا کہ میں اس چیز سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں؟ آپؓ نے فرمایا کہ پھر یہ رسیدیں کیا ہیں جنہیں لوگ خرید اور بیچ رہے ہیں؟ اسکے بعد مروان نے وہ رسیدیں لوگوں سے واپس لے لیں۔ اس روایت میں اہم بات یہ ہے کہ حضرت زید بن ثابتؓ نے ان رسیدوں (promise of payment) کے استعمال کو سود کہا جنہیں لوگ اشیا کی خرید و فروخت کیلئے استعمال کررہے تھے۔ معلوم ہوا کہ قرض کی رسید (دین) کو بطور آلہ مبادلہ استعمال کرنا شرعاً ناجائز ہے، یعنی قرض (دین) جس مال (عین) کی رسید ہو مبادلے سے قبل اس مال پر قبضہ کئے بغیر رسیدوں ہی کو بطور آلہ مبادلہ استعمال کرنا درست نہیں۔ اسی اصول کو یوں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ قرض کی خرید و فروخت ناجائز ہے۔ شرع قرض کو ایک نجی معاہدے کی حیثیت دیتی ہے اور معاہدے کو نجی حیثیت سے نکال کر ’بطور آلہ مبادلہ ‘ استعمال کرنا درست نہیں اور بینکاری (بشمول اسلامی بینکاری) درحقیقت اسی عمل کی آفاقیت کا دوسرا نام ہے۔
بینک زر بطور جعلی قرض کی رسید
اس صورت پر درج بالا کے علاوہ دو مزید اشکالات پیدا ہوتے ہیں:
۱۔ کیا شرعاً ایسا وعدہ کرنا جائز ہے جسے پورا کرنا عملاً ناممکن ہو اور وعدہ کرنے والا اس حقیقت سے واقف بھی ہو؟ اگر یہ جائز ہے تو کیا صرافوں کا ایسا کرنا بھی جائز تھا؟ اس سلسلے میں مجوزین کے نظریہ زر کے مطابق دوسری اہم بات یہ ہے کہ بینک کا زر درحقیقت افراط زر کا باعث بھی بنتا ہے جسکے نتیجے میں لوگوں کی قوت خرید اور اثاثوں کی مالیت میں کمی واقع ہوجا تی ہے اور اس کا اثر ہر خاص و عام پر بلکہ غریب عوام پر زیادہ پڑتا ہے (۲۲) ۔ یوں قوت خرید زر استعمال کرنے والے ایجنٹ سے زر تخلیق کرنے والے ایجنٹ (حکومت و بینک) کی طرف منتقل ہوجاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طریقے سے لوگوں کی مال و دولت ہتھیا لینا شرعاً جائز ہے؟ قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
لاَ تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَکُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ (نساء: ۲۹)
’آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے مت کھاؤ، بلکہ باہمی رضا مندی سے لین دین ہونا چاہئے‘‘’
ظاہر ہے فرضی زر تخلیق کرکے لوگوں کے مال ہتھیا لینے کا شمار تجارت میں نہیں ہوسکتا، پس اس طرح مال کھانا ’باطل‘ طریقوں سے لوگوں کے مال کھانے کے زمرے میں شامل ہوگا۔
۲۔ آخر اس بات کی کیا شرعی و عقلی دلیل ہے کہ ایک ایجنٹ (بینک یا حکومت) کو تخلیق زر کی کھلی اجارہ داری دے دی جائے اور وہ محض زر تخلیق کرکے رقم بناتا پھرے (۲۳) ؟ ظاہر ہے بینک جو زر تخلیق کرتا ہے ایک طرف وہ اسے قرض پر دیکر نفع کماتا ہے تو دوسری طرف ان (جعلی ) قرضوں کو بطور اثاثہ بنا کر ان کا مالک بن بیٹھتا ہے۔ اگر ایسا کرنا ٹھیک ہے تو سب لوگوں کو اس چیز کی قانونی اجازت ملنی چاہئے کہ وہ اپنے اپنے نوٹ چھاپ کر (یا سرکاری نوٹوں کی فوٹو کاپیاں بنا کر) استعمال کریں۔
۳.۲: دفاع بینکاری کے لایعنی عذر
جب بینکنگ کے درست تصور کی حقیقت واضح کردی جائے تو مجوزین بے سروپا تاویلوں اور عذروں کی بنیاد پر اسکا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن میں چند ایک کا ذیل میں مختصر تجزیہ کیا جاتا ہے۔
- تمام لوگ کبھی بینک سے اصل زر نکلوانے نہیں آتے، لہذا بینکنگ درست ہوئی: اس عذر کا اصل بحث سے کچھ لینا دینا ہی نہیں، دھوکہ آخر دھوکہ ہے چاہے کوئی اس کی شکایت کرے یا نہ کرے۔ اگر کوئی شخص مہارت کے ساتھ لوگوں کی جیب کاٹتا رہے اور کسی کو معلوم نہ ہو نیز کوئی اسکے خلاف مقدمہ بھی درج نہ کرائے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ اس طرح چوری کرنا درست عمل ہے؟
- بینک یہ سب حکومت کی اجازت سے کرتا ہے: یہ عذر بھی غیر متعلق ہے کیونکہ حکومت کا کسی فعل کو جائز کہہ دینا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ شرعاً بھی جائز ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یورپ میں شراب کی خرید وفروخت اور زنا حکومت اور قانون کی اجازت سے کیے جاتے ہے تو کیا یہ سب بھی جائز ہونگے؟ اسی طرح مسلم ممالک میں سود ی لین دین بھی حکومت کی اجازت ہی سے ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ حکومت کو شریعت کی پابند ی کرنا ہے نہ کہ شرع کو حکومت کی
- سو فیصد reserve بینکنگ کے ساتھ بینکاری جائز ہوگی (۲۴): یہ کہنے والے حضرات درحقیقت بینکاری کو سمجھے نہیں، اوپر یہ واضح کیا گیا کہ جب تک اکانومی میں ایک ایسا ایجنٹ موجود رہتا ہے جو بیک وقت رقوم وصول کرنے اور قرض دینے کا کام کرتا ہے اس وقت تک فرضی زر کی تخلیق کا عمل جاری رہے گا۔ یہ عمل صرف اس وقت ختم ہوگا جب اصل زر کے علاوہ اور کوئی شے بطور آلہ مبادلہ استعمال نہ کی جائے۔ ظاہر ہے اگر بینک سو فیصد reserve بینکنگ کے اصول پر کام کرنے لگیں تو وہ سرے سے بینک رہیں گے ہی نہیں کیونکہ اس صورت میں انکی قرض دینے کی صلاحیت سلب ہوجائے گی۔ پھر فرض کریں اگر اس اصول کے مطابق بینکاری کی بھی جانے لگے تو یقین مانئے صفحہ ہستی سے ختم ہونے والا سب سے پہلا کاروبار بینکاری ہی ہوگا کیونکہ اس صورت میں یہ ہرگز بھی نفع بخش نہ رہے گا۔ بینکوں کی آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں، خوبصورت فرنیچر، ان کے ملازمین کی لاکھوں روپے کی تنخواہیں وغیرہ درحقیقت وہ ثمرات ہیں جن کا حصول سو فیصد reserve بینکنگ میں ممکن نہیں رہتا۔ آخری بات یہ کہ فی الوقت دنیا میں اس اصول کے مطابق بینکاری (بشمول اسلامی بینکاری) کی ہی کہاں جارہی ہے کہ ہم اس فرضی اور غیر موجود امکان کو بنیاد بنا کر حاضر و موجود کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کریں؟
- بینک زر کا استعمال عموم بلویٰ کی بنا پر ناگزیر ضرورت بن چکا ہے: مجوزین کا یہ ایک عمومی حربہ ہے کہ اولاً وہ اپنے حق میں اصولی جواز اور دلائل پیش کرتے ہیں مگر جب ان کے تمام دلائل کو علمی طور پر رد کردیا جائے تو پھر ’ضرورت کی دہائی‘ دینا شروع کردیتے ہیں۔ اسلامی بینکاری کے حق میں نظریہ ضرورت کا تجزیہ راقم نے اپنے مضمون ’سودی بینکاری کے فلسفہ متبادل کا جائزہ‘ میں تفصیل سے پیش کیا ہے، قارئین اسے وہاں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ فرض کریں یہ مان لیا کہ بینک زر ایک ایسی برائی ہے جو عام ہوچکی ہے، مگر اس کے بعد سوال یہ ہے کہ اسلامی بینکاری کے نام پر برائی کے فروغ میں حصے دار بن جانا کہاں کی عقل مندی ہے؟ درحقیقت ضرورت کے تحت حرام کو حلال کرنے کا مقصد ایسے ماحول کو ختم کردینا ہوتا ہے جو حرام کو ضرورت بناتا ہے نہ یہ کہ اس ماحول کو ہمیشہ کیلئے قائم و دائم رکھنا۔ دوسری بات یہ کہ کسی حرام فعل کا عام ہوجانا اسکے حلال ہوجانے کی دلیل نہیں بن جاتی۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر سب سے پہلے تو سود ہی کو حلال ہوجانا چاہئے کہ موجودہ دور میں اس سے زیادہ عام اور کوئی دوسری وبا نہیں
- جزوی اصلاح کی کوشش میں خرابی کیا ہے؟ درج بالا بحث کے بعد اسلامی بینکاری کے حق میں ایک عذر یہ بھی پیش کردیا جاتا ہے کہ اس میں شک نہیں کہ موجودہ نظام باطل مگر غالب نظام ہے، نیز فی الحال ہمارے پاس اتنی قوت نہیں کہ ہم اسے تہس نہس کرسکیں۔ لہذا اگر پورے شر سے بچنے کیلئے موجود نظام کی جتنی اصلاح فی الحال ممکن ہو وہ کرلی جائے تو اس میں کیا خرابی ہے؟ ظاہر ہے بڑے شر کے مقابلے میں چھوٹے شر کو اپنانا شرع کا بھی حکم ہے اور عقل کا تقاضا بھی۔ اصولی طور پر یہ دعوی درست ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اس حکمت عملی کے تحت جس شے کو اپنایا جارہا ہے اسے ’شر‘ سمجھ کر احساس گناہ کے ساتھ ہی اختیار کیا جائے، اس پر ’اسلامی‘ کا لیبل چسپاں کرکے نہ تو اسلام کو بدنام کیا جائے اور نہ ہی آنے والی نسلوں کو ’شر‘ پر راضی رہنے کا جواز فراہم کیا جائے۔ موجود نظام کی کسی ادارتی تنظیم کی اصلاح کرکے اسے اسلامی قرار دینے کے لیے دو شرائط کا پورا ہونا لازم ہے:
(۱) تبدیلی کے بعد اس شے کا قواعد شریعہ کے مطابق ہونا ممکن ہو اور واقعتا وہ ایسی ہو بھی جائے
(۲) تبدیلی کے بعد وہ شے مقاصد الشریعہ کے حصول کا ذریعہ بھی بن جائے
اگر ماہرین اسلامی بینکاری یہ ثابت کردیں کہ اسلامی بینکاری ان دونوں شرائط پر پوری اترتی ہے تو فبہا، ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ مگر اصل مسئلہ یہی ہے کہ اولاً نہ تو قواعد شریعہ کے مطابق بینکاری ممکن ہے اور جو شے عملاً ’اسلامی بینکاری‘ کے نام پر موجود ہے وہ بھی قواعد شریعہ کے مطابق نہیں، دوئم موجود اسلامی بینکاری مقاصد الشریعہ کے بجائے سرمایہ دارانہ مقاصد کے حصول میں مصروف عمل ہے۔ جب اسلامی بینکاری کے معاملے میں یہ دونوں شرائط ہی مفقود ہیں تو پھر اسے ’اسلامی‘ کہنے کا جواز ہی کیا ہے؟ اگر مجوزین یہ مان لیں کہ اسلامی بینکاری اصولاً ’ناجائز بینکاری ‘ ہے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں رہے گا کیونکہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ ماہرین اسلامی معاشیات اسلام کے نام پر ایک غیر اسلامی شے کو کیوں فروغ دے رہے ہیں؟ بلکہ اسلامی بینکاری کو ضرورت کا شاخسانہ کہنے کا تقاضا ہی یہ ہے کہ اس کا نام اسلامی بینکاری کے بجائے ’حرام بینکاری‘ رکھا جائے تاکہ لوگ ا سے بطور ایک برائی سمجھ کر کم سے کم استفادہ کریں نیز ان میں اس سے بچنے کا جذبہ بھی بیدار ہو۔
۳.۳: متبادل کیا ہے؟
یہ سوال کہ اگر بینکاری نہ کریں تو کیا کریں، تو اسکا اصولی جواب یہ ہے کہ ہماری جدوجہد کے دو بنیادی مقاصد ہونے چاہئیں:
- اولاً سرمایہ داری اور اسکے تمام مظاہر اداروں (خصوصاً کارپوریشن، بینک اور اسٹاک ایکسچینج ) سے گلو خلاصی حاصل کرنا ۔
- ثانیاً زر حقیقی (سونے چاندی) پر مبنی مالیاتی نظام کا احیا۔
ایسی ہر جدوجہد جو سرمایہ دارانہ ریاستی و ادارتی صف بندی ’کے اندر ‘ رہتے ہوئے اسلامی اصلاح کو مطمع نظر بنائے گی وہ بالآخر سرمایہ داری ہی کی تصویب کا باعث بنے گی (۲۵)۔ یہ مسئلہ کہ درج بالا مقاصد کے حصول کو ممکن بنانے والی جدوجہد کیسے مرتب کی جا سکتی ہے تو یہ الگ موضوع ہے جسکی تفصیلات بیان کرنا یہاں ممکن نہیں ، اس نوع کی جدوجہد اور اسکے خدوخال جاننے کیلئے نوٹ نمبر ۲۶ میں جن کتب کا حوالہ دیا گیا ہے انکا مطالعہ کیا جاسکتا ہے (۲۶)۔
نتائج
مضمون کا اختتام ہم چند اصولی کلمات پر کرتے ہیں:
۱۔ مجوزین جس نظریہ بینکنگ کی بنیاد پر اس کی اسلام کاری ممکن سمجھتے ہیں، وہ نظریہ ہی سرے سے غلط ہے۔ دوسرے لفظوں میں جواز اور امکان اسلامی بینکاری کی کل عمارت غلط نظریات پر قائم ہے ۔
۲۔ جس چیز کو بینکاری کہتے ہیں اسکی اسلام کاری کا کوئی امکان موجود نہیں کیونکہ بینکاری کی اسلام کاری ثابت کرنے کے لیے یہ ماننا لازم ہے کہ شرعاً قرض کو بطور آلہ مبادلہ استعمال کرنا جائز ہے، اتنا ہی نہیں بلکہ یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ شرعاً جھوٹا وعدہ کرنا اور جعلی قرض کی رسیدیں چلانا بھی جائز ہے۔ ظاہر ہے یہ تمام مفروضات باطل ہیں ۔
۳۔ شرکت و مضاربت کے اصولوں کے مطابق تمویل درست ہوسکتی ہے بشرطیکہ یہ معاہدات دو افراد کا نجی معاملہ رہیں۔ ثمن حقیقی پر مبنی مالیاتی نظام میں بینک کو شرکت و مضاربت کے اصولوں پر چلانا ممکن نہیں ۔
در حقیقت درست اسلامی تمویل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے مدارس اور اسلامی تحریکات کے تحت منظم نہ کیا جائے۔ نفع خوری کو بڑھاوا دینے کے لیے قائم کردہ نجی تمویلی نظام سرمایہ داری ہی کی تقویت کا باعث بنے گا نہ کہ احیائے اسلام کا۔
اگر اہل علم حضرات مضمون کے تجزئیے میں کوئی سقم اور غلطی محسوس کریں تو اسپر مطلع کرکے ہماری راہنمائی فرمائیں۔ وما علینا الا البلاغ
ضمیمہ بابت ’اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب‘
اس ضمیمے میں ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ موجودہ بینکاری نظام fractional reserve banking کے جس اصول کے تحت چلتا ہے، وہ کیسے کام کرتا ہے۔ تفیہم مباحث کیلئے اپنی گفتگو کو ہم چند سطحوں پر تقسیم کئے دیتے ہیں۔
پہلی سطح
ایک ایسی اکانومی کا تصور کیجئے جہاں کسی قسم کا کوئی بینک موجود نہیں اور تخلیق زر کا واحد ذریعہ صرف حکومت کا مرکزی بینک ہے۔ فرض کریں مرکزی بینک 1000 روپے کے نوٹ چھاپ دیتا ہے (یہ نوٹ وہ کس چیز کے عوض چھاپتا ہے یہاں ہم اس بحث سے اغماز کرتے ہیں) اور حکومت یہ اعلان کردیتی ہے کہ آج کے بعد قرضوں کی ادائیگی صرف ان نوٹوں کی صورت میں ہی تسلیم کی جائے گی۔ مرکزی بینک کی بیلنس شیٹ کچھ اس طرح دکھائی دے گی:
اس صورت حال میں چونکہ سارا کا سارا زر کرنسی کی صورت میں موجودہ ہے لہذا زر کی رسد برابر ہوگی کل کرنسی کی رسد کے، یعنی:
زر کی رسد 236 کرنسی نوٹ
دوسری سطح
فرض کریں کہ ایسے کمرشل ادارے یا بینک قائم ہوتے ہیں جو قرض نہیں دیتے بلکہ انکا مقصد محض لوگوں کی بچتوں وغیرہ کی حفاظت کرنا ہے ۔ بحث کو آسان کرنے کیلئے فرض کریں کہ لوگ سارے سرکاری نوٹ ان بینکوں میں جمع کرادیتے ہیں اور خرید و فروخت کیلئے بینکوں کی رسیدیں استعمال کرنے لگتے ہیں (ارتقاء بینکنگ میں صرافوں کا دوسرا دور)۔ اس مثال میں چونکہ بینکوں نے تمام ڈپازٹس اپنے پاس بطور reserves رکھے ہیں لہذا اس بینکاری نظام کو 100% reserve banking (سو فیصد reserve بینکنگ) کہتے ہیں۔ کمرشل بینکوں کی بیلنس شیٹ کچھ یوں ہوگی:
اب چونکہ سارا کا سارا زر ڈپازٹس کی صورت میں استعمال ہورہا ہے لہذا زر کی رسد برابر ہوگی بینکوں کے کل ڈپازٹس کے، یعنی:
زر کی رسد 236 بینک ڈپازٹس
تیسری سطح
درج بالا دو سطحیں محض تفہیم کے لیے بیان کی گئیں تھیں کیونکہ حقیقتاً کوئی بھی بینک سو فیصد reserve بینکنگ کے اصول پر کام نہیں کرتا (اور نہ ہی کرسکتا ہے)۔ اب فرض کریں کہ بینک اپنے ڈپازٹس کا ایک حصہ (مثلاً 20% ) اپنے پاس بطور reserves رکھ کر بقیہ رقم قرض کے طور پر چلاتے ہیں۔ کیونکہ اب بینک اپنے ڈپازٹس کا محض ایک حصہ اپنے پاس رکھتے ہیں لہذا اس نظام بینکاری کو fractional reserve banking (سو فیصد سے کم reserve بینکاری) کہتے ہیں۔ بینک کل ڈپازٹس کے جتنے فیصدی حصے کو بطور reserves رکھتے ہیں اسے reserve requirement (rr) یا reserve ratio کہا جاتا ہے (ہماری مثال میں rr بیس فیصد ہے)۔ reserve ratio کتنا ہونا چاہئے اسکا فیصلہ عموماً مرکزی بینک کرتا ہے۔ ان reserves کواپنے پاس رکھنے کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ لوگ اپنی روز مرہ ضروریات کی تکمیل کے لیے کرنسی نوٹ بینکوں سے نکلواتے رہتے ہیں (وہ اور بات ہے کہ یہ نوٹ بالآخر گھوم کر پھر بینکوں کے پاس ہی آجاتے ہیں، کسی مخصوص وقت میں کرنسی نوٹوں کا ایک محدود حصہ ہی نظام بینکاری سے باہر لوگوں کے پاس موجود ہوتا ہے)۔ بینکوں کے پاس زیادہ reserves بچ رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کے انہیں خاطر خواہ مقدار میں قرض کے قابل بھروسہ طلب گار نہیں مل پاتے۔ الغرض اس نظام میں ڈپازٹس کے دوحصے ہوجاتے ہیں، ایک وہ جو reserves کی شکل میں رکھ لیا جاتا ہے اور دوسرا وہ جو قرض کی صورت میں دے دیا گیا۔ بینک موخر الذکر پر سود کماتا ہے جبکہ اول الذکر پر وہ کچھ نہیں کماتا۔
اس اصول بینکاری کو سمجھنے کے لیے فرض کریں کہ اکانومی میں بہت سے بینک ہیں اور ابتداً سو روپے کے ڈپازٹس بینک الف میں جمع کرائے گئے تھے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ اب 1000 روپے کے ڈپازٹس کا بیس فیصد یعنی 200 روپے بطور reserves بینک الف کے پاس محفوظ ہونگے جبکہ بقیہ 800 روپے وہ زید کو قرض پر دے دیتا ہے (عملاً بینک کچھ رقم ذاتی سرمایہ کاری کیلئے بھی استعمال کرتا ہے مگر یہاں ہم اس سے سہو نظر کرتے ہیں کیونکہ اسکا تخلیق زر کے عمل سے کوئی تعلق نہیں )۔ اب بینک الف کی بیلنس شیٹ کچھ یوں ہوگی:
بینک عموماً قرض نوٹوں وغیرہ کی صورت میں نہیں دیتے بلکہ اسکا طریقہ صرف یہ ہوتا ہے کہ زید کا ایک اکاؤنٹ کھول کر اسے چیک بک جاری کردی جاتی ہے اور یوں قوت خرید زید کو منتقل ہوجاتی ہے۔ مگر فرض کریں کہ بینک الف زید کو نوٹوں کی صورت میں قرض دیتا ہے۔ چونکہ اس سطح تک ہم نے یہ فرض کیا ہے کہ لوگ نوٹوں کے بجائے صرف بینکوں کی رسیدیں ہی بطور کرنسی استعمال کرتے ہیں تو زید یا تو اس رقم کو بینک الف میں اپنا اکاؤنٹ کھول کر جمع کروادے گا اور یا پھر کسی دوسرے بینک (مثلاً بینک ب) میں جمع کروائے گا۔ فرض کریں یہ رقم وہ بینک ب میں جمع کرواتا ہے۔ چونکہ بینک ب بھی اپنے ڈپازٹس کا محض بیس فیصد ہی اپنے پاس reserves کی صورت میں رکھتا ہے، لہٰذا وہ 800 روپے میں سے 160 روپے اپنے پاس رکھے گا جبکہ بقیہ 640 روپے بطور قرض آگے برھا دے گا۔ بینک ب کی بیلنس شیٹ کچھ اس طرح دکھائی دے گی:
نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اب دونوں بینکوں کے کل ڈپازٹس ملا کر 1800 روپے ہوگئے، یعنی اب زرکی کل مقدار 1800 روپے ہوگئی کیونکہ اب بینکوں کی 1800 روپے مالیت کی رسیدیں یا چیک بطور زر استعمال ہورہے ہیں۔ ظاہر ہے قرض دینے کا یہ عمل ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ اگر بینک ب نے 640 روپے کا یہ قرض ناصر کو دیا ہے تو ناصر اسے اسی بینک میں یا بینک ج میں کروادے گا۔ بینک ج بھی اس رقم 640 روپے کا بیس فیصد اپنے پاس رکھ کر بقیہ ادھار پر چلا دے گا جسکے نتیجے میں بینک ج کی بیلنس شیٹ ذیل ہوگی:
اب مجموعی ڈپازٹس یعنی زر کی کل رسد بڑھ کر 2,440 روپے ہوگئی۔ یہ عمل بینک ج سے آگے چلتا رہے گا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہر چکر میں قرضوں سے تخلیق ہونے والے ڈپاذٹس کم ہوتے چلے جارہے ہیں لہذا یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ عمل کسی مقا م پر جا کر ضرور ختم ہوجائے گا۔ یہ سوال کہ اس عمل کے اختتام پر کل ڈپازٹس کتنے ہوں گے تو اسے درج ذیل فارمولے سے اخذ کیا جا سکتا ہے:
زر کی کل رسد 236 (rr/1 ) 235 اول ڈپازٹس
ہماری مثال میں rr بیس فیصد جبکہ اول ڈپازٹس 1,000 روپے فرض کئے گئے تھے، تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ بینک 1,000 روپے کے ڈپازٹس سے مجموعی طور پر 5,000 روپے کے ڈپازٹس تخلیق کردے گا:
زر کی کل رسد 236 (0.20/1 ) 235 1000 236 5000
ان پانچ ہزار کے ڈپازٹس میں سے ایک ہزار کی پشت پر تو مرکزی بینک کے اصل نوٹ (جنہیں اصل ڈپازٹس کہا گیا ہے) ہونگے جبکہ دیگر چار ہزار قرض کی صورت میں تخلیق ہوئے۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کرلینی چاہئے کہ نئے بینک ڈپازٹس درحقیقت قرضوں سے جنم لے رہے ہیں۔ تمام بینکوں کی مجموعی بیلنس شیٹ کچھ اس طرح دکھائی دے گی:
دھیان رہے کہ نظام بینکاری چار ہزار کے یہ قرض ان معنی میں بلا کسی عوض تخلیق کرتے ہیں کہ انہیں ادا کرنے کیلئے انکے پاس کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ زر کی یہ مقدار محض کمپیوٹر کی یاداشت میں محفوظ ہوتی ہے۔ ڈپازٹس تخلیق کرتے وقت اصولاً بینک یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ان تمام ڈپازٹس کے مالکان جب چاہیں اپنے ڈپازٹس کو حکومتی نوٹوں میں تبدیل کرواسکتے ہیں مگر حقیقتاً یہ ایک ناممکن الوفا وعدہ ہوتا ہے۔ اگر تمام لوگ ایک ہی وقت میں بینکوں سے اپنے ڈپازٹس طلب کر لیں تو بینک دیوالیہ ہوجائیں گے کیونکہ انکے پاس ڈپازٹس کے مساوی رقم کبھی موجود ہی نہیں ہوتی۔ جب کبھی ایسے حالات پیش آئیں کہ لوگ بینکوں کے پاس موجود reserves سے زائد رقم طلب کرنے لگیں تو ایسی صورت میں بینک مصیبت سے دوچار ہو جاتے ہیں اور اس موقع پر مرکزی بینک انہیں قرض فراہم کرکے ان کے reserves میں اضافہ کر دیتا ہے (مرکزی بینک کے اس کردار کو lender of the last resort کہتے ہیں)۔ یاد رہے کہ مرکزی بینک بھی یہ قرض بلا کسی عوض تخلیق کرتا ہے۔ گویا جھوٹ اور فریب کے اس نظام کو بحران سے بچانے کے لیے ریاستی جبر بھی استعمال کیا جاتاہے۔ کھاتے داروں کی ڈپازٹس سے زیادہ رقم طلب کرنے کی وجہ سے بینکوں کے مصیبت میں پھنس جانے کی ایک مثال سن ۱۹۸۵ میں شمال مشرقی امریکی ریاستوں کے بینکوں کا دیوالہ ہوجانا تھا ۔ اسی طرح ۲۰۰۱ میں ارجنٹائن کے بینکوں کی مثال بھی موجود ہے جہاں کھاتے داروں کو اپنے ڈپازٹس سے رقم نکلوانے اور بینک کے اندر داخل ہونے سے روکنے کے لیے باقاعدہ پولیس فورس کا استعمال کیا گیا۔ بعض اوقات پورے بینکاری نظام کو دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے کسی ایک بینک کو بند کرکے اس کی قربانی دے دی جاتی ہے۔ اسی طرح ماضی قریب میں پاکستان میں جب بینک الفلاح سے متعلق افواہیں اڑنے لگیں تو لوگ بڑی تعداد میں اپنے ڈپازٹس بینک سے نکلوانے لگے اور بینک کی مالی ساخت بری طرح متاثر ہونے لگی ۔ اس موقع پر عوام میں بینک کی ساخت بحال کرنے کیلئے حکومت و مرکزی بینک کو مداخلت کرنا پڑی اور اعداد وشمار کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ بینک الفلاح ایک نہایت مضبوط اور قابل اعتبار بینک ہے۔ الغرض بینکاری کا جو نظام بظاہر نہایت ہموار اور محفوظ طرز پر چلتا دکھائی دیتا ہے، اس کی وجہ اس کی پشت پر ریاستی جبر وذرائع کا موجود ہونا ہے۔
بینک زر کی یہ فرضی مقدار کیسے تخلیق کرتے ہیں اسکی وضاحت اصل مضمون میں کی گئی تھی کہ بینک جب کسی شخص کو قرض دیتا ہے تو وہ کسی ایک شخص کی قوت خرید کسی دوسرے فرد کو منتقل نہیں کرتا بلکہ نئے سرے سے نئی قوت خرید تخلیق کرتا ہے۔ اس بحث سے یہ سمجھنا بھی آسان ہو جاتا ہے کہ آخر بینک کرنسی (cash) کے بجائے اپنے کارڈز (ATM, Debit and Credit cards) کو فروغ دینے کی کوشش کیوں کرتے ہیں۔ بینکار (ابتداً صراف) خوب جانتے تھے (اور جانتے ہیں) کہ وہ عوام الناس کو محض دھوکہ دے کر جھوٹے وعدے کررہے ہیں لہٰذا وہ شعوری طور پر اس چیز کی کوشش کرتے کہ لوگ کرنسی (سونے چاندی یا نوٹوں) کے بجائے بینک کی رسیدیں و چیک بطور آلہ مبادلہ استعمال کریں اور لوگوں کی ترجیحات میں یہ تبدیلی لانے کے لیے کئی مارکیٹنگ ہتھکنڈے بطور ہتھیار استعمال کیے گئے (اور کیے جاتے ہیں)، مثلاً:
- لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے بینکوں کی برانچیں شہر کے اہم مقامات پر کھولی جاتیں اور ان برانچوں کو خوبصورت بنانے کے لیے ہر قسم کے سامان تعیش سے مزین کیا جاتا ۔
- مختلف حیلوں بہانوں سے لوگوں کو یہ باور کرایا جاتا کہ سونے اور نوٹ وغیرہ استعمال کرنا ٹھیک نہیں (مثلاً انہیں استعمال کرنا محفوظ نہیں وغیرہ)۔
- اشتہار ات کے ذریعے لوگوں کو بینکوں کے فراہم کردہ کرنسی کے متبادل ذرائع (مثلاً کارڈز اور ٹریولرز چیک وغیرہ) استعمال کرنے کی ترغیب دینا۔
- ہر بڑے شاپنگ سینٹر وغیرہ پر کرنسی کی جگہ بذریعہ بینک کارڈز خریداری کی سہولت فراہم کرنا (یورپ وغیرہ میں اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ اگر آپ کے پاس بینک کارڈ کے بجائے سرکاری نوٹ ہیں تو آپ کے لیے خریداری کرنا مشکل ہوجائے گی کیونکہ ہر بڑا دوکاندار اور شاپنگ سینٹر کیش کے بجائے کارڈ کی صورت میں ادائیگی کوترجیح دیتا ہے) ۔
- حکومتی مدد سے بہت سی خریدوفروخت اور ادائیگیوں کیلئے کرنسی کے بجائے بینک زر کو قانوناً لازم قرار دینا ۔
ان سب کا مقصد صرف یہ ہے کہ جھوٹ اور دھوکے پر مبنی بینکاری نظام کو محفوظ طریقے سے قابل عمل رکھا جاسکے اور بینکوں کو کم از کم رقم اپنے پاس بطور reserves رکھنا پڑے کیونکہ اوپر دئیے گئے فارمولے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ reserve ratio (rr) جتنا زیادہ ہوگا بینکوں کی قرض دینے کی صلاحیت اتنی ہی کم ہوگی۔ اگر reserve ratio صفر کردیا جائے تو بینک لامحدود قرض دینے کی صلاحیت حاصل کرلیں گے، یعنی لوگ جس قدر قرض چاہیں بینک سے حاصل کرکے ادائیگیوں کیلئے استعمال کرسکیں گے اور بینک ان کی یہ طلب پوری کرنے کا مکلف ہو گا (معاشیات کے Post Keynasian فرقے خصوصاً Kaldor وغیرہ کے پیروکار اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں کہ بینک جتنی قوت خرید چاہے پیدا کرسکتا ہے، مرکزی بینک کا کام ایسی زری پالیسی بنانا ہوتا ہے جو زر کی کسی بھی مخصوص طلب کے جواب میں تخلیق کئے گئے زر کو regulate سکے)۔ درحقیقت Electronic money کا استعمال جس رفتار سے بڑھے گا بینکوں کی لامحدود قرض دینے کی صلاحیت میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور یہی وجہ ہے کہ بینک ہمیشہ electronic money کے استعمال اوراسکے فروغ کو ترویج دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
چوتھی سطح
اس تجزئیے کی چوتھی سطح یہ ہوگی کہ ہم یہ فرض کریں کہ لوگ بینک ڈپازٹس کے علاوہ سرکاری نوٹ بھی بطور آلہ مبادلہ استعمال کرتے ہیں۔ اس صورت میں درج بالا فارمولا ذرا پیچیدہ ہوجائے گا جس کی تفصیلات بیان کرنا یہاں ایک تو نہایت مشکل امر ہے، نیز اس بحث سے درج بالا نتیجے (کہ بینک فرضی زر تخلیق کرتا ہے) میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی (سوائے اس سے کہ بینک کی اس صلاحیت میں ذرا کمی آجاتی ہے)۔ لہٰذا ہم اس بحث سے صرف نظر کرتے ہیں، شوقین حضرات اسکی تفصیلات macroeconomics کی درسی کتب میں ملاحظہ کرسکتے ہیں (مثلاً دیکھئے Abel and Barnanke کی کتاب Macroeconomics )۔
اس بحث سے درج ذیل باتیں واضح ہوئیں:
۱۔ بینک قرض بچتوں سے نہیں دیتے، یعنی بینک ہرگز ایک زری ثالث نہیں ہوتا ۔
۲۔ بینک ’قرضے ڈپازٹس کا باعث بنتے ہیں‘ کے اصول پر کام کرتا ہے۔
۳۔ بینک کے قرض کبھی بھی بچتوں کے برابر نہیں ہوسکتے۔
۴۔ بینک جو زر تخلیق کرتا ہے، وہ قرض کی صورت میں (یعنی debt money) ہوتا ہے ۔
۵۔ نظام بینکاری مالیاتی و زری نظام کو قرض پر مبنی زر پر منتج کرتا ہے ۔
۶۔ چونکہ مرکزی اور کمرشل بینک یہ قرض سود پر دیتے ہیں، لہٰذا بینک سود کو بذریعہ debt money پورے معاشروں پر غالب کردیتے ہیں۔ (انہی معنی میں آج ہر وہ شخص جو ریاستی نوٹ اور بینک کے چیک استعمال کرتا ہے درحقیقت سود کھا رہا ہے ) ۔
۷۔ بینکنگ فی الحقیقت جھوٹ، فریب اور چال بازی پر مبنی ہے ۔
۸۔ بینک کی اصل آمدن کا ذریعہ یہی جھوٹ اور فریب پر مبنی وعدے ہوتے ہیں ۔
۹۔ مرکزی بینک کے بغیر بینکاری کا یہ نظام محفوظ طریقے سے چلنا نہایت مشکل امر ہے ۔
بینک سرکاری نوٹوں کے مقابلے میں کس قدر زیادہ زر جاری کرتے ہیں اسے سمجھنے کیلئے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جون ۲۰۰۸ کے یہ اعداد و شمار ہی کافی ہیں:
اس کا مطلب یہ ہوا کہ کمرشل بینکوں نے مرکزی بینک کے ہر ایک نوٹ کے بدلے تقریباً پونے پانچ روپے تک ڈپازٹس جاری کردیے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اکانومی میں کل زر کا صرف بیس فیصد نوٹوں کی شکل میں جبکہ بقیہ قرض پر مبنی جاری کردہ رسیدوں (ڈپازٹس ) کی صورت میں موجودہ ہے (یہاں بینکوں کا اپنے کھاتے داروں سے یہ وعدہ بھی یاد رہے کہ وہ جب چاہیں اپنے ڈپازٹس کو نوٹوں میں تبدیل کرواسکتے ہیں)۔ پاکستان کے مقابلے میں دیگر ترقی یافتہ ممالک جہاں زر کی مارکیٹیں بھی بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں وہاں یہ تناسب اس سے بھی زیادہ ہے (مثلاً برطانیہ میں یہ تناسب نوے فیصد سے بھی زیادہ ہے)۔ ان اعداد وشمار سے دوسری بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ کل زر کا بڑا حصہ کمرشل بینک جاری کرتے ہیں نہ کہ مرکزی بینک (جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے)۔
حواشی
۲۱۔ جو لوگ نظام بینکاری کی حقیقت اور وہ معاشی ماحول جس میں یہ کام کرتا ہے اسے درست طریقے سے سمجھنے سے قاصر رہے وہ اسلامی تاریخ میں بینک تلاش کرنے کی غلط فہمی کا شکار ہوگئے۔ مجوزین میں سے بعض کا یہ دعوی ہے کہ بینکاری کی ابتدا امام ابوحنیفہؒ سے ہوئی جن کے پاس لوگ اپنی امانتیں رکھواتے اور وہ انہیں کاروبار کیلئے آگے قرض وغیرہ پر دے دیا کرتے۔ فرض کریں مجوزین کا یہ دعوی تاریخی طور پر درست ہے کہ امام صاحب ایسا کیا کرتے تھے، مگر سوال تو یہ ہے کہ اس سارے عمل سے بینک کی صورت کہاں پیدا ہوئی؟ بینکنگ کی صورت حال تب پیدا ہوتی ہے جب قرض نجی معاملے سے آگے بڑھ کر آلہ مبادلہ کی حیثیت اختیار کرلیتا۔ کیا امام صاحب (۱) پھر انہی مقروض لوگوں سے دوبارہ امانتیں (deposits) وصول کرکے اپنے فنڈ میں جمع کرلیا کرتے تھے جنہیں وہ قرض دیا کرتے تھے؟ اور (۲) اپنے قرض خواہوں اور مقروضوں کو اصل زر کے بجائے قرض کی رسیدیں بطور آلہ مبادلہ استعمال کیلئے جاری کیا کرتے تھے؟ اگر کوئی یہ کہے کہ امام صاحبؒ ایسا کرتے تھے تو وہ ان کی ذات پر بہت بڑا بہتان باندھے گا ۔ درحقیقت امام صاحبؒ کے طرز عمل کو وہی شخص بینکنگ کہہ سکتا ہے جو نیوکلاسیکل نظریہ بینکاری کو درست سمجھنے کی غلط فہمی کا شکار ہو ۔
۲۲۔ غریب طبقے پر زیادہ اثرات اس لیے پڑتے ہیں کہ اسے اضافی (relative) اعتبار سے قوت خرید میں زیادہ کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
۲۳۔ یعنی ایک مزدور دن رات محنت کرکے اپنی روزی کمائے، کارخانے دار اپنے سرمائے کو کاروبار میں لگا کر آمدن کمائے مگر بینک محض زر تخلیق کرکے مزے کرتا پھرے؟
۲۴۔ Reserve سے مراد کل ڈپازٹس کا وہ حصہ ہے جسے بینک کرنسی (Cash) کی شکل میں اپنے اور مرکزی بینک کے پاس جمع رکھتے ہیں۔ سو فیصد reserve banking کامطلب ایسی بینکاری ہے جہاں بینک کل ڈپازٹس کے برابر (یعنی ڈپازٹس کا سو فیصد) reserve کی شکل میں اپنے پاس محفوظ رکھیں اور کسی قسم کا قرضہ جاری نہ کریں
۲۵۔ یہ بات درست ہے کہ موجودہ حالات میں علماء خود کو اس امر پر مجبور پاتے ہیں کہ وہ لوگوں کو ’قابل عمل فتوے‘ دیں کیونکہ لوگ ان سے اسی مقصد کیلئے سوال کرتے اور اپنے مسائل کے حل کیلئے رجوع کرتے ہیں۔ مگر سرمایہ دارانہ نظام کا مسلط کردہ یہ ’دائرہ جبر‘ تب ہی تو کم ہوگا جب علماء اس نظام سے باہر ’دائرہ اختیار‘ قائم کرنے اور اسے بڑھانے کی کوئی جدوجہد کریں گے۔ ہمیشہ ایسے فتوے دینے کی حکمت عملی پر کاربند رہنا جس کا مقصد لوگوں کے لیے خود کو موجود نظام کے اندر سمونا ممکن بنانا ہو (how to fit in the given environment) درحقیقت دائرہ جبر کو مزید بڑھانے کی حکمت عملی ہے۔ اسلامی بینکاری نہ صرف اس دائرہ جبر کو بڑھا رہی ہے بلکہ اس کے جبر ہونے کا احساس بھی دلوں سے نکال رہی ہے ۔
۲۶۔ سرمایہ دارانہ نظام کیا ہے اور اس کا مکمل انہدام کیوں ضروری ہے، اس کے لیے دیکھئے :
- ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری، ’Rejecting Freedom and Progress‘، جریدہ ۲۹، کراچی یونیورسٹی
- ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری، ’عالم اسلام اور مغرب کی کشمکش‘، کتاب ’سرمایہ دارانہ نظام ایک تنقیدی جائزہ‘ (ص: ۱۹۲-۲۴۵)
سرمایہ دارانہ معاشی و ریاستی صف بندی کی حقیقت جاننے کے لیے دیکھئے :
- ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری، ’سرمایہ دارانہ معیشت‘، کتاب ’سرمایہ دارانہ نظام ایک تنقیدی جائزہ‘ (ص: ۱۱۰-۱۲۱)
- ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری، ’لبرل سرمایہ دارانہ ریاست‘، کتاب ’سرمایہ دارانہ نظام ایک تنقیدی جائزہ‘ (ص: ۱۶۰-۱۸۲)
سرمایہ داری کے خلاف اسلامی انقلابی جدوجہد کے خدو خال کیا ہوسکتے ہیں اس کے لئے دیکھئے :
- ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری، ’جماعت اسلامی کی انقلابی جدوجہد برائے ۲۰۰۸-۲۰۱۳‘، کتاب ’جمہوریت یا اسلام‘ (ص: ۲۶۳-۲۷۸)
بینکاری کا متبادل کیا ہوسکتا ہے، نیز زر اصلی کی طرف کیسے لوٹا جاسکتا ہے، اس کے لیے دیکھئے :
- یونس قادری، ’کھاتے دار تمویلی ادارے: ایک متبادل‘، جریدہ ۳۷، کراچی یونیورسٹی پریس
- یونس قادری ،’Can we create our own Currency?‘، Pakistan Business Review Vol 11 (1)
- Tarek Al Dewani، History of Banking: An Analysis، www.islamic-finance.com
- Tarek Al Dewani، The Problem with Interest ، Polity Press
مکاتیب
ادارہ
(۱)
ڈیئر عمار خان ناصر صاحب
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ خداوند تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو۔
عرض یہ ہے کہ پڑھنے کے لیے اتنا کچھ سامنے پڑا ہوتا ہے کہ زندگی اور اس کے تمام لمحات انتہائی قلیل دکھائی دیتے ہیں۔ مجبوراً انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ روایتی مذہبی میگزین یا رسالوں کے لیے تو کوئی گنجائش نہیں نکلتی، لیکن آپ کا ’الشریعہ‘ جب ہاتھوں میں آتا ہے تو نہ نہ کرتے ہوئے بھی محض ورق گردانی کے دوران اس کے بیشتر حصے پڑھتا چلا جاتا ہوں۔ یہ آپ کے میگزین کی خوبی یا دلچسپی ہے کہ چھٹتی نہیںیہ کافر منہ کو لگی ہوئی۔ آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ ہر ماہ مجھے یہ دارو فی سبیل اللہ ارسال فرما دیتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ میں آپ ہی کا نہیں، آپ کے باپ دادا کا بھی قدیمی ماننے والاہوں۔ ویسے آپ کے والد محترم بڑے خطرناک آدمی ہیں۔ ہم نئی نسل کو جس مذہبیت سے بچانے کے لیے کوشاں ہیں، روایتی علماء دین ہمارے کام کو جس قد سہل بناتے ہیں، آپ کے والد محترم عصری تقاضوں سے آگہی اورشعوری ہتھیاروں کی کارفرمائی سے اسے اتنا ہی مشکل بنا دیتے ہیں۔ بہرحال ناچیز ان کے انسانی جذبے کو سلام پیش کرتا ہے۔
محترم عمار صاحب! آج مجھے آپ سے بات کرنے کے لیے کاغذ قلم کا سہارا س لیے لینا پڑا ہے کہ مجھے آپ کے حالیہ شمارے کے دو مضامین بہت پسند آئے ہیں۔ ایک ’’موجودہ عیسائیت کی تشکیل تاریخی حقائق کی روشنی میں‘‘ اور دوسرا ’’خواجہ حسن نظامی کی خاکہ نگاری‘‘ جس کے لیے ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری کے ساتھ پروفیسر میاں انعام الرحمن بھی لائق تحسین ہیں۔ عمران چوہان صاحب نے ڈین براؤن کے ناول ’’دا ڈاونچی کوڈ‘‘ کے جس حصے کا انتخاب کیا ہے، یہ یقیناًخوب صورت کاوش ہے۔ اس اتنی بڑی کاوش یا جسارت پر میں جناب کی خدمت میں ایک سوال رکھنا چاہتا ہوں کہ جسے اپنے نظریے اور شعورکی سچائی پر کامل اعتماد یا ایقان ہوتا ہے، کیا اسے شدید ترین تنقید یا اعتراضات کی بوچھاڑ سے گھبرانا چاہیے؟ ’’دا ڈانچی کوڈ‘‘ لکھنے پر جناب ڈین براؤن کی حقیقت بیانی وحقیقت نگاری ہی ہمارے سامنے نہیں آتی ہے، بلکہ مغربی تہذیب ومعاشرت کی عظمت اور مسیحیت کے جذبہ برداشت کو بھی داد دینی پڑتی ہے۔ مغرب میں حریت فکر اور آزادئ اظہار رائے کو سامنے رکھ کر جب میں اپنی سوسائٹی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے یہ بونوں کی سوسائٹی دکھائی دیتی ہے۔
آپ کی خدمت میں میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہماری مسلم سوسائٹی اپنے کسی ڈین براؤن کو ’’دا ڈاونچی کوڈ‘‘ لکھنے کی اجازت دے سکتی ہے؟ مجھے معلوم ہے آپ کا فوری جواب یہ ہوگا کہ ہمارے ہاں تو کوئی ’’قسطنطین‘‘ ہوا ہی نہیں۔ ہماری تو ہر چیز ’’لاریب‘‘ ہے۔ جب ہم راسخ العقیدہ مسیحیوں کو ملتے ہیں تو ان کے احساسات یا تعصبات بھی اسی نوع کے ہوتے ہیں۔ آخر دنیا میں کون سا ایسا مذہبی شخص ہے جس کو اپنے مذہب سے پیار نہ ہو اور جسے اپنے عقیدے کی سچائی پر ایمان کامل نہ ہو؟ بحیثیت مسلمان میں بھی یہی کہوں گا کہ میرا مذہب کائنات کا سب سے پکا سچا دین ہے اور یہ آخری دین ہے۔ گزارش صرف یہ ہے کہ اگر ہمارا ایمان واعتماد اتنا پختہ ہے تو پھر ذرا ذرا سی بات پر آگ بگولا کیوں ہو جاتے ہیں؟ مغرب میں سیدنا مسیح (Jesus) کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا، لکھا اور دکھایا جا رہا؟ آفرین ہے اس سوسائٹی پر کہ وہ تو اس پر کہیں آپے سے باہر نہیں ہو رہی۔ شعور انسانی کی عظمت پر اس قدر مطمئن ہے کہ ہر منطقی وغیر منطقی سوال یا استدلال کو خندہ پیشانی سے قبول کرتی ہے اور ہم ہیں کہ محض عقیدے کی بنیاد پر دنیا کو آگ لگا کربھسم کر دینا چاہتے ہیں۔ کوئی ہمارے عقیدے میں آئے تو مولفۃ القلوب کا حق دار ٹھہرے اور واپس جائے تو گردن زدنی قرار پائے! اس پر ابدی دعویٰ یہ ہے کہ دنیا میں ہم سے زیادہ عادل وروادار کوئی پیدا نہیں ہوا۔
اگر آج ہمارے درمیان کوئی سرپھرا یہ جائزہ لینا چاہے کہ پیغمبر اسلام اور قرآن نے جو کچھ چودہ سو سال پہلے پیش فرمایا، اس کی تمام تر جڑیں اس دور کے عرب کلچر اورعرب سوسائٹی سے پھوٹتی ہیں، کوئی ایک چیز بھی زمان ومکان سے ہٹ کر نہیں ہے تو کیا میں اور آپ ایسے شخص کو اس نوع کے جائزے لینے اور ان کی تفصیلات پیش کرنے کی اجازت دیں گے؟ نوم چومسکی کو ہمارے یہاں بڑا ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ اصل ہیرو وہ مغربی سوسائٹی اور اس کے خواص وعوام ہیں جہاں چومسکی دھڑلے سے وہ سب کچھ کہہ رہا ہے اور کوئی اس کی طرف غلط نظر ڈالنا بھی جائز نہیں سمجھتا۔ کیا کوئی مسلم سوسائٹی اپنے درمیان کسی نوم چومسکی یا ڈین براؤن کو قبول اور برداشت کرنے کے لیے تیار ہے؟ مجھے، آپ کو اور ہماری قوم کو آج یہی سوال درپیش ہے کہ ہم اپنی مسلم سوسائٹی کی شعوری سطح اتنی بلند کیسے اور کب کر پائیں گے؟
آج پوری دنیا ہم مسلمانوں سے اور ہمارے عقیدے سے خوف زدہ ہے۔ پوری دنیا کو ہم نے آگے لگایا ہوا ہے، لیکن دعویٰ یہ ہے کہ ہم توپیدا ہی انسانوں سے محبت کی خاطر ہوئے ہیں۔ میں اس وقت پوری دنیا میں بدمعاشی، قتل وغارت گری اور دہشت گردی کے پیچھے اپنی اس عدم برداشت اور رواداری کے فقدان کو دیکھ رہا ہوں۔ جس روز فکری آزادی کو ہم نے انسانیت کی مسلمہ مثبت واعلیٰ قدر کی حیثیت سے مان لیا، اس روز دنیا میں قیام امن کو کوئی نہیں روک سکے گا۔
افضال ریحان
۴۱۔ جیل روڈ، لاہور
(۲)
محترم المقام جناب حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! مزاج گرامی بخیر
ماہنامہ الشریعہ کا گذشتہ پانچ سال سے باقاعدہ قاری ہوں۔آپ نے آزادانہ علمی بحث کے ذریعے مسائل کو سمجھنے کا بہترین طریقہ اختیار فرمایا ہے جو انتہائی قابل قدر ہے اور اس سے ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے کا بہت اچھا فائدہ حاصل ہوا ہے۔ ماہنامہ الشریعہ کا نومبر، دسمبر ۲۰۹ء کا مشترکہ شمارہ میرے سامنے ہے۔ مکاتیب کے عنوان تلے صفحہ۱۱۵ پر برادر مکرم جناب عمار خان ناصرزید مجدہم کے نام کامرہ کلاں ضلع اٹک سے سید مہر حسین بخاری صاحب کا ایک خط شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’’میں شیعہ کے کفر کا قائل نہیں جیسے صوفی عبد الحمید سواتی ؒ قائل نہ تھے‘‘۔ حضرت صوفی عبد الحمید سواتیؒ شیعہ کے علی الاطلاق کفر پر تحفظات رکھتے تھے، لیکن شیعہ اثنا عشریہ کے متعلق ان کا وہی عقیدہ تھا جو حضرت صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے استاذ امام اہل سنت حضرت مولانا علامہ عبد الشکور لکھنوی فاروقیؒ کا تھا۔ بخاری صاحب اگلی لائن میں لکھتے ہیں کہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب شیعہ کو زیادہ سے زیادہ بدعتی کہتے ہیں، کافر نہیں کہتے حالانکہ رابطۃ العالم الاسلامی کے ایک اجلاس میں مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدہم نے شیعہ نمائندہ کے ساتھ بیٹھنے سے انکار اور خمینی کے کفر کا اظہار بھی کیا تھا۔ میری معلومات کے مطابق شیخ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کے تحفظات بھی علی الاطلاق کفر پر ہیں، شیعہ اثنا عشریہ کو وہ بھی کافر سمجھتے ہیں۔میں نہیں سمجھتا کہ وہ اپنے والد گرامی قدر مفتی اعظم حضرت مفتی محمد شفیعؒ کے اس فتویٰ سے جو فتاویٰ دارالعلوم دیوبند کی جلد نمبر۲صفحہ نمبر ۵۰۶ پر درج ہے، روگردانی کریں گے۔
اگلے پیرے میں سید مہر حسین بخاری صاحب لکھتے ہیں کہ’’ اگرچہ بعض کتب شیعہ میں تحریف قرآن کی روایات پائی جاتی ہیں لیکن شیعہ اپنی عقائد کی کتابوں میں تحریف کے قائل نہیں‘‘۔ دلیل دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ’’ جیساکہ قرآن مجید کی متعدد تفاسیر شیعہ علماء نے لکھی ہیں‘‘۔
جناب والا!یہی وہ الفاظ ہیں جو آپ کو خط لکھنے کا سبب بنے ہیں۔ ایک سنی مسلمان ہونے کے ناتے اپنے مذہب کا دفاع ضروری سمجھتا ہوں اور آپ کے مؤقر جریدہ کے ذریعے سید مہر حسین بخاری صاحب کی یہ غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں کہ’’ شیعہ عقائد کی کتابوں میں تحریف کے قائل نہیں‘‘۔ یہ محض جھوٹ اور دھوکہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ شیعہ اثنا عشریہ کی بنیادی اور مسلمہ کتابوں کے مطالعہ سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اثنا عشریہ کا عقیدہ یہ ہے کہ موجودہ قرآن محرف ہے، اس میں اسی طرح تحریف ہوئی ہے جیسی اگلی آسمانی کتابوں تورات، انجیل وغیرہ میں ہوئی تھی، وہ بعینہ وہ کتاب اللہ نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت جبرئیل امین کے واسطے سے نازل فرمائی گئی تھی۔اثناعشریہ کی حدیث کی ان کتابوں میں جن میں ائمہ معصومین کی روایات جمع کی گئی ہیں اور جن پر شیعہ مذہب کا دارومدار ہے، خود ان کے اکابرین، محدثین ومجتہدین کے بیانات کے مطابق دوہزار سے زیادہ ائمہ معصومین کی وہ روایات ہیں جن سے قرآن کا محرف ہونا ثابت ہوتا ہے اور ان کے ان علماء ومجتہدین نے جو اثنا عشری مذہب میں سند کا درجہ رکھتے ہیں، اپنی کتابوں میں اعتراف کیا ہے کہ یہ روایات متواتر ہیں اورتحریف قرآن پر ان کی دلالت صاف اور صریح ہے جس میں کوئی ابہام واشتباہ نہیں ہے اور یہ کہ یہی ہمارا عقیدہ ہے اور تیسری صدی ہجری کے آخر بلکہ چوتھی صدی ہجری کے قریباً نصف تک پوری شیعہ دنیا کا یہی عقیدہ رہا۔ اس صدی کے قریباً وسط میں سب سے پہلے صدوق ابن بابویہ قمی (متوفی ۳۸۱ھ) نے اور اس کے بعد پانچویں صدی ہجری میں شریف مرتضیٰ (متوفی ۴۳۶ھ) اور شیخ ابو جعفر طوسی(متوفی ۴۶۰ھ) نے اور چھٹی صدی ہجری میں علامہ طبرسی مصنف ’’تفسیر مجمع البیان‘‘ (متوفی ۵۴۸ھ) نے اپنا یہ عقیدہ ظاہر کیا ہے کہ وہ قرآن کو عام مسلمانوں کی طرح محفوظ اور غیر محرف مانتے ہیں، لیکن شیعہ نے ان کی اس بات کو قبول نہیں کیابلکہ ائمہ معصومین کی متواتر اور صریح روایات کے خلاف ہونے کی وجہ سے رد کردیا۔
مختلف زمانوں میں شیعوں کے اکابر واعاظم علماء ومجتہدین نے قرآن کے محرف ہونے کے موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔اس سلسلے کی سب سے اہم کتاب شیعوں کے ایک بڑے مجتہد اور خاتم المحدثین علامہ حسین محمد تقی نوری طبرسی کی کتاب ہے جس کا نام ’’فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب‘‘ ہے۔ یہ عربی زبان میں باریک قلم سے لکھی ہوئی ۳۹۸ صفحات پر مشتمل کتاب ہے۔ اس کے مصنف نے یہ بات ثابت کرنے کے لیے کہ قرآن میں ہر طرح کی تحریف ہوئی ہے، دلائل کے انبار لگادیے ہیں۔اس کے علاوہ مصنف نے ان کتابوں کی طویل فہرست دی ہے جو مختلف زمانوں میں شیعہ اثنا عشریہ کے اکابر علماء ومجتہدین نے قرآن کو محرف ثابت کرنے کے لیے لکھی ہیں۔اس کتاب کا مطالعہ کرلینے کے بعد اس میں شک نہیں رہتا کہ شیعہ کا عقیدہ قرآن پاک کے بارے میں یہی ہے کہ اس میں تحریف ہوئی ہے اور ہر طرح کی تحریف ہوئی ہے۔ شیعہ کے جن علماء ومصنفین نے تحریف کے عقیدہ سے انکار کیا، اس کی سمجھ میں آنے والی کوئی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے یہ انکار کچھ مصلحتوں کے تقاضے سے کیا ہے (یعنی تقیہ کیا ہے)۔ سید نعمت اللہ الجزائری جنہیں شیعی دنیا میں نہایت بلند پایہ عالم ومصنف،جلیل القدراور عظیم المرتبت محدث وفقیہ اور ملا باقر مجلسی کا خصوصی اور قابل اعتماد شاگرد مانا جاتا ہے، بڑی صفائی کے ساتھ لکھتے ہیں کہ
’’والظاہر ان ہذا القول صدر منہم لاجل مصالح کثیرۃ .... کیف وھؤلاء رووا فی مؤلفاتھم اخباراً کثیرۃ تشتمل علیٰ تلک الامور فی القرآن وان الآیۃ ھکذ انزلت ثم غیرت الیٰ ھذا‘‘ (الانوار النعمانیہ صفحہ ۳۵۷جلد۲)
ترجمہ: ’’اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ ہمارے ان حضرات (شریف مرتضیٰ، صدوق،شیخ طبرسی)نے یہ بات بہت سی مصلحتوں کی وجہ سے (اپنے عقیدہ اور ضمیر کے خلاف) لکھی ہے۔یہ ان کا عقیدہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ خود انہوں نے اپنی کتابوں میں بڑی تعداد میں وہ حدیثیں روایت کی ہیں جو بتلاتی ہیں کہ قرآن میں مذکورہ بالا ہر طرح کی تحریف ہوئی ہے اوریہ کہ فلاں آیت اس طرح نازل ہوئی تھی،پھر اس میںیہ تبدیلی کردی گئی۔‘‘
آخر میں ایک عبارت ایسی نقل کررہا ہوں جس سے شیعہ کے اکابر علماء ومشائخ کے تحریف قرآن کے متعلق عقیدہ کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ ملا محسن فیض کاشانی اپنی مایہ ناز تفسیر ’’تفسیر صافی‘‘ کی پہلی جلد میں مقدمہ نمبر۶ کے تحت لکھتے ہیں :
واما اعتقاد مشائخنا فی ذالک فالظاہر من ثقۃ الاسلام محمد ابن یعقوب الکلینی طاب ثراہ انہ کان یعتقد التحریف والنقصان فی القرآن وکذالک استاذہ علی ابن ابراہیم القمی فان تفسیرہ مملوء منہ ولہ غلو فیہ وکذالک شیخ احمد بن ابی طالب الطبری فانہ ایضاً نسخ علی منوالھما فی کتاب الاحتجاج (تفسیر صافی صفحہ ۳۴جلد۱مطبوعہ ایران)
ترجمہ:’’جہاں تک تحریف کے بارے میں ہمارے مشائخ کا اعتقاد ہے تو یہ بات ظاہر ہے کہ محمد بن یعقوب کلینی قرآن مجیدکی تحریف اور اس میں کمی واقع ہوے کا عقیدہ رکھتے تھے اور اسی طرح ان کے استاذ علی بن ابراہیم قمی کیونکہ ان کی تفسیر تو تحریف روایات سے بھری ہوئی ہے اور تحریف کے موضوع پر ان کے ہاں بڑی شدت ہے۔ اسی طرح احمد بن ابی طالب طبرسی بھی اپنی مشہور کتاب ’’الاحتجاج‘‘ میں انہی کے طریق پر چلے ہیں‘‘۔
اب اس عبارت کے بعد بھی کیا یہ بات باقی رہ جاتی ہے کہ شیعہ عقائد کی کتابوں میں تحریف کے قائل نہیں اور شیعہ کے اکابر واعاظم نے تحریف قرآن کے قائل ہونے سے انکار کیا ہے؟
میں طوالت کے پیش نظر یہاں ’’فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب‘‘ کی عبارتیں نقل نہیں کررہا بلکہ سید مہر حسین بخاری صاحب کی خدمت میں عرض گذار ہوں کہ وہ بنظر عمیق اس کتاب کا مطالعہ فرمالیں۔ اگر یہ نہیں کرسکتے تو کم ازکم اپنے اکابر علماء اہل سنت کی رد شیعیت پر مشتمل کتب کا مطالعہ کرلیں۔ اس حوالے سے امام اہل سنت حضرت علامہ عبد الشکور لکھنوی فاروقی ؒ کی’’ تنبیہ الحائرین‘‘، شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی ’’شیعہ سنی اختلافات اور صراط مستقیم‘‘ اور امام اہل سنت حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی کتاب ’’ارشاد الشیعہ‘‘ کا مطالعہ بہت مفید رہے گا۔
باقی یہ کہنا کہ تحریف قرآن کی لچر اور بیہودہ روایات تو بعض کتب اہل سنت میں بھی موجود ہیں تویہ صرف اور صرف کذب بیانی اور جہالت پر مبنی بات ہے۔ ناسخ اور منسوخ کی روایات کو تحریف قرآن کی روایات پر محمول کرنا جہالت نہیں تو اور کیا ہوسکتا ہے؟ اگر کسی مفسر یا مصنف نے ناسخ ومنسوخ یا اسی طرح قراء ات شاذہ کی روایات کو تحریف کی روایات کہا تو وہ سنی نہیں، بلکہ اس نے سنی بن کر مذہب اہل سنت کو بدنام کرنے اور بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ شیعہ کے ہاں ناسخ ومنسوخ کی روایات نہیں ہیں، جیساکہ فصل الخطاب نوری طبرسی میں لکھا ہے کہ’’ان نسخ التلاوۃ غیر واقع عندنا‘‘ (فصل الخطاب نوری طبرسی صفحہ ۱۰۶)۔
اہل سنت کی عقائد کی کتابوں میں شیعوں کو اسلامی فرقہ شمار نہیں کیا گیا۔ اگر کیا گیا ہے تو ہم اسے محدث عظیم حضرت سید انور شاہ کاشمیریؒ کی کتاب فیض الباری میں منقول اس عبارت من لم یکفرہم لم یدر عقائدہم (جن حضرات کو ان کے عقائد کا علم نہیں ہو سکا، انہوں نے ان کی تکفیر نہیں کی) پر محمول کرتے ہیں۔یہ کہنا کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ پر خودبھی کفر کا فتویٰ لگا تھا تو وہ دوسروں کو کیسے کافر کہہ سکتے ہیں تو جناب سید مہر حسین بخاری صاحب ! اس حوالہ سے گذارش یہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے ’’رد روافض‘‘ نامی ایک رسالہ تحریر فرمایا تھا جو دراصل علماء ماوراء النہرکے اس فتویٰ کی تائید میں تھا جو انھوں نے روافض کی تکفیر کے سلسلہ میں تحریر فرمایا تھا۔ اس رسالہ کی اشاعت کے بعدحضرت مجدد الف ثانیؒ پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا تھا اور یہ کفر کا فتویٰ لگانے والے شیعہ ہی تھے جو بظاہر سنی بن کر حضرت مجددصاحبؒ کی شخصیت کو مجروح کررہے تھے۔ آج تک کسی بھی ایسے شخص نے جس نے شیعہ کے کفر پر اختلاف کیا ہو، اس بات کو بطور دلیل کے پیش نہیں کیا سوائے آپ کے۔ دشمن کی اس سازش سے صرف آپ متأثر ہوئے ہیں اور اس کی وجہ ان بدطینت لوگوں کی صحبت ہے۔اللہ رب العزت ہم سب کو دین حق اسلام پر استقامت عطافرمائے اور مذہب اہل سنت والجماعت کی پیروی اور حفاظت کرنے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
محمد یونس قاسمی
ایڈیٹر: نظام خلافت راشدہ فیصل آباد
(۳)
مولانا حافظ محمدعمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
فروری ۲۰۱۰ء کا شمارہ ملا اور ولولہ تازہ نصیب ہوا۔ ’’دینی جدوجہد کے عصری تقاضے اور مذہبی طبقات‘‘ کے حوالے سے مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کی تحریر کافی فکر انگیز تھی۔ ’’خواجہ حسن نظامی کی خاکہ نگاری‘‘ پڑھ کر ڈاکٹر اقبال مرحوم کا ایک قول یاد آ گیا کہ ’’اگر مجھے خواجہ حسن نظامی کی سی نثر نگاری پر قدرت ہوتی تو میں شاعری کو کبھی ذریعہ اظہار نہ بناتا۔‘‘
سید مہر حسین بخاری صاحب نے ایک بار پھر ہمیں یاد فرمایا ہے۔ یہ پڑھ کر کہ وہ ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف میں مبتلا ہیں، قلبی صدمہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ انھیں جلد صحت یاب فرمائے۔ فی زمانہ علمی وتحقیقی انداز میں اپنا نقطہ نظر پیش کرنے والوں کو صدمات میں گھرا دیکھ کر دل ڈوب اور جی اوب جاتا ہے۔
بخاری صاحب نے اپنے پہلے مکتوب میں لکھا تھا کہ ’’تحریف قرآن کی لچر اور بے ہودہ روایات تو بعض کتب اہل سنت میں بھی موجود ہیں۔‘‘ راقم السطور نے جب اس پر گرفت کی تو انھوں نے یوں جواب دیا کہ ’’راقم نے لچر اور بے ہودہ کے الفاظ قرآن حکیم کے مخالف پر استعمال کیے ہیں، جیسا کہ مشہور ناصبی اور منکر حدیث تمنا عمادی نے ’’جمع القرآن‘‘ نامی کتاب میں بہت سی روایات اکٹھی کی ہیں۔‘‘ حیرت واستعجاب کے بھنور میں ہوں کہ دعوے کے مطابق بے ہودہ روایات کتب اہل سنت میں ہیں اور دلیل میں تمنا عمادی جیسے ناصبی اور منکر حدیث کی جمع القرآن؟کیا ناصبی اور منکر حدیث کی لکھی کتاب بھی ’’کتب اہل سنت‘‘ میں شمار کی جاتی ہے؟ دعوے اور دلیل میں کچھ تو مطابقت ہو۔
بخاری صاحب نے شعلہ بداماں ہو کر شکوہ کیا ہے کہ ’’مجھے بڑی حیرت ہے کہ اسلامی مدارس کے علما وفضلا بھی مہذب اور شستہ زبان کے استعمال سے قاصر ہیں۔‘‘ حالانکہ راقم السطور نے ’’لچر‘‘ اور ’’بے ہودہ‘‘ کے جملے انھی کے نقل کیے ہیں تو پھر غیر شستگی کس کی جانب سے ہوئی؟ دراصل آج کل اپنے آپ کو ماڈرن اور لبرل منوانے کا مختصر اور آسان طریقہ یہی ہے کہ اسلامی مدارس اور ان کے فضلا پر ’’ملاعین وطواغیت‘‘ کی تہمت لگا دی جائے۔
راقم نے اپنے مکتوب میں لکھا تھا کہ ’’قمی وکلینی اور علامہ نوری طبرسی کی جمع کردہ تحریف قرآن کی روایات کی بنا پر کل شیعہ آبادی کو محرف قرآن ٹھہرایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ یہ ایک الگ اور مستقل بحث ہے۔‘‘ اس کے جواب میں جو کچھ لکھا گیا، وہ میری اس عبارت کا جواب نہیں ہے۔ اور مغلوب الغضب ہو کر بخاری صاحب لکھتے ہیں کہ ’’حافظ عبد الجبار سلفی شاید نسخ اور اختلاف قراء ت کی اصل حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہے۔ نسخ، اختلاف قراء ت اور تحریف میں نمایاں فرق ہے۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے تین عدد کتب کے نام لکھ کر راقم کو جماعتی وابستگی سے ہٹ کر ان کی مراجعت کا مشورہ دیا ہے۔ جماعتی وابستگی سے بخاری صاحب کی مراد تحریک خدام اہل سنت ہے، حالانکہ جماعتی وابستگی کے ہوتے ہوئے بھی ان کتب کا مطالعہ ہو سکتا ہے اور بفضل اللہ تعالیٰ راقم نے اس سے پہلے بالاستیعاب کر رکھا ہے۔ تبادلہ فکر وخیال میں وابستگیوں اور نسبتوں پر طنز نہیں کیا جاتا۔ راقم نے تو نہیں کہا کہ بخاری صاحب نے شیعہ محقق دوست کی وابستگی سے ہٹ کر تحریف قرآن پر فلاں فلاں کتاب کا مطالعہ کریں۔
جہاں تک شیعہ مذہب کے علما کا تعلق ہے تو سوائے چار کے (شیخ صدوق، ابن طالب طبرسی، شریف رضی، علامہ طوسی) سب تحریف کے قائل ہیں۔ یہی بات علامہ نوری طبرسی نے اپنی کتاب ’’فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب‘‘ ص ۳۱ اور ۳۵ پر لکھی ہے اور اسی موقف کو بعد ازاں اپنی کتاب ’’رد الشبہات عن فصل الخطاب‘‘ میں ثابت کیا ہے۔ شیخ صدوق (جنھیں ابن بابویہ قمی بھی کہا جاتا ہے) کے رسالہ اعتقادی کی مفصل شرح شیعہ عالم محمد حسین ڈھکو صاحب (فاضل نجف اشرف عراق) نے لکھی ہے۔ ڈھکو صاحب برملا کہتے ہیں کہ ’’ہاں یہ درست ہے کہ ہمارے بعض علماء تحریف کے قائل ہیں۔‘‘ (احسن الفوائد ص ۴۹۱) اسی سے ملتی جلتی بات علامہ الحائری نے اپنی تفسیر ’’لوامع التنزیل‘‘ پارہ ۱۴ ص ۱۵ پر لکھی ہے، بلکہ علامہ نوری طبرسی نے تویہاں تک لکھا ہے کہ تحریف قرآن کی روایات ہماری کتابوں میں دو ہزار سے متجاوزہیں اور یہ قول انھوں نے مشہور شیعہ عالم علامہ نعمت اللہ الجزائری سے نقل کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو فصل الخطاب ص ۲۵۱ مطبوعہ عراق)
بخاری صاحب فرقوں کے مابین اختلاف ختم کرنے کی گنجائش مانگتے ہیں، حالانکہ اختلاف تو علمی وسعت کی دلیل ہے جو بہرحال رہے گا۔ ہاں صبر وتحمل اور رواداری کے ساتھ اپنا نقطہ نظر پیش کرکے ’’مخالفت‘‘ ختم کی جا سکتی ہے۔ اختلاف میں نظر دلائل پر ہوتی ہے اور مخالفت میں محض اسٹائل پر۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم نصیب فرمائیں۔ آمین ثم آمین
حافظ عبد الجبار سلفی
خطیب جامع مسجد ختم نبوت
ملتان روڈ، لاہور
(۴)
محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مقام مسرت ہے کہ آنجناب اور ’الشریعہ‘ کے باصلاحیت نوجوان مدیر جناب عمار خان ناصر صاحب اس سوسائٹی کے جذباتیت اور سطحیت زدہ مذہبی ماحول میں واقعی تعمیری فکر و جذبے کے ساتھ سر گرم کار ہیں۔’الشریعہ‘کا ہر صاحب دل ونظر قاری محسوس کر سکتا ہے کہ آپ جیسے صاحبانِ علم کا قلم نفرتوں کی بھسم کرتی ہوئی آگ پر محبتوں کی برکھا برسانے اور قومی وجود پر جگہ جگہ موجود زخموں پر پھاہے رکھنے کی اپنی سی کوشش میں مصروف ہے۔ہر چند کہ کم ہیں، مگر اپنی خاکستر میں موجود اس نوع کی چنگاریاں امید بندھاتی ہیں کہ محبت، تحمل، برداشت، رائے کا احترام، اخوت و اتحاداور اعلیٰ اخلاقی اقدار پرسوسائٹی اور نظمِ اجتماعی کی تشکیل،جیسا کہ ہمارے اجداد کا ورثہ ہے،اب بھی ناممکن الحصول نہیں۔
یہ کافروہ فاسق،یہ گمراہ وہ بدعتی،یہ مشرک وہ گستاخ، شیعہ فلاں فلاں’ ’اکابر‘‘ کے فتاویٰ کی روشنی میں کافر، بریلوی ان ان وجوہ سے مشرک، دیوبندی اس اس لحاظ سے منافق، وہابی اس دلیل سے گستاخ، غیر مقاتلین کا قتل یوں جائز، خود کش بمباروں کابے گناہ شہریوں اور معصوم مسلمانوں کو خاک وخوں میں نہلا دینا اس دلیل سے روا۔ خدا کی پناہ! یہ کس علم کی خدمت ہے؟ یہ کس دین کی نصرت ہے؟
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
بخدادل سے دعا نکلتی ہے، اس صاحب فکر وقلم کے لیے جواس غایت درجہ سطحی اور ابنائے ملت کے لیے سم قاتل اپروچ سے اوپراٹھ کر سوچتا اور لکھتا ہے۔میرے دونوں ممدوح بے شبہ اسی قبیل کے صاحبانِ فکر وقلم ہیں۔ ’الشریعہ‘ کے صفحات گواہی دے رہے ہیں کہ محترم عمار خان ناصرمسلمانوں کی تکفیر وتفسیق کے آگے ڈھال بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ابھی پچھلے ہی دو ماہ یعنی جنوری اور فروری ۲۰۱۰ء کے شماروں میں تکفیر شیعہ کے حوالے سے مضمون نگاروں کی تحریروں پر موصوف کے وضاحتی نوٹ قابل ملاحظہ ہیں۔ایک نوٹ میں آپ نے برصغیر کے مذہبی عبقری شاہ ولی اللہؒ اوردوسرے نوٹ میں اپنے مفسرِقرآن عم محترم صوفی عبدالحمید خاں سواتی کے ایک خطبہ جمعہ کے حوالے سے تکفیر شیعہ سے برأت کے رویے کو قرین صواب باور کرانے کی سعی کی ہے۔یہ ایک قابل تعریف وتقلید مثال ہے۔ اگر آپ برداشت، اعتدال، احترام اور محبت و ہمدردی کا رویہ اپنائیں گے تو نہ صرف سوسائٹی میں ان اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ دوسرے کو اس کی غلطی کا احساس دلانے اور باہمی اختلافات میں کسی نتیجہ خیزی کی بھی توقع کی جا سکے گی۔آپ کسی مسلمان کو کافر قرار دیں گے تو وہ جواب میں آپ کو پھولوں کے ہار تو نہیں پہنانے والا۔ وہ بھی آپ کو کافر کہے گا۔کافر کافر کی اس رٹ کا نتیجہ؟ یہی نفرتیں، دوریاں، بغض، کینے، فساد، تشدد، قتل وغارت، انارکی، مذہب اوراہل مذہب کی بدنامی۔کاش مذہب کے یہ ہمدرد اور اسلام کے یہ شیدائی،ان دونوں صورتوں کے بدیہی نتائج کا ادراک کرسکیں۔
مولانا زاہد الراشدی کی ملک وملت کے لیے درد مندانہ اور مصالحانہ فکر و مساعی پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے،لیکن یہاں میں طوالت سے بچنے کی غرض سے فروری ۲۰۱۰ء کے شمارہ میں موصوف کے ’کلمہ حق‘ کا حال دینے پر اکتفا کروں گا۔زیر نظر تناظر میں مذکورہ کلمہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔بلا شبہ دینی حلقوں کی باہمی کشمکش ،عدم برداشت اور ایک دوسرے کا استخفاف واستحقاراس قوم کے لیے زہر قاتل ہے۔ہمارے مذہبی طبقات آج اس قوم کی سب سے بڑی خدمت اگر کوئی کر سکتے ہیں تو وہ یہی ہے کہ وہ باہمی منافرت پر قابو پائیں اورایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے مشترکہ اعلیٰ اسلامی آئیڈیلز کے حصول کی خاطرباہمی احترام اور مشاورت و مفاہمت کی فضا قائم کریں۔مولانا کو تعجب ہے کہ جب وہ اپنے طلبہ کوانسانی حقوق، معاصر مذاہب کے تعارف،ماضی قریب کی دینی تحریکات اور پاکستان میں نفاز اسلام کی جدو جہد کے فکری وعلمی پہلوؤں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ان کے منہ کی طرف دیکھتے ہیں کہ جیسے وہ اس دنیا کی نہیں بلکہ کسی اور دنیا کی بات کر رہے ہوں اور شاید وہ انہیں گمراہ کر کے ’اکابر سے مسلک سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں مولانا کی خدمت میں عرض گذار ہوں کہ آپ بالکل متعجب نہ ہوں۔ آپ واقعی اپنے طلبہ سے ان کی ’’دنیا‘‘ کی بات نہیں کر رہے۔ آپ بلاشبہ ان کو ’’اکابر‘‘ کے مسلک سے ہٹانے کی کوشش میں مصروٖف ہیں۔ آپ سچ مچ اپنے طلبہ کو مشکل میں ڈال رہے ہیں۔
آئین نوسے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
مگرمولانا !آپ کو اپنے ’’نو نہالوں‘‘کو اس ’’دوسری دنیا‘‘ کی یہ’’ انرجیٹک غذا‘‘ دیتے رہنا پڑے گا تا آنکہ یہ ’’سن شعور‘‘ کو پہنچ جائیں۔
محترم ناظرین !کیا آپ نے کبھی غور کیاکہ آج تقریباً ہر جگہ مذہب کے بجائے سیکولرزم اور مذہبی قوتو ں کے بجائے سیکولر قوتیں غالب کیوں نظر آتی ہیں؟ میری ناچیزرائے میں اس کی بہت کچھ ذمہ داری مذہبی طبقات پر عائد ہوتی ہے۔مذہبی لوگوں کے بارے میں پوری دنیا میں ایک عمومی تاثر شدت پسندی،عدم برداشت اور رجعت پسندی کا پایا جاتا ہے۔مذہبی لوگ جب تک اس تاثر کو زائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے ،مذہب سیکولرزم اور مذہبی قوتیں سیکولر قوتوں کی جگہ نہیں لے سکتیں۔اگر ہم مغرب کی بات کریں تو وہاں نشاۃ ثانیہ کے بعد سے یہ تصور انتہائی پختہ ہو گیاکہ مذہب رجعت ،تشدد، جہالت اور خلاف عقل و منطق تصورات و نظریات سے عبارت ہے۔ لہٰذا کوئی وجہ نہ تھی کہ وہاں مذہب اور اہل مذہب کو قائدانہ کردار ادا کرتے رہنے دیا جاتا۔آج مغرب میں یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ کوئی ایک انسان یا جماعت مذہب کے عنوان کے تحت کسی سوسائٹی یا ملک کی رہنمائی کی اہل ہو سکتی ہے۔اگرچہ اسلام عیسائیت سے یکسر مختلف ہے اور مسلمان بجا طور پر یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ اسلام آج بھی انسانی سوسائٹی اور سٹیٹ کی بہتری ،ٖفلاح و بہبود اور ترقی و کامرانی کے لیے وہی کردار ادا کر سکتا ہے، جو وہ سینکڑوں سال پہلے اداکر چکا ہے۔لیکن مغرب اس بات کو بالکل تسلیم نہیں کرتا۔ہم یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے یا حقائق سے آنکھیں چرا لیتے ہیں کہ مغرب تو اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ہے،وہ اسلام کو انسانی فلاح کے ضامن کے طور پر کیوں مانے گا؟مگر نہ جانے ہم اس بات پر کیوں غور نہیں کرتے کہ کیا ابتدائے اسلام میں سارے لوگ اسلام کو انسانی فلاح کے ضامن کے طور پر ماننے کے لیے تیار بیٹھے تھے کہ ادھر وحی آئی اور ادھر لوگ اسے اپنے درد کا درماں سمجھ کربے تابانہ اس کی طرف لپک پڑے۔ظاہر ہے اسلام کے بارے میں ان لوگوں کے تعصبات و تحفظات آج کے انسانوں سے کہیں زیادہ تھے۔آج توعلم ہے ،روشنی ہے اورسب سے بڑھ کر یہ کہ سائنسی اور تحقیقی وتجرباتی علم نے بہت سے لوگوں میں اپنے مخالف نظریات وافکارکے حوالے سے معروضی رویہ پیدا کردیا ہے۔جبکہ اس دور میں ،جہالت تھی،تاریکی تھی اور مخالف افکار ونظریات سے متعلق اکثر لوگوں میں موضوعی رویہ پایا جاتا تھا۔
پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کی مذہب کی جس شدت کے ساتھ مزاحمت کا ماحول اس عہد میں پایا جاتا تھاعصر رواں میں اس کی تمام تر خرابیوں کے باوجود وہ ماحول نہیں پایا جاتا۔ابتدائے اسلام میں اسلام کی مزاحمت کی شدت کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے جس میں آنحضورؐ نے فرمایا تھاکہ اللہ کی راہ میں جس قدر میں ستایا گیا ہوں،کوئی نبی نہیں ستایا گیا۔پھر کیا وجہ تھی کی اجڈ،جاہل،وحشی ،موضوعی سوچ کے حامل اور اسلام کی مزاحمت میں انتہائی سخت لوگ کچھ ہی عرصہ میں اسلام کے سایہ میں عافیت محسوس کرنے لگے؟بات بالکل واضح ہے کہ حضورؐ اورآپ کے ساتھیوں کے رحمت و رافت،احسان و مروت،صبر وتحمل اور نیکی وخیر خواہی کے عملی رویے نے ان پر روز روشن کی طرح عیاں کر دیا تھاکہ ان لوگوں کے مذہب کا مقصدانسانیت کی فلاح و کامرانی اور بہتری و بھلائی کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔آج کامذہب بھی اگر اس طرح کے عملی رویے پیش کر سکے توکوئی وجہ نہیںآج کا انسان اس دور کی تپتی ہوئی دھوپ سے بچنے کے لیے اس کے سایہ میں پناہ لینے پر آمادہ نہ ہو۔مگر افسوس اے اسلام کے نام لیواؤ!’’تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے‘‘؟
تم ہو آپس میں غضبناک وہ آپس میں رحیم
تم خطا کار وخطا بیں،وہ خطا پوش وکریم
خود کشی شیوہ تمہارا وہ غیور وخوددار
تم اخوت سے گریزاں، وہ اخوت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو وہ گلستاں بکنار
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم
آج کے مذہبی حلقے غیر مسلموں اورمذہب سے یکسر دورلوگوں کو نظم اجتماعی کے ضمن میں مذہب کی اہمیت سے متعلق قائل کرنے میں تو کیا کامیاب ہوں گے،وہ خود مسلمانوں اوراسلام کے بارے میں اپنے دلوں میں نہایت اچھے جذبات رکھنے والے افراد کو بھی اس حوالے سے قائل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ مسلم معاشرے میں مسلم عوام بالعموم مذہبی طبقات کی بجائے اپنی سیاسی و سماجی رہنمائی کا فریضہ ان لوگوں کو سونپنے پر آمادہ ہوتے ہیں جن کا جھکاؤ سیکولرزم کی طرف ہو یا جن کی شناخت اور پہچان روایتی اعتبار سے مذہبی نہ ہو؟ کیا ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ سیکولر شناخت کے حامل لوگ عوام کے زیادہ ہمدرد، زیادہ دیانتدار، زیادہ پاک وصاف، معاملات کازیادہ فہم رکھنے والے اور زیادہ قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں؟ظاہر کہ ایسا نہیں ہے اور کوئی بھی باشعورآدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ چیزیں سیکولر شناخت رکھنے والے افراد سے خاص ہیں، بلکہ ممکن ہے کہ عوام کی اکثریت ان چیزوں میں سے بیشتر کو مذہبی لوگوں سے خاص سمجھے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے عہد اور ہماری سوسائٹی بلکہ ماضی قریب میں بھی مسلمانوں نے قیادت و رہنمائی کے سوال پراپناوزن ہمیشہ مذہبی شناخت نہ رکھنے والے افراد اور جماعتوں ہی کے پلڑے میں ڈالا ہے؟ اس سوال کو تو شایدناقابل معافی جرم سمجھا جائے کہ قائد اعظمؒ کی جگہ کوئی مذہبی رہنما کھڑا ہوتا تو کیا کبھی پاکستان بن پاتا؟یہی بتا دیجیے کہ ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجوداسلام کے نام پر پاکستان کی خاطرسب کچھ قربان کر دینے والوں نے مذہبی رہنماؤں اور جماعتوں کو ہر دور میں کیوں مسترد کیا؟
راقم الحروف کے نزدیک اس کے دو بنیادی اسباب ہیں۔پہلا سبب یہ ہے کہ تمام مذہبی طبقے عوام کو یہ یقین دلانے میں ناکام رہے ہیں کہ وہ اپنے زیر قیادت اپنے سے مختلف مذہبی فکر ونظریات کے حامل افراد سے روادارانہ اور پر امن بقائے باہمی کا رویہ اپنائیں گے،تشدد اور عدم برداشت سے گریز کریں گے،دوسروں کی رائے کا احترام کریں گے اوراپنے مذہبی نظریات کو عوام الناس پر جبراً مسلط نہیں کریں گے۔ دوسرا یہ کہ مذہبی طبقوں نے اپنے اپنے زیر اثر لوگوں کو مذہبی حوالے سے اس قدر متعصب اور تنگ نظر بنا دیا ہے کہ وہ کسی بھی مذہبی شخصیت یا جماعت کومسلکی عینک لگائے بغیر دیکھتے ہی نہیں۔ لہٰذا کسی بھی مذہبی شخصیت یا جماعت کا ایک مشترکہ مسلم رہنماکے طور پر سامنے آنا محال بن کر رہ گیا ہے۔ کوئی مذہبی شخصیت خواہ وہ کتنی بھی پارسا اور دیانتدار ہو، اگر کسی دوسرے مسلک سے تعلق رکھتی ہے تو اس کے مقابلے میں مذہبی شناخت نہ رکھنے والی ایک کرپٹ اور بددیانت شخصیت بھی قابل ترجیح ٹھہرتی ہے۔یہ چیز عام دیکھنے میں آتی ہے کہ مختلف دفاتراور اداروں وغیرہ میں عام حالات میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ نہایت ہنسی خوشی اور بغیر کسی مسلکی تعصب کے کام کر رہے ہوتے ہیں،لیکن جونہی مذہب کے عنوان کے تحت کسی قائد و رہنما کے بارے میں رائے کا سوال آتا ہے ،وہ فوراًشیعہ،بریلوی ،دیوبندی اور وہابی وغیرہ بن جاتے ہیں۔ سوسائٹی میں مسلکی تعصبات کی گہرائی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اگر کوئی اجنبی کسی جگہ مذہبی تناظر میں اپنا تعارف کراتے ہوئے خود کو صرف مسلمان کہنے پر اکتفا کرے تو لوگ متعجب ہوتے ہیں کہ گویا وہ شخص اپنے اصلی ’’مذہب‘‘کو چھپا رہا ہے اور انہیں اس وقت تک اطمینان قلب نصیب نہیں ہوتا جب تک وہ کسی نہ کسی مسلکی وابستگی کا اظہار نہ کرے۔گویا اللہ اور اس کے رسول کی دی ہوئی پہچان، پہچان ہی نہیں اور ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِنَ (الحج۲۲:۷۸) جیسے نصوص کے کوئی معنی ہی نہیں۔
مذہبی طبقات اگر واقعی اس بات کے خواہشمند ہیں کہ سیکولرزم کے مقابلہ میں مذہب کو غلبہ حاصل ہو تو ان کو نہ صرف خودمسلکی تعصبات سے بالاتر ہو کراسلامی نظام کے قیام کے لیے باہم مل جل کر اور ایک ہو کر مشترکہ جدوجہد کرنا ہوگی، دوسروں کے مذہبی جذبات اور رائے کے احترام کا رویہ اپنانا ہو گا،عوام الناس کے مذہبی قوتوں کے تحت تشدد و تصلب، رجعت پسندی،عدم رواداری اور ترقیٔ معکوس کے اندیشوں کو دور کرنا ہوگا،بلکہ اپنے اپنے حلقۂ اثر کے لوگوں میں مسلکی تعصبات کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی اور انہیں اس بات پر آمادہ کرناہو گاکہ وہ مذہبی قوتوں کی حمایت کے سلسلہ میں مذہبی اختلاف رائے کو آڑے نہ آنے دیں۔اگر کچھ مذہبی قوتیں تطہیر اور خود احتسابی کے اس عمل سے گزرے بغیرمذہب کو سیکولرزم پر غالب کرنا چاہتی ہیں تو انہیں جان لینا چاہیے کہ ایں خیال است و محال است و جنوں۔
ڈاکٹر محمد شہباز منج
شعبہ ا سلامیات،یونیورسٹی آف سرگودھا
drshahbazuos@hotmail.com
الشریعہ اکادمی میں مولانا سید عدنان کاکاخیل کی آمد
ادارہ
(مولانا سید عدنان کاکا خیل ۱۲؍ فروری بروز جمعۃ المبارک جامعۃ الرشید کے ایک وفد کے ہمراہ تعلیمی دورے پر گوجرانوالہ تشریف لائے۔ مدرسہ نصرۃ العلوم میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمانے کے بعد انھوں نے ’’الشریعہ اکادمی‘‘ میں حاضرین سے ایک مختصر خطاب کیا جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)
امابعد! ھوالذی ارسل رسولہ بالھدٰی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔
مفسرین کے ایک گروہ کا خیا ل ہے کہ آیت میں مذکور غلبہ و اظہار دلیل و حجت کا غلبہ ہوگا ۔سیاسی و عسکری غلبہ کا جہاں تک تعلق ہے، اس میں تو دو رائیں ہو سکتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدینؓ کے زمانے میں حاصل ہو نے والا سیاسی و عسکری غلبہ اب موجود ہے یا نہیں؟ یعنی اس غلبہ کی نوعیت بدل سکتی ہے، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی دلیل و حجت ہر زمانہ میں تمام ادیان پر غالب و ظاہر رہے گی، یعنی اس نوعیت کا غلبہ ہر وقت موجود رہے گا۔ گویا اس آیت کا کم از کم یہ مفہوم ہر زمانے میں مراد لیا جا سکتا ہے۔
ا س ضمن میں یہ بات بھی گوش گزار کروں گا کہ عصر حاضر کو ڈائیلاگ کا دور کہا جاتا ہے۔ آج وہ فورمز بہت زیادہ ابھر کر سامنے آئے ہیں جن میں گفت و شنید کے ذریعے کسی بات کا حق یا نا حق ہونا طے ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے اداروں کی بہت زیادہ ضرورت ہے جو اس کلچر کو رواج دیں۔ معاشرے میں ابھی تک اہل حق کی جانب سے ایسے ٹھوس فکری ادارے بہت کم تعداد میں وجود میں آئے ہیں۔ دوسرے طبقات نے تو اس ماحول سے خاطر خواہ فائدہ بھی اٹھایا ہے اور اس حوالے سے بہت ساری چیزیں بھی منظر عام پر لائے ہیں، اس لیے ہمیں خوشی ہوتی ہے کہ اس نسبتاً چھوٹے شہر سے ایک بڑے کام کی ابتدا ہوئی۔ ایسا ادارہ قائم ہوا جس کی بنیاد اس سوچ اور فکر پر ہے کہ یہاں دلیل سے بات ہو گی، یہاں حجت سے بات ہو گی،یہاں گفتگو ہو گی، بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کیا جائے گا۔
زمانہ طالب علمی میں عام طور پر بغاوت کا شوق ہوتا ہے خواہ ماحول کے اثر کے باعث ہو یا پھر نظام سے موافقت نہ ہونے کی وجہ سے، اور دل چاہتا ہے کہ پہلے سے طے شدہ چیزوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جائے ۔میں نے بھی طالب علمی کے دور میں منصوبہ بنایا تھا کہ میں ایسا رسالہ نکالوں گا جس پر لکھا ہوگا کہ ’’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ‘‘ اور اس میں ہر کسی کو اپنی بات کہنے کی کھلی اجازت ہوگی، ہر چیز لکھنے کی اجازت ہو گی۔ میرے خیال میں مولانا زاہد الراشدی نے بھی اسی نقطہ نظر سے یہ رسالہ شروع کیا ہے،اس لیے اس رسالہ کو پڑھ کر ہمارے زمانہ طالب کے ان باغیانہ جذبات کی تسکین ہوتی ہے جو ہمارے اندر سر اٹھایا کرتے تھے۔
موجودہ دور میں دوطبقات باہم گفتگو کے فریق ہیں۔ ایک فریق وہ ہے جس کی نظریاتی بنیادیں اپنے ماضی کے ساتھ پورے طور پر وابستہ نہیں۔ وہ فکری و نظریاتی طور پر آزاد سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے ہاں گفتگو کے لیے کسی بھی وقت کوئی بھی مسئلہ کھڑا کیا جا سکتاہے اور کوئی بھی اس پر بحث کر سکتا ہے۔ جبکہ دوسرا فریق وہ ہے جو بات چیت سے پہلے یہ طے کرتا ہے کہ ایسے کون سے مسائل ہیں کہ جن پر بات ہونی چاہیے یا ہو سکتی ہے؟ کون سا مسئلہ مجتہد فیہ ہے اور کون سا حکم معلو ل بالعلۃ ہے؟ کس مسئلے کا مدار عرف پر ہے اور کس کی اساس میں تعامل الناس کا اصول کار فرما ہے؟ پھر گفتگو کرنے والوں کی اہلیت کیا ہو گی؟ ان کے مصادر و مراجع کیا ہوں گے جن کی طرف بحث کو لوٹایا جائے گا؟یہ تمام باتیں طے ہوں گی تو پھر بحث کا آغاز ہو گا اور گفتگو کا ماحول بنایا جائے گا۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ جس طرح ریاضی کی درسی کتب میں سوالوں کے جوابات آخر میں دیے ہوتے ہیں اور سوال حل کرنے کا خواہ کوئی طریقہ اختیار کیا جائے ،جواب وہی آنا چاہیے جو آخر میں درج ہے۔ اسی طرح متفق علیہ مسائل میں تحقیق کا چاہے جو بھی راستہ چنا جائے، جواب وہی آنا چاہیے جس پر امت اتفاق کر چکی ہے۔ اگر اس طرز کو چھوڑ کر تحقیق کار کو آزادی دی جائے گی تو معاملہ بگڑنے کا اندیشہ ہے، جیسا کہ مودودی صاحب مرحوم جب تحقیق شروع کرتے تو فرماتے کہ میری تحقیق مجھے جہاں لے جائے گی، وہی میرا نتیجہ ہو گا۔ اسی وجہ سے بعض اوقات ان کے اور جمہور امت کے نتائج تحقیق میں فرق آیا ہے۔ ایسے تحقیق کاروں کی زندگی کے ابتدائی، درمیانی اور آخری حالات میں بڑا تغیر و تبدل نظر آتا ہے، جبکہ دیگر حضرات کے ہاں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کے ابتدائی و انتہائی حالات میں کوئی بڑی تبدیلی آئے ۔عصر حاضر میں اسے جمود کا نا م دیا گیا ہے لیکن ہم اسے ثبوت و استقرار کہتے ہیں۔
[ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘ کی خصوصی اشاعت بیاد حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ] اکابر میں سے جب کسی کا انتقال ہوتا ہے تو ان سے متعلق مجلات کی طرف سے ان پر خصوصی نمبر شائع کرنے کا رواج ہے اور تقریباً تمام ہی اکابرین پر یہ نمبر شائع ہو چکے ہیں۔ جب ہمیں ’’الشریعہ ‘‘ کا امام اہل سنت نمبر پڑھنے کا موقع ملا تو ہم سب کی رائے یہ تھی کہ ’’اس کو پڑھ کر لطف آیا‘‘۔ کہیں بھی کسی قسم کی ملمع سازی یا اطرا کا رنگ نظر نہیں آیا۔واقعی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم ایک انسان کی سیرت کا مطالعہ کر رہے ہیں، پندرہویں صد ی ہجری کے ایک عالم دین کی سیرت پڑھ رہے ہیں۔ تمام معلومات اپنی اپنی جگہ حقیقت کے خانے میں فٹ معلوم ہوتی ہیں۔ مولانا ندویؒ نے اپنے والد محترم کی کتاب ’’نزہۃ الخواطر‘‘ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ بر صغیر میں اکابر و اولیا کی سیرتیں ایسے لکھی گئی ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ آدمی فطرت اور اللہ تعالیٰ کی سنت کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ اللہ کی طرف سے دنیا کو چلانے کے لیے جو عادات طے ہیں اور وہ جس ڈھب اور جس طریقے پر دنیا کو چلانا چاہتے ہیں، اولیا کا کام اس کے خلاف کرنا ہے۔ اگر وہ نظام فطرت کے ساتھ توافق میں چل رہے ہیں تو ان کی ولایت میں ضرور گڑ بڑ ہے۔ اس زمانے میں سیرو سوانح لکھنے کا ایک عمومی رواج تھا جس کو ’’نزہۃ الخواطر‘‘ میں تبدیل کیا گیا اور اولیا و اکابر کے تذکرے کو حقیقی انداز میں بیان کیا گیا۔ بالکل یہی رنگ ہمیں ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘ کے خصوصی شمارے میں نظر آیا۔
(ترتیب وتدوین: حافظ عبد الرشید)
مولانا لالہ عبد العزیز رحمہ اللہ کی وفات
مولانا عبد العزیز صاحب مرحوم و مغفور ۱۷ ؍نومبر ۲۰۰۹ ء کو دار البقاء کی طرف کوچ کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم ملک کی عظیم دینی درسگاہ مدرسہ نصرۃ العلوم کے ابتدائی مدرسین میں سے تھے ۔ مدرسہ سے وابستگی کی طویل مدت ( جو تقریبا ۴۰ سال بنتی ہے) میں انہوں نے ناظم ، ناظم کتب خانہ ، ناظم امتحانات اور مدرس کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔ ہمارے زمانہ طلب علمی میں وہ ناظم امتحانات تھے ۔ اس وقت وہ اگرچہ خاصے معمر تھے مگر حوصلہ و ہمت وہی جوانوں والی۔ امتحانات کے لیے پرچے بنوانا، انھیں چیک کروانا، رزلٹ تیار کرنا، تمام امور مناسب وقت پر بطریق احسن انجام پاتے تھے۔ اگر کبھی نتیجہ میں تاخیر ہوتی تو پوچھنے پر بعض ایسے جملے ارشاد فرماتے جن کی معنی آفرینی پنجابی کے ’’ ادب لطیف‘‘ کا خاص حصہ ہے۔
وہ آخر عمر تک مدرسہ سے متعلق رہے اور اتنی طویل مدت کی وابستگی کسی ’’ مکین ‘‘ کو ’’ مکان ‘‘ سے وہی تعلق عطاکر دیتی ہے جو مجنوں کو صحرا سے، لیکن مولانا نے قدرت اللہ شہاب کی ’’ماں جی ‘‘ کی طرح کہ ’’ جس خاموشی سے دنیا میں رہی تھیں، اسی خاموشی سے عقبیٰ کو سدہار گئیں‘‘، گمنامی کی چادر یوں اوڑھی کہ خود اس گلشن کے رہنے والوں کو جس کی یاسمین و نسترن اور روشوں کی پھبن کو انہوں نے جگر کا خون دے کر سینچا تھا، اس کی خبر حافظ مہر محمد صاحب کے خط کے پرزے سے کئی دنوں بعد ملی جو گویا ساغر کی زبان سے یوں شکوہ سنج تھی :
یاد رکھنا ہماری تربت کو
قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا
مولانا ۲۰۰۳ ء تک مدرسہ سے متعلق رہے اور ہزاروں تلامذہ کو اپنا علمی وارث چھوڑا جن میں شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی جیسے بالغ نظر صاحب فکر اور مولانا عبد القدوس قارن مدظلہ جیسے محدث شامل ہیں۔ مدرسہ نصرۃ العلوم کے ارباب بست وکشاد کو چاہیے کہ مولانا کی حیات کو تذکرے کی شکل میں سینہ قرطاس پہ محفوظ کریں۔ شاید کبھی ’ نصرۃ العلوم ‘ کے متعلقین میں سے کوئی اسے دیکھے تو امرؤ القیس کے الفاظ میں ’’قفا نبک من ذکری حبیب ومنزل‘‘ کہتے ہوئے اشکبار آنکھوں سے کلمات دعا ادا کرے۔
اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت کرے اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے ۔ آمین
(وقار احمد ۔ ایم فل کلیہ اصول الدین
بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد)
تعارف و تبصرہ
ادارہ
’’علامہ اقبال اور قادیانیت‘‘
انیسویں صدی کے آخر میں مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی ظلی نبوت کے عنوان سے برصغیر میں ایک نیا باب الفتن کھولا تو سادہ لوح عوام کو اس کے دجل وفریب سے آگاہ کرنے کے لیے اہل حق کو میدان میں آنا پڑا اور اہل علم نے علمی وتحقیقی اور مناظرانہ ومجادلانہ، ہر دو انداز میں پوری مستعدی سے قادیانی نبوت کی تاویلات وتحریفات کا پردہ چاک کیا۔ اہل دین کی کم وبیش پون صدی کی مسلسل جدوجہد قادیانی فرقے کو عالم اسلام میں قانونی اور آئینی سطح پر غیر مسلم قرار دینے پر منتج ہوئی۔ اس تحریک کی قیادت اور راہ نمائی بنیادی طور پر علما نے کی، تاہم اس کی کامیابی میں بہت سی ایسی شخصیات کا حصہ بھی کم نہیں جو روایتی مذہبی حلقے کی نمائندہ نہیں سمجھے جاتیں۔ ان شخصیات میں علامہ محمد اقبالؒ کا نام سرفہرست ہے۔
قادیانی گروہ نے اپنی معاشرتی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے لوگوں کو مذہبی تاویلات اور گورکھ دھندوں میں الجھانے کے ساتھ ساتھ کئی سیاسی اور سماجی عوامل کا بھی سہارا لینے کی کوشش کی۔ برصغیر کی فضا مختلف مذہبی گروہوں کی طرف سے ایک دوسرے کی تکفیر کے واقعات سے مانوس تھی، جبکہ مرزا غلام احمد دعواے نبوت سے پہلے کئی سال تک ہندووں اور عیسائیوں کے مقابلے میں دفاع اسلام کے محاذ پر محنت کر کے اپنے حق میں ہمدردی کی فضا بڑے پیمانے پر پیدا کر چکے تھے، چنانچہ جب ان کے دعواے نبوت پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا تو ایک وقت تک ناواقف مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اسے روایتی مذہبی فتوے بازی ہی کا ایک نمونہ سمجھتی رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ نہ صرف انگریز سرکار بلکہ اسلام سے محض نسبت کا تعلق رکھنے والے نام نہاد لبرل طبقات کی ہمدردیاں بھی اس نوزائیدہ گروہ کو حاصل تھیں۔ اس تناظر میں علامہ اقبال جیسی قد آور اور معتبر ملی شخصیت کا قادیانی نبوت کے خلاف دو ٹوک اور واضح موقف اختیار کرنا ان تمام طبقات پر مذہبی علما کے موقف کا وزن واضح کرنے میں بے حد موثر ثابت ہوا جو کسی بھی وجہ سے اس معاملے میں تردد یا دو ذہنی کا شکار تھے۔
زیر نظر کتابچہ میں مولانا مشتاق احمد چنیوٹی نے، جو اس موضوع کے متخصص ہیں، قادیانیت کے بارے میں علامہ محمد اقبال کی تحریروں، گفتگووں اور بیانات کا ایک مختصر مگر نمائندہ انتخاب جمع کر دیا ہے جو اس حوالے سے ان کے زاویہ نظر اور استدلال کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اقبال کے طرز استدلال کا ایک امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے عقیدۂ ختم نبوت کے حوالے سے مسلمانوں کا مقدمہ خالص کلامی بنیاد پر پیش کرنے کے بجائے پنے مخاطب طبقات کی ذہنی رعایت سے، اس عقیدے کی اہمیت کو سماجی اصولوں کی روشنی میں واضح کیا اور یہ بتایا کہ بحیثیت ایک گروہ کے مسلمانوں کے مذہبی تشخص کی بنیاد اسی عقیدے پر ہے اور اس کی حفاظت کے لیے یہ ان کا مذہبی، اخلاقی اور جمہوری حق ہے کہ کسی نئی نبوت پر ایمان لانے والے گروہ کو ان کا حصہ سمجھنے کے بجائے ایک نیا مذہبی گروہ قرار دے کر قانونی اعتبار سے ان سے الگ کر دیا جائے۔ (ص ۱۶، ۱۷)
اسی طرح انھوں نے قادیانی گروہ پر زندقہ وارتداد کے روایتی فقہی احکام (یعنی سزاے موت) جاری کرنے کے بجائے جدید جمہوری تناظر میں یہ تجویز کیا کہ قادیانیوں کو ایک الگ جماعت تسلیم کر لیا جائے اور پھر مسلمان ان کے بارے میں ویسے ہی مذہبی اور معاشرتی رواداری سے کام لیں گے جیسے وہ دوسرے مذاہب کے بارے میں لیتے ہیں۔ (ص ۱۱) یہ بات اس پہلو سے بہت اہم اور حکیمانہ تھی کہ قانونی تکفیر کے باوجود اس سے آگے چل کر ان ہزاروں لوگوں کے لیے اسلام کی طرف واپسی کا راستہ کھلا رہتا جو مختلف وجوہ سے قادیانیت کے پرفریب جال کا شکار ہو کر جادۂ حق سے بھٹک گئے، جبکہ موجودہ صورت حال میں مسلمان مناظرین کے اختیار کردہ لب ولہجہ اور طرز استدلال نیز قادیانیوں کی نئی نسل کا مسلمانوں کے ساتھ اختلاط بالکل مفقود ہونے کی وجہ سے یہ راستہ کم وبیش بند دکھائی دیتا ہے، چنانچہ مرزا طاہر احمد کے دست راست حسن محمود عودہ نے بیس سال قبل اپنے قبول اسلام کے موقع پر ایک انٹرویو میں قادیانی امت کے اپنی گمراہی پر قائم رہنے کا ایک بڑا سبب اس چیز کو قرار دیا تھا کہ ان کی مسلمان علما تک رسائی نہیں ہے اور قادیانی قیادت اس خلیج کو برقرار رکھنے میں ہی اپنا بھلا سمجھتی ہے۔
بہرحال اس نازک مسئلے پر اقبال جیسے بالغ نظر مدبر کے نقطہ نگاہ اور طرز استدلال کو سمجھنے کے لیے زیر نظر کتابچہ بہت مفید ہے۔ ۳۲ صفحات پر مشتمل یہ مختصر رسالہ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ پاکستان کی طرف سے شائع کیا گیا ہے اور اسے جامعہ عربیہ چنیوٹ، مکتبہ سید احمد شہید، اردو بازار لاہور اور مکتبہ رشیدیہ، راجہ بازار راول پنڈی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
(محمد عمار خان ناصر)
’’مسلمان مثالی اساتذہ ، مثالی طلبہ‘‘
مولف: سید محمد سلیم
ناشر : زوار اکیڈیمی پبلی کیشنز، ۴۔۱۷ ناظم آباد نمبر ۴، کراچی
صفحات: ۱۳۶۔ قیمت: ۱۳۰ روپے
پروفیسر محمدسلیم نامور استاد ہیں۔ تنظیم اساتذہ پاکستان کے رہنماؤں میں سے ہیں۔ موضوع بالا پر ان کا قلم اٹھانا ان کا حق اور منصب ہے، کتاب طلبہ اور اساتذہ کے لئے رہنما حیثیت رکھتی ہے۔ مستند مواد کی مدد سے با کمال ترتیب پیش کی گئی ہے۔ اس میں ان کا قلم رسا بھی پوری شان کے ساتھ کار فرما ہے۔ میں نے ان کی پہلی ہی کتاب دیکھی ہے۔ اس لیے ان کے انداز نگارش سے شناسائی کا پہلا موقع ہے۔
مختصر سی کتاب ہے مگر اپنے اندر بے پناہ تاثیر رکھتی ہے۔ کتاب پڑھ کر، گردو پیش پر نظر ڈالی جائے تو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ وہ اساتذہ اور طلبہ جن میں تدریس اور مطالعے کا جنوں اپنی معراج پر تھا، اب کہاں ہیں۔ تنظیم اساتذہ اور جمعیت طلبہ بھی اس طرح کے جنوں کو فروغ دینے کو اپنی ترجیحات میں رکھنے میں سنجیدہ نہیں رہیں۔ وہاں ٹریڈ یونین ازم چھا چکا ہے۔
کتاب میں بعض چیزیں البتہ کھٹکتی ہیں۔ ایک تو اختصار کی حدوں کے اندر رہ کر موضوع سے کافی زیادتی کی گئی ہے۔ حوالوں کا فقدان ہے۔ اقتباسات کتاب کو کافی معتبر بناتے ہیں مگر حوالہ جات کم ہی درج ہوئے ہیں۔ آخر پر مآخذ کی فہرست کفایت نہیں کر سکتی۔ حوالوں سے یہ بے نیازی سید صاحب کے مقام سے کچھ فرو تر ہے۔ اکیڈیمی کے سید عزیزالرحمن صاحب نے پیش گفتارمیں لکھا ہے کہ کتاب میں اشعار کی اصلاح کے لیے ایک صاحب کا تعاون حاصل کیا گیا۔ ہمارے نزدیک حوالوں کی تکمیل کے لیے بھی کسی کا تعاون حاصل کر لیا جاتا تو کتاب کا معیار اور بھی بہتر ہو جاتا۔
ایک اور کھٹکنے والی بات موضوع سے غیر متعلق مواد کا جزوِ کتاب ہو جانا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس پہلو سے میری رائے عمومی سطح پر سخت محسوس ہو۔ وجہ یہ ہے کہ پیشے کے لحاظ سے ہمارے ہاں ربط و تعلق کا زیادہ لحاظ رکھا جاتا ہے۔ غیر متعلق مواد کی چھانٹ ہمارے ہاں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ بہر صورت میری اس رائے کی درستی کا اندازہ کرنے کے لیے فہرست مضامین پر ایک نظر ڈالنا پڑے گی۔
بہرحال کتاب تدریس و مطالعے کا جنوں پیدا کرنے میں پورا اثر رکھتی ہے۔ اس سے مولف کے خلوص کا اعتراف کرنا پڑے گا۔کتاب اختصار کے باوجود اپنے مقصد کے لحاظ سے بڑی کامیاب کوشش ہے۔ پڑھ کر ہل من مزید کی طلب ہوتی ہے۔
(چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ)
اپریل ۲۰۱۰ء
دستوری ترامیم اور حکمران طبقے کا رویہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دستور پاکستان ایک بار پھر ترامیم کا سامنا کر رہا ہے اور ان سطور کی اشاعت تک دستور پر نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ کی قائم کردہ کمیٹی کی سفارشات منظر عام پر آ چکی ہوں گی۔ ۱۹۷۳ء میں منتخب دستور ساز اسمبلی نے یہ دستور منظور کیا تھا اور اس وقت کی پارلیمنٹ کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا کہ اس نے قیام پاکستان کے ربع صدی بعد ملک کو ایک ایسا متفقہ دستور دیا جو قوم کے تمام طبقوں اور علاقوں کے لیے قابل قبول تھا اور پوری قوم نے اس پر اتفاق کرتے ہوئے ایک نئی دستوری زندگی کا آغاز کیا تھا۔ اس دستور کی بنیاد تین امور پر تھی: اسلام، جمہوریت اور وفاق۔ یہی تین دستوری بنیادیں قوم کے اتفاق واتحاد کی علامات قرار پائیں، مگر ۱۹۷۳ء سے اب تک یہ دستور سترہ ترامیم کے مراحل سے گزر چکا ہے اور اب اٹھارویں ترمیمی بل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان دستوری ترامیم میں سے بعض ایسی بھی ہیں جو قوم کے اجتماعی مطالبے پر کی گئیں اور ایسی بھی ہیں جو کسی نہ کسی ڈکٹیٹر نے اپنی آمرانہ ترجیحات اور ضروریات کے مطابق دستور میں شامل کر دیں۔ ان آمرانہ ترامیم نے دستور کو موم کی ناک بنا دیا جو آمروں اور ڈکٹیٹروں کے رحم وکرم پر تھا اور اس کا نقشہ وقتاً فوقتاً بدلتا رہا۔ یہ آمر طاقت کی نمائندگی بھی کرتے تھے اور کچھ آمر وہ بھی تھے جنھوں نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ لیا تھا اور اس کی آڑ میں انھوں نے آمرانہ مزاج اور روایات کو دستور کا حصہ بنا دیا۔
ہمارے ہاں اصل میں دو مغالطے ہمیشہ کار فرما رہے۔ ایک یہ کہ آمریت اور جمہوریت میں فرق یہ ہے کہ حکمرانی کے منصب پر فائز شخص عوام کا نمائندہ ہے یا صرف طاقت کی نمائندگی کرتا ہے، حالانکہ آمریت کا تعلق ووٹ سے نہیں بلکہ مزاج اور نفسیات سے ہوتا ہے اور اس کا فیصلہ عوامی رجحانات کا احترام کرنے یا اسے پامال کر دینے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس مغالطے نے ووٹ اور الیکشن کے ذریعے آنے والے بعض حکمرانوں کے ہاتھ میں بھی آمریت کی تلوار تھما دی اور اس کا نشانہ غریب دستور بنتا چلا گیا۔ دوسرا مغالطہ یہ کہ شاید سارے کام دستور ہی کرتا ہے اور اس میں رد وبدل کرنے سے پالیسیاں اور طرز عمل بھی خود بخود تبدیل ہو جایا کرتے ہیں، جبکہ اصل بات دستور کو چلانے والوں کی ذہنیت، نفسیات اور طرز عمل ہے۔ اگر عمل کرنے والوں کی نیت درست ہے، وہ قومی مفادات کو اپنے ذاتی، گروہی اور طبقاتی مفادات سے مقدم رکھتے ہیں اور عوام کی رائے ان کے نزدیک محترم ہے تو دستور وقانون اس کے مطابق حرکت کرتے ہیں اور اگر حکمرانوں کی نفسیات اور ترجیحات اس سے مختلف ہیں تو دستور وقانون کے لیے ان کے اشارۂ ابرو کے مطابق گھومتے چلے جانے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہوتا اور پاکستان کے دستور وقانون کے ساتھ اب تک یہی ہوتا آ رہا ہے۔
پاکستان کے دستور کی تینوں بنیادوں پر نظر ڈال لیجیے کہ اسلام، جمہوریت اور وفاق میں سے کس کے ساتھ اب تک وفا کی گئی ہے اور ہماری رولنگ کلاس کا رویہ ان میں سے کس کے ساتھ مثبت رہا ہے! ہمارے حکمران طبقات نے جب چاہا ہے، ضرورت پڑنے پر ان میں سے ہر بنیاد کو ہتھیار کے طو رپر ضرور استعمال کیا ہے لیکن ملک کے نظام اور معاشرتی ماحول میں ان میں سے کسی کو بھی عمل داری کے لیے آزاد نہیں چھوڑا گیا اور پھر ستم بالاے ستم یہ کہ ہماری رولنگ کلاس کے اوپر ایک اور ’’رولنگ کلاس‘‘ ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کی صورت میں مسلط ہے جو پہلے ان دیکھی اور خفیہ ہوتی تھی، اب کھلم کھلا ملک کے ہر شہری کو دکھائی دے رہی ہے اور صورت حال یہ ہے کہ دستور وقانون کی جو صورت ان دونوں کے مفاد میں ہوتی ہے اور اس پر عمل درآمد سے ان میں سے کسی کا مفاد مجروح نہیں ہوتا، وہ کسی درجے میں عمل میں آ جاتی ہے، لیکن جمہوریت، راے عامہ اور دستور وقانون کی جو تعبیر ان میں سے کسی کی ترجیحات کے لیے رکاوٹ بنتی ہے، وہ ان دیکھے فریزر میں منجمد ہو کر رہ جاتی ہے۔
دستور کی اسلامی دفعات پر عمل درآمد، پارلیمنٹ کی بالادستی اور وفاق کے تقاضوں کے مطابق صوبوں کے حقوق اور اسٹیٹس کی بحالی کے مسائل ربع صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود جوں کے توں پڑے ہیں اور اس کی تازہ ترین عملی مثال یہ ہے کہ مبینہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے قوم کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد کی صورت میں جو قومی موقف طے کیا تھا، وہ خدا جانے کون سے فریزر میں منجمد پڑا ہے اور جن پالیسیوں کو عوام نے دو سال قبل عام انتخابات میں کھلم کھلا مسترد کر دیا تھا، ان کا تسلسل نہ صرف جاری ہے بلکہ اسے تحفظ فراہم کر کے عوامی رائے اور مینڈیٹ کا کھلم کھلا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ دستور پاکستان پر جتنی بار چاہیں، نظر ثانی کر لیں اور جتنے بھی ترمیمی بل منظور کرا لیں، اگر رولنگ کلاس کا رویہ، نفسیات اور ترجیحات تبدیل نہیں ہوں گی تو بار بار کی دستوری ترامیم سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اصل ضرورت فدویانہ طرز عمل کو بدلنے کی ہے، نوآبادیاتی نظام اور سوچ سے پیچھا چھڑانے کی ہے، ملک کی دستوری بنیادوں اسلام، جمہوریت اور وفاق کے تقاضوں کو بروے کار لانے کی ہے اور عوام کے جذبات ورجحانات کے آگے سرنڈر کرنے کی ہے۔ اگر رولنگ کلاس اس کے لیے تیار ہے تو حالات میں اصلاح کی توقع کی جا سکتی ہے، ورنہ
گر یہ نہیں ہے بابا پھر سب کہانیاں ہیں
سید ابوالحسن علی ندویؒ: فکری امتیازات و خصائص
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
انیسویں صدی کے اواخر میں عالم اسلام سیاسی، عسکری اور علمی و فکری زوال کی انتہا کو پہنچ رہا تھا اور بیسویں صدی کے آغاز تک مغربی استعمار عالم اسلام کے حصے بخیے کرنے اور خلافت کے ادارہ کو توڑنے میں کامیاب ہوچکاتھا۔اس ناگفتہ بہ صورت حال نے عالم اسلام میں بے چینی کی ایک لہر دوڑادی اور ہر طرف علماے راسخین اور مجاہدین آزادی اٹھ کھڑے ہوئے۔ مختلف اسلامی تحریکات اور شخصیات دنیائے اسلام کے کونے کونے میں پان اسلام ازم اور احیائے اسلام کے مبارک و مقدس کاز کے لیے سرگرم عمل ہوگئیں۔
یہ زمانہ افکار و نظریات کی شکست و ریخت کا زمانہ تھا۔ مغرب کے صنعتی و سائنسی انقلاب نے وہاں کے حالات یکسر بدل دیے تھے۔ افکار و خیالات کی دنیا میں ایک نمایاں تغیر آچکا تھا، اب جاگیر داری ختم ہورہی تھی اور اس کی جگہ شراکت جمہور نے لے لی تھی۔ سرمایہ داری کی پرانی شکلیں تبدیل ہوکر اب بین الاقوامی تجارتی ادارے (M.N.C.S) قائم ہورہے تھے۔ موروثی بادشاہت اور آمریت کی طنابیں بیسویں صدی کی ہوائے حریت سے یکے بعد دیگرے ٹوٹ رہی تھیں۔ مزدوروں کے استحصال نے سرمایہ دارانہ نظام اور بورژروا طبقہ کے خلاف سخت معاندانہ رجحانات پیداکردیے تھے۔انفرادی ملکیت کی بجائے اب سیاست و معیشت کے اداروں میں پرولتاریہ خیالات کی گونج سنائی دے رہی تھی اور یہ فکر زندگی کے ہر شعبہ کو شدت سے متاثر کرنے لگا تھا۔
مغربی نشاۃ ثانیہ کی پرورش و پرداخت اصلاً یہودی دماغ نے کی تھی، چنانچہ الحاد، بے دینی اور اخلاق سے بیزاری اس نئی تہذیب اور نئی بیداری کی نمایاں علامتیں بن گئیں۔ اب عقل انسانی ہی ہر چیز کی میزان، اور افادیت و نفع بخش ہی تمام اعمال کے خیروشر ہونے کا پیمانہ بن گئے۔ مذہبیات اور روحانیات پر الحادو تشکیل کی ہوائیں چلنے لگیں اور نئی نسلوں کے اذہان و قلوب کو متاثر کرنے لگیں۔ قومیت اور نیشنل ازم کی آوازیں اس زور سے اٹھیں کہ وطن پرستی ہی ’’روح عصر‘‘ سمجھی جانے لگی۔ عالم اسلام خود مختلف عصبیتوں اور قومیتوں کا شکار ہوگیا۔ فکری زعامت اور علمی و تحقیقی امامت بھی مشرق سے چھن کر اب مغرب کو منتقل ہوچکی تھی۔عالم اسلام پر اب عسکری و سیاسی حملوں کے بجائے علمی و فکری یلغار یں زیادہ ہورہی تھیں اورحکومت و ریاست اور سیاست ومعیشت کے مختلف اور متعدد نظریات سامنے آرہے تھے۔
ایسی صورت حال میں عالم اسلام میں اٹھنے والی مختلف تحریکات اور ان کے فکری رہنماؤں کی تحریرو ں اور تعبیروں میں خارج کے دباؤ کے تحت کچھ افراط و تفریط کا آجاناکچھ زیادہ تعجب کی بات نہیں ہے، کیونکہ انسان ہر حال میں اپنے ماحول اور اردگرد کی فضا سے اثر پزیر ہوتاہے۔چنانچہ برصغیر میں مدرسہ مودودیؒ کے پیداکردہ لٹریچر اور اس کے بانی کی خاص مصطلحات میں اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ ۱ اسی طرح عالم عرب میں عظیم اسلامی تحریک ’’الاخوان المسلمون‘‘ کے ایک بڑے فکری رہنما اور مجاہد سید قطبؒ شہید کی بعض تحریروں میں بھی انہیں خیالات کی بازگشت ملتی ہے۔ ۲ بر صغیر کی بعض دوسری اور تحریکوں میں بھی افراط و تفریط کی یہی صورت حال نظر آتی ہے۔ ان میں سے بعض مغربی انقلاب سے شدید طور پر متاثر تھیں اور بعض خالص صوفیانہ نقشہ کے ساتھ اصلاح کا کام کرنا چاہتی تھیں۔ ۳
تحریکی و انقلابی تصور دین کی علمبردار جماعتوں اور تحریکوں نے بلاشبہ دین کی مدافعت ونصرت کی ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ انھوں نے کئی نسل کو الحاد و تشکیک کے حملوں سے بچایا، مستشرقین اور متجددین کے اعتراضات کے جواب دیے، اسلام سے متعلق مختلف پہلؤوں پر عصری اسلوب و آہنگ میں لٹریچر فراہم کیا۔بایں ہمہ چونکہ ان میں سے بیشتر اسلامی تحریکات کا پہلا دور جوش و خروش اور انقلابی جزیات اور تبدیلی کے ایک عمومی نشانہ کو لے کر ہوا تھا، اس بڑھی ہوئی انقلابیت کی وجہ سے کہیں پر جابر و مستبد مسلمان حکمرانوں سے ٹکراؤ اورتصادم کی کیفیت پیدا ہوگئی اور کہیں پر بنیادی فکر اور لٹریچر میں دین کی تعبیر و تشریح کے سلسلہ میں افراط و تفریط نے راستہ پالیا،حتی کہ جو شیلے نوجوان کارکن اور نسبتاً زیادہ انقلابی افراد ان تحریکوں سے بھی مایوس ہوکر الگ الگ گروپ بنانے میں جٹ گئے اور نیا خون کم ملنے کی وجہ سے اب اکثر تحریکیں تعصب وتحزب اور جمود فکری کا شکار ہونے لگی ہیں۔
دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلہ میں بحکم ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ‘‘ امت مسلمہ کی ۱۴ سو سالہ تاریخ زوال و ادبار، انحطاط و تنزل کے ساتھ ہی اصلاح و تجدید سے بھی معمور رہی ہے۔امت کی اس پوری تاریخ میں عام روایت یہ رہی ہے کہ مصلحین و مجددین بلا استثنا پوری قوم کو اپنا مخاطب بناتے تھے۔ انھوں نے کسی تحریک و تنظیم کے تصور کی اساس پر کام نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاح و تجدید کی تاریخ میں عمر بن عبدا لعزیز رضی اللہ عنہ سے لے کر حسن بصریؒ ، عبدالقادر جیلانیؒ ، غزالیؒ واشعریؒ تک اور ابن تیمیہؒ وابن خلدون ؒ سے لے کر امام ربانی مجدد الف ثانی سرہندیؒ اور امام ولی اللہ محدث دہلویؒ تک سب کے سب امت کی مشترکہ میراث بن گئے اور آنے والی نسلوں نے ان سے بلا استثنا کسب فیض کیا۔ ان عبقری شخصیات نے فقہی جمود، مسلکی اور جماعتی تعصب کی تنگ نائیوں اور محدود یتوں سے نکل کر فکر اسلامی کے آفاقی اور وسیع تصور کو سامنے رکھا۔
بیسویں صدی میں اٹھنے والی انقلابی تحریکیں امت میں ایک نئی روایت کا آغاز تھیں۔ ان سے امت کی اصلاح و تجدید کا یہی نکتہ پوشیدہ رہ گیا۔ بطور خاص بر صغیر میں دین کی تعبیر کے لیے جو اسلوب اختیار کیا گیا، جو لب ولہجہ اپنایا گیا، وہ یہاں کے لیے ایک نئی اور نامانوس بات تھی۔ اس کے باعث، نیز یہاں کے مخصوص حالات کے پیش نظر علما کی بڑی تعداد اس تحریک سے دور و نفور ہی رہی۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک مخصوص فکری حلقہ پیدا کرنے کے علاوہ یہ تحریکیں کوئی ہمہ گیر شکل اختیار نہ کر سکیں۔ عوام قابل ذکر تعداد میں ان کی طرف متوجہ نہ ہوئے اور ساری صلاحیتوں اور امکانات کے باوجود ان کے اثرات عام طور پر بہت محدود ہوکر رہ گئے۔
مذکورہ تحریکات کی نشوونما اور ارتقا کا زمانہ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے عنفوان شباب کا زمانہ ہے۔مولانا نے ان میں سے بیشتر تحریکات اور ان کے بانیوں کو دیکھا، پرکھا اور برتا تھا۔ کئی ایک سے ان کی عملی وابستگی بھی رہی اپنے فکری سفر کے ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے بالآخر وہ خود ’’ایک شخص ایک کاروان‘‘ کی شکل اختیار کرگئے۔گزشتہ نصف صدی کی عظیم علمی و فکری شخصیات کے مابین مولانا تنہا ایک ایسے داعی ومفکر اور روحانی قائد اور مرشد امت ہیں جو ان ساری محدودیتوں سے نکل کر بذات خود ایک مدرسہ فکر کی حیثیت اختیار کرگئے۔ مولانا ندوی ؒ کی زندگی ، ان کی عقلیت کے تکوینی عناصر، ان کا خاندانی پس منظر، ان کے اساتذہ گرامی قدر، ان کی تعلیم و تربیت اور فکری نشوونما، ان کی تصنیفات، ان کے عملی کارناموں اور ان کی اصلاحی و دعوتی جد وجہد کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے، بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، اور آیندہ بھی ان پہلووں پر بہت ساکام ہوگا۔ میں یہاں اختصار کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہتاہوں کہ مولانا کا فکری خمیر تحریک شہیدین کی جامع روح پرور اور انقلابی و تجدیدی دعوت سے اٹھا تھا۔یہی تحریک تھی جو ان کے دل میں جاگزیں ہوگئی تھی اور کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد وہ اسی تحریک کو مثالی اور آئیڈیل نمونہ تصور کرتے تھے، اور اسی کے عملی مظاہر اور تقاضوں کی تلاش و جستجو میں انھوں نے مختلف شخصیات اور مختلف مراکز دعوت و فکر کی طرف قدم بڑھائے تھے۔ سید مودودی ؒ سے ان کا فکری رشتہ اسی کی خاطر استوار ہواتھا۔ بستی نظام الدین کے مرکزتبلیغ کی طرف ان کے قدم تبلیغی تحریک کے وسیع تناظر کو دیکھتے ہوئے ہی اٹھے تھے جو افسوس کہ بانی تبلیغ ،مصلح ا مت مولانا محمدالیاس کاندھلویؒ کے ذہن ہی میں رہا اور ان کی وفات پر ان کے ساتھ ہی رخصت ہوگیا۔ عالم عربی کے مجدد امام حسن البناءؒ کی تحریک اور ان کا منہج عمل اپنے جلال و جمال میں اسی تحریک کا پر تو نظر آیااور مولانا نے اس سے فیض اٹھانے میں کمی نہیں کی۔غرض یہ کہ ان کا اصل مایہ خمیر تحریک شہیدین تھی، اسی مشن کو انھوں نے اپنا مشن بنایا اور تاحیات اس مشن کے وفادار رہے، اور خود ان کا وجود مسعود بھی اس تحریک کا معنوی و امتداد و تسلسل بن گیا۔
مولانا ندوی کا بنیادی وصف یہ تھا کہ وہ عالم اسلام میں منصب توجیہ و ترشید پر فائز تھے۔عصر حاضر میں دین کی نئی تعبیر و تشریح کا مسئلہ پیش آیا اور بعض مفکرین سے اس سلسلہ میں بعض تسامحات ہونے لگے تو مولانا نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور اس ضمن میں اپنے بعض محبوب رفقا اور دوستوں پر بھی علمی تنقیدو محاسبہ کا فرض انجام دیااورعصرحاضرمیں دین کی تشریح و توضیح کے سلسلہ میں مولانا مودودیؒ کی تعبیری فر و گزاشتوں کا بھی مؤاخذہ کیا۔ ۴ ارید ان اتحدث الی الاخوان اور کتاب ’’البصائر‘‘، ’’عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح‘‘ اور ترشید الصحوۃ الاسلامیۃ سب اسی ترشیدی و توجیہی سلسلہ کی مختلف کڑیاں ہیں۔جب بر صغیر کے ایک تحریکی حلقہ میں یہ مسئلہ بڑے شد و مد کے ساتھ اٹھایا گیا کہ قرآن کے مخصوص مصطلحات کے معنی و مفہوم پر صدیوں پردہ پڑا رہ گیا تھا تو مولانا نے اس بات کی شدت کے ساتھ تردید کی اور علمی اور مثبت انداز میں ’’دعوت و عزیمت‘‘ کا ایک تاریخی سلسلہ لکھا۔ یہ پورا سیٹ اصلاً ان کے اس دعوے کا علمی ثبوت تھا کہ امت میں اصلاح و تجدید کا ایک تاریخی تسلسل قائم رہا ہے اور کسی مرحلہ میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ دین کے مجموعی مفاہیم امت سے مستور ہوگئے ہوں۔ ماذا خسرالعالم بانحطاط المسلمین اور ’’الصراع بین الفکرۃ الغربیۃ والفکرۃ الاسلامیۃ‘‘ میں انھوں نے مختلف اسلامی ممالک میں امت کے ماضی حال و مستقبل کا ایک بصیر ت افروز اور مؤر خانہ و ناقدانہ جائزہ لیا، زوال و ادبار کے عوامل کی نشاندہی بھی کی اور موجودہ حالات میں عالم اسلام کس راستہ کو اختیار کرے، اس سوال کا جواب دیا اور واضح منہج عمل مسلمانوں کے سامنے رکھا۔ واقعہ یہ ہے کہ عالم اسلام نے مولانا کی اس توجیہ و ترشید کو دل سے قبول کیا ہے، چنانچہ تحریکات اسلامیہ کے موجودہ منہاج عمل اور عملی طریقہ ہائے کار میں اس کے اثرات کو صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔اس لحاظ سے مولانا اس صدی کے بہت بڑے فکری قائد اور روحانی مرشد ہیں۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ کا دوسرا بڑا وصف یہ ہے کہ وہ فقہی توسع کے قائل اور اس کے علمبردار تھے۔ انھوں نے جمود و تقلید کے بجائے ہمیشہ اجتہاد کی دعوت دی۔ عشق رسول، اتباع سنت، اور احترام سلف کے ساتھ تربیت باطن اور تزکیہ و احسان کو مطلوب شرعی قرار دیتے رہے۔ انھوں نے تصوف کو بدعات و خرافات اور عجمی اثرات سے پاک کرنے کی دعوت دی اور کتاب وسنت پر مبنی تصوف (احسان) کو روح دین سے کبھی متصادم نہیں سمجھا بلکہ اگر دیکھا جائے تو صحیح معنی میں انھوں نے ہی برصغیر میں پہلی بار علم تزکیہ (تصوف) کی تجدید کی اور اسے بدعات و شرکیہ اعمال سے اس کی تطہیر کی بنارکھی۔ اسی سلسلہ میں ان کے گہربار قلم سے ربانیۃ لا رھبانیۃ نکلی۔انھوں نے پوری ملت کو اپنا مخاطب سمجھا اور بنایا۔ جماعت دیوبند سے بھی انھیں ویسی ہی محبت تھی جیسی تحریک ندوہ سے۔ محدثین کے مسلک سے بھی انھیں عقیدت تھی اور متبع سنت صوفیا اور سلاسل تصوف کے بھی وہ قدر دان تھے۔گویا ان کی ذات میں تحریک ندوہ کی بازیافت ہوئی تھی اور اس کی اصل روح عود کرآئی تھی۔ المیہ یہ ہے کہ مولانا کے اس فکری اور عملی توسع کو بعض خوردہ بیں اور کوتاہ چشم فکر و عمل کا تضاد سمجھتے ہیں۔
مولانا ندوی ؒ نے دین کی سیاسی تعبیر پر تنقید کی، تاہم وہ اپنی زندگی کے کسی لمحہ میں بھی دین و سیاست کی دوئی اور تفریق کے قائل نہیں رہے۔انھوں نے اسلا م کی شوکت،خلافت کے ادارہ کے احیا اور عالم اسلام کے اتحاد اور قوت کی آرزو کی، اس کے لیے کوششیں کیں اور عالم اسلام کے سربراہوں، امرا، مفکروں اور دانشوروں سے جماعتوں اور ان کے قائدین سے اس سلسلہ میں کھلی باتیں کیں۔ ان کا سلسلہ ’’اسعمیات‘‘‘ اس پر شاہدعدل ہے۔ انھوں نے عالم اسلام کے مسائل سے ہمیشہ تعلق رکھا، مسلمان امرا کو ان کے فرائض سے متعلق آگاہ کرتے رہے، انھوں نے مصر کی ناصریت، عربی قومیت اور ترکی کی کمالیت پر تنقید کی، مسجد اقصیٰ اور مقبوضہ فلسطین کے مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
امت کے ضیاع پر مولاناابوالحسن علی ندوی (جوعرف عام میں علی میاں ندوی کے نام سے معروف ہیں)انگاروں پر لوٹتے تھے، لیکن ان کا یہ درد محض احساس و شعور اور قرطاس و قلم تک ہی محدود نہ تھا، انھوں نے امت کا مرثیہ پڑھنے اور آہ وبکا کرنے پر بھی اکتفا نہیں کیا۔ وہ قنوطیت اور یاسیت کے بھی شکار نہ تھے نہ ہی خوش فہمیوں میں مبتلا رہے، بلکہ میدان عمل میں آکر ایک دیدہ ور سپاہی کی طرح اور ایک با شعور اور بابصیر ت قائد کی طرح ہر محاذ پر آگے نظر آئے۔ وہ ڈرائنگ روم مفکروں، گوشہ نشین علما و مدرسین اور زمانے کے اندھیروں اور اجالوں سے بے خبر ’’ہو حق‘‘ کی ضربیں لگانے والے عابدوں اور زاہدوں میں سے نہیں تھے بلکہ ان کی پوری زندگی تمام تر علمی و تحقیقی مشغولیتوں، عبادات کے ذوق و شوق اور روحانی ریاضتوں کے باوجود سر تاپا جہد وعمل سے عبارت تھی۔ وہ عالم اسلام میں ہونے والے ہر قسم کے تعلیمی و تربیتی، دعوتی اور اصلاحی کاموں میں تعاون کرتے اور اصلاحی تحریکات کے پشت پناہ اور مؤید اور ان کے لیے دعا گو بھی تھے۔
مولاناندویؒ کو فکر ارجمند کے ساتھ دل درد مند بھی عطا ہواتھا۔ دین ظلم سے، کفر اور شرک سے نفرت سکھاتا ہے، لیکن ایک انسان کے ساتھ (چاہے وہ کافر و مشرک ہی کیوں نہ ہو) وہ فرخ دلانہ، مصلحانہ اور ناصحانہ رویہ کا طالب ہے۔ ہر نبی کی کی دعوت میں یہ چیز نہایت ابھر ی ہوئی ہے کہ ہر نبی نے اس راہ کی تمام مشکلات کو خندہ جبینی سے برداشت کیااور قوم کی طرف سے پیش آنے والی مصیبتوں اور اذیتوں کے باوجود انا لکم ناصح امین ہی کہا۔ علماے حق اور مصلحین امت بھی انبیا کی نیابت کرتے ہیں۔بنی آدم کے لیے ہمدردی و غم گساری، بلند انسانی قدروں کی حفاظت، حق کی طرف داری، مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانا، اور ظلم کے خلاف احتجاج کرنا وغیرہ جیسے عناصر کا پایا جانا دعوت واصلاح کی تاریخ کا ایک ناگزیر حصہ ہے ۔مولانا کی ’’پیام انسانیت‘‘ کی تحریک دراصل ایسی جذبہ واحساس کی ایک تعبیر ہے۔
آج عقلیت کا دوردورہ ہے۔ سائنٹفک ریسرچ و تحقیق کے نام پر الحادی تہذیب اور تشکیک کی فضا پھیلائی جارہی ہے۔ اس صورت حال میں دینی مفاہیم اور تعلیمات کی تشریح کے لیے عصری اسلوب کا استعمال و قت کا تقاضا اور ایک ناگزیر دعوتی ضرورت ہے۔ اس صدی کے کئی بہترین دماغوں نے عقلی اور استدلالی اسلحوں سے لیس ہوکر اسلام کی نصرت و اشاعت کاکام کیا ہے جس کی مثال میں مولانا وحیدالدین خان کی شاہکار کتاب ’’مذہب اورعلم جدید کا چیلنج‘‘ کو پیش کیا جاسکتاہے اور ان کا یہ کام اپنی جگہ نہایت مہتم بالشان اور ضروری ہے اور مولانا ندوی ؒ عصری اسلوب میں کام کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ تاہم یہ ایک نفسیاتیحقیقت ہے کہ انسان عقل و منطق کے سہارے زندگی نہیں گزارسکتا۔ عقل اور سائنس انسان کے دل میں شکوک و شبہات کے بیج بو سکتے ہیں، اسے ایمان و یقین کی حرارت اور طمانیت قلب کی دولت نہیں دے سکتے ۔ یہ چیز تو اسے صرف قلب و روح کی تسکین اور جذبہ و ضمیر کے اطمینان کے راستے سے مل سکتی ہے۔مولانا کا یہ ایک بہت بڑا امتیاز ہے کہ وہ عقل سے زیادہ جذبہ کی تطہیر اور فکر سے زیادہ عمل کی دعوت دیتے ہیں۔ یہی انبیا و مصلحین کی دعوتوں کا مزاج بھی رہا ہے۔ ایک صحیح حدیث میں اس حقیقت کو ان الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ’’الا ان فی الجسد لمضغۃ اذا صلح صلح الجسد کلہ واذا فسد فسد الجسد کلہ، الا وھی القلب‘‘۔
موجودہ زمانہ فن کا زمانہ ہے۔ آج فن سے کا م لے کر لوگ اس فکر و خیال کی بھی جاندار و شاندار ترجمانی کردیتے ہیں جن سے انہیں کوئی قلبی تعلق اور دلی وابستگی نہیں ہوتی۔غالباً یہ بھی ایک وجہ ہے کہ داعیوں کی کثرت اور مطبوعہ اور مسموعہ لٹریچر کی زیادتی کے باوجود متوقع اثرات و نتائج حاصل نہیں ہورہے ہیں۔ آج کتنے ہی سحر انگیز خطیب، کتنے ہی وسیع المطالعہ دانشور اور بلیغ طرز ادا کے مالک مصنفین اور جادو نگار ادیب اور محقق مل جائیں گے جن کے فکر وعمل میں واضح تضاد ملتا ہے، جن کے بولنے اور لکھنے پر فدا ہونے والے اور سن کر مسحور ہوجانے والے ان کی سیرت و کردار کو دیکھیں تو یقیناًانہیں ان کی سطح سے بہت گرا خیال کریں اور ان پر نفرین بھیجنے لگیں۔ دانشوروں کی اس بھیڑ میں مولاناعلی میاںؒ کا ایک امتیاز یہ ہے کہ ان کے ہاں دانش و بنیش بھی ہے اور ایمان ایقان کی سرور آگیں کیفیت بھی ۔ان کے حرف حرف سے اخلاص و للٰہیت ٹپکی پڑتی ہے۔ ان کی پرشکوہ اور خطیبانہ طرز کی تحریروں و تقریروں میں فصاحت و بلاغت کی چاشنی بھی ہے ، حرارت قلب اور جوش عشق کا سامان بھی۔ کثرت معلومات اور تحقیق کے اعلیٰ درجہ پر ہوتے ہوئے بھی ان کے بول بول میں ایک عجیب طرح کی روحانی کشش ولذت پائی جاتی ہے۔ ان کا قاری انہیں پڑھ کر جوش عمل سے سرشار ہوجاتا ہے اور اسے کہیں بھی قول وفعل میں تضاد یا دورنگی کا احساس نہیں ہوتااور مصنوعیت اور لفاظی کا خیال نہیں ہوتا۔
مولانا علی میاںؒ کے ہاں فن بھی ہے اور فنی نزاکتوں کا بھر پور احساس بھی ، تاہم فن سے زیادہ مقصدیت ان کے پیش نظر ہوتی ہے۔ وہ ادب برائے ادب کی تخلیق نہیں کرتے بلکہ ادب کو ایک اعلیٰ اور بلند انسانی زندگی کی تعمیر کے لیے استعمال کرتے ہیں اور عالمی رابطہ ادب اسلامی ۵ دراصل ان کے اسی ادبی فکر کا عملی مظاہرہ ہے۔ کوئی شک نہیں کہ وہ اردو و عربی دونوں کے ایک صاحب طرز انشا پرداز ادیب ہیں، اسی طرح وہ ایک کامیاب سوانح نگار، اور صاحب نظر ناقد و مؤرخ ہیں،لیکن اس سب سے زیادہ وہ ایک دل درد مند رکھنے والے داعی، دیدہ ور مصلح اور صاحب فراست مربی ہیں۔
حواشی
۱ مولانا مودودی اور سید قطب کی تحریروں میں دین کے سیاسی پہلو پر غیر ضروری زور دیاگیا اور ان کی تشریح کی رو سے دین کی سماجی واجتماعی نظام زندگی کی حیثیت زیادہ ابھر کر سامنے آئی اور اس کا تعبدی پہلوکمزور پڑگیا جس کے اثرات ان کے پیداکردہ لٹریچر میں بھی صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔ مولانا مودوی کا یہ فکر تفہیم القرآن ،اسلامی عبادات پر ایک تحقیقی نظر ،اور ’خطبات ‘میں نظر آتا ہے، تاہم اس کو خاص منضبط انداز میں انہوں نے’ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحوں‘میں پیش کیاہے جس میں انہوں نے الٰہ، رب ،عبادت اور دین کے معانی ومفاہیم لغت عرب کی بنیاد پر متعین کیے ہیں،ان کے مطابق صفات الٰہیہ میں حاکمیت الٰہ اور اقتدار اعلی ہی اصل او ر بنیادی صفت ہے ۔اس فکر پر مفصل نقد کے لیے ملاحظہ ہو ’’تعبیر کی غلطی‘‘ مؤلفہ مولاناوحیدالدین خان اور ’’عصرحاضرمیں دین کی تفہیم و تشریح پر ایک نظر‘‘ از مولانا ابوالحسن علی ندوی۔
۲ سید قطب نے بھی معالم فی الطریق اور فی ظلال القرآن میں متعدد مقامات پر اس فکر کی ہم نوائی کی ہے،وہ لکھتے ہیں کہ اخص خصائص الالوھیۃ الحاکمیۃ۔
۳ اصل میں دین کی عصری تعبیر ایک دودھاری تلوار کی طرح ہے جس میں اگر ذرا سا بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے اور حد سے تجاوز ہوجائے تو بات کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔چنانچہ عنایت اللہ مشرقی جیسے عبقری اور ذہین انسان نے جب ٹھوکر کھائی تو خاکسار تحریک چلائی اور دین کی عصری تعبیر کے نام پر علما کی شدید و بے جا مخالفت شروع کردی۔عبادات کے نظام اور قرآن کی ترتیب اور نظم کی تفہیم میں من مانی تاویلات کیں،نماز کو فوجی پریڈ بنادیا۔ علما سے سائنس داں مراد لیے ۔مشرقی صاحب کی یہ نئی تاویلات ان کی کتاب تذکرہ میں خاص طور پر نمایاں ہیں۔اس کتاب اوراس کے تکملہ میں انہوں قرآن کی نزولی ترتیب وضع کی ہے،اور اسی کو اصل قرار دیاہے ،نیز علما کی مخالفت میں ’’ملاکا نیادین‘‘ ۱۔۲۔۳ نہایت استہزائیہ انداز میں لکھی۔ اسی طرح غلام احمد پرویز نے دین کی معاشی اور سوشلسٹ تعبیر کی اور زکوٰۃ کا پوراسسٹم انہیں ذاتی ملکیت کے خلاف نظر آیا جیساکہ ان کی کتاب ’’لغات القرآن‘‘ اور ’’نظام ربوبیت ‘‘ سے معلوم ہوتاہے ۔ان کے ہاں انکار حدیث کا رجحان اس پر مستزاد ہے ۔
۴یہ نقطہ نظراصلاً صوفیا کا تھا جن کے ہاں مخاطب کی رعایت، انسان دوستی و خدمت خلق کے فلسفہ کے باعث کفر واسلام کے مابین امتیاز بھی ختم سا ہوگیاتھا۔ بعض اوقات انھوں نے مقامی تصورات و رسوم کو بھی وسیلہ تبلیغ کے طورپراختیار کرلیا۔ بلاشبہ محقق صوفیا ہمیشہ ان غالی خیالات کی تردید کرتے رہے، لیکن ان کے اکثر طبقات و سلاسل پر یہی رجحانا ت غالب رہے جس میں وحدت الوجود کے فلسفہ نے توحید و شرک کے مابین سارے فاصلے ہی ختم کر دیے۔ دور جدید میں تصوف کے زیر اثر حلقوں میں ایک اور فلسفہ نمودار ہوا جس کی ترجمانی بر صغیر میں تبلیغی جماعت کا پیٹرن کرتا ہے۔یہ صحیح ہے کہ مسلمان عوام پر اصلاح و تبلیغ کے اس فکر کے گہرے اثرات پڑے ہیں، تاہم اس کا یہ پہلو بہت کھٹکتا ہے کہ اس میں نھی عن المنکر کے پہلو کو مکمل طور پر فراموش کرکے امر بالمعروف اور بشارت کے پہلو پر زیر صرف کیا جاتا ہے اور احادیث فضائل سے خاص طور پر مددلی جاتی ہے۔
۵ ملاحظہ ہو عصر حاصر میں دین کی تشریح وتفہیم پر ایک نظر ۔
۶ یہ خیال مولانا مودودی نے اپنی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ کے مقدمہ میں ( ص ۴تا۶)میں ظاہر کیاہے۔
۷ مصرمیں ناصری مظالم کی شدت کے وقت جیلوں میں بندچند اخوانی نوجوانوں میں ردعمل کی کیفیت پیداہوئی اور انہوں نے صدر ناصر اور اس کے حواری مواریوں کی تکفیر شروع کردی تو اس شدت کے خلاف اخوان کے مرشد عام استاذ حسن الہضیبی نے ایک کتاب لکھی ’دعاۃ لاقضاۃ‘ کہ ہم داعی ہیں، خدائی فوجدار نہیں۔یہ کتاب گویا مولاناعلی میاں ؒ کے خیالات کی تائید ہی تھی۔
اسلامی اخلاقیات کے سماجی مفاہیم (۱)
پروفیسر میاں انعام الرحمن
(’’راہ عمل‘‘ کا ایک مطالعہ۔)
خالد سیف اللہ رحمانی ، ہندوستان کے معروف عالمِ دین ہیں ۔ ان کے مختلف اوقات میں لکھے گئے مضامین کے مجموعے عوامی پذیرائی حاصل کر چکے ہیں ۔ اب ان مجموعوں کا مجموعہ ، پاکستان میں زم زم پبلشرز کراچی نے ’راہِ عمل ‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ راہِ عمل دو جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کے پانچ حصے ہیں ۔ جلد اول میں تین اور جلد دوم میں دو حصے ہیں۔ ان حصوں کے عنوانات بالترتیب (۱) نقوشِ موعظت، کل صفحات ۳۶۶ (۲) حقائق اور غلط فہمیاں، کل صفحات ۲۱۲ (۳) نئے مسائل ، اسلامی نقطہ نظر، کل صفحات ۲۷۰ (۴)عصرِ حاضر کے سماجی مسائل، کل صفحات ۲۲۴(۵) دینی و عصری تعلیم اور درس گاہیں:مسائل اورحل، کل صفحات ۲۶۰ہیں۔ یوں ’راہِ عمل ‘ کی دو جلدوں اور پانچ حصوں کے مجموعی صفحات ۱۳۳۲ ہیں۔
اس تالیف کے عنوان اور مولف کے نام کے ساتھ ’مولانا‘ کے سابقے سے ہماری یہ گھڑی گھڑائی رائے تھی کہ کاغذ قلم جیسے انتہائی اہم وسائل اور قارئین کے قیمتی اوقات کے ضیاع کی خاطر ، روایتی طرز کے مباحث مولویانہ اسلوب میں بیان کیے گئے ہوں گے، لیکن ’راہِ عمل‘ کی ورق گردانی نے خوش گوار حیرت سے دوچار کردیا کہ طبقہ علما میں اپنے زمانے اپنے معاشرے سے جڑے ہوئے خالد سیف اللہ رحمانی جیسے صاحبِ نظر جہاں دیدہ افراد بھی پائے جاتے ہیں جو زندہ معاشرتی موضوعات پر نہ صرف سوچنے کی جرات کر سکتے ہیں بلکہ اپنی سوچ کو انتہائی دلکش ادبی اسلوب میں الفاظ کا جامہ پہنانے پر بھی قادر ہیں ۔اس لیے کم از کم علما کو تو ’راہِ عمل ‘ کا سنجیدگی سے لازماََمطالعہ کرنا چاہیے تاکہ انہیں معاصر مسائل سے کما حقہ آگاہی حاصل ہو سکے ، اگرچہ بحیثیت مجموعی اس تالیف کے مخاطب عوام الناس ہیں ۔
خالد سیف اللہ رحمانی نے قلم اٹھاتے ہوئے، وقت کی نزاکت، قلم کی حرمت اور اپنے مقام (بطور عالم دین) کا بہت دھیان رکھا ہے ۔ اس لیے ’راہِ عمل ‘ کا تنقیدی مطالعہ قاری پر یہ تاثر چھوڑتا ہے کہ خالد صاحب بہت سنبھل کر اور نہایت محتاط انداز میں اپنا مافی الضمیر اس ڈھنگ سے بیان کرنے کے خوگر ہیں کہ ابلاغ بھی ہو جائے اور کتمانِ حق کی تہمت بھی ان کے دامن کو تر نہ کر سکے ۔ان کے اس اسلوب کی شہادت زیرِ نظر تالیف کے ایسے سینکڑوں صفحات با بانگِ دہل دے رہے ہیں جن میں مولف محترم نے ہندوستان جیسی کثیر مذہبی کثیر لسانی کثیر ثقافتی کثیر نسلی ریاست میں ، جہاں مسلمان اقلیت کی حیثیت میں جی رہے ہیں ، مسلم شناخت کی بازیافت کی صدا اس سلیقے سے لگائی ہے کہ نہ صرف ان کے غیر مسلم ہم وطنوں کی کوئی دکھتی رگ نہ چھڑے بلکہ ممکن حد تک تو وہ اس صدا کی سلیقگی پر ریجھ بھی سکیں ۔
’’راہِ عمل‘‘ کے مضامین اخباری ہوتے ہوئے بھی اخباری نہیں ہیں۔ مولف محترم نے دعوت و ابلاغ کے لیے پلیٹ فارم کے انتخاب میں زمینی حقائق کو پیشِ نظر رکھا ہے، لیکن طرزِ تحریر اور اسلوبِ بیان میں صحافتی سطح سے بہت بلند ہو کر تحقیقی، علمی، تنقیدی، تقابلی، تنقیحی اور توضیحی اسلوب دیدہ و دانستہ اپنایا ہے اورخوب نبھایا ہے ۔ ہمارے بیان کو مبالغہ آرائی پر محمول خیال نہ کیا جائے ، کیونکہ زیرِ نظر تالیف کے مضامین میں بیسیوں کتب کے حوالے، قرآن مجید اور احادیث نبوی کا استناد کے ساتھ بیان اور ان سے استدلال کے جاں فزا نمونے ہماری رائے کی ثقاہت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اگرچہ بعض مقامات پر موضوع کی حساسیت نے خالد صاحب کو جذباتی اظہار پر مائل کیا ہے، لیکن ان کے قلم کی جولانی کہیں بھی ایسی متلاطم دھارا کا روپ نہیں دھار سکی جو ان کی فکری لگام سے مکمل آزادا ور بے نیاز ہو سکے، لہٰذا آج کے انتہائی پر آشوب ماحول کی مناسبت سے مولف محترم کے اسلوب کوبلا خوفِ تردید ’’ذمہ دارانہ‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔
زبان و محاورے پر گرفت کے باوجود ہمارے ممدوح کہیں کہیں تسامح کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اگر ایسا کسی نام نہاد ترقی پسند ادیب سے سرزد ہوا ہوتا تو شایدہم گرفت نہ کرتے، لیکن خالد سیف اللہ صاحب رحمانی اپنی تحریر کے بین السطور جس فکری بلندی پر متمکن نظر آتے ہیں، اس سے ہمیں ہرگز توقع نہ تھی کہ وہ بعض محاوروں میں مستور اس ’تحقیر ‘سے آگاہ نہ ہوں گے جو اپنی اصل میں ہمارے زوال کی زندہ علامت ہے اور اقوامِ عالم میں بالعموم اور ہندوستان میں بالخصوص، ہر اعتبار سے ہماری ذہنی خجالت کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔ مثلاً ’’گداگری اور اس کا سدِ باب‘‘ کے زیرعنوان خالد صاحب رقم طراز ہیں :
’’ کچھ فرزانے ایسے بھی ہیں جو آپ کو دو چار صلواتیں سنانے سے بھی نہیں چوکتے۔ وہ اس طرح سوال کرتے ہیں کہ ناواقف آپ کو ان کا مقروض سمجھ بیٹھے‘‘۔ (ج۲، ح۴، ص۱۱۲)
ظاہری اعتبار سے یہ فقرہ بہت زبردست ہے ، چست ، تیکھا ، تیر بہدف۔اس فقرے کا دوسرا حصہ : ’’وہ اس طرح سوال کرتے ہیں کہ ناواقف آپ کو ان کا مقروض سمجھ بیٹھے‘‘ خالد صاحب کی ایسی ظرافت کا غماز ہے جس کے پیچھے انتہائی سنجیدہ مشاہداتی مزاج پوشیدہ ہے لیکن اس فقرے کا پہلا حصہ جس میں ’صلواتیں سنانے ‘ کا ذکر کیا گیا ہے ، محاورۃََ ہمارے تہذیبی زوال کا تراشیدہ تو ہے ہی، اس کا مسلم لکھاریوں کے ہاں برتا جانا ایسی پس ماندہ نفسیات کا آئینہ دار ہے جس کے بعد ذہنی خود کفالت کی بابت سوچنا بھی محال ہے۔ ہمارے دین میں صلوٰۃ کا جو مقام ہے، خالد سیف اللہ صاحب ہم سے بہتر جانتے ہیں، اسی لیے ان کا اس محاورے کو اپنے احاطہ تحریر میں لانا ہمیں چبھ گیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک مقام پرخود لکھتے ہیں کہ :
’’کسی بھی زبان میں ایک لفظ کا جو حقیقی معنی ہوتا ہے، وہ براہ راست اور بالواسطہ مناسبتوں کی وجہ سے نئے نئے پیکر میں ڈھلتا رہتا ہے۔‘‘ (ج ۱، ح ۲، ص ۹۴)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ خالد صاحب کی تنقیدی نظر سے زبان و بیان کے اطراف و اکناف کا کوئی پہلو پوشیدہ نہیں۔ لفظ کا اپنی اصل کی مناسبت سے نئے نئے پیکروں میں ڈھلنابتا رہا ہے کہ ان کی نگاہِ ناز الفاظ کی ساخت و ماہیت کے اسرار و رموز پر بھی ہے، جبھی تو یوں رقم طراز ہیں:
’’شعرا اور نئی روشنی کے لوگ تو ان کی تحقیر سے بھی نہیں چوکتے تھے اور ان کو ’’تنگ نظر ملا‘‘ اور ’’ دورکعت کا امام‘‘ جیسے الفاظ سے یاد کرتے تھے‘‘۔ (ج ۲، ح ۵، ص ۴۴)
اسے ستم ظریفی ہی کہیے کہ اس کے باوجود نادانستگی میں سہی، لیکن اسی تحقیر کے بقلم خود مرتکب ہوئے ہیں اور تحقیر بھی کسی فرد یا طبقے کی نہیں بلکہ دینِ اسلام کے ایک بنیادی رکن کی ۔ اس واحد تسامح کے علاوہ اور کہیں ان سے زبان و بیان کی حد تک غالباً چوک نہیں ہوئی ، بلکہ جابجا ایسے دل کش فقرے بکھرے ہوئے ہیں کہ قاری نہ صرف حقیقت آفرینی کا لطف اٹھاتا ہے بلکہ زبان کا چٹخارہ بھی لیتا ہے، مثلاً :
’’حقیقت یہ ہے کہ رائی کو پہاڑ بنانے اور پہاڑ کو رائی میں سمیٹنے کی مثال کوئی شخص دیکھنا چاہے تو صحافت کی ’’افسانوی دنیا‘‘ میں دیکھ سکتا ہے۔‘‘ (ج ۲، ح ۴، ص ۷۱)
’’ فرقہ بندیوں اور باہمی عداوتوں نے ہمیں سمندر کی سی طاقت رکھنے کے باوجود قطروں میں تقسیم کر دیا ہے، ایسا قطرہ جسے دھوپ کی ہلکی سی تمازت اور ہوا کا معمولی سا جھونکا بھی وجود سے محروم کر سکتا ہے‘‘۔ (ج ۱، ح۱، ص ۱۷۴)
’’قومی یک جہتی نفرت کا پتھر پھینک کر حاصل نہیں کی جا سکتی ، اس کے لیے محبت اور پیار کے پھول برسانے ہوں گے۔ ‘‘ (ج ۲، ح ۴، ص ۷۰)
’’جس سفینہ کا ناخدا ہی آدابِ سفر سے بے بہرہ ہو، کون ہے جو اسے ساحل سے ہم کنار کرے؟‘‘ (ج ۲، ح۴، ص۱۵۶)
’’یلغار کے مظالم یا افغانستان کی جنگ سے مسلمانوں کے حوصلے پست نہیں کیے جا سکتے اور نہ ان کے ایمان کا سودا کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ نشہ ہے کہ جس قدر اتارنے کی کوشش کی جائے، اسی قدر چڑھتا ہے ، یہ وہ پودا ہے کہ جس قدر تراشا جاتا ہے، اسی قدر سربلند اور سایہ دار ہوتا جاتا ہے۔‘‘ (ج ۱، ح ۱، ص ۲۵۸)
’’یہ عجیب بات ہے کہ یہ ملک جس کو مسلمانوں نے وسعت و وحدت عطا کی، معاشی فراخی دی، امن و امان دیا، عدل و مساوات سے آشنا کیا، سماجی انصاف کی دولت دی، اس کے چپہ چپہ پر تاریخی عظمت کے نقوش سجائے اور اسی زمین کو اپنا مسکن اور مدفن بنایا، ان کی قربانیوں کو وہ لوگ مسخ کرنا چاہتے ہیں جن کے تلووں میں اس ملک کے بنانے، سنوارنے اور بچانے میں شاید ایک کانٹا بھی نہ چبھا ہو۔‘‘ (ج ۱، ح ۱، ص ۲۸۶)
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ تحریر شخصیت کی عکاسی کرتی ہے اور اہلِ نظر کہتے ہیں کہ کسی شخص کی اصلیت دیکھنی ہو تو اسے غم و غصہ کی حالت میں دیکھو۔ معلو م ہوتا ہے کہ ہمارے محترم کی جمالیاتی حس غم و غصہ میں بطورِ خاص بیدار ہو جاتی ہے، اسی لیے ان کے مزاج میں موجود عمومی شائستگی نے ایک دل خراش واقعہ یوں قلم بند کیا ہے:
’’آہ ، اے مظلومانِ گجرات ! اور صد آہ، اے ستم زدگانِ دنیائے بے ثبات !! جو مظالم تم بے گناہوں پر ڈھائے جارہے ہیں، کیوں کر ان کا بیان ہو ؟ قلم کا جگر شق ہو جائے تو تعجب نہ ہونا چاہیے ، کہ اگر پتھروں کو دیکھنے کی قوت میسر ہوتی تو شاید وہ بھی اس بربریت کو دیکھ کر ریزہ ریزہ ہو جاتے اور سمندر کو رونے والی آنکھیں نصیب ہوتیں تو شاید ان کے بھی سوتے خشک ہوجاتے۔ ایسا جورو جفا جنہیں دیکھ کر درندے بھی شرم سے پانی پانی ہو جائیں اور ایسا ظلم و ستم جنہیں سن کر تاریخ کے ستم شعار لوگوں کی روح بھی وجد میں آ جائے۔ زبان و قلم کی کیامجال کہ ان مظالم کے شایانِ شان مرثیہ کہے، ان آنکھوں کے سفید اور ٹھنڈے آنسو اس انسانیت سوزی پر کیا قربان ہوں! اگر قلب و جگر کی آنکھیں ہوتیں اور وہ گرم و حرارت انگیز خون و لہو کے آنسو نچھاور کر سکتیں تو شاید کچھ اس غم کا بیان ہو سکتا۔...... صدہزار رحمتیں ہوں تمہاری جان پر سوز اور روحِ شہادت شعار پر جو جرمِ بے گناہی کی سزا پا رہے ہیں اور جنہیں صرف اس لیے آتشِ نمرود میں جھونکے جانے کی سنت ادا کرنی پڑ رہی ہے کہ وہ خوئے آزری کو قبول کرنے کو تیار نہیں اور دینِ ابراہیمی کا علم تھامے ہوئے ہے۔ ..... تم پر خدا کی بے پناہ رحمتیں ہوں اور تمہارے لیے خدا کے نام پر مرنا مبارک ہو !!‘‘ (مردم سوزی ۔۔ انسانیت سوزی کا بدترین نمونہ: ج۱، ح۱، ص۱۹۹)
اس تالیف میں ہمارے محترم نے دینی مدارس کے نظام و نصاب اور طریقہ تعلیم وغیرہ پر بھی خامہ فرسائی کی ہے۔ دینی مدارس کی اصلاحِ احوال کا گہرا احساس رکھنے کے سا تھ ساتھ ان کی نظر مدارس سے وابستہ لوگوں کی امتیازی صفات پر بھی ہے، اسی لیے بہت طمطمراق سے لکھتے ہیں :
’’یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی ’’اجرت‘‘ کے بجائے ’’اجر‘‘ پر نظر رکھنے، تعلیم کو ایک مقدس فریضہ سمجھنے اور طلبہ سے محبت و شفقت کا برتاؤ کرنے کی جو روایت باوجود بہت سارے انحطاط کے ان مدارس میں پائی جاتی ہے، شاید ہی کہیں اور اس کی مثال مل سکے ‘‘۔ (ج۲، ح۵، ص۱۴۰)
’’اجرت کے بجائے اجر‘‘ میں حرفی تکرار سے قاری کو نعرے کی طرز کی قوتِ محرکہ ملتی محسوس ہوتی ہے ۔ اسے ’’اجرت نہیں، اجر‘‘ کے روپ میں باقاعدہ نعرہ بھی بنایا جا سکتا ہے، لیکن کوئی ستم ظریف اسے ’’ اجرت، نہیں اجر ‘‘ کا لبادہ اوڑھا سکتا ہے، اس لیے ہم نعروں میں خوامخواہ الجھنے کے بجائے خالد صاحب کے بیان ’’اجرت کے بجائے اجر‘‘ پر قناعت کرنا پسند کریں گے کہ پہلے نعرے میں مذہب، افیون بنتا نظر آتا ہے اور دوسرے نعرے میں اخلاقیات کا جنازہ نکلتا دکھائی دیتا ہے۔ بہر حال ! اسی قبیل کی بحث مولف محترم نے ’’اپنی عیال کو آگ سے بچائیے‘‘ (ج ۱، ح ۱، ص ۱۳۲، ۱۳۳) کے عنوان سے کی ہے:
’’ قابلِ فکر امر یہ ہے کہ آخر علمِ دین کی طرف سماج کے اونچے طبقے کی توجہ کیوں نہیں ہے؟ حال آں کہ ہر شخص کو اس بات کا اعتراف ہے کہ جو بچے دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان میں تہذیب و شائستگی اور بڑوں کی توقیر ، چھوٹوں کے ساتھ شفقت ، اپنے پرائے کے ساتھ حسنِ سلوک ، نگاہ اور زبان کی حفاظت اور اپنے فرائض کے تئیں جواب دہی کے احساس کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن کیا بات ہے کہ اس کے باوجود علم کا یہ شعبہ لوگوں کے التفات سے محروم ہے؟ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ جو لوگ دین اور علمِ دین کی خدمت میں مشغول ہیں ، ان کے پاس مادی وسائل کم ہیں، ان کو کم تن خواہوں پر اکتفا کرنا پڑتا ہے ، یہی ایک بات ہے جس نے مادہ پرست اذہان اور حریصانہ فکر و ذہن کے حاملین کو علمِ دین کی طرف آنے سے روکا ہوا ہے ، وہ سمجھتا ہے کہ ان کے بچوں کا مستقبل کیا ہو گا ؟وہ کیا کھائیں گے ؟ اور کیوں کر زندگی گزاریں گے؟ اس سلسلے میں مسلمان سماج کے لیے دو باتیں قابلِ توجہ ہیں : اول یہ کہ کیا مسلمانوں کا معاشرہ اپنے دینی تحفظ کے لیے ایک ایسے طبقہ کی صحیح طریقہ پر کفالت نہیں کر سکتا جن کی تعداد بہ مشکل ایک فی ہزار ہو گی؟ اگر مسلمان اپنی دوسری ضروریات کی طرح دینی خدمت گزاروں کو بھی اپنے لیے ایک ضرورت باور کریں اور فراخ حوصلگی کے ساتھ ان کے تعاون کے لیے ہاتھ بڑھائیں اور خادمینِ دین کو کم سے کم معاشی اعتبار سے اس لائق بنائیں کہ وہ متوسط طریقہ پر سماج میں اپنی زندگی بسر کر سکیں تو یقیناًاس علم سے بے اعتنائی اور بے رغبتی کی یہ کیفیت باقی نہیں رہے گی۔‘‘
اس اقتباس پر تنقیدی نظر ڈالیے کہ خالد صاحب نے ایک ہی سانس میں کم تن خواہوں کی وجہ سے علمِ دین کی طرف راغب نہ ہونے والوں کو ’’مادہ پرست اذہان اور حریصانہ فکروذہن‘‘ کے حاملین قرار دیا ہے اور مسلم سماج کی توجہ اس طرف بھی مبذول کرائی ہے کہ وہ خادمینِ دین کی کم سے کم متوسط طریقہ پر گزر بسر کے لیے اپنا کردار ادا کرے ۔ ہم گزارش کریں گے کہ مذہبی طبقے کی کم زور معاشی حالت کی وجوہات میں سے ایک وجہ دنیا کی مکمل نفی پر مبنی ’’مادہ پرست اذہان اور حریصانہ فکروذہن‘‘ جیسی طعنہ دینے والی غیر حقیقی سوچ کا معاشرے میں رواج پانا بھی ہے جس کے نتیجے میں، جیسا کہ سطورِ بالا میں اشارتاً ذکر ہوا، مذہب عوام کے لیے واقعتا افیون بن کر رہ گیا ہے۔ اسی سلسلے کی دوسری بات یہ ہے کہ خالد سیف اللہ صاحب مذہبی طبقے کی متوسط درجے میں کفالت کے خواہش مند ہیں تو کیا یہ حقیقت ان سے ڈھکی چھپی ہے کہ زرعی دور کی فرسودہ دینی تعبیر سے طبقہ علما جس شدت سے چمٹا ہوا ہے، اس کے انتہائی تباہ کن اثرات کے بعد مسلم معاشرے کے متوسط طبقے کی اتنی پسلی رہ جاتی ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی طبقہ علما کو معاشی اعتبار سے اوسط درجے میں لے آئے؟جب کہ حقیقت یہ ہے کہ علما کی فرسودہ دینی تعبیرات سے متاثر یہ طبقہ تو خود اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ یہ نکتہ تو ہمارے محترم پر واضح ہی ہو گا کہ امرا اور جاگیرداروں کو لوٹ کھسوٹ کے نت نئے حربوں کو عملی جامہ پہنانے سے فرصت نہیں ملتی، اس لیے مجموعی طور پر ہمیشہ غریب اور متوسط طبقہ ہی آگے بڑھ کر کفایت کے درجے میں سہی، لیکن حفاظتِ دین میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتا آیاہے۔اسی بحث کے ضمن میں ’’مسلم پرسنل لا : ایک غلط فہمی کا ازالہ ‘‘ کے زیرِ عنوان خالد سیف اللہ صاحب کا مضمون اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں اجمالی طور پر سہی، لیکن کم ازکم دینی تعبیر کی ماہیت کی بابت اصولی بحث تو کی گئی ہے ، ملاحظہ کیجیے:’’ آپ محسوس کریں گے کہ تغیر پذیر محض اسباب ہیں، انسان کی فطرت اپنی جگہ قائم ہے ۔ وہ جس طرح کل کبھی رنج و غم اور کبھی مسرت و شادمانی محسوس کرتا تھا، آج بھی کرتا ہے۔ پہلے آہ واہ سے اس کا اظہار کرتا تھا، اب بھی کرتا ہے ۔ کل جس طرح اس کے دل میں اپنے دشمنوں کے خلاف انتقام کا شعلہ سلگتا تھا ، آج بھی سلگتا ہے اور جس طرح کل اس کا سینہ مال و دولت اور حرص و ہوس کی آماج گاہ تھا، آج بھی اقتصادی ترقی کا بھوت اس کے ہوش و حواس پر سوار ہے۔ آج بھی اس کا نفس اس کو اخلاقی تقاضوں کے بالائے طاق رکھ دینے کی تلقین کرتا رہتا ہے ، جس طرح ماضی کا نقشہ ہمارے سامنے ہے ۔ جس طرح کل جاگیرداری اور زمین داری کی تمنا اس کو بے چین کیے رہتی تھی ، آج بھی اس کے دل میں حکومت اور اقتدار کی آرزوئیں چٹکیاں لیتی رہتی ہیں ۔ ..... اسلام اور اس کے قانونی نظام کا اصل موضوع اسباب و وسائل نہیں ہیں بلکہ اس کا موضوع انسان اس کی فطرت اور اس کے فطری تقاضوں کی مناسب حدود میں تکمیل ہے ، پس جس طرح انسان ایک غیر متبدل حقیقت ہے اسی طرح ظاہر ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والا قانون بھی ابدی اور دائمی ہو گا۔
لیکن اس کے باوجود ان نو دریافت وسائلِ زندگی، بدلتے ہوئے عرف اور زندگی کے معاشرتی ، معاشی اور سیاسی ڈھانچہ میں غیر معمولی تبدیلی ضرور چاہے گی کہ قانون میں اس کی کچھ رعایت کی جائے اور ان تقاضوں اور وسائل سے اسلامی قانون کو ہم آہنگ کیا جائے اور جزوی اور فروعی حدود میں اسلام ان تقاضوں کو قبول کرے۔ اس سلسلہ میں ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ اسلام نے بعض قانونی اور فکری امتیاز اور بنیادی اصول کو جوں کا توں باقی رکھتے ہوئے ایک مخصوص حد میں ضروری تغیر و تبدل اور واقعی تقاضوں کی تکمیل کے لیے ایسی لچک باقی رکھی ہے جو اس کو فرسودگی سے بچائے رکھے۔ چنانچہ مشہور فقیہ اور مزاجِ شریعت کے رمز شناس حافظ ابنِ قیم ؒ اپنی گراں قدر کتاب ’’ اعلام الموقعین ‘‘ میں اس موضوع پرایک مستقل باب(جلد دوم میں ) قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’عرف و عادت ، حالات و مقاصد اور زمان و مکان کے تغیر کی بنا پر مسائل میں اختلاف اور تغیر و تبدل کا بیان ، یہ بڑی مفید اور اہم بحث ہے جس سے ناواقفیت کی بنا پر شریعت میں بڑی غلطیاں واقع ہوئی ہیں ، جس نے دشواری ، تنگی اور استطاعت سے ماورا تکلیف پیدا کر دی ہے ، جب کہ یہ بات معلوم ہے کہ شریعت جو مصالح کی غیر معمولی رعایت کرتی ہے ، ان ناقابلِ برداشت کلفتوں کو گوارا نہیں کرتی ، اس لیے کہ شریعت کی اساس سراپا رحمت اور سراپا مصلحت ہے ، لہٰذا جب کوئی حکم عدل کے دائرہ سے نکل کر ظلم و زیادتی ، رحمت کی حدوں سے گزر کر زحمت ، مصلحت کی جگہ خرابی اور کارآمد ہونے کے بجائے بے کار قرار پائے تو وہ شرعی حکم نہیں ہو گا۔‘‘ (ج۱، ح۲، ص۱۴۸، ۱۴۹، ۱۵۰)
حافظ ابنِ قیم ؒ نے کھلے الفاظ میں دینی تعبیرات میں ملحوظ مقصدیت کی صراحت کی ہے اور خود ہمارے ممدوح مولف کا رجحان بھی اسی جانب ہے لیکن اس رجحان پر نفسیاتی تحفظات غالب آتے نظر آتے ہیں ۔ تغیر و تبدل جیسی حقیقت سے آشنائی کے بعد بھی ان کا یہ کہنا کہ’’ اسلام نے بعض قانونی اور فکری امتیاز اور بنیادی اصول کو جوں کا توں باقی رکھتے ہوئے ایک مخصوص حد میں ضروری تغیر و تبدل اور واقعی تقاضوں کی تکمیل کے لیے ایسی لچک باقی رکھی ہے جو اس کو فرسودگی سے بچائے رکھے‘‘، بعض سوالات پیدا کرتا ہے کہ زرعی دور میں تراشے گئے ’’بنیادی اصول‘‘ آخر کیوں کر اتنے بنیادی ہیں کہ فقط انہی کے دائرے میں رہتے ہوئے واقعی تقاضوں کی تکمیل کی جائے ؟ اس نظری سوال سے قطع نظر ، کیا واقعی ان کی مدد سے واقعی تقاضوں کی تکمیل (نظری اعتبار سے نہیں بلکہ) عملی طور پر ثمر آور نتائج کے ساتھ ممکن ہے؟ سوال تو یہ ہے کہ آخر آج کے دور میں قرآن و سنت سے براہ راست ’’بنیادی اصول‘‘ کیوں دریافت نہیں کیے جا سکتے؟ ہم گزارش کریں گے کہ جس پہلو سے انسان غیر متبدل حقیقت ہے ، اس پہلو سے اسلامی قانون کی ابدیت صرف اور صرف قرآن و سنت سے مخصوص ہے نہ کہ کسی دور یا کسی امام کے اختراع کردہ بنیادی اصولوں سے ، چاہے یہ قرآن و سنت سے اخذ شدہ ہی ہوں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اس کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اماموں کو شارح کے بجائے شارع تسلیم کرلیا جائے۔
سطورِ بالا میں علمِ دین سے لوگوں کی عدم دلچسپی پر خالد سیف اللہ صاحب کی فکر مندی کا جو جائزہ لیا گیا ہے، اس کے تناظر میں ہم خود کو یہ رائے دینے کا پابند خیال کرتے ہیں کہ مولف محترم کی دردمندی و غم گساری نے انہیں مسلم معاشرے کی زبوں حالی کی طرف متوجہ تو ضرور کیا ہے لیکن ان کی یہ توجہ ایسی ’’مربوط فکر‘‘ میں نہیں ڈھل سکی جو زرعی دور کی نفسیاتی حدود کو پھلانگ کر آج کے دور کے سنجیدہ مسائل کا عملی حل پیش کر سکتی ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولف محترم چھکڑے میں بیٹھ کر جہاز کی سی تیزی سے سفر کرنا چاہتے ہیں۔
’ ’راہِ عمل‘‘ کی جلد دوم حصہ چہارم صفحہ نمبر ۸۹ پر اپنے ایک مضمون ’’گناہ جو کبھی معاف نہیں ہوگا‘‘ میں خالد صاحب نے سورۃ النساء آیت ۹۳ کے حوالہ سے مومن کے قاتل پر انتہائی شدت سے گرفت کی ہے، لیکن ہمیں حیرت ہے کہ خالد سیف اللہ رحمانی جیسی صاحبِ نظرشخصیت بھی مومن کے قاتل کے لیے مقتول کے اولیا کی طرف سے معافی اور دیت کی قائل ہے اور اس کے لیے انھوں نے استدلال سورۃ البقرۃ آیت ۱۷۸ سے کیا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں آیات کے جدا جدا محل ہیں۔ سورۃ البقرۃ آیت ۱۷۸ کے مطابق مقتول کے ورثا کو واضح طور پر فریق تسلیم کرتے ہوئے معاف کرنے اور دیت لینے کا حق دیا گیا ہے جبکہ سورۃ النساء آیت ۹۳ کے مطابق مسلمانوں کی کوئی اجتماعی ہیئت (ریاست وغیرہ) ہی قاتل کی فریق معلوم ہوتی ہے۔ دیت لینا اور معاف کرنا تو کجا، قاتل کو قصاص یعنی برابری ملحوظ رکھتے ہوئے قتل کرنے سے بہت بڑھ کر، عبرت انگیز انداز میں قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس کی داخلی شہادت آیتِ مبارکہ میں قصاص کے بجائے ’’جزا‘‘ کالفظ دے رہا ہے اور جزا کے قرآنی اطلاقات کے مطالعہ سے یہی قرآنی منشا ابھر کر سامنے آتا ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ خالد سیف اللہ رحمانی جیسی قدآور علمی شخصیت کی فقیہانہ نگاہوں سے’’ قصاص اور جزا ‘‘ کے انتخاب و اطلاق میں مضمر حکمت کیسے چھپی رہ گئی؟حالانکہ اس نوع کے قرآنی و نبوی اسلوب کی شہادت وہ خود ایک مقام پر دیتے ہیں:
’’ قرآن مجید میں عورت کی عدت کے لیے تین’قرء‘ گزارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ’قرء‘ کے معنی حیض کے بھی ہیں اور زمانہ پاکی کے بھی، اسی لیے بعض فقہا نے تین حیض مدت قرار دی ہے اور بعض نے تین پاکی۔ ظاہر ہے کہ ’قرء‘ کے دونوں معانی اللہ تعالیٰ کے علمِ محکم میں پہلے سے تھے، اگر اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ہوتا کہ احکامِ شرعیہ میں کوئی اختلافِ رائے نہ ہو تو قرآن میں بجائے’قرء‘ کے صریحاََ حیض یا طہر کا لفظ استعمال کیا جاتا ۔ یہی صورتِ حال احادیث نبوی میں بھی ہے، مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حالتِ اغلاق کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اغلاق کے معنی جنون و پاگل پن کے ہیں اور اکراہ و مجبوری کے بھی، چنانچہ اپنے اپنے فہم کے مطابق بعضوں نے ایک معنی کو ترجیح دی ہے اور بعضوں نے دوسرے معنی کو، حال آں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افصح العرب یعنی عرب کے سب سے زیادہ فصیح شخص تھے، اگر آپ چاہتے تو ایسی واضح تعبیر اختیار فرماتے کہ ایک ہی معنی متعین ہو جاتا، دوسرے معنی کی کوئی گنجایش باقی نہ رہتی‘‘۔ (اختلاف میں اعتدال: ج۲، ح۴، ص۳۲)
تشویش ناک بات یہ ہے کہ مولف محترم (ج۱، ح۲، ص۱۰۱،۱۰۲) اسلامی ریاست میں مرتد کے قتل کے اس لیے قائل ہیں کہ اس کا ارتداد ملک و سیاسی نظام سے بغاوت کے متراف ہے ، لیکن جناب کی نگہِ التفات مومن کے قتل کے ’’بالفعل ارتداد‘‘ کی جانب نہیں اٹھی۔ اس موضوع پر چونکہ ہم قدرے تفصیلی بحث ماہنامہ الشریعہ میں ’’قرآن مجید میں قصاص کے احکام‘‘ کے زیرِ عنوان کر چکے ہیں، لہٰذایہاں محض توجہ دلانے پر اکتفا کرتے ہیں۔
تاریخ کاایک ادنیٰ طالب علم بھی یہ بات جانتا ہے کہ برِ عظیم میں مغلیہ سلطنت کے زوال اور انگریزوں کی آمد کے بعد مسلم فکر دو متوازی دھاروں میں منقسم رہی ہے: ایک دھارا علی گڑھ تحریک کی صورت میں نمودار ہوا ، اور دوسرا دھارا جو اس تحریک سے بھی پہلے کسی نہ کسی روپ میں موجود تھا، اس تحریک کے بعد اس کی مخالفت میں زیادہ شدت سے ابھرا ۔ اس خطہ کے مسلم سماج کی داخلی تقسیم میں ان دونوں دھاروں کاتقریباً یکساں کردار رہا ہے۔ اگرچہ ہر دو نے اپنے اپنے فکری منہج کے مطابق مسلم سماج کی تشکیل و احیا میں بھی اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے، لیکن یہ دوئی اور تفریق اکیسویں صدی میں بھی پوری آب و تاب سے موجود ہے اور صورتِ حال کو تشویش ناک حد تک بگاڑنے کا باعث بن رہی ہے۔ خالد سیف اللہ صاحب کو اس بگاڑ کا پورا پورا احساس ہے، اس لیے ’’کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مئے حیات‘‘ کے عنوان سے وسیع المشربی کا ثبوت دیتے ہوئے علما کی توجہ مسلم سماج کے اس اہم پہلو کی جانب مبذول کراتے ہیں :
’’ امت کا ایک بہت بڑا طبقہ وہ ہے جس نے جدید علوم کو حاصل کیا ہے ، جیسے ہمارے علما دین کا وجود ایک ضرورت ہے ویسے ہی عصری علوم کے ماہرین بھی ہمارے لیے بہت بڑی ضرورت ہیں ہم ان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کر سکتے ، یہ قوم کا بہت بڑا اثاثہ ہیں ، یہ عام طور پر اسلام کے بارے میں مخلص بھی ہیں ، اگر کچھ لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں جو دین کے مزاج و مذاق کے خلاف ہیں ، تو یہ زیادہ تر ان کی ناواقفیت اور نہ آگہی کی وجہ سے ہے اور باہمی غلط فہمی کی وجہ سے ، علما اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے درمیان ایک خلیج سی پیدا ہوتی جارہی ہے ، یہ بہت افسوس ناک ہے اور اس میں زیادہ تر محض باہمی دوری اور غلط فہمی کو دخل ہے ۔ علما کا فریضہ ہے کہ وہ اس طبقہ کو امت کی بہترین امانت سمجھ کر قریب کریں ، ان کے شکوک و شبہات کو تحمل کے ساتھ سنیں اور محبت کے ساتھ ان شکوک کے کانٹوں کو ان کے دلوں سے نکالیں ۔ امت میں جو لوگ فکری اعتبار سے راہِ مستقیم سے منحرف ہوں ، ان کے ساتھ ہمارا سلوک وہی ہونا چاہیے جو ایک ہم درد اور فرض شناس معالج کا اپنے نا سمجھ مریض کے ساتھ ہوتا ہے ۔ ہمارا رویہ ان کے ساتھ فریق اور رقیب کا نہ ہو ، بلکہ رفیق اور صدیق کا ہو ‘‘(ج۲، ح۵، ص۷۲، ۷۳)
(جاری)
علمِ حدیث پر مستشرقین کے اعتراضات (جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ کے افکار کا خصوصی مطالعہ)
پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک
ڈاکٹر محمد اکرم وِرک (شعبہ اسلامیات، گورنمنٹ ڈگری کالج، پیپلز کالونی، گوجرانوالہ)
محمد ریاض محمود (شعبہ اسلامیات، گورنمنٹ مولانا ظفر علی خان ڈگری کالج، وزیرآباد)
سترھویں، اٹھارویں اور کسی حد تک انیسویں صدی کے آغاز میں مستشرقین کی جو کتابیں منصہ شہود پر آئیں، ان میں بیشتر حملے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر کیے گئے ۔اس مہم کے قافلہ سالار مشہور مستشرق سر ولیم میور(م ۱۹۰۵ء) (Sir william Muir) ہیں جنھوں نے چار جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب The Life of Muhammad میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو ہدفِ تنقید بنایا۔ یہ کتاب بڑی تہلکہ خیز ثابت ہوئی جس نے مسلمان اہلِ علم کو شدید اضطراب میں مبتلا کردیا۔ سر سید احمد خانؒ (م ۱۸۹۸ء )،اللہ تعالیٰ ان کو غریقِ رحمت فرمائے، وہ اوّلین شخص تھے جنھوں نے ۱۸۷۰ء میں ’’ خطباتِ احمدیہ‘‘ میں مستشرق مذکور کے اعتراضات کاعلمی اسلوب میں جواب دیا۔ سرسید نے اس کتاب کو محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جس جذبے سے سر شار ہو کر مرتب کیا اوراس کی تکمیل کے لیے انگلستان کے سفر سمیت جو صعوبتیں برداشت کیں، وہ ان کے عشقِ رسول اور ایمانی حرارت کا بین ثبوت ہے۔ (1) علامہ شبلی نعمانی ؒ (م ۱۹۱۴ء ) کی قابلِ قدر تصنیف ’’ سیرۃ النبی‘‘ بھی دراصل سیرت پر مستشرقین کے اعتراضات ہی کا ردِ عمل ہے۔ عالمِ اسلام کے دیگرحصوں میں بھی مسلمان اہلِ علم نے مستشرقین کا علمی تعاقب کیا۔
اس دور میں مستشرقین کی یہ حکمتِ عملی نظر آتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات چونکہ اسلام کا مرکز و محور ہے، اس لیے کسی طرح اہلِ اسلام کے دلوں میں رسولِ خدا کی والہانہ محبت کو، جو دراصل اسلام کی روح ہے، ختم کیا جائے ۔ شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال ؒ نے (م ۱۹۳۸ء) اہلِ مغرب کی اس سازش کو بھانپتے ہوئے ان الفاظ میں اس کا پردہ چاک کیاہے :
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
(ضرب کلیم)
بہت جلد مستشرقین کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر ان کے یہ الزامات اتنے کمزور اور بودے ہیں کہ علمی دیا نت کا خو گر کوئی بھی منصف مزاج انسان ان الزامات کو قبول نہیں کر سکتا ۔ دوسری طرف مسلمان اہلِ علم نے سیرت پر مستشرقین کے اعتراضات کی سطحیت کو دلائل و براہین کے ترازو میں رکھ کران کی علمی بد دیانتی کو مبرہن کرکے رکھ دیا۔ نتیجے کے طور پر مستشرقین میں سے ہی کئی معتدل مزاج اہلِ علم نے اپنے بھائی بندوں کے اس نوعیت کے اعتراضات پر افسوس کا اظہار کیا،چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کے دور میں مستشرقین نے اپنی تحریروں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نسبتاً احترام کے ساتھ کیا ہے۔(2)
سیرت کے محاذ پر جب مستشرقین کو منہ کی کھانی پڑی تو انھوں نے اپنا رخ قرآن مجید کی طرف موڑ دیا اوران لوگوں نے ان تمام اعتراضات کو قرآن پرلوٹانے کی کوشش کی جو عام طور پر بائیبل پر کیے جاتے ہیں ۔ اس مہم کا آغاز ۱۸۶۱ء میں جارج سیل (Gorge Sale) نے "The Koran"سے کیا اورمعروف آسٹریلوی مستشرق آرتھر جیفری Jeffery) (Arthur نے اس تحریک کو نقطۂ عروج تک پہنچایا ۔ موصوف نے اپنی کتابوں"The Koran: selected Suras"،اور"Islam, Muhammad and his Religion" نیز قرآنیات پر اپنی مشہور کتاب Materials for the history of the Text of the Quran" "میں قرآن کے متن کے غیرمحفوظ ہونے کے اعتراضات اٹھائے، لیکن مستشرقین کی یہ مہم بھی بہت جلد کمزور ہوگئی۔ صرف چالیس پچاس سال کی محنت کے بعد ہی مستشرقین کو اندازہ ہوگیا کہ قرآن اتنی مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے کہ اس کو محض الزامات سے ہلانا ممکن نہیں۔ (3)
اب ایک اور مہم شروع ہوئی اور ان لوگوں نے اپنا رخ حدیثِ رسول کی طرف کرلیا ، لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ مستشرقین نے سیرت اورقرآن پر اعتراضات سے کلی طور پر صرفِ نظر کر لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اب بھی سیرت اور قرآن پر اعتراضات کرتے ہیں، لیکن ان میں اب وہ پہلے جیسی شدت نہیں ہے ۔ حالات کے جبر نے مستشرقین کو مجبور کیا کہ وہ اسلام کے خلاف کسی اور محاذ پر نئی صف بندی کریں چنانچہ انھوں نے قرآن کے بعد اسلام کے دوسرے بنیادی مأخذ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تختۂ مشق بنانے کا فیصلہ کیا ۔
ڈاکٹر اسپرنگر (Sprenger) نے تین جلدوں میں سیرت پر کتاب لکھی تو اس میں حدیث کی روایت اور اس کی حیثیت پر بھی تنقید کی۔ سرولیم میور نے سیرت پر اپنی کتا ب میں حدیث پر اس بحث کو مزید آگے بڑھایا ، لیکن حدیث پر جس شخص نے سب سے پہلے تفصیلی بحث کی ،وہ مشہور جرمن مستشرق گولڈ زیہر (م ۱۹۲۱ء) (Gold Zehr)ہے۔ اس نے اپنی کتاب "Muslim Studies"کی دوسری جلد میں علمِ حدیث پر تجزیاتی انداز میں تنقید کی ہے۔ بعد کے دور میں تمام مستشرقین نے گولڈ زیہر ہی کے اصولوں کا اتباع کیا ہے۔ پروفیسر الفرڈ گیوم (Alfred Guillaume)نے اپنی کتاب "Islam" اور "Traditions of Islam"میں گولڈ زیہر کی تحقیق کو آگے بڑھایا ہے۔ جوزف شاخت (Joseph Schacht)نے اپنی کتاب "The Origins of Muhammadan Jurisprudence" میں گولڈ زیہر کے اصولوں کی روشنی میں اسلامی قانون کے مصادر ومنابع کاتجزیہ کیا ہے اور حدیث کے ظہور اور ارتقا پر بحث کرتے ہوئے حدیث کی نبوی کی ؑ حیثیت کو مشکوک قرار دیا ہے۔اس کے علاوہ مارگولیتھ (م ۱۹۴۰ء) (Margoliouth)، رابسن(Robson)، گب(م ۱۹۶۵ء)(Gibb)،ول ڈیورانٹ(م ۱۹۸۱ء) (Will Durant)،آرتھر جیفری (Arthur Jaffery)، منٹگمری واٹ (م ۱۹۷۹ء)(Montgomery Watt) ، ہوروفیتش (Worowitz)، وان کریمر (Von Kremer)، کیتانی (Caetani) ،اور نکلسن(Nicholson) وغیرہ نے بھی اپنے حدیث مخالف نظریات پیش کیے۔
عصر حاضر میں مستشرقین نے اسلام کے خلاف ایک اور محاذ کھول رکھا ہے اور ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح اسلامی تعلیمات کو غیر عقلی اور غیر فطری ثابت کیا جائے اور یہ باور کروایا جائے کہ اسلامی احکامات بنیادی انسانی حقوق سے متصادم اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے ناقابلِ عمل ہیں ۔ اس وقت یہ محاذ مسلمان اہلِ علم کی فوری توجہ کا متقاضی ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ (م ۱۷۶۴ء ) نے ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ میں جس طرح مقاصدِ شریعت کو واضح کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو انسانی عقل و دانش کا تقاضا قرار دیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کی زبان اور محاورے میں دین کی تعبیر و تشریح کے اس اسلوب کو جدید علمِ کلام کی روشنی میں بیان کیا جائے ۔ فی الوقت یہ موضوع ہمارے پیشِ نظر نہیں ہے، اس لیے ان سطور میں ہم اپنی گفتگو کو علم حدیث تک ہی محدود رکھیں گے۔
مستشرقین میں سے علمِ حدیث پر بنیادی کام گولڈ زیہراورشاخت ہی کا ہے۔ یہ دونوں یہودی ہیں اوران کا تعلق جرمن سے ہے۔ جن دیگر مستشرقین نے حدیث نبوی کو اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا ہے، انھوں نے اسلامی مصادر سے براہِ راست استفادہ کرنے کی بجائے زیادہ تر گولڈ زیہر اور شاخت کی تحقیقات کو ہی اپنے خیالات کی بنیادبنایا ہے ۔ آزادانہ تحقیق کے دعوے دار مغربی اہلِ علم کے اس اسلوبِ تحقیق پرجسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ (م۱۹۱۸ ۔۱۹۹۸ء) تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’حیرت کی بات ہے کہ اصولِ حدیث اور تاریخِ حدیث پر مسلمانوں کی بے شمار کتابیں دنیا کی لائبریریوں میں موجود ہیں۔ حدیث طیبہ کے بارے مسلمانوں کا جو موقف ابتدا سے رہا ہے، وہ ہر دور کی تصانیف میں درج ہے لیکن مستشرق محققین نہ تو مسلمانوں کے موقف کی طرف اپنی توجہ مبذول کرتے ہیں اور نہ ہی حدیث کے متعلق مسلمانوں کے چودہ سو سالہ ادب کو کوئی اہمیت دیتے ہیں، بلکہ ان پر جب حدیث کے متعلق تحقیق کا بھوت سوار ہوتا ہے تو گولڈ زیہر اور اس کے نقالوں کی تصانیف کو ہی قابلِ اعتماد مصادر قرار دیتے ہیں۔‘‘ (4)
حضرت پیرمحمد کرم شاہ الازہری ؒ نے علم حدیث کے دِفاع پر اپنی مستقل کتاب ’’سنت خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ میں مستشرقین اور منکرینِ حدیث کے اہم اعتراضات کا جائزہ پیش کیا ہے ،تاہم فاضل مصنفؒ نے موقع کی مناسبت سے سیرت پر اپنی کتاب ’’ضیاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ میں بھی علم حدیث پر مستشرقین کے اعتراضات کا جائزہ لیا ہے۔ پیر صاحب ؒ کی اس قابلِ قدر تصنیف کی یہ ایک نمایاں خصوصیت ہے کہ اس کی پہلی پانچ جلدوں میں سیرت کے عمومی بیان کے بعد آخری دو جلدوں میں اسلام کے بنیادی مآخذ، سیرت رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن حکیم اور حدیثِ رسول پرمستشرقین کے بنیادی اعتراضات کا خالص علمی اسلوب میں تجزیہ کیا گیا ہے۔سیرت کے موضوع پرلکھی گئی کتابوں میں ’’ضیاء النبی‘‘ کا یہ خاص امتیاز ہے کہ اس میں قرآن و حدیث کو شعوری طور پر سیرت ہی کا لازمی حصہ سمجھتے ہوئے موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ اس کتاب کی یہ خصوصیت بذات خود اس حقیقت کی غماز ہے کہ فاضل مصنفؒ کی نظر میں قرآن مجید در حقیقت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بیان اور حدیث و سنت اس کی عملی تشریح و تعبیر ہے، اس لیے ان کی نظر میں مستشرقین کا قرآن و سنّت کو تنقید کا نشانہ بنانا براہِ راست سیرت پر تنقید ہی کے مترادف ہے۔ مستشرقین نے حدیثِ رسول کو من گھڑت اور جعلی قرار دینے میں جو سخت مشقتیں اٹھائی ہیں، پیر صاحب ؒ اس کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے رقمطرازہیں:
’’ قرآن حکیم کی مخالفت کرتے ہوئے مستشرقین کو یہ مشکل پیش آئی کہ وہ قرآن حکیم کی من مانی تشریح نہیں کرسکتے تھے کیونکہ قرآن حکیم کی وہ تشریح جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کی تھی، وہ احادیث طیبہ کی شکل میں مسلمانوں کے پاس موجود تھی۔ تاریخ کے کسی دور میں جب کسی قسمت آزما نے قرآن حکیم کو اپنی مرضی کے معانی پہنانے کی کوشش کی تو ملتِ اسلامیہ کے علمائے ربانیین نے احادیثِ طیبہ کی مدد سے ان کا منہ توڑ جواب دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن حکیم کی معنوی تحریف کی کوششیں ہمیشہ احادیثِ طیبہ کی مضبوط چٹان کے ساتھ ٹکرا کر پاش پاش ہوئیں۔ ‘‘ (5)
’’مستشرقین جب قرآن حکیم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام کہتے تھے تو وہ مجبور تھے کہ احادیث طیبہ کے متعلق کوئی اور مفروضہ تراشیں ۔یہ با ت انھیں مناسب معلوم نہ ہوتی تھی کہ قرآن حکیم اور احادیث طیبہ دونوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام قرار دیں ۔مستشرقین کے تخیل کی پرواز ویسے ہی بہت بلند ہوتی ہے، اس لیے انھوں نے احادیث طیبہ کے مصادر تلاش کرنے کے لیے بھی اپنے تخیل کے گھوڑے دوڑائے اور ایک نہیں بلکہ احادیث طیبہ کے کئی مصادر تلاش کر لیے ۔‘‘(6)
علمِ حدیث پر مستشرقین کے بنیادی اعتراضات
مستشرقین نے علمِ حدیث پرجو بنیادی اعتراضات کیے ہیں، سب سے پہلے تو ہم اپنے قارئین کی خدمت میں ان کا خلاصہ پیش کریں گے اور پھرجسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ کے افکار کی روشنی میں ان اعتراضات کا جائزہ لیں گے۔
(۱)مستشرقین نے حدیث کے بارے میں یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ دورِ اوّل کے مسلمان حدیث کو حجت نہیں سمجھتے تھے ،مسلمانوں میںیہ خیال بعد کے دور میں پیدا ہوا۔ (7) جوزف شاخت نے لکھا ہے کہ امام شافعی ؒ (م ۲۰۴ھ) سے دو پشت پہلے احادیث کی موجودگی کا کوئی اشارہ ملتا ہے تو یہ شاذ اور استثنائی واقعہ ہے۔ (8) آرتھر جیفری (Arthur Jeffery)کہتا ہے کہ پیغمبر ؑ کے انتقال کے بعد ان کے پیرو کاروں کی بڑھتی ہوئی جماعت نے محسوس کیا کہ مذہبی اور معاشرتی زندگی میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کے متعلق قرآن میں کوئی راہنمائی موجود نہیں ہے،لہٰذا ایسے مسائل کے حل کے لیے احادیث کی تلاش شروع کی گئی۔(9)
(۲)محدثین کے ہاں اسناد کی جو اہمیت ہے، وہ دلائل کی محتاج نہیں ہے حتی کہ انھوں نے اسناد کو دین قرار دیا ۔ مستشرقین چونکہ اسناد کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہیں، اس لیے انھوں نے اسناد کے من گھڑت ہونے کا اعتراض کرکے احادیث کو ناقابلِ اعتبار قرار دینے کی کوشش کی اور دعویٰ کیا کہ اُس دور میں لوگ مختلف اقوال اور افعال کو محمد ؑ کی طرف منسوب کردیا کرتے تھے ۔کتانی (Caetani) (10) اور اسپرنگر (Springer) (11) ان مستشرقین میں شامل ہیں جن کے نزدیک اسناد کاآغاز دوسری صدی کے آواخر یا تیسری صدی کے شروع میں ہوا۔گولڈ زیہر موطأ امام مالک ؒ پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ امام مالک ؒ (م ۱۷۹ھ) نے اسناد کی تفصیل بیان کرنے کے لیے کوئی مخصوص طریقہ اختیار نہیں کیا بلکہ اکثر و بیشتر وہ عدالتی فیصلوں کے لیے ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جن کا سلسلۂ اسناد صحابہ تک ملا ہوا نہیں اور اس میں متعدد خامیاں ہیں۔ (12) جبکہ جوزف شاخت کا کہنا ہے کہ اس مفروضے کو قائم کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ اسناد کے باقاعدہ استعمال کارواج دوسری صدی ہجری سے قبل ہو چکا تھا۔(13) منٹگمری واٹ (Montgomery Watt)نے اسناد کے مکمل بیان کو امام شافعی ؒ (م ۲۰۴ھ) کی تعلیمات کا نتیجہ قرار دیا ہے۔(14)
(۳) مستشرقین نے قرآن مجید کی طرح احادیث پر بھی یہ اعتراض کیا ہے کہ بہت ساری روایات یہودو نصاریٰ کی کتب سے متأثر ہوکر گھڑی گئی ہیں ۔وہ احادیث جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی معجزانہ شان کا ذکر ہے،ان پر تبصرہ کرتے ہوئے ول ڈیورانٹ(م ۱۹۸۱ء) (Will Durant)کہتاہے کہ بہت ساری احادیث نے مذہبِ اسلام کو ایک نیارنگ دے دیا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ ان کے پاس معجزات دکھانے کی قوت ہے ، لیکن سینکڑوں حدیثیں ان کے معجزانہ کارناموں کا پتہ دیتی ہیں جس سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اکثر احادیث عیسائی تعلیمات کے زیر اثر تشکیل پذیر ہوئیں۔ (15) اس قسم کا دعویٰ کرنے والوں میں فلپ کے حتی (Philip.K.Hitti) بھی قابلِ ذکرہے۔ (16)
(۵)مستشرقین کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کی کتابت سے منع کردیا تھا، اس لیے دورِ اوّل کے علما نے علمِ حدیث کی حفاظت میں سستی اور لاپرواہی سے کام لیا جس کے نتیجہ میں احادیث یا تو ضائع ہوگئیں یا پھران میں اس طرح کا اشتباہ پیدا ہوگیا ہے کہ پور ے یقین کے ساتھ کہنا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ، ممکن نہیں ہے۔مستشرق الفرڈگیوم (Alfred Guillaume) لکھتا ہے کہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ حدیث کے بعض مجموعے اموی دورکے بعد جا کر مدون ہوئے۔ (17) مشہور مستشرق میکڈونلڈ (Macdonold) لکھتا ہے کہ بعض محدّثین کا صرف زبانی حفظ پر اعتماد کرنا اور اُن لوگوں کو بدعتی قرار دینا جو کتابتِ حدیث کے قائل تھے، یہ طرزِ عمل بالآخر سنّت کے ضائع ہونے کا سبب بنا۔ (18)
مستشرقین نے ایک خاص حکمتِ عملی کے تحت ان عظیم شخصیات کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو حدیث و سنّت کی جمع و تدوین اور حفاظت میں بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مستشرقین نے اس مقصد کے لیے جن شخصیات کو خاص طور اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے ان میں ایک تو مشہور صحابی حضرت ابو ہریرہؓ( م ۵۹ھ) اور دوسرے نامور تابعی امام ابنِ شہاب زہری ؒ (م ۱۲۴ھ) ہیں۔ گولڈ زیہر (م ۱۹۲۱ء )نے حضرت ابو ہریرہؓ پر وضعِ حدیث کا الزام عائد کیا ہے اور محدّث امام ابنِ شہاب زہریؒ پر اِتّہام باندھا ہے کہ وہ بنو اُمیّہ کے دینی اور سیاسی مقاصد کوپورا کرنے کے لیے احادیث وضع کیا کرتے تھے۔ (19) جوزف شاخت (Joseph Schacht)امام اوزاعی ؒ (م ۱۵۷ھ ) پر وضعِ حدیث کا الزام عائد کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ان کے زمانے میں مسلمانوں میں جو بھی عمل جاری تھا ،اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردینے کا رجحان تھا تاکہ اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویب حاصل ہو جائے، خواہ احادیث اس عمل کی تائید کرتی ہوں یا نہ کرتی ہوں۔امام اوزاعی ؒ کا یہی عمل تھا اور اس رجحان میں عراقی فقہا امام اوزاعیؒ کے ساتھ شریک تھے۔(20)
اعتراضات کا تنقیدی جائزہ
علمِ حدیث کے بارے مستشرقین کے ان گمراہ کن نظریات کی ایک وجہ تو ان کی ہٹ دھرمی اور اسلام سے عدوات کو قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ مستشرقین کا طریقۂ واردات ہی یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو ان کے اہداف کے حصول میں رکاوٹ بنتی ہے، اگر اس کو کلی طور پر رد کرنا ممکن نہ ہو توکم از کم اس میں اشتباہ ضرور پیدا کردیا جائے ۔علمِ حدیث کے بارے میں یہ لوگ اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں، اس کا اندازہ ہر وہ شخص آسانی سے کر سکتا ہے جو عالمِ اسلام میں برپا ہونے والے ’’فتنۂ انکارِ حدیث ‘‘ سے واقفیت رکھتا ہے۔اہلِ علم سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ فتنہ انکارِ حدیث کی تحریک کا فکری سر چشمہ مستشرقین کے افکار و نظریات ہی ہیں ۔ مستشرقین کے حدیث مخالف نظریات کی دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ چونکہ زیادہ تر مستشرقین نے حقائق کی جستجو میں اسلام کے اصل مصادرو مراجع کی طرف رجوع کرنے کی بجائے ثانوی مأ خذ پر ہی اکتفا کیا ہے، اس لیے حقیقت ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئی ہے۔ بدقسمتی سے حدیث پر تحقیق کرتے ہوئے مستشرقین کے ہاں گولڈ زیہر کو ’’امام معصوم‘‘ کا درجہ حاصل ہے اور اس کی تحقیقاتِ حدیث ہر طرح کی تنقید سے بالا تر سمجھی جاتی ہیں۔ چونکہ دیگر مستشرقین گولڈ زیہر کے قائم کردہ معیارات اور اصولوں کی روشنی میں ہی حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں، اس لیے منطقی طور پر اس اندازِ فکر نے مستشرقین کوایک بنیادی غلطی میں مبتلا کردیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گولڈ زیہر نے جہاں جہاں غلطیاں کی ہیں، دیگر مستشرقین بھی اس کے اصولوں کی پیروی میں اس جیسی غلطیوں ہی کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ مابعددور کے مستشرقین پر گولڈ زیہر کی تحقیقاتِ حدیث کے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر فواد سیزگین لکھتے ہیں :
’’گولڈزیہر نے اپنے خیالات کا اظہار اپنی کتاب ’’دراساتِ محمدیہ‘‘ میں کیا جو1890ء میں جرمن زبان میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کے شائع ہونے کے بعد حدیث پر تحقیق کے لیے یہ کتاب اہلِ مغرب کے لیے بنیادی دستاویز بن گئی ۔بیشتر مستشرقین اس کتاب کے حوالے سے اپنے نتائج فکر پیش کرتے رہے۔پروفیسر شاخت (J.Schacht) نے فقہی احکام سے متعلق احادیث پر کام کیا ،گلیوم (A.Guillaume)کی’’ ٹریڈیشنز آف اسلام ‘‘ وجود میں آئی ،جو گولڈ زیہر کی تحقیقات کا چربہ تھی ۔مار گولیتھ (Margoliouth)نے گولڈ زیہر کے افکار کی روشنی میں اپنے نظریات پیش کیے ۔علاوہ ازیں ہوروفتش (J.Horowitz) ہورست (H.Hosrt)، فون کریمر (A.Von.Kremer)، مویر (W.Wuir) ، کتانی(L.Caetani)، اور نکلسن (A.R.Nicholoson) وغیرہ نے بھی اس میدان میں اپنے اپنے نتائج فکر بیان کیے ہیں جو سارے کے سارے کم و بیش گولڈ زیہر ہی کے افکار کی صدائے باز گشت ہیں‘‘۔(21)
مستشرقین کایہ الزام کہ مسلمانوں میں حدیث کی اہمیت اور اس کی حجیت کا تصور بعد کے دور کی پیدا وار ہے ، انتہائی خطرناک ہے ۔اس الزام کو تسلیم کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کو اس کے اصل تشخص ہی سے محروم کردیا جائے ۔ پیر صاحب ؒ مستشرقین کے اس الزام پرتنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اگر احادیث طیبہ کی اہمیت اور حجیت کا ثبوت صرف احادیث طیبہ اور تاریخِ اسلام کی مدد سے پیش کرنا پڑتا تو مستشرقین اپنے مزعومات کے مطابق اسے بڑی آسانی سے رد کرسکتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ ’’بکل شئ علیم‘‘ ہے۔ وہ اسلام کے خلاف اٹھنے والے ان سب فتنوں کو جانتا تھا، اس لیے اس نے احادیث طیبہ کی اہمیت اور حجیت کو قرآن حکیم کے ذریعے بیان کردیا۔ قرآن حکیم کی بے شمار آیتیں احادیث طیبہ کی اہمیت کو ثابت کر رہی ہیں۔ مستشرقین کی ایک معقول تعداد اب یہ تسلیم کرتی ہے کہ آج مسلمانوں کے ہاتھوں میں جو قرآن ہے ، یہ بعینہ وہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے سامنے پیش کیا تھا۔ اس لیے وہ قرآن حکیم کی کسی آیت کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بعد کے مسلمانوں نے خود گھڑی ہے ۔جب قرآن حکیم کی بے شمار آیات کریمہ احادیث طیبہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت کو بیان کرر ہی ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دورِ رسالت کے مسلمانوں نے احادیثِ طیبہ کو کوئی اہمیت نہ دی ہو اور صدی، ڈیڑھ صدی بعد مسلمانوں کو مجبوراً احادیث کی طرف متوجہ ہونا پڑا ہو؟‘‘(22)
پیر صاحب ؒ کے استدلال کی بنیاد وہ تمام آیات ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کا حکم ہے کہ جب مستشرقین کی ایک معقول تعداد بھی یہ تسلیم کرتی ہے کہ قرآن مجید اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے تویہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمانوں نے ان آیات کو کوئی اہمیت ہی نہ دی ہوجن میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو جزوِ ایمان قرار دیا گیا ہے ۔ کئی صفحات پر پھیلی ہوئی اس بحث میں پیر صاحب ؒ نے متعدد آیات سے استدلال کیا ہے اور پوری بحث کو سمیٹتے ہوئے مستشرقین کے سامنے جو بنیادی سوالات رکھے ہیں، ان سے صرفِ نظر کرنامستشرقین کے لیے آسان نہیں ہے۔ فرماتے ہیں:
’’کیا قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کو ان تمام آیاتِ قرآنی کا علم نہ تھا جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے؟کیا ان مسلمانوں کو قرآن حکیم کو سمجھنے اور اس کے احکام پر منشائے خداوندی کے مطابق عمل کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی؟کیاانہیں یہ معلوم نہ ہوسکا تھا کہ ان کا نبی صرف مبلغ کتاب ہی نہیں بلکہ معلمِ کتاب و حکمت بھی ہے؟وہ چیزیں جن کی حرمت کا فیصلہ قرآن حکیم نے نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، کیا قرونِ اولیٰ کے مسلمان ان چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے تھے؟ بڑی عجیب بات ہے کہ مستشرقین اور ان کے ہم نوا دیگر اہلِ مغرب چودہویں صدی کے مسلمانوں کو تو بنیاد پرست سمجھتے ہیں اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ قرآن حکیم کی بے شمار آیات جو اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم دے رہی تھیں، ان آیات کی طرف ان کی توجہ ہی نہ تھی۔ اگر یہ سچ ہے کہ ہر زمانے کے مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو فرض سمجھتے تھے، قرآن حکیم کے اسرار و رموز کو سمجھنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کو ضروری سمجھتے تھے ، وہ احکامِ قرآنی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی نمونے کی روشنی پر عمل کرتے تھے، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معلم کتاب و حکمت اور مزکئ قلوب سمجھتے تھے تو پھر یہ بھی سچ ہے کہ وہ جس طرح قرآن حکیم کو دین کا اول مصدر سمجھتے تھے، اسی طرح وہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور احادیثِ طیبہ کو دین کا مصدرِ ثانی سمجھتے تھے۔‘‘ (23)
قرآن مجید کے کتنے ہی احکامات ایسے ہیں جن پر اس وقت تک عمل ممکن ہی نہیں جب تک حدیث و سنّت کو ساتھ نہ ملایا جائے۔ مثلاً : نماز ،روزہ ،زکوٰ ۃ اور حج جیسی بنیادی عبادات پر اس وقت تک عمل نہیں کیا جا سکتا جب تک سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہادی اور راہنما نہ بنایا جائے ۔فاضل مصنفؒ نے لفظ ’’حکمت ‘‘ کو خصوصی طور پر اپنی توجہ سے نوازا ہے اور پختہ دلائل سے ثابت کیا ہے کہ حکمت سے مراد حدیث و سنّت ہے اور وہ بھی قرآن حکیم کی طرح منز ل من اللہ ہے ۔ (24)
پیر صاحب ؒ مستشرقین پر طنز کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان لوگوں نے وضعِ حدیث کے جس فتنے کا ذکر کیا ہے یہ کوئی ایسا ’’انکشاف‘‘ نہیں ہے جس سے مسلمان آگاہ نہیں تھے اور محض مستشرقین ہی ہیں جنھوں اپنی تحقیقات سے یہ پتہ چلایا ہے کہ دورِ اوّل میں احادیث وضع کی گئی تھیں، بلکہ حفاظتِ حدیث کے پورے نظام پر نظر رکھنے والا کوئی بھی شخص باور کر سکتا ہے کہ محض یہ کہہ دینے سے کہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے لوگ مطمئن نہیں ہو جاتے تھے بلکہ خبر کی پوری تحقیق کے بعد ہی اسے کو قبول کیا جاتا تھا۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں یہودو نصاریٰ اور منافقین اہلِ ایمان کے خلاف مسلسل بر سر پیکار تھے ، مسلمانوں کے لیے ضروری تھا کہ کسی بھی خبر کو قبول کرنے سے پہلے خبر لانے والے کے کرداراور عمومی طرزِ عمل کو بھی پیشِ نظر رکھیں۔ اس لیے ایک ایسا معاشرہ جس کے افراد کی تربیت روایت اور درایت کے لازوال اصولوں کی روشنی میں ہو ئی ہو، ان میں موضوع روایات کارواج پذیر ہونا کسی صورت ممکن نہ تھا ۔پیر صاحبؒ وضعِ حدیث کے فتنے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اس بات سے انکار نہیں کہ دشمنانِ اسلام نے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمۂ صافی کو گدلا کرنے کی کوشش کی اور انہوں نے ایسی باتوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کی کوشش بھی کی جو آپ نے نہ فرمائی تھیں، لیکن صورتِ حال یہ نہ تھی کہ ایسے کم بختوں کی مذموم کارروائیوں کو کسی نے روکا نہ ہو ۔ حدیث گھڑنے والے گھڑتے رہے، لیکن وہ لوگ جن کی نظریں قرآن حکیم کی ان آیات پر تھیں جو کسی خبر پر یقین کرنے سے پہلے تحقیق کرنے کا سبق دیتی ہیں یا جو افتراء علی اللہ کو ظلم عظیم قرار دیتی ہیں اور جن لوگوں کی نظریں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پاک پر تھیں جو جھوٹی حدیث گھڑنے والوں کو دوزخ کا ٹھکانا دکھا رہی ہے، ایسے لوگوں نے کبھی ان لوگوں کو کھل کھیلنے کا موقع نہیں دیا جو احادیث طیبہ کے چشمۂ صافی کو گدلا کرنا چاہتے تھے ۔قرآن حکیم نے انہیں فاسق کی خبر کے متعلق محتاط رہنے کا حکم دیا تھا۔‘‘(25)
اسماء الرجال جیسے فن کی ایجاد کا سہرا مسلمانوں کے سر ہے جس میں دنیا کی کوئی قوم ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ اس علم کی بدولت محدثین نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کے شب و روز، ان کے اخلاق و کردار اور ان کے اندازِ زیست کا ریکارڈ جمع کردیا اور ہر خبر کے راویوں کے سلسلے کا کھوج لگایا تاکہ یہ پتہ چلایا جاسکے کہ کسی حدیث کے سلسلۂ سند میں کسی فاسق و فاجر اور کذاب کا نام تو نہیں آتا۔ محدثین کی ان عظیم الشان کوششوں کا اعتراف مستشرقین نے بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر اسپرنگر (Springer) لکھتے ہیں :
"The glory of the literature of the Mohammadans is its literary biography. There is no nation nor has there been any which like them has during the 12 centuries recorded the life of every man of letters. If the biographical records of the musalmans are collected, we should probably have accounts of the lives of half a million of distinguished persons, and it would be found that there is not a decennium of their history, nor a place of importance which has not its representatives"(26)
’’مسلمانوں کے علمی ذخیرے کی شان ان کے سوانحی ادب میں نمایاں ہوتی ہے۔ (دنیا میں) ایسی کوئی قوم نہ تھی نہ ہے جس نے مسلمانوں کی طرح بارہ صدیوں میں علم وادب سے تعلق رکھنے والے ہر آدمی کے حالات زندگی محفوظ کیے ہوں۔ اگر مسلمانوں کے سوانحی ذخیرے کو جمع کیا جائے تو ہمیں کم وبیش پانچ لاکھ ممتاز افراد کے حالات زندگی میسر ہوں گے اور یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ان کی تاریخ کا کوئی عشرہ یا کوئی اہم مقام نہیں جس کی نمائندگی کرنے والے لوگ (اس ذخیرے میں) نہ پائے جاتے ہوں۔‘‘
مشکوٰ ۃ المصابیح کا مترجم رابنسن (Robson)کہتا ہے:
"In the gospels as they stand we don't have the various elements of the sources separated out for us as we do through the "Island" of muslim traditions where at least apparently, the transmission is traced back to the source"(27)
’’اناجیل میں، جیسا کہ وہ ہمارے پاس موجود ہیں، ہمیں یہ شکل دکھائی نہیں دیتی کہ مختلف مآخذ سے لی جانے والی معلومات الگ الگ ہمارے سامنے پیش کی گئی ہوں، جیساکہ ہمیں مسلمانوں کی روایات میں یہ چیز دکھائی دیتی ہے جہاں کم از کم ظاہری طور پر روایات کی کڑی ان کے اصل ماخذ کے ساتھ ملائی جاتی ہے۔‘‘
لہٰذا روایت اور درایت کے ان سنہری اصولوں کی موجودگی میں ،جس کا اعتراف مستشرقین کو بھی ہے، کسی جعلی روایت کا لوگوں میں قبولیت حاصل کرنا ممکن نہ تھا ۔ اسلامی احکامات کو کذب و افترا سے محفوظ رکھنے کے لیے اسلام نے لوگوں کی جو تربیت کی، اس کی بنیاد پر یہ بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ صحابہ کرامؓ اور راسخ العقیدہ اہلِ ایمان کی طرف سے تو اس کا کوئی امکان نہ تھا کہ وہ کسی بات کو اپنی طرف سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیں جبکہ دیگر لوگوں کی روایت کو سخت شرائط کے ساتھ ہی قبول کیا جاتا تھا ۔اس پس منظر میں مستشرقین کا یہ الزام کہ بہت ساری احادیث عیسائی اور یہودی روایات کے زیر اثر تشکیل پذیر ہوئی ہیں ، اپنے اندر کوئی وزن نہیں رکھتا ۔ہم یہ وضاحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ تمام الہامی ادیان کی بنیادی تعلیمات ایک ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے یہ دعویٰ کبھی نہیں کیا کہ وہ کسی نئی دعوت کا علمبردار ہے ،بلکہ اسلام تو پہلے ہی اس بات کا داعی ہے کہ اس کی دعوت سابقہ انبیا کی دعوت کا تسلسل ہے اور اسلام اس دین کا مکمل ترین ایڈیشن ہے جس کی ابتدا حضرت آدم ؑ سے ہوئی تھی۔ لہٰذا اگر اسلام کی بنیادی تعلیمات کی اصالت سابقہ الہامی کتابوں میں پائی جائے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے ، کیونکہ اصولی طور پر اسلام اور سابقہ انبیا کی دعوت کے بنیادی نکات ایک ہی ہیں۔ خود قرآن کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ سابقہ الہامی کتابوں کی غیر محرّف تعلیمات کی تصدیق کرنے والا ہے اور اس کی اصل شکل کو بیان کرنے والا ہے۔ (28) یہی وہ پسِ منظر ہے جس میں قرآن نے اہلِ کتاب کو خطاب کرتے ہوئے صاف طور پر کہا ہے: ’’اے اہلِ کتاب ! آؤ اس کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان ایک ہے وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔‘‘ (آل عمران،۳:۶۴)دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسلام کا مرکز ومحور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور کسی بھی شخص کا دعواے اسلام اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں رکھتا جب تک اس کادل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے لبریز نہ ہواور وہ اپنی جبین نیاز کو آپ کے حضور خم نہ کردے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسل کی اطاعت کے وجوب پر کثیر آیات نازل فرمائی ہیں۔ (29)
دوسری طرف خود جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ بولنے والوں اور آپ کی طرف جھوٹی بات کو منسوب کرنے والوں کوسخت الفاظ میں وعید سنائی ہے: ’’من کذب علیّ متعمدًا فلیتبوّأ مقعدہ من النار‘‘ (30) ، ’’جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا، اس کا ٹھکانہ آگ ہے۔‘‘ مزید فرمایا: ’’من حدّث عنی بحدیث یری أنہ کذب فھو أحد الکاذبین‘‘ (31) ’’جس شخص نے علم کے باوجود جھوٹی حدیث کو میری طرف منسوب کیا، وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔‘‘ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ کتاب کی اتباع اور اقتدا سے بھی سختی سے منع کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لتتّبعنّ سنّۃ من کان قبلکم باعًا بباع وذراعًا بذراعٍ وشبرًا بشبرٍ، حتی لودخلوا فی جحر ضب لدخلتم فیہ ، قالوا: یارسول اللّٰہ! الیہود والنصاری؟ قال:فمن،اِذًا؟‘‘ (32) ’’تم اپنے سے پہلے لوگوں کے نقش قدم کی ہو بہو پیروی کرو گے، حتیٰ کہ اگر وہ بجو کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھسو گے۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ! آپ کی مراد یہود ونصار یٰ ہیں؟ آپ نے فرمایا: تو اور کس سے ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ ایسے اعمال سے بچتے رہے جن سے یہود و نصاریٰ سے مشابہت پیدا ہوتی ہے ۔ صحابہ کرامؓ نے ہمیشہ اس بات کی حوصلہ شکنی کی کہ لوگ قرآن کی موجودگی میں اہلِ کتاب کی روایات کو آگے بیان کریں۔ حضرت عمر فاروقؓ کو علم ہوا کہ ایک شخص کتابِ دانیال دوسروں کو نقل کرواتا ہے تو آپؓ نے اس کو بلایا اس کی پٹائی کی اور حکم دیا کہ جو کچھ اس نے لکھا ہے اس کو مٹا دے اور وعدہ کرے کہ آئندہ نہ تو وہ اس کتاب کو پڑھے گا اور نہ ہی کسی کو پڑھائے گا اور پھر حضرت عمر فارووقؓ نے یہود و نصاریٰ کی کتب کے نقل کرنے کی ممانعت کے سبب کے طور پر خود اپنا واقعہ بیان کیاکہ ایک موقع پر جب انھوں نے یہی عمل کیا تھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر شدید غصے اور ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ (33) اس لیے مستشرقین کے اس اعتراض میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ احادیث کا مأخذ بائیل اور اسرائیلی روایات ہیں ۔
ہماری یہ دیانت دارانہ رائے ہے کہ علوم الحدیث کے فن سے متعارف کوئی بھی شخص مستشرقین کے مذکورہ دعویٰ کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ اس میں شک نہیں کہ کئی تابعین نے اسرائیلی روایات کو بیان کیا ہے تاہم ان کی نقل کردہ روایات محض کسی حکم کی تائید یاتوضیح کے لیے ہیں نہ کہ ہدایت اور راہنمائی کے لیے اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اسرائیلی روایات اسلامی عقائد و نظریات کی بنیاد نہیں ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اہلِ کتاب کے اس طرزِ عمل کا خاص طور پر ذکر کیا ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی نازل کردہ کتابوں کو بازیچۂ اطفال بنا رکھا تھا اور ان کتابوں میں اپنی خواہشِ نفس سے کمی بیشی کرتے رہتے تھے ۔ قرآن مجیدنے اسی پس منظر میں مسلمانوں کو تنبیہ کی ہے کہ وہ اس فعل شنیع کے قریب نہ جائیں ۔ پیر صاحب ؒ نے ’’احادیث طیّبہ کو کذب و افتراء سے محفوظ رکھنے کا اہتمام ‘‘ کے زیر عنوان سیر حاصل بحث کی ہے۔ (34)
جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ نے مستشرقین کے اس اعتراض پر کہ روایات دو اڑھائی صدیوں کے کہیں بعد جا کر مدون ہوئی ہیں، تنقید کرتے ہوئے اپنے استدلال کی بنیاد ایک بارپھر قرآنی آیات پر رکھی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن تو مسلمانوں کو حکم دے رہا ہو کہ ان میں سے ہر قبیلے اور خاندان میں ایک ایسا گروہ ہونا چاہے جو قرآن کا فہم حاصل کرے۔ (سورۂ ال عمران،۳:۱۰۴ )پیر صاحب ؒ کا استد لال یہ ہے کہ اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ حدیث و سنّت کو نہ صرف خود سمجھا جائے بلکہ دوسروں بھی سکھایا جائے ۔پیر صاحب ؒ نے خطبہ حجۃ الوداع اور اس کے پس منظر میں متعدد احادیث اور واقعات سے استدلال کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو متعدد مواقع پر تاکید فرمائی کہ وہ مجھ سے سنی ہوئی باتوں کو یاد رکھیں اور اس کو دوسرے لوگوں تک پہنچائیں ۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے حدیث کی حفاظت اور ترویج و اشاعت میں اپنی زندگیاں وقف کردیں ۔پیر صاحب ؒ کو مستشرقین کے اس نقطۂ نظر سے بھی شدید اختلاف ہے کہ حفاظتِ حدیث کا صرف ایک ہی قابلِ اعتماد ذریعہ ہے اور وہ ہے تدوینِ حدیث ۔آپؒ فرماتے ہیں :
’’عام مصنفین نے ’’تدوینِ حدیث‘‘ کے عنوان کے تحت ہی حفاظت حدیث کے متعلق اپنے نتائج فکر کو بیان کیا ہے۔ ہم نے ’’تدوین حدیث‘‘ کی بجائے ’’ حفاظتِ حدیث‘‘ کو اپنے موضوع کا عنوان بنانا مناسب سمجھا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے حدیث طیبہ کی حفاظت کے لیے صرف تدوین حدیث کے طریقے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس کار خیر کے لیے متعدد ایسے طریقے اپنائے ہیں جن کی مستشرقین کو ہوا بھی نہیں لگی۔ مستشرقین کے ساتھ مباحثے میں ضروری نہیں کہ ہم ہمیشہ اسی محاذ پر ان کا مقابلہ کریں جس محاذ کو وہ خود منتخب کریں۔ اگر تدوین کے بغیر دینی پیغام کی حفاظت کا کوئی طریقہ مستشرقین کے ہاں مروج نہیں تو یہ ان کا قصور ہے ، ہم ان کی اس کوتاہی کی وجہ سے امت مسلمہ کی ان خصوصیات کو کیوں نظرانداز کردیں جو اس ملت کا طرۂ امتیاز ہیں؟‘‘ (35)
عربوں کے بے مثل حافظے کے ساتھ ساتھ ان کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو والہانہ محبت تھی، اس کی بنا پر انھوں نے آپ کے اقوال کو اپنے دل و دماغ میں پوری طرح محفوظ کرلیا ۔ ’’حدیثِ تقریری ‘‘ اور سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت میں مفہوم کی یکسانیت کے باوجود الفاظ کا مختلف ہوجانا عین ممکن ہے لیکن جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کا معاملہ ہے، اگرچہ ان کی روایت میں محدثین نے صحابہ کرامؓ کے لیے روایت بالمعنی کے جواز کو تسلیم کیا ہے، کیونکہ وہ رسولِ خدا کے براہِ راست مخاطب ہونے کی وجہ سے مرادِ رسول کو پوری طرح سمجھتے تھے لیکن اس کے باوجود صحابہ کرامؓ جس لفظی صحت کے ساتھ ان اقوال کو محفوظ رکھتے تھے، پیر صاحب ؒ نے اس پرکئی واقعات بطور دلیل ذکر کیے ہیں۔(36)
پیر صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ مستشرقین کا یہ دعویٰ کہ تدوین کا کام کرنے والوں کا بھروسہ صرف اور صرف زبانی مصادر پر تھا، اس لیے ان کے خیال میں جو چیز صدیوں غیر مدون شکل میں رہی، اس کے متعلق یہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنی اصلی حالت میں ہے۔ گو مستشرقین کا یہ شوشہ بھی بالکل بے بنیاد ہے کہ تدوین کے بغیر کسی چیز کی حفاظت ممکن نہیں اور ا س کی ایک بہت بڑی دلیل یہ ہے کہ برطانیہ جو اکثر مستشرقین کا وطن ہے، اس ملک کا آئین تحریری شکل میں موجود نہیں لیکن مدون نہ ہونے کے باوجود وہ آئین محفوظ ہے اور برطانوی لوگ اسی آئین کے مطابق اپنے ملک کو چلارہے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا ملک ہی اصل جمہوری ملک ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان کا آئین ان کی قومی زندگی کا حصہ بن چکا ہے، اس لیے تحریری شکل میں موجود نہ ہونے کے باوجود زندہ ہے اور ان آئینوں کی نسبت زیادہ قوت کے ساتھ زندہ ہے جو تحریری شکل میں موجود تو ہیں لیکن متعلقہ قوموں کی زندگیوں میں ان کی روح نظر نہیں آتی۔ مسلمانوں نے جس انداز میں احادیثِ طیبہ کو اپنی زندگیوں میں نافذ کیا تھا، اگر احادیث تحریری شکل میں موجود نہ ہوتیں تو بھی احادیث کی صحت ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر رہتی لیکن یہ تصور کرنا بالکل غلط ہے کہ مسلمانوں نے پورے دو سو سال احادیث طیبہ کی تدوین کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ حق یہ ہے کہ گو مسلمانوں نے حفاظتِ حدیث کے سلسلہ میں کتابت کے علاوہ دیگر وسائل پر زیادہ بھروسہ کیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے احادیث کی کتابت کو بالکل نظر انداز کردیا۔ حضرت پیر کرم شاہ الازہری ؒ نے ’’حفاظتِ حدیث ‘‘ کے زیرعنوان ۷۵ صفحات پر مشتمل جو معرکہ آرا بحث کی ہے، وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
پیر صاحب ؒ نے ’’احادیث لکھنے کی ممانعت کا مسئلہ ‘‘ کے زیر عنوان حضرت ابو سعید الخدریؓ (م ۷۴ھ )سے مروی صحیح روایت ’’لا تکتبوا عنی شیئاً غیر القرآن‘‘ کی اہلِ علم کی آرا کی روشنی میں ایسی توجیہ کی ہے جس سے مستشرقین کا اعتراض رفع ہوجاتا ہے ، اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ:
(۱) کتابتِ حدیث کی ممانعت والی روایات منسوخ ہیں، کیونکہ ان روایات کا سیاق و سباق ، تاریخی پس منظر اور دیگر شواہداس مؤقف کی تائید کرتے ہیں اور پھر صحابہ کرامؓ کی کثیر تعدادکا کتابتِ حدیث کی طرف عملی رجحان ان احادیث کے مفہوم کو متعین کرنے میں ہمارے لیے حجت ہے ۔
(۲) جمع و تطبیق کے اصول کی روشنی میں بھی ان روایات کا مفہوم متعین کیا سکتا ہے یعنی نہی نزولِ قرآن کے وقت التباس کی وجہ سے کی گئی ہے، لیکن جب التباس کا خطرہ نہ رہا تو آپ نے احادیث لکھنے کی اجازت دے دی۔
(۳) ان روایات کی ایک توجیہ یہ بھی کی جا سکتی ہے کہ آ پ نے ایک ہی صفحہ پر قرآن مجید کے ساتھ احادیث لکھنے سے منع فرمایا تھا ،جیسا کہ کئی روایات سے یہ اشارہ ملتا ہے جبکہ احادیث کو الگ صفحات پر لکھنے کی اجازت تھی۔
(۴) یا ممانعت کا حکم ان لوگوں کے لیے تھاجو حدیث کے حفظ کرنے میں اور باہم مذاکرہ کرنے میں کاہلی کا شکار ہو رہے تھے اور صرف کتابتِ حدیث پر تکیہ کیے ہوئے تھے،شاید اسی پسِ منظر میں آپ نے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی جو حدیث کو یاد کرتے ہیں اور اس کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔جبکہ جولوگوں حفظ کے خو گر تھے، ان کو آپ کی طرف سے احادیث لکھنے کی اجازت تھی۔(37)
جہاں تک مستشرقین کے اس اعتراض کا تعلق ہے کہ دورِ اوّل میں صحابہ کرامؓ تذبذب شکار رہے کہ ا حادیث کو لکھا جائے یا نہ لکھا جائے جس کی وجہ سے ابتدائی دور میں حدیث کی حفاظت کے لیے کوئی منظم کوشش نہ کی جاسکی اور جب دوسری اور تیسری صدی ہجری میں احادیث کی جمع و تدوین کا کام شروع ہوا تو اس وقت تک حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا حصّہ ضائع ہو چکا تھا، اہلِ علم نے اپنی تحقیقات کے نتیجے میں مستشرقین کے اس اعتراض کو بے وزن کردیا ہے ۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ (م ۲۰۰۱ء) نے اپنی مرتب کردہ کتاب’’الوثائق السیاسیۃ ‘‘میں ۲۸۱ ایسے خطوط اور وثائق کا ذکر کیا ہے جن کاتعلق صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرمی سے ہے۔ (38) اسی طرح ڈاکٹر صاحبؒ موصوف نے ہمام بن منبّہ(م ۱۰۱ھ) جو ابو ہریرہؓ (م ۵۹ھ) کے شاگرد ہیں،کی طرف منسوب ’’صحیفہ ہمام بن منبّہ‘‘ ایڈٹ کرکے شائع کیا ہے جس میں ۱۳۸ ؍ا حادیث درج ہیں، اس مخطوطے کی دریافت قرنِ اوّل میں کتابتِ حدیث کی بہت بڑی شہادت ہے۔ (39) علاوہ ازیں ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ نے شاہانِ عالم کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی خطوط بھی دریافت کیے ہیں۔ چونکہ ان میں سے کئی خطوط حدیث کی مستند کتابوں میں بھی منقول ہیں، اس لیے نو دریافت شدہ خطوط اور کتبِ حدیث میں مطابقت کا پایا جانا بھی کتبِ حدیث کے مستند ہو نے اور قرنِ اوّل ہی میں کتابتِ حدیث پر دلالت کرتے ہیں۔ (40) اس موضوع پر ڈاکٹر محمد مصطفی الاعظمی کا پی ایچ ڈی کا مقالہ "Studies in Early Hadith Litereture" جو ’’دراسات فی الحدیث النبوی وتاریخ تدوینہ‘‘ کے عنوان سے دو جلدوں میں عربی زبان میں شائع ہو چکا ہے ، خاص طور پر قابلِ مطالعہ ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب موصوف نے نہ صرف حدیثِ نبوی کی جمع و تدوین کی تاریخ کا تفصیلی حال بیان کیا ہے بلکہ باون (۵۲) صحابہ کرامؓ اور دو سو باون(۲۵۲) تابعین عظام ؒ کے صحائف کا ذکر کیا ہے جس سے قرنِ اوّل میں حدیث کی کتابت اور حفاظت کے لیے کی جانے والی ہمہ گیر کوششوں پر روشنی پڑتی ہے۔ (41) پیر صاحبؒ نے بھی عہدِ نبوی سے لے کر صحاح ستّہ کی تدوین تک کی مختصر تاریخ بیان کرکے مستشرقین کے اعتراضات کی سطحیت کو واضح کردیا ہے۔ (42) نتیجۃ البحث کے طور پر پیر صاحب ؒ فرماتے ہیں :
’’مسلمانوں نے اپنے علمی سرمائے کو محفوظ رکھنے کے لیے جو کوششیں کی ہیں وہ کسی دوسری قوم نے اپنے علمی سرمائے کی حفاظت کے لیے نہیں کیں۔ حیرت کی بات ہے کہ جن لوگوں کواپنے دینی اور علمی ورثے کی حفاظت کا سلیقہ نہ تھا، وہ اس ملت کے علمی سرمائے پر ہاتھ صاف کرتے ہیں جس ملت نے اپنے علمی سرمائے کی حفاظت کے لیے بے نظیر کام کیا ہے۔ احادیث طیبہ کی حفاظت کے لیے مسلمانوں نے مختلف طریقے استعمال کیے ۔ احادیث طیبہ کے حصول کے لیے محیر العقول کاوشیں، احادیث طیبہ کو سینوں میں محفوظ کرنا، احادیث طیبہ کے پیغام اور تعلیم کو فردوقوم کی عملی زندگی میں جذب کرنا، احادیث سننے اور سنانے کی محفلیں منعقد کرنا، تدریسِ حدیث کے حلقے، حدیث کی کتابت، حدیث کی تدوین، فنِ اصولِ حدیث متعارف کرانا، احادیث کی سندوں کی چھان بین ، احادیث کے متن پرکھنا، رواۃِ حدیث کے حالاتِ زندگی اور ان کے اخلاق و کردار کو محفوظ کرنا، احادیث کے مختلف درجے متعین کرنا،ایسی کتابوں کی تیاری جن سے صرف صحیح احادیث کا بیان ہو، ہر حدیث کی فنی حیثیت متعین کرنا، ان راویوں سے ملت کو آگاہ کرنا جو وضعِ حدیث کے لیے مشہور ہیں اور ایسی کتابیں مرتب کرنا جن میں تمام موضوع روایات کو جمع کردیا جائے تاکہ لوگ ان موضوع روایات کو قولِ رسول سمجھ کر دھوکا نہ کھا جائیں ۔ یہ وہ مختلف طریقے تھے جو مسلمانوں نے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیش بہا خزانے کی حفاظت کے لیے استعمال کیے۔‘‘ (43)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مستشرقین جس فکری کج روی کا شکار ہوئے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حدیث سے متعلق اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے قرآن مجید کو بالکل ہی نظر انداز کردیا ہے حالانکہ قرآن مجید میں حدیث کی حجیت اور اس کی حفاظت کے واضح شواہد موجود ہیں۔ پیر صاحب محترمؒ نے مستشرقین کو قرآن مجید کی طرف متوجہ کیا ہے کہ جب وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن اپنی اصل شکل میں موجود ہے تو اسی قرآن کی متعدد آیات کا تقاضا ہے کہ حدیث و سنت بھی محفوظ ہو ورنہ قرآن کا فہم اور اس کے متعدد احکام پر عمل ممکن ہی نہیں۔
یہ بات بڑی قابلِ قدر ہے کہ پیر صاحبؒ نے حدیث کا دفاع کرتے ہوئے معذرت خواہانہ انداز اختیار نہیں فرمایا بلکہ مستشرقین کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنے خیالاتِ فاسدہ کو مسلمانوں کے خیالات بنا کر پیش کرنے کے بجائے مسلمہ علمی طریقے کے مطابق مسلمانوں کے بنیادی مصادر کی طرف رجو ع کریں کیونکہ انہیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اسلام کی عمارت کو اپنے نظریات پر تعمیر کرنے کی کوشش کریں۔ غور کیا جائے تو مستشرقین کا بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ کسی بھی اسلامی مسئلہ پر مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے بحث نہیں کرتے بلکہ غلط طور پر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں یہی مسلمانوں کا نقطۂ نظر ہے۔ شاید یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس نے مستشرقین کے مطالعات میں عجیب و غریب قسم کے نتائج پیدا کر دیے ہیں۔
حواشی و تعلیقات
(1) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :
’’حیا ت جاوید ‘‘ (از مولانا الطاف حسین حالی ؒ ) ۲/۱۲ تا ۱۸، (ارسلان بکس علامہ اقبال روڈ ،میرپور ،آزاد کشمیر ،مئی ۲۰۰۰ء)
(2)مثلاً اس حوالے سے، رچرڈ سائمن ، پیئربائیل ،سائمن اوکلے ،ھادریان ریلانڈ ،مائیکل ایچ ہارٹ ،ڈاکٹر مورس بکائے، تھامس کارلائل کیرن آرم سٹرانگ ، منٹگمری واٹ،جان بیگٹ ، الفریڈ اسمتھ اور کئی دیگر مستشرقین کے نام بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں ۔
(3)مثلاً :Kenneth Craggانجیل اور بائبل کاقرآن سے تقابلی جائزہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : بائیبل اور انجیل کو صدیوں بعد جمع کیا گیا جبکہ قرآن محمد ﷺ کی زندگی میں ہی وجود میں آ چکا تھا۔(''The Event of The Quran-Islam in its Scripture'', P:178,(George Allen & Unwin, London)۔ اسی طرح انیسویں صدی کے مشہور مستشرق سر ولیم میور قرآن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: یہ ایک حقیقت ہے کہ آیات کی ترتیب صرف اور صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تھی اور ہی کی ہدایت پر حفظ کی جاتی تھیں یا لکھ لی جاتی تھیں ۔چنانچہ اس طور پر عہدِ رسالت میں قرآ ن سامنے آچکا تھا یہی نہیں بلکہ اس پر یقین کرنے کی کافی وجوہا ت ہیں کہ آپ کی زندگی میں ہی آپ کے صحابہ کے پاس قرآن کے بہت سے نسخے موجود تھے ۔(Sir william Muir:"The Life of Muhammad",John Grant-1894 edition,P:xix)،اسی حقیقت کا اعتراف سٹینٹن (H.U.W.Stanton) جان برٹن (John Burton)اورکئی دوسرے مستشرقین نے بھی کیا ہے ۔ ملاحظہ ہو:
H.U.W.Stanton:"The teaching of Quran" Darf Publications Ltd, London, 1919 Revised 1987,P:11
John Burton:"The collection of Quran" University of St Andrews,University Press 1977 P:4)
(4) ضیاء النبی ﷺ، 25/7،(ضیاء القرآن پبلی کیشنز ،لاہور،۱۴۱۸ھ)
(5) ضیاء النبیﷺ ، 15-16/7
(6) ضیاء النبیﷺ ، 17/7
(7) Gibb,(1965) "Islam" "The Encyclopedia Of Loving Faith", p:171, (London,1884)
(8) "The origins of Muhammadan Jurisprudence".(Oxford press 1950),P:3
(9) Arthur Jeffery,"Islam,Muhammad And His Religion", P:12, (Indiana,1979)
(10) J.Robson,"The Isnad in Muslim Tradition"P:18 (Glasgow University,Oriential Society) 1955
(11) Ibid,P"18
(12) Gold zhiher,(1921)"Muslim Studies"p:213,Vol:2,(George Allen & Unwin LTD,London,1971)
(13) Josefh Schacht, "The origins of Muhammadan Jurisprudence" P:36 -37, (Oxford at the clarendon prss 1950)
(14) Watt,Montgomery,(1979) "Muhammad At Medina",p:318,(Oxford Press London),1956
(15) Will Durant,(1981)"The Age of Faith",211-212, (New York,1950)
"Islam and the west" , (New jersey, U.S.A,1962) p:105-107 (16) Philip.K.Hitti,
(17) Alfred Guillaume,"Islam" , p:89-90 ,(London 1963)
(18) Dancan B.Macdonald,"Muslim Theology , Jurisprudence and constitution Theory", p:76-77,(Beirut Khayats, 1965)
(19) "Muslim Studies",P:56,40-45,Vol:2
(20) "The origins of Muhammadan Jurisprudence"P:72-73
(21) ڈاکٹر فواد سیز گین،’’مقدمہ تاریخ تدوین حدیث‘‘،(مترجم:سعید احمد)،ص:18،(ادارہ تحقیقاتِ اسلامی ،اسلام آباد، 1985)
(22) ضیاء النبیﷺ ، 28/7
(23) ضیاء النبی ﷺ،54/7
(24) ضیاء النبیﷺ ،56-40/7
(25) ضیاء النبیﷺ ، 60-61/7
(26) Abn-Hajar, "Al-Isabah"(Introduction by Springer) Biship's College Press Calcutta, 1856)
(27) Robson, "Ibn-i-Ishaq's use of Isnad" ,P.449, (Bulletin of the John Rylands library Manchster,March 2, 1956)
(28) (النساء ، ۴/۴۷)،(المائدۃ،۵/۴۸)
(29) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:(الانفال، ۸/۱)،(الانفال ،۸/۲۰)،(محمد،۴۷/۳۳)،(التغابن، ۶۴/۱۲)،(ال عمران، ۳/۳۲)،)ال عمران،۳/۱۳۲)، (النساء، ۴/۵۹)مذکورہ بالا آیات میں اطاعتِ رسولصلی اللہ علیہ وسلم کو لازمی حکم کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سی آیات ایسی بھی ہیں ، جن میں اطاعتِ رسول اور اس کی جزا ذکر کی گئی ہے، چند آیات ملاحظہ ہوں مثلاً: (النساء،۴/۱۳)، (الاحزاب،۳۳/)، (النساء، ۴:۶۹)، (النساء،۴:۸۰)، (الاحزاب،۳۳:۳۶) (الجن،۷۲:۲۳)
(30) مسلم بن حجاج بن مسلم القشیریؒ ، الامام ابو الحسین ، (۲۰۴۔۲۶۱ھ) صحیح مسلم، مقدمہ، باب تغلیظ الکذب علی رسول اللّٰہ ﷺ ،ح: ۴ ،ص:۸ ،( دارالسلام للنشر والتوزیغ، الریاض، ۱۹۹۸ء )
(31) صحیح مسلم، مقدمہ، باب وجوب الروایۃ عن الثقات وترک الکذابین،ح:۱ ،ص:۷
(32) ابن ماجہؒ ، محمد بن یزید، (۲۰۹۔۲۷۳ھ) ابن ماجۃ ،کتاب الفتن، باب افتراق الامم ، ح:۳۹۹۴ ،ص:۵۷۴ ، (دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، ۱۹۹۹ء )
(33) الخطیب البغدادیؒ ، ابوبکر احمد بن علی بن ثابت، (۳۹۲۔۴۶۳ھ) ’’ تقیید العلم‘‘، (تحقیق : یوسف العش)، ص:۵۰،۵۱،(دار احیاء السنۃ النبویۃ،انقرہ، ۱۹۷۴ء)
(34) ملاحظہ ہو:ضیاء النبی ﷺ،۷/۵۶۔۷۱
(35) ضیاء النبیﷺ ، ۷/۷۵
(36) تفصیل کے ملاحظہ:ضیاء النبیﷺ ، ۷/۷۷۔۸۲
(37) ضیاء النبیﷺ ، ۷/۱۱۲۔۱۲۴
(38) محمد حمید اللہ ،ڈاکٹر ،(م ۲۰۰۱ ء) ’’مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ فی العھد النبوی والخلافۃ الراشدۃ‘‘، (قاہرۃ، ۱۹۴۱ء)
(39) ’’صحیفہ ہمام بن منبّہ‘‘، (بیکن بکس، لاہور، 2005ء)
(40) ’’رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی‘‘،(دار الاشاعت ،کراچی،1987ء)
(41) محمد مصطفی الاعظمی ،ڈاکٹر، ’’دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ‘‘، ۱؍۹۲۔۳۲۵ (المکتب الاسلامی ، بیروت ،۱۹۹۵ء)
(42) ضیاء النبیﷺ ، 155-124/7
(43) ضیاء النبیﷺ ، 76-77/7
ایک نئی دینی تحریک کی ضرورت
ڈاکٹر محمد امین
یہ چند سال پہلے کی بات ہے کہ ہم نے ایک دن شہید ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب سے کہا کہ ہمارے دینی سیاسی لوگ اکٹھے نہیں ہوتے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہاں ’کرسی‘ کا مسئلہ ہے لیکن دعوت و اصلاح جیسے غیر سیاسی کام میں دینی لوگ کیوں جمع نہیں ہوسکتے جبکہ اس کام کی بڑی سخت ضرورت بھی ہے۔ کہنے لگے کہ اس میں کوئی بڑی رکاوٹ بظاہر تونظر نہیں آتی ۔ چنانچہ ہم نے باہم مشورہ کر کے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور سول سوسائٹی کے دیندار افراد کا ایک اجتماع جامعہ نعیمیہ میں رکھا جس کا ایجنڈا اور ورکنگ پیپر راقم نے تیار کرکے شرکا کو بھجوا دیا۔ اس اجلاس کی دونشستیں عصر سے عشا تک ہوئیں۔ ایجنڈے کا اہم نکتہ دعوت و اصلاح اور فرد کی تربیت تھا لیکن افغانستان اور عراق کا مسئلہ اور پاکستان کے سیاسی حالات جیسے اجتماعی مسائل شرکاء کے ذہنوں پر چھائے رہے اور ہم کوشش کے باوجود شرکا کو دعوت و اصلاح کی کسی اجتماعی حکمت عملی کی طرف نہ لاسکے۔
یہ بات ہمیں اس حوالے سے یاد آئی کہ مولانا زاہد الراشدی صاحب نے اپنے جریدے ماہنامہ ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ کے فروری۲۰۱۰ء کے شمارے میں منجملہ دوسری باتوں کے پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے سارے مکاتب فکر کے علماء کرام پر مشتمل ایک نئی دینی جماعت کے قیام کی ضرورت کا ذکر کیا ہے جو انتخاب و اقتدار کی سیاست میں پڑے بغیر اجتماعی جدوجہد کرے۔ مولاناکی بات سرسری اور مجمل ہے اور غالباً کوئی منضبط اور تفصیلی تجویز پیش کرنا ان کے مدنظر نہیں تھا۔ ہم چونکہ اس موضوع پر سوچتے رہتے ہیں لہٰذا ہمارے ذہن میں ایک نئی دینی تحریک کا پورانقشہ موجود ہے جو ہم اہل فکر و نظر کے سامنے رکھ رہے ہیں تاکہ وہ اس پر غور فرمائیں اور اس کے حسن و قبح پر بحث کے نتیجے میں کوئی اچھی اور قابل عمل بات سامنے آسکے۔
(۱)
بنیادی بات یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اپنی موجودہ زندگی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق گزارنا ہے تاکہ ہم اخروی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرسکیں اور اس کی نعمتوں کے سزاوار ٹھہریں۔ اگر ہم بحیثیت معاشرہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی زندگی گزاریں گے تو ہم ان شاء اللہ اس دنیا میں بھی کامیاب ہوں گے اور زوال کے گڑھے سے نکل کر عزت و عظمت کی راہ پر گامزن ہو سکیں گے۔ دنیا میں ہمارے زوال کا ایک بنیادی سبب ہماری اپنے نظریۂ حیات (اسلام) سے دوری اور اس کے تقاضوں پر عمل نہ کرنا ہے جس کی وجہ سے ہمارے اندر وہ صلاحیتیں پنپ نہیں پارہیں جو دنیا میں جمع اسباب اور ترقی و غلبے کی راہ ہموار کرتی ہیں۔
یہ بنیادی فکری پہلو ہم نے ابتدا ہی میں اس لیے واضح کردیا کہ ہمارے نزدیک یہی دنیا میں مسلمانوں کی ترقی اور کامیابی کی اساس ہے نہ کہ اس مغربی فکر و تہذیب کی پیروی جواپنی اساس میں غیر اسلامی ہے۔ دنیا اور آخرت میں بیک وقت کامیابی کے اسی نظریے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے کی بنیاد رکھی جسے آپؐ کے صحابہ کرام نے بھی جاری رکھا اور وہ ربع صدی کے اندر نہ صرف جزیرہ نما عرب بلکہ اس وقت کی ورلڈ پاورز پر غالب آگئے اور ایسی خوشحالی پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ مسلم معاشرے میں زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ رہا۔ لہٰذا آج بھی ہماری ترقی اور کامیابی کی اساس دین سے ایسی وابستگی ہے جو ہمارے دنیا کے مسائل بھی حل کر دے اور آخرت میں بھی ہماری کامیابی کے راستے کھول دے۔
(۲)
اس نظریاتی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئیے یہ دیکھیں کہ وہ کون سے گھمبیر مسائل ہیں جو ہمیں (پاکستان کے مسلم معاشرے میں) درپیش ہیں اور جن کا حل ہمیں ڈھونڈنا ہے۔ ہمارے نزدیک اہم ترین مسائل چار ہیں: i۔ اخلاقی ابتری، ii۔ افتراق ، iii۔ جہالت، iv۔ غربت۔ لیکن پیشتر اس کے کہ ہم ان مسائل کے حل کے لائحہ عمل کے بارے میں کچھ عرض کریں ، کچھ حقائق کا ادراک اور کچھ تصورات کا صحیح فہم ضروری ہے جن کے بغیر شائد ہماری بات صحیح تناظر میں سمجھی نہ جاسکے:
اولاً
بدقسمتی سے ہماری حکومتیں اکثر وبیشتر عامۃ الناس کی خواہشات اور تمناؤں کے برعکس عمل پیرا ہیں اور یہ عموماً یورپ و امریکہ کی دریوزہ گر ہیں جن کی فکر و تہذیب اس وقت دنیا پر غالب ہے لہٰذا ہم ان بنیادی مسائل کے حل کے لیے صرف اپنی حکومت پر انحصار نہیں کر سکتے۔اگرچہ ہم ان دینی قوتوں کی حمایت کرتے ہیں جو موجودہ حکومتوں کو مؤثراسلامی حکومتوں میں بدلنے کی کوشش کر رہی ہیں یا ان پر دباؤ ڈال کر ان سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ ان مسائل کو حل کریں، لیکن ان بنیادی مسائل کو بہرحال صرف ایسی حکومتوں کی صوابدید اور رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا جنہیں ان مسائل کے حل سے نہ صرف یہ کہ کوئی حقیقی دلچسپی نہیں بلکہ وہ انہیں اسلام کی بجائے مغربی فکر و تہذیب کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش میں انہیں مزید الجھا رہی ہیں جن سے بگاڑکم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے، بلکہ ہمیں عوام کی حمایت سے ان مسائل کو صحیح اسلامی تناظر میں حل کرنے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر میں خود مقدور بھر کوشش کرناہے جس کی وسیع گنجائش موجودہے۔
دوم
’نفاذِ شریعت ‘ کے بارے میں ہمارے ذہن بالکل واضح نہیں۔ ہمارا عمومی تصور یہ رہاہے کہ یہ صرف ’حکومت‘ کے کرنے کا کام ہے۔ چنانچہ پہلے تو بعض دینی عناصر یہ تصور پیش کرتے رہے کہ نفاذِ شریعت کا مطلب ہے ’اسلامی قانون کا نفاذ‘ اور وہ ہر حکومت سے مطالبہ کرتے تھے کہ شریعت اور اسلامی نظام نافذ کرو مطلب یہ کہ اسلامی قوانین نافذ کرو۔چنانچہ جب ضیاء الحق صاحب نے ۱۹۷۹ء میں اسلامی حدود نافذ کردیں تو دینی لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد یں دیتے تھے کہ اسلامی قوانین نافذ ہوگئے ہیں۔ پھر جب ان قوانین پر نہ عمل ہوا اور نہ ان کے خوشگوار اثرات ظاہر ہوئے تو نفاذِ شریعت بذریعہ اسلامی قوانین کے تصور کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔پھر یہ تصور ابھارا گیا کہ ہمارے دنیا دار سیاستدان شریعت نافذ کرنے کے نہ اہل ہیں اور نہ اس کی سچی خواہش و جذبہ رکھتے ہیں بلکہ جب علماء اور دینی عناصر کی حکومت آئے گی تو وہ شریعت نافذ کرے گی لیکن صوبہ سرحد میں ملک کے اہم دینی عناصر کو اقتدار مل گیا تو وہاں بھی شریعت نافذ نہ ہوسکی۔اب یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس صوبے میں اختیارات کم تھے اگر مرکز میں ہماری حکومت ہوتی تو ہم شریعت نافذ کردیتے۔ ہم کہتے ہیں کہ ان کو مرکز میں حکومت بنانے کا موقع مل جائے تو بھی یہ مؤثر طور پر شریعت نافذ نہیں کرسکتے سوائے چند قوانین پاس کردینے یا کچھ سطحی قسم کے ظاہری اقدامات کر دینے کے۔ کیونکہ شریعت تو معاشرے میں اس وقت نافذ ہوگی جب ہر فرد اپنے آپ کو شریعت کے مطابق بدلنا چاہے گا یعنی جب لوگوں کے ذہن وقلوب بدلیں گے اور اداروں کے اور ان کے چلانے والوں کی سوچ اور ڈھب بدلیں گے۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ موجودہ سیاسی نظام، تعلیمی اداروں، میڈیا، پولیس، وکلاء،عدلیہ اور بیوروکریسی کے ہوتے ہوئے اور ان کے ذریعے شریعت نافذ ہوسکتی ہے تومعاف کیجئے وہ جنت الحمقاء میں بستا ہے ۔
پس جب نفاذِ شریعت کی حقیقی ضرور ت یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن و قلوب کو بدلاجائے اور ان کی سوچ، ان کے کردار اور ماحول کو بدلاجائے تاکہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی احکام پر خوشی سے عمل کرنے لگیں تو اس کے لیے اقتدار کا انتظار کیوں ضروری ہے؟ دینی عناصر عوام کے تعاون سے اور اقتدار کے بغیر، جو بھی وسائل میسر ہیں ان کو استعمال میں لاتے ہوئے یہ کام کیوں نہیں کرتے اور کس نے ان کا ہاتھ پکڑا ہے کہ وہ یہ کام نہ کریں؟ خلاصہ یہ کہ نفاذِ شریعت کا صحیح مفہوم اور طریقہ یہ ہے کہ دینی عناصر کوایک ہمہ گیر دینی تحریک کے ذریعے تعمیر اخلاق، خاتمۂ افتراق، صحیح رخ میں تعلیمی اداروں اور میڈیا چینلز کے قیام اور غربت کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت سے بھی ان کاموں کا مطالبہ کرتے رہنا چاہئے اور جو لوگ ایک صالح حکومت کے قیام کے لیے عملی کوششیں کر رہے ہیں، ان کی بھی حمایت کرنی چاہیے۔
سوم
ہم جس دینی تحریک کی بات کر رہے ہیں اس سے مراد محض علماء کرام کی کوئی نئی جماعت نہیں بلکہ یہ پاکستانی مسلمانوں کے دینی و دنیاوی اہداف کے حصول کی ایک اجتماعی تحریک ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ’ اسلامی‘ اور’ دینی‘ کا سابقہ یا لاحقہ اس کے نام کا حصہ ہو تاہم اس تحریک کا تناظر اور اہداف دینی ہیں اور رہیں گے ۔ مختلف مکاتب فکر کے معتدل مزاج علماء کرام، جو دین کے عصری تقاضوں کا ادراک رکھتے ہیں، یقینااس تحریک کا ہراول دستہ ہوں گے لیکن اس کی حقیقی قوت سول سوسائٹی کے اسلام پسند افراد ہوں گے بلکہ ہر وہ مسلمان اس کا فعال حصہ ہوسکتا ہے جو اچھے مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا خواہاں ہو،انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسلامی اصولوں پر استوار کیے جانے کا متمنی ہو اور دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی چاہتا ہو۔
چہارم
مجوزہ دینی تحریک غیر سیاسی ہوگی۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خدانخواستہ سیاست میں حصہ لینا غیر اسلامی حرکت ہے بلکہ سیاسی قوت کو دینی مقاصد کے لیے استعمال کرنا اور موجودہ سیاسی نظام کی اسلامی حوالے سے اصلاح کی کوشش کرنا ایک اہم دینی ضرورت ہے لیکن سیاسی جدوجہد کی صرف ایک ہی صورت نہیں کہ پاور پالیٹکس میں حصہ لیا جائے اور حصول اقتدار کے لیے انتخابی اکھاڑے میں کودا جائے لہٰذا مجوزہ دینی تحریک اجتماعی سیاسی قوت کو اسلام کے حق میں استعمال کرنے کے لیے حسب ضرورت متعدد اقدامات کر سکتی ہے لیکن انتخابی سیاست میں حصہ نہ لے گی کیونکہ آج کل کے معروضی حالات میں انتخابی جدوجہد ایک کُل وقتی کام ہے اور اس کے کرتے ہوئے دوسرے اہم دعوتی، اصلاحی اور عملی کام نظر انداز ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے اور مجوزہ تحریک چونکہ ان غیر سیاسی دینی کاموں کو بھی اہمیت دیتی اور اس پرافراد کی صلاحیتیں لگانا چاہتی ہے لہٰذا نہ وہ پاور پالیٹکس میں حصہ لے گی اور نہ کسی کی حریف بنے گی۔
پنجم
مجوزہ تحریک بنیادی طور پردعوت و اصلاح کی تحریک ہوگی ۔ دعوت و اصلاح کا کام نیچے سے شروع ہوکر اوپر کو جاتا ہے یعنی پہلے فرد کی اصلاح ، پھر اہل خانہ اور اعزہ و اقربا، برادری و قبیلہ ، گلی و محلے کی اصلاح اور پھر اداروں اور ریاست و معاشرے کی اصلاح ۔ معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے جب افراد کی اصلاح ہوگی تو معاشرے اور ریاستی اداروں کی بھی بتدریج اصلاح ہوتی چلی جائے گی۔
فرد کی اصلاح ہمارے نزدیک بنیادی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ:
- قرآن حکیم سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ تمام انبیاء کرام اور خصوصاًآخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطبین کی اصلاح کا جو لائحہ عمل دیا گیا تھا وہ تعلیم کتاب و حکمت کے ذریعے ان کے نفوس کے تزکیہ و تربیت ہی کا تھا لہٰذا تبدیلی کا نبوی منہاج بھی یہی ہے کہ فرد کی تبدیلی پر ترکیز کی جائے۔
- یہ فرد ہے جسے آخرت میں اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہونا ہے نہ کہ کسی تحریک یا قوم کو۔
- معاشرے اور ریاست کے قیام اور ان کی ضرورت و اہمیت کی کنہ پر اگر غور کیا جائے تو ہم بالآخر اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس کا سبب بھی یہی ہے کہ فرد کو راہ راست پر چلنے میں معاونت ملے اور اس کی زندگی سکھ اور سکون سے گزرے۔
- دنیا میں آج تک جتنے بھی انقلاب آئے ہیں اور تہذیبیں قائم ہوئی ہیں ان کی اساس فرد میں تبدیلی تھی نہ کہ محض نظم اجتماعی کی بہتری بلکہ اوّل الذکر ایک لحاظ سے ثانی الذکر کی پیشگی ضرورت (pre-requisite) ہے۔
- لاریب اجتماعی تبدیلی بھی اہم اور مطلوب ہے لیکن اس کی بنیاد فرد کی تبدیلی ہی ہے لہٰذا فرد اور اس کی سیرت، اس کی تمناؤں، آدرشوں اور اہداف کو تبدیل کیے بغیر، تبدیلی کو محض ریاستی قوت سے اور اوپر سے تھونپا اور مسلط نہیں کیا جا سکتا اور اگر بالفرض کر بھی دیا جائے تو وہ عارضی اور نا پائیدار ثابت ہوتی ہے لہٰذامعاشرے میں پائیدار تبدیلی لانے کے لیے فرد کی تبدیلی اہم تر ہے۔
خلاصہ یہ کہ مجوزہ تحریک جو تبدیلی پاکستان کے مسلم معاشرے میں اجتماعی سطح پر لانا چاہتی ہے اس کے لیے وہ فرد کی تبدیلی کا راستہ اختیار کرے گی۔
ششیم
بعض علماء کرام اور دینی لوگوں کو اس مجوزہ تحریک کا لائحہ عمل دیکھ کریہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس میں عقیدے کی اصلاح اور نماز، روزے اور داڑھی وغیرہ پر زور نہیں دیا گیا تو یہ کیسی دینی تحریک ہے؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو تصور دین شائع اورمروج ہے، اس میں علماء کرام ان باتوں پر پہلے سے خوب توجہ دے رہے ہیں اس لیے ہم نے ان پر زور دینا ضروری نہیں سمجھا کہ یہ تحصیل حاصل ہوگا۔ دوسرے یہ کہ ہمارے ہاں جوتصور دین بدقسمتی سے شائع اورمروج ہے اس میں دو باتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں ہمارے ہاں کے سارے مکاتب فکر کے ثقہ اور سنجیدہ علماء کرام خوب جانتے اور مانتے ہیں کہ وہ غلط ہیں لیکن حالات کے جبر نے انہیں نمایاں کردیا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک تو دین و دنیا کی تفریق کا مسئلہ ہے (جسے آج کل کی زبان میں سیکولرزم کہا جاتا ہے)۔ سارے علماء کرام جانتے اور مانتے ہیں کہ اسلام میں دین و دنیا کی کوئی تفریق نہیں ہے اور اسلام ادخلوا فی السلم کا فۃ کا علم بردار ہے لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ اگر محلے کے لوگ نماز نہ پڑھیں تو یہ ’اسلامی مسئلہ‘ ہے لیکن محلے کا ایک مسلمان بھوک سے مر رہا ہو تو یہ ’اسلامی مسئلہ‘ نہیں ہے۔ ہماری رائے میںیہ غلطی مضمون سب پر واضح ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج کل مسلک کو دین کا مترادف سمجھ لیا گیاہے جو کہ ظاہر ہے سارے سنجیدہ علماء کرام جانتے اور مانتے ہیں کہ غلط ہے ۔
غرض یہ کہ دینیاتی امور اور عبادات وغیرہ کو ہم نے بظاہر اس تحریک میں براہ راست فوکس اور نمایاں نہیں کیا لیکن پوری تحریک کا تناظر اور فریم ورک ایسا رکھا ہے کہ یہ مقصد ان شاء اللہ بالواسطہ طور پرحاصل ہوجائے گا۔
ہفتم
اس وقت ملک میں کئی دینی سیاسی جماعتیں اسلامی حوالے سے سیاست کے میدان میں کام کر رہی ہیں اور بہت سی دعوتی و اصلاحی تحریکیں ، تنظیمیں اور ادارے دعوتی و اصلاحی میدان میں کام کررہے ہیں ۔ مجوزہ نئی تحریک ان میں سے کسی کی حریف نہیں ہوگی اور ان پر تنقید اوران کی تنقیص نہیں کرے گی بلکہ تحریک کا ماٹو سب کے لیے محبت اور ہر خیر سے تعاون ہوگا۔
(۳)
اس ناگزیر تمہیدی گفتگو کے بعد آئیے اب مذکورہ چار بنیادی مسائل کے حل کے لائحہ عمل کی طرف۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے حل کے لیے مجوزہ تحریک کو چار شعبے یا چار طرح کے ادارے قائم اور متحرک کرنے پڑیں گے:
۱۔ تعمیر اخلاق
اگر آپ دقت نظرسے دیکھیں اور غور کریں تو آپ پر عیاں ہوجائے گا کہ ہمارا اصل بحران اخلاقی ہے۔ حبِّ دنیا، حبِّ مال، حبِّ جاہ، جھوٹ، فریب، دھوکہ، رشوت، کرپشن،چوری، ڈاکے ، فحاشی ، عریانی وغیرہ ہماری سیرت بن چکے ہیں اور اس اخلاقی ابتری نے ہمیں دنیا میں کمزور ، رسوا اور تماشا بنا کر رکھ دیا ہے اور مسلم روایت میں اس کا علاج ہے ایمان اور تعلق باللہ کی مضبوطی اور فکر آخرت لہٰذا اس تناظر میں مجوزہ تحریک لوگوں کے تعمیر اخلاق کے لیے چار سطحوں پر کام کرے گی:
i۔ نسل نو کی تربیت کے لیے تعلیمی اداروں میں صحیح تعلیم و تربیت کا فعال نظام۔
ii۔ بڑوں (grown ups) کے لیے ایسی تربیت گاہوں کے قیام کی حوصلہ افزائی جن میں فرد میں تبدیلی کے لیے صحبت صالح اور کثرت ذکر جیسے منصوص اور آزمودہ وسائل استعمال ہوں اور جن میں تصوف کی مروجہ غیر اسلامی رسوم و بدعات قطعاً نہ ہوں۔
iii۔ میڈیا کے ذریعے مناسب ذہن اور ماحول کی تیاری۔
iv۔ گلی محلے کی سطح پر اخلاق سدھار کمیٹیوں کا قیام جو منکرات کو پھیلنے سے روکیں اور اوامر و معروفات پر عمل کرائیں اور اس کے لیے سازگار ماحول پیدا کریں۔
۲۔ اتحاد
باہمی افتراق و انتشار نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اختلاف رائے کو ہم بڑی مہارت سے دشمنی اورنفرت میں بدل لیتے ہیں اور حق کو صرف اپنی رائے اور مسلک تک محدود اور اس میں محصور سمجھتے ہیں۔ مجوزہ تحریک کا قیام ہی تحمل، بردباری اور اختلاف رائے کو برداشت کرنے کامظہر ہوگا کیونکہ اس میں مختلف دینی مسالک اور متنوع سیاسی مکاتب فکر کے لوگ باہم مل جل کر کام کریں گے۔ اس تحریک کا تعلیمی شعبہ بھی کوشش کرے گا کہ دینی تعلیم میں فرقہ واریت اور مسلک پرستی کا رجحان کمزور ہو اور مشترکہ پہلوؤں کو ابھارا جائے۔ اسی طرح اس تحریک کے تحت جو تربیت گاہیں کام کریں گی یا بزنس فورم قائم ہوں گے یا فلاحی مرکز بنیں گے وہ بھی بلا لحاظ دینی و سیاسی مسلک کام کریں گے اور اس طرح قوم میں اتحاد و یکجہتی کی فضا پروان چڑھے گی۔ اسی طرح تحریک بین الاقوامی سطح پر اتحاد امت اور قوموں کے درمیان پُر امن بقائے باہمی کی نقیب ہوگی۔
۳۔ تعلیم اور میڈیا
جہالت ہمارے معاشرے کا ایک انتہائی بنیادی مسئلہ ہے کہ کم شرح تعلیم نہ صرف بیروزگاری کا سبب ہے اور اس نے سیاسی عمل کی افادیت کو گہنا دیا ہے بلکہ ہمیں اخلاقی و معاشرتی مسائل سے بھی دوچار کر رکھا ہے کیونکہ یہ صحیح تعلیم و تربیت ہی ہے جو دماغوں کو روشن کرتی اور دلوں کو بدلتی ہے۔ ترکی اور انڈونیشیا میں ہزاروں سکول اور بیسیوں کالج اور یونیورسٹیاں وہاں کی دینی تحریکیں چلارہی ہیں تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ لہٰذا تحریک کوشش کرے گی کہ ہر سطح کے ماڈل تعلیمی ادارے قائم کرے(اور موجودہ اداروں کی اصلاح کرے)تاکہ جو طلبہ جدید تعلیم حاصل کریں وہ دینی تعلیم و تربیت سے بھی بہرہ ور ہوں اور اچھے ڈاکٹر، انجنئیر۔۔۔بننے کے ساتھ ساتھ وہ اچھے مسلمان بھی ہوں ۔ اور جو طلبہ دینی مدارس میں اسلام کی تخصصی تعلیم حاصل کریں وہ جدید علوم سے ناآشنا اور عصری تقاضوں سے غافل نہ ہوں تاکہ آج کے معاشرے کی مؤثر رہنمائی کرسکیں۔ ظاہر ہے اس کے لیے نصابات اور تربیت اساتذہ کے موجودہ مناہج پر نظر ثانی کرناہوگی اور تعلیمی اداروں کے موجودہ ماحول کو بدلنا ہوگا جس کا بنیادی نکتہ یہ ہوگا کہ تعلیم اسلامی اقدار کے تناظر میں دی جائے نہ کہ مغربی تہذیب کی اندھی پیروی کرتے ہوئے۔
میڈیا آج کل غیر رسمی تعلیم کا بہت بڑا ذریعہ ہے جو لوگوں کے اذہان و قلوب اور فکر و عمل پر شدت سے اثر انداز ہو رہاہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر جو عناصر مسلمانوں کی راہ کھوٹی کرنا چاہتے ہیں وہ تعلیم اور میڈیا کو اسلام اور اسلامی اقدار سے انحراف کے لیے استعمال کر رہے ہیں ۔ اس لیے تحریک نہ صرف اپنا ٹی وی چینل کھولے گی بلکہ موزوں تعلیم و تربیت سے ایسے ماہرین بھی تیار کرے گی جو ابلاغ کے فن میں مہارت رکھتے ہوں اور اسلامی ذہن بھی رکھتے ہوں تاکہ وہ جہاں بھی کام کریں اسلامی نظریات و اقدارکی حفاظت کی کوشش بھی کریں۔
۴۔ غربت کا خاتمہ
مجوزہ تحریک غربت کے خاتمے اور غریبوں کی مد دکے لیے مندرجہ ذیل پہلوؤں پر کام کرے گی:
i۔ بزنس فورم کا قیام: تحریک ان لوگوں کو جو صنعت و تجارت کے شعبے میں کام کررہے ہیں اور تحریک کے مقاصد سے اتفاق رکھتے ہیں منظم کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس سے ان کو اپنی صنعت و تجارت کوبڑھانے کا موقع ملے گا، باہمی روابط اور مواقع بڑھیں گے اور ان کا کاروبار پھلے پھولے گا۔تجارت کے غیر شرعی طریقوں سے بچنے کی مشاورت کے ساتھ ساتھ تحریک ان کو فی سبیل اللہ انفاق پر ابھارے گی اور ایسے شعبوں میں کام کرنے کا مشورہ دے گی جو اسلامی اور ملی لحاظ سے زیادہ اہمیت و افادیت رکھتے ہوں مثلاً تعلیم ،میڈیااور دیہی علاقوں میں چھوٹی صنعتوں کا قیام۔۔۔وغیرہ
ii۔ فلاحی مراکز کا قیام: تحریک گلی محلے کی سطح پر ایک ملک گیر نیٹ ورک قائم کرے گی جو اس علاقے کے کھاتے پیتے لوگوں کی اعانتوں سے ایک فنڈ قائم کرے گا اور اسی علاقے کے مستحق غریبوں ، یتیموں ، بیواؤں اور بیروزگاروں پر خرچ کرے گا تاکہ ان کے علاقے میں کوئی بھو ک سے خود کشی نہ کرے، لوگ بنیادی ضروریات کو نہ ترسیں اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوں۔ اس فنڈ سے علاقے میں فری ڈسپنسریاں قائم کی جائیں گی، غریب بچیوں کی شادیاں کی جائیں گی اور دیگر فلاحی کام کیے جائیں گے۔
iii۔ تحریک عمومی تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات کے ووکیشنل ٹریننگ سنٹر قائم کرے گی تاکہ غریبوں کے بچے وہاں کوئی ہنر سیکھ کر جلد اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔
مجوزہ تحریک کی ضرورت و اہمیت
کسی ذہن میں یہ سوال آسکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں پہلے سے بہت سے دینی ادارے ، تنظیمیں اور جماعتیں موجود ہیں تو اب ایک نئی دینی تحریک کی ضرورت کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کسی جماعت اور تنظیم کے کام کی تنقیص نہیں کرتے لیکن جو تنظیمیں اور ادارے اس وقت موجود ہیں اور کام کر رہے ہیں، ان کی محنت و کوشش کے باوجود معاشرے کے بگاڑ کا حال ہمارے سامنے ہے۔ اس کاواضح مطلب یہ ہے کہ بگاڑ کی قوتیں زیادہ منظم اور طاقتور ہیں اور ان کے برے اثرات کا رد کرنے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ نیز یہ کہ کام کرنے کے جو منہاج یہ جماعتیں اور ادارے اختیار کرچکے ہیں، ان کی ممکنہ افادیت تو حاصل ہوچکی اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی کام کے نئے منہاج سوچے اور آزمائے جائیں۔ موجودہ کاوشوں کے ناکافی ہونے کے دو ثبوت اظہر من الشمس ہیں:
ایک: یہ کہ پاکستانی معاشرہ بڑی تیزی سے مغربی فکر و تہذیب کے سیلاب میں بہتاچلاجا رہاہے اور اسلامی اقدار پر عمل دن بدن کم اور کمزور ہوتا جارہا ہے۔
دوم: دینی عناصر کی اصلاح کی موجودہ پُر امن کوششوں کے غیر مؤثر ہونے اور حکومتوں کے ناروا غیر اسلامی رویوں سے مایوس ہو کر اور تنگ آکر شمال مغربی سرحدی قبائلی علاقوں کے بعض دینی عناصر نے بذریعہ قوت اصلاح کا طریقہ اختیار کر لیاہے ۔ حکومت پاکستان اور ان عناصر کے درمیان مسلح جنگ نے خطے کے پیچیدہ حالات اور یورپ و امریکہ اور بھارت کی موجودگی اور مداخلت کی وجہ سے خطرناک صورت اختیار کر لی ہے جس کے نتیجے میں دونوں طرف سے مسلمانوں کا خون بے دردی سے بہہ رہا ہے۔ مطلب یہ کہ مذکورہ بالا حالات یہ ثابت کرر ہے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کو اسلامی اساس پر قائم رکھنے کے لیے کی جانے والی موجودہ پُر امن کوششیں ناکافی ہیں اور یہ کہ موجودہ حالات پر غور کر کے کام کے نئے راستے نکالنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ چنانچہ ایک نئی دینی تحریک کی ہماری تجویز ایک بہت بڑے خلا کو پُر کرسکتی ہے بشرطیکہ یہ بھر پور قوت سے معاشرے میں روبہ عمل آجائے۔
کیا یہ سب کچھ ممکن ہے؟
کئی لوگ یہ تحریرپڑھ کر تبصرہ کریں گے کہ یہ ایک یوٹوپیا ہے، ایک تصوراتی بات ہے جو قابل عمل نہیں ہے ۔ ہم کہتے ہیں نہیں، یہ بالکل قابل عمل منصوبہ ہے۔ ایسی تحریک چل سکتی ہے بلکہ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور ایسی تحریک ضرور چلنی چاہئے ۔ دیکھئے، آپ کے سامنے مثالیں موجود ہیں، خود پاکستان کی مثال لیجیے۔ اکیلا ایدھی زبردست فلاحی نیٹ ورک چلا رہا ہے ۔ ’اخوت‘ کروڑوں کے چھوٹے قرضے دے کر غریبوں کے چولہے جلا رہی ہے، اسی طرح کا کام بنگلہ دیش میں گرامین بنک کر رہا ہے۔انڈونیشیا کی جماعت نہضۃ العلماء ۱۳ یونیورسٹیاں، بیسیوں کالج اور ہزاروں سکول چلا رہی ہے۔ ترکی کی نورسی تحریک نے اپنے ملک میں تعلیمی اداروں کا جال پھیلانے کے علاوہ وسط ایشیائی ریاستوں میں ۶یونیورسٹیاں اور ۳۰۰ اسکول قائم کردیے ہیں۔ ان کے ۱۰۰ سکول امریکہ میں قائم ہیں جہاں امریکی بچے پڑھتے ہیں۔ غرض یہ نہ کہیے کہ کام نہیں ہوسکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو تو اچھی پلاننگ اور مؤثر لیڈر شپ سے یہ کام ہوسکتے ہیں اور ہمارے ملک میں ، الحمدللہ، ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ چونکہ اس تحریک کی بنیاد دینی ہے لہٰذا سب سے پہلے ایسے علماء کرام کو سامنے آنا چاہئے جو اس طرح کی تحریک کی بنیاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ ساتھ پھراگر اخلاص ، محنت، حکمت اور جذبہ آپ کے ساتھ رہا تو اس سوسائٹی سے آپ کو ایسے افراد ، ان شاء اللہ، بڑی تعداد میں مل جائیں گے جو اس تحریک کو اٹھا سکیں۔ اس کام کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اس موضوع پر سوچ بچار کی جائے۔ ہم نے محض کچھ تجاویز سامنے رکھی ہیں جن میں سے کوئی چیزحرفِ آخر نہیں۔ ضروری ہے کہ بحث و تنقید سے اس تصور کو منقح کیا جائے تاکہ کوئی متفقہ اور قابل عمل بات سامنے آسکے۔
تلخیص مباحث
ہماری گزارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے کو اسلام پر قائم رکھنے کے حوالے سے موجودہ دینی کاوشیں ناکافی ثابت ہورہی ہیں اور وقت کا تقاضا ہے کہ ایک نئی دینی تحریک اٹھے جس کے خدوخال یہ ہوں:
- یہ ایک غیر سیاسی اصلاحی تحریک ہو۔
- اس میں سارے دینی مسالک ، سیاسی مکاتب فکر اور سول سوسائٹی کے لوگ شامل ہوں۔
- یہ تحریک سوسائٹی کے مؤثر طبقات اور افراد کو گراس روٹ لیول پر منظم اور متحرک کرے، ماڈل تعلیمی ادارے اور میڈیا چینلز قائم کرے، بزنس فورم اور فلاحی مراکز قائم کرے اور ان کے ذریعے تعمیر اخلاق اور غربت و جہالت کے خاتمے کی جدوجہد کرے۔ ھذا ما عندنا والعلم عند اللہ۔
مذہبی شدت پسندی اور اس کے سدباب کی حکمت عملی
خورشید احمد ندیم
صدمے کے شدید احساس کے ساتھ مولانا سعید احمد جلال پوری کی شہادت پر لکھنے کے لیے قلم اُٹھایا ہی تھا کہ لاہور میں قتل عام کی خبر نے اپنے حصار میں لے لیا۔
آج وطن کی فضا لہو رنگ ہے۔کراچی میں دو المناک واقعات ایک ہی دن ہوئے۔ گزشتہ روز خبر ملی کہ مولانا عبدالغفور ندیم اپنے بیٹے سمیت گولیوں کی زد میں تھے۔رات گہری ہونے لگی تو مولانا جلال پوری کی شہادت کی خبر سنی۔شب بھر ماضی کی راکھ کریدتا رہا۔ ۱۲؍ربیع الاوّل کا فیصل آباد، ۱۰؍محرم کا کراچی۔ بہت کچھ یاد آیااور نہیں معلوم کب صدمے کی شدت پر نیند نے غلبہ پا لیا۔ آج جمعہ کی نماز کے بعدکالم لکھنے کے لیے بیٹھا ہی تھا کہ ٹیلی ویژن کی سکرین پرنظرپڑی اور لاہور میں ایک اور بڑے حادثے کی خبر نے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ مولانا سعید احمد جلال پوری کی شہادت کا دکھ مزید گہرا ہو گیا۔ جو بات میرے لیے اس سارے معاملے کو مزید المناک بناتی ہے،وہ یہ ہے کہ ان تمام واقعات میں کہیں نہ کہیں مذہب کا ذکر ہے، وہ مذہب جو عالم انسانیت کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کی نوید سنانے آیا ہے۔
ان واقعات میں مذہب دو حوالوں سے زیر بحث ہے۔ایک مسلکی اور دوسرا سیاسی۔ مولانا عبدالغفور ندیم پر حملہ اور فیصل آباد کے واقعات کا رشتہ مسلکی اختلافات سے جوڑا جا رہا ہے۔مولانا سعید احمد جلال پوری کی شہادت پر مجلس تحفظ نبوت نے جن کوملزم ٹھہرایا ہے،ان سے اختلاف بھی مذہبی بنیاد پر تھا۔ مجلس کے ذمہ داران کے پاس ممکن ہے کچھ شواہد ہوں لیکن میرا احساس ہے کہ کسی حتمی رائے کے اظہار سے پہلے تمام ممکنہ پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ یہ سب لوگ پاکستانی ہیں اور مسلمان بھی۔ہم نے کم و بیش تین عشرے اس معرکہ آرائی میں صرف کر ڈالے کہ بندوق کے زور پر دوسرے مسلک والوں کو مٹایا جا سکتا ہے۔ آج تیس برس بعد ہمیں حساب کرنا چاہیے کہ ہم نے اپنے کتنے لوگ گنوائے ہیں اور دوسروں کو ختم کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ میرا خیال ہے مسلکی تشدد میں گرفتار ہر گروہ جب اس کا جائزہ لے گا تو اسے احساس ہو گا کہِ اس کا حاصل زیاں کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے ان سب لوگوں سے میری درخواست ہوگی کہ وہ رک جائیں اور تحمل کے ساتھ یہ سوچیں کہ کیا اس حکمت عملی پر اصرار درست ہے؟ میری یہ بھی خواہش ہوگی کہ مسلکی بنیاد پر قائم تنظیمیں مل بیٹھیں اور ایک ضابط اخلاق کا تعین کریں۔ اس ضابطہ اخلاق میں چند نکات کی حیثیت بنیادی ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر:
- ہر مسلک کے لوگ اپنے نقطہ نظر کو علمی طور پر بیان کریں گے اور اسے دعوت تک محدود رکھیں گے۔
- دوسرے مسلک کے نزدیک برگزیدہ شخصیات کو سب و شتم کا عنوان نہیں بنائیں گے۔ اگر کسی گروہ میں سے کوئی فرد تحریراً، تقریراً یا کسی اور طرح سے اس جرم میں ملوث پایا گیا تو وہ گروہ اس سے اعلانِ برأت کرے گا اور اس کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔
- ہر مسلکی اجتماع پبلک مقامات کے بجائے عبادت گاہوں میں منعقد ہو گا۔
- جمعہ اور عوامی خطبات میں مسلکی اختلافات کو موضوع بنانے سے اجتناب کیا جائے گا۔
یہ آخری بات کچھ ایسی مشکل نہیں ہے، اگر کوئی علمی مباحث اور اصلاحی خطبات کے فرق کو جانتا ہو۔اس کی ایک مثال مسلکِ دیوبند کے نامور عالم مولانا سرفراز خان صفدر کا طرزِ عمل ہے۔ ان کا اکثر تصنیفی کام ان موضوعات پر مشتمل ہے جن کا تعلق مسلکی اختلافات سے ہے، لیکن اگر ان کے جمعہ اور عوامی خطبات کو دیکھا جائے تو خیال ہوتا ہے کہ جیسے یہ اختلاف کبھی ان کا موضوع نہیں رہا۔
اگر کسی ثالث کی موجودگی میں مسلکی مبلغین مل بیٹھیں اور ایسے نکات پر مشتمل ایک ضابطہ اخلاق تشکیل دے سکیں تو میرا خیال ہے کہ اس میں مسلمانوں کے لیے خیر ہے۔
لاہور کے واقعات کا تعلق سیاسی اختلاف سے ہے۔ہمارے ہاں ایک گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ پاکستان کی فوج امریکا کی لڑائی لڑ رہی ہے اور یوں اس کے خلاف لڑنا مسلمانوں کے مفاد کا تقاضا ہے کیونکہ امریکا مسلمانوں کا دشمن ہے۔اس مقدمے کواگر ہم کچھ دیر کے لیے درست مان لیں اور یہ سوچیں کہ پاکستانی فوج کو کمزور کرنے سے امریکا کو فائدہ ہے یا نقصان؟ہم اس سوال پر جتنا غور کریں گے، اس نتیجے تک پہنچیں گے کہ اس سے پاکستان کمزور ہوگا، پاکستانی فوج کمزور ہوگی اور یہ وہ دیرینہ خواب ہے جو اسلام اور پاکستان کے دشمن مدت سے دیکھ رہے ہیں۔ پھر یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ لاہور جیسے واقعات میں بے شمار بے گناہ مسلمان مارے جاتے ہیں۔ کیا کوئی مسلمان ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی جان لے اور یہ سمجھے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے حضور میں اپنے اقدام کا دفاع کر سکے گا؟ جو لوگ ان واقعات میں ملوث ہیں، انہیں ضرور اس سوال پر غور کرنا چاہیے۔ اگر انہیں پاکستانی حکومت اور فوج سے شکایت ہے تو اس کا ایک طریقہ ہمارے پاس موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ جمہوری طریقے سے جدوجہد کرتے ہوئے، ان لوگوں کو اقتدار تک پہنچایا جائے جو ان امور میں دوسری رائے رکھتے ہیں۔اس سے ممکن ہے کامیابی نہ ہو، لیکن یہ ضرور ہوگا کہ لوگ اﷲ تعالیٰ کے حضور میں مواخذے سے بچ جائیں گے اور ان کے ہاتھوں پر کسی بے گناہ کا خون نہیں ہوگا۔ موجودہ حکمت عملی کا یہ نتیجہ تو ہمارے سامنے ہے کہ دنیا کا وہ واحد ملک جو اسلام کو اپنے وجود کی اساس مانتا ہے، کمزور سے کمزور تر ہو رہا ہے۔
پاکستان کی حکومت میں خرابیاں ہو سکتی ہیں۔ اس ملک میں ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو ظالم ہیں یا جو ہمارے مسلک کے لیے نقصان دہ ہیں، لیکن اس میں پاکستان کا کوئی قصور نہیں۔ہم نے اگر پاکستان میں اپنے خوابوں کی تعبیر تلاش کرنی ہے تو اس اقدام سے گریز کرنا ہوگا جس سے پاکستان کمزور ہوتا ہے۔ یہ ۱۰؍ محرم کا واقعہ ہو یا ۱۲؍ربیع الاوّل کا حادثہ، مولانا عبدالغفور ندیم پر حملہ ہو یا مولانا سعید احمد جلال پوری کی شہادت، لاہور کا سانحہ ہو یا پشاور کا، ان سب کا ایک نتیجہ ہے کہ پاکستان بطور ملک اور پاکستانی بحیثیت قوم کمزور سے کمزور تر ہو رہے ہیں۔ اگر ہم اسلام اور پاکستان سے مخلص ہیں تو ہمیں ہر ایسے اقدام سے گریز کرنا ہو گا جس کے نتیجے میں پاکستان کمزور ہوتا ہے۔ اسلام کو پاکستان کی مضبوطی کا عنوان بننا چاہیے، کمزوری کا نہیں۔
کالعدم تنظیمیں اور حکومت
گورنر پنجاب کو تو معذور سمجھنا چاہیے، اس لیے ان کی گل افشانی پر کچھ کہنا وقت کا بہترمصرف نہیں۔ صاحب حال، نہیں معلوم کب اناالحق کانعرہ بلندکر دے۔ اس بنا پرانہوں نے کالعدم تنظیموں کے بارے میں جو کچھ کہا، اس پر مجھے کچھ نہیں کہنا۔ تاہم وزیر داخلہ کا معاملہ دوسرا ہے کہ انہیں میں ذی شعور اور ذی فہم خیال کرتا ہوں۔ اس لیے جب انہوں نے کالعدم تنظیموں کو یہ وارننگ دی کہ وہ سیاسی سرگرمیوں سے دور رہیں تو مجھے ان کی بصیرت پر شبہ ہونے لگا۔ سادہ سا سوال ہے کہ یہ تنظیمیں اگر سیاسی میدان سے دور رہیں گی تو پھر کیاکریں گی؟ ظاہر ہے وہی کچھ جس پر اس وقت وزیر داخلہ کو اعتراض ہے۔ کالعدم تنظیمیں کیا کہتی اور کیا کرتی ہیں؟ اس سوال پر غور کرنے کے بعد یہ معلوم ہو سکے گا کہ مجھے وزیر داخلہ کی بصیرت پر کیوں شبہ ہوا ہے۔
اس وقت ملک میں جن تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، وہ دو طرح کی ہیں۔ ایک وہ جو فرقہ وارانہ اور مسلکی معاملات میں ایک رائے رکھتی ہیں۔ دوسری وہ جو سیاسی نقطہ نظر رکھتی ہیں۔ ان دونوں طرح کی تنظیموں پر یہ اعتراض ہے کہ ان کی حکمت عملی تشدد پر مبنی ہے جس کی وجہ سے ریاست کا قانون انہیں گوارا نہیں کرتا۔ فرقہ واریت کے حوالے سے جو تنظیمیں کالعدم قرار دی گئی ہیں، ان میں سے ایک کا تعلق اہل سنت اور دوسری کا اہل تشیع سے ہے۔ ان تنظیموں نے جو مؤقف اپنایا ہے، وہ نیا نہیں۔اس سے پہلے بھی ملک میں ایسی تنظیمیں موجود تھیں اور افراد بھی جو ایک دوسرے کے بارے میں اسی طرح کے خیالات رکھتے تھے۔ اس طرح کی تنظیمیں کبھی کالعدم نہیں قرار پائیں کیونکہ ان کی حکمت عملی تشدد پر مبنی نہیں تھی۔وہ اپنی بات تحریر کے ذریعے، تقریر سے یا کسی موجود ذریعہ ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے دوسروں تک پہنچاتے تھے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مؤقف میں شدت ہوتی تھی لیکن اس کا ظہور ان کے طرزِ عمل میں نہیں ہوتاتھا۔
مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب بعض ایسی تنظیمیں وجود میں آئیں جنہوں نے اپنے نقطہ نظر کے فروغ کے لیے تشدد کو بطور حکمت عملی اختیار کیا۔ اس کے بعد ریاست کو مداخلت کی ضرورت پیش آئی اور انہیں کالعدم قرار دیا گیا۔اس سارے معاملے میں جو بات قابلِ غور ہے، وہ یہ ہے کہ جب کالعدم تنظیموں پر پابندی لگی تو اس سے یہ تو ہوا کہ وہ علانیہ اپنی سرگرمیوں کوجاری نہیں رکھ سکیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کانقطہ نظر بھی کالعدم ہو گیا۔ وہ نقطہ ہائے نظر اپنی جگہ موجود رہے اور جب انہیں تنظیمی وحدت میں ظہور کرنے کی اجازت نہ ملی تو انہوں نے خفیہ سرگرمیاں شروع کر دیں۔ تشدد ظاہر ہے کہ پہلے بھی اعلانیہ نہیں ہوتا تھا۔ لہٰذا تشدد کا سلسلہ تو روکا نہ جا سکا، البتہ ان تنظیموں کو ایک خاص نام کے ساتھ کام کرنے سے روک دیا گیا۔اب اس مسئلے کا حل یہ تھا کہ ریاست ان تنظیموں کو پابند کرتی کہ وہ ایک ضابطہ اخلاق بنائیں اور اس کے تحت اعلانیہ اپنی سرگرمیوں کا آغاز کریں۔ اس سے ریاست کے لیے یہ جاننے کا موقع تھا کہ کیا بات خلافِ قانون ہو رہی ہے اور وہ اس پر قانونی کاروائی کر سکتی تھی۔ ریاست کے قانون کے تحت، اپنی بات کہنے کا ایک جائز طریقہ سیاست ہے۔ حکومت اگر حکیمانہ طرزِ عمل اختیار کرتی تو ان تنظیموں کا رخ سیاست کی طرف کر دیتی۔
سیاست کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ آدمی میں وسعت پیدا کرتی ہے اور اس سے یہ موقع پیدا ہوتا ہے کہ آپ دوسرے کے نقطہ نظر کو جانیں اور ایک دوسرے کے ساتھ سماجی نظم و ضبط بڑھائیں۔سیاسی عمل جب جاری رہتا ہے تو اس سے تشدد میں کمی آتی ہے کیونکہ اس سے گھٹن پیدا نہیں ہوتی۔کالعدم تنظیموں کے افراد نے جب سیاست میں حصہ لینا شروع کیا تو یہ ایک مثبت پیش رفت تھی۔ مثال کے طور پر سپاہ صحابہ یا تحریک جعفریہ سے متعلق شخصیات جب سیاست میں متحرک ہوئیں تو ایک طرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ جیسی قومی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے عمل کا آغاز ہوا اور دوسری طرف وہ میڈیا پر دوسری تنظیموں اور جماعتوں کی قیادت کے ساتھ مکالمے کے ایک عمل کا حصہ بنے ۔مکالمہ وہ ایک مثبت عمل ہے جو ایک دفعہ شروع ہو جائے تو پھر تشدد میں یقیناًکمی آنے لگتی ہے۔اس کا ایک اور فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک تنظیم کا نقطہ نظر اور طرزِ عمل دونوں قوم کے سامنے زیرِ بحث آتے ہیں اور جو لوگ اس حوالے سے کسی غلط یا بے بنیاد مؤقف پر کھڑے ہوتے ہیں، وہ قوم کی نظروں میں نا قابلِ اعتبار ٹھہرتے ہیں۔ حکومت میں اگر بصیرت ہوتی تو وہ اس تبدیلی کا خیر مقدم کرتی اور ان تنظیموں کو یہ دعوت دیتی کہ وہ مکالمے کا حصہ بنیں اور اپنی بات کو دلائل کے ساتھ قوم کے سامنے رکھیں۔میرا خیال اس سے خود بخود اس تشدد میں کمی آتی، حکومت جسے ختم کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔
حکومت کو اس معاملے میں جو کردار ادا کرنا چاہیے، اس کا تعلق ایک ضابطہ اخلاق کی تشکیل سے ہے یا پھر اس باب میں موجود قوانین کے نفاذ سے۔ فرقہ وارانہ اختلاف نہ تو نئے ہیں نہ انہیں ختم کیا جا سکتا ہے،انہیں صرف آداب کا پابند بنانے کی ضرورت ہے۔واقعہ یہ ہے کہ فرقہ واریت کے حوالے سے تشدد اس طرح در آتا ہے جس طرح عام سیاسی و سماجی معاملات میں تشدد کا آغاز ہوتا ہے۔جب کسی ملک میں قانون مغلوب ہو جاتا ہے یا ظالم کے سامنے قانون بے بس ہوتا ہے اور مظلوم کی داد رسی نہیں کرتا تو پھر لوگ قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں۔ پھر وہ اپنے ہاتھوں سے ظلم ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جب مذہبی معاملات میں قانون متحرک نہیں ہوتا اور لوگوں کے مذہبی جذبات کے احترام سے معذور ہوتا ہے تو پھر لوگ اپنے جذبات کی تسکین کے لیے خود میدان میں نکل آتے ہیں۔مثال کے طور پر اس ملک میں قانون موجود ہے کہ کہ مسلمانوں کی برگزیدہ شخصیات پر سب و شتم ممنوع ہے۔ جب ایسے واقعات ہوتے ہیں اور قانون مجرموں کو سزا نہیں دیتا تو پھر تشدد جنم لیتا ہے۔حکومت اگر اس معاملے میں سنجیدہ ہے تو اسے تین کام کرنے چاہییں:
۱۔ مذہبی حوالے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
۲۔ حکومت اس کی حوصلہ افزائی کرے کہ یہ جماعتیں دعوتی، علمی اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہوں اور اعلانیہ کام کریں۔
۳۔ ان کی مشاورت سے ایک ضابطہ اخلاق وضع کیا جائے جس پر عمل درآمد کو حکومتی انتظام سے یقینی بنایا جائے۔
سیاسی حوالے سے حکومت نے لشکر طیبہ پر پابندی لگائی ہے ، ہمیں معلوم ہے کہ یہ پابندی دوسرے ممالک کے مطالبے پر لگائی گئی ہے۔ان سے امریکا کو شکایت تھی اور بھارت کو۔ وہ داخلی طور پر کسی پر تشدد کاروائی میں ملوث نہیں رہے۔ ان کے حوالے سے اربابِ اقتدار کو یہ دیکھنا چاہیے کہ حکومت کی بین الاقوامی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریاں کیا ہیں اور وہ انہیں کس حد تک ادا کر رہی ہے۔جہاں تک جماعت الدعوہ کا تعلق ہے تو وہ اصلاً دعوت اور خدمت خلق کا کام کرتی ہے، اس لیے اس پر پابندی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اسی طرح خود حکومت یہ کہتی ہے کہ حافظ سعید صاحب پر بھارت جو الزام عا ئد کر تا ہے،اس کے تسلی بخش ثبوت مو جو دنہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو حکومت کو پابندی کا حق ہے نہ گرفتاری کا۔ بظاہر اس معاملے میں حکومت کا مقدمہ اتنا کمزور ہے کہ اگر جماعت الدعوہ عدالت میں چلی جائے تو شاید حکومت اپنا موقف ثابت نہ کر سکے۔
اس دراز نفسی کا حاصل یہ ہے کہ اگر کالعدم جماعتیں تشدد کی جگہ سیاسی میدان میں کام کرتی ہیں تو حکومت کو اس کی حوصلہ افزائی کر نی چا ہیے اور جن کے بارے میں اس کا اپنا موقف یہ ہے کہ ان کے خلاف کو ئی ثبوت نہیں تو ان پر اسے پا بندی کا کوئی حق نہیں۔
طالبان اور شہباز شریف
جناب شہباز شریف نے الفاظ کے انتخاب میں ممکن ہے احتیاط روا نہ رکھی ہو، لیکن دانا الفاظ کے پیچ و خم میں نہیں الجھتے۔ ان کی نظر مفہوم پر ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے مفہوم اور معانی واضح ہیں اور ان پر بھی بات ہونی چاہیے!
شہباز شریف کی تقریر اور پھر اس کی شرح کو سامنے رکھیں تو ان کا کہنا یہ ہے کہ طالبان بظاہر جو خیال پیش کر رہے ہیں،انہیں اس پر اعتراض نہیں ہے لیکن طالبان نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے، ا نہیں اس سے اتفاق نہیں ہے۔ میرا تأثر ہے کہ اس وقت پاکستانی عوام کی اکثریت کا مؤقف بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ دیگر باتوں کے ساتھ طالبان کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان کو ایک خود مختار ملک کی طرح اپنی ترجیحات خود متعین کرنی چاہییں اور امریکا کی غلامی سے خود کو آزاد کرنا چاہیے اور یہ کہ ہمیں اس خطے میں امریکا کی جنگ نہیں لڑنی چاہیے۔
اس مؤقف پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ سوال یہ ہے، اس چاہیے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ طالبان بزبانِ حال اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ ایک منظم گروہ کو مسلح کرکے حکومت پر قبضہ کر لینا چاہیے اور اس طرح نظامِ حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لینی چاہیے۔ اگر اس میں ملک کی فوج مزاحم ہوتو اسے ہدف بنانا چاہیے۔ اگر خود کش حملوں کے ذریعے اس فوج کو کمزور کیا جا سکتا ہے، تو یہ راہ بھی اپنائی جا سکتی ہے۔اس کے نتیجے میں اگر عام لوگ مرتے ہیں تو اسے ایک ناگزیر نقصان کے طور پر قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ گیہوں کے ساتھ گھن تو پستا ہی ہے۔مزید یہ کہ بین الاقوامی قوانین اور سرحدوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہم انہیں قبول کرنے پر آمادہ نہیں اور انہیں راہ میں حائل نہیں ہونے دیں گے۔
شہباز شریف کہتے ہیں کہ انہیں اس حکمت عملی سے اتفاق نہیں۔ وہ جمہور ی طریقے سے تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ اس پر اہلِ دانش میں گفتگو ہونی چاہیے کہ تبدیلی کیسے ممکن ہے۔ اگر ہم معاشرے میں مسلح جدوجہد کے ذریعے تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں تو عملاً یہ کس حد تک ممکن ہے؟ پھریہ کہ اس طرح کیا کسی کوشرعاً اور اخلاقاً حق اقتدار حاصل ہو جاتا ہے؟
دوسرے سوال کو پہلے دیکھیے! اگر بندوق اور اسلحہ کے زور پر اقتدار پر قبضہ جائز ہے تو پھر ملک میں آنے والی تمام فوجی حکومتوں پر کوئی اخلاقی اعتراض نہیں اُٹھایا جا سکتا۔ یہی نہیں، اس کی جلو میں اور بہت سے سوالات بھی ہمارے منتظر ہیں۔
ہم آج ایک عمرانی معاہدے کے تحت ایک ریاست کی صورت میں رہ رہے ہیں۔ یہ معاہدہ ۱۹۷۳ء کا آئین ہے۔اس ملک میں بسنے والے تمام لوگوں نے اپنے نمائندوں کے ذریعے اس کو قبول کیا ہے۔اس معاہدے میں یہ طے ہے کہ ملک میں تبدیلی کیسے آئے گی۔اخلاقی اور شرعی اعتبار سے اس معاہدے سے روگردانی جائز نہیں ہے۔ اگر اس پس منظر میں مسلح جدوجہد کا جائزہ لیا جائے تو یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ اس کو کسی طرح قبول نہیں کیا جا سکتا۔
جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے تو اسے تاریخی تناظر میں سمجھنا چاہیے۔ تاریخ کا کہنا یہ ہے کہ تشدد پر مبنی تحریک دنیا کے کسی معاشرے میں کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ یہ تحریک صحیح مؤقف پر اُٹھی ہو یا غلط بنیاد پر، اس سے یہ تو ہوا کہ صفحہ ہستی پر ایک عرصے کے لیے ہنگامہ برپا رہا، لیکن دس بیس سال سے زیادہ اس کی عمر نہیں ہوئی۔خوارج ہوں یا مختار ثقفی، یہ ابن سبا کی تحریک ہو یا سعودی حکومت کے خلاف بیسویں صدی کی بغاوت، ریاست کے مقابلے میں ایسی تحریکیں ہمیشہ ناکام رہی ہیں۔ تاہم ان کے نتیجے میں معاشرہ جس عذاب اور فساد سے گزرتا ہے، اس کی تلافی مدتوں نہیں ہو سکتی۔اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ طالبان کا سیاسی مؤقف اگر درست ہو تو بھی اس حکمت عملی سے کامیابی ممکن نہیں۔میرا خیال ہے کہ شہباز شریف بھی شاید یہ کہنا چاہ رہے ہیں۔
شہباز شریف صاحب کی گفتگو پر البتہ یہ سوال ضرور اُٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا وہ فی الواقع یہی مؤقف رکھتے ہیں اور اگر کل اقتدار ان کے حوالے کر دیا جائے تو کیا قوم یہ امید کر سکتی ہے کہ وہ طالبان کے مؤقف کے مطابق تبدیلی لے آئیں گے، یعنی پاکستان امریکی اثرات سے آزاد ہو جائے گااور یہ ملک اپنے فیصلوں میں خود مختار ہوگا؟ میرا خیال ہے، یہ بات کہنا اتنا آسان نہیں ہے۔واقعہ یہ ہے کہ شہباز شریف جانتے ہیں کہ اس ملک کے عام آدمی کی سوچ یہی ہے۔ سیاست دان عوامی جذبات کا سوداگر ہوتا ہے،وہ ان کی رعایت سے گفتگو کرتاہے۔شہباز شریف بھی یہی کر رہے ہیں۔اس طرح کا ایک مظاہرہ چند روز پہلے قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف نے بھی کیا تھا۔ حامد کرزئی جب پاکستان کے دورے پر آئے تو وہ اس ضیافت میں شریک نہیں ہوئے جو ان کے اعزاز میں وزیر اعظم نے دی۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ کرزئی پاکستان کے خلاف بیان دیتے ہیں اور امریکی ڈکٹیشن پر چلتے ہیں، اس لیے وہ احتجاجاً اس دعوت میں شریک نہیں ہوں گے۔ ان کی خدمت میں یہ سادہ سا سوال رکھا جا سکتا ہے کہ امریکا سے آنے والے ہر تیسرے درجے کے افسر کے ساتھ ملاقات کے لیے وہ شریف برادران کے شانہ بشانہ پنجاب ہاؤس میں موجود ہوتے ہیں۔ اب ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے کسی امریکی افسر سے محض اس بنا پر ملنے سے انکار کیا ہو کہ وہ پاکستان کے مفاد کے خلاف کاروائیوں میں ملوث ہیں۔
شہباز شریف صاحب بھی اگر طالبان کی تائید کررہے ہیں تو یہ ایک سیاسی ضرورت ہے۔ جہاں تک اقتدار کی ضروریات ہیں تو وہ ان سے واقف ہیں اور ان کو معلوم ہے کہ اس وقت تیسری دنیا کا کوئی ملک خود مختاری کا دعویٰ تو کر سکتا ہے، اپنے طرز عمل سے اس کی دلیل فراہم نہیں کر سکتا۔ ان کو معلوم ہے کہ کارگل کی لڑائی بند کرانی ہو تو وزیر اعظم پاکستان کو امریکا کے صدر ہی سے درخواست کرنی پڑتی ہے۔ اس بنا پر میر اکہنا یہ ہے کہ شہباز شریف صاحب جو کچھ کہہ رہے ہیں، اسے بہت سنجیدہ نہ لیا جائے۔اس میں جو بات قابل غور ہے، اس پر توجہ دی جائے اور وہ میں نے اس کالم میں لکھ دی ہے۔اہل سیاست کی اپنی ضروریات ہیں۔ان کے بیانات کو اس حوالے سے دیکھنا چاہیے۔جو کچھ گورنر صاحب فرما رہے ہیں، اس پربھی کسی سنجیدگی کی ضرورت نہیں۔ان کا اپنا کام ہے، سو وہ ان کو مبارک۔ کارخانہ سیاست میں اس طرح کی رونق رہے گی۔
یہ چمن یوں ہی رہے گا اور ہزاروں جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اُڑ جائیں گے
(بشکریہ ’’اوصاف‘‘ اسلام آباد)
ایک تربیتی ورک شاپ کی روداد (۱)
محمد عمار خان ناصر
جنوری ۲۰۱۰ء کے آغاز میں مجھے پاکستان کے دینی جرائد کے مدیران اور نمائندوں کے ایک گروپ کے ہمراہ نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں ’’میڈیا کے چیلنج اور پیغام کی اثر انگیزی‘‘کے زیر عنوان منعقد کی جانے والی ایک سہ روزہ تربیتی ورک شاپ (۳ تا ۵ جنوری ۲۰۱۰ء) میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ اس ورک شاپ کا اہتمام اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے الائنس آف سویلائزیشنز (AoC) نے کیا تھا۔ اس ادارے کے قیام کی تجویز ۲۰۰۵ء میں اقوام متحدہ کی ۵۹ ویں جنرل اسمبلی میں اسپین کے صدر Jos233 Luis Rodrguez Zapatero نے ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان کی تائید کے ساتھ دی تھی۔ اس کے پس منظر میں بنیادی طو رپر یہ سوچ کارفرما ہے کہ دنیا میں مختلف تہذیبوں کے مابین تصادم کا نظریہ درست نہیں اور انسانی حیثیت سے تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کی اقدار اور ضروریات آپس میں ملتی جلتی ہیں، اس لیے تہذیبوں کے مابین اختلافات کے بجائے مشترکات کو اجاگر کرنا چاہیے اور اختلاف اور تنوع کو ایک منفی چیز سمجھنے کے بجائے انسانوں کے باہمی استفادہ اور ذہنی وعملی ترقی کا ایک ذریعہ سمجھنا چاہیے۔ الائنس آف سولائزیشنز کے ساتھ اس ورک شاپ کے انتظام وانصرام میں ایک دوسری بین الاقوامی تنظیم سرچ فار کامن گراؤنڈ (SFCG) شریک تھی جو مذکورہ مقاصد ہی کے لیے سرگرم ہے۔ اس کا ہیڈ کوارٹر بلجیم میں ہے اور بہت سی دوسری سرگرمیوں کے علاوہ یہ ’’انسانیت میں شریک کار‘‘ (Partners in Humanity) کے عنوان سے ایک ہفتہ وار نیوز سروس بھی جاری کرتی ہے جس میں تہذیبی، مذہبی اور سیاسی اختلافات کے حوالے سے ایسے تجزیاتی مضامین شائع کیے جاتے ہیں جو مسئلے کے پرامن حل کے لیے مفید ہوں۔ یہ نیوز سروس پانچ زبانوں میں شائع ہوتی ہے اور http://www.commongroundnews.org/ پر اس کے مضامین ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ ورک شاپ میں الائنس آف سولائیزیشنز کی نمائندگی دانش مسعود جبکہ سرچ فار کامن گراؤنڈ کی نمائندگی راشد بخاری اور ان کے معاون مظہر حسین کر رہے تھے۔ واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک آئی سی آر ڈی کے نمائندے اظہر حسین اور اسلام آباد کے کہنہ مشق صحافی اور روزنامہ ’’آج کل‘‘ کے کالم نگار ارشاد محمود اس سفر میں بطور ٹرینر ہمارے ساتھ رہے۔
ورک شاپ میں پاکستان کے بہت سے نمایاں جرائد کے نمائندے شامل تھے، مثلاً ماہنامہ ’’السعید‘‘ ملتان کے مدیر طاہر سعید کاظمی، ماہنامہ ’’عرفات‘‘ لاہور کے مدیر راغب حسین نعیمی، ماہنامہ ’’منہاج القرآن‘‘ لاہور کے مدیر ڈاکٹر علی اکبر الازہری، ماہنامہ ’’پیام‘‘ اسلام آباد کے مدیر ثاقب اکبر، ماہنامہ ’’الخیر‘‘ ملتان کے مدیر مولانا محمد ازہر، ماہنامہ ’’العصر‘‘ پشاور کے نمائندہ مولانا حسین احمد، ماہنامہ ’’ضیاے حرم‘‘ کے نائب مدیر محبوب الرحمن، روزنامہ اوصاف اور روزنامہ اسلام کے کالم نگار مولانا عبد القدوس محمدی، ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کے مدیر حافظ احمد شاکر، ماہنامہ ’’وائس آف پیس‘‘ کے ایڈیٹر قاضی عبدالقدیر خاموش، ماہنامہ ’’نداء الاسلام‘‘ پشاور کے مقصود احمد سلفی، ہفت روزہ ’’حدیبیہ‘‘ کراچی کے سید عامر نجیب، ماہنامہ ’’میثاق‘‘ لاہور کے وسیم احمد، ’’ندائے خلافت‘‘ کے مرزا محمد ایوب بیگ، ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ اور ماہنامہ ’’آئین‘‘ لاہور کے مرزا محمد الیاس، پندرہ روزہ ’’صحیفہ اہل حدیث‘‘ کراچی کے عبد الخالق آفریدی اور ماہنامہ ’’اذان فجر‘‘ لاہور کے مولانا محمد عزیر روحانی بازی۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے مختلف قومی ومقامی اخبارات وجرائد کی نمائندگی کرتے ہوئے قاضی عبد الصمد، عبد الواحد شہوانی اور عبد القادر قریشی نے بھی اس ورک شاپ میں شرکت کی۔ ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے نائب مدیر امجد عباسی اور ماہنامہ ’’محدث‘‘ کے مدیر حافظ حسن مدنی کسی وجہ سے اس ورک شاپ کے لیے نیپال کا سفر نہ کر سکے، البتہ وہ اس ورک شاپ کے پہلے حصے میں، جو اکتوبر ۲۰۰۹ء میں بھوربن کے پی سی ہوٹل میں منعقد کیا گیا تھا، شریک تھے اور اس حوالے سے حسن مدنی صاحب کے تفصیلی تاثرات ’’محدث‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں شائع ہو چکے ہیں۔
پروگرام کے اصل شیڈول کے مطابق ان سب حضرات کو ۲ جنوری کو اسلام آباد سے کھٹمنڈو کی فلائٹ پر اکٹھے سفر کرنا تھا، لیکن دھند کی وجہ سے لاہور سے تعلق رکھنے والے حضرات بروقت اسلام آباد نہ پہنچ سکے، چنانچہ وہ بعد میں ۴ جنوری کو نیپال پہنچے۔ باقی سب حضرات ایک ہی فلائٹ سے سفر کر رہے تھے۔ اتنی نمایاں تعداد میں ڈاڑھی اور ٹوپی سے مزین مذہبی لوگوں کا ایک جگہ جمع ہونا لوگوں کے لیے اچنبھے کا باعث بنا رہا۔ ہم اسلام آباد سے پی آئی اے کے جس جہاز پر بیٹھے، اس کے عملے کے ایک آفیسر خاصی معلومات رکھنے والے اور باتونی قسم کے تھے۔ وہ اڑان کے آغاز میں ہی میرے اور وفاقی وزیر مذہبی امور جناب حامد سعید کاظمی کے چھوٹے بھائی اور ماہنامہ ’’السعید‘‘ ملتان کے مدیر برادرم طاہر سعید کاظمی کے سامنے اپنے لیے مخصوص نشست پر بیٹھ گئے اور سارا راستہ دلچسپ باتیں کرتے رہے۔ بیٹھتے ہی گفتگو کا آغاز انھوں نے ذرا تحیر آمیز انداز میں اس سوال سے کیا کہ اتنے سارے مولوی حضرات اکٹھے ہو کر نیپال کس غرض سے جا رہے ہیں؟ مجھے مذاق سوجھا اور میں نے ان سے کہا کہ ہم اپنا پروگرام وقت سے پہلے نہیں بتایا کرتے۔ میرے جواب سے ان کے چہرے پر کچھ پریشانی کے آثار دکھائی دینے لگے تو میں نے فوراً وضاحت کی کہ آپ بے فکر رہیں، یہ صرف ایک مذاق تھا۔ نیپال میں بھی ہمارا گروپ اپنی مخصوص مذہبی شناخت کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا، بلکہ اپنی والدہ کے ہمراہ غالباً سیاحت کی غرض سے آئی ہوئی ایک نوجوان انگریز لڑکی نے، جو اسی ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھی، ہمارے منتظم دوست مظہر حسین سے باقاعدہ دریافت کیا کہ یہ اتنے سارے مولوی صاحبان یہاں کر رہے ہیں؟ اس نے کہا کہ وہ اتنے سارے باریش لوگوں کو دیکھ کر خوف زدہ ہو گئی ہے اور اس نے اپنی والدہ سے کہا ہے کہ وہ صورت حال پر غور کریں۔ مظہر حسین نے اسے اس گروپ کی آمد کا پس منظر بتایا تو اسے کچھ اطمینان محسوس ہوا اور اس نے کہا کہ اچھا، آپ ان لوگوں کو اعتدال پسند بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔
ورک شاپ کا بنیادی موضوع، جیسا کہ اس کے عنوان سے ظاہر ہے، یہ تھا کہ ابلاغ عامہ کے دائرے میں کیا چیلنجز درپیش ہیں اور مذہبی صحافت سے وابستہ لوگ اس میں کیا کردار ادا کر سکتے اور اپنے پیغام کو کیسے موثر طریقے سے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ عنوان اپنی نوعیت کے اعتبار سے خاصا وسیع تھا، تاہم ورک شاپ میں عملاً جس نکتے پر زیادہ ارتکاز رہا، وہ یہ تھا کہ نفسیاتی اور سماجی اعتبار سے ’’شناخت‘‘ کی اہمیت کیا ہے، کسی گروہ کا سماجی رویہ اور کردار متعین کرنے میں اس کا کس قدر دخل ہے، شناخت کے قائم رہنے یا کسی خطرے کی زد میں آنے کا سوال کیسے سماجی سطح پر مختلف گروہوں کے مابین تنازعات کو جنم دیتا ہے اور ایسے تنازعات کو حل کرنے کی تدابیر کیا ہو سکتی ہیں۔ ورک شاپ کے پہلے حصے (اکتوبر ۲۰۰۹ء) میں اظہر حسین کے علاوہ سرچ فار کامن گراؤنڈ کے راشد بخاری اور ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور کے حافظ عبد الغنی اور سلیم قیصر عباس نے الگ الگ نشستوں میں متعلقہ عنوانات پر گفتگو کی تھی، تاہم کھٹمنڈو کی ورک شاپ میں گفتگو کی ذمہ داری زیادہ تر اظہر حسین نے انجام دی، جبکہ راشد بخاری اور دانش مسعود وقتاً فوقتاً ان کا ساتھ دیتے رہے۔ جناب ارشاد محمود نے ایک مستقل نشست میں اس موضوع پر تفصیلی اور معلومات افزا گفتگو کی کہ مذہبی صحافت سے وابستہ لوگ اگر عمومی صحافت میں اپنی جگہ بنانا چاہیں تو اس کے لیے انھیں کون سے راہ نما اصولوں کو سامنے رکھنا چاہیے۔
اظہر حسین پاکستانی ہیں۔ ان کی پیدائش اور ابتدائی تعلیم وتربیت کراچی میں ہوئی۔ تقریباً چار دہائیاں قبل وہ اپنے والد کے مشورے پر امریکہ منتقل ہو گئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ چالیس سال قبل یہاں کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ان کے والد نے اپنی بصیرت کی بنا پر اس بات کی پیش بینی کر لی تھی کہ پاکستانی معاشرہ جن خطوط پر آگے بڑھ رہا ہے، اس کا نتیجہ شدید نسلی ولسانی منافرتوں کی صورت میں نکلے گا، چنانچہ انھوں نے ایک تفصیلی خط لکھ کر انھیں آنے والے منظر کی ایک جھلک دکھائی اور انھیںآمادہ کیا کہ وہ امریکہ منتقل ہو جائیں، البتہ انھوں نے انھیں اس بات کا بھی پابند کیا کہ وہ دنیا میں جہاں بھی رہیں، پاکستان اور پاکستانی معاشرے کی بہتری کے لیے کوشش کرتے رہیں اور جس قدر ممکن ہو، اس میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں۔
اظہر حسین اس وقت امریکہ میں قائم ایک تھنک ٹینک انٹر نیشنل سنٹر فار ریلجن اینڈ ڈپلومیسی (ICRD) کے نائب صدر ہیں۔ مغرب کے سماجی علوم میں تنازعات کے تصفیے (Conflict Resolution) کے موضوع سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں اور اس موضوع سے متعلق نظری وعلمی بحثوں کے علاوہ دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں پائے جانے والے لسانی، مذہبی اور نسلی تنازعات کی نوعیت اور صورت حال پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ جس ادارے سے وابستہ ہیں، اس کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ دنیا میں موجود مختلف تنازعات کے حل کے لیے مذہب اور مذہبی راہ نماؤں کا کردار بہت اہم ہے اور ان تنازعات کے حل کے عمل میں مذہبی عناصر کو شریک کرنا اور ان کے اثر ورسوخ سے مدد لینا بہت مفید، معاون اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہے۔ ان کی سرگرمیوں اور تعلقات کا دائرہ پاکستان کے مذہبی وسیاسی راہ نماؤں سے لے کر سعودی عرب کے شاہی خاندان اور امریکی سینٹ اور ہیئت مقتدر ہ کے کارپردازوں تک وسیع ہے اور وہ اپنے موضوع سے متعلق ان سب دائروں میں راہ نماؤں اور سماجی کارکنوں کی تربیت اور راہ نمائی کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے اظہر حسین کی دلچسپی اور کاوشوں کا مرکز ومحور یہ نکتہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ نسلی، لسانی، علاقائی اور مذہبی بنیادوں پر جس تقسیم اور تشتت کا شکار ہے، اسے اس سے نکالا جائے اور مختلف گروہوں کے مابین تناؤ کو دور اور تنازعات کو حل کرنے کے لیے مکالمہ اور برداشت کی فضا پیدا کی جائے۔
اظہر حسین نے شناخت اور تنازعات کا باہمی تعلق واضح کرتے ہوئے کہا کہ کسی نہ کسی مذہبی، تاریخی اور سماجی حوالے اپنی شناخت متعین کرنا افراد اور گروہوں کی شخصیت کا ایک ناگزیر حصہ ہے، لیکن جب شناخت میں یہ چیز شامل ہو جائے کہ ہم دوسروں سے برتر ہیں تو یہ تباہ کن بن جاتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی گروہ اپنی شناخت کو خطرے میں محسوس کرتا ہے تو اس میں تشدد پیدا ہوتا ہے جو تنازع کو جنم دیتا ہے۔ جو سیاسی یا سماجی تنازعات مفادات کے ٹکراؤ پر مبنی ہوں، ان کا حل نسبتاً آسان ہوتا ہے جبکہ نظریہ اور اقدار پر مبنی تصادم صدیوں چلتے ہیں۔ اس لحاظ سے تصادم کے اسباب میں سے ایک بہت بڑا سبب مذہب رہا ہے، کیونکہ مذہب اپنی اصل تعلیمات کے لحاظ سے پرامن اور ایثار اور اخلاص پر مبنی ہوتا ہے، لیکن انسانوں کو مختلف شناختوں میں تقسیم کرنے کی وجہ سے یہ نزاع اور تصادم کا باعث بنتا ہے۔ مزید برآں مذہبی قیادت طاقت اور اقتدارکے حصول کے لیے جبر سے کام لیتی ہے اور لوگوں کی غلط راہنمائی اور تعصبات کو فروغ دینے جیسے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتی اور اس طرح مذہب سیاسی اور معاشرتی سطح پر منافرت، تشدد اور تقسیم پیدا کرنے کا ایک آلہ بن جاتا ہے۔
اظہر حسین نے کہا کہیورپ میں کئی سو سال تک کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مسیحی مذہبی اختلاف کی بنا پر ایک دوسرے کو قتل کرتے رہے اور مجموعی طور پر ان لڑائیوں میں ساٹھ ملین (چھ کروڑ) افراد تہہ تیغ کیے گئے۔ ہر چرچ میں مخالف فرقوں کے افراد کو قتل کرنے اور عبرت کا نشانہ بنانے کے لیے باقاعدہ انتظام موجود تھا۔ ۱۷۷۹ء میں انقلاب فرانس سے پہلے تک یہ کیفیت بہت زیادہ تھی جبکہ دوسری جنگ عظیم تک بھی یہ سلسلہ کسی نہ کسی حد تک چلتا رہا۔ آئر لینڈ میں دس بارہ سال پہلے تک پروٹسٹنٹ اور کیتھولک ایک محلے میں نہیں رہ سکتے تھے، لیکن اہل مغرب نے اس صورت حال پر کامیابی سے قابو پایا ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ بلجیم سے جرمنی کا ویزا نہیں ملتا تھا، لیکن اب یورپی ممالک نے اپنے آپ کو متحد کر کے یورپی یونین کی شکل میں ڈھال لیا ہے۔ اس وقت دنیا میں ۶۳سیاسی وسماجی تنازعات موجود ہیں جن میں اچھی خاصی تعداد مذہبی تشخص پر مبنی تنازعات کی ہے اور یہ زیادہ تر مسلم معاشروں اور دنیا کے ترقی پذیر یا پس ماندہ ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ مثلاً فلپائن کے ایک جزیرے میں، جہاں مسلمانوں کے تین ہزار مدارس ہیں، عیسائیوں کا وجود برداشت نہیں کیا جا رہا اور چند ماہ قبل پچاس سے زائد مسیحیوں کے سر کاٹ دیے گئے ہیں اور انھیںیہ دھمکی دی گئی ہے کہ اگر مسیحی اس علاقے سے نہ گئے تو ان کا صفایا کر دیا جائے گا۔ (حال ہی میں ملائشیا میں ایک عدالتی فیصلے پر، جس میں غیر مسلموں کو لفظ ’’اللہ‘‘ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے، احتجاج کرتے ہوئے بہت سے گرجوں کی توڑ پھوڑ اور جلانے کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔)
اظہر حسین نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے تک مغرب میں کوئی تنازعہ اس وقت تک حل نہیں ہوتا تھا جب تک دونوں فریق تھک نہ جائیں، جبکہ مسلم معاشروں میں زیادہ سمجھ داری کا رویہ پایا جاتا ہے اور اس بات کو مغربی تجزیہ نگاروں نے بھی نوٹ کیا ہے۔ گویا ہماری اجتماعی بصیرت اور تحمل وبرداشت کی صفت مغرب سے بہتر ہے۔ امریکہ کے ایک تھنک ٹینک آئی ڈی ایف اے (Institute of Defence Analysis) کی ایک رپورٹ میں یہ سفارش کی گئی ہے کہ چونکہ مسلم معاشرے وسیع پیمانے پر قتل وغارت کے تجربے سے نہیں گزرے، اس لیے وہ اپنے داخلی تنازعات کے حل کے بارے میں زیادہ سنجیدہ نہیں ہیں، اس لیے ان کے معاملات میں زیادہ مداخلت کرنے کے بجائے انھیں اس مرحلے تک جانے دینا چاہیے تاکہ یہ تجربے سے گزر کر خود سیکھیں۔ اس کے برعکس ایک دوسرے تھنک ٹینک USIP (یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس) کا موقف یہ ہے کہ مغرب کو وسائل صرف کر کے مسلم معاشروں کی سول سوسائٹی کو تربیت دینی چاہیے اور ان میں شعور پیدا کرنا چاہیے تاکہ وہ معاشرے کو مثبت رخ پر لے جائیں۔ روزنامہ ’’آج کل‘‘ کے کالم نگار جناب ارشاد محمود نے، جو اس ورک شاپ میں بطور ٹرینر شریک ہوئے تھے، اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی معاشروں میں غصہ نکالنے کے لیے Safety Valve لگے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے تھوڑا بہت غصہ نکال کر لوگوں کا کتھارسس ہو جاتا ہے اور اجتماعی قتل وغارت کے مرحلے تک بات نہیں پہنچتی۔ انھوں نے مثال کے طور پر پاکستانی معاشرے کے مثبت پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ یہاں سخت فرقہ وارانہ کشیدگی کے ماحول میں ایم ایم اے بنی اور اس نے فرقہ وارانہ تناؤ کو کم از کم بالائی سطح پر کنٹرول کیا۔ اسی طرح موجودہ دہشت گردی کے حوالے سے رائے عامہ ابتدا میں کافی کنفیوزڈ تھی، لیکن آہستہ آہستہ یکسوئی پیدا ہوتی گئی کہ ہم تشدد کو بہرحال گوارا نہیں کریں گے اور تمام بڑے گروپ اس کو جواز فراہم کرنے کا راستہ ترک کر چکے ہیں۔ مرزا محمد الیاس نے اس پر مزید اضافہ کیا کہ کسی بھی تشدد پسند گر وہ کو اس کے اپنے حلقہ فکر کے لوگ بھی own نہیں کرتے اور نہ ان کے ساتھ اپنی شناخت کو وابستہ کرتے ہیں۔
سید عامر نجیب نے تبصرہ کیا کہ ہمارے ہاں دکھ، تکلیف اور آزمائش کو نظریاتی اور اعتقادی بنیاد پر جواز مہیا کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے اور اس سے ہم اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کا کام لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں فرد بھی اس وقت تک اپنی تکلیف یا بیماری کی طرف سنجیدگی سے متوجہ نہیں ہوتا جب تک کہ مسئلہ خاصا سنگین نہ ہو جائے۔ اصلاح کے لیے محض وقتی قسم کی کوششیں کی جاتی ہیں اور کنویں کو کتے سے پاک کرنے کے بجائے پانی نکالنے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ عامر نجیب نے کہا کہ تشدد پسند عناصر کو ان کے سرپرست گروہوں نے نظر انداز کیااور ان کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے انھیں تنہا چھوڑ دیا۔ عامر نجیب نے کہا کہ مذہبی صحافت آزاد نہیں ہے اور مذہبی جرائد پر اداروں، جماعتوں اور حلقہ ہائے فکر کی پالیسیوں کا جبر بہت سخت ہے جس کی وجہ سے مذہبی صحافت میں معروضی تجزیے اور خود تنقیدی کا فقدان ہے، جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی جذباتی قوم کو مزید جذباتی بنانے کے بجائے حالات کا ہر پہلو سے درست اور غیر جانب دارانہ تجزیہ کرنے کی روایت کو فروغ دیں۔
سماجی سطح پر مختلف حوالوں سے پائے جانے تعصب آمیز رویے بھی اس گفتگو میں زیر بحث آئے۔ مولانا عبد القدوس محمدی نے صحافت کے میدان میں اپنے ذاتی تجربے کا ذکر کیا اور بتایا کہ جب انھوں نے اپنے صحافتی سفر کے آغاز میں مختلف اخبارات سے رابطہ قائم کیا تو ان کی مولویانہ وضع قطع اور دینی تعلیم کا پس منظر دیکھتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی، البتہ ان کی تحریروں کے نمونے دیکھ کر آزمائشی موقع دیا گیا۔ تاہم بعد میں ان کی اچھی کارکردگی سامنے آنے پر بعض مدیران نے اپنے سابقہ رویے پر معذرت کی اور ان کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے اخبار کے میگزین کا انچارج تک بنا دیا گیا۔ جناب ارشاد محمود نے دنیاے صحافت کے تعصبات کے ایک اور پہلو کی نشان دہی کی۔ انھوں نے کہا کہ اگرکوئی پاکستانی لکھاری کسی بین الاقوامی ویب سائٹ پر یا اخبار میں پاکستان کے حوالے سے کوئی مثبت بات لکھنا چاہے تو اسے کئی طرح کے سوالات اور تحفظات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے کہ وہ انتہا پسند نہیں ہے، لیکن اگر آپ منفی اندازمیں لکھنا چاہیں تو اس کی فوراً پذیرائی ہوتی ہے۔ اظہر حسین نے اس کی تائید کی اور کہا کہ دراصل اخبارات تجارتی بنیادوں پر چلتے ہیں اور انھیں فوری نوعیت کی اور سنسنی آمیز خبریں چاہیے ہوتی ہیں، کیونکہ اخبارکے عام قارئین کو سنجیدہ تجزیوں سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی۔ دانش مسعود نے ایک اور اہم پہلو کی طرف توجہ دلائی۔ انھوں نے کہا کہ مغرب میں مسلمان معاشروں کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ یہاں انتہا پسندی کا دور دورہ ہے اور اسی وجہ سے وہی اخبار زیادہ بکتا ہے جو اس تاثرکی موافقت کرتا ہو اور اس کو مزید بڑھاتا ہو۔ انھوں نے کہا کہ مغرب کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ مسلم معاشروں میں صرف انتہا پسندی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے مسائل ہیں جن پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔مزید یہ کہ اس انتہا پسندی کے اسباب کو متعین کرنے اور ان کا حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے، ورنہ اس صورت حال کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
مولانا محمد ازہر نے اس مرحلے پر یہ سوال اٹھایا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کس چیز کو کہا جاتا ہے ؟ دانش مسعود نے اس سوال کی اہمیت کااعتراف کیا اورکہا کہ عام طور پر بعض بڑے بڑ ے الفاظ بول دیے جاتے ہیں لیکن ذہنوں میں ان کا کوئی متعین اور واضح مصداق نہیں ہوتا۔ انھوں نے اس ضمن میں دہشت گردی، شدت پسندی اور عدم رواداری جیسے الفاظ کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ سب رویے افراد، گروہوں اور حکومتوں میں یکساں پائے جاتے ہیں۔ تاہم اظہر حسین نے کہا کہ ان اصطلاحات کے بعض مصداقات یقیناًایسے ہیں جن پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی گروہ اپنے مذہبی تصورات یا کسی سیاسی مطالبے کو منوانے کے لیے حکومت یا کسی سماجی گروہ کے خلاف تشدد اور طاقت کا استعمال کرے یا بعض سماجی مقاصد یا مفادات کے حصول کے لیے ایک گروہ کے جذبات کو دوسرے گروہ کے خلاف انگیخت کرے تو اسے دہشت گردی یا انتہا پسندی قرار دینے میں کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔
سماجی شناخت کے سوال ہی کے ضمن میں ’’سید‘‘ ہونے اور اس سے متعلقہ معاشرتی تصورات پر بھی گفتگو ہوئی۔ جناب طاہر سعید کاظمی نے کہا کہ ان کا تعلق سادات سے ہے اور وہ اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس پرمولانا محمد ازہر نے معارضہ کیا کہ فخر تو ایسی چیز پر کیا جاتا ہے جو اختیاری ہو جبکہ غیر اختیاری چیزوں پر شکر کرنا چاہیے، لیکن کاظمی صاحب نے کہا کہ انھیں جس طرح اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے، اسی طرح سید ہونے پر بھی فخر ہے۔ نداء الاسلام پشاور کے نمائندے مقصود احمد سلفی نے کہا کہ سید ہونے کے ساتھ بعض ایسے تصورات وابستہ ہو گئے ہیں جو معاشرتی سطح پر مشکلات کا باعث ہیں اور جنھیں اسلامی تعلیمات کا عکاس نہیں کہا جا سکتا، مثلاً سادات اپنی خواتین کا نکاح غیر سادات سے کرنے کو اپنی تحقیر سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے شادی کے قابل بہت سی خواتین طویل عرصے تک کنواری بیٹھی رہتی ہیں۔ طاہر سعید کاظمی نے اس پر وضاحت کی کہ ان کے خاندان میں ایسا نہیں ہے اور ان کی زیادہ تر ہمشیرگان کا نکاح غیر سادات خاندانوں میں ہی ہوا ہے، البتہ انھوں نے اعتراف کیا کہ بعض سید خاندانوں میں اس حوالے سے اس قدرشدت پائی جاتی ہے کہ وہ کسی شیعہ سید کو تو رشتہ دے سکتے ہیں لیکن کسی غیر سید سنی سے اپنی خواتین کا نکاح کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ماہنامہ ’’افکار محسن‘‘ حیدر آباد کے مدیر سید ارشد رضا بخاری نے کہا کہ اب زیادہ تر پڑھے لکھے شیعہ حضرات اپنی لڑکیاں غیر سید خاندانوں میں دینے لگے ہیں۔ انھوں نے عراق کے شیعہ مرجع آیت اللہ سیستانی کے اس فتوے کا بھی حوالہ دیا کہ غیر سید مومن (یعنی شیعہ) کے ساتھ سید لڑکی کا نکاح کیا جا سکتا ہے۔
ورک شاپ کی ایک نشست میں اتفاق سے پاکستان میں شیعہ سنی کشمکش کا موضوع چھڑ گیا اور پھر موضوع کی اہمیت اور شرکاے مجلس کے اشتیاق اور دلچسپی کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے یہ نشست اسی موضوع پر باہمی تبادلہ خیال کے لیے مخصوص کر دی۔ یہ ایک مفید اور فکر انگیز نشست تھی، اس لیے یہاں ذرا تفصیل سے اس کی روداد درج کی جا رہی ہے۔
ماہنامہ ’’پیام‘‘ اسلام آباد کے مدیر جناب ثاقب اکبر نے کہا کہ اہل تشیع اور اہل سنت کے مابین اختلاف اور اتفاق کا تناسب یہ ہے کہ اختلافی چیزیں گنی جا سکتی ہیں جبکہ اتفاقی امور شمار سے باہر ہیں، اس لیے اختلافات کو اجاگر کرنے کے بجائے اتفاقات کو نمایاں کرنا چاہیے۔ (میرے خیال میں اہل تشیع اور اہل سنت کے مابین اختلافات اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایسے بنیادی اور اصولی ہیں کہ ان کے سامنے اتفاقات اپنی اہمیت کھوبیٹھتے ہیں، کیونکہ دو گروہوں کے مابین اتحاد واشتراک یا افتراق کا سوال مختلف فیہ امور کی تعداد یا تناسب سے نہیں بلکہ اختلافات کی نوعیت اور سنگینی سے طے پاتا ہے۔)
مولانا محمد ازہر نے یہ سوال اٹھایا کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے باہمی اختلافات میں جارحیت کا رویہ کس طرف سے اپنایا جاتا ہے؟ انھوں نے کہا کہ اہل سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت رضوان اللہ علیہم سے نفرت نہیں کرتے بلکہ محبت رکھتے ہیں۔ جہاں تک سیدنا علیؓ سے دوسرے اصحاب کے مقابلے میں زیادہ محبت رکھنے کی بات ہے تو یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں، لیکن اہل تشیع کی مجالس او ر تحریروں میں خلفاے ثلاثہ کے بارے میں جو زبان استعمال کی جاتی ہے، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، حالانکہ وہ ان بزرگوں سے عقیدت نہ رکھتے ہوں تو بھی اہل سنت کے جذبات کے احترام میں انھیں چاہیے کہ وہ ان کے بارے میں نازیبا زبان استعمال نہ کریں۔ مولانا نے کہا کہ اس حوالے سے اسلام کی اخلاقی تعلیم تو یہ ہے کہ ایک مسلمان تو کیا، کسی غیر مسلم کو برا بھلا کہنے سے بھی اگر کسی مسلمان کے احساسات کو ٹھیس پہنچتی ہو تو اس سے گریز کرنا چاہیے۔ مولانا نے سیرت نبوی سے یہ مثال پیش کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عکرمہ بن ابی جہل کے اسلام قبول کرنے کے بعد مسلمانوں کو عکرمہ کے سامنے ابوجہل کو برا بھلا کہنے سے منع کر دیا اور فرمایا کہ لا تسبوا الاموات فتؤذوا الاحیاء، یعنی مرنے والوں کو برا مت کہو کیونکہ اس سے ان کے زندہ عزیزوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ (کتب حدیث وسیرت میں آپ کا یہ ارشاد مختلف مواقع پر مختلف افراد کے حوالے سے نقل ہوا ہے۔ ایک موقع پر ایک شخص نے عبد المطلب کو جہنمی کہا تو سیدنا عباس نے اسے تھپڑ رسید کر دیا۔ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا تو آپ نے مذکورہ جملہ ارشاد فرمایا۔ ایک دوسرے موقع پر سیدنا صدیق اکبر نے ایک مشرک کی قبر دیکھ کر اس پر لعنت کی تو اس کے بیٹے نے، جو وہاں موجود تھا، جواب میں سیدنا صدیق کے والد جناب ابوقحافہ پر لعنت کر دی۔ اس موقع پر بھی آپ نے یہی بات ارشاد فرمائی۔ اسی طرح ایک موقع پر ابوجہل کے بارے میں اورایک دوسرے موقع پر عمومی طور پر غزوۂ بدر میں قتل ہونے والے تمام مشرکین کے بارے میں یہی ہدایت فرمائی کہ ان کو برا بھلانہ کہا جائے کہ اس سے ان کے مسلمان عزیزوں کو اذیت پہنچتی ہے۔ یہ سب روایات علامہ ابراہیم بن محمد الحسینی نے اپنی کتاب ’’البیان والتعریف‘‘ ۲/۲۷۷ میں جمع کر دی ہیں۔)
اس پر اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے جناب اعجاز حسین نے کہا کہ اہل سنت کے علماء بھی جناب ابو طالب کے کفر وایمان کی بحث چھیڑتے ہیں اور ان کا کفر پر مرنا ثابت کرنے کے لیے مضامین اور کتابیں لکھی جاتی ہیں جس سے شیعہ حضرات کو تکلیف ہوتی ہے۔ اس پر مولانامحمد ازہر نے کہا کہ یہ ایک بالکل مختلف معاملہ ہے اور اہل سنت کے علما علمی طور پر اور تاریخی روایات کی روشنی میں جناب ابو طالب کے ایمان نہ لانے کے موقف کو ترجیح دینے کے باوجود کبھی ان کی توہین وتنقیص کا رویہ اختیار نہیں کرتے، بلکہ اکابر علماء اہل سنت کے ہاں اس کی تصریح ملتی ہے کہ اس مسئلے کو زیادہ زیر بحث نہ لایا جائے کیونکہ اس سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچتی ہے۔ (خود اپنے مذہبی جذبات کے حوالے سے شیعہ کمیونٹی کی نازک مزاجی کی کیفیت یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک درس میں ڈاکٹر اسراراحمد صاحب نے محض ضمنی طور پر وہ معروف روایت بیان کی جس میں تحریم خمر سے پہلے کے دور میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے شراب پی کر نماز پڑھانے اور نتیجتاً قرآن مجید کی غلط قراء ت کرنے کا ذکر ہوا ہے تو شیعہ حضرات نے اسے سیدنا علی کی توہین کا رنگ دے کر اس پر ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ اسی طرح برادرم حافظ طاہر اسلام نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ کہہ دیا کہ امام حسین کی جدوجہد حالات کی عدم موافقت کی وجہ سے بظاہر ناکام رہی تو ان پر توہین امام کا الزام لگا کر احتجاجی جلوس نکالے گئے اور انھیں جان کی دھمکیاں دی گئیں۔)
مولانا محمد ازہرکے اصل سوال پر بات کرتے ہوئے اظہر حسین نے کہا کہ اہل سنت کی یہ شکایت بجا ہے اور میں نے اکابر شیعہ علما سے اس مسئلے پر بات کی ہے اور وہ سب اس طرز عمل کی مذمت کرتے ہیں، بلکہ عراق کے بزرگ شیعہ عالم جناب آیت اللہ سیستانی نے تو ایسے لوگوں کو برادری باہر (ex-communicate) کرنے کی سفارش کی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ شیعہ حلقوں میں عوامی سطح پر یہ طرز عمل نہ صرف رائج بلکہ بے حد مقبول ہے۔ اظہر حسین نے، جو خود خاندانی طور پر شیعہ پس منظر رکھتے ہیں، کہا کہ شیعہ مجالس میں کسی مقرر کی تقریر کا لطف ہی اس وقت آتا ہے جب ذاکر کسی کو گالی دے، لیکن ہم نے امریکہ میں ایسے لوگوں پر پابندی لگا رکھی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ شیعہ گھرانوں میں بھی نئی نسل آزادی سے سوچنے کا حق مانگتی ہے، چنانچہ ان کے ایک خاندانی عزیز نے سلفی فکر کو سمجھنے کے لیے سعودی عرب میں جا کر تعلیم حاصل کی جبکہ ایک عزیزہ نے پی ایچ ڈی کے لیے ملائشیا کا انتخاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سنی اسلام کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
جناب ثاقب اکبر نے کہا کہ خلفاے ثلاثہ کی توہین وتنقیص کا مسئلہ ایک بنیادی مسئلہ ہے اور میں اپنے شیعہ پس منظر کی وجہ سے اہل سنت کی اس شکایت کو قبول کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے پاس حقیقت میں یہی دلیل اور ہتھیار ہے اور ملک کے اکابر سنی اور شیعہ علما کو اکٹھے ہوکر اس پر سوچ بچار کرنی چاہیے۔ ثاقب اکبر نے کہا کہ اہل تشیع کے پڑھے لکھے لوگ شیعہ ذاکرین اور خطبا سے تنگ ہیں کیونکہ وہ نفرت پھیلاتے ہیں اور تقسیم پیدا کرتے ہیں۔ سنجیدہ شیعہ علما اپنی نجی مجالس میں ان حضرات سے یہ توکہتے ہیں کہ وہ سرعام ایسے خیالات کا اظہار نہ کیا کریں جس سے اہل سنت کے جذبات مجروح ہوں، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ عوامی سطح پر بھی اس رویے سے براء ت کا اعلان کریں۔ انھوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اندر ایسے عناصر کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں ہے اور ہم لوگوں کے سامنے اتحاد اتحاد کی ظاہری باتیں کر نے کے بعد اپنے گھر میں جا کر وضاحتیں پیش کر رہے ہوتے ہیں۔
میر ے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اہل سنت کے اکابر کی توہین وتنقیص کو عام واعظوں اور ذاکروں کا طرز عمل کہہ کر اس سے کیسے بری الذمہ ہوا جا سکتا ہے جبکہ توہین وتنقیص کی بے حد ناگوار مثالیں اہل تشیع کے بڑے بڑے علما اور مراجع کے ہاں بھی موجود ہیں اور یہ چیز امامت کے بارے شیعہ حضرات کے مخصوص نظریے کے مطابق ان کے عقیدہ وایمان کا تقاضا ہے؟ خود ایرانی انقلاب کے پیشوا جناب خمینی کی بعض عبارتیں بھی اس ضمن میں پیش کی جاتی ہیں۔ (ثاقب اکبر نے مجھے بتایا کہ خمینی صاحب کی ابتدائی دور کی لکھی ہوئی صرف ایک کتاب ہے جس میں ایسی باتیں موجود ہیں۔ بعد میں جب ان کے خیالات میں وسعت پیدا ہوئی تو وہ مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے اتحاد اور باہمی احترام کے داعی بن گئے تھے۔ میرے لیے خمینی صاحب کی تحریروں سے براہ راست کوئی واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے اس پر کوئی رائے دینا مشکل ہے)۔ یہ سوال غالباً ثاقب اکبر کے ذہن میں بھی موجود تھا، چنانچہ انھوں نے بات کو بڑھاتے ہوئے یہ کہا کہ ان کی رائے میں اہل تشیع کو نہ صرف خلفاے ثلاثہ کی توہین وتنقیص کا رویہ ترک کرنا چاہیے بلکہ اصولی طور پر بھی خلفاے ثلاثہ کی خلافت کے جواز وعدم جواز کے سوال پر ازسرنو غور کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک تاریخی بحث ہے اور تاریخی طور پر پہلی خلافت حضرت ابوبکر اور چوتھی حضرت علی کو ملی تھی۔ آج ہم اس ترتیب کو بدل نہیں سکتے، اس لیے آج اس تاریخی بحث کے تصفیے سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم خلافت اسلامیہ کے تحت اسلامی معاشرے کے اوصاف حمیدہ سے آج کی نسل کو روشناس کرائیں۔ ثاقب اکبر نے کہا کہ وہ اس حوالے سے درج ذیل تین سوالات غور وفکر کے لیے اہل تشیع کے سامنے پیش کیا کرتے ہیں:
۱۔ کیا حضرت علی نے خلافت کے مسئلے پر اختلاف کیا؟ جواب یہ ہے کہ ہاں، کیا۔
۲۔ کیا اختلاف کے باوجود انھوں نے خلفاے ثلاثہ کی تائید اور حمایت کی؟ جواب یہ ہے کہ ہاں، کی۔
۳۔ کیا انھوں نے اختلاف کی بنیاد پر خلفاے کے خلاف جتھہ بندی کی؟ جواب یہ ہے کہ نہیں کی۔
یہ تینوں چیزیں تاریخ سے ثابت ہیں۔ اس بنیاد پر میں اہل تشیع سے کہتا ہوں کہ اگر آپ شیعان علی ہیں تو آپ کو اس مسئلے میں حضرت علی سے بازی لے جانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ جب سیدنا علی کے اختلاف کو اس وقت کے مسلم معاشرے نے قبول نہیں کیا تو انھوں نے مسلمانوں کی مرکزیت کو قائم رکھنے کے لیے خلفا سے تعاون کیا، چنانچہ اہل تشیع کو بھی خلفاے ثلاثہ کے پیروکاروں سے تعاون کرنا چاہیے اور ان کے ساتھ مل کر رہنا چاہیے۔ اسی طرح اہل سنت کو چاہیے کہ وہ جیسے سیدنا علی سے محبت اور احترام کا تعلق رکھتے ہیں، اسی طرح ان کے ماننے والوں سے بھی محبت رکھیں۔
ثاقب اکبر نے مزید کہا کہ ان کی ذاتی رائے میں عہد صحابہ کے باہمی اختلافات ومشاجرات کے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ اور قدیم الاسلام صحابہ اور ان کے بالمقابل طلقا کے مابین فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے اور سیدنا علی اور خلفاے ثلاثہ کے اختلاف اور اسی طرح سیدہ عائشہ اور حضرت زبیر کے ساتھ حضرت علی کی جنگ کے معاملے میں فریقین کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے اجتہادی اختلاف کا درجہ دینا چاہیے، البتہ طلقا اور صحابہ کو ایک درجے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ (اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ سیدنا معاویہ اور سیدنا علی کے باہمی اختلاف میں سیدنا معاویہ کو ’’اجتہادی اختلاف‘‘ کی رعایت نہیں دی جا سکتی۔ میرے خیال میں اگر صرف شخصیات کے فرق مراتب کو سامنے رکھنے کے بجائے سیدنا عثمان کی شہادت کے بعد رونما ہونے والی اس معروضی صورت حال کو بھی سامنے رکھا جائے جس میں سیدنا عثمان کے قاتلین نے سیدنا علی کے کیمپ میں پناہ لے رکھی تھی تو سیدنا معاویہ کے لیے، جن کا مطالبہ اصلاً قاتلین عثمان سے قصاص لینے کا تھا، اجتہادی اختلاف کی گنجائش تسلیم کیے ہی بنتی ہے، چنانچہ سیدنا علی کا مصالحت کی غرض سے حکمین کے تقرر پر راضی ہونا دوسرے فریق کے موقف میں صحت کا امکان تسلیم کیے بغیر ممکن نہیں تھا۔ سیدنا حسن نے بھی ان کی امارت کو بالفعل یوں قبول کیا کہ ان کے مطالبے پر سیدنا معاویہ نے انھیں ایک لاکھ کی رقم بھیجی۔ سیدنا علی نے اس پر اعتراض کیا تو سیدنا حسن نے ان سے کہا کہ ’بل حرمتنا انت وجاد ہو لنا‘ (البدایہ والنہایہ ۸/۱۳۷) یعنی آپ تو ہمیں محروم رکھتے ہیں، جبکہ انھوں نے فیاضی سے کام لیا ہے۔)
مولانا عبد القدوس محمدی نے کہا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنے کے سلسلے میں ایک اچھی مثال کے طور پر اتحاد تنظیمات مدارس کو پیش کیا جا سکتا ہے کہ تمام مکاتب فکر کے باہمی اتحاد کی وجہ سے مدارس کے کردار اور ان کے مفاد کا تحفظ اور دفاع ممکن ہوا۔ انھوں نے کہا کہ باہمی روابط کے اس سلسلے کو نیچے تک پھیلانا چاہیے اور جس طرح قائدین اور راہ نماؤں کی سطح پر شخصی اور ذاتی تعلقات کا سلسلہ قائم ہے، اسی طرح مختلف مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے مابین بھی ملاقاتوں اور باہمی نشستوں کے ذریعے تفاعل (Interaction) پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ کسی بھی مکتب فکر کے واعظین اور عوامی مقررین سے شدت کا ہتھیار چھین لینا چاہیے۔ مزید یہ کہ محرم کے تعزیتی جلوسوں کو ایک مخصوص مکتب فکر کی عبادت کی حیثیت سے محدود جگہوں پر منعقد کرنا چاہیے، عوامی مقامات تک ان کو پھیلانے کا کوئی جواز نہیں۔
ماہنامہ ’’العصر‘‘ کے مولانا حسین احمد نے کہا کہ مذہبی اختلافات دنیا کے ہر معاشرے میں موجود ہیں، لیکن ہمارے ہاں مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے بری طرح استعمال کیا گیا ہے، چنانچہ ایرانی انقلاب کے بعد عراقی سفیر نے دینی مدارس میں آنا جانا شروع کر دیا اور ایران کے خلاف فضا بنانے کی کوشش کی۔ اس کے مقابلے میں ایرانی سفیر بھی مدارس میں آنے جانے لگے۔ شیعہ سنی مسئلے کا پس منظر سیاسی ہے اور اس آگ کو بھڑکانے کے لیے عرب ممالک نے بھی پیسہ دیا اور امریکہ نے بھی شیعہ سنی منافرت پھیلانے میں اپنا حصہ ڈالا۔ شدت پسندی کے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اب حالات اتنے گھمبیر ہو چکے ہیں کہ بظاہر ان سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا اور اکابر اور سنجیدہ علما کے لیے بھی کوئی عملی کردار ادا کرنا اس لیے مشکل ہے کہ مولانا حسن جان شہید کی مثال سب کے سامنے ہے۔ مزید یہ کہ قربانی دینے سے بھی کوئی مثبت نتیجہ یا فائدہ حاصل ہونے کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ (ایک نشست میں جناب ثاقب اکبر نے بھی شیعہ سنی کشیدگی کے اس تجزیے سے اتفاق کیا اور کہا کہ یہ دراصل خلیج کی سیاسی کشمکش کے اثرات ہیں جو ہمارے ہاں نمودار ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ اس میں انقلاب ایران کے اثرات کو وسیع تر کرنے کی پالیسی کا بھی دخل ہے اور انقلابی قیادت کو اس معاملے میں زیادہ محتاط اور دانش مندانہ راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔)
بلوچستان کے قاضی عبد الصمد نے فرقہ وارانہ اختلافات کی نفسیات پر تبصرہ کرتے ہوئے بلتستان میں نور بخشی اہل تشیع کے راہ نما علامہ موسوی کا یہ دلچسپ قول سنایا کہ ’’یہ عجیب بات ہے کہ ہاتھ چھوڑ کر اور ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے والے ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں، لیکن جو لوگ بالکل نماز نہیں پڑھتے، انھیں کوئی کافر نہیں کہتا۔‘‘
(جاری)
مکاتیب
ادارہ
محترم مولانا عمار خان ناصر صاحب
سلام مسنون۔ امید ہے مزاج بخیر ہوں گے!
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ [فروری ۲۰۱۰] میں سید مہر حسین بخاری صاحب کا جوابی مکتوب پڑھا۔ موصوف نے خوامخواہ بحث کو طول دینے اور اپنے پلڑے میں وزن ڈالنے کے لیے حضرت صوفی صاحب نوراللہ مرقدہ کے شیعہ کے بارے میں نظریہ سے متعلق بحث میں دارالعلوم دیوبند کے مفتی اول صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ بھی نقل کردیا، حالانکہ اس عاجز نے تو فقط حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ کے نظریہ سے متعلق چند گزارشات کی تھیں۔ اب جبکہ وہ خود میدان میں اتر آئے ہیں تو مجبوراً ہمیں بھی چند گزارشات کرنا پڑیں۔خدا تعالیٰ حق سچ کہنے اور لکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین۔
چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
[۱] ’’روافض میں تفصیل ہے۔ جو قطعیات کا منکر ہے اور سب شیخینؓ کرتا ہے اور حضرت عائشہؓ پر تہمت لگاتا ہے اور صحابہ کرام کی تکفیر کرتا ہے، وہ کافر اور مرتد ہے۔ ان سے مناکحت اور مجالست حرام ہے اور واضح ہو کہ روافض تبرا گو ہی ہوتے ہیں، اگر چہ بوجہ تقیہ کے (جو ان کے نزدیک شرائطِ ایمان میں سے ہے) اپنے آپ کو چھپاتے ہیں اور اپنے عقائد مخفی رکھتے ہیں، لہٰذا ان کے قول وفعل کا اعتبار نہ کیا جائے بلکہ ان کے اصول مذہب کو دیکھا جائے۔‘‘ [فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ج ۸ ص ۴۵۵]
[۲] ’’جوتمام صحابہؓ کو برا کہتا ہے، وہ پورے دین کا انکار کرتا ہے، ہم قطعی فیصلہ رکھتے ہیں ایسے آدمی کے بارے میں جو ایسا قول کرے جس سے تمام امت گمراہ ہوتی ہو کہ وہ کافر ہے۔‘‘ [فتاویٰ سیوطیؒ ، ج ۲ ص ۵۷۷]
[۳] ’’من انکر امامۃ ابی بکر الصدیقؓ فہو کافر، وقال بعضہم ھو مبتدعٌ ولیس بکافرٍ، والصحیح انہ کافر، وکذالک من انکر خلافۃ عمرؓ فی اصح الاقوال، کذا فی الظہیریۃ ویجب اکفارہم بانکار عثمانؓ و علیؓ وطلحہؓ وزبیرؓ وعائشہؓ ‘‘ [فتاویٰ عالمگیری ج۲ ص۲۳۹، الباب التاسع فی احکام المرتدین]
[۴] ’’من سبَّ شیخین او طعن فیہما فقد کفر ویجب قتلہ ثم ان رجع وتاب وجدد الاسلام ھل تقبل توبتہ ام لا؟ قال صدر الشہید لاتقبل توبتہ واسلامہ، وھو المختارللفتویٰ ای عندی‘‘ [البحرالرائق ج۵ ص۱۲۶]
[۵] ’’وفی الروافض ان فضل علیاً بالثلاثۃ فھو مبتدعٌ وان من انکر خلافۃ الصدیق او عمر فھو کافر‘‘ [فتح القدیر ج۷ ص ۳۶۰]
[۶]’’در مذہب حنفی موافق روایت معنی براست حکم فرقہ شیعان حکم مرتدان است‘‘ [فتاویٰ عزیزی ج۱ ص۱۲]
[۷]’’حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے تکفیر شیعہ کے تین اسباب بیان کیے ہیں۔۔۔ [۱]تحریف قرآن۔۔۔ [۲]نظریہ امامت۔۔۔ [۳]سبِّ صحابہؓ جو شیعہ یہ تینوں یا ان میں سے کوئی ایک نظریہ رکھتا ہے وہ بالاتفاق کافر ہے اور اس کے کفر میں اہل سنت کے ہاں کوئی اختلاف نہیں، حضرت عمی مکرم رحمہ اللہ(حضرت صوفی صاحب ؒ ) بھی مذکورہ عقائد کے ساتھ شیعہ پر فتویٰ کفر سے کوئی اختلاف نہیں رکھتے تھے۔‘‘ (از مضمون : مولانا عبدالحق خان بشیرؔ مدظلہ ماہنامہ ’’نصرۃ العلوم‘‘ مفسر قرآن نمبر ص۲۳۶)
[۸]اہل تشیع کا یہی وہ عقیدہ (تحریفِ قرآن ) ہے جس کی بناء پر حضرت مولانا عبدالشکور لکھنوی رحمہ اللہ نے علی الاعلان شیعہ کی تکفیر کا فتویٰ دیا۔ اور پھر اس فتویٰ کو[۱] حضرت مدنی رحمہ اللہ، [۲]حافظ عبدالرحمن امروہی رحمہ اللہ، [۳]مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری رحمہ اللہ، [۴]مولانا مفتی مہدی حسن رحمہ اللہ، [۵]مولانا اعزاز علی رحمہ اللہ، [۶]مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ،[۷] مولانا اصغر حسین رحمہ اللہ، [۸]مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ،[۹] قاری محمد طیب رحمہ اللہ وغیرہم جیسے اکابرومشائخ اور اصحابِ فتویٰ کی تصدیقات کے ساتھ شائع کیا۔ واضح رہے کہ مولانا عبد الشکور لکھنوی رحمہ اللہ نے جو فتویٰ دیاتھا اس میں انہوں نے شیعہ کے عقائد پر فتویٰ نہیں لگایا بلکہ شیعہ کو انہوں نے بحیثیت فرقہ کے خارج از اسلام قرار دیا، چنانچہ لکھتے ہیں کہ شیعہ اثناعشری قطعاً خارج از اسلام ہیں۔[ماہنامہ بینات خصوصی اشاعت ص۱۷۰]
[۱۰]’’ شیعہ کی نمازِ جنازہ پڑھانا جائز نہیں آج کل کے شیعہ حضراتِ شیخین (ابوبکرؓوعمرؓ)وصحابہ کرامؓ کو سبّ(گالی)بکنا ثواب خیال کرتے ہیں اور حضرت عائشہؓ کے متعلق افتراء باندھتے ہیں اس لیے ان کے کفر پر ائمہ کا اتفاق ہے حضرت عائشہؓ کی براء ت قرآن میں منصوص ہے اس لیے ان کا قائل ہونا قرآن کریم کی آیات کا انکار ہے جو بالا تفاق کفر ہے ............ باقی شیعہ صاحبان کے ساتھ مودت دوستی نہیں رکھنی چاہیے صحابہ کرامؓ اور حضرت عائشہؓ کے دشمنوں کے ساتھ کیا دوستی ہوسکتی ہے ؟واللہ اعلم ‘‘[فتاویٰ مفتی محمودؒ جلد۳ص۶۶]
[۱۱] ’’تنبیہ الولاۃ الحکام علیٰ احکامِ شاتمِ خیر الانام لمولٰنا محمد امین الشہیر با بن عابدین الشامی رحمہ اللہ کے صفحہ ۲۶۷میں ہے: واما من سبّ احدا من الصحابۃ فھو فاسقٌو مبتدعٌ بالاجماع الااذا اعتقد انہ مباحٌاو یترتب علیہ الثواب کما علیہ بعض الشیعۃ او اعتقد کفر الصحابۃ فانہ کافرٌ بالاجماعِ ۔
موجودہ وقت میں پاکستان کے شیعہ صحابہ کرامؓ کے سبّ(گالی )کو حلال موجبِ ثواب سمجھتے ہیں اس لیے اسلام سے خارج ہیں ۔‘‘(ماخوذ از فتاویٰ مفتی محمود جلد سوم ص۶۶،۶۷)
[۱۲]’’دین کے بارے میں ہم کسی کا پاس نہیں رکھتے ۔الحمد للہ کہ یہ ورثہ ہمیں اپنے اکابر سے حاصل ہوا ہے۔ لیکن قطعی اور واضح ثبوت کے بغیر ہم کسی کی تکفیر کرنے کے لیے بھی ہر گز تیار نہیں ہیں، اختلاف کا مقام اور ہوتا ہے اور تکفیر کا اور ،دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔‘‘ (بابِ جنت ص۲۷۱)
اس قدراحتیاط کے باوجود حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں کہ
’’اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ فرمائیں اور اس کی نگرانی اپنے ذمہ لیں اور کھلے کافر بھی اس کی اصلی صورت میں محفوظ رہنے کا اقرار کریں مگر شیعہ شنیعہ یہ کہیں کہ ہمارے علما اور مجتہدین کی تحقیق سے تواتر کے ساتھ اس میں تحریف اور کمی بیشی ثابت ہے اور شیعہ کے چار علما کے بغیر ان کے باقی تمام متقدمین اور متأخرین کا اس پر اتفاق و اجماع ہے کہ موجودہ قرآن محرف اور مبدل ہے کیا شیعہ شنیعہ کی تکفیر کے لیے یہی ایک نص قطعی کا فی نہیں ہے؟ الغرض دیگر بے بنیاد اور باطل عقائد شیعہ کے اپنے مقام پر ہیں جو سبب کفر ہیں اور قرآن کریم کی تحریف کا دعویٰ اپنی جگہ قطعاً اور یقیناًان کی تکفیر کا موجب ہے جس میں ایک رتی بھر بھی شک و شبہ نہیں۔’’لاریب فیہ‘‘
یہی وجہ ہے کہ جملہ اہل حق کھلے طور پر شیعہ کی تکفیر کرتے ہیں اور یہ ان کا اسلامی اور قانونی حق ہے مگر بایں ہمہ وہ امن عامہ کو بگاڑنے اور خراب کرنے کی پالیسی پر گامزن نہیں ہیں کیونکہ وہ مسئلہ کے ساتھ مصلحت کو نظر انداز نہیں کرتے ۔‘‘ (ارشادالشیعہ ص ۳۸)
[۱۳]’’ہمارے ایک ساتھی کہتے تھے کہ شیعہ اثنا عشریہ امامیہ کو کافر نہیں کہنا چاہیے کیونکہ ازہر یونیورسٹی کے پرنسپل ان کو کافر نہیں کہتے۔ حالانکہ حضرت امام اہل السنۃ رحمہ اللہ تو سبق کے اندر بھی فرماتے تھے کہ شیعہ اثنا عشریہ امامیہ جو کہ تحریف قرآن کے قائل ہیں اور امام کے مرتبہ کو نبوت سے افضل سمجھتے ہیں اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ایمان تک کے منکر ہیں (معاذاللہ)، ان کو کافر کہنا فرض ہے۔ اس پر حضرت رحمہ اللہ نے مستقل کتاب ’’ارشاد الشیعہ‘‘ نامی تحریر فرمائی ہے ۔اس لیے میں نے اس ساتھی کو کہا کہ آؤ حضرت شیخ رحمہ اللہ کی خدمت میں گکھڑ جاکر پوچھ لیتے ہیں۔ جب ہم نے سوال کیا تو حضرت نے فرمایا کہ ’’ان کو کافر کہنا فرض ہے‘‘۔ ہمارے اس ساتھی نے اعتراض کیا کہ ازہر یونیورسٹی کے پرنسپل ان کو کافر نہیں کہتے تو حضرت رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر وہ ان کے عقائد جانتے ہیں اور ان کو کافر نہیں کہتے تو خود کافر ہیں اوراگر ان کو ان کے عقائد معلوم نہیں تو پرنسپل کس بات کے ہیں؟‘‘ (مجلہ ’’المصطفیٰ‘‘ امام اہل سنت نمبر، ازمضمون مولانا نور محمد آصف)
[۱۴]’’راقم اثیم دیانۃً اس کا قائل ہے کہ اسلام کو جتنا نقصان روافض نے پہنچایا ہے، وہ مجموعی لحاظ سے کسی کلمہ گو فرقے سے نہیں پہنچا۔ ‘‘(ارشاد الشیعہ ص ۳۰)
دیکھئے! حضرت امام اہل سنتؒ شیعہ پر فتواے کفر کے باوجود ان کو’’ کلمہ گو فرقہ‘‘ فرما رہے ہیں۔ نیز ایک اور مقام پر بھی حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمۃ نے ان کو اہل السنۃ والجماعۃ سے متصادم گروہ میں شمار کیا ہے نہ کہ اسلام کے مقابل مذاہب باطلہ میں۔ [ ملاحظہ ہو عقائد اہل السنۃ والجماعۃاز: مولانا مفتی محمدطاہر مسعود، ص ۳۶] کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی کو کلمہ گو اور اسلامی فرقہ کہنے سے اس کی تکفیر پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ نیز اس کی وجہ مولانا عبدالقدوس قارن مدظلہ یوں لکھتے ہیں:
’’اس کی وجہ یہ ہے کہ شیعہ حضرات خود کو اسلام کی جانب منسوب کرتے ہیں تو منسوب الی الاسلام ہونے کی وجہ سے ظاہر کے اعتبار سے ان کو مسلمان کہہ دیا گیا، جیسا کہ حضرات علماء کرام نے معتزلہ وغیرہ فرقوں کو کافر کہا اور اس کے باوجود ان کو اسلامی فرقہ کہنے کے اعتراض کے جواب میں کہا کہ ان کو اسلامی فرقے اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے آپ کو اسلام کی جانب منسوب کرتے ہیں۔ اسی سے ملتا جلتا نظریہ حضرت صوفی صاحب نے خوارج اور روافض کے بارے میں پیش کیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’خوارج اور روافض وغیرہ ایسے ہیں کہ آخرت میں ان کا حکم کفار جیسا ہوگاتاہم دنیا میں وہ جماعت المسلمین کے افراد شمار ہوں گے۔‘‘ [ترجمہ سنن ابن ماجہ ص۵۷۶] اور ایک مقام پر حضرت صوفی صاحبؒ خوارج کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’حالانکہ بظاہر وہ لوگ کلمہ گو، نمازی اور روزہ دار بھی ہوں گے مگر فاسد العقیدہ ہونے کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہی ہوں گے۔‘‘ [ترجمہ سنن ابن ماجہ ص ۵۷۱،بحوالہ رافضی کیا ہیں؟ ص ۳۰])
[۱۵] ’’وفی کتاب السنۃ للآجری من طریق الولید بن مسلم عن معاذ بن جبل قال.....الخ [کتاب الاعتصام ص ۵۲ للشاطبی]
ترجمہ:’’ امام آجری رحمہ اللہ کی کتاب السنۃ میں ولید بن مسلم کے طریق سے حضرت معاذ بن جبل کی روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب میری امت میں بدعات ظاہر ہوں اور میرے صحابہ کو برا کہا جائے تو عالم پر لازم ہے کہ اپنا علم ظاہر کرے، جس نے ایسا نہ کیا تو اُس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہوگی۔‘‘
یہ حدیث مبارکہ بمع ترجمہ پیش کرنے کے بعد حضرت امام اہل السنۃ فرماتے ہیں:
’’عقلی اور عرفی قاعدہ ہے کہ جب کسی خزانہ اور دولت پر چور اور ڈاکو آپڑتے ہیں تو چوکیدار اور پہرہ دارہی اصحاب دولت کو آ گاہ کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کریں تو یہ سمجھا جا تا ہے کہ یہ بھی چوروں اور ڈاکوؤں سے ملے ہوئے ہیں اور جس سزا کے چور اور ڈاکو مستحق ہیں، اس کے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سزا کے چوکیدار حقدار ہیں ۔ ایسے دور میں جس میں بدعات ورسوم کا خوب زور ہو اور وہ نقطۂ عروج پر ہوں اور حضرات صحابہ کرام کو بر ملا برا کہا جاتا ہو تو علما کا شرعی اور علمی فریضہ ہے کہ وہ باطل کی تردید کریں اور تبلیغ کا فریضہ ادا کریں کیونکہ علما دین کے چوکیدار اور پہرہ دار ہیں۔ اگر علما خاموشی اختیار کریں گے تو وہ اللہ تعالیٰ اور تمام فرشتوں انسانوں کی لعنت کے مستحق ہوں گے کیونکہ انہوں نے اپنی ڈیوٹی ادانہیں کی اور وہ لالچ یاڈر کے اسیر ہو گئے۔‘‘ ( ارشاد الشیعہ ص ۷۶، ۷۷)
[۱۶] شیعہ کے عقائد ظاہر نہ ہونے اور ان کے تقیہ کرنے کی وجہ سے ہمارے بعض اکابر احتیاطاًیہی کہا کرتے تھے کہ شیعہ کی تکفیر نہ کی جائے، جیسا کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے فرمایا ’’مَن لَّم یُکَفِّرھُم لَم یَدرِ عَقَاءِدَہُم‘‘ (فیض الباری ص ۱۳۰ج۱)’’جس نے انہیں کافر نہیں کہا تو اس وجہ سے کہ اسے ان کے عقائد معلوم نہیں۔‘‘
ماضی قریب کے حضرت مولانا منظور احمد نعمانی رحمہ اللہ کا بھی ابتداءً یہی رویہ تھا، لیکن خمینی انقلاب کے بعد جب ان کی کتابیں منظر عام پر آئیں تو مولانا منظور احمد نعمانی رحمہ اللہ نے نہ یہ کہ خود علی الاعلان شیعہ کی تکفیر کی بلکہ اس فرقہ کی تکفیر کو اسلام کے دفاع کے لیے ضروری اور وقت کی اہم ضرورت سمجھتے ہوئے پاکستان ،ہندوستان ،برطانیہ ،بنگلہ دیش ودیگر ممالک کے علماءِ کرام ومفتیانِ عظام سے اس فرقہ کے متعلق فتویٰ طلب کیا اور پھر ان فتاویٰ جات کو وقت کی ضرورت سمجھتے ہوئے اپنے رسالہ الفرقان میں ’’خمینی اور اثنا عشریہ کے بارہ میں علماءِ کرام کا متفقہ فیصلہ‘‘ کے عنوان سے خصوصی اشاعت کے طور پر شائع کیا۔ پھر اسی متفقہ فیصلہ کو (جس میں سینکڑوں ہزاروں علماءِ ومفتیانِ کے مطلق شیعہ اثناعشریہ کی تکفیر کے فتاویٰ وتصدیقات ہیں) حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدرحمہ اللہ نے بھی جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی پاکستان کے ماہنامہ ’’بینات‘‘ کی طرف سے اسی عنوان کے ساتھ شائع کیا۔
[۱۷]’’تیسری وجہ یہ ہے کہ شیعہ کے نزدیک ان کے دین کے دس حصوں میں سے نوحصے تقیہ میں مضمر ہیں ‘‘۔
آگے چل کر حضرت امام اہل سنتؒ تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’ وہ مسلمانوں جیسے نام بھی رکھتے ہیں اوراسلام کے دعوے داربھی ہیں تو عوام بے چارے کیا خواص بھی ان کی تکفیر میں تامل کرسکتے ہیں۔یہ وہ اہم وجوہ ہیں جنکی وجہ سے شیعہ کی تکفیر عیاں نہیں ہو ئی جیسا کہ ہونی چاہیے تھی۔‘‘ (ارشاد الشیعہ ص۲۸، ۲۹)
[۱۸]بلکہ خود مذہب شیعہ میں تقیہ کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے چنانچہ اصولِ کافی (جو شیعہ مذہب کی بنیادی کتاب ہے) میں امام جعفر صادق کی طرف یہ منسوب ہے :
’’قَالَ الِامَامُ جَعفَر الصَّادِق عَلَیہِ السَّلامُ لا اِیمَانَ لِمَن لَّا تَقِیَّۃَ لَہٗ‘‘ [اصول کافی ص۴۸۲]
’’اِنَّ تِسعَۃَ اَعشَارِ الدِّینِ فِی التَّقِیَّۃِ وَلادِینَ لِمَن لَّا تَقِیَّۃَ لَہٗ‘‘ [اصول کافی ج۲ص۲۱۷طبع تہران](بحوالہ شمشیر حق)
ترجمہ :دین کے نو حصے (نوے فیصد )تقیہ میں ہیں اور جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی ایمان نہیں ۔
[۱۹] یہی اشکالات جو موجودہ دور کے چند علماء کو پیش آئے ہیں، کچھ عرصہ قبل حضرت مولانا عبدالماجد دریا آبادیؒ کو بھی پیش آئے تھے جس کا پس منظر یہ ہے کہ جب مولانا عبدالشکور لکھنوی فاروقی رحمہ اللہ نے شیعہ اثنا عشریہ کے خارج از اسلام ہونے کے بارے میں فتویٰ مرتب کرکے شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ اور دیگر اکابرعلماء واصحابِ فتویٰ کی تصدیقات کے ساتھ شائع کیاتو مولانا عبد الماجد دریابادیؒ نے حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس بارے میں اپنے اشکالات وشبہات تحریراً عرض کیے۔ حضرت تھانویؒ نے اپنے معمول کے مطابق مولانا دریابادی ؒ کے خط کے ہر جز کا الگ الگ جواب تحریر فرمایا تھا۔ وہ خط اور حضرت تھانویؒ کا جواب ملاحظہ ہو! (نوٹ: ’’السوال‘‘ اور ’’تتمۃ السوال‘‘ کے زیر عنوان مولانا دریابادیؒ کے خط کی عبارت ہے اور ’’الجوب‘‘ اور ’’تتمۃ الجواب‘‘ کے زیرعنوان حضرت حکیم الامتؒ کا جواب ہے۔)
’’السوال:ایک فتوے کی نقل مرسل خدمت ہے۔ اس پر علاوہ دوسرے مستند علماء حضرت مولانا[حسین احمد] مدنی تک کے دستخط ثبت ہیں، لیکن میں عرض کروں کہ مجھے شرحِ صدر اب بھی نہیں۔ شیعوں کو ’’مبتدع‘‘، ’’فاسق‘‘ اور ’’فاسد العقیدہ‘‘ وغیرہ اور جو کچھ کہہ لیا جائے، اس کا میں بھی پوری طرح قائل ہوں، لیکن کافر اور خارج ازاسلام کہنے سے جی لرز اٹھتاہے۔
الجوب: یہ علامت ہے آپ کی قوتِ ایمانیہ کی، مگر جنہوں نے فتویٰ دیاہے، اس کا منشأ بھی وہی قوتِ ایمان ہے کہ جس کو ایمانیات کا منکر دیکھا، بے ایمان کہہ دیا۔
تتمۃ السوال:اگر ہر گمراہ فرقہ یوں ہی خارج از اسلام ہوتا رہا تو مسلمان رہ ہی کتنے جائیں گے؟
تتمۃ الجواب: اس کا کون ذمہ دار ہے؟ خدا نہ کردہ اگر کسی مقام میں کثرت سے لوگ مرتد ہوجائیں اورتھوڑے ہی مسلمان رہ جائیں تو کیااس مصلحت سے ان کو بھی کافر نہ کہا جاوے گا؟
تتمۃ السوال: شیعوں سے مناکحت اگر تجربہ سے مضر ثابت ہوئی ہے تو بس ’’تہدیداً‘‘ اس کا روک دینا کافی ہے....؟
تتمۃ الجواب: اس تہدید کا عنوان بجز اس کے کوئی اور ہے ہی نہیں، غور فرمایا جائے۔
تتمۃ السوال: میرا دل تو قادیانیوں کی طرف سے ہمیشہ تاویل ہی تلاش کرتا رہتا ہے....۔
تتمۃ الجواب: یہ غایت شفقت ہے، لیکن اس شفقت کا انجام سیدھے سادے مسلمانوں کے حق میں ’’عدمِ شفقت‘‘ ہے، وہ اچھی طرح ان کا شکار ہوا کریں گے۔
تتمۃ السوال:جو بناءِ تکفیر قرار دی گئی ہے یعنی تحریف قرآن، مجھے اس میں تأمل ہے۔ اگر یہ عقیدہ ان کے مذہب کا جزو ہوتا تو حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ وغیرہ سے مخفی نہ رہتا....۔
تتمۃ الجواب:جب ان کی مسلم کتابوں سے جزئیت ثابت ہے، پھر حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کا اگر سکوت ثابت ہو جس کی مجھ کو تحقیق نہیں تو ان کے سکوت میں کچھ تاویل ہوگی نہ کہ جزئیت میں۔‘‘
(ضروری وضاحت :حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کی مشہور کتاب ’’تحفہ اثنا عشریہ ‘‘ غالباًمولوی عبد الماجد صاحب رحمہ اللہ کی نظر سے نہیں گزری ور نہ اشکال کی نوبت نہ آتی، کیونکہ اس کے تتمۃ الباب چہارم میں جوتقریباً بیس صفحے ’’دلائل شیعہ ‘‘ پر ہیں، ان میں متعدد جگہ شیعوں کے عقیدۂ تحریفِ قرآن کا ذکر ہے ۔حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی ان عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ شاہ صاحب پر ان کا عقیدۂ تحریف قرآن مخفی نہیں تھا ۔)
’’تتمۃالسوال :بہت زائد خلش مجھے اس امر سے ہورہی ہے کہ اب تک ہم آریوں اور عیسائیوں کے سامنے کلام مجید کے غیر محرف ہونے کو بطور ایک بالکل مسلّم اور غیر مختلف فیہ عقیدہ کے پیش کرتے رہے ہیں،اب لوگوں کے ہاتھ میں ایک نیا حربہ آجائے گا کہ دیکھو خود تمہارا ہی کلمہ پڑھنے والے اور تمہارے قبلہ کو ماننے والے لاکھوں کروڑوں افراد قرآن کو ناقص اور محرّف مان رہے ہیں ۔
تتمۃ الجواب :اس سے تو اور زیادہ ضرورت ثابت ہوگئی ان کی تکفیر کی۔ پھر ہمارے پاس صاف جواب ہوگا کہ وہ مسلمان ہی نہیں۔ (اب سے قریباًایک ہزار سال پہلے عیسائیوں کی طرف سے یہی اعتراض کیا گیا تھا۔ اس وقت علامہ ابن حزم اندلسی نے اپنی کتاب ’’الفصل‘‘ میں اس کا یہی جواب دیا تھا کہ شیعہ مسلمان ہی نہیں، لہٰذا ان کے عقیدۂ تحریف قرآن سے کوئی اثر ہمارے عقیدۂ محفوظیت قرآن پر نہیں پڑتا۔)
تتمۃ السوال :حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ کا جو مکتوب سرسید احمد کے نام تھا، مجھے اس قدر پسند آیاتھا کہ میں نے اہتمام کے ساتھ اسے ’’سچ‘‘میں شائع کیا تھا۔ پس میری فہمِ ناقص میں اسی کو معیار بنا لینا چاہیے اور اسی کے مطابق معاملہ تمام گمراہ فرقوں سے رکھنا چاہیے، یعنی نہ مداہنت نہ اتنی مخالفت کہ ان میں اور آریوں، عیسائیوں وغیرہ میں کوئی فرق ہی نہ رکھا جائے۔
تتمۃ الجواب: لیکن اگر وہ خود ہی اپنے کو کافر بنائیں (بالنون )تو کیا ہم اس وقت بھی ان کو کافر نہ بتائیں (بالتاء)؟ دنیا میں اپنے کو آج تک کسی نے کافر نہیں کہا بلکہ کوئی عیسائی کہتا ہے کوئی یہودی ۔مگر چونکہ ان کے عقائد کفریہ دلائل سے ثابت ہیں، اس لیے ان کو کافر ہی کہا جاوے گا ۔تو مدارِاس حکم کا عقائد کفریہ پر ٹھہرا ۔تو اگر ایک شخص اپنے کو فرقہ شیعہ سے کہتا ہے اور کوئی عقیدہ کفریہ اس مذہب کے اجزا یا لوازم سے ہے تو اپنے کو اس فرقہ میں بتلانا بدلالتِ التزامی اس عقیدہ کو اپنا عقیدہ بتلانا ہے تو عدمِ تکفیر کی کیا وجہ؟ اور اگر ان کے یہاں یہ عقیدہ مختلف فیہ ہوتا، تب بھی کسی کی تکفیر میں تردد رہتا ،لیکن یہ بھی نہیں۔ اور جو اختلاف ہے، وہ غیر معتد بہٖ ہے جس کو خود ان کے جمہور رد کرتے ہیں۔ اس حالت میں اصل تو کفر ہوگا۔ البتہ کوئی صراحۃًکہے کہ یہ عقیدہ میرا نہیں ہے یاکوئی فرقہ اپنا لقب جدا رکھ لے، مثلاًجو علما ان کے تحریف کے نافی ہیں ،ان کی طرف اپنے آپ کومنسوب کیا کریں، مثلاً اپنے کو صدوقی یا قمی یا مرتضوی یا طبرسی کہا کریں، مطلق شیعی نہ کہیں تو خاص اس شخص کو یا اس فرقہ کو اس عموم سے مستثنیٰ کہہ دیں گے، لیکن ایسے استثناؤں سے قانونی حکم نہیں بدلتاہے۔ حرمت نکاح اور حرمت ذبیحہ احکام قانونی ہیں۔اس پر بھی جاری ہوں گے،جب تک وہ فرقہ متمیّز ومشہور نہ ہوجائے۔ خصوص جب تقیہ کا بھی شبہ ہو تو خواہ سوءِ ظن نہ کریں، مگر احتیاطاًعمل تو سوءِ ظن ہی ایسا (جیسا )ہوگا،البتہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا معاملہ وہ اس کے عقیدہ کے مطابق ہوگا۔ اگر کوئی ہندو توحید کا بھی قائل ہو او رسالت کا بھی، لیکن اپنے کو ہندو ہی کہتا ہو ،گو کچھ تأویل ہی کرتا ہو تو اس کے ساتھ آخر کیا معاملہ ہوگا؟ یہی حالت یہاں کی ہے ۔ضلع فتح پور میں ہندووں کی ایک جماعت ہے جو قرآن اور حدیث پڑھتے ہیں ،اور نماز روزہ کرتے ہیں ،مگر اپنے کو ہند و کہتے ہیں۔ لباس اور نام سب ہندو جیسا رکھتے ہیں۔ اور اگر وہ اپنے کو ہندو کہیں اور اپنا مشرب ظاہر نہ کریں تو کیا سامع کے ذمہ تفصیل واجب ہوگی کہ اگر ایسے عقیدہ کا ہے تو مسلمان ؟
تتمۃ السوال : آپ کو ہر معاملہ میں اپنا کچا چٹھا لکھ بھیجتا ہوں ،خدا کرے اس باب میں بھی آپ کا جواب بالصواب میرے حق میں ذریعہ تشفی ہو ۔
تتمۃ الجواب : تشفی کا ذمہ تو مشکل ہے، خصوصی اسی خشیت کا غلبہ خود مجھ پر بھی ہے، مگر حضرت جنید رحمہ اللہ نے لرزتے ہوئے ہاتھ سے حسین ابن منصور کے خلاف فتویٰ لکھا تھا محض حفاظت شرع کے لیے ۔ہم لوگ بھی انہی کے متبع ہیں اور راز اس کا وہی ہے کہ اس رعایت میں سادہ لوح مسلمانوں کی ہلاکت ہے۔‘‘ [امداد الفتایٰ ج ۴ ص ۵۸۴ تا ص۵۸۷ طبع دیوبند]
ویسے تو ہمارے تمام اکابر ہمیشہ دینی ودنیوی امور میں نہایت احتیاط سے کام لیتے ہیں لیکن حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے تقویٰ وطہارت سے ہر خاص وعام بخوبی واقف ہے، کہ امورِ دینیہ ودنیویہ میں کس قدر احتیاط ان کے پیش نظر رہتی ۔اس احتیاط کے باوجود حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اس فرقہ کے متعلق جو رویہ اختیار کیا، وہ قارئین کے سامنے ہے۔ اس کے بعد اس فرقہ کے کفر میں کسی قسم کے شک وتردد کی گنجائش نہیں رہتی۔
[۱۹]شیعہ اور روافض کے بارہ میں دروس القرآن اور (حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ) کی دیگر کتب میں مذکور حوالجات کی روشنی میں برملا کہا جاسکتا ہے کہ جس فرد یا گروہ میں ایسے عقائد ونظریات پائے جاتے ہیں ان کو حضرت صوفی صاحب کافر، منافق، ملحد، بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج ہی سمجھتے ہیں، جیسا کہ ان کی پیش کردہ عبارات سے واضح ہے، البتہ بعض عبارات جن میں حضرت صوفی صاحب نے شیعہ کو مسلمان کہا، ان سے اشکال ہوتا ہے اور یہی بعض ساتھیوں کی پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔ اس لیے یہ ملحوظ رہے کہ حضرت صوفی صاحب نے شیعہ کو مسلمان کہا ہے اور اس سے مراد وہ شیعہ ہیں جن میں کفریہ عقائد نہ پائے جاتے ہوں ، اسی لیے جن میں کفریہ عقائد پائے جاتے ہیں ان کو حضرت صوفی صاحب نے ’’رافضی‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ (چنانچہ فرماتے ہیں خمینی انقلاب کے بعد وہ اپنے لٹریچر میں اپنے آپ کو اسلامی نمائندہ کے طور پر پیش کرتے ہیں حالانکہ وہ رافضی ہیں۔ (معالم العرفان ج۱۰ ص۸۸۴) اس لیے جہاں شیعہ کو مسلمان کہا گیا ہے اس سے وہ مراد ہیں جو روافض یعنی کفریہ عقائد والے نہ ہوں یا ان پر مسلمان کا اطلاق ظاہر کے اعتبار سے ہے جبکہ حقیقت کے اعتبار سے کفریہ عقائد والے شیعہ کافر ہی ہیں۔
نیز یہ عبارات اس وقت کی ہیں جب ابھی شیعہ کے عقائد پر مشتمل کتب منظر عام پر نہ آئی تھیں، مگر جب شیعہ کے خفیہ عقائد منظر عام پر آئے تو علماء کرام نے اپنے لچکدار نظریہ پر نظرِثانی کی اور شیعہ کو علی الاعلان کافر کہا۔ چنانچہ حضرت صوفی صاحب فرماتے ہیں کہ آج کے پریس کے زمانہ میں لوگ شیعوں کے اس قسم کے عقائد پڑھ کر حیران ہوتے ہیں۔ اب تک تو یہ حضرات اپنے بعض عقائد کو چھپاتے رہے ہیں، مگر اب ظاہر ہوئے تو معلوم ہوا کہ ان کے عقائد حق سے کسی قدر دور ہیں۔ (معالم العرفان ص ۳۰۲ ج ۱۵) [ملخص از رافضی کیا ہیں؟ افادات مولانا صوفی عبدالحمید سواتیؒ ، مرتب: مولانا عبدالقدوس خان قارن مدظلہ ص۲۸ تا ۳۱]
محترم بخاری صاحب! مذکورہ بالا حوالہ جات سے درج ذیل امور خوب واضح ہوجا تے ہیں:
[۱]جمہور اہل السنۃ والجماعۃ اکابرین دیوبند سبّ صحابہؓیا تکفیر صحابہؓ کے مرتکب، حضرت عائشہؓ پر افترا باندھنے والے اور انکار خلافت شیخین، تحریف قرآن، عقیدہ امامت، وغیرہ عقائد یا ان میں سے ایک عقیدہ رکھنے والے افراد وگروہ کوقطعی کافر، منافق، ملحد، بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں اور حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ ان اکابر سے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں رکھتے تھے۔
[۲]شیعہ اثنا عشریہ کو بطور فرقہ خارج از اسلام قرار دیتے ہیں۔نیز پاکستان کے تمام شیعہ کافر ہیں۔
[۳]تکفیر شیعہ میں احتیاط برتنے والے اکابرین کے بارے مں یہ فرماتے ہیں کہ وہ شیعہ کے تقیہ کی وجہ سے ان کے عقائد سے کما حقہ واقف نہیں تھے۔
[۴] جو شیعہ اثنا عشریہ امامیہ کے عقائد سے پوری واقفیت کے باوجود ان کو مسلمان سمجھتا ہے، وہ خود کافر ہے۔
[۵]شیعہ پر فتویٰ کفر کے باوجود ان کو ’’کلمہ گو‘‘، ’’اسلامی فرقہ‘‘یا ’’مسلمان‘‘ کہنے کا یہ معنی ہے کہ وہ خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور اسلام کا نام لیتے ہیں،لیکن عقائد کے فساد کی وجہ سے وہ کافر ہی ہیں۔
[۶]روافض تبرا گو ہی ہوتے ہیں۔
[۷]تقیہ کی وجہ سے ان کے اپنی اصولی کتب میں مذکور عقائد سے ظاہری انکار کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔
[۸]ان کو مسلمان کہنے میں سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان کو شدید خطرہ لاحق ہے بلکہ ان کے لیے ہلاکت ہے۔
[۹] علی الاعلان تکفیر شیعہ جملہ اہل حق کا اسلامی اور قانونی حق ہے۔
[۱۰]حضرات صحابہ کرام کو بر ملا برا کہا جاتا ہو تو علما کا شرعی اور علمی فریضہ ہے کہ وہ باطل کی تردید کریں اور تبلیغ کا فریضہ ادا کریں، کیونکہ علما دین کے چوکیدار اور پہرہ دار ہیں۔ اگر علما خاموشی اختیار کریں گے تو وہ حدیث نبوی کے مطابق اللہ تعالیٰ اور تمام فرشتوں انسانوں کی لعنت کے مستحق ہوں گے۔ ’’تلک عشرۃ کاملۃ‘‘
حسین احمد مدنی
متعلم دارالعلوم مدنیہ
ماڈل ٹاؤن بی، بہاولپور
حالات و واقعات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
کراچی میں علما کی شہادت
کراچی ایک بار پھر علما کی قتل گاہ بن گیا ہے اور مولانا سعید احمد جلال پوریؒ اور مولانا عبد الغفور ندیمؒ کی اپنے بہت سے رفقا سمیت الم ناک شہادت نے پرانے زخموں کو پھر سے تازہ کر دیا ہے۔ خدا جانے یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا اور اس عفریت نے ابھی کتنے اور قیمتی لوگوں کی جان لینی ہے۔
مولانا سعید احمد جلال پوری شہید حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے قافلے کے فرد تھے، ان کے تربیت یافتہ تھے اور انھی کی مسند پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ بڑی شخصیات کا خلا تو کبھی پورا نہیں ہوا کرتا، لیکن اگر ان کے مشن کا تسلسل جاری رہے اور خود ان کے تربیت یافتہ لوگ ان کے کام کو جاری رکھے ہوئے ہوں تو دلوں کو تسلی رہتی ہے اور خلا کا احساس کسی قدر کم ہو جاتا ہے۔ مولانا سعید احمد جلال پوری کو حضرت لدھیانوی کی مسند پر بیٹھا دیکھ کر کچھ اسی قسم کی کیفیت دل میں ابھرتی تھی اور خوشی کے ساتھ ان کے لیے دل سے دعائیں بھی اٹھتی تھیں۔ قادیانیت کے خلاف محاذ کو سرگرم رکھنے کے ساتھ ساتھ نئے ابھرنے والے فکری اور اعتقادی فتنوں کی نشان دہی اور ان کا تعاقب ان کے ذوق ومشن کا اہم حصہ تھا۔ کراچی میں اس محاذ کو جس طرح حضرت لدھیانوی اور ان کی راہ نمائی میں مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید اور مولانا سعید احمد جلال پوری نے منظم کر رکھا تھا اور ایک پورا حلقہ اپنے ساتھ جوڑا ہوا تھا، اسے دیکھ کر تسلی ہوتی تھی کہ حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کے ذوق کے لوگ ابھی موجود ہیں اور یہ محاذ خالی نہیں ہوا۔
مولانا عبد الغفور ندیم شہید کے ساتھ میرا کچھ زیادہ رابطہ نہیں تھا۔ شاید ایک آدھ دفعہ کہیں ملاقات ہوئی ہو، مگر اتنی بات کافی تھی کہ وہ مولاناحق نواز جھنگوی شہید کے قافلے کے رکن تھے اور ان کے مشن کو جاری رکھنے والے راہ نماؤں میں سے تھے۔ اس قافلے نے قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور ناموس صحابہ رضی اللہ عنہم کے تحفظ کے عنوان سے شہادتوں کی لائن لگا دی ہے۔ ان کے طریق کار سے اختلاف کے باوجود ان کا خلوص اور استقامت ہمیشہ مسلمہ رہی ہے۔
بہرحال مولانا سعید احمد جلال پوری، مولانا عبد الغفور ندیم اور ان کے رفقا کی شہادت پورے اہل دین کے لیے باعث صدمہ ہے اور دینی جدوجہد کے کسی بھی شعبے میں کام کرنے والوں کو اس سے دکھ پہنچا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی قربانیاں قبول فرمائیں، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق ارزانی فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
مولانا محمد فیروز خان ثاقب کا انتقال
حضرت مولانا محمد فیروز خان ثاقب بھی انتقال فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ شاید فضلاے دیوبند میں سے ہمارے علاقے میں آخری بزرگ تھے۔ ابھی چند ماہ قبل مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے سابق ناظم اور محکمہ اوقاف کے سابق ڈسٹرکٹ خطیب مولانا لالہ عبد العزیز سرگودھوی کا انتقال ہوا تو ان کے بعد ہم کہا کرتے تھے کہ اب دیوبند کی آخری نشانی ہمارے پاس حضرت مولانا محمد فیروز خان رہ گئے ہیں۔ وہ بھی ۹ مارچ کو ہم سے رخصت ہو گئے۔
ان کا تعلق آزاد کشمیر کی وادئ نیلم سے تھا۔ غالباً ۱۹۵۶ء میں دار العلوم دیوبند میں دورۂ حدیث کیا۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے شاگرد تھے اور ان سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں آ گئے اور دار العلوم مدنیہ کے نام سے دینی ادارہ قائم کیا جو اب ضلع سیالکوٹ کے بڑے دینی اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور قادیانی امت کے عالمی لیڈر چودھری ظفر اللہ خان کا تعلق بھی ڈسکہ سے تھا اور ان کا خاندان ایک عرصہ تک یہاں آباد رہا ہے۔ مولانا فیروز خان نے ظفر اللہ خان کی خاندانی حویلی کے سامنے ایک خالی جگہ پر ڈیرہ لگا لیا۔ مزاج میں جلال غالب تھا۔ متحرک اور فعال عالم دین تھے اور دینی حمیت وغیرت کا مجسمہ تھے، اس لیے خوب گہما گہمی رہی اور ’’اٹ کھڑکا‘‘ وقتاً فوقتاً ہوتا رہا۔ دار العلوم مدنیہ کے جلسے کا اسٹیج چودھری ظفر اللہ خان کی خاندانی حویلی کے سامنے ہوتا تھا، اس لیے اس اسٹیج پر احراری خطابت کی گھن گرج عجیب سماں پیداکرتی تھی۔
حضرت مولانا محمد فیروز خان ثاقب اعلیٰ پایے کے مدرس تھے، بالخصوص ادب اور معقولات میں چوٹی کے اساتذہ میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ دینی تحریکات میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ خود ان کا اپنامزاج تحریکی تھا۔ جب تک صحت نے ساتھ دیا، دینی معاملات میں کسی نہ کسی حوالے سے پیش رفت کرتے رہتے تھے۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت، ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی، ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت اور ۱۹۸۷ء کی شریعت بل کی تحریک میں ہمارا ساتھ رہا۔ ان کا جوش وجذبہ اور عزم واستقلال دیکھ کر مایوس دلوں میں حوصلہ پیدا ہو جاتا تھا اور خاموش مزاج لوگوں کا بھی بولنے اور کچھ کر گزرنے کو جی چاہنے لگتا تھا۔ وہ بے باک اور دبنگ مقرر تھے۔ پبلک اجتماع ہو یا خصوصی محفل، کارکنوں کا اجلاس ہو یا اعلیٰ سطح کی شورائی میٹنگ، ہر جگہ وہ دو ٹوک اور بے لچک بات کرتے تھے۔ غیر ضروری مصلحتوں کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرتے تھے اور جہاں ضرورت محسوس کرتے تھے، ڈٹ جاتے تھے۔ وہ قید وبند کی صعوبتوں سے کئی بار دوچار ہوئے، مگر ہر آزمائش سے سرخرو نکلے۔
والد محترم حضرت مولانا سرفراز خان صفدر اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کے ساتھ ان کا ہمیشہ قریبی تعلق رہا۔ مسلکی، جماعتی اور تعلیمی معاملات میں مشاورت وتعاون کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ تینوں فضلاے دیوبند تھے اور تینوں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے شاگرد تھے۔ اس نسبت کا رابطہ الگ سے لطف دیتا تھا۔ میری ہمیشہ ان سے نیاز مندی رہی ہے اور میں نے ان سے نہ صرف بہت سے معاملات میں استفادہ کیا ہے بلکہ راہ نمائی بھی لی ہے۔ آج اس روایت ومزاج کے حضرات کم سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں اور میں ذاتی طور پر اب زیادہ تنہائی محسوس کرنے لگا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر فرمائیں، جنت الفردوس میں اعلیٰ جگہ سے نوازیں اور ان کے فرزندوں اور اہل خاندان کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق دیں۔ آمین یا رب العالمین۔
مولانا شمس الحق مشتاقؒ کی وفات
گزشتہ دنوں اچھڑیاں، ضلع مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے ہمارے عزیز اور ساتھی مولانا شمس الحق مشتاق کابھی انتقال ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا شمس الحق مشتاق کے ایک بھائی مولانا قاری اسرار الحق بھی گزشتہ عید الفطر کو اچھڑیاں میں نماز عید کا خطبہ دیتے ہوئے وفات پا گئے تھے۔ ان کے والد محترم مولانا محمد معینؒ اچھڑیاں کے خطیب تھے اور جمعیت علماء اسلام کے متحرک راہ نماؤں میں سے تھے۔ مولانا شمس الحق مشتاق نے جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تعلیم پائی اور پھر کراچی کو اپنی جماعتی اور دینی سرگرمیوں کی جولان گاہ بنا لیا۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ کراچی میں جمعیت علماء اسلام کے سرگرم حضرات میں شمار ہوتے تھے۔ چند سال قبل برطانیہ چلے گئے جہاں وہ برمنگھم کی ایک مسجد میں خطابت کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ جماعتی سرگرمیاں وہاں بھی ان کے ساتھ رہیں، جمعیت علماء برطانیہ میں متحرک رہے اور اس میں اپنا ایک گروپ تشکیل دے کر اس کی امارت کے منصب پر فائز تھے۔
گزشتہ سال میری برطانیہ حاضری کے موقع پر انھوں نے اپنے سفر فلسطین کی تفصیلی روداد سنائی کہ جب غزہ کا محاصرہ کیا گیا اور اسرائیل نے اس مظلوم شہر کا رابطہ پوری دنیا سے منقطع کر دیا تو برطانیہ سے علماے کرام اور سماجی کارکنوں کا ایک بھرپور قافلہ امدادی سامان لے کر بذریعہ سڑک فلسطین پہنچا اور غزہ میں محصور فلسطینی بھائیوں کی امداد کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار بھی کیا۔ اس قافلہ کے راہ نماؤں میں مولانا شمس الحق مشتاق بھی تھے۔ انھوں نے اپنے سفر کی خاصی تفصیلات بیان کیں جن کے میں نے نوٹس بھی لیے۔ خیال تھا کہ یہ ساری روداد قارئین کو بتاؤں گا مگر وہ نوٹس کہیں ادھر ادھر ہو گئے اور میرے ذہن سے بھی بات نکل گئی۔
مولانا مشتاق کچھ دنوں سے بیمار تھے۔ چند دن کراچی میں علاج ہوتا رہا، پھر اسلام آباد آ گئے اور ۱۲؍۱۳ مارچ کی درمیانی شب کو ان کا انتقال ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
الشریعہ اکادمی میں سیرت النبیؐ کے حوالے سے مختصر تقریب
ادارہ
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں یکم مارچ بروز پیر کو جناب عثمان عمر ہاشمی کی زیر صدارت سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان سے ایک مختصر تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں عوام الناس کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ تقریب میں خصوصی خطاب مولانا عبدالواحد رسول نگری نے فرمایا جبکہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہنما اور ممبر قومی اسمبلی جناب عثمان ابراہیم مدعو تھے۔ مولانا عبدالواحد رسول نگری نے اپنے خطاب میں کہا کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس اور تقاریب کا انعقاد، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی سن اور سنا کر آپ سے محبت اور عقید ت کا اظہارکیاجاتا ہے، ایک خوش آئندہ بات ہے جونسل نو کی تربیت کے لیے بہت موثر ہے، لیکن ان تقاریب میں جہاں عشق ومحبت کا اظہارہوتا ہے، وہاں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بھی اجاگر کرنا چاہیے تاکہ سننے والوں میں معاشرتی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔
جناب عثمان ابراہیم نے اپنے خطاب میں کہا کہ عصر حاضر میں ہمیں جو مسائل درپیش ہیں، خواہ وہ امن عامہ کے حوالے سے ہوں یا معاشرتی ومعاشی نا ہمواری کے پہلو سے، ان کا حل ہر سطح پر اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہونے میں ہی ہے اور آج ہمیں جن ناموافق حالات کا سامنا ہے، وہ اسی صورت میں سازگار بن سکتے ہیں جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو مشعل راہ نا کر اپنی نجی، قومی اور بین الاقوامی زندگی کی تعمیر کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں علماے کرام کا کردار بہت اہم ہے، کیونکہ ہم سیاسی لوگ اگر کوئی بات کہیں گے تو وہ لوگوں پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوگی اور لوگ اسے سیاسی مفاد کے حصول کی کوشش ہی سمجھیں گے، لیکن اگر علماے کرام بات کریں گے تو لوگ توجہ سے سنیں گے بھی اور عمل پر بھی آمادہ ہوں گے۔
اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کہا جناب عثمان ابراہیم ہماے پرانے دوست اور ساتھی ہیں اور میں اس تقریب میں تشریف آوری پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
مولانا عبد الحفیظ مکی مدظلہ کی تشریف آوری
عالم اسلام کی معروف شخصیت اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا ؒ کے خلیفہ مجاز مولانا عبدالحفیظ مکی دامت برکاتہم ۲۱؍ مارچ بروز اتوار بعد از نماز مغرب الشریعہ اکادمی میں تشریف لائے اور حاضرین سے مختصر خطاب فرمایا۔ انھوں نے کہا کہ عام طور پر لوگوں پر ما یوسی چھائی ہوئی ہے اور ہر شخص یہ کہتا ہے کہ کیا بنے گا حالانکہ اگر آج سے ۷۰سال پیچھے دیکھا جائے تو اس وقت سارے اسلامی ملک غلام تھے ،کوئی آزاد نہیں تھا۔ جتنی بھی تحریکیں اس وقت چلیں وہ ساری کی ساری آزادی کی تحریکیں تھیں۔ اب تو پچاس سے زائد اسلامی ملک آزاد ہیں اور افغانستان کے مبارک جہاد کی برکت سے سوویت یونین کو اللہ نے توڑا اور سات اسلامی ملک اس میں سے آزاد ہوئے۔ ان میں سے ہر ملک کا آزادی سے پہلے حال یہ تھا کہ وہاں اگر کسی کے گھر سے قرآ ن کریم کا ایک ورق مل جاتا تو یہ سارے خاندان کے جیل جانے کے لیے کا فی تھا اور اب حالت یہ ہے کہ قرآن کریم انھیں ملکوں کے پریسوں سے چھپ رہے ہیں اور ہزاروں مسجدیں ایک رات میں کھل گئیں۔
مولانا مکی نے کہا کہ اس وقت ایک معرکہ برپا ہے۔ ہم نظریاتی سطح پر بھی اور مسلح طور پر بھی لڑ رہے ہیں اور نظر آ رہا ہے کہ کفر ٹوٹ رہا ہے۔ سوویت یونین ٹوٹ چکا ہے اور امریکہ عنقریب ٹوٹنے والا ہے۔ امریکہ کی چھ ریاستوں نے باقاعدہ اپنے وفاق کو یہ درخواست دے دی ہے کہ ہمیں الگ کیا جائے ، ہم وفاق کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ یورپ اور امریکہ میں گرجے بک بک کر مسجدیں بن رہی ہیں اور مدارس قائم ہو رہے ہیں۔ جب پرویز مشرف نے امریکی ایما پر پاکستان میں بیرونی طلبہ پر پابندی لگا دی تو امریکہ و یورپ میں موجود مدارس میں دینی تعلیم کو فرو غ حاصل ہوا۔ اس سے پہلے امریکہ کے مدارس میں صرف درجہ سادسہ تک تعلیم ہوتی تھی، اس کے وہ طلبہ کو ہندوستان، پاکستان یا بنگلہ دیش بھیج دیتے تے۔ پرویز مشرف کے اس اقدام کے بعد وہاں کے لوگوں نے سادسہ سے آگے کے درجات کی تعلیم بھی وہیں دینے کا فیصلہ کر لیا اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکہ میں تقریباً ۲۴ مقامات پر دورۂ حدیث کا باقاعدہ درس ہوتا ہے ۔
مولانا مکی نے کہا کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ حق و باطل کے درمیان برپا اس معرکے میں ہمت اور حوصلہ مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دینے کی تیاری کرنی چاہیے اور اللہ کی رحمت سے امید رکھنی چاہیے کہ وہ اس شر میں سے ہمارے لیے ضرور خیر پیدا فرمائے گا۔
سانحہ فیصل آباد کی عدالتی تحقیقات کی ضرورت
پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے کہا ہے کہ ۱۲؍ ربیع الاول کو غلام محمد آباد میں پیش آنے والا سانحہ اور ملک کے نامور عالم دین مولانا ضیاء القاسمی مرحوم کے گھر کو جلانے کا واقعہ کسی گہری منصوبہ بندی کا حصہ ہو سکتا ہے جس کا مقصد فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے اور دینی حلقوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنا تھا تاہم فیصل آباد کے علما اور عوام نے اس الم ناک سانحہ پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کر کے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف خود اپنی پوزیشن صاف کرنے کے لیے سانحہ کی جوڈیشل انکوائری کرائیں کیونکہ مذہبی حلقوں میں ان کے متعلق بھی تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے مولانا ضیاء القاسمی کے گھر کے دورے کے دوران مولانا زاہد محمود قاسمی اور مولانا خالد محمود قاسمی سے ملاقات کے موقع پر کیا۔ اس موقع پر مولانا جمیل الرحمن اختر، مولانا محمد عبدالرزاق اور حافظ محمد ریاض چشتی قادری بھی موجود تھے۔
مئی ۲۰۱۰ء
موجودہ صورتحال میں علمائے دیوبند کا اجتماعی موقف
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ایک مدت کے بعد دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے سرکردہ علماے کرام کا ایک نمائندہ اجتماع جامعہ اشرفیہ لاہور میں ۱۵؍ اپریل جمعرات کو منعقد ہوا جس کی صدارت وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سربراہ شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم نے فرمائی اور ملک بھر سے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ علماے کرام نے شرکت کی۔ اس سے قبل پندرہ بیس کے لگ بھگ سرکردہ اہل علم نے جامعہ اشرفیہ میں ہی مسلسل مشاورت کی جو دو روز تک جاری رہی۔ اس میں ملک کی موجودہ صورت حال اور خاص طور پر علماے دیوبند کو مختلف جہات سے درپیش مسائل اور چیلنجز کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور ایک مشترکہ موقف اعلامیہ کی صورت میں مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ قومی خود مختاری کے تحفظ، بیرونی مداخلت کے سدباب، ملک میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کے حوالے سے عملی پیش رفت اور دینی حلقوں کے درمیان مفاہمت کے فروغ کے سلسلے میں آئندہ حکمت عملی کے خدوخال طے کیے گئے۔ اس طویل مشاورت میں شریک ہونے والے حضرات میں حضرت مولانا سلیم اللہ خان، مولانا عبیداللہ اشرفی، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا عبدالرحمن اشرفی، مولانا حافظ فضل الرحیم، مولانا مفتی عبدالرحیم، مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا فضل الرحمن ، مولانا سمیع الحق، مولانا عبدالحفیظ مکی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا سید عبدالمجید ندیم، مولانا انوارالحق حقانی، مولانا مفتی کفایت اللہ، مولانا امداداللہ ، مولانا عبیداللہ خالد، مولانا محمد امجد خان اور راقم الحروف بھی شامل تھے۔
دو روزہ طویل مشاورت کے نتیجے میں مشترکہ اعلامیہ طے پایا جو مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے مرتب فرمایا اور اس کے مختلف نکات پر تفصیلی بات چیت کے بعد اس کی منظوری دی گئی اور پھر اسے ۱۵؍ اپریل کو ڈیڑھ سو کے لگ بھگ سرکردہ علماے کرام کے ہاؤس کے سامنے پیش کیا گیا اور اس پر بیسیوں علماے کرام نے اظہار خیال فرمایا جس کی روشنی میں اس میں متعدد ترامیم کے بعد اسے آخری شکل میں منظور کیا گیا جبکہ راقم الحروف کی مرتب کردہ قراردادیں بھی انہی مراحل سے گزر کر متفقہ طورپر منظور ہوئیں۔ اس موقع پر یہ بھی طے پایا کہ نفاذِ شریعت، ملکی سا لمیت و خودمختاری کے تحفظ، دینی مدارس کی جدوجہد کو موثر بنانے اور ان کے تحفظ اور اسلامی ثقافت و روایات کے دفاع کے لیے مشترکہ طو ر پر جدوجہد کی جائے گی اور اس کی خاطر مشترکہ مشاورتی اجتماعات کا سلسلہ جاری رہے گا۔
مذکورہ اجتماع کی طرف سے جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ موجودہ ملکی اور علاقائی صورت حال میں دیوبندی مکتب فکر کے علماے کرام کے متفقہ موقف کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی اسی اہمیت کی وجہ سے اسے یہاں ’کلمہ حق‘ کے طور پر شائع کیا جا رہا ہے۔
رئیس التحریر
بعد الحمد والصلوٰۃ!
ملک بھر کے علما کا یہ اجتماع عام مسلمانوں کے اس احساس میں برابر کا شریک ہے کہ ہمارا ملک جن گوناگوں مسائل سے دو چار ہے اور اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نفاذِ اسلام کے جس عظیم مقصد کے لیے یہ مملکت خداداد حاصل کی گئی تھی، اس کی طرف سے مجرمانہ غفلت برتی گئی ہے اور عملاً اسلامی نظام زندگی اور اسلامی نظام عدل کی طرف پیش قدمی کی بجائے ہم اس منزل سے دور ہوتے چلے گئے ہیں۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک بھر کے عوام ہمہ جہتی مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں، دولت کی تقسیم کا نظام اس قدر مہیب ہے کہ ایک طرف دولتوں کے ڈھیر ہیں اور دوسری طرف لوگ فقر و افلاس سے مجبور ہو کر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ ملک بھر میں کسی کی جان و مال کو تحفظ نہیں ہے، قتل وغارت گری اور دہشت گردی سے ہر شخص سہما ہوا ہے اور مجرم دندناتے پھرتے ہیں، سرکاری محکموں میں رشوت ستانی اور بدعنوانی کا عفریت ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے اور عوام کے لیے اپنا جائز حق حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا ہے۔ جو شخصیتیں ملک کا عظیم اثاثہ تھیں، وہ برملا قتل کی جاتی ہیں اور قاتلوں کو سزا نہیں دی جاتی۔ بے گناہ بچوں کو دھڑلے سے اغوا کیاجاتا ہے اور ملوث افراد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔ ناقص منصوبہ بندی کے نتیجے میں مہنگائی اور بجلی کی قلت نے عوام کو عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے جس سے بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری طرف ہمارے ملک کے بہترین وسائل ان عوامی امنگوں کو دور کرنے اور ان کے اسباب کا ازالہ کرنے کی بجائے امریکہ کی مسلط کی ہوئی جنگ میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے خرچ ہو رہے ہیں جبکہ امریکہ کی طرف سے ہماری سرحدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر کے ان ڈرون حملوں کا سلسلہ برابر جاری ہے جن میں ہمارے بے گناہ شہریوں، عورتوں او ر بچوں کی بہت بڑی تعداد شہید ہو کر بستیاں اجڑ چکی ہیں اوریہ بات واضح ہے کہ امریکہ نے اپنی بالادستی قائم کرنے اور عالم اسلام کے وسائل پر قبضہ کرنے اور اسلام اور امت مسلمہ کے تہذیب و تمدن کو تباہ کرنے کی کاروائیوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جگہ جگہ مسلمانوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے اور خود ہمارے شہریوں کے ساتھ امریکہ میں بدترین ذلت آمیز سلوک کیا جاتا ہے اور امریکہ مسلسل ہمارے بجائے بھارت کو نوازتے رہنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
اس سب کے باوجود حکومت کی پالیسیوں میں امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ملکی مفادات کو بے دھڑک قربان کیا جا رہا ہے۔ جب اجتماعی سطح پر مسلمانوں کو اس قسم کے مسائل در پیش ہوں تو اس وقت بطور خاص اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے اس کی نافرمانیوں سے بچا جائے، لیکن ان حالات میں بھی ملک میں بددینی کو فروغ مل رہا ہے، عریانی و فحاشی پر کوئی روک نہیں، نفاذ شریعت کی پرامن کوششوں کو درخوراعتنا ہی نہیں سمجھا جاتا اور سود ، قمار اور دوسری محرمات کو شیر مادر سمجھ لیا گیا ہے۔ ان تمام حالات میں ملک کے درد مند مسلمان سخت بے چینی کا شکار ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسا دین عطا فرمایا ہے جس میں نہ مایوسی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ بے عملی کی۔ لہٰذا یہ تمام حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ملک کے ارباب حل وعقد اور عوام ایک دوسرے کو نشانہ ملامت بنانے کی بجائے مل جل کر اپنے طرزعمل میں انقلابی تبدیلیاں لائیں، اسی طرح ملک کی کشتی گرداب سے نکل سکتی ہے۔ اسی غرض کے لیے علماے کرام کایہ اجتماع بلایا گیا تھا کہ وہ اس صورت حال پر غور کر کے قرآن و سنت کی روشنی میں وہ طریقے تجویز کریں جو ملک کو اس صورت حال سے نکالنے کے لیے ضروری ہیں۔ چنانچہ یہ اجتماع متفقہ طو ر پر سمجھتا ہے کہ مندر جہ ذیل اقدامات ناگزیر ہیں:
۱۔ اس بات پر ہمارا ایمان غیر متزلزل ہے کہ اسلام ہی نے یہ ملک بنایا تھا اور اسلام ہی اسے بچا سکتا ہے، لہٰذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک میں اسلامی تعلیمات اور قوانین کو نافذ کرنے کے لیے موثر اقدامات کرے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طر ف سے ہمارا دینی فریضہ بھی ہے اور ملک کے آئین کا اہم ترین تقاضا بھی اور اسی کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ملک میں انتہاپسندی کی تحریکیں اٹھی ہیں۔ اگر ملک نے اپنے مقصد وجود کی طرف واضح پیش قدمی کی ہوتی تو ملک اس وقت انتہا پسندی کی گرفت میں نہ ہوتا، لہٰذا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ پرامن ذرائع سے پوری نیک نیتی کے ساتھ ملک میں نفاذ شریعت کے اقدامات کیے جائیں۔ اس غرض کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل اور فیڈرل شریعت کورٹ کو فعال بنا کر ان کی سفارشات اور فیصلوں کے مطابق اپنے قانونی اور سرکاری نظام میں تبدیلیاں بلا تاخیر لائی جائیں اورملک سے کرپشن، بے راہ روی او ر فحاشی و عریانی ختم کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔
۲۔ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے دوسرے مقاصد پر نفاذ شریعت کے مطالبے کو اولیت دے کر حکومت پردباؤ ڈالیں اور اس غرض کے لیے موثر مگر پر امن طور پر جدوجہد کا اہتما م کریں اور عوام کا فرض ہے کہ جو جماعتیں اور ادارے اس مقصد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ، ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔
۳۔ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کو قرار دیا جا رہا ہے اوراس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی نے ملک کو اجاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی۔ جگہ جگہ خود کش حملوں اور تخریبی کاروائیوں نے ملک کو بدامنی کی آماجگاہ بنایا ہوا ہے۔ ان تخریبی کاروائیوں کی تمام محب وطن حلقوں کی طرف سے بار بار مذمت کی گئی ہے اور انہیں سراسرناجائز قرار دیا گیا ہے، لیکن اس تمام مذمت کے باوجود یہ کاروائیاں مستقل جاری ہیں۔ لہٰذا اس صورتحال کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر ملک بھر کی متفقہ مذمت اور فوجی طاقت کے استعمال کے باوجود یہ کاروائیاں کیوں جاری ہیں اور اس کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟ ہماری نظر میں اس صورت حال کا بہت بڑا سبب وہ افغان پالیسی ہے جو جنرل پرویز مشرف صاحب نے غلامانہ ذہنیت کے تحت کسی تحفظ کے بغیر شروع کر دی تھی اور آج تک اسی پر عمل ہوتا چلا آ رہا ہے جب کہ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ اس نے ہمارے ملک کو زخمی کرنے کے سوا کوئی خدمت انجام نہیں دی۔ لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت امریکہ نوازی کی اس پالیسی کو ترک کر کے افغانستان کی جنگ سے اپنے آپ کو بالکل الگ کرے اور امریکی افواج کو مدد پہنچانے کے تمام اقدامات سے دستبردار ہو۔
۴۔ لیکن یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کا مطلب یہ نہیں ہم خود اپنے گھر کو آگ لگا بیٹھیں، لہٰذا ہم پورے اعتماد اور دیانت کے ساتھ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں نفاذ شریعت اور ملک کو غیر ملکی تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے پرامن جدوجہد ہی بہترین حکمت عملی ہے اور مسلح جدوجہد شرعی اعتبار سے غلط ہونے کے علاوہ مقاصد کے لیے بھی سخت مضر ہے اور اس کا براہ راست فائدہ ہمارے دشمنوں کو پہنچ رہا ہے اور امریکہ اسے اس علاقے میں اثر و رسوخ کو دوام بخشنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اگر کوئی شخص اخلاص کے ساتھ اسے دین کا تقاضا سمجھتا ہے تو یہ اجتماع اس بات پر اتفاق کرتا ہے کہ ایسے حضرات کو حالات کے تقاضو ں اور ضرورتوں سے آگاہ کر کے مثبت کردار کی ادائیگی پر آمادہ کرنے کے لیے ناصحا نہ اور خیرخواہانہ روش اختیار کی جائے۔
۵۔ حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ اس بات کا احساس کرے کہ اندرونی شورشوں کاپائیدار حل بالآخر پر امن مذاکرات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ چنا نچہ ملک کی پارلیمنٹ نے اس موضوع پر اپنی متفقہ قرار داد میں ایک طرف سابق حکمرانوں کی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے اور ڈرون حملوں اورغیر ملکی مداخلت کے بارے میں قومی خودمختاری کے تحفظ پر زور دیا تھا اور دوسری طرف اندرونی شورش کے لیے مذاکرات کا ہی طریقہ تجویز کیا تھا، لیکن پارلیمنٹ کی اس قرار داد کوعملاً بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے، لہٰذا حکومت کافرض ہے کہ وہ اس قرارداد کے مطابق اپنی حکمت عملی کو تبدیل کر کے خانہ جنگی کا خاتمہ کرے۔
۶۔ دینی مدارس کا فرض یہ ہے کہ وہ تعلیم و تربیت سے متعلق اپنے اصل مقاصد تک ا پنی توجہ مرکوز رکھیں اور اس نظام کوزیادہ موثر بنانے کی پوری کوشش کریں جس سے اپنے زیر تربیت افراد میں تدین، امانت اور سچائی کی اس طرح روش پیدا کریں کہ وہ اسلام کے زریں اصولوں کی صحیح عملی تصویر اور آئینہ دار ہوں اور مجسم دعوت و تبلیغ کاذریعہ بنیں۔
۷۔ عام مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مشکلات اور مصائب کا اصل حل اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے ساتھ اس کی رحمتیں حاصل نہیں کی جا سکتیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ہر طرح کے گناہوں سے توبہ کر کے رشوت ستانی اور ہر طرح کی حرام آمدنی، بے حیائی اور فحاشی، جھوٹ اور دنیوی اغر اض کے لیے باہمی جھگڑوں سے پرہیز کریں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے رجوع کی طرف متوجہ ہوں ، شرعی فرائض کو بجا لائیں اور اتباع سنت کا اہتمام کریں۔
ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا انتقال
گزشتہ ماہ کے دوران ملک کے معروف مذہبی دانش ور محترم ڈاکٹر اسراراحمد صاحب کا رات انتقال ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی وفات سے پاکستان میں نفاذ شریعت کی جدوجہد ،جس کا میں خود بھی ایک کارکن ہوں، ایک باشعور اور حوصلہ مند رہنما سے محروم ہوگئی۔ میری ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اس جدوجہد کے حوالے سے طویل رفاقت رہی ہے اور بہت سی تحریکات میں اکٹھے کام کرنے کا موقع ملا۔
انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز جمعیت طلبہ سے کیا اور پھر جماعت اسلامی کے قافلے کا حصہ بنے، مگر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بعض افکار اور طریق کار سے اختلاف کے باعث الگ ہو گئے۔ جماعت اسلامی سے اپنا راستہ الگ کیا، لیکن نفاذ اسلام کی جدوجہد سے دست برداری اختیار نہیں کی اور آخر وقت تک مصروف عمل رہے۔ اس بڑھاپے میں نفاذ شریعت کے لیے ان کی تڑپ اور محنت قابل رشک تھی جسے دیکھ کر جوانوں کو بھی حوصلہ ملتا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی ؒ نے برطانوی استعمار کے خلاف آزادی وطن کی جدوجہد میں مالٹا جزیرے میں ساڑھے تین سال کی قید و بند کے بعد واپسی پر اپنی جدوجہد کا جو راستہ اختیار کیاتھا، وہی اس محنت کا صحیح راستہ ہے اور وہ خود کو شیخ الہند ؒ کی اس تحریک کا تسلسل قرار دیتے ہوئے آخر عمر تک اس پر گامزن رہے۔
مالٹا جزیرے میں ساڑھے تین سال گزارنے کے بعد شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی ؒ واپس ہندوستان پہنچے تو انھوں نے برطانوی استعمار کے خلاف مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کر کے پر امن جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور اپنے پیروکاروں کو تلقین کی کہ وہ اب ہتھیار اٹھانے کی بجائے آزادی وطن کے لیے سیاسی جدوجہد کریں اور پرامن عوامی جدوجہد کے ذریعے آزادی کی منزل کی طرف پیش رفت کریں۔ اس موقع پر شیخ الہند ؒ نے، جو نہ صرف اس وقت دیوبندی فکر اور تحریک کے سب سے بڑے قائد تھے بلکہ اب بھی انہیں دیوبند ی مسلک کے تمام داخلی مکاتب فکر میں متفقہ قائد کی حیثیت حاصل ہے، آئندہ جدوجہدکے لیے تین نکات کا ایجنڈا پیش کیا:
* مسلمان باہمی اختلافات سے گریز کرتے ہوئے متحدہ کردار ادا کریں۔
* قرآن کریم کی تعلیمات کے فروغ اور عام مسلمان کو قرآن کریم سے شعوری طور پر وابستہ کرنے کے لیے ہر سطح پر دروس قرآن کا اہتمام کیا جائے۔
* مسلمان اپنے شرعی معاملات طے کرنے کے لیے امارت شرعیہ کا قیام عمل میں لائیں اور ایک باقاعدہ امیر منتخب کر کے اس کی اطاعت میں کام کریں۔
ڈاکٹر اسرا ر احمد کا موقف تھا کہ وہ شیخ الہند ؒ کے اسی تین نکاتی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں جبکہ ان کے بقول شیخ الہند ؒ کے تلامذہ اور ان کے حلقے کے لوگ اس ایجنڈے پر قائم نہیں رہ سکے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کے اس موقف سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ وہ خود اسی ایجنڈے پر کام کرتے رہے اور انہوں نے اس مقصد کے لیے ملک بھر میں احباب اور رفقا کاایک پورا حلقہ تیار کیا تھا جو اب ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے نام سے ڈاکٹر صاحب کے فرزند جناب حافظ محمد عاکف سعید کی امارت میں متحرک اور سرگرم عمل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے قرآن فہمی کے ذوق کو فروغ دیااور ہر سطح پر اس کے حلقے قائم کیے۔ انہوں نے قرآن کالج کے ذریعے ہزاروں نوجوانوں کا قرآن کریم کے ساتھ فہم و شعور کا تعلق قائم کرایا۔ لاہور میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے ذوق اور رہنمائی کے مطابق قرآن کریم کے دروس کے آغاز کا اعزاز شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اوران کے تلامذہ کو حاصل ہے، مگر ان کے حلقہ سے باہر اس ذوق کو بڑھانے میں اگر میری اس بات کو مبالغہ پر محمول نہ کیا جائے تو ڈاکٹر اسرار احمد کی جدوجہد سب سے نمایاں نظر آتی ہے۔
وہ نفاذ شریعت کی ہر جدوجہد اور تحریک کاحصہ رہے اور انہوں نے اسلامی تحریکات میں ہمیشہ ہر اول دستہ کاکردار ادا کیا۔ انہوں نے نفاذ اسلام کے لیے مسلسل جدوجہد ہی نہیں کی بلکہ اسلامی نظام کی اصل اصطلاح خلافت کو زندہ رکھنے اور نئی نسل کو خلافت کی اصطلاح سے مانوس کرنے کے لیے بھی اہم کردار ادا کیا۔ وہ ایک امیر کی بیعت اور اس کی اطاعت میں کام کرنے کی ترغیب دیتے رہے اور ان کا زندگی بھر اصرار رہا کہ ایک امیر اور اس کے ساتھ سمع و طاعت کا تعلق دینی تقاضوں میں سے ہے۔ وہ خلافت، امام مہدی کے ظہور اور ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے حوالہ سے بعض تعبیرات میں تفرد بھی رکھتے تھے جس سے بہت سے علمائے کرام کو اتفاق نہیں تھا۔ خود راقم الحروف نے بھی ان متعدد ملاقاتوں میں ان کی بعض تعبیرات پر تحفظات کا اظہار کیا، لیکن ان کا خلوص اور اپنے مشن کے ساتھ ان کی بے لچک اور جذباتی وابستگی ہمیشہ قابل احترام اور قابل رشک رہی۔ وہ میرے بزرگ دوست تھے ، تحریک نفاذ اسلام کے فکری رہنما تھے اور شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے ایک ایسے عقیدت مند تھے جو آج کے دور میں بھی شیخ الہند ؒ کانام لینے اور انہیں رہنما قرار دینے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا انتقال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
گزشتہ ماہ کے دوران ملک کے معروف مذہبی دانش ور محترم ڈاکٹر اسراراحمد صاحب کا رات انتقال ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی وفات سے پاکستان میں نفاذ شریعت کی جدوجہد ،جس کا میں خود بھی ایک کارکن ہوں، ایک باشعور اور حوصلہ مند رہنما سے محروم ہوگئی۔ میری ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اس جدوجہد کے حوالے سے طویل رفاقت رہی ہے اور بہت سی تحریکات میں اکٹھے کام کرنے کا موقع ملا۔
انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز جمعیت طلبہ سے کیا اور پھر جماعت اسلامی کے قافلے کا حصہ بنے، مگر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بعض افکار اور طریق کار سے اختلاف کے باعث الگ ہو گئے۔ جماعت اسلامی سے اپنا راستہ الگ کیا، لیکن نفاذ اسلام کی جدوجہد سے دست برداری اختیار نہیں کی اور آخر وقت تک مصروف عمل رہے۔ اس بڑھاپے میں نفاذ شریعت کے لیے ان کی تڑپ اور محنت قابل رشک تھی جسے دیکھ کر جوانوں کو بھی حوصلہ ملتا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی ؒ نے برطانوی استعمار کے خلاف آزادی وطن کی جدوجہد میں مالٹا جزیرے میں ساڑھے تین سال کی قید و بند کے بعد واپسی پر اپنی جدوجہد کا جو راستہ اختیار کیاتھا، وہی اس محنت کا صحیح راستہ ہے اور وہ خود کو شیخ الہند ؒ کی اس تحریک کا تسلسل قرار دیتے ہوئے آخر عمر تک اس پر گامزن رہے۔
مالٹا جزیرے میں ساڑھے تین سال گزارنے کے بعد شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی ؒ واپس ہندوستان پہنچے تو انھوں نے برطانوی استعمار کے خلاف مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کر کے پر امن جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور اپنے پیروکاروں کو تلقین کی کہ وہ اب ہتھیار اٹھانے کی بجائے آزادی وطن کے لیے سیاسی جدوجہد کریں اور پرامن عوامی جدوجہد کے ذریعے آزادی کی منزل کی طرف پیش رفت کریں۔ اس موقع پر شیخ الہند ؒ نے، جو نہ صرف اس وقت دیوبندی فکر اور تحریک کے سب سے بڑے قائد تھے بلکہ اب بھی انہیں دیوبند ی مسلک کے تمام داخلی مکاتب فکر میں متفقہ قائد کی حیثیت حاصل ہے، آئندہ جدوجہدکے لیے تین نکات کا ایجنڈا پیش کیا:
- مسلمان باہمی اختلافات سے گریز کرتے ہوئے متحدہ کردار ادا کریں۔
- قرآن کریم کی تعلیمات کے فروغ اور عام مسلمان کو قرآن کریم سے شعوری طور پر وابستہ کرنے کے لیے ہر سطح پر دروس قرآن کا اہتمام کیا جائے۔
- مسلمان اپنے شرعی معاملات طے کرنے کے لیے امارت شرعیہ کا قیام عمل میں لائیں اور ایک باقاعدہ امیر منتخب کر کے اس کی اطاعت میں کام کریں۔
ڈاکٹر اسرا ر احمد کا موقف تھا کہ وہ شیخ الہند ؒ کے اسی تین نکاتی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں جبکہ ان کے بقول شیخ الہند ؒ کے تلامذہ اور ان کے حلقے کے لوگ اس ایجنڈے پر قائم نہیں رہ سکے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کے اس موقف سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ وہ خود اسی ایجنڈے پر کام کرتے رہے اور انہوں نے اس مقصد کے لیے ملک بھر میں احباب اور رفقا کاایک پورا حلقہ تیار کیا تھا جو اب ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے نام سے ڈاکٹر صاحب کے فرزند جناب حافظ محمد عاکف سعید کی امارت میں متحرک اور سرگرم عمل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے قرآن فہمی کے ذوق کو فروغ دیااور ہر سطح پر اس کے حلقے قائم کیے۔ انہوں نے قرآن کالج کے ذریعے ہزاروں نوجوانوں کا قرآن کریم کے ساتھ فہم و شعور کا تعلق قائم کرایا۔ لاہور میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے ذوق اور رہنمائی کے مطابق قرآن کریم کے دروس کے آغاز کا اعزاز شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اوران کے تلامذہ کو حاصل ہے، مگر ان کے حلقہ سے باہر اس ذوق کو بڑھانے میں اگر میری اس بات کو مبالغہ پر محمول نہ کیا جائے تو ڈاکٹر اسرار احمد کی جدوجہد سب سے نمایاں نظر آتی ہے۔
وہ نفاذ شریعت کی ہر جدوجہد اور تحریک کاحصہ رہے اور انہوں نے اسلامی تحریکات میں ہمیشہ ہر اول دستہ کاکردار ادا کیا۔ انہوں نے نفاذ اسلام کے لیے مسلسل جدوجہد ہی نہیں کی بلکہ اسلامی نظام کی اصل اصطلاح خلافت کو زندہ رکھنے اور نئی نسل کو خلافت کی اصطلاح سے مانوس کرنے کے لیے بھی اہم کردار ادا کیا۔ وہ ایک امیر کی بیعت اور اس کی اطاعت میں کام کرنے کی ترغیب دیتے رہے اور ان کا زندگی بھر اصرار رہا کہ ایک امیر اور اس کے ساتھ سمع و طاعت کا تعلق دینی تقاضوں میں سے ہے۔ وہ خلافت، امام مہدی کے ظہور اور ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے حوالہ سے بعض تعبیرات میں تفرد بھی رکھتے تھے جس سے بہت سے علمائے کرام کو اتفاق نہیں تھا۔ خود راقم الحروف نے بھی ان متعدد ملاقاتوں میں ان کی بعض تعبیرات پر تحفظات کا اظہار کیا، لیکن ان کا خلوص اور اپنے مشن کے ساتھ ان کی بے لچک اور جذباتی وابستگی ہمیشہ قابل احترام اور قابل رشک رہی۔ وہ میرے بزرگ دوست تھے ، تحریک نفاذ اسلام کے فکری رہنما تھے اور شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے ایک ایسے عقیدت مند تھے جو آج کے دور میں بھی شیخ الہند ؒ کانام لینے اور انہیں رہنما قرار دینے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
اسلامی اخلاقیات کے سماجی مفاہیم (۲)
پروفیسر میاں انعام الرحمن
(’’راہ عمل‘‘ کا ایک مطالعہ۔)
خالد سیف اللہ صاحب خواہ مخواہ کی قانونی موشگافیوں میں الجھنے کے بجائے اسلامی تعلیمات اور صدرِ اسلام کے واقعات سے استدلال کرکے چھوٹے چھوٹے نتایجِ فکر ، قارئینِ کے سامنے رکھتے جاتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی نظامِ حیات کا کوئی ایسا واحد بڑا سچ نہیں ہوتا جس کے بل بوتے پر مقصود سماج کی تشکیل کی جا سکتی ہو ، بلکہ ہوتا یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے سچ اکھٹے ہوکر ایک بڑی سچائی کے ظہور کا سبب بنتے ہیں ۔ اس لیے ہمارے ممدوح کا طرزِ استدلال عملی مثالی اور قابلِ تحسین ہے ۔ اس سلسلے کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے :
’’ جب مدینہ میں ۸۰؍اشخاص نے اسلام قبول کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تربیت کے لیے حضرت معصب بن عمیرؓ کو بھیجا ، اس سے معلوم ہوا کہ کم سے کم ہر ۸۰/ مسلمان پر ایک عالم ہونا چاہیے ‘‘ (ج۲، ح۵، ص۲۵)
زیرِ نظر تالیف کی امتیازی خصوصیت یہی ہے کہ خالد سیف اللہ صاحب رحمانی ’’لٹھ ملا‘‘ کے سے انداز میں اسلام کا فقط قانونی پہلو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’فتوی‘‘ دیتے نظر نہیں آتے بلکہ موصوف کی نگاہِ انتخاب نے دینِ اسلام کی سماجی جہت اور اس سے وابستہ اخلاقی قدروں کی صباحتوں کو بہت نمایاں ، نہایت اجلا ااور عطر بار کیا ہے ۔اس لیے قرآن و سنت کے وہ اہم پہلو جو علما کی نگاہِ ناز سے عموماََ اوجھل رہ جاتے ہیں، خالد صاحب کی نظر میں خاص طور پر جچے ہیں:
’’ ایک صاحب کا مقدمہ خدمتِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں آیا ۔ گواہان نہیں تھے، اس لیے فریقین کا بیان سن کر آپ نے ایک کے حق میں فیصلہ فرمایا۔ پھر فرمایا کہ ممکن ہے کہ میں نے تمہاری چرب زبانی سے متاثر ہو کر تمہارے حق میں فیصلہ کر دیا ہو۔ حال آں کہ فی الحقیقت وہ زمین تمہاری نہ ہو، تو اگر ایسا ہو تو یہ تمہارے حق میں زمین کا نہیں بلکہ جہنم کا ٹکڑا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننی تھی کہ وہ صاحب زمین سے دست بردار ہو گئے اور دوسرے فریق نے بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بالآخر آپ نے وہ زمین دونوں میں نصف نصف تقسیم فرمائی۔ اس لیے جب تک دل کی دنیا نہ بدلے اور بنیادی فکر اور سوچ میں انقلاب نہ آئے، سماج کو جرایم سے پاک کرنا ممکن نہیں۔‘‘ (جرایم ۔۔مرض اور علاج: ج۲، ح۴، ص۸۶)
کسی بگڑے ہوئے سماج میں ، دور رس ، ثمر آور اور دیرپا تبدیلی کے لیے ، فقط قانون کے نفاذ کے بجائے دل کی دنیا بدلنے کی نبوی حکمت سے فیض یاب ہوتے ہوئے، خالد صاحب مسایل کو جڑ سے اکھاڑنے کی بات اس طرح کرتے ہیں:
’’ اگر کوئی برائی جڑ پکڑ چکی ہے اور مدتِ دراز سے اس کی خو چلی آتی ہو ، تو بیک لمحہ اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی اور ایسی اصلاح سے اندیشہ ہے کہ فائدہ کم اورنقصان زیادہ ہو ، اسی لیے احکام شریعت میں تدریج کا لحاظ رکھا گیا ہے ۔ اکثر محرمات بہ تدریج حرام قرار دی گئیں اور شراب کا معاملہ تو بالکل واضح ہے ، وہ تین مرحلوں میں حرام ہوئی ۔ اس لیے یہ بات ضروری ہے کہ حکمت و مصلحت کے پہلو کو ہمیشہ ملحوظ رکھا جائے ۔ انسان جو کچھ کہے حق کہے ، لیکن ہر حق بات کا ہر وقت کہہ دینا ضروری نہیں ۔ بعض دفعہ مرحلہ وار حق کا اظہار زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے ۔ اگر علما اس بات کو ملحوظ رکھیں تو بہت سے باہمی اختلاف جو مسجدوں اور دینی کاموں میں پیدا ہو جاتے ہیں ، ان کی نوبت نہ آئے ۔‘‘ (کس سے کہوں کے زہر ہے میرے لیے مئے حیات: ج۲، ح۵، ص۷۱، ۷۲ )
اس قتباس کا تنقیدی جائزہ چند سوالات جنم دیتا ہے کہ خالد سیف اللہ صاحب کیا واقعی احکامِ شریعت میں اصولِ تدریج میں مضمر حکمتوں کے عملی طور پر قائل ہیں ؟ یا یہ محض خالی خولی لفاظی ہے یا قلم کی روانی میں یہ الفاظ غیر شعوری طور نکل گئے ہیں؟ محترم نے مثال بھی شراب کی دی ہے ، ہم استفسار کریں گے کہ کیا شراب کی حرمت کے تدریجی احکام آج بھی اسی طرح موثر ہیں جیسے عہدِ نبوی میں موثر تھے یا کہ ان کے پاس بھی ’’ناسخ‘‘ کا کلہاڑا موجود ہے جو انھوں نے اس مضمون کی رعایت سے تو چھپا رکھا ہے لیکن کسی دوراہے پر اسے چلانے سے نہیں چوکیں گے اور’’منسوخ‘‘ کے ڈھیر لگاتے جائیں گے؟ بڑی عجیب بات ہے کہ ایسے فقہا جو کئی آیات مبارکہ کو منسوخ قرار دیتے ہیں، ان کی نگاہوں سے یہ سامنے کی بات کیسے اور کیوں کر اوجھل رہ جاتی ہے کہ ان کے اس طرزِ استدلال سے احکامِ شریعت کے اصولِ تدریج کی حکمتیں کا فور ہو جاتی ہیں۔ اس سے زیادہ حیرت ناک بات یہ ہے کہ ’’اکمل دین‘‘ کی غلط تعبیر کی آڑ میں وہ قرآن مجید میں مذکور کفار کے اس اعتراض کو ایک لحاظ سے حق بجانب قرار دیتے ہیں کہ قرآن مجیدپورے کا پورا ایک ہی بار نازل کیوں نہیں کر دیا جاتا۔ پھر اس سے بھی زیادہ بڑی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اللہ رب العزت کے اس منشا کو ، جو اللہ تبارک تعالی نے کفار کے اعتراض کے باوجود ، نزولِ قرآن مجید کے سلسلے میں جاری و ساری رکھی ، نہ صرف بیک جنبشِ قلم نظرانداز کر دیا جاتا ہے ، بلکہ اس کے ساتھ نتیجے کے طور پر یہ بھی باور کرا دیا جاتا ہے کہ صحابہ کرامؓ جیسی تاریخ کی منتخب شخصیات کو (جن کے درمیان نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس موجود تھے ) تدریجی احکام کی اس لیے ضرورت تھی کہ شراب نوشی جیسی برائیاں ان کی ’’خو ‘‘میں موجود تھیں ، جبکہ اب (یعنی عہدِ صحابہؓ کے بعد) منسوخ احکام اس لیے منسوخ قرار دیے گئے ہیں کہ لوگ خود کار انداز میں کسی تربیت کے بغیر ہی، صرف مسلمانوں والا نام رکھنے سے ایسی کسی ’’‘خو‘‘ سے چھٹکارہ پا کر صحابہ کرامؓ جیسی وہ پارسائی پا سکتے ہیں جس سے صحابہؓ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی میں آہستہ آہستہ بتدریج مشرف ہوئے ۔(سبحان اللہ) ۔ مطلب یہ ہوا کہ آج کے نومسلم کو منسوخ احکام کی رعایت حاصل نہیں ہے اسے اسلام قبول کرنے کے فوراََ بعد شراب نوشی وغیرہ جیسی برائیوں سے(جو اس کی گھٹی میں پڑی ہیں ) فوراََ کنارہ کشی اختیار کر لینی چاہیے ، یعنی صحابہ کرامؓ کے لیے تدریجی احکام اور آج کے نومسلم یا نام کے مسلم کے لیے غیر تدریجی فقط آخری ناسخ حکم ۔ پھر کہیے سبحان اللہ ۔چونکہ ہم ماہنامہ الشریعہ میں بعنوان ’’معاصر تہذیبی تناظر میں مسلم علمی روایت کی تجدید‘‘ اس سلسلے میں اصولی بحث کر چکے ہیں ، لہذا یہاں اسی پر اکتفا کرتے ہوئے اتنا ضرور چاہیں گے کہ خالد سیف اللہ صاحب اس موضوع پر اپنا موقف امت کے سامنے ضرور رکھیں کہ آج کی عالم گیریت کی فضا میں ایسے موضوعات پر واضح ہونا بہت ضروری ہے ۔ ویسے ان کے ایک مضمون (زنا کی سزا۔۔موجودہ سماجی ماحول میں) سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شرعی احکامات کی تنفیذ میں مطلوب تقاضوں اور مقاصد پر گہری نظر رکھتے ہیں، ملاحظہ کیجیے :
’’ ہندوستان میں اولاََ تو جرم کے محرکات کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، فحش فلموں کا بازار گرم ہے، عریاں ویڈیو کیسٹ ملتے ہیں، ٹی وی نے حیا کی چادر اتار پھینکی ہے، فحش لٹریچر کا سیلاب ہے، بے شرمی پر مبنی عشقیہ گانے بچہ بچہ کی زبان پر ہیں، بے پردگی اور عریانیت نے پورے ماحول کو مسموم بنا دیا ہے، تعلیم گاہوں سے لے کر دفاتر تک ایک مخلوط نظام کو اپنی ترقی کی علامت تصور کیا جاتا ہے، شراب عام ہے اور ایک طبقہ کو زنا کے لائسنس جاری کیے جاتے ہیں، بلکہ غیر شادی شدہ عورتوں سے باہمی رضامندی سے بدکاری کی جائے تو قانون کی نظر میں وہ زنا ہے ہی نہیں، پھر قانونِ شہادت اتنی بے احتیاطی پر مبنی ہے کہ محض ایک شخص کی گواہی پر بھی اہم فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ان حالات میں زنا کی سزا پھانسی کو قرار دینا میرا خیال ہے کہ کوئی قرینِ انصاف بات نہ ہو گی۔ اسی لیے فقہا نے حدود شرعیہ کے جاری ہونے کے لیے ’’دارالاسلام‘‘ کی شرط لگائی ہے۔ زانی بے شک سخت ترین سزا کا مستحق ہے، لیکن تقاضا انصاف یہ ہے کہ اس کو جرم سے بچنے کا ماحول دیا جائے ۔ جو ماحول قدم قدم پر گناہ کی دعوت دیتا ہو، اس ماحول میں مجرم کو اس طرح کی سزا دیا جانا یقیناََ محلِ نظر ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ پہلے ایسے قوانین بنائے جو جرم کے عوامل اور محرکات کو روک سکے اور ایسے پاکیزہ سماج کی تعمیر ہوسکے جس میں انسان گناہ کی طرف ہاتھ بڑھانے میں سو دفعہ سوچنے پر مجبور ہو، پھر زنا کی قرار واقعی سزامقرر کرے۔‘‘ (ج۱، ح۲، ص۲۰۱، ۲۰۲)
خالد صاحب کے موقف سے بحیثیت مجموعی اتفاق کرنا پڑتا ہے لیکن وہ فقہا کی شرط ’دارالاسلام‘ تائیدی انداز میں لائے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج کی عالم گیریت کی فضا میں دارالاسلام اور دارالحرب میں دنیا کی تقسیم محلِ نظر ہے۔ جدید گلوبل دنیا ، ایک نئی فقہ کا تقاضا کر رہی ہے۔ دینی اخلاقیات کے کلی مفاہیم اگر پیشِ نظر رکھے جائیں تو جدید دنیا دارالدعوۃ قرار پاتی ہے اور اسی دارالدعوۃ کی بنیاد پر گلوبل فقہ کی پر شکوہ عمارت کھڑی کی جاسکتی ہے۔
اب ہم قارئین کے لیے زیرِ نظر تالیف میں سے چندایسے اقتباسات نقل کرنا چاہیں گے جن سے اندازہ ہوگا کہ ہمارے ممدوح کے ہاں انسانی زندگی کے ایسے منفی پہلو ، جنہیں توجہ کا مرکز بنائے بغیرصحت مند سماج کی تشکیل نہیں کی جا سکتی، کس قدر اہمیت کے حامل ہیں۔ قابلِ افسوس بات ہے کہ مسلم سماج اور اس سے وابستہ و پیوستہ اخلاقی اقدار کی باز یافت اور استقلال ، اکثر علما کے بیان و ابلاغ میں ’متروک کے منصبِ جلیلہ ‘ پر فائز ہو چکے ہیں۔ اس اعتبار سے موصوف کی تحریرکا یہ نمایاں پہلو گویا ’فرضِ کفایہ‘کی ادائیگی کی ایک سبیل بھی ہے ، ملاحظہ کیجیے :
’’ عین میدانِ جنگ میں بھی غیر معمولی حالات کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت نہیں چھوٹتی تھی اور مرضِ وفات میں اس وقت بھی آپ نے جماعت میں شرکت کا اہتمام فرمایا جب خود چلنے کی طاقت بھی باقی نہیں رہی ، لیکن اس کے باوجود قبیلہ بنی عمروبن عوف میں ایک جھگڑا رفع کرنے اور مصالحت کرانے کے لیے آپ اپنے رفقا کے ساتھ بنفسِ نفیس تشریف لے گئے اور اس فریضہ مصالحت میں اتنی تاخیر ہو گئی کہ حضرت بلالؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو امامت کے لیے آگے بڑھا دیا۔ نماز شروع ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ کی نگاہ میں مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کی کیااہمیت تھی۔‘‘ (صلح کرانا ۔۔ایک اہم اسلامی فریضہ : ج۲، ح۴، ص۵۳)
’’ منشیات کی مضرتوں کا سماجی پہلو یہ ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے جس سے مختلف لوگوں کے حقوق اور ذمہ داریاں متعلق ہیں، ایک شخص باپ ہے تو اسے اپنے بچوں کی پرورش و پرداخت کرنی ہے، نہ صرف اس کے روزہ مرہ کی کھانے پینے کی ضروریات کو پورا کرنا ہے بلکہ اس کی تعلیم کی بھی فکر کرنی ہے۔ وہ بیٹا ہے تو اسے اپنے بوڑھے ماں باپ اور اگر خاندان کے دوسرے بزرگ موجود ہوں تو ان کی پرورش کا بار بھی اٹھانا ہے۔ شوہر ہے تو یقیناََ بیوی کے حقوق اس سے متعلق ہیں، بھائی ہے تو چھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش اور شادی بیاہ کا فریضہ اسی کے کاندھوں پر ہے۔ نشہ انسان کو اپنے گرد و پیش سے بے خبر اور غافل بنا دیتا ہے اور اس بدمستی میں نہ اس کو لوگوں کے حقوق یاد رہتے ہیں، نہ اپنے فرایض و وجبات، بعض اوقات تو وہ ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے کہ ا پنے ساتھ دوسروں کی زندگی بھی تباہ و برباد کر دے‘‘ (منشیات ۔۔بڑھتا ہوا سماجی ناسور:ج۲، ح۴، ص۱۴۸)
’’ مذہب کی راہ سے جو رشوت آتی ہے وہ تقدس کا لباس زیب تن کیے ہوئے ہوتی ہے، لوگوں کو اس کے رشوت ہونے کا خیال بھی نہیں ہوتا ، اس مذہبی رشوت کی حقیقت جاننے کے لیے کلیساؤں کی تاریخ پڑھیے، جہاں مغفرت نامے فروخت کیے جاتے تھے۔ ۔۔۔۔مذہبی رشوت کی روایت آج بھی ختم نہیں ہوئی ہے، قادیانی حضرات کے یہاں آج بھی بہشتی مقبرہ، قادیان میں اصل اور دوسرے مقامات پر اس کی نقل کی شکل میں موجود ہیں، جس میں کثیر رقم لے کر تدفین کی اجازت دی جاتی ہے اور لوگ اس تصور کے ساتھ اس میں دفن ہوتے ہیں کہ یہاں دفن ہوتے ہی اب وہ داخلِ بہشت ہوں گے۔ ۔۔۔۔ اگر کسی لڑکے کے بارے میں یہ بتایا جائے کہ یہ چور اور ڈاکو ہے تو شاید ہی کوئی شخص اس سے رشتہ کرنے کو تیار ہو، لیکن یہ جاننے کے باوجود کہ فلاں شخص کی اوپر کی آمدنی اتنی ہے، ماں باپ اس کی ہوش مندی کے ثنا خواں ہوتے ہیں اور لوگ اپنی لڑکی کے لیے اس مہذب چور بلکہ سینہ زور کا انتخاب کرتے ہیں ‘‘ (رشوت اور ہمارا سماج:ج۲، ح۴، ص۱۳۸، ۱۴۰)
خالد سیف اللہ صاحب ، دین کی سماجی تعبیر پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ آدم بیزار صوفیوں کی طرز پر کسی گوشے میں بیٹھ کر’خاموش رہنے کی آزادی‘ سے بہرہ مند نہیں ہونا چاہتے۔ انہوں نے ایک روایت سے Social Activism کی ایسی راہ نکالی ہے، جو سماج کی خاموش اکثریت کو لب کشائی پر آمادہ کرتی نظر آتی ہے، ملاحظہ کیجیے:
’’ احتجاج کے لیے ایسے ذرائع کا اختیار کرنا جس سے عام لوگوں کو نقصان نہ پہنچے ، اس کی بھی گنجایش ہے ۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک صاحب خدمتِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرا ایک پڑوسی ہے جو مجھے اذیت پہنچاتا رہتا ہے ۔ آپ نے اس سے ارشاد فرمایا کہ اپنا سامان نکال کر راستہ پر رکھ دو ، اس شخص نے اپنا سامان نکال لیا اور راستہ پر ڈال دیا ، جو بھی وہاں سے گزرتا استفسارِ حال کرتا ، وہ شخص کہتا کہ میرا پڑوسی مجھے اذیت دیتا ہے اس لیے میں نے یہ سامان باہر نکال رکھا ہے ، گزرنے والا کہتا اس پر اللہ کی لعنت ہو ، اللہ اسے رسوا کرے ۔ آخر پڑوسی آیا اور اس نے درخواست کی کہ اپنے گھر لوٹ چلو، اب میں تم کو کبھی اذیت نہیں دوں گا ‘‘ ( ہڑتال۔۔اسلامی نقطہ نظر: ج۱، ح۳، ص۸۸)
معاصر مسلم سماج کے مسایل میں سے ایک اہم مسئلہ ، دین کے نام پر لوگوں کے لیے مسایل کے انبار کھڑا کرنے کی روش ہے۔اگر مذہبی حلقے کو اس طرف متوجہ کیا جائے تو عام طور پر یہی سننے کو ملتا ہے کہ ایسے امور میں دنیاوی لحاظ سے لوگوں کو تکلیف نہیں ہوتی، لیکن خدا کے لیے ایسا کیا جائے تو لوگ چوں چراں کرتے ہیں۔ خالد صاحب نے بلا جھجھک ایسے نام نہاد دینی شعایرِ کی بیخ کنی کرتے ہوئے، ایک طرف مذہبی رویے کی اصلاح کی ہے اور دوسری طرف بال سول سوسائٹی کے کورٹ میں پھینک دی ہے کہ وہ اصلاحِ احوال کے لیے اپنا کردار ادا کرے:
’’ قرآن کی تلاوت میں بھی آواز کو معتدل ہونا چاہیے، ....فقہا نے بھی اس پہلو کو ملحوظ رکھا ہے چنانچہ مشہور فقیہ علامہ حصفکی ؒ فرماتے ہیں کہ : ’’امام جماعت کے اعتبار سے ہی جہر کرے گا اگر اس سے زیادہ زور سے پڑھے تو اس نے نامناسب عمل کیا ‘‘۔ علامہ شامی ؒ نے نقل کیا ہے کہ’’ اتنی بلند آوازجو خود اس کو تھکا دے اور دوسرے کے لیے اذیت کا باعث ہو ، اچھی بات نہیں‘‘ .... اسلام میں صرف اذان کے لیے بلند آواز کو پسند کیا گیا ہے کیونکہ اس کا مقصد ہی اظہار و اعلان ہے اور وہ اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو اسی لیے اس خدمت پر مامور فرمایا کہ ان کی آواز بلند تھی ۔ لیکن اذان میں بھی ایسی ہی آواز مطلوب ہے جو اہلِ محلہ تک پہنچ جائے ۔ سیدنا حضرت عمرؓ کے سامنے ایک صاحب نے اذان دی اور آواز کو بلند کرنے میں بہت تکلف سے کام لیا تو آپؓ نے اس پر نا پسندیدگی کا اظہار فرمایا ۔۔۔۔۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سماج میں اسلامی زندگی کے صحیح خدوخال پیش کریں ‘‘ ( عبادت گاہوں سے صوتی آلودگی پھیلنے کا مسئلہ: ج۱، ح۳، ص۷۹، ۸۰، ۸۱)
’’ خود سوزی کے تو بہت سے واقعات پیش آتے رہتے ہیں لیکن مال سوزی اور اپنا مال آپ جلانے کے واقعات شاذ و نادر ہی پیش آتے ہیں، بلکہ اگر کوئی شخص اپنا مال آپ جلا لے تو لوگ اسے پاگل اور دیوانہ ہی سمجھیں گے، لیکن مال سوزی کی کچھ ایسی صورتیں بھی ہیں جو ہیں تو پاگل پن ہی، لیکن معاشرہ انہیں پاگل نہیں کہتا۔ شادیوں میں جو پٹاخہ بازیاں ہوتی ہیں، کیا یہ اپنے پیسوں کو آپ جلانا نہیں ہے؟شبِ برات ایک مبارک رات ہے، عبادت اور ذکر و تلاوت کی رات ہے، لیکن کیا مسلمان محلوں میں یہ رات پٹاخوں کی گھن گرج اور آتش بازیوں کی خیرہ کر دینے والی روشنیوں سے نہیں پہچانی جاتی ہے؟ ...... آتش بازی کی وجہ سے لوگوں کا آرام و سکون غارت ہوتا ہے، راستہ چلنے والوں کو دقت پیش آتی ہے بلکہ کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ لوگوں کی جانیں تک چلی گئیں یا بعض گھروں کو آگ لگ گئی۔ دوسروں کی ایذا رسانی حرام اور گناہِ شدید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی گھر پر دستک دینا ہوتا تو ہتھیلیوں کے بجائے انگلیوں کے پور سے دستک دیتے، تاکہ بے ہنگم اور غیر متوازن آواز نہ ہو‘‘ (اپنے روپے آپ نہ جلایے: ج۲، ح۴، ص۱۲۶، ۱۲۷)
مغربی سماج کو بے جا ڈسپلن کی وجہ سے چیونٹیوں کا سماج کہا جاتا ہے ، جب کہ مشرقی سماج بھیڑ چال کا عادی ہے۔ خالد سیف اللہ رحمانی ، اس بھیڑ چال پر اپنی خفگی کا اظہار کرنے سے نہیں چوکے۔ وہ مذہبی حلقے سے خاص طور پر نالاں ہیں کہ عملی افادیت کے حامل ایسے اقدامات، جن کے ذریعے سماجی تبدیلی کے امکانات وا ہو سکتے ہیں ، کیوں اختیار نہیں کیے جاتے:
’’ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ علما کی ساری تعلیمی اور دعوتی سرگرمیاں شہروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں ، شہر میں نہ صرف یہ کہ ہمارے دینی تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ بعض مقامات پر جو زائد از ضرورت ادارے قائم ہو رہے ہیں ، چھوٹے چھوٹے محلوں میں ایک سے زیادہ درس گاہیں قائم ہیں ، وہاں طلبہ کی تعداد اتنی کم ہے کہ ایک ادارہ ان کے لیے کافی تھا ۔ پھر ان اداروں میں باہم کمرشل اداروں کی طرح رقابت اور منافست کی کیفیت بھی ہے ۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کمیٹی میں اختلاف ہو گیا ، ایک گروہ مدرسہ پر قابض ہو گیا ، دوسرے گروہ نے قریب ہی دوسرا مدرسہ کھول لیا ۔ گویا ادارے کی ضرورت یا خدمت کی کسی نئی جہت کے لیے قائم کرنے کے بجائے محض مقابلہ اور تفاخر کے جذبہ سے بھی قائم کیے جا رہے ہیں ۔ یہ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ ایک دینی کام دینی جذبہ سے خالی ہو کر انجام دیا جائے ‘‘ (دینی مدارس کے فضلا۔۔ صبرو برداشت ضروری ہے : ج۲، ح۵، ص۶۳، ۶۴)
’’ زبان سمجھنے اور سمجھانے کا محض ایک ذریعہ ہے، زبان کبھی مقصود نہیں ہوتی، نہ زبان کا کوئی مذہب اور عقیدہ ہوتا ہے۔ ..... لیکن بد قسمتی سے ہندوستان میں اب بھی دین داروں کا ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو عربی اور اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کو اچھوت اور بے برکت سمجھا ہوا ہے اور صرف اردو زبان میں تھوڑا سا کام کرکے قانع اور مطمئن ہے کہ اس نے اسلام کی دعوت کا حق ادا کر دیا ہے‘‘ (دعوتِ دین سب سے اہم فریضہ: ج۱، ح۱، ص۳۰۷، ۳۰۸)
رفع یدین، نور بشر، حیاتی مماتی وغیرہ، جدید تکنیکی دور میں بھی علمائے دین کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ ہمیں حیرت نما خوشی ہے کہ خالد سیف اللہ صاحب ، سماجی اصلاح و اخروی نجات کے لیے خود کو ان موضوعات کا مکلف نہیں ٹھہراتے، بلکہ متقدمین کے نقوش کی پیروی میں خیر تلاش کرتے ہیں، موصوف لکھتے ہیں:
’’ امام شافعی ؒ کے ایک شاگرد یونس بن عبدالاعلیٰ صدفی ہیں، ان کا ایک بار اپنے استاد امام شافعیؒ سے ایک مسئلہ میں بھی مباحثہ ہوگیا اور دونوں کسی ایک رائے پر متفق نہ ہو سکے، پھر جب امام شافعیؒ کی ان سے ملاقات ہوئی تو امام صاحب ؒ نے ہاتھ تھاما اور فرمایا کہ کیا یہ بہتر نہیں کہ گو ایک مسئلہ میں بھی ہمارا اتفاق نہ ہو لیکن پھر بھی ہم بھائی بھائی بن کر رہیں۔ ......اختلاف کو مذموم سمجھنا سلف کے طریقہ کے بھی خلاف ہے اور عقلِ سلیم کے بھی مغایر، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اختلافات کے معاملہ میں انسان کا قلب وسیع ہو، تمام سلف صالحین کے بارے میں اس کی زبان محفوظ اور اس کا قلم محتاط ہو، وہ صلحائے امت کے اختلاف کے بارے میں حسنِ ظن رکھے اور اختلاف رائے کو برداشت کرے۔ یہ وہ مسایل نہیں ہیں جن کی امت پر تبلیغ کی جائے اور اس کو اپنی دعوت کا موضوع بنایا جائے، اسی طرح اعتقادی احکام کی تشریح میں اہلِ سنت و الجماعت کے درمیان جو معمولی سا اختلاف ہے اور اکثر یہ اختلاف محض تعبیر کا ہوتا ہے ، ان میں غلو اور ان کی بنیاد پر دوسروں کو گم راہ قرار دینا نہایت ہی مذموم اور نا شائستہ بات ہے‘‘ (اختلاف میں اعتدال:ج۲،ح۴،ص۳۴، ۳۶)
’’ یوں تو اختلاف کے مختلف اسباب ہیں ، سیاسی ، خاندانی ، کاروباری وغیرہ ، لیکن مذہبی اختلاف کا مسلم سماج پر زیادہ گہرا اثر پڑتا ہے اور اس کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مساجد ، دینی درس گاہیں اور دینی اجتماعات اورمذہبی تقریبات جن کو امت کے اتحاد و اتفاق کا نمونہ ہونا چاہیے ، وہی اختلاف و انتشار کا سبب بن جاتا ہے اور جو لوگ امت کو جوڑنے کا کام کرتے ہیں ، وہی اختلاف کے علم بردار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ تو ایسی صورت میں کون ہے جو ان بکھرے ہوئے تسبیح کے دانوں کو پرو سکے اور شکستہ دلوں پر مرہم رکھ سکے (کس سے کہوں کے زہر ہے میرے لیے مئے حیات: ج۲، ح۵، ص۷۲ )
’’ اگر سونے چاندی یا مٹی اور پتھر کی مورتیاں بنا دی جائیں ان کو ایک جگہ بٹھا دیا جائے تو یقیناََ اختلاف نہ ہو گا ، نہ کوئی اپنی جگہ سے آگے بڑھے گی نہ پیچھے ہٹے گی نہ ایک دوسرے کے خلاف اظہار خیال کرے گی۔ لیکن چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے جیتے جاگتے انسان کو اس طرح متفق اور مہر بہ لب رکھنا ممکن نہیں۔ ..... اس لیے جیسے ’اتحاد‘‘ سیکھنے کی ضرورت ہے اس لیے ’’اختلاف‘‘ بھی سیکھنے کی ضرورت ہے‘‘ (اختلاف کا طریقہ:ج۲، ح۴، ص۳۸)
’’اگر کوئی انسان چاہے کہ تمام انسان اسی کے ہم رنگ ہو جائیں ، جس طرح وہ سوچتا ہے ، اسی طرح سب سوچیں، اس کی پسند سب کی پسند ہو اور اس کی نا پسند سب کی نا پسند ہو، تو انسانی سماج مختلف پھولوں کا گل دستہ نہ رہے گابلکہ سرسوں کا کھیت بن جائے گا کہ پورا کھیت زرد اور یک رنگ نظر آئے۔ ...... یک جہتی تو اس طرح ممکن نہیں کہ تمام انسانیت ہم رنگ ہو جائے ، ان میں فکرونظر، تہذیب و تمدن اور زبان و بیان کا کوئی فرق باقی نہ رہے، ایسی یک جہتی تو شاید قبرستان کے شہرِ خموشاں کے سوا کسی زندی انسانی آبادی کے درمیان ممکن نہ ہو، یک جہتی ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول پر ہی پیدا کی جا سکتی ہے ‘‘(قومی یک جہتی ۔۔کیوں اور کس طرح:ج۲،ح۴، ص۶۶،۶۷)
سماجی حالات کے موافق، سماجی اخلاقیات کی ترجیحات میں تغیر و تبدل ، بعض اوقات بہت ضروری ہوتا ہے۔ لیکن مسلم سماج میں ایسے افراد کی کمی نہیں، جو اسلامی اخلاقیات کی سماجی جہت سے نابلد رہنے کے باعث ، اخلاقی بے راہ روی کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے افراد ذہنی حالت کے لحاظ سے اپنے تئیں متقی بنے ہوتے ہیں۔ تقوے کا ہیضہ ان سے، حالات کی نبض پر انگلی رکھنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے۔نتیجے کے طور پر ’ذریعہ‘ مقصد بن جاتا ہے اور مقصود ’خیر‘ روپوش ہوجاتا ہے۔ خالد سیف اللہ صاحب رحمانی نے کسی قسم کے تحفظات کے بغیر، اسلامی اخلاقیات کی اس گم گشتہ جہت کو بے نقاب کیا ہے:
’’ ایسی سچائی جو سماج کو فایدہ کے بجائے نقصان پہنچائے، جو خیر کی اشاعت کے بجائے بدی کی تشہیر کا باعث ہو، جو لوگوں کو شرافت و صالحیت کے بجائے بد خوئی کی طرف لے جاتی ہو، اس سچائی کو ظاہر کرنے سے چھپانا بہتر ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مواقع پر جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے، کیوں کہ یہاں جھوٹ بہ مقابلہ سچ کے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے۔ اگر ایک مظلوم اور کم زور شخص نے آپ کے یہاں پناہ لے رکھی ہے، ایک بے بس عورت اپنی عصمت و عزت کی حفاظت کے لیے چھپی ہوئی ہے اور ایک ظالم اس مظلوم کے قتل اور ایک اوباش اس عورت کی عصمت ریزی کے درپے ہو اور آپ کے جھوٹ سے اس شخص کی جان اور اس عورت کی عزت بچ سکتی ہو، اورآپ کے سچ سے جان جا سکتی ہو اور ایک عورت کی چادرِ عفت تار تار ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ضرورت ہے کہ ان حالات میں آپ کے لیے جھوٹ بولنا ہی واجب ہے، اور سچ بولنا اس جرم میں شریک ہونے کے مترادف ہے۔‘‘ (پانی جس نے آگ لگا دی:ج۲، ح۴، ص۱۶۰)
اپنے ایک مضمون ’’مذہب کی تبدیلی‘‘ میں خالد سیف اللہ صاحب نے ہندوستان میں عیسائیت کے فروغ اور اسلام کے عدم فروغ کے اسباب کے واقعاتی تجزیے سے سماجی مفاہیم اخذ کیے ہیں:
’’ یہ ایک حقیقت ہے کہ عیسائیت کا کوئی سماجی تشخص نہیں ہے ، شادی ، بیاہ ، سماجی رسم و رواج وغیرہ میں وہ ہندو سماج ہی کا ایک حصہ بن گئے ہیں۔ .....اس لیے جب کوئی ہندو عیسائی مذہب قبول کرتا ہے تو اسے بہت ہی معمولی تبدیلیوں سے گزرنا پڑتا ہے ، اس کی عملی زندگی میں تو کوئی انقلاب آتا ہی نہیں اور اسے فکر و عقیدہ کے اعتبار سے بھی کسی غیر معمولی تبدیلی سے گزرنا نہیں پڑتا ۔ ۔۔۔اسلام مذہب کے معاملہ میں دورنگی اور دو عملی کو روا نہیں رکھتا ۔ اسلام قبول کرنے کا مطلب خداؤں میں ایک خدا کا اضافہ نہیں بلکہ اللہ سے رشتہ جوڑ کر تمام توہمات سے رشتہ توڑنا ہے۔ .....گویا مسلمان ہونے کے بعد انسان ایک سماج سے دوسرے سماج کی طرف ہجرت کرتا ہے۔‘‘ (ج۱، ح۲، ص۱۰۰)
اس اقتباس کے آخری جملے کی معنویت پر غور کیجیے کہ دینِ اسلام کی اصالت اور معاشرتی رموز سے اس کے ربط کو کتنا ایجازی رنگ دیا گیا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ فکرِ اسلامی کی اصالت میں مضمر سماجی دلالتوں پر ہمارے محترم کی نہایت گہری نظر ہے اس کا بخوبی اندازہ ان کی ان تحریروں سے ہو تا ہے جن میں خواتین کی سماجی حیثیت اور نسائی مسایل زیرِ بحث لائے گئے ہیں ، مثال کے طور پر :
’’ حقیقت یہ ہے کہ تعددِ ازدواج کی اجازت ایک سماجی و عمرانی ضرورت اور عفت و پاک دامنی کی حفاظت کا ذریعہ ہے اور اپنے نتایج و اثرات کے اعتبار سے خود عورتوں کے لیے بعض حالات میں باعثِ رحمت ہے، البتہ یہ بات ضروری ہے کہ تعددِ ازدواج کے لیے شریعت نے جو حدود و قیود مقرر کی ہیں ان کا لحاظ رکھا جائے ورنہ یہ قانون حکمِ شریعت کا استعمال نہیں بلکہ ’استحصال‘ ہو گا۔‘‘ (تعددِ ازدواج کا مسئلہ: ج۱، ح۲، ص۱۷۴)
’’ بعض نوجوان اصل شباب گزارنے کے بعد ، جب عمر میں ڈھلاؤ شروع ہوتا ہے تو نکاح کرتے ہیں، یہ نہایت ہی غلط رجحان ہے اور اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں ۔۔۔۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ دیر سے نکاح کرنے کے واقعات زیادہ تر تعلیم یافتہ اور مرفہ الحال خاندان میں پیش آتے ہیں، اس لیے اس کو معاشی مفلوک الحالی کا نتیجہ قرار دینا قرینِ انصاف نہیں۔ ......یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے سماج میں مطلقہ عورتوں اور بیوہ خواتین کے نکاح کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے، بلکہ بچوں کی پرورش کے نام پر اس کو نظر انداز کیا جاتا ہے، یہ صحیح سوچ نہیں ہے۔ .....رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن ازواج مطہراتؓ سے نکاح فرمایا، ان میں صرف حضرت عائشہؓ کنواری تھیں، حضرت زینبؓ مطلقہ تھیں، اور باقی امہات المومنینؓ بیوہ تھیں ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں حضرت رقیہؓ ، حضرت امِ کلثومؓ ، ابولہب کے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے منسوب تھیں، ابو لہب کے کہنے پر ان بدبختوں نے طلاق دے دی۔ آپ ﷺ نے ان دونوں کو یکے بعد دیگرے حضرت عثمانؓ کے عقد میں دیا۔ .... جن مردوں کی بیویوں کا انتقال ہو گیا ہے ان کے دوبارہ نکاح کرنے کو بھی پسند نہیں کیا جاتا ، بعض لوگ تو سن رسیدہ لوگوں کی بیوی کے انتقال کے بعد دوسرا نکاح کرنے کو حرص و ہوس سمجھتے ہیں اور خود بال بچے والد کے نکاح کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ .....فقہا نے لکھا ہے کہ بہ وقت ضرورت باپ کا نکاح بھی اولاد پر اس کا ایک حق ہے ‘ ‘ (ایک اہم سماجی مسئلہ : ج۲، ح۴، ص۱۹۹، ۲۰۰، ۲۰۱، ۲۰۲)
’’ لیکن انسانی تجارت کی ایک اور صورت ہے جو اس وقت سماج کے مہذب لوگوں کے درمیان رایج ہے، جس میں انسان اپنے لڑکوں کو آپ فروخت کرتا ہے اور فروخت کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں حسرت و افسوس کے آنسو نہیں بلکہ خوشی کے آنسو ہوتے ہیں، دل حسرت و یاس کی تپش سے ابلتا نہیں بلکہ حسین آرزوؤں کے تصور سے اچھلتا اور کودتا ہے، یہ عجب منڈی ہے جہاں پڑھے لکھے، اہلِ دانش، اصحابِ ثروت، اعلیٰ عہدوں پر فائز خوشی خوشی اپنے لڑکوں کا سودا لے کر آتے ہیں اور اس کی تعلیم، معاشی امکانات، خاندانی پس منظر، یہاں تک کہ شکل و صورت اور آباو اجداد کی شرافت کی دہائی دے کر ڈاک لگاتے اور زیادہ سے زیادہ قیمت کے خواست گار ہوتے ہیں ، انہیں اپنے لڑکوں کو فروخت کرنے اور ان کی جوانی کی قیمت لگانے میں نہ کوئی شرم ہوتی ہے نہ کوئی عار۔ آپ سوچیں گے یہ کون سی منڈی ہے؟ کیا کوئی ماں باپ اپنے لڑکوں کو بیچ بھی سکتا ہے، کہیں انسانوں کی بھی خریدو فروخت ہوتی ہے، کیا عہدِ غلامی پھر واپس آ گیا ہے ؟۔ لیکن آپ کو اس پر تعجب نہ ہونا چاہیے ، ہمارا پورا سماج انسانی تجارت کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ہر گھر میں ایک دکان ہے اور ہر خاندان میں کچھ تاجر اور کچھ گاہک ہیں ...... کیا لڑکی والوں سے گھوڑے جوڑے کے نام پر رقم وصول کرنا، ان سے جہیز کا مطالبہ کرنا ، اپنے مدعووین کو ان کے سر تھوپ دینا اور ان سے منہ مانگا کھانا طلب کرنا، تجارت اور اپنے لڑکے کی قیمت لگانا نہیں ہے ؟ قیمت روپوں میں بھی ادا کی جاتی ہے، سامان و اسباب کے ذریعہ بھی اور ہوٹلوں میں شکم پروری کے ذریعہ بھی، یہ سب قیمت کے مختلف عنوان اور الگ الگ انداز ہیں۔ لڑکا اور اس کے والدین ان تمام طریقوں سے لڑکے کی قیمت وصول کرتے ہیں اور اس کی جوانی کا منہ مانگا دام پاتے ہیں، اس کے تجارت ہونے میں کیا شبہ ہے؟ ...... جوانی کی قیمت تو جانوروں کی لگائی جاتی تھی اور اعلیٰ نسل کے جانور حاصل کیے جاتے تھے، کیا شادی کے موقع سے لڑکے والوں کی جانب سے مطالبہ اس حیوانی کردار کی پیروی نہیں ہے اور جو لوگ پیسے لے کر شادی کرتے ہیں، کیا وہ مرادنہ تعظیم و وقار اور بحیثیت شوہر تکریم و توقیر کے مستحق ہیں ؟ جب کہ قرآن نے مردوں کو بلند رتبہ اس بنیاد پر قرار دیا تھا کہ وہ خرچ کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونچا یعنی دینے والا ہاتھ نچلے یعنی لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ تو جو شوہر اپنا ہاتھ نیچے رکھتا ہو اور اپنی بیوی اور اس کے اولیا کو اپنا ہاتھ اونچا رکھنے پر مجبور کرتا ہو، وہ کیسے اپنی بیوی سے بلند رتبہ ہو سکتا ہے؟ ......تاجر خریدار کا احسان مند ہوتا ہے نہ کہ خریدار تاجر کا، اس لیے جس لڑکی اور اس کے سرپرست نے دولہا کی قیمت ادا کی ہے،آخر وہ اس مرد اور اس کے اہلِ خانہ کے احسان مند کیوں کر ہوں، جس کی قیمت ان لوگوں نے اپنا خونِ جگر بیچ کر ادا کی ہو۔ اسی لیے آج کل یہ شکایت عام ہے کہ جب بہو گھر میں آتی ہے وہ خدمت و اطاعت کے جذبہ سے خالی و عاری ہوتی ہے اور گھر سے متعلق فرایض اور اپنی ذمہ داریوں کو اداکرنے میں کوتاہ‘‘ (لڑکوں کی تجارت: ج۲، ح۴، ص۲۰۸، ۲۰۹، ۲۱۰، ۲۱۳)
جدید تکنیکی ترقی نے انسانی سماج پر جو مثبت اثرات مرتب کیے ہیں اس سے کسے نکار ہو سکتا ہے؟۔ زیرِ نظر تالیف میں خالد سیف اللہ صاحب بھی اس کی سماجی افادیت کے قایل معلوم ہوتے ہیں، لیکن ان کی تیکھی نظر سے جدید تکنیک کی ایسی خامیاں چھپی نہیں رہ سکیں، جو انسانی سماج کو کسی بڑے اخلاقی بحران سے دوچار کر سکتی ہیں:
’’ ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے اجنبی مرد و عورت کے مادہ تولید کو باوآور کرنا یا اجنبی اور غیر معروف مردوں کے مادہ تولید کو عورت کے رحم میں منتقل کر کے اس کو ماں بنانا کھلی ہوئی بدکاری اور انسانوں کو حیوان کی سطح پر اتارنا ہے۔ انسان کو نسب اور اپنی شناخت سے محروم کر دینا اخلاق و شرافت کے بالکل مغایر ہے اور شاید ہی کوئی مذہب ہو جو اس کو جایز رکھتا ہو۔ اسلامی تعلیمات اس سلسلہ میں بالکل واضح ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خدا و آخرت پر ایمان رکھنے والے کسی شخص کے لیے یہ قطعاََ حلال نہیں کہ وہ اپنے پانی یعنی مادہ تولید سے دوسرے کی کھیتی یعنی اپنی بیوی کے علاوہ کسی ا ور خاتون کے رحم کو سیراب کرے۔‘‘ (پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے:ج۲، ح۴، ص۱۸۸)
’’ چند سو روپے خرچ کر کے (Sex Determination Test) کرایا جا سکتا ہے اور معلوم کیا جا سکتا ہے کہ رحمِ مادر میں لڑکا ہے یا لڑکی؟ ایک معمولی اندازہ کے مطابق اس ٹیسٹ پر مبنی اطلاعات کی روشنی میں روزانہ پانچ تا چھ سو لڑکیاں اس عالمِ رنگ و بو میں آنے سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہیں۔ یہ قتل دشمنوں اور غیر سماجی عناصر یا غنڈوں کے ذریعہ نہیں ہوتا بلکہ شفیق باپ اور ’’ممتا سے معمور ماں‘‘ کے ہاتھوں ہوتا ہے اور خاندان کے بزرگوں اور خیر خواہوں کا مشورہ بھی اس میں پوری طرح شریک رہتا ہے، گو انسانی حقوق اور خواتین کی مختلف تنظیموں کے احتجاج اور مطالبہ پر قانوناََ ایسے ٹیسٹ کو منع کر دیا گیا ہے، لیکن جب تک اندازِ فکرمیں تبدیلی نہ آئے، قانون شکنی کو کب روکا جا سکے گا؟ ..... اگر ہم صرف والدین کو دختر کشی کی اس ’’جاہلیت جدیدہ‘‘ کا مجرم قرار دیں تو شاید انصاف نہ ہو، پورا سماج اس کا مجرم ہے۔ وہ ظالم سماج جو اپنے لڑکوں کو بازار کے سامان کی طرح اونچی قیمتوں پر فروخت کرتا ہے، جو چاہتا ہے کہ لڑکیوں کے والدین سے ان کی رگِ گلو کا آخری قطرہ خون بھی وصول کر لے، جس کو حرص و طمع نے سیم و زر کا ایسا پیاسا بنا دیا ہے کہ جیسے کوئی سگ گزیدہ مریض ، اور جس کی بے رحمی و شقاوت اور سنگ دلی پر شاید درندے بھی شرماتے ہیں، جب تک ہم اس اصل مرض کا علاج کرنے میں کامیاب نہ ہوں، دختر کشی کی اس نئی لہر کو روک نہیں سکتے‘‘ (دختر کشی۔۔عہدِ جدید میں: ج۲، ح۴، ص۱۹۶، ۱۹۷)
ذرا غور کیجیے کہ خالد صاحب نے جدید تکنیک کے ایک غلط استعمال کو ، سماج کے گرے ہوئے رویے سے کیسے relate کیا ہے۔ انہوں نے تکنیکی ترقی کو کو ہدفِ تنقید نہیں بنایا اور نہ ہی ’قانون‘ نافذ کرنے کے لیے آ ستینیں چڑھا کر چیخ پکار کی ہے۔ وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ معلوم ہوتے ہیں کہ قانونی سزا کے بجائے سماجی سزا زیادہ خوف ناک ہوتی ہے۔ قانون کا شکار صرف مجرم ہوتا ہے جب کہ سماج کی دی ہوئی سزا مجرم کے پورے خاندان اور اس کی آنے والی نسل کو بھی جھیلنی پڑتی ہے۔ اس لیے کسی متوقع مجرم کا خاندان ، سماجی کلنک کے ڈر سے اسے قابو میں رکھتا ہے۔درج ذیل اقتباس سے ان کی سوچ کے اس رخ پر مزید روشنی پڑتی ہے کہ محض قانون بنا کر بری الذمہ نہیں ہوا جا سکتا، بلکہ لوگوں کو متحرک کر کے ہی حقیقی اصلا ح کی جا سکتی ہے:
’’ پھر خاص کر اسلام نے مردوں پر عورتوں کی حفاظت کی ذمہ داری رکھی ہے اور یہی مطلب ہے مرد کے ’’قوام‘‘ ہونے کا۔ اسی لیے سماجی حقوق میں اسلام نے اکثر مواقع پر خواتین کو مقدم رکھا ہے ...... غرض طلاق اور کسی مناسب ضرورت کے بغیر دوسر نکاح ایک ’’ناخوش گوار واقعہ‘‘ ہے لیکن یہ اس سے زیادہ ناخوش گوار واقعہ کو روکنے کا باعث ہے ، اسی لیے اسلام نے اس کی اجازت دی ہے ..... اور ان سب کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جو بدترین لوگ ہوں گے وہی عورتوں پر ہاتھ اٹھائیں گے۔ ...... ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج کو اس سلسلے میں باشعور بنایا جائے ، توہماتی تصورات سے ان کو آزاد کیا جائے ، معاشرہ میں حوصلہ و ہمت پیدا کیا جائے کہ اگر ایک ہاتھ ظلم و جور کے لیے اٹھے تو کتنے ہی ہاتھ اس ہاتھ کو روکنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ، کتنی ہی زبانیں اس پر لعن طعن کے تیر برسائیں اور سماج میں وہ اپنے آپ کو تنہا اور الگ تھلگ محسوس کرنے لگے ، ہر آنکھ جو اس پر اٹھے وہ اسے اس کی ذلت و رسوائی کا احساس دلائے اور ہر زبان جو اس پر کھلے وہ اس کی شناعت اور گراوٹ کا اعلان کرنے لگے ‘‘ (ایک حادثہ ۔۔ لرزہ خیز ، الم انگیز : ج۲، ح۴، ص۹۵، ۹۶، ۹۸، ۹۹)
(جاری)
ایک تربیتی ورک شاپ کی روداد (۲)
محمد عمار خان ناصر
فرقہ وارانہ کشیدگی اور شدت پسندی کے ضمن میں ایک اہم سوال یہ بھی زیر بحث آیا کہ جب سبھی مذہبی مکاتب فکر کے اکابر اور سنجیدہ علما اس کو پسند نہیں کرتے تو پھر وہ اپنے اپنے حلقہ فکر میں شدت پسندانہ رجحانات کو روکنے کے لیے کوئی کردار کیوں ادا نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو وہ موثر کیوں نہیں ہو پاتا؟ جناب ثاقب اکبر کی فرمائش تھی کہ اس سوال کے جواب میں، میں کچھ گزارشات پیش کروں۔ میں نے عرض کیا کہ دراصل عوامی سطح پر حلقہ ہاے فکر کے مزاج کی تشکیل کے لیے مسلسل محنت، لوگوں کے ساتھ مستقل رابطہ اور روز مرہ معاملات میں ان کو عملاً ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ سنجیدہ اہل علم اپنی افتاد طبع اور علمی وتدریسی مصروفیات کی بنا پر اس کے لیے فارغ نہیں ہوتے اور یہ خلا مختلف سطحوں پر دوسرے، تیسرے اور چوتھے درجے کے لوگوں کو پر کرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کا علم وفہم، بصیرت وفراست اور اخلاقی کمٹ منٹ اس درجے کی نہیں ہوتی، جبکہ گروہی عصبیت کو انفرادی اور جماعتی مفادات کے لیے استعمال کرنے کے محرکات زیادہ قوی ہوتے ہیں۔ حلقہ ہاے فکر کے عوامی مزاج کی تشکیل اسی سطح کے لوگوں کے ہاتھوں ہوتی ہے اور ان پر عملاً اثر انداز بھی وہی ہوتے ہیں۔ جہاں تک اکابر اہل علم کا تعلق ہے تو ان کی حیثیت عام طور پر علم وتقویٰ کے ایک symbol کی ہوتی ہے جن کے علم وتحقیق پر فخر اور ان کی سرپرستی کی خواہش بھی کی جاتی ہے، لیکن عملی دائرے میں ان کے طرز عمل، مزاج اور ہدایات کی پابندی ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ (مثلاً تکفیر شیعہ کے حوالے سے شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی ’’ارشاد الشیعہ‘‘ کو تو اپنے موقف کی بنیاد کے طور پر پیش کیا جائے گا، لیکن انھوں نے ’’کافر کافر‘‘ کی عوامی مہم کے ذریعے منافرت پھیلانے کے طریقے پر جو تنقید کی اور اسی طرح اجتماعی مصالح کے تناظر میں ’’متحدہ مجلس عمل‘‘جیسے پلیٹ فارمز پر شیعہ سنی اشتراک کی جس حکمت عملی کی تائید اور حمایت کی، اسے کوئی وقعت نہیں دی جائے گی۔) میں نے مثال کے طور پر جامعہ حفصہ کے سانحے کاحوالہ دیا کہ اس موقع پر دیوبندی حلقے کے چوٹی کے علما اور اکابر نے غازی برادران کو اپنا طرز عمل بدلنے پر آمادہ کرنے کی آخر دم تک پوری کوشش کی، لیکن اس میں انھیں ناکامی ہوئی بلکہ آپریشن کے بعد یہ تمام حضرات خود دیوبندی حلقے کے غم وغصہ اور تنقید کا نشانہ بن گئے۔ اس وجہ سے مختلف مذہبی گروہوں کے عمومی مزاج کو بدلنے کے لیے ان کے اکابر سے کسی موثر کردار کی توقع رکھنا فضول ہے اور یہ مقصد مذہبی حلقوں کے مجموعی معاشرتی وژن اور خاص طور پر ان کی تعلیم وتدریس اور فکری تربیت کے موجودہ سانچے میں جوہری تبدیلیاں پیدا کیے بغیر ممکن نہیں۔ اظہر حسین نے میری تائید کرتے ہوئے کہا کہ یہی غلط فہمی مغرب کے پالیسی سازوں کے ہاں بھی پائی جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے بڑے بڑے علما مل کر خود کش حملوں کے خلاف فتویٰ جاری کر دیں تو اس سے مسئلہ حل ہو جائے گا جس پر مجھے انھیں سمجھانا پڑتا ہے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے اور اس طرح کا کوئی فتویٰ سامنے آ جانے سے بھی عملی صورت حال میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔
اس سفر کی بعض مجلسوں میں اکابر اہل علم اور ان کے مقابلے میں مقبول عام واعظوں اور خطیبوں کے سماجی اثر ورسوخ کے ضمن میں بعض دلچسپ واقعات بھی سننے سنانے کا موقع ملا۔ ایک نشست میں، میں نے خطیب بغدادی کی ’’تاریخ بغداد‘‘ (۱۳/۳۶۶) کے حوالے سے یہ واقعہ بیان کیا کہ امام ابوحنیفہؒ کے زمانے میں کوفہ کی ایک مسجد میں زرعہ نامی ایک قصہ گو وعظ کہا کرتا تھا اور اپنے مواعظ کی بدولت عوام میں بڑا معروف ومقبول تھا۔ ایک موقع پر امام ابوحنیفہؒ کی والدہ کو کوئی مسئلہ پوچھنے کی ضرورت پیش آئی تو امام صاحب نے انھیں مسئلہ بتایا، لیکن وہ مطمئن نہ ہوئیں اور کہا کہ میں تو زرعہ سے دریافت کر کے عمل کروں گی ۔ اس پر امام صاحب اپنی والدہ کو لے کر زرعہ کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ میری والدہ تم سے فلاں مسئلے کے بارے میں فتویٰ لینا چاہتی ہیں۔ اس نے کہا کہ آپ مجھ سے زیادہ علم رکھتے اور فتویٰ دینے کے اہل ہیں۔ امام صاحب نے کہا کہ میں نے تو انھیں یہ فتویٰ دیا ہے ، لیکن یہ تمہارے فتوے پر عمل کرنا چاہتی ہیں۔ زرعہ نے کہا کہ میرا فتویٰ بھی وہی ہے جو آپ کا ہے۔ اس پر امام ابوحنیفہ کی والدہ مطمئن ہو کر وہاں سے تشریف لے گئیں۔ نیپال کے سفرکے متصل بعد بنگلہ دیش کے سفر کے سلسلے میں اسلام آباد جانا ہوا تو میں نے برادرم خورشید احمد ندیم صاحب کی مہمانی سے لطف اندوز ہونے کا فیصلہ کیا اور ان کی رہائش گاہ پر ایک طویل نشست میں مختلف مسائل پر ان سے تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ اتفاق سے وہاں بھی یہی بات چل نکلی تو میں نے انھیں ایک دوست کا بیان کردہ یہ واقعہ سنایا کہ کسی موقع پر ایک صاحب کے سامنے، جو ملک کے ایک معروف خطیب کی خطابت سے بے حد متاثر اور ان کے شیدائی تھے، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور ان کے علم وفضل کا ذکر ہوا تو انھوں نے پوچھا کہ یہ کون بزرگ ہیں؟ انھیں بتایا گیا کہ یہ ایک بہت بڑے عالم، محقق اور محدث ہیں تو انھوں نے اپنے ممدوح خطیب صاحب کا نام لے کر تعجب سے پوچھا کہ اچھا، وہ ان سے بھی بڑے عالم ہیں؟ اس کے جواب میں خورشید ندیم صاحب نے مجھے اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار جناب مشتاق احمد یوسفی کا واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ وہ امریکہ گئے تو ان کے مداحوں اور عقیدت مندوں نے کسی ہال میں ان کے ساتھ ایک شام منانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے وسائل جمع کرنے کی غرض سے مختلف اہل ثروت سے رابطہ کیا گیا تو ایک صاحب نے پوچھا کہ جن صاحب کے لیے یہ اہتمام کیا جا رہا ہے، ان کا تعارف کیا ہے؟ انھیں بتایا گیا کہ یہ اردو کے بہت بڑے مزاح نگار ہیں تو انھوں نے دریافت کیا کہ کیا وہ معین اختر (معروف ٹی وی کامیڈین) سے بھی بڑے مزاح نگار ہیں؟
جناب ثاقب اکبر نے اس صورت حال کے ایک دوسرے پہلو کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ایسے اہل فکر جو اپنے اپنے حلقے کے گروہی ومسلکی تعصبات سے بلند ہو کر وسیع تر فکری دائرے میں سوچتے اور اپنی فکری وعملی ترجیحات اپنے خاص زاویہ نگاہ سے متعین کرنا چاہتے ہیں، ان کی ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ خود ان کا اپنا حلقہ فکر انھیں قبول کرنے اور بعض اوقات گوارا تک کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا اور ایسے حضرات اپنے حلقہ فکر میں کوئی موثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ ’’آج کل‘‘ کے کالم نگار جناب ارشاد محمود نے، جو مسئلہ کشمیر کے متخصص سمجھے جاتے ہیں، اس ضمن میں اپنا تجربہ بھی بیان کیا۔ انھوں نے کہا کہ ابتدا میں وہ مسئلہ کشمیر کے تناظر میں پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے وہی نقطہ نظر رکھتے تھے جس کی نمائندگی مثال کے طور پر جناب مجید نظامی اور جنرل حمید گل کرتے ہیں، چنانچہ وہ ایک عرصے تک اسی زاویے سے تحریریں لکھتے رہے جس سے قارئین کا ایک بڑا حلقہ ان سے وابستہ ہو گیا، لیکن پھر رفتہ رفتہ ان کے فکر وخیال میں تبدیلی آتی گئی اور ان پر واضح ہوا کہ پاکستان اور بھارت کے مسلمانوں کی بہتری اس خطے کی مجموعی بہتری کے ساتھ وابستہ ہے اور خطے کے مجموعی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ یہ دونوں ملک پرامن بقائے باہمی کا راستہ اختیار کریں اور حکمت اور دانش کے ساتھ آپس کے تنازعات کا حل نکالیں، اس لیے محدود دائرے میں عسکری تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے زیادہ توجہ سیاسی اور سفارتی محاذ پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ارشاد محمودنے کہا کہ نقطہ نظر میں اس تبدیلی کے نتیجے میں انھیں اپنے حلقہ قارئین کی طرف سے سخت منفی رد عمل کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ جب آپ کا زاویہ نگاہ اپنے حلقہ فکر سے کسی معاملے میں بنیادی طور پر مختلف ہو جائے تو یقیناًآپ کو اس حلقے کی ہمدردی اور تعاون وتائید حاصل نہیں رہتی، لیکن اگر آپ اخلاص اور استقلال واستدلال کے ساتھ اپنی بات کہتے رہیں تو اس کی بنیاد پر ایک نئے حلقہ فکر کی تائید آپ کو حاصل ہو جاتی ہے۔
یہ صورت حال، ظاہر ہے کہ کسی ایک خاص مکتب فکر یا دائرے کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ گروہی تعصبات سے بالاتر ہو کر آزادی کے ساتھ غور وفکر کرنے والے لوگوں کو ہر جگہ اسی صورت حال سے سابقہ ہے اور یہ کوئی ناقابل فہم بات نہیں بلکہ سماجی نفسیات کے اصولوں کے مطابق ایک ناگزیر امر ہے۔ جہاں تک اس صورت حال میں کوئی مخصوص لائحہ عمل اختیار کرنے یا عملی ترجیحات متعین کرنے کا سوال ہے تو اس میں افتاد طبع بڑی حد تک فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے۔ میرا مسلک اس ضمن میں یہ ہے کہ ایک دیانت دار صاحب فکر کو اپنی ترجیحات وسیع تر اور دیرپا مصالح اور مقاصد کی روشنی میں متعین کرنی چاہییں اور فکر ونظر کے جن زاویوں کو وہ اپنے فہم اور ضمیر کے مطابق زیادہ قابل اطمینان سمجھتا ہے، بلا خوف لومۃ لائم پوری وضاحت سے انھی کی ترجمانی کرنی چاہیے۔ کسی خاص حلقہ فکر کی نظر میں شخصی اعتبار اور وقعت حاصل کرنے کو اگر فی نفسہ مطمح نظر بنایا جائے تو یہ اخلاقی لحاظ سے کوئی مستحسن چیز نہیں اور اگر اسے حکمت عملی کے طور پر اختیار کیا جائے تو ایسی کوئی مثال ہمارے سامنے نہیں جس میں کوئی شخصیت ایک خاص درجے کا اعتبار اور استناد حاصل کرنے کے بعد اپنے شخصی وزن کی بنا پر کسی مخصوص حلقہ فکر کے مجموعی مزاج میں کوئی فوری یا بنیادی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئی ہو۔ (مولانا محمد تقی عثمانی کو ہی دیکھ لیجیے جو اپنے تمام تر علم وفضل اور علمی وجاہت کے باوجود علما کے ایک ’’متفقہ فتوے‘‘ کا نشانہ بن گئے ہیں جس کے اسباب میں ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ انھوں نے بعض فقہی معاملات میں حنفی دائرۂ اسلام سے خروج کا ارتکاب کیا ہے۔) حلقہ ہائے فکر جب ایک خاص ذہنی سانچے میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر ان میں فکری تبدیلی افراد اور شخصیات سے نہیں بلکہ بے شمار عوامل کے اشتراک سے رفتہ رفتہ اور تدریجاً ہی آ سکتی ہے اور ان میں اہم ترین عامل خود داخلی سطح پر غور وفکر، نظر ثانی اور اصلاح احوال کا جذبہ نہیں، بلکہ ارد گرد کے ماحول میں لوگوں کے عمومی فہم اور تصورات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا خارجی جبر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر برصغیر میں احناف کے ہاں فقہ حنفی کے ساتھ ساتھ حدیث سے اعتنا اور دوسرے فقہی رجحانات کو گوارا کرنے کے حوالے سے جتنی کچھ وسعت ظرفی اس وقت دیکھنے کو ملتی ہے، ارباب نظر بجا طور پر اسے تحریک اہل حدیث کی مساعی کا ایک ثمر قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس داخلی سطح پر اصلاح احوال کی کوششوں کی صورت یہ ہے کہ ہمارے ہاں دینی مدارس کے تعلیمی منہج اور ترجیحات اور اسی طرح فقہ وافتا کے دائرے میں جمود کا رونا بڑے بڑے معتبراکابر اب سے نہیں، بلکہ ایک طویل عرصے سے رو رہے ہیں، لیکن ان دونوں دائروں میں جو ’’بہتری‘‘ پیدا ہو سکی ہے، وہ محتاج بیان نہیں۔ اس لیے میرے نزدیک تبدیلی اور اصلاح کے خواہاں اہل فکر کو ساری توجہ اپنے پیغام اور استدلال کو زیادہ محکم اور موثر بنانے اور اسے پوری وضاحت کے ساتھ مسلسل پیش کرتے رہنے پر مرکوز رکھنی چاہیے اور ایسا کرتے ہوئے نہ تو اپنے فکر وفہم پر اثر انداز ہونے والے عوامل کے حوالے سے کوئی معذرت خواہانہ رویہ اپنانا چاہیے، نہ اپنی فکری وابستگیوں کو چھپانا چاہیے اور نہ کسی خاص ذہنی سانچے کی حساسیت سے خوف زدہ ہو کر اپنے نتائج فکر کو صاف لفظوں میں پیش کرنے سے گھبرانا چاہیے۔ ویسے بھی اللہ نے چند روزہ زندگی کی یہ امانت اس لیے دی ہے کہ آدمی اپنے ضمیر کے مطابق اپنی دلچسپی کے دائرے میں معاشرے کی کوئی خدمت انجام دینے کی کوشش کرے۔ اسے اگر لوگوں کے چہروں کا اتار چڑھاؤ دیکھنے میں گزار دیا جائے تو شاید یہ اس کا کوئی اچھا مصرف نہیں ہوگا۔
شیعہ سنی کشیدگی کے حوالے سے مذکورہ نشست کے اختتام پر اظہر حسین نے قائد اعظم محمد علی جناح کے اس مشہور قول کا حوالہ دیا کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ شیعہ ہیں یا سنی تو انھوں نے جواب میں کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم شیعہ تھے یا سنی؟ میں نے اس پر فوراً لقمہ دیا کہ آپ کے سنی ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں۔ اظہر حسین نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ میں نے کہا، اس لیے کہ شیعہ تو تاریخی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بہت بعد پیدا ہوئے ہیں۔ اس پر مجلس میں ایک اجتماعی قہقہہ بلند ہوا اور ایک نازک اور سنجیدہ بحث خوش گوار انداز میں اختتام کو پہنچی۔
عالم اسلام کے حوالے سے مغربی دنیا کے طرز عمل اور پالیسیوں سے متعلق بھی کئی نوعیت کے سوالات ورک شاپ کے دوران میں مختلف مراحل پر زیر بحث آتے رہے۔
اظہر حسین نے بتایا کہ امریکہ میں تھنک ٹینکس کا کام یہ ہے کہ وہ دنیا کے مختلف خطوں میں ہونے والی متوقع پیش رفت کی پیش بینی کریں اور امریکہ کے پالیسی ساز اداروں کو امریکی مفادات کے تناظر میں راہ نمائی اور تجاویز فراہم کریں۔ یہ رپورٹس باقاعدہ شائع کی جاتی ہیں اور اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دوسرے نقطہ ہائے نظر کو ان پر تنقید پر موقع مل جاتا ہے۔ کانگریس کے پاس تجزیے کا وقت نہیں ہوتا، چنانچہ مختلف تھنک ٹینکس کی تیار کردہ رپورٹس کی روشنی میں تجزیے کا کام CSIS (یعنی سنٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز) نام کا ایک ادارہ کرتا ہے جو مختلف ماہرین کو جمع کرتا ہے اور ان کے بحث ومباحثہ کے نتیجے میں سامنے آنے والی تجاویز مرتب کر کے کانگریس اور دوسرے پالیسی ساز اداروں کو بھیج دیتا ہے۔ مختلف تھنک ٹینکس کی رپورٹس کے حوالے سے مختلف حکومتوں کی ترجیحات بھی الگ الگ ہوتی ہیں۔ مثلاً رینڈ کارپوریشن کی تجاویز Conservative رجحانات کی حامل ہوتی ہیں جنھیں بش انتظامیہ بہت اہمیت دیتی تھی لیکن اوباما کی حکومت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ اظہر حسین نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے اسی قسم کی ایک رپورٹ میں مستقبل کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر پاکستان کی موجودہ صورت حال اسی طرح آگے بڑھتی رہی اور تنازعات کو حل نہ کیا گیا تو فاٹا یا بلوچستان کے علاقے پاکستان سے الگ ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا نے سنسنی خیزی پھیلانے کے لیے ایسی رپورٹس کو ’’امریکی منصوبے‘‘ کی صورت میں پیش کیا، حالانکہ یہ کوئی خواہش یا منصوبہ نہیں تھا بلکہ ایک تجزیہ تھا اور اسی رپورٹ میں اس نتیجے سے بچنے کے لیے کئی تجاویز بھی دی گئی تھیں اور کہا گیا تھا کہ اگر حکومت اور سول سوسائٹی مل کر کوشش کریں تو اس انجام سے بچا جا سکتا ہے۔
(میرے ذہن میں آیا کہ اگر امریکہ یا دوسری عالمی طاقتیں اپنے اہداف اور عزائم کے تناظر میں اس طرح کے منصوبے فی الواقع بناتی ہوں، بلکہ یقیناًبناتی ہوں گی، تو اس پرشکوے کے کیا معنی؟ یہ تو وہ حمام ہے جس میں دنیا کی تمام عالمی اور علاقائی طاقتیں ننگی ہیں اور سبھی اپنے اپنے مفادات کے لحاظ سے دوسرے ملکوں کی داخلی سیاست کا نقشہ ترتیب دینے کو اپنا حق سمجھتی ہیں۔ امریکہ اور بھارت تو خیر ’’کفار‘‘ ہیں، ہمارے بہت سے برادر مسلم ممالک کی مہربانیاں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اظہر حسین نے بتایا کہ انھوں نے ایک موقع پر دوستانہ ماحول میں سعودی وزیر داخلہ شہزادہ ترکی الفیصل سے کہا کہ آپ لوگوں نے ۸۰ء کی دہائی میں ہمارے ساتھ کیا کیا؟ اس کے جواب میں ترکی الفیصل نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر صاف کہا کہ جو لوگ پیسے کے لیے سب کچھ کر سکتے ہیں، ان کے ساتھ سب کچھ کیا جا سکتا ہے۔ اظہر حسین کے بقول ترکی الفیصل نے اس ضمن میں مذہبی طبقوں کا بطور خاص ذکر کیا۔ خود ہمارے عسکری منصوبہ ساز نہ صرف انڈیا کو تقسیم کرنے کے لیے خالصتان جیسی علیحدگی پسند تحریکوں کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں،بلکہ افغان مجاہدین کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیے رکھنے اور پاکستان کے سٹریٹجک مفادات کے لحاظ سے اپنی پسند کے گروہوں کی تائید وامدادکا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ حال ہی میں مغربی طاقتوں نے طالبان کے ساتھ سیاسی مصالحت کے لیے گفت وشنید کا ڈول ڈالا تو طالبان کی اعلیٰ سطحی قیادت کو گرفتار کر کے دنیا کو یہ صاف پیغام دیا گیا کہ افغانستان کی سیاسی نقشہ گری کی کوئی کوشش پاکستان کے تعاون اور اس کی ترجیحات کو مدنظر رکھے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔)
اظہر حسین نے کہا کہ سماجی اور سیاسی شعور کے فقدان کی وجہ سے پاکستان میں بہت سے لوگ اپنے مسائل کا حل یہ سمجھتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر ’’صفایا‘‘ کیے بغیر تبدیلی نہیں آئے گی، بلکہ ایک سابق آرمی جنرل نے CSIS کی ایک میٹنگ میں امریکی پالیسی سازوں سے یہ کہا کہ پاکستان کے تیس پینتیس بڑے خاندانوں کو ختم کرنے میں آپ ہماری مدد کریں، اس سے ہمارے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ پاکستان کی باقی ساری آبادی کے ساتھ امتیازی سلوک برت رہے ہیں۔
اظہر حسین نے کہا کہ ہمارے تعلیمی نظام میں طلبہ کو تجزیہ کرنااور ابہام کے موقع پر اپنی تجزیاتی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی تربیت نہیں دی جاتی۔ سلیم علی نامی ایک مصنف کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مصنف نے سترہ مدرسوں کے طلبہ سے انٹرویو کے بعد اپنا تجزیہ مرتب کیا ہے اور بتایا ہے کہ مدارس کے کلچر میں ہر مسئلے کا تجزیہ ’’نظریہ سازش‘‘ کی روشنی میں کیا جاتا ہے اور بالکل نوعمر بچے کسی قسم کی معلومات کے بغیر پو ری حتمیت سے رائے زنی کر دیتے ہیں کہ فلاں بات میں سازش پائی جاتی ہے۔ اظہر نے کہا کہ ان کی رائے میں یہ رویہ ذہنی کاہلی اور ناکارہ پن کی علامت ہے اور اس نظریے کے اس قدر عام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ معروضیت کے بجائے جہالت کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ اظہر نے کہا کہ ہر معاملے میں دوسروں کو اپنے نقصان کا ذمہ دار ٹھہرانا کسی مثبت وژن کے فقدان کی علامت ہے اور یہ رویہ آپ کو کوئی نتیجہ خیز حکمت عملی اپنانے سے روک دیتا ہے۔ اظہر حسین نے کہا کہ ان کا عام مشاہدہ ہے کہ جب مسلمانوں کو ان کی اندرونی کمزوریوں اور خامیوں پر توجہ دلائی جائے تو وہ دفاع کے طور پر دوسری قوموں کے ظلم اور نا انصافی کی مثالیں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اظہر حسین کا تجزیہ یہ تھا کہ مغرب کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے والی سخت بنیاد پرست تحریکیں دراصل مغرب سے شدید مرعوب ہیں، کیونکہ گہرے نفسیاتی تجزیے کی رو سے غصے اور نفرت کا معمول سے بڑھا ہوا اظہار درحقیقت لاشعور میں پیوست شدید مرعوبیت کی علامت ہوتا ہے۔ اظہر حسین نے کہا کہ اپنے مخالفین کے ظلم وستم کی نشان دہی اور اس پر احتجاج کرنا آسان ہے، لیکن ہمارے مذہبی اور سیاسی گروہ عام طور پر اپنے ہاں کی نا انصافی اور ظلم وستم کو نظر انداز کر دیتے یا ان کی پردہ پوشی کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، اس پر پورا ملک سراپا احتجاج ہے لیکن بلوچستان میں بے شمار خواتین اسی طرح کے ظلم وستم کا شکار ہیں اور اس پر کبھی کسی کے ضمیر کو احساس نہیں ہوتا۔
نیپال میں منعقد ہونے والی تربیتی ورک شاپ کے اخراجات اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے الائنس آف سولائزیشنز نے برداشت کیے جبکہ بنگلہ دیش کے تین روزہ پروگرام کے انعقاد کے لیے USAID اور ایشیا فاؤنڈیشن نے وسائل فراہم کیے جو دونوں امریکی تنظیمیں ہیں۔ اس تناظر میں ان دونوں اسفار کے دوران میں یہ سوال کسی نہ کسی حوالے سے زیر بحث آتا رہا کہ مغربی حکومتوں اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے مشرقی اور خاص طور پر اسلامی ممالک کو سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر دی جانے والی مختلف نوعیت کی مالی امداد کے محرکات اورمقاصد کیا ہیں، ان کا اصل ایجنڈا کیا ہے اور اس امداد پر مبنی پروگراموں اور سرگرمیوں میں شرکت، مقاصد میں تعاون اور مغربی وسائل سے استفادہ کا دائرۂ کار اور حدود کیا ہونے چاہییں۔ یہ سوال اکتوبر ۲۰۰۹ء میں بھوربن میں منعقد ہونے والی ورک شاپ میں بھی ذرا دبے لفظوں میں زیر بحث آیا تھا، لیکن نیپال کی ورک شاپ میں منتظمین اور مدعوین کے باہمی حجابات خاصی حد تک اٹھ جانے اور بے تکلفی کی فضا پیدا ہو جانے کے باعث اس پر زیادہ کھلے انداز میں گفتگو ہوئی اور ایک پوری نشست اسی سوال کے مختلف پہلووں پر مرکوز رہی۔ ورک شاپ میں ٹرینر کی ذمہ داری انجام دینے والے اظہر حسین نے، جو اس سارے عمل سے بہت قریبی واقفیت رکھتے ہیں اور خود ایک تھنک ٹینک کے قیام اور انتظام وانصرام کا تجربہ رکھتے ہیں، اس ضمن میں مغربی زاویہ نگاہ کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ مغربی ممالک کی طرف سے ترقی پذیر ممالک کو دی جانے والے امداد کے محرکات عام طور پر دو ہوتے ہیں: ایک یہ کہ جن سماجی اقدار مثلاً جمہوریت، آزادی رائے اور خواتین کے حقوق وغیرہ پر ان کا اعتقاد ہے، انھیں دنیا میں فروغ دیا جائے اور دوسرا یہ کہ دنیا کے لوگوں میں اپنے بارے میں اچھے اور مثبت جذبات پیدا کیے جائیں۔
جہاں تک کسی منصوبے کی عملی تشکیل کے لیے اپنے مخصوص تصورات کو ٹھونسنے کا تعلق ہے تو اظہر حسین کی رائے میں اس کا تقاضا امداد دہندگان کی طرف سے کم ہوتا ہے جبکہ ہمارے یہاں کے مرعوب ذہنیت رکھنے والے امداد خواہ انھیں مطمئن کرنے کے لیے اس کی کوشش زیادہ کرتے ہیں۔ مثلاً انھوں نے بتایا کہ ایک این جی او کو فاٹا کے پس ماندہ علاقے میں اسکول قائم کرنے کے لیے فنڈ دیا گیا تو اس نے اچھی خاصی رقم اسکول میں جدید طرز کا ایک خوب صورت آرٹ سنٹر بنانے پر صرف کر دی، حالانکہ نہ تو وہاں کے ماحول میں اس کی کوئی ضرورت تھی اور نہ فنڈ دینے والوں کا ایسا کوئی تقاضا تھا، لیکن اس این جی اوز کے منتظمین نے امداد دہندگان کو اپنا ’’لبرل پن‘‘ دکھانے کے لیے ایسا کرناضروری سمجھا۔ اسی طرح ایک صاحب کو ایسے ڈرامے تیار کرنے کے لیے فنڈ ملا جو پاکستان میں خواتین کی معاشرتی حیثیت کو بہتر بنانے میں مدد دیں تو انھوں نے سمجھا کہ بعض علاقوں میں خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے منفی طرز عمل کو زیادہ اجاگر کرنے اور اس کی انتہائی شکلوں کو پیش کرنے سے امداد دہندگان زیادہ مطمئن ہوں گے، حالانکہ ان کی طرف سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں تھا اور مثبت نوعیت کے ڈرامے بنا کر بھی مطلوبہ مقصد حاصل کیا جا سکتا تھا۔ اظہر حسین نے یہی شکایت سرکاری سطح پر ترقیاتی منصوبوں کے لیے دی جانے والی امداد کے حوالے سے کی اور کہا کہ مغربی ادارے عام طور پر کسی منصوبے کی بنیادی تفصیلات اور اس کے قابل عمل ہونے کا اطمینان حاصل کرنے کے بعد عملی تفصیلات میں الجھنا پسند نہیں کرتے، لیکن ہمارے یہاں کے متعلقہ حضرات خواہ مخواہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں ان سے ہدایات طلب کرنے لگتے ہیں۔ البتہ کسی منصوبے کی تکمیل کے لیے مدت کی تعیین اور پھر اس مدت کے اندر اسے عملاً پایہ تکمیل تک پہنچانا، یہ مغربی مزاج اور کلچر کا حصہ ہے اور وہ اسی کے مطابق امدادی منصوبوں کے ذمہ دار حضرات سے رپورٹ طلب کرتے ہیں جسے ہمارے ہاں ’’مداخلت‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ڈھاکا میں یو ایس آئی ڈی کے نمائندے رسل پے پے نے بھی مجھ سے یہی بات کہی۔ مغربی اداروں کی طرف سے ڈکٹیشن دیے جانے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ That is not the western way of doing things. (اہل مغرب کا کام کرنے کا طریقہ یہ نہیں ہے)۔ رسل نے کہا کہ اگر ہم ایسا کرنے لگیں تو کام نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر انھوں نے بتایا کہ انھوں نے حال ہی میں یو ایس آئی ڈی کے زیر اہتمام پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے اہل علم سے اسلام میں خواتین کے حقوق کے موضوع پر ایک کتاب کا مسودہ مرتب کروایا ہے جس کا طریق کار یہ رہا ہے کہ ابتدائی طور پر ہر ملک کی ایک تین رکنی ٹیم نے اپنا اپنا مسودہ تیار کیا۔ (ہمارے وفدکے رکن اور بہاؤ الدین زکریا یونی ورسٹی، ملتان کے شعبہ اسلامیات کے صدر ڈاکٹر محمد اکرم رانا بھی اس میں شریک تھے۔) پھر تینوں ٹیموں نے اکٹھے ہو کر اپنے مسودات کا تقابلی جائزہ لیا اور اس کی روشنی میں ایک متفقہ مسودہ تیار کیا گیا۔ اس کے بعد یہ مسودہ پچاس اہل علم کو بھیجا گیا تاکہ وہ اس کا تنقیدی جائزہ لے کر اصلاح وترمیم کے حوالے سے اپنی تجاویز دیں۔ اس سارے عمل کے نتیجے میں ایک متفقہ مسودہ کی تیاری آخری مراحل میں ہے جسے ان تینوں ممالک میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے تعلیمی وتربیتی پروگراموں کے لیے بنیاد کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ رسل نے کہا کہ اس پورے پراسس میں ہم نے سوائے سہولیات فراہم کرنے کے اور کوئی کردار ادا نہیں کیا، کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے کوئی ایسی دستاویز موجود ہو جسے مسلمان اہل علم نے اسلامی تصورات کے مطابق مرتب کیا ہو اور اسے ان کا پورا پورا اعتماد حاصل ہو تاکہ اس کی بنیاد پر معاشرے میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کیا جا سکے۔ اگر ہم اس مسودے کی تیاری میں مغربی تصورات اور معیارات مسلط کرنے کی کوشش کرتے تو یہ کام سرے سے ہو ہی نہ پاتا۔
میرے ذہن میں یہ سوال آیا کہ کچھ عرصہ پہلے جب ہم نے افغانستان میں روس کے خلاف جہادی سرگرمیوں کو کامیاب بنانے کے لیے امریکی تعاون کو قبول کیا تو مذہبی ذہن نے اس پر کوئی تحفظات محسوس نہیں کیے۔ اسی طرح ۲۰۰۷ء میں کشمیر اور بالاکوٹ میں زلزلے کی تباہیوں کے بعد بحالی کے لیے پوری دنیا سے امداد آئی اور ہم نے اسے بلا تردد قبول کیا۔ اس کے برعکس جب مغربی ممالک مدارس کے نظام کی اصلاح کے لیے یا انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے فروغ یا معاشرتی بہبود کے عنوان پر امداد دینا چاہتے ہیں تو مذہبی ذہن اس پر شدید تحفظات اور خدشات کا شکار ہو جاتا ہے اور ایسے کسی کام میں تعاون یا اشتراک کو آلہ کار بننے کے مترادف سمجھتا ہے، کیونکہ وہ مخصوص مفہوم میں مدارس کی اصلاح یا انسانی حقوق یا مخصوص سماجی مسائل کو دراصل ’’اپنا‘‘ مسئلہ نہیں سمجھتا یا ان مقاصد کی عملی صورت کے حوالے سے مغربی تصورات سے اتفاق نہیں رکھتا اور بعض صورتوں میں خود اپنے رجحان اور زاویہ نظر کی تعیین میں دو ذہنی اور ابہام کا شکار ہے۔ ظاہر بات ہے کہ مقصد کی واضح تعیین اور اس پر فریقین کے اتفاق رائے کے بغیر عملاً کوئی تعاون لینے کا بھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔
بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے مختلف کھلے اور چھپے مقاصد کے تحت خطیر قسم کی مالی امداد ترقی پذیر ممالک کو دی جاتی ہے اور معاشرتی ترقی کے بعض مخصوص میدانوں مثلاً تعلیم اور صحت میں نسبتاً کم تحفظات کے ساتھ اس امداد کا اچھا اور موثر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہماری مذہبی قیادت نے اپنے کارکنوں کو جذباتی اور غیر عملی نعرے رٹانے اور کسی بھی عملی دائرے میں معاشرے کی خدمت کے امکانات، مواقع اور تربیت سے انھیں محروم رکھنے کا جو وطیرہ اپنائے رکھا ہے، وہ نئی نسل میں انتہا پسندی، تشدد اور معمول کی دینی جدوجہد سے مایوسی پیدا کرنے کے اسباب میں ایک بڑا سبب ہے۔ اس تناظر میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی نئی اور تازہ دم مذہبی تنظیم تعلیم اورصحت کے خالصتاً سماجی مقاصد پر ارتکاز کرتے ہوئے مذہبی کارکنوں کی فکری وعملی تربیت کر کے انھیں ان میدانوں میں کھپانے کا اہتمام کر سکے اور اس مقصد کے لیے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر میسر وسائل کو پاکستانی معاشرے کی دیانت دارانہ اور موثر خدمت کے لیے استعمال کرنے کا کوئی اچھا اور مثالی نمونہ پیش کر سکے تو شاید یہ ملک، قوم، معاشرے اور خود مذہبی طبقات کی ایک خدمت ہی ہوگی۔ اگر محدود سیاسی مفادات یا فرقہ وارانہ مقاصد کے اشتراک کی بنیاد پر ہماری مذہبی تنظیموں کو سعودیہ، عراق اور ایران بلکہ امریکہ تک سے تعاون حاصل کر کے ملک میں فرقہ وارانہ فساد پھیلانے کی اجازت ہے تو پاکستان کے عوام کو تعلیم اور صحت کے میدانوں میں تھوڑا سا ریلیف فراہم کر دینے سے بھی کوئی گناہ کبیرہ سرزد نہیں ہو جائے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نوعیت کی سرگرمیوں کے اہداف ومقاصد کے حوالے سے تحفظات اور کسی خفیہ ایجنڈے کی موجودگی پر اطمینان رکھنے کے باوجود ورک شاپ کے شرکا میں سے کسی کے ہاں بھی عملاً ایسے اسفار میں شرکت کے حوالے سے کوئی تردد یا ہچکچاہٹ دیکھنے میں نہیں آئی، بلکہ مختلف حضرات کی طرف سے آئندہ ورکشاپ کے انعقاد کے لیے دوبئی، دوحہ اور امریکہ وغیرہ کے انتخاب کی تجاویز بھی بے تکلف سامنے آ رہی تھیں۔
مذکورہ دونوں ورک شاپس کے شرکا کا عمومی تاثر یہ تھا کہ منتظمین کے کچھ خفیہ مقاصد (Hidden Agenda) بھی ہیں جن میں ایک مثلاً یہ ہے کہ دینی صحافت سے وابستہ لوگوں میں مغرب یا امریکہ کے حوالے سے نرم گوشہ پیدا کیا جائے۔ میرے ذاتی تجزیے میں، جہاں تک مغربی ممالک یا بین الاقوامی اداروں کا اس نوعیت کے پروگراموں کے لیے وسائل مہیا کرنے کا تعلق ہے تو یقیناًاس کے محرکات میں سے ایک محرک یہ بھی ہوگا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے اہم عنصر کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عنصر مختلف مسلمان معاشروں سے تعلق رکھنے والے ان بے شمار افراد کا ہے جو ایک طرف دنیوی ترقی کے مختلف معیارات کے لحاظ سے مغربی معاشروں کے مقابلے میں اپنے معاشروں کو بہت پس ماندہ دیکھتے ہیں اور دوسری طرف انھیں مغرب کے سیاسی وسماجی نظام اور وہاں کے پالیسی ساز اداروں کا قریبی مطالعہ کرنے اور ان مواقع اور امکانات کو جانچنے کا موقع ملا ہے جو اس نظام میں موجود ہیں اور جنھیں مثبت طور پر مسلم دنیا کے فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس مخصوص اکسپوژر کی بدولت ایسے لوگ مسلم معاشروں کو درپیش مسائل اور مشکلات کا تجزیہ صرف ’’نظریہ سازش‘‘ (Conspiracy Theory) کی روشنی میں کرنے پر اپنے آپ کو آمادہ نہیں پاتے، بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان معاشروں کے تنزل وانحطاط کا اصل سبب ان کی داخلی کمزوریاں اور تضادات ہیں ۔ چنانچہ عالم اسلام کی عام سیاسی اور مذہبی قیادت کے برعکس، جو مغرب کے سیاسی، تہذیبی اور معاشرتی استیلا کو مشکلات ومسائل کا اصل منبع اور اس کے خاتمے کو مسائل کے حل کے لیے کلید سمجھتی ہے، یہ عنصر مذکورہ میدانوں میں اہل مغرب کو حاصل فوقیت کو بالفعل تسلیم کرتے ہوئے اس پر شکایت اور ردعمل کی نفسیات ظاہر کرنے کے بجائے عالم اسلام کے مسائل کے حل کے لیے مثبت ذہن کے ساتھ ان کے سماجی تجربات، سیاسی اثر ورسوخ اور معاشی وسائل سے استفادے کی راہ کو زیادہ قابل عمل اور بہتر تصور کرتا ہے اور اس کا زاویہ نظر یہ ہے کہ اگر مسلم معاشرے داخلی طور پر استحکام حاصل کر لیں تو خارجی مشکلات اور چیلنجز کا مقابلہ حکمت ودانش اور بصیرت سے کیا جا سکتا ہے۔ میں ذاتی طور پر مسلمان معاشروں سے تعلق رکھنے والے اس عنصر کے زاویہ نگاہ کو ہمدردی کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ میرے نزدیک اس حلقے کے تجزیوں اور ذہنی وفکری اور عملی ترجیحات سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کا زاویہ نگاہ بہرحال ایک مخصوص اکسپوژر کی پیداوار ہے جس سے مسلم معاشروں کے راہ نما بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
ورک شاپ کی باقاعدہ نشستوں کے علاوہ بعض انفرادی نشستوں میں بھی اظہر حسین کے تبصرے اور تجزیے سننے اور باہمی دلچسپی کے معاملات میں ان سے تبادلہ خیال کا موقع ملتا رہا۔ ایک نجی نشست میں اظہر حسین کے ساتھ افغانستان اور طالبان کے معاملے پر بھی گفتگو ہوئی۔ اظہر حسین نے بتایا کہ انھوں نے پشین میں طالبان کے وزرا کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی ہے۔ وہ بہت اچھے اور سادہ لوگ ہیں اور اپنے موقف کے بارے میں اپنے آپ کو بالکل حق بجانب سمجھتے ہیں۔ اظہر نے بتایا کہ ان کی ملا شبیر سے ذاتی دوستی بھی ہے جو ملا محمد عمر کے مشیر تھے۔ میں نے اظہر حسین سے پوچھا کہ کافی عرصے سے وقتاً فوقتاً ایسی چھوٹی چھوٹی خبریں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ، افغانستان میں طالبان کے ساتھ کوئی سیاسی معاملہ کرنے کے امکان پر غور کر رہا ہے اور شاید اس سلسلے میں درون خانہ کوئی گفت وشنید بھی ہو رہی ہے، اس سلسلے میں ان کی معلومات کیا ہیں؟ (یہ جنوری ۲۰۱۰ء کے آغاز کی بات ہے، جبکہ اس کے بعد طالبان کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ مذاکرات کے ضمن میں ہونے والی باقاعدہ پیش رفت میڈیا میں رپورٹ ہو چکی ہے۔) اظہر حسین نے کہا کہ یہ بات درست ہے اور یہ رجحان امریکی انتظامیہ میں کافی عرصہ قبل پیدا ہو چکا تھا، البتہ امریکی اداروں میں داخلی طور پر اس حوالے سے ایک اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہ کرے، بلکہ طالبان سے کہا جائے کہ وہ القاعدہ اور اس کے اہداف سے اپنے آپ کو الگ کرنے کی شرط پر کرزئی حکومت کے ساتھ مصالحت کر کے افغانستان کے موجودہ دستوری ڈھانچے کے دائرے میں شریک اقتدار ہو جائیں، لیکن اب اوباما کی حکومت میں اس بات پر بھی آمادگی پائی جاتی ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکہ، طالبان اور کرزئی حکومت کی صورت میں ایک سہ فریقی مذاکراتی عمل کا آغاز کیا جائے۔ اظہر حسین نے بتایا کہ بہت سے صلح پسند عام طالبان کرزئی حکومت کی طرف سے معافی کے اعلان سے فائدہ اٹھا چکے ہیں اور افغانستان کے سابق صدر صبغت اللہ مجددی کی زیر سرپرستی قائم کیے گئے Amnesty Reconciliation Centre میں چھ سات ہزار طالبان ایمنسٹی لے چکے ہیں، تاہم فنڈز کم ہونے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج نہیں مل سکے۔ اظہر نے یہ بھی بتایا کہ افغانستان کی تعمیر نو کے لیے دی جانے والی رقم کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ پائپ لائن میں مزید رقم ڈالنے کی گنجائش نہیں، لیکن امن نہ ہونے کی وجہ سے ۸۰ کے قریب تعمیری منصوبے معطل ہیں اور ان پر کام شروع نہیں ہو سکتا۔
جہاں تک پاکستانی طالبان کا تعلق ہے تو اظہر حسین نے کہا کہ وہ مذہبی راہ نما جو پاکستان میں ہونے والے خود کش حملوں میں طالبان کا کوئی کردار تسلیم نہیں کرتے اور اسے بیرونی سازش قرار دیتے ہیں، حقائق کی پردہ پوشی کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے ۲۰۰۹ء میں وزیرستان کا دورہ کیا اور ایک رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں، بذات خود طالبان کے پاس اسلحہ کے غیر محدود ذخائر دیکھے اور ایک سو سترہ خود کش بمباروں سے انٹرویو کیا جن کی عمر ۱۳ سے ۱۷ سال کے درمیان تھی۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ چاندنی چوک میں جا کر خود کش حملہ کرے گا۔ جب اس سے کہا گیا کہ اس سے تو مسلمان مریں گے تو اس نے کہا کہ نہیں، اس حملے سے اول تو کسی مسلمان کو نقصان ہی نہیں پہنچے گا اور اللہ تعالیٰ اسے محفوظ رکھیں گے اور اگر کچھ مسلمان مر بھی گئے تو وہ سیدھے جنت میں جائیں گے۔ اظہر حسین نے بتایا کہ جب لال مسجد کا ڈرامہ چل رہا تھا تو وہ خود وہاں گئے تھے اور وہاں کے طلبہ سے گفتگو کی تھی۔ ان طلبہ کی ذہنی تربیت ایسی کی گئی تھی کہ انھوں نے کہا کہ جب ہم باہر کے ماحول میں جاتے ہیں تو ہمارا دم گھٹتا ہے۔
دینی صحافت کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ اسی ورک شاپ کے منتظمین کی طرف سے مین اسٹریم میڈیا کے ایک گروپ کے لیے بھی تربیتی ورک شاپ کا اہتمام کیا گیا تھا جس کا آغاز ہماری ورک شاپ کے آخری روز ہوا، چنانچہ ۵ جنوری کو دونوں گروپوں کا ایک مشترکہ سیشن منعقد کیا گیا اور دونوں طرف کے حضرات کو مختلف ٹولیوں کی شکل میں مخلوط کر کے باہمی تعارف اور تبادلہ خیال کا موقع دیا گیا۔ یہ تجربہ دلچسپ رہا اور دونوں طرف کے حضرات نے خاصی بے تکلفی اور کھلے دل سے ایک دوسرے کی سرگرمیوں اور خیالات سے آگاہی حاصل کی۔ اس سیشن میں مختلف افراد کو اپنے تاثرات کا اظہار کرنے کی دعوت دی گئی تو طرفین کے نمائندوں نے خوش گوار حیرت کا مظاہرہ کیا۔ ایک صحافی نے کہا کہ ہم مولوی صاحبان کو خاصا سخت مزاج سمجھتے ہیں، لیکن ان سے گفتگو کر کے ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ کئی باتوں میں ہم سے زیادہ ’’کھلے ڈلے‘‘ ہیں۔ مولانا محمد ازہر نے کہا کہ اسی قسم کا تاثر ہم نے بھی لیا ہے اور ہمیں محسوس ہوا ہے کہ ظاہری وضع قطع جو بھی ہو، اندر سے یہ حضرات بھی ’’مسلمان‘‘ ہیں۔ سنجیدہ اور خشک موضوعات کے درمیان یہ نشست سب سے زیادہ دلچسپ محسوس کی گئی اور بعد میں بھی اس حوالے سے خوش گوار تاثرات کا اظہار کیا جاتا رہا۔
ورک شاپ کے اختتام پر شرکا سے تجاویز طلب کی گئیں تو میں نے عرض کیا کہ اگر پاکستانی معاشرے میں تصادم اور تنازعات کو حل کرنا مقصود ہے تو اس نوعیت کی ورک شاپس میں بطور خاص ان لوگوں کو دعوت دے کر باہمی مکالمہ کے مواقع فراہم کرنے چاہییں جو کسی بھی نوعیت کے تنازعات میں عملاً فریق اور شریک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب تک جن لوگوں کو بلایا گیا ہے، وہ پہلے سے ہی اعتدال پسندانہ رجحانات رکھتے ہیں اور اپنے اپنے دائرۂ اثر میں اس کی آواز بھی بلند کرتے رہتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ عملاً شدت پسندانہ رجحانات کے ترجمان اور نقیب ہیں، ان کے ذہنی افق کو وسیع کیا جائے اور ان میں اس بات کی صلاحیت اور حوصلہ پیدا کیا جائے کہ وہ مذہبی وسماجی تنازعات کو محدود گروہی زاویے سے دیکھنے کے بجائے وسیع تر معاشرتی وقومی اور فکری وتہذیبی تناظر میں دیکھیں اور اپنے اثر ورسوخ کو تفریق او ر تصادم کو بڑھانے کے بجائے اسے کم کرنے کے لیے استعمال کریں۔ اظہر حسین نے اس سے اتفاق کیا، لیکن کہا کہ وہ پہلے ہی مرحلے پر براہ راست ایسے عناصر کو اکٹھے ایک میز پر نہیں بٹھا سکتے۔
میری دوسری تجویز یہ تھی کہ اگر آئندہ اس نوعیت کی کوئی ورک شاپ منعقد کی جائے تو درج ذیل دو موضوعات پر تفصیلی بریفنگ اس کا حصہ ہونی چاہیے: ایک یہ کہ مغرب کا سیاسی اور سماجی نظام کیا ہے، دنیا کے دوسرے معاشروں اور ثقافتوں کے بارے میں اہل مغرب کا زاویہ نگاہ کیا ہے اور خاص طور پر سیاسی اور معاشی سطح پر پالیسی ساز ی کا عمل کیسے طے پاتا ہے اور اس میں کون کون سے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ (اس کی ضرورت میری نظر میں اس پہلو سے ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر مغربی حکومتوں کے سیاسی اقدامات، اہل مغرب کی عمومی سیاسی سوچ اور وہاں کی سول سوسائٹی کے رجحانات، ان تینوں دائروں کو باہم گڈمڈ کر کے ’’مغرب‘‘ کو ایک کل کی شکل میں دیکھا جاتا ہے اور ناقص اور سطحی معلومات پر بڑے بڑے سیاسی، معاشی اور تہذیبی تجزیوں کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔) دوسرے یہ کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں رنگ، نسل اور مذہب وغیرہ کی بنیاد پر جو تنازعات موجود ہیں، مغرب میں سماجی اصولوں کی روشنی میں ان کے سنجیدہ مطالعہ اور تجزیہ کی ایک اچھی اور قابل قدر روایت موجود ہے۔ اگر تصفیہ تنازعات کے نظری اصولوں کے ساتھ ساتھ اس ضمن میں کیے جانے والے بعض عملی تجربات او ر کوششوں کا بھی تعارف کروایا جائے تو شرکا کو اس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا اور وہ ان سے راہنمائی لے کر اپنے اپنے دائرے میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کر سکیں گے۔
بہرحال ایک بے حد سنجیدہ موضوع پر منعقد کی جانے والی یہ ورک شاپ بہت مفید اور فکر انگیز رہی اور دینی صحافت کے وابستگان کو اپنی ذمہ داریوں اور کردار کے حوالے سے ایک مختلف زاویہ نگاہ سے واقفیت حاصل کرنے کے علاوہ خود آپس میں بھی ایک دوسرے کے خیالات سے استفادہ کرنے اور شخصی سطح پر روابط قائم کرنے کا موقع ملا۔ ذہنی وفکری پس منظر اور زاویہ نگاہ کے ممکنہ اختلاف کے باوجود اس میں شبہ نہیں کہ منتظمین نے اس ورک شاپ کے ذریعے سے دینی صحافت کے نمائندوں کو تنازعات اور تصادم کے تناظر میں زیادہ موثر اور فعال کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنے کی مخلصانہ کوشش کی جس کے لیے یہ سب حضرات یقیناًتحسین اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں۔
اس سفر کے بعض ضمنی مشاہدات اور تجربات کا ذکر بھی یہاں دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔
کھٹمنڈو میں ہمارے قیام کا انتظام ریڈی سن ہوٹل (Raddison Hotel) میں کیا گیا تھا جو بہت خوب صورت اور اعلیٰ معیار کا تھا اور اس میں ہوٹلنگ کے جدید معیار کے مطابق تمام سہولتیں میسر تھیں، لیکن پاکستانی وفد کے لیے یہ مسئلہ خاصا پریشان کن رہا کہ رہائشی کمروں کے باتھ رومز میں پانی سے استنجا کی سہولت موجود نہیں تھی اور صرف ٹشو پیپر رکھا گیا تھا۔ اس صورت حال سے سبھی دوست خاصے نالاں تھے اور باہم اس کا تذکرہ بھی ہوتا رہا، لیکن کوئی حل بظاہر سمجھ میں نہ آیا، تا آنکہ ماہنامہ ’’منہاج القرآن‘‘ کے ڈاکٹر علی اکبر الازہری صاحب نے، جو ورک شاپ کے دوسرے روز شام کو پہنچے تھے، تیسرے دن ایک نشست میں ساتھیوں کو بتایا کہ کمرے میں رکھا ہوا ایک مخصوص ڈیکوریشن پیس ایسی طرز پر بنا ہوا ہے کہ اس سے بآسانی لوٹے کا کام لیا جا سکتا ہے اور انھوں نے ایسا ہی کیا ہے۔ یہ انکشاف دلچسپ تھا، البتہ یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان کے تجربے سے باقی حضرات نے بھی کوئی فائدہ اٹھایا یا نہیں۔ ہوٹل کی انتظامیہ نے چیک ان کے وقت ایک فارم پر ہم سے ہمارا نام پتہ اور ای میل ایڈریس لے لیا تھا، چنانچہ جب ہم پاکستان واپس پہنچے تو ہوٹل کی طرف سے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں درخواست کی گئی تھی کہ ہم ایک مہمان کے طور پر ہوٹل کے انتظامات اور سہولیات کے حوالے سے اپنے تاثرات ہوٹل کی ویب سائٹ پر درج کر دیں تاکہ اس کی روشنی میں ہوٹل کے انتظامات کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔ میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دو تجاویز تحریر کر دیں۔ ایک یہ کہ مسلمان وزیٹرز کے لیے باتھ رومز میں استنجا کے لیے پانی کی سہولت فراہم کی جائے اور دوسری یہ کہ ہر کمرے میں نماز کی ادائیگی کے لیے قبلہ کی سمت بتانے کے ساتھ ساتھ ایک جائے نماز بھی مہیا کی جائے۔
۴؍ جنوری کو مغرب کے بعد ہمیں کھٹمنڈو کے کسی نواحی علاقے میں واقع بدھ مذہب کی ایک عبادت گاہ میں لے جایا گیا۔ یہاں انتظامیہ کی طرف سے سیاحوں کے لیے پچاس روپے کا ٹکٹ مقرر گیا تھا۔ ہم سولہ آدمی تھے، لیکن اتفاق سے ثاقب اکبر کے علاوہ کسی کے پاس نیپالی کرنسی نہیں تھی۔ انھوں نے آٹھ سو روپے ٹکٹ گھر کی کھڑکی پر ادا کیے، لیکن اس کے عوض میں انھیں صرف دس ٹکٹ دیے گئے۔ انھوں نے پلٹ کر گنتی درست کرنے کی کوشش کی تو ٹکٹ گھر سے جواب ملا کہ اس وقت بجلی گئی ہوئی ہے اور کوئی آپ کی تعداد نہیں گنے گا، اس لیے آپ اتنے ہی ٹکٹ لے جائیں۔ تاہم ثاقب اکبر ان غریبوں کی اس اضافی کمائی پر راضی نہیں ہوئے اور وہاں سے پورے سولہ ٹکٹ لے کر ہی ٹلے۔ پہاڑ کے اوپر تعمیرکی گئی یہ عبادت گاہ خاصی وسیع وعریض تھی اور اس میں جگہ جگہ گوتم بدھ کے چھوٹے بڑے بہت سے مجسمے نصب تھے۔ یہاں جو چیز میرے لیے خاص طور پر تعجب کا باعث بنی، وہ درجنوں کی تعداد میں مختلف نسلوں کے کتے تھے جو وسیع وعریض عبادت گاہ کے ہر کونے میں دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے گائیڈ سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے کہا کہ یہ چوروں سے حفاظت کے لیے ہیں، لیکن یہ جواب میرے لیے تسلی بخش نہیں تھا۔ میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید بدھ مذہب میں کتے کو کوئی خاص تقدس حاصل ہے جس کی وجہ سے اسے عبادت گاہ میں بطور خاص اس کثرت سے رکھا گیا ہے۔ عبادت گاہ میں ایک جگہ قوالی کی طرز کی کوئی عبادت بھی انجام دی جا رہی تھی۔ دو تین سازندے ساز بجا رہے تھے جبکہ ایک لامہ صاحب (بدھ مذہب میں روحانی ریاضت ومجاہدہ کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دینے والوں کو ’’لامہ‘‘ کہا جاتا ہے) کسی کتاب کو کھول کر اس میں سے کچھ کلمات سریلے انداز میں پڑھ رہے تھے۔ کلام تو ہماری سمجھ سے بالاتر تھا، تاہم تھوڑی دیر کے لیے ہم ساز سے ضرور لطف اندوز ہوتے رہے۔ مولانامحمد ازہر نے یہ دیکھ کر کہا کہ ہمارے ہاں جس قسم کا اسلام معاشرتی سطح پر رائج ہے، وہ تو بہت کچھ انھی رسومات سے ملتا جلتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ بات بالکل بجا ہے اور ہمارا کمال یہ ہے کہ ہم تحقیق کرتے کرتے یہاں اس کے اصل ماخذتک آپہنچے ہیں۔ مولانا ازہر اس نکتہ آفرینی پر بہت محظوظ ہوئے۔
ریڈی سن ہوٹل کے ساتھ ہی ہوٹل کی انتظامیہ نے ہوٹل کے تہہ خانے میں ایک جوا خانہ (Casino) بھی قائم کر رکھا ہے۔ مولانامحمد ازہر نے خواہش ظاہر کی کہ جوا خانے کے ماحول اور سرگرمیوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے لیے اندر جا کر ایک نظر ڈالنی چاہیے۔ میں نے اتفاق کیا اور ہم دونوں جوا خانے کی طر ف گئے، لیکن راستہ تلاش نہ کر سکے اور بھٹک کر دوسری طرف جا نکلے۔ اگلے دن مولانا عبد القدوس محمدی نے اسی تجسس کا اظہار کیا۔ انھیں راستہ معلوم تھا، چنانچہ ہم دونوں اندر چلے گئے، لیکن اندازہ نہیں تھا کہ وہاں صرف جوا خانہ نہیں بلکہ نائٹ کلب کی رونقیں بھی سجائی گئی ہیں۔ ہم نے اندر داخل ہو کر دیکھا تو اسٹیج پر نیم برہنہ رقاصائیں اپنے فن اور جسم، دونوں کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ حاضرین پر نظر ڈالی تو بعض رفقاے سفر وہاں پہلے سے موجود تھے اور ٹکٹکی باندھے اس منظر سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہے تھے، لیکن قوت ایمانی کمزور ہونے کی وجہ سے ہماری نگاہیں اس منظر کی تاب نہ لا سکیں۔ میں نے مولانا محمدی کا ہاتھ پکڑا اور ہم وہاں سے ہٹ کر اس حصے کی طرف چلے گئے جہاں لوگ مختلف میزوں پر مشینی جوا کھیل رہے تھے۔ ہم نے تھوڑی دیر یہ روکھا پھیکا منظر دیکھا اور پھر وہاں سے واپس آ گئے۔ ہماری ورک شاپ کے آخری روز جب پاکستان سے مین اسٹریم میڈیا کا ایک گروپ اسی نوعیت کی ایک ورک شاپ میں شرکت کے لیے ہوٹل پہنچا تو یہ خبر گرم تھی کہ کچھ صحافی حضرات نے آتے ہی کیسینو کا رخ کیا ہے اور پینے پلانے کی سہولیات سے مستفید ہوئے ہیں۔
ایک دن ہمارا ارادہ ہوا کہ مغرب یا عشا کی نماز کسی مسجد میں جا کر پڑھی جائے اور گھوم پھر کر شہر کا جائزہ لیا جائے۔ مختلف حضرات الگ الگ ٹولیوں کی صورت میں نکلے۔ مجھے مولانا محمد ازہر کی رفاقت میسر ہوئی اور ہم نے مغرب کی نماز شہر کی ایک خاصی بڑی جامع مسجد میں ادا کی جس کا نام اب ذہن میں نہیں۔ مسجد خاصی وسیع تھی اور اس کے ساتھ غالباً کسی اسکول یا مدرسے کی ایک بڑی عمارت ملحق تھی جبکہ صدر دروازے میں داخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ سبز رنگ سے ڈھکا ہوا کسی بزرگ کا مزار تھا۔ ہم نے وہاں سے نکل کر کسی دیوبندی مسجد کی جستجو کی جو اتفاق سے تھوڑے ہی فاصلے پر مل گئی۔ ہم نے نائب امام صاحب کے حجرے میں ان سے ملاقات کی اور کھٹمنڈو شہر میں مسلمانوں کے حالات سے متعلق چند معلومات حاصل کیں۔ امام صاحب کی میز پر انگریزی کی کچھ کتابیں رکھی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ انڈیا کے ایک معروف دینی ادارے (جس کا نام افسوس ہے کہ ذہن سے نکل گیا) کے فارغ التحصیل ہیں اور کسی سرکاری امتحان کی تیاری کر رہے ہیں۔ اتفاق سے اسی مسجد میں پاکستان سے آئی ہوئی ایک تبلیغی جماعت بھی ٹھہری ہوئی تھی اور اس کے قیام کا وہ آخری دن تھا۔ ہم ان حضرات سے ملنے کے لیے مسجد کے اندر چلے گئے۔ جماعت کے ساتھیوں نے بڑی محبت اور اپنائیت کا اظہار کیا اور ہمارے دریافت کرنے پر بتایا کہ وہ چار ماہ کاعرصہ نیپال کے سرحد ی علاقوں میں گزارنے کے بعد اگلے روز واپس جا رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جس علاقے میں ان کی تشکیل ہوئی تھی، وہاں کے مسلمان غریب اور سادہ لیکن بہت ملنسار اور مروت والے لوگ ہیں۔ اس حوالے سے چند ایک ایمان افروز واقعات بھی انھوں نے سنائے۔ پردیس میں اپنے وطن کے لوگوں اور خاص طورپر تبلیغ کی غرض سے نکلے ہوئے مخلص مسلمانوں سے مل کر فی الواقع بہت اطمینان محسوس ہوا۔
۶ جنوری کو ہمیں پی آئی اے کی پرواز سے کراچی اور پھر وہاں سے اسلام آباد آنا تھا۔ اسلام آباد ایئر پورٹ پر دھند کی وجہ سے فلائٹ اسلام آباد کے بجائے لاہور جا اتری۔ لاؤنج میں پہنچے تو دیکھا کہ بہت سے مسافر ایک کاؤنٹرکے گرد جمع ہیں اور ہلچل کی سی کیفیت ہے۔ معلوم ہوا کہ ہم سے پہلے بھی ایک دو جہازوں کے مسافروں کے ساتھ یہی معاملہ ہو چکا ہے۔ رات کا پچھلا پہر تھا اور کوئی بااختیار اور ذمہ دار آفیسر وہاں موجود نہیں تھا، چنانچہ کچھ سیکورٹی گارڈ اور کاؤنٹر پر کھڑی عملے کی ایک دو خواتین مسافروں کے تیز وتند تبصروں اور سوالات کی زد میں تھیں۔ مسافروں میں سے اکثر اپنی وضع قطع سے تعلیم یافتہ دکھائی دے رہے تھے، لیکن کسی کے طرز عمل سے اس کا شبہ تک نہیں ہو رہا تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ موسم کی خرابی کو دور کرنا انسانوں کے بس میں نہیں اور یہ کہ ان کے سامنے کوئی با اختیار آفیسر نہیں بلکہ محض معمول کے احکام بجا لانے والا عملہ کھڑا ہے، بے شمار افراد اپنے اپنے انداز میں اور کچھ لوگ فرفر انگریزی جملوں میں اپنی قابلیت کا اظہار کرتے ہوئے سخت توہین آمیز لہجے میں ان بے چاروں پر اپنا غصہ نکال رہے تھے، جبکہ کچھ حضرات احتجاجاً لاؤنج کے شیشے توڑ دینے کی دھمکیاں تک دے رہے تھے۔ میرا تجزیہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ اور سیاسی وسماجی قیادت نے حکومتی اور انتظامی اداروں پر تنقید کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر اس بے دردی سے استعمال کیا ہے کہ موقع ومحل اور صورت حال کی مناسبت کا لحاظ کیے بغیر اس طرح کی جائز یا ناجائز تنقیدیں ہمارے مزاج اور نفسیات کا ایک حصہ بن گئی ہیں اور اس سے زیادہ بدبختی یہ ہے کہ ایسے کسی موقع پر جوشیلے پن کا اظہار کر کے اپنے حقوق مانگنا اور متعلقہ حکام کے خلاف ’’کلمہ حق‘‘ بلند کرنا پڑھا لکھا، باشعور اور دبنگ ہونے کی علامت سمجھا جانے لگا ہے۔ مجھے اس صورت حال پر سخت کوفت ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رویہ کسی بہتر سماجی تربیت کا مظہر نہیں، بلکہ اخلاقی اتھلے پن اور انسانی وسماجی آداب سے بے بہرہ ہونے کی غمازی کرتا ہے۔ پڑھا لکھا ہونا اگر کسی کو مہذب نہیں بناتا تو وہ نری جہالت ہے اور تنقید میں اگر موقع ومحل کی مناسبت ملحوظ نہ رہے تو اسے نفسیاتی ناہمواری کی پیداوار سمجھا جانا چاہیے۔ کاش ہمارے سماجی راہنما اور ذرائع ابلاغ مسائل ومشکلات کو سیاسی زاویے سے exploit کرنے کے بجائے سماجی آداب کے حوالے سے قوم کی شعوری واخلاقی تربیت کو اپنا ہدف بنا لیں۔
بلا سود بینکاری کا تنقیدی جائزہ ۔ منہجِ بحث اور زاویۂ نگاہ کا مسئلہ (۱)
مولانا مفتی محمد زاہد
غیر سودی بینکاری آج کی معیشت خصوصا فائنانس کی دنیا کا نیا مظہر phenomenon ہے جس کی کل عمر تقریباً تین عشرے ہے۔ اس مدت کا تقابل اگر روایتی بنکاری کی صدیوں پر محیط عمر کے ساتھ کیا جائے تو اسے اب بھی بلا تردد دورِ طفولت کہا جا سکتاہے۔ دورِ طفولت میں ہونے کے ناطے اسے نشو ونما کے لیے غذا کی ضرورت ہے۔ کسی بھی نئے تجربے کے لیے اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ اسے جاری کرنے کے بعد اس کی کارکردگی اور خوبیوں اور خامیوں، کامیابیوں اور ناکامیوں کا مسلسل جائزہ لیا جاتارہے۔ جو لوگ غیر سودی بینکاری کے اس نئے نظام کے حامی نہیں ہیں، ان کے مطابق تو تنقید کی اہمیت ہے ہی، اسے جاری رکھنے کے حامیوں کے نقطۂ نظر سے بھی اس نئے تجربے کا مسلسل تنقیدی جائزہ لیا جاتا رہنا مفید بلکہ ضروری ہے۔ آنے والی سطور کا مقصد کسی مسئلے یا ایشو کے بارے میں اپنی رائے پیش کرنا نہیں بلکہ اس بات کا طالب علمانہ جائزہ لینا ہے کہ اس طرح کے کسی جائزے کی کون کون سی سطحیں ہوسکتی ہیں اور کس سطح پر بحث کا منہج کیا ہونا چاہیے۔ آج کل اسلامی بینکاری کا عموماً دوسطحوں پر جائزہ لیا جارہاہے۔ ایک توخالص فقہی نقطۂ نظر سے یہ دیکھا جارہاہے کہ ان بینکوں میں طے پانے والے معاملات کس حدتک عقودِ صحیحہ کے دائرے میں آتے ہیں اور کس حد تک عقودِ فاسدہ یا باطلہ کے دائرے میں۔ بحث کی دوسری سطح اسلامی بینکاری کا اس پہلو سے جائزہ لینے کی ہے کہ معیشت کی عمومی سطح (macro level) پر اس کے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیںیا ہوسکتے ہیں۔ دونوں سطح کی بحثوں کی نوعیت اور طرزِ استدلال ایک دوسرے سے الگ ہوتاہے۔ اس وقت کے ماحول میں مقدم الذکر بحث غالب ہے اور اس پہلو سے مختلف آرا سامنے آچکی ہیں۔ عالمِ اسلام کی بہت سی علمی شخصیات اور فقہی فورمز نے ان عقود کو جائز اور درست قرار دے کر ان بینکوں سے معاملات کرنے کی اجازت دی ہے اور بعض علمانے فقہی اعتبار سے ان عقود پر اعتراضات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں غیر شرعی قرار دیاہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں بحث پر فقہی زاویۂ نگاہ کے غالب ہونے والی یہ صورتِ حال درست نہیں ہے۔ ان کے خیال میں مسئلے کا عمومی معاشی تجزیہ پہلے ہونا چاہیے، فقہی جواز یا عدمِ جواز کی بحث بعد میں ہونی چاہیے، وہ بھی تب جبکہ معاملہ پہلے ٹیسٹ میں پاس میں ہو جائے۔ کچھ اسی طرح کی رائے کا اظہار جناب زاہد صدّیق مغل صاحب نے ماہنامہ ’الشریعہ‘ کی اشاعت جنوری ۲۰۱۰ء تا مارچ ۲۰۱۰ء میں اپنے قسط وار شائع شدہ مضمون میں کیا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے مروّجہ اسلامی بینکاری کے جواز اور عدمِ جواز کے قائلین دونوں کو تنقید کانشانہ بناتے ہوئے اپنے اس خیال کا اظہار کیاہے کہ دونوں فریقوں نے بحث کی ترتیب کو الٹ دیاہے۔ جناب مغل صاحب کے علاوہ بھی کئی لوگ ایسے ہوں گے جنہیں یہ جاننے میں دشواری پیش آرہی ہوگی کہ بظاہر معاشی نوعیت کے نظر آنے والے مسئلے میں فقہی پہلو کیوں غالب ہے اور وہ دینی مراکز جو معاشیات کے متخصص ہونے کی بجائے فتوے کی دنیا میں مرجعیت رکھتے ہیں، ان کی اس سے اتنی دلچسپی اور ان کا اس میں اتنا کردار کیوں ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے مسئلے کے اصل پس منظر کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ اصل پس منظر ذہن میں ہوتو بہت سی الجھنیں یا تو سرے سے پیداہی نہیں ہوتیں ، یا وہ دور ہوجاتی ہیں۔
مسئلے کا فقہی پس منظر
موجودہ دور میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے سلسلے میں جن موضوعات پر بحث ومباحثہ ہوا، ان میں سود کا مسئلہ خاص طور پر شامل تھا۔ اس بات سے تو کوئی اختلاف کرہی نہیں سکتا کہ قرآن وحدیث نے ربا سے شدت کے ساتھ منع کیا ہے ، البتہ جدید دور میں جب بینکوں اور مالیاتی اداروں کی شکل میں سود کو ایک منضبط شکل ملی اوروہ کاروباری ہی نہیں عام معاشی زندگی اور سرگرمیوں کا بھی اہم جز بن گیا تو مسلمانوں میں یہ سوال اٹھا کہ آیا بینکوں یا اس طرح کے دیگر تمویلی اداروں کے معاملات میںیا مختلف قسم کے تمسکات کی صورت میں اصل زر پر جو زائد مقدار لی اور دی جاتی ہے، وہ اس ربا میں داخل ہے یا نہیں جسے اسلام میں ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں خصوصی طور پر وہ سود موضوعِ بحث بنا جو استہلاکی مقاصد کی بجائے استثماری مقاصد کے لیے ہو، یعنی قرض حاصل کرنے والے کا مقصد اس سے اپنی ذاتی ضرورتوں کو پورا کرنا نہیں بلکہ اس سے کوئی کاروبار اور نفع بخش کام کرنا ہو۔ اس مسئلے پر برّ صغیر اور عالمِ عرب سمیت مختلف جگہوں پر بحثیں ہوئیں اور اس بارے میں مختلف آرا سامنے آئیں۔ زیادہ معروف آرا دو تھیں۔ ایک یہ کہ بینکوں کے لین دین میں جسے انٹرسٹ کہا جاتا ہے، وہ بھی اسی طرح ربا میں داخل ہے جس طرح عام سیدھا سادہ سود ، جبکہ ایک دوسرا نقطۂ نظر یہ سامنے آیا کہ مروّجہ بینکوں کا انٹرسٹ اسلام کے منع کردہ ربا میں داخل نہیں ہے۔ اس مؤخرالذکر نقطۂ نظر میں کچھ لوگوں کا تو یہ سطحی استدلال تھا کہ اسلام زمانے کے ساتھ چلنے کا کہتاہے اور موجودہ دور میں سود معاشی اور کاروباری زندگی کا لازمی جز بن گیا ہے ، اس کے بغیر ترقی کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے مسلمان علما کو چاہیے کہ وہ کوئی ’ اجتہاد‘ کرکے سود کو جائز قرار دے دیں، لیکن کچھ حضرات خصوصاً عالمِ عرب کی بعض ایسی شخصیات بھی اس دوسرے نقطۂ نظر یا اس کے قریب قریب کی حامی تھیں جن کی نہ تو علمی حیثیت کا انکار کیا جاسکتاہے اور نہ ہی اس بات کا کہ انہوں نے جس رائے کا اظہار کیا، وہ واقعی ان کی دیانت دارانہ رائے تھی۔ ان حضرات نے بھی علمی استدلال کے ساتھ اپنی رائے پیش کی۔ (ان بحثوں کے ایک اجمالی جائزے کے لیے عربی دان حضرات عبد الرزاق السنہوری کی کتاب ’’ مصادر الحق فی الفقہ الإسلامی‘‘ کا تیسرا جز ملاحظہ کرسکتے ہیں )۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ مؤخر الذکر رائے پس منظر میں جاتی رہی اور اسے نہ تو مسلمان فقہا میں قبولِ عام حاصل ہوا اور نہ ہی ان معیشت دانوں میں جو معیشت کا اسلامی زاویۂ نگاہ سے مطالعہ کررہے تھے۔ اس کے برعکس پہلی رائے کو مسلمانوں کے علمی اور اقتصادی حلقوں میں قبولِ عام حاصل ہوگیا۔ تقریباً ہر وہ قابلِ ذکر فورم جس پر یہ مسئلہ زیرِ بحث آیا، پہلی رائے ہی کو زیادہ پذیرائی ملی اور اب مسلمان مفکرین کی بہت واضح اور نمایاں اکثریت اسی رائے کو اختیار کر چکی ہے، تاہم یہ کہنا شاید مشکل یا قبل از وقت ہو کہ بحث بالکلیہ ختم ہو چکی ہے۔
اس بحث میں جن لوگوں نے حصہ لیا، ان میں ایک طبقہ علما اور فتوے کے شعبے سے وابستہ حضرات کا بھی تھا۔ یہ طبقہ بھی پہلے نقطۂ نظر کی نمائندگی کرنے والوں میں شامل تھا۔ اس طبقے کے لیے محض نظریاتی اور اکادیمی بحث تک محدود رہنا ممکن نہیں ہوتا، اس لیے کہ انہیں روز مرّہ کی زندگی میں لوگوں کے پوچھنے پر انہیں بتانا ہوتا ہے کہ وہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ زیرِ بحث مسئلے میں انہوں نے لوگوں کو یہی بتایا کہ وہ بینکوں کے انٹرسٹ کے لین دین سے گریز کریں، لیکن اسی کے ساتھ ان کے سامنے ایسے واقعات بھی بکثرت آئے جہاں محسوس ہوا کہ ان کے فتوے پر عمل کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے یا کم از کم یہ کہ کاروبار میں اپنے دیگر ہم پیشہ لوگوں سے پیچھے رہنا پڑرہا ہے، مثلاً زید اور عمرو ٹیکسٹائل کے ایسے شعبے سے منسلک ہیں جس میں انہیں روئی خریدنی ہوتی ہے۔ روئی کی خریداری کے ساز گار سیزن میں دونوں کے پاس نقد رقم نہیں ہے۔ عمرو تو کسی بنک سے سود پر قرض لے لیتاہے اور بروقت سستی روئی خرید لیتاہے ، جبکہ سود کی حرمت کے پیشِ نظر زید ایسا نہیں کرتا۔ وہ بعد میں روئی خریدتا ہے جس کی وجہ سے اسے روئی مہنگی پڑتی ہے۔ اس طرح سے اس کے لیے مارکیٹ میں عمرو سے مقابلہ کرنا مشکل ہوجاتاہے ، یا عمرو مناسب وقت پربنک سے قرض لے کر ایک نیا یونٹ لگا کر اپنی پیداواری صلاحیت بڑھا لیتاہے ، جبکہ زید کے پاس اس وقت پیسے نہ ہونے کے باعث وہ ایسا نہیں کرپاتا۔ جب اس کے پاس پیسے آتے ہیں تو نیا یونٹ لگانے کے لئے وقت اتنا موزوں نہیں رہتا جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ محسوس کررہاہے کہ کاروبار میں پیچھے رہنے کی شکل میں وہ اس فتوے پر عمل کی قیمت ادا کررہا ہے جس کے بارے میں اسے بتایا جاتاہے کہ اسے آخرت میں اس کا بھر پور صلہ ملے گا۔ دوسری طرف مجیدہ اور حمیدہ دو بیوہ خاتون ہیں جن کے پاس ان کے خاوند کی چھوڑی ہوئی کچھ رقم موجود ہے۔ مجیدہ اسے بنک میں جمع کرادیتی ہے اور بنک اسے اس پر ماہانہ یا سالانہ رقم دیتاہے جس سے وہ گذر اوقات کرتی ہے۔ حمیدہ علماء کرام سے فتویٰ لیے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتی، اسے بتایا جاتاہے کہ بنک کے سیونگ اکاؤنٹ میں رقم رکھوانا جائز نہیں ہے۔ اب وہ کیا کرے؟ خود وہ کچھ کرنہیں کر سکتی، کسی کے انفرادی کاروبارمیں رقم لگانے کے لیے اسے کسی پر اعتماد نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ عورت مشکل صورتِ حال سے دوچار ہوگئی ہے۔ پہلی مثال میں زید اور دوسری مثال میں حمیدہ جس صورتِ حال سے دوچار ہیں، اس سے ایک طرف تو بنک انٹرسٹ کو ناجائز کہنے والوں میں سے جو لوگ فتوے یا عام لوگوں کی دینی راہ نمائی کے کام سے منسلک تھے اور ان کی خدمات کا دائرہ اکادیمی نوعیت کی کاوشوں تک محدود نہیں تھا، ان پر ’’ ہم کیا کریں ؟ ‘‘ کے سوال کا دباؤ بڑھ رہا تھا جس کا پورے طورپر اندازہ محض معاشی تجزیہ کاری کرنے والے کو نہیں ہوسکتا۔ دوسرے اس سے انہیں بنک انٹرسٹ کی حرمت کے بارے میں اپنا کیس کمزور ہوتا محسوس ہورہاتھا ، دلیل کے اعتبار سے نہیں ، بلکہ لوگوں کو مطمئن کرنے اور سود سے گریز پر آمادہ کرنے کے اعتبارسے۔ لوگ یہ کہتے تھے کہ مولوی لوگ فتوی تو دے دیتے ہیں، لوگوں کی مشکلات کو نہیں دیکھتے۔ اگر ہم ان مولویوں کی ماننے لگے تو دنیاسے پیچھے رہ جائیں گے۔ اس تنقید میں بذاتِ خود کتنا وزن تھا، یہ الگ بات ہے ، بادی النظر میں سود کی حرمت کے کیس پر اس کے اثرات پڑ رہے تھے اور کئی لوگوں کے لیے یہ کہنا آسان ہوگیا تھا کہ سود سے بچ کر ہم دنیا کے ساتھ چل نہیں سکتے۔ اس طرح سے ان علماکے معتقدین اور پیروکار بھی ان کے اس فتوے کو زیادہ عملی اہمیت نہیں دے رہے تھے۔ اس صورتِ حال کو یہ حضرات کس طرح محسوس کررہے تھے، اس کا اندازہ مولانا مفتی محمد شفیع ؒ کی اس عبارت سے لگایا جاسکتا ہے :
’’ہاں !اس میں شبہ نہیں کہ مشرق سے مغرب تک تمام تجارتوں میں سود کا جال اس طرح بچھا دیا گیاہے کہ آحاد ووافراد کیا ، کوئی جماعت مل کر بھی اس سے نکلنا چاہے تو تجارت چھوڑنے یا نقصان اٹھانے کے سوا کچھ ہاتھ آنا مشکل ہے۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ عام تاجروں نے اب یہ سوچنا بھی چھوڑدیاہے کہ سود جو حرام ترین چیز اور بد ترین سرمایہ ہے، اس سے کس طرح نجات حاصل کریں۔ عام بے فکرے دین داروں کا تو کیا ذکر، وہ دین دار ، پرہیزگار مسلمان جو نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ میں شریعت کے پورے متبع ، تہجد گزار اور ذکراللہ میں مشغول رہنے والے ہیں، وہ رات کو تہجد ونوافل اور ذکر وفکر کا شغل رکھتے ہیں تو صبح دکان پر پہنچ کر ان میں اور ایک بئیے یا یہودی تاجر میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ...‘‘ ( مسئلہ سود ص ۸ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی )
اسی کے ساتھ ان حضرات کی فقہی دسترس نے انہیں توجہ دلائی کہ زید جیسے لوگوں کے مسئلے کا حل بعض ایسے معاملات کے ذریعے ممکن ہے جو فقہِ اسلامی کے لیے اجنبی نہیں بلکہ ہمیشہ سے امت میں ان کا تعامل چلا آرہاہے، مثلاً عمرو نے اگر سستے زمانے میں روئی کی خریداری کے لیے بنک سے سودی قرضہ لیاہے تو زید یہ کرسکتاہے کہ وہ خود روئی ادھار پر خرید لے ، جیسے عمرو کو قرض پر سود کی شکل میں اضافی لاگت پڑے گی، اسی طرح زید ادھار ہونے کی وجہ سے کچھ زیادہ ریٹ لگا دے، گویا بیعِ مؤجل کے ذریعے اس کا یہ مسئلہ حل ہوسکتاہے جوتقریباً تمام فقہا کے نزدیک ایک جائز عقد ہے ، لیکن اگر کوئی روئی بیچنے والا اس طرح ادھار سودا کرنے کے لیے تیار نہ ہو ، یا تو اس لیے کہ اسے خود پیسوں کی فوری ضرورت ہے یا اس لیے کہ وہ زید کو نہیں جانتا نیز کسی دَین (مؤخر ادائیگی )کی توثیق کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتاہے، اس کی مہارت اس کے پاس موجود نہیں ہے تو زید کیا کرے۔ اس کا حل فقہِ اسلامی کے ایک اور عقد میں انہیں نظر آیا ، اور وہ ہے مرابحہ موجلہ ، یعنی کوئی تیسرا شخص جس کے پاس پیسے ہوں ، وہ نفع بھی کمانا چاہتاہو اور زید پر اعتماد کرنے کے لیے بھی تیّار ہو، یا اس کے پاس توثیقِ دین کی وہ مہارتیں موجود ہوں جن کی بنیاد پر اسے اطمینان ہو کہ میں زید سے اپنے پیسے نکلوا سکتا ہوں، یہ تیسرا شخص اس روئی کو نقد خرید کر اپنی تحویل میں لے لے اور کچھ نفع رکھ کر ادھار زید کو بیچ دے۔ اسی چیز کا تذکرہ کرتے ہوئے مندرجہ بالا اقتباس سے کچھ آگے چل کر مولانا مفتی محمد شفیع ؒ لکھتے ہیں :
’’یہ مرض تو عام ہو گیا کہ بہت سے مسلمانوں کو یہ خبر نہیں کہ فلاں معاملہ سودی ہونے کی وجہ سے حرام ہے ، فلاں میں قمار پایا جاتاہے ، ان میں سے بہت سے ایسے معاملات بھی ہیں جن کی مروّجہ شکل سود وربا پر مشتمل ہے لیکن اگر بازار والے چاہیں تو اس کو آسانی سے ایسے معاملے کی صورت میں بدل سکتے ہیں جو سود سے خالی ہو ، اگر وہ کم ازکم ایسے نجی معاملات ہی درست کرلیں تو سود کی لعنت سے اگر کلّی نجات نہ ملے تو کم از کم تقلیل تو ہو ....‘‘
یوں فقہی نقطۂ نظر سے سود کے متبادل کاروبار کا تصور سامنے آتاہے جو درحقیقت حرمتِ سود کے فتوے پر دین داروں میں بھی عمل نہ ہونے پر کڑھن کا نتیجہ تھا، جیساکہ اوپر والے اقتباس سے واضح ہے ۔ یہ کا م انفرادی طور پر بھی ہوسکتے تھے ، لیکن خود مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نے آگے چل کر ذکر کیاہے کہ اس کے لیے اجتماعی کاوشوں کی ضرورت ہے۔ مذکورہ مثالوں میں جہاں زید جیسے بے شمارلوگ معاشرے میں موجود ہوں گے جو یہ چاہتے ہوں گے کہ کوئی شخص اپنی رقم لگاکر اس کا مسئلہ حل کردے، وہیں حمیدہ جیسے بھی کئی لوگ ہوں گے جو یہ چاہتے ہوں گے کہ ان کا پیسہ فالتو پڑا رہنے کی بجائے کسی ایسی جگہ لگ جائے جہاں سے اسے حلال نفع حاصل ہوجائے۔ جب معاشرے میں متفرق طور پر ایک دوسرے کو نہ جاننے والے متضاد معاشی رغبات رکھنے والے لوگ موجود ہوں مثلا کچھ لوگ کوئی چیز لینا چاہتے ہوں اور کچھ لوگ وہی چیز دینا چاہتے ہوں تو درمیان میں کسی ایسے ثالث کا پیدا ہونا فطری بات ہے جو دونوں قسم کی رغبات کے درمیان پل کا کام دے۔ اگر تو فقہِ اسلامی اور شریعت کے مطابق کاروبار کاتسلسل اور فطری ارتقا جاری رہتا اور درمیان میں استعماری انقطاع یا فقہ میں جمود اور اجتماعی معاملات میں اسلامی تعلیمات کو زیادہ عملی اہمیت نہ دینے کا دور نہ آتا تو شاید اس طرح کی ثالثی کے لیے الگ نوعیت کے ایسے ادارے وجود میں آچکے ہوتے جو مسلسل اسلامی معاشرے ہی کے عمل کا تسلسل ہوتے، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا، اس لیے لوگوں کو سود سے بچانے کے مذکورہ کام کو اجتماعی شکل دینے اور ایک ثالث وجود میں لانے کے لیے جب ایک ایسے ادارہ جاتی ڈھانچے کی ضرورت محسوس ہوئی جسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہو اور اس کے پاس دیون کی واپسی یقینی بنانے سمیت متعلقہ مہارتیں بھی موجود ہوں تو اس مقصد کے لیے کوئی نیا ادارہ جاتی ڈھانچا تشکیل دینا کوئی آسان کام نہیں تھا، خاص طور پر ایسے حالات میں جبکہ ریاستی ادارے تو درکنار دین دار کاروباری لوگوں میں بھی اس مقصد سے دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی ۔ جیسا کہ مفتی محمد شفیع صاحب ؒ کی مذکورہ عبارت سے بھی واضح ہے ۔ ، ایسے میں ان مقاصد کے قریب ترین جو ادارہ ہوسکتاتھا کہ ظاہر ہے کہ وہ بنک ہی تھا۔
اس مقصد کے لیے بنک کی طرف ذہن جانا اس لیے بھی قرینِ قیاس تھا کہ بحث ہی ساری بنکوں کے سود کی ہورہی تھی اور اس سود کی حمایت کرنے والوں کا ایک استدلال یہ بھی تھا کہ سود کے بغیر بنک نہیں ہوسکتا اور بنک کے بغیر کاروبار نہیں ہو سکتا، اس لیے انہوں نے مناسب سمجھا کہ اسی ڈھانچے کو درست طریقے سے استعمال کرکے دیکھ لیا جائے ،( تاہم یہ بات ان کے ذہن میں ضرور تھی کہ شرعی طریقے استعمال کرنے کی صورت میں بنک اپنی بعض روایتی خصوصیات کھو دے گا ، جیسا کہ آگے چل کر اس کو ذکر کیا جائے گا)۔ مروّجہ غیر سودی بینکاری کے بارے میں بعض ناقدین نے ’’ نئی بوتل میں پرانی شراب‘‘ کا محاورہ استعمال کیا ہے ، جبکہ مفتی محمد شفیع ؒ ، مولانا محمدیوسف بنوری ، مفتی رشید احمد لدھیانوی اور مفتی محمد تقی عثمانی جیسے ان حضرات کی جد وجہد کا حاصل یہ نکلتاہے کہ شراب تو نئی ہو یعنی عقود تو فقہِ اسلامی سے مستفاد ہوں ، لیکن اس نئی شراب کے لیے بوتل ( ادارہ جاتی ڈھانچا) انہیں نئی نہیں دستیاب ہوسکی، اس لیے بوتل پرانی ہی استعمال کرنا پڑی۔ اب اگر بوتل (ادارہ جاتی ڈھانچا)بھی نئی اور متبادل دستیاب ہوجائے تو ظاہر ہے کہ ان حضرات کا اس پر اصرار نہیں ہوگا کہ اس مقصد کے لیے ادارہ جاتی ڈھانچا بعینہ یہی ہونا چاہیے، البتہ اس موقع پر یہ سوال پیدا ہونا ایک فطری امر تھا کہ ادارہ جاتی ڈھانچا وہی سہی،جو عقود اس میں طے پا رہے ہیں وہ درست ہیں یا نہیں، یعنی بوتل پرانی ہی سہی، کہیں محض لیبل بدل کرشراب بھی وہی تو نہیں ڈال دی گئی۔ یہی وہ سوال ہے جس کا جائزہ مختلف دارالافتا لے کر اب تک مختلف فتوے جاری کرچکے ہیں۔ بعض حضرات کی رائے میں بعض طے شدہ اور شریعہ بورڈز کی طرف سے منظور شدہ ایسے تمویلی طریقے بھی ممکن اور موجود ہیں جن پر اگر درست طریقے سے عمل کیا جائے تو فقہی اعتبار سے وہ جائز عقد ہوگا، جبکہ بعض اہلِ فتوی کی رائے میں اب تک جو تمویلی طریقے تجویز کئے گئے ہیں، ان پر فقہی اشکالات موجود ہیں ، اس لیے غیر سودی بینکاری کے نام سے جو معاملات ہورہے ہیں ان میں شریک ہونا جائز نہیں ہے۔ دونوں طرف سے دلائل پیش کیے گئے ہیں اور پیش کیے جارہے ہیں۔ اگر کل علمی اختلاف رحمت تھا تو آج یہ کلیہ اور اصول ختم نہیں ہوگیا ، آج کے اختلاف کے بارے میں بھی ہمیں یہی امید رکھنی چاہیے کہ وہ باعثِ رحمت ہی ہوگا۔ اختلاف کا علمی حدود میں رہنا کل بھی شرط تھا آج بھی ہے، تاہم یہ ساری کی بحث فقہی نوعیت کی ہے۔ یہ صورتِ حال صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا میں ہے کہ اس بحث سے منسلک لوگوں کی بڑی تعداد ان علما کی ہے جن کا بنیادی میدان فقہ ہے۔ (مولانا مفتی محمد شفیع ، مولانا محمد یوسف بنوری اور مولانا مفتی رشید احمد وغیرہ حضرات کی غیر سودی بینکاری کے سلسلے میں کیا کاوشیں اور فکر مندیاں رہی ہیں، ان کے اجمالی جائزے کے لئے مولانا محمد تقی عثمانی کی کتاب ’’ غیر سودی بینکاری: متعلقہ فقہی مسائل کی تحقیق اور اشکالات کا جائزہ‘‘ ص ۱۵ تا ۵۴ اور جامعۃ الرشید کے اہلِ افتا کی کتاب غیر سودی بینکاری ص ۹ تا ۲۵ کا مطالعہ کیا جاسکتاہے) ۔
فقہا کے اس میدان سے منسلک ہونے کے پس منظر کو اگر پورے طور پر سامنے رکھا جائے تو درجِ ذیل بنیادی حقائق سامنے آتے ہیں :
۱۔ غیر سودی بینکاری کے ساتھ ان اہلِ فقہ کی دلچسپی درحقیت بینکوں کے سود کے خلاف ان کی جد وجہد کا اگلا مرحلہ ہے اور اس طرف ان کی توجہ درحقیقت اس احساس کا نتیجہ ہے کہ اس کے بغیر لوگوں کو سودی معاملات سے منع کرنا انتہائی دشوار ہے ۔
۲۔ غیر سودی بینکاری کے حامی علماکااصل مقدمہ یہ نہیں ہے کہ بینکاری ضرور ہونی چاہیے، ایک شکل میں نہیں تو دوسری میں سہی ، بلکہ ان کا اصل مقدمہ یہ ہے کہ تمویلی ربا سمیت ہر قسم کے ربا سے بچنا چاہیے، لہٰذا اگر کوئی شخص سرے سے بینکاری کی کسی سہولت سے فائدہ ہی نہیں اٹھانا چا ہتا، ایسا شخص ان علمایا ان کے فتوے کا مخاطب نہیں ہے ، ان کا مخاطب بنیادی طور پر وہ شخص ہے جو عام بینکوں سے سود ی قرضے لیتا یا ان میں روپیہ جمع کراکے اس پر سود لیتا ہے ، چنانچہ خود مولانا محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں: ’’ جن بینکوں سے معاملے کو میں جائز سمجھتا ہوں ان کے بارے میں بھی اگر کوئی مشورہ کرے تو میں یہ کہتا ہوں کہ اگر آپ بینک سے تمویل حاصل کئے بغیر کام چلا سکتے ہوں تو یہ زیادہ بہتر ہے ، البتہ اگر آپ تمویل حاصل کرنے کا فیصلہ کر چکے ہوں تو سودی بینکوں کے بجائے ان سے رجوع کریں ‘‘ ، اسی طرح اگر بینک کے علاوہ کوئی اور ادارہ جاتی ڈھانچا ربا کے متبادل جائز تمویلی سہولتیں دینے کے لیے وجود میں لایا جاتاہے جوجز محفوظاتی بینکاری fractional reserve banking کے طریقے پر کام نہیں کرتا، یا سرے سے کوئی ادارہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اسی طرح کے عقد لوگ انفرادی طور پر ہی کرنے لگ جاتے ہیں تو اس پر بھی ان علما کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔
۳۔ وجہ اس کی واضح ہے کہ اصل صورتِ حال یہ نہیں تھی کہ ان حضرات کی طرف سے بینکوں کے سود کی حرمت کے فتوے کی وجہ سے بینکوں کا وجود خطرے میں پڑا ہوا تھا، کچھ بینکاروں نے کچھ علما کی منت سماجت کی کہ ہمارے بینکوں کو بچا نے کے لیے کوئی راستہ نکالا جائے ، اس پر انہوں نے کچھ ایسے طریقے دریافت کیے جن کے ذریعے یہ بینک بھی بچ سکیں اور سود کی حرمت کے فتوے کا بھی بھرم رہ جائے، بلکہ معاملہ برعکس تھا کہ مفتی محمد شفیع ؒ جیسے لوگوں کو احساس تھا کہ ہمارے تہجد گذار پیروکار بھی اس معاملے میں ہمارے فتوے پر عمل کے لیے تیار نہیں ہیں اورہمارے فتوے سے بینکوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا۔ لوگ ان سودی بینکوں کے ساتھ بے دھڑک لین دین کرہے ہیں ، جب تک لوگوں کو متبادل نہیں بتایا جائے گا، اس وقت تک لوگوں کو سودی معاملات سے روکا نہیں جاسکتا۔ جہاں تک بینکوں کے وجود کا تعلق ہے تووہ غیر سودی بینکاری سے پہلے بھی موجود تھے اور اب بھی اگر غیر سودی بینکاری کو بالکلیہ ختم کردیا جائے تب بھی موجود رہیں گے۔ جو حضرات کہتے ہیں کہ بینک کا ادارہ خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو بذاتِ خود غیر اسلامی ہے، وہ اگر بینکنگ کو صفخۂ ہستی سے مٹانے کی کوئی سبیل نکال بھی لیتے ہیں۔ جس کے لیے جد وجہد کرنے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا ۔ تو یہ علما یہ کہہ کر کبھی اس میں حائل نہیں ہوں گے کہ بینکنگ تو شرعاً بہت ضروری ہے اس لیے اس کے خاتمے کی جد وجہد ناجائز ہے۔ چونکہ ان علما کے پیشِ نظر جائز عقود کی خاص نوعیت ہے ، ( جیسا کہ جناب زاہد صدیق مغل صاحب کا شکوہ ہی ان علما سے یہ ہے کہ وہ عقود کی سطح ہی کی بات کرتے ہیں) یہ عقود بینکوں یا جزمحفوظاتی بینکوں کے خاتمے کی صورت میں بھی ممکن العمل ہوں گے ، جن عقود کو یہ حضرات بنیاد بناتے ہیں، ان کے لیے بینکوں کا وجود کوئی ناگزیر امر نہیں ہے ، اس لیے اگر کچھ حضرات بینکنگ کا بالکلیہ خاتمہ کرنا چاہتے ہوں تو یہ عقود کی سطح کی بحث اس میں حائل نہیں ہوسکتی ، بہر حال ان علما کا اصل مسئلہ بینکاری کا بقا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ جب تک بنک موجود ہے، اسے سود کے عنصر سے پاک کرنا ہے۔
۴۔ یہی وجہ ہے کہ سود کے بغیر تمویلی طریقوں یا اسلامی بینکاری کے سلسلے میں علما کے وہی حلقے زیادہ پیش پیش نظر آتے رہے ہیں جو بینکوں کے سود کی حرمت کے معاملے میں پیش پیش تھے ، اسی طرح اسّی (۸۰) کی دہائی میں محض لفظی اور کاغذی تبدیلیوں کی بنیاد پر بینکوں کے سود کو ختم کرنے کا جو سرکاری دعوی پاکستان میں کیا گیا تھا، اس کے خلاف بھی انہی حلقوں کی آواز سنائی دی تھی جواب غیر سودی بینکاری کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ ان میں مولانا مفتی محمد شفیعؒ اور مولانا مودودی ؒ کے حلقہ ہائے فکر خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
۵۔ فقہ اسلامی اور فتوے سے منسلک ان حضرات نے اگرچہ بینکوں کے سود کی حرمت پر بحث کرتے ہوئے عمومی سطح پر اس کے معاشی نقصانات یا برے اثرات بھی بیان کیے ہیں، لیکن جو شخص بھی ان کے منہجِ فکر سے کچھ واقفیت رکھتا ہے، اس کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ یہ باتیں ان کے ہاں الزامی یا اقناعی جواب کی حیثیت رکھتی تھیں، مناط الحکم کا درجہ نہیں۔ سود کی حرمت میں ان کے نقطۂ نظر کا دار و مدار نصوص اور عقد کی نوعیت پر تھا نہ کہ اس کے عمومی سطح پر مرتب ہونے والے معاشی اثرات پر، ( اس لیے ان حضرات کی طرف سے بینکوں کے سود کے جو مفاسد بیان کیے گئے ہیں، ان کا ازسرِ نو جائزہ لیا جاسکتاہے کہ کس حد تک وہ امرِ واقعہ کے مطابق ہیں اور کہیں ایسا تو نہیں کہ ان میں بعض اثرات میں خود سودی نظام نے اپنے اندر تبدیلیاں لا کر کمی کرلی ہو ، یا اسی طرح کے اثرات بعض ایسے عقود میں موجود ہوں جنہیں فقہاہمیشہ جائز کہتے چلے آئے ہیں ،البتہ اس طرح کے جائزے کا ان روایتی فقہی حلقوں کے مطابق سود کے عدمِ جواز پر اثر مرتب نہیں ہوگا ، کیونکہ یہ چیزیں ان کے ہاں علت یا مناط الحکم کا درجہ نہیں رکھتیں۔ یہ بات کہ شرعی جواز وعدمِ جواز کا دار و مدار عقد کی نوعیت پر ہے نہ کہ اس پر مرتب شدہ معاشی اثرات پر ،مروّجہ غیر سودی بینکاری کو جائز یا ناجائز کہنے والے دونوں طرف کے اہلِ فتوی کے ہاں قدرِ مشترک ہے ) اصل قضیہ چونکہ بینکوں کے سود کی حرمت سے شروع ہوا اور علما کے یہ حلقے (خواہ وہ موجودہ غیر سودی بینکاری کی حمایت کررہے ہوں یا مخالفت ) بینکوں کے سود کی حرمت پر متفق تھے اور یہ حرمت بھی ان کے ہاں عقد کی نوعیت پر مبنی تھی ، اس لیے جب ان حلقوں میں یہ سوال اٹھے گا کہ فلاں قسم کی بینکنگ سود کے اس ناجائز عنصر سے خالی ہوگئی ہے یا نہیں تو اس پر بحث کے دوران عقود کی نوعیت کے جائزے کا پہلو ہی غالب ہوگا۔ یہ سوال کہ یہ علما خواہ غیر سودی بنکنگ کے مجوّزین ہوں یا ناقدین، مسئلے کو جزوی طور پر عقود کی نوعیت کے حوالے سے ہی کیوں لے رہے ہیں، بحث کے پورے پس منظر کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے۔
۶۔ چونکہ اس نئی بینکاری کا مقصد ہی یہ تھا کہ لوگوں کے لیے سود سے بچنا آسان ہو جائے، عمومی سطح پر معیشت میں کوئی بڑا اور فوری انقلاب بپا کرنا ان کے پیشِ نظر نہیں تھا، اس لیے ابتدا میں پاکستان میں اس کے لیے ’’ بلا سود بینکاری ‘‘ یا ’’ غیرسودی بینکاری ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی رہی ہے۔ عربوں کے ہاں بھی ’’ البنک اللاربوی ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ یہ واضح نہیں کہ’’ اسلامی بینکاری‘‘ کی اصطلاح کہاں سے اور کیسے مروّج ہوئی، بہر حال اسلامی بینکاری کا مطلب بھی ایسی جائز بینکاری لیا جانا چاہیے جو ان فقہا کے نقطۂ نظر سے عقودِ فاسدہ سے خالی ہے ، اسے اس سے زائد حیثیت دینا اور یہ توقع رکھنا کہ اس سے عمومی معاشی سطح پر کوئی فوری انقلاب بپا کرکے احیاے اسلام کا راستہ ہموار ہوگا، یہ بھی مبالغہ ہوگا۔ اس لیے بھی کہ فائنانسنگ معیشت کا ایک شعبہ ہے ، صرف ایک شعبے کو کتنا ہی مثالی کیوں نہ بنالیا جائے اس کے اثرات محدود ہی ہوں گے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بعض خارجی عوامل اور نیت کی وجہ سے ایک جائز اور مباح کام کرنا یا اس کی ترویج کی کوشش کرنا مستحسن بن جاتاہے ، جیسے عصری تعلیم حاصل کرکے کوئی ملازمت اختیار کرنا ایک جائز اور مباح کام ہے ، لیکن جس معاشرے میں اَن پڑھ نوجوان آوارہ گردی اور بے راہ روی میں مبتلا ہورہے ہوں، وہاں انہیں پڑھا لکھا کر یا کوئی ہنر سکھا کر کسی ملازمت پر لگانے کی مہم شروع کرنااور اس مقصد کے لیے ادارے قائم کرنا صرف جائز ہی نہیں مستحسن ہوگا۔ اسی طرح جو لوگ بینکوں کے سود کو بھی عام سود کی طرح حرام اور موجبِ وعید سمجھتے ہیں، ان کے نقطۂ نظر سے ایسی کوشش کرنا جس سے لوگوں کے لیے اس حرام سے بچنا آسان ہو جائے، مستحسن شمار ہوگا ، البتہ جن کے نزدیک اس سود میں کوئی قباحت ہی نہیں ہے یا اس کا ناجائز ہونا ثانوی سا مسئلہ ہے، ان کی بات اور ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے اس طرف توجہ دلانا بھی مناسب معلوم ہوتاہے کہ ہمارے ہاں فقہ کے بارے میں مختلف رجحانات پائے جاتے ہیں۔ بعض حضرات، متأخرین بالخصوص عالمگیریہ اورشامیہ وغیرہ کی عبارات پر زیادہ انحصار کرتے ہیں، بعض حضرات اس سے ذرا پیچھے جاکر سرخسی ، کاسانی اور مرغینانی کی ذکر کردہ تعلیلات وغیرہ کو بھی پیشِ نظر رکھتے ہیں، بعض حضرات اس دائرے کو وسیع کرتے ہوئے دیگر معروف مذاہبِ فقہیہ سے بھی استفادہ کرتے ہیں، صحابہ وتابعین کے آثاراور نصوص کی طرف بھی رجوع کرتے ہیں۔ ان سب رجحانات کے منہجِ فکر اور فکری سرچشموں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے، یہ سب اسی علمی اور فقہی روایت کا تسلسل ہیں جو صدیوں سے امت میں چلی آرہی ہیں۔ اس منہج کے حاملین کو آج کل عموماً روایتی علما اور اس فقہ کو روایتی فقہ بھی کہا جاتاہے،اگر یہ اصطلاح نامناسب معلوم ہوتو ہم آسانی کے لیے اسے مدوّن فقہ کہہ سکتے ہیں۔ اس میں وہ حضرات بھی شامل کیے جاسکتے ہیں جو کسی متعین فقہ کی تقلید کے قائل نہیں ہیں۔ اس مدوّن یا روایتی فقہ سے ہٹ کر جدید دور کے بعض مفکرین کے ہاں ایسے رجحانات بھی موجود ہیں جن میں اس مدوّن فقہ سے استفادہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کے ہاں زیادہ زور ان کے فہمِ قرآن اور چند اصول وکلیات پر ہوتاہے ، ان میں سے بعض تو سنت اور آثار کی حجیت کے قائل ہی نہیں ہیں یا پھر ان کی وہ اہمیت ان کے ہاں نہیں ہے جو روایتی حلقوں کی نظر میں ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک یہ دوسری قسم کے رجحانات مسلمانوں کے عمومی اور مرکزی دھارے سے کٹے ہوئے تھے، تاہم میڈیا کے پھیلاؤ کے بعد روایتی حلقوں کے جدید میڈیا کے بارے میں تحفظات، اس سے عدمِ استفادہ، مناسب اندازِ تخاطب کے فقدان ، بعض اہم اور زندہ مسائل سے نظر چرانے کی کوشش وغیرہ مختلف وجوہات کی وجہ سے ان غیر روایتی رجحانات نے بھی اپنی جگہ بنائی ہے، لیکن اب بھی مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت جب کسی مسئلے میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں راہ نمائی حاصل کرنا چاہتی ہے تو روایتی حلقوں ہی کی طرف رجوع کرتی ہے، اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ آج بھی مسلمانوں کی دینی ضروریات کے پورا کرنے میں اپنے تمام داخلی رجحانات سمیت اس روایتی یا مدوّن فقہ کاسب سے بڑا اور مرکزی حصہ ہے۔ اس روایتی یا مدوّن فقہ نے حالیہ دور میں معاملاتِ مالیہ کے بارے میں بہت زیادہ پیش رفت کی ہے اور فقہ المعاملات پر عربی انگریزی اور اور اردو سمیت متعدد زبانوں میں خاصا مواد سامنے آچکا ہے۔ غیر روایتی مفکرین کی کاوشیں اپنی جگہ، لیکن اس طرح کی کوئی فکر یا فقہ روایتی فقہ کے متبادل کے طورپر ابھری تو اس کے خدوخال واضح ہونے اور crystalize ہو کر سامنے آنے میں شاید ابھی وقت لگے۔ تب تک اس مدوّن فقہ سے صرفِ نظر کرنا آسان نہیں ہوگا۔ یہی وہ فقہ ہے جس کی رو سے ہمارے ہاں غیر سودی بینکاری کے جواز وعدمِ جواز پر بحث ہورہی ہے۔
جناب زاہد صدیق مغل صاحب کس منہجِ فکر سے وابستہ ہیں، یہ بات ان کے مذکورہ مضمون یا ان کے دیگر مضامین سے واضح نہیں ہوپائی ، بلکہ اس حوالے سے ابہام اورتضاد نظر آیا ہے۔ ایک طرف تو وہ مقاصد الشریعہ پر زور دیتے اور ان میں اس بات کو شمار کرتے ہیں کہ ریاستی جبر کے تمام اختیارات علما کے ہاتھ میں دے کران علما کی theocracy قائم کردی جائے۔ علما سے ان کی کیا مراد ہے؟ غیر روایتی منہجِ فکر رکھنے والے اہلِ علم تو کسی theocracy کے سرے سے قائل ہی نہیں ہیں۔ دوسری طرف عموماً ہمارے عرف میں جن کو علما کہا جاتاہے، ان پر وہ تنقید کررہے ہیں ، خواہ وہ غیر سودی بینکاری کے مجوزین ہوں یا ۔ خود مغل صاحب کے لفظوں میں ۔ ناقدین کی بڑی اکثریت ہو۔ مثال کے طور پر یہ مسئلہ کہ روایتی بینکوں کی اصل خرابی کیا ہے،اس میں ان کے مضمون کا نچوڑ یہی نکلتاہے بلکہ انہوں نے خود نکالا ہے کہ روایتی بینکنگ میں اصل خرابی یہ نہیں کہ اس میں سود پایا جاتا ہے۔ یہ تو ثانوی درجے کا مسئلہ ہے ، اصل خرابی ۔ سود سے بھی بڑی خرابی ۔ ان بینکوں کا جزوی محفوظات پر مبنی تمویل(fractional reserve financing) کرکے زر کی رسد میں اضافے کا باعث بنناہے۔ ان کی یہ بات روایتی علما کے منہجِ فکر کے بالکل خلاف ہے اور شاید ہی کوئی عالم ان کی اس بات سے اتفاق کرے، اس لیے کہ بینک کی یہ خرابی جسے وہ بیان کررہے ہیں، ایک رائے اور اجتہاد کا درجہ رکھتی ہے جس کے بارے میں وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ غیر سودی بینکاری کے مجوزین اور ناقدین نے اس سے سہوِ نظر کیا ہے۔ ان سہوِ نظر کرنے والے والوں میں برّ صغیر اور شرقِ اوسط سمیت دنیا بھر کے بے شمار علما اور بحث وتحقیق کے بڑے بڑے فورمز شامل ہیں۔ یہ بات بذاتِ خود اس بات کا اعتراف ہے کہ یہ کوئی ایسی خرابی نہیں ہے جسے روزِ روشن کی طرح عیاں کہا جاسکے ، بلکہ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ جناب مغل صاحب کی رائے کے برعکس بعض دیگر مسلمان ماہرین معیشت اس استدلال کو تسلیم ہی نہیں کرتے کہ بینکوں کا تخلیق کردہ زر out of nothing ہوتا ہے، مثلاً ملاحظہ ہو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ملائیشیا کے شعبہ معاشیات کے پروفیسر ڈاکٹر زبیر حسن کا مضمون بعنوان : Credit creation and control : an unresolved issue in Islamic banking جبکہ سود کی بطور ایک عقد کے حرمت منصوصِ قطعی ہے اور قرآن وحدیث میں اس پر شدید وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ ایسے میں شاید ہی کوئی عالم ہو جو یہ تسلیم کرنے کے تیار ہو کہ ایک رائے اور اجتہاد کے نتیجے میں سامنے آمنے والی خرابی اوّلیں مسئلہ ہے اور جس کی حرمت منصوص ہے، اس کی شناعت ثانوی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے کہ وہ علما غالباً جن کی تھیوکریسی فاضل مضمون نگار قائم کرنا چاہتے ہیں، وہ بینکوں کے سود کوبھی عام سود کی طرح صرف ناجائز ہی نہیں ،حرامِ قطعی سمجھتے اور اسے قرآن وحدیث کی وعیدوں میں داخل کرتے ہیں اور ان کے ہاں یہ بھی طے شدہ امر ہے کہ مستنط چیز منصوص کے برابر نہیں ہوسکتی ۔
سچی بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل کراچی کے بعض مراکزِ افتا یا دینی اداروں کی مروّجہ اسلامی بینکاری کے خلاف تحریریں سامنے آئیں تو راقم الحروف کا ابتدائی تأثر یہ تھا کہ ان میں دو ایسے حلقوں کی سوچ کی جھلک نظر آرہی ہے جن کے منہجِ فکر میں عام حالات میں بعد المشرقین ہوتاہے۔ ایک وہ حلقہ ہے جو فقہی جزئیات کو اتنی اہمیت دیتاہے کہ اس سے ہٹ کر سوچنے کو وہ ایسے ’ اجتہاد ‘میں داخل سمجھتاہے جس کی آج کے زمانے میں کوئی گنجائش نہیں ہے، مقاصدِ شریعت جیسے الفاظ انہیں اتنے اپیل نہیں کرتے۔ کچھ عرصہ قبل ایک فتوے میں اسلامی بینکاری سے جوڑے گئے تصویر کے مسئلے میں یہی اندازِ فکر نمایاں نظر آتاہے ، بلکہ اس میں اس بات کا اظہار بھی دکھائی دیتاہے کہ ہمارے بہت قریب کے بزرگوں کی تصریحات بھی حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہیں ، ان سے انحراف یا حالات کی تبدیلی کی وجہ سے غور کے نئے گوشے مدنظر رکھنا بھی مذموم خود رائی میں داخل ہے۔ دوسری طرف وہ حلقہ ہے جو جزئیات کو اتنی اہمیت نہیں دیتا اور یہ ضروری سمجھتاہے کہ کسی بھی مسئلے کو اصول وکلیات یا جسے وہ مقاصد الشریعہ کہتے ہیں، کی روشنی میں دیکھا جائے۔ بینکوں کے انٹرسٹ کو جائز کہنے والے تقریباً تمام حضرات دوسری قسم کے حلقوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ مروّجہ اسلامی بنکاری کے مجوّزین دونوں حلقوں کی طرف سے اعتراضات کی زد میں ہیں۔ ایک طرف سے ان پر یہ اعتراض ہے کہ انہوں نے متأخرین کی جزوی تصریحات سے انحرف کیا ہے، دوسری طرف سے ان پر اعتراض ہے کہ وہ عمومی اجتہاد کی بجائے روایتی فقہی انداز سے مسئلے کولیتے ہیں۔ غیر سودی بینکاری کے خلاف بعض تحریروں میں ان دونوں حلقہ ہائے فکر کا ایک عجیب امتزاج سا نظر آتا ہے۔ اس طرح کی تحریروں سے ابھرنے والا یہ تاثر جناب زاہد صدیق مغل صاحب کے اس مضمون سے اور زیادہ نمایاں ہوگیا ہے۔ بعض جگہوں پر فاضل مضمون نگار روایتی علما کی بہت زیادہ حمایت کرتے ہوئے نظر آتے بلکہ ان کی تھیوکریسی قائم کرنے کے قائل نظر آتے ہیں اور کہیں ان سب پر تنقید کرتے ہوئے یا ان کے مشترکہ منہجِ فکر سے ہٹ کر بات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، کہیں وہ یہ تجویز دیتے ہیں کہ بنک جیسے تمام اداروں کو مدارسِ دینیہ کے ماتحت کردیاجائے اور دوسری طرف جو بنک انہی مدارس کی بعض شخصیات یا فضلا کی نگرانی میں ہیں، اسے درست نہیں سمجھ رہے۔ اگر بنکوں کو دینی مدارس کے ماتحت کرنا مقاصدِ شریعت میں سے ہے تو مذکورہ بنکوں کوجن کی نگرانی علما کررہے ہیں، ان کو اس مقصد کی طرف ایک قدم تو ضرور قرار دینا چاہیے۔ یک رخی کایہ فقدان جو بظاہر نظر آرہاہے، وہ فاضل مضمون نگار کی طرف سے ابلاغ کی کمی کا نتیجہ ہے ، واقعی فکری اور ذہنی الجھاؤ ہے یا بعض باتیں محض کسی طبقۂ فکر کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے ہیں، اس کے بارے میں راقم الحروف کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
(جاری)
مکاتیب
ادارہ
(۱)
برادرم جناب مولانا حافظ محمد عمار خان ناصر صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
والد ماجد مفسرِ قرآن حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتیؒ کے بارے میں ’’تکفیرِ شیعہ‘‘ کے حوالے سے کافی گرما گرم بحث ومباحثہ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے گزشتہ کئی ماہ کے شماروں میں نظر سے گزرا۔ مناسب معلوم ہوا کہ اس سلسلے میں ہم بھی کچھ گزارشات قارئین ’’الشریعہ‘‘ کی خدمت میں پیش کر دیں۔
تکفیرِ شیعہ کے حوالے سے والد ماجدؒ کا اصولی موقف وہی ہے جس کے بارے میں آپ نے سید مشتاق علی شاہ صاحب کے مضمون (جنوری ۲۰۱۰ء) میں حاشیہ لگا کر صحیح ترجمانی کر دی ہے۔ اس ضمن میں جن احباب نے آپ کی وضاحت سے اختلاف کیا ہے، انہیں مکمل معلومات حاصل نہیں ہیں۔ ذیل میں صرف تین باتیں پیش خدمت ہیں:
۱۔ جب ہزار علماء کا فتویٰ جاری ہوا تھا جس میں اثنا عشریہ کو علی الاطلاق کافر قرار دیا گیا تھا تو اس فتوے سے جن محققین علماء کرام اور مفتیان عظام نے اختلاف کیا تھا، ان میں والد ماجدؒ بھی تھے اور اس فتوے پر انہوں نے دستخط نہیں فرمائے تھے۔
۲۔ امام اہل السنۃ حضرت مولانا محمد سرفرازخان صفدرؒ نے اس فتوے پر نہ صرف دستخط فرمائے تھے بلکہ ’’ ارشاد الشیعہ‘‘ نامی مستقل کتاب بھی تصنیف فرمائی تھی اور اس کتاب کو والد ماجدؒ نے ادارہ نشرو اشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم سے طبع فرمایا تھا۔ ایک موقع پر امام اہل سنت ؒ نے مفسر قرآن ؒ کوایک طویل خط بھی لکھا جو احقر کے پا س محفوظ ہے۔ اس خط میں انہوں نے اپنے موقف کے ساتھ اس مذکورہ فتوے میں انہیں شامل ہونے کی بھرپور دعوت دی، لیکن انہوں نے جواباً فرمایا کہ ’’ مجھے اس پر شرح صدر نہیں ہے‘‘۔
۳۔ مفسر قرآن ؒ کی حیات طیبہ میں ایک پمفلٹ شائع ہوا تھا جس کا عنوان تھا: ’’رافضی (شیعہ) کیا ہیں؟‘‘ اس میں مرتب نے والد ماجدؒ کے افادات کے عنوان سے ان کے دروس، خطبات اور تحریرات سے کچھ عبارات نقل کر کے ان کے موقف کی بظاہر ترجمانی کی بلکہ بعض مقامات پر فہمائش کی کوشش بھی کی تھی، چنانچہ والد ماجدؒ نے تحریری طور پر اس پمفلٹ سے بیزاری کا اظہار فرما دیا تھا اور احقر کے ذریعے ایک تحریر لکھوائی تھی جس پر انہوں نے دستخط ثبت فرمائے تھے۔ وہ تحریر احقر کے پاس محفوظ ہے۔ چنانچہ مرتب نے اس پمفلٹ کو اسی وقت مکمل ضائع کرا دیا تھا۔ اس لیے جن احباب نے اس پمفلٹ کا سہارا لے کر والد ماجدؒ کے موقف کی ترجمانی کی کوشش کی ہے، وہ نہ صرف غلط ہے بلکہ اگر دانستہ طورپر ایسا کیا ہے تو یہ بددیانتی بھی ہے۔
میرا مقصد اس بحث کو دلائل کے ساتھ طول دینا نہیں ہے، بلکہ جو احباب مفسر قرآن کے موقف سے ناواقف ہیں، صرف ان کے علم میں لانا ہے، چونکہ اس باب میں اکابر علماے دیوبند کے دونوں طرف فتاویٰ موجود ہیں اور ہم دونوں پہلوؤں کادل وجان سے احترام کرتے ہیں اور ایک پہلو کو راجح اور دوسرے کو مرجوح گردانتے ہیں۔ خود ہمارے شیخین کریمین ؒ نے ہر دو فتاویٰ پر الگ الگ عمل کرتے ہوئے زندگی بھر ایک دوسرے کوبرداشت کیا اور احترام کی نظر سے دیکھا ہے جو ہمارے لیے ایک مستقل راہنما اصول ہے۔
آخر میں عصر حاضر کے نامور فقیہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی زیدمجدہ کا ایک فتویٰ جو دارالعلوم کراچی کے دارالافتاء سے جاری ہوا تھا، اس کی نقل حاضر خدمت ہے جو قارئین کے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ اس فتوے کی اشاعت سے قارئین کے سامنے صرف یہ بات لانا مقصود ہے کہ موجودہ دور کے محقق مفتیان مسلک دیوبند بھی مفسر قرآنؒ جیسا موقف رکھتے ہیں اور ایسے موقف والوں کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد ہے۔ اللہ رب العزت سب کاحامی و ناصر ہو۔
احقر محمد فیاض خان سواتی
مہتمم جامعہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ
تکفیر شیعہ کے بارے میں مولانا محمد تقی عثمانی کا فتویٰ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترمی و مکرمی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جو شیعہ کفریہ عقائد رکھتے ہوں، مثلاً قرآن کریم میں تحریف کے قائل ہوں یا یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ حضرت جبریل علیہ السلام سے وحی لانے میں غلطی ہوئی یا حضرت عائشہؓ پر تہمت لگاتے ہوں، ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں لیکن یہ بات کہ تمام شیعہ یہ یا اس قسم کے کافرانہ عقائد رکھتے ہوں، تحقیق سے ثابت نہیں ہوئی، کیوں کہ بہت سے شیعہ صراحتاً ان عقائد کاانکار کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ الکافی یا اصول الکافی وغیرہ میں جتنی باتیں لکھی ہیں، ہم ان سب کو درست نہیں سمجھتے۔ دوسری طرف کسی کو کافر قرار دینا چونکہ نہایت سنگین معاملہ ہے، اس میں احتیاط ضروری ہے۔ اگر بالفرض کوئی تقیہ بھی کرے تو وہ اپنے باطنی عقائد کی وجہ سے عنداللہ کافر ہو گا، لیکن فتوی اس کے ظاہری اقوال پر ہی دیا جائے گا۔ اسی لیے چودہ سو سال میں علمائے اہل سنت کی اکثریت تمام شیعوں کو علی الاطلاق کافر کہنے کے بجائے یہ کہتی آئی ہے کہ جو شیعہ ایسے کافرانہ عقائدرکھے، وہ کافر ہے اور یہی طریقہ بیشتر اکابر علماء دیوبند کا رہا ہے اور چونکہ جمہور علماء کے اس طریقے میں کوئی تبدیلی لانے کے لیے کافی دلائل محقق نہیں ہوئے، اس لیے دارالعلوم کراچی حضرت مفتی اعظم مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ کے وقت سے اکابر کے اسی طریقے کے مطابق فتویٰ دیتا آیا ہے کہ جو شیعہ ان کافرانہ عقائد کا قائل ہو، وہ کافر ہے مگرعلی الاطلاق ہر شیعہ کو، خواہ اس کے عقائد کیسے بھی ہوں، کافر قرار دینے سے جمہور علماء امت کے مسلک کے مطابق احتیاط کی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شیعوں کی گمراہی میں کوئی شبہ ہے۔ جن شیعوں کو کافر قرار دینے سے احتیاط کی گئی ہے، بلاشبہ وہ بھی سخت ضلالت اور گمراہی میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان گمراہیوں سے ہر مسلمان کی حفاظت فرمائیں۔ آمین۔
احقر محمد تقی عثمانی
دارالافتاء ، دارالعلوم کراچی۱۴
۱۴ ۔ ۱ ۔ ۱۴۱۲ھ
(۲)
مولانا حافظ محمد عمار خان ناصر صاحب دام مجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بندہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا ریسرچ سکالر ہے۔ چند ہی دن ہوئے کہ آپ کے موقر جریدہ ’’الشریعہ‘‘ کے مطالعہ کاموقع ملا۔ خاص کر مکاتیب کے زیر عنوان دل چسپ علمی مباحث پڑھ کر فرط نشاط اپنے رگ وپے میں محسوس ہوئی۔ اتحاد بین المسلمین کے روح رواں ڈاکٹر محمد شہباز منج نے اپنے مکتوب گرامی کے ذریعے عصری تقاضوں کے پیش نظر اتحاد کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے مذہبی انتہا پسندی کی احسن انداز میں مذمت بیان کی ہے، البتہ چندایک مکاتیب میں دینی شدت پسندی کا پہلو نمایاں دکھائی دیا، مثلاً محترم محمد یونس قاسمی صاحب کامکتوب جس میں انھوں نے شیعوں کے غیر محقق نظریہ کو جزوِعقیدہ و اساسِ مذہب قرار دیا۔ بندہ حقیر تقابل ادیان سے خصوصی دلچسپی رکھتا ہے اور خاص طورپر تمام اسلامی مکاتب فکر کے بنیادی معتقدات و نظریات سے بھی قدرے آشنا ہے۔ یہاں اہلِ تشیع کے نزدیک نظریہ تحریف قرآن کے حوالے سے چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔قاسمی صاحب سے توقع ہے کہ ان پر ضرور فراخ دلی سے غور فرمائیں گے۔
یہ کہناکہ ’’شیعہ اثنا عشریہ کا عقیدہ یہ ہے کہ موجودہ قرآن محرف ہے‘‘ اصل حقیقت کے سراسر منافی ہے، کیوں کہ زمینی حقائق اس کے خلاف ہیں۔ قرآن مجید کی عظمت، منزل من اللہ ہونے اور عدم تحریف پر تمام اسلامی مکاتبِ فکر کااتفاق ہے۔ البتہ اسلامی مکاتبِ فکر کی کتب میں ایسی روایات پائی جاتی ہیں جو موہمِ تحریف ہیں، مگر ہر مکتبِ فکر ایسی روایات کو مخالف قرآن سمجھ کر یکسر مسترد کرتا ہے، لہٰذا کسی مکتب فکر کے ہاں اس قرآن مجید کے علاوہ کوئی دوسرا قرآن نظر نہیں آتا اور نہ پریس سے چھپ کر منظر عام پر آیا ہے۔ اگر چند ایک افراد قائل بھی ہوں تو پورے مکتب فکر پر اس نظریہ کو تھوپا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اس کی وجہ سے اس مکتب فکر کو مطعون کیا جا سکتا ہے۔ تمام مکاتبِ فکر کی تفاسیر کو دیکھا جائے کہ وہ اس قرآن مجید کے علاوہ کسی دوسرے قرآن کی تفسیر ہیں تو جواب نفی میں ملے گا۔ ماننا پڑے گا کہ ہر مکتبِ فکر یقیناًاسی قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہے اور اسے حرزِجان سمجھتا ہے۔ اسلام ظواہر پر حکم لگاتا ہے۔ اگر روایات کے بل بوتے پر کسی کو قائلِ تحریف ٹھہرایا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی الزام سے نہ بچ پائے گا۔
بدقسمتی سے امت اسلامیہ کے بعض نافہم افراد محض فرقہ وارانہ تعصب کے باعث اس پروپیگنڈے کو ہوا دے رہے ہیں کہ شیعہ قرآن مجید کی تحریف کے قائل ہیں۔ ایسے نادان دوست یہ نہیں سوچتے کہ اس الزام کالازمی نتیجہ یہ ہے کہ کتاب اللہ ہی مشکوک اور متنازع حیثیت اختیار کر لے گی۔ اس طرح اغیار کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ اسلام کے بنیاد ی مآخذ کے بارے میں کہہ سکیں کہ خود مسلمان ہی اس قرآن پر متفق نہیں ہیں۔ جب مستشرقین کی جانب سے یہ اعتراض اٹھا کہ مسلمانوں کا ایک فرقہ (شیعہ) تحریفِ قرآن کا قائل ہے تو اس وقت کے معروف عالم و محقق مولانا رحمت اللہ کیرانوی عثمانیؒ بانی مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ نے اس کا بھرپور دفاع کیا کہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی فرقہ تحریف قرآن کاقائل نہیں ہے، یعنی شیعہ تحریفِ قرآن کے ہرگز قائل نہیں ہیں۔ا س ضمن میں انہوں نے شیعوں کے مشہور محققین علما کے نظریات لکھے۔ اس سلسلہ میں ان کی معرکۃ الآراء کتاب ’’اظہا رالحق‘‘ کا، جو مسلمانوں کی جانب سے رد عیسائیت اور ابطالِ تثلیث میں لکھی جانے والی کتب میں ایک امتیازی حیثیت کی حامل ہے، مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ حضرت مولانا مفتی شیخ اکبر سہارنپوری استاذ الحدیث دارالعلوم کراچی کے ترجمہ اور حضرت مولانا جسٹس (ر) محمد تقی عثمانی مدظلہ کے حواشی وشرح اور تحقیق کے ساتھ ’’اظہار الحق ‘‘ کا اردو ترجمہ بنام’’ بائبل سے قرآن تک ‘‘ مکتبہ دارالعلوم کراچی سے شائع ہو چکا ہے۔ اصل کتاب کی جلد دوم صفحہ ۹۰، ۹۱، ’’الفصل الرابع فی دفع شبہات القسّیسین الواردۃ علی الاحادیث النبویۃ‘‘ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہی بات دیگر اکابر علما نے کہی ہے جن میں سابق شیخ التفسیر دارالعلوم دیوبند وشیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ ڈابھیل حضرت مولانا شمس الحق افغانیؒ ، حضرت مولانا عبدالحق حقانی دہلوی صاحب تفسیرِ حقانی، حضرت مولانا مظہرالدین بلگرامی فاضل مظاہرالعلوم سہارنپور و استاد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، حضرت مولانا حکیم نجم الغنی خان رام پوری، علامہ شیخ محمد مدنی الازہر یونیورسٹی، علامہ شیخ محمد غزالی، حضرت علامہ خیر الدین ابوالبرکات نعمان آفندی ابن سید محمود آلوسیؒ ، استاد محمد سالم النبہانی اخوان المسلمین، علامہ محمد شبلی نعمانی، مولانا وحیدالدین خان، ڈاکٹر حامد حفنی داؤداستاد ادب عربی قاہرہ، حضرت مولانا شیخ اکبر سہارنپوری استاذ حدیث درالعلوم کراچی، خواجہ حسن نظامی ، پروفیسر محمد اسلم جیراج پوری اور ڈاکٹر اسرار احمد وغیرہ شامل ہیں۔
رہا قاسمی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’ مختلف زمانوں میں شیعہ کے اکابر و اعاظم علماء و مجتہدین نے قرآن مجید کے محرف ہونے کے موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کتاب شیعوں کے ایک بڑے مجتہد علامہ حسین محمد تقی نوری طبرسی کی کتاب ہے جس کانام ’’ فصل الخطاب فی اثباتِ تحریفِ کتابِ ربِ الارباب ‘‘ہے‘‘ تو اس کے متعلق گزارش یہ ہے کہ اس کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب شیعوں کی طر ف سے منظر عام پر نہیں آئی جس میں تحریفِ قرآن کا اثبات کیا گیا ہو۔ قاسمی صاحب کایہ دعوی بلادلیل ہے۔ ’’فصل الخطاب ‘‘ کے رد میں اس وقت کے شیعہ علماء نے کئی کتابیں تحریر کیں جن میں ایک کتاب ’’کشف الارتیاب فی عدمِ تحریف الکتاب‘‘ مولفہ شیخ محمود بن ابو القاسم طہرانی ‘‘ ہے اور اس وقت سے آج تک شیعہ علماء نے اس کتاب کو ردکیا اوراسے کتب ضالہ میں شمار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک یہ کتاب شیعوں کے مراکز سے شائع نہیں ہوئی۔ مثال کے طور پر شیعوں کے آیۃ اللہ العظمیٰ محمد آصف المحسنی ایک بحث کے ضمن میں نوری کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’لا یجوز لطلاب الحق وارباب الاستنباط ان یغتروا بتوثیقاتہ وان یعتمدوا علی آراۂ فان ذلک یبعدہم عن الحق بعداً‘‘ (بحوث فی علم الرجال ص۳۷، مطبوعہ ایران)
قاسمی صاحب نے شیعوں کے سید نعمت اللہ جزائری کی عبارت نقل کی ہے جو یہ ہے: ’’والظاہر ان ہذا القول صدر منہم لاجل مصالح کثیرۃ ..... کیف وھولآء رووا فی مولفاتہم اخباراً کثیرۃ ....‘‘ (الانوار النعمانیہ) بہتر ہوتا کہ قاسمی صاحب فراخ دلی سے کتاب کے اسی صفحہ پر شیعوں کے علامہ محمد علی القاضی طباطبائی کا مبسوط حاشیہ بھی ملاحظہ کر لیتے جو صفحہ ۳۵۷ سے ۳۶۴ تک پھیلا ہوا ہے اور ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے:
’’ہذا الکلام من السید المصنف عجیب ومبنی علی مسلک اصحاب الحدیث وجری علی طریقہ الاخباریین التی لایعبا بہا والعجب من قولہ : ان اصحابنا قد اطبقوا علی صحۃ تلک الروایات والتصدیق بھا الخ۔ لیت شعری متی اطبق اصحابنا علی صحۃ تلک الروایات واین صدقوھا ولا ادری من ہم المراد من قولہ (اصحابنا) ہل المراد منہم جمع من اہل الجمود من الاخباریین او المراد منہم اصحابنا اہل النظروالتحقیق وکبراء الدین من الفقہاء والمجتہدین؟ وحاشاہم ان ما قولوا بمقالۃ .... ما اجاد فی تالیفہ ولا وافق الصواب فی جمعہ ..... الخ
قاسمی صاحب نے شیعوں کی تفسیر صافی کی پہلی جلد مقدمہ نمبر ۶ کی عبارت نقل کی ہے جس میں شیعوں کے محقق کلینی کے قائل تحریف ہونے کی دلیل دی گئی ہے، مگر درمیان سے عبارت حذف کردی جو یہ ہے: ’’لانہ روی روایات فی ہذا المعنی فی کتابہ ولم یتعرض لقدح فیہا مع انہ ذکر فی اول الکتاب انہ یثق بما رواہ فیہ۔‘‘ (تفسیر صافی، المقدمہ السادسۃ ص۱۳) اس عبارت میں کلینی کے معتقد تحریف ہونے کی یہ علت بیان کی گئی ہے کہ اس نے تحریف والی روایات پر تنقید نہیں کی اور اول کتاب میں اپنی روایات کی توثیق کی ہے۔ تاہم ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر شیعوں کی کتاب ’’اصول کافی‘‘ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ کلینی نے کسی روایت کی نہ تو ثیق کی ہے اور نہ ہی تنقید۔ وہ صرف ناقل ہے بلکہ کلینی نے مقدمہ میںیہ بات کہی ہے کہ ’’جو روایت موافق قرآن ہو، اسے لے لو اور جو مخالف قرآن ہو، اسے رد کر دو‘‘ اور اسی کے متصل لکھاہے کہ ’’خذوا بالمجمع علیہ فان المجمع علیہ لاریب فیہ‘‘ (اصول کافی ص۶، طبع لکھنو)
بنا بریں کلینی نے صرف روایت نقل کی ہے، کسی روایت پر حکم نہیں لگایا۔ چونکہ یہ مسلمہ اصول ہے کہ ’’مجرد نقل الحدیث لا ینم عن عقیدۃ ناقلہ ما لم یتعہد صحۃ ما یرویہ والتزامہ بہ‘‘ یعنی صرف حدیث کانقل کرنا ناقل کے عقیدے کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ جب تک وہ مروی عنہ کی صحت اور اس کے التزام کاعہد نہ کرے،اس وقت تک اس پر کسی طرح کاحکم نہیں لگایا جا سکتا۔ متکلمین کا اصول ہے کہ ’’ان التزام الکفرکفر لا لزومہ‘‘ التزام کفر کفر ہے، لزومِ کفر کفر نہیں ہے۔ (النبراس شرح شرح عقائد للعلامہ عبدالعزیز پرہاروی، ص۱۹۹) جب کہ شیعوں کی تفسیرصافی کی محولہ بالاعبارت کے ذیل میں یہ صراحت موجود ہے کہ ’’والصحیح من مذہب اصحابنا خلافہ‘‘ اور صحیح یہ ہے کہ ہمارے فقہا کا مذہب اس کے خلاف ہے یعنی وہ عدم تحریف کے قائل ہیں۔ نیز محولہ بالاعبارت کے ماقبل ومابعد عدم تحریف پر دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ شیعوں کی کتب کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے چند اخباریوں کے سوا باقی سب عدم تحریف کے قائل ہیں۔ لہٰذا بقول ڈاکٹر اسرار احمد صاحبؒ کے ہمیں شیعوں کے اس موقف کو قبول کر لینا چاہیے۔
رہا یہ کہنا کہ ’’اہل سنت کی عقائد کی کتابوں میں شیعوں کو اسلامی فرقہ شمار نہیں کیا گیا۔ اگر کیا گیا ہے کہ توہم اسے محدث عظیم حضرت انور شاہ کشمیری کی کتاب فیض الباری میں منقول عبارت من لم یکفرہم لم یدر عقائدہم پر محمول کرتے ہیں‘‘ تو اس سلسلے میں مزید کتب کی طرف توجہ دلانے کی ضرور ت نہیں ہے، صرف کتاب ’’المصباح فی رسم المفتی ومناہج الافتاء بشرح اصول الافتاء لسماحۃ الشیخ المفتی محمد تقی عثمانی‘‘ تالیف مفتی محمد کمال الدین احمد راشدی کی یہ عبارت ملاحظہ فرما لی جائے:
’’الشیعۃ: فرقۃ من الفرق الاسلامیۃ سمیت بذلک لاعلانہا مشایعۃ علی واودلادہ رضی اللہ عنہم بالذہاب الی انہم ہم الاحق بالخلافۃ بعد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ (ص۱۵۴، طبع ماریہ اکیڈمی، کراچی)
اس پیرا گراف میں خاتم المحدثین حضرت مولانا انور شاہ کشمیری ؒ کی فیض الباری کے حوالے سے قاسمی صاحب نے ادھوری عبارت نقل کی ہے۔ فیض الباری کی اصل عبارت یوں ہے: ’’اختلفوا فی اکفار الروافض ولم یکفرہم ابن عابدین واکفرہم الشاہ عبدالعزیز وقال ان من لم یکفرہم لم یدر عقائدہم‘‘ یعنی روافض کی تکفیر میں اختلاف کیا گیا ہے۔ علامہ ابن عابدین شامی ؒ ان کی تکفیر نہیں کرتے اور شاہ عبدالعزیز ؒ نے ان کی تکفیر کی ہے اور کہا ہے کہ جوان کی تکفیر نہیں کرتا، وہ ان کے عقائد سے آگاہ نہیں ہے۔ (فیض الباری ۱؍ ۱۲۰، طبع قاہرہ) فیض الباری کے فاضل جامع و محشی حضرت مولانا بدرعالم میرٹھی ؒ اسی صفحہ کے حاشیے پر اپنے استاد محترم حضرت انور شاہ کشمیری کے درس کا اقتباس نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : قال (الاستاذ): والشاہ عبدالعزیز معاصر لابن عابدین الشامی ولکنہ افقہ منہ عندی۔ شاہ عبدالعزیز ابن عابدین شامی کے ہم عصر تھے، لیکن میرے نزدیک وہ شاہ عبدالعزیز سے بہت بڑے فقیہ تھے۔ کیا افقہ الفقہاء علامہ شامی اور ان کے علاوہ دیگر محققین علماء نے شیعوں کی عقائد پر مشتمل کتب کا مطالعہ نہیں کیا ہوگا؟
اسلام دشمن طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کوشدید نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ مسلمانوں میں اختلافات کا بیج بویا جائے، ان کو آپس میں لڑایا جائے اور ان کی آئینی و اساسی کتاب قرآن مجید‘کو متنازع بنا کر اسلامی عقائد و اعمال کی پوری عمارت کو زمین بوس کر دیا جائے، لہٰذا ہم قرآن کریم کی عظمت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے اختلافات فراموش کر دیں اور بے بنیاد روایات ونظریات کی بنیادپر ایک دوسرے کو مطعون کرنے سے اجتناب کیا جائے کہ اسی میں اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی اور بہتری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو باہمی الفت و محبت کی فضا قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دشمنان اسلام یہود ونصاریٰ کے گھناؤنے عزائم کو خاک میں ملا دے اور ہم سب کو صراط مستقیم پر گامزن رکھے۔ آمین یا رب العالمین۔
محمد عامر شہباز
ڈی اے وی، کالج روڈ، راولپنڈی
(۳)
گرامی قدر جناب برادرم مولانا عمار خان ناصر صاحب مدظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ۔ مزاج گرامی بخیر
آنجناب کا مؤقر جریدہ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ انتہائی اہم خصوصیات کا حامل ایک خوبصورت علمی جریدہ ہے۔ جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء کی مشترکہ خصوصی اشاعت پر، جو امام اہل سنت حضرت مولانا شیخ محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و خدمات پر مشتمل ہے، ’’الشریعہ اکیڈمی ‘‘اور ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے تمام احباب مبارک باد کے مستحق ہیں ۔اللہ رب العزت میرے مخدوم ومشفق حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتہم اور آپ کو بمع احباب سلامت رکھے اور یوں ہی ہم سب سے دین کی خدمت لیتا رہے۔
اس خصوصی شمارہ کے صفحہ نمبر ۳۸۰پر آپ کے مضمون میں ایک پیرا پڑھ کر دکھ ہوا کہ آپ نے اتنے بڑے کا م کا سہرا اور کریڈٹ کالعدم تنظیم سپاہ صحابہؓ کے کھاتے میں ڈال دیا ہے جبکہ حقیقت اس کے خلاف ہے۔ شیعہ اثنا عشریہ کے متعلق علماء کرام، محققین کا فتویٰ اور شیعہ کے خلاف تکفیری مہم سپاہ صحابہؓ نے نہیں چلائی۔ سپاہ صحابہؓ کی پیدائش تو۱۴۰۵ھ کی ہے جبکہ شیعہ کے خلاف تکفیری مہم کم ازکم اس صدی میں شروع نہیں ہوئی۔ ویسے تو اس مرتد گروہ کے متعلق کفر کا فتویٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال زریں اور تابعین، تبع تابعین، مجتہدین، فقہائے کرام اور اولیاء کرام کی کتب میں موجود ہے مگر اس طرح متفقہ فیصلہ یا اس فیصلہ کے متعلق باقاعدہ تحریکی صورت اور مہم جوئی کا شرف متقدمین دارالعلوم دیوبندرحمہم اللہ تعالیٰ رحمۃً واسعۃ کو حاصل ہے جس پر شیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمد مدنیؒ ، خاتم المحدثین حضرت مولاناسید محمد انور شاہ کشمیریؒ ، مفتی اعظم ہند حضرت مولانامفتی کفایت اللہ دہلویؒ ، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ، حضرت مولانامسعوداحمدؒ ، حضرت مولانامفتی مہدی حسن شاہجہان پوریؒ جیسے اکابرین، محققین، مفتیان کے دستخط موجود ہیں۔ ان متبرک اکابرین اور دارالعلوم دیوبند کی ان برگزیدہ شخصیات سے یہ شرف فضیلت چھین کر شاگردی میں ان حضرات کے پوتوں پڑپوتوں کے حوالے کردینا، عقل وانصاف اس بات کوجائز قرار نہیں دیتا۔
سپاہ صحابہؓ کی قیادت وکارکنان نے شیعہ کی تکفیری مہم کا آغاز نہیں کیا بلکہ اس تکفیری مہم کے نتیجہ میں آنے والے علمائے کرام، محققین اہل سنت کے اس متفقہ فیصلہ کو فروغ بخشنے، اسے عام کرنے اور شیعہ کے کفریات سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی محنت کی ہے اور اخلاص وللہیت سے شروع کی گئی اس محنت میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔
امید کرتا ہوں کہ آپ ریکارڈ کی درستگی کے لیے میری اس گزارش پر غور فرمائیں گے۔
محمد یونس قاسمی
ایڈیٹر:نظام خلافت راشدہ فیصل آباد
myqasmi786@yahoo.com
(۴)
محترمی و مکرمی جناب مولانا زاہدالراشدی صاحب حفظکم اللہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مارچ کے الشریعہ پر کہیں نظر ڈالنے کاموقع مل گیا۔ آپ کی ادارتی تحریر نے اپنی طرف کھینچ لیا اور جلدی میں خاصا حصہ دیکھ لیا۔ آپ کا اخلاص اور دردمندی متاثر کیے بغیر نہ رہ سکا۔ فرقہ واریت اور کل حزب بما لدیہم فرحون اور اعجاب کل ذی رای برایہ کے اس کشیدہ ماحول میں ایسی کاوشیں ہوا کا تازہ جھونکا محسوس ہوتی ہیں۔ مذہبی حلقوں کو راہ اعتدال اور علم و تحقیق کی شاہراہ پر لانے اور ان کے اختلافات کی خلیج کو پاٹنے کی ضرورت کاشدت سے احساس ہوتا ہے۔
آپ کی تحریر اس وقت سامنے نہیں، ایک عمومی تاثر ذہن میں ہے۔ باقی فرقوں سے قطع نظر، فی الحال جماعت اسلامی کے حوالے سے آنجناب کے نقطہ نظر کے سلسلے میں گزارشات کی جسارت کر رہا ہوں۔ جماعت سے اختلاف کی بنیاد کو جناب نے (یا ان مولانا صاحب نے) غالباً دستور جماعت کی ایک شق تک سمیٹ لیا۔ یہ ایک مستحسن اقدام ہے۔ اگر یہی بات ہے تو راقم کے ناقص فہم کے مطابق اس کا بھی حل ڈھونڈا جا سکتا ہے اور ’’معیار حق‘‘ کے مسئلہ کوکتاب و سنت اور ائمہ سلف کی آرا کی روشنی میں طے کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے اہل علم کی تحریروں کو بھی سامنے رکھا جا سکتا ہے۔ سردست میں آنجناب کی خدمت میں ایک وضاحتی تحریر کی کاپی ارسال کر رہا ہوں جو مولانا مودودیؒ کے قریبی رفیق جسٹس ملک غلام علی مرحوم کے قلم سے ہے جس میں صحابہ کرامؓ کے معیارحق ہونے نہ ہونے کے حوالے سے علمی وتحقیقی انداز سے بحث کی گئی ہے۔ آپ اپنے معروف وسیع المشربی اور وسعت نظری والے انداز سے اس مسئلہ پر بھی بے لاگ انداز سے قلم اٹھائیں اور نتائج تحقیق سے ہم جیسے عامی قارئین الشریعہ کو مستفیض فرمائیں تو یہ چیز افادیت سے خالی نہ ہو گی۔
ایک عرصہ ہوا بندہ نے ایک اور تحریر بھی کہیں دیکھی تھی جس میں دستور جماعت اسلامی کی اس شق کے حوالہ سے مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی رائے نقل کی گئی تھی۔ کسی صاحب نے ان سے اس حوالے سے استفسار کیا تھا تو مولانا آزادؒ نے جواب میں کہاتھا کہ مجھے اس میں کوئی چیز از روئے شریعت قابل اعتراض نظر نہیں آتی۔ اس کے علاوہ حلقہ دیوبند کے ممتاز محقق عالم اور دارالعلوم دیوبند کے تحقیقی ادار ے ندوۃ المصنفین کے رفیق مولانا بدرعالم مدنیؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’ ترجمان السنۃ‘‘ ۳؍۴۲۶ میں بھی وہی کچھ فرمایاہے جو اس شق میں مذکور ہے۔ فرماتے ہیں:
’’ رسول کے فیصلے کے سوا کسی کے فیصلے کو الٰہی فیصلہ اور قضائے الٰہی نہیں کہا جا سکتا اور نہ رسول کے علاوہ کسی اور بشر کا فیصلہ نکتہ چینی سے بالاتر ہو سکتا ہے اور اس لیے رسول کے علاوہ ہرانسان کے فیصلہ پر دل وجان سے راضی ہونا لازم قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘
اب دستور کے متعلقہ شق کو دیکھیں اور دونوں میں خود ہی موازنہ فرمائیں:
’’ رسول خدا کے سوا کسی انسان کو معیار حق نہ بنائے، کسی کوتنقید سے بالاتر نہ سمجھے، ہر ایک کو خدا کے بنائے ہوئے اسی معیار کامل پر جانچے اور پرکھے، اور جو اس معیار کے لحاظ سے جس درجہ میں ہو، اس کو اسی درجہ میں رکھے۔‘‘
انصاف فرمائیں! کیا ان دونوں عبارتوں میں سرمو کوئی جوہری فرق ہے؟
جماعت کے بزرگ کہتے ہیں کہ اس میںیہ بات سرے سے مذکور ہی نہیں کہ صحابہ کرامؓ معیار حق ہیں یا نہیں، بلکہ اس میں صرف یہ کہا گیاہے کہ اصل معیار حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ معترضین اس عبارت کایہ فقرہ صاف نظر انداز کر جاتے ہیں کہ ’’جو اس معیار کے لحاظ سے جس درجہ میں ہو، اس کو اسی درجے میں رکھے‘‘۔ یہ فقرہ ان کے اعتراضات کی پوری بنیاد ہی کو منہدم کر دیتا ہے۔
’’معیار حق‘‘ اور ’’تنقید‘‘ کی تشریح مولانا مودودیؒ نے بعض سوالات کا جواب دیتے ہوئے یوں کی ہے:
’’ ہمارے نزدیک معیارحق سے مرادوہ چیز ہے جس سے مطابقت رکھنا حق ہو اورجس کے خلاف ہونا باطل ہو۔ اس لحاظ سے معیار حق صرف خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ صحابہ کرامؓ معیار حق نہیں ہیں، بلکہ کتاب و سنت کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔ کتاب وسنت کے معیار پرجانچ کر ہم اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ یہ گروہ برحق ہے۔ ان کے اجماع کو ہم اسی بنا پر حجت مانتے ہیں کہ ان کا کتاب و سنت کی ادنیٰ سی خلاف ورزی پر بھی متفق ہو جانا ہمارے نزدیک ممکن نہیں ہے‘‘۔ ( ترجمان القرآن، جلد ۵۶، عدد ۵)
’’ تنقید کے معنی عیب چینی ایک جاہل آدمی تو سمجھ سکتا ہے مگر کسی صاحب علم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس لفظ کا یہ مفہوم سمجھے گا۔ تنقید کے معنی جانچنے اور پرکھنے کے ہیں اور خود دستور کی مذکورہ بالاعبارت میں اس معنی کی تصریح بھی کر دی گئی ہے۔‘‘ (رسالہ ’’کیا جماعت اسلامی حق پر ہے؟‘‘)
ان تشریحات اور حقائق کی روشنی میں جناب سے بے لاگ عدل و انصاف پر مبنی محاکمہ کی درخواست ہے۔ عجلت میں لکھی گئی اس بے ربط تحریر کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
ڈاکٹر عبدالحی ابڑو
اسلام آباد
(۵)
ہفت روزہ وزارت لاہور کی مورخہ ۸؍ جولائی ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا زاہدالراشدی مدظلہ کا مضمون بعنوان ’’اکابر علماء دیوبند کی خدمت میں ایک خصوصی عرض داشت‘‘ شائع ہوا ہے جس میں حضرت نے اس وقت ملکی صورت حال کے اسباب پر اکابر علماء دیوبند کو توجہ دلائی ہے۔ ملکی حالات اس وقت واقعتا انتہائی پریشان کن اور خطرناک ہونے کی بنا پر جید اکابر علما سے خصوصی توجہ کے طالب ہیں۔ حضرت نے اپنی تحریر میں بنیادی طور پر دو باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے:
۱۔ افغان جہاد سے واپسی پر مجاہدین کو مصروف رکھنے میں سستی کا مظاہرہ اور اس کے نتیجے میں موجودہ مسلح یورشیں۔
۲۔ بہاولپور میں دیوبند سے تعلق رکھنے والی جہادی تحریک کی طرف سے بریلوی مکتب فکر کو ہونے والی شکایت۔
حضرت شیخ الحدیث کے بیان کردہ اسباب سے اختلاف کرتے ہوئے بوجوہ ڈر بھی لگتا ہے کہ ایک طالب علم کی معلومات اور تجزیے کی ان کے افکار کے سامنے کیا حیثیت ہے، لیکن حضرت کے مزاج وسوچ (کہ خلوص نیت پر مبنی اختلافات ایک زندہ معاشرہ کی پہچان ہے) سے جرات پا کر چند سطور حوالہ قلم کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
حضرت اقدس کا یہ فرمانا کہ افغان جہاد میں شرکت کر کے واپس آنے والے ہزاروں مجاہدین کو مصروف نہیں رکھا گیا اور اس حوالے سے دینی رہنماؤں نے اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کیا، یہ بات قبائل میں موجود بعض لوگوں کے حوالے سے حضرت کی معلومات کے مطابق شاید درست ہو، لیکن بالکلیہ تمام مجاہدین کے بارے میں یہ سطور محل نظر ہیں، اس لیے کہ افغان جہاد سے واپسی پر ان نظموں کے ذمہ داران نے اپنے کارکنوں کو ذہنی و فکری تربیت کی طرف متوجہ رکھا ہے اور ان نظموں کے مجلات، رسائل، دروس، کانفرنسیں اس پر شاہد ہیں اور معاشرے میں موجود لوگوں کو عملی جہاد تربیت ان کا ہدف رہا ہے۔ دیگر مفید اصلاحی سلسلے ان کی مہمات کاحصہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عصری و دینی علوم کے ادارے قائم کرنے میں ان میں باقاعدہ مسابقت کا ماحول رہا ہے۔ معاملات کا بگاڑ تب آیا جب حکومت نے راتوں رات بیرونی اشاروں پر بلکہ بیرونی حکم پر ان محب وطن ہزاروں مجاہدین کومشکوک بلکہ دہشت گرد اور وطن دشمن قرار دے دیا اور بغیر کسی پیشگی اطلاع کے سابقہ وابستگیوں کو بنیاد بنا کر گرفتاری و نظربندی کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
اس موقع پر ان نظموں کے ذمہ داران کی طرف سے حکومت کو اچھی اور مثبت پیش کش بھی ہوئی کہ آپ ان تنظیموں پر مکمل پابندی نہ لگائیں بلکہ ان کو سوشل ورک اورمفادعا مہ کے کاموں میں شریک رہنے کی اجازت دیں، ورنہ یہ ہزاروں تربیت یافتہ افراد (جو اس وقت اپنے نظموں میں ڈسپلن اور قواعد وضوابط کی پابندی کے ساتھ مصروف تھے) مرکزی چھتری سے محروم ہونے کی بنا پر حکومت کے لیے مسائل پیدا کریں گے۔ اس بات کی تفصیل کے لیے روزنامہ اسلام کے غالباً ۲۰۰۲ء کے مضامین ’’کالی آندھی اوراس سے بچنے کا طریقہ‘‘ درویش کے قلم سے ہے، اس کو ضرور ملاحظہ فرمائیے گا۔ لیکن اس مثبت اور معقول پیش کش کے جواب میں وہ کچھ ہوا جو ہمارے ہاں کی روایت ہے کہ طاقت کا نشہ اور اقتدار کی مدہوشی معاملات کے سمجھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔ چنانچہ وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ حکومت نے ان نظموں کی قیادت کو گرفتار اور نظر بند کر دیا اورکسی کو مخصوص طریقے سے بدنام کرنے کی کوششیں کی گئی جس کے نتیجے میں ان نظموں سے وابستہ افراد نے مرکزی قیادت (جنہوں نے حقیقتاً ان نوجوانوں کو شریعت کی حدود اور قانون کی دائرے میں پابند کیا ہو اتھا) سے کٹ آف ہو کر اپنی اپنی سوچ اور ترجیحات کے مطابق شریعت اور قانون کی حدود کی پروا کیے بغیر اقدامات شروع کر دیے جسے انہوں نے جہاد کا نام دیا۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان نظموں کی قیادت کی سنجیدہ اور مثبت پیش کش کو مان کر درمیانی راہ نکال لی جاتی، لیکن حکومت نے کریک ڈاؤن، سرچ آپریشن وغیرہ کے خطرناک اور غیر ضروری راستے اپنائے۔ اس کے علاوہ مختلف اقدامات مثلاً متعدد مدارس پر چھاپے اور لال مسجد آپریشن وغیرہ نے ایسے افراد کو تقویت پہنچائی جو حکومت کو امریکی پٹھو قرار دے کر مسلح ہوئے تھے۔ عرض کرنے کامقصد یہ ہے کہ حالیہ یورش کا سبب حکومت کے غلط اقدامات اور بالخصوص ان قانون کی پابندی کرنے والے نظموں پر پابندی عائد کرنا ہے۔
دوسری بات جس کی طرف حضرت مدظلہ نے ماہنامہ ضیائے حرم کے مضمون (شائع شدہ جون ۲۰۰۹ء) کے حوالہ سے توجہ دلائی ہے، یہ ہے کہ بہاولپور میں دیوبندی مکتبہ فکر کی جہادی تنظیم کی طرف سے ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جس سے بریلوی مکتبہ فکر کو شکایات ہیں کہ بہاولپور کے پورے علاقے کوایک کالعدم تنظیم نے دہشت زدہ کر رکھا ہے، اس نے اپنے ہیڈکوارٹر کے سامنے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے اور قبضہ کرنے کے لیے یا قبضہ چھڑانے کے لیے ان کے کرائے کے بدمعاش ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
حضرت کے اس مضمون پرتوجہ دلانے کے متعلق عرض ہے کہ یہ ایک فریق کی طرف سے الزامات ہیں۔ واقعتا اکابر علماء دیوبند کو ایک وفد کی شکل میں سرکاری و سیاسی ذمہ داروں اور صحافیوں کو ساتھ لے کر بہاولپور شہر کا دورہ کرنا چاہیے۔ اگر اس کالعدم تنظیم پر لگائے گئے الزامات واقعی درست ہوں تو مدمقابل فریق کو اس کے جائز حقوق نہ صرف لے کر دیے جائیں بلکہ اپنے مسلک سے متعلق اس تنظیم کے ارکان کی فہمائش و اصلاح کا راستہ بھی نکالنا چاہیے۔ اور اگر یہ الزامات بھی دیگر الزامات کی طرح عالمی پروپیگنڈے کا حصہ ہو ں اور مقصد تنظیم کے نام پر جہاد کو کمزور کرنا ہو تو پھر اکابر علما کو اس تنظیم کے (جس نے اپنے اراکین اور ذمہ داران بلکہ سرپرستوں تک کے جنازے اٹھا کر بھی کبھی وطن عزیز میں احتجاج کے نام پر اپنوں پر چند گھنٹوں کے لیے تنگی کو بھی برداشت نہ کیا ہو اور وطن عزیزمیں شریعت کی حدود کو پامال کر کے مسلح جدوجہد سے انکار کا صلہ جس کو اپنوں کی بے وفائی، جماعت کی تقسیم، کراچی سے پشاور تک بدنام کرنے کی سپیشل مہمات وغیرہ کی صورت میں ملا ہو اور پھر بھی وہ تمام تر عسکری وزن کفار کے مقابلے میں ڈالے ہوئے ہوں تو پھر ان) نوجوانوں کو شاباش دینا اور ان کی معاونت و سرپرستی پہلے سے بڑھ کر کر ناچاہیے تاکہ شریعت و قانون کی حدود کی پابندی کرنے والے نظموں کے افراد کی حوصلہ افزائی ہو۔
عبدالمالک طاہر
جامعہ فاروقیہ ، شیخوپورہ
(۶)
’الشریعہ‘ کے ا پریل کے شما رے میں ڈاکٹر غطریف ندوی صا حب نے ایک مضمون بنام ’’سیدابوالحسن علی ندوی: فکری امتیازات وخصا ئص‘‘ لکھا ہے۔ اس مضمون میں ڈاکٹر صا حب نے کچھ نئے ا نکشا فات کیے ہیں جو انتہائی تعصب اورغیرذمہ داری پرمبنی ہیں۔
محترم ڈاکٹر صا حب نے اپنے مضمون میں حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندویؒ کاسیداحمدشہیدؒ اور شاہ اسمعٰیل شہیدؒ کی تحریک سے متا ثر ہونا بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ اور کہا جا سکتا ہے کہ صحا بہ ر ضوان اﷲعلیہم اجمعین کے بعدوہ اسی تحریک کو مثالی اور آئیڈ یل تصور کرتے تھے‘‘۔ مولانا علی میاںؒ نے اپنی کتاب ’’تاریخِ دعوت وعزیمت‘‘ میں جس طرح علما وبزرگانِ سلف کا تذ کرہ کیا ہے، اْس سے یہ غلو دَر غلو ثا بت نہیں ہوتا جوڈاکٹر صا حب تحریر کررہے ہیں کہ مولانا علی میاںؒ صحا بہؓ کے بعد تحریک شہیدین کو آئیڈ یل تصور کرتے تھے۔ شہیدین سے پہلے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ، حافظ ا بن قیمؒ ، مجدد الف ثانیؒ اور شاہ ولی اللہ جیسی عظیم عبقری شخصیات کا تذ کرہ بھی مولانا علی میاں نے شاندار الفاظ میں تحریر کیا ہے۔
ڈاکٹر صا حب نے بستی نظام الدین سے اْٹھنے والی ’’تحریکِ ایمان‘‘کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’بستی نظام الدین کے مرکزتبلیغ کی طرف اْن کے قدم تبلیغی تحریک کے وسیع تناظرکو دیکھتے ہوئے ہی اْٹھے تھے جوافسوس کہ بانی تبلیغ، مصلح اْمت مولانامحمدالیاس کا ندھلویؒ کے ذہن میں ہی رہا اوراْن کی وفات پراْن کے ساتھ ہی رخصت ہو گیا‘‘۔
ڈاکٹر صاحب نے اس انکشاف کی کوئی دلیل نہیں دی۔ جن لوگوں نے حضرت مولانامحمدالیاس صا حبؒ کی زندگی میں اْن کی ز یارت کی اور اْن کے ساتھ دعوت کی محنت میں حصّہ لیا، اْنہوں نے تو کبھی اْس ’’وسیع تناظر‘‘ کے بارے میں ایسا انکشاف نہیں کیا جو ڈاکٹر صا حب کر رہے ہیں۔ سب سے بڑی مثال خود حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندویؒ کی ہے جنہیں حضرت مولانامحمدالیاس صا حبؒ کوقریب سے دیکھنے اوراْن کاترجمان بننے کا موقع ملااور اْن کی وفات سے اپنی وفات تک اِس تحریک کی مسلسل سرپرستی کرتے رہے۔ اگر حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندویؒ کی زندگی پرغورکیا جائے تویہ بات کْھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ مولانا علی میاںؒ کی تبلیغی تحریک کے ساتھ زیادہ وابستگی حضرت مولانامحمدیوسف کا ندھلویؒ کے زمانے میں رہی ہے۔ مولانامحمدیوسف کا ندھلویؒ نے مولانا علی میاںؒ کی عربی ادب میں مہارت کو تبلیغی کام کے لیے خصوصًا حجاز میں متعارف کروانے کاذر یعہ بنایاتھا۔ مولانا علی میاںؒ نے حجاز میں تبلیغی کام متعارف کروانے کاحق اداکیا تھا۔کون نہیں جانتاکہ بھوپال کے سالانہ اجتماع میں مولانا علی میاںؒ کا خصوصی خطاب ہوتارہاہے اور تبلیغی تحریک کے اکابرین ہمیشہ مولانا علی میاںؒ سے مشورے کرتے رہے اور مولانا علی میاںؒ نے کْھل کرسر پرستی کی تھی۔ شایدڈاکٹر صا حب نے مولانا علی میاںؒ کی لکھی ہو ئی کتاب ’’مولانا محمد الیاس ؒ اور اْن کی دینی دعوت‘‘ کا بغور مطالعہ نہیں کیا۔ کیا ڈاکٹر صا حب اْس کتاب میں کوئی ایسی عبارت یا دلیل بتا سکتے ہیں جس میں اْنہوں نے کو ئی ایسی بات تحریر کی ہو؟
ڈاکٹر صا حب نے مولانا علی میاںؒ کو داعی ومفکر، روحانی قائداور مر شدِاْمت لکھاہے اور بعض لوگوں کی بے اعتدالیوں پر مولانا علی میاںؒ کی زودار گرفت کاتذکرہ کیا ہے۔ جب مولانا علی میاںؒ دین کے معا ملے میں اْن لوگوں کی گرفت کرتے رہے جن کے ساتھ اْن کی وابستگی رہی توسوال یہ ہے کہ ۱۹۴۴ء میں مولاناالیاس صاحبؒ کی وفات کے بعد تحریک کی ’’بے اعتدالیوں پر ’’مرشدِ اْمت‘‘ کیوں خاموش رہے اور جس ’’وسیع تناظر‘‘ کا انکشاف ڈاکٹر صا حب کررہے ہیں، اْس کے بارے میں اْمت کو کیوں نہیں بتایا؟
ڈاکٹر صا حب مولانا علی میاںؒ کے بارے میں تحریرکرتے ہیں کہ ’’اْنھوں نے تصوف کو بدعات وخرافات اورعجمی اثرات سے پاک کر نے کی دعوت دی اورکتاب و سنت پر مبنی تصوف (احسان) کو روحِ دین سے کبھی متصادم نہیں سمجھا، بلکہ اگردیکھا جائے تو صحیح معنی میں اْنھوں نے ہی بر صغیرمیں پہلی بار علم تزکیہ (تصوف) کی تجد ید کی اور بد عات و شر کیہ ا عما ل سے اس کی تطہیرکی بنارکھی‘‘۔
جو اہلِ علم، اہل تصوف کی تاریخ کے بارے میں جانتے ہیں، اْن پر یہ بات کھلی ہوئی ہے کہ مولانا علی میاںؒ تصوف کی تطہیر کرنے والے پہلے شخص نہیں ہیں بلکہ اْن سے پہلے ہرزمانے میں ہزاروں لوگوں کو اللہ ربّ العزت اْٹھاتا رہا ہے جن کی زبردست دینی واصلاحی خدمات ہیں۔ خود ڈاکٹر صا حب نے مولانا علی میاںؒ کی کتاب ’’تاریخِ دعوت وعزیمت ‘ ‘ کاحوالہ دیا ہے۔ کیا جن عظیم شخصیات کا تذکرہ مولانا علی میاںؒ نے اپنی اِس کتاب میں کیا ہے،اْ نہوں نے تصوف سے بدعات وخرافات کی تطہیر نہیں کی؟
ٓٓخود ڈاکٹر صا حب اپنے مضمون کے حاشیہ نمبر۴ میں لکھتے ہیں کہ،’’بلاشبہ محْقق صوفیا اِن غالی خیالات کی تردید کرتے رہے‘‘۔
ڈاکٹر صا حب نے اہل تصوف کے طبقات و سلاسل کے با رے میں اپنے مضمون کے حاشیہ نمبر۴ میں تحر یر کیا ہے کہ ’’وحدت الوجود کے فلسفہ نے توحید وشرک کے مابین سارے فاصلے ہی ختم کر دیے‘‘۔ کاش ڈاکٹر صا حب نے ’’تاریخِ دعوت وعزیمت‘‘ کی جلد نمبر۲ کا مقدمہ ہی بغور مطالعہ کیا ہوتا تو شرک کا یہ فتوی اِن کے قلم سے صادر نہ ہوتا۔ مولانا علی میاںؒ ، ’’تاریخِ دعوت وعزیمت‘‘ کی جلد نمبر۲ کے مقدمہ میں تحر یر فرماتے ہیں: ’’اِس دوسری جلد کی ا شاعت کے مو قع پر اس حسرت اور دلی قلق ہے کہ فا ضِل گرامی مولاناسید مناظر گیلانیؒ اور مولانا حلیم عطاموجود نہیں ہیں جو اِس سلسلہ کے سب سے بڑے قدرداں اور مویدتھے۔ پہلی جلد شائع ہوئی تو سب سے زیادہ مسرت کا اظہار مولانا گیلانی نے فرمایا، کتاب کالفظ لفظ ذوق و شوق سے پڑھا اور بڑے جو ش وتاثر کا خط لکھا۔ مرحوم اگرچہ (ہمارے علم میں) شیخ اکبر کے علوم کے ہند ستان میں بہت بڑے عارف وعامل تھے‘‘۔
ڈاکٹر صا حب یقیناًجانتے ہوں گے کہ محی الد ین ابنِ عر بیؒ اْ ن بڑے لو گوں میں سے ہیں جو وحدت الوجود کانظر یہ رکھتے تھے۔ اِس کے علا وہ جنید بغدادیؒ ، علامہ شبلیؒ ، شیخ عبد القادر جیلانیؒ ، شیخ ابو سعید مخزومیؒ ، جلال الد ین رومیؒ ، ملا جا میؒ ، شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ ، شاہ ولی اللہؒ ، شاہ عبد العزیزؒ، سیداحمدشہیدؒ اور شاہ اسمعٰیل شہیدؒ ، یہ تمام اکابر ین وحدت الوجود کانظر یہ رکھتے تھے۔ ڈاکٹر صا حب کے فتواے شرک کی زد میں یہ سارے بز رگ آ رہے ہیں۔ کیا ڈاکٹر صا حب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اِن تمام بزرگوں نے توحید وشرک کے مابین سارے فاصلے ہی ختم کر د یے تھے؟ کیا ڈاکٹر صا حب اِن تمام بزرگوں سے زیادہ بڑے مو حد ہیں؟
ڈاکٹر صا حب نے اپنے مضمون کے حاشیہ نمبر۴میں تحر یر کیا ہے کہ ’’ دورِ جد ید میں تصوف کے زیرِاثرحلقوں میں ایک اور فلسفہ نمودار ہوا جس کی تر جما نی بر صغیر میں تبلیغی جما عت کا پیٹرن کر تا ہے‘‘۔
اِنتہا ئی حیرت ہے کہ ڈاکٹر صا حب تبلیغی تحریک کی Nature)) کو ہی نہیں سمجھے۔ یہ بات انتہا ئی غلطی پر مبنی ہے کہ تبلیغی تحریک تصوف سے (Derive) ہو نے والی کو ئی محنت ہے۔ شاید ڈاکٹر صا حب کو یہ غلط فہمی اِس وجہ سے ہو ئی کہ حضرت مولانامحمدالیاس صا حبؒ َ حضرت مولانارشید احمد گنگوہیؒ کے خادم رہے ہیں اور انھوں نے ان سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کیا اور بعد میں صاحبِ بذل المجہود حضرت مولاناخلیل احمد سہا رنپوری ؒ کے سا تھ بھی اپنا اصلاحی تعلق قائم رکھا۔ تبلیغی محنت میں دوسروں کے پاس چل کر جانا پڑ تا ہے اور لوگوں کے تمسخر، گالیوں اور مارپیٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تصوف کی محنت کہتی ہے کہ لوگ اپنی اصلاح کے لیے ہما رے پاس چل کرآئیں۔ تبلیغی محنت گئے ہوئے دین کی طلب پیدا کرنے کے لیے ہے اور تصوف کی محنت اْن لوگوں کے لیے ہے جن کے اندر دین کی طلب پیدا ہو چکی ہو۔
ڈاکٹر صاحب نے مزید لکھا ہے کہ ’’یہ صحیح ہے کہ مسلما ن عوام پر اصلاح وتبلیغ کے اِس فکر کے گہرے اثرات پڑے ہیں، تا ہم اِس کا یہ پہلو بہت کھٹکتا ہے کہ اِس میں نہی عن المنکر کے پہلو کو مکمل طور پرخاموش کر کے امربا لمعروف اوربشارت کے پہلو پر صرف کیاجاتا ہے اور احادیثِ فضا ئل سے خاص طور پرمددلی جاتی ہے‘‘۔
اللہ ربّ العزت نے فرمایا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰو ۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآ ءِ وَ الْمُنْکَرِ (سور ۃ العنکبو ت اّیت نمبر۴۵) ’’بے شک نمازروکتی ہے بے حیائی سے اورناشا ئستہ حر کتوں سے‘‘۔ جب ایک شخص میں د ین پر چلنے کی استعداد نہ ہو تو اگرکوئی اس کونماز کے فضا ئل سْنا کر نماز پرکھڑا کر دے تو یہ بات یقینی ہے کہ نماز اپنے اندر ایسی استعداد رکھتی ہے کہ وہ بْرائیوں سے بچائے گی۔ الحمد للہ لوگوں کی قربانیوں اوررونے دھونے سے اللہ ربّ العزت نے ایکٹرز، کرکٹرز، اسٹیج ڈراموں میں کام کرنے والوں کی زندگیوں میں تبد یلی پیدا کی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ڈاکٹر صا حب کو منکرات سے لوگوں کو بچانے کا یہ مثبت پہلو نظر نہیں آرہا۔ مجھے ڈاکٹر صا حب کی اِس بات سے ایک لطیفہ یاد آگیا جو ایک مرتبہ رائے ونڈکے اجتماع میں حضرت مولانامحمد احمد انصاری صاحب نے سْنایاتھا۔ لطیفہ اِس طرح ہے کہ ایک مرتبہ ایک کمرے میں پنکھے اور ٹیوب لائٹس جل رہی تھیں کہ اچانک بجلی چلی گئی۔ باہر سے ایک شخص ڈانڈالے کر کمرے میں داخل ہوا اور زورسے کہا کہ میں اِن پنکھوں اور ٹیوب لائٹس کو چلاؤں گا۔ کسی بھائی نے اْس کوسمجھایا کہ دیکھو پنکھوں اور ٹیوب لائٹس کا رابطہ Power House سے ٹوٹ گیاہے اور کرنٹ نہیں آ رہا، اس لیے یہ نہیں چلیں گے۔ اْس شخص نے کہا ان کی اِیسی کی تیسی، میں اِن کو چلاؤں گا۔ اْس شخص نے کسی کی ایک نہ سْنی اور ڈانڈا لے کر زور زور سے پنکھوں اور ٹیوب لائٹس پر مارنا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پنکھوں اور ٹیوب لائٹس کا بیڑہ غرق ہوگیااور ہاتھ کچھ نہ آ یا۔
دعوت وتبلیغ کی محنت میں یہ کہا جا رہاہے کہ اْ مت کا رابطہ اللہ سے ٹوٹا ہواہے، دعوت الی اللہ اور ایمان کی محنت سے اْ مت کا رابطہ اللہ سے جوڑ دیاجا ئے گا تو اْمت خودہی دین پر چلے گی۔
آخر میں ڈاکٹر صا حب سے درخواست کروں گاکہ اگر آپ کو تبلیغ کی محنت کے بارے میں اِشکا لات ہیں تو دہلی میں بستی نظام الدین جاکر بزرگوں کے سامنے پیش کریں اور اِس محنت کے بارے میں لوگوں کو متنفر کرنے کاذریعہ مت بنیں۔
عاطف مقبول خان (طالبِ فن،ایم فل اکنا مکس)
بین الا قوامی اِسلامی یونیورسٹی،اِسلام آ باد۔ atifdai313@gmail.com
تعارف و تبصرہ
ادارہ
’’سیرت سیدنا عمرؓ ‘‘ / ’’سیرت سیدنا ابو ہریرہؓ ‘‘
مولانا حافظ محمد اقبال رنگونی ہمارے دور کے ان فاضل علماء کرام میں سے ہیں جو دینی وعلمی محاذ پر ہر وقت متحرک و چوکنا رہتے ہیں اور دینی و مسلکی حوالہ سے جہاں بھی کوئی خطرہ یا خدشہ محسوس کرتے ہیں، ان کا قلم حرکت میں آ جاتا ہے۔ ان کے والد محترم مولانا ابراہیم یوسف باوا ؒ برطانیہ میں دعوت و تبلیغ اور اصلاح و ارشاد کی محنت کرنے والے سرکردہ حضرات میں سے تھے اور ان کے بھائی مولانا بلال احمد مظاہری شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ کے خلیفہ مجاز اور دارالعلوم بری کے استاذِحدیث ہیں۔ اس علمی خاندان کی خدمات کا دائرہ متنوع اور وسیع ہے اور مولانا حافظ محمد اقبال رنگونی بطور خاص اس سلسلہ میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔ وہ ایک عرصہ تک اسلامک اکیڈمی مانچسٹر میں مفکر اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود دامت برکاتہم کی سرپرستی میں کام کرتے رہے ہیں اور انہیں برس ہا برس تک حضرت علامہ خالد محمود صاحب کے دست راست اور معاون خاص کی حیثیت حاصل رہی ہے، اس لیے ان پر حضرت علامہ صاحب کے متکلمانہ ذوق کا رنگ غالب ہے اور وہ انہی کے لہجے میں لکھتے اور بات کرتے ہیں۔ اب کچھ عرصہ سے انہوں نے ادارہ اشاعت الاسلام اور مسجد امدادیہ کے نام سے ایک مستقل مرکز قائم کر کے اپنی سرگرمیاں وہاں منتقل کر لی ہیں اور مجھے کم و بیش ہر سال وہاں جانے اور ایک دو نشستوں میں شرکت کا موقع ملتا ہے۔
حافظ صاحب میرے انتہائی قریبی دوستوں اور معاونین میں سے ہیں اور ان کے ساتھ مختلف علمی و فکری مسائل پر باہمی مشاورت و معاونت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ حافظ محمد اقبال رنگونی نے اب تک مختلف عنوانات پر جو چھوٹے بڑے مضامین تحریر کیے ہیں، ان کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہو گی جب کہ ان کی باقاعدہ تصانیف بھی ایک درجن سے زائد ہیں۔ اس وقت ان کی دو ضخیم کتابیں میرے سامنے ہیں۔ ایک سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی سوانح، ان کی خدمات کا تعارف، ان پر مختلف حوالوں سے کیے جانے والے اعتراضات کے جوابات اور ان کو خراج عقیدت پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب دو جلدوں میں ہے۔ پہلی جلد ساڑھے پانچ سو سے زائد صفحات اور دوسری جلد سوا چار سو کے لگ بھگ صفحات پر محیط ہے۔ یہ کتاب حضرت عمرؓ کی حیات و خدمات اور ان کے بارے میں علمی مباحثات کے کم و بیش تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے اور اعتراضات و جوابات کے حوالہ سے بہت بڑے علمی ذخیرے کو اس میں سمو دیا گیا ہے جو دفاع صحابہؓ کے محاذ پر کام کرنے والے علماء کرام اور کارکنوں کے لیے یقیناًایک بڑا تحفہ ہے۔
دوسری کتاب سیدنا حضرت ابوہریرہؓ کی حیات وخدمات پر ہے، حضرت ابوہریرہؓ جناب نبی کریم صلی ا للہ علیہ وسلم کی احادیث و ارشادات کے سب سے بڑے راوی ہیں اور اسی وجہ سے منکرین حدیث کے اعتراضات کا سب سے بڑا ہدف بھی ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ نے جس ذوق و شوق، محنت و جستجو اور ایثار و استقامت کے ساتھ ارشادات نبوی کو جمع و محفوظ کیا اور اگلی نسلوں تک پہنچایا، وہ ان کی حوصلہ و عزیمت کا ایک مستقل اور روشن باب ہے جو بجائے خود علم و فضل کے متلاشیوں کے لیے مشعل راہ ہے اور احادیث نبویہ کے ایک بڑے ذخیرہ کو امت تک منتقل کرنے کے لیے ان کی یہ محنت جہاں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ہے، وہاں یقیناًحضرت ابوہریرہؓ کی کرامت بھی شمار ہو گی۔ حافظ محمد اقبال رنگونی نے اسی داستان عشق و محبت کو دل چسپ پیرایے میں بیان کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت ابوہریرہؓ کا علمی جدوجہد کے مراحل و مظاہر کے بارے میں معلومات کا بہت بڑا ذخیرہ جمع کیا ہے اور استفادہ وافادہ کے باب میں حضرت ابوہریرہؓ کے ذوق و اسلوب سے اپنے قارئین کا آگاہ کرنے کے علاوہ ان پر کیے جانے والے اعتراضات کے تسلی بخش جوابات بھی شامل کتاب کر دیے ہیں۔
حدیث و سنت کی اہمیت اور حجیت پر کام کرنے والے علماء کرام اور طلبہ کے لیے یہ کتاب بطور خاص استفادہ کی چیز ہے۔ یہ کتابیں ادارہ اشاعت الاسلام پوسٹ بکس ۳۶ مانچسٹر M167AN(UK) نے شائع کی ہیں اور پاکستان میں صدیقی ٹرسٹ المنظر اپارٹمنٹ ۴۵۸ گارڈن ایسٹ نزد بس بیلہ چوک کراچی ۷۴۸۰۰ سے طلب کی جا سکتی ہیں۔
(ابو عمار زاہد الراشدی)
’’جماعت اسلامی پاکستان: ایک حاصل مطالعہ‘‘
مولف: ثاقب اکبر
ناشرا ن : البصیرہ، گلی نمبر ۲۹۹، جی نائن تھری، اسلام آباد
صفحات : ۱۵۲۔ قیمت: ڈیڑھ صد روپے
یہ ایک مختصر کتاب ہے۔ مولف نے خود اسے کتابچہ کہا ہے۔ مولف کے مطالعے کا واقعی حاصل ہے۔ مولف نے دیباچے کو ’’پہلی بات‘‘کا عنوان دیا ہے۔ اس میں مولف نے لکھا ہے کہ ’’اس تحریر میں اصولی اور اجمالی طور پر جماعت کے تقریباً تمام اہم پہلوؤں کا ذکر کیا گیا ہے۔ دیگر مصروفیات اور وقت کی قلت بھی موضوع کو محدود رکھنے کی متقاضی تھی، لہٰذا زیرنظر کتابچے کو اسی پس منظر میں پڑھنے کی ضرورت ہے۔‘‘ مولف کے مطابق اہم پہلوؤں کا ذکر اور موضوع کو محدود رکھنے کا تقاضا، دو متضاد سمتوں کو اختیار کرنے کا کام ہے۔ ہم اس کا لحاظ رکھ کرکتابچے کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
کتاب کی تالیف کا فوری محرک ایرانی انقلاب کا پس منظر ہے۔ جماعت کی قیادت کی جانب سے انقلاب کا خیر مقدم ہوا تو مولف نے جماعت پر لکھنے کی ضرورت محسوس کی۔ یہ شوق و جذب، انقلاب کی وہ مشترک خواہش ہے جو جماعتی حلقوں میں پون صدی سے پرورش پا رہی ہے اور ایران میں یہ انقلاب عملی صورت میں موثر ہوا۔ جماعتی حلقوں میں اس انقلاب کا مطالعہ بھی اسی جذبِ مشترک کے تحت ہوا۔ مولف نے اس مطالعے کے حوالے بھی تفصیل کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ کتاب میں سب سے زیادہ سیر حاصل بحث بھی اسی حوالے سے کی گئی ہے۔ یہ بحث کافی معلومات افزا اور دلچسپ ہے۔ اس میں جماعتی قیادت کی انقلاب کے بارے میں مختلف مراحل میں بدلتی ہوئی روش کا بھی اچھا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کا یہ حصہ کتاب کا حاصل ہے۔ مولف نے خوب جم کر لکھا ہے۔ اس سے مولف کے ذہنی رجحان کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
کتاب کے بعض دیگر حصوں سے واضح ہوتا ہے کہ مولف نے کافی محنت اور جستجو سے کام لیا ہے۔ موصوف کا مطالعہ اور مشاہدہ کافی وسیع ہے ۔ مولانا مودودی اور بعض زعما سے ملاقاتوں کو بھی اپنے پیش کردہ نتائج کی تائید میں پیش کیا گیا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود کتاب کا معیار صحافیانہ معیار سے کسی طرح اونچا نہیں۔ بعض پہلوؤں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولف کا مطالعہ بہت سرسری، ناقص اور ادھورا ہے۔ موضوع کے پھیلاؤ نے اسے اور بھی اجمالی بنا دیا ہے۔ اس سے مدعا کی معنویت بھی کافی مجروح ہوئی ہے۔ زیادہ اچھا ہوتا کہ کسی ایک پہلو کو سیر حاصل مطالعے کے طور پر پیش کیا جاتا۔ موضوع کے پھیلاؤ کا اندازہ کرنے کے لیے فہرست مضامین جسے مولف نے ’’اجمال مطالب ‘‘ کے عنوان کے تحت درج کیا ہے، دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک خاص بات جو مجھے بہت کھٹک رہی ہے، یہ ہے کہ حاصل مطالعہ تو جماعت کا پیش کیا جا رہا ہے مگر ساتھ ہی بانی جماعت کے عقائد اور افکار کو جماعت کے عقائد و افکار کے طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔ جماعت کے عقائد، نصب العین اور مقاصد کی تفصیل جماعت کے دستور میں پوری شرح و بسط کے ساتھ درج کر دی گئی ہے۔ مولف نے کتاب میں اس کا بہت اچھا خلاصہ دیا ہے۔ مولانا مودودی کے عقائد اورافکار کو دستور جماعت کی سطح پر کسی طرح متعلقہ بنانا درست معلوم نہیں ہوتا۔ مولانا مودودی نے اس بارے میں کئی بار خود بھی وضاحت کی ہے۔ اس طرح کتاب کے بنیادی عنوان سے بھی تجاوز ہوا ہے۔ اس لحاظ سے مولف نے جماعت کے بارے میں فرقہ واریت کا تاثر پیش کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ اسی کا شاخسانہ نظر آتی ہے۔
کتابچے کے بعض حصے مولف کی معلومات کے ادھورے پن کی نشاندہی کرتے ہیں۔ صفحہ نمبر ۱۸ پر لکھا ہے کہ ’’جماعت کی رکنیت کے تین درجے میں، متفق، امیدوار رکنیت اور رکن‘‘۔ مولف سے یہ امر صرف نظر ہو گیا ہے کہ قاضی حسین احمد کے دورِ امارت میں ایک چوتھا درجہ ممبر کا بھی شامل کیا گیا۔ اس کو دستور اور تنظیم کا حصہ تو نہیں بنایا گیا تھا مگر اس کے لیے بڑی مہمات چلائی گئیں اور ان کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ اس سب کچھ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بلاشبہہ جماعت کو عوامی بنانے کا یہ اجتہاد قاضی صاحب کے ذہن کی اختراع تھا۔ اسے بعد میں، قاضی صاحب کے دور میں بھی اہمیت نہیں دی گئی۔ وقتی ہونے کے باوجود یہ پیش رفت اہم رہے گی۔ اس موقع پر تو یہ استدلال بھی کیا گیا کہ ممبر ہونے کے لیے مسلمان ہونا بھی شرط نہیں۔
مولف نے صفحہ ۱۸ پر لکھا ہے کہ ’’رکن جماعت کے لیے علم و عمل کی انتہائی سخت شرائط جماعت کے دستور میں درج کی گئی ہیں۔ مثلاً دستور کے مطابق وہ فرائض شرعی کا پابند ہو، دین کے بارے میں ضروری علم رکھتا ہو جماعت کے عقیدے کو اس کی تشریح کے ساتھ قبول کرے، جماعت کے نظم کی پابندی کا عہد کرے اور کسی ایسے ادارے کارکن نہ ہو جو جماعت کے عقیدے سے مختلف عقیدہ رکھتا ہو۔‘‘ ایسی شرائط کو انتہائی سخت قرار دینا ہجوم اور جماعت کے فرق کو نظر انداز کیے بغیر ممکن نہیں۔ اعلیٰ مقاصد کی جانب جد و جہد کے لیے انتہائی مضبوط اور مستحکم تنظیم لازم ہے۔ تنظیم کے لیے شرائط جتنی سخت ہو ں گی، اتنی ہی وہ مضبوط ہو گی۔ جماعت میں رکنیت کی شرائط کم سے کم ہیں ۔ تنظیمی استحکام کے لیے ان شرائط کو اور بھی سخت ہونا چاہیے تھا۔ تنظیمی قوت کا راز تعداد پر نہیں، ذہنی صلاحیت اور معیار کردار پر ہے۔ تحریکوں اور انقلابوں کی تاریخ میں کبھی کثرتِ تعداد کی بنا پر کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ انسانی ذہن خدا کے بعد سب سے بڑی قوت ہے۔ اگر اسے بروئے کار لایا جائے تو قلیل سے قلیل تعداد کی مدد سے بڑے سے بڑے مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک مستقل موضوع ہے۔ بہرصورت اس پہلو سے مولف کا نقطہ نظر گہرائی سے خالی معلوم ہوتا ہے۔ یہ شرائط رکنیت پر روایتی اعتراض ہے جو مولف نے شاید روا روی میں دہرا دیا ہے۔
مولف نے صفحہ نمبر ۲۳، ۲۴ پر جماعت کے عقائد کے بارے میں لکھا ہے کہ جماعت کے عقائد و افکار بر صغیر کے فرقہ وارانہ ماحول کے پیش نظر مرتب کیے گئے ہیں۔ اس میں بریلوی اور اہل تشیع کے لیے کچھ کشش نہیں۔ وہ جماعت کے قریب کم ہی آئے ہیں۔ جماعت دیوبندی مکتب فکر کی ایک شاخ سمجھی جاتی ہے۔ مولف کا یہ قرار دینا کسی طرح درست نہیں۔ جماعت نے فرقہ وارانہ بنیادوں سے بلند ہو کر اپنے عقیدے اور نصب العین کو پیش کیا ہے۔ جس نے بھی فرقہ وارانہ تصورات سے بلند ہو کر جماعت کے عقیدے کو قبول کیا ،وہ جماعت میں شامل ہوا۔ شمولیت کے بعد، اس کی اپنے مسلک سے وابستگی ذیلی نوعیت کی ہو گئی۔ جماعت میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر وابستگی کا کوئی سروے نہیں ہوا۔ اہل حدیث مسلک سے وابستہ لوگوں کی خاصی تعداد جماعت میں ہمیشہ موجود رہی ہے۔ گوجرانوالہ میں تو جماعت کی اولین پناہ ہی مولانا محمد عبداللہ مرحوم کی مسجد دال بازار تھی۔ مولانا مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر رہ چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مقامی سطح پر سیاسی اختلافات کی وجہ سے مولانا عبد اللہ جماعت سے نالاں ہوئے تو دور ہی ہوتے گئے۔ اہل تشیع اور بریلوی مکتب کے نمایاں لوگوں میں سے تو یقیناًجماعت سے کوئی وابستہ نہ ہوا۔ کسی مسلک کے نمایاں لوگ کم ہی کبھی متاثر ہو کر کسی تنظیم کا جزو بنتے ہیں۔ عام لوگوں میں سے اہل تشیع کی مثالیں کافی موجود ہیں۔ بریلوی مکتب سے متعلقہ لوگوں کی بھی کافی تعداد جماعت میں موجود ہے۔ ان میں سے نمایاں خود پروفیسر غفور احمد کی مثال تو خوب معلوم ومعروف ہے۔
مولف نے صفحہ نمبر ۱۰۹ پر قاضی حسین احمد کے ذکر میں لکھا کہ وہ قیم جماعت منتخب ہوئے، حالانکہ قیم جماعت کا انتخاب نہیں، تقرر ہوتا ہے۔ جماعت کے دستور اور تنظیمی ڈھانچہ کا اگر مولف نے بغور جائزہ لیا ہوتا تو یہ آسانی سے واضح ہو جاتا کہ جماعت کا تمام تر نظم نامزدگیوں پر مبنی ہے۔ امیر جماعت کا ارکان براہ راست انتخاب کرتے ہیں۔ بقایا جملہ امرا کا عزل و نصب بالائی نظم کی صوابدید پر ہے۔ استصواب کا ذکر موجود ہے مگر استصواب کی عملی اہمیت برائے نام رہ گئی ہے۔ البتہ شوریٰ ہر سطح پر منتخب کی جاتی ہے۔ لیکن اگر جماعت کے پورے نظام قیادت و شوریٰ کا اعداد و شمار اور ریکارڈ کی رو سے جائزہ لیا جائے تو اس نظام کا انتخابی پہلو محض نمائشی ہے۔ یہ نظام تسلسل و تواتر پر مبنی ہے۔ امیدواری اور کنونسنگ کے بغیر کوئی انتخاب انتخابی نہیں ہو سکتا۔ بہر حال یہ ایک مستقل موضوع ہے۔
مولف نے صفحہ ۶۳ پر پروفیسر غفور احمد اور قاضی حسین احمد کے بارے میں تحریر کیا کہ انتخابی مہم میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے خلاف اشتعال انگیز، جارحانہ اور بعض اوقات غیر شائستہ زبان استعمال کی۔ میرے نزدیک ان کا یہ لکھنا بالکل بے جا ہے۔ ہر دود عمائدین جماعت کے بارے میں اس طرح بات کہنا غلط ہے۔ اس کی شہادت پیش نہیں کی جا سکتی۔ مولف کا یہ لکھ دینا ناقابل فہم ہے۔ کتاب میں ایک آدھ مقام پر طلبہ اور ذیلی تنظیموں کے حوالے سے غیر معیاری طرز عمل کے حوالے سے مولف نے بہت کچھ لکھا ہے۔مگر یہ سب کچھ نہیں۔
کتاب میں جماعتی لٹریچر کے حوالے موجود ہیں، مگر جماعت کی دو جلدوں پر مشتمل تاریخ مرتبہ آباد شاہ پوری کا کوئی حوالہ موجود نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مولف اس کتاب سے شناسا نہیں۔ آباد شاہ پوری نے جس بھر پور انداز سے جماعت کی تاریخ کو پیش کیا ہے، وہ حرفِ آخر ہوتی اگر اس کی تکمیل ہو جاتی۔ دونوں ضخیم جلدیں ۱۹۴۷ء تک پہنچتی ہیں۔ اس کی ترتیب کا اہتمام جماعتی ادارے معارف اسلامی نے کیا ہے۔ مابعد جماعت کے دور کو مرتب کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ معلوم نہیں جماعت کے اندر اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے یا نہیں۔ علاوہ ازیں کتاب میں تنقیدی رجحان خاص قوی ہے۔ اس کے لیے تازہ او مستند ترین مواد میاں طفیل محمد کا طفیل نامہ ہے۔ اسے پروفیسر وقار احمد نے ترتیب دیا اور میاں طفیل صاحب نے اس پر نظر ثانی کی۔ فیصل بک سیلرز اردو بازار لاہور سے مل جاتی ہے۔ مولف کی نظر سے یہ کتاب بھی شاید نہیں گزری۔
آخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مولف کی نظر اس پہلو پر نہیں گئی کہ اگر سید مودودی جماعت میں مجتمع دینی ٹیلنٹ کو ساتھ رکھ کر اپنی جد و جہد کو جاری رکھنے میں کامیاب ہو جاتے اور ایسی حکمت عملی مرتب کرتے جو اقتدار میں جلد آنے کے شوق میں تنہا پرواز کے بجائے ساتھیوں کے ساتھ زمینی حقائق کے شعور اور ادراک پر مبنی ہوتی تو نہ جماعت اپنا کردار اور ساکھ برباد کرتی اور نہ ہی منزل کھوٹی ہوتی۔ یقینی طور پر جماعت اپنی منزل پا لیتی۔ یہ جماعت سید مودودی کا شاہکار ہے۔ یہ شاہکار، کامل شاہکار بن جاتا۔ اس سلسلے میں امیر جماعت کے طور پر ساتھیوں کے بچھڑنے کی ذمہ داری سید مودودی پر ہی عائد ہو گی۔ اس میں قصور وار کون تھا اور کون نہیں تھا، اس کا فیصلہ ہمارے بس سے باہر ہے۔ البتہ تاسیس جماعت کے بعد ابتدائی دو تین سال میں جماعت چھوڑنے والے اکابرین جماعت اور ذمہ داران جماعت کی خط و کتابت سے اختلافات کی نوعیت واضح ہو جاتی ہے۔ اس کے پیش نظر یہ آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ ان اختلافات کی بنا پر جماعت چھوڑنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ہاں اس خط و کتابت میں ذمہ داران جماعت بشمول سید مودودی کے انداز کلام سے مایوسی ضرور ہوتی ہے۔ خطوط کے جواب میں ذمہ داران کا لہجہ بے نیازی، گریز اور فرار کا رہا۔ یہ رویہ مخاطب کے لیے اشتعال کا باعث ہو سکتا ہے۔ سید مودودی نے یہ محسوس نہ کیا کہ اگر تاسیس کے وقت اتفاق رائے سے منزل تک کا عہد سفر کرنے والے ان کے برابر کے لوگ ساتھ نہ رہے، وہ ان کو چھوڑ گئے تو منزل کھوٹی ہوگی، تحریک کبھی راہ پر محو سفر نہ رہے گی۔ چنانچہ بعد میں دوسری صف کے لوگوں کے ہاتھ میں قیادت آئی تو ان کی ترجیحات بدل گئیں۔ آج کی قیادت، ہر سطح پر تحریک کے مقاصد کو ثانوی ترجیح میں رکھے ہوئے ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ معاشی مقاصد پورے ہو رہے ہیں اور تحریک اپنے حقیقی مقاصد سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
در اصل سید مودودی کے ذہن میں شروع ہی سے جو مقاصد تھے، تاسیس کے وقت ایک سمجھوتے کے تحت ان کو موخر کرکے سفر شروع کیا گیا۔ سید مودودی کا تنہا پرواز کا شوق وقتی طور پر ترک کیاگیا۔ یہ سمجھوتہ کبھی باقی نہیں رہ سکتا تھا۔ ایک چیز سید مودودی نے میزبان اور موسس کے طور منوالی کہ وہ پانچ سال کے لیے امیر منتخب ہوئے۔ بار بار کے انتخاب پر کوئی پابندی نہ تھی۔ اس طرح نظام انتخاب بھی ایسا رہا کہ متبادل قیادت رائے دہندگان کی نظر سے اوجھل رہے۔ اوپر کی ٹیم میں برابری کی سطح کے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہو لیکن اعلیٰ ترین مناصب پر بدل بدل کر ، ہر ایک کے لیے اپنی متنوع صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم نہ کیے جائیں توتنہا پرواز کے شوق کو پورے کرنے کے مواٰقع پیدا ہو جاتے ہیں اور ساتھی ساتھ چھوڑ ہی جایا کرتے ہیں۔ تنظیم بھی متنوع سمتوں میں سفر کے بجائے ایک ہی مزاج اور سمت کی آئینہ دار بن کر ادھورے پن کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس میں اجتماعی فکر کے بجائے ایک شخصیت کا پرتو غالب آ جاتا ہے۔ یہی کچھ ہوا اور جماعت موجودہ پوزیشن پر پہنچ گئی۔ ایک بار یہی سوال میں نے جناب جاوید غامدی سے کیا تو انہوں نے کہا کہ جماعت کے نظام میں اتنا حبس تھا کہ کسی ذہین آدمی کے لیے کھپ جانے کا کوئی موقع ہی نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ ایک عرصہ تک جماعت میں ساتھ رہے، وہ بھی مولانا مودودی کے حسن طبع کی وجہ سے رہے۔ جماعت کے نظام میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ مولف کتاب نے اس پہلو پر بالکل توجہ نہیں دی، حالانکہ یہ پہلو سب سے اہم معلوم ہوتا ہے۔
بہرحال کتاب کے بارے میں، میں نے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے اس کے باوجود کتاب خاصی دلچسپ اور متوازن پیرایہ بیان رکھتی ہے۔ کافی معلومات افزا ہے۔ آزاد ذہن کے ساتھ پڑھنے والے کو اس میں کافی کچھ پڑھنے کو مل سکتا ہے۔
(چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ)
جون ۲۰۱۰ء
قرآن کریم اور دستور پاکستان
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں اس وقت حکومت اور حکمرانوں کے حوالے سے بہت سے مقدمات زیر سماعت ہیں اور اس سلسلے میں عدالت میں پیشی سے صدر اور وزیر اعظم کی استثنا پر ملک بھر میں بحث وتمحیص جاری ہے۔ ایک جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اسلامی روایات وتعلیمات کے مطابق حاکم وقت بھی اسی طرح عدالت کے سامنے پیش ہونے کا پابند ہے جس طرح رعیت کے دوسرے لوگ پابند ہیں، جیساکہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مقدمے میں عدالت کے سامنے پیش ہو کر اس کا اظہار کیا تھا، جبکہ دوسری طرف سے اس بات پر دلائل دیے جا رہے ہیں کہ حاکم اعلیٰ کی عدالت میں پیشی سے استثنا ضروری اور مستحسن ہے۔ اس پس منظر میں وفاقی وزیر اطلاعات محترمہ فوزیہ وہاب نے یہ کہا ہے کہ حضرت عمرؓ عدالت میں اس لیے پیش ہو گئے تھے کہ اس وقت صرف قرآن تھا اور کوئی دستور موجود نہیں تھا۔ اب چونکہ دستور موجود ہے، اس لیے صدر اور وزیر اعظم عدالت میں پیش ہونے سے مستثنیٰ ہیں۔ اس پر اخبارات میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے جس میں دن بدن تیزی کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔
ہم اس وقت اس مسئلے کے صرف ایک پہلو کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری خیال کر رہے ہیں کہ کیا قرآن کریم خود کسی اسلامی ریاست کے لیے دستور کی حیثیت نہیں رکھتا اور کیا قرآن کریم کو ریاست ومملکت کے تمام معاملات میں بالادستی حاصل نہیں ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ خطبہ حجۃ الوداع میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی امت کو یہ تلقین فرمائی تھی کہ ’’اپنے حکمران کی اطاعت کرو خواہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، جب تک وہ تمھارے معاملات کو قرآن کریم کے مطابق چلاتا رہے‘‘ (ما یقودکم بکتاب اللہ) تو یہ قرآن کریم کی اسی حیثیت کا اعلان تھا کہ وہ اسلامی ریاست کا دستور ہے اور ریاست وحکومت کے تمام معاملات کا اسی دستور کے دائرے میں رہنا ضروری ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے خطبے (پالیسی خطاب) میں فرمایا تھا کہ میں تم سے کتاب وسنت کے مطابق چلنے کا وعدہ کرتا ہوں۔ جب تک میں کتاب وسنت کے مطابق حکمرانی کروں، تم پر میری اطاعت واجب ہے اور اگر میں قرآن وسنت کی اطاعت سے ہٹ جاؤں تو تم پر میری ضروری نہیں ہے۔ خلیفہ اول نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں قرآن وسنت کے مطابق چلوں تو میرا ساتھ دو اور اگر اس سے ٹیڑھا ہونے لگوں تو مجھے سیدھا کر دو۔
ہم سمجھتے ہیں کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کا یہ اعلان قرآن وسنت کی دستوری حیثیت کا اعلان تھا اور خلافت راشدہ کا آغاز قرآن وسنت کو اپنا دستور اور بالاتر قانون تسلیم کرنے کے ساتھ ہوا تھا۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق نے بھی اپنے پہلے خطبے میں یہی اعلان کیا تھا اور اس میں یہ اضافہ فرمایا تھا کہ میں قرآن وسنت کے ساتھ ساتھ اپنے پیش رو خلیفہ کی روایات بھی قائم رکھوں گا، جبکہ خلیفہ ثالث حضرت عثمان کی خلافت کا فیصلہ کرتے وقت اس کی مجاز اتھارٹی حضرت عبد الرحمن بن عوف نے امیر المومنین کی حیثیت سے حضرت عثمان بن عفان کی بیعت ہی اس شرط پر کی تھی کہ :
’’ابایعک علی سنۃ اللہ ورسولہ والخلیفتین من بعدہ‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام)
یعنی میں آپ کی بیعت اس شرط پر کرتا ہوں کہ آپ کتاب وسنت کی پیروی کریں گے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دو خلفا حضرت ابوبکر وعمر کی روایات کی پاس داری کریں گے۔ ان کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی اپنی حکومت کی بنیاد اسی اصول کو قرار دیا تھا جس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن وسنت اور خلفاے راشدین کے فیصلوں کو اسلامی ریاست میں صرف راہ نما اصول یا Source of Law (ماخذ قانون) کا درجہ حاصل نہیں ہے بلکہ یہ خود قانون اور دستور کی حیثیت رکھتے ہیں اور قرآن وسنت کی اسی اصولی حیثیت سے انکار آج کے دستور سازوں اور قانون سازوں کے ہاتھ میں قرآن وسنت سے انحراف کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
ہمارے ہاں قیام پاکستان کے بعد سے ہی یہ بحث جاری ہے کہ قرآن وسنت خود قانون ہیں یا انھیں صرف ’’سورس آف لا‘‘ کی حیثیت حاصل ہے؟ اور محترمہ فوزیہ وہاب کے اس بیان کے پس منظر میں بھی ہمیں اسی تردد اور ابہام کی جھلک دکھائی دے رہی ہے، لیکن جب ہم بانی پاکستان قائد اعظم جناب محمد علی جناح کے ان بیانات واعلانات کی طرف رجوع کرتے ہیں جو انھوں نے قیام پاکستان کے مقاصد کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمائے تھے تو ان میں ہمیں اس قسم کا کوئی ابہام نظرنہیں آتا۔ چنانچہ انھوں نے اگست ۴۴ء میں کانگرسی راہ نما گاندھی کو جو تفصیلی خط تحریر کیا، اس میں کہا کہ:
’’قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ ا س میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوج داری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی غرضیکہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ وہ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ امور حیات تک، روح کی نجات سے جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق وفرائض تک، اخلاق سے لے کر انسداد جرم تک، زندگی میں سزا وجزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا وسزا تک ہر ایک فعل، قول، حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔‘‘
جبکہ اس سے قبل ۱۹۴۳ء میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم یہ فرما چکے تھے کہ:
’’مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کا طرز حکومت متعین کرنے والا میں کون؟ یہ کام پاکستان کے رہنے والوں کا ہے اور میرے خیال میں مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو قبل قرآن حکیم نے فیصل کر دیا تھا۔‘‘
قائد اعظم کے بیان کردہ دونوں نکتوں پر غور کر لیجیے:
۱۔ مسلمانوں کا طرز حکومت تیرہ سو قبل قرآن کریم نے طے کر دیا تھا۔
۲۔ پاکستان کا طرز حکومت طے کرنا پاکستان میں رہنے والوں کا کام ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ دستوری حیثیت قائد اعظم کے ذہن میں بے غبار اور واضح تھی اور پاکستان کے رہنے والوں نے بھی طویل دستوری جدوجہد کے بعد ۱۹۷۳ء کے دستور کی صورت میں یہ بات طے کر دی تھی کہ قرآن و سنت کو ملک میں بالاتر حیثیت حاصل ہوگی اور دستور وقانون دونوں کو ان کے دائرے میں رہنا ہوگا۔ اس لیے محترمہ فوزیہ وہاب اور ان کے ہم نواؤں سے ہماری گزارش ہے کہ وقتی اور گروہی سیاسی مفادات کے لیے قرآن وسنت کی بالاتر اور دستوری حیثیت کو زیربحث لانے سے گریز کریں۔ قرآن وسنت کو خلافت راشدہ میں بالاتر درجہ حاصل تھا اور پاکستان کا دستور بھی انھیں بالاتر تسلیم کرتا ہے، اس لیے قرآن وسنت کی اس اصولی حیثیت کے بارے میں تردد اور ابہام پیدا کرنے کی کوئی بھی کوشش اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان، دونوں سے انحراف کے مترادف تصور ہوگی۔
سر سید احمد خان کی تفسیری تجدد پسندی: ایک مطالعہ (۱)
ڈاکٹر محمد شہباز منج
سرسید احمد خاں (۱۸۱۷ء۔۱۸۹۸ء) نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں، وہ مسلمانوں کی سیاسی،معاشی،تعلیمی اور سماجی پسماندگی کا دور تھا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کی ناکامی نے مسلمانوں کو شکستہ خاطر کر دیا تھا۔ قومی امنگ،جوش و خروش ، بلندی و برتری اورترقی و کامرانی کا تصور کوسوں دور تھا ۔سرسید نے کل کی حاکم قوم کو ذلت و پستی کے گڑھے میں گرے ہوئے دیکھا۔ انگریزوں کی حکومت اور ان کی ساحرانہ تہذیب کے مناظر دیکھے۔ان کو ملازمت،رفاقت اور دوستی و تعارف کے ذریعے مستشرقین اور انگریزحکمرانوں اور صاحبانِ علم و حکمت سے گہرا واسطہ پڑا۔وہ ان کی ذہانت، قوتِ عمل اورتمدن ومعاشرت سے ایسے متاثر ہوئے جیسے کوئی مغلوب غالب اور کمزور طاقت ور سے متاثرہوتا ہے۔ انہوں نے شخصی طور پرانگریزی تہذ یب اور معاشرت کو اختیار کیا اور بڑی گرم جوشی اور قوت کے ساتھ اس کی دعوت دی۔ ان کا خیال تھا کہ اس ہم ر نگی ،حاکم قوم کی معاشرت و تمدن اختیار کرنے اور ان کے ساتھ بے تکلف رہنے سے وہ مرعوبیت اور اوراحساس کہتری وغلامی دور ہو جائے گا جس میں مسلمان مبتلا ہیں،حکام کی نظر میں ان کی قدر ومنزلت بڑھ جائے گی اور وہ ایک معزز درجہ کی قوم کے افراد معلوم ہونے لگیں گے ۔ انہوں نے ۱۸۶۹ء میں لندن کا سفر اختیار کیا اور ۱۲؍اکتوبر ۱۸۷۰ء کو مغربی تہذیب کے گرویدہ اور ہندوستان کی مسلم سوسائٹی میں مغربی اقدار واصول کی بنیاد پر اصلاح وتغیر کے پر جوش داعی اور مبلغ بن کر اپنے سفرِانگلستان سے ہندوستان لوٹے ۔ان کا نقطہ نظر خالص مادی ہو گیا۔ وہ مادی طاقتوں اور کائناتی قوتوں کے سامنے بالکل سرنگوں نظر آنے لگے ۔وہ اپنے عقیدہ اور قرآن مجید کی تفسیر بھی اسی بنیاد پر کرنے لگے اور اس میں اس قدر غلو کیا کہ عربی زبان و لغت کے مسلمہ اصول و قواعد اور اجماع و تواتر کے خلاف کہنے میں بھی انہیں کچھ باک نہ رہا۔۱
قاضی جاوید نے لکھا ہے کہ سر سید اور ان کے رفقائے کار اور ہم خیال نو آبادیاتی نظام کے بد ترین اثرات کی تجسیم تھے۔اس نظام کے جبر نے انہیں نیم انسانوں کی سطح پر لا کھڑا کیا تھا بلکہ شاید وہ اس سے بھی بہت پست سطح پر گر گئے تھے۔ اپنے انسان ہونے کی صداقت کی نفی کر کے انہوں نے اپنی پناہ گاہ ڈھوندی تھی۔ سر سید نے اپنی نئی صداقت کے واضح اظہار میں کبھی تامل نہیں کیا ۔چنانچہ انہوں نے کہا کہ انگریزں پر یہ الزام لگانا غلط ہے کہ وہ ہندوستان کے مقامی باشندوں کو جانور سمجھتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ ہم در حقیقت جانور ہیں۔ ’’میں بلا مبالغہ نہایت سچے دل سے کہتا ہوں کہ تمام ہندوستانیوں کواعلیٰ سے لے کر ادنیٰ تک،امیرسے لے کر غریب تک ،سوداگر سے لے کر اہلِ حرفہ تک ،عالم فاضل سے لے کرجاہل تک ،انگریزوں کی تعلیم وتربیت اور شائستگی کے مقابلہ میں در حقیقت ایسی ہی نسبت ہے جیسے نہایت لائق اور خوبصورت آدمی کے سامنے نہایت میلے کچیلے وحشی جانور کو۔‘‘ سرسید کا خیال تھا کہ اگر ہندوستان کے باشندے اس بات کے خواہشمند ہیں کہ انگریز حکمران ان سے مہذب انداز میں پیش آئیں تو اس کے لیے انہیں اپنے آپ کواپنے آقاؤں کے قالب میں ڈھالنا ہو گا۔۲
نیاعلمِ کلام
سر سید احمد خاں اپنے مذکورہ مغرب پرستانہ رجحانات کے تناظرمیں برصغیرمیں تجددومغربیت کے ایک بہت بڑے داعی کی حیثیت سے سامنے آئے ۔اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ پاک وہند کی مسلم تجددپسندی کے تمام تر سوتے سرسید کی فکر سے پھوٹتے ہیں اور ان کے بعد جن لوگوں نے بھی تجدد پسندانہ افکار ونظریات پیش کیے، وہ محض ان کے خیالات کا چربہ تھے۔ سرسید نے اسلام اور مسلمانوں کو مغرب کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے جہاں دیگر کاوشیں کیں، وہاں قرآنی عقائد واحکام کی نئی تعبیر وتشریح کابھی بیڑا اٹھایااور اس سلسلہ میں ایک نئے علم کلام کی بنیاد ڈالی ۔سر سید کا نیا علم کلام اور اس کی بنیاد پر سامنے آنے والی تفسیری نگارشات ان کی فکر پر استشراقیت اور مغربیت کے گہرے اثرات کی واضح عکاس ہیں۔ سطور ذیل میں سر سید کی ’’تفسیرالقرآن‘‘کی روشنی میں اسی حقیقت کوسامنے لانے کی سعی کی جارہی ہے۔
سر سید نے اپنے علم کلام میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام کے تمام احکام عقل کے عین مطابق ہیں اور قرآن حکیم میں کوئی بات ایسی نہیں جو جدید تمد ن و ترقی کے منافی ہو۔۳ ان کے علم کلام کا کامل اظہاران کی ’’تفسیرالقرآن‘‘ میں ہوا ہے ۔انہوں نے اپنے مخصوص تجددپسندانہ نقطۂ نظر کے مطابق تفسیرقرآن کی خاطرکچھ تفسیری اصول وضع کیے ہیں۔ ان تفسیری اصولوں کے مطابق اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے،حاضرو ناظر ہے،خالق کائنات ہے ،اس نے وقتاًفوقتاً بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے انبیا مبعوث کیے جن میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہیں۔ قرآن وحی مستند اور کلام الٰہی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پربذریعہ وحی نازل کیا گیا ۔رہ گیا یہ سوال کہ یہ حضرت جبریل کے توسط سے بھیجا گیا یا اس کے الفاظ حضور کے دل پر القا ہوئے، کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔قرآن میں کوئی بات نادرست اور خلافِ واقعہ مندرج نہیں۔اللہ کے جن اوصاف کاقرآن میں ذکر ہے، وہ صرف اپنے جوہر کی صورت میں موجود ہیں اور اس کی ذات سے ہم آہنگ اور ابدی ہیں۔ان صفات کی کوئی حد ہے اورنہ انتہا،لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی دانائی اور اختیارِ کلی سے قوانینِ قدرت تخلیق کیے اور انہیں تخلیق اور وجود کے نظم و ضبط کے لیے قائم رکھتا ہے۔لہٰذا قرآنِ پاک میں کوئی شے بھی قوانینِ فطرت کے خلاف نہیں ہو سکتی ۔ قرآن مجیدکاموجودہ متن حتمی اور مختتم ہے جس میں کوئی چیز اضافی ہے اورنہ الحاقی۔ہر سورہ کی آیتیں اپنے موجودہ تسلسل میں تاریخی ترتیب سے پائی جاتی ہیں ۔قدیم تصورِ نسخ جو متن اور تفسیر میں مسلمہ حقیقت کا درجہ رکھتا ہے، اسے مطالعۂ قرآن کے سلسلہ میں رد کرنا ضروری ہے ،وحی نے بتدریج ترقی کی ہے ،قرآنی مسائلِ معاد متعلق بہ ملائکہ، عفریتیات اور کونیات سائنسی حقیقت کے متضاد نہیں ہو سکتے اور اسی اصول کی روشنی میں ان کی تشریح ہونی چاہیے ۔ قرآنِ حکیم کے بلاواسطہ یا بالواسطہ بیانات، جو انسانی تمدن کی ترقی کے امکانات اور اضافوں کا باعث ہو سکتے ہیں،کے مطالعہ کے لیے لسانی تحقیق ضروری ہے۔۴
سرسید کا اہم ترین تفسیری اصول یہ ہے کہ ورک آف گاڈیعنی قوانینِ فطرت اور ورڈ آف گاڈ یعنی قرآنی آیات واحکام میں کبھی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ چونکہ یہ دونوں اللہ کے بنائے ہوئے ہیں،اس لیے ان دونوں میں ہم آہنگی ضروری ہے۔ بنا بریں قرآنی آیات کی تشریح وتعبیر کے ضمن میں اس اصول کو پیش نظر رکھا جائے گا کہ ورک آف گاڈاور ورڈ آف گاڈمیں توافق و تطابق پایا جائے ۔ بصورت دیگر قرآنی آیات واحکام میں تناقض لازم آئے گا۔۵اس تفسیری اصول کو مدِّ نظررکھتے ہوئے سر سید نے قرآنی آیات و تعلیمات کو عقل اور جدید سائنسی نظریات ومعلومات سے ہم آہنگ کرنے اورجدید ذہن کے لیے قابلِ قبول بنانے کی کوشش میں عقائدو احکام کے سلسلہ میں متجددانہ خیالات وآراکا اظہارکیا ہے ۔سید محمد عبداللہ کے بقول ’’تفسیر القرآن‘‘میں روایات سے بغاوت اپنی انتہاکوپہنچ جاتی ہے۔ اس میں اصول، طریقِ کار اور نصب العین سب کچھ پرانی تفسیروں سے مختلف معلوم ہوتا ہے ۔ سر سیدکے افکار کا محور یہ ہے کہ اسلام کا کوئی مسئلہ عقل اور اصولِ تمدن کے خلاف نہیں ۔دین میں صرف قرآنِ مجید یقینی ہے، باقی سب کچھ یعنی حدیث ،اجماع اور قیاس وغیرہ اصولِ دین میں شامل نہیں۔‘‘ ۶ مولانا حالی بیان کرتے ہیں کہ سر سید نے قطعی فیصلہ کرلیا کہ اسلام کے متعارف مجموعہ میں سے وہ حصہ جس کو تمام مسلمان ملہم من عند اللہ سمجھتے ہیں اور جس کی نسبت یقین رکھتے ہیں کہ وہ جس طرح خدا کی طرف سے نبی آخرالزمان کے دل میں القا ہواہے ،اسی طرح بے کم وکاست نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہاتھوں ہاتھ ہم تک پہنچا ہے، صرف وہی حصہ اس بات کااستحقاق رکھتاہے کہ اس میں جو بات مسائلِ فلسفہ وحکمت کے خلاف ہو، اس میں اورمسائلِ حکمت میں تطبیق کی جائے یا مسائلِ حکمیہ کی غلطی ثابت کی جائے۔پس انہوں نے جیسا کہ حضرت عمرؓسے منقول ہے کہ ’’حسبنا کتاب اللّہ‘‘ اپنے جدید علم کلام کا موضوع اور اسلام کا حقیقی مصداق محض قرآن مجید کو قرار دیا اور اس کے سوا تمام مجموعہ احادیث کو اس دلیل سے کہ ان میں کوئی حدیث مثل قرآن کے قطعی الثبوت نہیں اور تمام علماء و مفسرین کے اقوال و آرا اورتمام فقہا و مجتہدین کے قیاسات و اجتہادات کو اس بنا پر کہ ان کے جوابدہ خودعلما ومفسرین اورفقہا ومجتہدین ہیں ،نہ اسلام ،اپنی بحث سے خارج کر دیا۔۷
حدیث کی اہمیت کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ سر سید نے یہ تصور بھی شد ومد سے پیش کیا کہ قرآن حکیم کی زبان اور اندازِ بیان تمثیلی اور علاماتی ہے ۔ اس طرح گویا قرآنی تعلیمات کی من مانی توجیہات کا جواز تلاش کر لیا گیا۔۸ ورک آف گاڈ اور ورڈ آف گاڈ کی موافقت سے متعلق سر سیدکے خیالات میں پراٹ (John H Prat) کی اس کتاب سے گہرا تاثر پایا جاتا ہے جس میں اس نے اپنے نتائجِ فکر بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ :’’کوئی نئی ایجاد خواہ کتنی ہی حیرت انگیز ہو، ہماری مقدس کتابوں کے کل مضامین کے الہامی ہو نے کے عقیدے میں خلل انداز نہیں ہوتی اورنہ سائنس کے ولولہ ہی کو کم کرتی ہے ۔ ‘‘۹ پراٹ نے اس سوال کے جواب کے لیے ایک پورا پیراگراف مخصوص کیا ہے کہ صحائف کے ان اقتباسات کو جن میں جنت کو ایک’’ شفاف مواد کا بڑا گنبد‘‘کہا گیا ہے ،سائنس اور معروضی بنیاد پر قائم حقائق سے کیسے ہم آہنگ کیا جائے۔اس کا حل یہ ہے کہ اصل عبرانی لفظ کو دیکھنا چاہیے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہفتاوی ترجمہ میں (Slereoma) اور انجیل کے لاطینی ترجمہ میں (Firmamentum)کا عبرانی میں مفہوم وسیع وقفہ یا کشادگی ہے۔ پراٹ نے اس مفہوم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقدس روحانی مصنف نے اشیا کی ماہیت اور حقیقی ہےئت کے اظہار کے لیے مناسب ترین الفاظ کا استعمال کیا ۔صحائف تو شروع ہی سے صحیح تھے، تمام تر خلطِ مبحث صرف انسانی لا علمی اور ناقص تصورات کے سبب پھیلا۔تعقل اور مشاہدہ کا صحائف سے اختلاف دراصل صحائف کی غلط تعبیروں سے اختلاف ہے ۔۱۰
سرسیدنے ’’تبیین الکلام‘‘ میں پراٹ کی کتاب کا کئی جگہ حوالہ دیاہے۔پراٹ سے مشابہت ’’تفسیرالسموات‘‘ میں اور نمایاں ہو جاتی ہے جہاں وہ اس سوال سے متعلق اپنا جواب تفصیل سے دیتے ہیں کہ قرآن کی شہادتوں اور کوپر نیکی نظریات میں مطابقت کیسے پیدا کی جائے۔ ۱۱ ’’تفسیرالقرآن‘‘ میں اس سلسلہ میں سر سید نے مختلف الفاظِ قرآنی کو استعاراتی معنی پہناتے ہوئے مفسرین سے سخت اختلاف اور اپنے اختیار کردہ معنی کی درستگی پر اصرار کیا ہے ۔سورہ البقرہ کی آیت ۲۹ کی تفسیر میں سبع سموٰت کے تحت اس بات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہ سبع سماوات کا جو مفہوم اکثر مفسرین کے ہاں بیان کیا گیا ہے، وہ یونانی علم نجوم سے مستعار لیا گیا ہے اور قرآن کو اس سے کچھ علاقہ نہیں۔ لکھتے ہیں کہ ’’اس مقام پر سما کے لفظ سے وہ وسعت مراد ہے جو ہر شخص اپنے سر کے اوپر دیکھتا ہے ۔پس آیت کے یہ معنی ہیں کہ خدااس وسعت کی طرف متوجہ ہوا جو ہر شخص اپنے سر کے پر بلند دکھائی دیتی ہے اور ٹھیک اس کو سات بلندیاں کر دیا۔ سات سیارہ کواکب کو ہر کوئی جانتا تھا ۔عرب کے بدو بھی ان سے بخوبی واقف تھے ۔وہ ستارے اوپر تلے دکھائی دیتے ہیں۔ یعنی ایک سب سے نیچا دوسرا اس سے اونچا تیسرا سب سے اونچا اور علی ہذالقیاس ۔اور ان کواکب کے سبب جو بطور روشن نشانیوں کے اس وسعت مرتفع میں دکھائی دیتے ہیں، اس وسعت کے ساتھ جدا جدا حصے یا درجے یاطبقے ہو جاتے ہیں۔ پس اسی کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کو ٹھیک سات آسمان کر دیے۔‘‘۱۲
سورۃ الاعراف کی آیت ۵۴ کے الفاظ ثم استوی علی العرش تشریح میں فخر الدین رازی کی تفسیرپرتنقید کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ رازی جیسے مفسرین بعض جگہ عرش کا لغوی اور بعض جگہ استعاراتی مفہوم کیوں مراد لیتے ہیں۔ رازی کے اس اعتراض کاکہ بغیر کسی دلیل کے قرآن کی استعاراتی تعبیر کیوں مراد لی جاتی ہے ،جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ظاہری معنی صرف اس وقت ترک کیے جاتے ہیں جب مفسر کے پاس اس کا واضح ثبوت ہوتا ہے کہ ایک مخصوص سیاق و سباق میں متن کا یہ منشا نہیں ،لیکن معاملہ کو یہیں چھوڑ دینا اور زیر بحث لفظ کی تخصیص یا اس کے معنی کی تاویل نہ کرنا ،قرآن کو بے معنی کرناہے ۔آخرقرآن نازل ہی کیوں گیا تھا ۔یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن بلاشبہ کلام خداوندی ہے، لیکن یہ انسانی زبان میں ملفوف ہے ،اس لیے الفاظ قرآنی کے معنی اسی طرح متعین کرنے چاہییں جیسا کہ ہم یکساں مواقع پر انسانوں کے الفاظ کے معنی ومفہوم متعین کرتے ہیں۔ اس طریقہ کو تاویل کہنا غلط ہے ۔یہ تاویل نہیں بلکہ خدا نے ان الفاظ کو اسی مفہوم میں استعمال کیا ہے ۔۱۳
ڈاکٹر سی ڈبلیو ٹرول نے لکھا ہے کہ سر سید کا الہامی لفظ اور سائنس کے درمیان تعلق کا نظریہ ابن رشد کے معقول و منقول کے درمیان توافق کے مسئلے کے حل سے مماثلت رکھتا ہے ۔اس معاملے میں وہ ابن رشد کے موقف کو ’’انتہائی متوازن اور عقلی‘‘ کہتے ہیں۔اگر صحائف کے ظاہری معنی مبرہن نتائج سے متصادم ہوں تو ان کی استعاراتی تشریح لازمی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ صحائف کے خالق نے یہی تمثیلی واستعاراتی معنی مراد لیے تھے ۔وہ ابن رشد سے اس اعتبار سے البتہ مختلف ہیں کہ وہ جدید علوم طبعی کے نتائج کو ،ان تجرباتی اور استقرائی طریقوں کے باوجود جن پر علوم کی بنیاد ہے، پوری برہانی اہمیت دیتے ہیں اور اپنی اس علمیاتی رجائیت میں فرانسس بیکن اورجان سٹوارٹ مل کے عقائد کا اس سیاق وسباق میں ،بغیر واضح طور پر ان کا نام لیے یا حوالہ دیے تتبع کرتے ہیں۔۱۴
معجزات
معجزات تمام مذاہب اور کتبِ سماوی کاایک اہم عنصر اور ناقابلِ استرداد حصہ رہے ہیں ۔۱۵از روئے قرآن و حدیث معجزات کا حق ہونا اتنا بدیہی ہے کہ تمام آئمہ محققین نے اس پر اتفاق کیا ہے ۔ ۱۶ فلاسفہ اور سائنسدانوں کی ایک کثیر تعداد نے بھی معجزات کے امکان ووقوع تسلیم کیا ہے۔۱۷ لیکن یورپ میں علمی نشأۃثانیہ کے ساتھ عقلیت پرستی کی جو تحریک اٹھی،اس کے نتیجے میں یورپ میں یہ تصور جڑ پکڑ گیا کہ معلوم و معروف قوانینِ فطرت سے ہٹ کر کسی واقعہ کے وقوع پذیرہونے پر ایمان رکھنا عقل و علم سے بیر اور جہالت و وہم پرستی کے سوا کچھ نہیں۔۱۸مغربی اہل فکرِ سے متاثر ہو کر سرسید نے بھی قوانینِ قدرت کا ایسا تصور قائم کر لیا جس میں معجزات کی کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی۔چنانچہ انہوں نے معجزات کا مطلقاً انکار کر ڈالا ۔ان کا خیال ہے کہ پیغمبر چونکہ فطرت کے قوانینِ الٰہیہ کا نفاذ کرتے ہیں اور معجزات کا تصور ان قوانین کا غلط اور غیر قانونی طریقہ پر ابطال کرتا ہے ،اس لیے کتبِ سماوی میں معجزات کا جو ذکر ہے اسے استعاراتی، اشاریاتی یا افسانوی سمجھنا چاہیے۔ انکارِ معجزات کے حوالے سے انتہاپسندانہ موقف اختیار کرنے میں مافوق الفطرت اور معجزاتی عناصر پر ولیم میور کی تنقید نے سر سید پرخاصے اثرات مرتب کیے۔’’خطباتِ احمدیہ‘‘سرسید کی ان کوششوں کا بین ثبوت ہے جو انہوں نے سیرتِ طیبہ کو ان معجزات سے الگ کرنے کے لیے کیں۔بارہویں خطبہ میں وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے متعلق ما فوق الفطرت واقعات کو شاعرانہ تخلیق کہتے ہیں،جو اسلام کی حیرت انگیز کا میابی کے بعد اختراع کیے گئے۔۱۹ سر سیدنے سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت کی تفسیرکے سلسلہ میں معراجِ جسمانی سے متعلق احادیث وروایات کو ناقابلِ اعتباراور ان کے بیان کو خلافِ قانونِ فطرت اور ممتنعاتِ عقلی میں سے شمار کرتے ہوئے بالکل ڈیوڈ ہیوم کے اندازمیں ۲۰ معجزات کا انکارکیا ہے ۔لکھتے ہیں’’واقعات خلاف قانونِ فطرت کے وقوع کا ثبوت اگر گواہانِ روایت بھی گواہی دیں تو محالات سے ہے اس لیے کہ اس وقت دو دلیلیں جو ایک ہی حیثیت پر مبنی ہوں، سامنے ہوتی ہیں۔ایک قانون فطرت جو ہزاروں لاکھوں تجربوں سے جیلاًبعد جیلِِ وزماناًبعدزمانِِ ثابت ہے اورایک گواہانِ روایت جن کاعادل ہونابھی تجربہ سے ثابت ہوا ہے۔ پس اس کا تصفیہ کرنا ہوتا ہے کہ دونوں تجربوں میں سے کون سا تجربہ قابلِ ترجیح ہے ۔قانونِ فطرت کو غلط سمجھنا یا راوی کی سمجھ اور بیان میں سہو و غلطی کا ہونا۔کوئی ذی عقل تو قانونِ فطرت پر راوی کے بیا ن کو ترجیح نہیں دے سکتا ۔قولِ پیغمبر بلا حجت قابلِ تسلیم ہے مگر کلام تو اسی میں ہے کہ قولِ پیغمبر ہے یا نہیں۔‘‘اس استدلال کے بعد سر سید معراجِ رسول کو خواب میں پیش آنے والا ’’رویا‘‘قرار دیتے ہیں۔۲۱ اسی سے متصل شق صدر کے معجزہ پر بحث کرتے ہوئے اسے بھی شبِ معراج کے خواب کا حصہ قرار دیا ہے ۔۲۲
سورہ البقرہ کی آیت۵۰کے ضمن میں حضرت موسیٰ کے عصا کے ذریعے دریا کے معجزاتی طور پر پھٹ جانے کو باطل قرار دیتے ہوئے کہا ہے ’’اس وقت بسبب جوار بھاٹے کے جوسمندر میں آتا رہتا ہے کہیں خشک زمین نکل آتی تھی اورکہیں پایاب رہ جاتی تھی۔بنی اسرائیل پایاب وخشک راستہ سے راتوں رات بامن اتر گئے۔یہی مطلب صاف اس آیت سے پایا جاتاہے جو سورہ دخان میں ہے کہ ’’وَاتْرُک الْبَحْرَ رَھْوَا‘‘ جس کا ٹھیک ٹھیک مطلب یہ ہے کہ چھوڑ چل سمندر کوایسی حالت میں کہ اترا ہوا ہو ۔صبح ہوتے فرعون نے جو دیکھا کہ بنی اسرائیل پار اتر گئے، اس نے بھی ان کا تعاقب کیا اور لڑائی کی گاڑیاں اور سوار وپیادے غلط راستے پرسب دریا میں ڈال دیے اور وہ وقت پانی کے بڑھنے کا تھا ۔ لمحہ لمحہ میں پانی بڑھ گیاجیسا کے اپنی عادت کے موافق بڑھتا ہے اور ڈوباؤہو گیا جس میں فرعون اور اس کا لشکر ڈوب گیا۔‘‘۲۳ سورہ آل عمران کی آیت ۳۷کے سلسلہ میں قَالَتْ ھُوَ مِنْ عِنْدِاللّٰہ کی تشریح کے ضمن میں حضرت مریم کے پاس پھلوں کی معجزانہ آمد کی بجائے ابو علی جبائی معتزلی کے اس قول کو قابلِ اعتبار سمجھتے ہیں جس کے مطابق اللہ تعالیٰ ان ایمان والوں کے ذریعے ،جو زاہد و عابد عور توں کی خبر گیری کرتے تھے ،حضرت مریم ؑ کو رزق پہنچاتا تھا۔۲۴
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر کے تسلسل میں ان کی بن باپ معجزانہ پیدائش کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت اسحاق اور ان کی بیوی اور حضرت زکریا اور ان کی بیوی دونوں کی حالت اولاد ہونے سے مایوسی کی تھی، مگر دونوں سے اولاد کا بغیر باپ کے پیدا ہونا تسلیم نہیں کیا گیا ۔حضرت مریم ؑ کی تو حالت بھی اولاد ہونے سے مایوسی کی نہ تھی، لہٰذاصرف ان کے تعجب سے جو محض اس وقت کی کیفیت پر تھا جب کہ بشارت ہوئی تھی، نہ کہ آئندہ کی ہونے والی حالت پر،کیونکر حضرت عیسیٰ کے بغیر باپ کے پیدا ہونے پر استدلال ہو سکتا ہے ۔کیا عجب ہے کہ اس خواب کے بعد ہی حضرت مریم اور ان کے مربیوں کو حضرت مریم کی شادی کا خیال پیدا ہوا ہو جو آخر کاریوسف کے ساتھ عقدہونے سے پورا ہوا ۔۲۵ رفع عیسیٰ سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب اس واقعہ پر مورخانہ طور سے نظر ڈالی جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ صلیب پر نہ مرے تھے بلکہ ان پر ایسی حالت طاری ہو گئی تھی کہ لوگوں نے ان کو مردہ سمجھا تھا۔ تاریخ میں صلیب پر سے لوگوں کے زندہ اترنے کی مثالیں موجود ہیں ۔حضرت عیسیٰ تین چار گھنٹے کے بعد صلیب سے اتار لیے گئے تھے اور ہر طرح پر یقین ہو سکتا ہے کہ وہ زندہ تھے ۔رات کو لحد سے نکال لیے گئے اور مخفی طور پر اپنے مریدوں کی حفاظت میں رہے ۔حواریوں نے ان کو دیکھا اور ملے اورپھر کسی وقت اپنی موت سے مر گئے ،اور یہودیوں کی عداوت کے خوف سے انہیں کسی نامعلوم مقام میں دفن کر دیا گیا۔حضرت علیؓکا جنازہ بھی خوارج کے خوف سے اسی طرح مخفی طور پر دفن کیا گیا تھا،حالانکہ خوارج کا خوف یہودیوں کی نسبت بہت کم تھا ،اور اسی طرح بعض شیعہ نے حضرت علیؓ کے متعلق کہہ دیا تھا کہ وہ آسمان پر چلے گئے۔ ۲۶
معجزات کی نفی کرتے ہوئے قدرے فیصلہ کن انداز میں سر سید نے تحریر کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معجزہ نہ ہونے کا ذکر قر آن میں موجود ہے ۔ حضرت محمد، جو افضل الانبیاء ہیں،کے پاس معجزہ نہ ہونے کے بیان سے ضمناً یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کہ انبیائے سابقین علیہم السلام کے پاس بھی کوئی معجزہ نہیں تھا، اور جن واقعات کو لوگ معروف معنوں میں معجزات سمجھتے تھے، وہ در حقیقت معجزات نہ تھے بلکہ قانونِ قدرت کے مطابق وقوع پذیر ہونے والے واقعات تھے ۔عام معروف معنوں میں انبیاء میں معجزات اور اولیاء اللہ میں کرامات کا یقین (گو یہ اعتقاد رکھا جائے کہ خدا نے ہی یہ قدرت ان کو عطا کی تھی )،توحید فی الصفات کو نامکمل کر دیتا ہے۔ اسلام اور بانئ اسلام کی کوئی عزت،کوئی تقدس،کوئی بزرگی اور کوئی صداقت اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی کہ انہوں نے صاف صاف لوگوں کو بتا دیا کہ معجزے وعجزے تو خدا کے پاس ہیں، میں تو تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں اور تمہیں خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی وحی کی تلقین کرتا ہوں۔۲۷
وحی ونبوت
اسلام کے نقطۂ نظر سے وحی نبی کی داخلی کیفیت یا فطری ملکہ نہیں بلکہ خارج سے بذریعہ فرشتہ نازل ہوتی ہے ۔ اس کی تصدیق نہ صرف صحفِ سماوی سے ہوتی بلکہ عقلاً بھی اس میں کوئی استبعاد نہیں۔مستشرقینِ یورپ خود دیگر انبیا پر نزولِ وحی کے قائل ہیں، لیکن وحی محمدیؐ سے انکار کی خاطر امغربی اہلِ قلم نے بر بنائے تعصب شدید ہرزہ سرائیاں شرو ع کر دیں۔ مثلاً انہوں نے نہایت دریدہ دہنی سے کام لیتے ہوئے آپ کو مصروع قراردے دیا۔ ۲۸وحی و نبوت کے حوالے سے استشراقی خیالات نے سرسید پر گہرا اثر ڈالا۔تفسیر القرآن میں وحی ونبوت سے متعلق سرسید کے خیالات پڑھ کر آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ کیا یہی وہ سر سید ہیں جنہوں نے ولیم میور کے زلاتِ علمی کے جوابات لکھنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینے اورکنگال ہو کر مر جانے کو سعادتِ دارین سمجھا تھا ؟ میور وغیرہ مستشرقین نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پرصرع اورمرگی کا جو الزام عائد کیاتھا، سر سید نے ’خطباتِ احمدیہ ‘ میں بلا شبہ اس کی زبردست تردید کی ہے لیکن ’تفسیرالقران ‘میں وہ وحی ونبوت کی ایسی توجیہ پیش کرتے ہیں کہ اپنے خیالات کو بالبداہت استشرا قی الزامات سے جا ملاتے ہیں۔ سرسید لکھتے ہیں کہ نبوت ایک فطری چیز ہے جوانسان میں اس کی دوسری صفات کی طرح خلقی طور پر موجودہوتی ہے ۔یہ فطری صفت مختلف ناموں سے پکاری جاتی ہے، مثلاًہدایتِ کامل کی فطرت،ملکۂ نبوت،ناموسِ اکبر اور جبریلِ اعظم وغیرہ۔خدا اور پیغمبر میں بجز اس ملکۂ نبوت کے جسے جبریل بھی کہا جا سکتا ہے اور کوئی ایلچی یا پیغام پہنچانے والا نہیں ہوتا ۔ نبی کا دل ہی وہ آئینہ ہے جس میں تجلیاتِ ربانی کا جلوہ دکھائی دیتا ہے ۔وہ خود ہی وہ مجسم چیز ہے جس میں سے کلامِ خدا کی آوازیں نکلتی ہیں۔وہ خود ہی وہ کان ہوتا ہے جو خدا کے بے حرف وصوت کلام کو سنتا ہے ۔اسی کے دل سے فوارہ کی مانند وحی اٹھتی ہے اور خوداسی پر نازل ہوتی ہے ۔اسی کا عکس اس کے دل پر پڑتاہے، جس کووہ خودہی الہام کہتا ہے۔اس کو کوئی نہیں بلواتا،وہ خود ہی بولتا ہے اور خود ہی کہتا ہے وَمَا ینْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ الاّ وَحْیٌ یوُحٰی۔وہ خود ہی اپنا کلام اپنے ظاہری کانوں سے یوں سنتا ہے ،گویا کوئی دوسرا شخص اس سے کلام کر رہا ہے اووراپنے آپ کو ان ظاہری آنکھوں سے یوں دیکھتا ہے ،گویاکوئی دوسرا شخص اس کے سامنے کھڑا ہے ۔ یوں سمجھیے جیسے مجنون بغیر کسی بولنے والے کے اپنے کانوں سے آوازیں سنتے اور تنہا ہوتے بھی اپنے سامنے کسی کو کھڑا ہوا اور باتیں کرتاہوا دیکھتے ہیں۔ لہٰذا ایسے شخص کوجوفطرت کی رو سے تمام چیزوں سے بے تعلق روحانیت میں مستغرق ہو ،ایسی واردات کا پیش آنا ہر گز خلافِ فطرتِ انسانی نہیں ۔دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلا مجنون ہے اور دوسرا پیغمبر۔کافر دوسرے کو بھی مجنون کہتے تھے۔چنانچہ وحی وہ چیز ہے جس کو قلبِ نبوت پراُسی فطرتِ نبوت کے سبب مبدأفیاض نے نقش کیا ہے۔یہی نقشِ قلبی کبھی بولنے والے کی مانند ظاہری کانوں سے سنائی دیتا ہے اور کبھی دوسرے بولنے والے کی شکل میں نظر آتا ہے، مگر بجز اپنے آپ کے نہ وہاں کوئی آواز ہے اور نہ بولنے والا ۔جس طرح تمام ملکاتِ انسانی کسی محرک کے پیشِ آنے پر اپنا کام کرتے ہیں،اسی طرح ملکۂ نبوت بھی کسی مخصوص امر کے پیشِ نظر فعال ہو جاتا ہے۔۲۹
غور کیجیے وحی ونبوت سے متعلق اپنے مذکورہ خیالات میں سر سید مستشرقین کے ان بیانات کے کس قدر قریب چلے گئے ہیں جن کے مطابق وہ وحی والہام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی داخلی کیفیت سے تعبیرکرتے ہیں ،جسے آپ (نعوذ بااللہ)غلط طور پر وحی سمجھ بیٹھے تھے، حالانکہ وہ جنون و مرگی کے دوران حضورؐپروارد ہونے والے خیالات ہوتے تھے، یا جن کے مطابق وحی آپؐ کے زمانے میں مکہ کے حالات اور آپ کی غیر معمولی فطری صلاحیتوں اور سوچ وبچارکے ذریعے اپنے معاشرے کو برائی سے بچانے کے لیے آپ کے نہاں خانۂ دل میں جاری کشمکش کا فطری اظہار تھی ۔
وحی کو نبی کی داخلی کیفیت اور فطری ملکہ سے تعبیر کرنے کی بنا پر سر سید نے ختمِ نبوت سے متعلق ایسے خیالات کا اظہارکیا جس سے نئی نبوت کے دعویداروں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ختمِ نبوت سے متعلق سر سید کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے ڈاکٹر ٹرول لکھتے ہیں کہ سر سید کے نزدیک ختمِ نبوت کا اصول افراد میں ملکۂ پیغمبری یا اس صفت کے سبب انسانوں کو الوہی نعمتوں کے حصول کے اختتام کا مفہوم نہیں رکھتا ۔خدا ا پنی مخلوق سے کبھی بے نیاز نہیں رہتا، اس لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی لوگ اس خلقی تحفہ کے ساتھ پیدا ہوں گے۔ اس کے باوجود کوئی شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ تعلیم کی ہمہ گیر تکمیل اور صداقت میں کوئی اضافہ کرنے کے قابل نہیں ہو گا ۔یہی کامل توحید کا پیغام ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اپنے خیالات میں ایک طرف تو سر سید ما فوق الفطرت واقعہ کے اصول سے احتراز کرنا چاہتے ہیں،یعنی یہ کہ خدا نے اس کام کے لیے حضور کا انتخاب نہیں کیا تھا اور اسی لیے انہوں نے ملکۂ نبوت کا نظریہ پیش کیا، مگردوسری طرف وہ اپنے پہلے نظریہ کے تسلسل میں توحید کے پہلے معلم کی حیثیت سے حضرت محمد کی منفرد حیثیت کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں۔ان کے نزدیک آپؐ کے پیغام میں ایک عالمگیر کشش ہے جو سب کے لیے قابلِ فہم ہے ۔اس لحاظ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے آخری پیغمبر ہیں پھر بھی جیسے جیسے فطرت کا نظام کھلتا جاتا ہے ،بعد کے یکے بعد دیگرے آنے والوں میںیہ ملکہ فعال ہوتا رہتا ہے۔ایسی پارسا ہستیوں کی توقع کی جا سکتی ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نئی صورتِ حال میں توحید کا سبق سکھانے کی اہلیت اور قدرت رکھتی ہوں ۔۳۰
سرسید کے مذکورہ صدر خیالات واضح طور پر نئی نبوت کے لیے گنجائش پیدا کر رہے ہیں ۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مرزاقادیانی کو اپنی نئی نبوت کے لیے سر سید کے خیالات سے بھی شہ ملی۔سرسیدکی پیروی میں۳۱مرزاقادیانی نے بھی وحی کو ایک فطری ملکہ قرار دے کر اپنے اس مفروضے کی تائید کے لیے دلائل فراہم کرنے کی کوشش کی کہ نبی کی متابعت سے آدمی کا فطری ملکہ فعال ہو سکتا ہے اور وہ نبی ہی کی طرح وحی پا سکتا اورخدا کے مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہو سکتا ہے۔۳۲
مسائلِ معاد
قرآن مجید کی رو سے بعث بعد الموت اور جنت ودوزخ وغیرہ معاد سے تعلق رکھنے والے ایسے مسائل ہیں جن کو ماننا ایمان کی لازمی شرط ہے۔ نیز قرآن مجید سے مترشح ہوتاہے کہ کہ بعث بعد الموت اور جزاو سزائے اخروی کا معاملہ جسم و روح دونوں سے متعلق ہے۔معاد کے بارے میں حسی تصورات عیسائیت وغیرہ مذاہب میں بھی موجود رہے ہیں، لیکن یورپ میں سائنسی نشأۃ ثانیہ کے دور میں جہاں دیگر مذہبی عقائد شکست و ریخت کا شکار ہوئے، وہاں معاد سے متعلق نقطہ نظر بھی بدل گیا اور اخروی جزا وسزا کے جسمانی کی بجائے روحانی ہونے اور جنت و دوزخ کو مقامات کی بجائے کیفیات سے تعبیر کرنے کا رجحان پیدا ہو گیا ۔انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کامقالہ نگار لکھتا ہے:
the most recent interpretations view Heaven symbolically as a state of life with Christ, rather than a place
ستم ظریفی یہ ہے کہ مغربی اہلِ فکر نے ایک طرف تو جسمانی جزا سزا کے مسیحی تصورات کو نئی تعبیردے کر روحانی بنانے کی کوششیں کیں اور دوسری طرف اسلام کو بدو عربوں کو متاثر کرنے کے لیے جزا سزا کے تصورات پر مسیحیت وغیرہ مذاہب کی تقلید میں حسیت کی چھاپ لگانے گا ملزم باور کرانے کی سعی کی۔ رچرڈ بیل کا اصرار ہے کہ حشرِ اجساد، جسمانی جزا سزا اور جنت ودوزخ کے واقعی وجود کے اسلامی تصورات بنیادی طور پر یہودیت، عیسائیت اور زردشت وغیرہ مذاہب سے ماخوذ ہیں جنہیں کچھ مقامی رنگ وروغن لگا کر پیغمبر اسلام نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ۔۳۴ ولیم میور کا خیال تھاکہ جنت ودوزخ کے قرآن میں بیان کیے جانے والے مناظرمادی مسرتوں اور حسی راحتوں کی صورت میں بیان کیے گئے ہیں اور اس سے مقصود یہ ہے کہ عربوں کے ذہن کو، جو بنجر اور بے آب و گیاہ زمین کے باسی تھے ،متاثر کیا جا سکے۔ وہ سورہ الرحمن کی آیات۴۳۔۵۸ کا حوالہ دیتے ہوئے قران مجید کے جنت و جہنم سے متعلق بیانات کو بناوٹی قرار دیتا ہے جن کے ذریعے بدو عربوں کے لیے متاثر کن خیالات گھڑے گئے۔۳۵
مغربی واستشراقی اہلِ فکر سے تاثر کے نتیجہ میں سر سیدنے معاد سے متعلق مسائل کو روحانی ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ سورہ الاعراف کی آیت ۳۸ کی تفسیر میں حشرِ جسمانی کی تغلیط اور جزا وسزا کے روحانی ہونے پر استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ا نسانی روح ،جو حیوانی روح سے بنیادی طور پر مختلف اور لا فانیت کی حامل ہے ،اپنی لا فانیت میں جو خیر وشر جذب کرتی ہے ،اس کے لیے روزِ قیامت جوابدہ ہے ۔ قرآن میں روزِ قیامت پیش آنے والے جن کائناتی حوادث کا ذکر ہے ،وہ اس زمانے کے وحوش وطیورپر گزریں گے ،مگر اس سے پہلے مرنے والے انسانوں کے لیے قیامت ان کی موت ہی سے شروع ہو جاتی ہے ۔ قیامت در حقیقت تمام کائنات میں ایک لازمی بنیادی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔قرآن کی کسی آیت سے ثابت نہیں ہوتا کہ روزِ حشر لوگ موجودہ جسموں میں دوبارہ زندہ ہوں گے۔ قرآن کے زمانۂ نزول کے لوگ چونکہ روح پر یقین نہیں رکھتے تھے ،اس لیے جزا وسزا کی حقیقت سمجھانے کے لیے ان کے تخیل پر اثر انداز ہونے والا طریقہ اختیار کیا گیا جس سے مادی جسم کے از سر نوع اٹھائے جانے کا عقیدہ پیدا ہو گیا حالانکہ واقعۃً مادی اجسام دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے اور جزا وسزا محض روحانی ہو گی ۔ ۳۶سرسید نے جنت ودوزخ اور ان کے نعیم وآلام کو تمثیلی و استعاراتی قرار دینے کے ساتھ ساتھ انہیں حسی سمجھنے والوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن کے جنت ودوزخ کے وعدہ ووعید سے متعلق ایسے بیانات جو حسیت کا رنگ لیے ہوئے نظر آتے ہیں، ان کا مقصد در اصل جنگلی وبدوی اور غیر تربیت یافتہ انسانی دماغوں میں ان کے فہم کے مطابق انتہائی درجہ کے رنج و راحت کا احساس پیدا کرنا ہے ورنہ درحقیقت، جیسا کہ ایک تربیت یافتہ دماغ کوسمجھنے میں کچھ دقت پیش نہیں آتی ، ان بیانات میں ذکر کردہ اشیا سے بعینہ وہ اشیا مقصود نہیں۔کوڑ مغز ملا اور شہوت پرست زاہدجس طرح کی حسن پرستانہ اور شراب وکباب سے مزین جنت کا نقشہ پیش کرتے ہیں، ایسی جنت سے تو ہمارا یہ خرابہ بہتر ہے، چہ جائیکہ قرآن کے بیانات سے ایسی جنت کاذکر مطلوب ہو۔۳۷
ملائکہ،شیطان اورجنات
فرشتوں ،شیطان اور جنات کا تصور مختلف مذاہب میں موجود رہا ہے۔ اسلام نے بھی ان کا ذکر غیرمرئی واقعی وجودات کے طور پر کیا ہے۔ یورپ میں جدید سائنس اور مادی افکار کی اشاعت نے ان غیر مرئی مخلوقات کے انکار کا رجحان پیدا کر دیا۔ انسائیکلوپیڈیا آف ریلجین کے مقالہ نگار کے مطابق جدید روشن خیالوں نے Demons کے وجود کو پرانے لوگوں کے توہمات قرار دے دیا ۔اس سلسلہ میں معروف ماہرِ نفسیات فرائڈ نے خصوصی کردار ادا کیا ۔۳۸غیر مرئی مخلوقات سے متعلق مغربی اہلِ فکر کے خیالات سے متاثر ہو کر سر سید نے ملائکہ،شیطان اورجنات سے متعلق قرآنی بیانات کی معذرت خواہانہ توجیہات پیش کرتے ہوئے ان کے خارجی وجود سے انکار کر ڈالا ۔چنانچہ وہ اپنی تفسیر میں ملائکہ اور شیاطین کو خیر وشر کی قوتیں اور جنات کو جنگلی اور پہاڑی مخلوق قرار دیتے ہیں۔سورہ البقرہ کی آیت ۳۰ کی تفسیرمیں فرشتوں اورشیطان کی بابت لکھا ہے: ’’جن فرشتوں کا قرآن میں ذکر ہے، ان کا کوئی اصلی وجود نہیں ہو سکتا بلکہ خدا کی بے انتہا قدرتوں کے ظہور کو اور ان قوی کو، جو خدا نے اپنی مخلوق میں مختلف قسم کے پیدا کیے ہیں،ملک یا ملائکہ کہاہے جن میں سے ایک شیطان یا ابلیس بھی ہے ۔پہاڑوں کی صلابت ،پانی کی رقت ،درختوں کی قوتِ نمو،برق کی قوتِ جذب ودفع، غرضیکہ تمام قوی جن سے مخلوقات موجود ہوئی ہیں اور جو مخلوقات میں ہیں، وہی ملائک وملائکہ ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ انسان ایک مجموعہ قوائے ملکوتی اور قوئ بہیمی کا ہے ،اور ان دونوں قوتوں کی بے انتہا ذریات ہیں جو ہر ایک قسم کی نیکی اور بدی میں ظاہر ہوتی ہیں اور وہی انسان کے فرشتے اوران کی ذریات اور وہی انسان کے شیطان اور ان کی ذریات ہیں ۔‘‘ ۳۹ بالفاظِ دیگر سر سید کے ہاں قرآن کی اصطلاح میں ، اپنے ثانوی مفہوم میں، فرشتہ خدائی اخلاقی سہارا ہے جو انسان کی حد سے زیادہ ناخوش گوارحالات سے نپٹنے کی کوشش میں مدد کرتا ہے، اور شیطان یعنی مردود فرشتہ کو استعارۃً قرآن پاک میں مخلوقِ آتش سے موسوم کیا گیا ہے ،یہ در اصل انسان کے سیاہ شہوات کی جانب اشارہ ہے ۔۴۰
’’جن‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ جن اوراس مادہ سے بننے والے تمام الفاظ کے معنی مستور عن الاعین چیز کے ہیں۔ مشرکینِ عرب ایسے تمام واقعات کو جن کے اسباب ان کو معلوم نہیں ہوتے تھے اور اکثر بیماریوں کو، جن کے وجوہ سے وہ ناواقف ہوتے تھے ، غیر مرئی موثر کا اثر خیال کرتے تھے ،جیسا کہ اب بھی جہلا بیمار آدمی پر آسیب کا اثر خیال کرتے ہیں۔ مشرکینِ عرب اور یہودیوں میں جنوں کا عجیب وغریب تخیل مجوسیوں سے درآمد کیا گیا، جو ابتدا ہی سے اہرمن ویزداں کے قائل تھے ۔ مشرکینِ عرب کا یہ بھی خیال تھاکہ یہ مخلوق انسان کو بھلائی یا برائی پہنچانے کی قدرت رکھتی ہے اور مختلف اشکال میں متشکل ہو سکتی ہے ۔قرآن مجید میں کہیں استعارۃًجن کا اطلاق شیطان معنوی الانسان پر ہوا ہے ، کہیں وحشی اور شریر انسانوں پر اور کہیں بطورِ الزام و خطابیات کے اس وجودِ خیالی پر جس پر مشرکین یقین رکھتے تھے۔ مگر خطابیات کے طور پر بیان کرنے سے ایسی مخلوق کا وجود فی الواقع ثابت نہیں ہوتا ۔لفظ’ جن‘ قرآن میں پانچ مقامات پر لفظ’جان‘ کے مترادف کے طور پر استعمال ہوا ہے اور ان کے وجود کو فی الواقع تسلیم کیے بغیر ،ان مخلوقات پر عرب جاہلیت کے اعتقاد کی جانب اشارہ کیا ہے ۔قرآن پاک میں جنات معصیت،امراض اور دیگر مصائب کے مظاہر گردانے گئے ہیں ۔چند دیگر مقامات پر قرآن نے جنگلوں ، پہاڑوں اور ریگستانوں مین رہنے والے وحشی انسانوں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال کیا ہے۔۴۱
حوالہ جات و حواشی
۱۔ابوالحسن علی ندوی، مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش، کراچی، مجلسِ نشریاتِ اسلام، ۱۹۸۱ء، ص ۹۵، ۹۶۔ نیز ملاحظہ ہو:سرسید احمد خاں،مضامین سرسید،(ترتیب ومقدمہ،ذوالفقار،غلام حسین،ڈاکٹر)،لاہو،سنگ میل پبلی کیشنز ۱۹۹۳ء، ص۱۔۴
۲۔قاضی جاوید،سرسید سے اقبال تک، لاہور تخلیقات، ۱۹۹۸ء، ص ۱۴۔۱۵،۱۷، نیز دیکھأ: ڈار، بشیراحمد،
Religious Thought of Sayyed Ahmad Khan, Lahore, 1971, p. 268.
۳۔محمد اکرام شیخ،موجِ کوثر،لاہور،ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، ۱۹۹۲ء، ص ۱۵۸۔ نیز ملاحظہ ہو:سید عبداللہ، سرسید احمد خاں اور ان کے ناموررفقاکی اردو نثر کا فنی و فکری جائزہ،اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان،۱۹۹۴،ص۳۰۔۳۳۔
۴۔ سرسید احمد خاں ، تفسیر القرآن مع اصولِ تفسیر، لاہور:دوست ایسوسی ایٹس،۱۹۹۵ء،ص۱۔۳۶۔
۵۔ سرسید کے اصولِ تفسیرپر نقد ونظر کے لیے ملاحظہ ہو: فضل الرحمن گنوری،’’سرسید کابنیادی اصول۔نیچراور لا آف نیچر‘‘ در ’تحقیقات اسلامی‘علیگڑھ،جولائی۔ستمبر ۱۹۹۰ء، ص۲۹۷۔۳۱۰۔
نیز دیکھئے: ظفرالحسن،سرسید اور حالی کا نظریۂ فطرت،لاہور،ادارہ ثقافت اسلامیہ،۱۹۸۷،ص۲۵۱۔۲۵۴۔
۶۔ سید عبداللہ ،سر سید احمدخاں اور ان کے ناموررفقاکی اردو نثر کا فنی وفکری جائزہ،حوالہ مذکور،ص۳۱۔۳۲۔
۷۔حالی ،الطاف حسین، مولانا،حیاتِ جاوید، لاہور، ہجرہ انٹر نیشنل،۱۹۸۴، حصہ اول،ص۲۳۱۔
۸۔قاضی جاوید ،سرسید سے اقبال تک،ص۲۵۔
۹۔
Prat, John H, Scripture and Science not at variance, London, 1858, p. 95.
۱۰۔
Ibid, pp.8,11,17.
۱۱۔ ٹرول،سی ڈبلیو،ڈاکٹر،سر سید احمد خاں۔۔۔فکرِ اسلامی کی تعبیرِ نو، (مترجمین،ڈاکٹر قاضی افضل حسین اور محمداکرام چغتائی)، لاہور، القمر انٹرپرائزز،۱۹۹۸ء،ص۱۸۳۔
۱۲۔سرسید احمد خاں،تفسیرالقرآن مع اصولِ تفسیر،ص۱۱۰۔۱۱۳۔
۱۳۔ایضاً،ص۶۷۹۔۶۹۱۔
۱۴۔ٹرول،سی ڈبلیو،ڈاکٹر،سرسید احمد خاں۔۔۔فکرِ اسلامی کی تعبیرِ نو،ص۱۹۳۔
۱۵۔عیسائیت میں معجزات ، خود مغربی اہلِ فکر کے اقرار کے مطابق ،اس قدر ضروری عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں کہ اس مذہب سے معجزات کو نکالنا ،مذہب کو باطل قرار دینے کے مترادف ہے۔
Longman, Supernatural Religion, Green & Co, London, 1874, Vol. 1, pp. 9-10.
۱۶۔
See for detail; Bashir Ahmad Siddiqi,Dr, Modern trends in Tafsir Literature-Miracles, Lahore, Faculty of Islamic and Oriental Learning, Yuniversity of the Punjab, 1988,pp.138-182.
۱۷۔
Ibid, pp.221-235.
۱۸۔
Supernatural Religion, Op.Cit, Vol.II.p.480.
۱۹۔ٹرول سی ڈبلیو، ڈاکٹر،سرسید احمد خاں۔۔۔فکرِ اسلامی کی تعبیرِ نو، ص۲۰۶۔۲۰۷۔
۲۰۔ انکارِ معجزات کے حوالے سے ڈیوڈہیوم کے جس استدلال کا سر سید یہاں تتبع کر رہے ہیں،اس کے تفصیلی مطالعہ کے لیے ملاحظہ ہو :
Hume,David,Enquiries Concerning the Human Understandig, edited by L.A Selly,Bigge, 2nd ed; Oxford,1893, pp.114-127.
۲۱۔سرسید احمد خاں ،تفسیر القرآن مع اصولِ تفسیر،ص۱۰۷۵۔۱۱۹۷۔
۲۲۔ایضاً،ص۱۱۹۷۔ ۱۲۰۵۔
۲۳۔سر سید احمدخاں،تفسیرالقرآن مع اصولِ تفسیر،ص۱۴۷۔۱۶۲۔
۲۴۔ایضاً، ص۳۹۹۔
۲۵۔ایضاً،ص۴۱۳۔
۲۶۔ایضاً،ص۴۲۶۔۴۲۷۔
۲۷۔ایضاً،ص۵۸۰۔
۲۸۔الزامِ صرع کے حوالے سے استشراقی ہرزہ سرایوں کی تفصیلات کے لیے دیکھیے:
Muir,William,Muhammad and Islam,London,N.D.pp.22,24.
سرسید احمد خاں،سیرت محمدی،لاہور،مقبول اکیڈمی، ۱۹۹۷، ص۲۲۸۔ ۲۲۸ ۔ اکیڈمی،۱۹۹۷،ص۲۲۸۔۲۳۰۔
قرونِ وسطی اور بعدمیں بھی ایک عرصہ تک مستشرقین حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کی توجیہ مرگی کے دوروں ہی سے کرتے رہے (Muhammad Khalifa,The Sublime Quran and Orientalism ,London $ New York,Longman,1983,p.12 ) ،لیکن زمانۂ مابعد میں،جب اس بے ہودہ الزام کو خو مستشرقین ہی کی جانب سے تاریخی تنقید کے خلاف ایک جرم قرار دیا جانے لگا (Guillaume,A, Islam, ,Harmondsworth,Pelican Books,1961, p.25) تو مستشرقین نے پینترا بدلااورآپؐ پر وحی کی جدید فلسفیانہ توجیہات پیش کی جانے لگیں،تاہم اس استشراقی موقف میں کوئی تبدیلی نہ آئی کہ حضورؐ پر خارج سے کوئی وحی ناز ل نہیں ہوتی۔جدید توجیہات میں سب سے پر زور انداز سے پیش کی جانے والی توجیہ یہ ہے کہ وحی کے حوالے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کردہ تصورات ، آپ کے لا شعور سے شعورمیں آنے والے وہ خیالات تھے جو مکہ کے اس زمانے کے حالات کا فطری ردِ عمل تھے۔ (Watt, W. M, Muhammad: Prophet and Statesman, Oxford Yniversity press,1961,p.14)
۲۹۔۔سرسید احمد خاں ،تفسیرالقرآن مع اصول تفسیر،ص۹۰۔۹۶،۵۶۵۔۵۷۸۔
۳۰۔ٹرول،سی ڈبلیو،ڈاکٹر ،سرسید احمد خاں ۔۔۔فکرِ اسلامی کی تعبیرِ نو، ص۲۱۷۔۲۱۸۔
۳۱۔مرزا قادیانی کا سر سید کا تتبع کوئی بے سند مفروضہ نہیں ہے بلکہ اہلِ تحقیق نے کئی مسائل میں مرزا کے سر سید اور ان کے ہم نوااہلِ فکر کے تتبع کی وضاحت کی ہے ۔مثال کے طور پر دیکھیے:محمد اکرام شیخ، موجِ کوثر،س۱۷۸۔
۳۲۔دیکھیے:قادیانی،غلام احمد ،مرزا،تفسیر سورہ فاتحہ،ربوہ، دار المصنفین،ص۲۵۰۔۲۶۰۔
۳۳۔
The Encyclopaedia Britannica, Chicago,1986, Vol.5 .p.789.
۳۴۔
Vide, Bell, Richard, Introduction to the Quran, at the Edinburgh University press, 1963, pp. 156-161.
۳۵۔
Vide, Muir, William, The Life of Mahomet, London, Smith Elder & Co;1877,Vol.2.pp141-145.
۳۶۔سر سید احمد خاں،تفسیرالقرآن مع اصولِ تفسیر،ص۶۳۵۔۶۷۵۔
۳۷۔ایضاً،ص۱۰۶۔۱۰۸۔
۳۸۔
The Encyclopedia of Rrligion, Mircea Eliade, Editor in Chief, London & New York,1987,Vol.4.p.291.
۳۹۔ سرسیداحمد خاں، تفسیرالقرآن مع اصولِ تفسیر،ص۱۱۷۔
۴۰۔وہی مصنف ،تہذیب الاخلاق،لاہور، اشاعتِ ثانی،س.ن.حصہ دوم،ص۱۹۱۔
۴۱۔وہی مصنف،تفسیرالقرآن مع اصول تفسیر،ص۶۱۳۔۶۲۴،وہی مصنف ،تفسیر الجن ولجان،آگرہ،۱۸۹۲ء ، ص۲۔۱۹۔
اسلامی اخلاقیات کے سماجی مفاہیم (۳)
پروفیسر میاں انعام الرحمن
(’’راہ عمل‘‘ کا ایک مطالعہ۔)
کسی سماجی مسئلے کی گتھی سلجھانے کے لیے مصلح کا غیر جانب دار ہونا نہایت ضروری ہے۔ یہ صفت مصلح کوتحریک دیتی ہے کہ زیرِ بحث مسئلے کا معروضی جایزہ لے۔ معروضی تجزیے کی یہ روش، مسئلے کے متعلق درست زاویے سے سوال اٹھانے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ ہماری رائے میں کسی مسئلے کے قابلِ قبول حل کے لیے پہلا قدم،اس کے متعلق درست سوال اٹھانا ہے۔ ملاحظہ کیجیے کہ خالد سیف اللہ صاحب نے آج کے ایک سنجیدہ مسئلے کو کتنے معروضیت پسندانہ اسلوب سے اڈریس کیا ہے:
’’سوال یہ ہے کہ کم عمری کا نکاح زیادہ نقصان دہ ہے یا کم عمری کے جنسی تجربات؟ یقیناََ بے قید جنس پرستی زیادہ مضر ہے۔ تو اگر ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ ماں باپ اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کے اخلاق و کردار کی حفاظت کے لیے بلوغ کے بعد جلد سے جلد ان کا نکاح کر دینا مناسب سمجھتے ہوں تو کیا یہ بات مناسب نہیں ہو گی کہ انہیں اس عمر سے پہلے ہی نکاح کی اجازت دی جائے؟ تاکہ وہ اپنے بچوں کو فساد اور بگاڑ کے گڑھے میں جانے سے بچا سکیں۔ اصل مسئلہ child marriage کا نہیں، بلکہ child sex کا ہے۔ ‘‘ (کم عمری کی شادی: ج۱، ح۲، ص۱۶۴)
خالد سیف اللہ صاحب کی سوچ کے اسی رخ نے انہیں ایسے خود ساختہ بے جان مسایل میں الجھنے نہیں دیا جن کا سماجی نشوونما سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا ،بلکہ ہوا یوں ہے کہ موصوف نے دینِ اسلام کی اصل روح پر مسلسل نظر رکھتے ہوئے ایسے زندہ معاشرتی مسایل کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے جن کی بابت مسلم سماج میں بہت زیادہ حساسیت پائی جانی چاہیے:
’’ کون صاحبِ دل ہے جسے بچہ کی معصوم مسکراہٹ اپنی طرف متوجہ نہ کرتی ہو اور اس کا رونا اور بلکنا سخت سے سخت انسان کو بھی تڑپا نہ دیتا ہو ؟ بچہ خواہ خوش رنگ ہو یا کالا کلوٹا ، صاف ستھرا ہو یا میلا کچیلا ، کسی کاشانہ عشرت میں پیدا ہوا ہو یا آشیانہ غربت میں ، اس کا بچپن کشش سے بھر پور ہوتا ہے اور ممکن نہیں کہ کوئی حساس اور فطرتِ سلیمہ کا حامل اسے دیکھے اور دل بھر نہ آئے اور ماں باپ اور خاندان کے اہلِ تعلق کا کیا کہنا ، ان کو تو اپنے بچوں کے معصوم چہرہ میں لالہ و گل کا نکھار اور غنچہ و گل کی بوئے عطر بار کا احساس ہوتا ہے ۔ ...... بچوں کو کسبِ زر کا ذریعہ بنانا اور تعلیم و تربیت سے محروم رکھنا بڑی بے رحمی اور بد خواہی ہے ، کیونکہ یہ ہمیشہ کے لیے ان کو معاشی ، اخلاقی اور فکری اعتبار سے پس ماندہ اور محروم رکھنے کے مترادف ہے ، اس پس منظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی کہ کم عمر بچوں کو کسبِ معاش کا مکلف نہ کرو ، اس سے یہ ہو گا کہ کما نہ پائیں گے تو چوری کا ارتکاب کریں گے۔ .....کوئی غریب شخص معذور ہو جائے یا اس کا انتقال ہو جائے اور گھر میں کوئی کمانے والا موجود نہ ہو تو دکھیاری بیوہ کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہوتا کہ اپنے کم عمر نو نہالوں کو مشقت کی اس بھٹی میں ڈال کر چند پیسے حاصل کرے ، اسی سے اپنا تن ڈھانکے ، پیٹ بھرے ، اپنی اور گھر کی عزت و آبرو کی حفاظت کرے ۔ سماج اتنا ظالم اور خود غرض ہے کہ وہ کسی غریب کی جھونپڑی پر ترچھی نظر ڈالنے کو بھی تیار نہیں ہوتا اور مجبوری کو دیکھ کر اس کی رہی سہی پونجی بٹورنے بلکہ بعض اوقات اس کی عزت و آبرو کا بھی سودا کرنے کو کمر بستہ ہو جاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ایسے مواقع پر ان بے کس و بے آسرا لوگوں کو بچہ مزدوری کے سلسلہ میں قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ شریعت کا اصول یہی ہے کہ اگر دو خرابیوں میں سے ایک کے ارتکاب پر مجبور ہو جائے تو کم تر درجہ کی برائی اختیار کر لے۔ .....یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ حکومت محنت و مزدوری کے معاملہ میں ۱۵ سال کے لڑکے کو بالغ تصور کرتی ہے لیکن نکاح وغیرہ میں نابالغ‘‘ ( بچہ مزدوری ۔۔۔اسلامی نقطہ نظر : ج۱، ح۳، ص۶۵، ۶۶، ۶۸، ۷۰)
آپ نے ملاحظہ کیا کہ خالد صاحب نے این جی اوز کے مانند محض فنڈز بٹورنے کے لیے بچہ مزدوری کو Highlight نہیں کیا، بلکہ اسلامی حوالہ دیتے ہوئے جیتے جاگتے سماج کے تکلیف دہ حقایق کو پیش نظر رکھا ہے اوراس کے علاوہ جدید حکومتوں کی دوغلی پالیسی کو بھی بے نقاب کیا ہے جو وہ نام نہاد انسان دوستی کے نام پر اپنائے ہوئے ہیں۔ مذکورہ اقتباس کا آخری فقرہ صدا لگا رہا ہے کہ غیر حقیقت پسندانہ پالیسیاں، ذمہ داری سے فرار کے سوا اور کچھ نہیں ہیں۔
جدید مغربی سماج میں بڑھاپا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ وہاں اولڈ ہومز بھی ہیں اور والدین کے خصوصی دن بھی منائے جاتے ہیں۔ اب جدیدیت کا سیلاب، مشرقی سماج کا رخ کیے ہوئے ہے۔ اگرچہ اس کے مضر اثرات ابھی بہت واضح نہیں ہیں، لیکن خالد سیف اللہ صاحب ، خطرے کی بو سونگھ چکے ہیں ، اس لیے انہوں نے اس مسئلے پر بھی قلم اٹھایا ہے:
’’جوانی کا زمانہ طاقت کے عروج اور صلاحیتوں کے کمال کا زمانہ ہے، اس زمانہ میں آدمی کے لیے یہ سوچنا بھی دشوار ہوتا ہے کہ پھر کبھی کم زوری اس پر اپنا سایہ ڈال سکے گی، چلتے ہوئے اس کے قدم لڑکھڑائیں گے بینائی اس کا ساتھ چھوڑ دے گی اور جسم کی ایک ایک صلاحیت دامنِ وفا چھوڑ کر رخصت ہو جائے گی، لیکن آخر ہوتا وہی ہے جس سے انسان بھاگنا چاہتا ہے، جوانی رخصت ہوتی ہے اور بڑھاپا اپنی پوری شان کے ساتھ سایہ فگن ہو جاتا ہے۔ اب آنکھوں پر موٹے چشمے ہیں، چہروں پر جھریاں ہیں، ہاتھوں میں عصا ہے، قدموں میں لرزہ ہے، حافظہ اور یاد داشت نے بھی ساتھ چھوڑ رکھا ہے، منہ دانت سے خالی ہے اور آواز ایسی ہے کہ بازو کا آدمی بھی بات سمجھ نہیں پاتا ہے، اس منزل کے بعد قبر ہی کی منزل ہے، انسان بچپن میں بھی محتاج اور عجز و نا طاقتی کا نمونہ ہوتا ہے اور بڑھاپے میں بھی، لیکن بڑھاپے میں یقیناًمجبوری کا احساس زیادہ ستاتا ہو گا ، جوانی کے ایک ایک قصے یاد آتے ہوں گے اور اشکِ افسوس سے ڈاڑھی تر ہوتی ہو گی۔ ..... پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب فرمایا ہے کہ تم لوگوں کو ضعفا اور کم زوروں ہی کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے۔ یہ بڑی اہم بات ہے ، آدمی ایسے بوڑھے اور معذور لوگوں کو اسی لیے تو بوجھ سمجھتا ہے کہ وہ صرف کھاتے ہیں کچھ لاتے نہیں ہیں ، ان کے پاس کھانے والے ہاتھ ہیں کمانے والے ہاتھ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تصور ہی کی جڑ کو کاٹ دیا۔ .....بڑھاپے کی نفسیات کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس عمر میں انسان چاہتا ہے کہ اس کے چھوٹے اس کے ساتھ عزت و توقیر کا معاملہ کریں، اس کو سماج میں بہتر مقام دیا جائے ۔ آپ نے اس کا بھی پاس و لحاظ فرمایا ہے ۔ ایک سن رسیدہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا ، لوگوں نے جگہ دینے میں دیر کی تو آپ نے تنبیہ کی اور فرمایا کہ جو شخص چھوٹے پر شفقت نہ کرے اور بڑوں کی توقیر نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ حضرت عبداللہ ابنِ عمرؓ کی ایک روایت میں ہے کہ جو بڑوں کا مقام نہ پہچانے ، وہ ہم میں سے نہیں۔ حضرت انس بن مالکؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو نوجوان کسی بوڑھے شخص کی اس کی عمر کی رعایت کرتے ہوئے تعظیم کرے گا تو جب وہ نوجوان اس عمر کو پہنچے گا تو اللہ اس کے لیے بھی ویسا ہی تعظیم کرنے والا مہیا کر دیں گے۔‘‘ (بوڑھے اور ہمارا سماج: ج۲، ح۴، ص۷۸، ۷۹، ۸۱)
انسانی نفسیات کی گہرائیوں کی گرہ کشائی اور پھر اسے سماجی حقیقت نگاری میں ڈھالنا آسان کام نہیں، خاص طور پر کسی مولوی سے اس کی توقع ہی عبث ہے۔ لیکن ہمارے ممدوح نے کمال دیانت سے یہ مشکل فریضہ سر انجام دیا ہے:
’’جب انسان کسی معاملہ کو اپنے اور دوسرے کے درمیان رکھ کر سوچتا ہے تو غصہ بڑھتا ہے اور انتقام کی چنگاری شعلہ بن جاتی ہے اور وہی شخص جب اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان خدا کو رکھ کر سوچتا ہے تو غضب کی آگ محبت کی شبنم میں تبدیل ہو جاتی ہے اور معاف کرنا نہ صرف آسان ہو جاتا ہے بلکہ اس میں ایک لذت محسوس ہونے لگتی ہے‘‘ (بخش دو گر خطا کرے کوئی: ج۲، ح۴، ص۴۳)
’’ بعض لوگ طبعاََ برے نہیں ہوتے لیکن ان کی طبیعت میں مبالغہ ہوتا ہے ، وہ لفظوں کے ایسے بازی گر ہوتے ہیں کہ سننے والے کو رائی پہاڑ محسوس ہوتا ہے۔ کچھ لوگ شریف اور نیک خو ہوتے ہیں لیکن سادہ لوح اور بھولے بھالے ہونے کی وجہ سے ہر طرح کی باتوں کا یقین کر لیتے ہیں، کسی خبر پر جرح نہیں کرتے، اور اس کے کھرے کھوٹے کو پرکھے بغیر مان لیتے ہیں۔ بعض حضرات سے کسی بات کو سننے یا سمجھنے میں غلط فہمی بھی ہو جاتی ہے۔ یہ مختلف اسباب ہیں جن کی وجہ سے دانستہ یا نا دانستہ اور بالارادہ یا بلا ارادہ خلافِ واقعہ باتیں لوگوں میں چل پڑتی ہیں، ایسی ہی بے سرو پا باتوں کو ’ہوا‘ کہتے ہیں ‘‘ (افواہیں اور ہمارا رویہ:ج۲، ح۴، ص۱۶۳)
’’بعض لوگ بد زبان اور بد مزاج ہوتے ہیں، معمولی باتوں پر برہمی اور اپنے بزرگوں اور سماج کے باعزت لوگوں پر حرف گیری کا مزاج رکھتے ہیں، جس کو جو جی میں آیا کہہ دیا، بلکہ موقع ہوا تو دشنام طرازی سے بھی نہیں چوکتے، پھر اسے فخریہ بیان کرتے ہیں، اسے اپنا کمال سمجھتے ہیں، یا اسے صاف گوئی کا عنوان دیتے ہیں، حال آں کہ صاف گوئی کے معنی دوسروں پر طنز و تعریض یا تنقیص نہیں، اور اپنی نازیبا باتوں پر فخر بھی کرتے ہیں کہ ہم نے فلاں کو کھری کھری سنائی اور فلاں شخص کو بر سرِ عام ایسا اور ویسا کہا، حال آں کہ یہ سب قابلِ شرم باتیں ہیں نہ کہ قابلِ فخر، ان پر انسان کو شرمانا چاہیے نہ کہ اترانا‘‘ (گناہ پر فخر: ج۱، ح۱، ص۱۹۲)
’’ضرورت اس بات کی ہے کہ خودکشی کے اخلاقی اور سماجی نقصانات لوگوں کو بتائے جائیں ، سماج میں لوگوں کی تربیت کی جائے کہ وہ تنگ دستوں اور مقروضوں کے ساتھ نرمی اور تعاون کا سلوک کریں، گھر اور خاندان میں محبت اور پیار کی فضا قایم کریں اور باہر سے آنے والی بہو کو محبت کا تحفہ دیں، رسم و رواج کی جن زنجیروں نے سماج کو زخمی کیا ہوا ہے ان کو کاٹنے کی کوشش کریں، شادی بیاہ کے مرحلوں کو آسان بنائیں اور جو لوگ ذہنی تناؤ سے دوچار ہوں اور مشکلات سے گھرے ہوئے ہوں، ان میں جینے اور مسایل و مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ پیدا کریں ، کہ بقولِ حضرت کلیم:
سلگنا اور شے ہے جل کے مرجانے سے کیا ہو گا
ہوا ہے کام جو ہم سے وہ پروانوں سے کیا ہو گا ‘‘
(خود کشی ۔۔تشویش ناک سماجی مسئلہ:ج۲، ح۴، ص۱۸۴)
اسلامی اخلاقی اقدار کا جدیدطرزِ زندگی پر اطلاق، سماجی اجتہاد کا تقاضا کرتا ہے ۔ جس سے ایک طرف ان اقدار کی نئی معنویت ، انہیں سول سوسائٹی سے relate کرتی ہے اور دوسری طرف جدید زندگی کے مضر پہلو ، شعوری طور پر ناپسندیدہ قرار پاتے ہیں۔ خالد صاحب کی تحریر میں یہ وصف بہت نمایاں ہے، دیکھیے ذرا:
’’جب آپ کہیں ملازمت کرتے ہیں تو سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ میں جو اوقاتِ کار متعین ہوں، آپ ان اوقات میں اپنی ڈیوٹی پر حاضر رہنے کا عہد کرتے ہیں۔ اگر آپ ان اوقات کی پابندی نہ کریں، دفتر دیر سے پہنچیں، پہلے دفتر سے نکل جائیں، یا درمیان میں دفتر چھوڑ دیں، یا دفتر کے اوقات میں مفوضہ کاموں کو انجام دینے کے بجائے اپنے ذاتی کام کرنے لگیں، تو یہ بھی وعدہ کی خلاف ورزی میں شامل ہے۔ بعض شعبوں میں ملازمین کو خصوصی الاؤنس دیا جاتا ہے کہ وہ پرائی ویٹ طور پر کوئی اور کام نہ کریں، خاص کر میڈیکل شعبہ میں گورنمنٹ چاہتی ہے کہ ڈاکٹر کی پوری صلاحیت سرکاری دواخانے میں آنے والے مریضوں پر خرچ ہو، کیوں کہ انسان کی قوتِ کار محدود ہے اور جو شخص ہسپتال میں آنے سے پہلے اپنی قوت ڈھیر سارے مریضوں کو دیکھنے میں صرف کر چکا ہو، یقیناًاب جو مریض اس کے سامنے آئیں گے، وہ کماحقہ اس کی تشخیص نہیں کر سکے گا۔ ..... وعدہ کا تعلق ہماری تقریبات، جلسوں اور دعوتوں سے بھی ہے، مثلاََ دعوت نامہ میں لکھا گیا کہ نکاح عصر کے بعد ہو گا لیکن جب تقریب میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ نوشہ صاحب اپنی شانِ خاص کے ساتھ عشا کے بعد تشریف لائے۔ .... غور کیجیے کہ لوگ ایسی تقریبات میں شرکت اپنے تعلقات کی پاس داری میں کرتے ہیں کسی کے یہاں بیماری ہے، کوئی خود بیمار ہے، کسی نے تقریب کے وقت کے لحاظ سے آیندہ پروگرام بنا رکھا ہے۔ ایسے مواقع پر یہ تاخیر اس کے لیے کس قدر گراں گزرتی ہے، آکر واپس ہونے میں میزبان کی ناگواری کا اندیشہ اور انتظار کرنے میں دوسرے پروگرام متاثر۔ افسوس کہ دینی جلسوں اور پروگراموں میں بھی ہم اس کی رعایت ملحوظ نہیں رکھتے‘‘ (وعدہ خلافی ۔۔ہمارے سماج میں:ج۲، ح۴، ص۱۷۰، ۱۷۱، ۱۷۲)
مذہبی حدود کے خاص دائرے سے باہرانسانی زندگی کے کئی ایسے پہلو ہیں جہاں اسلام نے خاموشی اختیار کی ہے ۔ خالد صاحب کے نزدیک یہ خاموشی انسانی اختیار کے اثبات کے اعتبار سے دین ہی کا حصہ ہے:
’’ شرعاََ ایک مسلمان کے لیے صرف یہ رعایت ضروری ہے کہ بیت الخلا کی نشست ایسی ہو کہ قضا ئے حاجت کرتے ہوئے چہرہ یا پشت قبلہ کی سمت میں نہ پڑے اور بس، مکان کے سلسلہ میں اس کے علاوہ انجینئر سے مشورہ کرنا چاہیے کہ مکان کس طرح کا ہو کہ ہوا اور روشنی پوری طرح بہم پہنچے، لیکن اس کا مشورہ بھی پنڈت سے کیا جاتا ہے جو محض چند پیسوں کے لیے لوگوں کو اوہام میں گرفتار رکھنا چاہتا ہے ، یہ تمام باتیں محض ایمان کی کم زوری اور ضعفِ عقیدہ کا نتیجہ ہیں۔ حد یہ ہے کہ اب بعض مسلمان بھی عقدِ نکاح کے وقت اور شادی کے جوڑوں کے سلسلہ میں عاملین سے مشورہ لیتے ہیں، گویا جس غلامی سے اسلام نے اسے آزاد کیا تھا خود ہی اپنے آپ اس میں مبتلا ہوتے ہیں‘‘ (اوہام پرستی اور اسلام:ج۲، ح۴، ص۲۴)
خالد سیف اللہ صاحب رحمانی، انسانی اختیار کی بے توقیری اور اس اختیار کے مذہبی لوگوں کے ہاں یرغمال بنائے جانے پر شکایت کناں ہیں۔ وہ مسلمانوں کو یاد دلاتے ہیں اور غیر مسلموں کو باور کراتے ہیں کہ :
’’ اگر پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا اسلام کو تھوپنا ہوتا تو نہ مدینے میں کوئی یہودی باقی رہتا اور نہ فتح مکہ کے بعد مکہ میں کوئی مشرک۔ اسلام کی آمد سے پہلے یہ مزاج تھا کہ سلطنت کا جو مذہب ہوتا تمام لوگ اسی مذہب کو قبول کرتے اور اس پر عمل کرنے کے پابند ہوتے، اسی لیے روم میں کوئی مشرک اقلیت تھی نہ ایران میں اہلِ کتاب کا کوئی گروہ تھا‘‘ (فاصلے کیوں کر گھٹیں گے؟: ج۱، ح۲، ص۱۳۶)
’’ جب بادشاہ کے تاج کی قیمت لاکھوں ڈالر ہوتی تھی اور غریب کسان گراں بار ٹیکسوں کے خوف سے پہاڑوں اور جنگلات کی پناہ لینے پر مجبور تھے، ان حالات میں مسلمان ایک نجات دہندہ قوم کی حیثیت سے ان ملکوں میں پہنچے اور انہوں نے بے جان زمینوں پر قبضہ کرنے سے زیادہ لوگوں کے قلوب کو فتح کرنے کی کوشش کی۔ مسلمانوں کے لیے اس ملک میں باعزت زندگی گزارنے کی راہ یہی ہے کہ وہ نجات دہندہ قوم کی حیثیت سے سامنے آئیں اور نقشِ دیوار پڑھ کر اپنے لیے ایک ایسا منصوبہ بنائیں جو دیر سے سہی لیکن منزلِ مقصود کو پہنچاتا ہو اور محض حقیر اور وقتی مفادات پیشِ نظر نہ ہوں۔‘‘ (ایک اہم فریضہ جس سے ہم غافل ہیں: ج۱، ح۱، ص۳۱۴)
یہ ایک اچھا خواب ہے کہ اسلاف کی طرز پر مسلمان آج پھر نجات دہندہ قوم کی حیثیت سے سامنے آئیں، لیکن آج کی عالمگیریت کی فضا میں نجات کا کوئی ایسا فارمولہ جو ہندوستان یا کسی بھی ملک کی علاقائی حدود کو ملحوظ رکھ کر بنایا گیا ہو، مطلوبہ مقاصد نہیں دے سکتا۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام نے آکٹوپس کی طرح حیاتِ انسانی کے تمام پہلوؤں کو انتہائی شدت سے جکڑا ہوا ہے ، اس کے خاتمے اور متبادل نظام کے لیے عالمی سطح پر نہایت سنجیدگی سے ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے۔ افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ مذہبی حلقے میں متبادل نظام دینے کی سنجیدہ سوچ تک نہیں پائی جاتی۔ ایسے گئے گزرے دور میں جب کہ سماجی اخلاقیات کا بھی جنازہ نکل چکاہے اور یار لوگ اسے قصہ پارینہ خیال کرتے ہیں، حتیٰ کہ ایسے ’سمجھ دار‘ لوگوں کی بھی کمی نہیں ، جو سماجی اخلاقیات کے کلاسیکی تصور کو زرعی دور سے مخصوص قرار دیتے ہیں، خالد سیف اللہ رحمانی نے سرمایہ داری کے فولادی خول میں چھید ڈالنے کی خاطر ، واشگاف الفاظ میں کئی مقامات پر صدائے احتجاج بلند کی ہے اور انسانی اجتماعی زندگی کے سب سے بڑے محور ریاست اور اس سے متعلق امور میں اخلاقی اقدار کی باز یافت کی بات چلائی ہے:
’’عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ اگر کسی ایسے امیدوار کو ووٹ دیا ہو جو کامیاب ہوا ہے تو اسے اپنی فتح سمجھتے ہیں ، حال آں کہ یہ امیدواروں کی شکست و فتح تو ہو سکتی ہے ووٹروں کی شکست و فتح نہیں ہو سکتی۔ اگر آپ نے کسی امیدوار کو دیانت داری کے ساتھ موزوں امیدوار سمجھ کر ووٹ دیا ہے ، تو گو وہ شکست کھا جائے پھر بھی آپ کی فتح ہے ، کہ شرعاََ آپ جس بات کے مکلف تھے آپ نے اسے پورا کر دیا ، اور اگر آپ کا ووٹ فتح یاب امیدوار کے حق میں گیا لیکن یہ جاننے کے باوجود کہ وہ اس کا مستحق نہیں ہے یا آپ نے کوئی مفاد حاصل کر کے ووٹ دیا اور گویا رشوت لے کر مستحق یا غیر مستحق شخص کے حق میں اپنے حق رائے دہی کو استعمال کیا تو امیدوار کے جیتنے کے باوجود آپ نے شکست کھائی ہے اور آپ نے پایا نہیں ہے بلکہ کھویا ہے کیوں کہ آپ ایک فعلِ گناہ کے مرتکب ہوئے اور اس کی کوتاہ کاریوں میں عنداللہ آپ شریک سمجھے جائیں گے۔ کتنی گھبرا دینے والی ہے یہ بات اور کتنا تشویش انگیز ہے الیکشن کا شرعی پہلو! ا‘‘ (ظفر آدمی اس کو نہ جانیے: ج۲، ح۴، ص۶۵)
انسانی زندگی میں سماجی اخلاقیات کی اہمیت پر بہت زیادہ زور دینے کے باوجود ہمارے ممدوح خرافاتی صوفی مشرب میں رنگے ہوئے نہیں ہیں۔ ان کا ذہن اور مزاج، منطقی اور استدلالی آہنگ لیے ہوئے ہے۔ اس مخصوص ذہنی سانچے کی بدولت وہ فکرِ اسلامی کی ثقاہت پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ نئے اسالیب میں اس کی توجیہ کی بھی کامیاب کوشش کرتے ہیں:
’’ ایک صاحب اتنے غضب ناک تھے کہ لگتا تھا کہ اب ان کی ناک پھٹ پڑے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ کہے تو اس کا غصہ فرو ہو جائے۔ دریافت کیا گیا کہ وہ کیا کلمہ ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم (ابوداؤد، بخاری)وجہ اس کی ظاہر ہے کہ غصہ ایک شیطانی حرکت ہے جب انسان اس موقع پر تعوذ پڑھے گا تو اللہ کی مدد سے اس شیطانی حرکت پر غلبہ پا لے گا۔ نفسیاتی اعتبار سے بھی اس کلمہ کو پڑھتے ہوئے آدمی کا ذہن اس جانب منتقل ہوتا ہے کہ وہ اس وقت شیطان کا آلہ کار ہے، اس خیال سے وہ اپنے آپ کو موجودہ کیفیت سے بآسانی نکال سکے گا‘‘ (سب سے بڑی بہادری:ج۲، ح۴، ص۱۰۹)
خالد صاحب کی مذکورہ نکتہ طرازی مسلم سماج سے تقاضا کرتی ہے کہ اس کے افراد قرآن و حدیث کے ساتھ لفظی تعلق سے بڑھ کر معنوی آشنائی کا سنگِ میل عبور کر کے اس کی حقیقی روح سے شناسا ہوں۔ہماری رائے میں یہ کوئی غیر دانش مندانہ یا احمقانہ تقاضا نہیں، بلکہ حقیقی سماجی انقلاب برپا کرنے کا واحدحتمی ذریعہ ہے۔اس سلسلے میں دینِ اسلام کے بنیادی ماخذ قرآن مجید کے الفاظ سے کہیں بڑھ کر، اس کی تفہیم پر دلالت کناں سبعہ احرف روایت ، روشنی کا مینارہ معلوم ہوتی ہے۔
اس وقت مسلم دنیا کے سنجیدہ دانش ور مسلمانوں کی تکنیکی پس ماندگی سے بہت زیادہ خائف نہیں ہیں۔ جو خدشہ ا نہیں بے چین کیے رکھتا ہے، اس کا تعلق مسلم سماج کی اخلاقی گراوٹ سے ہے کہ آج کے مسلمان اپنے روایتی امتیازی کردار سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ اب ان کے ہاں ان کے اسلاف کی سی للہیت نہیں رہی ۔ لیکن ہمارے محترم مولف نے اپناایک ذاتی واقعہ نقل کرکے امید بندھائی ہے کہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ، آج بھی غیروں کی نظر میں مسلم کردار کی وہی آن شان ہے جو ہمیشہ رہی ہے اور ظاہر ہے کہ غیر وں کا ایسا اعتراف کسی ہم دردی کا نتیجہ نہیں ، بلکہ امرِ واقعہ کا بیان یا کسی حقیقت کا ترجمان ہی ہو سکتا ہے ۔ واقعہ پڑھیے اور سر دھنیے :
’’ کئی سال پہلے کی بات ہے ، میں دہلی سے حیدرآباد آ رہا تھا۔ .....کیبن میں تین برتھ تھے ، دہلی سے ہم دو ہی آدمی اس کیبن میں سوار ہوئے ، ایک طرف میں ، اور ایک طرف میرے ہی ہم عمر ایک مسافر جو سفید کرتے اور دھوتی میں ملبوس تھے ، اس کی پیشانی پر سرخ و سفید قشقے ہندومذہب پر اس کے ایقان اور اس کی مذہبیت کو ظاہر کر رہے تھے ، گاڑی جب بھوپال پہنچی تو ایک ہندو فیملی آئی ، ان کے ساتھ ایک لڑکی تھی جس کی عمر اٹھارہ بیس سال رہی ہو گی ، یہ لوگ اصل میں ناگ پور کے رہنے والے تھے اور کسی ضروری امر کے تحت لڑکی کو اچانک بھیج رہے تھے ، لمبا راستہ اور ایک تنہا لڑکی کا سفر ، اس سے وہ لوگ پریشان تھے۔ ..... حالاں کہ وہ ہندو بھائی میرے سامنے ہی بیٹھے تھے اور میری شکل و صورت سے ان کے لیے یہ پہچاننا بالکل دشوار نہیں تھا کہ میں مسلمان ہی نہیں بلکہ ایک مولوی واقع ہوا ہوں۔ اس کے باوجود ہماری طرف مخاطب ہوئے اور کہنے لگے : ’’ مولانا صاحب ! اسے ناگ پور جانا ہے ، یہ اب آپ کی لڑکی ہے اور ہم اسے آپ کے حوالہ کر رہے ہیں۔ ....یہ لڑکی طالبہ تھی۔ .....اسلام میں خواتین کا کیا درجہ ومقام ہے ، اس بارے میں سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ .....اس نے مجھ سے بار بار اشتعال انگیز اور غصہ دلانے والے سوالات کیے لیکن میں نے ہمیشہ تحمل اور صبر کے ساتھ جواب دیا ، اس بات نے اسے خاص طور سے متاثر کیا اور کہنے لگی کہ کیا آپ کو غصہ آتا ہی نہیں ہے؟ میں نے اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث سنائی جس میں بار بار آپ سے جینے کا طریقہ دریافت کیا گیا اور آپ نے ہر بار ایک ہی بات ارشاد فرمائی کہ غصہ نہ کرو ، لا تغضب۔ جب ٹرین ناگ پور پہنچی تو اس کے ماموں وغیرہ پلیٹ فارم پر موجود تھے۔ ...... اصل میں جس چیز نے مجھے متاثر کیا، وہ یہ کہ اس کیبن میں میرے برابر ہی ایک ہندو شخص موجود تھا اور اپنی ہندو پہچان کے ساتھ تھا ، نیز اسے بھی حیدرآباد آنا تھا ، انسان کے لیے عزت و آبرو کا مسئلہ جان و مال سے بھی زیادہ اہم ہوتا ہے ، لیکن بہ مقابلہ اس غیر مسلم کے ہندوستان میں ہندو فکر کے سب سے بڑے مرکز ناگ پور کے ہندوؤں نے ایک مسلمان مولوی پر زیادہ اعتماد کیا ، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام اور حاملینِ اسلام کے بارے میں سماج کیا سوچتا ہے ؟ اور ظاہر ہے کہ یہ سوچ تجربات پر مبنی ہوتی ہے ‘‘ (پروپیگنڈہ کا جواب عمل سے: ج۱، ح۱، ص۲۹۴، ۲۹۵، ۲۹۶)
مسلم کردار کی ایسی مثبت شناخت ، بلاشبہ قابلِ اطمینان اور تسلی بخش ہے۔ لیکن خالد صاحب اس پر قانع ہوتے نظر نہیں آتے، ان کی دور بین نگاہیں مسلم کردار کے ان پہلوؤں کا بھی تنقیدی جایزہ لے رہی ہیں ، جو ہماری ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہے۔ اگرچہ بعض این جی اوز فیشن کے طور پر ان عنوانات کے تحت فنڈز جمع کرتی رہتی ہیں لیکن جس سنجیدگی سے اس مسئلہ کو لیا جانا چاہیے ، وہ سنجیدگی عملاََ مفقود رہی ہے۔ ملاحظہ کیجیے کہ ہمارے ممدوح نے اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے راہنمائی لیتے ہوئے ایک انتہائی اہم لیکن ہماری نگاہوں سے اوجھل مسئلے پرکتنے موثر انداز میں خامہ فرسائی کی ہے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ صحابہؓ کو ایک فوجی مہم پر روانہ کیا۔ یہ حضرات گئے، مقابلہ بھی بہادری کے ساتھ کیا، لیکن مقابلہ میں جم نہ سکے اور راہِ فرار اختیار کرنی پڑی۔ جب مدینہ واپس آئے تو مارے شرم کے چھپے پھرتے تھے اور آپ کا سامنا کرنے کی ہمت نہ پاتے تھے، کہتے تھے کہ ہم تو بھاگے ہوئے لوگ ہیں۔ ..... آپ نے محسوس کیا کہ یہ موقع زجر و توبیخ اور شرم ساروں کو مزید شرم سار کرنے کا نہیں، بلکہ ہمت بندھانے اور حوصلہ بڑھانے کا ہے۔ آپ نے لطف و کرم کا لب و لہجہ اختیار کیا اور فرمایا کہ تم بھاگے نہیں ہو بلکہ تم اس لیے پیچھے ہٹے ہو کہ پیچھے آ کر دوبارہ حملہ کرو، تم نے اس لیے پسپائی اختیار کی ہے کہ نئی کمک ساتھ لے کر مقابلہ پر اترو۔ ..... ملک میں جہاں مسلمانوں نے بہت سے فلاحی اور تعلیمی ادارے قایم کیے ہیں، وہیں ایک ایسے ادارہ یا ٹیم کی بھی ضرورت ہے جو مختلف میدانوں میں ان لوگوں کی اخلاقی مدد کرے اور حوصلہ افزا مشورے دے، جن کی ہمتیں ٹوٹ جائیں اور وہ پست حوصلگی کے باعث میدانِ مسابقت چھوڑنے لگیں۔ کتنے ہی مسلمان طلبہ ہیں جو ساتویں جماعت کے امتحان میں شریک ہوتے ہیں لیکن جماعت دہم تک نہیں پہنچ پاتے، کتنے مسلمان تاجر ہیں جو ابھرتے ہیں لیکن کسی وقتی واقعہ کے نتیجہ میں ہمیشہ کے لیے اس میدان کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ یہی حال ہر شعبہ زندگی کا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کو ہمت دلائی جائے اور ان کو اپنا سفر جاری رکھنے پر آمادہ کیا جائے۔ ..... کہ شکست کے احساس اور پست ہمتی کے ساتھ کوئی قوم آگے نہیں بڑھ سکتی۔‘‘ (تم صرف پیچھے ہٹے ہو: ج۱، ح۱، ص۲۲۰، ۲۲۲، ۲۲۳)
خالد سیف اللہ صاحب نے پست ہمتی کی مذکورہ نوعیت سے ایک قدرے مختلف نوع پر بھی قلم اٹھایا ہے ، اسے اجتماعی پست ہمتی کا نام دیا جا سکتا ہے، جس کے پیچھے صبر کی کمی اور عجلت جیسی خامیاں کارفرما ہیں:
’’جیسے جسمانی سطح پر الرجی انسان کو کم زور کر دیتی ہے اور اس کی معتدل کیفیت کو زیر و زبر کر کے رکھ دیتی ہے، اسی طرح قومیں بھی ’’الرجی‘‘ سے دوچار ہوتی ہیں۔ بعض قوموں اور گروہوں میں برداشت کی قوت ختم ہوجاتی ہے اور ردِ عمل کی کیفیت بڑھ جاتی ہے۔ وہ بات بات پر مشتعل ہوتے ہیں، مخالفین کا ایک بیان مہینوں ان کو الجھا کر رکھ دیتا ہے اور بے برداشت ہونے کی وجہ سے ایسی جذباتیت کا ان سے مظاہرہ ہوتا ہے جس کا نقصان خود ان کو پہنچتا ہے۔ ایسی قومیں دشمنوں اور بد خواہوں کی سازشوں کا شکار ہو کر اپنے حقیقی مسایل کی طرف توجہ نہیں دے پاتیں ، ہمیشہ ردِ عمل میں الجھی رہتی ہیں۔ دوسری قومیں تعلیمی ، معاشی اور دوسرے پہلوؤں سے آگے بڑھتی رہتی ہیں اور یہ سنہرا وقت مشتعل مزاج قوم ، ماتم و زاری اور سینہ کوبی میں گزار دیتی ہیں۔ ہندوستان میں مسلمان اس وقت ان ہی حالات سے گزر رہے ہیں۔ ہم ایک طرح کی قومی الرجی میں مبتلا ہیں ، ہمیں مشتعل کرنے کے لیے بے بنیاد افواہیں بھی کافی ہیں ..... حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی شخص مال یا جان کے معاملہ میں آزمایش میں مبتلا کیا جاتا ہے اور وہ لوگوں سے اس کا شکوہ نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہوجاتا ہے کہ وہ اسے معاف کر دے ۔ جیسے یہ بات افراد کے بارے میں کہی جا سکتی ہے، یہی بات قوموں اور گروہوں کے بارے میں کہی جائے تو بے جا نہ ہو، کہ جو قوم دوسروں کے سامنے کاسہ گدائی لے کر کھڑی رہے اور محض نا انصافی کا رونا روتی رہے، وہ دنیا میں بھی ذلیل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی توجہ بھی اس کی طرف سے ہٹ جاتی ہے ، اور جو قوم اللہ پر بھروسہ کر کے ناموافق باتوں کو برداشت کرتے ہوئے آگے بڑھتی جائے ، کامیابی اس کے قدم چومتی ہے اور اللہ کی رحمت اس پر سایہ فگن رہتی ہے۔ اسی لیے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار صبر کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کے لیے امن اور ہدایت ہے ، یعنی صبر کی وجہ سے امن و امان کی حالت رہتی ہے اور وہ صحیح راہ پر گامزن رہتے ہیں۔‘‘ (صبر خوش تدبیری ہے نہ کہ بزدلی: ج۲، ح۴، ص۴۵، ۴۶، ۴۸، ۴۹)
حیرت ہے کہ ’راہِ عمل‘ کی دونوں جلدوں میں ہمیں ’یہود وہنود‘ کی مقبولِ عام ترکیب کہیں نہیں ملی، البتہ یہود و نصاریٰ سے سابقہ ضرور پڑا ہے۔ بہت سامنے کی بات ہے کہ خالد سیف اللہ صاحب کا فہمِ دین ، ہندوستان میں جمہوری نظام اور ہندو اکثریت کے خمیر سے اٹھا ہے اور پاکستان کے علما کا فہمِ دین ، داخلی اعتبار سے فروعی مسایل کے غلغلوں اور خارجی لحاظ سے یہودو ہنود کی ریشہ دوانیوں سے نشوونما پایا ہے۔ کسی غیر جانب دار مبصر کے لیے اکیسویں صدی کے گلوبل ولیج میں فہمِ دین کے اس قسم کے مختلف النوع دھارے قابلِ قبول نہیں ہو سکتے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دین اپنی اصالت میں اضافی ہے کہ زماں کے اشتراک کے باوجود محض مکاں کی تبدیلی سے دین کے ظہور کی صورتیں ہی بدل جائیں؟ خاص طور پر ایسے دور میں جب مکاں کی تبدیلی کی اہمیت بہت ہی کم ہو چکی ہو۔ بہر حال! خالد سیف اللہ صاحب کا فہمِ دین ، آج کی دنیا سے کافی لگا کھاتا ہے۔ وہ آنکھیں کھول کر آج کی دنیا میں سانس لینا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کے ہاں پٹے پٹائے موضوعات نہیں ، بلکہ ان کے قلم نے نئی دنیا کے نئے مسایل کو للکارا ہے۔ چند عنوانات ہی دیکھیے : مردم شماری میں حصہ لینا ۔۔ایک اہم دینی فریضہ/ ٹریفک ۔۔ شرعی ہدایات /ٹیلی فون ۔۔احکام و آداب /کھیل ۔۔آداب و احکام / میچ فکسنگ ۔۔مرض اور علاج /ووٹ ۔۔ اسلامی نقطہ نظر / ووٹ ۔۔ ایک امانت /مرض اور مریض ۔۔اسلامی تصور / جانور اور اسلامی تعلیمات /ایڈز۔۔حقیقی حل کیا ہے /ماحولیاتی آلودگی اور اسلام /نیوکلیر اسلحہ ۔۔اسلامی تصور /مزدوروں کے حقوق /کلوننگ ۔۔اسلامی نقطہ نظر، وغیرہ وغیرہ۔ پھر ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے صرف موضوعات کی حد تک جدید دنیا کو چھوا ہے اور زبان و بیان اور اسلوب میں فرسودگی اختیار کی ہے ، بلکہ ان کا اصل کمال یہی ہے کہ انہوں نے’ گلوبل ولیج کے مخاطب‘ کی ذہنی و نفسیاتی کیفیت کا پورا دھیان رکھا ہے جو دھونس زبردستی کے بجائے مکالمے کی فضا میں بات کرنا چاہتا ہے ، اسی لیے خالد صاحب اکثر مواقع پر اپنا موقف بیان کرنے سے قبل مخاطب کے مطلب کی بات کرتے ہیں یعنی ایک طرح سے اس کی بات سنتے ہیں ۔ بات سنے جانے کے احساس سے مخاطب کا ایک حد تک تزکیہ ہو جاتا ہے جس سے اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے کہ وہ خالد صاحب کے نکتے کو سمجھنے کی کم از کم کوشش ضرور کرے ۔ مثال کے طور پر (مجسمہ کا انہدام ۔۔غوروفکر کے چند پہلو: ج۱، ح۲،ص۸۵) پڑھ لیجیے ۔
زیرِ نظر تالیف کے کئی گراں قدر پہلو قارئین کی ضیافت کا سامان لیے ہوئے ہیں، لیکن ہم اختتامی کلمات کی طرف بڑھتے ہوئے کتاب کے ظاہری حسن کی بابت عرض کریں گے کہ ایک توجاذبِ نظر کے بجائے انتہائی خستہ کاغذ پر طبع، اس کی دونوں جلدوں کی ضخامت یکساں نہیں ہے۔ انیس بیس کا فرق قابلِ لحاظ ہوتا، لیکن یہاں تو فرق تقریبا سو فی صد کا ہے۔ پہلی جلد کے صفحات ۸۴۸، اور دوسری کے ۴۸۴ ہیں، اس لیے ظاہری اعتبار سے دوسری جلد، پہلی کا تتمہ معلوم ہوتی ہے۔ پھر اس بد نمائی میں سونے پر سہاگہ، اس کتاب کی عجیب و غریب ترتیب ہے۔ پرانے طرز پر صفحات نمبر کے تسلسل کے بغیر پانچ مختلف تالیفات کو دو جلدوں میں اس طرح سمویا گیا ہے کہ ’گھس بیٹھیوں‘ کا گمان ہوتا ہے۔ جب عکس لے کر کتاب شائع کی جائے تو ایسی غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں۔ سرورق میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ اگر نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہرِ مبارک کا عکس چھاپنا ہی ہے تو اسے اوپر کونے میں جہاں ’راہِ عمل‘پرنٹ ہے، شائع کیاجائے کہ احترام کا تقاضا یہی ہے۔ خالد سیف اللہ صاحب نے خود بھی (دستخط۔۔ اسلامی احکام : ج۱، ح۳، ص۲۰۸) اس احترام کی طرف توجہ دلائی ہے :
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہانِ عجم اور روسائے عرب کو دعوتی خطوط بھیجنے کا ارادہ فرمایا ۔ اس موقع سے بعض حضرات نے آپ سے عرض کیا کہ یہ حضرات مہر کے بغیر خطوط کو قبول نہیں کرتے ۔ چنانچہ آپ نے مہر بنوائی جس پر ’محمد رسول اللہ ‘ کندہ کیا گیا اور آپ نے کمال احترام کا لحاظ کرتے ہوئے نیچے ’’محمد‘‘ اس کے اوپر ’’رسول ‘‘ اور سب سے اوپر ’’اللہ‘‘ کے کلمات لکھے۔‘‘
املا کی اغلاط کے انبار نے، جو درحقیقت پروف ریڈنگ میں روا رکھی گئی انتہائی بے احتیاطی کا نتیجہ ہے ’راہِ عمل‘ کو ایک خاص پہلو سے بے عمل بھول بھلیوں کا روپ دے دیا ہے ۔ ظاہری تزئین میں مانع اس خامی نے، کتاب کے بامقصد مواد میں مضمر حقانیت کو بری طرح تو مجروح نہیں کیا لیکن خاطر خواہ حد تک برا تاثر ضرور پیدا کیا ہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ اس خامی کے ذمہ دارہمارے ممدوح مولف نہیں ہیں بلکہ اس کا ’سہرا‘ صرف اور صرف پبلشر کے سر بندھتا ہے۔ املا کی اغلاط کے علاوہ تاریخوں اور حوالہ جات کے غلط اندراج سے بدنمائی میں مزید اضافہ ہوا ہے (اسی لیے ہم نے اقتباسات میں حوالہ دینے سے دانستہ چشم پوشی کی ہے)۔تذکیر و تانیث ، خلط ملط ہونے سے پٹھانی اردو کے نمونے بھی جابجا موجود ہیں ۔ راہِ عمل کی دونوں جلدوں میں بعض سنگین نوعیت کی غلطیاں بھی موجود ہیں، مثلاً جلد اول حصہ اول صفحہ نمبر ۱۱۹ پر حضرت انس رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ کے بجائے ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ شائع ہو گیاہے، صفحہ نمبر ۲۲۰ کی دوسری سطر پر ’راہ‘ کے ساتھ ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ لکھا گیا ہے۔ اسی طرح جلد دوم حصہ چہارم صفحہ نمبر ۷۵ پر فاطمہ بنتِ محمد لکھتے وقت محمد کے ساتھ ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ نہیں لکھا گیا ۔
اس کتاب کی قیمت ۶۰۰ روپے رکھی گئی ہے۔ اگر اس ایڈیشن کی تعداد ایک ہزار بھی ہو تو قیمت میں صرف پچیس روپے کے اضافے سے کسی بھلے مانس پروف ریڈر کو پچیس ہزار روپے مزید ادا کرکے اس اہم کتاب کی اسی طرح ’ذمہ دارانہ اشاعت‘ کا حق ادا ہو سکتا تھا جس ذمہ دارانہ اسلوب میں ہمارے مولف محترم نے اپنے خیالات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔
بلا سود بینکاری کا تنقیدی جائزہ ۔ منہجِ بحث اور زاویۂ نگاہ کا مسئلہ (۲)
مولانا مفتی محمد زاہد
مسئلے کا معاشی اور مقاصدِ شریعت کا پہلو
بہر حال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ روایتی علما کی واضح اکثریت جس میں غیر سودی بینکاری کے ناقدین اور مجوّزین دونوں ہی شامل ہیں، اگر مسئلے کو محض عقود کی سطح پر خالص فقہی انداز سے دیکھ رہی ہے تو اس معاملے کو اس کے پس منظر سمیت دیکھا جانا چاہیے۔ تاہم اس خالص فقہی زاویۂ نظر کے علاوہ اس مسئلے کو دیکھنے کے کچھ اور پہلو بھی ہیں جن میں خاص طور پر روایتی اور غیر سودی بینکاری دونوں کا اس حوالے سے جائزہ شامل ہے کہ مجموعی سطح کی معیشت پر ان دونوں کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں اوراسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان اثرات میں کس طریقے سے کیا رد وبدل ہوسکتاہے۔ اسی طرح غیر سودی بینکاری کا مقاصدِ شریعت کی روشنی میں جائزہ ، یعنی حرمتِ ربا کے سلسلے میں علۃ الحکم جو بھی ہو، اس حکم میں بہت سی حکمتیں بھی مضمر ہوں گی۔ وہ حکمتیں کیا ہیں ، موجودہ دور میں وہ کون سا میکنزم ہوسکتا ہے جس سے ان حکمتوں اور معاشی فوائد کو حاصل کیا جاسکے اور کیا یہ حکمتیں موجودہ غیر سودی بینکاری سے حاصل ہورہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جواز وعدمِ جواز یا فتوے کے مقصد کے لیے پہلی سطح کی بحث کو کافی قرار دیا جائے، تب بھی اس دوسری سطح کی بحث اور مذکورہ سوالات پر غورکی اہمیت بوجوہ برقرار رہتی ہے ۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ عبادات کے بر عکس اس طرح کے معاملات میں دعوتی نقطۂ نظر سے محض آخرت کے عذاب وثواب کا ذکر کافی نہیں ہوتا۔ کسی بھی کام کے لوگوں کی عملی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کی بھی اس میں خاص اہمیت ہوتی ہے۔ شعیب علیہ السلام کی ایک ’برائی‘ ان کی قوم کی نظر میں یہ تھی کہ وہ انہیں اپنے اموال میں اپنی مرضی کرنے سے منع کرتے ہیں۔ تقریباً ہر دور میں لوگوں کا یہ مزاج ہوتاہے، اس لیے لوگوں کے اموال کے معاملے میں انہیں اپنا عمل تبدیل کرنے کا کہنا دعوتی نقطۂ نظر سے خاصی احتیاط کا تقاضا کرتاہے، اس لیے بطور داعی ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ایک ناجائز کام کو چھوڑ کر جائز کام کی طرف اس انداز سے لوگوں کو لائیں کہ انہیں بتایا جاسکے کہ افراد کی سطح پر نہیں تو معاشرے کی سطح پر اس کے کیا بہتراثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایک خالص فقہی حکم اور جائز یا نا جائزہونے کے پہلو سے تو علتِ حکم ہی کی اصل اہمیت ہوتی ہے، لیکن ایک عمومی معاشی پالیسی کی بحث میں حکمتوں اور مقاصدِ شریعت کی بھی اہمیت ہوتی ہے اور انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب بات کی جارہی ہو عمومی معاشی پالیسی کی، بالخصوص ایک ریاست کے حوالے سے کہ اس کی معاشی پالیسی کے اصول اور بنیادی خدوخال کیا ہونے چاہئیں تواس کے لیے بحث کو پہلی سطح سے نکال کر دوسری سطح پر لانے کی ضرورت ناقابلِ انکار ہے۔
اسلامی بینکاری کا مطلب جائز تمویلی طریقے ہیں۔ جب شریعت کسی کام کو مباح قرار دیتی ہے تو اس کے اچھے یا برے نتائج کا ذمہ دار اسے اختیار کرنے والوں کو قرار دیتی ہے، اس لیے اس بینکاری کے نتائج کے ذمہ دار کافی حد تک اسے چلانے والے ہی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ محض سود کی وعید کی آیات اور احادیث پڑھ پڑھ کے زیادہ عرصہ تک کام نہیں چلایا جاسکتا، اس کے لیے بہتر سے بہتر نتائج دکھانا ضروری ہے۔ اس کے لیے جہاں کچھ تدبیری نوعیت کی بحثیں ہوسکتی ہیں ۔۔۔ مثلاً مسلمان معاشی مفکرین میں جاری یہ بحث کہ روایتی بینکوں کی تخلیقِ زر کی صلاحیت کو کنٹرول کرنے کے لیے مرکزی بینک جس طرح کے اقدامات کرتا ہے، کیا اسلامی بینکوں کے لیے بھی وہی تکنیکس مؤثر ہوسکتی ہیں یا ان کے لیے الگ نوعیت کے اقدامات کی ضرورت ہے ۔۔۔ وہیں اس بینکاری کا شریعت کے عمومی مقاصد اور حکمتوں کے تحت جائزہ بھی اہم ہے۔ اگر چہ شریعت کے عمومی معاشی مقاصد کے حصول کی ذمہ داری صرف چند اداروں پر عائد نہیں کی جاسکتی بلکہ بنیادی طور پر یہ پورے معاشرے اور ریاست کی ذمہ داری ہے ، تاہم یہ بینک چونکہ اسلام کا نام لے کر میدان میں آئے ہیں، اس لیے جہاں تک ان کے لیے ممکن ہو انہیں اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ راقم الحروف سے جب بھی کسی نے اسلامی بینکاری کے موضوع پر ایم فل یا ڈاکٹریٹ کی سطح کے کام کے بارے میں بات کی تو اس نے اسی دوسری نوعیت کے کام کی طرف توجہ دلائی، اس لیے کہ فقہی نوعیت کے مزید کام کی بھی اگرچہ گنجائش موجود ہے لیکن اس پر کافی کام ہوبھی چکاہے جبکہ دوسرے پہلو سے کام بہت کم ہوا ہے۔ ( تاہم یہ تأثر درست نہیں کہ سود کے متبادل بینکاری تجویز کرنے اور اسے فروغ دینے والے اہلِ علم نے اس پہلو کو بالکلیہ نظر اندازکیا ہے۔ ان کی طرف سے اس پہلو کو پیش نظر رکھنے کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ انہوں نے متبادل تمویلی طریقوں میں سے مشارکات پر مبنی طریقوں کو مداینات پر مبنی طریقوں کے مقابلے میں زیادہ قابلِ ترجیح قرار دیا ہے اور یہ بات اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں بھی کہی گئی ہے جو اس موضوع پر بالکل ابتدائی اور اساسی دستاویزات میں سے ہے،حالانکہ اگر محض فقہی عبارات کو دیکھا جائے تو دونوں طرح کے عقود کے جواز میں کوئی فرق نظر نہیں آتا یایوں کہیے کہ دونوں انواع کے اس فرق پر کوئی ’’صریح جزئیہ ‘‘ نہیں ملتا۔ یہ فرق عمومی معاشی اثرات اور مقاصدِ شریعت کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔) دوسری نوعیت کے کام کے حوالے سے دوسوال یہاں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ کیا جب تک دوسری نوعیت کی بحث مکمل نہ ہو جائے، فقہی حوالے سے مسئلے کا جائزہ لینا بے کار ہے؟ اور دوسرے یہ کہ اس دوسری نوعیت کی بحث کا منہج اور اس کے خد وخال کیا ہونے چاہییں؟ اب تک کی بحوث کی روشنی میں ایسے امور کی نشان دہی بھی ضروری ہے جو کسی غلط فہمی یا غلط نتائج تک پہنچنے کا باعث بن سکتے ہیں ۔
جناب زاہد صدیق مغل صاحب نے بھی ماہنامہ ’الشریعہ‘ ( جنوری ، فروری ، مارچ ۲۰۱۰ ء ) میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں فقہی نوعیت کی اور عقد کی سطح کی بحث سے ہٹ کر مسئلے کے جائزے کی طرف توجہ دلائی اور اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ اسلامی بینکاری پر تین سطحوں پر بحث ہوسکتی ہے۔ پہلی سطح کی بحث کے تعارف میں وہ کہتے ہیں: ’’ یہ سمجھنے کی کوشش کرنا آیا اسلامی بینکاری اور سودی بینکوں کے مقاصد میں کیسا تعلق ہے، کیا دونوں ایک ہی نظامِ زندگی ( سرمایہ داری ) کے مقاصد حاصل کرنے کے دو مختلف وسائل ہیں یا ان کے مقاصد میں کوئی تفریق موجود ہیں .....آیا اس طریقِ کار سے مقاصد الشریعہ کا حصول ممکن ہے بھی یا نہیں‘‘۔ دوسری سطحِ بحث کے بارے میں وہ کہتے ہیں: ’’ یہ تجزیہ کرنا کہ آیا موجودہ نظام بینکاری کو اسلامیانے کا کوئی طریقہ ممکن بھی ہے یا نہیں‘‘۔ تیسری سطح کے بارے میں وہ کہتے ہیں: ’’ اس سطح پر جزواً جزواً یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسلامی بینک جو زری سروسز اور پراڈکٹس مہیا کررہے ہیں، وہ قواعدِ شریعہ پر پوری اترتی ہیں یا نہیں‘‘۔ اس کے بعد وہ مروّجہ غیر سودی بینکاری کے مجوّزین اور ناقدین دونوں پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ ناقدین کی وہ اکثریت جو اپنے مقدمات میں مجوّزین کے مماثل ہے، درحقیقت پہلی دونوں سطح سے سہوِ نظر (by pass) کرتے ہوئے اپنی تنقید کی بنیاد اس تیسری سطح پر رکھتی ہے۔ گویا مجوّزین اور ناقدین کی اس اکثریت کے درمیان قدرِ مشترک تنقید کی اول دونوں سطحوں کو نظر انداز کرنا ہے‘‘۔ گویا ان کے نزدیک معاملہ جب تک پہلی دو سطحوں کی تنقید کے ذریعے کلئیر نہ ہوجائے، اس پر فقہی زوایۂ نگاہ سے بحث کرنا فضول ہے اور جو لوگ فقہ کے نقطۂ نظر سے بحث کررہے ہیں، وہ ترتیب الٹ کر ایک لا حاصل بحث میں الجھے ہوئے ہیں ۔
کیا خامی والی ہر چیز کو بطور کل رد کردینا چاہیے؟
انہوں نے جو ترتیب تجویز کی ہے، دیکھنے تو وہ بہت خوبصورت معلوم ہوتی ہے لیکن اسے اثرات و نتائج کے اعتبار سے دیکھیں تو صورتِ حال بہت مختلف نظر آتی ہے۔ اس کی تفصیل کی طرف آنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک مثال کے ذریعے بات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ فرض کریں ایک صاحب کسی جدید قسم کی یونیورسٹی میں تعلیم کے فرائض انجام دے کر اس کا معاوضہ وصول کرتے ہیں (جیسا کہ جناب زاہد صدیق مغل صاحب خود بھی ماشاء اللہ ایک جدید انداز کی دانش گاہ میں استاذ ہیں، غالباً انہوں نے اسی انداز کی کسی دانش گاہ میں تعلیم بھی حاصل کی ہوگی۔) وہ صاحب اس یونیورسٹی کو جو خدمات مہیا کرتے ہیں، وہ بالکل جائز ہیں، معاہدے میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے، محنت اور امانت داری سے اپنا کام کرکے رزقِ حلال حاصل کررہے ہیں۔ اب کوئی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ان کا یہ ملازمت اختیار کرنا بالکل غیر اسلامی ہے، اس لیے کہ اصل مسئلہ اس خاص ملازمت کی نوعیت کا نہیں بلکہ اس پورے نظام کا ہے۔ موجودہ جدید تعلیمی نظام اپنے بنیادی مقاصد کے اعتبار سے ہی غلط اور استعماری اہداف کو پورا کرنے والا ہے، اس کی تطہیر ممکن ہی نہیں ہے ، جو لوگ اسے’ کلمہ پڑھانا‘ ممکن سمجھتے ہیں، ان کا اس تعلیمی نظام کا فہم ہی سرے سے غلط ہے۔ اس کے ساتھ وہ لارڈ میکالے پر لعنت بھیجتے ہوئے اور سرسید احمد خاں پر تبرا کرتے ہوئے موجودہ نظامِ تعلیم کی خامیوں کی ایک طویل فہرست ذکردیتے ہیں۔ اس پر یہ معلم صاحب کہتے ہیں کہ آپ کی یہ ساری باتیں بجا، مگر میں تو وہاں کوئی غلط کام نہیں کرتا، میں تو بالکل جائز خدمات فراہم کرتا اور ان کا معاوضہ لیتاہوں، میرے معاہدے میں تو کوئی خلافِ شریعت بات نہیں۔ اس پر وہ معترض صاحب کہتے ہیں، یہ دیکھنا کہ آپ کے معاہدے کی نوعیت کیا ہے، بعد کی بات ہے۔ پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ نظامِ تعلیم بطور ایک ’کل‘ کے درست بھی ہے یا نہیں۔ وہ معترض صاحب مغل صاحب ہی کے الفاظ مستعار لے کر کہتے ہیں کہ ’’اس نظامِ تعلیم کو جزوی طور پر نہیں، ایک بڑے نظام ہائے زندگی کے پرزے کے طور پر جانچ کر یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا اس طریقۂ کارسے مقاصد الشریعہ کا حصول ممکن ہے بھی یا نہیں‘‘۔ وہ معلم صاحب یونیورسٹی کے ساتھ طے ہونے والا اپنا معاہدہ دکھاتے ہیں تو اس پر معترض صاحب کہتے ہیں: ’’آپ کا طریقِ کار یہ ہے کہ آپ معاہدے کی مخصوص شکل کی بات کررہے ہیں، مگر یہ معاہدہ جس ’ تعلیمی ماحول اور حالات ‘ میں ہورہاہے، اسے یکسر نظر انداز کررہے ہیں، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تعلیمی ماحول (educational environment) کا درست تجزیہ کرنے کی کوشش کی جائے جس کے اندر ایک جدید یونیورسٹی کا وجود ممکن ہے‘‘۔ وہ معلمّ صاحب کہتے ہیں کہ آخر مجبوری ہے، اس کے علاوہ کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے۔ اس پر معترض صاحب ارشاد فرماتے ہیں: ’’ مجوّزین کا یہ ایک عمومی حربہ ہے کہ اوّلاً وہ اپنے حق میں اصولی جواز اور دلائل پیش کرتے ہیں، مگر جب ان کے تمام دلائل کو علمی طور پر رد کردیا جائے تو پھر ضرورت کی دہائی دینا شروع کردیتے ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ معترض صاحب ان معلّم صاحب کو ایک اور تجویز پیش کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ ہم نے دور دراز کے ایک پس ماندہ گاؤں میں ایک مدرسہ کھولا ہے جس میں بچوں کو ابتدائی نوعیت کے ضروری حساب کتاب کی تعلیم کے لیے ایک معلّم درکار ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ ہی وہاں تشریف لے چلیں، اتنا وظیفہ آپ کی خدمت میں پیش کردیا جائے گاجو قوت لا یموت کا کام دے سکے۔ اس میں ان غریب بچوں کا مستقبل سنور جائے گا اور آپ بڑے شہر کی اس جدید یونیورسٹی میں جو خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کا بھی کوئی نقصان نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس میں تو آپ کے سیٹ خالی کرتے ہی بیسیوں بلکہ سینکڑوں لوگ اپنی خدمات پیش کردیں گے۔ اس گاؤں میں جانے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ معلم صاحب کی طرف سے ذرا تردد کا انداز دیکھ کر وہ معترض ان کے سامنے ایک نیا وعظ شروع کردیتے ہیں۔ انہوں نے چونکہ جناب مغل صاحب کے کچھ مضامین سے استفادہ کیا ہوا ہے، اس لیے وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ ترقی بطور قدر کے اصول پر چل رہے ہیں۔ آپ نے زیادہ سے زیادہ خواہشات پوری کرنے کو اپنا مطمحِ نظر بنایا ہوا ہے، آپ کے ہاں اصل مسئلہ تزکیہ نفس نہیں ہے، اس لیے نفع خوری کی خاطرآپ اس جدید ادارے سے وابستگی چھوڑکر گاؤں میں جانے کے لیے تیّار نہیں ہیں، اسی لیے تو ہم نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ یہ یونیورسٹیاں اپنی بنیاد ہی کے اعتبار سے غلط ہیں۔ یہ ڈگریاں لے کر بڑے بڑے مشاہرات اور مراعات والی ملازمتوں کے خواب دکھاتی ہیں، آپ پر بھی اسی طرح کی کسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا یہ اثر ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ اس مکالمے کے بارے میں فاضل مضمون نگار جیسے حضرات کے احساسات کیا ہوں گے اور انہیں کس کے ساتھ ہمدردی ہوگی۔ کم ازکم مجھے اگر یہ کہا جائے کہ اس معترض کی طرح کسی جدید ادارے کے کسی استاذ سے اس انداز سے مکالمہ کروں تو میں خود کو اس کے لیے تیار نہیں پاؤں گا، اس لیے کہ اس اندازِ بحث سے اگرچہ مجھے یہ edge حاصل ہوگا کہ میں نے اپنے آپ کو ایک نظام کے ناقد کے طور پر اور اعلیٰ ترین اصولوں کے مبلغ کے طور پر پیش کر لیا اور دوسرے فریق کو ایک دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے جس میں وہ کتنی ہی معقول بات کرتا رہے، اس کے بارے میں غلط نظام کے وکیل ہونے کا تاثر اپنا کام دکھاتا رہے گا۔ پھر بھی میں اس طرزِ بحث کو اختیارکرنے کے لیے اس لیے تیار نہیں ہوں گا کہ اس طرح کی چالاکیاں روایتی قسم کے مناظروں میں تو بہت مفید ہوسکتی ہیں، ایک علمی بحث کے مناسب نہیں۔ بہرحال مذکورہ ایک مثال سے یہ سمجھنے میں یہ دشواری نہیں رہنی چاہیے کہ اگر ہر چیز کے بطور ’کل‘ جائزے ہی کو اسے اختیار کرنے یا ترک کرنے کا اصول اور معیار بنا لیا جائے تو دنیا کا کوئی کام بھی مشکل ہوجائے گا۔ یہ بات تو کسی نہ کسی طرح زندگی کے اکثر وبیشتر شعبوں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ ایک صاحب جدید میڈیکل سائنس کا علم حاصل کرکے خدمتِ خلق کرنا اور محنت ودیانت کے ساتھ رزقِ حلال کمانا چاہتے ہیں۔ ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ اس کی بجائے ہمارے فلاں طبیہ کالج میں داخلہ لے لیں جہاں میٹرک پاس طلبہ کو تین اور میٹرک فیل طلبہ کو چار سال میں’’ طبیبِ حاذق‘‘ بنادیا جاتاہے، اس لیے کہ جدید دور کی میڈیکل سائنس سمیت تمام حیاتیاتی علوم کا ڈارون ازم کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ ان کے بنیادی مقاصد ہی میں نظریۂ ارتقا اور ڈارون ازم کو فروغ دینا شامل ہے، جبکہ شریعت کے مقاصد اس سے بالکل مختلف ہیں، لہٰذا پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ ان سائنسز سے مقاصد الشریعہ کا حصول ممکن بھی ہے یا نہیں۔ اور تو اور، بازار کو بطور ’کل ‘ اگر دیکھنے لگیں تو اس کے بارے میں تو نص موجود ہے کہ یہ زمین کے سب سے بُرے ٹکڑے ہیں، اگر کوئی شخص بطور ’کل ‘ دیکھنے والے اسی فلسفے کو لے کر بیٹھ جائے تو وہ یہی کہے گا کہ بازار میں جانا ہی نہیں چاہیے۔ وہ بازار کے عمومی حالات کو سامنے رکھ کر اس میں جانے کے خلاف بڑی’ اصولی‘ اور شان دار بحث کر سکتا اور یہ کہہ سکتاہے کہ بازار جانے کی حمایت کرنے والوں نے یہ غلط مفروضہ قائم کر رکھا ہے کہ اس بد ترین جگہ کو کسی نہ کسی طرح اسلامی بنا ہی لیا جائے گا اور اسے کلمہ پڑھا ہی لیا جائے گا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ بازار جانا تو ضرورت ہے تو جواب میں وہ یہ کہہ سکتاہے کہ یہ آپ لوگوں کا حربہ ہے کہ جب کوئی اور بات نہیں بنتی تو ضرورت کی دہائی دینے لگتے ہو ، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف وہاں جاکر کاروبار کرنے کی اجازت دے رہے ہیں بلکہ یہ بھی فرمارہے ہیں کہ سچا اور امانت دار تاجر نبیوں ، صدیقوں اور شہدا کے ساتھ ہوگا۔ (جامع ترمذی ، کتاب البیوع: باب ماجاء فی التجار وتسمیۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم إیاہم ) اور اسے ’کلمہ ‘ پڑھانے کا یہ طریقہ بیان فرما رہے ہیں کہ کاروبار کے ساتھ صدقہ خیرات بھی کرتے رہا کرو (حوالہ بالا) اور اس بد ترین جگہ پر جانے کا ذکر لا إلہ إلا اللہ وحدہ الخ بھی تعلیم فرمارہے ہیں۔ ( جامع ترمذی ، کتاب الدعوات : باب مایقول إذا دخل السوق )۔
در حقیقت اصل مسئلہ کسی چیز کو بطور کل یا بطور جز دیکھنے کا نہیں، دین کے اوامر اور نواہی کی روشنی میں دیکھنے کا ہے۔ اگر ہم شر یعت کے عمومی مزاج کو دیکھیں تو اس میں کسی چیز کو بطور ’کل‘ کے دیکھ کر اسے رد کرنے کی بجائے خذ ما صفا ودع ما کدر کا اصول زیادہ استعمال ہوتا نظر آئے گا، یعنی اس میں جو اچھائی یا درست کام ہے، وہ لے لو اور برائی سے بچنے کی کوشش کرو۔ بازار کو بدترین جگہ قرار دینے کے باوجود حکمِ شرعی میں اس بات کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے کہ آپ نے وہاں جاکر کام کیا کرناہے۔ یہی منہج عمومی طور پر علما نے بینکنگ کے حوالے سے اختیار کیا ہے کہ روایتی بینکنگ کو بالکلیہ قبول یا بالکلیہ رد کرنے کی بجائے یہ کہاکہ دیکھا جائے کہ آپ نے بینک میں یا اس کے ذریعے کرنا کیا ہے، اسی کے مطابق آپ کے کام یا سرگرمیوں کو درست یا غلط کہا جاسکے گا۔ یہ منہجِ فکر اسلامی بینکاری کے حامیوں اور ناقدین میں قدرِ مشترک ہے، چنانچہ اسلامی بینکاری کے ناقد علما بھی بینکنگ کی بہت سی سروسز سے استفادے کو نہ صرف جائز کہتے ہیں بلکہ خود ان سے مستفید بھی ہوتے ہیں، علما کے انفرادی طور پر بھی اور وفاق المدارس سمیت کئی دینی تنظیموں ، اداروں اور مدارس وجامعات کے بینکوں میں کرنٹ اکاونٹ کھلے ہوئے ہیں اوروفاق المدارس سمیت کئی تو ان کے ذریعے لین دین بھی کرتے ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ سود سے تو خالی ہوتا ہے جو مغل صاحب کے خیال میں ثانوی درجے کی برائی ہے، ان کے خیال میں جو اصل برائی ہے یعنی تخلیقِ زر کا باعث بننا، وہ کرنٹ اکاؤنٹ میں کچھ زیادہ ہی ہوگی کم نہیں، اس لیے کہ کھاتہ دار کے اپنی قوتِ خرید سے دست بردار نہ ہونے والی بات اس میں زیادہ پائی جاتی ہے اور بنک کرنٹ اکاؤنٹ کے ساتھ بھی جزمحفوظاتی نظام کے تحت ہی برتاؤ کرتا ہے۔ یہ بات تو غیر سودی بینکاری کے مجوّزین نے شروع ہی میں کہہ دی تھی کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق کام کرنے والا بینک نہ تو وہ تمام کام کرسکے گا جو روایتی بینک کرتے ہیں اور نہ ہی روایتی بینک کی تمام خصوصیات اس میں موجود ہوں گی ، جیسا کہ خود مولانا محمد تقی عثمانی نے ’’ اسلام اور جدید معیشت وتجارت ‘‘ میں اسے بیان کردیاہے ، چنانچہ وہ اس کتاب کے ص۱۳۳ پر فرماتے ہیں :
’’سودی بینکاری کا متبادل تلاش کرنے کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ مروّجہ بنک جتنے کام جس انداز سے کررہے ہیں، وہ سارے کام کم وبیش اسی انداز سے انجام دیے جاتے رہیں اور ان کے مقاصد میں کوئی فرق واقع نہ ہو، کیونکہ اگر سب کچھ وہی کرنا جو اب تک ہورہا ہے تو متبادل طریقِ کار کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی، بلکہ متبادل کا مطلب یہ ہے کہ بنک کے جو کام موجودہ تجارتی حالات میں ضروری یا مفید ہیں، ان کی انجام دہی کے لیے ایسا طریقِ کار اختیار کیا جائے جو شریعت کے اصولوں کے دائرے میں ہو اور جس سے شریعت کے معاشی مقاصد پورے ہوں اور جوکام شرعی اصولوں کے مطابق ضروری یا مفید نہیں اور جنہیں شرعی اصولوں کے مطابق ڈھالا نہیں جاسکتا، ان سے صرفِ نظر کیا جائے۔‘‘
حاصل یہ کہ یہاں اس بات پر علما کے درمیان اتفاق ہے کہ بینک کے ادارے کے ساتھ خذ ما صفا ودع ما کدر والا برتاؤ کیا جائے گا۔
پھر یہاں دو چیزوں میں خلط ہو گیا ہے۔ ایک ہے کسی چیز کو بطور ’کل‘ کے لینا اور ایک ہے کلیات اور قواعد کی روشنی میں دیکھنا۔ ایک بڑے کل کے اجزا کو الگ الگ دیکھتے ہوئے بھی شریعت کے عمومی قواعد یا مقاصدِ شریعت سے راہ نمائی لی جاسکتی اور لی جاتی ہے۔ شریعت کے مقاصد اور عمومی قواعد کو اگر دیکھیں تو ان میں تیسیر کا پہلو ہماری شریعت کے اہم مقاصد میں نظر آتا ہے۔ قرآن نے کئی جگہوں پر اس کے ساتھ باقاعدہ ارادے کا لفظ استعمال کیا ہے: ’’یرید اللہ بکم الیسر‘‘ (البقرۃ:۱۸۵)۔ اس موضوع پر اگر نصوص کی صرف فرست ہی درج کی جائے تو بات بہت لمبی ہوجائے گی۔ فقہانے جن پانچ قواعد کلیہ کو پوری شریعت کا محور قرار دیا ہے، ان میں سے تین کا تعلق کسی نہ کسی طرح تیسیر کے اصول سے بنتا ہے اور وہ ہیں: (۱) المشقۃ تجلب التیسیر (۲) الضرر یزال (۳) العادۃ محکمۃ۔ ان میں پہلا تو صراحتاً تیسیر سے متعلق ہے۔ ا س کا مطلب یہ ہے کہ تیسیر کل شریعت کا ۵/۳ یا کم ازکم ۵/۱ ضرور بنتا ہے۔ اس قاعدے کی اہمیت کے باوجود اس کے عملی انطباق میں اختلاف ہوسکتا ہے ، لیکن اس قاعدے کے استعمال کو ہی استہزا یا تہکم کا نشانہ یا اعتراض کی بنیادبنا لینا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ جناب مغل صاحب ایک طرف تو مقاصدِ شریعت کے بہت بڑے داعی اور مبلغ نظر آتے ہیں، دوسری طرف ضرورت وحاجت کی بات کرنے کو وہ ’’مجوّزین کا عمومی حربہ‘‘ اور ’’ ضرورت کی دہائی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں،اگرچہ اسلامی بینکاری ساری کی ساری اس اصول پر مبنی نہیں ہے، بلکہ اس میں متعدد معاملات میں فی نفسہ جواز کے باوجود سدّ ذریعہ کے طور پر تضییق سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ یہاں کہنا صرف یہ مقصود ہے کہ اگر واقعتا مقصود مقاصدِ شریعت کی بات کرنا ہے تو ضرورت وحاجت کا اعتبار اور تیسیر تو شریعت کا اہم ترین اور منصوص مقصد ہے۔ مقاصدِ شریعت کی بار بار بات کرنے والوں کو تو تیسیر یا ضرورت کی بات ’’حربہ‘‘ تو نظر نہیں آنی چاہیے۔
کیا عمومی سطح کے معاشی جائزے کے بغیر فقہی بحث غیر متعلق ہے؟
بہر حال ان چند مثالوں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاملے کو بطور کل لینے کی بات دیکھنے میں جتنی خوبصورت اور اصولی لگتی ہے، واقعہ میں اتنی سادہ نہیں ہے ، اس لیے ان کی تجویز کردہ یہ ترتیب کہ جب تک مسئلہ پہلی دو سطحوں کی بحث میں پاس نہ ہوجائے، تب تک اس پر فقہی زوایۂ نگاہ سے بات نہیں کرنی چاہیے یا یہ کہ ان بینکوں میں طے پانے والے عقود کو فقہی لحاظ سے درست قرار دیا جائے جیساکہ ایک فریق کی رائے ہے یا فاسد جیساکہ دوسرے فریق کی رائے ہے، تب بھی جب تک مسئلہ پہلے دو ٹیسٹوں میں کلئیر نہ ہو جانے، یہ فقہی فیصلہ نافذ نہیں ہونا چاہیے، یہ ترتیب مسئلے کو فضا میں معلق کرنے یا اندھیری کوٹھڑی میں لے جانے کے مترادف ہے، اس لیے کہ مدوّن فقہ المعاملات ایک واضح، منضبط اور زیرِ عمل چیز ہے جس کے اصول وقواعد، جزئیات اور طریقہ ہائے استدلال سب چیزیں منقح اور واضح ہیں، جبکہ جس سطح کی بحث کی بات فاضل مضمون نگار فرمارہے ہیں، اس میں کوئی واضح اور نکھرا ہوا مواد موجود نہیں ہے ، جیسا کہ خود ان کا اپنا شکوہ ہے کہ اس سطح پر غور نہیں ہورہا۔ اس سطح کا جو کام ہوا ہے، اسے ابھی خود تنقید کی چھلنی سے گزرنا ہے۔ ایک نامکمل اور مبہم جائزے کی بنیاد پریا اس کی تکمیل کی انتظار میں ایک واضح، مدوّن اور زیرِ عمل چیز کے بارے میں حکمِ امتناعی کیسے جاری کردیا جائے؟ یہ ایسے ہی ہوگاجیسے کسی جگہ کوئی خاص قانون یا قانونی نظام رائج ہو، کسی صاحبِ دانش کو وہ قانون یا قانونی نظام پسند نہ ہو تو یہ ان کا حق ہے کہ وہ اس پر تنقید کریں، متبادل قانونی فکر کی تجویز دیں ، اس کے لیے لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کریں، لیکن پہلے ہی مرحلے میں وہ یہ بھی کہہ دیں کہ جس بحث کو میں نے چھیڑا ہے جب تک یہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ جائے، ججوں کو اس کے مطابق فیصلے کرنے اور قانونی مشیران کو اس کے مطابق قانونی مشورے دینے کا عمل بند رکھنا چاہیے، ظاہر ہے کہ کوئی شخص اس مشورے یا مطالبے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوگا۔ موجودہ مدوّن یا روایتی فقہ درحقیقت ایک قابلِ ذکر متدیّن طبقے کا رائج الوقت شرعی قانون ہے، ریاست کے نافذ کردہ قانون کے معنی میں نہیں بلکہ ایسے قانون کے معنی میں جسے لوگ اپنی مرضی سے اپنے اوپر لاگو کررہے ہیں۔ اہلِ افتا اسی قانون کی روشنی لوگوں کی راہ نمائی کررہے ہیں۔ صرف اسلامی بینکاری ہی نہیں، بے شمار مسائل میں اسی فقہ کی روشنی میں غور کرتے ہوئے ان کے نتائجِ بحث یا فتاوے میں اختلاف بھی ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں جس کو جس رائے یا جس صاحبِ علم پر اطمینان ہوتاہے، اس پر عمل کرلیتا ہے۔ یہی کچھ اسلامی بینکاری کے مسئلے میں ہورہاہے۔ دونوں قسم کے فتاویٰ موجود ہیں اور لوگ دونوں پر عمل بھی کررہے ہیں۔ اب اگر اس رائج الوقت منہجِ فکر کا متبادل کسی کے ذہن میں موجود ہے تو وہ اسے اہلِ علم کے سامنے پیش کرنے کا حق رکھتا ہے۔ علمی حلقے اسے تنقید کی چھننی سے گزاریں گے، لیکن یہ کہنا کہ ہماری بحث مکمل ہونے تک پہلے سے موجود فتووں کو معطل رکھا جائے، یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی قانون یا قانونی نظام میں تبدیلی کے مشورے کے ساتھ ہی رائج قانون پر عمل سے روک دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ تعطل کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔
پھر فقہِ اسلامی میں اگرچہ ہمیں جدید معاشی اصطلاحات استعمال ہوتی نظر نہیں آتیں، اس میں معاشی تجزیے ، فارمولے، مساواتیں وغیرہ نہیں ہوتیں،اس میں ہمیں معاشی ماڈلز نہیں ملتے، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اس کے احکام معاشی حکمت اور دانش سے بھی خالی ہیں۔ فقہِ اسلامی کا وہ حصّہ جو حصہ فقہ المعاملات المالیۃ کہلاتاہے، اسے ہم سمجھنے کے لیے اسلام کا قانونِ تجارت کہہ سکتے ہیں جسے غلطی سے یا شاید مجازاً اسلامی معاشیات بھی کہہ دیا جاتاہے۔ جدید معاشیات کی عمرتو اڑھائی صدی سے بھی کم بنتی ہے (جدید معاشیات کے بانی آدم سمتھ کی وفات ۱۷۹۰ء میں ہوئی) ، اس سے پہلے کا انسان بھی معاشی سمجھ بوجھ سے خالی نہیں تھا۔ کسی بھی قوم کے کاروباری ضوابط کے پیچھے اس کے معاشی تصورات موجود ہوتے ہیں۔ فقہِ اسلامی اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ اس کے ذکر کردہ احکام کے پیچھے بھی کچھ معاشی تصوّرات اور نظریات ہوتے ہیں جن کا کچھ اندازہ فقہا کی ذکر کردہ تعلیلات سے بھی ہو سکتاہے۔ ( اگرچہ ان تعلیلات میں معاشی سے زیادہ قانونی رنگ غالب ہوتا ہے) فقہِ اسلامی کا مطالعہ کرکے ان تصورات اور نظریات کو جدید معاشی اسلوب میں بھی بیان کیا جاسکتاہے، خاص طور پر زر (money) اور اس کے متعلقات وغیرہ کے بارے میں تو اسلامی فقہ کے تصورات بہت واضح ہیں۔ فقہا کے ہاں زر کے بارے میں اُس زمانے سے واضح اور بنیادی تصوّرات ملتے ہیں جبکہ مغرب کو اس پر بحث شروع کرنے میں بالخصوص جدید علمِ معیشت کے وجود میں آنے میں ابھی صدیاں پڑی تھیں۔ اس حوالے سے شاید ہی کوئی نظامِ فکر وعلم فقہ اسلامی پر سبقت کا دعوی کرسکے۔ فقہِ اسلامی فضا میں یا غاروں میں پروان نہیں چڑھی، اس نے مختلف علاقوں میں متنوع قسم کے حالات میں صدیوں تک معاشی مسائل میں لوگوں کی راہ نمائی کی ہے ۔ اس کا واسطہ مختلف قسم کی معیشتوں سے رہا ہے۔ اس نے ایسی معیشتوں کو بھی ڈیل کیا ہے جو اپنے وقت کی بالادست، طاقت ور اور بڑی معیشتوں میں سے تھیں، اس لیے مدوّن فقہ المعاملات بے چاری اتنی گئی گزری بھی نہیں ہے کہ یہ تصوّر کرلیا جائے کہ اس کے کسی فیصلے پر عمل سے پہلے معاملے کا کسی جدید معیشت دان سے تجزیہ کرانا ضروری ہے، اس کے بغیر اس فیصلے پر عمل معاشی دانش سے بالکل ہی خالی ہوگا ۔
در حقیقت جس نوعیت کا استدلال غیر سودی بینکاری کے یہ ناقدین کررہے ہیں، بالکل اسی نوعیت کا استدلال بینکوں کے انٹرسٹ کو ربا تسلیم نہ کرنے والوں کا تھا۔ ان کا کہنا بھی یہی تھا کہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ عقد کی نوعیت کیا ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قرآن نے جس ربا سے منع کیا ہے، یہ وہ ربا تھا جو ظلم پر مشتمل تھا اور یہی ظلم ربا سے منع کرنے کی اصل وجہ ہے، لہٰذا اصل دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس نئی نوعیت کے انٹرسٹ میں ظلم پایا جاتاہے یا نہیں۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اس میں ظلم نہیں پایا جاتا۔ اس پر وہ اپنے دلائل دیتے تھے۔ گویا فاضل مضمون نگار جیسے ناقدین اور بینکوں کے سود کو جائز کہنے والوں کے منہج استدلال میں بظاہر یہ بنیادی بات قدرِ مشترک لگ رہی ہے کہ قرآن وسنت سے ہم صرف بنیادی اصول لیں گے، مثلاً یہی کہ ظلم اور استحصال نہیں ہونا چاہیے۔ آگے معاملات پر اس کا انطباق کرنے کے لیے عقد کی نوعیت اور نصوص وغیرہ کو دیکھنے کی بجائے ہم اپنے معاشی تجزیے سے جائزہ لیں گے کہ کہاں یہ اصول کس طرح سے لاگو ہورہا ہے۔ بنیادی منہج ایک ہی ہے، البتہ اس مہنج کی رو سے معاشی تجزیہ دونوں کا الگ الگ ہوگیا۔ ایک کی رائے میں بینکوں کے سود میں ظلم نہیں پایا جاتا، اس لیے اگرچہ عقد کی نوعیت ایسی ہو کہ اس کا ناجائز ہونا منصوص ہو، پھر بھی اصل حکم وہی ہے جوہمارے معاشی تجزیے سے سامنے آیاہے، جبکہ دوسرے فریق کے معاشی تجزیے کے مطابق سود کی بات تو ثانوی ہے، خود بینکنگ ہی میں ظلم پایا جا رہا ہے، اس لیے بینکاری سودی ہویا غیر سودی، دونوں ہی اپنے اصل کے اعتبارسے غلط ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق بھی ان کے اس تجزیے کی موجودگی میں فقہی جائزے اور عقد کی نوعیت کے اعتبار سے ان میں طے پانے والے عقود کو جائز کہیں یا ناجائز، یہ ان کے خیال میں غیر متعلق بات ہے ۔
کیا علما سے بینکنگ کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے؟
جناب زاہد صدیق مغل صاحب نے اپنے مضمون کا زیادہ تر حصہ اس بات پر صرف کیا ہے کہ اسلامی بنکاری کے مجوّزین نظامِ زر اور بینکاری کو صحیح طریقے سے سمجھے ہی نہیں۔ اب تک تو وہ مجوّزین اور ناقدین تمام علما پر تنقید کررہے تھے، لیکن یہاں پہنچ کر ان کا نشانہ صرف مجوّزین ہی رہ جاتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ مجوّزین میں عصرِ حاضر کے ایک آدھ عالم نہیں بلکہ بنیادی طور پران میں مولانا مفتی محمد شفیعؒ ، مولا نا محمد یوسف بنوریؒ ، مفتی رشید احمد لدھیانویؒ ، اسلامی نظریاتی کونسل کے ۱۹۸۰ء اور اس سے قبل کے زمانے کے فاضل ارکان، مجمع الفقہ الاسلامی جیسے متعدد بین الأقوامی فقہی فورمزکے ارکان اور عالمِ اسلام کی معروف شخصیات شامل ہیں۔ ان سب شخصیات اور فورمزسے علمی طور پر اختلافِ رائے کرنا بھی کوئی گناہ نہیں ہے، لیکن یہ ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ اس رائے کی حامل ایک آدھ شخصیت نہیں ہے۔ ایک آدھ شخصیت کی آڑ لے کر سب کو ناواقف قرار دینا بہر حال کافی احتیاط کا متقاضی ہونا چاہیے۔ ویسے تو جناب مغل صاحب نے مجوّ زین کے تصورِ بینکاری کو پیش کرتے ہوئے جس طرح سے ایک مشہور علمی شخصیت کی باتوں کو اپنی مرضی کے معانی پہناکر انہیں ناواقف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور خود ان کی اپنی باتوں میں کتنی ایسی ہیں جو کم ازکم مجھ سے طالب علم کو تضادات اور ابہامات نظر آتی ہیں، انہیں بیان کرنے کے لیے ایک مستقل مضمون درکار ہے ، لیکن چونکہ ہمارا مقصد نہ تو کسی کی تنقیص ہے اور نہ ہی کسی شخصیت کی تمجید، اس لیے یہاں اس بحث سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف ایک بات کی طرف اشارہ ضروری سمجھتے ہیں جسے فاضل مضمون نگار نے ایک طرح سے چیلنج کے انداز میں پیش کیا ہے۔
ان کی اس بات کی طرف کی آنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ روایتی طور پر بنک کا کام یہ ہے کہ وہ خود اشیایا خدمات کے کاروبار میں ملوث نہیں ہوتا، بلکہ صرف اور صرف پیسے کا لین دین کرتاہے۔ ایک طرف سے پیسہ کم شرحِ سود پر لیتا اور دوسری طرف زیادہ شرحِ سود پر دیتاہے۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے زر (money) بذاتِ خود ایسی چیز نہیں کہ اس کے لین دین کو نفع کمانے کا ذریعہ بنایا جائے۔ نفع کمانے کا طریقہ تجارت ہے جس کے لیے اشیا یا خدمات کے لین دین میں خود یا اپنے وکیل کے ذریعے ملوّث ہونا ضروری ہے۔ ( اس نکتے کی زیادہ وضاحت خود مولانا کے لکھے ہوئے سپریم کورٹ کے سود کے خلاف فیصلے میں موجود ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی بینکاری میں بنک کبھی بھی محض پیسے پر نفع نہیں لیتا بلکہ یا تو خود کسی کاروبار میں مضارب یا شریک بن کر حصہ لیتا ہے یا اشیا یا خدمات فراہم کرکے اس پر نفع لیتاہے ۔ جناب مغل صاحب نے یہ تأثر دینے کی کوشش کی ہے کہ مجوّزین‘ بینک کو محض ایک زری ثالث سمجھتے ہیں، بینک کی دیگر اہم خصوصیات جیسے اس کا جزو محفوظاتی طریقے سے کام کرنا، تخلیقِ زر کاباعث بننا وغیرہ سے یہ علما واقف نہیں ہیں۔ صحیح صورتِ حال سے ناواقفیت کی وجہ سے علما غلط سوال قائم کرکے اس کا غلط جواب دے رہے ہیں۔ انہوں نے مولانا محمد تقی عثمانی سمیت تمام علما کے بارے میں یہ تأثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کے نزدیک بینک محض زری ثالث کا کردار ادا کرتا ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کے لیے انہوں نے مولانا عثمانی کی ایک عبارت نقل کی ہے: ’’مروّجہ [ روایتی، سودی] بنکاری میں بینک کی حیثیت محض ایک ایسے ادارے کی ہے جو روپے کا لین دین کرتاہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی مولانا کی کتاب کے ص ۱۱۶ سے وہ عبارت نقل کی ہے جس میں انہوں نے بنک کے وظائف گنواتے ہوئے تخلیقِ زر کا بھی ذکر کیا ہے۔ جناب مغل کے خیال میں یہ ایسا تضاد ہے جسے رفع کرنا مجوّزین کے ذمہ ہے، اس لیے کہ بقول ان کے، اگر بینک محض روپے کے لین دین کا ادارہ ہے تو وہ تخلیقِ زر کا باعث کیسے بن سکتا ہے؟ اس موقع پر ہم حافظ شیرازی کے الفاظ میں یہی عرض کرسکتے ہیں :
سخن شناس نہ ای دلبرا خطا این جاست
اگر مجھے معلوم ہوتا کہ جناب مغل صاحب کچھ درسِ نظامی بھی پڑھے ہوئے ہیں تو ان سے صرف ایک جملے میں بات کرتا کہ ’محض‘ کا لفظ حصر حقیقی کے لیے نہیں، حصرِ اضافی کے لیے ہے۔ بات وہی ہے جو اوپر عرض کی گئی کہ مولانا عام بنکوں اور اسلامی بنکوں میں فرق بیان کررہے ہیں کہ عام بنکوں کا بنیادی وظیفہ یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف روپے کا لین دین کرتاہے، یعنی اشیا وخدمات کی تجارت کا نہیں، چنانچہ شروع شروع میں بعض جگہوں پر اسلامی بنکوں کو یہ قانونی دشواری بھی پیش آئی کہ بنک تو خود کاروبار کرہی نہیں سکتا جبکہ اسلامی بینکاری میں بنک کرتا ہی کاروبار ہے ، تو عام روایتی بنکوں کے بارے میں’ محض ‘کا لفظ اشیا وخدمات کے کاروبار کی نفی کے لیے ہے نہ کہ تخلیقِ زر وغیرہ دیگر کرداروں کی نفی کے لیے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فاضل مرتب (راقم الحروف کے چھوٹے بھائی) مفتی محمد مجاہد شہیدؒ ’محض ‘ کا لفظ ’روپے ‘ کے ساتھ ذکر کردیتے اور جملہ یوں ہوتا’ ’محض روپے کا لین دین کرتاہے [ یعنی اشیا وخدمات کا نہیں]‘‘ ۔۔جیساکہ اسی سے چند جملے آگے خود مولانا عثمانی کی اسی طرح کی عبارت ہے ۔۔ تو بات زیادہ واضح ہوجاتی۔ پھر بھی جس شخص کو مذکورہ پس منظر سے اور روایتی اور اسلامی بینکوں کے درمیان اس فرق سے آگہی ہو، وہ خود بات کو درست طریقے سے سمجھ سکتاہے اور اگر اس پس منظر سے صرفِ نظر بھی کرلیا جائے تب بھی مولانا کے اگلے جملے سے ہی مفہوم بہت واضح ہوجاتاہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مولانا کا پورا پیرا گراف نقل کردیا جائے :
’’چنانچہ مروّجہ نظام بنکاری میں بنک کی حیثیت محض ایک ایسے ادارے کی ہے جو روپے کا لین دین کرتاہے، اسے اس بات سے سروکار نہیں ہے کہ اس روپے سے جو کاروبار ہورہا ہے اس کا منافع کتنا ہے اور اس سے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان پہنچ رہا ہے ؟
اسلامی احکام کی رو سے بنک ایسے ادارے کی حیثیت میں باقی نہیں رہ سکتا جس کا کام صرف روپے کا لین دین ہو، اس کے بجائے اسے ایک ایسا تجارتی ادارہ بنانا پڑے گا جو بہت سے لوگو ں کی بچتوں کو اکٹھا کرکے ان کو براہِ راست کاروبار میں لگائے اور وہ سارے لوگ جن کی بچتیں اس نے جمع کی ہیں ، براہِ راست اس کاروبار میں حصہ دار بنیں اور ان کا نفع نقصان اس کاروبار کے نفع نقصان سے وابستہ ہو جو ان کے سرمائے سے بالآخر انجام دیا جارہاہے، لہٰذا سودی بنکاری کے متبادل جو انتظام تجویز کیا جائے گا، اس پر یہ اعتراض نہ ہونا چاہیے کہ بنک نے اپنی سابقہ حیثیت ختم کردی ہے ، اور وہ بذاتِ خود ایک تجارتی ادارہ بن گیا ہے ، کیونکہ اس کے بغیر وہ ضرورت [ یعنی سود کا خاتمہ ] پوری نہیں ہوسکتی جس کی وجہ سے متبادل نظام کی تلاش کی جارہی ہے۔‘‘
حیرت ہے کہ فاضل مضمون نگار سے اگلی ہی عبارت بلکہ اگلے ہی جملے سے صرفِ نظر کیسے ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ جس نے مولانا محمد تقی عثمانی کی کتابوں اور غیر سودی بنکاری پر ان کے اور دیگر علماکے مواد کا سرسری سا بھی مطالعہ کیا ہو، وہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ انڈا پہلے یا مرغی جیسی یہ بحث کہ ’’بچتیں قرضوں کو جنم دیتی ہیں یا قرضے بچتوں کو‘‘ کے علاوہ فاضل مضمون نگار نے بنکاری کے حوالے سے جن حقائق کی نشان دہی کی ہے، ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جن سے مولانا یا دیگر مجوّزین غافل نہیں ہیں، مثلاً یہ کہ بنک تخلیق زر کا باعث بنتے ہیں، وہ محض کمپیوٹر کی یاد داشت میں زر تخلیق کرتے اور اس پر نفع کماتے ہیں جس کی وجہ سے بنیادی زر ( کرنسی ) کے مقابلے میں بنکوں کے تخلیق کردہ زر کا تناسب بہت زیادہ ہوجاتاہے۔ ( اس پہلو پر مولانا کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے جس کا اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے) اور یہ کہ بنک کل محفوظاتی کی بجائے جزمحفوظاتی طریقے سے کام کرتے ہیں، یعنی کھاتہ داروں کی جتنی رقوم ان کے پاس ہوتی ہیں، ان کا کچھ حصہ رکھ کر باقی قرض دے دیتے ہیں ، اور یہ کہ بیشتر حالات میں کھاتہ دار کو بھی اپنے کھاتے پر چیک جاری کرنے کا اختیار ہوتاہے۔ اس طرح سے وہ اپنی قوّتِ خرید سے پورے طور پر دستبردار نہیں ہوتا اور یہ کہ checkable deposits یا IOU,s کی وجہ سے دیون کی رسیدیں بھی ادائیگیوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں بلکہ اصل کرنسی کی بجائے ان کا استعمال زیادہ ہوتاہے۔ اس طرح کے بیشتر نکات وہ ہیں جن سے مجوّزین غافل نہیں ہیں۔ اس پر ان حضرات خصوصاً مولانا عثمانی کی عبارات پیش کی جاسکتی ہیں، بلکہ یہ تو ایسی باتیں ہیں جن سے انٹر یا گریجویٹ کی سطح کی بینکنگ یا کامرس پڑھنے والا بھی ناواقف نہیں ہوسکتا، ہاں البتہ بعض چیزوں کے تجزیے اور ان کے آثارکے بارے میں زاویۂ نگاہ کا فرق ہوسکتاہے۔ جناب فاضل مضمون نگار کا زاویۂ نگاہ اپنی جگہ محترم اور ان کی کاوش اپنی جگہ قابلِ قدر، لیکن یہ فرق بظاہر رائے کا فرق ہوگا، واقفیت یا نا واقفیت کا نہیں۔ اصل دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ جس پہلو کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے، اس کا حکمِ شرعی پر بھی کوئی اثر پڑتا ہے یا نہیں۔ اس معاملے میں حرفِ آخر دلیلِ شرعی ہی ہوسکتی ہے نہ کہ کوئی معاشی جائزہ۔ ہم بڑی بے صبری کے ساتھ تین قسطوں تک اس بات کا انتظار کرتے رہے کہ جناب مغل صاحب آخر میں یہ بتائیں گے کہ جن پہلوؤں کی طرف انہوں نے توجہ دلائی ہے اور جن کے بارے میں ان کاکہناہے کہ مجوّزین ان سے ناواقف ہیں، ان پہلوؤں کا حکمِ شرعی پر کیا اثر مرتب ہوگا ، یہ بات وہ شرعی دلیل سے ثابت کریں گے ، لیکن ان کے مضمون کی آخری قسط پڑھ کر اس حوالے سے بہت مایوسی ہوئی، اس لیے کہ شرعی دلیل کے حوالے سے جناب مغل صاحب کا مضمون بہت ہی تشنہ ہے۔
مذکورہ مضمون کے مطالعے سے عمومی تاثر یہ ملتا ہے کہ جو لوگ بنک کو زری ثالث سمجھتے ہیں، وہ امرِ واقعہ کے اعتبار بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اگر اس سے مراد یہ ہے کہ بنک کے زری ثالثی کے کردار کے علاوہ اس کے کسی اور کردار کی نفی کرنا غلط ہے تو یہ بات تو درست ہے، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی صاحبِ علم جو بینکنگ وغیرہ کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات رکھتے ہوں، وہ اس غلط فہمی کا شکار ہوں ، اس لیے کہ زری ثالثی کے علاوہ بنک کے کئی کردار تو بہت معروف اور واضح ہیں۔ فاضل مضمون نگار نے سب سے زیادہ زور بنک کے تخلیقِ زر کے کردار پر دیاہے ، مجوّزین میں سے مولانا محمد تقی عثمانی کی کتاب ’’ اسلام اور جدید معیشت وتجارت ‘‘ میں بھی بنک کے اس کردار کا تذکرہ ان لفظوں میں شروع کیاگیا ہے : ’’بنک کا ایک اہم کردار جس کا ذکر یہاں بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ بنک پہلے سے موجود زر میں اضافہ کرکے زر کے پھیلاؤ کو بڑھاتاہے ، اور زر کی رسد میں اضافے کا کام انجام دیتاہے ....‘‘ اور اگر مراد یہ ہے کہ بنک عام ڈپازیٹر اور قرض حاصل کرنے والوں کے درمیان واسطہ بننے کا فریضہ انجام دیتاہے( اگرچہ اس کے ساتھ دیگر وظائف بھی انجام دیتاہے ) تویہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا ، اس کے لیے زیادہ تعلیم اور مطالعے کی بھی ضرورت نہیں۔ کسی بھی بنک کی کسی اہم برانچ میں چندگھنٹے گزار کر وہاں ہونے والوں کاموں کا مشاہدہ کرنا ہی اس حقیقت کے ادراک کے لیے کافی ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ مضمون پڑھ کر اوّل وہلہ میں تو ہم بھی کچھ مرعوب ہوگئے تھے، ہمیں تجسس پیدا ہوا تھا کہ ممکن ہے اب تک بینکنگ کی جو ماہیت سمجھی جارہی ہے، وہی غلط ہو۔ اس صورت میں اپنی پوری سوچ پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ چونکہ ان علما کا اصل میدان اسلامی علوم ہی ہیں، معاشی علوم ان کا اصل موضوع نہیں ہیں، اس لیے ممکن ہے کہ دنیا بہت آگے جاچکی ہو اور زری ثالث ہونے کی بنک کی یہ خصوصیت اتنی کم حیثیت ہوگئی ہو کہ ناقابلِ ذکر ہوگئی ہو اور ان علماکو ہونے والی تبدیلی کا پتا ہی نہ چلا ہو اور وہ پرانی پوزیشن پر ہی کھڑے ہوں ، لیکن تھوڑی سی مراجعت سے اندازہ ہوا کہ بنک کی تعریف میں اس کی اس خصوصیت کا ذکر صرف بعض مجوّزین نے ہی نے نہیں کیا ۔ جن کے بارے میں مغل صاحب کو شکوہ ہے کہ وہ سنی سنائی یا دوسرے تیسرے درجے کے مراجع سے حاصل کردہ باتیں کرتے ہیں ۔بلکہ اس کا ذکر ایسے جدید مراجع میں بھی موجود ہے جن کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ سنی سنائی باتوں یا دوسرے تیسرے درجے کے مراجع پر انحصار کرنے والے یا معاشی علوم میں جدید رجحانات سے ناواقف ہیں۔ بطور مثال یہاں چند حوالے پیش کیے جاتے ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (ڈیجیٹل ایڈیشن ۲۰۰۷ ء)میں بنک کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے :
an institution that deals in money and its substitutes and provides other financial services. Banks accept deposits and make loans and derive a profit from the difference in the interest rates paid and charged, respectively.
دی اوکسفرڈ ڈکشنری آف اکنامکس میں بنک تعریف ان لفظوں میں کی گئی ہے :
A financial institution whose main activities are borrowing and lending money. Banks borrow by accepting deposits from the general public or other financial institutions.
ایک آن لائن بزنس ڈکشنری میں بنک کی تعریف ان لفظوں میں کی گئی ہے :
Establishment authorized by a government to accept deposits, pay interest, clear checks, make loans, act as an intermediary in financial transactions, and provide other financial services to its customers. http://www.businessdictionary.com/definition/bank.html last visited 02/10/2010))
ویکیپیڈیا والوں نے بنک کی تعریف ان لفظوں میں کی ہے :
A bank is a financial institution that accepts deposits and channels those deposits into lending activities.
مزے کی بات یہ ہے کہ مجوّزین کے نظریۂ بینکاری کی بات کرتے ہو ئے انہیں یہ تضاد محسوس ہوتا ہے کہ بنک اگر محض زر کی لین دین کا کام کرتاہے تو وہ تخلیقِ زر کا کام کیسے کرتا ہے، لیکن مضمون کے آخر میں جا کر انہیں خود احساس ہوجاتاہے کہ تخلیقِ زر درحقیقت زر کے لین دین کی ہی ایک خاص شکل کا نتیجہ ہے، اس لیے وہ بینکنگ کی ساری خرابیاں ذکر کر کے ان سب کا ’سہرا‘ اسی زری ثالثی والی خصوصیت کے سر باندھتے ہیں ، چنانچہ مضمون کی آخری قسط میں اپنے موقف کے اثبات کے لیے چند بنیادی مقدمات کا ذکر کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں :
’’جب تک اکانومی میں ایک ایسا ایجنٹ موجود رہے گا جو بیک وقت لوگوں سے رقم (deposits) وصول بھی کرے اور ادھار (financing) بھی دے، اس وقت تک’ فرضی زر کی تخلیق‘ کا عمل جاری رہے گا اور یہ ایجنٹ (یا ادارہ ) لازماً ( جعلی ) ’ قرض کی رسید‘ (promise of payment) کو آلۂ مبادلہ ( means of payment ) کی حیثیت دے کر اصل زر کے خاتمے کا باعث بنے گا۔‘‘
آگے چل کر مزید کہتے ہیں :
’’یہ ناممکن ہے کہ اکانومی میں ایک شخص قرض دینے اور ڈپازٹس وصول کرنے کا کام بھی کررہا ہو مگر قرض کی رسید بطور آلۂ مبادلہ استعمال نہ ہورہی ہو۔‘‘
قطع نظر اس سے کہ ابھی ذکر کردہ مختصرسی عبارتوں میں کتنے مغالطے ہیں، ان میںیہ بات بہرحال تسلیم کی جارہی ہے کہ بینک کا اصل کردار رقوم وصول کرنا اور ادھار دینا ہے اور خود ان کے خیال میں بنک جن بنیادی خرابیوں پر مشتمل ہے، ان کی بنیاد بھی اس کا یہی زری ثالثی والا کردار ہے۔ گویا پہلے یہ کہا جارہا تھا کہ بنک اگر محض زر کا لین دین کرتا ہے تو تخلیقِ زر کیسے کرسکتاہے اور اب کہا جارہا ہے کہ چونکہ وہ زر کا لین دین کرتاہے، اس لیے لازماً تخلیقِ زر کاکام بھی کرے گا !
(جاری)
اسلامی بینکاری: زاویہ نگاہ کی بحث
محمد زاہد صدیق مغل
ماہنامہ الشریعہ شمارہ مئی ۲۰۱۰ میں مفتی زاہد صاحب دامت برکاتہم العالی نے راقم الحروف کے مضمون ’اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب‘ کے تعقب میں اپنے مضمون ’غیر سودی بینکاری کا تنقیدی جائزہ‘ (حصہ اول) میں ’زاویہ نگاہ کی بحث ‘ کے تحت چند گزارشات پیش کی ہیں جن پر مختصر تبصرہ کرنا راقم ضروری سمجھتا ہے۔
۱۔ راقم الحروف نے اپنے مضمون میں یہ بنیادی بحث اٹھائی تھی کہ اسلامی بینکاری کے حامیین نے اصل بحث کی ترتیب کو الٹ دیا ہے۔ مفتی صاحب نے بحث کی موجودہ ترتیب کے حق میں بجا طور پر یہ وضاحت فرمائی کہ علمائے کرام خود کو اس ترتیب پر اس لیے مجبور پاتے ہیں کہ وہ محض محققین نہیں بلکہ عملی میدان کے سوار ہیں جہاں انہیں لوگوں کے مسائل کے ’عملی حل ‘ پیش کرنا ہوتے ہیں۔ راقم الحروف کو اس بات سے صد فیصد اتفاق ہے اور ہم نے اپنے مضمون کے حاشیے میں بھی بعینہ اسی امر کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ایسا کرنا علمائے کرام کی مجبوری ہے، مگر راقم کے نزدیک علمائے کرام کا بینکاری یا جمہوریت وغیرہ جیسے مسائل کے ساتھ’ اصول جبر‘ کے تحت معاملہ کرنا کوئی اتنا سادہ مسئلہ نہیں جتنا کہ مفتی صاحب نے بیان فرمایا بلکہ یہ ایک خاص فکری پس منظر کا نتیجہ ہے جس پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے ، مگر قلت وقت کے سبب یہاں چند اشاروں پر ہی اکتفا کروں گا۔
یہ بات عیاں ہے کہ ہمارے مدارس میں پڑھائے جانے والے درس نظامی کورس کی چند خصوصیات ہیں:
اول: یہ ’اسلامی ریاست کی موجودگی‘ کو فرض کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس میں اسلامی ریاست پر مبنی مباحث سے متعلق کسی بڑے اسلامی سیاسی مفکر کی کوئی کتاب شامل نہیں۔
دوئم: درس نظامی کے اس کورس کا مقصد اسلامی ریاست اور اسلامی علمیت کے پس منظر میں مسائل کے حل کا طریقہ کار وضع کرنا ہے، دوسرے لفظوں میں یہ اسلامی ریاست کے لیے وہ رجال کار فراہم کرتا ہے جو اس کے معاملات کو اسلامی احکامات کے تحت چلاتے رہیں۔
سوئم: چونکہ یہ اسلامی ریاست کو مفروض کرتا ہے لہٰذا اس میں مسائل کے حل کا جو طریقہ سکھایا جاتا ہے، اسے ہم ’موجودہ حالات میں کیسے خود کو ڈھالو‘ (how to fit in oneself in the given environment) کے الفاظ سے تعبیر کرسکتے ہیں، یعنی اس کا طریقہ کار ہی یہ ہے کہ اسلامی علمیت کی بالادستی پر مبنی ریاستی و معاشرتی صف بندی کے اندر پیش آنے والے مسائل کو کیسے اس طرح حل کیا جائے کہ اسلامی روایت (تقلید) کا تسلسل جاری رہے ۔
چہارم: یہی وجہ ہے کہ فقہ کا طریقہ کار ہمیشہ جزو پر فتوی لگانا ہوتا ہے۔ چونکہ جس معاشرتی و ریاستی تناظر کے ’کل ‘ کو یہ فقہ مقدم طور پر فرض کرتی ہے، وہ حق یعنی اسلام پر مبنی ہوتا ہے لہٰذا یہاں معاملے کے جزوہی پر حکم لگانے کی نوعیت پیش آتی ہے ۔
اگر درج بالا تجزیہ درست ہے تو اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر اسلامی ریاست موجود ہو تو ’موجود کے اندر سموجانے ‘ یعنیfit in ہوجانے کے اس نہج سے بہتر اور علاوہ کوئی دوسرا طریقہ ممکن ہی نہیں۔ البتہ جب اسلامی ریاست ہی سرے سے مفقود ہو تو کل کو نظر انداز کرکے fit in ہونے کے اصول کے مطابق جزو پر فتوے دینا ایک دوسری تہذیب کو خود پر غالب آنے کا موقع فراہم کرنا ہے جیسا کہ عیسائیت کی شکست و ریخت سے واضح ہے ۔ علمائے کرام بالعموم نئے پیش آنے والے مسائل کو انکے کل سے کاٹ کر اسی fit in ہوجانے کے اصول کے تحت انکا تجزیہ کرکے ان پر حکم لگاتے ہیں جو بلا شک و شبہ اسلامی ریاست کے پس منظر میں ایک محفوظ طریقہ کار ہے، مگر سرمایہ دارانہ ریاستی صف بندی میں اسے اپنانا عمیق خطرات کا باعث ہے کیونکہ اب جس معاشرتی و ریاستی صف بندی میں fit in ہونے کا طریقہ کار وہ بتاتے ہیں، وہ ماحول ہی غیر اسلامی ہے اور اب اس طریقہ کار کا مطلب ’غیر اسلامی نظام زندگی کے اندر اسلامی زندگی گزارنے‘ کا نسخہ تیار کرنا ہے۔ اس fit in ہوجانے کے اصول کو اپنانے کے بے شمار نقصانات ہیں جن میں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ سیکولر معاشرتی و ریاستی صف بندی ہم پر غالب آتی چلی جاری ہے، علمائے کرام ’رخصتوں‘ کی آفاقیت پر خود کو پہلے سے زیادہ مجبور محسوس کرنے لگے ہیں اور مطلوب کا حصول ناممکن سے ناممکن ہوتا چلا جارہا ہے۔ چنانچہ ہر نئے پیش آنے والے مسئلے کو جب اس کے کل سے کاٹ کر دیکھا جاتا ہے تو اس کی معنویت بدل جاتی ہے (کیونکہ معنی کل میں ہوتے ہیں) اور پھر اس مسئلے کو ایک غلط پس منظر میں سمجھنے کے بعد اس کا کوئی اسلامی متبادل وغیرہ فراہم کردیا جاتا ہے جس کی بے شمار مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور اسلامی (یا غیر سودی) بینکاری بھی اسی نوع کی ایک مثال ہے۔ اسی fit in ہوجانے کے اصول کے تحت پہلے ہم نے پیپر کرنسی کو خود سے ’یہ قرض نہیں‘ فرض کر کے اس کا شرعی جواز پیدا کیا اور پھر سرمایہ دارانہ (یعنی بینک ) زر کا اسلامی جواز بھی ڈھونڈ لیا۔ اسی اصول کے تحت ہم نے اپنی ایک ہزار سالہ تاریخ میں جو ادارتی وریاستی نظم قائم تھا، اس سے منہ موڑ کر انگریزوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے احیائے خلافت کے بجائے خود کو انگریزوں ہی کی عطا کردہ جمہوری صف بندی کا حصہ بنایا اور مزے کی بات یہ ہے کہ آزادی حاصل کرلینے کے بعد بھی ہم نے اپنے تاریخی تسلسل (مثلا مغل یا ترک خلافت کی ادارتی صف بندی وغیرہ) کی طرف پلٹنے کے بجائے جمہوری صف بندی ہی کو اختیار کرلیا اور پھر اسی کو اسلامی بنانے کی ٹھان لی۔ چنانچہ علمائے کرام کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ’کل‘ کی بحث کو نظر انداز کرتے یاانتہائی ثانوی سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ بالعموم ریاستی تناظر سے بحث ہی نہیں کرتے بلکہ اکثر و بیشتر موجودہ نظم کو فطری و اسلامی فرض کرتے ہیں جیسا کہ اسلامی بینکاری کے مؤیدین علما کا حال ہے۔
مجوزین اسلامی بینکاری کے نزدیک بینکاری کی اسلام کاری نا صرف یہ کہ ممکن ہے بلکہ وہ موجودہ معاشی و ریاستی تناظر کو عین فطری اور اسلامی فرض کرتے ہیں جیسا کہ راقم نے اپنے مضمون ’اسلامی معاشیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز‘ میں مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی کے نظریات سے واضح کیا تھا۔ اسلامی بینکاروں کے ان واضح نظریات کی موجودگی کے باوجود یہ کہنا کہ ان علما کے نزدیک اسلامی بینکاری محض کوئی مجبوری ہے، راقم کے لیے ایک نا قابل فہم بات ہے۔ لہٰذا علمائے کرام کا (نام نہاد) اسلامی بینکوں میں مشیر بن جانے سے کوئی مطلوب تبدیلی رونما نہیں ہوگی کیونکہ علمائے کرام کا کام سرمایہ دارانہ نظم میں ’مشیر‘ بننا نہیں بلکہ اسلامی ریاست تعمیر کرکے اس کی ’حکمرانی‘ کرناہے اور جب تک وہ ایسا کرنے کی کوشش نہیں کریں گے، اس وقت تک اسلامی ریاست قائم نہیں ہوگی۔ لہٰذا یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ جو ریاستی و ادارتی نظم (بشمول پاکستان میں) اس وقت قائم ہے، وہ غیر اسلامی ہے اور اس کے اندر fit in ہوجانے اور جزو پر فتوی دینے کے طریقہ کار کو چھوڑکر کل کی بنیاد پر فتوی دینے کی طرف توجہ دینا ہوگی اور اس کے لیے اولاً علم الکلام کے فروغ کی ضرورت ہے نہ کہ فقہ المسائل کی، کیونکہ سرمایہ داری نے جو مسائل پیدا کیے ہیں، ان کا تعلق اصلاً کلام کے ساتھ ہے اور فروعاً فقہ کے ساتھ، لہٰذا یہ ترتیب ملحوظ خاطر رکھنا ہوگی بصورت دیگر جبر کا دائرہ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ امید ہے اس وضاحت سے راقم کی فکر میں بظاہر نظر آنے والا یہ تضاد رفع ہوجائے گا کہ ایک طرف تو ہم علما کی تھیوکریسی کے قائل ہیں تو دوسری طرف ان کے اسلامی بینکوں کے مشیر بننے کے خلاف ہیں! جب راقم کے نزدیک بینک کی اسلام کاری ہی ممکن نہیں تو پھر اس کے ’اسلامی مشیر ‘ بننے کا کیا مطلب؟
۲۔ راقم الحروف کا اپنے مضمون میں یہ کہنا کہ ’’بینکوں کا سودی یا غیر سودی ہونا ایک ثانوی مسئلہ ہے‘‘ اس سے خدانخواستہ ہر گز یہ مقصود نہیں تھا کہ ہمارے نزدیک حرمت سود کوئی کم تر شے ہے، حاشا و کلا۔ بلکہ اس بات کا مطلب صرف اتنا تھا کہ بینکوں کے غیر سودی ہو سکنے کا امکان موجودہ بحث میں مقدمات کی ترتیب کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہے اور بس۔ اگر اس کے علاوہ اس کا کوئی دوسرا مفہوم نکلتا ہے (جیسا کہ مفتی صاحب نے بیان فرمایا) تو راقم اس سے بری الذمہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور اس سے توبہ کرتا ہے۔
۳۔ مفتی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ ہمارے مضمون سے انہیں ہمارے فکری پس منظر کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اپنے بارے میں ضروری وضاحت کردوں۔ راقم الحروف فی الحال نیشنل یونیورسٹی فاسٹ میں معاشیات کا استاد جبکہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پی ایچ ڈی معاشیات کا طالب علم ہے اور اس سے قبل ایم فل اکنامکس کرچکا ہے۔ میٹرک کے بعد کراچی کے مدرسے جامعہ علیمیہ اسلامیہ (مشہور بنام ’اسلامک سینٹر‘ قائم کردہ جناب ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری قادری سجادہ نشین مولانا عبد العلیم صدیقی جو شاگرد خاص تھے مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی کے) سے درس نظامی کی تعلیم حاصل کی۔ قدیم کلامی مسائل میں اشاعرہ و ماتریدیہ، فقہی مسائل میں فقہ حنفی جبکہ بر صغیرپاک و ہند میں جو مسائل ’شرک و بدعت‘ کے عنوان کے تحت باعث نزاع بنے، ان میں اکثر و بیشتر بریلوی مسلک کی رائے کو صائب جبکہ دیگر مکاتب فکر کی رائے کو ہر گز کفر یا فسق نہیں سمجھتا بلکہ اسے تعبیر اور تاویل کی غلطی سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے علمائے متقدمین باوجود اہم کلامی مسائل میں اختلافات کے اہل سنت والجماعت میں شمار ہوسکتے ہیں تو آج یہ امکان بند نہیں ہوجاتا۔ راقم کے نزدیک بریلویت، دیوبندیت اور سلفیت برصغیر میں اسلامی انفرادیت کے جائز اظہار کے مختلف دھارے ہیں اور اس خطہ ارضی میں فروغ اسلام کے لیے ان شناختوں کے قیام و بقا کو ضروری سمجھتا ہے، اس شرط کے ساتھ کے ایک دوسرے کو کافر و گمراہ نہیں بلکہ اپنا حلیف سمجھا جائے، کیونکہ اس خطہ ارضی میں استعماری غلبے کے بعد انہی اسلامی شناختوں نے ایک طرف اسلامی علمیت اور روایات کو محفوظ کیا اور دوسری طرف سرمایہ داری کے فروغ کا مقابلہ کیا۔ اس خطہ ارضی میں انہی شناختوں کا فروغ درحقیقت فروغ اسلام کا سہل ترین طریقہ ہے کیونکہ یہاں انہی کی تاریخی و فطری معاشرتی و نفسیاتی بنیادیں موجودہ ہیں، نیز ان شناختوں کو ہر گز تحلیل نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ایسا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے کیونکہ اس خطہ ارضی میں اسلامی انفرادیت کی پہچان کے یہی وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے یہاں سرمایہ دارانہ انفرادیت کی شناخت کو پروان چڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔ جب یہ روایتی شناختیں تحلیل ہوتی ہیں تو ان کی جگہ جو شے انفرادی شناخت کا ذریعہ بنتی ہے، وہ یا تو تجدد پسندانہ اسلام کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور یا پھر کالج ویونیورسٹی (مثلا Quaidian) یا کمپنی وغیرہ کی پہچان کی شکل میں جن کا اسلامی انفرادیت سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ (بہر حال یہ سب راقم کی ذاتی رائے ہے جس سے اختلاف ممکن ہے)۔
مولانا خواجہ خان محمد کی یاد میں تعزیتی نشست
ادارہ
حضرت مولانا خواجہ خان محمد سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ کندیاں کی وفا ت پر انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ۸؍ مئی کو ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت بزرگ عالم دین مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی نے کی اور پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی، جمعیۃ علماے اسلام (س) پنجاب کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی اور الشریعہ اکادمی کے مولانا حافظ محمد یوسف نے خطاب کیا۔
مولانا عبد الرؤف فاروقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا خواجہ خان محمد کی وفات سے دینی، علمی اور روحانی حلقوں میں جو خلا پیدا ہوا ہے،اس کے پر ہونے کا دور دور تک امکان نظر نہیں آتااور ان کی وفات سے ہم ایک سرپرست بزرگ اور عظیم سرمایے سے محروم ہو گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے بزرگ ایک ایک کر کے ہم سے رخصت ہوتے جا رہے ہیں اور ہماری محرومیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اس لیے ہمیں پہلے سے زیادہ محنت کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔
مولانا زاہد الراشدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا خواجہ خان محمد کو تمام مکاتب فکر میں متفقہ راہ نما کی حیثیت حاصل تھی اور تحریک ختم نبوت میں مختلف دینی مکاتب فکر کے علما اور دینی جماعتوں نے کل جماعتی مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر مولانا خواجہ خان محمد کی قیادت میں حضرت مجدد الف ثانی کی تعلیمات کے مطابق سلسلہ نقشبندیہ کے علوم وکردار کو فروغ دینے والوں میں مولانا خواجہ خان محمد سرفہرست تھے اور انھوں نے قرآن وسنت کے مطابق تصوف وسلوک کی صحیح نہج سے لوگوں کو متعارف کرایا۔
مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا خواجہ خان محمد ہمارے دور میں اکابر علماے حق کی روایات کے امین اور ان کے مشن کے وارث تھے جنھوں نے زندگی بھر ملک میں قرآن وسنت کی تعلیمات کے فروغ، عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور نظام شریعت کے نفاذ کے لیے جدوجہد کی اور ہزاروں علماے کرام اور مسلمانوں نے ان سے روحانی فیض حاصل کیا۔
تعزیتی نشست میں علماے کرام، دینی مدارس اور کالجوں کے اساتذہ اور مختلف طبقات کے افراد نے شرکت کی اور آخر میں حضرت مرحوم کی مغفرت اور بلندئ درجات کے لیے دعا کی گئی۔
دارالعلوم دیوبند کے فتوے کے خلاف حالیہ مہم پر مولانا عتیق الرحمان سنبھلی کا بیان
جماعت دیوبند کے بزرگ عالم اور معروف دانشور و مصنف مولانا عتیق الرحمان سنبھلی(مقیم لندن)نے دارالعلوم کے فتووں کے خلاف میڈیا کی حالیہ مہم کو نہایت غیر ذمہ دارانہ بلکہ معاندانہ قرار دیا ۔مولانا نے اپنے ایک اخباری بیان میں، جو آج دہلی سے جاری کیاگیا، کہا کہ دارلعلوم صرف ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا کے مسلمانوں کا ایک اہم دینی و علمی مرکز ہے۔ میڈیا کے کچھ حلقے اور مسلم دشمن گروہ اس کو مستقل ایک بدنام کن مہم کانشانہ بنائے ہوئے ہیں۔
مولانا نے دارالعلوم کے دفتر اہتمام سے فرمائش کر کے متعلقہ فتووں کی کاپی منگواکر خود دیکھی اورصاف محسوس کیا کہ میڈیا نے توڑ مروڑ کر بات کو پیش کیا ہے۔ مولانا کا کہنا تھا کہ ملک اور بیرون ملک کے بعض اخبارات اور ٹی وی چینلز نے بالکل جھوٹ یہ بات نشر کی کہ دارلعلوم کی طرف سے عورت کی کمائی کو حرام کہا گیا ہے۔ اس کے برعکس دارلعلوم کے فتووں میں صراحت ہے کہ’’کمائی پر حرام ہونے کا حکم نہیں‘‘۔ بعض فتووں میں یہ بھی صراحت ہے کہ ’’عورت کے لیے کمانا ممنوع نہیں‘‘۔ ہاں! بجاطورپر شرعی لباس اور حیا کے تقاضوں کی پابندی کی شرط ہے۔ مولانا کا کہنا تھا کہ چونکہ اس زمانے میں آفسوں اور بازاروں کا ماحول نہایت بے حیائی کا ہے اور مغربی تہذیب و تعلیم نے ذہن ناپاک بنا دیے ہیں، آفسوں میں صنف نازک کے ساتھ زیادتیوں کے جس طرح کے واقعات عام ہیں، اس کے بیان کی ضرورت نہیں، اس لیے دارالعلوم کے فتووں میں خواتین کو بلا ضرورت سروس کرنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ نہایت معقول بات ہے۔
مولانا نے بڑا افسوس ظاہر کیا کہ بعض مسلمان بھی حقیقت جانے بغیر میڈیا کے اس خلاف حقیقت پروپیگنڈے سے متاثر ہو جاتے ہیں اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند ہمارے عقیدہ و تہذیب کی آخری دفاعی لائن ہے۔مولانا نے مزید کہا کہ نہایت حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے بعض اردو کے اخبارات بھی بسااوقات اس مہم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ حالاں کہ ان سے تو بجا تور پر یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ دارالعلوم سے رابطہ کرکے اصل حقیقت جان لیں ،اور فتووں کو ان کے صحیح تناظر میں سمجھنے اور پیش کرنے کی کوشش کریں ۔ مولانا نے سارے مسلمانوں سے اپیل کی کہ یہ وقت دارالعلوم کی تائید و حمایت کا اور مغربی تہذیب کے مقابلہ میں اس کے رہنما کردار کو تقویت پہنچانے کا ہے نہ کہ اسلام دشمن طاقتوں کے سامنے سپراندازی کرنے کا۔
گوجرانوالہ میں ’اور‘ ڈائیلاگ فورم کا انعقاد
مسلمانوں کی علمی روایت ،رائے کا اختلاف پیش کرنے، اسے قبول کرنے اور اس کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے بہت روشن ہے۔ عدم رواداری پر مبنی ہمارے موجودہ رویوں اور نفسیات کی بنیاد نو آبادیاتی دور میں پائی جاتی ہے اور ہم نے اُس دور میں بحیثیت قوم اپنے ملی وجود اور روایت کو بچانے کے لیے جو تحفظاتی رویہ اختیار کیا تھا، وہ آج تک قائم ہے اور ہم اس نفسیات سے ابھی تک نجات نہیں پا سکے جبکہ علم وفکر اور ترقی کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے اس کی اشد ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز عالم دین مو لانا زاہد الرشدی نے’’اور قومی فورم برائے مکالمہ‘‘ کے زیراہتمام گوجرانوالہ میں فکری نشست سے خطاب کرتے ہو ئے کیا۔ادارہ برائے تعلیم و تحقیق نے گوجرانوالہ میں مکالمہ کی ضرورت اور اہمیت کے عنوان سے اس فورم کا انعقادکیا جس میں گوجرانوالہ کے مختلف حلقہ ہاے خیال سے تعلق رکھنے والے علما، ارباب دانش اور سول سو سائٹی کی نما ئندہ شخصیات نے شرکت کی۔
ادارہ تعلیم وتحقیق کے چیرمین خورشید احمد ندیم نے ’’اور قومی فورم برائے مکالمہ‘‘ کے قیام کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس فورم کا نصب العین معاشرے میں رواداری، جمہوریت اور پرامن بقاے باہمی کو فروغ دینا اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں مکالمے اور تبادلہ خیال کو کلچر کی حیثیت حاصل ہو۔ جید عالم دین مولانا مفتی محمد شفیع کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ اختلاف رائے دراصل علم وفہم اور دیانت کا اظہار ہے اور کسی جگہ کامل اتفاق رائے پائے جانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ یا تو سب لوگ سمجھ بوجھ سے عاری ہیں اور یا اپنے ضمیر کے ساتھ خیانت کرتے ہوئے رائے کے اختلاف کو چھپا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مکالمے کا مقصد کسی بات کو صحیح یا غلط ثابت کرنا نہیں ہوتا، بلکہ ایک دوسرے کی بات کو سمجھنا اور یہ چیز سیکھنا ہوتا ہے کہ اختلاف رائے کے باوجود کیسے مل جل کر رہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ معاشرے میں مختلف مسائل کے حوالے سے پائی جانے والی پولرائزیشن بڑی حد تک غیر حقیقی ہے اور اس کی بڑی وجہ باہمی میل جول اور مکالمے کا فقدان ہے، کیونکہ تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ جب مختلف الخیال طبقات کو ایک جگہ بٹھا کر تبادلہ خیال کا موقع دیا جاتا ہے تو بہت سے خدشات اور غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں اور معاشرے کے ارتقا کو مل جل کر آگے بڑھانے کے لیے بہت سے مشترک نکات نکھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔
ممتاز دانش ور میر احمد علی نے کہا کہ ہر مذہب کے ماننے والے اپنے مذہب کے برحق اور سچا ہونے پر پختہ یقین رکھتے ہیں، اس لیے سب کے مذہبی جذبات کا احترام کرنا چاہیے اور پرامن طریقے سے مل جل کر رہنے کے لیے اختلاف کو برداشت کرنے اور مکالمے کا طریقہ اختیار کرنا ناگزیر ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت دنیا میں مغرب کے سائنسی اور سماجی علوم کا سکہ چل رہا ہے اور اس میدان میں دنیا کی دوسری قوموں پر برتری حاصل کیے بغیر مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بازیابی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔
ماہنامہ الشریعہ کے مدیر محمد عمار خان ناصر نے کہا کہ اسلام دنیا میں مختلف مذاہب کے وجود میں آنے اور باقی رہنے کو ایک خدائی اسکیم کے طورپر بیان کرتا ہے یہی چیز مختلف مذاہب کے درمیان پر امن بقاے باہمی اور مکالمہ کی بنیاد ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مکالمہ اور رواداری کے کلچر کو ارباب دانش تک محدود رکھنے کے بجائے عوام کی سطح پر بھی فروغ دینا ضروری ہے اور اس سلسلے میں بلند پایہ مفکرین اور ان کے افکار وخیالات کو آسان اور قابل فہم زبان میں عوام کے لیے قابل رسائی بنانے کے لیے ایک علمی تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
جلال ماڈل اسکول کے پرنسپل محمدطفیل بیگ نے کہا کہ مکالمے اور رواداری کی فضا کو عوامی سطح تک پھیلانے کی ضرو رت ہے کیونکہ مذہبی مکاتب فکر کے راہ نماؤں کے باہمی اختلافات کے اثرات عوام الناس تک پہنچتے ہیں اور تناؤ کی فضا میں وہ بھی باہمی میل ملاقات سے گریز کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
روزنامہ جنگ کے نمائندہ حافظ خلیل الرحمن ضیاء نے کہا کہ اعلیٰ او رمنصفانہ معاشرتی قدروں کے فروغ کے لیے اسلام بھرپور راہنمائی کرتا ہے اور قرآن وسنت کی تعلیمات کو اختیار کر کے ہم اپنے تمام مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔
ملک عبد الوکیل نے کہا کہ عدم برداشت کا رویہ بنیادی طور پر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی شخص علم اور فہم کے لحاظ سے اپنے آپ کو کامل سمجھ لیتا ہے کیونکہ ایسا سمجھنے کے بعد انسان میں مزید علم حاصل کرنے یا دوسرے کے خیالات سے استفادے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔
نوجوان افسانہ نگار عامر رفیق نے کہا کہ مذہبی لوگوں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ لوگوں کی آزادی فکر پر قدغن لگانا چاہتے ہیں، اس لیے مکالمے کی فضا پیدا کرنے کے لیے مذہبی لوگوں کے رویے اور کلچر کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
پولیس انسپکٹر محمد ناصر نے کہا کہ کوئی فرد یا طبقہ کس حد تک مکالمے کا قائل ہے، اس کی آزمائش مکالمے کے حق میں عمومی تقریروں سے نہیں بلکہ اس وقت ہوتی ہے جب کسی اختلافی مسئلے پر عملاً مکالمہ کرنے کی کوشش کی جائے، کیونکہ ایسے موقع پر کوئی بھی فریق مکالمے کی روح اور آداب کا لحاظ رکھنے میں عام طور پر ناکام ثابت ہوتا ہے۔
سماجی تنظیم ’’چھاؤں‘‘ کی چیئر مین ثمینہ عرفان نے کہا کہ ہم اختلاف رائے کو گوارا کرنے کا سبق خود اپنے گھر سے سیکھ سکتے ہیں کیونکہ ماں باپ اپنی اولاد کے مزاج اور رجحانات کے اختلاف اور تنوع کو سمجھنے اور قبول کرنے کے بعد ہی اس قابل ہوتے ہیں کہ ان کی تربیت اور نشوو نما کا اہتمام کر سکیں۔
ترقی پسند دانش ور سید قربان رضا شاہ نے کہا کہ عام طور پر مارکسسٹ حلقوں کو مذہب مخالف سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ہمارا اختلاف خدا یا رسول یا دین کے بنیادی حقائق سے متعلق نہیں بلکہ صرف معاشی وسائل کی تقسیم کے طریقے پر ہے۔ انھوں نے کہا کہ جاگیرداری ہمارے موجودہ سماجی مسائل اور رویوں کی جڑ ہے اور جب تک یہ استحصالی نظام ختم نہیں ہوگا، معاشرے میں مثبت فکر اور رویے فروغ نہیں پا سکتے۔ انھوں نے مزید کہا کہ تمام انبیا ایک ہی پیغام لے کر دنیا میں آئے اور سب انبیا کی تعلیمات انسانیت کی مشترکہ میراث ہیں، لیکن مختلف مذاہب نے مختلف پیغمبروں کو اپنے لیے مخصوص کر کے مذاہب کو جاگیریں بنا دیا ہے اور اب مذاہب کے مابین جنگ درحقیقت اپنی اپنی جاگیروں کی حفاظت کی جنگ ہے۔
ادیب اور دانش ور اسلم سراج الدین نے کہا کہ علمی دنیا میں مکالمے کی روایت کا آغاز افلاطون سے ہوتا ہے جس نے مکالمے کے ذریعے دوسروں کے خیالات اگلوانے کو بچے کی پیدائش کے عمل سے تشبیہ دی ہے اور کہا ہے کہ یہ کام اتنا ہی تکلیف دہ ہے جتنا ایک ماں کے لیے اپنے بچے کو جنم دینا۔ انھوں نے مغربی فلسفی ڈیکارٹ کے مشہور مقولے کے حوالے سے کہا کہ مکالمے کی بنیاد شک پر ہونی چاہیے اور ضروری ہے کہ آدمی خالی الذہن ہو کردوسرے کی بات سنے۔ انھوں نے قائد اعظم کی ۱۱؍ اگست کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قائد اعظم نے واضح طور پر یہ کہا تھا کہ مختلف مذاہب اپنے اپنے طریقے پر عبادت کرنے کے لیے آزاد ہیں اور ریاست کا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان کو مذہبی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے۔
جماعت اسلامی کے راہ نما میجر (ر) ڈاکٹر عبد القیوم نے کہا کہ اسلام میں مکالمے کی بنیاد شک نہیں بلکہ یقین ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام ایسے اختلاف کو پسند نہیں کرتا جو انانیت اور نفسانیت سے پیدا ہوا ہو، لیکن مثبت اور دیانت دارانہ اختلاف رائے ایک اسلامی قدر ہے اور اسلام معاشرے میں اختلاف اور تنوع کی پوری پوری حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
ڈاکٹر صولت ناگی نے کہا کہ نظریہ پاکستان کی کوئی حقیقت نہیں اور یہ نظریہ ۱۹۵۳ء میں احمدیوں کے خلاف اٹھنے والی مذہبی تحریک کو جواز فراہم کرنے کے لیے وجود میں لایا گیا۔ انھوں نے مذہبی طبقا ت کے خیالات اور رویوں پر تنقید کی اور کہا کہ ان کے قول وفعل میں تضاد ہے، کیونکہ وہ اسلام میں اختلاف رائے کی اہمیت کی باتیں تو کرتے ہیں جبکہ ان کا عمل اس کی تائید نہیں کرتا جس کی حالیہ مثال پنجاب یونی ورسٹی میں ہونے والے واقعات ہیں۔
الشریعہ اکادمی کے حافظ محمد رشید نے کہا کہ مذہبی اور غیر مذہبی طبقات کے مابین بے اعتمادی کی فضا ہے اور دونوں طرف کے حضرات ذہنی طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ دوسری طرف کے حضرات کی بات کی کوئی وقعت نہیں، اس لیے اول تو ان کے درمیان مکالمہ ہی نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو اس ذہنی رویے کی وجہ سے مکالمے کے حقیقی فوائد حاصل نہیں ہوتے۔
فورم میں نقابت کے فرائض نوجوان دانش ور عمران حمید ہاشمی نے انجام دیے اور اس فورم کے انعقاد پر گوجرانوالہ کے علمی وفکری حلقوں کی طرف سے منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔
’’ماں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کے تحفظ میں علماء دین کا کردار‘‘
(قومی ادارہ برائے تحقیق وترقی (National Research & Development Foundation) گزشتہ کئی سال سے صوبہ سرحد اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں تقریباً ایک ہزار علماے دین کے ساتھ مل کر ’’ماں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کے تحفظ‘‘ کے حوالے سے عوام الناس میں شعور وآگاہی پیدا کرنے کی ایک مہم کامیابی سے چلا رہا ہے۔ اس ضمن میں NRDF کے چیف کوآرڈی نیٹر جناب تحسین اللہ خان کی طرف سے ارسال کردہ ایک رپورٹ کے اہم نکات کا خلاصہ ان کے شکریے کے ساتھ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ (مدیر))
معاصر مسلم دنیا میں ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی کے لیے مذہبی راہ نماؤں کے اثر ورسوخ کو استعمال میں لانے کا تجربہ کم ہی کیا گیا ہے، حالانکہ مسلم عوام کی اکثریت نہ صرف مذہب سے گہری وابستگی رکھتی ہے بلکہ علما کو بھی احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔ عوام میں پھیلے ہوئے بہت سے غلط تصورات کا ازالہ کرنے اور مثبت رویوں کے فروغ کے لیے مساجد اور مدار س کے وسیع نظام سے اور خاص طور پر خطبات جمعہ سے موثر مدد لی جا سکتی ہے۔
پاکستانی معاشرے میں روزی کمانے کی ذمہ داری بنیادی طور پر مرد انجام دیتا ہے اور خواتین کی صحت وغیرہ سے متعلق امور میں فیصلے کرنے کا اختیار بھی مردوں کو ہی حاصل ہے، اس لیے خواتین اور خاص طور پر ماں اور بچے کی صحت کی صورت حال کو بہتر بنانے کی مہم میں زیادہ سے زیادہ مردوں کی شمولیت بہت اہم ہے۔ اس پس منظر میں ۲۰۰۴ء میں یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فار ڈولپمنٹ (USAID) کے تعاون سے PAIMAN کے عنوان سے ایک منصوبہ تشکیل دیا گیا جس کا مقصد ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کے لیے عوام میں شعور پیدا کرنا اور اس ضمن میں سرکاری ونجی سطح پر کام کرنے والے اداروں کو ضروری سہولیات فراہم کرنا ہے۔ یہ چھ سالہ منصوبہ تھا جس کے لیے آزاد جموں وکشمیر سمیت پورے ملک سے ۲۴ ؍ اضلاع کا انتخاب کیا گیا۔ مذکورہ منصوبے کا ایک اہم حصہ یہ بھی تھا کہ پاکستان کے مذہبی راہ نماؤں کو اس پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنے خطبوں اور تقریروں میں ماں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کے مسائل کو موضوع بنائیں اور اس سلسلے میں عوام کو راہ نمائی فراہم کریں۔
اس مقصد کے لیے متعلقہ علاقوں میں اہم مساجد اور مذہبی شخصیات کا انتخاب کیا گیا جبکہ قومی سطح پر معروف اور ممتاز علما پر مشتمل ایک مرکزی شوریٰ تشکیل دی گئی جو اس مہم کی نگرانی کرے۔ مختلف علما سے انفرادی طور پر ملاقات کر کے ان کے ساتھ منصوبے کی اہمیت اور اس کے خد وخال کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے۔ علما کو عملی شواہد کی روشنی میں ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے حقیقی صورت حال بتائی جاتی ہے اور انھیں آمادہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے خطبات اور درسوں میں ان مسائل پر گفتگو کریں اور عام لوگوں میں آگہی پیدا کریں۔ منصوبے کے نفاذ کے لیے پہلے مرحلے کے طور پر بونیر اور بالائی دیر کا انتخاب کیا گیا جہاں جون ۲۰۰۶ء سے مارچ ۲۰۰۷ء تک یہ منصوبہ جاری رہا۔ اس سے حاصل ہونے والے تجربات کی روشنی میں ڈیرہ غازی خان، خانیوال، جہلم، راول پنڈی، سوات، پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، چار سدہ اور مردان میں بھی اسی نوعیت کے منصوبے جاری کیے گئے۔
۲۰۰۸ء کے آخر میں اس منصوبے کے اثرات جانچنے کے لیے ڈیرہ غازی خان اور خانیوال کے ضلعوں میں ایک ریسرچ اسٹڈی کی گئی جس میں مذہبی راہ نماؤں کے رسپانس کے حوالے سے درج ذیل نتائج پیش کیے گئے ہیں:
- علما سماجی مسائل کو موضوع بنانے کی ضرورت کو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔
- علما کا عمومی خیال یہ ہے کہ کسی بھی مسئلے کو اگر قرآن وسنت کی روشنی میں فروغ دیا جائے تو علما یا عوام کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔
- علما شروع شروع میں این جی اوز کے ساتھ تعاون کرنے سے ہچکچاتے ہیں، کیونکہ انھیں خدشہ ہوتا ہے کہ یہ تنظیمیں مغربی ایجنڈے کو فروغ دے رہی ہیں۔
- علما کا اس پرعمومی اتفاق ہے کہ عوام تک کوئی پیغام پہنچانے کے لیے جمعے کے خطبات بہترین ذریعہ ہیں۔
ڈاکٹر عبد الماجد المشرقی کے لیے ’’قلم کا مزدور‘‘ ایوارڈ
یکم مئی کو الحمرا ہال نمبر ۲ لاہور میں پاکستان رائٹرز گلڈ کے زیر اہتمام ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں پاکستان کے چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے قلم کاروں کو ’’قلم کا مزدور‘‘ کے عنوان سے ایوارڈ دیے گئے۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر رفیق احمد بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے اور قلم کاروں کو ایوارڈ تقسیم کیے۔ صوبہ پنجاب سے اس ایوارڈ کا مستحق گوجرانوالہ کی معروف علمی وتعلیمی شخصیت ڈاکٹر عبد الماجد المشرقی (پرنسپل مشرق سائنس کالج) کو قرار دیا گیا اور ’’قلم کا مزدور‘‘ ایوارڈ اور سر ٹیفکیٹ کے علاوہ انھیں دو لاکھ روپے نقد بھی پیش کیے گئے۔
Historical Perspective Hussein's Martyrdom in
(واقعہ کربلااور اس کاتاریخی پس منظر)
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی مدظلہ کانام علمی دنیامیں محتاج تعارف نہیں ہے۔ علوم اسلامیہ پر گہری نگاہ کے ساتھ ہی ان کا امتیازہے کہ انہوں نے عصری تحقیقات وعلوم سے بھی خاصا استفادہ کیاہے۔وہ مدت دراز سے لندن میں مقیم ہیں، اس طرح مشرق و مغرب دونوں سے ان کی واقفیت راست اور مشاہدکی ہے۔ ان کی متعدد کتابیں اور مقالات کے مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں اور ان کے وسیع مطالعہ، دقیق مشاہدہ اور وسعت نظری اور حقیقت پسندی کے شاہد عدل ہیں۔ ’’واقعہ کربلا اور اس کا تاریخی پس منظر ‘‘مؤلفہ مولاناعتیق الرحمن سنبھلی اردو کے تحقیقی و فکری لٹریچر میں ایک گراں قدر اضافہ تھی اور اس کی اشاعت نے علمی حلقوں میں ایک تموج پیدا کر دیا تھا۔ اس کی تنقید اور تائیدمیں متعددمضامین لکھے گئے تھے۔ اب یہی کتاب انگریزی میں Historical Perspective Hussein's Martyrdom in کے نام سے شایع کی گئی ہے۔
یہ کتاب تاریخ اسلام کے ایک حساس ترین مسئلہ سے بحث کرتی ہے جس نے صدر اسلام میں ہی امت میں متعدد سیاسی، کلامی، عقائدی مباحث و اختلافات کو جنم دیاجو بالآخر اس میں سنی و شیعہ جیسے مستقل مکاتب فکر کے قیام پر منتج ہوئے۔ عام اسلامی تاریخ میں واقعہ کربلا اور اس کے مابعدرونما ہونے والے حادثات و المیوں کی ساری ذمہ داری یک طرفہ طور پر بنوامیہ کے سر ڈال دی جاتی ہے اور اعتراضات و نقد اور لعنت وملامت کا ہدف صرف یزید بن معاویہؒ ہی کو نہیں بنایاجاتابلکہ اس کی زد میں حضرت امیر معاویہؓ ،حضرت مغیرہ بن شعبہؓ ،حضرت عمروبن العاصؓ سے لے کرحضرت عثمان غنیؓ جیسے جلیل القدر صحابی بھی آتے ہیں جو ذوالنورین بھی ہیں اور عشرہ مبشرہ میں بھی شامل ہیں۔ تشیع کے اثرات اسلام کی تاریخ میں اتنے بڑے پیمانے پر پڑے ہیں اور ارد ولٹریچر خاص طور پر ان سے اتنا متاثر ہے کہ آج تک الاسلام یھدم ماکان قبلہ کے واضح ارشاد نبوی کے باوجود اردو مصنفین میں حضرت ہندؓ کو جگرخوار حمزہؓ، حضرت ابوسفیانؓ کو ’’طلقاء‘‘ جیسے مذموم القاب سے یاد کرنا ایک عام بات ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ واقعہ کربلا اور خلافت کے بتدریج ملوکیت میں تبدیل ہونے کے پورے پراسس میں اس کے حقیقی پس منظر، قتل عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو پوری طرح فراموش کردیاجاتاہے۔امت میں فتنوں کی شروعات کربلا نہیں بلکہ قتل عثمانؓ تھا۔ اردو کے اکثر مصنفین اس حقیقت کو نظر انداز کرکے مشہورعام لیکن بے سروپا روایات اور مبالغہ آمیز باتوں بلکہ سنی سنائی خرافات تک پر یقین کرکے اس مسئلہ پر بحث کرتے ہیں۔ ’’خلافت وملوکیت‘‘ جیسی تاریخ سازی نے جلیل القدر صحابہؓ کے خلاف اس پروپیگنڈے کو مزید دوآتشہ کردیا۔ ’’واقعہ کربلااور اس کاتاریخی پس منظر ‘‘اسی موضوع پر لکھی گئی ایک منفرد تحریرتھی جس کامقصد یہ تھا کہ واقعات و روایات کے انبار سے واقعہ کی صحیح اور حقیقی تصویر سامنے لائی جائے۔
مشاجرات صحابہ کے نازک موضوع پر اسلامی تاریخ میں کئی تحقیقی کتابیں موجود ہیں۔ بطور خاص عربی میں متعدد تحقیقات پائی جاتی ہیں جن میں قاضی ابن العربیؒ نے العواصم من القواصم میں حضرت عثمانؓ پر لگائے گئے سارے الزامات کے تاروپود بکھیر کر رکھ دیے ہیں۔ اسی طر ح امام ابن تیمیہؒ نے منہاج السنۃ میں واقعات کی تحقیق کی اور صحیح اور معتدل رویہ اختیار کیا۔ تاہم ماضی قریب میں بعض اہل علم نے متقدم محققین کی ان گراں قدر کاوشوں کو ’’وکالت صفائی‘‘ کے خانے میں ڈالنے اور اپنی ہی تحقیق کو حرف آخرقراردینے کی بھر پورکوشش کی۔ اس تحقیق کی رو سے خلافت کو ملوکیت میں بدلنے کے اس نارواعمل میں بعض جلیل القدر صحابی ؒ بھی شامل تھے اور اپنے ذاتی اغراض و مقاصد پورے کرہے تھے۔ ’’خلافت و ملوکیت ‘‘کا رد عمل بھی ہوا اور اس موضوع پر موافقت و مخالفت میں کافی کچھ لکھا گیا۔ چنانچہ محمود احمد عباسی صاحب نے اس سلسلہ میں ایک سیریز لکھی اور بالکل برعکس موقف اختیار کیا جس میں وہ جادۂ اعتدال سے ہٹ گئے اور یزید کو خلیفہ راشد قراردے ڈالا۔ ظاہرہے کہ یہ نری انتہا پسندی ہے۔ یہ قابل ذکرہے کہ زیر تبصرہ کتاب کسی رد عمل میں نہیں لکھی گئی، اس لیے وہ صحیح اورمسلک معتدل کی مؤثرترجمانی کرتی ہے۔ یہ پہلو بھی خوش آیند ہے کہ اب اس سلسلے میں نقد و نظر کا سلسلہ اردو میں بھی شروع ہوچکاہے اور زیر نظر کتاب کے علاوہ علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی نے بھی اس موضوع پر تحقیقی کتاب لکھی ہے جو ابھی منظر عام پر نہیں آسکی۔اس کے علاوہ پروفیسرمحمد یاسین مظہر صدیقی کے متعدد تحقیقی مقالات اس موضوع پر سامنے آچکے ہیں۔
مولانا سنبھلی کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ سے حضرات حسنینؓ کے تعلقات نہایت خوش گوار اور مشفقانہ رہے۔ دوسری طرف یزید میں نہ صرف یہ کہ انتظامی صلاحیتیں تھیں بلکہ دینی واخلاقی لحاظ سے بھی اس کی تصویر وہ نہیں تھی جوغیر تحقیقی روایات پیش کرتی ہیں، حتی کہ اس کی خلافت کے مخالفین کے اختلاف کی وجہ بھی وہ نہیں تھی جو عام طور پر ظاہر کی جاتی ہے۔ ان کے اختلاف کی بنا تو یہ تھی کہ ان کے خیال میں یزیدکو موروثی طور پر خلافت دی گئی تھی جس کی اسلام میں گنجائش نہیں۔ تیسری طرف حضرت امیر معاویہؓ کا خیال یہ تھا کہ خلافت کے مسئلہ میں امت میں بہت تلوار چل چکی، اس لیے مناسب یہ ہے اور امت کا مفاد بھی اس میں ہے کہ اس کا انتظام اپنی زندگی ہی میں کردیاجائے۔ابن خلدونؒ کا خیال یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہی شفقت پدری کے فطری جذبہ کا دخل بھی اس میں رہا ہوگا۔ محققین کا خیال یہ ہے کہ حضرت امیرمعاویہؓ کے اس فیصلہ کو کسی بدنیتی پر محمول کرنا بالکل غلط ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسے ان کی اجتہادی غلطی کہا جا سکتا ہے۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جب کوفیوں کے بلانے پرمکہ سے خروج کا ارادہ کیا تو متعد دکبارصحابہؓ نے ان کو اس فیصلہ پر نظر ثانی کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ ان حضرات میں امام حسینؓ کے اپنے بھائی محمد بن الحنفیہ، عبد اللہ بن مطیع، عبد اللہ بن عمرؓ، عبد اللہ بن عباسؓ اور عبد اللہ بن جعفرؓ،ابوبکر ابن عبد الرحمن، حضرت ابوسعید الخدریؓ ،جابر بن عبد اللہ،ؓ مسور ابن مخرمہؓ ،واسلہ بن واقد اللیثیؓ وغیرہم شامل تھے۔ ان لوگوں کے جو الفاظ روایات میں آتے ہیں، ان کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ محض شفقت کے باعث وہ آپ کو اس فیصلہ سے روک رہے تھے بلکہ اصولی طور پر وہ یہ سمجھتے تھے کہ خلیفہ وقت کے خلاف خروج صحیح نہیں کہ عملاً اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی سامنے رہے کہ خود حضرت حسینؓ نے اس وقت اپنا ارادہ تبدیل کرکے واپسی کا قصدکرلیا جب انہیں کوفہ میں مسلم بن عقیلؓ کے مشن کے فیل ہو جانے اور ان کی شہادت کی خبر ملی ۔تاہم مسلم بن عقیل کے بھائیوں اوربیٹوں نے باپ کے خون ناحق کا بدلہ لیے بغیر واپس لوٹنے سے انکار کردیا۔اس کے بعدجب قافلہ حسین میدان کربلا پہنچ گیا تو کوفی لشکر کے سربراہ عمر بن سعد کی مصالتی کوششوں کے بعد خود سیدنا حسینؓ نے کوفی لشکر کے سامنے یہ پیشکش کی کہ آپ کوتین میں میں کسی ایک چیزکی اجازت دی جائے :
۱۔یاتو آپ کو واپس جانے کی اجازت دے دی جائے ،
۲۔ یا دمشق امیر المومنین کے پاس جانے دیاجائے اور
۳۔ یا سرحدوں پر جہاد کے لیے جانے دیاجائے۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ تینوں شرطیں نہایت مناسب اور معقول تھیں، تاہم شقی القلب عبید اللہ بن زیاد اور اس کے دست راست شقی شمر بن الجوشن اورحسین بن نمیرنے ان شریفانہ ومعقول شرطوں کو ماننے سے انکار کردیا اور نتیجہ میں اپنے بدبخت ہاتھوں کو نواسہ رسولؓ کے پاک خون سے رنگ لیا۔ مصنف نے مختصر طورپر اس پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ یزید نے خواتین اہل بیت کے ساتھ کریمانہ برتاؤ کیا، عبید اللہ بن زیاد کولعن طعن کی، مگر اس کو کوئی سزا نہیں دی ۔اپنے تجزیہ میں انہوں نے جذبات عقیدت کے بجائے حقیقت پسندی سے کام لیاہے، تاہم مبصرکے نزدیک اس سلسلے میں یزید کو کلیتاً بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی ایک صاحب اسلوب، رسرچ وتحقیق کے شناور اور منطقی و سائنٹیفک طرزاستدلال سے بہرہ ور مصنف ہیں۔ انہوں نے ہر قدم نہایت احتیاط سے رکھا ہے اور متعلقہ تاریخی مواد کے تحلیل و تجزیہ اور گہرے مطالعہ و محاکمہ کے بعد وہی راے اختیار کی جو راجح،اقرب الی الصواب اور افراط وتفریط سے دور لگی۔ انہوں نے محمود احمد عباسی صاحب کی طرح خام تاریخی مواد سے کھٹاکھٹ نتائج نہیں نکالے ہیں۔
کتاب کے انگریزی ترجمہ کی تصحیح اور مناسب ایڈیٹنگ جناب ضیاء الحق صاحب نے انجام دی ہے،جو انگریزی زبان کے ماہر ہیں ان کا نام اور کام کسی بھی ترجمہ کی صحت کی ضمانت دیتا ہے۔ ۲۱۴ صفحات پر مشتمل یہ کتاب اچھے گٹ اپ میں شایع کی گئی ہے امید ہے کہ باذوق حلقہ میں اس کو ہاتھوں ہاتھ لیاجائے گا۔
قیمت: 200روپے۔ ناشر: الفرقان بک ڈپو 114/31نظیر آباد لکھنؤ یوپی۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
ادارہ
حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ
۵ مئی کو حضرت مولانا خواجہ خان محمد بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ گزشتہ سال اسی تاریخ کو والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر کا انتقال ہوا تھا۔ وہ دونوں دار العلوم دیوبند میں ہم سبق رہے اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے شاگرد تھے۔ ان کا روحانی سرچشمہ بھی ایک ہی تھاکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں موسیٰ زئی شریف کی خانقاہ کے فیض یافتہ تھے۔ نقشبندی سلسلے کی اس خانقاہ کے حضرت خواجہ سراج الدین سے حضرت مولانا احمد خان نے خلافت پائی جو خانقاہ سراجہ کے بانی تھے اور اسی خانقاہ کے مسند نشین کی حیثیت سے مولانا خواجہ خان محمد ساٹھ برس سے زیادہ عرصے تک لوگوں کی پیاس بجھاتے رہے، جبکہ خواجہ سراج الدین کے دوسرے خلیفہ حضرت مولانا حسین علی مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے شیخ تھے۔
مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور مولانا خواجہ خان محمد تعلیمی اور روحانی طور پر دار العلوم دیوبند اور خانقاہ موسیٰ زئی شریف سے مشترکہ طور پر فیض یاب ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی بھر ایک مشن اور پروگرام کے داعی رہے اور ایک سال کے وقفے کے ساتھ وفات بھی ایک ہی دن پائی۔ مولانا خواجہ خان محمد نے ۹۰ برس عمر پائی اور دینی جدوجہد کے مختلف میدانوں میں خدمات سرانجام دیں۔ وہ سلسلہ نقشبندیہ کے بلند پایہ شیخ تھے اور تصوف وسلوک کے ایسے مستند شارح بھی تھے جن کی خدمت میں بڑے بڑے علماے کرام حاضر ہو کر روح وقلب کی تسکین پاتے اور تصوف وسلوک کی پیچیدہ گتھیاں سلجھاتے تھے۔ وہ صاحب علم صوفی تھے، تصوف کے رموز واسرار سے نہ صرف آشنا تھے بلکہ ان کے ثقہ شارح بھی تھے۔ ایک بار امریکہ سے ایک نومسلم خاتون ڈاکٹر ایم کے ہرمینسن گوجرانوالہ آئیں جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے علوم سے خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں۔ انھوں نے حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی سے ملاقات کے دوران تصوف کے بعض حساس اور دقیق مسائل پر تبادلہ خیالات کیا اور دریافت کیا کہ تصوف کے علمی مسائل اور اشکالات پر مجھے کس بزرگ سے بات کرنی چاہیے؟ حضرت صوفی صاحب نے فرمایا کہ آپ حضرت مولانا عبید اللہ انور اور حضرت مولانا خواجہ خان محمد میں سے جن بزرگ سے بھی ملیں گی، آپ کو اپنے اشکالات وسوالات کا تسلی بخش جواب ملے گا۔
مولانا خواجہ خان محمد کی تگ وتاز کا دوسرا بڑا میدان جمعیت علماے اسلام اور نفاذ شریعت کی جدوجہد رہی ہے۔ وہ مولانا عبد اللہ درخواستی، مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی اور مولانا عبید اللہ انور کے قریبی رفقا میں سے تھے اور جمعیت علماے اسلام کی مرکزی قیادت میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ وہ ایک عرصے تک جمعیت کے مرکزی نائب امیر رہے اور انھیں جمعیت کے سرپرست اعلیٰ کی حیثیت حاصل تھی۔ ۱۹۷۷ء میں حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری کی وفات کے بعد انھیں مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کا امیر منتخب کیا گیا۔ اس کے بعد وہ زندگی کے آخری لمحات تک تحریک ختم نبوت کی قیادت کرتے رہے۔ ۱۹۸۴ء میں انھیں تمام مکاتب فکر کی مشترکہ مرکزی مجلس عمل ختم نبوت کا سربراہ منتخب کیا گیا اور ملک کے مختلف مکاتب فکر کے علماے کرام اور دینی جماعتوں نے ان کی قیادت میں ختم نبوت کے محاذ پر کئی بار متحد ہو کر جدوجہد کی۔ وہ دیوبندی مکتب فکر کی مختلف جماعتوں اور حلقوں میں نکتہ اتحاد اور مرجع کا مقام رکھتے تھے۔ دیوبندی مکتب فکر کی داخلی گروہ بندیوں میں جب بھی کسی مسئلے پر سب کو اکٹھا کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو مولانا خواجہ خان محمد نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا اور ان کی شخصیت وجہ اتحاد بن گئی۔ انھیں دیوبندی مکتب فکر کے دائرے سے ہٹ کر مختلف مکاتب فکر کے درمیان بھی یہ حیثیت حاصل تھی اور دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ مکاتب فکر کے علماے کرام اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے متعدد بار ان کی قیادت میں تحریک ختم نبوت میں مشترکہ تحریکات کا اہتمام کیا۔
مجھے یوں یاد پڑتا ہے کہ میں نے پہلی بار ان کی زیارت ۱۹۶۷ء میں ڈیرہ اسماعیل خان میں جمعیت علماے اسلام کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی آئین شریعت کانفرنس کے موقع پر کی تھی۔ وہ منظر اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی اور حضرت مولانا خواجہ خان محمد کا جلوس کی شکل میں استقبال کیا گیا تھا اور قبائلی عوام اپنے روایتی انداز میں ان دونوں بزرگوں کو جلوس کے ساتھ شہر کے مختلف بازاروں میں گھما رہے تھے۔ مجھے اس سفر کے دوران خانقاہ سراجیہ شریف میں حاضر ی کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ حضرت خواجہ صاحب کی آخری زیارت میں نے گزشتہ سال رجب کے دوران ایک سفر میں خانقاہ سراجیہ شریف میں حاضری کے موقع پر کی۔ اس سفر میں مجھے خانقاہ سراجیہ میں حاضری کے علاوہ رئیس الموحدین حضرت مولانا حسین علی رحمہ اللہ کی قبر پر حاضری کا شرف بھی حاصل ہوا۔
حضرت مولانا خواجہ خان محمد کے ساتھ میری نیازمندی کا عرصہ چار عشروں سے متجاوز ہے۔ سفر وحضر اور خلوت وجلوت کی سیکڑوں ملاقاتوں اور مختلف تحریکات میں ایک کارکن کے طور پر رفاقت کے شرف سے بہرہ ور رہا ہوں اور ان کی شفقتوں اور دعاؤں سے ہمیشہ فیض یاب ہوتا رہا ہوں۔ میں حضرت خواجہ صاحب کے خاندان، جماعت، مریدین، معتقدین اور متعلقین سے تعزیت کرتے ہوئے یہ سوچ رہا ہوں کہ تعزیت تو سب حضرات کو مجھ سے کرنی چاہیے کہ ایک کارکن سے اس کا امیر رخصت ہو گیا ہے، ایک گناہ گار سے دعاؤں کا سہارا چھن گیا ہے اور ایک راہ ر و سے اس کا رہبر جدا ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت خواجہ صاحب کی حسنات کو قبول فرمائیں، کوتاہیوں سے درگزر فرمائیں اور تمام پس ماندگان اور متعلقین کو یہ عظیم صدمہ صبر او رحوصلے کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے حضرت خواجہ صاحب کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
مولانا قاضی عبد الحلیمؒ
گزشتہ ماہ حضرت مولانا قاضی عبد الحلیم کلاچوی بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ وہ کلاچی کے اس علمی خاندان کی روایات کے امین تھے جو کئی نسلوں سے علمی ودینی خدمات میں مسلسل مصروف ہے۔ انھوں نے ساٹھ برس سے زیادہ عمر پائی۔ دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فاضل تھے۔ ایک عرصے سے اپنے والد مکرم حضرت مولانا قاضی عبد الکریم اور اپنے خاندان کی علمی ودینی روایات کو سنبھالے مصروف عمل تھے۔ میرے ساتھ ان کی اکثر خط و کتابت رہتی تھی۔ میرے مضامین اہتمام سے پڑھتے تھے۔ جو بات اچھی لگتی، اس پر داد دیتے اور جس سے اختلاف ہوتا، کھلے دل کے ساتھ اس سے اختلاف بھی کرتے۔ یہ توازن اب ہمارے اجتماعی مزاج سے نکلتا جا رہا ہے۔ وہ عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔ ڈاکٹر صاحبان آپریشن پر زور دیتے رہے، مگر وہ مسلسل ٹالتے رہے کہ وقت اخیر آپہنچا اور وہ اپنے خاندان اور دوستوں کو سوگوار چھوڑکر مالک حقیقی کی بارگاہ میں پیش ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
مولانا قاضی بشیر احمدؒ
گزشتہ ماہ کے دوران میں ہی آزاد کشمیر کے معروف عالم دین مولانا قاضی بشیر احمد کا ہاڑی گہل ضلع باغ میں انتقال ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آزاد کشمیر میں حضرت مولانا محمد یوسف خان آف پلندری اور ان کے رفقا کی محنت سے سیشن کورٹ کی سطح پر جج صاحبان اور علماے کرام کی مشترکہ عدالتیں قائم ہوئیں جو اب بھی کام کر رہی ہیں اور سیشن جج صاحبان کے ساتھ علماے کرام بھی بطور ضلع قاضی فیصلوں میں شریک ہوتے ہیں۔ جن فاضل علما نے سیشن جج صاحبان کے ساتھ بیٹھ کر سالہا سال تک مقدمات کے فیصلے کیے، عدالتی صلاحیت اور کارکردگی کے حوالے سے علماے کرام کی ساکھ قائم کی اور عملاً یہ ثابت کیا کہ دینی مدارس کے فضلا بھی عدالتی نظام کو چلانے اور فیصلے کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، ان میں مولانا قاضی بشیر احمد او رمولانا قاضی مقبول احمد سرفہرست ہیں۔ مولانا قاضی بشیر احمد دار العلوم کراچی کے فضلا میں سے تھے۔ کم وبیش ربع صدی تک آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع میں ضلع قاضی کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ہاڑی گہل میں دار العلوم امدادیہ کے نام سے دینی ادارہ قائم کیا اور تعلیمی خدمات سرانجام دیتے ہوئے گزشتہ ہفتے انتقال کر گئے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت میں بلند درجات سے نوازیں۔ آمین
میاں انعام الرحمن کی ہمشیرہ
گزشتہ ماہ کے دوران علامہ محمد احمد لدھیانوی مرحوم کی بیٹی اور پروفیسر میاں انعام الرحمن کی بڑی ہمشیرہ قضاے الٰہی سے گوجرانوالہ میں انتقال کر گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ مولانا قاری محمد اسرائیل کی زوجہ اور نیک اور صالح خاتون تھیں۔ ان کے جنازے میں اعزہ واقربا کے علاوہ شہر کے علماے کرام اور معززین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی مغفرت فرمائیں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین
جولائی ۲۰۱۰ء
قادیانی مسئلے کو ری اوپن کرنے کی تمہیدات؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
سانحہ لاہور کے بعد میڈیا پر مختلف اطراف سے قادیانیت کے حوالے سے ہونے والی بحث کے نئے دور نے ملک بھر کے دینی حلقوں کو چونکا دیا ہے اور میاں محمد نواز شریف کے ایک بیان نے انھیں مزید حیرت سے دوچار کیا ہے۔ اگر یہ بحث ومباحثہ سانحہ لاہور اور قادیانی مراکز پر مسلح حملوں کے سیاق وسباق تک محدود رہتا اور ان حملوں کے اسباب وعوامل اور محرکات ونتائج کے حوالے سے گفتگو آگے بڑھتی تو شاید یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی، لیکن اصل مسئلے پر بات بہت کم ہو رہی ہے جبکہ قادیانی مسئلہ اور اس کے بارے میں دستور وقانون کے فیصلوں کو ازسرنو زیر بحث لا کر اس مسئلے کو ’’ری اوپن‘‘ کرنے کی مہم زیادہ سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے جس سے یہ شکوک وشبہات ذہنوں میں سر اٹھانے لگے ہیں کہ شاید یہ سب اسی لیے ہوا ہے کہ قادیانی مسئلے کو ازسرنو زیر بحث لایا جائے اور اسے ’’ری اوپن‘‘ کر کے بحث ومباحثہ کے نئے ماحول میں دستور وقانون کے فیصلوں پر نظر ثانی کی راہ ہموار کی جائے۔
لاہور میں قادیانی مراکز پر مسلح حملوں کی تمام دینی حلقوں نے یکساں طور پر مذمت کی ہے اور اس کے محرکات وعوامل کو ان کی طرف سے جلد از جلد بے نقاب کرنے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ قادیانیوں کے بارے میں تحریک ختم نبوت کے قائدین نے گزشتہ ایک صدی کے دوران کبھی تشدد کی پالیسی اختیار نہیں کی۔ وقتی اور مقامی اشتعال کے باعث اکا دکا واقعات وقتاً فوقتاً ہوتے رہے ہیں، لیکن اجتماعی طور پر کبھی تشدد اور مسلح کارروائیوں کو روا نہیں رکھا گیا اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اب بھی تحریک ختم نبوت میں شریک جماعتوں اور کارکنوں کا طرز عمل یہی ہے کہ وہ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کے تعاقب کے لیے دستور وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پرامن جدوجہد کر رہے ہیں اور تشدد کی کسی کارروائی کو درست نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام دینی جماعتوں نے لاہور کے واقعات کی مذمت کی ہے اور ان سے براء ت کا اظہار کیا ہے، لیکن میڈیا اور لابنگ کے بعض مخصوص حلقے اس واقعے کی آڑ میں قادیانیوں کے کفر واسلام کو ازسرنو زیر بحث لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور پاکستان کے دستور وقانون میں جو متفقہ فیصلے جمہوری عمل کے ذریعے ہو چکے ہیں، ان کو متنازعہ بنانے کی طرف ان کی توجہ زیادہ ہے، حالانکہ معروضی حقائق یہ ہیں کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی امت مسلمہ قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے پر متفق ہے، ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ دستوری ترمیم کے ذریعے انھیں ملک کی غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کیا ہے اور عدالت عظمیٰ کا فل بنچ بھی یہی فیصلہ دے چکا ہے، مگر قادیانی گروہ ان میں سے کسی فیصلے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور امت مسلمہ کے متفقہ فیصلے کے ساتھ ساتھ دستور وقانون کو بھی مسترد کرتے ہوئے وہ ان کے خلاف دنیا بھر میں کیمپین کر رہے ہیں، حتیٰ کہ سانحہ لاہور کے حوالے سے جو قادیانی راہ نما میڈیا پر آئے ہیں، انھون نے بھی کھلم کھلا اس موقف کو دہرایا ہے کہ وہ دستوری ترمیم اور امتناع قادیانیت آرڈی ننس کو نہیں مانتے اور پوری امت مسلمہ کے علی الرغم خود کو مسلمان قرار دینے پر مصر ہیں جو عملاً دستور پاکستان کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔
جہاں تک میاں محمد نواز شریف کے بیان کا تعلق ہے تو دینی حلقوں کو میاں صاحب سے اس قسم کے بیان کی توقع نہیں تھی، اس لیے کہ قادیانیوں کے خلاف قومی فیصلے میں خود پاکستان مسلم لیگ شریک رہی ہے اور دستوری ترامیم کے ساتھ ساتھ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے نافذ کردہ امتناع قادیانیت آرڈیننس کی تشکیل ونفاذ میں خود میاں محمد نواز شریف ان کے شریک کار رہے ہیں۔ اس لیے میاں صاحب موصوف کو اپنے سابقہ کردار، قادیانیوں کے غلط موقف اور امت مسلمہ کے عقائد وجذبات سے آگاہی رکھنے کے باوجود یہ کہنا زیب نہیں دیتا کہ قادیانی محب وطن ہیں اور ہمارے بھائی ہیں۔ انھیں اعتدال وتوازن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور معروضی حقائق کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ قادیانیوں کو امت مسلمہ سے الگ ایک غیر مسلم اقلیت کا درجہ دینے کی تجویز مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال نے پیش کی تھی اور انھوں نے اس موضوع پر پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ تفصیلی خط وکتابت میں اپنے موقف کو دلائل کے ساتھ واضح کیا تھا۔ چنانچہ میاں محمد نواز شریف کا اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کر دینا دینی حلقوں کے لیے بجا طور پر حیرت کا باعث بنا ہے۔
بہرحال لاہور کے سانحہ کے ذمہ دار عناصر جو بھی ہیں، انھوں نے ملک، دین اور قوم تینوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ اگر خدا نخواستہ کسی انتہا پسند تنظیم نے اس کی پلاننگ کی ہے تو یہ قادیانیوں کے ساتھ نمٹنے کا انتہائی غلط طریق کار ہے اور اگر یہ کارروائی پس پردہ خفیہ ہاتھوں کی کارستانی ہے تو ملک کو نقصان پہنچانے اور پاکستان کے داخلی معاملات میں بیرونی مداخلت کا دائرہ کار وسیع کرنے کی کسی سازش کاحصہ ہے۔ اس بات کا فیصلہ کرنا قانون اور عدالت کا کام ہے کہ اس افسوس ناک واقعہ کے عوامل واسباب کیا ہیں اور یہ کن لوگوں کی کارروائی ہے، لیکن نتائج وعواقب کے حوالے سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ ملک وقوم، دینی حلقوں اور تحریک ختم نبوت کے لیے شدید نقصان کا باعث ہے۔
سر سید احمد خان کی تفسیری تجدد پسندی۔ ایک مطالعہ (۲)
ڈاکٹر محمد شہباز منج
آدم اور ڈاروینی ارتقائیت
تمام الہامی کتابوں کے مطابق آدم علیہ السلام وہ پہلے انسان اور پیغمبر ہیں جنہیں خدانے اپنے دستِ قدرت سے الگ اور مستقل مخلوق کے طور پر تخلیق فرمایا اور اس کے بعد دنیا کے سارے انسان انہیں سے پیدا ہوئے، لیکن مغرب میں نیچریت اور مادیت پر مبنی تصورِ ارتقاء کے پیش نظر مذکورہ مذہبی تصور کو غلط ٹھراتے ہوئے انسان کے ارتقائی ظہور کا نظریہ پیش کردیا گیا۔انسانی ارتقاء کا نظریہ زیادہ منظم اور مدلل انداز میں چارلس ڈارون کی ۱۸۵۹ء میں شائع ہونے والی شہرہ آفاق کتاب ’اصل الانواع‘ (Origin of Species) میں سامنے آیا ۔اس نظریہ کی رو سے انسان کسی فوق الطبیعی قوت یا صانع و حکیم کی الگ طور سے تخلیق کردہ مخلوق نہیں ہے، بلکہ یہ لاکھوں برس پہلے کیڑے کی شکل میں رینگتی ہوئی زندگی سے انتخابِ طبیعی (Natural Selection) اوربقائے اصلح (Survival of the Fittest) کے اصولوں کے تحت مرحلہ وار ترقی کرتا ہوا موجودہ شکل میں نمودار ہوا ہے۔ ابتدائے حیات، تسلسلِ حیات، تدریج و ارتقا اور کاروبارِ کائنات کے لیے کسی خدا کی ضرورت نہیں بلکہ یہ سب کچھ خود بخود میکانکی انداز میں ہوتا جاتا ہے۔ نظریۂ ارتقا اگرچہ سائنسی دلائل کے لحاظ سے انتہائی کمزور تھا ۴۲ تاہم اسے اس کی مذہب بیزاری کی بنا پر قبولیتِ عامہ حاصل ہو گئی اور پروفیسر ایم اے قاضی کے بقول کمیونسٹ اور غیر مذہبی رجحانات کے حامل افراد اورروایتی دینی تصورات سے بر سرِجنگ سائنسدانوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ۴۳
سر سید احمد خاں نے مغربی اہلِ فکر سے اپنے غیر ضروری تاثر کی بنا پر نظریۂ ارتقا کو بھی من وعن قبول کر لیا اور اپنی تفسیر میں تخلیق و ہبوطِ آدم سے متعلق آیات کو ڈاروینی ارتقائیت سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں شروع کر دیں ۔سورہ البقرہ کی آیت ۳۱ کی تفسیر میں اسی کوشش میں آدم کے شخصی وجود سے انکار کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’آدم کے لفظ سے وہ ذاتِ خاص مراد نہیں جس کو عوام الناس اور مسجد کے ملا باوا آدم کہتے ہیں، بلکہ اس سے نوعِ انسانی مراد ہے۔‘‘ ۴۴ سر سید نے یہ ثابت کرنے کوشش کی ہے کہ قصہ آدم کوئی واقعی قصہ نہیں بلکہ فطرت انسانی کا زبانِ حال سے بیان ہے۔ جنت میں رہنا اس کی فطرت کے اس حال کا بیان ہے جب وہ امر و نہی کا مکلف نہیں تھا، شجرِ ممنوعہ کے پاس جانا اور اس کا پھل کھانا اس حالت کا بیان ہے جب وہ مکلف ہوا اور ہبوط سے اس کی فطرت کی اس حالت کا تبدل مراد ہے جبکہ وہ غیر مکلف سے مکلف ہوا۔ وہ قرآنِ پاک کی مختلف آیات کا حوالہ دینے کے بعد انسان کو متعدد اشیا کی ترکیبِ کیمیاوی کے نتیجہ کے طور پر سامنے آنے والی مخلوق قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’ترکیبِ کیمیاوی یہ ہے کہ دو چیزیں آپس میں اس طرح ملیں کہ از خود جدا نہ ہو سکیں بلکہ وہ دونوں مل کر ایک تیسری چیز بن جاوے ۔پس تراب اور طین اور صلصال اور حماءِ مسنون اور ماء کی ترکیبِ کیمیاوی سے جو چیز پیدا ہوئی ہے اس سے انسان پیدا ہوتا ہے ۔وہ چیز غالباً وہ ہوتی ہے جو سطح آب پر جمع ہو جاتی ہے اور نہ مٹی ہوتی ہے اور نہ ریت گارا نہ کیچڑ ،بلکہ ان سب کی ترکیبِ کیمیاوی سے ایک اور ہی چیز بن جاتی ہے، اور معلوم ہوتا ہے کہ اسی سے تمام جاندار ، انسان وحیوان مخلوق ہوتے ہیں اور یہی بات قرآن سے پائی جاتی ہے۔‘‘۴۵
ڈاروینی ارتقائیت پر دلائل لاتے ہوئے سرسید نے مزید لکھا ہے کہ قرآن کی رو سے قانونِ ارتقا مخلوقات کی ایک نوع کے دوسری نوع سے تعلق وارتباط میں کار فرما نظر آتا ہے۔ ’فی‘ یا ’تخم‘کا خیالی کنایہ ،جسے حیات کے مرکزہ سے تعبیر کرتے ہیں،حیات کی ابتدائی حرکت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو داخلی مادہ سے برآمد ہوتا ہے ۔قرآن پاک اور عہد نامہ عتیق میں اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ کائنات کے باب میں جو لفظی حوالہ دیا ہے، وہ بغرضِ دلیل عام عقیدہ کے لحاظ سے دیا گیا ہے۔ الہامی کتاب کو چونکہ عام لوگو ں سے قریب ہونا اور ان سے تخاطب کرنا اشد ضروری ہوتا ہے، اس لیے وہ ان کے ذخیرۂ علم،ان کے فہم،ان کی لوک حکایات اور ایک ایسے دائرۂ اظہار کی صورت میں کلام کرتی ہے جو ان کے لیے قابلِ فہم ہو۔ چنانچہ ہبوطِ آدم کی حکایت استعاراتی اور آدم فطرتِ انسانی کا مظہر ہے ۔۴۶
اسلامی سزائیں
اسلام نے اپنی تعلیمات میں انسانی سوسائٹی کی ضروریات کا پورا پورا لحاظ رکھتے ہوئے جرم وسزا کا ایک واضح فلسفہ اور مختلف جرائم کی نوعیت اور مضرت رسانی کی ٹھیک ٹھیک تعین کے بعد انتہائی موزوں اور مناسب حال سزاؤں کا تصور پیش کیا ہے ،لیکن مستشرقین نے اسلامی سزاؤں کو بے جا طور پر ہدفِ تنقید بناتے ہوئے انہیں ناقابلِ برداشت حد تک سخت ظاہر کرنے کی سعی کی۔۴۷ انہوں نے مسلمانوں کو شکوک وشبہات میں ڈالنے اور اپنے اس مقصود کی طرف راغب کرنے کے لیے کہ مسلمان اسلامی سزاؤں کو ان کی خواہشات کے مطابق ڈھال کر اپنے دین کا حلیہ بگاڑنے کے مرتکب ہوں ،یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ قرآن میں مذکور اسلامی سزائیں تو بلا شبہ ناقابلِ برداشت حد تک سخت ہیں، تاہم فقہائے اسلام نے(نعوذباللہ)قرآن کے تصورِ سزا کی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے، اس کی بیان کردہ سخت سزاؤں کومختلف طریقوں سے نرم کرنے کی کوششیں کیں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے حقائق کو مسخ کرتے ہوئے جرائم کے ثبوت اور تنفیذِ عقوبات سے متعلق اسلامی قانون کی تصریحات کو فقہاء کی ذاتی ترمیمات و تحدیدات سے تعبیر کیا ہے۔۴۸
سر سید کی تفسیری نگارشات میں اسلامی سزاؤں کے حوالے سے بھی استشراقی ومغربی ذہنیت سے مرعوبیت کے واضح آثار دکھائی دیتے ہیں ۔تفسیرالقرآن میں سورہ المائدہ کی آیت ۳۳ کی تفسیر میں یہ مرعوبیت یوں نمایاں ہوتی ہے۔ لکھتے ہیں کہ ان آیات میں جو ہاتھ اور پاؤں کاٹنے کا حکم ہے، نیز اس آیت میں جس میں چور کا صرف ہاتھ کاٹنے کاحکم ہے، یہ ضروری نہیں ہے ،اور جن لوگوں نے اسے ضروری سمجھا ہے انہوں نے استنباطِ مسائل میں غلطی کی ہے۔ قرآن قید کرنے اور ہاتھ پاؤں کاٹنے میں سے حسبِ رضائے حاکم سزاتجویز کرنے کااختیار دیتا ہے۔ فقہا کی طرف سے ہاتھ کاٹنے کے سلسلہ میں چوری شدہ مال کی مقدارکے تعین کی کوشش اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے نزدیک بھی چوری کی سزا میں ہاتھ کاٹنا ضروری نہیں۔ عہدِ صحابہؓ میں بھی ایسے نظائر ملتے ہیں کہ چور کا ہاتھ نہیں کاٹا گیا بلکہ صرف قید کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ اس دور میں ڈاکو یہی سمجھتے تھے کہ پکڑے گئے تو قید کر دیے جائیں گے، ہاتھ کٹ جانے کا تو کسی کو خیال تک نہ تھا۔ ۴۹ سر سید کا کہنا ہے کہ ا سلام نے بجز زنا کے کوئی بدنی سزا نہیں رکھی۔قرآن میں زنا کے علاوہ جن بدنی سزاؤں کا ذکر ملتا ہے، ان کی نوعیت قطعاًاضطراری ہے، اور وہ زمانہ کی اس حالت سے متعلق ہیں جب ملک میں قید خانوں کا نظام موجود نہ ہو اور نہ ہی ایسے جزائر پر دسترس حاصل ہو جہاں مجرم جلا وطن کیے جا سکیں۔جب ملک میں تسلط حاصل ہواور قید خانوں کا انتظام موجود ہو تو قرآن کی رو سے بدنی سزا دینا کسی طرح جائز نہیں ۔ ۵۰
تنقیدِ حدیث
اسلام میں حدیث کی حجیت واہمیت مسلمہ اور ناقابلِ انکار ہے، لیکن مستشرقینِ یورپ اسلامی قانون کے اس ماخذِ ثانی کو مشکوک ومشتبہ بنانے کے لیے اس پرنہایت زور وشور سے حملہ آور ہوئے ہیں ۔حدیثِ نبوی پر اعتراضات کے حوالے سے مستشرقین کا سرِ خیل مشہور یہودی مستشرق گولڈ زیہر ہے ۔اس کا کہنا ہے کہ احادیث اسلام کے عہدِ طفولیت کی تاریخ کے لیے قابل اعتبار ماخذ نہیں ہیں ۔یہ پہلی اور دوسری صدی ہجری میں اسلام کے دینی، تاریخی اور اجتماعی ارتقا کا نتیجہ ہیں۔۵۱ گولڈزیہر نے اموی حکمرانوں اور علمائے صالحین ، جن میں حدیث کے عظیم امام زہری خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں، پر اپنے مقاصد کے لیے حدیثیں وضع کرنے کا الزام عائد کیا۔ ۵۲اس کے نزدیک اولین راویانِ حدیث بھی حدیث کے سلسلہ میں غیر دیانتدارانہ اور خود غرضانہ محرکات سے آزاد نہ تھے، اور اپنی ذاتی اغراض کو بلا جھجک بطورِ حدیث پیش کر دیا کرتے تھے۔۵۳ گولڈ زیہر کے بعد حدیث کے حوالے سے سامنے آنے والے استشراقی خیالات، بقول ڈاکٹر ٖفواد سیزگین، گولڈ زیہر ہی کے افکار کی صدائے باز گشت ہیں۔۵۴ اے گیوم نے اپنی کتاب(The Traditions of islam) میں جگہ جگہ گولڈ زیہر کے خیالات کو دہرایا ہے۔۵۵ جوزف شاخت۵۶، چارلس آدم ۵۷ اور آرتھر جیفری ۵۸ وغیرہ نے بھی گولڈ زیہر کی فراہم کردہ بنیادوں پر حدیث پر اپنے اعتراضات کی عمارات کھڑی کی ہیں۔
حدیث کے ضمن میں سر سید پر استشراقی اثرات کا واضح اظہار حدیث سے متعلق ان کے ان شکوک و شبہات سے ہوتاہے جو انہوں نے اپنی تفسیری کاوشوں کے دوران جگہ جگہ ظاہر کیے ہیں۔تفسیرِ قرآن کے دوران جہاں کہیں کوئی حدیث ان کی من پسند تعبیر میں آڑے آتی ہے،وہ اسے بلا جھجک مسترد کر دیتے ہیں ۔سورہ الکہف کی تفسیر میں قصۂ خضر و موسیٰ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اس واقعہ سے متعلق بخاری کی احادیث پر تفصیلی بحث کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان میں باہم اس قدر تضاد و تناقص ہے کہ انہیں کسی طرح قابلِ اعتبار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ۵۹ وہ قصص سے متعلق احادیث کو پرانے بزرگوں کے روایتی قصے کہانیوں کے ساتھ ملاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قدیم زمانے کے پارسا ل افرادمیں یہ عام رواج تھا کہ لوگوں کے دلوں میں خدا کا ڈر بٹھانے اور اس کی شانِ قدرت جتانے کے لیے ایسے قصے بنا لیے کرتے تھے جن میں اصل پر بہت کچھ اضافہ کر دیا جاتا تھا ۔ لا طینی زبان میں قدیم زمانے کے اس طرح کے بہت سے قصے موجود ہیں۔حکایاتِ لقمان اور مثنوئ مولانا روم بھی ایسے ہی قصوں سے مملو کتابیں ہیں ۔اسی طرح یہودیوں کے علما اور واعظوں نے حضرت موسی کے شہر سے نکلنے اور مدین تک پہنچنے کے سفر میں جو واقعات پیش آئے، ان میں بہت سی عجیب وغریب باتیں ملا دیں۔ انہی باتوں میں موسیٰ سے ایک فرضی شخص خضر کا ملنا بھی شامل ہے۔ صحابہ وتابعین نے یہ قصہ بطورِ قصۂ یہود بیان کیا ہوگا اور بعد کے راویوں نے یہ سمجھ کر کے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے سنا ہوگا، اسے بطورِ حدیث نقل کر دیا۔۶۰ سرسید کا کہنا ہے بہت سے راوی اسناد کو اندازاً حضور تک پہنچا دیا کرتے تھے۔ احادیث میں بکثرت ایسی روایات منقول ہیں جن کا قرآن سے کچھ تعلق نہیں۔ ۶۱
مشہور محقق پروفیسر عزیز احمد نے لکھا ہے کہ حدیث کے چھ کلاسیکی مجموعہ ہائے حدیث سے متعلق سر سید کے شکوک وشبہات مغربی مستشرقین مثلاً گولڈ زیہر اور شاخت کے اخذ کردہ نتائج سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں ۔ان کا نظریۂ تنقیدِ حدیث جسے بعد میں چراغ علی نے زیادہ دیدہ ریزی سے تکمیل کو پہنچایا،یہ تھا کہ کلاسیکی احادیث کا بیشتر حصہ جو عقلِ انسانی کے لیے ناقابلِ قبول ہو ،یک قلم مسترد کر دیا جائے۔ ہر ایسی حدیث کو بھی مسترد کر دینا چاہیے جو پیغمبرانہ شان کے متضاد ہو۔ مستند احادیث صرف تین قسموں کی ہو سکتی ہیں۔ وہ جوقرآن کے مطابق ہوں اور اس کے احکامات کی تکرار پر مشتمل ہوں؛وہ جو احکاماتِ قرآنی کی تشریح یا وضاحت کرتی ہوں؛یاپھر وہ احادیث جو ان بنیادی قانونی ضابطوں سے متعلق ہوں جن کے بارے میں قرآن خاموش ہے۔جو حدیث کسی قرآنی حکم کی تنقیص کرتی ہو ،وہ یقیناًموضوع ہوگی۔ یہاں تک کہ وہ احادیث جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات صحیحہ کی واضح عکاس کے طور پر مسلمہ ہیں ،ان میں بھی یہ امتیاز کرنا پڑے گا کہ ان میں سے کون سی حدیثیں آپ نے بطورِ پیغمبرِ خدا ارشاد فرمائیں اور کون سی ایسی ہیں جو آپؐ کے ذاتی خیالات یا پسند و ناپسند کی مظہر ہیں ۔عظیم کلاسیکی مجموعہ ہائے احادیث میں شامل اکثر احادیث کی بنیاد قانون کے قطعی اصول پر قائم نہیں ۔ یہ احادیث مسلمانوں کی چند ابتدائی نسلوں کے خیالات و رجحانات کا تاریخی عکس ہیں جن میں بہت کچھ من گھڑت ،ما فوق الفطرت واقعات اور خوش اعتقادی سے عبارت ہے ۔ ۶۲
ناسخ و منسوخ،اعجاز القرآن اور قصصِ قرآنی
جمہور اہلِ اسلام اور محقق علما کے ہاں قرآن میں نسخ کاوقوع ،قرآن کا باعتبارِ فصاحت وبلاغت معجزہ ہونااور تاریخی واقعات سے متعلق قصصِ قرآنی کی مسلمہ حیثیت ، ایسے امور ہیں جو تسلیم شدہ اور ناقابلِ انکارعلمی حقائق کا درجہ رکھتے ہیں، لیکن مستشرقینِ یورپ نے اپنے اسلام مخالف مقاصد کے پیشِ نظر ان امور سے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوششیں کیں۔ناسخ ومنسوخ کے تصور سے مستشرقین نے قرآن میں تضاد بیانی ثابت کرنے کی جسارت کی۔ مثلاً انہوں نے لکھا کہ ناسخ ومنسوخ مسلم علماء کا وضع کردہ وہ طریق ہے جس کے ذریعے وہ قرآنی آیات میں موجود تضاد کو رفع کرنے کی سعی کرتے ہیں۔۶۳ انہوں نے ناسخ ومنسوخ کو اسلام کی کمزوری باور کرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ اس سے خدا کے استقلالِ فیصلہ میں نقص لازم آتا ہے اور یہ ماننا پڑتا ہے کہ خدا کا ذہن تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ وہ ایک حکم دیتا ہے، لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ پہلا حکم مناسب نہیں تھا لہٰذا دوسرا حکم نافذ کر دیا جاتا ہے۔۶۴ اعجازالقرآن کے ضمن میں عیسائی اہلِ قلم اس حقیقت سے انکار کرتے ہیں کہ قرآن فصاحت وبلاغت کے ایسے انتہائی معیار پر پہنچا ہوا ہے جو انسان کی دسترس سے باہر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر قرآن کو انتہائی فصیح و بلیغ کلام مان بھی لیا جائے تو بھی اسے معجزہ اور کلامِ الٰہی کیونکر کہا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہی ہو تو لاطینی و یونانی زبانوں کی فصیح و بلیغ کتابیں بھی معجزہ اور کلامِ الٰہی ماننی پڑیں گی۔ ۶۵ قصصِ قرآنی سے متعلق مستشرقین نے ہرزہ سرائی کی کہ یہ عہد نامہ قدیم و جدید بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ان غیر مستند انجیلوں اور روایات سے ماخوذ ہیں جو عہدِ نزولِ قرآن کے یہودیوں اور عیسائیوں میں مروج تھیں ۔۶۶
زیرِ نظرامورکے حوالے استشراقی اثر ات کے زیرِ اثر سر سید نے نسخ اور قرآن کے بلحاظ فصاحت وبلاغت معجزہ ہونے کا انکار کیا ہے اورقصصِ قرآنی سے متعلق دورازکار تاویلات سے کام لیا ہے۔نسخ کے ضمن میں سورہ البقرہ کی آیت ۱۰۶ کی تفسیر میں جمہور علماء کے موقف کو سختی سے رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس آیت کی تفسیر میں ہمارے مفسرین نے بے انتہا کج بحثیاں کی ہیں اور اسلام بلکہ خدا کو بدنام کیا ہے اور قرآن کو ایک شاعر کی بیاض بنادیا ہے۔ ان لوگوں نے نہایت غلط طور پرلفظ آیت کو قرآنی آیت پر محمول کرتے ہوئے جھوٹی اور مصنوعی روایات کے زور پرقرآن میں نسخ کے حولے سے اپنی تفسیروں کے ورق کے ورق سیاہ کر ڈالے ہیں، حالانکہ یہ بات نہ صرف خداکی شان کے خلاف ہے بلکہ قرآن کے ادب کے بھی خلاف ہے ۔یہ بات تو مانی جا سکتی ہے کہ کچھ احکام شرائع سابقہ میں مامور بہ تھے مگر شرائع ما بعد میں نہیں رہے، لیکن یہ بات کوئی ذی عقل کسی طور نہیں مان سکتا کہ شریعتِ محمدی میں پہلے ایک حکم دیا گیااور بعد میں کسی دوسرے وقت میں منسوخ کر دیا گیا۔ ۶۷ اعجازالقرآن کے حوالے سے سورہ البقرہ کی آیت۲۳ کی تفسیر کے سلسلہ میں قرآن کے بلحاظِ فصاحت و بلاغت معجزہ ہونے کا انکار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ کہنا کہ قرآن کی مثل کلام کوئی شخص پیش نہیں کر سکتا، قرآن کے من جانب اللہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔کسی کلام کی نظیر نہ ہونا اس بات کی تو دلیل ہو سکتا ہے کہ اس جیسا کوئی دوسرا کلام نہیں ،مگر اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ خدا کی طرف سے ہے ۔انسانوں کے بہت سے ایسے کلام دنیا میں موجود ہیں کہ فصاحت و بلاغت میں کوئی دوسرا کلام ان کی مثل نہیں،مگر وہ من جانب اللہ تسلیم نہیں کیے جاتے۔ اعجازالقرآن سے متعلق جو آیات پیش کی جاتی ہیں ،ان میں کہیں اس بات کی طرف اشارہ موجود نہیں کہ فصاحت وبلاغت میں قرآن کی مثل کوئی کلام نہیں ہو سکتا ۔ ہاں یہ بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ قرآن جس طرح کی ہدایت دیتا ہے ،کوئی دو سر ی کتاب اس طرح کی ہدایت فراہم نہیں کر سکتی۔ ۶۸
(جاری)
حوالہ جات و حواشی
۴۱۔وہی مصنف،تفسیرالقرآن مع اصول تفسیر،ص۶۱۳۔۶۲۴،وہی مصنف ،تفسیر الجن ولجان،آگرہ،۱۸۹۲ء ، ص۲۔
۴۲۔سائنسی اعتبار سے اس نظریہ کی کمزوری اس حقیقت سے بھی عیاں ہے کہ اس کے پر جوش متبعین اپنی جاں گسل کاوشوں کے باوصف اسے آج تک حتماًثابت نہیں کر سکے۔معروف ماہرِ حیاتیات ڈاکٹر ہلوک نور باقی نے حیاتیات کے معروف ماہر اور نظریۂ ارتقاء کے پر جوش حامی آر۔ بی۔گولڈ شمڈٹ(R. B. Gold Shemidt )کے حوالے سے لکھا ہے کہ نظریۂ ارتقاء کے ثبوت میں آج تک ایک بھی شک و شبہ سے بالا تر سائنسی شہادت میسر نہیں آ سکی ۔ڈاکٹرصاحب کے مطابق جدید سائنس دان دواں گش (Duan Gish )کے نزدیک ا نسان کا جانور سے ارتقاء پذیر ہونا محض ایک فلسفیانہ تخیل ہے جس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں۔ڈاکٹر باقی نے پر زور سائنسی دلائل کی بنا پر ڈارونزم کی زبردست تردید کی ہے ۔آپ نے اپنی تصنیف میں نظریۂ ارتقاء کے خلاف معتبر سائنسی شہادتوں کا انبار لگادیا ہے۔
تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو:ہلوک نور باقی ،ڈاکٹر ،قرآنی آیات اور سائنسی حقائق (مترجم ،سید محمد فیروز شاہ گیلانی)، کراچی، انڈس پبلشنگ کارپوریشن،۱۹۹۴ء،ص۱۸۵۔۱۹۵۔
۴۳۔
Kazi, M.A,Quranic Concepts and Scientific Theories,Jordan, Amman,Islamic Academy of Sciences,1999,pp.28-29
۴۴۔سر سید احمد خاں ،تفسیرالقرآن مع اصولِ تفسیر،ص۱۲۴۔
۴۵۔ایضاً،ص۱۳۰۔
۴۶۔ایضاً،۱۳۲۔۱۳۸،۷۷۹۔۷۸۱۔
۴۷۔
See for example; Coulson, N.J, Conflicts and tentions in Islamic Jurisprudence, London, The University of Chicago press, N.D.p.78, Encyclopedia of Crime and Justice, The free press, New York, 1983, Vol. 1, p. 194
۴۸۔
See for detail: The Encyclopedia of Religion,Op.Cit,Vol.7, pp.310-311, Encyclopedia of Crime and Justice, Op. Cit,p195.
۴۹۔ سر سید احمد خاں ،تفسیر القرآن مع اصولِ تفسیر،ص۵۱۸۔۵۱۹۔
۵۰۔ایضاً،ص۵۲۰۔۵۲۵۔
۵۱۔
Goldziher, Ignaz, Muslim Studies, translated by C.R.Barber $ S. M. Stern. Chicago, IL! Aldine Publishing, 1973, Vol. II.p.18.
۵۲۔
Ibid.p.44.
۵۳۔
Ibid.p.56.
۵۴۔فواد سیزگین ،ڈاکٹر،مقدمہ تاریخِ تدوینِ حدیث،(مترجم،سعید احمد)،اسلام آباد،ادارہ تحقیقاتِ اسلامی ،۱۹۸۵، ص۱۸ ۔
۵۵۔
See for example; Guillume, Alfred, The Traditions of Islam, Beirut, Khayats, 1966, pp.15, 47-50,60,78.
۵۶۔
Shacht,.J,The Origins of Muhammadan Jurisprudence, Oxford,1950,p.149,Idem, Introduction to Islamic law, Oxford,1964,p,34.
۵۷۔
The Encyciopedia Americana, Grolier incorporated, 1984,Vol.
۵۸۔
Jeffery, Arthur,Islam Muhammad and his Religion,Indiana polus, 1979, p.12.
۵۹۔سرسید احمد خاں ،تفسیرالقرآن، حصہ ہفتم، لاہور، دوست ایسوسی ایٹس،۱۹۹۶ء ،ص۶۴۔۷۳۔
۶۰۔ایضاً،ص۷۱۔
۶۱۔ایضاً،ص۷۱۔۷۲۔
۶۲۔عزیز احمد، پروفیسر، برِ صغیر میں اسلامی جدیدیت ،(مترجم، ڈاکٹر جمیل جالبی)،لاہور، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ،۱۹۸۹ء،ص۸۰،۸۱۔
۶۳۔
Sale,George, The Quran, New York, 1890, p.52.
۶۴۔
Palmer, E, The Quran with an Introduction by R.Nicholson, first published 1880,Oxford University press, 1928, p.53.
۶۵۔رحمت اللہ کیرانوی، مولانا،بائبل سے قرآن تک،(مترجم،اکبر علی)،کراچی،مکتبہ دارلعلوم،۱۳۸۹ھ،جلد دوم ،ص۳۶۵۔
۶۶۔
Sale, George, The Quran, p.49.
۶۷۔سر سید احمد خاں،تفسیر القرآن مع اصول تفسیر،ص۲۳۶۔۲۴۵۔
فتاویٰ کے اجرا میں احتیاط کی ضرورت
حکیم ظل الرحمن
۱۱ مئی ۲۰۱۰ء، وقت ساڑھے آٹھ تا ساڑھے نوبجے شب۔ شرکا: (۱) نمائندہ این ڈی ٹی وی (۲) جناب پروفیسر اختر الواسع ۳) قاضی شہر لکھنؤ فرنگی محلی (۴) سعدیہ دہلوی صاحبہ (۵) جناب جاوید اختر۔
یہ پورا پروگرام دار العلوم دیوبند کے اس فتوے پر کہ ’’مردوں کے ساتھ عورتوں کا کام کرنا غیر اسلامی ہے‘‘ ایک تبادلہ خیال کا پروگرام تھا۔ قاضی شہر کلیتاً محدود تعبیر مسئلہ پر گفتگو فرما رہے تھے اور صرف فتوے کی حیثیت سے آگے ان کی گفتگو نہیں بڑھ رہی تھی۔ پروفیسر اختر الواسع کلیتاً اسلامی نمائندہ تھے۔ سعدیہ دہلوی ایک معتدل مزاج مسلمان کی نمائندگی فرما رہی تھیں۔ جناب جاوید اختر کلیتاً دانش وران ملت کے، جو مذہب کو ماڈرن شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں، نمائندہ تھے۔ میں یہاں بحث کی تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے مسئلے کی قرآن اور حدیث کی روشنی میں تصویر اور اس کی وسعتوں پر کچھ ]گزارشات[ پیش کرنا چاہوں گا۔
فتوے کا بنیادی سوال یہ ہے کہ ’’کیا عورتوں کا مردوں کے ساتھ کام کرنا غیر اسلامی ہے؟‘‘ اس تصویر کے درج ذیل رخ ہیں اور ہر ایک رخ کی اسلامی حیثیت علیحدہ علیحدہ ہے۔
(۱) مخلوط تعلیم گاہوں میں لڑکے اور لڑکیوں کی ایک ساتھ تعلیم جہاں ان میں آپسی اختلاط کے بہت پہلو ہوتے ہیں اور جنسی آزادی کی فضا بھی موجود ہوتی ہے۔
(۲) دفاتر میں مردوں کا عورتوں کے ساتھ ایک جگہ بیٹھ کر کام کرنا۔
(۳) کسی عورت کا کسی ادارے، سرکار، حکومتی شعبہ یا خود اپنے ہی کاروبار کی سربراہی کرنا۔
اب اس ضمن میں قرآن اور حدیث کی ہدایت ملاحظہ فرمائیں۔ ان ہدایات کا بنیادی مقصود ناجائز اختلاط پر روک لگانا ہے۔ اسی وجہ سے اسلام نے نکاح کے لیے محرم اور غیر محرم کی قید لگائی ہے۔ پس اگر کسی مجبورئ حالات کے تحت ضرورت یا مجبوری ہے، اس میں بھی تحفظ عصمت کے امکانا ت موجود ہیں تو پھر یہ ایک قابل معافی گناہ شمار ہو سکتا ہے۔
(۱) عورتوں پر مردوں کو نگران بنایا گیا ہے۔ جو لوگ ’’قوامون‘‘ کا ترجمہ حاکمیت سے کرتے ہیں، وہ درست نہیں ہیں۔ نگران کی حیثیت ایک اچھے مشیر کی ہوتی ہے۔ البتہ کبھی کبھی اسے خانگی معاملات میں کچھ ایمرجنسی اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اعتدال کی زندگی میں ان اختیارات کا استعمال شاذ ونادر ہی ہوتا ہے۔
(۲) عورتوں کے لیے بہتر جگہ ان کے گھر ہیں، البتہ مجبوریوں کے تحت ان کو گھر سے باہر جانے کی بھی اجازت ہے۔
(۳) عورتوں کا پردہ ایسا لباس ہے جس میں جسم کے حصے نمایاں نہ ہوں۔ چہرہ، ہاتھ اور پیر کھلے رکھے جا سکتے ہیں۔ موجودہ برقع اسلامی پردہ نہیں بلکہ ہمارا تہذیبی ورثہ ہے اور اس میں بھی بالعموم چہرہ اور پیر کھلے رہتے ہیں۔
(۴) عورت کی زیب وزینت صرف اپنے شوہر کے لیے وقف ہے۔ باہر نکلنے کی صورت میں اس کو ایسی زیب وزینت کی اجازت نہیں ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں کی طلبیدہ نگاہیں اس کا تعاقب کریں۔
(۵) مالیات کے حصول کی تمام تر ذمہ داری اسلام مرد پر عائد کرتا ہے، البتہ حالات کی مجبوری کے تحت عورت بھی اس مد میں مرد کو اپنا تعاون دے سکتی ہے۔ وہ لڑکیوں کے اسکولوں میں استاد بن سکتی ہے۔ اسے ہر وہ کام کرنے کی اجازت ہے جس میں اس کی عصمت کا تحفظ ممکن ہو اور یہ تحفظ اسے خود ہی کرنا ہوتا ہے۔
آئیے مندرجہ بالا صورتوں پر علیحدہ علیحدہ غور کریں:
(۱) حدیث میں آتا ہے کہ آج اسلام کا دسواں حصہ چھوڑنے پر اس امر کا امکان ہوتا ہے کہ وہ آدمی دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائے، لیکن قرب قیامت میں گناہ کی کثرت، معاشرے کی بد حالی، دولت کی فراوانی اور اس کے نتیجے میں منکرات کا عام ہو جانا، زنا کی کثرت کے دور میں اگر کوئی مسلمان اسلام کے دسویں حصے کا بھی پابند ہوگا تو وہ مسلمان شمار ہوگا۔ آج ہم اسی دور سے گزر رہے ہیں۔
(۲) مخلوط تعلیم گاہوں میں عورت او رمرد کا اختلاط، ا س کا انحصار تعلیم گاہ کے اندرو نی نظم ونسق اور اختلاط کے ماحول پر ہے جو بلاشبہ بالعموم آج موجود نہیں ہے۔ اس کی وجہ ہم خود ہیں۔ کبھی تعلیم گاہ میں جا کر اپنے بچوں کی تعلیم کی خبر نہیں لیتے۔ ابتدائی گھریلو زندگی میں رشتوں کا احترام کرنا ہم اپنے بچوں کو نہیں سکھاتے۔ اچھے گھرانوں میں بچوں کو نوکروں کا بھی ادب کرنا ہوتا ہے۔ تعلیم گاہ کو تربیت گاہ بھی ہونا چاہیے جو آج نہیں ہے۔
میں نے بی اے میرٹھ کالج سے ۱۹۵۵ء میں پاس کیا جہاں مخلوط تعلیم تھی،لیکن اخلاقی ڈسپلن کا حال یہ تھا کہ :
(الف) لڑکیوں کا کامن روم علیحدہ تھا، وہاں بالعموم لڑکوں کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔
(ب) پروکٹوریل سسٹم دو حصوں پر مشتمل تھا۔ کالج کی حدود میں پروکٹر، معاون پروکٹر، اساتذہ اور ہر کلاس میں ایک سینئر طالب علم مانیٹر اخلاقی ڈسپلن کا ذمہ دار ہوتا تھا۔
(ج) شہر میرٹھ کے ہر محلے میں رہنے والے اساتذہ اور طلبا کی تقسیم براے نگرانی کردار اور ان کے والدین سے رابطہ ہوتی تھی۔
۱۹۵۳ء سے ۱۹۵۵ء تک کالج میں رہا، مگر پورے دو سال میں ایک بھی شکایت کسی لڑکی کی طرف سے کسی لڑکے کے خلاف کسی بدتمیزی کی انتظامیہ کو نہیں ملی۔ ہم لوگوں کو اساتذہ یہ اخلاقی تعلیم دیتے تھے کہ یہ سب تمھاری بہنیں ہیں۔ خود اساتذہ کا کردار بھی بہت پاکیزہ ہوتا تھا۔
لہٰذا اس مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ لڑکیوں کو مخلوط تعلیم گاہوں میں پڑھنے کے لیے نہ بھیجا جائے، بلکہ جس حد تک ممکن ہو، ان کو طالبات کی تعلیم گاہوں میں داخل کرائیں۔ اگر وہاں گنجائش نہ ہو تو مخلوط تعلیم گاہوں میں داخل کرائیں۔ اسلام نے ہر مسلمان کے لیے حصول تعلیم کو فرض قرار دیا ہے۔ اس میں عورت اور مرد دونوں شامل ہیں۔ اس کے لیے ضروری یہ بھی ہے کہ والدین تعلیم گاہ کے ذمہ دار اساتذہ کے مسلسل رابطے میں رہیں۔
(۲) اب دوسرا مسئلہ آتا ہے۔ دفاتر میں مرد اور عورتوں کا ایک جگہ رہ کر کام کرنا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ غیر شادی شدہ لڑکیوں کو ایسی جگہ ملازمت کرنا مناسب نہیں ہے جہاں جوان لڑکے بھی ملازم ہوں اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔ نوجوان کی عمر کچی ہوتی ہے اور اس میں جنسی بے راہ روی کا امکان خصوصاً آج کے دور میں جہاں جنسی اختلاط کے لیے ہر طرح کی سہولیات حاصل ہوں اور لڑکے ان پر دولت لٹانے کے لیے تیار ہوں، بہت زیادہ ہوتا ہے۔ شادی شدہ عورتیں بالعموم جنسی طور پر تسکین شدہ ہوتی ہیں اور اپنی عصمت اور آبرو بچانے پر قادر ہوتی ہیں۔ واضح رہے کہ جنسی اختلاط کے لیے دو طرفہ طلب کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے کی خرابی یہ ہے کہ ہم نے خود کو نمائش اور ترغیب کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے۔ استقبالیہ پر بالعموم خوب صورت لڑکیوں کو فیشن ایبل لباس کے ساتھ بٹھایا جاتا ہے۔ یہ قطعاً نامناسب ہے۔ بلاشبہ عورت اپنی اقتصادی مجبوری کے تحت کسی بھی جگہ ملازمت کر سکتی ہے جہاں اس کی عزت وعصمت محفوظ رہے۔ اس کا انحصار خود عورت کے اپنے اعمال اور کردار پر بھی ہوتا ہے۔ باحیا عورت پر بری نظر ڈالنے کی ہمت آسانی سے نہیں ہوتی۔ اداروں کو بھی چاہیے کہ مردوں اور عورتوں کے کام کی نشستیں اس طرح رکھیں کہ اختلاط کم سے کم ہو۔ خود ذمہ داران ادارہ بھی اپنے ماحول میں سرپرستی کی اخلاقی ذمہ داری کو قبول کریں۔ والدین کا بھی فرض ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنی بچیوں اور بچوں کو مذہبی اخلاقیات سے بہرہ ور کرائیں۔ ان شاء اللہ باوجود اختلاط کے عورتوں کی عصمت بے داغ رہے گی۔ تعلیم میں اخلاقیات کی تعلیم کا رواج قائم کیا جائے جس کی قانونی اجازت ہے۔
(۳) اب تیسری چیز عورت کی سربراہی ہے، وہ کسی ادارہ کی ہو یا ریاست کی۔ یہاں ہمیں عورت کی تین حیثیتوں پر علیحدہ علیحدہ غور کرنا ہوگا: ماں، بہن، بیٹی۔ ماں خود اپنے گھر کی سربراہ ہوتی ہے اور داخلی امور کی خود مختار بھی۔ بہن بڑی ہونے کی صورت میں اپنے بھائیوں کی ہر طرح مشیر اور چھوٹی بہن کی صورت میں وہ زیر تربیت اولاد کے مماثل ہوتی ہے۔ بیٹی اپنی تربیت کی وجہ سے ایک زیر تربیت طالب علم کا درجہ اپنے ہی گھر میں رکھتی ہے۔
اب کسی ادارے کی سربراہی ہو یا کسی ریاست کی سربراہی، آج اس کا کلیتاً حاکمانہ تصور جاتا رہا ہے۔ اب ہر سربراہ کو اپنے مشیروں کی صلاح پر سربراہی کرنی ہوتی ہے یہاں تک کہ صدر جمہوریہ بھی کیبنٹ کا پابند ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں اسلام کسی سربراہی کی ممانعت نہیں کرتا۔ صرف عصمت اور ناموس کا تحفظ چاہتا ہے۔ بھوپال میں نواب شاہ جہاں بیگم سربراہ ریاست تھیں، لیکن ان کے تمام احکام کی تعمیل نواب محسن الملک کیا کرتے تھے۔ بعد میں انھوں نے ان سے شادی بھی کر لی تھی۔ آپ اگر مسز اندرا گاندھی کی مثال دینا چاہیں تو یہ نامناسب ہے کیونکہ ہندوستان کوئی اسلامی مملکت نہیں ہے اور نہ وہ مسلمان تھیں۔ الرجال قوامون کی غلط تعبیر پر فتوے دینا کوئی اچھا عمل نہیں ہے۔ آخر مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے نواب شاہ جہاں بیگم کی سربراہی کے حق میں فتویٰ دیا تھا۔
ہماری ایک خرابی یہ ہے کہ ہم ہندوستان جیسے غیر اسلامی ملک میں اسلامی مملکت کے فتاویٰ جاری کرتے ہیں اور ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہم قرب قیامت کے دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ دور رسول اکرم میں اگر کوئی دس فیصد حصہ اسلام کو ترک کر دے تو اس سے دائرۂ اسلام سے خارج ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا تھا، لیکن قرب قیامت کے دور میں جس میں گناہوں کی کثرت، برائیوں کے انبار اور معاشرے میں زنا کی کوئی بری حیثیت عدم تسلیم ہو رہی ہو، معاشیات اور کاروبار سود پر ترقی پذیر ہو تو اس دور میں اگر کوئی شخص صحیح اعتقادات اور دس فیصد شریعت پر بھی عمل پیرا ہو تو صحیح مسلمان شمار ہوگا۔......
ہماری اسلامی تشریحات کی ایک کمی یہ ہے کہ ہم صرف مسلک حنفیہ کی تشریحات پر زور دیتے ہیں اور دوسرے ائمہ کے فتوے کے لیے اس قدر قید لگاتے ہیں کہ ان پر فتوے کا امکان ہی نہیں ہوتا، حالانکہ ائمہ اربعہ کو برحق مانتے ہیں اور اس کے لیے کتاب موسوعہ موجود ہے جس کی ۴۲ جلدوں کا ترجمہ اسلامی فقہ اکیڈمی دہلی کر چکی ہے اور پہلی جلد طبع ہو چکی ہے اور واقعہ یہ ہے کہ شافعی مسلک اور بعض مسائل میں مالکی مسلک دوسرے مسالک کے اعتبار سے زیادہ معتدل ہیں۔
Relaxation کی ایک مثال بیان کر دوں۔ یہ جناب مفتی محمد شفیع صاحب کا فتویٰ ہے۔ ایک انگریز عیسائی جوڑے نے جس کو اسلام قبول کیے ہوئے دس بارہ سال ہی ہوئے تھے، اپنی بیوی کو تین طلاقیں بہ یک وقت دے دیں۔ تمام علما نے حلالہ کا فتویٰ دیا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے اجلاس میں مفتی محمد شفیع صاحب آئے ہوئے ہیں، ان سے رجوع کرو۔ وہ مفتی صاحب کے پاس گیا۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ صبح کو اپنے تمام واقعات کو لکھ کر لے آؤ۔ وہ صبح آئے۔ مفتی صاحب نے دوسرے مفتی صاحبان کو جو تشریف رکھتے تھے، وہ کاغذ دکھایا۔ سب نے حلالہ کا فتویٰ دیا۔ جناب مفتی صاحب نے اس پر فتویٰ تحریر کیا:
’’مسلمانوں کے ایک مسلک موسومہ بہ اہل حدیث کے نزدیک ایک ہی طلاق ہوئی، رجوع کر لیا جائے۔‘‘
وہ چلے گئے اور رجوع کر لیا۔ جب وہ چلے گئے تو مفتی صاحب نے فرمایا: ’’اگر اس وقت میں یہ فتویٰ نہ دیتا تو یہ جوڑا پھر عیسائی ہو جاتا کہ جس اسلام میں میری ایک ذرا سی غلطی کی تلافی ممکن نہیں ہے، وہ مذہب صحیح نہیں ہو سکتا۔‘‘ مفتی کفایت اللہ صاحب کی کفایت المفتی میں فتویٰ ہے کہ اگر کوئی شخص اہل حدیث سے فتویٰ لے کر رجوع کر لے تو اسے مطعون کرنا جائز نہیں ہے۔ خود مفتی صاحب نے بہت سے فتاویٰ مالکی مسلک پر دیے ہیں۔ اب غور فرمائیے کہ ہمارے اکابر میں تو اس قدر وسعت فکر تھی اور ہم ہیں کہ ذرا ذرا سی باتوں پر فتوے دے رہے ہیں۔ ]مثلاً[ ٹیلی وژن گھر میں رکھنا حرام ہے۔
ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ جب میں نے مسلمان ہونے کے لیے اسلام کا مطالعہ کیا تو میں کسی فیصلے پر پہنچ ہی نہیں سکا کہ اسلام کیا ہے۔ دیوبندی اسلام، بریلوی اسلام، شافعی اسلام، مالکی اسلام، حنبلی اسلام، اہل حدیث اسلام، شیعہ اسلام، قادیانی اسلام وغیرہ وغیرہ۔ آج لوگ نماز ہی نہیں پڑھنے کے لیے تیار ہیں اور ہم اعلان کر رہے ہیں کہ ایسے نماز پڑھی ہوگی تو نماز قبول نہیں۔ دعا ہاتھ پھیلا کر مانگو، جوڑ کر مت مانگو۔ آج ملت تعلیم کی محتاج ہے جس کے بغیر اسے دنیا میں اعزاز نہیں مل سکتا اور وہ بعض جگہ مخلوط تعلیم کے ذریعے ملتی ہے تو بجائے اس کے کہ ہم ان طالبات کے لیے اپنے غیر مخلوط تعلیم کے ادارے قائم کریں یا ان ہی اداروں میں اخلاقی رہنمائی اور دینیات کی تعلیم کا مزید انتظام کریں، خواہ مراسلاتی کورسوں کے ذریعے ہی ہو، ہم ان کو تعلیم گاہوں سے روکنے کی تبلیغ کرتے ہیں۔ جہاں تک روزگار کا تعلق ہے، مسلمان کاروباری ادارے مسلمان عورتوں کو اس انداز سے ملازمت دیں کہ ان کی عصمت محفوظ رہے۔
تیسرا عنوان سربراہی کا ہے۔ آج کی سربراہی محتاج مشاورت ہے۔ آج صدر جمہوریہ بھی دوسروں کے مشورہ کا محتاج ہوتا ہے تو عورت اگر کسی ادارے یا خود اپنے کاروبار کی سربراہ ہے تو یہ غیر اسلامی نہیں کہا جا سکتا، بشرطیکہ وہ خود اپنے اسلامی اقدار واخلاقیات کا تحفظ رکھے ہوئے ہو۔
ہمارا مزاج کچھ عجیب بن گیا ہے۔ ملت کے جو اصل مسائل ہیں، ان پر تو کسی جماعت کی توجہ نہیں ہے۔ اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے لانے کی ہدایت پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حجۃ الوداع میں دی ہے، کسی کو ان فرائض کی کوئی فکر نہیں ہے، مگر ہم ثانیہ کے لباس پر مراسلہ بازی کرتے ہیں۔ کسی بھی آدمی کو اپنے فرائض کی کوئی فکر نہیں، دوسروں کے فرائض اسے سب یاد ہیں۔ فتویٰ دینے کو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ فتویٰ کو کون اور کس مقصد کے لیے مانگ رہا ہے۔ بیشتر حضرات انتشار کی خاطر فتویٰ طلب کرتے ہیں۔ الفتنۃ اشد من القتل۔ مفتیان کرام جیسے صاحب نسبت روحانی حضرات نہ پہچانیں گے تو اور کون پہچانے گا؟ اس کی ایک مثال دے دینا چاہوں گا۔
اس وقت تک ٹی وی ایجاد نہیں ہوا تھا۔ آل انڈیا ریڈیو کی بارہ حضرات کی ایک ٹیم فیملی پلاننگ پر مولانا قاری محمد طیب صاحب کے پاس انٹرویو لینے پہنچی۔ قاری صاحب نے شرافت نفسی کی بنا پر ان کو ڈھائی گھنٹے انٹرویو دیا۔ ا س ٹیم نے ریڈیو پر دس منٹ کا حصہ نشر کر دیا کہ قاری طیب صاحب نے فیملی پلاننگ کو جائز قرار دے دیا۔ قاری صاحب کے سلسلے میں مسلمانوں میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا۔ بارہ حضرات کی یہی ٹیم مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندویؒ کے پاس پہنچی۔ وہاں سیاسی شعور تھا۔ انھوں نے سمجھ لیا کہ کسی نیک نیتی سے نہیں آئے ہیں۔ انھوں نے جواباً کہا: میرے پاس تمھارے لیے صرف دو جملے ہیں۔ کھڑے کھڑے نوٹ کرنا چاہو تو کھڑے کھڑے نوٹ کر لو۔ بیٹھنا چاہو تو بیٹھ کرنوٹ کر لو۔ ’’فیملی پلاننگ اسلام میں حرام ہے۔‘‘ یہ ٹیم اپنا سا منہ لے کر لوٹ آئی۔
اس وقت کے علما فتویٰ مانگنے والوں کو پہچاننے کی کوشش کریں تاکہ حالات حاضرہ کے شعور کی روشنی میں قرآن وحدیث، ائمہ اربعہ ودیگر فقہا کی آرا پر ممکنہ وسعتوں کے ساتھ مفصل فتاویٰ دیے جائیں۔ فتویٰ دینے والوں کی سب سے بڑی ضرورت غیر درسی کتب کا مسلسل اور کثرت سے مطالعہ ہے تاکہ اسلام کی یہ تصویر کہ وہ آسانیوں کا مذہب ہے، دنیا کے سامنے لائی جا سکے اور جس حد تک بھی کسی مسئلے میں شرعی حدود میں وسعت ممکن ہو، فتاویٰ میں وسعت دینی چاہیے۔
(بشکریہ ہفت روزہ دعوت، نئی دہلی)
حزب اللہ کے دیس میں (۱)
محمد عمار خان ناصر
انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (ICRC) ایک معروف بین الاقوامی ادارہ ہے جس کا صدر دفتر سوئٹزر لینڈ میں واقع ہے جبکہ سرگرمیوں کا دائرہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ ایک غیر جانب دار اور خود مختار ادارہ ہے جسے اقوام عالم کی طرف سے یہ مینڈیٹ دیا گیا ہے کہ وہ جنیوا کنونشنز (۱۹۴۹ء) اور اضافی پروٹوکولز (۱۹۷۷ء) کے مطابق مسلح نزاعات کے متاثرین کے تحفظ اور امداد کے لیے کام کرے۔ جنگ سے متعلق کسی بھی مجموعہ قانون کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک علۃ القتال (jus ad bellum) یعنی یہ بحث کہ اخلاقی طور پر جنگ کی وجہ جواز کیا ہے، اور دوسرے آداب القتال (jus in bello) یعنی وہ اخلاقی حدود وقیود اور قواعد وضوابط جن کی پاس داری جنگ کے دوران میں فریقین پر لازم ہے۔ جدید قانونی اصطلاح میں دوسری نوعیت کے قوانین کو بین الاقوامی انسان قانون (International Humanitarian Law) کا عنوان دیا گیا ہے اور اس کے تحت آنے والے قوانین دو بنیادی اصولوں پر مبنی ہیں: ایک یہ کہ جو اشخاص حالت جنگ میں براہ راست لڑائی میں شریک نہیں یا کسی وجہ سے لڑائی میں حصہ لینا چھوڑ چکے ہیں، انھیں جنگی کارروائی کی زد میں آنے سے محفوظ رکھا جائے اور دوسرا یہ کہ دوران جنگ میں جو ہتھیار، اسالیب اور طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، وہ ایسے ہونے چاہییں جن سے غیر متعلق افراد متاثر نہ ہوں اور جن سے جانی ومالی نقصان ناگزیر حد تک اور کم سے کم ہو۔ ریڈ کراس کا دائرۂ کار آداب القتال سے متعلق ہے اور یہ ادارہ جنگ اور آفت زدہ علاقوں میں متاثرین کی امداد، جنگی قیدیوں کی صورت حال کا جائزہ لینے، جنگوں، قدرتی حادثات یا اجتماعی نقل مکانی کے نتیجے میں گم شدہ افراد کی تلاش اور ان کے اہل خاندان کے ساتھ ان کا رابطہ بحال کرانے اور آفت زدہ علاقوں میں زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم لوگوں تک پانی، خوراک اور طبی امداد پہنچانے کی عملی سرگرمیوں کے علاوہ بین الاقوامی انسانی قانون کے مطالعہ وتحقیق اور اس کو بہتر سے بہتر بنانے اور عالمی قوانین کو نئے حالات سے ہم آہنگ بنانے کے ضمن میں اپنی تجاویز بھی پیش کرتا ہے۔
اس تنظیم کی بنیاد سوئٹزر لینڈ کے ایک تاجر ہنری دوناں (Henry Dunant) نے رکھی تھی۔ ا س کا پس منظر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ۱۸۵۹ء میں ہنری دوناں کو شمالی اٹلی کے ایک شہر سولفرینو میں آسٹریا اور فرانس کی فوجوں کے مابین ایک معرکے کا براہ راست مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور اس نے دیکھا کہ چند گھنٹوں کے اندر میدان جنگ چار ہزار مقتولوں او رزخمیوں سے بھر گیا ہے۔ ہنری دوناں نے جذبہ انسانیت کے تحت مقامی آبادی سے تعاون کی اپیل کی اور جس حد تک ممکن ہوا، زخمیوں کو فوری طبی امداد پہنچائی گئی۔ اس واقعے کا ہنری دوناں پر اتنا گہر ا اثر ہوا کہ وطن واپس جا کر اس نے ’سولفرینو کی یادیں‘‘ (A Memory of Solferino) کے نام سے اپنے مشاہدات کو ایک باقاعدہ کتاب کی صورت میں شائع کیا اور اس میں یہ تجویز پیش کی کہ ایسی امدادی تنظیمیں قائم کی جانی چاہییں جو دوران جنگ میں زخمیوں کو طبی امداد پہنچانے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں اور ایسی تنظیموں کو بین الاقوامی قانون میں تحفظ فراہم کرتے ہوئے دوران جنگ میں اپنا کردار ادا کرنے کی سہولت دی جائے۔ ہنری دوناں کی اپیل پر ۱۹۶۳ء میں زخمیوں کی امداد کے لیے ایک بین الاقوامی تنظیم کی بنیاد رکھی جس نے بعد میں انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کی شکل اختیار کر لی۔
بین الاقوامی انسانی قانون کے میدان میں انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کی متنوع سرگرمیوں میں سے ایک اس قانون کے بارے میں عمومی آگاہی کو فروغ دینے کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف سطحوں پر تربیتی کورسز اور ورک شاپ کا اہتمام کرنا بھی ہے۔ اسی سلسلے کا ایک تربیتی کورس ۲۹؍ مارچ تا ۹؍ اپریل ۲۰۱۰ء لبنان کے دار الحکومت بیروت میں منعقد کیا گیا جو اصلاً عرب ممالک کے قانون دانوں، سفارت کاروں اور تعلیم وذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے لیے تھا، تاہم اس میں پاکستان اور ایران سے بھی چند افراد کو دعوت دی گئی تھی۔ پاکستان سے جانے والے وفد میں وفاق المدارس العربیہ کے جنرل سیکرٹرل مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، ادارۂ تحقیقات اسلامی اسلام آباد کے شعبہ فقہ کے صدر ڈاکٹر عصمت عنایت اللہ اور راقم الحروف شامل تھے، جبکہ ایران سے جامعہ شہید بہشتی قم کے ایک فاضل استاذ الشیخ ابراہیمی کو مدعو کیا گیا تھا۔ کورس میں متعلقہ شعبوں سے تعلق رکھنے والے ساٹھ کے قریب افراد شریک تھے جو سب کے سب اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور اسی مناسبت سے تدریس کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے بھی مصر، تیونس، لبنان، مراکش اور سوئٹزر لینڈ سے بین الاقوامی انسانی قانون کے ممتاز ترین ماہرین کو دعوت دی گئی تھی۔
بین الاقوامی انسانی قانون، ریڈ کراس کی سرگرمیوں اور بیروت کے اس تربیتی کورس کی علمی بحثوں سے متعلق آئندہ نشستوں میں ذرا تفصیل سے گفتگو کی جائے گی۔ یہ نشست اس سفر کے ذرا عمومی پہلووں کے لیے خاص رہے گی۔
کورس کے انعقاد کے لیے لبنان کے دار الحکومت بیروت کا انتخاب کیا گیا تھا جو ایک قدیم تاریخی شہر ہے اور اس وقت شرق اوسط کے حساس ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ لبنان کے شمال اور مشرق میں سوریا، جنوب میں اسرائیل جبکہ مغرب میں بحیرۂ روم واقع ہے جسے انگریزی میں Mediterranean Sea اور عربی میں البحر الابیض المتوسط کا نام دیا جاتا ہے۔ ساحل سمندر پر واقع ہونے کی وجہ سے اس علاقے کو تاریخی طور پر بحیرہ روم کے دوسرے کناروں پر آباد تہذیبوں اور بلاد عرب کے مابین ایک نقطہ اتصال کی حیثیت حاصل رہی ہے اور یہاں کا نسلی، ثقافتی اور مذہبی تنوع اسی کی یادگار ہے۔ میسر تاریخی شواہد کے مطابق لبنان میں انسانی بود وباش اور تہذیب کا ثبوت سات ہزار قبل تک ملتا ہے۔ قدیم زمانے میں یہ علاقہ فینیقی تہذیب کا مرکز رہا ہے جو ۳۰۰۰ قبل مسیح سے تقریباً ۵۰۰ قبل مسیح تک اس علاقے کی ایک متمدن اور ترقی یافتہ تہذیب رہی ہے۔ یونانی فاتح اسکندر اعظم کے حملوں میں فینیقی تہذیب کا نمایاں ترین مرکز ٹائر (Tyre) تباہ ہو گیا۔ اس کے بعد لبنان کی پوری تاریخ مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے طالع آزماؤں اور فاتحوں کی یورش اور تسلط سے عبارت ہے اور یہاں ایرانی، اشوری، یونانی، رومی، عرب، سلجوقی، مملوک، صلیبی اور عثمانی فاتحین یکے بعد دیگرے حملہ آور ہوتے اور حکومت کرتے رہے ہیں۔
ساتویں صدی عیسوی میں جب اسلامی سلطنت دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی تو اس وقت جزیرۂ عرب کے شمال میں واقع یہ سارا علاقہ جو اب سوریا، فلسطین، اردن، لبنان اور اسرائیل جیسے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم ہے، مجموعی طور پر بلاد الشام کہلاتا تھا اور اس وقت رومی سلطنت کا حصہ تھا۔ سیدنا عمر کے عہد میں یہ سارا علاقہ اسلامی سلطنت کے زیرنگیں آ گیا اور اسے بے شمار صحابہ وتابعین اور اس کے بعد صدیوں تک اسلامی تاریخ کے بڑے بڑے اکابر کا مولد ومسکن بننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ سیدنا علی کے دور میں اسلامی سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور حجاز کے بالمقابل شام کا علاقہ سیدنا امیر معاویہ کی امارت میں اموی خلافت کا مرکز قرار پایا اور پھر سیدنا حسن اور سیدنا معاویہ کے مابین صلح کے بعد کم وبیش ایک صدی تک دمشق کو اموی سلطنت کے پایہ تخت کی حیثیت حاصل رہی۔ اموی خلافت کے خاتمے کے بعد یہاں عباسی سلطنت کا پرچم لہرایا گیا اور پھر عباسی سلطنت کے زوال واضمحلال کے زمانے میں مختلف عربی وعجمی خاندان وقتاً فوقتاً یہاں حکومت کرتے رہے۔ سولہویں صدی میں شام کا علاقہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں آ گیا اور کم وبیش چار صدیوں تک اسی کا حصہ رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ کا تسلط ختم ہونے پر یورپی طاقتوں نے شام کے علاقے کی آپس میں بندر بانٹ کی تو برطانیہ اور فرانس کے مابین باہمی معاہدے کے تحت فلسطین کو برطانیہ جبکہ سوریا کو فرانسیسی انتداب میں دے دیا گیا۔ فرانسیسیوں نے اپنی سیاسی مصلحتوں کے تحت ۱۹۲۶ء میں جبل لبنان اور اس سے متصل علاقے کو سیریا سے الگ ایک مستقل ملک کا درجہ دے دیا اور اس طرح موجودہ لبنان دنیا کے سیاسی نقشے پر نمودار ہوا۔
لبنان اپنے باشندوں کے مذہبی اور ثقافتی تنوع کے اعتبار سے خاصا منفرد ملک بھی ہے اور حساس بھی۔ یہاں چالیس فی صد کے قریب مسیحی، تیس فی صد کے قریب اہل تشیع اور اسی کے لگ بھگ اہل سنت بستے ہیں۔ مسیحیوں میں زیادہ تعداد مارونی کیتھولک مسیحیوں کی ہے جو پانچویں صدی عیسوی کے ایک شامی راہب مارون کی طرف منسوب ہیں اور مذہبی معاملات میں پاپاے روم کی اطاعت کو قبول کرتے ہیں۔ یونانی آرتھوڈوکس دوسرے نمبر پر ہیں اور ان کے علاوہ بھی بہت سے چھوٹے چھوٹے مسیحی گروہ موجود ہیں۔ اہل سنت زیادہ تر شافعی المسلک ہیں، جبکہ اہل تشیع میں اثنا عشریہ کے علاوہ دروز اپنا الگ اور مخصوص مذہبی تشخص رکھتے ہیں اور شام، لبنان، اسرائیل اور اردن میں ایک مستقل مذہبی گروہ کی حیثیت سے منظم ہیں۔ دروز اپنے آپ کو اہل التوحید کہتے ہیں اور ذات باری کے لیے ذات سے الگ صفات کے مستقل اثبات کو توحید اور تنزیہ کے منافی سمجھتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا کلامی عقیدہ معتزلہ کے بہت قریب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان میں باطنی تصوف کا بھی ایک گہرا عنصر موجود ہے ، چنانچہ وہ آیات واحادیث کے ظاہری اور لفظی معانی کے علاوہ ان کے ایک خاص باطنی مفہوم کے بھی قائل ہیں جس تک ان مخصوص افراد ہی کی رسائی ہو سکتی ہے جو معرفت اور عرفان کا ایک خاص مقام حاصل کر لیں۔ ایک داخلی تقسیم کی رو سے دروز کمیونٹی دو بڑے حصوں میں تقسیم ہے۔ عوام الناس کو ’جہال‘ کہا جاتا ہے اور پڑھے لکھے افراد کو ’عقال‘۔ ان میں سے ’جہال‘ یعنی عوام کو ’عقال‘ یعنی خواص کے مذہبی لٹریچر تک رسائی کی اجازت نہیں اور نہ وہ ان کے مخصوص مذہبی اجتماعات میں شریک ہو سکتے ہیں۔ ’عقال‘ میں سے بھی زیادہ ممتاز لوگوں پر مشتمل ایک خاص حلقہ ’اجاوید‘ کہلاتا ہے اور اسی حلقے کے لوگ دروز کی مذہبی راہ نمائی کے منصب پر فائز ہوتے ہیں۔
۱۹۴۳ء میں لبنان نے فرانس سے آزادی حاصل کی تو ایک غیر تحریری قومی معاہدے کے تحت یہاں کے سیاسی راہ نماؤں نے مختلف مذہبی گروہوں کے مابین اقتدار کے اشتراک پر مبنی ایک منفرد سیاسی نظام قائم کیا جس کی رو سے یہاں کا صدر مارونی کیتھولک، وزیر اعظم سنی، پارلیمنٹ کا اسپیکر شیعہ جبکہ ڈپٹی اسپیکر یونانی آرتھوڈوکس ہوتا ہے۔ اس وقت میشال سلیمان صدر، سعد رفیق الحریری وزیر اعظم جبکہ نبیہ بری اسپیکر پارلیمنٹ ہیں۔ آزادی کے بعد ۱۹۷۵ء تک لبنان میں عمومی طور پر امن وامان اور خوش حالی کی کیفیت قائم رہی اور خاص طور پر سیاحت، زراعت اور بینکنگ کے شعبوں میں لبنان نے خاصی ترقی کی۔ اس دور میں اسے مشرق کا سوئٹزر لینڈ جبکہ سیاحوں کی کثرت کی وجہ سے شرق اوسط کا پیرس کہا جاتا تھا۔ تاہم ۱۹۷۵ء سے ۱۹۹۰ء تک لبنان مسلم اور مسیحی گروہوں کے مابین شدید تصادم اور خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اس پندرہ سالہ خانہ جنگی میں نہ صرف لبنان کی معیشت برباد ہو گئی بلکہ انسانی جانوں اور املاک کا بھی شدید نقصان ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ جانیں ضائع ہوئیں، جبکہ دو لاکھ کے قریب لوگ زخمی ہوئے اور نو لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہو گئے جو اس وقت لبنان کی آبادی کا پانچواں حصہ بنتا ہے۔ ۱۹۹۰ء میں سعودی عرب کی کوششوں سے متحارب فریقوں کے مابین طائف کے مقام پر ایک معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا اور امن وامان کی صورت حال بحال ہو گئی۔ تاہم امن وامان کی ظاہری بحالی کے باوجود مذہبی اور نسلی تفریق کا سوال انتہائی حساسیت کے ساتھ بدستور موجود ہے۔
ہمیں صورت حال کی حساسیت کا اندازہ اس سے ہوا کہ ہمارے ساتھ تربیتی کورس میں لبنانی فوج کے ایک حاضر سروس عمید (کرنل) بھی شریک تھے۔ ایک دن چائے کے وقفے میں ڈاکٹر عصمت اللہ نے ان سے فوج میں مسلم مسیحی تناسب کے بارے میں سوال کیا تو وہ نہ صرف طرح دے گئے، بلکہ فوراً کوئی چیز لینے کے بہانے سے ہمارے پاس سے چلے گئے۔ لبنان کے نائب امین الفتویٰ الشیخ طاہر سلیم کردی سے ملاقات کے دوران میں، جس کا ذرا تفصیلی ذکر آگے آئے گا، شیعہ سنی اختلاف کی صورت حال پر بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ۲۰۰۶ میں لبنان کے وزیراعظم رفیق الحریری کے قتل کے بعد شیعہ سنی تعلقات میں ایک تناؤ پیدا ہو گیا ہے کیونکہ بعض حلقوں کی طرف سے رفیق الحریری کے قتل میں حزب اللہ کے ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ کیا آپ کے خیال میں حزب اللہ ملوث ہے تو انھوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے، بلکہ ہم عوامی سطح پر اس مسئلے پر گفتگو کرنا بھی پسند نہیں کرتے کیونکہ اس سے تناؤ اور کشیدگی کو ہوا ملنے کا خدشہ ہے۔
یہاں کی ایک نہایت ذمہ دار شخصیت نے رازداری کی شرط پر ہمیں یہ بات بتائی کہ کچھ عرصہ قبل کچھ عرب شیوخ نے، جو ہر سال گرمی کے موسم میں سیاحت کی غرض سے لبنان آتے ہیں اور ایک ایسے علاقے میں ٹھہرتے ہیں جہاں مسیحی آبادی کی اکثریت ہے، اس بات کی کوشش کی کہ وہاں ایک مسجد تعمیر کر دی جائے۔ مقامی مسیحیوں کو پتہ چلا تو انھوں نے یہ کہہ کر اس میں رکاوٹ ڈال دی کہ یہاں مسلمان سرے سے آباد ہی نہیں، اس لیے مسجد کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد ان عرب شیوخ نے لبنان کے مذہبی راہ نماؤں سے رابطہ کیا اور ہمیں یہ بات بتانے والی شخصیت نے کہا کہ وہ اس میٹنگ میں موجود تھے جس میں لبنان کے مفتی عام اور ان شیوخ کے مابین باقاعدہ یہ منصوبہ طے پایا کہ مسیحیوں کے اس علاقے میں مسلمانوں کے لیے ایک مکان خریدا جائے اور پھر مناسب موقع پر پوری تیاری کے ساتھ ساتھ راتوں رات وہاں مینار کھڑا کر کے اسے مسجد کی حیثیت دے دی جائے تاکہ اس کے بعد اگر مسیحی اسے گرانا چاہیں تو مسلمان اشتعال میں آ جائیں اور خانہ جنگی کی صورت دوبارہ لوٹ آئے۔ اس شخصیت نے کہا کہ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ ایسے اسباب پیدا ہو گئے کہ ان عرب شیوخ کا یہاں آنا جانا بند ہو گیا اور یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا، ورنہ کچھ خبر نہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا۔ مجھے اس پر کسی بزرگ کا وہ تبصرہ ذہن میں آ گیا جو والد گرامی نے ایک موقع پر سنایا تھا کہ ’’تیل کا پیسہ ہے۔ جہاں جائے گا، آگ ہی لگائے گا۔‘‘
اس شدید فرقہ وارانہ کشیدگی کے اثرات یہاں کے تمام سیاسی معاملات پر بہت نمایاں ہیں۔ مثال کے طور پر ۱۹۴۸ء کی عرب اسرائیل جنگ میں جو ایک لاکھ کے قریب فلسطینی مسلمان ہجرت کر کے لبنان آ گئے تھے اور جنھیں جنگ ختم ہونے کے بعد اسرائیل نے واپس قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، ان کو اور ان کی اگلی نسل کو آج بھی لبنان کی شہریت حاصل نہیں ہے اور ادارہ جاتی سطح پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے، چنانچہ ۲۰ شعبوں میں فلسطینیوں کے لیے ملازمت کرنا ممنوع ہے۔ اب ان فلسطینی مہاجروں اور ان کی اگلی نسل کی تعداد چار لاکھ تک پہنچ چکی ہے جن میں سے نصف کے قریب مہاجر کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اسی طرح یہاں کے قانون کے مطابق کوئی لبنانی خاتون جس نے کسی غیر لبنانی مرد سے شادی کی ہو، اپنے بچوں کو لبنانی شہریت منتقل نہیں کر سکتی اور لبنان کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں بعض مقدمات میں اس قانون کی ازسرنو توثیق کی ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی بتائی جاتی ہے کہ اگر غیر لبنانی شوہروں کے بچوں کو لبنانی شہریت دی گئی تو مذہبی اور نسلی اعتبار سے یہاں کی آبادی کا موجودہ تناسب بدل سکتا ہے جس کے اثرات مستقبل میں سیاسی سیٹ اپ پر بھی لازماً پڑیں گے۔
بیروت شہر دو اطراف سے بلند وبالا پہاڑوں اور ایک سے طرف سمندر کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ کسی بلند مقام سے شہر کا نظارہ کیا جائے تو ایک دل فریب منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ پہاڑوں کے اوپر سے مکانات اور عمارتوں کی صورت میں انسانی آبادی ایک تسلسل کے ساتھ نیچے اترتی ہوئی ساحل سمندر کے ساتھ آکر مل جاتی ہے۔ ایئر پورٹ بھی بالکل ساحل کے ساتھ تعمیر کیا گیا ہے اور جب بیروت کی طرف آنے والا جہاز سمندر کے اوپر اڑتا ہوا نیچے اترنے کے لیے زمین کے قریب ہونا شروع ہوتا ہے تو آخر وقت تک یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاید جہاز سمندر میں ہی اترنے والا ہے۔ لبنان اپنے خوب صورت سیاحتی مقامات کے لیے پوری دنیا میں معروف ہے اور خاص طور پر بیروت اور اس کے گرد ونواح میں عالمی شہرت کے حامل سیاحتی مقامات موجود ہیں۔ تربیتی کورس کے منتظمین کی طرف سے ۴؍ اپریل اتوار کا دن سیاحت کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ اس دن ہم نے مغارۃ جعیتا، مقدسہ مریم کا کنیسہ اور جبیل کے علاقے میں قدیم تاریخی شہرکے کھنڈر دیکھے۔
مغارۃ جعیتا (Jeita grottos) بیروت کے شمال میں ۱۸ کلو میٹر کے فاصلے پر تاریخی دریاے کلب کی وادی میں واقع ہے اور اسے بجا طور پر لولوۃ السیاحۃ اللبنانیۃ (Jewel of tourism in Lebanon) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا غار ہے جس میں لاکھوں سال کے کیمیاوی عمل سے پتھروں اور چٹانوں نے نہایت حیرت انگیز اور شان دار قدرتی آرٹ کے نمونوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔ انسان انھیں دیکھ کر فی الواقع حیرت سے دنگ رہ جاتا ہے اور قدرت کی صناعی اسے تبارک اللہ احسن الخالقین کا ورد کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ مغارۃ جعیتا کو سیاحوں کے لیے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہاڑ کی بلندی پر واقع حصے میں غار کے بیچوں بیچ سلیقے سے ایک پختہ راستہ بنایا گیا ہے جو غار کے آخر تک چلا جاتا ہے اور سیاح اس راستے سے گزرتے ہوئے دائیں بائیں، اوپر اورنیچے قدرتی صناعی کے حیرت انگیز نمونوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ غار کے نچلے حصے میں دریاے کلب کا ایک حصہ بہتا ہے۔ اس حصے کی سیاحت کے لیے کشتیوں کا انتظام کیا گیا ہے اور سیاح ٹھنڈے اور شفاف پانی میں مختلف کھلی اور تنگ جگہوں سے گزرتے ہوئے قدرت کی کاری گری کے نمونوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ۱۸۳۶ء میں تھامسن نامی ایک مسیحی مناد نے غار کے زیریں حصے کو دریافت کیا تھا جسے ۱۹۵۸ء میں عام لوگوں کی سیاحت کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ پھر ۱۹۵۸ء میں ہی زیریں غار سے راستہ بناتے ہوئے غار کے بالائی حصے کو بھی دریافت کر لیا گیا اور ۱۹۶۹ء میں مناسب انتظامات کے بعد اسے بھی عام سیاحت کے لیے کھول دیا گیا۔ غار میں مصنوعی روشنی کا مناسب انتظام کیا گیا ہے۔ مختلف مقامات پر چھت اور دیواروں سے قدرتی طور پر پانی ٹپک رہا ہے اور غار کے اندر کا موسم مجموعی طور پر ٹھنڈا اور خوش گوار ہے۔ بالائی غار کا درجہ حرارت سارا سال ۲۲ سنٹی گریڈ جبکہ زیریں غار کا ۱۶ سنٹی گریڈ رہتا ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے غار کے اندر تصویر کشی ممنوع ہے اور سیاحوں کے موبائل یا کیمرے وغیرہ اندر داخل ہونے سے پہلے لے لیے جاتے ہیں، تاہم یاد پڑتا ہے کہ اکا دکا افراد نظر بچا کر موبائل اندر لے جانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ انٹر نیٹ کی بعض ویب سائٹس پر اس کی کچھ تصاویر جبکہ یو ٹیوب پر مختصر ویڈیو کلپس میسر ہیں۔ غار کے قریب جگہ جگہ ایسے سائن بورڈ آویزاں ہیں جن پر سیاحوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ انٹر نیٹ پر ان غاروں کو دنیا کے سر فہرست عجائب میں شامل کرنے کے حق میں ووٹ دیں۔
مغارۃ جعیتا کے بعد ہمیں مقدسہ مریم کے کنیسہ میں لے جایا گیا جو سمندر کے کنارے ایک بلند وبالا پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے۔ یہاں گرجے کی چھت پر سیدہ مریم کا ایک دیو ہیکل مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔ مسیحی حضرات یہاں دعا ومناجات کے لیے آتے ہیں جبکہ عمومی طور پر اسے ایک سیاحتی مقام کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ یہ ایک وسیع کمپلیکس ہے جس میں گرجے کی عمارت کے علاوہ لائبریری، سیاحتی یادگاروں (souvenirs) اور مسیحی مذہبی کتب اور سی ڈیز کی دوکانیں بھی موجود ہیں۔ میں نے بھی یہاں سے کتاب مقدس سے متعلق بعض معلوماتی کتب اور سی ڈیز خریدیں۔
ہمارے سیاحتی دورے میں تیسرا اور آخری مقام جبیل کا علاقہ تھا جو آثار قدیمہ کی بعض تاریخی یادگاروں کے حوالے سے معروف ہے۔ جبیل، بیروت سے ۳۷ کلو میٹر کے فاصلے پر شمال میں بحیرۂ روم کے ساحل پر واقع ہے اور پانچ ہزار قبل مسیح پرانا مانا جاتا ہے۔ یونانیوں نے اس کا نام Babylos یعنی کتابوں کا گھر رکھا تھا۔ یہاں قدیم شہر کی گلیوں بازاروں، محلات اور عبادت گاہوں کے کھنڈر موجود ہیں۔ یہاں قائم کیے گئے میوزیم میں اس شہر کے آخری بادشاہ احیرام کے دور کا ایک کتبہ محفوظ ہے جس پر فینیقی زبان کی عبارت کندہ ہے۔ اس کے علاوہ مختلف تختیوں پر ان کھدائیوں کی تفصیل درج ہے جو مختلف اوقات میں اس شہر میں ہوتی رہیں۔ یہاں وہ بندرگاہ بھی موجود ہے جسے دنیا کی قدیم ترین بندرگاہ مانا جاتا ہے اور جو دو ہزار قبل مسیح میں فینیقیوں اور مصر اور یونان کے شہروں کے مابین تجارت کا مرکز تھی۔ ازمنہ وسطیٰ میں یہاں ایک قلعہ بھی تعمیر کیا گیا۔ قلعے کے ساتھ ہی جبیل کا قدیم بازار آباد ہے جہاں ملبوسات، زیورات اور مختلف مجسموں کی صورت میں سیاحوں کے لیے یادگاری چیزیں میسر ہیں۔ اس علاقے میں مارونی مسیحی اکثریت میں ہیں، جبکہ دس گیارہ فیصد شیعہ آباد ہیں۔ لبنان کے موجودہ صدر العماد میشال سلیمان کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔
اس طرح ۴؍ اپریل کا یہ سارا دن کسی آرام کے بغیر مسلسل سفر کرتے گزرا اور ہم شام کو مغرب کے بعد ہوٹل واپس پہنچے، لیکن تھکن کا احساس بالکل نہیں ہوا بلکہ سب دوستوں کا تاثر یہ تھا کہ یہ سیاحت واقعتا بے حد پرلطف رہی۔
مذکورہ مقامات کی سیاحت کے علاوہ ہمیں خاص بیروت کے کچھ حصے دکھانے اور بعض اہم ملاقاتیں کروانے کا اہتمام یہاں کے ایک بے حد مہربان دوست نوجوان عارف حسین نے کیا جن سے سے رابطہ کر کے انھیں بلوانے کی خدمت قاری محمد حنیف جالندھری صاحب نے انجام دی۔ عارف حسین بیروت میں اپنا کاروبار بھی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مذہبی اور دعوتی سرگرمیوں میں بھی پوری طرح شریک رہتے ہیں۔ نہایت فصیح اور عمدہ عربی بولتے ہیں اور ان کا چہرہ مہرہ اور بالوں کا اسٹائل دیکھ کر سیدنا مسیح علیہ السلام کا وہ نقشہ ذہن میں آ جاتا ہے جو مسیحی حضرات کے ہاں تصویروں اور مجسموں میں دکھایا جاتا ہے۔ عارف حسین سب سے پہلے ہمیں جامع العمری الکبیر میں لے گئے جہاں ہم نے عصر کی نماز ادا کی۔ یہ ایک عظیم الشان مسجد ہے اور تقریباً ایک ہزار سال قبل بڑے بڑے پتھروں سے تعمیر کی گئی اس کی عمارت اصل حالت میں اب بھی قائم ہے۔ مسجد کی انتظامیہ کی طرف سے اس کے تاریخی تعارف پر مبنی ایک مختصر کتابچہ ہمیں فراہم کیا گیا۔ اس کے مطابق ۱۴ ہجری (۶۳۵ عیسوی) میں جب سیدنا عمر کے زمانے میں بیروت فتح ہوا تو اس جگہ ایک مسجد تعمیر کی گئی تھی جس کا نام تکریماً مسجد عمری رکھا گیا۔ صلیبی جنگوں کے دور میں جب یہ علاقہ مسیحیوں کے قبضے میں آیا تو انھوں نے اس مسجد کو گرجے میں تبدیل کر دیا۔ پھر ۵۸۳ھ (۱۱۸۷ عیسوی) میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیروت کو دوبارہ فتح کیا تو اس کو دوبارہ مسجد کی حیثیت سے بحال کر دیا گیا۔ اس کے دس سال بعد مسیحی دوبارہ بیروت پر قابض ہوئے تو یہ مسجد پھر گرجا بن گئی۔ اس کے بعد ممالیک کے عہد میں ۶۹۰ھ (۱۲۹۱ عیسوی) میں مسلمانوں نے اس شہر اور مسجد کو دوبارہ حاصل کیا، لیکن پوری عمارت کو ازسرنو تعمیر کرنے کے بجائے جزوی ترمیمات کے ساتھ گرجے ہی کی عمارت کو برقرار رکھا، چنانچہ آج بھی گرجے کی طرز پر بڑے بڑے ستونوں پر قائم ایک بڑا اور لمبا سال ہال ہے جس میں قالین نما مصلے بچھا کر نماز ادا کی جاتی ہے۔
اس مسجد کو جامع عمری کے علاوہ جامع التوبہ اور جامع النبی یحییٰ علیہ السلام بھی کہا جاتا ہے۔ مسجد کے محراب کے ساتھ ایک بڑا سا آہنی دروازہ ہے جس کے پیچھے بعض تاریخی روایات کے مطابق حضرت یحییٰ علیہ السلام کے جسد مبارک کا ایک حصہ مدفون ہے۔ اس روایت کی صحت کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے، کیونکہ حضرت یحییٰ کی ایک قبر دمشق میں بھی ہے۔ بہرحال ترکی کے سلطان عبد الحمید نے ۱۳۰۵ھ (۱۸۸۷ عیسوی) میں اس حصے کے آگے جہاں عام روایت کے مطابق حضرت یحییٰ کے جسد مبارک کا کوئی حصہ مدفون ہے، ایک مضبوط آہنی دروازہ نصب کروا دیا تھا جو آج بھی موجود ہے۔ مسجد ہی سے متصل ہم نے وہ حجرہ بھی دیکھا جہاں تاریخی روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ موے مبارک ایک صندوق میں محفوظ رکھے گئے تھے اور لوگ ان کی زیارت کیا کرتے تھے۔ یہ صندوق ۱۹۷۵ء کی خانہ جنگی کے دوران یہاں سے گم ہو گیا۔ مسجد کے ساتھ ہی چند قدم کے فاصلے پر مسیحیوں کا ایک بہت بڑا گرجا قائم ہے اور ارد گرد خوب صورت اور عالی شان تجارتی عمارتیں موجود ہیں۔ عارف حسین نے بتایا کہ خانہ جنگی کے زمانے میں یہ پورا علاقہ مکمل طور پر تباہ وبرباد ہو کر کھنڈر کی صورت اختیار کر گیا تھا، لیکن موجودہ صورت میں اس علاقے کو دیکھ کر کوئی شخص اس بات کا اندازہ نہیں کر سکتا۔
بیروت کے سفر میں دلچسپی کا ایک بہت بڑا باعث یہاں کے وہ اشاعتی ادارے بھی تھے جو عالم اسلام کے علمی حلقوں میں مشہور ومعروف ہیں۔ دار الفکر، دار العلم للملایین، دار احیاء التراث العربی، دار البشائر، دار ابن حزم وغیرہ بڑے بڑے اشاعتی اداروں کا مرکز یہیں پر ہے۔ ہمارا تاثر یہ تھا کہ ان اشاعتی اداروں کی جو شہرت اور تعارف پورے عالم اسلام میں ہے، بیروت میں تو یقیناًہوگی اور ہر پڑھا لکھا آدمی ان سے واقف ہوگا، لیکن یہ محض تاثر ہی تھا۔ ہم کافی دن تک ہوٹل کے کارکنوں اور تربیتی کورس کے شرکا سے مختلف مکتبوں کا نام لے کر معلوم کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ کہاں واقع ہیں اور وہاں تک جانے کی کیا صورت ہو سکتی ہے، لیکن کوئی ہماری داد رسی نہ کر سکا۔ بہرحال عارف حسین سے رابطہ ہوا تو ہم نے ان سے خاص طور پر درخواست کی کہ وہ ہمیں یہاں کے چند مکتبے بھی دکھائیں، تاہم وقت کی قلت کی وجہ سے وہ ہمیں صرف دار البشائر کے گودام میں لے جا سکے۔ یہ گودام متوسط قسم کے علاقے کی ایک مناسب سی عمارت کے تہہ خانے میں قائم ہے۔ وقت کم تھا۔ ہم نے تقریباً ایک گھنٹہ یہاں مختلف کتابیں دیکھتے ہوئے گزارا اور جیب جس قدر اجازت دیتی تھی، اس کے لحاظ سے اپنی دلچسپی کی کچھ کتابیں بھی منتخب کیں۔ بہت احتیاط سے انتخاب کرنے کے باوجود میرے پاس بیس پچیس کتابیں جمع ہو گئیں۔ ادھر ریڈ کراس نے بھی بین الاقوامی انسانی قانون سے متعلق آٹھ دس تعارفی اور دستاویزاتی کتب کا سیٹ کورس کے شرکا کو عنایت کیا تھا۔ ان سب کتابوں کو جمع کر کے ایک ڈبے میں ڈالا تو اچھا خاصا وزن بن گیا، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ واپسی پر ایئر پورٹ پر کوئی مشکل پیش نہیں آئی اور سامان کی چیکنگ کرنے والے عملے نے کتابوں سے بھرا ہوا کارٹن دیکھ کر احترام سے فوراً آگے جانے دیا۔
بیروت میں اسلامی تاریخ کے عظیم فقیہ امام اوزاعی کا مرقد بھی ہے جو ان کے نام پر قائم محلہ اوزاعی میں واقع ہے۔ ہماری بہت خواہش تھی کہ امام صاحب کی قبر پر ضرور حاضری دی جائے، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ عارف حسین نے بتایا کہ امام صاحب کی قبر ایک خاص احاطے میں واقع ہے جسے غالباً شام چار بجے کے بعد بند کر دیا جاتا ہے، اس لیے اگر قبر کی زیارت مقصود ہو تو دن کو کسی وقت جانا پڑے گا، لیکن ٹریننگ کورس کے سیشن دن بھر جاری رہنے کی وجہ سے ہمارا دن کو نکلنا ناممکن تھا، سو یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ امام اوزاعی کو اس خطے کے مسیحیوں کے ہاں خاص احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ تاریخی طورپر یہ ہے کہ امام اوزاعی کے زمانے میں جبل لبنان میں مقیم مسیحیوں میں سے کچھ لوگوں نے بعبلبک کے افسر محصولات سے کسی شکایت کی بنا پر بغاوت کر دی۔ مسلمان حاکم صالح بن علی بن عبد اللہ نے ان میں سے شر پسند عناصر کی سرکوبی کے بعد آئندہ اس قسم کے واقعات سے بچنے کے لیے اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کو، جن کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں تھا، وہاں سے جلا وطن کر دیا۔ (بلاذری، فتح البلدان، ص ۱۶۹) اس پر امام اوزاعی نے اسے تفصیلی خط لکھا جس کا کچھ حصہ امام ابوعبید نے اپنی کتاب ’’الاموال‘‘ میں نقل کیا ہے۔ امام صاحب نے فرمایا:
’’جبل لبنان کے جن اہل ذمہ کو جلا وطن کیا گیاہے، ان کے بغاوت کرنے پر ساری جماعت متفق نہیں تھی، اس لیے ان میں سے ایک گروہ کو (جس نے بغاوت کی) قتل کرو اور باقی لوگوں کو ان کی بستیوں کی طرف واپس بھیج دو۔ کچھ افراد کے عمل کی پاداش میں سارے گروہ کو کیونکر پکڑا جا سکتا اور انھیں ان کے گھر بار اور اموال سے بے دخل کیا جا سکتا ہے؟ .... یہ لوگ غلام نہیں ہیں کہ تمھیں ان کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ وہ آزاد اہل ذمہ ہیں (جو بہت سے قانونی حقوق اور ذمہ داریوں میں ہمارے برابر ہیں، مثلاً) ان میں سے کوئی شادی شدہ فرد زنا کرے تو اسے رجم کیا جاتا ہے اور ان کی جن عورتوں سے ہمارے مردوں نے نکاح کیا ہے، وہ دنوں کی تقسیم اور طلاق وعدت میں ہماری عورتوں کے ساتھ برابر کی شریک ہوتی ہیں۔‘‘ (الاموال، ص ۲۶۳، ۲۶۴)
یہ واقعہ پڑھ کر میرے دل میں حسرت سی پیدا ہوئی کہ کاش ہمارے آج کے مذہبی راہ نما بھی محض سیاسی ضرورتوں کے لیے نہیں، بلکہ حقیقی اسلامی جذبے سے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی آواز بلند کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھیں تو :
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے
(جاری)
ایک تحریک بغاوت کی ضرورت
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد امین کا مضمون الشریعہ کے اپریل ۲۰۱۰ء کے شمارے میں دیکھا تو بڑی الجھن ہوئی۔ دقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب سے پرانی یاد اللہ ہے۔ وہ سید مودودی کے فکری حلقے سے متعلق ہیں۔ غامدی صاحب کے ساتھ بھی ان کو بحث کرتے دیکھا۔ سید مودودی نے انقلاب کی جو چنگاری ان کے ذہن میں سلگا دی، وہ ابھی تک سرد نہیں ہوئی۔ وہ تعلیم و تدریس کے شعبہ سے متعلق ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس شعبے میں ان کی کارکردگی غیر معمولی ہو، مگر سید کے حلقے میں فکری اور عملی لحاظ سے انہیں قبولیت نصیب نہیں ہوئی۔ لہٰذا وہ نوابزادہ نصراللہ کی طرح اتحادی ذہن کو بروے کار لانے کی جانب مائل ہوئے۔ اس کے لیے ان کے سامنے سید کے حلقے سے وابستگان کی ٹکڑیاں تھیں مگر ان ٹکڑیوں نے ان کو میزبانی کی حیثیت دینے سے انکار کر دیا۔ اس پس منظر سے نکل کر انہوں نے موجودہ مضمون تحریر کیا۔ مضمون کا عنوان ہے: ’’ایک نئی دینی تحریک کی ضرورت‘‘۔
عنوان سے ’’ایک صالح جماعت کی ضرورت‘‘ کی نقالی کا تاثر واضح ہے۔ اسی طرح کی نقالی کا مظہر ڈاکٹر فاروق خان کی کتاب ’’ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت‘‘ کے عنوان میں بھی ہے۔ نقالی کے مظاہر جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی، تحریک اسلامی کے ناموں کے اختیار کرنے میں واضح ہیں۔ ان جماعتوں کے دساتیر کو دیکھا جائے تو وہ جماعتی دستور کا بہت کمزور چربہ ہیں۔ کہیں تخلیقی اور اجتہادی بصیرت نظر نہیں آتی۔ ان میں اسلامی جمعیت طلبہ کے دستور سے بھی زیادہ کمزور نقالی پائی جاتی ہے۔ محترم ڈاکٹر امین صاحب، میری طرح،اپنے قلب و ذہن میں ساری عمر انقلاب کی آرزو پالتے رہے۔ ہر قدم پر شکست کی مایوسیوں نے گہرے صدمے دیے، اس کے باوجود انقلاب کی آرزو کو مرنے نہیں دیا۔ تازہ صورت یہ ہے کہ اسے زندہ رکھنے کے لیے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں رکھا ہوا ہے۔ اوکسیجن، گلو کوز اور مصنوعی خون کے سہارے فراہم کرنے کا پورا اہتمام کر رکھا ہے۔ محترم جناب ڈاکٹر محمد امین کا تازہ مضمون پڑھ کر ان کی سخت جانی کی داد دینا پڑتی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اپنی صلاحیت، اوقات اور حالات کار کو پہچانے بغیر ایسی پرواز پر مائل ہو جاتے ہیں جس کے لیے ہمارے مصنوعی تصورات بھی ہمارا ساتھ نہیں دیتے۔ در اصل نقال ذہنیت جب مفکرانہ مقام پر فائز ہونے کی کوشش کرے تو ایسے لطیفے سر زد ہو جاتے ہیں۔ دینی جماعتوں کے مایوس کن کردار اور کارکردگی سے صرف نظر کر کے انتخابی کشا کش سے عافیت کی بنیاد پر، دینی تحریک کی ضرورت پر ذہنی قوتوں کو صرف کر کے مضامین تو طویل سے طویل لکھے جا سکتے ہیں، مگر معاشرے میں کسی تبدیلی کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا۔ حالات کا اندازہ زمینی حقائق کی روشنی میں قائم کیا جائے تو یہ امر واضح ہے کہ روایتی یا نیم روایتی، کسی طرح کی تنظیم یا تحریک کی محترم ڈاکٹر امین صاحب ضرورت پیش نہیں کر سکے۔
اچنبھے کی بات یہ ہے کہ انقلاب کی آرزو بھی کی جاتی ہے اور مداہنت کو بطور پالیسی، اعلان کر کے اختیار کیا جائے۔ انقلابی سوچ کا تقاضا تو یہ ہے کہ دین و سیاست کے نام پر آج تک کے کرداروں کا بھرپور تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ ان کی کامیابیوں و ناکامیوں کا میزان تیار کیا جائے۔ کردار و بد کرداریوں کا پورا محاکمہ کیا جائے۔ بالکل اسی طرح جس طرح سید مودودی نے خلافت و ملوکیت میں تاریخ پر نقد کیا۔ یہی نہیں، سید مودودی نے ایک صالح جماعت کے قیام کی ضرورت سے پہلے بر صغیر کی سیاسیات کا کتنا بھر پور جائزہ پیش کیا، محترم ڈاکٹر امین صاحب اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ‘‘ کے عنوان کے تحت طویل سلسلہ ہاے مضامین جماعت کے قیام کا پس منظر تھا۔ جناب غامدی صاحب نے بھی ایک دور میں انصار المسلمون قائم کی۔ اس سے پہلے انہوں نے جماعت اسلامی، فکر پرویز، تبلیغی جماعت غرض کم و بیش دینی حوالے سے کام کرنے والی ہر تحریک کا بھر پور جائزہ پیش کیا۔ قاضی حسین احمد کے اسلامک فرنٹ میں بھی شامل ہوئے، مگر آخر کار المورد کے ذریعے تحقیقی اور دعوتی سرگرمیوں کے لیے اپنے آپ کو مخصوص کر لیا۔ یہاں بھی ان کا دعویٰ احقاق حق ہے۔اپنی اس حیثیت کو وہ کس حد تک بر قرار رکھ سکے ہیں، یہ اس مضمون کا موضوع نہیں۔ محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب کا دینی جماعتوں اور تحریکوں کے ماضی کے کردار سے صرف نظر کر کے کسی تحریک کی ابتدا کی دعوت دینا اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے مضمون میں ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:
’’اس ملک میں کئی دینی سیاسی جماعتیں اسلامی حوالے سے سیاست کے میدان میں کام کر رہی ہیں اور بہت سی دعوی و اصلاحی تحریکیں، تنظیمیں اور ادارے دعوتی واصلاحی میدان میں کام کر رہے ہیں۔ مجوزہ نئی تحریک ان میں سے کسی کی حریف نہیں ہو گی اور تنقید اور ان کی تنقیص نہیں کرے گی، بلکہ تحریک کا ماٹو سب کے لیے محبت اور ہر خیر سے تعاون ہو گا۔‘‘ (الشریعہ اپریل ۲۰۱۰ء، ص ۳۷)
محبت کے نام پر مداہنت کی یہ معراج اور پھر انقلاب کی آرزو،
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے
باقی مضمون میں وہ روایتی انداز فکر سے کچھ بھی ہٹے بغیر وہ سب کچھ کہتے ہیں جو سید مودودی کے حلقے کے لوگ کہتے ہیں۔ پھر اس تناظر میں انقلابی فکر اختیار کرنا بے جوڑ ہے۔ مولانا مودودی علیہ الرحمہ بلا شبہہ انقلابی رجحانات رکھتے تھے، مگر انہوں نے ان رجحانات کو ایک طرف رکھ کر، روایتی فکر اور اقدامات کی راہ اختیار کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے جو طاقت جمع کی، وہ دین کی بنیاد پر تھی۔ دینی مزاج کے لوگ ہی ان کے گرد جمع ہوئے۔ ان میں انقلابی فکر راہ نہیں پا سکتی تھی۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ دینی جذبے کی بنیاد پر قائد اعظم نے ایک مملکت کے حصول میں کامیابی حاصل کر لی ہے، لہٰذا انہوں نے بھی اسی جذبے کو کیش کرانے کی حکمت عملی اختیار کی۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ ٹھیک ہو سکتا تھا، مگر انہوں نے اپنی انتہائی طاقت ور تحریروں کے ذریعے بر صغیر کے دینی ٹیلنٹ کو اپنے گرد جمع کیا۔ اس طرح جو طاقت جمع ہوئی، اسے تحریکی اور انقلابی بنیاد فراہم کرنے کے بجائے ایک ایسے طاقت ور جمودی ڈھانچے پر متفق کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کے جمود کو آج ستر سال گزرنے کے بعد بھی کوئی توڑ نہیں سکا۔ مولانا علیہ الرحمہ انتہائی پڑھے لکھے شخص تھے۔ جدید و قدیم دینی و دنیاوی لٹریچر پر ان کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ میری ذہنی و تربیتی تشکیل ان کے لٹریچر اور شخصیت کا نتیجہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مجھے آزادی فکر دی ہے۔ انہوں نے مجھے حاضر و موجود سے بے نیاز بلکہ مکمل طور پر بیزار بنایا۔ اس سے بغاوت پر آمادہ کیا۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ سید علیہ الرحمہ انقلابی حکمت عملی کیوں نہ دے سکے۔ میں نے اس کی وجہ یہی سمجھی ہے کہ انہوں نے انقلاب کی جدید حکمت عملی کے مطالعے کے باوجود اس کے عملی تقاضوں اور افادیت کا ضروری احساس نہیں کیا۔ اس کے لیے انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ انقلاب کو بنیاد بنانے کا دعویٰ کیا۔ ان کی تمام تر کوشش دین سے وابستگی کے جذبے کو کیش کرانے کی تھی ۔ انہوں نے قائد اعظم کی پر امن، آئینی اور قانونی جد و جہد سے استفادہ کیا۔ کانگریس اور جمعیت علماے ہند اور مسلم لیگ کے فکری اور عملی پہلوؤں پر حالات کے تناظر میں شدید تنقید کی۔ اس سے انہوں نے اپنا قد، اپنے تئیں قائد اعظم سے بھی بلند کر لیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ قومی سطح پر اپنے آپ کو قائد اعظم کے مرتبے پر فائز کرنے کی تیاری کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اس خوش فہمی میں تھے کہ قائد اعظم کے بعد مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں کو قوم مسترد کر دے گی اور ان کو قائد اعظم تسلیم کر لیا جائے گا۔ اس طرح وہ اسلامی انقلاب کا راستہ صاف طور پر دیکھ رہے تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے تیز رفتاری اور جلد بازی سے کام لیا۔ ان کے برابر کے ساتھی اس تیز رفتاری میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتے تھے۔ چنانچہ جماعت کے قیام کے بعد دو سال کے اندر ہی وہ بہت سے گراں قدر ساتھیوں سے محروم ہو گئے۔ ساتھیوں کی محرومی کے بعد، وہ تنہائی کا احساس کرنے کے بجائے زیادہ طاقتور ہو کر بڑے سے بڑے چیلنجوں کو عبور کرنے پر میدان میں اتر آئے۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد اسلامی دستورکے مطالبے کے لیے ان کی عوامی سطح پر مہم بڑی موثر تھی۔ ملک میں زبردست فضا قائم ہوئی۔ ۱۹۵۳ء کے انتخابی معرکے میں انہوں نے ایک ایسی انتخابی حکمت عملی اختیار کی جو واقعتا ہمارے معاشرے کے لحاظ سے بے مثال اور انتہائی موثر تھی۔ میں آج بھی اس کے محاسن یاد کر کے جھوم جاتا ہوں۔ اس سکیم کا پہلی بار تجربہ کچھ زیادہ خوش گوار نہیں تھا۔ نتائج کا جائزہ شروع ہوا تو جماعت میں توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہو گیا۔ توڑ پھوڑ کا یہ عمل مولانا کی جلد بازی اور زمینی حقائق کے ادراک میں کمی کا نتیجہ تھا۔ جماعت کا جمودی ڈھانچہ جائزاتی عمل کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ اس سے اندرونی کھچاؤ کی جو صورت پیدا ہوئی، اس کے نتیجے میں جماعت میں مولانا کی برابری کا دعویٰ رکھنے والے آخری شخص، جناب امین احسن اصلاحی بھی جماعت سے باہر ہوگئے یا اس پر مجبور کر دیے گئے۔ مولانا مودودی نے اس کو جماعت کی قوت میں کمی کے بجائے اضافہ کے طور پر قیاس کیا۔انہوں نے جم کر اختلاف کرنے والی اس شخصیت سے نجات پا کر سکھ کا سانس لیا۔ ان کو جماعت سے باہر کا راستہ دکھانے کے لیے انہوں نے امارت جماعت سے استعفیٰ دے کر اسے خوب پھیلایا۔ ساتھ ہی یہ اصرار بھی پریس کے ذریعے پھیلایا گیا کہ وہ کسی قیمت پر اپنا ستعفیٰ واپس نہیں لیں گے۔ اس طرح کے ماحول اور فضا پیدا کر کے ماچھی گوٹھ کا اجتماع طلب کیا گیا۔ ارکان استعفیٰ سے سخت مشتعل تھے۔ وہ مولانا سے اختلاف کرنے والوں کو سکون و اطمینان سے سننے کے تیار نہ تھے۔ اس کے نتیجے میں اصلاحی صاحب اور ان کے ساتھیوں نے جماعت سے علیحدگی کی راہ اختیار کر لی۔ اسے فکری جمود کی طاقت و تاثیر قرار دینے کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔ بعد ازاں ۱۹۵۳ء کی انتخابی سکیم کو یکسر نظر انداز کر کے بغیر کسی اصول اور حکمت کے ہر انتخابی معرکے میں اترے۔ یہ معرکے چالیس پچاس سال پر محیط ہیں۔ ان معرکوں میں کامیابیوں اور ناکامیوں کا سنجیدہ جائزہ لینے کی کبھی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ جماعت کے لیے ۱۹۵۳ء کا جائزہ ہی اتنا جان لیوا ثابت ہوا کہ بعد ازاں جائزہ لینے کی ضرورت ایسی جسارت تھی جو کہ اہل جمود کے لیے سرخ رومال بن گئی۔ لے دے کر ایک جناب خرم مراد تھے جو نقد و جائزے کے ذہن سے کام لیتے رہے اور اس کا بر ملا اظہار بھی کرتے رہے۔
ایک مرحلے پر قاضی حسین احمد کے ساتھ مل کر انہوں نے جماعتی جد وجہد کو انقلابی رجحانات پر استوار کرنے کی کوشش کی مگر روایتی ٹیم کے ساتھ انقلابی حکمت عملی اختیار کرنا کیسے ممکن تھا۔ اس سارے عمل میں صلاحیتوں، وسائل اور اوقات کا جو ضیاع ہوا، اس کا حساب تو حشر کے دن ہی ہو گا۔ سید مودودی سے لے کر سید منور حسن تک سب جواب دہ ہوں گے۔ ڈاکٹر امین اور جناب جاوید غامدی جیسے لوگوں کو اب بھی ٹامک ٹوئیاں مارنے سے فرصت نہیں۔ دونوں بزرگ میدان عمل سے پیچھے ہٹ کر سکون و عافیت میں بیٹھ کر اپنے تئیں فکری کام کر رہے ہیں، لیکن اس فکری کام اور میدان عمل کی جد و جہد کے تقاضوں میں کہیں کوئی ملاپ اور جوڑ کی صورت نظر نہیں آتی۔ ان کی تمام تر چاند ماری میدان عمل پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ خاص طور پر جناب جاوید غامدی کاطرز عمل زیادہ ہی جواں تر ہے۔ ان کی فکری کاوشیں جب اثرات پیدا کرتی ہیں تو پھر وہی میڈیا تک رسائی کے بدلے بلکہ خمیازے کے طور پر، سرکاری پروٹو کول اور پھر مملکت پاکستان سے عملی جلا وطنی کی نوبت آ جاتی ہے۔ اسے ہجرت سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے، مگر ہجرت میں سرکاری تراغیب و سہولیات قبول کرنا پڑتی ہیں۔ اس سے ان کی فکری حیثیت بری طرح مجروح ہوئی ہے۔
اس پس منظر میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کی پریشان فکری کی طرف واپس آتا ہوں۔ اگر ڈاکٹر صاحب اجازت دیں تو میں ان کی پریشان فکری میں حصہ دار بننا چاہتا ہوں۔ میرے نزدیک ڈاکٹر صاحب نے جس تصوراتی دنیا کی بات کی ہے، وہ عملاً سوسائٹی میں پہلے ہی مختلف صورتوں میں کار فرما ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تمام تر فکری کاوش کسی نئی تحریک کا خاکہ دینے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ بین السطور میں وہ اس کا اعتراف بھی کر رہے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ مسئلہ عملی جدوجہد کا ہے مگر میدان اور زمینی حالات سے دوری کو پہلے سے بھی بڑھا کر عافیت گوشوں میں قید ہو کر اجتہادی کام کیا جا رہا ہے۔ ایک نئی دینی تحریک کی ضرورت سے پہلے یہ تو واضح کیا جانا چاہیے کہ اب تک کی دینی تحریکوں کا بنیادی روگ کیا ہے۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ماضی کا مکمل جائزہ آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے لازمی ہے۔ کم از کم یہ میرے نزدیک کردار و صلاحیت کا بحران بیماری کی اصل جڑ ہے۔ یہ امر تو بالکل واضح ہے کہ کردار اور صلاحیت کے ایک کم سے کم معیار کے بغیر تحریک دینی ہو یا سیاسی، یہاں تک کہ گمراہی کی تحریک بھی کردار و اصلاحیت کے بلند معیار کے بغیر پیش رفت نہیں کر سکتی۔ تن آسانی کی انتہا یہ ہے کہ ہم میدان میں موجود دینی سیاسی جماعتوں کے کھوکھلے کردار اور صلاحیت سے عاری ایک طویل دور سے آنکھیں بند کر کے ایک نئی تحریک کا جواز اور راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ دیانت و امانت دیندار اور دین سے عاری، دونوں کے لیے لازم ہے۔ جب ہم صرف ایک دیانت و امانت کے اصول پر ہی دینی و سیاسی بلکہ سماجی تنظیموں کو دیکھتے ہیں تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔
میرا منشا یہ ہے کہ کسی بھی اجتماعی کام کے لیے بنیادی کردار کا اہتمام لازم ہے۔ یہ بنیادی کردار انسانی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ قرآن وسنت کی تعلیمات اس کردار کو پختہ تر کر سکتی ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ یہ کردار موجود ہو۔ اگر بنیادی کردار موجود ہی نہ ہو تو پھر دین داری اسے کھوکھلے پن کی معراج کی جانب لے کر جائے گی۔ قرآن میں ہے کہ نماز برائیوں سے روکتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ ہم نماز پڑھتے ہیں تو برائیوں سے لازماً رک بھی جاتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ نماز ہمیں برائیوں سے روکنے کے بجائے برائیوں کے انجام اور خمیازے سے بچانے کے لیے ذہنی طور پر آسودگی فراہم کرتی ہے۔ میں لاکھ بد دیانتیوں اور خیانتوں کے بعد بھی چار نماز وں یا دو چار حج کے فریضوں سے اپنے تئیں ہر طرح کی معافی کا حقدار بن جاتا ہوں۔ ایک نیک نیتی میرے حق میں رہے گی۔
ہمارے ہاں تنظیم کو بطور سائنس کے دیکھا ہی نہیں گیا۔ ہر سطح پر چھوٹی اور بڑی سے بڑی لا تعداد تنظیمیں قائم ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی تنظیمی اصولوں کی ابجد پر پورا نہیں اترتیں۔ وہ سب بلا استثنا بد انتظامی، کرپشن اور اپنے مقاصد سے دوری کا شکار ہیں۔ تنظیم جتنی بڑی ہو گی، اسے استوار رکھنا اتنا ہی مشکل اور پیچیدہ کام ہے۔ ہمارے ہاں نئی تنظیموں کی ضرورت پر تو نت نئے خاکے آتے رہتے ہیں، مگر آج تک کسی نے موثر اور شفاف تنظیمی ڈھانچہ مرتب کرنے کی جانب توجہ نہیں دی۔ سید مودودی نے بلا شبہہ جماعت کے قیام سے ایک تجربہ کرنا چاہا مگر یہ تجربہ روز اول ہی سے ناکامی کی بنیادوں پر استور کیا گیا۔
میرے نزدیک کسی نئی تحریک یا تنظیم کی ضرورت سے پہلے لازم یہ ہے کہ بغیر کسی دینی یا مذہبی حوالے کے، پختہ کردار اور اعلیٰ صلاحیت والے لوگوں کی ایک ایسی تنظیم قائم کی جائے جو اپنے متعین مقاصد کے لیے دنیا بھر میں مسلمہ تنظیمی اصولوں کی بنا پر استوار ہو۔ اس تنظیم میں اطاعت نظم کا اہتمام ہو، مگر اس سے زیادہ اہتمام نظم کے احتساب کا ہونا چاہیے۔ احتساب کے انتہائی موثر اور فعال اہتمام کے بغیر اطاعتِ نظم محض کرپش کے فروغ کا اہتمام بن کر رہ جاتا ہے۔ کرپشن کو راہ ملتے ہی نظم اور تنظیم اخلاقی زوال کی راہ پر چل نکلتی ہے جس کے بعد زوال کے عمل کو روکنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا احتساب نظم کا اہتمام اتنا طاقت ور ہونا چاہیے کہ بغاوت کی سطح تک پہنچا ہوا ہو۔ بد عنوانی کو ناقابل برداشت ماحول کا سامنا کرنا پڑے، جس طرح حضور کا فرمان ہے کہ برائی کو ہاتھ اورزبان سے روکا جائے۔ احتساب نظم میں بغاوت کا ماحول کارکن کی تربیت کا بنیادی مزاج ہو گا۔ اطاعت نظم کا مزاج معاشرے میں بھی برائی کے خلاف معرکہ آرائی سے پہلو تہی کرتا ہے۔ بغاوت کا یہ مزاج سوسائٹی میں اسے باغی کے طور پر متعارف کرائے گی۔ اپنے اپنے دائرہ کار میں، مناسب ترجیحات کے تحت، ایشوز پر بغاوت کا اہتمام سوسائٹی کی بنیادی ضرورت ہے۔ ہر کوئی اپنے ماحول میں باغی بنے، بغاوت کرے، بغاوت کے لیے معاشرے میں بیزاری پیدا کرے۔ بغاوت سے مراد مسلح بغاوت نہیں، بلکہ پر امن، قانون، آئین اور ضابطے کی حدود کے اندر رہ کر، ایشوز پر ترجیحات قائم کر ے، ٹائم شیڈول کے ساتھ طے شدہ ٹارگٹس حاصل کرنے کے لیے موثر لائحہ عمل اختیار کرے۔ ایشوز پر کام کی بہترین مثال حالیہ وکلا تحریک ہے۔ ایک ہی ٹارگٹ تھا اور وہ عدلیہ کی بحالی اور آزادی کا تھا۔ وہ پورا ہوا۔ خدا نہ کرے اسے نظر بد لگے۔ انصاف کسی کے لیے بھی خوشگوار نہیں۔ اسی رو میں انصاف کے لیے پریشر گروپس بنانے اور اوپر کی سطح پر ایشوز وار، تواتر کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک کے بعد دوسرا ایشو سامنے رکھ کر موثر جد و جہد، متعین وقت میں کامیابی کے ہدف کے ساتھ، اس طرح سوسائٹی میں خود اعتمادی پیدا ہو گی۔ یہی خود اعتمادی جد و جہد کا اثاثہ ثابت ہو گی۔یہاں ایشوز سے مراد لوگوں کے روز مرہ کے مسائل ہیں۔ ان میں مقامی اور قومی سطح کے ایشوز اہمیت رکھتے ہیں۔ ایشوز پر کام میں ترجیحات کی بنیاد متعینہ ٹائم کے اندر موثر اور نتیجہ خیز جد و جہد ہے۔
وکلا تحریک شروع ہوئی تو اس نے ہمارے ہاں سوسائٹی اور اس کے ہر طبقے کو متاثر کیا۔ وکلا سوسائٹی میں بہت مختصر تعداد میں ہیں۔ پندرہ کروڑ کی آبادی میں ایک لاکھ وکلا کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ پھر تحریک میں براہ راست سرگرم شرکت کرنے والے وکلا کی تعداد مشکل ہی سے دس ہزار بھی نہیں ہو گی، لیکن عدلیہ کی آزادی اور بحالی کو ایک ایشو کے طور پر لے کر لگا تار جد و جہد کی گئی۔ مقابلہ فوج سے تھا۔ فوج کی تعداد پانچ چھ لاکھ بیان کی جاتی ہے۔ ان کے وسائل ، قوت اور غصبِ اقتدار کو دیکھا جائے تو عدلیہ کی بحالی کے امکانات کسی طرح آسان نہیں۔ فوج کا ایک جرنیل مان نہیں، پانچ جرنیلوں کے سامنے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے استعفیٰ دینے سے انکار کیا، یقیناًیہ بہت بڑا واقعہ تھا۔ پی سی او کے نفاذ کے وقت تریسٹھ ججوں نے چیف کے ساتھ یکجہتی کے طور پر استقامت دکھائی۔ فوج اقتدار سے رخصت ہوئی، انتخابات کرائے گئے، جنرل مشرف مستعفی ہوئے۔ سیاسی جماعتیں کونوں کتھروں میں تھیں۔ تمام بڑے لیڈر انتخابات سے پہلے تک جلا وطن تھے۔ مشرف ان کو کسی قیمت پر وطن آنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں تھے۔ آخر کار ایسا بھی ہو کر رہا۔ بے نظیر انتخابی مہم کی بھینٹ چڑھا دی گئی۔ سیاسی حکومت اور منتخب صدر ایوان صدر میں آئے مگر بحالی کا امکان پیدا نہ ہوا۔ وعدے پر وعدے ہوتے رہے۔ ججوں کو نئی تقرری کا جھانسا دے کر پھاڑا گیا۔ صرف پندرہ جج چیف جسٹس کے ساتھ کھڑے رہ گئے۔ انہوں نے تحریک کو بہر صورت منطقی انجام تک پہنچا کر دم لیا۔
وکلا رہنماؤں نے کئی مواقع پر ان کو ایسے مشورے دیے جو چیف کے شایان شان نہ تھے۔ ان کو امریکہ یاترا بھی کرائی گئی۔ بحالی سے پہلے امریکہ جانا قبل ازوقت تھا۔ ہارورڈ یونیورسٹی اور نیو یارک بار ایسو سی ایشن کے اعزازات کی وصولی کے لیے چیف صاحب کا اصالتاً امریکہ جانا انتہائی بے موقع تھا۔ وکلا قائدین امریکہ میں ڈیل کے شواہد بہت واضح ہیں۔ البتہ چیف صاحب کے کردار اور موقف سالم و سلامت رہے۔ انہوں نے کسی طرح کی کوئی لچک نہ دکھائی۔ انہوں نے کسی ذمہ دار ریاست سے ملا قات نہیں کی۔ چیف کی استقامت ہی تحریک کا سب سے بڑا سبب ثابت ہوئی۔ چیف کا ذرا سا تزلزل پوری سوسائٹی کی قربانیوں اور جد و جہد کو ضائع کر سکتا تھا۔ چیف کو اللہ نے ایسی استقامت دی کہ بحالی کی منزل طے ہو کر رہی۔ سید مودودی نے درست کہا ہے کہ انقلاب ہمیشہ محدود اقلیت لے کر آتی ہے۔ میدان لگانے کی جرات کرنے والا شخص نایاب ہوتا ہے۔ ایسا شخص ہزاروں میں کوئی ہوتا ہے۔ ساٹھ سال کی ہماری تاریخ میں افتخار چوہدری تو ایک ہی ہوا ہے۔ میدان میں اتر کر استقامت اختیار کر لی جائے تو کامیابی یقینی ہے۔ وکلا تحریک کے مزاج پر پوری ایک کتاب لکھی جانی چاہیے۔ انقلاب کی حکمت عملی کے مطالعے کے طور یہ تحریک بہت اہم ہے۔ اعتزاز احسن نے عدلیہ کی آزادی اور بحالی کو ایشو بنانے اور زندہ رکھنے کے لیے جس قدر محنت اور اہلیت کا مظاہرہ کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔
اوپر میں نے جس ہمہ جہت بغاوت اور مزاحمت کی تحریک کی اہمیت واضح کرنے کی کوشش کی ہے، اس کے لیے طریقہ کار وضع کرنے کے لیے مزاحمت کاروں کی سوانحی خاکوں کو بغور دیکھنا ہو گا۔ ایسے مزاحمت کار اور باغی ہر جگہ موجود ہیں۔ ان کا بلا تعصب مطالعہ لازم ہے۔ ہمارے ہاں ڈاکٹر نذیر شہید کی مثال بڑی روشن ہے۔ ۸ جون ان کی برسی کا دن ہے۔ حالیہ دور میں جاوید ہاشمی کی مثال بھی بڑی زبردست ہے۔ ان کی کتاب ’’میں باغی ہوں‘‘ مطلوبہ تحریک بغاوت کی رہنمائی کے لیے بڑی جاندار اور موثر ہے۔ پیپلز پارٹی کے لاہور سے ایک سابق ایم این اے ڈاکٹر سید محمود بخاری کی پارٹی کے اندر ناقدانہ اور باغیانہ طرز عمل بھی بہت سبق آموز ہے۔ ان کی یاد داشتیں ’’روئدادِ وفا‘‘ کے نام سے پروین خان نے مرتب اور المعارف شاہ عالم مارکیٹ لاہور نے شائع کی ہیں۔ ماحول کے اندر رہ کر موثر طور پر بغاوت اور مزاحمت کو ایک موضوع کے تحت مطالعہ کرنا مقصود ہو تویہ شخصیات بڑی اہم ہیں ۔ ان کے کردار بڑے جاندار اور موثر رہے ہیں۔ ایسے کرداروں کو رہنما بنا کر پورے ماحول میں، ہر شعبے، ادارے اور جماعت میں پختہ کردار کے لوگوں کو اطاعت کے بجائے بغاوت پر آمادہ کرنا، سوسائٹی کی حقیقی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر امین صاحب بسم اللہ ہی دینی جماعتوں کے باہمی اختلافات اور ان کی کمزوریوں سے صرف نظر کرنے سے کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کی مداہنت کو بطور پالیسی بنا کر چلنا چہ معنی دارد! ہماری سوسائٹی کا سب سے بڑا روگ ہی مداہنت ہے۔ سارتر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
’’اچھائی اور برائی کے معرکے میں کوئی غیر جانبد ار نہیں رہ سکتا۔ خیر و شر کی معرکہ آرائی میں محض تماشائی کا کردار ادا کرنے والے یا تو بزدل ہوتے ہیں یا غدار۔‘‘
مداہنت اپنے اثرات کے لحاظ سے منافقت کا دوسرا نام ہے۔ یہ گناہ کبیرہ سے کسی طرح کم نہیں۔ یہ کفر سے بد تر ہے۔ اپنے گرد وپیش اور ماحول سے مصالحت اختیار کر کے حق و سچ کو زور کے ساتھ ظاہر نہ کرنا منافقت کی معراج ہے۔ اسے اختیار کر کے کوئی نتیجہ خیز جد جہد کرنا احمقوں کی جنت بسانے والی بات ہے۔ لوگوں کو درپیش مسائل سے بچ کر رشد و ہدایت کی محفلیں خدا کے ہاں اجر کا باعث ہوں تو ہوں مگر سوسائٹی میں ایسے لوگ کسی طرح قبولیت نہیں پا سکتے۔ کتنے ظالم ہیں وہ لوگ کہ جب چینی اور آٹے کے لیے قطاروں میں لوگ جانیں دے رہے تھے تو وہ عالی شان ہوٹلوں میں افطار پارٹیوں میں ایک گلاس پانی اور دو کھجوروں پر بد نظمی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ یہ اکا دکا واقعات نہیں، اجتماعی افطاریوں میں یہی کچھ ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام پیغمبر غریبوں، مظلوموں اور روندے ہوئے طبقات کے محافظ تھے۔ تمام پیغمبروں نے ظالموں کا مقابلہ کیا ہے۔ فرعون، نمرود، شداد، اہل مدین جبر کے نمائندے تھے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے میں سمجھوتے، بے نیازی، مداہنت اور اور بے پروائی کے رویے کو ترک کر کے اپنے ماحول کے خلاف بغاوت، مزاحمت اور اسے چیک کرنے کے رویے کو فروغ دینے کے بارے میں سوچا جائے۔ ایسے لوگ ہزار میں ایک بھی پیدا نہیں کیے جا سکتے، مگر ایسا ایک شخص ہزار پر بھاری ہوتا ہے۔اوپر جو تفصیلات درج کی گئی ہیں، وہ میری انفرادی کوششیں ہیں۔ میں نے اپنے ماحول کو توڑا ہے۔ یہ مشکل کام ہے، مگر میں نے اسے انجام دیا ہے۔ اب تو یہ کام میرے مزاج کا حصہ بن گیا ہے۔ میں نے یہی مزاحمت اور بغاوت جماعت کے اندر جاری رکھی ہے۔ جماعت کے وکلا ونگ میں بھی اسے ترک نہ کیا۔ بار کے ممبر کے طور پر بھی میرا رول نمایاں ہے۔ موجودہ صدر جناب ضیغم اللہ سانسی کے اقدامات نے مجھے کچھ زیادہ ہی انسپائر کیا ہے اور کامیابی بھی بہت بڑی نصیب ہوئی ہے۔ اس موقعے پر ’’وار اگینسٹ کرپشن‘‘ کے نعرے کے تحت اس جد وجہد کو اداراتی شکل دینا چاہتا ہوں۔ انفرادی سطح پر جد و جہد کے معرکہ شروع کر رکھا ہے۔ کچھ عزیز اور دوست تعاون کر رہے ہیں۔ خواہش ہے کہ اسے باقاعدہ تنظیم کی صورت دی جائے۔ ایک سہ ماہی بلیٹن واک کے نام سے شروع کر کے اپنے قلم کی قوت کو کرپشن کے خلاف جنگ میں بروئے کار لانا چاہتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ ابتدائی مرحلہ میں کرپشن کے خلاف جنگ پہلے محاذ کے طو رپر میدان لگا چکا ہوں۔ کرپشن کو ہدف بنا کر، ایک پر امن، قانون کے دائرے کے اندر مگر پوری جرات سے موثر احتجاجی اقدامات کے ذریعے کام کرنا چاہتا ہوں۔ موثر احتجاجی اقدامات کے طور پر میرا اعلان ایک اہم مثال ہے۔ میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ بار میں کرپشن کے خلاف احتجاج کے طور پر اپنے کالے کوٹ کو نذر آتش کروں گا۔ میرے اعلان کے عام ہونے کے بعد وکلا برادری اور میڈیا میں زلزلہ کی کیفیت پید ہو گئی۔ صوبائی حکومت کو ہر صورت اقدامات کرنا پڑے۔ میں نے پہلی بار دیکھا کہ رجسٹری برانچ سے رشوت مکمل طور پر ختم ہوئی ہے۔ اس کامیاب مرحلے کے بعد اپنی جد و جہد کو جاری رکھنا چاہتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ اس طرح کے موثر اقدامات سے نتیجہ خیز جدوجہد ویک وسیع بنیاد رکھی جائے۔
قادیانی مسئلہ
خورشید احمد ندیم
مجلس تحفظ ختم نبوت نے سانحہ لاہور پر جوبیان جاری کیا ہے،اس میں کہی گئی ایک بات بطور خاص اہلِ مذہب اور ریا ست کی تو جہ چا ہتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ قادیانیت کے خلاف ہیں،قادیانیوں کے نہیں۔یہ جملہ اگر ہماری سمجھ میں آجا ئے تو شاید ہم اس آزمائش سے بخیر نکل سکیں،جس کا بطور قوم ہمیں اس وقت سامنا ہے۔ ۱۹۷۴ء سے پہلے قادیانیت ایک سماجی مسئلہ تھا۔جب ریاست نے اس گروہ کو غیر مسلم قرار دیا تواس کے بعد یہ ایک ریا ستی مسئلہ بھی ہے۔گویا اب اس کا ایک پہلو قا نو نی بھی ہے۔ضروری ہے کہ اس معا ملے کی ان دو جہتوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے سمجھاجا ئے۔جہاں اس کا تعلق سماج سے ہے وہاں یہ معا شرتی مسئلہ ہے،جہاں معا ملہ قانو ن کا ہے وہاں اس کا تعلق ریا ست سے ہے۔جب ہم اسے معاشرتی حوالے سے دیکھتے ہیں تو ہم پر علما کا کردار واضح ہو تاہے۔ریاست کی مداخلت وہاں ہو گی جہاں معا ملہ قانو نی ہو گا۔اس فرق کو اگر سمجھ لیا جائے تو شاید ہم اس پیچیدگی سے محفوظ ہو جا ئیں جس میں اس وقت الجھ گئے ہیں۔
مسلمانوں کے معا شرے میں علما کا ایک مستقل کر دار ہے جسے قرآن مجید انذار سے تعبیرکر تا ہے۔ (سورہ توبہ ۹:۱۲۲) اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر معاشرے میں کہیں اخلاقی فساد پیدا ہو تا ہے یا کسی گروہ یافرد کی طرف سے دین کی مخالفت ہو تی یا اس میں اضافے یا کمی کی جسارت کی جا تی ہے تو وہ اس باب میں لوگوں پر حق وا ضح کردیں۔واضح کر نے کا مطلب ہے،اپنی بات کا ابلا غ کر دینا۔یہ اگر چہ ایک مسلسل عمل ہے لیکن اس کا دا ئرہ یہی ہے یعنی ابلاغ۔یہی وہ کام ہے جو اس امت کی تا ریخ میں دعوت و تبلیغ کے عنوان سے جا ری ہے۔ہما ری پو ری تا ریخ میں جیدعلما کا یہی کر دار رہا۔انہوں نے اگر حکمرانوں کی طرف سے دینی انحراف دیکھا توانہیں متوجہ کیا۔اگر خود علما کے گروہ کی طرف سے دینی ضروریات کی خلاف ورزی ہو ئی تو انہیں متنبہ کیا۔اگر معاشرے میں کو ئی خلافِ دین تصور پھیلا تو اس پر عوام کی را ہنما ئی کی۔قرآن مجید کے مطا بق اس کام کی بنیاد ی شرط تفقہ فی الدین ہے۔یہ کام وہی کر سکتا ہے جو دین کاگہرا فہم رکھتا ہے۔یہ عام مسلمان کا کام نہیں ہے۔دعوت کے حوالے سے اس کا دائرہ عمل سورہ عصر میں بیان ہوا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کر تے رہیں۔اس طرف ایک مسلمان بیک وقت داعی ہے اور مدعو بھی۔البتہ معا شرے اور قوم کی سطح پر یہ کام وہی کرے جو دینی علم کا حامل ہو۔
قادیانیت کے باب میں بھی علما کا کر دار یہی ہے۔ وہ معاشرے کو بتا ئیں گے کہ یہ تعبیر کیسے دین کے بنیا دی مقد مات کے خلاف ہے اورکہاں یہ عقیدہ دینی مسلمات سے متصادم ہے۔یہ کام وہ تحریر ،تقریر اور ابلاغ کے دیگر میسر ذرائع کی مدد سے کریں گے۔اس حوالے سے ان کے مخاطب ایک طرف قادیانی ہوں گے اور دوسری طرف عام مسلمان۔دعوت کا یہ کام خیر خوا ہی کی بنیاد پر ہو تاہے۔اس میں وقار ہو تا ہے اور دردِ دل بھی۔اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ مخاطب اپنی غلطی پر متنبہ ہو اور اس ضلالت سے نجات حاصل کرے جس میں وہ آپ کے خیال میں مبتلا ہے۔منا ظرہ نہ صرف دعوت سے مختلف بلکہ اس کی راہ میں ایک بڑی رکا وٹ ہے۔یہی سبب ہے کہ رسوخ فی العلم رکھنے والوں نے ہمیشہ اس سے گریز کیا ہے۔امام غزالی نے زند گی کا ایک حصہ اس کی نذر کیا لیکن بعد میں جب ان پر اس کے مضر اثرات واضح ہو ئے تو اس طرزِ عمل سے رجوع کر لیا۔قادیانی مسئلے میں جہاں یہ دردِ دل اور عالمانہ وقاربر قرار ہے وہاں ہمیں اس دعوے کا ثبوت ملتا ہے کہ کیسے لوگ قادیا نیوں اور قادیانیت میں فرق کر رہے ہیں۔میرے نزدیک ہماری روایت میں اس کی بہترین مثال مو لانا ابو الحسن علی ندوی کی کتاب’’قادیانیت‘‘ہے۔میرا مشورہ ہے کہ یہ کتاب ہر قادیا نی کو اس لیے پڑ ھنی چا ہیے کہ وہ جان سکے کہ اہلِ اسلام نے اس کے مسلک کے خلاف جو مقد مہ قائم کیا ہے ،اس کی علمی بنیادیں کیاہے۔اسلوب کی شا ئستگی اسے مجبور کرے گی کہ اس کا دھیان نفسِ مضمون پر رہے۔یہ کتاب ردِ قادیانیت پر کام کر نے والوں کو اس لیے پڑھنی چا ہیے کہ کیسے قادیانیوں اور قادیانیت میں فرق کیا جاتا ہے۔
یہ بات مجھے اس لیے کہنا پڑی ہے کہ ہما رے ہاں بد قسمتی سے قادیانیت اور قادیانیوں میں فرق کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔اگر میری جسارت کو معاف کیا جائے تو میرے نزدیک اس کی وجہ مجلسِ احرارہے۔یہ قادیانیوں کے خلاف اٹھنے والی پہلی عوامی تحریک ہے۔اس کی قیادت خطیبوں کے ہاتھ میں تھی۔ خطیب کا مخاطب لو گوں کے جذبات ہو تے ہیں،ذھن اور فکر نہیں۔اس کی کا میا بی یہ ہے کہ وہ عوام سے دادِ تحسین وصول کرے۔سید عطا اللہ شاہ بخاری نے ایک مر تبہ اپنے سا معین کومخاطب کر تے ہو ئے یہ کہا تھا کہ تم کا نوں کے عیاش ہو۔کامیاب خطیب وہی ہے جو اس عیا شی کا اہتما م کر تا ہے۔میں یہ بات اپنے تجر بے کی بنیاد پر بھی کہہ سکتا ہوں۔میں نے بچپن میں تقریریں سننے کے لیے بارہا میلوں پیدل سفر کیا۔میں نے کئی مر تبہ سردیوں کی را تیں مسجد میں گزاریں کہ جلسہ ختم ہو نے کے بعد رات گئے گھر جا نا ممکن نہیں تھا۔کم و بیش تین عشروں کے اس تجربے کے بعد میں پورے اطمینان کے ساتھ شاہ صاحب کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ اس مشقت کا اصل محرک کانوں کی عیاشی تھا۔ اگر میرا رحجان مذہبی نہ ہو تا تو میں اپنے ذوقِ سماعت کی تسکین کے لیے گانوں کی مجا لس یا سینما گھروں کا رخ کر تا۔ہمارے ہاں خطیب مسلکی ہوتے ہیں یا سیاسی ۔ ان کی مقبولیت کا راز اس میں ہے کہ وہ دوسرے فریق کی تذلیل،تمسخر یا رد کا کتنا اہتمام کرتا ہے۔
احرار کا ہدف بد قسمتی سے قادیانیت کی بجا ئے قادیا نی بن گئے کیونکہ فنِ خطا بت کی ضرورت یہی تھی۔یہی اسلوب بعد میں بھی بر قرار رہا۔اب بجا ئے یہ بتانے کے کہ قادیانیت کیسے اسلام کے بنیادی عقائد سے متصادم ہے، سارا زور اس پر صرف ہو نے لگا کہ قادیانی کیسے اسلام، مسلمانوں اور پا کستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ اس اسلوب کے غلبے سے قادیا نیوں میں ایک ردِ عمل پیدا ہوا اور ان میں اصلاح کی بجا ئے دفاع کا جذبہ ابھرا۔ دوسری طرف ایک عام مسلمان پر یہ اثر ہوا کہ اس میں قادیانیوں سے نفرت اور نا پسندیدگی پیدا ہو ئی۔ ماہرین نفسیات بتاتے ہیں کہ تشدد کی اساس بھی انتہا ئی نفرت ہو تی ہے۔ میر احساس ہے کہ اگر اس تحریک کی قیادت خطیبوں کے بجا ئے مو لا نا ابو الحسن علی ندوی جیسے کسی جید عالم کے پاس ہو تی ہو تی تو قادیانیوں کی دوسری یا تیسری نسل میں شاید ہی کو ئی ہو تا جو اپنی گمراہی پر اصرار کرتا۔
۱۹۷۴ء میں جب ریاست نے قادیا نیوں کو غیر مسلم قراردیا تو اس معا ملے کی نئی جہت سامنے آئی۔یہ ملک کے سب سے بڑے آئین ساز ادارے کا فیصلہ تھا۔اس میں قادیانیوں کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا مرزا نا صر پارلیمان کے سامنے پیش ہوئے اور اپنا دفاع کیا۔اس فیصلے کے چند قا نو نی مضمرات تھے۔مثال کے طور پر اگر وہ غیر مسلم ہیں تو انہیں ایسے مذہبی شعائر کے اعلا نیہ استعمال سے روک دینا چا ہیے جس سے عام آدمی کے لیے مغا لطے کا کو ئی امکا ن پیدا ہو سکتا ہے۔ اسی لیے ضیا الحق صاحب کے دور میں بعض قوا نین بنے جن کے تحت انہیں مسجد اور اس نو عیت کے الفاظ کے استعما ل سے روک دیا گیا۔قادیانیوں نے اس فیصلے کو قبو ل نہیں کیا۔ان کے اس ردعمل سے اس معا ملے کی نو عیت ایک عام مذہبی یا مسلکی تنا زعے کی نہیں رہی۔اب یہ ریا ست اور ایک گروہ کے مابین ایک اختلاف تھا۔ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں سے آئین اور دستور کے تحت معا ملہ کرے اور انہیں قانون کا پا بند بنا ئے۔ اگر کو ئی گروہ یہ کہتا ہے کہ وہ آئین یا اس کے کسی ایک حصے کو نہیں ما نتا تو ریاست اس کا حق رکھتی ہے کہ وہ نفاذِ آئین کے لیے کو ئی اقدام کرے۔تا ہم حق حاصل ہو نے کا یہ مطلب کبھی نہیں ہو تا کہ اس کو لازماً استعمال کیا جائے۔اس کا نحصار حالات پرہے۔پاکستان میں ریاست نے عام طور پر ان کے خلاف کو ئی اقدام نہیں کیا۔مثال کے طور پر وہ قانو ناً مسجد کی طرح عبادت گاہ تعمیر نہیں کر سکتے لیکن ہم نے دیکھا کہ لا ہور میں جو عبادت گاہ دہشت گردی کا نشانہ بنی،وہ ایک عام مسجد کی طرح تھی۔
ریاست نے جب قادیانیوں کے خلاف فیصلہ سنایا تو اب ان کی نا راضی کا ہدف خود ریاست تھی۔یہ بات قا بلِ فہم ہے۔یہ فیصلہ کسی مذہبی گروہ کا نہیں بلکہ ایک ایسی حکومت کا تھا جس کو اپنے مذہبی تشخص پر کبھی اصرار نہیں تھا۔ اس سے انہیں یہ تاثر ملا کہ غیر قادیانی بحیثیت مجمو عی ان کے خلاف ہیں۔یہی وہ گرہ ہے جس کے نہ کھلنے سے شکوک کا ایک جنگل آباد ہوا اور قادیا نیوں کو کلیدی عہدوں سے ہٹا نے کا مطا لبہ سامنے آیا۔ لوگ جب قا ئد اعظم کی طرف سے سر ظفر اللہ خان کو وزیر خارجہ بنا نے کا ذکر کر تے ہیں تو وہ اس بڑی تبدیلی کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو ۱۹۷۴ء میں آئی ہے۔اب ریاست نے ان کے خلاف ایک فیصلہ سنا یا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ اس کے بعد ریاست کے ساتھ ان کے جذبات کی نو عیت اب وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔ ریاست کے فیصلے کے بعد اب اس تنا زعے کے تین فریق ہیں: مذہبی گروہ با لخصوص جن کا ہدف قادیا نی ہیں، قادیانی اور ریاست۔اگر یہ تینوں مل کر یہ مسئلہ حل کر نا چا ہیں تو میرا خیال ہے کہ اس میں بڑی حد تک کمی آ سکتی ہے۔ مذہبی گروہ کے طرز عمل پر میں پچھلے کالم میں اپنی اصولی را ئے دے چکا۔قادیانیوں کو یہ بات سمجھنی چا ہیے کہ جب انہوں نے ایک مذہبی تعبیر کو اختیار کر لیا ہے تو اس کے کچھ نا گزیرمضمرات ہیں۔ایک یہ قا دیانیت کو اختیار کرنے کے بعد غیر قادیانی مسلمانوں کے ساتھ ان کا جو مذہبی اختلاف پیدا ہوا ہے ،اس کی نو عیت دیوبندی بریلوی اختلاف کی نہیں ہے۔قادیانیوں کے نزدیک غیر قادیا نی مسلمان نہیں ہیں۔غیر قادیانیوں کی طرف سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرارد ینے سے بہت پہلے قادیانی بزرگ یہ فتویٰ دے چکے۔ اگر آج کسی قادیانی کو شک ہو تو اِس کے لیے اسے اپنے علما سے رجوع کر نا چا ہیے۔
خود مرزا صاحب نے پاکستانی ریاست کے فیصلے سے ۷۴ سال پہلے ،۱۹۰۰ء میں،یہ فیصلہ سنا دیا تھا۔وہ کہتے ہیں:’’مجھے الہام ہوا ہے کہ جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہو گا،وہ خدا اور رسول کی نا فر مانی کر نے والا جہنمی ہوگا‘‘(معیار الاخبار)۔ایک اور جگہ لکھا:’’خدائے تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر وہ شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبو ل نہیں کیا ہے،وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘(ذکر الحکیم )۔ان کے ایک خلیفہ اور قادیانی جماعت کے مرکزی پیشوا مرزا بشیر الدین محمود نے ’’آئینہ صداقت ‘‘ میں لکھا؛’’کُل مسلمان جو حضرت مسیح مو عود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیح مو عود کا نام بھی نہیں سنا،وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں‘‘۔اسی طرح جب ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ نے مرزا ناصر سے یہ پو چھا کہ وہ غیر قادیا نیوں کو کیا سمجھتے ہیں تو انہوں نے کسی ابہام کے بغیر جواب دیا ’’کافر‘‘۔ اس بنا پر قادیانیوں کو یہ بات سمجھنی چا ہیے کہ ان کے نزدیک جب غیر قادیانی مسلمان نہیں ہیں تو اس کا نا گزیر نتیجہ یہ ہے کہ غیر قادیانیوں کے نزدیک وہ غیر مسلم قرار پائیں۔ اب جس ریاست میں غیر قادیانیوں کے حکومت ہو گی، وہاں لا زماً ان کے بارے میں وہی فیصلہ ہوگا جو پاکستانی پارلیمان نے کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی ملک کی باگ ڈور قادیانیوں کے پاس ہو گی تووہ غیر قادیانیوں کے بارے میں یہی فیصلہ دیں گے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ قادیانیوں کا اس بات کا ادراک کر نا چا ہیے۔جب انہوں نے ایک مذہبی تعبیر اختیار کی ہے تو اس کا یہ نا گزیر نتیجہ ہے جسے کسی طرح زیادتی نہیں کہا جا سکتا۔اگر وہ یہ مان لیں تو اس کے بعد وہ اس ریاست کے اسی طرح شہری ہیں جس طرح کو ئی دوسرا ہے۔
غلط یا صحیح کی تقسیم سے قطع نظر،یہ تاریخی حقیقت ہے کہ نئی نبوت کا دعویٰ لازماً ایک نئی امت کو جنم دیتا ہے اور اس امت کا حصہ بننے کا انحصار اس نبی کے اقرار پر ہو تا ہے۔یہ ایک سماجی حقیقت ہے جس کا تعلق کسی مذہبی عقیدے سے نہیں ہے۔جب مرزا صاحب نے نبی ہو نے کا دعویٰ کیا تو انہوں نے ایک امت کی بنیاد رکھ دی۔یہ پہلے سے مو جود امت سے علیحدگی کا اعلان ہے۔اس کے بعد پہلی امت کا حصہ بننے پر اصرار سماجی حقا ئق کا عدم فہم ہے۔یہ معاملہ صرف اسلام کے ساتھ نہیں ہے۔مسیحیت میں بھی ایسا ہی ہے۔کم و بیش اسی دور میں جب مسلمانوں میں مرزاصاحب کا ’’ظہور‘‘ ہوا،مسیحیت میں جوزف سمتھ نے دعویِٰ نبوت کیا۔اس نے کہا کہ وہ حضرت مسیح کا سچا پیرو کار ہے۔وہ عہد نامہ قدیم و جدید دونوں کو ما نتا تھا۔۱۸۳۰ء میں اس کی کتاب (Book of Mormon ) شائع ہوئی۔اس کا دعویٰ تھا کہ سنہری الواح (Golden Plates) پر لکھی یہ الہامی ہدایت تھی جو ایک فرشتے نے اس تک پہنچا ئی جسے اس نے الہیاتی صلاحیت سے ترجمہ کیا۔امریکا میں اس کے ما نے والوں کی ایک بڑی تعدار ہے جو ریاست یوٹا (Utah) میں آباد ہے۔سالٹ لیک سٹی ان کا مر کز ہے۔یوٹا کا شمار امریکا کی امیر ترین ریاستوں میں ہو تا ہے۔مجھے وہاں جانے اور مارمنز کے مراکز دیکھنے کا اتفاق ہوا۔بہت آسودہ حال لوگ ہیں۔ان کا مرکز جدید ترین سہولتوں سے آراستہ ہے اور وہاں اتنا خوبصورت اور جدید ایڈیٹوریم ہے کہ امریکا میں شاید ہی کوئی دوسرا ایسا شاندار ایڈیٹوریم ہو۔مسیحی انہیں مرتد کہتے اور اپنی امت کا حصہ نہیں مانتے۔با لکل یہی معا ملہ اسلام اورقادیانیت کا ہے۔اگر وہ اپنے مسلمان تشخص پر اصرار نہ کریں تو ریاست کے ساتھ ان کا تنا زعہ ختم ہوجاتا ہے اور معا شرے کے ساتھ بھی۔
اس کے بعد ریاست کا کردار شروع ہو تا ہے۔ریاست نے عملاً یہ ثابت کر نا ہے کہ ان کی حیثیت ذمی کی نہیں، معاہد کی ہے۔ انہیں وہ سب حقوق حاصل ہوں گے جن کاوعدہ قائد اعظم نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو اس ملک کے شہریوں سے کیا تھا۔ پوری قوم شرعاً، قانوناً اور اخلاقاً پا بند ہے کہ اس وعدے کی پا سداری کرے۔ ریاست کا کام یہ ہے کہ وہ اس کے نفاذ کو یقینی بنائے۔ اس کے بعد کسی کو ان کی جان، مال، عبادت گاہوں اور املاک پر کسی تصرف کا حق نہیں ہوگا۔ان کا یہ حق مسلمہ ہے کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزاریں۔ وہ ریاست کے اہم مناصب پر فائز رہ سکتے ہیں اور مذہبی حوالے سے ان کے ساتھ کوئی امتیاز جا ئز نہیں ہو گا۔
میری علما سے درخواست ہے کہ وہ اس پہلو سے عوام اور قادیانیت کو اپنا مخاطب بنائیں۔ قادیانی اس کا ادراک کریں اور ریاست آگے بڑھ کر ایسی صورت نکا لے کہ یہ معا ملہ قانون اور دستور کے مطابق اس طرح حل ہو کہ یہاں بلاامتیاز مذہب سب کی جانیں اور املاک محفوظ رہیں۔
(بشکریہ روزنامہ اوصاف)
بلا سود بینکاری کا تنقیدی جائزہ ۔ منہجِ بحث اور زاویۂ نگاہ کا مسئلہ (۳)
مولانا مفتی محمد زاہد
اسلامی یا غیر اسلامی ہونے میں اصل اہمیت دلیلِ شرعی کی ہے
اسلامی بینکاری کے موضوع پر بحث کرنے والے علما ( مجوّزین اور ناقدین ) کا اصل میدان معاشی علوم نہیں ، اس لیے اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ کسی معاشی پہلو کی طرف ان کی توجہ مبذول نہ ہوئی ہو اوروہ پہلو ایسا ہو جس سے مسئلے کا حکم تبدیل ہوجاتاہو ، ایسی صورت میں اگر کوئی ماہرِ معاشیات اس پہلو کی طرف توجہ دلاتے اور کسی معاشی حقیقت کے فہم میں غلطی کی نشان دہی کرتے ہیں تو اسے علمی دنیا پر احسان سمجھنا چاہئے ، اور علما کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے ، جس سے انہوں نے کبھی انکار بھی نہیں کیا ، لیکن ایسا انداز جس سے بظاہر کسی خاص شخصیت کی تجہیل کی ہوس ٹپک رہی ہو، اور اس طرح سے کھینچ تان کر کسی کی طرف خاص نظریہ منسوب کیا جارہا ہو یہ انداز علمی مباحثے کے مزاج سے میل نہیں کھاتا ، بہر حال اگر کوئی نیا ایسا پہلو سامنے آبھی جائے جس کی طرف اب تک اہلِ علم کی توجہ مبذول نہ ہوئی ہو تب بھی یہ فیصلہ کہ اس سے حکمِ شرعی پر کیا اثر مرتب ہوگا دلیلِ شرعی ہی کی بنیاد پر ہوگا ، جناب مغل صاحب کے مضمون کی تمہید دیکھ کر قاری یہ توقع قائم کرتا ہے کہ آگے چل کر اسلامیت یا غیر اسلامیت کی بحث میں مسئلے پر بہت اوپر کی سطح سے روشنی ڈالی جائے گی ، اب تک ہمیں درمختار اور ہدایہ وغیرہ کی سطح کی بحثیں دیکھنے کو ملتی تھیں ، اب شاہ ولی اللہ، شاطبی اور ابن القیم کی سطح کی بحث سے مستفید ہونے کا موقع ملے گا ، اور علم کے نئے باب وا ہوں گے، لیکن مضمون کے آخر میں جاکر جب اصل موضوع یعنی اسلامیت یا غیر اسلامیت کی بحث آتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ دلیلِ شرعی کے حوالے سے زید بن ثابتؓ کے ایک اثر اور ایک آیتِ کریمہ جس سے کوئی ادنی عالم بھی ناواقف نہیں ہوسکتا کے علاوہ کوئی اور دلیل پیش کرنے کی بجائے اسلامیت یا غیر اسلامیت کا فیصلہ بھی اپنی معیشت دانی کے زور پرکرنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،آگے بڑھنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے اپنے استدلال کے لیے کسی حدیث کی کتاب سے جو اکلوتی روایت پیش کی ہے اس کا کیا حشر انہوں نے کیا ہے یہ دیکھتے چلیں۔
ان کی پیش کردہ روایت کا پس منظر یہ ہے کہ فقہِ اسلامی کے مطابق جب کوئی شخص کسی چیز کو خرید کر آگے بیچنا چاہتاہے تو ضروری ہے کہ پہلے اس پر قبضہ کرے ،قبضہ کیے بغیر خریدی ہوئی چیز کو آگے بیچنا جائز نہیں ہے ، اتنی بات پر فی الجملہ فقہا کے ہاں اتفاق پایا جاتاہے ، تاہم یہ اصول کن اشیا پر لاگو ہوتاہے اس میں کچھ اختلاف ہے ،خوردنی اشیا ( طعام ) کے بارے میں تقریبا تمام فقہا متفق ہیں کہ قبضہ کیے بغیر ان کی بیع جائز نہیں ہے ، البتہ طعام میں بھی ایک صورت میں اختلاف ہے ، وہ یہ کہ ایک شخص نے اس بیچے جانے والے طعام کو نہ توخریدا ہے اور نہ ہی کسی عقدِ معاوضہ کے ذریعے وہ اسے حاصل ہوا ہے ، بلکہ اسے وہ غذائی جنس عطیہ وغیرہ کے طور پر حاصل ہوئی ہے، آیا اسے آگے بیچنے کے لیے بھی قبضہ ضروری ہے یا نہیں ، اس میں امام مالک ؒ کے دو قول منقول ہیں ( حنفیہ کے نزدیک تمام منقولہ اشیا میں ہر حال میں قبضہ ضروری ہے ) ایک یہ کہ ایسے طعام کی بیع سے پہلے بھی قبضہ ضروری ہے ، دوسرا یہ کہ اس میں بیع کے جواز کے لیے قبضہ ضروری نہیں ہے ، موطا سے بظاہر پہلا قول معلوم ہوتاہے ، اس سلسلے میں امام مالک ؒ نے زید بن ثابتؓ کا ایک اثر پیش کیاہے۔
اس اثر کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت معاویہؓ کے دور میں جب مروان مدینہ منورہ کا والی تھا اس زمانے میں جن جن لوگوں کو بیت المال سے غذائی اشیا کی متعین مقدار ملنی ہوتی تھی ان کے نام ایک رسید لکھ دی جاتی تھی ، ’الجار‘ نامی ایک بندرگاہ پر یہ اجناس جمع ہوتی تھیں ، وہاں سے لوگ یہ رسیدیں دکھا کر اپنا اپنا حق یا عطیہ وصول کرلیا کرتے تھے ، اس لیے ان رسیدوں کو ’ صکوک الجار ‘ کہاجاتا تھا ، بعض لوگ ایسا بھی کرتے کہ ان رسیدوں کی پشت پر جو طعام ہوتا تھاا عملاً ان پر قبضہ کرنے سے پہلے ہی ان کی خرید وفروخت شروع کردیتے ، ( جو امام مالک کے ایک قول کے مطابق جائز اور ایک کے مطابق ناجائز ہے)اسی طرح کا عمل ایک دفعہ مروان کی گورنری کے زمانے میں حضرت زید بن ثابتؓ نے ہوتے ہوئے دیکھا کہ لوگ اس طعام کی خرید وفروخت کررہے ہیں، زید بن ثابت اور ایک اور صحابی نے اس بارے میں مروان سے بات کی ، اس نے ان تمام بیوع کو واپس کرنے کا حکم جاری کیا ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو موطا امام مالک مع شرح اوجز المسالک از شیخ الحدث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ ۱۱/ ۲۰۲ ) یہ پس منظر ذہن میں رکھنے کے بعد موطا کی اصل عبارت اور جناب زاہد صدیق مغل صاحب نے اسے جس انداز سے پیش کیا ہے اسے ذرا ملاحظہ فرمائیں :
عن مالک أنہ بلغہ أن صکوکا خرجت للناس فی زمان مروان بن الحکم من طعام الجار، فتَبایَع الناسُ تلک الصکوکَ بینہم قبل أن یستوفوہا ، فدخل زید بن ثابت ورجل من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی مروان بن الحکم ، فقالا : أتحل بیع الربا یا مروان؟ فقال : أعوذ باللہ وما ذاک؟ فقالا : ہذہ الصکوک تبایَعَہا الناسُ ، ثم باعوہا قبل أن یستوفوہا ، فبعث مروان الحرس یبغونہا من أیدی الناس ویردونہا إلی أھلہا
اب ذرا دیکھئے جناب مغل صاحب اس واقعے کو کیسے نقل کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’مروان بن حکم کے دور میں جب مرکز سے رقم ( درہم ودینار ) پہنچنے میں تاخیر ہوئی تو صوبے کے گورنر نے لوگوں کو بازار کی اشیا خریدنے کے لیے رسیدیں جاری کردیں جنہیں لوگوں نے خریدنا اور بیچنا شروع کردیا۔ حضرت زید بن ثابتؓ نے مروان سے کہا کہ کیا تم سود کو حلال کررہے ہو ؟ مروان نے کہا کہ میں اس چیز سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ پھر یہ رسیدیں کیا ہیں جنہیں لوگ خرید اور بیچ رہے ہیں؟ اس کے بعد مروان نے وہ رسیدیں لوگوں سے واپس لے لیں۔‘‘ (الشریعہ مارچ ۲۰۱۰ء ص ۳۲ )
اس میں خاص طور پر خط کشیدہ الفاظ پر غور فرمائیں اور ان کا اصل عربی عبارت کے تقابل فرمائیں ، یہ بات کہ مرکز سے رقم ( درہم و دینار )آنے میں تاخیر ہوگئی تھی نہ معلوم کہاں سے اخذ کرلی ، جبکہ روایت میں صراحتاً طعام کا ذکر ہے ، اور سیاق وسباق میں بھی وہی روایات ہیں جن میں طعام کی قبضے سے پہلے بیع کے احکام مذکور ہیں ،گویا بات مبیع کی رسید کی ہورہی ہے اور اسے منطبق کردیا گیا ہے ثمن کی رسید پر ، حالانکہ مبیع کا عقد کے وقت قبضے میں ہونا تو شرط ہے ثمن کا پاس ہونا کسی فقیہ کے نزدیک بھی شرط نہیں ہے ، نیز یہ بات کہ صوبے کے گورنر نے بازار سے اشیا خریدنے کے لیے رسیدیں جاری کردیں نہ معلوم کن الفاظ سے اخذ کی گئی ہے ، خط کشیدہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے جیسے روایت کو کھینچ تان کر بلکہ الٹ معنی پہنا کر یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہو کہ گورنر نے آج کی طرح کا کوئی کاغذی زر جاری کیا تھا، حیرت کی بات یہ ہے کہ پورے مضمون میں ہرہر بات کا باقاعدہ حوالہ دینے کا اہتما کیا گیا ہے لیکن اس روایت کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی کہ یہ موطا میں کہاں ہے ، اس کے باوجود ہم کسی کی نیت کے بارے میں بدگمانی کرنے میں جلد بازی نہیں کرسکتے ، اس لیے کہ روایتی فقہ سے بالا تر ہوکر ’ اجتہاد‘ کا شوق رکھنے والے علومِ اسلامیہ سے غیر وابستہ حضرات کے اس طرح کے لطیفے کوئی نئی بات نہیں ہے ، اور عموماً یہ حضرات تراث فہمی کی صلاحیت کی اس کمی کو اپنے لیے عیب بھی نہیں سمجھتے ، ان کے نزدیک ان کے حقِ اجتہاد کے لیے یا اسلامیت وغیر اسلامیت پر بحث کے لیے اتنی بات ہی کافی ہوتی ہے کہ وہ کسی جدید علم کے ماہر اور ڈگری یافتہ ہیں ، کوئی بعید نہیں کہ جن صاحب نے بھی یہ ترجمہ کیا ہو انہوں نے ’صکوک‘ کے معنی کسی جدید عربی ڈکشنری میں دیکھ لیے ہوں اور اس میں مزید ’اجتہاد ‘ کرکے اسے مذکور ہ روایت پر منطبق کردیا ہو۔
غلطی کی وجہ جو بھی ہو، بحیثیت مجموعی مضمون کے شرعی پہلو کو دیکھ کر یہ خیال ضرور ہوتا ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ فاضل مضمون نگار بینکنگ کے معاشیاتی پہلو پر اپنا تجزیہ پیش کرکے اہلِ علم کے سامنے یہ سوال رکھ دیتے کہ اس پر غور کیا جائے کہ ان امور کا جن کی یہاں نشان دہی کی گئی ہے حکمِ شرعی پر اثر مرتب ہوتا ہے یا نہیں ، اگر ایسا ہوتا تو ان کے مضمون کی وقعت موجودہ حالت سے کہیں زیادہ ہوتی جس میں انہوں نے اسلامیت یا غیر اسلامیت کے بارے میں بھی اپنی رائے کو حتمیت کے ساتھ پیش کرنا اور تمام علما ( مجوّزین وناقدین ) کی منہجی غلطی کی نشاندہی کو ضروری سمجھا ہے۔ آخر میں انہوں نے یہ بھی فرمادیا ہے کہ دَین کی بیع کے بارے میں احکام علما کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ بات ٹھیک ہے، علما کیا‘ قدوری اور ہدایہ بھی سمجھ کر پڑھا ہوا طالب علم جانتا ہے کہ دیون کے بارے میں تصرفات کے مستقل احکام ہیں، جیسے بیع الدین ، بیع بالدین ، حوالۃ الدین مقاصہ وغیرہ۔ افسوس ہے کہ مضمون نگار صاحب نے ان سب کو گڈ مڈ کردیا ہے۔ اگر وہ دَین کے انہی احکام کی بات کررہے ہیں جو علما کے لیے اجنبی نہیں ہیں تو پھر گھوم پھر کر بات وہیں آگئی کہ جواز عدمِ جواز کا فیصلہ عقود کی فقہی نوعیت کی بنیاد پر ہوگا۔ ایسی صورت میں مسئلہ بہت آسان ہوجاتا ہے اور اتنی لمبی تمہیدکی بجائے وہ بآسانی کسی ایسے کام کی نشان دہی کرسکتے تھے جو مروجہ اسلامی بینکنگ میں ہوتاہے اور وہ دَین کے ان احکام کے خلاف ہے جو فقہِ اسلامی میں معروف ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ دَین میں تصرف کے خاص احکام ہیں جو فقہِ اسلامی میں تفصیل سے مذکور ہیں، لیکن اسلامی بینکاری میں ان کی خلاف ورزی کی کوئی مثال ہمارے سامنے نہیں ہے اور نہ ہی غالباً اس بینکاری پر فقہی حوالے سے تنقید کرنے والوں نے کوئی ایسا مسئلہ ابھی تک اٹھایاہے۔
اگر ان کی مراد یہ ہے کہ کرنسی نوٹ بذاتِ خود قرض کی جعلی رسید ہے، اس لیے اس کے ذریعے معاملات کرنا ناجائز ہے ۔ جیسا کہ حضرت زید بن ثابتؓ کے اثر کی اپنی تشریح سے وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ تو یہ ایک ایسی بات ہے جو تمام علماکی رائے کے خلاف ہے، اس لیے کہ اوّل تو دنیا بھر کے علما کی بہت واضح اکثریت فقہی تکییف میں کرنسی نوٹوں کو یا تو ثمن عرفی قرار دیتی ہے یا اس سے بھی آگے بڑھ کر انہیں بعینہ سونا چاندی کے قائم مقام قرار دیتی اور وہی احکام ان پر جاری کرتی ہے۔ اوآئی سی کی مجمع الفقہ الاسلامی، رابطۃ العالم الاسلامی کی المجلس الفقہی الاسلامی اور اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا سمیت تقریباً تمام قابلِ ذکرفقہی فورمز کا یہی فیصلہ ہے۔ برّ صغیر کے ذراقدیم علما میں مولانا عبد الحی لکھنوی ، ان کے شاگرد مولانا فتح محمد اور مولانا احمد رضا خاں بریلوی کی بھی یہی رائے تھی۔ اگرچہ برّ صغیر کے بعض کبارِ علما کی رائے یہ بھی رہی ہے کہ کرنسی نوٹ پر سونے چاندی کی رسید کے احکام جاری ہوں گے، لیکن ایک تو اب وقت گزرنے اور عرف اور امرِ واقعہ میں نمایاں تبدیلی آنے کے ساتھ ساتھ یہ بہت ہی اقلیتی نقطۂ نظر بنتا جارہا ہے، چنانچہ شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خاں کی سرپرستی اور دار الافتا جامعہ فاروقیہ کراچی کی نگرانی میں تیار ہونے والی فتاویٰ محمودیہ کی تعلیقات میں ہے: ’’دورِ حاضر کے اکثر علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہوگیا ہے کہ اب یہ نوٹ قرض کی دستاویز کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ اس پر مروّجہ سکّوں کے احکام جاری ہوں گے‘‘ ( فتاوی محمودیہ ۹/۳۸۶ مطبوعہ جامعہ فاروقیہ کراچی)
دوسرے یہ کہ جن علما نے اسے رسید کے حکم میں شمار بھی کیا ہے، انہوں نے بھی ان نوٹوں کے ساتھ لین دین سے منع نہیں کیا۔ اس صورت میں مطلب یہ بنتا ہے کہ جناب مضمون نگار نہ صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ علما سے بینکاری کو معاشی پہلو سے سمجھنے میں غلطی لگی ہے بلکہ دیون کے شرعی احکام سمجھنے میں بھی غلطی لگی ہے، بلکہ اس بارے میں پوری کی پوری فقہ اسلامی غلط پوزیشن پر کھڑی ہے۔ اگر وہ واقعی یہی کہنا چاہتے ہیں تویہ بات انہیں کھل کر کہنی چاہیے اور اس پر مضبوط دلیلِ شرعی بھی پیش کرنی چاہیے، اس لیے کہ کرنسی نوٹ یا بینکوں کے چیک وغیرہ کے ذریعے معاملاتِ مالیہ میں ادائیگی کو کسی نے بھی ناجائز قرار نہیں دیا۔ زیادہ سے ان کے ذریعے ادائیگی پر مرتب ہونے والے بعض احکام میں بحث ہوسکتی ہے ، مثلاً یہ کہ بینک چیک پر قبضہ ثمن پر قبضہ تصوّر ہوگا یا نہیں۔ اور اگر وہ تمام علما اور پوری کی فقہِ اسلامی سے ہٹ کر کوئی رائے قائم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اس پر واضح دلیل تو دینی چاہیے۔ یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ موطا امام مالک کے مذکورہ اثر کی غلط تشریح کے علاوہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ زر کا بہتر سے بہتر نظام (monetary system)کیا ہونا چاہیے، نیز یہ کہ موجودہ نظامِ زر میں کیا کیا خامیاں ہیں۔ اس سلسلے میں مسلمان معاشی مفکرین اور مسلمان فقہا کی ایک جماعت یہ رائے رکھتی ہے کہ ہمیں طلائی معیار کی طرف دوبارہ لوٹنا پڑے گا۔ ( جدید معاشی مفکرین میں سے نمساوی مکتبِ فکر Austrian school of economists کا نقطۂ نظر بھی اس سے ملتا جلتا ہے ، تاہم معاشی اور اسلامی دونوں پہلوؤں سے بحث کی کافی گنجائش ہے)، لیکن اس بحث کے باوجود یہ الگ مسئلہ ہے کہ موجودہ کرنسی کے ساتھ لین دین کرنے اور اسے بطور زر استعمال کرنے کا حکم کیا ہے۔ اس کے ذریعے لین دین کرنے کے جواز پر تمام علما متفق ہیں اور اسے بذاتِ خود ثمن عرفی ، ثمن اصطلاحی یا ثمن قانونی قرار دینا علما کی واضح اکثریت کی رائے ہے، چنانچہ مجمع الفقہ الاسلامی کے جس اجلاس میں کرنسی نوٹ کے خود ثمن ہونے کی متفقہ قرار داد پاس ہوئی۔ اس کی کارروائی اگر دیکھیں تو اس میں موجودہ نظامِ زر پر تنقید اورسوفیصدطلائی معیار کی طرف واپس لوٹنے کی ضرورت کی صدائے باز گشت بھی سنائی دیتی ہے، لیکن اس پر قرار داد اس لیے پیش نہیں ہوتی کہ یہ بحث موضوع سے خارج ہے۔ ( ملاحظہ ہو : مجلۃ مجمع الفقہ الاسلامی ، العدد الثالث ) بہرحال اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ موجودہ نظامِ زر کی خامیوں سے آگاہی کے باوجود یہ علما فقہی تکییف میں کرنسی کو خود ثمن قرار دیتے ہیں، اصلی یا جعلی قرض کی رسید نہیں اور یہ کہ یہ رائے صرف مولانا محمد تقی عثمانی کی نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کے علما کی بہت بڑی اکثریت کی ہے۔ ان کی اس رائے کی وجہ یہ نہیں کہ یہ سارے کے سارے جلیل القدر علما موجودہ نظامِ زر کو ہر قسم کی خامیوں سے پاک سمجھتے ہیں۔ بہرحال موجودہ نظامِ زر میں کون سی باتیں قابلِ اصلاح ہیں، یہ الگ بحث ہے اور موجودہ کرنسی کی فقہی تکییف کیا ہے اور اس کے لین دین کا حکم کیا ہے، یہ ایک الگ بحث ہے۔
حاصل یہ کہ جناب مغل صاحب نے بینکنگ کے اسلامی ہونے کے امکان کو دو بنیادوں پرمسترد کیا ہے۔ ایک یہ کہ قرض کی جعلی رسید کا لین دین درست نہیں، دوسرے یہ کہ قرض کی حقیقی رسید کے ساتھ لین دین کرنا درست نہیں ۔ اسلامی غیر اسلامی ہونے کے حوالے سے ان کے پورے مضمون کا لبّ لباب یہی دو مقدمات ہیں۔ اس پر سوال یہ ہے کہ رسید سے مراد اگر خود کرنسی نوٹ ہیں تو اوّل تو علما کی بہت بڑی اکثریت شرعی احکام میں انہیں رسید ہی نہیں مانتی، خود ثمن قرار دیتی ہے۔ دوسرے یہ کہ ان کے ساتھ لین دین کو کوئی بھی عالم ممنوع قرار نہیں دیتا۔ اور اگر اس سے مراد بینکوں کی دیگر دستاویزات ہیں جیسے بینک چیک تو اول تو ان کے ذریعے ادائیگی کو بھی فقہ اسلامی میں علی الاطلاق ناجائز قرار نہیں دیا جاتا اور نہ ہی کسی عالم کی یہ رائے ہے۔ دوسرے یہ کہ اس صورت میں انہیں اسلامی بینکوں کے کسی ایسے معاملے کی نشان دہی کرنی چاہیے تھی جس میں قرض کی رسید کے مسلمہ اسلامی احکام کی مخالفت ہورہی ہو ۔
آلۂ مبادلہ اور ذریعۂ ادائیگی میں فرق
در اصل جناب مضمون نگار صاحب کو یہاں دو بڑے مغالطے لگ گئے ہیں۔ ایک یہ کہ ان سے دو چیزیں خلط ملط ہو گئی ہیں، ایک ہے کسی چیز کا آلۂ مبادلہ ( medium of exchange ) ہونا اور وسرا ہے ذریعۂ ادائیگی ( means of payment ) ہونا۔ پہلے پر شرعاً نقود والے احکام جاری ہوں گے اور دوسرے پر حوالہ، توکیل بالقبض وغیرہ مختلف حالات میں مختلف احکام جاری ہوں گے۔ انگریزی اصطلاحات ذکر کرتے ہوئے تو جناب مضمون نگار نے دونوں کو الگ الگ مواقع میں ذکر کیا ہے، لیکن اردو ترجمے میں دونوں کا ترجمہ ’آلۂ مبادلہ ‘ سے کردیا ،حالانکہ مؤخر الذکر اصطلاح کا ترجمہ ’ذریعۂ مبادلہ ‘ کی بجائے ’ذریعہ ادائیگی ‘ ہونا چاہیے۔ پھر غالباً خود ہی اپنے کیے ہوئے ترجمے سے انہیں اشتباہ بھی ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آلۂ مبادلہ صحیح معنی میں صرف کرنسی ہی ہوتاہے، اس لیے کہ عام معاملات میں اسی کا حوالہ دے کر اور اسی کی متعین مقدار ذکر کرکے معاملہ طے کیا جاتا ہے، مثلاً سو پاکستانی روپے یااتنے سعودی ریال میں مَیں یہ چیز بیچ یا خرید رہاہوں۔ یہ آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ حبیب بنک کے سو چیک کے بدلے میں بیع ہورہی ہو ۔ نقود کے بارے میں فقہا کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ ان کی متعین مقدار اور نوعیت کا حوالہ دینا ہی کافی ہوتاہے، ان کا اس وقت عقد کرنے ولے کے پاس یا اس کی ملکیت میں ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ عقد اس کے بغیر ہی صحیح ہوجائے گا اور مذکورہ نقود مذکورہ مقدار میں اس عاقد ( مثلاً خریدار) کے ذمے واجب الادا ہو جائیں گے جسے فقہا کی اصطلاح میں واجب فی الذمۃ اور دَین کہا جاتا ہے۔
اب اگلا مسئلہ آتا ہے کہ اس دین کو ادا کیسے کرنا اور اس ذمہ داری سے سبک دوش کیسے ہوناہے؟ پہلا مسئلہ کسی چیز کو ثمن بنانے یا آلۂ مبادلہ کے طور پر استعمال کرنے کا تھا، دوسرا مسئلہ فراغِ ذمہ(settlement) اور ذریعۂ ادائیگی کا ہے۔ اس میں بھی فقہِ اسلامی کی رو سے کئی صورتیں جائز ہیں۔ مثلاً ایک صورت یہ ہے کہ جن نقود کی جتنی مقدار کاحوالہ دیا گیا تھا، انہی نقود کی اتنی مقدار دے دی جائے ، مثلاً پاکستانی روپے یا سعودی ریال کے نوٹ پکڑا دیے جائیں۔ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ اس کے متبادل کوئی ایک چیز دینا باہمی رضامندی سے طے کرلیں، مثلاً اتنے ریال کی بجائے اتنے پاکستانی روپے لیے اور دیے جائیں گے یا اتنے ریال کی بجائے اتنے کلو کھجوریں دی جائیں گی۔ جب عملًا اتنی کھجوریں دے دی گئیں تو فراغِ ذمہ متحقق ہوگیا۔ یہ ادائیگی یا فراغِ ذمہ( settlement ) کا ایک طریقہ ہے جس کے لیے فقہِ اسلامی میں مستقل احکام ہیں، کیونکہ اس صورت میں مبادلہ کی شکل بھی بن رہی ہے، اس لیے بیع الدین یا بیع بالدین کے احکام لاگو ہوں گے۔ ایک صورت یہ ہے کہ جس کے ذمے اتنے سعودی ریال واجب الاداہیں، وہ دوسر ے فریق سے کہتا ہے کہ تم مجھ سے لینے کی بجائے فلاں شخص سے لے لو۔ اسے فقہا کے ہاں حوالہ کہا جاتاہے۔ اس کے مستقل احکام فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں ۔
جناب فاضل مضمون نگار صاحب نے جو بینک کی رسیدوں کے ساتھ تعامل کی بات کی ہے، وہ عموماً یا تو حوالہ میں آتی ہیں یا بعض علما اسے وکالہ میں بھی داخل کرتے ہیں۔ ان کے بھی مستقل احکام ہیں۔ اگر ان احکام کی خلاف ورزی ہوگی تو اسے ہر کوئی ناجائزکہے گا، خواہ روایتی بینک کی رسید ( مثلاً چیک ) ہو یا اسلامی بینک کی یا بینکوں کے علاوہ کسی فرد یا ادارے کی۔ اور اگر اس میں شرعی شرائط پور ی ہورہی ہیں تو کسی بھی بینک کی رسید ہو، اس کے ذریعے ادائیگی کو سب جائز کہیں گے۔ بہر حال یہ مسئلہ فراغِ ذمہ کے طریقے اور ذریعۂ ادائیگی کا ہے،آلۂ مبادلہ کا نہیں۔ ذریعۂ ادائیگی( means of payment or settlement ) میں کسی رسید کا استعمال جائز طریقے سے بھی ممکن ہے اور اس کے ناجائز طریقے بھی ہوسکتے ہیں، اس لیے یہ دعویٰ کہ بینکاری کی اسلامیت اس لیے ناممکن ہے کہ قرض کی حقیقی رسید بھی ہو، تب بھی اس کے means of payment کے طور پر استعمال کی کوئی جائز صورت نہیں ہوسکتی، ایسے دعوے پراسلامی علوم کا ایک طالب علم حیرت ہی کا اظہار کرسکتا ہے۔
کیا تخلیقِ زر والے معاملات ہر حال میں ناپسندیدہ ہیں ؟
یہاں ضمناً اس طرف بھی اشارہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اوپر ذکر کردہ نقود کے واجب فی الذمہ ہونے اور ادائیگی کے طریقے کی جو مثال دی گئی ہے اس میں بعض صورتوں میں عقد اور عملاً نقود کی ادائیگی کے درمیان کچھ مدت کا فاصلہ بھی ہوتاہے ، یعنی عقد آج طے ہورہا ہے ، ایک فریق کو چیز یا خدمت بھی ابھی مل گئی ہے ، لیکن معاوضے میں جن نقود کا حوالہ دیا گیا ہے ان کے بارے میں طے کرلیا گیا ہے کہ ان کی اتنی مدت بعد ادائیگی ہوگی ، ایسا ایسے کئی عقود میں ہوتاہے جن کا جواز یا تو منصوص ہے یا امت میں ان کا جواز مسلمہ چلا آرہا ہے ، جیسے بیع مؤجل وغیرہ ، ( بحث کی آسانی کے لیے یہاں ہم وہ بیع مؤجل فرض کرلیتے ہیں جس میں طے پانے والی قیمت مارکیٹ ریٹ کے برابر ہواور ادھار کی وجہ سے قیمت میں اضافہ نہ کیا گیا ہو) خود نبی کریم صلی اللہ علیلہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری میں ایام میں کچھ خوردنی اشیا (طعام ) ادھار خریدی تھیں جن کے ثمن کی ادائیگی ابھی آپ نے نہیں فرمائی تھی کہ آپ کا انتقال ہوگیا اور اسی ادھار کے عوض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زرہ بھی رہن رکھی ہوئی تھی۔ ایسی حالت میں گویا ایک شخص نقود ( uints of currency ) یا آلۂ مبادلہ والا کام تو چلا رہا ہے لیکن عملاً اس کے پاس وہ نقود، آلۂ مبادلہ یا قوّتِ خرید کی نمائندگی کرنے والی چیز موجود نہیں ہیں ،بلکہ اس کی طرف سے اسے بعد میں ادا کرنے کاوعدہ ہے ، یہ واجب فی الذمہ نقود بعض شرعی حدود وقیود کے اندر ایک ذمہ سے دوسرے ذمہ کی طرف منتقل بھی ہوسکتے ہیں۔
اگلی بات کو مزید آسانی کے ساتھ سمجھنے کے لیے یہ بھی کہہ لیجئے کہ ایسے دیون کی رسیدیں بھی بن سکتی ہیں اور انتقالِ ذمہ کے عمل میں انہیں استعمال بھی کیا جاسکتا ہے ، ایک ایسا معاشرہ جس میں بینکوں کا سرے سے وجود ہی نہ ہو اور اس میں کاغذی نوٹ کی بجائے خود دھاتی سکے چل رہے ہوں ، مثلا وہاں زر کے طور پر صرف سونے کے دینار ہی استعمال ہوتے ہوں ، وہاں پر بھی مؤجل ادائیگیوں والے ان عقود کی وجہ سے یہ بات ممکن ہے کہ معاشرے میں اصل زر جتنا ہے عملاً اس سے زیادہ کا حوالہ دے کر عقود کیے جارہے ہوں ، یا یوں کہہ لیجئے کہ اصل مقدار سے زیادہ زر استعمال ہورہاہو ، اور یوں یہ عقود تخلیقِ زر کا باعث بن رہے ہوں اور یوں تخلیقِ زر کے عمل کو مکمل طور پر جدید بینکاری کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتا، مثال کے طور پر کئی صدیاں پیچھے جاکر ہم فرض کرتے ہیں کہ ایک بستی ہے جس میں کل گیارہ آدمی رہتے ہیں ، اور اس میں بطور کرنسی صرف دینار استعمال ہوتے ہیں ، فرض کریں بستی میں موجود دیناروں کی مقدار کل ۱۰۰ ہے ، جن میں نو کے پاس دس دس دس دینار اور دو کے پاس پانچ پانچ دینار موجود ہیں ، ان پانچ دینار والوں میں سے ایک شخص آٹھ دینار والی اونٹنی ایک سال کے ادھار پر خرید لیتا ہے ، اس لیے کہ اسے توقع ہے کہ وہ سال بھر میں اتنا غلہ اگالے گا جس میں سے وہ اپنی ضرورت سے زائدغلہ کم از کم تین دینار میں بیچ کراس کے پاس پہلے سے موجود پانچ دینار ملاکر آٹھ دینار کی ادائیگی کردے گا۔
فرض کریں کہ باقی سارے لوگ بھی اپنے اپنے پاس موجود زر کوکسی نہ عقد میں استعمال کررہے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس معاشرے میں عملاً جو زر استعمال ہورہاہے وہ ایک سو تین دینار ہے ،جبکہ حسی طور پر اس کی مقدار کل سو(۱۰۰) دینارہے ، اسی طرح باقی سب لوگ بھی کئی ادھار معاملات کررہے ہوں تو عملاً جتنے دیناروں کا حوالہ دے کر معاملات کیے جارہے ہیں وہ اس معاشرے میں بالفعل موجود دیناروں کی مقدار سے کہیں زیادہ ہوں گے ، اس طرح سے ادھار کے یہ سارے معاملات ایک معنی میں تخلیقِ زر کا باعث بن رہے ہیں ، اور اسے فقہا کا یہ مسلمہ اصول جواز مہیا کررہاہے کوئی عقدِ معاوضہ کرتے وقت نقود کا قبضے یا ملکیت میں ہونا ضروری نہیں ہے ،اس لیے کہ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ زید نے بعد میں جو دینار دینے ہیں اس وقت اس کے پاس نہیں ہیں انہی دیناروں کواسی وقت کسی اور عقد میں بھی استعمال کیا جارہاہوگا ، اورفقہا کے اس اصول کو نصوص اور تعاملِ امت کی تایید بھی حاصل ہے ، یہ بھی ذہن میں رہے کہ تخلیقِ زر کی اصطلاح حقیقت پر پورے طور پر دلالت نہیں کرتی ، اگر فقہا کی اصطلاح استعمال کریں تو ہم تخلیق زر کی بجائے تخلیقِ دَین کہہ سکتے ہیں اور اگر جدید اصطلاح استعمال کریں تو بینکوں کے عمل کے لیے مروّجہ اصطلاح (creation of credit ) ہے اس کے لیے آج کل عربی میں خلق الاعتبار یا خلق الائتمان کا لفظ استعمال ہوتاہے ، یعنی کریڈٹ وجود میں لانا، اگر یہ اصول تسلیم کرلیا جائے کہ کریڈٹ تخلیق کرنے کا عمل بذاتِ خود بہت بڑی معاشی برائی ( جسے اسلام کے مطابق بنائے جانے کا سرے سے امکان ہی نہیں ہے )، استحصالی حربہ اور سرمایہ دارانہ مقاصد کو پورا کرنے کا ذریعہ ہے تو یہ بات امت کی پوری کی پوری معاشی تاریخ کو گالی دینے کے مترادف ہوگی ، اس لیے کہ یہ بات تو ادھار کے تقریبا ہر معاملے میں ہوگی ، ادھار کے ہر معاملے میں creation of credit کے ذریعے کسی نہ کسی درجے میں زر کی رسد میں اضافہ ہوگا ، اور موجودہ زر کی ویلیو میں کمی واقع ہوگی۔
اس کو آسانی کے ساتھ یوں سمجھئے کہ اوپر ذکر کردہ مثال میں پانچ دینار کا مالک جب آٹھ دینار والی اونٹنی خریدنے کا ارادہ کرے گا تو اسے اگراونٹنی ادھار دستیاب نہ ہو تو اسے تین دینارکہیں نہ کہیں سے حاصل کرنا ہوں گے خواہ اپنی کوئی چیز مثلاً بکری اونے پونے داموں بیچ کر ہو ، اس طرح سے دینار کی طرف رغبت یا اس کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگا ، اس طرح سے اشیا کی رسد اور اس کے بالمقابل دینار کی طلب میں اضافہ ہوگا ، لیکن اگر اسی شخص کو اونٹنی ادھار دستیاب ہوجاتی ہے تو وقتی طور پر ان دیناروں کی طرف رغبت میں اور ادھار نہ ملنے کی صورت میں جو اشیا اس نے بیچنی تھیں ان کی رسد میں کمی واقع ہوگئی ، اس کے نتیجے میں اشیا کی قیمت میں اضافہ اور زر کی قیمت میں کمی واقع ہوگی ، اور زر کے انہی یونٹس کی قوّتِ خرید میں کمی واقع ہوجائے گی ، یا یوں کہہ لیجئے کہ افراطِ زر کی کیفیت پیدا ہوجائے گی ، یہ سب کچھ ادھار کے معاملے کی وجہ سے ہوا ہے ، اس طرح کے معاملات کو کم تو کیا جاسکتاہے ، ختم نہیں ، اسے اگر کم کرنا ہو تو کیسے اور کتناکرنا ہے یہ شرعی سے زیادہ تدبیری مسئلہ ہے جو کافی حد تک انتم أعلم بأمور دنیاکم میں داخل ہے ، شریعت نے اسے تدبیری مسئلہ اس لیے بھی رکھا ہے کہ ضروری نہیں کہ زر کی رسد میں اضافہ ہر حال میں مضرہی ہو بلکہ بعض حالات میں اس میں اضافہ مفید ہوتا ہے اور بعض میں کمی ( عملاً ہر ملک میں مرکزی بینک تخلیق زر کے عمل کو کنٹرول کرنے کے لیے متعدد اقدامات کرتاہے ) ۔
جناب مغل صاحب کا بظاہر رجحان اس طرف معلوم ہوتاہے کہ زر (money) کو (exogenous) کی بجائے (endogenous) ہونا چاہیے۔ یہ بات ا پنی جگہ اہم اور درست معلوم ہوتی ہے ، خاص طور پر بعض جدید معاشی مفکرین کی یہ بات خاص توجہ کی مستحق ہے کہ زر میں ریاست کا کردار کم سے کم ہونا چاہئے ، فقہا نے بھی کسی چیز کے ثمن ہونے میں عرف اور لوگوں کے قبولِ عام کو خاص اہمیت دی ہے ، گویا فقہاکا نظریۂ زر عوامیت کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتا ہے ، اگرچہ وہ ریاست کے کردار کی بالکل نفی نہیں کرتے اور نہ ہی کی جاسکتی ہے ، کریڈٹ کی تخلیق کے ذریعے زر کی رسد بڑھانے کو اگرچہ بعض اوقات بہت بڑی معاشی برائی کے طور پر لیا جاتاہے ، جناب مغل صاحب نے بھی یہی انداز اختیار کیا ہے ، لیکن یہ پہلو بھی خاصی توجہ کا مستحق ہے کہ اس طرح کے عقود کو جائز قرار دینے سے زر کی رسد کا معاملہ مکمل طور پر ریاست کے ہاتھ میں نہیں رہتا بلکہ کافی حد تک عوامی بن جاتا ہے ، اس لیے کہ یہ عقود عام لوگوں نے کرنے ہوتے ہیں ، لہذا ان عقود کے ذریعے عوام خود فیصلہ کرتے ہیں کہ زر کی رسدکو بڑھانا ہے یا گھٹانا ، اس لیے اسلام نے اس طرح کے عقود پر شرعی مسئلے کے طور پر پابندی نہیں لگائی ، اسلامی تعلمیات کا نقطۂ ترکیز کریڈٹ یا دَین کی تخلیق نہیں ہے ، بلکہ اس عمل کے ذریعے نفع کمانے کا طریقہ ہے ، نفع کمانے کو بھی شریعت اسلامیہ میں بالکلیہ ناجائز نہیں کہا گیا بلکہ اس کا انحصار اس کے طریقِ کار پر رکھا گیا ہے ، اگر وہ معاملہ زر بمقابلہ اشیا یا خدمات ہے تواس میں نفع جائز ہے ، اور اگر زر بمقابلہ زر ہے تو ناجائز ہے ، اسی کو قرآن نے أحل اللہ البیع وحرّم الربوا سے تعبیر کیا ہے ( یہ نکتہ مزید وضاحت طلب ہے ، اس پر تفصیل سے بات اس موقع پر ہوگی جب ہم تخلیقِ زر کے مسئلے پر بات کریں گے ، یہاں محض اشارہ مقصود ہے ) ، ہاں البتہ عصرِ حاضر کے وہ علما جن کا غیر سودی بینکاری سے واسطہ رہاہے انہوں نے بطور معاشی پالیسی کے اس بات کو قابلِ ترجیح قرار دیاہے کہ تمویلی عمل میں زیادہ انحصار مداینات کی بجائے مشارکات پر ہو ، اس طرح کی بات سابقہ فقہا کے ہاں شایدصراحت کے ساتھ ہمیں نہ ملے ، ان علما نے غیر سودی بینکاری سے زیادہ سے زیادہ بہتر نتائج کے حصول اور انہیں مقاصدِ شریعت کے زیادہ قریب کرنے کے لیے بطور ایسی عمومی پالیسی کے کہی ہے جس کی طرف بڑھنے کو اپنا ہدف قرار دیا جانا چاہیے۔ ( اس کے باوجود ان علما کو مقاصدِ شریعت کو نظر انداز کرنے اور سرمایہ دارانہ مقاصد کی پشت پناہی کا طعنہ دیا جاتاہے ) ۔
حقیقی رسید اور ’جعلی‘ رسید
دوسرا بڑا اشتباہ یہاں یہ ہوگیا ہے کہ بینکوں کی رسیدیں بھی دو طرح کی ہیں ، ایک وہ جن کے پیچھے واقعی بینک کی کوئی ذمہ داری ہوتی ہے وہ کسی فرضی کاروائی کا نتیجہ نہیں ہوتیں ، مثلاً زید ایک بینک میں اپنا اکاؤنٹ کھلواکر اس میں دس ہزار روپے جمع کرادیتاہے ، اب وہ خالد کو ہزار روپے کی ادائیگی کرنا چاہتا ہے تو اپنے اکاونٹ پر خالد کے نام ہزار روپے کا چیک کاٹ دیتاہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ زید اپنے بینک سے یہ کہہ رہاہے کہ میرے لیے تمہارے ذمے جو دس ہزار روپے واجب الادا ہیں ان میں سے ہزار روپے خالد کو دیدئیے جائیں ، اب اگر خالد بالفعل یہ ہزار روپے وصول نہیں کرتا بلکہ اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرادیتاہے تب بھی یہ فرضی کاروائی نہیں ہے ، اس لیے کہ اس صورت میں بہت مختصرسے عرصے کے اندر زید اور اس کے بینک سے یہ قوّتِ خرید خالد اور اس کے بینک کی طرف منتقل ہوجائے گی ، پہلے یہ ہزار روپے زید کا اثاثہ اور اس کے بینک کی ذمہ داری تھی اب خالد کا اثاثہ اور اس کے بینک کی ذمہ داری بن گیا ہے ، اب خالد اپنے اکاونٹ پر ناصر کے نام اگر ہزار روپے کا چیک کاٹتاہے تو یہ بھی فرضی رسید نہیں ہے ، اس لیے کہ اس کی پشت پر ایک حقیقی ذمہ داری موجودہے، دوسری صورت ان رسیدوں کی وہ ہے جو کسی بینک کی طرف سے قرضہ جاری کرنے کی حالت میں ہوتی ہے، مثلا عبد الحمید ایک بینک سے دس ہزار روپے قرض لینے کی درخواست دیتاہے ، اس کی درخواست منظور ہوجاتی ہے ، اب جیساکہ عموماً ہوتا ہے بینک کی طرف سے قرض دینے کی صورت یہ اختیار کی جاتی ہے کہ وہ عبد الحمید کے نام کا اکاؤنٹ کھول کراس کے نام دس ہزار روپے لکھ دیتاہے ، جو عبد الحمید کے اثاثوں ( assets) میں شمار ہوں گے اور بینک کی ذمہ داریوں (liabilities) میں ، اب عبد الحمید دس آدمیوں سے مختلف اشیا خریدکر انہیں ادائیگی کرنے کے لیے اپنے اس اکاؤنٹ پر ان کے نام ہزار ہزار روپے کے چیک کاٹ کر انہیں دے دیتاہے ، مذکورہ مضمون میں جن جعلی رسیدوں کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد بظاہر یہی صورت ہوسکتی ہیں ، اس لیے کہ پہلی قسم کی رسیدیں تو کسی طرح بھی جعلی نہیں ہیں ، ان کے پیچھے تو سچ مچ کی ایک ذمہ دار ی یا دَین ہے ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دوسری قسم کی رسیدوں کو بالکل جعلی مان بھی لیا جائے توبھی اسلامی بینکوں کے عام تمویلی آپریشنز میں اس طرح کی رسیدیں سرے سے وجود میں ہی نہیں آتیں ، کیونکہ یہ رسیدیں قرض دینے کی ایک شکل ہیں ، اور اسلامی بنک نفع بخش تمویل کے طور پر قرض دیتا ہی نہیں ہے ، وہ یا تو کسی کاروبار میں شریک ہوتاہے یا اشیا یا خدمات فراہم کرتاہے ۔
مثال کے طور پر مرابحہ کو لے لیجیے۔ عبد الحمید دس آدمیوں سے دس چیزیں خریدنا چاہتاہے ، لیکن اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ ، عبد الحمید ایسے ہی موقع پر ( پچھلی مثال میں ) جب روایتی بنک کے پاس گیا تھا تو اس نے دس ہزار روپے قرض کی منظوری دے کر دس ہزارروپے کا اکاؤنٹ کھول کر اسے چیک بک دے دی تھی ، جس سے اس نے دس آدمیوں کے نام ہزار ہزار روپے کے چیک کاٹے تھے( جبکہ بنک عبد الحمید سے واپس مثلا گیارہ ہزار لے گا ) ، اسلامی بنک ایسا نہیں کرے گا ، وہ یہ چیزیں خود ان دس آدمیوں سے ہزار ہزار روپے میں خرید کر عبد الحمید کو گیارہ گیارہ سو میں ادھار بیچ دے گا ، جس کے نتیجے میں اس کے ذمے گیارہ ہزار واجب الاداء ہوگئے ، اب اسلامی بنک اپنے کلائنٹ یعنی عبد الحمید کو توپیسے دے ہی نہیں رہا ، اسے تو اشیا دے رہا ہے ، لہذا اس طرف سے تو کسی رسید کے جاری ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ بنک ان دس آدمیوں کو جو دس دس ہزار کی ادائیگی کررہاہے وہ بظاہر چیک کے ذریعے ہوگی ، یہ چیک جعلی قرض کی رسید نہیں ہے ، بلکہ ان حقیقی اشیا کا معاوضہ ہے جو انہوں نے بنک کو بیچی ہیں ، اسی طرح سے یہ دس کے دس آدمی ان چیکوں کے ذریعے رقوم نکلوانے کی بجائے انہیں اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرادیتے اور ان رقوم کے عوض خریداری کے لیے آگے مزید چیک کاٹتے ہیں ، تو یہ بھی اوپر ذکر کردہ دو صورتوں میں سے پہلی قسم میں داخل ہے ،جس میں خالد ، زید سے چیک لے کر اسے کیش کروانے کی بجائے اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرادیتاہے ، اسے کسی بھی طرح جعلی قرض کی رسید نہیں کہا جاسکتا ، اس کے پیچھے حقیقی واجبات ہیں، لہذا یہ دعوی کہ اسلامی بینکنگ میں بھی جعلی رسیدوں کا لین دین ہوتاہے ناقابلِ فہم ہے ، ہاں یہ بات اپنی جگہ مسلّمہ ہے کہ مرابحہ مؤجلہ والی یہ کا روائی بعض امور میں قرض والی تمویل کے مشابہ ہے ، اس بات کو تو قرآن نے بھی ایک حدتک تسلیم کیاہے کہ کفار کے اس اعتراض کہ إنما البیع مثل الربا کے جواب میں یہ تو فرمایا وأحل اللہ البیع وحرم الربوا ، لیکن کفار کے اس دعوئ مثلیت کو بالکلیہ رد نہیں کیا۔
عموماً یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ فرق بہت معمولی ہے ، مثلاً مذکورہ مضمون میں کہا گیا ہے کہ جو کام عام بنک ایک اندراج میں کرتے ہیں ، وہی کام مرابحہ کی شکل میں دو اندراجوں میں کیا جارہاہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کیسے ہوگا کہ یہ فرق چھوٹا ہے یا بڑا ، ظاہر ہے کہ اگر بحث یہ ہو کہ اس فرق سے اسلامی غیر اسلامی یا دوسرے لفظوں میں جائز یا ناجائز ہونے پر اثر پڑتاہے یا نہیں تو اس میں فیصلہ کن حیثیت دلیلِ شرعی کو حاصل ہوگی ، اسلامی یا غیر اسلامی ہونا تو خود اسلام ہی بتائے گا ، نہ کہ ہماری پسند یا ناپسند ، یا ہمارا دو چیزوں کو ایک جیسا سمجھنا یا الگ الگ ، اس بحث میں تو اسلامی نقطۂ نگاہ سے مناط الحکم کو دیکھنا ہوگا کہ اس کے اعتبار سے دو چیزیں الگ الگ ہیں تو یہ فرق اہم ہوگا اگرچہ باقی پہلوؤں سے یہ فرق معمولی نظر آرہاہو ، مناط الحکم جو مغل صاحب نے آخر میں نکالاہے وہ ہے جعلی قرضوں کی رسید کا لین دین ، اگر اس چیز کو ہی مناطِ حکم مان لیا جائے تو یہ ثابت کرنا انتہائی مشکل ہے کہ مرابحہ کے عمل میں بھی جعلی قرضوں کی کوئی رسید ہوتی ہے جس کا لین دین ہوتاہے ، اگر روایتی بنکوں میں ایسا ہوتابھی ہے تو اس کا حکم اسلامی بینکوں پر تو جاری نہیں ہوسکتا ، جس چیز کو وہ محض دو اندراج یا ایک اندراج ہونے کا فرق کہہ رہے ہیں وہ فرق تو ایسا ہے کہ ایک اندارج والی صورت (قرض پر مبنی تمویل )میں مغل صاحب کے بقول جعلی قرضوں کی رسیدیں وجود میں آرہی ہیں ، اور دو اندراج والی صورت ( مرابحہ والی تمویل )میں جو رسید وجود میں آتی ہے ان کو کسی بھی طرح جعلی رسید نہیں کہا جاسکتا ، وہ حقیقی مالی ذمہ داری کی نمائندگی کرتی ہے ، اس رسید کے پیچھے محض وعدہ نہیں ہے بلکہ وہ چیز ہے جو سچ مچ واجب الادا ہوچکی ہے ، کیا جعلی ہونا یا نہ ہونا معمولی فرق ہے!
قلم اٹھانے کا اصل مقصد یہ تھا کہ اس بات کاجائزہ لیا جائے کہ اسلامی بینکاری کو اگر مقاصدِ شریعت کے پیمانے سے دیکھنا ہوتو اس کا منہجِ بحث کیا ہوسکتاہے ، اسی کے ساتھ زر کے بارے میں کچھ امور پر بات کرنے کا اردہ تھا، خیال تھا کہ مذکورہ مضمون کے بارے میں کچھ چھوٹی چھوٹی باتیں عرض کرنے کے بعد اصل موضوع پر بات ہو جائے گی ، لیکن ان ابتدائی باتوں پر ہی گفتگو لمبی ہوگئی ، ایک ہی مضمون میں اس سے زیادہ بات کرنا قارئین پر بوجھ کا باعث ہوگا ، اس لیے انہی باتوں پر اکتفا کرتے ہوئے باقی بات کو آئندہ کسی مستقل مضمون پر چھوڑتے ہیں ،تاہم منہجِ بحث کے بارے میں اس نکتے کی طرف دوبارہ توجہ دلانا مناسب معلوم ہوتاہے کہ جب مقاصدِ شریعت کی رو سے کسی چیز کو دیکھنا ہوتو ایک تو یہ ضروری ہے کہ جس چیز کو دیکھا جارہا ہے اسی سے متعلق مقاصد پر ترکیز (focus) ہو ، نماز کے مقاصد کا اطلاق زکوٰۃ پر اور زکوٰۃ کے مقاصد کا اطلاق نماز پر درست نہیں ہوگا ، زیرِ بحث مسئلے میں ایک تو عمومی معاشی مقاصدِ شریعت دیکھنے ہوں گے ، لیکن اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ حرمتِ ربا میں کون سے مقاصد پنہاں ہیں یہ دیکھنا ہوگا ، اس لیے کہ بینکاری کے یہ ادارے سود کے متبادل کے طورپر سامنے آئے ہیں ، دوسری بات یہ ہے کہ مقاصدِ شریعت کا تعین بھی خود شرعی دلیل سے ہی ہوگا ، اس میں استخراجی انداز بھی اپنانا ہوگا جس میں نصوص کو دیکھنا پڑے گا ، اور استقرائی بھی ، یعنی یہ دیکھنا ہوگا کہ جن چیزوں کے خاتمے کو ہم مقاصدِ شریعت میں شمار کررہے ہیں کہیں شریعت کے بعض دیگر ثابت شدہ احکام سے وہی اثرات مرتب تو نہیں ہورہے ، اگر ایسا ہے تو جس چیز کے خاتمے کو ہم مقاصدِ شریعت سمجھ رہے تھے ہمیں اپنی اس بات پر ہی نظرِ ثانی کرنا ہوگی ، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کسی چیز کو ہم بہت بڑی معاشی برائی اور استحصالی ہتھکنڈا اور نہ معلوم کیا کچھ کہتے رہیں اور ہماری اس بات کی زد خلافتِ راشدہ بلکہ عہدِ رسالت پر جاکر پڑے ۔
آخر میں اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ جناب مغل صاحب نے جو اس طرف توجہ مبذول کرائی ہے کہ اسلامی بینک بھی زر کی رسد میں اضافے کا باعث بنتے ہیں یہ بات بذاتِ خود اہم ہے ، اس لیے کہ جس طرح سے عام طور پر روایتی بینکوں کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ زر کی رسد میں اضافہ کرتے ہیں اس سے اس غلط فہمی کے جنم لینے کا امکان ہے کہ اسلامی بینک ایسا نہیں کرتے ، یہ بات بھی اہم ہے کہ زر کے اس اضافے میں دخل اس بات کو بھی ہے کہ ڈیپازیٹر اپنے زر کے استعمال کے حق سے دستبردار نہیں ہوتا ، اگرچہ روایتی اور اسلامی بینکوں کے ڈیپازٹس کی نوعیت میں کافی فرق ہوتاہے تاہم یہ بات اکثر ڈیپازٹس میں قدرِ مشترک ہے ، لیکن ان دونوں کے بذاتِ خود برائی ہونے یا ان کے غیر اسلامی ہونے پر کوئی واضح دلیلِ شرعی موجود نہیں ہے ، البتہ بعض حالات میں ان کے نامناسب معاشی اثرات ہوسکتے ہیں ، اس لیے ان دونوں چیزوں کو ایک حد میں رکھنے کے لیے کچھ طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں ، لیکن یہ مسئلہ بھی اپنی اہمیت کے باوجود بنیادی طور پر شرعی سے زیادہ تدبیری ہے ، دوسرے مسئلے کے حل کے لیے مثلا یہ کہا جاسکتاہے کہ عام سیونگ اکاؤنٹ کی بجائے فکسڈ ڈیپازٹس کی زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے ، اس لیے کہ ان میں کھاتہ دار ایک محدود مدت تک اپنی لگائی گئی رقم کے استعمال سے مکمل طور پر دستبردار ہوجاتاہے ، بہر حال اس طرح کے تدبیری مسائل کے لیے جناب مغل صاحب سمیت معیشت دانوں کو آگے آنا چاہئے اور ان بینکوں کی راہ نمائی کرنی چاہئے کہ یہ بینک خود اس طرح کے مسائل کے حل کے لیے کیا کر سکتے ہیں ، ان کے شریعہ بورڈز اور شریعہ ایڈوائزرز کیا کرسکتے ہیں اور مرکزی بینک کا کیا کردار ہوسکتا ہے۔
’’فخر زمان: کل اور آج‘‘
ادارہ
جامعہ گجرات کے شعبہ تصنیف و تالیف نے انتہائی کم مدت میں جامعہ کو وطنِ عزیز کی نامور جامعات کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ شیخ عبدالرشید کے قلم سے نکلا ہوا ’جامعہ نامہ‘ ایک طرف اس درس گاہ کی متنوع سرگرمیوں کا عکاس تھا تو دوسری طرف ملک کے علمی و فکری حلقے میں جامعہ گجرات کے مثبت تعارف کا اشاریہ تھا۔ اہلِ علم اس’جامعہ نامہ‘ میں مستقبل کے عزایم کی جھلک دیکھ رہے تھے۔ انہی عزایم کی ایک عملی صورت اس وقت ہمارے پیشِ نظر ہے ۔ شیخ عبدالرشید اور طارق گوجر کی محنتِ شاقہ ’فخر زمان: کل او ر آج‘ کے عنوان سے جامعہ گجرات نے نہایت اہتمام کے ساتھ شائع کی ہے۔ یہ ایک بڑی تقطیع کی مدون کتاب ہے جس کا سرورق امرتا پریتم کے شوہر امروز نے کچھ اس طرح ڈیزائن کیا ہے کہ اس کی کتاب دوستی اور امرتا پریتم سے محبت ، گلے ملتے دکھائی دیتے ہیں۔
کتاب کے آغاز میں شیخ عبدالرشید کے زور آور قلم سے ’عکسِ فخر‘ کے تحت فخر زمان کی زندگی کا خاکہ شامل ہے۔ اس خاکے میں ’فن اور شخصیت‘ کی روایتی بحث کو شیخ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں لیتے ہوئے شخصیت کی اہمیت اس طرح واضح کی ہے:
’’سینت بیو کا تنقیدی اصول ہی یہ ہے کہ ہم کسی شخص کو جان لینے کے بعد ہی اس کی تحریروں اور فن و خدمات کا حقیقی ادراک کر سکتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ: ''When we know the tree, we know the fruit'' (عکسِ فخر، ص۱۸)
اس کے بعد یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد نظام الدین نے ادبی لطافت اور فلسفیانہ گہرائی کے خوبصورت امتزاج سے اپنے خیالات پیش کیے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے واقعاتی یا شخصی استدلال کے باوجود اصولیین کے سے انداز میں نتایجِ فکر بھی اخذ کیے ہیں ، ملاحظہ کیجیے:
’’ ہر زندہ عہد میں کوئی تفہیم اور وضاحت بہت حد تک اختلافی ہوتی ہے اور جو شخصیات اس اختلاف کی ترجمان بنتی ہیں وہ مزاحمت کی علم بردار ہونے کی بنا پر اپنے زمانے کے جبر کا شکار بھی ہوتی ہیں ۔ ’’چیلنج اور ریسپانس‘‘ کا یہی عمل انہیں منفرد اور سچا انسان بناتا ہے۔ ہمارا عہد پیغمبروں کا عہد نہیں ہے، اس لیے آج ہر سوچنے سمجھنے والے کو اپنی سچائیاں خود تلاش کرنی پڑتی ہیں۔ یہ سچائیاں اس واردات کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں جو کسی کھرے شخص کو راہِ حق میں پیش آئیں اور وہ ان سے نبرد آزما ہو‘‘۔ (ایک عہد کا ستعارہ، ص۲۹)
’’ فکر و آگہی کے اس دھول دھول سفر میں کتاب اور کہانی کے انقلابی سر کہیں گم ہو گئے ہیں۔ اب تو یہاں آمروں اور ڈکٹیٹروں کی پروردہ سیاسی پنیری ہے یا خال خال وہ انقلابی رہ گئے ہیں جو اس گلے سڑے بکھرتے نظام کے اندر سے خزانے ڈھونڈ لانا چاہتے ہیں۔ کیا خبر سرکاری ایوانوں اور سیاسی ایوانوں کے آرام دہ ماحول میں بیٹھے فخر زمان کی قبیل کے انقلابیوں کے ہاتھ بھی دوچار موتی آ جائیں۔ یہ موتی مل بھی گئے تو کون جانے کہ وہ لیلائے وطن کے ہاتھ میں سجیں گے یا زرداروں کی تجوری میں چلے جائیں گے‘‘۔ (ایک عہد کا ستعارہ، ص۳۰)
تاریخی اساطیری علامت کا ادبی مقام کیا ہے؟ اس کا جواب اسی مضمون میں ڈاکٹر محمد نظام الدین جھنجھوڑنے والے اسلوب میں دیتے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جامد مسلم سماج کے تعفن زدہ شعور میں کنکر نہیں مارے جا رہے بلکہ پورے کا پورا کوہ ہمالیہ ہی اس کے اندر الٹا دیا گیا ہے ، لیجیے خود ہی فیصلہ کیجیے کہ کیا ہم بیان میں مبالغہ سے کام لے رہے ہیں؟ :
’’ اپنی تاریخ کے پس منظر میں دیکھوں تو مجھے لگتا ہے کہ فخر زمان سمیت ہم سب لوگ سبیلیں لگائے جام آب ہاتھ میں لیے خلا میں گھور رہے ہیں کہ کہیں سے امام حسین ؑ آنکلیں اور ہم انہیں پانی پیش کریں۔ اس بھولپن میں ہم یہ فراموش کر بیٹھے ہیں کہ امام حسین ؑ تو یزیدیت کے ساتھ اپنے یدھ کے اس مرحلے پر ہیں جہاں پانی کا پورا دریائے فرات کسی کام کا نہیں رہا۔ آج حق اور استحصال کی جنگ میں سماج اپنی تشنگی سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ اب تو لاشیں کندھوں پر اٹھانے کا وقت ہے بصورتِ دیگر ہمیں چلّو بھر پانی بھی کافی ہے‘‘ (ایک عہد کا ستعارہ، ص۳۰)
سنجیدہ اور گہرے ادبی اظہار کو عوام کی غالب اکثریت کی سطح تک لے جانا ، ابلاغ کے پہلو سے ہمیشہ ایک پیچیدہ مسئلہ رہا ہے۔ ڈاکٹر محمد نظام الدین ہمیں بتاتے ہیں کہ جناب فخر زمان کی تخلیقات صرف اظہار نہیں ہیں بلکہ ان میں ابلاغ کے تقاضے بخوبی نبھائے گئے ہیں:
’’ہمارے عہد کی ایک مشکل یہ ہے کہ آج کا ادب جن لوگوں کی راہِ عمل کا تعین کرتا ہے وہ اس تک رسائی اور پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور ہم جیسے لوگ جنہیں پڑھنے پڑھانے کا شوق بھی ہے اور دعوٰی بھی، جنہوں نے فخر زمان کی تخلیقات کا مطالعہ کیا ہے اس کی نثر و نظم کو اس کے عہد کی روشنی میں دیکھا ہے، اس کے ناولوں ڈراموں شاعری سیاست عہدوں مراتب اور اطوارِ حیات کو بغور دیکھا ہے، ہمارا خیال ہے کہ فخر زمان اپنے لفظوں اور جذبوں کو اس ان پڑھ لوکائی تک لے جانے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے، اس کے لیے جتن بھی کرتا ہے اور اس کی سرحدیں بھی پھلانگتا ہے۔ وہ ایسا سرگرم پنجابی ہے جو دوسرے صوبوں کے حقوق، ان کی زبانوں اور ثقافتوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے‘‘۔ (ایک عہد کا استعارہ، ص۳۱)
ہم ڈاکٹر صاحب سے جزوی اختلاف کرتے ہوئے عرض کریں گے کہ ادبِ عالیہ کی حد تک، اظہار و ابلاغ کی بحث کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ ادبِ عالیہ کے چمن کے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ادیب خوشا چیں ہوتے ہیں او ر مختلف عہدوں پر فائز ہو کر ابلاغ در ابلاغ کے فرائض سر انجام دیتے رہتے ہیں۔ بہرحال! ہم نہایت مسرت و انبساط کے ساتھ ڈاکٹر محمد نظام الدین کے مضمون میں سے ایک اور اقتباس پیش کرنا چاہیں گے جس سے قارئین کو اندازہ ہوگا کہ ان کے ہاں حرکت اور حرکت کے رخ کے کیا معنی ہیں:
’’ کہا جاتا ہے کہ اس دھرتی پر زندگی بہت سست رو ہے اتنی کہ جمود کا گمان ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ آج موہنجوداڑو کی تہذیب کی طرز کے برتن استعمال کرتے ہیں، صدیوں پرانی طرز کا لباس پہننا پسند کرتے ہیں، عظمتِ رفتہ کے گیت گا گا کر تاریخی نرگسیت کے اسیر ہو کر رہ گئے ہیں، یہاں کی سوچ اورفکر کا دھارا آگے کے بجائے پیچھے کی طرف بہتا ہے۔ ذرا سوچیے تو سہی یہاں کے ادب میں ڈیڑھ سو سال پرانا شاعر غالب ؔ آج بھی انقلابی نظر آتا ہے‘‘۔ (ایک عہد کا استعارہ، ص۳۱)
سید شبیر حسین شاہ کا مضمون ’ایک سیاسی دانش ور‘ منفرد مضمون ہے۔ اس کا عنوان ہی چند سوالات پیدا کرتا ہے کہ کیا کوئی سیاسی دانش ور، بڑے پائے کا ادیب ہو سکتا ہے؟ یا کوئی بڑا ادیب ، عظیم سیاسی دانش ور بھی ہو سکتا ہے؟۔ اگر اس کا جواب اثبات میں دیا جائے تو مثالیں دینے کے لیے یہ رسک لیتے ہوئے ساری انسانی تاریخ کھنگالنی پڑے گی کہ شاید آخر میں ہاتھ کچھ نہ آئے۔ خیر! یہ ایک جملہ معترضہ تھا۔ اگرچہ عنوان ’’ایک سیاسی دانش ور‘‘ فخر زمان کے حوالے سے ہے ، لیکن شبیر شاہ صاحب نے موقع غنیمت جانتے ہوئے دل کی باتیں اہلِ علم کے سامنے رکھی ہیں۔ یوں سمجھیے کہ روایتی ساس کی طرح بیٹی کو کہہ کر بہو کو سنا رہے ہیں یا جگ بیتی کے روپ میں آپ بیتی بیان کر رہے ہیں ۔ لیجیے ملاحظہ کیجیے منطقی استدلالی نقطہ نظر سے اپنے سماج کے ماضی و حال کا کچا چٹھا ، اور مستقبل کا منظر نامہ:
’’ ہر کوئی اپنی مرضی کا انقلاب چاہتا ہے مگر یہ عجیب بات نہیں ہے کہ آپ انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں پنجابی رھتل میں اور طریقے برطانوی سیاست کے اور فلسفہ روسی استعمال کرتے ہیں۔ اگر پشکن، ٹالسٹائی، گورکی اور دوستو فسکی وغیرہ ایک انقلابی آہنگ پیدا کرتے ہیں جس میں سے لینن، ٹراٹسکی اور سٹالن مارکسی انقلاب برپا کر لیتے ہیں تو یہ کیوں ممکن نہیں ہوا کہ بابا بلھے شاہ، شاہ حسین اور سلطان باہو ایک انقلابی آہنگ پیدا کرتے اور کوئی انقلابی قاید انقلاب برپا کر لیتا۔ دراصل ہمارے سماج کی introvert psychy ان شاعروں کے درد کو، گھونٹ گھونٹ پی گئی ہے اور نعرہ انقلاب برپا نہیں کر سکی‘‘ (ایک سیاسی دانش ور، ص۳۲)
’’ زبان، قومی شناخت، کلچر، ادب، شاعری اور موسیقی کو Property Concept میں رکھ کر زندہ نہیں رکھا جا سکتا۔ تاریخ کے بے رحم فیصلے ہمیشہ طاقت ور عناصر کے حق میں ہوئے ہیں۔ گلوبل مارکیٹ کا پھیلتا ہوا طاغوت گاہک کی زبان اور اس زبان کے افسانہ نگاروں اور شاعروں سے کہیں خوف زدہ نہیں ہے۔ اس کی قوت Hi Tech Computer اور اعلیٰ سائنسز پر اس کی اجارہ داری ہے، اس کے عیسائی ہونے یا انگریزی بولنے میں نہیں ہے۔ لہذا اعلیٰ سائنسز کی Definations کو اپنے لہجے کی طاقت سے اپنے حق میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ لہجہ پتہ نہیں ماجھی ہو کہ پوٹھوہاری ہو۔ جرمن ہو یا سنہالی ہو، انقلاب کی بھی اپنی کوئی کلچرل شناخت نہیں ہوتی نہ بنائی جا سکتی ہے‘‘ (ایک سیاسی دانش ور، ص۳۳)
’’ سماج اور وقت اتنی تیزی سے تبدیل ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں کہ پچھلے زمانوں کا کوئی بھی کتابی علم آج کے دور میں کوئی انقلاب پیدا کرنے کی خود کفیل صلاحیت نہیں رکھتا۔ خود مارکسزم کی بیسویں صدی کی Inspiration کم از کم تاریخی حرکت کے ایجنڈے سے Isolate ہو گئی ہے اور بہت گہرے اور پیچیدہ سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں‘‘ (ایک سیاسی دانش ور، ص۳۵)
’’مقامی انقلاب اب ممکن نہیں رہا ہے لہذا زبان چاہے وہ پنجابی اور سندھی ہے یا ملاوی اور سنہالی ہے صرف مقامی انقلاب کی ہی مدد گار ہو سکتی تھیں۔ فخر زمان کو اس سے اتفاق نہیں ہے۔ .... فخر زمان کا خیال ہے کہ یہ مائع سی شے جسے وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم کہتے ہیں اگر پنجابی زبان میں ڈھالی جائے تو ڈھل جائے گی۔ یہ تصور ایسے ہی کہ ایک جدید ترقی یافتہ کمپیوٹر (جو کہ ایک ٹیکنالوجی ہے) اس میں پنجابی زبان کا سافٹ وئیر ڈال دیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا اور ہمارا دیس پنجاب سائنسی علوم کی آماج گاہ بن جائے گا۔ سائنسی علوم کوئی پرچیزایبل آئٹم تھوڑی ہے جو کسی بھی زبان اور کسی بھی قوم کی ملکیت بنا دی جائے یہ تو معروض کے ساتھ بہت گہرے Interaction کے نتیجے میں حاصل ہونے والی علمی صلاحیت کی کوکھ سے پیدا ہونے والا علم ہے یہ اسی کا ہوتا ہے جو اسے جنم دیتا ہے‘‘ (ایک سیاسی دانش ور، ص۳۵)
’’ اگر پنجابی بولنے والا سماج جدید دنیا کو Compete کرنے والے سائنس دان پیدا کرے تو وہ نئے بلھے شاہ اور نئے شاہ حسین پیدا کرنے سے بڑی بات ہو گی، کم از کم اس گلوبل عہد میں تو ضرور ہو گی۔ اسی لیے عالمی انقلاب برپا کرنے کے لیے ہمیں دانش مند انقلابیوں اور عالمی سطح کے سائنس دانوں کی ضرورت ہے جو ایک سماجی جدوجہد اور معروض کے ساتھ Interaction کے ذریعے ہی پیدا ہوں گے‘‘ (ایک سیاسی دانش ور، ص۳۵، ۳۶)
’’وہ اپنی پہچان میں ایک انقلابی ادیب ہے مگر دو حصوں میں منقسم ہے، پنجابی دوستی میں وہ پیچھے کی طرف سفر کرتا ہے اور سامراجیت کو منہدم کرنے کے لیے آگے کی طرف بڑھتا ہے۔ یہ ’کعبہ میرے آگے، کلیسا میرے پیچھے‘ والی بات ہے۔ برِ صغیر پاک و ہند کی لوکائی کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی نفسیات میں اندرون بین ہے۔ یہ سماج باہر سے جتنے بھی زخم کھاتا، ظلم سہتا ہے انہیں لے کر اندر کی طرف بھاگتا ہے۔ کبھی کبھی تاریخ میں چیختا ہوا باہر بھی نکلتا ہے مگر بے سمت اندھا دھند دوڑ پڑتا ہے اور پھر کسی دلدل میں پھنس جاتا ہے۔ ہندوستان میں پھوٹنے والے سارے نام نہاد انقلابیوں کا یہی حشر ہوا ہے۔ یہاں تو اسلام کو بھی ہندوانہ لباس پہننا پڑا ہے۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ یہ محبت اور رواداری کا صوفیانہ پیغام بڑا حسین اور مدھ بھرا ہے مگر یہ انقلابی ہرگز نہیں ہے۔ اس کی اوقات میں یزیدیت کو گریبان سے پکڑنا ہے ہی نہیں۔ فخر زمان صوفی بھی ہے اور انقلابی بھی۔ وہ چیختا ہے تو انقلاب کی تلاش میں بھاگتا ہے، کبھی ماسکو کبھی بیجنگ کبھی چے گویرا اور کبھی ہیوگوشاویز کی طرف، مگر اسلام آباد کی آمریتوں کی جکڑ بندیوں کا قیدی یہ ادیب واپس صوفی ازم میں پلٹ آتا ہے، شاہ حسین اور بلھے شاہ کی مدھر کافیاں، وارث شاہ کی نشیلی شاعری اس کے لیے پناہ گاہ کا کام دیتی ہے‘‘۔ (ایک سیاسی دانش ور، ص۳۶)
’’ کارل مارکس نے جس جمود کا ذکر کیا تھا وہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی اس دھرتی پر موجود ہے۔ میری فخر زمان جیسے سوچنے والے ذہنوں سے اپیل ہے کہ آئیں ہم اپنی اگلی تاریخ کا ایک لائحہ عمل تشکیل دیں جو گلوبل سامراجیت کے اس عہد میں ہمیں وہ اہلیت اور صلاحیت فراہم کرے جس سے ہم ایک مقابلہ کرنے والی معاشرت بن سکیں وگرنہ درماندگی اور بے کسی تو نصیب میں ہے ہی۔‘‘ (ایک سیاسی دانش ور، ص۳۶)
ہم تبصرہ کرتے ہوئے فقط اتنا عرض کریں گے کہ فخر زمان صاحب کو سید شبیر حسین کی فلسفیانہ نصایح پر کان ضرور دھرنا چاہیے۔ زیر نظر کتاب میں برِ عظیم کی معروف ادیب و شاعرہ امرتا پریتم نے فراق گورکھ پوری کے حوالے سے ادیب و شاعر کی حساسیت کو بے نقاب کیا ہے۔ اگرچہ بادی النظر میں مذہب پر طنز محسوس ہوتا ہے لیکن حقیقت میں مذہب سے زیادہ مذہبی لوگوں کے عدمِ احساس پر شدید چوٹ کی گئی ہے:
’’ادبی تاریخ میں جنت اورجہنم کا مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب دنیا والوں نے دیکھا کہ یہ شاعر ادیب ہیں یہ پتہ نہیں عوام کا دکھ ایسے دلوں میں کیوں بسا لیتے ہیں کہ پھر ساری زندگی تڑپتے رہتے ہیں۔ وہ لوگ جنہیں عوام کے دکھ سے کوئی سروکار نہیں ہوگاانہوں نے زندگی کو دو نام دیے، ایک جنت جو ان کی اپنی زندگی کے لیے اور ایک دوزخ جو شاعروں اور ادیبوں کے لیے تھی۔ پھر ایک دفعہ جنت میں ایسی ٹھنڈی ہوا چلی کہ لوگ سردی سے کانپنے لگے، انہوں نے سوچا کہ جہنم میں بہت آگ جلتی بجھتی ہے اس لیے تھوڑی آگ جہنم سے مانگ لی جائے لیکن جب انہوں نے اہلِ جہنم سے آگ کی فرمایش کی تو جہنم سے جواب آیا کہ ادھر فالتو آگ نہیں ہوتی، ادھر جو لوگ آتے ہیں وہ اپنی آگ ساتھ لے کر آتے ہیں، تو ایسی ہی آگ شاعروں اور ادیبوں کے سینوں میں جلتی ہے اور یہ آگ کوئی دوسرا نہیں لے سکتا اور اس آگ کو حاصل کرنے کے لیے شاعر یا ادیب ہونا ضروری ہے‘‘ (جہنم کی آگ، ص۳۸)
حمید اختر صاحب نے اپنے مضمون میں حیرت کا اظہار کیا ہے کہ فخر زمان صاحب، بیک وقت مختلف النوع ذمہ داریوں سے کیسے نمٹتے ہیں:
’’میرے لیے یہ امر واقعی حیرت کا باعث ہے کہ کوئی بھی لکھنے والا اتنے وسیع پیمانے پر عملی کام کیسے کر سکتا ہے جیسا کہ فخر زماں تسلسل کے ساتھ کر رہا ہے۔ وہ محض قلم کی طاقت پر ہی بھروسہ نہیں کرتا بلکہ ملک کی سیاسی زندگی میں بھی عملی طور پر برابر شریک رہا ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے سربراہ کی حیثیت میں اس نے حیرت انگیز تنظیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ میرے سامنے ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ کوئی لکھنے والا عملی سیاست میں آیا یا روزانہ صحافت سے منسلک ہوا تو اس کے لکھنے کی رفتار مدھم پڑ گئی، احمد ندیم قاسمی کی مثال میرے سامنے ہے، وہ بہت زیادہ لکھنے والے تھے لیکن امروز کی ادارت کے زمانے میں اور بعد ازاں روزانہ کالم لکھنے کی وجہ سے ان کے لکھنے کی رفتار میں نمایاں کمی آ گئی، فیض صاحب نقش فریادی کی اشاعت کے بعد فوج میں چلے گئے وہاں سے فارغ ہوئے تو پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر ہو گئے، چھ سات برس کے اس عرصے میں ان کی دو یا تین نظمیں سامنے آئیں، اس کے بعد کا جو کلام ہے وہ ان کے چار سالہ جیل کے زمانے کی دین ہے۔ مگر فخر زماں ایسا لکھنے والا ہے جو غیر ادبی اور سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں پوری طرح سرگرم رہنے کے زمانے میں بھی اپنے اصل کام یعنی ادب تخلیق کرنے کے عمل سے کبھی غافل نہیں ہوا‘‘ (عزم و استقلال کا کوہِ گراں، ص۴۰)
حمید اختر صاحب یہ کہنے سے یا تو کچھ جھجھک رہے ہیں کہ معیار سے قطع نظر ، مقدار و مواد کی حد تک فخر زمان اپنے تخلیقی عمل سے کبھی غافل نہیں ہوئے، یا احمد ندیم قاسمی اور فیض احمد فیض کی مثالیں دے کر قارئین کو اتنا عقل مند خیال کر رہے ہیں کہ ان کے لیے اشارہ ہی کافی ہے ، اس لیے خوامخواہ فخر زمان کی براہ راست مخالفت مول لینے کا کیا فایدہ؟ البتہ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اشارے کنائے کے بجائے کھل کر نشاندہی کی ہے کہ فخر زمان علمی و عملی لحاظ سے قبائلی طور طریقے اپنائے ہوئے ہیں۔ انسانی تہذیب کے مختلف مدارج طے کرتے وقت قبائلی سطح کو کس درجے میں رکھا جاتا ہے، اہلِ علم سے یہ امر پوشیدہ نہیں۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے درست کہا ہے کہ تہذیب کی اس سطح پر ’اگرمگر‘ کی گنجایش نہیں ہوتی، فقط ہدف پیشِ نظر ہوتا ہے ۔ آج کے دور میں وہ ہدف ، عہدے پلاٹ یا زمینوں وغیرہ کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے جسے ڈاکٹر صاحب نے ’نتیجہ‘ کا خوبصورت عنوان دیا ہے:
’’فخر زماں A man in hurry کا جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ یہ شخص اسباب و علل کی جمع تفریق سے بہت پہلے نتیجہ متعین کرنے والے الٹے دماغ کے آدمی ہیں اور وہ نتیجہ بھی بہت بڑامانگتے ہیں۔ عوامی فلاح سے انکار پر مشتمل سرکاری قوانین کے ہر پیچ و خم کو ملیا میٹ کرتا ہوا فخر زماں بہر صورت اپنے مقررہ نیک ہدف تک پہنچنے کو روانہ ہوتا ہے۔ وہ کوئی ’اگر، مگر‘ کی صدائیں نہیں سنتا اس لیے کہ دل و دماغ، کان، ناک، آنکھ، زبان سب کے سب ہدف تک رسائی کے لیے وقف ہو چکے ہوتے ہیں۔ ہمیں ان کا یہ قبائلی انداز پسند ہے۔ جب جدید سرمایہ داری طریقے رائج نہیں ہوتے تو کم ازکم ہمارا اپنا دیہی طریقہ ہی چلایا جائے۔ جب کوئی منظم ساتھی نہ ہوں تو فخر زماں حق بجانب ہیں کہ وہ جلد از جلد وہ سب کچھ کر گزریں جو ایک بن سپاہ کا جرنیل کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔‘‘ (یک نفری فوج کا سپہ سالار، ص۴۸)
ڈاکٹرسلیم اختر نے ڈاکٹر شاہ محمد مری کے بیان کردہ قبائلی نکتے کے پرخچے اڑا دیے ہیں ۔ قبائلی سائیکی Assertion کی حامل ہوتی ہے جبکہ ڈاکٹر سلیم اختر کے مطابق فخر زمان مفاہمت کا حامی ہے ، اس لیے پنجابی زبان کے فوبیا میں مبتلا ہونے کے باوجود دوسری زبانوں کے وجود کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ ناگزیر خیال کرتا ہے:
’’وہ جس طرح سیاست میں آمریت کے خلاف ہے اسی طرح زبانوں میں بھی کسی ایک زبان کی تخت نشینی اور آمریت کے خلاف ہے۔ اس کے مفاہمتی رویہ کو لسانی جمہوریت قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘ (گرم دمِ جستجو، ص۴۹)
افضال شاہد صاحب نے فخر زمان کی جارحیت اور پیش قدمی کو سراہا ہے۔ ان کے خیال میں فخر زمان کی ڈکشنری میں پسپائی کا لفظ ہی نہیں ہے۔ وہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ فخر زمان محبت اور جنگ میں ’سب جائز‘ کے قائل ہیں۔ یعنی وہی مذکورہ قبائلی انداز کہ فقط ہدف پر نظر رکھی جائے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے طور طریقے کیا کسی ادیب اور سیاست دان کے شایانِ شان ہیں؟۔ کیا میکاولی کا مقولہ End Justifies the means کسی مہذب قوم کے لیے قابلِ قبول ہو سکتا ہے؟ہاں البتہ ، قبائلی سائیکی Assertion سے مطابقت پزیر ضرور ہو سکتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے کہ افضال شاہد نے کتنے دل فریب اسلوب میں عدم اخلاقیات کی ترجمانی کی ہے اور سہرا بے چارے فخر زمان کے سر باندھ دیا ہے:
’’غالباََ یہ نپولین بونا پارٹ سے منسوب ہے۔ کسی ایک مشکل محاذ پر اس نے اپنے ایک معتمد سالار کو بھیجا۔ معرکہ بڑاجان جوکھوں کا تھا۔ اس دور میں ہر میدان میں فوج کے ساتھ ایک بگل بجانے والا ہوتا تھا جو سالار کے کہنے پر حملہ(ATTACK) اور کسی ضروری مرحلے پر فوجی حکمتِ عملی کے تحت پسپا ہونا (RETREAT) بجایا کرتا تھا تا کہ فوج کا کم سے کم جانی نقصان ہو۔ اس معرکے میں بھی ایک وقت ایسا آیا جب سالار نے محسوس کیا کہ فوج بری طرح گھیرے میں آ چکی ہے اب وقتی طور پر پسپائی اختیار کرنا ضروری ہے۔ اس نے بگلییر سے کہا کہ فوراََ RETREAT بجاؤ۔ اس نے ATTACKبجا دیا۔ میدانِ جنگ میں معجزے تو ہوتے ہی ہیں۔ فوج اتنی دلیری سے دوبارہ حملہ آور ہوئی کہ دشمن کے چھکے چھوٹ گئے اور وہ میدانِ کارزار چھوڑ کر بھاگ گیا۔ معرکہ فتح ہو گیا مگر بگل بجانے والے نے چونکہ سالار کی حکم عدولی کی تھی اس لیے فوجی قانون کے مطابق اسے موت کی سزا سنا دی گئی۔ عین اس وقت جب اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کیا گیا تھا، نپولین اپنے سالار کو مبارک باد دینے آن پہنچا۔ اس نے جب یہ منظر دیکھا تو حیران ہوا۔ پوچھا کہ کس کو موت کے گھاٹ اتار جا رہا ہے۔ سارا ماجرا سنایا گیا۔ نپولین نے کہا اس کی آنکھوں سے پٹی ہٹاؤ، ہٹائی گئی، نپولین اسے دیکھ کر مسکرایا اور کہنے لگا اسے چھوڑ دو، یہ بے قصور ہے۔ یہ میرا بگلیئر رہا ہے میں نے اسے RETREAT بجانا سکھایا ہی نہیں۔ فخر زماں بھی ایسا ہی سپہ سالار ہے جسے نہ تو خود یہ دھن بجانا آتی ہے اور نہ ہی انہوں نے اپنے کسی سپاہی کو RETREAT بجانا سکھایا ہے۔‘‘ (RETREAT بجانا نہیں سکھایا، ص۶۴، ۶۵)
زیرِ نظر تالیف میں ڈاکٹر مزمل حسین نے شبیر احمد صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ ان کے نقد (ص۳۶)پر نقد کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں:
’’ فاضل نقاد نے فخر زمان ایسے انقلابی اور مزاحمتی تخلیق کار کے باطن میں جھانکا نہیں۔ اگر تاریخِ عالم پر نگاہ ڈالیں تو دنیا کے عظیم مزاحمت کار اور انقلابی اندر سے بہت دور تک گداز، رحم دل اور جمالیاتی رویوں سے لبریز ہوتے ہیں۔ یزیدیت کا گریبان پکڑنے والے انقلابی نہیں عساکر ہوا کرتے ہیں اور ان کا حربہ لفظوں کے بجائے آتشیں اسلحہ ہوتا ہے اور اکثر ایسے انقلاب کے نتیجے میں تشدد جنم لیتا ہے اور یہ عارضی اور ہنگامی نتایج پر منتج ہوتا ہے ، جبکہ ادب آرٹ اور شاعری ایسے انقلاب اور مزاحمت کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے جو تہذیب، احترامِ انسانیت، کائناتی محبت، رواداری، جمہوریت اور انسان دوستی کو جنم دیتی ہے۔ فخر زمان ، شاہ حسین اور بلھے شاہ کی مدھر کافیاں، وارث شاہ کی نشیلی شاعری اور رانجھے کی ونجھلی کی تان میں انقلاب کے گیت الاپتا ہے۔ سماجی اور سیاسی شعور رکھنے والا یہ آرٹسٹ ایسے انقلاب کا متقاضی ہے جو ذلتوں کے مارے لوگوں کو انسانیت کی اعلیٰ ترین منزل تک پہنچا دے گا۔‘‘ (فخر زمان کا تصورِ فن، ص۶۸)
اس نقد کا جواب شبیر صاحب کے ذمے ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں نکتہ ہائے نظر میں جوہر کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ، البتہ تعبیر کا فرق ضرور ہے۔ اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ مباحثہ جوہری مماثلت اور تعبیری فرق کی خاطر خواہ صراحت کر سکتا ہے۔ اگر یونی ورسٹی آف گجرات اس آزادانہ مباحثے کا اہتمام کرے تو ادب اور ملک و قوم کی خدمت ہو گی۔ بہرحال! ڈاکٹر مزمل صاحب نے اپنی فکر کے مخصوص رخ کا قدرے تفصیلی اظہار کیا ہے:
’’ تصوف یا صوفیانہ طرزِ احساس مشرقی ادبیات اور شعریات میں ایک توانا روایت کی شکل میں موجود ہے۔ تصوف کسی فلسفہ یا ڈسپلن کا نام نہیں بلکہ یہ ایک رویے کا نام ہے۔ یہ ہمیشہ مثبت سوچ، اعلیٰ تخیل اور پوتّر ذہن رکھنے والے کے یہاں اپنا ٹھکانہ بناتا ہے۔ تنہائی، اکلاپا، وچھوڑا، ہجر اور جدائی، انسانی دلوں کی اداس کہانیاں ہیں، کسی نہ کسی سطح پر یہ ہر انسان کا مقدر ہوتی ہیں۔ بڑا ذہن ان کہانیوں سے بڑی تخلیق کو سامنے لاتا ہے اور زمانے میں بڑے واقعات پیدا کرنے کے لیے کسی مثبت Inspiration کا سبب بنتا ہے، یقیناََ اس کے فکری تناظر میں اس کا صوفیانہ طرزِ احساس کبھی مبہم اور کبھی واضح شکل میں ہی موجود رہتا ہے۔‘‘ (فخر زمان کا تصورِ فن، ص۶۹)
ڈاکٹر صاحب کے خیالات سے اختلاف کرنا کافی مشکل ہے ، لیکن اس حوالے سے ان سے اتفاق کرنا بھی اتنا ہی مشکل ہے کہ ان کے گراں قدر نقد کا سزاوار ، فخر زمان کا تصورِ فن نہیں ہو سکتا۔ اگر ڈاکٹر صاحب اپنی تخلیقی فکر کا مصداق فخر زمان کو قرار دینے پر مصر ہیں اور تالاب کو سمندر ثابت کرنا چاہتے ہیں تو ہم ادباً خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ۔
زیرِ نظر کتاب کے ایک مدون شیخ عبدالرشید نے فخر زمان کے ’سرکاری پن‘ پر بڑی دلچسپ چوٹ کی ہے:
’’ انہوں نے اردو میں زیادہ تر شعر تب کہے جب وہ فیملی پلاننگ کے افسر تھے، اردو میں فخر کے صرف دو شعری مجموعے فیملی پلاننگ کے نعرے’بچے دو ہی اچھے‘ کا عملی ثبوت ہیں۔‘‘ (فخر زمان کی اردو شاعری کا مختصر جائزہ، ص۱۱۷)
ڈاکٹر مزمل اور شبیر صاحب کی بحث کا انتقادی امتزاج شیخ عبدالرشید کے ہاں ملتا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں :
’’ عمرانی تجربوں نے ثابت کیا ہے کہ ہر وہ عمل جو زندگی کی وضاحت و تشریح نہیں کرتا ، ایک بے کار سی چیز ہے۔ چنانچہ شعری کینوس پر جب تک خارجی اور داخلی کیفیات کا بھرپور اظہار نہ ہو ، اس وقت تک وہ عمرانی معاہدوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتی اور محض ایک اسطورہ بن کر رہ جاتی ہے۔ فخر زمان کے سامنے بھی دو راستے تھے ایک وہ جو گل و بلبل کی وادی سے گزرتا ہے اور حسن و عشق کے عارضی و سطحی احساسِ نشاط کو جنم دیتا ہے ، دوسری طرف وہ راستہ جہاں حقیقت پسندی کی سنگلاخ چٹانوں میں فن کا فرہاد بن کر تیشے سے کام لینا پڑتا ہے، فخر زمان نے دوسرا راستہ اپنایا۔‘‘ (فخر زمان کی اردو شاعری کا مختصر جائزہ، ص۱۱۷)
معاشرے سے کٹا ہوا اور ادبی لطافت سے بے بہرہ بے ڈھنگا شعر شیخ عبدالرشید کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ مجموعی معاشرتی صورتِ حال پر گہری نظر رکھنے کے علاوہ یہ درحقیقت فن کار کے داخلی احساسات کی رقاقت کا کرشمہ ہے کہ اچھا اور تخلیقی ادب منصہ شہود پر آتا ہے:
’’ جمالیاتی خوبی اور سماجی افادیت کا امتزاج اچھے شعر کی مجموعی قدر ہے۔ چنانچہ اچھا شعر وہ ہے جو فن کے معیار پر نہیں زندگی کے معیار پر پورا اترے۔ ہنڈرسن کا خیال ہے کہ’’ شاعر معاشرے کا ایک ایسا رکن ہوتا ہے جس کی جلد (Skin) دوسرے افرادِ معاشرہ کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی باریک اور نازک ہوتی ہے۔‘‘ یعنی شاعر زمانے کے گرم سرد کو دوسروں سے کچھ زیادہ ہی شدت سے محسوس کرتا ہے۔ شعر میں فکر و احساس کی ہم آہنگی نہ ہو تو اس کا شعر ہونا مشکوک ہو جاتاہے۔ فخر زمان کو اپنے وقت کے شکستہ انسان، زخمی محسوسات، درد و غم، بے بسی، لا حاصلگی اور خستگی کی کیفیت کا پورا پورا احساس ہے جو آج کے انسان کا مقدر بن گئی ہے۔‘‘ (فخر زمان کی اردو شاعری کا مختصر جائزہ، ص۱۲۱)
اسی مضمون میں شیخ صاحب نے فخرزمان کے شعروں کا انتخاب بھی پیش کیا ہے جس سے ایک طرف شیخ صاحب کی افتادِ طبع اور دوسری طرف شاعر کی موزونی طبع کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے:
میں اک چوراہے پہ جا کے اکثر
کھڑا کھڑا دل میں سوچتا ہوں
یہ چاروں سڑکیں یہاں پہ آ کر
بچھڑ رہی ہیں کہ مل رہی ہیں
یہ جینا بھی کیا جینا ہے
خود اپنا لہو ہی پینا ہے
نئے طریق سے برسات اب کے آئی ہے
کہ لوگ ریت کے گھر بھی بنائے جاتے ہیں
کس کس کو دکھاتے رہیں جیبوں کے یہ سوراخ
ہر موڑ پہ کشکول لیے لوگ کھڑے ہیں
لمحوں کا بھنور چیرکے انسان بنا ہوں
احساس ہوں میں وقت کے سینے میں گڑا ہوں
زیرِ نظر کتاب میں تنقیدی مضامین و اشعار کے انتخاب کے ساتھ ساتھ جہاں فخر زمان کی زندگی کے مختلف ادوار کی تصاویر شائع کی گئی ہیں وہاں دو انٹرویوز بھی پیش کیے گئے ہیں۔ خاص طور پر گجرات ٹائمز کا انٹرویو ، جو شیخ عبدالرشید نے کیا ہے ، فکری و تیکھے سوالات پر مشتمل ہونے کے باعث قابلِ مطالعہ ہے۔ان انٹرویوز سے بلاشبہ کتاب کی افادیت میں بہت اضافہ ہوا ہے ۔ شیخ صاحب نے فخر زمان کو منظوم خراجِ عقیدت (دھرتی زادہ ،ص۲۶۸)پیش کرکے اپنی بے پایاں محبت کا اظہار اس طرح کیا ہے:
بھنگڑوں اور گدّوں کے پِڑ میں
پر اسرار سی خاموشی
ایسے میں وہ دھرتی زادہ
اپنے ہاتھوں میں پھولوں کی اک ڈال لیے
ساری دھرتی کی رتوں کو جی آیاں نوں کہتا ہے
’’فخر زمان:کل اور آج‘‘ اس اعتبار سے جامعیت کی حامل ہے کہ اس میں اردو کے علاوہ پنجابی ، گرمکھی اور انگلش زبان کو بھی جگہ فراہم کی گئی ہے۔ پنجابی اور گرمکھی سے بوجوہ صرفِ نظر کرتے ہوئے ہم انگلش سیکشن میں سے ایک قابلِ غور اقتباس پیش کرنا چاہیں گے جس کے مصنف پروفیسر راشد بٹ ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:
Fakhar Zaman's plays are short and do not require long reading sessions. Knitting such plays is difficult in the sense that conclusion or end may create an impression that the element of probability, necessity or logicality has been damaged because of a short gap between beginning and end. This, however, is not the case with Fakhar's plays. Moving from the beginning to the end, he shows a perfect art of "precision in brevity" and does not let the readers and viewers feel that something is missing. (Fakhar Zaman's Dramatic Art, p. 13)
فخر زمان کے نثر پاروں کی بابت پروفیسر راشد بٹ کا یہ تبصرہ کفایت کرتا ہے۔ ’فخر زمان:کل اور آج‘کے مجموعی مطالعہ سے فخر زمان بہت خوش قسمت معلوم ہوتے ہیں کہ انہیں بہت اچھے نقاد ملے۔ گجرات یونی ورسٹی کے ذمہ داران نے فخر زمان کے گجراتی ہونے کے باعث ترجیحی بنیادوں پر یہ کتاب شائع کی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ادبی مقام اور حفظ مراتب ملحوظ رکھتے ہوئے جن گجراتیوں کے بارے میں تالیفات پہلے منظرِ عام پر آنی چاہیں تھیں ، دیر آید درست آید کے مصداق اب ان کی طرف بھی توجہ دی جائے گی، مثلاََ شریف کنجاہی مرحوم، انور مسعود وغیرہ۔
(تبصرہ نگار: میاں انعام الرحمن)
اگست ۲۰۱۰ء
شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کا تجدیدی منصوبہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
آج قارئین کے سامنے ایک پرانی داستان کی یاد تازہ کرنا چاہتا ہوں جو بہت سے دوستوں کو شاید یاد ہوگی۔ کم وبیش ربع صدی قبل کی بات ہے کہ گوجرانوالہ میں دیوبندی مسلک کے علماء کرام اور دیگر متعلقین نے جمعیت اہل السنۃ والجماعۃ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی جس کا مقصد مسلکی معاملات کی بجاآوری اور بوقت ضرورت دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے حلقوں اور جماعتوں کو باہمی اجتماع کے لیے مشترکہ فورم مہیا کرنا تھا۔ یہ جمعیت آج بھی موجود ہے، لیکن زیادہ متحرک نہیں رہی اور صرف علماء کرام تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ابتدا میں دوسرے طبقات کے سرکردہ دیوبندی حضرات بھی اس کا حصہ تھے ،بلکہ اس کے صدر اور سیکرٹری جنرل بھی رہے ہیں۔
شہر کے ایک معروف صنعت کار الحاج میاں محمد رفیق رحمہ اللہ تعالیٰ اس دور میں جمعیت اہل السنۃ والجماعۃ کے صدر تھے۔ ان کا شیخوپورہ روڈ پر الہلال فونڈری کے نام سے کارخانہ تھا۔وہ حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی رحمہ اللہ تعالیٰ کے حلقۂ درس سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے قریبی عقیدت مندوں اور معتمدین میں سے تھے۔ان کے زیرصدارت ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ شہر کے وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے اپنی عمارات میں مزید توسیع کا متحمل نہیں ہے ،اس لیے جی ٹی روڈ پر کوئی بڑا مدرسہ قائم ہونا چاہیے اور اس میں دینی علوم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کو بھی نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے۔ یہ بات مدرسہ نصرۃ العلوم کے ابتدائی مقاصد میں بھی شامل تھی اور حضرت مولانا صوفی عبدالحمیدسواتی رحمہ اللہ نے ۱۹۵۲ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے آغاز کے موقع پر ’’ہمارا تعلیمی وتبلیغی لائحہ عمل‘‘ کے عنوان سے جو پمفلٹ شائع کیا تھا،اس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا ،لیکن حالات ووسائل کی نامساعدت کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔
والد محترم حضرت مولانا محمد سرفرازخان صفدرؒ ، عم مکرم حضرت مولانا عبدالحمیدسواتیؒ اور راقم الحروف کو جمعیت اہل سنت میں ابتدا سے ہی سرپرست کی حیثیت حاصل رہی ہے ،بلکہ ہمارے ایک مسلکی حریف بزرگ جو اب مرحوم ہوچکے ہیں، ہم تینوں کا ’’باپ، بیٹا اور روح القدس‘‘ کے عنوان کے ساتھ تعریضاً ذکر کیا کرتے تھے، چنانچہ رسمی سرپرست کے طور پر بھی اس فیصلے اور اس پر عملدرآمد کے مختلف مراحل میں شریک کار رہا ہوں ،جبکہ ہمارے ایک پرانے دوست حافظ عبدالماجد ایڈووکیٹ اس دور میں جمعیت اہل السنۃ والجماعۃ کے سیکریٹری جنرل تھے۔
ہم نے جی ٹی روڈ پر لاہور کی طرف جاتے ہوئے اٹاوہ کے قریب ریلوے پھاٹک کی دوسری طرف اٹھائیس ایکڑ زمین خرید کر ’’نصرۃ العلوم اسلامی یونیورسٹی‘‘ کے نام سے اس منصوبے کا آغاز کیا۔ حضرت مولانا محمد سرفرازخان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتیؒ اس منصوبے کے بڑے سرپرست تھے اور انہوں نے ایک عرصہ تک اس کی عملی اور متحرک سرپرستی فرمائی مگر حضرت مولانا صوفی صاحبؒ کی رائے یہ تھی کہ یہ پروگرام درست ہے، جسے عمل پذیر ہونا چاہیے، لیکن یہ نیا تجربہ ’’نصرۃ العلوم‘‘ کے نام سے نہ کیا جائے۔ نصرۃ العلوم اپنی روایات کے مطابق اپنی جگہ کام کرتا رہے اور دینی وعصری تعلیم کے امتزاج کا یہ نیا منصوبہ کسی اور عنوان سے شروع کیا جائے چنانچہ ہم نے نام تبدیل کرکے ’’فاروق اعظمؓ اسلامی یونیورسٹی‘‘ کا عنوان اختیار کیا اور اس منصوبے کا دوسرا تعارف اس نام کے ساتھ شائع ہوا۔اسی سلسلہ میں حضرت صوفی صاحبؒ کے ساتھ ایک روز مشاورت ہورہی تھی تو انہوں نے فرمایا کہ ’’بھئی! جس کے پروگرام پر کام کرنا چاہتے ہو اس کا نام کیوں نہیں لیتے؟‘‘
ہم سمجھ گئے کہ وہ اس پروگرام کو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے اسم گرامی کے ساتھ موسوم کرنا چاہتے ہیں، اس لیے ہم نے دوسری دفعہ اس کا نام تبدیل کرکے ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کے عنوان کے ساتھ کام کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس مقصد کے لیے ’’شاہ ولی اللہ ٹرسٹ‘‘ کے نام سے ایک باقاعدہ ادارہ قائم کیا گیا، ٹرسٹ کے بنیادی ارکان چھ تھے:
(۱) حضرت مولانا محمد سرفرازخان صفدرؒ
(۲) حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتیؒ
(۳) الحاج میاں محمد رفیقؒ
(۴) الحاج شیخ محمد اشرف مرحوم
(۵) الحاج عزیز ذوالفقاراور
(۶) راقم الحروف ابوعمار زاہدالراشدی۔
’’باپ، بیٹا اور روح القدس‘‘ تینوں کو سرپرست کا درجہ دیاگیا۔ الحاج میاں محمدرفیقؒ ٹرسٹ کے چےئرمین اور الحاج شیخ محمد اشرف مرحوم اس کے سیکریٹری جنرل چنے گئے اور ٹرسٹ کو باضابطہ طور پر رجسٹرڈ کرالیا گیا۔الحاج عزیز ذوالفقار بھی شہر کے بڑے صنعت کار ہیں ،مگر وہ ابتداسے ہی اس پورے منصوبے سے لاتعلق رہے ،بلکہ بعد میں اس سے استعفا بھی دے دیا۔ اس لیے ٹرسٹ کے عملی ارکان پانچ ہی رہے، اس کے ساتھ ’’شاہ ولی اللہ ویلفےئرایجوکیشنل سوسائٹی‘‘ کے نام سے ایک اور ادارہ رجسٹرڈ کرایا گیا ،جس کی مشاورت اور دیگر معاملات میں شہر کے سرکردہ علماء کرام، پروفیسر حضرات اور تاجروصنعت کار دوستوں کو شریک کیا گیا۔زمین ٹرسٹ کے نام سے خریدی گئی اور تعلیمی وانتظامی امور سوسائٹی کے تحت انجام دیے جاتے رہے۔ بلڈنگ کا ایک حصہ تعمیر ہونے کے بعد ہم نے وہاں ’’شاہ ولی اللہ کالج‘‘ کے نام سے ایک تعلیمی پروگرام کا آغاز کیا جس کے تحت گوجرانوالہ تعلیمی بورڈ اور پنجاب یونیورسٹی کے نصاب کے تحت بی اے تک کالج کی تعلیم کی کلاس شروع کی گئی اور اس نصاب میں ضروری دینی تعلیم کو سموکر مشترکہ نصاب کا تجربہ شروع ہوا۔ ہمارے ساتھ شہر کی معروف تعلیمی شخصیت اور سینےئر استاذ پروفیسر غلام رسول عدیم بھی شروع سے آخر تک متحرک رہے ،جو گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں شعبۂ اردو کے سربراہ رہے ہیں۔ نصرۃ العلوم میں دورۂ حدیث میں ایک سال شریک رہے ہیں اور حضرت والدمحترم کے تلامذہ میں سے ہیں۔ راقم الحروف اس پروگرام کے تعلیمی بورڈ کا چےئرمین اور پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال لون سیکریٹری تھے، جبکہ راقم الحروف اس کالج کا ایڈمنسٹریٹر بھی تھا۔
اس پروگرام میں ہم نے درس نظامی کے فضلا کے لیے ایک کورس کا آغاز کیا ،جس کی بنیاد اس پر تھی کہ دینی مدارس کے وفاقوں کی اسناد کو ’’یونیورسٹی گرانٹس کمیشن‘‘ نے اس شرط پر ایم ۔اے اسلامیات وعربی کے برابر تسلیم کررکھا تھا کہ وہ اس سند کی بنیاد پر صرف تعلیمی شعبہ میں کام کرسکیں گے ،جبکہ دوسرے شعبوں میں اس سند کے ساتھ جانے کے لیے انہیں پانچ سو نمبر کا بی ۔اے کا ایک خصوصی امتحان دینا ہوگا۔ اس میں کامیابی پر ان کی سند کو مکمل ایم۔ اے کے برابر تسلیم کیا جائے گا۔ ہم نے یہ پروگرام بنایا کہ درس نظامی کے فضلاء کو اس خصوصی امتحان کے لیے ایک سال میں تیاری کرائی جائے وار ان کے لیے ایم فل اور پی ایچ ڈی میں آگے پڑھنے کے لیے راستہ ہموار کیا جائے، چنانچہ کالج اور درس نظامی کے فضلاء کے یہ دونوں تعلیمی پروگرام شروع کیے گئے اور ہماری دو تین کلاسیں بی ۔اے تک پہنچیں ،جبکہ فضلا کی دو کلاسوں نے بھی پنجاب یونیورسٹی سے پانچ سو نمبر کے بی ۔اے کے خصوصی امتحان کا مرحلہ عبور کیا ،مگر اس کے بعد دو وجہ سے اس پروگرام میں رکاوٹ پیدا ہونا شروع ہوگئی:ایک ،یہ کہ پنجاب یونیورسٹی نے ہمیں اس پروگرام کے تحت آگے بڑھنے کی سہولت دینے سے انکار کردیا اور ہمارے فضلا بی ۔اے کا خصوصی امتحان دینے کے بعد بھی آگے نہ بڑھ سکے ،جس کی وجہ سے درس نظامی کے فضلا والا یہ کورس اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکا۔ دوسری وجہ ،یہ بنی کہ ہماری باہمی انڈر اسٹینڈنگ کمزور پڑنے لگی۔ اس منصوبے کے لیے سب سے زیادہ محنت، اخراجات اور وقت الحاج میاں محمد رفیق رحمہ اللہ تعالیٰ نے صرف کیا اور سب سے زیادہ انہوں نے قربانی دی ،لیکن چونکہ وہ تعلیمی مزاج اور میدان کے لوگ نہیں تھے ،اس لیے انتظامی وتعلیمی معاملات میں اختلافات کا سلسلہ شروع ہوگیا ،جو رفتہ رفتہ اس نتیجے تک پہنچا کہ میں نے اس منصوبے سے عملاً علیحدگی اختیار کرلی ،حتیٰ کہ مختلف وجوہ کی بنا پر ’’باپ، بیٹااورروح القدس‘‘ تینوں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی سے عملاً لاتعلق ہوگئے ۔اس کے بعد الحاج میاں محمد رفیقؒ ، شیخ محمد اشرفؒ ، میاں محمد عارف اور پروفیسر غلام رسول عدیم اور ان کے رفقاء میدان میں رہ گئے ۔ان حضرات نے بہت محنت کی اور کیڈٹ کالج، میڈیکل کالج، ہسپتال اور انجینئرنگ کالج کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے کئی برس صرف کیے ،لیکن کسی منصوبے میں کامیابی حاصل نہ کرسکے البتہ میاں محمدرفیق صاحب مرحوم کی محنت، خلوص اور ایثار وقربانی کے باعث بڑی بڑی بلڈنگیں تعمیر ہوتی رہیں اور انہوں نے دن رات ایک کرکے سیکڑوں وں کمروں پر مشتمل بڑی بڑی عمارتیں اور ایک بڑی مسجد کھڑی کردی۔
راقم الحروف نے پروگرام سے علیحدگی تو اختیار کرلی لیکن کھلے بندوں اس کی مخالفت نہیں کی اور ایک ٹرسٹی کے طور پر خاموش تعلق باقی رکھا ،حتیٰ کہ اکادکا پروگراموں میں بھی شریک ہوتا رہا۔ ٹرسٹ کے سیکریٹری جنرل الحاج شیخ محمد اشرف چند سال قبل انتقال کرگئے، جبکہ چےئرمین الحاج محمد رفیقؒ کا ابھی چند ماہ قبل انتقال ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت والدمحترمؒ اور حضرت صوفی صاحبؒ کا بھی ایک سال کے وقفہ سے انتقال ہوگیا تو ٹرسٹ کے ارکان میں سے صرف میں ہی موجود تھا ،جبکہ عملاً کام کرنے والوں میں میاں محمد رفیق صاحب مرحوم کے دو بیٹے میاں محمد توفیق صاحب، میاں محمد توقیر صاحب اور پروفیسر غلام رسول عدیم صاحب اپنے دیگر رفقا کی ٹیم کے ساتھ متحرک تھے اور ہائی اسکول کی سطح کے ایک تعلیمی سلسلہ کے علاوہ ایک ڈسپنسری عملاً کام کررہی تھی۔ محترم میاں محمد رفیق صاحب مرحوم کی وفات کے بعد اس ورکنگ ٹیم نے محسوس کیا کہ کام کو اس رخ پر آگے نہیں بڑھایا جاسکتا اور کروڑوں روپے کے یہ منصوبے چلانا اس ٹیم اور گوجرانوالہ کے لوگوں کے بس میں نہیں ہے، اس کے لیے کسی بڑے ادارے سے رجوع کرنا چاہیے۔ ان حضرات نے مجھ سے رابطہ قائم کرکے اس صورت حال سے آگاہ کیا تو میرے دل میں فطری طور پر پہلی خواہش یہی تھی کہ اس منصوبے کو اپنی اصل کی طرف لوٹا دیا جائے اور ’’جامعہ نصرۃ العلوم‘‘ اس کو سنبھال لے مگر میری دیانتدارانہ رائے یہ تھی کہ عملاً ایسا نہیں ہوگا ۔اس لیے میں نے نصرۃ العلوم کے منتظمین کو جو میرے عزیز ہی ہیں، آگاہ کیا کہ اگرچہ میری پہلی خواہش یہی ہے لیکن عملاً مجھے یہ ممکن نظر نہیں آرہا۔ اس لیے میں سوچتا ہوں کہ بجائے اس کے کہ اس زمین اور بلڈنگ پر حکومت یا کوئی اور ادارہ قبضہ کرلے ہم خود کسی اچھے ادارے سے رابطہ کرکے اسے اس کے حوالہ کردیں۔ میری اس رائے سے پروفیسر غلام رسول عدیم صاحب اور الحاج میاں محمد رفیق مرحوم دونوں بیٹوں میاں محمد توفیق صاحب اور میاں محمد توقیر صاحب نے بھی اتفاق کیا اور محترم محمد رفیق صاحب مرحوم کی وفات کے وقت مشاورت کا جو نظام موجود تھا ،اس میں شریک حضرات کے ساتھ مختلف نشستیں منعقد کرنے کے بعد ان کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا۔
میاں محمدتوفیق صاحب اور میاں محمد توفیق صاحب نے جو میاں محمد رفیق صاحب مرحوم کی وفات کے بعد اس ادارے کے عملاً منتظم تھے ،اس مقصد کے لیے مختلف اداروں کے نام لیے تو ان میں ایک نام ’’جامعۃ الرشید‘‘ کا بھی تھا جو میرے لیے انتہائی خوشی کا باعث بنا ،اس لیے کہ میں کئی بار اس بات کا اظہار کرچکا ہوں کہ جامعۃ الرشید کراچی میرے ان خوابوں کی عملی تعبیر ہے ،جو تعلیمی شعبہ کے حوالے سے ایک عرصہ سے دیکھتا آرہا ہوں اور جس کے لیے شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کا پروگرام شروع کیا گیا تھا ۔اس لیے جب میاں محمد رفیق صاحب مرحوم کے بیٹوں نے ’’جامعۃ الرشید‘‘ کا نام لیا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور میں سالہاسال کی لاتعلقی کے بعد صرف اس لیے اس پروگرام کے ساتھ دوبارہ منسلک ہوگیا تاکہ اپنی نگرانی میں اس اچھی خواہش کو تکمیل تک پہنچا سکوں۔ الحاج میاں محمد رفیق صاحب مرحوم کی وفات کے وقت کام کرنے والے ورکنگ گروپ اور مشاورتی نظام کے ساتھ تفصیلی گفتگو کے بعد میں نے ان کی طرف سے جامعۃ الرشید کراچی میں حاضری دی اور حضرت مولانا مفتی عبدالرحیم صاحب دامت برکاتہم سے ذاتی طور پر درخواست کی کہ وہ ہمارے دوستوں کی اس خواہش اور پیشکش کو قبول کریں تاکہ گوجرانوالہ کے سینکڑوں لوگوں کی خلوص کے ساتھ لگی ہوئی وہ رقوم صحیح مصرف کی طرف لوٹ سکیں جو اس منصوبے پر اب تک خرچ ہوچکی ہیں اور خاص طور پر حضرت مولانا محمدسرفرازخان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبدالحمیدسواتیؒ جیسے بزرگوں کی دعائیں اور سرپرستی اس کی پشت پر رہی ہیں، اس پر جامعۃ الرشید کے شورائی نظام نے تفصیلی غور کیا اور ہمارے ساتھ بھی متعدد نشستیں ہوئیں جس کے بعد بحمداﷲتعالیٰ یہ بات طے پاگئی کہ جامعۃ الرشید کراچی کو چلانے والی مجلس علمی شاہ ولی اللہ ٹرسٹ اور شاہ ولی اللہ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے پورے نظام کو اپنی تحویل میں لے گی اور اسے جامعۃ الرشید کراچی کے ’’شاہ ولی اللہ تعلیمی پروجیکٹ‘‘ کے نام سے چلایا جائے گا، اس کے لیے نیا ٹرسٹ رجسٹرڈ کرایا جائے گا جس میں میاں محمد رفیق، میاں محمد توقیر اور راقم الحروف بھی شریک ہوں گے ،مگر اس کا پورا تعلیمی، مالیاتی اور انتظامی کنٹرول جامعۃ الرشید کی مجلس شوریٰ کے ہاتھ میں ہوگا۔
اس معاہدہ کے بعد جامعۃ الرشید نے شاہ ولی اللہ ٹرسٹ کے تحت تمام شعبوں کا انتظام سنبھال لیا ہے اور رمضان المبارک کے بعد کلاسوں کے باقاعدہ اجراء کے ارادے کے ساتھ اس کے مطابق بلڈنگوں کی تیاری اور مرمت کا کام شروع کردیا ہے۔مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ جو منصوبہ میرے دو بزرگوں کی دعاؤں اور سرپرستی سے شروع ہو اتھا، جس میں خود میرے کم وبیش دس سال صرف ہوئے ہیں اور جس میں گوجرانوالہ شہر کے بہت سے دیگر مخلصین کے ساتھ الحاج میاں محمد رفیق مرحوم کی محنت، ایثار اور قربانیوں کا بڑا حصہ شامل ہے یہ منصوبہ ضائع ہونے سے بچ گیا ہے اور اچھے لوگوں کے ہاتھ میں چلا گیا ہے، میں جامعۃ الرشید کو اس نئے منصوبے کے آغاز پر تہِ دل سے مبارک باددیتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت جامعۃ الرشید کے ہاتھوں اس عظیم پروگرام کو شروع کرنے والوں کی نیتوں اور ارادوں کے مطابق تکمیل تک پہنچانے کی توفیق دیں !آمین یا رب العالمین۔ میری ملک بھر کے احباب سے اپیل ہے کہ وہ اس پروگرام کی کامیابی لیے پرخلوص دعاؤں کے ساتھ ساتھ عملی تعاون سے بھی نوازیں۔
عالم اسلام کے تکفیری گروہ: خوارج کی نشاۃ ثانیہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جدہ سے شائع ہونے والے روزنامہ ’’اردو نیوز‘‘ نے ۱۳ جولائی ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں خبر دی ہے کہ سعودی عرب کی وزارت تعلیم وتربیت نے سعودی اسکولوں میں انتہا پسندانہ افکار پھیلانے پر دو ہزار سے زائد اساتذہ کو برطرف کر دیا ہے۔ مشیر معاون وزیر داخلہ برائے فکری سلامتی ڈاکٹر عبد الرحمن الہدلق نے یہ اطلاع دیتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ اساتذہ اسباق میں نصاب تعلیم کے اہداف ومقاصد کو پس پشت ڈال کر انتہا پسندانہ افکار اور تشدد پر مبنی خیالات پھیلا رہے تھے۔ الہدلق نے بتایا کہ ان میں سے بعض اساتذہ انگریزی سکھانے والے استاذ کو محض اس لیے کافر قرار دے رہے تھے کہ ان کی اپنی سوچ کے مطابق انگریزی کا معلم کفر کی زبان کا استاد بنا ہوا ہے۔ یہ لوگ انگریزی کی تعلیم کو کفر کی تعلیم کے مترادف قرار دیے ہوئے تھے۔
مذہبی تعلیمات کی بنیاد پر انتہا پسندی، تنگ نظری اور تشدد کے یہ رجحانات صرف سعودی عرب میں نہیں بلکہ مختلف مسلم ممالک میں موجود ہیں اور اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب سے دو عشرے قبل الجزائر میں دینی جماعتوں کے متحدہ محاذ اسلامک سالویشن فرنٹ نے ملک کے عام انتخابات کے پہلے مرحلے میں ۸۰فی صد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کیے تو اس نے بین الاقوامی اور ملکی سیکولر حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا اور الجزائر میں جمہوری ذرائع سے آنے والی اسلامی حکومت کا راستہ روکنے کے لیے نہ صرف انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے ملک کو فوج کی حکمرانی میں دے دیا گیا بلکہ مغربی استعمار کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ دینی حلقوں اور مذہبی کارکنوں کے خلاف خوفناک آپریشن کا اہتمام کیا گیا جس کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ مذہبی حلقوں نے اس صورت حال کا متفق ہو کر مقابلہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے عائد کر کے الجزائر کے مسلمانوں کو خانہ جنگی سے دوچار کر دیا۔ اس باہمی تکفیر کی مہم کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد بیان کی جاتی ہے اور الجزائر کی دینی سیاست کی قوت اسی میں دم توڑ کر رہ گئی ہے۔
الجزائر کے مذہبی گروہوں میں ایک دوسرے کی تکفیر کی بنیاد پر ہونے والی خانہ جنگی نے قرون اولیٰ کے خارجیوں کی یاد تازہ کر دی جو بات بات پر مسلمانوں کی تکفیر کر کے ان پر چڑھ دوڑتے تھے اور ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔ بصرہ پر خارجیوں کے قبضے کے بعد کم وبیش چھ ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور کوفہ پر خارجیوں کے کمانڈر ضحاک کے تسلط کے بعد بھی یہی صورت حال پیدا ہو گئی تھی مگر امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ کی مداخلت اور فراست وتدبر کے باعث کوفے والوں کی جان بچ گئی۔ خارجی کمانڈر ضحاک نے کوفہ کے گورنر عبد اللہ بن عمر کو، جو حضرت عمر بن عبد العزیز کے فرزند تھے، شکست دے کر کوفے پر قبضہ کر لیا اور جامع مسجد میں ہزاروں خارجیوں کو تلواربکف کھڑا کر کے اعلان کیا کہ کوفہ والے چونکہ مرتد ہو گئے ہیں، اس لیے وہ اس کے ہاتھ پر توبہ کر کے دوبارہ اسلام قبول کریں۔ امام ابوحنیفہ یہ بات سن کر ضحاک کے پاس چلے گئے اور فرمایا کہ ایک بات سمجھنے آیا ہوں کہ آپ نے کوفہ کے عام مسلمانوں کو مرتد قرار دے کر توبہ نہ کرنے اور دوبارہ ایمان قبول نہ کرنے والوں کو قتل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں، میں نے یہ اعلان کیا ہے، اس لیے کہ یہ سب لوگ مرتد ہو گئے ہیں اور مرتد کی سزا اسلامی شریعت میں قتل ہے۔ امام صاحب نے فرمایا کہ مرتد تو وہ ہوتا ہے جو اپنا دین چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کر لے اور ان لوگوں نے اپنا دین تبدیل نہیں کیا۔ وہ بدستور اسی دین پر ہیں جس پر وہ پیدا ہوئے تھے، اس لیے یہ مرتد کیسے ہو گئے؟ یہ بات ضحاک خارجی کو تھوڑی سمجھ میں آئی تو اس نے کہا کہ اپنی بات دوبارہ دہراؤ۔ امام صاحب نے اپنا ارشاد دہرایا تو ضحاک نے اپنی سونتی ہوئی تلوار جھکا دی اور کہا کہ ’اخطانا‘، ہم سے غلطی ہو گئی اور اس نے اپنے ساتھیوں کو تلواریں جھکا دینے کا حکم دے دیا۔ اس طرح حضرت امام اعظم کی فراست وتدبر اور حوصلے کے باعث کوفہ والوں کی جان بچ گئی جس پر حضرت ابو مطیع بلخیؒ فرمایا کرتے تھے کہ ’اہل الکوفۃ کلہم موالی ابی حنیفۃ‘، کوفہ والے سارے کے سارے ابو حنیفہ کے آزاد کردہ غلام ہیں، اس لیے کہ ان کی وجہ سے کوفہ والوں کی جان بچ گئی ہے۔
عالم اسلام کے مختلف حصوں میں اس قسم کے تکفیری اور متشدد گروہوں کو دیکھ کر خوارج کے اس دور کی یاد پھر سے تازہ ہو گئی ہے اور میں علماء کرام سے یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ بات بات پر تکفیر اور اس کی بنیاد پر بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کی نفسیات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے خوارج کی تاریخ کا مطالعہ اوران کے مقابلے میں اہل سنت کے ائمہ کرام خصوصاً امام اعظم ابو حنیفہؒ کی سیاسی جدوجہد سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر آج کے متشدد گروہوں کی نفسیات اور ذہنیت کو پوری طرح سمجھنا آسان نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں آج ایک طرف نام نہاد روشن خیالی کا سامنا ہے جس کا مقصد مسلمانوں میں مغرب کی پیروی اور مغربی معاشرت وثقافت کا ماحول پیدا کرنا اور اسلامی اقدار وروایات کا خاتمہ کرنا ہے اور دوسری طرف اس تنگ نظری کے کانٹوں نے بھی ملت اسلامیہ کے دامن کو بری طرح الجھا رکھا ہے جس کا نتیجہ بات بات پر تکفیر وتفسیق کے فتوے صادر کر کے مسلمانوں میں خانہ جنگی اور باہمی بے اعتمادی کو فروغ دینا ہے۔ آج بھی ہمارے لیے اہل السنۃ والجماعۃ کے ائمہ اور اکابر ’’اسوہ‘‘ ہیں جنھوں نے معتزلہ کی نام نہاد ’’روشن خیالی‘‘ اور خوارج کی ’’تنگ نظری‘‘ دونوں کو مسترد کر کے اعتدال وتوازن کا راستہ اختیار کیا تھا اور امت مسلمہ کو ان دونوں انتہاؤں کا شکار ہونے سے بچا لیا تھا۔ خدا کرے کہ ہماری دینی قیادت اور علمی مراکز اس صورت حال کی نزاکت اور سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے اعتدال وتوازن کے ساتھ امت مسلمہ کی صحیح سمت میں راہ نمائی کا فریضہ سرانجام دے سکیں۔ آمین یا رب العالمین
علامہ محمد ناصر الدین الالبانیؒ ۔ ایک محدث، ایک مکتب فکر
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
انیسویں صدی کی آخری دہائی میں امت مسلمہ اپنی تاریخ کی نازک ترین گھڑیوں سے گزر ر ہی تھی کیونکہ موجودہ پرفتن دور میں جب کہ اسے شدید قحط الرجال کا سامنا ہے علماء امت کا لگاتار یکے بعد دیگرے اٹھتے چلے جانا یقیناًکسی ہرج مرج سے کم نہیں ہے۔ جانے والوں میں محققین، عُباد، زہاد، مبلغین، مصلحین، مفکرین، فقہاء اور دعاۃ بھی ہیں۔ مختلف علوم کے ماہرین اور بلند پایہ مصنفین بھی، قرآن کے مفسربھی ہیں حدیث کے ماہرین بھی، ادیب و شاعر بھی ہیں خطباء اور اسکالرز بھی۔ ابھی حال ہی میں عالم اسلام کی کئی جلیل القدر ہستیاں اللہ کو پیاری ہوگئیں جن میں مملکت سعودیہ کے مفتی شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن بازرحمہ اللہ بھی ہیں۔ مصطفی زرقاء جیسے فقیہ، علی الطنطاوی جیسے خطیب و ادیب کبیر، انور الجندی جیسے اسکالر، ڈاکٹر محمد حمید اللہ جیسے عظیم محقق، شیخ ناصر الدین البانی ؒ (۱) جیسے محدث جلیل اور علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی جیسے محدث ومفسر اورعلامہ محمد بہجۃ الاثری، علامہ محمود محمد شاکر، علامہ محمد صالح العثیمین ،شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ رحمانی وغیرہم شامل ہیں۔ یہ سارے ہی لوگ مختلف مشرب رکھتے تھے اور مختلف مکاتبِ فکر سے ان کا تعلق تھا تاہم وہ سب پوری امت کی میراث اور عالم اسلام کا مشترکہ سرمایہ ہیں۔ ان میں سے کسی کی بھی رائے اور تحقیق سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے خلوص، تقوی و للہیت پر شک و شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اختلاف رائے کا حق ہر شخص کو حاصل ہے کہ امام دار الہجرت مالک رحمہ اللہ کے الفاظ میں ’’کل یؤخذ قولہ و یرد إلا صاحب ھذ القبر‘‘ کی رو سے مرجعیت حقیقی صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔
دین کی اصل بنیاد قرآن کریم اور اس کی تشریح سنت صحیحہ ثابتہ ہیں۔ صحابہ اور سلفِ امت ہر معاملہ میں انھیں دونوں کی طرف رجوع کرتے تھے کیونکہ یہی دونوں أصالۃً فکر اسلامی کا اصل سرچشمہ ہیں،رہے اجماع(۲) واجتہاد (قیاس)(۳) تو وہ بھی مصدرشرعی ہیں لیکن یہ دونوں تبعاً مصدر ہیں یعنی قرآن و سنت ہی کے تابع ہوں گے۔ باقی رہیں علماء امت و ائمہ عظام کی آرا، اجتہادات اور مسالک فقہیہ و مشارب کلامیہ تو یقیناًوہ سب ہمارا سرمایہ ہیں، ہمیں عزیز ہیں، لیکن وہ بذات خود حجت و سند نہیں۔ ان کی صحت و سقم، غلطی و صواب کی اصل کسوٹی قرآن اور سنت صحیحہ ہیں۔ تمام محققین سلف کا بھی یہی طریقہ رہا ہے۔(۴) اسی کی رہنمائی قرآن یوں کرتا ہے:’’فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ‘‘(النساء:۵۹) ’’جب تم میں کسی چیز کے بارے میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو۔‘‘
عالم اسلام پر طاری موجودہ زوال کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہے کہ قرون مشہود لھا بالخیر کے معاًبعد اس رجحان میں نمایاں تغیر واقع ہو گیا۔ مختلف کلامی فرقے، فقہی تحزبات اور مکاتبِ فکر قائم ہوگئے، عجمی تصوف، یونانی تفلسف اور سیاسی دھڑے بندیوں نے اس زوال میں مزید اضافہ کر دیا۔ توحیدی فکر گم اور اسلامی شخصیت پژمردہ ہو کر رہ گئی۔ قرآن کو مختلف اور متضاد تاویلوں کا نشانہ بنا لیا گیا۔ حدیث کا انکار ہونے لگا۔ اسلامی عقیدہ مختلف ایجاد بندہ رسوم و بدعات کا شکار ہوگیا۔ اور وہ صورتِ حال مسلمانوں پر چھاگئی جس کا ماتم اقبالؔ جگہ جگہ کرتے ہیں۔ (۵)
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا تھا ’’لن یصلح آخر ہذہ الأمۃ إلا بما صلح بہ أولھا‘‘ (اس امت کے آخر کی اصلاح بھی اسی سے ہوگی جس سے اس کے اول کی اصلاح ہوئی تھی) اصلاح وتجدید کا یہ دائمی اصول ہے اور احیاء دین کی کوئی بھی کوشش اس کو نظر انداز کرکے کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس اصول کا خلاصہ دو لفظوں میں قرآن اور سنت صحیحہ کی طرف دوبارہ رجوع کی دعوت ہے۔ زوال کے ادوار میں بھی خال خال ایسے مصلحین و مجددین پیدا ہوتے رہے ہیں جنھوں نے اس چشمۂ صافی کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی، یہی حقیقی اسلامی فکر ہے اور یہی سلفیت حقہ ہے۔ محدث القرن العشرین، محی السنۃ علامہ محمد ناصر الدین البانی بھی اسی مبارک قافلے کے ایک رکن رکین تھے جنھوں نے دعوت و اصلاح، تجدید و ترشید اور تحقیق و اجتہاد سے بھرپور ایک عمر گزاری اور بہترین زاد راہ لے کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔ آئندہ سطور میں ہم علامہ البانی رحمہ اللہ کے مکتب فکر کے بعض امتیازات و خصائص پر روشنی ڈالیں گے۔
البانیہ (۶) کے سابق دار الحکومت اچک درہ (اشقو درہ) کے ایک مفلس لیکن متدین اور علمی گھرانے میں شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے آنکھیں کھولیں۔ ان کانسبی تعلق ترک نژاد اور ناؤط قبیلہ سے ہے۔ تاریخ پیدائش ۱۳۳۳ھ مطابق ۱۹۱۴ء ہے۔ ان کے والد الحاج نوح نجاتی ایک متصلب حنفی عالم اور صوفی تھے۔ جنھیں اس علاقہ میں دینی و علمی مرجعیت حاصل تھی۔ محمد ناصر الدین کی پیدائش کے چند سال بعد ہی اس خاندان کو البانیہ کو خیر باد کہہ دینا پڑا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ ترکی میں آنے والے انقلاب اور یوروپ کی ترقیات سے مرعوب ہو کر البانیہ کے والی احمد زاغو نے بھی اپنے ملک میں سیکولرزم کو اختیار کر لیا اور مذہبی لوگوں پر زیادتیاں شروع کر دیں اور جبراً مغربیت تھوپنے لگا۔ چنانچہ الحاج نوح البانیہ سے ہجرت کرکے دمشق (شام) چلے گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی ۔ اس وقت دمشق میں ایک نیم سرکاری چیریٹبل سوسائٹی جمعیۃ الاسعاف الخیریہ تعلیمی و رفاہی کاموں میں سرگرم تھی۔ اس کے تحت چلنے و الے ابتدائی مدرسہ میں محمد ناصر الدین نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
چونکہ ان کے والد سرکاری اسکولوں کے مخصوص رجحانات کے باعث ان کے نظام اور نصاب سے اختلاف رکھتے تھے اور اس تعلیم کے ثقافتی اثرات و نتائج سے مطمئن نہ تھے۔ لہٰذا اپنے بیٹے کے لیے خود ہی ایک خاص نصاب بنایا اور اسی کے مطابق ان کو حفظ قرآن، تجوید کے ساتھ ہی لغت، صرف و نحو اور فقہ حنفی کی تعلیم دی۔ حفظ و تجوید کی تکمیل بروایت حفص کی۔ پھر دمشق کے متعدد علماء و مشائخ سے مختلف علوم حاصل کیے، (۷)اس دیار کے مشہور عالم شیخ سعید البرہانی سے لغت و بلاغت و ادب کے ساتھ فقہ حنفی کی معروف کتاب مراقی الفلاح، شرح نور الإیضاح وغیرہ پڑھیں۔ اپنی تعلیم کے دوران ہی محمد ناصر الدین علامۃ الشام شیخ بہجہ البیطار کے علمی حلقہ میں آئے اور ان کے دروس و افادات سے فیضیاب ہونے لگے۔
اسی حلقہ کا اثر تھا کہ درسیات کے ساتھ ہی محمد ناصر الدین کو خارجی مطالعہ کا شوق بھی پیدا ہو گیا۔ ان کے مطالعہ میں بطورِ خاص شیخ سید رشید رضا(۸) کی تحریریں اور ان کا رسالہ المنار رہتا تھا۔ رشید رضا محی السنۃ کے نام سے جانے جاتے تھے اور مصرو شام میں رجوع الی القرآن و السنۃ کی تحریک کے اولین نقیب تھے۔ ان کی تحریروں سے غذا پاکر نوجوان ناصر الدین اپنے متشدد حنفی والد کی رائے اور رجحان کے برخلاف اجتہادی اور سلفی مکتبِ فکر سے قریب تر ہوتے چلے گئے۔ اور ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ اور ان کے استاذ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تحریروں کے مطالعہ نے مزید گہرائی اور رسوخ پیدا کر دیا۔
شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کو دمشق کے علمی مراکز سے سندیں اور ڈگریاں حاصل کرنے کا اتفاق تونہیں ہوا لیکن حدیث سے ان کی دل چسپی، انہماک اور تفوق کو دیکھتے ہوئے حلب کے مشہور عالم، محقق اور مورخ راغب الطباخ نے انھیں حدیث کی سند عطا کر دی۔ نوعمری میں ہی شیخ محمد ناصر الدین نے اپنے والد سے گھڑی سازی سیکھی اور بطور پیشہ اسی کو اپنایا۔ اس کی وجہ سے انھیں حدیث میں زیادہ سے زیادہ وقت لگانے کا موقع مل گیا کہ بقدر کفاف گھڑی سازی سے انہیں روزی حاصل ہوجاتی تھی۔ شروع میں وہ الساعاتی بھی کہے جاتے تھے۔ یاد رہے کہ الاخوان المسلمون کے بانی و مؤسس شیخ حسن البناء کے والد شیخ احمد البناء بھی گھڑی ساز تھے اور نامور محدث بھی جنھوں نے مسند احمد کی ایک ناتمام شرح الفتح الربانی کے نام سے لکھی ہے۔ (۹)
عمر کی دوسری دہائی میں شیخ محمد ناصر الدین نے اپنا پہلا حدیثی کارنامہ یہ انجام دیا کہ حافظ عراقی کی ’’المغنی عن جمل الأسفار فی تخریج مافی الإحیاء من الأخبار‘‘ پر تعلیقات چڑھائیں۔اس کام کی تقریب یوں پیدا ہوئی کی سید رشید رضا (۱۳۵۴ھ) کے مجلہ’’ المنار‘‘ میں انھیں کے قلم سے امام غزالی کی احیاء علوم الدین پر نقد و تبصرہ شائع ہوا۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے پڑھا اور اسی سے ان کو ’’الإحیاء‘‘ کے مطالعہ کا شوق ہوا۔ چنانچہ ’’احیاء‘‘ کو انھوں نے حافظ زین الدین العراقی رحمہ اللہ (۸۰۶ھ) کی تخریج احادیث کے ساتھ پڑھا۔ اور اس بالاستیعاب مطالعہ میں تعلیقات بھی لکھتے گئے۔ اسی مطالعہ نے انھیں تحقیق کی نئی راہ دکھا دی۔ آگے کی راہ بھی ہموار کر دی اور ان کا منہج عمل بھی متعین کر دیا۔ اب دمشق کے علمی حلقوں میں ان کی شہرت ہوگئی اور ان کا احترام کیا جانے لگا۔ حتی کہ شہر کے مشہور کتب خانہ ’’الظاہریہ‘‘ کے ذمہ داروں نے ان کی محنت، ذوق و شوق اور علمی لگن کو دیکھ کر ان کے مطالعہ کے لیے ایک کمرہ متعین کر دیا اور لائبریری کی چابی بھی انھیں دیدی کہ جس وقت چاہیں مطالعہ کر سکیں۔ (۱۰)
جس جگہ قبر ہو وہاں صلاۃ ادا کرنا اور اسے مسجد بنانا خاصا مختلف فیہ مسئلہ رہاہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ اس مسئلہ میں ابتداء ہی سے عدم جواز کی رائے رکھتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے ’’تحذیر الساجد من اتخاذ القبور مساجد‘‘ کے نام سے کتاب لکھی اور اس مسئلہ سے متعلق مختلف فقہی آراء کا تقابلی مطالعہ اور ان پر قرآن و حدیث کی روشنی میں محاکمہ کیا اور اپنی رائے کو مدلل طور پر پیش کیا۔ (۱۱) یہ بحث خاصی ہنگامہ خیز ثابت ہوئی اور کافی لے دے مچی۔ یہ کتاب کئی بار شائع ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ شیخ کے اولین کارناموں میں معجم طبرانی کی تخریج بھی ہے۔ جس کانام انھوں نے ’’الروض النضیر فی ترتیب و تخریج معجم الطبرانی الصغیر‘‘ رکھا۔شیخ البانی رحمہ اللہ کے ان تحقیقی کاموں نے دیار شام کے علماء میں انھیں ممتاز کر دیا اور شام کے محدث کبیر علامہ بدر الدین الحسینی کے جانشین کے طور پر دیکھے جانے لگے۔
حدیث و سنت کے دفاع، تحقیق و تنقید حدیث اور سلف صالحین کی فکر کی تشریح میں شیخ البانی کی تصنیفات کی تعداد تقریباً ۱۶۵تک پہنچتی ہے۔ جن میں بعض تالیفات ضخیم ہیں۔ بعض چھوٹے چھوٹے رسائل کی شکل میں ہیں۔ ان کتابوں میں اکثر شائع ہوچکی ہیں اور متعدد کا ترجمہ مختلف عالمی زبانوں میں ہو چکا ہے۔ بعض کتابیں ابھی غیر مطبوع ہیں، عصر حاضر کے مستند اور علمی اسلامی لٹریچر میں ان تصنیفات کا مقام نہایت بلند ہے۔ ان کی چند اہم اور مشہور ترین کتابیں درج ذیل ہیں۔ (واضح رہے کہ ان کے مخطوطات، منافشات وغیرہ کو جمع کرکے یہ عدد ۲۲۱تک پہنچ جاتا ہے)
۱۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ ۱۴ اجزاء ۵ جلدوں میں منظر عام پر آچکی ہے۔
۲۔ سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ و أثرھا السیئ فی الأمۃ، فہارس ایک الگ جلد میں ہیں۔ یہ کتاب مکمل چھپ چکی ہے اور شیخ کی مقبول ترین کتابوں میں سے ہے۔ الصحیحۃ اور الضعیفۃ دونوں ہی شیخ کے ان قسطوار مضمونوں کا مجموعہ ہیں جو مجلۃ التمدن الإسلامی دمشق میں عرصہ تک شائع ہوتے رہے۔ بعد میں انہیں کتابی شکل دے دی گئی (۱۲) ۷ جلدیں شائع ہوگئیں۔ کل ۱۴ جلدوں میں آئے گی۔
۳۔ صحیح الجامع الصغیر و زیاداتہ ۔ طبع اول چھ جلدوں میں طبع ثانی دو جلدوں میں۔
۴۔ ضعیف الجامع الصغیر ۔ ۱۶؍ اجزاء مکمل دو جلدوں میں چھپ چکی ہے۔
۵۔ صحیح الترغیب و الترہیب للمنذری۔
۶۔ ضعیف الترغیب الترہیب للمنذری۔
۷۔ صحیح سنن أبی داوٗد۔
۸۔ ضعیف سنن أبی داوٗد۔
۹۔ صحیح سنن ابن ماجہ۔
۱۰۔ ضعیف سنن ابن ماجہ۔
۱۱۔ معجم الحدیث (۴۹ اجزا ) غیر مطبوع ہے۔ شیخ کی اکثر تخریجات و تحقیقات کی بنیاد یہی کتاب ہے۔ (۱۳)
۱۲۔ حجیۃ السنۃ مشہور کتاب ہے اور اس کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں، اردو میں ہمارے استاذ مولانا بدرالزماں نیپالی مدنی نے ترجمہ کیا ہے۔ اسی موضوع پر ان کا ایک اور رسالہ ’’منزلۃ السنۃ فی الإسلام‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوا ہے۔
۱۳۔ تسدید الإصابۃ إلی من زعم نصرۃ الخلفاء الراشدین الصحابۃ ۔ ۵ جلد مطبوع ہے۔
۱۴۔ صفۃ صلاۃ النبی من التکبیر إلی التسلیم کأنک تراھا۔ یہ بھی شیخ کی مشہور ترین کتابوں میں سے ہے۔ اور اس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ (۱۴) اردو میں دو ترجمے پائے جاتے ہیں، ایک پاکستان میں ہوا ہے دوسرا ہندوستان میں۔
ان تصانیف کے علاوہ شیخ نے تقریباً ۵۰ کتابوں کی تخریج بھی کی ہے۔ ان پر تحقیقی حواشی اور تعلیقات لکھی ہیں۔ بیشتر طبع ہوچکی ہیں اور کئی کا متعدد زبانوں میں ترجمہ بھی ہو گیا ہے۔ ان کی مشہور ترین تخریجات یہ ہیں۔
۱۵۔ إرواء الغلیل فی تخریج أحادیث منار السبیل: ۷اجزاء۔ ایک علیٰحدہ جزء فہارس کا بھی ہے۔ منار السبیل فقہ حنبلی کی معروف کتاب ہے۔
۱۶۔ الذب الأحمد عن مسند الإمام أحمد۔ پاکستان کے ایک عالم نے مسند امام احمد کی اصلیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا اس کی تردید میں شیخ نے یہ کتاب لکھی ہے۔ (۱۵)
۱۷۔ تخریج احادیث کتاب شرح العقیدۃ الطحاویۃ مقدمہ اور تعلیقات کے ساتھ۔
۱۸۔ خطیب تبریزی کی مشکاۃ المصابیح کی تخریج ۳ جلد، مطبوع ہے۔
۱۹۔ ریاض الصالحین للإمام النووی کی تخریج مطبوع ہے۔
۲۰۔ مختصر صحیح مسلم للإمام المنذری کی تحقیق و تحشیہ مطبوع ہے۔
۲۱۔ الجمع بین میزان الاعتدال للذھبی و لسان المیزان لابن حجر کی تحقیق غیر مطبوع۔
۲۲۔ صحیح الأدب المفرد و ضعیف الأدب المفرد للامام البخاری رحمہ اللہ۔
۲۳۔ ان تحقیقات کے علاوہ حجاب المرأۃ المسلمۃ و لباسھا فی الصلاۃ لابن تیمیۃ رحمہ اللہ کو مزید تحقیق حواشی اور تعلیقات کے ساتھ شائع کیا۔ اس موضوع پر خود ان کی بھی مستقل کتاب موجود ہے جس کا نام حجاب المرأۃ المسلمۃ فی الکتاب و السنۃ ہے۔ اس کے دوسرے ایڈیشن میں شیخ نے مزید اضافے کیے اور یہی کتاب جلباب المرأ ۃ المسلمۃ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس میں شیخ نے اپنی تحقیق کی روشنی میں سفور (چہرہ کا پردہ نہیں) کوترجیح دی ہے ۔وہ چہرہ کے پردہ کے وجوب کے قائل نہیں تھے لیکن اسے مستحب سمجھتے تھے اور اپنی اہلیہ اور خواتین کو پردہ کراتے تھے۔یہ مسئلہ خاصا مختلف فیہ ہے اور بہت سے علماء نے اس مسئلہ میں شیخ سے اختلاف کیا ہے۔(۱۶) ذاتی طور پر ناچیز شیخ البانی کی تحقیق کو راجح سمجھتا ہے۔
علاوہ ازیں ۲۴۔ مختصر کتاب الإیمان لابن تیمیۃ، ۲۵۔ کتاب العلم لأبی خیثمۃ، ۲۶۔ رسالۃ فی الصیام لابن تیمیۃ، ۲۷۔ اقتضاء العلم و العمل، خطیب بغدادی، ۲۸۔ المسح علی الجوربین، جمال الدین القاسمی، ۲۹۔مختصر العلوللذھبی، ۳۰۔ مختصر صحیح البخاری، ۳۱۔ الروضۃ الندیۃ صدیق حسن خاں بھوپالی، ۳۲۔ فضل الصلاۃ علی النبی، قاضی اسماعیل، ۳۳۔ الکلم الطیب لابن تیمیۃ وغیرہ کو اپنی تحقیق و تخریج کے ساتھ شائع کیا۔ ان کے علاوہ: ۳۴۔ آداب الزفاف فی السنۃ المطھرۃ، ۳۵۔أحکام الجنائز وبدعھا، ۳۶۔ حجۃ النبی ﷺ کما رواھا جابرؓ شیخ البانی کی اہم تصانیف میں شمار ہوتی ہیں۔ مزید براں شیخ البانی نے محمد الغزالی کی فقہ السیرۃ، سعید رمضان البوطی کی فقہ السیرۃ (۱۷) شیخ یوسف القرضاوی کی الحلال و الحرام فی الإسلام اور مشکلۃ الفقر وکیف عالجھا الإسلام کی تحریج بھی کی ہے۔ ان کے علاوہ بھی متعدد کتابیں، رسالے اور مقالے ہیں جن میں دوسرے معاصر علماء پر نقد، بعض کتابوں کا جواب اور علمی تعاقب ہے۔ (۱۸)
شیخ البانی رحمہ اللہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ محض کتابی عالم اور گوشہ نشین محقق نہ تھے بلکہ محیر العقول علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہی انھوں نے تمام عمر اپنی دعوتی و اصلاحی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ اس کے لیے انھوں نے اپنا اولین میدان دمشق (شام) کو بنایا تھا۔ جہاں غالی تصوف، متعصب و جامد فقہی مکاتبِ فکر اور شیعیت کے بطن سے جنم لینے والے نصیری، دروزی اور اسماعیلی جیسے گمراہ و بدعتی فرقوں کابڑا زور تھا اور صحیح اسلامی عقیدہ رفض و تشیع اور تصوف کی انھیں مختلف گمراہ کن شکلوں اور بدعات و خرافات کے گردو غبار میں روپوش تھا۔ انھوں نے عقائد کی اصلاح کے لیے چھوٹے بڑے رسائل بھی لکھے اور درسِ حدیث کے حلقے بھی قائم کیے۔ توحید، فقہی مسالک اور تقلید جامد جیسے مسائل پر ان کے اور مختلف مشائخ و فقہاء کے مابین مناظرے و مناقشے بھی ہوئے۔ شیخ ان مسائل میں بعض اوقات شدت اختیار کرلیتے تھے (جو کہ وقت کا تقاضا اور مطلوب تھی) اس کی وجہ سے مشائخ، صوفیاء اور عام مقلد علماء کے اندر شدید رد عمل ہوا۔ انھوں نے شیخ البانی رحمہ اللہ کی شدید مخالفت شروع کر دی۔
حتی کہ شیخ کے والد بھی جو ایک متشدد حنفی عالم اور صوفی تھے اور بیٹے کو بھی روحانی مراکز اور مزارات پر لے جانا چاہتے تھے ان کے خلاف ہوگئے۔ (۱۹) پورے علاقہ میں ان کے خلاف پروپیگنڈہ کے ذریعہ مخالفانہ فضا بنا دی گئی۔ لوگ انھیں ’’گمراہ وہابی‘‘ کہنے لگے۔ تاہم محقق اور راسخ العقیدہ علماء کی تائید و حمایت انھیں ہمیشہ حاصل رہی ۔ بطور خاص ان کے استاذ وشیخ علامہ بہجہ البیطار سے انھیں سرگرم حمایت و تقویت ملی نیز علامہ محب الدین الخطیب، شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز، علامہ عبد المحسنحمد العبّاد، ڈاکٹر ربیع ہادی اور علامہ مقبل بن ہادی وادعی اور شیخ محمد عبد الوہاب البنّاء وغیرہم نے آپ کی بھر پور تائید کی۔
اپنی اصلاحی ودعوتی سرگرمیوں کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ ایک میں وہ ہفتہ میں دو مرتبہ تصحیح عقائد اور علمی مسائل میں درس دیتے تھے جن میں شیخ کے تلامذہ و رفقاء کے علاوہ جامعات کے طلبہ بھی حصہ لیتے تھے۔ جن کتابوں کا درس دیا جاتا تھا ان میں خاص یہ ہیں: الروضۃ الندیۃ مؤلفہ صدیق حسن خاں رحمہ اللہ (نواب بھوپال) جو الدرر البھیۃ للشوکانی کی شرح ہے۔ أصول الفقہ شیخ عبد الوہاب خلاف، الباعث الحثیث شرح اختصار علوم الحدیث لابن کثیر (تحقیق احمد شاکر) منھاج الإسلام فی الحکم محمد اسد، فقہ السنۃ از سید سابق جسے شیخ حسن البناء کے ایماء پرترتیب دیا گیا تھا۔ شیخ البانی نے اس کتاب کا تکملہ و تصحیح نامہ بھی لکھا ہے جس کا نام تمام المنۃ علی فقہ السنۃ ہے۔ (۲۰)
اپنے اصلاحی کاموں کے دوسرے حصہ میں وہ ماہانہ ٹور کرتے جو باقاعدگی اور پابندی سے ہوتے اور ہفتہ ہفتہ جاری رہتے۔ ان سفروں میں وہ خاص کر شام اور اردن کے مختلف علاقوں، شہروں اور بستیوں کادورہ کرتے اور لوگوں کو اپنے اصلاحی مواعظ، تقاریر اور دروس سے مستفید کرتے تھے۔ شیخ البانی کے علمی و تحقیقی منہج درس اور اصلاحی پروگرام کے بہت مثبت اثرات پڑے۔ ان کی دور رسی کا اندازہ معاندین اہل بدعت کو بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ کے خلاف ان کو جو بھی موقع ملتا وہ اس کو ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے ان کی مسلسل سازشوں اور غلط بیانیوں کے باعث حکام کو شیخ کے خلاف کر دیا گیا چنانچہ ۱۹۶۷ء میں انھیں ایک مہینہ تک جیل میں ڈال دیا گیا۔ دوسری بار پھر ۶مہینہ کے لیے انھیں حوالۂ زنداں کر دیا گیا۔ لیکن ان ساری پریشانیوں کو انھوں نے خندہ جبینی سے برداشت کیا۔ جیل میں بھی سنتِ یوسفی جاری رہی اور قیدو بند کی آزمائشوں کے باوجود شیخ کا علمی، دعوتی اور تحقیقی سفر جاری رہا۔
علامہ البانی رحمہ اللہ موجودہ زمانہ میں عمل بالکتاب والسنۃ کے پر جوش داعی و علمبردار تھے۔ حق گوئی و بے باکی کے نتیجہ میں ہمیشہ جلا وطنی اور مہاجرت کی زندگی گزاری، غیر اسلامی اور غیر شرعی اعمال پر امراء اور اربابِ اقتدار کو بھی ٹوکنے اور متنبہ کرنے سے نہ چوکتے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ مختلف علاقوں میں قیام پذیر ہوتے رہے کبھی شام، کبھی کویت وحجاز اور کبھی اردن میں۔ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کو عمان (اردن) میں انتقال ہوا۔ وہیں سپرد خاک ہوئے، وفات سے پہلے ہی آپ نے اپنی وصیت تحریر فرما دی تھی۔ (۲۱) اپنی عملی زندگی میں شیخ البانی رحمہ اللہ نے غیر معمولی نشاط وحرکت کا مظاہرہ کیا جس نے عالم اسلام کے اہم مراکز و رہنماؤں کو ان کی طرف متوجہ کر دیا اور مختلف جگہوں پر انھیں مختلف ذمہ داریاں تفویض کی گئیں جن میں سے کچھ خاص سرگرمیوں کا ذکر کیا جاتا ہے:
۱۔ شامی عالم و ادیب دکتور مصطفی السباعی رحمہ اللہ نے انھیں موسوعۃ الفقہ الإسلامی کے ابواب البیوع کی احادیث کی تخریج کے لیے منتخب کیا۔۱۹۵۵ء میں یہ موسوعہ شائع ہوا۔
۲۔ مصر وشام کے انضمام کے بعد متحدہ حکومت کے تحت ایک لجنۃ الحدیث کی تشکیل کی گئی جس کا مقصد کتبِ حدیث کی نشرواشاعت تھا۔ شیخ البانی کو اس لجنۃ (کمیٹی) کا ایک رکن منتخب کیا گیا۔
۳۔ ۱۳۷۳ھ میں سعودی عرب کے إدارۃ البحوث و الإفتاء و الدعوۃ و الإرشاد کی جانب سے شیخ نے مصر، مراکش اور برطانیہ کا دعوتی و تبلیغی سفر کیا اور عقیدہ، سنت اور اصول الدین پر اپنے محاضروں اوردرسوں سے اہل علم اور علمی مجالس کو مستفید کیا۔
۴۔ ۱۳۶۴ھ سے ۱۳۶۷ھ تک، تین سال آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں استاذ حدیث و سنت رہے۔۱۳۹۵سے ۱۳۹۸ھ تک جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ کی مجلس اعلیٰ کے رکن رہے۔ واضح رہے کہ ۱۳۸۸ھ میں انھیں سعودی وزیرتعلیم نے ام القری مکہ مکرمہ کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کی صدارت کا عہدہ پیش کیا تھا۔ اسی طرح ہندوستان کی جامعہ سلفیہ بنارس نے بھی انھیں شیخ الحدیث کے منصب پر لانے کی کوشش کی تھی لیکن بعض وجوہات کی بنا پر شیخ البانی رحمہ اللہ دونوں ہی جگہ نہیں جا سکے۔
۶۔۱۹۹۹ء میں شیخ البانی رحمہ اللہ کو خدمتِ حدیث پر شاہ فیصل عالمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ویسے اس اعزاز سے علامہ کی قدرو منزلت میں کوئی اضافہ نہیں بلکہ خود اس ایوارڈ نے توقیر پائی۔ (۲۲)
عالم اسلام و عالم عرب میں البانی رحمہ اللہ ایک مستقل مدرسۂ فکر کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ جس کی بنیاد دو اصولوں تصفیۃ اور تربیۃ پر رکھی گئی ہے۔ مختصراً ان کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام کے فکری و ثقافتی سرمایہ کو ضیعف، موضوع اور بے سروپا روایات و بدعات اور خرافات سے پاک صاف کرنا اور نئی نسلوں کی صحیح اسلامی عقیدہ کے مطابق روحانی اور اخلاقی تربیت کرنا۔ ان دواصولوں کی تشریح خود علامہ کی زبانی ملاحظہ کریں:
’’تصفیہ سے میری مراد مذہب اسلام کو ہر شک و شبہ سے پاک کرنا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ سنت مطہرہ کے ذخیرہ سے ضعیف و موضوع روایات کو چھانٹ کر الگ کر دیا جائے۔پھر قرآن کی اسی صحیح سنت اور سلف صالح کی فہم و فراستِ آیات کی روشنی میں تفسیر کی جائے۔ اس آخری شق کی تکمیل بغیر علوم حدیث خصوصاً جرح وتعدیل کا گہرا مطالعہ کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس سے میری مراد یہ نہیں ہے کہ میں تفسیر قرآن کو ان ہی حدود میں قید کرنا چاہتا ہوں جو سلف نے متعین کی ہیں بلکہ میری منشاء صرف یہ ہے کہ تفسیر کے باب میں منہج سلف کا التزام کیا جائے کیوں کہ اس التزام کا فائدہ یہ ہوگا کہ نتیجۂ فکر کا ارتکاز اور پراگندہ خیالی کا سد باب ہوجائے گا...‘‘۔
اس کے بعد دوسرے اصول کی توضیح یوں کی ہے:
’’اور تربیت سے میری مراد مسلم نسل کو قرآن و سنت سے ماخوذ صحیح اسلامی عقیدہ پر چلنا سکھانا ہے۔ یہاں پر یہ بات میں خصوصیت کے ساتھ ذکر کرنا چاہوں گا کہ مسلمان بچوں کو عبادت کا عادی بناتے ہوئے بعض لوگوں کی طرح ان بچوں کے سامنے عبادت کے مادی فوائد پر زیادہ کلام نہ کیا جائے اور اگر عبادت کے مادی فوائد کا ذکر ناگزیر ہی ہوجائے تو اسے آخری صورت کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ یہاں پر یہ بات کہہ دینا بھی میں نہ بھولوں گا کہ اسلامی قانونِ شریعت کو اللہ اور اس کے حکم کی تابعداری کے طور پر پڑھایا جائے اور وقتِ تدریس اس کے مادی فوائد کو بیان کرنے کا زیادہ اہتمام نہ کیا جائے...‘‘۔ (۲۳)
البانی رحمہ اللہ مکتبِ فکر کے راقم سطور کی نظر میں یہ چند اہم خصائص و امتیازات ہیں۔ چنانچہ ان کے نزدیک:
۱۔ دین کی وہی تعبیر درست و معتبر ہے جو قرآن و سنت اور فہم سلف کے مطابق ہو اور ناجی وہ ہے جو کتاب وسنت کے فہم کے لیے سبیل المومنین پر کار بند ہو۔
اسی پہلو سے انھوں نے متعدد معاصر مسلم شخصیات، مصنفوں اور تحریکات پر رد فرمایا ہے۔ شیخ کے ردود و تعقبات کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ انھوں نے اخوان المسلمون اور جماعتِ اسلامی وغیرہ اسلامی تحریکات سمجھی جانے والی جماعتوں اور ان کی کئی تعبیرات پر بھی تنقید فرمائی۔ یہ دونوں جماعتیں جاہلیۃ القرن العشرین کے عنوان سے ایک اصطلاح استعمال کرتی ہیں اور اس کو اتنا عام کرتی ہیں کہ مسلم ممالک اور ان کے حکمرانوں کو بھی اس عموم میں شامل کرتی ہیں۔ اخوان المسلمون کے متشدد دھڑے جماعۃ التکفیر والہجرۃ نے تو اس اصطلاح کے حوالہ سے معاصر مسلم حکمرانوں کی حکمرانی کو جاہلیت قرار دے کر ان کے خلاف تشدد و ارہاب اور خروج کو جائز قرار دیا تھا۔ اسی جماعت کے ایک رکن خالد اسلامبولی نے انور سادات (مصری صدر) کو کافر اور دشمنوں کا ایجنٹ قرار دے کر گولی مار دی تھی۔ شیخ البانی نے اس مروجہ اصطلاح کا رد فرمایا۔ اور کفر اعتقادی و کفر عملی میں فرق و امتیاز کی وضاحت عبد اللہ بن عباسؓ کی تفسیر اور شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور حافظ ابن القیم ؒ کے افکار کی روشنی میں فرمائی، انھوں نے ارہاب وتشدد کو حرام قرار دیا اور حکمرانوں کے خلاف خروج پر شدید نکیر فرمائی۔ (۲۴)
اپنے ایک طویل انٹرویو میں شیخ البانی نے فرمایا: تصفیہ و تطہیر کے اس عمل کے ساتھ ساتھ دوسری چیز جو اہم ہے وہ خالص اسلام کے سایہ میں نوجوان نسل کی تربیت اور انھیں پروان چڑھانے کا کام ہے۔ موجودہ صدی میں اسلام کے نام سے جو جماعتیں اور تنظیمیں وجود میں آئی ہیں جب ہم ان کے کاموں کا جائزہ لیتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان جماعتوں نے اس پہلو سے کوئی خاص استفادہ نہیں کیا ہے۔سوائے یہ چیخنے چلانے کے کہ وہ اسلامی حکومت کا قیام چاہتی ہیں۔ اپنی اس دلیل سے انھوں نے بہت سے معصوموں کے خون سے ہولیاں کھیلیں۔ ان کے کتاب و سنت سے متصادم عقائد و نظریات کی گونج برابر ہمارے کانوں میں سنائی دیتی رہی ہے۔ یہاں اسی مناسبت سے ہم ایک داعی کی بات نقل کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کے متبعین اس کا التزام کریں اور اسے عملی جامہ پہنائیں۔ وہ فرماتے ہیں:
’’أقیموا دولۃ الإسلام فی قلوبکم تقم لکم علی أرضکم‘‘ (حسن البناء ؒ )
’’اسلام کی حکومت پہلے اپنے دلوں پر قائم کرو زمین پر بھی قائم ہوجائے گی‘‘۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلمان جب اپنے عقائد کتاب وسنت پر مبنی ، صحیح اور درست کرلیں گے تو ان کی عبادات اور اخلاق و سلوک بھی صحیح ودرست ہوجائیں گے لیکن افسوس ہے کہ اس حکیمانہ بات کی طرف لوگوں کی توجہ نہیں صرف حکومت الٰہیہ کے قیام کے لیے چیخنا چلانا رہ گیا ہے۔ شاعر نے ایسے لوگوں کے متعلق کہا ہے
ترجو النجاۃ و لم تسلک مسالکھا
إن السفینۃ لا تجری علی الیبس (۲۵)
۲۔ البانی مکتبِ فکر کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ تقلید کا قائل نہیں۔ بطور خاص اہل علم کے لیے تقلید جامد اس کی نظر میں جائز نہیں۔ اس اصول کی توضیح شیخ نے اپنی متعدد تالیفات میں بتکرار کی ہے۔ شیخ علمی و عملی طور پر خود بھی سختی سے اس اصول کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:
أن العلم لا یقبل الجمود فھو فی تقدم مستمر من خطأ إلی صواب و من صحیح إلی أصح۔ (۲۶)
’’علم جمود کو گوارا نہیں کرتا، وہ ہمہ وقت غلط سے صحیح اور صحیح سے صحیح تر کی طرف گامزن رہتا ہے‘‘۔
اپنی علمی تحقیقات، حد یث کی تخریجات اور تصحیح و تضعیف وغیرہ میں کسی مسلک و مشرب کی پیروی وہ نہیں کرتے، نہ کسی شخصیت سے متاثر ہو کر کوئی رائے قائم کرتے بلکہ ٹھیٹ علمی اصول و ضوابط کی پیروی کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں لکھا ہے:
ومماینبغی أن یذکر بہذہ المناسبۃ أنی لا أقلد أحداً فیما أصدرہ من الأحکام علی تلک الأحادیث و إنما أتبع القواعد العلمیۃ التی وضعھا أھل الحدیث، وصبروا علیھا فی إصدار أحکامھم علی الأحادیث من صحۃ أو ضعف۔ (۲۷)
’’اس مناسبت سے یہ ذکر کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ان احادیث پر حکم لگانے کے عمل میں کسی کی تقلید نہیں کرتا بلکہ علماء حدیث کے وضع کردہ علمی قواعد و اصول کی پیروی کرتا ہوں جن کی کسوٹی پر انہوں نے احادیث پر صحت و ضعف کا حکم لگایا ہے‘‘۔
مولانا مودودی ؒ اور سید قطب ؒ نے بڑے شدو مد سے دعویٰ کیا ہے کہ أخص خصائص الألوھیۃ الحاکمیۃ یعنی تشریع اور قانون سازی کا حق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ اس میں کوئی انسان اس کا شریک ہے نہ کوئی کمیٹی اور تنظیم۔ شیخ اس تشریح کو ناکافی سمجھتے ہیں اور اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’میں کہتا ہوں کہ اکثر تعلیم یافتہ نوجوانوں نے اسلامیات کے ان اسکالروں (اخوانیوں) کے ذریعہ یہ تو جان لیا کہ حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے۔ لیکن ٹھیک اسی وقت ان نوجوانوں میں سے اکثر کو اس کے بعد خیال نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ کے مبدأحاکمیت میں جس مشارک کی نفی کی گئی ہے اس کی بابت اس میں کچھ فرق نہیں کہ اللہ کو چھوڑ کر جس انسان کی پیروی کی گئی ہے وہ مسلمان ہو (جس نے اللہ کے کسی حکم کے اندر غلطی کی ہو) یا کافر ہو (جس نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شارع بنا لیا ہو) یا عالم ہو یا جاہل۔ ان میں سے ہر ایک اللہ کے مبدأ حاکمیت کے منافی ہے‘‘۔ آگے مزید لکھتے ہیں: ’’یہ چیز ہے تقلید کو دین بنا لینا اور کتاب و سنت کی نصوص کو تقلید کی وجہ سے رد کر دینا۔‘‘ (۲۸)
۳۔ خبر واحد کی حجیت: عام طورپر اصول فقہ کی کتابوں میں خبر واحد کو ظنی کہا جاتا ہے جس سے گمان ہوتا ہے کہ اس سے کسی قطعی حکم کا ثبوت نہیں ہوتا۔ حضرات حنفیہ اس اصول پر بہت زور دیتے ہیں اور موجودہ زمانے کے بہت سے مسلم مصنفین و مفکرین نے اسے ایک علمی مسلمہ کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ حالانکہ یہ نظریہ اپنے آپ میں نہایت خطرناک ہے۔ پھر بھی عجیب بات ہے کہ اہل علم نے بڑی تعداد میں اس بے اصل رائے کو اختیار کر رکھا ہے۔ خبر واحد کی ظنیت کے نظریہ کی آڑ میں منکرین حدیث اور دیگر متشککین نے پورے ذخیرۂ حدیث کو مشتبہ ومستردکرنے کی نامسعود کوشش کی ہے۔ عالم عرب میں شیخ البانی نے ظنیت کے اس فاسد نظریہ کی پرزور دلائل سے تردید فرمائی۔ اور الحدیث حجۃ بنفسہ فی العقائد و الأحکام لکھ کر ثابت کیا کہ خبر واحد بھی اپنے حکم میں قطعی اور واجب العمل ہے۔ اس کے علاوہ حجیۃ السنۃ کے عنوان سے ایک مدلل مقالہ بھی اسی موضوع پر ارقام فرمایا۔ہندوستان میں راقم کے علم کی حد تک، اس سلسلہ میں بڑی عمدہ اور تحقیقی بحث علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی رحمہ اللہ نے کی ہے۔ انھوں نے ناقابل تردید دلائل سے ثابت کیا ہے کہ خبر واحد کی ظنیت کا نظریہ غلط اور فاسد ہے اور خبر واحد کو یقینی اورواجب القبول سمجھنے پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع تھا۔ ان کی پوری بحث پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ (۲۹)
۴۔ فضائل اعمال میں بھی ضعیف احادیث پر عمل نہیں کرنا چاہیے: متعدد علماء وائمہ اور اکابر محدثین بھی باستثنائے چند فضائل اعمال کی احادیث کے سلسلہ میں تساہل برتتے آئے ہیں۔ تاہم محقق اور فقہاء محدثین اس بارے میں بھی سختی برتتے ہیں۔ شیخ البانی چونکہ ایک مجتہد محدث ہیں اس مسئلہ میں بھی اپنی ایک رائے رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عبادات، عقائد و احکام، فضائل و مناقب، ترغیب وترہیب، زہد و رقاق غرض دین کے کسی بھی باب میں ضعیف احادیث پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ یہ رائے بظاہر اجنبی سی لگتی ہے لیکن گہرائی سے جائزہ لینے سے یہی رائے قوی معلوم ہوتی ہے۔ تمام المنۃ علی فقہ السنۃ پر اپنے مقدمہ میں علامہ البانی نے اصول حدیث کے سلسلہ میں بعض نہایت جلیل الشان اور دقیق قواعد بیان فرمائے ہیں۔ ان میں بارہویں قاعدہ کے تحت انھوں نے جو کچھ لکھا ہے ان کے الفاظ میں ملاحظہ ہو:
ترک العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الأعمال: اشتھر بین کثیر من أہل العلم و طلابہ أن الحدیث الضعیف یجوز العمل بہ فی فضائل الأعمال و یظنون أنہ لا خلاف فی ذلک کیف لا؟ والنووی رحمہ اللہ نقل الاتفاق علیہ فی أکثر من کتاب واحد من کتبہ۔ و فیما نقلہ نظر، لأن الخلاف فی ذلک معروف فإن بعض العلماء المحققین علی أنہ لا یعمل بہ مطلقا لافی الأحکام ولا فی الفضائل۔ قال الشیخ القاسمی فی قواعد التحدیث (ص ۹۴): حکاہ ابن سید الناس فی ’’عیون الأثر‘‘ عن یحییٰ بن معین و نسبہ فی فتح المغیث لأبی بکر بن العربی و الظاہر أن مذہب البخاری و مسلم ذلک أیضا.... و ھو مذہب ابن حزم.... قلت: و ہذا ھو الحق الذی لا شک فیہ عندی لأمور۔ (۳۰)
’’فضائل اعمال کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا: بہت سے اہل علم وطلاب علم کے درمیان یہ نظریہ رواج و شہرت حاصل کر چکا ہے کہ فضائل اعمال کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے۔ ایسا کیوں کر نہ ہو جبکہ نووی رحمہ اللہ نے اپنی ایک سے زائد کتابوں میں اس سلسلے میں علماء کا اتفاق نقل کیا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ نووی رحمہ اللہ نے جو اتفاقِ علماء نقل فرمایا ہے وہ محل نظر ہے کیوں کہ اس باب میں علماء کا اختلاف مشہور و معروف ہے۔ بعض محقق علماء کرام کہتے ہیں کہ ضعیف حدیث پر عمل نہ احکام میں کیاجائے گا اور نہ فضائل اعمال میں۔ شیخ قاسمی نے ’’قواعد التحدیث‘‘ ص۹۴ میں لکھا ہے جسے ابن سید الناس نے ’’عیون الأثر‘‘میں یحییٰ بن معین سے نقل کیا ہے اور فتح المغیث میں ابوبکر ابن العربی سے منسوب کیا ہے، سے یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ اس باب میں بخاری و مسلم رحمہما اللہ کا مسلک بھی یہی ہے.... اور ابن حزم کا بھی یہی.... میرا خیال ہے کہ متعدد وجوہات کی بناء پر یہی حق ہے‘‘۔
اس کے بعد تفصیل سے اپنے دلائل دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ ضعیف الترغیب کے مقدمہ میں بھی اس مسئلہ پر تفصیل سے کلام کیا ہے۔ اور اپنی رائے کے متعدد دلائل دیئے ہیں۔ یہاں یہ اشارہ کرنا بھی مناسب ہوگا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتابوں کے مقدمے بھی بے نظیر، دقیق اور مہتم بالشان فوائد و افادات کے حامل ہوتے ہیں۔
علامہ البانی کے فکر و مؤلفات پر عربی میں ان کی زندگی میں ہی کام شروع ہو گیا تھا۔ ان کے تلامذہ ان کے منہج کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ علماء حدیث نے ان کی بعض تحقیقات و تفردات سے اختلاف و تعقب بھی کیا۔ ہندوستانی علماء میں علامہ حبیب الرحمٰن اعظمی نے الألبانی أخطاء ہ و شذوذہ کے نام سے ان کی تحقیقات و آراء سے اختلاف کیا تھا لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہ کتاب ارشد السلفی کے نام سے چھاپی گئی۔ (۳۱) شیخ البانی کی معاصر علماء فقہ و حدیث سے بھی خاصی چشمک اور ردو کد رہی بعض اوقات بات علمی زبان و اسلوب سے نکل کر سخت لب ولہجہ اور شدید تنقید تک پہنچ گئی، فریق مخالف میں مشہور حنفی عالم شیخ زاہد الکوثری رحمہ اللہ اور ان کے تلمیذ شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ سے علامہ البانی سخت ناراض تھے اور نہایت سخت اسلوب میں ان پر تنقید کرتے تھے۔ شیخ اسماعیل الانصاری سے بھی ان کے اختلافات رہے۔ انصاری نے شیخ کے رد میں تعقب لبعض أغلاط الألبانی کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ شیخ کے بعض ہم مشرب علماء ومحققین حدیث نے بھی شیخ البانی کے منہج تحقیق پر نقد کیا ہے جس کو ملخصاً یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
۱۔ شیخ البانی پر ایک اعتراض یہ ہے کہ وہ تدلیس کے مسئلہ میں زیادہ سختی برتتے ہیں۔ حالانکہ یہ ضروری نہیں کہ جس سند میں عنعنہ کرنے والا مدلس ہو وہ لازماً ضعیف ہی ہو بلکہ اس مسئلہ میں خاصی تفصیل ہے۔
۲۔ یہ بھی اعتراض ہے کہ وہ راویوں کے ایک دوسرے سے سماع پر زیادہ توجہ نہیں دیتے یہ چیز بھی حدیث پر حکم لگانے میں تساہل کا سبب ہے۔
۳۔ زیادۃ الثقۃ کے مسئلہ میں بھی ان کی الگ رائے ہے کہ اس میں انھوں نے بہت زیادہ توسع کا ثبوت دیا ہے اور بہت سے ان زیادات کو قبول کرلیا ہے جنہیں ائمہ حدیث نے شذوذ کے باعث ضعیف قرار دیا ہے۔
۴۔ علت و شذوذ کے مسئلہ میں عدم ترکیز کی بات کہی گئی ہے کہ شیخ بعض روایات کے بارے میں ائمہ متقدمین کے اقوال کی کچھ پرواہ نہیں کرتے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے متعدد ایسی باطل اور منکر احادیث کی تصحیح کر دی ہے جنھیں ائمہ متقدمین نے باطل قرار دیا ہے۔
۵۔ تصحیح احادیث میں تساہل: یعنی یہ کہ شیخ البانی رحمہ اللہ مستور، اسناد منقطع، مدلس اور صدوق سبھی کو شواہد ومتابعات میں قبول کر لیتے ہیں ظاہر ہے کہ یہ بھی تساہل کی بات ہے۔
۶۔ وہ شواہد و متابعات اور طرق ضعیفہ کی کثرت سے حدیث کو تقویت دے دیتے اور حسن قرار دیتے ہیں جبکہ سلف ایسا اسی وقت کرتے ہیں کہ طرق مضبوط ہوں۔
۷۔ شیخ البانی تخریج حدیث میں کبھی کبھی جلدی کر ڈالتے تھے اس عذر سے کہ متعلقہ ادارۂ نشر و اشاعت کام کی جلدی چاہتا ہے۔
۸۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ شیخ اپنی تحقیق میں تقریب التہذیب پر زیادہ اعتماد کرتے تھے۔ واضح رہے کہ تقریب التہذیب محض مختصر عنوانات کا مجموعہ ہے۔ متقدمین تقریب کی طرف صرف اسی وقت رجوع کرتے ہیں جب ترجیح بین الرواۃ کا معاملہ ہو سلف زیادہ تر مفصل تراجم کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ شیخ البانی پر اعتراض یہ ہے کہ وہ مفصل تراجم کی طرف کم رجوع کرتے تھے۔ یہ اعتراضات جو شیخ کے منہج تحقیق پروارد کیے گئے ہیں راقم سطور کا یہ منصب نہیں کہ وہ ان پراپنی رائے دے۔ حدیث کے ماہرین، اساتذہ اور البانیات کے اسکالرز ہی اس سلسلہ میں بہتر رائے دے سکتے ہیں۔ یہ اعتراضات ہم نے محض امانت علمی کے تحت نقل کر دیئے ہیں۔ شیخ البانی کی تنقیص حاشا و کلا بھی مقصود نہیں ہے۔ یہ تمام اعتراضات صرف شیخ البانی پر ہی نہیں بلکہ تمام ہی متاخرین پر صادق آتے ہیں۔ ودسرے یہ کہ ان انتقادات و اعتراضات سے شیخ کی جلالت علمی پر کوئی حرف نہیں آتا وہ ناصر السنۃ، قامع بدعۃ اور محدث القرن العشرین ہیں۔ جن اعتراضات کی تلخیص ہم نے نقل کی ہے ان کی تفصیل کے لیے انٹرنیٹ پر رجوع کریں: ملتقی أہل الحدیث: الانتقادات علی منھج الشیخ الألبانی رحمہ اللہ منھج المتأخرین۔ (۳۲)
حواشی
۱۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کے تفصیلی حالات کے لیے دیکھئے:
الف۔ ابراہیم محمد العلی: محمد ناصر الدین الألبانی رحمہ اللہ، محدث العصر و ناصر السنۃ، دار القلم دمشق، طبعۃ ثانیۃ ۲۰۰۳ء۔
ب۔ محمد بن ابراہیم الشیبانی: حیاۃ الألبانی و آثارہ و ثناء العلماء علیہ۔
ج۔ عبد الباری فتح اللہ مدنی: ترجمہ اردو، صفۃ صلاۃ النبی ﷺ۔ شروع میں مترجم کے قلم سے شیخ کے حالات
نیز انٹرنیٹ پر دیکھیں:
(۱) www.N.eman.com نداء الإیمان عظماء فی الإسلام پر شیخ کی مختصر و مکمل سوانح۔
(۲) www.albany.net موقع الامام محمد ناصر الدین پر نبذۃ مختصرۃ عن سیرۃ الشیخ الألبانی
۲۔ اجماع کو عموماً شرع کے چار ماخذمیں سے ایک سمجھا جا تاہے لیکن یہ واضح رہنا چاہیے کہ اجماع محض اکثریت کی رائے کو نہیں کہاجا سکتا ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کتاب و سنت کے تابع ہو۔ طلاق ثلاثہ اور رکعات تراویح کے بارے میں صحیح احادیث موجود ہیں۔ جبکہ فقہاء اور علماء کی اکثریت دوسری رائے کی حامل ہے۔ یہاں صحیح احادیث کو یہ کہہ کر ناقابلِ عمل نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ وہ اجماع کے خلاف ہے۔ اسی طرح یہ مسئلہ کہ انسان اللہ کا خلیفہ ہے، اکثر مفسرین کرام انسان کو اللہ کا خلیفہ مانتے ہیں لیکن ان کی یہ رائے غلط اور کتاب و سنت کے خلاف ہے۔ اس لیے یہاں بھی اکثریت کے قول کا (بدلیل اجماع) اعتبار نہ ہوگا۔ اجماع کا مأخذ اصولیین سورۂ نساء کی آیت نمبر ۱۱۵(وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِ مَاتَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ الآیۃ)کو قرار دیتے ہیں۔ تاہم مفسرابن حیان اندلسی نے اس پر شدید نقد کیا ہے: لکھتے ہیں: ’’والآیۃ بعد ہذا کلہ ہی وعید للکفار فلا دلالۃ فیھا علی جزئیات فروع مسائل الفقہ‘‘ (البحر المحیط المجلد الثالث ص۳۵۰)امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا رجحان یہ ہے کہ اجماع صحابہ رضی اللہ عنہمتو حجت ہے، بعد کے لوگوں کا حجت نہیں۔ ماضی قریب کے ایک محقق اسکالر ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اجماع کے بارے میں اپنے ایک لیکچر میں کہا: ’’اتفاق رائے یا کثرت سے فیصلہ کرنے کے لیے اجماع کی اصطلاح کا بہت ذکر کیا جا تاہے۔لیکن علماء کرام مجھے معاف فرمائیں تو میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اجماع فقط ایک مفروضہ اور افسانہ ہے۔ اس کا کوئی وجود نہیں اور چودہ سو برس میں اجماع کے ذریعہ فیصلہ کا کوئی طریقہ مقرر نہیں کیا گیا‘‘۔’’ غطریف شہباز ندوی: ڈاکٹر محمد حمید اللہ مجدد علوم سیرت‘‘صفحہ ۷۸۔ فاؤنڈیشن فار اسلامک اسٹڈیز نئی دہلی طبع ۲۰۰۳ء۔
۳۔ اصول فقہ کی کتابوں میں بالعموم قیاس کو تیسرا مأخذ شرعی بتایا جاتاہے۔ دور جدید کے بعض فقہاء مثلا شیخ مصطفی زرقاء کہتے ہیں کہ قیاس نہیں بلکہ اجتہاد کہا جانا چاہیے کیونکہ قیاس تو اجتہاد کے وسائل و ذرائع میں سے ایک ہے۔ یہی رائے قوی معلوم ہوتی ہے۔
۴۔ فقہاء محدثین بالعموم اسی طریقہ پر عامل رہے ہیں۔ اس کی علمی تأسیس و تنقیح میں سب سے بڑا حصہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ کا ہے۔ اس مکتبِ فکر کی اساس وہ حدیث صحیح ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا: ترکت فیکم شیئین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ و سنتی۔ و لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض۔(رواہ الحاکم عن أبی ہریرۃرضی اللہ عنہ صحیح الجامع الصغیر للألبانی رقم ۲۹۳۷)
۵۔ ایک جگہ کہتے ہیں:
خوار از مہجوری قرآں شدی
شکوہ سنج گردش دوراں شدی
اے چوں شبنم برزمین افتندئی
در بغل داری کتاب زندئی
۶۔ البانیہ یوروپ کے خطۂ بلقان میں واقع ہے۔ْ اس کے ایک طرف اٹلی، دوسری طرف یونان اور تیسری طرف جمہوریہ یوگوسلاویہ ہے۔ البانیہ میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ جو ترک نژاد ہیں۔ ماضی میں وہ خلافت عثمانیہ ترکیہ کا حصہ رہ چکا ہے۔
۷۔ تفصیل کے لیے دیکھیں إبراہیم محمد العلی: محمد ناصر الدین الألبانی صفحہ ۱۲، دراستہ و أہم شیوخہ، ناصر الدین بچپن سے مطالعہ کے بہت شوقین تھے، خود اپنے بارے میں لکھا ہے: ’’فی أول عمری قرأت ما یقرأ و مالا یقرأ‘‘ صفحہ ۱۳، آگے اس کی تفصیل بھی دی ہے: ’’أول ما أولعت بمطالعتہ من الکتب: القصص العربیۃ، کالظاہر و عنترۃ، والملک سیف، و ما إلیھا... ثم القصص البولیسیۃ المترجمۃ کأرسین لوبین و غیرھا۔ ثم وجدت نزوعاً إلی القرآت التاریخیۃ‘‘ نفس المصدر ص ۱۵۔ اس کے بعد مجلہ المنار اور الإحیاء کی تحقیق کا قصہ بیان کیا ہے۔ شیخ البانی کے اس متنوع مطالعہ کا فائدہ یہ ہوا کہ زبان و بیان اور طرز و اسلوب بالکل اہل زبان کا ہو گیا۔ ان کی تحریروں میں ادبی لطف بھی ہے اور شجاعت ادبیہ کا مزہ بھی کہیں پر بھی عجمۃ وتکلف کا گمان نہیں ہوتا۔
۸۔ سید رشید رضا شیخ مفتی محمد عبدہ رحمہ اللہ اور ان کے استاذ جمال الدین افغانی رحمہ اللہ کے خوشہ چیں ہیں۔ محمد عبدہ کو الاستاذ الامام کہتے تھے۔ شیخ محمد عبدہ رحمہ اللہ مسلمانوں کی علمی نشاأ ثانیہ کے علمبردار تھے۔ شیخ رشید رضا بھی اسی فکر کے آدمی ہیں۔ البتہ قرآن اور حدیث پر ان کی نظر زیادہ گہری تھی اور یہیں سے سلفیت کی طرف ان کا رجحان ہوا۔ ان کا یہ ذوق برابر ترقی کرتا گیا حتی کہ محی السنۃ اور امام سلفیت کہے جانے لگے۔
۹۔ شیخ ساعاتی رحمہ اللہ نے پہلے مسند احمد کی تبویب فقہی مباحث کے لحاظ سے کی جس کا نام الفتح الربانی فی ترتیب مسند الإمام أحمد بن حنبل الشیبانی کے نام سے کی پھر اس کی شرح بلوغ الامانی کے نام سے لکھنی شروع کی۔ جس کی ۵ جلدیں شائع ہوگئی ہیں۔ یہ کتاب الصلاۃ تک ہے۔ پھر اس کو شیخ احمد شاکر مصری رحمہ اللہ نے بھی ایڈٹ کیا لیکن ان کا کام بھی ناتمام ہے۔ ہندوستان میں علامہ شبیر احمدازہر میرٹھی (وفات ۲۰۰۵ء) نے اردو میں مسند احمد کی مفصل شرح و تحقیق کا کام کیا۔ جو مسند سعد بن ابی وقاص رحمہ اللہ تک پہنچ گیا۔ یہ جلیل القدر علمی کا م بھی ناتمام رہ گیا۔ صرف پہلا حصہ ہی منظر عام پر آسکا جس کا نام نہایۃ التحقیق شرح مسند ابو بکر الصدیق ہے۔ بقیہ مسودات کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: منتھی الآراب شرح مسند عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ۳ جلد۔ مواہب المنان شرح مسند عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ دوجلد، إرشاد الطالب شرح مسند علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ ۵ جلد، نیل المراد شرح مسند طلحۃ الجوادرضی اللہ عنہ ، نیل المرام شرح مسند الزبیر بن العوام رضی اللہ ایک جلد۔ درر الغواص شرح مسند سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ۔ یہ سب مسودات ابھی غیر مطبوعہ ہیں اور الماریوں کی زینت بنے ہیں۔ کاش کوئی صاحبِ خیر متوجہ ہو اور یہ منظر عام پر آسکیں )
۱۰۔ حتی إن إدارۃ المکتبۃ الظاہریۃ بدمشق خصصت غرفۃ خاصۃ لہ لیقوم فیھا بأبحاثہ العلمیۃ الخ۔ ملاحظہ ہو نبذۃ مختصرۃ عن سیرۃ الشیخ الألبانی (نیٹ پر) پہلا صفحہ۔ نیز حاشیہ پر ایک نمبر کے تحت مذکور تمام مراجع۔
۱۱۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حافظ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ، شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ اور علامہ امیر الصنعانی رحمہ اللہ اور محدثین ہند صدیق بن حسن، شمس الحق عظیم آبادی، عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری وغیرہم رحمہم اللہ کی کتابوں سے شیخ البانی رحمہ اللہ نے سلفی منہج فکر اختیار کیا، اور اس کے پر جوش داعی بن گئے۔ انھوں نے اس کی ابتداء اپنے گھر، اقارب اور اساتذہ سے کی، ظاہر ہے کہ یہ بڑی عزیمت و استقلال کا کام تھا۔ ان کے و الد شیخ نوح نجاتی الألبانی مزارات سے استفادہ کے قائل تھے اور اپنے بیٹے کو بھی مقابر و مزارات پر لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ شیخ ناصر الدین نے توحید اور اس کے مسائل کے سلسلہ میں علمی دلائل کے ساتھ اپنے والد سے گفتگو کی۔ مزارات پر صلاۃ کے عدم جواز پر اپنے استاذ شیخ سعید البرھانی سے بات کی۔ اس کے بعد شہر کے دوسرے مشائخ سے وہ ملے، مناقشے کیے۔ اسی بحث و گفتگو کے دوران انھوں نے خود فقہ حنفی کی معتبر کتابوں سے استدلال کرتے ہوئے انبیاء و صالحین کی قبروں پر بنی مساجد میں صلاۃ کو مکروہ تحریمی قرار دیا اور کتاب تحذیر الساجد تالیف کی۔ کتاب میں دو امور پر ترکیز ہے۔ (۱) حکم بناء المساجد علی القبور (۲) حکم الصلاۃ فی ہذہ المساجد۔ ملاحظہ ہو إبراہیم محمد العلی: محمد ناصر الدین الألبانی محدث العصر و ناصر السنۃ ص ۲۲،۲۳۔
۱۲۔ ملاحظہ ہو مقدمہ کتاب الأحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ و أثرھا السئ علی الأمۃ للألبانی۔ المجلد الأول مکتبہ المعارف للنشر و التوزیع ریاض، الطبعۃ الثالثۃ ۲۰۰۰ء۔
۱۳۔ اس کتاب کی تقریبا ۴۹ جلدیں ہیں اور خود البانی صاحب فرماتے ہیں کہ ’’اس کتاب کی تالیف میں میں نے تیس سال سے زیادہ وقت صرف کیا ہے‘‘، اس میں ۱۶ ہزار مسند احادیث آگئی ہیں۔ تخریجِ احادیث میں شیخ البانی رحمہ اللہ عموما اسی کتاب پر اعتماد کرتے تھے۔ ابھی قلمی مسودہ کی شکل میں ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے عبد الباری فتح اللہ مدنی اردو ترجمہ کتاب صفۃ صلاۃ النبی للألبانی رحمہ اللہ ص ۶۳۔ مطبوعہ جمعیۃ أہل الحدیث التعلیمیۃ و الخیریۃ بالھند، دریاباد، یوپی۔
۱۴۔ ملاحظہ ہو وہی مرجع ص ۶۵۔
۱۵۔ پاکستان کے ایک عالم عبد القدوس ہاشمی نے یہ عجیب وغریب دعویٰ کیا کہ مسند احمد امام احمد کی کتاب نہیں ہے۔ اس کی نسبت ان کی طرف درست نہیں۔ اس کے راوی ابو بکر القطیعی عقیدۂ و اخلاق کے اعتبار سے ایک غلط آدمی تھے۔ انھوں نے مسند میں ضعیف و موضوع روایتیں بھر دی ہیں۔ اسی طرح امام احمد کے فرزند عبد اللہ بن احمد رحمہ اللہ نے اس میں اپنی مرویات کا اضافہ کرکے ابو بکر القطیعی کے واسطہ سے انھیں متصل بنا دیا ہے وغیرہ۔ شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ (مفتی کبیر سعودی عرب) کی ایماء پر علامہ البانی رحمہ اللہ نے مذکور عبد القدوس ہاشمی کے ان ہفوات کا رد فرمایا۔ اور ۱۰۱ صفحات پر مشتمل یہ رسالہ دار الصدیق سعودی عرب سے ۱۹۹۹ء میں شائع ہوا۔
۱۶۔ بعض علماء مثلا شیخ عبد الفتاح ابو غدہ وغیرہ نے شیخ کی اس کتاب پر اعتراض کرکے انہیں سفور (بے پردگی) کا علمبردار قرار دیا ہے۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے حجاب اسلامی کی ۸ شرطیں بتائی ہیں:
(۱) استیعاب جمیع البدن إلا ما استثنی (۲) أن لایکون زینۃ فی نفسہ (۳) أن یکون خفیقا لا یشف (۴)أن یکون فضفاضا غیر ضیق (۵) أن لا یکون مبخرا مطیبا (۶) ألا یشبہ لباس الرجال (۷) أن لا یشبہ لباس الکافرات (۸) أن لا یکون لباس شھرۃ۔
ان تمام شرطوں کی کافی ووافی وضاحت فرمائی ہے ۔البتہ انھوں نے چہرہ کے پردہ کو واجب قرا رنہیں دیا اور بڑے شرح و بسط کے ساتھ چہرہ کے پردہ کی حدیثوں پر بحث کی ہے۔ مضبوط علمی دلائل سے جو رائے ان کے نزدیک راجح قرار پائی اس کا اظہار کر دیا ہے۔ شیخ کی اس رائے سے اختلاف بھی کیا گیا ہے۔ تاہم ان کے دلائل کی قوت سبھی تسلیم کرتے ہیں۔
۱۷۔ محمد الغزالی رحمہ اللہ اور د.سعید رمضان البوطی دونوں نے فقہ السیرۃ کے نام سے الگ الگ کتابیں لکھیں ہیں جن کی شیخ نے تخریج کی ہے۔ لیکن دونوں ہی مصنفوں نے شیخ کی متعدد رایوں سے اتفاق نہیں کیا۔ اس سلسلہ میں شیخ کے اور ان کے مابین کافی تلخی بھی ہوئی۔ البوطی کے تعقب میں شیخ البانی نے الگ سے ایک رسالہ بھی لکھا ہے: دفاع عن الحدیث النبوی و الرد علی جھالات الدکتور البوطی فی فقہ السیرۃ۔
۱۸۔ شیخ البانی کی تعقیبات، تنقیدات، ردود و مناظرات کی تعداد تقریباً ۲۴ تک پہنچتی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ابراہیم محمد العلی: محمد ناصر الدین الالبانی صفحہ ۹۴ تا ۱۱۳۔
۱۹۔ نفس مصدر صفحہ ۲۱ تا ۲۸۔
۲۰۔ فقہ السنۃ مصری عالم اور اخوان المسلمون کے رکن سید سابق رحمہ اللہ نے لکھی ہے جس میں مروجہ مذاہب فقہ کی بجائے سنت کو اصل بنیاد بنایا ہے۔ البتہ متعدد مسائل میں فقہ حنبلی کی طرف مصنف کارجحان بالکل واضح ہے۔ تاہم اس کتاب میں احادیث کی تصحیح و تحقیق میں متعدد فاش غلطیاں راہ پاگئی ہیں جس کی وجہ سے شیخ البانی نے اس کتاب پر تنقیدی نظر ڈالی اور اپنی تعلیقات کو ایک جلد میں جمع کر دیا ہے۔ جس کانام تمام المنۃ ہے۔ تمام المنۃ کے مقدمہ میں ترتیب وار سید سابق کی غلطیاں بیان کی ہیں۔ اس کے علاوہ ۱۵ علمی وتحقیقی قاعدے بھی بیان فرمائے ہیں۔ اس طرح دو سری کتابوں کے مقدموں کے ساتھ تمام المنۃ کا مقدمہ بھی بیش بہا علمی فوائد کا حامل اورخاصے کی چیز بن گیا ہے۔
۲۱۔ شیخ البانی دوبار شام میں قید کیے گئے۔ ایک بار ایک مہینہ تک اور دوسری بار ۶ ماہ تک۔ اس کے بعد رمضان ۱۴۰۰ھ میں دمشق سے عمان کو ہجرت پر مجبور ہوئے لیکن جلد ہی وہاں سے دمشق آنا پڑا۔ اس وقت خطہ کے حالات خاصے مخدوش تھے چنانچہ دمشق سے پھر بیروت گئے۔ بیروت میں زیادہ مدت تک قیام نہ رہ سکا۔ اور وہاں سے امارات آئے۔ امارات میں شیخ کے بعض احباء و تلامذہ نے پر جوش استقبال کیا۔ اور کافی مدت تک امارات میں قیام پذیر رہے اور علمی افادہ کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ امارات کے زمانۂ قیام ہی میں خلیج کی دوسری ریاستوں قطر و کویت وغیرہ میں آنے جانے کے مواقع ملے۔ تین سال سعودی عرب میں آپ کا قیام رہا۔ جب مدینہ میں جامعہ اسلامیہ کی تاسیس ہوئی اور اس کے پہلے صدر اور مملکت کے مفتی اکبر شیخ محمد ابراہیم آل الشیخ کی ایماء پر آپ وہاں تشریف لے گئے اور ۱۳۸۱ھ تا ۱۳۸۳ھ وہیں رہے۔ اور حدیث کی تدریس کے فرائض انجام دیئے۔ وہاں آپ کا عہدہ برصغیر کی اصطلاح میں شیخ الحدیث کا تھا۔ اسی مدت میں آپ کے فکری منہج کی گہری چھاپ جامعہ اسلامیہ مدینہ پر پڑ گئی۔ تاہم اس کے بعد بحکم المعاصرۃ أصل المنافرۃ بعض حاسدوں نے آپ کے خلاف مہم چلائی۔ لہٰذا اس کے بعد شیخ پھر مکتبہ ظاہریہ دمشق لوٹ آئے۔
۲۲۔ وفی عام ۱۴۱۹ھ ۱۹۹۹ء منح الشیخ جائزۃ الملک فیصل العالمیۃ للدراسات الإسلامیۃ وذلک تقدیراً لجھودہ القیمۃ فی خدمۃ الحدیث النبوی تخریجا و تحقیقا و دراسۃ۔ ملاحظہ ہو إبراہیم محمد العلی: محمد ناصر الدین الألبانی محدث العصر و ناصر السنۃ صفحہ ۳۹۔ نیز حاشیہ نمبر ۱ کے تحقیق مذکور تمام مراجع۔
۲۳۔ ابراہیم محمد العلی دکتور: محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ محدث العصر و ناصر السنۃ دار القلم دمشق صفحہ ۴۹-۵۰طبعۃ ۲۰۰۳ء
۲۴۔ ملاحظہ ہو شیخ البانی کا طویل انٹرویو شائع کردہ ماہنامہ ’’التوعیہ‘‘ مرکز ابو الکلام للتوعیۃ الاسلامیہ نئی دہلی نومبر ۱۹۹۵ء۔ انٹرویو کا ترجمہ مولانا رفیق احمد سلفی کے قلم سے۔
۲۵۔ مرجع مذکور عربی شعر کا ترجمہ ہے: تم نجات تو چاہتے ہو لیکن اس کے رستے پر نہیں چلتے ، کشتی خشکی پر چلتی ہے؟
۲۶۔ ملاحظہ ہو: محمد ناصر الدین الألبانی: سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ المجلد الأول مکتبۃ المعارف الریاض للنشر و التوزیع۔ طبع ثانی ۲۰۰۰ء صفحہ ۴۷۔
۲۷۔ مصدر سابق صفحہ ۴۲۔
۲۸۔ محمد ناصر الدین الألبانی: الحدیث حجۃ بنفسہ فی العقائد و الأحکام اردو ترجمہ ’’حجیت حدیث‘‘ بدر الزماں نیپالی صفحہ ۹۰۔
۲۹۔ شبیر احمد ازہر میرٹھی رحمہ اللہ: تقریب المأمول فی أصول حدیث الرسول مقدمہ نھایۃ التحقیق شرح مسند أبو بکر الصدیق جزء اول مکتبہ ازہریہ رائد میرٹھ یوپی صفحہ ۲۸ تا ۳۱۔
۳۰۔ ملاحظہ محمد ناصر الدین الألبانی رحمہ اللہ: مقدمۃ تمام المنۃ فی التعلیق علی فقہ السنۃ طبعۃ جدیدۃ دار الرایۃ للنشر و التوزیع ۱۴۲۲ھ-۲۰۰۱ء القاعدۃ الثانیۃ عشرۃ صفحہ ۳۴۔
۳۱۔ ملاحظہ ہو محمد ناصر الدین الألبانی: الأحادیث الضعیفۃ و أثرھا السیء علی الأمۃ۔ مقدمہ۔ المجلد الأول مکتبۃ المعارف للنشر و التوزیع الریاض طبع ثانی ۲۰۰۰ء۔ نیز مولانا ابو سحبان روح القدس ندوی کا مختصر مقالہ ’’محدث جلیل علامہ محمد ناصر الدین البانی، حیات و خدمات‘‘، مولانا ندوی نے یہ تو لکھا ہے کہ مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ نے الألبانی أخطاء ہ و شذوذہ کے نام سے عربی میں ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے۔ جس میں شیخ کے تفردات اور تحقیق کی غلطی کا جائزہ لیا گیا ہے جس سے اہل علم واقف ہیں۔ مگر مولانا ندوی یہ ذکر کرنا بھول گئے کہ عالم عرب میں اس کتاب کو ارشد السلفی کے نام سے شائع کیا گیا تھا۔
۳۲۔ یہ انتقادات اس سائٹ پر ملیں گے:
http://www.ahlulhadeeth.net/cc/vb/showthread.php=616
حزب اللہ کے دیس میں (۲)
محمد عمار خان ناصر
امام اوزاعی نے جبل لبنان کے اہل ذمہ کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں جو ذمہ داری ادا کی، وہ اسلامی تاریخ کی کوئی نادر مثال نہیں ہے۔ اسی نوعیت کی ایک روشن مثال آٹھویں صدی کے عظیم مجدد اور مجاہد امام ابن تیمیہ کے ہاں بھی ملتی ہے۔ امام صاحب کے زمانے میں جب تاتاریوں نے دمشق پر حملہ کر کے بہت سے مسلمانوں اور ان کے ساتھ دمشق میں مقیم یہودیوں اور مسیحیوں کو قیدی بنا لیا تو امام صاحب علما کا ایک وفد لے کر تاتاریوں کے امیر لشکر سے ملے اور اس سے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ تاتاری امیر نے ان کے مطالبے پر مسلمان قیدیوں کو تو چھوڑ دیا، لیکن یہودی اور مسیحی قیدیوں کو رہا نہیں کیا۔ ا س پر امام صاحب نے اس سے کہا کہ :
’’تمھیں ان تمام یہودیوں اور مسیحیوں کو جو ہمارے اہل ذمہ ہیں اور تمھارے قبضے میں ہیں، چھوڑنا ہوگا۔ ہم تمہارے پاس اپنا کوئی قیدی نہیں چھوڑیں گے، خواہ وہ مسلمان ہو یا اہل ذمہ میں سے۔ اہل ذمہ کے وہی حقوق ہیں جو ہمارے ہیں اور ان کے فرائض بھی وہی ہیں جو ہمارے ہیں۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ ۲۸/۶۱۷، ۶۱۸)
چنانچہ تاتاری امیر کو یہودی اور مسیحی قیدیوں کو بھی رہا کرنا پڑا۔
عارف حسین نے الشیخ طاہر سلیم کردی سے ہماری ملاقات کا اہتمام بھی کیا تھا جو لبنان کے نائب امین الفتویٰ ہیں۔ یہ ملاقات بیروت شہر کے عین وسط میں واقع بے حد خوب صورت جامع مسجد محمد خاتم النبیین کے ساتھ ان کے دفتر میں ہوئی۔ مسجد ایک چوک میں واقع ہے اور اس کے ارد گرد کا سارا علاقہ بیروت کا بلکہ شیخ کے بیان کے مطابق پورے شرق اوسط کا مہنگا ترین علاقہ ہے اور یہاں جائیداد کی قیمت دوبئی سے بھی زیادہ ہے۔ شیخ کے دفتر کی کھڑکی باہر کی طرف جس سڑک پر کھلتی ہے، شیخ نے بتایا کہ ۷۵ء سے ۹۰ء تک کی خانہ جنگی کے زمانے میں یہ سڑک متحارب فریقوں کے مابین حد فاصل کی حیثیت رکھتی تھی اور سڑک کے مغرب میں واقع علاقہ مسلمانوں کے جبکہ مشرق کی طرف کا علاقہ مسیحیوں کے زیر تصرف تھا۔ دونوں فریق مسلح تھے اور باقاعدہ منظم ہو کر ایک دوسرے کے علاقوں پر حملے کیا کرتے تھے۔ شیخ طاہر سلیم ماشاء اللہ نوجوان، وسیع المطالعہ اور صاحب علم وفضل شخصیت ہیں۔ علم حدیث سے خاص شغف رکھتے ہیں۔ انھوں نے مختلف مشائخ حدیث سے اپنی ملاقاتوں کے واقعات بھی سنائے۔ دوران گفتگو مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ کا ذکر ہوا تو انھوں نے بڑی محبت اور عقیدت سے بتایا کہ وہ ان کے شاگرد ہیں اور مدینہ منورہ میں ان کی صحبتوں سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ انھوں نے الشیخ عبد الفتاح ابوغدہؒ کا ذکر بھی کیا اور بتایا کہ شیخ کے انتقال سے کچھ ہی عرصہ پہلے ان کی شیخ سے آخری اور تفصیلی ملاقات ہوئی جسے انھوں نے ویڈیو کیمرے کے ذریعے سے باقاعدہ محفوظ کر لیا۔
شیخ طاہر سلیم نے کہا کہ فرانسیسی حکمرانوں نے اپنے دور انتداب میں مسلمانوں کے ساتھ دو بڑی زیادیاتیاں کیں۔ ایک یہ کہ ان کے تعلیمی ومذہبی اداروں کے اوقاف ضبط کر لیے جو بعد میں مختلف مذہبی گروہوں اور سرکاری تحویل میں چلے گئے۔ مثال کے طورپر انھوں نے بتایا کہ ساحل سمندر کے ساتھ واقع وہ سارا علاقہ جہاں اس وقت بیروت کا ایئر پورٹ قائم ہے اور بلاشبہ اربوں روپے کی ماہانہ آمدن کا ذریعہ ہے، یہ مسلمانوں کے اوقاف میں شامل تھا۔ شیخ نے دوسری زیادتی یہ بتائی کہ فرانس نے جانے سے پہلے یہاں تقسیم اقتدار کا ایسا فارمولا بنایا جس کی رو سے لبنان کی صدارت مستقل طور پر مارونی مسیحیوں کا حق قرار پائی۔ اس کے علاوہ بھی اہم سرکاری مناصب انھی کے پاس ہیں۔ شیخ نے بتایا کہ اب اہل تشیع اقتدار میں اشتراک کے اس فارمولے پر مطمئن نہیں ہیں اور اس تناسب کو بدلنے کے لیے وقتاً فوقتاً آواز بلند کی جا رہی ہے۔ شیخ نے یہ بھی فرمایا کہ لبنان میں مذہبی اور نسلی حوالے سے ایک خاص تناؤ پایا جاتا ہے اور مسلمانوں کو بہرحال بڑی احتیاط اور توازن سے کام لینا پڑتاہے، تاہم اس ماحول میں دعوت اسلام کے بھی بڑے امکانات ہیں اور ہم پر اس ضمن میں بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ شیخ نے لبنان کے اہل سنت کے زیر اہتمام قائم بعض جامعات اور دعوتی اداروں کے متعلق بھی بتایا اور فرمایا کہ اگر ہم وقت نکال سکیں تو وہ ہمیں ان اداروں کا وزٹ کرانے کا اہتمام کر سکتے ہیں، لیکن ہمارے تربیتی کورس کا پہلے سے طے شدہ شیڈول اس میں بھی مانع رہا اور کوئی صورت نہ بن سکی۔ شیخ طاہر سلیم سے ملاقات جتنی مفید اور معلومات افزا تھی، افسوس ہے کہ اتنی ہی مختصر بھی رہی۔ وہ اپنی مصروفیات میں سے خاص طور پر وقت نکال کر ہماری ملاقات کے لیے مسجد محمد میں تشریف لائے تھے اور اس کے بعد بھی انھیں کہیں جانا تھا۔ چنانچہ ہم عشا کی نمازپڑھ کر ان سے رخصت ہوئے۔
بیروت کے بعض حصوں کو دیکھنے کی تقریب ایران سے آئے ہوئے شیعہ عالم الشیخ محمد ابراہیمی نے پیدا کی۔ ریڈ کراس کے زیر اہتمام بین الاقوامی انسانی قانون سے متعلق تربیتی کورس کے لیے ہمیں بیروت کے محلے حازمیہ کے ایک مشہور اور معیاری ہوٹل فندق روتانا میں ٹھہرایا گیا تھا۔ حازمیہ مسیحی آبادی کا علاقہ ہے۔ میں نے ۲۸؍ مارچ کو ہوٹل میں پہنچتے ہی استقبالیہ سے معلوم کیا کہ یہاں قریبی مسجد کون سی ہے تو جواب ملا کہ مسجد یہاں سے خاصے فاصلے پر ہے اور شاید ٹیکسی لے کر وہاں جانا پڑے گا۔ خیر میں عصر کی نماز کے بعد باہر نکلا اور خاصی دور تک سڑکوں پر گھوم پھر کر مسجد تلاش کرتا رہا، لیکن واقعتا قریب میں کوئی مسجد نہیں تھی، البتہ ایک آدھ گرجا ضرور دکھائی دیا۔ اگلے دن فجر کے وقت مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے ہوٹل کے عقب میں دور سے کہیں اذان کی مدھم سی آواز آ رہی ہے۔ خیر میں نے ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب کے کمرے میں ان کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنا شروع کر دی۔ ایک دو روز کے بعد قاری محمد حنیف جالندھری بھی پہنچ گئے اور پھر باقی ایام کے لیے وہی ہمارے مستقل امام قرار پائے۔ ہمارے قیام کے دوران میں دو جمعے آئے اور اہل عرب کو خطبہ جمعہ سنانے اور نماز کی امامت کرانے کا اعزاز باری باری قاری محمد حنیف صاحب اور ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب کو ملا۔ قاری محمد حنیف صاحب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جوامع الکلم پر مشتمل وہ جامع خطبہ پڑھا جو برصغیر میں عام طور پر جمعہ کے موقع پر پڑھا جاتا ہے جس سے حاضرین بہت متاثر ہوئے اور متعدد حضرات نے ایسا فصیح وبلیغ اور جامع خطبہ پڑھنے پر انھیں داد دی۔ جمعے کی نماز سے فارغ ہوتے ہی بیشتر حضرات نے وہیں جمع بین الصلاتین کرتے ہوئے عصر کی نماز بھی ادا کرنا چاہی۔ قاری محمد حنیف صاحب نے حنفی فقہ کے مطابق معذرت کر لی تو امامت کے لیے ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب کو آگے کر دیا گیا۔ بعد میں ایک موقع پر حالت سفر میں نماز قصر کرنے کا ذکر ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے ایک عرب دوست کو بتایا کہ ہم حنفی ہیں اور احناف کے نزدیک پندرہ دن سے کم مدت سفر میں نماز قصر کی جاتی ہے۔ قاری حنیف صاحب تاک میں تھے۔ انھوں نے فوراً پھبتی کسی کہ ڈاکٹر صاحب مدت سفر کے معاملے میں تو حنفی ہیں لیکن جمع بین الصلاتین کے معاملے میں نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ان کی رائے میں جمع بین الصلاتین کے جواز پر احادیث میں مضبوط دلائل موجود ہیں، اس لیے وہ حنفی ہونے کے باوجود اس مسئلے میں دوسرے ائمہ کی راے کو زیادہ درست سمجھتے ہیں۔ راقم کی رائے میں بھی یہی موقف اقرب الی الصواب ہے، چنانچہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے حنفی ہونے کے باوجود دوسرے بہت سے مسائل کی طرح اس مسئلے میں بھی شوافع وغیرہ کے موقف کو ترجیح دی ہے۔ (ازالۃ الخفاء ۲/۹۵)
خیر ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہم جس علاقے میں ٹھہرے ہوئے ہیں، وہ مسیحی آبادی کا ہے، چنانچہ تین چار روز تک ہم آپس میں اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ یہاں کے مسلمان دین سے کس قدر لا تعلق ہیں کہ پورے محلے میں کہیں کوئی مسجد نہیں ہے۔ ادھر ایران سے آئے ہوئے الشیخ محمد ابراہیمی اپنے طور پر ہوٹل سے خاصے فاصلے پر اہل تشیع کی ایک دو مسجدیں تلاش کر چکے تھے۔ ایک دن باہمی گفتگو میں مسجد کا ذکر ہوا تو انھوں نے بتایا کہ انھیں مسجد کا راستہ معلوم ہے اور وہ روزانہ ایک آدھ نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے وہیں جاتے ہیں۔ چنانچہ اس دن ہم عصر کے بعد اکٹھے نکلے اور شیخ کی راہ نمائی میں ایک مسجد جا پہنچے۔ ہماری خوش گمانی تھی کہ شاید یہ اہل سنت کی کوئی مسجد ہوگی۔ مسجد کے قریب پہنچے تو کوئی نوجوان لاؤڈ اسپیکر پر نہایت خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا اور ذرا فاصلے سے ہی اس کی آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی، لیکن قریب جا کر دیکھا تو وہ اہل تشیع کی مسجد نکلی۔ اب شیخ ابراہیمی ساتھ تھے اور ہمارے لیے ’پاے رفتن نہ جاے ماندن‘ کی صورت حال تھی۔ بہرحال مغرب کی نماز میں ابھی کچھ وقت تھا۔ قاری محمد حنیف صاحب نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ابھی خاصا وقت ہے، اس لیے آگے کسی اور مسجد کی طرف چلتے ہیں۔ شیخ ابراہیمی بھی سادہ پرکار تھے، ہمیں لے کر آگے چل دیے اور تھوڑی ہی دور واقع مسجد الحسنین میں لے گئے جو لبنان کے سب سے بڑے شیعہ عالم اور مرجع الشیخ حسین فضل اللہ کی مسجد ہے جنھیں ان کے علمی مقام ومرتبہ اور تصنیفی وتحقیقی خدمات کی وجہ سے پوری شیعی دنیا میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پتہ چلا کہ علامہ حسین فضل اللہ خود تو ان دونوں خاصے علیل ہیں اور نماز کی امامت اور خطبہ جمعہ وغیرہ کی ذمہ داری ان کے صاحبزادے کے سپرد ہے۔ (اخباری اطلاع کے مطابق گزشتہ دنوں ان کا انتقال ہو گیا ہے۔)
مسجد الحسنین ایران اور عراق کے مخصوص شیعہ طرز تعمیر کے مطابق بنائی گئی بے حد خوب صورت، شاندار اور وسیع مسجد ہے اور حسن انتظام، صفائی ستھرائی اور خوش سلیقگی کا بہت عمدہ نمونہ پیش کرتی ہے۔ ہم نے یہاں زندگی میں پہلی مرتبہ کسی شیعہ عبادت گاہ میں شیعہ امام کے پیچھے نماز مغرب ادا کی۔ میں صف میں کھڑا ہوا تو محسوس ہوا کہ میرے اور دائیں اور بائیں کھڑے نمازیوں کے مابین خاصا فاصلہ ہے، چنانچہ میں نے ایک طرف کے نمازی کے قریب ہو کر دوسری طرف کھڑے صاحب کو اشارہ کیا کہ وہ ساتھ ہو جائیں، لیکن انھوں نے کوئی توجہ نہ دی۔ اس پر دوسری طرف کے صاحب نے مجھے کہا کہ آپ واپس اپنی جگہ پر چلے جائیں۔ میں نے ذرا توجہ سے دائیں بائیں دیکھا تو پوری صف کی صورت حال یہ تھی کہ ہر نمازی مصلے پر بنی ہوئی محراب کی جگہ پر کھڑا تھا اور ہر دو نمازیوں کے مابین اتنی جگہ خالی چھوڑ دی گئی تھی کہ مجھ جیسا دبلا پتلا نمازی وہاں آسانی سے کھڑا ہو سکتا تھا۔ خیر نماز شروع ہوئی۔ طریقہ نماز یہ تھا کہ تکبیر تحریمہ لے کر سلام تک رکوع وسجود اور قومہ وجلسہ کی تسبیحات اور دعاؤں سمیت ساری نماز جہری تھی۔ امام صاحب نے اللہ اکبر کہتے ہی فوراً سورۂ فاتحہ کی تلاوت شروع کر دی۔ نماز کے ہر رکن میں ’’اللہم صل علی محمد وآل محمد‘‘ کا ورد کیا گیا، جبکہ دوسری یا تیسری رکعت میں دعاے قنوت بھی پڑھی گئی۔ آخر میں ایک سلام سے نماز ختم کی گئی اور شیعہ حضرات کے مخصوص طریقے کے مطابق بار بار ہاتھ اٹھا کر رفع یدین کیا گیا۔ سلام پھرنے کے بعد ہر آدمی نے دائیں بائیں نمازیوں سے مصافحہ کیا۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جیسے ہی امام صاحب تیسری رکعت میں سجدے سے اٹھ کر تشہد کے لیے بیٹھے، میری بائیں جانب کھڑے صاحب، جو ابتدا سے نماز میں شریک تھے، امام صاحب کے سلام پھیرنے سے پہلے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک رکعت مزید شامل کر کے چار رکعتیں مکمل کر لیں۔ پھر یہ محسوس کرتے ہوئے کہ میں یہاں نووارد اور شیعہ طریقہ نماز سے ناواقف ہوں، انھوں نے میرے سامنے باقاعدہ وضاحت کی کہ میں مغرب کی نماز پہلے پڑھ چکا ہوں اور یہ میں نے عشا کی نماز ادا کی ہے۔
بہرحال یہ تجربہ دلچسپ رہا۔ میرے ذہن میں اس سے پہلے شیعہ اور سنی طریقہ نماز کا نمایاں فرق یہی تھا کہ اہل سنت عام طور پر ہاتھ باندھ کرنماز پڑھتے ہیں اور شیعہ ہاتھ کھلے چھوڑ کراور یہ کہ وہ سجدے کے لیے ٹھیکری یا لکڑی کا کوئی ٹکڑا سامنے رکھ لیتے ہیں۔ (مسجد الحسنین میں، میں نے بعض لوگوں کو ٹشو پیپر پر سجدہ کرتے ہوئے بھی دیکھا۔) لیکن یہاں تو معاملہ وہ نکلا کہ:
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
شیعہ امام کے پیچھے نماز کا ارتکاب کرنے کے بعد ہم تینوں سنی اکٹھے ہوئے تو باہم مشورہ ہوا کہ نماز ہو گئی ہے یا نہیں؟ قاری محمد حنیف صاحب نے بتایا کہ انھوں نے نماز دہرا لی ہے، جبکہ ڈاکٹر عصمت اللہ نے کہا کہ وہ اس کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ بعد میں الشیخ طاہر سلیم کردی سے ملاقات میں ہم نے ان سے مسجد الحسنین میں نماز مغرب کی ادائیگی کا ذکر کیا اور پوچھا کہ شیعہ کے پیچھے نماز ادا ہو جاتی ہے یا نہیں؟ انھوں نے کہا کہ یہاں لبنان میں معمول یہی ہے کہ اہل سنت، شیعہ کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ ہم نے پوچھا کہ معمول سے ہٹ کر اصولی طور پر اس کی گنجائش ہے یا نہیں؟ اس کے جواب میں شیخ نے مالابار کے ایک معروف شافعی فقیہ کی کتاب ’’فتح المعین‘‘ کی یہ عبارت سنائی کہ: ’وتجوز الصلاۃ خلف الرافضی اذا لم یصرح بما یکفر بہ وکانت ارکانہا توافق ارکاننا‘ یعنی اگررافضی اپنے کفریہ عقائد کا برملا اظہار نہ کرتا ہو اور اس کی نماز کے بنیادی ارکان ہماری نماز کے ارکان کے مطابق ہوں تو اس کے پیچھے نماز ادا ہو جائے گی۔ مجھے یاد آیا کہ امام ابن تیمیہ نے بھی، جو اسلامی تاریخ میں شیعہ سنی علمی نزاعات کے حوالے سے اہل سنت کے شاید سب سے ممتاز وکیل ہیں، اپنے فتاویٰ میں روافض کے گمراہ کن اور کافرانہ عقائد پر سخت ترین تبصرے کرنے کے باوجود رافضی امام کی اقتدا میں نماز کو جائز قرار دیا ہے، بلکہ اس بات کو اہل سنت کے مقابلے میں گمراہ فرقوں کی خصوصیت شمار کیا ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی دوسرے فرقے کے امام کے پیچھے نماز ادا کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
شیخ محمد ابراہیمی جامعہ شہید بہشتی قم میں استاذ اور متعدد علمی کتابوں کے مصنف ہیں۔ نہایت سادہ، نرم خو اور مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کا جھکاؤ اہل تشیع کے طبقہ اصولیین کی طرف تھا، چنانچہ وہ بار بار قرآن اور اس کے بعد عقل کی اہمیت پر زور دیتے اور ان کے مقابلے میں اخبار وروایات کو زیادہ اہمیت نہ دینے پر اصرار کرتے تھے، بلکہ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ شیعہ اصول فقہ میں عقل کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور ایک مجتہد اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے براہ راست نصوص سے استنباط کا اصولی طور پر اختیار رکھتا ہے، لیکن اہل تشیع کے مراجع بھی اب اس اصول سے عملاً کام نہیں لیتے اور تقلیدی منہج پر ہی فتوے جاری کرتے رہتے ہیں۔ شیخ ابراہیمی سے مختلف مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ خلافت وامامت کے موضوع پر بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ یہ ایک اجتہادی اور سیاسی نوعیت کا اختلاف تھا۔ صحابہ کی اکثریت نے یہ سمجھا کہ حضرت ابوبکر اس منصب کے زیادہ حق دار ہیں اور انھوں نے انھیں خلیفہ منتخب کر لیا۔ جہاں تک روحانی فضیلت کا تعلق ہے تو تصوف کے زیادہ تر سلسلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ اپنی نسبت سیدنا علی کے واسطے سے جوڑتے ہیں جس کامطلب یہ ہے کہ اس معاملے میں حضرت علی کی افضلیت کو اہل سنت بھی تسلیم کرتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ مستند شیعہ اکابر کی تصریحات اس کے برعکس ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا علی کی بیعت نہیں کی، انھوں نے ارتداد کا ارتکاب کیا۔ شیخ نے اس کا دلچسپ جواب دیا اور کہا کہ ایسی عبارات میں ’ارتدوا‘ کا لفظ تردد اور اشتباہ کے معنی میں ہے، یعنی صحابہ کو اشتباہ لاحق ہو گیا اور وہ تردد میں پڑ گئے کہ اس معاملے میں کیا فیصلہ کریں۔ تحریف قرآن کے حوالے سے شیخ نے کہا کہ اہل تشیع اس کے قائل نہیں اور موجودہ قرآن کو ہی اصل اور مکمل قرآن مانتے ہیں، بلکہ انھوں نے ایک دلچسپ بات یہ کہی کہ عام طور پر علامہ نوری طبرسی کی کتاب ’’فصل الخطاب‘‘ کو اس بات کی دلیل کے طورپر پیش کیا جاتا ہے کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں، جبکہ مصنف نے یہ کتاب اس کے برعکس یہ ثابت کرنے کے لیے لکھی ہے کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی۔ (حالانکہ مصنف نے کتاب کی تمہید میں صراحتاً اپنا مقصد ’’اثبات تحریف‘‘ بیان کیا ہے۔)
ایک دن کھانے کی میز پر ان سے جمع بین الصلاتین کے مسئلے پر بات ہوئی۔ میں نے شیخ ابراہیمی سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو نماز کے پانچ اوقات مقرر کیے ہیں اور عام معمول میں ہر نماز اپنے اپنے وقت میں ہی ادا کی ہے تو پھر شیعہ حضرات ظہرین اور مغربین کو جمع کیوں کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک حدیث میں حالت حضر میں کسی عذر کے بغیر بھی آپ کے جمع بین الصلاتین کرنے کا ذکر ہوا ہے۔ ان کا اشارہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی اس مشہور حدیث کی طرف تھا جس میں من غیر خوف ولا مطر نمازیں جمع کیے جانے کا ذکر ہوا ہے۔ ڈاکٹر عصمت اللہ نے کہا کہ: ولکن ہذا الحدیث لم یاخذ بہ احد من الفقہاء (اس حدیث کو فقہا میں سے کسی نے بھی اختیار نہیں کیا)۔ اس پر شیخ نے برجستہ جواب دیا: نحن اخذنا بہ (ہم نے اختیار کیا ہے)۔ البتہ اس بات کا کوئی تشفی بخش جواب ان سے نہ مل سکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر عذر کے ہی سہی، حضر میں جمع بین الصلاتین کرنے کا واقعہ ایک آدھ مرتبہ کا ہے تو پھر اہل تشیع کے ہاں اسے ایک مستقل معمول کی حیثیت سے کیوں اختیار کر لیا گیا ہے۔ بہرحال شیخ ابراہیمی کے حسن طبیعت کی وجہ سے ان سے بے تکلفی کا تعلق بن گیا اور عمر کے باہمی تفاوت کے باوصف ہم ان کے ساتھ مزاح بھی کرتے رہتے تھے جس کا انھوں نے بالکل برا نہیں منایا۔
بیروت میں دو ہفتے کے قیام کے دوران میں پہلی مرتبہ فصیح کتابی عربی سے ہٹ کر اس عامیانہ زبان سے واسطہ پڑا جس کے قصے اور لطائف اس سے پہلے بالواسطہ سننے میں آتے تھے۔ تربیتی کورس کے بیشتر محاضرات عربی زبان میں جبکہ چند ایک انگریزی زبان میں تھے جس کے لیے فوری عربی ترجمے کا انتظام کیا گیا تھا۔ زیادہ تر ماہرین نے فصیح عربی میں گفتگو کی اور ان کا مدعا سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی، تاہم مصر اور لبنان کے بعض حضرات کی زبان پر عامی لہجہ اتنا پختہ ہو چکا تھا کہ ایک علمی موضوع پر بات کرتے ہوئے بھی انھیں فصیح لہجے میں گفتگو کرنے میں دقت پیش آتی تھی۔ ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب نے تو سترہ اٹھارہ سال سعودی عرب میں گزارے ہیں، اس لیے انھیں عامی لہجے سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی، تاہم ہمارے لیے ان حضرات کی گفتگو میں اکثر ’’زبان یار من عامی ومن عامی نہ می دانم‘‘ کی صورت حال پیدا ہو جاتی تھی۔ ڈاکٹر عصمت اللہ نے مختلف مواقع پر دو تین مرتبہ فاضل محاضر کو روک کر درخواست کی کہ بعض حضرات عامی لہجہ نہیں سمجھ سکتے، اس لیے ازراہ کرم فصحی میں گفتگو کی جائے۔ فاضل محاضر نے کہا کہ اچھا، میں کوشش کرتا ہوں، لیکن چند منٹ کے بعد بے ساختہ ان کی پٹڑی بدل جاتی اور وہ عامی لہجہ بولنا شروع کر دیتے۔ اس پر مجھے زمانہ طالب علمی کا ایک لطیفہ یاد آ جاتا۔ ۱۹۸۹ء میں، میں مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں درجہ رابعہ کا طالب علم تھا۔ شرح جامی کے نصف اول کی تدریس مولانا قاضی حمید اللہ خان کرتے تھے جبکہ نصف ثانی مولانا سید عبد المالک شاہ صاحب کے سپرد تھا۔ کلاس میں اکثریت پٹھان طلبہ کی تھی جبکہ ایک آدھ پنجابی طالب علم بھی تھا۔ سید عبد المالک شاہ صاحب ہماری رعایت سے اردو میں سبق پڑھانا شروع کرتے، لیکن تھوڑی دیر کے بعد انھیں محسوس بھی نہ ہوتا اور وہ پشتو بولنا شروع کر دیتے۔ کچھ وقت گزرنے پر انھیں تنبہ ہوتا تو وہ فرماتے، ’’او ہو، میں پشتو بول رہا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ دوبارہ اردو میں تقریر شروع کرتے، لیکن یہ سلسلہ جاری رہتا۔
میں نے یمن کے الدکتور احمد سے کہا کہ مجھے مصری اور سوری لہجے سمجھنے میں کافی دقت پیش آتی ہے اور بعض اوقات لگتا ہے کہ ہم کوئی بالکل نئی زبان سیکھ رہے ہیں (انہ بمثابۃ تعلم لغۃ جدیدۃ تماما)۔ اس پر وہ بہت ہنسے اور کہا کہ بعض اوقات خود ہمیں بھی یہ لہجے سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ بہرحال دو ہفتے کی مدت میں اس عامی عربی کے جو موٹے موٹے صرفی ونحوی قاعدے یا بے قاعدگیاں میری سمجھ میں آ سکیں، وہ یہ ہیں:
مضارع کے صیغوں پر باے جر داخل کرنا معمول ہے، مثلا: تَتَکلمُ کو بِتتکلمُ اور تشتری کو بِتشتری پڑھتے ہیں۔
حرف جر کے معمول اور مضاف الیہ پر جر کے بجائے رفع یا نصب پڑھا جاتا ہے، مثلاً: فی حدُّ ذاتُہُ، علی زیادۃُ وزنُہُ۔
’کُلُّہا‘ یا اس طرح کی تاکیدات میں متبوع کے اعراب کی موافقت کے بجائے ہر جگہ نصب پڑھتے ہیں۔ (الشیخ طاہر سلیم کردی نے گفتگو کرتے ہوئے اسی عادت کے مطابق دو تین دفعہ ’کُلَّہا‘ کہا لیکن پھر فوراً متنبہ ہو کر اعراب درست کیا اور مجلس میں موجود ایک نوجوان فاضل الاستاذ خلیل عجینہ کی طرف اشارہ کر کے، جو عربی ادب میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں، کہا کہ: ’ہو یحاسبنا علی ذالک‘ یعنی وہ اس طرح کی غلطیوں پر ہمارا محاسبہ کرتے ہیں)۔
نحن کو اِحنا بولا جاتا ہے اور کیف انت کو کیفک۔ اسی طرح إِنّہ اور أَنّہ کو مخفف کر کے إِنّو اور أَنّو پڑھا جاتا ہے اور الذی اور التی نے إِلِّی کی شکل اختیار کر لی ہے۔
مصری لہجے میں جیم مستقلاً گاف پڑھی جاتی ہے جبکہ ثاء کا تلفظ عامی زبان میں مستقلاً تا کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ قاف کو کبھی گاف سے اور کبھی ہمزہ سے بدل دیا جاتا ہے۔ مثلا یقول کو یگول یا یؤل پڑھا جائے گا۔ دلچسپ صورت حال ’دقائق‘ جیسے الفاظ میں پیدا ہوتی ہے جب وہ اس کو ’دء ائی‘ پڑھتے ہیں۔
لام تعریف کے ہمزہ وصل کو ملا کر پڑھنے کا کوئی تصور نہیں اور ہر کلمے کو الگ الگ ادا کیا جاتا ہے۔ مثلاً الاعترافُ الاقلیمیُّ بشرعیۃِ المُقاومۃِ الاِسْلامیَّۃ کو یوں پڑھا جائے گا: أَلإِعترافْ أَلْإِقلیمی بِشرعیۃْ أَلمُقاومۃْ أَلِاسلامیَّۃْ۔ اس میں غالباً اس پہلو سے سہولت ہے کہ ہر کلمے کا اعراب ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
تائے مدورہ والے ہر کلمے میں تا سے پہلے والے حرف پر کسرہ پڑھا جاتا ہے، مثلاً اللَّجنَۃُ الدَّولیَّۃُ کو اللَّجنِۃْ الدَّولیِّۃْ پڑھا جائے گا۔
’لِیْہ؟‘ یہ ’’کیوں‘‘ کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ دراصل لام تعلیل، اس کے بعد یاے اشباع اور آخر میں ہاے سکتہ سے مرکب ہے۔
’بس‘ کا لفظ بالکل اردو مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً: بس عشرۃ دقائق (بس دس منٹ)۔
الدکتور احمد ابو الوفا اپنی گفتگو میں بار بار ’خَدَّ لَکَ‘ کا لفظ بول رہے تھے۔ میں نے ڈاکٹر عصمت اللہ سے اس کا مطلب پوچھا تو انھوں نے کہا کہ غالباً یہ ’خُذْ بَالَکَ‘ (ذرا دھیان کرو) کا مخفف ہے۔
عربوں کے پھیکے اور ابلے ہوئے کھانے چکھنے کا بھی زندگی میں پہلی مرتبہ موقع ملا۔ غالباً مولانا مودودی نے کسی مغربی ملک کے سفر سے واپسی پر یہ تبصرہ کیا تھا کہ وہاں کی ہر چیز پھیکی ہے، یہاں تک کہ عورتیں بھی۔ بیروت میں یہ شکایت صرف کھانے کے بارے میں کی جا سکتی ہے۔ اسلامی تاریخ کے کسی معروف ماخذ میں یہ واقعہ پڑھنا یاد ہے کہ جب مسلمانوں نے بلاد شام کو فتح کیا تو ان کے امیر لشکر کی طرف سے سیدنا عمر کے نام یہ درخواست بھیجی گئی کہ مجاہدین کو یہاں کی خواتین کے حسن نے متاثر کیا ہے اور وہ آپ سے ان کے ساتھ شادی کی اجازت کے متمنی ہیں۔ کیا بھلا زمانہ تھا! البتہ یہاں حسن زن کے تجارتی استعمال کا رنگ وہی ہے جو ایک جدید مغرب زدہ معاشرے میں ہو سکتا ہے اور یہاں کی سڑکوں اور تجارتی پلازوں میں گھومتے ہوئے جگہ جگہ ایسی بے ہودہ اور واہیات تصویروں پر مشتمل سائن بورڈ نظر آتے ہیں جو نگاہوں کو شرم سے بے اختیار جھکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ آداب طعام سے متعلق ایک خاص بد مذاقی جس کا مشاہدہ اپنے ملک میں ہوتا رہتا ہے، یہاں بھی دکھائی دی۔ بے حد تعلیم یافتہ اور مہذب لوگوں کو بھی دیکھا کہ کھانے کی پلیٹ خوب اچھی طرح بھر کر لے آئے اور پھر تقریباً آدھا کھانا پلیٹ میں ضائع ہونے کے لیے چھوڑ کر کوئی اور چیز لینے کے لیے چلے گئے۔ ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب نے بتایا کہ یہ عربوں کا عام مزاج ہے اور عرب دنیا کے کھاتے پیتے لوگوں میں یہ منظر ہر جگہ دکھائی دیتا ہے۔
بیروت میں مجھے خاص طور پر یہ بات جاننے کا تجسس بھی رہا کہ یہاں کے اہل تشیع کا رویہ اہل سنت کے مذہبی احساسات وجذبات اور ان کی محترم مذہبی شخصیات کے بارے میں کیسا ہے۔ مسجد الحسنین کے باہر اہل تشیع کے ایک مکتبے پر میں کچھ دیر کتابوں کی ورق گردانی کرتا رہا۔ ایک کتاب کسی شیعہ عالم نے اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین نزاعی مسائل کے بارے میں مناظرانہ اسلوب میں لکھی تھی۔ مناظرے کا مزاج اور نفسیات بھی عجیب ہوتی ہے۔ سیدنا عمر پر کیے جانے والے اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہ تھا کہ صلح حدیبیہ تک ان کا ایمان پختہ نہیں ہوا تھا، کیونکہ اس موقع پر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی وجہ سے اسلام کی حقانیت کے حوالے سے سنگین شکوک وشبہات کا شکار ہو گئے تھے۔ اب اگر اس واقعے کو اس کے حقیقی تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر سیدنا عمر کے تحفظات اور شبہات دراصل ان کے ایمان واسلام کی غیر پختگی نہیں بلکہ اس کے ساتھ شدید جذباتی تعلق کا نتیجہ تھے اور وہ مشرکین مکہ کے ساتھ کسی بھی درجے کی مصالحت کو دینی غیرت کے منافی سمجھتے تھے، چنانچہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ: ’لم نعطی الدنیۃ فی دیننا؟‘ یعنی ہم اپنے دین کے معاملے میں ایک کمزور پوزیشن کیوں قبول کر رہے ہیں۔ یہ مناظرانہ نفسیات کا کمال ہے کہ ان کے اس رد عمل کو وہ مفہوم پہنا لیا جائے جو مذکورہ شیعہ مصنف نے پہنایا ہے۔ بہرحال اس نوع کی مناظرانہ بحثوں سے قطع نظر، میں نے اس ضمن میں شام اور لبنان سے تعلق رکھنے والے جن مختلف حضرات سے صورت حال دریافت کی، ان سب کا جواب یہی تھا کہ یہاں اہل سنت کو شیعہ حضرات سے خلفاے ثلاثہ یا امہات المومنین کے بارے میں سب وشتم کے طرز عمل کی شکایت نہیں ہے۔ شیخ طاہر سلیم سے اس مسئلے پر بات ہوئی تو انھوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔ ’’ماذا تعرف عن حزب اللہ‘‘ کے عنوان سے علی الصادق کی لکھی ہوئی ایک کتاب میں بھی جو انٹرنیٹ پر عام دست یاب ہے اور جس میں حزب اللہ کے شیعی تشخص کا پہلو دلائل وشواہد کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے، یہ کہا گیا ہے کہ :
’’وہ کسی ایسے امر کا اظہار نہیں کرتے جس سے اہل سنت کے جذبات کو ٹھیس پہنچے (اور ایسا وہ تقیہ کے طور پر کرتے ہیں)، بلکہ وہ صرف مسلمانوں کی وحدت اور قابض یہودیوں کے خلاف جنگ کی بات کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا لیڈر حسن نصر اللہ بھی اہل سنت اور شیعہ امامیہ کے مابین نزاعی مسائل میں الجھنے سے گریز کرتا ہے۔‘‘ (ص ۱۳۳)
بیروت سے میں نے جو مختلف کتابیں اور رسائل خریدے، ان میں ایک رسالہ مصر کے فاضل محقق الاستاذ محمد سلیم العوا کا ہے جو ’العلاقۃ بین السنۃ والشیعۃ‘ کے نام سے قاہرہ کے اشاعتی ادارے سفیر الدولیۃ للنشر نے شائع کیا ہے۔ مصنف نے اس کے صفحہ ۴۶، ۴۷ پر ڈاکٹر علی جمعہ کے حوالے سے، جو پہلے مصر کے مفتی عام تھے اور اب شیخ طنطاوی کی وفات کے بعد جامعہ الازہر کے سربراہ ہیں، بتایا ہے کہ کچھ عرصہ قبل بیروت کے ایک شیعہ ناشر نے معروف شیعہ عالم علامہ مجلسی کی ضخیم کتاب ’’بحار الانوار‘‘ شائع کی تو اس میں سے پوری پانچ جلدیں (۲۹ تا ۳۳) حذف کر دیں اور ڈاکٹر علی جمعہ کے دریافت کرنے پر بتایا کہ ان جلدوں میں ایسا مواد موجود ہے جو صحابہ کرام پر سب اور قدح کے زمرے میں آتا ہے اور اس کی اشاعت فتنے کا باعث بن سکتی ہے جس میں ناشر شریک نہیں ہونا چاہتا، البتہ اس نے دیانت داری کے تقاضے سے ۲۸ ویں جلد کے بعد ۳۴ ویں جلد میں روایات کے نمبر مسلسل درج نہیں کیے تاکہ قاری پر واضح رہے کہ درمیان سے کچھ جلدیں چھوڑ دی گئی ہیں۔ میرے نزدیک اس طرح کے مسائل میں یہی رویہ بہتر اور قابل تقلید ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے یہاں کے شیعہ مصنفین اور واعظین کو بھی اس طرز عمل سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔
(جاری)
مجوزہ نئی دینی تحریک: نوعیت اور حکمت عملی کی بحث
ڈاکٹر محمد امین
جناب محمد یوسف ایڈووکیٹ نے الشریعہ کے جون کے شمارے میں میرے اس مضمون پر تبصرہ کیا ہے جو الشریعہ اپریل ۲۰۱۰ء میں ’ایک نئی دینی تحریک کی ضرورت‘کے عنوان سے طبع ہوا تھا۔ اپنے اس مضمون میں انہوں نے راقم کے بارے میں جن تاثرات کا اظہار کیاہے، ان میں سے اکثر اصلاح طلب ہیں اور غالباً اس کی وجہ ہمارے بارے میں ان کی نامکمل اور بالواسطہ طور پر حاصل شدہ معلومات ہیں کیونکہ ایک طویل عرصے سے ہماری ان کی کوئی بالمشافہ تفصیلی ملاقات نہیں ہوئی۔
جہاں تک زیر بحث موضوع کا تعلق ہے، انہوں نے مجوزہ دینی تحریک کی حکمت علمی کی جزئیات کے حوالے سے جو باتیں لکھی ہیں، ہمیں ان سے اتفاق ہے مثلاً یہ کہ مجوزہ تنظیم کو جدید سائنٹیفک اصولوں پر منظم کرنا چاہیے، اس میں احتساب کا کڑا اہتمام ہونا چاہیے، یہ صاحب کردار اور باصلاحیت افراد پر مشتمل ہونی چاہیے، اسے کرپشن قابل قبول نہیں ہونی چاہیے، اس کے قیام سے پہلے، ما قبل تحریکوں کی خامیوں کا تجزیاتی مطالعہ کرنا چاہیے، ایشوز پر کام کرنا چاہیے وغیرہ۔ تاہم ہمارے اور ان کے درمیان مجوزہ تحریک کی ضرورت، نوعیت اور بنیادی حکمت عملی کے حوالے سے بعض اصولی اختلافات موجود ہیں جن کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ جماعت اسلامی سے اختلافات کے باوجود بنیادی طور پر سید مودودی کی تحریک کے فکری دائرے کے اندر رہتے ہوئے سوچتے ہیں جب کہ ہم اس دائرے سے باہر بیٹھے ہیں۔ اس بنیادی اختلافی سبب کی موجودگی میں اگرچہ یہ تومشکل ہے کہ وہ معروضی انداز میں ہماری گزارشات پر غور کرسکیں یا ہما رے ان کے اختلافات ختم ہو سکیں، تاہم اس بحث سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم کوشش کریں گے کہ ہم جناب محمد یوسف صاحب کے اعتراضات کی روشنی میں اپنا نقطۂ نظر مزید نکھار کر پیش کریں تاکہ وہ اور دیگر قارئین ہمارے نقطۂ نظر کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
۱۔ جناب محمد یوسف صاحب کی رائے یہ ہے کہ تعمیر سے پہلے تخریب ضروری ہے اور نئی تحریک کھڑی کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ پہلی جماعتوں کی تغلیط کی جائے اور ایسا نہ کرنے کو وہ مداہنت، منافقت اور بزدلی سمجھتے ہیں۔ ان کی اس سوچ کے پیچھے وہ تحریکی فکر کا رفرما ہے جو نئی جماعت کو ’اصولی جماعت‘ سمجھتی ہے جو تنہا ’حق‘ کی علمبردار ہوتی ہے اور اس کے باہر جو کچھ ہوتا ہے، وہ یا تو باطل اور گمراہی ہوتی ہے یا کم از کم غلطی اور غلط فہمی۔
* ہماری رائے اس کے برعکس یہ ہے کہ مسلم معاشرہ پچھلے چودہ سو سال سے قائم ہے جو اسلام کو اپنا دین سمجھ کر اس پر عمل کی کوشش کر رہاہے۔ دین کے فہم اور اس پر عمل و اطلاق میں افرادِامت میں کچھ کمی اور کجی ہوسکتی ہے جس کے لیے اصلاحی کوششوں کی ضرورت ہے، (ہماری دینی روایت میں انہیں امر بالمعروف ونہی عن المنکر، تبلیغ و تزکیہ اور دعوت و اصلاح وغیرہ کہاجاتا ہے)۔ یہ اصلاحی کوشش سیاست میں بھی ہوسکتی ہے، تعلیم میں بھی، اخلاق میں بھی اور کسی دوسرے شعبۂ زندگی میں بھی(اس کام کو کس سطح پر، کس انداز میں، کتنا اورکیسے کرنا ہے، یہ اجتہادی اور تدبیری امور ہیں)۔جناب محمد یوسف صاحب نے غور نہیں فرمایا کہ ہم نے اس کام کے لیے وہ اصطلاحات استعمال نہیں کیں جو ان کے ہم فکر احباب کرتے ہیں (جیسے اسلامی انقلاب، اقامت دین، حکومت الہیہ وغیرہ) کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور کئی جگہ پیغمبروں کا مقصد بعثت یہ بتایا ہے کہ وہ تعلیم و تزکیہ کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں،دیکھئے مثلاًسورۃ الاعلیٰ (آیت ۱۴تا۱۹)جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ صحف ابراہیم ؑ و موسی ؑ میں ہم نے یہی حکم دیا تھا کہ فلاح وہی پائے گا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا اور ذکرو نماز کا راستہ اختیار کیا۔حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کعبہ کے وقت اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ! اس گھر کے ماننے والوں میں ایسا رسول بھیجیو جو ان کی تعلیم و تزکیہ کے لیے کام کرے(البقرہ ۱۲۹)۔ حضرت موسیٰ ؑ کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرعون کے پاس جاؤ جس نے سرکشی کا راستہ اختیارکر لیا ہے اور اسے (پیار و محبت سے) سمجھاؤ تاکہ اسے تزکیہ نفس کی ضرورت کا احساس ہو(النازعات ۱۸)۔ حضرت شعیب ؑ کے حوالے سے فرمایا کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ میں مقدور بھر تمہاری اصلاح ہی تو کرنا چاہتا ہوں(ھود ۸۸)اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کار نبوت کے بارے میں تین جگہ قرآن حکیم میں فرمایا کہ یہ تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیۂ نفس ہے(البقرہ ۱۵۱، آل عمران ۱۶۴، الجمعہ ۲)۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ختم نبوت کے اعلان کے بعد امت مسلمہ کی بھی یہی ذمہ داری لگائی کہ وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام کرے(آل عمران ۱۰۴)اور انذارکرے(التوبہ ۱۲۲)۔
چنانچہ انبیاء کرام کو یہی لائحہ عمل دیا گیا تھاکہ جو لوگ ان کی بات مان لیں، انہیں وہ اللہ کے رستے پر چلائیں او ر اگر معاشرے کی معتدبہ اکثریت اسلام قبول کرلے تو ان کی اجتماعی زندگی(یعنی ریاست و حکومت) بھی احکام الٰہی کے مطابق منظم کریں۔ الحمدللہ! کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ؐ کے صحابہؓ نے جو معاشرہ قائم کیا، وہ تب سے قائم چلا آرہا ہے اورآج بھی قائم ہے اور مسلمان اس میں دین اسلام پر عمل کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی حکمران نیک ہوتے ہیں توکبھی برے۔ عام افراد معاشرہ بھی اسلام پر عمل کرنے میں کبھی مستعدی دکھاتے ہیں اور کبھی ان میں کمزوریاں درآتی ہیں۔ علماء وصلحاء، حکمرانوں اور عوام کی اسلامی تناظر میں اصلاح کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ غرض یہ کہ ہمارے نزدیک علماء کرام اور دینی عناصر /دینی جماعتوں/تحریکوں کا بنیادی کام تعلیم و تزکیہ کے ذریعے مسلم عوام و خواص کی اصلاح ہے۔
* عصر حاضر میں اسلام کے لیے کام کرتے ہوئے جس بنیادی مسئلے کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ یہ ہے کہ آج اسلام اور مسلمان مغلوب ہیں اور مغرب کی ملحدانہ فکر و تہذیب اور اس کے علمبردار ممالک دنیا میں غالب اور بالادست ہیں اور جب انہوں نے مسلم ممالک کو غلام بنایا تھا تو مسلمانوں کی قلبی و ذہنی تبدیلی کے لیے کامیاب کوششیں کی تھیں۔ آج اسلام پر عمل کرتے ہوئے اور اسلام کے لیے کام کرتے ہوئے جو چیلنج ہمیں درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ ملحدانہ مغربی فکر و تہذیب کے حوالے سے ہمارا ردعمل کیا ہو اور اسلام کی کس تعبیر کے مطابق ہم کام کریں؟ ہم نے ’الشریعہ‘ (شمارہ نومبردسمبر ۲۰۰۸) میں اس موضوع پر کلام کرتے ہوئے مغرب کے خلاف مسلم رد عمل کو چار انواع میں تقسیم کیا تھا: ۱۔ مرعوبیت ۲۔مفاہمت ۳۔صرف نظر؛ اور ۴۔مزاحمت۔
۔ منہجِ مرعوبیت کے بانی حکمرانوں میں سے مصطفی کمال اتاترک او ررضا شاہ پہلوی تھے جنہوں نے مغربی طرز زندگی کو جبراًمسلم معاشرے میں نافذ کرنے کی کوشش کی اور علماء میں سے برصغیر میں سرسید احمد خان اور امیر علی سے لے کر پاکستان میں غلام احمد پرویز تک اس میں شامل ہیں جنہوں نے اسلا م کی کانٹ چھانٹ کر کے اسے مغربی فکر و تہذیب کے مطابق بنانے کی کوشش کی۔
۔ مفاہمت کے منہج کی حامل جدید دینی تحریکیں تھیں( منجملہ دوسرے دینی عناصر کے) جیسے جماعت اسلامی و اخوان المسلمون وغیرہ جنہوں نے مغرب کی کافرانہ جمہوریت میں چند اسلامی تبدیلیاں کر کے اسے مشرف بہ ’اسلامی جمہوریت‘ کیا اور مغرب کے کافرانہ سرمایہ دارانہ نظام کی علمبردار بنکنگ میں چند اسلامی تبدیلیاں لا کر اسے مشرف بہ’اسلامی بنکنگ‘ کیا۔ مغرب کے کافرانہ نظام تعلیم و تربیت میں’ اسلامیات لازمی‘ جیسے بعض اضافوں سے نظام تعلیم ان کے لیے اسلامی اور قابل قبول ہوگیا۔ وقس علیٰ ذلک۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلاہے ؟یہ کہ اسلام کے سیاسی اصول پاکستان کی سیاست سے، اسلام کی معاشی برکات اس کی معیشت سے اور اسلام کے تعلیمی اصول اس کے نظام تعلیم و تربیت سے اس طرح غائب ہوگئے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔اور مغربی فکر وتہذیب اور اس کے اصول و اقدار پاکستانی معاشرے میں سکہ رائج الوقت کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ ان تحریکوں کا تصور دین درحقیقت مغرب کے فکری و تہذیبی غلبے کا ردعمل ہے اور ردعمل کبھی متوازن نہیں ہوسکتا چنانچہ سیاسی شعبے میں اصلاح کے دینی کام کو ان تحریکوں نے پورا دین اوراسلام کو ایک تحریک، نظام حیات اور طرز زندگی بنا کر پیش کیا اور فرد اور معاشرے کی اصلاح کے ذریعے تبدیلی لانے کی بجائے انقلاب امامت یعنی حکومتی تبدیلی اور اسلامی قانون سازی کو اس کا بنیادی ذریعہ قرار دے دیا۔
۔ مغرب کی ملحدانہ فکر وتہذیب سے صرف نظر کی پالیسی اختیار کرنے والوں میں تبلیغی جماعت، دینی مدارس اور مولانا وحید الدین خان وغیرہ شامل ہیں جنہوں نے دین کو محض تبلیغ و دعوت اور عبادات و اخلاق تک محدود کر کے اجتماعی زندگی کو اس سے باہر سمجھ لیا۔ گویادین کااجتماعی، سیاسی اور تہذیبی غلبہ ان کے نزدیک مطلوب ہی نہیں۔
۔ مزاحمت کے منہج میں ہم نے جماعۃ التکفیر و الھجرہ، حزب التحریر، القاعدہ اور پاکستانی طالبان کا ذکر کیا تھااور کہا تھا کہ ان تحریکوں نے مسلم حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھا کر، جب کہ ان کی کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، اہل سنت کے اس اجماع کی خلاف ورزی کی ہے جس پر امت شہادت حسینؓ و عبداللہ بن زبیرؓکے بعد عامل ہوگئی تھی اور پچھلے تیرہ سو سال سے اس پر عامل ہے کہ غیر صالح مسلم حکمرانوں کے خلاف عملاً خروج اس وقت تک نہ کیا جائے (اگرچہ دیگر شرعی شرائط پوری ہو رہی ہوں) جب تک کہ کامیابی کا واضح یقین نہ ہو کیونکہ خروج و بغاوت سے مسلم معاشرہ انتشار و عدم استحکام کا شکار ہوجاتا ہے لہٰذا سسٹم کے اندر رہتے ہوئے اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔جہاں تک کفار کے خلاف مزاحمت کا تعلق ہے تو اس کے جہاد ہونے میں کسے کلام ہوسکتا ہے؟
* جناب محمد یوسف صاحب خوش ہو رہے ہوں گے کہ ہم ان کی دی ہوئی لائن پر چل پڑے ہیں اور ہم نے نئی تحریک کی فکر دینے سے پہلے، ماقبل کی تحریکوں پر کلہاڑا چلانا شروع کردیا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جماعت اسلامی انسانوں کی جماعت ہے۔ اس میں کمزوریاں ہوسکتی ہیں، لیکن کیا اس میں کوئی خوبیاں نہیں؟ کیا اس کا کوئی مثبت کردار اور کارنامے نہیں؟ ایک ناانصاف شخص ہی جماعت اسلامی کے نظم و ضبط، اس کے کارکنوں کی دیانت و محنت، اسلامی آئین و قوانین کی تشکیل میں اس کے مثبت کردار اور ریاست و معاشرے کو اسلام کے مطابق چلانے کے لیے اس کی کوششوں کا انکار کر سکتا ہے۔ تو جماعت اسلامی میں خوبیاں ہیں، اس نے ایک خلا کوپُر کیا ہے اور بہت سارے امور میں تعمیری کردار ادا کیا ہے۔ یہی حال تبلیغی جماعت کا ہے۔ وہ بھی انسانوں کی جماعت ہے اور اس میں بھی کمزوریاں موجود ہیں،اس کے چلانے والے بھی فرشتے نہیں لیکن کیا معاشرے میں اس کا کوئی تعمیری کردار نہیں؟ کیا یہ معمولی بات ہے کہ اس نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو دین کے راستے میں متحرک کر دیا ہے اور ان کی زندگیاں بدل دی ہیں اور کسی نام و نمود اور شہرت کے بغیر اس کی قیادت اتنا بڑا دینی کام کر رہی ہے! کیا اس نے ایک خلاپُر نہیں کیا؟ کیا اس کے تعمیری کردار سے چشم پوشی کی جاسکتی ہے یا اس کا انکار کیا جا سکتا ہے؟ یہی حال دوسری جماعتوں کا ہے۔
تو آخر ہم کیوں سوچیں کہ ہم نے ضرورہی ان کی نفی کرنی ہے، ان میں کیڑے ڈالنے ہیں اور ان کو مٹا کر ان کی جگہ لینی ہے۔ جو اچھا کام یہ جماعتیں کر رہی ہیں، انہیں کرنے دیجئے اور جو اچھے کام وہ بوجوہ نہیں کر پارہیں، وہ آپ کرنا شروع کر دیجئے۔ لہٰذا مجوزہ تحریک کو کسی معاصر جماعت کا حریف بننے کی ضرورت ہی نہیں۔
۲۔ جناب محمد یوسف صاحب کی مخصوص تحریکی فکر انہیں اس پرمائل کرتی ہے کہ وہ سیاسی شعبے کے علاوہ دین کے دوسرے شعبوں میں کام کرنے والوں کو گوشۂ عافیت، علمی جدوجہد اور میدان عمل سے دوری کے طعنے دیں، حالانکہ اگر وہ غور فرمائیں تو بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ دین کے چار بڑے شعبے ہیں: ایمانیات، عبادات، اخلاقیات اور معاملات۔ معاملات کے بیسوں شعبوں میں سے ایک شعبہ سیاسیات کاہے۔ گویا سیاسی شعبہ دین کا مثلاً بیسواں حصہ ہے۔ ہماری خرابی دراصل یہ ہے کہ ہم میں سے جو دین کے کسی ایک شعبے میں کام کررہا ہے، وہ اسے کل دین بنا دینے پر مصر ہے۔ حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اصل مقصود تو اللہ کو راضی کرنا ہے، دین کی خدمت کرنا ہے خواہ وہ جس شعبے میں بھی ہو اور جتنی بھی ہوسکے لہٰذا جو آدمی دین کے سیاسی شعبے کی اصلاح کی کوئی خدمت انجام دے رہا ہے، وہ بہت اچھا کام کر رہا ہے۔ اسی طرح جو آدمی شعبۂ تعلیم کی اصلاح کی کوشش کر رہاہے، وہ بھی نیک کام کررہا ہے، اس کا کام بھی قابل تحسین ہے اور جو آدمی معاشی شعبے کی اصلاح کے لیے کوشاں ہے، وہ بھی بہت نیک کام کررہا ہے۔ لہٰذاکسی ایک شعبے کی اصلاح کے کام کو عین دین اور دوسرے شعبوں کے کام کو حقیر سمجھنے کا کوئی جوازنہیں۔ ہماری اپروچ یہ ہے کہ جو جس شعبے میں بھی دین کی خدمت کے لیے کوشاں ہے وہ قابل تحسین ہے۔ اس کے کام کی بہتری اور کامیابی کے لیے دعا گو ہونا چاہیے اور ہوسکے تو اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور اگر اس کی رائے میں کوئی دوسرا شعبہ زیادہ کام کا مستحق ہے تو وہ اپنے حسبِ ذوق و صلاحیت اس شعبے میں کام کرے، لیکن دوسروں کے لیے خیر خواہی کے جذبات رکھنے میں کیا امر مانع ہے کہ فرمانِ رسول تو ’الدین النصیحہ‘ ہی کا ہے خواہ آدمی کی جو بھی پوزیشن ہو۔
۳۔جناب محمد یوسف صاحب کو ہماری اتحادی مساعی بھی تحریکی دائرے میں ناکامی کا رد عمل اور ایک گونہ فرار محسوس ہوتی ہیں حالانکہ مسلمانوں میں اتحاد شرعی تقاضا بھی ہے اور ان کی دینی و دینوی ضرورت بھی۔ آج ہماری کمزوری ہی یہ ہے کہ ہر آدمی صرف اپنے مؤقف کو واحد حق قرار دینے پر مصر ہے جب کہ اصل اہمیت اس چیز کی ہے کہ ’ واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا‘ کا رویہ اپنایا جائے لیکن ہم نے اپنے اپنے فقہی و کلامی مسلک کو دین بنا رکھا ہے اور اپنے اپنے جزوی کام کو کل دین قرار دینے پر مصر ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ امت کا اتحاد پارہ پارہ ہوچکا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ اجتہاد اور تدبیر کے نام پر ایسا مؤقف اختیار کیا جاتا ہے جو ہمیں اسلام کے مرکزی دھارے یا اس کی مین اسٹریم سے کاٹ دیتا ہے۔ ظاہر ہے یہ رویہ مسلم معاشرے کے اتحاد کو نقصان پہنچاتا ہے۔ دینی مفاد کے لیے نئی تحریک/جماعت/تنظیم/ادارہ قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ یہ مین اسٹریم اسلام کا حصہ رہے اور ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد نہ بن جائے۔
۴۔اب آئیے جناب محمد یوسف صاحب کے اس نکتے کی طرف کہ ہم اپنے مضمون میں ایک نئی دینی تحریک کی ضرورت اور جواز ثابت ہی نہیں کرسکے اور ہماری کاوش محض پہلے کام کی نقالی ہے۔ عرض یہ ہے کہ ایک نئی دینی تحریک کا تصور دینے کا عمل خود یہ واضح کرتا ہے کہ یہ مجوزہ تحریک کوئی خلا پُر کرنا چاہتی ہے اور کوئی ایسا کام کرنا چاہتی ہے جو پہلے نہیں ہورہا۔ ہم نے اپنے مضمون میں کچھ نکات کی طرف اشارہ کیا تھا لیکن یہ نکات جناب محمد یوسف صاحب کی توجہ اپنی طرف مبذول نہیں کراس کے اور یہ انہیں نئے یا پہلے تصورات سے منفرد نہیں لگے۔ہم دوبارہ کوشش کریں گے کہ اپنا نکتۂ نظر ان پر واضح کر سکیں:
i۔ اصلاح کا بنیادی ٹارگٹ فرد ہونا چاہیے کہ وہی ہر قسم کی اجتماعی تبدیلی کی بھی بنیاد ہے، لیکن اگر ہم اپنے معاشرے کی بڑی دینی تحریکوں اور اداروں کو دیکھیں تو جماعت اسلامی کا کام عملاً انقلاب امامت یعنی حکومتی تبدیلی بذریعہ اسلامی جمہوریت و الیکشن اور نفاذِ شریعت بذریعہ اسلامی قانون ہے۔ اس طرح جماعت فرد کی اصلاح کو فوکس ہی نہیں کرسکی۔ تبلیغی جماعت کا تصورِ دین اسے فردکی ایسی کامل اور متوازن تبدیلی کی طرف لاتا ہی نہیں جو معاشرے میں اجتماعی تبدیلی کی بنیاد بن سکے۔ دینی مدارس و مساجد کا سارا کام مسلک پرستی کی نظر ہو جاتا ہے اور تزکیے کا کام اکثر و بیشتر موروثی گدی نشینوں کا ’کاروبار‘ بن کر رہ گیا ہے۔ تعلیم و تربیت دینی کارکنوں کے لیے عمدہ ’بزنس‘ ہے۔ ان حالات میں فرد کی متوازن تعمیر شخصیت اور کردار سازی کے لیے محنت کرنے کی خاطر نئی دینی تحریک کی ضرورت ہے۔
ii۔اگر فرد پر فوکس کیا جائے اور اس سے مراد متوازن تعمیر شخصیت اور کردار سازی کے ذریعے قرآن کا انسانِ مطلوب تیار کرنا ہو جس کا بنیادی ذریعہ تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ ہے تو اس کے نتیجے میں لازماًمعاشرے کی اصلاح ہوگی۔ معاشرے کی اصلاح سے مراد اتنا ہی نہیں کہ لوگ نماز یں پڑھنے لگیں اور روزے رکھنے لگیں بلکہ اس سے مقصود اسلامی اجتماعیت کا احیا بھی ہے۔اس وقت جو تصور دین ہمارے ہاں مروج ہے، اس کے نتیجے میں اہل دین معاشرے سے غیر مرتبط ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اہل دین معاشرے یا آج کی اصطلاح میں سول سوسائٹی کہہ لیجئے، اس سے غیر متعلق ہیں اور یہی ان کی ناکامی کا سبب ہے۔ نئی تحریک کی ضرورت اسی لیے ہے کہ وہ سول سوسائٹی کو متحرک کرے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ نئی تحریک سے وابستہ لوگ سول سوسائٹی کی مشکلات کو اپنی مشکلات سمجھیں اور ان کے حل کرنے کے لیے جدوجہد کریں۔ ماضی میں مسلمان مصلحین کی بنیادی پالیسی ہی یہ ہوتی تھی کہ اللہ سے محبت اور اس کی مخلوق سے محبت لہٰذا خدمت خلق اس کا لازمی جزو ہوتا تھا۔ آج اس روایت کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
iii۔ دینی سیاسی جماعتوں نے مغرب کی ملحدانہ فکر و تہذیب کے سیاسی نظام کے بنیادی ادارے ’جمہوریت‘ میں کچھ اسلامی اصول داخل کر کے اسے’اسلامی جمہوریت‘ قرار دے دیا، لیکن اس کے نتیجے میں معاشرے میں اسلام تو نہیں آیا البتہ مغربی فکر و تہذیب کا سیلاب ہماری اکثر اخلاقی اور معاشرتی اقدار کو بہا کر لے گیا ہے۔ سیاست مکمل طور پر سیکولر ہوچکی ہے۔ بین الاقوامی طاقتوں اور ان کے ایجنٹ مقامی حکمرانوں اور ان کی خفیہ ایجنسیوں نے دینی عناصر کو ایک دوسرے سے لڑا کر اور انہیں انتشار و افتراق میں مبتلا کر کے ادھ مُوا کر دیا ہے اور مستقبل قریب میں بظاہر ان کی کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور نہ ہی دینی سیاسی جماعتیں اپنے ڈھب بدلنے پر تیار ہیں۔ ان حالات کا تقاضا ہے کہ ایک طرف دینی سیاسی عناصر کو اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے مفید مشورے اور تجاویز دی جائیں تو دوسری طرف پاکستانی معاشرہ سیکولرزم اور مادہ پرستی کی راہ پر جس بگٹٹ طریقے سے تباہی کے گڑھے کی طرف دوڑ رہا ہے، اس کو سنبھالنے کے لیے غیر سیاسی دینی کام منظم طریقے سے کیا جائے۔
iv۔ دینی سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی کام میں اتنی منہمک ہیں کہ ان کے پاس اور کسی کام کے لیے وقت نہیں اور اقتدار ان کے نزدیک وہ واحد نسخۂ کیمیا ہے جو سارے مسائل حل کرسکتا ہے۔ اس اپروچ کی وجہ سے وہ ہر اجتماعی کام کو حکومت پر چھوڑ دیتی ہیں۔اسی طرح دعوت و اصلاح کے کاموں میں مصروف دینی عناصر(مثلاً تبلیغی جماعت یا دینی مدارس وغیرہ) معاشرے کے سلگتے مسائل سے عملاً دور ہیں اور ان کے حل کی طرف ان کی توجہ نہیں ہے۔ مثلاً اگر محلے کے لوگ نماز نہ پڑھیں تو ان کے نزدیک یہ اسلامی مسئلہ ہے، لیکن اگر محلے کا ایک فرد بھوک سے خود کشی کر لے تو یہ ان کا درد سر نہیں ہے حالانکہ یہ مسائل اگر دینی تناظر میں حل کر دیے جائیں تو آدھی سے زیادہ شریعت تو اسی طرح نافذ ہوجاتی ہے، لیکن ہمارے سیاسی و اصلاحی دونوں طرح کے دینی عناصر اس کام کو حکومت پر چھوڑ کر خود اس ذمہ داری سے گویابری ہوگئے ہیں۔حالانکہ بہت سے کرنے کے کام ایسے ہیں جو وہ حکومتی مدد کے بغیر کر سکتے ہیں۔ مثلاً اکثر تعلیمی ادارے اس وقت پرائیویٹ سیکٹر میں ہیں تو دینی عناصر کیوں نہیں تعلیم و تربیت کو اسلامی بنیادوں پر استوار کر سکتے؟ وہ وکلاء اور ججوں کی اسلامی قانون میں تربیت اور کردار سازی کے لیے ادارے کیوں نہیں بناتے؟ غریبوں کو خود کشیوں سے بچانے کے لیے وہ کیوں منظم کوشش نہیں کرتے؟ عامۃ الناس کو میڈیا کی فحاشی و عریانی سے بچانے اور انہیں متبادل ذرائع مہیا کرنے کے لیے دینی عناصر کیوں حرکت میں نہیں آتے ؟ اس وقت ان کاموں کو کرنے کے لیے اگر کوئی دینی قوت موجود نہیں تو اس کے لیے ایک نئی دینی تحریک کیوں نہ اٹھائی جائے؟
دینی سیاسی جماعتوں کی ناکامی اور غیر سیاسی دینی عناصر کی بے عملی ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ کچھ دینی عناصر نے نفاذِ اسلام بذریعہ طاقت کاراستہ اپنا لیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں شدید کشت و خون ہورہاہے۔ اگر ہمارے غیر سیاسی دینی عناصر ایشوز کی بنیاد پر منظم و متحرک ہو کر نتیجہ خیز جدوجہد کریں تو جن عناصر نے نفاذِ شریعت نہ ہونے کی وجہ سے اسلحہ اٹھا لیا ہے تو انہیں اس کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ دینی عناصر اورسول سوسائٹی کو اس جدوجہد پر اکسانے اور اس میں شامل کرنے کے لیے نئی تحریک کی ضرور ت ہے۔
v۔ہمیں تسلیم ہے کہ دین ایک کُل ہے جس میں سیاسی وغیر سیاسی ہر طرح کے کام شامل ہیں لہٰذا شرعی نقطۂ نظر سے سیاسی اور غیر سیاسی دینی کاموں میں تفریق ایک بے معنی عمل ہے لیکن ہم یہ تفریق شرعی لحاظ سے نہیں بلکہ انتظامی لحاظ سے زیر بحث لار ہے ہیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جدوجہد اب کسی شخص کے لیے بھی ایک فل ٹائم جاب سے کم نہیں ہے اور جوآدمی اسلام کے لیے سیاسی جدوجہد کر رہا ہو اس کے لیے دعوت و اصلاح اور دیگر دینی کاموں کے لیے وقت نکالنا مشکل ہے اور اس کے برعکس بھی صحیح ہے۔ لہٰذا اس کا حل یہی ہے کہ پورے دین کو مانتے ہوئے اپنی عملی جدوجہد کو کسی ایک شعبے کی اصلاح پر مرتکزکیا جائے اور اسے جزوی کام تسلیم کیا جائے اور دوسروں کے دینی کاموں کی بھی قدر افزائی کی جائے۔
vi۔ جناب محمد یوسف صاحب کے نزدیک مجوزہ تحریک کا لائحہ عمل احتجاجی اور مزاحمتی ہونا چاہیے؛ یہ بات قابل غور ہے۔ لیکن ہماری رائے یہ ہے کہ احتجاج، مزاحمت اور دباؤ سے کوئی مسئلہ تو حل ہوسکتا ہے، ظلم کو تو روکا جا سکتا ہے، اپنے حقوق تو حاصل کیے جا سکتے ہیں لیکن یہ طریقہ ردعمل کی نفسیات پیدا کرتا ہے اور نیکی پر چلنے کی متبادل اساس اور محرک فراہم نہیں کرتا۔اس کے لیے ہمارے نزدیک اصلاحی طریقہ زیادہ موزوں ہے۔ اصلاحی طریقے سے دل و دماغ کو بدل کر جو مستقل تبدیلی آتی ہے، ہمارے ممدوح کے دائرہ فکر کو اس کی سمجھ شائد نہ آئے لیکن تاریخی حقائق کا انکار کون کرسکتاہے۔ آدھی مسلم دنیا کو تاراج کرنے والے منگولوں کو کس نے زیر کیا؟ دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا (اور ساتھ جڑے ملائشیا) پر اسلامی پرچم کس نے لہرایا؟خود برصغیر میں اسلام کی اشاعت کس کی مرہون منت ہے؟ہم کسی روایتی صوفیانہ تحریک کی بات نہیں کررہے بلکہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کردار سازی اورپُرامن معاشرتی تبدیلی کے لیے مزاحمتی کی بجائے اصلاحی طریقہ ہماری رائے میں زیادہ اقرب الی الصواب اورقابل عمل ہے اور اس وقت اس طریقے پر متوازن انداز سے عمل کرنے کے لیے کوئی ادارہ اور تحریک موجود نہیں ہے لہٰذا اس خلا کو پُرکرنے کے لیے ہم نے ایک نئی تحریک کی ضرورت کا تصور پیش کیا ہے۔
یہ وہ چند گزارشات تھیں جو ہم اپنے مؤقف کی مزید وضاحت کے لیے پیش کرنا چاہتے تھے۔ جناب محمد یوسف صاحب اگر ان پر غور فرمائیں تو امید ہے کہ ہمارا مؤقف ان کی سمجھ میں آجائے گا خواہ وہ اس سے مکمل اتفاق نہ بھی کر سکیں۔
اسلامی بینکاری: زاویہ نگاہ کی بحث (۱)
محمد زاہد صدیق مغل
ماہنامہ الشریعہ شمارہ جون اور جولائی ۲۰۱۰ میں مفتی زاہد صاحب دامت برکاتہم نے راقم الحروف کے مضمون ’اسلامی بینکاری غلط سوال کا غلط جواب‘ کے تعقب میں اپنے مضمون ’غیر سودی بینکاری کا تنقیدی جائزہ‘ (حصہ دوئم و سوئم) میں ’زاویہ نگاہ کی بحث ‘ کے تحت چند مزید شبہات پیش کیے ہیں۔ مفتی صاحب کی طرف سے اٹھائے گئے دلائل و نکات پر ذیل میں راقم کا تبصرہ پیش ہے۔ چونکہ مفتی صاحب نے اپنی تنقید کا زیادہ تر حصہ ہمارے مضمون کے اصل موضوع کے بجائے ضمنی و اضافی پہلو (زاویہ نگاہ کی بحث) پر صرف کیا ہے لہٰذا پہلے ہم اسی پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہیں گے کیونکہ اپنے اصل مضمون میں راقم نے اس پہلو پر تفصیلاً کچھ نہیں کہا تھا اور یہی وجہ ہے کہ مفتی صاحب نے کئی مقامات پر بین السطور نتائج نکال کر انہیں راقم کی طرف منسوب کردیا ہے۔ جہاں تک اصل بحث پر اٹھائے گئے اعتراضات کا تعلق ہے ان پر علیحدہ سے تبصرہ کرنے کا ارادہ ہے، وما توفیقی الا باللہ ۔ ہم مفتی صاحب کے مشکور ہیں کہ ان کی تحریر نے ہمیں یہ گزارشات پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔
بینکاری ایک ناگزیر مجبوری کا دعویٰ
کسی نظام کی ناگزیریت پر گفتگو کرتے وقت ’مقامی پس منظر ‘ کا تعین کرنا نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے تاکہ جبر کے دائرے کا درست طور پر تجزیہ کرکے متبادل کام کے مواقع پہچانے جا سکیں، یعنی یہ طے کرنا کہ ہم کس معاشرے کی بات کررہے ہیں، وہاں کس حد تک سرمایہ دارانہ نظام غالب آچکا ہے، اور وہاں افراد کس حد تک جبر کا شکار ہوچکے ہیں، نیز متبادل کے مواقع کس حد تک موجود ہیں وغیرہ۔ ظاہر بات ہے واقعیت کی جو جکڑ بندیاں امریکی معاشرے میں افراد پر مسلط ہیں انہیں پاکستان کے لیے فرض کرکے کوئی حکمت عملی اختیار کرنا غلط ہوگا۔ یہ تمہید اس لیے عرض کی گئی کیونکہ مجوزین اسلامی بینکاری کا جواز عموماً حالات کی ناگزیریت اور جبر سے نکالتے ہیں، چنانچہ وہ بارہا یہ دعوی دہراتے ہیں کہ ’اگر اسلامی بینکاری نامی کسی شے کو جائز نہ کہا گیا تو مسلمان براہ راست سود جیسے عظیم الشان گناہ میں ملوث ہوجائیں گے، چونکہ دور جدید میں بینک کے بغیر گزارا نہیں، لہٰذا اسلامی بینکاری وقت کی اہم ضرورت ہے چاہے یہ بینکاری حیلوں، عذروں اور رخصتوں کی آفاقیت پر ہی کیوں نہ مبنی ہو‘۔ مفتی صاحب نے بھی یہ دلیل کچھ اس پیرائے میں بیان فرمائی ہے کہ جو لوگ اسلامی بینکاری کے کام سے وابستہ ہیں وہ گویا پاکستان کی ایک ’بڑی ‘ اور مجبور اکثریت کے ’مسائل و ضروریات ‘ کا حل تلاش کرنے میں کوشاں ہیں۔ چونکہ مجوزین کی طرف سے بینکاری کی ناگزیریت کے اس دعوے کو بطور ایک ڈھال استعمال کرنا ایک عام طریقہ بن چکا ہے لہٰذا یہاں اس دلیل کا ذرا تفصیلی تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نظریہ ضرورت کی بنیاد پر اسلامی بینکاری کا جواز شریعت کے مشہور اصول ’الضرورات تبیح المحظورات‘ (ضرورت کے وقت حرام شے بھی حلال ہوجاتی ہے) سے اخذ کیا گیا ہے۔ درحقیقت اس دلیل کے اندر تین دعوے کیے گئے ہیں: اول سود سے بچنا مقدم ہے، دوئم سودی بینکاری انسانی زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکی ہے، سوئم لہٰذا اسلامی (یا غیر سودی ) بینکاری کو جائز ماننا ہوگا چاہے یہ حیلوں پر ہی کیوں نہ مبنی ہو۔ ان دعووں پر چند وجوہ سے غور کرنے کی ضرورت ہے:
۱۔ جس قدر یہ بات اہم ہے کہ امت کو سود کے گناہ سے بچایا جائے، اس سے بدر جہا اہم بات یہ ہے کہ سود کو کسی چور دروازے سے داخل ہونے کا موقع نہ مل سکے ، مبادا امت سود کے گناہ میں مبتلا ہو اور اسے خبر بھی نہ رہے جیسا کہ یہود و نصاریٰ کی تاریخ سے واضح ہے جنہوں نے بعینہ اسلامی بینکاری کی مانند حیلوں کی آڑ میں عملاً سود کو حلال کرلیا تھا۔ یہی وہ ذمہ داری ہے جو اسلامی بینکاری کے ناقدین علمائے کرام کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ امت مسلمہ کو اسلامی بینکاری کے خطرات سے آگاہ کرتے رہیں۔ یہ امر کہ مروجہ حیلے سود کے لیے چور دروازہ ثابت ہوسکتے ہیں محض کوئی وہم نہیں بلکہ خود اسلامی ماہرین معاشیات بھی اس کا خوب احساس رکھتے ہیں جیسا کہ اس مضمون میں ذرا آگے چل کر آنے والے حوالوں سے واضح ہوگا۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امت مسلمہ میں اسلامی بینکاری کے نام پر حلت سود کی حالیہ جدوجہد اور یہود و نصاریٰ کے سود کو جائز قرار دینے کی تاریخ میں حیرت انگیز مماثلت نظر آتی ہے (۱)۔ مختصر یہ کہ عیسائی یورپ میں سود کی سختی سے ممانعت تھی مگر ابتداً اس کا دروازہ ایک بیع کے اندر بیک وقت درج ذیل تین معاہدات کے ذریعے سودی نفع کو یقینی بناکر کھولا گیا:
i۔ معاہدہ شرکت کرنا (Partnership contract)
ii۔ مستقبل کے غیر یقینی نفع کو ایک معین شرح نفع کے عوض بیچنا (Sale of a future uncertain profit)
iii۔ راس المال کو (بذریعہ بیمہ) تحفظ فراہم کرنا (Insurance contract)
مثلاً پہلے معاہدے میں زید ناصر کو 100 روپے قرض دے کر معاہدہ شرکت کرتا ہے۔ دوسرے معاہدے کے تحت زید ناصر کو 30 روپے سے زائدحاصل ہونے والے نفع کو 15 روپے فیس کے عوض بیچ دیتا ہے، اس طرح زید تیس روپے سے زائد ہونے والے تمام نفع سے دستبردار ہوکر 15 روپے کا نفع محفوظ کرتا ہے۔ تیسرے معاہدے کے تحت زید ناصر کو (یا کسی تیسرے ایجنٹ کو) 5 روپے سالانہ فیس (یا پریمیم ) دے کر راس المال میں نقصان سے تحفظ حاصل کرتا ہے۔ چونکہ یہ تمام معاہدات بیک وقت کیے جارہے ہیں لہٰذا زید ابتدائے بیع ہی سے اپنے لیے 10 روپے کا سودی نفع یقینی بنالیتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اپنی انفرادی حیثیت میں یہ تینوں معاہدات عیسائی تعلیمات میں عین جائز سمجھے جاتے تھے مگر ان کامجموعی اثر قرض کی رقم پر سود کی طرح یقینی نفع کا حصول تھا۔ پندرہویں وسولہویں صدی میں جب ’تین معاہدوں پر مبنی شرکت ‘ (The triple contract) کی یہ شکل یورپ میں عام کی جانے لگی تو راسخ العقیدہ عیسائیوں نے اس کی سخت مخالفت کی کیونکہ اسلام کی طرح عیسائی مذہب بھی سختی کے ساتھ سود کی تمام شکلوں کا مخالف رہاہے۔ مگر یورپ میں سرمایہ داری اور سائنسی علمیت کے بڑھتے ہوئے اثرات کی وجہ سے آہستہ آہستہ حرمت سود کے قوانین ختم ہوتے چلے گئے اور ’تین معاہدوں پر مبنی شرکت ‘ نے اس کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ صد افسوس کہ اسلامی بینکنگ بھی بیع مرابحہ، اجارہ و شرکت متناقضہ وغیرہ کے اندر فرداً فرداً جائز معاہدات جمع کرکے نفع کے نام پر سودی نظام کے مقاصد حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ اس مماثلت پر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث یاد آتی ہے کہ میری امت وہ سب کام کر گذرے گی جو یہودونصاریٰ نے کیے۔ (ترمذی ۲۷۱۱)
۲۔ فقہ کا درج بالا قاعدہ (ضرورت کے وقت حرام شے بھی حلال ہوجاتی ہے) اصلاً اس شے کی ’حرمت ‘ پر دلالت کرتا ہے جسے یہ بوقت ضرورت حلال قرار دیتا ہے، یعنی جب اس اصول کے تحت کسی شے کو حلال کہا جاتا ہے تو اصلاً وہ شے حرام ہی ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلامی بینکاری کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دینے کا تقاضا یہ ماننا بھی ہے کہ اسلامی بینکاری اصلاً حرام ہی ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی بینکاری کے حامی اسے اصلاً جائز اور اصول شریعہ کے عین مطابق کہتے ہیں، اس کے جواز کے لیے دلیلیں وضع کرتے اور اس کے حق میں کتابیں لکھتے ہیں۔ تو اسلامی بینکاری کے جواز کے لیے اس اصول کا استعمال ایک تضاد بیانی سے زیادہ کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔ ظاہر ہے اگر اسلامی بینکاری اصلاً جائز ہے تو اسے نظریہ ضرورت کا تقاضا کہنے کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے؟ اگر واقعی اسلامی بینکاری محض ضرورت کے تحت جائز ہے تو اس کا نام اسلامی بینکاری کے بجائے ’حرام بینکاری‘ رکھا جانا چاہیے تاکہ لوگ ا سے بطور ایک برائی سمجھ کر کم سے کم استفادہ کریں نیز ان میں اس سے بچنے کا جذبہ بھی بیدار ہو ۔
۳۔ اگر بینکاری نظام سے واسطہ رکھنا واقعی کوئی ’حقیقی اور ناگزیر انسانی ضرورت ‘ بن چکی ہے تو اس کے نتیجے میں اسلامی بینکاری ہی نہیں بلکہ سودی بینکاری بھی حالت اضطرار کے تحت جائز قرار پائے گی، تو اس صورت میں اسلامی بینکاری نامی کوئی شے ’وضع‘ کرنے کی ضرورت ہی کیا پڑی ہے؟ مسلمان نظریہ ضرورت کے تحت سودی بینکوں سے بھی تعلقات استوار کر سکتے ہیں ۔
۴۔ فرض کریں اگر واقعی کوئی حقیقی ضرورت آن ہی پڑی ہے تو ’ضرورت کی مقدار ‘ کا تعین بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ ظاہر ہے سود کی حرمت کوئی عام مسئلہ نہیں بلکہ یہ نص قطعی سے ثابت ہے (جیسا کہ مفتی صاحب نے بھی اس بات پر نہا یت زور دیا ہے)۔ اس درجے کی قطعی حرمت کو اسلامی بینکاری کے حیلوں کی آڑ میں حلت سے بدلنے کے لیے یقیناًضرورت بھی نہایت شدید درجے تک پہنچی ہونی چاہیے۔ فقہاء کے ہاں نص قطعی سے ثابت حرام کو حلال میں بدلنے کے لیے ضرورت کی مقدار ’جان کے ضیاع کا سخت اندیشہ ‘ ہوتاہے۔ ظاہر ہے اسلامی بینکاری کے جواز کے لیے اس قسم کا کوئی ’حقیقی ‘ خطرہ (کسی کو وہم ہو تو اور بات ہے) موجود نہیں، لہٰذا اس اصول کے تحت اسے جائز کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟
۵۔ اعدادوشمار کی روشنی میں یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ کم از کم پاکستان میں بینکنگ اکثریت عوام کی حقیقی ضرورت نہیں، لہٰذا ’بینکنگ نظام سے تعلق رکھنا عوام کی ایک ناگزیر مجبوری ہے‘ کا مفروضہ ہی محل نظر ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی سالانہ رپورٹس کے مطابق پاکستان میں کل کھاتہ داروں کا میزان درج ذیل ہے (آبادی کا تخمینہ اور کھاتہ داروں کا آبادی میں تناسب خود نکالا گیا ہے)۔
اس گوشوارے سے چند باتیں معلوم ہوئیں:
i۔ پاکستان کی ایک انتہائی قلیل آبادی بینکنگ نظام (یعنی سود کے بازاروں) سے وابستہ ہے۔ کھاتے داروں کا آبادی میں یہ تناسب پچھلی پوری ایک دھائی کے دوران کبھی بیس فیصد سے زیادہ نہیں رہا ۔
ii۔ کل آبادی میں کھاتے داروں کایہ تناسب بدستور کمی کا شکار ہے، یعنی آبادی کا وہ حصہ جو کسی بھی درجے میں بینک سے منسلک ہے وہ کم ہوتا چلا جارہا ہے۔ نظام بینکاری اگر اسی قدر ضروری ہوتا تو کھاتے داروں کے تناسب میں ضرور اضافہ ہونا چاہیے تھا ۔
iii۔ کھاتے داروں کا آبادی میں درج بالا تناسب اس مفروضے پر مبنی ہے کہ ہر شخص صرف ایک ہی اکاؤنٹ کا مالک ہے جبکہ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ کھاتے داروں کی اکثریت ایک سے زیادہ اکاؤنٹ ہولڈر ہوتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک کھاتہ دار اوسطاً ڑیڑھ (ایک اعشاریہ پانچ) اکاؤنٹس کا مالک ہے، اس لحاظ سے آبادی میں کھاتے داروں کا تناسب دس فیصد سے بھی کم (9.3%) رہ جاتا ہے ۔
iv۔ گوشوارے میں دئیے گئے کھاتوں میں کئی لاکھ اکاؤنٹس وہ بھی شامل ہیں جو مختلف بینک دوسرے بینکوں میں نیز سرکاری و غیر سرکاری ادارے بھی اپنے اہداف کے لیے بینکوں میں کھلواتے ہیں (مثلاً صرف یونیورسٹیوں کے کئی سو کھاتے ہوتے ہیں جن میں ملازمین سمیت مختلف پراجیکٹس، گرانٹس، انسٹی ٹیوٹس وغیرہ کے کھاتے شامل ہوتے ہیں)، اگر انہیں کل کھاتوں سے منہا کردیا جائے تو کھاتے داروں کا یہ تناسب مزید کم ہو جائے گا ۔
v۔ اگر آبادی کا شرح نمو ڈھائی فیصد سے زیادہ فرض کیا جائے (جو کہ فی الحقیقت ہے بھی ) تو یہ شرح مزید سکڑ کر آٹھ فیصد تک رہ جائے گی ۔
سرکاری و غیر سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد بینک اکاؤنٹ کھلوانے پر محض اس بنا پر بھی مجبور ہے کہ انہیں اس کے ذریعے تنخواہ ملتی ہے۔ بینک کے مقابلے میں شئیرز کی خریدوفروخت (یعنی سٹے کے بازاروں ) سے تو آبادی کے نصف فیصد سے بھی کم لوگوں کا تعلق ہے۔ اسی طرح ایک سروے کے مطابق پاکستان کی محض تین سے چار فیصد آبادی بیمہ کمپنیوں سے منسلک ہے (اس میں سے بھی اکثریت ان کی ہے جو از خود نہیں بلکہ مختلف کمپنیوں میں نوکری کرنے کی وجہ سے غیر ارادی طور پر بیمہ پالیسی ہولڈر ہیں)۔ سوال یہ ہے کہ کیا آبادی کے اسقدر قلیل افراد کے عمل کو ’عوام کی ناگزیر ضرورت ‘ قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا پاکستان کی نوے فیصد سے زیادہ وہ اکثریت جو بینکوں، اسٹاک ایکسچینج اور بیمہ کمپنیوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتی زندگی کی نعمت سے محروم ہوچکی ہے؟ آخر آبادی کا یہ اکثریتی حصہ بینکوں کے بغیر اپنا معاش کیسے چلا رہی ہے؟ آخر اسلامی بینکاروں کو آبادی کی اس قدر ’محدود اقلیت ‘ کے ’مسائل ‘ (جن کی نوعیت بھی ذیل میں آرہی ہے) حل کرنے کی اتنی فکر کیوں لاحق ہوچلی ہے؟ سارے اجتہادات و توجہ کا محور و مرکز یہی محدود اقلیت کیوں ہے؟
پھر یہ بھی محض وہم ہے کہ بینکاری نظام کے بغیر کاروبار کرنا ممکن نہیں۔ دیکھئے پاکستان میں ہر سال عیدالاضحی کے موقع پر جانوروں کی خریدوفروخت کے سلسلے میں اربوں روپے اور لاکھوں جانوروں کے سودے بنا کسی بینکاری خدمات محفوظ طریقے سے عمل پزیر ہوجاتے ہیں۔ سبزی منڈیوں میں روزانہ کروڑوں روپے کا لین دین ہوتا ہے، اسی طرح چھوٹے کاروباری حضرات (مقامی دوکاندار، ٹیکسی اور رکشہ چلانے والے) بھی بینک اور اسٹاک ایکسچینج سے کوئی تعلق رکھے بغیر روزانہ اربوں روپے کی خریدوفرخت کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سود اور سٹے کے نظام سے باہر جو اس قدر وسیع کاروبار ہورہا ہے اسلامی بینکاری انہیں غیر سرمایہ دارانہ بنیادوں پر منظم کرنے میں کیا کردار ادا کررہی ہے؟ کیا اسلامی بینکاری اب تک جو کاروبار سرمایہ دارانہ نظام زر سے محفوظ ہے اسے مزید محفوظ بنانے کا باعث بن رہی ہے یا اسمیں ضم کرنے کا؟ مشاہدہ تو یہ ہے کہ جو لوگ پہلے اس بنیاد پر بینکوں سے بچتے تھے کہ یہ سودی کاروبارکرتے ہیں اب وہ بھی اسلامی بینکاری کے ذریعے عالمی نظام زر میں شامل ہو رہے ہیں، گویا عالمی نظام زر کے فروغ میں اسلامی بینکنگ کا کلیدی کردار یہ ہے کہ جو لوگ مذہبیت کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ نظام سے بچنا چاہتے ہیں انہیں مذہب کے راستے اس طرح اس نظام میں سمو دیا جائے کہ موجودہ نظام بھی پروان چڑھے اور لوگوں کی مذہبیت بھی مجروح نہ ہو۔ یہ عجیب منطق ہے کہ دس فیصد عوام کو بینکاری سے بچانے کے بجائے اسلامی کا لیبل چسپاں کرکے نوے فیصد کو اس میں شامل ہونے کے لیے ادارتی صف بندی فراہم کر دی جائے ، فیا للعجب
۶۔ اس پہلو پر بھی تفکر کی ضرورت ہے کہ جس ’ضرورت‘ کے نام پر اسلامی بینکاری کی آڑ میں رخصتوں اور حیلوں کو عمومی جواز فراہم کیا جارہا ہے وہ ضرورت ’کس کی ‘ ضرورت ہے۔ معمولی غور کرنے سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ مرابحہ، اجارہ و شرکت متناقضہ جیسے معاہدوں میں ایک بیع کے اندر ایک سے زیادہ معاہدات جمع کرنا، جبری صدقہ لگانا وغیرہ گاہک کی نہیں بلکہ سودی بینک کے خمیر سے گندھے اسلامی بینک کی ضرورت ہے جو ہر حال میں ’یقینی نفع‘ کمانا چاہتا ہے۔ ’ایک بیع کے اندر ایک سے زیادہ پیچیدہ معاہدات جمع کرنا‘ ہی وہ بنیادی ہتھیار تھا جسے استعمال کرکے یہودونصاری نے سود کا مذہبی جواز تلاش کیا تھا اور عین یہی روش اسلامی بینکاری نے بھی اپنا رکھی ہے۔ جس طرح پہلے یہ ہتھکنڈہ بینکوں کی ضرورت تھا، اسی طرح آج بھی اسلامی بینکوں ہی کی ضرورت ہے نہ کہ گاہکوں کی اور پہلے کی طرح آج بھی ’کاروباری خطرے ‘ کو ختم کرنے کے سوا اس کا کوئی دوسرا مقصد نہیں۔ خوب دھیان رہے کہ یہ ضرورت شریعت کی تعلیمات و مقاصد کو پامال کرکے پوری کی جارہی ہے۔
۷۔ پھر ضرورت کے تحت کسی شے کو جائز قرار دینے میں ایک اہم پہلو ’مقدار جواز ‘ (۲) کا بھی ہوتا ہے۔ فقہ کا قاعدہ ہے کہ ضرورتاً جائز قرار دی جانے والی شے بمقدار ضرورت ہی جائز ہوتی ہے نہ یہ کہ وہ اصلاً مطلوب یا حق سمجھ کر بھر پور انداز میں اختیار کر لی جائے۔ زندگی بچانے کے لیے حرام گوشت کھانے کی اجازت ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اب اس گوشت کے تکے اور کباب بنا کر کھائے جائیں، اس کی افزائش نسل کی فکر کی جائے، اس حرام کی طرف رغبت بڑھانے کے لیے اسلامی پرچوں میں اشتہار شائع کرکے لوگوں کی اشتہاء میں اضافہ کیا جائے تاکہ جو کوئی حرام سے بچ سکتا ہے اسے بھی اس کی طرف متوجہ کیا جائے۔ چنانچہ اسلامی بینکاری سے منسلک عمائدین کا رویہ نظریہ ضرورت کی بنیاد پر اسلامی بینکاری کے جواز کو سخت مشکوک بنا دیتا ہے۔ کیا نظریہ ضرورت کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی بینکاری سے زیادہ سے زیادہ مادی فوائد حاصل کیے جائیں؟ اس کی کنسلٹنسی کے نام پر بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات حاصل کی جائیں؟ اسے خود اور لوگوں کو بھی ’معیار زندگی ‘ بلند کرنے کی خاطر اپنانے کا درس دیا جائے اور ٹی وی و اخبارات پر اس کے اشتہارات دکھا دکھا کر لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کیا جائے؟ اس کے فروغ کے لیے بڑی بڑی کانفرنسیں اور سیمینار منعقد کیے جائیں، دنیا بھر میں ہزاروں ادارے اس کی خدمت کے لیے وقف کردئیے جائیں ؟ آخر ضرورت کی دھائی دے کر مقصد بنالینے کا یہ دھوکہ کس کو دیا جارہا ہے؟
۸۔ یہ اہم پہلو بھی دھیان میں رہنا چاہیے کہ نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دی جانے والی شے کا مقصد اس غیر شرعی ضرورت کو ختم کردینا ہوتا ہے نہ کہ اسے زندگی کا لازمی حصہ بنا دینا۔ فقہ کا قاعدہ ہے کہ ما جاز لعذر بطل بزوالہ (یعنی جو چیز عذر کی بنا پر جائز ہو، وہ عذر ختم ہوجانے کے بعد جائز نہیں رہے گی)، یعنی ضرورتاً جائز قرار دی جانے والی شے کا مقصد ضرورت کو ’ختم ‘ کرنا ہوتا ہے نہ کہ اس ضرورت کو ’قائم و دائم‘ کردینا کیونکہ ضرورت کی بنیادی صفت ہی یہ ہے کہ وہ ’وقتی‘ (temporary) ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ضرورت کے نام پر اسلامی بینکاری کے ذریعے جو حل پیش کیا جارہا ہے وہ اسلامی انفرادیت، معاشرت و ریاست کے فروغ کا ذریعہ بن رہا ہے یا سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے تقاضوں کو ہمیشہ کے لیے اسلامی زندگی کا حصہ بنا رہا ہے؟ کیا ایسی حکمت عملی کو بھی ’اسلامی‘ کہا جا سکتا ہے جو ہمیشہ کے لیے ایک غیر اسلامی نظام (یعنی شر) کو خود پر مسلط کرلینے کی ترکیب ہو؟ کوئی بھی حکمت عملی تب ہی ’اسلامی ‘ کہلانے کی مستحق ٹھرے گی جب وہ مقاصد اسلامی کے حصول کا ذریعہ بنے نہ یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی کو نافذالعمل اور پختہ بنائے۔ اگر واقعی اسلامی بینکاری کسی نا گزیر مجبوری کے تحت چلائی جارہی ہے تو بادل ناخواستہ ایک آدھ بینک قائم کرکے اسے چھوڑ دیا جاتا، مگر یہ مجبوری کی کون سی قسم ہے کہ اس کے فروغ کے لیے تن من اور دھن سب کچھ وقف کردیا جائے؟ کیا اس طرز عمل کے نتیجے میں واقعی یہ اس ضرورت کو ختم کردے گی جس کے نام پر اسے اختیار کیا گیا تھا؟ اگر ماہرین اسلامی بینکاری کے نزدیک نظریہ ضرورت اسی شے کا نام ہے تو پھر انہیں حجاب اور مردو زن کے اختلاط سے متعلق اسلامی احکامات پر بھی نظریہ ضرورت کے تحت اجتہاد کرنا چاہیے کیونکہ یہ بھی ’وقت کا تقاضا‘ ہے اور مسلمانوں کو اس معاملے میں بھی گناہ سے بچانے کی اشد ضرورت ہے۔ ایک ایسی عورت جس کا کمانے والا کوئی محرم رشتہ دار نہ ہو اسے نوکری کرنے کی اجازت دینے کا مطلب یہ کہاں سے نکل آیا کہ women job promotion bureau (عورتوں میں نوکری کرنے کا شعور بیدار کرنے کا ادارہ) قائم کردیا جائے؟ اگر اسلامی بینکاری واقعی ضرورت کے نام پر وضع کی گئی تھی تو اس کا مقصد مسلمان معاشروں کو بینک کی ضرورتوں سے نجات دلانا ہوتا نہ کہ انہیں قائم کرنا اور فروغ دینا۔ افسوس کہ مجوزین اسلامی بینکاری کو ایک ضرورت کی نشان دہی کرکے اربوں روپے (۳) بنانے کی فکر تو لاحق ہے مگر اس ضرورت کو ختم کیسے کیا جائے اس بارے میں ان کی فکر یکسر خاموش ہے ( درحقیقت مجوزین بینکاری نظام سمیت موجودہ دور کی کسی ادارتی صف بندی کو ختم کرنے کے سرے سے قائل ہی نہیں ہیں جیسا کہ آگے نشان دہی کی جائے گی) ۔
۹۔ اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ اسلامی بینکاری رخصت کی ایک شکل ہے تو کیا رخصتوں کے فروغ کو ’بطور پالیسی‘ اختیار کرنے کا مطلب اسلامی نظام زندگی سے دستبردار ہو جانے کے ہم معنی نہیں؟ کیا حکمت عملی اپنانے کا مقصد ’رخصتوں‘ اور ’نظریہ ضرورت‘ کو عموم بخشنا ہوتا ہے یا اصل مطلوب اختیار کرنے کی طرف راہ ہموار کرنا؟ اسمیں شک نہیں کہ تبدیلی نظام کی جدوجہد میں ایک مرحلہ ایسا ضرور ہوتا ہے جب ’اصل مطلوب سے کم تر‘ یعنی رخصتوں پر عمل کیا جاتا ہے مگر رخصتوں پر عمل کی اجازت کو جانچنے کا معیار بذات خود یہی ہوتا ہے کہ ان پر عمل کے نتیجے میں اصل مطلوب پر عمل کرنا ممکن ہورہا ہے یا نہیں۔ اگر رخصتیں اصل مطلوب کو فوت کرکے اس کی طرف گامزن کرنے کے بجائے بذات خود مطلوب کے درجے میں اختیار کرلی جائیں تو وہ اپنا جواز کھو بیٹھتی ہیں کیونکہ یہ اپنا جواز از خود نہیں بلکہ حصول مطلوب کے آلے کی حیثیت میں ہی رکھتی ہیں۔ اسی بنیادی فرق کو نہ پہچاننے کی بنا پر مجوزین اسلامی بینکاری مدارس میں اختیار کردہ حیلے کو اپنے حیلوں کے حق میں بطور دلیل پیش کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مدارس میں اختیار کردہ حیلہ بے شمار ’اصل شرعی مقاصد‘ (فروغ علوم دینیہ وغیرہ) کے حصول کا باعث بن رہا ہے جبکہ اسلامی بینکاری کے حیلے بالذات مقصود بن کر اصل مقصد کے حصول میں مزاحمت کررہے ہیں۔ لہٰذا اسلامی بینکاری کے حیلوں کو مدرسے کے حیلے پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے
۱۰۔ ایک لمحے کے لیے مجوزین اسلامی بینکاری کی یہ بات مان لیتے ہیں کہ چونکہ ’مسلمانوں کی معاشی ترقی ‘ ایک ضرورت ہے اور بینک کے بغیر اس کا حصول ممکن نہیں لہٰذا اسلامی بینکاری لازم ٹھری۔ چلیے اگر اسلامی بینکاری ’مسلمانوں کی ترقی‘ ہی کو اپنا مطمع نظر بنا کر اس پر عمل پیرا ہوجاتی تو بھی ’مسلم قوم پرستانہ‘ تناظر میں ہی صحیح اس کے حق میں کچھ نہ کچھ عذر پیش کرہی دیا جاتا مگر یہاں تو معاملہ یہ بھی نہیں۔ اگر واقعی اسلامی بینکاری کو مسلمانوں کی ترقی کی فکر ہوتی تو یہ زرعی و صنعتی شعبہ جات میں زیادہ سے زیادہ سہولتیں اور آسان شرائط پر قرضہ جات فراہم کرنے پر یکسو دکھائی دیتی، لیکن اس تضاد کا کیا کیا جائے کہ اسلامی بینکاری سے استفادہ کرنے والی سب سے بڑی اکثریت کا تعلق عمل پیداوار کے بجائے عمل صرف (consumer sector) سے ہے۔ پاکستان اسلامک بینکنگ سیکٹر ریویو (ص ۵۰) کے مطابق اسلامک بینکنگ انڈسٹری سے مختلف معاہدات کی مد میں قرضہ لینے والوں کا تناسب ذیل کے گوشوارے سے واضح ہے ۔ ان اعداد وشمار سے صاف ظاہر ہے کہ اسلامی بینک ’مسلمانوں کی ترقی‘ سے زیادہ ’ان کامعیار زندگی بلند کرکے اپنے نفع‘ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اسی لیے یہ (پیچیدہ معاہدات کے ذریعے) زیادہ تر قرضے عمل صرف کے لیے فراہم کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی بینکاری دین کے نام پر ’صرف کرنے والی معاشرت‘ (consumer society) کو عام کررہی ہے۔
کیا کوئی خدا ترس عالم دین اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہے کہ ’قرض کو فروغ دے کر consumer society کا حصول اور معیار زندگی میں اضافہ ایک شرعاً مطلوب مقصد ہے؟‘ اسلامی تہذیب تو کجا کسی دوسری مذہبی تہذیب میں بھی اگر ’معیار زندگی میں اضافہ‘ نامی کسی علمی اصطلاح و معاشرتی مقصد کا ذکر تک موجود ہے تو بتایا جائے؟ (براہ مہربانی ’نیا اجتہاد ‘ فرما کر قرآن و سنت کے نئے معنی متعین کرنے کے بجائے اسلامی علمی روایت سے اس کا ثبوت پیش کیا جائے)۔ اگر ایسا نہیں جیسا کہ امر واقعہ ہے تو پھر اسلامی بینکاری کے جواز میں آخر کیا عذر باقی رہ جاتا ہے؟ اشتہار بازی (یہاں تک کہ اسلامی پرچوں میں بھی ) کے ذریعے لوگوں کو نفس مطمئنہ سے محروم کرکے اعلیٰ سے اعلیٰ کی ایک ایسی دوڑ میں شامل کرنا جس کا کوئی معلوم معیار ہی نہیں کس دین کی خدمت ہے اور کتاب الرقاق وغیرہ کی روشنی میں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ جو بینکاری لوگوں کو نفس مطمئنہ ہی سے محروم کردے، آخر وہ اسلامی کیسے ہو سکتی ہے؟
منطقی تضادات پر مبنی الزامی دلیل
مفتی صاحب نے اسلامی بینکاری پر نظاماتی حوالے سے کی جانے والی تنقید کی غلطی واضح کرنے کے لیے ایک ایسی مثال کا سہارا لیا ہے جس کا ہدف براہ راست راقم الحروف ہے۔ چنانچہ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ جس طرح کے نظاماتی اعتراضات ہم اسلامی بینکاری پر اٹھا رہے ہیں قریب اسی طرح کی بحث موجودہ تعلیمی نظام پر بھی کی جاسکتی ہے۔ غالباً اس مثال سے مفتی صاحب کا مقصد الزامی دلیل قائم کرنا ہے (کہ جو جواب یہاں دو گے وہی اسلامی بینکاری میں بھی معتبر سمجھ لو، گویا یہ مفروضہ قائم کرلیا گیا ہے کہ راقم اپنے دفاع کے لیے یقیناًموجودہ تعلیم کے حق میں کچھ نہ کچھ عذر ضرور پیش کرے گا) اور یہی وجہ ہے کہ مفتی صاحب خود ہی اس دلیل کو مناظرانہ دلیل قرار دیتے ہیں۔ اس مثال سے جو نتائج مفتی صاحب نے نکالے ہیں ان پر تبصرے سے قبل عرض ہے کہ خالصتاً مناظرانہ لحاظ سے بھی یہ دلیل محل نظر ہے:
- یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر ایک غلط عمل کسی دوسرے غلط عمل کی دلیل کس طرح بن سکتا ہے (منطق میں اسے Fallacy of two wrongs make a right کہتے ہیں)۔ پہلی بات یہ کہ راقم الحروف کے کسی جدید تعلیمی درسگاہ کا حصہ ہونے سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ وہ نظام تعلیم درست ہے؟ اس مثال کا مقصد اگر بینکاری کی اسلام کاری کو درست ثابت کرنا ہے تو یہ دلیل منطقی تضاد پر مبنی ہے کیونکہ ایک غلط بات کسی دوسرے مقدمے کی دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ مفتی صاحب کی راقم پر تنقید کا حاصل یہ ہے کہ تمہار عمل غلط ہے یعنی تم سرمایہ دارانہ نظام میں شامل ہو، لیکن راقم کا مؤقف یہ ہے کہ مجوزین اسلامی بینکاری کی فکر اور عمل دونوں ہی غلط ہیں۔ راقم کے غلط عمل کی بنیاد پر مجوزین اپنی غلط فکر کو درست ثابت نہیں کرسکتے ،لہٰذا مجوزین کو چاہیے کہ سب سے پہلے اس نظام بینکاری کا مذہبی جواز پیش کرنا ترک کردیں، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ زاہد مغل کیا کررہا ہے
- پھر فرض کریں اگر اس مثال سے یہ ثابت ہو بھی جائے کہ راقم کے قول و فعل میں تضاد ہے (کہ ایک طرف وہ موجودہ نظام پر تنقید کررہا ہے اور دوسری طرف اس میں شامل ہے ) تب بھی اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ اب موجودہ نظام کو فطری سمجھتے ہوئے اس کی اسلام کاری کر لینی چاہیے؟ کیا دعوی کرنے والے کے قول و فعل کے تضاد سے اس کے دعوے کی منطقی تردید لازم آتی ہے؟ (منطق میں اسے Fallacy of Look who is talking کہتے ہیں)۔ سگریٹ کو برا کہنے والا اگر خود اس کے کش لگائے تو اس سے سگریٹ کے نقصانات غلط ثابت نہیں ہوجاتے
- اہم ترین بات یہ ہے کہ راقم جس طرح اسلامی بینکاری کو غلط سمجھتا ہے بالکل اسی طرح موجودہ تعلیمی نظام کو بھی غلط سمجھتا ہے، محض اس بنیاد پر کہ وہ ایسے کسی تعلیمی ادارے کا حصہ ہے اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس نظام تعلیم کا حامی بھی ہے؟ راقم الحروف اور اسلامی بینکاری کے مویدین میں فرق یہ ہے کہ وہ حضرات نہ صرف یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام میں شامل ہوتے ہیں بلکہ اسے فطری سمجھ کر اس کی اسلام کاری بھی کرتے ہیں جبکہ راقم نے نہ تو کبھی موجودہ نظام تعلیم کو فطری کہا، نہ اس کی اسلام کاری کی، نہ اس کے حق میں کتابیں لکھیں اور نہ ہی ایسی کسی نام نہاد اسلامیت کی بنیاد پر اپنے کاروبار کی دکان چمکائی، پھر دونوں میں مماثلت ہی کیا؟ راقم الحروف موجودہ نظام تعلیم کو سرمایہ دارانہ شخصیت کی تعمیر و تشکیل کا نظام سمجھتا ہے اور اپنے طلباء کو بھی حد الامکان اسی بنیادی حقیقت اور موجودہ تعلیمی نظام (خصوصاً علم معاشیات) کے تضادات سے آگاہی دینے کی کوشش کرتا ہے۔ کسی شے کو اختیار کرنے اور اس کی اسلام کاری کرکے اس پر راضی ہوجانے میں جو فرق ہے یہ ہر ذی شعور شخص پر واضح ہے۔ بدکاری میں ملوث ہونا اور اس کا مذہبی جواز پیش کرنا دو مختلف قسم کے رویے ہیں۔ موخر الذکر رویہ چونکہ غلطی و گناہ کا احساس ہی ختم کردیتا ہے لہٰذا اس کے نتیجے میں کوئی تبدیلی لانا نہ صرف یہ کہ نا ممکن ہوجاتا ہے بلکہ کسی تبدیلی کی بات کرنا بھی گناہ ٹھرتا ہے (جیسا کہ اسلامی بینکاری کے مویدین کا حال ہے اور جیسا کہ مفتی صاحب نے بھی بار بار راقم الحروف کو اسلامی بینکاری کے مویدین علمائے کرام اور اداروں کا نام لے کر سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ میاں ہوش کرو کیا تم انکے خلاف جانے کی جرات کرتے ہو)
انداز فکر کا مسئلہ
درج بالا مثال کے ذریعے درحقیقت مفتی صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ہر چیز کے بطور ’کل‘ جائزے ہی کو اسے اختیار کرنے یا ترک کرنے کا اصول اور معیار بنا لیا جائے تو بڑی مصیبت در پیش آجائے گی کیونکہ اس کی زد سے تو شاید ہی کوئی شے بچ پائے گی۔ چلیے اس دلیل کے ذریعے مفتی صاحب اور راقم الحروف اس قدر مشترک تک تو پہنچ گئے کہ جس بنا پر اسلامی بینکاری باطل ہے انہی بنیادوں پر جدید تعلیمی نظام بھی غلط ہے، البتہ مفتی صاحب کو یہ نتائج قبول کرنے میں پیش آنے والی ممکنہ ’عملی مشکلات ‘ بطور روکاوٹ نظر آرہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے اگر امر واقعی ایسا ہی ہو کہ موجودہ دور کی اکثر و بیشتر ادارتی صف بندیاں باطل کے قیام و فروغ کے لیے قائم ہوئی ہوں تو ان سب کو رد کرنے اور ان کی جگہ کسی دوسری صف بندی کے احیاء کی دعوت دینے میں آخر شرعاً و عقلاً قباحت کیا ہے؟ اگر ایک شخص مطالعے و غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ موجودہ دور کی دس میں سے آٹھ باتیں غلط ہیں تو اسے اس کا حق حاصل ہونا چاہیے کہ انہیں غلط کہے، اگر دوسرا شخص اپنے مطالعے کے بعد دو یا تین (اور وہ بھی جزوی طور پر ) ہی کو غلط سمجھتا ہے تو یہ اس کی اپنی رائے ہے، مگر یہ کہنا کہ کسی انداز فکر سے چونکہ موجودہ دور کی آٹھ باتیں غلط ماننا لازم آتی ہیں اور اس سے زندگی مشکل ہوجائے گی لہٰذا انہیں غلط کہنے کے بجائے کوئی دوسرا انداز فکر ہی اپنا لینا چاہیے، یہ کوئی علمی استدلال نہیں بلکہ علمی دنیا میں اسے pragmatism کہتے ہیں جو کوئی اصول، فلسفہ یا نظریہ حیات نہیں بلکہ صرف ’کام چلانے ‘ کا طریقہ ہے، درحقیقت یہ فرار کا راستہ ہے، حقائق سے آنکھیں نہ ملانے کی حکمت عملی ہے۔ مغربی فلسفے پر مبنی علمیت نے جدید انسان کو یہ سبق پڑھا دیا ہے کہ علم وہ ہے جو تمہارے فوری مادی مسئلے حل کر دے، اگر کوئی علم تمہارے مسئلے حل نہیں کر رہا تو وہ علم ہی نہیں۔ Pragmatic ہونے کا مطلب یہ ہے کہ میں زندگی کو کسی اصول کی بنیاد پر نہیں بلکہ سہولت، آرام اور کام چلانے کے نظرئیے کے تحت بسر کرنا چاہتا ہوں۔ میں کسی اصول اور اعلیٰ اقدار کے نظرئیے کوقبول نہیں کرنا چاہتا کیونکہ ان اصولوں اور نظریوں کا ادراک میرے بوجھ اور ذمہ داریوں میں اضافہ کرے گا اور یہ بوجھ میری سہولتوں کی راہ میں قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کرے گا۔ کیا ان موانع کے خوف سے pragmatism کو اختیار کرلینا شرعاً جائز ہے؟
کسی انداز فکر کو جانچنے کا یہ کوئی معیار نہیں کہ آیا اس سے برآمد ہونے والے نتائج کسی دوسرے انداز فکر کے حاملین (یا اکثریت) کے لیے قابل قبول ہیں یا نہیں۔ کسی نافذ العمل نظام (جسے ہم status quo کہہ سکتے ہیں ) میں تبدیلی لانے کے لیے برپا کی جانے والی جدوجہد کی نوعیت، اس کے طریقہ کار اور نافذ العمل قانون کے بارے میں زاویہ نگاہ کا انحصار درج ذیل باتوں پر ہوتا ہے:
(اول) مطلوبہ تبدیلی کی نوعیت:
یعنی آپ کس قسم کی تبدیلی لانا چاہتے ہیں، موجودہ نظام کو برقرار رکھتے ہوئے اور اس کے اندر رہتے ہوئے اس کی غلطیوں کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں یا آپ کا مقصد اس کی جگہ کوئی دو سرانظام قائم کرنا ہے۔
(دوئم) مطلوبہ تبدیلی کی ہمہ گیریت:
اگر آپ نظام کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں یا اسے تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو کس حد تک، یعنی اس اصلاح یا تبدیلی کا مقصد انسانی زندگی کے تمام گوشوں پر اثر انداز ہونا ہے یا چند ایک پر ۔
چنانچہ جو شخص موجودہ نظام کو جس قدر حق سمجھتا ہوگا اتنا ہی وہ اس کے اندر رہنے اور اس کی اصلاح کا بھی قائل ہوگا، اسی قدر وہ نافذ العمل قانون کے دائرے کے اندر رہنے کی آواز اٹھائے گا اور اسی نسبت سے کسی انقلابی جدوجہد کے باطل ہونے پر بھی مصر ہوگا۔ اس کے برعکس جس شخص کا تصور تبدیلی جتنا زیادہ ہمہ گیر ہوگا وہ status quo سے اتنا ہی نالاں ہوگا، اسی قدر وہ انقلابی جدوجہد کا بھی قائل ہوگا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ کسی نظام زندگی کے بارے میں دو لوگوں کے انداز فکر کا اختلاف اس بات کا غماز ہوتا ہے کہ وہ موجودہ نظام کے بارے میں کن مفروضا ت کی بنیاد پر نظریات قائم کرتے ہیں، یعنی دونوں کے نزدیک اس نظام کی حیثیت کیا ہے نیز اس میں کس قسم کی اور کتنی تبدیلی درکار ہے۔ اسلامی ماہرین معاشیات و فائنانس درحقیقت ’جو اچھا ہے اسے لے لو اور جو برا ہے اسے ترک کردو‘ کے اصول کے تحت مغرب اور اسلام میں مفاہمت کی پالیسی پر اس لیے عمل پیرا ہیں کیونکہ وہ سرمایہ دارانہ اداروں کو غیر اقداری اور فطری تصور کرتے ہیں، انکے خیال میں اسلامی تعلیمات کے اندر یہ گنجائش موجود ہے کہ وہ مغرب کو اپنے اندر سمو سکے اور یہی وجہ ہے کہ یہ ماہرین سرمایہ دارانہ اداروں میں چند جزوی اور عملی (operational) تر میمات و اصلاحات کے ذریعے ان کااسلامی متبادل تیار کرنا ممکن سمجھتے ہیں۔ مویدین اسلامی بینکاری اور انکے ناقدین کے درمیان اصل اختلاف اسی بات پر ہے کہ موجودہ نظام کی نوعیت کیا ہے، نیز اس کا اسلام کے ساتھ تعلق کیسا ہے۔ چونکہ راقم الحروف جیسے وہ حضرات جو ماہرین اسلامی معاشیات و فائنانس کی موجودہ نظام کے بارے میں تشخیص و تفہیم ہی کو درست نہیں سمجھتے، وہ انکے زاویہ نگاہ سے بھی اختلاف کرتے ہیں۔ ماہرین اسلامی معاشیات کے زاویہ نگاہ کو قبول کرنے کا مطلب صرف اور صرف یہ ہے کہ ناقدین اپنے بنیادی مقدمے سے دستبردار ہو کر مجوزین کے مفروضات کو من و عن قبول کرلیں، اور ظاہر ہے بلا دلیل ہمارے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں۔
مجوزین کی طرف سے ’جو اچھا ہے وہ لے لو اور جو برا ہے اسے ترک کردو‘ پر عمل پیرا ہونے کی اصل وجہ یہ نہیں کہ حدیث شریف میں یہ اصول بیان ہوا ہے بلکہ اسے اپنانے کی وجہ موجودہ نظام کے بارے میں ان کااپنا مخصوص زاویہ نگاہ اور فکری پس منظر ہے جسے جواز فراہم کرنے کے لیے حدیث کا سہارا لے لیا گیاہے۔ آخر اس حدیث سے یہ مفروضہ کب ثابت ہوتا ہے کہ ’ہر چیز کے لیے یہ اصول ضرور اپنا ؤ‘؟ (آگے چل کر ہم ’اسلامی قحبہ خانوں ‘ کی مثال عرض کریں گے، دیکھنا یہ ہے کہ حضرات مجوزین اس اصول کو وہاں کیسے منطبق کرتے ہیں)۔ آخر حدیث کا یہ مفہوم سمجھنے میں کیا چیز مانع ہے کہ ’جس شے کے اندر خیرکا پہلو شر پر غالب ہو وہاں خیر کو اختیار کرلو اور شر کو ترک کردو‘۔ آخر تھوڑا بہت خیر تو دنیا کی ہر ہی شے میں ہوتا ہے، خود قرآن کے مطابق شراب میں بھی نفع موجود ہے (بقرۃ : ۲۱۹) مگر کیا اس بناء پر شراب کے کاروبار کو فروغ دینا جائز ہوگا؟ پھر اس حدیث سے یہ بات بھی واضح ہے کہ اس کا اطلاق وہاں ہونا چاہیے جہاں خیر کو شر کا اثر زائل کرکے اپنانا ممکن ہو، دوسرے الفاظ میں اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت حال پر حدیث کا اطلاق درست نہ ہوگا۔ مجوزین کی یہ محض خام خیالی ہے کہ اسلامی بینکاری کے نام پر اختیار کردہ حکمت عملی کے سلسلے میں وہ حدیث شریف پر عمل پیرا ہیں کیونکہ اس حکمت عملی کے تحت حاصل ہونے والے خیر کی قیمت ’صرف‘ یہ ہے کہ:
- قرض پر مبنی زرو معیشت کو فروغ اور شرعی جواز مل رہا ہے۔
- سودی حیلے عمومیت اختیار کرتے جارہے ہیں ۔
- حرص و حسد (معیار زندگی بلند کرنے ) کی عقلیت کو اسلامی جواز مل رہا ہے۔
- مسلمان سرمایہ دارانہ نظام کے اندر خود کو سمو تے جارہے ہیں ۔
- نظام باطل کے اندر شمولیت کا احساس گناہ ختم ہوتا جارہا ہے۔
- مسلمانوں کے اموال استعماری قوتوں کے شکنجے میں کسے جارہے ہیں۔
اسلامی بینکاری کے راستے موجودہ مالیاتی نظام کا حصہ بننے کا ایک ثمر یہ ہے کہ مسلمانوں کے اموال موجودہ ادارتی صف بندی کی نگرانی و قابو میں آجاتے ہیں، اور اس طرح کوئی بھی مال ’اموال باطنہ ‘ نہیں رہ پاتا۔ نتیجتاً وہ لوگ جو پہلے دین کی بے دریغ خدمت کیا کرتے تھے ان کے اموال پر عالمی جاسوس اداروں کی نگرانی ہوجانے کی وجہ سے اب انکے لیے ایسا (مثلاً مجاہدین و مدارس کی مدد) کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ امریکہ میں اگر کوئی مسلمان بینک سے ایک خاص مقدار سے زائد رقم نکلوائے تو سی آئی اے اس کی نگرانی کرنے لگتی ہے کہ یہ رقم کب اور کہاں خرچ کی گئی۔ لہٰذا اسلامی تحریکات کی امداد کرنے والے ہاتھ اس نظام میں شمولیت کے ذریعے باندھ دئیے جاتے ہیں کیونکہ انکے اموال استعمار کے شکنجے میں آجاتے ہیں۔
کیا واقعی حدیث کا مفہوم یہی ہے کہ حکم شرع کے کسی ایک پہلو پر عمل کرنے کے لیے درجنوں احکامات شرع کو پامال کرنا جائز ہے؟ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ مجوزین جس زاویہ نگاہ کی عینک سے مسئلے کی نوعیت کو دیکھ رہے ہیں اس عینک سے ان مسائل کا ادراک نا ممکن ہے، لہٰذا انہیں ناقدین کو نصیحت کرنے کے بجائے اپنے انداز فکر پر نظر ثانی کی کوشش کرنا چاہیے۔ مجوزین کی طرف سے ہمیں انداز فکر تبدیل کرنے کا جو مشورہ دیا جارہا ہے اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو باطل سمجھنے اور اسے تبدیل کرنے کے بنیادی مقدمے سے باز آجاؤ۔
مفتی صاحب نے اپنے اصول کو ثابت کرنے کے لیے بازار کی مثال بھی پیش کی ہے کہ باوجود اسے برے مقامات میں شامل کرنے کے ’کل‘ کی بنیاد پر اس میں جانا کلیتاً منع نہیں کردیا گیا۔ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ ہم نے کب اس بات سے انکار کیا ہے کہ جہاں خیر کو شر کا اثر زائل کرکے اپنانا ممکن ہو وہاں بھی مت کرو؟ ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ اسلامی بینکاری (بلکہ اکثر مغربی مظاہر کو مسلمان بنانے) کے معاملے میں آپ اس اصول کو غلط جگہ پر استعمال کررہے ہیں۔ بازار اور (علم معاشیات کے تصور) مارکیٹ میں نہایت بنیادی نوعیت کا فرق ہے (جسکی تفصیلات میں جانے کا یہ موقع نہیں)، بازار میں شمولیت کے جواز سے مارکیٹ میں شمولیت کا جواز ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بازار اسلامی ہو سکتا ہے مگر مارکیٹ اسلامی نہیں ہوسکتی کیونکہ بازار کی برائیاں اضافی (relative) نوعیت کی ہیں جن سے بچنا ممکن ہے، مگر مارکیٹ تو قائم ہی مذہبی اخلاقیات کے جنازے پر ہوتی ہے جسکی اصلاح ناممکن ہے، اس کی اصلاح کا واحد طریقہ اس کی بنیاد پر قائم تمام اجتماعیتوں کو ختم کردینا ہے۔ چونکہ مذہبی معاشرت کے قیام میں بازاروں کا اہم مقام ہے لہٰذا شرع میں اس کی گنجائش بھی رکھی گئی اور اس کے ذریعے مذہبی مقاصد کو فروغ دینے والے کو جنت کی بشارت بھی دی گئی، مگر مارکیٹ تو مذہبی معاشرت کا رد ہے۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ بازار کی مثال پیش کرکے، اور پھر اس اصول کے تحت مارکیٹ کو بازار پر قیاس کرکے مارکیٹ پر مبنی اسلامی بینکاری کے لیے جگہ تلاش کی جاسکتی ہے تو اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ اسے دونوں کا فرق معلوم نہیں۔
اگر مفتی صاحب جزئیات سے کلیات ہی اخذ کرنا چاہتے ہیں تو ان کی پیش کردہ مثال کے برعکس نظائر کی نشاندہی بھی کی جا سکتی ہے۔ مسجد اسلامی تہذیب کا لازمی جزو اور شعار ہے لیکن اگر مسجد کی اساس ہی غلط ہو، اسے تعمیر کرنے کا مقصد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق جوڑنے کے بجائے امت میں انتشار پھیلانا ہو تو باوجود انتہائی مقدس مقام ہونے کے مسجد اپنا تقدس کھو دیتی ہے اور اسے مسجد ضرار قرار دے کر وہاں جانے سے روک دیا جاتا ہے (توبہ: ۱۰۷)۔ دیکھئے ایک انتہائی متبرک مقام بھی مقاصد تبدیل ہوجانے سے مقدس و متبرک نہیں رہتا، کہنے والا کہہ سکتا ہے مسجد کے بے شمار فوائد ہیں نمازی نماز ادا کرتے ہیں وغیرہ، مگر ’جو اچھا ہے وہ لے لو اور جو برا ہے اسے ترک کردو‘ کے تحت ان فوائد کا اعتبار نہ کیا گیا۔ اگر جزئیات کی بنیاد پر ہی قیاس کرنا ہے تو مارکیٹ کو بازار کے بجائے مسجد ضرار پر قیاس کرنا مناسب تر ہوگا۔
حواشی
۱۔ اس نکتے کی تفصیل کے لیے دیکھئے ساؤتھ افریقہ کے مدرسہ انعامیہ سے اسلامی بینکاری کے خلاف اور علمائے کرام کے حق میں جاری کیا گیا مقالہ "Riba in a new get-up"۔ یہ مضمون مدرسے کی ویب سائٹ www.al-inaam.com سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ زیر نظر مضمون میں ’نظریہ ضرورت ‘ کی بحث میں بہت سے نکات اسی مضمون سے اخذ کیے گئے ہیں ۔ عیسائی دنیا میں سود کی بتدریج حرمت کن حیلوں کی آڑ میں ختم کی گئی اور مذہبی پیشواؤں نے اس میں کیا کردار ادا کیا اس کی عمدہ تفصیل Tawney کی کتاب Religion and the Rise of Capitalism میں دیکھی جا سکتی ہے
۲۔ نوٹ نمبر ۳ میں دی گئی تفصیلات دیکھنے سے ’مقدار ضرورت ‘ کی حقیقت خوب واضح ہوجاتی ہے
۳۔ دھیان رہے کہ ’حیلوں کی مد میں اربوں کھربوں روپے کے مالی معاہدات کرنا‘ اسلامی بینکاری پر کوئی الزام نہیں بلکہ عین حقیقت ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ ’اسلامک بینکنگ بلیٹن بابت اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۸ کے مطابق اسلامک بینکوں نے مختلف طرق تمویل پر درج ذیل رقوم خرچ کررکھی ہیں:
بلیٹن کے مطابق اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۸ کے دوران اسلامی بینکوں کا کل اثاثوں پر آمدنی کا تناسب 7.9% رہا۔ اگر فرض کیا جائے کہ ’حیلہ طرق تمویل ‘ کی درج بالا رقوم (جو اسلامی بینکوں کے کل اثاثوں دوکھرب چھتر ارب کا تقریباً پچاس فیصد ہے) پر اوسطاً 8% نفع رہا ( جو یقیناًاس سے زیادہ ہوگا تب ہی تو بینک اس مد میں زیادہ رقوم خرچ کرتے ہیں) تو تین ماہ کے دوران حیلوں کی مد میں اسلامی بینکوں نے لگ بھگ دس ارب ستتر کروڑ روپے بنائے۔ کیا واقعی ضرورت اسی چیز کا نام ہے کہ کھربوں روپے کا کاروبار چمکا کر اس پر اربوں روپے کما لیے جائیں؟ درج بالا گوشوارے میں سب سے اہم چشم کشا حقیقت یہ امر ہے کہ اسلامی بینک ’قرض حسنہ‘ کی مد میں ایک دھیلہ بھی خرچ نہیں کرتے۔ کیا اس سے معلوم نہیں ہوجاتا کہ اسلامی بینکاری کے ’اصل مقاصد‘ کیا ہیں؟
(جاری)
مکاتیب
ادارہ
(۱)
۲۰۱۰۔۷۔۱۸
مکرمی جناب محمد عمار خان ناصر
السلام علیکم ورحمۃ اللہ مزاج گرامی
آپ کی توجہ اور عنایات سے آپ کا موقر مجلہ ’’الشریعہ‘‘ باقاعدگی سے ملتا ہے۔ اگرچہ اب میں ایک مدت سے ’’غیر فعال‘‘ ہوں، تاہم علمی جرائد اور مجلات کے توسط سے تحقیقی پیش رفت سے آگاہی ہوتی رہتی ہے۔
الشریعہ میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے غیر سودی نظام پر تنقید اور اس کے دفاع کا مباحثہ میں نے بہت شوق اور توجہ سے پڑھا، ہر چند کہ اکنامکس کا طالب علم نہ ہونے کے باعث بابجا الجھنیں پیش آتی رہیں۔ اس موضوع پر دو طرفہ علماء کرام اور فقیہان امت کی تالیفات اور فتاویٰ بھی دینی حلقوں میں گردش کناں ہیں جومستقبل میں پرستاران اسلاف کے لیے خاصی پریشانیاں پیداکر سکتے ہیں۔
اس مسئلے میں اگر دو اہم امور کو پیش نظر رکھا جاتا تو شاید ایک دوسرے پر تنقید میں اپنی صلاحیتیں صرف کرنے کے بجائے معاشی نظام کی تشکیل میں پیش رفت ہو سکتی:
۱۔ میرے علم کی حد تک حضرت عثمانی نے جو غیر سودی بنکاری کا خاکہ پیش کیا، وہ ان کے مطابق ان کی ایسی بلند آہنگ سوچ (Loud Thinking) تھی جو حتمی نہیں تھی اوراس کی تشکیل میں انھوں نے ماہرین معاشیات سے پرابلمز معلوم کر کے فقہ اسلامی سے ان کے حل تلاش کیے جو مستقل نہیں تھے بلکہ عبوری دور کے لیے تھے اور ان کی حیثیت جائز حیلوں یا مرجوح اقوال سے استفادے کے ذریعے سودکی لعنت سے نجات کے لیے سرنگ کھودنے کے مترادف تھی جس سے توقع کی جا سکتی تھی کہ تجربات کی روشنی میں اسے بہتر بنانے کا عمل جاری رہے گا، لیکن اس عبوری اضطراری حل کو عقیدت مندوں نے
’’اسلامی نظام معیشت کے بانی شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی‘‘
کے سیاسی نعرے میں تبدیل کر دیا۔ پھر جب اس سے متوقع فوائد حاصل نہ ہوئے تو یہ سوال سامنے آیا کہ کیا اسلامی نظام معیشت بانجھ ہو گیا ہے یا زیر نظر نظام اسلامی نہیں ہے۔
۲۔ اس اجتہاد کے منافع سمیٹنے والوں (Beneficiaries) میں حضرت عثمانی اور ان کا خاندان سرفہرست ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر محترم خاندان اپنے اجتہاد کو اپنے ذرائع آمدن میں اضافے کے لیے استعمال نہ کرتا۔ اسلامی روایت یہ رہی ہے کہ مجتہدین امت عوام کے لیے تیسیر ورخص اور اپنے لیے عزیمت اور مراعاۃ الخلاف کے اصول پر کاربند رہے۔
اگر ڈاکٹر محمد طاہر منصوری (ڈین شریعہ فیکلٹی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد) کی یہ روایت درست ہے کہ مذکورہ غیر سودی بنکاری نظام کی نگرانی کے لیے حضرت عثمانی نے بنکوں کے لیے جس شریعہ ایڈوائزری کی منظوری حاصل کی تھی، اس کی کوالیفکیشن اس نوعیت کی رکھی گئی کہ اس میں صرف دار العلوم کراچی کے مخصوص سند یافتہ ہی آ سکتے تھے، جب میں نے (یعنی ڈاکٹر منصوری نے) ڈاکٹر محمود احمد غازی کی توجہ اس طرف دلائی تو انھوں نے بحیثیت وزیر مذہبی امور اس میں ایل ایل ایم شریعہ، اسلامی یونیورسٹی کو بھی شامل کر لیا (گویا دونوں حضرات نے اپنے اپنے حلقے کے افراد کے روزگار کو اولیں ترجیح دی) اور اگر سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر محمد خالد مسعود کی یہ بات درست ہے کہ ان مشیران فقہ کو گراں قدر ماہانہ مشاہروں اور گوناگوں مراعات کے علاوہ ہر جائزہ کردہ ٹرانزکشن پر کمیشن بھی ملتا ہے تو کیا ایسا اجتہاد جو پیہم مفادات سے وابستہ ہو، لائق اعتنا ہو سکتا ہے؟
اس غیر سودی نظام کے اسلامی ہونے پر اکثر عرب علما اور عالم اسلام کے اجتہادی اداروں کو شدید تحفظات ہیں، بلکہ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے ڈاکٹر ایس ایم زمان کے مرابحہ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں راقم کی موجودگی میں حضرت عثمانی کے بارے میں فرمایا: ’’ہو ابو الحیل، عاب علیہ علماء العرب‘‘۔
الشریعہ شکریے اور مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے اس لوٹ کھسوٹ کے دور میں بھی علمی مباحثے کا فورم مہیا کیا ہوا ہے جس کے نتیجے میں گراں قدر علمی تحقیقات سے استفادے کا موقع میسر آ جاتا ہے۔
(ڈاکٹر) محمد طفیل ہاشمی
اسلام آباد
(۲)
برادر مکرم ومحترم سید عز یز الرحمن صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
’’تحقیقات حدیث‘‘ کا دوسرا شمارہ نظر نواز ہوا۔ ماشاء اللہ مضامین کا انتخاب عمدہ اور آپ کے علمی ذوق کا آئینہ دار ہے۔ میری خواہش بھی ہے اور امید بھی کہ یہ مجلہ ان شاء اللہ علوم حدیث کے حوالے سے بلند پایہ علمی مقالات کی پیش کش کا ذریعہ ثابت ہوگا۔
تازہ شمارے میں ’’برصغیر میں حجیت حدیث پر موجود لٹریچر کا جائزہ‘‘ کے زیر عنوان ڈاکٹر محمد سلطان شاہ کے مقالے میں ص ۱۹۹ پر جد مکرم شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر کا ذکر بھی ہوا ہے، لیکن غالباً ان کی تصانیف مقالہ نگار کے مطالعے میں نہیں رہیں جس کی وجہ سے مقالے میں ان کی تصنیف ’’راہ سنت‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے جو سرے سے حجیت حدیث کے موضوع سے متعلق ہی نہیں۔ حجیت حدیث کے موضوع پر حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی تین مستقل تصانیف ’’شوق حدیث‘‘، ’’انکار حدیث کے نتائج‘‘ اور ’’صرف ایک اسلام بجواب دو اسلام‘‘ ہیں جن میں اس بحث کے مختلف گوشوں پر تفصیلی کلام کیا گیا ہے۔ اسی طرح ان کی تقریرات بخاری کے مختصر مجموعہ ’’احسان الباری‘‘ میں بھی حجیت حدیث پر اصولی بحث موجود ہے۔
ص ۱۹۰ تا ۱۹۴ میں مولانا امین احسن اصلاحی کا ذکر ہوا ہے۔ اس بحث میں مولانا کے نقطہ نظر کی صحیح ترجمانی نہیں کی گئی۔ مثلاً ص ۱۹۲ پر کہا گیا ہے کہ ’’مولانا اصلاحی نے حد رجم کا انکار کیا‘‘ حالانکہ مولانا رجم کی سزا کے ثبوت کو احادیث پر منحصر ماننے کے بجاے براہ راست قرآن کی آیت محاربہ میں منصوص قرار دیتے اور اسے شرعی حدود میں شمار کرتے ہیں۔ ان کا اختلاف عام نقطہ نظر سے رجم کے شرعی حد ہونے یا نہ ہونے میں نہیں، بلکہ اس کے نفاذ کی شرائط میں ہے۔ اسی طرح یہ بیان کہ ’’خبر واحد کے سلسلے میں مولانا اصلاحی کاموقف ہے کہ یہ حجت نہیں ہے‘‘ (ص ۱۹۳) کسی طرح درست نہیں۔ خود مقالہ نگار نے ان کا جو اقتباس نقل کیا ہے، اس میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’’اخبار آحاد محض آحاد ہونے کی بنا پر ناقابل اعتبار نہیں قرار دی جائیں گی، بلکہ ان پر اعتماد کیا جائے گا۔ ان میں ضعف کے جو پہلو ہیں، ان کی تلافی کی مختلف صورتوں پر ہمیشہ نگاہ رکھی جائے گی اور شبہ کو دور کرنے کے لیے جو وسائل وذرائع بھی استعمال ہو سکتے ہیں، وہ استعمال میں لائے جائیں گے۔‘‘ گویا مولانا کا موقف یہ ہے کہ خبر واحد علی الاطلاق حجت نہیں، نہ یہ کہ وہ مطلقاً حجت نہیں۔ یہی اس معاملے میں احناف، مالکیہ اور اصول فقہ وکلام کے بہت سے ممتاز محققین کا ہے۔
امید ہے نیک دعاؤں میں یاد فرماتے رہیں گے۔
محمد عمار خان ناصر
۸ جون ۲۰۱۰ء
انا للہ و انا الیہ راجعون
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ملک کے ممتاز اور بزرگ عالم دین مولانا قاضی عبد اللطیف آف کلاچی گزشتہ دنوں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ اور دیگر اکابر علما کی قیادت میں اسلامی دستور سازی کی جدوجہد میں شریک رہے ہیں اور ان کا شمار مدبر، معاملہ فہم اور صاحب دانش علما میں ہوتا تھا۔ کافی عرصہ علیل رہنے کے بعد گزشتہ ماہ آخر وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ابھی ایک آدھ ماہ قبل ہی ان کے بھتیجے مولانا قاضی عبدالحلیمؒ کا انتقال ہوا ہے۔ یہ پے در پے اموات نہ صرف ان کے خاندان کے لیے بلکہ پورے طبقہ علما کے لیے بے حد رنج اور صدمے کا باعث ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومین کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے، ان کے لیے آخرت کی منزلیں آسان فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل کے ساتھ دینی وعلمی خدمات کے سلسلے کو جاری رکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین یا الٰہ العالمین۔
گزشتہ ماہ کے دوران میں ہی جامعہ الہدیٰ (نوٹنگھم، برطانیہ) کے ناظم اور ہمارے قریبی عزیز جناب محمد ظہیر کی والدہ محترمہ، جو جامعہ الہدیٰ کے پرنسپل مولانا رضاء الحق سیاکھوی کی ممانی بھی تھیں، کئی سال کی علالت کے بعد دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ کینسر کے عارضے میں مبتلا تھیں اور زندگی کے آخری چند سال انھوں نے تکلیف اور پریشانی کے باوجود بڑی ہمت اور حوصلے کے ساتھ گزارے۔ وہ ایک نیک، دین دار اورباوقار خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی مغفرت فرمائیں، ان کے درجات کوبلند کریں اور پس ماندگان کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بننے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
دعائے صحت
ممتاز عالم دین، ماہنامہ الفرقان لکھنو کے سرپرست اور ہمارے نہایت مشفق اور مہربان بزرگ حضرت مولانا عتیق الرحمن صاحب سنبھلی دام مجدہم گزشتہ چند ماہ سے علیل ہیں اوربڑھاپے اور ضعف کے علاوہ متعدد جسمانی عوارض سے نبرد آزما ہیں۔ قارئین سے درخواست ہے کہ ان کے لیے صحت کاملہ وعاجلہ کی دعا فرمائیں۔ اللہم اشف مرضانا ومرضی المسلمین شفاء لا یغادر سقما۔ آمین
The Quran: The Book free of doubt
ادارہ
(Exploratory essays into I'jaz al-Quran and other topics)
(مصنف: سید منیر واسطی۔ صفحات: ۲۷۵۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔ ناشر: یونیورسٹی آف گجرات)
زیر نظر کتاب قرآن مجید اور قرآنی علوم کے بعض اہم پہلووں مثلاً تاریخ اور اعجاز وغیرہ پر تعارفی مضامین اور شذرات کا ایک مجموعہ ہے جو مصنف کے بقول اس موضوع پر ان کے کم وبیش چالیس سالہ مطالعہ کا نچوڑ ہے۔ کتاب کے مباحث کو چار بنیادی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ’’قرآنی متن‘‘ کے زیر عنوان پہلے حصے میں عربی زبان کے ارتقا، قرآنی متن کی تاریخ، اسباب نزول، سورتوں کی ترتیب، اقسام قرآن، اختلاف قراء ت اور دیگر موضوعات پر کلام کیا گیا ہے۔ ’’قواعد زبان‘‘ کے عنوان کے تحت دوسرے حصے میں قرآنی زبان کے مختلف اسالیب مثلاً مجاز، حذف وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ’’اعجاز القرآن‘‘ کے زیر عنوان اس موضوع پر مختلف مسلم اور غیر مسلم مصنفین کی آرا کا خلاصہ درج کیا گیا ہے۔ بعض جگہ مصنف کی طرف سے مختصر تبصرے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ’’عمومی مباحث‘‘ کے عنوان سے آخری حصے میں قرآن کے ترجمے اور تحریف قرآن سے متعلق اہل تشیع کے عقیدے پر گفتگو کی گئی ہے۔
کتاب کی نوعیت ایک مربوط تصنیف کے بجائے مجموعہ شذرات کی سی ہے جس میں موضوع سے متعلق متفرق نوٹس یا مختصر مضامین جمع کر دیے گئے ہیں۔ اسلوب کے اعتبار سے بھی اسے گہرائی کے ساتھ لکھی جانے والی کوئی تحقیقی کاوش قرار دینا مشکل ہے۔ البتہ ابتدائی مرحلے کے طلبہ اگر موضوع کے متفرق اجزا کا غیر مربوط تعارف حاصل کرنا چاہیں تو کتاب ایک حد تک ان کی معاون ہو سکتی ہے۔ کتاب کے آخر میں قرآن مجید کے مکمل اور جزوی انگریزی تراجم، قرآنی معاجم، اشاریہ جات، انسائیکلوپیڈیاز اور قرآنی علوم سے متعلق مستشرقین اور مسلم علما کی تصنیف کردہ انگریزی کتب کی ایک مفصل فہرست دی گئی ہے جو اس موضوع کے طلبہ اور محققین کے لیے خاص طور پر مفید ہے۔ کتاب کی زبان بھی مناسب ہے اور طرز تحریر انگریزی زبان سے مصنف کے دیرینہ تعلق کا پتہ دیتا ہے۔
یونیورسٹی آف گجرات کے شعبہ نشر واشاعت نے اس کتاب کو قیمتی کاغذ پر بہت باذوق انداز میں شائع کیا ہے اور معیار طباعت کے لحاظ سے اس پر درج قیمت بے حد مناسب دکھائی دیتی ہے۔
(تبصرہ: محمد عمار خان ناصر)
ستمبر ۲۰۱۰ء
افراد کی غلامی سے قوموں کی غلامی تک
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جنیوا سے جاری کی جانے والی اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’انسانوں کی تجارت جدید دور میں غلامی کی ایک شکل ہے اور یہ لعنت دنیا کے ہر علاقے میں موجود ہے۔ محنت ومشقت اور جنسی استحصال کے لیے مردوں، عورتوں اور بچوں کی اسمگلنگ اور ان کی خرید وفروخت مجرموں کے منظم گروہوں کے لیے پیسہ بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ انسانی تجارت کا شکار ہونے والی لڑکیوں کو مکروہ دھندے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ انسانوں کی تجارت جتنی زیادہ عام ہے، اتنی ہی اس کے بارے میں معلومات کم ہیں۔ یہ گھناؤنا کاروبار اس قدر چوری چھپے کیا جاتا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ کتنے لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں، لیکن انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے اندازہ لگایا ہے کہ سات لاکھ سے چالیس لاکھ تک انسان ہر سال بین الاقوامی سرحدوں کے آر پار پہنچائے جاتے ہیں۔‘‘
انسانوں کی تجارت قدیم دور سے جاری ہے اور ہر زمانے میں اس کی کوئی نہ کوئی شکل موجود رہی ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت بھی یہ سلسلہ وسیع پیمانے پر جاری تھا۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے حضرت زید بن حارثہ اسی انسان فروشی کے باعث غلام بنے تھے اور فروخت ہوتے ہوتے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابرکت غلامی تک پہنچے تھے، مگر آپ نے انھیں آزاد کر کے منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ حضرت سلمان فارسی بھی اسی بردہ فروشی کا شکار ہوئے اور فروخت ہوتے ہوتے مدینہ منورہ کے ایک یہودی خاندان کی غلامی میں آ گئے۔ آزاد افراد اور انسانوں کو زبردستی پکڑ کر غلام بنا لینے کا یہ رواج اس دور میں عام تھا اور طاقت ور لوگ جہاں موقع ملتا، طاقت کا یہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رسم بد کے خاتمے کا اعلان فرمایا اور حکم صادر کیا کہ آج کے بعد کسی آزاد انسان کو فروخت نہیں کیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا کہ آزاد انسان کی خرید وفروخت اور آزاد انسان کو بیچ کر حاصل کی جانے والی کمائی حرام ہے جس پر مسلم دنیا میں آزاد انسانوں کی یہ خرید وفروخت جسے بردہ فروشی کے نام سے پکارا جاتا ہے، ممنوع قرار پائی اور اس کا عملاً خاتمہ ہو گیا، البتہ جنگی قیدیوں کی غلام اور باندی کے طور پر خرید وفروخت کا سلسلہ جاری رہا جس کی صورت یہ تھی کہ جنگی قیدیوں کے بارے میں قرآن کریم نے فرمایا کہ انھیں آزاد کر دیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے اور اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہو سکیں تو انھیں مستقل قیدی بنا لیا جائے، مگر قید خانوں میں ڈالنے کی بجائے خاندانوں میں تقسیم کر دیا جائے جن کی حیثیت غلام اور باندی کی ہوگی۔
ان کی یہ حیثیت کم وبیش آج کے دور کی اس صورت سے ملتی جلتی ہے جس میں کچھ قیدیوں کو ان کی رہائی سے کچھ عرصہ پہلے پیرول پر رہا کر کے زمیندار خاندانوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور وہ کچھ عرصہ ان کے ہاں پابند انسانوں کی طرح ان کی خدمت کرتے ہیں، چنانچہ اسلام نے اس طرح بردہ فروشی کا تو مکمل طو رپر خاتمہ کر دیا، مگر جنگی قیدیوں کے بارے میں ایک آپشن کے طو رپر غلامی کا یہ سلسلہ باقی رہنے دیا اور اس کے لیے ایسے احکام وقوانین وضع کیے کہ ان کی آزادی کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہوئے اور ان کے رہن سہن اور ان کے ساتھ سلوک کے ایسے قواعد طے کیے جن سے آزادی اور غلامی کے درمیان فاصلے کم ہوتے چلے گئے۔
غلامی کی یہ محدود سی صورت جو جنگی قیدیوں کے بارے میں حکم کے طور پر نہیں، بلکہ ایک آپشن کے طور پر باقی رہی، مغرب کے نزدیک ہمیشہ قابل اعتراض رہی اور اسلام پر کیے جانے والے بڑے اعتراضات میں یہ بھی ایک اہم ترین موضوع رہا اور لطف کی بات یہ ہے کہ اعتراض اس دور میں بھی شد ومد کے ساتھ وارد ہوتا تھا جب خود مغرب، خصوصاً امریکہ میں آزاد انسانوں کی خرید وفروخت کا دھندا عروج پر تھا اور مویشیوں کی طرح انسانوں کی بھی منڈیاں لگتی تھیں جن میں افریقہ سے انسانوں کے بحری جہاز بھر بھر کر لائے جاتے تھے اور جانوروں کی طرح ان کی خرید وفروخت ہوتی تھی، حتیٰ کہ امریکہ کی شہرۂ آفاق خانہ جنگی جو شمال اور جنوب کی جنگ کے نام سے معروف ہے، اس میں آزاد انسانوں کی اس خرید وفروخت کا مسئلہ بھی وجہ نزاع تھا۔ اس دور میں امریکہ کے جنوب کے دانش وروں کی ایک اچھی خاصی تعداد تھی جو اس غلامی اور انسانی خرید وفروخت کے حق میں دلائل پیش کیا کرتی تھی جبکہ اسلام اس سے ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل آزاد انسانوں کی اس خرید وفروخت کے خاتمے کا اعلان کر چکا تھا۔
مغرب آج اس بات کو فخر کے طور پر پیش کرتا ہے کہ اس نے انسانی حقوق کے نام سے انسانوں کی خرید وفروخت کا خاتمہ کیا ہے اور غلامی کی تمام صورتوں کو ممنوع قرار دیا ہے، لیکن اقوام متحدہ کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ اسے اس میں کامیابی نہیں ہوئی اور شکل بدل کر، بلکہ کیمو فلاج ہو کر انسانوں کی خرید وفروخت کا یہ مکروہ دھندا اب بھی جاری ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی دو وجوہ ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اخلاقیات ووجدانیات اور روحانیات سے عاری مادہ پرستانہ فلسفہ حیات میں اس قسم کے جرائم کا خاتمہ ممکن ہی نہیں ہے اور مغرب کو زندگی کے ہر شعبے میں اس کا مسلسل سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری وجہ مغرب کا دوہرا معیار ہے کہ اس نے اپنے لیے الگ معیار رکھا ہے اور مشرقی اقوام اور مسلم ممالک کے لیے اس کا معیار الگ ہے۔ اسی طرح وہ افراد کی آزادی اور حقوق کی دہائی تو دیتا ہے، مگر قوموں کی آزادی اور حقوق کو خود مسلسل پامال کیے جا رہا ہے جس پر مجرموں کے یہ منظم گروہ سوچتے ہیں کہ اگر قوموں کو غلام بنا کر بیچا جا سکتا ہے تو افراد کو غلام بنانے میں آخر کیا حرج ہے؟
سیلاب کی تباہ کاریاں اور ہماری دینی و قومی ذمہ داری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
سیلاب کی شدت اور تباہ کاریوں کے بارے میں اس کے بعد مزید کچھ جاننے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کہ اسے گزشتہ ایک صدی کے دوران آنے والا سب سے بڑا اور تباہ کن سیلاب بتایا جاتا ہے اور اقوام متحدہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سونامی سے ہونے والی تباہ کاری سے اس سیلاب کی تباہ کاریوں کا دائرۂ زیادہ وسیع ہے۔ سیلاب کے اسباب میں اس بات پر تو کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ان قدرتی آفات میں سے ہے جنھیں روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا، البتہ اس کے نقصانات کو کم سے کم تک محدود کرنے کے لیے تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں اور بہت سے دوستوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں ان نقصانات کو کم کرنے کے لیے جو تدابیر اختیار کی جانی چاہییں تھیں یا اختیار کی جا سکتی تھیں، وہ بروقت اختیار نہیں کی گئیں۔ لیکن اسباب سے آگے مسبب الاسباب کی طرف کم لوگوں کی توجہ جا رہی ہے جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ چند سال قبل آزاد کشمیر میں خوفناک زلزلہ کے موقع پر میں نے بعض زلزلہ زدہ علاقوں میں حاضری دی تو آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار محمد عبد القیوم خان کے پاس بھی تعزیت کے لیے گیا۔ انھوں نے پرنم آنکھوں کے ساتھ زلزلہ سے پیدا ہونے والی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس بات کا زیادہ دکھ اور غم ہے کہ خوف ناک زلزلے اور اس کے نتیجے میں اتنی بڑی تباہی کے باوجود عمومی سطح پر اپنے گناہوں سے استغفار اور رجوع الی اللہ کی کوئی فضا دیکھنے میں نہیں آ رہی اور اس ماحول میں بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے بے پروائی، تعیش اور چھینا جھپٹی کا دور دورہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب بھی صورت حال اسی طرح کی ہے جو اہل نظر اور ارباب بصیرت کی خصوصی توجہ کی طلب گار ہے۔
بہرحال سیلاب زدہ بھائیوں کی ہر طرح سے مدد کرنا ہمارا دینی اور قومی فریضہ ہے۔ ان کی بحالی اور دوبارہ آباد کاری کے منصوبوں میں تعاون کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور مجھے مولانا مفتی منیب الرحمن، مولانا مفتی ولی خان المظفر اور دیگر علماے کرام کی اس رائے سے اتفاق ہے کہ نفلی حج اور عمرہ سے سیلاب زدگان کی امداد مقدم ہے اور اس کا اجر وثواب زیادہ ہے۔ ہمیں اپنی ترجیحات میں ایک عرصہ تک سیلاب زدہ بھائیوں کی آباد کاری اور بحالی کے کاموں کو اولیت دینا ہوگی، مگر اس کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے کہیں زیادہ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی قومی کوتاہیوں، اجتماعی گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے اسباب کے حوالے سے اپنے انفرادی او راجتماعی معاملات پر نظر ثانی کریں، توبہ واستغفار کا اہتمام کریں، قرآن وسنت کی طرف واپسی کا راستہ اختیار کریں اور انابت الی اللہ کا عمومی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
سیلاب زدگان کی امداد کے لیے مختلف محکموں، اداروں اور این جی اوز کی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک اور سوال بھی زیر بحث ہے کہ متاثرہ علاقوں میں عملاً امدادی کام کرنے والے گروپوں میں وہ گروپ زیادہ سرگرم دکھائی دے رہے ہیں جنھیں انتہا پسند کہا جاتا ہے اور کسی بھی حوالے سے ان کی معاشرتی سرگرمیوں کو عالمی سطح پر پسند نہیں کیا جاتا۔ ہزارہ اور کشمیر کے زلزلے کے موقع پر بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ ظاہر بات ہے کہ جو لوگ مذہبی جذبے سے کام کریں گے اور دنیا سے کسی ستائش کی طلب کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقصد قرار دیں گے، ان کا کام بے لوث بھی ہوگا اور عملی طور پر زیادہ اور موثر بھی ہوگا۔ پاکستان میں امریکہ کی سفیر محترم نے اس بات کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ انتہا پسند گروپوں کی امدادی سرگرمیوں پر انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے، البتہ اس بات پر تشویش ہے کہ انھیں نمایاں زیادہ کیا جا رہا ہے۔ گویا صاحب بہادر کی خواہش یہ ہے کہ انتہا پسند گروپ کام تو کریں، خرچ بھی کریں، وقت بھی صرف کریں اور شب وروز محنت بھی کریں مگر ان کا میڈیا پر تذکرہ نہ ہو اور انھیں نمایاں نہ کیا جائے۔ خدا جانے اعتراض اور کسے کہتے ہیں؟
سر سید احمد خان کی تفسیری تجدد پسندی۔ ایک مطالعہ (۳)
ڈاکٹر محمد شہباز منج
قصصِ قرآنی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بعض مقامات پر انتہائی عجیب و غریب اوردور ازکار تاویلات سے کام لیا ہے۔ اس سلسلہ میں سرسید،بقول پروفیسر عزیز احمد،عہد نامہ قدیم و جدید اور قرآن کے عوامی قصص کو ناپائیدار تاریخی مفروضات کا نام دے کر اپنے نقطۂ نظر کی تائید میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔۶۹سورہ الکہف کی تفسیر میں اصحابِ کہف، یاجوج و ماجوج،ذولقرنین اور سدِّ ذولقرنین سے متعلق ان کی طول طویل بحثوں کا ماحصل یہ ہے کہ ایفسوس کے ’’سات سونے والے‘‘اصحابِ کہف تثلیث کے مخالف عیسائی طبقے سے تعلق رکھتے تھے ،جنہیں دقیانوس بادشاہ نے معتوب کیا تھا۔ وہ فی الواقع کئی سال تک سوتے نہیں رہے تھے بلکہ مر چکے تھے،لیکن جیسا کہ بعض مشاہدات سے پتہ چلتا ہے کہ جب لاشیں ایسے مقام پر ہوتی ہیں جہاں ہوا کا گذر نہیں ہوتا،اور وہ اسی طرح رکھے رکھے راکھ ہو جاتی ہیں ،اور اگر کسی سوراخ کے ذریعے انہیں سورج کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پورے اجسام بلا کسی نقص کے رکھے ہوئے ہیں،ایسے ہی اصحاب ،کہف کی لاشیں بھی دیکھنے والوں کو مجسم معلوم ہوتی ہوں گی ،حالانکہ درحقیقت وہاں ہڈیوں اور راکھ کے سوا کچھ نہ تھا۔کیورس متمس کے مصنف نے لکھا ہے کہ اصحاب کہف کی ہڈیاں ایک بڑے پتھر کے بکس میں بند کرکے مارسلیس کو بھیجی گئیں جو اب بھی سائنٹ ویکٹر کے گرجا میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔۷۰ ذوالقرنین چینی شہنشاہ چی وانگ ٹی(۲۴۷ق م) ہے، سدِّ ذوالقرنین وہ گریٹ وال یا دیوارِ چین ہے، جو چی وانگ ٹی نے ۲۳۵ سے۲۴۰ قبل مسیح کے درمیان بنائی تھی اور یاجوج و ماجوج سے مراد چینی ترکستان کی قومیں ہیں ۔سکندرِ اعظم اور چی وانگ ٹی سے متعلق مسلم قصہ گوؤں نے جو قصے منسوب کر رکھے ہیں ،ان سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قرونِ وسطی کے مسلمانوں کے دماغ میں دونوں کی گڈ مڈ تصویریں تھیں۔ سکندر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جو اس کا باپ مشہور تھا،اس کا وہ بیٹا نہ تھا ،اور یہی بات چی وانگ ٹی کے بارے میں کہی گئی ہے۔اسی طرح آبِ حیات کی تلاش بھی دونوں بادشاہوں سے منسوب کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رازی جیسے مفسرین نے ذوالقرنین سے سکند رِ اعظم مراد لیا،حالانکہ در اصل اس سے مراد چی وانگ ٹی ہے۔ ۷۱
جہاد
اسلامی جہاد سفلی مقاصد کے لیے لڑی جانے والی عام جنگوں سے یکسر مختلف ہے۔یہ اعلیٰ انسانی و اخلاقی قدروں کے تحفظ و بقا کے لیے برائی کی قوتوں سے لڑی جانے والی جنگ ہے ۔ اپنے اسی اعلیٰ آدرش کے سبب جہاد کو اسلام میں خصوصی اہمیت حاصل ہے ،اوراسے اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن بھی شمار کیا گیا ہے۔لیکن مستشرقین نے اسلامی جہاد کو ایسے خوفناک اور گھناؤنے تصور کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی جس سے اسلام ظلم و تشدد اور جور و جبر کا مذہب نظر آنے لگے۔جارج سیل نے ترقی واشاعتِ اسلام کو تلوار پر منحصر بتایا۔۷۲ مینزز ۷۳، ولاسٹن ۷۴، ٹارانڈرائے۷۵ اور انسائیکلوپیڈیا امریکانا کے جہاد کا اسلامی تصور پیش کرنے والے مقالہ نگار ۷۶ نے بھی ،جارج سیل ہی کا راگ الاپتے ہوئے اسلام کو تلوار کا مذہب اور جہاد کو تلوار کے زور پر اسلام نافذ کرنے کاوسیلہ باور کرانے کی سعی کی ہے۔ سرسید احمد خاں نے مغربی اثرات کے زیرِ اثرجہاد سے متعلق معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرلیا۔ انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن کے مقالہ نگار کے بقول، سرسید نے روایتی تعبیرات سے انکار کرتے ہوئے جہاد کی ایسی تشریح کرنے کی کوشش کی جو ہندوستان پر قابض انگریزوں کے لیے ناگوارئ خاطر کا باعث نہ بنے اور تاجِ برطانیہ کو باور کرایا جائے کہ جہاد کا اسلامی تصور اہلِ اسلام کواپنے انگریزحاکموں کا وفاداررہنے سے نہیں روکتا۔ ۷۷ سرسید کے، سورہ البقرہ کی آیت۱۸۶کی تفسیرمیں سامنے آنے والے خیالات کے مطابق، اسلام بلاشبہ دو صورتوں میں تلوار اٹھانے کی اجازت دیتاہے؛ایک یہ کہ کافر اسلام کو مٹانے کی غرض سے، نہ کہ ملکی اغراض کے سبب، مسلمانوں پر حملہ آور ہوں اور دوسرے یہ کہ مسلمانوں کو کسی ملک میں جان و مال کی امان اورمذہبی فرائض کی بجا آوری کی اجازت نہ ہو۔ لیکن یہ اجازت صرف ان مسلمانوں کو ہے جو کسی دوسرے ملک کے باشندے ہوں اورکسی اور ملک کے مظلوم مسلمانوں کو بچانے کے لیے تلوار پکڑیں۔ رہے وہ مسلمان جو کسی ملک میں بطور رعیت کے رہتے ہوں تو ان پروہاں خواہ ان کے دین کے سبب ظلم ہو، انہیں تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں۔ ان کے پاس صرف دو ہی صورتیں ہیں؛یا ظلم سہیں یا ہجرت کر جائیں۔ ۷۸ سرسیدکے ہم عصرفکری متبعین نے ان کی معذرت خواہانہ تعبیر پر اضافہ کرتے ہوئے جہاد پر خوب مشقِ ستم کی۔ مولوی چراغ علی نے، جوبقول شیخ محمد اکرام، مذہبی بحشوں میں سرسید کے دستِ راست تھے۷۹، پیغمبرِ اسلامؐ کے مغازی کو تاریخی حوادث سے تعبیر کرتے ہوئے مخصوص حالات کا نتیجہ اور جہاد سے متعلق آیاتِ قرآنی کوخاص حالات سے متعلق قرار دیا جو بعدمیں کسی شرعی نظریہ کی بنیاد قرار نہیں پا سکتیں۔۸۰ اور مرزا غلام احمدقادیانی نے تو آگے بڑھ کر جہاد پر خطِ تنسیخ ہی پھیر ڈالااور اعلان کر دیا کہ آج سے لڑنا حرام قرار دے دیا گیا ہے، لہٰذا اب جو کوئی دین کا نام لے کرجہاد کرتا اور کافروں کو قتل کرتا ہے ،وہ خداو رسول کا نافرمان ہے ۔۸۱
تعددِ ازواج
تعددِازواج ایک مرد کے لیے ایک وقت میں مخصوص شرائط کے ساتھ چار تک شادیاں کرنے کی اجازت پر مبنی قانون ہے جو انسان کے خالق نے اپنی حکمتِ بالغہ سے ،انسان کی تمدنی ضروریات کے پیشِ نظر قائم کیا ہے۔مستشرقین نے اس قانون کو بھی غلط رنگ میں پیش کر کے مسلمانوں کو اپنے دین سے متعلق شکوک و شبہات میں مبتلا کرنے کی کوشش کی۔ نامور محقق محمد خلیفہ کے مطابق تعددِ ازواج اسلام کے حوالے سے مستشرقین کے ان بڑے اہداف میں سے ایک ہے جن کے بارے میں مغرب میں خصوصیت کے ساتھ غلط فہمیاں پھیلائی گئیں۔۸۲ سرسیدپر تعددِ ازواج کے ضمن میں بھی مغربی اہلِ قلم کے اثرات نمایاں ہیں ۔’تفسیرالقرآن ‘میں ان اثرات کی عکاسی سورہ النساء کی آیت۳ کی تشریح میں ہوتی ہے ۔سرسید نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن درحقیقت یک زوجگی کا اصول رائج کرنا چاہتا ہے اوروہ تعددِ ازواج کی اجازت صرف اس وقت دیتاہے جب عقل اور اخلا ق وتمدن، بمقتضائے فطرتِ انسانی اور ضروریاتِ تمدنی اس کی اجازت دے،اور خوفِ عدمِ عدل باقی نہ رہے، لیکن یہ ایک ایسی شرط ہے جس کا پورا ہونا مشکل ہے، کیونکہ کوئی شخص بھی ایسا نہیں جس کو کسی وقت اورحالت میں بھی خوفِ عدمِ عدل نہ ہو۔۸۳ قانونِ تعددِ ازواج سے متعلق سرسید کی مذکورہ تعبیر اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ اس پر جو کڑی شرطیں لگا رہے ہیں، وہ دراصل اسے ناممکن العمل بنا دینے کی خواہش کا شاخسانہ ہیں۔ سرسید کی اس خوہش کی تکمیل ان کے معاصرہم خیالوں اور عقیدت مندوں میں سے،مولوی چراغ علی اور ممتاز علی نے نہایت واضح اور بے باکانہ انداز میں کی۔ انہوں نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ قرآن نے تعددِ ازواج کو عدل سے مشروط کیا ہے اور عدل سے مراد محبت ہے اور مرد کے لیے ایک وقت میں ایک سے زیادہ عورتوں سے محبت میں عدل ممکن نہیں۔ لہٰذاقرآن کا مقصود یہ ہے کہ تعددِ ازواج کو نفسیاتی طور پر ناممکن العمل بنا کر بتدریج ختم کر دیا جائے ۔یوں گویا تعددِ ازواج کو قرآن نے عملاً منسوخ کر دیا ہے۔۸۴
نتیجہ بحث
اوپر کی بحث سے یہ بات متحقق ہو جاتی ہے کہ سر سید احمد خاں نے اسلامی عقائد و احکام کی تعبیروتشریح میں استشراقی و مغربی فکر سے گہرا تاثر لیااور اپنی رائے اورقیاس کے زور پر اسلام کا ایسا تصور پیش کرنے کی کوشش کی جو جدید تعلیم یافتہ اور عقلیت پرست مغربی گروہ کے لیے قابلِ قبول ہو۔ سرسید سے تمام تر حسنِ ظن رکھ لینے کے باوصف یہ ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنی تاویلات سے ایک فتنے کا دروازہ کھول دیااور بقول شیخ محمد اکرام،اپنی رائے اور قیاس کے زور پر قرآنی آیات کو نیا مفہوم دے کر ایک ایسی مثال قائم کر دی جس کی بعض لوگوں نے بری طرح پیروی کی اور ہر آیت یا حدیث کی تاویل کر کے حسبِ خواہش معنی مراد لیے جانے لگے۔ یورپ سے کوئی بھی آواز اٹھے، لوگ فوراًیہ کہنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں کہ ہمارے ہاں بھی یہی ہے۔ اس طریقے سے نہ صرف ان لوگوں کی نگاہ میں اسلام کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی جن کے اعتراضات رفع کرنے کے لیے نئے علمِ کلام کی ضرورت بتائی جاتی ہے،بلکہ خود اپنے ہم قوموں میں بھی نیک و بد اور موزوں و غیر موزوں کی تمیز اٹھ جاتی ہے اورایمان و یقین سے عاری لوگوں کے ہاتھوں میں مذہب ایک کھلونا بن جاتا ہے۔۸۵ دینی عقائد و احکام کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے سرسیدکی یہی وہ جسارت ہے، جس نے بعض حلقوں میں ان کے خلاف زبردست بیزاری و برہمی پیدا کر دی ۔ سید جمال الدین افغانی سرسید کے علمِ کلام کوکفر و بدعت اور ان کی جدید تعبیراتِ قرانی کوالفاظِ قرآنی کی تکذیب پر محمول کیا کرتے تھے۔پروفیسر عزیز احمد کے الفاظ میں :
''Al-Afghani did not agree with the extremist rationalism of at least some of Sayyid Ahmad Khan's views, and regarded his new Ilmal-klam as a heresy so for as it seemed to falsify the words of the Quran."
یہی نہیں بلکہ بلجن کے مطابق تو افغانی سرسید کو انگریزوں کا آلۂ کار قرار دیتے تھے۔اور کہا کرتے تھے کہ انگریزوں کوسر سید کی صورت میں، اہلِ اسلام کے اخلاق اور نظم کو تباہ و برباد کرنے کے لیے ایک مفید ہتھیار دستیاب ہو گیاتھا۔انگریزوں کی طرف سے سر سید کی تعریف توصیف اور علیگڑھ کالج قائم کرنے میں ان کی مددسے مقصود یہ تھا کہ اہلِ ایمان کو اپنے جال میں پھنسا کر بے ایمان بنایا جاسکے۔ افغانی کے نزدیک سرسیدیورپ کے مادہ پرستوں سے شدیدترمادہ پرست تھے،کیونکہ مغربی مادہ پرست اپنے دین سے انحراف کے باوجواپنی حب الوطنی پرسمجھوتہ کرنے کو تیار نہ تھے،جبکہ سرسید نے مادرِ وطن میں غیر ملکی جابرانہ حکومت کو سندِ قبولیت عطا کرنے کی کوشش کی۔۸۷افغانی کے ان خیالات کو بلا شبہ ان کے رسالے ’’العروۃالوثقی‘‘ میں سرسید سے متعلق مضامین،جن میں بقولِ مولانا ابوالحسن علی ندوی ،کسی قدر غلط فہمی اور غلو شامل ہے۸۸ ، سے ماخوذ کہا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ کہنا بے جا نہیں کہ سر سید کم از کم دینی نقطہ نظر سے اہلِ مغرب اور مستشرقین کے آلۂ کار نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کی حق میں زیادہ سے زیادہ اگر کچھ کہا جا سکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ انہوں نے یہ کام دین کی حمایت کی خوش فہمی میں نا دانستہ کیا۔
حوالہ جات و حواشی
۶۹۔عزیز احمد، پروفیسر،برِ صغیر میں اسلامی جدیدیت،ص۷۹۔
۷۰۔سرسیداحمد خاں،تفسیر القرآن ،حصہ ہفتم،ص۷۔۳۷۔
۷۱۔ایضاً،ص۷۸۔۱۰۶۔
۷۲۔
Sale, George, The Quran, p.38.
۷۳۔
Menezez, F.J.L, The life and Religion of Muhammad, the Prophet of Arabian Sands, London, 1911, pp.63,165.
۷۴۔
Wollaston, A.N, The Religion of Islam, Lahore, Sh.Muhammad Ashraf, 1905, p.27
۷۵۔
Tor Andrae, Muhammad, the man and his faith, translated from German by Theophil Menzel, London, George Allen $ Unwin, 1965, p.147
۷۶۔
The Encyclopedia Americana, Op.Cit.Vol.16,pp.91-92
۷۷۔
The Encyclopedia of Religion, Op.Cit.Vol.8,pp.90-91.
۷۸۔سر سید احمد خاں، تفسیر القرآن مع اصول تفسیر،ص۳۱۳۔۳۱۵۔
۷۹۔محمد اکرام شیخ، موجِ کوثر،ص۱۶۶۔
۸۰۔چراغ علی، تحقیق الجہاد،حیدرآباد،س۔ن،ص۱۔۱۲۔
۸۱۔قادیانی،غلام احمد،مرزا،اشتہار، ۲۸ مئی ۱۹۰۰ء۔
۸۲۔
Muhammad Khalifa, The Sublime Quran and Orientalism, Op.Cit.p.178.
آفتابِ معرفت ۔ شیخ المشائخ حضرت خواجہ خان محمدؒ
مولانا شیخ رشید الحق خان عابد
رفتم وازرفتنِ من عالمے تاریک شد
من مگر شمسم چوں رفتم بزم برہم ساختم
آنحضرت جل سلطانہ کی خلاقی وصناعی کا کیا کہیے کہ اس نے باوجود قدرتِ تامہ کے اپنی حکمتِ بالغہ سے نوع بنی آدم کو مختلف الاستعداد والحیثیۃ بنایا، جس کو خبیث النفس اور مبغوض جانا ؛اس کو کفر و شرک اور بُعد کی تاریکیوں میں دھکیل دیا،یا خلق کی ایذا رسانی اور تکلیف دہی کی قعرِ مذلت میں گرا کر لعنتوں کا مستحق ٹھہرایا اور ’’نُولّہ ماتولّی‘‘کی سزا سنائی اور جس کو شریف النفس پایا ؛ اس کو پسند فرما کر ایمان و عمل صالح کے اَنوار سے مزین فرمایا اور جس کو مقعدِ صدق کے لائق پایا، اُس کو اپنے در پہ بٹھا کر قرب و معرفت اور لذت آشنائی بخشی۔ پھر لھم البشْریٰ فی الحیوۃ الدنیا وفی الآخرۃ کی نوید سنائی۔ فالحمد لمن قدّر خیراً و خبالاً۔
قسمت کیا ہر ایک کو قسّامِ ازل نے
جو شخص کہ جس چیز کے قابل نظر آیا
پھر بخاطرِ مصلحت اپنے نظامِ خیرو شر کی کشاکش کو تاقیامت جاری رکھنے کے لیے ہر دور میں، ہر استعداد کے مظاہرِ خیروشر پیدا فرمائے۔ اگر ایک طرف مظاہرِ خیر میں اصحابِ صفاپیدا فرمائے،تو مظاہرِ شر میں اصحابِ کدورت ظاہر فرمائے ۔ اگر اِدھر فنا فی اللہ کے حامل پیدا فرمائے، تو اُدھر فنا فی الشیطان ظاہر فرمائے۔ اگر مظاہرِ خیر میں استعدادعالی کی بنا پر اِنسلاخ عن الشر کو وجود بخشا تو مظاہر شر میں اِنسلاخ عن الخیر سے نظام جاری رکھا۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا اِمروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
گویا کہ ہر زمانے میں لکل فرعون موسیٰ کا اصول جاری رہا ۔ چنانچہ آخری دور میں مہدی اور دجال اسی اِنسلاخ عن المادۃ کے مظاہر ہوں گے۔ اَلفِ ثانی میں حضرتِ حق جل مجدہٗ نے دینِ اکبری کو بیخ وبُن سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے امامِ ربّانی حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی براہ راست تربیت فرما کر اُن کو اپنے قرب و معرفت کے انتہائی اعلیٰ مراتب عنایت فرمائے جو بڑے بڑے اکابر مشائخِ امت کے وہم و گمان میں بھی نہ تھے اور کم ترک الأوّل للٓاخر کا مصداق بنے۔ نسبتِ مجددّیہ انہی مراتب سے عبارت ہے ۔ پھر آنحضرت جل سلطانہ نے اس نسبتِ مجددیہ کی چوٹیوں پر فائز ہونے کے لیے جن چند برگزیدہ شخصیات کو منتخب فرمایا،اس آخری دور میں انہی میں سے قیّومِ زمان اعلحٰضرت خواجہ ابو السعد احمد خان قدس سرہ بانی خانقاہ سراجیہ کی ذات گرامی تھی ۔ حضرت حق جل مجدہٗ جب کسی کو نوازنے کا ارادہ فرماتے ہیں، تو خلقِ اسباب و رفعِ موانع بھی خود فرمادیتے ہیں ۔ چنانچہ امامِ وقت شہنشاہِ معرفت مخدوم العلماء والمشائخ خوا جۂ خواجگان حضرت خوا جہ قدس سرہ کی تربیت کے لیے اعلیٰ حضرت قیومِ زمان کو ان کے ہاں بھجوایا۔
پھر ان کی نگرانی میں اعلیٰ علم و عمل سے نوازا۔پھر حضرت ثانی قدس سرہ کی تربیت میں عین جوانی میں نسبتِ مجدّدیہ کی بلندیوں سے سرفراز فرمایا اور پھر کم و بیش پچاس سال سے زائد عرصہ تک شہنشاہِ معرفت اور امام ہونے کا شرف بخشا ! حق یہ ہے کہ اتنی بڑی سعادتیں امت میں خال خال ہی کسی کو نصیب ہوئی ہیں۔ ولی را ولی می شناسد کے ضابطہ کے تحت اگرچہ کسی ادنیٰ ولی کو بھی ولی کے بغیر دوسرا نہیں پہچان سکتا ،چہ جائیکہ امامِ وقت کو کوئی پہچانے، خصوصاً جبکہ اعلیٰ ظرفی ، خاموشیئ طبع اور اِخفاءِ حال کی بنا پر امتیازی تعلّی ور رسمی بہتری کا بھی دور پار تک کوئی شائبہ نہ ہو ۔حق یہ ہے کہ اس پچاس سال کے عرصہ میں انہی وجوہ کی بنا پر بڑے بڑے اکابرِ علم واسا طینِ روحانیت میں سے شاید ہی کسی نے حضرت کی ذاتِ عالی کو کما حقہا پہچانا ہو۔ ظاہر ہے کہ جس کسی کے مقاماتِ قرب کا علم ہی کسی کو نہ ہو تو ان تک رسائی کا علم کسی کو کیسے ہوسکے گا ؟! چنانچہ ایک دفعہ اس نادان نے جرأت کرتے ہوئے حضرت خواجہ ؒ سے عرض کرہی دی : کہ معتقدین میں سے شاید ہی کوئی آنحضور کی بلندئ مرتبت کو جانتا ہو، حضرت نے مسکرا کر فرمایا :’’ آپ کی بہت مہربانی‘‘۔
راقم الحروف سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ معصومیہ میں شیخ المشائخ حضرت شیخ سید صفی اللہ شاہ بخاری قدّس سرہ کا مرید، تربیت یافتہ اور خاتم الخلفاء ہے؛ جو کہ فاضل دیو بند تھے ۔ شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ کے شاگردِ خاص اور شیخ العرب والعجم مولانا عبد الغفور مدنی ؒ کے سات سلاسل میں خلیفہ اَجل تھے۔ اپنی وضع قطع ،بودو باش اور ریاضت کے اعتبار سے اکابر مشائخ متقدمین کا کامل نمونہ تھے اور یہ نادان سلسلہ مجددیہ بنّوریہ میں شیخ المشائخ خواجہ مظفر الدین سید پوری قدس سرہ اور خواجہ محمد سعید کو ہستانی قدس سرہ کا خلیفہ ہے۔ دونوں حضرات قطب وقت خواجہ شمس الدین سید پوری بنوری قدس سرہ کے خلفاء تھے، جبکہ اوّل الذکر صاحبزادے بھی تھے ۔ دونوں نے تقریباً سو سال سے زیادہ عمر پائی۔ دونوں حضرات مجھ کم نصیب پر بہت ہی مہربان تھے۔ اوّل الذکر کی سوسالہ زندگی کا سب سے چہیتا خلیفہ اور ثانی الذکر کی سوسالہ زندگی کا واحد خلیفہ ہونے کا شرف حضرتِ حق نے عنایت فرمایا! میرے اس بنوری سلسلے کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس نالائق کی معلومات کے مطابق عالم اسلام میں پھیلے ہوئے مجددی سلاسل میں سب سے عالی سند سلسلہ ہے۔ باوجود بلندئ مر تبت کے حضرت خواجہ ؒ اور امام ربانی ؒ کے درمیان بارہ یا تیرہ واسطے ہیں، جبکہ مجھ نالائق اور امام ربانی ؒ کے درمیان صرف نو واسطے ہیں۔سند کا عالی ہونا علومِ ظاہرہ میں خصوصاً فنِ حدیث میں اگر چہ بہت اہمیت کا حامل ہے، لیکن فنِ تصوف میں جس کا مدار بلندئ قرب و مرتبت پر ہے، سند کا عالی ہونا زیادہ سے زیادہ فی الجملہ اہمیت رکھتا ہے ۔
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے
حضرت خواجہ ؒ کے ساتھ مجھ نالائق کو بچپن سے ہی اعتقاد تھا۔ معلوم نہیں کہ عالمِ اسباب میں اس کی وجہ کیا بنی تھی؟ !لیکن بندہ کے برادر کبیر قاری محمد اشرف خان ماجد ( مرحوم) کے حضرت خواجہ ؒ سے بیعت کرنے پر اس اعتقاد کو مزید تقویت ملی۔ لیکن باضابطہ استفادے کا موقع مندرجہ بالا مشائخ ؒ سے ہی ملا ۔ آخر عمر میں حضرت خواجہ ؒ سے خط و کتابت بھی چند بار ہوئی اور زیارت اور صحبت شریفہ میں حاضری کی سعادت بھی چند بار ملی اور علمی و روحانی استفادے کا موقع بھی نصیب ہوا ۔ آٹھ، دس بار حضرت نے شفقت فرماتے ہوئے تنہائی میں نجی ملاقات کا موقع بھی عنایت فرمایااور چند بار مختلف مواقع و مقامات میں مجامع میں ملاقات کا موقع بھی ملا۔نظرِ کشفی سے بندہ کی روحانیت و حقیقت کو دیکھتے ہوئے اسباق کی نشاندہی اور راہنمائی بھی فرماتے رہے ۔ماوشما کے لیے جس شخصیت کا تعارف ہی ناممکن ہو اس کے بارے میں مجھ بے بضاعت کا کچھ ذکر کرنا اگرچہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا لیکن:
ما تماشا کنانِ کوتہ دست
تو درختِ بلند وبالائی
کا اعتراف کرتے ہوئے یہ نادان صحبت شریفہ میں اخذ کر دہ، چند علمی و روحانی فیوض و برکات کا ذکر کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگرچہ اس سے حضرت کے کسی ادنی کمال کی عکاسی بھی نہیں ہوسکے گی ۔
ہزار بار بشویم دَہن زِمشک وگلاب
ہنوز نامِ تُو گفتن کمال بے ادبی است
بلندئ مرتبت
آنحضرت جل سلطانہ نے امامِ وقت حضرت خواجہ ؒ کو تمام کمالاتِ ظاہری و باطنی، علمی، عملی و روحانی سے بھر پور نوازا تھا۔ بندہ نے اپنی حیات میں جن اکابر علماء و مشائخ کی زیارت کی ؛کسی کو بھی جامعیت کمالاتِ ثلٰثہ میں حضرت خواجہ ؒ کے برابرنہیں پایا ۔ خاص طور پر فنِ تصوف کے تمام لوازم وآثار کا حامل، نیز بیعت ،معرفت و حقیقت کے رموز واسرار کا پورا پورا آشنا حضرت عالی کے ہم پلہ کوئی شخص عالم اسباب میں قریب قریب ناممکن تھا ۔ اوائل شباب میں اپنی کم ظرفی و پست ھمتی کی بنا پر بندہ کا خیال تھا، کہ نسبت مجددیہ کے انتہائی اعلیٰ و آخری مراتب، بالخصوص’’ کمالات و حقائق‘‘ کے حامل لوگ اس دور میں نہیں ہوا کرتے ۔ چنانچہ آج سے اٹھارہ سال قبل حضرت کے سامنے حضرت کے اسی مکتوب پر تبصرہ کرتے ہوئے جو آخر میں درج کیا جائے گا ،بندہ نے اپنے اس خیال کا اظہار کیاتو مسکرا کر فرمایا: ’’کہ تمہارا خیال درست نہیں، بلکہ اس نسبت کے حامل لوگ اس دورمیں بھی موجود ہیں‘‘۔ چنانچہ بندہ نے استشہاد کے طور پر امام الہند شاہ ولی اللہ ؒ کے معاصر مرزامظہر جانِجاناںؒ کا قول نقل کیا کہ انہوں نے اپنے آخری دور میں سالکین کی سست روی کا ذکر فرماتے ہوئے فرمایا کہ عنقریب کمالات کا دروازہ بند ہوجائے گا اور ولایت کا کھلا رہے گا، حقائق تک رسائی توبہت متعّذر ہے۔
لگے ہاتھوں حضرت مرزا مظہر جانجانانؒ کا تعارف بھی کراتا چلوں کہ مرزا صاحب ؒ کس پائے کی شخصیت تھے؟! امام الہندشاہ ولی اللہ ؒ جیسی نابغہ روز گار شخصیت ،جو اپنی اعلیٰ ظرفی اور عالی نفسی کی بنا پر بہت کم کسی کی معتقد تھی اور حسبِ عادت بہت کم کسی کے لیے تعریفی کلمات فرمائے ہیں، لیکن باوجود مرزا صاحبؒ کے معاصر ہونے کے شاہ صاحبؒ کا فرمان ہے:
’’اللہ پاک نے مجھے اتنا اعلیٰ کشفِ صحیح عنایت فرمایا کہ کسی وقت پوری دنیا میرے سامنے ایسے منکشف ہوتی ہے جیسے ہاتھوں کی لکیریں۔ میں بلا مبالغہ کہتا ہوں کہ اس وقت دنیا کی کسی اقلیم میں مرزا صاحب ؒ جیسی شخصیت موجود نہیں۔ وہ قیّم طریقہ احمدیہ ہیں۔ جو بھی نسبت مجددیہ کی تحصیل چاہتا ہو، اپنے آپ کو مرزا صاحب ؒ تک پہنچائے‘‘۔
بلکہ یہاں تک فرمایا کہ اتنی بلند شخصیات متقدمین میں بھی خال خال ہوئی ہیں۔ حضرت خواجہ ؒ نے بندہ سے مرزا صاحب ؒ کا قول سن کر فرمایا کہ اس سے مرزا صاحب ؒ نے اپنی وفات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ بندہ نے عرض کی: کہ’’ کمالات و حقائق‘‘ کا دروازہ بند ہونے سے اگرچہ وفات کی طرف اشارہ ممکن ہے، لیکن’’ ولایات کا دروازہ کھلا رہے گا‘‘سے نسبت کے تنزل پذیر ہونے کی طرف واضح اشارہ ہے۔ حضرت خواجہؒ مسکرا کر قدرے خاموش رہے؛ پھر فرمایا کہ مقاماتِ ’’کمالات و حقائق‘‘ کے قوۃ وضعف میں فرق ممکن ہے، ورنہ نفسِ کمالات حقائق اس دور میں بھی حاصل ہیں ۔
تو وطوبی وما وقامتِ یار
فکر ہر کس بقدر ہمت اوست
قارئین کو معلوم رہے کہ مقامات کمالات و حقائق آنحضرت جل سلطانہ کے قرب کے انتہائی مقامات میں سے ہیں جن سے بالاصا لتہ تو انبیاء کرام علیہم الصلوٰات والتسلیمات ہی بہرہ ور ہوتے ہیں، لیکن امتیوں میں سے بھی گنے چنے افراد انتہائی اعلیٰ استعداد اور انتہائی اعلیٰ متابعت کی بنا پر فیضیاب ہوتے ہیں۔ حاصلِ کلام یہ کہ سالک جس نبی کے زیرِ قدم ہوتا ہے، اس کی حقیقت سے متحد ہو نے کے بعد حضرت حق کی طرف سے اپنے ساتھ وہی معاملات پاتا ہے جو اس نبی علیہ السلام نے پائے اور بغیر کسی وساطت کے براہِ راست حضرت حق جل مجدہ سے مستفیض ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دور حاضر کے اعتبار سے انتہائی اعلیٰ سعادت ہے جس کا مندرجہ بالا مکالمہ میں در پردہ حضرت خواجہ ؒ نے اعتراف فرمایا؛ اور حق یہ ہے کہ یہ نعمت نسبتِ ولایت سے بالا تر ہے ۔’’ کمالات نبوت اور نسبت مجددیہ‘‘ کے خصائص میں سے ہے ۔
بے نفسی
دین و دنیا کی کوئی نعمت بھی جب حضرتِ حق جل شانہ کی طرف سے کسی کو عنایت ہوتی ہے؛ خاص طور پر جب کوئی بڑا منصب مل جائے تو جب تک منعم علیہ بہت اعلیٰ ظرف اور وسیع الصدر نہ ہو، تب تک بڑوں بڑوں سے بھی خود نمائی کا عنصر ضرور شامل ہو جاتا ہے، لیکن حضرت خواجہ ؒ اس سلسلے میں بہت اعلیٰ ظرف واقع ہوئے تھے۔ بار ہا بار بندہ نے مختلف حیلوں بہانوں سے کریدنے کی کوشش کی لیکن کیا مجال ہے کہ کبھی خود رائی کا اظہار ہو ۔جیسے کہ آئندہ آنے والے مکتوبات سے بھی معلوم ہوگا۔ حضرت خواجہ ؒ کو آنحضرت جل سلطانہ نے مسلسل پینسٹھ (۶۵) حج ارزائی فرمائے تھے جو کہ ایک نایاب یا کمیاب سعادت ہے!! بندہ نے ایک دفعہ عرض کی کہ جیسے حضرت عروۃ الوثقی خواجہ معصوم قد س سرہ نے ’’یا قوتِ احمر‘‘ کے نام سے اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے ’’فیوض الحرمین‘‘ کے نام سے اور دیگر اکابر نے مختلف ناموں سے حرمین شریفین میں پیش آمدہ معاملات، فیوضات و برکات کا تذکرہ فرمایا ہے۔ آپ نے تو بہت زیادہ بار حاضری دے کر فیوض و برکات حاصل فرمائے ہیں ۔ آپ بھی کچھ تحریر فرماتے ؟! بر جستہ فرمایا ’’کہ مجھے کوئی دعویٰ نہیں ،بندہ نے جرأت سے عرض کی: کہ میں دعویٰ کا نہیں عرض کر رہا ، بلکہ یہ کہ خلقِ خدا کو اس سے بہت سی معلومات اور استفادہ ہوتا؟فرمایا کہ کوئی ضرورت نہیں !
اللہ اکبر! کہاں حضرت خواجہ ؒ جیسے خدا رسیدہ مرشدانِ حقیقی اور کہاں میرے جیسے نالائق رسمی اور نمائشی پیر ۔ چہ نسبت خاک رابا عالم پاک! اسی ضمن میں ایک لطیفہ یاد آگیا ۔ قطبِ وقت خواجہ شمس الدین سید پوری بنوری قدس سرہ کے ایک خلیفہ ریل گاڑی کے سفر میں تھے ۔ایک لحیم شحیم رسمی پیر صاحب بڑے طمطراق سے چار آدمیوں کی سیٹ پر قبضہ کرکے ایسے ہی براجمان تھے ۔خلیفہ صاحب اسی سیٹ کے ایک کونے پر مشکل اڑ کر بیٹھ گئے اور بار بار پیر صاحب کی طرف لجاجت آمیز نظروں سے دیکھاکہ میں تنگ بیٹھا ہوں ؛شاید پیر صاحب تھوڑاسمٹ کر میرے لیے کچھ گنجائش پیدا کریں ۔لیکن پیر صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے اور نہ ہی خلیفہ صاحب کی روحانیت کو پَر کھ سکے۔ آخر خلیفہ صاحب نے عرض کر دی: کہ حضور! اگر تھوڑا کلوز ہوجائیں تو میرے لیے گنجائش نکل سکتی ہے۔ پیر صاحب جو کہ کافی دیر سے خود نمائی کے لیے پر تول رہے تھے لیکن موقع نہیں مل رہا تھا ؛فوراً غصے سے گردن کو خاص انداز میں تاؤ دے کر بولے: آپ کو معلوم ہے کہ میرے چار لاکھ مرید ہیں؟! خلیفہ صاحب نے عرض کی: کہ حضور میں نے تو مریدوں کی تعداد پوچھی بھی نہیں، نہ ہی اس سے میری کوئی غرض ہے کہ مجھے توبیٹھنے کے لیے ڈیڑھ فٹ جگہ چاہئیے!! ظاہر ہے کہ ایسے خود نما پیروں سے کس کی کیااصلاح ہوگی؟!
یہ زاہد نفس پرور تیرے دربان بن کے بیٹھے ہیں
خداوند تیرے در تک رسائی کتنی مشکل ہے
کشف و کرامات
کشف و کرامات اگر چہ ولایت کی شرط نہیں ؛ لیکن کم و بیش صوفیانہ ولایت کے لوازم و آثار میں سے ہے۔طریقِ تصوف میں آنحضرت جل سلطانہ کا شاید ہی کوئی ایسا پاک باطن برگزیدہ بندہ ہو جو کم و بیش اس سے خالی ہو ۔ خواہ وہ خود سمجھے یا نہ سمجھے۔ حضرت خواجہ علیہ الرحمتہ جن کی سجادگی کا زمانہ چوّ ن سالہ(۵۴) طویل عرصہ پہ محیط ہے۔لاکھوں مرید ین اور متوسلین حضرت خواجہ ؒ سے فیض یاب ہوئے۔ ہزاروں معتقدین نے موقع بموقع ان سے کشف و کرامات کا صدور دیکھا جو کہ معتقدین میں ہر خاص و عام کی زبان پر ہیں ۔ راقم الحروف اپنے ساتھ پیش آمدہ دو واقعاتِ کشف کا ذکر کرے گا:
پہلا واقعہ: خانقاہ شریف میں گرمیوں میں عصر کی مجلس میں بندہ بھی حاضر تھا ۔ حضرت کے حجرہ شریفہ اور مسجد کے صحن کے درمیان کھلی فضا میں مجلس ہوتی تھی ۔ حضرت چارپائی پر تشریف فرماتھے اور چند معتقدین حضور کا بدن مبارک دبا رہے تھے۔ بندہ بھی آہستہ آہستہ قریب پہنچا دبانے والے ساتھی نے حضرت کا بازو اس انداز سے تھام رکھا تھا،کہ دست مبارک مجھے نظر آرہا تھا؛ بندہ چونکہ پامسٹری کا شوق بھی رکھتا تھا ۔ خیال ہوا کہ حضرت کے دست مبارک میں کونسی ایسی لکیر ہے جو حضرت کے امامِ وقت ہونے پردال ہے؛ دیکھنا چاہیئے۔ بندہ نے غیر محسوس طریقے سے مزید قریب ہونے کی کوشش کی ۔ حضرت نے مکشوف ہونے پر فوراََ لطیف حیلے سے دست مبارک کا رخ اپنی طرف فرما کر مٹھی بند کرلی اور دو ،تین بار بندہ کی طرف خاص نظروں سے دیکھا اور آخر تک مٹھی بند ہی رکھی ۔
دوسرا واقعہ: حضرت خواجہ اپنی افتاد طبع اور خاموشی کی بنا پر بوقت ملا قات عام طور پر رسمی علیک سلیک پر ہی اکتفا فرماتے تھے ۔ بہت ہی اخص الخواص حضرات سے معمول سے زائد انبساط بھی کبھی فرمایا کرتے تھے۔ حضرت اسلام آباد تشریف لائے ہوئے تھے ۔بندہ حاضر ہوا۔ گھر کے کسی بچے نے بتایا کہ حضرت کھانا تناول فرما رہے ہیں۔ چنانچہ بندہ نے باہر گلی میں ہی چہل قدمی میں بہتری سمجھی۔ خیال ہوا کہ اندر مجمع بھی ہوگا،سر سر ی سی ملاقات ہوسکے گی۔ کاش کہ حضرت خود ہی خلاف معمول کافی انبساط و شفقت فرمائیں!چنانچہ حضرت کے فارغ ہونے پربندہ حاضر ہوا ۔ حضرت نے بوقت سلام خلاف معمول بندہ کا ہاتھ کافی دیر تھامے رکھا اور حال احوال پوچھتے رہے ۔بالآخر بندہ اپنے خیال اور خواہش پہ مسکرادیا ۔حضرت بھی مجھے دیکھ کر مسکرائے اور پھر ہاتھ چھوڑ دیا ۔ اسی طرح میرے علاوہ ہزاروں معتقدین کیساتھ ایسے واقعات بار ہا بار پیش آئے ہوں گے جوکہ حضرت کے انتہائی روشن ضمیر ہونے پر دال ہیں۔
حافظہ
محدثین ،فقہا ء اور علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے اوصاف میں حافظے کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے اور ان کی سوانح میں اس کا خاص ذکر ملتا ہے ۔ جو کہ وھبی اور کسبی دونوں طرح کا ہوسکتا ہے ۔گناہوں سے تحفظ ،خصوصی طور پر نظروں کی حفاظت سے اس کا خاص تعلق رہا ہے۔ لیکن عام ضابطے کے برعکس تصوف میں کمال کا مدار چونکہ فناو بقاپر ہے جوکہ ماسوا کے نسیان پر مرتب ہے۔ اسی لیے صوفیائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ میں ایسے ایسے مستغرق الحال لوگ بھی بکثرت ہوئے ہیں جو اپنا نام تک بھول جاتے تھے، لیکن حضرت خواجہؒ باوجود انتہائی اونچے صوفی صافی ہونے کے کمال درجہ کا صحووبقا بھی رکھتے تھے۔ اس لیے حافظہ بھی بہت قوی رکھتے تھے۔ خانقاہ کی طرف سے ایک بار ’’دلائل الخیرات ‘‘طبع ہوئی جس کے شروع میں درودِ تاج بھی طبع ہوا۔ ایک ٹھیٹھ مولویانہ ذہن رکھنے والے ساتھی نے کہا کہ اس میں کچھ الفاظ موہم شرک ہیں !بندہ اتفاق سے اپنی کسی مقصد کے لیے حضرت خواجہ کو خط ارسال کر رہا تھا۔ اس نے بھی یہ اشکال لکھ کر بھیج دیا۔ حضرت خواجہ ؒ نے جواب میں’’ دلائل الخیرات ‘‘کے شروع میں درودِ تاج کی طبع سے لاعلمی اور بے تعلقی ظاہر فرما کر معذرت فرمائی ۔ بات آئی گئی ہو گئی۔
اس واقعے سے تین سال بعد بندہ پہلی بار خانقاہ شریف زیارت کے لیے حاضر ہوا تو غالباً دوسرے دن حضرت خواجہ ؒ نے ایک عبارت بندہ کے سامنے رکھ دی فرمایا کہ اس عبارت پر شرعاً کوئی اشکال تو نہیں؟ !بندہ نے عرض کی :کہ اگر ’’با‘‘سببیت کے لیے لیں ،علت کے لیے نہ لیں تو بظاہر کوئی اشکال نہیں۔ حضرت نے فوراً مسکرا کر فرمایا کہ پھر لوگ درودِ تاج پر کیوں اعتراض کرتے ہیں!! سچ یہ ہے کہ درودِ تاج والا مندرجہ بالا قصہ بندہ کے اپنے ذہن سے نکل چکا تھا، لیکن حضرت کے فرمانے سے ذہن میں تازہ ہوا اور حضرت کے قوی حافظے کی داد دینی پڑی ۔
عشقِ امام ربّانی ؒ
اگرچہ مجددی سلسلے کے ہر شابّ و شیخ کو امام ربانی سے خصوصی محبت ہوتی ہے لیکن حضرت خواجہ ؒ کو امام ربانی ؒ سے غایت درجہ محبت تھی۔ اتفاق سے ایک بار مجلس میں بندہ نے عرض کی: کہ خاتم المحدثین علامہ انور شاہ کاشمیری ؒ نے فرمایا ہے کہ امام ربانی ؒ کے خلیفہ اجل شیخ آدم بنوریؒ کے بعض مَلَکات، امام ربانی ؒ سے زیادہ قوی تھے ۔ خلاف معمول سن کر حضرت چیں بجبیں ہوئے اور فرمایا کہ کاشمیری صاحب نے کون سی نسبت مجددیہ حاصل کی ہوئی تھی کہ ان کو یہ کہنے کا حق ہو؟!!
امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی ؒ نماز کے تشہد میں رفع مسبحہ کے قائل نہیں تھے اور ان کے عاشق صادق تمام حاملین نسبتِ مجددیہ بھی اسی نسبت سے رفع مسبحہ نہیں فرماتے تھے۔ حضرت خواجہؒ کا بھی معمول عدم رفع کا تھا۔ اسی طرح رئیس المحدثین حضرت مولانا حسین علیؒ بھی عدم رفع کے قائل تھے۔ امام ربانی ؒ نے مکتوبات میں فقہی روایات سے مدلل ایک مکتوب عدم رفع مسبحہ پر بھی تحریر فرمایا ہے۔ ایک دن بندہ نے حضرت خواجہ ؒ سے عرض کی کہ آپ کے تشہد میں اشارہ نہ فرمانے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا :کہ تم نے مجدد صاحب ؒ کا مکتوب نہیں پڑھا؟ بندہ نے عرض کی کہ بندہ نے مرزاصاحب ؒ کا مکتوب بھی پڑھا ہے۔ ( مرزا صاحب نے اثبات رفع مسبحہ پر مکتوب تحریر فرمایا ہے اور باوجود مجددی اور عاشق امام ربانی ہونے کے مجدد صاحب کے قول کو فقہی اعتبار سے مرجوح قرار دیا ہے۔) حضرت میر ا جواب سن کر مسکرائے اور فرمایا کہ حضرت مجدد ؒ کے صاحبزادہ ثانی خواجہ محمد سعید ؒ نے عدم رفع پر ایک مستقل کتاب تحریر فرمائی ہے۔ بندہ نے عرض کی: کہ مجھے امام ربانی ؒ کے سب سے چھوٹے صاحبزادے خواجہ محمدیحییٰ ؒ کے اثبات رفع پر مستقل تصنیف کا بھی علم ہے۔ حضرت جواب سن کر محظوظ ہوئے اور مسکراتے رہے۔ آخر میں بندہ نے عرض کی کہ ہماری حنفی فقہی روایات کا سب سے بڑا ماخذ اور سند توا مام محمد ؒ ہیں۔ وہ خود فرمارہے ہیں: ’’وبہ نأ خذ وھو قول أبي حنیفۃؒ ‘‘ کہ ہمارے امام ابوحنیفہ ؒ کا یہی قول و عمل ہے ؛رفع مسبحہ ،اور اسی پر ہمارا عمل ہے تو پھر کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے! حضرت نے مسکرا کر فرمایا :کہ بھئی آپ کیا کریں،آپ کو کون روکتا ہے؟
سکوتِ دائمی
ہر سلسلے کی اپنی خصوصیات ہوا کرتی ہیں سلسلہ نقشبندیہ کی بنا ہی چونکہ ذ کر خفی پر ہے ۔ اس لیے خاموشی سے صحبتِ شیخ میں اپنے لطائف اور اسباق کی طرف متوجہ رہ کر فیوض و برکات اخذکرنے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔حضرت خواجہ ؒ اسی اصول کی بنا پر ہمیشہ خاموش رہتے تھے۔ احادیث میں خواجہ کا ئنات حضرت ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کان کثیر الصمت کے الفاظ آئے ہیں اور یہ تو قارئین نے سناہی ہوگا : کہ حکمت ودانائی کے دس اجزاء ہیں؛ جن میں سے نو صرف خاموشی میں ہیں اور ویسے بھی اصحابِ عشق و معرفت کی خاموشی خالی سکوت کا نام ہی نہیں؛ بلکہ: خموشی معنی دارد کہ در گفتن نمی اَید کا مصداق ہوتی ہے ۔نیز من عرف اللّٰہ کلّ لسانہ بھی مسلّمات میں سے ہے۔ ان تمام امور کی بنا پر حضرت خواجہؒ دائم السکوت تھے ۔ عوام الناس جو کہ جب تک و عظ و نصیحت یا بیان نہ سن لیں متاثر نہیں ہوتے ۔ اسی طرح اس اصول کو نہ سمجھنے والے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی حضرت کی مسلسل خاموشی پہ حیران ہوتے تھے۔چنانچہ ایک بار کسی نے عرض کر ہی دی :کہ حضور کچھ فرمائیں ؟تو حضرت خواجہ ؒ نے امام ربانی ؒ کا قول نقل فرمایا :
’’جس کو ہماری خاموشی سے فائدہ نہ ہو،اس کو ہمارا کلام کوئی فائدہ نہیں دے گا ‘‘
ایک دفعہ اتفاق سے بندہ خانقاہ میں تھا ۔ مظفر گڑھ کے علاقے سے ایک عمر رسیدہ سفید ریش، تقریباً حضرت کے ہم عمر ایک صاحب ،بڑے باتو نی اور چٹورے قسم کے مرید تشریف لائے ۔غالباًکسی دینی مدر سے کے سفیر بھی تھے۔ مجلس شریفہ میں سوائے علیک سلیک کے کوئی بات بھی نہ سن پائے ۔ مجلس کے بعد میرے پاس آبیٹھے اور فرمانے لگے :کہ حضرت تو بالکل بولتے ہی نہیں !!میرے پہلے شیخ خواجہ سعید گوہانویؒ مجھے بہت نصیحتیں فرمایا کرتے تھے ۔بندہ نے عرض کی :کہ اپنی اپنی طبیعت ہے ؛جوبات واقعی ضروری ہو حضرت فرمادیتے ہیں۔جو نہیں فرماتے وہ ضروری نہیں ہوتی۔ کہنے لگے :کہ میں تو حضرت کی خاموشی سے تھک جاتا ہوں! !حضرت کو کچھ نہ کچھ فرمانا چاہیء۔ بندہ نے عرض کی :کہ بزرگوں کے بارے میں ایسی باتیں نہیں کیا کرتے ۔عصر کی مجلس میں ان صاحب نے حضرت کے کچھ فرمانے کا انتظار کیا لیکن بے سود۔ بالآخر خود ہی بول پڑے کہ: سائیں !میرے پہلے پیر مجھے بہت نصیحتیں کرتے تھے ۔چنانچہ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو میں نے عرض کی :کہ آپ تو اب فوت ہورہے ہیں میرے بارے میں کیا حکم ہے ؟انہوں نے فرمایا: کہ میری وفات کے بعد دو آدمیوں میں سے جس کے پاس مرضی ہو چلے جانا : ایک حضرت خواجہ عبداللہ بہلوی شجا ع آبادی ہیں اور دوسرے حضرت خواجہ خان محمد کندیاں والے ہیں۔ چنانچہ میں ابھی اسی شش و پنج میں تھا کہ دونوں میں سے کس کے پاس جاؤں ؟! تو کچھ عرصہ بعد خواجہ عبداللہ بہلویؒ بھی وفات پاگئے ۔ چنانچہ پھر صرف آپ ہی رہ گئے ۔پھر میں آپ سے بیعت ہوا ۔اس بزرگ کی زبان سرائیکی تھی اور حضرت کے ساتھ بات کا طرز بالکل ہم عمر دوستوں جیسا تھا۔ جس سے حضرت خواجہ ؒ سمیت پوری مجلس کافی محظوظ ہوئی ۔ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ سائیں !چند سال پہلے جو مرید آپ کے پاس آتے تھے کافی سخی ہوتے تھے ۔کوئی مٹھائی لے آتا، کوئی پھل لے آتا،مجھے بھی کھانے کا موقع مل جاتا ۔لیکن اب چند دن سے دیکھ رہا ہوں کہ کافی بخیل مرید آتے ہیں، کوئی چیز نہیں لاتے!! حضرت نے فرمایا : تمہیں مٹھائی کی خواہش ہے، تمہیں مل جائے گی۔ ان صاحب نے حضرت کی بشاشت کو دیکھتے ہوئے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ یہ دستار کافی سال پہلے آپ نے دی تھی؛ اب بالکل بوسیدہ ہوچکی ہے ۔ اس دفعہ نئی دستار مجھے عنایت کرو؛ میں لے کرجاؤں گا۔حضرت نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ مل جائے گی !‘‘
الغرض مجلس شریفہ میں اگرچہ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہوگی کہ حضرت کچھ فرمائیں، لیکن حضرت اپنے اصول کی پاسداری فرماتے ہوئے ،آفتابِ معرفت و موردِتجلیات ہونے کی بنا پر اپنے فیوضات و برکات کی ضیاء پاشیوں سے باطنی طور پر مجلس کو گرم رکھتے تھے ۔جس سے اصحابِ بصیرت واستعداد؛ خصوصاً اصحابِ ادر اک وکشف پوری طرح مستفیض ہوتے تھے۔ حتیٰ کہ ایک ہیئت پر جم کر بیٹھنا مشکل ہوتا تھا۔انوارہڈیوں میں سرایت کرتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔
دل سلگتا ہے تیرے سرد رویے پہ مرا
دیکھ اس برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے
حضرت کی ذات عالی تو نور مجسم تھی ۔مجلس شریفہ سے کسی کے بے فیض اُٹھنے کا تو سوال ہی کیا ہے ۔الّایہ کہ کوئی بہت ہی شیطان صفت اور خلق کی ایذا رسانی کی بنا پر محروم القسمت ہو تو علیحدہ بات ہے !
تہید سنانِ قسمت راچہ سود از رہبرِ کامل
خضر از اَب حیوان تشنہ لب اَرد سکندر را
ورنہ حضرت ؒ تو جس علاقے میں تشریف فرما ہوتے ؛پورے علاقے کی فضا انوار کی بارش سے سیراب ہوتی تھی ۔
ایک دفعہ بندہ بقر عید کے دوسرے دن قطب البلاد حضرتِ لاہور پہنچا ۔دو دن بعد حسب معمول رات کو سویا تو فضا معمول کے مطابق تھی لیکن سحری کو جب اُٹھا تو لاہور شہر کی فضا کو بندہ نے روحانیت سے معمور پایا۔ بڑی حیرت ہوئی ؛کہ ابھی رات کو خلاف معمول کوئی بات نہیں تھی، اب سحری کویہ روحانیت کہاں سے آئی۔ فوراً ذھن حضرت خواجہ ؒ کی طرف منتقل ہوا کہ غالباً رات کے کسی حصے میں حضرت خواجہؒ لاہور میں تشریف فرماہوئے ہیں ۔ چنانچہ صبح فجر کے فوراً بعد ناشتے میں بندہ نے میزبان سے کہا کہ شاید حضرت خواجہ ؒ لاہور میں تشریف لائے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حضرت چند دن قبل حج پر تشریف لے گئے تھے عید کے فوراً بعد بظاہر واپسی کا کوئی امکان نہیں، لیکن بندہ اپنے ادراک پر مصر تھا۔ چنانچہ ایک ساتھی معلومات کے لیے حضرت کے مخلص قاری نذیر صاحب کے پاس بھیجا گیا۔ انہوں نے فرمایا کہ حضرت واقعی رات ساڑھے بارہ بجے کی فلائٹ پر تشریف لائے تھے اور ابھی ہی ناشتہ کرکے خانقاہ تشریف لے گئے ہیں ۔
شہر تو شہر ہے ؛سچ پوچھو تو کئی بار ایسا بھی ہوا کہ بندہ نے روحانی فضا کو مکدر اور سُونا سُونا پایا۔ خیال ہوا کہ شاید حضرت خواجہ ؒ ملک میں تشریف فرما نہیں ہیں ۔چنانچہ معلومات کرنے پر معلوم ہوا کہ واقعی حضرت خواجہ ؒ بیرون ملک کے دورے پر تشریف لے گئے ہوئے ہیں ۔
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضاء لیے پھرتے ہیں اپنی آستینوں میں
قصّہ عجیبہ: حضرت خواجہ ؒ اگر چہ آخری سالوں میں مندرجہ بالا سکوت پر بہت کار بند تھے، لیکن اٹھارہ بیس سال قبل کی مجالس میں سوالوں کا خاطر خواہ جواب ضرور مرحمت فرمائے تھے۔ بندہ جب بھی مجلس میں ہوتا تو تصوف کے کسی موضوع پر ضرور پوچھ گچھ کرتا رہتا اور حضرت بھی شفقت فرماتے ہوئے وا جبی سا جواب ضرورمرحمت فرماتے ۔ اتفاق سے بندہ نے تصوف کی کوئی بات پوچھی تو حضرت بات سنتے ہی فوراً خلافِ معمول اٹھ کر باہر تشریف لے گئے ۔ساری مجلس میری طرف دیکھنے لگی۔ بندہ خود اپنی جگہ پریشان ؛کہ خدا نخواستہ کوئی گستاخی مجھ سے ہوئی ہے کیا ؟! لیکن مجلس کے ایک حاضر باش، مزاج شناس نے میری طرف اشارہ کیا کہ آپ بھی حضرت کے پیچھے چلے جائیں ۔بندہ لرزتی ٹانگوں سے حضرت کے پیچھے چل پڑا۔چنانچہ حضرت کشاں کشاں خانقاہ کی لائبریری میں تشریف لے گئے اور خانہ کتبِ تصوف کے سامنے قیام فرما ہوئے۔ بندہ پیچھے کھڑا رہا۔ حضرت نے کچھ دیر کی تلاش کے بعد تصوف کی مشہور کتاب’’ لوائح جامی‘‘ نکالی ۔فہرست دیکھی اور پھر کتاب بند ہ کے ہاتھ میں تھمادی فرمایا کہ اس کا فلاں جگہ سے مطالعہ کرلو۔ چنانچہ واپس ہم دونوں حجرہ شریفہ پہنچے ۔ دوپہرکی فرصت میں بندہ نے کتاب کا مطالعہ کیا اور ظہر کی مجلس میں عرض کی کہ میں نے کتاب کا مطالعہ کر لیا ہے، لیکن اس میں چند باتیں غلط ہیں!! حضرت نے فرمایا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ بندہ نے وہ مقام کھول کر آگے کر دیا۔ حضرت دیکھ کر مسکرائے فرمایا کہ ہاں کتابت کی غلطی سے مضمون غلط ہوگیا ہے۔ پھر رات کی مجلس میں جس میں ساتھی نسبتاً کم ہوتے تھے، بندہ نے وحدۃ الوجود کی بحث شروع کی۔ حضرت ؒ نے کافی معلومات افزأ جوا بات عنایت فرمائے جو آخر میں مکتوب کے بعد بندہ ذکر کرے گا۔ ایک جواب جس پر بندہ نے اشکال ظاہر کیا؛ اس کا جواب باحوالہ دکھانے کے لیے حضرت ؒ نے فرمایا کہ اپنے پیچھے موجود الماری سے فلاں کتاب دے دو۔ حضرت نے وہ حوالہ تلاش کرنے کی کافی کوشش فرمائی، لیکن پندرہ منٹ کی جستجو کے باوجود حوالہ نہ مل سکا۔ آخر بندہ نے عرض کی کہ چلو پھر کسی موقع پر تلاش کر لیں گے، لیکن حضرت نے میری بات سنی اَن سنی کر دی اور حوالہ کی تلاش جاری رکھی جبکہ بندہ کو پہلے سے علم تھا کہ حضرت خواجہ ؒ شیخ المشائخ شاہ غلام علی مجددیؒ کا قول مجھے دکھانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ جب تلاش کو پون گھنٹے کے قریب وقت ہوگیا اور تمام ساتھی میری طرف بار بار دیکھنے لگے کہ حضرت کو تم نے ویسے مشقت میں ڈال رکھا ہے تو بندہ نے دوبارہ عرض کی کہ حضور صبح تلاش کر لیں گے، لیکن حضرت بدستور ورق گردانی فرماتے رہے۔ بالآخر مجبوراً بندہ کو آخری پتہ پھینکنا پڑا کہ میرے خیال میں حضور مجھے شاہ غلام علی ؒ کا ارشاد دکھانا چاہتے ہیں، وہ پہلے سے میرے علم میں ہے۔ حضرت ؒ نے مسکرا کر کتاب بند فرما دی اور فرمایا کہ میں وہی دکھانا چاہتا تھا۔ حضرت نے مجھ نالائق کے وسعت مطالعہ کی تعریف بھی فرمائی، نیز شکریہ ادا کرنے کاحکم فرمایا۔
کمالِ عظیم
امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الف الف تحیۃ و سلام کے جن چند جلیل القدر مشائخ کرام ؒ کو آنحضرت جل سلطانہ نے شرعیت، طریقت، معرفت، حقیقت کی جامعیت کی بنا پر پیری کی پوری پوری حقیقت مع لوازمہا وآثار ہا عنایت فرمائی تھی؛ حضرت خواجہ ؒ اپنی بہت سی خصوصیات کی بنا پر ان مشائخ میں خاص مقام کے حامل تھے ۔
مشائخِ طریقت کی عام طور پر تین اقسام ہر دور میں رہی ہیں۔ بندہ نے بھی تینوں اقسام کو دیکھ رکھا ہے :
قسمِ اوّل: بعض مشائخِ طریقت اگرچہ عملی ،حالی اور باطنی طور پر کمالاتِ تصوف سے حسب استعداد خاطر خواہ حد تک متحقق ہوتے ہیں اور باریاضت ہو نے کی بنا پر دوسرے کی تربیت اور اصلاح بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن علمی طور پر تصوف کی حقیقت سے ناآشنا ہوتے ہیں ۔چنانچہ صاحب استعداد لوگ اگر علمی طور پر کوئی اشکال یا سوال، تصوف کے بارے میں ان سے پوچھیں۔ تو وہ جواب دینے سے عاجز ہوتے ہیں ۔ ایسے مشائخ کی کثیر تعداد ہر دورمیں خصوصاً آخری دور میں رہی ہے۔
قسمِ دوم: ایسے مشائخ جو عملی، حالی، روحانی اور باطنی کمالات میں بھی بیچارے کمزور ہوتے ہیں اور علمی طور پر بھی تصوف کے فن سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔ ایسے حضرات کو مشائخ کی بجائے پیران کرام کہنا چاہئیے اور مجھ کم نصیب جیسے اکثر پیر اس دور کے تقریباً ایسے ہی ہیں۔
قسمِ سوم: ایسے مشائخ کرام جو واقعی سجادہ نشین ہیں۔ شریعت، طریقت اور حقیقت کے تمام پہلوؤں پر علمی، عملی، روحانی غرضیکہ ہر لحاظ سے حاوی ہوتے ہیں۔ کمال و تکمیل میں بھی اعلیٰ مقام رکھتے ہیں ؛فن کے بہترین شارح اور تسلی بخش جواب دھندہ ہوتے ہیں اور تصوف کے دقائق، معارف ،رموزو اسرار کے پوری طرح آشنا ہوتے ہیں ۔پہلے ادوار میں ایسے مشائخ بکثرت ہوتے تھے۔ لیکن آخری ادوار میں کم، اور دورِ حاضر میں سوائے حضرت خواجہ ؒ کے کوئی شخصیت راقم الحروف کی نظر سے اِس پائے کی نہیں گذری ۔ فنِ تصوف سے نا آشنا لوگ خواہ عوام ہوں یا خواص ،عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ پیری ایک معمولی ،عام اور آسان سا کام ہے ۔حتی کہ عوام تو عوام ہیں؛ خواص بلکہ علماء میں سے بھی کئی حضرات یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ پیری تو ہر بندہ کر سکتا ہے ؛صرف یہی تو بتانا ہوتا ہے کہ اتنی دفعہ فلاں ذکر کیا کرو اور بس۔ حاشا وکلّا ثم حاشا و کلّا !!
بلا مبالغہ حق بات یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کے تمام کاموں میں سب سے مشکل ترین کام پیری ہے ۔ بڑے بڑے لوگ اس فن میں ناقص پائے گئے۔ پیری کیا ہے؟ اس کی حقیقت پر قدرے روشنی ڈالتے چلوں؛ تاکہ مغالطہ دھندگان کی غلط فہمی یا خوش فہمی دور ہوسکے۔
پیری نام ہے: آنحضرت جل سلطانہ کے مراتب قرب میں اپنے کمال اور دوسروں کی تکمیل کا ۔کمال کیا ہے؟ کمال نام ہے تین چیزوں کا:
۱۔ ظاہراً و باطناً پورا پورا متبع شریعت وسنت متقی ہو نا۔
۲۔ باطن کا انوارِ حقیقت میں مستغرق ہونے کی بنا پر لطائف عشرہ کا پورا پورا مصفّیٰ و مزکّیٰ ، محلّیٰ و مجلّیٰ ہونا۔ قالب کا اعتدالِ حقیقی سے مشرف ہونا ۔مقام بی یسمع و بی یبصر کی بنا پر فنا فی اللہ و بقا با للہ سے مشرف ہونا ۔صاحبِ کشفِ عیانی یا کم از کم صاحبِ کشف وجدانی وادراک باطنی ہونا۔ دنیا وما فیہا کی محبت سے بالکلیہ خالی ہونا ۔دن رات کی کوئی گھڑی ریاضت ، اعمال یا مشاہدہ و توجہ الیٰ اللہ سے خالی نہ ہونا ۔
۳۔ آنحضرت جل سلطانہ کے معاملات کو پوری طرح سمجھنا اور ان کے مقتضی پر ہمہ وقت عمل پیرا رہنا ۔
جبکہ مقامِ تکمیل نام ہے مندرجہ ذیل تمام صفات سے متصف ہونے کا :جب کوئی بیعت کے ارادے سے آئے ؛اس کی استعداد کو دیکھنا ،کہ قربِ عام کی استعداد رکھتا ہے یا قربِ خاص کی۔ اگر استعدادِ قربِ خاص رکھتا ہے؛ تو راہِ ولایت کی استعدادرکھتا ہے یا راہِ نبوت کی؛ بصورت ولایت استعدادِ جذب رکھتا ہے یاسلوک کی ۔کیونکہ ان میں سے ہر استعداد کے مناسب علیحدہ اذکار و اوراد ہیں ۔اصحابِ بصیرت نے دیکھا ہوگا کہ مشائخ سے بیعت کے بعد، مختلف اسباق ،مختلف سالکین کو جو ملتے ہیں؛ اس میں اصل راز یہی استعداد کا فرق ہے۔ پھر سالک کس لطیفے یا مشرب سے خاص تعلق رکھتا ہے یا کس نبی کے زیر قدم ہے؛ تاکہ اس لطیفے پر خاص تو جہات اور محنت کرائی جائے۔ عنایت شدہ ذکر اُس نے کیا ہے یا نہیں؟! اس کے لطائف اس سے متاثر ہوئے ہیں یا نہیں؟اگلا سبق دیے جانے کے قابل ہے یا نہیں ؟! عالمِ امر سے مناسبت کم رکھنے کی صورت میں، خصوصی توجہات سے اُس کی مناسبت پیدا کرنا،تاکہ ناسوتی صفات چھوڑ کر ملکوتی صفات کی طرف ترقی کرے ۔ پھر بحالتِ جذب ،کیفیات ووار دات کا تحمّل نہ کر سکنے کی صورت میں اس کو مصلحت کی خاطر واپس نیچے لانا یا بصورتِ تحمل توجہ سے اُس کو اُس کیفیت سے بالا مقام پر لے جانا۔ سالک کی شرعی خامیوں سے پوری طرح با خبر رہنا اور اس مقام سے اس کو نکالنے کے لیے نصیحت ،توجہ و دعا سے اُس کی دستگیری کرنا ۔سالک کے کسی گناہ کی بنا پر نزولِ غضبی یا نزول عدلی کا شکار ہوکر عروج کھو د ینے پر دوبار ہ اُس کو اس مقام تک پہنچانا۔بصورت استعداد عالی جونسی تجلیات اس سالک کے لیے نافع ہیں ؛اُن کو اس پر وارد کرنا اور مضر تجلیات سے بذریعہ بائی پاس کسی بالا تجلی تک پہنچانا۔ صاحبِ استعداد غیر ملکی مرید ین یا دور دراز رہنے والے عشاق سالکین کو دور دراز کی توجہ سے مقاماتِ عالیہ تک پہنچانا اور سالکین کو پیش آنے والے علمی و حالی اشکالات سے تسلی بخش طریقے سے نجات دینا۔ فنافی الشیخ ،فنافی الرسول اور فنافی اللہ جیسے مقامات سے گزار کر مقامِ احسان تک اس کو پہنچانا۔ عالم غیب کے رُمو زو اسرار سے رفتہ رفتہ اُس کی مناسبت پیدا کرکے ،ان کے حقائق کو سمجھنے کی استعداد اُجاگر کرنا۔ بے استعداد یا ضعیف الاستعداد سالکین پر انعکاس کیو جہ سے کھلنے والے کشوف کو بخاطرِ مصلحت بند کرنا۔ واقعات و منامات کی صحیح تعبیر کی عکاسی کرنا ۔سالکین کے علاوہ عام ملاقاتی حضرات کی حقیقت پر مطلع ہونا؛ تاکہ نزّلوا کل رجل منزلتَہ پر عمل کیا جا سکے اور پھر سب کچھ کے باوجود اپنی حقیقت کو ان کی آلودگیوں سے بچائے رکھنا ۔اپنے اور سالکین کے اعمال و اشغال کے انوار واثرات پر علمی و حالی پوری پوری گرفت رکھنا۔ مجلس پہ مختلف الجہات وارد شدہ کیفیات کے اسباب پر نظر رکھنا۔ غرضیکہ اس قسم کی بیسیوں وجوہ کے اسباب وعلل، ثمرات و نتائج پر علماً و تصرفاً پوری طرح حاوی رہنا ۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے اکثر صفات کا مدار کشف وادراکِ باطنی پر ہے۔ جن کا مدار ریاضتِ دائمی اور لقمہ حلال پر ہے۔ آج کل دورِ حاضر میں نظام کے بأکثر الوجوہ سودی ہونے کی بنا پر رزق حلال تقریباًمفقودہے ہر جگہ مکروہ یا مشتبہ طعام سے واسطہ پڑتا ہے۔ ان حالات میں حتی الوسع احتیاط و تقویٰ کو ملحوظ رکھنا۔
سودی نظام ہے اور یہ تقویٰ کی آرزو
کتنا حسین فریب ہے جو کھار ہے ہیں ہم
اور پھر ریاضتِ دائمی کے لیے حضرت حق جل مجدہ کے عشق و محبت سے سر شار ہونے کی بنا پر سالہا سال کی شبہائے تاریک کو روشن وزندہ رکھ کر اس شعر کا مصدا ق بننا:
اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی
غرضیکہ پیری کے یہ لوازم و آثار کم از کم دورِ حاضر کے لحاظ سے اتنے مشکل اور کٹھن ہیں کہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہیں۔ ان لوازم و آثار کے ہوتے ہوئے پیری کو ایک عام اور آسان سا کام سمجھنا ؛خالی از خرد ہونے کی علامت ہے ۔دورِ حاضر میں پیری کے ان لوازم و آثار کے ساتھ امام وقت حضرت خواجہ ؒ پوری طرح متحقق اور متصف تھے۔ اگر چہ پیری کے اس رُخ کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں رسمی پیری کا ایک دوسرا رخ بھی بہت وسیع حد تک موجود ہے جس کی عکاسی یہ شعر پوری طرح کر رہا ہے:
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد
چنانچہ حضرت خواجہ ؒ جیسے مشائخ کو ہر وقت مریدوں کے جلَو میں گھرے ہوئے دیکھ کر للچانے والے راہگیر اسی غلط فہمی کی بنا پر، پیر بننے کی سعی لاحاصل میں ہر ناجائز ہتھکنڈوں تک استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔لیکن خالی از روحانی کمالات آدمی کو یہ کون سمجھائے کہ پیری تو اوپر سے نازل ہوتی ہے ایڑی چوٹی کا زور لگانے سے اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے نہیں حاصل ہوتی:
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
علمی عبورِ کا مل درفنِ تصوف
جیسے کہ پہلے ذکرہوچکا کہ حضرت خواجہ ؒ جامعِ مشائخ میں سے تھے۔ علمی طور پر بھی فن تصوف پر عموماً اور علوم مجددیہ پر خصوصاً عبورِ کامل رکھتے تھے۔ فنی اصطلاحات و حقائق کے بہترین اور مستند شارح تھے ۔ استشہاد کے طور پر حضرت خواجہ ؒ کے دو تین مکتوبات کا ذکر کر رہا ہوں ؛جو بندۂ نا چیز کے نام حضرت خواجہ ؒ نے سوالوں کے جواب میں ارسال فرمائے۔ جس سے حضرت خواجہ ؒ کے علمی بلند مرتبہ کی کسی قدر عکاسی ہوتی ہے ۔
عرصہ دراز قبل بندہ نے وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کی حقیقت دریافت کرنے کے لیے ایک عریضہ حضرت خواجہ ؒ کی خدمت میں ارسال کیا۔ جس کا جواب حضرت ؒ نے مندرجہ ذیل عنایت فرمایا جوکہ مِن و عَن نقل کیا جارہا ہے:
’’مکرم و محترم جناب رشید الحق صاحب مطالعہ فرما ویں؛ کہ آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا ۔آپ نے جس مسئلہ کے متعلق اِس فقیر سے رجوع فرمایا ہے ۔ وہ مسئلہ علمی ہونے کے ساتھ ساتھ ذوقی اور وجدانی بھی ہے اور من لم یذُقْ لم یدْرِ کا مصداق ہے اور یہ فقیر دونوں سے عاری ہے ۔ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود :یہ تصوف کے معرکتہ الآراء مسئلے ہیں۔ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ الأقدس سے پہلے صرف وحدۃ الوجود ہی کی بحث چلتی تھی۔ ہمارے علماءِ اسلام دیو بند رحمہم اللہ تعالیٰ وحدۃ الوجود کے ہی قائل ہیں ۔حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں اصطلاحوں میں تطبیق دینے کی سعی فرمائی جو اُس دور کے نقشبندی مجددی حضرات نے قبول نہیں فرمائی اور اب یہ مسئلہ صرف کتابوں میں رہ گیا ہے۔ اس کا ذوق اور وجدان رکھنے والے اگر موجود ہیں تو وہ ہمیں معلوم نہیں۔ حضرت شیخ اکبر ؒ سے بعض مسائل میں حضرت اما م ربانی مجدد الف ثانی ؒ نے اختلاف کیا ہے، لیکن اختلاف کے باوجود اُن کے متعلق اپنے مکتوبات میں تحریر فرمایا ہے کہ وہ مقبو لانِ بارگاہِ الہٰی میں نظر آتے ہیں۔
وحدۃ الوجود کی آسان سی تعبیر ہمہ اوست سے کی جاتی ہے اور وحدۃ الشہود کی ہمہ ازاوست سے ۔ اِن تعبیرات سے بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ قرآن و سنت کے قریب کونسی اصطلاح پڑتی ہے ۔بہت مدت ہوئی مولانا محمد عبداللہ دھرم کوٹی مرحوم ؛جو کہ حضرت رائے پوری حضرت مولانا عبدالقادر صاحب ؒ کے خلفاء میں تھے ،کے ساتھ ایک رات گزارنے کا اتفاق ہوا۔ وہ سحری کے وقت اُٹھے۔ تہجد کے بعد انہوں نے اپنے طریقہ کے مطابق ذکرِ جہر شروع کیا ۔ وقفے وقفے کے بعد وہ یہ بھی ترنم کے ساتھ کہتے تھے :
جس طرف دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی تو ہے
اِسی طرح حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کے کلا م میں ہے :
مَن تُوشُدم تُو مَن شدی مَن تن شُدم تُو جان شُدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں مَن دیگرم تُو دیگری
یہ اسی ہمہ اوست کی کیفیت کا پَر تو ہے اور اسی سے بے دین لوگوں نے اتحاد ، حلول ، تجسیم کے غلط مسائل پیداکیے ہیں اور تصوف کے منکرین نے انہی غلط چیزوں کو دیکھ کر کہا ہے: کہ تصوف میں ہندوستان کے جو گیوں کے اثرات ہیں۔
وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود تصوف کی اصطلاح ہیں ۔ ان کا عقائد سے کوئی تعلق نہیں ۔عقائد سے تعلق اس توحید کا ہے جس کی تعبیر قرآن و سنت میں موجود ہے ۔ یہ اصطلاحیں اس کے اعتبارات ہیں ۔ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ؒ نے وحدۃ الوجود کا انکار نہیں فرمایا؛ وہ فرماتے ہیں: سالکین راہ کو وسط میں یہ کیفیت بعض پر وارد ہوتی ہے اور بعض پروارد نہیں ہوتی اور انتہا میں اس کیفیت کی بجائے وحدۃ الشہود کی کیفیت وارد ہوتی ہے ۔ اسی لیے حضرات نے لکھا ہے کہ جس پر یہ کیفیات وارد نہ ہوں، اُس کو اس پر کلام نہیں کرنا چاہےۂ!!احتیاط کے پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے ،فقیر اپنے اندراس سے زیادہ لکھنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ افسوس ہے !!کہ فقیر اس سلسلہ میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکا ۔ فقیر بفضلہ تعالیٰ بعافیت ہے ۔ والحمد للّٰہ علیٰ ذلک۔ فقیر آپ سب حضرات کی صحت وعا فیت اور سلامتی کا طالب ہے ۔مولا پاک نصیب فرماوے ۔ آمین ۔ فقیر کی طرف سے سب حضرات کی خدمت میں سلام مسنون۔ والسلام ‘‘
یہ مکتوب حضرت خواجہ ؒ نے وفات سے چوبیس سال قبل تحریر فرمایا ہے۔
حضرت خواجہؒ نے باوجود مسئلہ پر تفصیلی روشنی ڈالنے کے اصل اختلاف سے احتیاطاً پہلو تہی فرماتے ہوئے معذرت فرمائی ہے ۔لیکن جیسے کہ قبل ازیں بندہ ذکر کرچکا ہے کہ اس مسئلہ کو بالمشافہہ حضرت سے مختلف مجالس ومواقع میں استفسارات کرکے بندہ نے سمجھا ہے اور امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ اور امامِ وقت حضرت خواجہ ؒ کے فرمودات کا حاصل جو کچھ ہے ؛کافی ساتھیوں کے عرصہ دراز کی خواہش اور اصرار پر نقل کررہا ہوں۔ امید ہے کہ باذوق حضرات خصوصاً علومِ مجددیہ کے شائقین کے لیے فائدے کا باعث ہوگا۔
وحدۃ الوجود کا اطلاق دو مقامات پر ہوتا ہے:
۱۔ دورانِ سلوک عروج اور حال کی ایک منزل پر ۔
۲۔ حقیقتِ کائنات کے ضمن میں۔
(۱) ’’توحید وجودی‘‘ یا ’’وحدۃ الوجود‘‘ کا پہلا اطلاق
۱۔ ’’ توحیدِ وجودی ‘‘ یا ’’ہمہ اوست ‘‘درعروج وحال:
طالبِ حق جب کسی کامل مکمل شیخ کی اجازت سے ،نیز ذکر وفکر ومراقبات کی کثرت سے تصفیہ وتزکیہ سے اپنے لطائف کو منور اور مزین کرلیتا ہے۔ عالمِ امر اور ملکو ت سے پوری پوری مناسبت حاصل کرکے دائرہ امکان سے گزر جاتا ہے۔ تو بعض سالکین کو( اغلب ہے کہ وہ مجذوب سالک ہوتے ہیں) سیرِبرزخی اور ظلی کی انتہاء میں اور سیر اصلی وصفتی کی ابتداء میں آنحضرت جل مجدہ کے غلبہ محبت کی بناء پر؛ اچھے اور برے آئینوں میں؛یعنی مظاہرِ خیر وشر میں محبوب کی وحدت کا جمال مشاہدہ ہوتا ہے ۔ہر اچھے بُرے فعل کو اسی کافعل پاتا ہے۔ غلبہ حال کی وجہ سے تمیز رفع ہوجاتی ہے۔ چنانچہ آئینہ سے غافل ہوکر؛مظہر کو ظاہر کا عین ، مخلوق کو خالق کا عین جانتا ہے ۔ ہرچہ خوباں کند خوب آمد کے تحت ایمان کی طرح کفر کو بھی اُ س کا فعل جان کر بنظرِ استحسان دیکھتا ہے ۔غرض یہ کہ اسی مغلوبیت کی بنا پر امیر خسرو ؒ کی طرح
ہرچہ آید در نظر غیرِ تو نیست
یا توئی یا بوئے تو یا خوئے تو
کے راگ الاپتا ہے۔ حسن بن منصور حلاج ؒ کا :
کفرت بدین اللّٰہ و الکفر واجب
لدیّ و عند المسلمین قبیح
کہتے رہنا ۔ امام ربانی کا :
کفر و ایما ں زلف و روئے آں پری زیبائی است
کفر و ایماں ہر دو اندر راہِ ما یکتائی است
اپنے مرشد محترم کو تحریر فرمانا۔ شاہ ولی اللہ علیہ الرحمۃ کا:
غافل از خود ماند از صورت چوں پر شد آئینہ
تا ترا شناختم جاناں ز خود بیگانہ ام
گنگناتے رہنا۔ بایزید بسطامی ؒ کا: لیس فی جبتی سوی اللّٰہ کااظہار کرنا ۔ شیخ جامی ؒ کا:
درہرچہ نظر کردم غیر از تو نمی بینم
غیر از تو کسے باشد حقا چہ مجال است ایں
کے زمزمے گانا ۔یہ سب اسی مقام کے پر تَو، کیفیات اور پھول ہیں۔
مجنون کا لیلیٰ کے عشقِ مجازی میں:
اَمرّ علیٰ الدیار دیارِ لیلی
اقبّل ذا الجدار وذا الجدارا
کے ترنم سے انہی کیفیات کا اظہار ہے۔
چونکہ توحیدِ وجودی کا یہ حال آنحضرت جل سلطانہ کے غلبہ محبت کی وجہ سے پیدا ہوتاہے اورمقدمہ فنا ہے۔ گذشتہ مقامات کی بہ نسبت محمود ہے۔ لیکن چونکہ دو ئی اور کثرت؛ نظرسے ساقط نہیں ہوتی ،علم الیقین کی قسم سے ہے اور سالک کے وجود کو فنا نہیں بخشتا؛ اس لیے ناقص مقام ہے۔ سالک کو اس مقام سے جلد گزر جانا چاہئے۔ کیونکہ یہ دید اور مشاہدہ ،غلبہ حال کی وجہ سے ہیں ۔نفس الامر کے مطابق نہیں یعنی مظہر ،عینِ ظاہر نہیں۔
یہ مندرجہ بالا تمام مشائخ اس مقام میں رہے ہیں لیکن با لآخر اس سے گزر کر بلند مقامات پر پہنچے ہیں۔ اس مقام والوں کو’’ وجودیہ عینیہ ‘‘کے نام سے موسوم کیا جاتاہے اور یہ مقام سلوک میں ہرایک کو پیش نہیں آتا بلکہ حسبِ استعداد بعض کا عبور اس مقام میں ہوتاہے۔اس کی مثال مشائخ نے یوں دی ہے کہ رات کے وقت ستاروں کی روشنی کو اصحابِ بصیرت سور ج کی روشنی کا پَرتَوکہتے ہیں۔ لیکن سورج کے غلبہ محبت اورکمال روشن ہونے کی وجہ سے ستاروں میں اس کے نور کے عکس کو دیکھ کر ستاروں کو بھی سورج کہتے پھر نا!؛ظاہر ہے کہ یہ دید اور شہود خلافِ واقعہ ہے۔
لیکن یہ توحیدِ وجودی کا مقام با وجود ناقص ہونے کے اسی وقت محمود ہو گا جب غلبہ محبت کے حال کی وجہ سے ہوگا۔ جیسے کہ مشائخ کو عنایت ہوا ہے لیکن اگر محض قال اور تکرار کی حد تک ہے ؛مشائخ کی پیروی میں ان کے حال کی علمی عکاسی کی حد تک ہے تو انتہائی مذموم ہے۔ کیونکہ مشائخ رحمہم اللہ تعالیٰ اس مقام میں بھی شرع شریف پر پوری طرح کار بند رہے ہیں۔ باوجود غلبہ حال کے سرِمو شریعت سے تجاوز نہیں کیا۔ لیکن محض قال رکھنے والے چونکہ تمام کونی تعینات کو حضرتِ حق ہی کہتے پھرتے ہیں ؛شرع شریف سے مادر پدر آزاد ہوتے ہیں۔
پرانے وقتوں میں ایسے ملحد لوگ ہر دور میں بے شما ر ہوئے ہیں۔ دینِ اکبری کی بنیاد اور داراشکوہ کے نظریات کی اساس یہی لوگ ہوئے ہیں۔ امام ربانی ؒ نے مکتوبات میں جا بجا اور حضرت خواجہ ؒ نے گزشتہ مکتوب میں ملحد اور بے دین کہہ کر انہی لوگوں کا رد کیا ہے۔ بندہ نے اس دور میں اپنی زندگی میں صر ف ایک آدمی اس طرز کا دیکھا ہے ۔ممکن ہے کہ اور بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہوں۔ عرصہ ہوا کہ اسلام آباد سے پندر ہ بیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک پرا نے صوفی بزرگ کے مزار پر جاناہوا۔ جب ہم واپس نکلنے لگے تو سجادہ نشین صاحب کا خادم ہمارے استقبال میں کھڑا تھا۔ علیک سلیک کے فوراً بعد سجادہ نشین صاحب بھی آن وارد ہوئے۔ بڑے اصرار سے اپنے ساتھ لے گئے۔ مزار کے احاطے میں چمن کے لان میں کرسیاں بچھی ہوئی تھیں،ان پر بیٹھنا ہوا۔ انہوں نے خادم کو چائے لانے کا آرڈر دیا اور خود باتوں باتوں میں اپنا حدودِ اربعہ بیان کر نا شروع کیا۔ ظاہری جسم پر شرع شریف کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔ ڈاڑھی شریف بالکل غائب تھی۔ ٹوپی رومال کا بھی کوئی ذکر نہ تھا ۔ رفتہ رفتہ اسی وحدت الوجود کی رسمی قالی تکرار شروع کی اور چائے کے وقفے کے علاوہ گھنٹہ ڈیڑھ اسی میں صَرف کر دیا۔ جانوروں حتی کہ سانپ ،بچھوتک کو نعوذباللہ حضرتِ حق بتایا۔ میری متجسس نظروں سے بھانپ گئے اور کہا کہ میں نے بھی بہت ریاضت کی ہے۔ پورے نوسال رات دن ایک کردیا تھا۔ بڑی بڑی متشرع ڈاڑھی تھی، لیکن اتنی کڑی ریاضت سے جب کچھ ہاتھ نہ آیا تو مایوسی کا شکار ہو کر پوری ڈاڑھی منڈوا کر ،ننکانہ صاحب میں گورونانک صاحب کے نام ہدیہ کرآیا ہوں۔ نعوذ باللہ!!
بندہ نے بار بار اٹھنے کی کوشش کی لیکن اُن کی پھرتی نے ایک نہ چلنے دی اور کہا کہ آپ جیسے لوگ ایسی جگہوں پر ضرور آتے رہنے چاہیءں۔ بمشکل جان چھڑائی تو رخصت کرنے کے لیے گیٹ تک آئے ۔سلام لیتے وقت ہاتھ تھامے تھامے مزید آدھ پون گھنٹہ اسی بحث میں صرف کرگئے۔ پندرہ سال گزرگئے ہیں باوجود اس صوفی بزرگ کے مزار پر فاتحہ خوانی کا شوق رکھنے کے ،صرف انہی سجادہ نشین صاحب کی وجہ سے دوبارہ نہیں جاسکا ۔سنا ہے کہ اب تو وہ اس بحث میں بالکل فنا ہوچکے ہیں اور علماء کرام اُن کے کفر کا فتوی تک دے چکے ہیں۔
الغرض توحیدِ وجودی کا مقام بصورتِ حال محمود لیکن ناقص ہے ۔جبکہ بصورتِ قال سراسر خلاف شرع ہے اور کفر کی دہلیز تک پہنچانے والا ہے۔ امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ سے اس توحید وجودی کا جو انکار معروف ومشہور ہے ۔وہ نفسِ مقام کا انکا ر نہیں بلکہ اس مقام کے مقامِ کمال ہونے کا انکار ہے۔ ورنہ امام ربانی ؒ خود بھی سالہا سال دوسرے مشائخ کی طرح اس مقام میں رہ چکے ہیں اور مکتوبات شریفہ میں ابتدائی تمام مکتوبات کے معارف وعلوم اسی مقام سے ناشی ہیں۔
۲۔ ’’ توحیدِ شہودی‘‘ درحالِ عروج:
گزشتہ سالک کو آنحضرت جل سلطانہ توحیدِ وجودی سے ترقی بخشتے ہیںیا تمام سالکین بذریعہ بائی پاس اس مقام سے پار ہوجاتے ہیں۔ تو تمام مظاہرِخیر وشر، نظر سے ساقط ہوجاتے ہیں ۔دیدہ بصیرت میں صرف اور صر ف حضرتِ حق جل مجدہ کا شہود باقی رہ جاتا ہے ۔جیسے دن کے وقت سور ج کے نکلنے سے تمام ستارے نظر سے غائب ہوجاتے ہیں ۔یہ مقا م فنا ہے اور اس راہ کی ضروریات میں سے ہے۔ کوئی سالک اس مقام سے گزرے بغیر ولی نہیں بن سکتا اور اسی کو عین الیقین کہتے ہیں۔
یہ مقام چونکہ سالک کے وجود کو فنا بخشتا ہے ؛اس لیے توحیدِ وجودی کی بہ نسبت مقام کمال ہے۔اس مقام کو ’’ توحیدِ شہودِ حقیقی‘‘ یا صرف’’ اوست ‘‘کہتے ہیں۔ لیکن چونکہ سالک جب تک زندہ ہے بلحاظ شرع مخلوقات کے حقوق کامکلف ہے۔ اس لیے یہ مقام باوجود پہلے مقام سے کمال ہونے کے آئندہ مقامات کی بہ نسبت مقامِ نقصان ہے۔ فنا کی وجہ سے بہت سارے حقوق سے عہدہ برآں نہیں ہوسکتا اور ویسے بھی ولایت، فنا اور بقاء دونوں چیزوں کے بغیر متحقق نہیں ہوتی ۔اس لیے اس مقام سے بھی توحیدوجودی کی طرح گزرنا چاہیئے ورنہ ولایت ثابت نہیں ہوسکے گی ۔امام ربانیؒ نے جس معنی میں توحیدِ وجودی کا انکار فرمایا ہے ؛اسی معنی میں اِس توحیدِشہودی کا بھی انکار فرمایا ہے۔ صرف اوّل کی بہ نسبت اِس کو کسی قدراعلیٰ بتایا ہے۔
۳۔ ’’توحیدِ شہودی ظلّی‘‘ یا’’ ہمہ اَزاَوست‘‘:
جب سالک کو توحیدِ شہودی اور مقامِ فنا سے مقامِ بقاء میں پہنچاتے ہیں ۔ تو قبل از فناء، وجودِ حقیقی کے ساتھ مشہود ہونے والی تمام کائنات، مخلوقات اور کثرت ؛جو مقامِ فنا میں نظر سے غائب ہوگئی تھی، دوبارہ وجودِ ظلّی کے ساتھ نظر میں واپس آجاتی ہے۔ یہ مقام بقاء ہے؛ جس میں حضرت حق جل مجدہ کا شہود اپنے وجودِ حقیقی کے ساتھ اور مخلوقات کا شہود، وجودِ ظلّی کے ساتھ نظر میں رہتا ہے اور دونوں کے حقوق علیٰ حسب المراتب پورے پورے ادا ہوسکتے ہیں۔اسی کو حق الیقین کہتے ہیں۔
اور مجددی حضرات کو جو’’ شہودیہ ظلّیہ ‘‘کے نام سے یاد کیا جاتاہے؛ وہ اسی مقام کی مناسبت سے ہے۔ لیکن حق یہ ہے کہ تمام کامل اولیائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ اس مقام کے حامل ہوئے ہیں۔خواہ وہ’’ وجودیہ‘‘ کہلاتے ہوں یا ’’شہودیہ‘‘۔
’’ شہودیہ‘‘ کو اس مقام میں’’ شہودیہ ظلیہ ‘‘اور’’ وجودیہ ‘‘کو اس مقام میں ’’وجود یہ ورائیہ‘‘ سے موسو م کرتے ہیں اور نام میں فرق اس فکر و اعتقاد کی وجہ سے ہے جس کو عنقریب بندہ وحدۃ الوجود کے دوسرے اطلاق :’’حقیقتِ کائنات‘‘ میں اختلاف کے ضمن میں بیان کرے گا اور بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ جس طرح امام ربانی ؒ نے وحدۃ الوجود کا انکار فرمایا ہے اسی طرح ’’وحدۃ الشہود‘‘ یا’’ شہود ظلی‘‘ یا’’ہمہ ازاوست ‘‘کا بھی انکار فرمایا ہے اور اس کو باوجود مقامِ کما ل بتانے کے راستے کا ایک مقام بتا یا ہے اور مقصد کو اس سے بہت اوپر بتا یا ہے!!
فائدہ عظیمہ
عام مشہور اصطلاح کے مطابق علم الیقین کا معنی ہے: دھواں دیکھ کر آگ کا یقین ہو جا نا اور عین الیقین کا معنی ہے :براہ راست آگ کو دیکھ کر آگ کا یقین ہو جانا اور حق الیقین کا معنی ہے: آگ میں ہاتھ ڈال کر یا سینک کر آگ کا اعلیٰ یقین حاصل کرنا ۔
گذشتہ تینوں اَقسامِ توحیدمیں ان تینوں اَقسام کا اطلاق اسی اصطلاح کے مطابق کیا گیا ہے جو عام صوفیاء کی اصطلاح ہے، لیکن امام ربانیؒ ؒ کے نزدیک راہِ سلوک میں یہ تینوں اقسام اَثر کی طر ف راجع ہیں۔ کیونکہ حضرت حق جل مجدہ کی رؤیت ،باوجود ممکن ہونے کے اس دنیا میں غیر واقع ہے۔ لہٰذا علم الیقین کا معنی ہوگا :دھویں کے علم سے آگ کا یقین ہونا ۔عین الیقین کا معنی: دھواں دیکھ کر آگ کا یقین ہونا اور حق الیقین کا معنی ہوگا : دھویں سے متحقق ہو کر آگ کا یقین ہونا ۔آگ تینوں صورتوں میں نظر نہیں آئیگی ۔ جیسے کہ حضرتِ حق یقین کی تینوں صورتوں میں مرئی نہیں ہونگے۔ ہاں! بصارت اور رؤیت کی بجائے دیدہ بصیرت کے اطلاق میں ممکن ہوگا۔
مذکورہ بالا فنا وبقا، نیز ظاہر اور مظہر میں ا تحاد یا ظلیت کی نسبت چونکہ تجلی فعلی یا صفتی کی فنا وبقاسے وابستہ ہے اور امتِ مرحومہ کے اکثر مشائخ اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ اسی مقام میں ہوئے ہیں ،اس سے اعلیٰ مقامات یا تجلی ذاتی دائمی کا مورد ومہبط بننا چونکہ کروڑوں اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ میں سے خال خال کسی محمدی ا لمشرب کا حصہ ہے اور اس آخری دور میں مجددی نسبت کے خواص میں سے ہے اور یہ وہ کمالات ہیں جو الف ثانی میں امام ربانی ؒ کی براہ راست حضرتِ حق جل مجدہ کے تربیت فرمانے سے منصہ ظہور میں آئے ہیں۔ جن کو ’’کمالاتِ ثلثہ‘‘ ، ’’حقائقِ انبیاء‘‘ و’’حقائقِ الٰہیہ‘‘ سے تعبیر کیاجاتا ہے اور امت میں انتہائی اعلیٰ استعداد رکھنے والے چیدہ چیدہ حضرات کو حاصل ہوئے ہیں اور سورۃ واقعہ کے قلیل من الآخرین سے یہی لوگ مرادہیں۔
۴۔ نسبتِ خالقیّت و مخلوقیت:
جب کسی انتہائی اعلیٰ استعدا د کے حامل سالک پر آنحضرت جل مجدہ نظرِکرم فرما کر کمالاتِ نبوت کا انعکاس فرماتے ہوئے تجلّی ذاتی سے بہرہ ور فرماتے ہیں۔ تو کمالاتِ ولایت کی تمام نسبتیں کا فور ہوجاتی ہیں۔ کمالاتِ نبوت کے سامنے کمالاتِ ولایت کی اتنی حیثیت بھی نہیں جتنی سمندر کے سامنے ایک قطرہ حقیر ہ کی !! چنانچہ اس نسبت کے وارد ہونے پر سابقہ اتحاد وظلّیت کے دعوے بالکل غائب ہوجاتے ہیں۔ حضرت حق جل مجدہ خالقِ مطلق اور تمام کائنات مخلوقِ محض ،حضرتِ حق قادرِ مطلق ربّ اور تمام ممکنات عاجزِ محض نظر آتی ہیں؛ جیسا کہ شرع شریف میں قرار پایا ہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی تعلیمات اورآسمانی کتب کا خلاصہ یہی نسبت اور عقیدہ ہے اور تمام مکلفین اسی عقیدہ کے مکلف ہیں۔ امام ربانی ؒ پر جب یہ نسبت وارد ہوئی تو فرمایا:
’’اس فقیر پر بہت گراں گزرتا ہے کہ مخلوقات اور ممکنات کو عینِ ظاہر یا ظلِ ظاہر کہہ سکے۔ مخلوقات کی اتنی حیثیت کہاں سے آگئی کہ اتحاد وظلیت اس کے نصیب ہوسکے !!‘‘
اس کو نسبتِ غیب الغیب اور مقامِ عبدیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب یہ نسبت عام اولیاء کرام ؒ کی دسترس سے بالاتر ہے تو اس کے علوم ومعارف بھی یقیناًان کی سمجھ سے بالاتر ہوں گے۔ امام ربانیؒ نے اس نسبت کو سلوک تصوف کا مقصد بتایا ہے اور گزشتہ تمام مقامات کو راستے کی منازل اور مقصد کے سامنے ناقص مقامات بتایا ہے۔ حق یہ ہے کہ جب تک ’’ذاتِ بحت ‘‘ تک عروج اور ’’عدمِ صِرف‘‘ تک نزول واقع نہ ہو سالک ؛خالق ومخلوق میں پورا پورا امتیاز نہیں کرسکتا اور شرک خفی اور اخفی کی تاریکیوں سے نجات نہیں پاسکتا۔ اسی لیے امام ربانیؒ کا اپنے دور کے بارے میں فرمان ہے :
’’کہ میں جب نظر کشفی سے دیکھتا ہوں تو پورے جہان میں صرف ایک آدمی کے کلمہ کو آنحضرت جل سلطانہ تک پہنچا ہوا پاتا ہوں۔باقی سب کے کلمے علیٰ حسب المراتب راستے میں ہی رہ جاتے ہیں۔‘‘
فللّٰہ درالشیخ المجدّد ؒ ظاہر ہے کہ اس سے امام ربانی ؒ کا اپنے انتہائی کمال قرب ومعرفت کی طرف اشارہ ہے۔
(۲) ’’توحیدِ وجودی ‘‘یا ’’وحدۃ الوجود‘‘ کا دوسرا اطلا ق
’’توحیدِ وجودی ‘‘یا ’’وحدۃ الوجود‘‘ کا دوسرا اطلا ق ’’حقیقت کا ئنات‘‘ کے ضمن میں کیا جاتا ہے۔ اس پر تمام مشائخ صوفیا ؒ کا اتفاق ہے کہ وجو دِ حقیقی صرف ایک ہے اور وہ وجود آنحضرت جل سلطانہ کا ہے۔ وحدۃ الوجود پر اتفاق کا یہی معنی ہے لیکن اس اتفاق کے باوجود اس میں اختلاف ہے کہ یہ اتنی طویل وعریض کائنات اور ممکنات کی کثرت جو سب کو نظر آرہی ہے یہ وجود نہیں رکھتی ہے کیا؟!! پھر اس کی حقیقت کیا ہے ؟ اس اختلاف کو سمجھنے کے لیے چند مقدّمات کاسمجھنا ازبس ضروری ہے:
مقدمہ اولیٰ: شیخِ اکبر شیخ ابن عربیؒ اور ان کے متبعین کے ہاں خارج میں صرف حضرت حق جل مجدہ کی ذات پاک موجود ہے اور کوئی چیز موجود نہیں حتی کہ حضرت حق تعالیٰ شانہ کی صفات بھی خارج میں علیحدہ موجود نہیں بلکہ اس کے اسماء و صفات، حق تعالیٰ کی عینِ ذات ہیں اور نیزایک دوسرے کے بھی عین ہیں : مثلاًعلم وقدرت ؛جس طرح عینِ ذاتِ باری تعالیٰ ہیں اسی طرح علم ،عینِ قدرت ہے اور اس کا عکس اور یہ بھی فرماتے ہیں: کہ اس مقام میں تعدد و تکثّر کا کوئی نام ونشان نہیں۔ صرف اتنا ہے کہ اسماء وصفات، شیون واعتبارات نے حضرت حق کے علم میں اجمالی اور تفصیلی طور پر تمایز پیدا کیا ہے ۔خارج میں یہ تمایزوتباین مفقود ہے۔ چنانچہ اس کی تعبیر انہوں نے بدیں الفاظ کی ہے:
از روئے تعقل ہمہ غیر اند صفات
با ذات تو از روئے تحقق ہمہ عین
جبکہ امام ربانی کے ہاں حضرت حق جل مجدہ کی’’ صفاتِ ثمانیہ‘‘، ذات پاک کی طرح خارج میں موجود اور متمیز ہیں۔جیسا کہ اہل حق علماء ما ترید یہؒ کے ہاں مقرر اور ثابت ہے ۔اگر چہ اشاعرہؒ تکو ین کے سوا،’’ صفاتِ سبعہ‘‘ کے قائل ہیں۔ پھر جس طرح صفاتِ ثمانیہ خارج میں حضرت حق سے متمیز ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے سے بھی متمیز ہیں۔ اگرچہ تمیز بھی بے کیف وبے چون ہے۔ یعنی قدرت، علم کا عین نہیں اور نہ ہی اس کا عکس ہے۔ اس خارجی تمایز کے ساتھ ساتھ حضرت حق جل مجدہ کے علم میں بھی یہ صفات متمایز ومتباین ہیں ۔جیسے کہ پہلا گروہ بھی اس کا قائل ہے۔ امام ربانی ؒ کے ہاں حضرت حق کے علم میں ان صفات واسماء کے تمایز کے ساتھ ساتھ ان کے نقائض بھی متمیز ہیں اور انہوں نے بھی مرتبہ علم میں تفصیل پیدا کی ہے : مثلاً مرتبہ علم میں صفتِ علم کا مقابل عدمِ علم ہے؛ جس کو جہل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس طرح صفتِ قدرت کے مقابل عدمِ قدرت ہے؛ جس کو عجز کہا جاتا ہے۔ گویا کہ مرتبہ علم میں صفات کی طرح عدماتِ متقابلہ نے بھی تمایز حاصل کیا ہے۔
مقدمہ ثانیۃ: شیخ اکبرؒ اور عام صوفیاءؒ کے ہاں حضرت حق تعالیٰ کی حقیقت ’’واجبُ الوجود ‘‘ہے اور’’ وجود‘‘ ذاتِ باری تعالیٰ کا عین ہے۔ جبکہ امام ربانیؒ کے نزدیک حضرت حق جل مجدہ کی ماہیت اور حقیقت’’ ذات محض‘‘ ہے اور’’ وجود‘‘ اس سے زائد ہے مثل الصفات ۔رہا یہ کہنا :کہ ماہیت کا تحقق اور تقرر ’’وجود‘‘ کے بغیر کیسے ممکن ہے؟! تو یہ بات ممکنات کی حد تک تودرست ہے کہ ممکنات کی ماہیات اپنے تحقق اور تقرر میں وجود کی محتاج ہیں لیکن یہ فلسفیانہ اصول حضرت حق پر جاری نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ذات پاک وجود کی محتاج ہے:
فلسفی ر ا چشمِ حق بین سخت نابینا بود
گرچہ بیکن باشد ویا بوعلی سینا بود
یعنی جس طرح ذات پاک باوجود جامع الکمالات ہونے کے مرتبہ ذات میں صفات سے پوری طرح مستغنی ہے اسی طرح باجود واجب الوجود ہونے کے مرتبہ ذات میں وجود سے بھی پوری طرح مستغنی ہے لہٰذا’’ وجود‘‘، عینِ ذات نہیں بلکہ اخصِ صفات میں سے ہے۔ یہ معرفت طورِ عقل سے بالا تر ہے اور صفات کے خارجی ہونے کی طرح مشکوۃ نبوت سے مقتبسں ہے۔ چنانچہ امام ربانیؒ کا فرمان ہے :
’’جب اس درویش کا ’’وجود‘‘ کے مرتبہ سے اوپر گزرا ہوا تو جب تک وہ حال مجھ پر غالب رہا، اپنے آپ کو ذوق ووجدان سے اربابِ تعطیل میں پاتا تھا۔ مرتبہ ذات میں ’’وجود‘‘ کی گنجائش نہ پاتا تھا۔ کیونکہ’’ وجود‘‘ کو راستہ میں ہی چھوڑ آیا تھا۔‘‘
صوفیاءؒ میں سے اس معرفت میں امام ربانیؒ کے ساتھ’’ شہود یہ غیریہ‘‘ کے شیخ علاء الدولۃ سمنانی ؒ بھی شریک ہیں۔ ان کا قول ہے کہ: فوق عالَمِ الوجود عالَمُ المَلِکِ الودُود ۔اسی طرح علماء اہلِ حق بھی اس معرفت میں شریک ہیں۔ ان کا فرمان ہے : ’’وجود واجب تعالیٰ زائد است بر ذاتِ او سبحانہ‘‘۔
مقدمہ ثالثہ: عام صوفیاء کرام کے نزدیک’’ تعینِ اول‘‘ یا’’ وحدت‘‘ تعینِ علمی ہے۔ جس کو’’ حقیقتِ محمدیہ ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن امام ربانیؒ نے تعینِ علمی سے اوپر’’ تعینِ وجودی‘‘، اس سے اوپر’’ تعینِ حیاۃ‘‘، اور’’ تعینِ اول‘‘،’’ تعینِ حبی‘‘ کو بتایا ہے ۔ شیخ سمنانی ؒ کے مندرجہ بالاقول سے بھی ’’وجود‘‘ کے اوپر’’ ودود‘‘ کے لفظ میں اسی’’ تعینِ حبی‘‘ کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔امام ربانیؒ کے ہاں تمام وہ صوفیائے کرام ؒ جن کا عروج، اجمالِ علم تک ہوا ہے اور انہوں نے’’ تعینِ اول‘‘ ،’’ تعینِ علمی‘‘ بتایا ہے ؛علم سے اوپر کے مراتب تک رسائی حاصل نہیں کرسکے اور ان مراتب کو مبدأ سے جدا نہیں کرسکے۔
ظاہر ہے کہ عام صوفیائے کرامؒ اپنے مشائخ سے تربیت یافتہ ہیں اور زیادہ سے زیادہ صدی کے مجدد ہیں۔ جبکہ امام ربانی ؒ براہ راست حضرت حق کے تربیت یافتہ اور الف ثانی کے مجدد ہیں۔ مشائخ کی تربیت اور حضرت حق کی تربیت میں زمین وآسمان کا فرق ہے!!
مقدمہ رابعہ: عام صوفیائے کرامؒ کے ہاں’’ صورتِ شء‘‘ عینِ شئ ہے۔ جبکہ امام ربانیؒ کے نزدیک صورتِ شء، شئ کا شبح ومثال ہے ؛عین نہیں ہے۔ آئینے میں نظر آنے والی آگ کی صورت، اگر خارجی آگ کا عین ہوتی تو صورت بھی جلاتی جبکہ صور ت جلانے کا کام نہیں کرتی۔
مقدمہ خامسہ: کہ’’ وجود‘‘ ہر خیر وکمال کامبدأ ہے اور تمام کمالات ’’وجود‘‘ کی طرف راجع ہیں۔ جبکہ ’’عدم ‘‘ہر نقص وشرارت کا منشأ بلکہ سراسر شرارت ہے اور تمام نقائص اور عیوب اسی کی طرف راجع ہیں۔
ان مقدماتِ خمسہ کے بعد کائنات کی حقیقت سمجھئے :
یہ مشاہد ومحسوس عرصۂ کائنات وممکنات شیخ ابن عربیؒ اور ان کے متبعین کے نزدیک’’ حضرتِ وجود ‘‘ہے ۔جس کے سوا خارج میں کچھ موجود نہیں اور یہ حق تعالی کی ذات کا وجود ہے ۔ جس کو ’’ظاہروجود‘‘ بھی کہتے ہیں ۔آنحضرت جل سلطانہ نے اپنی حکمت بالغہ سے اپنے علمِ ازلی میں تمام ممکنات وکائنات کی جو صورتیں تجویز فرمائی ہیں ۔یہ صور علمیہ متکثرہ جن کو’’ باطنِ وجود‘‘ اور’’ اعیانِ ثابتہ ‘‘بھی کہتے ہیں۔ جب ’’ظاہر وجود‘‘ کے آئینے میں منعکس ہوتی ہیں، تو کثرت نظر آتی ہے ۔جس طرح کہ آئینے میں کسی شخص کی صورت منعکس ہوکر وجودِ تخیلی پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح ان صورعلمیہ متکثرہ نے وجود تخیلی پیدا کیا ہے۔ خارج میں’’ احدیتِ مجردہ ‘‘کے سوا کچھ موجود نہیں ۔لیکن چونکہ اس متخیل اور متوھم عکس کو ابدی عذاب وثواب کی خاطر حضرت حق نے ثبات واستحکام بخشاہے ۔اس لیے وہم و تخیل کے اٹھنے سے اٹھ نہیں سکتا اور مندرجہ بالا مقدمات میں گزرچکا کہ ان کے نزدیک صورتِ علمیہ، علم کا عین ہے اور علم عینِ ذات ہے۔ اسی طرح وجود بھی عین ذات ہے۔ اس لیے تمام متوھم اور متخیل کائنات پر’’ اتحاد ‘‘کا حکم کیا ہے اور’’ ہمہ اوست ‘‘کہاہے۔ چنانچہ ان ابیات میں اسی نظریہ کی عکاسی ہے :
ہمسایہ و ہم نشین و ہمراہ ہمہ اوست
در دلق گدا ؤ اطلس شبہ ہمہ اوست
در انجمن فرق و نہانخانہ جمع
باللہ ہمہ اوست ثم باللہ ہمہ اوست
اسی طرح مولوی جامی علیہ الرحمۃ نے فرمایا ہے:
مجموعہ کون راہ بقانون سبق
کردیم تصفح ورقا بعد ورق
حقا کہ ندیدیم ونخواندیم درو
جز ذات حق وشیون ذاتیۂ حق
لیکن ان کے اس نظریے پر ممکنات اور کائنات کی شیطانیوں، شرارتوں، عیوب ونقائص کی زد جب پڑتی ہے تو کہتے ہیں :کہ ذاتی نقص وشرارت کسی چیز میں نہیں صرف نِسبی اور اضافی ہے۔ لیکن امام ربانیؒ کے نزدیک کائنات کی حقیقت، مقدمہ اولیٰ میں ذکر شدہ ’’اعدام متقابلہ‘‘ ہیں۔جن میں صورعلمیہ کے عکوس جلوہ گر ہیں۔ حاصلِ کلام یہ کہ’’اعدام متقابلہ‘‘ اسماء وصفات کے عکوس سمیت حقائقِ ممکنات ہیں۔ ’’اعدام ‘‘ بمنزلۂ ھیولیٰ ہیں اور’’ عکوس ‘‘بمنزلہ صور ہیں ۔قادرِ مختا ر جل شانہ جب چاہتے ہیں کہ ان ماہیات ممتزجہ میں سے کسی ماہیت کو موجود فرمائیں؛ تو حضرتِ وجود کا پَرتو، وجودِ ظلی اس ماہیت پر منعکس فرما کر آثار خارجیہ کا مبدأ بنادیتے ہیں ۔گویا کہ ممکنات کے وجود اور صفات سب کے سب وجود حقیقی اور صفات باری کے ظلال اور عکوس ہیں۔جو’’اعدام متقابلہ‘‘ میں منعکس ہوئے ہیں ۔’’اعدام ‘‘ میں چونکہ خباثت ،ذاتی اور شرارت ،اصلی وجبلّی ہے؛ اس لیے تمام عیوب ونقائص کا منبع ہیں۔ آیۃ کریمہ ما أصابک من حسنۃ فمن اللّٰہ وما أصابک من سیئۃ فمن نفسک سے اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔
غرض یہ کہ کائنات میں جو کچھ نظر آتاہے؛ سب کچھ ممکنات کی قسم سے ہے۔ اگر چہ بعض سالکوں کو وہ مشہود ، ’’وا جب ‘‘کے ساتھ متوہم ہوتا ہے اور مقدمات میں گزرچکا ہے کہ امام ربانیؒ کے نزدیک صور تِ شئ ،عینِ شئ نہیں۔ صفات عینِ ذات نہیں۔ ’’وجود ‘‘زائدازذات ہے۔ اس لیے ممکن عینِ واجب نہیں ہوسکے گا اور ’’ہمہ اوست ‘‘کہنا درست نہیں ہوگا بلکہ ’’ہمہ ازوست ‘‘کہنا ہوگا۔ حاصلِ کلام یہ کہ حق تعالیٰ وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے ۔جو کچھ دیکھا گیا، سنا گیا ،جانا گیا، سب غیرہے۔کلمہ ’’لا‘‘ سے اس کی نفی کرنی چاہیئے۔
خلق را وجہ کے نماید او
در کدام آئینہ در آید او
حاصل یہ ہے کہ توحیدِو جودی کے قائلین یا شیخ اکبرؒ کے ہاں کائنات کی حقیقت ،حضرت حق کے’’ ظاہر وجود‘‘کے آئینہ میں صورعلمیہ متکثرہ کے انعکاس وتلبس سے محسوس ومشاہد ،موجود نما کثرتِ موھومہ ہے ۔جو نقطہ جوّالہ کے دائرہ موہو مہ کی مانند ہے اور توحید شہودی کے قائلین یا امام ربانی ؒ کے نزدیک کائنات کی حقیقت،’’ اعدام متقابلہ‘‘ کے آئینوں میں اسماء وصفات کے عکوس کے انعکاس سے ظل،خارج میں موجود ظلال خارجیہ ہیں۔ چونکہ دونوں نظریات کے آئینے ’’وجود‘‘ و’’عدم‘‘ سراسر ایک دوسرے کی ضد اور متقابلین ہیں۔اس لیے دونوں نظریات میں تطبیق یا اختلاف ونزاع ،لفظی ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ اب دیکھنا چاہیئے کہ دونوں نظریات میں سے کونسا نظریہ حضرت حق جل مجدہ کی تقدیس وتنزیہہ کے قریب ہے؟!!
فائدہ عظیمہ خاصہ
جیسا کہ قبل ازیں گزرچکا کہ دوران سلوک امام ربانیؒ ان تمام منازل ومقامات سے گزرے ہیں ۔ہمہ اوست،صرف اوست، ہمہ ازاوست، اور بالآخر کمالاتِ نبوت تک رسائی سے حضرت حق اور کائنات کے درمیان صرف نسبت خالقیت ومخلوقیت کے نظریہ شرعیہ تک انتہا ہوئی۔ چونکہ انما الاعمال بالخواتیم کے تحت اعتبار قولِ آخر کاہوتا ہے ؛حال چونکہ قال میں دخیل اور اثر انداز ہوتا ہے؛ امام ربانیؒ کے مکتوبات شریفہ کے اول سے آخر تک تمام مکاتیب بالترتیب انہی چاروں کیفیات اور احوال کی عکاسی کرتے ہیں۔ اب امام ربانیؒ کو توحیدِ وجودی یا شہودی کی بجائے قولِ آخر نسبتِ خالقیت ومخلوقیت کی طرف منسوب کرنا چاہیئے۔ جیسا کہ تمام انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی تعلیمات اور قرآن وحدیث کی تعلیمات کا خلاصہ اور حاصل ہے۔ اب اس بحث میں الجھناکہ امام ربانیؒ توحیدِ شہودی کے قائل تھے ،تو حیدِ وجودی کے منکر تھے ؛سراسر فضولیات میں داخل ہے !!قبل ازیں گزرچکا کہ امام ربانی ؒ جس معنی میں توحیدِ وجودی کے منکر تھے؛ اس کو مقامِ ناقص، راستے کی منزل اور مقصد سے کوسوں دور بتاتے تھے۔اسی معنی میں توحیدِ شہودی کے بھی منکر ہیں،اس کو بھی راستے کی منزل اور مقصد سے نیچے فرمایا ہے اور بنا بر حال کے جس معنی میں توحیدِ شہودی کے قائل تھے اسی معنی میں توحیدِ وجودی کے بھی قائل تھے۔ استشہاد کے طور پر امام ربانی ؒ کے ایک مکتوب کا خلاصہ ذکر کیا جاتا ہے تاکہ صورت حال بخوبی واضح ہوجائے۔ فرماتے ہیں:
مشائخ طریقت قدس اللہ تعالی اسرارہم کے تین گروہ ہیں:
۱۔ پہلا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ کائناتِ عالم حق تعالیٰ کی ایجاد سے خارج میں موجود ہے۔ یہ بزرگ گروہ اپنے تمام اعتقاداتِ کلامیہ میں ،جو کتاب وسنت اور اجماع کے موافق ثابت شدہ ہیں ،علماء اہل سنت وجماعت کے ساتھ اتفاق رکھتا ہے اور متکلمین اور ان کے درمیان سوائے اس کے اور کچھ فرق نہیں کہ متکلمین اس معنی کو علمی اور استدلالی طور پر جانتے ہیں اور یہ بزرگ کشف وذوق کی بنیاد پر سمجھتے ہیں۔ اس گروہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کمالِ متابعت کے باعث ،ممکن کے تمام مراتب کو واجب سے جدا کردیا اور کلمہ’’ لا‘‘ کے تحت لا کر سب کی نفی کردی اور انہوں نے واجب کے ساتھ ممکن کی کوئی مناسبت نہیں دیکھی ؛سوائے اس کے کہ اپنے آپ کو عاجز بندہ، مخلوق جانا اور اس عزّ شانہ کو اپنا خالق اور مولیٰ سمجھا۔ خود کا مولیٰ کا عین جاننا یا اس کا ظل اور سایہ سمجھنا ،ان بزرگوں پر بہت گراں اور دشوار ہے: ما للتراب و رب الأرباب!!
۲۔ دوسرا گروہ عالم کو حق سبحانہ وتعالیٰ کا ظل جانتا ہے مگر یہ اس بات کا قائل ہے کہ عالم خارج میں اصالت کے طریقے پر نہیں بلکہ ظلیت کے طریقے پر موجود ہے اور اس کا وجود حق سبحانہ وتعالی کے وجو د سے قائم ہے۔ جس طرح کے ظل اپنے اصل کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ اس گروہ نے اگر چہ ممکن کے مراتب کو مبدأسے جدا کردیا اور کلمہ’’لا‘‘ کے تحت لاکر اس کی نفی بھی کی۔ لیکن ظلیت اور اصالت کے واسطہ سے کچھ چیزیں ان کے وجود کے بقا کے ساتھ ثابت رہی۔ چونکہ ظل کا اصل کے ساتھ تعلق بڑا قوی ہے، اس لیے یہ نسبت ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہوسکی۔ (دوسرے گروہ میں توحید شہودی یا شہودیہ ظلیہ کے نظریے کا اظہار ہے)
۳۔ تیسرا گروہ وحدت وجود کا قائل ہے یعنی خارج میں صرف ایک موجود ہے اور بس ،اور وہ صرف ذات حق سبحانہ وتعالیٰ ہے اور عالم کا خارجی طور پر علمی ثبوت کے علاوہ ہرگز کوئی ثبوت نہیں اور کہتے ہیں: الأعیان ما شمّت رائحۃ الوجود اگر چہ یہ جماعت بھی عالم کو حق سبحانہ وتعالیٰ کا ظل کہتی ہے۔ لیکن ساتھ یہ بھی کہتی ہے کہ ان چیزوں کا وجود صرف حِس کے مرتبہ میں ہے ورنہ نفس الامر اور خارج میں عدمِ محض ہے ۔جیسے نقطہ جوالہ سے دائرہ موھومہ ؛صرف حِس کے مرتبہ میں ہے خارج میں معدوم ہے۔ اگر چہ یہ گروہ بھی اپنے درجاتِ وصل وکمال میں تفاوت کے باوجود ،واصل وکامل ہیں۔ لیکن ان کی ایسی باتیں مخلوق کو گمراہی، الحاد اور بے دینی کی طرف لے جاتی ہیں ۔ یہ گروہ ممکن کے بعض مراتب کو اگرچہ مبدأ اور واجب سے جدا کرسکا ہے لیکن تمام مراتبِ ممکن کو واجب سے جدا نہیں کرسکا ہے۔ خود کو علمی جاننا، خارجی نہ جاننا، مولیٰ کا عین جاننا، اسی کو تاہ نظری کے باعث ہے۔ (یہ نظریہ توحیدِ وجودی والوں کا ہے )
ان تین گروہوں کا ذکر کرنے کے بعد امام ربانی ؒ اپنے سلوک کے بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ درویش بچپن کے زمانے سے ہی توحیدِ وجودی کا علم یقین کی حد تک رکھتا تھا۔ اگر چہ اس کا حال نہ رکھتا تھااور جب راہ سلوک میں آیا۔توحضرت پیر ومرشد خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کی توجہ کی برکت سے توحیدِ وجودی منکشف ہوئی۔ مدتوں بلکہ سالوں اسی مقام کے درجات میں گشت کرتا رہا حتی کہ اسی سکر کی حالت میں کفر و ایما ن زلف وروئے آں پری زیبائی است والی مشہور رباعی اپنے مرشد کو مکتوب میں تحریر کی۔ تاآنکہ حضرت حق جل مجدہ کی عنایت نے دستگیری کی اور یہ نسبت زائل ہونے لگی ۔اس کے زائل ہوتے وقت یہ درویش بڑا بے قرار ہوا کہ مجھے اس مقام سے نہ نکالیں ،کیونکہ بہت سے مشائخ عظام اسی مقام میں اقامت پزیر تھے ۔لیکن اس مقام سے نکال کر مقامِ ظلیت یا توحیدِ شہودی کے مقام پر لے گئے۔ پھر معلوم ہوا کہ پہلا مرتبہ پست سے بھی پست تر تھا۔ چنانچہ اس مقام پر خود کو اور عالم کو حضرتِ حق کا ظل محسوس کیا۔ اس مقام پر خواہش پیدا ہوئی کہ اس مقام سے نہ نکالا جاؤں۔ کیونکہ یہ مقام بھی توحیدِ وجودی سے کسی قدر مناسبت رکھتا تھا ۔لیکن بالآخر کمال مہربانی سے اس مقام سے بھی بالا لے جا کر مقامِ عبدیت میں پہنچادیا اور عبدیت کا کمال ظاہر ہوا اور پہلے مقامات ،توحیدِ وجودی وشہودی کی پستی ظاہرہوئی اور ان مقاما ت سے تائب ہو کر استغفار کی!!‘‘
امام ربانیؒ کے علوم ومعارف ومقامات عالیہ تک یقیناًبہت کم کسی کی رسائی ہوئی ہے :
قیامت میکنی سعدی بدیں شیریں سخن گفتن
مسلّم نیست طوطی را بدو رانت شکر خائی
امام ربانی ؒ کے اس صحیح صریح اور فیصلہ کن روشن واضح مکتوب کے بعد حیرت ہوتی ہے کہ عرصہ چار سو( ۴۰۰)سال سے اختلاف ونزاع کرنے والے، امام ربانی ؒ کو ابھی تک توحیدِ شہودی کا قائل اور توحیدِ وجودی کا منکر کہتے آرہے ہیں اور ان کے اصلی نظریات اور مقامات بتانے سے ہچکچارہے ہیں۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے!! حق یہ ہے جیسا کہ قبل ازیں بھی بندہ ذکر کرچکا ہے کہ حضرت حق جل مجدہ نے اپنی خصوصی تربیت سے دوسرے ہزار سال کے مجدد بنانے کے لیے امام ربانی ؒ کی جس نہج پر تربیت فرما کر کمالاتِ نبوت اور اس سے بھی بالاتر مقامات پر امام ربانیؒ کو پہنچایا ہے ۔بعد میں آنے والے اکثر مشائخ کی ان مقامات تک رسائی نہیں ہوسکی ۔ کمالاتِ ولایت رکھنے کی وجہ سے اتحاد یا ظلیت کی نسبت ان سے منقطع نہیں ہوسکی۔ چنانچہ ان مشائخ کے جذباتی اور نا سمجھ معتقدین ان کے نظریات کی تقویت کے لیے استشہاد کے طور پر امام ربانی ؒ اور شیخ اکبرؒ کو درمیان میں لاکر فضاء کو تلخ بناتے رہے ہیں۔ فیا للعجب!!
امام وقت حضرت خواجہؒ نے بالمشافہہ توحیدِ وجودی وشہودی کی بحث کے دوران یہ قصہ کم نصیب کو سنایا کہ امام الہند شاہ ولی اللہ ،ؒ امام ربانی ؒ کے توحیدِ وجودی وشہودی پر تحریرفرمودہ ایک مکتوب کو سمجھنے کے لیے خانقاہ مظہریہ میں شیخِ وقت مرزا مظہر جانجاناںؒ کے پاس تشریف لائے ۔مرزا صاحب ؒ عمر میں شاہ صاحب ؒ سے تین سال بڑے تھے اور شاہ صاحبؒ کا ان کے بارے میں اعتقاد، مضمون کے شروع میں بندہ نے تحریر کردیا ہے۔ خیر مرزا صاحبؒ نے مکتوب سمجھا دیا۔ شاہ صاحبؒ تشریف لے گئے۔ رات کو امام ربانی ؒ روحانی طور پر مرزا صاحب کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ شاہ صاحبؒ پوری طرح مطمئن نہیں ہوسکے۔ کل خود ان کے ہاں جا کر اچھی طرح سمجھا کر ان کی خلش دور کر کے ان کو اطمینان دلائیں۔ چنانچہ مرزاصاحبؒ حسبِ حکم تشریف لے گئے اور مزید وضاحت فرمادی۔
چند ساتھیوں کے اصرار پر بندہ نے توحیدِ وجودی وشہودی کے موضوع پر جتنا کچھ تحریر کیا ہے؛ میرے خیال میں ذوق، شوق اور بصیرت رکھنے والوں کے لیے سرِدست اتنا ہی کافی ہے اور نہ سمجھنے کی نیت رکھنے والوں کے لیے شاید دفتروں کے دفتر بھی بے کار ہوں ۔
بس کنم خود زیر کاں را ایں بس است
امام وقت حضرت خواجہ ؒ کے گزشتہ مکتوب کے عرصہ بعد بندہ نے مزید کچھ استفسارات بذریعہ خط حضرت خواجہ ؒ سے کیے توحضرت خواجہ ؒ نے یہ مکتوب جواباً تحریر فرمایا۔ یہ بھی من وعن نقل کیا جارہا ہے :
’’مکرم ومحترم مولانا رشید الحق صاحب! مطالعہ فرماویں کہ سفرِحج سے واپسی کے بعد آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا۔ واپسی کے بعد سفر کی تھکان اور احباب کی کثرت سے آمد ورفت نے ڈاک دیکھنے کا موقعہ نہ دیا۔ بعد میں دیگر مصروفیات نے گھیر لیا۔ تاآنکہ (ربوہ) صدیق آباد کا نفرنس کا وقت آگیا۔ وہاں کانفرنس کے موقعہ پر کسی صاحب نے ایک لفافہ ہاتھ دے دیا۔ وہ لفافہ ہفتہ عشرہ کے بعدکھولنے اور پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس فقیر کو ایسی ایسی مصروفیتوں سے اچانک اور بے ارادہ واسطہ پڑ جاتا ہے کہ جس کا وہم وگمان نہیں ہوتا۔ بہر حال آپ کے گرامی نامے ایسے ویسے تو تھے نہیں، کہ قلم برداشتہ جواب لکھ دیا جاتا!؛اس لیے جواب میں تاخیر ہوتی رہی۔
آپ نے صدیق آباد ملنے والے گرامی نامہ میں فقیر کے ایک ساتھی کا ذکر کیا ہے؛ ان کے جواب اور مضمون کو ذہن میں نہ رکھیں۔ عفو اور درگزر ہی بہتر ہے ۔آپ کے گرامی نامہ میں والدہ مرحومہ کے انتقال کا درج تھا۔ جس سے افسوس ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ پاک مرحومہ کی مغفرت فرماویں اور ان کو اپنی قبر میں جنت کی اسائشیں اور راحتیں عطا فرماوے اور آپ سب کو اس صدمے کا اجر عظیم عطا فرماویں اور صبر وسکون کرامت فرماوے۔ آمین
۱۔ حضر اتِ مشائخ نقشبندیہ مجددیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرارھم کے ہاں اور فقیر کے خیال میں جملہ صوفیائے عظامؒ کے ہاں قوتِ متخیلہ کوئی چیز نہیں ۔یہ معقولیوں کی وضع کردہ ایک اصطلاح ہے۔ شریعتِ مطہرہ اور حضرات صوفیائے کرام کے ہاں فہم وادراک کے دو محل، جسدِ عنصری میں اللہ تعالی نے اپنی حکمتِ بالغہ کے پیش نظر مقرر فرمائے ہیں۔ ایک قلب اور دوسرا نفس۔ لہٰذا شریعتِ مطہرہ میں قلب کی کیفیت تصدیق، اذعان، یقین کے طور پر آتے ہیں اور نفس کے متعلق بھی امّارہ، لوّامہ اور مطمئنہ کے الفاظ سے اس کی کیفیات کا بیان ہوتا ہے۔ ان دو محلِ فہم وادراک میں اوّلیت قلب کو حاصل ہے اور نفس ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔
لہٰذا مشائخ عظام حضرات نقشبندیہ مجددیہ نے خطرات ووساوس کا محل پہلے قلب کو قرار دیا ہے۔ لہٰذا فرماتے ہیں کہ اول اول خطرات ووساوس کا محل قلب کا جو ف ہے۔ ذکر واذکار کی برکت سے اور اپنے شیخ کی توجہات کی بدولت خطرات و وساوس جوفِ قلب سے ہٹ جاتے ہیں اور قلب پر وارد ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔پھر قلب سے ہٹ کر حوالئِ قلب پر آتے ہیں۔ پھر یہ خطرات و وساوس دماغ پر وارد ہوتے ہیں۔ یہی دماغ، نفس کا محل ہے۔ پھر محنت اور ریاضت اور ذکر کی برکت سے خطرات و وساوس دماغ سے بھی مرتفع ہوجاتے ہیں۔ پھر کہاں وارد ہوتے ہیں؟! یہ مسئلہ بڑامعرکۃ الآراء ہے۔کیونکہ انسان جب تک بشریت کے لبا س میں رہتا ہے؛ خطرات و وساوس کا واردہونا لازمی ہوتا ہے۔ ذکر واذکار کی برکت اور شیخ کی توجہات اور ریاضت ومجاہدہ کے ثمرات میں خطرات ووساوس کا محل بدلتا رہتا ہے اور ان کے موذی اثرات سے انسانِ ذاکر وسالک محفوظ رہتا ہے ۔
سالک جب ذکر واذکار کا طریقہ اختیار کرتا ہے اور جب سالک کا باطن ذکر الہٰی سے مانوس ہوجاتاہے تو پہلے ذکر کے دوران سالک پر عدمیت کی کیفیت وارد ہوتی ہے۔ اس عدمیت کامطلب یہ ہے کہ سالک اپنے آپ کو اور اپنے و جود کو معدوم محسوس کرتا ہے۔ جب ذکر کے دوران یہ کیفیت وارد ہو تو اس وقت سالک ذکر بند کردے اور اس کیفیت کی طرف متوجہ رہے۔ جب یہ کیفیت چلی جائے تو پھر ذکر شروع کردے۔ ابتداءً یہ کیفیت لمحوں کی صورت میں آتی ہے اور آہستہ آہستہ بڑھنی شروع ہوجاتی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سالک ہمہ وقت اپنے آپ کو معدوم پاتا ہے۔ اس کیفیت کو عدمیت کے ساتھ تعبیر کرتے ہیں۔
اس کے بعد تجلی فعلی کا ورود ہوتا ہے۔ تجلی فعلی کامطلب یہ ہے: اپنے فعل وہرحرکت کو اور عمل کو سالک اپنی طرف منسوب نہیں کرتا۔ جب اس کیفیت کو پختگی حاصل ہوتی ہے تو اس کے بعد وساوس وخطرات میں کمی محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ وساوس وخطرات قلب سے بالکل مرتفع ہوجاتے ہیں اور فنائے قلب کے اثرات شروع ہوجاتے ہیں۔ فنائے قلب کے رسوخ کے لیے’’ مدت مدیدہ‘‘ درکار ہے جیسا کہ حضرت مرزامظہر جانجاناں شہید ؒ کا ارشاد آپ نے تحریر فرمایا ہے۔بہرحال فنائے قلب کے لیے حضور ویادداشت لازمی ہے اور ان کے بغیر فنائے قلب متصور نہیں۔
۲۔ فنائے نفس تو تمام لطائف کی فنا کو متضمن ہے ۔یہ صحیح ہے ،لیکن فنائے قلب بغیر فنائے نفس کے متصور ہے۔ لیکن صرف لطائف کے ذاکر ہوجانے سے فنا متصورنہیں ہوتی۔ لطائف عشرہ کے بعد مشائخ عظام ؒ نفی و اثبات کا ذکر کراتے ہیں۔ اس کے بعد ولایتِ صغری کے مراقبات شروع کرواتے ہیں۔ ان مراقبات کے دوران فنائے قلب کا عمل بھی ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ انعام فرماتے ہیں۔ ذکر واذکار کے نتیجہ میں جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ہوتا ہے وہ وہبی ہے۔ البتہ اس کے ذرائع کسبی ہیں ۔بعض سالکین کو ذکر واذکار کرتے کرتے مدتیں گزر جاتی ہیں کچھ بھی احساس نہیں ہوتا ۔ایسے سالکین کے لیے ان کا شیخ اگر صاحبِ کشف ہے ،تو وہ شیخ اپنی صوابدید کے مطابق تربیت کرتا ہے۔
۳۔ حضرت مرزا مظہرجانجاناں شہید رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان کہ: سلوکِ مقامات عنقریب مسدود ہوجاوے گا !! اس کا مطلب حضرت شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ لیا ہے کہ یہ فرمان اپنے انتقال کی طرف اشارہ ہے۔
حضرت شاہ غلام علی دہلوی ؒ حضرت مرزا مظہر جانجاناں شہید رحمۃ اللہ علیہ کے سجادہ نشین ہے اور اپنے دور میں اس سلسلے کے امام ہیں اور تمام ممالک اسلامیہ میں حضرت کے خلفاء موجود رہے ہیں اور ہندوستان میں اُس دور میں حضرت شاہ صاحبؒ کے ہم پلہ کوئی شیخ نہیں تھا ۔اس کے باوجود حضرت شاہ غلام علی شاہ دہلویؒ تحریرفرماتے ہیں :
’’ بدانکہ ایں ولایاتِ ثلاثہ وایں کمالاتِ ثلثہ وحقائقِ سبعہ ودیگر مقامات، ہمہ متوسلان ایں خاندان شریف رامیسر نیست۔ بعضے بولایتِ کبریٰ و قلیلے بہ کمالات ثلاثہ، ونادرے بحقائق سبعہ وجز آں فائز می شود۔ ازیں است کہ درحالات وتاثیرات ایں عزیزاں تفاوت ھااست کہ حالات وعلوم ہرمقام جدا است‘‘
حضرت مرزا صاحبؒ کے کلام کا مطلب بھی یہی لیاجاسکتا ہے کہ ان مقامات کی پوری پوری تکمیل والے حضرات قلیل ہوں گے، اکثر اس راہ پر چلنے والے ان مقامات پر فائز نہیں ہونگے۔
۴۔ حضرت مرزا مظہرجانجاناں شہید رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فرمان جو آپ نے تحریر فرمایا ہے: تیس سال سلوک کے اور پنتیس سال تسلیک کے گزر چکے ہیں ۔ یہ فرمان حضرت نے اپنی بے نفسی کی بنا پر فرمایا ہے۔ لیکن ہر مقام کے بیشمار مدارج ہیں ،ممکن ہے فنائے قلب کے اعلیٰ وارفع مقامات مراد ہوں۔
۵۔ ’’ قطب ‘‘ و ’’ فرد‘‘ اور ’’ اوتاد‘‘ وغیرہ ایک علیحدہ شعبہ ہے۔ یہ تکوین کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے کیا کیا شرائط مقرر فرمائے ہوئے ہیں، فقیر کو اس کا کوئی علم نہیں ۔
آپ کے سوالات معمولی اور تمہیدی نہیں، یہ بڑے مشکل سوالات ہیں۔ معلوم نہیں آپ کی اس جواب سے تسلی ہوگی یانہیں۔
’’دلائل الخیرات‘‘ کی فقیر کی طرف سے اجازت ہے ۔اللہ تعالی باعث برکت کرے۔ آمین۔ ہمارے مشائخ ’’دلائل الخیرات‘‘ تنہا نہیں تلاوت فرماتے تھے۔ پہلے قرآن پاک کی تلاوت کی ،اس کے بعد اس روز کی ’’دلائل الخیرات‘‘ کی ایک منزل تلاوت کرلی۔ برکت کے لیے تعویذ جو یہاں معمول ہے وہ اصحاب کھف والا تعویذ ہے اور یہ تعویذ’’تذکرۃ الرشید‘‘ کے آخر میں درج ہیں۔ اس کی بھی اجازت ہے اللہ تعالی باعث برکت کرے ۔ آمین۔ آمدن میں برکت کے لیے اپنے مشائخ موسیٰ زئی شریف کا ایک درود شریف معمول ہے، وہ اپنی سہولت کے ماتحت ایک تعداد مقرر کرلیں اور اس کو ہمیشہ جاری رکھیں: ’’اللّھم صلِّ علیٰ سیدنا محمد و علی آل سیدنا محمد أفضل صلواتک بعددِ معلوماتِک وبارِک وسلِّم یہ ہے ۔
فقیر جواب میں تاخیر کی معافی چاہتا ہے ،فقیر کی طرف سے سب کو سلام مسنون۔ والسلام‘‘
یہ طویل پُرمغز اور دریا بکوزہ بند مکتوب ،حضرت خواجہ ؒ نے اپنی وفات سے بائیس (۲۲) سال قبل تحریر فرمایا ہے۔
حضرت خواجہ ؒ نے اپنے مکتوب میں بعض سالکین کے باوجود مدت مدیدہ تک ذکر واذکار کے متاثر نہ ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔اس عدمِ تاثیر کے اسباب پر قدرے روشنی ڈالتا چلوں:
جیسے کہ دین ودنیا کے ہر علم وفن میں اسباب ،شرائط اور موانع ہوا کرتے ہیں ۔اسی طرح تصوف میں بھی بے شمار موانع ہیں۔گناہ کا مانع ہونا تو ظاہر ہے لیکن بعض عمل باوجود گناہ نہ ہونے کے، بلکہ باوجود سراسرنیکی اور خیر ہونے کے بھی مطلقاً مانع ہوتے ہیں۔ چنانچہ تین آدمی اس فن میں ایسے ہیں جو پوری طرح فنِ تصوف میں ترقی نہیں کرسکتے۔ فنا فی اللہ کا مقام تو ان تینوں کو بالکل حاصل نہیں ہوسکتا :
۱۔ ایسا آدمی جس پر’’لطیفہ خیالیہ‘‘ یا’’ ادراکیہ‘‘ یا’’ قوتِ تمیز‘‘ غالب ہو اور وہ ان ہی کے اشارہ پرچلتا ہو، مقام فنا فی اللہ حاصل نہیں کرسکتا؛ کیونکہ فنا فی اللہ کا مدار تقلید، اعتقاد اور عشقِ شیخ پر ہے اور ایسا آدمی اپنی خود رائی کی وجہ سے اس سے محروم رہتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ مقام صفاء حاصل کرسکتا ہے اور اصلاح یا فتہ ہوسکتاہے۔
۲۔ایسا آدمی جو کثیرالمطالعہ ہویا انہماکِ علمی رکھتا ہو، مقام فنا فی اللہ حاصل نہیں کرسکتا بلکہ ابتدائی تاثر بھی بڑی مشکل سے حاصل کرسکتا ہے۔ خواہ کثر ت مطالعہ اور انہماک علمی تدریس کے رنگ میں ہو یا تصنیف کے لیے یا محض شوقیہ ہو۔ اسی لیے صاحبِ فن مشائخ کرام بوقتِ بیعت ایسے آدمی کے لیے مطالعہ اور کتب بینی پر پابندی لگادیتے ہیں !وجہ اس کی یہ ہے کہ حضرتِ انسان عبارت ہے بہیمیت اور مَلَکیت سے ۔کثرتِ مطالعہ یاانہماکِ علمی قبل از فنا سے حیوانیت میں مزید ترقی ہوتی ہے بلکہ کثرت مطالعہ علامت ہی کسی بھی شخص کے قوی الحیوانیت ہونے کی ہے ۔جبکہ فنا فی اللہ، حیوانیت کے ضعیف ہوئے بغیر اورمَلَکیت کے قوی ہوئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اور دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ فنا فی اللہ ،احدیتِ صَرفہ کی طرف عرصہ دراز کی دائمی توجہ چاہتی ہے ،جبکہ کثرتِ مطالعہ اس دائمی توجہ سے مانع ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے:
در کنز و ہدایہ نتواں یافت خد ا را
آئینہ دل بیں کہ کتابے بہ ازیں نیست
مشہور ہے کہ ایک شیخ الحدیث صاحب شیخ الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ سے بیعت ہونے گئے۔ساتھ ہی اپنے دو تین مقتدیوں کو بھی لے گئے۔ چنانچہ حاجی صاحبؒ نے سب کو بیعت فرما کر لطیفہ قلب پر ذکر کا سبق عنایت فرمایا اور تین ماہ کرنے کا حکم دیا۔ تین ماہ بعد جب سب حاضر ہوئے تو شیخ الطائفہ نے عوام الناس مقتدیوں کو دوسرا سبق عنایت فرما دیا، لیکن شیخ الحدیث صاحب کو فرمایا کہ وہی پہلا سبق کرتے رہے۔ پھر تین ماہ بعد آنے کا کہا۔ ظاہر ہے شیخ الحدیث صاحب نے محسوس کیا ہوگا کہ عوام آگے نکل گئے، میں پیچھے رہ گیا۔ اتفاق سے تین ماہ بعد پھر اکھٹے حاضر ہوئے تو حاجی صاحب ؒ نے عوام کو تیسرا سبق عنایت فرمایا ا ور شیخ الحدیث صاحب کو حسب سابق اسی سبق اول کا حکم دیا۔ شیخ ؒ الحدیث صاحب اس دفعہ ذہنی طور پر تیار ہو کر تشریف لائے تھے کہ اگر وہی سبق ملا تو احتجاج کروں گا !!چنانچہ عرض کی کہ یہ تو میں بھی سمجھتا ہوں کہ مجھ پر سبق نے اثر نہیں کیا؛ اسی لیے اگلا سبق نہیں ملتا۔یاتو ہر دفعہ حضرت یوں ہی فرماتے رہیں گے کہ اسی سبق کو کرو!! اور یا پھر اس عدمِ تاثر کا حل فرمائیں؟ حاجی صاحب ؒ جہاندیدہ کامل العقل شیخ تھے۔ ان کا رسمی عالم نہ ہونا سب کومعلوم تھا۔ اس لیے بخاطر مصلحت فرمایا کہ رشید احمد کے پاس چلے جائیں۔ چنانچہ شیخ الحدیث صاحب حضرت گنگو ہیؒ کے پاس پہنچے۔ آمد کی وجہ پوچھنے پر سارا قصہ بتا دیا۔ حضرت گنگو ہی ؒ نے فرمایا کہ تین ماہ بخاری شریف اور ترمذی شریف پڑھانا موقوف رکھیں اور سبق یہی پہلا جاری رکھیں۔ یہی بات حاجی صاحب بھی فرمانا چاہتے تھے، لیکن ان کے فرمانے سے مفاسد پیدا ہوسکتے تھے۔ اسی لیے حضرت گنگو ہی ؒ کے حوالے فرمایا۔ حضرت گنگوہی چونکہ خود بھی حدیث پڑھاتے تھے، ان کے فرمانے میں مفاسد نہ تھے۔ چنانچہ شیخ الحدیث صاحب اس عرصے میں ذکر سے متاثر ہونے لگے۔
غرض یہ کہ حدیث شریف خصوصاً بخاری شریف پڑھانے کے انتہائی اعلیٰ نیک عمل ہونے میں کسی کو شک وشبہ نہیں لیکن ہر فن کے اپنے اصول ہیں، انہی پر کاربند رہنا پڑتا ہے۔
۳۔ کثیر العبادۃ الظاہرۃ: ظاہری عبادت مثلاً نما ز،نفل، تلاوت، درود، استغفار، غرض یہ کہ لسانی اور قالبی عمل کی کثرت رکھنے والا، فنافی اللہ حاصل نہیں کرسکتا۔ اسی لیے مشائخ بیعت کرنے والوں کو سوائے فرائض، واجبات اور سنن موکدہ کے تمام اعمال ظاہرہ سے منع فرمادیتے ہیں ۔سوائے ذکر کے سب عبادتیں ممنوع ہوجاتی ہیں۔
عبادت ظاہرہ اگر چہ ملکیت کو بڑھاتی ہے ،لیکن یہ عبادت ظاہرہ، باطن کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے محض رسمی ہونے کی بنا پر ملکیت ضعیفہ پیدا کرسکتی ہیں۔ جبکہ فنا فی اللہ کے لیے ملکیت قویہ درکار ہے اور نیز عبادات ظاہرہ اس سٹیج پر اپنے اندر مشغول رکھنے کی وجہ سے ’’احدیت صرفہ‘‘کی طرف دائمی توجہ سے مانع ہوتی ہیں۔
بارہ تیرہ سال قبل اسلام آباد میں ایک بزرگ عالم تشریف لائے ،مجھ نالائق سے ملاقات کی خواہش کاپیغام بھیجا۔ چنانچہ بندہ نے ظہرکی چائے میں دعوت دے دی۔ تشریف لائے، نحیف ونزار ،سن شریف نوے (۹۰) سے تقریبا متجاوزتھا۔ معلوم ہوا کہ دیوبند کے فاضل ہیں۔ ۱۹۳۵ء میں فراغت ہوئی۔ فراغت کو بھی باسٹھ تریسٹھ سال ہوچکے تھے۔ خیر باتوں باتوں میں بندہ نے روحانی نسبت کا پوچھ لیا۔ مسکرانے لگے !فرمایا کہ بیعت تو رسمی سی عرصہ دراز قبل شیخ العرب والعجم حضرت مولانا عبدالغفور مدنی ؒ سے کی تھی، لیکن ذکر سے میں ذرا بھی متاثر نہیں ہوسکا۔ بندہ نے عرض کی کہ اپنے شیخ سے رابطہ کرکے عرض کردیتے۔ فرمایا کہ وہ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے؛ البتہ کافی عرصہ بعد حج پرجانا ہوا تو وہاں عرض بھی کردی کہ میں ذکر سے متاثر نہیں ہوسکا۔ حضرت نے شفقت فرمائی اور رات کو اپنے حجر ہ خاص میں ٹھہرنے کا فرمایا۔ خصوصی توجہ بھی فرمائی اور رات کو اپنی خاص چارپائی پر سونے کا فرمایا، لیکن دونوں باتوں سے میں متاثر نہ ہوسکا! صبح عرض کرنے پر دوبارہ توجہ فرمائی، لیکن بے سود؛ چنانچہ بندہ نامراد واپس ہونے لگا ،تو فرمایا کہ پوری زندگی میں دو آدمی میری توجہات سے متاثر نہیں ہوسکے۔ ایک’’ تم‘‘ اور دوسرا’’ کوئی اور‘‘۔ اس کے بارے میں فرمایا کہ وہ بہت عبادت گزار تھا۔
بندہ راقم الحروف نے عرض کی کہ آپ کے عد مِ تاثیر کی کوئی وجہ بیان نہیں فرمائی؟کہنے لگے نہیں۔میں نے عرض کی کہ وہ وجہ میں بیان کر دوں؟!! فرمانے لگے : ضرور بیان کریں۔ بندہ نے عرض کی کہ آپ کثیر المطالعہ ہیں۔ مولانا باوجود نحیف ونزار بوڑھے ہونے کے اچھا خاصا اچھل پڑے! اور فرمایاکہ اوہو !میں تو واقعی کتا بی کیڑا ہوں!! میری ساری زندگی اسی مطالعے میں ہی گزر گئی ہے اور لوگ بھی مجھے کتابی کیڑا ہی کہتے ہیں ۔
غرضیکہ بہت سے اچھے کام بھی اس لائن کے موانع میں سے ہیں۔ البتہ اتنا فرق ہے کہ تینوں آدمیوں میں سے اوّل الذکر مطلقاً فنا فی اللہ کی استعداد نہیں رکھتا،لیکن کثیر المطالعہ وکثیر العبادۃ عرصہ دراز تک علی حسب الاستعداد والریاضۃ ان کاموں کو چھوڑنے سے استعد اد حاصل کرسکتے ہیں۔ کہیں مولویان کرام مجھ نالائق پر فتویٰ ہی نہ جڑدیں کہ یہ امت کو کدھر لے جا رہا ہے !! خدانخواستہ ایسی بات نہیں۔ میں تو ذکر و فکر کی محنت کے تھوڑے عرصے میں رنگ لانے کا اصول بیان کررہا ہوں تاکہ :
آنچہ دانا کُند کند ناداں
لیک بعد از خرابی بسیار
کا مصداق نہ بنے!!
اگر لوگ خفانہ ہوں توخد ا لگتی کہہ دوں:کہ تمام انبیاء علیم الصلوات والتسلیمات اور انکے برگزیدہ اصحاب کرام کی نسبت کی بلندی کی ایک خاص وجہ مطالعہ اور اسباب مطالعہ کا فقدان تھا۔ وہاں تو سراسر عمل، اخلاص ،روحانیت تھی ۔
حاصل کلام یہ کہ فنا فی اللہ سے قبل کثرت مطالعہ وعبادۃ ظاہرہ موانع میں سے ہیں۔ ہاں! ایساآدمی جو فنا وبقا حاصل کرچکا ہو، اس کو کثرتِ مطالعہ کتبِ شریعہ خصوصاً کتبِ حدیث وتفسیر کا مطالعہ، اسی طرح عبادۃظاہر ہ کی کثرت بھی سراسر ترقی بخش ہے ۔غرض یہ کہ’’ جائے استاد خالی است ‘‘کے بموجب ہرفن استاد سے ہی سیکھنا پڑتا ہے اور یہ اصول وضوابط کے تحت ہی ہوسکتا ہے۔
حضرت خواجہؒ نے آخری خط اپنی وفات سے دس سال قبل مجھ نالائق کو تحریر فرمایا ۔بندہ ایک دفعہ اپنے شاگردِ خاص مریدِ خاص مولوی نیاز احمد شاہ صاحب سے اس کی مسلسل نالائقیوں کی وجہ سے ناراض ہوا اور مجلس میں حاضر ہونے پر پابندی لگا دی ۔ انہوں نے بڑی چالاکی سے حضرت خواجہ ؒ کے دامن عاطفت سے سفارش چاہی تو حضرت خواجہ ؒ نے اس کی عرض قبول فرماتے ہوئے مجھ نالائق کو مکتوب تحریر فرمایا۔ اس مکتوب کے وقت یہ نالائق اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود ،عرفِ عام میں چونکہ’’ شیخ صاحب‘‘ کے نام سے مشہور ہوچکا تھا۔اس لیے حضرت خواجہؒ نے اسی عرف کا لحاظ فرماتے ہوئے اسی لقب سے یاد فرمایا ہے۔ خط کیا ہے، باوجود اختصار کے’’ ہم نے ہر ادنی کو اعلی کردیا‘‘ کا مکمل عکاس ہے ؛من وعن نقل کیا جارہا ہے:
’’بگرامی خدمت جناب محترم شیخ صاحب زید مجدکم!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سلام مسنون کے بعد گزارش ہے کہ حاملِ رقیمہ ہذا نیاز علی شاہ صاحب جناب کے مخلص خادم حاضر ہورہے ہیں۔اپنی شفقتوں سے اُن کو سرفراز فرماویں۔ اللہ تعالیٰ اجر عظیم عطا فرماویں گے اور فقیر دل وجان سے شکر گزار ہوگا۔‘‘
ان آخری دس سالوں میں حضرت خواجہؒ نے رفتہ رفتہ اپنی پیرانہ سالی کمزوری اور بیماری کی بنا پر خط وکتابت ترک فرمادی تھی۔ ورنہ بہت ساری اہم فنی باتیں پوچھنے کے قابل تھیں۔ جن کاجواب صرف حضرت خواجہ ؒ ہی عنایت فرما سکتے تھے:اے بسا آرزو کہ خاک شدہ اور ساتھ ہی خاموشی بھی بہت بڑھ چکی تھی۔ تجلیات عالیہ عظیمہ کی بناپر ،باوجود شفیق ہونے کے ھیبت وجلال محسوس ہونیکی بنا پر زبانی بھی پوچھنے کی ہمت نہ ہوسکتی تھی۔
پیشِ جاناں قوت گفتار بودے کا شکے
سانحۂ وفات
حضرت خواجہ ؒ کی وفات سے دو دن قبل بندہ نے ایک خواب دیکھا : دفعۃً ذہن حضرت خواجہؒ کی وفات کی طرف منتقل ہوا۔ دل دھک سے رہ گیا!! فوراً خانقاہ شریفہ رابطہ کیا لیکن نہ ہوسکا۔ چنانچہ اسلام آبادمیں حضرت کے میزبان حاجی یعقوب صاحب سے معلوم ہوا کہ حضرت واقعی بیمار ہیں اور ملتان میں سیال کلینک میں زیر علاج ہیں۔ اعتقادِ روحانی بھی عجیب چیز ہے!!بندہ نے خواب اور اپنی پریشانی کا ابھی تک کسی سے اظہار بھی نہیں کیا تھا۔ کہ اُسی رات بقول معتقدین : بند ہ نے ایک قریبی مرید ومعتقد کو خواب میں بتایا کہ حضرت خواجہؒ وفات پاچکے ہیں! دیکھنا جنازے سے رہ نہ جانا۔جبکہ دوسرے معتقد کو کہا: کہ تین بجے جنازہ ہے، سب ساتھیوں کو بتا دو اور سب جنازے پر پہنچنے کی فکر کریں اور بندہ کے ایک مرید کو جو بیرون ملک قیام پزیر تھا؛ حضرت خواجہ ؒ نے خود خواب میں فرمایا : کہ میں ایک ہفتے بعد وفات پارہا ہوں جنازہ پرپہنچنا: چنانچہ وہ ہفتے بعد بدھ کی شام لاہور ائر پورٹ پر پہنچا اور اگلے دن سیدھا جنازہ پر حاضر ہوا۔سچ ہے:
ما شما را بہانہ ساختند
چنانچہ خواب کے دو دن بعد شام کو کھانے کے بعد مدرسہ کے مدرس قاری زاہد صاحب نے اپنا موبائل فون بندہ کے سامنے کردیا۔ جس میں امام وقت حضرت خواجہؒ کی وفات کی وحشت ناک خبر تھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
دنیا کے طول وعرض میں یہ خبر سب معتقدین پر بجلی بن کر گری۔لیکن چونکہ آنحضرت جل سلطانہ کا نظام ہی ایسا ہے صبر کے بغیر کوئی چارہ نہیں!!
خنک روزے بود یا بیم اگر خضر ہدایت را
کہ راہوارِ یقین ما بصحرائے گمان گم شد
اگلے دن احباب کے ساتھ جنازے پر حاضر ہوا تو انسانی سروں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر،’’ عاشق کا جنازہ ہے ذرادھوم سے نکلے‘‘ کا سماں پیش کر رہا تھا۔ جنازے کے بعد بچشم گریاں ودل بریاں سر پر خا کِ محرومی ڈالتے ہوئے واپسی ہوئی۔ حیات عنصری میں اب شوقِ دیدار ہمیشہ بے کل ہی رکھے گا!!
مئے وصل نیست وحشی بخمارِ ہجر خو کن
کہ شرابِ نا امیدی غم دردِ سر ندارد
حضرت خواجہ ؒ کی وفات و حسرتِ آیات سے عالمِ اسلام کا اتنا بڑا عظیم نقصان ہوا ہے ، کہ قطع نظر رسمی الفاظ کے عالمِ اسباب میں اس کی تلافی یقیناًناممکن ہے۔ حضرت حق جل مجدہ حضرت خواجہؒ کے ساتھ یقیناان کے شایانِ شان سلوک فرمائیں گے اور مقعدِ صدق کے مقامِ عالی سے سرفراز فرمائیں گے۔ ہم پسماندوں کو حضرتِ حق، حضرت خواجہؒ کی نسبت کے طفیل اپنے قرب ومعرفت سے بہرہ ور فرمائیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائیں۔ آمین
مکاشفہ
حضرت خواجہؒ کی وفات کے دو چار دن بعد راقم الحروف کے ایک قریبی صاحبِ کشف مرید و معتقد نے مکاشفہ میں دیکھا :کہ راقم الحروف نے حضرت خواجہؒ سے پوچھا کہ حضور برزخ میں کیسی رہی؟ تو حضرت خواجہؒ نے فرمایا کہ خلاف توقع رہی۔ میرا خیال تھا کہ قبر میں حسب معمول مجھ سے سوال وغیرہ ہوگا ؛لیکن قبر میں ڈالے جانے کے ساتھ ہی قبر تاحد نگاہ فراخ ہوگئی۔ جنت کی کھڑکی کھول دی گئی۔ منکر نکیر کی بجائے دو فرشتے بطور خادم کے بھیجے گئے کہ جو خدمت ہو ،ان سے فرمادیں ،بجا لائی جائی گی۔ تمام مشائخ کرامؒ نے میرا استقبال کیا اور خاص ’’لَے‘‘ میں سب نے میرے آنے کی خوشی میں اسمِ ذات کا جہری ذکر کیا، اور میری آمد پر برزخ میں مشائخ نے تین دن جشنِ خوشی منایا۔ تین دن کے جشن کے بعد خواجہِ کائنات حضرت ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دربارعالی میں بلایا ،میں حاضر ہوا؛ تو حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے ختمِ نبوت کے کام کے طفیل مجھ پر توقع سے زیادہ عنایات فرمائیں اور اب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی ہوتاہوں۔
کشف وکشوف اگر چہ کوئی شرعی حجت نہیں، لیکن اس میں کوئی بات خلاف شرع بھی نہیں ۔میرا اعتقاد ہے کہ یقیناًایسا ہی بلکہ اس سے بھی بہت اعلیٰ معاملہ حضرت حق جل مجدہ نے حضرت خواجہؒ کے ساتھ فرمایا ہوگا۔ آنحضرت جل سلطانہ ہمیں حضرت خواجہؒ کی ہمہ قسم، خصوصی طور پر روحانی برکات دائمی طور پر نصیب فرمائیں۔ آمین یارب العالمین والحمد للہ رب العالمین۔
اسلامی بینکاری: زاویہ نگاہ کی بحث (۲)
محمد زاہد صدیق مغل
اسلامی بینکاری بطور حکمت عملی اور انداز فکر
پھر اسلامی بینکاری کے نام پر جس شے کو ’تبدیلی کی حکمت عملی‘ کے طو پر اختیار کر لیا گیا ہے اس کی نوعیت پر غور کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ اس بحث سے یہ اندازہ لگانا بھی ممکن ہوجائے گا کہ آیا اسلامی بینکاری کو فروغ دینے والے حضرات بذات خود اسے مجبوری سمجھتے بھی ہیں یا نہیں نیز اس کے ذریعے وہ کس نوع کی تبدیلی کی توقع رکھتے ہیں۔ کسی موجود نظام میں تبدیلی کے لیے برپا کی جانے جدوجہد کو حکمت عملی کے تین ادوار پر تقسیم کرکے سمجھا جاسکتا ہے، short run, middle run and long run (قریب یا قلیل، وسط اور طویل مدتی)۔ ان میں سے ہر دور کی حکمت عملی کے اپنے جدا گانہ تقاضے ہیں:
طویل مدت (Long Run)
حکمت عملی سے متعلق یہ وہ دور ہے کہ جس کے بارے میں آپ اپنی حتمی منزل کا تعین کرتے ہیں کہ آپ بالاخر کن مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں، یعنی طویل دور سے مراد وہ مقام ہے جہاں آپ اپنی قلیل اور وسط مدت میں اختیار کردہ طرز عمل و فیصلوں کے نتیجے میں پہنچنے کی امید کرتے ہیں۔ طویل مدت کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ اس کے بارے میں حتمی مقاصد کے بیان اور ایک عمومی خاکے سے زیادہ کوئی بات طے کرنا قریب قریب ناممکن ہوتا ہے، یعنی یہ بات قابل از وقت طے نہیں کی جاسکتی کہ طویل مدتی معاشرتی و ریاستی صف بندی کیسی ہوگی کیونکہ اداری صف بندیاں افراد کے تعلقات کے نتیجے میں وقوع پزیر ہوتی ہیں جن پرا ن گنت عوامل اثر انداز ہوتے ہیں
قلیل مدت (Short Run)
نظاماتی تبدیلی کے لیے جدوجہد کرنے والی تحریکات کے لیے اپنی واقعیت کے اعتبار سے یہ اہم ترین دور ہوتا ہے کیونکہ عوام کی اکثریت دور اندیش نہیں ہوتی اور وہ اسی دور میں زندہ رہتی ہے۔ قلیل مدت سے مراد وہ فیصلے میں جو ہمیں فوری یعنی ’آج‘ اور ’ابھی‘ کرنے ہیں۔ مثلاً کیا اس سال ہمیں الیکشن میں حصہ لینا چاہئے یا نہیں، اگر ہاں تو کسی پارٹی کے ساتھ ملکر یا اپنے طور پر، بینکاری نظام کے بارے میں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہئے، ہمیں اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہڑتال کرنی چاہئے یا اسلحہ اٹھا لینا چاہئے وغیرہ وغیرہ اور اس نوع کے بے شمار فیصلے، اہم بات یہ کہ ان امور کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کرنا بھی بذات خود ایک فیصلہ ہے۔ عام لفظوں میں اس دور کو پنجابی زبان کے محاورے ’ہن کی کرئیے‘ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ قلیل مدت فیصلوں کی نوعیت سمجھنے کے لیے اس سے متعلق دو خصوصیات ذہن نشیں رہنا چاہئیں: اول یہ وہ دور ہے جہاں ہم اپنی واقعیت اور ماحول (facticity and environment) پر اثر انداز ہو کر اسے تبدیل نہیں کرسکتے، بلکہ وہ ایک حقیقت واقعہ کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہوتا ہے اور ہمیں اس موجود ماحول کے اندر رہتے ہوئے ہی کوئی فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ دوئم یہی وجہ ہے کہ اس دور میں ہم ہمیشہ ’کم تر شر‘ کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دو افراد یا تحریکات کے درمیان اپنے اپنے زاویہ نگاہ کی بناء پر اس امر میں تو اختلاف ہو سکتا ہے کہ فی الحال ’چھوٹی برائی‘ کیا شے ہے مگر یہ بات طے ہے کہ دونوں اپنے تئیں ’کم تر شر‘ ہی کو اختیار کرنے کی کوشش کررہے ہوں گے۔
وسط مدت (Middle Run)
طویل مدت مقاصد کے حصول اور اپنی نتیجہ خیزی کے اعتبار سے یہی دور سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ وسط مدت حکمت عملی کے اہم مراحل میں موجود نظام کے جبر کو کم کرنے کے لیے افراد کی مسلسل تعلیم و تربیت (جسے نئے سیاسی شعور سے تعبیر کرسکتے ہیں) اور متبادل ادارتی صف بندی (جسے تحریکی عمل بھی کہہ سکتے ہیں) کو وجود میں لانا شامل ہے۔ یہ وہ دور ہے جہاں اپنے فیصلوں کے ذریعے ہم ماحول کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ وسط مدت حکمت عملی میں فیصلہ کرنے کے اصول قلیل مدت سے متضاد ہوتے ہیں، یعنی اگر قلیل مدت میں ہم سمجھوتے پر مبنی فیصلے کرتے ہیں تو وسط مدتی حکمت عملی میں سمجھوتوں پر مبنی فیصلے کبھی نہیں کیے جاتے، بلکہ ان فیصلوں کی خصوصیت ہی یہ ہوتی ہے کہ انکا مطمع نظر اپنی واقعیت اور ماحول کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ ان تمام ادوار میں تعلق یہ ہے کہ قلیل مدت میں ایسے فیصلے نہیں کرنے چاہئیں جن کے بعد وسط مدتی حکمت عملی پر عمل کرنا ہی نا ممکن ہوتا چلا جائے اور بالآخر آپ نظام تبدیل کرنے کی پوزیشن ہی میں نہ رہیں بلکہ اس سے علی الرغم خود کو اسی نظام میں سمو لیں۔
پھر حکمت عملی کو سمجھنے کے لیے یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ کسی حاضر و موجود شے کو اختیار کرتے وقت اس کے ساتھ دو قسم کا رویہ اپنانا ممکن ہے: اول آئیڈئیل سمجھنے کا اور دوسرا Strategization یعنی بطور حکمت عملی اسے حتمی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کا۔ کسی شے کو بطور آئیڈئیل اور بطور Strategy استعمال کرنے سے دو مختلف قسم کا فکری لٹریچر اور طرز عمل وجود میں آتا ہے۔ اول الذکر رویے کے بعد اس اختیار کردہ شے کو اپناتے (own کرتے) ہوئے اسے ایک مقصد کے طور پر فروغ دیا جاتا ہے اور اس کے خلاف کسی انقلابی تبدیلی کی گنجائش باقی ہی نہیں رہتی، جبکہ دوسرے طرز عمل میں کسی شے کو اس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ بالآخر اسکی ضرورت ہی ختم ہوجائے، نہ یہ کہ وہ ہماری زندگی کا لازمی جزو بن جائے۔ مثلاً افغان جہاد میں امریکہ نے مجاہدین کے ساتھ جو تعلق استوار کیا وہ دوسری نوعیت کا تھا اور یہی وجہ ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ نے جہاد کی تعلیم اور مجاہدین کے مالی مسائل کے حل اور ان کی تربیت کرنے والے اداروں کے فروغ کے لیے دنیا بھر میں کوئی جال نہیں بچھاد یا بلکہ بذات خود انہیں مٹانے کے در پے ہو گیا۔
حکمت عملی کے اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اب ذرا اسلامی بینکاری کا جائزہ لیجئے۔ ماہرین اسلامی بینکاری کے نزدیک اس کے طویل مدتی مقاصد کیا ہیں یہ جاننے کے لیے انکے فکری لٹریچر کا مطالعہ بہت کافی ہے جس سے یہ بات عین روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ان حضرات کے نزدیک اسلام بھی ان مقاصد کے حصول کا ذریعہ بن سکتا ہے جنہیں موجودہ نظام اصل قرار دیتا ہے (اسی لیے یہ حضرات بینکنگ کا متبادل پیش کرتے ہیں اور ظاہر ہے متبادل کہتے ہی اسے ہیں جو ایک ہی مقصد کو کسی دوسرے طریقے یا ذریعے سے حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو)۔ ماہرین اسلامی معاشیات کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ مارکیٹ اکانومی پر مبنی موجودہ نظام اور اس کے مقاصد فطری انسانی تقاضوں کا جائز ارتقا ہیں، البتہ اس نظام میں چند عملی (operational) مگر قابل اصلاح نوعیت کی خرابیاں بھی ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اگر یہ مقدمہ و مفروضہ مان لیا جائے تو پھر موجود ہ نظام کے خلاف ہر قسم کی انقلابی (ریاست کے اندر تعمیر ریاست) اسلامی جدوجہد کا جواز کالعدم ٹھہرتا ہے کیونکہ اس بنیادی مقدمے کے بعد ان عملی خرابیوں کی اصلاح کے لیے کسی انقلابی جدوجہد نہیں بلکہ اصلاحی سیاست (reformist politics) و سرمایہ دارانہ علوم یعنی سائنسز (بشمول سوشل اور بزنس ) میں مہارت حاصل کرنے کی ضرورت رہ جاتی ہے، اور درحقیقت یہی ماہرین اسلامی معاشیات کی طویل مدت حکمت عملی ہے جسکے حصول میں وہ ہر دم کوشاں ہیں اور یہ حکمت عملی انکے قلیل اور وسط مدتی تمام فیصلوں سے عین عیاں ہے (۴) ۔ اسلامی معاشیات و فائنانس سے وابستہ افراد کا حتمی مطمع نظر موجود عالمی نظام زر کا خاتمہ نہیں بلکہ اسے فطری مان کر اس میں چند اصلاحات کا نفاذ ہے اور وہ بھی اس لیے کہ ان اصلاحات کے ذریعے سرمائے میں زیادہ بہتر انداز میں اضافہ ممکن ہوسکتا ہے ]یہی وجہ ہے کہ مجوزین اس امر (جو درحقیقت ان کی ’غلط فہمی‘ ہے) کو فخریہ طور پر بیان کرتے ہیں کہ گلوبل فائنانشل بحران میں اسلامی اصولوں پر چلنے والے بینک وغیرہ سب سے کم متاثر ہوئے، یعنی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام زر خود کو بحرانوں سے محفوظ کر سکتا ہے، فیا للعجب گویا اسلام باطل کا محافظ بننے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے[۔ اسلامی بینکاری، اسلامی بانڈز، اسلامی انشورنس وغیرہم کا حاصل صرف اور صرف مسلم ذرائع کو عالمی نظام زر میں شامل کرکے نفع خوری کو بڑھاوا دینا ہے۔ مجوزین اسلامی بینکار ی کے نزدیک قلیل مدت جبر سے مراد محض یہ ہے کہ فی الوقت انہیں عام بینکوں کے معیار سود کو اپنے شرح نفع کے لیے بطور معیار قبول کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ حکمت عملی کے درج بالا خاکے کے مطابق اسلامی بینکاری کا نقشہ کچھ یوں ہے:
- طویل مدتی حکمت عملی: موجودہ نظام زر کے مقاصد کو جائز سمجھتے ہوئے اسلامی طریقوں سے ان کا حصول۔
- وسط مدتی حکمت عملی: سرمایہ دارانہ علوم کی اسلام کاری اور اصلاحی سیاست کے ذریعے افراد کی فراہمی اور قانونی تبدیلیوں کو ممکن بنانا تاکہ اسلامی بینکاری پر بہتر طریقے سے عمل درآمد کرنا ممکن ہوسکے۔
- قلیل مدتی حکمت عملی: سودی نظام زر کے جبر کو جس حد تک کم اپنانا ممکن ہو اتنا ہی اختیار کیا جائے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ اسلامی بینکاری کے حامیین اور ہمارے درمیان باعث نزاع یہی قضیہ ہے کہ وہ موجودہ نظام کی اسلام کاری کو ممکن سمجھ کر اس کے ساتھ آئیڈئیل بنیادوں پر تعلق استوار کرتے ہیں اور یہی انکی حکمت عملی کی بنیادی غلطی ہے۔ ماہرین اسلامی معاشیات کی اس طویل مدتی حکمت عملی کو چند اکا دکا عبارتوں کا حوالہ دیکر ذائل کرنے کی کوشش کرنا اور یہ تاثر دینا کہ بذات خود اسلامی بینکاری کسی قلیل مدت حکمت عملی (جبر وغیرہ) کا شاخسانہ ہے دن کو رات کہنے کے مترادف ہے (جسکی ایک دلچسپ مثال ذیل میں ’خلوت و جلوت کے تضاد‘ کے تحت آرہی ہے)۔
خلوت و جلوت کا تضاد
اسلامی بینکاری کے مویدین اکثر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں اسلامی بینکاری کے حامی علمائے کرام بھی اسلامی بینکاری کے فروغ کو آئیڈئیل نہیں سمجھتے بلکہ اسے مجبوری وغیرہ کے درجے میں ہی اختیار کرتے ہیں، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر ان علماء کرام کی نجی محافل میں جب کوئی شخص ان سے سوال کرتا ہے تو تقوے کا لحاظ کرتے ہوئے اسے غیر سودی (اسلامی) بینکاری سے بچنے ہی کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اسلامی بینکاری کے فروغ کے حوالے سے ان علماء کرام کی ’نجی حکمت ‘ عملی کیا ہے یہ تو ہمیں معلوم نہیں کیونکہ اس کے لیے ثقہ و غیر ثقہ راویوں کی چھانٹ پھٹک کرنے کا ایک پیچیدہ مرحلہ درکار ہے (ہوسکتا ہے بعض احباب کو کسی معتبر با خبر ذریعے سے ان نجی محافل کے احوال معلوم ہوتے ہوں)، مگر ان علماء کرام کی اسلامی بینکاری کے حوالے سے ’پبلک پالیسی‘ معلوم کرنے کے لیے کسی روایت پر اعتماد کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سلسلے میں آئے دن اسلامی بینکوں (بشمول میزان بینک) کی طرف سے اخبارات میں دیے جانے والے جاذب نگاہ اشتہارات، شہر کی اہم شاہراہوں کے کنارے آویزاں بڑے بڑے بل بورڈز اور گلیوں کوچوں میں لٹکے ہوئے خوشنما بینرز بہت کافی ہیں جن کا مقصد ہی صرف یہ ہے کہ مختلف اشتہاری ہتھکنڈے استعمال کرکے عوام الناس (علی الرغم اس سے کہ وہ بینکوں سے کوئی تعلق رکھتے ہیں یا رکھنا چاہتے بھی ہیں یا نہیں کیونکہ پاکستان کی دس فیصد سے بھی کم آبادی بینک اکاؤنٹ ہولڈر ہے) کو اسلامی بینکوں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے اکسایا جائے، اور یہ بات بھی کوئی راز نہیں کہ کروڑوں روپے کی اس اشتہار بازی کا مقصد آخر کیا ہوتا ہے۔ شاید یہ اپنی نوعیت کی پہلی اسلامی روایت ہوگی کہ جس شے کو خلوت میں ترک کرنے کی نصیحت کی جارہی ہو جلوت میں عین اسی شے کو اشتہار بازی کے ذریعے عام کیا جانا مطلوب قرار پا رہا ہو۔ خلوت اور جلوت میں اختیار کردہ یہ متضاد حکمت عملی آخر تنوع کی کس قسم سے متعلق ہے یہ ہم طے کرنے سے بالکلیہ قاصر ہیں، اگر مویدین اسلامی بینکاری اس سلسلے میں راہنمائی فرمائیں تو نوازش ہوگی۔پھر کیا ہی اچھا ہو اگر ان علمائے کرام کی یہ ’نجی حکمت عملی‘ اور ’تقوے پر مبنی قیمتی مشورے‘ خفیہ روایت کے سلسلوں کے بجائے اشتہارات اور بل بورڈز کے ذریعے عوام الناس تک پہنچ جائیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ماہرین اسلامی معاشیات کی اکثریت موجودہ معاشی ادارتی صف بندی میں شمولیت کو کوئی مجبوری نہیں بلکہ فطری تقاضوں کا ارتقاء سمجھتی ہے جنہیں معمولی ردوبدل کرکے اسلامی بنایا جا سکتا ہے (جیسا کہ ان حضرات کی کاوشوں اور مفتی تقی عثمانی صاحب کی کتب کے مطالعے سے واضح ہوجاتا ہے)۔
کیا ’کل‘ کی بحث شرع کے لیے اجنبی ہے؟
مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ شریعت میں کسی شے کو اپناتے وقت ’کل ‘ کے بجائے حرام و حلال کی بنیاد پر جانچنے کا اصول کارفرما ہوتا ہے۔ مفتی صاحب کے اس اصول کے تجزیے سے قبل یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ ’کل‘ کی بنیاد پر جانچنے سے ہماری مراد ہے :
- موجودہ دور کے کسی بھی مظہرکا اس کے درست اور مخصوص علمی ومعاشرتی تناظر میں جائزہ لے کر اسکی حقیقت کو پہچاننا
- اس مظہر کو کسی اسلامی روایت یا تصور کے ساتھ محض ظاہری و جزوی مماثلت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کے مخصوص مقاصد اور ’مقاصد شریعت‘ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس طرح پرکھنا ہے کہ
- مبادا ہم کسی ایک پہلو پر عمل کرنے کی کوشش میں شریعت کے ان گنت دیگر احکامات کی نافرمانی کے مرتکب نہ ہوں
- نیز شریعت جس قسم کی انفرادیت، معاشرت وریاست کا فروغ چاہتی ہے وہ تار تار نہ ہوجائے
کلی تجزئیے سے ہم ہر گز یہ مطلب ’نہیں ‘ لیتے کہ چاہے کوئی عمل قرآن وسنت سے ہی کیوں نہ ثابت ہو اگر وہ مقاصد الشریعہ کے خلاف ہوگا تو ہم اسے نہیں مانیں گے، العیاذ باللہ بھلا کیا خود شارع سے بڑھ کر بھی کوئی یہ طے کر سکتا ہے کہ اسکی عطا کردہ شریعت کے مقاصد حاصل کرنے کا طریقہ خود اس کے تجویز کردہ طریقے کے سواء کوئی اور ہوسکتا ہے؟ مفتی صاحب کو راقم کے بارے میں یہ بد گمانی نجانے کس عبارت سے لاحق ہوگئی کہ ہمارا تعلق اس گروہ سے ہے جو مقاصد الشریعہ کی آڑ میں شریعت ہی کو معطل کردینا چاہتا ہے۔ راقم ایک مرتبہ پہلے بھی ماہنامہ الشریعہ ہی میں یہ وضاحت کر چکا ہے کہ مسئلہ خیر و شر، معروف و منکر کی تعیین کے معاملے میں وہ ماتریدی ہی نہیں بلکہ اس سے بھی آگے اشعری نکتہ نگاہ کا قائل ہے کہ حسن و قبح افعال کے ذاتی نہیں بلکہ شرعی اوصاف ہیں نیز عقل انکا ادراک کرنے سے بالکلیہ قاصر ہے، لہذا راقم الحروف کو مقاصد الشریعہ کی آڑ میں شریعت معطل کرنے والے گروہ پر قیاس کرنا کسی طور درست نہیں۔ جہاں تک رہی یہ بات کہ مجوزین اسلامی بینکاری کے شرع سے ثابت شدہ معاہدات استعمال کرنے کو ہم مقاصد الشریعہ کے تناظر میں رد کیوں کرتے ہیں تو اس ضمن میں تین باتیں عرض ہیں:
- مجوزین جن دلائل کی بنیاد پر موجودہ ادارتی صف بندی کا اسلامی جواز پیش کرتے ہیں وہ دلائل ہی محل نظر ہیں۔ انکے اکثر و بیشتر دلائل کی حالت یہ ہے کہ ایک ہی حدیث سے علمائے متقدمین کا کوئی حوالہ پیش کیے بغیر نیز لبرل معاشیات کو درست طور پر سمجھے بغیر ہی اس نظام کو اس حدیث سے اخذ کرڈالتے ہیں۔ انکے زیادہ تر دلائل قرآن و سنت سے براہ راست استدلال کے بجائے قیاس پر مبنی ہوتے ہیں، مثلاً کمپنی کا جواز بیت المال پر قیاس کرکے نکال لیا گیا ہے جو محض ظاہر بینی کی علامت ہے کیونکہ دونوں اپنے مقاصد کے اعتبار سے بعد المشرقین کی سی مماثلت رکھتے ہیں۔ یہ قیاس بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اسلامی تاریخ میں ’تعلیمی نظام کی موجودگی‘ کو دیکھ کر یہ دعوی کرے کہ ’موجودہ تعلیم بھی ایک نظام ہے‘ اور یوں موجودہ علوم کو شامل اسلام کرلے (اگر راقم کو مفتی صاحب کی الزامی دلیل سے اپنا دفاع کرنا ہوتا تو اسلامی بینکاروں کی مانند اس قسم کے بے شمار قیاسات گھڑے جاسکتے ہیں)۔ ظاہر بات ہے محض نظام تعلیم کی مماثلت موجودہ تعلیم کو اسلام میں جائز کہنے کے لیے کافی نہیں کیونکہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ دونوں کے مقاصد میں تعلق کیا ہے۔ ہمارے مفکرین موجودہ دور کے تقریباً ہر ہی مظہر کو کسی نہ کسی اسلامی روایت سے جزوی مشابہت کی بنیاد پر ’یہ بھی اسلام میں ہے‘ کہہ کر شامل اسلام کردیتے ہیں مگر اس قسم کے استدلال کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ قیاس کرتے وقت محض ’مماثلت‘ (similarities) ہی نہیں بلکہ ’عدم مماثلت‘ (dis-similarities) کا خیال رکھنا بھی بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ (علمائے متقدمین نے اس بات پر نہایت زور دیا ہے اور اسی بناء پر علم الاشباہ و النظائر اسلامی علمی روایت کا ایک اہم جزو رہا ہے اور موجودہ دور میں تو اس کے احیاء کی سخت ضرورت ہے)۔ چنا نچہ یہ کہتے وقت کہ ’یہ بھی اسلام میں ہے‘ اس پر بھی نظر رہنا چاہیے کہ ’اسلام میں کیا نہیں ہے‘ ۔
- ہمارے تجزیے کے مطابق شرکت و مضاربت کی بنیاد پر بینکاری ممکن ہی نہیں جیسا کہ ہم نے اپنے مضمون میں واضح کرنے کی کوشش کی اور مفتی صاحب نے بھی اس پر کوئی بنیادی اعتراض وارد نہیں کیا، سوائے اس کے کہ مجوزین اسلامی بینکاری علمائے کرام اسے درست اور ممکن سمجھتے ہیں (اور جو اشکالات اٹھائے ہیں، ان کی حقیقت ان شاء اللہ اگلے تبصرے میں واضح کی جائے گی)۔ لہٰذا جن معاہدات و طرق تمویل (شرکت و مضاربت) کو حضرات مجوزین بھی ’آئیڈیل ‘ سمجھتے ہیں، وہ کم از کم اسلامی بینکاری کے نام پر کیے جانے والے کاروبار کے تحت ناممکن ہیں۔
- رہے ’حیلہ طرق تمویل‘ تو ان کے بارے میں نہ صرف یہ کہ ناقدین علمائے کرام بلکہ خود مجوزین کو بھی قبول ہے کہ یہ عبوری دور سے متعلق ہیں اور جن کا مستقل اور منظم استعمال بعض کے نزدیک نا پسندیدہ اور بعض کے ہاں ممنوع ہے (جیسا کہ آگے آرہا ہے)۔ ان تمام پہلووں کو سامنے رکھتے ہوئے اگر راقم الحروف اسلامی بینکاری و فائنانس میں اختیار کیے جانے والے معاہدات کو غلط سمجھتا ہے تو کیا اسے ’مقاصد کی آڑ میں شرع کو معطل کرنا‘ کہا جا سکتا ہے؟
اس وضاحت کے بعد ’کل‘ کو نظر انداز کر کے جزو پر فتوے دینے کی غلطی سمجھنے کے لیے ایک مثال پر غور کرتے ہیں۔ ایک ایسے غلیظ معاشرے کا تصور کیجیے جہاں فحاشی و بدکاری اس طرح عام ہوجائیں کہ اسے باقاعدہ طور پر ایک منظم معاشرتی صف بندی کی حیثیت حاصل ہوجائے، لوگوں کا احساس گناہ اس حد تک گر جائے کہ وہ نکاح کے بجائے زنا کو ترجیح دینے لگیں، نیز ریاستی قوانین بھی نکاح کو مشکل اور زنا کو آسان بنائیں (جیسا کہ دنیا کے کئی ممالک کا یہ حال ہے)۔ ایسے ماحول میں ایک ’تہجد گزار فرد ‘ بھی خود کو ایسے حالات میں پائے گا کہ نہ صرف یہ کہ وہ اپنی اولا د ہی کو بلکہ خود کو بھی زنا و بدکاری کی آلائشوں سے بمشکل ہی بچا پائے گا جس کا اظہار یہ اعداد وشمار ہیں کہ مغربی معاشروں میں محض پندرہ سال کی عمر تک پہنچنے والے بچوں میں سے ستر فیصد سے زائد بچے کم از کم ایک مرتبہ زنا کا ارتکاب کر لیتے ہیں، کئی ممالک میں پچاس فیصد سے زائد بچے حرامی النسل ہوتے ہیں۔ فرض کریں اس ماحول میں کوئی ’خداترس‘ عالم ’تہجد گزار‘ مسلمانوں کو ’بدکاری کے گناہ سے بچانے ‘ کے لیے ’عموم بلوی‘ اور ’وقت کی ضرورت‘ کو دلیل بنا کر ’اسلامی قحبہ خانے‘ بنائے جہاں بڑی تعداد میں بدکاری کے شعبے سے متعلق عورتوں کو جمع کرلے اور پھر درج ذیل ’شرعی‘ اصولوں کی پابندی کرنا شروع کردے:
- وہاں ’بلا ضرورت شرعیہ ‘ مرد و زن کا اختلاط نہ ہونے دے ۔
- مباشرت سے قبل ’نکاح‘ کی رسم اور ’مہر ‘ کی رقم طے کروائے۔
- نکاح کروانے کے لیے ’شرعی قاضیوں‘ اور ’گواہوں‘ کا انتظام موجود ہو ۔
- مباشرت کے بعد شوہر بیوی کو ’طلاق ‘ دے کر ’مہر کی رقم ادا‘ کردے ۔
- کیونکہ عورت کے لیے ہر طلاق کے بعد نئے نکاح کی راہ میں ’عدت ‘ کی طویل مدت حائل ہوگی، لہٰذا یہاں غامدی صاحب کے فتوے پر عمل کرلے کہ اگر میڈیکل ٹیسٹ سے ثابت ہوجائے کہ حمل نہیں ٹھہرا تو عدت ختم ہوجائے گی، لہٰذا اسلامی قحبہ خانے میں اعلیٰ قسم کی لیبارٹری بھی بنوالے۔
ذرا غور تو کیجیے کہ ’اسلامی قحبہ خانے‘ بنانے میں کس قدر شرعی مسائل کا لحاظ کیا جارہا ہے۔ قریہ قریہ ’اسلامی قحبہ خانے ‘ بنانے کے بعد یہ نقشہ وہ آپ کے سامنے پیش کرکے پوچھے کہ بتائیے، اس میں کیا خرابی ہے اور آپ بجائے اسے ایک ’کل‘ کے ’اس میں جو اچھا ہے، وہ لے لو اور جو برا ہے اسے چھوڑ دو‘ کی بنیاد پر جزواً جزواً پرکھ کر یہ کہنے لگیں کہ ’میاں یہاں عدت گزارنے کا طریقہ فقہ حنفی کے مطابق نہیں ہے‘ یا ’گواہ صفت عدالت سے متصف نہیں ‘ وغیرہ تو ایسے طریقہ اجتہاد کو کیا کہا جائے گا؟ کیا (کسی دوسری فقہ کی روشنی میں کوئی فقہی حل تجویز فرمادینے کے بعد ) عدت گزارنے کے طریقے کو درست کرلینے سے واقعی یہ ’اسلامی قحبہ خانے‘ کہلانے کے مستحق ٹھہریں گے اور ہم خلق خدا کو ’غیر اسلامی کوٹھوں‘ کے بجائے ’اسلامی قحبہ خانے‘ جانے کی ترغیب دلانے کے لیے اشتہاری مہمیں شروع کرنے پر زور دینے لگیں گے اورخود ان قحبہ خانوں میں کنسلٹنٹ بھرتی ہونے کی فکر کرنے لگیں گے کہ دیکھیں کہیں یہ ’غیر شرعی‘ اصولوں پر نہ چل نکلیں؟ ہوسکتا ہے کسی کو ’اسلامی قحبہ خانے‘ کی یہ مثال محض ایک ذہنی عیاشی لگتی ہو، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ مصر کے فقیہ العصر علامہ یوسف قرضاوی صاحب نے نکاح المسیار کی اجازت دے کراسلامی قحبہ خانے بنانے کی راہ ہموار کردی ہے۔ اب ضرورت ہے تو بس ہمت کی۔ یقین مانیے جس معاشرتی ماحول کی اوپر منظر کشی کی گئی، وہاں ایسی کاوشوں کے حامی چند علماء کرام کا دستیاب ہوجانا نیز عوام الناس میں ان کا مقبول ہوجانا کوئی اچنبھے کی بات نہ ہوگی۔ اگر بات صرف جزو ہی کی ہے تو پھر ’اسلامی قحبہ خانے‘ کے مالک کا کیا قصور ہے کہ اس کا یہ ’شرعی جواز‘ نہ مانا جائے کہ اسلام نے شہوانی جذبے کا جائز طریقے سے اظہار حرام کب قرار دیا ہے، اگر ایسا ہوتا تو اسلام مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہی کیوں دیتا؟ نیز اسلامی بینکاروں کے فلسفے کو بنیاد بنا کر وہ بھی تو کہہ سکتا ہے کہ ’جناب اسلام میں جائز اور ناجائز کا فرق صرف طریقہ کار کی تبدیلی پر مبنی ہے، اگر جانور بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرلیا جائے تو وہ حلال ہوجاتا ہے ورنہ حرام، اسی طرح میں نے غیر اسلامی کوٹھوں کو غیر شرعی طریقوں سے پاک کرکے اصول شرعیہ (Shariah compliance) کی روشنی میں انہیں اسلامی قحبہ خانوں میں تبدیل کردیا ہے، ٹھیک ہے اس کوشش میں ابھی تک مجھے سو فیصد کامیابی نہیں ملی، لیکن ناقدین کو چاہیے کہ میری کاوشوں کو ’کل‘ کی روشنی میں جانچ کر رد کرنے کے بجائے اس سلسلے میں میری راہنمائی فرمائیں تاکہ اس کار خیر میں مزید بہتری لائی جاسکے‘۔
اس سلسلے میں مثالوں کا ایک دفتر پیش کیا جا سکتا ہے، مگر خوف طوالت کی بنا اسی ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں کیونکہ سمجھنے کے لیے اس میں بہت سا مواد موجود ہے۔ مسند امام احمد (۱۸۴) میں سالم بن عبداللہ کی روایت کا مفہوم ہے کہ غیلان بن سلمہ نے حضرت عمرؓ کے دور حکومت میں جب اپنی بیویوں کو طلاق دے کر اپنا مال بھائیوں میں تقسیم کردیا تو حضرت عمرؓ نے اسے بلا کر کہا کہ تمہیں اپنی بیویوں کی طرف رجوع کرنا ہوگا اور تقسیم شدہ دولت واپس لینا ہوگی، بصورت دیگر میں (اسلامی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے) تمہاری بیویوں کو تمہارا وارث بناؤں گا ۔ ایک صحابیؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خوبصورت مگر بانجھ عورت سے نکاح کی تین مرتبہ اجازت طلب کی، آپ نے تینوں مرتبہ منع فرمادیا (ابن حبان ۳۹۸۸، ابو داؤد ۲۰۵۳، نسائی ۳۲۲۹) حالانکہ بانجھ عورت سے نکاح حرام نہیں ہے، لیکن چونکہ یہ مقاصد شریعہ کی کلیت کو متاثر کرتا ہے، لہٰذا اجازت نہ دی گئی۔ درج بالا مثال کی طرح ان چند روایات ہی پر اکتفا کرتے ہیں کیونکہ یہ موضوع بذات خود ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے (۵) ۔ اصل بات یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے انہدام کے لیے اس وقت تک کوئی مثبت اسلامی حکمت عملی تیار نہیں کی جاسکتی جب تک تجزیے کا نقطہ ماسکہ جزوی تفصیلات نہیں بلکہ ’نظام‘ نہ بن جائے۔
اس مقام پر یہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ’مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری‘ کے مصداق خود مجوزین کے گھر سے ’کل‘ کی روشنی میں تجزیہ کرنے کے حق میں ثبوت پیش کردیا جائے۔ اس سلسلے میں ڈ اکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب کی کتاب ’مقاصد شریعت‘ کا باب نمبر ۶ (مقاصد شریعت کی روشنی میں معاصر مالیات کا جائزہ) چشم کشا حقائق کی نشاندہی کرتا ہے۔ مجوزین کے ہاں ڈاکٹر صاحب کی حیثیت ’استاذ الاساتذہ‘ کی سی ہے (کیونکہ خود مولانا تقی عثمانی بھی اسلامی معاشیات میں انہیں اپنا استاد مانتے رہے ہیں)۔ چونکہ ہمارامقصد صرف یہ دکھانا ہے کہ درج بالا اصول خود مجوزین کے نزدیک بھی معتبر ہے، لہذا ہم یہاں چند اقتباسات پیش کرتے ہیں، تفصیلات کے لیے کتاب کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔
- چنانچہ ڈاکٹر صاحب ایک بیع کے اندر ایک سے زائد معاہدات کو جمع کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’یہ اصول ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا کہ عام حالات میں، یا الگ الگ کیے جانے کی صورت میں، جو معاملات درست ہوں، وہ بھی اس صورت میں قابل قبول نہیں رہ جاتے جب ان کے نتیجے میں عدل و انصاف کی خلاف ورزی ہو رہی ہو، ظلم او رحق تلفی کا اندیشہ ہو اور مقاصد شریعت صراحۃً مجروح ہورہے ہوں‘‘۔ (ص : ۲۰۷)
- مجوزین اسلامی بینکاری کے طریقہ تحقیق کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کا مرکز توجہ اسلامی مالیاتی اداروں کے روز مرہ مسائل رہے، یہ ان کلی امور پر توجہ نہیں مرکوز کرسکے جو اسلامی نظام کو سرمایہ دارانہ نظام سے اور ان دونوں نظاموں کے مالیاتی اداروں کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتے ہیں‘‘۔ (ص : ۲۱۶) ۔۔۔ ’’معاملات کے باب میں خاص طور پر فقہ اسلامی کے ائمہ مثلاً ابوحنیفہؒ اور مالک بن انسؒ کسی طریقہ پر صاد کرنے سے پہلے عواقب اور مال کار پر ضرور نظر ڈالتے تھے۔ ان کا فیصلہ مصالح عامہ کو سامنے رکھ کر ہوتا تھا۔ امام ابوحنیفہؒ کے استحسان اور امام مالکؒ کے مصالح مرسلہ کی یہی نوعیت تھی۔ صرف متعلقہ عقود کی سلامتی کسی ایسے طریقہ پر صاد کرنے کے لیے کافی نہیں جس کے مفسدہ کا پلہ اس کی کسی منفعت پر بھاری ہو۔‘‘ (ص: ۲۱۷)
- مجوزین کے زاویہ نگاہ نے امت مسلمہ کو کیا دیا اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’گزشتہ تیس برسوں میں جزئی نظر اور روز مرہ مسائل کے حل پر مرکوز فتاوی نے آج اسلامک بینکنگ اور فنانس کو ایسی شکل دے دی ہے جو مال کار اور اپنے عواقب کے اعتبار سے ہمیں وہیں پہنچا رہی ہے جہاں سودی قرضوں پر مبنی بینکنگ اور فنانس نے پوری انسانیت کو پہنچا رکھا ہے‘‘۔ (۲۱۷)
- پھر قرض کی مثال دے کر جزوی اور کلی دونوں نقطہ نگاہ سے معاملے کا موازنہ کرنے کی اہمیت اجاگر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’یہ موازنہ دینی مدارس میں نہیں سکھایا جاتا، نہ ہی متعلقہ علوم دینی مدارس کے نصاب میں شامل ہیں‘‘۔ (۲۱۷)
یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ سب زاہد مغل تحریر کررہا ہے، بلکہ مجوزین کے استاذ الاساتذہ فرمارہے ہیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب بذات خود سرمایہ دارانہ نظام کے جزوی ناقد ہیں، مگر یہاں اصل بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب جس حد تک اسلامی بینکاری کو مقاصد شریعت کے خلاف سمجھتے ہیں، اس قدر اسے غلط قرار دے رہے ہیں، چاہے اس میں ہونے والے انفرادی معاہدات جزوی سطح پر بظاہر ٹھیک ہی کیوں نہ نظر آرہے ہوں۔ ہمیں امید ہے کہ جب مجوزین موجودہ نظام کا مزید بہتر ادراک حاصل کرلیں گے تو ان شاء اللہ انہیں اپنی باقی ماندہ غلطی کا احساس بھی ہوجائے گا۔
نئی فکر ناقابل التفات نہیں ہوتی
مفتی صاحب نے صد فیصد درست فرمایا کہ جو گزارشات ہم پیش کررہے ہیں وہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں جن کا نقد و نظر کی چھلنی سے گزرنا ابھی باقی ہے، ایسی ابتدائی فکر کی بنیاد پر کسی چلتے ہوئے نظام کو ترک کرکے انارکی کی حالت اختیار نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں اس انداز فکر پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ ہم نے یہ کب کہا کہ سب لوگ دل و دماغ بند کرکے ہماری فکر کے پیچھے چل پڑیں۔ اس کے برعکس یہ گزارشات پیش ہی اس لیے کی گئی ہیں کہ ’کھلے ذہنوں‘ کے ساتھ ان پر غور و فکر کیا جائے کہ اگر بیماری کی تشخیص اور اس کا علاج تجویز کرنے میں کوئی کسر رہ گئی ہے تو اس کی اصلاح ہوجائے۔ ’اب تک چھلنی سے نہ گزرنے ‘ کا یہ مطلب بھی نہیں نکلتا کہ چھلنی کا منہ بند کرکے کسی دوسری شے کو اس میں سے گزرنے ہی نہ دیا جائے یا اسے نا قابل التفات قرار دے دیا جائے۔ یہاں بنیادی بات یہ ہے کہ ایک فکر کو آپ ’کس فکری چھلنی‘ سے گزارنے کی کوشش کررہے ہیں، کیونکہ کسی فکری چھلنی کا منہ کس قدر کھلتا ہے، اس کا تعلق براہ راست اس فکر کے حاملین کے فکری پس منظر سے ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک کتنی تبدیلی درکار ہے۔ نئی فکر اگر کسی ایسی تبدیلی کا تقاضا کرے جس کی موجودہ فکر ی چھلنی متحمل ہی نہ ہو تو ایسی صورت میں چھلنی بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجوزین اسلامی بینکاری کے جس فکری پیمانے کے ذریعے ’نئی فکر‘ کو جانچنے کی کوشش کی جارہی ہے، بذات خوداس پیمانے کو بھی تو جانچنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ محض اس بنیاد پر کہ وہ پیمانہ حاضر و موجود ہے یا چند نامور شخصیات نے انہیں تھام رکھا ہے، اس کے ٹھیک ہونے کی کوئی دلیل تو نہیں۔
پھر جہاں کسی نئی فکر کو تنقید کی چھلنی سے گزارنے کی بات کرنا ایک اہم علمی نکتہ ہے، وہیں ان اہل علم کو یہ اصول بھی یاد رکھنا چاہیے کہ باطل کی نفی اثبات حق پر نہ صرف مقدم ہے بلکہ اس کی پیشگی شرط بھی ہے (۶) ۔ کسی شے کے متبادل کی فراہمی میں یہ چیز فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے کہ معاشرے میں اس متبادل کی طلب کتنی شدت کے ساتھ پائی جاتی ہے اور شدت طلب کا انحصار اس بات پر ہے کہ لوگ کس قدر حاضر و موجود نظام سے نالا۶ ہیں اور اس سے براء ت چاہتے ہیں۔ متبادل کی نوبت تبھی تو آئے گی جب معاشرے کا ایک موثر طبقہ ’موجود‘ سے بیزار ہوگا۔ اگر آپ کسی کو معاشرے کے ایک طبقے کو موجود سے بیزار ہی نہ کرنے دیں گے اور متبادل نہ ہونے اور ’نئی فکر ‘ ہونے کے باعث چپ کراتے رہیں گے تو متبادل کی نوبت کیونکرآئے گی؟ چنانچہ جس شے کی عدم موجودگی کو دلیل بنا کر مجوزین اپنے ناقدین کو خاموش کرانے کی کوشش کرتے ہیں اس کا پایا جانا تو منحصر ہی اس بات پر ہے کہ معاشرے پر اثر انداز ہونے والے طبقے میں اس کے طلبگار پیدا ہوجائیں کیونکہ وہ بغیر طلب کے فراہم ہوجانے والی شے نہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی چیز کی معاشرے میں بالکلیہ طلب نہ ہو، مگر اس کی پیداوار کے ڈھیر لگ جائیں۔ اس کی پیداوار کے لیے جس قدر محنت کی ضرورت ہے، وہ اسی وقت فراہم ہو پائے گی جب معاشرہ اسے اپنی ناگزیر ضرورت سمجھے گا۔ یہ عجیب منطق ہے کہ غلط کو غلط مت کہو، اسے قائم و دائم رہنے دو اور اس کے خاتمے کا سوال بھی مت اٹھاؤ کیونکہ اسے غلط کہنے کے لیے جو چیز پاس ہونی چاہیے، اسلامی بینکاری کے ناقدین اپنے پاس نہیں رکھتے۔ پس یاد رکھنا چاہیے کہ متبادل سے بات ’شروع ‘ نہیں ہوگی بلکہ اس پر بات ’ختم‘ ہوگی۔ ظاہر سی بات ہے جب تک کسی چلتے ہوئے نظام کے خلاف کوئی دعوت اٹھے گی ہی نہیں تو وہ تبدیل کیسے ہوگا ؟
پھر کیا ہی اچھا ہو اگر یہی مشورہ اسلامی بینک قائم کرنے والے ماہرین اسلامی فائنانس اور علمائے کرام کو بھی دیا جائے کہ ان حضرات کو بھی اپنی فکر و حکمت عملی کو ہر قسم کی تنقید کی چھلنی سے گزارنے کے بعد ہی اسلامی بینک قائم کرنا چاہیے تھے، کیونکہ اپنے اس عمل کی وجہ سے انہوں نے امت کو شدید فکری الجھاؤ سے دو چار کردیا ہے۔ یہ تو عجیب بات ہے کہ یہ حضرات تو اس اصول سے مستثنیٰ ہو کر آئے دن اپنی خام فکر کی بنیاد پر (نام نہاد) اسلامی بینکنگ کے کاروبار کو وسعت دینے میں مصروف عمل رہیں، قریہ قریہ جا کر اپنی برانچیں کھولتے رہیں، اس کے نام پر دنیا بھر میں کھربوں ڈالر کا کاروبار چمکائیں مگر جب ناقدین کچھ کہنے کی جسارت کریں تو ان کے پلے یہ سنہرا اصول باندھ دیا جائے کہ ’جناب ابھی آپ کی فکر خام ہے، جب پختہ ہوگی تب اس پر کان دھریں گے‘۔ حضرت علیؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جس کے متعلق کوئی صریح حکم نہ ہو تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس سلسلے میں عبادت گزار فقہا سے مشورہ کرنا اور کوئی انفرادی رائے قائم کرنے سے احتراز کرنا۔ (مجمع الزوائد ۃ ۱/۱۷۸)۔ اس حدیث کے مطابق کیا عمائدین اسلامی بینکاری پر لازم نہ تھا کہ اپنی انفرادی رائے کی بنا پر امت کو اسلامی بینکاری کے خطرات میں مبتلا کرنے سے پہلے کم از کم دیوبندی حلقہ علماء ہی میں کوئی اجتماعی رائے قائم کرنے کا اہتمام فرماتے۔
اکابرین کے غیر متعلقہ اقوال کاحوالہ
مفتی صاحب نے یہ شکوہ (بلکہ بعض مقامات پر خبردار ) بھی کیا ہے کہ درحقیقت اپنے مضمون کے ذریعے پس پردہ ہم نے یک لحظہ ان تمام اکابر علمائے کرام کی تردید و تحقیر کردی ہے جو اسلامی بینکاری کے حق میں تھے یا ہیں۔ ہم امید کررہے تھے کہ مفتی صاحب ہمارے مضمون کے بنیادی مقدمے (کہ موجودہ بینک زر قرض کی جعلی رسید ہے نیز جز محفوظاتی بینکاری کے ہوتے ہوئے یہ دھوکہ بازی ختم کرنا نا ممکن ہے اور اسلامی بینک اس جرم میں برابر کے شریک ہیں) پر نقد فرماتے ہوئے علم معاشیات و ماہرین اسلامی معاشیات کے تجزیوں کی روشنی میں ہماری غلطی واضح کردیں گے مگر اس سلسلے میں ان کے پاس کہنے کے لیے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہ دنیا کے بڑے بڑے ماہرین اسلامی معاشیات و حامیین اسلامی بینکاری علمائے کرام اسے غلط نہیں کہتے۔ اگر مفتی صاحب واقعی یہ ثابت کردیں کہ اس مسئلے پر امت مسلمہ کا اجماع ہوچکا ہے تو ہمیں اپنی غلطی ماننے میں کوئی حجاب نہ ہوگا کیونکہ ہم اجماع کو حجت شرعی مانتے ہیں، لیکن اگر ایسا نہیں ہے جیسا کہ حقیقت واقعہ ہے تو ازراہ مہربانی عرض ہے کہ ان اکابر علمائے کرام نے بذات خود کبھی یہ نہیں لکھا کہ ہمارا نام لے کر تمہارے سامنے اگر کوئی شخص کوئی مسئلہ بیان کرے تو اسے بلا چوں چراں دلیل طلب کیے بغیر ہی قبول کرلینا۔ جہاں تک جدید اسلامی تحقیقاتی اداروں اور ان میں کام کرنے محققین کی بات ہے تو ان کے بارے میں ہماری رائے یہی ہے کہ ’ہم رجال و نحن رجال‘، جیسے اپنی تحقیق (صحیح یا غلط) کی بنیاد پر وہ اپنی رائے رکھنے کا حق رکھتے ہیں، اسی طرح ناقدین اسلامی بینکاری کو بھی اس کا حق ملنا چاہیے۔ ان قدآور شخصیات کے با وزن ناموں کے نیچے کسی کی آواز دبانے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے۔ مفتی صاحب ہم سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ہم ان تمام حضرات کو غلط کہنے کی جسارت کرنا چاہتے ہیں، ہم بصد ادب مفتی صاحب کی خدمت میں گزارش کرتے ہیں کہ اگر وہ ان سب حضرات کے معصوم عن الخطا ہونے کی گواہی دینے کے لیے تیار ہیں تو ہم آج ہی سے اسلامی بینکاری کی مخالفت ترک کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جہاں تک اکابر علماء کرام کی بات ہے تو اس کے بارے میں ہم آگے عرض کریں گے، مگر جہاں تک دور حاضر کے علمائے کرام کا تعلق ہے تو ان کی دینی علوم پر دسترس پر راقم کو کو ئی شک و شبہ نہیں اور نہ ہی ان کی تجہیل خدانخواستہ ہمارا مقصد رہا ہے، البتہ یہ تاثر بہر حال قائم ہے کہ اگر ایک طرف وہ ’مجتہد فی علوم الشرع‘ ہیں تو دوسری طرف ’مقلد فی علم الاقتصاد‘ ہیں اور درحقیقت یہی مسئلے کی اصل جڑ ہے۔
اسلامی بینکاری کے خلاف چھپنے والے علمائے کرام کے متفقہ فتوے کے جواب میں کچھ عرصہ قبل ’غیر سودی بینکاری‘ کے نام سے ایک کتاب چھپ کر منظر عام پر آئی جس کا پہلا باب ہی ’اسلامی متبادل‘ (خصوصاً بینکاری نظام کے متبادل ) کے امکانات و اہمیت سے بحث کرتا ہے۔ کتاب کے نہایت محترم اور فاضل مصنف اس باب میں بینکاری نظام کے اسلامی متبادل کے امکانات ثابت کرنے کے لیے یا تو پرانی دلیلوں کو بعینہہ دھرا دیا ہے (گویا ان دلیلوں کے خلاف آج تک کوئی تنقیدی بات کہی ہی نہ گئی ہو) اور یا پھر کوئی علمی دلیل قائم کرنے کے بجائے چند اکابر علمائے کرام ؒ (جن کا ذکر مفتی صاحب نے بھی فرمایا) کے اقوال نقل کرکے اپنے دعوے میں وزن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے نزدیک اسلامی بینکاری کے حق میں اپنے پیش رو علمائے کرام کے اقوال پیش کرنا ہی محل نظر ہے کیونکہ انکے یہ اقوال اس دور پر محمول ہیں جب :
(۱) بینکاری نظام کی اصل حقیقت اور سرمایہ دارانہ نظام سے اس کا تعلق علمائے کرام پر مکمل طور پر واضح نہ ہو سکا تھا، لہذا علمائے کرام نے اس کے متبادل کے امکانات پر آراء کا اظہار فرمایا، مگر آج ان بنیادی مباحث کی وضاحت کے بعد ان آراء و اقوال کو اپنے حق میں استعمال کرنا درست نہیں۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ جن اکابر علمائے کرام کے اقوال محترم مصنف نے بطور دلیل پیش کیے ہیں اگر ان علمائے کرام کے سامنے یہ مباحث پیش کردیے جاتے تو یقیناًوہ بینکاری کے اسلامی متبادل کا فتوی نہ دیتے کیونکہ ان علمائے کرام نے اسلامی بینکاری کا متبادل کسی دنیاوی منفعت، مال و متاع یا شہرت کے حصول کے لیے نہیں بلکہ محض رضائے الہی کے لیے پورے خلوص کے ساتھ حق سمجھ کر بیان کیا۔ اس مقام پر یہ گمان نہیں کرنا چاہئے گویا اس بحث سے اکابر علماء کرام پر نامکمل تحقیق کے بغیر فتوی دینے کا الزام عائد ہوجا تا ہے، حاشا و کلا۔ درحقیقت تحقیق ایک ’عمل ‘ کا نام ہے نہ کہ کسی ’واقع ‘ کا جو فوراً سے وقوع پزیر ہوجاتا ہو۔ اس بات کو اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ابتداً لاؤڈ سپیکر میں ادائیگی نماز کو جید علمائے کرام نے ناجائز کہا مگر جیسے جیسے تحقیق کا عمل آگے بڑھا ان جید علماء کے تلامذہ نے اپنے اساتذہ سے اختلاف کرتے ہوئے اسے جائز کہا۔ ظاہر ہے نئی تحقیق کی روشنی میں نیا فتوی دینے سے نہ تو اکابرین پر کوئی الزام عائد ہوتا ہے اور نہ ہی انکا علم و فضل کم ہوتا ہے
(۲) علمائے کرام نے ابتداً حیلوں پر مبنی اسلامی بینکاری کی اجازت اس امید پر دی تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ اپنی اصل بنیادوں (مشارکت و مضاربت) کی طرف بڑھتی چلی جائے گی مگر طویل عرصے پر محیط تجربے سے ثابت ہوچکا کہ اسلامی بینکاری اپنی اصل بنیادوں کی طرف بڑھنے کے بجائے حیلوں کو ہی مستقل اصول بنانے پر مصر ہوتی چلی گئی ہے (فاضل مصنف کی درج بالا مذکور کتاب اس رویے کی ایک واضح مثال ہے جس کا مقصد حیلوں کو عمومی و آفاقی اصولوں کے طور پر اپنانے کا سر توڑ جواز پیش کرنا ہے)۔ مثلاً سٹیٹ بینک آف پاکستان کی سالانہ رپورٹس کے مطابق اسلامک بینکنگ میں مختلف طرق تمویل کی شرح استعمال کچھ اسطرح ہے:
اس گوشوارے کو دیکھنے سے بالکل واضح ہے کہ اسلامی بینکوں میں اب تک نوے فیصد (90%) سے زیادہ کام اجارہ، مرابحہ اور مشارکہ متناقصہ سے چلایا جارہا ہے جبکہ مجوزین اسلامی بینکاری کے بقول اصل اسلامی طرق تمویل یعنی مشارکہ اور مضاربہ کا فیصدی حصہ تین فیصد (3%) سے بھی کم ہے (یہاں ذہن میں یہ سوال مچلتا ہے کہ اگر واقعی اسلامی بینکاری کسی مجبوری کا نام ہے تو اسلامی بینکوں کو نفع کی لالچ کے سواء آخر کس چیز نے کھربوں روپے کے حیلہ طرق تمویل کرنے پر مجبور کررکھا ہے؟)۔ پھر ایسا بھی نہیں کہ اس پورے عرصے کے دوران دنیا بھر میں اسلامی بینکاری کی مقبولیت میں اضافہ نہ ہوا ہو۔ مثلاً سٹیٹ بینک آف پاکستان ہی کے مطابق ملک بھر میں سال ۲۰۰۳ سے لیکر ۲۰۰۸ تک اسلامی بینکوں کے کاروبار کی شرح نمو درج ذیل رہی:
دیکھئے ایک طرف تو اسلامی بینکاری کے حجم میں اس قدر ہوش ربا اضافہ ہورہا ہے مگر دوسری طرف یہ اپنی اصل کی طرف بڑھنے کے بجائے محض حیلوں بہانوں کو عام کرنے کی روش بدستور برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اب ایک طرف اسلامی بینکوں کی اس ’عملی روش‘ کو سامنے رکھئے اور دوسری طرف ماہرین اسلامی بینکاری کے یہ ’کتابی اصول ‘ ملاحظہ فرمائیے جن کے مطابق حیلہ طرق تمویل ’عبوری دور‘ سے متعلق ہیں:
چنانچہ مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:
’’اسلامی بینکوں اور مالیاتی اداروں کے شریعہ ایڈوائزری بورڈ اس نکتے پر متفق ہیں کہ یہ (مرابحہ اور اجارہ) فائنانسنگ کے مثالی طریقے نہیں ہیں اس لیے انہیں ’صرف‘ ضرورت کے موقع پر ہی استعمال کرنا چاہئے۔‘‘ (اسلامی بینکاری کی بنیادیں: ص ۱۹)
اسلامی نظریاتی کونسل اپنی تجاویز میں کہتی ہے: ’’یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ یہ طریقے بالآخر سودی لین دین اور اس سے متعلقہ برائیوں کے از سر نو رواج کے لیے چور دروازے کے طور پر استعمال ہونے لگیں۔ لہٰذا یہ امر ضروری ہے (کہ) ان طریقوں کا استعمال ’کم سے کم حد تک ‘ ’صرف‘ ان صورتوں اور ’خاص حالات‘ میں کیا جائے جہاں ’یہ ناگزیر‘ ہوں اور اس بات کی ’ہرگز اجازت نہ دی جائے‘ کہ یہ طریقے سرمایہ کاری کے ’عام معمول‘ کی حیثیت اختیار کر لیں‘‘۔ (رپورٹ بلاسود بینکاری: ص۱۳)
درج بالا حقائق کو نظر انداز کرکے آخر اسلامی بینکاری کے آہستہ آہستہ ’عبوری دور‘ سے نکل کر اپنی اصل کی طرف گامزن ہونے کی امیدوں کے سبز باغ دکھانے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟ خود مجوزین کو بھی قبول ہے کہ آج کی اسلامی بینکاری اس سے یکسر مختلف ہے جس کا خواب ابتداً دیکھا گیا تھا۔ چنانچہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب اسلامی بینکاری کا تعارف کراتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ابتداءً اسلامک بینکنگ کا ماڈل مضاربت پر مبنی تھا ۔۔۔ مگر جلد ہی زیادہ تر اسلامی بینکوں نے براہ راست پر خطر کاروبار سے اجتناب کرتے ہوئے ایک ایسا طریقہ اختیار کرلیا جس میں نفع تقریباً یقینی ہو اور اسکی شرح پہلے معلوم رہے، یہ بیع المرابحہ کا طریقہ تھا ۔۔۔ (انہی مرکبات) کے اجراء نے اسلامک بینکنگ کو عام کرنے اور اسے عوام سے قریب تر کرنے میں بڑا حصہ لیا ۔۔۔ مرابحہ، اجارہ منتہیہ بالتملیک، متوازی سلم، صکوک (جن کے بطن میں بیع الدین بھی جائز ہوگیا) اور اب حال میں تورق کے اضافے نے آج کی اسلامک بینکنگ کو اس سے بہت مختلف بنا دیا جس کا چرچابیسویں صدی کی پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں سامنے آنے والے لٹریچر میں ملتا ہے‘‘۔ (مقاصد شریعت، ص ۲۱۲ تا ۲۱۴)
چنانچہ جن حالات، شرائط اور امیدوں کی بنیاد پر اکابر علماء کرام نے جواز اسلامی بینکاری کے اقوال فرمائے تھے، ایک طرف وہ حالات ہی اب مکمل طور پر بدل چکے ہیں اور دوسری طرف انکی شرائط بھی پوری نہ ہوسکیں، لہذا بدلے ہوئے حالات میں ان اقوال کو بطور دلیل پیش کرنا اصولاً درست نہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ حقائق واضح ہوجانے کے بعد آج اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے انہیں اکابر علماء کے اقوال کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرنے کا رویہ بذات خود ان ربانی علماء کرام کی توہین کے زمرے میں شمار ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
جملہ معترضہ کے طور پر اس موقع پر ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی بینکاری کے مختلف طرق تمویل فروغ پانے کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کے دو ممکنہ جوابات ہوسکتے ہیں: اولاً یہ طرق تمویل تعلیمات شرع کے مطابق ہیں، دوئم یہ طرق تمویل سودی بینکاری نظام کی طرح باآسانی ’نفع کے نام ‘ پر سودی معاملہ کرنے میں مدد گار ہیں۔ ظاہر ہے اگر پہلا جواب درست ہوتا تو مرابحہ و اجارہ کی طرح شرکت و مضاربت بھی بڑے پیمانے پر فروغ پاتے مگر دنیا میں ایسا کہیں بھی نہیں(۷)۔ چنانچہ یہ اعدادو شمار چیخ چیخ کر یہ حقیقت بیان کررہے ہیں کہ اسلامی بینکاری کی مقبولیت کی وجہ اسکی اسلامیت نہیں بلکہ عالمی سودی نظام میں ضم ہوسکنے کی صلاحیت ہے اور اسی لیے اس کے ذریعے وہی طرق تمویل فروغ حاصل کررہے ہیں جو فرضی بیع اور نفع کے نام پر قرض پر سودی معاملات کرنے میں مدد گار ہیں۔ اسلامی بینکاری سے متعلق درج بالا اعدادو شمار کوئی حادثہ یا سازش نہیں بلکہ عین اسکی اصل کا اظہار ہیں کہ اسلامی معاشیات و بینکاری محض سرمایہ داری کا ایک نظریہ ہے (جیسا کہ راقم نے اپنے مضمون ’اسلامی معا شیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز ‘ میں واضح کیا ہے)۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اسلامی بینکاری درحقیقت سودی بینکاری کا متبادل کم اور تکملہ و مددگار (complement) زیادہ ہے کہ یہ اس کے شانہ بشانہ چلنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔
اس موقع پر ’مجوزین برائے فروغ حیلہ طرق تمویل ‘ یہ عجیب و غریب استدلال پیش کرتے ہیں کہ شرکت و مضاربت کے فروغ نہ پانے کی اصل وجہ عوام میں ایمانداری کا فقدان ہے۔ اس پر سوالات یہ پیدا ہوتا ہیں کہ کیا اسلامی بینکاری بے ایمان لوگوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے وضع کی گئی ہے؟ کیا واقعی شرعی حیلوں کا مقصد مسلمانوں کی کرپٹ آبادی کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتاہے؟ کیا ان کرپٹ منافقین کی خدمت کے لیے دین کا حلیہ بگاڑنا جائز ہے؟ ہمیں تو کہیں سے یہ خبر پہنچی تھی کہ اسلامی بینکاری علمائے کرام کے ’تہجد گزار‘ حلقہ احباب اور ’متقی‘ مریدین کے پرزور اصرار پر ان کی ناگزیر شرعی ضروریات پوری کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی۔ اسلامی بینکاری بطور حکمت عملی کی اصل غلطی سمجھنا ہو تو اس کا تقابل دینی تعلیم کے فروغ کے لیے نجی سطح پر علمائے کرام کے قائم کردہ مدارس کے نظام سے کرلینا چاہئے جہاں موجودہ تعلیمی نظام کا کوئی ادنی شائبہ بھی نہ پڑنے دیا گیا۔ ذرا سوچئے کہ اس دینی نظام تعلیم کو نفع خوری سے کیوں محفوظ رکھا گیا؟ آخر اس کی مسند و تعلم کے دروازے حیلوں کی آڑ میں ہر شخص کے لیے کیوں نہ چوپٹ کھول دیے گئے؟ آخر یہاں موجودہ علوم سے کیوں اعتنا برتا گیا؟ علمائے کرام نے اپنی بے لوث قربانیوں کے ذریعے مدرسہ نظام تعلیم کو کس کس طرح سرمایہ دارانہ ساختوں سے محفوظ رکھا، اگر اس پر غور کر لیا جائے تو کام کرنے کا آئیڈئیل ماڈل ہمارے سامنے عیاں ہوجائے گا اور اسلامی بینکاری کی غلطی سمجھانے کے لیے طویل مضامین تحریر کرنے کی ضرورت بھی نہ رہے گی۔
حوالوں کا مسئلہ
ضمنی طور پر ایک بات عرض کرنا ضروری محسوس ہورہا ہے۔ مفتی صاحب نے ہمارے اصل مضمون میں درج ایک حدیث کا مکمل حوالہ نہ دینے پر چند عجیب و غریب شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ حوالوں کے متعلق یہ بات مسلمہ ہے کہ اس کی تفصیلات کی نوعیت مخاطب کی علمی استعداد نیز زیر بحث موضوع کی نوعیت (کہ وہ مخاطبین کے لیے کس قدر معلوم یا اجنبی ہے) کے مطابق ہوتی ہے۔ چونکہ راقم کے مخاطبین مجوزین اسلامی بینکاری علماء کرام تھے، لہٰذا ان کے بارے میں ہمارا یہ مفروضہ تھا کہ انہیں علوم اسلامی کی زیادہ تفصیلات بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس معاملے میں وہ راقم سے کئی گنا زیادہ علم رکھتے ہیں، البتہ معاشیات وغیرہ کی کتب کے ذرا تفصیلی حوالے پیش کر دیے گئے کیونکہ یہ ان کی سرگرمی کے اصل میدان نہیں اور نہ ہی ان کتب کی انہیں براہ راست واقفیت ہوتی ہے۔ امام غزالیؒ نے اپنی کتاب تہافت الفلاسفہ میں درجنوں یونانی افکار کا رد کیا مگر کوئی حوالہ نہ دیا کہ فلسفیوں کا فلاں نظریہ میں نے فلاں کتاب سے لیا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ امام صاحب حوالو ں سے بے خبر تھے، بلکہ اصل بات یہ تھی کہ جن مباحث پر آپ گفتگو فرمارہے تھے، وہ علماء کے لیے اجنبی مباحث نہ تھے کیونکہ اس دور کا تقریباً ہر عالم ان سے واقف تھا۔ مفتی صاحب ہم سے حدیثوں کے مکمل حوالے مانگ رہے ہیں، جب کہ ہمیں تو اس بات کا شکوہ ہے کہ آج ہمارے مدارس کے طلباء مغربی علمیت کی مبادیات تک سے اس قدر ناواقف کیوں ہیں کہ انہیں ان کے بارے میں بھی کتابوں کے حوالے دینے کی ضرورت پڑتی ہے، آخر ہمارے طلبا و علما امام غزالیؒ کے دور کے علما کی طرح جدید فلسفیانہ مباحث سے مانوس کیوں نہیں؟ چنانچہ حوالوں سے متعلق یہ اصول اس قدر مسلم ہے کہ خود مفتی صاحب کے زیر تبصرہ مضمون سے بھی اس کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے۔ مثلاً موجودہ نظام زر کے بارے میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ایک جگہ مفتی صاحب فرماتے ہیں:
’’موجودہ نظامِ زر میں کیا کیا خامیاں ہیں ، اس سلسلے میں مسلمان معاشی مفکرین اور مسلمان فقہا کی ایک جماعت یہ رائے رکھتی ہے کہ ہمیں طلائی معیار کی طرف دوبارہ لوٹنا پڑے گا (جدید معاشی مفکرین میں سے نمساوی مکتبِ فکر Austrian school of economists کا نقطۂ نظر بھی اس سے ملتا جلتاہے) ‘‘
دیکھیے اس اقتباس میں مفتی صاحب نے علم معاشیات کے ایک مکتب فکر کے نظریے کے بارے میں سرے سے کوئی حوالہ دیے بغیر ہی ایک دعویٰ کرڈالاہے۔ (سر دست عرض ہے کہ مفتی صاحب کے اس اقتباس میں Austrian school of economists کے بارے میں ’جدید ‘ معاشی مفکرین کی اصطلاح کم از کم معیشت دانوں کے لیے نا قابل فہم ہوگی، کیونکہ اس مکتب فکر کا آغاز اٹھارہ سو ستر (۱۸۷۰) کی دہائی میں Carl Menger سے ہوتا ہے، بہر حال قدیم و جدید اضافی اصطلاحات ہیں۔ ہو سکتا ہے، مفتی صاحب نے انہیں اپنے وضع کردہ کسی معنی میں استعمال کیا ہو کیونکہ علم معاشیات کی تاریخ میں تو اس مکتب فکر کو اتنا ہی پرانا سمجھا جاتا ہے جتنا neoclassical economics کو)، بندہ ناچیز اس کے تحت وہ سب کچھ نہیں دہرائے گا جو مفتی صاحب نے ہمارے مکمل حوالہ نہ دینے پر تحریر کیا ہے کیونکہ ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ مفتی صاحب کا براہ راست مخاطب راقم الحروف ہے جو علم معاشیات کا طا لب علم ہے اور اس سے یہ توقع رکھنا جائز ہے کہ کم از کم وہ معاشیات کے چیدہ چیدہ مکاتب فکر کے اہم نظریات سے واقف ہوگا۔ لیکن اگر پھر بھی مفتی صاحب کی خواہش ہے کہ انہیں مکمل حوالے ہی چاہئیں تو ان شاء اللہ آئندہ اس کا اہتمام کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
ایک گزارش
آخر میں مجوزین اسلامی بینکاری علمائے کرام کی خدمت میں دردمندانہ گزارش ہے کہ ایسی حکمت عملی سے اغماز کریں جس کے نتیجے میں موجودہ نظام کے اندر اسلام اور علمائے کرام کے مفادات (stakes) بڑھتے چلے جائیں کیونکہ کسی نظام میں جس قدر آپ کے مفادات بڑھ جاتے ہیں اسے چھوڑنا اتنا ہی مشکل ہوتا چلا جاتا ہے، اسی قدر آپ اس کے جواز اور اس میں شمولیت پر اصرار کرنے لگتے ہیں، اسی قدر آپ سمجھوتوں پر مبنی حکمت عملی اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ (جمہوری بنیادوں پر جدوجہد کرنے والی اسلامی تحریکات کی مجبوریوں پر غور کرلینے سے یہ سب بخوبی عیاں ہوجاتا ہے)۔ استعمار کی کوشش یہی ہے کہ کسی طرح موجودہ ریاستی ادارتی صف بندی کے اندر علمائے کرام کے مفادات بڑھا کر انہیں اس میں شامل کرلیا جائے تاکہ اسے تبدیل کرنے کی بات کرنے والا کوئی منفرد گروہ باقی ہی نہ رہے (ظاہر ہے علمائے کرام کے علاوہ دوسرے کسی گروہ سے اس کی امید کرنا ہی عبث ہے)۔ علمائے کرام موجودہ تعلیمی نظام کی اسلام کاری سے اس لیے بے نیاز ہیں کیونکہ اسلامی علوم کے تحفظ اور فروغ کا کوئی مفاد اس نظام تعلیم سے وابستہ نہیں، یہ کل ختم ہونے کے بجائے آج ختم ہو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جو علماء کرام اسلامی بینکاری سے منسلک ہیں، وہ پورے خلوص نیت کے ساتھ اسے خدمت اسلام سمجھتے ہیں۔ خدارا راقم الحروف جیسے دیگر ناقدین اسلامی بینکاری کی نیتوں پر شک کرکے انہیں علماء کرام کا مخالف (یا زبردستی گروہ متجددین کا ہم نوا) نہ سمجھا جائے۔ ہمارا مقصد تو صرف انہیں نظام کفر کی حقیقت اور اس میں شمولیت کے خطرات سے آگاہ کرنا ہے۔ کسی کی تجہیل یا تحقیر کرنا ہمارے مقاصد میں شامل نہیں۔
حواشی
۴۔ اسلامی بینکاری کا فکری تناظر سمجھنے کے لیے دیکھئے راقم الحروف کا مضمون ’اسلامی معاشیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز‘ (ماہنامہ الشریعہ اگست تا اکتوبر ۲۰۰۸)۔ اس مضمون میں ان کتب کے حوالے بھی دے دیے گئے جن کی مدد سے ماہرین اسلامی بینکاری کے اصل مقاصد جانے جا سکتے ہیں
۵۔ محض توجہ دلانے کے لیے عرض ہے کہ مفتی صاحب کتب اصول فقہ میں ’عوارض تقلید (سماویہ)‘ میں ’مریض‘ کے مباحث سے بخوبی واقف ہوں گے۔ علامہ شاطبیؒ نے بھی مقاصد شریعت اور حیلوں کی ممانعت کے تحت بہت سے قیمتی اصول بیان فرمائے ہیں۔ پھر اگر یہ دیکھنا ہو کہ جدید مظاہر کو اسلامیانے میں کیسی فاش غلطیاں سرزد ہورہی ہیں تو ماہنامہ ساحل (کراچی) کے شماروں کا مطالعہ کرلیا جائے، اس نوع کی بے شمار مثالیں وہاں مل جائیں گی۔
۶۔ مضمون کا یہ نکتہ جناب حامد محمود صاحب کے مضمون ’جمہوریت‘ سے اخذ کیا گیا ہے۔ (سہ ماہی ’ایقاظ ‘ اکتوبر۲۰۰۳)
۷۔ ایسا نہیں ہے کہ مختلف طرق تمویل میں حیلہ تمویل کے غالب استعمال کا رجحان شاید صرف پاکستان کے ساتھ خاص ہو بلکہ دنیا میں ہر جگہ اسلامی بینکاری کا یہی طریقہ کار ہے۔ مثلاً احمد حسین صاحب کی تحقیق کے مطابق اسلامی بینکاری کے ایک بڑے چمپئین ملک ملائشیا کے ایک بڑے اسلامی بینک کی ۱۹۹۹ میں طرق تمویل کے استعمال کی شرح کچھ اس طرح ہے:
Hussain Ahmad (2000), "Debt Financing", A Seminar paper on Islamic Banking and Finance, organized by the BIMB Institute of Research and Training Sdn Bhd
کچھ ایسی ہی کہانی سعودی عرب کے سب سے بڑے اسلامک بینک ’الراجح بینکنگ اینڈ انوسٹمنٹ کارپوریشن ‘ کی سالانہ رپورٹس میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جو بینک کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔
قادیانی مسئلہ ۔ حقائق کیا ہیں؟
ڈاکٹر محمد عمر فاروق
حالیہ دنوں میں لاہور میں قادیانی معبد وں پر حملوں کا سب سے زیادہ فائدہ خود قادیانی عناصر نے ہی اٹھا یا ہے ، کیونکہ ان حملوں سے پہلے قادیانیوں کو پاکستان میں دھشت گردانہ کا رروائیوں کا مرتکب گردانا جاتا رہا ہے ۔اسرائیل میں قادیانی مشن کی مو جود گی کے پیش نظر پاکستان کے ایٹمی ہتھیا ر وں کو قادیانیوں سے لاحق شدید خطرات میڈیا میں زیر بحث رہے ہیں۔ اسی طرح قانون توہین رسالت کو ختم کرانے کے لیے بیرونی طاقتوں کے ذریعے پاکستان پر دباؤ بڑھا نے جیسے قادیانی ہتھکنڈوں کا تذکرہ ابھی محفلوں میں جاری ہی تھا کہ اُن کے معبدوں پر حملوں سے ملکی منظر نامہ میں ایک بڑی تبدیلی نے کروٹ لی ۔وہ یہ کہ سیکولر ، لبرل اور لادین قلم کارکہ جن کے قادیانی لابی سے دیرینہ خفیہ تعلقات قائم ہیں، اب انہیں خوب کھُل کھلنے کا موقع ہاتھ میں آیا ہے ۔ رواداری اور مظلومیت کے پر دے میں وہ دھڑلے سے اپنے اخباری مضامین اور کالموں میں قادیانیوں کی حمایت میں الم غلم لکھے جا رہے ہیں اور اس طرح وہ آئینِ پاکستان کا مذاق اڑاتے ہوئے مسلمانوں کو بلا کسی دلیل کے ظالم اور قادیانیوں کو( مجرم ہو تے ہوئے بھی) مظلوم قرار دیتے چلے جا رہے ہیں۔دوسری طرف ایسے لکھا ری حضرات بھی ہیں جو بے خبری میں مذکورہ ٹو لے سے متاثر ہو کر تحفظ ختمِ نبوت کی عظیم الشان ایک سو سالہ مقدس دینی جدوجہد ہی کو قابل اعتراض سمجھنے لگے ہیں ۔یہ صورتحال قادیانیوں کے حق میں نہایت سود مند اور ماضی سے بے خبر اور حال سے بر گشتہ ہماری نوجوان نسل کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے ۔
۲جون ۲۰۱۰ء کے روزنامہ ’’اوصاف ‘‘ ،اسلام آبادمیں جناب خورشید ندیم نے ’’ قادیانی مسئلہ ‘‘کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے مجلسِ احرارِ اسلام کی قادیانیت کے حوالے سے کی گئی جدو جہد پریہ اعتراض اٹھایا ہے کہ :’’ہمارے ہاں بد قسمتی سے قادیانیت اور قادیانیوں میں فرق ملحوظ نہیں رکھا گیا ۔میرے نزدیک اس کی ایک وجہ مجلسِ احرارِ اسلام ہے ۔یہ[ مجلسِ احرار] قادیانیوں کے خلاف اٹھنے والی پہلی عوامی تحریک ہے ۔اس کی قیادت خطیبوں کے ہاتھوں میں تھی اور خطیب کا مخاطب لوگوں کے جذبات ہوتے ہیں، ذہن اور فکر نہیں۔ اس کی کامیابی یہ ہے کہ وہ عوام سے دادِ تحسین وصول کرے ۔‘‘ اگر فاضل مضمون نگارمجلس احرار اسلام کی تحریک ختم نبوت کی خدمات کے متعلق تاریخی حقائق پر نظر رکھتے تو یقیناًاُن کے قلم سے مند رجہ بالا الفاظ نہ نکلتے۔ مجلسِ احرارِ اسلام اَسّی سال سے قادیانیت کے خلاف سرگرمِ عمل ہے۔ اگر یہ جذباتی تحریک ہوتی تو یہ ابتدائی چند سالوں میں ہی دم توڑ دیتی اور گمنامی کے غاروں میں گم ہو جاتی ،مگر مجلسِ احرارِ اسلام کے اکابرکی دُوررس نگاہوں اور اُن کی خداد بصیر ت نے تحفظِ ختمِ نبوت کے مقدس کام کی بنیاد جن اصول و عقائد اور دستور و منشور کی روشنی میں رکھی تھی ،اُن کے اثرات ماضی کی نسبت آج دنیا کے ہر خطے میں زیادہ واضح انداز میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔اُن کی شبانہ روز محنت کے صلہ میں اس محاذ پر مسلمان ہر جگہ سر خرو اور منکرینِ ختمِ نبوت دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔مجلسِ احرارِ اسلام ۱۹۲۹ء میں معرضِ وجود میں آئی جس کے قیام میں محدثِ کبیرعلامہ سیّد محمدانورشاہ کشمیریؒ جیسی نابغہ روزگارشخصیت کااصولی مشورہ شامل تھا۔قادیان کاقصبہ اُن دنوں قادیانیوں کی خودساختہ ریاست کادرجہ رکھتاتھا۔جہاں پرصرف قادیانی سربراہ مرزابشیرالدین محمود کاحکم چلتاتھا۔ایسے حالات میں علامہ انورشاہ کشمیریؒ اپنے شاگردوں مثلاً مولانامفتی شفیع مرحوم وغیرہ کو وقتاً فوقتاً قادیان بھیجا کرتے تھے ۔ تاکہ وہاں کے مسلمانوں کو قادیانیوں کے گمراہ کن عقائد سے محفوظ رکھا جا سکے ۔علامہ سید انور شاہ کاشمیری ؒ ہی نے قادیانیت کے خلاف مضبوط بنیادوں پر جدوجہد کو منظم کرنے کے لیے ۱۹۳۰ء میں انجمن خدامِ الدین لاہور کے اجتماع میں مولانا سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ؒ کو پنجاب کا امیر شریعت نامزد فرمایا اور خود سب سے پہلے سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کی بیعت کی ۔اُن کے بعد مولانا ظفر علی خانؒ اور مولانا احمد علی لاہوری ؒ سمیت پانچ سو علماءِ کرام نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کی بیعت کر کے انہیں امیرشریعت تسلیم کر لیا۔سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ؒ نے اس مقدس مشن کی تکمیل کے لیے علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کے مشورہ پر ہی آل انڈیا مجلسِ احرارِ اسلام کے نام سے ایک مستقل دینی و سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالی تھی ۔
مجلسِ احرارِ اسلام ہندو ستان کی پہلی جماعت تھی جس نے اپنے تاسیسی اجلاس میں ہی قادیانیت کی سرکوبی کے لیے قرار داد منظور کی ۔یہ درست ہے کہ مجلسِ احرارِ اسلام کے رہنماؤں نے اپنی جرأ ت و بے باکی اور غیرتِ دینی کے بل بوتے پر فرنگی سامراج کو جس واشگاف انداز میں للکارا ،وہ اپنی مثال آپ تھا۔ اُن کے اِ سی جرأت مندانہ اندازِ خطابت کی بدولت برِ صغیر فنِ خطابت کے ایک جدید اسلوب سے متعارف ہوا،لیکن مجلسِ احرار میں صرف خطابت کے ہی شہسوار نہیں تھے، بلکہ اِس میں علم و فضل کے اعلیٰ مقام پر فائز سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ،مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ، مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی،مولانا مفتی عبدالقیوم پوپل زئی ، مولانا لال حسین اختر ،مولانا محمد گل شیر خان شہید ، مولانا محمد علی جالندھری اور مولانا غلام غوث ہزاروی جیسی قد آور دینی و علمی شخصیات بھی تھیں ۔جنہوں نے اپنی منفرد خطابت اور قابلِ قدر دین فہمی کے جواہر کے ذریعے عوام کے بے سمت جذبات کو قادیانیت کے خلاف منظم کر کے اُن کے ذہن و فکر کو عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ کی پاسداری کے لیے تیار کیا۔
قادیانیت کے فرزندوں نے ظلم و دہشت کی فضا طاری کرنے کے علاوہ مناظرہ بازی ،لالچ اور دھونس کابازار گرم کر رکھا تھا ۔ مجلسِ احرارِ اسلام کے رہنماؤں نے قادیانیوں کے اِن ہتھکنڈوں کا تفصیلاً جائزہ لیا اور وہ بالآخر اس فیصلے پر پہنچے کہ چونکہ قادیانیت کا خمیر انگریز کے ایماء پر اُٹھایا گیا ہے اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے اس فتنے کو مذہب کا لباس پہنا دیا گیا ہے ۔لہذامناظروں اور مناقشوں سے حتی المقدور بچتے ہوئے قادیانیت کے دجل و فریب کو عوامی سطح پر بیان کیا جائے تاکہ وہ اَن پڑھ مسلمان جو مناظرانہ موشگافیوں اور مخصوص مذہبی اصطلاحات سے کچھ بھی واقفیت نہیں رکھتے، اُنہیں بھی قادیانیت کے ارتدادسے آشنا کیا جاسکے ۔ جب احرار رہنماؤ ں نے قادیانیت کے مکرو عقائد کو آسان زبان میں عوام کے سامنے لاکررکھا توعا م مسلمان بھی قادیانی مکرو فریب سے واقف ہوتا چلا گیا۔
احرار رہنما بخو بی جانتے تھے کہ قادیانیت جیسے فتنے کا صرف علمی انداز سے تعاقب کرنا اور محض کتب و رسائل کے ذریعے اس کے نظریات و افکار کی تردید کر دینے سے ہی کماحقہ دینی فرض ادا نہیں ہو جا تا کیونکہ اس کا فائدہ چند فی صد تعلیم یافتہ مسلمانوں تک ہی محدود رہتا ہے اور مسلمانوں کی بڑی تعداد جو تعلیم کی کمی کی وجہ سے کتابی علم سے استفادہ کرنے سے یکسر محروم رہ جاتی ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنی بے مثل خطابت سے کام لیتے ہوئے عقیدۂ ختمِ نبوت کی اہمیت اور قادیانیت کی اصل غرض و غایت لوگوں کے دل و دماغ میں بیٹھا دی۔احرار نے قادیانیت کے متعلق پڑھے لکھے مسلمانوں کو کتب و رسائل کے ذریعے شعور بخشنے میں بھی ہر گز کوئی کوتاہی نہیں کی، بلکہ وہ اپنے شعبہ ء نشرواشاعت کے ذریعے ۱۹۳۰ء سے اب تک بے شمارلٹریچرشائع کرتی چلی آرہی ہے۔
خورشید ندیم صاحب نے ایک اور عجیب و غریب نکتہ اعتراض اُٹھایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ :’’احرار کا ہدف بد قسمتی سے قادیانیت کی بجائے قادیانی بن گئے،کیونکہ فنِ خطابت کی ضرورت یہی تھی ۔اب بجائے یہ بتانے کے کہ قادیانیت کیسے اسلام کے بنیادی عقائد سے متصادم ہے ،سارا زور اس پر صر ف ہونے لگا کہ قادیانی کیسے اسلام،مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ اس اسلوب کے غلبے سے قادیانیوں میں ایک ردِ عمل پیدا ہوا ،اور اُن میں اصلاح کی بجائے دفاع کا جذبہ ابھرا۔دوسری طرف ایک عام مسلمان پر یہ اثر ہوا کہ اس میں قادیانیوں سے نفرت اور ناپسندیدگی پیدا ہوئی ۔‘‘ اگر محترم مضمون نگار قادیانیت کی پیدائش ، قادیانیت کے تخلیق کاروں کے حقیقی عزائم و مقاصد اور قادیانیت کے اسلام دشمن اور ملت کش منصوبوں کا بغور مطالعہ فرماتے تو انہیں احرار کو مطعون کرنے کی ہرگز ضرور ت پیش نہ آتی، کیونکہ اس ناقابلِ تردید حقیقت کو تمام دینی و سیاسی حلقے اور تاریخ دان طبقے بالاتفاق تسلیم کرتے ہیں کہ قادیانیت کی تخم ریزی کے پیچھے انگریز سامراج کے دو بڑے عزائم کار فرما تھے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کی مرکزیت کو منہدم کرنے کے لیے جناب ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ ختمِ نبوت کے برعکس سامراجی نبوت کے برگ و بار اُٹھائے جائیں اور دوسرا یہ کہ اس خانہ ساز نبوت کے ذریعے مسلمانوں کو سامراج کا مطیع و فرمانبردار غلام بنایا جائے۔پس آنجہانی مرزاغلام احمد قادیانی کا دعوئ نبوت اِنہی دومقاصد یعنی مسلمانوں میں انتشارپھیلانے اورانگریزپرستی کو رواج دینے کاابتدائیہ ثابت ہوا۔جس نے آگے چل کر نوے سال تک برصغیر کے مسلمانوں کو مضطرب کیے رکھا۔
چونکہ قادیانیت کے آغازسے ہی علماء کرام قادیانیت کے عقائدونظریات اوراُس کے اسلام اورمسلمانوں سے متصادم فکرونظر کی بابت تفصیل سے بتاتے چلے آئے تھے۔اِس لیے مجلسِ احرارِ اسلام نے اس ضرورت کا احساس کیا کہ اب قادیانیت کے عقائد کے بیان کے ساتھ ساتھ اُ س کے قوم و ملک کے خلاف دہشت گردانہ منصوبوں کو بھی طشت ازبام کرنا ضروری ہے۔تاکہ مسلمان اُس کی تخریبی کارروائیوں سے بھی واقف ہوسکیں۔ اس لیے احرارنے قادیانیت کے پیرو کاروں کی اسلام ،مسلمانوں اور ملک کے خلاف سازشوں سے عوام کی آگاہی کو ناگزیر امر قرار دیا ۔حیرت ہے کہ فاضل مضمون نگار مجلسِ احرارِ اسلام کے اس عمل کو مسلمانوں میں قادیانیوں سے نفرت اور ناپسند یدگی پیدا ہونے کی وجہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمان عوام میں قادیانیوں کے خلاف نفرت خود قادیانیوں کے مذموم عقائد اور مسموم اعمال نے ہی پیدا کی ہے۔مثلاً مرزاغلام احمدقادیانی نے مسلمانوں کو ذُریۃ البغایۃ یعنی کنجریوں کی اولاد ہونے کی گالی دی۔ حتیٰ کہ مرزاقادیانی کے پوتے مرزا ناصر احمد نے ۱۹۷۴ میں قومی اسمبلی میں یہ اعتراف کیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہ ماننے والوں یعنی مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں ۔کیا قادیانی وڈیروں کے ایسے سینکڑوں غلیظ بیانات ہی مسلمانوں میں قادیانیوں کے خلاف جذبات کو ہوا دینے کا باعث نہیں بنے تھے؟
اکتوبر ۱۹۳۴ ء میں جب مجلس احرارِ اسلام نے قادیان کے مسلمانوں کی دعوت پر وہاں آل انڈیا احرار تبلیغ کانفرنس منعقد کی تو اس کا نفرنس کے اثرات سے گھبرا کر قادیانیوں نے امیرِشریعت سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ؒ پر مقدمہ کر ا دیا۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے ۲۰دسمبر ۱۹۳۴ء کو عدالت میں بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ مرزائی دنیا کے اُن تمام چالیس کروڑ مسلمانوں کو جو مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتے ،کافر کہتے ہیں ۔اس واسطے انہوں نے اپنے تمام تعلقات مسلمانوں سے منقطع کر لیے ہیں ۔اُن کی رشتہ داریاں منقطع ہو گئی ہیں ۔وہ مسلمانوں کو اپنی لڑکیا ں نہیں دیتے ۔مسلمانوں کا جنازہ نہیں پڑھتے ۔ہم کو خنزیر کہتے ہیں ہماری ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں کو کتیوں سے بد تر کہتے ہیں ۔اس لیے انہوں نے ہمارے سے تعلقات منقطع کر لیے ہیں ۔‘‘ ) ہفت روزہ ’’ آفتاب ‘‘،ملتان ۳۱ دسمبر ۱۹۳۴ ء ( سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ؒ کے اس بیان سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے نفرت اور دُوری کی ابتدا،اور انتہاء قادیانی عناصر نے خود کی تھی ۔سید عطا ء اللہ شاہ بخاری کے مذکورہ بالا مقدمہ کا فیصلہ ممتاز جج جسٹس جی ،ڈی کھوسلہ نے کیا تھا۔اس فیصلہ میں بھی فاضل جج نے قادیانیوں کو ہی مسلمانوں پر مظالم کا مرتکب اور اُنھیں مشتعل کرنے کا باعث قرار دیا تھا ۔
محترم خورشید احمد ندیم نے قادیانی اور قادیانیت کی تفریق کر کے لفظی بازیگری سے کام لیا ہے ۔قادیانیت اگر مخصوص عقیدہ و نظر یہ کا نام ہے تو قادیانی ہی اُس کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ ہیں۔اگر آج فلسطینی مسلمانوں پر یہودیوں کے مظالم کی مذمت کی جاتی ہے یا یہودیوں کی سازشوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو دراصل یہودیوں سے مراد یہودیت ہی ہوتی ہے۔ اس طرح اگر قادیانیوں کی مذموم سرگرمیوں کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے تو یہ در حقیقت قادیانیت ہی کا تذکرہ ہوتا ہے ۔اگر مجلسِ احرارِ اسلام کے رہنما قیام پاکستان سے قبل پنجاب کی تقسیم کے دوران سر ظفر اللہ خان قادیانی کے باؤنڈری کمیشن میں پاکستان کا کیس خراب کرنے کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعدظفر اللہ خان کے قائدِ اعظم کا جنازہ نہ پڑھنے کا حوالہ پیش کرتے ہیں اور ظفر اللہ خان قادیانی کے ہی بحیثیت وزیرِ خارجہ ،پاکستان کو سیٹو اَور سینٹو جیسے بدنامِ زمانہ معاہدوں میں جکڑ کر پاکستان کی خود مختاری کو داؤ پر لگا دینے کے متعلق حقائق و اشگاف کرتے ہیں،یا اسرائیل میں قادیانیوں کے مشن کے موجودہونے کے متعلق قادیانی رسائل کے حوالے سے عوام کوآگاہ کرتے ہیں تو یہ اُن کا دینی ہی نہیں، قومی فریضہ بھی ٹھہرتا ہے، کیونکہ دین و ایمان اور قوم و ملک کے دشمن کے تخریبی ارادوں سے قوم کو بروقت خبردار کرنا قوم کے سچے خیر خواہ ہوں کا شیوہ ہو ا کرتاہے ۔
اگر اِن حقائق کو جان لینے سے قوم میں دوست ،دشمن کی پہچان پیدا ہوجا تی ہے اور اِس میں اپنے دین و طن کے غداروں کے کردار و عمل سے نفرت جنم لیتی ہے تو یہ ہماری دینی ،قومی اور ملی غیرت کا تقاضا بھی ہے ۔ دشمن کے ہاتھ میں خنجر دیکھ کر بھی اُسے دوست سمجھتے ہوئے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینا سراسر حماقت و نادانی ہے ۔یادرہے !کہ نادان دوست ،دشمن سے کہیں زیادہ خطر ناک ہو ا کرتا ہے۔ اگر خورشید احمد ندیم کے فلسفہ کے مطابق قادیانیوں کی اسلام ،مسلمان اور پاکستان کے خلاف سازشوں کی نقاب کشائی سے قادیانیوں کے خلاف نفرت کو فروغ ملتا ہے، تو علامہ محمد اقبالؒ کے پنڈت جواہر لال نہرو کے نام خط میں شامل اِس جملے کے متعلق کیا کہا جائے گا کہ :
’’میں اِ س باب میں کوئی شک و شبہ اپنے دل میں نہیں رکھتا کہ یہ احمد ی ،اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں‘‘۔
ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام کانفرنس
ادارہ
ہندوستان کی آزادی کے ۶۳ ویں جشن کے موقع پر۸؍اگست۱۰۱۰ء بروزاتوارایسٹ لندن کے معروف تعلیمی ادارے دارالامہ کے وسیع ہال میں ورلڈاسلامک فورم کے زیرِاہتمام ایک عظیم الشّان کانفرنس زیرِصدارت مولاناعیسیٰ منصوری منعقدہوئی جس کاعنوان تھا: ’’برصغیرکی تحریک آزادی میں مسلمانوں کاکردار اور آزادی کے ۶۳ برس میں کیا کھویا کیا پایا‘‘۔ کانفرنس میں لندن اوربرطانیہ کے مختلف شہروں سے ہرطبقہ کے لوگوں خصوصاً مختلف تنظیموں، اداروں، مساجد اوراسلامک سینٹرزکے ذمہ داروں نے شرکت کی۔ کانفرنس میں بھارت سے میڈیاکے مشہورسہاراگروپ کے چیف ایڈیٹر جناب عزیزبرنی بطورِمہمان خصوصی شریک ہوئے۔ بھارت میں اردوتفتیشی صحافت کاسہراڈاکٹرعزیزبرنی کے سرہے جنہوں نے گذشتہ ایک دہائی میں کمیونل دہشت گرد صحافت کامردانہ وارمقابلہ کیا اورثابت کردیاکہ گذشتہ چندسالوں میں حیدرآباد کی مکّہ مسجد ،اجمیرشریف ،جے پور،مالیگاؤں اورسمجھوتہ ایکسپریس کے بم دھماکے کسی مسلمان نے نہیں بلکہ ہندوتواکے دہشت گردوں نے کیے جن میں مندرکے پروہت پچاری، بھارتی فوج کے حاضرسروس کرنل تک شامل ہیں۔ عزیز برنی کی ایک درجن سے زیادہ اردووانگریزی تحقیقی کتب دنیابھرمیں پڑھی جارہی ہیں۔
کانفرنس کے دوسرے مہمان خصوصی بھارت کے ممتازعالم دین اوردرجن بھرعلمی وتحقیقی کتب کے مصنف جناب مفتی محفوظ الرحمن عثمانی تھے۔ ان کے علاوہ بھارت کے عظیم علمی ودینی ادارے جامعہ سیداحمدشہیدؒ کھتولی(یوپی) کے استاذجناب مولاناانعام صاحب،جنگ کے سابق ایڈیٹر جناب ظہورنیازی صاحب،شیخ الحدیث مولانامحی الدین بڑودوی،جماعت اسلامی کے ممتاز عالم واسکالرمولانارضوان فلاحی اردو کمپیوٹرسینٹرکے ڈائریکٹروبراڈکامسٹرمفتی برکت اللہ، لندن شہرکے مولانا عبدالحلیم، مولانا رفیق،مفتی ابراہیم کاوی،حافظ عبدالرشید کاوی ،مولانا مسعودعالم ،معروف ادیب وشاعرکامران رعد، ورلڈ سینٹر اسلامک فورم کے سیکریٹری جناب جعفر،خزانچی غلام قادرصاحب،انڈین مسلم فیڈریشن کے نائب صدرعرفان مصطفی، فیڈریشن کے ٹرسٹی جناب شیخ یوسف، انورشریف اور ان کے علاوہ برطانیہ کے مختلف شہروں سے نمائندہ شخصیات نے شرکت کی۔
کانفرنس کاآغازجناب حافظ عبدالرشید کی تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا ۔ اس کے بعدجناب مفتی محفوظ الرحمن عثمانی نے جنگِ آزادی میں مسلمانوں کے کردارپرتفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ برصغیرمیں مسلم سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں کی علمی ودینی بیداری اورنشأۃ ثانیہ کاسہراحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اورآپ کے خانوادہ کے سر ہے۔ سب سے پہلے حضرت شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ نے انگریزحکومت کے خلاف برصغیر کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا۔ اس کے بعدبرصغیرمیں حصول آزادی کے لیے تقریباً ۲۰۰؍سالہ مسلمانوں کی قربانیوں اورسرفروشی کی تاریخ کا زریں باب ہے۔ منہج خلافت راشدہ پر اسلامی حکومت کاقیام کے لیے شاہ ولی اللہؒ کے پوتے حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ اورحضرت سیداحمدشہیدؒ بریلوی کی قیادت میں سینکڑوں علما وصلحا نے ارض بالاکوٹ کواپنے مقدس خون سے لالہ زار بنایا۔ پھرعلماء صادق پور،علماء فرنگی محل، مولانااحمد اللہ مدراسی کے جہاد کاتسلسل قائم رہا۔۱۸۵۷ء کے موقع پر ۵۸ ہزار علماء کوشہیدکیاگیااورپھانسی کے تختہ پر لٹکایا گیا۔ دہلی سے سرحدتک سات سومیل تک درختوں پرعلماء حق کی لاشیں لٹک رہی تھیں۔ شاملی کے میدان میں علماء حق نے انگریزی فوج کامردانہ مقابلہ کیا جس کے سالاراعلیٰ حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکی، امام رباّنی مولانارشیداحمدگنگوہیؒ اوربانی دیوبند حجۃ الاسلام مولاناقاسم نانوتوی تھے۔ شاملی کے میدان میں حضرت پیرضامنؒ سمیت سینکڑوں علماء ومحدثین نے جام شہادت نوش کیا۔ ان کے بعدتحریک آزادی میں مولانامحمودحسن دیوبندی، مولاناحسین احمد مدنی، مولاناعبیداللہ سندھی، مولاناابولکلام آزاد، مفتی کفایت اللہ، مولاناحفظ الرحمن سیوہاروی کی جدجہدکی طویل تاریخ ہے۔ مفتی صاحب نے نہایت موثراندازمیں برصغیرکی تحریک آزادی میں مسلمانوں اور خاص طورپرعلماء حق کی قربانیوں اورکردارپرتفصیل سے روشنی ڈالی۔
مہمانِ خصوصی جناب ڈاکٹرعزیزبرنی نے موجودہ حالات کے تناظرمیں عالمِ اسلام کاجائزہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ آج عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ ومغرب نے مسلمانوں کوبدنام کرنے کے لیے میڈیا وپروپیگنڈہ کے ذریعہ دہشت گردی کا الزام مسلمانوں کے سرمنڈھ دیاہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود امریکہ ویورپ نے مسلم ممالک میں ریاستی دہشت گردی شروع کر رکھی ہے۔ مغرب کی اسلام دشمنی طاقتوں نے۱۱؍۹ کاواقعہ انجام دے کر الزام مسلمانوں کے سر ڈال دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتنی اہلیت، اتنی سائنس وٹیکنالوجی ہے ہی نہیں کہ وہ ایساواقعہ انجام دے سکیں۔ بعدمیں امریکہ، جرمنی، فرانس، جاپان، برطانیہ کے متعدد تفتیشی اداروں اور اسکالرزنے دلائل سے ثابت کیاہے کہ ۱۱؍۹ کاواقعہ مسلمانوں پرالزام ڈال کرمسلم ممالک میں مداخلت کابہانہ بنانے کے لیے خودامریکہ کی اندرونی اسلام دشمن قوتوں نے انجام دیا۔ اس المناک واقعہ میں کوئی افغانی شریک نہیں تھا، پھربھی امریکہ ویورپین افواج نے افغانستان کوتباہ کرکے دوملین سے زیادہ بے قصورمسلمانوں کوقتل اورکئی ملین کو معذور وجلاوطن کردیا۔ اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے اورامریکی یوروپی ممالک تسلیم کرچکے ہیں کہ اسرائیلی موساد کے کہنے پرامریکی سی آئی اے نے عراق میں تباہ کن اسلحہ کی جھوٹی دستاویز تیارکی تھی جسے بہانہ بناکرعراق کوتباہ کردیاگیا اور دوملین سے زیادہ بے قصور مسلمانوں کو قتل اورپانچ ملین سے زیادہ کو معذور وجلاوطن کر دیا گیا۔
ڈاکٹربرنی نے کہا کہ اسرائیل آئے دن معصوم فلسطینیوں کی بستیوں کوبلڈوزرکے ذریعے مسمارکرکے وہاں اسرائیلی بستیاں بسارہاہے۔ بے قصور فلسطینیوں کواسرائیل فوج وپولیس قتل کررہی ہے۔ اسرائیل نے پوری فلسطینی آبادی کو امریکہ کی بدنام زمانہ ’گونٹاناموبے‘ کی طرح اذیت ناک جیل وقیدخانہ میں تبدیل کر رکھا ہے۔ انہیں بجلی ،پانی،خوراک حتی کہ دواؤں تک سے محروم کررکھاہے۔ یہ سب عالمی برادری بالخصوص امریکہ ویوروپ کی مجرمانہ خاموشی،درپردہ اسرائیل کی حمایت کے سبب ہو رہا ہے۔ ڈاکٹربرنی نے کہاکہ کشمیرکامسئلہ بھی اس لیے سلگ رہاہے اورحل نہیں ہوپارہاہے کہ کانگریس سمیت بھارت کی تمام سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کے ہرمعاملہ کو کمیونل اورفرقہ وارانہ رنگ دیتی ہے،جب کہ کشمیر اٹوٹ انگ ہے اورکشمیری خوشی سے آپ کے ساتھ آئے ہیں۔ پھرجب وہ فریاد اور شکایت کرتے ہیں توان کی دادرسی کرنے کے بجائے کانگریس مٹھی بھر کمیونل برہمن وادی طاقتوں سے ڈرکرکشمیریوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کرتی ہے۔ جب تک کانگریس اورسیکولر پارٹیاں اپنی ذہنیت نہیں بدلیں گی اورآرایس ایس کی خوشنودی کے لیے کشمیریوں پر جبروظلم کے فیصلے تھوپتی رہیں گی، کشمیرکامسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ آپ کویہ کہناہوگاکہ صرف کشمیرکی سرزمین نہیں بلکہ کشمیری ہمارے بھائی ہیں۔
ڈاکٹربرنی نے کہاکہ میں نے پہلے ہی دن کہاتھاکہ ممبئی دہشت گردی کے واقعہ میں صرف دس آدمی نہیں ،امریکہ اوربھارت کی کمیونل طاقتیں بھی شریک ہیں۔ بعد میں امریکی ایجنٹ ہیڈلی اوربھارتی آئی بی کے مشکوک کردارنے میری بات کو ثابت کیا۔ ہمیں پوری انسانیت کو ایک کنبہ تصورکر کے ہمدردی اورحقیقت پسندی کے ساتھ مسائل سے نمٹناہوگا۔ جب تک بھارت میں گانگریس مہاتماگاندھی اورنہروکے سیکولرراستے کے بجائے آر ایس ایس اورہندو کمیونل طاقتوں کی خوشنودی کے لیے کام کرے گی،ہندومسلم کشیدگی ونفرت کاالاؤبھڑکتارہے گا۔ہرفرقہ وارانہ فسادمیں۹۰،۹۵ فیصد مسلمانوں کانقصان کیوں ہوتا ہے؟ ہر فسادنے ثابت کیا ہے کہ انتظامیہ اورپولیس میں خاصی تعدادمیں آرایس ایس کے کمیونل ذہن کے لوگ شامل ہیں جو مسلمانوں کے قتل وتباہی میں خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ جب تک یہ ذہنیت نہیں بدلے گی، وطن عزیزمیں ہندومسلم یکجہتی وبھائی چارہ رواداری اورمحبت وپیارسے مل جل کررہنے کاخواب شرمندہ تعبیرنہیں ہوسکے گا۔
صدرجلسہ مولاناعیسیٰ منصوری نے کہا کہ برصغیرکی تعریف ساری دنیامیں نرالی وعجیب وغریب ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کے ہزار سالہ دورِ حکومت میں مسلمانوں کی تعدادپانچ فیصد بھی نہیں رہی مگر پوری مدت میں ایک واقعہ بھی نہیں ملتا کہ ہندوعوام نے کبھی مسلم اقتدار کے خلاف بغاوت کی ہو۔ بھارت کی ہزارسالہ تاریخ میں جنگیں سیاسی اوراقتدارکی جنگیں کی تھیں نہ کہ مذہب کی۔ بھارت کی ہزارسالہ تاریخ میں کئی بارمسلمانوں نے سیاسی شکست کھائی مگرپوری تاریخ میں ایک واقعہ بھی نہیں ملتاکہ کسی ہندونے اسلام یاپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلافہ ہرزہ سرائی کی ہویارنگیلا رسول جیسی بدبختانہ کتاب لکھی ہو۔ یہ نفرت کا بیج انگریز وں نے اپنے اقتدار کوطول دینے کے لیے بویا۔ آج بھارت کی آر ایس ایس اور شیو سینا، بجرنگ دل، سب انگریز کی پیداوار ہیں، ان کا جنگ آزادی میں ذرہ برابر کردار نہیں، جبکہ بھارت میں مسلمانوں کی ملک کی آزادی کے لیے ۲۰۰ سو سالہ شاندار تاریخ ہے۔ بنگال کے نواب سراج الدولہ کی شہادت ۱۷۹۹ ء میں اور بالا کوٹ میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل کے ساتھ سیکڑوں علما کی شہادت، ۱۷۳۱ کا واقعہ ہے۔ ۱۷۹۹ میں سلطان ٹیپو شہید کی شہادت کے بعد انگریز فوج کا سالار خوشی سے چلا اٹھا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔ جنگ آزادی میں سب سے عظیم اورتابناک کردار علماء حق کاہے جس کاتسلسل حاجی امداداللہ مکیؒ سے ہوتاہوا شیخ الہندمحمودحسنؒ دیوبندی ،مولاناآزاداورحضرت مدنیؒ تک ہے۔
مولانامنصوری نے کہاکہ آپ کے مسائل کا واحدحل یہی ہے کہ آپ اللہ سے اپنارشتہ مضبوط کریں اوراللہ کاسچّے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جوامانت اورذمہ داری آپ کوسونپی ہے، دنیاکے ہرانسان تک قرآن کاپیغام اورایمان ،اسلام اور توحیدکی دعوت پہنچائیں۔ جب تک ہم اپنااصل کام نہیں کریں گے یعنی اللہ رسول کاپیغام ہرانسان تک نہیں پہنچائیں گے، اسی طرح تباہ وبرباد رہیں گے۔ بلاشبہ بھارت میں ہمارے بے شمارمسائل ہیں، ناانصافیوں اورظلم کی ۶۳ سالہ تاریخ ہے۔ تعلیمی پسماندگی، بے انتہا غربت، ہر معاملہ میں ناانصافی وظلم مثلاً پارلیمنٹ میں سوکے بجائے ۲۵سیٹیں، ملازمتوں فوج، پولیس میں ۱۵فیصد کے بجائے بمشکل دوفیصد ،فسادات کے عنوان سے نسل کشی وتباہی، مگر میں کہتا ہوں کہ اگرآپ فلسطینیوں کی طرح سو فیصد تعلیم یافتہ ہوجائیں، تیل کی دولت سے مالامال عرب ممالک کی طرح مالداربن جائیں، ملازمتوں میں ۲۰ فی صد ریزرویشن مل جائے، بھارتی پارلیمنٹ میں آپ کی سو سیٹیں ہوجائیں، تب بھی اسی طرح برباد رہیں گے جب تک اپنی اصل ذمہ داری کااحساس نہ کریں، یعنی ایمان واسلام کی دعوت کے لیے کھڑے نہ ہوں۔
مولانامنصوری نے کہا کہ آپ کی اصل پہچان اورحیثیت داعی کی ہے اورداعی تاجرکی طرح ہوتاہے۔ تاجراپنامال بیچنے کی خاطر گاہک کی ہزار بدتمیزی وبے ہودگی برداشت کرتاہے۔ اسی طرح اللہ کا دین پہنچانے کے لیے آپ کوبھی برداشت کرنا ہوگا۔ اگرآپ کی دوکان نہیں چلتی توآپ یہ کہہ کربندنہیں کردیتے کہ گاہک نہیںآرہے، بلکہ ناکامی کے اسباب پرغورکرکے امکان بھر جدوجہدمیں لگ جاتے ہیں۔ اگراسٹاف نااہل ہے تواسے تبدیل کرتے ہیں، دکان کا ڈیکو ریشن، فر نیچر تر غیب دلانے والانہیں تو اسے بدلتے ہیں، دوکان کا سامان بدلتے ہیں، دوکان کی جگہ تبدیل کرتے ہیں، پھر بھی نہ چلے تو ایڈورٹائزنگ کے جدید ترین ذرائع اختیار کرتے ہیں حتی کہ دکان چل پڑتی ہے، مگر جب اللہ کے بندوں کو اس کا پیغام پہچانے کا مسئلہ در پیش ہو تو صدیوں پرانے فرسودہ طریقوں اور اسلوب پر اکتفا کر کے بیٹھ جاتے ہو کہ کیا کریں، لوگ دینی کتابیں پڑھتے ہی نہیں! دین کی بات کی بات سنتے ہی نہیں! آپ تجارت میں بہت ہوشیار اور دعوت میں نااہل بن جاتے ہیں۔
آج ہم ہر جگہ اپنی مظلومیت کا رونا رو رہے ہیں کہ فلسطین میں ہمارے ساتھ یہ ظلم ہو گیا، چیچنیا میں یہ ظلم ہو گیا، کشمیر میں یہ ظلم ہو گیا، آپ انسانوں کی نظروں میں مظلوم مگر اللہ کے نزدیک ظالم ہیں کہ اللہ نے آپ کو دنیاکے ہر انسان کے لیے ہمیشہ کی فلاح و کامیابی اور ہمیشہ ہمیشہ کی ناکامی وبربادی سے بچنے کا نسخہ شفا قرآن اور اسلام کی شکل میں دیا تھا۔ آج لاکھوں مسلمان مرمر کر ہمیشہ ہمیشہ کی ہلاکت وبربادی یعنی جہنم میں جارہے ہیں، آپ نے ان کی فکر نہیں کی، ان پر رحم نہیں کیا، اپنی دنیا بنانے میں لگے رہے تو اللہ نے سزاکے طور پر ان لوگوں کو استعمال کرکے آپ کی دنیا کو جہنم بنادیا۔ آج دنیا میں پوری انسانیت ظلم و بر بریت کی چکی میں پس رہی ہے، اس کے ذمہ دار ہم اور آپ ہیں ۔اب ان کی نجات کے لیے کوئی بھی نہیں آئے گا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح فرمان کے مطابق دنیا کے ہر انسان سے آپ کا خونی رشتہ ہے کہ وہ بنی آدم ہے۔ وہ آپ کے حریف نہیں، رحم کے مستحق ہیں ،آپ کو ایمان اور اسلام کی دعوت لر کر اٹھنا ہوگا، ورنہ اسپین کی طرح برطانیہ، یورپ، امریکہ ہی میں نہیں، پوری دنیا میں آپ بربادی اورہلاکت سے نہیں بچ سکتے۔
اجلاس میں مفتی محفوظ الرحمن صاحب عثمانی کی تازہ تصنیف ’’ذکراقائما‘‘ جو علماء گجرات کی علمی و دینی خدمات پر مشتمل ہے کی رونمائی ڈاکٹر عزیز برنی ،مولانا منصوری ، مولانا عثمانی اور سابق ایڈیٹر روزنامہ جنگ لندن جناب ظہور نیازی کے ہاتھوں ہوئی ۔ آخر میں ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے ڈاکٹر عزیز برنی کو ان کی جرأت وبے باکی اور خدمات پر مولانا محمد علی جوہر ایواڈ، مولانا منصوری ، مولانا عثمانی اور ظہور نیازی صاحب کے ہاتھوں دیا گیا۔ اجلاس اسی ایواڈ کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
بھارت میں ’’مشترکہ خاندانی قوانین‘‘ کا ایک مجوزہ منظر
ادارہ
لیجیے، یونیفارم سول کوڈ تیار ہے۔ مردوں اور عورتوں سب کو تعدد ازدواج کا حق دیا جا رہا ہے۔ مرد بھی بیک وقت کئی شادیاں کر کے کئی بیویاں رکھ سکتے ہیں اور اسی طرح عورتیں بھی کئی کئی شادیاں کر کے بیک وقت کئی کئی شوہر رکھ سکتی ہیں۔ اس کے لیے راجیہ سبھا میں ایک پرائیویٹ بل پیش کر دیا گیا ہے۔ یہ بل بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ، سابق گورنر اور پنجاب وہریانہ کے سابق چیف جسٹس ایم راما جوئس نے پیش کیا ہے۔ (دی سنڈے گارجین، ۱۸ جولائی)
بی جے پی ایک زمانے سے یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کے لیے تحریک چلا رہی ہے۔ اس کے لیے طرح طرح کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ خود آئین سازوں نے بھی آرٹیکل ۴۴ میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کو حکومت کی بنیادی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ بی جے پی کے ایک ممبر نے اس کے لیے عملی قدم اٹھا دیا ہے۔ جو مردوں اور عورتوں کو تعدد ازدواج کے معاملے میں مساوی حق اور برابری کا درجہ دینے کے قائل ہیں، وہ اس بل کے ذریعے عورتوں کے خلاف مذہب یا جنس کی بنیاد پر امتیاز کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس بل کے ذریعے شادی اور طلاق کے سلسلے میں ایسا قانون بنانا چاہتے ہیں جس میں مختلف مذاہب کے احکام وتعلیمات کو یکجا کر دیا جائے گا۔ اس بل میں دوسری شادی کا راستہ نکال کر طلاقوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے مسئلے پر قابو پانے کا خواب دیکھا گیا ہے کہ ایک مرد یا عورت اپنے موجود شریک حیات کی مرضی سے طلاق لیے بغیر دوسری شادی کر سکتا اور کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تعدد ازدواج موجودہ قانون کے تحت مردوں اور عورتوں کے لیے ناممکن ہے جب تک کہ وہ طلاق نہ لے لیں، لیکن بہرحال زندگی میں ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں جب خاندان یا جوڑے کے لیے دوسری شادی لازمی ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر میاں بیوی دونوں ایک خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے بیوی کسی ایکسیڈنٹ میں دونوں ٹانگوں سے محروم ہو جاتی ہے، تب وہ ایک بیوی کی حیثیت سے اپنے لازمی فرائض ادا نہیں کر پاتی۔ اگر وہ چاہے تو اس کا شوہر دوسری شادی کر سکتا ہے، لیکن موجودہ قوانین طلاق کے بغیر اس طرح کی شادی کی اجازت نہیں دیتے، باوجودیکہ مختلف علیحدہ علیحدہ قوانین موجود ہیں۔
واضح رہے کہ خاندانی پراپرٹی میں افراد کے حقوق، حق وراثت، اقلیت، سرپرستی، شادی اور طلاق سے متعلق قوانین سول کوڈ کہلاتے ہیں۔ ان میں شادی اور طلاق سے متعلق قوانین بہت اہمیت کے حامل ہیں اور اس سلسلے میں آئین کے نفاذ سے پہلے کے بھی اور بعد کے بھی دونوں وقتوں کے اور مختلف قسم کے قوانین موجود ہیں۔ ہندو شادی ایکٹ ۱۹۵۵ء، اسپیشل شادی ایکٹ ۱۹۵۴ء، ۱۹۶۳ء کا ایکٹ نمبر ۳۲، ۱۹۴۹ء کا ایکٹ نمبر ۳۳، ۱۹۷۰ء کا نمبر ۲۹ اور ۱۹۷۶ء کا نمبر ۶۸، انڈین کرسچین میرج ایکٹ ۱۸۷۲ء، پارسی شادی وطلاق ایکٹ ۱۹۳۶ء اور مسلم نکاح وطلاق کی ایکٹ ۱۹۵۱ء۔ ان تمام باتوں کا ذکر کرتے ہوئے بل میں کہا گیا ہے کہ مسلم پرسنل لا کے تعلق سے پارلیمنٹ نے آئین کے نفاذ کے بعد کوئی قانون نہیں بنایا ہے۔ شادی اور طلاق سے متعلق مسلم پرسنل لاء ایک مرد کو بیک وقت چار بیویاں رکھنے کا حق دیتا ہے اور پھر شوہر کو یک طرفہ طور پر زبانی الفاظ کہہ کر بیوی کو طلاق دے دینے کا حق بھی دیتا ہے۔ یہ قوانین امتیاز پر مبنی ہیں اور عورتوں کے خلاف ہیں، جبکہ آئین کا آرٹیکل ۱۵ جنس اور مذہب کی بنیاد پر امتیاز کو ممنوع قرار دیتا ہے۔
یاد رہے کہ کوئی بھی ممبر پارلیمنٹ جو وزیر نہ ہو، اگر پارلیمنٹ میں کوئی بل پیش کرتا ہے تو اس کو پرائیویٹ بل کہا جاتا ہے اور ۱۹۷۰ء کے بعد سے پارلیمنٹ نے کوئی پرائیویٹ بل پاس نہیں کیا ہے، لیکن ایک ایسے وقت میں جب مختلف کھاپ اندرون گوتر شادی کے خلاف قانون قرار دیے جانے کے لیے تحریک چلا رہی ہیں، جنسی انارکی وبے راہ روی کے نتیجے میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں جنون عشق کا طوفان برپا ہے، وہ گھر سے فرار ہو کر من مانے طریقے سے شادیاں رچا رہے ہیں اور مغربی دنیا کی تقلید کرتے ہوئے پارٹنر شپ، کورٹ شپ کی راہ اختیار کر رہے ہیں اور اب بالخصوص قومی راج دھانی دہلی اور اس کے ارد گرد او ربالعموم پورے ملک میں ناموس کے نام پر قتل کے واقعات کا سلسلہ روز بروز زور پکڑتا جا رہا ہے، حکومت ہندو میرج ایکٹ میں ترمیم پر غور کر رہی ہے، اس بل کو یقیناًزیر بحث لایا جائے گا۔ مختلف فرقے، مذاہب اور تہذیبوں کے ماننے والے اس کو کہاں تک قبول کرتے ہیں، دیکھنے کی بات ہے۔ تاہم مسلمانوں کو جو قرآن وسنت کے احکام وتعلیمات پر ایمان وعقیدہ رکھتے اور ان پر عمل کرتے ہیں، ہر وقت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
(سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی)
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی سالانہ رپورٹ
ادارہ
(شعبان المعظم ۱۴۳۰ھ تا رجب ۱۴۳۱ھ ۔ جولائی ۲۰۰۹ء تا جون ۲۰۱۰)
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ ۱۹۸۹ء سے اسلام کی دعوت وتبلیغ، اسلام مخالف لابیوں کی نشان دہی اور ان کی سرگرمیوں کے تعاقب، اسلامی احکام وقوانین پر کیے جانے والے اعتراضات وشبہات کے ازالہ، دینی حلقوں میں باہمی رابطہ ومشاورت کے فروغ اور نوجوان نسل کی فکری وعلمی تربیت وراہ نمائی کے لیے مصروف کار ہے۔ مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے خطیب اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے صدر مدرس مولانا زاہد الراشدی اکادمی کے ڈائریکٹر ہیں جبکہ حافظ محمد عمار خان ناصر (فاضل وفاق المدارس العربیہ، ایم اے انگلش پنجاب یونیورسٹی) ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر ان کی معاونت کرتے ہیں۔
اکادمی کی سال رواں کی رپورٹ احباب ومعاونین کی خدمت میں پیش ہے:
اکادمی کے زیر اہتمام دینی مراکز
- ۱۹۹۹ سے جی ٹی روڈ گوجرانوالہ پر کنگنی والا بائی پاس کے قریب سرتاج فین کے عقب میں ہاشمی کالونی میں اکادمی کی تین منزلہ عمارت اس وقت اکادمی کی بیشتر تعلیمی اور علمی وفکری سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ مسجد خدیجۃ الکبریٰ کے علاوہ اکادمی کے دفاتر، لائبریری اور الشریعہ فری ڈسپنسری اسی مرکز میں قائم ہیں۔
- کینال ویو واپڈا ٹاؤن کے عقب میں کوروٹانہ کے مقام پر کھیالی کے مخیر دوست حاجی ثناء اللہ طیب نے الشریعہ اکادمی کے لیے ایک ایکڑ (آٹھ کنال) زمین وقف کی ہے جہاں تقریباً دس لاکھ روپے کی لاگت سے، چار دیواری کی بنیادیں بھرنے کے علاوہ مدرسہ طیبہ تحفیظ القرآن کا ایک بلاک بھی تعمیر کیا جا چکا ہے۔
تعلیمی سرگرمیاں
- مسجد خدیجۃ الکبریٰ، کنگنی والا میں پنج گانہ نماز با جماعت کے ساتھ فجر کے بعد اسکول کے طلبہ وطالبات کے لیے ناظرہ قرآن کی کلاس مستقل طورپر جاری ہے۔
- مدرسہ طیبہ تحفیظ القرآن، کوروٹانہ میں پرائمری پاس طلبہ کے لیے حفظ قرآن کریم مع مڈل کی کلاس جاری ہے۔
- میٹرک پاس طالبات کے لیے وفاق المدارس کے مقرر کردہ نصاب کے مطابق طالبات کے لیے درس نظامی اور دراسات دینیہ کورس کے مختلف درجات کی تعلیم جاری ہے۔ طالبات کو تجوید کی ضروری تعلیم دینے کے علاوہ عربی ادب وانشا کے ساتھ مناسبت پیداکرنے پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
- اسکول وکالج کے طلبہ کے لیے عربی گریمر کے ساتھ ترجمہ قرآن مجید کی کلاسز کا سلسلہ بحمد اللہ جاری ہے۔ اب تک طلبہ کی چار جبکہ طالبات کی دو کلاسز ترجمہ قرآن مجید مکمل کر چکی ہیں۔
- فروری/مارچ ۲۰۱۰ء میں اکادمی کے زیر اہتمام شہر کے دینی مدارس کے طلبہ کے لیے جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں عربی اور انگریزی لینگویج کورسز کا انعقاد کیا گیا جن میں اکادمی کے رفیق مولانا حافظ محمد یوسف دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کو انگریزی اور عربی بول چال کی تعلیم دی۔ ان کورسز میں مجموعی طور پر ۴۰ کے قریب طلبہ نے شرکت کی۔
- اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے دینی مدارس کے اعلیٰ درجات کے طلبہ کو شاہ ولی اللہ کی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ ‘‘ کے منتخب ابواب کی تدریس کی۔
دعوت وابلاغ
- علمی وفکری جریدہ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ پابندی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے جس میں ملت اسلامیہ کو درپیش مسائل ومشکلات اور جدید علمی وفکری چیلنجز کے حوالہ سے ممتاز اصحاب قلم کی نگارشات شائع ہوتی ہیں۔
- اردو زبان میں دو اسلامی ویب سائٹ پہلے سے کام کر رہی ہیں۔ www.alsharia.org پر ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے علاوہ مختلف اہم عنوانات پر منتخب مقالات ومضامین ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں، جبکہ خطبہ حجۃ الوداع کا جامع متن اور خطبے کے حوالے سے مولانا زاہد الراشدی کے محاضرات پڑھے جا سکتے ہیں۔ گزشتہ سال کے دوران دو مزید ویب سائٹس قائم کی گئیں جن پر شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور مفسر قرآن مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کے حالات زندگی اور خدمات کے علاوہ ان کے علمی افادات بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
نشر واشاعت
- ۲۰۰۷ میں اکادمی کے شعبہ نشر واشاعت کے زیر اہتمام اہم علمی وفکری موضوعات پر مطبوعات کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کے تحت اب تک اکادمی کی طرف سے ڈیڑھ درجن کے قریب کتب اور کتابچے شائع کیے جا چکے ہیں۔ گزشتہ سال کے دوران میں دو اہم مطبوعات منظر عام پر لائی گئیں:
- ماہنامہ الشریعہ کی خصوصی اشاعت (بیاد حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر) ضخامت: ۱۰۰۰ صفحات۔
- ’’مسلمانوں کا دینی وعصری نظام تعلیم‘‘ (خطبات ومحاضرات: ڈاکٹر محمود احمد غازی) ضخامت: ۲۵۶ صفحات۔
علمی وفکری نشستیں
- گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی اکادمی کے زیر اہتمام ہفتہ وار فکری نشستوں کا اہتمام کیا گیا جن میں اکادمی ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے اپنی یادداشتیں بیان کیں۔
- ۴؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں شائع ہونے والی، ماہنامہ ’الشریعہ‘ کی خصوصی اشاعت کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ تقریب کی صدارت پروفیسر حافظ خالد محمود نے کی جبکہ مہمان خصوصی کے طور پر ڈاکٹر حافظ محمود اختر (چیئرمین شیخ زاید اسلامک سنٹر لاہور) شریک ہوئے۔ تقریب سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف ارباب علم ودانش نے حضرت مولانا سرفراز خان صفدر کی شخصیت وخدمات اور ’الشریعہ‘ کی خصوصی اشاعت کے حوالے سے اپنے احساسات وتاثرات کا اظہار کیا۔ بزرگ عالم دین مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی نے تقریب کے اختتام پر دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے۔
- ۱۲؍ فروری کو مولانا سید عدنان کاکا خیل جامعۃ الرشید کے ایک وفد کے ہمراہ تعلیمی دورے پر گوجرانوالہ تشریف لائے اور ’’الشریعہ اکادمی‘‘ میں حاضرین سے ایک مختصر خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ عصر حاضر کو ڈائیلاگ کا دور کہا جاتا ہے اور ایسے اداروں کی بہت زیادہ ضرورت ہے جو اس کلچر کو رواج دیں۔ انھوں نے کہا کہ الشریعہ اکادمی نے ایک چھوٹے شہر سے ایک بڑے کام کی ابتدا کی ہے اور ایس کی بنیاد اس سوچ اور فکر پر ہے کہ دلیل اور حجت سے بات ہونی چاہیے اور بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔
- یکم مارچ کو اکادمی میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان سے ایک مختصر تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں عوام الناس کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ تقریب میں خصوصی خطاب مولانا عبدالواحد رسول نگری نے فرمایا جبکہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے مسلم لیگ (ن)کے سرکردہ رہنما اور ممبر قومی اسمبلی جناب عثمان ابراہیم مدعو تھے۔ مولانا عبدالواحد رسول نگری نے کہا کہ سیرت کی محفلوں میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنا چاہیے تاکہ سننے والوں میں معاشرتی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ جناب عثمان ابراہیم نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج ہمیں جن ناموافق حالات کا سامنا ہے، وہ اسی صورت میں سازگار بن سکتے ہیں جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو مشعل راہ نا کر اپنی نجی، قومی اور بین الاقوامی زندگی کی تعمیر کریں گے۔
- ۲۱؍ مارچ کو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا ؒ کے خلیفہ مجاز مولانا عبدالحفیظ مکی بعد از نماز مغرب الشریعہ اکادمی میں تشریف لائے اور حاضرین سے مختصر خطاب فرمایا۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت حق وباطل کا ایک ایک معرکہ برپا ہے اور ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ حق و باطل کے درمیان برپا اس معرکے میں ہمت اور حوصلہ مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دینے کی تیاری کرنی چاہیے اور اللہ کی رحمت سے امید رکھنی چاہیے کہ وہ اس شر میں سے ہمارے لیے ضرور خیر پیدا فرمائے گا۔
- ۸؍ مئی کو حضرت مولانا خواجہ خان محمد سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ کندیاں کی وفا ت پر انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت بزرگ عالم دین مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی نے کی اور پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی، جمعیۃ علماے اسلام (س) پنجاب کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی اور الشریعہ اکادمی کے مولانا حافظ محمد یوسف نے خطاب کیا۔ تعزیتی نشست میں علماے کرام، دینی مدارس اور کالجوں کے اساتذہ اور مختلف طبقات کے افراد نے شرکت کی اور آخر میں حضرت مرحوم کی مغفرت اور بلندئ درجات کے لیے دعا کی گئی۔
رفاہ عامہ
الشریعہ اکادمی کے زیر انتظام ہاشمی کالونی میں فری ڈسپنسری روزانہ عصر تا عشا کام کرتی ہے اور روزانہ اوسطاً ۷۰ مریض اس سے استفادہ کرتے ہیں۔
اخراجات
اکادمی کی کوئی مستقل آمدنی نہیں ہے اور تمام اخراجات اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے ساتھ احباب ومعاونین کے مخلصانہ تعاون سے پورے ہوتے ہیں۔اصحاب خیر سے گزارش ہے کہ خصوصی توجہ فرمائیں اور انتظامی، تعلیمی وتعمیری اخراجات میں تعاون فرما کر اپنے ذخیرۂ آخرت میں اضافہ کریں۔ جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔
میری معالجاتی کتاب کا ایک نایاب ورق
ادارہ
(’الشریعہ‘ کے ابتدائی شماروں میں ’’امراض وعلاج‘‘ کے عنوان سے ایک مستقل کالم شائع ہوتا رہا ہے جس میں پیچیدہ امراض کے علاج کے حوالے سے طب مشرق کے تجربات وتحقیقات قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی تھیں۔ کئی سال کے تعطل کے بعد حکیم محمد عمران مغل صاحب نے اس سلسلے میں اپنی خدمات دوبارہ پیش کی ہیں۔ امید ہے کہ قارئین اسے مفید پائیں گے۔ مدیر)
پرانے اطبا نے پیچیدہ امراض کے ازالہ کے لیے انتہائی سستے نسخے ترتیب دیے۔ اسی طرح کا ایک نسخہ ایک ایسے مریض پر استعمال کیا گیا جو موجودہ طریق علاج سے عاجز آ چکا تھا۔ یہ واقعہ ماہنامہ ’’اسرار حکمت‘‘ لاہور میں تفصیل سے شائع ہوا تھا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے دوبارہ لکھا جا رہا ہے۔
دائمی قبض کا مریض جو آپریشن کے لیے خپلو (جہاں سے چین کی سرحد شروع ہو جاتی ہے) سے گلگت، اسکردو، بلتستان، مانسہرہ، ایبٹ آباد، خیبر پختون خواہ، راول پنڈی تمام پنجاب سے بڑے بڑے معالجین سے علاج کرانے کے بعد آخری علاج کے طور پر لاہور کے سب سے بڑے میو ہسپتال میں آپریشن کے لیے پہنچا۔ ہسپتال کی بغل میں ایک تاریخی مسجد اور مدرسہ نیلا گنبد مشہور ہے۔ یہ مریض ایک نہایت متقی، پرہیزگار عالم بھی تھے اور اسی مسجد میں نماز ادا فرماتے۔ میرا قیام بھی بغرض فاضل عربی اور تکمیل طب یہیں تھا۔ مولوی صاحب کا نوجوان بھانجا ہسپتال میں ہاؤس جاب کر رہا تھا۔ اآپریشن کے تمام مراحل طے ہو چکے تھے۔ تکلیف یہ تھی کہ انھیں کئی کئی دن پاخانہ کی حاجت نہیں ہوتی تھی۔ انھیں کسی بھی علاج سے افاقہ نہ ہوا۔
کسی صاحب نے انھیں میرے پاس بھیجا۔ میں ابھی طبیہ کالج میں دوسرے سال کا طالب علم تھا۔ میں نے اپنی کم علمی کا اظہار کیا تو فرمانے لگے کہ اپنے اساتذہ کرام سے عرض کریں۔ میں نے کچھ مہلت چاہی، غور وفکر کے بعد میں نے ہامی بھر لی۔ ایک تیز اور تند نسخہ جو مجھے ایک کرم فرما نے عطا کیا تھا جس کی ایک گولی اپنا اثر دکھلاتی ہے، میں نے انھیں رات کو تین گولیاں نیم گرم دودھ سے دیں مگر بے فائدہ۔ صبح پھر چھ گولیاں دیں مگر بے اثر۔ میں نے سوچا کہ یہ برفانی انسان ہیں، خوراک بڑھاتے بڑھاتے ایک رات کو بارہ گولیاں دے کر اللہ کے دربار میں دعا بھی کرتا رہا کہ یہ عالم دین آپریشن سے بچ جائیں اور نقصان بھی نہ ہو۔ صبح وہ اپنے نوجوان بھانجے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تشریف لائے تو خوشی کا ایسا سماں تھا کہ گماں میں بھی نہ تھا۔ رات بھر وقفہ وقفہ سے پاخانہ آتا رہا۔ صبح طبیعت بالکل صاف تھی۔
میری بھی خوشی کی انتہا نہ تھی کہ ابھی طفل مکتب تھا اور اللہ نے میرے ہاتھوں کارنامہ انجام دیا۔ آپریشن کے تمام لوازمات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ہسپتال کے دیگر حضرات بھی انھیں دیکھنے کو آتے رہے۔ جاتے جاتے انھوں نے مجھ سے دو کلو کے لگ بھگ دوا تیار کرائی۔ نسخہ بالکل سادہ مگر انتہائی سستا تھا۔ میں نے اس پر مزید تحقیق کر کے گلے کے کینسر تک کا علاج کیا ہے جو ان شاء اللہ قارئین ’الشریعہ‘ کی نذر کیا جائے گا۔
نسخہ سنیے اور سر دھنیے:
کوڑ تمہ یعنی حنظل خشک کے بیج الگ کر کے اس کے ہم وزن منقی کے بیج نکال کر کوٹ لیں اور چنے کے برابر گولیاں بنا لیں۔ قبض کے علاوہ دیگر امراض بھی دور ہوں گے، جیسے گنٹھیا، نزلہ زکام، تمام بلغمی امراض وغیرہ۔ رات کھانے کے بعد دودھ یا پانی سے ایک تا تین گولیاں دے سکتے ہیں۔
مسائل جدیدہ کے بارے میں حکیم الامت حضرت تھانویؒ کا نقطہ نظر
ادارہ
ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت! اگر ایک رسالہ ایسا اور لکھا جاتا کہ جس میں ہر پیشہ ور کے معاملات کے احکام کو اس میں شرعی حیثیت سے بصورت مسائل بیان کر دیا جاتا تو بڑی سہولت ہو جاتی، اس لیے کہ لین دین وغیرہ میں آج کل نئی نئی صورتیں پیدا ہو گئی ہیں اور اکثر احکا م شرعیہ کے خلاف عمل درآمد ہو رہا ہے اور ان سے اجتناب کرنے کو لوگ دشوار سمجھتے ہیں۔ یہ سب مشکلیں حل ہو جاتیں۔ فرمایا کہ آپ آج یہ کہہ رہے ہیں، میں نے تو ایک عرصہ ہوا، اس وقت چاہا تھا کہ سب اہل معاملہ اپنے اپنے معاملات کو سوال کی صورت میں جمع کر کے مجھ کو دے دیں، چاہے وہ تجارت پیشہ ہو یا زراعت پیشہ یا ملازمت پیشہ وغیرہ وغیرہ۔ میں کوشش کر کے ان کے متعلق روایتیں جمع کر دوں گا اور احکام بتلا دوں گا، مگر کسی نے میری مدد نہ کی۔ بڑے کام کی کتاب ہوتی۔
اسی کے متعلق میں نے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا تھا کہ اگر کثیرۃ الوقوع معاملات پر دوسرے ائمہ کے مذاہب پر فتویٰ دیا جائے تو کوئی تو نہیں ہے؟ حضرت نے فرمایا تھا کہ کوئی حرج نہیں۔ اس سے بہت ہی قوت ہو گئی تھی کہ اب تو کوئی مانع ہی نہیں رہا۔ اور میں خود اس لیے نہیں لکھ سکا کہ مجھ کو معاملات یا واقعات ہی کی خبر نہیں، اس لیے اگر تجارت پیشہ وزراعت پیشہ وملازمت پیشہ اہل صنعت وحرفت یہ سب ان چیزوں کے متعلق واقعات بصورت استفتا جمع کر کے دے دیتے تو میں سوال وجواب کی صورت میں ان کے احکام جمع کر دیتا۔ اگر کسی مسئلہ میں امام ابوحنیفہؒ کے مذہ پر جواز نہ نکلتا تو میں یہ طے کیا تھا کہ امام شافعیؒ کے مذہب پر فتویٰ دے دوں گا، امام مالکؒ کے مذہب پر فتویٰ دے دوں گا، امام احمدؒ بن حنبل کے مذہب پر فتویٰ دے دوں گا اور اگر ان سے بھی کوئی صورت نہ نکلے تو ان کی سہل تدابیر بتلاؤں گا کہ یوں کر لیا کرو جس صورت سے جواز نکل آتا اور اگر کوئی بات سمجھ ہی سے باہر ہوئی تو اس کا کوئی علاج نہیں، معذوری ہے۔ اور اب اتنے بڑے کام کی ہمت نہیں رہی۔ ضعف کے سبب تحمل نہیں، تکلیف ہوتی ہے۔ اب ایسا کام نہیں ہوتا۔
(ملفوظات حکیم الامت ص ۲۱۴ جلد ۶۔ مطبوعہ ادارۂ تالیفات اشرفیہ ملتان)
اکتوبر ۲۰۱۰ء
چند بزرگ اہل علم کا سانحہ وفات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(۲۰ ستمبر کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں منعقدہ تعزیتی نشست میں ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی کی گفتگو۔)
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد!
حدیث مبارک میں ہے کہ اذکروا موتاکم بالخیر، جانے والوں کا اچھے انداز میں تذکرہ کیا کرو۔ قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ بزرگوں، انبیاے کرام اور نیک لوگوں کے تذ کرہ پر مشتمل ہے ۔اس تذکرہ سے مقصود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حوصلہ دلانا، تسلی دینا اور شاہراہ حیات میں رہنمائی کرنا ہے۔ گویا نیک لوگوں کا تذکرہ کرنے سے انسان کو تسکین، حوصلہ اور رہنمائی ملتی ہے، اسی لیے ہم اپنے بزرگوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں تھوڑے تھوڑے وقفہ سے ہمارے تین بزرگ اور جید علماے کرام دار فانی سے دار بقا کی طرف رخصت ہو گئے۔ ان میں سے ایک پلندری (کشمیر) کے بزرگ حضرت مولانا محمد یوسف خانؒ ، دوسرے حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ آف کلاچی اور تیسرے وانا کی بزرگ شخصیت حضرت مولانا نور محمدؒ ہیں۔ آج کی نشست میں ان بزرگوں کا مختصر تعارف، ان سے اپنے تعلق کی نوعیت اور ان کی دینی و سیاسی خدمات کا مختصر تذکرہ مقصود ہے۔
حضرت مولانا محمد یوسف خان آف پلندری
مولانا محمد یوسف خان ؒ کی ولادت ۲۰۔۱۹۱۹کی ہے۔ کشمیر کے علاقہ’’ منگ‘‘ کے ایک اچھے بااثر خاندان سے تعلق تھا۔ انھوں نے دینی تعلیم حاصل کی اور ۴۱۔۱۹۴۰ میں دارالعلوم دیوبند سے دورۂ حدیث کیا۔ حضرت والد صاحب ؒ نے بھی اسی زمانے میں دورۂ حدیث کیا تھا۔ آپ مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کے ممتاز تلامذہ میں سے تھے۔ اس زمانے میں کشمیر پر ڈوگرہ حکمران تھے۔ مولانا کو اللہ تعالیٰ نے حق گوئی و بے باکی عطا فرمائی تھی۔ جب آپ دورہ حدیث سے فراغت کے بعد واپس اپنے علاقے میں پہنچے تو اس وقت اہل کشمیر پر بڑی آزمائش کا دور تھا،ڈوگرہ فوج نے لوگوں پر مظالم کی انتہا کر دی تھی۔ مولانا کا جوان خون تھا، نیا نیا علم تھا، اپنے استاد سید حسین احمد مدنی ؒ کو تحریکیں چلاتے اور ان کی قیادت کرتے دیکھا تھا۔ اس وقت لوگوں میں دارالعلوم دیو بند سے فارغ التحصیل علماء کا بڑ ا احترام تھا، اس لیے آپ سے عید کی نماز پڑھا نے کے لیے کہا گیا۔ آپ نے کھل کر ڈوگرہ فوج کے مظالم کی مخالفت کی جس کی پاداش میں اگلے ہی دن گرفتار ہو کر پونچھ جیل میں پہنچ گئے۔ یہ ان کی عملی زندگی کی ابتدا تھی۔
مولانا کا شمار ان علما میں ہوتا ہے جنھوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے سب سے پہلے جہاد کا فتویٰ دیا اور تحریک اور جہاد کشمیر میں عملاً شریک ہوئے،جنگ لڑی اور آزاد کشمیر حاصل کیا۔
مولانا علم میں بھی بہت پختہ تھے اور ان کا شمار پاکستان ہی نہیں، برصغیر کے بڑ ے محدثین میں ہوتا تھا۔ علم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بصیرت بھی عطا کی تھی، بڑے صاحب فراست آدمی تھے اور اظہار خیال کا سلیقہ بھی خوب ملا تھا۔ چوٹی کے مدرس تھے۔ دارالعلوم تعلیم القرآن جو کشمیر کے مدارس میں سب سے قدیم درس گاہ ہے، وہاں انھوں نے ۶۰ سال تک تدریس کی۔
میرے نزدیک ان کا سب سے بڑا کارنامہ ریاست کے نظام میں اسلامی روایات کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے کامیاب اقدامات کرنا ہے۔ جب ریاست کا قیام عمل میں آیا تو اس کے نظام کی تشکیل میں مولانا نے کلیدی کردار ادا کیا۔ آج بھی آزاد کشمیر کی عدالتوں میں بہت سے فیصلے شریعت کے مطابق ہوتے ہیں اور یہ حضرت مولانا محمد یوسف ؒ اور ان کے رفقا کی طویل جدوجہد کا ثمرہ ہے۔ جب آزاد جموں و کشمیر کی عدالتوں میں شرعی قوانین کے نفاذ کا فیصلہ ہو رہا تھا تو انتظامیہ اور عدلیہ کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں چیف جسٹس آزاد کشمیر جسٹس صراف نے اس حوالے سے اپنے اشکالات اور اعتراضات دو گھنٹے کے خطاب میں تفصیل کے ساتھ پیش کیے۔ حضرت مولانا محمد یوسف خانؒ نے اس کے جواب میں تین گھنٹے تقریر کی اور ان کے اشکالات کے اس قدر مدلل جوابات دیے کہ خود جسٹس موصوف نے اسی محفل میں برملا اعتراف کیا کہ مولانا یوسف خانؒ کے مفصل خطاب نے نہ صرف ان کے بہت سے اشکالات دور کر دیے ہیں، بلکہ ان کے ذہن کا رخ بھی بدل ڈالا ہے۔
میرا ان کے ساتھ چار عشروں کا تعلق تھا جو چچا اور بھتیجے کا تعلق بھی تھا، استاد اور شاگرد کا بھی، راہ نما اور کارکن کا بھی اور نفاذ شریعت کی جدوجہد میں علمی و فکری استفادے کا بھی۔ میری دلچسپی کا میدان مغربی تہذیب و فلسفہ ہے۔ اس میدان میں کئی ایسے موڑ بھی آئے کہ خود میرا ذہن بھی الجھن کا شکار ہو جاتا تھا۔ ایسے موقع پر دو آدمی ایسے تھے جو میری اس الجھن کو حل فرما دیا کرتے تھے۔ ایک حضرت مولانا مفتی محمود ؒ اور دوسرے حضرت مولانا محمد یوسف خان۔ میں ان کے پاس جاتا، الجھن پیش کرتا۔ وہ کوئی بات، کوئی جملہ ارشاد فرماتے اور ذہن بالکل مطمئن ہو جاتا۔
انھوں نے اپنے آپ کو کشمیر تک محدود کر رکھا تھا۔ اکثر میں انھیں کشمیر سے باہر نکلنے کا کہتا اور بسا اوقات جھنجھلا کر میں انھیں کہتا کہ آپ کشمیری کیوں ہیں؟ تو وہ مسکرا کر جواب دیتے کہ تم کشمیری کیوں نہیں ہو؟ جس پر مجھے خاموشی اختیار کرنی پڑتی۔ وہ تھے تو کشمیری، لیکن انھوں نے وہاں بیٹھ کر کتنا کام کیا، اس کا اندازہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان کے ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ مولانا محمد یوسف خان صرف آزاد کشمیر کے اور پاکستان کے نہیں، بلکہ عالم اسلام کی شخصیت تھے۔ سردار صاحب نے ان کے بارے میں ایک مغربی دانش ور کا یہ قول بیان کیا کہ کسی چھوٹے آدمی کا بڑی جگہ پر بیٹھ کر کام کرنا بڑی بات نہیں ہے، بلکہ بڑے آدمی کا چھوٹی جگہ پر بیٹھ کر اپنے کمالات کا اظہار کرنا اور انہیں منوانا اصل کمال کی بات ہے اور یہ مقولہ مولانا محمد یوسف خان کی جدوجہد پر صادق آتا ہے۔ آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار محمد انور خان نے کہا کہ مولانا محمد یوسف خان کی خدمات کو صرف دینی دائرے میں محدود کرنا درست نہیں ہے، وہ تحریک آزادی اور نفاذ اسلام کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی محاذ پر بھی ہمارے راہ نما تھے۔
اللہ تعالیٰ نے ان کو موت بھی عجیب عطا فرمائی۔ ۹۰ سال سے زیادہ ان کی عمر تھی، انھوں نے رمضان کے پورے روزے رکھے، تراویح کی نماز مسجد میں اہتمام کے ساتھ باجماعت ادا کی، وفات کے دن بھی مغرب کی نماز گھر میں باجماعت پڑھی، نماز کے بعد معمول کے مطابق وظائف میں مصروف تھے اور تسبیح ہاتھ میں لیے ذکر کر رہے تھے کہ اچانک سینے میں تکلیف محسوس ہوئی اور تسبیح ہاتھ سے گر گئی اور حضرت، جناب باری تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری کے لیے اس دار فانی سے رحلت فرما گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی علمی و دینی خدمات کو اپنی بارگاہ عالیہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے اور ہمیں ان کے مشن کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰ مین ۔
حضرت مولاناقاضی عبداللطیف آف کلاچی
حضرت مولانا قاضی عبداللطیف ؒ ایک علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ کلاچی میں ان کا مدرسہ نجم المدارس کے نام سے قرآن و سنت کی تعلیمات لوگوں تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ حضرت قاضی صاحب ؒ کلاچی کے عوام کا مرجع تھے۔ لوگ دور دور سے راہ نمائی اور اپنے معاملات کے فیصلے کروانے کے لیے ان کے پاس آتے تھے۔
وہ ہمیشہ جمعیت علماء اسلام میں سر گرم رہے۔ جب میں گوجرانوالہ میں جمعیت کا سیکرٹری جنرل تھا، اس وقت وہ کلاچی میں جمعیت کے سیکرٹری جنرل تھے۔ علما میں ایسے افراد بہت کم ہیں جو آج کے قانون اور بیوروکریسی کی اصطلاحات اور زبان کو سمجھ سکیں۔ قاضی صاحب ؒ کو یہ ملکہ حاصل تھا کہ وہ آج کے قانون، بیوروکریسی اور سرکاری ڈرافٹس وغیرہ کی زبان سمجھنے میں بہت مہارت رکھتے تھے۔ ۸۵ء میں جب شریعت بل اسمبلی میں پیش ہوا تو اس کو منظور کروانے میں جن لوگوں نے علمی جنگ لڑی، ان میں قاضی عبداللطیفؒ اور جسٹس افضل چیمہ سرفہرست ہیں۔ ایک موقع پر جسٹس وسیم سجاد نے کہا کہ قرآن کریم قانون کی نہیں، اخلاقیات کی کتاب ہے۔ قاضی صاحب نے اس کے ساتھ تین گھنٹے مذاکرات کیے اور اس کو لاجواب کر دیا۔
۷۵ء اور ۸۰ء کے درمیان حضرت مولانا مفتی محمود صاحب ؒ کے چار نائبین سمجھے جاتے تھے: مولانا محمد اجمل خاںؒ ، مولانا غلام ربانیؒ ، قاضی عبداللطیف ؒ اور چوتھا فقیر میں تھا۔ حضرت قاضی صاحب ؒ نے آج سے چار سال پہلے کسی ملاقات میں فرمایا تھا کہ ان قبائل کو سنبھالو۔ گویا آج قبائل اور بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا انھوں نے کافی عرصہ پہلے ادراک کر لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی مساعی کو اپنی جناب میں قبول فرمائے۔ آمین
حضرت مولانا نور محمد آف وانا
حضرت مولانا نور محمد صاحب ؒ سے عام طور پر بہت کم لوگ واقف ہیں۔ میں نے ان کو پہلی مرتبہ ۶۷ء میں دیکھا جب میں ایک طالب علم تھا۔ اس وقت اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کیا تھا۔ مفتی محمود صاحب ؒ نے ایک جلسے میں فرمایا کہ اگر حکومت ہمیں اجازت دے تو ہم اپنے خرچے پر وہاں جہاد کے لیے جائیں گے۔ مفتی صاحب ؒ کے بعد ایک نوجوان کھڑا ہوا اور بڑے جوشیلے انداز میں اس نے اس با ت کا اعلان کیا کہ اگر حکومت اجازت دیتی ہے تو میں قبائل کی طرف سے دس ہزار کا لشکر فراہم کروں گا۔ میں نے بڑے تعجب سے اس کی طرف دیکھا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ بعد میں میں نے مفتی صاحب ؒ سے پوچھا کہ حضرت یہ نوجوان کون ہیں اور اتنا بڑا دعویٰ کیسے کر رہے ہیں؟مفتی صاحب ؒ نے فرمایا: یہ دے دے گا، یہ وزیروں کا لیڈر ہے۔
مولانا نور محمد ؒ نے وانا میں جمعیت کی بنیاد رکھی۔ قبائل کا علاقہ دینی علاقہ ہے۔ بھٹو صاحب مرحوم نے اپنے دور اقتدار میں ایک مرتبہ قبائل کا دورہ کیا۔ وہاں کے پولیٹیکل ایجنٹ نے مولانا سے ملاقات کی کہ بھٹو صاحب ؒ کا استقبال کیسے کیا جائے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں بے مثال استقبال کروں گا، لیکن کروں گا جمعیت کے پلیٹ فارم سے، جبکہ وہ لوگ چاہتے تھے کہ پیپلز پارٹی کے جھنڈے تلے استقبال ہو۔ جب بھٹو صاحب ائیر پورٹ پر اترے تو ہر طرف جمعیت کے ہزاروں پرچم لہرا رہے تھے۔ اس کی مولانا کو پھر سزا بھی دی گئی، انھیں ایک مقدمے میں الجھایا گیا، وانا بازار کو بلڈوز کر دیا گیا اور مولانا سات آٹھ سال تک جیل میں رہے۔
مولانا نے جہاد افغانستان میں بہت سرگرم کردار ادا کیا اور سب سے پہلے جو کتاب جہاد افغانستان کی شرعی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے لکھی گئی، وہ مولانا نے ہی لکھی تھی۔ میں بھی اس وقت ایسی کتاب کی ضرورت محسوس کر رہا تھا ۔ ہمارا جب بھی ان علاقوں کا سفر ہوتا تو ہم مولانا کے پاس ٹھہرتے اور ان سے استفادہ کرتے۔ ایک مرتبہ میں افغانستان جا رہا تھا تو راستے میں مولانا کے پاس ٹھہرا۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے جہاد افغانستان پر ایک کتاب لکھی ہے جو چھپنے کے قریب ہے۔ انھوں نے اس کا مسودہ مجھے بھی دکھایا۔ کتاب میں نے اسی رات ساری دیکھی اور صبح ان سے عرض کی کہ میں نے ساری کتاب دیکھ لی ہے۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ نے یہ کتاب صرف پٹھانوں کے لیے لکھی ہے یا سب کے لیے؟ انھوں نے کہا کہ سب کے لیے۔ میں نے کہا کہ اس کی زبان تو صرف پٹھانوں والی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ فرماتی ہے وغیرہ۔ اس کی زبان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ فرمانے لگے کہ نظر ثانی کون کرے گا؟ میں نے کہا کہ میں کروں گا۔ میں وہ کتاب ساتھ لے آیا اور اس کی زبان کی اصلاح کی اور پھر وہ کتاب چھپی۔ اس طرح ان کی برکت سے مجھے یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ جہاد افغانستان پر لکھی جانے والی سب سے پہلی کتاب پر نظر ثانی کا موقع ملا۔ اس کتاب پر مقدمہ بھی میں نے ہی لکھا ہے۔
مولانا کے پاس علم بھی تھا، وجاہت بھی تھی اور مقام و مرتبہ بھی تھا۔ آپ قبائل کے لیڈر تھے، اگر کسی ایک شخصیت کا نام پوچھا جائے کہ جس پر تمام وزیر قبائل کو اکٹھا کیا جا سکتا تھا تو وہ نام مولانا نور محمد ؒ ہی کا تھا۔ گزشتہ دنوں وہ ایک خود کش حملے میں شہید کر دیے گئے۔ وہ نماز کی ادائیگی کے بعد مسجد سے باہر تشریف لائے تو ایک نوجوان ان سے آ کر گلے ملا اور گلے ملتے ہی اس نے اپنے آپ کو بم سے اڑا دیا اور مولانا سمیت ۳۲؍ افراد شہید ہو گئے۔ ان کی موت سے دیگر نقصانات تو ایک طرف،ایک بہت بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ اب شاید کوئی ایسی شخصیت نہ ملے جس پر سب قبائل کو جمع کیا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اعلیٰ علیین میں ارفع و اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اٰمین۔
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
محمد عمار خان ناصر
۲۶ ستمبر کو میں ’الشریعہ‘ کے زیر نظر شمارے کی ترتیب کو آخری شکل دے رہا تھا کہ صبح نو بجے کے قریب جناب مولانا مفتی محمد زاہد صاحب نے فون پر یہ اطلاع دی کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی انتقال کر گئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ خبر اتنی اچانک اور غیر متوقع تھی کہ ایک لمحے کے لیے مجھے یقین نہیں آیا، لیکن مفتی صاحب نے بتایا کہ خبر مصدقہ ہے اور وہ ڈاکٹر محمد الغزالی سے بات کرنے کے بعد ہی مجھے اطلاع دے رہے ہیں۔ میں نے فوراً ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی صاحب سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ گزشتہ رات بارہ بجے کے قریب ڈاکٹر صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا جس پر انھیں اسپتال لے جایا گیا۔ فجر کی نماز کے وقت ان کی طبیعت قدرے بہتر تھی اور انھوں نے نماز بھی ادا کی، لیکن نماز کے بعد دوبارہ ہارٹ اٹیک ہوا جس سے ڈاکٹر صاحب جانبر نہ ہو سکے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل یہ کیفیت ہے کہ کم وبیش ہر مہینہ دینی جدوجہد کے مختلف شعبوں میں نمایاں مقام رکھنے اور گراں قدر خدمات انجام دینے والے اہل علم وفضل کی جدائی کا پیغام لے کر آتا ہے اور بظاہر اگلی نسل میں ان کی جگہ لینے والے افراد دکھائی نہیں دیتے، جبکہ ڈاکٹر محمود احمد غازی کے علم وفضل اور دینی خدمات کا تو دائرہ بھی وہ تھا کہ جس میں امت کی راہ نمائی کی اہلیت رکھنے والے حضرات کو انگلیوں پر شمار کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب قدیم وجدید علوم پر گہری نظر رکھتے تھے، دور جدید کے فکری وتہذیبی مزاج اور نفسیات سے پوری طرح باخبر تھے اور آج کے دور میں اسلام اور مسلمانوں کو فکر وفلسفہ، تہذیب ومعاشرت، علم وتحقیق اور نظام وقانون کے دائروں میں جن مسائل کا سامنا ہے، وہ وسعت نظر، گہرائی اور بصیرت کے ساتھ ان کا تجزیہ کر سکتے تھے۔ ان کی عملی خدمات کا دائرہ بھی مختلف شعبوں میں پھیلا ہوا تھا اور انھوں نے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، ادارۂ تحقیقات اسلامی اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسے اداروں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک کی اعلیٰ جامعات کو بھی اپنے علم وفضل سے سیراب کیا،جبکہ وفات کے وقت وہ وفاقی شرعی عدالت کے جج کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے۔
۲۰۰۵ء میں ڈاکٹر صاحب نے الشریعہ اکادمی میں دور جدید کے فکری وتہذیبی چیلنج کے حوالے سے اہل علم کی ذمہ داریوں کے موضوع پر ایک وقیع خطبہ ارشاد فرمایا تھا جو بے حد مقبول ہوا اور برصغیر کے دسیوں رسائل وجرائد میں اسے نقل کیا گیا۔ اسی تناظر میں گزشتہ رمضان کے دوران میں، اکادمی کی طرف سے ڈاکٹر صاحب سے گزارش کی گئی کہ وہ دوبارہ یہاں تشریف لائیں اور ’’دینی مدارس میں تدریس قرآن‘‘ کے موضوع پر مجوزہ سیمینار میں اپنے نتائج فکر سے اہل علم کو مستفید فرمائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ازراہ عنایت یہ دعوت قبول فرمائی اور ان کے مشورہ سے اس سمینار کے لیے ۳؍ اکتوبر کی تاریخ طے ہوئی، لیکن قضا وقدر کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں اور ان کی حکمتیں خالق کائنات خود ہی جانتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب اور دیگر مرحوم بزرگوں کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات کو بلند فرمائے، ان کی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبولیت سے مشرف فرمائے اور ان حضرات کے رخصت ہو جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کی تلافی کے لیے امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ اللہم لا تحرمنا اجرہم ولا تفتنا بعدہم۔ آمین
کیا اب اسلام جیت نہیں سکتا؟
مولانا مفتی محمد زاہد
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بات کا آغاز دو جلیل القدر علما کے واقعات سے کیا جائے۔ پہلا واقعہ مفتی الٰہی بخش کاندھلوی ؒ کا ہے۔ مفتی الٰہی بخش کاندھلوی ؒ اپنے وقت کے جلیل القدر علما اور باکمال اولیا میں سے ہیں۔ تبلیغی جماعت کے بانی حضرت مولانا محمد الیاس کے خاندان کے معروف بزرگوں میں سے ہیں۔ تقویٰ وپرہیزگاری اور تواضع وغیرہ میں ان کے عجیب وغریب واقعات نقل کیے گئے ہیں۔ ان کے زمانے میں کاندھلہ کے ایک قطعۂ زمین کے بارے میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔ مسلمانوں کا دعویٰ تھا کہ یہ جگہ ہماری ہے اور وہ شاید وہاں مسجد بنانا چاہتے تھے اور ہندودعوے دار تھے کہ یہ جگہ ہماری ہے، وہ وہاں مندر بنانا چاہتے تھے۔ ایسے موقع پر جھگڑا محض زمین کا نہیں رہتا بلکہ ایمان وکفر کا مسئلہ بن جایا کرتاہے۔ انگریزوں کا زمانہ تھا ، مقدمہ عدالت میں چلا گیا۔ انگریز جج نے کہا کہ بہتر ہے کہ تم لوگ باہمی رضامندی سے مصالحت کی کوئی شکل نکال لو۔ اس پر ہندوؤں نے کہا کہ ہم عدالت کو مسلمانوں کے ایک عالمِ دین کا نام پیش کردیں گے، عدالت ان کی گواہی سن لے، اس کے جو مطابق جو فیصلہ ہوگا ہمیں منظور ہے۔ چونکہ بات مسلمانوں ہی کے ایک عالم پر آکر ختم ہورہی تھی، اس لیے مسلمانوں نے بھی اس پیش کش کو بخوشی قبول کرلیا، بلکہ ان کا خیال ہوگا کہ سمجھو، اب ہمارے حق میں فیصلہ ہوگیا۔ ہندوؤں نے جج کو مفتی الٰہی بخش کاندھلویؒ کا نام پیش کردیا ۔ بظاہر یہ بات مسلمانوں کے لیے اطمینان کاباعث تھی کہ اتنے بڑے عالم اور اتنے نیک شخص مسلمانوں اور کفار یا مسجد اور مندر کے اس طرح کے مسئلے میں ’’اسلامی حمیت‘‘ کے خلاف بات کیسے کرسکتے ہیں۔
مفتی الٰہی بخش ؒ کو عدالت میں طلب کیا گیا۔ مفتی صاحب اپنی انتہائی سادہ وضع کے ساتھ انگریز حاکم کے سامنے کھڑے ہیں۔ ابتدائی تکنیکی اور تعارفی نوعیت کے سوالات کے بعد جج نے پوچھا کہ فلاں جگہ کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں کہ وہ کس کی ہے۔ مسلمانوں، کئی ہندؤوں اور جج کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب مفتی صاحب کے منہ سے بلاتکلف یہ الفاظ نکل رہے تھے کہ میرے علم کے مطابق یہ جگہ ہندؤوں کی ہے، وہ اس پر جو چاہیں بناسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ طے شدہ معاملے کے مطابق جج کو ہندؤوں ہی کے حق میں فیصلہ کرنا پڑا۔ مسلمان بھی چونکہ مفتی صاحب کی گواہی پر اتفاق کرچکے تھے، اس لیے ان کے سامنے بھی فیصلہ ماننے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ نے اس واقعہ پر یہ دلچسپ تبصرہ بھی نقل کیا ہے کہ اس مقدمے میں مسلمان اگرچہ ہار گئے، لیکن اسلام جیت گیااور اس کے نتیجے میں کئی ہندو مسلمان ہوگئے۔یہ ٹھیک ہے کہ اس فیصلہ کی رو سے مسلمان وہ جگہ حاصل نہ کرسکے، لیکن اسلام کی یہ جیت کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ مسلمان اگرچہ زمین پر وہ جگہ حاصل نہ کرسکے، لیکن نہ معلوم کتنے دلوں میں اسلام کے لیے جگہ حاصل کرلی جس کی قدر وقیمت قطعۂ زمین سے کسی بھی لحاظ سے کم نہیں ہے۔ اگر اس واقعے میں محض مسلمانوں کی جیت ہوتی تو اس معاملے کا تاریخ میں ہمیں کوئی تذکرہ ہی نہ ملتاکیونکہ اس نوعیت کے تنازعات میں ایک فریق کی جیت اور دوسرے کی ہار تو معمول کا واقعہ ہوتاہے۔ مسلمانوں کی بجائے اسلام ہی کی جیت نے اس واقعے کو زندہ جاوید بنادیا۔ یہ واقعہ میں نے متعدد جگہوں پر پڑھا بھی ہے اور متعدد بزرگوں سے سنا بھی ہے۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ نے بھی اپنی معروف عربی کتاب ’’ما ذاخسر العالم بانحطاط المسلمین‘‘ میں ص ۲۱۹ پر اس کا ذکر کیا ہے۔ مفتی الٰہی بخش ؒ کوئی ماڈرن قسم کے مولوی نہیں تھے، بلکہ مولانا علی میاں نے اسی کتاب میں لکھا ہے کہ انہیں انگریز سے اتنی نفرت تھی کہ ان کی شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے، چنانچہ انہوں نے مذکورہ گواہی بھی جج کی طرف پیٹھ کرکے دی تاکہ انگریز کا چہرہ نہ دیکھنا پڑے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ اس سے بھی قریب زمانے کاہے۔ یہ واقعہ قیامِ پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے کاہے۔ پانی پت میں ایک بڑے عالم تھے مولانا قاری محی الاسلام عثمانیؒ ۔ قرآنِ کریم کی تعلیم میں مشہور پانی پتی سلسلہ جس کا فیض اب پوری دنیا میں پھیل چکاہے، بھی انہی قاری محی الاسلام ؒ کے اجل تلامذہ کا مرہونِ منت ہے۔ انگریز ہی کے دور میں ایک دفعہ پانی پت میں کسی غیر مسلم فرقے نے سورج غروب ہوتے ہی اپنی عبادت گاہوں میں گھنٹیاں بجانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ چونکہ اسی وقت مسلمان مغرب کی نماز ادا کررہے ہوتے ہیں، اس لیے اس پر مسلمانوں میں اچھا خاصا اشتعال پیدا ہوگیا۔ خطرہ تھا کہ حالات کی کشیدگی کسی بڑے جھگڑے کا سبب بن جاتی۔ حکام کی مداخلت سے طے یہ ہواکہ جتنی دیر مسلمانوں کو مغرب کی نماز کی ادائیگی میں لگتی ہے، سورج غروب ہونے کے اتنا وقت بعد تک غیر مسلم اپنے عبادت خانوں میں کوئی گھنٹیاں نہیں بجائیں گے، اس کے بعد وہ آزاد ہوں گے ۔ اب یہ فیصلہ کیسے ہو کہ نمازِ مغرب کی ادائیگی میں مسلمانوں کو کتنا وقت لگتاہے، اس کے لیے طے یہ ہواکہ حاکمِ شہر خود مغرب کی نماز کے وقت کسی مسجد میں اپنی ٹیم لے کر جائے گا اور دیکھے گا کہ نماز کی ادائیگی میں کتنا وقت لگتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اسی مسجد کا انتخاب ہوا جس میں قاری محی الاسلامؒ صاحب امامت فرماتے تھے ۔ مسلمانوں کے کرتا دھرتا لوگ قاری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مسئلہ مسلمانوں اور کفار کا ہے، ہم یہ چاہتے ہیں کہ کفار کو زیادہ دیر کے لیے گھنٹیاں بجانے سے منع کیا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جس دن حکام مغرب کے وقت مسجد میں مشاہدے کے لیے آئیں، اس دن آپ مغرب کی نماز خلافِ معمول طویل فرما دیجیے۔ اس طرح سے ہما را یہ مقصد حاصل ہوجائے گا۔ قاری صاحب نے جواب میں جو کچھ فرمایا، اس کا حاصل یہ تھا کہ اس دن میری نماز صرف نماز نہیں ہوگی بلکہ ایک شہادت بھی ہوگی اور شہادت اپنوں کے بارے میں ہو یا پرایوں کے،اس میں غلط بیانی یا ڈنڈی مارنے کی اسلام اجازت نہیں دیتا، اس لیے قاری صاحب نے اس تجویز کو رد کرتے ہوئے فرمایا کہ معمول کے مطابق مغرب کی نماز میں جتنی مسنون تلاوت میں کیا کرتاہوں، اتنی ہی کروں گا، اس سے زیادہ نہیں ۔ چنانچہ قاری صاحب نے عملاً ایسا ہی کیا، اس پر کئی مسلمانوں نے قاری صاحب کو برا بھلا بھی کہا، اس لیے کہ ان کے مطابق ’’اسلامی حمیت‘‘ کا یہ لازمی تقاضا تھا کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے اس جھگڑے میں غیر مسلموں کے خلاف اگر غلط بیانی اور جھوٹی گواہی کا ارتکاب بھی کرنا پڑے تواس سے بھی گریز نہ کیا جائے۔
ویسے تو مسلمانوں کی تاریخ اس طرح کے سنہری واقعات سے بھری ہوئی ہے، قرونِ اولیٰ کے ایسے واقعات پر پورا مقالہ لکھا جاسکتاہے جن سے پتا چلتا ہے کہ اس زمانے میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کی آواز کسی جدت پسند طبقے کی بجائے مسلمان علما اٹھایاکرتے تھے، لیکن ان دو واقعات کا ذکر اس لیے کیا کہ یہ واقعے قرونِ اولیٰ کے نہیں ، بلکہ نسبتاً کافی قریب کے زمانے کے اور اس دور کے ہیں جو ہر اعتبار سے مسلمانوں کے انحطاط کا دور کہلاتاہے۔ ان دونوں جلیل القدر بزرگانِ دین نے جو کچھ کیا، وہ اسلامی تعلیمات کا عین تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اے ایمان والو! تم اللہ کے لیے انصاف کی بات کی گواہی کے ساتھ کمربستہ ہوجاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم بے انصافی کرنے لگو۔ انصاف کرو، یہی خوفِ خداوندی کے زیادہ قریب ہے ، اور اللہ سے ڈرتے رہو ، یقیناًاللہ تعالیٰ تمہارے تمام کاموں سے با خبر ہے ‘‘ ( المائدۃ: ۸ )
اسی سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور کسی قوم کے ساتھ تمہاری یہ دشمنی کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام میں آنے سے روکا تھا، تمہیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم زیادتی کرنے لگو اور تم نیکی اور تقوے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو، گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کرو‘‘ ( المائدہ:۲)
یہ بات یہاں خاص توجہ کی مستحق ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے اندر ارشاد فرمائی ہے جس کا باقی حصہ شعائر اللہ کی تعظیم سے متعلق ہے جو کہ اسلامی حمیت کا اہم تقاضا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ہر ایک کے لیے عدل کی بات کا اسلامی حمیت کے ساتھ خاص تعلق ہے۔ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مشہور مفسر ابنِ کثیر ؒ نے ایک جملہ لکھاہے: ’’ انصاف ہر ایک پر لازم ہے، ہرایک کے لیے ہے اور ہرحالت میں ضروری ہے‘‘۔ اوپر ذکر کردہ دونوں آیتوں میں دو دو مرتبہ تقوے کا ذکرہے۔ قرآن وحدیث میں بے شمار جگہوں پر مسلمان کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرے، لیکن دو مواقع ایسے ہیں جو اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ایک تو یہی عدل وانصاف کا موقع ہے۔ کسی مسلمان کی حمایت میں یا کسی بھی اور عنوان سے کسی غیر مسلم کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی کرنا کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہے۔ دوسرا موقع عہد کی پاس داری کاہے۔ قرآنِ کریم کی سورۂ انفال جس کا بنیادی موضوع ہی جہاد ہے، اس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’ اگر (ہجرت نہ کرنے والے مسلمان) دین کی وجہ سے تم سے مدد طلب کریں تو تم پر ان کی مدد کرنالازم ہے، سوائے اس صورت کے کہ یہ مدد کسی ایسی قوم کے خلاف ہو جس کا تمہارے ساتھ کوئی عہد ہوا ہے۔‘‘ اسلامی حمیت، تقویٰ اور جہاد کے سیاق میں قرآن کریم اپنے ماننے والوں کو عدل اور اعلیٰ اخلاقی معیار کا پابند بنا رہا ہے۔ اگر اسلامی حمیت، شعائر اللہ، تقویٰ وپر ہیز گاری اور جہاد جیسے عنوانات ہی ان قرآنی تعلیمات کی خلاف ورزی کا ذریعہ بن جائیں تو یہ ایک لمحۂ فکریہ ہی ہوسکتا ہے۔
آج کل وکلا، ڈاکٹرز، میڈیا والوں سمیت ہر شعبۂ زندگی میں ’’پیٹی بھائیوں‘‘ کی ہر قیمت پر اور ہر حالت میں حمایت کرنے کی جس طرح کی وبا چلی ہوئی ہے، مذکورہ آیات اور واقعات ہمیں اس پر نظرِ ثانی کی دعوت دیتے ہیں۔ آج ہمارے ماحول میں صورتِ حال کچھ ایسی بن چکی ہے کہ کسی شعبۂ زندگی میں سانس لینے اور ’اِن ‘ رہنے کے لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اگر اس شعبے کے حوالے سے مسئلہ بنے تو آپ ہر قیمت پر اس شعبے کے لوگوں کی ہی حمایت کریں، خواہ آپ اپنی دیانت دارانہ رائے کے مطابق اسے غلطی پر ہی کیوں نہ سمجھتے ہوں۔ آج ایک وکیل‘ وکیلوں میں، ایک ڈاکٹر‘ ڈاکٹروں میں، ایک میڈیا پرسن‘ میڈیا والوں میں اور ایک سیاست دان اپنی سیاسی پارٹی میں تب تک سرخ رو نہیں ہو سکتا جب تک نہ صرف یہ کہ وہ ہر جائز ناجائز بات میں اپنے طبقے کی حمایت نہ کرے بلکہ یہ ثابت نہ کرے کہ اس معاملے میں وہ ’’مجاہد اعظم‘‘ ہے۔ اس طرزِ عمل کو ہوسکتاہے کئی لوگ خوبی سمجھتے ہوں لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں اسے ’’ عصبیت‘‘ قرار دیا گیاہے جو کہ احادیث کی روشنی میں انتہائی بد بودار چیز ہے۔
اس صورتِ حال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہ مرض بہت حد تک ہمارے دینی حلقوں میں بھی عام ہوگیا ہے۔ ہمارے ہاں اقلیتوں کے بعض لوگ ایسے مطالبات شروع کردیتے ہیں جن کا کوئی بھی جواز نہیں بن رہا ہوتا، پھر اس اقلیت کے باقی لیڈروں کو بھی ’’پیٹی بھائی‘‘ ہونے کے ناطے اس کی حمایت کرنا پڑتی ہے، لیکن یہاں بات غیر مسلموں کی نہیں ہورہی، ان کی ہورہی ہے جو اللہ و رسول کو مانتے اور ان کے نام لیوا ہیں۔اگر کسی معاملے میں کوئی مسلمان کسی غیر مسلم پر زیادتی کررہاہو تو اسلام اس بات کی قطعاَ اجازت نہیں دیتا کہ محض مسلمان ہونے کی وجہ سے زیادتی کرنے والے شخص کی حمایت کی جائے۔ ہمارے ہاں مسلم غیر مسلم کی بات تو بہت دور کی ہے، خود مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور گروہوں کے بارے میں یہ سوال سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے کہ کیا ہمارے مذہبی رجحانات اور رویوں میں مفتی الٰہی بخش کاندھلوی ؒ اور قاری محی الاسلام عثمانی ؒ کی جھلک نظر آتی ہے؟ کیا ہمارے ہاں ایسا ممکن ہے کہ کسی عالمِ دین کو اگر یہ شرحِ صدر ہو جائے کہ فلاں معاملے میں میرے فرقے کے لوگوں کی طرف سے زیادتی ہورہی ہے تو وہ اپنی اس رائے کا اظہار کھل کر کر سکے؟ اب تک کی عمومی صورتِ حال کے مطابق تو اس کا جواب نفی میں ہوگا ۔ اگر کہیں ہمیں ’’مسلکی حمیت‘‘ سے ہٹ کر کوئی بات کہنی پڑ بھی جائے اور حقائق وحالات اس پر مجبور کر دیں تو اس کے ساتھ چونکہ ، چنانچہ اور لیکن وغیرہ کے اتنے سابقے اور لاحقے لگے ہوتے ہیں کہ اصل بات انہی کے اندر کہیں چھپ جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ’’پیٹی بھائی‘‘ کی حمایت اور عصبیت پر مبنی عام بھیڑ چال کی رَو میں دینی مقتدا بھی بہہ گئے ہیں۔ آج بھی اگرہر مکتبِ فکر میں ایک مناسب تعداد مفتی الٰہی بخش ؒ اور قاری محی الاسلام ؒ جیسے حضرات کی پیدا ہوجائے تو ہم اسلام کو جیتتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ کیا دینی غیرت وحمیت سے سرشار ہمارے دینی حلقے اسلام کی جیت کو حاصل کرنے کے اس راستے پر سنجیدگی سے غور فرمائیں گے؟
میں نے اپنے ہاں ایک خطاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیثِ مبارک کا ذکر کیا جس کا حاصل یہ ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے کسی عہد والے غیر مسلم (جس میں غیر مسلم اقلیتوں کے سارے لوگ شامل ہیں) پر کوئی زیادتی کی، اس پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ ڈالا، اس کا حق دینے میں کوئی کمی کوتاہی کی یا اس کی دلی رضامندی کے بغیر اس کی کوئی چیز لے لی تو قیامت کے دن اس غیر مسلم کی طرف سے مقدمہ میں خود لڑوں گا۔ (ابو داود) اندازہ لگائیے، جس شخص کے مقابلے میں مقدمہ لڑنے کے لیے اللہ کی بارگاہ میں اللہ کے نبی کھڑے ہوں گے، اس کا کیا بنے گا۔ اقلیتوں کے حق کو زیادہ اہمیت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے دی ہے کہ وہ خودکو بعض اوقات مجبور اور بے بس محسوس کرسکتے ہیں۔ یہ میرے نبی کی عظمت ہی کا ایک پہلو ہے کہ وہ قیامت کے دن بھی مجبوروں اور مظلوموں کے ساتھ ہوں گے ۔ میری بات سے حوصلہ پاکر یہی حدیث ایک نوجوان عالم نے اپنے ہاں جمعے کے بیان میں ذکرکی۔ ممکن ہے بعض لوگوں کو ایسی حدیثوں کا ذکر کرنا اسلامی حمیت کے معیار سے کم تر معلوم ہوا ہو، لیکن اِن نوجوان عالم نے بتایا کہ جمعے کے بعد ایک ماڈرن قسم کا نوجوان کہنے لگا کہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اسلام اتنا عظیم مذہب ہے۔ ان نوجوان عالم نے تو یہ بات خوشی خوشی سنائی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں یہ بات سن کر افسردہ سا ہو گیا۔ اس ماڈرن نوجوان کی یہ بات کہ ’’مجھے نہیں اندازہ تھا کہ اسلام اتنا عظیم مذہب ہے‘‘ اس چیز کی غماز ہے کہ ہماری نئی نسل میں نہ معلوم کتنے لوگ ایسے ہوں گے جو پیدائشی طور پر تو مسلمان ہیں، لیکن شعوری طور پر اتنے مسلمان نہیں جتنا انہیں ہونا چاہیے۔ ہم بات تو اسلام کے غلبے کی کر رہے ہیں، لیکن ہمارے معاشرے کے اندر سے اسلام ہار رہاہے یعنی ناواقفیت کی وجہ سے اس کے ساتھ لگاؤ کم ہو رہا ہے، اس لیے کہ اسلام تو کاندھلے اور پانی پت جیسے واقعات سے جیتتا ہے۔ اوپرعہد والے غیر مسلموں کے بارے میں مذکورہ حدیث بھی اسی رخ کی نشان دہی کررہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس طرح کی قرآنی تعلیمات اور حدیثیں نہ سناکر ہم اسلام کو ہرا رہے ہیں یا جتوارہے ہیں!
ہوسکتا ہے کہ بعض قارئین کو یہ خیال ہوکہ یہ باتیں تو علما سے کہنے کی ہیں، عام آدمی کا اس چیز سے کیا تعلق ؟ ایک حد تک یہ بات درست ہونے کے باوجود ہم پیشہ ورانہ، لسانی ، علاقائی اور سیاسی عصبیتوں کے شانہ بشانہ فرقہ وارانہ عصبیت کا جو ماحول دیکھ رہے ہیں، اس کا ذمہ دار صرف مولوی نہیں ہے اور نہ ہی اکیلے مولوی کے بس میں یہ بات رہی ہے کہ وہ اس صورتِ حال کو تبدیل کرسکے۔ مثال کے طور پر مساجد میں علماءِ کرام جمعہ سے پہلے عام لوگوں سے اردو یا کسی مقامی زبان میں خطاب فرماتے ہیں۔ یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ علما کیا کہتے ہیں، لیکن اس پہلو کی اہمیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہم لوگ کیا سننا پسند کرتے ہیں۔ ہمارے کانوں کا ذائقہ بہت حد تک بدل چکاہے۔ آج ملک بھر کی تمام مساجد کا سروے کرلیا جائے کہ محتاط، نپی تلی اور معتدل بات کرنے والے علما خود کو زیادہ مشکل میں محسوس کرتے ہیں یا شعلہ بار خطابت کرنے والے ۔ ایک دفعہ دعوہ اکیڈمی اسلام آباد کا ایک وفد میرے پاس آیا۔ تربیتِ ائمہ کے سلسلے میں بات ہوئی۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ جہاں ائمہ وخطبا کی تربیت کے آپ پروگرام کرتے ہیں، وہیں مساجد کے منتظمین کی تربیت کی بھی ضرورت ہے۔ اس طرح کی شکایات بکثرت موصول ہوتی رہتی ہیں کہ کوئی صاحب اپنے حلقے میں محض اس وجہ سے مشکلات سے دوچار ہیں یا زیرِ عتاب ہیں کہ انہوں نے کسی فرقے یا مسلک کے خلاف اس طرح کی ’’اسلامی حمیت‘‘ کا مظاہر ہ نہیں کیا جس کی بعض لوگ ان سے توقع رکھتے تھے۔ یہ المیہ صرف پاکستان میں نہیں ہے، ان دیارِ غیر میں بھی ہے جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد آبادہے۔ بالخصوص برطانیہ سے اس طرح کی اطلاعات سننے میں آتی رہتی ہیں۔ خود اس گنہ گار نے بعض نامی گرامی علما سے نجی طور پر کچھ اور سنا، لیکن عمومی خطاب میں انہوں نے بات وہی کی جو سامعین ان سے سننا چاہتے تھے، اگرچہ وہ بات ان کی ذاتی اور دیانت دارانہ رائے کے خلاف یا کم از کم اس سے ہٹ کر تھی، اس لیے کہ وہ ’’اسلامی حمیت‘‘ میں خود کو کسی سے کم تر دکھانے کے روا دار نہیں تھے۔ اس میں جہاں ان علما کی یہ کوتاہی ہے کہ ان میں اس جرأتِ اظہار کی کمی ہوتی ہے جو اصولی طور پر ایک عالمِ دین کا طرّۂ امتیاز ہونی چاہیے جس کے بغیر ایک عالم پیشوا کی بجائے اپنے سامعین یا قارئین کا پیروکار بن کر رہ جاتا ہے، وہیں ہمارا عمومی ماحول بھی اس کا ذمہ دار ہے۔ آج کوئی عالم اگر عام روِش سے ہٹ کر اپنے ضمیر کے مطابق کوئی بات کہہ دے تو اس کی جو درگت بنتی ہے، ہم سب یاتو اس کا حصہ ہوتے ہیں یا محض خاموش تماشائی۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ’’اوپر‘‘ تک رسائی بھی انہیں لوگوں کی ہوتی ہے جو ’’ماحول‘‘ دیکھ کر بات کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ معتدل، نپی تلی اور انصاف کے مطابق بات کرنے والے اور مفتی الٰہی بخش جیسا مزاج رکھنے والے حضرات چونکہ خود دار واقع ہوئے ہوتے ہیں، اس لیے یہ ’’اوپر‘‘ والوں کے کام کے بھی نہیں ہوتے۔ ایسے میں سارا الزام اکیلے مولوی پر رکھ کر ہم فارغ کیسے ہوسکتے ہیں؟ غرضیکہ اصل سوال یہ ہے کہ ہمارے ماحول میں جذباتی اور عصبیت پر مبنی باتوں کو زیادہ پذیرائی ملتی ہے یا کسی موضوع پر دیانت دارانہ تجزیے اور اس کے بے لاگ اظہار کو بھی گوارا کیا جاتاہے؟ یہ صحیح ہے کہ ایک شخص جس بات کو انصاف سمجھ کر کہہ رہا ہے، دوسرے شخص کی دیانت دارانہ رائے اس سے مختلف ہو، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ہاں ایسا ماحول موجود ہے جہاں کسی کو اپنی رائے کے بے تکلف اظہار اور دوسرے کو اس سے اختلاف کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ ہو؟
بہرحال ! رہ رہ کر یہ خیال دل میں پیدا ہوتا ہے کہ آج مفتی الٰہی بخش ؒ اور قاری محی الاسلامؒ جیسے لوگ اتنے ناپید کیوں ہیں؟ آج مسلمان معاشروں کے رویّے اوپر ذکر کردہ سورۂ مائدہ کی آیتوں کے مطابق اور اس رنگ میں رنگے ہوئے کیوں نظر نہیں آتے؟ آج ہم ہر سطح پر کسی نہ کسی قسم کی عصبیت کا شکار کیوں ہیں؟ یقیناًیہ سوال میرے جیسے اور بھی کئی سیدھے سادے مسلمانوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہوگا۔ اگر سوال ہم سب کا سانجھا ہے تو اس کا جواب بھی ہم سب کو مل جل کر تلاش کرنا چاہیے۔ ہم سب یہ کوشش بھی کرنی چاہیے اور دعا بھی کہ خدا کرے کاندھلے اور پانی پت جیسے واقعات ہمارے اندر عام ہوں اور اسلام کی جیت ہو۔
(بشکریہ ماہنامہ ’’الصیانہ‘‘ لاہور)
القاعدہ، طالبان اور موجودہ افغان جنگ ۔ ایک علمی و تجزیاتی مباحثہ
محمد عمار خان ناصر
۲۰۰۱ء میں امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے حملوں کے بعد امریکہ نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے عنوان سے افغانستان پر حملہ کر کے طالبان حکومت کا خاتمہ کر دیا تو ان سے ہمدردی اور خاص طور پر ان کے مخصوص اسلامی طرز حکومت سے جذباتی وابستگی رکھنے والے مذہبی حلقوں کے لیے یہ ایک ناقابل برداشت صدمہ تھا۔ فطری طور پر اس کا شدید رد عمل ہوا جس نے بہت جلد انتہاپسندی اور تشدد پسندی کی شکل اختیار کر لی، تاہم طالبان حکومت کے انتہائی بہی خواہ، ہمدرد اور سنجیدہ اہل علم ودانش نے اس صورت حال میں محض یک طرفہ رد عمل ظاہر کرنے کے بجائے خود طالبان اور دیگر جہادی عناصر کی حکمت عملی اور پالیسیوں کا بھی کھلا ناقدانہ جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا۔ مثال کے طور پر مکتب دیوبند کے ایک بزرگ اور محترم عالم جناب مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے طالبان کے طرز حکومت اور پالیسیوں کے بارے میں ’’خواب جو بکھر گیا‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل تنقیدی مضمون لکھا۔ اس مضمون میں انھوں نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے تناظر میں اسامہ بن لادن کی حوالگی کے ضمن میں لکھا کہ:
’’ہرچند کہ یہ مہم عربی واسلامی دنیا میں امریکن خرمستیوں سے مشتعل ہونے والے مومنانہ جذبات کا نتیجہ ہو مگر اس سے اس کی حقیقت ایک خود کشی کے اقدام سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی تھی؟ اور خود کشی بھی فرد واحد کی نہیں، کل ملت افغان کی! اور اس صورت حال میں ان کے جذبات کی پوری قدر وعزت کے باوجود ہمارے محترم علماء پاکستان کا پورا اور باصرار وزن نہ صرف افغان علماء کونسل کے اس فیصلے ہی میں پڑنا تھا کہ شیخ اسامہ سے کہا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے افغانستان چھوڑ دیں، بلکہ اس سے بھی آگے اور شیخ اسامہ سے کھلی اپیل کی جانی تھی کہ امارت اسلامیہ افغانستان ہی کی سلامتی کا خطرہ نہیں، کل ملت اسلامیہ اور بالخصوص پاکستان کی عزت وآبرو بچانے کی خاطر وہ خود کو جبار وقت کے حوالے کردیں اور اپنے لیے حدیبیہ کے حضرت ابوجندل کا کردار قبول کر لیں، اس لیے کہ بیچ کی کوئی راہ نہ تھی۔ یا یہ ہونا تھا اور یا افغانستان پر وہ حملہ جس کے تیور جانچ کر پوری اسلامی دنیا نے دم سادھ لیا! اے کاش کہ اسامہ خود سے جرات کا ثبوت دے کر اسلامی تاریخ میں وہ نام پالیتے کہ اسلامی دنیا میں ان کے جو مخالف بھی تھے، وہ بھی تحسین وستائش کے سوا اور دوسری بات کے روادار نہ رہ پاتے۔‘‘ (الشریعہ، جنوری ۲۰۰۳ء، ص ۳۷)
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے امریکی حملے کے بعد ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ میں متعدد اداریے تحریر کیے اور طالبان کے موقف کے بھرپور دفاع کے ساتھ ساتھ پوری صورت حال کا خود احتسابی کے جذبے کے ساتھ ناقدانہ جائزہ لینے کی ضرورت کو بھی واضح کیا۔مولانا نے لکھا کہ:
’’دوسرا کام یہ ہے کہ وہ ٹھنڈے دل ودماغ اور خود احتسابی کے مخلصانہ جذبے کے ساتھ اپنے طرز عمل کا جائزہ لے کہ اس میں کہاں کہاں غلطی تھی؟ جو قوم خود احتسابی کی اس جرات کا مظاہرہ کر سکتی ہو، اس کی شکست درحقیقت شکست نہیں، آئندہ فتوحات کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ ..... اگر ایمان کے ظاہری تقاضے پورے ہوں، لیکن حکمت میں (جو درحقیقت ایمان ہی کا ایک حصہ ہے) کمزوری ہو، تب بھی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو عالم اسباب بنایا ہے، لہٰذا اسباب سے جو اللہ تعالیٰ ہی کے پیدا کیے ہوئے ہیں، کلی طور پر صرف نظر کرنا بھی مسلمان کا کام نہیں ہے۔ افغانستان میں پچھلے دنوں جو المناک حالات پیش آئے، ان پر اب اسی نقطہ نظر سے ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے آگے سر تسلیم ختم کر کے اپنے طرز عمل کا اخلاص کے ساتھ جائزہ لیں اور جہاں کہیں ایمان وحکمت کے تقاضوں میں کوئی کمی نظر آئے، اس کی تلافی کر کے اپنا سفر جاری رکھیں۔‘‘ (ماہنامہ البلاغ، جنوری ۲۰۰۲ء، ص ۶، ۷)
اسی طرح والد گرامی مولانا زاہد الراشدی نے لکھا:
’’طالبان حکومت کے بارے میں بحث کے حوالے سے مجھے اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں ہے کہ ان کی پالیسیوں پر بحث نہیں ہونی چاہیے اور ان کی کوتاہیوں کو سامنے نہیں آنا چاہیے۔ ان کے اخلاص، ایثار، قربانی، للہیت اور صدق وصفا میں کوئی شبہ نہیں، لیکن اس کا مطلب معصوم ہونا نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ خود احد اور حنین کے حوالے سے صحابہ کرام جیسی پاک باز ہستیوں کی بشری غلطیوں کو قرآن کریم میں اجاگر کر سکتے ہیں تو ہمیں ا س میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ پوری سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ اس امر کا جائزہ لیں کہ کہاں کہاں غلطی ہوئی ہے اور ماضی کی غلطیوں کے ازالے کے لیے مستقبل میں کیا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ میرے نزدیک اس صورت حال پر مباحثہ کی ضرورت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے لیے ابھی شاید وقت موزوں نہ ہو، لیکن جلد یا بدیر ہمیں اس مرحلہ سے گزرنا ہوگا، ورنہ مستقبل کی صحیح منصوبہ بندی میں ہم کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔‘‘ (الشریعہ، نومبر ۲۰۰۲)
یہ تمام مشورے تو نائن الیون کے بعد کی صورت حال میں دیے گئے، جبکہ مستند اور مصدقہ معلومات کے مطابق جامعہ اشرفیہ لاہور کے استاذ حدیث اور بزرگ عالم دین مولانا محمد موسیٰ خان روحانی بازیؒ نائن الیون سے بہت پہلے اپنے درس میں خداداد بصیرت کی بنیاد پر بن لادن وغیرہ کے بارے میں یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں ان لوگوں کی وجہ سے طالبان پر بہت بڑی تباہی آتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ مولانا مرحوم نے اپنی ملاقات کے لیے آنے والے متعدد طالبان راہنماؤں اور نمائندوں سے بھی یہ بات کہی، لیکن اس پر کوئی توجہ نہ دی گئی، تا آنکہ نائن الیون کا واقعہ ہوا اور اس کے نتیجے میں افغانستان پر امریکی حملے کی صورت میں یہ تباہی ملت افغان پر بالفعل مسلط ہوگئی۔ تاہم اس کے بعد بھی ان نہایت خیر خواہانہ مشوروں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور خود احتسابی کے بجائے ہر بات کا تجزیہ خارجی سازش کے تصور کے تحت کرنے کی عمومی روش اپنا لی گئی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مذہبی طبقہ طالبان تو کجا، القاعدہ جیسے عناصر کے بارے میں بھی کوئی تنقیدی تبصرہ یا تجزیہ سننے کا روادار نہیں ہے اور اس حوالے سے کوئی بھی سنجیدہ سوال اٹھانے کو جس میں ان گروہوں کے اقدامات کی شرعی حیثیت یا ان کی حکمت ودانش کو موضوع بنایا گیا ہو، فوراً ’’دشمنان اسلام‘‘ کے ہاتھ مضبوط کرنے کے ہم معنی قرار دیا جاتا ہے۔ اس صورت حال میں اگر طالبان کو دوبارہ افغانستان میں سیاسی کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے، جیسا کہ حالات کا رخ بتا رہا ہے، تو اس بات کا شدید خدشہ ہے کہ ہمارے جذباتی مذہبی عناصر طالبان کے حقیقی فائدے میں کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے اپنی بے جا توقعات اور غیر حکیمانہ ترجیحات کی وجہ سے پہلے کی طرح اب بھی ان کے لیے نادان دوست ہی کا کردار ادا کریں گے۔
گزشتہ دنوں ایک استفسار میں افغانستان کی موجودہ جنگ اور اس میں شرکت کی شرعی حیثیت کی بابت راقم الحروف کی رائے دریافت کی گئی۔ میں نے اس کے جواب میں اپنا نقطہ نظر رائے زنی کے لیے مختلف اصحاب فکر کو بھیجا جس پر بعض حضرات نے بڑی دلچسپی کے ساتھ حصہ لیتے ہوئے تائیدی یا تنقیدی نکات اٹھائے اور گہرائی کے ساتھ مسئلے کے مختلف پہلو اجاگر کیے۔ جواب میں مجھے بھی اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کا موقع ملا اور یوں دہشت گردی کے حملوں، القاعدہ اور طالبان کی پالیسیوں اور موجودہ افغان جنگ کی شرعی حیثیت کے مختلف پہلووں پر ایک مفید مباحثہ سامنے آ گیا۔ ابھی اس بحث کے بہت سے پہلو تشنہ ہیں اور خاص طور پر القاعدہ کے نقطہ نظر کو درست سمجھنے والوں کی کماحقہ نمائندگی اس میں نہیں ہو سکی۔ حال ہی میں القاعدہ کے راہ نما شیخ ایمن ظواہری کی کتاب کا اردو ترجمہ ’’سپیدۂ سحر اور ٹمٹماتا چراغ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے جس میں پاکستان کو ایک غیر اسلامی ریاست قرار دیتے ہوئے جہاد اور خروج کا جواز پیش کیا گیا ہے۔ راقم کے قلم سے اس کا ایک مفصل جائزہ زیر ترتیب ہے جو ان شاء اللہ جلد پیش کیا جائے گا۔ یہ تمام سوالات بدیہی طور پر نازک اور حساس سوالات ہیں اور ان کی حساسیت میں جذبات کی شدت اور تناؤ نے مزید اضافہ کر دیا ہے، تاہم فقہ وشریعت اور مذہبی اخلاقیات کی رو سے ان سوالات پر سنجیدہ غور وفکر کی ضرورت ہے۔ اسی تناظر میں یہ مباحثہ نقد ونظر کی عام دعوت کے ساتھ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
بحث کا آغاز جس تحریر سے ہوا، وہ مختصر تھی، چنانچہ بحث کے نتیجے میں جو قابل توضیح نکات سامنے آئے، انھیں اس میں شامل کر کے بہت حد تک مفصل کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح دوران مکالمہ میں بھی موقع بہ موقع بعض ایسے نکات کا اضافہ کیا گیا ہے جو بعد میں ذہن میں آئے، لیکن مدعا کی توضیح مزید کے پہلو سے مفید ہیں۔ اس بحث کے حوالے سے دو وضاحتیں ضروری ہیں:
ایک یہ کہ بہت سے حضرات نے میرے نقطہ نظر کے لیے ’’فتویٰ‘‘ کی تعبیر اختیار کی ہے۔ اگرچہ لغوی اعتبار سے فتویٰ اور رائے میں کوئی خاص فرق نہیں، لیکن ہمارے ہاں عرفی مفہوم میں ’’فتویٰ‘‘ ایک نوعیت کے مذہبی فیصلے کا درجہ رکھتا ہے جو کسی مسلمہ مذہبی اتھارٹی یا ادارے کی طرف سے جاری کیا گیا ہو۔ اس لحاظ سے میری گزارشات کوئی ’’فتویٰ‘‘ نہیں ہیں اور ان کی نوعیت واقعاتی اور شرعی اعتبار سے صورت حال کے محض ایک طالب علمانہ تجزیے کی ہے۔
دوسری یہ کہ یہ بحث ’’مباحثہ ومکالمہ‘‘ کے صفحات پر شائع کی جا رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ زیر بحث نقطہ نظر راقم کا ذاتی نقطہ نظر ہے اور ضروری نہیں کہ ادارہ بھی اس کے جملہ پہلووں سے اتفاق رکھتا ہو۔ امید ہے کہ اہل علم اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اس مباحثے کو آگے بڑھائیں گے اور ملت اسلامیہ اس مسئلے کے بارے میں جس فکری کنفیوژن کا شکار ہو گئی ہے، اسے اس سے نکالنے کے لیے اپنا کردار ادا کر یں گے۔
(عمار ناصر)
سوال: اگر کوئی شخص افغانستان جا کر اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر ان کے ملک کو حملہ آور فوجوں سے خالی کرانے کے لیے جنگ میں شریک ہوتا ہے تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ’’جہاد‘‘ کر رہا ہے یا اسلامی جنگ لڑ رہا ہے؟ یا اس کو اسلامی جنگ قرار دینے کے لیے کچھ اور شرائط کا موجود ہونا بھی ضروری ہے؟
محمد عمار خان ناصر
امریکی افواج کے خلاف افغانستان کی موجودہ جنگ کی شرعی حیثیت متعین کرتے ہوئے اس کے دو بنیادی کرداروں یعنی القاعدہ اور طالبان میں فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
افغانستان پر امریکی حملے کا ظاہری سبب گیارہ ستمبر کا وہ حادثہ ہے جس میں القاعدہ کی فکری تربیت اور منصوبہ بندی کے تحت چند مسلمانوں نے عام مسافر طیاروں کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ایسے مراکز کو نشانہ بنایا جہاں ایسے لوگ مصروف عمل تھے جو کسی طرح بھی مقاتلین کے زمرے میں نہیں آتے تھے، جبکہ اسلام کی جنگی اخلاقیات غیر مقاتلین کو جنگ میں بطور ہتھیار استعمال کرنے یا انھیں براہ راست حملے کا نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیتی۔ یہ ہر قانونی تعریف کے مطابق ’’دہشت گردی‘‘ کا ایک واقعہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ پوری مسلم دنیا نے بیک زبان اس واقعے کی مذمت کی اور اس سے براء ت کا اعلان کیا۔ تاہم القاعدہ کی منصوبہ ساز قیادت نے اس اقدام کو جائز قرار دیتے ہوئے اسے اپنی کامیابی شمار کیا اور ’’مجاہدین‘‘ کو اس پر مبارک باد دی۔ القاعدہ نے اس اقدام میں شریعت کے ایک دوسرے اہم اصول کی خلاف ورزی بھی کی اور ایک ایسے اسلامی ملک کو اپنی قیادت کے مستقر کے طو رپر منتخب کیا جہاں کی حکومت، تمام میسر قرائن اور شواہد کی روشنی میں، نہ اس فیصلے میں شریک تھی اور نہ اس کے نتائج کی متحمل ہو سکتی تھی۔ یوں ایک چھوٹے سے گروہ نے ازخود ایک ایسا اقدام کر ڈالا جس کی ذمہ داری نتیجتاً طالبان حکومت پر عائد ہو گئی اور انھیں اقتدار سے محروم جبکہ لاکھوں افغان عوام کو ناقابل بیان جانی ومالی نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔
طالبان حکومت کے بارے میں یہ بات تجزیاتی سطح پر ثابت ہے کہ وہ ریاست کی سطح پر امریکہ میں ہونے والے حملوں کی منصوبہ بندی میں شریک نہیں تھے، چنانچہ خود امریکی انتظامیہ کی طرف سے سرکاری طور پر تیار کی جانے والی ’’نائن الیون کمیشن رپورٹ‘‘ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ ملا محمد عمر نے امریکہ پر حملے کی مخالفت کی تھی اور یہ مخالفت امریکہ کے ڈر سے نہیں بلکہ نظریاتی بنیاد پر تھی، لیکن اسامہ بن لادن ان کی اور اپنے بہت سے دوسرے ساتھیوں کی مخالفت کے باوجود اپنے منصوبے پر عمل کر گزرے، اس وجہ سے گیارہ ستمبر کے حملوں کے جواب میں طاقت کے بے محابا اور غیر ضروری استعمال سے پورے ریاستی نظم کو تباہ کر دینے کا کوئی جواز نہیں تھا اور دہشت گرد عناصر کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے متبادل اور زیادہ حکیمانہ طریقے اختیار کیے جا سکتے تھے۔ چنانچہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر طالبان یقیناًاس کا حق رکھتے تھے اور رکھتے ہیں کہ اپنی حکومت اور اقتدار کا دفاع کریں اور اسے بچانے یا بحال کرنے کے لیے حملہ آور طاقتوں کے خلاف جنگ کریں۔ اس لحاظ سے افغانستان کی موجودہ جنگ کی صحیح نوعیت میرے نزدیک مسلمانوں کی ایک حکومت کی طرف سے اپنے اقتدار کو بحال کرنے او رحملہ آور فوجوں کو اپنے ملک سے باہر نکالنے کی جنگ کی ہے۔
جہاں تک اس جنگ کو یا مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین کسی بھی جنگ کو ’’جہاد‘‘ قرار دینے کا تعلق ہے تو اس کے لیے ازروے شریعت یہ ضروری ہے کہ جنگ کا باعث اور محرک مسلمانوں کی طرف سے کوئی ایسی چیز نہ بنی ہو جو اخلاقی اور شرعی طور پر قابل اعتراض ہو۔ اگر مسلمانوں کا کوئی ناجائز اور غیر شرعی اقدام جنگ کا سبب بنا ہو تو اسے ’’جہاد‘‘ جیسے مقدس فریضے کا عنوان دینا درست نہیں۔ اسلام کا تصور جہاد جنگی اخلاقیات کے حوالے سے اتنا حساس ہے کہ ایک غزوے کے موقع پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ مسلمانوں کے لشکر کے کچھ لوگوں نے لوگوں کے اترنے کی جگہ کو تنگ کر دیا اور راہ گیروں کو لوٹا ہے تو آپ نے ایک منادی کو بھیج کر اعلان کروایا کہ:
ان من ضیق منزلا او قطع طریقا فلا جہاد لہ (ابو داؤد، رقم ۲۶۲۹)
’’جس نے اترنے کی جگہ تنگ کی یا راہ گیروں کو لوٹا، اس کا کوئی جہاد نہیں۔‘‘
زید بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص کسی غزوے سے واپس آیا تو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ شاید تم نے کسی کی کھیتی جلائی ہو۔ اس نے کہا، ہاں۔ انھوں نے کہا کہ شاید تم نے کسی کھجور کے باغ کو ڈبو دیا ہو۔ اس نے کہا، ہاں۔ انھوں نے کہا کہ شاید تم نے کسی عورت یا بچے کو قتل کیا ہو۔ اس نے کہا، ہاں۔ اس پر ابن مسعودؓ نے فرمایا:
لتکن غزوتک کفافا (سنن سعید بن منصور، رقم ۲۶۳۰)
’’(ثواب کی امید نہ رکھو) تمھیں اس غزوے کا حساب نہ دینا پڑ جائے تو بہت ہے۔‘‘
موجودہ افغان جنگ کے پس منظر میں چونکہ بہرحال گیارہ ستمبر کے واقعات موجود ہیں جس کی ذمہ دار القاعدہ کی قیادت اس سے بہت پہلے امریکہ کے خلاف برسر جنگ ہونے کا اعلان کر چکی تھی، اس لیے اسے افغانستان میں جاے پناہ فراہم کرنے کی وجہ سے ایک نوع کی ذمہ داری طالبان حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے اور انھیں بالکلیہ بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر مذکورہ دونوں پہلووں کو ملحوظ رکھا جائے تو میرے ناقص فہم کے مطابق موجودہ افغان جنگ کے فی نفسہ جائز اور مشروع ہونے کے باوجود شریعت کے اعلیٰ وارفع تصورات کی روشنی میں اسے ’’جہاد‘‘ کا عنوان دینے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ البتہ جو حضرات القاعدہ کے انتہا پسندانہ نظریات اور گیارہ ستمبر جیسی دہشت گردی کی کارروائیوں کو شرعاً غلط سمجھتے ہوئے صرف اس جذبے سے امریکہ کے خلاف لڑ رہے ہیں کہ وہ افغانستان کی اسلامی حکومت پر حملہ آور ہوا ہے، ان کے خلوص میں کوئی شبہ نہیں اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے ساتھ ان کی نیت اور جذبے کے مطابق ہی معاملہ کیا جائے گا۔
دوسری بات یہ سامنے رہنی چاہیے کہ کسی مسلمان ریاست کے شہریوں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس ملک کے شہری ہوتے ہوئے کسی معاملے میں، خاص طور پر خارجہ پالیسی سے متعلق معاملات میں اپنے نظم اجتماعی کے فیصلوں سے ہٹ کر کوئی اقدام کریں۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان کے لیے چند بدیہی وجوہ سے اس جنگ میں طالبان کا ساتھ دینا ممکن نہیں تھا، کیونکہ گیارہ ستمبر کا پس منظر اخلاقی طور پر جبکہ طاقت کا عدم توازن عملی طو رپر اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ البتہ میری رائے میں اس جنگ میں امریکی افواج کو لاجسٹک سپورٹ مہیا کرنے کا فیصلہ بھی درست نہیں تھا اور پاکستان کے لیے اس معاملے میں غیر جانب دار رہنا شرعی اصولوں کے زیادہ قریب ہوتا۔ تاہم عالمی دباؤ کے تحت پاکستان نے حملہ آور طاقتوں کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کیا اور یہی پالیسی علانیہ طور پر اب تک ریاستی سطح پر چلی آ رہی ہے۔
ملک و قوم کے جن معاملات کا فیصلہ نظم اجتماعی کے سپرد ہو، ان میں عوام نظم اجتماعی کے فیصلوں کے عملاً پابند ہوتے ہیں، اگرچہ انھیں اس پر تنقید کرنے اور اسے تبدیل کروانے کے لیے پرامن کوشش کرنے کا حق ہوتا ہے۔ اس وجہ سے پاکستان کے شہریوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ پاکستان کی شہریت کو برقرار رکھتے ہوئے طالبان کی حمایت میں افغانستان کی جنگ میں شریک ہوں، بلکہ اگر حکومت بھی عالمی برادری کے سامنے اپنے علانیہ اور ظاہری موقف سے ہٹ کر خفیہ طور پر اس جنگ میں طالبان کی حمایت کرتی ہے تو وہ بھی غدر اور خیانت جیسے غیر اخلاقی اور غیر شرعی اقدام کی مرتکب ہوتی ہے۔ پاکستانی حکومت کے لیے طالبان کی حمایت کا جائز شرعی طریقہ یہ ہے کہ وہ امریکہ اور نیٹو کی فوجوں کے ساتھ تعاون کا معاہدہ ختم کر دے، جو ان افواج کی طرف سے جنگی قوانین کی سنگین پامالیوں کی وجہ سے ویسے بھی دین وشریعت کا تقاضا ہے، اور اس کے بعد حکومت قائم کرنے یا موجود نظم حکومت میں شریک ہونے میں سیاسی اور سفارتی سطح پر طالبان کی مدد کرے۔ اسی طرح اگر انفرادی سطح پر کوئی شخص یا گروہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے اس جنگ میں طالبان کا ساتھ دینا چاہیے تو اخلاقی اور شرعی طور پر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کی شہریت چھوڑ کر اس کی حدود سے باہر چلا جائے تاکہ اس کے کسی فعل کی ذمہ داری ریاست پاکستان پر عائد نہ ہو۔ ہذا ما عندی والعلم عند اللہ
مولانا مفتی محمد زاہد
اس جیسے حساس لیکن عملی نتائج کے اعتبار سے انتہائی اہم مسئلے میں اہل علم وفکر کی طرف سے آزادانہ اور دیانت دارانہ اظہار رائے کی ضرورت ہے اور یہی آرا مکالمے کی بنیاد بنتی اور رائے عامہ اور اہل علم کو بہتر فیصلے تک رسائی میں مدد دیتی ہیں۔ افسوس ہے کہ اہل علم کی یہ ذمہ داری مصلحتوں اور غیر مقبولیت کے خوف تلے دبی ہوئی ہے۔ ایسے میں آپ کا اپنی دیانت دارانہ رائے کا اظہار باران رحمت کا قطرہ ہے۔ میں آپ کی جرات اظہار کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اس وقت مجھے اس مسئلے میں اپنی حتمی رائے ذکر کرنے کی فرصت بھی نہیں ہے اور بعض معاملات میرے ذہن میں ابھی زیر غور ہیں۔ بہرحال آپ کے بہت سے نکات کو میں درست یا کم از کم اس قابل ضرور سمجھتا ہوں کہ ان پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ آج اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی گروہ کو ناقابل تنقید حد تک مقدس قرار دینے اور کسی پالیسی کو عملاً وحی کا درجہ دینے کے رویے کی جگہ اپنی اپنی دیانت دارانہ رائے کے اظہار، ایک دوسرے کی بات پر سنجیدہ غور کا ماحول بنایا جائے۔ جس رائے کا بھی اظہار ہو، اس انداز سے ہو کہ اس پر حکومتی ٹھپا ہونے کا شائبہ تک نہ ہو، ورنہ صحیح اور مدلل بات بھی بے اثر ہو جاتی ہے۔ بالخصوص ہماری دیوبندی قیادت جس قسم کے جذباتی اور پروپیگنڈا باز نوجوانوں سے مرعوب اور خوف زدہ رہتی ہے، وہ تمام ’’احتیاطوں‘‘ کے باوجود بھی شاید ان کو ریلیف دینے کے لیے تیار نہ ہوں۔ ان کے راضی ہونے کی شرط غالباً صرف ’حتی تتبع ملتہم‘ ہی ہے۔
محمد عمران خان
آپ کا فتویٰ پڑھنے کو ملا۔ آپ کی نوازش۔ مجھے اس کے مندرجات سے اختلاف ہے۔ سب سے پہلے یہ بات ہی غلط ہے کہ اس حملے میں القاعدہ ملوث ہے، کیونکہ اس بات کا امریکہ کوئی ثبوت نہیں دے سکا، نہ ہی طالبان کو اور نہ ہی دنیا کو۔ اور جب ایسی بات ہے تو پھر ہماری شرعی ذمہ داری ہے کہ ہم امریکا کے الزامات کی تصدیق نہ کریں، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ ’’دلیل مدعی کے ذمے ہے‘‘۔ اور یہ بات تو اب مغرب کی غیر جانب دار شخصیات بھی کہہ رہی ہیں کہ اس حملے سے امریکی مفاد وابستہ ہے اور امریکہ کا اس حملے میں ملوث ہونا بعید از قیاس نہیں ہے، جیسا پرل ہاربر کے اٹیک کا بہانہ بنا کر جاپان پر ایٹمی اٹیک کیا گیا۔ ان شخصیات میں یہ چند لوگ شامل ہیں:
۱۔ پال کریگ رابرٹس (ریگن انتظامیہ میں اسسٹنٹ سیکرٹری آف دی ٹریژری)
۲۔ جارج گیلو وے (برطانوی ممبر پارلیمنٹ)
۳۔ ڈیوڈ گریفن (پروفیسر آف فلاسفی آف ریلجن)
۴۔ مشل چوسو ڈوسکی (پروفیسر آف اکنامکس)
۵۔ سنتھیا این مک کنی (سابقہ امریکی رکن کانگریس)
۶۔ ویبسٹر گریفن ٹارپلے (مصنف، صحافی)
۷۔ کارلوس ارون Est233vez aka Charlie Sheen (امریکی اداکار)
۸۔ جم مارس (مصنف، صحافی)
۔ ڈاکٹر ہنری میکو (مصنف، صحافی)
یہ فہرست نہ ختم ہونے والی ہے۔ آپ کو اپنے فتوے پر نظر ثانی کرنی چاہیے، کیونکہ یہ کوئی معقول استدلال پیش کرنے سے زیادہ امریکی مفادات کو قوت پہنچانے کے مترادف ہے۔
ڈاکٹر حسن الامین
۱۔ میرے خیال میں عمار صاحب کی تحریر میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ کوئی ’’فتویٰ‘‘ جا ری کر رہے ہیں۔میرے خیال میں زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنی رائے دی ہے، نہ کہ کوئی فتویٰ۔
۲۔ آپ کو وہ دسیوں ویڈیوز اور وہ سیکڑوں بیانات اور فتوے دیکھنے چاہییں جو اسامہ اور الظواہری سمیت القاعدہ کے مختلف لوگوں نے جاری کیے ہیں اور ان میں امریکہ پر حملوں کے جواز اور امریکی شہریوں اور افواج کو زک پہنچانے سے متعلق اپنے نظریات بالکل واضح طریقے سے بیان کیے ہیں۔ اگر آپ سرے سے القاعدہ، اسامہ اور طالبان کے وجود ہی کا انکار کرتے ہیں تو پھر پاکستان میں ہونے والی قتل وغارت اور خود کش حملوں کا ذمہ دار آخر کون ہے؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ یہ بھارتی یا یہودی ہیں تو پھر یہ قاضی حسین احمد اورمولانا فضل الرحمن جیسی ساری مذہبی قیادت کو قتل کیوں نہیں کر رہے؟
۳۔ کیا آپ ہمیں کوئی ایسی گواہی یا ثبوت بتا سکتے ہیں جو محمد بن قاسم نے کراچی/دیبل پر اور طارق بن زیاد نے اسپین پر حملہ کرنے کے لیے پیش کی ہو؟ یقیناًآپ کا جواب یہی ہوگا کہ یہ حملے صرف اس وقت بطور سپر پاور مسلمانوں کی فوجی طاقت کے بل بوتے پر کیے گئے تھے۔ اگر یہ بات ہے تو ازراہ کرم یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں کہ اسامہ اور اس کے ساتھی مختلف ذریعوں سے گزشتہ کئی سالوں سے، حتیٰ کہ نائن الیون سے بھی پہلے، اپنا یہ پیغام دنیا تک پہنچا رہے ہیں کہ وہ امریکہ کے خلاف برسر جنگ ہیں۔ گیارہ ستمبر کا حادثہ اس جنگ کا آغاز نہیں بلکہ اس کا نقطہ عروج تھا۔
محمد عمران خان
۱۔ کسی مذہبی معاملے سے متعلق کسی اسلامی اسکالر کا رائے دینا ہی فتویٰ کہلاتا ہے۔
۲۔ مجھے کوئی ایسی ویڈیو بھیج دیں جس میں انھوں نے اس کا اعتراف کیا ہے۔
۳۔ محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کچھ مسلمان قیدیوں کو چھڑانے کے لیے کیا تھا جبکہ طارق بن زیاد نے اسپین پر حملہ وہاں کے مسیحی مذہبی راہنماؤں کی دعوت پر کیا تھا۔ آپ کو اپنا تاریخ کامطالعہ تازہ کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر حسن الامین
۱۔ آپ نے کہا کہ ’’کسی مذہبی معاملے سے متعلق کسی اسلامی اسکالر کا رائے دینا ہی فتویٰ کہلاتا ہے۔‘‘ کیا یہ اتنی سادہ بات ہے؟ فتویٰ سماجی طور پر ایک نہایت محدود مذہبی رائے کو کہتے ہیں۔ عمار صاحب کی رائے اختلاف کی ایک وسیع گنجائش دیتی ہے، جبکہ آپ حضرات کے سیاسی محرکات کے تحت اور مخصوص تاریخی اور سماجی ماحول کے زیر اثر دیے جانے ولے فتوے ایسی کوئی گنجائش تسلیم نہیں کرتے، چاہے بظاہر اس کا دعویٰ ہی کرتے ہوں۔
۲۔ اگر آپ کی نظر سے اسامہ وغیرہ کے جاری کردہ ایسے تمام بیانات اور ویڈیوز نہیں گزریں تو پھر آپ اتنا بڑا دعویٰ لے کر اس بحث میں شریک کیوں ہو گئے ہیں؟ لگتا یہ ہے کہ آپ یا تو ان بیانات کو پڑھنا اور سننا نہیں چاہتے یا سیدھا سیدھا ان پر ’’جھوٹا‘‘ ہونے کا لیبل لگا دینا چاہتے ہیں۔
۳۔ آپ کو ثبوت اور جواز میں فرق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد نے جو کچھ دیا، وہ جواز تھا نہ کہ ثبوت۔ اسی طرح امریکی افغانستان میں اپنے دشمنوں کو گرفتار کرنے کے لیے آئے اور اقوام متحدہ اور ساری مسلم دنیا نے امریکی حملے کا جواز تسلیم کیا۔ سپر پاورز کبھی ثبوت نہیں دیتیں۔ وہ صرف اپنی جنگوں کا کوئی نہ کوئی جواز بتاتی ہیں، قطع نظر اس سے کہ حملہ آور محمد بن قاسم ہو یا جارج بش۔
محمد عمران خان
۱۔ آپ یہ کیسے جانتے ہیں کہ میں نے کبھی سیاسی محرکات کے تحت اور سماجی ماحول سے متاثر ہو کر فتوے دیے ہیں؟ ازراہ کرم مفروضات قائم کرنے کے غیر مختتم چکرمیں نہ پڑیں۔
۲۔ یہ بے بنیاد مفروضہ ہے۔ آپ جس انبار کی بات کر رہے ہیں، اس میں سے صرف ایک ویڈیو کا حوالہ دے دیں۔
۳۔ یعنی آپ کامطلب یہ ہے کہ کسی حملہ آور سپر پاور کے خلاف لڑنا جہاد نہیں ہے۔ پھر مجھے یہاں جواز اور ثبوت میں بھی کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ جواز کامطلب ہے کسی کے مجرم ہونے کا ثبوت جس پر اسے سزا دی جا سکے۔ آسان لفظوں میں اگر کسی کے زنا کا مرتکب ہونے کا ثبوت موجود نہیں تو اسے کوڑے مارنے کا بھی کوئی جواز نہیں۔
محمد عمار خان ناصر
میرے خیال میں سوال القاعدہ کے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے ’’قانونی ثبوت‘‘ کا نہیں بلکہ حق کی گواہی دینے کی اس ذمہ داری کا ہے جو شریعت مسلمانوں پر ہر حال میں عائد کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کسی معاملے میں مجرم کے ارتکاب جرم کو عدالت میں قانونی معیار پر ثابت کرنا ممکن نہ ہو تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ سرے سے جرم کا ارتکاب ہی نہیں ہوا۔ سماجی اور معاشرتی سطح پر حق کی گواہی دینے اور کسی فرد یا گروہ کے غیر شرعی اقدامات پر تنقید کرنے یا اپنے دائرۂ اختیار میں اس کے خلاف کوئی قانونی اقدام کرنے کے لیے یہ کافی ہے کہ آپ اپنے ذرائع معلومات سے اس کے ثبوت پر مطمئن ہوں، چاہے مدعی نے کسی باقاعدہ عدالت میں ثبوت جرم کے دلائل پیش نہ کیے ہوں۔ میرے نزدیک دوسرے قرائن وشواہد سے قطع نظر، القاعدہ کے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے لیے یہ ثبوت کافی ہے کہ دس سال سے ساری دنیا اس کا نام لے کر اس پر یہ الزام لگا رہی ہے ، لیکن القاعدہ کی قیادت نے آج تک ایک مرتبہ بھی اس کی تردید نہیں کی، بلکہ ان واقعات کو ’’مجاہدین‘‘ کی کامیابی قرار دیا اور اس پر انھیں مبارک باد پیش کی ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ کہنا کہ ’’انھوں نے اس کا اعتراف کب کیا ہے؟‘‘ ایک حیرت انگیز سوال ہے۔
محمد عمران خان
آپ کو القاعدہ کے نائن الیون حملوں میں ملوث ہونے کا کوئی قانونی ثبوت نہیں چاہیے۔ چلیں اس کو آپ کی پسند قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن طالبان کا امریکہ سے قانونی ثبوت کا مطالبہ کرنا (۲۰۰۱ء میں) کیا جائز اور عین شریعت کے مطابق نہ تھا؟ اگر وہ مطالبہ کرنا جائز تھا تو کیا ان پر ہونے والے امریکی حملے کے جواب میں ان سے لڑنا جہاد نہیں؟ اور کیا امریکہ کا عراق پر حملہ کرنا بغیر کسی WMD کے ثبوت کے دہشت گردی نہیں تھا؟ اور کیا اگر اسی طرح امریکہ پاکستان پر حملہ کرتا ہے کہ یہاں القاعدہ موجود ہے تو کیا اس کا مقابلہ کرنا جہاد نہیں ہوگا؟
ڈاکٹر حسن الامین
القاعدہ کئی سال سے جو دعوے کر رہی ہے، تقویٰ اور جہاد کے نام پر جن کاموں کی تائید کرتی ہے اور جس چیز کو ایک آئیڈیالوجی کے طو رپر پھیلا رہی ہے، اگر آپ اس سب سے صرف نظرکر کے ’’ثبوت‘‘ مانگنے پر اصرار کرنا چاہتے ہیں تو پھر مزید بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔ دونوں زاویہ ہاے نظر واضح ہیں۔ میں گزارش کروں گا کہ ازراہ کرم القاعدہ کے قائدین نے وقتاً فوقتاً جو بیانات جاری کیے ہیں اورجو میڈیا میں شائع ہو چکے ہیں، ان پر ایک نظر ڈال لیں۔
جی ہاں، میں پرزور انداز میں کہتا ہوں کہ ثبوت اور جواز میں فرق ہے۔جب محمد بن قاسم سندھ پر حملہ کر رہے تھے تو راجہ داہر نے اصرار کیا تھا کہ بحری لٹیرے اس کے دائرۂ اختیار سے باہر ہیں لیکن کوئی ثبوت دیے بغیر ہم نے اس پر حملہ کیا کیونکہ ہمارے پاس (کچھ مسلمانوں کو آزاد کرانے کا) جواز موجود تھا۔ القاعدہ گزشتہ کئی سالوں سے اپنے خلاف ثبوت خود مہیا کر رہی ہے۔ اگر آپ اس سے انکار کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ القاعدہ نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں تو میں یہ کہنے کے سوا آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں کہ ان کے جاری کردہ پیغامات اور بیانات پر نظر ڈال لیں۔ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں، اس سے ہماری معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، کیونکہ امریکیوں سمیت بہت سے لوگ گیارہ ستمبر کے بعد سے یہ بات کہہ رہے ہیں۔ آپ اسی پرانے خیال کو دہرا رہے ہیں۔
محمد عمران خان
بحث کو مزید طول نہ دینے پر شکریہ۔ بہرحال آپ کو میڈیا پر جتنا یقین ہے، میرے خیال میں آزادانہ رائے قائم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ میڈیا کی مسلط کردہ جس نفسیاتی جنگ کا ہمیں دن رات سامنا ہے، اس کو بہتر طو رپر سمجھنے کے لیے آپ کو نوم چومسکی کی کتاب Manufacturing Consent کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ مزید یہ کہ عقل واستدلال کی دنیا میں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا اصول کوئی جواز نہیں رکھتا۔ راجہ داہر نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ بحری لٹیرے اس کے دائرۂ اختیار سے باہر ہیں، بلکہ اس نے انھیں تحفظ فراہم کیا۔ (یہ بھی میڈیا کی سکھائی ہوئی غلط تاریخ کی ایک مثال ہے۔)
درج ذیل ویب سائٹ پر ایک دلچسپ اور چشم کشا مضمون ملاحظہ کریں جو واضح کرتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں کیوں آیا ہے۔ وہ دراصل اپنی ’معاشی آزادی‘ کا تحفظ چاہتے ہیں:
http://www.huffingtonpost.com/john-perkins/will-us-enslave-afghanist_b_632424.html
حافظ محمد سمیع اللہ فراز
میں نے آپ کا فتویٰ پڑھا ہے، تاہم بعض وجوہ سے میں آپ کے خیالات یا دلائل سے متفق نہیں، خاص طورپر آپ نے القاعدہ کے متعلق جو بات کہی ہے کہ اس نے گیارہ ستمبر کے واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ آپ کا فتویٰ اسی نکتے پر مبنی ہے۔ پہلی بات جو واضح ہونی چاہیے، یہ ہے کہ کیا القاعدہ کا کوئی وجود بھی ہے؟ اگر یہ بات صاف ہو جائے تو آپ کے جواب کا اگلا حصہ درست سمجھا جائے گا۔
القاعدہ امریکہ کا تخلیق کردہ ایک مفروضہ ہے اور یہ بات خود امریکی تجزیہ نگاروں نے بھی ثابت کی ہے۔ میں اپنا مضمون بھیج رہا ہوں جو امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز میں چھپا تھا اور امید ہے کہ برطانیہ کے گارجین میں بھی جلدی چھپ جائے گا، ان شاء اللہ۔ اب مغرب میں القاعدہ کے مفروضے کے بارے میں انتہائی دانش ورانہ بحث ہو رہی ہے اور مجھے امید ہے کہ جلد یا بدیر بالکل واضح ہو جائے گاکہ نائن الیون کا ڈرامہ اور القاعدہ کا کردار سیاسی مقصد کے تحت تخلیق کیا گیا تھا۔ اب مغربی دانش وروں کا فہم اس مفروضے کے بارے میں بیدار ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اس کا ایک کھلا ثبوت گارجین کا ایک مضمون ہے جس کا ترجمہ الشریعہ میں بھی اداریے کے طور پر شائع کیا گیا تھا۔ گارجین کا اصل مضمون "We would not lose our conscience" (ہم اپنے ضمیر کو مردہ نہیں ہونے دیں گے) کے عنوان سے چھپا تھا اور اس پر ۷۱ لوگوں نے دستخط کیے تھے۔ اس لیے اب اس مفروضے کا پردہ چاک ہونے والا ہے۔ آپ کو فتویٰ جاری کرنے میں انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے، کیونکہ اس کی بنیادیں مضبوط نہیں ہیں بلکہ صرف مفروضے ہیں۔
محمد عمار خان ناصر
آپ کا ارسا ل کردہ مختصر مضمون میں نے دیکھا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مضمون جتنے بڑے دعوے پر مبنی ہے (یعنی یہ کہ القاعدہ کا سرے سے کوئی وجود نہیں اور یہ کہ گیارہ ستمبر کے واقعات میں بن لادن اور الظواہری وغیرہ کی آئیڈیالوجی اور انتہا پسند مسلمانوں کا کوئی کردار نہیں اور یہ سارا کھیل امریکا نے صرف عراق اور افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے رچایا تھا)، پیش کردہ شواہد سے اس کا ثابت ہونا تو کجا، کوئی سنجیدہ اور حالات وواقعات پر نظر رکھنے والا مبصر اسے قابل غور سمجھنے پر بھی آمادہ نہیں ہو سکتا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جس نہج پر لڑی گئی، اس میں امریکا کے چھپے عزائم اور مخفی مفادات بالکل کھلے ہوئے ہیں اور یقیناًالقاعدہ کی ممکنہ صلاحیت اور استعداد کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، لیکن مسلمانوں کے انتہا پسند گروہوں اور خاص طور پر بن لادن اور الظواہری کی قبیل کے نظریہ سازوں کو بالکل معصوم بنا کر پیش کرنا میرے نزدیک اخلاقی جرات کے فقدان کی علامت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود القاعدہ کی قیادت نے کبھی اپنی کوئی صفائی پیش نہیں کی اور نہ آج تک یہ کہنے کی ضرورت محسوس کی ہے کہ ساری دنیا اسے جس الزام کا مورد ٹھہرا رہی ہے، اس کا دامن اس سے پاک ہے۔ اس کے برعکس درجنوں ایسے بیانات اور خطابات موجود ہیں جن میں ان حضرات نے ساری مسلم دنیا کے برعکس گیارہ ستمبر اور سات جولائی جیسے اقدامات کو جائز قرار دیا اور انھیں مجاہدین کی فتح اور کامیابی شمار کیا ہے۔
اگر آپ کی رسائی جہادی عناصر تک ہو اور آپ اپنی تحقیق کا ماخذ مغربی صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کے سیاسی بیانات کے بجائے ان عناصر کے ذمہ دار حضرات کے نظریات، عزائم اور معلومات کو بنائیں تو آپ کو حقیقت حال تک پہنچنے میں زیادہ مدد ملے گی۔ اس وقت امت کی خیر خواہی کا تقاضا لیپا پوتی کر کے حقائق پر پردہ ڈالنا اور ریت میں سر دے کر مطمئن ہو جانا نہیں، بلکہ جرات اور دیانت داری کے ساتھ اس بحران کا سنجیدہ تجزیہ کرنا ہے جس میں ہماری مذہبی اور عسکری قیادت نے اپنی بے بصیرتی سے مذہبی رجحانات رکھنے والی ایک پوری نسل کو مبتلا کر دیا ہے۔ اللہ کرے کہ آپ جیسے نوجوان اصحاب قلم اس طرف متوجہ ہوں اور اس ذمہ داری کو فرض کفایہ ہی کے درجے میں سہی، ادا کرنے کی کوئی صورت پیدا ہو۔
حافظ محمد سمیع اللہ فراز
تبصرے کا بہت شکریہ۔ میرے خیال میں ایک غلط فہمی کا ازالہ ہونا چاہیے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں ان دہشت گرد گروہوں کا دفاع کر رہا ہوں تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ بحث اس پر نہیں ہے کہ ’’یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟‘‘ اور ’’ان کے پاس اس کا کیا جواز ہے؟‘‘۔ بحث ا س پر ہو رہی ہے کہ آیا آپ کے اور میرے علم اور اطلاعات کے مآخذ قابل اعتماد ہیں یا اس کے برعکس؟
مثال کے طور پر آپ نے اپنی سابقہ ای میل میں جہادی لیڈروں اور ان کی ویڈیوز اور خطابات کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، میں یہ پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ ان معلومات کا ماخذ آپ کے پاس کیا ہے؟ کیا آپ کی یا کسی متعلقہ آدمی کی کبھی القاعدہ کے عناصر سے ملاقات ہوئی ہے؟ (طالبان کی بات نہیں کر رہا کہ وہ ایک الگ ایشو ہے)۔ مثال کے طورپر مغربی میڈیا میں مصر کے ایک دہشت گرد گروپ جماعہ اسلامیہ مسلحہ کا مسلسل ذکر ہو رہا ہے،جبکہ مصر میں ا س کا کوئی وجود نہیں۔ اسی طرح شمالی وزیرستان کے مولانا نصیر الدین سے میری بات ہوئی ہے جو افغانستان کے طالبان کا ترجمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ افغانستان کے طالبان نے پاکستان کے اندر خود کش حملوں جیسے کسی بھی اقدام کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔
اس لیے میرانقطہ نظر یہ ہے کہ اس وقت معلومات کے تمام ذرائع کنٹرولڈ ہیں، خاص طور پر مجھے اور آپ کو ملنے والی معلومات یک طرفہ اور مسخ شدہ ہوتی ہیں۔ اس صورت حال میں، میری صرف یہ درخواست ہے کہ چونکہ فتویٰ ایک حتمی فیصلہ سمجھا جاتا ہے، اس لیے اسے فریقین کے موقف کا جائزہ لینے کے بعد جاری کیا جانا چاہیے تھا۔ اگر آپ تحقیق کی کوشش کریں تو آپ کو صورت حال اس سے مختلف نظر آئے گی جس کا میڈیا پراپیگنڈا کر رہا ہے۔
محمد عمار خان ناصر
آپ کی جوابی ای میل نظر نواز ہوئی۔ آپ کا زاویہ نگاہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور اس نوعیت کے دوسرے واقعات میں القاعدہ کے کردار سے متعلق دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ جو اطلاعات، رپورٹس اور تجزیے پیش کر رہے ہیں اور القاعدہ کے راہ نماؤں کی تقریروں پر مشتمل جو دسیوں ویڈیوز کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک رسائی رکھنے والے ہر شخص کو دستیاب ہیں، وہ سرتاسر من گھڑت ہیں اور میڈیا نے محض پراپیگنڈا کے زور سے ایک بالکل بے بنیاد بات اتنے بڑے پیمانے پر دنیا سے تسلیم کروا لی ہے۔ غالباً آپ کے نزدیک اس معاملے میں براہ راست مشاہدے یا ’حدثنا واخبرنا‘ کے طریقے پر ملنے والی کسی اطلاع کے علاوہ کوئی دوسری بات قابل قبول نہیں ہو سکتی۔
آپ کا یہ زاویہ نگاہ بجاے خود نہایت محل نظر ہے، تاہم میں اس پر کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ میرے ذاتی تجزیے کی بنیاد جن معلومات پر ہے، ان میں عام ذرائع سے میسر ہونے والی معلومات کے علاوہ مذکورہ نوعیت کی موثق اطلاعات بھی شامل ہیں۔ گیارہ ستمبر کے حادثے کے فوراً بعد صف اول کی ایک متحرک جہادی تنظیم کے نظم سے تعلق رکھنے والے ایک نہایت ذمہ دار عالم نے مجھے تنظیم کے ایک اعلیٰ سطحی راہنما کے حوالے سے، جو ان دنوں بن لادن وغیرہ کے ساتھ رابطے میں تھے، بتایا کہ بن لادن اس حملے کی منصوبہ بندی کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور اس کا جواز یہ بتاتے ہیں کہ امریکہ کی طاقت کو زک پہنچانے کے لیے اس طرح کا اقدام ہمارے لیے ناگزیر ہو چکا تھا۔
واقعہ یہ ہے کہ گیارہ ستمبر کے بعد کم از کم افغانستان پر امریکی حملے تک طالبان حکومت کے نہایت قریبی حلقوں میں اس حوالے سے کوئی سنجیدہ سوال نہیں پایا جاتا تھا کہ اس واقعے میں القاعدہ کا کوئی کردار ہے یا نہیں، بلکہ طالبان حکومت کے سقوط کے بعد افغانستان میں رفاہی خدمات انجام دینے والے پاکستان کے ایک بڑے مذہبی نیٹ ورک کے ایک اعلیٰ سطحی راہنما نے، جن کے براہ راست روابط اس وقت تک ملا محمد عمر وغیرہ کی سطح کی شخصیات سے تھے، اپنی نجی مجلسوں میں یہ کہا کہ بن لادن نے ایک بے حد سطحی اور جذباتی قدم اٹھایا ہے جس کی قیمت مسلمانوں کو امارت اسلامیہ کے سقوط کی صورت میں ادا کرنا پڑی ہے۔ (یہ بات مجھے اس راہنما کے ایک حاضر باش رفیق نے خود بتائی۔) میں نے اسی لیے عرض کیا ہے کہ اگر آپ اس نکتے کو موضوع تحقیق بنا کر جہادی تنظیموں کے ان ذمہ دار افراد سے جو اندرونی صورت حال سے قریبی واقفیت رکھتے ہیں، اس نوعیت کی روایات جمع کرنا شروع کریں تو شواہد کا ایک انبار آپ کے سامنے آ جائے گا۔
عوامی سطح پر بھی پہلے پہل کیفیت یہ تھی کہ امریکہ کی رسوائی پر مذہبی بلکہ عام لوگوں کی خوشی چھپائے نہیں چھپتی تھی اور اسامہ نے ایک عظیم ہیرو کا درجہ اختیار کر لیا تھا جس کے نام پر نومولود بچوں کا نام رکھنا باعث سعادت سمجھا جانے لگا تھا۔ پھر جب امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان کی حکومت ختم ہو گئی، امریکہ کی وحشت ناک بمباریوں کے واقعات منظر عام پر آئے، عراق پر حملے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کا مفروضہ جھوٹا ثابت ہوا، ابو غریب، بگرام ایئر بیس اور گوانتا نامو کے عقوبت خانوں کی داستانیں سامنے آئیں اور امریکی مداخلت کے سلسلے نے بڑھتے بڑھتے پاکستانی علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تو غم وغصے کی شدت میں فطری طور پر عوام بھی یہ بھول گئے کہ اس بدمست ہاتھی کو یہاں آنے کی دعوت کس نے اور کیسے دی تھی اور مذہبی وسیاسی قائدین نے بھی اس دباؤ کے سامنے حقیقت پسندانہ موقف اختیار کرنے کے بجائے حقائق سے نظریں چرانے میں ہی عافیت سمجھی، چنانچہ گیارہ ستمبر جیسے واقعات کو شرعاً واخلاقاً ناقابل دفاع پاتے ہوئے ’’خدا اور صنم‘‘ دونوں کو راضی رکھنے کا طریقہ یہ ڈھونڈا گیا کہ دنیا کو منہ دکھانے کے لیے ان واقعات کی مذمت تو کی جائے، لیکن عوامی غیظ وغضب سے بچنے کے لیے ان کے ذمہ دار عناصر سے براء ت کے بجائے بعض مغربی تجزیہ نگاروں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ساری ذمہ داری امریکہ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں پر ڈال دی جائے اور ایسا کرتے ہوئے اس بات کی طرف مطلق توجہ نہ دی جائے کہ عقل عام، منطق اور استدلال اس بات کا کتنا مضحکہ اڑائیں گے۔
میرے نزدیک اس معاملے میں انتہا پسند عناصر نے روایتی مذہبی قیادت کے مقابلے میں کہیں زیادہ اخلاقی جرات کا ثبوت دیا ہے۔ مجھے ان کی آئیڈیالوجی اور حکمت عملی، دونوں سے شدید اختلاف ہے، لیکن Give the devil his due کے بموجب یہ ماننا پڑتا ہے کہ انھوں نے کسی دوغلے پن کا مظاہرہ نہیں کیا اور مغربی ممالک میں کیے جانے والے حملوں سے لے کر پاکستانی فوج اور ایجنسیوں، شدت پسندی کی مخالف شخصیات، مخالف فرقوں کی عبادت گاہوں اور پبلک مقامات پر کیے جانے والے حملوں تک جس گروہ نے جو بھی اقدام کیا ہے، اس کو علانیہ جائز قرار دیا اور حسب مصلحت بہت سی صورتوں میں اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان عناصر کی سرگرمیوں کا نیٹ ورک خفیہ ہے، لیکن ان کا موقف (’’جنگ میں سب جائز ہے‘‘)، ان کا پیغام اور ان کا ہدف بالکل واضح ہے اور اسی لیے وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے ہمہ تن سرگرم ہیں۔ ادھر ہماری ’’امن پسند‘‘ مذہبی قیادت کا حال یہ ہے کہ ایک بڑی مذہبی جماعت کے محترم قائد ملک کے ایک بڑے اردو روزنامے میں مضمون تحریر کرتے ہیں اور اس میں اپنی فہم وفراست اور اخلاقی جرات کی کیفیت بقلم خود یوں رقم فرماتے ہیں کہ [پاکستان کے] طالبان لاکھ خود کش حملوں کی ذمہ داری قبول کریں، ہم یہ بات تسلیم نہیں کریں گے اور اسے امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی سازش ہی قرار دیتے رہیں گے۔
ان حضرات کی ’’مجبوریاں‘‘ قابل فہم ہیں کہ ان کے ارادت مندوں اور پیروکاروں کا ایک وسیع حلقہ ہے جس کے سامنے انھیں جواب دہ ہونا پڑتا ہے اور اپنے حلقے کا اعتماد اور مقبولیت ہی ان کے لیے سرمایہ حیات کا درجہ رکھتا ہے، لیکن جب آپ جیسے نوجوان اصحاب فکر بھی، جن پر نہ کسی جماعتی نظم کا دباؤ ہے اور نہ کسی ہجوم کی عقیدت مندی کا طوق ان کی گردن میں پڑا ہوا ہے، فقیہ شہر ہی کی زبان بولتے دکھائی دیتے ہیں تو سخت مایوسی ہوتی ہے کہ آوازۂ حق کے بلند کیے جانے اور ’ولو علی انفسکم‘ گواہی سننے کی امید سے آدمی دیکھے تو آخر کس کی طرف دیکھے!
کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یا رب
اک آبلہ پا وادئ پرخار میں آوے
امید کرتا ہوں کہ میری یہ معروضات زیادہ گراں بارئ خاطر کا موجب نہیں ہوں گی۔ آپ سے ایک پرانا تعلق خاطر بھی ہے اور اچھے علمی مستقبل کی امید بھی وابستہ ہے، اس لیے یہ تلخ محسوسات بے اختیار صفحہ قرطاس پر منتقل ہوتے چلے گئے، ورنہ یہی باتیں ہر روز مذہبی رسالوں اور اخباروں میں دیکھنے کو ملتی ہیں اور کبھی کسی کو درد دل کہنے کی تحریک نہیں ہوتی۔ اللہم اجعلنا ممن یجاہرون بالحق ولا یخافون فیک لومۃ لائم۔
حافظ محمد سمیع اللہ فراز
آپ کا خط موصول ہوا۔ احقر کے لیے آپ کے انتہائی مثبت جذبات واحساسات نے قلب وجان میں آپ کی قدر میں مزید اضافہ کیا ہے جس پر آپ کا بے حد شکر گزار ہوں۔
میرے زاویہ نگاہ کے ایک حصے کو آپ صحیح سمجھے ہیں کہ میرے نزدیک انسانیت کی موجودہ پستی، باہمی دوری اور مفادات کے تصادم کے زمینی محرکات اور اسباب میں سے ایک سبب موجودہ قومی اور بین الاقوامی میڈیا ہے جس نے غلط فہمیوں کے ازالہ کی بجائے مخصوص طاقتوں کے آلہ کار کا کردار ادا کیا ہے۔
قومی سطح پر اس کی ایک مثال ’’سوات ویڈیو‘‘ کا ایشو ہے۔ چند برس قبل اس میں کچھ ’’طالبان‘‘ کے ہاتھوں ایک لڑکی کو کوڑے مارتے دکھایا گیا ہے جس پر نہ صرف میڈیا نے ایک طوفان بدتمیزی برپا کیا تھا بلکہ اس واقعے کی آڑ میں اسلامی سزائیں بھی نام نہاد ’’ٹی وی اسکالرز‘‘ کا موضوع بحث بنی رہیں۔ حالیہ برس کے فروری میں اسلام آباد کی ایک این جی او نے پانچ لاکھ روپے کے عوض اس ویڈیو کی تیاری کا اعتراف کیا، لیکن کسی غیرت مند صحافی کو اپنے کیے پر ذرا بھر بھی پچھتاوا نہیں ہوا۔ موجودہ ذرائع ابلاغ کے اسی کردار نے اس کی حیثیت کو مشکوک بنا کر رکھ دیا ہے جس کی بنا پر کسی واقعے کے بارے میں یک طرفہ دستیاب معلومات کی بنا پر کچھ کہنا ادبی بے احتیاطی محسوس ہوتا ہے۔
رہی بات مسلم شدت پسندی کی تو اس ضمن میں جہاں یہ بجائے خود قابل مذمت وتنقید ہے، وہیں اس کے پس پردہ محرکات میں سے شعوری یا غیر شعوری طو رپر کسی کے ہاتھوں میں استعمال ہونا بھی اس کے عناصر کی بنیادی خامی رہی ہے۔ میرے خیال میں تو حالیہ اسلامی تاریخ کا یہ المیہ رہا ہے کہ ہمیں بعد از فتح معلوم پڑتا ہے کہ شاید یہ ہماری فتح نہیں۔ سوویت جہاد اس کی زندہ مثال ہے۔
میں ایک بار پھر آپ جناب کا بے حد شکر گزار ہوں کہ اپنے قیمتی اوقات میں سے بروقت اپنے تجزیہ سے مشرف کیا۔ میری ایک رائے تھی جو غلط بھی ہو سکتی ہے جس کا اظہار آپ کی خدمت میں اپنی اصلاح کی خاطر کر دیا۔
زاہد وزیر
آپ نے کہا کہ گیارہ ستمبر کے حملوں میں القاعدہ کے ملوث ہونے کی وجہ سے افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑائی کو جہاد نہیں کہا جا سکتا، لیکن کہا جاتا ہے کہ القاعدہ کو خواہ مخواہ ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے اور اس کا ان واقعات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس صورت میں آپ کا سارا استدلال بے بنیاد ہو جاتا ہے۔
محمد عمار خان ناصر
القاعدہ کے وجود یا گیارہ ستمبر جیسے واقعات میں اس کے کردار کی نفی دو طرح کے حلقے کر رہے ہیں:
ایک، مغربی دنیا کے وہ صحافی اور تجزیہ نگار جو امریکہ کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے ناقد ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو امریکی تسلط کی توسیع کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہ تنقید اپنی جگہ بے حد وزن رکھتی ہے، تاہم میرے نزدیک القاعدہ کے وجود اور سرگرمیوں سے انکار ایک مبالغہ پر مبنی رد عمل ہے۔
دوسرے، مسلمانوں کے وہ مذہبی وسیاسی قائدین جو ایک طرف دہشت گردی کے واقعات کا دفاع بھی نہیں کرنا چاہتے اور دوسری طرف ان واقعات کے ذمہ دار انتہا پسند عناصر سے علانیہ براء ت کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے۔
ان دو عناصر کے علاوہ جہاں تک جہادی عناصر اور خاص طور پر نائن الیون کے وقت بن لادن وغیرہ سے قریبی تعلق رکھنے والے لوگوں کا تعلق ہے، ان کے ہاں اس ضمن میں کوئی ابہام نہیں پایا جاتا۔ وہ ان حملوں کو جائز سمجھتے اور موقع ملنے پر مزید ایسی کارروائیاں کرنے کے عزائم رکھتے ہیں۔ خود آج تک القاعدہ کی قیادت نے ایک دفعہ بھی یہ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ اسے دہشت گردی کے جن واقعات کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے، اس سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس کے برعکس متعدد وڈیوز میں القاعدہ کے مختلف راہنما ان حملوں پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ’’مجاہدین‘‘ کو کامیابی پر مبارک باد دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ القاعدہ کے زاویہ فکر سے اتفاق رکھنے والے جہادی طبقات کا فکری لٹریچر بھی اس معاملے میں بالکل واضح ہے۔ یہاں نمونے کے طو رپر صرف ایک اقتباس درج کرنا کافی ہوگا جو الہجرہ پبلی کیشن، کراچی کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتاب ’’برمودا تکون اور دجال‘‘ سے ماخوذ ہے۔ اس کے مصنف مولانا عاصم عمر ہیں اور اس میں جدید مغربی تہذیب کی فتنہ سامانیوں کے تناظر میں جہادی عناصر کے نظریات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ مصنف نے اس کے صفحہ ۱۵۴، ۱۵۵ پر لکھا ہے:
’’جو لوگ ۱۱ ستمبر کے حملوں کو یہودیوں کی کاروائی قرار دیتے ہیں، اس کی اصل وجہ بھی میڈیا کا بنایا ہوا ذہن ہے۔ میڈیا نے دنیا کی تمام برائیاں، بے غیرتی کے کام، بزدلی، افراتفری، انتشار پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کے کھاتے میں ڈال دیے ہیں اور تمام اچھائیاں، بہادری کے کارنامے اور امن وسکون مغربی معاشرے یا ہندو معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔ گویا کوئی مسلمان اس قابل ہی نہیں کہ دنیا میں کوئی بہادری کا کام انجام دے سکے۔ یہ سوچ عام ہے جو آپ کسی بھی میڈیا پر نظر رکھنے والے کی زبان سے سنتے رہتے ہیں۔ جو لوگ ۱۱ ستمبر کے حملوں کو مجاہدین کی کاروائی تسلیم نہیں کرتے، اس میں بنیادی عنصر یہی کارفرما ہے کہ ان کے ذہنوں میں یہ بٹھا دیا گیا ہے کہ کوئی مسلمان اس قابل ہے ہی نہیں۔ یہ بے چارے اس دنیا کو ابھی تک اسی کی دہائی والی دنیا ہی سمجھ رہے ہیں۔ ان کو علم نہیں کہ امت محمدیہ بیدار ہے اور بازی الٹ چکی ہے۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ لوگ میدان جہاد سے بہت دور ہیں اور ان کو جہاد کے میدانوں سے کوئی خبر نہیں مل پاتی بلکہ ان کی تمام معلومات اخبارات اور ٹی وی رپورٹوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ نیز یہ حضرات نہ تو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی پینٹاگون کو۔ وہ بس اتنا جانتے ہیں کہ یہ دو عمارتیں تھیں۔ یہ درحقیقت دو بت تھے جس کی تمام دنیا پوجا کرتی تھی۔ یہ عمارتیں ’’طاغوت‘‘ تھیں جن کو رازق مانا جاتا تھا۔ یہ ابلیس کی سیکڑوں سال کی محنت تھی جس کو اس نے گزشتہ صدی میں عملی صورت میں پیش کیا، لیکن چند اللہ والوں نے لمحوں میں ملیامیٹ کر دیا۔ یہ افواہ خود یہودی دانش وروں کی جانب سے مغربی میڈیا کے ذریعہ پھیلائی گئی۔ اس کے بعد مسلمانوں میں موجود صحافیوں نے اس کو بڑی گہری تحقیق سمجھ کر پھیلانا شروع کر دیا۔ یہ یہ خبر جہاد کے دشمنوں کی خواہشات کے مطابق تھی سو انھوں نے بھی اس کو من وعن قبول کر لیا۔
اس کھلی اللہ کی مدد کو یہودیوں کے کھاتے میں ڈالنے کا مقصد یہ تھا کہ ایک تو مسلمانوں کے حوصلے بلند نہ ہو جائیں کہ جہاد کی قوت کے ذریعے امریکہ کو شکست دی جا سکتی ہے۔ دوسرا خود یہودیوں کو سہارا دینا مقصد تھا کہ گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ اگر یہودیوں کو یہ نہ بتایا جاتا تو دنیا بھر کے یہودی اسرائیل جانے سے انکار کر دیتے۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ تم خود امریکہ میں محفوظ نہیں ہو تو ہمیں اسرائیل میں کس کے بھروسے بھیجتے ہو۔
اس بارے میں جتنے بھی دلائل دیے گئے، سب یہودی دماغوں کی خرافات تھیں جو وہ ہمیشہ حق کو مشتبہ بنانے کے لیے شکوک پیدا کیا کرتے تھے۔ ان کے دیے گئے دلائل میں ہی اگر عقل رکھنے والا غور کرے تو تمام دلائل کو ایک دوسرے سے متضاد پائیں گے۔‘‘
القاعدہ اور اس کے ہم نوا جہادی عناصر کے اس زاویہ فکر کو سامنے رکھا جائے تو ان کے دفاع میں سخن سازیاں کرنے والے حضرات پر ’’مدعا علیہ سست، وکیل صفائی چست‘‘ کی مثال پوری طرح صادق آتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ بعض مغربی تجزیہ نگار گیارہ ستمبر کے حادثے کی بعض عملی اور تکنیکی تفصیلات اور چند دیگر قرائن کی روشنی میں جو شبہات پیش کر رہے ہیں، ان کا حاصل یہ ہے کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی اور انھیں رو بعمل کرنے میں امریکی ایجنسیاں ’’بھی‘‘ ملوث ہو سکتی ہے۔ یہ کہنا کہ اس میں مسلمانوں نے سرے سے کوئی کردار ہی ادا نہیں کیا، مکابرہ اور انکار عیان کا درجہ رکھتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نظریہ سازش کے مویدین امریکی ایجنسیوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے مغربی صحافیوں کے تجزیوں اور رپورٹوں کی دہائی تو دیتے ہیں، لیکن یہ بالکل نہیں بتاتے کہ انھی میں سے بعض یہ دعویٰ بھی کرتی ہیں کہ بن لادن کے باقاعدہ امریکی ایجنسیوں سے رابطے تھے۔ مثال کے طور پر ایک تجزیاتی ڈاکومنٹری میں برطانوی اخبار گارجین کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اسامہ بن لادن جو ۱۹۹۸ء کے بعد سے امریکہ کو مطلوب تھے، ۴؍ جولائی ۲۰۰۱ء کو انھوں نے دوبئی میں ایک امریکی ہسپتال میں طبی امداد لی اور سی آئی اے کے ایک عہدے دار نے ان سے ملاقات کی۔ (دیکھیے: http://www.safeshare.tv/v/7U9My36B4Ps)
میں اس تجزیے کی صداقت یا واقعیت کے بارے میں تیقن سے کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، اس لیے کہ میری معلومات کی حد تک علمی طور پر اس کی حیثیت ابھی تک ایک فرضیے کی ہے، البتہ اتنی بات واضح ہے کہ امریکی پالیسی سازوں نے اس واقعے کو اپنے عالمی مفادات اور ترجیحات کے حصول کے لیے ناجائز طور پر استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اب اگر فی الواقع اس واقعے کے پیچھے خود امریکہ کی پیشگی منصوبہ بندی موجود تھی تو میرے نزدیک اس سے القاعدہ کے جرم کی سنگینی کم نہیں ہوتی بلکہ اور زیادہ بڑھ جاتی ہے، اس لیے کہ اس طرح اس نے نہ صرف یہ کہ ایک غیر شرعی عمل کا ارتکاب کیا، بلکہ دانستہ یا نادانستہ امریکی استعمار کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے عملاً راہ ہموار کرنے کا کردار بھی ادا کیا۔ چنانچہ ان حملوں میں امریکی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کی مفروضہ صورت حال القاعدہ کو بری الذمہ قرار نہیں دیتی بلکہ امت مسلمہ کی طرف سے ایسے عناصر کے کڑے مواخذہ واحتساب کی ضرورت کو مزید نمایاں کرتی ہے۔
حافظ محمد سمیع اللہ فراز
جہاد افغانستان کے حوالے سے آپ کے دیے گئے فتوے کو جس تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، اسے ’ممکنہ رد عمل‘ بھی کہہ سکتے ہیں، تاہم اپنے موقف کے دفاع میں آپ کے دلائل اور طرز استدلال آپ کے نقطہ نظر کی مضبوطی کے بجائے کمزوری کا باعث بنے ہیں، کیونکہ:
۱۔ اگر آپ کے بقول ثبوت جرم نہ ہونے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جرم ہی نہیں ہوا تو اس کا لازمی تتمہ بھی سامنے رہنا چاہیے کہ اگر جرم ثابت نہ ہو سکے تو کوئی عدالت یا اتھارٹی اس پر قانونی یا شرعی سزا کا حکم عائد نہیں کر سکتی۔ کیا ۱۱ ستمبر میں القاعدہ کا جرم ثابت ہو گیا ہے؟ اگر نہیں تو کیا ان پر حملہ یا ان کے نام پر کسی اسلامی مملکت پر حملہ کوئی اخلاقی جواز رکھتا ہے؟
۲۔ ’حدثنا واخبرنا‘ کی صورت میں آپ کا ’تکنیکی مزاح‘ دراصل سنجیدگی کا بھی متقاضی ہے، کیونکہ تحقیق کی دنیا میں اس کی حیثیت مسلم ہے۔ اگر حدثنا واخبرنا اور مشاہدہ کو ذرائع علم سے خارج کر دیا جائے یا ان پر اعتماد کی بجائے محض سماع پر اعتبار کیا جائے تو فرمائیں کہ ثبوت وشواہد کی بنیاد پر جاری تحقیق کا طالب علم اور کن ذرائع پر اعتماد کرے؟ اس کے مقابلے میں موجودہ میڈیا کی سجائی ہوئی افواہ سازی کی صنعت کی بنیاد پر ہم نے فیصلہ سازی یا فکری تشکیل انجام دینی ہے تو اس سے بڑھ کر غیر سنجیدہ وغیر تحقیقی رویہ نہیں ہو سکتا۔ کیا ’یا ایہا الذین آمنوا ان جاء کم فاسق بنبا فتبینوا‘ اس موقع پر ہم سے کسی تقاضے کا متحمل نہیں؟
۳۔ ’القاعدہ‘ کے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کا آپ کی طرف سے پیش کردہ ’اکلوتا‘ ثبوت بھی فہم میں جگہ نہیں پا سکا کہ القاعدہ کی قیادت نے آج تک اس کی تردید نہیں کی۔ اگر کسی کا اعتراف جرم سے انکار یا واقعہ کی تردید اس کی بریت کے لیے کافی ہے تو شاید ہر مجرم ایسا کرنے کے لیے تیار ہو۔
۴۔ ’’دس سال سے ساری دنیا اس کا نام لے کر اس پر یہ الزام لگا رہی ہے‘‘ کا جملہ بھی آپ کے موقف کی کمزوری کا سبب ہے۔ ساری دنیا سے مراد اگر تو انسانی رائے عامہ ہے تو آپ کا استدلال صائب نہیں۔ اگر آپ میڈیا کو ’ساری دنیا‘ قرار دے رہے ہیں تو آپ کی بات درست ہے۔
۵۔ تحقیقی ذوق کا تقاضا ہے کہ یہ بات واضح ہو کہ جس طرح دیگر بیسیوں اسلامی تحریکیں اپنی زمینی تاریخ کی حامل ہیں کہ وہ کب قائم ہوئیں؟ کن مقاصد اور طریقہ ہاے کار پر ان کی بنیاد رکھی گئی؟ بنیاد رکھنے والے کون تھے؟ ان کے مخاطبین یا متاثرین کی تفصیل کیا ہے؟ ہر ایک اسلامی تحریک ان بنیادی سوالات کا جواب رکھتی ہے، سوائے القاعدہ کے جو کبھی اپنی کسی طبعی تاریخ کی حامل نہیں رہی اور جو تاریخ ہے بھی، وہ غیر مستند اور جانب دار ذرائع اطلاعات سے۔
اگر تو صرف اسامہ بن لادن اور الظواہری کا نام القاعدہ ہے تو تاریخ کا طالب علم جانتا ہے کہ کسی تحریک یا نظریہ کی پاسدار جماعت کا یہ نظم کبھی نہیں ہوتا اور اگر ایک رائے کے مطابق اسامہ اور الظواہری کسی بوگی مین کا کردار ادا کر رہے ہیں تو اس سے دیگر جہادی عناصر کو بدنام کرنے یا مسلم کشی کی امریکی مہم میں ہمیں حصہ دار نہیں بننا چاہیے۔
۶۔ چنانچہ ایک غلط مفروضے کی بنیاد پر جاری جنگ کبھی صحیح نتیجے پر منتج نہیں ہو سکتی۔ جھوٹ اور گناہ کی بنیاد پر شروع ہونے والی لڑائی کا دفاع ’تعاونوا علی البر والتقوی‘ کے زمرے میں آتا ہے، چنانچہ اسے جہاد یا اسلامی لڑائی نہ کہنا بھی حق کی حمایت نہیں۔ اگر اس معاملے میں کوئی انفرادی رائے کا حامل ہو تو اس کا شیوع بھی میرے نزدیک اہل علم وتحقیق کی رائے پر سنجیدگی سے غور وفکر اور حقائق سے بتکلف اغماض کے مترادف ہے۔ واللہ اعلم
محمد عمار خان ناصر
۱۔ افغانستان پر حملے کے متعلق میرا کہنا یہ ہے کہ اگر امریکہ القاعدہ کے ملوث ہونے کا قانونی ثبوت فراہم کر دیتا تو بھی یہ حملہ جائز نہیں تھا۔ بین الاقوامی قانون میں اس طرح کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقہ تجویز کیا گیا ہے جس کی امریکہ نے خلاف ورزی کی۔ لیکن امریکہ کے ناجائز حملہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سے پہلے القاعدہ جو ناجائز حملہ کر چکی تھی، وہ جائز ہو جائے یا قانونی معیار سے ہٹ کر دیگر قرائن وشواہد سے القاعدہ کا ملوث ہونا ثابت ہو تو بھی محض امریکہ کی مخالفت میں ’’کتمان حق‘‘ کو ’’اسلامی حمیت‘‘ کے نام پر اختیار کر لیا جائے۔
۲۔ براہ راست اطلاعات یا معلومات کے استناد کی نفی نہیں کی گئی، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ہر معاملے میں رائے قائم کرنے کے لیے سند متصل کے ساتھ اطلاع ملنا ضروری نہیں ہوتا۔ براہ راست اور بالواسطہ دونوں طرح کی معلومات کی اپنی اپنی اہمیت ہے اور بہت سے قرائن وشواہد مل کر اگر بالواسطہ حاصل شدہ معلومات کی تائید کر رہے ہوں تو وہ بھی ایک قابل اعتماد ذریعے کا درجہ رکھتے ہیں۔ مزید برآں میں نے ’’حدثنا واخبرنا‘‘ کے ساتھ ملنے والی بعض اطلاعات کا حوالہ بھی دیا ہے جو القاعدہ کے ارتکاب جرم کا ثبوت مہیا کرتی ہیں۔
۳۔ کسی ملزم کے اپنے اوپر لگائے جانے والے الزام کی تردید کرنے سے یقیناًیہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بے گناہ ہے، لیکن اگر وہ الزام کی تردید نہ کرے تو اسے اس کے اقرار کے مترادف سمجھنا کامن سینس کی بات ہے۔ فقہ میں پڑھا ہوگا کہ مدعی ثبوت پیش نہ کر سکے تو مدعا علیہ سے قسم طلب کی جائے گی۔ اگر وہ قسم نہ کھائے تو یہ اقرار کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ لعان میں بھی عورت کا جوابی قسمیں نہ کھانا اعتراف ہی سمجھا جاتا ہے۔ یہ استدلال عجیب ہے کہ اگر الزام کی تردید کرنے سے بے گناہ ہونا ثابت نہیں ہوتا تو تردید نہ کرنے سے گناہ گار ہونا بھی ثابت نہیں ہوتا۔ خود غور فرمائیں۔
۴۔ ذرائع ابلاغ سے ملنے والی بعض اطلاعات کے غلط ثابت ہو جانے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ ان کی پیش کردہ تمام معلومات، اطلاعات اور تجزیے غلط ہیں، موجب حیرت ہے۔ آخر اس طرز فکر میں اور مستشرقین کے طرز فکر میں کیا فرق ہے جو ذخیرۂ حدیث میں موجود وضع کے بعض شواہد کی روشنی میں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پورا ذخیرۂ حدیث ہی ناقابل اعتماد ہے اور پہلی صدیوں میں مسلمانوں کی ساری علمی مشینری کا ہمہ تن شغل یہی تھا کہ وہ حدیثیں گھڑ گھڑ کر پیغمبر کی طرف منسوب کرتی رہے؟
محمد عمران خان
۱۔ جیسا کہ آپ یہ مانتے ہیں کہ طالبان جو کہ ایک اسلامی حکومت ہے، اس پر امریکہ کا حملہ ظالمانہ تھا تو کیا اس کا منطقی نتیجہ یہ نہیں نکلتا کہ طالبان کا اپنا دفاع کرنا جہاد کہلائے گا؟
۲۔ لیکن القاعدہ پر الزام جرم کو ہی دلیل جرم کہہ رہے ہیں۔ یہ آپ جیسے اسکالر سے بعید ہے۔ اور جو آپ اس کے صحیح ہونے کے نظائر پیش کر رہے ہیں، وہ سارے قاضی سے متعلق ہیں نہ کہ کوئی کافر حکومت ان الزامات اور نیم پختہ دلیل کو استعمال کرتے ہوئے حملہ کر دے تو اس کا دفاع کرنا جہاد نہ قرار دیا جائے۔
۳۔ آپ نے میرے چند سوالات کا جواب نہیں دیا:
الف۔ کیا امریکہ کا عراق پر حملہ کرنا بغیر کسی WMD کے ثبوت کے دہشت گردی نہیں تھا؟
ب۔ کیا اگر اسی طرح امریکہ پاکستان پر حملہ کرتا ہے کہ یہاں القاعدہ موجود ہے تو کیا اس کا مقابلہ کرنا جہاد نہیں ہوگا؟
ج۔ آپ دہشت گردی کی کوئی ایسی تعریف کر دیں جس میں القاعدہ آ جائے اور امریکہ نکل جائے۔
محمد عمار خان ناصر
۱۔ طالبان کے حق دفاع کی تائید کے باوجود اسے ’’جہاد‘‘ کہنے سے گریز کی وجہ میں تفصیل سے واضح کر چکا ہوں۔ اگر یہ حملے صرف طالبان کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے ہوتے تو یقیناًیہ جنگ، جہاد ہوتی، لیکن ان حملوں کا ظاہری جواز امریکہ میں دہشت گردی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی بنا اور بن لادن وغیرہ کے طالبان حکومت کی پناہ میں ہونے کی وجہ سے ان کی حکومت بھی زد میں آئی۔ ادھر امریکہ کا اتنے بڑے پیمانے پر رد عمل ظاہر کرنا بھی درست نہیں تھا۔ اس طرح اس جنگ میں حق اورباطل اس طرح سے مخلوط ہو گئے ہیں کہ میرا فہم دین اسے ’’جہاد‘‘ سے تعبیر کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ تاہم یہ رائے کا معاملہ ہے۔ دوسرے حضرات یقیناًاس سے اختلاف کر سکتے ہیں۔
۲۔ ارتکاب جرم کی تردید نہ کرنے سے ملزم کو معترف تصور کرنے کی جو مثالیں ذکر کی گئیں، وہ یقیناًعدالت سے متعلق ہیں، لیکن وہ جس اصول پر مبنی ہیں، وہ ایک عام عقلی اصول ہے۔ سادہ بات ہے کہ اگر ملزم، مجرم نہیں ہے تو اسے الزام کی تردید کرنی چاہیے۔ اگر وہ تردید نہیں کرتا اور الٹا جرم کے ارتکاب کو جائز قرار دیتا اور اسے انجام دینے والوں کو مبارک باد پیش کرتا ہے تو یہی سمجھا جائے گا کہ وہ اعتراف کر رہا ہے۔
۳۔ امریکہ کے عراق یا پاکستان پر حملہ کرنے کی حیثیت اسی اصول سے اخذ کی جا سکتی ہے جو میں نے افغانستان سے متعلق عرض کیا ہے۔ خاص طور پر پاکستان نے القاعدہ کو کوئی پناہ فراہم نہیں کی، بلکہ ا س کے خلاف کارروائی کر رہا ہے، اس لیے بین الاقوامی قانون کی رو سے امریکہ کے لیے پاکستان کی ریاستی خود مختاری کو پامال کرنا جائز نہیں۔ طالبان نے بن لادن وغیرہ کو پناہ دے رکھی تھی، جبکہ وہ القاعدہ کے پلیٹ فارم سے امریکہ کے مفادات اورتنصیبات وغیرہ پر حملوں کا اعلان بہت پہلے سے کر چکے تھے، اس لیے کسی عملی کارروائی میں طالبان شریک نہ ہوں، پھر بھی ایک نوع کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔
اگر پاکستانی حکومت اور ایجنسیاں بھی درون خانہ القاعدہ کی قسم کے عناصر کو پناہ اور مدد فراہم کر رہی ہوں اور خدانخواستہ اس کے نتیجے میں کوئی جنگ پاکستان پر مسلط ہو جائے تو میرے نزدیک یہ بھی دفاع وطن ہی کی جنگ ہوگی، ’جہاد‘ نہیں۔ ’جہاد‘ ایک نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ مذہبی فریضہ ہے۔ اس کا معیار محض ایک فریق کا مسلمان اور دوسرے فریق کا غیر مسلم ہونا نہیں۔ مال ومنال اور حصول اقتدار کے جذبے سے، دوغلے پن اور خیانت کی اساس پر اور شریعت کے مقرر کردہ اخلاقی ضوابط کو پامال کر کے لڑی جانے والی کوئی جنگ ’جہاد‘ نہیں کہلا سکتی۔ ایسی صورت حال میں میرا تبصرہ جنگ کے تمام فریقوں پر وہی ہوگا جو ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے بنو امیہ کے زمانے کی شورشوں پر کیا تھا:
ہذہ الدنیا التی افسدت بینکم، ان ذالک الذی بالشام واللہ ان یقاتل الا علی الدنیا، وان ہولاء الذین بین اظہرکم واللہ ان یقاتلون الا علی الدنیا، وان ذالک الذی بمکۃ واللہ ان یقاتل الا علی الدنیا (بخاری، رقم ۷۱۱۲)
’’یہ تو دنیا ہے جس نے تمھارے مابین فساد برپا کر رکھا ہے۔ بخدا، یہ جو شام میں ہے، وہ بھی صرف دنیا کے لیے لڑ رہا ہے اور بخدا، یہ جو (بصرہ میں) تمھارے درمیان ہیں، یہ بھی صرف دنیا کے لیے لڑ رہے ہیں اور بخدا، یہ جو مکہ میں ہے، وہ بھی صرف دنیا کے لیے لڑ رہا ہے۔‘‘
جہاں تک امریکہ کے دہشت گرد ہونے یا نہ ہونے یا دہشت گردی کی کوئی ایسی تعریف بیان کرنے کا تعلق ہے جس سے امریکہ نکل جائے تو یہ نہ ہمارا موضوع ہے اور نہ مقصد۔ ہمیں خواہ مخواہ نہ امریکہ کی تائید کرنی ہے اور نہ طالبان یا کسی اور کی۔ شرعی اوراخلاقی ضوابط کی پامالی کسی بھی فریق کی طرف سے سامنے آئے، چاہے وہ امریکہ ہو یا القاعدہ یا پاکستانی فوج یا طالبان یا دوسرے انتہا پسند عناصر، یکساں قابل مذمت ہے۔ ویسے بھی دہشت گردی کی قانونی تعریف ایک تکنیکی مسئلہ ہے۔ اگر امریکہ کے بہت سے اقدامات تکنیکی طور پر دہشت گردی قرار نہ دیے جا سکیں تو بھی مسلمہ اخلاقی معیارات کے مطابق ان کے ظلم اور ناجائز ہونے میں کوئی کلام نہیں ہو سکتا۔
میرے خیال میں اب تک کی گفتگو سے زیر بحث نکات کی کافی حد تک تنقیح ہو چکی ہے اور جیسا کہ محترم مولانا مفتی محمد زاہد صاحب نے فرمایا، اس بات پر ہمارے مابین اتفاق ہے کہ نائن الیون جیسے واقعات ہر حال میں ناجائز اور غیر شرعی ہیں اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کی تائید نہیں کی جا سکتی۔ میرے خیال میں یہ اتفاق بھی معمولی نہیں بلکہ بہت قیمتی ہے۔ نزاعی نکات پر بھی یقیناًاس گفتگو سے غور وفکر کے بہت سے پہلووں کی تنقیح ہوئی ہے۔ اللہ کرے کہ ہم صحیح بات تک پہنچنے کے لیے دیانت داری کے ساتھ کوشش کرتے رہیں۔ آمین
محمد عمران خان
آپ نے فرمایا کہ ’’اگر یہ حملے صرف طالبان کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے ہوتے تو یقیناًیہ جنگ، جہاد ہوتی، لیکن ان حملوں کا ظاہری جواز امریکہ میں دہشت گردی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی بنا اور بن لادن وغیرہ کے طالبان حکومت کی پناہ میں ہونے کی وجہ سے ان کی حکومت بھی زد میں آئی۔‘‘
جس میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ نائن الیون کے واقعات کی ذمہ دار القاعدہ ہے جبکہ یہی تو ثابت نہیں ہے۔ طالبان نے اس کا ثبوت امریکا سے طلب کیا تھا جو کہ اس نے نہیں دیا تو اس حدیث کے مطابق ’المسلم اخو المسلم لا یظلمہ ولا یسلمہ‘ طالبان نے اسامہ کو ان کے حوالے نہیں کیا۔ تو جب بغیر ثبوت کے امریکا نے افغانستان پر حملہ کر دیا تو ان کا مقابلہ کرنا جہاد کیوں نہیں ہے؟
آپ نے فرمایا کہ ’’اس طرح اس جنگ میں حق اورباطل اس طرح سے مخلوط ہو گئے ہیں کہ میرا فہم دین اسے ’’جہاد‘‘ سے تعبیر کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘
معلوم نہیں آپ امریکہ کو حق اور طالبان کو باطل کہتے ہیں یا اس کا عکس۔ بہرحال یہ آپ کا ’فہم دین‘ کون سی دلیل ہے! اور یہ تو مسلمہ بات ہے کہ جب مفتی پر حق اور باطل مختلط ہو جائیں تو اس کو توقف کرنا چاہیے نہ کہ ترجیح بلا مرجح کو اختیار کرے۔ اور جب تک حق واضح نہ ہو جائے، کوئی فتویٰ نہ دے۔ تو اس صورت میں آپ کا اپنی رائے کا اظہار بغیر اس اطلاع کے کہ حق اور باطل آپ پر مختلط ہیں، خطرناک ہے اور تحکم ہے جبکہ آپ صحابہ کی بات کو بھی بغیر دلیل کے نہیں مانتے۔ ایں چہ بو العجبی است!
آپ نے فرمایا کہ ’’اگر وہ تردید نہیں کرتا اور الٹا جرم کے ارتکاب کو جائز قرار دیتا اور اسے انجام دینے والوں کو مبارک باد پیش کرتا ہے تو یہی سمجھا جائے گا کہ وہ اعتراف کر رہا ہے۔‘‘
اگر آپ کو یاد ہو تو میں نے پچھلی ای میل میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ یہ تمام باتیں اسامہ نے افغانستان پر حملے کے بعد کی ہیں تو اس سے ان کا اقرار جرم نہیں ثابت ہوتا کیونکہ اس میں یہ قوی احتمال ہے کہ یہ باتیں انھوں نے امریکا کو ذہنی طور پر پریشان کرنے (psychological warfare) کے لیے کی ہوں۔ اگر آپ کے بقول ان کا انکار نہ کرنا اقرار ہے تو یہ سب تو امریکی حملے کے بعد معلوم ہوا ہے تو اس کے بہ سبب امریکی حملے کا کوئی جواز تلاش کرنا میرے فہم سے بالاتر ہے۔ یہ بات بھی محل نظر ہے کہ انکار نہ کرنا ہر وقت اقرار ہوتا ہے۔ ایک صریحاً انکار ہوتا ہے اور ایک اشارتاً انکار اور کیونکہ انکار کی صورت میں مدعی کے مطالبہ پر قسم دلائی جاتی ہے اور اگر مدعا علیہ قسم سے انکار کرتا ہے تو اس صورت میں اس کو بعض دفعہ اقرار سے تعبیر کیا جاتا ہے، چہ جائیکہ مدعی قسم کا مطالبہ ہی نہ کرے۔ اس صورت میں مدعی (امریکہ) نے قسم کا مطالبہ بھی نہیں کیا اور ثبوت بھی نہیں پیش کیا تو اس کے پاس کیا اخلاقی جواز تھا افغانستان پر حملہ کرنے کا؟
محمد عمار خان ناصر
۱۔ یہ بات دوبارہ یاد دلانا چاہوں گا کہ القاعدہ کے حملوں میں ملوث ہونے کے اثبات سے مقصود امریکی حملے کو جواز فراہم کرنا نہیں۔ قانونی طور پر طالبان کا ثبوت مانگنا بالکل درست تھا اور یہ بھی ان کا حق تھا کہ وہ ثبوت نہ دیے جانے پر بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہ کریں۔ فرض کریں امریکہ ثبوت دے دیتا اور طالبان اسامہ کو حوالے نہ کرتے، تب بھی بین الاقوامی قانون کی رو سے حملے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ سوال امریکی حملے کے جواز کا نہیں اور نہ ہم اس وقت نائن الیون کے فوراً بعد کی صورت حال میں کھڑے ہو کر یہ بحث کر رہے ہیں۔ میں نے جو گزارش کی ہے، وہ یہ ہے کہ مختلف ذرائع معلومات، قرائن وشواہد اور خود القاعدہ کے حملوں سے پہلے اور بعد کے بیانات ہمیں اس نتیجے تک پہنچاتے ہیں کہ وہ ان حملوں میں ملوث ہے، اس لیے اگر اس کی سرکوبی کے لیے حملہ ہوا ہے تو اس کے مقابلے کے لیے کی جانے والی جنگ کو ’’جہاد‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ جہاں تک طالبان کی ذمہ داری کا تعلق ہے تو آپ کی یہ بات درست نہیں ہے کہ القاعدہ نے حملوں کی تائید کی باتیں نائن الیون کے بعد کیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس سے بہت پہلے امریکی مراکز اور مفادات پر حملہ آور ہونے کا اعلان کر چکی تھی۔ خلیج میں امریکی افواج کی موجودگی کے خلاف اس کا رد عمل اور عزائم بہت واضح تھے اور اسی پس منظر کی وجہ سے انھیں سوڈان وغیرہ کو چھوڑ کر افغانستان میں پناہ لینا پڑی تھی۔ اس پس منظر میں اگر طالبان نے درون خانہ حقیقت حال سے واقف ہوتے ہوئے القاعدہ کو پناہ دیے رکھی تو ان پر ذمہ داری عائد ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا اور اگر اس وقت ان پر یہ بات واضح نہیں تھی اور انھوں نے اپنی معلومات کے مطابق ایک بے گناہ شخص یا گروہ کو پناہ دی تو بھی ان کی اس ناواقفیت سے معاملے کی حقیقی صورت تبدیل نہیں ہو جاتی۔ طالبان نے اگر فی الواقع دیانت داری سے، میسر معلومات کی بنا پر یہ اجتہادی خطا کی تو اس پر ملنے والے اجر میں، جو پہلے ہی آدھا ہے، ہم سب نے حصہ دار بننے کی قسم کیوں کھا رکھی ہے؟ ہماری ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ ہم ان معلومات کی بنیاد پر رائے قائم کریں جو رائے قائم کرتے وقت خود ہمیں میسر ہیں۔
۲۔ حق وباطل کے مخلوط ہو جانے کے ضمن میں شاید آپ میری بات سمجھ نہیں سکے۔ توقف اس صورت میں ہوتا ہے جب انسان کے ذہن پر حق اور باطل مشتبہ ہو جائے اور وہ دونوں میں فرق نہ کر سکے، جبکہ میں نے اپنے ذہن میں معاملے کی نوعیت کے مشتبہ ہو جانے کی بات نہیں کی، بلکہ نفس معاملہ میں حق کے ساتھ باطل کے مخلوط ہو جانے کا ذکر کیا ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ میرا ذہن یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا۔ اس جنگ میں حق اور باطل کے دونوں پہلو میرے سامنے بالکل واضح ہیں۔ طالبان کے حق دفاع میں کوئی کلام نہیں، لیکن نائن الیون میں القاعدہ کے کردار اور طالبان کے ان کو پناہ دینے کی وجہ سے اس میں باطل کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو میرے لیے اس جنگ کو ’’جہاد‘‘ کا عنوان دینے سے مانع ہے۔
۳۔ جہاں تک انکار اور اقرار کی بحث کا تعلق ہے تو یہ گزارش پہلے بھی کر چکا ہوں کہ ہم یہ گفتگو دار القضاء میں بیٹھ کر نہیں کر رہے جہاں کسی دعوے کے اثبات کے لیے اختیار کردہ طریقے کی بہت سی عملی محدودیتیں ہوتی ہیں۔ ہم تو عقل عام کی بات کر رہے ہیں کہ اگر کسی شخص پر تسلسل کے ساتھ ایک الزام عائد کیا جا رہا ہو اور اس کی بنیاد پر اس کے خلاف بلکہ اس کے پورے کنبے قبیلے کے خلاف عملی اقدام کر ڈالا گیا ہو اور وہ پھر بھی الزام کی تردید نہ کرے تو انسانی عقل اس سے کیا نتیجہ اخذ کرے گی؟ آپ عام انسانی زندگی میں اس کا تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ یہاں تو معاملہ اس سے بھی بڑھ کر ہے، کیونکہ القاعدہ نے صرف ’’سکوت‘‘ سے کام نہیں لیا، بلکہ وہ بہت پہلے سے امریکی مراکز کو نشانہ بنانے کا اعلان کر چکی تھی جبکہ حملوں کے بعد سے اس نے مسلسل ان پر تحسین وتبریک اور ایسے مزید حملوں کی حوصلہ افزائی کا طریقہ اپنا رکھا ہے۔ ایسی صورت میں آپ تکنیکی قانونی نکتے اٹھا کر اور کمزور احتمالات کو ’’قوی احتمالات‘‘ کا نام دے کر اپنے آپ کو تو مطمئن کر سکتے ہیں، لیکن عقل عام کے نزدیک اس کی حیثیت ’’یہ خیال اچھا ہے‘‘ سے زیادہ نہیں ہوگی۔
میرے خیال میں اب تک جو گفتگو ہو چکی ہے، اس سے فریقین کا نقطہ نظر اور استدلال بہت واضح ہو گیا ہے اور سردست مزید گفتگو محض تکرار کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ بہتر ہے کہ ہم اپنے اپنے موقف پر قائم رہیں اور اپنی جگہ معاملے پر مزید غور کرتے رہیں۔ مکالمے کا مقصد ہر حال میں اتفاق پیدا کرنا نہیں ہوتا۔ میں ساری گفتگو کے بعد بھی آپ کے استدلال سے مطمئن نہیں ہوا، اس لیے اپنی رائے پر قائم ہوں۔ یہی حق آپ کو بھی حاصل ہے۔ البتہ آپ کی توجہ درج ذیل دو مضامین کی طرف ضرور دلانا چاہوں گا جن سے واضح ہوتا ہے کہ نائن الیون اور امریکی حملے کے بعد طالبان اور جہادی عناصر سے ہمدردی رکھنے والے سنجیدہ اور جید دیوبندی علما صورت حال کو کس نظر سے دیکھتے تھے اور جو نقصان ہوا، اس میں طالبان اور القاعدہ کو کس حد تک ذمہ دار سمجھتے تھے۔
۱۔ ’’جہادی تحریکات کا مستقبل‘‘، از مولانا زاہد الراشدی (الشریعہ، جنوری ۲۰۰۲)
http://www.alsharia.org/mujalla/2002/jan/kalmahaq.php
۲۔ ’’خواب جو بکھر گیا‘‘، از مولانا عتیق الرحمن سنبھلی (الشریعہ، جنوری ۲۰۰۳)
http://www.alsharia.org/mujalla/2003/jan/taliban_by_sanbhli.php
محمد عمران خان
آپ نے فرمایا: ’’میں نے جو گزارش کی ہے، وہ یہ ہے کہ مختلف ذرائع معلومات، قرائن وشواہد اور خود القاعدہ کے حملوں سے پہلے اور بعد کے بیانات ہمیں اس نتیجے تک پہنچاتے ہیں کہ وہ ان حملوں میں ملوث ہے، اس لیے اگر اس کی سرکوبی کے لیے حملہ ہوا ہے تو اس کے مقابلے کے لیے کی جانے والی جنگ کو ’’جہاد‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔‘‘
جبکہ معلومات اور قرائن یہ بتاتے ہیں کہ امریکہ ان حملوں میں خود ملوث تھا۔ درج ذیل کتابوں کامطالعہ کریں:
A New Pearl Harbor, Crossing the Rubicon, The Terror Timeline
آپ نے فرمایا: ’’اگر اس وقت ان پر یہ بات واضح نہیں تھی اور انھوں نے اپنی معلومات کے مطابق ایک بے گناہ شخص یا گروہ کو پناہ دی تو بھی ان کی اس ناواقفیت سے معاملے کی حقیقی صورت تبدیل نہیں ہو جاتی۔‘‘
اس معاملے میں آپ القاعدہ کا قصور وار ہونا پہلے سے فرض کر رہے ہیں جبکہ انھوں نے طالبان کے سامنے اس واقعے میں ملوث ہونے سے جب انکار کر دیا تو پھر ان کے بے گناہ ہونے میں طالبان کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ باقی القاعدہ آپ کے سامنے آ کر بھی انکار کرے تو یہ قریباً ناممکن ہے۔
آپ نے فرمایا: ’’لیکن نائن الیون میں القاعدہ کے کردار اور طالبان کے ان کو پناہ دینے کی وجہ سے اس میں باطل کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو میرے لیے اس جنگ کو ’’جہاد‘‘ کا عنوان دینے سے مانع ہے۔‘‘
القاعدہ کے ملوث ہونے کے بارے میں آپ کو اب جا کر یقین ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اب سے پہلے آپ کے نزدیک بھی یہ جہاد ہی تھا۔ اور اب کا یقین، یہ تحریر بر آب کی مانند ہے کیونکہ یہ ایک بہت بڑے مفروضے پر کھڑا ہے، یعنی کہ القاعدہ کا میڈیا پر انکار نہ کرنا ان کے ملوث ہونے کی دلیل ہے جبکہ وہ طالبان کے سامنے انکار کر چکے ہیں اور امریکا سے وہ ویسے ہی جنگ میں ہیں۔ وہ ان سے کیوں انکار کریں گے!
آپ نے فرمایا: ’’میرے خیال میں اب تک جو گفتگو ہو چکی ہے، اس سے فریقین کا نقطہ نظر اور استدلال بہت واضح ہو گیا ہے اور سردست مزید گفتگو محض تکرار کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ بہتر ہے کہ ہم اپنے اپنے موقف پر قائم رہیں اور اپنی جگہ معاملے پر مزید غور کرتے رہیں۔ ‘‘
آئیے، اختلاف پر اتفاق کر لیتے ہیں۔
محمد عمار خان ناصر
درست کہا۔ آئیے اختلاف پر اتفاق کر لیں، کیونکہ ہم دونوں اپنا اپنا نقطہ نظر بہت وضاحت سے بیان کر چکے ہیں۔ بحث میں دلچسپی اور خلوص کے ساتھ حصہ لینے کا بہت شکریہ!
مولانا مفتی محمد زاہد
بظاہر بحث میں حصہ لینے والوں کا اس بات پر اتفاق نظر آتا ہے کہ گیارہ ستمبر کا حملہ یقیناًغلط اقدام تھا۔ اختلاف اس میں نظر آ رہا ہے کہ القاعدہ وغیرہ اس میں ملوث ہے یا نہیں۔ راقم اس سلسلے میں فتوے کی کوئی بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی پالیسی کے بارے میں فی الحال اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتاہے، اس کے لیے فرصت کا اور تفصیل سے بات کے موقع کا انتظار ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ مذکورہ ایشو میں امر واقعہ جاننے کے لیے یا تو جہادی لٹریچر کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے یا سب سے معقول راستہ یہ ہے کہ خود اسامہ یا ملا عمر وغیرہ سے پوچھ لیا جائے۔ لیکن مسئلہ یہاں یہ ہے کہ اب سنیوں کے ہاں بھی’ امام غائب‘ کا تصور آ گیا ہے۔ یہ شاید اسلامی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ اتنی بڑی تحریک بلکہ عالمی جنگ ہے، اس لیے کہ طالبان کے برعکس القاعدہ کا ایجنڈا عالمی ہے ، لیکن یہ سب کچھ ایسی لیڈر شپ کے تحت ہورہا ہے جس کے بارے میں اتا پتا نہیں کہ وہ کہاں ہیں ، ان سے کوئی ان کی طرف منسوب کسی بات کی تصدیق نہیں کرسکتا ، ان سے کوئی رابطہ نہیں کرسکتا۔ قیادت کی ایسی غیبوبت طویلہ کی مثال اہل السنۃ کے ہاں شاید پہلی مرتبہ دیکھنے میں آئی ہے۔ اصل بات ہمارے جہادی نوجوانوں اور کافی حد تک دینی مدارس کے طلبہ کے مائنڈ سیٹ کی ہے۔ آج بھی نائن الیون یا داتا دربار پر حملے جیسی حرکت کے غلط ہونے کا ذہن ان مدارس کے نوجوانوں میں کس حد تک موجود ہے اور ہماری درس گا ہیں اس سلسلے میں اپنا فرض ادا کرنے میں کتنی کامیاب ہیں، یہ اہم سوال ہے۔ یہ تصور کرنا کہ امریکا نے جو کچھ کیا، وہ اخلاقی جواز کے تحت خلوص نیت سے دنیا کو پرامن بنانے کے لیے کیا، خود فریبی ہے۔ آج اصل چیز پالیسی سازوں کے مفادات ہوتے ہیں، جواز اس کے مطابق گھڑ لیے جاتے ہیں۔ اصل مسئلہ فتوے کا نہیں، پالیسی کا ہے۔ اگر ہم واقعی امت ہیں اور پاکستانی اور افغانی ہونے کی حیثیت سے قوم ہیں تو ہمارے بھی ملی اور قومی مفادات ہوں گے۔ اصل دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اپنے ملی اور قومی مفادات کے سلسلے میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے۔ امریکا سے زیادہ ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ بے لاگ تجزیہ کیا جائے کہ کس سے کہاں کیا غلطی ہوئی ہے؟ خواہ وہ پرویز مشرف ہو (جو میرے خیال میں اس موقع پر سب سے زیادہ ناجائز فائدہ اٹھانے والا کردار ہے)، ملا عمر ہو، اسامہ ہو یا کوئی اور۔ یہ غلطی مفاد اور لالچ کے تحت ہوئی ہو یا سادہ لوحی اور کم فہمی کی وجہ سے۔ کم از کم سنیوں کے ہاں ’’ائمہ معصومین‘‘ کا تصور نہیں ہونا چاہیے۔ افسوس ہے کہ صرف اس نقطے پر ہی لوگوں کو لانے کے لیے خاصی محنت درکار ہے۔ باقی اصل بحث کے بارے میں فی الحال میں اپنی رائے نہیں دے رہا ، میرے خیال میں مثبت مباحثے کا ماحول زیادہ اہم مسئلہ ہے ۔
مولانا محمد الیاس نعمانی
شکر گزار ہوں کہ آپ نے جہاد افغانستان کے بارے میں اپنی رائے ارسال کی، اسی کی بابت کچھ عرض کرنے کا ارادہ ہے۔ آپ نے جو کچھ پاکستانی عوام کی بابت جہاد افغانستان کے حوالہ سے تحریر کیا ہے اس سے تو اس عاجز کواتفاق ہے، لیکن افغانیوں کے لیے اس جنگ کی حیثیت کی بابت میں آپ کی رائے سے اتفاق نہ کرسکا۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، آپ کی عبارت کا حاصل یہ ہے کہ:اگر چہ آپ کے نزدیک ۱۱؍ستمبر کے حملوں کے لیے القاعدہ کے تیار کردہ ذہن ذمہ دار تھے ، لیکن طالبان ان حملوں کی منصوبہ بندی میں شریک نہیں تھے، لہٰذا امریکہ اور اس کے معاونین کے لیے آپ کے نزدیک اس کا کوئی جواز نہیں تھا کہ وہ ’’گیارہ ستمبر کے حملوں کے جواب میں طاقت کے بے محابا اور غیر ضروری استعمال سے پورے ریاستی نظم کو تباہ‘‘ کرتے، اور جب انہوں نے ایسا کیا تو ’’ طالبان یقیناًاس کا حق رکھتے تھے اور رکھتے ہیں کہ اپنی حکومت اور اقتدار کا دفاع کریں اور اسے بچانے یا بحال کرنے کے لیے حملہ آور طاقتوں کے خلاف جنگ کریں۔‘‘اب آپ غور فرمائیں کہ کسی اسلامی حکومت کے خلاف اگر کوئی ملک بلا جوازطاقت کے بے محابا اور غیر ضروری استعمال سے توپ وتفنگ کی بارش کردے، اور ان جنگی جرائم کا مرتکب ہو جن کا ارتکاب امریکہ کی قیادت میں وہاں مختلف ملکوں کی فوجوں نے کیا ہے تو کیا ان کا مقابلہ کرنا اور اسلامی حکومت کو بچانا جہاد نہیں تھا، شاید آپ نے اسی سوال کا جواب دینے کے لیے تحریر فرمایا ہے کہ:
’’جہاں تک اس جنگ کو یا مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین کسی بھی جنگ کو ’’جہاد‘‘ قرار دینے کا تعلق ہے تو اس کے لیے ازروے شریعت یہ ضروری ہے کہ جنگ کا باعث اور محرک مسلمانوں کی طرف سے کوئی ایسی چیز نہ بنی ہو جو اخلاقی اور شرعی طور پر قابل اعتراض ہو۔ اگر مسلمانوں کا کوئی ناجائز اور غیر شرعی اقدام جنگ کا سبب بنا ہو تو اسے ’’جہاد‘‘ جیسے مقدس فریضے کا عنوان دینا درست نہیں۔‘‘
یعنی چونکہ آپ کے نزدیک اس جنگ کی بنیاد نائن الیون کا دہشت گردانہ حملہ تھا اور وہ مسلمانوں نے کیا تھا، اس لیے اس کو جہاد نہیں کہا جاسکتا، لیکن آپ ذرا غور فرمائیں کہ یہ حملہ اگر القاعدہ کے لوگوں نے کیا بھی تھا تو اس کی ذمہ دار حکومت تو نہیں تھی، اور امریکہ وغیرہ نے جنگ القاعدہ سے نہیں طالبان اور افغانیوں سے کی تھی، لہٰذا اس جنگ کی اس بنیاد کی ذمہ دار جب طالبان کی اسلامی حکومت نہیں تھی تو ا س کے خلاف چھیڑی گئی جنگ اور افغانیوں کے گھر پر کیے گئے حملے سے نپٹنا کیا ان کے لیے جہاد نہیں تھا، آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر چہ اس حملہ میں وہ شریک نہیں تھے لیکن انہوں نے اس کے اصل ذمہ داروں کو پناہ دی ہوئی تھی، اور یہ ان کا جرم تھا، لیکن کیا جنگ کے آغاز کے وقت طالبان کو ایسے ثبوت دے دیے گئے تھے جس کی بنا پر وہ نائن الیون کے حملہ میں القاعدہ کی افغانستان میں مقیم قیادت کی ذمہ داری کا یقین کرلیتے؟یقیناًنہیں، اب ذرا دیکھیں تو آپ کے نزدیک طالبان کی اسلامی حکومت کے خلاف امریکہ کی جانب سے چھیڑی گئی جنگ ایک ایسے واقعہ کی بنیاد پر تھی جس کا افغانستان کی حکومت اور افغانیوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، آپ کی نگاہ میں اس کے جو مجرم تھے وہ اگر چہ ان کے یہاں مقیم تھے لیکن کم از کم حکومت کے نزدیک ابھی جرم ثابت نہیں ہوا تھا، تو ایسی صورت میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے چھیڑی گئی جنگ کا مقابلہ افغانیوں کے لیے جہاد کیوں نہیں ہے؟
محمد عمار خان ناصر
میرے نقطہ نظر پر آپ کے نقد علمی کا بے حد شکریہ! میرے خیال میں جو نکتہ آپ نے بیان کیا ہے، وہی ہے جو اس معاملے کو پہلو دار بناتا اور ایک سے زیادہ آرا کی گنجائش پیدا کرتا ہے۔ میں اپنے زاویہ نگاہ کی اساس سابقہ بحث میں واضح کر چکا ہوں۔ اول تو یہ فرض کرنا بے حد مشکل ہے کہ القاعدہ کے عزائم اور منصوبوں کے بارے میں طالبان حکومت آگاہ نہیں تھی۔ وہ سادہ ضرور تھے، لیکن اتنے نہیں۔ پھر مجھے خوب یاد ہے کہ ان حملوں کے فوراً بعد اسامہ کا وہ پہلا ویڈیو خطاب منظر عام پر آ گیا تھا جس میں حملے پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے مجاہدین کی کامیابی قرار دیا گیا تھا۔ خود طالبان شوریٰ نے اسامہ سے ازخود افغانستان سے چلے جانے کی جو اپیل کی تھی، وہ بھی اسی کی غمازی کرتی ہے کہ وہ القاعدہ کے کردار سے خوب واقف تھے۔
افغان امور کے معروف تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی نے، جنھیں ملا محمد عمر سے تقریباً ایک درجن ملاقاتیں کرنے کا موقع ملا، اپنے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ ۱۹۹۸ء میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر حملوں کے بعد طالبان اور بن لادن کے تعلقات کافی کشیدہ ہو گئے تھے اور طالبان نے بن لادن کو چیچنیا بھیج دینے کی کوشش بھی کی تھی، لیکن بوجوہ اس پر عمل نہ ہو سکا۔ (دیکھیے: http://www.youtube.com/watch?v=Vmc6_wKaziM)
اسی بات کی تصدیق طالبان کے سابق وزیر خارجہ ملا وکیل احمد متوکل نے بھی کی ہے، چنانچہ مغربی صحافی گیرتھ پورٹر (Gareth Porter) نے ملا متوکل کے ساتھ اپنی براہ راست گفتگو کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان نے اسامہ کو افغانستان میں رہنے کی اجازت اس شرط پر دی تھی کہ وہ طالبان حکومت کی رضامندی کے بغیر ذرائع ابلاغ کو کوئی انٹرویو نہیں دیں گے اور یہ کہ ان کی طرف سے امریکہ پر حملے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ مذکورہ صحافی نے یہ بھی بتایا ہے کہ ۱۹۹۸ء کے بعد بن لادن کی نقل وحرکت پر زیادہ کڑی نظر رکھے جانے لگی تھی اور طالبان حکومت نے ان سے ان کا سیٹلائیٹ فون بھی واپس لے لیا تھا۔ (دیکھیے: http://www.youtube.com/watch?v=Cl6i1kdKj-g)
میرے خیال میں امریکہ نے طالبان حکومت کو باقاعدہ قانونی ثبوت نہ دیے ہوں، پھر بھی اسلامی اخلاقیات کی رو سے طالبان کی ذمہ داری بنتی تھی کہ جب وہ اصل حقیقت سے باخبر ہیں تو ازخود اس سلسلے میں اقدام کریں۔ بظاہر ان کے لیے اس میں جو چیز مانع بنی، وہ غیرت کا روایتی افغانی تصور اور اسلامیان پاکستان کی نظر میں سیاسی ونظریاتی وقار کا سوال تھا۔ پھر فرض کریں کہ طالبان اس وقت حقائق سے باخبر نہیں تھے تو ان کی اس اجتہادی غلطی کا دائرۂ انھی تک محدود رہنا چاہیے۔ وہ اپنے تئیں حق بجانب تھے تو انھیں اس جنگ کو ’’جہاد‘‘ سمجھ کر لڑنے کا پورا حق ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ جب ہم اس جنگ کی شرعی تکییف کریں تو حقائق کی بنیاد پر کریں یا طالبان کی اس وقت کی مفروضہ ناواقفیت کی بنیاد پر؟ میرا رجحان پہلی طرف ہے، لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا، یہ معاملہ پہلودار ہے اور آپ یا دوسرے اہل علم اس کا پورا حق رکھتے ہیں کہ دوسرے پہلو کو ترجیح دیتے ہوئے رائے قائم کریں۔
محمد زاہد صدیق مغل
موجودہ افغان جہاد کی شرعی حیثیت پر آپ کا ارسال کردہ بحث نامہ موصول ہوا۔ علی الرغم اس بات سے کہ بحث میں بظاہر کس فریق کا پلہ بھاری محسوس ہوا، اب تک کی ساری بحث کا مرکز ی نقطہ یہ رہا ہے کہ آیا القاعدہ کا امریکہ پر حملہ شواہد و قرآئن کی روشنی میں ثابت بھی ہے یا نہیں۔ بظاہر (جیسا کہ آپ نے نشان دہی بھی فرمائی کہ) فریقین میں یہ قدر مشترک پائی جاتی ہے کہ ’اگر القاعدہ نے اس فعل کا ارتکاب کیا ہے تو ایسا کرنا بہر حال نا جائز تھا‘۔ قلت وقت و ذرائع کے سبب تفصیلات میں جانا ممکن نہیں، راقم کے نزدیک یہ ایک ثانوی بحث ہے کہ آیا القاعدہ نے اس فعل کا ارتکاب کیا یا نہیں، نیز آیا ان پر اس فعل کا ارتکاب شواہد کی روشنی میں ثابت شدہ ہے یانہیں، کیونکہ طرفین کے دلائل پڑھ کر یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ دونوں ہی اپنے موقف کو قطعی طور پر (دو اور دو چار کی طرح ) ثابت کرنے کے لیے کافی مواد نہیں رکھتے بلکہ ہر فریق اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے ’مختلف قسم‘ کے تاریخی شواہد و قرائن کو بطور دلیل پیش کررہا ہے اور دوسرے فریق کے شواہد کو یا تو نظر انداز کررہا ہے اور یا اپنے انداز فکر کے مطابق ان کی کوئی دوسری علمی توجیہ پیش کرنے پر مصر ہے۔ فریقین کی اس ساری بحث میں اصل مشکل یہ ہے کہ دونوں فریقوں کے مابین ایسا کوئی علمی پیمانہ موجود نہیں جس کی بنیاد پر دونوں کی طرف سے پیش کردہ ’مختلف‘ تاریخی شواہد کے درمیان ترجیح کا کوئی پیمانہ قائم کیا جاسکے (کیونکہ جو بھی پیمانہ قائم کیا جائے گا، وہ دونوں میں سے کسی ایک کے انداز فکر ہی کا عکاس ہوگا)۔
راقم الحروف کے نزدیک اصل ضرورت دونوں فریقوں کے درمیان پائے جانے والی قدر مشترک پر غور کرنے کی ہے۔ آپ کے موقف کے مطابق افغان جہاد کے ’جہاد ‘ نہ کہلاسکنے کی اصل وجہ اس کا محرک مسلمانوں کی طرف سے امریکہ کے خلاف ایک غیر شرعی فعل کا اقدام کیا جانا تھا۔ اس مقام پر دو مختلف نکات قابل غور ہیں:
اول: آپ کی اس دلیل میں القاعدہ کے امریکہ پر حملے سے قبل امریکہ کو معصوم فرض کرلیا گیا ہے جو کہ تاریخی حقائق کی روشنی میں درست مفروضہ نہیں۔ اگر اس پہلو سے زیر بحث معاملے پر غور کیا جائے تو القاعدہ و طالبان (طالبان کو اس لیے شامل کرلیا گیا ہے کیونکہ آپ کے نزدیک القاعدہ کے پشتی بان ہونے کی وجہ سے وہ بھی شامل جرم ہیں) کے امریکہ پر حملے کا جواز دووجوہ سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ (جواز تو ہر چند مزید وجوہ سے بھی پیش کیا جا سکتا ہے مگر ذیل کی بحث میں آپ کے فکری پس منظر کی رعایت کرتے ہوئے دلائل دینے کی کوشش کی گئی ہے، کیونکہ انداز فکر تبدیل ہونے سے بحث کا رخ بدل جائے گا):
۱) ریڈ انڈینز کی نسل کشی سے لے کر عراق و افغانستان میں قتل عام تک سینکڑوں ناقابل تردید تاریخی حقائق امریکہ کی ’اقدامی‘ سفاکیت، ظلم و دہشت گردی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ (چند تفصیلات کے لیے دیکھیے Micheal Man کی کتاب The Dark Side of Democracy)۔ اکیس انسانی تہذیبوں کی تاریخ گواہ ہے کہ پوری نسل انسانی میں آج تک کسی ریاست نے اتنے بے گناہ انسانوں کا قتل عام نہیں کیا جتنا اکیلے امریکہ نے کردکھایا ہے۔ چنانچہ قیام امریکہ سے لے کر آج تک کوئی ایک ایسی دھائی نہیں گزری جس میں امریکہ نے کسی دوسری ریاست پر یا تو براہ راست اقدامی حملہ نہ کیا ہو اور یا پھر اس فعل میں کسی کا ساتھ نہ دیا ہو (گویا امریکی ریاست مستقل حالت جنگ میں رہتی ہے)۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا کسی مسلمہ دہشت گرد و ظالم ریاست پر حملہ کرنا شرعا ناجائز فعل ہے؟ اگر راقم کا یہ مفروضہ درست ہے کہ آپ مباحث جہاد میں جاوید احمد غامدی صاحب کے نظریات کو صائب سمجھتے ہیں تو ان کے نظریہ جہاد کی رو سے بھی یہ حملہ عین جائز ٹھہرتا ہے کیونکہ غامدی صاحب کے نزدیک جہاد کی واحد علت ’ظلم‘ کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرنا ہی ہے۔
اگر اس مقام پر آپ یہ عرض کریں کہ طاقت کے عدم توازن کی بنا پر یہ حملہ درست نہیں تھا تو عرض یہ ہے کہ ’طاقت کا توازن و عدم توازن بطور شرائط جہاد‘ ایک علیحدہ مستقل بحث ہے جس کا آپ کی موجودہ بحث سے تعلق نہیں کیونکہ آپ کی رائے (فتوے) کی بنا اس نکتے پر نہیں بلکہ اس بنیادی مقدمے پر قائم نظر آتی ہے کہ القاعدہ و طالبان کا یہ اقدام اس لیے غیر شرعی تھا گویا اس میں ایک ’معصوم ریاست‘ کے ’معصوم شہریوں‘ کے خلاف جارحیت اختیار کی گئی تھی اور اسی لیے آپ اسے ہر تعریف کی رو سے دہشت گردانہ فعل قرار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ (یہ اور بات ہے کہ آپ نے دہشت گردی کی کوئی ’ایک‘ بھی تعریف معین نہیں فرمائی!)۔ جہاں تک رہ گئی یہ بات کہ اس حملے میں غیر محاربین قتل ہوئے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ محاربین و غیر محاربین کے درمیان فرق کے حوالے سے موجودہ ہتھیاروں کی نوعیت سامنے رکھنے کے بعد ہی کوئی رائے قائم کی جانی چاہیے۔ (اس معاملے پر دیکھیے راقم کا استفسار، ماہنامہ الشریعہ جنوری ۲۰۰۹)۔ نیز یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس حملے میں صرف ورلڈ ٹریڈ سینٹر ہی نہیں بلکہ پنٹا گون اور وائٹ ہاؤس کو بھی نشانہ بنا نے کی کوشش کی گئی تھی جو ہر لحاظ سے حربی مقامات میں شامل ہیں۔ پھر ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کو اس طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ عمارت امریکہ کی شان و شوکت کی علامت سمجھی جاتی تھی، لہٰذا اسپر حملہ گویا امریکہ کی عظمت پر حملہ کرنے کے مترادف تھا! ان تمام پہلووں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ القاعدہ و طالبان کا نشانہ براہ راست امریکی شہری نہیں بلکہ امریکی ریاست کی شان و شوکت کا اظہار کرنے والے چند اہم مقامات تھے۔
درج بالا عذر کی طرح اس حملے کا عملاً مسلمانوں کے حق میں موثر یا غیر موثر، مفید یا مضر ہونے کی بحث کا بھی زیر غور قضیے سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ ایک مستقل اور الگ نوعیت کی بحث ہے (ویسے بھی فائدہ اور نقصان طے کرنے کے لیے یہ طے کرنا ہوگا کہ انہیں ماپنے کے لیے کس شے کو بطور پیمانہ استعمال کیا جانا چاہیے)۔
۲) پھر صرف اتنا ہی نہیں کہ امریکہ نے دنیا بھر میں ظلم و دہشت کی تاریخ رقم کررکھی ہے بلکہ 9/11 کے واقعے سے قبل امریکہ کی طرف سے متعدد بار ملت اسلامیہ افغانستان پر میزائل برسائے گئے (جن میں سے ایک عدد نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں چلایا گیاتھا، راقم کو معین تاریخ فی الحال یاد نہیں) جس میں بے گناہ مسلمان شہید ہوئے۔ اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے کیا اس پر غور نہیں کرنا چاہیے کہ حملے کی ابتدا کس کی طرف سے ہوئی؟ نیز اگر ان حملوں کے خلاف جوابی کاروائی کے طور پر مسلمان امریکہ پر حملہ کریں تو کیا ایسا کرنا ناجائز ٹھہرے گا؟ اور اگر اس جوابی حملے پر جوابی کاروائی کرتے ہوئے امریکہ مزید ظلم کرے تو کیا اس ظلم کے خلاف لڑنا جہاد نہیں ہوگا؟
ان نکات کا حاصل یہ ہے کہ امریکہ پر حملے کا جواز دو بنیادوں پر پیش کیا جا سکتا ہے، اولاً امریکہ کا فی نفسہ ظالم ریاست ہونا، ثانیاً امریکہ کا اسلامی ریاست پر ابتداء اً حملہ کرنا (اس مقام پر ہم امریکہ کی ان تما م کاروائیوں سے صرف نظر کیے لیتے ہیں جو وہ برائے نام ’عالمی قوانین ‘ سے رو گردانی کرتے ہوئے خفیہ طور پر اسلامی ریاستوں کو کمزور کرنے کے لیے روا رکھے ہوئے ہے)۔
دوئم: خود آپ کو بھی قبول ہے کہ امریکہ کا ملت افغانستان پر حملہ کرنا شرعاً، اخلاقاًو قانوناً جرم و ظلم کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ اگر آپ کے اس مقدمے کو مان بھی لیا جائے کہ غلطی کی ابتدا بہر حال مسلمانوں کی طرف سے ہوئی، تب بھی یہ نتیجہ تو اپنی جگہ قائم رہتا ہے کہ جو مسلمان امریکہ سے اس وجہ سے لڑ رہا ہے کہ وہ مسلمانوں پر ظلم و بربریت مسلط کررہا ہے، کم از کم اس کا لڑنا تو جہاد ہی ہوگا۔ آپ کے قائم کردہ مقدمے میں اس شخص کے فعل کو جہاد سے خارج کرنے کے لیے کیا دلیل موجود ہے؟
جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ آپ کے دیے گئے ایک اقتباس میں مولانا عتیق سنبھلی مد ظلہ العالی کا حضرت ابوجندلؓ کے واقعے سے شیخ اسامہ کے خلاف استدلال کچھ سمجھ نہیں آیا کیونکہ ان دونوں واقعات میں کئی اعتبار سے فرق ہے:
- حضرت ابو جندلؓ کو کفار مکہ کے حوالے نہ کرنے کے سلسلے میں اسلامی ریاست کی طرف سے طے شدہ اور واضح معاہدے کی مخالفت کا معاملہ در پیش تھا جبکہ شیخ اسامہ کی حوالگی کے معاملے میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ بلکہ بقول آپ کے عالمی قوانین (جنکی آپ کے نزدیک بہت قدر منزلت ہے) کے مطابق امریکہ کو یہ حق ہی نہیں تھا کہ وہ اسامہ کی حوالگی کا مطالبہ کرتا، زیادہ سے زیادہ وہ شیخ اسامہ کو عالمی عدالت انصاف میں پیش کرنے کا مطالبہ کرسکتا تھا اور بس۔
- حضرت ابو جندلؓ کو اسلامی ریاست کے سربراہ نے پناہ دینے سے معذرت کرلی تھی جبکہ شیخ اسامہ کو ریاست اسلامی نے بذات خود پناہ دی۔
- معلوم نہیں کہ مولانا عتیق صاحب حضرت ابو جندلؓ کے معاملے میں ان کی حوالگی کے علاوہ واقعے کی دیگر تفصیلات کو بھی لائق استدلال سمجھتے ہیں یا نہیں، کیونکہ یہ بھی تاریخی حقائق ہیں کہ آپؓ کفار کی قید سے نہ صرف یہ کہ فرار ہوئے بلکہ اپنے طور پر ان کے خلاف خفیہ کاروائیاں کرنے کے لیے ایک ایسے مقام کا انتخاب کیا جہاں سے دشمن کی سپلائی لائن کو نقصان پہنچایا جا سکے وغیرہ۔ اگر شیخ اسامہ امریکی قید سے فرار ہوکر اس کے خلاف خفیہ کاروائیوں میں مصروف ہوجائیں تو کیا یہ صورت حال مولانا کے نزدیک قابل قبول ہوگی؟
- اگر قیاس ہی کرنا ہے تو شیخ اسامہ کے خود کو امریکہ کے حوالے نہ کرنے کے معاملے کو حضرت عثمان غنیؓ کے اپنے مخالفین کے پرزور مطالبے کے باوجود خود کو منصب خلافت سے معزول نہ کرنے پر کیوں قیاس نہ کرلیا جائے؟ پھر کوئی نکتہ شناس یہ بھی تو کہہ سکتا ہے کہ اگر حضرت عثمان غنیؓ مسلمانوں کے وسیع تر مفاد میں منصب خلافت سے دستبردار ہوجاتے تو مسلمان آپس میں دست و پا نہ ہوتے، جیسا کہ خود آپؓ کو بھی معاملے کی نزاکت کا پورا احساس تھا تب ہی تو آپؓ نے فرمایا تھا کہ لوگو اگر آج تم نے مجھے قتل کیا تو پھر تم کبھی متفق نہیں ہو سکو گے! درحقیقت کسی جنگی صورت حال کے نتائج دیکھنے کے بعد آرام سے بیٹھ کر اس کا تجزیہ کرکے رائے دینے (after thoughts) اور عین اس صورت حال سے دوچار ہونے کی حالت میں فیصلہ کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک درپیش معاملے کے بارے میں کسی انسان کے فہم اور کئے گئے فیصلوں کی معقولیت کا انحصار بہت حد تک اس بات پر ہوتا ہے کہ آیا وہ شخص خود اس معاملے کا ’حصہ ‘ ہے یا اس سے ’باہر‘ (whether or not he is part of it)۔
ان گزارشات کو پیش کرنے کا مقصد القاعدہ و طالبان کے اقدامات کی حمایت یا مخالفت کرنا نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کے طور پر اس بحث میں سوالات پیش کرنا ہے جو فریق مخالف کی پوزیشن سمجھانے اور انکے دلائل واضح کرنے کی کوشش کررہاہو۔ آپ نے خود ہی عرض کیا ہے کہ آپ نے جن مباحث کو اٹھایا ہے ان پر غور و فکر کی ضرورت ہے، لہٰذا اسی مقصد کیلئے یہ اشکالات پیش کئے ہیں تاکہ واضح ہوسکے کہ معاملے کی سنگینی اتنی سادہ نہیں جتنی اب تک کی بحث سے سامنے آسکی ہے۔ پھر ان گزارشات کا یہ مطلب بھی نہ سمجھا جائے کہ راقم مجاہدین کی حکمت عملی میں کسی قسم کی اصلاح کا قائل نہیں، یقیناًاس میں بہتری کی گنجا ئش موجود ہے خصوصاً مجاہدین کا دیگر اسلامی تحریکات (جو جہاد کے بجائے تعلیم وتزکئے اور دعوت و تبلیغ کے کام میں مصروف ہیں) اور مکاتب فکر کے بارے میں فکری و عملی رویہ ہر لحاظ سے قابل اصلاح ہے کیونکہ اپنی غیر دانشمندانہ حکمت عملی کی بنا پر مجاہدین نے ان مذہب پسند عناصر کو بھی اپنے مخالفین کی صفوں میں جا پہنچایا ہے جو فکری و جذباتی ہر اعتبار سے انکے فطری حلیف بننے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔
محمد عمار خان ناصر
جہاد افغانستان کی بحث پر آپ کا تفصیلی تبصرہ موصول ہوا۔ حسب توقع آپ کے تبصرے میں بحث کے بعض ایسے گوشے نمایاں کیے گئے ہیں جو اب تک کی بحث میں سامنے نہیں آئے تھے اور مجھے امید ہے کہ اس سے بحث کی تنقیح وتفہیم میں ان شاء اللہ بہت مدد ملے گی۔
آپ نے اپنے تبصرے میں جو نکات اٹھائے ہیں، ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جو اس وقت نہ زیر بحث ہیں اور نہ موجودہ افغان جنگ کی شرعی حیثیت کی تعیین میں ان کا کوئی بنیادی دخل ہے، بلکہ بعض نکات میں میرے نقطہ نظر کو بھی درست نہیں سمجھا گیا۔ مثلاً آپ نے فرمایا ہے کہ ’’آپ کی اس دلیل میں القاعدہ کے امریکہ پر حملے سے قبل امریکہ کو معصوم فرض کرلیا گیا ہے، جو کہ تاریخی حقائق کی روشنی میں درست مفروضہ نہیں‘‘ جبکہ میرا مقدمہ استدلال یہ ہرگز نہیں ہے کہ امریکہ چونکہ معصوم ہے، اس لیے اس پر حملہ ناجائز تھا۔ ایک سپر پاور کی حیثیت سے امریکاکی طرف سے مسلمہ اخلاقیات کی پامالی اور ظلم وستم کا ارتکاب یا اس کی پشت پناہی ایک امر واقعہ کے طور پر ناقابل انکار ہے اور اگر شرعی واخلاقی حدود کی پاس داری کرتے ہوئے اس پر حملہ کیا جائے تو کوئی شخص اسے اصولی طو رپر ناجائز نہیں کہہ سکتا، چنانچہ مثال کے طو رپر طالبان، افغانستان پر میزائل حملوں کے جواب میں ریاست کی سطح پر اس کا جواب دیتے ہوئے امریکہ کے کسی حربی ہدف پر حملہ کرتے تو اس کے جواز میں کوئی کلام نہ ہوتا۔ طاقت کے توازن یا عدم توازن یا بہتر حکمت عملی یا کسی اقدام کے عملاً مضر یا مفید ہونے کی بحث، جیسا کہ آپ نے درست طور پر فرمایا، ایک الگ بحث ہے۔
اسی طرح اسامہ کی حوالگی کے معاملے کو ابو جندل پر قیاس کرنے کا معاملہ بھی اضافی اور ثانوی ہے اور مولانا عتیق الرحمن سنبھلی صا حب کا مدعا بھی شاید وہ نہیں ہے جو آپ کے تبصرے سے مترشح ہوتا ہے۔ وہ اس واقعے سے کوئی فقہی اور قانونی استدلال نہیں کر رہے، بلکہ اس سے حکمت عملی اور مجموعی مفاد کی خاطر شخصی قربانی کی جو مثال سامنے آتی ہے، اس کی طرف توجہ دلا رہے ہیں۔ بہتر ہے کہ ان کے موقف کو درست سیاق وسباق میں سمجھنے کے لیے ان کی اصل تحریر ملاحظہ کر لی جائے۔ میں نے اس اقتباس کا حوالہ صرف اس پہلو سے دیا ہے کہ اکابر دیوبندی علما نے عین اس وقت جب امریکی حملے شروع ہو چکے تھے، طالبان یا اسامہ کے طرز عمل کا ناقدانہ جائزہ لینے کی ضرورت محسوس کی تھی، اس لیے آج جبکہ صورت حال نسبتاً خاصی بدل چکی ہے، اس ضرورت سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے بھی آخری پیرا گراف میں، ایک خاص پہلو سے ہی سہی، تنقیدی تجزیے کی ضرورت واہمیت کو واضح کیا ہے۔
راقم نے جو نقطہ نظر پیش کیا ہے، اس سے آپ کے تبصرے کا براہ راست تعلق رکھنے والا حصہ وہ ہے جس میں آپ نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے شرعاً جائز ہونے کو موضوع بنایا ہے۔ آپ نے ان حملوں کے شرعی جواز کی توجیہ یہ پیش فرمائی ہے کہ: ’’جہاں تک رہ گئی یہ بات کہ اس حملے میں غیر محاربین قتل ہوئے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ محاربین و غیر محاربین کے درمیان فرق کے حوالے سے موجودہ ہتھیاروں کی نوعیت سامنے رکھنے کے بعد ہی کوئی رائے قائم کی جانی چاہیے۔‘‘ نیز یہ کہ: ’’یہ کہا جا سکتا ہے کہ القاعدہ و طالبان کا نشانہ براہ راست امریکی شہری نہیں بلکہ امریکی ریاست کی شان و شوکت کا اظہار کرنے والے چند اہم مقامات تھے۔‘‘
اس استدلال کو بنیادی طور پر درست فرض کر لیا جائے تو بھی دیکھنا یہ ہے کہ خود اس حملے کا ارتکاب کرنے والوں کا زاویہ نظر اس معاملے میں کیا ہے۔ کیا وہ امریکی یا برطانوی شہریوں کو براہ راست حملے کا نشانہ بنانے کو ناجائز سمجھتے ہیں اور کیا ا ن کی طرف سے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو ہدف بناتے ہوئے اس بات کی ہر ممکن کوشش کی گئی کہ وہاں کام کرنے والے لوگ حملے کی زد میں نہ آنے پائیں اور کیا اس واقعے میں عام شہریوں کا جانی نقصان ہتھیاروں کی مخصوص نوعیت کی وجہ سے ناگزیر طور پر ہوا یا قصداً ایسا طریقہ اختیار کیا گیا کہ عمارت کے ساتھ ساتھ لوگ بھی حملے کی زد میں آئیں؟ افسوس ہے کہ واقعات آپ کے مفروضے کی تائید نہیں کرتے، کیونکہ نہ صرف حملے کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا جب لوگ وہاں کام میں مصروف تھے، بلکہ حملے میں ہتھیار کے طور پر بھی ایسے طیاروں کو استعمال کیا گیا جن میں سوار تمام کے تمام مسافر عام اور بے گناہ شہری تھے۔ برطانیہ کی عام مسافر ٹرینوں میں ہونے والے حملے بھی اسی بات پر دلالت کرتے ہیں کہ القاعدہ اور اس کے ہم نوا جہادی عناصر دشمن کے عام شہریوں کو بھی براہ راست حملے کا نشانہ بنانے کو جائز سمجھتے ہیں، بلکہ اس ضمن میں باقاعدہ یہ فقہی استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ چونکہ ان ممالک کے شہری اپنی حکومتوں کو ٹیکس دیتے ہیں، اس لیے حکومتیں جو بھی سیاسی یا عسکری اقدامات کرتی ہیں، ان کے شہری بھی ان کی ذمہ داری میں پوری طرح شریک ہیں اور انھیں حملے کا براہ راست نشانہ بنانا جائز ہے۔ خود آپ نے اپنے مضمون ’’معاصر مجاہدین کے معترضین سے استفسارات‘‘ (الشریعہ، نومبر/دسمبر ۲۰۰۹ء) میں اس زاویہ نگاہ کی ترجمانی ان الفاظ میں کی ہے کہ :
’’اس وقت پاکستان پر جو امریکی حملے جاری ہیں (اور اس سے قبل امارت افغانستا ن پر جو حملے ہوئے) وہ اصولاً ہماری پارلیمنٹ کی اجازت سے ہو رہے ہیں اور پارلیمنٹ محض عوام کی نمائندہ ہے۔ کیا اس منطق سے ساری پاکستانی عوام حربی نہیں ٹھہری کہ وہ ایک حربی کافر کا ساتھ دے رہے ہیں؟ ظاہر ہے پاکستانیوں نے ان امریکی حملوں کے خلاف اتنی چستی بھی نہیں دکھائی جتنی کہ چیف جسٹس کی بحالی کے لیے دکھائی۔‘‘
میرا حسن ظن ہے کہ آپ مذکورہ استدلال کی بنیاد پر ’’مقاتلین‘‘ کے دائرے کو عام شہریوں تک وسیع کرنے کے حقیقتاً موید نہیں ہیں۔ بہرحال میں نے ایک الگ تحریر میں اس استدلال کا شرعی نقطہ نظر سے جائزہ لیا ہے جو آپ کے ملاحظہ کے لیے منسلک ہے۔
آپ نے فرمایا ہے کہ ’’جو مسلمان امریکہ سے اس وجہ سے لڑ رہا ہے کہ وہ مسلمانوں پر ظلم و بربریت مسلط کررہا ہے، کم از کم اس کا لڑنا تو جہاد ہی ہوگا۔ آپ کے قائم کردہ مقدمے میں اس شخص کے فعل کو جہاد سے خارج کرنے کے لیے کیا دلیل موجود ہے؟‘‘
میں عرض کر چکا ہوں کہ امریکی حملے کے خلاف طالبان کی جنگ بالکل جائز اور مشروع ہے اور جو حضرات اس پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو آپ نے ذکر کیا ہے، ’’جذبہ جہاد‘‘ کے ساتھ اس میں شریک ہیں، اخروی جزا وسزا کی حد تک امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ان کی نیت اور جذبے کے مطابق ہی معاملہ کرے گا۔ البتہ بحیثیت مجموعی اس جنگ کو ’’جہاد‘‘ کہنے میں مجھے اس لیے تردد ہے کہ میرے نزدیک اس کا براہ راست ظاہری سبب بننے اور امریکہ کو حملے کی دعوت دینے والا واقعہ شرعاً جائز نہیں تھا اور طالبان نے ان حملوں کی منصوبہ بندی میں شریک نہ ہونے کے باوجود اس کے ذمہ داروں کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی، وہ انھیں کسی نہ کسی درجے میں ان کا شریک بناتی ہے۔ دراصل کسی جنگ کو ’’جہاد‘‘ کا عنوان دینا اسے ایک نہایت اعلیٰ روحانی اور اخلاقی درجہ دینا ہے اور اس کے لیے شرعی واخلاقی اصولوں کی مکمل پاس داری ضروری ہے، کیونکہ کسی فریق کی طرف سے جنگ کی دینی اور اخلاقی ساکھ کا حوالہ اسی صورت میں زیب دیتا ہے جب وہ اپنے دائرۂ اختیار کی حد تک شریعت کے قائم کردہ حدود کا پابند رہا ہو۔ اگر ایک فریق کی طرف سے جنگی اخلاقیات کی خلاف ورزی کے واقعات صرف اس لیے کم رہ گئے ہوں کہ اس کی عملی استطاعت محدود ہے جبکہ دوسرا فریق برتر مادی طاقت کی بنا پر اس سے ہزار گنا زیادہ بد اخلاقی کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہو تو ایسی صورت میں دونوں فریقوں میں کوئی اصولی فرق کرنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ بہرحال یہ ایک نازک مقام ہے اور میں خود اس جنگ کو ’’جہاد‘‘ کہنے سے گریز کے باوجود طالبان کے حق مدافعت کی حد تک نظری طور پر مخالف زاویہ نگاہ کی گنجائش کو تسلیم کرتا ہوں۔
آخر میں اپنے قیمتی اور قابل غور تبصرے کے ساتھ اس بحث میں شرکت پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اللہ کرے کہ ہم اخلاص اور دیانت داری کے ساتھ معاملات پر غور کرتے ہوئے صحیح بات کے قریب تر پہنچنے کی کوشش کرتے رہیں اور ہمارے شخصی یا قومی تعصبات ہماری شرعی آرا پر اثر انداز نہ ہونے پائیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا معیار یہی چیز ہے نہ کہ کسی معاملے میں متعین طور پر کسی ایک یا دوسری رائے کا حامل ہونا۔
محمد زاہد صدیق مغل
ممکن ہے میں اپنے نکات کو واضح طور پر قابل فہم صورت میں پیش نہ کر سکا ہوں، اس لیے میں مختصراً ان کا خلاصہ دوبارہ پیش کر دیتا ہوں۔ نائن الیون کے عدم جواز سے متعلق آپ کی ارسال کردہ تحریر میں ان لوگوں کے نقطہ نظر پر تبصرہ کیا گیا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ (کسی بھی وجہ سے) امریکہ وغیرہ کے غیر مقاتلین کو قتل کرنا جائز ہے۔ میرے پیش کردہ نکات یہ تھے کہ:
گیارہ ستمبر کا حملہ جائز تھا کیونکہ امریکہ اپنے آغاز سے ہی ایک ظالم، وحشی اور دہشت گرد ریاست رہی ہے اور خود آپ کے اپنے موقف کے مطابق ظلم کے خلاف جہاد کرنا جائز ہے۔ مزید یہ کہ مجاہدین کا براہ راست ہدف امریکی شہری نہیں بلکہ امریکی شان وشوکت کی علامت کی حیثیت رکھنے والے مقامات یعنی جڑواں ٹاورز، وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون تھے۔
صورت حال یہ نہیں ہے کہ مجاہدین نے امریکہ پر حملہ کرنے میں پہل کی، بلکہ یہ ہے کہ خود امریکہ نے نائن الیون سے پہلے کم از کم دو مرتبہ افغانستان پر میزائل حملے کر کے جوابی حملوں کی تحریک پیدا کی تھی۔
مجھے ان نکات پر کوئی تبصرہ آپ کی تحریر میں نہیں ملا۔ امید ہے کہ اب آپ ان پر تبصرہ کریں گے۔
محمد عمار خان ناصر
میرے خیال میں ان دونوں نکات کے حوالے سے میری گزارشات سابقہ خط میں موجود ہیں۔ پہلے نکتے کے جواب میں، میں نے عرض کیا ہے کہ:
’’ایک سپر پاور کی حیثیت سے امریکاکی طرف سے مسلمہ اخلاقیات کی پامالی اور ظلم وستم کے ارتکاب یا اس کی پشت پناہی ایک امر واقعہ کے طور پر ناقابل انکار ہے اور اگر شرعی واخلاقی حدود کی پاس داری کرتے ہوئے اس پر حملہ کیا جائے تو کوئی شخص اسے اصولی طو رپر ناجائز نہیں کہہ سکتا۔‘‘
یعنی اعتراض امریکہ پر حملہ کرنے پر نہیں، بلکہ شرعی واخلاقی ضوابط کو پامال کرنے پر ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ نائن الیون کے حملے میں اصل ہدف بے گناہ شہری نہیں تھے تو میں نے آپ کی توجیہ پر واقعاتی شواہد کے علاوہ یہ اصولی سوال اٹھایا ہے کہ:
’’القاعدہ اور اس قبیل کے جہادی عناصر دشمن کے عام شہریوں کو بھی براہ راست حملے کا نشانہ بنانے کو جائز سمجھتے ہیں، بلکہ اس ضمن میں باقاعدہ یہ فقہی استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ چونکہ ان ممالک کے شہری اپنی حکومتوں کو ٹیکس دیتے ہیں، اس لیے حکومتیں جو بھی سیاسی یا جنگی اقدامات کرتی ہیں، ان کے شہری بھی ان کی ذمہ داری میں پوری طرح شریک ہیں اور انھیں حملے کا نشانہ بنانا جائز ہے۔‘‘
دوسرے نکتے کے جواب میں بھی یہی گزارش ہے کہ اصل مسئلہ امریکہ پرحملے کے جائز یا ناجائز ہونے کا نہیں، شرعی ضوابط کی پاس داری کا ہے۔ القاعدہ نے اس حملے میں دو واضح شرعی اصولوں کی خلاف ورزی کی: ایک یہ کہ افغانستان میں رہتے ہوئے امریکہ پر حملے کی منظوری دینے کی مجاز اتھارٹی بن لادن نہیں بلکہ ملا محمد عمر تھے۔ دوسرے یہ کہ حملے میں پینٹاگون اور شان وشوکت کی حامل امریکی عمارتوں کے ساتھ ساتھ قصداً عام شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنا بھی القاعدہ کا ہدف تھا۔ اگر بن لادن وغیرہ کی طرف جاری کیے جانے والے بیانات اور فتوے آپ کے سامنے ہوں تو معلوم ہوگا کہ وہ واضح طور پر تمام امریکیوں کو، چاہے وہ فوجی ہوں یا سویلین، قتل کرنے کو جائز بلکہ فرض سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ۲۳؍ فروری ۱۹۹۸ء کو برطانیہ کے عربی جریدے ’’القدس العربی‘‘ میں اسامہ بن لادن اور الظواہری وغیرہ کی طرف سے جاری کردہ ایک فتوے کا متن شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ:
’’ان حکم قتل الامریکان وحلفاۂم مدنیین وعسکریین فرض عین علی کل مسلم امکنہ ذلک فی کل بلد تیسر فیہ‘‘
’’امریکہ اور اس کے حلیف ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو قتل کرنا، خواہ وہ عام شہری ہوں یا فوجی، ہر اس مسلمان پر اور ہر اس ملک میں فرض ہے جہاں اس کے لیے ایسا کرنا ممکن ہو۔‘‘
امید ہے ان گزارشات سے میرا مدعا واضح ہو گیا ہوگا۔
خود کش حملوں کا جواز
[سابقہ سطورمیں عام شہریوں پر حملے کے حق میں پیش کیے جانے والے استدلال کے شرعی جائزے سے متعلق جس تحریر کا حوالہ دیا گیا ہے، وہ حسب ذیل ہے۔ (عمار ناصر)]
سوال: ۱۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق بنی اسرائیل کے ایک راہب کو جب ایمان قبول کرنے کی پاداش میں قتل کرنے کی کوشش کی گئی اور اللہ کی مدد سے یہ کوشش بار بار ناکام ہوئی تو اس نے خود اپنے آپ کو قتل کرنے کا طریقہ یہ تجویز کیا کہ لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا جائے اور پھر سب کے سامنے ’باسم رب ہذا الغلام‘ کہہ کر اس پر تیر چلایا جائے تو اس کی موت واقع ہو جائے گی۔ کیا اس سے خود کش حملے کا جواز ثابت ہوتا ہے؟
۲۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ برطانیہ اور امریکہ کے شہری چونکہ اپنی حکومتوں کو ٹیکس دیتے ہیں، اس لیے اگر ان ممالک کی حکومتیں مسلمانوں پر ظلم کرتی یا ظلم کرنے والوں کے ساتھ تعاون کرتی ہیں تو ان کے شہری بھی اس میں شریک ہیں۔ چنانچہ اگر اسرائیل کے ظلم وستم کا شکار ہونے والا کوئی فلسطینی امریکہ یا برطانیہ میں جا کر ان کے عام شہریوں پر حملہ کرے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: ۱۔ خود کشی کے بارے میں یہ بات بطور اصول سمجھنی چاہیے کہ شریعت میں اس کی ممانعت اصلاً اس صورت کے لیے آئی ہے جب انسان زندگی کی تکالیف او رمصائب سے گھبرا کر خدا کی تقدیر پر صبر ورضا کا رویہ اپنانے کے بجائے اپنی زندگی کے خاتمے کا فیصلہ کر لے۔ یہ رویہ چونکہ خدا اور قضا وقدر کے فیصلوں پر ایمان کے منافی ہے، اس لیے اس کا شمار کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے۔ اگر یہ صورت نہ ہو اور مثال کے طو رپر انسان اپنے دین وایمان کی حفاظت کی خاطر یا اس کی دعوت کے راستے میں اپنی جان قربان کرنے کا فیصلہ کر لے تو اس صورت پر حرمت کا اطلاق نہیں ہوتا۔
آپ نے جس روایت کا حوالہ دیا ہے، اس میں بیان ہونے والے واقعے کی نوعیت یہی ہے۔ اس راہب پر یہ بات واضح تھی کہ ایمان لانے کے جرم میں کافر بادشاہ کے ہاتھوں اس کا مرنا یقینی ہے، البتہ اللہ کی حکمت کے تحت اس کی اب تک کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ اس وجہ سے اس نے یہ مناسب سمجھا کہ اپنی موت کا ایک ایسا طریقہ خود تجویز کر دے جس میں اسے لوگوں تک توحید کا پیغام پہنچانے کا موقع بھی میسر آ جائے۔ قتل کی متعدد کوششوں سے اس کا بچ نکلنا لوگوں میں معروف ہو چکا تھا اور یقیناًوہ ایسے شخص کے بارے میں جاننے کا تجسس بھی رکھتے تھے، اس لیے اس بات کی قوی امید تھی کہ اگر اسے اس کے تجویز کردہ طریقے کے مطابق ’باسم رب ہذا الغلام‘ (اس لڑکے کے رب کے نام سے) کہہ کر قتل کیا گیا تو یہ چیز لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد تک حق کا پیغام پہنچانے کا ذریعہ بن جائے گی۔ چنانچہ یہی ہوا اور روایت کے مطابق اس کی شہادت کا منظر دیکھنے والے لوگوں کی اکثریت نے ایمان قبول کر لیا۔ اسی روایت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جب بادشاہ کو اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے ایمان لانے کی خبر ملی تو اس نے ایک بڑی آگ بھڑکا کر ان سب لوگوں کو جمع کیا اور حکم دیا کہ یا تو وہ اپنے ایمان سے دست بردار ہو جائیں اور یا پھر ایک ایک کر کے اس آگ میں کود جائیں۔ اہل ایمان نے خود آگ میں کود کر جان دینا منظور کر لیا لیکن ایمان سے دست بردار نہ ہوئے، بلکہ ایک خاتون اپنے دودھ پیتے بچے کے ساتھ لائی گئی اور اس نے بھڑکتی ہوئی آگ کو دیکھ کر کچھ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو اللہ کی قدرت سے اس کے دودھ پیتے بچے نے اس سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’یا امہ اصبری فانک علی الحق‘ (اے میری ماں، صبر سے کام لو کیونکہ تم حق پر ہو) اور بچے کی اس حوصلہ افزائی پر اس کی ماں بھی آگ میں کود گئی۔ (مسلم، رقم ۳۰۰۵)
جہاں تک جنگ میں شہادت کے حصول کی غرض سے دشمن پر خود کش حملہ کرنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ شہادت دراصل کفار کے ہاتھوں قتل ہونے کو کہتے ہیں، نہ کہ دشمن کو نقصان پہنچانے کی غرض سے ازخود اپنے آپ کو قتل کرنے کے اقدام کو۔ چنانچہ ایک غزوے میں جب ایک صحابی دشمن پر وار کرنے کی ناکام کوشش میں خود اپنی ہی تلوار سے زخمی ہو کر فوت ہو گئے تو صحابہ کو اس پر تردد ہوا کہ آیا یہ ان کی شہادت کی موت ہے یا خود کشی کی، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو دوہرا اجر ملے گا۔ (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۷۸۲۸) یعنی چونکہ اس کی نیت خود کشی کی نہیں تھی اور ایسا خطا سے ہوا ہے، اس لیے اسے اللہ کے ہاں شہید ہی شمار کیا جائے گا۔ البتہ مخصوص حالات میں، خاص طور پر جب کہ میدان جنگ میں موت یقینی دکھائی دے رہی ہو، اپنی جان کی قربانی دے کر مسلمانوں کو کسی بڑے نقصان سے بچانے کے لیے دشمن پر خود کش حملے کے جواز سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح اگر دشمن کی پیش قدمی کو روکنے یا طاقت کے تناسب کو متوازن کرنے کا اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہ ہو تو اس صورت حال میں بھی اس کا جواز اور مشروعیت تسلیم نہ کرنے کی بظاہر کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی۔ تاہم ایسے کسی بھی اقدام کے جواز کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ اس میں شریعت کے کسی دوسرے اصول اور ضابطے کی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو۔ یعنی اگر جنگ کسی مشروع اور جائز مقصد کے لیے لڑی جا رہی ہواور اس میں دشمن کو بھاری نقصان پہنچانے کے لیے خود کش حملہ زیادہ موثر ہو اور اس کا نشانہ مقاتلین (combatants) ہی کو بنایا جائے تو اصولی طور پر اس خود کشی کو اس وعید کے تحت نہیں لایا جا سکتا جو حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ البتہ اگر جنگ کا محرک ہی ناجائز ہو اور حملے کا نشانہ دشمن کے مقاتلین کے بجائے عام انسانوں کو بنایا جائے تو اس صورت میں خود کش حملہ بھی اسی طرح ناجائز ہوگا جیسے کسی بھی دوسرے ہتھیار کا استعمال ناجائز ہے۔
۲۔ یہ استدلال کہ چونکہ امریکہ یا برطانیہ کے شہری اپنی حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں جس کی مدد سے حکومت جنگ لڑتی ہے، اس لیے ٹیکس دینے والے تمام شہری ’مقاتلین‘ (combatants) ہیں اور انھیں جنگی حملے کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، شرعی اصولوں کی رو سے کسی طرح درست نہیں۔ اسلامی شریعت کی رو سے عام لوگ جو جنگ میں براہ راست شریک نہیں، انھیں ’مقاتل‘ قرار نہیں دیا جا سکتا، چاہے وہ اپنی حکومت کو ٹیکس دیتے ہوں اور جنگ کے فیصلے کو ان کی اصولی تائید حاصل ہو۔ ’مقاتل‘ اس کو کہا جائے گا جو جنگ میں براہ راست شریک ہو یا بالفعل لڑنے والوں کی ایسی مدد کر رہا ہو جو ’’لڑائی میں مدد‘‘ کے زمرے میں آتی ہو۔ اس سے ہٹ کر اصولی طو ر پر جنگ کے فیصلے کی تائید کرنے والوں یا مقاتلین کی مدد کی بعض دوسری صورتیں اختیار کرنے والوں کو ’مقاتل‘ نہیں کہا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عین میدان جنگ میں دشمن کے لشکر کے ساتھ آئی ہوئی خواتین اور کام کاج کرنے والوں خادموں کو، جو ظاہر ہے کہ اپنے لشکر کی مدد ہی کے لیے ساتھ آئے تھے، قتل کرنے سے منع فرمایا۔
حنظلہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک غزوے میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ہم نے ایک عورت کو مقتول دیکھا اور لوگ اس کے ارد گرد جمع تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا:
ما کانت ہذہ تقاتل فی من یقاتل، انطلق الی خالد فقل لہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یامرک یقول لا تقتلن ذریۃ ولا عسیفا (ابن ماجہ، رقم ۲۸۴۲)
’’یہ لڑنے والوں کے ساتھ لڑائی میں تو شریک نہیں تھی۔ .... خالد کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں حکم دیتے ہیں کہ بچوں اور خادموں کو ہرگز قتل نہ کرنا۔‘‘
ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:
وجدت امراۃ مقتولۃ فی بعض مغازی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فنہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن قتل النساء والصبیان (بخاری، رقم ۳۰۱۵)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک غزوے میں ایک عورت مقتول پائی گئی تو آپ نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سردار ابن ابی الحقیق کو قتل کرنے کے لیے صحابہ کا دستہ بھیجا تو انھیں عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ اس دستے کے ایک مجاہد عبد اللہ بن انیس بتاتے ہیں کہ:
برحت بنا امراۃ ابن ابی الحقیق بالصیاح فارفع السیف ثم ذکرت قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاکفہ ولولا ذالک لاسترحنا منہا (مسند ابی عوانہ، ۶۵۸۷۔ مسند ابی یعلی، رقم ۹۰۷)
’’ابن ابی الحقیق کی بیوی نے چیخ کر ہمارے خلاف مدد کے لیے بلانا چاہا تو میں نے تلوار بلند کر لی، لیکن پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یاد آ گیا اور میں نے اپنی تلوار روک لی۔ اگر آپ کا حکم نہ ہوتا تو ہم اس کی بیوی کا قصہ بھی پاک کر دیتے۔‘‘
یہاں دیکھ لیجیے، خاتون کے چیخ پکار کے ذریعے سے مجاہدین کو خطرے میں ڈالنے کے باوجود انھوں نے اسے قتل کرنے سے گریز کیا۔
ایک اور روایت میں بیان ہوا ہے کہ:
نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن قتل العسفاء والوصفاء (سنن سعید بن منصور، رقم ۲۶۲۸)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدوروں اور خادموں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔‘‘
سیدنا عمر نے اپنے فوجی سالاروں کو ہدایت دی کہ:
اتقوا اللہ فی الفلاحین فلا تقتلوہم الا ان ینصبوا لکم الحرب (سنن بیہقی، رقم ۱۷۹۳۸)
’’ان کسانوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور انھیں قتل نہ کرو، الا یہ کہ وہ تمھارے مقابلے میں آکر جنگ کریں۔‘‘
ظاہر ہے کہ دشمن کے جن کسانوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا، وہ لازماً اپنی زمین کی پیداوار کا ٹیکس حکمرانوں کو دیتے ہوں گے اور جنگ کے عسکری اخراجات میں ان کا بالواسطہ حصہ پڑا ہوگا، لیکن اس کے باوجود سیدنا عمر نے انھیں ’مقاتل‘ شمار نہیں کیا، الا یہ کہ وہ بالفعل جنگ میں حصہ لیں۔
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
کانوا لا یقتلون تجار المشرکین (ابن ابی شیبہ، رقم ۳۳۱۳۰)
’’صحابہ مشرکین کے تاجروں کو قتل نہیں کرتے تھے۔‘‘
یہاں بھی دیکھ لیجیے، صحابہ نے دشمن کے ایسے تاجر اور مال دار حضرات کو قتل کرنے سے گریز کیا ہے جن کے سرمایے سے یقیناًان کی فوجیں بھی فائدہ اٹھاتی ہوں گی۔
عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے ’وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا ان اللہ لا یحب المعتدین‘ (اور اللہ کے راستے میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرو، کیونکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا) کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے لکھا کہ:
ان ذلک فی النساء والذریۃ ومن لم ینصب ذلک الحرب منہم (ابن ابی شیبہ، رقم ۳۳۱۲۶)
’’یہ ممانعت عورتوں، بچوں اور ان لوگوں سے متعلق ہے جو مقابلے کے لیے میدان میں نہ آئے ہوں۔‘‘
اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ہدایت دی کہ:
الا لا یجہزن علی جریح ولا یتبعن مدبر ولا یقتلن اسیر (ابو عبید، الاموال، ص ۱۴۲)
’’سنو، کسی زخمی کو قتل نہ کیا جائے، کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے اور کسی قیدی کو قتل نہ کیا جائے۔‘‘
مذکورہ ہدایات سے واضح ہوتا ہے کہ دشمن قوم کے جو افراد بعض پہلووں سے دشمنوں کے لشکر کی مدد کرنے کے باوجود خود جنگ میں شریک نہ ہوں یا جنگ میں شریک ہونے کے بعد زخمی یا گرفتار ہو جانے کی وجہ سے لڑنے کے قابل نہ رہے ہوں، شریعت اسے قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ غیر مقاتلین کا حملے کی زد میں آجانا صرف اس صورت میں معاف ہے جب حملے کا ہدف اصلاً مقاتلین ہوں اور تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود قصد اور نیت کے بغیر ناگزیر طور پر یا اتفاقاً کچھ غیر مقاتلین بھی زد میں آ جائیں۔
مذکورہ تشریح کی روشنی میں بعض لوگوں کے اس نقطہ نظر کی غلطی بالکل واضح ہو جاتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر فلسطین میں اسرائیل کے ظلم وستم کا شکار ہونے والا کوئی شخص امریکہ یا برطانیہ میں جا کر وہاں کے ٹیکس دینے والے عام لوگوں پر خود کش حملہ کر دے تو یہ جائز ہوگا۔
سابقہ صفحات میں قارئین نے بحث کے مختلف پہلووں کے حوالے سے اہل فکر کے متنوع زاویہ ہاے نگاہ ملاحظہ کیے۔ راقم الحروف نے بھی اپنے نقطہ نظر کی تفصیلی وضاحت دوران بحث میں کر دی ہے، البتہ جہادی تحریکات، خاص طور پر افغانستان کے طالبان کی حکمت عملی کے ناقدانہ جائزے کی ضرورت کے حوالے سے کچھ مزید گزارشات پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں اس پچھلے دور میں جہاد کے عنوان سے اٹھنے والی کم وبیش ہر تحریک کے بارے میں یہ جذباتی رویہ بہت عام رہا ہے کہ ان حضرات کو یا تو صحابہ کے قافلے سے بچھڑ جانے والے لوگ باور کرایا جائے یا امام مہدی کے لشکر کا ہراول دستہ اور یوں انھیں تقدس کے ایسے اونچے سنگھاسن پر بٹھا دیا جائے جو دین وشریعت،علم واخلاق اور عقل وفہم کی روشنی میں نقد وانتقاد کے دائرے سے ماورا ہے۔ یہ رویہ سراسر ایک رومانوی اور تخیلاتی ذہن کی پیداوار اور جہادی تحریکات کی مسلسل ناکامیوں کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے۔ طالبان تحریک کے بارے میں بھی یہی تاریخ دہرائی گئی ہے اور اگر اس طرز فکر سے نجات حاصل نہ کی گئی تو اس کا دوبارہ دہرایا جانا بھی ہرگز بعید از امکان نہیں ہے۔
میرے نزدیک طالبان سے ہمدردی رکھنے والے اہل مذہب کو جذباتی اور رومانوی فضا سے باہر نکل کر زمینی حقائق کی روشنی میں اس حقیقت کا ادراک حاصل کرنا چاہیے کہ افغانستان میں طالبان کا برسر اقتدار آنا بنیادی طور پر ایک سیاسی وجغرافیائی جبکہ ثانوی طور پر ایک مذہبی ونظریاتی مسئلہ ہے اور اس مسئلے کی بہت سی الجھنوں کا حل اسی حقیقت کے ادراک میں مضمر ہے۔ طالبان چونکہ بدیہی طور پر ایک مخصوص مذہبی پس منظر رکھتے ہیں، اس لیے ان کے اقتدار کے بہت سے politico-religious مضمرات اور ایک خاص زاویے سے دیکھا جائے تو کچھ نیم مذہبی نیم سیاسی فوائد بھی ہیں، مثلاً ایک قدیم طرز کی امارت اسلامیہ کے قیام کی تمنا رکھنے والے مذہبی عناصر کی جذباتی تسکین اور شرق اوسط اور خلیج میں اہل تشیع کی ابھرتی ہوئی سیاسی طاقت کو توازن اور اعتدال میں رکھنے کے لیے ایک موثر کردار وغیرہ۔ پاکستان بھی خطے میں اپنے اسٹریٹجک مفادات کے تناظر میں طالبان کے ساتھ ایک قابل فہم ہمدردی رکھتا ہے اور طالبان نے بھی، جنرل مشرف کے دور حکومت میں کیے جانے والے سیاسی فیصلوں اور بعد میں ان کا تسلسل قائم رہنے کے باوجود پاکستان کے اندر شورش برپا کرنے والے مذہبی عناصر سے قطعی لاتعلقی ظاہر کر کے اپنی وسعت ظرفی، ہوش مندی اور سیاسی مستقبل بینی کا ثبوت دیا ہے۔ تاہم بہت سے حوالوں سے طالبان کی سیاسی سمجھ بوجھ اور خاص طو رپر عالمی سیاست کے dynamics کے مدبرانہ فہم کی صلاحیت پر کئی سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں اور اس ضمن میں سامنے کی مثال کے طور پر بدھا کے مجسموں کے انہدام اور القاعدہ جیسے عناصر کو پناہ دینے کے واقعات پیش کیے جا سکتے ہیں۔ طالبان کے مخصوص مذہبی وسیاسی مائنڈ سیٹ کی وجہ سے افغانستان کی مسلمہ سیاسی قوتوں کو اقتدار میں شریک کر کے ملک کو سیاسی استحکام کی طرف لے جانے کی بھی کوئی صورت کم از کم ان کے پچھلے عرصہ اقتدار میں سامنے نہیں آ سکی۔
جہاں تک اسلام کی مذہبی اور اجتماعی قدروں کا عملی نمونہ پیش کرنے کا تعلق ہے تو طالبان کی اسلام اور امت مسلمہ کے ساتھ بے لچک نظریاتی وابستگی، چاہے وہ ان کے مخصوص فہم اسلام ہی کی صورت میں ہو، ان کا سادہ طرز حکمرانی، ملک میں امن وامان کا قیام، پوست وغیرہ کی کاشت پر پابندی اور اس نوع کے بعض دیگر مظاہر موجودہ دور کے بیشتر مسلم حکمرانوں کے تقابل میں فی الواقع بے حد قابل قدر ہیں اور اگر ان کی حکومت کا تسلسل قائم رہتا تو یقیناًپاکستان کے طرز حکمرانی پر بھی اس کے مثبت اور مفید اثرات مرتب ہوتے، تاہم یہاں بھی بعض پہلووں سے مثلاً خواتین کے حقوق، عمومی طور پر سیاسی وسماجی آزادیوں اور جمہوری طرز حکمرانی کے ضمن میں ان کے تصورات، جنھیں صرف افغان کلچر کے حوالے سے نہیں، بلکہ اسلام کے عنوان سے پیش کیا جاتا ہے، ناقابل رشک ہیں۔
یہ ساری صورت حال یہ بتاتی ہے کہ افغانستان کے طالبان کم از کم مستقبل دیدہ کی حد تک فکری ونظریاتی اور عملی طور پر پاکستان کے اسلام پسندوں کو، جن کا ذہنی وفکری افق اور عملی اکسپوژر بدیہی طو رپر کہیں زیادہ وسیع ہے، راہنمائی ’’دینے‘‘ کی پوزیشن میں نہیں، بلکہ یہاں کے اہل علم کے علم وفہم اور تجربہ وبصیرت سے راہنمائی ’’لینے‘‘ کے محتاج ہیں۔ اسی طرح اپنے حالات کے لحاظ سے وہ ہرگز اس بات کے متحمل نہیں ہیں کہ القاعدہ جیسے بے خانماں عناصر کو، جن کی ساری تگ وتاز کا ہدف تعمیر نہیں بلکہ صرف تخریب ہے، محض جذبہ جہاد میں اشتراک کی بنا پر اپنے ساتھ نتھی کر لیں جبکہ دونوں کے عملی اہداف اور ان کی تکمیل کے لیے مطلوب حکمت عملی میں اگر کوئی نسبت پائی جاتی ہے تو وہ صرف ’تخالف‘ کی ہے۔
افغانستان میں طالبان کا موثر سیاسی کردار افغانستان کے مفاد میں بھی ہے، پاکستان کے مفاد میں بھی اور کئی پہلووں سے خود اسلام کے مفاد میں بھی، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے مذہبی عناصر جذباتیت اور رومانیت سے بلند ہو کر معروضی صورت حال کے ساتھ ساتھ طالبان کی ممکنہ استعداد اور کمزوریوں، دونوں کا حقیقت پسندانہ، غیر جانب دارانہ اور بے لاگ تجزیہ کریں اور اپنی خام توقعات اور غیر حکیمانہ ترجیحات کا بار ان پر لادنے کے بجائے انھیں اس بصیرت اور تجربے میں شریک کرنے کی کوشش کریں جس کے نمونے پچھلی ڈیڑھ سو سال کی تاریخ میں برصغیر کی اعلیٰ سطحی مذہبی قیادت کے ہاں قابل لحاظ تعداد میں پائے جاتے ہیں اور جنھیں جہاد اور غلبہ اسلام کے عالمی احیاکی ایک جذباتی اور رومان پرور فضا میں، جو ہمارے اپنے ہی تخیل کی تخلیق ہے، ہم خود بھی فراموش کر چکے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ افغان عوام اور افغانستان کی سیاسی قوتیں دہری بلکہ تہری مظلوم ہیں۔ ایک طرف انھیں القاعدہ جیسے نادان دوستوں کی دوستی میسر ہوئی، دوسری طرف امریکہ اپنی اندھی طاقت کے ساتھ ان پر چڑھ دوڑا اور تیسری طرف پاکستان سمیت خطے کی تمام طاقتیں خود افغان عوام کے مفاد اور ان کے سیاسی حق خود ارادیت کا احترام کرنے کے بجائے اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر سیاسی وتزویراتی کھیل کھیلنے اور صورت حال کو پیچیدہ سے پیچیدہ تر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس صورت حال میں سطحی نظر سے دیکھا جائے ، جیسا کہ عام مذہبی حلقے دیکھ رہے ہیں، تو طالبان کی ہمدردی کا تقاضا یہ دکھائی دیتا ہے کہ ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی مکمل پردہ پوشی کی جائے اور ان کی تنقید میں ایک لفظ بھی زبان سے ادا نہ کیا جائے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ راستہ نہ دانش مندی کا ہے اور نہ دور اندیشی کا۔ اگر مستقبل کی بہتری ماضی کی غلطیوں کی اصلاح سے مشروط ہے، اور یقیناًایسا ہی ہے، تو طالبان کی حقیقی خیر خواہی اور ہمدردی کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے حق میں آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شرعی، اخلاقی اور سیاسی غلطیوں کو بھی دوٹوک انداز میں ان پر واضح کیا جائے اور کسی نام نہاد سیاسی مصلحت یا غیرت وحمیت کو اس میں آڑے نہ آنے دیا جائے۔ اگر امریکی حکومت کی پالیسیوں پر خود امریکہ میں داخلی سطح پر آزادانہ اور کھلے نقد ومباحثہ کو قومی مفاد اور مصلحت کے منافی نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے ایک مفید، مثبت اور تعمیری عمل سمجھ کر اس سے راہنمائی لی جاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے مذہبی طبقات ’’حمیت‘‘ اور ’’مصلحت‘‘ کے ایک محدود اور سطحی مفہوم کو معیار بنا کر داخلی نقد واحتساب سے گریز کو خود بھی ایک مستقل روش کے طو رپر اختیار کر لیں اور امت کو بھی یہی سجھانے لگ جائیں کہ وہ اسلام اور ملت اسلامیہ کے مفاد کو متعین کرنے کا استحقاق چند مخصوص ذہنوں کے لیے تسلیم کر کے ’’تو مشق ناز کر خون دو عالم میری گردن پر‘‘ کے مصداق اپنے لیے صرف ان کے فیصلوں کے نتائج بھگتنے کا کردار قبول کر لیں۔
اس ضمن میں جہادی عناصر کے ساتھ نتیجہ خیز مکالمے میں کوئی موثر کردار ادا نہ کیے جا سکنے کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہے کہ اس حوالے سے روایتی مذہبی قیادت اپنے موقف اور رجحان کی تعیین میں ذہنی طور پر یکسو نہیں ہے اور اس کے پاس جہادی عناصر کے لیے جو پیغام ہے، وہ واضح اور دوٹوک شرعی واخلاقی اصولوں کے حوالے سے نہیں بلکہ بنیادی طور پر معروضی حالات کی سازگاری اور عملی مصلحت کے تصور کو اپیل کرتا ہے جبکہ عملی مصلحت ایک ایسی چیز ہے جس کی تعیین میں بنیادی کردار کسی بھی شخص یا گروہ کے ہاں پہلے سے طے شدہ ذہنی ترجیحات اور ان کے حصول کے لیے درکار عزم وہمت اور جذبہ قربانی کا ہوتا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ذہنی ترجیحات اور عزم وہمت کے دائرے میں روایتی قیادت اور مذکورہ عناصر کے مابین کوئی ایسی قدر مشترک موجود ہی نہیں جس کی بنیاد پر کوئی مفید مکالمہ ہو سکے یا ایک دوسرے کو اپنا نقطہ نظر سمجھانے کی کوشش کی جا سکے۔ خاص طور سے عزم وہمت کے باب میں دونوں کے مابین جو فرق ہے، وہ وضاحت کا محتاج نہیں۔ ایک فریق کے عزم وہمت کی کیفیت یہ ہے کہ وہ اپنے موقف کی خاطر خود اپنے جسم پر بم باندھ کر جان کا نذرانہ پیش کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتا، جبکہ دوسری طرف یہ حال ہے کہ کوئی ذمہ دار مذہبی راہ نما کسی نازک اور حساس مسئلے پر دوٹوک موقف بیان کرنے سے ڈرتا ہے کہ کہیں اگلے خود کش حملے کا نشانہ اسی کو نہ بنا لیا جائے۔ اسی طرح عام طور پر روایتی لوگوں کی طرف سے اس معاملے میں قتل وغارت اور خون خرابے کی صورت حال کو بنیاد بنا کر جہادی عناصر کی اخلاقی حس کو اپیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، حالانکہ جب ایک فریق اصولی طور پر اپنے آپ کو اس وقت کے پورے سیاسی اور تہذیبی نظام کے خلاف حالت جنگ میں سمجھتا ہے تو اس کے لیے یہ اپیل بے معنی ہے، کیونکہ جنگ بہرحال قدموں کے نیچے سرخ قالین بچھانے اور سروں کے اوپر سے پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے کا نہیں بلکہ قتل وغارت اور خون خرابے ہی کا کا نام ہے۔ اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں ’’مصلحت‘‘ جیسے مبہم اور غیر متعین تصور کے بجائے شرعی واخلاقی ضوابط کی روشنی میں ایک واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر روایتی مذہبی قیادت نہ تو اپنی شرعی ودینی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو سکتی ہے اور نہ امت کو ذہنی کنفیوژن سے نکالنے میں ہی کوئی خاطر خواہ کردار ادا کر سکتی ہے۔
ابو عمار زاہد الراشدی
کسی مباحثے میں ہر علمی رائے کو فتویٰ کے عنوان سے پیش کرنا یا ہر رائے کو فتویٰ قرار دے دینا درست نہیں ہے۔ فتویٰ کا دائرہ علمی مباحثہ کے دائرے سے مختلف ہے اور اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
- جہاد کو محض ایک نظری حیثیت دینے کے نقطہ نظر سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔ مسلمانوں کی ہر وہ جنگ جو شرعی جواز رکھتی ہے، جہاد ہی کے دائرے کی جنگ ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ اعلان جنگ کیے بغیر بھی مسلح کارروائیاں کی ہیں۔
۱۔ یمن میں مسلم اقتدار ختم ہونے پر اسود عنسی کی حکومت ختم کرانے کے لیے چھاپہ مار کاروائی کا طریقہ اختیار کیا گیا۔
۲۔ کعب بن اشرف اور ابو عامر کو بھی چھاپہ مار کاروائی کے ذریعے قتل کرایا گیا ہے۔
۳۔ حضرت ابو جندلؓ اور حضرت ابو بصیرؓ کا چھاپہ مار کیمپ صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی تھی اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کھلم کھلا براء ت کا اظہار کیا تھا، لیکن ان چھاپہ مار کارروائیوں سے حاصل ہونے والے نتائج کو نہ صرف قبول کیا بلکہ ان چھاپہ ماروں کی طرف سے قریش مکہ کے ساتھ مذاکرات خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیے۔ پھر ان چھاپہ ماروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا اور کسی قسم کی کوئی سزا نہیں دی۔
محدثین نے ان تمام کاروائیوں کو ’’جہاد‘‘ کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔ اگر ابو جندلؓ اور ابو بصیرؓ کی کاروائیاں بھی جہاد کے دائرے میں شامل ہیں تو پھر ’’جہاد‘‘ کو محض ایک نظری اور آئیڈیل درجہ دے کر چھوئی موئی بنا دینے کا کیا جواز ہے؟ - اگر خود امریکی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے میں طالبان ملوث نہیں ہیں تو اس حملہ کو افغانستان پر فوج کشی کے جواز کا سبب کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا کسی ملک میں دشمن کا موجود ہونا یا کسی حکومت کا کسی حکومت کے دشمن کو پناہ دینا اس ملک پر حملے کا جواز بن جاتا ہے؟ خود امریکہ سمیت مغربی حکومتوں نے دنیا کی کتنی حکومتوں کے دشمنوں کو سیاسی پناہ دے رکھی ہے۔ کیا یہ سیاسی پناہ ان حکومتوں کو ان مغربی ممالک پر فوج کشی کا حق دیتی ہے جن کے دشمنوں کو سیاسی پناہ دی گئی ہے؟
- جوں جوں افغانستان میں طالبان کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں، اس بات کی ضرورت بھی بڑھتی جا رہی ہے کہ طالبان کے وجود میں آنے سے اب تک کی ان کی جدوجہد اور پالیسیوں کا پوری تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور ان کا علمی بنیادوں پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کر کے کوتاہیوں کی وضاحت اور ان کے سد باب کے لیے تجاویز پیش کرنے کا اہتمام کیا جائے اور اس کے لیے غزوۂ احد کے بارے میں قرآن کریم کے ارشادات کو سامنے رکھا جائے، کیونکہ طالبان کو اپنے مستقبل کی بہتر صورت گری کے لیے اس مرحلے میں اہل علم ودانش کی طرف سے اسی قسم کا تعاون اور راہ نمائی درکار ہے۔
- طالبان اور القاعدہ کے باہمی معاملات کے حوالے سے راقم الحروف نے اپنے ایک تفصیلی تجزیاتی مضمون میں جو الشریعہ کے نومبر/دسمبر ۲۰۰۹ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا، جو کچھ عرض کیا تھا، اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے دوبارہ پیش کر رہا ہوں:
’’یہی وہ موقع ہے جب پاکستان میں، جو جہا د افغانستان کا سب سے بڑا پشت پناہ اور مجاہدین کا بیس کیمپ تھا، حکومتی سطح پر اختلافات پیدا ہوئے۔ جنرل محمد ضیاء الحق شہید اس جنگ کواس کے منطقی نتائج تک پہنچانے اور افغان مجاہدین کی حکومت کے قیام اور استحکام تک اس میں عملاً شامل رہنے کا عزم رکھتے تھے، جب کہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو مرحوم اس جنگ کواسی مرحلہ پر مکمل سمجھتے ہوئے اس سے کنارہ کشی کا فیصلہ کر چکے تھے۔ اسی کشمکش کی فضا میں جنیوا معاہدہ نے جنم لیا جو جہاد افغانستان اورافغان عوام کے بارے میں عالمی قوتوں کی منافقانہ پالیسیوں کا شاہکار تھا اور اس نے افغانستان میں ایک مستحکم حکومت ونظام کے قیام کی بجائے خانہ جنگی اور خلفشار کا ماحول پیدا کیا۔
اسی خلفشار اور خانہ جنگی سے طالبان نے جنم لیا جنھوں نے افغانستان کے ایک بڑے حصے کو کچھ عرصے کے لیے بدامنی اور لاقانونیت سے تو نجات دلا دی لیکن وہ اپنی حکومتی ترجیحات میں ایسی ترتیب قائم نہ کر سکے کہ اپنے اصل اہداف کی طرف موثر پیش رفت جاری رکھ سکتے۔ ظاہر بات ہے کہ طالبان کی حکومت کا وجود میں آنا مقامی حالات کا نتیجہ تھا جوعالمی قوتوں کے ایجنڈے اور مفادات سے مطابقت نہیں رکھتا تھا، چنانچہ کچھ عرصہ تک تو ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی اور انھیں عالمی ایجنڈے میں فٹ کرنے کے لیے اپنے ڈھب پر لانے کی کوشش ہوتی رہی لیکن جب یہ بات طے ہوگئی کہ انھیں عالمی ایجنڈے اور پروگرام میں ایڈجسٹ کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے تو ان سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ یہ مرحلہ وہ تھا جب افغانستان کے جہاد میں شریک ہونے والے عرب مجاہدین نے مشرق وسطی میں اسرائیل، بیت المقدس، تیل کی دولت کے استحصال اورامریکی افواج کی موجودگی کے تناظر میں اپنا ایجنڈا طے کیا اور اس کی طرف پیش رفت کاپروگرام بنایا اور ظاہر بات ہے کہ یہ بھی عالمی قوتوں کے مفاد اور ایجنڈے سے متصادم بات تھی۔
افغان طالبان اور عرب مجاہدین کا دائرۂ کار الگ الگ تھا، لیکن نظریاتی اہداف مشترک تھے، اس لیے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی، ہم آہنگی اور تعاون کی فضا موجود تھی۔ دوسری طرف یہ دونوں گروہ عالمی استعمار کے پروگرام اور ایجنڈے کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے تھے، کیوں کہ مشرق وسطی میں اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا اور افغانستان میں ایک نظریاتی اسلامی حکومت کا راستہ روکنا عالمی استعمار کی اولین ترجیحات تھیں، چنانچہ وہ جنگ جو اس سے پہلے افغان مجاہدین اور سوویت افواج کے درمیان تھی، اب وہی معرکہ افغان مجاہدین، عرب مجاہدین اور امریکی استعمار کے درمیان معرکہ آرائی میں تبدیل ہوگیا۔
ہمارے خیال میں اس مرحلے میں مجاہدین کی قیادت کو اپنی ترجیحات کے تعین میں حقیقت پسندانہ طورپر معروضی حالات کا لحاظ رکھنا چاہیے تھا جو نہیں رکھا جا سکا اور بازی الٹ گئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر دونوں جنگیں بیک وقت لڑنے کی بجائے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو مستحکم کرنے کو ترجیح دی جاتی جس کے لیے ایک دستوری حکومت کا قیام، عالمی سطح پر حکمت عملی کے ساتھ رائے عامہ کی حمایت کاحصول اور عالم اسلام کی دینی قوتوں کو نظریاتی اورملی اہداف کے لیے مجتمع کرنا سب سے زیادہ ضروری امور تھے۔ مشرق وسطی کی جنگ کو اس وقت تک تھوڑا موخر کر لیا جاتا تو یہ ایک بہتر حکمت عملی ہوتی، لیکن ایسانہ ہو سکاا ورہم اس امکان کو نظر انداز نہیں کرتے کہ ایسا نہ ہوسکنے کے پیچھے ان دونوں گروہوں کے مجاہدین کے ا نتہائی خلوص کے باوجود ان دیکھے ہاتھ حرکت میں رہے ہوں گے۔
نائن الیون کے المناک سانحہ نے اس صورت حال میں ڈرامائی تبدیلی پیدا کر دی اور وہ کام جو ابھی کئی سالوں میں ہونے تھے، اس کے لیے مہینے اور ہفتے بھی طویل دکھائی دینے لگے۔ اس مرحلہ میں افغان طالبان اور عرب مجاہدین میں سے کسی ایک کو دوسرے کے لیے قر بانی دینا تھی اور ہمارے خیال میں اگر یہ قربانی عرب مجاہدین دے دیتے تو افغان طالبان کو سنبھلنے اور عالم اسلام میں اپنے بہی خواہوں سے رابطہ و مشاورت کے ساتھ کوئی نہ کوئی راستہ نکالنے کا تھوڑا سا موقع مل جا تا، لیکن یہ بھی نہ ہوا اور اپنے عرب مجاہدبھائیوں کی خاطر افغان طالبان نے پورے خلوص کے ساتھ اپنی حکومت کی قربانی دے دی۔ یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر عرب مجاہدین افغا ن طالبان کے لیے قربانی دیتے، تب بھی بالآخر نتیجہ یہی ہونا تھا اور جوکچھ ہو رہا ہے، اس کا ہونا طے پا چکا تھا۔ ہمیں اس سے اتفاق ہے، لیکن ہمارا وجدان یہ کہتا ہے کہ اگر طالبان حکومت اور عالم اسلام میں ان کے بہی خواہوں کو باہمی مشاورت ورابطہ اور کوئی راستہ نکالنے کے لیے سنبھلنے کا تھوڑا سا وقت مل جاتا تو نتائج کی شدت کو کم کر نے کے امکانات بہرحال موجود تھے۔ بہرحال اب جو ہونا تھا ہوچکا اور اس کے بعد کے مراحل بتدریج طے ہو رہے ہیں۔ ہمیںیقین ہے کہ افغان قوم کے موجودہ حالات زیادہ دیر تک قائم نہیں رہیں گے اور ان میں نئی کروٹ کے آثار اب افق پر واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ اس لیے افغان طالبان کو ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل کی نئی منصوبہ بندی اورصف بندی کرناہوگی اور دوست دشمن کی پہچان بلکہ نادان اور دانا دوستوں کے درمیان فرق کے لیے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ غور وخوض کرنا ہو گا۔‘‘
- جہاں تک کسی مسلم ملک میں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے دستوری ڈھانچے کا تعلق ہے، اس کے لیے راقم الحروف کے خیال میں دستور پاکستان میں شامل ’’قرارداد مقاصد‘‘ اور تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام کے ’’۲۲ متفقہ دستوری نکات‘‘ ہی آج کے دور میں صحیح بنیاد بن سکتے ہیں۔ میں نے طالبان کے دور حکومت میں قندھار اور کابل حاضری کے موقع پر طالبان کے متعدد قائدین کو اسی بنیاد پر اپنا حکومتی نظام تشکیل دینے کا مشورہ دیا تھا اور آئندہ کے لیے بھی ان کے لیے میرا مخلصانہ مشورہ یہی ہے۔ اس سے ہٹ کر عثمانی اور عباسی خلافتوں کے شخصی اور خاندانی ڈھانچے نہ آج کے حالات سے ہم آہنگ ہیں اور نہ ہی اسلامی خلافت کے معیاری تصورات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ طالبان ہوں یا کوئی بھی دینی قوت، اسے ایک صحیح اسلامی ریاست کے لیے قیام کے لیے بالآخر وہی راستہ اپنانا ہوگا جس کا فیصلہ قیام پاکستان کے بعد اکابر علماء کرام نے ۲۲ دستوری نکات کی صورت میں کر دیا تھا۔
محمد عمار خان ناصر
آپ کے تبصرے کے ایک نکتے کے حوالے سے کچھ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اس کی زد میرے خیال میں براہ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور سیرت پر پڑتی ہے۔ میں نے القاعدہ اور طالبان کے طرز جنگ پر یہ اعتراض کیا ہے کہ غیر مقاتلین کو قصداً جنگی حملے کا نشانہ بنانا یا ایسی کسی کارروائی کے ذمہ داروں کو پناہ اور تحفظ فراہم کرنا شرعاً واخلاقاً درست نہیں۔ اس کے جواب میں آپ کسی شرعی توجیہ سے غیر مقاتلین پر حملے کا جواز واضح فرماتے تو بات بالکل اور ہوتی، لیکن آپ نے اس کے بجائے عہد نبوی کی بعض چھاپہ مار اور گوریلا طرز کی جنگی کارروائیوں کا حوالہ دے کر فرمایا ہے کہ اگر یہ جہاد ہیں تو پھر القاعدہ یا طالبان کے طریقے کو جہاد کیوں نہیں کہا جا سکتا۔ اب میرے مذکورہ استدلال کے جواب میں آپ کی اس بات کا مطلب بظاہر یہ بنتا ہے کہ مذکورہ کارروائیوں میں بھی کچھ اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور اس کے باوجود انھیں جہاد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اگر یہی واقعتا آپ کی مراد بھی ہے تو میرے خیال میں یہ ایک انتہائی نازک بات ہے، کیونکہ نہ صرف اعتقادی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی اخلاقی اصول کی خلاف ورزی یا اس کی تائید کی نسبت کرنا بڑا حساس مسئلہ ہے، بلکہ عملاً بھی جن واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے، ان میں سے کسی میں بھی کسی شرعی واخلاقی اصول کی کوئی خلاف ورزی نہیں پائی جاتی۔ مثلاً چھاپہ مار کارروائی لڑائی کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے اور فی نفسہ اس میں کوئی اخلاقی قباحت نہیں پائی جاتی۔ اخلاقی ممانعت خفیہ اور غیر علانیہ حملہ کرنے کی نہیں، بلکہ بے گناہ افراد کو قتل کرنے اور غدر، خیانت اور بد عہدی کی ہے جو ان واقعات میں سے کسی میں نہیں پائی جاتی۔ اسود عنسی کا معاملہ واضح ہے۔ وہ مدعی نبوت تھا اور طاقت کے زور پر مسلمانوں پر مسلط ہوا تھا، اس لیے اسے قتل کر دینا اور اس سے اقتدار واپس لینا مسلمانوں کا بالکل جائز حق تھا۔ کعب بن اشرف اور ابو رافع وغیرہ اپنی شخصی حیثیت میں نقض عہد اور محاربہ کے مرتکب تھے، چنانچہ ان کے خلاف اقدام میں بھی کوئی شرعی واخلاقی مانع نہیں تھا۔ ابو بصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے گروہ کی کارروائیوں کو صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کہنا اس لیے درست نہیں کہ وہ سرے سے اس معاہدے کے فریق ہی نہیں تھے۔ معاہدہ ریاست مدینہ اور قریش کے مابین ہوا تھا، جبکہ مکہ کے مستضعفین ریاست مدینہ کو ذمہ داری میں شریک کیے بغیر قریش کے خلاف کسی بھی قسم کا اقدام کرنے کے لیے کلیتاً آزاد تھے۔ ان کی طرف سے قریش کے تجارتی قافلوں پر حملے کرنا بھی بالکل جائز تھا، کیونکہ برسر جنگ دشمن کا مال جنگی اخلاقیات کی رو سے دوسرے فریق کے لیے مال غنیمت اور مباح ہوتا ہے، الا یہ کہ کسی باہمی یا بین الاقوامی معاہدے کی رو سے ایسا نہ کرنے کی پابندی قبول کر لی جائے۔ ایسے مواقع پر اگر قافلے والوں نے مزاحمت کی اور ان میں سے کچھ لوگ مسلمانوں کی تلوار کا نشانہ بن گئے تو بھی یہ جنگی اخلاقیات کے عین مطابق تھا، کیونکہ اس صورت میں مزاحمت کر کے لڑائی کرنے والے ’’مقاتلین‘‘ کے زمرے میں آ جاتے ہیں۔
جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے تو آپ کی طرف سے معاہدہ حدیبیہ کی ادنیٰ خلاف ورزی بھی نہیں کی گئی، کیونکہ سیدنا ابو بصیر اور ان کے ساتھیوں کو مدینہ منورہ میں قیام کی اجازت دینے کا فیصلہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خفیہ طو ر پر نہیں، بلکہ دوسرے فریق کی رضامندی اور خواہش پر معاہدے میں باقاعدہ ترمیم کے بعد بالکل علانیہ کیا گیا تھا۔ خلاصہ یہ کہ مذکورہ اقدامات میں سے ہر اقدام ’’جہاد‘‘ کے لیے شریعت میں مقرر کڑے اخلاقی معیار پر پورا اترتا ہے اور فقہا ومحدثین نے اگر انھیں ’’جہاد‘‘ کے عنوان سے ذکر کیا ہے تو بالکل درست کیا ہے۔ القاعدہ کی جنگی کارروائیوں اور طالبان کے انھیں پناہ اور تحفظ دینے کا معاملہ ا س کے بالکل برعکس ہے اور حدیث وسیرت کے ذخیرے سے اس کے لیے مذکورہ واقعات کے بجائے ان احادیث کا حوالہ دینا زیادہ مناسب ہے جن کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان کارزار میں ایک خاتون کو مقتول دیکھ کر فرمایا کہ: ’ما کانت ہذہ تقاتل‘ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے بعض ناجائز جنگی اقدامات کا علم ہونے پر فرمایا کہ ’اللہم انی ابرا الیک مما صنع خالد‘۔ پھر ظاہر ہے کہ اگر کسی اخلاقی اصول کی خلاف ورزی انفرادی سطح پر ہوئی ہے تو شرعی حکم اسی دائرے تک محدود رہے گا اور اگر بحیثیت مجموعی پوری جنگ کے پیچھے ایک سنگین اخلاقی تجاوز کار فرما ہے تو حکم بھی اسی سطح پر لگے گا۔
ابو عمار زاہد الراشدی
میرے تبصرے کے اس حصے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جو جنگ شرعاً جواز کا درجہ رکھتی ہے، اسے جہاد قرار دینے میں کون سی بات مانع ہے؟ جنگ کی تمام صورتوں کو محدثین نے جہاد کے ابواب میں بیان کیا ہے اور وہ جہاد ہی کے مختلف درجات اور شکلیں ہیں۔ یہ بات مجھے حدیث وفقہ کے ذخیرے میں کہیں نظر نہیں آئی کہ ایک جنگ شرعی طور پر تو جائز ہے، مگر اسے جہاد نہیں کہا جا سکتا۔ میرا تاثر یہ ہے کہ جہاد سے انکار کی ایک محتاط صورت یہ بھی ہے کہ جہاد سے انکار تو نہ کیا جائے، لیکن اس کی عملی صورت کو اس طرح محدود کر دیا جائے کہ وہ کسی درجے میں قابل عمل نہ رہے۔
جنگی اخلاقیات اور کسی شرعی فریضہ کے قابل عمل ہونے کی صورتیں ہر دور میں اس دور کے تقاضوں کے مطابق پاتی ہیں، اس لیے طالبان یا عرب مجاہدین کی جنگی پالیسیوں کو ہمیں آج کے معروضی تناظر اور اجتماعی اخلاقیات کی بنیاد پر دیکھنا ہوگا، آج کی مجموعی صورت حال میں ان کی شرعی حیثیت کا تعین کرنا ہوگا اور جنگ کے تمام فریقوں کے طرز عمل کو سامنے رکھ کر موقف طے کرنا ہوگا۔
حضرت خالد بن ولید یا بعض دیگر صحابہ کرام کے واقعات پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نکیر فرمائی ہے، وہ شخصی واقعات کے حوالے سے ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایسی غلطی کرنے والے حضرات نے جس جنگ میں یہ غلطی کی ہے، وہ جنگ ہی سرے سے جہاد نہیں رہی۔ یہ خوارج کا اسلوب ہے کہ جو اعلیٰ درجے کا مسلمان نہیں ہے، وہ سرے سے مسلمان ہی نہیں ہے۔ اس موقف میں بھی اسی اسلوب کی جھلک دکھائی دیتی ہے کہ جو اعلیٰ درجے کا جہاد نہیں، وہ سرے سے جہاد ہی نہیں ہے۔ جہاد کے مختلف درجات ہیں اور متنوع اسالیب ہیں اور جو جنگ شرعاً جائز ہے، اسے جہاد قرار دینے میں کوئی اصولی رکاوٹ موجود نہیں ہے۔
محمد عمار خان ناصر
اس بحث میں بنیادی طور پر دو گروہوں یعنی طالبان اور القاعدہ کا کردار اور طرز عمل شرعی واخلاقی تناظر میں زیر بحث رہا ہے۔ جہاں تک طالبان اور بن لادن کے باہمی روابط کا تعلق ہے تو اس ساری بحث میں ایک بے حد اہم نکتہ طرفین کی طرف سے نظر انداز کیا گیا، یعنی یہ کہ طالبان کی طرف سے بن لادن کی سرگرمیوں کی نگرانی بلکہ اس پر مقدمہ چلانے کے حوالے سے تعاون کی پیش کش بھی موجود تھی۔ ایک اخباری اطلاع کی حد تک یہ بات میرے علم میں تھی، لیکن میرا تاثر یہ تھا کہ طالبان کی طرف سے یہ بات نائن الیون کے بعد کی صورت حال میں کسی مرحلے پر محض دفع الوقتی کے طور پر کہی گئی ہوگی، لیکن کل ہی برادرم شاہد حنیف صاحب نے مجھے اس موضوع پر کچھ مواد بھیجا ہے جس میں طالبان کے اس وقت کے سفری سفیر سید رحمت اللہ ہاشمی صاحب کی ایک تقریر بھی شامل ہے جو انھوں نے ۱۰؍ مارچ ۲۰۰۱ء کو لاس اینجلس میں یونی ورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا میں اساتذہ اور طلبہ کے سامنے کی۔ اس کا اردو ترجمہ ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ کراچی کے نومبر ۲۰۰۱ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس میں انھوں نے دوسرے بہت سے سوالات کے علاوہ دہشت گردی کی سرپرستی کے الزام کے ضمن میں بھی طالبان حکومت کے موقف کی وضاحت کی ہے۔ اسامہ بن لادن کی حوالگی کے مسئلے پر رحمت اللہ ہاشمی کہتے ہیں:
’’ہم اس معاملے میں بہت کھلے ذہن کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ اگر یہ آدمی واقعی کینیا اور تنزانیہ کے واقعات میں ملوث ہے، اگر کوئی ہمیں ان بھیانک واقعات میں اس کے ملوث ہونے کے شواہد دے دے تو ہم اسے سزا دیں گے، لیکن کسی نے ہمیں ثبوت نہیں دیے۔ ہم نے پینتالیس دن اس پر مقدمہ چلایا اور کسی نے ہمیں کسی قسم کا ثبوت نہیں دیا۔ امریکہ نے ہمیں کہا کہ ہمیں آپ کے عدالتی نظام پر اعتبار نہیں ہے۔ .... چنانچہ ہماری پہلی تجویز مسترد کر دی گئی۔ کہا گیا کہ ہمیں آپ کے عدالتی نظام پر بھروسہ نہیں ہے اوریہ کہ ہمیں لازماً اسامہ کو نیو یارک بھیجنا ہوگا۔
اس پہلی تجویز کے مسترد کیے جانے کے بعد ہم نے کہا کہ ہم اس بات پر تیار ہیں کہ ایک بین الاقوامی مانیٹرنگ گروپ افغانستان بھیجا جائے اور اسامہ کی نگرانی کی جائے تاکہ کوئی ایسی کارروائی دوبارہ نہ ہو سکے، اگرچہ اس کے پاس مواصلاتی نظام بالکل نہیں ہے، لیکن ہماری یہ تجویز بھی مسترد کر دی گئی۔
چھ ماہ پیشتر ہم نے تیسری تجویز دی اور وہ کہ ہم اسامہ بن لادن پر کسی تیسرے ملک میں سعودی عرب اور پاکستان کی رضامندی سے مقدمہ چلانے کے لیے تیار ہیں۔ یہ تجویز بھی مسترد کر دی گئی۔
ہم پھر بھی ابھی تک کھلے ذہن کے ساتھ سوچ رہے ہیں اور اب چوتھی بار میں اپنی اعلیٰ قیادت کی طرف سے ایک خط لے کر آیا ہوں جو میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو عنقریب پیش کر دوں گا، اس امکان پر کہ شاید وہ مسئلے کا حل نکالیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ وہ ایسا کریں گے۔‘‘ (البلاغ، نومبر ۲۰۰۱ء، ص ۲۹، ۳۰)
بعض دوسری رپورٹوں سے، جن میں سے بعض کا میں سابقہ بحث میں حوالہ دے چکا ہوں، یہ پتہ چلتا ہے کہ بن لادن کے خلاف باقاعدہ قانونی ثبوت نہ ہونے کے باوجود اس کے عزائم اور اہداف کے پیش نظر طالبان نے بیرونی دنیا کے ساتھ اس کے رابطوں کو محدود کرنے کا اقدام کیا بلکہ اسے کسی دوسرے ملک میں بھیج دینے کامعاملہ بھی زیر غور آیا۔ نائن الیون کمیشن رپورٹ میں درج اطلاعات اور مواد سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ ملا محمد عمر، بن لادن کی طرف سے امریکہ کے خلاف جہاد کے فتوے جاری کرنے اور حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کے خلاف تھے اور اپنی حد تک وہ بن لادن کو اس سے روکنے کی کوشش بھی کرتے رہے، البتہ وہ عالمی دباؤ کے سامنے سر جھکاتے ہوئے بن لادن سے تعلق ختم کرنے یا اسے سعودی عرب یا امریکہ کے سپرد کرنے پر آمادہ نہ ہو سکے۔ تاہم رحمت اللہ ہاشمی کی مذکورہ تقریر سے یہ پہلو واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ طالبان کی طرف سے بن لادن کو ہر قیمت پر تحفظ دینے کی کوشش نہیں کی گئی، بلکہ وہ نائن الیون سے بہت پہلے اس کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے، اسے دہشت گردی کی منصوبہ بندی سے روکنے اور اس پر لگائے جانے والے الزامات کی عدالتی تحقیق کے لیے عالمی برادری کو مسلسل تعاون کی پیش کش کرتے رہے، لیکن نہ تو ان تجاویز پر توجہ دی گئی اور نہ کوئی ایسی متبادل تجویز پیش کی گئی جس میں ایک آزاد ریاست کے طور پر طالبان کا اطمینان بھی شامل ہوتا۔ اس صورت حال میں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ طالبان کو بعض وقتی اور محدود سیاسی مصالح کی قربانی دیتے ہوئے بن لادن کے معاملے میں زیادہ مضبوط، دو ٹوک اور ذمہ دارانہ موقف اختیار کرنا چاہیے تھا، لیکن انھیں القاعدہ کے پروگرام کے ساتھ ہمدردی یا اس کی خفیہ تائید کا مجرم بہرحال نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ مذکورہ پہلو سامنے آنے کے بعد طالبان کی حکمت عملی پر سخت تحفظات کے باوجود، میرے خیال میں ان کی موجودہ مزاحمت کی شرعی حیثیت کے بارے میں اشکال کی شدت نمایاں طور پر بہت کم ہو جاتی ہے، خاص طور پر جب یہ بات بھی سامنے رکھی جائے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ کی طرف سے عالمی برادری اور مسلم دنیا کو کوئی متبادل حل تلاش کرنے کی مہلت اور موقع بالکل نہیں دیا گیا اور انتقام کے جوش میں طاقت کے اندھا دھند استعمال کو ہی واحد حل قرار دے دیا گیا۔
البتہ جہاں تک جنگی اخلاقیات اور قوانین وضوابط کے حوالے سے ’’عرب مجاہدین‘‘ کے طریقے کو آج کے ’’معروضی تناظر‘‘ اور ’’تمام فریقوں کے طرز عمل‘‘ کی روشنی میں دائرۂ جواز میں شمار کرنے کا تعلق ہے تو آپ کا موقف میرے لیے الجھن کا باعث ہے۔ اگر تو یہ بات امریکہ وغیرہ کے اخلاقی طرز عمل کے جواب میں محض الزامی طور پر کہی جائے تو اس کا ایک محل ہے، بلکہ اسلامی یونیورسٹی میں جناب مشتاق احمد کی کتاب ’’جہاد، مزاحمت اور بغاوت‘‘ کی تقریب رونمائی میں، میں نے کہا تھا کہ جنگ کے ایک فریق کی طرف سے جنگی اخلاقیات کی سنگین پامالی کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسرے فریق کو یک طرفہ طور پر بد اخلاقی کا مجرم ٹھہرانا میرے نزدیک بجاے خود بد اخلاقی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن اس سے آگے بڑھ کر القاعدہ کے فلسفہ جنگ کو باقاعدہ شرعی جواز فراہم کرنا خود آپ کی اپنی سابقہ تصریحات کی روشنی میں میرے لیے ناقابل فہم ہے۔ اگر تو آپ کے سابقہ زاویہ نظر میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے تو اس کی وضاحت ہونی چاہیے، ورنہ ۲۰۰۲ء میں دہشت گردی سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک سوال نامہ کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ:
’’چوتھا سوال یہ ہے کہ اگر کسی طبقہ کے کچھ افراد نے ظلم کیا ہے تو کیا مظلوموں کو یہ حق حاصل ہے کہ اس طبقے کے دوسرے افراد کو انتقام کا نشانہ بنائیں جو اس عمل میں شریک نہیں تھے؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ جہاں تک غیر متعلقہ لوگوں کو انتقام کا نشانہ بنانے کا تعلق ہے، اسلام اس کی کسی صورت میں اجازت نہیں دیتا۔ یہ بھی اسی طرح کا ظلم ہوگا جس کا وہ مظلوم خود نشانہ بن چکے ہیں۔ البتہ ظالموں کے خلاف کارروائی کے دوران کچھ لوگ ناگزیر طور پر زد میں آتے ہوں تو ان کا معاملہ مختلف ہے۔ ‘‘ (الشریعہ، اکتوبر ۲۰۰۲، ص ۸)
’’عالم اسلام کی ان عسکری تحریکات سے بھی گفتگو کی ضرورت ہے جو مختلف محاذوں پر مصروف کار ہیں اور جنہیں دہشت گرد قرار دے کر ان کو کچلنے کا عمل مسلسل جاری ہے۔ ان تحریکات کی قیادتوں کو دو باتیں سمجھانے کی ضرورت ہے۔ ایک یہ کہ ہر مسئلے کا حل ہتھیار نہیں ہے اور نہ ہی ہر جگہ ہتھیار اٹھانا ضروری ہے۔ جہاں کسی مسئلہ کے حل کا کوئی متبادل راستہ موجود ہے، اگرچہ وہ لمبا اور صبر آزما ہی کیوں نہ ہو، وہاں ہتھیار سے کام لینا ضروری نہیں ہے بلکہ بعض صورتوں میں شاید شرعاً جائز بھی نہ ہو۔ ہتھیار تو آخری حربہ ہے۔ جہاں اور کوئی ذریعہ کام نہ دیتا ہو اور کسی جگہ مسلمانوں کا وجود اور دینی تشخص حقیقی خطرات سے دوچار ہو گیا ہو تو آخری اور اضطراری حالت میں ہتھیار اٹھانے کی گنجائش نکل سکتی ہے، اس لیے اضطرار بلکہ ناگزیر اضطرار کے بغیر ہتھیار کو ہاتھ میں نہ لیا جائے۔
دوسری بات ان سے یہ عرض کرنے کی ہے کہ آزادی، تشخص اور خود مختاری کے لیے اضطرار کی حالت میں قومیں ہتھیار اٹھایا کرتی ہیں۔ یہ زندہ قوموں کا شعار ہے اور آزادی کی عسکری تحریکات سے دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے، لیکن غیر متعلقہ لوگوں کو نشانہ بنانا اور بے گناہ لوگوں کا خون بہانا نہ شرعاً جائز ہے اور نہ ہی دنیا کا کوئی اور قانون وضابطہ اس کی اجازت دیتا ہے۔ ان تحریکات کو اس حوالے سے شرعی احکام وقوانین کی پابندی کا ایک بار پھر عہد کرنا چاہیے اور شرعی احکام بھی وہ نہیں جو خود ان کے ذہن میں آ جائیں بلکہ وہ قوانین وضوابط جو امت کے اجماعی تعامل وتوارث کے ساتھ تسلیم شدہ چلے آ رہے ہیں اور جنہیں وقت کے اکابر علما وفقہا کی طرف سے ضروری قرار دیا جا رہا ہو۔ اس کے بغیر کوئی بھی تحریک اور جدوجہد تمام تر خلوص وجذبہ اور ایثار وقربانی کے باوجود خلفشار پیدا کرنے کا باعث بنے گی اور اس سے اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی ہوگی اس لیے ایسی تحریکات کو کسی بھی ایسی بات سے قطعی طور پر گریز کرنا چاہیے جو:
- معروف اور مسلمہ شرعی اصولوں کے مطابق نہ ہو۔
- جس سے مسلمانوں کی مشکلات میں بلاوجہ اضافہ ہوتا ہو۔
- جو اسلام کے لیے بدنامی کا باعث بن سکتی ہو۔
- اور جس سے خود ان تحریکات کی قوت کار اور دائرہ عمل متاثر ہوتا ہو۔‘‘ (ص ۹)
جب آپ خود لڑائی میں حصہ نہ لینے والے لوگوں پر حملوں کو ’’ظلم‘‘، ’’شرعاً ناجائز‘‘ اور ’’معروف اور مسلمہ شرعی اصولوں‘‘ کے خلاف کہہ کر ان پر تنقید کر رہے ہیں اور جہادی تحریکات کو اس حوالے سے ’’شرعی احکام وقوانین کی پابندی کا ایک بار پھر عہد‘‘ کرنے کی تلقین فرما رہے ہیں تو آخر میں نے اس سے مختلف کون سی بات کہی ہے؟ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کسی جنگ میں شخصی سطح پر شرعی ضابطوں کی خلاف ورزی سے ’’یہ لازم نہیں آتا کہ ایسی غلطی کرنے والے حضرات نے جس جنگ میں یہ غلطی کی ہے، وہ جنگ ہی سرے سے جہاد نہیں رہی‘‘ تو مجھے اس بات سے پورا اتفاق ہے، لیکن صورت حال یہ ہے کہ القاعدہ کے طرز جنگ میں ایسے واقعات شخصی نہیں بلکہ ان کے فلسفہ جنگ کا باقاعدہ حصہ ہیں اور وہ دشمن کے حربی اہداف کے ساتھ ساتھ ان کے عام شہریوں کو نشانہ بنانے کو بھی مستقلاً جائز قرار دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں، میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ القاعدہ کی دہشت گردی کی کارروائیوں کو شخصی خلاف ورزی کہہ کر ان کے طرز جنگ کو ’’جہاد‘‘ ہونے کی سند عطا کرنا کس اصول کی رو سے درست ہے۔
میرا خیال ہے کہ اس بحث کے حوالے سے سبھی زاویہ ہائے نگاہ خاصی وضاحت کے ساتھ سامنے آ چکے ہیں، اس لیے مناسب ہے کہ آپ اب تک کی بحث کے رخ کو سامنے رکھتے ہوئے بحث کو مزید آگے بڑھانے کے لیے قابل تنقیح نکات کے حوالے سے اختتامی سطور تحریر فرما دیں تاکہ اس بحث کو سمیٹا جا سکے۔
ابو عمار زاہد الراشدی
میرے خیال میں بحث اب بہتر رخ کی طرف پیش رفت کر رہی ہے، البتہ اس کے بہت سے پہلووں پر ابھی مزید گفتگو کی گنجائش بلکہ ضرورت موجود ہے۔
عرب مجاہدین کی جدوجہد کے بارے میں میرا موقف اب بھی وہی ہے جس کا سطور بالا میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سوال نامہ کے جواب کے حوالے سے ذکر ہوا ہے اور میں اسے ان الفاظ میں دوبارہ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں:
- اپنے مقاصد کے حوالے سے ان کی یہ جدوجہد جائز بلکہ ان کا حق ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجوں کی موجودگی اور کردار کے خلاف جدوجہد کریں اور عرب ممالک کی قومی خود مختاری کی بحالی کی آواز اٹھائیں۔
- ان کی عسکری جدوجہد میں غیر متعلقہ لوگوں اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانے کی پالیسی پر میرے بھی تحفظات ہیں اور جو لوگ جنگ میں براہ راست شریک نہیں ہیں، انھیں کسی تاویل کے ساتھ شریک جنگ قرار دے کر نشانہ بنانے کو بھی میں درست نہیں سمجھتا۔
- عسکری جدوجہد کرنے والے گروپوں کو، خواہ وہ غلطی پر ہی ہوں، ہر حال میں کچل دینے اور ختم کر دینے کی پالیسی منصفانہ نہیں ہے، بلکہ ان کے ساتھ مذاکرات اور گفتگو کے ذریعے انھیں سمجھانے اور راہ اعتدال پر لانے کی ضرورت ہے۔
- جس عمل کو مسلسل دہشت گردی کہا جا رہا ہے، اس کے اسباب اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والوں کے یک طرفہ طرز عمل اور کاروائیوں نظر انداز کر دینا یا سرسری انداز مین اس کا ذکر کر کے آگے بڑھ جانا بھی قرین انصاف نہیں ہے۔ اس فریق کے طرز عمل اورمبینہ دہشت گردی کے اسباب وعوامل کی نشان دہی اور انھیں ہر سطح پر اجاگر کرنا ضروری اور انصاف کا تقاضا ہے۔
- میرے نزدیک اس سارے کنفیوژن کی بنیاد یہ ہے کہ دہشت گردی کی کوئی مسلمہ تعریف طے کیے بغیر اس کے خلاف جنگ کا بگل بجا دیا گیا ہے، ا س لیے جب تک معروضی حقائق کی بنیاد پر دہشت گردی کی کوئی متفقہ تعریف طے نہیں کر دی جاتی اور جہاد، دہشت گردی اور قومی آزادی کی جنگ میں فرق کو واضح کر کے اسے عالمی سطح پر تسلیم نہیں کر لیا جاتا، اس وقت تک یہ کنفیوژن باقی رہے گا اور اس کے تلخ ثمرات دنیا تب تک سمیٹتی رہے گی۔
بہرحال یہ بحث نہ صرف مفید بلکہ وقت کا تقاضا ہے جس میں شریک ہونے والے سب حضرات کا میں ذاتی طور پر بھی شکر گزار ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ خالصتاً علمی انداز اور افہام وتفہیم کے ماحول میں اسے جاری رکھا جائے گا۔
مکاتیب
ادارہ
(۱)
(زیر نظر مکتوب کی اشاعت سے مقصود زیر بحث مسئلے پر کسی کلامی مناقشے کی دعوت دینا نہیں، بلکہ محض علمی مسائل میں اختلافی تعبیرات کے حوالے سے وسعت نظرکے پہلو کو اجاگر کرنا ہے۔ مدیر)
مکرمی ومحترمی حضرت مولانا مفتی عبد الشکور ترمذی صاحب دامت مکارمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عذاب قبر کے متعلق آنجناب کا محققانہ مضمون عرصہ سے آیا ہوا ہے، مگر مطالعہ کا موقع نہ مل رہا تھا۔ حال میں اس کا حرفاً حرفاً مطالعہ کیا۔ ماشاء اللہ بہت مفید مضمون ہے۔ احقر کو بہت فائدہ ہوا، البتہ اس کے مطالعہ سے احقر اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب عذاب قبر کے علی الاطلاق منکر نہیں بلکہ برزخ میں روح کے عذاب وثواب کے قائل ہیں۔ جسد عنصری کے ساتھ روح کے عذاب وثواب کے قائل نہیں، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ یہ عالم برزخ کا عذاب اجسام مثالیہ کی وساطت سے روح پر وارد ہوتا ہے۔ یہ بات اگرچہ جمہور اہل سنت کے مسلک کے خلاف ہے، لیکن کسی نص صریح کے بھی خلاف ہے؟ یہ بات اس مضمون سے ثابت نہیں ہوتی۔
پھر مولانا موصوف کا یہ قول بھی آنجناب نے نقل فرمایا ہے کہ عالم برزخ میں تعلق روح بابدان عنصریہ کے بارے میں سکوت سب سے احوط مسلک ہے، کیونکہ قرون مشہود لہا بالخیر میں تعلق کا کوئی ذکر اذکار نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جسد عنصری کے ساتھ روح پر عذاب کی نفی پر بھی ان کو اصرار نہیں، ہاں اثبات کے دلائل سے بھی وہ مطمئن نہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ اس مضمون کے پڑھنے سے یہ بات سامنے آئی کہ ان کا مسلک اتنا غلط اور بے بنیاد نہیں جتنا کہ یہ سننے سے سمجھا تھا کہ ’’وہ عذاب قبر کے منکر ہیں۔‘‘ بہرحال ان کا مسلک علماء دیوبند اور جمہور سے مختلف ضرور ہے۔ اگر قرآن کریم یا سنت کی کوئی نص صریح صحیح ان کے مسلک کے ابطال پر آنجناب کے علم میں آئی ہو تو ضرور مطلع فرمائیں۔
یہ سطور بہت عجلت میں حوالہ قلم کی ہیں۔ فرو گذاشت درگزر فرما کر ممنون فرمائیں۔ دعا کی درخواست ہے۔
(مولانا مفتی) محمد رفیع عثمانی
(بشکریہ مجلہ ’’الحقانیہ‘‘ ساہیوال، ستمبر ۲۰۱۰ء)
(۲)
محترم ومکرم حضرت مولانا ابو عمار زاہد الراشدی صاحب مدظلہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں اور دینی خدمات صدق واخلاص کے ساتھ ترقی پذیر ہوں۔ آمین
یہ عریضہ ایک ضروری امر کی طرف توجہ مبذول کرانے کی خاطر آنجناب کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ یہ کہ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے جولائی ۲۰۱۰ء کے شمارے میں حکیم ظل الرحمن صاحب کا ایک مضمون بعنوان ’’فتاویٰ کے اجراء میں احتیاط کی ضرورت‘‘ شائع ہوا ہے جس میں موصوف نے حضرت والد ماجد مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے ایک موقعہ پر طلاق ثلاثہ کے مسئلے میں اہل حدیث کے مسلک پر تحریری فتویٰ دینا منسوب کیا ہے۔ بندے کے علم میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات تحقیق کے بغیر لکھی گئی ہے۔ ان سے پوچھنا بھی چاہیے ان کی اس حکایت کا ماخذ کیا ہے؟ نیز مسئلے کی حساس نوعیت کے پیش نظر آنجناب سے موصوف کو اس پر متنبہ فرمانے کی درخواست ہے کہ ایسے حساس مسائل پر بلا تحقیق قلم اٹھانے سے گریز فرمائیں۔ نیز چونکہ اس قسم کے مسائل پر تبصرہ یا گفتگو جب عوام تک پہنچتی ہے تووہ اکثر الجھن کا شکار ہوتے ہیں اور بات کو اس کے سیاق سے ہٹ کر سمجھنے لگتے ہیں۔ اس لیے بندے کا نہایت ادب کے ساتھ مخلصانہ مشورہ ہے کہ آیندہ ایسے مضامین کو ’’الشریعہ‘‘ میں شامل نہ کیا جائے، نیز اگلے شمارے میں ذکر کردہ واقعہ کے بارے میں وضاحت شائع فرمانے کی بھی درخواست ہے۔
امید ہے کہ ان مودبانہ گزارشات پر جناب والا ضرور توجہ فرمائیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آنجناب کی دینی خدمات میں ترقی عطا فرمائیں۔ آمین۔ بندے کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد فرمانے کی درخواست ہے۔
بندہ محمد تقی عثمانی
جامعہ دار العلوم کراچی
(۳)
محترم عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الشریعہ اگست ۲۰۱۰ء میں آپ کا دلچسپ اورمعلومات افزا سفرنامہ لبنان ’’حزب اللہ کے دیس میں‘‘ نظر سے گزرا جس میں آپ نے اہل تشیع کے حوالے سے عمدہ معلومات فراہم کی ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ اگر ممکن ہو تو اپنے بیان کو مزید مفصل فرمائیں جس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔
اس میں آپ نے ایک جگہ مولانا مودودیؒ سے یہ بات منسوب کی ہے کہ ’’غالباً مولانا مودودی نے کسی مغربی ملک کے سفر سے واپسی پر یہ تبصرہ کیا تھا کہ وہاں کی ہر چیز پھیکی ہے، یہاں تک کہ عورتیں بھی۔‘‘ دست بستہ عرض ہے کہ مولانا سے اس کا انتساب درست نہیں۔ خود آپ نے یہ بات ’’غالباً‘‘ سے شروع کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اس بات کا یقین نہیں کہ بات مولانا نے کہی ہے۔ اسی ’’غالباً‘‘ سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ یہ بات سنی سنائی ہے۔ ویسے بھی یہ بات بے معنی ہے۔ مغرب کی ہر چیز پھیکی نہیں ہے او رعورتوں کا پھیکا ہونا ان سے لطف اندوز ہونے والا ہی بیان کر سکا ہے جبکہ مولانا دو دفعہ بیماری کی حالت میں وہاں گئے اور وہ وہاں پاکستانی کھانا ہی کھاتے رہے۔ میرا خیال ہے کہ جس بات کا یقین نہ ہو تو اس کو مجہول کر دینا زیادہ مناسب ہے تاکہ اللہ کی پکڑ سے بچا جا سکے، جیسے کہ ایک عالم نے یا اہل علم نے یا اہل دین نے یہ فرمایا۔
شمس الرحمن
نزد اسلامیہ کالج، کراچی
’’نقد فراہی‘‘
ادارہ
مولانا حمید الدین فراہیؒ کا نام گرامی برصغیر کے علمی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ قرآن مجید کے فہم وتدبر کے باب میں مجتہدانہ انداز فکر کی بدولت مولانا علیہ الرحمۃ کی ایک امتیازی شان ہے اور اہل علم کا ایک مستقل حلقہ مولانا کے علمی وتحقیقی کام کے زیر اثر انھی کے منہج پر قرآنی علوم ومعارف کی خدمت کا تسلسل قائم رکھے ہوئے ہے۔ مولانا فراہی کی بلند پایہ تحقیقات کو جہاں اہل علم کے ہاں غیر معمولی پذیرائی ملی، وہیں قدرتی طور پر ان کی بعض منفرد اور اچھوتی آرا نقد وجرح کا موضوع بھی بنیں، بلکہ ان میں سے بعض تو اہل علم کے مابین معرکہ آرا بحثوں کا عنوان بھی بن گئیں۔ ایسی کم وبیش سبھی آرا کے پس منظر میں یہ اصولی بحث کارفرما ہے کہ تفسیر وحدیث کے ذخیرے میں موجود ان روایات کا علمی درجہ اور ان سے استفادہ کا صحیح منہج کیا ہے جو قرآن مجید کی آیات کے مطالب یا ان کے پس منظر پر مختلف حوالوں سے روشنی ڈالتی ہیں۔ مولانا فراہی کے منہج فکر میں ایسی روایات تفسیر کے ماخذ کے طور پر بنیادی نہیں، بلکہ ثانوی درجہ رکھتی ہیں اور انھیں قبول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خود قرآن کے داخلی نظام اور متن کی اندرونی دلالتوں کی حاکمیت ان پر قائم رکھی جائے، چنانچہ انھوں نے اپنے فہم کے مطابق اس معیار پر پورا نہ اترنے والی متعدد تفسیری روایات کو جو اس سے پہلے عام طور پر مستند سمجھی جاتی تھیں، قبول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ ان پر شدید تنقید کی۔ ظاہر ہے کہ اس پر علمی بحث ومناقشہ کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔
زیر نظر کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس کے مصنف ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی بھارت کی معروف علمی شخصیت ہیں جو متنوع علمی موضوعات پر پچاس سے زائد کتابوں کے مصنف ہونے کے علاوہ مشہور تحقیقی جریدے ’’تحقیقات اسلامی‘‘ کی ادارت کی خدمت بھی انجام دے رہے ہیں۔ زیر نظر کتاب ان کے پانچ علمی مقالات کا مجموعہ ہے جو مولانا فراہی کے تفسیری منہج اور بعض تفسیری آرا کے تجزیہ وتنقید کے ضمن میں مختلف اوقات میں تحریر کیے گئے اور مختلف علمی جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ اب انھیں افادۂ عام کی خاطر زیر نظر مجموعے میں یکجا کر دیا گیا ہے۔
پہلا مقالہ ’’تفسیر سورۃ الفیل‘‘ کے عنوان سے ہے اور اس میں سورۂ فیل کی تفسیر کے ضمن میں مولانا فراہی کی اس معروف رائے کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے جس کی رو سے ابرہہ کے لشکر پر سنگ باری اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پرندوں نے نہیں بلکہ اہل مکہ نے کی تھی اور اللہ نے تیز وتند ہوا بھیج کر اس سنگ باری میں ایسی طاقت پیدا کر دی تھی جس سے ابرہہ کا پورا لشکر تہس نہس ہو کر رہ گیا۔ مولانا کی رائے میں سورۂ فیل میں جن پرندوں کا ذکر ہوا ہے، وہ مردار خور پرندے تھے جو سنگ باری کے لیے نہیں بلکہ ابرہہ کے لشکر کی لاشوں کو نوچنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ فاضل مصنف نے اس ضمن میں مولانا اور ان کے علمی مویدین کی طرف سے قرآن کے متن اور تاریخی روایات واشعار کے حوالے سے پیش کردہ دلائل وقرائن کا مفصل ناقدانہ جائزہ لیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ واقعہ فیل کی عملی تفصیلات کے حوالے سے عام مفسرین کی رائے ہی درست اور راجح ہے۔
راقم کی نظر میں فاضل مصنف کا اخذ کردہ نتیجہ درست ہے، البتہ دوسرے ناقدین کی طرح انھوں نے بھی زیادہ توجہ مولانا فراہی اور ان کے مویدین کے پیش کردہ تاریخی قرائن وشواہد اور قیاسات پر مرکو ز رکھی ہے جس سے خود قرآن کی زبان، اسلوب اور داخلی قرائن کی روشنی میں اس نقطہ نظر کی کمزوری واضح کرنے کا پہلو دب گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا کا زیربحث نقطہ نظر خود ان کے اپنے تفسیری منہج سے ہٹا ہوا ہے، کیونکہ اس پوری بحث کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ سورۂ فیل میں ’ترمیہم‘ کا فعل پرندوں کے لیے استعمال ہوا ہے یا اہل مکہ کے لیے۔ عام مفسرین اس کا فاعل ’طیرا’ کو قرر دیتے ہیں جبکہ مولانا فراہی کی رائے میں یہ مخاطب کا صیغہ ہے جس کا فاعل قریش ہیں۔ تاہم خود مولانا کے تفسیری اصول کے مطابق تفسیری وتاریخی روایات اور کسی بھی قسم کے خارجی قیاسات سے خالی الذہن ہو کر قرآن کے نفس متن کو پڑھا جائے تو ’وارسل علیہم طیرا ابابیل ترمیہم بحجارۃ من سجیل‘ کا بے تکلف اور متبادر مفہوم یہی بنتا ہے کہ رمی کو طیر سے متعلق قرار دیا جائے۔ کلام کو اس کے بالکل متبادر مفہوم پر محمول کرنا، جب تک کہ اس کے خلاف خود کلام میں کوئی داخلی قرینہ نہ ہو، مولانا کا بلکہ تمام مفسرین کا مسلمہ اصول ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں وہ کون سا قرینہ صارفہ ہے جو ’ترمی‘ کو ’طیرا‘ کے ساتھ متعلق ہونے سے روکتا ہے؟ مولانا اصلاحی نے اس کے جواب میں یہ نکتہ پیش کیا ہے کہ ’’فعل ’ترمی‘ چڑیوں کے لیے کسی طرح موزوں ہے ہی نہیں۔ چڑیاں اپنی چونچوں اور چنگلوں سے سنگ ریزے تو گرا سکتی ہیں، لیکن اس کو رمی نہیں کہہ سکتے‘‘، لیکن یہ ایک کمزور بات ہے، کیونکہ عربی زبان میں کسی فعل کے لیے اس کے نتیجے کے لحاظ سے لفظ استعمال کرنا ایک عام اسلوب ہے۔ پرندوں کا پتھر گرانا فی نفسہ یقیناً ’رمی‘ نہیں ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ تیز وتند ہوا بھیج کر اس سے وہی کام لے لیا جو رمی سے لیا جاتا ہے، چنانچہ اس کے لیے لفظ ’رمی‘ کا استعمال ہر اعتبار سے اسالیب زبان کے مطابق بلکہ بلاغت کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ راقم الحروف نے یہ اعتراض ایک موقع پر استاذ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی کی خدمت میں عرض کیا تو انھوں نے فرمایا کہ لفظ ’رمی‘ کے پرندوں کے لیے ناموزوں ہونے کا نکتہ بنیادی استدلال نہیں بلکہ بہت سے دوسرے قرائن کے ضمن میں ایک تائیدی نکتہ ہے۔ یہ بات درست ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ اس نکتے کے علاوہ خود کلام میں داخلی طو رپر اور کوئی قرینہ ایسا نہیں ہے جو ’ترمی‘ کو ’طیرا‘ سے متعلق ماننے سے روکتا ہو۔ مزید یہ کہ ’ارسل علیہم طیرا‘ کی تعبیر بھی اس صورت میں زیادہ بلیغ اور موثر محسوس ہے جب ان پرندوں کو عذاب الٰہی بنا کر بھیجا گیا ہو، نہ کہ عذاب کا شکار ہونے والے لشکر کی لاشوں کو نوچنے کے لیے۔
دوسری طرف ’ترمی‘ کو مخاطب کا صیغہ مان کر قرآن کے مخاطب اہل مکہ کو اس کا فاعل قرار دینا بھی بالکل تکلف لگتا ہے۔ اسے ’ارایت‘ اور ’الم تر‘ کے اسلوب پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے لفظ رؤیت یا اس کے ہم معنی افعال اس کے پوری طرح متحمل ہیں کہ ان کی نسبت کلام کے ہر مخاطب اور سامع کی طرف کر دی جائے ، جبکہ فعل ’رمی‘ کی نوعیت یہ نہیں ہے۔ اسی طرح اسے ’تقتلون انبیاء اللہ‘ جیسی مثالوں پر بھی قیاس نہیں کیا جا سکتا جہاں عہد نبوی کے یہود کی طرف صدیوں پہلے ان کے آباواجداد کے ارتکاب کردہ جرم کی نسبت کی گئی ہے، کیونکہ اس اسلوب میں کسی گروہ کو بحیثیت گروہ مخاطب بنایا جاتا ہے اور اس کے لیے جمع کا صیغہ لایا جاتا ہے نہ کہ واحد کا، چنانچہ اگر سورۂ فیل میں یہ اسلوب اختیار کرنا پیش نظر ہوتا تو ’ترمیہم‘ کے بجائے ’ترمونہم‘ کا صیغہ استعمال کیا جاتا۔ خلاصہ یہ کہ عام مفسرین کی اختیار کردہ رائے کلام سے بالکل متبادر طو ر پر مفہوم ہے اور اس کے خلاف کوئی قرینہ صارفہ موجود نہیں، جبکہ مولانا فراہی کی تاویل کی صورت میں کلام میں ایک ایسا اسلوب فرض کرنا پڑتا ہے جو غیر معروف اور غیر مانوس ہے اور بعض ملتے جلتے اسالیب پر قیاس کے علاوہ بعینہ اس اسلوب کی کوئی نظیر کم از کم قرآن میں موجود نہیں۔ ان نکات کی روشنی میں، راقم کے نزدیک مولانا فراہی کی زیربحث تاویل خود ان کے اپنے تفسیری اصول سے متجاوز قرار پاتی ہے۔
بہرحال مصنف نے متعدد پہلووں سے اس رائے پر عمدہ علمی نقد کیا ہے، لیکن توازن کو ملحوظ رکھتے ہوئے بعض ناقدین کی طرح مولانا کی اس راے کے ڈانڈے انکار معجزات یا نیچریت کے ساتھ ملانے کے بجائے (جس کا کوئی جواز اس لیے نہیں کہ مولانا کی بیان کردہ صورت یعنی اہل مکہ کی سنگ باری سے اصحاب فیل کے تہس نہس ہو جانے میں بھی معجزے کا پہلو پوری طرح پایا جاتا ہے) اس کے وجود میں آنے کا سبب یہ متعین کیا ہے کہ ’’اشعار عرب کے وسیع وعمیق مطالعہ کے نتیجہ میں مولانا کے ذہن میں عربوں کی اخلاقی عظمت، شجاعت وبہادری، شہ سواری اور شمشیر زنی کی تصویر مرتسم ہو گئی تھی، اس لیے ان کو شبہ ہوا کہ انھوں نے لشکر ابرہہ سے ضرور مقابلہ آرائی کی ہوگی۔‘‘ (ص ۴۲)
’’تفسیری روایات‘‘ کے زیر عنوان دوسرے مقالے میں تفسیری روایات سے متعلق مولانا فراہی کے زاویہ نظر کو موضوع بنایا گیا ہے اور ان کے اصولی مسلک کے علاوہ تفسیری روایات کی تنقید کے مختلف پہلو بھی مثالوں کے ساتھ واضح کیے گئے ہیں۔ مصنف نے بتایا ہے کہ مولانا کے ہاں بعض روایات سے غلط استشہاد کی مثالیں موجود ہیں۔ اسی طرح مولانا نے اپنے زاویہ نگاہ کے تحت بہت سی صحیح روایات کو رد جبکہ بعض ضعیف روایات کو قبول کیا ہے۔ مصنف نے اپنی تحقیق کا حاصل یہ بتایا ہے کہ ’’تفسیر قرآن میں تفسیری روایات جتنی اہمیت کی مستحق تھیں، مولانا فراہیؒ نے انھیں اتنی اہمیت نہیں دی ہے۔‘‘ راقم کی رائے میں تفسیری روایات اور خاص طو رپر شان نزول کی روایات کو، چاہے ان کی سند صحیح ہو، زیادہ اہمیت نہ دینے کے معاملے میں مولانا فراہی اصولی طو رپر منفرد نہیں ہیں۔ یہ مسلک تفسیر بالماثور کے منہج کے مطابق اگرچہ نہیں، لیکن ایک مستقل تفسیری مسلک کے طو رپر اکابر مفسرین کے ہاں اس کی نمائندگی ملتی ہے۔ البتہ اس معاملے میں یقیناًمولانا فراہی سے اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ جن مخصوص روایات کو انھوں نے رد کیا ہے، وہ فی الواقع قرآن کی داخلی دلالتوں کے منافی ہیں بھی یا نہیں۔
’’حدیث فہمی‘‘ کے عنوان سے تیسرے مقالے میں مولانا فراہی کے ہاں حدیث کے فہم اور اس سے علمی استفادہ کے متنوع پہلووں پر روشنی ڈالی گئی ہے، جبکہ ’’کچھ احادیث سے غلط استدلال‘‘ اور ’’کچھ احادیث کی صحت سے انکار‘‘ کے ذیلی عنوانات کے تحت بعض آرا پر تنقید بھی کی گئی ہے۔ اسی مقالے میں ’ویعلمہم الکتب والحکمۃ‘ کی تفسیر میں مولانا فراہی کی اس رائے پر بھی تنقید کی گئی ہے کہ یہاں ’الکتاب‘ سے مراد قرآن اور ’الحکمۃ‘ سے مراد سنت نہیں، بلکہ ’الکتاب‘ سے مراد قرآن مجید میں بیان کیے جانے والے احکام وقوانین جبکہ ’الحکمۃ‘ سے مراد عقائد، اخلاق فاضلہ اور حکمت شریعت ہے، گویا یہ دو الفاظ قرآن مجید ہی کے دو مختلف پہلو رکھنے والے مضامین کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ مولانا نے اپنی اس رائے کے تفصیلی دلائل اپنی کتاب ’’مفردات القرآن‘‘ میں بیان کیے ہیں، تاہم مصنف کو اس سے اتفاق نہیں ہے۔ یہاں مصنف کی تنقید سرسری اور غیر اطمینان بخش محسوس ہوتی ہے اور دیگر نکات کے علاوہ مولانا فراہی کا یہ نکتہ بے حد قابل غور دکھائی دیتا ہے کہ حدیث وسنت میں حکمت پائے جانے کے باوجود اس کے لیے خاص طور پر ’الحکمۃ‘ کا عنوان اختیار کرنا اس لیے موزوں نہیں کہ اس میں قوانین اور احکام بھی بکثرت موجود ہیں۔ راقم کا طالب علمانہ رجحان یہ ہے کہ ’یتلوا علیہم آیاتہ‘ کے بعد ’ویعلمہم الکتب والحکمۃ‘ کو قرآن کے مضامین کے ساتھ مخصوص ماننے یا ’الحکمۃ‘ کا مصداق خاص طور پر سنت کو قرار دینے کے بجائے ان دونوں الفاظ کو عموم پر رکھتے ہوئے ’الکتاب‘ سے احکام وقوانین جبکہ ’الحکمۃ‘ سے عقائد واخلاق وغیرہ مراد لینا زیادہ موزوں ہے، خواہ یہ قرآن میں وارد ہوئے ہوں یا حدیث وسنت میں، کیونکہ آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کار منصبی کی وضاحت کی گئی ہے اور آپ نے احکام شریعت اور حکمت دین کی تعلیم امت کو قرآن کی صورت میں بھی دی ہے اور سنت اور حدیث کی صورت میں بھی۔
چوتھے مقالے میں مصنف نے مولانا فراہی کی ایک ناتمام اور غیر مطبوعہ تصنیف ’’احکام الاصول باحکام الرسول‘‘ کے بعض اقتباسات کا ترجمہ پیش کیا ہے جو ڈاکٹر معین الدین اعظمی کے پی ایچ ڈی کے مقالے ’’الفراہی واثرہ فی تفسیر القرآن‘‘ سے ماخوذ ہیں۔ مولانا نے اس کتاب میں حدیث اور قرآن کے باہمی تعلق کے مختلف پہلووں پر اپنے اصولی نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے اور احادیث کے ذریعے قرآن میں نسخ یا تخصیص کے نظریے کی تردید کرتے ہوئے ایسے تمام احکام کو قرآن مجید پر مبنی اور ان سے ماخوذ قرار دیا ہے۔ اسی کتاب میں مولانا نے زانی کے لیے سزاے رجم کے قرآن کی آیت محاربہ پر مبنی ہونے کی وہ مشہور رائے ظاہر کی ہے جسے بعد میں مولانا امین احسن اصلاحی نے زیادہ شرح وبسط کے ساتھ ’’تدبر قرآن‘‘ میں پیش کیا اور جو ایک زور دار علمی مباحثے کا عنوان بنی رہی۔ مصنف نے اس مختصر مقالے میں مولانا کی ان آرا پر کوئی تعلیق یا تبصرہ کرنے کے بجائے صرف اقتباسات کا ترجمہ کرنے پر اکتفا کی ہے۔
کتاب کا آخری مقالہ ’’مناسک حج کی تاریخ‘‘ کے زیر عنوان ہے اور اس میں صفا ومروہ کی سعی، رمی جمار اور سیدنا اسماعیل کو ذبح کرنے کے حوالے سے حضرت ابراہیم کے خواب سے متعلق مولانا فراہی کی مخصوص آرا کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی بعض مرفوع روایات کی بنیاد پر عام رائے یہ ہے کہ صفا ومروہ کے مابین سعی حضرت ہاجرہ کی اس بھاگ دوڑ کی یاد میں کی جاتی ہے جو انھوں نے سیدنا اسماعیل کے لیے پانی کی تلاش میں کی جبکہ جمرات پر کنکر مارنا حضرت ابراہیم کے شیطان کو پتھر مارنے کی یاد کو تازہ کرتا ہے۔ مولانا فراہی نے ان روایات پر تنقید کرتے ہوئے متبادل توجیہ یہ پیش کی ہے کہ صفا ومروہ کی سعی کی رسم دراصل حضرات ابراہیم کی اس دوڑ دھوپ کی علامت ہے جو انھوں نے راہ خدا میں کی جبکہ جمرات کی رمی شیطان کے بجائے ابرہہ کے لشکر پر اہل مکہ کی طرف سے کی جانے والی سنگ باری کی یادگار ہے۔ اسی طرح ان کے خیال میں حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے سے متعلق جو خواب دیکھا، وہ ایک تمثیلی خواب تھا اور اس میں انھیں بیٹے کو حقیقتاً ذبح کرنے کا نہیں بلکہ راہ خدا میں نذر کر دینے اور خدا کے گھر کی خدمت کے لیے وقف کر دینے کا حکم ہوا تھا جسے انھوں نے ظاہری اور لفظی مفہوم میں لے کر اس پر عمل کرنا چاہا۔ مولانا فراہی کی مذکورہ آرا کی تائید مولانا شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی کے ہاں بھی ملتی ہے۔ مصنف نے ان آرا پر نقد کرتے ہوئے نہایت قابل غور علمی سوالات اٹھائے ہیں اور مقبول عام موقف کی عمدہ اور مضبوط ترجمانی کی ہے۔ (رؤیائے ابراہیمی کے مفہوم ومطلب کے حوالے سے مذکورہ رائے کی تنقید میں جناب مولانا ارشاد الحق اثری نے بھی ایک فاضلانہ مقالہ سپرد قلم کیا ہے جو چند ماہ قبل ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور میں قسط وار شائع ہوا ہے۔)
۲۱۶ صفحات کے مختصر حجم پر مشتمل یہ کتاب عمدہ علمی نکات اور قابل مطالعہ مواد پر مشتمل ہے جس سے قرآنی علوم کے شائقین کو ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔ مصنف کا تنقیدی اسلوب علمی، مدلل اور سلجھا ہوا بھی ہے اور متعلقہ علمی مباحث پر ان کی پختہ گرفت کا آئینہ دار بھی۔ البتہ یہاں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مولانا فراہی اور ان کے علمی کام کا اصل تعارف سورۂ فیل کی تفسیر یا مناسک حج وغیرہ سے متعلق ان کی منفرد آرا نہیں۔ ان کی مرجوح اور علمی طو رپر کمزور آرا کو یقیناًنقد وجرح کا موضوع بننا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ یہ توازن بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ مولانا قرآنی علوم ومعارف کے ایک بلند پایہ محقق ہیں اور کئی پہلووں سے ان کے افادات وتحقیقات نے قرآن پر غور وفکر کے بالکل نئے باب وا کیے ہیں۔ فاضل مصنف نے اسی تناظر میں کتاب کے ’’پیش لفظ‘‘ میں یہ برمحل وضاحت کی ہے کہ: ’’وہ شخص بڑا نادان ہوگا جو ان سے یہ تاثر قائم کرے کہ ان میں مولانا فراہیؒ کی تنقیص اور ان کی عظمت کو داغ دار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان مقالات سے ان کی عظمت پر کوئی حرف آنے والا نہیں ہے۔ انھوں نے تدبر قرآن کی جو جوت جگائی ہے اور قرآن کریم کو تمام علوم میں مرکزی مقام دینے کی جو تحریک برپا کی ہے، اس کی بنا پر وہ بجا طو رپر عہد حاضر کے امام قرار پاتے ہیں۔‘‘ (ص ۱۲)
کتاب عمدہ کاغذ پر معیاری انداز میں طبع کی گئی ہے۔ اس کی قیمت ۱۰۰ روپے درج ہے اور اسے دج ذیل پتے سے طلب کیا جا سکتا ہے:
مکتبہ اسلام، نشیمن مارکیٹ، میڈیکل کالج روڈ، علی گڑھ۔۲۰۲۰۰۲
(تبصرہ نگار: محمد عمار خان ناصر)
گلے کے کینسر کا ایک اچھوتا نسخہ
حکیم محمد عمران مغل
یہ طریق علاج جس کو ہم طب مشرق کہتے ہیں، ہزاروں سال پرانا ہے لیکن اس قدامت کے باوجود اس میں مکمل تازگی ہے۔ ایک طویل عرصہ تک اس کا زندہ رہنا اور دو سو سال تک مکمل غیر ملکی اقتدار کو سوتیلے سلوک کو برداشت کرنا اس کی جان پر دال ہے۔ اسپین، سسلی اور اٹلی کے ذریعے سے عربوں کے علوم سارے مغرب میں پھیلے۔ اس حقیقت کو خود مغرب کے مفکرین، محققین اور مصنفین بھی مانتے ہیں کہ عرب اطبا دنیا موجودہ طب اور سائنس کے پیش رو اور امام ہیں اور ہم مقتدی۔ خلیفہ مامون نے بغداد میں بیت الحکمت قائم کر کے دنیا بھر سے کتابیں منگوائیں اور ان کا عربی میں ترجمہ کروایا۔ ابن رشد، زہراوی، ابن بیطار، جابر بن حیان، ابن سینا، رازی نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر جو موتی اکٹھے کیے، انھیں خاندان شریفی نے کمال محنت اور ایمان داری سے اگلی نسلوں تک پہنچایا۔ ان بزرگ اطبا کے اقوال سے اشارے یک جا کر کے میں نے گلے کے کینسر کا معما حل کیا ہے۔ اگرچہ کتب طبیہ میں کچھ رد وبدل کے ساتھ یہ نسخہ پیٹ کے امراض کے لیے تجویز کیا گیا ہے، لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ دوسراپیش خدمت ہے۔
اس میں تازہ تمہ (حنظل) شرط ہے۔ تازہ تمہ کو آلووں کی طرح اوپر سے چھیل لیں۔ پھر کتر کر کسی بڑے برتن یا پرات میں ڈال لیں۔ اگر ایک کلو کترا ہوا تمہ ہو تو اس میں چاروں اجوائنیں (ول، کرفس، دیسی، خراسانی) ملا کر اس طرح شامل کریں کہ ایک کلو تمے کے مقابلے میں یہ چاروں اجوائنیں آدھا کلو ہوں،مگر اجوائن خراسانی ایک تولہ سے زیادہ نہ ہو۔ باقی وزن تین اجوائنیں ڈال کر پورا کریں۔ اگر اجوائنیں آدھا کلو سے کچھ زیادہ بھی ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ اسے آٹا گوندھنے کے طریقے سے گوندھیں۔ برتن تمہ کے پانی سے بھر جائے گا، اسے گرنے نہ دیں۔ ایک دو دن کے وقفے سے یہ گارا کیچڑ کی شکل اختیار کر لے گا۔ اب محنت کر کے اس کے بیج چن کر پھینک دیں۔ پھر پلاسٹک کی شیٹ پر ڈال کر سائے میں پھیلا دیں اور صبح وشام اسے الٹ پلٹ کرتے رہیں۔جب بالکل پتھر کی مانند خشک ہو جائے تو باریک کر کے کیپسول میں بھر لیں۔
میں نے اس نسخے سے بڑے پیچیدہ امراض کا علاج کیا ہے۔ یہ نسخہ بدن میں باقی جگہ بھی کام کرے گا، ان شاء اللہ، لیکن گلے میں، میں نے اسے خوب آزمایا ہے۔ یہ میری ذاتی تحقیق ہے۔ علاوہ ازیں تمام بلغمی امراض اور پیٹ کے امراض کو بیخ وبین سے اکھاڑتا ہے۔ باقی فوائد پھر عرض کروں گا۔
خوراک: کھانے کے بعد صبح وشام ایک بڑا کیپسول یا دو چھوٹے کیپسول سادہ پانی سے کھا لیں۔ پانی ہمیشہ تازہ اور سادہ ہو، کسی بھی طریقے سے ٹھنڈا نہ کیا گیا ہو۔ بازاری شربت اور بوتلیں اور پیکٹوں میں بند تمام اشیا ہمیشہ کے لیے ترک کر دیں۔
نومبر ۲۰۱۰ء
ہمارے معاشی مسائل اور مفتی محمودؒ کے افکار و خیالات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
آج کی نشست میں پاکستان کے معاشی مسائل کے بارے میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے چند ارشادات وافکار کو پیش کیا جا رہا ہے جو مولانا ڈاکٹر عبدالحکیم اکبری (گومل یونیورسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان) کی کتاب ’’مولانا مفتی محمودؒ کی علمی، دینی وسیاسی خدمات‘‘ سے ماخوذ ہیں۔ اس مرد درویش کے خیالات وارشادات ملاحظہ فرمائیے اور اس کی فراست وبصیرت پر اسے خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان فاصلوں کو بھی دیکھنے کی کوشش فرمائیے جو ان کی وفات کو صرف دو عشرے گزرنے کے ساتھ ہی ہمارے اور ان کے درمیان نہ صرف دکھائی دے رہے ہیں بلکہ دن بدن بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
مولانا مفتی محمودؒ فرماتے ہیں:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک میں سب سے اہم مسئلہ ملک کی ۹۰ فیصد آبادی کے بڑے طبقے اور غریب عوام کے مسائل ہیں جو ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں جنہیں اپنے وطن میں نہ مکان میسر ہے، نہ خوراک نہ لباس اور نہ زندگی کی دوسری سہولتیں میسر ہیں اور وہ یقیناًحیوانات سے بھی بدتر زندگی گزاررہے ہیں۔ جب تک ان کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، اس وقت تک پاکستان میں کسی کو امن وسکون حاصل نہیں ہوگا ۔اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ ایک عام مسلمان تو پاکستان میں محنت کرنے کے باوجود اپنے بچوں کا پیٹ نہ پال سکے اور بھوک اور فاقہ کشی کی زندگی گزارتا رہے جبکہ چند انسان یہاں خرمستیاں کرتے پھریں۔ خلیفۂ دوم حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ اگر ایک کتا بھی فرات کے کنارے بھوک سے مرتا ہے تو قیامت کے دن عمر(رضی اللہ عنہ) سے اس کا سوال کیا جائے گا۔‘‘
’’اس کے لیے بنیادی طورپر زمینداروں اور کارخانوں کے مسائل کا حل کرنا ضروری ہے ۔اسلام میں یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ غیرآباد زمین کو آباد کرنے والا شرعاً اس کا مالک ہوتا ہے۔ اس اصول کے مطابق وہ تمام زمینیں جوقریب کے زمانے میں آباد ہوئی ہیں ،ان کے آبادکار مزارعین ان زمینوں کے مالک قرار دیے جائیں اور قدیم آباد زمینوں سے متعلق یہ تحقیق کی جائے کہ آیا یہ اراضی کسی جائز طریقے سے حاصل کی گئی تھیں یا انگریزوں نے ’’حق الخدمت‘‘ میں بطور جاگیر کے کسی کو عطا کی تھیں؟ اگر ایسا ہے تو ایسی تمام اراضی کو لازماً واپس لے کر بے زمین لوگوں میں تقسیم کردیاجائے۔ اگر مزارعین کو اس کے باوجود مظلومیت محسوس ہوتو کوئی بھی اسلامی حکومت ضرورت کے تحت مزارعت کے سسٹم کو ناجائز قرار دے سکتی ہے ۔امام ابوحنیفہ ؒ ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ تینوں امام اس بات پر متفق ہیں کہ مزارعت کا معاملہ جائز نہیں۔ چونکہ مسئلہ مجتہد فیہ ہے، اس لیے ضرورت کے تحت اس کو ممنوع قرارد ینا کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں ہوسکتا‘‘۔
’’رہا بڑے بڑے صنعت کاروں کا مسئلہ تو اس سے متعلق سب سے اچھی صورت یہ ہے کہ حکومت لازمی طور پر مزدوروں کی تنخواہوں کو اس حد تک بڑھادے کہ مزدور کو اپنی محنت کا پورا صلہ مل سکے جس سے اس کی زندگی کی بنیادی ضروریات، بچوں کی تعلیم اور علاج وغیرہ کی حسن وخوبی کے ساتھ کفالت ہوسکے۔‘‘
’’زراعت کو عام کیا جائے ،غیرآباد زمینوں کو آباد کیا جائے، زمینوں کو ناجائز طور پر سیاسی رشوتوں کے لیے الاٹ نہ کیا جائے، زمین بے زمین لوگوں میں الاٹ ہو، آب پاشی کے ذرائع میں توسیع ہو، مشینی آلات کے ذریعہ سے بھی ملکی زراعت کو ترقی دی جاسکتی ہے بشرطیکہ مشینی آلات کے تمام ذرائع اجتماعی طور پر استعمال ہوں، صرف ایک شخص کو یہ اختیارات حاصل نہ ہوں ،اس طرح مزدور کسان بے کار ہوجائیں گے۔‘‘
’’بڑے شہروں میں کارخانوں کے قیام نے دیہات کی ترقی تو کیا ان کے وجود ہی کو خطرے میں ڈال دیا ہے غریب لوگ دیہات سے بھاگ رہے ہیں ،شہروں میں کارخانوں( اور دیگر سرکاری وغیرسرکاری اداروں) میں ملازمت کرتے ہیں، شہروں کے مسائل بھی اس طرح بڑھ جاتے ہیں اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ دیہی ترقیاتی اسکیموں پر زور دیا دیا جائے ،اس لیے کہ ہمارے ملک کی غالب اکثریت دیہی آبادی پر مشتمل ہے، اس کے بغیر ہمارا ملک ترقی نہیں کرسکتا اور اس روش سے ملک کی زرعی معیشت بھی بہت متاثر ہوئی ہے۔‘‘
’’غریبوں سے ہمدردی رکھنے کی بنا پر بعض لوگ ہم پر ’’سوشلسٹ مولوی‘‘ ہونے کاالزام لگاتے ہیں حالانکہ اسلام غریبوں کا حامی اور مددگار بن کر آیا ہے۔ ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق غریبوں کی مشکلات دور کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، ہم پاکستان میں سرمایہ داری کی حفاظت کے لیے اسلام کا نام استعمال نہیں ہونے دیں گے، سرمایہ داری کے ظالمانہ نظام کی حفاظت کے خواہاں اور امریکی سامراج کی مدد سے پاکستان کو ترقی دینے کے دعویدار پاکستان اور اس کے عوام کے دشمن ہیں۔‘‘
’’موجودہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت جس میں غریب، غریب تر اور امیرامیرتر بنتے جارہے ہیں ،اسے بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکناچاہیے، مغربی استعماری نظام، مغرب زدہ ظالمانہ نظام ہمارے تمام مسائل کی بنیاد ہے جب تک اس کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، اس وقت تک معاشرے میں فلاح کا کوئی تصور بے سود ہے، بے کار ہے، خام خیالی ہے۔‘‘
’’سادگی اختیار کی جائے، وزیراپنا نمونہ پیش کریں، اپنے گھروں کی تزیین وآرائش پر ہزاروں روپے خرچ نہ کریں، ڈرائنگ روم میں قیمتی صوفوں کی بجائے چٹائی کیوں نہیں بچھائی جاسکتی؟ اور بیڈروم میں نفیس پلنگوں کی بجائے عام چارپائی کیوں کام نہیں دے سکتی؟ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ شہری علاقوں میں بڑے مکانوں کی تعمیر پر پابندی لگائی جائے۔ تین سو گزسے زیادہ مکان کسی صورت میں نہ بننے دیا جائے۔ ہمارے اکثر ملکی قوانین ایسے ہیں جو رشوت کا دروازہ کھولتے ہیں اور لوگوں کے مصائب میں اضافہ کرتے ہیں، ان کا جائزہ لے کرہر قانون میں چوردروازے بند کیے جائیں۔ رشوت بدعنوانی پر کڑی سزائیں دی جائیں اور ان کا قلع قمع کیا جائے۔ شلوار قمیص کی حوصلہ افزائی ہو، سرکاری ملازم دفتر میں قومی لباس پہن کر آئیں۔ اس طرح غیرملکی لباس جو نفسیاتی رعب داب عطا کرتا ہے اس سے نجات مل جائے گا۔ ایسے ضوابط بنائے جائیں کہ جھوٹ چھاپا یا لکھا نہ جاسکے۔ جھوٹ ایک زہر ہے، جو معاشرہ کی اچھائیوں کو ڈس لیتا ہے بے حیائی اور فحاشی کی روک تھام ہو اور ذرائع ابلاغ کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔‘‘
’’ہم پاکستان کے غریب عوام، کسانوں، مزدوروں، طالب علموں اور تمام آدمیوں کو اس سطح پر لانا چاہتے ہیں جہاں پاکستان کے تمام مسلمان عملاً بھائی بھائی نظر آسکیں اور یہ اس وقت ممکن ہوگا جبکہ بے لاگ طور پر ملک میں قرآن وسنت کے احکام نافذ کردیے جائیں ،خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم کے عہد کا عملی نمونہ اختیار کرلیاجائے اور ملک سے سیاسی، اقتصادی اور معاشی ظلم وجبر کا خاتمہ کردیا جائے۔‘‘
قرآن مجید میں قتلِ خطا کے احکام ۔ چند توجہ طلب پہلو
پروفیسر میاں انعام الرحمن
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن یَقْتُلَ مُؤْمِناً إِلاَّ خَطَئاً وَمَن قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَئاً فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ إِلَی أَہْلِہِ إِلاَّ أَن یَصَّدَّقُواْ فَإِن کَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّکُمْ وَہُوَ مْؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَإِن کَانَ مِن قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ إِلَی أَہْلِہِ وَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃً فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْْنِ مُتَتَابِعَیْْنِ تَوْبَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْماً حَکِیْماً (النساء ۰۴/ ۹۲)
’’کسی مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسرے مومن کو قتل کرے، سوائے یہ کہ اس سے خطا ہو جائے۔ اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو ایک مومن گردن آزاد کر ے اور مقتول کے گھر والوں کودیت دے مگر یہ کہ وہ صدقہ کردیں۔ لیکن اگر وہ مومن مقتول کسی ایسی قوم سے تھا جس سے تمہاری دشمنی ہو تو ایک مومن گردن کا آزاد کرنا ہے اور اگر وہ کسی ایسی قوم کا فرد تھا جس کے ساتھ تمہارا میثاق ہو تو اس کے وارثوں کو خون بہادیا جائے گا اورایک مومن گردن کو آزاد کرنا ہو گا۔ پھر جو نہ پائے، وہ پے در پے دو مہینے کے روزے رکھے۔ یہ اس گناہ پر اللہ سے توبہ کرنے کا طریقہ ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔‘‘
اس آیت میں قتل خطا کی تین صورتوں کو بیان کیا گیا ہے اور تینوں مقامات پر سزا کی ایک صورت (فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ) ’’ تو ایک مومن گردن آزاد کرے ‘‘ تکرار کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ البتہ پہلے اور تیسرے مقام پر، بیان میں ترجیح کا فرق ضرور پایا جاتا ہے اور ظاہر ہے عملی و اطلاقی سطح پر ، مقصودو مطلوب میں بھی اس ترجیح کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ پہلے مقام پر (فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ) کا بیان پہلے اور دیت یا اس کو صدقہ کرنے کا ذکر (وَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ إِلَی أَہْلِہِ إِلاَّ أَن یَصَّدَّقُواْ) بعد میںآیا ہے ۔
پہلے مقام (وَمَن قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَئاً فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ إِلَی أَہْلِہِ إِلاَّ أَن یَصَّدَّقُوا) میں دیت کے بیان کے ضمن میں إِلاَّ أَن یَصَّدَّقُوا مقتول کے ورثا سے اسی اخلاقی قوت کا تقاضا کر رہا ہے جس کا ذکر’’قرآن مجید میں قصاص کے احکام‘‘ (المائدۃ۵/۴۵) کے ضمن ہمارے سابقہ مضامین (ماہنامہ الشریعہ ستمبر، اکتوبر ۲۰۰۸، فروری ۲۰۰۹ء) میں ہو چکا۔ قابلِ غور امر یہ ہے کہ البقرۃ آیت ۱۷۸ میں مذکور (فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَان) کے برعکس یہاں براہ راست وَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ إِلَی أَہْلِہِ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ دونوں مقامات پر بیان کا یہ نمایاں فرق ظاہر کرتا ہے کہ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوف کے مخاطب بنیادی طور پر مقتول کے ورثا ہیں اور وَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ إِلَی أَہْلِہِکامخاطب قاتل ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ النساء آیت ۹۲ میں مقتول کے ورثا کو، ایک فریق کے طور پر، البقرۃ آیت۱۷۸ کے ورثا جیسی اہمیت نہیں دی گئی، بلکہ مقتول کے ورثا کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی معروف کی اتباع کا حکم دیے بغیر، قاتل کو مسلمہ دیت کی ادائیگی کا فرمان جاری کیا گیا ہے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ البقرۃ آیت۱۷۸ (فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَان) کے مفاہیم ، قانونی تسلط کے بجائے سماجی واخلاقی دباؤ پر دلالت کرتے ہیں اورفریقین گفت و شنید کے ذریعے معاملہ سلجھاتے نظر آتے ہیں۔
اس کے برعکس النساء آیت ۹۲ (وَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ إِلَی أَہْلِہ) میں اخلاقی دباؤ کے بجائے قانونی تسلط پایا جاتا ہے اوربغیر کسی گفت و شنید کے، قاتل کو قانونی جبر کے تحت دیت کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک اعتبار سے یہ قانونی جبر (دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ) مقتول کے ورثا سے چشم پوشی کی تلافی بھی کرتا نظر آتا ہے۔ اگرچہ اس کے بعد إِلاَّ أَن یَصَّدَّقُواْ کے الفاظ میں (المائدۃ ۵:۴۵کے مانند) مقتول کے ورثا کو دیت چھوڑ دینے کی بے انتہا ترغیب دی گئی ہے، لیکن اس سے قبل ایک مومن گردن کو آزاد کرنے (فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ) کے ضمن میں کسی قسم کی چھوٹ نہیں رکھی گئی جس سے شارع کا مقصود واضح ہو جاتا ہے کہ مومن گردن لازماً آزاد ہو اور دیت کو (تقریباً لازماً) چھوڑ دیا جائے ۔ شارع کے منشا کی مزید تصریح آیت کے اگلے حصے سے ہو جاتی ہے: فَإِن کَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّکُمْ وَہُوَ مْؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ (’’ لیکن اگر وہ مومن مقتول کسی ایسی قوم سے تھا جس سے تمہاری دشمنی ہو تو ایک مومن گردن کا آزاد کرنا ہے‘‘)۔ یہاں دیت کا سرے سے ذکر ہی نہیں، کیونکہ مقابل صرف غیر مسلم قوم نہیں بلکہ برسر پیکار قوم ہے ۔ اس لیے ان مخصوص حالات میں دیت کی ادائیگی کو کم زوری پر محمول کیا جائے گا اور پھر ہو سکتا ہے کہ حالت جنگ کی وجہ سے دشمن نے ایسا ضابطہ نافذ کر رکھا ہو جس کی وجہ سے وہ دیت کی پوری رقم بحق سرکار ضبط کرکے مسلمانوں ہی کے خلاف استعمال کر جائے یا پھر دشمن نے اپنے قانونی ڈھانچے میں یہ بات اصولی طورپر شامل کر رکھی ہو کہ دیت وغیرہ سے ملنے والی رقم کا ایک خاص فی صد سرکاری خزانے میں جمع کرانا لازمی ہے۔ اس لیے شارع نے مقتول کے مومن ہونے کے باوجود دیت کا حکم یہاں لاگو نہیں کیا جس سے شارع کا واقعیت پسندانہ رجحان (مثالی احکامات دینے کے بجائے انسانی احوال و ظروف کو پیشِ نظر رکھ کرفرمان جاری کرنا) سامنے آتا ہے۔ اب چونکہ اس مقام پر دیت کا حکم نہیں دیا گیا اور نہ ہی اس کا کوئی متبادل بتایا گیا ہے، اس لیے ایک مومن گردن آزاد کرنے میں بھی کوئی گنجایش باقی نہیں رکھی گئی ۔ آیت کے اس سے اگلے حصے میں پہلے دو حصوں سے مختلف بیان ہے: وَإِن کَانَ مِن قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ (’’اور اگر وہ کسی ایسی قوم کا فرد تھا جس کے ساتھ تمہارا میثاق ہو‘‘)۔ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ مقتول لازمی طور پر مومن نہیں ہے، کیونکہ پہلے دو مقامات پر مقتول کے مومن ہونے کا باقاعدہ ذکر کیا گیا ہے جبکہ یہاں نہیں کیا گیا۔
اہم بات یہ ہے کہ یہاں دیت کی ادائیگی کا حکم پہلے دیا گیا ہے اور مومن گردن آزاد کرنے کا بعد میں اور کسی قسم کی چھوٹ، معافی یا گنجایش کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ دیت کی ادائیگی کے حوالے سے آیت کے دونوں مقامات (پہلے اور تیسرے) پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ پہلے مقام پر قاتل و مقتول ایک ہی قوم سے ہیں، اس لیے وہاں مومن گردن آزاد کرنے کا بیان پہلے ہوا ہے کہ اس پر زور دینا مقصود ہے۔ ایک تو اس لیے کہ قاتل کے عمل کی تلافی ہو جائے، دوسرا اس لیے کہ تلافی کی ایسی صورت کو معاشرتی اصلاح کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس سلسلے میں معاشرے میں موجود ایسے غالب استحصالی رویوں کا قلع قمع کیا جائے جنہیں ناگزیر خیال کرتے ہوئے ریاست نے بھی اداروں کی شکل دے دی ہو۔(اس لیے دشمن قوم کے مومن مقتو ل کے بیان میں بھی مومن گردن آزاد کرنے کا حکم دیا گیا)۔ اس بیان کے بعد دیت کی ادائیگی اور اس کی معافی کے تذکرے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصول کی سطح پر’’ دیت‘‘ کا حکم دینے کے باوجود مقصود کی سطح پر ’’صدقہ‘‘ رکھنے کے خاص معانی ہیں۔یہ معانی استحصالی رویوں کے خاتمے سے آگے بڑھ کر، پہلی سطح پر خالصتاً قانونی انداز میں عدل و انصاف کی ریاستی قدر کی طرف لے جاتے ہیں اور دوسری سطح پر بے غرضانہ معافی کے عمل سے معاشرے کو اعلیٰ اخلاقی قدروں سے روشناس کراتے ہیں۔ جہاں تک تیسرے مقام کا تعلق ہے جہاں دیت کا ذکر پہلے ہوا ہے (صدقہ کی آپشن کے بغیر) اور مومن گردن آزاد کرنے کا بیان بعد میں تو اس کی وجہ بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔ جس قوم سے میثاق کیا گیا ہو، اس کا مطلب ہے وہ ایک الگ منفرد قوم ہے ، اس لیے اس قوم کے مقتول کی دیت کی ادائیگی کا حکم پہلے بیان ہوا ہے کہ دیت فی الفور ادا کر دی جائے، باقی رہا مومن گردن آزاد کرنا تو یہ گھر کا مسئلہ ہے، اسے بعد میں دیکھا جا سکتا ہے۔
پہلے اور تیسرے مقام پر حکم کی ترتیب میں فرق صراحت کرتا ہے کہ مومنین میثاق کو انتہائی سنجیدگی اور حساسیت سے لیں، حتیٰ کہ میثاق کے مقابلے میں داخلی مسائل یا مومنین کا باہمی طرزِ عمل (گردن آزاد کرنا وغیرہ) ثانوی سطح پر رکھے جانے چاہییں۔ چونکہ میثاق والی قوم غیر مسلم ہے، اس لیے اس کو ’’صدقہ ‘‘ کرنے کی آپشن نہیں دی گئی، لیکن معافی کے لیے ’’صدقہ‘‘ کے علاوہ کسی دوسرے لفظ سے بھی دیت چھوڑنے کی آپشن رکھی جا سکتی تھی۔ آخر شارع نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ ہماری رائے میں اس کے پیچھے حکمت غالباً یہ ہے کہ چونکہ میثاق کے دو فریق ہیں اور دونوں الگ الگ قومیں ہیں، اس لیے کسی ایسے واقعہ کے رونما ہونے کے بعدطرفین میں ’’قومی حمیت‘‘ کا جذبہ بھڑک سکتا ہے، اس لیے دیت کے حکم کے ساتھ اگر چھوٹ کی گنجایش بھی رکھی جائے تو ایک تو مسلم قوم (خاص طور پر اگر وہ طاقت ور ہو )دیت کی ادائیگی سے انکاری ہو سکتی ہے اور دوسرا، میثاق والی قوم نفسیاتی طور پر خود کو مستقل دباؤ میں محسوس کرتی کہ معافی کی آپشن ہوتے ہوئے اسے خیر سگالی کے جذبے کے تحت لازماً معاف کر دینا چاہیے اور اس جبری خیر سگالی کے نتیجے میں طرفین کے تعلقات میں آہستہ آہستہ کشیدگی در آتی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر میثاق والی قوم اپنے طور پر دیت چھوڑ دینا چاہے تو کیا اسے اس کی اجازت ہے؟ ہماری رائے میں قرآنی بیان اس کا جواب نفی میں دیتا ہے۔ چونکہ میثاق والی قوم الگ اور منفرد ہے، اس لیے اس کی اخلاقی حالت کو اس حد تک سنوارنے کی ذمہ داری ہم پر نہیں ہے جس حد تک ’’صدقہ‘‘ کے بیان کے ضمن میں اخلاقی حالت کی بہتری کی طرف قرآنی اسلوب ہمیں لے جاتا ہے ۔ ( کہ اسے دخل در معقولات سمجھا جائے گا اور نتیجہ میثاق کی کم زوری کی صورت میں رونما ہو گا)۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک الگ منفرد قوم کے ساتھ عدل کی بنیاد پر قانونی لب و لہجہ میں ہی معاملات طے کیے جا سکتے ہیں نہ کہ اعلیٰ اخلاقیات کے ایجابی نظم سے۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ میثاق والی قوم کی اخلاقی تربیت بالکل بھی ملحوظ نہیں رکھی گئی۔ دیت کی لازمی ادائیگی سے ان کو ایک خاص حد تک یہ اخلاقی پیغام دے دیا جاتا ہے کہ میثاق والی قوم کے فرد کی جان، انسانی حوالے سے ، کسی بھی اعتبار سے اور کسی بھی سطح پر کم تر نہیں ہے جس سے لازمی طور پر اس قوم میں انسانی جان کی حرمت اور عدل کی ہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ لیکن اس سارے عمل کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کسی غیر مسلم قوم سے ایسا میثاق نہیں کیا جائے گا جس میں کوئی ایسی شق شامل ہو جس میں اس قوم کے مقتول کے بدلے میں دیت کو چھوڑ کر یا دیت سمیت کوئی اور حکم لگایا گیا ہو۔ اس آیت کے بین السطور قرآن کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ بین الاقوامی تعلق یا میثاق میں (البقرۃ آیت۱۷۸، المائدۃ آیت۴۵ جیسا) احسان و صدقہ پر مبنی حکم مسائل کے حل کے بجائے آگ بھڑکا سکتا ہے، اس لیے اخلاقی اور عملی اعتبار سے عدل پر مبنی واضح اور ٹھوس حکم ہی کسی میثاق کی پائیداری کی ضمانت ثابت ہو سکتا ہے کہ اس قسم کے کسی حکم سے فریقین میں سے کسی کی حق تلفی کا اندیشہ موجود نہیں رہے گا۔ (کسی دوسری قوم کے ساتھ کیے گئے میثاق کی اہمیت کے لیے دیکھیے النساء۴:۹۰، الانفال۸:۷۲)۔
یہاں ضمناً ایک نکتے کی صراحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ عدل کا خمیر اخلاقیات سے ہی اٹھا ہے، اس لیے اس کا جواز عارضی وقتی یا زمانی ومکانی اقدار و ضروریات کے بجائے اخلاقیات کے دوائر (چاہے مذہبی یا سیکولر) میں تلاش کرنا چاہیے۔ اندریں صورت عدل کی بنیاد پر میثاق کی بجاآوری یا میثاق کی بنیاد پر عدل کا قیام، ایک اخلاقی قدر کی ظاہری صورت قرار دی جا سکتی ہے۔ اسی سلسلے میں ایک ضروری گزارش یہ ہے کہ اخلاقی اقدار کی درجہ بندی میں عدل کا مقام پہلے آتا ہے اور احسان و معافی کا بعد میں۔ اس لیے کسی تہذیب میں عدل اخلاقی اعتبار سے اس کا ابتدائی دور ظاہر کرتاہے اور احسان و صدقہ ترقی یافتہ دور کو۔ یہی بات فر د کی بابت بھی سچ ہے کہ اس کا اخلاقی وجود عدل کے مرحلے سے نشوونما پا کر احسان و صدقہ کی منازل تک رسائی پاتا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی تہذیب کے افراد کی غالب اکثریت اگر احسان و صدقہ کو قبولیتِ عامہ کے شرف سے نوازے، تبھی وہاں حقیقی و عملی اعتبار سے ان اقدار کی تنفیذ ممکن ہو سکتی ہے، وگرنہ نہیں۔ اب یہ تو ممکن ہے کہ کسی مخصوص تہذیب کے افراد (جو اگرچہ مختلف ذہنیتوں کے حامل ہوں) عدل کے مانند بتدریج احسان و صدقہ پر بھی یک سو ہو جائیں، لیکن مختلف تہذیبوں کے مختلف ذہنیتوں کے حامل افراد کا احسان و صدقہ جیسی ترقی یافتہ ا قدار پر یک سو ہونا خاصا دشوار ہے۔ کہ تہذیبیں یکساں اخلاقی درجے پر فائز نہیں ہوتیں، کیونکہ ہر تہذیب کی منفرد داخلی ساخت اور افراد کی منفرد عمومی نفسیات تہذیبی خلیج کا باعث بنتے ہیں۔ البتہ آج کی عالم گیریت کی فضا میں کم از کم یہ سوال اٹھانا ممکن ہے کہ کیا کوئی ’’عالمی تہذیب‘‘ وجود میں آسکتی ہے؟ اور کیا وہ عدل کے مانند احسان و صدقہ سے بھی بہرہ مند ہو سکتی ہے؟ بہرحال، مسلم تہذیب کا تاریخی مطالعہ ہمیں تجرباتی بنیاد وں پر اس امر سے روشناس کراتا ہے کہ احسان و صدقہ جیسی جملہ اقدار کی داعی کوئی تہذیب داخلی و باطنی وسعتوں کی حامل ہوتی ہے۔ مثلاً ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے باوجود اس وقت کی مسلم تہذیب کی داخلی وسعتوں نے شکست کو فتح میں بدل دیا۔ اگر اس وقت کی مسلم تہذیب احسان و صدقہ جیسی اقدار کی حامل نہ ہوتی تو ایک خارجی دشمن کو اپنی وسعتوں میں سمونے کے بجائے ردِ عمل میں چنگیزی دیواروں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی۔
یہاں ایک سوال البتہ ضرور اٹھتا ہے کہ ایسی شان دار صفات سے مزین یہ تہذیب آخر ہلاکو کی چنگیزیت کا شکار کیوں کر ہوئی؟ بادی النظر میں اس کا جواب یہی ہے کہ احسان و صدقہ جیسی خصوصیات کسی مہذب مہمان کی ضیافت کا سامان ضرور ہوتی ہیں، لیکن کسی وحشی اور اجڈ حملہ آور کی ہلاکت آفرینیوں کے مقابل فصیل کا کام ہرگز نہیں دے سکتیں۔ اس لیے ترقی یافتہ اخلاق کی حامل تہذیب اگر اپنے ابتدائی اخلاقی دور کی اقدار (عدل وغیرہ) سے مکمل صرفِ نظر کر لے تو کئی للچائی نگاہیں اسے اپنا ’’منظور نظر‘‘ بنا لیتی ہیں۔ لہٰذا اخلاقی اعتبار سے ترقی یافتہ ہونے کے باوجود ایسی تہذیب میں جملہ اخلاقی اقدار کا اپنے اپنے مقام پر موجود ہونا انتہائی ناگزیر ہوتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ عدل وغیرہ کی اہمیت گھر کے دروازے کی سی ہے جسے ہر حال میں مضبوط ہی رکھا جانا چاہیے۔ اگر گھر کی اندرونی آرایش(احسان وصدقہ) کے مانند دروازے پر بھی تزئینی کام مضبوطی(عدل) کی قیمت پر آراستہ کیا جائے گا تو ایسا کرنا فقط آوارہ لفنگوں کو دروازہ پھلانگنے کی دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ یہی قانون فطرت بھی ہے کہ پھول کی ڈالی پر کانٹے پہلے اگتے ہیں اور پھول بعد میں، لیکن پھول کھلنے کے بعد کانٹے ختم نہیں ہوجاتے بلکہ ان کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ لہٰذ ا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح چمن کی حسن و رعنائی کو جلا بخشنے میں کانٹوں کا وجود پھولوں کے مانند بھرپور اخلاقی جواز کا حامل ہوتا ہے، اسی طرح کسی قوم سے میثاق ہونے کے ناطے (احسان و صدقہ کے بجائے) عدل کی بجاآوری پر اصرار اخلاقیات ہی کی پیروی اور ترویج ہے اور اخلاقیات کی یہ جہت کسی بھی حوالے سے سلبی نہیں، بلکہ ہر اعتبار سے ایجابی ہے۔
قابلِ غور امر یہ ہے کہ قتل خطا کی تینوں صورتوں میں قرآن مجید نے مومن گردن آزاد کرنے کا حکم دیا ہے جس سے قرآن کا مقصود نہایت صراحت سے سامنے آتا ہے۔ پھر اس کے متبادل کے طور پر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن خیال رہے کہ یہ متبادل اس معنی میں نہیں کہ ایک مومن گردن آزاد کرو ’’یا‘‘ روزے رکھو، بلکہ جو شخص مومن گردن آزاد کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو، اسی کے لیے روزوں کی آپشن ہے ۔اگر یہاں شارع کی مرادگردن آزاد کرنا’’ یا‘‘ روزے رکھنا ہوتی تو اس کی باقاعدہ تصریح ’أَوْ‘ کے لفظ سے کی جاتی کہ یہی قرآنی اسلوب ہے، مثلاً : فَفِدْیَۃٌ مِّن صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍ (البقرۃ ۰۲/۱۹۶) أَوْ کَفَّارَۃٌ طَعَامُ مَسَاکِیْنَ أَو عَدْلُ ذَلِکَ صِیَاماً (المائدۃ ۰۵/ ۹۵) ۔
زیرِ نظر آیت ( النساء ۹۲) سے ملتا جلتا اسلوب مشتملات کی یکسانیت کے ساتھ ا س مقام پر بھی ملتا ہے :
وَالَّذِیْنَ یُظَاہِرُونَ مِن نِّسَاءِہِمْ ثُمَّ یَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مِّن قَبْلِ أَن یَتَمَاسَّا ذَلِکُمْ تُوعَظُونَ بِہِ وَاللَّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ ۔ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْْنِ مُتَتَابِعَیْْنِ مِن قَبْلِ أَن یَتَمَاسَّا فَمَن لَّمْ یَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْناً ذَلِکَ لِتُؤْمِنُوا بِاللّٰہِِ وَرَسُولِہِ وَتِلْکَ حُدُودُ اللّٰہِ وَلِلْکَافِرِیْنَ عَذَابٌ أَلِیْمٌ (المجادلۃ ۵۸/ ۳، ۴)
’’اور جو لوگ اپنی عورتوں سے ظہار کریں، پھر جو کچھ کہا ہے، اس کی تلافی کرنا چاہیں تو آپس میں تعلقات ازدواجی قائم کرنے سے پہلے ایک گردن آزاد کریں۔ اس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے اور اللہ کو تمہارے سب اعمال کی خبر ہے۔ پھر جسے نہ ملے تو پے در پے دو ماہ کے روزے رکھے قبل اس کے کہ دونوں باہم اختلاط کریں۔ پھر جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلائے۔ یہ اس لیے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو۔ یہ اللہ کی حدیں ہیں اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے ‘‘۔
سورۃ المائدۃ میں ایک مقام پر متبادل اور سہولت، دونوں کا اہتمام کیا گیا ہے:
لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیْ أَیْْمَانِکُمْ وَلَکِن یُؤَاخِذُکُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الأَیْْمَانَ فَکَفَّارَتُہُ إِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِیْنَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَہْلِیْکُمْ أَوْ کِسْوَتُہُمْ أَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ ذَلِکَ کَفَّارَۃُ أَیْْمَانِکُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُواْ أَیْْمَانَکُمْ کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ (المائدۃ ۰۵/ ۸۹)
’’اللہ تمہیں نہیں پکڑتا تمہاری غلط فہمی کی قسموں پر۔ ہاں ان قسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم نے مضبوط کیا تو ایسی قسموں کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا دینا، اپنے گھر والوں کو جو کھلاتے ہو، اس کے اوسط میں سے ، یا انہیں کپڑے دینا یا ایک گردن آزاد کرنا۔ تو جو ان میں کچھ نہ پائے تو تین دن کے روزے۔ یہ کفارہ ہے تمہاری قسموں کا جبکہ تم قسم کھا لو۔ اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ اسی طرح اللہ تم سے اپنی آیات بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو ‘‘۔
بہر حال قتل خطا کی تینوں صورتوں میں مومن گردن آزاد کرنے کا حکم ظاہر کرتا ہے کہ شارع کا منشا یہی ہے کہ ہماری توجہ اسی حکم کی طرف مبذول رہے اور ہم اسی کی تنفیذ کی کوشش کریں۔ روزوں کی آپشن ، متبادل کو نہیں بلکہ ناگزیر حالت میں ایسی سہولت کو ظاہر کرتی ہے کہ اگرمومن گردن کی آزادی ممکن نہ ہو تو پھر کم از کم روزے تو رکھ ہی لینے چاہییں۔ اس لیے مومن گردن کی آزادی تقریباً لزوم کے دائرے میں آ جاتی ہے۔ قرآنی بیان کا قرینہ ہماری رائے کی تصریح کرتا ہے۔ ذرا النساء ۴ آیت ۹۲کو دوبارہ دیکھیے کہ َ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃً کا بیان تین بار کیا گیا ہے جبکہ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْْنِ مُتَتَابِعَیْْنِ کا بیان صرف ایک بار ہوا ہے۔ اگرَ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃً پر زور دینا مقصود نہ ہوتا تو ایسا اسلوب اختیار کیا جا سکتا تھا جیسا فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْْنِ مُتَتَابِعَیْْنِ میں اختیار کیا گیا، یعنی ایک بیان کا، تینوں صورتوں پر اطلاق کر دیا جاتا۔ اس لیے ہر دواعتبار سے کہ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْْنِ مُتَتَابِعَیْْن کو تین بار بیان نہیں کیا گیا اورَ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃً کا بیان ایک بار نہیں کیا گیا، صاف معلوم ہوتا ہے کہ مومن گردن کی آزادی پر شارع کا کتنا زور ہے۔ کسی نکتے پر زور دینے کے لیے تکرار کا ایسا اسلوب قرآن کا خاصا ہے، مثلاً:
فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً ۔ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً (الم نشرح ۹۴/۵ ، ۶)
’’ پس بے شک سختی کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک سختی کے ساتھ آسانی ہے ‘‘
ایسے زوردار قرآنی اسلوب کے باوجود آج کے دور میں مومن گردن آزاد کرنے کے حکم کی بجا آوری کے بجائے مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنے کو ہی قابلِ عمل سمجھا جاتا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے ایسے مقامات کیا محض ’’برکت ‘‘ کے لیے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو خیال رکھنا چاہیے کہ پھرقرآن مجید کا تقریبا دو تہائی حصہ ’’ برکتی تعلیم‘‘ پر مشتمل ہے، لہٰذا عملی طور پر متروک ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ترکِ قرآن کی یہی روش ہمیں تباہی کے دہانے پر لے آئی ہے۔ علمائے دین کی یہ توجیہ کہ کبھی پھر غلامی کا دور آئے گا تب یہ احکامات نافذ کیے جا سکیں گے، ضرورت سے زیادہ سادگی کی حامل ہے ۔ اگر یہ توجیہ مان لی جائے تو ’’بحالی غلامی کی تحریک ‘‘ شروع کرنی چاہیے نہ کہ پوری دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹا جائے کہ اسلام انسانی حقوق کا علم بردار ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ غلامی کی بحالی کی صورت میں صرف غیر مسلم ہی غلام نہیں ہوں گے،بلکہ چونکہ زیرِ نظر آیت میں مومن گردن کی آزادی کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے مسلمانوں کو بھی لازماً غلام بنانا ہوگا۔ سبحان اللہ، کیا حکیمانہ توجیہ ہے! ایسی توجیہ جو اسی آیت میں مذکور ، شارع کے منشا کی زبردست نفی کرتی ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ مومن گردن آزادکرنے کے تکراری حکم میں آخر کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ کیا یہی نہیں کہ معاشرے میں موجود اس استحصالی رویے کو جو ادارے کی سطح پر جا پہنچا ہے ختم کر دیا جائے؟ تو کیا ہمارے شارحین فقہا کرام ماضی کا استحصالی ادارہ بحال کرنے کے بعد اس کے خاتمہ کے خواہاں ہوں گے؟ فرض کریں ایسا استحصالی رویہ پنپنا شروع ہوتا ہے جو غلامی کی طرف لے جانے والا ہو تو کیا ہم اس کی تائید اس لیے کریں گے کہ غلامی کی بحالی کے بعدقرآن کے احکامات پر عمل ممکن ہوسکے گا؟
لہٰذا زیر نظر آیت کی یہ داخلی شہادت ، مومن گردن آزاد کرنے کے حکم کا مصداق دریافت کرنے کی ضرورت کا بھرپور احساس دلاتی ہے ۔ اس سلسلے میں نزولِ قرآن کے زمانے کی معاشرتی ساخت کے تجزیے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس میں موجود غلامی کے ادارے کا جواز، محل اور نوعیت واضح ہو سکے ۔ پھر اس سے حاصل ہونے والے نتائج کو معاصر معاشرے پر منطبق کر کے غلامی کا مصداق دریافت کیا جائے اور قرآنی احکامات کی بر محل تنفیذ کی جائے۔ بہرحال یہ یقینی بات ہے کہ غلامی کے ادارے کے محل،جواز اور نوعیت میں لازمی طور پر اتنے شدید اور کثیر منفی عناصر شامل تھے کہ قرآن نے قانونی حکم کے ذریعے اس کے فوری ظاہری (عارضی) خاتمے کے بجائے بالواسطہ طریق پر مختلف ترہیبات و ترغیبات کے ذریعے اس سے متعلق سماجی رویے کی بیخ کنی کی اور اس ادارے کے استقلال پر کاری ضرب لگائی۔
غور کیجیے کہ اگر مومن گردن آزاد کرنے کی کوئی سبیل نہ ہو (فَمَن لَّمْ یَجِدْ) تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے (فَصِیَامُ شَہْرَیْْنِ مُتَتَابِعَیْْنِ) ۔چونکہ روزے کا حکم ، مومن گردن آزاد کرنے کی کوئی سبیل نہ ہونے کی صورت میں لاگو ہوتا ہے، اس لیے یہ ایک لحاظ سے مومن گردن آزاد کرنے کے حکم کا قائم مقام بن جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ روزوں میں مضمر حکمت ایک لحاظ سے اس حکمت کی کسی نہ کسی درجہ میں نمائندگی کرتی ہے جو مومن گردن آزاد کرنے میں مطلوب ہے۔ روزوں کے بارے میں یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ ان کا تعلق صرف بھوکے پیاسے رہنے سے نہیں ہے،بلکہ کم از کم مطلوب، فرد کی اخلاقی اصلاح ہے ۔اب اگرالنساء۴ آیت ۹۲ کے اسلوب کو پیشِ نظر رکھا جائے کہ کتنے اصرار و تاکید کے ساتھ مومن گردن آزاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے اورروزوں کو متبادل مقام دینے کے بجائے انتہائی ناگزیر حالت میں محض اجازت و سہولت کے درجے میں رکھاگیا ہے تو واضح ہو جاتا ہے کہ مومن گردن آزاد کرنے میں جو حکمت پوشیدہ ہے(جس کی ایک درجے میں نمائندگی روزے کر رہے ہیں )، وہ اخلاق و اصلاح کے اعتبار سے، نسبتاً کتنی بڑھی ہوئی اور پھیلی ہوئی ہے۔ روزہ اگر’’ فرد کی اصلاح ‘‘ہے تو گردن کی آزادی ’’معاشرتی اصلاح‘‘ ہے۔ گردن آزاد کرنے کے عمل میں کم از کم دو فرد براہ راست شریک اور متاثر ہوتے ہیں، ایک قاتل اور دوسرا غلام۔ جہاں کسی عمل میں دو فرد ملوث ہوں، وہاں معاشرتی عمل شروع ہو جاتا ہے۔ غور کیجیے کہ ایک جیتے جاگتے انسانی سماج میں آزادی دینے اور آزادی لینے سے زیادہ بہتر معاشرتی عمل اور کیا ہو سکتا ہے؟
بحث کے اس مقام پر اس بات کا جایزہ لینا ضروری ہے کہ کیا روزہ اپنی حقیقت میں فقط ایک فرد اور خدا کا معاملہ ہے؟ اور اسے سماج سے یا سماج کو اس سے کوئی غرض نہیں؟ یہ جائزہ لینا اس لیے ضروری ہے کیونکہ اس سے معلوم ہو سکے گا کہ قتلِ خطا کے اثرات کیا صرف قاتل و مقتول یا ان دو خاندانوں تک محدود ہیں یا سماج بھی کسی طور متاثرین میں شامل ہے؟۔ کیونکہ اگر سماج اس واقعے سے کسی بھی حوالے سے متاثر نہیں ہوتا تو سزا دینے کے عمل میں بھی سماجی تقاضے پیشِ نظر رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ سزا کے حکم میں گردن کی آزادی کا تکراری بیان اس معاملے کی سماجی جہتوں کو بے نقاب کر رہا ہے۔ لیکن گردن کی آزادی کے متبادل حکم ’صیام‘ کی بابت عمومی رائے یہی ہے کہ اس کا تعلق کسی فرد کی اپنی ذات سے ہے۔ اس رائے کی ترویج و توقیر کے پیچھے غلط دینی تعبیر پائی جاتی ہے، جس کو تقویت دینے کی خاطر احادیث کا من مانے انداز میں سہارا لیا جاتا ہے۔ ہمیں اس مسئلے کی تنقیح کے لیے اس قرآنی مقام کو دیکھنا ہوگا جہاں اللہ رب العزت نے روزوں کی مقصدیت واضح کی ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (البقرۃ۰۲:۱۸۳)
’’ اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم (اللہ کے غضب سے) بچو۔ ‘‘
بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ کی نسبت روزوں کی’’ فرضیت‘‘ سے ہے۔ حالاں کہ ذرا غور کرنے پر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ روزے اللہ کے غضب سے بچاؤ کا ذریعہ ہیں نہ کہ ان کی فرضیت ۔ فرضیت کا پہلو، مومنین کے ہاں اللہ کے غضب سے بچاؤ کو یقینی بنانے کے لیے ہے۔ یعنی مومنین روزے رکھنے کے حکم کی تعمیل میں کہیں کسی قسم کی سستی کاہلی وغیرہ کا مظاہرہ نہ کریں اس لیے ڈھیلے ڈھالے اسلوب کے بجائے قطعی انداز میں روزوں کو فرض قرار دیا گیا ہے۔ اس دوسطری بحث سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ روزوں میں بنفسہ ، اتقا کو فروغ دینے کی خاصیت پائی جاتی ہے، اس لیے ان کا اصل مقصد، مومنین کو متقی بنانا ہے۔ لیکن قرآن مجید کے مطابق تقوی بھی خود مقصد نہیں ہے بلکہ ذریعے کے درجے میں ہے، ملاحظہ کیجیے:
الم ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ۲:۱،۲)
’’الف لام میم۔ یہ کتاب ایسی ہے جس میں کوئی شبہ نہیں ، راہ بتانے والی ہے متقین کو‘‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ متقین’’ ہی‘‘ راہ پا سکتے ہیں اور جزوی کے بجائے پوری کی پوری کتاب (قرآن مجید) متقین کو راہ بتانے والی ہے، اس لیے اس سے مجموعی اور مکمل راہنمائی لینے کے لیے اسے وحدتی انداز میں لیا جانا ضروری ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ روزے اپنی مقصدیت (لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ) میں کسی نہ کسی درجے میں اسی وحدتی رخ کو اپنانے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس کا ایک واضح مطلب یہ ہوا کہ مومنین روزوں کے توسط سے متقین کے مقام پر فائز ہوکر قرآن مجید سے راہ پانے کی کامیاب کوشش کر سکتے ہیں۔اس نکتے کے تناظر میں النساء۴ آیت۹۲ کی یہ معنوی پرت سامنے آتی ہے کہ مسلسل دو ماہ کے روزوں کے حکم میں اصل مقصود قاتل کو محض متقی بنانا نہیں ہے بلکہ حقیقت میں اسے اس قابل بنانا ہے کہ وہ الکتاب (قرآن مجید) سے راہ پانے کی صلاحیت (تقوی)حاصل کر سکے۔اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ تقوی کی کمی کی وجہ سے قاتل (سستی ، کاہلی اور بے راہ روی کا شکار ہو کر)قتلِ خطا کا مرتکب ہوتا ہے اور تقوی کی یہی کمی اس سے الکتاب سے راہ پانے کی صلاحیت چھین لیتی ہے۔ اسی لیے روزوں کے توسط سے اس کی کھوئی ہوئی اہلیت کی بحالی کی کوشش کی گئی ہے تاکہ الکتاب سے راہ پاسکے اور یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ الکتاب صرف فرد کی اصلاح پر زور نہیں دیتی بلکہ سماج کو بھی اپنا موضوع بناتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انفرادی اصلاح کے علاوہ روزہ اپنے حتمی مقصد میں سماجی غرض و غایت بھی سموئے ہوئے ہے۔ بحث کے اس مقام پر اس بات کا جایزہ لینا ضروری ہے کہ قرآن مجید کے مطابق متقی کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟۔ اس سلسلے میں البقرۃ ۲ کی متصل آیات۳،۴ میں متقین کی بابت صراحت کی گئی ہے:
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْْبِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ، والَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ وَبِالآخِرَۃِ ہُمْ یُوقِنُونَ (البقرۃ۲:۳،۴)
’’وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم کریں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے خرچ کریں۔ اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو آپ کی طرف اتاری گئی ہے اور ان پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری جا چکی ہیں اور آخرت پر بھی وہ لوگ یقین رکھتے ہیں۔‘‘
یہاں غیب پر ایمان اور قرآن مجید ا ور اس سے پہلے اتاری گئیں کتب پر ایمان کو متقین کے تقاضوں (شرائط)میں شامل کیا گیا ہے، اگر احتیاط ملحوظ رکھتے ہوئے یقین اور ایمان کو مترادف سمجھا جائے تو آخرت پر یقین کو آخرت پر ایمان گرداناجا سکتا ہے۔ جبکہ(البقرۃ۲:۱۸۳) میں مخاطبین (یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ) پہلے ہی سے ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ (النساء۴آیت۹۲میں) مسلسل دو ماہ کے روزوں کا حکم، (البقرۃ۲آیت۱۸۳) کے تناظر میں قاتل کے ایمان پر دلالت کرتا ہے۔ (جبکہ النساء۴ آیت۹۳ کے بیان کے مطابق قتلِ عمد کے مرتکب کا ایمان مشکوک ہو جاتا ہے، دیکھیے ماہنامہ الشریعہ فروری۲۰۰۹ ’’قرآن مجید میں قصاص کے احکام‘‘ )۔
البقرۃ۲ آیت۱۸۳ کے مطالعہ سے یہ نکتہ بھی برآمد ہوتا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ انسان ایمان رکھنے کے بعد لازماََ متقی بن جاتا ہے، البتہ ایمان کی موجودگی ایک مضبوط وجہ بن جاتی ہے کہ ایمان والے، روزے رکھ کر متقین کی صف میں شامل ہو جائیں۔ البقرۃ ۲ آیات ۳،۴، اور ۱۸۳ کے تقابلی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں مقامات پر ایمان کے بیان(مجمل و مفصل) کے باوجود ایک واضح فرق ہے۔ وہ فرق ہے ایک مقام پر صلاۃو انفاق کا بیان اور دوسرے مقام پر صیام کا بیان۔ پھر غور کیجیے کہ البقرۃ۲آیات۳،۴ میں متقین کی پوری صفات گنوا دی گئیں ہیں لیکن ان میں صیام کا کہیں ذکر نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صلاۃ و انفاق مل کر وہی کام کرتے ہیں جو صیام تنِ تنہا کرتے ہیں لیکن اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ صیام کے لازمی اجزائے ترکیبی صلاہ و انفاق ہیں،یعنی نماز قائم کیے بغیر اور اللہ کی راہ میں خرچ کیے بغیر ، روزے اپنی مقصدیت نہیں پا سکتے۔ اسی لیے ہر دو مقامات(البقرۃ۲:۳،۴، اور ۱۸۳) پر صلاۃ و انفاق اور صیام ، متوازی اور متبادل حیثیت میں خدائی منشا کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ صیام ان تمام اخلاقی صباحتوں سے لبریز ہیں جو صلاۃ و انفاق میں پائی جاتی ہیں اور یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ صلاۃ و انفاق بنیادی طور پر سماجی فعلیت کے مظاہر ہیں۔ اس داخلی شہادت سے روزوں کی سماجی دلالتیں نہایت واضح ہو جاتی ہیں۔
مذکورہ بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ النساء۴ آیت۹۲ میں روزوں کا حکم ، ایک طرف قاتل کے ایمان(اور ایمان کی حد تک تقوی) کی تصدیق کرتا ہے اور دوسری طرف تقوی کے ایک خاص پہلو، جو صلاۃو انفاق یا صیام سے گندھا ہوا ہوتا ہے، کی عدم دستیابی کی تلافی کرتا ہے۔ اس لیے صیام کے حکم کی حکمت کی تلاش میں صیام کو تحلیل کر کے اس کی دو بڑی داخلی جہتوں (صلاۃ و انفاق) کا تنقیدی و معنوی مطالعہ اگرچہ ناگزیر ہو جاتا ہے لیکن یہ مضمون اس طویل مطالعے کا متحمل نہیں۔ بہرحال! ضمناً یہ نکتہ پیشِ نظر رہے کہ البقرۃ۲ آیات۳،۴ کی بیان کردہ صفات (غیب پر ایمان، صلاۃ کا قیام، انفاق، قرآن مجید اور اس قبل اتاری گئی تمام کتب پر ایمان، آخرت پر یقین) اپنی ذات میں ہدایت نہیں ہیں، بلکہ ان سے متصف ہوکر انسان متقین کی صف میں جا کھڑا ہوتا ہے اور پھر انہی متقین کے لیے قرآن مجید راہ بتانے والی کتاب ہونے کا دعوی کرتا ہے۔ یوں سمجھیے کہ قرآن مجید اگر آفتاب ہے تو اسے دیکھنے کے لیے یہ صفات آنکھوں کا کام کرتی ہیں۔ آخر کوئی نابینا آفتاب کو کیسے دیکھ سکتا ہے؟یا اگر آفتاب ہی نہ ہو تو کوئی بینا اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے سوا اور کیا کر سکتا ہے؟ جیسا کہ بیان ہوا: قُرآناً عَرَبِیّاً غَیْْرَ ذِیْ عِوَجٍ لَّعَلَّہُمْ یَتَّقُونَ (الزمر۳۹:۲۸) ’’وہ قرآن ہے عربی ہے جس میں کوئی کجی نہیں تاکہ یہ لوگ ڈریں‘‘۔
اگر دینی تعبیر کے مروج اسالیب سے بے نیاز ہوکر قرآن مجید کا آزادانہ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کا بنیادی رجحان تجربی اور آزمایشی ہے۔ اس لیے گفتار کے غازیوں کو باور کرایا گیا ہے:
أَحَسِبَ النَّاسُ أَن یُتْرَکُوا أَن یَقُولُوا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُونَ (العنکبوت۲۹:۲)
’’ کیا یہ سمجھتے ہیں لوگ کہ چھوٹ جائیں گے اتنا کہ کر کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزما یا نہ جائے گا‘‘
قرآن مجید کا یہ تجربی و عملی اندازِ فکر، انسانی زندگی کو خوامخواہ کی علمی خیال آرائیوں(Exclusively Philosophic) میں الجھانے کے بجائے سماجی نتائجیت (Socio-Pragmatism)کی صورت میں سلجھا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ قتلِ خطا کی سزا کے ضمن میں بھی مومن گردن آزاد کرنے کے تاکیدی حکم کے مضمرات اسی قرآنی منشا کو سموئے ہوئے ہیں کہ شارع کے نزدیک زبانی جمع خرچ سے ،محض تو بہ توبہ کرنے سے ، کسی خطا کی تلافی نہیں ہو جاتی، خاص طور پر ایسی خطا کی ، جو کسی دوسرے شخص کو یا پورے سماج کو کسی نہ کسی طور متاثر کر رہی ہو۔ اس لیے انفرادی یا سماجی منفعت کا حامل عملی قدم، جس کے ذریعے سے خطا میں مضمر بشری کم زوری اور سماجی جبر کا دائرہ تنگ سے تنگ کرنے کا نتایجی اہتمام پایا جاتا ہو، شارع کے نزدیک تلافی کی مناسب اور موزوں صورت ہو سکتا ہے۔ اگر قرآن مجید کے فَلاَ تَخْشَوُاْ النَّاسَ وَاخْشَوْنِ (المائدۃ۵:۴۴)’’سو تم انسانوں سے نہ ڈرو بلکہ ( صرف) مجھ سے ڈرو ‘‘ ، جیسے بیانات کے تناظر میں غلامی جیسے مسایل کو سمجھا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ شارع کے نزدیک غلامی یا اس سے مماثل کوئی سماجی مظہر، (اصولی اعتبار سے)مسلمہ و مصدقہ نہیں ہے بلکہ سماجی جبر پر مبنی ایک منفی انسانی صورتِ حال کی زندہ جاوید تصویر ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں جہاں کہیں غلامی کا ذکر کیا گیا ہے، صرف اور صرف منفی انسانی صورتِ حال کے ادراک کے طور پر کیا گیا ہے کہ اچھا خاصا جیتا جاگتا انسان خوامخواہ بے اختیار کٹھ پتلی بن کر رہ جاتا ہے۔ وَضَرَبَ اللّہُ مَثَلاً رَّجُلَیْْنِ أَحَدُہُمَا أَبْکَمُ لاَ یَقْدِرُ عَلَیَ شَئ (النحل۱۶:۷۵) ’’اللہ مثال پیش کرتا ہے ایک حلقہ بگوش غلام کی جو کسی بات پر قدرت نہیں رکھتا‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ غلام میں خلقی اعتبار سے بے اختیاری نہیں ہوتی، بلکہ صرف اورصرف انسانی سماج کی کوئی مکروہ فصیل اس کے اختیار کو پابند کیے ہوتی ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ معاصر سماج میں(غلامی کے ظاہری خاتمے کے باوجود) یہ دیکھنے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ انسانی سماج کی وہ کون سی مکروہ فصیلیں ہیں جنہوں نے انسانی اختیار کی ایسی جہتوں کو پابند کر رکھا ہے جنہیں شارع نے خلقی اور خلقی لحاظ سے سے انسانی آزادی و انسانی حقوق میں شامل کر رکھا ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس زاویے سے معاصر سماج کا آزادانہ تنقیدی جایزہ، مختلف الخیال لوگوں کو بوجوہ، انسانی اختیار پر پابندی کی متخالف بلکہ متضاد منازل تک لے جا سکتا ہے، جس کا نتیجہ لایعنی مباحث پر مبنی باہم ٹکراؤ کے سوا اور کچھ نہیں ہو گا۔ اس لیے سمت کی درستی اور ترجیح کے تعین میں افراط و تفریط سے بچنے کی خاط قرآن و سنت سے راہنمائی ضروری ہو جاتی ہے۔ سورت النور کی ان آیات پر غور کیجیے:
وَأَنکِحُوا الْأَیَامَی مِنکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَاءِکُمْ إِن یَکُونُوا فُقَرَاء یُغْنِہِمُ اللَّہُ مِن فَضْلِہِ وَاللَّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ۔وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُونَ نِکَاحاً حَتَّی یُغْنِیَہُمْ اللَّہُ مِن فَضْلِہِ وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُونَ الْکِتَابَ مِمَّا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوہُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِیْہِمْ خَیْْراً وَآتُوہُم مِّن مَّالِ اللَّہِ الَّذِیْ آتَاکُمْ وَلَا تُکْرِہُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَاء إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّناً لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَمَن یُکْرِہہُّنَّ فَإِنَّ اللَّہَ مِن بَعْدِ إِکْرَاہِہِنَّ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (النور۲۴:۳۲،۳۳)
’’ اور نکاح کرو اپنوں میں ان کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لایق بندوں اور کنیزوں کا اگر وہ فقیر ہوں تو اللہ انہیں غنی کر دے گا اپنے فضل کے سبب اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ اور ایسے لوگوں کو کہ جن کو نکاح کامقدور نہیں، ان کو چاہیے کہ (اپنے نفس کو) ضبط کریں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ (اگر چاہے) ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے (پھر نکاح کر لیں) اور تمہارے مملوکوں میں سے جو مکاتب ہو نے کے خواہاں ہوں تو (بہتر ہے کہ) ان کو مکاتب بنا دیا کرو اگر ان میں بہتری (کے آثار) پاؤ اور اللہ کے (دیے ہوئے) اس مال میں سے ان کو بھی دو جو اللہ نے تم کو دے رکھا ہے (تاکہ جلدی آزاد ہو سکیں) اور اپنی (مملوکہ) لونڈیوں کو زنا کرانے پر مجبور مت کرو (اور بالخصوص) جب وہ پاک دامن رہنا چاہیں محض اس لیے کہ دنیوی زندگی کا کچھ فایدہ (یعنی مال) تم کو حاصل ہو جائے اور جو شخص ان کو مجبور کرے گا تو اللہ تعالیٰ ان کے مجبور کیے جانے کے بعد (ان کے لیے) بخشنے والا مہربان ہے‘‘
ہم یہ کہنے کی جسارت کریں گے کہ ان آیات کا فہم، مسلم سماج میں بسنے والے مومن کے اختیار کی تحدید کی کسی بھی ایسی منفی صورت کو، جو عمومی لحاظ سے غالب سماجی جبر میں ڈھل چکی ہو، مومن گردن آزاد کرنے کے حکم کا مصداق قرار دیتا ہے۔ معاصر دنیا میں انفرادی آزادی کے نام پر سرمایہ دارانہ معیشت نے انسانی آزادی کی تحدید کا ایسا گھناؤنا کھیل شروع کر رکھا ہے جس کی وجہ سے قرض اور بدکاری، غالب سماجی جبر کی حیثیت میں سامنے آئے ہیں۔ سورت النور میں مذکور مکاتب، گلوبلایزیشن کی پیدا کردہ منفی صورتِ حال کے متاثرین، مومنین سے مماثل معلوم ہوتے ہیں جو اپنی آزادی کے حصول کے لیے انتہائی بے چارگی میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں، لیکن افسوس! ان کے آقاؤں کے دماغ فرعونیت سے معمور ہیں۔اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام کی عالم گیر توسیع نے مادی آسایشوں کا پر فریب جال بن کر مومنین کے لیے مناکحت کو بھی مشکل ترین بنا دیا ہے اور اب اس کے جبر تلے بدکاری خوب پھل پھول رہی ہے۔ لہٰذا مومنین کے قرضوں کی ادائیگی اور ان کے نکاح میں حایل رکاوٹوں کا سدِ باب ، (اطلاقی سطح پر) مومن گردن آزاد کرنے کے مماثل ہو سکتے ہیں، جس کی ایک صورت اجتماعی شادیوں کی تقاریب بھی ہیں جن کا اہتمام عام طور پر کوئی صاحبِ ثروت کرتا ہے اور دستِ تعاون بڑھانے والا یہ فرد قرآنی حکم: فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ، وَمَا أَدْرَاکَ مَا الْعَقَبَۃُ، فَکُّ رَقَبَۃٍ، أَوْ إِطْعَامٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ، یَتِیْماً ذَا مَقْرَبَۃٍ، أَوْ مِسْکِیْناً ذَا مَتْرَبَۃٍ ]’’مگر اس نے دشوار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی، اور آپ کیا جانیں کہ وہ دشوار گھاٹی کیا ہے، وہ ہے کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقہ کے دنوں میں کھانا کھلانا، کسی قرابت دار یتیم کو، یا کسی خاک سار مسکین کو ‘‘ (البلد۹۰:۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶)[ کی بجا آوری کی لایقِ تحسین کوشش کرتا ہے۔ سورت البلد۹۰ کی (اور ان سے مماثل) آیات پر غور کیجیے کہ ان میں نہ تو کسی خطا کے کفارے وغیرہ کے طور پر حکم دیا گیا ہے بلکہ فرد کی عمومی اخلاقی حس کو انگیخت کیا گیا ہے کہ اسے سماجی مسایل کی تحدید کی کوشش کرتے رہنا چاہیے، اورنہ ہی غلام یتیم مسکین کے لیے ’مومن‘ ہونے کی قید لگائی گئی ہے، جس سے شارع کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ مومنین کو مسلم غیر مسلم کی تفریق میں الجھے بغیر عمومی سماجی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس لیے شارع نے (قتلِ خطا کی سزا کے طور پر ’مومن‘ گردن آزاد کرنے کے تاکیدی حکم کے ذریعے)، عمومی سماجی اصلاح سے ایک درجہ بڑھ کر خاص مومنین کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا ہے، جس کی ایک ضمنی جھلک سورت النور۲۴ آیات ۳۲، ۳۳ میں بدکاری کی روک تھام اور نکاح کی ترغیب کی صورت میں پیش کی گئی ہے۔ لہٰذا فرمانِ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں دینِ اسلام کے امتیازی وصف ’حیا‘ کی سماجی قدروقیمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے، سورت النور کے مطابق نکاح پر زور اور حتیٰ کہ لونڈیوں تک کو بد کرداری سے بچانے کے قرآنی مقصود کی تحصیل کی خاطر، معاصر سماج کی ان مکروہ فصیلوں کو ذہن میں لایے جو نکاح کے انسانی اختیار کو محدود سے محدود کرتے ہوئے صلاۃ جیسی بنیادی عبادت کے مقصود کو بھی پسِ پشت ڈالتے ہوئے منکرات و فواحش کو فروغ دے رہی ہیں اور(تکلف برطرف) تاحال فقیہِ شہر کو مسلسل للکار رہی ہیں اور فقیہِ شہر ہے کہ لمبی تان کر سو رہا ہے۔
زیرِ نظر آیت میں قاتل کے لیے گردن کی آزادی اور روزوں کے حکم کو عام طور پر کفارہ کے معنی پہنا دیے جاتے ہیں۔ حالاں کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ کفارہ کے معنی لیے جا سکتے ہیں تو مقتول کے ورثا کو دیے گئے حکم میں سے لیے جا سکتے ہیں۔ دیت کے بیان کے ضمن میں الا ان یصدقوا کا بیان مقتول کے ورثا کے لیے انتہائی ترغیب کی علامت ہے۔ سورت المائدۃ ۵آیت۴۵ میں فَمَن تَصَدَّقَ بِہِ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہُ کے بیان سے صراحت ہوتی ہے کہ صدقہ، کفارہ بن جاتا ہے۔ النساء۴ آیت ۹۲ کے اختتام سے پہلے تَوْبَۃً مِّنَ اللّہِ کا بیان کافی اہم ہے ۔ اگر المائدۃ ۵ آیت ۴۵ کے بیان فمن تصدق بہ فھو کفارۃ لہ کے ساتھ اس کا تقابل کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کفارہ ، صدقے کا نتیجہ ہے جبکہ یہاں توبہ کسی عمل کا نتیجہ نہیں ، بلکہ عمل بنفسہ توبہ ہے ۔ اس لیے توبہ کو کفارے کے معنی میں لینا مناسب نہیں ہے ۔نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ندامت ، توبہ ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی حدیث ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص خطا کرے کوئی سی خطا ، یا گناہ کرے کوئی سا گناہ ، اس کے بعد نادم و شرمندہ ہوجائے تو وہ اس کا کفارہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر توبہ بندے کی طرف سے ہو تو اس میں ندامت لازماََ پائی جاتی ہے اور یہ ندامت اس کا کفارہ بن جاتی ہے۔ لہٰذا اگر زیرِ نظر آیت میں قتلِ خطا کے مرتکب کی طرف سے توبہ کا بیان پایاجاتا تو اسے کفارہ کہا جا سکتا تھا۔ لیکن تَوْبَۃً مِّنَ اللّہ کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں توبہ بندے کی طرف سے نہیں ہے ۔ بندے کی طرف سے توبہ کرنے کے قرآنی بیان کی دو مثالیں ملاحظہ کیجیے ، جن سے تنقیح میں مدد ملے گی : تُوبُوا إِلَی اللَّہِ تَوْبَۃً نَّصُوحاً (التحریم ۶۶/۰۸)، فَإِن یَتُوبُواْ یَکُ خَیْْراً لَّہُمْ (التوبۃ ۰۹/۷۴)۔ اب اس بیان پر نظر ڈالیے جہاں اللہ کی طرف سے بندے کی توبہ قبول کرنے کا بیان ہوا ہے:
أَلَمْ یَعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ ہُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہِ وَیَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللّہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (التوبۃ ۹/ ۱۰۴)
’’ کیا انہیں خبر نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور صدقے خود اپنے دستِ قدرت میں لیتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ‘‘
یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہِ پر غور کیجیے کہ اللہ اپنے بندوں کی ندامت و پشیمانی کو قبول کرتا ہے ، لیکن قبولیت کا یہ عمل اللہ کی رحمت کے بغیر نہیں ہوتا: وَأَنَّ اللّہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ ا س کا مطلب یہ ہوا کہ بندے کی طرف سے توبہ ، ندامت کی علامت ہے ، اور اللہ کی طرف سے اس کی قبولیت ، رحمت کا اظہار ہے ۔یعنی توبہ کر کے بندہ اللہ کی رحمت کا حق دار بن جاتا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ اگر بندہ توبہ نہیں کرتا تو نہ صرف اللہ کی رحمت کا حق دار نہیں بنتا بلکہ اللہ کے عذاب کو دعوت دیتا ہے جیسا کہ یہاں بیان ہوا :
فَإِن یَتُوبُواْ یَکُ خَیْْراً لَّہُمْ وَإِن یَتَوَلَّوْا یُعَذِّبْہُمُ اللّہُ عَذَاباً أَلِیْماً فِیْ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ (التوبۃ ۰۹/۷۴)
’’ تو اگر وہ توبہ کریں تو ان کا بھلا ہے اور اگر منہ پھیریں تو اللہ انہیں دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب دے گا ‘‘
عذاب کے مقابل رحمت کے معنی میں توبہ کی یہ دو مثالیں دیکھیے :
وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللّہِ إِمَّا یُعَذِّبُہُمْ وَإِمَّا یَتُوبُ عَلَیْْہِمْ وَاللّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (التوبۃ ۹/ ۱۰۶)
’’ اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا معاملہ اللہ کے حکم آنے تک ملتوی ہے ، یا ان پر عذاب کرے ، یا ان کی توبہ قبول کرے ، اور اللہ علیم حکیم ہے۔‘‘
لِیُعَذِّبَ اللَّہُ الْمُنَافِقِیْنَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَالْمُشْرِکَاتِ وَیَتُوبَ اللَّہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَکَانَ اللَّہُ غَفُوراً رَّحِیْماً (الاحزاب ۳۳ / ۷۳)
’’ تاکہ اللہ عذاب دے منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو اور اللہ نظر توجہ مبذول فرمائے مومن مردوں اور مومن عورتوں پر ، اور اللہ غفور رحیم ہے‘‘
غور کیجیے کہ الاحزاب ۳۳ / ۷۳ کے مانند قرآن مجید میں ، جہاں جہاں اللہ کی طرف سے توبہ قبول فرمانے یا توجہ مبذول کرنے کا بیان ہو اہے، ان میں سے اکثر مقامات پر اللہ کی رحمت و مغفرت کا باقاعدہ ذکر ہوا ہے ، مثلاً: لَقَد تَّابَ اللہ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہَاجِرِیْنَ وَالأَنصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِن بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیْغُ قُلُوبُ فَرِیْقٍ مِّنْہُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْْہِمْ إِنَّہُ بِہِمْ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ (التوبۃ۹/۱۱۷)، ثُمَّ تَابَ عَلَیْْہِمْ لِیَتُوبُواْ إِنَّ اللّہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (التوبۃ ۹/ ۱۱۸)، فَتَابَ عَلَیْْہِ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (البقرۃ ۲/۳۷)، فَتَابَ عَلَیْْکُمْ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (البقرۃ۲/۵۴)، وَتُبْ عَلَیْْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (البقرۃ۲/۱۲۸)، ثُمَّ یَتُوبُ اللّہُ مِن بَعْدِ ذَلِکَ عَلَی مَن یَشَاءُ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (التوبۃ ۹/۲۷)۔
اب النساء ۴/۹۲ میں مذکورتوبۃ من اللہ کی معنویت پر غور فرمائیے۔ یہ اللہ کی طرف سے توبہ ہے، یعنی اللہ نے بندے کی طرف توجہ مبذول فرمائی ہے، بندے کے توبہ کرنے کی وجہ سے نہیں جیسا کہ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہِ سے ظاہر ہوتا ہے، بلکہ اپنی خاص صفت (رحمت)کے اظہار کے لیے۔یعنی پہل بندے کی طرف سے نہیں ہوئی کہ اس نے توبہ کرلی تو رحیم غفور نے اس کی توبہ قبول کر لی۔ بلکہ پہل اللہ کی طرف سے ہوئی ہے ، چونکہ پہل اللہ کی طرف سے ہوئی ہے اس لیے ندامت و پشیمانی والے پہلو کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ نظر اس کی رحمت پر ہی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے رحمت کا اظہار کرتے ہوئے قتلِ خطا کی مختلف صورتوں کے لیے احکامات دے دیے ہیں ، یا حکم دینے کے عمل میں رحمت کوملحوظ رکھا ہے۔
سطورِ بالا میں ذکر ہوا کہ جہاں توبہ کا بیان اللہ کی طرف سے ہوا ہے (بمعنی رحمت ) وہاں آیات کا خاتمہ رحمت و مغفرت کے باقاعدہ بیان سے ہوا ہے، لیکن زیرِ نظر آیت میں ایسا نہیں ہوا۔ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ، غَفُورٌ رَّحِیْمٌ کے بجائے عَلِیْماً حَکِیْماً کے الفاظ سے آیت مکمل ہوتی ہے ۔ ہمارے علم کے مطابق توبۃ من اللہ کی ترکیب ، پورے قرآن میں منفرد استعمال ہوئی ہے ۔ اس سے توبۃ من اللہ میں مضمر یہ لطیف نکتہ سامنے آتا ہے کہ من اللہ کے الفاظ آیت کی تکمیل میں التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ، غَفُورٌ رَّحِیْمٌ کی عدم موجودگی کی کمی دور کر کے ان کا مصداق بنتے ہیں۔
اب ذرا فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْْنِ مُتَتَابِعَیْْنِ تَوْبَۃً مِّنَ اللّہِ کا البقرۃ آیت ۱۷۸ کے اس حصے ( فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ) کے ساتھ تقابل کریں تو معلوم ہو گا کہ توبۃ من اللہ رحمت کے علاوہ تخفیف کے معنی بھی لیے ہوئے ہے کہ مومن گردن آزاد کرنے کی کوئی راہ نہ پانے کی صورت میں تخفیف کرکے دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے کا حکم (رحمت کا اظہار کرتے ہوئے ) دے دیا گیا۔ لیکن اس تعبیر کو مزید مضبوط کرنے کے لیے فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْءٌ اور فَمَن لَّمْ یَجِدْ کے زیادہ گہرے تقابلی مطالعے کی ضرورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فمن لم یجد کے ذکر سے قبل ، مومن گردن آزاد کرنے کا تاکیدی بیان اور فمن عفی لہ سے قبل کسی تاکیدی بیان کی عدم موجودگی، (توبۃ من اللہ) میں (مفروضہ) تخفیف کی نفی کرتی ہے۔
آیت کے اختتام پر اللہ کے علیم و حکیم ہونے کا بیان محض خانہ پری کے لیے نہیں، بلکہ اس سے مومن گردن آزاد کرنے کے تاکیدی حکم کا ایک اور پہلو سامنے آتا ہے۔ چونکہ اللہ علیم ہیں اس لیے قتلِ خطا کی صورتِ حال سے بخوبی واقف ہیں اور چونکہ اللہ حکیم ہیں، اس لیے صورتِ حال کے موافق سزا کا بیان اور خاص طور پر تاکیدی پہلو پر زور، اللہ کی حکمت کا مظہر ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ جب ایک خطا کی تلافی میں ، اللہ نے اپنی رحمت کا اظہار کرتے ہوئے ، انفرادی اور اس سے منسلک معاشرتی اصلاح کی راہ دکھائی ہے تو جو اس کے بعد اپنے تئیں خوامخواہ ہی ، مومن گردن آزاد کرنے کے حکم کی تعمیل کے بجائے دو ماہ کے روزے رکھنے کو ترجیح دے ، تو اچھی طرح جان لے کہ اللہ علیم و حکیم ہے کہ ایسا کرنے والا اللہ کی ان صفات کو چیلنج کرتا ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ فمن لم یجد اور وَکَانَ اللّہُ عَلِیْماً حَکِیْماً میں یک گونہ داخلی تعلق پایا جاتا ہے۔
النساء۴ آیت ۹۲ کی تفہیم کے ضمن میں ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے قتلِ خطا میں مکمل معافی کی گنجایش اس طرح نہیں رکھی، جس طرح البقرۃ۲ آیت ۱۷۸ اور المائدۃ ۵ آیت ۴۵ میں (سنگین صورتِ حال کے باوجود) نہ صرف گنجایش رکھی ہے بلکہ ترغیبی انداز میں اسی کو اختیار کرنے کی راہ بھی دکھائی ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر قتلِ خطا کسی دوسری نوعیت کے قتل سے کس حوالے سے اتنا مختلف ہے کہ اس کی سزا باقی رکھی گئی ہے اور دیگر میں مکمل معافی کی ترغیب دی گئی ہے؟ اگر قارئین ان اخلاقی دلالتوں کو ملحوظ رکھیں جن کا اجمالی ذکر ہم نے اپنے مضمون ’قرآن مجید میں قصاص کے احکام‘ میں کیا ہے( دیکھیے ماہنامہ الشریعہ ستمبراکتوبر۲۰۰۸،فروری۲۰۰۹ )، تو یہ نکتہ سامنے آئے گا کہ شارع نے احکام دیتے ہوئے انسانی احوال و ظروف کو خاص طور پر پیشِ نظر رکھا ہے۔ انسانی سماج میں ’تعامل‘ کے باعث شعوری سطح پر جھگڑوں کا پیدا ہونا اور ان جھگڑوں کا اس قدر پھیل جانا کہ نوبت قتل تک جا پہنچے، بعید از قیاس نہیں۔ لیکن چونکہ قتلِ خطا میں انسان کی غیر شعوری سطح ، شعوری سطح پر غلبہ پا کر جرم کرواتی ہے، اس لیے اس بے اختیاری (جسے ہم اپنی آسانی کے لیے غیر ذمہ داری اور ایک حد تک بے راہ روی بھی کہ سکتے ہیں) کی پاداش میں شارع نے ایسی سزا باقی رکھی ہے جس کے پیچھے یہ مقصد کارفرما ہے کہ انسان کو اپنے فعل کی بابت ہمیشہ ’بااختیار‘ ہی ہونا چاہیے۔ شارع کی مقرر کردہ سزا کی نوعیت، ایک اعتبار ہمارے موقف کو داخلی شہادت فراہم کر تی ہے۔ آخر ایک شخص جو خود راہ پر نہیں رہا ، ایک راہ والے (مومن غلام) پر کیسے تصرف رکھ سکتا ہے؟ پھر مومن گردن آزاد کرنے کے تکراری حکم پر غور کیجیے کہ ایک جہت سے یہ حکم اصرار و تاکید لیے ہوئے ہے اور دوسری جہت سے(ایک با اختیار) مومن مقتول کے بدلے (ایک بے اختیار) مومن غلام یا لونڈی کواختیار تفویض کرتا ہے اور تیسری جہت سے صراحت کرتا ہے کہ کوئی بے اختیار شخص (قتلِ خطا کا مرتکب) بے اختیار شخص(غلام و لونڈی) کی بابت بااختیار نہیں ہو سکتا(اس لیے اصولاََ اس کے نام نہاد اختیار سے تمام غلاموں لونڈیوں کو آزاد کیا جانا چاہیے)۔ لہٰذا اگر کوئی بے اختیار شخص(قتلِ خطا کا مرتکب) ، بے اختیار ہوتے ہوئے بھی غلام نہیں بلکہ آزاد کہلواتا ہے، تو اسے کم از کم ایک بے اختیار (غلام یا لونڈی) کو تو لازماََ آزاد کر کے اپنے غلاموں جیسے عمل کی تلافی کرنی چاہیے۔ چوتھی جہت سے یہ حکم آزاد ہونے والے غلام سے توقع کرتا ہے کہ بااختیار ہونے کے بعد وہ اپنے مالک کی سی غلطی نہیں دہرائے گا یعنی اختیار سے بے اختیاری کی طرف مراجعت نہیں کرے گابلکہ معاشرے کا ذمہ دار فرد بن کر زندگی بسر کرے گا۔ سورۃ الانعام کی یہ آیت قتلِ خطا کے مرتکب اور آزادی پانے والے غلام ، دونوں (بے اختیاروں)پر یکساں منطبق ہوتی ہے، غور فرمائیے:
أَوَ مَن کَانَ مَیْْتاً فَأَحْیَیْْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہُ نُوراً یَمْشِیْ بِہِ فِیْ النَّاسِ کَمَن مَّثَلُہُ فِیْ الظُّلُمَاتِ لَیْْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا کَذَلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِیْنَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ (الانعام۶:۱۲۲)
’’جو شخص مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کر دیا اور اس کے لیے ایسا نور مقرر کر دیا جس کے ذریعہ وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کیا یہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہے کہ وہ اندھیریوں میں ہے ان سے نکلنے والا نہیں، کافر جو عمل کرتے ہیں وہ ان کے لیے اسی طرح مزین کر دیے گئے۔‘‘
قصہ آدم و ابلیس میں بھی فرشتوں کا بیان: قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَن یُفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاء (البقرۃ۲:۳۰)،انسانی شعوری سطح پر متوقع، انتہائی جارحیت کا بیان ہے۔ فرشتوں کے خدشے کے جواب میں قَالَ إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ (البقرۃ۲:۳۰) کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ اللہ رب العزت کو بشری شعورکی ایسی جارحیت جو اسے بے اختیاری و بے علمی کی سطح پر لے آئے، قابلِ قبول نہیں ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ متصل آیت میں ہی متوقع انسانی جارحیت سے پھوٹتی امکانی بے اختیاری کی تحدید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا (البقرۃ۲:۳۱)۔ اس متوقع جارحیت کے عملی احوال کی تصویر کشی قرآن مجید میں دیگر مقامات پر ’’فساد فی الارض اور فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے‘‘ جیسے اسالیب میں کی گئی ہے۔اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ فساد فی الارض برپا کرنے والی ذہنی حالت اور قتلِ خطا کے دوران میں طاری ذہنی حالت ، انسانی ذہن کی ایسی مخالف بُعدوں کی عکاس ہیں ، جن کی ساخت و ماہیت مختلف ہوتے ہوئے بھی (تقریباً) یکساں اثرات مرتب کرتی ہے۔ زمین میں فساد کرنے والی ذہنی حالت ، شعوری جارحیت کی انتہائی صورت میں انسانی بے اختیاری کو ظاہر کرتی ہے کہ ایسی حالت میں انسان کا اٹھایا گیا کوئی بھی قدم اس کے بشری شعور (یعنی، وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا ) کی مطابقت میں نہیں ہوتا، لہذا نتیجے کے اعتبار سے انسان کا بے اختیار ہونا ظاہر کرتا ہے، جہاں انسان جانتے بوجھتے ایک ایسی راہ پر چل نکلتا ہے جو اسے بے اختیاری کی منزل پر لے جاتی ہے۔ اس سارے عمل کو عمداََ خطا کرنے سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید میں خطا کی اس نوع کے نمونے ملاحظہ کیجیے:[ البقرۃ۲:۸۱، النساء۴:۱۱۲، الاسراء۱۷:۳۱، القصص۲۸:۸، الحاقۃ۶۹:۹،۳۷، نوح۷۱:۲۵، العلق۹۶:۱۶]۔ لیکن قتلِ خطا ، خطا کی مذکورہ نوع سے دو حوالوں سے مختلف ہے ایک تو یہ کہ اس عمل میں انسان جانتے بوجھتے ایسی راہ کا انتخاب نہیں کرتا جو اسے بے اختیاری سے ہم کنار کر دے۔دوسرا یہ کہ اس میں عمل بنفسہٖ ، بے اختیاری ظاہر کرتا ہے نہ کہ عمل کا نتیجہ۔اس لیے قتلِ خطا کا محرک، بھول چوک اور ایک حد تک غیر ذمہ داری (اور قدرے بے راہ روی) میں تلاش کیا جا سکتا ہے، جبکہ فرعونی خطا کے پیچھے فرعونیت کارفرما ہوتی ہے۔اہم بات یہ ہے کہ ہر دو مقامات پر محرکات کے شدید اختلاف کے باوجود بشری شعور (وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا) کی نفی پائی جاتی ہے۔ ایک مقام پر شعوری نفی اور دوسرے مقام پر غیر شعوری نفی، جو شارع کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ اسی لیے شارع نے سزا دیتے ہوئے (وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا) کی نفی کیے جانے کا بھر پور التزام رکھا ہے، چاہے یہ نفی شعوری ہو یا غیر شعوری ۔ لہٰذا ہر دو مقامات پرمختلف النوع منفی انسانی صورتِ حال کے تدارک اور روک تھام کے لیے شارع نے معافی کی گنجایش رکھے بغیر حکامات دیے ہیں۔ یہیں پر یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ چونکہ البقرۃ ۱۷۸ اور المائدۃ ۴۵ میں بشری شعور (وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا) کی نفی اس طور نہیں پائی جاتی جو جارحیت کی انتہائی سرحدوں کو چھوتے ہوئے مذکورہ شعوری نفی کے دائرے میں شامل کی جا سکتی ہو، اور نہ ہی یہ غیر شعوری نفی کے احاطہ میں سما سکتی ہے بلکہ بشری شعور کے ( تقریباً) موافق ٹھہرتی ہے ، اس لیے شارع نے یہاں (البقرۃوالمائدۃمیں) سزا تجویز کرتے وقت مکمل معافی کی پوری گنجایش(بلکہ ترغیب) رکھی ہے۔
اس بحث سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ شارع کو بشری شعور کی مطابقت میں انسانی اعمال کے ظہور سے خاص دلچسپی ہے۔ جہاں کہیں انسانی اعمال، بشری شعور سے روگردانی کرتے ہیں، افراط و تفریط کا شکار ہوتے ہیں، ، وہاں انہیں، کہیں تنبیہ کہیں سرزنش اور کہیں سزا کے ذریعے(ذمہ دارانہ) نقطہ اعتدال پر لانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ بشری شعور سے ملنے والی آزادی سے ذمہ داری برآمد ہوتی ہے۔ آزادی ملتے ہی ذمہ داری شروع ہو جاتی ہے اور آزادی کا دائرہ جوں جوں پھیلتا ہے توں توں ذمہ داری بڑھتی جاتی ہے۔اور غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل سے آزادی سکڑتے سکڑتے غلامی کے درجے تک جا پہنچتی ہے۔ سورۃ البلد میں بشری شعور سے موافق، انسانی آزادی کا بیان ہوا ہے:
وَہَدَیْْنَاہُ النَّجْدَیْْنِ (البلد۹۰:۱۰)
’’اور اسے دو راہیں دکھلا دیں۔‘‘
اس کے بعد اس آزادی کو ملزوم ذمہ داری کا بھی واضح ذکر کیا گیا ہے:
فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃ،َ وَمَا أَدْرَاکَ مَا الْعَقَبَۃ،ُ فَکُّ رَقَبَۃ،ٍ أَوْ إِطْعَامٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ، یَتِیْماً ذَا مَقْرَبَۃٍ، أَوْ مِسْکِیْناً ذَا مَتْرَبَۃٍ (البلد۹۰:۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶)
’’مگر اس نے دشوار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی، اور آپ کیا جانیں کہ وہ دشوار گھاٹی کیا ہے، وہ ہے کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقہ کے دنوں میں کھانا کھلانا، کسی قرابت دار یتیم کو، یا کسی خاک سار مسکین کو‘‘ ۔
بحث کے اس مقام پر یہ لطیف نکتہ سامنے آتا ہے کہ شارع کے نزدیک (بشری شعور کے حامل) آزاد انسان کو بغیر کسی حیل و حجت بغیر کسی دباؤ بغیر کسی کفارے وغیرہ کے، اتنا ذمہ دار ہونا چاہیے کہ وہ فقط بشری شعور کے تتبع میں، کوئی گردن چھڑائے، کسی فاقے کے مارے کو کھانا کھلائے، کسی رشتہ دار یتیم اور مسکین کے سر پر دستِ شفقت رکھے۔ قتلِ خطا وغیرہ میں (سزا و کفارہ کے طور پر) ان امور کی(قانوناً) انجام دہی کا بیان، درحقیقت اس مقصد کے لزوم کو ابھارنا ہے جو شارع کو(اخلاقاً) سماجی سطح پر مطلوب و مقصود ہے۔ کسی کو شک ہو تو سورت الماعون۱۰۷ پر غور و فکر ضرور کرے:
أَرَأَیْْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْن، فَذَلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ، وَلَا یَحُضُّ عَلَی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ، فَوَیْْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ، الَّذِیْنَ ہُمْ عَن صَلَاتِہِمْ سَاہُونَ، الَّذِیْنَ ہُمْ یُرَاؤُونَ، وَیَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ
’’بھلا دیکھو تو جو دین کو جھٹلاتا ہے ، یہ وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے، اور کسی غریب کو کھانا دینے پر لوگوں کو آمادہ نہیں کرتا، سو ایسے نمازیوں کے لیے خرابی ہے، جو اپنی نماز سے بے اعتنائی برتتے ہیں، جو دکھاوے سے کام لیتے ہیں، اور برتنے کی چیز مانگے نہیں دیتے‘‘
اگرسورت الکافرون ۱۰۹ کی تکمیلی آیت لکم دینکم و لی دین کواس سورت کی پوری معنویت ملحوظ رکھتے ہوئے، سورت الماعون کی آیت ارءیت الذی یکذب بالدین کے ساتھ اس سورت کی پوری معنویت کے تناظر میں سمجھا جائے تو بتائیے کہ دین کس صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے؟ دین کی عبادات و رسومات پر بے جا زور دینے والے علماے کرام اور مبلغینِ اسلام کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
قتلِ خطا کے عمل کے دوران میں طاری اور اس کا سبب بننے والی مخصوص داخلی نفسی اور ذہنی حالت کا تجزیہ قاتل کے عدم علم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ اشارہ آیت کے تکمیلی الفاظ عَلِیْماً حَکِیْماً کی ایک اور معنوی پرت سامنے لاتا ہے۔ البقرۃ ۲ آیت ۱۳۸: صِبْغَۃَ اللّہِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّہِ صِبْغَۃً وَنَحْنُ لَہُ عَابِدون کا فہم ذہن میں رکھتے ہوئے قاتل کے عدم علم اور تکمیلی الفاظ عَلِیْماً حَکِیْماً پر ذرا غور تو کیجیے۔
قتلِ خطا کی سزا کے ضمن میں مومن گردن آزاد کرنے پر اصرار اور تاکید اس لحاظ سے کافی اہم ہے کہ اس کے علاوہ جہاں کہیں گردن آزاد کرنے کا حکم آیا ہے ’مومن‘ کی قید نہیں لگائی گئی، مثلاً: البقرۃ۲: ۱۷۷، المائدۃ۵: ۸۹، التوبۃ ۹:۶۰، البلد۹۰:۱۳۔ ان مقامات پر گردن آزاد کرنے کی وجہ (قتلِ خطا کے مانند) کوئی غیر شعوری طرزِ عمل بھی نہیں۔ سورۃ المجادلۃ ۵۸ آیت۳ کو ہی لیجیے:
وَالَّذِیْنَ یُظَاہِرُونَ مِن نِّسَاءِہِمْ ثُمَّ یَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مِّن قَبْلِ أَن یَتَمَاسَّا ذَلِکُمْ تُوعَظُونَ بِہِ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ
’’ اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرنا چاہیں تو میاں بیوی کے مل بیٹھنے سے قبل ایک غلام آزاد کرنا ہو گا تمہیں اسی بات کی نصیحت کی جاتی ہے اور جو تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘
لہٰذا خاص طور پر قتلِ خطا کے حوالے سے’ مومن‘ گردن آزاد کرنے کا حکم ، صرف حکم نہیں بلکہ تاکیدی حکم ، آزادی و ذمہ داری کے مذکورہ دائرے کی ایسی مثالی توسیع پر دلالت کرتا ہے جس کے مطابق خاص طور پر مسلم سماج کو علم کی بنیاد پر ذمہ دارانہ آزادی جیسی بنیادی بشری قدر سے متصف کر کے ’بہترین امت‘ میں ڈھالنا اور دنیا کی مثالی راہنمائی کے قابل بنانا مقصود ہے۔
سورۃ البقرۃ آیت ۲۸۶ میں (رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِیْنَا أَوْ أَخْطَأْنَا) کا بیان، العنکبوت آیت ۱۲ (وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا لِلَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِیْلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَایَاکُمْ وَمَا ہُم بِحَامِلِیْنَ مِنْ خَطَایَاہُم مِّن شَیْْءٍ ٍ إِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ) کی تنقیح و تصریح لیے ہوئے ہے کہ بشری غیر ذمہ داری کی ذمہ داری متعلقہ بشر ہی اٹھا سکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بشر کو خود ذمہ داری اٹھانے پر، معاف کیے جانے کا مژدہ بھی سنا دیا جاتا ہے: وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا (البقرۃ۲:۲۸۶)۔ قصہ آدم و ابلیس کے مطابق بھی جب حضرت آدم ؑ بھول کر عہد شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں تو انہیں معافی کا سندیسہ مل جاتا ہے۔ اس لیے قتلِ خطا جیسے (بھول وغیرہ پر مبنی)غیر ذمہ دارانہ فعل کی ذمہ داری بھی قاتل کو لازماََ اٹھانی چاہیے کہ اس سے گریز ، عمداََ غیر ذمہ داری (بمعنی شعوری جارحیت) کی طرف لے جائے گا اور صورتِ حال کو خطرناک حد تک بگاڑ دے گا۔ لہٰذا بے اختیاری میں کیے گئے فعل کا ذمہ اٹھانے کے بجائے اگر انسان خاموش رہے جس کے نتیجے میں کسی بے قصور پرخوامخواہ وبال آ پڑے یا قتلِ خطا کا مرتکب اپنا فعل کسی دوسرے کے سر منڈھنے کی کوشش کرے تو جان لے کہ:
وَمَن یَکْسِبْ خَطِیْءَۃً أَوْ إِثْماً ثُمَّ یَرْمِ بِہِ بَرِیْئاً فَقَدِ احْتَمَلَ بُہْتَاناً وَإِثْماً مُّبِیْناً (النساء۴:۱۱۲)
’’ اور جو کوئی خطا یا گناہ کمائے پھر اسے کسی بے گناہ پر تھوپ دے تو اس نے ضرور بہتان اور کھلا گناہ اٹھایا ‘‘
نتیجتاً اسے معافی کے سندیسے (توبۃ من اللہ) سے محروم کر کے فرعونی خاطئین کی فہرست میں شامل کر لیا جائے گا۔
اگر النساء۴ آیت ۹۲ کی تفہیم کے ضمن میں اس نکتے کو ملحوظ رکھا جائے کہ اللہ رب العزت نے قتلِ خطا میں مکمل معافی کی گنجایش اس طرح نہیں رکھی، جس طرح البقرۃ۲ آیت ۱۷۸ اور المائدۃ ۵ آیت ۴۵ میں نہ صرف گنجایش رکھی ہے بلکہ ترغیبی انداز میں اسی کو اختیار کرنے کی راہ بھی دکھائی ہے ، تو اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہاں (النساء۴ آیت ۹۲ میں) قرآنی منشا کے مطابق مقتول پارٹی کو صدقہ کرنے کا اختیار لازماََ دیا جانا چاہیے لیکن قاتل کی بابت شارع کی حساسیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ قتلِ خطا کا مرتکب اگر امیر کبیر شخص ہو تو مقتول پارٹی سے معافی ملنے کے باوجود ، ریاستی نظم میں ذمہ داری کے عنصر کو فروغ دینے کی خاطر اس سے دیت لے کر صدقہ کے قرآنی مصارف پر خرچ کر دی جانی چاہیے۔ کیوں کہ جب خدا نے معاف نہیں کیا اور غیر ذمہ داری و عدم علم پر کم ازکم سزا دو ماہ کے مسلسل روزے متعین کی ہے تو خدائی نظام کے نفاذ کی ذمہ دار کوئی بھی ہیئت اجتماعی(جسے آج کل ریاست کہتے ہیں) ایسی غیر ذمہ داری سے کیوں کر صرفِ نظر کر سکتی ہے؟ لیکن خیال رہے کہ ایسا اختیار صرف ایسے ریاستی نظم کے تحت ہی عمل میں جا سکتا ہے جو صحیح معنوں میں خدائی منشا کی نمائندگی کر رہا ہو۔
جہادِ کشمیر کی شرعی بنیادیں
ڈاکٹر عصمت اللہ
تغیر، ارتقا اور تبدیلی انسانی زندگی کا لازمی خاصہ ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ حرب و ضرب اور جنگ کے مفہوم میں بھی مرورِ ایام کے ساتھ کافی تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔ اب یہ لفظ کئی طرح کی مختلف النوع جنگوں پر بولا جاتا ہے، مثلاً معروف عسکری زمینی جنگ، الیکٹرانک جنگ میڈیا کی جنگ، میزائیلوں کی جنگ، حیاتیاتی جنگ، کیمیائی جنگ، ایٹمی جنگ، نفسیاتی جنگ وغیرہ ۔ جنگ کی ان مختلف اقسام میں سے آخری قسم یعنی نفسیاتی جنگ اپنے نت نئے اور جدید ترین فکری اور نفسیاتی حربوں کی بدولت نظریاتی و جہادی تحریکوں کے حق میں دور حاضر کی سب سے خطر ناک اور تباہ کن جنگ تصور کی جاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ نفسیاتی جنگ کا اصل ہدف وہ نظریات اور اصول ہوتے ہیں جن پرکسی تحریک کی پوری عمارت قائم ہوتی ہے۔ اس جنگ میں پس پردہ رہ کر کاروائی کی جاتی ہے اور ہمیشہ پیٹھ کے پیچھے سے وار کیا جاتا ہے۔ افواہ سازی کے ذریعہ حوصلے پست کیے جاتے ہیں، خفیہ اور غیر محسوس طریقے سے ذہنوں کے اندر خیالات اتارے جاتے ہیں، مسلمہ عقائد و نظریات کے بارے میں دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کیے جاتے ہیں تاکہ عقائد اور نظریات پر پختہ ایمان متزلزل ہو جائے اور لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا ہو کر اندر ہی اندر سے شکست کھا جائیں۔ ان کے ایمان میں اتنی جان باقی نہ رہے کہ وہ انہیں کوئی بڑی قربانی دینے پر آمادہ کر سکے۔ یہ وہ خوفناک فکری و نفسیاتی چالیں ہیں جو اس جنگ میں استعمال کی جاتی ہیں۔ اسی بنا پر اس جنگ کو کھلے میدان میں لڑی جانے والی دو بدو عسکری جنگوں سے بدرجہا زیادہ خطر ناک سمجھا جاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں نفسیاتی جنگ ہی اصل اور حقیقی لڑائی کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جسے موثر اور کامیاب بنانے کے لیے باقی عسکری طاقت کو اس کی پشت پر رکھ کر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا طریق واردات یہ ہوتا ہے کہ بڑی محنت، توجہ، عرق ریزی، جستجو اورمکمل حساب کتاب کے بعد کچھ الفاظ، جملے، خیالات اور نظریات گھڑے جاتے ہیں جو اپنی فکری ہلاکت آفرینی کے اعتبار سے کسی طرح بھی مادی بموں اور میزائیلوں سے کم نہیں ہوتے۔ پھر ان مصنوعی افکار و نظریات کو بڑی چالاکی و مکاری سے دشمن کی صفوں میں پھیلا دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دشمن کے سپاہیوں اور کارندوں کو اپنے موقف کی سچائی کے متعلق شک میں مبتلا کر دیا جائے، اپنے قائدین، راہنماؤں اور کمانڈروں پر ان کے اعتماد کو ختم کر دیا جائے۔ ان کے ذہن میں کسی طرح یہ بات بٹھا دی جائے کہ تمھارا موقف اور تمھاری حکمت عملی درست نہیں اور موجودہ طریقہ کار سے تم کبھی فتح حاصل نہیں کر سکتے۔ اس وقت چونکہ نفسیاتی جنگ اور اس کی تفصیلات ہمارا موضوع نہیں ہیں، اس لیے ہم اس تمہید کو یہیں سمیٹتے ہوئے اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔
کشمیر کی تحریک جہاد جو بھارتی تسلط کے خلاف فلسطین کی تحریک انتقاضہ کے ساتھ ہی شروع ہوئی تھی، اسے اب نفسیاتی، اخلاقی اور فکری محاذوں پر بظاہر زبردست مزاحمت کا سامنا ہے۔ اس کے سامنے بھارتی ذرائع ابلاغ کی شکل میں صرف ایک دشمن نہیں ہے بلکہ بہت سے مسلمان اہل قلم،کئی معروف اسلامی شخصیات بھی دشمن کے شانہ بشانہ اس جنگ میں شریک ہیں۔ بھارت کے شاطر حکمران ان بزرگوں کو خوب خوب استعمال کر رہے ہیں اور ان کی علمی اور قلمی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کر رہے ہیں تاکہ بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کی برین واشنگ کی جائے، ان کے ذہنوں میں جعلی اور بے سروپا خیالات ڈال کر اسلامی عقائد و نظریات پر ان کے ایمان کو متزلزل کیا جائے اور اس طرح امت مسلمہ کی نظر میں ان کی جہادی تحریک کو بدنام کر کے اپنے مذموم سیاسی مقاصد حاصل کیے جائیں۔
بھارت نے کشمیر کے اندر عسکری قوت کے استعمال سے بہت پہلے کشمیری عوام کے خلاف نفسیاتی جنگ کا آغاز کردیاتھا۔ بھارتی حکمرانوں نے کشمیر ی قائدین میں سے بعض چوٹی کے رہنماؤں کو خریدا اور انہیں استعمال کرتے ہوئے ہر محاذ پر جنگ کا آغاز کر دیا ۔ آج بھارت کے پاس بہت سے زر خرید اہل قلم، منبر و محراب سے تعلق رکھنے والی کئی علمی شخصیات موجود ہیں جو اس کے مقاصد کے لیے دانستہ یا نادانستہ طور پر آلہ کار بنی ہوئی ہیں۔ مظلوم کشمیری عوام کی صفوں کو درہم برہم کرنے اور ان کے جہاد کو ناکامی و ہزیمت سے دوچار کرنے کے لیے وہ کچھ کر رہی ہیں جو بھارت کی آٹھ لاکھ کے قریب مسلح فوج بھی نہیں کر سکی تھی۔
بھارت کی اس پروپیگنڈا مہم کے سلسلے میں کچھ عرصہ قبل نئی دہلی سے نکلنے والے کچھ رسالوں اور اخبارات میں بعض مضامین شائع ہوئے ہیں ۔ مثلاً ’’جہاد کشمیر اور اسلام: ایک غیر جانبدارانہ جائزہ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون ماہنامہ ’’افکارِ ملی‘‘ دہلی میں شائع ہوا جسے ایک نامعلوم شخص محمد انیس نے تحریر کیا ہے جو علمی دنیا میں قطعاً ایک غیر معروف نام ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ محض ایک علامتی نام ہو۔ اور ابھی حال ہی میں راقم کے کئی سال قبل (۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۴ء میں) ’’غزوۂ سند ھ وہند: ایک مبارک نبوی پیشین گوئی‘‘ کے عنوان سے لاہور اور لکھنو، انڈیا کے بعض رسائل ومجلات میں شائع ہونے والے ایک مضمون پر ایک تنقیدی مضمون ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے نومبر/دسمبر ۲۰۰۹ء کے شمارہ میں شائع ہوا جس کا عنوان ہے: ’’حدیث غزوۃ الہند اور مسئلہ کشمیر پر اس کا انطباق‘‘۔ مضمون نگار مولانا محمد وارث مظہری ہیں اور اسے مجلہ الشریعہ کی طرف سے ایک ادارتی وضاحت کے ساتھ شائع کیا گیاتھا کہ یہ ہندوستانی مسلمانوں کا نقطہ نظر ہے:
’’ہمارے ہاں جہادی تصورات وعزائم کے اظہار میں بالخصوص مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت میں مقیم مسلمانوں کے زاویہ نظر کو بالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ذیل کا مضمون اسی تناظر میں شائع کیا جا رہاہے۔ مصنف دار العلوم دیوبند کے قدیم فضلا کی تنظیم کے جنرل سیکریٹری اور ماہنامہ ’’ترجمان دار العلوم‘‘ کے مدیر ہیں۔‘‘
میں اس مضمون کو وقت پر نہ دیکھ سکا۔ برادر عمار ناصر صاحب کے ساتھ بیروت کے سفر (اواخر مارچ ۲۰۱۰ء ) سے کچھ ہی روز قبل یہ مجھے ملا۔ میں نے ماہنامہ ’’ترجمان دار العلوم‘‘ سے اس کے اولین اور متبادر مفہوم کو لیا کہ مجلہ مذکور ہندوستان بلکہ عالم اسلام کی عظیم درسگاہ دار العلوم دیوبند سے شائع ہوتاہے، لیکن مضمون کا مطالعہ کرنے کے بعددل ودماغ نے یہ ماننے سے انکار کردیا کہ ایسا مضمون کسی مسلمان کا ہوسکتاہے، چہ جائیکہ وہ ایک عالم دین بھی ہو اور دار العلوم دیوبند سے ایسے شخص کی نسبت کو ماننے سے دل، جو اکابر دار العلوم دیوبند سے اپنے بے شمار اساتذہ ومشائخ کی محبت کے ذریعے سے جڑا ہوا ہے، بالکل ہی منکر ہوا تو میں نے تحقیق کی غرض سے ماہنامہ دار العلوم دیوبند کو برقی خط لکھا جہاں سے جواب آیا کہ مولانا محمد وارث مظہری اور ان کے رسالہ ’’ترجمان دار العلوم‘‘ کا دیوبند سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ نئی دہلی سے یہ رسالہ نکالتے ہیں۔ بہرحال ہم اس مقالہ میں انیس صاحب کے مضمون میں اٹھائے گئے نکات پر اپنی معروضات پیش کریں گے اور کسی دوسرے موقع پر مولانا مظہری صاحب کے مضمون میں اٹھائے گئے نکات پر بھی ایک تجزیہ قارئین الشریعہ کے سامنے رکھیں گے۔
محمد انیس صاحب کا مضمون ان افکار وخیالات کا نچوڑ ہے جسے وقتاً فوقتاً بعض بھارتی مسلمان جنہیں ہم (مستشرق کے وزن پر )مستغرب کہہ سکتے ہیں، پھیلاتے رہتے ہیں۔ انیس صاحب کے مضمون کا خلاصہ یہ ہے :
- اس وقت کشمیر کے اندر بعض جنگجو چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی شکل میں جو ایک خونریز جنگ لڑ رہے ہیں، یہ جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہے، اس لیے کہ اس جنگ کا مقصد یا تو استصواب رائے سے متعلق اقوام متحدہ کے فیصلوں کانفاذ ہے یا آزادی کا حصول ہے اور یا پھر اس خطے کا پاکستان سے الحاق کرنا ہے۔ یہ سب سیاسی مقاصد ہیں، ان میں کوئی چیز بھی دینی حیثیت نہیں رکھتی۔
- اس قسم کی گوریلا جنگ کا اسلام کی جہادی تاریخ میں کوئی تصو ر و وجود نہیں پایا جاتا، کیونکہ اس میں ’’ضرب لگاؤ اور بھاگو‘‘ کا اصول چلتا ہے جو کمزوری اور بے بسی کی دلیل ہے۔یہ ایک بزدلانہ طریقہ کار ہے جو اسلامی ہے نہ کسی مسلمان کے شایان شان۔
- اس مسلح جدوجہد میں اسلامی جہاد کی اہم خصوصیات نہیں پائی جاتیں، مثلاً یہ کہ اسلا م میں جہاد کی حیثیت ایک دفاعی اقدام کی ہے نہ کہ پیش قدمی و چڑھائی کی۔ پھر یہ کہ مجاہدین کشمیر کے پاس بقدرضرورت جنگی طاقت ہے نہ سیاسی قیادت و متحدہ امارت، بلکہ وہ منتشر گروپوں اور تنظیموں میں بٹے ہوئے ہیں جو ان کے ضعف کی دلیل ہے۔ کمزور کے لیے واحد راستہ ہجرت ہے نہ کہ جہاد جیسے کہ اللہ کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مصر سے ہجرت کی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جب تک آپ مکہ میں کمزور حیثیت میں تھے، کوئی مزاحمت کی نہ جہاد کیا بلکہ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔
اب ہم ان تمام اعتراضات اور شبہات کا قرآن و حدیث اور شرعی اصول وضوابط کی روشنی میں ایک جائزہ آپ کے سا منے رکھیں گے۔
مقدس و قابل احترام چیزوں کا دفاع انسانی فطر ت اور خدائی قانون
اللہ تعالیٰ نے انسان و حیوان دونوں کی فطرت میں یہ چیز ودیعت کی ہے کہ وہ اپنی ضروریات یا جدید محاورے کے مطابق اپنے بنیادی حقوق کا بھرپور دفاع کرتے ہیں اور بنیادی حقوق میں یہ چیزیں آتی ہیں :
- دین اور عقیدہ
- جان یا زندگی
- انسانی عقل / حریت فکر
- نسب / عزت و آبرو
- مال و متاع
اِن پانچ بنیادی ضروریات کی حفاظت کے لیے انسان ہی نہیں، حیوان بھی مطلوبہ قوت طاقت اور دیگر مادی وسائل سے تہی دست ہونے کے باوجود جان پر کھیل جانے کو تیار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرغی ایک بے ضرر قسم کا گھریلو پالتوجانور ہے، لیکن اگر کوئی چیل اس کے بچوں پر دست درازی کرے تو وہ طیش میں آ کر اس پر حملہ کر دیتی ہے اور اپنے بچوں کو اپنے پروں کے نیچے حفاظت کی غرض سے چھپا لیتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنا دفاع کرنا ہر جاندار میں فطری طور پر ودیعت کیا گیا ہے۔
دفاع نفس صرف فطرت ہی نہیں، شرعی حکم بھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کئی احادیث مروی ہیں جن سے بصراحت ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص ناحق طور پر دوسرے کی عزت و حرمت پر دست درازی کرے تو حملہ آور کامقابلہ اور دفاع کرنا واجب ہے۔ اگر کوئی شخص جان، مال اور اولاد کا دفاع کرتے ہوئے قتل ہو جائے تو وہ شہید ہے۔ ایسی چند احادیث ائمہ حدیث کی تشریحات سے اخذ کردہ نتائج کے ساتھ ذیل میں پیش کی جاتی ہیں۔
حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جو شخص اپنے مال کے دفاع کے لیے لڑا اور مارا گیا، وہ شہید ہے۔ جو شخص اپنی جان کے دفاع کے لیے لڑا اور مارا گیا تو وہ بھی شہید ہے اور جو اپنے بیوی بچوں کے دفاع کے لیے لڑتے مارا گیا، وہ بھی شہید ہے۔‘‘ (۱)
امام بخاری نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص اپنے مال کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا، وہ شہید ہے۔‘‘ (۲)
ایک صحیح روایت میں ہے کہ حضرت امیر معاویہ کے بھائی عنبسہ بن ابی سفیان نے، جو امیر معاویہ کی طرف سے مکہ اور طائف کے گورنر بھی تھے، ایک چشمہ کے پانی سے طائف میں اپنی زمین کو سیراب کرنے کے لیے نالہ کھدوایا۔ اتفاق سے راستے میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے خاندان کا ایک باغ رکاوٹ بن رہاتھا ۔ حضرت عنبسہ نے چاہا کہ باغ کے بیچ میں سے آبپاشی کا راجباہ گزار لیاجائے تو عبداللہ بن عمر واور ان کے ملازمین اسلحہ لے کر نکل آئے۔ کہنے لگے: خدا کی قسم! جب تک ہم میں سے ایک شخص بھی زندہ ہے، آپ لوگ اس باغ کے اندر سے نالہ نہیں گزار سکتے۔ جب وہ لڑا ئی پر تل گئے تو خالد بن العاص رضی اللہ عنہ عبداللہ بن عمروکے پاس گئے اور انہیں سمجھانے بجھانے کی کوشش کی تو حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: کیاآپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے مال کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا، وہ شہید ہے!‘‘ (۳)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! یہ بتائیے اگر کوئی شخص میر امال چھیننے کے لیے آ جائے تو میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: اسے اپنا مال نہ دو ۔ اس نے پوچھا کہ اگر وہ مجھ سے لڑائی شروع کر دے تو؟ فرمایا : تم بھی اس سے لڑو۔ پوچھا:یہ بتائیے کہ اگر وہ مجھے قتل کر دے تو؟ فرمایا: تم شہید ہو گے۔ اس نے سوال کیا کہ اگر میں اسے قتل کردوں تو پھر آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا: وہ جہنمی ہے۔ (۴)
ان احادیث سے چند باتیں معلوم ہوئیں :
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کہ ’’اسے اپنا مال نہ دو‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اسے تمھارا مال جبراً لینے کا قطعاً کوئی حق نہیں ہے۔ بظاہر یہ ممانعت ہے، اس لیے اس کا اولین مفہو م یہی ہوگا کہ زبردستی اور جارحانہ انداز سے قبضہ کی کوشش کرنے والے کے آگے مزاحمت کا بند باندھنا ضروری ہے اور اِس کے بغیر ’’قبضہ گروپ‘‘ جارحیت پسند لوگوں کے حوصلے بڑھیں گے۔
- جو شخص اس طرح مال لینا چاہے، خواہ مال تھوڑا ہو یا زیادہ، اسے جان سے مار ڈالنا جائز ہے ۔
- اپنی حرمت کا دفاع کرنا واجب ہے جیسے ، بیوی ، بچے ، عزت و آبرو وغیرہ۔
- اپنی جان کا دفاع کرنا واجب ہے، خواہ اس کے نتیجے میں آدمی خود شہید ہوجائے یاحملہ آور کو قتل ہی کرنا پڑے ۔
- حملہ آور کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ’ہو فی النار‘ کامطلب یہ ہے کہ وہ اس سزا کا مستحق ہے ۔ اسے یہ سزا مل سکتی ہے اور معاف بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر وہ اس ظلم کو بلا تاویل جائز اورحلال سمجھے تو وہ کافر ہے، اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔
- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بنیادی انسانی حقوق اورحرمتوں کے دفاع میں قتل ہو جانے کو شہادت اور ایسے مقتول کو شہید فی سبیل اللہ قرار دیا ہے ۔ اس میں یہ ترغیبی اشارہ موجود ہے کہ حملہ آور غاصب کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالنے چاہییں بلکہ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے ۔
آل عمرو رضی اللہ عنہم کے قصے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی نہج پر نبی کے ہاتھوں تیار ہونے والی سب سے پہلی نسل یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ظلم کا مقابلہ کیا کرتے تھے اور اس راہ میں موت کو شہادت شمار کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ ۔ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللَّہِ کَثِیْراً وَلَیَنصُرَنَّ اللَّہُ مَن یَنصُرُہُ إِنَّ اللَّہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ (الحج: ۳۹، ۳۰)
’’اجازت دے دی گئی ہے (لڑائی کی)ان لوگوں کو جن سے لڑائی کی جارہی ہے اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ وہ جنہیں ناحق طور پر ان کے گھروں سے نکال دیا گیا، صرف اس لیے کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے۔ اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے نہ ہٹاتا تو وہ گرجے، عبادت خانے اور مساجد ویران ہو جاتیں جن میں اللہ کا بہت ذکر کیا جاتا ہے۔ اور اللہ اُن لوگوں کی ضرور مدد کرے گا جو اس کے دین کے مدد گار ہیں۔ بے شک اللہ قوت والا اور غالب ہے ۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَقَاتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ (البقرہ: ۱۹۰)
’’اور لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے ہیں، لیکن زیادتی نہ کرو اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔‘‘
پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان مظلوم و ستم رسیدہ بندوں کو اجازت دی ہے جنہیں کفار نے ناحق طور پر ان کے وطن سے نکال دیا اور ہجرت پر مجبور کر دیا کہ وہ اس ظلم و ستم کا مقابلہ کریں اور اس زیادتی کا جواب دیں کیونکہ یہ ان کی طرف سے اپنی عزت و حرمت کا دفاع ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس اجازت دفاع و مزاحمت کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ اگر مظلوم ظالم کے سامنے کھڑا نہیں ہوگا، اس کے ظلم و ستم کا جواب نہیں دے گا تو یہ خاموشی ظالم کو اور زیادہ جری و دلیر بنا دے گی اور اس کے کبروغرور میں اضافہ ہو گا۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ ظلم و زیادتی اور مظلوموں پر دست درازی کرے گا اور نتیجتاً لوگوں کے گھر بار تو کجا خدا کے گھر یعنی مساجد اور عبادت گاہیں تک محفوظ نہ رہیں گی جو فسادِ عظیم ہے ۔ جہاد فی سبیل اللہ کے انہی عظیم مصالح کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے صرف قتال کی اجازت پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ دوسری آیت میں حکم دیا کہ ایسے لوگوں سے لڑو۔ (۵)
نہتے کشمیری مسلمان بھی اس جنگ میں مظلوم ہیں جیسا کہ ’ان الکذوب قدیصدق‘ کے مصداق ہمارے فاضل مضمون نگار نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ اس جنگ میں قریب قریب یک طرفہ طور پر مسلم جانیں جا رہی ہیں، بے شمار عورتیں بیوہ، بے اولاد اور بے سہارا ہوگئی ہیں اور ہندوستانی حفاظتی دستے جب چاہیں بے گناہ مسلم شہریوں کو حراست میں لے کر ان پر تشدد کرتے ہیں۔ اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی زبان سے بھی اس کھلی حقیقت کا اظہار کروا دیا ہے جو اپنے مسلمان بھائیوں کو چھوڑ کر بھارت کے وکیل و حمایتی بنے ہوئے ہیں تو کیا اب بھی وہ اپنے مظلوم کشمیری مسلمان بھائیوں کو جنہیں بھارت نے جموں ، راجوری ، پونچھ ، وادی اور دیگر کئی شہروں سے بے وطن کر کے ہجرت پر مجبور کر دیا ہے، یہ حق دینے کو تیار نہیں ہیں کہ وہ دشمن کی اس جارحیت کا جواب دیں؟ حالانکہ بین الاقوامی معاہدے اور قوانین بھی جارحیت کا شکار ہونے والے ایسے تمام لوگوں کو اپنی عزت و آبرو اور مقدس مقامات کے دفاع کا حق دیتے ہیں۔ ہماری اسلامی شریعت بھی مظلوموں کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ حملہ آور دشمن کا پیچھا کریں، اگر چہ دشمن حرم کے اندر ہو اور زمانہ اشہرحرم ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَلاَ تُقَاتِلُوہُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیہِ فَإِن قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوہُمْ کَذَلِکَ جَزَاء الْکَافِرِینَ (البقرۃ: ۱۹۱)
’’اور ان دشمنوں سے مسجد حرام میں نہ لڑو جب تک وہ تم سے لڑائی نہ کریں، لیکن اگر وہ تم سے وہاں بھی لڑیں تو پھر انہیں قتل کرو۔ کافروں کی یہی سزا ہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے مسجد حرام کے پاس دشمنوں کے ساتھ لڑنے سے منع کیا ہے، لیکن اس صورت کومستثنیٰ رکھا ہے جب کفار خود مسجد حرام یاحدود حرم میں لڑائی کا آغاز کر دیں۔ اس وقت ان کی زیادتی و جارحیت کی وجہ سے ان کے ساتھ لڑائی کی جائے گی۔ اس دفاعی جنگ میں اگر کسی مقدس مقام یا زمانہ کی بے حرمتی ہورہی ہو، تب بھی دفاعی جنگ میں توقف نہیں آنا چاہیے کیونکہ اسلام کے بین الاقوامی قانون کی ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ:مقدس مقامات جگہوں اور اوقات کے احترام میں بھی یک گونہ مساوات ملحوظ رکھی جائے گی: والحرمٰت قصاص۔ (نیز دیکھیے: البقرہ: ۲۱۷)
اگرچہ یہ آیت ابتدا میں حضرت عبداللہ بن حجش کے اس فوجی دستے کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے عمروبن الحضرمی کے قافلے پر حملہ کر کے ان کا مال واسباب لوٹ لیا تھا، لیکن اس کا حکم اپنے عموم کے لحاظ سے ہر اس لڑائی کو شامل ہے جو حرام مہینوں میں واقع ہو۔ چنانچہ علامہ عبدالرحمن بن ناصر السعدی نے اپنی مشہور تفسیر ’’تیسیرالکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان‘‘ میں اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ ا شہر حرم کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں جنگ حرام ہے اور اس سے مراد لڑائی کی ابتدا ہے۔ رہی دفاعی جنگ تو وہ جس طرح بلد حرام اورحرم میں جائز ہے، حرام مہینوں میں بھی جائز ہے۔ (۶)
مزید بر آں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
الشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَی عَلَیْکُمْ وَاتَّقُواْ اللّہَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ مَعَ الْمُتَّقِینَ (البقرۃ: ۱۹۴)
’’محترم مہینہ ، محترم مہینے کا بدلہ ہے اور تمام حرمتوں میں باہمی مساوات و قصاص ملحوظ رکھاجائے گا۔ پس جو تم پر زیادتی کرے، تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کرسکتے ہو جتنی ان نے تم پر کی ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ خدا ترسوں کے ساتھ ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں بین الاقوامی تعلقات کے سلسلے میں ایک اہم اور بنیادی اصول بیان کیا گیا کہ ہر مقدس و محترم چیز،مقامات، اوقات اور حالت احرام، کا احترم کیا جائے گا، خواہ وہ چیز شریعت کی نظر میں محترم ہو یا تمام بنی نوع انسان کی نظر میں ازخود احترام حاصل کرچکی ہو یا بین الاقوامی ومقامی انسانی اداروں نے اس کا احترام و تقدس ضروری قرار دیا ہو تو ایسی حرمت بھی واجب التسلیم ہوگی اور جو شخص ایسی کسی حرمت و قانون کی خلاف ورزی کرے گا، اس کا ویسا ہی جواب دیاجاسکتا ہے، چاہے اس میں بظاہر کسی تقدس کی پامالی ہی کیوں نہ ہوتی ہو۔ لہٰذا جو شخص حرمت والے مہینے میں لڑائی کرے گا، اس سے لڑائی کی جائے گی۔ جو شخص مسجد حرام کی یا کسی دوسری شرعی حرمت کی پامالی کرے گا تو اس سے بدلہ لیا جائے گا اور اس کی حرمت کا لحاظ نہیں کیا جائے گا، خواہ وہ حرم میں جا چھپے۔
گزشتہ سطور میں ہم نے جو قرآنی آیات اور احادیث ذکر کی ہیں، مجاہدین کشمیر نے اپنی جدوجہد اور جہاد کی بنیاد انہی خطوط پر استوارکی ہے اور وہ اپنے دفاع کا جائز اور مسلمہ حق استعمال کر رہے ہیں۔
کشمیری عوام کا جہاد دفاعی ہے نہ کہ اقدامی
کشمیر کے عوام نے اپنی ریاست کو ہندو کے غاصبانہ قبضہ سے آزادکرانے کے لیے جو جدجہد شروع کی ہے، وہ ہر اعتبار سے ایک دفاعی جنگ ہے نہ کہ اقدامی جیسا کہ بھارتی پراپیگنڈا بازوں کا دعویٰ ہے کیونکہ یہ جنگ کشمیر ی عوام نے نہیں بلکہ خود بھارت نے شروع کی ہے۔ بھارت نے ۱۹۴۸ء میں انگریز سامراج کے ساتھ ساز باز کر کے کشمیر میں اپنی فوج داخل کی تاکہ مسلم اکثریت کی حامل ریاست پر قبضہ کر سکے۔ کشمیری عوام اس ظلم کو برداشت نہ کر سکے۔ وہ قابض فوج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اورمقابلہ شروع کر دیا۔ کشمیری مسلمانوں کی یہ جدو جہد ایک معر وف تاریخی حقیقت ہے ۔ اس جد و جہد میں پاکستان کی حکومت اور عوام نے بھی اپنے کشمیری بھائیوں کا ساتھ دیا جس کے نتیجہ میں ریاست کا ایک تہائی حصہ آزاد کرا لیاگیا۔ اب یہ آزاد حصہ دو حصوں پر مشتمل ہے:
(۱) گلگت بلتستان : یہ علاقہ چین کی سرحد کے ساتھ ملتا ہے اور انتظامی اعتبار سے ایک باقاعدہ معاہدہ کے تحت پاکستان کے حوالہ کیا گیا تھا جسے اب نیم صوبائی درجہ میں ایک وزیر اعلیٰ اور اسمبلی کا حق بھی دیاگیاہے۔
(۲) دوسرے حصے کانام آزاد کشمیر ہے جس میں نیم خود مختار آزاد حکومت قائم ہے۔
جو لوگ اس قسم کے غیر معمولی حالات میں غلامی کی زندگی میں مبتلا ہوجائیں، انہیں تمام بین الاقوامی انسانی قوانین اور خدائی قوانین اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ قابض دشمن کا مقابلہ کریں۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ اسی جنگ کے دوران بھارت خود اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گیا جس نے یہ فیصلہ کیا کہ فوری طور پر جنگ بند کرادی جائے جس کے بعد اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کشمیر میں استصواب رائے کرایا جائے گا۔ بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام نے اس فیصلے کو تسلیم کر لیا۔ مضمون نگار کا خیال ہے کہ اسی فیصلے کی وجہ سے کشمیری عوام اور بھارتی فوج کے درمیان لڑائی شروع ہوئی، حالانکہ اس جھگڑے کا سبب اقوامِ متحدہ کی یہ قرارداد نہیں ہے بلکہ یہ قرارداد اس جنگ کو ختم کرانے کے لیے منظور ہوئی جو انڈیا نے کشمیریوں پر مسلط کی تھی۔ بین الاقوامی اداروں نے مداخلت کر کے جنگ تو بند کرادی، لیکن جس قرارداد کی بنیاد پر یہ جنگ بندی عمل میں آئی تھی، وہ آج تک تشنہ تنفیذ ہے۔ بھارت نے اس قرارداد کی من مانی تشریح کی اور اپنے مفاد والے حصہ پر عمل درآمد کا یک طرفہ مطالبہ دوسرے فریقوں سے کرنے لگا، حالانکہ اس فیصلے پرمکمل عمل درآمد خود بھارت کے مفاد میں تھا۔
اس عارضی جنگ بندی کے بعد کشمیری عوام اس انتظار میں رہے کہ یہ بین الاقوامی ادارے جنہوں نے ہم سے ہتھیار رکھوائے ہیں اور استصواب رائے کروانے کا وعدہ کیا ہے، وہ اس مسئلے کو ضرور حل کریں گے، لیکن انہوں نے دیکھا کہ سالہا سال گزر جانے کے باجود ان اداروں نے اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی پیش رفت نہیں کی بلکہ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، یہ ادارے مسئلہ کشمیر سے لاتعلق و کنارہ کش ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ جب نصف صدی کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد انہیں یقین ہوگیا کہ یہ ادارے غیر جانبدار نہیں ہیں بلکہ بڑی طاقتوں کے آلہ کار ہیں تو وہ اس مجرمانہ غفلت پر بھڑک اٹھے اور اپنی وہی جنگ جو انہوں نے ۱۹۴۸ ء میں کچھ وقت کے لیے عارضی طور پر بند کر دی تھی، دوبارہ شروع کر دی، لہٰذا اس وقت بھارتی فوج کشمیری عوام کے خلاف جو جنگ لڑرہی ہے، یہ اسی جنگ کا تسلسل ہے جو ۱۹۴۸ ء میں بھارت نے خود شروع کی تھی۔
اب صرف یہ جاننا باقی ہے کہ آیا کشمیر ی عوام کی طرف سے اقوام متحدہ کے فیصلوں کو تسلیم کرنا اور کشمیر کے جہادی و سیاسی قائدین کی طرف سے ان فیصلوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کرنا کشمیری عوام کے جہاد پر کسی طور اثر انداز ہوتا ہے یا نہیں؟ آیا وہ اس مطالبہ کے بعد جہاد کے اجروثواب کے عند اللہ مستحق رہتے ہیں یا نہیں؟ بعض لوگوں نے اس سلسلے میں بھی ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور کئی سوالات اٹھائے ہیں۔
اس کا واضح اور دو ٹوک جواب یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے فیصلوں اور قراردادوں کو قبول کرنے یا ان پر عمل درآمد کا مطالبہ کرنے سے جہاد پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیوں کہ اس قسم کے فیصلے اور قراردادیں تو ان مسلمہ قوانین و معاہدات کا فطری و طبعی نتیجہ ہیں جن پرمسلم امت سمیت پوری دنیا کی اقوام نے دستخط کیے ہیں اور یہ ادارے ان فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے ہی قائم کیے گئے ہیں تو پھر اس قسم کے فیصلوں و قراردادوں کا وجود میں آنا ایک فطری معاملہ ہے۔ کشمیری عوام و مجاہدین بھی چونکہ اسی انسانی معاشرے کا حصہ ہیں، لہٰذا ان کے لیے اس قسم کے فیصلوں کو قبول کرلینے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے کیونکہ ان مسلمہ قوانین و معاہدات کی حیثیت عرف عام کی سی ہے اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا شریعت بھی اعتبار کرتی ہے۔ شریعت جب اس قسم کے معاشرتی معاہدے کرنے کی اجازت دیتی ہے تو ان کی تنفیذ کا مطالبہ کرنا کیسے ناجائز اور غیر شرعی ہو سکتا ہے؟ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں اس قسم کے معاہدات کا نمونہ موجود ہے جو صرف جائز و مباح ہی نہیں بلکہ واجب الاتباع بھی ہے۔ مثال کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنے ددھیال کے ساتھ جب حلف المطیبین میں شریک ہوا تو میں ایک نو عمر لڑکا تھا اور مجھے عربو ں کا قیمتی اور بہترین مال یعنی سرخ اونٹ بھی دیے جائیں تو مجھے اس معاہدے کو توڑنا پسند نہیں۔ (۷)
حلف الفضول کا مشہور معاہدہ قریش کے مابین ہونے والی مشہور لڑائی حرب فجار کے بعد ذیقعدہ کے مہینے میں عمل میں آیا۔ اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بیس سال تھی۔ سب سے پہلے زبیر بن عبدالمطلب نے اس معاہدے کی دعوت دی۔ پھر قبیلہ بنو ہاشم ، بنوزہرہ اوربنو تیم کے لوگ عبداللہ بن جدعان کے گھر میں جمع ہوئے، کھانا تیار کیا گیا جس کے بعد انہوں نے اللہ کے نام پر باہمی معاہدہ کیا کہ ہم ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیں گے اور مکہ میں جس شخص پر بھی ظلم ہوگا، خواہ وہ مکہ کا باشندہ ہو یا پردیسی، ہم اس کا ساتھ دیں گے اور ظالم کے خلاف لڑیں گے یہاں تک کہ ظلم کا خاتمہ ہو جائے اور مظلوم کا حق ادا کر دیا جائے۔ اس معاہدے کا نام حلف الفضول اس وجہ سے ہے کہ قبل ازیں مکہ کی قدیم تاریخ میں بنوجرہم کے زمانہ میں بھی اسی نوعیت کا ایک معاہدہ ہوا تھا جس مین فضل بن حارث، فضل بن وداعہ اور فضل بن فضالہ ایک ہی نام کے تین اشخاص نے شرکت کی تھی۔ (۸) اس مشابہت کی بنا پر اس معاہدے کو بھی حلف الفضول کہا گیا یعنی فضل نامی اشخاص کے درمیان ہونے والے معاہدے کی طرز پر عہد و پیمان۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلمکا فرمان ہے کہ میں عبداللہ بن جدعان کے گھر میں طے پانے والے معاہدے میں شریک تھا اورآج بھی اگر مجھے ایسے کسی معاہدے کے لیے دعوت دی جائے تو میں تیار ہوں۔ (۹)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین عرب اور اہل کتاب یہود و نصاریٰ کے ساتھ معاہدے کیے اور ان سے تنفیذ کا مطالبہ بھی کیا، مثلاً صلح حدیبیہ کا معاہدہ۔ آپ نے بنو نضیر سے مطالبہ کیا کہ وہ ان دو مقتولوں کی دیت ادا کرنے میں ان کی مدد کریں جنہیں عمرو بن امیہ ضمری نے بئرمعونہ کے شہدا کے انتقام میں قتل کر دیا تھا۔ (۱۰) آپ کی عادت تھی کہ وعدہ ہر حال میں پورا کرتے تھے خواہ وہ اہل ایمان کے ساتھ ہوتا یا کفار کے ساتھ اور اپنے صحابہ کو بھی یہی تعلیم دیتے تھے۔
اس وضاحت کے بعد ہم یہ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حیثیت دراصل ایک ایسے ادارے کی طرف سے جاری ہونے والے احکام اور قراردادوں کی سی ہے جس کے بارے میں عالمی معاشرے کے ساتھ ہم نے یہ اتفاق کیا ہے کہ اگر اس ادارے کے فیصلے ہماری شریعت سے متصادم نہیں ہوں گے تو ہم انہیں قبول کریں گے اور مسئلہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادیں شریعت کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اگر انہیں نافذ کر دیا جائے تو وہ شریعت کے حق میں جاتی ہیں، لہٰذا ان کے نفاذ کا مطالبہ کرنے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں اور نہ جہاد کشمیر کی شرعی حیثیت پر اس کا کوئی منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے (اور کہنے والے وہ اہل قلم ہیں جنہیں دین کی سمجھ ہے، نہ خدا اور رسول سے کوئی وفاداری وموالات ہے اور نہ اہل ایمان سے کوئی محبت)کہ کشمیریوں کی جدو جہد شرعی معیار کا جہاد نہیں ہے اور فی سبیل اللہ بھی نہیں ہے کیونکہ اس میں وہ خلوصِ نیت مفقود ہے جس کی بنا پر کوئی جنگ جہاد فی سبیل اللہ کہلانے کی مستحق بنتی ہے اور وہ اللہ کی رضا اور خوشنودی ہے اور کشمیر ی جنگجو اللہ کی رضا کے لیے نہیں لڑرہے ہیں بلکہ ان کی ساری جدوجہد کامقصد یا تو مسئلہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کروانا ہے تاکہ استصواب رائے عمل میں آ سکے یا آزادی کا حصول ہے یا پھر پاکستان کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کا الحاق ہے اور ان میں سے کوئی چیز بھی شرعاً ایسی حیثیت نہیں رکھتی کہ اس کی بنیاد پر کوئی خونریز جنگ چھیڑ دی جائے کہ ایک پوری قوم اس کی بھینٹ چڑھ کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس شبہے کاجواب یہ ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مجاہدین کشمیر کا اس جنگ سے مقصود اور نیت اللہ کی رضا اور خوشنودی نہیں ہے، ایسے لوگ دراصل مجاہدین کی نیتوں پر حملہ کر رہے ہیں حالانکہ کسی انسان کی یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ کسی کے دل میں چھپی ہوئی نیت اور ارادے کو جان سکے کیونکہ دلوں کے راز غیبی معاملہ ہے اور غیب جاننے ولا صرف اللہ ہے۔ یہ ایک ایسی واضح اور بدیہی بات ہے جس کے لیے کسی دلیل و استدلال کی ضرورت نہیں اور اگر کسی کی نیت جاننی ہو تو نیت والے کی طرف ہی رجوع کرنا پڑے گا، کیونکہ اس معاملے میں اسی کی بات حرف آخر ہے۔ اور کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ظاہری حالات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کسی کا باطن کریدے اور دلوں کے اندر پوشیدہ نیتوں پر حکم لگائے۔
سورۂ نساء کی آیت ۹۴ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ جہاد کے لیے نکلیں تو ثابت قدمی دکھائیں اور تحقیق کر لیا کریں اور اگر کوئی شخص زبان سے مسلم ہونے کا دعویٰ کرے تو اس کے ظاہری دعوے سے صرف نظر کر کے اس کے باطن کو کریدنے کی کوشش نہ کریں اور یہ نہ کہیں کہ وہ صرف جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ رہا ہے اور اس کے دل میں اخلاص نہیں ہے، کیونکہ یہ حق انہیں حاصل نہیں ہے۔ ایک ایسے شخص کے لیے جو خدا کی راہ میں دشمنان اسلام سے لڑنے کے لیے جا رہا ہے اور قدم قدم پر اسے دشمن کی چالوں اور کاروائیوں سے واسطہ پڑ سکتا ہے، اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اگر کوئی شخص اس کے سامنے اپنے مسلم ہونے کا دعویٰ یااقرار کرے تو وہ اس کے معاملہ میں غوروفکر، احتیاط اور تحقیق سے کام لے ، جھٹ سے اسے جھٹلانے کی کوشش نہ کرے، حالانکہ اس قسم کے حالات میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ شخص فی الواقع جان بچانے کے لیے ہی کلمہ اسلام کا سہارا لے رہا ہو، لیکن پھر بھی یہ حکم ہے کہ غوروفکر اور احتیاط سے کام لو اور تحقیق کر و۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم کا منشا یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی شک والا معاملہ ہو، وہاں جلدی میں کوئی حکم لگانے سے پہلے تحقیق اور غورو فکر انتہائی ضروری ہے۔
حضرت خالد بن ولید نے ایسے ہی ایک شخص کے قتل کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا : مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ میں لوگوں کے دل چیروں اور ان کے پیٹ پھاڑ کر دیکھوں۔ (۱۱) ایک لڑائی میں حضرت اسامہ بن زیدنے ایک ایسے شخص کو قتل کر دیا جس نے کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ پڑھ کر دعوائے ایمان کر دیا تھا۔ جب یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں آئی تو آپ نے حضرت اسامہ سے فرمایا: کیا تو نے اسے لا الہ الا اللہ کہنے کے باوجود قتل کر دیا ؟ اُسامہ نے عرض کیا :یا رسول اللہ! اس نے تلوار کے خوف سے کلمہ پڑھا تھا۔ آپ نے فرمایا: تو تم نے اس کا دل کیوں نہ چیر کر دیکھ لیا کہ تمھیں پتہ چل جاتا کہ اس نے اخلاص سے کلمہ پڑھا ہے یا نہیں؟ حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ آپ یہ جملہ بار بار دہراتے رہے، حتیٰ کہ میرے جی میں آیا کہ کاش میں نے آج ہی اسلام قبول کیا ہوتا۔ (۱۲)
امام نووی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد (افلا شققت قلبہ) میں فقہ اور علم الاصول کے اس مشہور قاعدے کی دلیل ہے کہ فیصلہ ظاہر کے مطابق کیا جاتا ہے اور باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ (۱۳) مشہور محدث اور صحیح بخاری شارح امام ابن حجرعسقلانی نقل کرتے ہیں : تمام علما کا اس پر اجماع ہے کہ اس دنیا میں تمام فیصلے ظاہر کی بنا پر ہوتے ہیں اور دلوں کے حالات اللہ کے سپرد کیے جاتے ہیں۔ (۱۴)
ہر مسلمان اس بات کا پابند ہے کہ وہ ہمیشہ ظاہر کے مطابق فیصلہ کرے گا اور اس اصول سے تجاوز نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قاعدے سے کسی کو حتی کہ اپنے نبی کو بھی مستثنیٰ نہیں کیا اور پوری امت کا اس اصول پر اتفاق و اجماع ہے تو پھر محمد انیس صاحب! آپ کو یہ حوصلہ کیسے ہوا کہ آپ کشمیری مجاہدین کی نیتوں پر حکم لگائیں یا تبصرہ کریں؟ حالانکہ وہ واضح طور پر کہہ بھی رہے ہیں کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہندؤوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آپ اپنی حدود سے تجاوز کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ اللہ سے توبہ کریں اور اس گناہ کی معافی مانگیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ جیسے دیگر افراد کو بھی ہدایت دے ۔ آمین
اسلامی ممالک کی آزادی کے لیے کوشش جہاد میں داخل ہے
ان لوگوں کا یہ کہنا کہ اگر کوئی مسلمان اپنے مقبوضہ وطن کو آزاد کرانے کے لیے یا کسی اسلامی ملک کے ساتھ اس کا الحاق کرنے کے لیے جنگ کرے تو وہ جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہے اور یہ چیز جہاد کی متفق علیہ تعریف میں نہیں آتی، قطعاً غلط اور دین و شریعت سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ اگر ان لوگوں کو اس قسم کے مسائل کا علم نہیں تو انہیں چاہیے کہ علما اور ماہرین شریعت سے پوچھیں جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: إِنَّمَا شِفَاءُ الْعِیِّ السُّؤَالُ (۱۵)۔
ہمارے اور جہاد کشمیر کے مسلمان مخالفین یا مترددین کے درمیان اس اختلافِ رائے میں قرآن و حدیث کی شرعی نصوص بہترین حکم ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
أَلَمْ تَرَ إِلَی الْمَلإِ مِن بَنِی إِسْرَاءِیلَ مِن بَعْدِ مُوسَی إِذْ قَالُواْ لِنَبِیٍّ لَّہُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِکاً نُّقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللّہِ قَالَ ہَلْ عَسَیْتُمْ إِن کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ أَلاَّ تُقَاتِلُواْ قَالُواْ وَمَا لَنَا أَلاَّ نُقَاتِلَ فِی سَبِیلِ اللّہِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِیَارِنَا وَأَبْنَآءِنَا فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْاْ إِلاَّ قَلِیلاً مِّنْہُمْ وَاللّہُ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِینَ. (البقرۃ: ۲۴۶)
’’کیا تم نے بنی اسرائیل کے ان سرداروں کو نہیں دیکھا جو موسیٰ کے بعد ہوئے تھے، جب انہوں نے اپنے نبی سے کہا کہ آپ ہمارا کوئی بادشاہ مقرر کر دیں تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں ۔ پیغمبر نے کہا: کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ اگر تم پر لڑائی فرض کر دی جائے تو تم نہ لڑو؟ انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ نہ کریں حالانکہ ہمیں اپنے گھروں اور بال بچوں سے نکال دیا گیا ہے۔ لیکن جب ان پر جنگ فرض کی گئی تو سوائے چند ایک کے سب پھر گئے اور اللہ ظالموں کو جانتا ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں :
- مظلوم کا ظالم سے نبردآزما ہونا ایک فطری امر ہے، خصوصاً جبکہ مظلوم کواپنے اہل وعیال اور وطن سے نکلنے پر مجبور کر دیا گیا ہو۔ اور کسی کے اہل و عیال پرزیادتی کرنا، مال و اسباب لوٹ لینا، علاقوں پر قبضہ کرنا صریح ظلم ہے جو مظلوم کو غیظ و غضب میں مبتلا کر کے انتقام پر ابھارتا ہے۔ اسی بنا پر سرداران بنی اسرائیل نے وقت کے نبی کو تعجب کے اسلوب میں جواب دیا کہ ہم آخر کیوں نہ لڑیں گے جبکہ قتال کے تمام اسباب وجوہات موجود ہیں ۔
- قابض دشمن سے مقابلہ کرنا اور اسے اپنی سرزمین سے بے دخل کرنا انبیا اور صالحین کی سنت ہے ۔
- اللہ تعالیٰ نے اس واقعے میں اہل ایمان کی گفتگو ذکر کر کے پیغمبر وقت کی خاموشی اور عدم انکار بیان کیا ہے اور اصول فقہ کی روشنی میں اس طرح کی گفتگو ہمارے لیے شرعی قانون کا درجہ رکھتی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں بھی ایسی بہت سی نصوص ہیں جواس چیز کی تائید و توثیق کرتی ہیں، مثلاً قرآنِ کریم کی یہ آیت:
وَاقْتُلُوہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ وَأَخْرِجُوہُم مِّنْ حَیْثُ أَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلاَ تُقَاتِلُوہُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیہِ فَإِن قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوہُمْ کَذَلِکَ جَزَاء الْکَافِرِینَ (البقرۃ: ۱۹۱)
’’تم انہیں جہاں بھی پاؤ، قتل کرو اور جہاں سے انہوں نے تمھیں نکالا ہے، تم بھی انہیں وہاں سے نکالو اور دین سے ہٹانا قتل سے زیادہ سخت گناہ ہے اور جب تک وہ تم سے نہ لڑیں، تم بھی مسجد حرام میں ان سے نہ لڑو، لیکن اگر وہ وہاں بھی تم سے لڑیں تو پھر انہیں قتل کرو۔ کافروں کی یہی سزا ہے۔‘‘
اس آیت میں اپنے سب ایمان والے بندوں کو، خواہ اپنے گھروں میں بس رہے ہوں یا انہیں گھروں سے بے گھر کیا گیا ہو، حکم دیا گیا ہے کہ وہ بہرحال ان شہروں سے کفار کو نکالنے کے لیے اٹھیں جن پر انہوں نے مسلمان باشندوں کو نکال کر قبضہ کر لیا ہے، کیونکہ ان علاقوں ، شہروں اور وہاں پر موجود مسلمانوں کے تمام مال و متاع کی خدا کی نظر میں وہی حرمت اور تعظیم ہے جو خود ایک مسلمان کی ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے مقبوضہ علاقوں کو کفار کے تسلط سے آزاد کرانا ایک شرعی حکم ہے جسے بجا لانا واجب ہے اور ظاہر ہے جو لڑائی بھی شرعی احکام کے تحت ہو، وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔
کیا کسی پڑوسی اسلامی ملک کے ساتھ الحاق چاہنے سے جہاد باطل ہوجاتا ہے؟
امت مسلمہ کے لیے رہنما اور اسوہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ آپ امت کو اس حال میں چھوڑ کر گئے تھے کہ اس کے پاس ایک متحد اور مضبوط حکومت تھی ا ور ایک خلیفہ اور ا میر المومنین اس کی رہنمائی کر رہا تھا۔ اب اگر ہم اس بلند درجے تک نہیں پہنچ سکتے تو کم از کم اتنا تو کریں کہ جس حد تک ممکن ہو، امت کو ایک پرچم تلے جمع کر کے متحدہ امت بنانے کی کوشش کریں۔ کشمیری ایک مسلم قوم ہیں اور دین اسلام کو دل کی گہرائیوں سے پسند کرتے ہیں۔ یہ فطری بات ہے کہ جس چیز کا انسان کی محبوب ہستی سے تعلق ہو، انسان اس چیز سے بھی محبت کرتا ہے۔ پاکستان چونکہ ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے، لہٰذا کشمیری مسلمان اس دینی رشتے کی بنا پر یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے اسلامی پاکستان سے منسلک ہو جائیں۔ سورۂ آل عمران کی آیت ۱۰۳ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو حکم دیا ہے کہ اللہ کی رسی یعنی اس کے دین اور اس کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لیں اور تفرقے میں نہ پڑیں، لہٰذا ہر مسلمان فرد اور قوم پر شرعاً یہ لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، آپس میں جڑنے اور متحد ہونے کی کوشش کرے اور افتراق و انتشار سے بچنے کی کوشش کرے۔ کشمیری عوام کے پاکستان کے ساتھ بہت سے خونی رشتے بھی ہیں۔ مزید برآں ان کے تما م تجارتی راستے پاکستان سے ہو کر گزرتے ہیں، لہٰذا اگر یہ آر پار کے مسلمان بھائی آپس میں مل جائیں اور اس طرح ایک مضبوط اور متحد ملک بن جائیں تو اس میں کیا حرج ہے۔ ہمارا دین بھی اس کی اجازت دیتا ہے، پوری عالمی انسانی برادری بھی کشمیریوں کے اس حق کی تائید کررہی ہے تو جب اس جہاد کی اس قدر شرعی اور بین الاقوامی تائید وحمایت موجود ہے تو پھر آخر اسے غیر شرعی قرار دینے کی کیا وجہ ہے؟
مسلمانوں کا آزاد و خودمختار ہونا شرعاً ضروری ہے تاکہ شریعت اسلامیہ کا نفاذ ہو۔ یہ دعویٰ کہ آزادی کے لیے جدوجہد ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ نہیں ہے، احکام شریعت سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ ہر انسان ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوتا ہے اور اسے غلام بنانا خلاف اصول ہے اور ایک مومن اللہ کے سوا کسی کا بندہ اور غلام نہیں ہوتا اور اللہ اور اس کے رسول کے بعد اگر وہ کسی کی اطاعت کرتا ہے تو وہ ان دونوں کی اطاعت کے دائرے میں رہ کر کرتا ہے۔ شریعت سے ہٹ کر کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں پر سننا اور ماننا لازم ہے ہر پسند و ناپسند میں جب تک اسے گناہ کا حکم نہ دیا جائے، اگر اسے گناہ کا حکم دیا جائے تو پھر اس پر سننا لازم ہے نہ ماننا۔ (۱۶) لہٰذا اگر کوئی مسلمان فرد یا گروہ اپنی مرضی کے خلاف محض مجبوری اور بے بسی کی وجہ سے کفار کی غلامی میں پھنس جائے تو شرعاً اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو ا س غلامی سے آزاد کروانے کے لیے پوری کوشش کرے اور امت پر بھی اس کی مدد و اعانت واجب ہے، اگرچہ اس کے لیے جنگ ہی کیو ں نہ کرنی پڑے کیونکہ آزادی ہر انسان کا فطری حق اور تقاضا ہے۔ مسلمان کے معاملے میں یہ اور بھی ضروری ہے کیونکہ مسلمان کے لیے آزادی ایک فطری تقاضے سے بڑھ کر شرعی مقاصد کے حصول کا ذریعہ اور سبب بھی ہے اور یہ مقصد مسلمانوں کا نفاذ شریعت کے مواقع حاصل کرنا ہے۔ جب مسلمان کسی ملک میں آزاد ہوں گے تو وہ آزادی کے ثمرات و برکات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شریعت کا نفاذ کر سکیں گے اور اہل علم جانتے ہیں کہ یہ ایک معروف اصول ہے کہ: لِلْوَسَاءِلِ حُکْمُ الْمَقاَصِدِ وَالْغَایَاتِ (۱۷) ’’وسائل وذرائع کا حکم و حیثیت اصل مقاصد کی ہوتی ہے‘‘ اور: مَا لَا یَتِمُّ الْوَاجِبُ إِلَّا بِہِ فَہُوَ وَاجِبٌ (۱۸) ’’جس چیز پر واجب کا دارو مدار ہو، وہ بھی واجب ہوتی ہے‘‘، لہٰذا آزادی کی خاطر جدجہد کرنا واجب شرعی ہے اور کشمیر کا جہاد اسی قبیل سے ہے ۔
مظلوم کو پنجہ استبداد سے چھڑانا واجب ہے
ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ شریعت اسلامیہ نے مظلوم مسلمانوں پر اپنی حرمتوں کا دفاع کرناواجب قراردیاہے۔ یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جب مظلوم مسلمان کسی بھی وجہ سے اپنا دفاع نہ کر سکتے ہوں تو سب مسلمانوں کا شرعی فرض یہ ہے کہ ان کی مدد اور اعانت کریں اور انہیں پنجہ استبداد سے چھڑانے کی فکر کریں۔
سورۂ نساء کی آیات ۷۴، ۷۵میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے اور انہیں اس بات پر ابھارا ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں جنگ کریں اور اس امر پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ جب حالات جنگ کا تقاضا کر رہے ہوں تو مسلمان اللہ کی راہ میں لڑنے سے کیوں پہلو تہی کر رہے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ سے کیوں کنی کترا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جنگ کے اسباب میں اس چیز کا ذکر کیا ہے کہ کفار نے مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو کمزور اور بے بس سمجھ کر دبا لیا ہے اور ان پر مظالم ڈھا رہے ہیں اور وہ پکار پکار کر اللہ سے دعائیں کر رہے ہیں کہ مولائے کریم! ہمیں ان ظالم انسانوں کی بستی سے نکال جو تیرے ساتھ کفروشرک کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں اور اہل ایمان کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچا رہے ہیں اور انہیں قانون الٰہی کے نفاذ اور دعوت الی اللہ سے روک رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ایک دن حضرت موسیٰ چپکے سے شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ دو آدمی لڑرہے ہیں۔ ایک ان کی جماعت کا اور ایک ان کی دشمن کی جماعت کا تھا۔ جو آدمی حضرت موسیٰ کی جماعت سے تھا، اس نے اپنے دشمن کے خلاف حضرت موسیٰ کو مدد کے لیے پکارا۔ حضرت موسیٰ نے آکر مخالف کو گھونسہ دے مارا اور اس کا کام تمام کر دیا۔ پھر سوچا کہ یہ تو شیطانی کام ہے اور شیطان تو ہے ہی انسان کا دشمن اور گمراہ کرنے والا ۔ اگلے دن پھر یہی واقعہ ہوا اور اسی شخص نے جس نے گزشتہ روز موسیٰ علیہ السلام کو مدد کے لیے پکارا تھا، دوبارہ انھیں آواز دی۔ جب موسیٰ نے اس شخص پر جو ان کا کا دشمن تھا، ہاتھ ڈالنے کا ارادہ کیا تو اسرائیلی کہنے لگا، اے موسیٰ، کیا تم مجھے بھی اسی طرح مارڈالنا چاہتے ہو جس طرح کل تم نے ایک آدمی کو مارڈالا تھا؟ لگتا ہے کہ تم دنیا میں ظالم بننا چاہتے ہو اور تمھارا اصلاح کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ (۱۹)
ان دو آیتوں سے ایک چیز یہ معلوم ہوتی ہے کہ ظالم کے مقابلے میں مظلوم کی مدد کرنا اور اسے ظالم کے ظلم و ستم سے نجات دلانا انبیا علیہم السلام اور رسولوں کی سنت ہے اور دوسری چیز یہ واضح ہوتی ہے کہ جو قومیں غلامی کی زندگی بسر کرتی ہیں اور ایک مدت تک طرح طرح کے مظالم اور بے انصافیوں کا شکار رہتی ہیں، ان کے اندر خوف کی نفسیات پید اہو جاتی ہیں اور ظلم اور ظالم ان کے ذہنوں پر اس طرح مسلط ہو جاتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نیکی اور خیرخواہی کے ارادے سے بھی ان کی طرف بڑھتا ہے تو وہ خوف زدہ ہو جاتے ہیں اور آسانی سے اس پر اعتماد کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔
ان آیات کی مزید وضاحت احادیث سے ہوتی ہے:
حضرت انس ابن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ! اگر میرا بھائی مظلوم ہو پھر تو میں اس کی مدد کروں گا، لیکن اگر وہ ظالم ہو تو پھر اس کی مدد کیسے کرو ں؟ آپ نے فرمایا: اگر تم اسے ظلم سے روک دو تو یہ تمھاری طرف سے اس کی مدد ہے۔ (۲۰) ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ تم اس کا ہاتھ پکڑ لو۔ مراد یہ ہے کہ اگر وہ زبانی طور پر سمجھانے سے باز نہ آئے تو اسے زبردستی روک دو ۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: اگر وہ ظالم ہو تو اسے ظلم سے منع کرو۔ یہ اس کی مدد ہے۔ (۲۱) حضرت عائشہ کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اگر وہ مظلوم ہوتو اس کا حق دلوا ؤ اور اگر وہ ظالم ہو تو خود اس کے نفس سے اس کا حق لو۔ (۲۲)
یعنی ظالم بھی درحقیقت مظلوم ہی ہے اور وہ دوسروں پر ظلم کر کے خود اپنے اوپر ظلم کرتا ہے اور حدیث کا منشایہ ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو، ظالم کو ظلم سے باز رکھنا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ہر حال میں مسلمانوں کی مدد کریں۔ اگر وہ مظلوم ہوں تو ظالم سے ان کا حق دلا کر اور اگر وہ ظالم ہوں تو انہیں ظلم سے باز رکھ کر ۔ جب ایک ظالم مسلمان کے مقابلے میں مظلوم کی مدد کرنے کا حکم ہے تو غیر مسلم ظالم کے مقابلے میں تو ہم بطریق اولیٰ اس کے پابند ہیں۔
ان تمام آیات و احادیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان پر اپنے مظلوم اور بے بس بھائیوں کی مدد کرنا واجب ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی ہوں، رشتے داروں اور پڑوسیوں پر سب پہلے اور پھر درجہ بدرجہ سب مسلمانوں پر۔ پاک وہند کے مسلمانوں کی کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی نسبت اس وقت یہی پوزیشن ہے۔ وہ دینی رشتوں کے ساتھ خونی رشتوں میں بھی بندھے ہوئے ہیں۔ اب میں ان معترضین سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے یہ فریضہ ادا کر دیا ہے یا آپ صرف ان لوگوں کو ادائے فرض سے روکنے کے درپے ہیں جو اپنے طور پر اس فرض کو ادا کرنا چاہتے ہیں؟
قرآن و حدیث کی ان شرعی نصوص کے بعد جن کے ذریعے ہم نے ثابت کر دیا کہ کشمیر میں خالص شرعی جہاد ہورہاہے، ہم یہ ضرورت نہیں محسوس کرتے کہ ان نام نہاد معترضین کے ان مزعومات کا رد کیا جائے کہ آزادی یا الحاق پاکستان یا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کروانے کا مطالبہ کرنا سیاسی مقاصد ہیں نہ کہ دینی۔ ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ ثابت کر چکے ہیں کہ یہ سب شرعی اور دینی مقاصد ہیں۔ آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مصر سے ہجرت کو بطورِ مثال ذکر کر کے اپنے باطل اور اسلام ومسلم دشمن مشورہ کو دلیل فراہم کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ آپ موقف کی تائید نہیں بلکہ تردید کر رہا ہے اور اس قصے سے تو کشمیری عوام، مجاہدین اور ان کے سیاسی راہنماؤں کے لیے ایک بہترین رہنمائی مل رہی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہاتھا کہ تمھارا مجھ پر یہی احسان ہے کہ تم نے (میری قوم) بنی اسرائیل کو غلام بنالیا؟ (۲۳)گویا آپ نے اس کے اس فعل کی مذمت کی اور پھر اس سے یہ مطالبہ کیا کہ دیکھو میں تمھارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل لایا ہوں، لہٰذا تم بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو۔ (۲۴) قرآن کریم سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف حضرت موسیٰ کا نہیں بلکہ حضرت ہارون کامطالبہ بھی یہی تھا۔ (۲۵)
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بندگان خدا کو انسانوں بالخصوص اللہ کے باغی انسانوں کی غلامی سے چھڑانا وہ فریضہ ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو بھیجا، لہٰذا یہ نبیوں کی سنت ہے۔ حیرت ہے کہ جہادِ کشمیر کے مخالفین کی نظر میں یہ ایک سیاسی مقصد ہے! لگتا ہے کہ ایسے لوگوں کا اصل مقصد دین کو سیاست سے جدا کرنا ہے جیسا کہ لادین اور سیکولر ذہن رکھنے والوں کا وطیرہ ہے۔ ہم تو یہی دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان مخالفین کواور ان جیسے باقی لوگوں کو اس فکری بیماری سے نجات دے جس نے امت کو کمزور سے کمزور تر کردیا اور سامراج اور غلامی کے مقابلے کے قابل نہیں چھوڑا۔
حوالہ جات
(۱) سنن نسائی، کتاب تحریم الدم، باب من قاتل دون مالہ، ۴۰۹۴۔ سنن ابوداود، کتاب السنۃ، باب قتال اللصوص، ۴۷۷۲۔
(۲)صحیح بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب من قاتل دون مالہ، ۲۴۸۔
(۳)صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب الدلیل علی ان من قصد اخذ مال غیرہ کان مہدر الدم، ۲۰۲۔
(۴) صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب الدلیل علی ان من قصد اخذ مال غیرہ کان مہدر الدم، ۲۰۱۔
(۵) الصارم المسلول، ۲/۲۰۴-۲۰۷
(۶) تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان، ص ۹۷۔ المولف: عبد الرحمن بن ناصر السعدی (المتوفی: ۱۳۷۶ھ)۔ المحقق: عبد الرحمن بن معلا اللوسجق، موسسۃ الرسالۃ، بیروت، الطبعۃ الاولی، ۱۴۲۰ھ/۲۰۰۰ء۔
(۷) مسند احمد/مسند عبد الرحمن بن عوف الزہری: ۱۶۵۸، ۱۶۷۹۔ امام مقدسی نے انھی کے حوالے سے اس حدیث کو الاحادیث المختارۃ ۳/۱۱۶ میں نقل کر کے صحیح قرار دیا ہے۔ نیز ملاحظہ ہو: الطبقات الکبریٰ لابن سعد، نبی اکرم کی حلف الفضول میں شمولیت، ۱/۱۲۸، ۱۲۹۔ سیرت ابن ہشام ۱/۲۶۵۔
(۸) سیرت ابن ہشام ۱/۲۶۵۔
(۹) سنن البیہقی الکبریٰ، ۶/۳۶۷، حدیث: ۱۲۸۵۹۔
(۱۰) کتب سیرت، قصہ صلح حدیبیہ۔ صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث بنی نضیر۔
(۱۱) صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب بعث علی بن ابی طالب وخالد بن الولید الی الیمن، ۴۰۰۴۔ صحیح مسلم، الزکاۃ، باب ذکر الخوارج، ۱۷۶۳۔
(۱۲) صحیح مسلم، الایمان، باب تحریم قتل الکافر بعد ان قال لا الہ الا اللہ: ۱۴۰۔
(۱۳) شرح النووی علیٰ صحیح مسلم ۲/۱۰۷۔
(۱۴) فتح الباری ۱۲/۲۷۳۔
(۱۵) یہ حضرت جابر کی طویل حدیث کا حصہ ہے جس کو ایک قصہ کے ساتھ امام ابو داود نے السنن، الطہارۃ، باب المجروح یتیمم: ۳۳۶ میں نقل کیا ہے۔
(۱۶) سنن الترمذی، الجہاد، باب ما جاء لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق، ۱۷۰۷۔ امام ترمذی نے اس کو حدیث حسن قرار دیا ہے۔
(۱۷) ملاحظہ ہو: قواعد الاحکام فی مصالح الانام، ۱/۴۶، ۱۰۳، ۱۰۶، ۱۰۹۔
(۱۸) تہذیب الفروق ۲/۴۳، ۴۴ ونہایۃ السؤل ۱/۱۰۰ للامام جمال عبد الرحیم الاسنوی المتوفی سنۃ ۷۷۲ھ، مطبوع فی مصر مع شرح البدخشی۔
(۱۹) القصص: ۱۵، ۱۹۔
(۲۰) صحیح بخاری، الاکراہ، باب یمین الرجل لصاحبہ انہ اخوہ اذا خاف علیہ القتل، ۶۹۵۲۔
(۲۱) صحیح مسلم، البر والصلۃ، باب نصر الاخ ظالما او مظلوما، ۲۵۸۴ بروایۃ جابر۔
(۲۲) آداب الحکماء لابن ابی عاصم (بحوالہ ابن حجر، فتح الباری ۱۲/۳۲۶)۔
(۲۳) الشعراء: ۲۲۔
(۲۴) الاعراف: ۱۰۵
(۲۵) الشعراء: ۱۵-۱۷۔
دار العلوم دیوبند کی کشمیر کانفرنس
عارف بہار
دارالعلوم دیوبند برصغیر کی شہرہ آفاق دینی درسگاہ ہے جس نے برصغیر کی سیاست، صحافت، خطابت کو کئی جوہر قابل عطا کیے، لیکن یہ بات بھی تسلیم کی جانی چاہیے کہ برصغیر کی داخلی سیاست میں یہ دانش گاہ تعبیر کے جن سرابوں کے پیچھے بھاگتی رہی، ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ ۱۶؍ اکتوبر کو دارالعلوم دیوبند میں ہونے والی ایک روزہ کشمیر کانفرنس اس تعاقب کا ایک ثبوت ہی تھی جس میں ایک طرف تو کشمیر میں ظالمانہ قوانین کے خاتمے اور فوج کی تعداد کم کرنے کے مطالبے کی حمایت کی گئی، وہیں ایک قرارداد میں فتوے کے انداز میں کشمیر کو بھارت کا ا ٹوٹ انگ قرار دیا گیا۔ اس کانفرنس کی جو رپورٹس بھارتی اخبارات میں سامنے آئیں، ان کے مطابق جمعیت علمائے ہند کے ز یر اہتمام اس کانفرنس میں کئی علما، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی اور پورا دن مسئلہ کشمیر کی جزئیات اور اس کے بھارتی مسلمانوں پر اثرات پر بحث ہوتی رہی جس کے بعد یہ قرارداد سامنے آئی جس پر ’’جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی‘‘ کی بات صادق آتی ہے، یعنی کشمیر میں آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ کا نفاذ غلط لیکن کشمیر بھارت کا جزو لاینفک۔
دیوبند کی کشمیر کانفرنس پر ہر دو طرح کے تاثرات سامنے آرہے ہیں۔ایک تاثر یہ ہے کہ گزشتہ بیس برس میں پہلی بار بھارتی مسلمانوں کی قیادت کو کم از کم یہ احساس تو ہوا کہ کشمیر ایک قطعہ زمین ہے جہاں ان کے ملک کی فوج بیس برس سے بے پناہ ظلم وتشدد میں مصروف ہے۔ اگر انسان پورا سچ بولنے کی پوزیشن میں نہ ہوتو اسے آدھا سچ ہی بولنا چاہیے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بولنا بھارت کی مسلمان قیادت کا آدھا سچ ہے۔ جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ بھارت کی مسلمان قیادت نے کانفرنس کے بعد ایک واضح سیاسی لائن لی۔ بھارت کی مسلمان قیادت اس وقت کئی طرح کے دباؤ کا سامناکر رہی تھی جس کے باعث وہ پورا سچ بولنے کی پوزیشن میں نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ جب یہ قیادت جب تک پورا سچ بولنے کی پوزیشن میں نہ آئے، خاموشی کو ہی ترجیح دینی چاہیے۔
کانفرنس میں دو طرح کے رویے نظر آئے۔ جمعیت العلمائے ہند کے مولانا محمود احمد مدنی کا یہ کہنا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ بھارت کی مسلمان قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا۔ معروف صحافی اور ایشین ایج کے ایڈیٹر ایم جے اکبر کا کہنا تھا کہ اگر کشمیری بھارت کے دائرے میں رہ کر بات کریں تو میں سو فیصد ان کے ساتھ ہوں، اگر وہ علیحدگی کی بات کریں گے تو میں سوفیصد ان کا مخالف ہوں۔ ایم جے اکبر جیسے روشن خیال دانشور سے یہ پوچھنے والا شاید کوئی نہیں تھا کہ علیحدگی پسندوں کے بھی کچھ انسانی حقوق ہوتے ہیں جب کہ ان کے ہاتھ میں بندوق بھی نہ ہو۔ تو کیا ان کی عورتیں اور بچے انسانوں کے زمرے میں بھی نہیں آتے؟ اس کانفرنس میں ایک اور رویہ جماعت اسلامی ہندکے نمائندے کی طرف سے سامنے آیا جس نے کشمیر کانفرنس کے انعقاد کو جرات مندانہ قراردیا، کشمیریوں کے جائز مطالبات کی ]حمایت کی[، لیکن کشمیر کے سیاسی تنازعے پر لب کشائی نہیں کی۔ شایدیہی رویہ کشمیر، بھارت کی مسلمان قیادت سے چاہتا ہے۔
بھارت کے مسلمان اس ملک کے شہری ہیں۔ ان کی وفاداری کا مرکز و محور بھارت ہی ہے اور رہنا چاہیے۔قیام پاکستان کے بعد انہیں جس نفسیاتی دباؤ کا سامنا ہے، اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ سیاسی لائن اختیار کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیں۔ بھارت کی مسلمان قیادت کا اپنا ورلڈ، پاکستان اور کشمیر ویو ہے۔خود کشمیر کے اندر عمر عبداﷲکی صورت میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو اس موقف سے قریب تر ہیں۔ بھارت کی مسلمان قیادت نے چمکتے دمکتے بھارت کی ترقی کے فوائد میں شریک ہونے کا شعوری فیصلہ کیا ہے۔ اس سے بہتر کوئی آپشن نہیں ۔مسئلہ ایک مائنڈ سیٹ کی تبدیلی کا ہے۔
پچھلے دنوں جمعیت العلمائے ہند کے مولانا محمو د احمد مدنی نے پاکستان کے ایک پرائیویٹ چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آج کشمیر کو آزادی دی جائے تو کل کسی اور علاقے میں مسلمان اکثریت میں آکر آزادی مانگیں گے، اس طرح تو یہ سلسلہ کہیں نہیں رکے گا۔ مسئلہ اکثریت اور اقلیت کا نہیں۔ جب بھارت میں راشٹریہ سویم سنگھ سے متاثر لابی نے پٹیل کی قیادت میں پنڈت نہرو کو کشمیر پر رائے شماری کا موقف ترک کرنے پر مجبور کیا تو پنڈت جی نے بھارت کی مسلمان قیادت کی حمایت حاصل کرنے کے لیے یہ تاویل گھڑ لی کہ ایک مسلم اکثریتی ریاست کا بھارت کے ساتھ رہنا نہ صرف بھارت کے سیکولر وجود بلکہ بھارتی مسلمانوں کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ عرب دنیا کو اس کا قائل کرنے کے لیے کہا جاتا رہا کہ اگر کشمیر بھارت سے الگ ہو گیا تو بھارتی مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ اس لیے مسلم دنیا کو پچاس ساٹھ لاکھ کشمیری مسلمانوں کے لیے دس بارہ کروڑ مسلمانوں کو داؤ پر نہیں لگانا چاہیے۔ کانگریس سے قریب تر مسلمان قیادت نے بھی اس فلاسفی کو قبول کر لیا، حالانکہ کشمیری او ر بھارتی مسلمانوں کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ تقسیم کے وقت کانگریس اور مسلم لیگ میں بھی ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہواکہ بھارتی مسلمانوں کی حفاظت کے لیے کشمیرکا بھارت کے ساتھ رہنا ضروری ہے۔ اگر دو قومی نظریے پر، جو تقسیم کا بنیادی اصول تھا، من و عن عمل ہوجاتا تو کشمیر بھارت کے لیے ایک خواب ہی ہوتا۔ تب بھارت کے ان مسلمانوں کو جنہوں نے شعوری طور پر بھارت میں رہنے کا فیصلہ کر لیا تھااپنے، ہی دست و بازو پر زندہ رہنا تھا۔آج بھی وہ کشمیر کی وجہ سے بھارت میں زندہ نہیں بلکہ اپنے ہی دست و بازو کی بنیاد پر زندہ ہیں۔ کشمیر تو تریسٹھ برس سے ذہنی اور عملی طور پر بھارت سے فاصلہ رکھے ہوئے ہے۔ کشمیر کے مسئلے میں بھارتی مسلمانو ں کی قیادت کا کوئی کردار بنتا ہی نہیں۔ ان سے پوچھنے، انہیں اعتماد میں لینے کاکوئی سوال ہی نہیں۔ اس مسئلے کے تین فریق ہیں: کشمیری عوام، بھارت اور پاکستان۔ چونکہ یہ تینوں ایک میز پر بیٹھتے نہیں، اس لیے مسئلہ لٹکا ہوا ہے۔ اس میز پر بھارتی مسلمانوں کی نمائندگی بھارت کی حکومت کر رہی ہوگی۔ اس سلسلے میں مولانا وحید الدین خان کے صاحبزادے اور ملی گزٹ کے ایڈیٹر ظفر خان کاموقف زیادہ قرینِ حقیقت ہے جنہوں نے حال ہی میں کہا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کے مسائل بھارت کے مسلمانوں سے قطعی مختلف ہیں، مسئلہ کشمیر کے حل سے بھارتی مسلمانوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
دیوبند کانفرنس میں کشمیر کے سیاسی مسائل کو بھارتی مسلمانوں کے سماجی مسائل کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا گیا۔ بھارت کی مسلمان قیادت کو اب کشمیر کو ڈھال کے طور استعمال کرنے کی بجائے خود اپنی بنیادوں پر کھڑے ہوکر بھارت کے نقشے میں اپنا مستقبل سنوارنا اور تلاشنا چاہیے۔ کشمیر ایک تاریخی تنازعہ ہے جس پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں، جس کے کئی فریق ہیں، جس پر کئی جنگیں لڑی جاچکی ہیں، جس پر بے تحاشا لٹریچر چھپ چکا ہے، جس کی قیمت لاکھوں کشمیریوں نے اپنی جانوں کی شکل میں اداکی ہے،جو تین ایٹمی طاقتوں کو براہ راست متاثر کر رہا ہے۔ یہ محض کسی قطعہ زمین میں کسی ایک مذہب کے پیروکاروں کے اکثریت میں ہونے کا سوال نہیں۔اگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو کل برطانیہ کے مسلمان اپنی سیاسی قوت بڑھانے اور ڈیموگرافی کی تبدیلی کے لیے حکومت برطانیہ کو کسی مسلمان ملک پر قبضہ کرنے کی ترغیب دیں گے۔ بھارت کی مسلمان قیادت کو بھارتی ڈھانچے میں کشمیر کے ستر اسی لاکھ مسلمانوں کو ہیومن شیلڈ کے طور دیکھنے کی بجائے بھارت کے درجہ اول شہری کے طور اٹھارہ کروڑ مسلمان آبادی کی قوت پر انحصار کرنا چاہیے اور اس خود اعتمادی کی بنیاد پر اپنے لیے سپیس پیدا کرنی چاہیے۔بھارت کی مسلمان قیادت کو رائے کے اظہار کا حق ہے، لیکن آدھا اور دل آزار سچ بولنے سے خاموشی ہزار درجے اچھی ہے۔
(بشکریہ روزنامہ اوصاف)
مکاتیب
ادارہ
(۱)
آپ کی جوابی تحریر موصول ہوئی۔ راقم آپ کی پہلی تحریر میں اپنے نکات سے متعلق جوابی سیکشن نہ دیکھ سکا تھا جس کی وجہ سے جواب نہ ملنے کی شکایت کی۔ اس کے لیے معذرت قبول کیجیے۔ قلت وقت کے سبب انتہائی اختصار کے ساتھ چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں:
۱) آپ کی آخری تحریر سے یہ واضح ہوجا تا ہے کہ کم از کم آپ مجاہدین کے اس مقدمے سے متفق ہیں کہ (شرعی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے ) امریکہ پر اقدامی حملہ کرنا شرعاً و اصولاً جائز ہے ۔
۲) آپ کا فرمانا ہے کہ کسی جنگی اقدام کے جہاد کہلانے کی لئے ضروری ہے کہ اس میں ’کسی بھی ‘ شرعی اصول و تعلیم کی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو۔ آپ کے نزدیک کیا یہ اصول صرف جہاد کے لیے خاص ہے یا دین کی دیگر تمام اجتماعی صف بندیوں کو پرکھ کر انہیں ’دینی‘ قرار دینے کے لیے اپنانا بھی ضروری ہے؟ اگر ضروری ہے (جیسا کہ منطقی طور پر ہونا چاہیے) تو کیا ہماری ہم عصر بہت سے ایسی صف بندیاں جنہیں ہم ’دین‘ کا کام قرار دیتے ہیں، کیا وہ بھی ’غیر دینی‘ نہ ہوجائیں گی؟ پھرکیا اس اصول پر عمل پیرا ہوکر ہم کسی معاشرے کو کبھی ’اسلامی‘ کہنے کی پوزیشن میں ہوں گے؟
۳) اگر آپ کا بیان کردہ اصول ایک شرعی ضابطہ ہے تو اسے لازماً زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہونا چاہیے۔ اس طور پر غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس اصول کو صرف معاصر مجاہدین ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری اسلامی تاریخ میں جہاں اور جب بھی کوئی جہادی کاروائی کی گئی، اس پر لاگو کرکے اس پر حکم لگانے کی سخت ضرورت ہے، علی الرغم اس سے کہ اس کی زد میں ٹیپو سلطانؒ آئیں یا پھر سید احمد بریلویؒ و شاہ اسماعیل شہیدؒ ۔ (ظاہر ہے سید احمد و شاہ اسماعیل کسی بھی اسلامی سلطنت کے امیر نہ تھے اور آپ کے اصول کے مطابق انہیں علم جہاد بلند کرنے کی ہرگز اجازت نہ تھی)۔ کیا واقعی آپ زمان و مکان سے ماورا ہوکر اس اصول کے مطابق حکم لگانے کے لیے تیار ہیں؟
۴) آپ کے دلائل سے اندازہ ہوتا ہے کہ دراصل آپ کو Twin Towers پر حملہ کرکے غیر حربی امریکیوں کو مارنے پر اعتراض نہیں، بلکہ حملہ کرنے والوں کے وجہ جواز پر اعتراض ہے، یعنی آپ کے نزدیک مسئلہ یہ نہیں کہ مجاہدین کی کارروائی میں چند غیر حربی امریکیوں کا قتل کیوں ہوا، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ مجاہدین ایسا کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ گویا اگر صرف حملے کا وجہ جواز تبدیل کردیا جائے تو آپ کے نزدیک بھی معاملہ درست ہوجائے گا۔ یعنی اگر Twin Towers پر حملے کا جواز یہ قرار دیا جائے کہ ’یہ امریکہ کی شان و شوکت کی علامت تھا، لہٰذا اس پر حملہ کرنا امریکہ کی عظمت پر حملہ کرنا تھا، البتہ موجودہ ہتھیاروں کے ساتھ غیر حربی کی رعایت کرنا ناممکن ہے‘ تو یہ کاروائی جائز قرار پائے گی۔
۵) جہاں تک غیر حربی امریکیوں کے قتل کی بات ہے تو اس میں دو امور قابل غور ہیں:
(الف) موجودہ ہتھیاروں کے ساتھ حربی و غیر حربی کی رعایت قریب قریب ناممکن ہے۔ شرع میں بھی اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ اگر مخالفین مسلمانوں کو اپنی ڈھال بنالیں تو ایسی صورت میں ان مسلمانوں کو قتل کرکے کفار سے لڑنا جائز ہے۔ اس سے معلوم ہوا گویا کسی غیر حربی کا قتل ہر صورت میں ناجائز نہیں بلکہ اس طور پر ناجائز لگتا ہے کہ اس کے علاوہ دیگر آپشنز با سہولت موجودہ ہوں لیکن پھر بھی انہیں قتل کردیا جائے۔
(ب) اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی عوام ایسے حکمرانوں کو باخوشی ووٹ دیتی ہے جو مسلمانوں کا قتل عام کرتی ہے، اتنا ہی نہیں بلکہ افغانستان پر چلائے جانے والے کئی میزائلوں پر امریکی عوام کے دستخط اور یہ جملے پائے گئے ’a gift from US to Afghanistan‘۔ کتب کی عدم دستیابی کی بنا پر راقم کو حوالہ یاد نہیں مگر اسلامی غزوات میں ایسے لوگوں کی مثالیں موجود ہیں جنہیں اس بنا پر قتل کیا گیا کہ وہ اپنی شاعری وغیرہ کے ذریعے کفار کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دلاتے۔ کیا امریکی عوام کو اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا؟
ان تمام گزارشات کو راقم کی پوزیشن مت سمجھئے گا، یہ محض مجاہدین کا مقدمہ ہے۔
محمد زاہد صدیق مغل
(۲)
آپ کے ذکر کردہ نکات کے حوالے سے میری گزارشات، بالترتیب، حسب ذیل ہیں:
۱) درست فرمایا۔ اصولاً امریکہ پر یا کسی بھی دوسرے ملک پر حملہ کرنا جائز ہے، بشرطیکہ شرعی شرائط اور حدود کا لحاظ رکھا جائے، مثلاً جنگ کا شرعی جواز موجود ہو، حملے کا فیصلہ ایسی اتھارٹی نے کیا ہو جو شرعاً اس کی مجاز ہو، حملے میں کسی معاہدے کی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو اور آداب القتال یعنی دوران جنگ کے شرعی واخلاقی ضوابط کی پاس داری کی جائے۔ مزید برآں حملے کے نتیجے میں مسلمانوں کے جانی ومالی نقصان کا پہلو ملحوظ رکھنا اگر قانونی وفقہی طور پر نہیں تو حکمت وسیاست شرعیہ کی رو سے بہرحال ضروری ہے۔ اگر تو کوئی مخصوص گروہ اپنی حد تک نتائج وعواقب سے بے پروا ہو کر کوئی ایسا اقدام کرنا چاہتا ہے جس کے اثرات اسی تک محدود رہیں گے تو یہ اس کا اجتہادی اختیار ہے، لیکن اگر اس کے اقدام کے نتائج ان لوگوں پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں جو اقدام کے فیصلے میں شریک نہیں اور اس کے نتائج کی ذمہ داری بھی انھوں نے قبول نہیں کی تو یہ بات شرعاً واخلاقاً درست نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی باقاعدہ ریاست جنگ کا فیصلہ کر رہی ہے تو بھی وہ اپنی رعایا کی جان ومال کی حفاظت کی ذمہ دار ہے اور حکومتی سطح پر کوئی بھی اقدام کرتے ہوئے قوم پر مرتب ہونے والے نتائج کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
۲) اس کا تعلق شرعی اصول کی خلاف ورزی کی نوعیت سے ہے۔ اگر خلاف ورزی شخصی اور انفرادی سطح کی ہے تو اس کے مطابق حکم لگے اور اگر پوری جدوجہد کی اساس کسی خلاف شرع امر پر استوار ہے تو حکم اس کے مطابق لگے گا۔ یہ نہ تو کوئی معیار ہے اور نہ دین کا تقاضا کہ دین کے نام پر کی جانے والی کوئی ایسی جدوجہد بالفعل پائی جاتی ہو جسے ضرور ’دینی‘ یا ’اسلامی‘ کہا جائے۔ اصل چیز دینی واخلاقی معیار ہے۔ اگر اس پر کوئی عملی جدوجہد پورا نہیں اترتی تو یہ کوئی اصول نہیں کہ اس معیار کو اس لیے نظر انداز کر دیا جائے کہ پھر ہم ’دینی‘ یا ’اسلامی‘ جدوجہد کس کو کہیں گے؟ بحیثیت مجموعی معاشرے کو بھی اسی اصول پر دیکھنا چاہیے۔ وہ جن پہلووں سے ’اسلامی‘ اصولوں پر استوار ہو، اس حد تک اسے ’اسلامی‘ کہا جائے، جبکہ باقی پہلووں میں بہتری کی کوشش جاری رکھی جائے۔
۳) نکتہ نمبر ۲ کے تحت کسی معاملے پر شرعی یا غیر شرعی کا حکم لگانے کا جو اصول بیان کیا گیا ہے، یقیناًاس کا اطلاق زمان ومکان کی قید کے بغیر ہر معاملے پر ہوگا، خواہ اس کی زد میں کوئی بھی آئے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے اپنے عہد میں رونما ہونے والے ایسے واقعات پر جو صحابہ کے ہاتھوں سرزد ہوئے، یہ حکم لگانے میں کوئی رعایت نہیں تو بعد کی کسی شخصیت یا کارروائی کو بھی کوئی استثنا نہیں دی جا سکتی۔ البتہ کسی مخصوص معاملے میں شرعی اصول کی خلاف ورزی فی الواقع ہوئی ہے یا نہیں، یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے۔ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی جس سے یہ اخذ کیا جا سکے کہ چونکہ ’’سید احمد و شاہ اسماعیل کسی بھی اسلامی سلطنت کے امیر نہ تھے‘‘ اس لیے ’’انہیں علم جہاد بلند کرنے کی ہرگز اجازت نہ تھی۔‘‘ میرے نزدیک جہاد کا اقدام کرنے کے لیے کسی باقاعدہ سلطنت یا ریاست کا وجود ضروری نہیں۔ کوئی منظم گروہ بھی، مطلوبہ شرائط کے ساتھ، ایسا اقدام کر سکتا ہے۔ البتہ اس امر کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ وہ گروہ یا تو کسی آزاد خطے کو اپنا مرکز بنائے یا کسی ایسے علاقے کو جہاں پہلے سے قائم نظم اجتماعی، چاہے وہ قبائلی طرز کا ہو یا ریاست اور حکومت کی صورت میں، اس کے اقدامات کی علانیہ تائید اور پشت پناہی کرتا ہو اور ان کے نتائج کی ذمہ داری بھی قبول کرنے کے لیے تیار ہو۔ سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید کی جدوجہد کی تفصیلات باریکی کے ساتھ اس وقت پیش نظر نہیں ہیں کہ متعین طور پر کوئی رائے دی جا سکے، البتہ اصولی طور پر یہ بات واضح ہے کہ اگر ان کی جدوجہد میں کسی بھی شرعی اصول کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو اس کے مطابق حکم یقیناًلگے گا۔
نکتہ نمبر ۴ اور ۵ کے جواب میں گزارش ہے کہ اگر دشمن نے شہری آبادی کو یا کسی غیر حربی مقام یا عمارت کو اپنے لیے ڈھال بنا رکھا ہو اور ان کے، حملے کی زد میں آئے بغیر جنگی ہدف کا حصول ممکن نہ ہو تو ’ضمنی نقصان‘ کے طو رپر ایسی ہلاکتوں کا شریعت اور موجودہ بین الاقوامی قانون میں جواز موجود ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسا کرنا ناگزیر ہو، بے گناہوں کو حتی الامکان حملے سے بچانے کی کوشش کی جائے اور جنگی ضرورت کے حد تک ہی نقصان گوارا کیا جائے۔
جہاں تک حربی ہدف کے علاوہ شان وشوکت رکھنے والے کسی مقام کو نشانہ بنانے کا تعلق ہے تو اس کے جواز کے لیے دو شرطوں کا پورا کیا جانا ضروری معلوم ہوتا ہے:
ایک یہ کہ اس مقام پر جو غیر مقاتلین مصروف عمل ہوں، انھیں پیشگی متنبہ کر دیا جائے کہ یہ جگہ حملے کا ہدف ہے، اس لیے وہ یہاں موجود رہنے سے گریز کریں۔ حربی ہدف پر حملے کے لیے ایسی کسی پیشگی تنبیہ کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ ایسے مقام پر موجود لوگ اصلاً مقاتلین ہوتے ہیں جن پر حملہ کرنا جائز ہے، لیکن غیر حربی ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے اس کا اہتمام اس لیے ضروری ہے کہ وہاں اصلاً غیر مقاتلین مصروف عمل ہوتے ہیں جنھیں حملے سے محفوظ رکھنا حتی الامکان ضروری ہے۔ اگر ایسے کسی مقام کو جو اصلاً غیر مقاتلین کی غیر حربی سرگرمیوں کا مرکز ہو، کسی پیشگی تنبیہ اور وہاں سے بحفاظت نکل جانے کا موقع دیے بغیر حملے کا نشانہ بنایا جائے تو یہ ’دہشت گردی‘ ہوگی۔
دوسری شرط یہ ہے کہ اگر کسی فریق نے حالت جنگ میں کچھ مخصوص قوانین اور ضوابط کی پابندی کسی معاہدے کے تحت قبول کر رکھی ہے جن کی رو سے حربی اہداف کے علاوہ دوسرے مقامات اور عمارتوں پر حملے کی اجازت نہیں تو ان کی پاس داری بھی ایفاے عہد کے اصول کی رو سے ضروری ہے۔
براہ راست جنگ میں حصہ نہ لینے والے لوگ اگر عام شہری ہیں تو ان کی ’خاموش تائید‘ کو ان پر حملے کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ میں اپنی سابقہ تحریر میں واضح کر چکا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان جنگ میں دشمن کے لشکر کے ساتھ آنے والی خواتین ، غلاموں اور مزدوروں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے، حالانکہ وہ ایک مفہوم میں اپنے لشکر کی مدد ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ ہاں، دشمن کے ایسے اہل الرائے اور اثر ورسوخ رکھنے والے لوگ جو اپنی رائے، مشورے یا خطیبانہ صلاحیتوں سے جنگ کو بھڑکانے یا اپنی فوج کا مورال بلند کرنے یا جنگ میں کامیابی حاصل کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے رہوں، انھیں قتل کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ عہد نبوی کے محولہ بالا واقعات میں کیا گیا۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ معین طو رپر انھی مخصوص افراد کو، نہ کہ بلا تمیز سب عوام کو، نشانہ بنایا جائے جو یہ کردار ادا کر رہے ہوں۔ مذکورہ واقعات میں یہی طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔ مزید برآں یہاں بھی یہ شرط لاگو ہوگی کہ اگر کسی فریق نے حالت جنگ میں کچھ مخصوص قوانین اور ضوابط کی پابندی کسی معاہدے کے تحت قبول کر رکھی ہے جو اسے جنگ میں بالفعل حصہ لینے والوں کے علاوہ دوسرے افراد کو نشانہ بنانے سے روکتے ہیں تو ان کی پاس داری بھی ایفاے عہد کے اصول کی رو سے ضروری ہوگی۔
امریکی عوام کو ایسے افراد پر قیاس کر کے ان پر براہ راست حملے کا جواز تسلیم کرنے میں مانع یہ ہے کہ انھیں زیادہ سے زیادہ ’خاموش تائید‘ کا ذمہ دار کہا جا سکتا ہے۔ پھر حتمی طور پر یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ ’a gift from US to Afghanistan‘ کا پیغام امریکی عوام ہی کی طرف سے دیا گیا نہ کہ ان کی افواج کی طرف سے۔ اور اگر بعض عوام نے ہی دیا ہو تو وہ متعین طو رپر معلوم نہیں ہیں، جبکہ امریکی عوام ہی کی ایک بڑی تعداد اپنی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اپنی ناراضی اور احتجاج باقاعدہ ریکارڈ کرا چکی ہے۔ ایسی صورت میں کچھ عوام کے پیغام کو بنیاد بنا کر بلا تمیز تمام امریکی عوام پر حملے کا جواز ثابت کرنا شرعاً وعقلاً قابل فہم نہیں ہے۔
محمد عمار خان ناصر
(۳)
جناب عمار ناصر صاحب
السلام علیکم۔ لنک ارسال کرنے کا شکریہ۔
ہمارے مذہبی حلقے بدقسمتی سے تاریخ کا مطالعہ بھی غالباَ وقت کا ضیاع گردانتے ہیں۔کیا انہوں نے کبھی غور کیا ہے کہ طالبان کم وبیش صرف ایک ہی لسانی گروہ پر کیوں مشتمل ہیں؟
میرا ایک مضمون جو نوائے وقت میں شائع ہوا ہے، اس پر کچھ روشنی ڈالتا ہے۔ اس کا لنک یہ ہے:
http://columns-izharulhaq.blogspot.com/2010/09/blog-post.html
اس موضوع پر میرا ایک مضمون آسٹریلیا کے وقیع انگریزی روزنامے ’’دی ایج‘‘ میں بھی شائع ہونے والا ہے۔
محمد اظہار الحق
izhar@izharulhaq.net
(۴)
محترم جناب عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ! امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔
الشریعہ کا تازہ شمارہ پڑھنے کو ملا اور جہاد افغانستان کے حوالہ سے علمی مباحثہ کا مطالعہ کیا۔ خود کش حملوں کے جواز اور اس کے فوراً بعد افغانستان جہاد میں حکمت عملی کے بارے جو گفتگو آپ نے فرمائی ہے، وہ ایسے ہی محسوس ہوتا ہے جیسے راقم کے دل کی آواز تھی جسے آپ نے الفاظ کا جامہ پہنا دیا۔ آپ کی نکتہ رسی اور فقہی بصیرت واقعتا قابل ستائش ہے۔ اللہ آپ کے علم وفضل میں برکت عطا فرمائے۔
جہاں تک طالبان کے جہاد کو جہاد کہنے یا نہ کہنے کے بارے اختلاف کا مسئلہ ہے تو کم ازکم افغانستان میں امریکہ کے محاربین، نہ کہ طالبان مخالف مسلمان جہادی گروپس، کے خلاف جنگ میرے خیال میں جہاد کہلائی جانے کی مستحق ہے اور اسے جہاد کہنا چاہیے، قطع نظر اس سے کہ طالبان نے اسامہ کو امریکہ کے حوالے نہ کر کے کوئی اجتہادی غلطی کی ہے یا نہیں کی۔ اجتہادی غلطی کو بھی اجتہاد ہی کہتے ہیں، یعنی بعض اوقات کسی فعل میں غلطی سے اس فعل پر اس کی متعلقہ اصطلاح کے اطلاق میں کوئی شرعی مانع موجود نہیں ہوتا، جیسا کہ اجتہاد میں غلطی بھی اجتہاد ہی کہلاتا ہے، لہٰذا جہاد میں اجتہادی، سیاسی، حکمت عملی کی خطا کم ازکم اس کو جہاد کہنے میں مانع نہیں ہونی چاہیے جبکہ اس کے بقیہ اصولوں کی پاسداری کی جا رہی ہو۔
بحث بہر حال دلچسپ تھی۔ موقع ملا تو تفصیلی طور پر کچھ گزرشات پیش کروں گا۔ و اللہ اعلم بالصواب
حافظ محمد زبیر
قرآن اکیڈمی، لاہور
(۵)
محترم ومکرم حضرت مولانا عمار خان ناصر صاحب حفظہ اللہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
’’الشریعہ‘‘ کی موجودہ پالیسی سے اختلاف واتفاق سے قطع نظر، بقول مولانا مفتی محمد زاہد ’’اسلامی حمیت‘‘ کے اس دور میں نہایت حساس مسائل کو ایسے انداز میں زیر بحث لانا جس سے ’’اسلامی حمیت کے فقدان‘‘، ’’اغیار کے فکری ایجنٹ‘‘ اور ’’اکابر کے جادۂ مستقیم سے برگشتہ‘‘ ہونے کا تاثر ملتا ہے، اگرچہ عند البعض اسلامی طریقہ نہ ہو مگر ہے بہت بڑی علمی جرات۔ خصوصاً ’’اسلامی عسکریت‘‘ کے موضوع پر روایتی رجحانات سے ہٹ کر کوئی اور موقف اختیار کرنا اس جذباتی دور میں انے پروانہ موت پر خود دستخط کرنے کے مترادف ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس تحریری صلاحیت اور قوت بیان کی نعمت سے نوازا ہے، ہم جیسے طالب علم ہر شمارے میں آپ کی تحریر کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ۲۰۰۴ء سے اب تک آپ کی جو نگارشات نظر نواز ہوئی ہیں، ان کی روشنی میں بندہ کے دو تاثرات ہیں:
(۱) اپنے ’’جمہور مخالف موقف‘‘ کے رد عمل میں تمام تند وتیز تبصروں، خطوط اور ناقدانہ تجزیوں کو آپ کمال حوصلہ کے ساتھ پڑھتے اور شائع کرتے رہتے ہیں۔ یہ آپ کی وسعت ظرفی کی بین دلیل ہے۔
(۲) مگر یاد نہیں پڑتا کہ فریق مخالف کے دلائل وبراہین کے پیش نظر آپ نے اپنے موقف سے رجوع فرما لیا ہو۔ (یقیناًاس کی کوئی معقول وجہ آپ کے پاس ہوگی۔) خداداد ذہنی وعلمی صلاحیت اور جولانی تحریر کو بروے کار لا کر ہر حال میں آپ ثابت قدم رہنا چاہتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے ہی مواقع پر آپ کا تحریری بانکپن اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ ہاں اگر بہت مجبوری کے عالم میں ماننا پڑے تو نہایت نپے تلے انداز میں صرف کچھ قریب آنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ مثلاً حالیہ افغان جنگ کی شرعی حیثیت کے تعین میں آپ اسے جہاد قرار دینے سے گریز فرما رہے ہیں، مگر دوسرے قرائن ودلائل جب سامنے آئے تو آنجناب نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا فرما لیا کہ:
’’مذکورہ پہلو سامنے آنے کے بعد طالبان کی حکمت عملی پر سخت تحفظات کے باوجود میرے خیال میں ان کی موجودہ مزاحمت کی شرعی حیثیت کے بارے میں اشکال کی شدت نمایاں طور پر بہت کم ہو جاتی ہے۔‘‘ (الشریعہ، اکتوبر ۲۰۱۰ء، ص ۵۵)
بہرحال اپنے لیے اور تمام اہل علم ودانش کے لیے یہی دعا ہے کہ اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔
حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ اہل علم ایک ایک کر کے رخصت ہو رہے ہیں، مگر عصر حاضر میں بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کی عصری تقاضوں کے مطابق تنقیح وتطبیق اور واضح ہونے کی ضرورت ہے۔ اپنے محدود مطالعہ اور ناقص فہم کی بنیاد پر چند مسائل ومباحث کی نشان دہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ اہل علم ان پر خامہ فرسائی فرما کر علمی ذمہ داری کا ثبوت دیں:
(۱) ملک کے مختلف حصوں کی شورشوں (مثلاً قبائلی علاقوں میں پاک فوج اور پاکستانی طالبان کے مابین محاذ آرائی اور بلوچستان میں بلوچ سرفروشوں کی کارروائیاں وغیرہ) کی شرعی حیثیت اور قضیہ لال مسجد کی کربلا سے مماثلت کی بحث۔
(۲) عسکریت کی تمام مروجہ صورتوں کے تفصیلی جائزہ کے ساتھ اسلام کے تصور جہاد کی وضاحت۔
(۳) خود کش حملوں کا حقیقت پسندانہ جز رسی کے ساتھ شرعی جائزہ۔
(۴) اسلام کے نام پر موجودہ سیاست کی خوبیوں اور خامیوں کی نشان دہی اور ان کا حل۔
(۵) امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا اسلامی طریقہ، خصوصاً دور حاضر میں حکمرانوں کے اسلام مخالف طرز عمل اور پالیسیوں کے تناظر میں۔
(۶) تکفیر شیعہ کا مسئلہ (اس کے عملی نتائج میں سنی اور شیعہ کے مابین نکاح وغیرہ شامل ہیں۔)
(۷) اجتہاد کی حقیقت وضرورت اور معیارات۔
(۸) اکابر واسلاف سے وابستگی کے حدود ، دائرے اور معیارات۔
(۹) دینی مدارس کا نصاب ونظام حالیہ زمینی حقیقتوں کی روشنی میں۔
(۱۰) اسلام مخالف تحریکات ونظریات سے واقفیت اور ان سے نمٹنے کا لائحہ عمل۔
امید ہے کہ اہل علم اور سنجیدہ ومتحمل دانش وران ملت ان جیسے مسائل پر اپنی علمی توانائیاں صرف کر کے امت مسلمہ کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیں گے۔ واضح رہے کہ ان مسائل ومباحث میں ان اہل علم ودانش کی نگارشات کو پذیرائی ملنے کا امکان ہے جن پر پہلے سے ’’متجددین میں شمار ہونے‘‘ اور ’’اکابر سے بغاوت‘‘ جیسا ٹھپہ نہ لگا ہوا ہو۔
اللہ تعالیٰ ’’الشریعہ‘‘ کو امت مسلمہ کی بہتری کے لیے ایک بہترین علمی فورم کے طور پر ہمیشہ قائم ودائم رکھے۔ آمین
محمود خارانی
مدرسہ دار العلوم، خاران، بلوچستان
(۶)
مکرمی ومحترمی جناب عمار خاں راشدی صاحب زید فضلکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے بعافیت ہوں گے۔ اس خادم کو آپ سے اور آپ کے خانوادے سے جو نیازمندانہ محبت ہے، اس پر اللہ تعالی سے اجر کی امید ہے اور اسی محبت کی بنا پر آپ کے لیے دعا کا اہتمام الحمد للہ اپنی سعادت سمجھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شرافت نسبی اور مقام سے نوازنے کے بعد جو اعلیٰ علمی وفکری صلاحیت عطا فرمائی، وہ ہم سب کے لیے بڑی توقع کا باعث ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنے مقبول بندوں میں شامل فرمائے، اور شرور وفتن سے محفوظ رکھے۔
۱) افغان جہاد سے متعلق آپ کی رائے ایک عرصہ قبل موصول ہوئی تھی۔ محبت کا شکریہ۔ برادر عزیزمولوی الیاس نعمانی نے اس پر کچھ استدراک بھی لکھا تھا۔ میرا نقطۂ نظر بھی قریبا وہی تھا، اس لیے اعادہ کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ لیکن آپ کے نام ایک مراسلے سے ایسا محسوس ہوا کہ کسی صاحب کو آپ کے مضمون سے یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی بھی افغان جنگ کے جہاد ہو نے کے بارے میں کچھ تحفظ رکھتے ہیں۔ یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ مولانا سے میری مستقل گفتگوئیں رہی ہیں، ان کا موقف یہ نہیں تھا۔ ان کے جس مضمون کا آپ نے حوالہ دیا ہے، اس میں انہوں نے طالبان کے بعض فیصلوں سے اختلاف کیا اور اِن فیصلوں کو شرعی حکمت کے خلاف بتایا تھا۔ ان کو اس باب میں اصل حیرت بلکہ شکوہ پاکستانی علما سے تھا جنہوں نے طالبان کی یقیناًبجا طور پر حمایت تو کی مگر ان کو حکمت کا سبق پڑھانے کی طرف توجہ نہیں فرمائی۔
۲) جہاں تک زیر بحث مسئلے کا تعلق ہے، مجھے اس مفروضے کے بارے میں شک ہے کہ امریکہ کے ٹریڈ ٹاور پر حملے میں القاعدہ نام کی کوئی تنظیم شریک ہے، بلکہ القاعدہ نام کی تنظیم کی اصلیت کیا ہے، یہ شاید ہم میں سے کسی کہ نہیں معلوم۔ القاعدہ کیا ہے؟ اس کی طرف سے جاری میڈیا بیانات یا تحریروں کی حقیقت کیا ہے؟ یہ وحی کہاں سے کس پر کب نازل ہوتی ہے، اور اس کا روح القدس کون ہے؟ یہ سب کسی کو نہیں معلوم۔ بلکہ اگر آپ نے اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ پر آنے والے فوٹو دیکھے ہوں گے تو ان میں واضح ان فرقوں پر آپ کی بھی نظر گئی ہو گی جن کو بہت سے میڈیا کے حضرات نے بھی شک شبہے کا سبب قرار دیا ہے۔ ۱۱/۹ کے فورا بعد القاعدہ کی جانب سے ایک خط جاری ہوا تھا اور اخبارات میں لیٹر ہیڈ کی امیج کے ساتھ چھپا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس کے لیٹر ہیڈ میں عربی میں القاعدہ کا املا ’’القائدہ‘‘ چھپا تھا۔ مجھے اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ سب کس درجہ حماقت کے ساتھ کیا جانے والا فراڈ ہے۔ ایسی صورت حال میں آپ کی بات سے متفق ہونا مشکل ہے۔
۳) بلکہ اگر ایسا ہے بھی یعنی یہ حملے اسامہ اور القاعدہ کے لوگوں نے کیے تھے تو بھی امارت اسلامیہ افغانستان (طالبان) کی طرف سے جنگ کے ’’بظاہر‘‘ جہاد قرار پانے میں کوئی فرق اس لیے نہیں پڑتا کہ ان کے ہی نہیں دنیا کے سامنے کوئی ثبوت امریکہ آج تک، سوائے دھاندلی کے، نہیں پیش کر سکا۔ ایسی صورتحال میں محض اس مفروضے کی بنیاد پر کہ ’’ان کو پتہ ضرور ہوگا‘‘ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ان کا عمل جہاد نہیں۔ایسے مفروضوں پر نتائج نہیں قائم کیے جاسکتے۔
۴) محترما! ایک سوال اور ہے۔ رسول اللہؐ کے عہد میں سریہ نخلہ والوں سے اشہر حرم میں ایک قتل ہو گیا تھا۔ یقیناًیہ عمل غلط تھا، اسی لیے رسول اللہ ؐ نے مقتول کی دیت دلوائی تھی۔ فرض کیجیے اگر مکہ والے کہتے کہ نہیں اس کے بدلے میں ہم کو تو مدینہ پر حملہ ہی کرنا ہے اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دینی ہے، اور رسول اللہؐ مدینے کا اور اپنا دفاع کرتے تو آپ کے اختیار کردہ استدلال کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بھی بس ایک جائز جنگ ہوتی، جہاد نہیں!!!
۵) یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر مسلم ریاست کے کسی شہری نے کسی دوسری ریاست کے دائرے میں کوئی جرم کیا تو اس کو جرم ثابت ہونے پر سزا ملنی چاہیے، یعنی اگر القاعدہ کے حق میں جرم ثابت بھی ہوتا تو بھی اسلامی ریاست پر جو چیز واجب ہوگی، وہ مجرم کو سزا اور مقتولین کا عرف کے مطابق جان بہا ہے، مگر اس کے بہانے اگر دشمن ریاست حملہ کر دے تو اسلامی ریاست کا دفاع یقیناًجہاد ہوگا۔ آپ کے موقف کے مطابق اگر کسی مسلم ریاست کے شہری نے کوئی جرم کیا اور متأثرہ غیر مسلم ریاست مجرم کو سزا دلوانے کے قانونی طریق کار کو عمل میں لانے کے بجائے اس کو حملے اور جارحیت کے لیے بہانہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مسلم ریاست پر حملہ کردے تو مسلم ریاست کا دفاع جہاد نہیں ہو گا۔
میرے محترم عزیز! غور فرمائیے، یہ بات کس قدر مجاہدین کی ہمت کم کرنے والی ہے۔
مخلص، یحییٰ نعمانی
(مدیر ماہنامہ الفرقان، لکھنؤ)
(۷)
مکرم ومحترم مولانا یحییٰ نعمانی صاحب زید مجدکم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے تبصرے کا بے حد شکریہ! القاعدہ کے وجود یا سرگرمیوں کے بارے میں آپ کے ارشادت کے بارے میں میرا تبصرہ وہی ہے جو ’الشریعہ‘ میں چھپ چکا ہے۔
افغانستان کے طالبان کے بارے میں اس نکتے سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بن لادن کے فتووں اور عزائم سے بہرحال واقف تھے اور اسی وجہ سے اس کے خلاف قانونی ثبوت نہ ہونے کے باوجود انھوں نے اس پر بعض قدغنیں لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس ضمن میں سریہ نخلہ کے واقعے سے استدلال شاید زیادہ درست نہیں۔ وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب سریہ کا طرز عمل سامنے آنے پر نہ تو اہل مکہ سے ’’قانونی ثبوت‘‘ مانگا اور نہ ان کے ارتکاب جرم کا انکار کر کے پردہ پوشی کی کوشش کی۔ آپ نے معاملے کے لحاظ سے جو اخلاقی وقانونی اقدام مناسب تھا، فرمایا اور مقتول کی دیت ادا کی۔ اس کے بعد اگر قریش قتل کا بدلہ لینے کے لیے حملہ کرتے تو یقیناًاس کا مقابلہ جہاد ہی ہوتا۔ طالبان کا طرز عمل اس سے بالکل مختلف تھا۔
بہرحال میں پچھلی بحث کے آخر میں، سامنے آنے والے بعض شواہد کی روشنی میں عرض کر چکا ہوں کہ ’’طالبان کو بعض وقتی اور محدود سیاسی مصالح کی قربانی دیتے ہوئے بن لادن کے معاملے میں زیادہ مضبوط، دو ٹوک اور ذمہ دارانہ موقف اختیار کرنا چاہیے تھا، لیکن انھیں القاعدہ کے پروگرام کے ساتھ ہمدردی یا اس کی خفیہ تائید کا مجرم بہرحال نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ مذکورہ پہلو سامنے آنے کے بعد طالبان کی حکمت عملی پر سخت تحفظات کے باوجود، میرے خیال میں ان کی موجودہ مزاحمت کی شرعی حیثیت کے بارے میں اشکال کی شدت نمایاں طور پر بہت کم ہو جاتی ہے، خاص طور پر جب یہ بات بھی سامنے رکھی جائے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ کی طرف سے عالمی برادری اور مسلم دنیا کو کوئی متبادل حل تلاش کرنے کی مہلت اور موقع بالکل نہیں دیا گیا اور انتقام کے جوش میں طاقت کے اندھا دھند استعمال کو ہی واحد حل قرار دے دیا گیا۔‘‘
میرے خیال میں طالبان کو بن لادن کے معاملے کا فیصلہ نائن الیون سے بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا اور اگر وہ مستقبل میں بھی، تمام حقائق سامنے آجانے کے باوجود القاعدہ کو پناہ فراہم کرتے ہیں تو عدم علم کا عذر دوبارہ پیش کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔
آپ کے جذبات محبت پر بے حد شکر گزار اور آپ اور آپ کے خانوادے کے لیے دعاگو ہوں۔ واجرکم علی اللہ
محمد عمار خان ناصر
(۸)
محترم جناب محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
’’القاعدہ ،طالبان اور موجودہ افغان جنگ ۔ایک علمی و تجزیاتی مباحثہ‘‘ میں اپنی رائے کے ساتھ شرکت سے بوجوہ قاصر رہا۔ الشریعہ اکتوبر ۲۰۱۰ء میں مذکورہ مباحثہ دیکھا تو کچھ کہنے کو جی چاہا۔ کسی خاص رائے پر کوئی باقاعدہ تبصرہ مقصود نہیں، مباحثے میں سامنے والے مختلف خیالات پر اپنے چند احساسات پیش کر رہا ہوں۔
القاعدہ کو مفروضہ سمجھنا ایک خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ القاعدہ کی کاروائیاں اور اس کا جہادی زاوےۂ نظر ایک زمینی حقیقت ہے۔ اسے اس کے محسوس ومشاہد تناظر میں دیکھنے والے اسلام کے کسی طالب علم کو اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں ہونا چاہیے کہ اس کی کارروائیوں اور جہادی تصور سے اسلام کے اصول مطلقاً ابا کرتے ہیں۔ پاکستان کے وہ عسکری عناصر جو اندرون ملک پر تشدد کارروائیوں کو جائز سمجھتے ہیں، سخت تر مجرم ہیں۔ ان دونوں قسم کے گروہوں سے مطلقاً برأت کا اظہاراسلام، اسلامی اخلاقیات اور عالم اسلام، سب کے مفادات کا تقاضا ہے۔ مذکورہ حوالے سے آپ کے درد دل کی عکاس یہ دعا کہ: اللھم اجعلنا ممن یجاھرون بالحق ولا یخافون لومۃ لائم بڑے وسیع مضمرات کی حامل ہے، لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ہماری مذہبی قیادتیں خوف لومۃ لائم کا بری طرح شکار ہیں۔ یہ بدیہی طور پر لا الیٰ ھولاء ولا الیٰ ھولاء کا مصداق ہیں۔ یہ بات کس قدر افسوس ناک ہے کہ اپنے ہاں کی دہشت گردی کو ہم دہشت گردی کہتے بھی ہیں اور اس کے خلاف زبان بھی نہیں کھولتے۔ کیا ’’حق گوئی و بے باکی‘‘ کا واحد معیار امریکی دہشت گردی کے خلاف لب کشائی ہی ہے؟ سچ یہ ہے کہ ہمارے یہاں امریکہ پر لعن طعن ایک آسان اور محفوظ راستہ ہے اور خود احتسابی اور اپنے گمرہوں کوان کی گمرہی پر متنبہ کرنے کی راہ نہایت مشکل اور پر خطر۔ اگر ہمارے اہل مذہب واقعتا’’ اللہ کے شیر‘‘ ہیں تو انہیں داخلی سطح پر ’’روباہی‘‘ ترک کرنے میں کون سا امر مانع ہے؟ محترم عمار صاحب! آپ پرخطر راستے پر نکل کھڑے ہوئے ہیں، لیکن حق یہ ہے کہ آپ نے’’آئین جوانمرداں‘‘ اختیار کیا ہے۔
نائن الیون کے بعد طالبان کی حکمت عملی کا بے بصیرتی پر مبنی ہونابعد میں تو نہایت کھل کر سامنے آگیا، لیکن اس زمانے میں بھی کئی صاحبان فکر نے اس طرف توجہ دلائی تھی۔ آپ نے بھی بعض حوالہ جات دیے ہیں۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ ارشاد احمد حقانی مرحوم نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ اگر طالبان اسامہ کو امریکہ کے حوالے کر دیتے تو امریکہ کے پاس افغانستان پر حملے کا کوئی اخلاقی جواز نہ ہوتا۔ حقانی صاحب کے اس خیال کے حوالے یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کا اسامہ کی حوالگی کے باوصف افغانستان پر جنگ مسلط کرنے باز آجانا ضروری نہ تھا، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس صورت میں امریکہ کو عالمی برادری کی وہ اخلاقی حمایت حاصل نہ ہوتی جو بصورت دیگر حاصل ہوئی۔اور اس صورت میں جنگ ہوتی بھی تو اس کے نتائج موجودہ نتائج سے بہت مختلف ہوتے اور اہل اسلام کو اتنا نقصان نہ پہنچتا۔
طاقت کے توازن کے تناظر میں بہتر حکمت عملی کی ضرورت کے حوالے سے بعض جذباتی عناصر غزوۂ بدر میں طاقت کے توازن کا حوالہ دینے لگتے ہیں، لیکن یہ لوگ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ اس وقت اسلام کی بقا کا مسئلہ درپیش تھااور وہاں پسپائی کی حکمت عملی اسلام کے وجود کو مٹانے پر منتج ہوتی۔ اس کے برعکس جب اسلام کے وجود کو خطرہ نہیں تھاتو صلح حدیبیہ میں واضح طور پر پسپائی کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ نائن الیون کے بعد اسلام کے وجود کو خطرہ لاحق نہیں تھا۔ بنابریں طالبا ن کو صلح حدیبیہ کو مشعل راہ بنانا چاہیے تھا۔
میرے نزدیک طالبان کے پوسٹ نائن الیون طرز عمل کو محض اجتہادی خطا سے تعبیر کرنا معاملے کی نوعیت کی سنگینی کے صحیح ادراک کا مظہر نہیں ہے۔ یہ خطا کسی فرد یا اجتہادی ادارے کی محدود اثرات کی حامل خطا نہیں ہے، یہ ’’لمحوں کی خطا اور صدیوں کی سزا‘‘ والا وہ بلنڈر تھا جو عالم اسلام کو بہت بڑی تباہی سے دوچار کرنے والا اور نہایت دور رس اثرات کا حامل تھا۔ لہٰذا معاملہ صرف اجتہادی خطا کا نہیں، ان لوگوں کی سخت ناپختہ دینی واسلامی تربیت کاہے۔ نائن الیون سے پہلے،طالبان کے دور اقتدار میں، ایک موقع پرمحترم قاضی حسین احمد صاحب نے ان کی اس ناپختگی کو واضح کرتے ہوئے ایک نہایت خوبصورت جملہ کہا تھا جو اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوا اور بہت مشہور ہوا تھاکہ: ’’طالبان کو عالمان کی ضرورت ہے۔‘‘ لہٰذا طالبان کو طالبان ہی سمجھنا چاہیے، عالمان اور مجتہدین نہیں۔
عہد نبوی کی چھاپہ مار کارروائیوں سے القاعدہ اور دیگر جہادی عناصر کی چھاپہ مار کارروائیوں پر دلیل لاناایک بہت ہی خطرناک غلطی ہے۔ یہ جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام ہے۔ آنحضورؐ نے کبھی بھی کسی معاہد کے خلاف چھاپہ مار کارروائی کا حکم دیا نہ اجازت۔ آپ کی خفیہ کارروائیاں بالکلیہ حربی اور نقض عہد کے مرتکب افراداور گروہوں کے خلاف تھیں۔ ایک ریاست میں بیٹھ کر کسی دوسر ی ایسی ریاست کے خلاف، جس سے اول الذکر علانیہ بر سر جنگ نہ ہو، چھاپہ مار کارروائی اور وہ بھی مقاتلین اور غیر مقاتلین کا لحاظ رکھے بغیر بلکہ دونوں کو علی اعلان ایک ہی صف میں شامل کرتے ہوئے، کسی طرح شرعاً جائز قرار نہیں دی جا سکتی۔
ابو جندلؓ اور ابوبصیرؓ والے معاملے سے طالبان کے لیے رہنمائی کا پہلو نکلتا تھا تو وہ یہ نہیں تھا کہ وہ ایک ایسے ملک کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں کرنے والوں کو جو ان کے خلاف بر سر جنگ نہیں تھا، اپنے ہاں پناہ اور تحفظ دیتے اور ان کے لیے اپنی اسلامی ریاست (جس حدتک بھی اسے اسلامی کہا جاسکے) کی بھی قربانی دیتے اور اپنے برادر ہمسایوں پر بالخصوص اور عالم اسلام پر بالعموم تباہی مسلط کروانے کا موجب بنتے، بلکہ یہ تھا کہ وہ ریاست مدینہ کے سربراہ کی پیروی کرتے ہوئے انہیں اپنے پاس رکھنے سے انکار کر دیتے۔ وہ کہیں اور بیٹھ کر اپنا کام کر تے۔ تاہم بلا تشبیہ و مثال ان کی ’’کامیابیوں‘‘ کا پھل کھانا ہی ضروری تھا تو مشرکین مکہ کی مانند جب امریکہ ان سے تنگ آ جاتااور طالبان سے انہیں اپنے ہاں بلانے کی درخواست کرتااور طالبان بھی اس پوزیشن میں آگئے ہوتے کہ امریکہ کے خلاف ’’فتح مکہ‘‘ کی تاریخ دہرا سکیں تو ان کو اپنے اندر جذب کر کے کفار کے خلاف طبل جنگ بجا دیتے۔
مستقبل میں اگر طالبان کو دوبارہ برسر اقتدار آنے کا موقع ملتا ہے تو ان کے لیے بہترین صورت راقم کے نزدیک یہ ہے کہ وہ ’’طالبانہ‘‘ کے بجائے عالمانہ انداز فکرو عمل اپنائیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کے پاکستانی فکری رہنماان کی مخلصانہ مدد کریں اورانہیں ان کی کوتاہیوں کا احساس دلائیں اور ان کی اصلاح پر آمادہ کریں نہ کہ خود عالمان سے طالبان ہو جائیں کہ: اذا زلّ العالِم زلّ بزلّیہ عالَم۔
ڈاکٹر محمد شہباز منج
شعبہ اسلامیات، یونیورسٹی آف سرگودھا
drshahbazuos@hotmail.com
(۹)
’’القاعدہ ، طالبان اور موجودہ افغان جنگ ‘‘کے موضوع پر آپ نے الشریعہ کے صفحات میں جس دلچسپ ، فکر انگیز اور مفید مباحثے کا اہتمام کیا ہے، اس میں اخلاص، سنجیدگی اور شائستگی نمایاں نظر آرہی ہے۔ میرے خیال میں القاعدہ اور طالبان کو پڑھنا، سمجھنا اور ان سے سبق حاصل کرنا مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کے عزائم رکھنے والوں کے لیے نا گزیر ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں اور اسلامی حلقوں میں آزادانہ بحث و مباحثے، علمی تجزیات اور تنقید کا کلچر بالکل اجنبی بن چکا ہے جبکہ اﷲ کی بنائی ہوئی اس دنیا میں ملتوں کے داخلی استحکام، ترقی و عروج اور سر بلندی کا راستہ ان ہی کٹھنائیوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ فکری جمود فکری تعفن پیدا کر تا ہے اور آج ہمارے ہاں اس تعفن سے فضا اتنی معمور ہے کہ سانس لینا دو بھر ہو رہا ہے۔ آزادانہ ماحول نہ ہونے کی وجہ سے امت کی ترقی کے لیے فکر مند رہنے والے بہت سے قیمتی زہن اپنے ضمیر کے بوجھ میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں، کیونکہ وہ حالات حاضرہ اپنے ضمیر کے مطابق بول اور لکھ نہیں پا رہے۔ جان کا خطرہ تو اتنی بڑی بات نہیں تھی، لیکن عدم بر داشت کے اس ماحول میں ایمان اور عزت پر بھی حملے کیے جا تے ہیں۔ اسلام دشمن ، ملک دشمن ، دین کا باغی، پاکستان کا غدار، یہود و نصاریٰ کا آلۂ کار اور را کا ایجنٹ، اس طرز کی غیر ذمہ دارانہ الزام تراشیاں زبان کی نوک پر رکھی ہوئی ہیں۔ ایسا معاشرہ اور ماحول جہاں دلیل کے جواب میں الزام تراشی ہو اور دلیل کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑے ہونے کی ہمت کرنے والے چند ایک ہوں اور الزام تراشی کو پذیرائی دینے والا سارا زمانہ ہو تو پھر وہاں جھوٹ کا کاروبار چمک اٹھتا ہے۔ ایسا معاشرہ حقیقی لیڈروں سے آزاد ہو کر مداریوں کے ہاتھوں یرغمال ہوجا تا ہے ۔ راہزن ہی رہنما قرار پاتے ہیں۔ خواہشات اور افواہیں معتبر خبریں بن جاتی ہیں۔ سچائی اور حقیقتیں پروپیگنڈے کے دبیز پردوں میں چھپ جاتی ہیں۔ خبر کے اعتبار کو جاننے کا پیمانہ اپنی خواہشات اپنی پسند نا پسند اور اپنے سیاسی و مذہبی تعصبات بن جاتے ہیں۔ اگر خبر اس پیمانے پر پوری اتر رہی ہو تو امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹیں مغربی میڈیا کے تجزیات اور خبریں بھی قبول ہیں اور اگر اس معیار پر نہ ہوں تو امام کعبہ کے فتوے اور طالبان اور القاعدہ کے ترجمانوں کے بیانات کو بھی قابل اعتبار نہیں سمجھا جا تا۔
آپ کے زیر بحث موضوع پر کچھ نکات پیش خدمت ہیں۔ میرے خیال میں موجودہ افغان جہاد کی شرعی حیثیت اور القاعدہ اور طالبان کے کر دار کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے انھیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
(۱) القاعدہ اور طالبان رد عمل کی تحریکیں ہیں اور رد عمل میں اٹھنے والی تحریکیں ان مخصوص حالات سے اوپر اٹھ کر نہیں سوچ پاتیں جن حالات میں انھوں نے جنم لیا ہو تا ہے۔ ایسی تحریکوں کے نظریات اور پالیسیاں حالات کے جبر کے تحت پہلے بنتی ہیں اور انکی تائید میں آیتیں اور حد یثیں بعد میں جمع کی جاتی ہیں۔ ایسی تحریکیں امت مسلمہ کے تمام مسائل اور حقائق کو نہ تو کما حقہ ‘ سمجھتی ہیں اور نہ سمجھنے کی کوشش کر تی ہیں۔ کیونکہ اس طرح انکے نظریات اور پالیسیوں پر حرف آتا ہے۔ جنگ کی کوکھ سے جنم لینے والی تحریکوں کے پاس امت کے مسائل کا حل اسکے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ مار دو یا مر جاؤ۔ یہ بھی ایک بحث کا موضوع ہے کہ القاعدہ اور طالبان کے نظریات ، پالیسیوں اور اقدامات نے اسلام اور مسلمانوں کو کتنا فائدہ یا نقصان پہنچایا؟ اور اس پر بھی بات ہونا چاہیے کہ جدید دنیا میں مسلمانوں کے داخلی استحکام اور ترقی اور اسلام کی سر بلندی کے لیے کس قسم کی تحریک کی ضرورت ہے؟
(۲) اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ المعروف افغان جہاد کو بطور جہاد امریکہ نے متعارف کرایا نہ کہ علما نے۔ امریکہ نے ہی جہاد کی اہمیت اور فیوض و برکات کی طرف عالم اسلام کے مذہبی عناصر کو متوجہ کیا۔ امریکہ نے ہی اپنے تمام ذرائع و وسائل کو عالم اسلام میں جہادی روح پھونکنے پر لگایا اور کائنات کے سب سے بڑے طاغوت روس کو شکست دینے کے لیے مسلمان حکومتوں اور سرمایہ دارانہ بلاک کے تعاون سے وہ حالات پیدا کیے کہ دنیا بھر کے اسلام پسندوں کا افغان جنگ میں شریک ہونا آسان اور قابل فخر بن گیا۔ بالخصوص عرب دنیا سے لا تعداد افراد اپنے جان و مال کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہونے کے لیے افغانستان میں جمع ہوئے انھیں عسکری تربیت اور اسلحہ بلوا سطہ یا بلاواسطہ امریکہ نے فراہم کیا۔ پاکستان اپنے محل وقوع کی وجہ سے اس جنگ میں خصوصی اہمیت حاصل کر گیا۔ حکمرانوں، سیاستدانوں ، ریاستی اداروں اور مذہبی قوتوں نے عرب دنیا اور امریکہ سے اپنے اپنے کر داروں کو کیش کرایا۔ یہ موضوع بھی قابل بحث ہے کہ انفرادی مفادات تو بہت حاصل کیے گئے، لیکن ملک و قوم کو اس دولت سے کتنا فائدہ پہنچایا گیا جو پانی کی طرح پاکستان کی طرف بہہ رہی تھی؟
(۳) امریکہ کے زیر اثر عالمی میڈیا نے اور عالمی میڈیا کے زیر اثر اسلامی میڈیا نے افغان جنگ کے عسکری رہنماؤں کو اسلام کا ہیرو بنا کر پیش کیا۔ یوں مسلمان معاشروں میں ان ہیروز کو تقدس اور ان کے فرمودات اور خیالات کو پذیرائی ملی۔ عارضی مقاصد کے لیے ان نظریات کی تشکیل میں اس قدر مبالغے سے کام لیا گیا جو جھوٹ کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ ہر جہادی گروپ نے جو مختلف ایجنسیوں کی سر پرستی میں کام کر رہے تھے، اﷲ کی تائید و نصرت کی ایسی ایسی کہانیاں وضع کیں کہ ایک موقع پر میں نے بے ساختہ کہا تھا کہ اﷲ کی اتنی مدد تو اسلام کی اولین تحریک میں بھی نازل نہیں ہوئی جتنی کہ ہمارے ان ’’مجاہدین‘‘ کو میسر آرہی ہے۔ یہ صورتحال فطری نتیجہ اس بات کا تھا کہ اس جہاد کا آغاز علما کی رہنمائی میں نہیں غیر مسلم قوتوں کے مفادات کے لیے اور ان کی مدد اور رہنمائی میں ہوا تھا۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ کتنے لوگ جو میدان جہاد میں گئے اور ’’عالم دین ‘‘ اور ’’مفتی‘‘ بن کر نکلے اور ان علما اور مفتیان کرام کو روایتی علما سے کہیں زیادہ تقدس ، اعتبار اور پذیرائی حاصل ہوئی۔ یہ بھی ایک توجہ طلب اور طویل بحث ہو سکتی ہے کہ حقیقی علما کو غیر مؤثر کر کے مصنوعی مذہبی قیادت تیار ہوئی جو مسلمان معاشروں پر مسلط ہو گئی ۔ حقیقی علما کی رہنمائی کو مذاق بنانے اور ریڈی میڈ علما کی رہنمائی اور پر وپیگنڈے کی وجہ سے معاشرے کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا۔ اخلاقی اقدار کمزور ہوئیں، جذباتیت اور سطحیت معاشرے کے ساتھ ایسی چمٹیں کہ زندگی کا ہر شعبہ تنزلی کا شکار ہونے لگا۔
(۴) طالبان روسی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں ہونے والی بد ترین خانہ جنگی میں پاکستانی ایجنسیوں کے تعاون سے ابھرنے والی ایک تحریک ہے۔ خطے کے معروضی حالات اور پاکستان کے ریاستی مفادات اور ضرورتیں طالبان کے وجود کا سبب بنیں، گویا کہ ’’ میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں‘‘۔ سیکولر عناصر کی پروڈکٹ پر اگر کوئی اسلامی ذہن رکھنے والا تحفظات کا اظہار کرے تو اکثر وہ بیجا نہیں ہوتے۔ بلاشبہ پاکستان کی دیو بند مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی مذہبی قیادت طالبان کی حمایت میں نظر آئی، لیکن ان حمایتوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں ایک گروہ ان علما کا تھا جو اپنے تحفظات کے باوجود طالبان کی حمایت کر رہے تھے کیونکہ ان کے نزدیک وہ اسلام سے قریب تر اور افغانستان میں قیام امن کے لیے مفید تر تھے۔ ایک دوسرا گروہ پے رول پر تھا اور تیسرا گروہ ان سادہ لوح اور مخلص لوگوں کا تھا جو پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر یہ سمجھتے تھے کہ افغانستان میں اسلامی انقلاب آگیا ہے۔ وہ ملا عمر کو عمر فاروق ؓ اور عمر بن عبد العزیزؓ کے ہم پلہ تو نہیں لیکن ان کے قریب قریب ضرورسمجھ رہے تھے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا کہ طالبان کا تمام کروفراور اقتدار بیرونی قوتوں کا مرہون منت تھا۔ یہ کوئی طویل المیعاد تعلیم و تربیت اور تزکیے کی مضبوط بنیادوں پرا بھرا ہو انقلاب نہیں تھا بلکہ عالمی اور علاقائی قوتوں کی مجبوریوں کی وجہ سے حادثاتی طور پر رونما ہوا تھا۔ طالبان اور ان کے حمایتی خوش فہمیوں میں مبتلا ہوئے، اپنی محدودیت اور اپنی کمزوریوں کا ادراک نہ کر سکے اور اپنی قوت کا غلط اندازہ لگایا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ حملوں کی ڈیڈ لائن دے رہا تھا اور پاکستان میں طالبان حکومت کے سفیر ملا ضعیف عالمی میڈیا کے سامنے انتہائی غیر سنجیدگی کے ساتھ سپر طاقت کے خلاف طنز کے تیر بر سا رہے تھے۔ طالبان قیادت اس نازک موقع پر سعودی عرب اور پاکستان جیسے محسنوں کے مشوروں کو بھی خاطر میں نہ لا سکی۔ یوں نہ صرف اپنے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ معصوم افغان عوام کو بدامنی کے ایک نئے دور میں داخل کرنے کا سبب بنے۔
’’مجھے رہزنوں سے غرض نہیں تیری راہبری کا سوال ہے‘‘
(۵) یہ سوال بھی اہم ہے کہ طالبان قیادت نے دوست ممالک اور اپنے دیگر خیر خواہوں پر القاعدہ اور اسکی قیادت کو کیوں ترجیح دی؟ کیا طالبان قیادت القاعدہ کے نظریات و افکار سے متاثر ہوچکی تھی۔ جو یقیناًفقہ حنفی سے مطابقت نہیں رکھتے تھے یا طالبان قیادت القاعدہ سے بلیک میل ہو رہی تھی کسی کمزوری کی وجہ سے اور کیا القاعدہ نے طالبان قیادت کو بزور قوت یر غمال بنا لیا تھا؟
(۶) طالبان کی اخلاقی پوزیشن کے بارے میں رائے قائم کر تے ہوئے بھی چند چیزوں کو پیش نظر رکھنا ہو گا مثلاً دوران خانہ جنگی بے دریغ قتل جبکہ مد مقابل نہ صرف مسلمان تھے بلکہ جہاد افغانستان کے ہیروز تھے۔ اسی طرح طالبان کا ٹھیٹ حنفی دیو بندی ہونا بھی واضح ہے وہ کسی دوسرے مکتبۂ فکر کو بشمول اہلحدیث بر داشت کرنے پر آمادہ نہیں تھے اس بات سے بھی طالبان کی اخلاقی حیثیت پر حرف آتا ہے کہ طالبان کے جھنڈے تلے افغانستان کے پختون جمع ہوئے تھے۔ پاکستان میں بھی جو لوگ طالبان کے ساتھ والہانہ اور جذبات وابستگی اور سیاسی حمایت کر رہے تھے ان میں سے بھی زیادہ تر کا تعلق پختونخواہ سے تھا جبکہ افغانستان کے فارسی بولنے والے طالبان کے حق میں اکثر منفی رائے دیتے پائے جاتے ہیں۔
(۷) بیسا کھیوں کے سہارے اٹھنے والی قوتیں اگر طاقت نہ پکڑیں تو مختلف قوتوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ جاتی ہیں۔ افغانستان میں اس وقت بیک وقت کئی قوتیں اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ بھارت نے افغانستان کے راستے بلوچستان میں آزادی کی تحریک برپا کر رکھی ہے۔ پاکستان کو سیاسی و معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار کرنے والے انتہا پسند عناصر بھی کسی نہ کسی طرح پاکستان کی دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ خطے میں موجود انتہا پسندوں کا خاص ٹارگٹ پاکستانی ریاست ہے۔ ایمن الظواہری نے پاکستانی ریاست کو عملی اور آئینی دونوں اعتبار سے غیر اسلامی ریاست ثابت کرنے کے لیے پوری کتاب لکھ ڈالی ہے۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں پر حملے بھی اب معمول کی بات ہیں۔ ایسی صورتحال میں جبکہ غیر واضح ہے کہ افغانستان میں کون سا گروہ دانستہ یا نا دانستہ کسی کے مفادات کے لیے استعمال ہو رہا ہے، موجودہ جنگ کی شرعی حیثیت کے بارے میں مثبت فتویٰ دینا بہرحال محل نظر ہے۔
(۸) سیرت نبویؐ کا درس یہ ہے کہ کسی معاملے کا اصولی طور پر درست ہونا ہی کافی نہیں بلکہ نتائج کو پیش نظر رکھ کر اقدام کیا جائے گا۔ مکی دور میں اگر مسلمان مشرکین کے ظلم اور تشدد کے جواب میں تلوار اٹھا لیتے تو اصولی طور پر تو غلط نہ ہوتا، لیکن اسلامی تحریک کے لیے ایسا اقدام نتائج کے اعتبار سے تباہ کن ہو تا، اسی لیے رسول اﷲ ؐ نے مسلح اقدام کی حکمت عملی اختیار نہیں کی۔
(۹) طالبان قیادت کے اقدامات اور فیصلوں کے نتائج سامنے آچکے ہیں۔ صرف طالبان تحریک ہی اقتدار سے محروم نہیں ہو ئی بلکہ افغان عوام جو پہلے ہی تباہ حال تھے، مزید تباہ حال ہو رہے ہیں۔ امن و امان کی غیر یقینی صورتحال نے انفراسٹرکچر کی تعمیر، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی اور معاشی و سیاسی استحکام سے افغان عوام کو محروم کر دیا ہے۔ پچھلی نسل کے بعد اب نئی نسل بھی جہالت کی تاریکیوں میں گم ہونے کو ہے۔ پاکستان کے افغان بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور اکثر قابل ترس زندگی بسر کر رہے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ ساتھ اب پاکستان بھی امن و امان کی بدترین صورتحال اور معاشی بد حالی کا شکار ہے۔ ایسے میں طالبان قیادت کی بصیرت اور دعوؤں پر کیونکر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟
(۱۰) پاکستان میں القاعدہ اور طالبان کے زیر اثر اہل توحید کی قیادتیں اور عوام بین الا قوامی ایشوز کی طرف متوجہ ہیں، صرف زبانی احتجاج اور بلند بانگ دعوؤں کا کلچر فروغ پا چکا ہے۔ محراب و منبر جنکی بنیادی ذمہ داری و عظ و نصیحت تذکیہ و تذکیر تھی، وہ اپنے ہدف کی طرف متوجہ نہیں رہے۔ معاشرے میں اسلامی اقدار کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔ شرک کی قوتیں طاقتور ہو تی جا رہی ہیں۔ میڈیا آزادی کے ساتھ مغربی اور ہندو کلچر کا مبلغ بنا ہوا ہے۔ شرک و بدعات اور گمراہ کن عقائد و نظریات کو آزادی سے فروغ دے رہا ہے۔ ظلم و زیادتیاں عام ہیں۔ مہنگائی ، بیروزگاری قوم پر مسلط ہیں۔ گویا پاکستان اسلام سے ماضی کے مقابلے میں مزید دور ہو چکا ہے۔
القاعدہ، طالبان اور موجود افغان جنگ کے موضوع پر ’الشریعہ‘ کے صفحات میں ہونے والی بحث کے مندرجات کو براہ راست ٹچ کیے بغیر کچھ نکات سامنے رکھے ہیں۔ میں نے کوشش کی ہے کہ تسلیم شدہ حقائق کی بنیاد پر اپنے تجزیے کی عمارت کھڑی کروں تاکہ حوالے پیش کر کے گزارشات کو طویل نہ کرنا پڑے۔
سید عامر نجیب
مدیر ہفت روزہ ’حدیبیہ‘ کراچی
(۱۰)
(گزشتہ شمارے میں جناب مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے مکتوب میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ کی طرف سے تین طلاق کے مسئلے میں اہل حدیث کے مسلک پر فتویٰ دیے جانے کے حوالے سے تحفظات کا اظہار فرمایا تھا جس پر ماہنامہ ’الفرقان‘ لکھنو کے مدیر مولانا محمد یحییٰ نعمانی کے توسط سے حکیم ظل الرحمن صاحب سے وضاحت کی درخواست کی گئی۔ اس ضمن میں مولانا نعمانی کی مختصر ای میل یہاں درج کی جا رہی ہے۔ مدیر)
مکرمی! السلام علیکم
حکیم ظل الرحمن صاحب سے فون پر کل بات ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ بات مولانا رضوان صاحب بانی دارالعلوم سبیل السلام کی کتاب ’’شعور حیات‘‘ سے نقل کی ہے۔ وہ ای میل استعمال نہیں کرتے، فون نمبر یہ ہے:
00919540890067
والسلام
مخلص یحییٰ
ایں آہِ جگر سوزے در خلوت صحرا بہ!
محمد عمار خان ناصر
ڈاکٹر محمد فاروق خان بھی شہادت کے اس مقام پر فائز ہو گئے جو اس دنیا میں ایک مرد مجاہد کی سب سے بڑی تمنا ہو سکتی ہے۔ پچھلے تیس سال سے ہماری مذہبی اور عسکری قیادت ا س خطے میں جو کھیل کھیلتی چلی آرہی ہے، اس کے نتیجے میں مذہبی انتہا پسندی ’فتنۃ لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ‘ کی صورت میں اپنے منحوس سایے پوری قوم اور پورے ملک پر پھیلا چکی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس کی بھینٹ چڑھنے والے پہلے فرد نہیں، لیکن انھوں نے ایک مذہبی دانش ور کی حیثیت سے دینی استدلال کے ساتھ جس جرات واستقامت اور بے خوفی کے ساتھ اس کے خلاف کلمہ حق مسلسل بلند کیے رکھا، اس کی کوئی دوسری مثال شاید موجود نہیں۔
میری ان سے پہلی ملاقات چند سال قبل غالباً اس وقت ہوئی جب وہ والد گرامی مولانا زاہد الراشدی کی ملاقات کے لیے گوجرانوالہ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ ۲۰۰۱ء میں علما کے سیاست میں حصہ لینے، نجی جہاد اور اسلامی ریاست میں زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکس کے جواز وعدم جواز کے حوالے سے جناب جاوید احمد غامدی کے نقطہ نظر پر والد گرامی مولانا زاہدالراشدی نے سنجیدہ لہجے میں ایک علمی تنقید لکھی تو الموردکے حلقہ فکر کی طرف سے اس کا خیر مقدم کیا گیا اور جناب معز امجد اور جناب خورشید احمد ندیم نے اس لب ولہجے پر والد گرامی کا شکریہ ادا کیا۔ اس مباحثے میں ڈاکٹر محمد فاروق خان بھی شریک ہوئے اور اسی نے ان کے دل میں والد گرامی کی ملاقات کی تحریک پیدا کی۔ چنانچہ وہ چند دوستوں کے ہمراہ گوجرانوالہ تشریف لائے اور اس سلسلے میں خوشی اور مسرت کے جذبات کا اظہار کیا۔
وسعت نظر اور کھلا پن ان کے شخصی مزاج اور ان کے فکری پس منظر، دونوں کا حصہ تھا۔ ان کی ابتدائی فکری تربیت جماعت اسلامی کے زیر اثر ہوئی، لیکن مذہبی سیاست کے رخ اور خاص طو رپر دور جدید کے سماجی وسیاسی مسائل کے حوالے سے اہل مذہب کی تعبیرات نے ان کے ذہن میں کئی سوالات پیدا کیے جن کا شافی جواب انھیں روایتی مذہبی فکر میں نہیں مل سکا۔ انھوں نے تلاش حق کے جذبے سے ان تمام نقطہ ہاے نظر اور مکاتب فکر کا مطالعہ کیا جو دور جدید میں کسی بھی حوالے سے مذہب کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس فکری سفر کے نتیجے میں انھیں مذہب کی تفہیم تشریح کے علمی منہج کے حوالے سے دبستان فراہی اور دور جدید کے زندہ مسائل کے حوالے سے اسلامی قانون کی تعبیر نو کے ضمن میں جناب جاوید احمد غامدی کے نتائج فکر نے مطمئن کیا۔ یہ اطمینان حاصل ہونے کے بعد ان کی تمام دینی ودعوتی اور سیاسی وسماجی سرگرمیوں کا محور ومرکز اسی فکر کا ابلاغ قرار پایا اور وہ گویا اس کی ترجمانی اور ترویج واشاعت کے لیے وقف ہو کر رہ گئے۔ تاہم ان کا یہ اطمینان اصولی اور عمومی نوعیت ہی کا تھا اور اس میں اندھی تقلید کا رنگ موجود نہیں تھا۔ ہر سوچنے سمجھنے والے آدمی کی طرح وہ خود بھی ان نتائج فکر پر غور کرتے رہتے تھے اور مختلف آرا سے خود اختلاف کرنے کے علاوہ اس ضمن میں کسی بھی جانب سے مثبت اور تعمیری تنقید کو بے حد قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
ڈاکٹر محمد فاروق خان نے سماج اور سیاست کے زندہ مسائل کے بارے میں دینی نقطہ نظر سے اپنی دعوت قوم تک پہنچانے کے لیے بھرپور جدوجہد کی اور یقیناًایک بڑے وسیع حلقے تک روشنی کا پیغام پہنچانے میں کامیاب رہے۔ ان کے فکری سفر نے ان پر واضح کر دیا تھا کہ اس وقت مسلم امہ کے تمام بنیادی مسائل کی جڑ اس پر طاری فکری جمود میں پیوست ہے اور اس کا واحد حل یہ ہے کہ آزادانہ غور وفکر، مثبت تنقید اور مباحثہ ومکالمہ کا ایک کھلا ماحول پیدا کیا جائے تاکہ لوگوں کے لیے اپنے اپنے تعصبات سے آزاد ہو کر حالات اور مسائل کو ان کے درست تناظر میں دیکھنے کا موقع ملے اور سب لوگ کھلے ذہن کے ساتھ ایک دوسرے کے زاویہ نظر سے استفادہ کریں۔ ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں ہم نے گزشتہ کچھ عرصے سے اپنی بساط کی حد تک یہی مزاج اور فضا پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور ڈاکٹر صاحب اس پر مسلسل ہماری حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے، بلکہ بعض اوقات متفکر ہو کر پوچھتے تھے کہ ’الشریعہ‘ نے جو طرز اختیار کیا ہے، وہ ہمارے روایتی مذہبی حلقے کے فکر ومزاج اور ذہنی سانچے کے لیے بالکل اجنبی ہے، اس لیے آپ حضرات اس کو کب تک نبھا سکیں گے؟
ڈاکٹر صاحب مذہبی انتہا پسندی اور خاص طو رپر جہادی تنظیموں کے طرز عمل کے سخت ناقد تھے، تاہم یہ اختلاف ہمدردی اور خیر خواہی کا اختلاف تھا اور وہ نظم ریاست کے خلا ف برسر پیکار عناصر کو ہر حال میں کچل دینے کے بجائے حکمت اور دانش کے ساتھ انھیں راہ راست پر لانے کی خواہش رکھتے تھے۔ سوات کی تحریک طالبان کی اعلیٰ ترین قیادت کے ساتھ ان کے ذاتی روابط تھے اور وہ ان تعلقات کو حکومت اور طالبان کے مابین اعتماد کی فضا پیدا کرنے اور دونوں فریقوں کو گفتگو کی میز پر لانے کے لیے استعمال کرنے کی بھی کوشش کرتے رہے۔ کچھ عرصہ پہلے سرحد حکومت اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے مابین سوات میں امن وامان کے قیام اور نفاذ شریعت کے حوالے سے جو معاہدہ ہوا، ا س میں طالبان کی طرف سے سوات میں ایک اسلامی یونی ورسٹی کے قیام کی شرط بھی رکھی گئی تھی جس کے وائس چانسلر کے طور پر فریقین کے اتفاق سے ڈاکٹر محمد فاروق خان کا نام تجویز کیا گیا۔ یہ ان کے خلوص اور صلاحیت پر فریقین کے اعتماد کا ایک اظہار تھا۔ ڈاکٹر صاحب اس تعلیمی منصوبے کی ذمہ داری ملنے پر بے حد خوش تھے اور انھیں توقع تھی کہ خلوص، محنت اور حکمت کے ساتھ اس منصوبے پر کام کیا جائے تو نہ صرف اس علاقے کے شدت پسند مذہبی عناصر کو اعتدال اور حکمت کے راستے پر لایا جا سکتا ہے بلکہ یہ ادارہ دینی علو م کے ایسے ماہرین بھی معاشرے کو فراہم کر سکتا ہے جو دور جدید کے تقاضوں کے مطابق اسلام کی نمائندگی کر سکیں۔ اس توقع اور امکان نے ڈاکٹر صاحب کو بہت پرجوش بنا دیا تھا اور وہ وائس چانسلر کے طور پر اپنے تقرر کے فوراً بعد اس کے تعلیمی پروگرام اور نصاب وغیرہ کی ترتیب وتدوین کے سلسلے میں متحرک ہو گئے تھے۔
ڈاکٹر صاحب نے اس سلسلے میں بعض دیگر ہم خیال وہم مزاج ساتھیوں کے علاوہ شخصی طورپر مجھ سے بھی رابطہ کیا اور کہا کہ دینی علوم کے شعبے کو صحیح نہج پر استوار کرنے کے لیے وہ مجھے اپنے ساتھ اس کام میں شریک کرنا چاہتے ہیں، اس لیے مجھے اپنی تمام دوسری مصروفیات اور سرگرمیوں کو جیسے بھی اور جس قیمت پر بھی سمیٹنا پڑے، سمیٹ کر سوات منتقل ہو جانا چاہیے۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ سوات میں اسلامی یونی ورسٹی کے قیام کی یہ تجویز کسی باقاعدہ غور وفکر کے نتیجے میں نہیں بلکہ ایک ہنگامی قسم کے سیاسی معاہدے کے تحت سامنے آئی ہے اور سردست اس کا مستقبل سر تا سر سیاسی صورت حال پر منحصر ہے، اس لیے اس پہلو کو نظر انداز کر کے جلد بازی میں کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اس نوعیت کے خدشات سے ڈاکٹر صاحب کے جوش اور لگن میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی اور یہ منصوبہ آخر دم تک ان کی توجہ اور مساعی کا مرکز رہا۔ بہرحال بعد میں یہ معاہدہ برقرار نہ رہ سکا اور معاملہ اس حد تک جا پہنچا کہ حکومتی رٹ قائم کر نے کے لیے سوات میں ایک بڑا فوجی آپریشن کرنا پڑا۔ آپریشن کی کامیابی اور تحریک طالبان سوات کی طاقت ٹوٹ جانے کے بعد وہی ہوا جو ہونا تھا۔ حکومتی حلقوں میں سوات کی مجوزہ یونیورسٹی کے حوالے سے یہ بحث پیدا ہو گئی کہ اس کی صورت گری ایک عام یونیورسٹی کی طرز پر کی جائے یا اسلامی یونیورسٹی کی نہج پر۔ اس کے علاوہ دوسری بہت سی بیوروکریٹک پیچیدگیوں نے اس معاملے کو الجھائے رکھا تا آنکہ ڈاکٹر فاروق خان کا وقت مقرر آ پہنچا اور وہ یہ حسرت دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یقیناًوہ آخری آدمی تھے جو اس یونیورسٹی کو اصل منصوبے کے مطابق اعلیٰ دینی تعلیم کی ایک معیاری درس گاہ بنانا چاہتے تھے۔ ان کے بعد حکومت یا بیورو کریسی کے ذمہ داران سے اس کی توقع کیونکر کی جا سکتی ہے!
ڈاکٹر صاحب انتہا پسند عناصر کی پالیسیوں پر بلا خوف لومۃ لائم اپنے ناقدانہ خیالات کا اظہار ہر فورم پر کرتے رہے۔ انتہا پسند عناصر کے ذہنی سانچے میں درمیان کے آدمی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ان کے نزدیک کوئی شخص یا تو ان کے ساتھ ہوتا ہے یا ان کا دشمن، اس لیے ان سے اختلاف کرنے والا آدمی خواہ مولانا حسن جان اور مولانا نور محمد آف وانا ہو اور چاہے وہ کتنی ہی ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ ایسا کر رہا ہو، دشمن کے کیمپ کا آدمی ہی سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا معاملہ بھی یہی تھا۔ انتہا پسندوں کی طرف سے ہدف کے طو رپر ان کے نام کا اعلان کئی سال پہلے مولانا حسن جان شہید کے نام کے ساتھ کیا جا چکا تھا اور ڈاکٹر صاحب اس کے بعد سے گویا ہتھیلی پر جان رکھ کر اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔ سوات کے آپریشن کے بعد خود کش حملوں کے لیے تیار کیے جانے والے جو بہت سے نوجوان پکڑے گئے، سرحد حکومت نے ان کے ذہنوں سے انتہا پسندی کے اثرات زائل کرنے اور درست رخ پر ان کی فکری تربیت کا سلسلہ شروع کیا تھا جس میں ڈاکٹر صاحب بھرپور اورمتحرک کردار ادا کر رہے تھے۔ غالباً ان کے اسی کردار سے مخالفین کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور ان کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دینے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ ان کی شہادت جرات وعزیمت، استقامت او رقربانی کا ایک قابل رشک نمونہ پیش کرتی ہے۔ انھوں نے شدید خطرے کے ماحول میں بھی نہ تو اپنے ضمیر کے مطابق کلمہ حق کہنا چھوڑا، نہ اظہار رائے میں کوئی مداہنت اختیار کی اور نہ اپنی سماجی ودعوتی سرگرمیوں ہی میں کسی قسم کی کوئی کمی کی۔ ان کی شہادت صرف ’المورد‘ کے حلقہ فکر کے لیے نہیں بلکہ حقیقت میں ملک وقوم، معاشرے اور دینی جدوجہد کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔
اللہ تعالیٰ ان کی حسنات اور خدمات کو بہتر سے بہتر اجر کا مستحق بنائیں، ان کی انسانی لغزشوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرمائیں اور ان کے پس ماندگان کو مصیبت کے اس وقت میں صبر وحوصلہ اور ایمان واستقامت کی نعمت سے بہرہ ور فرمائیں۔ اللہم اغفر لہ وارحمہ واکرم نزلہ ووسع معدخلہ۔ اللہم اوجرنا فی مصیبتنا واخلفنا خیرا منہ۔ اللہم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ۔ آمین
گلہڑ کا اچھوتا اور حیران کن علاج
حکیم محمد عمران مغل
’’امراض وعلاج‘‘ کے عنوان سے پیچیدہ امراض کے علاج کے حوالے سے طب مشرق کے تجربات وتحقیقات پر مشتمل یہ سلسلہ کئی سال کے کے بعد دوبارہ شروع کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ قارئین اسے مفید پائیں گے۔ (مدیر)
یہ واقعہ باغبان پورہ لاہور برف خانہ کا ہے۔ مریضہ کا چچا ایک نامی گرامی ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے علاج کی پوری کوشش کی۔ آخری چارے کے طور پر تھائی راکسن کا ہی انتخاب ہوا۔ یاد رہے تھائی راکسن دوا پر جلی حروف میں ’’پوائزن‘‘ لکھا ہوا ہے۔ مریضہ کی ماں نے مجھے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ بچی کو جب یہ دوا دی جاتی ہے تو چار گھنٹے تک بچی دنیا ومافیہا سے بالکل بے خبر اور بے ہوش ہو جاتی ہے اور مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوتا۔ علاج کے باوجود بچی دن بدن ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتی جا رہی ہے۔ ایف اے کی طالبہ ہے۔ پڑھائی چھڑوا دی گئی۔ بچی کا قد بھی رک گیا ہے اور کھانا پینا بھی ختم۔ گویا مریضہ ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کا مصداق بن چکی تھی۔
طبیہ کالج میں استاذ پروفیسر فتاح شاہد صاحب دامت برکاتہم آف مردان نے فرمایا تھا کہ ایک قابل لبیب اور حکیم وہ ہے کہ جس کے کوئی ایسا مریض آئے جس کی شفا یابی کی مطلب میں کوئی مستقل دوا موجود نہیں، لیکن وہ دیگر موجود ادویہ کی توڑ پھوڑ سے نسخہ تیار کر لے۔ مجھے استاذ صاحب کی یہ نصیحت بہت پسند آئی، چنانچہ مذکورہ مریضہ کے لیے میں نے دیگر ادویہ کی توڑ پھوڑ کر کے نسخہ ترتیب دیا جو تیر بہدف ثابت ہوا۔ یہ مکمل نسخہ آپ کسی درسی کتاب میں نہیں پڑھیں گے۔ مگر یاد رہے کہ ایسے مریض کے خاندانی پس منظر، ماضی اور حال سب سے آپ واقف ہوں۔ خورد ونوش، بود وباش، حرکات وسکنات، مریض کی پسند ناپسند بھی آپ کے علم میں ہونی چاہییں۔ تہذیب جدید کے تحت مریض کو پریشانی اور ٹینشن بالکل نہ ہو، ورنہ گلہڑ اپنا رنگ دکھائے گا کہ ا س مرض کا نفسیات سے گہرا تعلق ہے۔
لوہاری دروازہ لاہور میں ایک عورت بچپن میں یتیم ہو گئی تو بے چاری کو گلہڑ نے دبوچ لیا۔ بالغ ہوئی تو اس کی شادی کر دی گئی۔ چار بچوں کی ماں بن گئی۔ گلہڑ کی وجہ سے اس کی چھاتی اور گردن نظر نہیں آتی تھی۔ اس کے میاں انار کلی میں ایک ہوٹل چلا رہے تھے۔ تیس سال پہلے انھوں نے سعودی عرب اور مصر سے آٹھ آٹھ ہزار روپے کی دوائیں منگوا کر دیں، لیکن اصل بات تشخیص کی ہے۔ مجھ سے رابطہ کیا تو میں نے ایک ہفتہ تشخیص پر لگا دیا۔ پھر کہا کہ اس وقت علاج سے زیادہ ضرورت پرہیز اور طرز زندگی کے بدلنے کی ہے، اللہ کے فضل سے اس بیماری سے جان چھوٹ جائے گی۔ ایسا ہی ہوا۔ مذکورہ دونوں مریضہ اس وقت لاہور میں کامیاب زندگی سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ دونوں کا علاج بالکل یکساں تھا۔
اس مرض میں کھٹی اور بادی اشیا بالکل بند کر دی جائیں تو نصف علاج آپ سے آپ ہو جاتا ہے۔ آج سے ہی آلو، گوبھی، چاول، دال ماش، فارمی مرغی، بند پیکٹوں میں ملنے والی بازاری اشیا، برف اور قابض چیزیں بند کر دیں۔ ہمیشہ پسینے میں تر رہیں۔ اگر اس مرض کا مادہ خون سے خارج نہ ہو تو آنے والے سالوں میں لاتعدد امراض کے لیے تیار رہیں۔ میں نے اپنے استاذ محترم کے فرمان کے مطابق ادویہ کے جوڑ توڑ سے جو نسخہ ترتیب دیا ہے، وہ حاضر خدمت ہے۔
۱۔ صبح شام کھانے کے بعد ایک ایک چاول رسکپور مدبر بالائی یا مکھن میں رکھ کر دیں۔ دانتوں کو نہ لگے۔
۲۔ بڑا چمچہ لعوق خیار شنبر اور لعوق سپستان، دونوں کو یکجان کر کے دن میں تین بار جب وقت ملے، استعمال کریں۔
۳۔ اطریفل زمانی رات کو سوتے وقت چھوٹی چمچ سادہ پانی یا عرق سونف کے ساتھ مستقل جاری رکھیں۔
کچھ ادویہ ہر مریض کے حالات کے تحت بھی دینی پڑتی ہیں۔ مثلاً شربت صدر، حب کبد نوشادری (اجمل دواخانہ کی)، خمیرہ ابریشم سادہ یا حکیم ارشد والا وغیرہ ۔ اگر علاج اصول کے تحت نہ ہو تو ذہنی صلاحیت کے ساتھ قد بھی رک جاتا ہے۔ حلوائی اور بیکری کی اشیا ایسے مریض کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔
دسمبر ۲۰۱۰ء
نفاذ شریعت کی جدوجہد: ایک علمی مباحثہ کی ضرورت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
’’الشریعہ‘‘ کے صفحات پر جہاد کی شرعی حیثیت، موجودہ معروضی حالات میں اس کی عملی صورتوں اور دنیا کے مختلف حصوں میں جہادی تحریکات کے طریق کار کے حوالے سے مباحثہ کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے اور کم وبیش اس سلسلے میں رائے رکھنے والے اکثر دوستوں کا نقطہ نظر کسی نہ کسی پہلو سے سامنے آ چکا ہے۔ ہمارا مقصد اس قسم کے مباحث سے یہی ہوتا ہے کہ ملی اور قومی سطح کے مسائل میں علمی اور فکری طور پر رائے رکھنے والے حضرات کا نقطہ نظر قارئین کے سامنے آئے تاکہ انھیں کھلے ماحول میں مسئلہ کے تمام پہلووں کو ملحوظ رکھتے ہوئے رائے قائم کرنے میں آسانی ہو۔ اس کے ساتھ ہی ہماری کوشش یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی بھی مسئلے پر بحث ومباحثہ ’’مکالمہ‘‘ کے دائرے میں رہے اور باہمی مورچہ بندی کی شکل نہ اختیار کرنے پائے، چنانچہ اس سلسلے میں جاری بحث ومباحثہ کا رخ اسی مسئلے کے ایک دوسرے اہم پہلو کی طرف موڑتے ہوئے ہم ایک علمی وفکری مکالمہ کا آغاز کر رہے ہیں جو نہ صرف ملت اسلامیہ کی نئی پود کے ذہنوں میں بیسیوں سوالات کی صورت میں گردش کر رہا ہے بلکہ عالم اسلام میں نفاذ اسلام کی تحریکات کی بھی ایک علمی وفکری ضرورت ہے۔
یہ سوال قیام پاکستان کے فوراً بعد اٹھ کھڑا ہوا تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ایک نئی نظریاتی ریاست کا دستوری ڈھانچہ کیا ہوگا اور اس کی تشکیل میں مختلف مذہبی مکاتب فکر کے باہمی اختلافات کا کس حد تک عمل دخل ہوگا؟ چنانچہ اسی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام نے ۲۲ متفقہ دستوری نکات قوم کے سامنے پیش کیے تھے تاکہ پاکستان کے دستوری ڈھانچے اور قانونی نظام کے بارے میں دینی حلقوں کا متفقہ موقف سامنے آ جائے اور یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ یہ مذہبی مکاتب فکر تمام تر باہمی اختلافات کے باوجود دستوری اور قانونی نظام کے معاملات میں یکسو اور متفق ہیں اور ان کے اختلافات ملک کو ایک نظریاتی ریاست کی حیثیت دینے میں رکاوٹ نہیں ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں ’’قرارداد مقاصد‘‘ کی منظوری اور اس پر تمام دینی حلقوں کا اتفاق بھی دستور وقانون کے بارے میں ان کے اتفاق اور ہم آہنگی کا مظہر تھا، حتیٰ کہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلامی دفعات کی شمولیت اور جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور تک اسلامائزیشن کے لیے ہونے والی پیش رفت کا پس منظر بھی یہی تھا، لیکن ’’جہاد افغانستان‘‘ کے بعد رونما ہونے والی علاقائی تبدیلیوں کے ماحول میں اس دستوری جدوجہد کے بارے میں دو م مختلف نقطہ ہائے نظر سامنے آئے ہیں:
ایک نقطہ نظر سیکولر حلقوں کا ہے کہ قرارداد مقاصد سے اب تک نفاذ اسلام کے لیے ہونے والے تمام اقدامات غلط ہیں اور ان سب پر خط تنسیخ کھینچنے کی ضرورت ہے۔
دوسرا نقطہ نظر بعض دینی حلقوں کی طرف سے یہ سامنے آیا ہے کہ پاکستان میں نفاذ اسلام کے لیے پرامن دستوری اور آئینی جدوجہد ناکام ہو چکی ہے اور اب ہتھیار اٹھائے بغیر اس ملک میں نفاذ شریعت کی کوئی عملی صورت باقی نہیں رہی۔
چنانچہ اس فضا میں گزشتہ چند برسوں کے دوران کشمکش او رمحاذ آرائی کے جو نئے رخ سامنے آئے ہیں، اس میں یہ سوال ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ:
- آج کے دور میں پاکستان یا کسی بھی اسلامی ریاست کا دستوری ڈھانچہ کیا ہو سکتا ہے اور خلافت کی عملی شکل کیا ہوگی؟
- ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے : (۱) دستوری اور قانونی جدوجہد (۲) عوامی دباؤ اور احتجاج کا تحریکی راستہ اور (۳) ہتھیار اٹھا کر عسکری جدوجہد میں سے کون سا طریقہ قابل عمل ہے اور ملک کے دینی حلقوں کو اس حوالے سے کیا کرنا چاہیے؟
ہم اس حوالے سے جس مباحثہ کا آغاز کر رہے ہیں، وہ انھی دو سوالات کے دائرے میں ہوگا اور اس سلسلے میں کسی بھی نقطہ نظر کے بارے میں ایسی تحریریں شامل اشاعت کی جائیں گی جو خالصتاً علمی وفکری بنیاد پر شستہ اور مثبت انداز میں تحریر کی گئی ہوں اور مناظرانہ اسلوب اور باہمی تحقیر واستہزا کے مواد سے خالی ہوں۔ بحث کے آغاز میں ہم ایجنڈے کے طور پر قرارداد مقاصد اور علما کے ۲۲ نکات کے علاوہ ایک تفصیلی مضمون بھی شائع کر رہے ہیں جو راقم الحروف نے کراچی کے ایک نشریاتی ادارے کے سوال نامے کے جواب میں تحریر کیا ہے۔
ارباب علم ودانش سے گزارش ہے کہ وہ وقت کی اس اہم ترین ضرورت کی طرف توجہ فرمائیں اور ایک خوب صورت اور معیاری علمی وفکری مباحثہ کی شکل میں امت مسلمہ کی نئی نسل کے ساتھ ساتھ ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کے دستوری اور قانونی تقاضوں کے سلسلے میں عالم اسلام کی دینی تحریکات کی بھی راہ نمائی فرمائیں۔ اللہم ارنا الحق حقا وارقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔ آمین یا رب العالمین
اتحاد تنظیمات مدارس اور حکومت کا معاہدہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ اور وفاقی حکومت کے درمیان مبینہ طور پر ہونے والے معاہدے اور اس کے تحت ’’وفاقی مدرسہ بورڈ‘‘ کے قیام کے حوالے سے ۶؍ نومبر کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں مختلف دینی مدارس کے اساتذہ اور ذمہ دار حضرات کی ایک مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا۔ راقم الحروف کے علاوہ مولانا سید عبد المالک شاہ، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا عبدالحق خان بشیر، مولانا حافظ محمد یوسف، حافظ محمد عمار خان ناصر، پروفیسر محمد اکرم ورک، پروفیسر حافظ منیر احمد اور پروفیسر غلام حیدر نے مباحثہ میں حصہ لیا اور مبینہ معاہدہ اور وفاقی مدرسہ بورڈ کے بارے میں اب تک کی معلومات کی بنیاد پر کچھ آرا اور تجاویز پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مذاکرہ میں مبینہ معاہدے کے پس منظر اور اہم نکات کے حوالے سے وفاق المدارس العربیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کے مضمون کے ساتھ ساتھ وفاقی مدرسہ بورڈ کے چیئرمین جناب وکیل احمد خان کا روزنامہ پاکستان میں ۲۳؍ اکتوبر کو شائع ہونے والا تفصیلی انٹرویو اور مولانا مفتی محمد زاہد آف فیصل آباد کا تجزیاتی مضمون پڑھ کر سنایا گیا اور مجموعی طور پر مولانا محمد زاہد صاحب کے تجزیے سے اتفاق کرتے ہوئے شرکاے مذاکرہ نے مختلف پہلووں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اس بات کا بطور خاص نوٹس لیا گیا تھا کہ اگر وفاقی مدرسہ بورڈ کے چیئرمین جناب وکیل احمد خان کے بقول مدارس دینیہ کا معاملہ صرف حکومت اور دینی مدارس کا معاملہ ہے اور اس میں کسی غیر ملکی طاقت اور بیرونی ایجنڈے کا کوئی دخل نہیں ہے تو یہ معاملات وزارت تعلیم کے ساتھ طے پانے کی بجائے وزارت داخلہ کے ذریعے کیوں طے کیا جا رہے ہیں؟ کیونکہ اگریہ صرف تعلیمی مسئلہ ہے اور حکومت اپنے نقطہ نظر سے دینی مدارس کے نصاب ونظام میں بہتری پیدا کرنا چاہتی ہے تو اس مسئلے کو وزارت تعلیم کے ذریعے ڈیل کیا جانا چاہیے، وزارت داخلہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وزارت داخلہ کے ذریعے دینی مدارس کے ساتھ معاملات طے کرنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اصل مسئلہ تعلیم کا نہیں اور اس کے پیچھے یقیناًبعض بین الاقوامی حلقوں کی یہ خواہش کارفرما ہے کہ دینی مدارس کی آزادی اور خود مختاری کو کنٹرول کیا جائے اور انھیں کسی نہ کسی انداز میں سرکاری کنٹرول کے دائرے میں لایا جائے، ورنہ وزارت داخلہ کے لیے اس میں دخل اندازی کی کوئی تک نہیں بنتی۔
دوسری بات جس کا مذاکرہ میں بطور خاص تذکرہ کیا گیا، یہ ہے کہ اتنا بڑا فیصلہ اعلیٰ ترین سطح پر ہو گیا ہے، مگر مدارس دینیہ کے عمومی ماحول میں اس سلسلے میں باخبری کی کوئی فضا موجود نہیں ہے اور نہ ہی اکثر مدارس کے ذمہ دار حضرات کو بحث ومباحثہ اور اظہار خیال کا موقع دیا گیا ہے۔ اتنا اہم فیصلہ جس کے ساتھ دینی مدارس کا مستقبل وابستہ ہے، اس میں ان کی آزادی اور خود مختاری کے حوالے سے سراسر ابہامات کی فضا نظر آ رہی ہے جبکہ اس کے لیے بڑے جامعات اور دینی جماعتوں میں باہمی تبادلہ خیالات اور متعلقہ امور پر اظہار خیال کا ماحول فیصلے سے قبل ضروری تھا جو دکھائی نہیں دے رہا، بلکہ ایک بڑی اکثریت کو سرے سے معاملات کی نوعیت اور تفصیلات کا علم تک نہیں ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس اہم فیصلے کے بارے میں دینی مدارس کے عمومی ماحول کو اعتماد میں لیا جائے اور صرف اعلیٰ سطحی مذاکرات پر اکتفا نہ کیا جائے۔
شرکاے مذاکرہ خیال تھا کہ دینی مدارس کے وفاقوں کو سرکاری سطح پر بورڈ کے طور پر تسلیم کیا جانا ایک اچھی پیش رفت دکھائی دیتی ہے کیونکہ اس میں خود وفاقوں کے اپنے مطالبہ کی تکمیل ہوتی ہے، لیکن ان وفاقوں کے اپنے اپنے بورڈز کے اوپر ’’وفاقی مدرسہ بورڈ‘‘ کی تلوار لٹکائی جا رہی ہے اورمعاہدہ یا اس سلسلے میں بیان کی جانے والی تفصیلات میں وفاقی مدرسہ بورڈ کے دائرۂ کار، اختیارات اور عملی کردار کے بارے میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔ یہ بات محل نظر ہے اور وفاقوں کو بورڈ کا درجہ دیے جانے کی یہ قیمت کہ وہ وفاقی مدرسہ تعلیمی بورڈ کے دائرۂ اختیار میں شامل ہو جائیں، اسے بہت مہنگا بنا رہی ہے۔ شاید دینی مدارس اپنے اہداف ومقاصد اور ڈیڑھ سو سالہ ماضی کے تسلسل پر قائم رہتے ہوئے اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں۔
بہرحال شرکاے مذاکرہ نے مجموعی طو رپر ا س مبینہ معاہدے پر اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کم وبیش سب حضرات نے مولانا مفتی محمد زاہد کے تجزیے کو بروقت اور صحیح قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ دینی مدارس کے ذمہ دار حضرات کو اس تجزیاتی مضمون کے مطالعہ کے بعد اس سلسلے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنی چاہیے۔
دینی مدارس اور حکومت کے مابین معاہدہ
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری
گزشتہ دنوں اتحاد تنظیماتِ مدارس اور حکومت کے مابین دینی مدارس کے حوالے سے کچھ امور پر اصولی اتفاق کیا گیا۔ اس اتفاق کے بارے میں بہت سے حلقوں میں مختلف قسم کا ابہام پایا جاتا ہے بالخصوص مذہبی طبقے اور مدارس کی دنیا میں ان مذاکرات کی تفصیل،پس منظر، متفقہ نکات اور ان کے نتائج کے حوالے سے مکمل اور درست معلومات نہ ہونے کی وجہ سے بعض احباب کی طرف سے تشویش کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ تشویش، سوالات اور مدارس کے حوالے سے بیداری اور حساسیت بہت غنیمت ہے۔ زیر نظر مضمون میں ان مذاکرات میں طے پانے والے امور کے حوالے سے حقیقی صورت حال واضح کرنا مقصود ہے تاکہ ابہام دور ہو اور اس معاملے کی حقیقی تصویر سب کے سامنے آسکے۔ ۷؍اکتوبر ۲۰۱۰ء کو حکومت اور مدارس دینیہ کی قیادت کے مابین جن امور پر اصولی اتفاق کیا گیا، وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ حکومت دینی مدارس کے پانچوں نمائندہ وفاقوں کو خود مختار تعلیمی اور امتحانی بورڈ کا درجہ دے گی اور ایگزیکٹو آرڈر یا ایکٹ آف پا رلیمنٹ کے ذریعے اس بورڈکو قانونی اور آئینی حیثیت دی جائے گی۔
۲۔ دینی مدارس میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ تک عصری مضامین کو شامل کیا جائے گا۔
۳۔ دینی مدارس گورنمنٹ کی طرف سے شائع کردہ متعلقہ کلاس کی عصری مضامین کی کتب پڑھائیں گے، اپنے لیے کوئی الگ نصاب یاکتب تیار نہیں کریں گے۔
۴۔ درس نظامی اور دینی علوم کے حوالے سے حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا، مدارس دینیہ اپنے نصاب کی تشکیل وتعیین اور تدریس وتعلیم کے سلسلے میں مکمل طور پر آزاد اورخود مختار ہوں گے۔
۵۔ ہر وفاق کی نصاب کمیٹی میں حکومت کے دو نمایندے ہوں گے جو بوقت ضرورت صرف عصری مضامین کی تعلیم وتدریس اور معیار کے حوالے سے ہونے والی مشاورت میں شریک ہوں گے۔ ان دونوں نمائندوں کا دینی نصاب ونظام سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔
۶۔عصری مضامین کے نصاب تعلیم، معیار تعلیم اور معیار امتحان میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے مدارس کے نمائندہ وفاقوں اور حکومت کے درمیان ایک مشترکہ ادارہ بنے گا، جس کا نام،دائرہ اختیار،دائرہ کار اور ہیئت کے حوالے سے اگلے اجلاس میں مشاورت کی جائے گی۔
۷۔ رجسٹریشن ایکٹ جو ۲۰۰۶ء میں جاری ہو چکا اور نافذ العمل بھی ہے، دینی مدارس اس کی مکمل پاسداری کریں گے۔
۸۔ حکومت کسی بھی مدرسے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی تاوقتیکہ وہ ٹھوس ثبوت کے ساتھ متعلقہ وفا ق کو اعتماد میں نہ لے۔
۹۔ ایکٹ آف پارلیمنٹ ؍ایگزیکٹو آرڈر کا مسودہ حکومت اور اتحاد تنظیمات مدارس کی باہمی مشاورت سے تیار کیا جائے گا، حکومت یک طرفہ طور پر کوئی مسودہ پیش نہیں کرے گی۔
یاد رہے کہ یہ معاہدہ حادثاتی طو رپر اور اچانک نہیں ہو گیا، بلکہ اس سلسلے میں گزشتہ دس سالوں سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس عرصے میں ان مذاکرات میں مختلف نشیب وفراز آئے، بعض مواقع پر ڈیڈلاک بھی پیدا ہوا اور بعض مواقع پر یوں محسوس ہوا جیسے حکومت اور مدار س کی قیادت کسی حتمی نتیجے اور منزل تک پہنچ جائے گی، مگر یہ سلسلہ جاری رہا اور آیندہ بھی جاری رہے گا۔ ان مذاکرات کے دوران ہر مرحلے پر مدارس کی تمام نمائندہ تنظیموں نے اپنی اپنی مجالس عاملہ کے مختلف اجلاسوں میں تفصیل سے حکومت اور مدارس کے مابین زیر بحث آنے والے امور پر تبادلہ خیال اور غور وخوض کیا اور اس کے ممکنہ نتائج واثرات اور فوائد ونقصانات پر تفصیلی بات چیت ہوئی، پھر اتحاد تنظیماتِ مدارس کے پلیٹ فارم پر بھی مشاور ت ہوتی رہی حتی کہ بعض قانونی،تعلیمی اور سیاسی ماہرین سے بھی رہنمائی طلب کی گئی اور آئندہ بھی کوئی فیصلہ مدارس کی نمایندہ تنظیموں کی مجالس عاملہ ومجالس شوریٰ اوردیگر ارباب مدارس کو اعتماد میں لیے بغیر نہیں کیا جائے گا۔
جہاں تک اس اتفاق کے نتیجے میں طے پانے والی عصری تعلیم کا معاملہ ہے، اس کے بارے میں اربابِ مدارس یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ عصری تعلیم جبراً مدارس پرمسلط نہیں کی جائے گی اور کوئی بھی مدرسہ عصری تعلیم دینے کا پابند نہیں ہوگا، کیونکہ پاکستان کے آئین کے مطابق تعلیم کی آزادی کا حق مسلّم ہے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی قدغن نہیں لگائی جا سکتی، تاہم جو مدارس اپنے ہاں عصری تعلیم نہیں دیں گے ان کی اسناد کی حیثیت بھی عصری تعلیم دینے والے اداروں کے مساوی نہیں ہو گی۔
یہ بھی یاد رہے کہ عصری تعلیم کو مدارس میں شامل کرنا کوئی بیرونی ایجنڈا نہیں، بلکہ وفاق المدارس کی قیادت اور ہمارے اکابر نے اس کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے آج سے دو دہائیاں قبل ۱۹۸۹ء میں مڈل تک عصری تعلیم کو شامل نصاب کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب حکومت سے کسی قسم کے مذاکرات وغیرہ کا کوئی سلسلہ نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود اس وقت مڈل تک نصاب میں انگریزی،ریاضی سمیت جملہ عصری مضامین کی تدریس کا سلسلہ شروع کیا گیا اور متوسطات کے نام سے مڈل تک عصری تعلیم دی جانے لگی اور ۱۹۸۹ء سے لے کر اب تک متوسطہ باقاعدہ مدارس کے نظام کا حصہ ہے۔اس کے بعد ۲۰۰۲۔۲۰۰۳ء میں نویں اور دسویں کلاس کی تعلیم کو از خود وفا ق المدارس نے اپنے نصاب میں شامل کیا، جو آج تک اختیاری طور پر نصاب میں شامل ہے۔ اب صرف ایک قدم آگے بڑھ کر انٹر میڈیٹ تک تعلیم دینے کا ارادہ کیا گیا ہے، کیونکہ وفاق المدارس کی ہمیشہ یہ پالیسی رہی ہے ایسی عصری تعلیم جو ہمارے مقاصد میں مخل نہ ہو، بلکہ ممد ومعاون ہو اسے نصاب میں شامل کرنے میں ہمیں کوئی تردد نہیں ہو گا۔
البتہ اس اتفاق کے تناظر میں بعض حلقوں کی طرف سے اس خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اس فیصلے سے ہماری دینی تعلیم متاثرہو گی۔ اس بارے میں اکابر علمائے کرام اور ارباب علم ودانش کو سوچنا چاہیے اور اس کا کوئی بہتر حل تجویز کرنا چاہیے۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ درسِ نظامی کاحجم کم نہ کیا جائے، بلکہ تعلیم کا دورانیہ بڑھا دیا جائے۔
دوسری بات جس پر ہمارے ہاں بہت حساسیت پائی جاتی ہے وہ حکومتی مداخلت ہے۔اس حوالے سے یاد رہے کہ حکومتی نمائندے مدارس کی تنظیموں کی مجالس عاملہ یا مجالس شوریٰ میں شامل نہیں ہوں گے، بلکہ محض نصابی کمیٹی میں شامل ہوں گے اور وہ بھی صرف اس اجلاس میں شریک ہوں گے جس کے ایجنڈے میں عصری تعلیم کے حوالے سے کوئی مشاورت یا غور وخوض کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ دینی معاملات اور دینی امور کے ساتھ ان کا کوئی سروکار نہیں ہوگا۔یوں تیس افراد پر مشتمل امتحانی کمیٹی میں ان دو افراد کی موجودگی معاونت کے لیے ہوگی، مداخلت کے لیے نہیں۔
بہرحال مدارس دینیہ کی قیادت نے پوری دیانت داری، ذمہ داری اور احتیاط کے ساتھ یہاں تک سفر کیا ہے اور ابھی بہت سفر اور کئی مراحل باقی ہیں۔ اکابر کی رہنمائی، مجالس عاملہ ومجالس شوریٰ کی مشاورت اور ارباب مدارس کی آراء وتجاویز کی روشنی میں آگے بڑھاجائے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ اب تک کی پیش رفت ہماری کامیابی ہے، کیونکہ مدارس کے نمائندہ وفاقوں کو خود مختار امتحانی بورڈ کا درجہ دینے کا مطالبہ ہمارا دیرینہ مطالبہ تھا اور ہمارے ہر اجلاس،ہر قرار داد اور اعلامیے میں بار بار اس کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ اسی طرح مدارس کی تحتانی اسناد کی عدم قبولیت بھی ہمارا ایک دیرینہ مسئلہ تھا۔اس سے قبل حکومت مدارس کے سسٹم اور حیثیت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھی، لیکن اس فیصلے سے ہم اپنا تشخص منوانے میں بھی کامیاب ہوئے،اپنی تعلیمی اور امتحانی حیثیت قبول کروانے میں بھی کامیاب رہے،اپنی تحتانی اسنادکی حیثیت بھی منو الی۔
باقی یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ مدارس کی قیادت مدارس کے معاملے میں کسی بھی شخص سے زیادہ محتاط اور حساس ہے اور تمام قائدین کو اس بات کا بخوبی احساس وادراک ہے کہ اس وقت دینی مدارس بیرونی قوتوں کے ایجنڈے پر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس کی قیادت کو چومکھی لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے۔ تمام احباب خاطر جمع رکھیں، ایسا کوئی فیصلہ قطعاً قبول نہیں کیا جائے گا، جس سے مدارس کی حیثیت، مقاصد یا حریت و آزادی پر کوئی حرف آئے۔ وما توفیقی الا باللہ۔
اتحادِ تنظیمات مدارس دینیہ اور حکومت کا نیا معاہدہ
مولانا مفتی محمد زاہد
اخباری اطلاعات کے مطابق دینی مدارس کے پانچوں وفاقوں کو تعلیمی بورڈز کا درجہ دینے کا فیصلہ آخری مراحل میں ہے۔ اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ کے نمائندوں نے بھی اس پر اصولی آمادگی ظاہر کردی ہے ۔ چونکہ اس منصوبے کو ابھی حتمی شکل بھی نہیں ملی بلکہ کئی ایشو ابھی طے ہونا باقی ہیں، اس لیے فی الحال اس منصوبے پر کوئی حتمی تبصرہ کرنا تومشکل ہے تاہم موضوع چونکہ پر انا ہے اس لیے کچھ طالب علمانہ گذارشات پیشِ خدمت ہیں۔
کسی بھی موضوع پر کوئی پالیسی وضع کرتے ہوئے ضروری ہوتاہے کہ اس پالیسی سے متاثر ہونے ہونے والے یا اس سے تعلق رکھنے والے تمام حلقوں اور stake holders میں اس پر مباحثہ اور ڈسکشن ہو۔ دینی مدارس کے متعلقہ فریق طور پر تین ہیں۔ ہر ایک کے اپنے اپنے concerns ہیں۔ سب سے پہلا فریق دینی مدارس کے اندر کے لوگ ہیں جن میں وہاں کے منتظمین ، اساتذہ اور طلبہ شامل ہیں۔ ان کے نزدیک ان مدارس کا بنیادی مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہے جو علومِ دینیہ سے گہری وافقیت رکھتے ہوں، ان علوم میں تدریس، تحقیق وتصنیف، وعظ ونصیحت اور دعوت وتبلیغ جیسی سرگرمیوں کے ذریعے لوگوں کی دینی ضروریات بھی پوری کرسکیں اور ان علوم کو اگلی نسلوں تک منتقل بھی کرسکیں۔ دوسرا اہم فریق مسلمان معاشرہ ہے۔ یہ بھی اس موضوع کا بہت اہم فریق ہے، اس لیے کہ اسی کی مالی اور اخلاقی مدد کے ذریعے یہ مدارس چل رہے ہیں، اس لیے کوئی بھی پالیسی وضع کرتے ہوئے اس امر کو پیش نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ سوسائٹی ان مدارس سے کیا توقعات رکھتی اور کس طرح کے نتائج چاہتی ہے۔ سوسائٹی کی ضرورت یا ان کی توقعات کو دیکھا جائے تو اسے چند نکات میں اختصار کے ساتھ بیان کیا جاسکتاہے۔
پہلی بات تو یہ کہ دینی رسوم وعبادات کی ادائیگی کے لیے انہیں کوالیفائڈ افراد کی ضرورت ہے۔ انہیں ضرورت ہے ایسے لوگوں کی جو انہیں نمازیں پڑھا سکیں، اذانیں دے سکیں، بچوں کو قرآن اور بنیادی دینی امور کی تعلیم دے سکیں، جنازہ پڑھا سکیں، وغیرہ وغیرہ ۔ دوسری بات یہ کہ کچھ لوگ ایسے ہوں جو اس سے ذرا آگے بڑھ کر زندگی کے روز مرہ پیش آنے حالات و واقعات کے بارے میں دینی تعلیمات کی روشنی میں راہ نمائی کرسکیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوں جو نئے حالات کے مطابق اجتہادی بصیرت سے کام لے سکیں۔ تیسری بات یہ کہ ریاست سے لے کر عام معاشرے تک میں دین کی تنفیذ کے سلسلے میں تحقیقی کام اور تجاویز پیش کرسکیں اور یہ بات ثابت کرسکیں کہ زندگی کے جس شعبے کے متعلق بھی اسلامی تعلیمات ہیں، وہ آج بھی نہ صرف یہ کہ قابلِ عمل ہیں بلکہ کسی بھی اور نظام کی تعلیمات سے بہتر ہیں۔ چوتھی بات یہ کہ ہر مسلمان کی یہ خواہش ہے کہ اسلام کا پیغام غیر مسلموں تک بھی پہنچے اور اس سے متاثر ہو کر اسے قبول بھی کرسکیں۔ اس سلسلے میں کچھ ذمہ داری تو ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے، لیکن ایسے علما کی بھی ضرورت ہے جو ہر طبقے کے لوگوں تک دین کا پیغام ان کے لیے قابلِ فہم زبان میں قابلِ قبول انداز میں پیش کرسکیں اور اسلامی تعلیمات پر پیدا کیے جانے والے شکوک وشبہات کا تسلی بخش انداز میں جواب دے سکیں۔ پانچویں بات یہ ہے کہ ان مدارس سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو سماج دوست ہوں، سوسائٹی کے خلاف نفرت رکھنے والے، اس کے خلاف یا اس کے درمیان نفرت پھیلانے والے نہ ہوں۔ وہ سماج میں پائی جانے والی خامیوں کی نشان دہی ضرور کریں، لیکن دوستانہ انداز اور اپنائیت کے رنگ میں، جس سے یہ محسوس ہو کہ یہ خود کو بھی اسی سوسائٹی کا حصہ سمجھتے اور اس کے دکھ درد اور امنگوں میں شریک ہیں، نہ کہ خدا کی طرف سے ان کے اوپر مسلّط کردہ کوئی بالائی مخلوق ہیں۔
میرے خیال میں دینی مدارس کے بارے میں بنیادی فریق یہی دو ہیں، یعنی خود یہ دینی مدارس اور پبلک۔ انہی کے باہمی تعاون اور مشترکہ کاوشوں سے یہ مدارس چل رہے ہیں۔ان دو کے بعد تیسرا فریق ریاست پاکستان ہے۔ ریاست پاکستان کی بنیادی حیثیت اس لیے نہیں ہے کہ یہ مدارس عموماً اس سے براہِ راست کوئی مالی تعاون وغیرہ حاصل نہیں کررہے، تاہم متعدد پہلوؤں سے ریاست کا بھی اس معاملے میں کردار بنتاہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ یہ مدارس جن کی یہاں بات کی جارہی ہے، وہ پاکستان کی حدود کے اندر واقع ہیں اور ریاست کی یہ ذمہ داری اور اس کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی حدود میں واقع ہونے والی سرگرمیوں سے ایک حد تک آگاہ رہے۔ یہ بھی پاکستان جیسی دیگر جمہوری ریاستوں کاان مدارس کے حوالے سے مثبت کردار ہے کہ انہوں نے اپنے ہاں اس طرح کے آزاد دینی مدارس کو چلنے دیا ہے، وگرنہ کئی مسلم اور غیر مسلم ملک ایسے ہیں جہاں اس طرح کے مدارس کے قیام کا خواب دیکھنابھی مشکل ہے۔
دو چیزوں نے حکومت پاکستان کی وساطت سے ریاست کا کردار بڑھا دیا ہے۔ ایک تو دینی مدارس میں دی جانے والی تعلیم کا حکومتی سطح پر اعتراف اور اس کی recognition کا مسئلہ ہے کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی اسناد کو حکومتی اور ریاستی ادارے بھی تسلیم کریں۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی حکومت جس حد تک وہ اس تعلیم کے تحت دی جانے والی اسانید کو تسلیم کرے گی، اسی حد تک وہ اپنے مطالبات (demands) اور متطلبات (requirements) بھی پیش کرے گی۔ یہ چیز بہت مشکل ہے کہ کسی سے آپ کچھ لیں تو سہی اس کے بدلے میں دینا کچھ نہ پڑے ۔ نیز ہر ریاست کا ایک عمومی نظامِ تعلیم اور تعلیمی پالیسی ہوتی ہے، کسی تعلیم کے تحت دی گئی اسناد کو ریاستی سطح پر تسلیم کرنے کے لیے اس نظام اور عمومی پالیسی سے استثناء ات ایک خاص حد تک ہی مل سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ یہ بات انتہائی بعید ہے کہ آپ یہ خواہش تو کریں کہ آپ کی تعلیم کو کسی ملک کا عمومی تعلیمی دھارا تسلیم کرے، لیکن آپ اس عمومی دھارے کا حصہ بننے یا اس کے خد وخال کو کسی بھی درجے میں قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔
ریاست کی دینی مدارس کے ساتھ دلچسپی کی دوسری وجہ موجودہ مخصوص حالات کی پیدا کردہ ہے۔ بوجوہ کچھ تو یہ تاثر پیدا ہوگیا ہے اور کچھ پیدا کردیا گیا ہے کہ یہ مدارس ایک سیکورٹی رسک بن چکے ہیں۔ اس وقت بظاہر یہی تاثر حکومت کو اس معاملے میں متحرک اور فعال کیے ہوئے ہے جس کی سب سے واضح علامت یہ ہے کہ اس سارے معاملے کو بنیادی طور پر وزیر داخلہ ڈیل کر رہے ہیں۔ نیز اب تک اس معاملے پر نہ تو اہل مدارس کو کسی سطح پر مشاورت میں شامل کیا گیا ہے اور نہ ہی عمومی ملک کے اکادیمی حلقوں (academia) میں اس پر کوئی خاص مباحثہ ہوا ہے اور یہ سب کچھ ایسے وقت میں سامنے آیا کہ جبکہ حکومت پاکستان کے امریکا کے ساتھ سٹریٹیجک مذاکرات کا نیا دور واشنگٹن میں ہونے والا تھا۔ ان ساری باتوں کو ملانے سے بظاہر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ حالیہ دنوں میں جو پیش رفت ہوئی ہے، یہ تعلیمی سے زیادہ انتظامی اقدام ہے، اس لیے اسے ڈیل بھی وہ وزارت کررہی ہے جس کا بنیادی کام’’ شرارتی بچوں‘‘ کو ٹھیک کرنا ہے۔ کیا واقعتا دینی مدارس اپنی یہ حیثیت تسلیم کرنے کے لیے تیا ر ہوجائیں گے؟
چوتھا فریق جس کا اصولی طور پر بذاتِ خود اس معاملے میں کوئی کردار نہیں بنتا، لیکن معروضی حالات نے اسے رائے زنی کا موقع فراہم کردیا ہے بلکہ اس معاملے میں خاصا فعال ہے، وہ ’’بین الاقوامی برادری‘‘ نام کی کوئی چیز ہے جس کی سب سے زیادہ نمائندگی بلکہ ٹھیکہ داری کا دعویٰ امریکا کو ہے۔ بین الاقوامی برادری کی اس موضوع سے دلچسپی کی نوعیت دفعِ مضرت کی ہے، یعنی بقول ان کے انہیں ان مدارس اور ان کی تعلیم سے کچھ نقصانات کے اندیشے اور اس کے بارے میں کچھ تحفظات ہیں۔ بین الاقوامی برادری کے یہ خدشات، ریاست پاکستان کے سکیورٹی کے حوالے سے خدشات اور ان مدارس سے وابستہ عوامی توقعات کے اوپر ذکر کردہ پانچواں نکتہ، یہ تینوں چیزیں آپس میں بہت حد تک رل مل گئی ہیں۔ ان تینوں پہلوؤں سے مدارس کی طرف اٹھنے والی انگلیاں خواہ حقائق پر مبنی ہوں یا محض تاثرات پر، بہر حال اہل مدارس کو چاہیے کہ وہ اپنے طور پراس معاملے کو حقیقت پسندانہ انداز سے سنجیدگی کے ساتھ لیں۔ جہاں واقعتا اپنی کوتاہی ہو، اسے تسلیم کرکے اپنے طور پر اس کی اصلاح کی کوشش کریں اور جو محض غلط تاثر ہو، اسے زائل کرنے کی کوشش کریں۔ تاہم دینی مدارس کے معاملات کی اکادیمی نوعیت کو بالکلیہ نظر انداز کرکے انہیں محض سیکورٹی کے نقطۂ نظر سے لیا جانا اور ان کے معاملے کو سیکورٹی رسک کے انداز سے ڈیل کیا جانا یا اس کا تاثر پیدا ہونا کسی طور پر بھی خوش گوار منظر نہیں ہے۔
اس تمہید کے بعد اب ہم بات کرتے ہیں اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے ذمہ داران اور وزیرِ داخلہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی۔ اس موقع پر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ دینی مدارس میں جدید علوم کی تدریس ہونی چاہیے یا نہیں۔ راقم الحروف دینی مدارس میں بعض عصری علوم کی تدریس سمیت ان مدارس کے نصاب ونظام میں متعدد تبدیلیوں کا قائل ہے، لیکن ایسی تبدیلیاں جن میں بنیادی طور پر پہلے دو فریقوں (دینی مدارس کے اندر کے لوگ اور سوسائٹی) کے مقاصد اور امنگوں کو پیشِ نظر رکھا جائے، بہر حال یہ الگ موضوع ہے، لیکن اس وقت اصل موضوع یہ نہیں ہے۔ اس وقت جو بات چل رہی ہے، وہ وفاقوں کی اسنادکے سرکاری سطح پر اعتراف (recognition) کے تناظر میں ہے۔ ان وفاقوں کی طرف سے جاری ہونے والی آخری اسانید کو تو پہلے ہی بعض قیود کے ساتھ ایم اے کے برابر تسلیم کیا جاچکاہے۔ تحتانی اسناد کا مسئلہ کافی عرصے سے معلق تھا، اس لیے کہ ایک آدمی ماسٹر تو ہو لیکن میٹرک، انٹر اور گریجویشن کی سطح کی سند اس کے پاس موجود نہ ہو تو یہ صورتِ حال اس کے لیے کئی مشکلات کا باعث بنتی ہے۔ اس وجہ سے عرصے سے یہ مطالبہ چلا آرہا تھاکہ وفاقوں اور چند اداروں کی طرف سے جاری کردہ آخری سند کے علاوہ تحتانی اسناد کو بھی تسلیم کیا جائے۔ اس سلسلے میں ایک تجویز یہ بھی تھی کہ ان پانچوں وفاقوں کو تعلیمی بورڈز کا درجہ دیا جائے اور اس طرح سے ان کی جاری کردہ سند دیگر سرکاری بورڈز کی جاری کردہ میٹرک اور انٹر کی سند کی طرح مقبول ہو۔ اب اسی تجویز کو کچھ پذیرائی ملی ہے اور اسی تسلسل میں مذکورہ معاہدہ طے پایا ہے۔
اس سلسلے میں پہلی گذارش تو یہ ہے کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک وہ ہیں جن کا خیال ہوتاہے کہ ہمیں اپنی تعلیم کی سرکاری سطح پر کسی اعتراف کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے نہ تو مزید تعلیم کے لیے سرکاری اداروں میں داخلہ لینا ہوتاہے اور نہ ہی کہیں ملازمت کے لیے درخواست دینی ہوتی ہے، چنانچہ خود وفاقوں سے ملحق مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والوں میں اس ذہن کے بے شمار لوگ مل جائیں گے۔ اس کے علاوہ کئی دینی مدارس بلکہ دینی تعلیم کے نیٹ ورک ایسے موجود ہیں جو یا تو سرے سے سند جاری ہی نہیں کرتے یا ان کی سند کسی سطح پر تسلیم شدہ نہیں ہے۔ اس میں مثال کے طور پر تبلیغی جماعت کے تحت چلنے والے نیٹ ورک کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس نیٹ ورک کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد اتحادِ تنظیمات میں شامل متعدد وفاقوں سے زائد ہوگی۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ اس ذہن سے تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان کا یہاں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جن کا خیال ہوتا ہے کہ ہم اگر دینی تعلیم بھی حاصل کریں تو وہ ایسی ہو کہ اس کی بنیاد پر دینی مدارس ومساجد کے علاوہ بھی کسی میدان میں جا سکیں، مثلاً سرکاری محکموں یا اداروں میں ملازمت حاصل کرسکیں، مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے سرکاری جامعات میں انہیں داخلہ مل سکے۔ آج جبکہ دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والوں کی تعداد مدارس ومساجد کی ضروریات سے کہیں زیادہ ہے۔ ایسے میں یہ خواہش یا سوچ اتنی غلط بھی نہیں ہے، البتہ اس کے طریق کار کے بارے میں بات کی جا سکتی ہے۔
آخری سند کا مسئلہ تو اکثر وفاقوں اور بعض مدارس ( جو ۸۰ء کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق مرحوم کے زیادہ قریب تھے) کی حد تک حل شدہ ہے، اس لیے کہ ایچ ای سی نے ان کی عالمیہ کی سند کو ایم اے (سولہ سالہ) کے برابر تسلیم کر رکھا ہے۔ اب مسئلہ صرف اس سے نیچے کا ہے ۔ اس سلسلے میں راقم الحروف کا نقطہ نظر جس کا اظہارپہلے بھی کرچکاہے، یہ ہے کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کو اول تو یہ طے کرنا چاہیے کہ وہ کس نقطہ نظر سے یہ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اگر پہلا نقطۂ نظر اختیار کرکے تعلیم حاصل کررہے ہیں تو ظاہر ہے کہ انہیں اپنی سند کے اعتراف کا خیال ہی دل سے نکال دینا چاہیے، جیساکہ تبلیغی جماعت کے نیٹ ورک کی صورتِ حال ہے۔ اور اگر دوسرا نقط نظر ہے اور دینی تعلیم حاصل کرنے والے یہ چاہتے ہیں کہ ان مدارس ومساجد کی لائن سے باہر بھی وہ خود کو میٹرک، ایف اے یا گریجویٹ منوائیں تو اس کے لیے حکومتوں سے مختلف قسم کی رعایتوں اور اعتراف کی بھیک مانگنے کی بجائے ذراہمت اور جرأت سے کام لے کر وہی راستہ اختیار کرنا زیادہ بہتر ہے جو اس مقصد کے لیے پاکستان کا عام شہری اختیار کرتا ہے۔ یعنی اسے اس میدان میں through proper channel آنا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر کسی جگہ داخلے یا کسی ملازمت کے لیے میٹرک کی شرط ہے تو بجائے کہ اس کے کہ دینی مدرسے کا پڑھا ہوا درخواست کرے کہ میری ثانویہ عامہ کی سند کو میٹرک کے برابر تسلیم کیا جائے، اس کے لیے زیادہ بہتر ہوگا کہ وہ بھی اسی راستے سے میٹرک کی سند لے کر آئے جس راستے سے باقی امیدوار لے کر آئے ہیں۔ یہی بات انٹر اور بیچلر وغیرہ کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ اس صورت میں چونکہ وہ کوئی رعایت نہیں لے رہا ہوگا، اس لیے اس میں خود اعتمادی بھی زیادہ ہوگی اور مستقبل میں پیش آنے والی کئی پیچیدگیوں سے بچ بھی جائے گا۔ اور یہ کام ایسا نہیں ہے جو ناممکن ہو۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم ، ڈاکٹر محمد الغزالی ، ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی، ڈاکٹر علی اصغر چشتی، ڈاکٹر محمود الحسن عارف ، بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر فیوض الرحمن ، ڈاکٹر خالد علوی مرحوم ، پروفیسر انوار الحسن شیرکوٹی مرحوم وغیرہ ناموں کی ایسی طویل فہرست پیش کی جاسکتی ہے جنہوں نے درسِ نظامی کی تعلیم اس زمانے میں حاصل کی جب کہ اس کی کسی سند کے اعتراف کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے عصری جامعات یا سرکاری اداروں میں نہ صرف اپنی جگہ بنائی بلکہ ان میں اعلیٰ مناصب پر بھی پہنچے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ یہ سب کے سب عام راستہ اختیار کرکے ہی یہاں پہنچے ہیں، کسی مدرسے کی سند کی بنیاد پر کوئی رعایت حاصل کرکے نہیں۔ ایسے نوجوانوں کی فہرست تو بہت طویل ہوگی جنہوں نے بی اے تک کے امتحانات تو عام نظام کے تحت دیے اور اس کے بعد وفاق کی سند کے ایم اے کے ساتھ معادلے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے لیے راہ بنائی ۔
حالیہ معاہدے کے ذریعے دینی مدارس کے طلبہ کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے، اس کا جائزہ لینے سے پہلے یہ ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ اس مقصد کے حصول کے متبادل کیا راستے موجود ہیں ۔ اس وقت عملی صورتِ حال یہ ہے کہ دینی مدارس میں درسِ نظامی میں داخلہ لینے والوں کی خاصی تعداد ایسی ہے جو میٹرک یا اس سے اوپر کی تعلیم عام عصری اداروں میں حاصل کرکے آئی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت متعدد مدارس ایسے ہیں جنہوں نے اپنے طلبہ کو خود میٹرک تک تعلیم دینے کا انتظام بھی کیا ہواہے اور یہ طلبہ اپنے اپنے علاقوں کے سرکاری بورڈز سے نہ صرف امتحان دے رہے ہیں بلکہ کئی اپنے اپنے بورڈز میں نمایاں پوزیشنیں بھی حاصل کررہے ہیں۔ مزید برآں ان مدارس میں خاصی تعداد ایسے طلبہ کی بھی ہے جو اپنے طور پر تعطیلات میں یا چھٹی کے اوقات میں تیاری کرکے میٹرک ، انٹر اور بی اے کے امتحانات دے لیتے ہیں اور انہوں نے چونکہ اسی نظام کے تحت یہ امتحانات دیے ہوتے ہیں جس کے تحت کوئی اور نوجوان امتحان دے کر آیا ہوتاہے، اس لیے وہ نہ تو کسی کے زیرِ بارِ احسان ہوتے ہیں ، نہ انہیں کسی سے مذاکرات یا لجاجت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماسٹر لیول سے نیچے کی اسناد کا ایک حل تو یہ ہے جو محض تجویز نہیں ہے بلکہ وسیع پیمانے پر اس پر عمل ہورہا ہے۔ چونکہ ان مداس میں بڑی تعداد میں طلبہ میٹرک کرکے آتے ہیں، کئی مدارس نے خود میٹرک تک تعلیم شروع کر رکھی ہے، اس لیے میٹرک کی حد تک تو سمجھنا چاہیے کہ مسئلہ تقریباً حل شدہ ہے۔ اس سے اوپر چونکہ ریاضی لازمی مضامین میں شامل نہیں ہے، ان میں انگریزی ، مطالعۂ پاکستان اور اسلامیات لازمی ہوتے ہیں، اس لیے ان امتحانات میں کامیاب ہونا طلبہ کے لیے میٹرک کے مقابلے میں بہت آسان ہے۔ اگر مدارس چاہیں تو ان امتحانات کو کسی حدتک اپنے نظام کے اندر بھی جگہ دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر درجہ ثالثہ میں منطق کی کتاب شرح تہذیب کی بجائے انٹر کی انگریزی پڑھادیں تو طلبہ کے لیے انٹر کے امتحان میں بہت آسانی ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ وہ اگر چاہیں تو اسلامیات اختیاری، عربی، فارسی، ایجوکیشن اور سوکس جیسے آسان مضامین رکھ کر بہت اچھے نمبروں میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور اگر چاہیں تو معاشیات وغیرہ ذرا مشکل مضمون رکھ کر اپنی معلومات اور استعداد میں اضافہ بھی کرسکتے ہیں اور اگر کوئی مدرسہ یا اس کے طلبہ یہ محسوس کریں کہ ہم نے روایتی درسِ نظامی ہی کی تعلیم حاصل کرنی ہے، اس کے ساتھ کوئی پیوند کاری نہیں کرنی، ان کے لیے یہ راستہ بھی کھلا رہے گا۔
دوسرا راستہ وہ ہے جس کا آغاز علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے اس زمانے میں کیا تھا جب ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی وہاں کلیہ علومِ اسلامیہ کے ڈین تھے۔ وزارتِ تعلیم اور وفاق المدارس العربیہ کے نمائندے اس میں شامل تھے۔ خود حضرت مولانا سلیم اللہ خاں صاحب مدظلہم اور مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے اس کے متعدد اجلاسوں میں شرکت کی۔ بعض اجلاسوں میں حضرت مولانا فضل الرحیم، حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اور حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی بھی شریک ہوئے۔ اس کے مطابق یہ طے کیا گیا کہ جس طرح آرٹس گروپ ، سائنس گروپ ، کامرس گروپ وغیرہ ہوتے ہیں، اسی طرح میٹرک سے لے کر بی اے کی سطح تک درسِ نظامی گروپ کا آغاز کیا جائے ۔ چنانچہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور وزاتِ تعلیم دونوں نے اسے منظور کیا اور یونیورسٹی اور بعض سرکاری بورڈز نے اس پر عمل درآمدبھی شروع کیا۔ اس اسکیم کا لب لباب یہ ہے کہ میٹرک ، انٹر اور بی اے کی سطح تک لازمی مضامین مثلاً انگریزی ، مطالعۂ پاکستان کے علاوہ درسِ نظامی ہی کے بعض مضامین کا ان طلبہ سے امتحان لے لیا جائے، مثلاً انٹر کی سطح کی انگریزی ، مطالعۂ پاکستان اور اسلامیات لازمی کے علاوہ ثانویہ خاصہ ہی کے بعض مضامین کا ان سے امتحان لے لیا جائے اور انہیں باقاعدہ اوپن یونیورسٹی یا سرکاری بورڈ سے ایف اے کی سند جاری کردی جائے۔ ثانویہ خاصہ کے یہ مضامین چونکہ انہوں نے پڑھے ہوئے ہوتے ہیں، اس لیے ان کے لیے دیگر اختیاری مضامین کے مقابلے میں آسانی ہوگی۔ اُس وقت صدرِ وفاق حضرت مولانا سلیم اللہ خاں صاحب نے مدارس کو اس سکیم کا حصہ بننے سے منع فرمادیا تھا، تاہم پرائیویٹ طور پر بڑی تعداد میں طلبہ اس اسکیم سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ ( تازہ ترین صورتِ حال کا مجھے علم نہیں ہے)۔
تیسرا راستہ اس سلسلے میں یہ ہے کہ طالب علم میٹرک یا انٹر کے صرف لازمی مضامین کا امتحان دے ، میٹرک کے ساتھ کسی وفاق کی ثانویہ عامہ کی سند اور انٹر کے ساتھ ثانویہ خاصہ کی سند لگا کر اسلام آباد میں واقع انٹر بورڈ چئیر مین کمیٹی سے، جسے ہم سمجھنے میں آسانی کے لیے عصری بورڈز کا وفاق کہہ سکتے ہیں، میٹرک یا انٹر کے ساتھ معادلے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرلے۔ ایک عرصے تک طلبہ اس سہولت سے بھی فائدہ اٹھاتے رہے ہیں، تازہ ترین صورتِ حال کا علم نہیں ۔ تاہم یہ راستہ اگر آج کل دستیاب نہیں ہے تو اس کی بحالی کی کوشش نسبتاً آسان ہے۔
جو طالب علم درسِ نظامی کی تعلیم کے بعد کسی اور لائن کی طرف جانا چاہتا ہے، اس کے لیے یہ تین راستے تو پہلے سے موجود ہیں جن میں سے سب مؤثر اور قابلِ اعتماد پہلا راستہ ہے اور جیسا کہ عرض کیا وہ اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے وفاقوں کو بورڈز کا درجہ دیے جانے کی صورت میں ایک چوتھا راستہ سامنے آجائے گا ، لیکن کیا اس سے دینی مدرسے کے طالب علم کوئی بہت بڑا فائدہ یا سہولت حاصل ہوگی اور اس سہولت کی قیمت ان وفاقوں اور مدارس کو کیا ادا کرنی پڑے گی، اس بات پر تمام وفاقوں اور اہلِ مدارس کو بہت ہی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ یہ بات تو پہلے تین راستوں اور اس نئے راستے میں قدرِ مشترک ہے کہ جو طالب علم میٹرک ، انٹر یا بی اے کی سند حاصل کرنا چاہتاہے، اسے اس مرحلے کے لازمی مضامین کا امتحان بہر صورت دینا ہوگا۔ لازمی مضامین سے چھوٹ تو کسی صورت میں نہیں مل سکتی، زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ نئے سیٹ اپ میں لازمی عصری مضامین کا امتحان خود وفاق لے گا اور وفاق کے باقی مضامین میٹرک، انٹر وغیرہ کے اختیاری مضامین کے قائم مقام ہوجائیں گے۔ لیکن اس میں پہلا سوال تو یہ ہے کہ طالب علم کے لیے اصل مشکل تو لازمی مضامین ہی ہوتے ہیں۔ ان کو پڑھنے اور پاس کرنے کے بعد ہاتھی نکل جاتاہے، صرف دُم ہی رہ جاتی ہے،اس دُم کے لیے اسے کسی خاص رعایت اور مہربانی کی ضرورت بھی ہے یا نہیں، اس لیے کہ عام بورڈز میں بھی ایسے اختیاری مضامین موجود ہیں جن میں دینی مدرسے کا طالب علم بہت ہی سہولت کے ساتھ کامیابی حاصل کرسکتاہے، جیسے انٹر کی سطح پر عربی اور اسلامیات اختیاری وغیرہ ( اس عربی سے واقعتا طالب علم کی عربی استعداد میں بھی اضافہ ہوتاہے)۔ تو ایسے میں ایک طالب علم کے لیے وفاق کی جاری کردہ میٹرک اور انٹر کی سند میں زیادہ کشش ہوگی یا کسی سرکاری بورڈ کی سند میں؟ اس لیے کہ وفاق لازمی مضامین کے نصاب اور امتحان میں نرمی برتتاہے تو سند کی وقعت ویسے ہی گر جائے گی ، اور اگر پورا معیار برقرار رکھتا ہے (جس کے بارے میں وفاقوں کی صلاحیت تا حال سوالیہ نشان ہے) تو تب بھی ’’ مولویانہ میٹرک‘‘، ’’ مولویانہ ایف اے‘‘ اور ’’ عام میٹرک‘‘، ’’عام ایف اے‘‘ کا تاثر باقی رہے گا ۔ کیا کسی طالب علم کے لیے اس بات میں کشش ہوگی کہ وہ اتنی ہی محنت کرکے عام میٹرک یا انٹر کی بجائے ’ مولویانہ ‘‘ میٹرک یا ’مولویانہ‘ انٹر کی سند حاصل کرے؟ حاصل یہ کہ ایک طالب علم کے لیے اس نئے مجوّزہ سسٹم کے اندر کوئی بڑا ریلیف موجود نہیں ہے۔ البتہ اس سے اس کے لیے متعدد پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں ، مثلاً یہ کہ اگر ایک طالب علم ایک طرف وفاق کے تحت ثانویہ عامہ کرنا چاہتاہے، لیکن دوسری طرف وہ میٹرک عام سرکاری بورڈ کے تحت کرنا چاہتاہے تو چونکہ وفاق بھی ایک تعلیمی بورڈ ہی ہوگا، اس لیے دونوں طرف امتحان دینے میں ڈبل انرولمنٹ کا مسئلہ رکاوٹ بن جائے گا۔
یہ تو تھا دینی مدرسے کے ایک طالب علم کے نقطہ نظر سے جائزہ ۔ خود مدارس پر اس کاکیا اثر مرتب ہوگا، تو بظاہر یہ نظر آرہا ہے کہ مذکورہ معمولی سے فائدے، جس کے متعدد متبادل پہلے ہی سے موجود ہیں، کے بدلے میں وفاقوں یا دینی مدارس کو مندرجہ ذیل چیزیں قبول کرنا پڑیں گی جنہیں قبول کرنے کے لیے وہ ابھی تک تیار نہیں تھے ۔
(۱)وفاقوں کی نصاب کمیٹیوں میں دو دو سرکاری نمائندے شامل ہوں گے۔ اگرچہ ابتدا میں یہی کہا جائے گا کہ وہ صرف عصری مضامین کے بارے میں رائے دینے کے لیے ہیں، لیکن آگے کیا ہوتاہے، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
(۲)پانچوں وفاقوں کے معیارِ تعلیم ، نصابِ تعلیم اور معیارِ امتحان میں یکسانیت کے لیے ان کے اوپر ایک ادارہ قائم ہوگا جس کی تشکیلی صورت (composition) تادمِ تحریر مبہم ہے۔ واضح رہے کہ طے شدہ معاہدے یا مفاہمت کی یادداشت میں میں باقی شقوں میں تو عصری تعلیم کا ذکر ہے، لیکن اس مشترکہ ادارے جو بظاہر اس پورے معاہدے کا کسٹوڈین اور نگران ہوگا، کے لیے معاہدے میں عصری تعلیم کی قید کی بجائے صرف معیار تعلیم اور نصابِ تعلیم جیسے الفاظ مذکورہیں جس میں بظاہر پوری کی پوری تعلیم داخل ہے۔ اس طرح کا ادارہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ( جسے مدارس پہلے رد کرچکے ہیں) سے کتنا مختلف ہوگا، ایسے ادارے کا وفاقوں اور مدارس میں کردار کتنا مفید یا مضر ہوگا اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ کردار کم ہوگا یا بڑھے گا، یہ اہم سوال ہے ۔
(۳)سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک میں قائم ہونے والی کسی بھی تنظیم کو سوسائٹیز ایکٹ ۱۸۶۰ء کے تحت اپنی رجسٹریشن کرانے کا حق حاصل ہوتاہے، لیکن عرصے سے مدارس کی رجسٹریشن رکی ہوئی تھی۔ بار بار کے مطالبے کے بعد رجسٹریشن کا سلسلہ ۲۰۰۵ء میں شروع تو ہوا، لیکن دودھ میں مینگنیاں ڈال کر ۔ اس طرح سے کہ مدارس کی رجسٹریشن کے لیے اسی ایکٹ میں ایک ترمیمی آرڈیننس جاری کیا گیا اور مدارس کی صرف اس ترمیمی آرڈیننس کے مطابق رجسٹریشن شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ حالانکہ یہ قانون بالکل امتیازی تھا ، شاید ابتدا میں وفاق المدارس نے اسے مسترد کرنے کا اعلان بھی کیا تھا، تاہم بعد میں شاید معمولی رد وبدل کے بعد اس کے تحت رجسٹریشن کرانا قبول کرلیا گیا تھا۔ اس امتیازی قانون کے خلاف بآسانی عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا تھا، اس لیے کہ یہ ترمیم امتیازی ہونے کے ساتھ اصل قانون کے مقاصد اور اس کے عمومی مزاج سے بالکل میل نہیں کھاتی (اس نکتے تفصیل کا یہاں موقع نہیں) لیکن ایک فوجی آمر کی موجودگی کی وجہ سے اُس وقت کی عدلیہ سے کوئی توقع نہیں کی جاسکتی تھی، اس لیے خیال تھا کہ شاید بدرجۂ مجبوری خاموشی اختیار کرلی گئی ہے، مناسب وقت پر اس امتیازی قانون کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی ۔ لیکن عدلیہ کی آزادی اور فوجی آمریت کے خاتمے کے بعد نامعلوم کسی نے اس کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی۔ اب وفاقوں کو بورڈز کا درجہ دیے جانے ( جس کے فوائد جیساکہ عرض کیا گیا بہت محدود ہیں )کے عوض خود اتحادِ تنظیمات نے مدارس کے خلاف اس امتیازی قانون کو قبول کرنے کا تحریری معاہدہ کرلیا ہے، بلکہ ہر مدرسے کی طرف سے اس کا عہد کرلیا گیا ہے کہ وہ اس ترمیمی آرڈیننس کے تحت اپنی رجسٹریشن کرائے گا۔ کیا مدارس اس معمولی سے فائدے کے بدلے میں ان کی طرف سے اس تحریری التزام کو بخوشی قبول کرلیں گے یا کیا انہیں ایسا کرنا چاہیے؟ جس اتحادِ تنظیمات کا کام مدارس کا کیس لڑنا ہے، کیااس کے اکابر اسی کے ہاتھوں ہتھیار ڈالے جانے کو قبول کر لیں گے؟ نیز اس معاہدے کے نتیجے میں ایک طرح سے حکومت اور وفاقوں کے درمیان شراکت داری وجود میں آرہی ہے جس میں ایک شریک یعنی حکومت کی مستقبل کی بلکہ حال کی پالیسیوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کیا اس پارٹنر شپ کو ان وفاقوں کے اکابر بآسانی قبول کرلیں گے؟ ان سوالوں کا حتمی جواب تو آنے والے وقت ہی میں ملے گا ، تاہم اندازے کے طور پر دیگر وفاقوں کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن وفاق المدارس العربیہ کے ماضی کے جرأت مندانہ ریکارڈ کے پیشِ نظر اس کا امکان کم ہی نظر آتاہے کہ وہ اس طرح کے سیٹ اپ کی حتمی منظوری دیں، اس لیے کہ یہ حضرات اس سے ملتی جلتی کئی تجاویز کو مسترد کرچکے ہیں۔ نوے کی دہائی میں جب اوپر ذکر کردہ درسِ نظامی گروپ کی تجویز سامنے آئی جو موجودہ تجویز کے مقابلے میں کہیں بے ضرر تھی تو اس کے بارے میں حضرت صدرِ وفاق مدظلہم نے مدارس کو اس میں شرکت سے منع کرنے کے بارے میں باقاعدہ مراسلہ لکھا تھا۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ کسی بھی وفاق یا ادارے کو تعلیمی بورڈکا درجہ دینے کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہوتا جتنا ہمارے ہاں عموماً سمجھ لیا جاتاہے ۔ اس مقصد کے لیے باقاعدہ دفعہ وارایک قانون بنتاہے جس میں تمام تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر فیڈرل بورڈ کے قیام کے قانون (مجریہ ۱۹۷۵ء ) کو اگر دیکھیں تو اس کی دفعہ پانچ میں بتایا گیا ہے کہ یہ بورڈ کن کن ارکان پر مشتمل ہوگا جن میں مثلاً دو یونیورسٹیوں کے چانسلر ( جن کی تعیین ایچ ای سی کرے گی)، وزارتِ تعلیم کے دونمائندے، کسی ایک کالج اور ایک سکول کا نمائندہ جس کا تعین الیکشن سے ہوگا، قومی اسمبلی کے تین ممبران جن میں سے کم از کم ایک خاتون ہوگی، دو سینیٹ کے ارکان ، آزاد کشمیر اور تمام صوبوں ، فاٹا اور گلگت بلتستان میں ہر ایک کا ایک نمائندہ ، وغیرہ وغیرہ۔ اس مثال سے صرف یہ اندازہ کرانا مقصود ہے کہ کسی ادارے کو بورڈکا درجہ ملنے کا باقاعدہ ایک سسٹم اور قانونی طریقِ کا ر اور اس کا ایک مخصوص مزاج ہوتا ہے، جبکہ وفاقوں کے حوالے سے ان امورپر تا حال مکمل ابہامات ہی ابہامات ہیں۔ تاہم اتنی بات واضح ہے کہ جب کسی وفاق یا تنظیم کو تعلیمی بورڈ کا درجہ ملے گا تو وہ خود بخود پہلے سے موجود تعلیمی بورڈز کے نظام کا حصہ بن جائے گا۔ اس عمومی نظام کے مشمولات سے استثنا ایک خاص حد تک ہی مل سکے گا۔ چونکہ ان وفاقوں کو مکمل بورڈ کا درجہ ملنا ہے ، ان کی سند مکمل میٹرک یا ایف اے تسلیم کی جائے گی، صرف چند لازمی عصری مضامین کی حدتک نہیں ، اس لیے بظاہر اس وفاق کا پورا نظام اس عمومی تعلیمی سسٹم کا حصہ بن جائے گا۔ جب میٹرک یا انٹر کی سند کی بنیاد وفاق کے دینی مضامین بھی بن رہے ہوں گے تو ظاہر ہے کہ وہ بھی ملک کی عمومی تعلیمی پالیسی کا حصہ بن جائیں گے ۔ ایسا فوری طور پر نہ ہو تب بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ تدریجاً ایسا ہی ہوگا۔
اس وقت مجھے اپنی رائے پیش کرنا نہیں ہے ، بلکہ اس مجوزہ اقدام کے ممکنہ نتائج کی طر ف توجہ دلانا ہے ، اگر ہمارے اکابر اور اہلِ مدارس ان نتائج کو قبول کرنے کے لیے ذہناً تیار ہیں تو الگ بات ہے ، لیکن اگر یہ نتائج منظور نہیں اور بظاہر ایسا ہی ہوگا تو ابھی اس معاملے پر بہت سنجیدہ غور ہونا چاہیے۔ معاملات ایک ڈگر پر چل پڑنے کے بعد واپسی بہت مشکل ہوجاتی ہے۔پھرچونکہ یہ سب کام قانون سازی کے ذریعے ہوگا، اس لیے اصل فیصلہ مقننہ نے کرنا ہے جو اتحادِ تنظیمات اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کا حصہ ہی نہیں ہے، بالخصوص صوبائی حکومتیں اورمقننہ ، اس لیے کہ اس کا بھی اس معاملے میں بڑا کردار ہوگا ۔ کسی بھی قانون کا حلیہ قانون سازی کے مختلف مراحل سے گذرتے ہوئے کیا سے کیا ہوجاتاہے، یہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ اس لیے اتنے غیر واضح ، مبہم اور خدشات کے حامل معاہدے کو موجودہ حالت میں کامیابی قرار دینا جلد بازی ہی معلوم ہوتاہے۔
پھر یہ بات بھی سنجیدہ توجہ کی مستحق ہے کہ جب یہ پارٹنر شپ وجود میں آئے گی تو ظاہر ہے کہ آئے روز حکومتی نمائندوں سے بات چیت اور مذاکرات کا عمل چلتا رہے گا، اس لیے کہ پارٹنر شپ کا یہ منطقی اور لازمی نتیجہ ہے۔ یہ بات چیت عموماً بیورو کریسی کے ساتھ ہوگی جو انتہائی تجربہ کار اور چالاک ہوتی ہے ۔ کیا ان وفاقوں کے نمائندوں کے بارے میں یہ ضمانت دی جاسکتی ہے کہ وہ ہمیشہ ایسے ہی ہوں گے جو اس چالاک بیوروکریسی کے ساتھ نمٹ سکیں ؟ چونکہ اس نئے سیٹ اپ میں سب وفاقوں کو ایک ساتھ چلنا ہوگا، اس لیے کیا اس بات کا امکان نہیں ہے کہ کل کلاں چند ایک وفاقوں کی قیادت میں ایسے لوگ آجائیں جو بہت بھولے بھالے ہوں اور آسانی سے اس بیوروکریسی سے مات کھا جائیں یا خدا نخواستہ کسی وقت ایسے لوگ آجائیں جو اپنے بزرگوں والی پختگی اور استغنا سے خالی ہوں اور ان کے لیے اعلیٰ سطحی مذاکرات تک رسائی اور اعلیٰ حکام تک شرفِ بار یابی ہی معراجِ ترقی ہو اور اسی دام میں ان سے شعوری یا غیر شعوری طور پر ایسے فیصلے کروالیے جائیں جو دینی مدارس کے مقاصد کے مستقبل کے لیے بہتر نہ ہوں، لیکن دوسری طرف وہ اپنے زورِ بیان اور اختیارات کی بنیاد پر مدارس کو مطمئن یا خاموش کرالیں؟ موجودہ وقت کے بارے میں جو مرضی کہہ لیں، آنے والے وقت کی ضمانت کون دے سکتا ہے کہ کس سیٹ پر کس طرح کا آدمی ہوگا؟ تو کیا اس طرح کا رسک لے کر حکومت کے ساتھ یہ شراکت داری کرنے یا اس سے مراعات لینے، سودا بازی کرنے سے بہتر نہ ہوگا کہ اب تک جس طرح کام چل رہا ہے، چلنے دیا جائے۔ جو ان وفاقوں کا کام اور ان کا دائرۂ اختصاص ہے یعنی دینی تعلیم کا امتحان لے کر سندات دینا، یہ اپنا یہ کام آزادی کے ساتھ کسی کے زیر بارِ احسان ہوئے بغیر کرتے رہیں اور جو عصری اداروں کا کام ہے یعنی عصری تعلیم کا امتحان لے کر سرٹیفیکیٹ جاری کرنا، وہ اپنا کام کرتے رہیں۔ جو نوجوان صرف دینی تعلیم پر اکتفا کرنا چاہتا ہے، وہ وفاق کے امتحانات پر قناعت کرے، جوکسی دوسری طرف جانا چاہتے ہیں ان کے لیے راستے پہلے بھی بند نہیں ہیں۔ اس طرح ہر کوئی اپنے اپنے دائرۂ اختصاص میں کام کرتا رہے۔
جہاں تک تعلق ہے مدارس کے طلبہ کو عمومی دھارے کے قریب لانے اور انہیں عصری تعلیم دینے کا تو حقیقت یہ ہے کہ مدارس میں عصری تعلیم کا کام کافی حدتک پہلے سے ہورہاہے۔ پہلے بڑی ہچکچاہٹوں کے بعد مڈل تک آئے تھے، اب کافی حد تک بات میٹرک تک پہنچ چکی ہے۔ اگر مدارس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے تو اس میں مزید پیش رفت کے امکانات بھی ہیں۔ جو عصری مضامین پڑھنا پڑھانا چاہتے ہیں، وہ عام سرکاری بورڈز سے امتحانات دیں گے تو مستقبل میں ان کا فائدہ بھی ہوگا اور وہ عام دھارے کے زیادہ قریب آئیں گے۔ اب تک جو اپنے طور پر مدارس میں تبدیلی آرہی ہے یا جس کی توقع کی جارہی ہے، وہ اگرچہ بظاہر سست رفتار ہے لیکن وہ چونکہ مدارس کے اندر سے پھوٹنے والی تبدیلی ہے اور اس تبدیلی کا بنیادی سرچشمہ ان مدارس کے اصل دو فریق یعنی اہلِ مدارس اور سوسائٹی ہیں، اس لیے اس تبدیلی کے مؤثر پائیدار ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے مدارس کی آزادی متاثر ہونے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوگا، خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ اس کے لیے انہیں نہ تو کسی کا زیرِ احسان ہونا پڑتاہے اور نہ ہی کسی سے مذاکرات کرنا پڑتے ہیں۔ البتہ اس تبدیلی میں یہ’خامی‘ ضرور ہے کہ اس سے کسی وزیر یا بیورو کریسی کے نمبر نہیں بنتے کہ اس نے بڑی تگ ودو اور مذاکرات کے بعد مدارس کو اس لائن پر لگا دیا ہے۔
گجرات کا ’’بیت الحکمت‘‘
پروفیسر شیخ عبد الرشید
لائبریریوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی تہذیبِ انسانی۔اوراقِ تاریخ شاہد ہیں کہ قوموں کے عروج و زوال میں کُتب خانوں کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ ٹیکسلا میں قدیم ترین لائبریری کے آثار ملے ہیں۔ یونان میں سقراط یا ارسطو کے ذاتی کتب خانے ہوں یا قدیم مصر کی عبادت گاہوں میں کتب کی موجودگی، شور بنی پال کی نینوا کے مقام پر مٹی کے الواح پر مشتمل لائبریری ہو یا قبل مسیح کے اسکندریہ اور پر گامم کے عظیم کتب خانے یا پھر قرونِ وسطیٰ کے شاندار اسلامی کتب خانے سب علم کے روشن میناروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے عہد عروج میں مساجد و مدارس ہی نہیں گھروں کے طاق بھی کتابوں سے سجے رہتے تھے۔ بغداد اور اُندلس کے گلی محلوں میں کتب فروشوں کی دکانیں عام تھیں نیز سرکاری اور نجی لائبریریوں کی بھی بھرما ر تھی۔ بلاشبہ قومیں کتب خانوں سے بنتی ہیں۔ جس طرح ہوا اور پانی کے بغیر جینا ممکن نہیں اسی طرح کتاب کے بغیر انسانی بقا اور ارتقا محال ہے۔ قوموں کی زندگی میں جیسے علاقائی دفاع کے لیے منظم فوجی چھاؤنیوں کا قیام لازم ہے بعینہٖ علم و دانش اور سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے لائبریریوں کا قیام وانتظام ضروری ہے۔ لائبریریاں نظریاتی و معاشرتی دفاع کا مؤثر ترین حصار ہی نہیں جہالت و ناخواندگی کے خلاف مضبوط قلعوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت کم و بیش آٹھ ہزار لائبریریاں موجود ہیں ۔سکھر کی جنرل لائبریری ۱۸۳۵ء میں قائم ہوئی۔ اسے ملک کی قدیم ترین لائبریری سمجھا جاتا ہے۔ پنجاب سول سیکریٹریٹ کی لائبریری ۱۸۵۸ء میں قائم ہوئی۔ جبکہ اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی لائبریری بیت الحکمت ہمدرد یونیورسٹی کراچی میں ہے۔
۱۹۹۹ء میں مجھے اپنے تحقیقی مقالے کے لیے مواد کے حصول کے لیے ’’بیت الحکمت ‘‘کراچی جانے اور اس سے استفادے کا موقع ملا تو میں نے وہاں کے عملے کے تعاون اور ذخیرۂ کتب سے متاثر ہو کر حکیم محمد سعید کی قبر پر خصوصی دُعائے مغفرت کی جنہوں نے یہ مدینۃ الحکمت آباد کیا۔ گیارہ سال بعد ۱۳نومبر کو علم و تحقیق کے حوالے سے میرے اس خوشگوار تجربے کی یاد ایک بار پھر تازہ ہو گئی جب میں گجرات کے کتاب دوست قلمکار عارف علی میر کے گھر میں قائم المیر ٹرسٹ لائبریری واقع میر سٹریٹ بھمبر روڈ گجرات پہنچا تو اُنہوں نے نہ صرف خوش دِلی سے جی آیاں نوں کہا بلکہ پر تکلف چائے سے تواضع بھی کی۔ علاقہ میں بجلی کی بندش کے باعث لائبریری دیکھنے سے پہلے عارف علی میر صاحب نے لائبریری کے قیام و کردار پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ مبینہ طور پر ’’خطہ یونان‘‘ کی شہرت رکھنے والے شہر گجرات میں روز بروز کھانے پینے کے ہوٹلوں اور دکانوں کے بڑھتے ہوئے طوفان میں معدے کی بجائے دماغ سے سوچنے والوں کے لیے یہ کتب خانہ اُمید کا ایسا چراغ ہے جس کی روشنی میں عظمتِ رفتہ کے آثار دکھائی دینے لگتے ہیں۔ جلالپورجٹاں سے تعلق رکھنے والے علم دوست غضنفر علی میر کی وفات کے بعد زمیندار کالج کے انگریزی زبان و ادب کے سابق ہر دلعزیز اُستاد پروفیسر حامد حسین سید اور پنجابی زبان و ادب کے ممتاز ادیب و محقق شریف کنجاہی نے مسلسل چالیس دِن تک عارف علی میر کے ہاں اس لائبریری کے قیام کے لیے ’’چلہ ‘‘ کاٹا اور انہیں قائل کیا کہ ’’والد محترم کے ایصالِ ثواب‘‘ کے لیے سب سے مستحسن عمل یہ ہے کہ ان کی علم دوستی کو کتاب دوستی کی تحریک میں بدل کر صدقہ جاریہ کا روپ دے دیا جائے۔ وضع دار عارف علی میر کو یہ بات پسند آئی اور اُنہوں نے اپنے والد کی پہلی برسی ۲۹ جنوری ۱۹۹۷ء کو المیر ٹرسٹ کے زیر اہتمام پہلی کتاب’’کلام حق الحیات‘‘شائع کرکے اس نیک کام کا آغاز کیا۔نیزلائبریری کے خواب کو بھی حقیقت کا روپ دیا۔ حامد حسن سید کو المیر ٹرسٹ کا پہلا سرپرست نامزد کیا گیا۔ انہی بزرگوں نے آہستہ آہستہ عارف علی میر کو اپنی گاڑی فروخت کرکے عمارت کی تعمیر پر آمادہ کیا۔ حامد حسن سید کی وفات کے بعد محترم شریف کنجاہی سرپرست بنے ان کے بعد آج کل پروفیسر ڈاکٹر نصیر الدولہ المیر ٹرسٹ کے سرپرست اعلیٰ ہیں تاہم اس ٹرسٹ کی روح رواں شروع سے ہی عارف علی میر رہے ہیں۔ ان کی شب و روز کاوشوں اور محبت و لگن سے المیر ٹرسٹ لائبریری آج گجرات میں علم و ادب اور تحقیق و تحریرکا ذوق و شوق رکھنے والوں کے لیے نعمت کدہ بن چکی ہے۔
عام طور پر لائبریری کا بنیادی مقصد ہر قاری کو اس کی ضرورت اور ذوق کے مطابق کتاب فراہم کرکے انسانی زندگی کو ترقی او ر بہتری دینا ہوتا ہے۔ المیر ٹرسٹ لائبریری میں دس ہزار سے زاید کتب موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر ریفرنس بکس ہیں۔ ادب، تاریخ ، سیاست ، معاشرت ، معیشت، تصوف سمیت متنوع موضوعات کا احاطہ کرنے والی کتب نمایاں ہیں۔ تاریخ گجرات او رگجراتی مصنفین کی عام و نایاب کتب بھی موجود ہیں۔ اس لائبریری میں مذاہب عالم کے حوالے سے بھی خصوصی کولیکشن ہے۔ اس لائبریری کا ایک اور قابل قدر پہلو ’’گوشہء شریف کنجاہی‘‘ ہے جس میں شریف کنجاہی جیسے عالمی شہرت کے حامل عالم و قلمکار کا نجی کتب خانہ رکھا گیا ہے جس میں موجود نادر و نایاب کُتب نے اس لائبریری کی اہمیت کو دو چند کر دیا ہے۔یہاں نہ صرف کتب کا ذخیرہ موجود ہے بلکہ لائبریری میں اس کی تنظیم و آرائش بھی دیدہ زیب ہے ۔ یہ کتب خانہ جس ٹرسٹ کے زیر انتظام ہے اسے صرف عارف علی میر کے خاندان کی سرپرستی حاصل ہے۔ کسی اور ذریعے سے فنڈز اکٹھے نہیں کیے جاتے۔ اس لائبریری کی ممبر شپ فیس بھی نہیں رکھی گئی۔ کوئی بھی خواہشمند جب چاہے جتنا چاہے استفادہ کر سکتا ہے اُسے عارف علی میر کی ہنس مکھ شخصیت کی میزبانی کا بونس بھی ملے گا۔
المیر ٹرسٹ لائبریری کو کئی کتاب دوستوں سے پذیرائی بھی ملی ہے۔ شریف کنجاہی نے اپنے نجی کتب خانے کا بڑا حصہ خود اس لائبریری کے لیے وقف کیا ان کی وفات کے بعد ان کے اہل خانہ نے باقی ماندہ کتب بھی اس لائبریری کو عطیہ کر دیں۔ مرحوم ایم زمان کھوکھر نے ایک سو کتب کا تحفہ دیا۔ گوجرانوالہ کے شاعر و ادیب محمد امین خیال نے دو سو کتب جبکہ لاہور کے مرزا پرویز رضا نے ادارۂ ثقافت اسلامیہ کی شائع کردہ کتب کا سیٹ عطیہ کیا۔ جنہیں عارف علی میر نے کمال محبت سے نہ صرف لائبریری کی زینت بنایا بلکہ عطیہ کرنے والوں کے لیے تشکر کا اظہار بھی کیا۔
المیر ٹرسٹ لائبریری اس بات کا کُھلا ثبوت ہے کہ فردِ واحد نے ایک تنظیم اور ادارے کا کردار ادا کرکے قومی فریضہ بحسن و خوبی انجام دیا۔ غیر سرکاری طورپر چلائی جانے والی یہ لائبریری اربابِ اقتدار و اختیار کی نظرِ کرم کی حقدار ہے۔ سرکار اس نیک کام کو آگے بڑھانے کے لیے اپنا حصہ ڈال کر حوصلہ افزائی کرے۔علم دوست اور لائبریری سائنس کے شعبے کے افراد بھی عارف علی میر کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اس لائبریری میں جدید کیٹیلاگ کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ لائبریری سائنس سے تعلق رکھنے والے افراد یاادارے اس لائبریری کی رضا کارانہ فہرست سازی کرکے صدقہ جاریہ میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
گجرات و گرد و نواح میں موجود نجی لائبریریوں کے حامل اگر اپنی زندگی میں ہی اپنے علمی ذخیرے کو محفوظ کرنے کے لیے اس ٹرسٹ لائبریری کو عطیہ کر دیں تو یہ کارِخیر ہوگا بصورتِ دیگر گجرات کے کئی نامور افراد کے ورثاء نے ان کے بعد بندرِبانٹ میں جس طرح ان کی کتب کو جلایا یا ردی میں فروخت کیا اسی کا ایکشن ری پلے نادر کتب کے ضیاع کا سبب بن جائے گا۔ کتابوں سے محبت کرنے والوں کے ذاتی کتب خانے اور کو لیکشنز نااہل اولاد کی وراثت نہیں ہوتے بلکہ ان پر اس علاقے کے کتب خانوں کا حق ہوتا ہے۔
اس لائبریری کی تمام تر افادیت اپنی جگہ مگر اس سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد کسی طور پر بھی قابل رشک نہیں۔ہمارے سماج میں کتب بینی کے شوق کے زوال کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔ ہمیں نسلِ نو کو کتب بینی کی طرف راغب کرنے کے لیے ایسی لائبریریوں کے قیام کی اشد ضرورت ہے۔ عارف علی میر خونِ دل دے کر رُخ برگِ گلاب نکھارنے کے لیے کوشا ں ہیں۔ اُنہوں نے فکری بیداری کے لیے گجرات میں اہم قلعہ تعمیر کیا اور جہالت کے خاتمے کے لیے اپنے حصے کا دیپ جلا رکھا ہے جس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ بیت الحکمت ہمدرد یونیورسٹی لائبریری کو دیکھا، مستفید ہونے پر حکیم سعید کے لیے دِل سے دُعا نکلی۔ المیر ٹرسٹ لائبریری گجرات دیکھی اور استفادہ کرکے دِل خوش ہوا اور دِل کی گہرائیوں سے دُعا نکلی کہ پروردگار عارف علی میر کو اس کارِ خیر کا اجر عظیم دے کہ اُنہوں نے گجرات میں ’’بیت الحکمت‘‘ قائم کر رکھا ہے۔ جہاں نہ صرف کتب جمع کی گئی ہیں بلکہ کتب کی فی سبیل اللہ اشاعت و تقسیم کی تحریک بھی جاری کی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر ’’شام ہمدرد‘‘کی طرح یہاں ہفتہ وار محفلِ نقد و نظر اور علمی و ادبی سیمینارز اور تقریبات کا اہتمام بھی شوق سے کیا جاتا ہے۔بلاشبہ المیرٹرسٹ لائبریری گجرات میں محض کتب خانہ ہی نہیں بلکہ فکری و قومی بیداری کی تحریک کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔
قرار داد مقاصد کا متن
ادارہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
’’اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے۔ اس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے، وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
مجلس دستور ساز نے، جو جمہور پاکستان کی نمائندہ ہے، آزاد و خود مختار پاکستان کے لیے ایک دستور مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے:
- جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
- جس کی رو سے اسلام کے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں کا پورا تباع کیا جائے گا۔
- جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔
- جس کی رو سے اس امر کا قرار واقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے، عمل کرنے، اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔
- جس کی رو سے وہ علاقے جو اَب تک پاکستان میں داخل یا شامل ہو جائیں، ایک وفاق بنائیں گے جس کے صوبوں کو مقررہ اختیارات و اقتدار کی حد تک خود مختاری حاصل ہو گی۔
- جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں جہاں تک قانون و اخلاق اجازت دیں، مساوات، حیثیت و مواقع، قانون کی نظر میں برابری، عمرانی و اقتصادی و سیاسی انصاف، اظہار خیال، عقیدہ، دین، عبادت، اور جماعت سازی کی آزادی شامل ہو گی۔
- جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقوں کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔
- جس کی رو سے نظام عدل گستری کی آزادی پوری طرح محفوظ ہو گی۔
- جس کی رو سے وفاق کے علاقوں کی صیانت، آزادی، اور جملہ حقوق، بشمول خشکی و تری اور فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔
تاکہ اہل پاکستان فلاح و بہبود کی منزل پا سکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز و ممتاز مقام حاصل کریں اور امن عالم اور بنی نوع انسان کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں۔‘‘
تمام مکاتب فکر کے ۳۱ اکابر علماء کرام کے طے کردہ متفقہ ۲۲ دستوری نکات
ادارہ
مدت دراز سے اسلامی دستور مملکت کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں لوگوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اسلام کا کوئی دستور مملکت ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہے تو اس کے اصول کیا ہیں اور اس کی عملی شکل کیا ہو سکتی ہے؟ اور کیا اصول اور عملی تفصیلات میں کوئی چیز بھی ایسی ہے جس پر مختلف اسلامی فرقوں کے علماء متفق ہو سکیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے متعلق عام طور پر ایک ذہنی پریشانی پائی جاتی ہے اور اس ذہنی پریشانی میں ان مختلف دستوری تجویزوں نے اور بھی اضافہ کر دیا ہے جو مختلف حلقوں کی طرف سے اسلام کے نام پر وقتاً فوقتاً پیش کی گئیں۔ اس کیفیت کو دیکھ کر یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ تمام اسلامی فرقوں کے چیدہ اور معتمد علیہ علماء کی ایک مجلس منعقد کی جائے اور وہ بالاتفاق صرف اسلامی دستور کے بنیادی اصول ہی بیان کرنے پر اکتفار نہ کرے بلکہ ان اصولوں کے مطابق ایک ایسا دستوری خاکہ بھی مرتب کر دے جو تمام اسلامی فرقوں کے لیے قابل قبول ہو۔
اس غرض کے لیے ایک اجتماع بتاریخ ۱۲۔۱۳۔۱۴ اور ۱۵ ربیع الثانی ۱۳۷۰ھ مطابق ۲۱۔ ۲۲۔ ۲۳ اور ۲۴ جنوری ۱۹۵۱ء بصدارت مولانا سید سلیمان ندوی، کراچی میں منعقد ہوا۔ اس اجتماع میں اسلامی دستور کے مندرجہ ذیل بنیادی اصول بالاتفاق طے ہوئے۔
اسلامی مملکت کے بنیادی اصول
اسلامی مملکت کے دستور میں حسب ذیل اصول کی تصریح لازمی ہے:
۱۔ اصل حاکم تشریعی وتکوینی حیثیت سے اللہ رب العالمین ہے۔
۲۔ ملک کا قانون کتاب وسنت پر مبنی ہوگا اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جا سکے گا، نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جا سکے گا جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔
(تشریحی نوٹ): اگر ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں جو کتاب وسنت کے خلاف ہوں تو اس کی تصریح بھی ضروری ہے کہ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر منسوخ یا شریعت کے مطابق تبدیل کر دیے جائیں گے۔
۳۔ مملکت کسی جغرافیائی، نسلی، لسانی یا کسی اور تصور پر نہیں بلکہ ان اصول ومقاصد پر مبنی ہوگی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہوا ضابطہ حیات ہے۔
۴۔ اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ قرآن وسنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرے، منکرات کو مٹائے اور شعائر اسلامی کے احیا واعلا اور مسلمہ اسلامی فرقوں کے لیے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کا انتظام کرے۔
۵۔ اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ مسلمانان عالم کے رشتہ اتحاد واخوت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیت جاہلیہ کی بنیادوں پر نسلی ولسانی، علاقائی یا دیگر مادی امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کر کے ملت اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ واستحکام کا انتظام کرے۔
۶۔ مملکت بلا امتیاز مذہب ونسل وغیرہ تمام ایسے لوگوں کی لابدی انسانی ضروریات یعنی غذا، لباس، مسکن، معالجہ اور تعلیم کی کفیل ہوگی جو اکتساب رزق کے قابل نہ ہوں یا نہ رہے ہوں یا عارضی طو رپر بے روزگاری، بیماری یا دوسرے وجوہ سے فی الحال سعی اکتساب پر قادر نہ ہوں۔
۷۔ باشندگان ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کیے ہیں، یعنی حدود قانون کے اندر تحفظ جان ومال وآبروا، آزادئ مذہب ومسلک، آزادئ عبادت، آزادئ ذات، آزادئ اظہار رائے، آزادئ نقل وحرکت، آزادئ اجتماع، آزادئ اکتساب رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔
۸۔ مذکورہ بالا حقوق میں سے کسی شہری کا کوئی حق اسلامی قانون کی سند جواز کے بغیر کسی وقت سلب نہ کیا جائے گا اور کسی جرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہی موقع صفائی وفیصلہ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے گی۔
۹۔ مسلمہ اسلامی فرقوں کو حدود قانون کے اندرپوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ انھیں اپنے پیرووں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا۔ وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کر سکیں گے۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہوں گے اور ایسا انتظام کرنا مناسب ہوگا کہ انھی کے قاضی یہ فیصلہ کریں۔
۱۰۔ غیر مسلم باشندگان مملکت کو حدود قانون کے اندر مذہب وعبادت، تہذیب وثقافت اور مذہبی تعلیم کی پوری آزادی حاصل ہوگی اور انھیں اپنے شخصی معاملات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون یا رسم ورواج کے مطابق کرانے کاحق حاصل ہوگا۔
۱۱۔ غیر مسلم باشندگان مملکت سے حدود شرعیہ کے اندر جو معاہدات کیے گئے ہوں، ان کی پابندی لازمی ہوگی اور جن حقوق شہری کا ذکر دفعہ نمبر ۷ میں کیا گیا ہے، ان میں غیر مسلم باشندگان ملک اور مسلم باشندگان ملک سب برابر کے شریک ہوں گے۔
۱۲۔ رئیس مملکت کامسلمان مرد ہونا ضروری ہے جس کے تدین، صلاحیت اور اصابت رائے پر جمہور اور ان کے منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو۔
۱۳۔ رئیس مملکت ہی نظم مملکت کا اصل ذمہ دار ہوگا، البتہ وہ اپنے اختیارات کا کوئی جزو کسی فرد یا جماعت کو تفویض کر سکتا ہے۔
۱۴۔ رئیس ممالکت کی حکومت مستبدانہ نہیں بلکہ شورائی ہوگی، یعنی وہ ارکان حکومت اور منتخب نمائندگان جمہور سے مشورہ لے کر اپنے فرائض انجام دے گا۔
۱۵۔ رئیس مملکت کو یہ حق حاصل نہ ہوگا کہ وہ دستور کوکلاً یا جزواً معطل کر کے شوریٰ کے بغیر حکومت کرنے لگے۔
۱۶۔ جو جماعت رئیس مملکت کے انتخاب کی مجاز ہوگی، وہی کثرت آرا سے اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔
۱۷۔ رئیس مملکت شہری حقوق میں عامۃ المسلمین کے برابر ہوگا اور قانونی مواخذہ سے بالاتر ہوگا۔
۱۸۔ ارکان وعمال حکومت اور عام شہریوں کے لیے ایک ہی قانون وضابطہ ہوگا اور دونوں پر عام عدالتیں ہی اس کو نافذ کریں گی۔
۱۹۔ محکمہ عدلیہ، محکمہ انتظامیہ سے علیحدہ اور آزاد ہوگا تاکہ عدلیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہیئت انتظامیہ سے اثر پذیر نہ ہو۔
۲۰۔ ایسے افکار ونظریات کی تبلیغ واشاعت ممنوع ہوگی جو مملکت اسلامی کے اساسی اصول ومبادی کے انہدام کا باعث ہوں۔
۲۱۔ ملک کے مختلف ولایات واقطاع مملکت واحدہ کے اجزاء انتظامی متصور ہوں گے۔ ان کی حیثیت نسلی، لسانی یا قبائلی واحدہ جات کی نہیں، محض انتظامی علاقوں کی ہوگی جنھیں انتظامی سہولتوں کے پیش نظر مرکز کی سیادت کے تابع انتظامی اختیارات سپرد کرنا جائز ہوگا، مگر انھیں مرکز سے علیحدگی کا حق حاصل نہ ہوگا۔
۲۲۔ دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔
(نوٹ: بزرگ عالم دین مولانا مجاہد الحسینی آف فیصل آباد کی روایت کے مطابق مجلس احرار اسلام پاکستان کی تجویز پر اکابر علماء کرام نے ان دستوری نکات میں قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے ۲۳ ویں نکتے پر بھی اتفاق کر لیا تھا۔)
اسمائے گرامی حضرات شرکائے مجلس
۱۔ (علامہ) سلیمان ندوی (صدر مجلس ہذا)
۲۔ (مولانا) سید ابو الاعلیٰ مودودی (امیر جماعت اسلامی پاکستان)
۳۔ (مولانا) شمس الحق افغانی (وزیر معارف، ریاست قلات)
۴۔ (مولانا) محمد بدر عالم (استاذ الحدیث، دار العلوم الاسلامیہ اشرف آباد، ٹنڈو الٰہ یار، سندھ)
۵۔ (مولانا) احتشام الحق تھانوی (مہتمم دار العلوم الاسلامیہ اشرف آباد، سندھ)
۶۔ (مولانا) محمد عبد الحامد قادری بدایونی (صدر جمعیۃ علمائے پاکستان، سندھ)
۷۔ (مفتی) محمد شفیع (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام، مجلس دستور ساز پاکستان)
۸۔ (مولانا) محمد ادریس (شیخ الجامعہ، جامعہ عباسیہ بہاولپور)
۹۔ (مولانا) خیر محمد (مہتمم خیر المدارس، ملتان)
۱۰۔ (مولانا مفتی) محمد حسن (مہتمم جامعہ اشرفیہ، نیلا گنبد لاہور)
۱۱۔ (پیر صاحب) محمد امین الحسنات (مانکی شریف، سرحد)
۱۲۔ (مولانا) محمد یوسف بنوری (شیخ التفسیر، دار الاسلامیہ اشرف آباد، سندھ)
۱۳۔ (حاجی) خادم الاسلام محمد امین (خلیفہ حاجی ترنگ زئی، المجاہد آباد، پشاور صوبہ سرحد)
۱۴۔ (قاضی) عبد الصمد سربازی (قاضی قلات، بلوچستان)
۱۵۔ (مولانا) اطہر علی (صدر عامل جمعیۃ علماے اسلام، مشرقی پاکستان)
۱۶۔ (مولانا) ابو جعفر محمد صالح (امیر جمعیت حزب اللہ، مشرقی پاکستان)
۱۷۔ (مولانا) راغب حسن (نائب صدر جمعیت علمائے اسلام، مشرقی پاکستان)
۱۸۔ (مولانا) محمد حبیب الرحمن (نائب صدر جمعیۃ المدرسین، سرسینہ شریف، مشرقی پاکستان)
۱۹۔ (مولانا) محمد علی جالندھری (مجلس احرار اسلام پاکستان)
۲۰۔ (مولانا) داؤد غزنوی (صدر جمعیۃ اہل حدیث پاکستان)
۲۱۔ (مفتی) جعفر حسین مجتہد (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام، مجلس دستور ساز پاکستان)
۲۲۔ (مفتی حافظ) کفایت حسین مجتہد (ادارۂ عالیہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان، لاہور)
۲۳۔ (مولانا) محمد اسماعیل (ناظم جمعیت اہل حدیث پاکستان، گوجرانوالہ)
۲۴۔ (مولانا) حبیب اللہ (جامعہ دینیہ دار الہدیٰ، ٹھیڑی، خیر پور میرس)
۲۵۔ (مولانا) احمد علی (امیر انجمن خدام الدین شیرانوالہ دروازہ، لاہور)
۲۶۔ (مولانا) محمد صادق (مہتمم مدرسہ مظہر العلوم، کھڈہ، کراچی)
۲۷۔ (پروفیسر) عبد الخالق (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام، مجلس دستور ساز پاکستان)
۲۸۔ (مولانا) شمس الحق فرید پوری (صدر مہتمم مدرسہ اشرف العلوم ڈھاکہ)
۲۹۔ (مفتی) محمد صاحب داد عفی عنہ (سندھ مدرسۃ الاسلام، کراچی)
۳۰۔ (مولانا) محمد ظفر احمد انصاری (سیکرٹری بورڈ آف تعلیمات اسلام، مجلس دستور ساز پاکستان)
۳۱۔ (پیر صاحب) محمد ہاشم مجددی (ٹنڈو سائیں داد، سندھ)
اسلام کا نظام خلافت اور دور حاضر میں اس کا قیام ۔ اذان ٹی وی کے سوال نامہ کے جوابات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
سوال نمبر۱: اسلامی نظام اور خلافت کیا ہے؟
جواب: قرآن و سنت میں انسانی زندگی کے انفرادی، خاندانی، معاشرتی، قومی او ر بین الاقوامی مسائل کے بارے میں جو ہدایات و احکام موجود ہیں، ان کا مجموعہ اسلامی نظام ہے اور ان کے عملی نفاذ کا سسٹم خلافت کہلاتا ہے۔
سوال نمبر ۲: اسلامی نظام کے نفاذ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: قرآن و سنت کے تمام احکام و قوانین ایک مسلمان کے لیے واجب الاتباع ہیں اور ان میں شخصی، خاندانی یا معاشرتی قوانین کی تفریق نہیں ہے، اس لیے جس طرح ایک مسلمان شخص کے لیے نماز، روزہ اور عبادات کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے ، اسی طرح مسلمان سوسائٹی کے لیے اجتماعی احکام و قوانین پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اور بحیثیت مسلمان سب اس کے پابند ہیں۔
سوال نمبر ۳: اسلامی نظام کو لانے کا کوئی خاص طریقہ کار ہے یا کوئی بھی مروجہ طریقہ انقلاب ہو، وہ اپنایا جا سکتا ہے؟
جواب: اسلامی نظام تو ایک اسلامی حکومت ہی نافذ کرے گی جب کہ ایک اسلامی حکومت کے قیام کے لیے سب سے بہتر اور آئیڈیل طریق کار وہی ہے جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرامؓ نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کوباہمی مشورہ او ربحث و مباحثہ کے بعد اتفاق رائے سے خلیفہ منتخب کر کے اختیار کیا تھا۔ اس کے بعد مختلف خلفائے راشدین کے انتخاب کے طریقے اور حضرات صحابہ کرامؓ کی اختیار کردہ متفقہ صورتیں بھی اس طریق کار کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں، لیکن ان کے لیے پہلے سے خلافت کا نظام اور سسٹم موجود ہونا ضروری ہے۔ آج کل چونکہ از سر نو خلافت کے ڈھانچے کی تشکیل کامرحلہ در پیش ہے، اس لیے حضرت صدیق اکبرؓ کے انتخاب والا طریقہ ہی اس کے لیے درست طریق کار ہے۔
سوال نمبر۴: اسلامی نظام نے ماضی میں انسانیت کودرپیش اہم مسائل کو کیسے حل کیا؟ تاریخ کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں؟
جواب: اسلامی نظام کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ اس نے شخصی حکومت کے طریق کار کو ختم کر کے دستوری حکومت قائم کی جس کا نقطہ آغاز حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کے یہ اعلانات ہیں کہ ہم اگر کتاب و سنت کے مطابق چلیں تو لوگوں پر ہماری اطاعت واجب ہے اور اگر قرآن وسنت سے انحراف کریں تو عوام کو ہماری اصلاح کا نہ صرف حق حاصل ہے بلکہ یہ ان کی دینی ذمہ داری ہے۔
- خلفائے راشدین نے خود کو عوام کے سامنے احتساب کے لیے نہ صرف پیش کیا بلکہ ہر وقت اپنے آپ کو عوامی احتساب کے دائرے میں رکھا اور ہر شہری کویہ حق دیاکہ وہ ان کی کسی بات پر کسی وقت اورکسی جگہ بھی ٹوک سکتا ہے اور وہ اس کا جواب دینے کے پابند ہیں۔
- خلفائے راشدینؓ نے عملی طور پر ایک ویلفیئر سٹیٹ کا نمونہ پیش کیا اور حکومت کو عوام کی جان ومال اور عزت کی حفاظت کا ذمہ دارقرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کی ضروریات زندگی کی فراہمی اور کفالت کی ضمانت بھی دی جس کا آج کی دنیا بھی اعتراف کر رہی ہے۔
- خلفائے راشدینؓ نے حکمرانوں اور حکام کوسادہ زندگی، قناعت اور غریب عوام کے ساتھ ان کی سطح پر رہنے کا خوگر بنایا اور صحیح معنوں میں ایک عوامی حکومت کا تصور پیش کیا۔
- اسلامی نظام نے صحیح معنوں میں سوسائٹی کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم کیا اور تمام تر طرز عمل اورپالیسیوں کی بنیاد خوف خدا اور آخرت کی جوابدہی پر رکھی۔
سوال نمبر۵: آپ کے نزدیک آج کے دور میں عالمی سطح کے وہ کون سے پانچ بڑے مسائل ہیں جن کو اسلامی نظام ہی حل کر سکتا ہے اور وہ کیسے کر سکتا ہے؟
جواب: آج کی دنیا اور انسانی سوسائٹی آسمانی تعلیمات اور اپنے پیدا کرنے والے خدا کے احکام سے بے گانہ بلکہ باغی ہو چکی ہے۔ سوسائٹی کو وحی الٰہی اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کی طرف واپس لانے کے لیے اس وقت دنیا کے پاس اسلامی نظام کے سوا کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔
- آج کی دنیا نے ان کی سوسائٹی کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے: ایک قانون بنانے والے اور دوسرے وہ جن پر قانون نافذ ہو گا ۔ اس تفریق کے منطقی نتائج اور منفی اثرات کو تمام تر کوششوں کے باوجود ختم نہیں کیا جا سکا اور دنیا حکمران اور محکوم کے دائروں میں بدستور بٹی ہوئی ہے۔ اس کاحل صرف اسلام کے پاس ہے کہ قانون بنانے والا صرف ایک ہے اور تمام انسان اس ایک ذات کے بنائے ہوئے قوانین واحکام کے یکساں طور پر پابند ہیں۔
- سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم کی عالمی کشمکش اوراس کے بعد سود، منافع خوری اور سٹہ پر مبنی اور حلال و حرام سے بے نیاز مارکیٹ اکانومی نے جس خوفناک معاشی بحران سے دنیا کو دو چار کر دیا ہے، اس کا حل اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ دنیا کو آسمانی تعلیمات کی بنیاد پر حلال وحرام کے دائرے کی طرف واپس لایا جائے اور یکطرفہ منافع کی بجائے دو طرفہ منفعت اور عوامی مفاد پر مبنی معاشی اصولوں کو اختیار کیا جائے جو اس وقت صرف اسلام کے پاس ہیں۔
- صحیح معنوں میں ایک ویلفیئر ریاست کے قیام کے لیے آج بھی دنیا کے سامنے آئیڈیل صرف خلافت راشدہ بالخصوص حضرت عمربن خطابؓ اور حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کی شخصیات ہیں اور جزوی طور پر کچھ معاملات میں ان کی پیروی بھی کی جا رہی ہے، لیکن کسی نظام کے صرف جزوی پہلوؤں کو اختیار کر کے اس کے ثمرات حاصل نہیں کیے جا سکتے بلکہ اس سے صحیح استفادہ کے لیے پورے سسٹم کو اپنانا ضروری ہوتا ہے۔
- قومیتوں ، علاقائیت اور لسانی عصبیتوں نے ایک بار پھر انسانی سوسائٹی پر غلبہ حاصل کر لیا ہے اور آج کی عالمی دنیا میں انسانی سوسائٹی کے معاملات پھر سے قوم اور ملک کے حوالہ سے طے ہو رہے ہیں۔ اسلام نے انہیں جاہلی قدریں قرار دے کر قوم، زبان اور ملک کے تصور کو صرف تعارف اور امتیاز کی حدود میں پابند کر دیا تھا اور نسل انسانی کو ان عصبیتوں کے استحصالی کردار سے عملاً نجات دلا دی تھی۔ آج پھر اس کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اوراس سلسلہ میں صرف اسلام ہی کردار ادا کر سکتا ہے۔
سوال نمبر۶: اسلامی نظام یا خلافت کا کیاکوئی خاص حکومتی ماڈل ہوتا ہے؟ مثلاً شوریٰ کے چند ممبران یا پارٹی اور پارلیمنٹری سسٹم یا ایک حاکم وقت جو اپنے فیصلے قرآن وسنت کی روشنی خود کرتا ہو؟ آخر اسلامی حکومت کا ماڈل کیسا ہو گا؟
جواب: خلافت کا بنیادی تصور یہ ہے کہ خلیفہ خود مستقل حکمران نہیں ہوتا بلکہ حکمرانی کے معاملات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت و خلافت کرتا ہے اور اس طرح وہ خود حکومت کرنے کی بجائے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق حکمرانی کوان کی تعلیمات و ہدایات کے دائرے میں رہتے ہوئے نیابتاً استعمال کرتا ہے۔
- خلیفہ کا انتخاب حضرت ابوبکرصدیقؓ کی طرح عوام کی اجتماعی رائے سے ہوتا ہے۔ عوام کا اعتماد وانتخاب ہی اس کے حق حکمرانی کی بنیاد ہے۔
- وہ اپنی معاونت و مشاورت کے لیے اہلیت اور صلاحیت رکھنے والے افراد کاانتخاب کرے گا اور ان کے مشورہ سے حکومتی نظام چلائے گا۔
- یہ طرز حکومت بظاہر شخصی ہے، لیکن خلیفہ چونکہ قرآن و سنت کی ہدایات و تعلیمات کا پابند ہے ، اس لیے وہ اپنی ذاتی خواہش کی بنیاد پر کوئی کام کرنے کا مجاز نہیں ہے۔
- رعیت کے ہر فرد کو بلاامتیاز مذہب خلیفہ سے کھلے بندوں باز پرس کا حق حاصل ہے، او ر وہ ہر شخص کومطمئن کرنے کا پابند ہے۔
- خلیفہ کے کسی بھی حکم کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور وہ عدالت کی حاضری اور جوابدہی سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
- خلافت ان اصولوں کی بنیاد پر قائم ہو گی مگر اب اس کی عملی تفصیلات اور طریق کار ہر زمانے میں اور ہر علاقے کے ماحول اور ضروریات کو دیکھ کر ارباب حل و عقد طے کریں گے۔
- ہمارے نزدیک قیام پاکستان کے بعد دستور ساز اسمبلی نے جو قرار داد مقاصد منظور کی تھی اور پھر تمام مکاتب فکر کے اکتیس سرکردہ علمائے کرام نے جو بائیس دستوری نکات متفقہ طور پر دیے تھے، وہ آج کے دور میں اسلامی حکومت کے قیام اور اسلامی نظام کے نفاذ کی بہترین بنیاد بن سکتے ہیں اور اس کا خلاصہ دو اصولوں کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:
(۱) حکومت کا قیام عوام کی رائے سے ہو گا۔
(۲) حکومت قرآن وسنت کے احکام کی پابند ہو گی۔
سوال نمبر۷: اسلامی نظام میں غیر مسلموں کو کیا حقوق یا فوائد حاصل ہیں جو ان کو اس کے بغیر حاصل نہیں؟
جواب: اسلامی نظام میں مسلمان ریاست کے غیر مسلم باشندوں کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو ان کے مسلمان ریاست کا شہری قرار پانے کے لیے باہمی معاہدہ کی صورت میں طے ہو جائیں گے۔ مثلاً اس وقت پاکستان میں جو دستور نافذ ہے، وہ غیر مسلم باشندوں کی رضا مندی کے ساتھ طے پایا تھا اور ان کی شراکت کے ساتھ نافذ ہوا تھا۔ اس دستور کی حیثیت معاہدہ کی ہے۔ پاکستان میں بسنے والی غیر مسلم سوسائٹیاں معاہد ہیں اور انہیں اس طرز پر دستور میں طے شدہ تمام حقوق حاصل ہیں۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلم اکثریت اپنے غیر مسلم ہم وطنوں کی جان و مال اور عزت وآبرو کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔ انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے، اپنی نئی نسل کو مذہبی تعلیم دینے اور اپنے مذہبی تشخص کے تحفظ کا پورا حق ہے۔ البتہ وہ ملک کے ریاستی نظریے کے خلاف کام کرنے کے مجاز نہیں ہیں اور انہیں ملک کے نظریاتی تشخص کی نفی کرنے اور اس کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
سوال نمبر ۸: اسلامی نظام اگر باعث رحمت ہے اور ضروری ہے تو کسی بھی مسلم ملک نے کیوں نہیں اس کا پورا نفاذ کیا اور اس کے نفاذ میں کیا پیچیدگیاں ہیں؟
(۹): پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ میں کیا بنیادی مشکلات ہیں اور ان کیا حل ہے؟
جواب۸۔۹ : مسلم ممالک میں اسلامی نظام نافذ نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان کی رولنگ کلاس اور حکمران طبقات ہیں جن کی تعلیم و تربیت اسلامی تعلیمات اور ماحول میں نہیں ہوئی۔ ان کے مفادات مغرب کے ساتھ وابستہ ہیں ، ان کی بود و باش اور طرززندگی اسلامی نہیں ہے اور اسلامی نظام کے نفاذ کووہ اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، اس لیے اسلامی نظام کی مخالفت کا حوصلہ نہ ہونے کے باوجود وہ اس کے نفاذ میں رکاوٹ ہیں۔
- مسلم ممالک میں اسلامی نظام کے نافذ نہ ہونے کی دوسری بڑی وجہ موجودہ عالمی ماحول او ر سسٹم ہے۔ موجود عالمی نظام جو اقوام متحدہ او راس میں ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ممالک کی پالیسیوں اور خواہشات پر مرتب ہوا ہے اور چلایا جا رہا ہے، اس کی بنیاد وہی خلافت کی نفی اور انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی بے دخلی پر ہے ۔ اس لیے موجودہ عالمی نظام انسانی سوسائٹی میں اسلامی نظام کی صورت میں آسمانی تعلیمات کی عملداری دوبارہ قائم ہونے کی مخالفت بلکہ مزاحمت کر رہا ہے اور اس کے لیے اپنے تمام وسائل اور توانائیاں صرف کر رہا ہے۔
- مسلم ممالک میں اسلامی نظام کے نافذنہ ہونے کی تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اسلامی نظام کا نفاذ چاہنے والے دینی حلقوں کی اکثریت آج کے معروضی حالات ، رکاوٹوں، مشکلات اور مناسب طریق کار کے ادراک سے یا تو بہرہ ور نہیں ہے اور یا عمداً انہیں نظر انداز کر کے محض جذبات اور میسر طاقت کے ذریعے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے جس کے نتائج وہی ہو سکتے ہیں جو نظر آ رہے ہیں ۔ نفاذ اسلام کی جدوجہد کرنے والوں کے درمیان مفاہمت و معاونت کی فضا موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس کی کسی سطح پر ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ اسی طرح مسائل ومعاملات کے تجزیہ ، تحقیق اور منفی ومثبت پہلوؤں کو سامنے رکھ کر ان کی روشنی میں ٹھوس لائحہ عمل طے کرنے کاکوئی ذوق دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
سوال نمبر ۱۰: پچھلے پچاس سال میں اسلامی نظام کے لیے جو کوششیں مسلم ممالک میں کی گئی، وہ کیا تھیں اور وہ کیوں ناکام ہوئیں؟
سوال نمبر ۱۱: حال میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جو عالمی سطح پر کوششیں ہو رہی ہیں، وہ کون سی ہیں اور آپ کیا کسی کو صحیح معنوں میں کامیاب ہوتا دیکھتے ہیں؟
جواب۱۰۔۱۱: بیشتر مسلم ممالک نوآبادیاتی دور سے گزر رہے ہیں۔ برطانیہ ، فرانس، ہالینڈ، پرتگال او ردوسرے استعماری ممالک نے اپنے دور تسلط میں ان مسلم ممالک میں مسلم سوسائٹی کے اجتماعی مزاج کو بگاڑنے پر زیادہ کام کیا ہے اور ان ممالک کی آزادی کے بعد ان میں نو آبادیاتی نظام ابھی تک باقی ہے اور وہ معاشرتی مزاج کے بگاڑ کو درست کرنے کی طرف بھی کوئی کوشش نہیں کی گئی جس کی وجہ یہ ہے کہ آزادی کے بعدجن طبقات نے نظام سنبھالا ہے، وہ نوآبادیاتی نظام ہی کے پروردہ او ر تربیت یافتہ تھے جنہیں نظام کی تبدیلی میں اپنے لیے خطرات محسوس ہو رہے ہیں اور وہ اس کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلم ممالک کے عوام اسلامی نظام کے نفاذ اور قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل داری میں دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن حکمران طبقات اور ریاستی ڈھانچہ اس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں قرار داد مقاصد کی منظوری اور ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلامی دفعات کی شمولیت کے ساتھ قرآن و سنت کے احکام کو نافذ کرنے اور خلاف قرآن و سنت قوانین کی منسوخی کی جو دستوری ضمانت دی گئی ہے، اس کے بعد قرآن وسنت کے احکام کے نفاذ میں کوئی اصولی رکاوٹ باقی نہیں ہے، لیکن عالمی استعماری قوتوں کا دباؤ اور نو آبادیاتی نظام کے تسلسل کی وارث بیوروکریسی اپنے مفادات کی وجہ سے دستور کی اسلامی دفعات پر عملد رآمد نہیں ہونے دے رہی اور پاکستان سمیت مسلم ممالک میں اسلامی تحریکات کی اب تک ناکامی کا سب سے بڑا سبب یہی ہے جب کہ موجودہ حالات میں جب تک اسلامی نظام کے نفاذ کے خواہاں حلقے اپنی حکمت عملی اورطرز عمل پر نظر ثانی کرکے موجودہ حالات و ضروریات کوسامنے رکھ کر باہمی مشاورت و مفاہمت کے ساتھ کوئی مشترکہ حکمت عملی طے نہیں کرتے، تب تک مسلم ممالک میں نفاذ اسلام کی تحریکات کی کامیابی کے (خاکم بدہن) کوئی آثار بظاہر دکھائی نہیں دیتے۔
سوال نمبر۱۲: حدیث کی روشنی میں بتائیے کہ اسلامی خلافت کے بارے میں کچھ بتایا گیا ہے یعنی پیشگوئیاں؟
جواب: جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیسیوں احادیث میں خلافت کے بارے میں جو پیشگوئیاں فرمائی ہیں، ان کے مطابق خلافت کے دودرجے ہیں: ایک خلافت علیٰ منہاج النبوۃ جسے ہم آئیڈیل خلافت کہہ سکتے ہیں، دوسرا درجہ مطلق اسلامی خلافت کا ہے۔ آئیڈیل خلافت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ وہ ان کے بعد تیس سال تک رہے گی اور پھر قیامت سے پہلے امام مہدی کے ظہور او ر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے دور میں دوبارہ قائم ہو گی جبکہ خلافت عامہ کاتسلسل جاری رہا ہے اور ۱۹۲۴ء میں ترکی کی خلافت عثمانیہ کے خاتمہ تک خلافت کا نظام کسی نہ کسی سطح پر موجود رہا ہے، مگر آج کے دور میں دنیا ’’خلافت‘‘ کے وجود سے خالی ہے جس پر فقہائے امت کے ارشادات کی روشنی میں امت مسلمہ بحیثیت امت ایک فریضہ کی تارک او رگنہ گار ہے۔
سوال نمبر۱۳: اسلامی نظام میں عورت کو کیا حقوق حاصل ہیں؟
جواب : اسلام میں عورت کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو مرد کو ہیں البتہ اس کی صنفی اورمعاشرتی ذمہ داریوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے حقوق و فرائض کا مرد سے امتیاز رکھا گیا ہے جو فطری طور پر ناگزیر ہے اور سوسائٹی میں خاندان کے یونٹ کو برقرار رکھنے اور اسے استحکام دینے کے لیے خاندانی سسٹم میں مرد کی فوقیت اور سنیارٹی کو ضروری سمجھا گیا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی ادارہ برابر کے اختیارات کے حامل دو افراد کی سربراہی میں نہیں چل سکتا اور خاندانی نظام میں مرد کی سربراہی کی نفی کرکے مغربی دنیا اس کا خمیازہ خاندانی نظام کے بکھر جانے کی صورت میں بھگت رہی ہے، چنانچہ صنفی اور معاشرتی ذمہ داریوں کے حوالہ سے ناگزیر فرق و امتیاز سے ہٹ کر باقی تمام معاملات میں مردا ور عورت برابر ہیں اور دونوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔
سوال نمبر۱۴: اسلام میں سیاست کا کیا تصور ہے؟ لسانی اور فرقے کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں بنا نا کیا درست ہے؟
جواب: بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت انبیاء کرام علیہم السلام کے پاس تھی مگر اب چونکہ نبوت کا دروازہ بند ہو گیا ہے اور کوئی نیا نبی نہیں آئے گا، اس لیے سیاسی قیادت کی ذمہ داری خلفا کو منتقل ہو گئی ہے۔ اس حدیث مبارکہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خلافت کے نظام کے ساتھ وابستگی اور وفاداری کی تلقین بھی فرمائی ہے۔
اسلام کا سیاسی نظام خلافت کہلاتا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مہاجرین، انصار اور خا ندان نبوت کا اپنا اپنا سیاسی موقف الگ طور پر طے کرنا اور پھر صحابہ کرامؓ کے دور میں شیعان عثمان، شیعان علی اور شیعان معاویہ کے نام سے الگ الگ سیاسی گروہوں کی موجودگی یہ بتاتی ہے کہ اسلامی نظام میں مختلف سیاسی گروہوں کی موجودگی کی مطلقاً نفی نہیں کی جا سکتی اور گروہی بنیاد پر سیاسی معاملات طے کرنا بھی اسلامی نظام میں نامانوس نہیں ہے، البتہ ان کی بنیاد ’’تعاونوا علی البر والتقوی ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان‘‘ پر ہوگی او ر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے حوالے سے موافق اور مخالف دھڑوں کی آج کے مروجہ دور میں جو تقسیم پائی جاتی ہے، اس کی گنجائش اسلامی نظام میں موجود دکھائی نہیں دیتی۔ ایک گروہ کی ہر حال میں حمایت اور دوسرے کی ہر صورت میں مخالفت کا تصور اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسی طرح مذہبی فرقہ بندی اور لسانیت کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں بنانا بھی درست نہیں ہے۔
سوال نمبر۱۵: کسی بھی بڑے مقصد کے لیے اتحاد ضروری ہے۔ اسلامی نظام کا ہدف حاصل کرنے کے لیے جہاں عمومی مسلمانوں کا اتحاد ضروری ہے، اس سے پہلے علماے امت کا اتحاد ضروری ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ علما اس عظیم مقصد کے لیے اتحاد کیوں نہیں کرتے؟
جواب: جہاں تک پاکستان میں نفاذ اسلام کا تعلق ہے، دینی جماعتوں اور علماے کرام نے اس کے لیے ہمیشہ اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ اکابر علمائے کرام کے متفقہ بائیس دستوری نکات سے لے کر ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلامی دفعات کی شمولیت ، عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کا دستوری فیصلہ اور اسلامائزیشن کے سلسلہ میں ہونے والے اب تک کے تمام اقدامات تمام مکاتب فکر کے علماے کرام کے اتحاد اور دینی جماعتوں کی مشترکہ جدوجہد کے ذریعہ ہی ہوئے ہیں۔ کم از کم پاکستان کی حد تک کوئی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جا سکتی کہ نفاذ اسلام کی دستوری اور قانونی جدوجہد کے کسی ضروری مرحلہ میں دینی جماعتوں نے اتحاد کا مظاہرہ نہ کیا ہو اور مشترکہ طور پر عوام کی رہنمائی نہ کی ہو ۔ ہمارا المیہ اس سے آگے شروع ہوتا ہے کہ دینی جماعتوں کی مشترکہ جدوجہد اور تمام مکاتب فکر کے علماے کرام کے اتحاد کے ذریعہ جو مقاصد اور نتائج حاصل ہوتے ہیں، انہیں ہماری اسٹیبلشمنٹ طے شدہ پالیسی کے مطابق سبوتاژ کر دیتی ہے، اور اس میں اسے ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت اور پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔
سوال نمبر ۱۶: شریعت اور خلافت میں کیا فرق ہے اور موجودہ دور میں اس کے لیے کیا شکل ہو سکتی ہے؟
جواب: شریعت اسلامی احکام و قوانین کے مجموعہ کو کہتے ہیں اور خلافت ان کے نفاذ کا نظام اور سسٹم ہے۔ آج کے دور میں خلافت کے حوالہ سے دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ ایک یہ کہ خلافت کا قیام دنیا بھر کے مسلمانوں کا دینی فریضہ اور پوری مملکت اسلامیہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے قیام خلافت کے فرض ہونے پر دوباتوں سے استدلال کیا ہے۔ ایک یہ کہ قرآن وسنت کے بہت سے اہم احکام ایسے ہیں جن پر حکومت ہی عمل کر سکتی ہے اور حکومتی نظام کے بغیر ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکتا، اس لیے ایسے قرآنی احکام کی عملداری کے لیے خلافت کا قیام ضروری ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرات صحابہ کرامؓ نے سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کو خلیفہ منتخب کر کے خلافت کا ادارہ قائم کیا حتیٰ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین بھی اس کے بعد ہوئی۔ اس طرح صحابہ کرامؓ نے اس سے پہلے اجماعی فیصلے کی صورت میں خلافت کے قیام کو ’’ اہم الواجبات ‘‘ کا درجہ دے دیا۔
دوسری عملی صورت یہ ہے کہ کسی ایک اسلامی ملک پر کوئی دینی قوت طاقت کے ذریعہ برسراقتدار آجائے اور ایک اسلامی امارت کی حیثیت سے عالمی سطح پر خلافت کے نظام کے لیے محنت کر کے اس کے قیام کا راستہ نکالے۔ ہمارے خیال میں اس کے سوا کوئی صورت آج کے معروضی حالات میں قابل عمل نہیں ہے۔
سوال نمبر ۱۷: موجودہ دور کی جمہوریت اور خلافت کا موازنہ کریں۔ مسلمانوں نے ہمیشہ خلافت کے نظام میں ہی ترقی کی ہے۔ آج کی دنیا میں خلافت کے سسٹم کو پرانا سسٹم کیوں کہا جاتا ہے؟
سوال نمبر ۱۸ :شریعت قائم کرنے کے اصول کیا ہیں؟
جواب ۱۷۔۱۸: جمہوریت انسان پر انسان کی حکمرانی کی ہی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ پارلیمنٹ کو بلاتفریق ہر قسم کا اختیار دے کر آسمانی تعلیمات کے نفاذ یا عدم نفاذ کو بھی اسی کے دائرہ اختیار میں شامل کر دیا گیا ہے اور اسے احکام خداوندی پر بھی نعوذباللہ بالادستی دے دی گئی ہے جب کہ اس کے برعکس خلافت اگرچہ عوام کے اعتماد واختیار کے ذریعہ ہی تشکیل پاتی ہے، لیکن اس میں خلیفہ یا اس کی شوریٰ یا پھر عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو قرآن وسنت کا پابند رہنا پڑتا ہے اور اسلامی احکام سے انحراف کی اجازت نہیں ہوتی۔
مغرب نے جب بادشاہت ، پاپائیت اورجاگیرداری پر مشتمل تکون کے صدیوں سے چلے آنے والے مظالم سے تنگ آ کر ان تین ظالم طبقوں کے گٹھ جوڑ کے خلاف بغاوت کی اور بادشاہت اور جاگیرداری کی طرح مذہب کو بھی معاشرتی زندگی سے بے دخل کیا ہے تو نئے مذہب بیزار نظام کی کامیابی کے لیے اس نے ضروری سمجھا کہ یورپ اور ایشیا کے سنگم پر خلافت عثمانیہ پر بھی راہ سے ہٹائے، چنانچہ خلافت عثمانیہ کے خلاف مسلسل سازشیں کر کے اسے ختم کر دیا گیا اور آج بھی مغرب کے ایجنڈے میں سرفہرست یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں خلافت کے قیام اور شریعت کے نفاذ کو روکا جائے کیوں کہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں آسمانی تعلیمات کی بنیاد پر کوئی ریاست وحکومت وجود میں آتی ہے او ر کامیاب ہو جاتی ہے تو اس سے مغرب کے اس مذہب بیزار فلسفہ ونظام کی نفی ہو جائے گی جسے وہ دنیا بھر پر مسلط کرنے کی مسلسل تگ ودو کر رہا ہے۔ جب کہ مسلمانوں کے لیے آج بھی خلافت ہی واحد سیاسی نظام ہے جو پوری دنیائے اسلام کی اجتماعیت کا مرکز بن سکتا ہے اور اس کے زیرسایہ دنیا بھر کے مسلمان برکات وثمرات کے ساتھ ساتھ دنیاوی اقتدار اور ترقی سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔
سوال نمبر ۱۹: پاکستان میں سیاسی، مذہبی جماعتوں کا کیا مستقبل ہے، کیوں کہ اسلامک سسٹم میں جماعتیں نہیں ہوتیں؟
جواب: سیاسی جماعتوں کے حوالہ سے جواب سوال ۱۴کے ضمن میں گزر چکا ہے جب کہ پاکستان کی بیشتر مذہبی جماعتیں صرف پریشر گروپ ہیں جو مذہبی مکاتب فکر کی بنیاد پر جداگانہ تشخص کے ساتھ کام کر رہی ہیں ۔ ان کے پاس جب تک پریشر پاور ہو گی، اپنے محدود دائرے میں کام کرتی رہیں گی او رقومی سیاست میں بھی اسی حد تک شریک رہیں گی۔ اس سے زیادہ یہ کوئی رول ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، البتہ متحدہ سیاسی پلیٹ فارم قائم کر کے یہ ایک طاقت ور پریشر گروپ کی صورت میں ملک میں مزید اسلامی قوانین واحکام کے نفاذ اور خلاف اسلام امور کی روک تھام کے لیے زیادہ موثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس حوالے سے اصل ضرورت ایک ایسی سیاسی پارٹی کی ہے جس میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علمائے کرام پارٹی ممبر کے طور پر شریک ہوں، مختلف طبقات کے سرکردہ حضرات بھی اس کا حصہ ہوں اور سب مل کر ملک کی قومی سیاست میں اسلامی اقدار کی سربلندی کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں۔
سوال نمبر ۲۰: میڈیا قوم میں بیداری پیدا کرنے کے لیے بہت کام کر سکتا ہے، اس کے لیے ہمارے میڈیا میں کن اقدامات کی ضرورت ہے؟
جواب: میڈیا اس وقت ابلاغ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور قوم کی بہتری او رنئی نسل کی ذہن سازی اور تعلیم وتربیت میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اسی حوالہ سے اس کی ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے۔ ہم اس وقت مغربی تہذیب وثقافت اور ہندوتہذیب وثقافت کی دو طرفہ یلغار کی زد میں ہیں۔ ان دونوں ثقافتوں سے اسلامی ثقافت کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے پروگراموں کو اس انداز سے پیش کرنا ہمارے میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ اسلامی ثقافت کو فروغ حاصل ہو اور نئی نسل کو ہندو اور مغرب کی تہذیبی یلغار سے بچایا جائے۔
اسی طرح اسلامی اقدار وروایات اور احکام وقوانین پر آج کے عالمی فلسفہ ونظام بالخصوص انسانی حقوق کے حوالہ سے جو اعتراضات کیے جا رہے ہیں اور شکوک وشبہات پھیلائے جا رہے ہیں، ان کا جواب اور آج کے عالمی تناظر میں اسلامی تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے علمی و فکری نوعیت کے پروگرام پیش کیے جائیں اور مختلف مکاتب فکر کے ایسے سرکردہ علمائے کرام اور دانش وروں کو سامنے لایا جائے جو آج کے حالات اور تقاضوں سے باخبر ہوں اور آج کے اسلوب میں بات کر سکیں۔ اس کے ساتھ ہی اپنی نئی نسل کو ماضی سے وابستہ رکھنے کے لیے عظیم اسلامی شخصیات اور تحریکات کے بارے میں معلوماتی پروگرام پیش کیے جائیں۔ آج کے سیکولر میڈیا کی یہ مخصوص تکنیک ہے کہ اسلام اور اسلامی اقدار وروایات کے خلاف تو باشعور اور جدید اسلوب سے بہرہ ور افراد کو قوم کے سامنے لایا جا تا ہے، مگر ان کے جواب اور ان سے مکالمہ کے لیے جان بوجھ کر ایسی مذہبی شخصیات کو ان کے سامنے بٹھا دیا جاتا ہے جو تمام تر احترام کے باوجود آج کے حالات اور اسلوب کے واقف نہیں ہوتے۔ اس تکنیک کا توڑ کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں میڈیا کے دیندار حضرات کے ساتھ دینی اداروں اور دینی حلقوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورت حال کا ادراک کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔
معاشرہ، قانون اور سماجی اخلاقیات ۔ نفاذ شریعت کی حکمت عملی کے چند اہم پہلو
محمد عمار خان ناصر
کسی معاشرے میں شرعی احکام وقوانین کے نفاذ کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ یہ سوال چند دوسرے اور اس سے زیادہ بنیادی نوعیت کے سوالات کا ایک حصہ ہے جن سے تعرض کیے بغیر اس سوال کے مضمرات کی درست تفہیم ممکن نہیں۔ مثلاً:
۱۔ ایک اسلامی معاشرہ کے بنیادی اوصاف وخصائص کیا ہیں اور وہ کون سی چیزیں ہیں جن کا اہتمام کرنے کا شارع نے مسلمانوں کے ایک معاشرے سے تقاضا کیا ہے؟
۲۔ معاشرے کی عمومی اخلاقی سطح اور شرعی قوانین کے مابین کیا تعلق ہے؟ آیا قانونی نوعیت کے احکام کا نفاذ ایک مطلوب اسلامی اور اخلاقی معاشرہ پیدا کرنے کی کافی ضمانت ہے یا ان احکام کی تاثیر اور افادیت بذات خود کسی اخلاقی سانچے کی محتاج ہے؟
۳۔ نفاذ شریعت کے حوالے سے معاشرے اور نظم اجتماعی کے مابین تعلق اور باہمی ذمہ داریوں اور فرائض کی نوعیت کیا ہے؟
۴۔ اگر کوئی معاشرہ مناسب اخلاقی تربیت سے محروم ہو اور نفاذ قانون کے ادارے بد عنوانی کا عنوان بن چکے ہوں، وہاں شرعی قوانین کے نفاذ کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟
مذکورہ سوالات کی ترتیب میں ایک منطقی ربط پایا جاتا ہے اور اسی ترتیب کے ساتھ ان کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
پہلے سوال کو لیجیے:
قرآن وسنت کے نصوص میں جس معاشرے کو خدا کا مطلوب معاشرہ قرار دیا گیا ہے، اس کا سب سے بنیادی وصف یہ ہے کہ اس پر اللہ کی عبودیت اور بندگی کی چھاپ نمایاں ہو اور لوگ نماز اور زکوٰۃ کی عبادتوں کو پورے دینی جذبے اور اہتمام کے ساتھ بجا لائیں۔ انفرادی اور اجتماعی معاہدے ایفا کیے جائیں؛ ذاتی یا گروہی مفاد کی پروا کیے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں لائے بغیر حق کی گواہی دینے کا جذبہ زندہ ہو اور مسلمانوں کا اجتماعی وجود دنیا میں حق کی شہادت کا عنوان ہو؛ والدین اور اعزہ واقربا کی ضروریات وحاجات کا خیال رکھا جائے؛ یتیموں کے حقوق محفوظ ہوں؛ فحاشی اور بے حیائی ایک مبغوض چیز ہو اور اس کے فروغ کے تمام راستے مسدود کرنے کا اہتمام کیا جائے؛ نظم ریاست لوگوں کو قتل، چوری، ڈاکہ، تہمت طرازی اور جان ومال وآبرو پر تعدی کی دوسری صورتوں سے بچانے کے لیے ہمہ وقت چوکس ہو اور اس طرح کے مجرموں پر خدا کی مقرر کردہ سزائیں کسی رو رعایت کے بغیر نافذ کی جائیں؛ معاشرے میں خیر کی طرف دعوت دینے اور برائی سے روکنے کی عمومی فضا قائم ہو اور معاشرہ ہر سطح پر اس حوالے سے حساس ہو؛ لوگوں کے مقدمات کے فیصلے رشوت اور سفارش کے بجائے عدل وانصاف کی بنیاد پر کیے جائیں؛ کوئی بالادست کسی زیر دست پر زیادتی یا اس کی حق تلفی نہ کر سکے؛ لوگوں کو اپنی اپنی قابلیتوں کے مطابق علمی وعملی ترقی کرنے اور اپنے اپنے ذوق کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے مواقع میسر ہوں؛ دولت کی تقسیم کا نظام عادلانہ اور منصفانہ ہو اور نظم اجتماعی اس میں پیدا ہونے والی ناہمواریوں کو دور کرنے کے لیے ہمہ وقت متحرک رہے؛ خدا کی شریعت کی پاس داری کا ہر سطح پر پورا پورا اہتمام ہو اور کوئی خوف، مفاد، لالچ یا دباؤ اس پر عمل درآمد کی راہ میں حائل نہ ہونے پائے؛ اخوت، بھائی چارے، ہم دردی اور خیر خواہی کا رویہ عام ہو اور لوگ ذاتی یا گروہی ناپسندیدگی کی بنا پر ایک دوسرے کا تمسخر اڑانے، ایک دوسرے کے عیب ڈھونڈ کر ان کی تشہیر کرنے یا نسلی وقبائلی تفاخر کے امراض میں مبتلا نہ ہوں؛ دین اور دینی شعائر کا پورا پورا احترام کیا جائے؛ مساجد ومکاتب آباد ہوں اور دین کی تعلیم اور اس کی نشر واشاعت معاشرے کی بنیادی ترجیحات میں شامل ہو؛ اللہ کے دین کی نشر واشاعت اور اس کا بول بالا کرنے کے لیے جان ومال کی قربانی کا جذبہ دلوں میں موج زن ہو؛ اقلیتی گروہوں کو جان ومال کا تحفظ اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہو اور وہ سیاسی ومعاشرتی حقوق سے پوری طرح بہرہ مندہوں----- مختصر الفاظ میں ایک اسلامی معاشرہ وہ معاشرہ ہے جس میں اجتماعی سطح پر اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا رنگ غالب ہو اورخالق اورمخلوق، دونوں کے حقوق ایک اعلیٰ اخلاقی احساس ذمہ داری کے ساتھ پورے پورے ادا کیے جائیں۔
ایک حقیقی اسلامی معاشرے کے خط وخال کی یہ تفصیل پیش نظر رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے ہاں نفاذ شریعت کی بحث معاشرے کی اصلاح وتربیت کے حوالے سے کسی مثبت اور جامع فکری اور مذہبی غور وفکر کا نتیجہ نہیں، بلکہ اصلاً اس سیاسی کشمکش کا ایک ذیلی نتیجہ (bi-product) ہے جو پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ملک کی آئینی ودستوری حیثیت کے تعین کے ضمن میں پیدا ہو گئی۔ آئندہ دستوری مراحل میں بھی نفاذ اسلام کی بحث نظری اور سیاسی سطح پر زندہ رہی اور ابھی تک زندہ ہے اور نفاذ شریعت کے عنوان سے کی جانے والی ساری جدوجہد اور اقدامات کا محور یہی سیاسی نزاع ہے۔ اس پس منظر میں نفاذ اسلام کی یہ جدوجہد اپنے ہدف کے اعتبار سے اعلیٰ ترین سطح پر دستور اور قانون تک محدود رہی اور مذہبی طبقات نے اپنی جدوجہد سے دستوری سطح پر مملکت کے نظریاتی تشخص کی حفاظت میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ عملاً جن قوانین مثلاً قادیانیوں کے خلاف امتناعی قوانین یا توہین رسالت کی سزا وغیرہ پر عمل درآمد پر اصرار کیا گیا، ان کے پس منظر میں زیادہ تر عوامی سطح پر پائے جانے والے جذبات کارفرما تھے جبکہ حقیقی معاشرتی اصلاح کا پہلو ان میں نمایاں نہیں تھا۔ گویا یہ ساری جدوجہد اصلاً چند خطرات اور تحفظات کے تناظر میں تھی اور اس کے محرکات میں اسلام کے ریاستی ومعاشرتی کردار کے تحفظ کے مخلصانہ جذبے کے ساتھ ساتھ مذہبی طبقات کی سیاسی اور معاشرتی بقا (Political & Social Survival) کا سوال بھی یقیناًکار فرماتھا۔ اس محدود اور یک رخی اپروچ سے نفاذ اسلام کا جو تصور نہ صرف عوام بلکہ خود مذہبی طبقات میں پروان چڑھا، وہ مثبت معنوں میں ایک پاکیزہ اور خدا کے مقرر کردہ حدود کے پابند معاشرے کا تصور نہیں، بلکہ محض یہ تھا کہ بعض خلاف اسلام عناصر کے خلاف امتناعی اور تعزیری اقدامات کتاب قانون میں شامل کر لیے جائیں۔ اس سے ہٹ کر لوگوں کے اخلاق وکردار کو بہتر بنانے، معاشرے میں تعلیم کو عام کرنے، غربت اور ناداری کے خاتمے کے لیے سماجی سطح پر محنت کرنے، کمزور اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے، لوگوں کو علاج کی سہولتیں فراہم کرنے، نزاعات کے پرامن تصفیے کے لیے کوئی غیر سرکاری نظم قائم کرنے اور اس طرح کی دوسری سماجی سرگرمیوں کو ’’نفاذ اسلام کی جدوجہد‘‘ سے غیر متعلق سمجھا جاتا ہے۔
اب دوسرے سوال کو لیجیے:
ہمارے ہاں بالعموم شریعت کے قانونی احکام کے نفاذ کو اسلامی معاشرہ قائم کرنے کے ہم معنی سمجھا جاتا اور یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ایسا کرنے سے کسی معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنانے کے تمام تقاضے خود بخود پورے ہو جائیں گے۔ یہ غلط فہمی شریعت اور معاشرے کے ایک ناقص اور محدود فہم اور اخلاقیات اور شرعی قوانین کے باہمی تعلق کو معکوس کر دینے کا نتیجہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کے نصوص میں بیان ہونے والے قانونی احکام خود مکتفی (self-contained) قسم کی ہدایات کا کوئی مجموعہ نہیں، بلکہ ایک مربوط فکری واعتقادی اور اخلاقی نظام کا جز ہیں۔ قرآن مجید کتاب وحکمت کی تعلیم کی غایت اور احکام شریعت کا مقصد افراد اور معاشرے کا تزکیہ اور اخلاقی تطہیر بیان کرتا ہے۔ قرآن میں شریعت کے تمام احکام اسی تناظر میں وارد ہوئے ہیں اور تمام احکام کے پیچھے کارفرما اخلاقی اصولوں کو نمایاں انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے کہیں بھی مجرد طور پر شرعی احکام وقوانین کی فہرست بیان کرنے پراکتفا نہیں کی، بلکہ اس کے ساتھ مابعد الطبیعیاتی یعنی علمی واخلاقی اساسات کی روشنی میں ان قوانین کے اصل مقصد کو بھی واضح کیا ہے۔ یہ اعتقادی واخلاقی اساسات شرعی احکام کے لیے منبع اور سرچشمہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور قانونی احکام سے درحقیقت انھی کی پاس داری اور تحفظ مقصود ہے۔
الف۔ قرآن کاعام اسلوب یہ ہے کہ وہ اخلاقی تزکیہ وتطہیر کے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے موقع کی مناسبت سے پیش نظر ہدایات بیان کرنا شروع کر دیتا ہے اور انھی کے ضمن میں وہ احکام بھی شامل ہو جاتے ہیں جن کی تنفیذ اپنی نوعیت کے لحاظ سے معاشرے کے ارباب حل وعقد کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ قرآن ان احکام کو نہ تو عمومی اخلاقی ہدایات سے الگ کر کے بیان کرتا ہے اور نہ ان کو ممتاز کرنے کے لیے کوئی مخصوص اسلوب اختیار کرتا ہے۔ قرآن کی نگاہ میں یہ سب ہدایات اصلاً اخلاقی ہدایات ہیں جن کا مخاطب پورا معاشرہ ہے، جبکہ ان میں سے خالص قانونی نوعیت کی ہدایات اور ان احکام کو ممتاز کرنے کی ضرورت جن کی تنفیذ کے ذمہ دار ارباب حل وعقد ہیں، دراصل قرآن کے مخاطبین کے لیے ان ہدایات کو رو بعمل کرنے کے ایک عملی تقاضے کی حیثیت سے سامنے آتی ہے۔
مثال کے طورپر سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ نے وہ اخلاقی حدود وآداب بیان کیے ہیں جن کا لحاظ اہل ایمان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور خود مسلمان مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کے حوالے سے رکھنا چاہیے۔ اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کے مقابلے میں کوئی رائے پیش کرنے اور آپ کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کرنے کی ممانعت بیان ہوئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے اورپکارتے ہوئے آپ کی شان نبوت کو ملحوظ رکھا جائے۔ اہل ایمان کے باہمی آداب کے حوالے سے کسی فاسق کی اطلاع پر اقدام کرنے سے پہلے اس کی تحقیق کرنے کی تاکید کی گئی ہے جبکہ اہل ایمان کے مختلف گروہوں کو ایک دوسرے کا مذاق اڑانے، برے القاب رکھنے، بدگمانی کرنے، دوسروں کے معاملات کی ٹوہ میں لگنے اور غیبت وغیرہ جیسی اخلاقی برائیوں کی شناعت کی گئی ہے۔ انھی ہدایات کے ضمن میں یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دوسرے مسلمان ان کے مابین صلح کرانے کی کوشش کریں اور اگر کوئی ایک گروہ زیادتی کرنے کی کوشش کرے تو اس کے خلاف لڑائی کر کے اسے راہ انصاف پر لائیں۔ یہ ہدایت بدیہی طور پر نظم اجتماعی سے متعلق ہے، لیکن قرآن نے یہاں اسلوب تخاطب میں کوئی فرق پیدا نہیں کیا اور اس طرح نہایت بلاغت کے ساتھ یہ واضح کیا ہے کہ نظم اجتماعی کی قانونی ذمہ داریاں اور اختیارات دراصل عمومی اخلاقی اصولوں ہی سے پھوٹتے اور ان کی توسیع ہوتے ہیں اوریہ کہ قانونی سطح پر ان کی تنفیذ خارج سے معاشرے پر مسلط کی جانے والی چیز نہیں ہوتی بلکہ درحقیقت معاشرے ہی کے اجتماعی اخلاقی شعور کی عکاسی اور اس کی نمائندگی کرتی ہے۔
ب۔ قرآن کے بیان کردہ بیشتر احکام اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایسے ہیں کہ ان کی عملی تنفیذ اصلاً کسی قانونی اتھارٹی پر منحصر نہیں، بلکہ ان میں معاملے کے فریقین اور معاشرے کی عمومی اخلاقی حس کو اپیل کی گئی ہے۔ گویا قرآن یہ فرض کرتا ہے کہ حقوق وفرائض اور عدل وانصاف کا تصور اور اس کے مطابق کسی معاملے کا تصفیہ کرنے کا بنیادی اخلاقی ڈھانچہ تو خارج میں موجود ہے، جبکہ قرآن اپنی ہدایات کے ذریعے سے صرف یہ راہنمائی کرنا چاہتا ہے کہ کسی مخصوص معاملے میں اخلاقی اصولوں کو عملاً متشکل کرنے کی بہتر اور پاکیزہ صورت کیا ہو سکتی ہے اور یہ کہ اگر کسی موقع پر فریقین کی طرف سے جذبات یا مفادات کی رو میں بہہ کر اخلاقی طرز عمل سے گریز کا رویہ پیدا ہو سکتا ہے تو اسے برسر موقع متنبہ کرتے ہوئے راہ راست کو واضح کر دیا جائے۔
اس کی ایک نمایاں مثال خاندان کے دائرے میں مرد اور عورت کے باہمی حقوق وفرائض کامسئلہ ہے۔ مرد کو جسمانی اور انتظامی پہلو سے جو برتری فطری طور پر حاصل ہے، اس کے نتیجے میں انسانی معاشرے کا بڑی حد تک ایک مردانہ معاشرے (Patriarchal Society) کی صورت اختیار کر لینا ناگزیر ہے۔ شریعت اسی عملی حقیقت کی روشنی میں مرد اور عورت کے دائرہ ہاے کار اور حقوق وفرائض کی تعیین میں بعض پہلووں سے حکیمانہ امتیاز کو ملحوظ رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ انسانی تاریخ میں مردانہ معاشرے میں خواتین ہمہ جہت استحصال اور نا انصافی کا شکار رہی ہیں۔ تاہم قرآن نے اس استحصال کے خاتمے کے لیے جدید مغربی مفہوم میں ’’مساوات پر مبنی معاشرے‘‘ (Egalitarion Society) کے تصور کو نہ کہیں آئیڈیل کی حیثیت سے بیان کیا ہے، نہ معاشرتی وقانونی سطح پر اس کے حصول کی کوئی کوشش کی ہے اور نہ اس حوالے سے کسی طبقاتی کشمکش کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس کے بجائے قرآن کی ہدایت کا سارا زور مردوں کو مخاطب بنا کر ایثار اور ترحم کے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کو نمایاں کرنے اور ان کی بنیاد پر خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے معاشرے کی اخلاقی حس کو اپیل کرنے پر ہے۔ چنانچہ قرآن نے زوجین کے حقوق وفرائض کی جو تقسیم بیان کی اور مختلف احوال سے متعلق جو ہدایات دی ہیں، ان کا مخاطب ایک ایسا معاشرہ ہے جو اخلاقی اعتبار سے مردہ نہیں بلکہ زندہ ہے، اورجو نزاع کی صورت میں اپنی داخلی اخلاقی قوت کی بنیاد پر قرآن کی ہدایات کو شارع کے حقیقی منشا کے مطابق رو بعمل کر سکتا ہے۔
مثال کے طور پر قرآن مجید نے بیویوں کی سرکشی اور نشوز کی صورت میں آخری چارے کے طور پر شوہروں کو ان کی مناسب جسمانی تادیب کا اختیار دیا ہے، تاہم حکم کے موقع ومحل سے واضح ہے کہ یہ اختیار ایک نہایت محدود قانونی (strictly legal) مفہوم میں بیان کیا گیا ہے، نہ کہ ایک اخلاقی آئیڈیل کے طور پر، اور اس نہایت محدود قانونی اختیار کے عملی استعمال پر بھی شریعت نے نہایت سخت اخلاقی قدغنیں عائد کی ہیں۔ حق تادیب کا استعمال بدیہی طورپر ایک خانگی معاملہ ہے اور اس میں قانونی سطح پر عائد کی جانے والی کسی پابندی کے موثر ہونے کا امکان عملاً نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے بدیہی طورپر اس حق کو مذکورہ اخلاقی حدود کا پابند بنانے کا انحصار افراد کی اخلاقی تربیت اور مجموعی معاشرتی رویے پر ہے۔ نزول قرآن کے زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی اس توازن کو قائم کرنے کی موثر ضمانت تھی اور یہ آپ ہی کی ذات گرامی کا احترام تھا کہ آپ کی محض ایک ہدایت پر شوہروں نے اپنا حق تادیب استعمال کرنا چھوڑ دیا، لیکن ظاہر ہے کہ اس اخلاقی آئیڈیل کو معاشرے میں زندہ رکھنا آپ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ دین کا ایک مستقل اور ابدی اخلاقی مطالبہ ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ مذہبی واخلاقی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ ایک ایسی سماجی فضا بھی موجود ہو جو اس اختیار کے سوء استعمال کو روکنے کے لیے موثر کردار ادا کر سکتی ہو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن نے شوہروں کو بیویوں کی جسمانی تادیب کا جو اختیار دیا ہے، وہ کوئی بے قید اور مطلق اختیار نہیں، بلکہ بہت سی اخلاقی حدود وقیود کا پابند اختیار ہے اور اس کی معنویت اسی صورت میں برقرار رہ سکتی ہے جب اسے قرآن کے بیان کردہ اخلاقی فریم ورک کے اندر رو بعمل کیا جائے۔ اس اخلاقی فریم ورک اور معاملے کے دوسرے فریق سے متوقع اخلاقی تقاضوں سے الگ کر کے اس اختیارکو شرعی اختیار نہیں کہا جا سکتا اور اگر شوہر کو تجاوز سے روکنے کا کوئی سماجی واخلاقی نظام موجود نہ ہو تو اسے یک طرفہ طور پر یہ حق دے دینا شریعت کا مقصود نہیں بلکہ قطعی طور پر اس کے منشا ومقصود کے خلاف ہوگا۔
ج۔ قرآن کے اس زاویہ نگاہ کوزیادہ نمایاں انداز سے واضح کرنے والی مثالیں وہ ہیں جن میں قرآن ایک ہی مسئلے سے متعلق ہدایات کا ایک مجموعہ بیان کرتا ہے اور ان میں سے بعض ہدایات نجی یا سماجی سطح پر افراد معاشرہ سے متعلق ہوتی ہیں جبکہ بعض نظم اجتماعی سے۔ ہدایات کا یہ مجموعہ قرآن کی نظر میں بحیثیت کل مطلوب ہوتا ہے اور ان پر جزوی طور پر عمل کا طریقہ قرآن کے مقصود کو پورا نہیں کرتا۔ قرآن معاشرے اور اس کے نظم اجتماعی کو یہاں بھی دو جدا جدا وجود (entities) تصور کر کے الگ الگ مخاطب نہیں کرتا اور نہ اپنے اسلوب سے اس امر کی کوئی گنجایش پیدا ہونے دیتا ہے کہ معاشرہ یا نظم اجتماعی اپنے اپنے دائروں میں اس مجموعہ کے بعض اجزا کو رو بعمل کر لیں تو قرآن کا مطلوب پورا ہو جائے گا۔ قرآن اس مجموعے کو بحیثیت مجموعے کے رو بعمل دیکھنا چاہتا ہے اور یہ توقع کرتا ہے کہ معاشرہ اور نظم اجتماعی پوری ہم آہنگی اور توافق اور یکساں احساس ذمہ داری کے ساتھ اس کی ہدایات کو بجا لاتے ہوئے کسی مخصوص معاملے میں دینی واخلاقی اصولوں اور عدل وانصاف کے تقاضوں کو عملی صورت میں متشکل کریں گے۔
مثال کے طور پر قتل کے معاملے کو لیجیے۔ قرآن مجید نے قصاص کا قانون دو مقامات پر نہایت موکد انداز میں بیان کیا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے میں قانون اور عدالت کی طرف سے کسی نرمی اور مداہنت کو روا نہیں ٹھہراتا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ قرآن نے دونوں جگہ مقتول کے ورثاکو نہایت بلیغ انداز میں قاتل کو معاف کر دینے کی ترغیب بھی دی ہے۔ ورثا کی طرف سے معافی کا یہ فیصلہ ظاہر ہے کہ قانون اور عدالت کے فیصلے پر بھی اثر انداز ہوگا، لیکن اصلاً یہ عدالت کے قانونی دائرۂ اختیار سے ماورا ہے اور اس کے لیے ورثا میں ترغیب اور آمادگی پیدا کرنا اصلاً سماجی سطح پر بہی خواہوں سے مطلوب ہے۔ یہی معاملہ قتل خطا کے احکام کا ہے جہاں قرآن نے قاتل پر قتل ہونے والے مسلمان کی دیت ادا کرنے کے علاوہ اپنی غلطی کے کفارے کے طور پر ایک مومن غلام کو آزاد کرنا یا اس کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں دو مہینے کے متواتر روزے رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ ظاہر ہے کہ قرآن کو ان ہدایات پر عمل اپنے کل میں مطلوب ہے اور اس کے نزدیک قتل خطا کے مرتکب کے تزکیہ اور خدا کی رحمت کے اس پر متوجہ ہونے کا عمل دیت کی ادائیگی اور غلام کی آزادی دونوں سے مشروط ہے۔ یہاں بھی دیت کی ادائیگی تو ایک قانونی معاملہ ہے لیکن غلام کی آزادی یا روزے رکھنا سراسر ایک انفرادی فعل ہے جس سے قانون کو کوئی سروکار نہیں ہو سکتا اور نہ جبراً کسی کا غلام آزاد کرنے یا اسے روزے رکھوانے سے فرد کو وہ تزکیہ حاصل ہو سکتا ہے جو اس ہدایت سے قرآن کا مقصود ہے۔
قرآن مجید نے چوری، قذف اور زنا پر متعین سزائیں بیان کی ہیں اور اہل ایمان سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ ترس کھائے بغیر ان سزاؤں کو مجرم پر نافذ کر دیں۔ تاہم یہ اس صورت میں ہے جب معاملہ عدالت کے نوٹس میں آ جائے اور وہ اس پر قانونی کارروائی کرنے کی پابند قرار پائے۔ جہاں تک اس ضمن میں معاشرتی سطح پر مطلوب رویے کا تعلق ہے تو وہ اس سے بالکل مختلف ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے شریعت کا عمومی رجحان یہ سامنے آتا ہے کہ اس کا اصل زور مجرم کو ہر حال میں سزا دینے پر نہیں، بلکہ جہاں تک ممکن ہو، اسے سزا سے بچاتے ہوئے اصلاح احوال کا موقع فراہم کرنے پر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پہلو سے ان لوگوں کو جن سے جرم سرزد ہو جائے، یہ ترغیب دی ہے کہ وہ اپنے جرم پر پردہ ڈالے رکھیں اور توبہ واستغفار کے ذریعے سے اسے اللہ تعالیٰ سے معاف کرانے کی کوشش کریں۔ آپ نے معاشرے کے لوگوں کو بھی یہی ترغیب دی ہے کہ وہ ایسے مجرموں کو عدالت میں پیش کرنے سے گریز کریں، کیونکہ مقدمہ عدالت میں پیش ہو جانے کے بعد مجرم پر سزا کا نفاذ قاضی کی ذمہ داری قرار پاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ضمن میں ارباب حل وعقد کے لیے بھی یہ راہنما اصول بیان فرمایا ہے کہ ان کی اصل دلچسپی مجرم کو سزا دینے سے نہیں بلکہ عدل وانصاف کے حدود میں رہتے ہوئے اس کے لیے معافی کی گنجایش تلاش کرنے سے ہونی چاہیے۔اسی طرح قرآن نے یہ پہلو بھی کم وبیش ہر موقع پر نمایاں کیا ہے کہ اگر مجرم حقیقتاً توبہ واصلاح پر آمادہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول کرنے اور گناہوں کو بخش دینے والے ہیں اور اس سے مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے معاشرے کو بھی چاہیے کہ وہ توبہ واصلاح کی راہ اختیار کرنے والے مجرموں کو معمول کی معاشرتی زندگی بسر کرنے میں پورا تعاون فراہم کرے اور امتیازی رویہ اختیار کر کے انھیں سماجی سطح پر الگ تھلگ کرنے کی کوشش نہ کرے۔
شریعت کے اصل مقصود یعنی تزکیہ اخلاق کے پہلو سے یہ ایک بے حد اہم بات ہے اور اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک صاحب ایمان جیسے اپنے لیے دوسرے انسانوں کے سامنے رسوائی کو پسند نہیں کرتا، اسی طرح اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے لیے بھی اس کا جذبہ اور کوشش یہی ہونی چاہیے کہ انھیں رسوائی اور سزا کا سامنے کیے بغیر توبہ اوراصلاح کاموقع مل جائے۔ اہل ایمان کو خود اپنے گناہوں کو یاد رکھتے ہوئے گناہ کے مرتکب ہونے والے اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی ستر او رپردہ پوشی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس سے انھیں اس بات کی یاد دہانی ہوگی کہ ان کے نامہ اعمال میں بھی بہت سے گناہ ہیں جن پر خدا نے پردہ ڈال رکھا ہے۔ اگر کسی معاشرے میں لوگوں کا عمومی مزاج اس کے برعکس تشکیل پا جائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ ایک برخود غلط رویے (self-righteousness) کا شکار ہو چکا ہے اور دوسرے انسانوں سے ہمدردی کے بجائے ان کی رسوائی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ یہ اخلاقی لحاظ سے ایک نہایت پست اور منفی رویہ ہے، اور سیدنا مسیح علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں پائے جانے والے اسی رویے کی قباحت واضح کرتے ہوئے ایک واقعے میں، جس میں لوگ بدکاری کی مرتکب ہونے والی ایک خاتون کو پورے مذہبی جوش وخروش کے ساتھ سنگ سار کرنے کے لیے لے جا رہے تھے، ان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اسے سنگ سار کرنے کے لیے پہلا پتھر وہ شخص اٹھائے جس نے زندگی میں خود کبھی بدکاری نہ کی ہو۔ اب ظاہر ہے کہ اگر کسی معاشرے کی اخلاقی تربیت اس نہج پر نہ ہوئی ہو اور گناہ گار انسانوں کے ساتھ ہمدردی اور انھیں سزا دلوانے کے بجائے سزا سے بچاتے ہوئے اخلاقی اصلاح کی ترغیب دینے کا رویہ عام نہ ہو اور ایک مرتبہ جرم کا راستہ اختیار کر لینے والوں کے لیے پلٹ کر معمول کا طرز زندگی اختیار کرنے کے سارے راستے بند ہوں اور وہ باقی کی زندگی گزارنے مجرمانہ ماحول ہی میں گزارنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ پائیں تو اپنے اخلاقی رویے کے اعتبار سے ایسے معاشرے کو شارع کا مطلوب معاشرہ نہیں کہا جا سکتا۔
ریاست سے متعلق اسلام کے بیان کردہ احکام وہدایات کا اہم ترین حصہ ارباب حل وعقد کی ذمہ داریوں اور طرز حکمرانی سے متعلق ہے۔ ان تمام ہدایات کا محور ایک بنیادی اخلاقی اصول ہے،یعنی یہ کہ اختیار واقتدارکو ایک امانت اور ذمہ داری سمجھا جائے اور اسے خوف خدا اور خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ خالصتاً لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے استعمال کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ حکمران طبقے میں ایک خاص اخلاقی رویے کی آبیاری کیے بغیر مذکورہ طرز حکمرانی کا رائج ہونا محض چند قوانین منظور کر لینے سے ممکن نہیں۔ کسی قوم کے حکمران طبقے کا طرز عمل درحقیقت اپنے معاشرے ہی کی عکاسی کرتا ہے اور اس کے اچھے یا برے اوصاف بحیثیت مجموعی قوم کے اخلاقی رجحانات ہی کی تصویر ہوتے ہیں۔ چنانچہ حکمران طبقے کے بعض افراد تو مستثنیٰ ہو سکتے ہیں، لیکن حکمران طبقے سے بحیثیت ایک طبقے کے معاشرے کے عمومی اخلاقی معیار سے ہٹ کر کسی اخلاقی رویے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب بعض روایات میں ’کما تکونون یومر علیکم‘ کے الفاظ میں غالباً اسی پہلو کو بیان کیا گیا ہے، یعنی جس طرح کے تم ہوگے، اسی طرح کے حکمران تم پر حکمرانی کریں گے۔ (القضاعی، مسند الشہاب، رقم ۵۷۷۔ بیہقی، شعب الایمان، رقم ۷۳۹۱)
قرآن نے اپنے اس زاویہ نگاہ کو ان مقامات پر مزید موکد کیا ہے جہاں اس نے بنی اسرائیل میں شرعی قوانین کی پاس داری نہ کرنے یا ان کو پامال کرنے کا مجرم صرف ان کے ارباب حل وعقد کو نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی پورے گروہ کو قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن ایسے معاملات میں قانونی وانتظامی ڈھانچے کو یک طرفہ طور پر مجرم نہیں ٹھہراتا، اس لیے کہ مثال کے طور پر اگر کسی معاشرے میں عدالتیں اور نفاذ قانون کے ادارے انصاف فراہم نہیں کرتے تو بظاہر یہ اگرچہ حکومتی نظام کا قصور ہے، لیکن اس کے محرکات کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوگا کہ حکام کے ہاں اخلاقی حدود کی پامالی کا اصل منبع خود معاشرے کا اخلاقی فساد ہے اور حاکم، قاضی یا کوئی دوسرا انتظامی منصب دار جب فیصلہ یا اقدام کرتے ہوئے عدل وانصاف کو پس پشت ڈال دیتا ہے تو اس کے لیے تحریک پیدا کرنے، دباؤ ڈالنے اور تحریص وترغیب یا تخویف کے سارے اسباب فراہم کرنے کا عمل درحقیقت خود معاشرے میں ہو رہا ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ ریاستی نظام کو چلانے کے لیے کل پرزے ظاہر ہے کہ معاشرے ہی سے فراہم ہوتے ہیں اور ان کے اخلاقی رجحانات کی تشکیل بھی عمومی معاشرتی اثرات ہی کے تحت ہوتی ہے، چنانچہ ان کے لیے اپنی منصبی حیثیت میں بھی اس سے بلند تر کسی اخلاقی معیار کی توقع کرنا عبث ہے، بلکہ یہ واقعہ ہے کہ ایسے معاشرے میں کسی دیانت دار فرد کے لیے اپنے ضمیر کے مطابق منصبی ذمہ داریاں انجام دینا ہی کم وبیش ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانے اور انصاف کو خریدنے کی ممانعت بیان کی ہے، وہاں اس کا نقطہ آغاز حکام کو نہیں بلکہ خود معاشرے کو قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوا ہے:
وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُم بَیْْنَکُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُواْ فَرِیْقاً مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرہ ۲:۱۸۸)
’’اور ایک دوسرے کامال باطل طریقے سے نہ کھاؤ اور نہ مال کے ذریعے حکام تک رسائی حاصل کرو تاکہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ حق تلفی کرتے ہوئے کھا سکو، جب کہ تم جانتے ہو۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم سیاسی اور انتظامی سطح پر ارباب اختیار کو بحیثیت مجموعی ان اوصاف کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اجتماعی اخلاقی آدرشوں کی آبیاری کو تعلیم وتربیت کے نظام کا حصہ بلکہ مقصود بنایا جائے، رشوت اور بدعنوانی کے معاشی ومعاشرتی اسباب کا ازالہ کیا جائے اور ظلم، ناانصافی اور استحصال کو جنم دینے اور اس کو تحفظ فراہم کرنے والے سیاسی اور سماجی کلچر کا خاتمہ کیا جائے۔
اب تیسرے سوال کا جائزہ لیجیے:
اوپرکی سطور میں ہم نے جو بحث کی ہے، اس سے واضح ہے کہ شریعت کے بیان کے حوالے سے قرآن کا مطمح نظر فقہ اور قانون کے زاویہ نگاہ سے کہیں زیادہ وسیع، جامع اور ہمہ گیر ہے۔ فقہ کا دائرہ شرعی احکام کے ان پہلووں تک محدود ہے جنھیں متعین قانونی ضابطوں کی صورت میں بیان کرنا اور ان پر فقہی جواز یا عدم جواز کا حکم لگانا ممکن ہو۔ قانون کا دائرہ اس سے بھی زیادہ تنگ اور محدود ہو جاتا ہے، کیونکہ وہاں صرف وہ چیزیں زیربحث آ سکتی ہیں جن کا تعلق عدالت وقضا سے ہو اور جن میں ریاستی نظام کی مداخلت ممکن ہو۔ قرآن کا زاویہ نگاہ چونکہ ان دونوں محدودیتوں سے بلند تر ہے اوروہ شریعت کو اخلاقی تزکیہ وتطہیر کے حصول کا ایک ذریعہ قرار دیتا ہے، اس لیے اس نے ان دونوں پہلووں کو الگ الگ بیان نہیں کیا اور نہ ریاست اور عدالت کو براہ راست کہیں مخاطب کیا ہے۔ قرآن کے اس اسلوب سے اس کا یہ زاویہ نگاہ واضح ہوتا ہے کہ وہ شریعت کے احکام پر عمل درآمد اور ان کے نفاذ کے جذبے کو خود معاشرے کے اندر سے پھوٹا ہوا دیکھنا چاہتا ہے اور اس کے نزدیک آئیڈیل یہ نہیں کہ کوئی قانونی اتھارٹی محض حاکمانہ اقتدار کے بل بوتے پر شرعی حدود وضوابط کی پاس داری اور ان کی تنفیذ کا فرض انجام دے دے، بلکہ یہ ہے کہ خدا کی شریعت کی پیروی اور اس کے نفاذ کے لیے قوت محرکہ (driving force) خود معاشرہ ہو جو اس مقصد کے لیے مناسب قانونی وانتظامی ادارے بھی وجود میں لائے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کے حوالے سے ان کی کارکردگی کا مسلسل محاسبہ بھی کرتا رہے۔
علم عمرانیات کی رو سے قرآن کے اس زاویہ نگاہ کی اہمیت اور معنویت بے حد واضح ہے۔ معاشرہ اصلاً چند مشترک مقاصد اور منافع کے حصول کے لیے تشکیل پاتا ہے اور اس کی تشکیل کے لیے افراد یا گروہ اگر اپنی آزادانہ مرضی اور اختیار کو قربان کرتے ہیں تو انھی مشترکہ مقاصد اور منافع کے پیش نظر کرتے ہیں۔ چنانچہ معاشرے کے نظام کے لیے شیرازہ بندی کا کام اصلاً حقوق وفرائض کے حوالے سے ان اساسی تصورات کے ساتھ وابستگی سے حاصل ہوتا ہے جن کی روشنی میں معاشرتی نظام اور قوانین تشکیل دیے جاتے ہیں۔ سماجی سطح پر ان تصورات کے عمومی شعور سے مقاصد اور منافع کی نگہبانی کا ایک خود کار نظام وجود میں آ جاتا ہے اور معاشرہ اپنی روز مرہ سرگرمیوں کے تسلسل میں اصلاً اسی سماجی نظام پر انحصار کر رہا ہوتا ہے ۔ جہاں تک رسمی قانون کا تعلق ہے تو وہ معاشرے سے مقدم نہیں ہوتا اور نہ اس کی تشکیل کے بنیادی اصولوں کو پیشگی منضبط کرتا ہے۔اس کے برعکس وہ کسی معاشرے کے اساسی فلسفہ حیات اور اس کے تحت پیدا ہونے والی عملی رسوم اور حدود وقیود کی فرع ہوتا اور ان کے رائج اور مستحکم ہو جانے کے بہت بعد وجود میں آتا ہے۔ پھر یہ کہ معاشرتی نظم کو برقرار رکھنے کے لیے نفاذ قانون کے رسمی اداروں کی مداخلت کا کم سے کم ہونا اور ناگزیر صورتوں تک محدود ہونا بہتر سمجھا جاتا ہے، کیونکہ حد سے زیادہ مداخلت نہ صرف قانونی اداروں کی ذمہ داریوں میں ناقابل برداشت اضافہ کر سکتی ہے بلکہ قانونی اداروں پر زیادہ انحصار خود معاشرے کی اپنی داخلی قوت کو کمزور کرنے پر منتج ہو سکتا ہے۔
اس تفصیل سے واضح ہے کہ سماجی نظام کی شیرازہ بندی میں قانون کا کردار بنیادی اور ہمہ گیر نہیں، بلکہ ثانوی ، جزوی اور محدود ہے اور اگر قانون کی پشت پر کسی معاشرے کی ذہنی ہم آہنگی اور اس کی پابندی کرنے کا جذبہ موجود نہ ہو تو محض قانون کے زور پر کسی معاشرے کو مخصوص خطوط پر استوار نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی معاشرے میں نظری سطح پر مروجہ قانونی ڈھانچے کی اساسات کو چیلنج کر دیا جاتا اور اس کے اخلاقی جواز یا عملی افادیت پر سوالات اٹھا دیے جاتے ہیں تو رفتہ رفتہ لوگوں کی اس کے ساتھ وابستگی کمزور ہو نا شروع ہو جاتی ہے اور معاشرہ اور قانون، دونوں بتدریج نئے تصورات کے مطابق ڈھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔
اب ہم آخری سوال کی طرف آتے ہیں جو اس بحث کا اصل سوال ہے، یعنی یہ کہ اگر کوئی معاشرہ اپنے مذہبی شعور اور اخلاقی تربیت کے لحاظ سے اس سطح پر نہ ہو کہ اس سے اپنی داخلی اخلاقی قوت کی بنیاد پر شرعی احکام وقوانین کی پاس داری کی توقع کی جا سکے تو قانونی سطح پر اس حوالے سے کیا حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے؟ قرآن مجید سے ہمیں اس سوال کا جواب بھی ملتا ہے۔ ہم واضح کرچکے ہیں کہ قرآن کے زاویہ نگاہ کی رو سے شریعت دراصل ایمان واخلاق کی فرع ہے اور جب وہ معاشرے کو بحیثیت مجموعی شرعی احکام کا مخاطب بناتا ہے تو یہ فرض کر کے بناتا ہے کہ معاشرے میں ایمان واخلاق کی اقدار اس درجہ مستحکم ہو چکی ہیں کہ معاشرہ اپنی مجموعی حیثیت میں اولاً خود ان احکام کی پابندی کو قبول کرنے اور ثانیاً اپنے سماجی اداروں کی وساطت سے ان کے قانونی نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے پوری طرح آمادہ ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے شرعی قوانین کی اعتقادی واخلاقی اساسات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات اور انسانی معاشرے کی طبعی ساخت کے تناظر میں اس حکمت عملی کے بنیادی پہلووں پر بھی روشنی ڈالی ہے جو کسی معاشرے میں شرعی احکام وہدایات کی عمل داری قائم کرنے کے لیے اختیار کی جانی چاہیے۔
قرآن مجید کے نزول کے مختلف مراحل کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ اس نے مکی دور کی سورتوں میں شریعت کے عملی حدود وقیود سے تعرض کرنے کے بجائے توحید اور آخرت کے ان بنیادی تصورات کو دلوں میں راسخ کرنے کی کوشش کی ہے جو انسان اور اس کے رب کے باہمی تعلق کو صحیح اساسات پر استوار کرتے، اس میں اطاعت اور تقویٰ کے لیے آمادگی پیدا کرتے اور زندگی کے معاملات کے حوالے سے جواب دہی کا اخلاقی احساس بیدار کرتے ہیں۔ اس کے بعد مدنی دور میں مختلف معاملات سے متعلق شرعی حدود وقیود کی تعیین کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا، تاہم یہاں بھی شرعی احکام کی فہرست یک بارگی نازل کرنے کے بجائے تدریج کا طریقہ اختیار کیا گیا اور جن احکام کی قانونی سطح پر فوری تنفیذ ممکن یا قرین مصلحت نہیں تھی، ان میں پہلے اصل رکاوٹ کو دور کرنے کا اہتمام کیا گیا اور اس کے بعد مطلوب احکام دیے گئے۔
یہاں قرآن مجید کے ان احکام کا ایک سرسری مطالعہ مفید ہوگا:
سورۂ بقرہ کی آیت ۱۸۴ میں اللہ تعالیٰ نے روزے کی فرضیت بیان کرتے ہوئے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر کوئی شخص سفر یا بیماری کے باعث رمضان کے مقررہ دنوں میں روزہ نہ رکھ سکے اور باقی دنوں میں چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنے میں بھی نفسیاتی مشکل محسوس کرے تو وہ روزہ رکھنے کے بجائے فدیہ دے دے۔ بعد میں اس رخصت کو منسوخ کرتے ہوئے یہ قرار دیا گیا کہ رمضان میں کسی عذر کے تحت چھوڑے جانے والے روزوں کی گنتی دوسرے دنوں میں بہرحال پوری کرنی ہوگی۔ روزہ رکھنے کے بجائے فدیہ دینے کی ابتدائی رخصت کی حکمت واضح ہے کہ اس سے مقصود ان لوگوں کے احوال کی رعایت کرنا تھا جن کا تعارف اسلام کے ساتھ بالکل نیا تھا اور رمضان کے روزے ایک مرتبہ چھوٹ جانے کے بعد انھیں انفرادی طورپر دوسرے دنوں میں قضا کرنے کی ہمت وہ اپنے اندرنہیں پاتے تھے۔
سورۂ بقرہ کی آیت ۱۸۰ میں اللہ تعالیٰ نے مرنے والے کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے مال میں معروف کے مطابق والدین اور دیگر اقربا کے لیے وصیت کر دے۔ یہ ایک ابتدائی ہدایت تھی جس میں اقربا کے حصوں کی تعیین معروف کے مطابق مرنے والے کی صواب دید پر چھوڑ دی گئی تھی۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے مرنے والے کے ساتھ اقربا کے رشتے کی نوعیت اور ان کے مابین منفعت کے تناسب کو سامنے رکھتے ہوئے والدین، اولاد، میاں بیوی اور بہن بھائیوں کے حصوں کو خود متعین فرما کر ان کی پابندی کو لازم قرار دیا۔ یہ حصے ابتدائی حکم میں بھی متعین کیے جا سکتے تھے، لیکن چونکہ عرب معاشرت میں تمام حق داروں میں وراثت کی منصفانہ تقسیم کا تصور ہی بالکل اجنبی اور نامانوس ہو چکا تھا اور یتیموں کا مال ہڑپ کرنا ایک عام اخلاقی برائی کی صورت اختیار کر چکا تھا، اس لیے ضروری تھا کہ ابتدائی مرحلے میں اس حکم کو لوگوں کے لیے مانوس اور معروف بنانے کے لیے وصیت کا طریقہ تجویز کیا جائے تاکہ مرنے والے اور اس کے ورثا، دونوں کے ہاں منصفانہ تقسیم کا جذبہ بیدار ہو اور وہ اگلے مرحلے میں اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ تقسیم کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو سکیں۔
سورۂ نساء کی آیت ۲۵ میں زنا سے متعلق عبوری احکام بیان ہوئے ہیں۔ یہاں بدکاری کی زیادہ سنگین صورتوں یعنی پیشہ ورانہ بدکاری اور یاری آشنائی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ قرآن نے اس مرحلے پر اصلاً کسی باقاعدہ سزا کے بیان کو موضوع نہیں بنایا، بلکہ ایسے اقدامات تجویز کیے ہیں جو قحبہ عورتوں کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کو ناممکن بنا دیں اور یاری آشنائی کا تعلق رکھنے والے جوڑے اپنے طرز عمل سے تائب ہو جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں زنا عام ہو اور لوگوں کے اندر اس کے بارے میں اخلاقی حساسیت مردہ چکی ہو، وہاں کوئی قانونی اقدام کرتے ہوئے ابتدائی مرحلے پر جرم کی ایسی صورتوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی جو بدکاری کے فروغ کے لیے منبع ومصدر کی حیثیت رکھتی ہوں اور جن کو ختم کیے بغیر سماجی یا انفرادی سطح پر عفت وعصمت کے تصور کی آبیاری اور اس کے مطابق پاکیزہ اخلاقی زندگی کی فضا پیدا کرنا ناممکن ہو۔ مزید یہ کہ جرم کے حوالے سے کیے جانے والے تادیبی اقدامات کا فوری مقصد بھی جرم کی قرار واقعی سزا دینے کے بجائے محض جرم کی ان صورتوں کا سدباب ہوگا اور جرم کے مرتکبین کو پورا پورا موقع دیا جائے گا کہ وہ توبہ واصلاح کا راستہ اختیار کر لیں۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ عہد نبوی میں شرعی احکام کے نزول کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد ایک خاص وقت تک شراب اور سود کو حرام نہیں کیا گیا۔ یہ تعبیر زیادہ درست نہیں ہے۔ شراب، جوا اور سود اپنی نوعیت کے لحاظ سے کوئی ’’فقہی احکام‘‘ نہیں بلکہ اخلاقی برائیاں ہیں اور انھیں مثبت معنوں میں شرعی طور پر جائز قرار دیے جانے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن نے ان کی ناپسندیدگی اور شناعت کے ضمن میں اپنا رجحان ابتدا ہی سے واضح رکھا ہے۔ درست بات یہ ہے کہ انھیں قانونی طور پر جرم اور قابل مواخذہ قرار دینے کے لیے اس وقت کا انتظار کیا گیا جب لوگ ذہنی طور پر ان کی شناعت سے مانوس ہو جائیں اور قانونی پابندی کے نافذ ہونے کے بعد ان کے ترک کرنے میں عملاً زیادہ مشکل پیش نہ آئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی قانون کو اگر کتاب قانون میں تو درج کر دیا جائے، لیکن معاشرہ ابھی ذہنی طور پر اس کی پابندی کے لیے تیار نہ ہو یا عملی پیچیدگیوں کی وجہ سے قانونی سطح پر اس کا موثر نفاذ ممکن نہ ہو تو اس کے نہایت منفی نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ قانون کی حرمت اور اس کی تاثیر اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب وہ عملاً نافذ بھی ہو رہا ہو۔ بصورت دیگر قانون نہ صرف اپنی نفسیاتی تاثیر سے محروم ہو جاتا ہے بلکہ الٹا قانون شکنی کا رجحان پیدا کرنے اور قانون کی پابندی کے تصور کو بحیثیت مجموعی کمزور کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہانے اسی پہلو کو یوں بیان کیا ہے کہ قرآن میں زنا اور شراب کی حرمت کا حکم پہلے ہی دن نازل نہیں کر دیا گیا بلکہ پہلے تذکیر اور وعظ ونصیحت کے ذریعے سے لوگوں میں خوف خدا کا جذبہ پیدا کیا گیا، ورنہ اگر ابتدا ہی میں یہ ممانعت نازل کی جاتی تو لوگ کہتے، بخدا ہم کبھی زنا اور شراب کو نہیں چھوڑیں گے۔
روایتی مذہبی نقطہ نظرمیں بالعموم تدریجی مراحل میں نازل ہونے والے شرعی احکام کو محض تاریخی اہمیت کا حامل جبکہ عملاً بے مصرف سمجھا جاتا ہے۔ تاہم قرآن مجید کے ایک آفاقی پیغام ہونے کے تناظر میں قرآن کی حتمی ترتیب میں ان ابتدائی اور تدریجی احکام کو بھی پوری طرح محفوظ رکھا جانا اپنے اندر اس سے کہیں زیادہ معنویت رکھتا ہے اور ان کو محفوظ رکھنے کا مقصد انسانی ذہن کو اس نکتے کی طرف متوجہ رکھنا ہے کہ شریعت کے حتمی احکام کو عملاً کسی معاشرے میں نافذ کرتے ہوئے اس کے احوال وظروف کی رعایت ملحوظ رکھی جانی چاہیے اور حالات یا موانع کا تقاضا ہو تو معاشرے کو ایک مبنی بر مصلحت تدریج کے ساتھ ہی اصل آئیڈیل کی طرف لے جانا چاہیے۔ جلیل القدر حنفی اصولی اور فقیہ ابوبکر الجصاص نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ قرآن مجیدمیں کوئی منسوخ حکم ایسا نہیں جسے ہر اعتبار سے ناقابل عمل قرار دیا گیا ہو، بلکہ حکم میں تبدیلی کا تعلق دراصل احوال میں تبدیلی سے ہے اور اگر وہ حالات دوبارہ پیدا ہو جائیں جن میں پہلا حکم دیا گیا تھا تو حالات کے تقاضے سے پہلا حکم بھی عود کر آئے گا۔ ہمارے نزدیک جصاص کی یہ بات دو ترامیم کے ساتھ درست ہے:
ایک یہ کہ انھوں نے یہ بات ایک محدود اور جزوی فقہی مفہوم میں بیان کی ہے جو بجاے خود درست ہے، تاہم اس سے کسی مخصوص معاشرے میں نفاذ شریعت کی حکمت عملی کا ایک عمومی اصول بھی اخذ کیا جا سکتا ہے، چنانچہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے شرعی احکام وقوانین کے مخصوص مزاج کے ساتھ مناسبت یا عدم مناسبت کے تناظرمیں غیر عرب معاشروں میں شریعت کے نفاذ میں تدریج کی جو حکمت عملی بطور اصول تجویز کی ہے، کسی معاشرے کی ذہنی وفکری اور اخلاقی سطح کے تناظر میں بھی نفاذ شریعت کے لیے وہی حکمت عملی اختیار کرنا ضروری ہے۔
دوسرے یہ کہ قرآن مجید میں عبوری نوعیت کے جو احکام محفوظ رکھے گئے ہیں، ان کی حیثیت نظائر کی ہے جنھیں تجویز کرتے وقت عرب معاشرے کے ان مخصوص عبوری حالات کو ملحوظ رکھا گیا تھا جن میں یہ احکام دیے گئے۔ بعد کے زمانوں میں ایسی صورت حال سے سابقہ پیش آنے پر ان نظائر سے اصولی راہنمائی تو لی جائے گی، لیکن یہ کسی باقاعدہ شرعی حکم کی حیثیت نہیں رکھتے جنھیں بعینہ اسی صورت میں اختیار کرنا لازم ہو۔ اس کے بجائے اقدامات کی عملی صورت تجویز کرتے وقت اس مخصوص معاشرے کے حالات وضروریات سامنے رکھنا ضروری ہوگا جسے عبوری اور تدریجی مراحل سے گزارکر اصل شریعت کی پیروی کے قابل بنانا مقصود ہے۔
مذکورہ سطور میں کی جانے والی بحث کا خلاصہ حسب ذیل نکات کی صورت میں پیش کیا جا سکتا ہے:
۱۔ کسی معاشرے کو ’اسلامائز‘ کرنے کا عمل اپنے بنیادی تصورات اور نوعیت کے لحاظ سے اصلاً معاشرے میں ایمان واخلاق کی جوت جگانے، اس کی ذہنی وفکری سطح بہتر بنانے اور اس کی سماجی سرگرمیوں کو اخلاقی حدود کا پابند بنانے سے عبارت ہے۔ شریعت کا مقصد بھی انسان کا اخلاقی تزکیہ ہے اور قرآن مجید نے اسی پہلو سے ہر شرعی حکم کی ایمانی واخلاقی اساسات اور اس کو محیط مختلف اخلاقی پہلووں کی طرف اہتمام کے ساتھ توجہ دلائی ہے۔ گویا قرآن کے زاویہ نگاہ سے قانونی احکام کوئی الگ تھلگ (separable) ہدایات نہیں بلکہ ایمان واخلاق پر مبنی ایک وسیع تر نظام کا حصہ ہیں اور اس سے الگ کر کے نہ تو ان کی علمی وعقلی اساسات اور حکمتوں کی توضیح ممکن ہے اور نہ تزکیہ وتطہیر کا وہ مقصد ہی حاصل کیا جا سکتا ہے جس کے پیش نظر شارع کی طرف سے یہ احکام دیے گئے۔ چنانچہ اگر نفاذ شریعت کا مقصد کسی معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنانا ہے تو اس کے لیے منظم کی جانے والی جدوجہد کا ہدف بھی معاشرے کا اسلامی تصور بحیثیت کل ہونا چاہیے نہ کہ محض اس کے بعض اجزا۔
۲۔ شریعت کے نفاذ کے لیے معاشرہ اور نظم اجتماعی کی تقسیم محض انتظامی پہلو سے ہے، جبکہ اخلاقی ذمہ داری کے اعتبار سے معاشرہ ایک ناقابل تقسیم کل کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن ہر جگہ اپنے احکام کا مخاطب بحیثیت مجموعی اہل ایمان کے پورے معاشرے کو بناتا ہے اور انھیں اسی حیثیت میں ان کی پابندی کامکلف ٹھہراتا ہے، جبکہ یہ حکم کی نوعیت ہوتی ہے جو یہ طے کرتی ہے کہ ان میں سے کون سی چیزیں فرد سے متعلق ہیں، کن ہدایات کی تنفیذ کی ذمہ داری سماجی سطح پر معاشرے پر عائد ہوتی ہے اور کون سے امور ہیں جن پر عمل درآمد ایک با اختیار قانونی اتھارٹی پر منحصر ہے۔ یوں قرآن شریعت پر عمل اور اس کی پابندی کو بحیثیت مجموعی پورے معاشرے کی ذمہ داری قرار دیتا ہے اور اس کے نزدیک نفاذ شریعت کا معیاری تصور یہ ہے کہ شرعی حدود کی پاس داری کا جذبہ پورے معاشرے پر غالب ہو اور قانونی وسماجی اداروں کو اس مقصد کے حصول کے لیے وسیلے کی حیثیت سے استعمال کیا جائے، نہ یہ کہ ارباب حل وعقد محض حاکمانہ اختیار کے زور پر سوسائٹی پر دین کے چند مظاہر کو نافذ کر دیں۔
۳۔ قانون کے موثر اور با مقصد نفاذ کے لیے سوسائٹی میں ان ایمانی واخلاقی اساسات اقدار کا احیا اور استحکام ضروری ہے جو قانون کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مذہبی شعور اور اخلاقی حس کو بیدار کیے بغیر قوانین کا ایک ظاہری ڈھانچہ کھڑا کر دینے سے نہ معاشرے کے تزکیے کا مقصد حاصل ہو سکتا ہے اور نہ قانون ہی پر پوری طرح عمل درآمد ممکن ہے۔ اس لیے اگر سوسائٹی کی عمومی ذہنی وفکری فضا کسی قانونی پابندی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو اور قانون کا موثر نفاذ ممکن نہ ہو تو اصل توجہ ایمان واخلاق کو بہتر بنانے اور نفاذ شریعت کے لیے فکری واخلاقی سطح پر زمین ہموار کرنے پر مرکوز کرنی چاہیے جبکہ قانون کے نفاذ میں حالات کی رعایت سے تدریج کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اسی طرح ایسی فاسد رسوم جو معاشرے میں رچ بس گئی ہوں، ان کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے محض قانونی حکم کا بیان کر دینا کافی نہیں، بلکہ سماجی عوامل اورمحرکات کے ذریعے سے لوگوں کے تصورات کی اصلاح کی جانی چاہیے۔
اس بحث کی روشنی میں دیکھیے تو ہمارے ہاں رائج مذہبی تصورات اور ان کی بنیاد پر کی جانے والی جدوجہد سے نفاذ اسلام کی ایک بے حد مسخ شدہ اور نہایت غیر متوازن تصویر سامنے آتی ہے۔ مثلاً:
- اگر کسی معاشرے میں شارع کی ہدایت کے مطابق شادی کے لیے بیٹی بلکہ بیٹے کی مرضی کو بھی کوئی اہمیت نہ دی جاتی ہو اور اس معاملے میں ماں باپ کی پسند کے مقابلے میں اپنا انتخاب بیان کرنے کو غیر صحت مندانہ سماجی رویہ سمجھا جاتا ہو، وہاں یک طرفہ طور پر باپ کے حق ولایت کو قانونی طور پر نافذ کر دینا اور اگر کوئی لڑکی اپنے حق کے استعمال کا موقع نہ پا کر عدالت کے ذریعے سے یا اس کی وساطت کے بغیر اپنی پسند کی شادی کر لے تو کیا اس کے نکاح کو باطل قرار دے کر ’حدود آرڈیننس‘ کے تحت اس کے خلاف بدکاری کا مقدمہ درج کرنے کو شارع کامنشا قرار دیا جا سکتا ہے؟
- اگر کسی معاشرے کی اخلاقی حالت یہ ہو کہ مختلف مذہبی گروہ اعتقادی وفقہی تعبیرات کے اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہوں، ایک دوسرے کو گستاخ رسول، گستاخ امام اور منکر حدیث کہتے ہوں، ایک دوسرے کے خلاف توہین رسالت کے مقدمے درج کراتے ہوں، اور جہاں گروہی مذہبی یا سیاسی اختلافات کی چوکھٹ پر انسانی جان ومال اور آبرو کی قربانی چڑھانا عین دین وایمان کا تقاضا سمجھا جاتا ہو، وہاں یہ فرض کرنے کی گنجایش کس حد تک درست ہوگی کہ کوئی مسلمان توہین رسالت کے سوال کو اپنے کسی ذاتی یا گروہی مفاد کے لیے استعمال نہیں کر سکتا، اس لیے کسی شخص کے خلاف توہین رسالت کا الزام عائد کیا جانا ہی اس کا جرم ثابت ہونے کے مترادف ہے؟
- اگر کسی معاشرے میں کشف والہام انفرادی دائرے سے اٹھ کر ایک باقاعدہ اداراتی صورت اختیار کر چکے ہوں، ان کی بنیاد پر شخصیات اور جماعتوں کے عند اللہ مقبول ہونے یا نہ ہونے کے فیصلے کیے جاتے ہوں، لوگوں کی ان کی طرف دعوت جاتی اور ان کے ساتھ وابستہ ہونے والوں کو نجات کی بشارت دی جاتی ہو، القا والہام کی بنیاد پر مراقبہ وسلوک کے نظام مرتب کیے جاتے بلکہ سیاسی ومذہبی اختلافات میں بھی حق وباطل کی تفریق کرنا ایک عام چلن ہو، جہاں خواب اور بشارات کسی کے مامور من اللہ ہونے کا ایک مستند ذریعہ سمجھے جاتے ہوں، ایسی فضا میں اگر کوئی شخص ’’شبانی سے کلیمی دو قدم ہے‘‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کر دے اور عام لوگ اس کے فریب میں مبتلا ہو کر اسے ایک ’’امتی نبی‘‘ مان لیں تو انھیں کس حد تک اس کا قصور وار ٹھہرایا جا سکتا اور راہ راست پر لانے کی ہمدردانہ کوشش کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے محض ان کا معاشرتی مقاطعہ کرنے اور قانونی اقدامات کے ذریعے سے انھیں مسلمانوں سے الگ کر دینے پر اکتفا کے طرز عمل کو کس حد تک اخلاق، حکمت اور دعوت دین کے تقاضوں کے مطابق قرار دیا جا سکتا ہے؟
- ایک ایسی سوسائٹی جس میں فحاشی اور جنسی بے راہ روی کے محرکات وترغیبات بکثرت میسر جبکہ مناسب عمر میں آسان شادی کے مواقع معدوم ہوں، جہاں عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کے تحت در آنے والے تہذیبی واخلاقی اثرات اور ایک ناہموار سماجی ڈھانچے سے پیدا ہونے والی ترجیحات بنیادی کردار ادا کرتی ہوں، جہاں پیشہ ورانہ بدکاری معاشرے میں خواتین کی محکومانہ حیثیت اور ان کے استحصال پرمبنی ایک مضبوط نظام کی پیداوار ہو، اس صورت حال میں زنا کی سزا کو محض قانون کی کتاب میں درج کر دینے سے معاشرے کی اخلاقی تطہیر وتربیت کے وہ تقاضے کیونکر پورے ہوں گے جو شریعت کا اصل مطلوب ہے اور کیا دین کے تجویز کردہ اخلاقی وسماجی ڈھانچے کے بغیر یہ سزائیں ایک بے جوڑ سی چیز دکھائی نہیں دیں گی؟
- ایک ایسے معاشرے میں جہاں تقسیم دولت میں تفاوت اور طبقاتی تفریق جرم کے محرکات میں ایک اہم محرک کی حیثیت رکھتا ہو، روزگار اور معاشی مواقع سے محروم نوجوان چوری ڈاکے کو ذریعہ روزگار بنا لینے پر مجبور ہو جائیں، نظام انصاف ظلم اور نا انصافی کا نمونہ بن چکا ہو اور جھوٹے مقدمات کا تناسب اگر زیادہ نہیں تو جینوئن مقدما ت سے کم بھی نہ ہو، معاشرے کے طاقتور طبقات قانون کی گرفت سے کلیتاً آزاد ہوں جبکہ قانون کا پھندا صرف کمزور اور سیاسی پشت پناہی سے محروم مجرموں کے گلے میں پورا آتا ہو، ایسے معاشرے میں سرقہ اور حرابہ کی سزاؤں کو قانون کا حصہ بنا دینے اور سوسائٹی کی اخلاقی صورت حال سے صرف نظر کرتے ہوئے انھیں جوں کا توں نافذ کرنے پر اصرار کو کیا جائز طور پر نفاذ شریعت کی طرف پیش رفت کہا جا سکتا ہے؟
- ایک ایسا معاشرہ جہاں لوگوں کی اکثریت طلاق کے شرعی طریقے اور اس کی حکمتوں سے ناواقف ہو، جہاں معاشرتی اور معاشی مشکلات ومسائل نے لوگوں سے صبر وحوصلہ اور تحمل چھین کر انھیں ذہنی تناؤ کا مریض بنا دیا ہو، جہاں مطلقہ عورت کے لیے باعزت زندگی گزارنا یا عقد ثانی کرنا بے حد مشکل ہو اور طلاق مرد کے بجائے حقیقت میں عورت کے لیے سزا قرار پائے، کیا ایسے معاشرے میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو لازماً نافذ قرار دینا حکمت ومصلحت پر مبنی شریعت کا منشا ہوگا اور کیا اس سے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کو پامال کرنے کی سزا فی الواقع اس کے اصل مجرم یعنی شوہر ہی کو ملے گی؟
یہ چند سوالات محض نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں، ورنہ نفاذ اسلام کے ناقص، محدود اور یک طرفہ تصور کے تحت کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیجیے توقدم قدم پر وہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے جسے سیدنا مسیح علیہ السلام نے اپنی الہامی زبان میں ’’مچھروں کو چھاننے اور اونٹوں کو نگل لینے‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر شرعی احکام کے درست اور منصفانہ نفاذ کے لیے انفرادی وسماجی اخلاقیات کا ڈھانچہ موجود نہ ہو جو اپنے داخلی اور خارجی دباؤ کے تحت قانون پر اس کی لفظ اور روح کے مطابق عمل درآمد کرا سکے، اور اس کی غیر موجودگی میں دوسرے درجے میں ہی سہی، کمزور طبقات کی داد رسی کے لیے موثر اور منصفانہ قانونی انتظام بھی موجود نہ ہو تو قانون کی کتاب میں درج کی جانے والی اسلامی شقیں بھی عملاً کمزور اور بے بس طبقات کے استحصال پر منتج ہوں گی۔ مذہبی طبقے کا یہ استدلال یقیناًدرست ہے کہ غیر منصفانہ نظام کے تحت قانون کے غلط استعمال کا ذمہ دار اصل قانون کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا، لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی اتنی ہی درست ہے کہ اگر عملی قانونی ڈھانچہ ظلم وستم اور نا انصافی پر مبنی ہو اور اس میں کوئی بہتر سے بہتر قانون بھی انصاف فراہم کرنے کے بجائے ظلم پر منتج ہو جائے تو ایسے نظام پر اسلامی قوانین کی چادر ڈال کر مطمئن ہو جانا بھی دین یا معاشرے کی کوئی خدمت نہیں اور اس سے زیادہ اہم چیز یہ ہے کہ قانونی ڈھانچے میں ان بنیادی تبدیلیوں کے لیے جدوجہد کی جائے جن کے بغیر شرعی قوانین کے فوائد اور برکات سے مسلمانوں کا معاشرہ بہرہ مند نہیں ہو سکتا۔
مکاتیب
ادارہ
(۱)
(زیر نظر تحریر میں فاضل مکتوب نگار نے اکتوبر ۲۰۱۰ء کے شمارے میں شائع ہونے والی بحث کے بعض اہم نکات کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر واضح کیا ہے۔ میرے خیال میں سابقہ بحث کی روشنی میں ان میں سے بیشتر نکات پر تبصرہ محض تکرار ہوگا، البتہ مکتوب نگار نے ریاست پاکستان کی خارجہ پالیسیوں اور پاکستانی شہریوں کے لیے ان کی پابندی کے ضروری یا غیر ضروری ہونے کے ضمن میں بعض اہم علمی اور اصولی سوالات اٹھائے ہیں اور اس طرح یہ بحث دور جدید میں اسلامی ریاست کے عملی ڈھانچے اور موجودہ مسلم حکومتوں کی شرعی حیثیت کے اس موضوع سے مربوط ہو گئی ہے جس پر ’الشریعہ‘ کے زیر نظر شمارے سے بحث ومباحثہ کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ ان تمام سوالات کے حوالے سے راقم الحروف اپنا نقطہ نظر القاعدہ کے راہ نما جناب ایمن الظواہری کی کتاب ’’سپیدۂ سحر اور ٹمٹماتا چراغ‘‘ پر اپنے مفصل تبصرے میں پیش کرے گا، ان شاء اللہ۔ مدیر)
بعض قابل قدر مضامین کے ساتھ ساتھ ’الشریعہ‘ کے شماروں میں ایسے گل بھی کھلتے ہیں جن کا ظاہر دلنواز ہونے کے باوجود خوشبو سے بالکل محروم ہوتا ہے۔بحث ومباحثہ کا حصہ گویا ایک اکھاڑہ ہے جس میں مختلف پہلوان اپنا زور دکھاتے ہیں۔ راقم تماشائی بن کر فن کاروں کے مظاہرے دیکھتا ہے۔ ایک دفعہ اس اکھاڑے میں اترنے کی کوشش بھی کی مگر ’الشریعہ‘ کے صفحات نے جگہ نہ دی۔ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے جناب عمار خان نے القاعدہ وطالبان او رموجودہ افغان جنگ کے عنوان سے اکتوبر ۲۰۱۰ء کے شمارے میں یہ نیا گل کھلایا ہے۔ اس سلسلے میں راقم کی رائے اور بعض چیدہ چیدہ نکات پر تبصرہ درج ذیل ہے۔
افغانستان پر امریکی حملے کے حوالے سے جناب نے پہلے ہی پیراگراف میں لکھا: ’’جس نے بہت جلد انتہا پسندی اور تشدد پسندی کی شکل اختیار کر لی۔‘‘
اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ جناب کئی سیڑھیاں بیک وقت پھلانگ کر بات کو اس نتیجے تک لے آئے۔ اس انتہا تک پہنچانے میں اس حملے کے علاوہ دیگر بہت سے عوامل کا اہم کردار ہے جن سے صرف نظر درست نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ انتہا پسندی اور شدت پسندی موجودہ دور کی ایسی اصطلاحات ہیں جن کے واضع کفار ہیں اور وہ ان کا عملی اطلاق مسلمانوں اور بالخصوص جہاد ومجاہدین پر کرتے ہیں۔ انھوں نے ’’صلح کلیت‘‘ کو اعتدال کے ہم معنی قرار دے کر مسلمانوں کے ہر اس عمل کو ان کی سند دینا شروع کر دی جو اس مزعومہ اعتدال کے خلاف ہو۔ فی نفسہ ہر دو رویوں کو مذموم مان لیا جائے، تب بھی کسی فعل پر انھیں منطبق کرنا ایک اضافی امر ہے۔ ہو سکتاہے آپ کسی فعل پر یہ حکم لگائیں اور اس کے برعکس فاعل اسے اعتدال قرار دے۔ انھیں درست طو رپر اپلائی کرنے کے لیے خاص طور پر ان حالات کا مطالعہ ضروری ہے جن کے تقاضے پر فاعل نے ایسا فعل انجام دیا ہے۔ ممکن ہے جن حالات سے وہ دوچار ہو، وہ اسی ’’انتہا اور تشدد‘‘ کا تقاضا کرتے ہوں۔ ان مخصوص حالات میں یہ فعل عین اعتدال ہو، مگر حالات کے اس تناظر سے ہٹ کر دیکھا جائے تو پر تشدد اور تطرف نظر آئے۔ کفار کے ہاں سے درآمد شدہ ایسی اصطلاحات کے الم غلم استعمال سے اجتناب بہتر ہے۔
مولانا سنبھلی کے نقل کردہ اقتباس سے بھی میں اتفاق نہیں کرتا۔ یہ حکیمانہ تدبیر اور جرات کا ثبوت نہیں بلکہ احمقانہ تدبیر اور حماقت کا ثبوت ہوتا۔ یہ تدبیر حکمت کی آڑ میں بزدلی کا سبق ہے جس کی علت جبار وقت کے حرب وضرب کا خوف ہے۔ جابر وظالم کے سامنے سر جھکا کر اس کے جائز ناجائز مطالبات مانتے چلے جانے کا نام قطعاً حکمت نہیں۔ جرات کے اس ثبوت سے شہ پا کر کل کلاں کو وہ مزید مطالبات کی فہرست ہاتھوں میں تھما دیتا تو تب کیا ہوتا؟ خلافت کو آمریت کہہ کر جمہوریت کے قیام کا مطالبہ کرتا تو؟ انسانی حقوق کی پامالی کو حملے کے لیے وجہ جواز بنا لیتا تو؟ جیسے دہشت گردی کی اس جنگ میں امریکہ کا رفیق سفر بننے کے باوجود آئے دن پاکستان سے ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ابوجندل کے واقعے سے استدلال دو وجوہ سے خام ہے۔ان میں سے ایک یہ کہ وہ انھی کی قید سے بھاگ کر آئے تھے اور جانا نہیں چاہ رہے تھے۔ آقاے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے حکماً انھیں واپس بھیجا۔ بہتر تھا ملا عمر پر دباؤ ڈال کر ان کے حکم کے ذریعے اسامہ کو حوالہ امریکہ کر دیا جاتا۔
تمام شرکاے بحث نے بالواسطہ یا بلا واسطہ یہ تسلیم کیا کہ القاعدہ نے ٹاورز پر حملہ کر کے ارتکاب جرم کیا، ماسوائے مغل صاحب کے۔ میں اس معاملے میں جناب زاہد صدیق مغل کا ہم نوا ہوں۔ جناب محمد عمار خان نے اس جرم کی بنا دو اصول قرار دیے۔ ایک یہ کہ جن پر حملہ ہوا، وہ غیر مقاتلین تھے اور غیر مقاتلین پر حملہ ناجائز اور گناہ ہے۔ دوسرا یہ کہ القاعدہ نے ایک اسلامی ریاست کو مستقر بنا کر طالبان سے بالا بالا ہی یہ کام کر ڈالا۔ شرعی اصول یہ تھا کہ انھوں نے اقدام کرنا تھا تو ملکی قیادت سے اجازت لیتے۔ اگر اجازت ملتی، تب یہ قدم اٹھاتے (گو کہ حملہ اس صورت میں بھی جائز نہ ہوتا کیونکہ پہلے شرعی اصول کی خلاف ورزی پھر بھی لازم آتی)۔ اس تنقیح کے بعد مدار بحث صرف پہلا اصول رہ گیا کہ غیر مقاتلین پر حملہ کیا۔ میں یہاں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ یہ اصول انھیں (یعنی القاعدہ کو) بھی تسلیم ہے۔ اس پر تو کوئی اختلاف نہیں۔ اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ موجودہ جمہوری حکومتوں میں وہ عوام کو زمرۂ مقاتلین میں شمار کرتے ہیں اور آپ نہیں کرتے، لہٰذا اسے آپ ان کی خطا سے تو تعبیر کر سکتے ہیں، شرعی اصول کی پامالی کا الزام نہیں دے سکتے۔ اگرجناب محمد عمار خان کا فہم دین انھیں رائے رکھنے اور دینے کا حق دیتا ہے تو انھیں اس حق سے کس بنیاد پر محروم کیا جا سکتا ہے؟ غیر مقاتلین جیسے عورتیں، بچے، تاجر، کسان، خدام، مزدور، قیدی اور زخمی وغیرہ کو قتل نہ کرنے سے متعلق جو احادیث جناب محمد عمار خان نے مغل صاحب کے جواب میں پیش کیں، اگرچہ ان میں اس بات پر کوئی دلالت نہیں کہ موجودہ جمہوری نظام کے حصہ دار غیر مقاتلین ہوں گے، مگر مان بھی لیا جائے تب بھی بات خطا یا تاویل سے آگے نہیں جا سکتی۔
ان دواصولوں پر تفریع بٹھاتے ہوئے جناب محمد عمار خان نے موجودہ افغان جنگ کے جہاد ہونے سے ہی انکار کر دیا۔ اس کا جو جواب جناب زاہد الراشدی صاحب نے دیا، وہ خوب ہے۔ میں یہاں تین باتوں کی وضاحت کرتا ہوں۔
۱۔ جناب محمد عمار خان نے اس پر جو احادیث پیش کیں، شاید اس موقع پر المطلق اذا اطلق یراد بہ الفرد الکامل کے معروف قاعدے سے ذہول ہو گیا، ورنہ لا دین لمن لا امانۃ لہ، لا صلاۃ لم یقرا بفاتحۃ الکتاب، لا وضو لمن لم یقرا ببسم اللہ اور آیۃ المنافق ثلاث ..... وان صام وصلی وزعم انہ مسلم جیسی احادیث سے اس طریق استدلال کے مطابق نہ وضو ہوگا نہ نماز نہ اسلام نہ دین۔
۲۔ جناب عمار کے پیش کردہ دو اصولوں کے درمیان جو باریک اور دقیق فرق ہے، اسے ایک تاریخی واقعے سے واضح کرنا چاہوں گا۔ خوارزم شاہ علاؤ الدین نے چنگیز خان کے سفرا یا تجار کو بلا کسی معقول وجہ کے قتل کرا دیا جو ایک قبیح فعل اور شرع کی خلاف ورزی تھا۔ یہ واقعہ تاتاریوں کی صورت میں عالم اسلام پر ہولناک تباہی کا سبب بنا۔ جو کچھ ہوا، ہوا۔ کسی ایک عالم نے بھی یہ رائے نہیں دی کہ تاتاریوں سے جنگ جہاد نہیں، کیونکہ پہلے شرعی اصول کی خلاف ورزی ایک مسلم حکمران کی طرف سے ہوئی، بلکہ ابن تیمیہ جیسے جبل علم نے ان کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا اور بنفس نفیس تلوار اٹھا کر میدان میں آئے۔
۳۔ امریکہ نائن الیون سے پہلے کا مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہے، ۱۹۹۰ء میں ہونے والی خلیج کی پہلی جنگ کے وقت سے۔ بلکہ نائن الیون سے پہلے اور ۱۹۹۰ء کے بعد بل کلنٹن کے زمانہ صدارت میں بھی افغانستان کے خلاف باضابطہ طبل جنگ بجا چکا ہے جب اس نے کروز میزائل کے ذریعے اسامہ پر حملہ کیا تھا اور طالبان کی خود مختاری کو پامال کیا تھا، بلکہ عالمی اصول جنگ کی خلاف ورزی بھی کی تھی۔ خلاصہ یہ کہ نائن الیون کا واقعہ اس کی ابتدا ہے نہ بنیاد۔
جناب محمد عمار خان کا یہ فرمان بہت حد تک محل نظر ہے کہ ’’یہ ہر قانونی تعریف کے مطابق دہشت گردی کا ایک واقعہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ پوری مسلم دنیا نے بیک زبان اس کی مذمت کی۔‘‘
ابھی تک دہشت گردی کی کوئی ’’قانونی‘‘ تعریف طے نہیں کی جا سکی۔ اگر اس کا کوئی خاص تصور ذہن میں رکھ کر جناب عمار نے یہ بات لکھی ہے تو اسے زینت قرطاس بنائیں تاکہ اس کا جائزہ لیا جا سکے۔ پوری مسلم دنیا کی طرف سے اس کی مذمت اور اس سے براء ت کا اعلان یہ ثابت کرنے کے لیے قطعاً مفید نہیں کہ یہ دہشت گردی تھی، اس لیے کہ باستثناے چند پوری مسلم دنیا کے دل امریکی حرب وضرب کے خوف سے معمور ہیں۔ انھوں نے جہاد کو جمہوری جدوجہد یعنی جلسے جلوس، احتجاج، ہڑتالیں، دھرنے، سیاسی جماعتیں تشکیل دینے، اپنے حکمرانوں سے اقتدار لینے، خود حکومت کرنے یا حکمرانوں کی طرف سے مخالف آوازوں کو دبانے میں ہی محدود کر دیا ہے۔
جناب عمار خان کا یہ کہنا کہ مسلم ریاست کے شہریوں کے لیے اپنے نظم اجتماعی کے فیصلوں سے ہٹ کر کوئی اقدام کرنا جائز نہیں بلکہ پاکستانی شہریت کے حامل ہوتے ہوئے طالبان افغانستان کے ساتھ شریک جنگ ہونا بھی جائز نہیں، ایک نئی بحث کا دروازہ کھولتا ہے۔ اس کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ ہر حلف اور معاہدہ معروف کی شرط سے مشروط ہوتا ہے، یہاں تک کہ اطاعت امیر بھی۔ اس حلف ومعاملہ کی پابندی کیا شرعی حیثیت رکھتی ہے جس میں معروف سے تجاوز کیا گیا ہو؟
۲۔ ملکوں کی موجودہ تقسیم بیسیویں صدی کی جدت ہے، یعنی ہر ملک کی مخصوص قانونی سرحد ، ان کے اندر مخصوص قانون اور پالیسیوں کا نفاذ، شہری حقوق کے لیے شہریت کا لزوم، عبور سرحد کے لیے ریاستی اجازت کی ضرورت وغیرہ۔ ان تمام امور کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ سیاسی تفریق نہیں؟ مذہبی تفریق اگر سم قاتل ہے تو کیا سیاسی تفریق زہر کا پیالہ نہیں؟
۳۔ کیا اسلامی نظم مملکت میں یہ تجزی ہے کہ کوئی فرد مخصوص علاقے کا قانونی باشندہ ہے، دوسرے کا نہیں؟ باجازت ریاست دوسرے ملک میں جا سکتا ہے مگر قانوناً وہاں کے معاملات میں دخیل نہیں ہو سکتا؟ یہاں تک کہ ایک طرف یہ انتظامی امور ہوں اور دوسری طرف شرعی فریضہ ہو تو اس کی ادائیگی کے لیے اس قانون شکنی سے وہ گناہ گار تصور ہوگا۔ کیوں؟
۴۔ ان ملکوں کے امرا وحکام کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا ان کی اطاعت بھی اسی طرح لازم ہے جس طرح خلیفۃ المسلمین کی؟ کیا ان کے خلاف خروج پر بھی وہی وعید ہے جو خلفاے وقت کے خلاف خروج پر تھی؟
۵۔ کیا اسلامی نظم مملکت میں کثیر مستقل بالذات حکمرانوں کی گنجائش ہے؟ یا لازمی ہے کہ تمام مسلمین کا امیر واحد ہو اور دیگر علاقوں کے ولاۃ اسی کے حکم سے معزول ومنصوب ہوں اور اس کے ماتحت تصور کیے جائیں؟
۶۔ اصل اسلامی نظم مملکت کیا ہے؟ خلافت؟ جمہوریت؟ شخصی حکومت وبادشاہت یا حالات کے اعتبار سے جس کو بھی اختیار کر لیا جائے، درست ہوگا؟
۷۔ مسلم دنیا کا موجودہ حکومتی نظم عبوری ہے یا اصل ہے؟ عبوری ہے تو اس کے احکام کیا ہیں؟
حافظ محمد سمیع اللہ کا یوں فرمانا کہ ’’کیا القاعدہ کا کوئی وجود بھی ہے؟‘‘ میں سمجھ نہیں سکا کہ یہ واقعی لاعلمی کا اظہار ہے یا طنز ہے؟ اگر اظہار حقیقت ہے تو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ القاعدہ عرب محاربین پر مشتمل ایک عسکری تنظیم ہے، ۱۹۸۴ء میں جس کی بنیاد ڈاکٹر عبد اللہ عزام شہید نے رکھی تھی۔ آپ مصری الاصل اور اسلام آباد کی اسلامی یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ جہاد افغانستان کے ساتھ خاص تعلق تھا۔ اسامہ بن لادن وغیرہ کا جہاد کی طرف متوجہ ہونا ڈاکٹر عزام شہید کی کوششوں کا ثمرہ تھا۔ ۱۹۸۹ء کی کسی تاریخ کو آپ پشاور میں بم بلاسٹ میں شہید کیے گئے۔
آگے صفحہ ۴۷ پر مزید گزارشات کے عنوان سے دو اڑھائی صفحات میں جناب عمار خان نے جو کچھ سپرد قلم کیا ہے، سچی بات یہ کہ پوری کوشش اور کئی دن کے غور کے بعد بھی اسے مکمل نہیں سمجھ سکا۔ نہ ربط میسر ہوا، نہ پیرا گرافس واضح ہوئے، نہ جملوں کا مفہوم ہی متعین کر سکا۔ ایسا لگتا ہے جیسے کہنے والا خود بھی ذہنی تذبذت کا شکار ہے اور یکسو نہیں۔ جو کچھ وہ کہنا چاہتا ہے، وہ کہہ نہیں پا رہا۔ مگر یہ سوچ کر دل کو مطمئن کیا کہ ’الشریعہ‘ میں ان افراد کے مضامین چھپتے ہیں جو جدید اہل علم وفن میں بالغ نظر ہیں اور جن کا ذہنی وفکری افق بہت وسیع ہے۔ ہم جو کہ بڑے روایتی مذہبی طبقے کے فرد ہیں، اسے کہاں سمجھ سکتے ہیں۔ بہرحال صحیح یا غلط، جو بھی سمجھا، سپرد قلم کرتا ہوں۔
جناب نے فرمایا:
۱۔ جہادی عناصر کے ساتھ ہمارا رویہ رومانوی اور تخیلاتی ہے۔ ہم انھیں تنقید سے مبرا سمجھتے ہیں۔
میرے خیال میں یہ کہنا بجائے خود ایک خیال ہی ہے جو زمینی حقائق کے برعکس اور ان کے بارے میں دیے گئے کمنٹس کی غلط تعبیر پر مبنی ہے۔ کسی کی تعریف وتمجید کا یہ مطلب لینا کہ اسے تنقید سے مبرا سمجھا جاتا ہے، غلط ہے۔ میں ایسے کئی افراد وبزرگوں کی نشان دہی کر سکتا ہوں جنھوں نے طالبان کے کئی کاموں پرتنقید کی اور جذبہ خیر خواہی کے ساتھ انھیں سمجھایا۔ ہاں، اسے وہ میڈیا پر اور عوام میں لے کر نہیں آئے۔
۲۔ زمینی حقائق کے مطابق طالبان کا برسر اقتدار آنا اولاً سیاسی اور ثانیاً مذہبی ونظریاتی مسئلہ ہے۔
ثانیاً مذہبی ونظریاتی مسئلے کا مطلب تو میں نہیں سمجھ سکا، مگر پہلے حصے سے یہ سمجھا ہوں کہ اس وقت کے سیاسی حالات افغانستا ن میں ایسی کسی بھی قوت کا تقاضا کر رہے تھے کہ جو قوت بھی ان سے فائدہ اٹھاتی، وہ اقتدار حاصل کر لیتی، چنانچہ طالبان نے اس سے فائدہ اٹھایا اور برسر اقتدار آ گئے۔ افغانستان کا کوئی ایسا مخصوص جغرافیہ بھی جناب کی نظر میں ہوگا جس نے طالبان کی مدد کی، مگر ان کے علاوہ کسی کی مدد نہیں کر سکا، یہاں تک کہ امریکہ کی بھی نہیں۔ لہٰذا ان کا ورد ہونا کوئی اعجوبہ نہیں۔ اگر ہم یہ کہیں کہ اللہ کی مدد ونصرت ان کے ساتھ تھی جس نے فتح دلوائی، اسی نے ایسے حالات تخلیق کیے اور راستے ہموار کیے جن کے نتیجے میں طالبان کا ورود ہوا، ایسے ہی بے کس مجاہدین کے ہاتھوں اللہ نے روس کو پٹوایا، آگے کے حالات بھی اسی کے پیدا کردہ ہیں جو پٹنے کے لیے وہ امریکہ بہادر کو افغانستان لے آیا اور اب اللہ پھر کم من فئۃ قلیلۃ الخ ولیمحص اللہ الذین آمنوا الخ اور لا تخافوا الخ کا منظر دکھا رہا ہے تو یہ رومانی اور تخیلاتی رویہ ہوگا۔ اس کا مطلب یہ بنے گا کہ ہم زمینی حقائق کا ادراک نہیں رکھتے جس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ ہم انھیں تنقید سے مبرا سمجھتے ہیں۔ یا اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا برسر اقتدار آنا کوئی شرعی مسئلہ یا کسی ایسے شرعی فرض کی تکمیل نہیں جس کی پیروی ہمارے اوپر لازم ہو اور ہم بھی خواہی نخواہی اسے یہاں لاگو کرنے کی کوشش کریں، بلکہ سیاسی طور پر جیسے ہمارے یہاں حکومتوں میں ادل بدل ہوتا ہے، ایسے ہی وہاں بھی پہلو کے بعد حکومت ان کے ہاتھ آ گئی۔ جغرافیائی طور پر یہ ایک الگ مملکت ہے جس کے افراد اپنا نظم طے کرنے میں آزاد ہیں۔ ان کا نظم ہمارے لیے لائق تقلید ہو تو ہو، واجب التقلید بہرحال نہیں، کیونکہ ہم جغرافیائی طور پر الگ اور مستقل مملکت کے حامل ہیں۔
۳۔ طالبان کا مخصوص مذہبی پس منظر ہے۔ معلوم نہیں اسے طالبان کی خصوصیت قرار دینے کی کیا وجہ ہے؟ ہمارے یہاں تو ہر طبقے اور جماعت بلکہ ہر فرد یہاں تک کہ جناب کا بھی مخصوص مذہبی پس منظر اور مخصوص فکری سانچہ ہے۔
۴۔ اسی پس منظر کی وجہ سے ان کا اقتدار کچھ مضمرات اور کچھ نیم مذہبی وسیاسی فوائد کا حامل بھی ہے، مگر مضمرات زیادہ اور فوائد کم ہیں، وہ بھی خاص زاویے سے۔ گویا عملاً فائدہ کالمعدوم ہی ہے۔ مذہبی فائدہ قدیم خلافت (جو کہ قصہ پارینہ ہو چکی) کے طلب گاروں کی محض جذباتی تسکین اور سیاسی فائدہ اہل تشیع کے سامنے رکاوٹ ہے۔ یہی اہم ترین فوائد ہیں اور وغیرہ سے جن کی طرف اشارہ کیا گیا، وہ یقیناًان سے کم ہیں۔ اسلام کا نفاذ اگرچہ اپنے مخصوص مذہبی پس منظر کے مطابق ہی ہو، منکرات کا خاتمہ، مظالم واستحصالات سے نجات، امن وامان کا قیام، سادہ طرز حکمرانی، اسلام اور امت سے بے لچک وابستگی وغیرہ قابل قدر تو ہے مگر ......۔
۵۔ پاکستان اپنے مفادات کی خاطر طالبان کا ہم درد ہے، جبکہ میرے خیال میں یہ ماضی کا قصہ ہے، حال کی واردات نہیں۔
۶۔ بعض معاملات میں سمجھ داری کا ثبوت فراہم کرنے کے باوجود وہ زیادہ سمجھ دار نہیں، کیونکہ کئی معاملات میں انھوں نے عالمی سیاست کے ڈائنامکس کا خیال نہیں رکھا۔ عالمی سیاست جس میں مسلمان تھالی کا بینگن اور مصلحت پسند ہیں، اس کے علی الرغم انھوں نے کسی ’’مصلحت‘‘ کو روا نہیں رکھا، یہاں تک کہ نہ صرف بدھا کے مجسمے منہدم کرا دیے بلکہ القاعدہ جیسے تخریب کاروں کو بھی پناہ دے دی۔ انھیں چاہیے تھا کہ وہ عالمی سیاسی ’’مصلحتوں‘‘ کا خیال کرتے اور ہرگز یہ کام نہ کرتے۔
۷۔ طالبان ہمارے یہاں کے اہل علم سے راہ نمائی لینے کے محتاج ہیں۔
مگر یہاں کے وہ اہل علم کون سے ہیں؟ جملہ مذہبی عناصر تو یوں نکل گئے کہ اپنی جذباتیت ورومانویت کی وجہ سے یہاں کی قدیم مذہبی قیادت کی بصیرت وتجربہ کو خود فراموش کر چکے، جبکہ روایتی اور عام مذہبی حلقے صورت حال کو سطحی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ پس یہ کیا راہ نمائی دیں گے؟ نیز روایتی مذہبی قیادت ذہنی طو رپر یکسو نہیں، وہ مصلحت پسندی اور نام نہاد حمیت کا شکار ہیں تو راہ نمائی دینے والا کون رہا؟ میر ے خیال میں ماڈریٹ اہل علم مودودی واصلاحی مکتب فکر کے لوگ یا غامدی صاحب اور ان کے خوشہ چین یا وہ جو کھلے عام طالبان کی تنقید کا فریضہ سرانجام دیں، جن کے نزدیک جہاد ایک فکر یا درس وتدریس کی کوئی چیز ہے، جو ۳۲ سال سے مسلسل برسر پیکار بندۂ صحرائی اور مرد کہستانی کی نفسیات واخلاق سے واقفیت نہیں رکھتے۔ دونوں کے زاویہ نظر اور نقطہ نگاہ میں ہی فرق ہے۔
اس سب کے باوجود میں حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کے ان الفاظ سے اتفاق کرتا ہوں جنھیں رسالے کے سرورق پر چھاپا گیا ہے۔
محمد بدر عالم
ibntaqi1970@gmail.com
(۲)
بخدمت گرامی قدر حضرت علامہ زاہد الراشدی مدظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
۱۔ اسلامی دنیا کے عظیم اسکالر ڈاکٹر محمود احمد غازی بھی اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچ گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ چنیوٹ کے احباب انھیں ایک سیمینار میں بلانا چاہتے تھے، لیکن ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ غازی صاحب کی وفات کا صدمہ صرف ان کے خاندان کا صدمہ نہیں، سبھی اہل علم دل تھامے بیٹھے ہیں۔ افسوس کہ ایک اور دیدہ ور دنیا سے چلا گیا۔ ان کے نام کے ساتھ ’ڈاکٹر‘ کا سابقہ ان کے شایان شان نہ تھا۔ وہ علم ونظر کی بلندیوں میں پروفیسروں سے بہت آگے تھے۔ بلاشبہ وہ نابغہ عصر شخص تھے۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم گزشتہ سال جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد تشریف لائے تھے تو ان سے استفادہ کا موقع ملا۔ ایک نجی مجلس میں احباب ان کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہے حالانکہ ان سے سوال وجواب کی صورت میں استفادہ کرنا چاہیے تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائیں اور ان کی مغفرت فرما دیں۔ آمین
۲۔ کراچی کے علماء کرام نے اسلامی معیشت او راسلامی بینکاری کی جو بحث چھیڑی تھی، الشریعہ میں اس پر تحریری مباحثہ جاری ہے۔ خالص فقہی مباحث میں کوئی رائے دینے کا احقر اہل نہیں ہے، صرف ایک سوال اٹھانا چاہتا ہے۔ بینکوں کے طریق کار کو غیر اسلامی قرار دے کر پاکستان بھر کے مفتی حضرات نے فتویٰ جاری کیا تھا اور اسے زبان حال سے اجماع کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ یہ فتویٰ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کی طرف سے شائع ہوا۔ جوابی طور پر مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے اس متفقہ فتویٰ کی بارہ غلطیاں واضح کیں کہ ان محترم حضرات نے لکھا ہے کہ بنکوں کا طریق کار یہ ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بینکوں کے طریق کار کے متعلق بارہ غلط اطلاعات کی بنیاد پر جو فتویٰ جاری کیا گیا تھا، اس کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ کیا کسی نے مولانا عثمانی مدظلہ کی تصحیح کو چیلنج کیا ہے؟ اگر نہیں تو کیا محترم مفتیان کرام اپنے اس ’اجماعی‘ فتوے پر نظر ثانی کریں گے؟ کیا سنی سنائی باتوں کو بنیاد بنا کر فتویٰ دیا جا سکتا ہے؟
مشتاق احمد
ادارہ مرکزیہ دعوت وارشاد، چنیوٹ
(۳)
مکرمی جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب
ماہ اکتوبر کے شمارے میں آنجناب کے افکار ونظریات اور اکابر علما کے رشحات قلم نظر سے گزرے۔ آپ کے پیش کردہ موقف اور تجزیہ سے اتفاق یا اختلاف اپنی جگہ، مگر اس حساس موضوع پر غور وخوض، تحقیق وتنقید اور فکر وتدبر کا دروازہ آپ نے بہرحال کھول دیا ہے۔ آپ کی یہ محنت قابل قدر اور لائق تحسین ہے۔ اب اصحاب علم وتحقیق کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ کے پیش کردہ موقف کا مختلف پہلووں سے جائزہ لیں اور راہ مستقیم کی طرف ہماری راہنمائی کریں۔
آپ کے موقف میں القاعدہ پر تنقید درست مگر پرویزمشرف کی امریکہ نواز پالیسی کی پابندی اور ایک اسلامی خطے کے باشندوں کا دوسرے خطے کے باشندوں کا ساتھ نہ دینا اور اپنی دفاعی پوزیشن میں امریکہ کے خلاف لڑنے کو ’’جہاد‘‘ نہ سمجھنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ افغانستان میں روس او راب امریکہ کے خلاف لڑائی کو ہمارے تمام اکابر نے جہاد ہی کہا ہے۔ آنجناب کا جہاد نہ سمجھنا آپ کی ذاتی رائے تو ہو سکتی ہے، جمیع اکابر علما کا موقف نہیں۔بہرحال یہ موضوع قابل غور فکر ہے، لہٰذا اکابر علما کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ موجودہ حالات میں علما اور نوجوانوں کے کردار کے حوالے سے صحیح راستے کا تعین فرمائیں اور نائن الیون کے بعد پیدا شدہ صورت حال اور افغان جنگ کے پاکستان پر اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی نسل کی راہ نمائی کریں تاکہ ہمارے نوجوان جذباتیت سے ہٹ کر صحیح راہ پر گامزن ہو سکیں۔
حافظ خرم شہزاد
گوجرانوالہ
امراض گردہ اور بد پرہیزی
حکیم محمد عمران مغل
دولت کی فراوانی اور بھرپور جوانی کے ٹکراؤ سے جو شعلے بلند ہوتے دیکھے گئے ہیں، انھوں نے کئی گھروں کا ستیاناس کر دیا ہے۔ آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گاکہ دنیا کے تمام مذاہب کی برگزیدہ ہستیوں نے دولت کی دیوی کو ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ بہت سے مریضوں کے واقعات ایسے ہیں کہ ہر واقعہ داستان عبرت لیے ہوئے ہے۔
گورنر ہاؤس لاہور کے سامنے چھوٹی سی آبادی میں ایک گھرانے کا مریض اکرام چنہ ہاؤس گردوں کے امراض میں مبتلا ہے۔ دائیں بائیں معالجین صاحبان نے گردے فیل قرار دے کر گھر بھیج دیا کہ گردہ بدلنا پڑے گا۔ باری باری مزید معالج آ جا رہے ہیں۔ اتفاق سے مجھے بھی دعوت دی گئی تو پتہ چلا کہ مریض کھانے پینے کا حد سے زیادہ رسیا ہے اور بدپرہیز بھی ہے۔ مجھ سے پہلے طب مشرق کو آزمانا مناسب نہیں سمجھا۔ دل کی بے قاعدہ حرکات، بی پی ہائی، سانس اور جسم پھولا ہوا، رنگت پیلی۔ میرے ذہن میں آیا کہ مریض ہیپا ٹائٹس سی کا شکار ہے۔مریض کا باپ بھی صحت مند تھا اور اس کے جوان بچے بھی ہر وقت پاس رہتے تھے۔ میں نے گردوں کے امراض کو نہ چھیڑا، بلکہ اپنے طور پر ہیپا ٹائٹس کی ادویہ جیسے عرق کاسنی، عرق مکوہ، جوارش انارین، جوارش کمونی، جوارش جالینوس، شربت عناب سے مرض کو کنٹرول کیا۔ اللہ نے کرم کیا۔ دو ہفتے کے بعد مریض نے بستر چھوڑ دیا۔ پھر خمیرہ ابریشم حکیم ارشد والا دیا تو مریض چل کر اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے ہاں گیا۔ گردوں نے باقاعدہ کام شروع کر دیا۔ گاہے گاہے اکسیر جگر اور حب کبد نوشادری استعمال کرنے کی تاکید کر کے مریض کے والدین اور بیوی کو بتا دیا گیا کہ باقی زندگی میں دو کام بالکل بند ہی رکھیں۔ ایک تو آپ نے ساری زندگی گوشت کھایا ہے، اب ایک ماہ میں صرف ایک بار گوشت سبزی ڈال کر کھائیں۔ دوسرا کام یہ کہ آپ نے ازدواجی تعلقات کا سلسلہ ترک کرنا ہے۔ ان شاء اللہ گردے کام کرتے رہیں گے۔