2008

جنوری ۲۰۰۸ء

محترمہ بے نظیر بھٹو کا الم ناک قتلمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی مدارس میں تخصص اور اعلیٰ تعلیم و تحقیقڈاکٹر محمود احمد غازی
اسلام کا تصور علم اور دینی مدارس کا کردارمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
فضلائے مدارس کے علمی و روحانی معیار کا مسئلہمولانا عبد الحق خان بشیر
معلم کا منصب اور اس کے فنی و اخلاقی تقاضےمولانا عبد الرؤف فاروقی
تعلیم و تعلم میں اخلاص نیت کی اہمیتمولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی
احیائے ثقافت اسلامی کی تحریکحافظ صفوان محمد چوہان
کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ (۳)حافظ محمد زبیر
مکاتیبادارہ
الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام فکری نشستیںادارہ
عام انتخابات اور متحدہ مجلس عمل کا مستقبلمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
وکلا تحریک کے قائدین کی خدمت میں چند معروضاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
لاہور میں ایک چرچ کا افسوس ناک انہدام / کراچی کے چند اداروں میں حاضریمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

محترمہ بے نظیر بھٹو کا الم ناک قتل

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو ۲۷؍ دسمبر کو راول پنڈی کے لیاقت باغ میں انتخابی جلسہ عام سے خطاب کرنے کے بعد واپس جاتے ہوئے ایک خود کش حملے میں جاں بحق ہو گئی ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ محترمہ بے نظیر بھٹو گزشتہ ماہ جب اپنی نو سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس آئی تھیں تو کراچی میں استقبالیہ جلوس کے دوران بھی ایک خود کش حملہ کا نشانہ بنی تھیں جس میں بہت سے دیگر افراد جاں بحق ہوئے تھے مگر وہ خود محفوظ رہی تھیں، لیکن راول پنڈی کے جلسہ کے بعد ان پر ہونے والا حملہ اس قدر اچانک اور منظم تھا کہ وہ اس سے بچ نہ سکیں اور حملہ آور اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور عوامی لیڈر جناب ذو الفقار علی بھٹو مرحوم کی بیٹی اور جانشین تھیں۔ وہ خود بھی دو مرتبہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہی ہیں اور ان کی پارٹی آئندہ انتخابات کے بعد انھیں ایک بار پھر وزیر اعظم بنانے کا عزم ظاہر کر رہی تھی، مگر اسی مہم کے دوران ان کی زندگی کا تسلسل ایک خود کش حملہ آور کے ہاتھوں منقطع ہو گیا اور وہ خالق حقیقی سے جا ملیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے سیاسی افکار ونظریات، اہداف ومقاصد اور پالیسیوں سے ملک کے بہت سے لوگوں کو اختلاف تھا اور خود ہمیں بھی ان کی بہت سی باتوں سے اختلاف رہا ہے، لیکن اختلاف کے اظہار کا یہ طریقہ کی مخالف کی جان لے لی جائے اور اس طرح کے خود کش حملوں کے ذریعے اسے راستے سے ہٹا دیا جائے، نہ صرف یہ کہ سراسر ناجائز اور ظلم ہے بلکہ ملک وقوم کے لیے بھی انتہائی خطرناک اور تباہ کن ہے اور اس کی جس قدر مذمت کی جائے، کم ہے۔
ہم نے ان صفحات میں بار بار عرض کیا ہے کہ حکومت یا کسی بھی جماعت، طبقہ اور شخصیت کے ساتھ اختلاف کا ہر شہری کو حق حاصل ہے اور اس اختلاف کے اظہار اور اس کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے کا بھی ہر شخص کو حق ہے، لیکن اس کے لیے طاقت کا استعمال، ہتھیار اٹھانا اور کسی کی جان کے درپے ہونا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے، نہ اسلامی تعلیمات اس کی اجازت دیتی ہیں اور نہ ہی آج کا معروف جمہوری کلچر اس کا متحمل اور روادار ہے۔ اس لیے ہم محترمہ بے نظیر بھٹو کا اس الم ناک قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کے خاندان، پارٹی اور دیگر متعلقین کے ساتھ اس غم میں شریک ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جوار رحمت میں جگہ دیں اور تمام متعلقین وپس ماندگان کو صبر وحوصلہ کے ساتھ اس صدمہ سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ 
ہمیں امید ہے کہ حکومت اس سلسلے میں اپنی قانونی واخلاقی ذمہ داریوں کو پورا کرے گی اور اس قسم کی افسوس ناک وارداتوں کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرے گی۔

دینی مدارس میں تخصص اور اعلیٰ تعلیم و تحقیق

ڈاکٹر محمود احمد غازی

دینی مدارس میں درجات تخصص کا قیام اور اسلامی علوم وفنون کی اعلیٰ تعلیم وتحقیق کا بندوبست وقت کی ایک ایسی اہم اور فوری ضرورت ہے جس کی اہمیت اور فوری نوعیت کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ بہت سے مدارس میں درس نظامی کے بعد تخصص اورتکمیل کے شعبے گزشتہ چند عشروں کے دوران کثرت سے قائم ہوئے ہیں۔ تخصص اور تکمیل کے یہ شعبے عموماًتفسیر، فقہ، فتویٰ اور تجوید وقراء ت کے میدانوں سے متعلق ہیں۔ بلاشبہ یہ شعبے مفید کام کر رہے ہیں اور ان کی موجودگی سے اسلامی تخصصات کی اہمیت کا احساس بڑھا ہے، لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی شعبہ سے تخصص کے وہ مقاصد اب تک کما حقہ پورے نہیں ہو سکے جس کی آج ملک وملت کو شدید ضرورت ہے۔ 
تخصص کے شعبہ کا مقصد درج ذیل قسم کے اصحاب کی تیاری ہونا چاہیے :
۱۔ نمایاں اسلامی علوم (تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، اسلامی معاشیات) کے اعلیٰ مضامین کی تدریس کے لیے ایسے اساتذہ کی تیاری جو ان مضامین کی اعلیٰ سطح پر کماحقہ تعلیم دے سکیں اور دینی مدارس کے طلبہ کو آنے والے چیلنجوں اور خطرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کر سکیں۔
۲۔ ایسے علماے کرام کی تیار ی جو ملکی جامعات اور عصری تعلیمی اداروں میں اعلیٰ سطح پر اسلامی علوم کی تدریس کی ذمہ داریاں کامیابی سے انجام دے سکیں اور وطن عزیز میں نفاذ اسلام کے عمل کی موثر رہنمائی کر سکیں۔ 
۳۔ ایسے اہل علم اور اصحا ب تخصص کی تیاری جو اسلامی علوم کے بارے میں پیدا کی جانے والی بدگمانیوں اور اسلامی عقائد واحکام کے بارے میں کیے جانے والے اعتراضات کا مدلل اور تسلی بخش جواب دے سکیں۔
۴۔ ایسے اہل علم کی تیاری جو اپنی عمیق دینی مہارت کی بنیاد پر مغربی علوم وفنون کا ناقدانہ جائزہ لے سکیں اور مغربی افکار وتصورات کا اسلامی شریعت کی روشنی میں تنقیدی مطالعہ کر کے ا ن کے رطب ویابس کو الگ الگ کر سکیں۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دینی مدارس کے نظام اور نصاب میں ان میں سے کسی بھی ضرورت کی تکمیل کا کوئی بندوبست نہیں۔ تفسیر میں تخصص کے شعبے متعدد مدارس میں قائم ہیں، لیکن وہ چند ماہ میں پورا قرآ ن حکیم کسی ایک استاد یا مفسر کے طرز تفسیر کے مطا بق سرسری طور پر پڑھا دینے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان تفسیری پروگراموں کے فارغ التحصیل اصحاب زیادہ سے زیادہ اپنے شیخ کے طرز پر عوامی یا مناظرانہ انداز کا درس قرآن دینے کے قابل تو ہو سکتے ہیں لیکن ان پروگراموں کے نتیجے میں وہ علوم قرآن، ذخائر تفسیر، تفسیر کے مہتم بالشان مسائل، مناہج مفسرین، دور جدید میں قرآن پاک پرکیے جانے والے اعتراضات اور شبہات، تاریخ تدوین قرآن اور ان جیسے امہات مسائل سے اکثر ناواقف ہی رہتے ہیں۔
امرواقعہ یہ ہے کہ آج قرآن پر از سرنو اعتراضات اور شبہات کی لہریں زوروشور کے ساتھ مشرق ومغرب میں پھیل رہی ہیں۔ قرآن مجید کی تفسیر وتشریح کے بارے میں طرح طرح کے شبہا ت عقلی وعلمی انداز میں مشرق ومغر ب میں اٹھائے جا رہے ہیں۔ مسلمانو ں کی طرف سے ان روز افزوں اعتراضات اور شبہات کا مدلل اور سنجیدہ جواب دینے کے لیے جس طرح کے متخصص اہل علم درکار ہیں، وہ ناپید ہیں یہاں تک کہ خود مسلمانوں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں یہ نئے گمراہ کن اسالیب جگہ پا رہے ہیں اور مسلمان طلبہ کے ذہنوں کو پراگندہ اور پریشان کر رہے ہیں۔
یہی حال حدیث اور فقہ کے تخصص کا ہے۔ علم حدیث کے وسیع ذخائر، علوم حدیث کے لامتناہی دفاتر اور معارف حدیث کے عمیق مباحث عموماً تخصص حدیث کے شعبوں میں بار نہیں پاتے۔ حدیث میں تخصص اور دو دو سال میں دورۂ حدیث کرنے والے طلبہ علوم حدیث کے امہات مسائل بلکہ اہم کتابوں کے ناموں تک سے ناواقف رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں تخصص حدیث دراصل احادیث احکام کے مسلکی مطالعے سے عبارت بن کر رہ گیا ہے۔ مختلف مسالک کے اہل علم نے اپنے اپنے مسلک کی تائید کے نقطہ نظر سے منتخب احادیث کے مطالعے کوتخصص کا نام دے دیا ہے۔ اس کانتیجہ یہ نکلتاہے کہ طلبہ کو اپنے اپنے فقہی اور کلامی موقف کے بارے میں چند گنی چنی احادیث اور روایات کے بارے میں تو واقفیت خوب ہو جاتی ہے، لیکن علوم حدیث کے اعلیٰ مباحث، ہدایت نبوی کے حقائق ومعارف اور محدثین اسلام کی غیر معمولی کاوشیں طلبہ کی پہنچ سے باہر رہتی ہیں۔ یہی بلکہ اس سے بھی گیا گزرا حال فقہ کے تخصص کا ہے۔
اس صورت حال میں ا ب تک کیے جانے والے تجربہ پر ازسرنو غور کر کے تخصصات کے ایسے نئے نصاب اور نظام کی تیاری کی فوری ضرورت ہے جہاں دینی مدارس کے فارغ التحصیل اصحاب سے ذی استعداد نوجوان اہل علم کو منتخب کرکے متعلقہ اسلامی علوم وفنون میں ٹھوس تربیت دی جائے۔ لیکن تخصص کاکوئی بھی نظام یانصاب اس وقت تک موثر اورنتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتاجب تک تعلیم کے ا بتدائی مراحل پر بھی بھرپور اور تفصیلی نظر ثانی نہ کی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تخصص کے لیے جس صلاحیت اور سطح کے رجال کار اورطلبہ درکارہوں گے ،جب تک وہ بنیادی اسلامی علوم میں گہری استعداد اور علوم آلیہ سے اچھی طرح واقفیت نہ رکھتے ہوں، ان کے لیے تخصص کی سطح پر اعلیٰ تعلیم کاحصول ممکن نہ ہوگا۔ اس لیے تخصص پر گفتگو کرنے سے پہلے چند ضروری اشارات قبل از تخصص مراحل کے بارے میں بھی پیش کرنا ضرور ی ہے۔
اس وقت امر واقعہ یہ ہے کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کی بہت بڑی تعداد مساجد کی امامت اورخطابت کے فرائض سرانجام دی رہی ہے۔ بلاشبہ مساجد کی امامت اورخطابت مسلم معاشرہ میں ایک انتہائی اوربنیادی کردار اداکرتی ہے۔ معاشرہ کی دینی تشکیل اوررائے عامہ کی اسلامی تربیت میں ائمہ اورخطبا کے کام کواساسی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی باک نہیں کہ درس نظامی کاموجودہ نظام اورنصاب پاکستان کے لیے مطلوبہ صلاحیت اورصفات کے ائمہ اورخطبا تیارنہیں کرتا۔ امامت وخطابت کے لیے بہت سی ضروری صلاحیتوں کی تیاری بندوبست درس نظا می میں موجود نہیں۔ اسی طرح مستقبل کاامام بہت سی ایسی چیزیں پڑھنے پر خود کو مجبور پاتاہے جواس کے لیے امامت اورخطابت میں کسی بھی حیثیت سے کارآمد نہیں۔ منطق اورقدیم یونانی فلسفہ کے اعلیٰ مسائل سے پاکستان میں کسی بھی امام کوکوئی واسطہ نہیں پڑتا۔ اس لیے مناسب یہ معلوم ہوتاہے کہ مدارس کے ثانوی اوراعلیٰ ثانوی سطح کے تین بلکہ چارسالوں کانصاب اس طرح تیار کیا جائے کہ اس کے فارغ التحصیل حضرات اچھے امام، اچھے خطیب یاا بتدائی مدرس اورسرکاری سکولوں کے اچھے مدرس بن سکیں۔ اس سطح پر درس نظامی کی عام کتابوں کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشیات ،اسلامی کے سیاسی افکار ،سیرۃ النبی،صدر اسلام کی تاریخ، تاریخ پاکستان، برصغیر میں اسلامی تحریکات کی تاریخ جیسے موضوعات کے علاوہ تجوید وقراء ت کے مضامین کو لازمی طورپر شامل کیاجائے۔ اس سطح پر اردو وعربی کی ایک آسان تفسیر اورحدیث کی دویا تین کتب ضرور شامل ہوں۔ ابتدائی سالوں میں جب طلبہ کی عربی کی استعداد زیادہ نہ ہو تو اردو میں دستیاب احادیث کے مجموعوں میں سے کوئی ایک مجموعہ منتخب کیا جا سکتاہے۔ میر ی ناچیز رائے میں سال اول ودوم میں معارف الحدیث اور سال سوم اور چہارم میں ترجمان السنۃ شامل کی جا سکتی ہیں۔ مزیدبرآں فقہ اوراصول فقہ کی متداول درسی کتب کے ساتھ ساتھ ایک یادوکتابیں اردو اور آسان عربی میں شامل ہونی چاہییں۔ علماے ندوہ نے اور مولانا محمد انوربدخشانی نے یہ کام بہت آسان کر دیا ہے۔
جوطلبہ نصا ب کایہ مرحلہ مکمل کرلیں، ان کو مناسب سند دے کر ادارہ سے فارغ التحصیل کردیا جائے۔ میری ذاتی رائے میں طلبہ کاتقریباًپچاس فی صد حصہ اس مرحلہ پر فارغ ہو کرچلاجائے۔ اگلے مرحلے کے لیے صرف ذی استعداد طلبہ قبول کیے جائیں جن کا اصل مقصد امامت، خطابت، ابتدائی اداروں کی تدریس یا سرکاری اسکولوں کی ملازمت نہیں بلکہ ذرا اعلیٰ سطح کی تدریس ہو۔ یہ مرحلہ بھی تین سے چار سال تک مشتمل ہو سکتاہے۔ مناسب یہ ہوگا کہ یہ اس مرحلہ میں تخصص کے پہلے قدم کے طورپر طلبہ کو دو یا زائد گروپوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ کچھ طلبہ جو فقہ اورعلوم فقہ میں تخصص کرناچاہیں، ان کے نصاب کی تفصیلات میں فقہی کتابوں اور مضامین اور فقہی موضوعات میں مہارت اور تخصص پر زیادہ زور دیا جائے۔ جو طلبہ مثلاً علوم قرآن وتفسیر اور علوم حدیث میں تخصص کرنا چاہیں، ا ن کے تجویز کردہ نصاب میں فقہی کتب کی تعداد کونسبتاًکم کرکے حدیث وتفسیر کی کتب شامل کی جائیں۔ لیکن درس نظامی کی موجودہ کتب چند ایک کے اضافے کے ساتھ دونوں گروپوں کے لیے رہنی چاہییں۔ اس سطح پر طلبہ کو اسلامی معاشیات، اسلامی بنکاری، اسلامی بیمہ کاری کے ساتھ ساتھ مغربی افکار اور نظریات کے بارے میں بھی ایک دو کتب لا زمی طور پر پڑھائی جائیں۔ مناسب یہ ہوگاکہ اس مرحلے میں جو طلبہ داخل کیے جائیں، وہ انگریزی زبان سے کسی حد تک واقفیت رکھتے ہوں۔ مغربی افکار سے واقفیت کا بندوبست باقاعدہ نصابی کتب کے ذریعے بھی ہو سکتاہے اور ماہرین کے توسیعی خطبات کے ذریعے بھی۔
مناسب یہ معلوم ہوتاہے کہ اس مرحلے کوبھی دو ذیلی مرحلوں میں تقسیم کیا جائے۔ پہلاذیلی مرحلہ جودوسال پر مشتمل ہو تو وہ تمام طلبہ کے لیے مشترک ہو اور کوشش یہ کی جائے کہ ان دوسالوں کے دوران موقوف علیہ تک کی بنیادی اور اساسی کتب اور مضامین ختم ہو جائیں۔ دوسرا ذیلی مرحلہ حدیث اور تفسیر کے طلبہ کے لیے الگ اورفقہ اوراصول فقہ کے طلبہ کے لیے الگ ہو۔ کچھ مضامین میں دونوں طلبہ شریک ہوں ۔ مثال کے طورپر جامع ترمذی کے درس میں دونوں گروپوں کے طلبہ شریک ہوں۔ اسی طرح آیات احکام یافقہی تفسیر کے متعلق مضامین بھی دونوں گروپوں کے لیے لازمی ہوں ۔ ان دونوں کے علاوہ چند اورمضامین بھی مشترک ہوسکتے ہیں ۔ 
امید کی جانی چاہیے کہ ہدایہ کے چاروں حصے ابتدائی دوسالوں تک مکمل ہوجائیں گے ۔ اب اگلے دوسالوں کے نصابات میں جو طلبہ آگے چل کر فقہ میں تخصص کرناچاہتے ہیں، ان کے لیے کل مضامین کا آدھا حصہ فقہی مضامین پر مشتمل ہو اور باقی مضامین مشترک ہوں۔ اسی طرح جوطلبہ آگے چل کرحدیث اورتفسیر میں تخصص کرناچاہتے ہیں، ان کے لیے کل مضامین کا کم از کم پچاس فیصد حدیث اور تفسیر پر مشتمل ہونا چاہیے۔ ان دوسالوں میں فقہ اور اصول فقہ میں آگے چل کر تخصص کرنے والے طلبہ کے لیے نصا ب کاخاکہ اس طرح کا ہو سکتا ہے:

سال اول کی پہلی شش ماہی

۱۔عقود رسم المفتی 
۲۔ بدائع الصنائع کے منتخب ابواب، مثلاً کتا ب الزکوۃ ، کتاب النکاح ، کتاب الطلاق۔
۳۔ البحرالرائق کے منتخب ابواب
۴۔ بدایۃ المجتہد (حصہ اول )
۵۔ مجلۃ الاحکام العدلیہ (باب اول)
۶۔مشترک مضامین 
۷۔مشترک مضامین
۸۔درس نظامی کی بقیہ کتب

سال اول کی دوسری شش ماہی 

۱۔رد المحتار کے منتخب ا بواب 
۲۔اصول السرخسی
۳۔بدایہ المجتہد،حصہ اول 
۴۔المغنی لابن قدامہ (منتخب ابواب)
۵۔المہذب فی اصول الفقہ المقارن ۔جلد اول 
۶۔مشترک مضامین
۷۔مشتر ک مضامین
۸۔درس نظامی کی بقیہ کتب
سال دوم کی دوسری شش ماہی 
۱۔نیل الاوطار، منتخب ابواب
۲۔شرح معانی الآثار
۳۔احکام القرآن للجصاص
۴۔المہذب فی اصول الفقہ المقارن، جلد دوم 
۵۔المستصفی للغزالی (از آغاز تانہایت قطب ثانی )
۶۔مشترک مضامین 
۷ ۔مشترک مضامین
۸۔درس نظامی کی بقیہ کتب
ان دو مرحلوں کی کامیا ب تکمیل کے بعد طلبہ کی بڑی تعداد فارغ التحصیل ہو جائے گی۔ وہ متداول در س نظامی کی تمام اہم کتابیں اور بنیادی مضامین پڑھ چکی ہوگی۔ ان کے علاوہ اوربھی متعدد مضامین سے ضروری واقفیت حاصل کر چکی ہوگی۔ اب صرف وہ ذی استعداد طلبہ رہ جائیں گے جو اس مرحلہ پر بھی بہت ممتاز اور نمایا ں رہے ہوں۔ ان کو تخصص کی سطح کی تعلیم کے لیے منتخب کیا جائے۔ گویا اگر ادارے میں ابتدائی مرحلے میں ایک سو طلبہ داخل ہوئے ہوں تو ان میں سے پہلے مرحلے میں یعنی ثانوی تعلیم کے چار سال کی تکمیل پر کم از کم پچاس طلبہ کو فارغ کردیاجائے ۔ بقیہ پچاس طلبہ میں سے کم ازکم نصف یعنی پچیس اگلے مرحلے یعنی مزیدچارسال کی تکمیل پر فارغ کردیے جائیں اور تخصص کے مرحلے پر صرف ایک چوتھائی طلبہ کو قبول کیا جائے۔ یہ بات کہ ہرطالب عالم کوآخرتک ہر چیز پڑھائی جائے، نہ مناسب ہے اورنہ قابل عمل۔نہ ہر طالب علم کی یہ استعداد ہے اورنہ اس کی ضرورت ہے کہ اس کو آخری سطح تک ادارے سے وابستہ رکھنے پر اصرار کیا جائے۔
یوں تو تخصص کی ضرورت مختلف میدانوں میں ہے لیکن خاص طورپر درج ذیل شعبوں میں تخصص کی ضرورت آج انتہائی شدید ہے:
۱۔تفسیر اورعلوم قرآن
۲۔حدیث اورعلوم حدیث
۳۔فقہ اوراصول فقہ 
۴۔افتا اورقضا
۵۔عقیدہ اور کلام 
۶۔اسلامی معیشت وتجارت 
۷۔تقابل ادیان 
۸۔فکر جدید اور مطالعہ مغرب
۹۔اسلام اور اسلامی تہذیب عصرجدید میں 
۱۰۔عربی زبان وادب
تخصص کاپروگرام کسی صورت میں بھی تین سال سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ ان تین سالوں میں ابتدائی دوسال باقاعدہ نصابات اور مقررہ کتب کی تدریس کے لیے وقف ہوں، اور تیسرا سا ل تحقیقی مقالہ اور اپنے موضوع سے متعلق چند مضامین کی، جن کی تعداد دو یا تین سے زیادہ نہ ہو، تدریس پر مشتمل ہونا چاہیے۔
تخصص کی سطح پر متعلقہ میدان میں مغربی مفکرین نے جو کچھ لکھا ہے، اس سے طلبہ کوگہری واقفیت ہونی چاہیے۔ امید کی جانی چاہیے کہ تخصص تک پہنچنے والے تمام طلبہ انگریزی کتب اور تحریروں سے بسہولت استفادہ کرنے کے اہل ہوں گے۔
تخصص کی سطح پرمضامین، موضوعات اورکتب کا تعین کرنے کے لیے تین معیارات کو پیش نظر رکھنا چاہیے:
۱۔ متعلقہ میدان تخصص کے بارے میں اکابر اسلام کی نمایاں خدمات اور ان کے اساسی کام سے طلبہ براہ راست واقف ہو جائیں۔
۲۔ متعلقہ میدان تخصص میں جو جو توسیعات اور ترقیاں ہوئی ہیں، ان سے طلبہ براہ راست مانوس ہو جائیں۔
۳۔ متعلقہ میدان تخصص کی موجود ہ صورت حال پورے طورپر طلبہ کو گرفت میں ہو،یعنی بیسویں صدی میں اس موضوع پر مسلمان اہل علم کا نمایاں کام کیا ہے، مغربی مستشرقین نے اس بار ے میں کیا کہا ہے اور مستشرقین کے اثرات کے تحت دنیاے اسلام میں جو رجحانات پیدا ہوئے ہیں، ان سے کس طرح عہد ہ برآ ہوا جا سکتا ہے۔
مثال کے طورپر فقہ اور اصول فقہ میں تخصص کے لیے ضروری ہوگا کہ ا بتدائی دوسالوں میں جو نصاب پڑھایا جائے، وہ متقدمین کی کتابوں سے لے کر متاخرین تک ہردور کی نمائندہ کاوشوں پر مشتمل ہو۔ اس سطح پر فقہ اسلامی کاتقا بلی مطالعہ ناگزیر ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج دنیاے اسلام میں مختلف فقہی مسالک کا ایک دوسرے سے ارتباط اور احتکاک ہو رہا ہے۔ دنیا کے ہر بڑے شہر میں تقریباً ہر فقہی مسلک سے وا بستہ مسلمان بڑی تعداد میں موجود ہیں جن کاایک دوسرے سے روزانہ کوئی نہ کوئی فقہی واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ ان حالات میں فقہ کے متخصصین کواپنے فقہی مسلک کے علادہ دوسرے مسالک سے کسی قدر واقفیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کام کے لیے ا بن رشد کی بدایہ المجتہد کے علاوہ دوسرے فقہی مسالک کی بعض منتخب کتب کے ابواب طلبہ کو پڑھانے چاہییں۔ اسی طرح اصول فقہ کا تقابلی مطالعہ بھی ناگزیر ہے۔ ایک معاصر سعودی عالم نے ’’المہذب فی اصول الفقہ المقارن‘‘ کے نام سے تقابلی اصول فقہ پر ایک جامع کتاب پانچ جلدوں میں تیار کی ہے۔ وہ اس مرحلے پر بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
فقہ میں تخصص کے طلبہ کے لیے انگریزی اصول فقہ، ضابطہ فوجداری ودیوانی، تعزیرات پاکستان اور پاکستان کے آئین اور دو ایک منتخب قوانین کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ ان قوانین کے مطالعے کامقصد طلبہ کووکیل یاانگریزی قانون کاماہر بنانا نہیں بلکہ اس طرز فکر سے واقف کرانا ہے جس کی بنیاد پر انگریزی قوانین مرتب ہوئے ہیں۔ اگر تخصص فی الفقہ کامقصد اور ہدف ملک میں اسلامی شریعت کے نفاذ کے عمل میں حصہ لینا اور اس مقصد کو آگے بڑھا ناہے تو ملک کے قانون، عدالتی نظام اور دستوری نظام سے واقفیت ضروری ہے۔
تخصص کی سطح پر امیدکی جانی چاہیے کہ طلبہ اعلیٰ استعداد کے حامل ہوں گے اور ان کو کوئی کتاب سبقاً سبقاً اول سے لے کر آخر تک پڑھانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس سطح پر استاذ کا کام رہنمائی کرنا اور طلبہ کا کام از خود مطالعہ ہونا چاہیے۔ تعلیم کے دوسالوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے۔ یہ چاروں حصے پانچ پانچ مہینوں پر مشتمل ہو سکتے ہیں۔ پانچ مہینوں کی اس مدت میں ایک طالب علم پانچ سے سات موضوعات تک بآسانی مطالعہ کر سکتا ہے۔ اس مرحلے پر پوری پوری کتابیں سبقاً سبقاً پڑھانے کے بجائے امہات الکتب کے منتخب ابواب پڑھائے جائیں۔ ایک مضمون کااستاذ ہفتے میں تین یا چار مرتبہ طلبہ کو درس یا رہنمائی کے لیے دستیاب ہو اور بقیہ اوقات میں طلبہ ازخود مطالعہ کریں اور مطالعہ کے نتائج کو تحریری طور پر مرتب کریں۔ یہ اسلوب انگریزی اور ملکی قانون کے مطالعہ میں بہت آسانی سے اختیار کیا جا سکتا ہے۔
یہاں مختلف موضوعات اور میدا نوں میں تخصص کی مکمل اسکیم کی نشان دہی قبل از وقت ہوگی۔ اگر ان گزارشات سے فی الجملہ اتفاق ہو تو آغاز سے انتہا تک ایک مکمل نقشہ تجویز کرنا ہوگا۔ بنیاد اور ڈھانچہ کی تعمیر سے قبل اونچی منزلوں کی تعمیر کاکام اور اس کی تجاویز غیر مناسب ہیں۔ ان صفحات میں تخصص کے لیے دس میدان تجویز کیے گئے ہیں۔ کسی ایک ادارہ کے لیے ان سب میں بیک وقت تخصص کا پروگرام شروع کرنا نہ قا بل عمل ہے اور نہ مناسب۔ بہتر یہی ہوگا کہ پہلے قدم کے طورپر بڑے بڑے دینی ادارے ایک ایک یا زیادہ سے زیادہ دو دو میدانوں میں تخصص کا پروگرام شروع کریں اور آہستہ آہستہ دوسرے شعبوں کی طرف قدم بڑھائیں۔
وفاق المدارس کی طرف سے ایک مستقل نظامت اعلیٰ برائے تخصصات شرعیہ قائم کی جانی چاہیے جو تخصص کا نصاب اور نظام وضع کرے۔ وفاق کی اجازت اور منظوری کے بغیر کسی ادارہ کو تخصص کا شعبہ قائم کرنے کی اجازت نہ ہونی چاہیے۔ جہاں ایسے شعبے قائم ہوں، ان کی نگرانی مذکورہ نظامت اعلیٰ کرے اور معیار کی پابندی کویقینی بنائے۔
ان صفحات میں اگرچہ گفتگو تخصص کے بارے میں کی گئی ہے، لیکن دواہم باتوں کی نشاندہی کی اجازت چاہتا ہوں۔ ان دونوں باتوں کا تخصص کے پروگراموں کی کامیابی سے بھی اگر براہ راست نہیں تو بالواسطہ تعلق ضرور ہے۔ میری مراد عربی اور فارسی زبان کی تدریس سے ہے۔ 

عربی زبان کی تدریس 

مجھے یہ عرض کرنے کی اجازت دیجیے کہ بیشتر دینی مدارس میں عربی زبان کی تدریس کا موجودہ نظام، نصاب اور انداز انتہائی ناقص، غیر تسلی بخش اور ناقابل قبول ہے۔ عربی فارسی سے نابلد طلبہ فارسی کے ذریعے عربی صرف ونحو کے ضروری قواعد حفظ کرتے ہیں، پھر عربی کی ازکار رفتہ اور فضول کتابوں کے ذریعے عربی صرف ونحو میں ’’مہارت‘‘ حاصل کرتے ہیں اور اس نامکمل اور انتہائی ناقص علم کے چند صفحات کو رٹ کر عربی زبان واد ب کے ماہرین بن جاتے ہیں۔ میں اپنے ذاتی تجربہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر عرض کرتاہوں کہ مدارس میں عربی ادب کی ان کتا بوں کی سالہاسال تدریس کرنے والے اساتذہ میں سے بیشتر ان کتا بوں کے درسی اجزا کے علاوہ عربی زبان واد ب کے پورے ذخیرہ سے ناواقف رہتے ہیں۔
عر بی ز بان، جودنیا کی سب سے زیادہ دقیق اورسائنٹفک ز بان ہے، عربی ذخیرۂ الفاظ جو دنیا کی ز بانوں کا سب سے وسیع ذخیرہ الفاظ ہے، عربی صرف ونحو جس کا مقابلہ شاید ہی کسی زبان کی صرف ونحو کرسکے، دینی مدارس کے علما کی بڑی تعداد کے لیے ایک بند دروازہ ہی رہتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عربی ز بان کی تدریس میں ندوۃالعلما کاتجربہ بہت کامیا ب اورشاندار رہا ہے۔اس تجربہ نے گزشتہ نصف صدی سے زائد کے عرصے میں اپنی افادیت اورخوبی کو اچھی طرح ثابت کردیا ہے ۔ لہٰذاعربی ز بان کی تدریس کے پورے نصاب ونظام پرندوہ کے تجر بہ کی روشنی میں نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ندوہ کی مرتب کردہ ابتدائی کتا بیں وسطانی مدار س میں پڑھائی جانی چاہییں۔ مزید برآں عربی نثر کی عمدہ کتا بوں کے منتخب حصے نصا ب میں شامل ہونے چاہییں۔ عربی شعر میں بھی متعدد مجموعے ایسے دستیاب ہیں جو حماسہ اور سبعہ معلقہ سے پہلے پڑھا دیے جائیں توزبان کااچھا ذوق پیدا ہو سکتا ہے۔ 
عربی نثر میں سیرت ا بن ہشام، البدایہ والنہایہ اور مقدمہ ا بن خلدون کے منتخبات پر مشتمل ایک ترتیب دے دی جائے اور نفحۃ العرب کے بعد پڑھائی جائے تو عربی نثر کی اچھی بنیاد بن سکتی ہے۔ میری ذاتی رائے میں مقامات حریری کی تدریس محض وقت کا ضیاع ہے۔ زیادہ سے زیادہ دوتین مقامے نمونے کے طورپر پڑھا دینا کافی ہے۔

فارسی زبان کااہتمام 

برصغیر میں ایک طویل عرصہ تک دینی علوم وفنون کی تدریس فارسی ز بان میں ہوتی رہی ہے۔ فارسی ہی جنوبی ایشیا اور افغانستان کی علمی اور ثقافتی زبان رہی ہے۔ ہندو پاکستان کے دینی مدارس میں ابتدائی تعلیم بھی فارسی ہی میں ہوتی تھی۔ اگرچہ فارسی کو ذریعہ تعلیم بنانا اور دینی وعربی علوم کے لیے فارسی زبان کو استعمال کرناا ردو کے رواج پا جانے کے بعد غیر موزوں اور غیر مفید تھا، لیکن فی نفسہ فارسی زبان وادب کی ضروری تعلیم میں بہت افادیت تھی۔ طلبہ برصغیر کے دینی ورثہ سے واقف ہو جاتے تھے۔ برصغیر کے دینی اکابر کی تحریروں تک ان کو رسائی حاصل ہوجاتی تھی۔ لیکن گزشتہ تیس چالیس سال سے فارسی کومکمل طورپر ختم کردینے کے رجحان سے بہت نقصان ہو ا ہے۔ آج بہت سے علما کے لیے مجد د الف ثانی اورشاہ ولی اللہ محدث دہلوی جیسے اکابر کی کتابیں ناقابل فہم ہوگئی ہیں۔ فارسی زبان کے ذریعے اخلاق، تہذیب اور روحانیت کا جو عنصر نصاب تعلیم کی بنیادوں میں شامل ہو جاتا تھا، اس سے طلبہ قریب قریب محروم ہو گئے ہیں۔
ان حالات میں فارسی ز بان کی (بطورایک مضمون کے) تدریس کا احیا کرناضروری ہے ۔ اگرابتدائی دینی مدارس میں حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ اردو، فارسی، حساب اور معاشرتی علو م کے مضا مین شا مل کر دیے جائیں تو پانچ سال کی مدت میں طالب علم قرآن مجید کا حافظ ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف اردو اور فارسی کی ضروری استعداد کا حامل ہو سکتا ہے بلکہ ضروری حسا ب اور ابتدائی ریاضی سے بھی واقف ہو سکتا ہے۔
وسطانی مدارس میں فارسی کو ایک لازمی مضمون کی حیثیت دی جانی چاہیے۔ اگرطالب علم ابتدائی مدارس میں آمدنامہ، گلزار د بستان، کریما، پندنامہ، گلستان اور بوستان پڑھ چکا ہو (جو ایک گھنٹہ روزانہ کے حسا ب سے چار سال میں بہت آسان ہے) تو وسطانی مدارس میں مثنوی مولانا روم کے منتخبات، بہار ستان جامی، کشف المحجوب، امام غزالی کی کیمیائے سعادت کے منتخب ابواب پڑھانا مشکل نہ ہوگا۔ پھر ثانویہ عامہ اور عالیہ میں حضرت مجدد الف ثانی کے بعض منتخب مکتوبات اور مولانا اسماعیل شہید کی منصب امامت کو شامل کرنا آسان ہوگا۔ حضرت مجدد کے بعض طویل مکتو بات عقائد اورتصوف کے بنیادی اورمہتم بالشان مسائل کے بارے میں انتہائی عالمانہ اور وقیع مباحث پر مشتمل ہیں اوراچھی خاصی کتاب کی ضخامت کے برابر ہیں۔ ایسے چند مکتوبات کو نصا بی کتاب کے طور پر پڑھایا جا سکتا ہے۔

اسلام کا تصور علم اور دینی مدارس کا کردار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۱۴ نومبر ۲۰۰۶ کو الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام تربیتی ورکشاپ سے خطاب-)

علم انسان کا وہ امتیاز ہے جس نے انہیں فرشتوں پر فضیلت عطا کی اور معلّم وہ منصب ہے جسے سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرماکر اپنے تعارف کے طورپر پیش کیا کہ ’انما بعثت معلما‘ (میں معلم اور استاذ بنا کر بھیجا گیا ہوں)، جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی قراء ت، قلم اور تعلیم کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔ اسی لیے اسلا م میں تعلیم کے مشغلہ اور معلم کے منصب کو ہمیشہ عزت اور وقار کا مقام حاصل رہاہے اور دنیا کی ہر مہذب اور متمدن قوم میں معلم کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ البتہ اسلام نے معلم خیر اور معلم شر کا فرق ضرور کیا ہے اورعلم کو نافع اور ضار کے شعبوں میں تقسیم کرکے خیرو نفع کے معلم کو فضیلت ووقا ر کے مقام سے نوازا ہے جبکہ شر اور ضرر کا باعث بننے والے علوم کی مذمت کرتے ہوئے ان کی تعلیم کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ شیطان بھی اصل میں ایک معلم ہی تھا لیکن چونکہ اس نے شر اور ضرر کا راستہ اختیار کرلیا تھا، اس لیے راندۂ درگاہ قرار پایا اور قیامت تک کے لیے لعنت کا طوق اس کی گردن میں پڑ گیا۔
اسلام علم برائے علم کا قائل نہیں ہے بلکہ صرف ان علوم کو اپنے تعلیمی نظام کے دائرہ میں جگہ دیتا ہے جو انسان اور انسانی سوسائٹی کے لیے نفع اور خیر کا باعث ہوں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جادو اور اس نوعیت کے دیگر علوم کی فنی اور واقعاتی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی تعلیم وتعلّم سے منع فرمایا ہے، بلکہ قرآن کریم نے تو جائز علوم کی بھی درجہ بندی کرکے یہ اصول پیش کیا ہے کہ ہرعلم ہر شخص کے لیے موزوں نہیں ہے، بلکہ ذہنی سطح، منصبی فرائض اور مقام وحیثیت کو ملحوظ رکھ کر تعلیم وتعلّم کے لیے مضامین کے انتخاب کی سمت قرآن کریم نے راہنمائی فرمائی ہے جیسا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے کہ: ’وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ‘ (ہم نے آپ کو شعروشاعری نہیں سکھائی اور وہ آپ کے لیے مناسب بھی نہیں ہے)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی علم کا حصول صرف اس لیے ضروری یا مناسب نہیں ہوجاتا کہ وہ علم ہے بلکہ ضرورت ومناسبت کے لیے یہ بھی دیکھنا پڑتاہے کہ علم حاصل کرنے والے کو اس کی عملی زندگی میں اس علم کی کس حد تک ضرورت ہے اور وہ اس کے لیے کس درجہ میں مناسب حال ہے۔
اسلام نے علم کو نافع اور ضار کے درجوں میں تقسیم کیاہے۔ یہ نفع وضرر دنیا اور آخرت دونوں حوالوں سے ہے اور آج کے عالمی تعلیمی نظام اور اسلا م کے فلسفہ تعلیم میں یہی جوہری فرق ہے کہ آج کی دنیا کے نزدیک نفع وضرر صرف اس دنیا کے حوالے سے ہے۔ جو بات اس دنیا کی زندگی کو بہتر بنانے اور شخصی، طبقاتی یا اجتماعی زندگی کی کامیابی کے لیے مفید ہے، وہ تعلیمی نظام کا حصہ ہے لیکن اسلام اس دنیا کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے کہیں زیادہ آخرت کی فوزو فلاح اور اس ابدی زندگی میں نجات کو اپنے تعلیمی وتربیتی نظام کا اساسی ہدف قرار دیتا ہے۔ اسلام اس دنیا کی زندگی اور اس کی بہتری اور کامیابی کی نفی نہیں کرتا، بلکہ اس کے لیے ہر جائز صورت کو اختیار کرنے کی اجازت بلکہ بعض صورتوں میں حکم دیتاہے مگر اس شرط اور ترجیح کے ساتھ کہ دنیا کی زندگی کی آسائش، سہولتیں اور اس کی بظاہر بہتری کی کوئی صورت انسان کی اخروی زندگی میں اس کے لیے خرابی کا باعث نہ بن جائے اور دنیاوی زندگی کی سہولتیں اخروی نجات کی قیمت نہ ہوں۔
میری طالب علمانہ رائے میں اسلام نے علوم کو دنیاوی اور دینی حوالے سے تقسیم نہیں کیا بلکہ نفع وضرر کو علوم کی تقسیم کا باعث سمجھا ہے اور یہ نفع وضرر دنیا اور آخرت دونوں حوالوں سے ہے۔ اس لیے جو علوم انسان کے لیے فرد اور معاشرہ کے دونوں دائروں میں اس کی آخرت کی نجات اور فوزو فلاح اور دنیا کی زندگی کوزیادہ سے زیادہ بہتر، پر امن اور باسہولت بنانے کے لیے مفید ہے، وہ اسلام کی نظر میں مطلوب علم ہے، اور جو علم ان دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے لیے نقصان کا باعث بنتاہے، وہ علوم ضارہ میں شمار ہوتاہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا اسی سمت ہماری راہ نمائی کرتی ہے کہ ’’اے اللہ !مجھے وہ علم عطا فرماجو نفع بخش ہواوراس علم سے محفوظ رکھ جو ضرر کا باعث ہویا نفع بخش نہ ہو۔‘‘ میں سمجھتاہوں کہ ہمارے دینی مدارس میں تعلیم کا انتظام کرنے والے ارباب بست وکشاد اور تعلیم وتدریس کا فریضہ انجام دینے والے اساتذہ کو آج کے عالمی ماحول میں اس کے تعلیمی فلسفہ ونظام کی اس بنیاد اور امتیاز کو ہر وقت سامنے رکھنا چاہیے تاکہ وہ اپنے زیر تعلیم اور زیر تربیت افراد کو ایک بہتر انسان اور مسلمان کے طور پر اچھی زندگی گزارنے کے قابل بنانے کے ساتھ ساتھ پوری انسانی سوسائٹی کے سامنے اسلا م کے صحیح نمائندہ کا مقام دے سکیں۔
اب سے کم وبیش ڈیڑھ سو سال قبل جب ہمارے معاشرہ میں دینی مدارس کا یہ نظام وجود میں آیاتھا، اس وقت ہمارے بزرگوں کا بنیادی ہدف یہ تھا کہ جنوبی ایشیا کے مسلم معاشرہ میں مسجد و مدرسہ کا ادارہ موجود رہے اور اسے امام، حافظ، قاری، مدرس، مفتی اور خطیب کے طور پر رجال کار ملتے رہیں تاکہ مسلما نوں کی عبادات اور دینی تعلیم کے ماحول اور تسلسل کو باقی رکھا جاسکے اور اس میں کوئی تعطل یا رکاوٹ نہ ہو۔ بحمد اللہ ہمارے دینی مدارس اپنے اس مقصد او رہدف میں کامیاب ہیں اور آج بھی اس پورے خطے میں مسجد ومدرسہ کے ادارے کے لیے ضروری رجال کار یہ دینی مدارس فراہم کررہے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ضروریات کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی دینی راہ نمائی کا تقاضا بڑھ رہا ہے جو نہ صرف یہ کہ وقت کی ضرورت ہے بلکہ ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ اسی طرح آج کی گلوبل دنیا اور مستقبل کا بین الاقوامی ماحول ہمیں اس طرف توجہ دلا رہا ہے کہ ہم اپنے محدود اور مقامی وعلاقائی ماحول کا اسیر رہنے کی بجائے عا لمیت، گلوبلائزیشن اور بین الاقوامیت کے تقاضوں اور ضروریات کو بھی سمجھیں اور اس کے لیے اپنے تعلیمی نصاب اور تربیتی نظام میں جس ردوبدل اور تنوع کی ضرورت ہو، اس سے گریز نہ کریں تاکہ دینی مدارس اپنے مستقبل کے کردار کو امت مسلمہ کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید بنا سکیں۔ ہمارے اکابر نے ہر دو ر میں یہ عمل سرانجام دیاہے اور آج بھی یہ عمل ہم سے پیش رفت کا متقاضی ہے۔ ان تمام امور کے حوالہ سے سب سے پہلی ضرورت دینی مدارس کے اساتذہ کو اس طرف توجہ دلانے، انہیں وقت کے تقاضوں اور مستقبل کی ضروریات سے آگاہ کرنے اور فکری، علمی اور فنی طورپر اس کے لیے تیار کرنے کی ہے اور اسی مقصد کے لیے اس ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ ہم باہمی مشاورت اور تبادلہ خیالات کے ذریعہ اس سلسلے میں کوئی قابل عمل پروگرام وضع کرسکیں۔

فضلائے مدارس کے علمی و روحانی معیار کا مسئلہ

مولانا عبد الحق خان بشیر

(۱۴ نومبر ۲۰۰۶ کو الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام تربیتی ورکشاپ سے خطاب۔)

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ اما بعد!
صدر گرامی قدر ، معزز علماے کرام!
اساتذہ کی تربیت کے سلسلے میںیہ نشست منعقد کی گئی ہے۔ اگرچہ میں تدریس کی لائن کا آدمی نہیں ہوں، لیکن چونکہ مدارس کے اندر وقت گزارا ہے، اس لیے چند باتیں عرض کروں گا۔
ایک مسئلہ ہے نصاب میں تبدیلی کا تو جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، حضرت شیخ الہندؒ اور امام انقلا ب مولانا عبید اللہ سند ھی ؒ کے دور سے نصاب میں تبد یلی کی ضرورت بڑی شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے اور اپنے طور پر کوششیں بھی ہوئی ہے کہ اس نصا ب میں کچھ ایسی ترامیم کی جائیں جو وقت کے تقاضوں کے مطابق ہو ں۔ حضرت حجۃالاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے بارے میںآتاہے کہ بحری سفر کے دوران ایک جرمن سے ان کی گفتگو ہوئی۔ وہ انگلش جانتا تھا، عربی نہیں جانتا تھا۔ حضرت نانوتویؒ عربی جانتے تھے، انگلش نہیں جانتے تھے۔ درمیان میں ترجمان مقرر کرنا پڑا تو اس وقت حضرت نانوتویؒ نے ارادہ ظاہر کیا کہ واپسی پر میں سب سے پہلے انگلش سیکھوں گا۔ گویا حضرت نانوتو ی ؒ نے اس بات کا اشارہ دیا کہ وقت کے تقاضوں کے مطا بق علما کے لیے انگلش کا جاننا بھی ضروری ہے۔ حضرت امام انقلاب مولانا عبید اللہ سند ھی ؒ نے تو اس کی طرف خصوصی توجہ دی۔ حضرت سندھی ؒ کا موقف یہ تھا کہ ہمارے نصاب کے اندر امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی کتابو ں کو خاص اہمیت دی جانی چاہیے، کیونکہ ان کتابوں کے اندر وقت کے تقاضوں کے مطابق وہ تمام چیزیں موجود ہیں جن کی آگے علما کو ضرورت پیش آسکتی ہے۔ 
ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ نصاب کا ہے۔ اس کے بعد بڑا مسئلہ نظام کا ہے، لیکن وہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ اس وقت ہمارا موضوع ’’دینی مدارس کے اساتذہ کرام کی تربیت اور اس کے تقاضے ’’ہے کہ اساتذہ جو ہمارے دینی مدارس میں پڑھانے کے لیے مقرر ہیں، کیا وہ اپنا حق ادا کر رہے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر وہ اپنا حق ادا کر رہے ہوتے تو آج قحط الر جال کا دور نہ ہوتا۔ ہمیں ایک مدرس کی ضرورت ہوتی ہے تو ہمیں بیسیوں مدارس سے رابطہ کرنا پڑتا ہے ۔ باوجود اس کے کہ ہر سال ہزاروں علما فارغ التحصیل ہوتے ہیں، پھر بھی ان میں سے تدریس کے منصب پر بیٹھنے والے بہت کم ہوتے ہیں اور ہمیں ان کی تلاش کرنا پڑتی ہے۔ اور اب تو حالت یہ ہے کہ اوپر میز پر استاد نے کتاب کھولی ہوتی ہے اور نیچے دراز میں شرح کھولی ہوتی ہے۔ کبھی کتاب کی طرف دیکھتا ہے اور کبھی شرح کی طرف دیکھتا ہے اور سبق پڑھاتا ہے۔ ایسے استاد سے کوئی شاگرد اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوال کا اظہار کرے گا تو اسے ڈانٹ نہیں پڑے گی تو اور کیا ہوگا؟ اس کیفیت میں نہ وہ شاگرد اپنے استاد سے استفادہ کر سکتا ہے اور نہ استاد ہی اپنا فیض اسے منتقل کر سکتا ہے ۔
کسی بھی استاد کے لیے سب سے بنیادی اورضروری بات یہ ہوتی ہے کہ وہ طلبا کی نفسیات کو سمجھتا ہو۔ جو استاد طلبا کی نفسیات سے واقف نہ ہو، وہ صحیح طور پر تعلیم نہیں دے سکتا۔ استاد کو معلوم ہونا چاہیے کہ میری کلاس کا فلاں طالب علم کتنی استعداد کا مالک ہے، اس میں کس قدر صلاحیتیں ہیں، اس کی ذہنی کیفیت کیا ہے۔ میں نے محدث کبیر حضرت علامہ انور شاہ صاحب کاشمیری ؒ کے بارے میں پڑھا ہے کہ حضرت کبھی اپنے طلبہ کا امتحان نہیں لیتے تھے۔ ان کو اپنی کلاس کے ایک ایک طالب علم کی ذہنی استعداد کا پتہ ہوتا تھا، حالانکہ ان کی کلاس میں سینکڑوں طلبہ ہوا کرتے تھے۔ لیکن جب امتحان کا وقت آتا ، علامہ کاشمیری ؒ رجسٹر دیکھتے اور امتحان لیے بغیر وہیں بیٹھ کرنمبر لگا دیتے تھے، اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ اس طالب علم کی استعداد کیا ہے اور اس کی نفسیات کیا ہے۔
چونکہ دینی تعلیم کا تمام تر انحصار روحانیت پرہے، اس لیے دینی تعلیم کا حق وہی مدرس صحیح طور پر ادا کر سکتا ہے جس میں روحانیت، خشیت اور اخلاص پورے طور پر موجود ہے۔ اور اگر کوئی مدرس روحانیت سے خالی ہے تو چاہے وہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو، وہ دینی تعلیم کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ اس سے مجھے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ حضرت سے کسی نے پوچھا کہ جب آپ بیان کرتے ہیں تو عجیب وغریب نکات بیان کرتے ہیں۔ آپ نے کون سی کتابیں پڑھی ہیں؟ تو حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ میں نے تین کتابیں پڑھی ہیں، انہی کتابوں کا فیض میرے اندر موجود ہے۔ ان میں سے پہلی کتاب کا نام ہے حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ ، دوسری کا نام حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ، اور تیسری کتاب کانام مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ ان چلتی پھرتی کتابوں کے فیض یافتہ تھے اور اگر تعلیم کا تعلق پریکٹیکل کے ساتھ ہے تو استا د کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ طلبا اپنے استاد کے صرف الفاظ پر نہیں بلکہ طرزعمل پر بھی نگاہ رکھتے ہیں۔
یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ آج ہم اپنے دینی مدارس میں اس بات کا رونا روتے ہیں کہ ہمارے نظام تعلیم کی کوتاہیاں ہمیں مسلسل زوال کی طرف لے کر جا رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے مدارس خانقاہی نظام سے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں اپنے خانقاہی مدارس سے ہی روحانیت ملتی تھی، ہمارا تزکیہ ہوتا تھا، ہم میں خلوص اور للہیت پیدا ہوتی تھی، لیکن خانقاہی مدارس کے ختم ہونے کے بعد اب اگرچہ ممکن ہے کہ ہمیں اچھا بخاری شریف پڑھانے والا مل جائے، اچھا مسلم شریف پڑھانے والا مل جائے، اچھاجامی وکافیہ پڑھانے والا مل جائے، لیکن ایسا مدرس جو طلبا کے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتا ہو، ایسے مدرس ہمارے ہاں بہت کم ہیں، اس لیے کہ ہمارے مدارس میں روحانی تربیت باقی نہیں رہی۔ تو نصاب کی وجہ سے علمی طور پر زوال تو آ ہی رہا تھا، اب خانقاہی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے روحانی زوال بھی آرہا ہے۔

معلم کا منصب اور اس کے فنی و اخلاقی تقاضے

مولانا عبد الرؤف فاروقی

(۱۴ نومبر ۲۰۰۶ کو الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام تربیتی ورکشاپ سے خطاب۔)

نحمد ہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد فا عوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم اقرا باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا وربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم۔
میں نے جو آیات مبارکہ پڑھی ہیں، ان میں کہاگیا ہے: اقرا وربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم۔ تعلیم بالقلم، یہ طریقہ تدریس ہے ۔اللہ تعالیٰ نے خود کو جب معلم کہاہے کہ میں نے تعلیم دی ہے تو یہ کہا کہ بالقلم ، ایک واسطہ اور سبب استعمال کیا ہے اور وہ قلم ہے۔ چنانچہ مدرسین کو چاہیے کہ اپنے طلبہ کو زیادہ سے زیادہ علم دینے کے لیے ان مفید ذرائع کو استعمال کریں اور اپنے مدرسے کے منتظمین سے یہ درخواست کریں کہ میں اپنے طلبہ کو زیادہ سے زیادہ مستفید کرنا چاہتا ہوں، مجھے یہ چیزیں مہیا کی جائیں۔پہلے بلیک بورڈ ہوا کرتا تھا، اس پر چاک کے ساتھ لکھا کرتے تھے۔ اب وائٹ بورڈ آگیا ہے، اس پر مارکر کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ بڑے آسان طریقے آگئے ہیں تو اگر اس کو استعمال کرنے کی تھوڑی سی مشق کرلی جائے تو اس پر کوئی اسکول وکالج کی اجارہ داری نہیں ہے کہ وہ استعمال کرسکتے ہیں اور ہم نہیں، یا وہاں اس کو استعمال کیا جاسکتاہے، یہاں نہیں۔ آپ صرف ونحو پڑھا رہے ہیں، آپ قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا رہے ہیں، آپ حدیث مبارکہ پڑھا رہے ہیں، اس کے لیے وہ چیز جو سمجھ میں نہیں آرہی، اس کو اگر آپ وائٹ بورڈ کے ذریعے اپنے طلبہ کو سمجھانے کی کوشش کریں یا کسی کو سمجھا تے ہوئے دیکھ لیں تو آپ کو خود بخود ان شاء اللہ اس کا طریقہ آجائے گا۔اس کا استعمال طریقہ تدریس میں اور تربیتی کام میں ضروری ہے۔ 
جب ہم پڑھتے تھے تو اس وقت ایک درجے میں دس پندرہ طلبہ ہوا کرتے تھے۔اب ایک درجے میں ڈیڑھ سو تک طلبہ ہوتے ہیں، یعنی مدارس بھی بڑھے ہیں اور مدارس میں طلبہ کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ ایک استاذ ایک گھنٹے میں ڈیڑھ سو طلبہ کی نفسیات کے ساتھ کس طرح نباہ کرے گا؟ جامعہ اشرفیہ میں جب میں پڑھتاتھا تو ایک درجے میں بارہ، تیرہ طلبہ تھے۔ اب وہاں میرا بیٹا پڑھتا ہے، اس کے درجے میں طلبہ کی تعداد ۱۴۵ ہے۔ استاذکا تعلق اپنے طلبہ کے ساتھ صرف پون گھنٹے کا ہے، اپنے فن کے اعتبار سے۔ اس کے بعد استاذ چور دروازے سے اپنے گھر چلا جاتا ہے اور طالب علم اپنے ہاسٹل اور دارالاقامہ میں چلا جاتا ہے۔ باقی چوبیس گھنٹے طلبہ کا اپنے اساتذہ کے ساتھ ربط ضبط نہیں ہوتا۔ اب ایک استاذ ڈیڑھ سو طلبہ کی نفسیات کا کیسے مطالعہ کرے گا اور وہ کیسے ان کی نفسیات سے واقف ہوگا؟ اس لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ ہم چالیس چالیس طلبہ کی کلاسیں بنالیں، ایک ہی درجے کے چار پانچ فریق بنا لیے جائیں۔ اس طرح استاذ کو اپنے ہر ایک طالب علم کی نفسیات کو سمجھنے میں آسانی ہوگی اور وہ ہر ایک پر ذاتی توجہ دے سکے گا۔ جب کلاس کم ہوگی تو آپ دھیان رکھ سکیں گے کہ کون متوجہ ہے اور کون متوجہ نہیں ہے، کون جاگ رہا ہے اور کون بین النوم والیقظۃ ہے۔ ہمارا آٹھ سال کا جو دورانیہ ہے، اس میں تعلیم تو روزانہ چھ گھنٹے ہوتی ہے۔ ان چھ گھنٹوں میں میرا خیال ہے کہ اکثر طلبہ دو گھنٹے جاگ کر اور چار گھنٹے سو کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اساتذہ کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ اس قطار کے پیچھے جو حضرات ہیں، وہ کیا کر رہے ہیں۔ رقعے بازی ہو رہی ہے یا کتاب کھولی ہوئی ہے اور اپنے گھر والوں کو خط لکھ رہا ہے۔ لیکن اگر طلبہ کی تعداد کم ہوگی تو استاذ ہر ایک طالب علم کے تمام معاملات کو دیکھ رہا ہوگا۔ 
آپ مدرس ہیں یا مدرس بننے جا رہے ہیں تو آج آپ یہ طے کریں کہ جب میں مدرس بنوں گا تو اپنے شاگرد کے علم وفن، اس کی اخلاقی تربیت اور اس کے مدرسے کے جو مسائل ہیں، ان میں وہ میری اولاد کی طرح ہے۔ جس طرح گھر میں آپ کو چار پانچ بچوں کی تمام ضروریات پوری کرنا ہوتی ہیں، اسی طرح مجھے اپنے طلبہ کی تمام ضروریات پوری کرنا ہیں۔ ایک باپ کی حیثیت سے اپنی کلاس کو دیکھیں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ ایک کامیاب معلم ہیں۔ 
تکرار کا ہمارے ہاں جو ماحول تھا، وہ اب آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔اس کا بہترین حل یہ ہے کہ جو کہا گیا ہے کہ اذا تکرر الکلام علی السمع تقرر فی القلب، ایک پون گھنٹے میں جتنا سبق ہمیں پڑھایا جاتا تھا، دس منٹ میں پڑھا کر فارغ کر دیا۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ باقی آدھا گھنٹہ فارغ رہتا ہے۔ اگر وہ آدھا گھنٹہ فارغ نہ رہے، ایک استاذ کو چالیس پینتالیس منٹ کا جو وقت دیا گیاہے، اگر وہی پون گھنٹہ استاذ اس سبق کو بار بار دہرائے اور طلبہ سے بھی اس کا اعادہ کروائے تو تکرار کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اور ہم جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس انگریزی سیکھنے کے لیے یا کمپیوٹر سیکھنے کے لیے یا کسی اور کام کے لیے وقت نہیں بچتا تو اس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ جتنا کام کسی فن کا ہم چوبیس گھنٹے میں کرتے ہیں، وہ چالیس منٹ میں ہوسکتاہے اگر ہم کلا س کی جتنی ضروریات ہیں، ان کو پورا کردیں۔ ایک مدرس ہونے کی حیثیت سے آپ اس کا تجربہ کریں شروع میں کتاب کے متعلق جو بنیاد بن جاتی ہے وہ آخر تک قائم رہتی ہے ۔منتظمین کی طرف سے آپ کو جو چالیس ،پینتالیس منٹ کا پیریڈ دیا گیا ہے، آپ اس کا استعمال اس طرح کریں کہ آپ سبق پڑھائیں تو پھر دوبارہ اس کا اعادہ کریں اور دوتین دفعہ دوتین طلبہ سے سنیں۔ کبھی کسی سے، کبھی کسی سے، تو ہر طالب علم اپنا سبق چوکنا ہو کر سنے گا۔اب تو ایسے اسکول آگئے ہیں جو کہتے ہیں کہ بستہ بھی گھر لے جانے کی ضرورت نہیں۔ بستہ یہاں رہے، بچہ صبح اسکول آئے اور شام کو گھر چلا جائے۔ گھر کا جتنا کام ہے، ہم اس کو یہاں کرائیں گے۔ باقی وقت وہ ٹی وی دیکھتا ہے، کھیلتا کودتا ہے۔ تو اگر ہم جدید طریقہ ہائے تدریس سے کچھ استفادہ کریں تو ہمارے بچوں کے پاس بہت سا وقت بچ سکتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم ان کو اپنے آپ پر مسلط کر لیں۔
طریقہ تدریس میں ہمارے ہاں تکرار اور مطالعے کا جو ماحول ہے، اس کے بارے میں ہمارے اساتذہ ہمیشہ سے یہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ بغیر مطالعہ کے سبق پڑھانا تو زنا کرنے کے برابر ہے۔ یہ جملہ ہمارے ہاں چلتا ہے کہ یہ ایسے ہی کتاب کے ساتھ ظلم اور طالب علم کے ساتھ ناانصافی ہے جیسے ایک آدمی نے ایک بہت بڑے کبیرہ گناہ زنا کا ارتکاب کرلیا ہے۔ طالب علم کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ مطالعہ کر کے آئے۔ پھر استاذ کا علم اور طالب علم کا علم، یعنی علم اور طلب علم جب آپس میں ملیں گے تو کام بنے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ بات ہے علم کو سینوں میں اتارنے کی۔ اور تدریس کے طریقے کے لیے تو وہی پرانا معاملہ ہے کہ دن کو آپ گھوڑے کی پیٹھ پر ہوں اور رات کو مصلے پر کھڑے ہوں۔ کہا گیا ہے کہ ’ان للتقویٰ مھابۃ‘ ، تقویٰ کا اپنا ایک رعب ہے۔ اور علم کے بارے میں مجھے میرے شیخ حضرت عبید اللہ انورؒ نے کئی دفعہ یہ بات سنائی، مولانا زاہد الراشدی بھی اس کے گواہ ہوں گے کہ حضرت مدنی فرمایا کرتے تھے کہ تسخیر کائنات کا سب سے بڑا وظیفہ تقویٰ ہے۔ آپ جتنے زیادہ متقی ہوں گے، کائنات اتنی آپ کے سامنے مسخر کر دی جائے گی۔ تو اللہ تعالیٰ آپ کو مجتہد فی التدریس بنادیں گے، شرط یہ ہے کہ آپ کا اپنا ذوق، اپنا اخلاص یہ ہو کہ میں جو کچھ بنا ہوں، میرا شاگرد مجھ سے بھی اونچی جگہ پر پہنچے۔ یہ تودنیا کا نظام ہے۔ ہر باپ یہ چاہتا ہے کہ میرا بیٹا مجھ سے آگے بڑھ جائے، تو جب آپ باپ کے درجے پر آئیں گے اور شاگرد کے بارے میں یہ سمجھیں گے کہ میں باپ ہوں اور یہ میرا بیٹا ہے تو آپ کی یہ خواہش ہو گی کہ آج میں جس جگہ پر بیٹھا ہوں، میرا شاگرد مجھ سے بھی آگے بڑھے اور دنیا میں اس کے علم کا فیضان ہو۔ یہ میرا ایک صدقہ جاریہ ہے۔ تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب ایسا جذبہ ہو گا، یہ اخلاص ہو گا تو اللہ تعالیٰ آپ کے لیے تدریس کے طریقوں میں خود مجتہدانہ صلاحیت پیدا کر دے گا۔ روزانہ نئے سے نئے طریقے سمجھ میں آتے رہیں گے۔ ان سے آپ اپنا علم آگے پہنچاتے رہیں گے۔ 
مولانا سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاریؒ برصغیر کے سب سے بڑے اردو کے خطیب تھے ۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ پیر مہر علی شاہ صاحب ؒ سے بیعت ہوئے اور پھر بعد میں حضرت رائے پوریؒ سے بیعت ہوئے۔ پیر مہر علی شاہ صاحب ؒ کے پاس بیعت کے لیے جانے سے پہلے وہ میاں شیر محمد شرقپوریؒ کے پاس گئے کہ مجھے بیعت کر لیں۔ (تو یہ ہمارا ایک اور بھی مسئلہ ہے کہ ہم نے اپنے مشائخ کو ان کے کھاتے میں ڈال دیا ہے جو کبھی مشائخ کے مزاج کے تھے ہی نہیں) تو کہتے ہیں کہ میاں صاحب نے کہا کہ ’’شاہ جی، تہاڈا حصہ میرے کول نہیں ہے۔ میر ے کول ہوندا تے میں تہانوں گھڑ دیندا‘‘۔ گھڑ دینے کا مفہوم آپ کے ذہن میں ہے، ایک غیر متوازن چیز کو متوازن بنا دینا۔ یہ ہوتا ہے اصل میں استاد کا کام۔ امیر شریعت کا حصہ یہاں نہیں تھا تو پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کے پاس چلے گئے۔ وہاں بیعت ہوئے تو پیر مہر علی شاہ صاحب ؒ کے بعد ان کے خاندان میں وہی صاحبزادگی تھی۔ وہاں مزاج نہ بن سکا تو حضرت رائے پوریؒ کے پاس آئے تو حضرت رائے پوریؒ نے بہر حال گھڑا۔ آپ اگر امیر شریعت کی صرف خطابت نہیں، ان کی وہ زندگی جو تربیت کی زندگی ہے کہ انہوں نے کس طرح اللہ اللہ کرنا سیکھا ہے، وہ کبھی معلوم کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ کس طرح وہ گھڑا کرتے ہیں۔
آپ کے پاس والدین ایک سرکش بچہ، ان گھڑا بچہ، غیرمتوازن بچہ، اپنی بہت بڑی متاع آپ کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اس کو گھڑنا،سنوارنا اور زمانے کا معلم بنانا یہ آپ کی ذمہ داری ہے، اور یہ تبھی ہوگا جب ہم اس بچے کے اوقات کو اور اس بچے کی زندگی کو اپنے پاس امانت سمجھیں گے اور کل قیامت کے دن ’لاایمان لمن لا امانۃ لہ ولا دین لمن لا عہد لہ ‘  کو سامنے رکھتے ہوئے جواب دہی کے احساس کے ساتھ اپنی ذمہ داری کو انجام دیں گے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے اور آپ کو اپنے پیغمبر کے طریقہ تدریس کی روشنی میں اپنے زمانے کا معلم بننے کی توفیق عنایت فرمائے اور جو لوگ ہمارے پاس علم سیکھنے کے لیے اور فیضان کی روشنی لینے کے لیے آتے ہیں، ہم ان کو زمانے کا معلم بنا سکیں۔ وہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ جیسے وہ ’’سراج منیر‘‘ تھا اور اس نے صحابہ کو ’’نجوم‘‘ بنا دیا، ہم بھی اپنے طلبہ کو آئندہ کی نسلوں کے لیے اسی طرح تیار کریں تو ہم اللہ تعالیٰ کے ہاں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ 

تعلیم و تعلم میں اخلاص نیت کی اہمیت

مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

(۱۴ نومبر ۲۰۰۶ کو الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ایک تربیتی ورکشاپ سے خطاب۔)

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد!
محترم حاضرین ،برادران اسلام واساتذہ کرام !
آج کی یہ تربیتی محفل آپ صبح سے سماعت فرما رہے ہیں اور یہ اس کی دوسری نشست ہے۔ اس میں بہت سے اہل علم وفضل کی تقاریر آپ نے سنیں، تجاویز اور آرا آپ کے سامنے آئیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں پر جن مقررین نے خطاب کیا ہے، انہوں نے دینی تعلیم کے علاوہ عصری تعلیم کے بارے میں بھی بات کی ہے۔ یہ مجلس چونکہ دینی مدارس کے اساتذہ کرام کی ورک شاپ کے سلسلے میں ہے، یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ ہم عصری تعلیم کی اہمیت کو بھی اپنی جگہ ملحوظ رکھتے ہیں اور اگر دونوں پہلوؤں پر بات کرنی ہے تو پھر میری ناقص رائے کے مطابق اس میں ایسے مقررین کو بلانا چاہیے جو دینی مدارس کی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم سے بھی بہرہ ور ہوں۔ کیونکہ ہمارے ہاں جن مقررین نے تقریر کی ہے، ان میں سے بعض نے کہاکہ میرا دینی مدارس کے ساتھ تعلق نہیں اور بعض نے کہا کہ میرا تعلق صرف دنیاوی تعلیم سے ہے، جبکہ اگر دونوں پہلوؤں پر یکساں تبصرہ کرنا ہے تو ایسی شخصیات کو دعوت دینی چاہیے جن کی دونوں پہلوؤں پر نظر ہو تاکہ ان کے سامنے صرف کالج اور یونیورسٹی کا ماحول نہ ہو یا ان کے سامنے صرف دینی مدرسہ اور مکتب کا ماحول نہ ہو۔ دونوں ہوں تو پھر وہ ایک جامع تبصرہ کر سکتے ہیں۔ اگر صرف ایک پہلو ہوگا تو وہ اپنے متعلق خوبیاں یا خامیاں بیان کرسکتے ہیں، لیکن دوسرے پہلو پر وہ کچھ عرض نہیں کر سکتے۔ اس حوالے سے یہ میری ایک سفارش ہے ۔
باقی جن حضرات نے یہاں پر تقاریر کی ہیں اور اپنی تجاویز دی ہیں، ان کو کئی پہلو ؤں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ میں اس کے صرف ایک پہلو پر اختصار کے ساتھ کچھ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ تمام پہلو جن میں ہم علم کو، تربیت کو، اخلاق کو اور ارتقا کو تقسیم کرتے ہیں، یہ تمام پہلو اسی وقت ٹھیک ہو سکتے ہیں جب کسی انسان کی نیت ٹھیک ہو گی۔ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’انما الاعمال بالنیات‘۔ اگر ایک آدمی باعمل ہے تو جب اس کی نیت ٹھیک ہوگی، اس کے ساتھ اخلاص ہوگا، باقی چیزیں ہوں گی تو پھر وہ آدمی کامیاب ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ او راگر ایک آدمی کی نیت ٹھیک نہیں ہے تو چاہے وہ اپنے فن کا کتنا ہی ماہر ہو، اس کا فیض عام نہیں ہو سکتا۔ اس کے پاس وسیع معلومات تو ہیں، لیکن نیت ٹھیک نہیں ہے، اخلاص نہیں ہے تو نہ اس کو خود کچھ فائدہ ہو گا اور نہ اس سے پڑھنے والوں کو، تربیت حاصل کرنے والوں کو فائدہ ہوگا۔ جیساکہ مولانا عبدالحق خان بشیر صاحب نے بیان کیا، روحانیت کا سلسلہ دینی مدارس کے اندر کم ہوتا جا رہا ہے یا ختم ہوتا جا رہا ہے۔یہ بڑی اہم بات ہے۔اس سلسلے میں، میں اپنے استاذ الاستاذ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی اپنی بیان کی ہوئی بات عرض کرناچاہوں گا جو انہوں نے اپنی ترمذی کی تقریر میں بیان کی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ میں پڑھ رہا تھا۔ وہاں مجھے ہدایہ اخیرین کی ایک بحث میں مشکل پیش آگئی ۔میں نے اس کو سمجھنے کی پوری کوشش کی، شروحات دیکھیں، حواشی دیکھے، علما کی طرف رجوع کیا، لیکن مسئلہ حل نہ ہوا۔ فرماتے ہیں کہ میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر پر حاضر ہوا، درود وسلام پیش کیا، مراقبہ کیا اور جب میں مراقبے سے اٹھا تو میرا وہ ہدایہ اخیرین کا مسئلہ حل ہو چکا تھا۔ تو روحانیت کا یہ اثر ہے، کیونکہ جو ہم تعلیم پڑھ رہے ہیں یا پڑھا رہے ہیں، چاہے اس کا تعلق وحی جلی سے ہو یا وحی خفی سے، بہرحال اس کا تعلق روحانیت کے ساتھ ہے اور اس کا دارومدار نیت پر ہے۔ گویا تمام گفتگو اور بحث کا خلاصہ نیت ہے۔ اگر انسان کی نیت ٹھیک ہے تو وہ سارے کام ٹھیک طریقے سے کرے گا۔ تعلیم ٹھیک طریقے سے حاصل کرے گا، پڑھائے گا صحیح طریقے سے اور اسی طرح اخلاق وعبادات بھی صحیح طریقے سے سرانجام دے گا۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی کوتاہیاں دورکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

احیائے ثقافت اسلامی کی تحریک

حافظ صفوان محمد چوہان

دعوت و تبلیغ کا کام اپنے معروف معنوں میں حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے سے شروع ہوتا ہے۔ جتنی انسانی آبادی اُن کی حیات تک موجود رہی وہ اُس سب کے باپ اور مربی تو تھے ہی، اُن کے نبی اور رسول بھی تھے۔ اپنی اولاد کو خالقِ کائنات کا تعارف کرانا، اُس کی مرضیات پر چلنے یعنی اطاعت و عبادت پر آمادہ کرنا، زخارفِ دنیا میں الجھ کر راہ گم کردینے کے بجائے آخرت کو مطمحِ نظر بنائے رکھنے پر لانا، وغیرہ، سب امور اُن کے فرائضِ منصبی تھے۔ اِن فرائض کو ایک باپ اور ایک نبی کی حیثیت سے ادا کرتے کرتے وہ اپنے اللہ کے حضور حاضر ہوگئے۔ 
اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے جن مردوں کو نبوت اور رسالت جیسے عالی منصب کے لیے انتخاب کیا اُن کی زندگیوں میں یہ دونوں خصوصیات کچھ ایسی واضح اور تواَم نظر آتی ہیں کہ گویا اُن کی فطرتِ ثانی ہوں، یعنی باپ والی شفقت کے ساتھ امت کے مرد و زن کو اِطاعتِ خالق پر آمادہ کرنا۔ جتنے بھی نبی دنیا میں تشریف لائے وہ اللہ کی حدود کو پھلانگنے والے مجرموں اور اللہ کی اطاعت کے نشے میں مدہوش بندوں، دونوں طرح کے آدمیوں کے لیے یکساں محبت اور شفقت کا پرتو ہوتے تھے۔ 
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے آخری نبی بناکر دنیا میں بھیجا اور اُن کی بعثت کے بعد نبوت اور رسالت کا دروازہ قیامت تک کے لیے بند کردیا۔ دنیا میں آنے والے پہلے نبی سے لے کر آخری نبی تک سب انبیاء ایک ہی مقصد لے کر آئے، یعنی مخلوق کو خالق سے جوڑنا۔ اِس مقصد کے پورا کرنے کے لیے نبی مخلوق میں سے کسی سے بھی سے کسی نفع کا طالب یا متمنی نہیں ہوتا بلکہ اپنی جان پر جھیل کر یہ کام کرتا ہے۔ ہر نبی نے دعوت و تبلیغ کا کام کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ وہ اپنا اجر سوائے اللہ کے اور کسی نہیں چاہتا۔ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا علیٰ رَبِ العٰلَمین سب نبیوں کی اجتماعی آواز ہے جسے قرآنِ پاک نے محفوظ کیا ہے۔ یہ تبلیغِ دین کے کام کی اصالت کا معیار ہے۔ جس طرح کوئی باپ اپنی اولاد کے لیے نفع رسانی کی کوئی بھی کوشش کسی مالی یا دنیاوی منفعت کی حرص یا امید میں نہیں کرتا بلکہ خالصتًا باپ ہونے کی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اور شفقتِ پدری کی وجہ سے کرتا ہے اُسی طرح نبی بھی ہر ہر امتی کو جنت کے دروازے پر لاکھڑا کرنے کے کام کی مشقت اپنی ذمہ داری اور امت کے لیے بے کراں، بے تعصب اور بے میل شفقت کی وجہ سے اُٹھاتا ہے۔ بندوں کا بندوں میں نبی سے زیادہ بے غرض پرسانِ حال کوئی نہیں ہوتا۔ کوئی ہو بھی نہیں سکتا۔ 
یہ حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اِسی شفقت اور محبت کا نتیجہ تھا اور اپنوں پرائیوں ہر ایک کو دنیاوآخرت کی بھلائیوں اور کامرانیوں کا حقدار بنانے پر مصر اور تُلا ہونا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سبھی ساتھی (رضوان اللہ علیہم اجمعین) آپ پر دل و جان سے فدا تھے اور ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں‘‘ کے خیرمقدمی الفاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اور تخاطب کرتے تھے۔ اِس شفقت اور محبت کا امت میں ظہور یوں ہوا کہ صحابہؓ اپنی جان کو اپنے مسلمان بھائی کے مقابلے میں ہلکا جانتے تھے۔ دنیا کا فائدہ درپیش ہوتا تو خود کو پیچھے کرلیتے اور دین کے لیے مشقت کا کام سامنے آتا تو خود کو آگے کرتے۔ کہیں نام آوری یا ناموری کا موقع بنتا تو منھ پر کپڑا ڈال لیتے اور کہیں جان دینے کا موقع بنتا تو آگے آگے ہوتے۔ زندگی کی آخری سانس تک اور قبر کے گڑھے میں اُترتے تک اپنے بھائیوں پر ایثار کرتے۔ اُن میں کا دکاندار اپنے گاہک کو خود دوسرے دکاندار کی دکان پر بھیج دیتا تھا کہ اُس کی بھی بِکری ہوجائے۔ یوں ایک ایسا ماحول وجود میں آگیا تھا جس میں ہر ایک کا جان و مال محفوظ تھا۔ ہر ایک کا کاروبار ترقی بھی پارہا تھا۔ حتٰی کہ زکوٰۃ کا مستحق کوئی نہ ملتا تھا۔ اور یہ دنیاوی آسائش و ترقی صرف آنکھ بند ہونے تک کے زمانے کے لیے نہیں تھی بلکہ اُخروی درجات کی ترقی کا ضمیمہ بھی تھی۔ یہ سب اِس لیے ہوا کہ ایمان سازی سے مملو افراد سازی کی ایک مسلسل محنت کی وجہ سے اِن لوگوں میں ایمان جیسی بے مثال قوت، اعمال جیسا کارگر ہتھیار اور حیا جیسا یکدانہ جوہر وجود میں آچکا تھا۔ 
محبت اور شفقت کے یہ مظاہر مسلمانوں میں صرف اپنے دینی بھائیوں کے لیے مخصوص نہیں رہے تھے بلکہ تمام مخلوق اِن سے منتفع ہورہی تھی اور غیرمسلموں سے معاملت حتٰی کہ جانوروں سے سلوک تک میں یہ اثرات نفوذ کیے ہوئے تھے۔ حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سالہا سالی مشقت مدینۂ منورہ اور تمام فرماں روے اسلام کے اندر اِس ماحول اور اِس ثقافت کو وجود میں لانے کا سبب بنی تھی جس میں تحفیظِ مراتب یعنی بڑے چھوٹے کا لحاظ ملاحظہ، حقوقِ انسانی کی پاسداری اور تمام مخلوق سے اللہ کے حکم کے مطابق اور موافق سلوک کرنا ہی فخرومباہات کا باعث تھا نہ کہ دنیا کی چیزوں اور عہدوں کا کسی کی ذات میں جمع ہوجانا یا کرلیا جانا۔ 
لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب برکات ضمنًا حاصل ہوئی تھیں۔ روٹی، کپڑا، مکان، ملازمتوں، ترقیاتی منصوبوں اور بڑے منصوبوں (Mega Projects) کا اعلان کسی نبی نے نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کبھی اِس بات کا اعلان نہیں کیا کہ مجھے لوگوں کی معاشی صورتِ حال بہتر کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا ہے یا میری بعثت کا مقصد امن و امان کی صورتِ حال کی بہترائی ہے۔ یہ سب خوبیاں جن کے حاصل کرنے کے لیے آج پوری دنیا میں دوڑ لگی ہوئی ہے اور جن کے حصول کے لیے سب سے زیادہ خرچ کیا جارہا ہے، اللہ کا انعام ہیں۔ انعام صرف اُسے ملتا ہے جس سے انعام دینے والا راضی ہو۔ قرنِ اوّل کے مسلمانوں کو یہ انعامات اِس لیے ملے کہ وہ دین اور اشاعتِ دین کو اپنی زندگیوں میں پہلے نمبر پر رکھے ہوئے تھے اور بقیہ سب ضروریات کو ثانوی درجہ دیتے تھے۔ آج مسلمان نے اپنی زندگی کی ترجیحات بدل دی ہیں اور ثانوی درجہ والی چیزیں پہلے درجے پر لے آیا ہے۔ یوں اللہ ناراض ہوگیا ہے، اور وہ سب انعامات ملنا بند ہوگئے ہیں جو پہلے ملا کرتے تھے۔ دنیا میں امن و آشتی، راحت، شجاعت، غیرت، ایمان، حیا اور اِس قبیل کی ساری برکات کا اُترنا بند ہوگیا ہے۔ غیرمسلموں کو تو امن وآشتی جیسی چیزیں ملی ہی مسلمانوں کی وجہ سے تھیں۔ جب خود اُن پر ہی یہ انعامات بند ہوگئے ہیں تو اُن کے طفیلیوں کو یہ کیسے ملیں؟ 
بحیثیتِ امت مسلمان آج اپنا مقصد بھول چکے ہیں۔ افسوس پر افسوس اِس بات کا ہے کہ امت یہ بھولنا بھی بھول چکی ہے۔ یوں منزل کھوبیٹھنے کے احساس سے تہی ایک انبوہِ مردوزن ہے جو بے مقصد سرگرداں ہے۔ ہر چمکتی چیز اور ہر نئی آواز کی طرف دیوانہ وار لپک جانا اِن پر ختم ہے۔ ایک طرف سے دھتکار پڑتی ہے تو یہ دوسری طرف رخ کرلیتے ہیں۔ وہاں سے بھی جوتا پڑتا ہے تو کسی تیسری اور پھر چوتھی طرف منھ کرلیتے ہیں۔ اور پھر بے مزا نہ ہونے کے مصداق پہلی ہی طرف کو مڑ آتے ہیں کہ شاید ہماری کوئی ضرورت اب پھر پیدا ہوگئی ہو۔ جس امت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبلے کی طرف منھ کرکے نماز پڑھتا چھوڑکر گئے تھے، آج دنیا میں ہر سَمت اپنا قبلہ رکھتی ہے: کہیں منھ کرکے نیت باندھ کر مال مانگتی ہے، کہیں اسبابِ حفاظت اور صحت کے حصول کے لیے سجدہ ریز ہے، کہیں نظامِ تعلیم کی عطا کے لیے منزل انداز ہے، اور کہیں محض تعلقات اُستوار رکھنے کے لیے ناک سے لکیریں کھینچ رہی ہے۔ لامقصدیت امت کا سب بڑا سانحہ ہے۔ امت کی ایسی مت ماری گئی ہے کہ یہ اپنے صیاد کو اپنا ہمدرد سمجھے ہوئے ہے۔ وہ اِسے مرغیوں کی طرح پالتا ہے، اور یہ یہ سمجھتی ہے کہ اُسے چوگا اپنے ذاتی فائدے کے لیے دیا جارہا ہے۔ ملکوں ملکوں کشکول بجاتے پھرنے اور دنیا زادگی کی نحوست نے مسلمان سے اُس کا جوہر اور پہچان چھین لی ہے۔ ؂
مایا کے جادو نے گیان کے لکھشن بندھن توڑے
جوگی جی سے مالا چھوٹی، سادھو سے لنگوٹ
جوں جوں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے سے بُعد ہوتا گیا، اعمالِ دعوتِ دین کو مقصد کے درجے میں رکھ کر کرنے میں تدریجًا کمی ہوتی گئی ۔ دین کا فکر رکھنے والے اسلاف اِس انحطاط کو دور کرنے کی سعی فرماتے رہے۔ ماضیِ قریب یعنی تیرھویں اور چودھویں صدی ہجری میں بھی کئی لوگوں اور جماعتوں نے امت کو مقصد پر لانے کی کوششیں کی ہیں۔ مدارِس، مساجد، اشاعتِ کتب اور دورِحاضر کے تمام آلاتِ نشرواشاعت کو استعمال کرتے ہوئے دین کے پھیلانے کی فکر کرنا، راہ بھٹکی ہوئی امت کا غم کھانا اور اصلاحِ احوال کی فکر کرنا اللہ نے کئیوں کو نصیب کیا۔ کچھ راستہ چلنے کے بعد یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ اِبطال اور انکار یا مناظرہ کی بجائے، یا اپنے ظن و تخمین یا اپنی خواہشات کو کسی من پسند یا مطلوب سانچے میں ڈھال کر اُس کا نام اشاعتِ دین رکھ دینے کی بجائے، دین کو خالص شکل میں پیش کرنا اور اُس پر لوگوں کو چلنے پر آمادہ کرنا ہی اصل ہے کیونکہ دین صرف دین ہی کی محنت سے آئے گا؛ اور یہ کہ کسی بات کا صرف پہنچادینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ لوگوں کو اُس پر لے آنا زیادہ نفع مند ہوتا ہے۔ اِن غمخوار مصلحینِ کرام پر یہ بھی کھلا کہ لوگوں کو ایک طرزِزندگی سے دوسرے طرزِزندگی پر لے آنے میں اُن کے ماحول کا بدلنا، خواہ عارضی طور پر سہی، بنیادی شرط ہوتا ہے۔ آج جب کہ مصروفیت سب سے بڑا عذاب ہے اور وقت کسی کے پاس نہیں، اللہ نے امت پر رحم کیا اور حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃاللہ علیہ پر دین کے زندہ کرنے کی محنت اور امت کو مقصد پر لانے کا کام ایسے انداز میں کرنے کا ڈھنگ کھولا جو اپنی بُنت، ڈھب اور شباہت میں اصلِ اوّل سے قریب ترین بھی ہو اور امت کا بلاتخصیص ہر طبقہ انتہائی قلیل وقت میں دین کی مبادیات کا ضروری علم ، تجربے کے ساتھ حاصل کرسکے۔ ماحول میں چونکہ دینداری بہت کم ہے اِس لیے ایک آدمی محنت و ریاضت سے خواہ دین کے کیسے ہی بلند مقامات کو پاچکا ہو، کے لیے کچھ وقت کے بعد اپنے سب مشاغل کو ملتوی کرکے خالص دین کے ماحول میں کچھ وقت گزارنا ضروری ہوجاتا ہے۔ سلامتیِ قلب اور تطہیرِ فکرونظر کا یہ مقصد جس کی ضرورت سے کوئی مسلمان بے نیاز نہیں رہ سکتا، پہلے خانقاہوں سے بتمام و کمال حاصل ہوجاتا تھا لیکن آج کی مصروف زندگی کی وجہ سے کاروبارِ حیات کو تج کر دنیا سے یکسو ہوجانا اور ایک بڑی مدت تک کسی اللہ والے کی جوتیاں سیدھی کرکے دین والی زندگی کو سیکھنا امت کے بڑے طبقے کے لیے اب ممکن نہیں رہا۔ جب دین کی طلب اور اعمال کا ذوق و شوق ہی باقی نہ رہا ہو، اللہ کی جناب میں حضوری کا احساس ہی مرگیا یا کم سے کم مضمحل ہوگیا ہو، اور سنن و مستحبات تو الگ رہے فرائض بھی بوجھ محسوس ہونے لگے ہوں تو خانقاہوں میں کون جائے؟ یہی وجہ ہوئی کہ ازاں جملہ تبلیغی جماعت کے عرف سے موسوم اِس چلتی پھرتی خانقاہ کو جس میں دین کے مبادیات ہی کا نہیں بلکہ جس میں ہر امتی اپنے دنیاوی شغل کو دینی ترتیب پر چلانے کا ڈھنگ بھی بہت ہی کم وقت اور انتہائی کم خرچ میں ہاتھ کے ہاتھ سیکھ لیتا ہے، اللہ پاک نے قبولِ عام عطا فرمایا۔ 
امت کے لیے درد اور کڑھن کی جو کیفیت اللہ پاک نے مولانا محمد الیاس رحمۃاللہ علیہ کو ودیعت کی تھی، اُس میں وہ اپنے سب معاصرین میں ممتاز تھے۔ امت کے مذہبی جذبات ومیلانات، صلاحیتوں اور مالی وسائل کو جس طرح بے جگہ اور عارضی (اور بیشتر دنیاوی) مقاصد کے حصول کے لیے جھونکا اور جھونکوایا جارہا تھا، اللہ نے حضرت مولاناؒ پر اِسے پوری بصیرت کے ساتھ روشن کردیا تھا۔ کہیں ابنائے زمانہ کی چیرہ دستیوں اور کہیں دین فروش یا سادہ خیال اصحابِ کلاہ و دستار کے ہاتھوں لُٹنے پُٹنے والے مسلمانوں کی حالتِ زار اور اِس کے نتیجے میں دنیا و آخرت کی بربادی کے اِس ادراک نے اُن کو وہ بے آرامی نصیب فرمادی تھی جو دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذی ہوش اور راہ دان مقتداؤں کا جوہرِ اصلی رہی ہے151 دین کے مٹنے کے غم کی شدت سے ہونے والی وہ بے آرامی جو نیندیں اُڑادیا کرتی ہے۔ 
مولانا محمد الیاس رحمۃاللہ علیہ کا کام کثیرالمقاصد ہے۔ دراصل اُس اسلامی ثقافت کا اِحیا اُن کا مقصدِ وحید ہے جس نے قرونِ اوّل کے اُن لوگوں کو جو ایک وقت میں انسانیت کے نام پر دھبہ تھے، ستاروں کو نشانِ راہ دکھانے والا بنادیا۔ یوں امت سازی یعنی امت کو صحیح الفاظ اور مفہوم میں امت بنانے کا کام دعوت و تبلیغ کا مقصد ہے۔ اِس میں کلام نہیں کہ مساجد و مدارس وغیرہ شعائراللہ ہیں۔ لیکن ذرا سا غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ مسلمان ہی بذاتِ خود اللہ کا سب بڑا شعیرہ ہے۔ اِسی لیے تو رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کعبہ کی حرمت سے ایک عام مسلمان کی جان قیمتی ہے۔ دین کی طلب سے خالی، اللہ سے غافل اور روٹھے ہوئے مسلمان کو اللہ کے سامنے جھکادینا اور اللہ سے دوستی کرلینے پر آمادہ کرنا، مسلمان کا سب سے بڑا اِکرام ہے۔ اِسی طرح ایک کافر جو اپنی کم قسمتی سے یا اسلام کی حقیقی، عملی تصویر سامنے نہ ہونے کے باعث ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بننے کی راہ پر سرپٹ دوڑ رہا ہے، کے جی میں تلاشِ حق کے شعلے کو روشن کرنا اور پھر اِس شعلے کو ہوا دینا، منت و زاری سے اور سمجھابجھاکر اسلام کی نعمت سے بہرہ مند کردینا151 اولادِ آدمؑ میں کے ہر غیرمسلم انسان کا بنیادی انسانی حق (human right) ہے۔ قیامت کے دن حقوق کی اَدائی کے بارے میں سوال ہوگا۔ دعوت و تبلیغ کی محنت سے امت کے اندر یہ احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہر مسلمان بحیثیتِ فردِ امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا سفارت کار ہے اور دنیا بھر کے انسانوں کے حقوق کی اَدائی کے سلسلے میں فعّال کردار ادا کرنے پر مامور اور اِس ضمن میں اپنی ذاتی اعانت اور دین کے اجتماعی کاموں میں اپنا حصہ ڈالنے کی بابت اللہ کو جوابدہ ہے۔ 
حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے کام میں کسی گروہ، مسلک یا فرقے کے لیے نہیں بلکہ ہر مسلمان کے لیے ، نِری اُس کی مسلمانی کی وجہ سے، راستہ کھلا رکھا۔ یوں مختلف خانوں میں بٹے ہوئے اور ذات برادری، علاقوں، زبان اور پیشوں کے کھونٹوں سے بندھے اور کولھوؤں میں پِلتے مسلمانوں کو صرف اور محض مسلمان ہونے کی وجہ سے ایک جگہ پر اِکٹھا ہونا نصیب ہوا۔ اِس اِکٹھا ہونے سے مسلمانیت سرسبز ہوئی اور جگہ جگہ دین پر بہار آنا نظر آنے لگا ہے۔ اسلام کی ثقافت جس کے رنگ پھیکے پڑگئے تھے اور جو بساحالات دوسری ثقافتوں میں رل مل کر اپنی ایکیت اور وضاحت کھوبیٹھی تھی، ایک بار پھر پنپنے لگی ہے۔ دنیا بھر میں گھروں کے اندر اسلامی معاشرت اور محلوں میں اسلامی کلچر زندہ ہوا ہے۔ دعوت و تبلیغ میں لگنے والے لوگوں کے چارٹر میں پوری دنیا میں دین کو زندہ کرنا (صرف پھیلانا نہیں) پہلے نمبر پر ہے۔ پہلے دور میں یہ کام ہر مسلمان کیا کرتا تھا۔ آج اِس آواز کے لگانے والے یہ واحد لوگ ہیں جو اللہ کی توفیق سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو جگا رہے، اُنھیں اُن کا کام و مقصد یاد دلارہے اور مقصد پر واپس کھینچ لانے کے لیے اللہ کی زمین میں بے تابانہ پھر رہے ہیں۔ 
اللہ کا شکر ہے کہ تبلیغ کی اِس محنت کی برکت سے دینی جماعتوں میں ایک دوسرے کی ضرورت اور خوبیوں کے اعتراف، ساتھ مل کر چلنے اور برداشت کا کلچر پیدا ہوا۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کا ایک مسلک پر جمع ہونا ممکن نہیں، البتہ دین سب کا مشترک ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام جو ایک وقت میں ازالۂ منکَر کا نقیب ہوتا تھا اور جو ہماری کم قسمتی کی وجہ سے کہیں اشاعتِ مسلک کا نمائندہ اور کہیں محض اظہارِ منکَر بن کر رہ گیا تھا، بحمداللہ اپنے قدیم، روایتی معنوں میں زندہ ہوا اور دینی جماعتیں151 اشاعتِ مسلک اور وقتی ضرورتوں اور ضرورتِ حادثہ کی پیداکردہ خودبافتہ ترتیبوں پر چلنے کے ساتھ ساتھ151 دین کی اجتماعی فکر پر جمع ہونے لگیں۔ اجتماعیت اور نقل و حرکت وہ بنیاد تھی جس پر اِس امت کا ’’امت پنا‘‘ اُستوار تھا۔ آج یہ بنیاد کمزور پڑگئی ہے۔ جماعتوں کا یہ پھرنا پھرانا بحمداللہ اِسی بنیاد کو بھررہا اور مضبوط کررہا ہے۔ ؂
مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے
مومن کا مقام ہر کہیں ہے
رائے ونڈ کا اجتماع بھی اِسی سلسلے ہوتا ہے کہ امت اپنے کام کو پہچانے، اپنی حیثیت پہچانے اور اپنے کام پر واپس آجائے۔ سروں کا گننا، سیاست گردی، دنیا طلبی، کرسیوں اور کرسی داروں کی ہواخواہی، وغیرہ، کا یہاں گزر نہیں۔ اجتماعِ حجِ بیت اللہ کے بعد یہ واحد فورم ہے جہاں ہر مشرب، طبقے، زبان اور ملک کے مسلمان جمع ہوتے ہیں اور اپنی آتشِ مسلمانی کو ہوا دیتے ہیں۔ اللہ پاک مجھے، آپ کو اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو اِس عالی کام میں لگنے کی توفیق دے۔ یہ کام سراسر عمل ہے، باتیں نہیں۔ دعا ہے کہ اللہ اِس نقل و حرکت اور اجتماعیت کی حفاظت فرمائے، قربانی اور صفات میں مزید آگے بڑھنے والا بنائے اور تمام عالم میں دین کی سرسبزی اور شادابی کو سر کی آنکھوں سے دیکھنا نصیب فرمائے۔ آمین۔ 

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ (۳)

حافظ محمد زبیر

امام شاطبیؒ کا موقف

امام شاطبیؒ کا موقف بھی وہی ہے جو کہ امام شافعی ؒ کاہے کہ سنت نہ توقرآن کو منسوخ کرتی ہے اور نہ ہی اس کے کسی حکم پر اضافہ کرتی ہے بلکہ یہ اس کا بیان(یعنی قرآن کے اجمال کیتفصیل‘ مشکل کا بیان‘مطلق کی مقید اور عام کی مخصص) ہے۔امام شاطبیؒ لکھتے ہیں :
’’سنت یا تو کتاب کا بیان ہوتی ہے یا اس پر اضافہ ہوتی ہے اگر تو وہ کتاب کا بیان ہو تو اس کے مقابلے میں کہ جس کا وہ بیان ہے ثانوی حیثیت رکھتی ہے...اور اگر وہ بیان نہ ہوتو پھر اس کا اعتبار اس وقت ہو گا جبکہ وہ کتاب اللہ میں موجود نہ ہو۔ ‘‘ (الموافقات‘جلد۲‘ الجز الرابع‘ ص۳‘دار الفکر)
غامدی صاحب نے امام شاطبی ؒ کی اس عبارت کواپنے موقف کی تائید میں تو نقل کر دیا کہ دیکھیں امام شاطبیؒ بھی یہ کہتے ہیں کہ سنت ‘قرآن پر اضافہ نہیں کر سکتی ‘لیکن ان سینکڑوں روایات کا غامدی صاحب نے بالکل بھی تذکرہ نہ کیا کہ جو بظاہر قرآن پر اضافہ معلوم ہوتی تھیں لیکن امام شاطبیؒ نے انہیں قرآن کا بیان ثابت کیا۔امام شاطبیؒ کا موقف یہ نہیں ہے کہ جو روایات تمہیں کتاب اللہ پر اضافہ معلوم ہوں‘ ان کو رد کر دوجیسا کہ غامدی صاحب نے ان کے قول سے یہ مطلب نکالنے کی کوشش کی ہے بلکہ امام شاطبی ؒ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جو روایات بھی کتاب اللہ پر اضافہ معلوم ہو ں وہ کتاب ا للہ کا بیان ہی ہوں گی ہم اگر غور و فکر کریں تو اس بات کو آسانی سے معلوم کر سکتے ہیں پھر اسی موقف کو ثابت کرنے کے لیے امام شاطبیؒ نے اپنی کتاب ’المواقفات‘ میں ان سینکڑوں روایات کو قرآن کی آیات کا بیان ثابت کیا ہے کہ جو بظاہر قرآنی احکام پر اضافہ معلوم ہوتی تھیں۔امام شاطبی ؒ اپنے اسی موقف کی وضاحت کرتے ہوئے ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’سنت کے احکامات کا اصل قرآن میں موجود ہوتا ہے۔پس سنت ‘قرآن کے مجمل کی تفصیل‘مشکل کا بیان‘اور اختصار کی شرح ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ سنت‘ قرآن کا بیان ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :ہم نے آپؐ کی طرف ذکر کو نازل کیا ہے تا کہ آپؐ لوگوں کے لیے ان کی طرف نازل کیے گئے کو واضح کریں ۔پس تم سنت میں کوئی بھی ایسا حکم نہ پاؤ گے کہ جس پر قرآن نے اجمالاً یا تفصیلاً رہنمائی نہ کی ہو۔ ‘‘ (الموافقات ‘ ۲/۶)
جیسا کہ امام شاطبی ؒ نے لکھا ہے کہ سنت‘قرآن کا ہر حال میں بیان ہی ہوتی ہے اسی طرح انہوں نے الحمد للہ اس اصول کواپنی کتاب ’الموافقات‘ میں ثابت بھی کیا ہے۔امام شاطبی ؒ کا کہنا یہ ہے کہ 
۱) بعض اوقات ہمیں سنت کے بعض احکامات ‘قرآن پر اضافہ معلوم ہوتے ہیں لیکن وہ اضافہ نہیں ہوتے بلکہ قرآن کا بیان ہوتے ہیں کیونکہ شرح بھی مشروح سے زائد ہی ہوتی ہے۔امام شاطبیؒ لکھتے ہیں :
’’جیسا کہ سائل کے سوال میں ہے تو لازمی بات ہے کہ(سنت کے یہ احکامات) اضافہ ہے اور اس کو اضافہ مانا جائے گا ۔لیکن اس اضافے کے بارے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ کیا یہ اضافہ ایسا اضافہ ہے جو کہ شرح کا مشروح پر ہوتا ہے جیسا کہ ہر شرح اس بیان پر مشتمل ہوتی ہے جو کہ مشروح میں نہیں ہوتا ‘اگر ایسا نہ ہو تو پھر اس کو کوئی شرح نہیں کہے گایا یہ اضافہ کسی دوسرے ایسے معنی کو شامل ہے جو کہ کتاب میں موجود نہیں ہے اور یہ مسئلہ علماء کے درمیا ن اصل محل نزاع ہے(یعنی بعض علماء سنت کے اضافے کو قرآن کے مجمل کا بیان بناتے ہیں جیسا کہ اما م شافعیؒ کا موقف ہے اور بعض علماء سنت کے اضافے کو قرآنی حکم میں اضافہ کی بجائے معنی جدید کا اضافہ قرار دیتے ہوئے قبول کرتے ہیں جیسا کہ ابن تیمیہؒ اور ابن قیم ؒ نے بیان کیاہے) ...اسی طرح اگر قرآن میں ایک حکم اجمالی طور پر ہے اور سنت میں اس کی تفصیل ہے تو جو سنت میں حکم ہے وہ ‘ وہ حکم نہیں ہے جو کہ قرآن میں ہے ۔جیسا کہ قرآن کا حکم ہے ’أقیموا الصلاۃ‘ ۔قرآن کے اس حکم میں ’الصلاۃ‘ کا لفظ مجمل ہے اور اللہ کے رسولﷺ نے اس کے اجمال کو بیان کیا ہے اور اللہ کے رسولﷺ کے بیان سے جو معنی حاصل ہوا ہے وہ ’مبین‘ یعنی صرف کتاب سے حاصل نہیں ہوتا تھااگرچہ اللہ کے رسولﷺ کے بیان کی مراد اور کتاب کی مراد ایک ہی ہے لیکن پھر بھی دونوںیعنی’ بیان‘ اور’ مبین‘ً حکم میں مختلف ہوں گے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب تک مجمل کا بیان نہ ہو اس وقت تک اس پر عمل کرنے کا حکم توقف ہے لیکن جب مجمل کا بیان ہو جائے تو اس کے مقتضی پر عمل کیا جائے گا(جیسے قرآن کا حکم ’أقیموا الصلاۃ‘ ایک مجمل حکم ہے اور اس پر عمل اس وقت تک نہ ہو گا جب تک اللہ کے رسولﷺ اس کا بیان نہ فرما دیں) لہذا جب ثابت ہو گیا کہ دونوں یعنی کتاب اور بیان کا حکم مختلف ہے (کیونکہ ’أقیموا الصلاۃ‘ میں کتاب کے حکم پر توتوقف ہو گا جبکہ سنت کے حکم پر عمل ہو گا) تو دونوں کا معنی بھی مختلف ہو گاپس اس طرح سنت کے احکامات کا بھی کتاب کے بالمقابل انفرادی حیثیت میں بھی اعتبار ہو گا۔‘‘ (الموافقات‘ ۲/۱۰‘۱۱)
۲) امام شاطبی ؒ کے نزدیک بعض وہ روایات جوکہ قرآن پر اضافہ معلوم ہوتی ہیںیا اس کے کسی حکم کی تحدیدکررہی ہوتی ہیں وہ درحقیقت قرآنی آیات میں اللہ کی منشا و مراد کو واضح کر رہی ہوتی ہیں۔امام شاطبیؒ لکھتے ہیں:
’’جیسا کہ سنت تبیین کرتی ہے یہ مجمل کی وضاحت ‘مطلق کی تقیید اور عموم کی تخصیص کرتی ہے ۔ پس اس توضیح ‘تقیید اور تخصیص کی وجہ سے بعض اوقات قرآن کے بہت سے صیغے اپنے ظاہری لغوی مفہوم سے باہر نکل جاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سنت ان تمام صورتوں میں یہ واضح کر رہی ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کی ان صیغوں سے مراد کیا ہے ؟پس جس شخص نے ان تین صورتوں میں سنت کی وضاحت کو چھوڑ کر خواہش نفس سے ظاہری صیغوں کی پیروی کی تو ایسا غور و فکر کرنے والا اپنے غور و فکر میں گمراہ بن جائے گا‘کتاب اللہ سے جاہل شمار کیا جائے گا اور جہالت کے اندھیروں میں پڑا رہے گا اور کبھی ہدایت نہ پا سکے گا۔ ‘‘ (الموافقات‘ ۲/۱۱)
امام شاطبیؒ اس کی مثال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مثلا جب قرآن کے حکم ’چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹو‘کا بیان ہمیں سنت سے یہ ملا کہ ہاتھ کلائی سے کاٹا جائے گااور چوری کی ہوئی چیز کا بھی ایک نصاب مقرر ہے( اس نصاب جتنے یا اس سے زائد مال کی چوری ہو گی تو ہاتھ کاٹا جائے گا) اور یہ چوری مالِ محفوظ میں سے ہووغیرہ توسنت کے ان تمام احکامات کے بارے میں ہم یہی کہیں گے کہ سنت نے اللہ تعالی کی اس آیت سے مراد کو واضح کیا ہے نہ کہ اپنی طرف سے کچھ مزید احکامات کو ثابت کیا ہے۔اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ امام مالکؒ اور اس طرح دوسرے مفسرین ہمارے لیے قرآن کی کسی آیت یاحدیث کا معنی واضح کرتے ہیں تو جب ہم امام مالکؒ کی تفسیر وتوضیح پر عمل کرتے ہیں تو ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم یہ بات کہیں:کہ ہم نے فلاں مفسر کے قول پر عمل کیاہے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے قول پر عمل نہیں کیا۔‘‘ (الموافقات‘ ۲/۵)
لہٰذا امام شاطبیؒ کے بیان کے مطابق سنت میں موجود تخصیص ‘ تحدید اور تقیید وغیرہ قرآنی الفاظ سے اللہ کے منشا کو واضح کر رہے ہوتے ہیں جیسا کہ ہر مفسراور عالم اللہ کی منشا ومراد کو اپنے محدودعلم کی روشنی میں متعین کرتا ہے۔ 
۳) امام شاطبیؒ کے نزدیک سنت کے بعض وہ احکامات جوقرآن کی کسی آیت کے ناسخ یا اس کے مفہوم کو تبدیل کرنے والے معلوم ہوتے ہیں‘ وہ درحقیقت اللہ کے رسول ﷺ کا قرآن کی کسی آیت کا وہ گہرا فہم ہے کہ جس کی عدم موجودگی کی صورت میں امت قرآن کوسمجھنے میں غلطی کھا سکتی تھی ۔اما م شاطبیؒ کے نزدیک اللہ کے رسولﷺ نے آیت ’و امھتکم التی أرضعنکم و أخواتکم من الرضاعۃ ‘کے ساتھ اور بھی بہت سے رضاعی رشتوں کو قیاس کے ذریعے ملا دیاکیونکہ نص میں موجود ان دورضاعی رشتوں اور باقی رضاعی رشتوں میں کوئی فارق موجود نہیں ہے ‘عام اہل اجتہاد کے لیے ان دو رضاعی رشتوں سے باقی رضاعی رشتوں کی حرمت نکالنا ممکن نہ تھا ‘ لہذا اللہ کے رسولﷺ نمے قرآن کی اس نص کے گہرے فہم کو اپنی سنت کے ذریعے امت تک منتقل کر دیا کہ جس تک پہنچنے میں امت ترددو اختلاف کا شکار ہوسکتی تھی ۔امام شاطبیؒ لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالی نے آیت مبارکہ ’اور تمہاری وہ مائیں کہ جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعی بہنیں بھی تمہارے اوپر حرام کی گئی ہیں ‘میں رضاعت کے دو رشتوں کی حرمت کا تذکرہ کیا ہے تو اللہ کے رسولﷺ نے ان دو رشتوں کے ساتھ رضاعت کے باقی ان تمام رشتوں کو بھی ملا دیا جو کہ نسب کی وجہ سے حرام ہیں جیسا کہ پھوپھی ‘خالہ‘بھتیجی ‘بھانجی وغیرہ ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے ان رضاعی رشتوں کو قیاس کے بعد آیت میں مذکورہ دو رشتوں سے ملا دیا کیونکہ سنت میں بیان شدہ رضاعی رشتوں اور قرآن کے رضاعی رشتوں میں کوئی فرق کرنے والی چیز موجود نہیں ہے ۔اگر اللہ کے رسولﷺ کی سنت نہ ہوتی تواللہ کے رسولﷺ کے علاوہ جو مجتہدین ہیں وہ اس غور و فکر اور تردد میں مبتلا ہو جاتے کہ نص میں موجود رضاعی رشتوں کی حرمت پر ہی اکتفاکریں یانص میں قیاس کر تے ہوئے اور بھی رضاعی رشتوں کو ان دو رشتوں کے ساتھ ملا دیں۔پس اللہ کے رسولﷺ نے اپنے علاوہ مجتہدین کو اس تردد سے نکالنے کے لیے اس آیت کے بیان میں یہ سنت جاری فرما دی کہ ’اللہ تعالی نے جورشتے نسب سے حرام ٹھہرائے ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام کیے ہیں ‘ اور اس طرح کی باقی تمام روایات کا بھی یہی معنی ہے ۔‘‘ (الموافقات‘ ۲/۲۴) 
غامدی صاحب اس بات پر مصر ہیں کہ اس آیت کا اسلوب بیان ایسا ہے کہ ہر شخص قرآن میں موجو د ’وأخواتکم من الرضاعۃ‘ کے الفاظ سے باقی رضاعی رشتوں کی حرمت بھی خود ہی نکال سکتا ہے جبکہ امام شاطبیؒ جو کہ غامدی صاحب کی طرح عجمی نہیں ہیں اور امت نے ان کو مجتہدین علماء میں بھی شمار کیا ہے ‘ ان کی رائے یہ ہے کہ ایک عام آدمی توکجا ایک مجتہد کے لیے بھی قرآن کی اس عبارت ’و امھاتکم التی أرضعنکم و أخواتکم من الرضاعۃ‘سے سنت کے بیان کے بغیر باقی رضاعی رشتوں کی حرمت نکالنا بہت مشکل تھا ۔ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ غامدی صاحب کے عجمی ہونے کے باوجود یہ ممکن ہے کہ وہ امام شاطبی ؒ جیسے عربی النسل‘امام ‘فقیہ ‘مجتہد اور اصولی سے زیادہ قرآن کے اسلوب سے واقف ہوں۔غامدی صاحب کے دعوی کے مطابق قرآن پر تدبر کرنے والے ہر شخص کے لیے ’و أخواتکم من الرضاعۃ‘سے بالبداہت باقی بھی رضاعی رشتوں کی حرمت واضح ہوجاتی ہے لیکن ہم یہ کہتے ہیں یا توقرآنی الفاظ کی یہ بداہت و وضاحت صرف غامدی صاحب کے حصے میں ہی آئی یا پھر قرآن پر تدبر کا شرف پچھلی چودہ صدیوں میں غامدی صاحب کو ہی حاصل ہوا کیونکہ غامدی صاحب کی طرح کسی بھی عربی النسل فقیہ ‘مجتہد یا اصولی کو ’و أخواتکم من الرضاعۃ‘ سے باقی رضاعی رشتوں کی حرمت سمجھ میں نہیں آئی۔بلکہ امام شاطبیؒ جیسے مجتہد اور فقیہ کا کہنا تو یہ ہے کہ ان الفاظ سے باقی رضاعی رشتوں کی حرمت نکالنا ایک عام مجتہد کے بس کی بات نہ تھی اسی لیے تو سنت کو جاری کیا گیا۔
امام شاطبی ؒ اپنی کتاب ’الموافقات‘ میں اس کی ایک اورمثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے جو ’ذی مخلب‘ اور ’ذی ناب‘ کو حرام قرار دیا وہ ’قل لا أجد فیما أوحی الی محرما...‘ پر اضافہ نہیں ہے بلکہ یہ آیت مبارکہ ’یحل لھم الطیبات و یحرم علیھم الخبائث‘ کابیان ہے کیونکہ بعض جانور اور پرندے ایسے تھے کہ جن کے بارے میں آپؐ کے علاوہمجتہدین کو یہ اشکال پیدا ہوسکتا تھا کہ وہ ’الطیبات‘ میں سے ہیں یا ’الخبائث‘ میں سے‘تو اللہ کے رسولﷺ نے ایسے جانوروں کے بارے میں اپنی سنت جاری فرما دی۔امام شاطبیؒ لکھتے ہیں:
’’ان میں ایک یہ ہے کہ اللہ تعالی نے طیبات کو حلا ل قرار دیا ہے اور خبائث کو حرام ٹھہرایا ہے اور کچھ چیزیں ایسی تھیں کہ ان دونوں کے درمیان تھیں ان کا ان دونوں میں سے کسی ایک یعنی طیبات یا خبائث سے الحاق ممکن تھاتو اللہ کے رسولﷺ نے ایسی تمام اشیاء کے بارے میں کہ جن کے طیب یا خبیث ہونے میں اشکال ہو سکتا تھا وضاحت فرمادی کہ یہ طیب ہے یا خبیث ہے پس آپؐ نے درندوں میں سے ہر کچلی والے درندے اور پرندوں میں سے پنجوں والے پرندوں کے کھانے سے منع فرمایا۔ ‘‘ (الموافقات‘جلد۲‘ الجز الرابع‘دار الفکر‘ ص۱۸)
غامدی صاحب کے نزدیک ’یحل لھم الطیبات و یحرم علیھم الخبائث ‘میں ’الطیبات ‘ اور ’الخبائث‘ کا تعین فطرت انسانی سے ہو گا اور جہاں فطرت انسانی میں کسی جانور کے بارے میں اختلاف ہوجائے کہ یہ طیبات میں سے ہے یا خبائث میں سے ہے وہاں اہل عرب کے مزاج اور فطرت کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو گی ۔غامدی صاحب کا یہ موقف جمہور اہل سنت امام ابو حنیفہؒ ‘ امام مالکؒ ‘ امام احمدؒ ‘امام ابن تیمیہ ؒ اور امام شاطبی ؒ وغیرہ کے نقطہ نظر کے خلاف ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہؒ نے ’مجموع الفتاوی‘ میں اس پر مفصل بحث کی ہے کہ اہل عرب کی فطرت یا مزاج سے طیبات یا خبائث کا تعین قرآن و سنت اور جمہور کی رائے کے خلاف ہے ۔

امام ابن تیمیہؒ کا موقف

امام ا بن تیمیہ ؒ بھی قرآن کے ‘ سنت سے نسخ کے قائل نہیں ہیں اور سنت کو قرآن کا صرف بیان ہی مانتے ہیں۔ امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:
’’پس اس آیت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کو صرف قرآن ہی منسوخ کر سکتا ہے جیسا کہ امام شافعی ؒ مذہب ہے اور امام احمدؒ سے ثابت شدہ دو روایتوں میں سے صحیح روایت یہی ہے بلکہ یہی قول امام احمدؒ سے نصاً ثابت ہے کہ قرآن کو بعد میں آنے والا قرآن ہی منسوخ کرے گا اور عام حنابلہ کا مذہب بھی یہی ہے ۔‘‘ (فتاوی ابن تیمیۃ ۱۷/۱۹۵)
یہ واضح رہے کہ امام صاحب کی یہاں پر نسخ سے مراد قرآن کے کسی حکم کا مکمل طور پر رفع ہو جانا ہے نہ کہ جزوی حکم کا اٹھ جانا۔امام ابن تیمیہ ؒ نے بعض ایسی روایات کو جو کہ بظاہر قرآن پر اضافہ معلوم ہوتی ہیں‘ قرآن کا نسخ شمار کرنے کی بجائے اس کی کسی دوسری آیت کا بیان قرار دیتے ہیں ۔امام صاحبؒ کے نزدیک اللہ کے رسولﷺ نے ’ذی ناب‘ اور ’ذی مخلب ‘ کو جو حرام قرار دیا ہے وہ قرآن کے حکم ’قل لا أجد فیما أوحی الی ...‘ کا نسخ نہیں ہے اور نہ ہی اس پر اضافہ ہے کیونکہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اس آیت کے نزول تک جو وحی آپؐ پر نازل ہوئی ہے اس میں صرف چار چیزوں کو حرام قرار دیا گیا۔ امام ابن تیمیہ ؒ لکھتے ہیں :
’’اسی وجہ سے آپؐ کا درندوں میں سے کچلی والوں اور پرندوں میں سے پنجوں والوں کو حرام قرار دینا قرآن کی آیت ’آپؐ کہہ دیں کہ جو میری طرف وحی کی گئی ہے ‘ اس میں ‘ مَیں کسی بھی کھانے والے پرکسی چیز کو حرام قرار نہیں دیتا کہ جس کو وہ کھاتا ہے ‘کا نسخ نہیں ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس آیت کے نزول سے قبل تین قسم کی چیزوں کو ہی حرام قرار دیا تھا۔یہ آیت اپنے نزول تک تین قسم کی چیزوں کے علاوہ کی حرمت کی نفی کرتی ہے(نہ کہ اپنے نزول کے بعد حرام ہونے والی چیزوں کی حرمت کی نفی) ۔اس آیت سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ ان تین چیزوں کے علاوہ تمام اشیاء حلال ہیں ۔لیکن اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ (اس آیت کے نزول تک تو اللہ تعالی نے صرف چار ہی چیزوں کو حرام قرار دیا ہے لیکن) اللہ تعالی نے باقی چیزوں کی حلت و حرمت کو درگزر کرتے ہوئے بیان نہیں کیا (یعنی باقی اشیاء اس آیت کے نزول تک نہ حلال ہیں نہ حرام‘بلکہ اپنا حکم آنے تک معفو عنھا ہیں)جیساکہ کسی بچے کایا مجنون کا فعل ہے ۔اسی طرح معروف حدیث میں ہے :حلال وہ ہے جسے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں حرام ٹھہرایا ہے اور جس کے بارے میں اللہ تعالی خاموش ہیں اس سے اللہ تعالی نے درگزر فرما دیا ہے (یعنی اللہ کے رسولﷺ نے جو ’ذی ناب‘ اور ’ذی مخلب‘ کو حرام قرار دیا ہے وہ ‘وہ جانور تھے کہ جن کے بارے میں کتاب اللہ میں سکوت تھا) اور یہ حدیث حضرت سلمان فارسیؓ سے محفوظ موقوفاً یا مرفوعاً ثابت ہے ۔‘‘ (فتاوی ابن تیمیۃ: کتاب الفقہ‘ فصل الانکار علی من یأکل ذبائح أھل الکتاب)
ایک اور جگہ اپنے اسی موقف کی وضاحت کرتے ہوئے امام صاحب ؒ لکھتے ہیں کہ ’ذی ناب‘ اور ’ذی مخلب‘ کی تحریم سنت کی طرف سے ایک ابتدائی حکم تھا نہ کہ قرآن کا نسخ یا اس پر اضافہ‘ اور سنت کا ایسا حکم کہ جس میں سنت ابتداء کسی چیز کو حرام قرار دے‘ اس کو ماننا واجب ہے ۔امام صاحبؒ لکھتے ہیں :
’’اللہ کے نبیﷺ نے ہر کچلی والے درندے اور پنجوں والے پرندوں کو حرام قرار دیا ہے اور یہ کتاب اللہ کا نسخ نہیں ہے کیونکہ کتاب اللہ نے ان درندوں اور پرندوں کو کبھی بھی حلال قرار نہیں دیا بلکہ ان کی حرمت سے سکوت اختیار کیاتھا۔پس ان جانوروں اور پرندوں کی حرمت آپؐ سے شریعت کے ایک ابتدائی حکم کے طور پر جاری ہوئی۔اور ایسی حرمت جو کہ آپؐ سے ابتدائی طور پر جاری ہوئی ہو اس کے بارے میںآپؐ سے حضرت أبو رافعؓ ‘حضرت أبو ثعلبہؓ اور حضرت أبو ھریرۃؓ وغیرہم سے مروی روایتکے الفاظ ہیں :میں تم میں سے کسی ایک کو تکیہ لگائے ہوئے اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کے پاس میری طرف سے کوئی ایسا أمر آئے کہ جس کے کرنے کا میں نے حکم دیا ہو یا جس سے میں نے منع کیا ہوتو وہ یہ کہے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان قرآن ہی کافی ہے جس کو قرآن نے حلال کہا ہے ہم اس کو حلال کہتے ہیں اور جس کوقرآن نے حرام ٹھہرایا ہے ہم اسے حرام ٹھہراتے ہیں ۔خبرار!مجھے قرآن بھی دیا گیاہے اور اس کی مانند اس کے ساتھ کچھ اور بھی دیا گیا ہے ۔ایک اور روایت کے الفاظ ہیں :مجھے قرآن کی مثل یا قرآن سے زائد بھی کچھ دیا گیا ہے ۔خبردار!میں نے کچلی والے درندوں کو حرام ٹھہرایاہے ۔پس آپؐ نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ آپؐ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی نازل ہوتی تھی اور یہی وحی ’حکمت‘ کہلاتی ہے(یعنی جس کا ذکرقرآن کی آیت مبارکہ ’واذکرن ما یتلی فی بیوتکن من آیات اللہ و الحکمۃ‘ میں ہے )اور اسی وحی میں (جو قرآن کے علاوہ ہے)آپؐ کو اللہ تعالی نے خبر دی کہ ’ذی ناب‘ اور ’ذی مخلب‘ حرام ہیں اور آپؐ کا یہ فرمان کتاب اللہ کا نسخ نہیں ہے کیونکہ کتاب اللہ نے ان جانوروں اور پرندوں کو کبھی بھی حلال نہیں کہا بلکہ کتاب اللہ نے تو ’الطیبات‘ کو حلال قرار دیا ہے اور یہ جانور اور پرندے’ طیبات‘ میں سے نہیں ہیں۔ ‘‘ (فتاوی ابن تیمیۃ:کتاب العقیدۃ‘ فصل أحادیث تنازع الناس فی صحتھا)
امام ابن تیمیہؒ کے نزدیک ’ذی مخلب‘ اور ’ذی ناب‘ کی سنت میں حرمت ‘ قرآن کی آیت ’یحل لھم الطیبات و یحرم علیھم الخبائث ‘ کا بیان ہے ۔امام صاحبؒ لکھتے ہیں :
’’اور اللہ تعالی کا قول’آپؐ ان کے لیے طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام ٹھہرائیں گے ‘اللہ کی طرف سے یہ خبر ہے کہ آپ مستقبل میں ایساکریں گے پس آپؐ نے طیبات کو حلال ٹھہرایا ہے اور خبائث کو حرام قرار دیا ہے جیساکہ آپؐ نے ہر کچلی والے درندے اور ہر پنجوں والے پرندے کو حرام قرار دیا ہے ۔ ‘‘ (فتاوی ابن تیمیۃ: کتاب التفسیر‘ فصل الناس فی مقام حکمۃ الأمر و النھی علی ثلاثۃ أصناف)
غامدی صاحب کے نزدیک ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کا تعین فطرت انسانی سے ہوگا جو کہ خود غامدی صاحب کے اصول ’’قرآن قطعی الدلالۃہے‘‘ کے خلاف ہے ۔کیونکہ اگر فطرت انسانی سے ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کا تعین کیا جائے گا تو قرآن کے ان الفاظ کا معنی کبھی بھی متعین نہ ہو سکے گااور فطرت میں اختلاف کی صورت میں ایک فقیہ کے نزدیک ایک جانور حلال ہو گا اور دوسرے کے نزدیک وہی جانور حرام ہو گا۔ کیا عربی معلی میں ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کا کوئی معنی نہیں ہے؟کہ غامدی صاحب کویہ کہنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کے معنی اور مصداقات کا تعین فطرت انسانی سے ہو گا۔حقیقت یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ بھی قرآنی الفاظ’ الصلاۃ‘ اور ’الحج‘ اور ’الصیام‘ اور ’الزکوۃ‘ وغیرہ کی طرح مجمل ہیں کہ جن کا بیان سنت ہے نہ کہ فطرت‘ کیونکہ صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے گوہ کے گوشت اور پیازکوطبعاً ناپسند کرنے کے باوجود حلال قرار دیا۔ امام ابن تیمیہ ؒ ’الخبائث‘ اور ’الطیبات‘ کا معنی اور ان کی حرمت و حلت کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’جمہور علماء کاکہنا یہ ہے کہ طیبات سے مراد وہ چیزیں ہیں کہ جنہیں اللہ تعالی نے حلال قرار دیا ہے اور ان کا کھانادین میں نفع کا باعث ہے اور خبیث سے مراد ہر وہ چیز ہے کہ جو اپنے کھانے والے کے دین کو نقصان پہنچانے والی ہو۔اور دین کی أصل عدل ہے کہ جس کے قیام کے لیے اللہ تعالی نے رسولوں کو مبعوث فرمایا‘پس جو چیز اپنے کھانے والے میں ظلم اور زیادتی پیدا کرتی ہے اللہ تعالی نے اسے حرام قرار دے دیا ہے۔ جیسا کہ ہر کچلی والے درندے کے کھانے کو حرام قرار دیا گیاکیونکہ ایسادرندہ سرکش اور حد سے بڑھنے والاہوتا ہے اور غذا دینے والاغذا لینے والے کے مشابہ ہوتا ہے ۔پس جب کسی ا نسان کاگوشت ایسے جانور سے پیدا ہو گاتو اس انسان کے اخلاق میں سرکشی اور زیادتی پیدا ہو جائے گی۔ اسی قسم کا حکمخون کا بھی ہے جو کہ شہوت اور غصے سے متعلقہ نفسانی قوتوں کو جمع کرتا ہے۔پس جب انسان ایسی چیزوں کو بطور غذا استعمال کرتا ہے تو اس کی شہوت اور غصہ اعتدال سے بڑھ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے بہائے گئے خون کو حرام قرار دیا گیا ہے اور اس تھوڑے سے خون کو جائز قرار دیا گیا جو کہ جانور کے جسم میں باقی رہ جاتا ہے کیونکہ یہ ضرر نہیں دیتا(یعنی انسان کی شہوت اور غصہ نہیں بڑھاتا)اور خنزیر کا گوشت اس لیے خبیث ہے کہ یہ لوگوں میں برے اخلاق پیدا کرتا ہے ۔‘‘ (فتاوی ابن تیمیۃ: جلد۱۹‘ ص۲۴ و ۲۵)
غامدی صاحب کے نزدیک اگر کسی جانور کے بارے میں فطرت انسانی میں اختلاف ہوجائے کہ وہ ’الطیبات‘ میں سے ہے یا ’الخبائث ‘ میں سے ہے ‘تو ایسی صورت حال میں اہل عرب کافطری رجحان فیصلہ کن ہو گا ۔ جبکہ امام ابن تیمیہؒ اس مسئلے میں اہل علمء کی آراء نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اور اسی طرح علماء میں سے جس کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے تمام مسلمانوں پر اس کوحرام قرار دیا ہے کہ جس کو اہل عرب خبیث سمجھتے تھے اور اس کو حلال قرار دیاہے کہ کہ جس کو اہل عرب طیب سمجھتے تھے تو جمہور علماء امام مالکؒ ‘امام ابو حنیفہؒ ‘ امام احمد ؒ ‘ اور متقدمین حنابلہ کا قول اس کے خلاف ہے۔لیکن امام احمدؒ کے اصحاب میں سے خرقی ؒ اور ایک گروہ نے اس مسئلے میں امام شافعیؒ کی موافقت اختیار کی ہے۔لیکن امام احمد ؒ سے مروی عام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خود ان کا مسلک وہی ہے جو کہ جمہورعلماء ‘صحابہؓ اور تابعینؒ کامسلک ہے کہ کسی چیز کی حرمت و حلت کا تعلق اہل عرب کے کسی چیز کو طیب یاخبیث سمجھنے سے معلق نہیں ہے بلکہ اہل عرب بہت سی ایسی چیزوں کو بھی طیب سمجھتے تھے کہ جن کو اللہ تعالی نے حرام ٹھہرایا ہے جیسا کہ خون‘مردار‘گلا گھٹ کر مرنے والے جانور ‘ چوٹ کھا کر مرنے والے جانور ‘کسی جگہ سے گر کر مرنے والے جانور‘ کسی دوسرے جانور کے سینگ سے مرنے والے جانور‘درندوں کے شکار کا باقی ماندہ‘اور وہ جانور ہیں کہ جن کو ذبح کرتے وقت ان پر غیر اللہ کانام لیا گیا ہو۔اور اہل عرب بلکہ ان کے بہترین لوگ بہت سی ایسی چیزوں کو ناپسند کرتے تھے کہ جن کو اللہ تعالی نے کبھی بھی حرام نہیں ٹھہرایاجیساکہ گوہ کے گوشت کو اللہ کے نبیﷺ ناپسند کرتے تھے اور آپؐ نے فرمایا چونکہ یہ میری قوم کی سرزمین میں نہیں پائی جاتی اس لیے میں اپنے آپ کو اس سے دور رکھ رہاہوں اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ حر ا م نہیں ہے اور آپؐ کے دستر خوان پر گوہ کھائی گئی اور آپؐ دیکھ رہے تھے۔(یعنی آپؐ نے اس کے کھانے سے منع نہیں فرمایا)۔ ‘‘ (فتاوی ابن تیمیۃ: جلد۱۹‘ ص۲۴)
امام ابن تیمیہؒ کا کلام ختم ہوا۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ بعض روایات میں پیاز کابھی ذکرہے۔خیبر فتح ہونے کے بعد جب بعض صحابہؓپیاز کھا کر مسجد میں آئے تو آپؐنے فرمایا:
من أکل من ھذہ الشجرۃ الخبیثۃ فلا یقربنا المسجد فقال الناس حرمت حرمت فبلغ ذلک رسول اللہ ﷺفقال أیھا الناس انہ لیس لی تحریم ما أحل اللہ و لکنھا شجرۃ أکرہ ریحھا (مسند أحمد:۱۰۶۶۲)
’’جس نے اس خبیث درخت(یعنی پیاز) کو کھایا ہو وہ ہماری مسجد کے قریب بھی نہ آئے تو لوگ یہ کہنے لگے کہ پیاز حرام کر دیا گیا ‘حرام کر دیا گیا۔جب آپؐ کو اس کی خبر ہوئی تو آپؐ نے فرمایا :اے لوگو!جس کو اللہ نے حلال ٹھہرایاہے تو مجھے کوئی اختیار نہیں ہے کہ اسے حرام قرار دوں ۔لیکن یہ ایک ایسا درخت ہے کہ جس کی خوشبو مجھے ناپسند ہے ۔‘‘
اس روایت اور اسی جیسی اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی عام انسان کی فطرت یا اہل عرب کی فطرت تو کجااللہ کے رسول ﷺ بھی اپنی فطرت سے کسی چیز کو حرام قرار نہیں دے سکتے۔ بلکہ حلال وہی ہے جسے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے حلال ٹھہرا دیا ہے اور حرام وہی ہے جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام کہا ہے اور جس کے بارے میں قرآن و سنت کی نصوص میں سکوت ہے تووہ حدیث کے الفاظ کے مطابق’ معفو عنھا‘ میں شامل ہے اور مباح ہے۔اس لیے جمہور اہل سنت کے نزدیک ہر حرام کی حرمت نص سے ثابت ہے اسی طرح ہر حلال کی حلت بھی نص سے ثابت ہے ۔امام ابن تیمیہؒ نے کسی جانور کے حرا م ہونے کی اصل بنیاد اس کی خباثت کو ہی بنایا ہے ۔امام صاحب ؒ لکھتے ہیں :
’’اسباب تحریم دو قسم کے ہیں ایک تو درندگی کی قوت ہے جو کہ درندے کے نفس میں ہوتی ہے ا ور اس درندے کو کھانے سے انسان کے جسم میں اس کی بہیمانہ قوت کے اثرات آ جاتے ہیں اور لوگوں کے اخلاق درندوں کے سے اخلاق بن جاتے ہیں یا اس وجہ سے کہ اللہ تعالی اس کو بہتر سمجھتے ہیں اور بعض اوقات حرمت کی وجہ کسی خبیث کا کھانا ہوتا ہے جیسا کہ بعض پرندے کسی گلی سڑی لاش کو کھاتے ہیں یا کچھ چیزوں کی حرمت کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ فی نفسہ خبیث ہوتی ہیں جیساکہ حشرات الأرض ہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ کھانے کی پاکیزگی و خباثت حلت و حرمت میں اثر رکھتی ہے جیساکہ سنت میں جلالۃ(وہ جانور جو کہ گندگی کھاتا ہے ) کے گوشت اور اس کے دودھ اور اس کے انڈے کے استعمال کے بارے میں ممانعت آئی ہے۔کیونکہ بعض اوقات طیب ‘خبیث غذا کی وجہ سے بھی حرام ہو جاتا ہے ۔ ‘‘ (فتاویٰ ابن تیمیۃ: جلد ۲۱‘ ص ۵۸۵)
(باقی)

مکاتیب

ادارہ

(۱)
مکرم ومحترم حافظ عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم
دسمبر کے الشریعہ میں مقاصد شریعہ سے متعلق آپ کا مفصل مضمون پڑھ کر آپ کے علم کی گہرائی وگیرائی کا گمان یقین میں بدل گیا۔ اس مضمون پرتبصرہ کرنا میرے کم علم کے بس کی بات نہیں۔ چند باتیں جو ذہن میں آئی ہیں، لکھ رہا ہوں۔
جاوید احمد غامدی صاحب اور ان کے استاذ نے مشرکین مکہ سے متعلق جو آرا قائم کی ہیں، ان میں سے بیشتر قرآن سے ثابت نہیں۔ افسوس، جاوید صاحب اور ان کے متوسلین علم کے کبر کی وجہ سے ڈھنگ سے جواب نہیں دیتے۔ آپ نے بھی قانون رسالت، اتمام حجت جو لکھا ہے، یہ بھی انھی حضرات کی دین ہے ورنہ سرفراز صاحب صفدر نے میرے علم کی حد تک ایسی بات نہیں لکھی۔ دیکھیں مکہ میں الکہف نازل ہوئی۔ اس میں یہ صراحت ہے: ’من شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر‘۔ لہٰذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انھی مکیوں کو جبراً ایمان قبول کروایا جائے؟ پھر الاعراف ۹۴ سے بھی قانون رسالت ٹوٹ جاتا ہے کہ وہاں نبی کا لفظ آیا ہے۔ ریحان احمد یوسفی کو میں نے قرآن سے بہت سی آیات کی روشنی میں لکھا تھا کہ ’ارسلنا‘ کے لفظ میں رسول بنا کر بھیجنا ثابت نہیں ہوتا، مگر یہ لوگ باوجود ہمارے قرآنی آیات ان کے موقف کے خلاف پیش کرنے کے، ماننے کے لیے تیار نہیں۔ بہرحال آپ نے بھی التوبہ آیت ۱۴ سے استدلال کیا ہے کہ مشرکین مکہ کے لیے بھی عذاب کی علت انکار رسالت تھا۔ معاف کریں، آیت ۱۳ میں اس قتال کی علت بیان کر دی گئی ہے جو یہ تین ہیں: (۱) معاہدوں قسموں کا ایفا نہ کرنا، (۲) رسول کو جلاوطن کرنا، (۳) جنگ کی ابتدا کرنا۔ بتائیے انکار رسالت کہاں سے کشید کر لیا گیا؟
محترم طالب حسین صاحب سے چھ ماہ مغز ماری کے بعد میں خاموش ہو گیا۔ قرآن میں عذاب کی علت بیان کر دی گئی ہے۔ القصص ۵۹ اور سورہ ہود ۱۰۱، ۱۰۲ کو سیاق سے پڑھیں۔ السید الشیخ محمد علی کاندھلوی نے بجا طور پر مشرکین مکہ پر عذاب کی علت الانفال آیت ۱۳، ۱۴ کی تفسیر میں لکھ دی ہے، یعنی دنیا میں عذاب کی علت مخالفت رسول (نہ کہ انکار) اور آخرت میں سزاکی علت انکار رسالت ہے۔ مزید اطمینان کے لیے الاعراف ۱۶۵ تا ۱۶۳ پڑھیں۔ وہاں تو نہ نبی تھا اور نہ رسول، محض مصلحین تھے اور عذاب آ گیا۔ 
آپ بہت ذی علم انسان ہیں۔ میں آپ کی بے حد قدر کرتا ہوں، اس لیے محض اشارات کر دیے ہیں۔ غامدی صاحب کے قانون رسالت کی تغلیط کے لیے ڈھائی سال قرآن دیکھا کہ میرا ایمان اجازت نہیں دیتا کہ قرآن کی عطا کردہ آزادی کو جبر میں تبدیل کر دیا جائے۔ اس آزادی پر ہی تو جزا وسزا ملے گی۔ مشرکین مکہ کے لیے مکہ میں رہنے پر جبر تھا۔ آپ سورۂ انفال اور التوبہ دھیان سے پڑھیں، میری بات سمجھ آ جائے گی۔
الانفال آیت ۳۴ کی شرح میں صاحب تدبر قرآن نے لکھا ہے کہ جھگڑا تولیت کعبہ کا تھا، اسی بنا پر انھیں بے دخل کیا گیا۔ التوبہ کی آیت ۲۸ سے بھی میری تائید ہوتی ہے۔ لہٰذا ان کے لیے بھی تین آپشنز تھے۔ (۱) ایمان لا کرمکہ میں رہ سکتے تھے۔ (۲) مکہ چھوڑ کر چلے جائیں۔ (۳) بصورت دیگر جنگ وقتال۔ یہ بات صرف امین احسن اور ان کے متوسلین کی سمجھ میں نہیں آتی، باقی جمہور مفسرین نے یہ بات لکھی ہے۔ التوبہ کی ابتدائی آیات کی شرح کسی بھی مفسر کی پڑھ لیں، مثلاً تفسیر عثمانی اور تفسیر احسن البیان وغیرہ۔ اس خط کے ہمراہ میں ایک خط بھیج رہا ہوں۔ جاوید صاحب اور ان کی المورد کی ٹیم تو جواب دے نہیں رہی۔ آپ جواب دے سکیں تومیری خلش دور ہو جائے گی۔
آپ نے بھی اپنے مضمون میں دیگر اہل سنت کی طرح لکھا ہے کہ رجم کی سزا تورات میں تھی۔ شاید میں اپنے علم کی حد تک واحد انسان ہوں جو یہ بات نہیں مانتا کیونکہ قرآن سے ثابت ہے کہ رجم کی سزا تورات میں بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ المائدہ آیت ۳۲ میں بنی اسرائیل کے لیے بھی موت کا قانون بیان کر دیا گیا ہے۔
صفحہ ۲۹ پر آپ نے لکھا ہے کہ کوئی حکم کسی علت پر مبنی ہے تو حکم کا وجود وعدم علت کے وجود وعدم پر منحصر ہوگا۔ یہ بات سو فی صد درست ہے، مگر آپ لوگ خود اس پر عمل پھر کیوں نہیں کرتے؟ مثلاً صلوٰۃ قصر کی علت کافروں کا (صرف کافروں کا) خوف ہے۔ تعدد ازواج کی علت یتیموں سے ناانصافی کا اندیشہ وغیرہ۔ ایسے ہی جمع بین الصلاتین پھر ناقابل عمل ہونا چاہیے، کیونکہ نماز وقت موقوت میں ہی فرض ہے۔ 
صفحہ ۲۷ پر آپ نے رسول اللہ پر ایمان لانے اور امت میں شامل ہونے کو لازمی قرار دیا ہے۔ یہ بات ایک پہلو سے ضروری ہے، مگر جنت میں داخلہ امت محمدیہ کے لیے خاص نہیں۔ قرآن میں (۲:۶۲) جنت میں داخلہ کے لیے بغیر شرک کی آمیزش کے اللہ پر صحیح صحیح ایمان لانا، آخرت پر صحیح طور پر ایمان لانا اورعمل صالح بنیادی شرائط ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کیوں ضروری ہے؟ سادہ سی بات ہے کہ ’ان ہذا القرآن یہدی للتی ہی اقوم‘۔ آج قرآن سمجھے بغیر اللہ کی منشا معلوم کرنا بہت مشکل ہے۔ امین احسن صاحب اور شیخ القرآن غلام اللہ صاحب کی شرح اس آیت کے حوالے سے بداہتاً غلط ہے اور غامدی صاحب نے جو ترجمہ اس آیت کا کیا ہے، ان کے عدم تدبر قرآن کا نتیجہ ہے۔ دیکھیں آل عمران ۱۱۳، ۱۱۴ میں بھی اہل کتاب کی تعریف کی گئی ہے۔ چند آیات پہلے بھی ان میں مومنین کا وجود تسلیم کیا گیا ہے۔ آل عمران ۶۴ میں دور رسالت کے اہل کتاب کو صرف توحید مان لینے کی دعوت دی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ یہ دعوت مان لیتے تو جنت میں جا سکتے تھے یا نہیں؟ یہ موضوع بہت تفصیل طلب ہے۔ چند آیات لکھ رہا ہوں۔ ہو سکے تو غور فرمائیں۔ ۱:۷۶، ۲:۵۹و ۶۲ و ۱۰۵، ۳: ۱۱۰ و ۱۱۳ و ۱۱۴، ۴:۱۲۳، ۵:۶۹ سے ثابت ہے کہ اہل کتاب کے بارے میں جمہور امت کی رائے درست نہیں۔
محمد امتیاز عثمانی
امتیاز پائپ اسٹور، H153-154
سردار عالم خان روڈ، راول پنڈی
(۲)
مکرمی امتیاز عثمانی صاحب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ مزاج گرامی؟
میں ممنون ہوں کہ آپ نے میرے مضمون کے بعض بحث طلب نکات کے حوالے سے اپنے خیالات کااظہار فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب کفار سے متعلق جہاد وقتال کے احکام کے حوالے سے آپ نے جس زاویہ نگاہ کی ترجمانی کی ہے، کئی برس سے جاری غور وفکر کے باوجود میں اس سے اتفاق کرنا ممکن نہیں پاتا۔ میں نے اپنی زیر ترتیب کتاب ’’جہاد۔ ایک تقابلی مطالعہ‘‘ میں اس موضوع سے متعلق سوالات پر تفصیلی بحث کی ہے۔ امید ہے کہ آپ اس کی اشاعت تک انتظار کی زحمت گوارا فرمائیں گے۔
عمار ناصر 
(۳)
محترمی ومکرمی !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ مزاج گرامی !
اس اللہ کے نام سے جس کے قبضہ قدرت میں میری آپ کی ساری دنیا جہان کی جان ہے۔ خدارا مسلک دیوبند کی حفاظت کیجیے۔ حضرت ! افغانستان میں خونخوار وحشی درندوں نے جس سفاکی اور درندگی کامظاہر ہ کیا ہے، باجوڑ ایجنسی، لال مسجد، جامعہ حفصہ میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں، اللہ کے مہمانوں کو جس سفاکی، بے رحمی، بے دردی سے شہید کیا گیا، پھر آئے دن علماے کرام بزرگان دین کو جس عیاری مکاری سے شہید کیا جا رہا ہے، دل خون کے آنسو رو رہا ہے، چیخیں نکل گئی ہیں۔
حضرت! اس وقت پور املک ہی نہیں بلکہ ساری امت مسلمہ یتیم ہوچکی ہے۔ ہم ہیں کہ بلک بلک کر رو رہے ہیں۔ ہمار ا کوئی ایک بھی پرسان حال نہیں ہے، نہ فقط نوجوان نسل سے کچھ امید کرسکتے ہیں۔ شاید کوئی ایک شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، قاسم نانوتوی، محمود الحسن، حسین احمد مدنی یا شاہ اشرف علی تھانوی پیدا ہو اور ہمارے سروں پر دست شفقت رکھے۔ مایوسی گناہ ہے مگر موجودہ حالات میں تو معاملہ مایوسی سے بھی کہیں بہت دور پہنچ چکا ہے۔
حضرت! سنا ہے کہ سینکڑوں نہیں ہزاروں طلبہ وفاق المدارس کا اعلیٰ امتحان ہر سال پاس کر کے سند فضیلت حاصل کرتے ہیں، پھر معاشرہ میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ قو موں کی تقدیربدلنے کے لیے توایک مرد قلندر بھی کافی، افسوس کہ یہاں ہزاروں میں ایک بھی نہیں۔ آخر کیا وجہ ہے؟
حضرت! محسو س نہ فرمائیں تو عرض کروں کہ اس کی وجہ ’’تربیت کافقدان‘‘ ہے۔ جسے دیکھو تنگ نظر، تنگ دل، سخت متعصب، بغض، عناد، حسد سے معمور، نہ ملاقات کا ڈھنگ، نہ بات کرنے کا سلیقہ، فقط اپنی ’’انا‘‘ تک محدود۔ پچھلے دنوں ہمارے ہاں ایک بڑا جلسہ ہوا۔ علماے کرام، مقررین، مختلف مدارس کے اساتذہ وطلبہ نے شرکت کی۔ جو بھی آیا اکڑ کر آیا، روکھے تیکھے اندازمیں علیک سلیک کی، عجیب انداز میں الگ ہو کر بیٹھ گیا۔ ایک دوسرے کو گھورتے رہے۔ کن انکھیوں سے بھی دیکھتے رہے مگر خوشگوار ماحول بنا کر کسی نے دوسرے سے بات نہ کی۔ ایسا محسو س ہوا کہ آنے والے کودکھ تھا کہ بیٹھنے والوں نے کھڑے ہوکر میرا استقبا ل کیوں نہیں کیا۔ بیٹھنے والے سوچ رہے تھے کہ آنے والا ہمیں جھک کر کیوں نہیں ملا۔ کسی نے کسی کی عزت اد ب احترام نہیں کیا۔ 
حضرت! اس پر مجھے بڑ ادکھ اور افسوس ہوا کہ مولوی مولوی کی عزت نہیں کرتا۔ ایک ہی مسلک، ایک ہی مشن، عوام تو کالانعام، منتظمین جلسہ نے بھی عزت نہ کی، وہ کیوں کرتے۔ مولوی مولوی کی عزت کرتا ہے، عوام سے بھی علما کی عزت کرواتا ہے۔
حضرت! طلبہ کی تربیت کا سوچیں۔ مدارس میں کتابیں تو رٹوا دی جاتی ہیں، مگر تربیت کا فقدان ہے۔ تربیت کے لیے بڑی عاجزانہ رائے ہے کہ مسجد میں درس قرآن اور در س حدیث کا انتظام کیا جائے۔ نماز فجر کے بعد تمام درجات کے طلبہ کی حاضری لی جائے، ہر درجے کا مانیٹر اپنے اپنے درجہ کی حاضری لے۔ پھر ایک استاد طلبہ سے مخاطب ہو۔ کہے کہ بچو! اللہ ہمارا خالق مالک حاکم ہے، اس کاحکم قرآن کی صورت میں حضور کے واسطے سے ہم تک پہنچا ہے۔ میں اللہ کاحکم پڑھتاہوں،آپ غورسے سنیں، پھر اس پر عمل کریں۔ قرآن کی کوئی آیت پڑھ کر ترجمہ اورمختصر تشریح کرے۔ فلسفیانہ ،منطقیانہ بحث سے اجتناب کرے، سادہ ترجمہ سادہ تشریح ہو،جیسے کسی افسر کاحکم ماتحت ملا زمین کوپڑھ کر سنایا جاتا ہے اورانہیں عمل کی تلقین کی جاتی ہے ۔ بعینہ اسی طرح عشا کی نماز کے بعد حاضری ہو، ایک دوحدیثیں پڑھ کر ان پر عمل کی تلقین کی جائے۔ 
اساتذۃ میں باری باری ایک استادکو ’’معلم الیوم‘‘ مقرر کریں، وہ سارا دن جامعہ میں گھومے پھرے،جائزہ لے کہ طلبہ احکامات الٰہی اور فرمان رسول کے مطابق کس قدر عمل کر رہے ہیں، بچوں کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، آپس کامیل ملاپ، بڑوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت، مہمانوں کا اکرام، اساتذہ کی عزت، بول چال غرض ہر چیز چیک کر کے جامعہ کی ڈائری میں لکھے۔ درس قرآن وحدیث کے بعد کھڑا ہو، کسی طالب علم کانام لیے بغیر مطلق کہے کہ بعض بچے یہ یہ غلطی کرتے ہیں، ملاقات بول چال میں فلاں فلاں کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں، ایسی غلطیوں کوتاہیوں سے اجتناب کریں۔
اساتذہ کی تربیت کا بھی ا نتظام کیاجائے۔ جدید طریقہ ہاے تدریس سے انہیں واقف کیاجائے ۔بچوں کی نفسیات اور ان کی ضروریات سے آگاہی ہو۔ ہر فن کی کتابیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں، لے کر مطالعہ کریں۔ اساتذہ کی شخصیت پرنگاہ رکھیں۔ سب سے اہم مسئلہ یہی ہے۔ طلبہ کی تربیت میں اساتذہ کی ذات گرامی بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔
حضرت! میں نہایت عاجزانہ مود بانہ دست بستہ عرض کرتا ہوں کہ خدارا، مسلک دیوبند کی حفاظت کیجیے۔ میری رائے اور مشورہ سے اتفاق نہ کریں توکوئی بات نہیں، آپ صاحب علم ہیں خود غورفرمائیں۔ جیسے مناسب سمجھیں ویسے کریں۔ یقین جانیے کہ ہم بڑے ذلیل وخوار ہیں، معاشرہ میں ہماری ذرہ برابر عزت نہیں۔ ہم خود آپس میں ایک دوسرے کی عزت نہیں کرتے، نہ اتحاد نہ اتفاق ہے، جس سے فائدہ اٹھاکر لوگ ہمیں پیٹ رہے ہیں۔ فی الحال سیاست میں حصہ نہ لیں، پس پردہ زیر زمین کام کریں، تین سو تیرہ نفوس تیار کریں۔ یقین جانیں چند سالوں میں انقلاب آجائے گا، پوری دنیا میں مسلک دیوبند کی حکومت ہوگی۔
غلام یاسین ،استاد 
نہر کنارہ اللہ آباد 
تحصیل لیاقت پور، ضلع رحیم یارخان 
(۴)
جنا ب مدیر الشریعہ 
السلام علیکم ! ’’الشریعہ‘‘ کے تازہ شمارہ میں جناب منظورالحسن صاحب کا مضمون بعنوان ’’ غامدی صاحب کے تصور کتاب پر اعتراضات کاجائزہ‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ جناب منظور احمد صاحب نے لکھاہے کہ ان کے الفاظ ’’دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں‘‘ سے حافظ زبیر صاحب کا یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ فطرت کے حقائق اور قدیم صحائف بھی غامدی صاحب کے مصادر دین میں سے ہیں۔ میں منظورالحسن صاحب کی اس بات سے متفق ہوں، لیکن مجھے یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ الشریعہ کے تازہ شمارے میں بھی غامدی صاحب کے دفاع میں منظور الحسن نے ہی لکھاہے کہ فطرت کے حقائق اور قدیم صحائف غامدی صاحب کے مآخذدین نہیں ہیں۔ منظور الحسن کے غامدی صاحب کے دفاع میں لکھے جانے والے ان مضامین کو میں کیا سمجھوں؟ غامدی صاحب کی رائے یا منظورالحسن کی؟ منظورالحسن صاحب کے اب تک کے بیانات کے مطابق جو کچھ وہ غامدی صاحب کے دفاع میں لکھ رہے ہیں، حافظ زبیر صاحب کو اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ غامدی صاحب کے الفاظ نہیں ہیں۔ یعنی قارئین منظورا لحسن صاحب کے جواب کو غامدی صاحب کی طرف سے جوا ب سمجھیں، لیکن اگر منظور الحسن صاحب کے جواب پر نقد ہو تو وہ منظورالحسن صاحب پر نقد ہوگی نہ کہ غامدی صاحب پر۔ منظورصاحب بتائیں کیا میں درست سمجھاہوں؟
اسی طرح منظور الحسن صاحب نے اردوالفاظ مآخذ اور مصادر میں کوئی باریک فرق کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرے خیال میں منظور صاحب کی ایسی کوششیں کسی رضوان علی ندوی جیسے عالم کے لیے اس معا ملے میں بہترین محرک ثابت ہوسکتی ہیں کہ وہ اہل مورد کی اردو دانی کا بھی تحقیقی جائزہ لیں۔ مجھے خوشی ہوگی اگر منظور صاحب اہل لغت سے اس باریک فرق کو ثابت کر دیں جو انہوں نے ماخذ اور مصادر میں کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہرحال میں نے حافظ زبیر صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنی کتاب ’’فکر غامدی‘‘ میں جہاں جہاں ماخذ کالفظ ہے، اس کو مصادر سے بدل دیں۔ جناب حافظ زبیر صاحب نے یقین دلایا ہے کہ اگلے ایڈیشن میں ماخذ کی جگہ مصادر کے الفاظ ہوں گے۔
حافظ طاہر اسلام عسکری
قرآن اکیڈمی، ۳۶ ۔کے
ماڈل ٹاؤن، لاہور

الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام فکری نشستیں

ادارہ

  • انسانی حقوق کے عالمی دن ۱۰؍ دسمبر کے موقع پر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ایک خصوصی فکری نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت اکادمی کے ڈائریکٹر مولانازاہد الراشدی نے کی اور اس سے ممتاز ماہرتعلیم پروفیسر غلام رسول عدیم، مولانا مشتاق احمد چنیوٹی اور اکادمی کے ناظم پروفیسر محمد اکرم ورک نے خطاب کیا۔
    مولانا زاہد الراشدی نے خطا ب کرتے ہوئے کہاکہ مغرب میں انسانی حقوق کی جدوجہد کا نقطہ آغاز بارہویں صدی عیسوی کا میگنا کارٹا بتایا جاتا ہے جو بلاشبہ مغربی دنیا کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، لیکن اسلام نے اس سے چھ سو برس پہلے معاشرہ میں انسانی حقوق کا علم بلند کیا تھا اور نہ صرف یہ کہ عوام کو خلیفہ کے انتخاب کا حق دیا بلکہ آزادی رائے، حکومت کے احتساب اور بیت المال سے مستحق لوگوں کی کفالت کا حق بھی سوسائٹی کو دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آج بھی مغربی دنیا سے کہیں زیادہ فطری انسانی حقوق کا علمبردار ہے اور انسانی سوسائٹی کو فلاح اور کامیا بی کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
    مولانا مشتاق احمد چنیوٹی نے خطا ب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی طرز پر انسانی حقوق کے اسلامی چارٹر کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے اسلامی سر براہ کانفرنس کی تنظیم او آئی سی کو موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔
    پروفیسر غلام رسول عدیم نے خطا ب کرتے ہوئے کہاکہ مغرب نے انسانی حقوق کے زیر سایہ فلسطین، عراق، افغانستان اور دنیا کے دیگر خطوں میں عوام کے بنیادی حقو ق کو جس طرح پامال کیا ،ہے اس نے انسانی حقوق کے حوالے سے مغر ب کے دوہرے معیار کا پردہ چاک کر کے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں انسانی حقوق کاڈھنڈوراپیٹنے والوں کو اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ کس طرح وہ انسانی معاشرہ میں اپنے مفادات کی خاطر مظلوم قوموں اور ملکوں کے عوام کے حقوق کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ 
  • ۱۲؍ دسمبر ۲۰۰۷ کو الشریعہ اکادمی میں علماے کرام، طلبہ اور دیگر اہل دانش کی ایک بھرپور نشست منعقد کی گئی جس میں بھارت کے ممتاز عالم دین اور ندوۃ العلما لکھنو کے استاذ الحدیث مولانا سید سلمان الحسینی الندوی نے خطاب کیا۔ نشست کی صدارت الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کی اور اس سے مولانا قاری سیف اللہ اختر، مولانا حافظ محمد یوسف اور دیگر حضرات نے بھی خطاب کیا۔
    مولانا سید سلمان الحسینی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلام ایک مکمل دین اور ضابطہ حیات ہے جسے پورے کا پورا قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے اس طرح حصے بخرے نہیں کیے جا سکتے کہ جس حکم کو چاہا قبول کر لیا اور جسے نہ چاہا نظر انداز کر دیا۔ قرآن کریم نے ایسے طرز عمل کی مذمت کی ہے اور بتایا ہے کہ بنی اسرائیل نے یہ طرز عمل اختیار کیا تو ان پر ذلت ورسوائی مسلط کر دی گئی جبکہ آج ہماری صورت حال یہ ہے کہ ہم نے بھی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے مکمل دین کو مختلف خانوں میں بانٹ رکھا ہے اور ہر خانے میں کام کرنے والے مسلمان اپنے اپنے دائرے پر قناعت کیے ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے آج امت مسلمہ دنیا میں عزت ووقار اور وحدت سے محروم ہو چکی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ضابطے سب کے لیے یکساں ہوتے ہیں۔ جس جرم پر بنی اسرائیل کو ذلت ورسوائی سے دوچار ہونا پڑا، ہمارے لیے اس جرم کی سزا اس سے مختلف نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ علماے کرام کا کام صرف لوگوں کو عبادات سکھانا اور نماز روزے کے مسائل بتانا نہیں ہے بلکہ زندگی کے دوسرے معاملات میں ان کی راہ نمائی کرنا اور انھیں شریعت کے مطابق مسائل سے آگاہ کرنا بھی علماے کرام کی ذمہ داری ہے۔ انھوں نے کہا کہ دینی تعلیم کو صرف مساجد ومدارس تک محدود رکھنا دین کے تصورکو محدود کر دینے کے مترادف ہے جبکہ دین کا دائرہ اس سے بہت زیادہ وسیع ہے اور قرآن وسنت میں عقائد وعبادات کے ساتھ ساتھ اخلاق ومعاملات، تجارت، معیشت، سیاست، عدالت اور دیگر معاملات کے لیے بھی واضح راہ نمائی موجود ہے۔ انھوں نے کہا کہ علماے کرام کو دینی تعلیم کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے اور سوسائٹی کی جو بھاری اکثریت دینی مدارس میں نہیں آتی، انھیں دین کی بنیادی تعلیم سے آراستہ کرنے کا پروگرام بھی تشکیل دینا چاہیے۔
    مولانا قاری سیف اللہ اختر نے اس نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی شعبہ میں دین کا کام کرنے والوں کو دوسرے دینی شعبوں کے کام کا احترام کرناچاہیے اور باہمی تعاون واشتراک کے ساتھ دینی جدوجہد میں اجتماعیت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
    نشست کے شرکا میں مولانا مفتی محمد اویس، مولانا عبد القدوس خان قارن، مولانا عبد الحق خان بشیر، مولانا محمد ظفر فیاض، مولانا محمد ریاض خان سواتی، مولانا حافظ گلزار احمد آزاد، قاری حماد الزہراوی، چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ، حافظ محمد یحییٰ میر، حافظ محمد عمار خان ناصر، پروفیسر محمد اکرم ورک اور دیگر سرکردہ علماے کرام اور اہل دانش شامل تھے۔
    مولانا زاہد الراشدی نے اکادمی کی طرف سے معزز مہمان سید سلمان الحسینی اور ان کے رفقا کی تشریف آوری پر ان کا خیرمقدم کیا اور ان کی دینی وعلمی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا۔ بعد ازاں مولانا سید سلمان الحسینی اور ان کے رفقا نے واپڈا ٹاؤن میں الشریعہ اکادمی کی مجلس مشاورت کے رکن حاجی محمد معظم میر کی طرف سے دیے گئے عشائیہ میں شرکت کی۔

عام انتخابات اور متحدہ مجلس عمل کا مستقبل

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ملک میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے اور بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں اتر چکی ہیں۔ قاضی حسین احمد، عمران خان اور محمود خان اچکزئی کی جماعتوں کے ساتھ ساتھ وکلا کی نمائندہ تنظیموں نے انتخابات کا بائیکاٹ کر رکھا ہے جبکہ ان کے علاوہ کم وبیش تمام سیاسی ودینی جماعتیں الیکشن کے عمل میں شریک ہیں اور دن بدن انتخابی مہم میں تیزی آ رہی ہے۔ ۸؍ جنوری ۲۰۰۸ کو ہونے والے ان انتخابات پر دنیا بھر کی نظریں لگی ہوئی ہیں اور مختلف ممالک اور عالمی اداروں کی طرف سے ان کے نمائندے الیکشن کے عمل کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان آنے والے ہیں۔ 
الیکشن کا بائیکاٹ کرنے والوں کا موقف یہ ہے کہ ایمرجنسی اور پی سی او کے ذریعے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو ان کے مناصب سے الگ کر کے ملک کے عدالتی نظام کو مفلوج کر دیا گیا ہے اور آئین میں شخصی طور پر کی گئی ترامیم کے ساتھ آئین کو مسخ کیا جا چکا ہے، اس لیے ان انتخابات میں حصہ لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ ان کا بائیکاٹ کر کے ایک ایسی تحریک برپا کرنا ضروری ہو گیا ہے جو آئین کی سابقہ پوزیشن کی بحالی اور چیف جسٹس اور ان کے ساتھ پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے تمام ججوں کی ان کے دستوری مناصب پر واپسی پر منتج ہو کیونکہ اس کے بغیر عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت کا قیام ممکن نہیں ہے، جبکہ انتخابات میں حصہ لینے والوں میں سے اکثر کا موقف یہ ہے کہ موجودہ حالات میں اس الیکشن میں حصہ لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ سیاسی عمل سے الگ رہ کر آئین کی بحالی، ججوں کی واپسی اور جمہوری عمل کی بالادستی کے لیے موثر جدوجہد نہیں کی جا سکتی، اس لیے وہ بادل نخواستہ اس عمل میں شریک ہو رہے ہیں تاکہ عوام کی حمایت کے ساتھ اسمبلیوں میں پہنچ کر وہ ملک کا دستوری قبلہ درست کرنے کے لیے کردار ادا کر سکیں۔
دونوں موقف اپنے اندر وزن رکھتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے حق میں دلائل پیش کیے جا سکتے ہیں، لیکن یہ بات ۸؍ جنوری کے انتخابات میں ڈالے جانے والے ووٹوں کے تناسب سے معلوم ہوگی کہ ملک کے عوام نے ان میں سے کس موقف کو ترجیح دی ہے اور ملک کے آئندہ سیاسی نقشے کے خدوخال بھی اس کے بعد ہی صحیح طور پر واضح ہوں گے، البتہ ان انتخابات کے تناظر میں ایک بات جو ہمارے لیے باعث تشویش بنی ہے، وہ متحدہ مجلس عمل کا انتشار وخلفشار ہے کہ قومی سیاست میں دینی حلقوں کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعتوں کا طویل مدت کے بعد ایک ایسا مشترکہ محاذ سامنے آیا تھا جس نے عام ووٹروں کی توجہ حاصل کی تھی اور اس کے نتیجے میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں دینی سیاست کی معقول نمائندگی کے علاوہ صوبہ سرحد کی مکمل حکومت اور بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شرکت دینی راہ نماؤں کے حصے میں آئی تھی اور یہ توقع پیدا ہونے لگی تھی کہ اگر متحدہ مجلس عمل اپنی اس پوزیشن کو مزید پیش رفت کے لیے موثر طور پر کام میں لے آئی تو وہ قومی سیاست میں مزید آگے بڑھنے اور نفاذ اسلام کے لیے زیادہ موثر جدوجہد کے مواقع حاصل کر لے گی، لیکن ایسا نہ ہو سکا اور اس کی پالیسی ترجیحات میں معروضی سیاست اور وقتی ضروریات کی بالادستی نے اس کے بارے میں عام حلقوں بالخصوص دینی عناصر کی توقعات اور امیدوں کو بریک لگا دی۔ بادی النظر میں قبائلی علاقوں میں دینی مدارس اور مجاہدین کے خلاف امریکی آپریشن، حدود آرڈیننس میں کی جانے والی خلاف شریعت ترامیم اور جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے سانحہ کے بارے میں متحدہ مجلس عمل کی مصلحت آمیز روش اور صوبہ سرحد میں نفاذ اسلام کے حوالے سے کوئی نظر آنے والی پیش رفت نہ کر سکنے کی صورت حال نے دینی جماعتوں کے اس متحدہ محاذ کے بارے میں دینی حلقوں میں مایوسی کو جنم دیا ہے جبکہ سیاسی حلقوں میں سترھویں آئینی ترمیم کی منظوری میں متحدہ مجلس عمل کا کردار اور جنرل (ر) پرویز مشرف کے دوبار صدر منتخب ہونے کے موقع پر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے سوال پر اس کا طرز عمل اس کے اعتماد کو مجروح کرنے کا باعث بنا، لیکن اس سب کچھ کے باوجود اگر متحدہ مجلس عمل اپنا اتحاد برقرار رکھتی اور ۸؍ جنوری کے انتخابات کے حوالے سے کوئی متفقہ فیصلہ کر لینے میں کامیاب ہو جاتی تو گزشتہ غلطیوں یا غلط فہمیوں کی تلافی کے امکانات موجود تھے، لیکن افسوس کہ یہ بھی نہ ہو سکا اور ہمارے نزدیک اس معاملے کا سب سے زیادہ تشویش ناک پہلو یہی ہے۔
ہماری دینی جماعتوں بلکہ زیادہ واضح الفاظ میں مسلکی حلقوں نے قومی سیاست میں نفاذ اسلام کے نعرے کے ساتھ اپنے الگ اور الگ الگ تشخص کے اظہار کو ضروری سمجھتے ہوئے ایک اسلامی معاشرہ اور ریاست کی تشکیل کے قومی مقصد کو ایک حد تک کارنر تو کر ہی لیا تھا جس کے مالہ وماعلیہ پر گفتگو ایک مستقل بحث کی متقاضی ہے لیکن اگر وہ اس کے منطقی اور ناگزیر تقاضوں کا ادراک کرتے ہوئے ان کی تکمیل کا ہی اہتمام کر پائیں تو بھی اس حوالے سے توقعات اور امیدوں کا تسلسل قائم رہنے کی صورت دکھائی دے رہی تھی مگر متحدہ مجلس عمل کے پانچ سالہ سیاسی کردار کے پس منظر میں نفاذ اسلام کے حوالے سے عوام کی امیدیں ایک سوالیہ نشان کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔
متحدہ مجلس عمل کا مشترکہ محاذ ابھی رسمی طور پر قائم ہے اور اس کے دائرۂ کار کو کسی حد تک محدود کرتے ہوئے اسے غیر سیاسی طور پر باقی رکھنے کی باتیں بھی بعض ذمہ دار حلقوں کی طرف سے کی جا رہی ہیں لیکن ہمارے نزدیک یہ سب دل کو بہلانے کی باتیں ہیں، اس لیے کہ متحدہ مجلس عمل کا اصل مقصد وجود قومی سیاست میں دینی حلقوں کی مشترکہ نمائندگی، نفاذ اسلام کے لیے متحدہ سیاسی کردار اور اسلامائزیشن کے عمل میں رائے عامہ کی متفقہ راہ نمائی ہے۔ اگر اس میں بھی متحدہ مجلس عمل کے قائدین کے راستے الگ الگ ہو رہے ہیں تو کسی اور بہانے سے خود کو قوم کے سامنے ’’متحدہ‘‘ شو کرنے کے تکلف کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟
ہماری خواہش اور دعا ہے کہ متحدہ مجلس عمل اپنے حقیقی مقاصد کے لیے قائم رہے، خاص طور پر جمعیۃ علماے اسلام اور جماعت اسلامی کی قیادتیں اپنی معروضی اور جماعتی ضروریات ومفادات پر اجتماعی تقاضوں اور ملی مقاصد کو ترجیح دیتے ہوئے ایثار وقربانی سے کام لیں اور نفاذ اسلام کے حوالے سے عوامی امیدوں کی اس (خاکم بدہن) آخری شمع کو گل ہونے سے بچا لیں، آمین یا رب العالمین۔

وکلا تحریک کے قائدین کی خدمت میں چند معروضات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

چودھری اعتزاز احسن صاحب ہمارے ملک کے نامور وکلا اور معروف سیاست دانوں میں سے ہیں اور قومی حلقوں میں ان کا تعارف ایک شریف النفس، شائستہ اور دانش ور راہ نما کے طور پر ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چودھری جب دستور کی بالادستی اور عدلیہ کے وقار کی بحالی کے لیے میدان میں آئے تو ان کے قریبی رفیق کار کے طور پر مسلسل ان کا ساتھ دے کر چودھری اعتزاز احسن نے اپنی عزت میں مزید اضافہ کیا اور اسی کے نتیجے میں انھیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا صدر چن کر ملک بھر کے وکلا نے دستور کی بحالی اور عدلیہ کی بالادستی کے لیے اپنی تحریک کی قیادت سونپ دی ہے جو فی الواقع ایک بڑے اعزاز کی بات ہے اور ہم اس پر چودھری صاحب موصوف کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت انھیں دستور پاکستان کی بحالی اور عدلیہ کی بالادستی کی ایک تحریک میں سرخ روئی اور کامیابی سے ہمکنار کریں، آمین یا رب العالمین۔
وکلا اس تحریک کے لیے کئی ماہ سے میدان عمل میں ہیں اور عدالتوں کے بائیکاٹ، عوامی مظاہروں اور عام انتخابات کے بائیکاٹ کی صورت میں دستور کی بحالی اور پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے محترم جج صاحبان کی ان کے دستوری مناصب پر واپسی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جس میں ملک کا ہر باشعور شہری ان کے ساتھ ہے۔ چودھری اعتزاز احسن ایمرجنسی اور پی سی او کے نفاذ کے بعد سے مسلسل زیر حراست ہیں اور انھیں اس بات سے روکنے کے لیے کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ وکلا کی اس تحریک کی عملاً قیادت کریں، چنانچہ بظاہر ایمرجنسی ختم ہو جانے کے باوجود ان کی حراست کا تسلسل جاری ہے مگر وہ اپنے عزم پر قائم نظر آتے ہیں جس کا اظہار انھوں نے عید الاضحی کے موقع پر اپنی ’’عارضی رہائی‘‘ کے دوران یہ کہہ کر کیا ہے کہ ۸؍ جنوری کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کو اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی بحالی کے لیے تین ہفتوں کا وقت دیا جائے گا اور اگر اس وقت تک چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور ان کے ساتھی ججوں کو بحال نہ کیا گیا تو حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا جائے گا۔
ہم چودھری اعتزاز احسن صاحب کے اس عزم اور اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور دستور کی بالادستی اور عدلیہ کے محترم ججوں کی بحالی کے لیے وکلا کی جدوجہد کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ اسی حوالے سے ہم دو گزارشات وکلا کی اس تحریک کی قیادت، بالخصوص چودھری اعتزاز احسن صاحب کی خدمت میں پیش کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔
ایک یہ کہ قوم کے دوسرے طبقات کو ساتھ لیے بغیر صرف وکلا کے فورم پر اس تحریک کو منظم کرنے اور آگے بڑھانے کی حکمت عملی ہمارے نزدیک محل نظر ہے، اصولاً بھی کہ جب یہ قومی مسئلہ ہے تو اس کے لیے منظم کی جانے والی تحریک میں قوم کے تمام طبقات کی نمائندگی نظر آنی چاہیے اور عملاً بھی کہ کسی ایک طبقے کی بنیاد پر چلائی جانے والی تحریک کی کامیابی کے امکانات ہمارے خیال میں زیادہ روشن دکھائی نہیں دیتے، اس لیے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اس تحریک کی قیادت اور کنٹرول بے شک اپنے ہاتھ میں رکھے لیکن اس میں ملک کے دینی وسیاسی حلقوں کی نمائندگی کا اہتمام ضرور کرے۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے تمام تر احترام کے باوجود اس کے ساٹھ سالہ مجموعی کردار کے بارے میں ملک کے عوام اور مختلف طبقات کو جو شکایات ہیں اور ان کے جو تحفظات ہیں، تحریک کے اہداف طے کرتے وقت ان سب کو سامنے رکھنا ضروری ہے اور اسی صورت میں اس تحریک کو پوری قوم کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔ مثلاً ملک کے جمہوری حلقوں کا شکوہ ہے کہ جسٹس محمد منیر مرحوم نے دستور ساز اسمبلی کے توڑے جانے کے غیر جمہوری عمل کو جواز کی جو سند بخشی تھی، اسے اس کے بعد روایت ہی کا درجہ دے دیا گیا ہے اور اب تک ہر آمر کے دستور شکن اقدامات کو ’’عدالتی تحفظ‘‘ مل رہا ہے۔ یہ صورت حال ملک کے ہر شہری کے لیے پریشان کن اور باعث اضطراب ہے اور وکلا کی موجودہ دستوری جدوجہد بھی اسی کا فطری رد عمل ہے۔ اسی طرح ملک کے دینی حلقوں کو بھی شکایت ہے کہ ملک میں اسلامی نظام وقوانین کی عمل داری کے لیے، جسے قیام پاکستان کا اہم ترین مقصد ہونے کے ساتھ ساتھ دستور پاکستان کی بنیاد اور اس کی طرف سے فراہم کی گئی ضمانت کا درجہ حاصل ہے، عدالت عظمیٰ کا اب تک کا مجموعی رول حوصلہ افزائی کا نہیں ہے اور جس طرح جمہوری اقدار کی سربلندی کے خواہاں حلقوں کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے اب تک وہ ’’ریلیف‘‘ نہیں ملا جو جمہوریت کی عمل داری کے لیے ضروری ہے، اسی طرح اسلامی اقدار کی بالادستی کے لیے بھی قوم اسی طرح عدالت عظمیٰ کی طرف سے دیے جانے والے ’’ریلیف‘‘ کا انتظار کر رہی ہے اور اس کا یہ انتظار اب رفتہ رفتہ حسرت میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔
اسلام اور جمہوریت دونوں ملک کی نظریاتی اساس ہیں۔ دستور پاکستان کی بنیاد بھی انھی دو اصولوں پر رکھی گئی ہے اور ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ یہ بات دستور میں ہمیشہ کے لیے طے کر دی گئی ہے کہ ملک میں حکومت کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہوگا اور پارلیمنٹ کو ہی قانون سازی کا اختیار حاصل ہوگا، لیکن وہ قرآن وسنت کے اصولوں کی پابند اور اسلامی قوانین کے نفاذ کی ذمہ دار ہوگی۔ اس لیے جہاں جمہوری اقدار کی سربلندی کا اہتمام کرنا اعلیٰ عدالتوں کی ذمہ داری ہے، وہاں اسلامی اصولوں کی بالادستی کا خیال رکھنا بھی ان کے فرائض میں شامل ہے، لیکن اب تک کی معروضی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے ملک کے مجموعی عدالتی کردار میں اسلام اور جمہوریت دونوں سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔
ملک کے دینی حلقوں کا عمومی تاثر یہ ہے کہ ۱۔ قرارداد مقاصد کی بالادستی کو تسلیم نہ کرنے کا عدالتی فیصلہ، ۲۔ سود کے خاتمہ کے لیے شریعت کورٹ کے فیصلے کا تعطل، اور ۳۔ صوبہ سرحد میں حسبہ ایکٹ کے نفاذ کو عدالتی طور پر روک دینے کا عمل اپنے نتائج وثمرات کے حوالے سے جسٹس محمد منیر محروم کے اس فیصلے سے مختلف نہیں ہے جسے کے ذریعے انھوں نے دستور ساز اسمبلی کو توڑنے کے غیر جمہوری اقدام کو ’’نظریہ ضرورت‘‘ کا شیلٹر مہیا کر دیا تھا، بلکہ ہماری معلومات کے مطابق اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی بحالی کی تحریک کے سلسلے میں مولانا فضل الرحمن کا گریز کا عمل بھی حسبہ ایکٹ کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے پس منظر میں ہے جس کا دکھ صرف مولانا فضل الرحمن کو نہیں ہے بلکہ ملک میں نفاذ اسلام کی خواہش رکھنے والا ہر شخص اس کی کسک اپنے دل میں محسوس کر رہا ہے اور اعلیٰ عدالتوں سے جسٹس محمد منیر مرحوم کے فیصلے کی طرح مذکورہ بالا فیصلوں کی تلافی کی بھی بجا طور پر توقع رکھتا ہے جس پر اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان اور ملک کے سینئر وکلا کو پوری سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینی چاہیے۔ ہم مولانا فضل الرحمن کے موجودہ سیاسی کردار اور پالیسیوں کا دفاع نہیں کر رہے اور بہت سے دیگر سیاسی حلقوں کی طرح ہم بھی ان کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں، البتہ ’’حسبہ ایکٹ‘ ‘ کے بارے میں مولانا فضل الرحمن کے تحفظات کو ہم بے جا نہیں سمجھتے، اس لیے اس کا ذکر ان گزارشات میں ہم نے مناسب سمجھا ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ وکلا تحریک کی اعلیٰ قیادت اس کا ضرور جائزہ لے گی۔
ان گزارشات کے ساتھ ہم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قیادت، بالخصوص چودھری اعتزاز احسن صاحب کی طرف سے دستور کی بالادستی اور اعلیٰ عدالتوں کے معزول ججوں کی بحالی کے لیے تحریک کے اعلان کا ایک بار پھر خیر مقدم کرتے ہیں اور انھیں یقین دلاتے ہیں کہ دستور پاکستان اور اس کی دونوں بنیادوں یعنی اسلام اور جمہوریت کی بالادستی کی اس جدوجہد میں انھیں ہمارا ہر ممکن تعاون حاصل ہوگا۔

لاہور میں ایک چرچ کا افسوس ناک انہدام / کراچی کے چند اداروں میں حاضری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۱۸؍ دسمبر ۲۰۰۷ کو روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق لاہور چرچ کونسل کے سیکرٹری جناب مشتاق سجیل بھٹی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ گارڈن ٹاؤن لاہور کے ابوبکر بلاک میں ۱۹۶۳ء سے قائم ایک چرچ کو، جو ’’چرچ آف کرائسٹ‘‘ کے نام سے مسیحیت کی مذہبی سرگرمیوں کا مرکز تھا، ایک بااثر قبضہ گروپ نے ۱۱؍ دسمبر کو اس پر زبردستی قبضہ کرنے کے بعد ۱۶؍ دسمبر کو مسمار کر دیا ہے اور اسے ایک کمرشل پلاٹ کی شکل دے دی ہے۔ مشتاق سجیل بھٹی کے بقول قبضہ کرنے والے بااثر افراد کو پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے فرزند چودھری مونس الٰہی اور ایک سابق صوبائی وزیر علیم خان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ چر چ کونسل کے سیکرٹری کا کہنا ہے کہ اس کی ایف آئی آر تھانہ گارڈن ٹاؤن میں درج کرائی گئی ہے مگر پولیس کوئی کارروائی نہیں کر رہی۔ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق مسیحی کمیونٹی کے کچھ حضرات نے اس سلسلے میں گورنر ہاؤس کے سامنے مظاہرہ بھی کیا ہے۔ دوسری طرف ایس پی ماڈل ٹاؤن پولیس عمران احمر نے ایک اخباری انٹرویو میں تسلیم کیا ہے کہ اس جگہ کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور اس میں پانچ چھ پارٹیاں فریق ہیں جبکہ اس پر یک طرفہ قبضہ کے بارے میں ایف آئی آر پر انکوائری کی جا رہی ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر واقعات کی ترتیب یہی ہے جو مشتاق سجیل بھٹی اور ایس پی عمران احمر کے اخباری بیانات سے ظاہر ہے تو اس عمارت پر قبضہ اور اس کو گرائے جانے کا یہ عمل سراسر زیادتی اور ظلم ہے جس کی سنگینی میں اس بات سے اضافہ ہو جاتا ہے کہ یہ عمارت چرچ کی ہے اور اس میں مسیحی حضرات ۱۹۶۳ء سے مسلسل عبادت کرتے آ رہے ہیں۔
ایک مسلمان ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں کو اس بات کا پورا تحفظ حاصل ہوتا ہے کہ ان کی عبادت، مذہبی سرگرمیوں اور عبادت گاہوں سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا۔ امام ابو یوسف نے ’’کتاب الخراج‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کے دور خلافت میں جب حضرت خالد بن ولید نے ’’حیرہ‘‘ فتح کیا تو وہاں کے باشندوں کو اس بات کی ضمانت دی جس کی حضرت صدیق اکبر نے توثیق فرمائی کہ ’لا یہدم بیعۃ ولا کنیسۃ ولا یمنعون من ضرب النواقیس ولا من اخراج الصلبان فی یوم عیدہم‘ (ان کی عبادت گاہوں اور خانقاہوں کو منہدم نہیں کیا جائے گا اور انھیں ناقوس بجانے اور اپنی عید کے دن صلیب لے کر باہر نکلنے سے منع نہیں کیا جائے گا)۔ مگر گارڈن ٹاؤں لاہور میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نام سے موسوم بلاک میں مسیحیوں کے چرچ کو زبردستی قبضہ کے بعد مسمار کر دیا گیا ہے اور اسے کمرشل پلاٹ بنا کر غالباً بیچنے یا کوئی پلازا کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو انتہائی افسوس ناک امر ہے۔ ہم حکومت پنجاب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس صورت حال کا فوری نوٹس لیا جائے اور مسیحی کمیونٹی کے ساتھ مبینہ طور پر ہونے والی اس زیادتی اور ظلم کا بلاتاخیر ازالہ کیا جائے۔

کراچی کے چند اداروں میں حاضری

۸؍ دسمبر ۲۰۰۷ کو مجھے دو روز کے لیے کراچی حاضری کا موقع ملا۔ ہمارے پرانے دوست مولانا عبد الرشید انصاری نے اپنے جریدہ ماہنامہ ’’نور علیٰ نور‘‘ کے ’’دورۂ تفسیر قرآن کریم نمبر‘‘ کی تقریب رونمائی کا نماز مغرب کے بعد جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی میں اہتمام کر رکھا تھا۔ پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی نے تقریب کی صدارت کی جبکہ راقم الحروف کے علاوہ شیخ الحدیث حضرت مولانا زر ولی خان صاحب نے بھی اس سے خطاب کیا۔ اس خصوصی نمبر میں دورۂ تفسیر قرآن کریم کے مختلف حلقوں کا تعارف کرایا گیا ہے اور ان دوروں کی افادیت وضرورت پر مختلف اہل علم کے مضامین شامل اشاعت ہیں۔ 
۹؍ دسمبر کو فجر کی نماز کے بعد جامعہ انوار القرآن کے شعبہ ’’تخصص فی الفقہ والافتاء‘‘ کے اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ ایک تفصیلی نشست ہوئی اور شعبہ کے سربراہ مولانا مفتی حماد اللہ صاحب کی فرمایش پر انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے تاریخی پس منظر اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے اس کے بارے میں اپنے تحفظات سے اساتذہ وطلبہ کو آگاہ کیا۔
دس بجے دار العلوم کورنگی کراچی میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی طرف سے قائم کردہ خصوصی کمیٹی کا اجلاس تھا جو مختلف دینی مدارس میں تخصصات کے حوالے سے پڑھائے جانے والے نصابات کا جائزہ لینے اور اس سلسلے میں جامع سفارشات اور تجاویز پر مشتمل رپورٹ مرتب کرنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے اور راقم الحروف کو اس کا مسؤل قرار دیا گیا ہے۔ اجلاس میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا منظور احمد مینگل، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور راقم الحروف نے شرکت کی اور اجلاس میں اب تک ہونے والی پیش رفت پر ایک نظر ڈالتے ہوئے رپورٹ کی ترتیب کے لیے راہ نما اصول طے کیے گئے۔
بعد ازاں ’’آواری ٹاورز‘‘ میں ’’عصر حاضر کے چیلنج اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے دو روزج سیمینار کی دو نشستوں میں شرکت کی۔ اس کا اہتمام انٹر نیشنل اسلامک سنٹر جوہر ٹاؤن لاہور نے، جو جامعہ خیر المدارس ملتان کا ایک شعبہ ہے، دار العلم والتحقیق برائے اعلیٰ تعلیم وٹیکنالوجی کراچی کے تعاون سے کیا تھا۔ دار العلم والتحقیق برائے اعلیٰ تعلیم وٹیکنالوجی کراچی کے ایک فاضل بزرگ مولانا سید فضل الرحمن کی سربراہی میں کام کر رہا ہے جو سلسلہ نقشبندیہ کے معروف بزرگ حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ کے فرزند وجانشین ہیں۔ اس سیمینار کی ظہر سے قبل کی نشست میں محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کا مفصل خطاب سنا جو ’’مکالمہ بین المذاہب،: اہداف، مقاصد اور اصول وضوابط‘‘ کے عنوان پر تھا اور ظہر کے بعد سیمینار کی آخری نشست میں ’’عصر حاضر کے چیلنج اور علماے کرام کی ذمہ داریاں‘‘ کے موضوع پر راقم الحروف نے معروضات پیش کیں جبکہ ان کے علاوہ دیگر نشستوں سے مولانا مفتی منیب الرحمن، پروفیسر عبد الجبار شاکر، مولانا عزیز الرحمن، مولانا محمد اسماعیل آزاد اور حافظ محمد نعمان نے مختلف عنوانات پر شرکا کو اپنے خیالات وافکار سے آگاہ کیا۔ 
میری کراچی حاضری کا پروگرام دراصل اسی سیمینار کے لیے مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کی خصوصی دعوت پر طے پایا تھا مگر اس کی برکت سے دوسرے مفید پروگراموں میں شرکت کی سعادت بھی حاصل ہو گئی، فالحمد للہ علیٰ ذالک۔

فروری ۲۰۰۸ء

مسئلہ فلسطین اور مغربی ممالک کا کردارمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی عدالتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
موجودہ شورش: اسباب اور علاجادارہ
آئین اور قانون کی بالادستی کی جدوجہد اور دینی حلقوں کی ذمہ داریمولانا مفتی محمد زاہد
شرعی سزاؤں کی ابدیت و آفاقیت کی بحثمحمد عمار خان ناصر
کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ (۴)حافظ محمد زبیر
غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا تنقیدی جائزہمحمد زاہد صدیق مغل
الشریعہ اکادمی میں ہفتہ وار فکری نشستوں کا آغازادارہ

مسئلہ فلسطین اور مغربی ممالک کا کردار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش مشرق وسطیٰ کادورہ کر کے واپس جا چکے ہیں۔ اس دوران انہوں نے سعودی عرب، کویت، مصر، متحدہ عرب امارات، فلسطین اور اسرائیل وغیر ہ کا دورہ کیا اور اسرائیل اور فلسطین کے راہنماؤں سے بھی تبادلہ خیالات کیا۔ ان کے اس دورے کے مقاصد کیا تھے؟ اس کی ایک جھلک بعض عرب اخبارات کے مندرجہ ذیل تبصروں سے دیکھی جا سکتی ہے :
ایک عرب اخبار ’’الحیاۃ ‘‘ کا کہنا ہے کہ : ’’امریکی صدر کایہ دورہ ایک شہنشاہ کا دورہ تھا۔ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک مغربی اور امریکی صدور اور وزراے اعظم کے نظارے دیکھتے رہتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی مسئلہ فلسطین حل کر سکا ہے اور نہ ہی مشرق اوسط کے عوام کے سنگین مصائب کوکم کرسکاہے ۔ عرب ممالک کے تعلیم یافتہ عوام بادشاہوں اورشہزادوں کے زیرنگیں رہنے کی بجائے جمہوریت کی فضامیں زندگی گزارناچاہتے ہیں، لیکن انہیں یہ مواقع فراہم نہیں کیے جا رہے ۔ اس کا قصوروار امریکہ بھی ہے۔‘‘
’’عرب نیوز‘‘ کاکہناہے کہ: ’’امریکی صدر کے اس دورے کے دوران مشرق وسطیٰ کے سلگتے مسائل میں سے ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوا ہے اور عراق میں جگہ جگہ لگی ہوئی آگ میں سے کوئی آگ بجھ نہ سکی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ مشرق وسطیٰ کے اس دورے کے دوران امریکی صدر ایران کے خلاف شعلہ فشانیاں کرتے رہے، حالانکہ انہوں نے مشرق وسطیٰ کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل واشنگٹن میں کہاتھا کہ میں فلسطین کے مسائل کم کرنے کے لیے اسرائیل کو مقبوضات خالی کرنے پر مجبور کروں گا۔ لیکن ایک ہفتہ گزرگیا، امریکی صد ر اسرائیلی حکمرانوں کواس طرف مائل نہ کرسکے۔‘‘
’’الشر ق الاوسط ‘‘نے لکھا ہے کہ : ’’امریکی صدر جارج بش نے جس بے فکری اور غیر سنجیدگی سے اسرائیل، کویت، فلسطین اورعرب امارات کادورہ کیاہے اور آج وہ سعودی عرب آرہے ہیں، یوں محسو س ہوتاہے کہ جیسے پکنک پر آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کسی ایک جگہ بھی درپیش سنگین مسائل کے حل کی طر ف توجہ دی، نہ فریقین کو ایک جگہ بٹھانے کا اہتمام ہی کیا ..... امریکہ چونکہ اکلوتی سپر پاور ہے اور محض اکلوتی سپر سے تمام ترتوقعات وابستہ کیے رکھنا عالمی سطح پر اپنے تعلقات کو گرانے اور زک پہنچانے کے مترادف ہے، عرب ممالک سے غلطی یہ ہوئی کہ ا نہوں نے گزشتہ پچاس سال میں صرف امریکہ کو اپنا نجات دہندہ خیال کیا ہے، لیکن یہ خیال باربار غلط اور غیر مفید ثابت ہوا۔‘‘
’’گلف نیوز‘‘ کاتبصرہ اس طرح ہے کہ : ’’مشرق وسطیٰ کے اس دورے کے دوران امریکی صدر کی اولین ترجیح ایران رہی ہے۔ وہ ایران کے بارے میں جوپالیسی بیان دیتے رہے، ان سے یہی عیاں ہوتاہے کہ یہ دورہ محض ایران کے لیے تھا کیونکہ جن ممالک کاموصوف نے دورہ کیا، ان کے بالکل ہمسایے میں ایران واقع ہے۔ گویایہ بات بجا طورپر کہی جاسکتی ہے کہ ایران کے معاملات سے براہ راست آگاہی حاصل کرنے او رعرب حکمرانوں اور عوام کی نفسیات سے آگاہی کے لیے ہی مشرق وسطیٰ کے دورے کاڈول ڈالاگیا۔ ...... اگرایران اس خطہ کے لیے خطرہ ہے بھی تو ہم سعودی عرب کے وزیرخارجہ سعود الفیصل کے اس قول پر عمل کر کے خطرے کا مقابلہ کرسکتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایران سے ہمارے تعلقات ہیں، ہماری اس کے ساتھ کھلی بول چال ہے، اگرہمیں اس سے کبھی خطرہ محسوس ہوا تو ہم ایران سے براہ راست بات چیت کر کے معا ملات حل کر لیں گے۔ امریکی صدر نے اس دورہ کے دوران اس خطے کے لیے باربار انصاف اور آزادی کی بات کی۔ اگر امریکی صدر ان دونو ں الفاظ کی معنو یت سے آگاہ ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کوبھی انصاف اور آزادی فراہم کرنے میں فوری اور طاقت ور امداد دیں۔‘‘
یہ تو وہ تبصرے ہیں جو معروف عرب اخبارات نے امریکی صدر کے دورۂ مشرق وسطیٰ کے اہداف اور دورے کے درمیان ان کی سرگرمیوں اور ارشادات کے حوالہ سے کیے ہیں۔ ا ب ایک جھلک اس صورت حال کی بھی دیکھ لی جائے جو ان کے دورے کے فوراً بعد مشرق وسطیٰ میں سامنے آئی ہے اور جس نے لاکھوں فلسطینیوں کو اسرائیل کے ہاتھوں جبر اور استبداد کے ایک اور مرحلے سے دوچار کر دیا ہے۔ روزنامہ’’ پاکستان‘‘ لاہور میں ۲۴؍ جنوری ۲۰۰۸ کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطا بق اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس اور ملحقہ علاقے میں یہودی آبادیوں کے لیے نئے مکانات تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیلی انتظامیہ کے ترجمان نے بتایاکہ آٹھ ہزار میں سے تقریباً اڑھائی ہزار مکانات مشرقی مقبوضہ بیت المقدس اور ملحقہ علاقوں میں بنائے جائیں گے، جبکہ فلسطینی صدر محمود عباس نے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہودی بستیوں کی تعمیر سے مشرق وسطیٰ میں امن کا عمل متاثر ہوگا۔
’’پاکستان ‘‘ میں ہی ۱۶؍ جنوری ۲۰۰۸ کو شائع ہونے والی خبر کے مطا بق غزہ میں اسرائیلی فوج کی تازہ کارروائی میں جاں بحق ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد سترہ ہوگئی ہے جن میں حماس کے ایک اہم رہنما اور سا بق وزیر خارجہ محمود الزہار کا بیٹا بھی شامل ہے۔ ا س کارروائی کے بعد اسرائیلی فوج اور فلسطینیوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں چالیس دیگر شہری بھی زخمی ہوئے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطا بق اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کررکھی ہے جس سے نہ صرف بجلی بلکہ خوراک کی ترسیل کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے اور عالمی رائے عامہ کے مسلسل احتجاج کے باوجود اسرائیل ابھی تک اس ناکہ بندی میں نر می کرنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ پاکستان میں ۲۴ جنوری کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرت نے کہا ہے کہ اگر فلسطینی عوام امن چاہتے ہیں تو حماس کے خلاف بغاوت کریں اوران کے تحفظ کاایک ہی راستہ ہے کہ فلسطین سے عسکریت پسندی کاخاتمہ کر دیا جائے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے یہ بھی کہاہے کہ غزہ کے شہری اگر اسرائیل پر حملہ کرتے ہیں تووہ گاڑیوں کے بجائے پیدل چلیں، روشنی کی بجائے اندھیرے میں رہیں اور بھوک وافلاس سے مرتے رہیں۔
یہ ہے ایک منظر امریکی صدر کے دورۂ مشرق وسطی اور اس کے فوراً بعد رونما ہونے والی صورت حال کا، جبکہ امریکہ دنیا کو یہ تاثر دینے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کام کر رہا ہے اور صدر بش چاہتے ہیں کہ ان کا دور اقتدار ختم ہونے سے پہلے آزاد فلسطینی ریاست کے اعلان کی کوئی شکل سامنے آجائے۔ 
اس پس منظر میں اس حوالے سے ایک اور رپورٹ پر بھی نظر ڈال لی جائے جو نئی دہلی سے شائع ہونے والے سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نے ۷ جنوری ۲۰۰۷کی اشاعت میں شائع کی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دنوں لبنان میں برطانیہ کی سفیر محترمہ فرانسز گائی نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’فلسطین میں ہمارے پیش روؤں نے جو غلطیاں کی ہیں، ان کو سدھارنا ہمارے لیے ناممکن ہے، لیکن ’’عدل وانصاف‘‘ پر مبنی امن وسلامتی کے لیے کوشش کرنا ہمارے لیے یقیناًممکن ہے، تاہم مسئلہ یہ ہے کہ برطانیہ کوایک موثر طاقت نہیں سمجھاجاتا۔‘‘ ا ب اس بات کی وضاحت محترمہ فرانسز گائی ہی کرسکیں گی کہ ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کیے بغیر ’’عدل وانصاف‘‘ پر مبنی امن وسلامتی کے قیام کے لیے ان کے پاس کون سا فارمولا ہے، البتہ اس حوالے سے ان کاخیال توجہ طلب ہے کہ ’’دیگر ممالک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ فلسطین کا دورہ وہاں کے عوام کی ذلت وخواری کو دیکھنے اور سمجھنے کی نیت سے اور اس نیت سے کریں کہ ایسی پالیسی اختیار کی جا سکے جس سے اہل فلسطین اس صورت حال سے باہر آ جائیں۔‘‘
مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر یہ تبصرہ کسی عرب راہنما یا فلسطینی لیڈر کانہیں بلکہ برطانیہ کی ایک سفارت کار خاتو ن کا ہے جسے سامنے رکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور اس کی قیادت میں مغربی حکمران مشرق وسطیٰ میں صرف ایسا امن چاہتے ہیں جس میں اسرائیل کے ا ب تک کے تمام اقدامات اور اس کے موجودہ کردار کو جائز تسلیم کر لیا جائے اور اس کی بالادستی کے سامنے سرخم تسلیم کرتے ہوئے فلسطینی عوام خود کو اس کے رحم وکرم پرچھوڑدیں اور اسرائیل جوکچھ بھی کرے، فلسطینی عوام اس کے خلاف کسی بھی قسم کی مزاحمت کے حق میں ہمیشہ کے لیے دست برداری کا اعلان کردیں۔ اگر صدر بش فلسطینیوں کو امن وسلامتی کے اسی نکتے پر لاناچاہتے ہیں تو ایسا ہونا ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ قوموں کواس طرح دبانے اورد بائے رکھنے کی کوئی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہواکرتی اور آزادی، خودمختاری اور اقوام عالم میں باوقار حیثیت دنیا میں ہر قوم کی طرح فلسطینیوں کا بھی حق ہے جو جلد یا بدیر وہ ان شاء اللہ تعالیٰ حاصل کر کے رہیں گے۔

مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی عدالت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

رونامہ’’ پاکستان‘‘ لاہور میں ۲۴ جنوری ۲۰۰۸ کو بی بی سی کے حوالہ سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ سرحدکی نگران حکومت نے ۱۹۹۴ میں نافذ کیے جانے والے شرعی نظام عدل ریگولیشن میں ترامیم کا فیصلہ کیا ہے جن کے مطا بق مالا کنڈ ڈویژن کی قاضی عدالتوں کے فیصلوں کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا جا سکے گا۔ صوبہ سرحد کے نگران وزیر قانون میاں محمد اجمل نے بی بی سی کوبتایا ہے کہ شرعی نظام عدل ریگولیشن میں یہ ترامیم مالاکنڈ کے عوام کے مطالبہ پرکی جا رہی ہیں اور اس ترمیمی مسودہ کامقصد اس بات کو ممکن بنانا ہے کہ کسی بھی قاضی کورٹ کے فیصلے کوہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی بجائے فیڈرل شرعی کورٹ میں چیلنج کیا جا سکے اور ایسے مقدمات کے فیصلے جلد از جلد ہوسکیں۔
شرعی نظام عدل ریگولیشن ۱۹۹۴ء کے دوران مولانا صوفی محمد کی قیادت میں تنظیم نفاذ شریعت محمدی کی طرف سے چلائی جانے والی عوامی تحریک کے نتیجے میں اس وقت کے وزیراعلیٰ سرحد جناب آفتا ب احمد شیر پاؤ کی حکومت نے نافذ کیا تھا جس کے تحت مالاکنڈ ڈویژن میں تحصیل اور ضلع کی سطح پر قاضی عدالتوں کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ یہ قاضی عدالتیں شریعت محمدیہ کے مطا بق مقدمات کے فیصلے کریں گے۔ اس پر مولانا صوفی محمد اوران کے رفقا کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ ان قاضی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کا حق رکھا گیا ہے جو شرعی قوانین کی بجائے انگریزی قوانین کے مطا بق فیصلے کرتی ہیں اور اس طرح ان شرعی عدالتوں کو عملی طور پر غیر موثر کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد اس خطہ میں مولانا فضل اللہ کی طرف سے شروع کی جانے والی حالیہ تحریک میں بھی مکمل نفاذشریعت کا مطالبہ سامنے آیاہے، اس لیے یوں محسوس ہوتاہے کہ اس د باؤ کے پیش نظر نگران صوبائی حکومت نے یہ ترامیم لانے کافیصلہ کیاہے تاکہ عوام کویہ باور کرایاجاسکے کہ مالاکنڈ ڈویژن کی قاضی کورٹس کے خلاف اپیلوں کی سماعت کاحق ہائی کورٹ کی بجائے وفاقی شرعی عدالت کومنتقل کرکے اس اعتراض کو ختم کر دیا گیا ہے کہ یہ قاضی عدالتیں عملی طورپر غیر موثر ہیں اور اس کے بعد اب مالاکنڈ ڈویژن میں شریعت کا نفاذ عملاً ہو گیا ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں یہ بھی بیوروکریسی کی ان چالوں میں سے ایک ہے جو وہ وقتاً فوقتاً پاکستان کے عوام کواسلامی نظام کے نفاذ، شرعی قوانین کی عملداری اور قرآن وسنت کی ترویج وتنفیذ کے حوالے سے یقین دلانے کے لیے کرتی رہتی ہے، لیکن گزشتہ ساٹھ برس کے دوران اس قسم کی بیسیوں چالوں کے باوجود ابھی تک صورت حال جوں کی توں ہے اورملک میں شرعی قوانین کی عملداری کی کوئی شکل عمل درآمدکے دائرے کی طرف بڑھتی ہوئی نظرنہیں آتی، بلکہ اس حوالہ سے سوات (مالاکنڈ ڈویژن)، قلات، خیرپور، بہاول پور اور چترال کی ریاستیں زیادہ بد قسمت رہیں کہ ان نیم خود مختار ریاستوں میں انگریزوں کے دورمیں بھی ایک حد تک شرعی قوانین کا نفاذ قاضی عدالتوں کے ذریعہ موجود تھا جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ ان ریاستوں کے الحاق کے بعد ختم ہو گیا اور مالاکنڈ ڈویژن یعنی سوات کے عوام اپنی موجودہ جدوجہد کے ذریعہ اسی ختم کی جانے والی صورت حال کو دوبارہ بحال کرانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
ہمیں مولانا صوفی محمد اور مولانا فضل اللہ کی تحریکوں کے طریق کار سے اتفاق نہیں ہے اور ہم اس ملک میں نفاذ اسلام کے لیے مسلح جدوجہد کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں لیکن ہمیں ان کے اس موقف سے اتفاق ہے کہ باقی پاکستان میں اسلامی قوانین کانفاذ جب بھی عمل میں آئے، مگر ان کی سا بقہ ریاست سوات کی حدود میں جہاں پاکستان کے ساتھ اس کے الحاق سے پہلے تک شرعی قوانین اور قاضی عدالتیں موجود تھیں، کم از کم وہاں تو حسب سا بق شرعی عدالتوں کی عمل داری قائم کر دی جائے۔ چنانچہ ۱۹۹۴ء میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کے نام سے مالاکنڈ ڈویژن میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر قاضی عدالتوں کاقیام عمل میں لایا گیاجن کے با رے میں ہم نے اس وقت بھی مینگورہ کے ایک مطالعاتی دورہ کے بعد یہ عرض کردیاتھا کہ کہ اس ریگولیشن سے اس کے سوا عملاً کوئی فرق نہیں پڑا کہ مروجہ قوانین کے تحت کا م کرنے والی عدالتوں کو قاضی عدالتوں کانام دے دیا گیا ہے اور اب چودہ سال بعد ان عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا اختیار ہائیکورٹ سے وفاقی شرعی عدالت کو منتقل کرنے کی مجوزہ کارروائی سے بھی کوئی عملی تبدیلی نہیں ہوگی، اس لیے کہ ان ترامیم کے اعلان کے ساتھ ہی نگران صوبائی وزیر قانون میاں محمد اجمل نے بی بی سی کی مذکورہ رپورٹ کے مطا بق یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ ’’مالا کنڈ ڈویژن میں ریگولر قانون ہی نافذ ہوگا، تاہم جج صاحبان کوئی بھی فیصلہ سنانے میں قرآن وسنت کے احکامات کو زیادہ اہمیت دیں گے۔ جج صاحبان معاون قاضیوں اور شرعی وکلا کی راہنمائی میں فیصلے سنائیں گے مگروہ ان کی تجاویز کو ماننے کے پابندنہیں ہوں گے۔‘‘
اس وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی شخص یا حلقہ اس غلط فہمی کاشکار رہتا ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن میں قاضی کورٹس کے نام سے قائم یہ عدالتیں شرعی عدالتیں ہیں اور ان کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق وفاقی شرعی عدالت کو منتقل کرنے سے ان کی شرعی حیثیت مزید پختہ ہو جائے گی تو اس بھولپن پر ہم اس کے لیے دعاے خیر بلکہ دعاے صحت کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں؟ 

موجودہ شورش: اسباب اور علاج

ادارہ

آج کل وطنِ عزیز تہہ درتہہ بحرانوں کے جس سنگین دور سے گذررہا ہے، اس کی کوئی مثال ملک کی ساٹھ سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ملک کا ہر حساس باشندہ اس صورتِ حال پر بے چین ہے، اور اُسے ان حالات میں روشنی کی کوئی کرن بھی نظر نہیں آرہی۔ ایسے پُر آشوب حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کے وجود و بقا کی خاطر ہر شخص اپنی ذات سے بلند ہوکر سوچے، اور ملک کے تمام طبقات، تنظیمیں اور جماعتیں اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈالیں اور ملک کو مل جل کر اس گرداب سے نکالنے کی کوشش کریں۔ ملک کے گوناگوں مسائل میں جس چیز نے کئی گناہ اضافہ کردیا ہے، وہ بڑھتی ہوئی بد امنی، سڑکوں پر غارت گری اور بالخصوص بم دھماکوں اور خود کُش حملوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس کے نتیجے میں تقریباً ہر ہفتے کہیں نہ کہیں درجنوں افراد کی ہلاکت سینکڑوں خاندانوں کو اُجاڑ چکی ہے اور یہ سلسلہ کسی حد پر رکتا نظر نہیں آرہا۔
یہ بات تقریباً ہرمسلمان کو معلوم ہے کہ اسلام میں خود کُشی حرام ہے، اور قرآنِ حکیم اور احادیثِ شریفہ کے احکام وارشادات اس بارے میں بالکل واضح ہیں، لیکن جب کسی دشمن سے جائز اور برحق جنگ ہورہی ہو، اُس وقت دشمن کو مؤثر زک پہنچانے کے لیے کیا کوئی خود کُش حملہ کیا جاسکتاہے؟ شرعی اور فقہی طور پر اس بارے میں دو رائے ہوسکتی ہیں۔ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ اگر ایک جائز اور برحق جنگ کے دوران حقیقی ضرورت پیش آجائے اور ہدف بے گناہ لوگ نہ ہوں تو خود کُش حملہ جائز ہے، یہ اُسی طرح کاخود کُش حملہ ہوگا جیسے ۱۹۶۵ ؁ء میں ہندوستان کے حملے کے وقت ’’چونڈہ‘‘ کے محاذ پر پاکستانی فوج کے جوانوں کی یہ داستانیں مشہور ہیں کہ وہ جسموں سے بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں سے ٹکراگئے تھے۔ او راُ س کے نتیجے میں ٹینکوں کی پیش قدمی روک دی تھی ۔ چونکہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے او رملک وملت کو دشمن سے بچانے کے لیے ایک جائز او ربرحق جنگ کے دوران کوئی شخص ایسا اقدام کرے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ا س کے حسنِ نیت کی بنا پر اس کی قربانی کو قبول فرمالیں ۔ لیکن یہ ساری بات اُ س وقت ہے جب کھلے ہوئے دشمن سے کوئی جائز اور برحق جنگ ہورہی ہو، اس بحث کا اُس صورت سے کوئی تعلق نہیں ہے جہاں خود کُش حملے کا نشانہ ایسے کلمہ گو مسلمانوں کو یا ایسے غیر مسلموں کو بنایا جائے جن کے جان ومال کو اللہ تعالیٰ نے حرمت بخشی ہے۔ ایک کلمہ گو مسلمان ، خواہ عملی اعتبار سے کتنا گناہ گار ہو، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اس حرمت کا حامل ہے، اورقرآن وحدیث کے ارشادات نے ایسے شخص کے قتل کرنے کو ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کی جان و مال کو کعبے سے بھی زیادہ حرمت کا حامل قرار دیا ہے۔ بلکہ وہ خودکُش حملہ جس کانشانہ مسلمان یا مسلمان ریاست کے پُر امن شہری ہوں، دوہراگُناہ ہے، ایک تووہ دوسرے کے خلاف قتلِ عمد کا گناہ ہے، اور اس کے نتیجے میں جتنے انسان ناحق قتل ہوں، وہ اتنے ہی زیادہ گناہوں کا مجموعہ ہے۔ اوردوسرے اس صورت میں خود کُشی کے حرام ہونے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس لیے خود کُشی کا گناہ اس کے علاوہ ہے۔
اس لحاظ سے ہمارے ملک کے مختلف حصوں میں جو خود کش حملے ہورہے ہیں او رجن کے نتیجے میں سینکڑوں مسلمان اور پُر امن شہری ناحق ہلاک ہوچکے ہیں، وہ دینی اعتبار سے انتہائی سنگین گناہ ہیں اور ’’ فساد فی الأرض‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ خود کُش حملے کون کررہا ہے؟ او رکیوں کررہا ہے؟ ان اقدامات کی پوری مذمت کے ساتھ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ جو لوگ بھی اس قسم کے حملے کرتے ہیں، وہ یہ جان کر کرتے ہیں کہ کوئی دوسرا نشانہ بنے یا نہ بنے، سب سے پہلے وہ خود موت کے منہ میں جائیں گے۔ عام حالات میں زندگی ہر شخص کو پیاری ہوتی ہے، اور کوئی بھی شخص انتہائی غیر معمولی حالا ت کے بغیر خود اپنے آپ کو موت کے گھاٹ نہیں اتار سکتا۔ لہٰذا سوچنے کی بات یہ ہے کہ انسانوں کی اتنی بڑی تعداد یکایک کس وجہ سے اس غیر معمولی اقدام پر آمادہ ہوگئی ہے کہ نہ اُسے اپنی جان کی پروا ہے، نہ اپنے یتیم ہونے والے بچوں، بیوہ ہونے والی بیوی اور غم زدہ خاندان کا کوئی خیال ہے، اور نہ اس بات سے کوئی بحث ہے کہ اُ س کے مرنے کے بعد دنیا اُسے کیا کہے گی؟
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ خود کُش حملوں کی یہ بہتات ہمارے ملک میں پچھلے چند سالوں ہی سے پیدا ہوئی ہے، اس سے پہلے اس کا کوئی وجود ہمارے ملک میں نہیں تھا۔ یقیناًاس کے کچھ اسباب ہیں جنہیں دور کیے بغیر محض ایسے لوگوں پر غصّے سے دانت پیس کر تشدد کی فضا کو اور ہوا دینے سے یہ صورتِ حال ختم نہیں ہوسکتی۔ اگر واقعی ہم اس صورت حال کو ختم کرکے ملک میں امن امان بحال کرنے میں مخلص ہیں تو ہمیں پوری حقیقت پسندی کے ساتھ اپنی پالیسیوں پر تنقیدی نگاہ ڈالنی ہوگی، اور جو غلط پالیسیاں اس کا سبب بنی ہیں، انہیں تبدیل کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔
یہ خود کُش حملے جن میں ایک انسان اپنے ساتھ کبھی دو چار، کبھی آٹھ دس، کبھی پچیس تیس اور کبھی اس سے بھی زیادہ افراد کو ہلاکت کے غار میں دھکیل دیتا ہے، در حقیقت ایک شدید جھنجھلاہٹ اور چڑچڑاھٹ ہے جو ہر طرف سے مایوس ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ یوں تو ہماری بیشتر حکوتیں امریکہ کے زیرِ اثر رہی ہیں، لیکن ۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ ؁ء کے بعد ہماری حکومت نے امریکہ کا بالکل تابع مہمل بن کر جس طرح اپنے آپ کو امریکہ کی بھینٹ چڑھایا ، اورامریکی مفادات کی جنگ کو اپنے ملک میں لاکرجس بے دردی سے قومی مفادات کا خون کیا، وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ ہماری افواج کو امریکہ کی رضامندی کی خاطر خود اپنے ہم وطنوں کے خلاف آپریشن میں استعمال کیا گیا۔امریکہ او ربھارت کے مقابلے میں بزدلی دکھائی گئی، اور تمام تر بہادری کامظاہرہ وانا، وزیرستان، سوات، بلوچستان اور لال مسجد کے نہتوں پر کیا گیا، او رخواتین کے حقوق کاڈھنڈورا پیٹنے والوں نے جامعہ حفصہ کی سینکڑوں خواتین کو بھی خون میں نہلا کر واشنگٹن کی شاباش حاصل کی۔
دوسری طرف ’’روشن خیالی ‘‘اور ’’ اعتدال پسندی‘‘ کی آڑ میں ملک کو بے دینی کی طرف لے جانے کی کوششیں پورے اہتمام کے ساتھ جاری ہوئیں،نظامِ تعلیم کو اپنے قومی مقاصد اور مصالح کے بجائے غیروں کے لیے خوش نما بنانے کی خاطر نصاب میں تبدیلیاں کی گئیں، حدود کے قوانین میں عورتوں کے حقوق کے نام پر سراسر بے جواز ترمیمات کی گئیں جن کا نہ صرف یہ کہ عورتوں کے حقوق سے تعلق نہ تھا، بلکہ وہ ان کے لئے مزید بے انصافی پر مشتمل تھیں۔ عریانی وفحاشی کو فروغ دیا گیا، اور فحاشی کے اڈوں کی عملاً سرپرستی کی گئی، روز افزوں گرانی اور بے روز گاری نے غریبوں کے لیے جینا دوبھر کردیا، ملک بھر میں قتل وغارت گری او رلوٹ مار کا طوفان برپاہے،جس کی بنا پر کوئی شخص ایسا نہیں جو اپنی جان او رمال کے بارے میں ہروقت خطرات کا شکار نہ ہو، اور حکومت ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے میراتھن ریس، بسنت اوررقص وسرود کو فروغ دینے میں مصروف رہی۔ عدالتوں سے انصاف حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مرادف بن گیا، پھر عدلیہ کو انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ پامال کیا گیا، اور دفتروں میں رشوت ستانی کے نتیجے میں عوام در بدر کی ٹھوکریں کھا کر بھی اپنے چھوٹے چھوٹے کام کرانے سے قاصر ہوگئے۔
ان تمام حالات کے باوجود حکومت نے اپنے طرزِ عمل سے لوگوں کو یہ تأثر دیا کہ اُ س کے دربار میں عوام کے حقوق اور مطالبات کی کوئی شنوائی نہیں ہے، او راس ملک میں پُر امن اور آئینی راستے سے کوئی معقول مطالبہ منوانے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ یہاں لاقانونیت کا راج ہے، دھونس، دھاندلی لوٹ مار اور قتل وغارت گری کرنے والے دندناتے پھر تے ہیں اورقانون پر چلنے والوں کو قدم قدم پر مصائب کاسامنا ہے۔ یہاں پُر امن طریقے پر اسلام کے نفاذ کا مطالبہ ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے، او راس کے حق میں قرآن وسنت اور عقل و دانش کی کوئی دلیل نہ صرف کارگر نہیں، بلکہ مقتدر حلقے اُسے توجّہ سے سننے کے بھی روادار نہیں ہیں۔
بہ ظاہر یہ وہ مجموعی حالات ہیں جنہوں نے کچھ جذباتی اور مایوس افراد کے دل میں وہ جھنجلاہٹ پیدا کی جو خود کُش حملوں کی صورت میں ظاہر ہورہی ہے،یہ لوگ ہر طرح کے پُر امن راستوں سے مایوس ہوکر تشدّد کے راستے پر چل پڑے ہیں۔ ان میں ایسے نوجوان بھی ہوں گے جن کے گھر حکومت یا امریکہ کے آپریشنوں میں ملبے کا ڈھیر بنا دیے گئے، اور جنہوں نے ان فوجی کارروائیوں میں اپنے پیاروں کو تڑپ تڑپ کر جان دیتے ہوئے دیکھا، اور اب ان کے پاس انتقام کی آگ کے سوا کچھ نہیں بچا، جو وہ خود اپنی جان دیکر ٹھنڈا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ وہ ملک دشمن طاقتیں جو پاکستان کو (خاکم بدہن) افراتفری کی نذر کرکے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاھتی ہیں، یا اس افراتفری سے فائدہ اٹھاکر اس پر حملہ آور ہونا چاھتی ہیں، وہ بھی اس آتش گیر فضا سے فائدہ اٹھا کر ایک طرف خود بھی دھماکے کرارہی ہیں، تاکہ ہر دھماکہ انہی انتہا پسندوں کی طرف منسوب کیا جاسکے، دوسرے انہوں نے ایسے جذباتی افراد کو در پردہ ابھارا ہے کہ وہ اپنایہ مشن جاری رکھیں۔ انہیں یہ کہہ کرگمراہ کیاگیا ہے کہ موجودہ حالات کی ذمہ داری جس طرح حکومت پر عائد ہوتی ہے، اسی طرح وہ شہر ی بھی اس کے جرائم میں برابر کے شریک ہیں جنہوں نے ایسی حکومت کی اطاعت قبول کر رکھی ہے، لہٰذا ان سب پر حملہ کرکے انہیں ختم کرنا جائز ہے۔
یہ جذباتی ذہنیت اب اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ان کے سامنے کوئی زبانی کلامی دلیل فائدہ مند نہیں ہوتی۔ اور اس ذہنیت کا مقابلہ کرنے کے لئے جتنا زیادہ تشدّد اختیار کیا جائے گا، اُس کی اشتعال پذیری میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ لہذا پاکستان کی سول آبادی پر ہونے والے فوجی آپریشن اس صورتِ حال کا حل نہیں ہیں۔ اس ذہنیت کے مقابلے کے لئے جوش سے زیادہ ہوش اور ہتھیار سے زیادہ ناخنِ تدبیر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
ہمارے نزدیک سب سے اہم او ربنیادی بات یہ ہے کہ یہ لوگ جنہیں ’’ شدّت پسند‘‘ یا ’’ انتہا پسند‘‘ کہا جارہا ہے، حکومت ان کو امریکی آنکھ سے دیکھنے کے بجائے پاکستانی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کرے۔ یہ لوگ، خواہ آزاد قبائل میں ہوں، یا سوات اور مالاکنڈ میں، یابلوچستان میں، دراصل ہمارے ہی بھائی ہیں، ہمارے ہم وطن او رہمارے ہم مذہب ہیں۔ یہ پاکستان کے دشمن نہیں، بلکہ ان میں بہت بڑی تعداد اُ ن کی ہے جو قبائلی علاقوں میں ہمیشہ پاکستان کی سرحدوں کے محافظ رہے ہیں، لیکن حالات نے انہیں حکومت کا دشمن، اور انتہا پسند جذباتیت نے انہیں ہر اُس شخص کا دشمن بنادیا ہے جو حکومت دشمنی میں ان کے ساتھ شریک نہ ہو۔ اگر حکومت اپنی پالیسیوں میں مثبت تبدیلیاں لا سکتی ہو تو اُن اسباب کو ختم کیا جاسکتا ہے جن کی بنیاد پر ان کی انتہاء پسندی کوہوا ملی ہے، اورجن کی وجہ سے وہ سازشوں کا شکار ہورہے ہیں۔
مرے طائر نفس کو نہیں گلستاں سے رنجش
ملے گھر میں آب ودانہ تو یہ دام تک نہ پہنچے
اگر اس طرز فکر کی سچائی ایک مرتبہ دل میں بیٹھ جائے تو کچھ تجاویز ہیں جن پر عمل کرکے ہم موجودہ بحران سے نجات حاصل کرسکتے ہیں:
(۱) ’’ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر ہم نے جس طرح آنکھ بند کرکے امریکہ کی حکمت عملی اختیار کی ہے،اُس کے بارے میں اس حقیقت کا دل سے اعتراف کیا جائے کہ وہ قطعی طور پر ناکام ہوچکی ہے۔
(۲) شمالی علاقہ جات او ربلوچستان میں فوجی آپریشن فوری طور پر بند کرکے وہاں کی شورش کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کی جائے،اور شورش کے رہنماؤں سے اس پر کھلے دل کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں، اور ان کے جائز مطالبات کو وہ اہمیت دی جائے جس کے وہ مستحق ہیں۔
(۳) اس حقیقت کا ادراک کیا جائے کہ اصل میں طالبان دہشت گرد نہیں ہیں، اور نہ ان میں سب لوگ انتہاء پسند جذباتی ہیں، اُن میں ایسے عناصر موجود ہیں جن سے معقولیت کے ساتھ بات چیت ہوسکتی ہے۔
(۴) شمالی علاقہ جات اور آزاد قبائل کے معتدل علماء اور خوانین خونریزی کے حق میں نہیں ہیں، لیکن اُ ن کی بات مشتعل عناصر میں اس لئے مؤثر نہیں ہورہی کہ حکومت کی طرف سے مسلسل خلافِ اسلام پالیسیاں جاری رہی ہیں، اور اُن کی موجودگی میں ان معتدل علماء اور خوانین کی طرف سے عدمِ تشدد کی اپیلیں بے اثر ہیں، کیونکہ تشدد رکوانے کے لئے اُن کے ہاتھ میں کوئی ایسی مثبت بات نہیں ہے جو وہ ان مشتعل عناصر کے سامنے پیش کرکے سرخ رُو ہوسکیں۔ اگر حکومت لوگوں کے دلوں میں یہ اعتماد پیدا کرسکے کہ اب وہ اپنی پالیسیاں مرتب کرتے وقت واشنگٹن کی چشم وابرو کا اشارہ دیکھنے کے بجائے ملک وملت کے مفاد پر نظر رکھے گی، اپنے ہم وطنوں کے خلاف فوجی کاروائیاں بند کریگی اور اپنی خلافِ اسلام پالیسیوں کو ختم کردے گی، اور اس غرض کے لیے عملی اقدامات کرکے بھی دکھائے جائیں اور انہیں مؤثر طور پر جاری رکھا جائے تو یہ معتدل عناصر جذباتی عناصر کی ایک بڑی تعداد کو شورش سے باز رکھ سکتے ہیں۔
(۵) اس حقیقی کوشش کے باوجود اگرکچھ لوگ شورش پرآمادہ رہیں تو اوّلاً اُ ن کی آواز اتنی مؤثر نہیں رہے گی، اور دوسرے معتدل حلقوں کی طرف سے اُن کے خلاف کھل کر اعلانِ براء ت ممکن ہوگا، اور عام تائید کے فقدان کے بعد یہ شورش خود بخود دب جائے گی۔
(۶) بلوچستان کے لوگوں کے کچھ حقیقی مسائل او رمطالبات ہیں جو بڑی حد تک انصاف پر مبنی ہیں، ان مطالبات کو ملک دشمنی سے تعبیر کرکے ان کے خلاف فوجی آپریشن کسی بھی طرح دانشمندی نہیں ہے، وہاں کے رہنماؤں سے ایک مرتبہ پھر سنجیدہ اور بامعنی مذاکرات کا سلسلہ شروع کرکے وہاں کی شورش پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔
(۷) پچھلے چند روز میں صدر مملکت کی طرف سے امریکہ کے بارے میں پہلی بار کچھ ایسے جرأت مندانہ بیانات آئے ہیں جو قومی غیرت کے عین مطابق ہیں، او ران سے عوام کے دلوں کو کچھ حوصلہ ملا ہے۔ ان بیانات کو صرف لفظی بیانات کی حد تک محدود رکھنے کے بجائے ان کو آئندہ اپنی عملی پالیسی کی بنیاد بنانے کی ضرورت ہے۔
ابھی وقت ہے کہ ان خطوط پر نیک نیتی سے کام شروع کرکے ملک وملت کو اس گرداب سے نکالا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لیے قومی اتفاقِ رائے بھی نہایت ضروری ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان نازک حالات میں حکومت، سیاست دان اور فکری رہنما اپنی ذات سے بلند ہو کر ملک وملت کی سا لمیت کے لیے بنیادی نکات پر متفق ہوں، اور اس مقصد کے لیے یک جان ہوکر کام کریں۔ اس اتفاقِ رائے کو حاصل کرنے کے لئے صدر مملکت کو پہل کرنی ہوگی، ان پر یہ فریضہ سب سے زیادہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات سے بلند ہوکر تمام طبقۂ خیال کے لوگوں کو جمع کریں، اور اگر اختلافات کو ختم کرنے کے لئے موجودہ سیاسی ڈھانچے میں جوہری تبدیلیاں کرنی پڑیں ، انتخابات کو قابلِ اطمینان بنانے کے لیے سیاسی رہنماؤں کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنا پڑے، خواہ وہ صدر صاحب کی پہلے اعلان شدہ پالیسی کے خلاف ہوں، تو ملک وملت کی سا لمیت اور ملک میں سیاسی استحکام کی خاطر ا ن کو گوارا کریں۔ سیاسی رہنماؤں سے بھی ہماری درخواست ہے کہ وہ اس موقع پر ملک کو بچانے کے لئے سیاسی عداوتوں کو فراموش کرکے کم سے کم نکات پر متفق ہوں جو ملک کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔
موجودہ تہہ در تہہ بحرانوں کے حل کے لیے ہماری دیانت دارانہ رائے یہ ہے کہ عدلیہ کو فعّال کیا جائے، عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کیا جائے تاکہ لوگ سڑکوں پر انصاف کے حصول کی کوشش کے بجائے عدلیہ میں فریادرسی کرکے حقیقی انصاف حاصل کرسکیں۔ ہماری یہ بھی رائے ہے کہ جملہ ماورائے آئین اقدمات کو منسوخ کیا جائے، ان مقاصد کے حصول کے لیے اگر صدر پرویز مشرف کو ملک وملّت کی خاطر مستعفی ہونا پڑے تو اس سے گریز نہ کریں، یہ ایک باوقار طریقہ ہوگا، جس کا اس منصب کے شایانِ شان راستہ یہ ہے کہ وہ آئین کے مطابق صدارت کا منصب سنیٹ کے چیئر مین کے حوالے کریں، اور وہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر معینہ تاریخ کو شفاف انتخابات کراکر اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کردیں۔
ہمارا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے ،اور نہ ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے، اس لیے یہ تجویز کسی مخاصمت یا کسی ذاتی یا گروہی سیاسی مقصد پر مبنی نہیں ہے، بلکہ ملک وملت اور خود صدر پرویز مشرف صاحب کی خیر خواہی پر مبنی ہے، انہوں نے آئین سے ماورا جن اقدامات کے ذریعے صدارت کا عہدہ حاصل کیا ہے، وہ کبھی ملک میں دیر پا استحکام پیدا نہیں کرسکتے،ان کی وجہ سے انہیں جلد یا بدیر یہ عہدہ چھوڑنا ہوگا، لیکن اُس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی، اس کے برعکس اگر وہ رضا کارانہ طور پر ملک و ملت کی خاطر یہ اقدام کریں تو ایک طرف اُن کا وقار بلند کرنے کا ذریعہ بنے گا، دوسری طرف ملک موجودہ سیاسی بحران سے نکل کر پٹری پر آجائے گا، او رامید یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں شورش زدہ علاقوں میں بھی فوری بہتری آئے گی۔

(۱) حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم ۔مہتمم جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی۔
(۲) حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم۔ صدر جامعہ دارالعلوم کراچی ۔
(۳) حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب دامت برکاتہم۔مہتمم جامعۃ العلوم الاسلامیہ 
علامہ بنوری ٹاؤن کراچی۔
(۴) حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم۔نائب صدر جامعہ دارالعلوم کراچی۔
(۵) حضرت مولانا قاری حنیف جالندھری صاحب دامت برکاتہم۔ مہتمم جامعہ خیر المدارس ملتان۔
(۶) حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب دامت برکاتہم۔ شیخ الحدیث جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک۔
(۷) حضرت مولانا محمد سلفی صاحب دامت برکاتہم۔ نائب مہتمم جامعہ ستاریہ 
(۸) حضرت مولانا انوار الحق صاحب۔ نائب مہتمم دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک۔
(۹) حضرت مولانا محمود اشرف صاحب دامت برکاتہم۔ نائب مفتی جامعہ دارالعلوم کراچی۔
(۱۰) حضرت مولانا مفتی عبد الرؤف صاحب۔ نائب مفتی جامعہ دارالعلوم کراچی۔
(۱۱) حضرت مولانا مفتی سید عبدالقدوس ترمذی صاحب۔ مہتمم جامعہ حقانیہ ساہیوال سرگودھا۔
(۱۲) حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب دامت برکاتہم۔ جامعہ دارالعلوم کراچی۔
(۱۳) حضرت مولانا عبید اللہ صاحب دامت برکاتہم۔ مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور۔
(۱۴) حضرت مولانا عبد الرحمن اشرفی صاحب دامت برکاتہم۔نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور
(۱۵) حضرت مولانا فضل الرحیم صاحب ۔ ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ لاہور۔
(۱۶) حضرت مولانا قاری ارشد عبید صاحب۔ ناظم اعلی جامعہ اشرفیہ لاہور۔
(۱۷) حضرت مولانا محمد اکرم کاشمیری صاحب۔رجسٹرار جامعہ اشرفیہ لاہور۔
(۱۸) حضرت مولانا غلام الرحمن صاحب۔ چیئر مین نفاذ شریعت کونسل صوبہ سرحد۔
(۱۹) حضرت مولانا محمد صدیق دامت برکاتہم۔ شیخ الحدیث جامعہ خیر المدارس ملتان۔
(۲۰) حضرت مولانا مفتی عبد اللہ صاحب دامت برکاتہم۔ مفتی جامعہ خیر المدارس ملتان۔


آئین اور قانون کی بالادستی کی جدوجہد اور دینی حلقوں کی ذمہ داری

مولانا مفتی محمد زاہد

(۱۲ نومبر ۲۰۰۷ کو جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے فضلاء کے ایک اجتماع سے خطاب۔)

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس وقت ہمارا ملک بلکہ پورا عالم اسلام اور پوری دنیا بڑے عجیب وغریب حالات سے گزر رہی ہے۔ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور تبدیلیاں بھی فیصلہ کن، خاص طور پر عالم اسلام میں اور عالم اسلام کے چنداہم ملکوں میں جن میں شاید سرفہرست ہمارا وطن عزیز پاکستان ہے۔ ہم امت مسلمہ کاایک حصہ ہونے کے ساتھ پاکستان کے شہری بھی ہیں اوریہ ملک ہماراگھر ہے۔ جوحضرات دین کے کام سے وابستہ ہیں، وہ ہماری برداری ہے اوراللہ کے فضل وکرم سے ہم ان کا بھی ایک حصہ ہیں، اس لیے ہم کبھی بھی اپنے آپ کو امت، پاکستان اور دینی حلقوں کے مسائل سے الگ نہیں رکھ سکتے اور بے فکر بھی نہیں رہ سکتے۔ جو کام کسی بھی میدان میں ہو رہا ہے، چاہے وہ ملکی سطح پر ہو، عالم اسلام کی سطح پر ہو یادینی حلقوں کی سطح پر، ہم اپنے آپ کو اس سے لاتعلق نہیں رکھ سکتے۔ ایک حدیث میں آتاہے کہ: من لم یھتم بامر المسلمین فلیس منھم۔ حضوراقد س صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مسلمانوں کے معاملات میں فکرمند نہیں ہوتا،بے فکری اور بے حسی کا شکار رہتا ہے جسے پنجابی میں کہتے ہیں کہ ’’سانوں کی‘‘ (ہمیں کیا) وہ مسلمانوں میں شمار کیے جانے کے قابل نہیں۔ ہماری بحیثیت مسلمان اور بحیثیت انسان یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہماری نظر میں ہو کہ کیا ہو رہا ہے اور ان حالات میں ہمارے کرنے کا کیا کام ہے، خاص طورپر اس حیثیت سے کہ اللہ جل جلالہ نے ہمیں اپنے دین کے کسی نہ کسی کام سے وابستہ کیا ہوا ہے، اور کسی نہ کسی حد تک ہماری بات سنی اور مانی جاتی اور اس کا اثر ہوتا ہے، کسی کا زیادہ اور کسی کا کم۔ اس لیے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہمیں حالات کا علم ہوا ور حالات پر ہماری مکمل نظرہو کہ کیا ہو رہا ہے اورہمارے کرنے کا کیا کام ہے۔ کام کرنے کے کئی میدا ن ہوتے ہیں، کئی پہلو اور کئی رخ ہوتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ سب کے سب ایک ہی انداز کے کام میں لگے ہوں،لیکن بہرحال ملت اور امت اور خاص طورپر اپنے ملک کے حالات کے بارے میں فکرمندی اور دائرے کے اندر رہتے ہوئے، اپنے کام کی نوعیت برقرار رکھتے ہوئے، حالات کی بہتری کے لیے جوکچھ ہو سکتا ہے، وہ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
اس وقت ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں، پوری امت کے لیے بالعموم اور دین کا کام کرنے والوں کے لیے بالخصوص فیصلہ کن لگ رہے ہیں۔ حالات یا آگے جائیں گے یا اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے، ریورس گیئر لگ سکتاہے۔ ان حالات میں کیا کرنا چاہیے اور کس طرح کرنا چاہیے، یہ ایک ایسی بحث ہے کہ اس میں ایک سے زیادہ آرا ہو سکتی ہیں اور یہ آرا کا تنوع ہمیشہ مفید ثابت ہوتا ہے، بشرطیکہ ایک دوسرے کے احترام کے ساتھ ہو۔ بعض اوقات متضاد پالیسیاں ہوتی ہیں اور متضاد آرا ہوتی ہیں، ہرکوئی اپنے اپنے طریقے پر چل رہا ہوتا ہے ،لیکن بحیثیت مجموعی اللہ تعالیٰ اس میں خیر پیدا فرما دیتے ہیں۔ آپ اپنی گھڑی کو کھول کردیکھیں، اس میں کئی کچھ گراریاں دائیں سے بائیں اور کچھ بائیں سے دائیں چل رہی ہوں گی، لیکن بحیثیت مجموعی ساری گراریاں مل کر جو نتیجہ د ے رہی ہوتی ہیں، وہ ایک ہوتا ہے اور وہ ہے وقت بتانا۔ تویہ آرا کاتنوع، طریقہ کار کا تنوع ہمیشہ فائدہ مند رہاہے اور اسی کو کہا گیا ہے کہ اس امت کا اور علما کا اختلاف رحمت ہے۔ مغربی دنیا خاص طورپر اس پر بڑا فخرکرتی ہے کہ ہمارے معاشرے کے اندر تنوع آرا کا بڑا احترام کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں diversity ہے، pluralism ہے، لیکن وہ یہاں تک صدیوں کے دھکے کھانے کے بعد پہنچے ہیں اور ہمیں یہ بات ابتدا ہی سے سمجھا دی گئی تھی کہ سب کے سب ایک ہی کھینچی ہوئی لکیر پر چل رہے ہوں، یہ کوئی ضروری نہیں،بلکہ بہت سی جگہوں پرتنوع اور تعدد آرا کی گنجایش رکھی گئی ہے کہ پالیسیوں اور طرز عمل میں آرا کااختلاف اور تنوع اگرایک دوسرے کے احترام کے ساتھ ہو تو بظاہر بالکل مختلف رخ بھی نظر آرہے ہوں، تب بھی بحیثیت مجموعی امت کو،معاشرے کو، دین کو اور دین کے کام کو فائدہ ہی پہنچتا ہے۔
میں صرف ایک چھوٹی سی بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس وقت یوں لگ رہاہے کہ جیسے ہمارا ملک خاص طورپر ایک خاص حوالے سے فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ دو راستوں میں سے ایک اختیار کرنا پڑے گا۔ یہ ملک یاصحیح راستے پر چڑھے گا یا غلط راستے پر، لیکن جس راستے پرایک دفعہ چڑھ گیا، اس سے ہٹانا انتہائی مشکل ہوگا۔ یہ وقت فیصلہ کن ہے اور جس طرف کو گاڑی چل پڑی، بظاہر اسی طرف چلتی رہے گی۔ ا س میں ہمارا وزن کس جانب ہونا چاہیے؟ دو راستے ہیں۔ ایک راستہ تویہ ہے کہ اس ملک کے اندر عوام کی آواز کوتسلیم کیاجائے۔ ہمارا دستور وآئین یہ کہتاہے کہ اس ملک کے اصل مالک تو اللہ تعالیٰ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بعد اس ملک کی قسمت کے مالک باہر سے یا اندر سے مسلط کیے ہوئے چند افراد نہیں بلکہ اس ملک کے عوام ہیں۔ یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ یہاں کے شہری سب کے سب انسان ہیں اور انسان ہونے کے ناطے ان کے کچھ حقوق ہیں جنہیں شہر ی حقوق کہا جاتا ہے۔ شہری حقوق اور شخصی آزادیوں کی ضمانت عملاً نظر آئے۔ ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ نامی کسی چڑیا کے کہنے پر یاکسی بھی بہانے سے ان پر جبر کرنے اور قدغنیں لگانے کا اختیار کسی کونہ ہو۔ آپ یہ کہہ سکتے ہو یانہیں، آپ یہ لکھ سکتے ہو یا نہیں۔بہت واضح اور معقول وجہ کے بغیر کسی کو بات کہنے سے روکا نہ جاسکے۔ تم نے یہ کیوں لکھا ہے؟ تم نے یہ کیوں کہا ہے؟ فلاں جگہ پر تم جمع کیوں ہوئے تھے؟ فلاں پارٹی کے ساتھ تمہاری وابستگی کیوں ہے؟ اس طرح کی پابندیاں لگانے کے بجائے ان معاملات میں آزادی ہو۔
یہ باتیں ہمیں تھوڑی سی اجنبی لگتی ہیں۔ اجنبی اس لیے لگتی ہیں کہ پچھلی چند صدیوں سے ان باتوں کی مغرب نے رٹ لگائی ہے اور اپنے ہاں انہوں نے اپنے عوام کوایک بڑی حدتک یہ حقوق اور آزادیاں دے رکھی ہیں۔ جس طرح کی ایمرجنسیاں اور قوانین یہاں چلتے ہیں اور جس طرح کی پا بندیاں یہاں لگتی ہیں، کسی مغربی ملک برطانیہ، امریکا اور یورپ کے کسی ملک میںیہ آسان کام نہیں۔ ا گر وہاں اس طرح کی کوئی چھوٹی سی بھی بات ہو، ایک طوفان کھڑا ہو جاتا ہے۔ لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ چند سال پہلے بعض چھوٹی چھوٹی باتوں پر لاکھوں لوگوں کے مظاہرے ہوئے ،لاکھوں لوگ باہر نکلے۔ انہوں نے اپنے ہاں ان چیزوں کو منوا لیا ہے ۔ توچونکہ انہوں نے اپنے ہاں منوایا ہے، اپنے ہاں روبعمل لائے ہیں، اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شایدیہ چیزیں ان کی ہیں، یہ باتیں اسلام سے کوئی تعلق اورواسطہ نہیں رکھتیں۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ آپ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کایہ ارشاد سناہوگا کہ ’’تم نے لوگوں کو کب سے غلام سمجھنا شروع کر دیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے توان کو آزاد جنا تھا‘‘۔ جو انسان پیدا ہوتا ہے، وہ اپنی ماں کے پیٹ سے آزادی ساتھ لے کر آتاہے۔ فطری طورپر وہ آزاد ہوتا ہے۔ آپ کسی کو کسی معاملے میں جکڑنا چاہتے ہیں تو جکڑنے کی کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے۔ کسی کو آزاد رہنے کی وجہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مثلاًمیں کوئی کام کر رہا ہوں، آپ مجھے روکنا چاہتے ہیں تو آپ وجہ بتائیں کہ آپ کیوں روکنا چاہتے ہیں۔ میں اس چیز کا پابند نہیں ہوں کہ آپ چونکہ اس ملک کے حاکم ہیں، آپ ڈی سی ہیں، آپ تھانیدار ہیں، اس لیے پہلے میں آپ کو قائل کروں گا کہ میں یہ کام کرنا چاہتا ہوں۔ نہیں، میر ی مرضی۔ میں آزاد ہوں، یہ میرا حق ہے۔ آپ اگر روکنا چاہتے ہیں تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ مجھے بتائیں اور سمجھائیں کہ آپ مجھے کیوں روکنا چاہتے ہیں؟ پیدایشی آزادی کایہی مطلب ہے کہ کسی کوکسی چیز سے روکنے کے لیے وجہ درکار ہے، کرنے کے لیے نہیں۔ 
مغر ب نے اپنے ہاں شہری آزادیوں کو نافذ کیا ہے اوریہ بات یاد رکھیں کہ مغرب نے صدیوں کی جدوجہد سے جویہ مقام حاصل کیاہے اوریہاں تک پہنچاہے، یہ ہمارے لیے نہیں ہے، بلکہ صرف گوروں کے لیے ہے اور ہمیں اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے کہ یہ ان کی صدیوں کی جدوجہد ہے جو انہوں نے اپنے لیے کی ہے۔ ہم جدوجہد کریں گے تواپنے لیے کریں گے۔ انہوں نے ایک چیز حاصل کی ہے تو وہ اپنے لیے حاصل کی ہے۔ ہم یہ چاہیں کہ مغرب چونکہ ان شہری آزادیوں کو تسلیم کرتاہے، وہاں امریکا اور برطانیہ میں پائی جاتی ہیں تواسی معیار کی یہ آزادیاں امریکا، برطانیہ وغیرہ اسلامی ملکوں میں ہمیں دلوا دیں گے، اس کی توقع رکھنا فضول ہے۔ اپنے گھر خود بنانے پڑتے ہیں۔ اگرآپ کے ہمسایے نے اچھا گھر بنا لیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ کا گھر بھی خو ب صورت بنا دے گا۔ یہ چیز ہمیں خود اپنی محنت سے حاصل کرنا ہوگی۔ اس کے لیے آزاد اورمضبوط ریاستی ادارے ناگزیر ہوتے ہیں، چاہے وہ پارلیمنٹ اور مقننہ ہو، انتظامیہ ہو یا عدلیہ ہو، خاص طورپر عدلیہ آزاد ہو۔ 
آپ کومعلوم ہوگا کہ الیکشن کے دنوں میں انڈیا کے اندر الیکشن کمیشن کی اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وزیراعظم تک اس سے تھرتھر کانپ رہاہوتا ہے۔ اندرا گاندھی نے اپنے ایک الیکشن میں اپنی سرکاری حیثیت کا استعمال کرلیا تھا تووہاں کی عدالتوں نے الیکشن کالعدم قرار دے دیا تھا۔ عدالتوں کی آزادی ناگزیر ہوتی ہے۔ امریکی انتظامیہ نے کیوبا، گوانتا ناموبے کے قیدیوں کے بارے میں یہ چاہا کہ ان پر صرف فوجی قانون لاگو ہو، امریکا کا عام قانون ان پر لاگو نہ ہو۔ اس پر بہت زور لگایا لیکن امریکہ کی سپریم کورٹ نے اسے نہیں چلنے دیا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ عام لوگوں کو جتنا اعتماد برطانیہ، امریکاکی عدالتوں پر ہے، اتنا اعتماد پاکستان بلکہ کسی بھی اسلامی ملک کی عدالتوں پر نہیں ہے، کیونکہ آزاد اداروں کا تصور، شہری حقوق اور شخصی آزادیوں کا تسلیم کیا جانا،اس طرح کی باتیں ہمارے معاشرے میں فکری عیاشی سمجھی جاتی ہیں۔ عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک فکری عیاشی ہے، اس کا ہماری روٹی سے کوئی تعلق ہے نہ پہناوے سے اور نہ ہماری بنیادی ضرورتوں سے، لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔یہ چیزیں کسی بھی معاشرے کے لیے بنیادی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔ جب تک یہ چیزیں حاصل نہ ہوں، اس وقت تک قومیں ترقی نہیں کرتیں۔ بے شک سڑکیں اچھی بن جائیں، جال بچھ جائیں، سڑکوں پرپل بن جائیں، یہ صرف ظاہری ترقی ہے۔ اصل ترقی انسانی،سیاسی اور سماجی ترقی ہے جس میں مضبوط اداروں کے زیرسایہ شہری حقوق اور شخصی آزادیاں تسلیم شدہ ہوں۔
اس وقت ملک میں جوکچھ ہو رہا ہے، وہ ایک انتہاہے۔ مختلف اداروں پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہو رہی ہیں، ٹی وی چینلو ں اور اخبارات وجرائد پر پابندیاں اور جکڑنیں ہیں اور یہ سب کچھ روشن خیالی کا نام جپنے والوں کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔ اگرچہ ہماری معلومات کے مطا بق الحمد للہ ابھی تک بعض اخبارات اور ٹی وی والوں نے حکومت کے آگے ہتھیا رنہیں ڈالے، حکومت جس طرح کا قانون نافذکرنا چاہتی ہے، اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیارنہیں ہوئے، بند پڑے ہوئے ہیں۔ اوربھی کئی طبقے اللہ کے فضل سے اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ حکومتی جبر نہیں مانیں گے۔ اب دو راستے ہیں۔ یا تو ملک کو دستور پسند اور مہذب معاشرہ دیکھنے کے خواہشمند بھرپور طریقے سے اپنی بات تسلیم کروائیں گے اور موجودہ حالات کا ایسا نتیجہ نکلے گا کہ آئندہ آنے والوں کو یقین ہوجائے کہ یہاں کے لوگ ا ب اتنے باشعورہوچکے ہیں کہ یہاں کسی کی مطلق العنانی نہیں چل سکتی، لوگوں کے حقوق چھینے نہیں جا سکتے، لوگوں پر بے جاریاستی دباؤ اور جبر نہیں چل سکتا، فرد واحد کی خواہش پر اداروں کوتہس نہس نہیں کیاجاسکتا۔ اس سے ملک ایک خاص راستے پر چڑھے گا۔ ایک دفعہ یہ بات سمجھ میں آگئی توپھر ا ن شاء اللہ یہ ملک صحیح رخ پر چلتا رہے گا۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ قوم بحیثیت مجموعی تسلیم کرلے کہ ’’سانوں کی‘‘ (ہمیں کیا) موجودہ صورت حال سے ہماراکوئی تعلق نہیں، یہ اخبارات والوں کامسئلہ ہے، یہ ٹی وی چینل والوں کا مسئلہ ہے، یہ ججوں کا مسئلہ ہے، یہ وکیلوں کا مسئلہ ہے، یہ دینی حلقوں اور مولویوں کا مسئلہ ہے۔ ہرکوئی اپنے حصے کی مار الگ الگ کھاتارہے۔ اس سے ملک ایک خاص راستے پر چڑھے گا۔آنے والی حکومتوں کو پتہ ہوگا کہ جیسے پہلے ساٹھ سال سے ہوتاآرہا ہے، جب دیکھاکہ عدلیہ ہماری تا بعداری سے نکل رہی ہے توکسی نہ کسی طریقے سے اپنے مرضی پر لے آئیں۔ جب دیکھاکہ لوگوں تک بات پہنچانے کے جتنے ذرائع ہیں، جتنا میڈیا ہے، وہ ایک خاص حدسے نکل رہا ہے، ہماری منشا کے مطا بق نہیں چل رہا تو ان کو پکڑ کر جکڑ دیں اور کہیں کہ لوگوں نے مان لیا اور ’’سانوں کی‘‘ کا رویہ اختیار کر کے ہماری خاموشی نے تصدیق کر دی۔ لہٰذا یہ صرف چندلوگوں کا مسئلہ ہے۔ اس سے ملک ایک دوسری قسم کی ڈگر پر چلے گا اور یاد رکھیں کہ گاڑی کارخ جس طرف کوبھی مڑا، اس کے اچھے یا برے اثرات ہم یعنی دین کا کام کرنے والوں پر بھی لازماً پڑیں گے۔ اگر ملک کی یہ گاڑی شخصی آزادیوں کے راستے پر چل نکلی، شہری حقو ق، دستورپسندی اور آئین کی پاس داری کے راستے پر چل نکلی تواس کے اثرات وثمرات سے دینی حلقے بھی مستفید ہوسکیں گے۔ اس کافائدہ جہاں لادین طاقتوں کو ہوگا، وہیں ہمیں بھی ان آزادیوں اور شہری حقوق سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔
اگر خدانخواستہ گاڑی کارخ دوسری طرف ہوگیا اور آپ نے کسی کایہ اختیار تسلیم کرلیا کہ وہ اپنی مرضی سے جس کا چاہے، گلا دبا دے توجس نے آج ان کا دبایاہے، کل آ پ کا بھی دبا سکتا ہے۔ آج اگر اس کا گلہ د بانے کی طاقت حاصل کرتاہے توکل آپ کا بھی د بادے گا،بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ تمہارا اس سے زیادہ دبائے۔ آج کئی لوگوں کے لیے بات کہنا اور لکھنا مشکل ہے اور دوسرے شہری حقوق بھی پامال ہو رہے ہیں توکل کوہمارے لیے دین کے کام میں بھی مشکلات آسکتی ہیں۔ آپ دوسرے اسلامی ملکوں کاحال دیکھ لیں۔ سعودی عرب اور ترکی کا حال دیکھ لیں، وہاں کی حکومتوں کے نقطہ نظر سے ہٹ کر آپ دین کی کوئی بات بھی کر سکتے ہیں؟ تبلیغی جماعت کا کام آزادی سے کرسکتے ہیں؟ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ تبلیغ والے حضرات کہنے لگے کہ آج کل ہمیں ترکوں پر زیادہ محنت کرنے کا کہا گیا ہے۔ میں نے سوچا کہ جماعتیں ترکی میں جا رہی ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ نہیں، اس مقصدکے لیے جماعتیں زیادہ تر جرمنی میں جا رہی ہیں۔ میں نے کہا کہ محنت ترکوں پر اور جماعتیں جرمنی میں جا رہی ہیں؟ کہنے لگے اس لیے کہ ترکی میں وہ حقوق نہیں، وہ آزادیاں نہیں ہیں جو جرمنی میں ہیں۔ ترک چونکہ جرمنی میں کثر ت سے ہیں ملازمت اور کسب معاش وغیر ہ کے سلسلے میں، اس لیے جرمنی میں جا کر ترکوں پرمحنت کرتے ہیں اور ترکی میں یہ کام نہیں ہوسکتا۔
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ شایدہماری نفسیات میں کہیں سے یہ بات آگئی ہے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ کوئی آکر لوگوں کو جکڑے، ان کے ہاتھ پاؤں باندھے اور ہم ان جکڑے ہوئے لوگوں میں دین کا جام انڈیلیں، لیکن یاد رکھیں یہ ہم میں سے کسی کی خواہش تو ہو سکتی ہے، خود اسلام فطری طورپر اتنا بودا اور بے کشش نہیں ہے کہ اسے اس طرح کی کسی بیساکھی کی ضرورت ہو۔ آپ پچھلے کچھ عرصہ کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ جن جن ملکوں میں شہری حقوق اور شخصی آزادیاں جتنی زیادہ تسلیم کی گئی ہیں، جتنا زیادہ کھلا ماحول ملا ہے، وہاں اسلام اتنا زیادہ پھیلاہے اور جو ملک اشتراکی نظام کے زیر اثر رہے ہیں، اشتراکیت میں چونکہ ان حقوق کو سلب اور چھینا جاتا ہے، جیسے روس ہے، چائنا ہے، وہاں اسلام اتنا نہیں پھیلا جتنا امریکہ، برطانیہ اور فرانس وغیرہ میں پھیلا ہے۔ آج مسلمان ملکوں کے اندر عورتیں حجاب چھوڑ ر ہی ہیں، لیکن مغرب میں مسلمان ہو کر حجا ب اوڑھ رہی ہیں۔ کھلے ماحول میں جب بھی اسلام کی بات چلے گی تووہ لوگوں کے دل ودماغ میں خود جگہ بنائے گی۔
بات یہ کررہاتھاکہ اس وقت ہماری ہمدردیاں کس کے ساتھ ہونی چاہییں؟ میں کسی خاص طبقے کی بات نہیں کر رہا۔ ہم اگر عملی طورپر کچھ نہیں کرسکتے توکم ازکم ذہنی اورفکری طورپر ہماری ہمدردیاں کس کے ساتھ ہونی چاہییں؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ اس وقت چند ججوں اور وکیلوں کا نہیں، نہ اخبارات والوں اور ٹی وی والوں کا ہے، بلکہ مسئلہ اصول اور رخ کا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمیں کون سا راستہ سوٹ کرے گا۔ اس وقت ہم اپنا وزن صحیح جانب ڈالیں کیونکہ یہ فیصلہ کن موڑہے۔اپنے آپ کو بالکل لاتعلق نہ رکھیں، ا ب یہ کہنے کا موقع نہیں رہاکہ ’’سانوں کی‘‘۔ اگر آزادیوں اورحقو ق کوتسلیم کرلیا گیا تواس سے ہم بھی مستفید ہوں گے۔قانونی ڈھانچے اور قانونی دائرے کے اندر رہتے ہوئے آپ کوئی مدرسہ بنائیں یاکوئی مسجد بنائیں توآپ کوکوئی نہیں روک سکے گا۔ برطانیہ اورامریکا میں اوریورپ کے دیگر ملکوں میں وہاں کے قانون کے مطابق اگر مسجد بنانا چاہتے ہیں تو وہاں کی حکومت کی مجال نہیں کہ وہ آپ کوروک دے، محض اس وجہ سے کہ ہمیں پسند نہیں۔ آپ مند ربنا نا چاہیں توآپ کاحق ہے، آپ بنائیں۔ آپ گرجاگھر بنانا چاہیں، آپ کاحق ہے، بنائیں۔ توحقوق کو تسلیم کیے جانے کا جو راستہ ہے، شہری حقوق اور شہری آزادیوں کا جو راستہ ہے، اس سے جتنا زیادہ فائدہ دوسروں کوہوگا، اس سے کہیں زیادہ فائدہ ہم اٹھا سکیں گے۔یہ ٹھیک ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو ایک خاص قانونی دائرے کے اندر رکھنا پڑے گا، لیکن اس حد کے اندر رہتے ہوئے توکم ازکم روک ٹوک نہیں ہوگی۔ ہم اپنا کام آزادی سے کرسکیں گے، دین کی بات بڑھا سکیں گے، پھیلا سکیں گے، لوگوں تک پہنچا سکیں گے، اور یہ ہماری طاقت نہیں بلکہ دین کی اپنی طاقت ہے۔ دین اپنے آپ کو خود منواتاہے۔ توجہاں تک ہماری بات چلتی ہے، جہاں تک ہمارے قلم کی دسترس ہے، ورنہ کم از کم ہمدریوں کی حدتک ہمیں صحیح جانب وزن ڈالنا چاہیے، خاص طورپر ہم میں سے جولوگ سیاسی میدانوں میں ہیں۔ ہمیں اپنی سیاسی قیادت پر نظر رکھنی چاہیے۔ اگر امیرالمومنین کو برسرعام غلطی پرٹوکا جاسکتاہے تودینی سیاسی قیادت اگر غلط راستے پر چل رہی ہے تواس کو بھی بتایا جا سکتاہے کہ جناب!آپ یہ ٹھیک نہیں کر رہے۔ خاص طورپر جولوگ سیاسی میدان میں ہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ قیادت کوبتائیں کہ ہمیں پتہ ہے کہ اندر سے کیا ہو رہا ہے اور باہر کیا کیا جا رہا ہے۔ آپ یہ مت سمجھیں کہ ہمیں پتہ نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لیڈروں کوبتائیں کہ ہم محض آپ کی ز بان کی چکناہٹ اور خوب صورت دلیلوں سے متاثر ہونے والے نہیں ہیں۔اب وقت آگیاہے کہ آپ کے بیانات اورطرز عمل اورپالیسیوں میں یکسانیت نمایاں نظر آئے۔
اس ملک کے ساتھ اس وقت چند قائدین اتنا سنگین مذاق کر رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہماری چالبازیوں اور مذاق سے لوگ بے وقو ف بن جائیں گے۔ اس کا نقصان جس طرح ملک کو پہنچے گا، ویسے ان کو بھی پہنچے گا۔ اس وقت کی صورت حال سے دل اتنا دکھا ہواہے کہ کوئی قیادت نظر نہیں آرہی ہے۔ نچلی سطح پرپہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ لوگوں میں شعور بیدار ہو رہا ہے، لیکن اوپر کی سطح پرکوئی قیادت ہی نہیں۔ پھرایک بات یہ بھی ہے کہ ملک کاجوبہت متمول طبقہ ہے تواسے اپنے مفادات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا اور نچلا طبقہ مہنگائی کی چکی میں ایسا پسا ہواہے کہ اسے اپنی دال روٹی سے فرصت نہیں۔ لے دے کے مذل کلاس خصوصاً اپر مذل کلاس رہ جاتی ہے۔ اس وقت بیداری کی لہربھی سب سے زیادہ اس میں ہے اور علما کے ساتھ رابطہ اورتفاعل اس کا سب سے زیادہ ہے۔ اس لیے بھی اس طبقے پر خاصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ مطلق العنانی کے خلاف مزاحمت کی علامت مولوی ہوتا تھا۔ لوگوں کی نظر یں مولا نا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ پر ہوتی تھیں، مفتی محمود ؒ پر ہوتی تھیں، لیکن آج لوگ سوچنے پر مجبورہیں۔ آج لوگوں کی نظریں اعتزاز احسن پر ہیں، جاوہد ہاشمی پرہیں، منیراے ملک، افتخار چوہدری پر ہیں۔ آپ لوگوں سے خود جاکر پوچھ لیں، خود سرو ے کرلیں۔ اور نہیں تو کم از کم اپنے مقتدیوں کا ہی سروے کرلیں، ہم لوگ کسی زمانے میں ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کی علامت ہوتے تھے، ۔ اب اس جگہ پر پہنچ گئے،یہ ہمارے لیے سوچنے کی بات ہے۔ ہم عام تقریریں نہیں کر سکتے، عوام کو بھڑکانہیں سکتے توکم از کم اپنے دائرے کے اندر رہتے ہوئے سوچ توسکتے ہیں اوراپنی دینی لیڈر شپ کو جتا سکتے ہیں۔ اگر ان کویہ پتہ چل جائے کہ نیچے والوں نے صرف ہمارے حق میں نعرے نہیں لگانے بلکہ ہماری پالیسیوں کو چیک بھی کرناہے توانہیں بھی اپنی پالیسیوں پر غور اور نظرثانی کے لیے وقت نکالنا پڑے گا۔ اس معاملے میں اگرہم نے سستی کی توخدانخواستہ ہم پر کہیں وہ وقت نہ آجائے کہ ہم چیخیں لیکن کوئی سننے والا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے، آمین۔
(ضبط وتلخیص:مولانا مفتی محمد اصغر۔ بشکریہ مجلہ ’’الحقانیہ‘‘ ساہیوال، سرگودھا، جنوری ۲۰۰۸)

شرعی سزاؤں کی ابدیت و آفاقیت کی بحث

محمد عمار خان ناصر

(مصنف کی زیر ترتیب کتاب ’’حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ کا ایک باب)

شرعی قوانین اور بالخصوص سزاؤں سے متعلق شرعی احکام کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے معاصر مسلم فکر میں ایک اہم اور بنیادی بحث یہ ہے کہ قرآن وسنت میں مختلف معاشرتی جرائم مثلاً زنا، چوری، قذف اور محاربہ وغیرہ سے متعلق جو متعین سزائیں بیان کی گئی ہیں، آیا وہ ابدی اور آفاقی نوعیت کی ہیں یا ان کی معنویت اور افادیت ایک مخصوص زمان ومکان تک محدود تھی۔ ایک مکتب فکر یہ رائے رکھتا ہے کہ یہ سزائیں تجویز کرتے وقت اہل عرب کے مخصوص تمدنی مزاج اور معاشرتی عادات واطوار کو پیش نظر رکھا گیا تھا اور اس معاشرت میں جرائم کی روک تھام کے حوالے سے یہ موزوں اور موثر تھیں، تاہم ان کی ظاہری صورت کو ہر دور میں بعینہٖ برقرار رکھنا ضروری نہیں اور اصل مقصد یعنی عدل وانصاف پر مبنی معاشرے کے قیام اور جرائم کی روک تھام کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی معاشرے کی نفسیات اور تمدنی حالات وضروریات کے لحاظ سے قرآن کی بیان کردہ سزاؤں سے مختلف سزائیں تجویز کی جا سکتی ہیں۔ 
یہاں تنقیح طلب نکتہ یہ ہے کہ آیا شارع نے کیا فی الواقع ان سزاؤں کی اساس یہی بیان کی ہے کہ ان کے ذریعے سے محض معاشرے میں جان ومال اور آبرو وغیرہ کا تحفظ مقصود ہے اور یہ کہ سزا کے اصل مقصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے، ان سزاؤں کی ظاہری صورت میں تبدیلی کی گنجایش موجود ہے؟ قرآن مجید کے متعلقہ نصوص کے مطالعے سے اس سوال کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ قرآن سے واضح ہوتا ہے کہ اس معاملے میں اس کا زاویہ نگاہ جوہری طور پر زیر بحث زاویہ نگاہ سے مختلف ہے۔ قرآن ان سزاؤں کو اصلاً ’حقوق العباد‘ یعنی جان ومال اور آبرو کے تحفظ کے ایک ذریعے کے طور پر بیان نہیں کرتا اور نہ اس نے ان سزاؤں کو بیان کرتے ہوئے وہ مقدمہ ہی قائم کیا ہے جو زیر بحث نقطہ نظر میں ان سزاؤں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے، یعنی یہ کہ انسانی معاشرے میں امن ہونا چاہیے، اور چونکہ مذکورہ جرائم امن وامان کو تباہ کر دیتے ہیں، اس لیے یہ معاشرے کے تحفظ کا تقاضا ہے کہ ان جرائم کی روک تھام کے لیے مجرموں کو مذکورہ سزائیں دی جائیں۔ قرآن نے یہ بات نہیں کہی، بلکہ وہ ان سزاؤں کو ’حق اللہ‘ کے طور پر بیان کرتا ہے اور اس کا مقدمہ یہ ہے کہ انسان کی جان، مال اور اس کی آبرو کو اللہ نے حرمت بخشی ہے اور اللہ کی اجازت کے بغیر یہ حرمت کسی صورت میں ختم نہیں کی جا سکتی، اس لیے اگر کوئی مجرم کسی انسان کی جان، مال یا آبرو پر تعدی کرتا ہے تو وہ دراصل خدا کی قائم کی ہوئی ایک حرمت کو پامال کرتا ہے اور اس طرح خدا کی طرف سے سزا کا مستحق قرار پاتا ہے، چنانچہ کسی بھی جرم پر خدا کی بیان کردہ سزا دراصل خدا کا حق ہے جس کے نفاذ کو اس نے انسانوں کی ذمہ داری ٹھہرایا ہے۔ 
شرعی سزاؤں کا یہ پہلو قرآن مجید نے کم وبیش ہر موقع پر واضح کیا ہے۔ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت ۱۷۸ میں اللہ تعالیٰ نے قاتل سے قصاص لینے کو فرض قرار دیا ہے۔قصاص کا قانون تورات میں بھی بیان کیا گیا تھا، تاہم اس میں قاتل کو معاف کر کے دیت لینے کی گنجایش نہیں رکھی گئی تھی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ اجازت تمھارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قتل کی صورت میں قاتل کو قتل کرنا یا اس سے دیت لے کر معاف کر دینا انسانوں کی صواب دید پر مبنی نہیں، بلکہ یہ اجازت خدا کی طرف سے رحمت کی وجہ سے ملی ہے اور اگر وہ تورات کے قانون کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی اجازت نہ دیتا تو قاتل کو قصاص میں قتل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔ 
سورۂ نور کی آیت ۲ میں زانی مرد اور زانی عورت کے لیے سو کوڑوں کی سزا بیان کی گئی ہے۔ یہاں قرآن نے اپنی بیان کردہ سزا کے نفاذ کو اللہ کے دین پر عمل درآمد کا معاملہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ مجرم پر کوئی ترس کھائے بغیر اس پر سزا کا نفاذ اہل ایمان کے ایمان کا تقاضا ہے۔ 
سورۂ مائدہ کی آیت ۳۸ میں چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس سزا کو ’نکالا من اللہ‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف عبرت کا نمونہ کہا گیا ہے۔ اس سے پہلے آیت ۳۳، ۳۴ میں نے محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرموں کی سزائیں بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر یہ مجرم قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے توبہ کر لیں تو جان لو کہ اللہ معاف کرنے والا، مہربان ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ توبہ کی صورت میں اللہ کی طرف سے معافی کی پوری توقع ہے، اس لیے ایسے مجرموں پر سزا نافذ نہ کی جائے۔
ان سزاؤں کا یہ پہلو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات سے بھی واضح ہوتا ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ جو شخص قتل، زنا، چوری اور بہتان طرازی کا مرتکب ہو اور دنیا ہی میں اپنے کیے کی سزا پا لے، اس کی سزا اس کے گناہ کا کفارہ بن جائے گی، لیکن اگر دنیا میں وہ سزا سے بچ گیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا حق ہوگا کہ وہ چاہے تو اسے سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے۔ (بخاری، ۱۷) ایک دوسری روایت میں آپ نے اس بات کو یوں بیان کیا کہ اگر کسی شخص کو دنیا ہی میں اس کے جرم کی سزا مل جائے تو یہ بات اللہ تعالیٰ کے عدل سے بعید ہے کہ وہ آخرت میں اسے دوبارہ اس کی سزا دے۔ (ترمذی، ۲۵۵۰) دونوں روایتوں سے واضح ہے کہ دنیا میں ملنے والی سزا بھی دراصل اللہ کا حق ہے جس کا نفاذ مجرم کو آخرت کے عذاب سے بچا لیتا ہے۔ 
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً بھی بہت سے مقدمات میں مجرم کے ساتھ ہمدردی محسوس کرنے، صاحب حق کے معاف کر دینے یا تلافی کی متبادل صورت موجود ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سزا ہی کے نفاذ پر اصرار کیا۔ چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلے جس شخص کا ہاتھ کاٹا گیا، اسے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور آپ کو بتایا گیا کہ اس نے چوری کی ہے تو آپ کا چہرہ مبارک اس طرح سیاہ ہو گیا جیسے اس پر راکھ پھینک دی گئی ہو۔ صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ، آپ کو کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا: ’’میں اس پر سزا نافذ کرنے سے کیسے رک سکتا ہوں جبکہ تم خود اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مدد کرنے والے ہو؟ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ (تمھیں چاہیے تھا کہ اس کو میرے سامنے پیش نہ کرتے کیونکہ) حکمران کے سامنے جب سزا سے متعلق کوئی معاملہ پیش ہو جائے تو اس کے لیے سزا کو نافذ کرنا ہی مناسب ہے۔‘‘ (مسنداحمد، ۳۷۸۰) 
ایک شخص نے صفوان بن امیہ کی چادر چرا لی۔ اس کو پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کاحکم دیا۔ صفوان نے چور پر ترس کھاتے ہوئے کہا کہ یارسول اللہ، میرا مقصد یہ نہیں تھا کہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے، اس لیے میں اپنی چادر اس چور کو ہبہ کرتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے میرے پاس لانے سے قبل اسے کیوں معاف نہیں کر دیا؟ چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ (نسائی، ۴۷۹۵۔ ابن ماجہ، ۲۵۸۵) 
عبد اللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے چوری کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ ہم اس کا عوض مال کی صورت میں دینے کے لیے تیار ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ انھوں نے کہا کہ ہم پانچ سو دینار تک دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن آپ نے فرمایا کہ اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ (مسند احمد، ۶۳۷۰)
اس تفصیل سے واضح ہے کہ قرآن وسنت ان سزاؤں کو اصلاً ایک سماجی ضرورت کے طور پر نہیں ،بلکہ خدا کے حق کے طور پر بیان کرتے ہیں جس میں خود اس کے حکم کے بغیر کسی تبدیلی کی علمی وعقلی طور پر کوئی گنجایش نہیں۔ جہاں تک جرائم کے سدباب کا تعلق ہے تو یقیناًوہ بھی ان سزاؤں کا ایک اہم پہلو ہے، لیکن اس کی حیثیت اضافی اور ثانوی ہے اور اسے بنیاد بنا کر سزا کی اصل اساس کو اس کے تابع بنا دینے بلکہ بالکل نظر انداز کر دینے کو کسی طرح بھی شارع کے منشاکی ترجمانی نہیں کہا جا سکتا۔ شرعی سزاؤں کو یہی حیثیت سابقہ شرائع میں بھی حاصل رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب یہود نے تورات میں بیان ہونے والی بعض سزاؤں کو سنگین تصور کرتے ہوئے نرم سزا کی توقع پر بعض مقدمات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا تو قرآن نے ان کے اس طرز عمل پر تنقید کی اور فرمایا کہ ان کے پاس تورات ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے، پھر یہ اس کو چھوڑ کر آپ کو کیسے حکم بنا سکتے ہیں؟ (مائدہ ۵:۴۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقدمے میں یہود کی منشا کو بالکل الٹتے ہوئے مجرموں پر تورات ہی کی سزا نافذ فرمائی اور پھر کہا: ’اللہم انی اول من احیا امرک اذ اماتوہ‘ (یا اللہ، میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا، جبکہ انھوں نے اسے مردہ کر رکھا تھا)۔ (مسلم، ۳۲۱۲)
نصوص کی روشنی میں اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ان استدلالات پر بھی تبصرہ کر دیا جائے جو اس ضمن میں بالعموم پیش کیے جاتے ہیں:
پہلا استدلال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ سیدنا عمر نے اپنے عہد حکومت میں قحط سالی کے زمانے میں چور کے لیے قطع ید کی سزا کے نفاذ پر عمل درآمد روک دیا تھاجو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس سزا کا نفاذ ہر حالت میں ضروری نہیں ہے۔ تاہم یہ نکتہ اصل بحث سے بالکل غیر متعلق ہے، اس لیے کہ کسی حکم کا اصولی طور پر واجب الاتباع نہ ہونا ایک چیز ہے اور کسی مخصوص صورت حال میں اس کے اطلاق میں کسی اخلاقی اور شرعی مصلحت کو ملحوظ کھنا ایک بالکل دوسری چیز۔ سیدنا عمر کا مذکورہ فیصلہ دوسرے دائرے کی چیز ہے اور اپنی جگہ بالکل درست ہے، اس لیے کہ شریعت میں مختلف معاشرتی جرائم پر جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں، ان کے نفاذ میں ان تمام شروط وقیود اور مصالح کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو جرم وسزا کے باب میں عقل عام پر مبنی اخلاقیات قانون اور خود شریعت کی ہدایات سے ثابت ہیں۔ جرم کی نوعیت وکیفیت اور مجرم کے حالات کی رعایت کرنا اور اگر وہ کسی پہلو سے معاف کیے جانے کا مستحق ہو تو اسے معاف کر دینا انھی اصولوں میں سے ایک بنیادی ہے۔ کسی بھی مجرم پر سزا کا نفاذ اسی صورت میں قرین انصاف ہے جب مجرم کسی بھی پہلو سے رعایت کا مستحق نہ ہو۔ اگر جرم کی نوعیت وکیفیت اور مجرم کے حالات کسی رعایت کا تقاضا کر رہے ہوں تو اس پہلو کونظر انداز کرتے ہوئے سزا کو نافذ کرنا عدل وانصاف اور خود شارع کی منشا کے خلاف ہے اور سیدنا عمر نے اسی کو ملحوظ رکھتے ہوئے قحط سالی کے زمانے میں قطع ید کی سزا پر عمل درآمد کو روکا تھا۔ ان کے اس فیصلے سے کسی طرح یہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ فی نفسہ ان سزاؤں کو ہی شریعت کا کوئی ابدی حکم تصور نہیں کرتے تھے۔
دوسرا استدلال یہ سامنے آیا ہے کہ چونکہ جدید ذہن مختلف تمدنی اور نفسیاتی عوامل کے تحت شرعی سزاؤں سے اجنبیت محسوس کرتا ہے اور ان سزاؤں کا نفاذ نفسیاتی طور پر دین سے دوری کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے موجودہ دور میں ان سزاؤں کا نفاذ مصلحت کے خلاف ہے۔ ہماری رائے میں یہ بات تو درست ہے کہ دین کے احکام پر موثر عمل درآمد ان کی اعتقادی واخلاقی اساسات پر مضبوط ایمان اور شکوک وشبہات کا ازالہ کیے بغیر ممکن نہیں، تاہم اس نکتے کی بنیاد پر شرعی سزاؤں کو جدید دور میں کلیتاً ناقابل نفاذ قرار دے کر مستقل بنیادوں پر متبادل سزاؤں کا جواز اخذ درست نہیں، اس لیے کہ پھر یہ معاملہ قانون کے عملی نفاذ کی مصلحت تک محدود نہیں رہتا، بلکہ فکر ونظر کے زاویے میں ایک نہایت بنیادی اختلاف کو قبول کرنے تک جا پہنچتا ہے۔ جدید ذہن کو ان سزاؤں پر یہ اشکال نہیں ہے کہ یہ جرائم کی روک تھام میں مددگار نہیں یا ان سے زیادہ موثر سزائیں دریافت کر لی گئی ہیں، بلکہ اسے یہ سزائیں سنگین،متشددانہ اور قدیم وحشیانہ دور کی یادگار دکھائی دیتی ہیں اور وہ انھیں انسانی عزت اور وقار کے منافی تصور کرتا ہے۔ زاویۂ نگاہ کا یہ فرق قانون کی مابعد الطبیعیاتی اور اعتقادی بنیادوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اسلام خدا کے سامنے مکمل تسلیم اور سپردگی کا نام ہے۔ یہ سپردگی مجرد قسم کے ایمان واعتقاد اور بعض ظاہری پابندیوں کو بجا لانے تک محدود نہیں، بلکہ انسانی جذبات واحساسات بھی اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ محبت، نفرت، ہمدردی اور غصے جیسے جذبات اور حب ذات، آزادی اور احترام انسانیت جیسے احساسات وتصورات نفس انسانی میں خدا ہی کے ودیعت کردہ اور اس اعتبار سے بجائے خود خدا کی امانت ہیں، چنانچہ اسلام کے نزدیک ان کا اظہار اسی دائرۂ عمل میں اور اسی حد تک قابل قبول ہے جب تک وہ خدا کے مقرر کردہ حدود کے پابند رہیں۔ اس سے تجاوز کرتے ہوئے اگر ان کو کوئی مقام دیا جائے گا تو یہ خدا کی امانت کا صحیح استعمال نہیں، بلکہ اس میں خیانت کے مترادف ہوگا۔ چنانچہ جدید انسانی نفسیات اگر جرم وسزا سے متعلق قرآنی احکام سے نفور محسوس کرتی ہے تو یہ محض قانون کی مصلحت یا اس کے سماجی تناظر کے بدل جانے کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کی جڑیں قانون کی مابعد الطبیعیاتی اساسات میں پیوست ہیں اور اس معاملے میں جدید فکر کے ساتھ کمپرومائز کا جواز فراہم کرنے کے لیے ’اجتہاد‘ کے دائرے کو ایمان واعتقاد تک وسیع کرنا پڑے گا۔
اس بحث سے متعلق تیسرا اہم استدلال برصغیر کے جلیل القدر عالم شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے۔ مولانا شبلی نعمانی نے اپنی کتاب ’’الکلام اور علم الکلام‘‘ میں شاہ صاحب کی تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ سے ایک اقتباس نقل کر کے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شاہ صاحب قتل، زنا اور چوری وغیرہ سے متعلق قرآن کی بیان کردہ سزاؤں کو اہل عرب کی عادات پر مبنی اور ان کی مخصوص معاشرت ہی کے لیے موزوں سمجھتے ہیں، جبکہ دنیا کے دیگر معاشروں میں ان سزاؤں کے نفاذ کو لازم قرار نہیں دیتے۔ یہ عبارت ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے ’المبحث السادس‘ کے ’باب الحاجۃ الی دین ینسخ الادیان‘ سے لی گئی ہے۔ ذیل میں ہم سیاق وسباق کی روشنی میں اس کا مفہوم واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔
مذکوہ باب میں بحث کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں مختلف اقوام اورملل کے وجود میں آ جانے اور ان کے اختیار کردہ سنن وشرائع میں راہ راست سے کجی اور انحراف واقع ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اب ایک ایسا امام راشد سامنے آئے جو تمام ملتوں کو ایک ملت پر جمع کر دے اور ان ملتوں میں پائے جانے والے انحراف کو درست کرنے کے لیے وہی کردار ادا کرے جو ایک خلیفہ راشد دوسرے ظالم حکمرانوں کے ظلم وجور کو ختم کر کے دنیا میں عدل قائم کرنے کے لیے ادا کرتا ہے۔ اس عالمگیر مقصد کے حصول کے لیے امام راشد کو ان عمومی اصولوں کے علاوہ جن کی وضاحت شاہ صاحب ’باب الارتفاق الرابع‘ نے میں کی ہے، چند مزید اصولوں کی بھی ضرورت ہے۔ شاہ صاحب نے اس ضمن میں حسب ذیل اصولوں کا تذکرہ کیا ہے:
۱۔ یہ امام راشد ایک مخصوص قوم کو تزکیہ وتربیت کے بعد اپنا آلہ جارحہ بنائے اور پھر وہ قوم دنیا کی دیگر ملتوں کو اس امام کی لائی ہوئی ملت پر جمع کرنے کی ذمہ داری انجام دے۔
۲۔ یہ قوم صاحب ملت کی مقرر کردہ ملت کے لیے دینی حمیت کے ساتھ ساتھ نسبی حمیت بھی رکھتی ہو۔
۳۔ صاحب ملت اس مقصد کے لیے اپنے دین کو دنیا کے دوسرے سارے ادیان پر غالب کر دے جس کی صورت یہ ہو کہ اس دین کے شعائر کا عام چرچا کیا جائے جبکہ دیگر ادیان کے شعائر کے عمومی اظہار کو ممنوع قرار دیا جائے۔ اسی طرح غیر مسلموں کو قانونی اور معاشرتی امور میں مسلمانوں کے ہم پلہ نہ سمجھا جائے بلکہ انھیں پستی اور کہتری کا احساس دلا کر اسلام قبول کرنے پر آمادہ کیا جائے۔
۴۔ صاحب ملت لوگوں کو شریعت کے ظاہری احکام کا پابند بنائے اور ان احکام کے اسرار ومصالح کے ساتھ انھیں زیادہ مشغول نہ ہونے دے، کیونکہ اسرار ومصالح پر غور کے نتیجے میں اختلاف پیدا ہوگا اور شریعت دینے سے اللہ تعالیٰ کے پیش نظر جو مقصد ہے، وہ فوت ہو جائے گا۔
۵۔ اس دین کے بارے میں یہ واضح کر دیا جائے کہ یہی واضح، آسان اور معقول دین ہے اور اس میں مقرر کیے جانے والے طریقے انسانوں کی اکثریت کے لیے زیادہ فائدہ مند ہیں، جبکہ دیگر تمام ادیان تحریف اور انحراف کا شکار ہونے کی وجہ سے قابل اتباع نہیں رہے۔
باب کے اس پورے نظم سے واضح ہے کہ یہاں بنیادی نکتہ یہ زیر بحث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت اور شریعت پر پوری انسانیت کو جمع کرنے کے لیے کون کون سے اصولوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ان اصولوں میں سے پہلے اصول یعنی ایک مخصوص قوم کو تزکیہ وتربیت کے بعد دنیا کی دیگر ملتوں کو امام راشد کی ملت پر جمع کرنے کا ذریعہ بنانے کی توضیح کرتے ہوئے شاہ صاحب نے وہ عبارت لکھی ہے جو شبلی نے نقل کی ہے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ شرعی سزاؤں کو ابدی اور آفاقی نہیں سمجھتے۔ ’باب الحاجۃ الی دین ینسخ الادیان‘  کا جو بنیادی نکتہ اور رخ اوپر واضح کیا گیا ہے، اس کی روشنی میں اب اس عبارت کو دیکھیے:
منہا ان یدعو قوما الی السنۃ الراشدۃ ویزکیہم ویصلح شانہم ثم یتخذہم بمنزلۃ جوارحہ فیجاہد اہل الارض ویفرقہم فی الآفاق وہو قولہ تعالیٰ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس وذلک لان ہذا الامام نفسہ لا یتاتی منہ مجاہدۃ امم غیر محصورۃ واذا کان کذلک وجب ان تکون مادۃ شریعتہ ما ہو بمنزلۃ المذہب الطبیعی لاہل الاقالیم الصالحۃ عربہم وعجمہم ثم ما عند قومہ من العلم والارتفاقات ویراعی فیہم حالہم اکثر من غیرہم ثم یحمل الناس جمیعا علی اتباع تلک الشریعۃ لانہ لا سبیل الی ان یفوض الامر الی کل قوم او الی ائمۃ کل عصر اذ لا یحصل منہ فائدۃ التشریع اصلا ولا الی ان ینظر ما عند کل قوم ویمارس کلا منہم فیجعل لکل شریعۃ اذ الاحاطۃ بعاداتہم وما عندہم علی اختلاف بلدانہم وتباین ادیانہم کالممتنع وقد عجز جمہور الرواۃ عن روایۃ شریعۃ واحدۃ فما ظنک بشرائع مختلفۃ والاکثر انہ لا یکون انقیاد الآخرین الا بعد عدد ومدد لا یطول عمر النبی الیہا کما وقع فی الشرائع الموجودۃ الآن فان الیہود والنصاری والمسلمین ما آمن من اوائلہم الا جمع ثم اصبحوا ظاہرین بعد ذلک فلا احسن ولا ایسر من ان یعتبر فی الشعائر والحدود والارتفاقات عادۃ قومہ المبعوث فیہم ولا یضیق کل التضییق علی الآخرین الذین یاتون بعد ویبقی علیہم فی الجملۃ والاولون یتیسر لہم الاخذ بتلک الشریعۃ بشہادۃ قلوبہم وعاداتہم والآخرون یتیسر لہم ذلک بالرغبۃ فی سیر ائمۃ الملۃ والخلفاء فانہا کالامر الطبیعی لکل قوم فی کل عصر قدیما او حدیثا (حجۃ اللہ البالغہ، ۱/۲۴۸)
’’ان میں سے ایک اصول یہ ہے کہ وہ ایک قوم کو سنت راشدہ کی طرف دعوت دے اور ان کا تزکیہ اور اصلاح کرنے کے بعد انھیں اپنا آلہ وجارحہ بنا ئے اور انھیں مختلف خطوں کی طرف بھیج کر ان کے ذریعے سے اہل زمین کے ساتھ جہاد کرے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس‘ کا یہی مطلب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام کے لیے بذات خود دنیا کی لاتعداد قوموں کے خلاف جہاد کرنا ممکن نہیں۔ اس صورت حال میں ضروری ہے کہ اس کی شریعت کا مادہ ایک تو وہ (احکام وقوانین) ہوں جو عرب وعجم کی مہذب قوموں کے لیے ایک فطری طریقے کی حیثیت رکھتے ہیں اور پھر وہ علوم وارتفاقات جو امام کی مخاطب قوم کے ہاں پائے جاتے ہیں اور اس شریعت میں اس قوم کے حالات کی دوسروں کی نسبت زیادہ رعایت کی جائے۔ پھر امام راشد دنیا کے تمام لوگوں کو اس شریعت کی پیروی پر مجبور کرے، کیونکہ نہ تو یہ ممکن ہے کہ وضع شریعت کا معاملہ ہر قوم یا ہر دور کے ائمہ کے سپرد کر دیا جائے، اس لیے کہ اس سے شریعت مقرر کرنے کا فائدہ ہی سرے سے فوت ہو جاتا ہے، اور نہ یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ امام راشد ہر قوم کے احوال وعادات کو دیکھے اور ان میں سے ہر ایک کے معاملات کا خود تجربہ حاصل کرے اور پھر سب کے لیے الگ الگ شریعت مقرر کر دے، کیونکہ خطہ ہائے زمین اور مذاہب کے اختلاف اور تباین کے باعث ان سب قوموں کی عادات اور اطوار کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ راویوں کی اکثریت ایک ہی شریعت کو (بحفاظت) آگے منتقل کرنے سے عاجز ہے تو الگ الگ شریعتوں کے نقل کیے جانے کا کیسے تصور کیا جا سکتا ہے! پھر یہ بھی ہے کہ دوسری قوموں کا امام راشد کے دین کی پیروی اختیار کرنا عام طور پر عرصہ دراز کی کوششوں اور کاوشوں کے بعد ہی ہو سکتا ہے اور نبی کی عمر اس قدر طویل نہیں ہوتی۔ چنانچہ دنیا کے موجودہ مذاہب میں ایسا ہی ہوا ہے، کیونکہ یہود ونصاریٰ اور مسلمانوں کی ابتدائی نسلوں میں ایک گروہ ہی ایمان لایا تھا جنھیں بعد میں غلبہ نصیب ہوا۔ اس صورت حال میں اس سے اچھا اور آسان طریقہ کوئی نہیں ہو سکتا کہ امام راشد شعائر، رسوم واحکام اور ارتفاقات میں اس قوم کی عادات کی رعایت کرے جس کی طرف اسے مبعوث کیا گیا ہے، جبکہ بعد میں آنے والوں کے لیے اس معاملے میں بہت زیادہ سختی کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ ان کے لیے امام راشد کی شریعت اصولی حیثیت میں لازم رہے۔ (اولین قوم اور بعد کی اقوام میں فرق یہ ہوگا کہ) پہلوں کے لیے اس شریعت کو اختیار کرنا اپنے قلوب کی شہادت اور اپنی عادات کے ساتھ موافقت کی بنیاد پر آسان ہوگا جبکہ بعد میں آنے والوں کے لیے یہ یوں آسان ہوگا کہ وہ اس ملت کے ائمہ اور حکمرانوں کے طریقوں اور عادات کی پیروی میں راغب ہوں، کیونکہ حکمران قوم کے طریقوں کی پیروی کی رغبت پیدا ہونا قدیم اور جدید، ہر دور میں ہر قوم کے لیے ایک فطری طریقہ رہا ہے۔‘‘
مولانا شبلی نے اس اقتباس میں ’فلا احسن ولا ایسر من ان یعتبر فی الشعائر والحدود والارتفاقات عادۃ قومہ المبعوث فیہم ولا یضیق کل التضییق علی الآخرین الذین یاتون بعد‘ سے یہ نکتہ اخذ کیا ہے کہ ’’اس اصول سے یہ ظاہر ہو گیا کہ شریعت اسلامی میں چوری، زنا، قتل وغیرہ کی جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں، ان میں کہاں تک عرب کی رسم ورواج کا لحاظ رکھا گیا ہے اور یہ کہ ان سزاؤں کا بعینہا اور بخصوصہا پابند رہنا کہاں تک ضروری ہے‘‘۔ (الکلام، ص ۱۲۴) تاہم باب کے پورے نظم اور خود اس جملے کے سیاق وسباق سے واضح ہوتا ہے کہ یہ بات کسی طرح بھی شاہ صاحب کے مدعا کی ترجمانی نہیں ہے۔ شاہ صاحب نے مذکورہ اقتباس میں بنیادی طور پر دو سوالات کا جواب دیا ہے:
پہلا یہ کہ تمام ملتوں کو ایک ملت پر جمع کرنے کے لیے امام راشد کو کسی مخصوص قوم کو اپنا آلہ جارحہ بنانے کی ضرورت کیوں ہے؟ شاہ صاحب نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ تمام ملتوں کو اس ایک ملت پر بالفعل جمع کرنے کی ذمہ داری براہ راست امام راشد پر ڈال دینا مناسب نہیں تھا کیونکہ امام کے لیے بذات خود دنیا کی بے شمار اقوام کے خلاف جہاد کر کے انھیں مغلوب کرنا ممکن نہیں، چنانچہ مناسب یہی تھا کہ وہ ایک مخصوص قوم کو تزکیہ وتربیت کے ذریعے سے اس مقصد کے لیے تیار کرے اور پھر آفاق عالم میں اس ملت کی اشاعت کی ذمہ داری اس قوم کے سپرد کر دی جائے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ شاہ صاحب نے شرائع اور مناہج کے حوالے سے پیغمبر کی مبعوث الیہ قوم کی عادات اور سنن کو ملحوظ رکھنے کی جو اصولی بحث کی ہے ، اس کی روشنی میں اس مخصوص قوم کو دی جانے والی شریعت کی نوعیت کیا ہوگی اور دنیا کی دوسری اقوام اور ملل کو کیونکر اس کا پابند کیا جا سکے گا؟ اس کے جواب میں شاہ صاحب نے تین امکانی طریقے بیان کیے ہیں: ایک یہ کہ شریعت کا معاملہ ہر قوم یا ہر زمانے کے ائمہ کے سپرد کر دیا جائے۔ شاہ صاحب نے اس امکان کی صاف نفی کی ہے اور کہا ہے کہ یہ طریقہ، تشریع کے بنیادی مقصد اور فائدے ہی کو فوت کر دینے والا ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ شریعت کے معاملے کو اقوام اور ائمہ کی صواب دید پر چھوڑنے کے بجائے تمام لوگوں کو امام راشد ہی کی دی ہوئی شریعت کا پابند کیا جائے۔ (ثم یحمل الناس جمیعا علی اتباع تلک الشریعۃ لانہ لا سبیل الی ان یفوض الامر الی کل قوم او الی ائمۃ کل عصر اذ لا یحصل منہ فائدۃ التشریع اصلا
دوسرا امکان یہ ہو سکتا ہے کہ خود امام راشد دنیا کی ہر ہر قوم کے لیے الگ الگ شریعت مقرر کر دے۔ شاہ صاحب نے اس کو بھی ناممکن قرار دیا ہے، اس لیے کہ ایک تو دنیا کے دور دراز علاقوں میں آباد تمام اقوام کی عادات کا احاطہ عملاً محال ہے اور دوسرے ان اقوام کے، دائرۂ ملت میں داخل ہونے کے لیے عادتاً ایک طویل عرصہ چاہیے جبکہ امام راشد اس قدر طویل عرصے تک زندہ نہیں رہ سکتا۔
ان دو امکانات کی نفی کرتے ہوئے شاہ صاحب نے تیسرے امکان کو احسن اور ایسر قرار دیا ہے، یعنی یہ کہ امام راشد کو جو شریعت دی جائے، اس میں ان عادات کو تو ملحوظ رکھا ہی جائے جو عرب وعجم کے تمام صالح مزاج اقالیم کے لیے ’مذہب طبیعی‘ کی حیثیت رکھتی ہیں، لیکن اس مخصو ص قوم کے علوم وارتفاقات اور اس کے حالات کی زیادہ رعایت کی جائے جس کی طرف امام راشد کو مبعوث کیا گیا ہے۔ رہا یہ سوال کہ اس مخصوص قوم کی عادات کی رعایت سے مقرر کی جانے والی شریعت کو دنیا کی باقی اقوام کے لیے کیسے مانوس ومالوف بنایا جائے تو شاہ صاحب نے اس کی حکمت عملی یہ بیان کی ہے کہ یہ شریعت اصولی حیثیت میں تو ان کے لیے لازم رہے لیکن انھیں عملاً اس کا پابند بنانے کے لیے زیادہ سختی اور تنگی سے کام نہ لیا جائے۔ (لا یضیق کل التضییق علی الآخرین الذین یاتون بعد ویبقی علیہم فی الجملۃ) شاہ صاحب ان اقوام کو شریعت کے ان احکام سے جو ان کے لیے ’بمنزلہ مذہب طبیعی‘ کے نہیں ہیں، مانوس کرنے کے لیے ایک دوسرا فطری طریقہ تجویز کرتے ہیں جو ان کی رائے میں ہر زمانے میں ہر قوم کے لیے فطری طریقے کی حیثیت رکھتا ہے، یعنی یہ کہ بعد میں آنے والی ان اقوام میں اپنے حکمرانوں (جو پیغمبر کی مبعوث الیہ قوم سے تعلق رکھتے ہیں) کی سیرت اور طور طریقوں کی طرف رغبت پیدا ہو اور وہ ان سے متاثر ہو کر رفتہ رفتہ اس شریعت کو اپنانے کے لیے آمادہ ہو جائیں۔ (والآخرون یتیسر لہم ذلک بالرغبۃ فی سیر ائمۃ الملۃ والخلفاء فانہا کالامر الطبیعی لکل قوم فی کل عصر قدیما وحدیثا
اس تفصیل سے واضح ہے کہ شاہ صاحب کا مدعا ہرگز وہ نہیں جو شبلی وغیرہ نے اخذ کیا ہے۔ اول تو اس عبارت میں وہ فقہی اصطلاح کے مطابق خاص حدود کے حوالے سے کوئی بحث نہیں کر رہے، بلکہ عمومی طور پر شرعی احکام کے نفاذ کا فلسفہ اور اس کی حکمت عملی واضح کر رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ انھوں نے شرعی احکام کے اہل عرب کی عادات پر مبنی ہونے کے نکتے کو انھیں غیر ابدی اور غیر آفاقی قرار دینے کے لیے بنیاد نہیں بنایا، بلکہ ان احکام کو ابدی مان کر انھیں دیگر اقوام پر نافذ کرنے کی حکمت عملی کو موضوع بحث بنایا ہے۔ شاہ صاحب کی بیان کردہ حکمت عملی پر کئی سوال اٹھائے جا سکتے ہیں، لیکن اتنی بات واضح ہے کہ اہل عرب کو دی جانے والی شریعت کو غیر عرب اقوام کے لیے لازم نہ سمجھنے کا نقطہ نظر ان کی طرف کسی طرح منسوب نہیں کیا جا سکتا۔
جہاں تک قتل، زنا اور چوری وغیرہ کی شرعی سزاؤں کا تعلق ہے تو شاہ صاحب نے اپنی اسی تصنیف میں ان کو الگ سے اور باقاعدہ موضوع بحث بنایا ہے اور غیر مبہم الفاظ میں یہ واضح کیا ہے کہ وہ انھیں اہل عرب کی مخصوص عادات پر مبنی نہیں سمجھتے بلکہ ان قوانین میں شمار کرتے ہیں جو عرب وعجم کی سب قوموں کے لیے فطری طریقے کی حیثیت رکھتے ہیں، چنانچہ یہ سزائیں دنیا کی تمام اقوام کے لیے لازم ہیں اور انھیں کسی حال میں ترک نہیں کیا جا سکتا۔ فرماتے ہیں:
’’جان لو کہ مسلمانوں کی جماعت میں ایک حکمران کا ہونا ضروری ہے کیونکہ بہت سے مصالح اس کے وجود کے بغیر حاصل نہیں ہو سکے۔ یہ مصالح بہت سے ہیں اور انھیں بنیادی طورپر دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن کا تعلق سیاست مدینہ سے ہے، مثلاً حملہ آور اور قابض ہونے والے لشکروں کی مدافعت، مظلوم کو ظالم کی دست رس سے بچانا، مقدمات کا فیصلہ وغیرہ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام حاجات کو چار ابواب میں جمع فرما دیا ہے۔ ایک نزاعات، دوسرے حدود، تیسرے قضا اور چوتھے جہاد۔ پھر حاجت پیش آئی کہ ان چاروں ابواب کے کلیات طے کر دیے جائیں جبکہ جزئیات کو ارباب حل وعقد کی صواب دید پر چھوڑ دیا جائے اور انھیں تاکید کر دی جائے کہ وہ عوام کے بارے میں خیر خواہی کا رویہ اختیار کریں۔‘‘ (حجۃ اللہ ۲/۳۸۲، ۳۸۳)
اس کے بعد انھوں نے وہ ضروریات اور مصالح بیان کیے ہیں جو اس باب کے کلیات کو ضبط کرنے کے متقاضی ہیں۔ ان میں سے ایک مصلحت یہ ہے کہ جرم اور سزا کے مابین تناسب کی تعیین کو اگر لوگوں کی صواب دید پر چھوڑ دیا جاتا تو یہ افراط اور تفریط کا موجب ہوتا اور لوگ اس معاملے میں اعتدال پر قائم نہ رہ سکتے، اس لیے یہ مناسب تھا کہ شارع جرم وسزا کے باب میں ’کلیات‘ کو خود متعین کر دے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’تمام صورتوں کا حکم بیان کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ یہ ایک امر محال کامکلف ٹھہرانے کے مترادف ہوتا، اس لیے یہ ضروری تھا کہ بنیادی باتیں طے کر دی جائیں (جبکہ فروع کو متعین نہ کیا جائے) کیونکہ اصول کے مقابلے میں فروع میں لوگوں کا اختلاف کرنا نسبتاً قابل برداشت ہے۔ بنیادی سزاؤں کو طے کرنے کی ایک حکمت یہ تھی کہ یہ قوانین جب شارع کی طرف سے بیان کیے جائیں گے تو لوگ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے انھیں نماز اور روزہ کے احکام ہی کے مانند سمجھیں گے۔ ؟؟؟ ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس معاملے کو نہ تو بالکلیہ خواہشات اور درندگی جیسی خصلت سے مغلوب انسانی نفوس کے سپرد کر دینا ممکن تھا اور نہ یہ ہو سکتا تھا کہ حکمرانوں میں سے عادل اور انصاف پسند کو (پیشگی) ممتاز کر لیا جاتا (اور عادلانہ سزاؤں کی تعیین ان کی صواب دید پر چھوڑ دی جاتی) چنانچہ شرعی قانون سازی اور احکام کی ظاہری صورتوں کو متعین کرنے میں جتنے بھی مصالح پیش نظر ہو سکتے ہیں، وہ سب اس باب میں پائے جاتے ہیں (اور اسی لیے شارع نے بنیادی سزاؤں کی ظاہری صورت کو بھی متعین کر دیا ہے)‘‘ (حجۃ اللہ، ۲/۳۸۳، ۳۸۴)
ان ’اصول‘ یعنی بنیادی سزاؤں کی وضاحت کرتے ہوئے جنھیں شریعت نے متعین کر دیا ہے، شاہ صاحب لکھتے ہیں:
’’جان لو کہ قتل کی صورت میں قصاص، زنا کی صورت میں رجم اور چوری کی صورت میں ہاتھ کاٹنے کی سزائیں ہم سے پہلی شریعتوں میں بھی موجود تھیں۔ یہ تین سزائیں آسمانی شریعتوں میں متوارث چلی آ رہی ہیں اور ان پر انبیا اور اقوام عالم کی اکثریت کا اتفاق رہا ہے، چنانچہ اس طرح کی سزاؤں کو مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہیے اور انھیں چھوڑنا نہیں چاہیے۔ البتہ شریعت محمدی میں ان سزاؤں میں ایک اور طرح کا تصرف کیا گیا ہے اور ان میں سے ہر جرم کی سزا کے دو درجے مقرر کیے گئے ہیں۔ ایک بے حد سخت اور آخری درجے کی سزا جس کا حق یہ ہے کہ اسے سنگین قسم کے جرم میں نافذ کیا جائے، اور دوسری اس سے کم تر سزا جس کا حق یہ ہے کہ اسے پہلے کی بہ نسبت کم سنگین جرم میں نافذ کیا جائے۔‘‘ (حجۃ اللہ، ۲/۴۰۷)
شاہ صاحب کے نزدیک ان سزاؤں میں تخفیف یا رعایت کا فیصلہ بھی نصوص ہی کی روشنی میں کیا جا سکتا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں کہ احادیث میں زنا کی سزا کے طور پر زانی کو جلاوطن کرنے کا جو ذکر ہوا ہے، اسے معاف بھی کیا جا سکتا ہے اور اس طریقے سے متعارض روایات میں تطبیق دی جا سکتی ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ، ۲/۴۱۱)

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ (۴)

حافظ محمد زبیر

امام ابن قیمؒ کا موقف

امام صاحب سنت کے ذریعے قرآن کے نسخ کے قائل نہیں ہیں اور سنت کو ہر صورت میں قرآن کا بیان ہی ثابت کرتے ہیں۔ امام ابن قیمؒ نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ متقدمین علمائے سلف تخصیص ‘تقیید وغیرہ کے لیے بھی نسخ کا لفظ استعمال کر لیتے تھے اور اس معنی میں قرآن کا نسخ ‘سنت کے ذریعے سب علماء کے نزدیک جائز ہے لیکن جمہور متأخرین علمائتخصیص ‘تقیید‘استثناء وغیرہ کے لیے نسخ کا لفظ بطور اصطلاح استعمال نہیں کرتے ۔امام صاحب ؒ لکھتے ہیں ۔
’’اگر نسخ کا معنی عام لیا جائے جسے سلف نسخ کہتے ہیں وہ یہ کہ کسی تخصیص ‘ تقیید ‘شرط یا مانع سے قرآن کے کسی حکم کا ظاہری مفہوم باقی نہ رہے تو اس کو اکثر سلف نسخ کہہ دیتے ہیں بلکہ وہ تو استثناء کو بھی نسخ کہہ دیتے ہیں ...اور اس معنی میں قرآن کے سنت کے ذریعے نسخ کا انکار کسی بھی عالم نے نہیں کیا ہے ۔‘‘ (اعلام الموقعین: باب المراد بالنسخ فی السنۃ الزائدۃ علی القرآن)
امام ابن قیمؒ نے سنت کے اضافے کی تمام اقسام کو قرآن کابیان ہی قرار دیا ہے۔یہاں تک امام صاحبؒ کے نزدیک سنت کے وہ احکامات کہ جن کے بارے میں قرآن خاموش ہے ‘وہ بھی قرآن ہی کا بیان ہیں ۔امام ابن قیمؒ اپنے مخالفین کا اعتراض نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اگر یہ کہا جائے کہ وہ سنن جو کہ قرآن پر اضافہ ہیں وہ بعض صورتوں میں تو قرآن کا بیان ہوتی ہیں اور بعض صورتوں میں ایک ایسے حکم کی موجد ہوتی ہیں کہ جو قرآن میں موجود نہیں ہے اور بعض اوقات وہ قرآن کے کسی حکم کو تبدیل کرنے والی ہوتی ہیں اور پہلی دو قسموں میں تو ہمارا کوئی نزاع نہیں ہے کیونکہ وہ بالاتفاق حجت ہیں لیکن ہمارا نزاع تیسری قسم میں ہے ۔ ‘‘ ( اعلام الموقعین: باب أنواع السنن الزائدۃ علی القرآن)
امام صاحبؒ اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اضافے کی ان تینوں قسموں میں کوئی ایک بھی بیان سے باہر نہیں ہیں بلکہ سلف صالحین کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب بھی وہ کوئی حدیث سنتے تھے تو اس کی اصل قرآن میں پا لیتے تھے(امام شافعیؒ وغیرہ کی طرف اشارہ ہے) اور کسی نے بھی ایک حدیث کے بارے میں بھی یہ کبھی بھی نہیں کہا کہ یہ حدیث قرآن پر اضافہ ہے لہذا ہم اسے نہ تو قبول کریں کریں گے ا ور نہ ہی سنیں گیاور نہ ہی اس پر عمل کریں گے اور اللہ کے رسولﷺ کا مرتبہ ان کے نزدیک بہت بلند تھا اور آپؐ کی سنت ان کے ہاں اس (قسم کے فلسفوں)سے اعلی مقام کی حامل تھی۔ ‘‘ (اعلام الموقعین:باب أنواع السنن الزائدۃ علی القرآن)
امام ابن قیمؒ کے نزدیک وہ روایت جو کہ قرآن پر اضافہ معلوم ہوتی ہیں وہ درحقیقت قرآن ہی کا بیان ہیں۔امام صاحبؒ کے نزدیک یہ روایات قرآن کے سنت کے ذریعے بیان کی درج ذیل دس اقسام سے باہر نہیں ہیں ۔امام صاحبؒ لکھتے ہیں :
’’اللہ کے نبیﷺ کے بیان کی کئی اقسام ہیں ۔ان میں سے ایک خود وحی کا آپؐ کی زبان سے بیان اور ظہور ہے جبکہ وہ اس بیان سے پہلے پوشیدہ تھی۔بیان کی دوسری قسم آپؐ کا وحی کے معانی بیان کرنا اور قرآن کے ان الفاظ کی تفسیر کرنا ہے کہ جن کی تفسیر کی ضرورت ہو(یعنی جن الفاظ قرآنی کی تفسیر اگر اللہ کے رسولﷺ نہ بتائیں تو لوگ گمراہ ہو جائیں گے)جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے اللہ کے قول ’اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی قسم کے ظلم کونہیں ملایا‘میں ’ظلم‘ کی تفسیر ’شرک‘ سے کی ہے ...بیان کی تیسری قسم آپؐ کا فعل ہے جیسا کہ آپؐ نے اس شخص کے لیے نمازوں کے اوقات اپنے فعل سے بیان کیے کہ جس نے آپؐ سے سوال کیا تھا۔بیا ن کی چوتھی قسم وہ احکامات ہیں کہ جن کے بارے میں آپؐ سے جب سوال ہوا تو اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی جیساکہ آپؐ سے قذف کے بارے میں سوال ہوا تو قرآن میں لعان وغیرہ کی آیات نازل ہوئیں۔بیان کی پانچویں قسم وہ وحی ہے جو آپ ؐ سے کسی سوال کے بعد نازل ہوئی اور یہ وحی قرآن کے علاوہ نازل ہوئی جیسا کہ آپؐ سے اس شخص کے بارے میں سوال ہوا کہ جس نے اپنے جبے کو حالت احرام میں ایک خوشبولگائی ہوئی تھی توآپؐ کی طرف وحی نازل ہوئی کہ آپ ؐ اس شخص کو کہیں کہ وہ اپنا جبہ اتار کر اس خوشبو کے نشان کو دھو ڈالے۔چھٹی قسم ایسے احکامات کا سنت میں بیان ہے کہ جن میں آپؐ نے بغیر کسی سائل کے سوال کے ابتدائی طور پر کسی حکم کو اپنی سنت کے ذریعے جاری فرمایا جیسا کہ آپؐ نے گدھوں کی حرمت‘ متعہ کی حرمت ‘مدینہ میں شکار کی حرمت اور عورت کو اس کی پھوپھی اور خالہ کے ساتھ نکاح میں لانے وغیرہ کی حرمت بیان کی(یعنی امام ابن قیمؒ کے نزدیک پھوپھی کو خالہ کے ساتھ جمع کرنا معنی جدیدیا ایک نئی نوعیت میں ابتدائی طور پر ایک نیا حکم جاری کرنا ہے نہ کہ قرآنی الفاظ پر اضافہ ہے)۔ساتویں قسم خود آپؐ کا اپنے کسی فعل سے کسی کام کے جواز کو بیان کرنا ہے اور آپؐ اس فعل میں اپنی پیروی کرنے سے کسی امتی کو بھی نہ روکیں۔آٹھویں قسم آپؐ کا کسی کوکوئی کام کرتے دیکھنا اور اس پر خاموش رہنا ہے یا آپؐ امت کو کسی بات کی تعلیم دی ہو اور امت اس پر عمل کرے۔نویں قسم کسی شیء کو حرام قرار دینے سے آپؐ کا سکوت اختیار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مباح ہے اگرچہ آپؐ نے اس کی اباحت کو الفاظ میں بیان نہ بھی کیا ہو۔دسویں قسم یہ ہے کہ قرآن کا کسی چیز کے واجب ‘حرام یا مباح ہونے کا حکم جاری فرمانا لیکن اس حکم کی شرائط ‘موانع ‘قیود ‘ مخصوص اوقات ‘احوال اور اوصاف ہوں جن کے بیان کو اللہ تعالی اپنے نبیﷺ پر چھوڑ دیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’اور تمہارے لیے اس کے علاوہ جو بھی عورتیں ہیں حلال کی گئی ہیں ‘۔اس آیت مبارکہ میں باقی تمام عورتوں کی حلت شرائطِ نکاح ‘موانعِ نکاح کے نہ ہونے‘اس کے وقت کے آنے اور محل کی اہلیت پر موقوف ہے ۔پس حدیث جب بیان کی ان قسموں میں سے کسی قسم کو بیان کرے تو وہ قرآن پر اضافہ نہیں ہے کہ اس کی ناسخ ہو اگرچہ بیان کی ان اقسام سے آیت کا ظاہری اطلاق اٹھ جاتا ہے۔پس اسی قسم کا حکم ہر اس روایت کا بھی ہے کہ جس کو قرآن پر زائد کہا گیا ہے۔‘‘ (اعلام الموقعین: باب بیان السنۃ علی أنواع)
ان میں سے کون سی قسم ایسی ہے جو کہ غامدی صاحب کی عربی معلی کے مطابق بیان کی قسم شمار نہیں ہو سکتی ‘اگر یہ سب بیان ہی کی اقسام ہیں تو امام ابن قیم ؒ نے سینکڑوں روایات کو جو کہ بظاہرقرآن پراضافہ یا اس کے کسی حکم کو تبدیل کرنے والی معلوم ہوتی ہیں‘انہیں ان اقسام میں میں داخل کر کے انہیں قرآن کا بیان ثابت کیا ہے ۔مثلا امام ابن قیم ؒ ’تغریب عام‘ کی سزا کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’پس ’تغریب عام‘ کی سزااللہ تعالی کے قول ’یا اللہ تعالی ان کے لیے کوئی رستہ نکال دے گا‘ کا بیان ہے اور اللہ کے رسولﷺ نے اس بات کی وضاحت بھی کی ہے کہ ’تغریب‘ اس آیت میں مذکور رستے کاہی بیان ہے تو آپ ؐ کی اس وضاحت کے بعد یہ کہنا کیسے جائز ہے کہ آپؐ کی یہ حدیث قرآن کے مخالف ہے اوراگر ہم اس روایت کو قبول کر لیں گے تو ہم قرآن کے حکم کو باطل کر دیں گے۔ ‘‘ (اعلام الموقعین: باب بیان السنۃ علی أنواع)
جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ کیا اللہ کے رسولﷺ کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ قرآن کے کسی حکم پر اضافہ کریں ؟تو امام ابن قیم ؒ کا اگرچہ موقف تو یہی ہے کہ سنت کا قرآن پر اضافہ ‘ اضافہ نہیں ہے بلکہ اس کا بیان ہے اور امام صاحب اس کو بیان ثابت بھی کرتے ہیں جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں لیکن امام صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر یہ اضافہ بھی ہوتا تو پھر بھی اس کو ماننا واجب ہے اور اللہ کے رسولﷺ کے پاس اس اضافے کا اختیار تھا اور اللہ کے رسولﷺ کو اس کااختیار اللہ تعالی نے دیاتھا۔امام صاحب اپنی کتاب ’اعلام الموقعین ‘ میں اس کے درج ذیل دلائل بیان کرتے ہیں :
۱) اللہ تعالی نے قرآن میں جہاں بھی اپنے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا ہے وہ مطلقاً اطاعت کا حکم ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں کہیں بھی یہ بیان نہیں فرمایا کہ اگر میرا رسول کوئی ایسی بات کہے جو تم کو قرآن پر اضافہ معلوم ہو تو تم اس کو رد کر دینا۔
۲) جس طرح آپؐ ایسی چیز میں کوئی شرعی حکم مقرر کر سکتے ہیں کہ جس میں قرآن خاموش ہے اور اس کو سب مانتے ہیں ‘اسی طرح آپؐ اللہ کے بتلانے سے قرآن پر اضافہ بھی کر سکتے ہیں اور قرآن نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ اس اضافے کو قبول کریں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’ما آتاکم الرسول فخذوہ و ما نھاکم عنہ فانتھوا‘۔ 
۳) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی ذمہ داری یہ لگائی ہے کہ وہ قرآن کی تبیین فرمائیں ‘اب آپؐ کی سنت سے جو احکامات معلوم ہوئے وہ سب قرآن کا ہی بیان ہوں گے‘ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ آپ ؐ کی بعض روایات قرآن کی تبیین میں شامل نہیں ہیں وہ گویا کہ آپ ؐ پر الزام لگا رہاہے کہ آپؐ نے قرآن کے بیان میں ایک ایسا کام کیا کہ جس کے منصب پرآپؐ مقرر نہیں کیے گئے تھے ۔ 
۴) سنت کا قرآن پر اضافہ نہ تو اس کے کسی حکم میں تغیر یا تبدیلی پید ا کرتا ہے اور نہ ہی یہ نسخِ ِ قرآن ہے بلکہ درحقیقت یہ اضافہ برات أصلیہ کو ختم کر دیتا ہے جیسا کہ سنت میں موجود’تغریب عام‘ کی سزانے قرآن کے سو کوڑوں کے حکمِ ِ قرآنی کو تبدیل نہیں کیا بلکہ حکمِ استصحاب کو اٹھا دیا ہے ۔
۵) اضافے اور زیادتی کی وجہ سے یہ سمجھنا کہ قرآن کا کوئی حکم تبدیل ہو گیاہے یہ لغتاً‘عقلاً‘شرعاًاور عرفاً درست نہیں ہے اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میری تھیلی میں موجود رقم میں اضافہ ہو گیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جو رقم پہلے تھی وہ جاتی رہی ہے ۔
۶) زیادتی اور اضافے سے مزید علیہ(جس پر زیدتی کی گئی ہے)کی تاکید اور بیان مزید بڑھ جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’رب زدنی علما‘ اور ’واذا تلیت علیھم آیاتہ زادتھم ایمانا‘۔
۷) ناسخ و منسوخ میں جمع نہیں ہو سکتی لیکن زیادتی اور مزید علیہ کو جمع کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان دونوں میں نہ توتعارض ہوتا ہے اور نہ ہی تناقض‘دونوں مسقل ہیں۔ دونوں الگ الگ حکم ہیں۔دونوں پر عمل ممکن ہے ۔پھر دونوں میں سے ایک کولغو و باطل قرار دینا کون سا انصاف ہے۔ 
۸) سنت کی زیادتی و اضافہ ایک معنی جدید ہے نہ کہ قرآنی حکم میں تغیر و تبدل‘اور معنی جدید میں اللہ کے رسول ﷺ کی اتباع سب کے نزدیک فرض ہے۔

امام ابن حزم ؒ کا موقف

امام ابن حزمؒ سنت کو قرآن کا بیان ہی سمجھتے ہیں لیکن امام صاحب جس طرح قرآن کے عام کی سنت کے ذریعے تخصیص کو قرآن کابیان کہتے ہیں اسی طرح قرآن کے سنت کے ذریعے نسخ کو بھی قرآن کے بیان میں شمار کرتے ہوئے اس کے جواز کے قائل ہیں۔امام صاحبؒ لکھتے ہیں:
’’ہم یہ کہتے ہیں کہ تخصیص اور استثناء ‘بیان ہی کی دو قسمیں ہیں کیونکہ مجمل کا بیان بعض اوقات اس کی کیفیت یا کمیت کی تفسیر سے ہو تا ہے اور اس بیان میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہوتی کہ جس کی وجہ سے قرآن کے الفاظ اپنے لغوی معنی سے نکل جائیں ۔جیساکہ قرآن کا حکم ہے ’اور تم زکوۃ ادا کرو‘۔تو اللہ کے رسولﷺ نے اس زکوۃ کی ماہیت کو واضح کیا ہے کہ جس کی ادائیگی کاقرآن میں حکم دیا گیا ہے اور آپؐ کے اس بیان سے قرآن کالفظ’الزکوۃ‘ اپنے لغوی معنی سے نہیں نکلا‘اسی طرح آپ ؐ نے نکاح اور حج وغیرہ کی بھی ان کی صفات کے ذکر سے تفسیر کی ہے اور بعض اوقات یہ بیان استثناء کے ذریعے ہوتا ہے جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے خشک کھجور کو تر کھجور کے ساتھ بیچنے سے منع فرمایا ہے(یعنی آپؐ کا یہ فرمان’ أحل اللہ البیع و حرم الربو‘ اور ’ ولا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل‘کا بیان تھا) لیکن بعد میں آپؐ نے بیع العرایا میں‘اگر وہ پانچ وسق( تقریباً۷۵۰کلو گرام ) سے کم ہو ‘تواس کی رخصت دے دی ۔ بعض اوقات یہ استثنا الفاظ کے ذریعے ہوتا ہے جیسا کہ ’الا‘ اور ’خلا‘ اور ’حاشا‘ اور ’ما لم‘ وغیرہ ہیں اور بعض اوقات یہ استثنا ایک حکم کی شکل میں ہوتا جو کہ أمر یا خبر کے صیغے میں ہوتا ہے اور یہ استثنا ایک عمومی حکم سے ہوتا ہے اور اسی کو تخصیص کہتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے مشرک عورتوں سے نکاح کرنے سے یکبارگی منع فرمایا اور پھر اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کے ذریعے شادی کی اجازت دے دی تو یہ اس آیت کے عمومی حکم کی تخصیص ہے۔جہاں تک نسخ کا معاملہ ہے تو نسخ کامعنی حکم کو کلی طور پر یا اس کے ایک جز کو اٹھا لینا ہے اور بیان کی جن قسموں کاہم نے ذکر کیا ہے یعنی تفسیر ‘استثنا اور تخصیص وغیرہ تو بعض اوقات یہ بیان قرآن کے لیے خود قرآن سے ہوتا ہے اور بعض اوقات حدیث سے اور بعض اوقات اجماع سے ہوتا ہے (اجماع کو بیان اس لیے کہا ہے کہ وہ مظہرِ شریعت ہو تا ہے نہ کہ مثبتِ شریعت) ۔اور بعض اوقات یہ بیان حدیث کے لیے قرآن سے ہوتا ہے اور حدیث سے ہوتا ہے اور اجماع سے ہوتا ہے اور ہمارے قول کے مطابق حدیث سے مراد آپؐ کا حکم ‘فعل ‘ تقریر اور اشارہ سب شامل ہیں اور یہ سب احادیث قرآن کا بیان ہیں اور قرآن ان کا بیان ہے ۔ ‘‘ (الاحکام:باب الثامن فی البیان و معناہ)
ایک اور جگہ امام ابن حزم ؒ لکھتے ہیں :
’’علماء کے ایک گروہ کا کہنا یہ ہے کہ سنت قرآن کو منسوخ نہیں کر سکتی اور نہ قرآن سنت کو منسوخ کر سکتا ہے اور ایک دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ یہ سب جائز ہے یعنی قرآن‘ قرآن سے بھی منسوخ ہوتا ہے اور سنت سے بھی اور اسی طرح سنت قرآن سے بھی منسوخ ہوتی ہے اور سنت سے بھی۔ابو محمد(ابن حزمؒ ) کا کہنا یہ ہے:ہمارا قول بھی یہی(یعنی دوسرا) ہے اور یہی قول صحیح بھی ہے اور ہمارے نزدیک سنت متواتر ہو یا اخبار آحاد ہو ‘سب برابر ہیں ان میں سے ہر ایک دوسرے کو منسوخ کرتا ہے ۔‘‘ (الاحکام:الباب العشرون الکلام فی النسخ‘ فصل فی نسخ القرآن بالسنۃ و السنۃ بالقرآن)
امام ابن حزم ؒ اپنے اس موقف کی دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اور ہمارے اس موقف کی دلیل وہی ہے جو کہ ہم نے اس کتاب کے اس باب میں واضح کی ہے جو کہ اخبار آحاد سے متعلق ہے اور وہ (یعنی اس دلیل کا خلاصہ)یہ ہے کہ جب آپ ؐ سے ایک چیز ہمیں ملے اس کی اطاعت ایسے ہی واجب ہے جیسے کہ اس کی اطاعت واجب ہے جو کہ ہمیں قرآن سے ملتا ہے۔اور ان دونوں اطاعتوں میں کوئی فرق نہیں ہے* اور یہ دونوں اللہ ہی کی اطاعتیں ہیں جیسا کہ اللہ کا تعالی کا فرمان ہے ’اور آپؐ اپنی خواہش نفس سے بات نہیں کرتے ‘آپؐ جو بھی بات کرتے ہیں وہ وحی ہوتی ہے جوکہ اپؐ کی طرف وحی کی جاتی ہے ۔جب آپؐ کا کلام اللہ کی طرف سے وحی ہے اور قرآن بھی وحی ہے تو دونوں کا ایک دوسرے کو منسوخ کرنا جائز ہے کیونکہ یہ دونوں کلام وحی ہونے کے اعتبار سے برابر ہیں ۔‘‘ (الاحکام:الباب العشرون الکلام فی النسخ‘ فصل فی نسخ القرآن بالسنۃ و السنۃ بالقرآن )
*بعض حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جو آپؐ سے ہمیں ملا ہے وہ تو ایسی سند کے ساتھ ہے کہ جس میں ظن ہے اور جو ہمیں قرآن سے ملا ہے وہ ایسی سند کے ساتھ ہے کہ جس سے علم یقین حاصل ہوتا ہے‘اس لیے دونوں کی اطاعت برابر نہیں ہے ۔ہم یہ کہتے ہیں کہ جس صحابیؓکی روایت ہے اس کے لیے تو آپؐ کا حکم اور قرآن دونوں واسطے اور سند کے اعتبار سے برابر ہیں تو کیا صحابیؓ کے لیے تو حکم یہ ہو کہ وہ اللہ کے رسولﷺ کی حدیث کو لے لے کیونکہ اس کے لیے سند کے ظنی ہونے کا مسئلہ نہیں ہے اور ہمارے لیے یہ ہے کہ ہم اس کو پہلے ظنی قرار دیں پھر اس کا قرآن کی کسی آیت سے ٹکراؤ پیدا کریں اورپھر اس روایت کو رد کر دیں تو کیا نتائج کے اعتبار سے صحابہؓ اور ان کے مابعد کی شریعت مختلف نہیں ہو جائے گی؟کیونکہ جس روایت کو ہم صرف ظنی الثبوت ہونے کی وجہ سے رد کر رہے ہوں گے، صحابہؓ اس کو قطعی الثبوت ہونے کی وجہ سے قبول کر رہے ہوں گے۔
امام ابن حزمؒ نے ایسی بہت سی احادیث بھی نقل کی ہیں جو کہ اس بات کی دلیل بنتی ہیں کہ قرآن کا نسخ سنت سے جائز ہے اور یہ واقع بھی ہواہے۔اسی طرح امام صاحب کا کہنا ہے کہ تخصیص بعض اعیان کے لیے حکم کے اثبات کا نام ہے اور نسخ بعض ازمان کے لیے حکم کے اثبات کا نام ہے لہذ ادونوں میں کوئی بڑا اختلاف نہیں ہیعلاوہ ازیں جس طرح تخصیص میں بعضِ حکم مرفوع ہو جاتا ہے اسی طرح نسخ میں کل حکم مرفوع ہو جاتا ہے جب سنت سے بعض حکم کا رفع ثابت ہے تو سنت سے کل حکم کا رفع کیوں جائزنہیں ؟ اس کے بعد امام ابن حزمؒ اپنے اس موقف کے خلاف دیے جانے والے دلائل کا ذکر کرتے ہیں اور ان کا ردبھی کرتے ہیں ۔ امام ابن حزمؒ کی اس عبارت کا خلاصہ ہم اپنے الفاظ میں ذکر کر رہے ہیں :
۱) بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا موقف قرآن کی آیت ’قل ما یکون لی أن أبدلہ من تلقاء نفسی ان أتبع الا ما یوحی الی‘ کے خلاف ہے ۔ہمارا جواب ان کو یہ ہے اس آیت میں ’من تلقاء نفسی‘کے الفاظ ہیں اور ہمارا عقیدہ تویہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ اللہ کے حکم ’ان أتبع الا ما یوحی الی‘ کے تحت ہی اس کی کتاب کے کسی حکم کو منسوخ کرتے ہیں اور ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ’ اللہ کے رسولﷺ اپنی طرف سے بغیر وحی کے قرآن کی کسی آیت میں تبدیلی کا اختیار رکھتے تھے‘ تو ہم ایسے شخص کو کافر سمجھتے ہیں ۔
۲) ابن حزمؒ لکھتے ہیں کہ دوسری دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ ہماراموقف قرآن کی آیت ’ماننسخ من آیۃ أو ننسھا نأت بخیر منھا أو مثلھا‘ کے خلاف ہے کیونکہ سنت نہ تو قرآن کے مثل ہے اور نہ اس سے بہتر ہے ۔ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن کی ایک آیت جب دوسری آیت کو منسوخ کرتی ہے تو کیا قرآن کا بعض اس کے بعض سے بہتر ٹھہرا‘ایسا معاملہ نہیں ہے اور اس آیت کامفہوم یہ ہے ’نأت بخیر منھا لکم أو مثلھا لکم‘ ۔یعنی تمہارے لیے اس سے بہتر یا تمہارے لیے اس کے جیسا حکم لے کر آتے ہیں۔
۳) ابن حزمؒ لکھتے ہیں کہ بعض علماء ہمارے اس موقف کے خلاف ’و أنزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم‘ سے دلیل پکڑتے ہیں ۔ہمارا کہنایہ ہے کہ یہ آیت بھی دلیل نہیں بنتی کیونکہ نسخ ‘بیان ہی کی ایک قسم ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ نسخ ‘ایک حکم کے ارتفاع اور دوسرے حکم کے اثبات کا بیان ہے ۔دوسری بات یہ کہ جوبعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’مُبَیّن‘ کبھی ’ناسخ‘ نہیں ہوتا ‘تویہ ایسا دعوی ہے کہ جس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور بغیر دلیل کے دعوی قابل قبول نہیں ۔
۴) بعض لوگ ’و اذ ابدلنا آیۃ مکان آیۃ‘ سے استدلال پکڑتے ہیں کہ سنت سے قرآن کا نسخ جائز نہیں ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت بھی اس مسئلے میں قابل حجت نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی نے یہ نہیں کہا کہ ہم کسی آیت کو دوسری آیت ہی سے تبدیل کرتے ہیں ‘بلکہ یہ تو ایک مثبت خبر ہے کہ اللہ تعالی ایک آیت کی جگہ دوسری آیت لے آتے ہیں اور ہم اس کے پہلے ہی قائل ہیں۔اس کے علاوہ بھی بعض ایسی آیات کا ابن حزمؒ نے جواب دیا جو کہ عموماً ان کے اس موقف کے خلاف پیش کی جا سکتی تھیں‘جنہیں طوالت کے خوف سے ہم نقل نہیں کر رہے۔
امام شافعی ؒ ‘امام شاطبیؒ ‘امام ابن تیمیہ‘ؒ امام ابن حزم ؒ اور امام ابن قیمؒ وغیرہ کا اصل امتیاز یہی تو ہے کہ وہ کس طرح بظاہر قرآن کی ناسخ یا اس پر اضافہ یااس کے کسی حکم کو تبدیل کرنے والی روایات کو قرآن کا بیان ثابت کرتے ہیں ‘خود غامدی صاحب کی صورت حال یہ ہے کہ انہیں صرف چھ روایات ہی ایسی نظر آئیں جو کہ بظاہر قرآن پر اضافہ یا اس کے کسی حکم کو تبدیل کرنے والی تھیں کیونکہ باقی روایات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور ان چھ روایات کی قرآنی آیات سے تطبیق کے لیے انہوں جس انداز سے اپنی ذہانت کو استعما ل کیاہے اس پر کچھ تبصرہ آئندہ صفحات میں آ رہا ہے ‘ لیکن ہمیں افسوس تواس بات کا ہے کہ سلف صالحین میں سے بہت سے ایسے جلیل القدر أئمہ جو اسی اصولی موقف کے قائل ہیں جو کہ غامدی صاحب کا ہے کہ قرآن صرف سنت کا بیان ہے اور اپنے اس موقف کے اثبات کے لیے انہوں نے صرف چھ نہیں بلکہ سینکڑوں ایسی روایات کو قرآن کا بیان ثابت کیاہے ‘ جو بظاہر قرآن کے کسی حکم کی ناسخ یا اس پر اضافہ یا اس کو تبدیل کرنیوالی معلوم ہوتی ہیں لیکن غامدی صاحب ان میں سے بعض اصحاب کے حل سے استفادہ کرنے کے باوجود ان کاذکرتک نہیں کرتے۔غامدی صاحب ہی کے موقف کو أئمہ سلف نے اس قدر منطقی‘عقلی اور شرعی دلائل سے اچھی طرح ثابت کر دیا ہے جو شاید اکیلے غامدی صاحب کے بس میں نہ تھا لیکن غامدی صاحب اگر ان حضرات کا نام لے کر اس موقف کو بیان کریں تو ان کو وہ سب روایات ماننی پڑتی کہ جن کا وہ اپنے استاذ امام کی تقلید میں انکار کرنا چاہتے ہیں ‘مثلا امام شوکانیؒ نے لکھا ہے کہ قرآن کی آیت ’الزانیۃ و الزانی‘ شادی شدہ اور غیر شادی دونوں کو شامل ہے اس لیے اللہ کے رسولﷺ نے غیرشادی شدہ کے لیے ’سو کوڑے اور تغریب عام‘ اور شادی شدہ کے لیے ’سوکوڑے اور رجم ‘ کی سزا مقرر کی ہے اور حدیث میں ہے کہ آپ ؐ کی طرف سے یہ سزا قرآن کی آیت ’أو یجعل اللہ لھن سبیلا‘ کا بیان ہے اور ہم یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ بعض علما کا کہنا ہے کہ رجم کی سزا ’أو یقتلوا‘اور تغریب عام کی سزا ’أو ینفوا من الأرض‘ کا بیان ہے ۔جب حدیث میں موجود ہر سزا قرآن کے مطابق ہے اور اس کا بیان ہے تو غامدی صاحب أئمہ سلف کی اس تعبیر دین کو ماننے سے کیوں انکاری ہیں؟

غامدی صاحب کا اپنے اصول سے انحراف

غامدی صاحب قرآن کو قطعی الدلالۃ مانتے ہیں اور حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تخصیص وتحدید یا تغیرو ترمیم کے اس لیے قائل نہیں ہیں کہ اس سے قرآن کی قطعیت اور اس کی ’میزان‘ یا’ فرقان ‘ہونے کی حیثیت باقی نہیں رہتی ۔ قرآن کا ’میزان‘ یا ’فرقان‘ ہونا ‘ یہ کیا ہے ؟یہ غامدی صاحب کا قرآن کے بارے میں ایک فلسفہ ہے کہ جس کے رد میں ماہنامہ محدث اکتوبر۲۰۰۷ میں ایک مضمون شائع ہو چکا ہے۔
أمر واقعہ یہ ہے کہ غامدی صاحب نے بہت سی جگہ پر اپنے اس اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بہت سی ایسی روایات کو قبول کیا کہ جن کے قبول کرنے سے قرآن کے الفاظ کی اپنے معانی پرنہ تو قطعیت باقی رہتی ہے اور نہ ہی قرآن کوغامدی صاحب کے بقول ’میزان‘ یا’ فرقان ‘قرار دیاجا سکتا ہے۔ ذیل میں ہم غامدی صاحب کی اپنے ہی اصول کی خلاف ورزی کی کچھ مثالیں بیان کر رہے ہیں :
۱) جناب غامدی صاحب نے موزوں پر مسح کی روایات کو قبول کیا ہے اور وہ موزوں پر مسح کے قائل ہیں ‘حالانکہ موزوں پر مسح کومان لیا جائے تو قرآن کے الفاظ ’فاغسلوا‘ کی اپنے معنی پر قطعیت باقی نہیں رہتی‘کیونکہ ’غسل‘ کا معنی عربی معلی ہو یا عربی مبین‘حقیقت ہو یا مجاز‘کسی صورت بھی ’مسح کرنا ‘نہیں ہوتا۔قرآن پاؤں کے دھونے کا حکم دیتا ہے جبکہ غامدی صاحب کہتے ہیں مسح کرنا بھی جائز ہے۔غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’رسول ﷺ نے تیمم کے اسی حکم پر قیاس کرتے ہوئے موزوں اور عمامے پر مسح کیا‘‘۔(قانون عبادات )
غامدی صاحب کے نزدیک موزوں پر مسح قرآن کی آیت ’فتییمموا صعیدا طیبا‘ کا بیان ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگرغامدی صاحب کی اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے موزوں پر مسح کا حکم آیتِ تیمم پر قیاس کرتے ہوئے بیان کیا ہے توپھر بھی قرآن کی آیت ’فاغسلوا‘ کی قطعیت توباقی نہ رہی ۔غامدی صاحب نے ’مسح علی الخفین‘ کو قرآن کا بیان تو ثابت کر دیا لیکن سوال تو یہ ہے کہ قرآنی الفاظ ’فاغسلوا‘ کی قطعیت اور قرآن کا ’میزان‘ یا ’فرقان‘ ہوناکہاں با قی رہا۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ بھی تومحض ایک احتمال ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے آیت تیمم سے’ مسح علی الخفین‘کا حکم نکالا ہو گا اور اس احتمال یا دعوی کی غامدی صاحب کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے تو پھر ہر اس روایت کے بارے میں غامدی صاحب یہ احتمال قائم کیوں نہیں کر لیتے جو کہ انہیں قرآن کے کسی حکم کی مخصص یا محدد نظر آتی ہے ‘ کہ وہ قرآن ہی کسی نہ کسی آیت کا بیان ہو گا ‘اور میرا علم اتنا نہیں ہے لہذ امجھے کسی روایت کو اس لیے رد نہیں کرنا چاہیے کہ وہ مجھے قرآن کے کسی حکم میں تغیر یا تبدیلی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔تیسری بات یہ کہ أئمہ سلف امام شافعیؒ ‘امام شاطبیؒ اور امام ابن قیمؒ نے ہر ایسی روایت کو قرآن کی کسی نہ کسی کا آیت کی تشریح یا تفسیرثابت کیا ہے جو کہ بظاہر قرآن پر اضافہ یا اس کے کسی حکم کو تبدیل کرنے والی معلوم ہوتی ہے لہذا غامدی صاحب کو ان تمام روایات کو ماننا چاہیے۔ چوتھی بات یہ کہ جب اللہ کے رسولﷺ خود بیان فرمائیں کہ ’تغریب عام‘اور ’رجم‘ قرآن پر اضافہ نہیں ہے بلکہ ’أو یجعل اللہ لھن سبیلا‘ کا بیان ہے۔ اس کو غامدی صاحب اس لیے رد کر دیں کہ وہ قرآن کے حکم ’الزانیۃ و الزانی‘ کے خلاف ہے تو ’مسح علی الخفین‘کو جو غامدی صاحب نے ’فتیمموا صعیدا طیبا‘ کا بیان قرار دیا ہے توکیا وہ قرآن کی آیت ’فاغسلوا ‘کے خلاف نہیں ہے؟ ۔ پانچویں بات یہ کہ سلف نے ایسی روایات کو عام طور پر جس طرح سے قرآنی آیات کابیان ثابت کیا ہے وہ انتہائی معقول ‘منطقی اور قابل فہم بھی ہے لیکن غامدی صاحب جب قرآن پر اضافہ اور اس کے مفہوم کو تبدیل کرنے والی بعض ایسی روایات کو مان لیتے ہیں اور ان کو قرآنی آیات کا بیان ثابت کرنا شروع کرتے ہیں توان کا یہ بیان کسی اور کو سمجھ آناتو دور کی بات ہے خود غامدی صاحب بھی اس پر مطمئن ہو جائیں تو بڑی بات ہے۔ مثلا امام شافعی ؒ کا کہنا یہ ہے کہ پاؤں دھونے کا فرض ہر شخص پر عائد ہوتا ہے چاہے کسی نے موزے پہنے ہوں یا نہ پہنے ہوں کیونکہ سنت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ موزوں پر مسح وہی شخص کر سکتا ہے کہ جس نے پاؤں دھوئے ہوں ‘یعنی جس نے کامل وضو کر کے اور پاؤں دھو کر موزے پہنے ہوں‘اب اگر اس کا وضو ٹوٹ جائے تو اسے دوبارہ پاؤں دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔اس لیے قرآن کی آیت ’فاغسلوا‘ پر ہر صورت میں عمل ہو گاچاہے موزے پہننے ہوں یا نہ پہننے ہوں۔
۲) قرآن مجید نے چوری کی سزا قطعِ ید بیان کی ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
السارق و السارقۃ فاقطعوا أیدیھما (المائدۃ:۳۸)
چوری کرنے والا مرد اورچوری کرنے والی عورت‘ دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔
اس آیت مبارکہ میں ’السارق‘ اور ’السارقۃ‘ کے الفاظ مطلقاًاستعمال ہوئے ہیں اور عام ہیں لہذاعربی زبان و اسلوب کے مطابق ہر چوری کرنے والے مرد اور عورت پر اس صیغے کا اطلاق ہوتا ہے لیکن غامدی صاحب قرآن کے ان الفاظ کے معانی کی تحدید و تخصیص کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اگر کوئی بچہ اپنے باپ یا کوئی عورت اپنے شوہر کی جیب سے چند روپے اڑا لیتی ہے یا کوئی شخص کسی کی بہت معمولی قدر و قیمت کی کوئی چیز چرا لے جاتا ہے یا کسی کے باغ سے کچھ پھل یا کسی کے کھیت سے کچھ سبزیا ں توڑ لیتا ہے یا بغیر حفاظت کے کسی جگہ ڈالا ہوا کوئی مال اچک لیتاہے یا آوارہ چرتی ہوئی کوئی گائے یابھینس ہانک کر لے جاتا ہے یا کسی اضطرار اور مجبوری کی بنا پر اس فعل شنیع کا ارتکاب کرتا ہے تو بے شک‘ یہ سب نا شایستہ افعال ہیں اور ان پر تادیب و تنبیہ ہونی چاہیے ‘لیکن یہ وہ چوری نہیں ہے جس کا حکم ان آیات میں بیان ہوا ہے ‘‘۔ (میزان:ص۳۰۶)
غامدی صاحب نے بہت سے ایسے افراد کو کہ جن پر عربی لغت کے مطابق لفظ ’السارق‘ اور ’السارقۃ‘کا اطلاق ہوتا ہے ان کو اس لفظ سے نکال دیا ۔أمر واقعہ یہ ہے کہ جن افراد کو غامدی صاحب نے ’السارق‘ اور ’السارقۃ‘ سے نکالا ہے وہ عربی لغت و زبان کے مطابق اس لفظ میں داخل ہیں ۔مثلا غامدی صاحب کہتے ہیں کہ اگرکوئی شخص معمولی چیز چرا لے تو یہ ایسی چوری نہیں ہو گی کہ جس پر الفاظ قرآنی ’السارق‘ اور’السارقۃ‘ کاا طلاق ہو۔ہم غامدی صاحب سے کہتے ہیں کہ آپ نے معمولی چیز کی چوری کرنے والے کو ’السارق‘ کے الفاظ سے نکالا ہے یہ قرآن کے الفاظ کی قطعیت کے خلاف ہے‘کیونکہ قرآن کی قطعیت کا تقاضا تو اسی وقت پورا ہو گا جبکہ ’السارق‘ کو اس کے لغوی معنی پر برقرار رکھا جائے۔اہل عرب نے ان تما م افراد کے لیے ’السارق‘ کا لفظ استعمال کیا ہے کہ جن کو غامدی صاحب ’السارق‘ کے لفظ کی تحدید کرتے ہوئے اس کے معنی سے نکال رہے ہیں مثلا دیوان حماسہ (باب الحماسۃ‘قال جمیل بن عبد اللہ بن معمر العذری ‘۸۷‘المکتبۃ السلفیۃ) میں ہے :
أبوک حباب سارق الضیف بردہ
و جدی یا حجاج فارس شمرا
علامہ زمخشری ؒ ‘اپنی کتاب (أساس البلاغۃ:ص۲۹۶‘دار صادر‘ بیروت) میں أبو مقدام کا شعر نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
سرقت مال أبی یوما فأدبنی
و جل مال أبی یا قومنا سرق
غامدی صاحب کے نزدیک حدیث بھی عربی معلی کے مأخذ و مصادر میں سے ہے اور حدیث میں بھی یہ لفظ ایک حقیر چیز کی چوری کے لیے استعمال ہوا ہے ۔آپ ؐ کافرمان ہے :
لعن اللہ السارق یسرق البیضۃ فتقطع یدہ ویسرق الحبل فتقطع یدہ (صحیح بخاری‘ کتاب الحدود‘باب لعن السارق اذا لم یسم)
’’اللہ تعالی اس چور پر لعنت کرے کہ جو انڈا چوری کرتا ہے اور اس وجہ سے اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے اور رسی چوری کرتا ہے پس اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔ ‘‘
اگر تو غامدی صاحب یہ کہیں کہ ہم نے ایک حدیث ’لا قطع فی ثمر معلق و لا فی حریسۃ جبل ...‘ کی وجہ سے بعض افراد کو ’السارق‘ اور ’السارقۃ‘کے مفہوم سے نکالا ہے تو ہم یہ کہیں گے کہ اس کے علاوہ مسائل میں اس طرح کی تمام احادیث سے پھر آپ قرآن کے الفاظ کے معنی کی تحدید و تخصیص کیوں نہیں کرتے؟ دوسری بات یہ کہ ایک معضل اور مرسل روایت کو آپ نے قرآن کا بیان بنا دیا جو کہ آپ کے عربی معلی کے خلاف بھی ہے کیونکہ عربی معلی تو یہ کہتی ہے کہ یہ سب ’سرقہ‘ ہے اور اس کے فاعل ’سارق‘ ہیں۔تیسری بات یہ کہ ایک صحیح روایت کہ جس میں انڈے اور رسی کی چوری کو بھی ایسی چوری قرار دیا گیا کہ جس پر چور کے ہاتھ کاٹے جائیں گے ‘کو آپ نے قرآن کا بیان کیوں نہ مان لیا کہ جس کو قرآن کا بیان ماننے سے ’السارق‘ کے ان بعض فراد کو آپ کونکالنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی کہ جن کو آپ نے اپنی عقل و خواہش سے نکال لیا ہے۔ اگر تو غامدی صاحب اپنی عربی معلی سے یہ ثابت کر دیں کہ جن افراد کو انہوں نے ’السارق‘ اور ’السارقۃ‘ یا ’سرقۃ‘سے نکالا ہے ان پر اہل عرب اپنی لغت میں ’سرقۃ‘یا ’السارق‘ یا’السارقۃ‘ کے لفظ کا اطلاق نہیں کرتے تھے تو ہم مان لیں گے کہ انہوں نے اپنے اصول کی اتباع کی ہے۔لیکن ہمارے خیال میں غامدی صاحب کے لیے ا یسا ثابت کرنا ناممکن ہے کیونکہ ہم نے عربی ادب سے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ عرب شعراء ہر قسم کی چوری پر لفظ ’سرقۃ‘ کا اطلاق کرتے تھے اور اس فعل کے مرتکب کو’سارق‘ کہتے تھے۔لہذا جب عربی معلی کے مآخذ و مصادر سے قرآن کے الفاظ’السارق‘ اور ’السارقۃ‘ کا معنی ثابت ہو گیا تو اس معنی کی تحدید و تخصیص غامدی صاحب کی محض رائے سے کیسے جائز ہوگئی؟ جبکہ غامدی صاحب اللہ کے رسول ﷺ کے لیے تو اس اختیار کے قائل نہیں ہیں۔ 
۳) غامدی صاحب حیض والی عورت کے لیے نماز نہ پڑھنے کے قائل ہیں جو کہ قرآنی حکم ’وأقیموا الصلاۃ‘ کا نسخ اور اس میں تغیر ہے ۔کیونکہ قرآن کا حکم نماز پڑھنے کا ہے۔ہم مانتے ہیں کہ آیت مبارکہ ’وأقیموا الصلاۃ‘ مجمل حکم ہے لیکن کیا اجمال کے بیان کا معنی یہ ہوتا ہے کہ أمر سے مراد نہی لی جائے۔ ’وأقیموا الصلاۃ‘ کا معنی نماز قائم کرنا ہے اس سے مراد ’نماز نہ قائم کرنا‘ بیان کی کون سے قسم ہے؟ دوسر ی بات یہ کہ حائضہ عورت کے بارے میں قرآن خاموش نہیں ہے بلکہ قرآن نے حائضہ کے بارے میں یہ حکم جاری کیا ہے کہ وہ أیام حیض میں شوہر سے علیحدہ رہے۔جب قرآن نے حائضہ کوصرف ایک چیز یعنی شوہرسے علیحدگی کا حکم دیا تو اس کا نماز اور روزے سے علیحدہ رہنا کیا قرآنی حکم پر اضافہ نہیں ہے؟۔اسی طرح ’فاعتزلوا النساء‘ میں ’اعتزال‘ کا حکم عمومی ہے جو کھانے ‘ پینے ‘ ملنے ‘جلنے‘ اٹھنے ‘ بیٹھنے اور مباشرت وغیرہ جیسے سب افعال سے علیحدگی کو شامل ہے لیکن ’اعتزال‘ سے غامدی صاحب کا صرف مباشرت مراد لینا کیاقرآن کے عمومی مفہوم کی تخصیص و تحدید نہیں ہے؟

غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا تنقیدی جائزہ

محمد زاہد صدیق مغل

اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد وعلی الہ وا صحابہ اجمعین ومن اتبعہ الی یوم الدین۔
اس مضمون میں ہم جاوید احمد غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا ایک مختصر مگر جامع تنقیدی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ غامدی صاحب کا نظریہ اخلاق درحقیقت اسلام کے بجائے مغربی ما بعد الطبیعیات پر مبنی ہے اور امت مسلمہ کو اعتزال قدیمہ کی راہوں پر ڈالنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ غامدی صاحب کا یہ نظریہ ان کی ’’اخلاقیات‘‘ نامی کتاب میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ چونکہ غامدی نظریہ اخلاق اور غامدی نظریہ فطرت باہم مربوط ہیں، لہٰذا نظریہ اخلاق کے کچھ مباحث ’’میزان‘‘ نامی کتاب کے باب ’’اصول ومبادی‘‘ میں بھی بیان ہوئے ہیں۔ اس مضمون کے لیے ہم انہیں دو کتب کے مباحث کو اپنی تنقید کی بنیاد بنائیں گے۔ کتاب ’’اخلاقیات‘‘ کے ابتدائی باب ’’بنیادی مباحث‘‘ میں غامدی صاحب نے تین سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے: (الف) انسان کے لیے خیر وشر کے جا ننے کا ذریعہ کیا ہے؟ (ب) وہ اصل محرک کیا ہے جو انسان کو تزکیہ اخلاق پر آمادہ کرتا ہے؟ (ج) اس (اخلاقی) سعی و عمل کی غایت و مقصود کیا ہے؟ درحقیقت یہ تینوں سوالات فلسفہ اخلاق کے بنیادی مباحث ہیں اور انہیں کے جوابات سے کسی تہذیب کا نظریہ اخلاق (یعنی خیر وشرکا تصور واصول) وجود میں آتا ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ غامدی صاحب نے ان تینوں سوالات کے جواب دینے میں چند بنیادی نوعیت کی علمی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ آئیے، ہم باری باری ان تینوں سوالات پر غامدی صاحب کے خیالات کا خلاصہ پیش کرکے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ 

پہلا سوال 

اس سوال کے جواب میں کہ انسان کے پاس خیر وشر جاننے کا حتمی ذریعہ کیا ہے، غامدی صاحب انسانی نفس کو بحیثیت معیار ما نتے ہیں، یعنی خیر وشر طے کرنے کا اصل منبع انسانی نفس ہے۔ اپنے اس تصور کے لیے غامدی صاحب درج ذیل قرآنی آیت پیش فرماتے ہیں: 
ونفس وما سواہا فالہمہا فجورہا وتقواہا (الشمس ۹۱: ۸۔۷ ) 
’’اور نفس گواہی دیتا ہے، اور جیسا اسے سنوارا، پھر نیکی اور بدی اس میں الہام کردی۔‘‘
اس آیت کو بنیاد بنا کر غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ نیکی اور بدی میں تمیز کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک اخلاقی حاسہ عطا فرمایا ہے اور اسی احساس کی بنا پر ایک برے سے برا آدمی بھی جب گناہ کرتا ہے تو اسے چھپانے کی کوشش کرتا ہے اور اگر اس کی خاطر حیلے بہانے تراشتا بھی ہے تو انہیں اپنی فطرت کے خلاف پاتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ انسانوں کی ہر معاشرت میں کسی نہ کسی تصور حق و انصاف کا پایا جانا بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسانی نفس میں خیر وشر کا احساس ایک عالمگیر حقیقت ہے۔ لیکن اس اخلاقی حاسہ کے باوجود چونکہ انسانی اعمال و تصورات خیر وشر میں تفاوت و اختلاف کا امکان ہوسکتا تھا، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ایسے بڑے اختلافات کو رفع کرنے کے لیے اپنے رسولوں کے ذریعے وضاحت کردی۔ دوسرے لفظوں میں خیروشر کا اصل منبع تو انسانی نفس ہی ہے، اور وحی کی ضرورت صرف اس وقت آتی ہے جب انسان اپنے نفس کے ذریعے کسی معاملے کا حتمی طور پر خیریاشر ہونا طے نہ کر سکے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خیر و شر (یا فطرت) کو متعین کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا تو غامدی صاحب کے نزدیک وہ طریقہ استقرا (induction ) ہے، یعنی تاریخ کی روشنی میں اقوام عالم کا مطالعہ کرکے انسانی فطرت کا درست تعین کرنا ممکن ہے۔ چنانچہ اپنی کتاب ’’میزان‘‘ (یا اصول و مبادی) میں غامدی صاحب یہ اصول بیان فرماتے ہیں کہ خیر وشر کا تعین (جسے وہ انسانی فطرت بھی کہتے ہیں) بذریعہ استقرا ممکن ہے اور اس ضمن میں جب کبھی اختلاف ہو گا تو تعیین فطرت کے لیے امت ابراہیمی کی اکثریت کا عمل معتبر ہوگا۔ 
ہم کہتے ہیں کہ غامدی صاحب نے پہلے سوال کا جواب دینے میں کئی فاش غلطیاں کی ہیں:
پہلی غلطی یہ کہ اپنے دعوے کے اثبات کی خاطر جو قرآنی آیت انہوں نے پیش کی ہے، وہ کسی بھی طرح اس کی دلیل نہیں بن سکتی۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ کب کہا کہ خیروشر کاتعین نفس انسانی کے ذریعے ہو سکتا ہے؟ اس آیت میں تو صرف اتنی خبر دی گئی ہے کہ اصل خیر و شر جو بھی ہے، وہ ہم نے انسانی نفس میں ودیعت کر دیا ہے اور بس۔ لیکن خیر و شر کے ما فیہ کا تصور کیا ہے، یعنی کسی عمل کے خیر و شر ہونے کا اصول کیا ہے ، آیا اس کا تعین انسانی نفس کے ذریعے ہو سکتا ہے یا نہیں؟ یہ آیت اس بارے میں کچھ نہیں بتاتی۔ قرآن مجید کی بے شمار آیات اس مضمون کو بیا ن کرتی ہیں کہ خیر وشر، حق و انصاف، عدل و ظلم کا واحد حتمی ذریعہ صرف اور صرف وحی ہے۔ نیز کسی عمل کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ انسانی نفس نہیں بلکہ صرف اور صرف شریعت کی روشنی میں ہوتا ہے، یعنی آیا نماز پڑھنا، زنا کرنا یا شراب پینا اچھا عمل ہے یا برا، اس کا تعین میرے نفس سے نہیں ہو سکتا (قرآن مجید کی وہ تمام آیات جن میں یہ فرمایا گیا کہ رسول کی اتباع کرو، رسول جو دے لے لو اور جس سے منع کرو اس سے رک جاؤ، نیز انبیاے کرام پر نازل شدہ وحی کی پیروی کرو ، قرآن مجید میزان و فرقان ہے وغیرہ کا مضمون یہی موضوع ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے کسی مقام پر اپنے نفس کی پیروی کرنے کا نہیں بلکہ اس شریعت کی پیروی کا حکم دیا ہے جو انبیاے کرام پر نازل ہوتی ہے۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ کیا خیر و شر انسانی فطرت میں موجود ہیں یا نہیں یا آیا یہ بھی معاشرے سے سیکھے ہوئے چند تصورات ہیں؟ تو اس سوال کا جواب اثبات میں ہو گا یا نفی میں۔ ہر دو صورت میں آپ کو اپنے جواب کی دلیل بیا ن کرنا ہوگی، یعنی آپ کو بتانا ہو گا کہ آپ کو کس ذریعے سے معلوم ہوا کہ انسانی فطرت میں خیر وشر ہیں یا نہیں۔ اپنے دعوے کی دلیل بیان کرنے کے لیے آپ کو لا محالہ حواس خمسہ، عقل اور خبر تینوں میں سے کسی ایک سے دلیل پیش کر نا ہوگی۔ ایک مسلمان جب آیت بالا کو اپنے مثبت جواب کے حق میں پیش کرتا ہے تو گویا وہ صرف یہ کہتا ہے کہ خیر و شر انسان کے اندر موجود ہیں اور اس کا علم مجھے خبر صادق (قرآن) سے ملا ۔ جدید فلسفے میں علم اخلا قیات کے مبا حث و مسا ئل کا ہر طالب علم خوب جانتا ہے کہ حواس اور عقل کے ذریعے خیر وشر کا انسانی نفس میں ہونا یا نہ ہونا قطعاً ثابت نہیں کیا جا سکتا، یعنی انسانی ذرائع علم میں ایسا کوئی حتمی طریقہ موجود ہی نہیں جس کے ذریعے ہم نفس انسانی کا مطالعہ کرکے کسی حتمی خیر و شر کا ادراک حاصل کر سکیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ نفس انسانی کے ذریعے خیر وشر کا تعین تو رہا درکنار، انسانی نفس میں خیر وشر کا وجود ہے بھی یا نہیں، اس کا علم بھی صرف اور صرف خبر ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی کہ ہم نے تم سے عالم ارواح میں الست بربکم قالوا بلی کا عہد لیا تھا۔ ظاہر بات ہے ہم میں سے نہ تو کسی کو وہ عہد یاد ہے اور نہ ہی اس عہد کا علم سوائے خبر صادق کے کسی دوسرے ذریعہ علم سے ممکن ہے۔ کوئی شخص چاہے کتنا ہی سو چ بچار کرلے، بجز وحی کسی بھی دوسرے ذریعہ علم سے اس عہد کی حقیقت و ماہیت اور اس کے مضامین کو نہیں جان سکتا۔ اس کی دوسری مثال یوں بھی ہے جیسے خبر صادق کے ذریعے معلوم ہوا کہ انسان میں ایک شے روح (امر ربی) بھی موجود ہے، لیکن وہ روح کیا ہے نیز اس کی حقیقت و ماہیت کیا ہے، اس کا ادراک اور تعین کسی انسانی ذریعہ علم سے ممکن نہیں۔ بالکل اسی طرح میرے نفس میں خیر وشر موجود ہیں یا نہیں، اس کی خبر مجھے اس آیت میں دی گئی ہے، لیکن وہ خیر وشر کیا ہے اور اس کا تعین کیسے ہوگا، یہ آیت اس ضمن میں بالکل خاموش ہے۔ قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ انسانی نفس سے خیر وشر معلوم کیے جا سکتے ہیں، اگر ایسا کرنا ممکن ہوتا تو قرآن یقیناًاس نفسانی فطرت کی اتباع کا حکم بھی دیتا۔ قرآن مجید کی اس خبر سے کہ انسانی نفس میں خیر وشر موجود ہیں، یہ نتیجہ نہیں نکا لا جا سکتا کہ انسانی نفس سے ان کا تعین بھی ممکن ہے (جو غامدی صا حب کا اصل مدعا ہے)۔ چنانچہ غامدی صاحب کے دعوے اور دلیل میں مطابقت نہیں، وہ ایسے کہ ان کا دعویٰ تو نفس انسانی کے ذریعے خیر وشر کی تعیین کا ہے جبکہ دلیل وہ نفس انسانی میں خیر وشر کے وجود ہونے کی دیتے ہیں۔ یہی وہ نقطہ ہے جسے سمجھنے میں غامدی صاحب اور ان کے مکتبہ فکر نے شدید ٹھوکر کھائی ہے۔ (اس غلطی کی ابتدا سید احمد خان سے ہوتی ہے)۔ 
غامدی صاحب کا یہ کہنا کہ ہر معاشرت میں حق و انصاف کا کوئی نہ کوئی تصور موجود ہوتا ہے، ان کے دعوے کے حق میں سرے سے کوئی دلیل ہے ہی نہیں۔ بحث یہ نہیں کہ آیا خیر وشر انسانی نفس میں موجود ہیں یا نہیں، بلکہ سوال تو یہ ہے کہ کیا انسانی ذرائع سے خیر وشر کی تعیین ممکن ہے یا نہیں؟ دوسرے لفظوں میں حق و انصاف ، عدل و ظلم کا درست تصور کیا ہے، اس کا تعین کیسے ہوگا؟ چونکہ غامدی صاحب کی یہ دلیل عمرانیاتی (sociological) بنیادوں پر مبنی ہے، لہٰذا اگر خالصتاً عمرانیاتی نقطہ نگاہ سے بھی غامدی صاحب کی اس دلیل کا جائزہ لیا جائے تو بھی غامدی صاحب کا موقف ثابت نہیں ہوتا۔ وہ ایسے کہ تمام انسانی معاشرتوں میں حق و انصاف کے کسی نہ کسی تصور کاپایا جانا اس بات کی لازمی دلیل نہیں بن سکتی کہ حق و انصاف کا تصور فطری ہے۔ پیور باخ، ہیگل، مارکس، فرائیڈ اور نطشے وغیرہ کے مطابق تو خیر وشر، حق و انصاف وغیرہ جیسے تمام تصورات در حقیقت معاشرتی تعلقات اور ان کے نتائج میں قائم ہونے والی معاشرتی درجہ بندی (social structure) کے پیداوار ہیں، یعنی عدل و انصاف کا سوال ہی اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دو افراد کے تعلق کے بعد حقوق و فرائض کا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے ، اور جب تک یہ تعلق قائم نہ ہو، حقوق و فرائض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں ماہر عمرانیات کے مطابق حق اور انصاف کا تصوربذات خود ایک خاص طریقے سے وجود انسانی کے اظہار کے بعد پیدا ہوا ہے نہ کہ یہ تصور پہلے سے اس کی فطرت میں موجود ہیں۔ (خیال رہے کہ راقم کاان خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں، ہم یہ بحث صرف اتنا ثابت کرنے کے لیے کر رہے ہیں کہ غامدی صاحب جو عمرانی دعویٰ فرما رہے ہیں، خود عمرانیاتی علوم کی روشنی میں وہ ایک کمزور دعویٰ ہے)۔ دوسرے لفظوں میں غامدی صاحب کی دلیل سے نفس انسانی کے ذریعے کسی خیر وشر کا امکانِ تعین ثابت ہونا تو رہا ایک طرف، اس دلیل سے تو انسانی فطرت میں کسی خیر وشر کا وجود ہونا بھی ثابت نہیں ہوتا۔
اسی طرح غامدی صاحب کا یہ کہنا بھی بے معنی ہے کہ ہر شخص گنا ہ کے کام کو چھپا تا ہے یا اس کے لیے جھوٹی دلیلیں تراشتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک شخص یا معاشرے کے تصور خیر وشر میں کوئی عمل برا ہے ہی نہیں تو وہ اسے کیوں چھپائے گا؟ مثلاً اشتراکی تصور خیر کے مطا بق اپنی سگی بہن سے نکاح کرلینا کوئی گناہ کا کام نہیں۔ اب اگر کوئی شخص اشتراکی تصور خیر پر صمیم قلب سے ایمان رکھتا ہو، اسے اس عمل کو چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ وہ تو ایسے لوگوں کو بے و قوف گردانتا ہے جو اپنی خوبصورت بہن سے خود نکاح کرنے کے بجائے اسے دوسرے شخص کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اگر غامدی صاحب کہیں کہ اشتراکی تصور خیر غلط اور غیر فطری ہے تو ہم پوچھیں گے کہ انہیں یہ علم کیسے ہوا؟ ان کے پاس بجز وحی اصل خیر کا معیار کیا ہے؟ اس لمحے پر یقیناًغامدی صاحب استقرا اور امت ابراہیمی کی پناہ تلاش کریں گے۔ مگر غامدی صاحب کا استقرا کو خیر وشر کی تعیین کے طریقے کے طور پر پیش کرنا ایک نہایت گمراہ کن تصور ہے۔ 
اس ضمن میں پہلی بات یہ کہ اس اصول کی شرعی دلیل کیا ہے، یعنی یہ اصول قرآن مجید کی کس آیت سے اخذ کیا گیا ہے کہ خیر وشر کا تعین اقوام عالم کی تاریخ سے ممکن ہے؟ غامدی صاحب کے اصول کے برعکس قرآن مجید تو ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر تم زمین میں اکثریت کی پیروی کرو گے تو گمراہ ہو جا ؤ گے۔ (انعام ۶۔ ۱۱۶) اسی ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ غامدی صاحب کے پاس اس اصول کی شرعی دلیل کیا ہے کہ اختلاف اعمال کی صورت میں تعیین فطرت اور خیر و شر کے لیے امت ابراہیمی کی اکثریت کا عمل معتبر ہوگا؟ آخر یہ اصول کس قرآنی آیت سے ماخوذ ہے؟ دوسری بات یہ کہ غامدی صاحب کا یہ دعویٰ بھی قابل نزاع ہے کہ اقوام عالم کی تاریخ کے مطالعے سے فطری خیر وشر کا درست تعین ممکن ہے۔ غامدی صاحب تو یہ دعویٰ یوں فرمارہے ہیں گویا انہوں نے اقوام عالم کا تاریخی مطالعہ کرکے تمام اعداد وشمار جمع کررکھے ہیں۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے جو عادات و اطوار اپنے معاشرے سے سیکھے ہیں، انہیں بغیر کسی دلیل آفاقی سمجھ بیٹھے ہیں۔ مثلاً موجودہ حالات میں ہم دیکھتے ہیں کہ امت ابراہیمی کی اکثریت شراب پینے، سود خوری، دو مردوں کی آپس میں شادی کرنے اور ہیومن رائٹس کے نام پر نجانے کس کس غلاظت کو خیر اور انسانی فطرت کا جائز تقاضا گردانتی ہے۔ تو کیا اصول استقرا کی بنا پر یہ سب اعمال اب خیر کی لسٹ میں شمار کیے جا نے لگیں گے؟ اس ضمن میں اہم بات یہ بھی ہے کہ کیا امت ابراہیمی کی تاریخ کا کوئی ایسا معتبر ریکارڈ موجود ہے جس کی بنیاد پر خیر وشر اور انسانی فطرت کی تعیین جیسے اہم امور طے کیے جا سکتے ہوں؟ تیسری اہم بات یہ کہ اگر خیر وشر کا فیصلہ استقرا پر چھوڑ دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو ا کہ خیر وشر کبھی متعین ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ راجربیکن (وہ شخص جس نے حصول علم کے لیے وحی کے بجائے استقرا پر زور دینے کی مہم کا آغاز کیا) سے لے کر آج تک کوئی بڑے سے بڑا فلسفی بھی مسئلہ استقرا (problem of induction) حل نہیں کر سکا۔ (مسئلہ استقرا کی تفصیل منطق کی ہر کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے ، یا دیکھئے سائنس پر راقم کا مضمون ، ساحل اگست ۲۰۰۶ )۔ استقرائی طریقہ علم کی سب سے بڑی کمزوری ہی یہ ہے کہ اس سے حاصل ہونے والا علم نہ تو حتمی ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے ذریعے کسی بات کا اثبات ممکن ہوتا ہے، بلکہ وہ علم ہمیشہ ظنی(probable) اور ارتقائی (evolutionary) ہوتا ہے۔ چنانچہ خیر وشر کا تعین استقرا کے حوالے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خیر وشر کسی متعین اور آفاقی حقیقت کا نام نہیں بلکہ یہ زمانے اور مکان کا پابند ہے۔ دوسرے لفظوں میں خیر وشر اضافی (relative) تصورات ہیں نہ کہ ابدی (absolute)۔ ایک طرف تو غامدی صاحب کا دعویٰ ہے کہ خیر وشر ابدی حقائق کا نام ہے اور دوسری طرف وہ انہیں جاننے کا ذریعہ استقرا قرار دے کر اپنے اسی دعوے کا رد فرما رہے ہیں۔ ہم غامدی صاحب سے پوچھتے ہیں کہ بتائیے آپ کے پاس مسئلہ استقرا کا حل کیا ہے؟ اور اگر اس کا حل نہیں ہے تو بتائیے بجز وحی آپ کے پاس خیر وشر اور انسانی فطرت کی تعیین کا قطعی طریقہ علم کیا ہے؟ اور اگر ایسا کوئی طریقہ نہیں تو پھر نفس انسانی کے ذریعے خیر وشر کے تعین کے معنی کیا ہوئے؟ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نظریہ استقرائیت جو سائنس کی دنیا میں بھی بری طرح مات کھا چکا ہے، غامدی صاحب اسے مذہب پر لاگو کرکے آخر کون سے طلسماتی نتائج حاصل کر نے کی امید رکھے ہوئے ہیں۔ نیز خیر وشر جاننے کے لیے اقوام عالم کے تاریخی مطالعے کا طریقہ بھی خوب ہے۔ گویا ہر شخض خیر وشر پر عمل پیراہونے سے پہلے تاریخ کی کتب کھول کر بیٹھ جائے اور دنیا کی تمام تہذیبوں کا باری باری مطالعہ کرے۔ پھر اپنے مطالعے سے درست نتائج نکالنے کے لیے استقرائی منطق کے قواعد و اصول سیکھے، اور اتنا ہی نہیں بلکہ اب تک دنیا کے دوسرے افراد نے مطالعہ تاریخ سے جو نتائج اخذ کیے ہیں، ان سے بھی واقفیت حاصل کرے تاکہ درست نتیجہ نکالنے میں مدد مل سکے۔ چونکہ غامدی صاحب تقلید کے قائل نہیں تو اب مطلب یہ ہوا کہ ہر شخص اپنی ساری عمر اخلاقی اصول معین و مرتب کرنے پر ہی صرف کرڈالے اور اگر اس کے بعد قسمت نے یارانہ کرکے فرصت کے چند لمحات میسر کردیے تو ان پر عمل کرنے کی کچھ سعی کر لے۔ 

دوسرا سوال 

اب ہم غامدی نظریہ اخلاق کے دوسرے سوال کی جانب چلتے ہیں۔ وہ دوسرا سوال یہ ہے کہ انسان کو تزکیہ اخلاق پر آمادہ کرنے والا اصل محر ک کیا ہے؟ غامدی صاحب کے خیال میں وہ محرک خیر وشر پر مبنی انسان کا یہ احساس ہے کہ ان دونوں کے نتائج اس کے لیے یکساں نہیں ہو سکتے۔ ان کے خیال میں اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انسان اپنے اعمال کے صلے میں لازماً جزا و سزا سے دو چار ہوگا۔ پھر خوف و طمع کا یہی احساس جب ایمان باللہ میں تبدیل ہو تا ہے تو یہی احساس خدا سے متعلق ہو جاتا ہے، یعنی خدا کی محبت، اس کی رضا اور ناراضگی کا خوف اخلاق کی پابندی کا محر ک بن جاتا ہے۔ 
غامدی صاحب کی تقریرسے واضح ہوتا ہے کہ خیر و شر کا تعین گویا ایمان باللہ سے قبل ہی ہو جا تا ہے اور ایمان باللہ کی ضرورت صرف اس کے محرک کے لیے پڑتی ہے۔ وہ یہ حقیقت سمجھنے میں نا کام رہے ہیں کہ ہر تصور خیر بذات خود ایک ما بعد الطبیعیاتی ایمان پر قائم ہوتا ہے، یعنی ہر اخلاقی نظریہ ما بعد الطبیعیات سے اخذ شدہ ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر ایما نیات سے نکلنے والا تصورو اصول اخلاق مختلف ہوتا ہے۔ غامدی صاحب جب یہ فرماتے ہیں کہ انسانی نفس کے احساس کی بنا پر خیر وشر کا تعین ممکن ہے، نیز اس کا اصل محرک یہی احساس انسانی ہے تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خیر و شر کا تعین ہر قسم کی ایمانیات سے ماورا ہے، یعنی کسی مابعد الطبیعیاتی حقیقت پر ایمان لائے بغیر بھی خیر وشر طے کرنا ممکن ہے، لیکن اس خیال کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ایں خیال است، محال است و جنوں۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ یہ سوال کہ انسانی اعمال کی صحت اور بطلان کا معیار کیا ہے، اس وقت تک لا ینحل رہتا ہے جب تک یہ طے نہ کر لیا جائے کہ اس دنیا میں انسان کی حیثیت کیا ہے۔ کسی معاملے میں انسان کے جائز تصرفات اور اشیا و موجودات کے ساتھ جائز و ناجائز رویے کا تعین تبھی ممکن ہے جب یہ طے ہوجائے کہ اس کی اپنی حیثیت کیا ہے، نیز اس کا تعلق ان معاملات اور موجودات کے ساتھ کیسا ہے؟ یعنی آیا اس دنیا میں وہ مالک ہے یا امین، خود مختار ہے یا ما تحت، اپنے اعمال کے لیے آزادہے یا جواب دہ، اس کی زندگی بامقصد ہے یا نہیں، نیز وہ مقصد کیا ہے، اپنا ضابطہ حیات اسے خود طے کرنا ہے یا کسی اور کو وغیرہ وغیرہ۔ یہی وہ سوالات ہیں جن کا تعلق ما بعد الطبیعیاتی ایمانیات سے ہے اور ہر تہذیب کا نظریہ خیروشر انہیں کے جوابات سے وجود میں آتا ہے۔ (اس موقع پر ہم غامدی صاحب سے عرض کرتے ہیں کہ اگر وہ مولانا مودودیؒ کی کتا ب ’’اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات‘‘ کے مضامین ’’اسلام اور جاہلیت‘‘ اور ’’اسلام کا اخلاقی نقطہ نظر‘ ‘ ہی کا مطالعہ فرما لیں تو ان شاء اللہ بہت سی فکری لغزشوں سے بچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہاں مودودی صاحب کاحوالہ اس لیے دیا گیا کہ غامدی صاحب بذات خود مولاناکے بہت بڑے مداح ہیں) اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا : 
لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من آمن باللہ و الیوم الاخر و الملئکۃ والکتاب والنبیین (بقرۃ ۲: ۱۷۷)
یعنی نیکی کسی خاص عمل کرنے کا نام نہیں، بلکہ نیکی کی حقیقت تو یہ ہے کہ تم ایمان لاؤ اللہ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر، آسمانی کتابوں (یعنی وحی ) پر، انبیاے کرام پر۔ اس تقاضاے ایمان کے بعد قرآن نیکی کرنے کے چند خاص اعمال کا ذکر کرتا ہے، مثلاً نماز پڑھنا ، غریبوں کی مدد کرنا وغیرہ۔ یہ آیت واضح طور پر یہ حقیقت بیان کر رہی ہے کہ خیر وشر کا منبع ایمان ہے، نہ کہ انسانی نفس کا مطالعہ وغیرہ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ کوئی عمل بذات خود اچھا یا برا نہیں ہے بلکہ اصل حیثیت حکم الٰہی کی پیروی کرنے کی ہے، یعنی نہ تو غریب کی مدد کرنا ہی بالذات نیکی ہے اور نہ ہی جھوٹ بولنا بالذات گناہ ہے بلکہ نیکی اور بدی کی بنیاد حکم الٰہی کی پیروی کرنا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص اس احساس کی بنا پر کسی غریب کی مدد کرتا ہے کہ ایسا کرنے سے اسے خوشی ہوتی ہے ، یا ایسا کرنے کو اس نے بذات خود اپنے اوپر لازم کر رکھا ہے یا ایسا کرنے سے اس کی قوم کی بھلائی ہوتی ہے تو یہ ہرگز بھی کوئی نیکی نہیں بلکہ یہ عمل نیکی تب ہوگا جب اس ایمان کے ساتھ اسے کیا جائے کہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس کی جزا کا وعدہ اس نے مجھ سے کیا ہے۔ گویا جب نیکی اور بدی کا تعین ہی حکم الٰہی سے ہوتا ہے تو اس کا محرک بھی اس حکم الٰہی سے متعلق جواب دہی کا احساس ہی ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے اصولیین یوں بیان کرتے ہیں کہ شارع کا حکم ہی بندے کو کسی عمل کا مکلف بناتا ہے نہ کہ اس کا داخلی احساس یا فطرت وغیرہ۔ حکم الٰہی کے سوا کوئی دوسری شے نہ توخیر و شر کی بنیاد بن سکتی ہے اور نہ ہی اس حکم سے متعلق جواب دہی کے احساس کے علاوہ کوئی شے خیر وشر کا محرک ہو سکتا ہے۔ درحقیقت غامدی صاحب انسانی فطرت کو خیر وشر کا ماخذ، استقرا کو اس کے جاننے کا طریقہ اور انسانی احساس کو اس کے محرک کی بنیاد مان کر انجانے میں مغربی ما بعد الطبیعیات پر ایمان لا بیٹھے ہیں جس کے مطابق انسان عبد نہیں بلکہ آزاد ہے اور علم کا منبع خدا کی ذات نہیں بلکہ نفس انسانی ہے ، اور یہ تمام تر تصورات صریح گمراہی اور اعتزال قدیمہ کے شاخسانہ ہیں۔ غامدی صاحب ہمیں بتائیں کہ حکم الٰہی کے سوا وہ کون نسا اصول ہے جو کسی عمل کے خیریا شر ہونے کا تعین کرتا ہے۔ نیز آخرت کی جواب دہی کے علاوہ کیونکر انسان کسی خیر و شر کی پابندی پر آمادہ ہو سکتا ہے؟ 

تیسرا سوال 

فلسفہ اخلاق کا آخری سوال یہ ہے کہ خیر وشر پر عمل پیرا ہونے کا مقصد کیا ہونا چا ہیے۔ غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ اخلاقی سعی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی ابدی بادشاہی کا حصول ہے ۔ ان کے نزدیک علماے اخلاقیات نے اخلاقی سعی کے جتنے بھی مقاصد بیان کیے ہیں، وہ سب کے سب ایک معنی میں حصول رضائے الٰہی میں خود بخود شامل ہو جاتے ہیں۔ خیال رہے کہ علماے اخلاقیات کے ایک گروہ نے اخلاقی سعی کا مقصد utility(جس کا ترجمہ غامدی صاحب نے ’مسرت‘ کیا ہے) کا حصول قرار دیا ہے جبکہ ایک دوسرے گروہ کے نزدیک فرض برائے فرض کی ادئیگی (duty-ethics) اس کا مقصد ہونا چاہئے۔ اس سوال کے جواب میں بھی غامدی صاحب نے کئی غلطیاں کی ہیں جن کی نشاندی ہم یہاں کیے دیتے ہیں۔ 
ہم غامدی صاحب سے ایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں: جب خیر وشر کا تعین انسانی نفس اور فطرت سے ہوتا ہے اور اس پر عمل پیراہونے کا محرک بھی ارادہ و احساس انسانی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اخلاقی جدوجہد کا مقصد انسانی ارادہ سے باہر کیسے ہو گیا؟ علماے اخلاقیات اخلاقی سعی کا مقصد انسانی مسرت، کمال یا ارادہ انسانی کے ماتحت فرض برائے فرض کے تصور ات کو اسی لیے تو کہتے ہیں کیونکہ وہ خیر وشر کا ماخذ اور اس کا محرک انسانی نفس کو مانتے ہیں۔ جب نیکی اور بدی انسانی ذات سے نکلتے ہیں تو اس کا مقصد بھی انسانی ذات ہی سے نکلے گا۔ غامدی صاحب کا معاملہ عجب ہے کہ ایک طرف تو وہ خیر وشر کا ماخذ اور اس کا محرک انسانی نفس کو قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف اس کا مقصد نفس انسانی سے باہر تلاش کرتے ہیں۔ اخلاقی جدوجہد کا مقصد حصول رضاے الٰہی تبھی قرار پاتا ہے جب یہ مانا جائے کہ خیر وشر کا ماخذ حکم الٰہی اور اس کا محرک اللہ کے سامنے مسؤلیت کا تصور ہے۔ غامدی صاحب کا نظریہ اخلاق درحقیقت مباحث اخلاقیات اور مذہبی ایمانیات کی خلط مبحث پر مبنی ہے۔ 
غامدی صاحب کا یہ خیال کہ علماے اخلاقیات کے اخلاقی سعی کے تمام تر مقاصد حصول رضاے الٰہی میں شامل ہیں، ایک فاش غلطی ہے۔ علماے اخلاقیات جب یہ کہتے ہیں کہ اخلاقی جدوجہد کا مقصد حصول لذت (utility)ہے تو وہ انسان کو آزاد (self-determined) مانتے ہیں اور اسی تصور کی بنا پر وہ حصول لذت کا طریقہ اختیار کرنے کا حق انسان کو دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں حصول لذت کا مقصد نفس انسانی کی پیروی (obedience and dominance of self) کرنے کا نام ہے جبکہ حصول رضاے الٰہی نفس کی نفی (submission of self to God)کرنے کا نام ہے۔ ایک ما بعد الطبیعیات میں انسان آزاد جبکہ دوسری میں وہ عبد ٹھہرتا ہے۔ اسی طرح اخلاقی جدوجہد کا مقصد فرض برائے فرض کی ادائیگی قرار دینے کا مطلب یہی ہے کہ انسان صرف اور صرف اپنے ارادے کا مطیع بن کر اخلاقی جدوجہد کرے، نہ کہ اپنے ارادے کو اپنے رب کے سامنے جھکا کر۔ اپنے نفس کی پیروی کرنے اور اسے اپنے رب کے سامنے جھکا دینے میں جو فرق ہے، ہر شخص اسے با آسانی سمجھ سکتا ہے، مگر غامدی صاحب اس فرق میں تمیز کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ 
غامدی صاحب کا یہ فرمانا کہ اخلاقی سعی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی ابدی بادشاہی کا حصول ہے، نہایت خطرناک نظریہ ہے کیونکہ اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ انسان خدا ئی عمل میں شریک بن جائے۔ ہم یہ خدشہ کسی وہم کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس حقیقت کی بنا پر پیش کر رہے ہیں کہ بہت سے مسلم مفکرین کسی معنی میں انسان کو تخلیقی عمل میں شامل اور تقدیر یزداں مانتے رہے ہیں۔ (حسن ادب ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہم یہاں کسی کا نام لینا نہیں چاہتے) گو کہ غامدی صاحب نے اپنی کتاب میں (فادخلی فی عبادی وادخلی جنتیکے قرآنی الفاظ سے) اس کی کچھ وضاحت ضرور فرمائی ہے، لیکن چونکہ ’’الٰہی بادشاہی کا حصول‘‘ اسلامی سے زیادہ عیسائی تمثیل اور علم الکلام پر مبنی ہے، لہٰذا بہتر ہوگا اگر غامدی صاحب یہ وضاحت بھی فرما دیں کہ آیا یہ معنی ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی بادشاہی اور اس کے حصول میں شامل ہیں یا نہیں کیونکہ اگر یہ معنی بھی اس میں شامل ہیں جو ہم نے بیان کیے تو خیال رہے یہ نہایت گمراہ کن اور خلاف اسلام تصور ہے کیونکہ اللہ کی بادشاہی کے حصول اور اس میں شرکت کا امکان ہی وہ تصور ہے جو الوہیت انسانی کا جواز فراہم کر تا ہے اور جدیدیت پسند عیسائی علما کے اسی قسم کے مذہبی تصورات اور تاویلات کے ذریعے مغربی تہذیب میں انسان کو خدا تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں شمولیت کو اپنا مقصد بنانے کے بعد انسانی زندگی کا جو عملی نقشہ ابھرتا ہے، وہ یہ نہیں کہ انسان رسوم عبودیت بجا لانے کی فکر کرتا پھرے، بلکہ یہ ہے کہ وہ تصرف فی الارض یعنی اس کائنات کو اپنے ارادے اور خواہشات کے تابع کرنے کی سعی کرے اور یہی جدوجہد در حقیقت سائنس و ٹیکنالوجی کے جواز کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ لہٰذا خوب یاد رہے کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے اخلاقی سعی کا مقصد درحقیقت حصول رضاے الٰہی اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی موعود جنت ہے اور اس جنت کا مل جانا کسی بھی معنی میں اللہ کی بادشاہی کا حصول یا اس میں شرکت نہیں بلکہ عبدیت ہی کا پرتو ہے ، یعنی انسان جنت پہنچ کر بھی عبد ہی رہے گا نہ کہ اللہ تعالی کی خدائی اور بادشاہی کا حصہ بن جائے گا۔ بھلا کون ہے جو اللہ کی بادشاہی میں ذرا برابر بھی حصہ حاصل کر سکے کیونکہ اللہ تعالیٰ محض صفات کے مجموعے نہیں بلکہ ایک ذات کا نام ہے اور بادشاہی صرف اور صرف اس ہی کی ذات کو سزا وار ہے۔ 

ایک اہم لغوی غلطی 

آخر میں ہم غامدی صاحب کی توجہ ترجمہ و بیان مفہوم کی ایک اہم لغوی غلطی کی طرف دلانا چا ہتے ہیں۔ علماے اخلاقیات کے ایک گروہ نے اخلاقی جدوجہد کامقصد utility maximization کو قرار دیا ہے۔ (اس فکر کو Utilitarianism کہتے ہیں) ۔غامدی صاحب نے اپنی کتاب اخلاقیات میں لفظ utility کا ترجمہ ’’مسرت‘‘ کیا ہے حالانکہ یہ اس لفظ کی نہایت غلط تعبیر ہے کیونکہ اس لفظ کی درست تعبیر اگر اردو زبان کے کسی الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہے تو وہ ہیں حصول لذت، مزے کرنا یا نفس پرستی وغیرہ۔ گو کہ لذت، مزہ، خوشی، مسرت وغیرہ قریب المعنی الفاظ ہیں، لیکن کیفیات کے اعتبا رسے یہ الفاظ احساس خوشی کے مختلف درجات پربولے جاتے ہیں۔ مثلاًخوشی کا ایک احساس وہ ہے جو کسی غریب کی مدد کرنے سے پیدا ہوتا ہے اور ایک کیفیت وہ ہے جو بدکاری کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ ظاہر بات ہے خوشی کی ان دونوں کیفیات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اردو زبان میں لفظ ’’ مسرت‘‘ درحقیقت ایک باوقار اور قابل ستائش احساس خوشی کے لیے بولا جاتا ہے جبکہ لفظ ’’مزہ‘‘ اپنے متعلقات سمیت عموماً خوشی کے سفلی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح انگریزی زبان میں بھی خوشی کے احساسات بیان کرنے کے لیے کئی الفاظ مستعمل ہیں اور ان تمام الفاظ میں لفظ utility سب سے گھٹیا ترین معنوں کا حامل ہے جس کا مفہوم قریب قریب وہی ہے جو اردو زبان میں ’مزے کرنے‘ یا نفس پرستی کا ہے۔ اس لفظ کا سب سے بہترین اور درست مفہوم خود بینتھم (جو Utilitarianism کا بانی ہے) نے یوں بیان کیا تھا کہ Man and pig are equal in their capacity to derive utility from consumption activity. یعنی عملِ صرف کے ذریعے مزہ (utility) اٹھانے کے معاملے میں انسان اور سور یکساں صلاحیت کے حامل ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ لفظ احساس خوشی کے سب سے نچلے یعنی حیوانی درجے کی کیفیات بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ غامدی صاحب نے لفظ utility کا ترجمہ مسرت کرکے ایک حیوانی کیفیت کو اعلیٰ مرتبے پر فائز کر ڈالا اور بیان مفہوم کی اسی غلطی نے نتیجتاً انہیں اس غلط فہمی میں بھی مبتلا کر دیا کہ utility کا حصول کسی معنی میں حصول رضائے الٰہی کے مفہوم میں شامل ہو سکتا ہے۔ چونکہ غامدی صاحب بزعم خود عربی زبان کے ماہر ہیں، لہٰذا انہیں ترجمے کی ایسی فاش غلطیوں کے نتائج و عواقب کا خوب اندازہ ہو نا چاہیے۔ بظاہر یہ ترجمے کی ایک معمولی غلطی دکھائی دیتی ہے مگر ایسی غلطیوں کے نتیجے میں انسان بسا اوقات گہری فکری گمراہیوں کا شکار ہو جاتا ہے اور مسلم مفکرین تو پہلے ہی مغرب سے آنے والے ہر گمراہ کن تصور کا خوبصورت اور ’’ایمانی‘‘ ترجمہ کرکے ان گنت غلط فہمیوں کا شکا ر ہیں ، چنانچہ ہم نے ہیومن رائٹس کا ترجمہ حقوق العباد، ہیومن کا انسان، فریڈم کا آزادی ، equality کامساوات، ولفئیر کا فلاح، ٹولیرنس کا رواداری، Enlightenment کا روشن خیالی وغیرہ کرکے مغربی افکار و علوم کا ایک خوبصورت محل قائم کر رکھا ہے۔ غامدی صاحب سے گزارش ہے کہ اگر وہ ایسی غلط فہمیوں کا مداوا نہیں کر سکتے تو نہ سہی، لیکن کم ازکم ان میں اضافہ کرکے مزید فکری خلفشار کا باعث تو نہ بنیں۔ 

ایک تقابلی مطالعہ 

اب ہم اسلامی ، غامدی اور مغربی نظریاتِ خلاق کا تقابلی مطالعہ پیش کرتے ہیں تاکہ قارئین خود فیصلہ کرسکیں کہ غامدی نظریہ اخلاق دونوں میں سے کس نظریے پر مبنی ہے۔

اس تقابلی مطالعے میں دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ اسلامی و مغربی نظریاتِ اخلاق میں پانچوں جوابات کے مابین ایک منطقی ربط موجو د ہے یعنی اسلامی نظریہ اخلاق میں ہر جگہ خدا جبکہ مغربی نظریات میں انسان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جبکہ غامدی صاحب کا نظریہ چوتھے مسئلے تک انسان کی مرکزیت پر قائم ہے اور اس کے بعد یکایک ایک غیرمنطقی چھلانگ لگا کر خدا کوبھی شامل بحث کر لیتا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ غامدی نظریہ اخلاق کی یہ بے ربطی در حقیقت مغربی و اسلامی نظریہ اخلاق کے خلط مبحث کا شاخسانہ ہے۔ 

غامدی صاحب سے چند سوالات 

غامدی نظریہ اخلاق پر اپنے تنقیدی نکات کو ہم چند سوالات کی صورت میں غامدی صاحب کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ بہتر ہوگا غامدی صاحب اپنے مقلدین کے بجائے خود ان کے جوابات عنایت فرمائیں۔ (وہ اور بات ہے کہ ان کے مقلدین جو بھی کہتے ہیں، اپنے استاد صاحب کی تصویب کے ساتھ ہی شائع کرتے ہیں)۔ 
۱) قرآن مجید کی کس آیت میں یہ کہا گیا کہ خیر وشر کی تعیین نفس انسانی کے ذریعے ممکن ہے؟ 
۲) انسانی نفس میں خیر وشر موجود ہیں سے یہ نتیجہ کیسے نکل آیا کہ اس کا تعین بھی انسانی نفس سے کیا جا سکتا ہے؟ 
۳) غامدی صاحب انسانی فطرت سے کیا مراد لیتے ہیں؟ نیز اس کی تعیین کے لیے خبر صادق کے علاوہ دوسرا حتمی ذریعہ اور طریقہ علم کیا ہے؟ 
۴) غامدی صاحب کے پاس اس اصول کی شرعی دلیل کیا ہے کہ خیر وشر اور انسانی فطرت کی تعیین کے لیے استقرا کا طریقہ اختیار کیا جائے؟ اسی طرح اختلاف اعمال کی صورت میں تعیین فطرت کے لیے امت ابراہیمی کی اکثریت کا عمل معتبر قرار دینے کی شرعی دلیل کیا ہے؟ 
۵) کیا امت ابراہیمی کی تاریخ کا ایسا معتبر ریکارڈ موجود ہے جس کی روشنی میں خیروشر کا ٹھیک ٹھیک تعین کیا جاسکے؟ 
۶) غامدی صاحب کے پاس مسئلہ استقرا کا حل کیا ہے؟ 
۷) ایمان باللہ اور حکم الٰہی سے ما ورا رہ کر خیر وشر طے کرنے کا اصول کیا ہے؟ 
۸) کیا غامدی صاحب خیر وشر کی بنا حکم الہٰی کومانتے ہیں یا انہیں حکم الہٰی سے ما ورا اور مستقل تصورات مانتے ہیں؟ 
۹) خیر وشر کا ماخذ اور اس کا محرک انسانی نفس کو قرار دینے کے بعد اس کا مقصد نفس انسانی سے باہر کیسے ہو سکتا ہے؟ 
۱۰) علماے اخلاقیات کے نفس پرستی پر مبنی خیالات کیسے خدا پرستی پر محمول کیے جا سکتے ہیں؟ 

الشریعہ اکادمی میں ہفتہ وار فکری نشستوں کا آغاز

ادارہ

۹ جنوری ۲۰۰۸ کوالشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں مولانا زاہدالراشدی کے ہفتہ وارلیکچرز کے سال نو کے پروگرام کے آغاز پرایک تقریب منعقد ہوئی جس کی صدارت پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمن اخترنے کی اورشہر کے سرکردہ علماے کرام اوردیگر ارباب دانش نے اس میں شرکت کی۔
پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل اورماہنامہ ’’نور علیٰ نور‘‘ کراچی کے چیف ایڈیٹر مولانا عبدالرشید انصاری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے دینی حلقے مغرب کی تہذیبی یلغاراورفکری حملے کامتحد ہو کرہی مقا بلہ کرسکتے ہیں اور اس کے لیے تمام دینی مکاتب فکر اورعلمی مراکز کی باہمی مشاورت کاکوئی مربوط نظام قائم کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہاکہ نوجوان علما کو بطور خاص اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ وہ آج کی عالمی فکری اورتہذیبی کشمکش کے بارے میں معلومات حاصل کریں اورصورت حال کاپوری طرح ادراک کرتے ہوئے اس عالمی تناظر میں قرآن وسنت کی صحیح ترجمانی کے لیے خود کوتیار کریں۔ 
صدر نشست مولانا قاری جمیل الرحمن اختر نے مولانا زاہد الراشدی کی یادداشتوں کے اس پروگرام پر خوشی کااظہار کیا اورکہاکہ اس طرح گزشتہ نصف صدی کی پوری تاریخ ہمارے سامنے آجائے گی 
پروگرام کے مطابق مولانا زاہد الراشدی ہر بدھ کو مغرب کی نماز کے فوراً بعد الشریعہ اکادمی میں اپنی پینتالیس سالہ دینی ،سیاسی اور فکری جدوجہد کی یادداشتیں ترتیب واربیان کریں گے۔

مارچ ۲۰۰۸ء

عام انتخابات کے نتائج اور متحدہ مجلس عمل کا مستقبلمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
معاصر اسلامی فکر کے اخلاقی چیلنجزڈاکٹر ابراہیم موسٰی
پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ کی تعلیمی اصلاحاتپروفیسر محمد اکرم ورک
اردو زبان کی ضرورت و اہمیت اور دینی مدارس کے طلبہمولانا مفتی محمد اصغر
مغرب اور اسلام کیرن آرمسٹرانگ کی نظر میںڈاکٹر محمد شہباز منج
زنا کی سزا (۱)محمد عمار خان ناصر
مکاتیبادارہ

عام انتخابات کے نتائج اور متحدہ مجلس عمل کا مستقبل

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۱۸ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج ملک بھر میں زیر بحث ہیں اور ان کے حوالے سے ملک کے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ نتائج خلاف توقع نہیں ہیں۔ ملک کے سیاسی حالات جس رخ پر آگے بڑھ رہے تھے، ان سے ایسا ہی محسوس ہو رہا تھا کہ الیکشن میں ووٹروں کا ٹرن آؤٹ کم رہے گا، پیپلز پارٹی سیٹوں کے حصول میں سب سے آگے رہے گی اور مسلم لیگ ق کے ساتھ ساتھ متحدہ مجلس عمل کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہرحال اب قومی سیاست کی نئی صف بندی ہو چکی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان مسلم لیگ (ق)، متحدہ قومی موومنٹ اور نیشنل عوامی پارٹی اس پوزیشن میں آ گئی ہیں کہ وہ مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی کے لیے کسی نہ کسی درجے میں کوئی کردار ادا کر سکیں اور اس کے لیے مختلف سطحوں پر جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔
الیکشن کے نتائج سے ظاہر ہے کہ جتنے لوگوں نے بھی ووٹ ڈالے ہیں، ان کی غالب اکثریت نے سابقہ حکومت کی پالیسیوں کومسترد کر دیا ہے اور ملک کی رائے عامہ کی یہ خواہش نمایاں نظر آ رہی ہے کہ الیکشن کے بعد صرف حکومت ہی تبدیل نہ ہو، بلکہ قومی پالیسیوں میں بھی واضح تبدیلی نظر آئے، لیکن صدر پرویز مشرف مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حکومت بے شک الیکشن کے نتائج کی روشنی میں نئی بن جائے، لیکن ان کی پالیسیوں کا تسلسل اسی طرح جاری رہے اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی نئی حکومت عوامی رجحانات کو اپنی پالیسیوں کی بنیاد بنانے کی بجائے صدر پرویز مشرف کی پالیسیوں کو بدستور قائم رکھے، جبکہ اس مقصد کے لیے انھیں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی سفارتی سرگرمیوں کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری طرف سابقہ حکمران پارٹی کے ذمہ دار راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ ان کی شکست کے اسباب میں (۱) امریکہ نواز پالیسی، (۲) قبائلی علاقوں میں فوج کشی، (۳) لال مسجد کے خلاف وحشیانہ آپریشن (۴) مہنگائی میں ہوش ربا اضافے اور (۵) عدلیہ کی بالادستی کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کو کلیدی حیثیت حاصل ہے جس کا مطلب ظاہر ہے کہ عوام نے ان پالیسیوں کو مسترد کر دیا ہے اور وہ ان میں جوہری تبدیلیوں کے خواہاں ہیں، اس لیے اس مرحلے میں سابقہ حکومت کی پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھنے کی کوششیں الیکشن کے نتائج اور ملک کی رائے عامہ کے اجتماعی فیصلے کو مسترد کرنے کے مترادف ہوں گی۔ ایسی کوششوں کو آگے بڑھانے میں سب سے زیادہ افسوس ناک کردار امریکہ سمیت ان مغربی ممالک اور حکومتوں کا دکھائی دے رہا ہے جو مشر ف حکومت کی پالیسیوں کو بچانے کے لیے منتخب سیاسی پارٹیوں کی لیڈر شپ پر دباؤ ڈال رہی ہیں اور اگر خدانخواستہ یہ کوششیں کامیاب ہو گئیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان میں ۱۸؍ فروری کے انتخابات کا ڈول صرف چہروں کی تبدیلی کے لیے ڈالا گیا تھا اور قومی پالیسیوں کے حوالے سے پاکستان کے عوام کی رائے کو کوئی حیثیت نہیں دی جا رہی جو انتہائی افسوس ناک اور مایوس کن بات ہوگی۔ اس لیے ان انتخابات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والی سیاسی جماعتوں کی قیادتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور یہ ان کی سیاسی فراست، حب الوطنی اور حوصلہ وتدبر کا امتحان ہے کہ وہ اس الیکشن کے نتیجے میں صرف چہروں کی تبدیلی اور حکومتی مناصب پر اکتفا کرتی ہیں یا عوامی رائے اور رجحانات کا احترام کرتے ہوئے سابقہ حکومت کی ان پالیسیوں کو تبدیل کرنے میں بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہیں جن پر نہ صرف یہ کہ عوام کی ایک بڑی اکثریت نے انتخابات میں عدم اعتماد کر دیا ہے بلکہ لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے ان پالیسیوں کے ساتھ شدید نفرت کی وجہ سے پولنگ اسٹیشنوں تک آنا بھی گوارا نہیں کیا۔
ہمارے ہاں سیاسی عمل اور ووٹ کے ذریعے تبدیلی کے طریق کار پر لوگوں کا اعتماد پہلے ہی کم ہوتا جا رہا ہے جو ۱۸؍ فروری کے انتخابات میں ڈالے جانے والے ووٹوں کے تناسب سے واضح طور پر محسوس کیا جا رہا ہے اور اگر ووٹ ڈالنے والوں کا اعتماد بھی اس عمل پر باقی نہ رہا تو سیاسی عمل کی افادیت سے عام لوگوں کی یہ مایوسی شدید رد عمل کا باعث بھی بن سکتی ہے جس کا ان نازک حالات میں ہمارا ملک متحمل نہیں ہو سکے گا۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (نواز گروپ) اور دوسری بڑی سیاسی جماعتیں اس مرحلے پر ذمہ داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوامی رجحانات کی پاس داری کے لیے موثر کردار ادا کریں گی اور جمہوری عمل کو مایوسی اور تذبذب کی دلدل کی طرف دھکیلنے کی بجائے امید اور حوصلہ افزائی کی شاہراہ پر گامزن کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی کہ قوم کے بہتر اور روشن مستقبل کی طرف یہی راستہ جاتا ہے۔
اس موقع پر ہم متحدہ مجلس عمل کے بارے میں بھی کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ پانچ سال قبل ہونے والے عام انتخابات میں دینی جماعتوں کے اس متحدہ محاذ نے جو پیش رفت کی تھی، اس سے ملک میں نفاذ اسلام اور دینی اقدار کے تحفظ وفروغ کے حوالے سے امید کی ایک کرن ذہنوں میں نمودار ہونے لگی تھی اور عوام یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ پاکستان جس مقصد کے لیے وجود میں آیا تھا، اس کی تکمیل کا کوئی راستہ اب نکل آئے گا، لیکن حالیہ الیکشن سے قبل متحدہ مجلس عمل کے باہمی خلفشار اور الیکشن میں اس کی پسپائی نے امید کی اس شمع کو گل کر دیا ہے اور قومی سیاست میں دینی حلقوں کا کردار پھر ایک بار سوالیہ نشان بنتا جا رہا ہے۔
۲۰۰۲ کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کی نمایاں کامیابی کے اسباب ہمارے خیال میں یہ تھے:
  • یہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی دینی سیاسی جماعتوں کا متحدہ محاذ تھا اور پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ دینی جماعتوں نے جب بھی مسلکی دائروں سے بالاتر ہو کر دینی وقومی مقاصد کے لیے جدوجہد کی ہے، ملک کے عوام نے ان کا ساتھ دینے میں بخل سے کام نہیں لیا۔
  • افغانستان پر امریکی اتحاد کی فوج کشی اور طالبان حکومت کے جبری خاتمہ نے پاکستانی عوام کے دینی جذبات میں ہلچل پیدا کر دی تھی جس کا براہ راست فائدہ دینی جماعتوں کے اس متحدہ محاذ کو ہوا۔
  • مغرب کی فکری یلغار اور اسلامی اقدار کے خلاف مغربی لابیوں کی طوفانی پیش قدمی میں پاکستانی عوام یہ امید کر رہے تھے کہ اس کی روک تھام کے لیے متحدہ مجلس عمل کوئی بھرپور کردار ادا کر سکے گی۔
اس پس منظر میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے متحدہ مجلس عمل کا ساتھ دیا اور قومی اسمبلی اور سینٹ میں معقول نمائندگی کے ساتھ ساتھ صوبہ سرحد کی حکومت اور بلوچستان کی حکومت میں اشتراک ایم ایم اے کے حصے میں آیا جس سے عوام کو حوصلہ ہوا کہ ان کے امریکہ مخالف جذبات اور نفاذ اسلام کی خواہش کو اچھی ترجمانی میسر آ گئی ہے، لیکن متحدہ مجلس عمل اپنے پانچ سالہ دور میں عوام کی توقعات اور امیدوں کا ساتھ نہیں دے سکی۔ اس سلسلے میں معترضین کی شکایات کی فہرست طویل ہے، لیکن چند امور ان میں ایسے ہیں جن پر سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے:
  • باجوڑ کے دینی مدرسہ پر امریکی بمباری کے موقع پر ملک بھر کے دینی حلقے بجا طور پر یہ توقع کر رہے تھے کہ صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت اور متحدہ مجلس عمل کی قیادت عوام کی احتجاجی لہر کی قیادت کرے گی، مگر ایم ایم اے نے عوامی احتجاج کی قیادت پر اپنی حکومت کے تحفظ کو ترجیح دی جس سے دینی حلقوں کے جذبات کو دھچکا لگا۔
  • حدود آرڈیننس کے بارے میں وفاقی حکومت کے عزائم سب پر واضح تھے اور ا س نے حدود شرعیہ کا تیا پانچہ کر دیا، مگر متحدہ مجلس عمل کا کردار اس میں یہ رہا کہ نہ تو وہ خود اس سلسلے میں اپنے بلند بانگ دعووں کو عملی جامہ پہنا سکی اور نہ ہی اس نے اس کے لیے کوئی دوسرا احتجاجی فورم وجود میں آنے دیا، حتیٰ کہ ’’مجلس تحفظ حدود شرعیہ پاکستان‘‘ کے عنوان سے ایک احتجاجی فورم تشکیل پاتے پاتے رہ گیا اور اس کے تشکیل نہ پا سکنے کی بنیادی وجہ ایم ایم اے کی قیادت کا طرز عمل تھا۔
  • لال مسجد کے سانحہ میں بھی متحدہ مجلس عمل سے جس کردار کی توقع ملک کے عوام اور خاص طور پر دینی حلقے بجا طور پر رکھتے تھے، ایم ایم اے کی قیادت نے خود کو اس کردار سے دور رکھا۔ اس سلسلے میں عوامی جذبات اور احتجاج کی قیادت کرنا اور اسے صحیح رخ پر رکھتے ہوئے موثر بنانا بنیادی طور پر متحدہ مجلس عمل کی ذمہ داری تھی، لیکن ایم ایم اے کی قیادت کی ترجیحات میں یہ ذمہ داری اپنی جگہ نہ بنا سکی جس کا خمیازہ اپنے دائرے میں تھوڑا بہت کردار ادا کرنے والے وفاق المدارس العربیہ کو بھگتنا پڑا اور لوگوں کے جذبات کی شدت کا رخ اس کی طرف مڑ گیا حالانکہ کوئی احتجاجی تحریک سرے سے وفاق المدارس کے دائرۂ کار میں ہی شامل نہیں تھی اور نہ ہی یہ اس کی ذمہ داری بنتی تھی۔
  • متحدہ مجلس عمل کی قیادت سے لوگوں کو یہ توقع تھی کہ وہ اپنے دائرے میں ملک کے ان دیگر دینی حلقوں کو بھی شامل کرنے کا راستہ اختیار کرے گی جو دینی وملی مقاصد میں اس کا ساتھ دے سکتے ہیں اور اس طرح یہ متحدہ محاذ زیادہ موثر حیثیت حاصل کرے گا، لیکن ایم ایم اے سے باہر کے دینی حلقوں کو اعتماد میں لینے کی بجائے خود اس کے داخلی حلقوں کا باہمی اعتماد بھی مسلسل سکڑنے لگا جو پہلے دو جماعتوں (جمعیۃ علماے اسلام اور جماعت اسلامی) کے دائرے تک محدود ہوا اور پھر ان دونوں میں ایک دوسرے پر بالادستی حاصل کرنے کی کشمکش نے الیکشن سے قبل متحدہ مجلس عمل کا شیرازہ مکمل طور پربکھیر کر رکھ دیا۔ ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ اگر جمعیۃ علماے اسلام اور جماعت اسلامی ہی ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کی بجائے باہمی اعتماد کے ساتھ حالیہ الیکشن میں کوئی مشترکہ موقف اختیار کر لیتیں تو صورت حال اس قدر خراب نہ ہوتی۔
  • اس سب کچھ کے باوجود بلوچستان کی حد تک ہمیں یہ توقع تھی کہ جمعیۃ علماے اسلام ان انتخابات میں پہلے سے زیادہ اچھی پوزیشن حاصل کر لے گی اور متحدہ مجلس عمل کا صف اول کا سیاسی کردار باقی رہ جائے گا مگر وہاں بھی جمعیۃ علماے اسلام میں پیدا ہو جانے والے باہمی خلفشار پر حکمت عملی کے ساتھ قابو پانے کی بجائے دستوری موشگافیوں کو ترجیح دی گئی جس سے سیاسی عمل میں جمعیۃ کی مزید پیش رفت کا خواب بکھر کر رہ گیا۔
ان حالات میں متحدہ مجلس عمل کے گزشتہ پانچ سالہ سیاسی کردار پر ایک حد تک مایوسی کا اظہار کرنے کے باوجود بھی ہماری شدید خواہش ہے کہ ایم ایم اے کا فورم قائم رہے اور وہ مذکورہ بالا شکایات کا ازالہ کرتے ہوئے مستقبل کے سیاسی سفر میں باہمی اشتراک وتعاون کو جاری رکھنے کا اہتمام کرے۔
ہمیں متحدہ مجلس عمل سے یہ شکایت نہیں ہے کہ وہ اپنے حکومتی دائرے میں نفاذ اسلام کا اہتمام کیوں نہیں کرسکی، کیونکہ ہم بخوبی یہ بات سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومتی نیٹ ورک میں ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ہے جس کی تصدیق حسبہ بل کے ساتھ وفاقی دار الحکومت کی طرف سے روا رکھے جانے والے طرز عمل نے کر دی ہے، البتہ ہم اس شکایت کو بے جا نہیں سمجھتے کہ عوام کے دینی جذبات کی ترجمانی، دینی حلقوں کے درمیان مفاہمت وتعاون کو وسعت دینے اور ان کی احتجاجی قوت کو منظم واستعمال کرنے کے لیے متحدہ مجلس عمل جو کچھ کر سکتی تھی اور جو کچھ اسے کرنا چاہیے تھا، وہ نہیں ہوا اور متحدہ مجلس عمل کی پالیسی ترجیحات میں آہستہ آہستہ معروضی اور روایتی سیاست کا غلبہ ہوتا چلا گیا۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر متحدہ مجلس عمل اور دینی جماعتوں نے بھی معروضی سیاست ہی کو اوڑھنا بچھونا بنانا ہے تو اس کے لیے دوسری روایتی سیاسی جماعتیں ہی کافی ہیں اور وہ ان سے زیادہ اچھے انداز میں معروضی سیاست کے تقاضے پورے کر رہی ہیں۔ دینی جماعتوں کا اصل اور امتیازی کردار ہمارے نزدیک یہ ہے کہ وہ معروضی سیاست میں صرف اس حد تک ملوث ہوں جتنا نظریاتی اور دینی مقاصد کے لیے ناگزیر حد تک ضروری ہو۔ وہ اسے اساس بنا کر موجودہ عالمی اور قومی تناظر میں دینی اقدار کے تحفظ وفروغ اور نفاذ اسلام کے لیے پیش رفت کا راستہ نکالیں اور اس سلسلے میں عوامی احتجاج کی قیادت کریں۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر اب بھی متحدہ مجلس عمل کے قائدین ایک بار پھر مل بیٹھیں اور گزشتہ کوتاہیوں کا احساس وادراک کرتے ہوئے باہمی مفاہمت واعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے کا راستہ اختیار کر لیں تو بہت سی باتوں کی تلافی ہو سکتی ہے اور قومی سیاست میں دینی جماعتوں کے کردار کو موثر بنانے کے راستے نکل سکتے ہیں۔ خدا کرے کہ ہماری یہ گزارشات متحدہ مجلس عمل کے قائدین کے اذہان وقلوب تک رسائی حاصل کر پائیں اور دینی جدوجہد کے ازسرنو منظم ہونے کی کوئی صورت پیدا ہو جائے، آمین یا رب العالمین۔ 
(۲۳ فروری ۲۰۰۷)

معاصر اسلامی فکر کے اخلاقی چیلنجز

ڈاکٹر ابراہیم موسٰی

ترجمہ: وارث مظہری (مدیر ماہنامہ ترجمان دار العلوم، انڈیا)

(شاہ مراکش کی طرف سے اسلامی خطبات کے سالانہ سلسلے کے طور پر اکتوبر ۲۰۰۷ میں ’’فاس ‘‘ (مراکش) میں منعقد ہونے والے پروگرام میں پیش کیا گیا۔)

ہم نے اپنے اس مقالے کے لیے ’’معاصر اسلامی فکر کے اخلاقی تحدیات‘‘ کا عنوان منتخب کیا ہے، اس لیے کہ ہمارا یقین ہے کہ مسلمان اپنی ابتدا سے اکثر قوموں کے مقابلے میں اخلاق کی اہمیت سے زیادہ واقف اور متوارث اخلاقی ڈھانچے سے انحراف کے بارے میں زیادہ حساس رہے ہیں۔ تاہم جہاں تک قرآن کے پیش کردہ اور رسول اللہ کے قول و فعل سے ثابت اخلاقیات کے بروئے کار لائے جانے کا مسئلہ ہے، اس میں ہر زمانے میں شدید ترین دشواریاں پیش آتی رہی ہیں۔ ان دشواریوں کا تعلق ایک طرف احوال زمانہ اور اخلاقی نظریات کی عملی تشکیل سے رہا ہے تو دوسری طرف اجتہادی مساعی کے امکانات سے۔ چنانچہ میں اپنے اس محاضرے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو بنیاد بنانا چاہوں گا جو مختلف الفاظ و روایات کے ساتھ کتب حدیث میں وارد ہوئی ہے: ان الدین بدأ غریبا و یرجع غریبا فطوبی للغرباء الذین یصلحون ما افسد الناس من بعدی من سنتی (دین اپنی ابتدا میں اجنبی تھا۔ وہ اجنبی ہونے کی صورت میں ہی لوٹ جائے گا۔ اس لیے ان اجنبیوں کو خوش خبری ہو جو میرے بعد میری سنت میں پیدا کیے گئے بگاڑ کو درست کریں گے۔)
یہ حدیث بخاری و مسلم جیسی حدیث کی اساسی کتابوں میں وارد ہوئی ہے اور اس کے راوی اکابرین صحابہ ہیں جیسے عبداللہ بن عمر، ابو ہریرہ، عمر و بن عوف اور عبد اللہ بن مسعود وغیرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم)۔ ہم نے جن الفاظ کے ساتھ اس حدیث کو یہاں ذکر کیا ہے وہ اپنے آخری جز کے ساتھ ابوبکر بن العربی المالکی کی کتاب ’’عارضۃ الاحوذی‘‘ میں موجود ہے۔
اسلامی مفکرین پچھلی دو صدیوں سے فکر اسلامی اور سائنسی و تکنیکی ترقیات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اہم اور حیرت انگیز تبدیلیوں کے درمیان مصالحت اور ہم آہنگی کی کوششیں کرتے آرہے ہیں۔ وہ اپنی ان کوششوں میں اصولی دینی تعلیمات کی عملی تشکیل اور اس سے حاصل ہونے والے ایسے نتیجے کے درمیان حیران و سرگرداں رہے ہیں جس کے تحت انھیں پورا یقین حاصل ہو کہ اللہ کو مطلوب اس کامل و مکمل دین میں ایسی کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہوسکتی جو لوگوں کے حق میں ضروری اور مفید ہو۔ اس تعلق سے عالم اسلام کی سطح پر اجتہادی فکر رکھنے والے علما و مفکرین کے کہکشانی سلسلے کے جو چند نام اس وقت ذہن میں آرہے ہیں، ان میں رفاعہ رافع الطہطاوی،سر سید احمد خاں، شبلی نعمانی، مفتی محمد عبدہ، طاہربن عاشور اور علال فاسی وغیرہ ہیں۔ ان مفکرین کی زیادہ کوششیں اس بات پر مرکوز رہیں کہ تجدد(Modernity) اور روایت (Tradition) کے درمیان ایک قسم کی موافقت اور ہم آہنگی سامنے آجائے۔ ان مفکرین کی غالب سوچ یہ تھی کہ روشن خیالی کے بعد کی فکر (Post-enlightment thought) اور فکر اسلامی (Islamic thought)کے درمیان مشترک عنصر ’عقل‘ ہے۔ چنانچہ ان کی نظر میں اسلامی اور مغربی دونوں فکر عقل اور تعقل پسندی (Rationalism) کو ہی اپنی مشترک اساس بناتے ہیں۔ اس زمرے میں مشہور فلسفی شاعر محمد اقبال (وفات:۱۹۳۸) کا بھی نام آتا ہے جنھیں تجدد اور اس کے وظائف کے ساتھ فکری تعامل برتنے کی حقیقی قدرت حاصل تھی۔ چنانچہ تجدد پسندی اقبال کی نظر میں محض ایک ایسی تہذیب کا ہی نام نہیں جس کی تاسیس عقل پر ہوئی ہو، اس لیے کہ سائنسی اکتشافات اور تیز رفتار فنیاتی ارتقا نے موجودہ اور خیالی زندگی کے مختلف جدید طریقے ایجاد کیے ہیں۔ جدید طریقے خود روز مرہ زندگی سے بھی تعلق رکھتے ہیں، جن کی بنا پر انسان کا ماضی اور ماضی کے اعمال اور سرگرمیوں سے رشتہ منقطع ہوگیا ہے۔ 
تجدد پسندی نے موجودہ زمانے میں فرد کے معاشرتی تخیل (Social imaginary) میں نہایت اہم اور بنیادی قسم کی تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں۔ ہم اس جگہ Social imaginary کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے ذریعے ہم ان غیر شعوری مفہومات کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جو فرد کے ذہن پر چھائے ہوئے ہیں اور اس کی اپنی ثقافت اور اس زمانے کے مطابق جس میں وہ زندگی گزار رہا ہے، اس کے افکار کی تشکیل کرتے ہیں۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ تجدد پسندی نے ہر چیز کی دوبارہ نئی ترتیب قائم کی ہے، جس میں فرد اور اجتماع کے نزدیک معاشرتی تخیل بھی شامل ہے۔ گویا اس طرح تجدد پسندی نے کائنات کے ساتھ انسان کے تعلق اور سیاست و حکمرانی کے تعلق سے اس کے مفاہیم کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ نیز فرد اور خاندان سے متعلق بہت سے مسلمات میں بھی زبردست تبدیلیاں پیدا کردی ہیں، اس لیے کہ سائنس اور ٹکنالوجی نے فضائی اور فطری سرحدوں پر کمندیں ڈال دی ہیں۔ جس کے نتیجے میں خود انسان کے اندرون سے تعلق رکھنے والی نئی دریافتیں سامنے آئی ہیں۔
تجدد پسندی کے سیاق میں علوم و افکار کے نتائج کے سامنے آنے کے ساتھ جو اہم تبدیلیاں پیدا ہوئیں، ان میں دینی قدر کی باز شناسی (re-evaluation) بھی شامل ہے۔ چنانچہ تجدد پسندی کے سیکولر تصور کے تحت دین کو ایک دوسرے سیاق میں لاکر بحث و گفتگو کا موضوع بنا دیا گیا۔ بعض لوگوں نے یہ کوشش کی کہ اسے صرف فر دکی زندگی تک خاص اور محدود کردیا جائے۔ جہاں تک مسلم مفکرین کی بات ہے، حقیقت یہ ہے کہ ان کی اکثریت کے نزدیک تجدد پسندی کی تعبیر جامع اور ہمہ گیر نہ تھی، اس لیے کہ انھوں نے خاص و عام کی زندگی جن میں سیاسی زندگی بھی شامل ہے کے تعلق سے عقل و دین کے دو مسئلوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھی اور اس اعتبار سے ان مسئلوں کو روایتی اسلامی فکر کے لیے انھوں نے چیلنج سمجھا۔ اگرچہ ایسا سمجھنا پوری طرح غلط نہیں، تاہم وہ قضیے کے تمام تر پہلوؤں کا احاطہ نہیں کرتے۔ چنانچہ مسلم مفکرین نے تجدد پسندی کی خامیوں اور خوبیوں سے خوب خوب بحثیں کیں، جن کی تفصیلات تو کجا ان کے اہم محوروں پر بھی روشنی ڈالنا اس وقت ممکن نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تجدد پسندی نے مسلمانوں کی زندگی کے اکثر شعبوں میں زبردست اثرات قائم کیے جو سائنس سے شروع ہوکر صحت، اقتصاد، اجتماعی تنظیم کے ساتھ خاندان اور فرد کے مفاہیم کا احاطہ کرتی ہے۔ تاہم اس سلسلے کی اصل مشکل یہ ہے کہ بعض اسلامی مفکرین اس بات پر اصرار کرتے آرہے ہیں کہ اسلام جدت یا تجدد پسندی کے معارض ہے۔ یہ ان کی نظر میں ایک طرح سے اسلام کے تحفظ کی شکل ہے۔ حالانکہ حقیقت میں اکثر حالات میں وہ محض اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ سے آگے کچھ بھی نہیں۔ حقیقتاً تجدد پسندی اپنے تمام تر عناصر کے ساتھ انسانی زندگی پر پوری طرح حاوی و غالب ہے۔ اکثر اوقات لوگوں کے شعور بلکہ ان کی امیدوں و آرزوؤں اور زندگی کی مجبوریوں کے درمیان ایک قسم کا تضاد اور تناقض (Paradox) پایا جاتا ہے۔
بہت سے اسلامی معاشروں میں ایسے دینی حلقے پائے جاتے ہیں جنھیں تجدد پسندی سے مزاحمت کی اپنی خیالی قدرت پر فخر ہے حالانکہ حقیقت میں ان حلقوں کی یہ حرکت جدید سماجی تصور کے ریلے کے تعلق سے اپنے سر کو مکمل تجاہل کے ساتھ شترمرغ کی طرح ریت میں چھپانے کے مترادف ہے۔ بعض لوگ اسے امر محمود بلکہ ضروری امر تصور کرتے ہیں۔ حالاں کہ اگر اسلام کے دور زریں میں پائی جانے والی اسلامی فکر کو سامنے رکھ کر دیکھیں کہ اسے کس طرح فراریت اور داخلی سکڑاؤ کے بجائے اپنے زمانے کا فہم، نئے پیش آمدہ مسائل اور چیلنجوں کے حل کی دریافت کے ساتھ ان کے ساتھ تعامل کی قدرت حاصل تھی، تو موجودہ دور کے مسلم مفکرین کا یہ رویہ ایک قسم کی فکری پسپائی نظر آتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جدید علوم اور ایک حد تک انسانی اور اجتماعی علوم ہی ان اجتماعی آفاق کی طرف لے جاتے ہیں، جن سے صحت، زراعتی طریقے یہاں تک کہ کھانے پینے کے تعلق سے بھی ہم روزانہ گزرتے اور محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ جدید علوم اپنی شکل میں کامل اور اٹل ہیں وہ مستقل ارتقا اور تغیرات کی راہوں سے گزر رہے ہیں، انھیں جن ثقافتوں سے واسطہ پڑتا ہے وہ ان سے متاثر ہوتے ہیں اور اس طرح تجدد پسندی پر بھی وہ اپنی خصوصیات کی نئی چھاپ قائم کر رہے ہیں۔ اس طرح ایک متعین فہم کے ساتھ مصالحت میں ان اجتماعی تصورات (Social imaginaries) کی ناکامی موجودہ دور کے مسلمانوں کی زندگی میں کمزور نقطے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ اگر روایتی اسلامی فکر جدید علوم کے ساتھ تعامل برت سکے تو اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ ایک نتیجہ خیز اور خلاقیت سے بھرپور چیز وجود میں آجائے۔
یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ تمام اسلامی ممالک میں ایسے علما و مفکرین موجود ہیں جو ان دونوں ثقافتوں کے درمیان مصالحت کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم حقیقت میں ان کی کوششیں اب تک ایسے جزیروں میں بند ہیں، جن کا کوئی اثر ان اہم مراکز اور اداروں تک نہیں پہنچ سکا ہے، جو عمومی اور عالمی سطح پر اپنے افکار کی تشکیل کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی کتاب ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ (Reconstruction of Religious Thought in Islam) میں بیسویں صدی کے رُبع اول میں لکھا تھا:
’’وہ روحانی نظامات جن پر جامد اور مردہ مابعد الطبعیاتی اصطلاحات کی پرت پری ہوئی ہے کسی مختلف فکری پس منظر رکھنے والے شخص کو مطلقاً کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ ایسے میں دور حاضر کے مسلمانوں کی ذمے داری دو چند ہوجاتی ہے۔ ان کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ ماضی سے اپنا رشتہ بحال رکھتے ہوئے، اسلام کے پورے نظام میں غور و فکر کریں۔ شاید شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (وفات:۱۷۶۲) وہ پہلے مسلم مفکر ہیں جنھوں نے نئی اسپرٹ کی ضروت کو محسوس کیا۔ ان کے بعد جمال الدین افغانی کا نام آتا ہے۔ اس لیے ہمارے سامنے واحد کشادہ راستہ یہ ہے کہ ہم ایک مستقل، اسی کے ساتھ غیر جانب دار موقف کے ساتھ علوم عصریہ پر متوجہ ہوں اور ان علوم کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کو پہچاننے کی کوشش کریں، خواہ اپنے پیش روؤں کے ساتھ اختلافات سے کام لینا پڑے۔‘‘ (ص:۹۷)
اقبال کی یہ دقیق تشخیص آج بھی اتنی ہی صحیح ہے جتنی وہ کل تھی۔ اپنے اس جملے ’’نظام اسلامی میں نئے سرے سے غور و فکر‘‘ سے اقبال کی جو مراد ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم علم کے اس فریم ورک اور بنیادی ساخت میں جس کا تعلق دینی فکر کے ساتھ معاملت سے ہے، اس انداز میں نئے سرے سے غور و فکر کریں جو ہمارے اجتماعی تصور کے اُس ڈھانچے اور ذہنی و خیالی پیکر کے مطابق ہو جو ہماری معاصر زندگی کی تشکیل کرتا ہے۔ اس کے برعکس یہ اجتماعی تصور ان لوگوں کے ذہنوں کے مطابق نہ ہو، جو ہم سے صدیوں قبل اس دنیا سے گزر چکے ہیں۔
اس لیے وہ اخلاقی چیلنج جس سے متعلق ہم یہاں گفتگو کر رہے ہیں، اس کا تعلق علم و معرفت کی پیداوار اور دینی و اسلامی فکر میں اس کی اہمیت سے ہے۔ اہل فلسفہ اسے ’’علمیاتی مشکل‘‘ (Epistemological problem) سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ بہت سے تعلیمی اداروں جیسے جامعات، دینی مدارس و مکاتب پر جہاں دینی افکار کی تشکیل و تدوین ہوتی ہے، اثر انداز ہوتے ہیں، عالم اسلامی میں ایسی جگہیں بہت کم ہی ہیں جہاں روایتی دینی علوم جیسے تفسیر، حدیث، کلام، فقہ، اصولِ فقہ کے ساتھ عمرانیات، انسانیات، نفسیات اور تاریخ جیسے علوم کے درمیان سنجیدہ اور موثر ’ڈائیلاگ‘ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہو۔ یہاں ’ڈائیلاگ‘ سے ہماری مراد جدید علوم کے درمیان سنجیدہ تعامل سے ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم مسلمانوں کے جدید و معاصر حالات کا دینی علوم سے نئے سرے سے ربط قائم کریں۔ اگر ایسا نہ ہوسکا تو دینی علوم عقائد و اعمال کے مسئلے میں اپنی بعض ایسی دخل اندازیوں پر قائم رہیں گے جو عصر حاضر کے سیاق سے ہٹی ہوئی ہیں اور اس طرح ان کے ذریعہ دین و دنیا کے درمیان علاحدگی اور انفصال کو تقویت ملتی رہے گی۔ ان دونوں بُعدوں دین و دنیا کے درمیان ناہم آہنگی نے مسلمانوں خصوصاً نوجوان طبقے کے اندر فکری پراگندگی کو جنم دیا ہے۔ اس مشکل کا حل اس بات کا متقاضی ہے کہ دینی تعلیم کے طریقۂ کار اور مشتملات دونوں کی تجدید کی جائے ۔ نوجوانوں کا طبقہ اس وقت داخلی کشمکش سے دوچار ہے۔ وہ یہ احساس رکھتا ہے کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں دین کے معیاری تقاضوں کے مطابق زندگی بسر نہیں کر پا رہا ہے اور اس طرح وہ ایک طرح کے شدید ترین احساسِ گناہ میں مبتلا ہے۔ کیوں کہ جدید تعلیم کو اب تک ایک معارض ثقافت کی دخل اندازی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ 
گزشتہ دو سالوں کے درمیان خاص طور پر ہندوستان و پاکستان کے متعدد مدارس کے اہم ذمہ داروں سے ہماری ملاقاتیں ہوئیں، جن سے ہمارے اندر یہ احساس پختہ ہوا کہ ان ممالک کے علما پر ہنوز یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فکر اسلامی کے سیاق میں جدید علوم اور ان کے منہاجات سے تعلق رکھنے والی مشکلات کو حل کریں۔ اس تعلق سے علمی و اسلامی حلقوں میں جو کنفیوژن پایا جاتا ہے، اس نے نوجوانوں کے اذہان میں جدید علوم کے تئیں دوہرا رویہ پیدا کردیا ہے ۔ یعنی ایک ہی وقت میں وہ ان سے شغف بھی رکھتے ہیں اور انھیں ناپسند بھی کرتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر ایک زبردست فکری اور اکیڈمک گراوٹ ان حلقوں میں دیکھنے کو مل رہی ہے اور عمومی سطح پر معاشرے پر اس کے نہایت منفی اثرات قائم ہو رہے ہیں۔ چنانچہ بہت سے نوجوان دنیوی علوم کی طرف متوجہ ہو ئے ہیں۔ وہ اس میں کامیاب بھی ہیں لیکن دین کے ساتھ ان کا صحیح تعامل نہیں ہو پاتا۔ دوسری طرف وہ طبقہ یا جماعت جو دینی امور کی انجام دہی کے ساتھ عصری علوم کے حصول کی طرف متوجہ ہو رہی ہے، اس کی شدت پسند دینی حلقوں کی طرف سے مذمت کی جاتی ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی تخلیقی کارکردگی نصف تک بھی نہیں پہنچ پاتی، اس لیے کہ وہ اپنی تعلیم اور مطالعے میں جوش اور مکمل آمادگی کے ساتھ حصہ نہیں لے پاتے اور اکثر یہ خیال انھیں کچوکے لگاتا رہتاہے کہ ان کا ڈاکٹر، انجینئر، یا بزنس مینیجر ہونا کچھ بھی قیمت نہیں رکھتا۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی دنیا دین سے دور اور علیحدہ ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ہم دنیوی علوم کو اس حیثیت سے دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں کہ وہ مادیت اور دنیوی مال و متاع کے پیچھے دوڑ لگانے کا نام ہے۔جیسے مادی منافع کا حصول اسلام میں حرام ہو۔ حالانکہ مادیت پسندی دراصل اس کا نام ہے کہ انسان خدا کو بھول کر متاع دنیا کے پیچھے اس طرح پڑ جائے جس میں پوری انسانیت کا نقصان ہو۔ جبکہ متوسط طبقہ دنیا کے حصول کو دینی مقاصد کے حصول کا وسیلہ تصور کرتا ہے۔دوسرے لفظوں میں صرف دینی مقصد کی خاطر ہی کوشش و عمل کو صحیح تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن آپ ذرا اس المیے پر غور فرمائیں کہ کروڑوں مسلمان جو اپنے اوقات کا بڑاحصہ اس طرح کے بظاہر دنیوی کاموں میں خرچ کرتے ہیں، وہ اپنے ان کاموں کو دین و اخلاق کا جز تصور نہیں کرتے۔ اسلامی معاشروں میں دین و دنیا کے درمیان اس نوع کی تفریق کا نظریہ اسلامی معاشروں کے فروغ و ارتقا میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔
اقبال نے اس دینی و دنیوی یا مقدس اور ناپاک کے درمیان علاحدگی برتے جانے سے متعلق بصیرت کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اقبال کی بات کا اسلامی حلقوں پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوا۔ اقبال ’’تشکیل جدید‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’روحانی اور مادی میدان الگ الگ نہیں ہیں، کوئی عمل اپنے ظاہر کے اعتبار سے خواہ کتنا ہی دنیوی کیوں نہ ہو، اس کی حقیقت کا دار و مدار اس عمل کے انجام دینے والے کے ذہن اور نیت پر ہوتا ہے۔ غیر مرئی ذہن اور پس منظر (نیت) ہی وہ چیز ہے جو متعلقہ عمل کی حقیقت کو متعین کرتا ہے۔ کوئی عمل اگر کائنات کے ساتھ مضبوط اور قیمتی ولامتناہی رابطے سے ہٹ کر انجام دیا جائے تو وہ بلاشبہ مادی اور دنیاوی ہوگا اور اگر وہ اس لامتناہی ربط سے جڑا ہوا اور اس میں پیوست ہوگا تو یقیناًروحانی ہوگا۔‘‘
ماضی کے مفکرین کی ایک بڑی تعداد نیز حال کے بعض مفکرین نے اس حقیقت کو واحد اور قطعی حقیقت کے طور پر سمجھا کہ جس میں کسی تقسیم کی گنجائش نہیں۔ ابو حامد الغزالی نے مثال کے طور پر ایک قضیہ کی حیثیت سے اس بات کا ادراک کیا کہ ان کے زمانے میں فقہ و اخلاق سے تعلق رکھنے والے اعمال ومشاغل کی صورت حال بگڑ چکی ہے۔ فقہ سے تقویٰ کی روح نکل چکی ہے۔ جب کہ اسلام کے ابتدائی عہد میں یہ اخروی نجات کی طرف رہنمائی کرنے والا علم تھا۔ اس طرح فقہ کوئی ایسا محفوظ اور پاکیزہ شعبۂ علم نہیں جو سراسر تقویٰ اور للہیت پر مبنی ہو بلکہ وہ ایک ایسامنہج ہے جو علم آخرت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔حقیقت میں آخرت کی نجات دنیا میں اخلاقی اعمال سے وابستہ ہے۔ سورہ توبہ میں اللہ کا ارشاد ہے:
وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُواْ کَآفَّۃً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُونَ. (التوبۃ: ۱۲۲)
’’اور مسلمانوں کو یہ نہیں چاہیے کہ وہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں۔ سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وہ ڈر جائیں۔‘‘ 
اسی لیے غزالی کا خیال ہے کہ انسان کے اندر تدین یا اللہ کی خشیت اور اس کی تعظیم کا احساس اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ وہ اس بنیا دپر فقہ کا علم حاصل کرنے والا ہو کہ یہ علم دنیا و آخرت میں اس کی رہنمائی اور نجات کا ضامن ہے۔ فقہ اپنی روح کے اعتبار سے نکاح و طلاق اور خرید و فروخت وغیرہ کی تفصیلات پر ہی مبنی اور مرکوز نہیں۔ غزالی کے نزدیک دین کا اصل جوہر اس بات میں مضمر ہے کہ ہم اپنے تمام اعمال اور سرگرمیوں کے اخلاقی ابعاد (Dimentions) کا ادراک کریں اور یہ جانیں کہ دنیا و دین ایک دوسرے کے لیے معاون ہیں۔
اندلسی فقیہ ابو الولید ابن رشد نے اپنی مشہور و متداول کتاب ’’بدایۃ المجتہد‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :
’’ شرعی احکام کی دو قسمیں ہیں ایک قسم وہ ہے جس کا حکام اور قضاۃ فیصلہ کرتے ہیں اور دوسری قسم وہ ہے جس کا قضاۃ (و حکام) فیصلہ نہیں کرتے اور وہ مستحب احکام کے ضمن میں آتے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر کا تعلق اخلاق سے ہے لیکن اپنی اہمیت میں وہ کسی بھی طرح احکام سے کم نہیں۔‘‘
پھر ابن رشد اس کی تشریح کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ سلوک سے متعلق سنتوں ، جنھیں انھوں نے ’’السنن المشروعۃ العملیۃ‘‘ کا نام دیا ہے، کی ایک ہی غرض یا مقصد ہے اور وہ فرد کے اندر ’’فضیلت‘‘ (الفضیلۃ) پیدا کرنا ہے، اسے انھوں نے ’’الفضائل النفسانیۃ‘‘ کا نام دیا ہے۔ پھر عبادات کے شعائر کو ابن رشد نے کریمانہ اعمال کے طور پر اخلاق کے ضمن میں رکھتے ہوئے ’’السنن الکرامیۃ‘‘ کا نام دیا ہے جو عفت کی فاضلانہ صفت (فضیلۃ العفۃ) پر مبنی ہے، اورجو قبیح عادات سے اجتناب کا نام ہے۔ اس کے بعد ’’عدل‘‘ (العدل)، شجاعۃ (الشجاعۃ) اور سخاوت (السخاء) کا نمبر آتا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ دین کی حقیقت اور اس کا جوہر ان چار فضائل میں منحصر ہے۔ جن کا اختیار کرنا فرد کے لیے لازمی ہے۔ تاکہ وہ معاشرے میں ایک ذمہ دار اور کج روی و انحراف سے پاک شخصیت کا کردار ادا کرسکے۔
ابن رشد سے ہی ملتی جلتی بات شاہ ولی اللہ دہلوی علیہ الرحمہ نے فرمائی ہے۔ اپنی مشہور کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں وہ لکھتے ہیں کہ:
’’اصول اخلاق چار ہیں: طہارت (الطہارۃ) اخبات (الاخبات)، سماحت نفس (سماحۃ النفس) اور عدالت (العدا لۃ) اس کی شرح وہ اس طرح کرتے ہیں کہ: پہلی چیز ’’طہارت‘‘ ہے اس لیے کہ وہ انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ ملائکہ کی مشابہت اختیار کرسکے۔ دوسری چیز ’’اخبات‘‘ (خشوع و تواضع) ہے۔ اس لیے کہ وہ انسان کو اللہ سے قریب کرتی ہے۔ اور اس لائق بناتی ہے کہ وہ ۔ان کی تعبیر میں۔ جبروت کا مشاہدہ کرنے والا بن جاتا ہے۔ تیسری چیز ’’سماحت نفس‘‘ ہے، جس کے ذریعے انسان اپنے ملکوتی صفت پر غلبے کو یقینی بناتا ہے۔ چوتھی چیز عدالت ہے اور وہ کسی ایسے نظام کو چلانے کی قدرت کا نام ہے جو حیات خاصہ کے حق میں ہو اور اسی کے ساتھ حیات عامہ سے تعلق رکھنے والے امور کا بھی انتظام و انصرام کرنے والا ہو۔ ان کے الفاظ میں: ھی ملکۃ یصدر منھا اقامۃ النظام العادل المصلح فی تدبیر المنزل و سیاسۃ المدنیۃ  (یہ ایسے ملکہ کا نام ہے کہ جس کے ذریعے ایسا عادل نظام قائم ہوتا ہے جو تدبیر منزل اور سیاست مدنیہ میں اصلاح کرنے والا ہو۔ (شاہ ولی اللہ: حجۃ اللہ البالغہ : ۱۸۴-۱۸۷)
اس تفصیل کے بعد میں یہاں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمارا مقصد ابن رشد اور شاہ ولی اللہ دہلوی کے بیان کردہ فضائل کے مابین تقابل کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ قدیم مسلم مفکرین اخلاق کو مسلمانوں کی زندگی کی اساس تصور کرتے تھے۔ چناں چہ ابن رشد اگرچہ ایک فلسفی اور فقیہ تھے اور ان کے اور شاہ ولی اللہ دہلوی، جو ایک عالم وصوفی تھے، کے زمانے کے درمیان پانچ صدیوں کا فاصلہ ہے۔ اول اندلسی اور ثانی ہندی ہیں، تاہم وہ اور اس طرح کے دوسرے بہت سے ہمارے علما دین کی روح کو اخلاق کے تناظر میں دیکھتے تھے۔ اس لیے کہ اگر دینی اعمال اس سے قاصر رہ جاتے ہیں کہ وہ متعلقہ افراد اور جماعتوں کے اندر اخلاقی شعور و احساس کو ابھار سکیں تو اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوگا کہ اسلامی تصور (Concept) اور عمل (Practice) میں زبردست خلل پایا جاتا ہے۔
اخلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ زندگی میں ایک اہم مشروع کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا: انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق  (میں اس لیے مبعوث کیا گیا ہوں کہ مکارم اخلاق کی تکمیل کروں) قرآن میں اس مشروع کا اثبات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے ان لفظوں میں کیا گیا ہے: انک لعلی خلق عظیم (آپ عظیم اخلاق سے متصف ہیں۔ ۶:۶۸)
آئیے ہم ان اعلیٰ اخلاقی مفاہیم و اقدار کا موازنہ ان اعمال اور سرگرمیوں سے کریں جو اسلام کے نام پر مسلمانوں کی طرف سے انجام دی جا رہی ہیں اور جن کی بنیادوں پر دنیا میں مسلمانوں کی عزت خاک میں مل رہی ہے اور ان کی شبیہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا تعلق غیر مسلموں کی عداوت سے نہیں ہے۔ یہ خود مسلمانوں کے اپنے غلط اعمال بلکہ اسلام اور اس کی اقدار کو پامال کردینے والی حرکتوں کا طبعی نتیجہ ہے۔ ایسے بہت سے لوگ جو دین و سیاست کے تعلق سے خود کو مسلمانوں کا رہنما اور ترجمان تصور کرتے ہیں ان کی طرف سے ان اعلیٰ اخلاقی اصولوں کی پامالی کو جنھیں ابن رشد اور شاہ ولی اللہ دہلوی علیہ الرحمہ نے مستنبط کیا تھا (جن کی وضاحت اوپر کی گئی) دیکھ کر ان کی کوتاہ فکری پر عقل حیرت میں ڈوب جاتی ہے کہ ایں چہ بو العجبی ست۔ مثال کے طور پر مسلم خواتین کے معاملے میں مسلمانوں پر ہمیشہ اعتراض کیا جاتا رہا ہے۔ ہم غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ ہم نے خواتین کے تعلق سے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ ان کے حق میں اخلاقی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔ اگر ایسا نہیں تو پھر بہت سے اسلامی ملکوں میں مسلم عورتوں کو ازدواجی معاملات میں توہین آمیز اور ناشائستہ سلوک سے کیوں دوچار ہونا پڑ رہا ہے؟آخر بعض اسلامی معاشروں میں عورتوں کی عزت و عفت کو پامال کردینے والے جرائم سے چشم پوشی کیوں کی جا رہی ہے؟ اس سیاق میں ان مثبت اور جرأت مندانہ اصلاحات کی گونج مغرب اور اسلامی دنیا دونوں میں سنائی دے رہی ہے۔ 
ہر شہری کا یہ حق ہے کہ ان کے ان حقوق کی حفاظت کی جائے جن کی پامالی کا امکان ہے۔ لیکن اکثر اسلامی ملکوں میں ان عادلانہ مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جو وسائل استعمال کیے جاتے ہیں وہ اکثر اوقات ان مقاصد سے میل نہیں کھاتے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ’’الغایۃ تبرر الوسیلۃ‘‘ (مقصد طریقہ کار کو جواز عطا کرتا ہے) کا اصول یا شعار اسلامی اخلاق کی روح سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اسلامی اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ عادلانہ مقاصد کے لیے عادلانہ طریقہ ہائے کار اختیار کیے جائیں۔ اس تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو مثال کے طور پر خود کش حملوں کا طریقہ اسلام کے اعلیٰ اقدار کی بالکلیہ مسخ کاری ہے۔ حیرت اور افسوس کی بات ہر اعتبار سے یہ ہے کہ اس طرح کے نہایت درجہ قبیح اعمال کو فقہی حیلوں اور حوالوں سے جائز ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ معرکۂ کارزار میں نبرد آزمائی اور شجاعت کا جوہر دکھانا اور بات ہے۔ خاص طور پر وہ معرکے جو وقار اور قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے ہوں، لیکن ایسے ضروری اور دفاعی معرکوں میں بھی اخلاقیات سے دست کش ہوجانا کسی بھی طور پر صحیح نہیں ہے، کجا کہ پوری دنیا کو میدان جنگ تصور کرلیا جائے اور پوری انسانیت کو اپنے غضب و انتقام کا ہدف بنالیا جائے۔ یہ حد درجہ خوفناک اور شیطانی فعل ہے۔ اسی نوع کی فقہ سے امام غزالی نے لوگوں کو ہوشیار و خبردار کیا ہے۔ چناں چہ وہ دین کے فہم میں خارجی احوال یعنی ’’فقہ باطن‘‘ کو نظر انداز کرتے ہوئے ’’فقہ ظاہر‘‘ پر ارتکاز سے منع فرماتے ہیں۔ خاص طور پر جب کہ فقہ ظاہر رحمت، عدل، طہارت اور وہ تمام فضائل جن کا ذکر پچھلی سطور میں کیا گیا، کو بروئے کار لانے سے قاصر ہو۔ 
یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی ایک تعداد ضمنی طور پر بسا اوقات نہ صرف تشدد کے اس نوع کے واقعات کی موافقت کرتی ہے بلکہ اس طرح کے رجحانات نے بہت سے اسلامی معاشروں کو ایک قسم کی گھٹن میں مبتلا کردیا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بہت سے منکرات کو معروفات اور معروفات کو منکرات کا جامہ پہنا دیا گیا ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ ان اعمال اور طریقوں کا دوبارہ احیا کیا جائے جنھیں ہم بھول یا بھلا چکے ہیں۔ یعنی وہ اعمال اور فضائل جن کی اپنے اپنے زمانوں میں غزالی، ابن رشد، اور شاہ ولی اللہ دہلوی علیہم الرحمہ اور دوسرے بہت سے اصحاب ہمت و شجاعت نے لوگوں کو ترغیب دی تھی اور جن سے ہمارا وسیع علمی تاریخی ورثہ مالا مال ہے۔لیکن آج کے دور میں اس طرح کے اصحاب ہمت نہایت کم نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ان مسائل سے متعلق بالکل چپ سادھ رکھی ہے۔ اگر وہ اپنی زبان کھولتے ہیں اور اس طرح کے شاذ و منحرف افعال کی مذمت کرتے ہیں تو ان کی حیثیت حدیث میں مذکور ’’غربا‘‘ جیسی ہوتی ہے۔
امام غزالی نے اس امر (اخلاقی انحراف) سے متعلق اپنے زمانے میں جو کچھ لکھا ہے، اس کا مطالعہ کرنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے انھوں نے یہ باتیں ہمارے زمانے کے تعلق سے لکھی ہوں۔ اگر ہم دین کے ظاہری امور پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ وہ پوری طرح فروغ پارہے ہیں کیوں کہ ان کے وسائل موجود ہیں۔ اسی طرح عبادات پر کافی زور دیا جا رہا ہے لیکن اگر رسالت محمدی کی روح پر نظر ڈالی جائے جو پوری انسانیت کی نجات کے لیے آئیتھی، خاص طور پر اسلامی اخلاق جنھیں دوسری قوموں کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے، تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دین کو داخل و خارج سے درپیش مختلف قسم کے خطرات اور چیلنجوں نے عجیب و غریب چیز بنا دیا ہے۔ ضرورت ایسے مصلحین کی ہے کہ جو لوگوں کے بگاڑ اور فساد کی اصلاح کرسکیں۔ابن بیہ (عربی اسلامی قلم کار)نے بالکل صحیح طور پر ان مصلحین غربا کو قرآن میں ذکر کردہ ’’اولو بقیہ‘‘ میں شمار کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا کہ : اسلام اپنی ابتدا میں غریب تھا اور اخیر میں پھر غریب ہو جائے گا۔ آپ سے سوال کیا گیا کہ غربا کون لوگ ہیں؟ آپ نے جواب دیا: غربا وہ لوگ ہیں جو میری سنت میں لوگوں کے پیدا بگاڑ کی اصلاح کرنے والے ہیں اور میری سنت کے اس حصے کو جسے لوگوں نے ترک کر دیا ہے، زندہ کرنے والے ہیں۔‘‘
اسلامی تناظر میں اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ خالص اسلامی معیار کے مطابق اسلامی اقدار پر ایک نیا اجماع منعقد ہو۔ ضروری ہے کہ مسلمانوں کے درمیان آپس میں ایک قسم کا اجتماعی اخلاقی عہد (Collective Moral Consensus) اور مسلمانوں اور سول سوسائٹیز کے درمیان ایک لازمی رشتہ قائم ہو۔ اس کے لیے مسلم دانش وران اور علما کو سامنے آنے کی ضرورت ہے۔ وہی اس بات کے اہل ہیں کہ تعلیم و ابلاغ کے ذرائع سے عام لوگوں کے درمیان اس کی تبلیغ و توضیح کریں۔ ایسے مستقبل کے لیے جس میں مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود مضمر ہے، ان علما اور دانش وروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس اخلاقی عہد کی اہمیت کو واضح اور مدلل کریں۔ اس نوع کے پروجیکٹ کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ہماری نئی نسلیں ان اعلیٰ اخلاقی اقدار سے بہرہ ور ہوں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے جیسے: عفت، طہارت، سماحتِ نفس اور عدالت۔
موجودہ دور میں ہم پر مزید یہ ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ہم ان اقدار کی فہرست میں نئی قدروں کا اضافہ یا ان کی تخصیص کریں۔ ایسی کئی قدریں میرے ذہن میں اس وقت آرہی ہیں لیکن میں یہاں خصوصیت کے ساتھ دو قدروں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ پہلی قدر تکثیریت و تنوع یا دوسرے لفظوں میں رواداری ہے۔ چنانچہ عام شعبوں اور خاص طور پر ارباب دانش کے تعلق سے ضروری ہے کہ تکثیریت ہمارے معاشرے کا ایک اہم جز بن جائے کیونکہ حق تو یقیناًایک ہے لیکن اس کی تجلیات متعدد ہیں۔ حق مطلق کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ جب کہ ہماری حقیقت کی قدر شناسی علمی اور نسبتی ہے۔ ہم جب کسی چیز سے متعلق یہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس کا قطعی علم ہے تو اس وقت علمی زاویے سے اس سے متعلق گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ آخری سطح پر اشیا کی حقیقت کا علم ہمیں مستقبل میں ہوگا۔ اس لیے کہ ہم انسان ہیں اور کسی چیز سے متعلق ہمارا حکم لگانا کامل نہیں ہوسکتا۔ اس طرح ہمارے حکم لگانے میں غلطیوں کا صدور ہوگا اور ہمارا اجتہاد خواہ کتنی ہی دقت رسی پر مبنی ہو، اس میں کوتاہی کا دخل ہوگا۔ اور صحیح نیت کے ساتھ حق کی تلاش و جستجو میں غلطی کرجانا اسلام میں کبھی حرام نہیں سمجھا گیا۔ بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یعنی اس کے لیے اللہ کی طرف سے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اگر ہم نے راہ حق میں فکری کوشش کی اور ہم نے مطلوبہ حق کو پالیا تو ہمارے لیے دو اجر ہیں جب کہ اگر ہم سے خطا کا صدور ہوا تب بھی ہمارے لیے ایک اجر کا وعدہ ہے۔ اس طرح داخلی سطح پر مسلمانوں کے اندر تکثیریت کا پایا جانا خدا کی رحمت و قوت کی نشانی ہے۔حدیث میں امت کے اختلاف کو رحمت کہا گیا ہے نہ کہ باعث نزاع و جدال۔ اختلاف اور تعدد عمومی سطح پر کائنات کے مزاج، قانون اور اللہ کی سنت سے ہم آہنگ ہے۔
دوسری اہم قدر اختلاف کے حل کے لیے ہمارا تشدد کے راستے کو اختیار کرنا ہے۔ تشدد ہمارے معاشرے کا مزمن مرض بن چکا ہے جو ہماری صلاحیتوں کو گھن کی طرح کھائے جا رہا ہے۔ اس سے ہماری ترقی و خوشحالی کے راستے میں رکاوٹ آرہی ہے۔ انسانی جان کے احترام اور اس کی قیمت و اہمیت پر ازسرنو توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ انسانی جان کی حفاظت اسلامی شریعت کے مقاصد خمسہ میں سے ایک ہے۔ انسان کا قتل اسلام میں ایک بڑا گناہ ہے۔ اہل اسلام کے ہاتھوں اس کو سستا اور آسان سمجھا جانا کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ انسانیت کے ماتھے پر ایک کلنک ہے جسے ہم اسلام پر لگا رہے ہیں حالاں کہ دین اس سے بری ہے۔
محی الدین ابن عربی نے اپنی کتاب ’’ترجمان الاشواق‘‘ میں کعبہ کو ایک ذی روح پیکر کی شکل میں فرض کرتے ہوئے لکھا ہے:
تطوف بقلبی ساعۃ بعد ساعۃ
لوجد و تبریح و تلثم ارکانی
کما طاف خیر الرسل بالکعبۃ التی
یقول دلیل العقل فیھا بنقصان
ّوقبل احجارا بھا و ھو ناطق
و این مقام البیت من قدر انسان
’’تم ہر ہر لمحہ وجد اور دردِ دل سے ہمارے دل کا طواف کرتے ہو اورہمارے ارکان کو چومتے ہو۔ جس طرح پیغمبر اعظم نے اس کعبے کا طواف کیا جس کے بارے میں عقل کہتی ہے کہ اس میں کمی ہے۔ اور لبیک کہتے ہوئے اس کے پتھروں کو چوما۔ بیت اللہ انسان کی اہمیت کو بھلا کیسے پا سکتا ہے۔‘‘
ان اشعار میں ابن عربی کا مقصد اس حقیقت کو ذہن نشیں کرانا ہے کہ انسان کی قدر و اہمیت اسلام کی سب سے مقدس نشانی کعبے سے بھی برتر و بالا ہے جسے تمام مسلمانوں کا قبلہ اور اس کی روحانیت کا مرکز ہونے کا شرف حاصل ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم ان دونوں قدروں، تکثیریت اور عدم تشدد کو نیز ان اقدار کو جن کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا۔ اولین بنیادی اقدار کے طور پر اپنے معاشرے میں نافذ کرنے میں کامیاب رہے تو ہم اپنی قوم کے لیے زیادہ بہتر مستقبل کی توقع کرپائیں گے۔ چناں چہ جو قوم انسانی جان کا احترام کرتی اور تکثیریت میں یقین رکھتی ہے وہ بہ ذات خود ایسی قدرت کی حامل ہو جاتی ہے کہ وہ علم کی حامل قوم بن جائے۔ جو قوم علوم کو ترقی دینے پر قادر ہوتی ہے وہ قوم اس بات پر بھی قادر ہوتی ہے کہ وہ تہذیبی ارتقا کو تیز رو کرسکے۔ پھر ایسی قوم کی ترقی صرف اسی کی ذات تک محدود نہیں رہتی بلکہ دوسری اقوام کے تہذیبی ارتقا کا سبب بنتی ہے۔ یہ انسانیت کی معلم اور حقیقی معنوں میں خیر امم جس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے امت اسلام کی طرف کی ہے، ہوتی ہے۔
اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے تعلیم کے ابتدائی مرحلے سے اعلیٰ مرحلے تک مسلم تعلیمی اداروں میں عقل اور اور خیال (Imagination) کی اہمیت و قوت کو زندہ و تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔کسی بھی اسلامی مشروع (Project) کے لیے عقل کی ضرورت مسلم ہے۔ عقل کے بغیر اسلام میں فرد پر کوئی اخلاقی ذمے داری عائد نہیں ہوتی، جسے اصطلاح میں ’’تکلیف‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ عاقلانہ مخاطبت کے لیے شعور و فہم بنیادی عنصر کا درجہ رکھتے ہیں۔ حتی کہ وحی کے ادراک اور اس کے ساتھ تعامل میں ہم عقل پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہم اس ضمن میں بہت سے اقوال و مراجع کا حوالہ تو دیتے ہیں لیکن ان اقوال سے فائدہ اٹھانے کی کم ہی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں: کونوا للعلم دُعاۃ و لا تکونوا للعلم رواۃ (علم کوسمجھنے والے بنو صرف اس کو روایت کرنے والے نہ بنو) ابن عساکر نے لکھا ہے کہ: ھمۃ العلماء ،الوعایۃ و ھمۃ السفھاء، الروایۃ  (علما کی کوشش علم کو سمجھنے کی اور سفہا کی کوشش علم کو روایت کرنے کی ہوتی ہے)۔ ابن عساکر کے اس قول سے وہ لوگ مراد ہیں جو نصوص کو سمجھے بغیر استعمال کرتے ہیں۔ لیکن عقل کو خیال سے مزین کرنا چاہیے کیو ں کہ ،جیسا کہ فریڈریکوگار سیا لور کا نے لکھا ہے: 
’’خیال عقل کے گرد اس طرح پھیل جاتا ہے جس طرح خوشبو پھولوں کے گرد، جو ان برگہائے گل سے الگ نہیں ہوتی جن سے وہ پھوٹ رہی ہوتی ہے، بلکہ وہ ایک ہی وقت میں فضا میں بکھر رہی ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ اپنے دائمی اعجاز آفریں مرکز سے وابستہ بھی ہوتی ہے۔‘‘
علامہ اقبال اپنی مشہور اردو نظم ’’شکوہ جواب شکوہ‘‘ میں مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں۔ رسول اللہ کی سیرت، اقبال کی نظر میں، انسان کو اس کے شعور ذات کو برسر عمل لانے کی قدرت عطا کرتی ہے اور اس کو کائنات کی تمام تر موجودات سے ہم آہنگ اور اسی کے ساتھ بشری ذرائع پر اعتماد کرنے والا بنا دیتی ہے۔ چناں چہ تخلیق نو اور تازہ کاری کی وہ روح جس کی ربانی نوازش سے انسانی تجربات عبارت ہیں ،نیز طبیعات و تاریخ نے ان مواد کو وجود بخشا جن سے زندہ تہذیب کی تخلیق ہوئی۔ اقبال کی خواہش تھی کہ اگر مسلمان اپنے عزم و عہد کو عملی شکل دیں تو اپنی تقدیر کی کلید خود ان کے ہاتھ میں ہوگی۔ اس تناظر میں وہ کہتے ہیں:
عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش خلافت ہے جہاں گیر تری
ما سو اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
(کلیات: ۲۰۸)
مسلمان تاریخ کے مختلف ادوار میں شدید طور پر مصائب و مشکلات سے دوچار ہوتے رہے ہیں، بسا اوقات مسلمان اسلام کے مستقبل کے تعلق سے قنوطیت کا شکار ہوگئے۔ ہم نے مقالے کے شروع میں اسلام کے غریب ہوجانے کے تعلق سے جو حدیث نقل کی تھی، اس کی بعض لوگوں نے ایسی شرحیں کی ہیں، جن سے مزید ان لوگوں کی مایوسی میں اضافہ ہوا ہے ان لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ اسلام غربت کا شکار ہوکر ختم ہوجائے گا۔ حالانکہ یہ تاویل بالکل باطل ہے۔ اس لیے کہ وہ کتاب و سنت میں وارد بہت سے اہم احکام و ہدایات سے متصادم ہے۔ اس میں سرفہرست اللہ کا صالحین بندوں سے یہ وعدہ ہے کہ وہی اس زمین کے وارث ہوں گے۔ اس لیے اس حدیث کو اس روشنی میں دیکھا جانا چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو بیدار ہونے کی حوصلہ افزائی کرتی اور احیا و تجدید کے عمل پر مائل کرتی ہے۔ اسلامی عمل میں جب بھی انحراف واقع ہوگا، اس کی اصلاح ضروری ہوگی۔ رسول اللہ کی ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ امت محمدیہ حق پر قائم رہے گی اس کے مخالفین اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں پائیں گے، یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آجائے گا۔

پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ کی تعلیمی اصلاحات

پروفیسر محمد اکرم ورک

تعلیم اور نصاب کاتعلق صرف استاذ ،شاگرد اور درس گاہ سے نہیں بلکہ اس کا براہ راست تعلق اس زندگی سے ہے جو ہر لمحہ رواں دواں اور تغیر پذیر ہے اس لیے بہترین نصاب وہی ہو سکتاہے، جو ایسے علوم وفنون پر مشتمل ہوجو انسانی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں نیز انسانی فکر کے تاریخی ارتقا کے عکاس ہوں اور جن کے پیشِ نظر ایسے رجال کار کی تیاری ہو ، جو سوسائٹی کے انفرادی اور اجتماعی رویوں کی مثبت تشکیل ممکن بنا سکیں ۔ 

مسلم تاریخ میں نصاب تعلیم کا ارتقا

اسلامی تاریخ کا سرسری مطالعہ بھی اس بات کی ثبوت کے لیے کافی ہے کہ نبوت کے مکی اور مدنی ادوار میں نظا م تعلیم اور نصاب میں معروضی حالات کے پیش نظر بقدر ضرورت تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔دار ارقمؓ اور شعب ابی طالب میں تعلیم کا نصاب اور نظام اس سے بہرحال مختلف تھا جس کی تعلیم مسجد نبویؑ کی درس گاہ (صفہ)میں دی جاتی تھی۔صفہ میں حالات کے تقاضوں اور ضرورتوں کے پیش نظر قرآن وسنت کی لازمی تعلیم کے ساتھ ساتھ خطاطی،طب،تیر اندازی،تلوار زنی،اور نیزہ بازی کے فنون بھی سکھائے جاتے تھے ۔مرورِ ایام کے ساتھ قرآن وسنت جیسے بنیادی اور لازمی مضامین کی اہمیت و افادیت میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا ۔ ان کے علاوہ دیگر علوم وفنون ارتقاء اور تبدیلیوں کے مختلف مراحل طے کرتے رہے ۔ ان میں سے بعض مضامین اگر حالات کے تقاضوں کے پیش نظرداخل نصاب ہوئے تو بعض دیگر کو ضرورت پوری ہونے پر نصاب سے خارج بھی کر دیا گیا ۔ 
ہلاکو خان کے حملہ بغداد ۱۲۵۸ء ؁ تک مسلم فکر میں زبردست ارتقاء نظر آتاہے ۔بغداد کی تباہی سے نہ صرف مسلمانوں کی صدیوں کی علمی ترقی اور ذہنی ریاضت دریا برد ہوگئی بلکہ کئی نامور علما بھی تاتاری تلوار کی نذرہوگئے ۔اور پھر ۱۴۹۲ء ؁ میں سقوط غرناطہ کے بعد مسلم فکر کے تقریبا تمام علمی سر چشمے خشک ہوگئے ۔اور علمی روایت مکمل طورپر مغر ب کی طرف منتقل ہوگئی۔ اگر چہ ان دو بڑے حادثات کے بعد بھی مسلمانوں کو سیاسی عروج حاصل رہاہے ۔لیکن فکری اور علمی اعتبار سے یہی مسلمانوں کادور انحطاط ہے۔درس نظامی کے روایتی نصاب پر ایک نظر ڈالنے سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس نصاب میں شامل اکثر کتب اور علوم وفنون اسی دور زوال کی یاد گار ہیں۔جب مسلمانوں کا علمی انحطاط شروع ہوچکاتھا اور مسلم فکر پر جمود کے سائے پڑنا شروع ہوگئے تھے ۔
نئے علوم وفنون اور موضوعات پر غور وفکر کی بجائے ایسی کتابیں منصہ شہود پر آنے لگیں ۔جن میں اختصار نویسی ،لفظی بحثوں اور لفظی موشگافیوں کو ہی کمال فن سمجھا جانے لگا۔بڑا کمال یہی سمجھا گیا کہ عبارت ایسی دقیق اور غامض ہو جس کے لئے شرح وحاشیہ کی ضرورت ہو ، لطیفہ یہ ہے کہ بعض اصحاب علم نے ذہنی عیاشی کی خاطر انتہائی مختصر کتب تصنیف کیں ۔اور پھر خود ہی ان پر طویل حواشی لکھنے بیٹھ گئے اور اب ہمارے مدرسین اپنی عمر عزیز کا زیادہ حصہ انہی دقیق عبارتوں کے سمجھنے اور سمجھانے میں گزار دیتے ہیں۔مصنف کی مراد ،ضمائر کے امکانی مراجع اور عبارت کی اعرابی حالتوں کے ایسے خیالی پلاؤ پکائے جاتے ہیں کہ بسااوقات ایسی بحثوں میں کئی کئی ہفتے گزر جاتے ہیں اور نتیجہ پھر بھی غیر حتمی ہی رہتاہے۔گویا فن میں مہارت کے بجائے کتاب کی تفہیم حقیقی مقصد بن کر رہ گئی ہے۔

برصغیر میں مدارس کا نصاب تعلیم 

برصغیر میں انگریزی عہد اقتدار سے قبل مدارس میں جن علوم وفنوں کی تعلیم دی جاتی تھی ان کی افادیت محدود ہوچکی تھی ،تاہم اس وقت جو نظام تعلیم اور نصاب رائج تھا اس میں دینی اور دینوی کی کوئی تفریق نہ تھی۔اور یہ نصاب مسلم دور کی ضرورتوں اور تقاضوں کو کسی نہ کسی حد تک پورا کررہاتھا۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغلیہ دور میں جس نظام تعلیم اور نصاب نے مجدد الف ثانیؒ جیسامذہبی عبقری پیداکیااسی نظام نے نواب سعداللہ خان جیسا شخص بھی تیار کیا۔جو سلطنت مغلیہ کاوزیراعظم بنااور جو حضرت مجدؒ د کاہم جماعت تھا،پھر استاذاحمد معمارجس نے تاج محل،جس کاشمار دنیا کے سات عجائبات میں ہوتاہے ، تعمیر کیا۔یہ بھی حضرت مجدؒ د کاکلاس فیلوتھا۔یہ تینوں ایک ہی استاذکے شاگرد اور ایک ہی درس گاہ کے پڑھے ہوئے تھے اور ایک ہی نصاب اور تعلیمی نظام کی پیداوار تھے۔
۱۸۵۷ء ؁میں برصغیر پر انگریز کے مکمل قبضہ واختیار کے بعد ہمارے سامنے نظام تعلیم اور نصاب کے حوالے سے دو گروہ ابھر کر سامنے آتے ہیں ایک گروہ کاتعلق روایتی دینی مدارس سے ہے۔ فی الوقت جن کی نمائندگی شیعہ اور سنی وفاق (بریلوی ،دیوبندی،سلفی)کررہے ہیں۔دوسرے گروہ کاتعلق جدید تعلیم کے علمبرداروں سے ہے۔سر سید احمد خانؒ کی علمی تحریک اسی گروہ کی نمائندہ تحریک ہے۔روایتی دینی مدارس کانصاب ہو یاعلی گڑھ کا،دونوں کانصاب تعلیم دور غلامی کے مخصوص حالات ،تقاضوں اور پس منظر کا عکاس ہے۔یقینی طور پر کہاجاسکتاہے کہ ان دونوں نصاب ہائے تعلیم کی بنیاد خوف اور ذہنی تحفظات پر تھی۔ایک طبقہ اس خوف میں مبتلاتھا کہ جدید تعلیم سے احتراز مسلمانوں کے لیے انتہائی تباہ کن ہوگا۔مسلمان تجارت ،اسباب معیشت ،ملازمتوں اور دیگر قومی معاملات میں پیچھے رہ جائیں گے۔جبکہ دوسرے طبقہ کو یہ خوف دامن گیر تھا کہ انگریزجو برصغیر کو دوسرا اسپین بنانے کی حکمت عملی پر عمل پیراہیں ،کے عزائم کو ملیامیٹ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وقتی فوائد سے صرف نظر کرتے ہوئے دینی علوم کی تدریس کے لیے مدارس کا ایسا نظام قائم کیا جائے جو قوم کو تہذیبی ارتداد سے بچاسکے اور جو مسلمانوں کے دین ،ایمان اور اسلامی تہذیب وتمدن کے تحفظ کاضامن ہو۔حقیقت یہ ہے کہ برصغیر میں دین وایمان کی بہاریں ہمارے اسلاف کی اسی محنت ،خلوص اور حکمت عملی کا نتیجہ ہیں ، تاہم یہ بات واضح ہے کہ ہر دو طبقات کی حکمت عملی دفاعی نوعیت کی تھی۔اور یہ حکمت عملی اپنے مخصوص پس منظر میں بالکل درست تھی۔

پاکستانی مدارس کا نصاب تعلیم 

۱۹۴۷ء کے بعد حالات وضروریات اور تقاضے بدل گئے اس وقت دونوں (دینی ودینوی)نصاب ہائے تعلیم میں انقلابی اور اجتہادی نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت تھی۔ان دونوں نظام ہائے تعلیم کو ختم کرکے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ایسا نصاب مرتب ہونا چاہیے تھا ،جو جدید علمی اور فکری چیلنچز کابھر پورجواب مہیا کرتا۔خاص طور پر پاکستان میں تو اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ علماء کو سوسائٹی میں قائدانہ کرادار اداکرنے کے قابل بنایاجاتا،لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے دینی مدارس سے فارع ہونے والے علماء جب عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو چونکہ وہ سوسائٹی کے عرف اور محاورے سے واقف نہیں ہوتے اس لیے عجیب طرح کی اجنبیت کاشکار ہو جاتے ہیں۔اور عملا معاشرے سے کٹ کر رہ جاتے ہیں ۔بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی:
’’آج ہمار ا امام سوسائٹی میں جاکر یہ محسوس کرتاہے کہ میں نے جو کچھ پڑھا ہے وہ تو Irrelevantہے اور یہاں لوگ جو سوال کررہے ہیں اس کامیرے پاس جواب نہیں تو وہ پڑھی ہوئی چیزوں کو Relevant بنانے کے لیے وہاں وہ مسائل پیداکرتاہے جو اس کے اپنے مسائل ہیں تاکہ وہ لوگوں کے بھی مسائل بن جائیں اور جب وہ ان کے مسائل بن جائیں گے اور وہ پوچھیں گے تو میں ان کا جواب دوں گا ۔وہ مسائل کیا ہوتے ہیں ؟وہ فرقہ ورانہ ہوتے ہیں اب جن بیچاروں کو کچھ پتہ نہیں ہوتا اور نہ کبھی ان کے ذہن میں یہ خیال آیاہوتاہے کہ حضور ؑ نور تھے یا بشر تھے،ان کے لیے امام مسئلہ پیدادیتاہے۔رسول اللہ کاحکم واجب التعمیل ہے یہ کوئی نہیں بتاتا،لیکن ایک اس پر زور دیتاہے کہ آپ ﷺ بشر تھے اور دوسرا اس پر کہ آپﷺ نور تھے ۔وہ نور کا ایک محدو د مفہوم بیاں کرتاہے یہ بشر کامحدود مفہوم بیاں کرتاہے۔اور جب علم کی کمی کی وجہ سے لوگوں کا ایک گروہ اس کام کے لئے تیار ہوجائے گا تو اب امام صاحب کی نوکری پکی ہوجا ئے گی اور انہیں کوئی وہاں سے نہیں اٹھائے گا۔یہ ایک افسو س ناک بات ہے جس پر غور کرنا چاہیے‘‘۔(ماہنامہ الشریعہ مارچ ۲۰۰۵ء:۲۶)
ایسے ہی سطحی علم رکھنے والے حضرات معاشرے میں فتنہ وفساد اور فرقہ ورانہ تشدد کا باعث بنتے ہیں ۔یہ صورت حال ایسی خوف ناک اور گھمبیر ہے جس کی وجہ سے ایک طرف سیلم الفطرت لوگ مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں تو دوسری طرف عام لوگ دین سے دوری میں ہی اپنی ’’عافیت‘‘ سمجھنے لگے ہیں بقول علامہ اقبال:
کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے 
کہ میر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی 
ضرورت اس امر کی تھی کہ دور غلامی میں حالت جبر میں اختیار کردہ تعلیمی نظام پر نئے سرے سے غور وفکر کیا جاتا اور قیام پاکستان کے بعد ماہرین تعلیم کی مشاور ت سے مناسب ا ور معقول قومی تعلیمی پالیسی تشکیل دی جاتی ۔لیکن بد قسمتی سے ایسی کوئی بھی سنجیدہ کوشش بروئے کار نہیں لائی گئی ۔ اس وقت صورت حال یہ کہ پاکستان میں طبقاتی نظام تعلیم میں مز ید پھیلاؤ آیا ہے۔
جدید تعلیمی اداروں سے جو نسل تیار ہوکر نکل رہی ہے ان کا دین سے تعلق انتہائی کمزور ہے اور دوسری طرف جو نسل روایتی دینی اداروں سے فارغ التحصیل ہو رہی ہیں ان کا حالات حاضرہ ،جدید معاشی ،سیاسی اور عمرانی علوم سے کوئی تعارف نہیں،عالمی قانون ،عرف،رسم ورواج اور مغربی فکر وفلسفہ توان کے لئے قطعا اجنبی چیزیں ہیں ۔ نصاب کی اس تقسیم کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر نصاب کے پڑھنے والے اس نصاب کے آثارونتائج سے قطعا بے گانہ ہیں جیسے انھوں نے نہیں پڑھا ہے ۔ملک میں پڑھے لکھے طبقہ کی دو مستقل جماعتیں قائم ہوگئیں ہیں ایک طبقہ دوسرے پر فسق والحاد اور بے دینی کا الزام عائد کرتاہے تو دوسرا اس پرتاریک خیالی اور زمانے سے ناواقفیت کی پھبتیاں کستا ہے۔مسڑاور ملا ں کے طنزیہ ناموں سے قائم ان طبقوں میں کشمکش مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے۔
ارباب دانش کی نظر میں نصاب تعلیم کی وحدت کے علاوہ اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے ۔اس حوالے سے حکومتی اور اعلیٰ ترین سطح پر پیش قدمی کی ضرورت تھی تاہم حکومت کی مجرمانہ غفلت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دینی مدارس کے ارباب بست وکشاد بھی اسی عدم تدبر کا مظاہرہ کرتے ،نئے حالات میں ان کی حکمت عملی دفاعی کی بجائے اقدامی ہونی چاہیے تھی ،کیونکہ آزادی کے بعد عوام الناس زندگی کے ہر میدان میں ان سے قائدانہ کردار کی توقع کر رہے تھے لیکن بدقسمتی سے ہماری دینی قیادت اس فہم وفراست کا مظاہرہ نہ کرسکی جس کامظاہر ہ ہمارے اسلاف ہر دور میں کرتے رہے ہیں۔

برِ صغیر کے علما کی فکر مندی

نصابِ تعلیم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا احساس تقریباََ تمام مکاتبِ فکر کے اکابرین میں شروع سے ہی رہا ہے ۔ اس حوالے سے ، نصابِ تعلیم کی ماہیت پر مشتمل کتابوں میں تمام مکاتبِ فکر کے اسلاف کی آراء ملاحظہ کی جا سکتی ہیں ۔ طوالت سے بچتے ہوئے ہم صرف مولانا قاری محمد طیب ؒ کے ایک خطاب کے اس اقتباس پر اکتفا کرتے ہیں: 
’’اب رہا مدارس عربیہ کا نصاب میں تبدیلی کا قضیہ ،سو مجھے اس اصول سے انکا رنہیں اور نہ کسی کو ہو سکتاہے ۔جن تعلیمات کا تعلق وحی الہی سے ہے ،ان کی تبدیلی پر نہ ہم قادر ہیں ،نہ ہمیں حق ہے ۔باقی جو فنون یا کتابیں قرآن کے خادم کی حیثیت سے زیر تعلیم آتی ہیں ،وہ زمانہ اور احوال کے لحاظ سے بدل سکتی ہیں۔قرآن ہر زمانہ میں ایک رہا ،لیکن اس کی تفہیمات کا انداز بدلتارہا ۔جس دور میں مثلاً فلسفہ کا زور ہوا تو قرآن کو فلسفیانہ انداز میں سمجھایا گیا۔جس دور میں تصوف کا زور ہوا تو قرآن کو صوفیانہ انداز میں سمجھایا گیا ۔آج سائنس کازور ہے تو وہ سائنسی رنگ میں تجلی کرے گا۔اس ساری حقیقت کو میں بطور خلاصہ ان الفاظ میں لاسکتاہوں کہ’’مسائل پرانے ہوں تو دلائل نئے ہوں۔ ‘‘ (۲۲،۲۳ فروری ۱۹۴۷ء کو اسمبلی ہال لکھنو میں منعقدہ’’تعلیمی کانفرنس ‘‘سے خطاب)

ضیاء الامت ؒ کے عملی اقدامات اور اصلاحات

ضیاء الامت پیرمحمد کرم شاہ الازہری ؒ نے علماء اور جدید تعلیم یافتہ نسل کے درمیاں بڑھتے ہوئے خلا کو آج سے نصف صدی قبل محسوس کیا۔ چنانچہ آپ نے قدیم اور جدید علوم کے امتزاج سے ایک ایسے نصاب تعلیم کی ضرورت محسوس کی جو علماء کو نہ صرف قومی دھارے سے جوڑے رکھے بلکہ انہیں قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل بھی بناسکے ۔چنانچہ پیر صاحبؒ نے ۱۹۵۷ء ؁ میں اپنے والد محترم کے قائم کردہ ادارے ’’دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ‘‘ کی نشاۃ ثانیہ کا آغازفرمایا ۔نئے نصاب کی ترتیب ،تدوین ،اور تنفیذ میں پیر صاحبؒ کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہ بڑے گھٹن اور صبر آزما تھے ۔چونکہ یہ بالکل نیا اور منفرد تجربہ تھا۔اس لیے جب پیر صاحبؒ نے اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے میدان عمل میں اترے تو وہ اس منزل کے تنہا مسافر تھے ۔پیر صاحبؒ نے ا پنی ذات میں ایک پورے ادارے کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ آپ کے مشہور سوانح نگار پروفیسر حافط احمد بخش صاحب نے پیر صاحب ؒ کی سوانح عمری ’’جمال کرم‘‘جلد اول میں ان تمام حالات کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ نئے نصاب کی ترتیب میں حضرت ضیاء الامتؒ کے پیش نظر جو خصوصی امور تھے ان کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
’’دینی مدارس کا نصاب تعلیم ایسا ہونا چاہیے جس سے فراغت پانے کے بعد انسان میں علوم جدیدہ سے پوری واقفیت اور حالا ت حاضرہ پر گہری نظر ہونے کے ساتھ علوم دینیہ میں ٹھوس قابلیت پیداہوجائے،سطحی قسم کے علماء الحاد وفجور کے اس خوف ناک سیلاب کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ملت کو ایسے علماء کی ہرگز ضرورت نہیں جو اسلام کی ابدی تعلیمات کو حالات حاضرہ سے ہم آہنگ کرنے کے خبط میں قطع وبرید اور تبدیلی وتحریف تک آمادہ ہوں بلکہ ایسے مردان کار کی ضرورت ہے جو ایمانی فراست کو کام میں لاتے ہوئے حالات کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور اس کے لیے علوم دینیہ میں مہارت ضروری ہے۔‘‘(جمال کرم ۱/۳۳۲)
دارالعلوم محمدیہ غوثیہ میں داخلہ کے خواہش مند طلباء کے لیے میڑک پاس ہونا بنیادی شرط ہے۔نو سالہ دورانیے پر مشتمل اس نصاب میں ایف ۔اے ۔اور بی ۔اے کے امتحانات بالترتیب سرگودھا بورڈ اور پنجاب یونیورسٹی کے زیر انتظام دلوائے جاتے ہیں ۔جبکہ دارالعلوم کی تکمیلی سند کو حکومت نے ایم۔اے اسلامیات وعربی کے مساوی تسلیم کیا ہے ۔یہاں سے فارغ التحصیل علما کو ’’شاہین‘‘ کہا جاتاہے ۔دارالعلوم میں دینی تعلیم میں رسوخ کو اولیت اور تر جیح حاصل ہے۔
پیر صاحبؒ نے دینی مدارس کے روایتی نصاب میں جو انقلابی اصلاحات تجویزفرمائیں زیر نظر سطور میں ہم اس کے صرف چند اہم پہلووں کا اختصا ر کے ساتھ تعارف پیش کریں گے اور ان کوششوں کے عملی فوائد وثمرات کا تجزیہ کریں گے۔

صرف ونحو

کسی بھی زبان کی سمجھ بوجھ کے لیے گریمر خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے ۔گریمر کا کردار زبان کی تسہیل اور تفہیم سے ہے جبکہ مدارس کے طرز تعلیم میں علمِ صرف اور خاص طور پرعلمِ نحو کو زبان کے مشکل بنانے کے لیے استعمال کیا جاتاہے کافیہ اور شرح جامی جیسی کتب جس تحقیق اور لفظی موشگافیوں کی ابحاث کے ساتھ پڑھی پڑھائی جاتی ہیں ،کاش قرآن وسنت کی تعلیم میں بھی یہی شوق پیش نظر ہو۔عموما اساتذہ کافیہ کی پہلی سطر ’’الکلمۃ لفظ وضع لمعنی مفردا‘‘ کی تقریر میں ہی کئی ہفتے گزار دیتے ہیں۔مولانا ابو الکلام آذاد کی یہ رائے بالکل درست ہے کہ برصیغیر میں صرف ونحو کی تعلیم میں طلباء پر بیک وقت تین بوجھ ڈال دیے جاتے ہیں۔
ایک اجنبی زبان (کہ صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں زیادہ تر فارسی زبان میں ہیں )۔
دوسرا حلِ عبارت کا ،طالب علم کی بیشتر توانائی مغلق وغامض عبارت کے حل پر صرف ہو جاتی ہے۔
تیسر ا اگر دما غ میں کچھ گنجائش باقی رہ گئی ہے تو وہ اصل علم حاصل کرے ۔ 
یہی وجہ ہے کہ گوہرِ مقصود ہاتھ نہیں آتا ۔ہمیں یہ چیز ذہن میں رکھنی چاہیے کہ صرف ونحو اور دیگر علوم صرف قرآنی بصیر ت تک رسائی کے وسائل اور ذرائع ہیں اس لیے ایسی تمام کتب کو آسان اور عام فہم ہونا چاہئے ۔پیر صاحب ؒ نے صرف ونحو کے روایتی اسلوب میں جو تبدیلی کی ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں:
’’عربی علوم میں دسترس حاصل کرنے کے لیے صرف ونحو کو کلیدی حیثیت ہے اس سے کسے انکار ہے ،اس لیے میں نے مفید خیال کیا کہ ابتدائی سالوں میں صرف ونحو پر زیادہ سے زیادہ زور دیا جائے اور اس کے لیے ایسی کتب کاانتخاب کیا جائے جو آسان اور واضح ہونے کے ساتھ ساتھ فن کی تمام خصوصیتوں کی حامل ہوں اور ان کی تعداد بھی زیادہ نہ ہو‘‘(جمال کرم ۱/۳۳۲)
دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ میں صرف ونحو کی تعلیم میں جن چیزوں کا خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے ان کی نوعیت درج ذیل ہے:
۱۔روایتی دینی مدارس کے بر عکس صرف و نحو کی تعلیم کے لیے کتب کی تعداد واضح طور پر کم کی گئی ہے۔
۲۔جو کتب منتخب کی گئی ہیں وہ سادہ عام فہم اور آسان اردو اور عربی زبان میں ہیں ۔ابتدائی تعلیم کی مادری زبان میں ضرورت واہمیت ماہرین تعلیم کے ہاں مسلم ہے۔تسہیل النحو اور تسہیل الصر ف (مولانا حافظ محمد خان نوری) اردو زبان میں ہیں ۔نیز اس کے ساتھ عربی زبان میں عصر جدید کی مطبوعات النحو الواضح(از علی جارم مصطفی امین )کے چھ حصوں کی تدریس بہت عمدہ انتخاب ہے۔یہ کتا ب اپنے موضوع پر انتہائی مفید اور سلجھے ہوئے انداز میں لکھی گئی ہے ۔اس کتاب کی خاص خوبی یہ ہے ،قواعد عربی کاعملی اجراء بھی ساتھ ساتھ ہوتاجاتا ہے۔اور عربی زبان کے قواعد اس طرح پڑھائے جاتے ہیں کہ جس طرح ایک زندہ زبان کے پڑھائے جانے چاہییں۔

ادب وانشا 

درس نظامی کے روایتی نصاب میں ادب وانشاء کی تعلیم برائے نام ہے ۔ادب وانشاء کی جگہ فن بدیع (لفظی صنعت گری)کی کتابین داخل نصاب ہیں ۔مطول جیسی کتابوں کی تعلیم کے بعد طلبہ میں ادبی ذوق پروان چڑھنے کی توقع رکھنا عبث ہے ۔آج کی علمی دنیا میں اگر کسی کو یہ بتایا جائے کہ کچھ’’اصحاب علم‘‘ دنیا میں ایسے بھی ہیں جو بیس پچیس سال تک عربی زبان وادب کی تدریس کے بعد بھی اس میں اپنے مافی الضمیر کے اظہار پر قادر نہیں تو یقیناًوہ اسے قبل از تاریخ کی کوئی من گھڑت کہانی قرارد یں گے۔ ویسے بھی جس قسم کی عربی زبان ہمارے علماء بولتے ہیں وہ روز مرہ کی زبان نہیں ہے اس لیے جدید نسل کے لیے اس کو سمجھنا کافی مشکل ہے آج کے معروضی حالات میں عالم عرب سے رابطہ وتعلق کیلئے جدید عربی کا جاننا انتہائی ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ دینی مدارس کے قیام کااصل مقصد قرآن وسنت کی تفہیم ہے جبکہ قرآن وسنت کے معانی ومفاہیم سے واقفیت کے لیئے قدیم عربی زبان وادب میں مہارت وممارست ضروری ہے ،لہٰذا عربی زبان کے قدیم اور جدید دونوں اسالیب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، اس لیے دونوں کااپنی اپنی جگہ سیکھنا ضروری ہے۔
پیر صاحبؒ نے اپنے مجوزہ نصاب میں ان دونوں ضرورتوں کو پیش نظر رکھا ہے ۔طلباء میں قدیم عربی ادب کاذوق پیدا کرنے کے لیے البلاغۃ الواضحۃ (علی الجارم ومصطفی امین)کے ساتھ دیوان متنبی ،دیوان حماسہ،دیوان حسان ، المفضلیات ،نثر میں العبرات ،مقامات حریری ،الکامل للمبرد،تلخیص المفتاح،اور اسرارالبلاغۃ جیسی کتب شامل نصاب ہیں تو دوسری طرف ابتدائی سالوں میں ہی مفید الطالبین(محمد احسن نانوتوی)تسہیل الانشاء مکمل حصے (محمد سعید الازہری،محمداکرم الازہر یؒ ) معلم الانشاء(محمد رابع حسنی ندوی )اور الاسلوب الصحیح (دوحصے) جیسی کتب سے طلبہ میں جدید عربی زبان وادب کا ذوق پیدا کیا جاتاہے۔عام طورپر کہا جاتاہے کہ ادب لادین ہوتاہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پیر صاحبؒ نے اپنے مرتب کردہ نصاب تعلیم میں ادب کو بھی مشرف بہ اسلام کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور کسی لمحہ بھی زبان دانی کے ساتھ ساتھ طلبہ کی اخلاقی تربیت کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا ۔چنانچہ قصیدہ اطیب النغم (شاہ ولی اللہؒ )اور قصیدہ بردہ شریف (امام بو صیریؒ ) کاشامل نصا ب ہونا ہمارے اس موقف کی تائید کرتاہے۔

معاشیات اور سیاسیات

درس نظامی کے روایتی نصاب کی تدریس میں عموما اسلام کے اجتماعی پہلووں کو بری طرح نظر انداز کر دیا جاتاہے۔بالخصوص اقوام عالم میں رائج نظا م سیاست اور جدید نظام معیشت سے ہمارے علماء کی واقفیت برائے نام ہے جدید علوم سے بے اعتنائی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ طبقہ علماء آہستہ آہستہ ایک ایسا گروہ بنتا جارہاہے جس کا کار گاہ حیات اور زندگی کے عملی اور زندہ مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔سوسائٹی میں ہمارے علماء کاکردار بھی اب دیگر مذاہب کے مذہبی راہنماوں جیسا بنتاجارہاہے جن سے صرف حصول ثواب کی نیت سے مخصوص مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لئے رجوع کیا جاتاہے۔ظاہر ہے یہ صورت حال اسلام جیسے مکمل ضابطہ حیات کے لیے کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے ۔علوم جدیدہ سے علماء کی عدم واقفیت کی وجہ سے ہی اس غلط فہمی نے بھی جنم لیا ہے کہ شاید اسلام جدید معاشی ،سیاسی اور عمرانی افکار کامقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ہمارے اکثر علماء کی سادگی کا یہ عالم ہے کہ وہ ان علوم میں رسوخ تو بڑی دور کی بات ،ان کی بنیادی اصطلاحات تک سے واقف نہیں ہیں۔بقول مولانا زاہد الراشدی:
’’دینی تعلیم وتدریس اور بحث وتمحیص کے حوالے سے ہماری گفتگو اعتقادات ،عبادات ،اخلاقیات ،یا سے زیادہ خاندانی معاشرت کے چندمسائل تک محدود رہتی ہے جب ہم حدیث یا فقہ کی کوئی کتاب پڑھاتے ہیں تو سارا زور کتاب الطہارت سے کتاب الحج تک ہوتاہے ۔بہت زور مارا تو نکاح وطلاق کے مسائل گویا یہ آخری حد ہے حالانکہ انہی کتابوں میں کتاب البیوع بھی ہے ،کتاب الاجارہ بھی ،کتاب المزارعۃ بھی ،کتاب الجہاد بھی،کتاب الامارہ بھی ہے اور کتاب القاضی بھی۔اس طرح سیاست ،معیشت اور زندگی کے دیگر اجتماعی شعبوں سے تعلق رکھنے والے دوسرے ابواب بھی،لیکن ہم ان ابواب سے اس طرح گزر جاتے ہیں جیسے یہ سب منسوخ ہوں۔‘‘ (مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی دینی ذمہ داریاں )
پیر صاحبؒ اپنی دوررس نگاہوں سے علما اور سوسائٹی میں بڑھتے ہوئے فاصلے کو گہری تشویش کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔چنانچہ انھوں نے اپنے مجوزہ نصاب تعلیم میں اس کمزوری کا ازالہ کرنے کی حتی الوسع کوشش کی ہے ۔آپؒ فرماتے ہیں:
’’اس نصا ب میں انگریزی ،جغرافیہ ،طبعیات کے علاوہ فلسفہ جدیدہ، علم سیاست (Politics)، علم اقتصادیات (Economics) کو بھی شامل کیا گیاہے۔کیونکہ آج اسلامی تعلیمات کو موثر طور پر پیش کرنے کے لیے ہمارا ان علوم سے روشناس ہونا از حد ضروری ہے ۔علم سیاست واقتصادیات اسلام کے لیے کوئی نئی چیزیں نہیں ہیں اسلام نے جہاں عقائد باطلہ کے بت کدے پاش پاش کیے وہاں اس نے روز ازل سے مستبدانہ ملوکیت اور ظالمانہ نظام معاشیات پر بھی بھر پور وار کیا اور اقتصادی اور سیاسی میدانوں میں ایسی بنیادی اور عادلانہ اصلاحات کیں جن کی گردِ راہ کو بھی عقل کا کاروانِ تیز گام آج تک نہیں پہنچ سکا ،لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ موجودہ دور میں سیاست ومعاشیات کے علوم کو ایسے خطوط پر مرتب کیا گیا ہے کہ بادی النظر میں وہ بالکل جدید علوم دکھائی دیتے ہیں ،ضروری ہے کہ ہم بھی موجودہ معنی میں ان کو سمجھیں تاکہ اپنے نظریات عہد حاضر کی عقلوں کو سمجھا سکیں ۔اس لیے پہلے ان مضامین کو ان کی موجودہ شکل میں پڑھانے کا انتظام کیا گیا ہے ۔اس کے بعد اسلام کے نظریات کا دوسرے نظریات کے ساتھ تقابل کیا گیا ہے‘‘( جمال کرم۱/۳۳۴)
ہمارے بعض قارئین کے لیے شاید یہ بات نئی ہو کہ پیر صاحبؒ کے مرتب کردہ نصاب تعلیم میں ایف اور بی اے کی سطح پر معاشیات اور سیاسیات اختیاری کے بجائے بطور لازمی مضامین پڑھائے جاتے ہیں ۔جس کی وجہ سے طلباء کے لیے معیشت اور سیاست کے جدید نظاموں کا سمجھنا اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ ان کا تقابل کرنا آسان ہوجاتاہے۔تعلیم یافتہ طبقے میں تبلیغ کا کام کرنے کے لیے یہ صلاحیت انہیں نسبتاً زیادہ اعتماد اور اعتبار مہیا کرتی ہے۔

اردو اور انگریزی زبانوں کی تدریس

چونکہ اسلام کا تمام علمی سرمایہ عربی زبان میں ہے اس لیے قدیم اور جدید عربی زبان وادب سے واقفیت علماء کے لیے نا گزیر ہے لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ عربی زبان کے بعد بر صغیر کے اہل علم کے لیے اردو زبان بڑی اہمیت کی حامل ہے جو بجا طور پر اس خطے کی زندہ علمی زبان ہے اور شاید یہ مبالغہ نہ ہو کہ عربی کے بعد اسلامی کتب کا سب سے بڑا علمی اور تحقیقی ذخیرہ اردو زبان میں ہی ہے لیکن دینی مدارس کے روایتی نصاب سے ہمارے علماء میں عربی ،اردو اور انگریزی کا جو ذوق پید ہو رہا ہے اس کا حقیقی نقشہ ہمارے ایک بزرگ سید عماد الدین قادری نے اپنے مکتوب میں ان الفاظ میں کھینچا ہے :
’’ہمارے وارثان منبر ومحراب!! انگریزی سن کر ہی جن کی اکثریت کو غسل شرعی واجب ہو جاتاہے ،عربی اتنی ہی سیکھتے ہیں جو شاید جنت کی حوریں بولتی ہوں تو ہوں، کیونکہ منتہائے نظر وہی مقام ہے اور اسی غرض سے ہے ،اور رہی اردو،ذرا کسی دارالعلوم میں باوضو ہی سہی ،جانے کی ہمت تو کر لیجئے، اردو کا جنازہ آپ کو دارالافتاء کے باہر ہی رکھا ہوا بے کفن ملے گا۔(ماہنامہ الشریعہ ،گوجرانوالہ بابت ماہ جولائی، ص:۳۹)
محترم قادری صاحب کے الفاظ سخت ضرور ہیں لیکن حقیقت کے قریب ہیں فتوی نویسی میں ’’کیا فرماتے ہیں علماء کرام بیچ اس مسئلہ کے ‘‘جیسے فقروں کا طویل عرصہ سے مسلسل استعمال ہمارے علما کی ’’اردو دانی ‘‘کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
پیر صاحب چونکہ خود اردو زبان کے صاحب طرز ادیب تھے اور اردو زبان وادب کی اہمیت سے آگاہ تھے نیز طبقہ علماء سے تعلق رکھنے کی وجہ سے علماء کی اس کمزوری کا احساس رکھتے تھے اس پر انھوں نے اپنے مجوزہ نصاب میں اردو زبان کی تدریس کو خصوصی اہمیت دی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ علماء کے لیے انگریزی زبان میں مہارت کو انتہائی اہم سمجھتے تھے۔چنانچہ فرماتے ہیں:
’’یہ ایک حقیقت ہے کہ انگریزی زبان ایک علمی اور بین الاقوامی زبان ہے ایک عالم دین کے لیے اس پر عبور حاصل کرنا متعدد افادیتوں کا حامل ہے اس لئے ابتداء سے آخر تک اس کا سلسلہ تعلیم جاری رکھا گیا ہے ۔تاکہ طلباء نصا ب سے فراغت پانے کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی کے گریجویٹ بھی ہو جائیں‘‘۔(جمال کرم۱/۳۳۴)
گلوبلائزیشن کے موجودہ دور میں انگریزی زبا ن کی اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے آج سے نصف صدی قبل انگریزی جیسی بین الاقوامی زبان کی تعلیم کو اپنے نصاب تعلیم میں لازمی مضمون کے طور پر داخل کرنا پیر صاحبؒ کی دور اندیشی اور بصیرت کا منہ بولتاثبوت ہے۔

علوم القرآن والحدیث 

اسلام کے فکری سرچشمے دو ہیں۔ایک قرآن دوسر ا سنت ،اس لیے منطقی طورپر نظام تعلیم کی اساس بھی ا نہی کو ہونا چاہیے۔لیکن مدارس کے نظام تعلیم میں طلباء کو پہلے دیگر علوم پڑ ھا کر ان کا ایک مخصوص مزاج اور ذہنی سانچا بنا دیا جاتاہے اور پھر اس سانچے کی روشنی میں قرآن پڑھایا جاتاہے ۔قرآن کو اصل معیار اور کسوٹی بنانے کی بجائے اس کا مطالعہ فقہی مذاہب اور اقوال فقہاء کی روشنی میں کیا جاتاہے۔اس سے بڑھ کر قرآن پر اور کیا ظلم ہو گا۔حدیث کی صورت حال اس سے بھی افسوس ناک ہے،رفع یدین ،فاتحہ خلف الامام اور آمین بالجھر جیسے اولی اور خلاف اولی مسائل پر سال کا اکثر حصہ صرف کرنے کے بعد اجتماعی مسائل سے تعلق رکھنے والی احادیث کی تلاوت کے لیے ایسے طالب علم کو تلاش کیا جاتاہے ،جو روزانہ تیس ،چالیس صفحات کی تیز رفتار تلاوت پر’’ قدرت کاملہ‘‘ رکھتاہو۔اللہ کے رسول ؑ کیا فرماتے ہیں اس سے نہ استاذکوغرض ہے اور نہ طلباء کو ۔ ہمارے ممدوح حضرت پیر کرم شاہ الازہرؒ ی اس حوالے سے اپنے احساس کا تذکرہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
’’مروجہ نصاب میں علوم اسلامیہ یعنی قرآن حکیم ،حدیث اور اصول فقہ کی تعلیم سے عملی طور پر جو بے اعتنائی روا رکھی ہے وہ باعث ہزار تاسف ہے ،اس کو پورا کرنے پر پوری توجہ دی گئی ہے تاکہ ان مضامین سے طلباء کا سرسری تعارف ہی نہ ہو بلکہ ان کی گہرائیوں تک ان کی رسائی ہو ۔ان علوم میں ان کو مہارت حاصل ہو ،تاکہ ہر لحظہ تغیر پذیر حالات میں پوری ذمہ داری کے ساتھ اسلام کے ابدی حقائق کو اس طرح پیش کر سکیں کہ موجودہ ذہن انہیں قبول کرنے بلکہ عملی طورپر انہیں اپنا لینے پر مجبور ہو جائے‘‘(جمال کرم ۱/۳۳۳)
دینی مدارس میں ایک آدھ کتاب کے استثنی کے ساتھ حدیث کی تمام کتب دورہ حدیث شریف کے نام سے مخصوص آخری سال پڑھائی جاتی ہیں ۔لیکن پیر صاحب ؒ نے اپنے مجوزہ نصاب میں ابتدائی سالوں سے لے کر آخری سال تک مسلسل حدیث نبویؑ کی تعلیم وتدریس پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے ۔طلباء کی کردار سازی میں حدیث کی ضرورت واہمیت اور مقام کی وضاحت کر تے ہوئے پیر صاحبؒ رقمطراز ہیں:
’’اخلاقی تربیت کی اہمیت کے پیش نظر تیسرے سال (نو ترقیم شدہ نصا ب میں دوسرے سال)سے احادیث نبویؑ کی دل پذیر یوں اور درخشانیوں سے چشم قلب وخردروشن کرنے کے ساتھ ساتھ مکارم اخلاق کے ان زرین اصولوں سے بھی روشناس ہوں گے جو بعثت نبویؑ کا مقصد اعلی ہیں‘‘(جمال کرم ۱/۳۳۳)
چنانچہ اربعین نووی دوسرے سال، ریاض الصالحین تیسرے،مشکوۃ چوتھے ،شرح معانی الاثار چھٹے ،مو طا امام مالک ساتویں جبکہ صحیحین ،سنن ابی داود اور جامع ترمذی نویں اور آخری سال کے نصا ب میں شامل ہیں۔ اسی طرح اصول حدیث اور تاریخ حدیث پر کئی کتب مختلف سالوں کے نصاب میں شامل کی گئی ہیں۔
اسی طرح دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کے نصاب تعلیم میں قرآن مجید کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے ۔انتسویں اور تیسویں پارے کا حفظ کرنانیز تجوید کے ساتھ تلاوت قرآن کی صلاحیت ہر طالب علم کے لیے لازمی ہے۔اگر چہ تفسیر بیضاوی کے منتخب حصے مختلف سالوں میں داخل نصاب ہیں ،تاہم پورے قرآن کا ترجمہ اور معاصر تفاسیر کی روشنی میں فہم قرآن نصا ب کا لازمی حصہ ہے ۔اس کے علاوہ اصول تفسیر میں الفوز الکبیر ،الاتقان اور تاریخ قرآن جیسے موضوعات بھی نصا ب کا حصہ ہیں۔ اس مختصر جائزے سے یہ واضح ہوتاہے کہ پیر صاحبؒ نے اپنے مرتب کردہ نصاب میں قرآن وسنت کو پوری اہمیت دی ہے۔

تاریخ

اہل دانش کے نز دیک تاریخ کی مثال جھیل کے صاف اور پاک پانی جیسی ہے جس میں قومیں اپنی ماضی کا عکس دیکھتی ہیں اور پھر مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ قوموں کا تابناک ماضی ہی ان کو روشن مستقبل کے لیے تگ وتاز پر آمادہ کرتا ہے۔ اس لیے یہ بات درست ہی معلوم ہوتی ہے کہ’’ جس قوم کاکوئی ماضی نہیں اس کا کوئی مستقبل نہیں ‘‘علامہ اقبال کا نوجوانوں سے یہ مطالبہ اسی پس منظر میں تھا:
کبھی اے نوجواں مسلم !تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیاگردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹاہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالاہے آغوش محبت میں 
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِدارا
اپنے اسلاف کے کارناموں سے بے بہرہ رہ کر کوئی قوم ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتی ۔مسلمانوں کے لیے تو سیرت رسول ﷺاور سیرت صحابہؓوخلفاء راشدین سے واقف ہوئے بغیر اسلام کی عملی تعبیر وتشریح کاتصور ہی محال ہے،اور پھر پوری اسلامی تاریخ کو جس طرح روایت اور درایت کے اصول پر پرکھ کر ہر قسم کے خرافات اور قصے کہانیوں سے پاک کرکے خالص ،علمی ،تحقیقی اور عقلی بنیادوں پر مرتب کیا گیا ہے ، تحقیق وتنقید کے اس اسلوب نے اسلامی تاریخ کی قدروقیمت میں اضافہ کردیا ہے۔ علم اسماء الرجال جیسا فن تو خالصتا مسلمانوں کی ہی ایجاد ہے تاریخ میں جس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔
درس نظامی کے روایتی نصاب میں تاریخ سے جس بے اعتنائی کامظاہرہ کیا گیا ہے محترم پیر صاحبؒ نے کسی حد تک اس کا ازالہ کرنے کی سعی فرمائی ہے ۔چنانچہ ان کے رائج نصاب میں تاریخ قرآن ،تاریخ حدیث کے علاوہ سال بہ سال پوری اسلامی تاریخ کا مطالعہ شامل ہے ۔سیرت نبوی ﷺ کے تمام ادوار کا مفصل مطالعہ نصاب کا اہم حصہ ہے ۔زیر تبصرہ نصاب کی یہ ایسی خصوصیت ہے جس نے اس کو تمام وفاقوں کے نصاب سے انفرادی شان عطاکی ہے۔

ضیاء الامت کی کاوشوں کے نتائج واثرات

دارالعلوم محمدیہ غوثیہ میں جس نظام تعلیم کا تجربہ کیا گیا وہ بالکل نیا اور انفرادی توعیت کا تھا۔پروفیسر حافظ احمد بخش صاحب کا یہ دعوی بجا طور پر درست ہے :
’’یہ ایک تاریخی اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ ہی برصغیر پاک وہند میں وہ پہلا ادارہ ہے جس کے سربراہ نے سب سے پہلے قدیم اور جدید علوم کو یکجا کرکے نصاب کا ایسا حسین گلدستہ قوم کی نذر کیا جس کی مہک پھیلتے پھیلتے آفاق کی وسعتوں میں پہنچ گئی اور نہ صرف پورے پاکستان بلکہ بنگلہ دیش بلکہ یورپ کے مختلف ممالک میں بھی یہ دانش گاہ مختلف واسطوں سے اسلام کا فیضان پہنچا رہی ہے‘‘۔ (جمال کرم،۱/۳۳۸)
لیکن ابتدائی سالوں میں صورت حال قطعا قابل رشک نہ تھی نئے نظام تعلیم کی تنفیذ میں پیر صاحبؒ کو جن مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا اور پھر آپ نے ان مشکلات کا جس خندہ پیشانی ،استقامت اور مستقل مزاجی سے سامنا کیا اس کی بعض جھلکیاں ’’جمال کرم ‘‘ کی پہلی جلد میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ۔تاہم جوں جوں وقت گزرتاگیا دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کا نظام تعلیم لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتا گیا اور آج تقریبا نصف صدی بعد، جو کسی بھی علمی تحریک کے لیے زیادہ مدت نہیں ہے ،دارالعلوم محمدیہ غوثیہ ایک ایسے علمی اور فکری مرکز کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس کے ذیلی اداروں کی تعداد سو سے زائدہے جبکہ یورپی ممالک اور دوسرے ملکوں میں دارالعلوم کی ذیلی شاخوں کی حیثیت سے کام کرنے والے ادارے اس کے علاوہ ہیں۔
دارالعلوم محمدیہ غوثیہ سے فارع التحصیل فضلا کی قومی اور عالمی سطح پر دعوتی خدما ت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ پیر صاحبؒ نے جس شجر سایہ دار کی آبیاری اپنے خون جگر سے کی تھی وہ کاروان نہ تو رکا ہے اور نہ ہی فکر ی جمود کا شکار ہوا بلکہ ایک ایسی علمی تحریک کا روپ دھار چکا ہے جس کے تجربات سے استفادہ کرنا دینی مدارس کے ارباب دانش کی اہم ضرورت اور حالات کا تقاضا ہے۔ دینی اور عصر ی تعلیم کے حسین امتزاج پرمشتمل اس نصاب تعلیم ہی کا یہ ثمرہ ہے کہ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کے فضلا اس وقت ،مساجد ،مدارس ،افواج پاکستان ،سکول ،کالج،جامعات اور زندگی کے دیگر شعبوں میں اعلی عہدوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔دارالعلوم کے فضلا کی علمی فکر ی اور ملی خدمات ایک مستقل مضمون کی متقاضی ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے ۔

تجاویز و گزارشات 

دارالعلوم کے نصاب تعلیم میں وقتافوقتا ہونے والی تبدیلیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ یہ نصاب کبھی بھی جمود کا شکار نہیں ہوا اور اس کے موسس اعلی نے اپنے علمی ورثاکے لیے عملی مثال قائم کی ہے کہ وہ حالات اور ضرورتوں کے مطابق نصاب میں مناسب تبدیلیوں سے گریز نہ کریں ۔اس پس منظر میں ہم دارالعلوم کی موجودہ نصاب کمیٹی سے چند گزارشات کریں گے ۔ 
۱۔ عبا سی دور میں یونانی فلسفہ کے اثرات سے امت کو محفوظ رکھنے کے لیے مسلمان اہل علم اور متکلمین نے شاندار خدمات سر انجام دیں یہاں تک کہ یہ فتنہ فناہوگیا۔ آج پھر یونانی فلسفہ کی مانند مغربی فلسفہ و تہذیب چیلنج بن کر سامنے آئی ہے اس لیے مغربی فکر وفلسفہ کا تفصیلی تعارف اور جائزہ عصر حاضر کا اہم موضوع بن گیا ہے ۔ اس وقت اسلامی فکر کا براہ راست تصادم اور ٹکراو بھی مغربی فکروفلسفہ سے ہے اس لئے ہماری عاجزانہ رائے یہ ہے کہ معتزلہ ،جبریہ ،قدریہ اور دیگر کلامی فرقوں اور ان کے ائمہ کوکچھ وقت کے لیے معاف کر دیا جائے ۔ مناسب یہ ہوگا کہ تقابل ادیان کی طرز رپر مغربی فکر وفلسفہ کو شامل نصاب کیا جائے ،فرائیڈ ،ڈارون ،مالتھس ،آئن سٹائن ایرک فرام ،ایڈلر ،سارتر اور دیگر مغربی علماء کے افکار کا جائزہ لیا جائے کیونکہ انہی اہل علم کے نظریات مغربی تہذیب کے اصل سر چشمے ہیں ۔نوجوان نسل کومغرب کے فکر ی اثرات سے بچانے کے لیے اس میدان میں بھی دارالعلوم کے قائدانہ کردار کی ضرورت ہے۔ 
۲۔ ہمارے ہاں مدارس میں زیادہ زور فقہ اور اصول فقہ کی تدریس پر دیا جاتاہے اساتذہ کرام اپنی ساری ذہنی صلاحیتں دیگر فقہی مذاہب پر فقہ حنفی کی فوقیت ثابت کرنے میں صرف کر دیتے ہیں ،سوال یہ ہے کہ کیا فقہ شافعی یا کسی دوسری فقہ کے عالمی سطح پر غلبے کا خطرہ ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر دیگر فقہی مذاہب کی پر زور تردید بلکہ مذمت کا کیا فائدہ ہے؟۔اس سلسلے میں ہماری رائے یہ ہے کہ عصر حاضر کے تقاضوں کے پیش نظر آئمہ اربعہ کے فقہی مذاہب کے تعارفی مطالعہ کے ساتھ ساتھ اسلامی قانون (فقہ) کا ملکی اور بین الاقوامی قانون کے ساتھ تقابلی مطالعہ وقت کی اہم ضرورت ہے ،تاکہ اسلامی قانون کی آفاقیت اور ابدیت کو مدلل اندز میں پیش کیا جا سکے۔اس کے بغیر نہ فقہ کی تدریس کا حق ادا ہوسکتاہے اور نہ جدید فکری چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکتاہے ۔اس لیے مناسب یہ ہے کہ اقوام متحدہ (UNO) کے چارٹر ’’بنیادی انسانی حقوق کا عالمی منشور‘‘ کو جو اس وقت عالمی قانون کا درجہ رکھتا ہے،شامل نصاب کیا جائے اور پھر تقابلی مطالعہ کے بعد اسلامی حدو د وتعزیرات اور عائلی قوانین پر ہونے والے اعتراضات کا علمی اور تحقیقی انداز میں جواب دیا جائے ۔
۳۔اگر چہ دارالعلوم میں زیر تدریس نصاب تعلیم میں فہم قرآن مجید پر خصوصی توجہ دی گئی ہے تاہم اس پہلو پر ابھی مزید سوچ بچار کی ضرورت ہے ،بالخصوص قرآن مجید کی آیاتِ احکام خصوصی توجہ کی مستحق ہیں ۔اس لیے اگر آیاتِ احکام کو ایک خصوصی پرچے کے طور پر شامل نصاب کیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔

اردو زبان کی ضرورت و اہمیت اور دینی مدارس کے طلبہ

مولانا مفتی محمد اصغر

ملک کے معروف معیاری جرائد ورسائل میں ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں مختلف الخیال لوگوں کے آرا وافکار اورجدید افکار ونظریات رکھنے والے ارباب علم ودانش اور مفکرین کے مضامین ومقالات شائع ہوتے ہیں جس سے ان کے خیالات سے آگاہی ہوتی ہے اورغور وفکر کاموقع ملتا ہے۔ دوسروں کا نقطہ نظر سامنے آتاہے اور ان کے موقف کی کمزوری یابرتری ثابت ہوتی ہے۔ علمی دنیا میں اس کی جتنی ضرورت ہے، شاید ہی کسی صاحب علم کواس سے اختلاف ہو ۔
’’الشریعہ ‘‘میں وقتاًفوقتاًدینی مدارس کے مسائل کوزیر بحث لایاجاتاہے اور نظام تعلیم، اساتذہ اور طلبہ کی تعلیم وتربیت سے متعلق ماہرین تعلیم کی آرا پیش کی جاتی ہیں۔ گزشتہ چند شماروں میں دینی مدارس کے نظام تعلیم، اساتذہ اورطلبہ کی تعلیم و تربیت سے متعلق مسائل اور ان کے حل پر متعدد اصحاب علم ودانش کے خیالات پڑھنے کاموقع ملا اور دینی مدارس کے مسائل سے آگاہی ہوئی۔ یہ مفید سلسلہ آئندہ بھی چلتا رہنا چاہیے۔
بندہ دینی مدارس کے طلبہ کی اردودانی اور اردو زبا ن وادب میں کمزوری سے متعلق ارباب مدارس کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہے۔ دینی مدارس کے طلبہ کی ایک معتد بہ تعداد کی اردو بول چال کیسی ہے اور اردو گفتگو کااندازہ کیا ہے، اس کی ایک جھلک ذیل کے واقعات میں ملاحظہ فرمائیں:
معروف اسلامی اسکالر اورمتعددکتابوں کے مصنف ڈاکٹر قاری فیوض الرحمن صاحب سے بندہ نے یہ واقعہ خود سنا۔ فرماتے ہیں:
’’ایک دن میں شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر شیرعلی شاہ صاحب سے ملنے کے لیے ان کے پاس دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک گیا۔ حضرت اس وقت دارالحدیث میں دورۂ حدیث کے طلبہ کوسبق پڑھارہے تھے۔ جب گیٹ کراس کرکے اندر پہنچا تومیں نے ایک طالب علم سے پوچھا کہ ڈاکٹر شیرعلی شاہ صاحب کہاں ہیں؟اس طالب علم نے جواب دیا کہ ’’وہ دارالحدیث پڑھتی ہے ‘‘۔ میں حیران ہوا کہ اب اس عمر میں حضرت کو پڑھنے کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے۔ میں دارالحدیث میں پہنچا تو دیکھاکہ حضرت ،طلبہ کوبخاری شریف کاسبق پڑھارہے ہیں ۔‘‘
ایک اورواقعہ خود بند ہ کے ساتھ پیش آیا۔ دوتین سال قبل کی بات ہے کہ بندہ مغر ب کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلا توایک منتہی طالب علم (جو ماشاء اللہ اپنے رقبے کے طول وعرض کے اعتبار سے بڑے وسیع واقع ہوئے تھے) نے سلام کیا۔ بندہ نے ابھی سلام کاجواب دیاہی تھا کہ کہنے لگا: ’’استادجی !تومجھے بہت اچھی لگتی ہے‘‘۔ بندہ نے متعجبانہ اور سوالیہ انداز سے اس کی طرف دیکھا توکہنے لگا کہ ’’تونے ہم کو بہت اچھا’’ کنز‘‘ پڑھاتی تھی ‘‘یہ دوواقعے توبطور نمونہ لکھ دیے ہیں ،ورنہ دینی مدارس سے تعلق رکھنے والے احباب کواس طرح کے کلمات واحوال سے روزانہ کسی نہ کسی طرح واسطہ پڑتا رہتا ہے، ورنہ کم ازکم طلبہ سے سبق سننے کے دوران یاان سے گفتگو کے وقت توضرور موقع مل ہی جاتاہے۔ صرف کسی خاص علاقے اوروہاں کے باشندگان کی بات نہیں، بلکہ ملک کے دوسرے مختلف حصوں سے آنے والے طلبہ سے بھی اردو گفتگو کے وقت ان کی اردوزبان کی غلطیاں ایک ایک کرکے واضح ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگرلفظی اورزبان کی غلطی نہ بھی ہو، تب بھی کم از کم مادری زبان کا لب ولہجہ اردو گفتگو میں ضرور شامل ہو جاتا ہے جس سے پتہ چلتاہے کہ متکلم کی مادری زبان کیاہے اورکس علاقے کا رہنے والاہے ۔
ہمارے اکثردینی مدارس میں درس نظامی کاکورس اگرچہ اردوزبان میں پڑھایاجاتاہے،لیکن بطور زبا ن کے اردونہیں پڑھاتی ہے اورنہ اس کی طرف ارباب مدارس کی توجہ ہے۔ اس لیے فراغت کے بعد بھی ہمارے طلبہ کی اردوبول چال، تقریر اور گفتگومیں صریح غلطیاں ہوتی ہیں جواہل مدارس کے لیے شرمندگی کا باعث بنتی ہیں۔ اس وقت اردوزبان کی ضرورت واہمیت سے کوئی بھی ذی فہم انسان انکارنہیں کرسکتا۔ اس کااثرورسوخ پوری دنیا میں دن بدن پھیل رہاہے، بلکہ بہت سے علوم اردو میں منتقل ہوچکے ہیں اور کیے جارہے ہیں۔ ہماری ملکی زبان اردوہونے کے ناتے سے اور شرعی لحاظ سے بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم سب اردوزبان پرمکمل طور پر عبور حاصل کریں، اس کو ترقی دیں اور اس کو ضائع ہونے سے بچائیں۔
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ (جن کو اللہ تعالیٰ نے دین کے تقریباً تمام شعبوں کی خدمت سے نوازا تھا) انہوں نے اردوزبا ن کی شرعی حیثیت پر ایک وقیع مقالہ تحریر فرمایا تھا۔ حضرت نے دنیامیں رائج مختلف زبانوں کاشرعی لحاظ سے جائزہ لیا، ان میں سے عربی زبان کی مختلف جہات سے فوقیت وبرتریت اورفضیلت ثابت فرمائی اور واقعتاً عربی زبان مختلف حوالوں سے ہے بھی فضائل کامجموعہ۔ اس کی فضیلت ایک مسلمان کے لیے تواتنی ہی کافی ہے کہ یہ عربی زبان قرآن کی اور رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ہے اوراہل جنت کی زبان ہے۔ عربی کے بعد دوسرے درجے میں فارسی زبان ہے کیونکہ فصاحت میں فارسی عربی کے قریب ترہے اور اشرف اللغات ہے۔ عربی سے مناسبت کی وجہ سے فارسی کو فضیلت حاصل ہے، حتیٰ کہ ایک وقت میں توحضرت امام اعظم ؒ فارسی میں قراء ت کوجائز قرار دیتے تھے، اگرچہ بعدمیں رجوع فرما لیا تھا۔ اور دینی علوم کا بہت سا ذخیرہ بھی فارسی زبان میں ہے، خاص طورپر علم تصوف کااکثر وبیشتر حصہ توفارسی زبان میں ہی ہے۔ تیسرے درجے میں حضرت تھانوی ؒ نے اردو زبان کو بیان کیا ہے۔ اردوزبان کے بکثرت الفاظ عربی کے ہیں اور عربی اوراردوکے الفاظ تقریباًملتے جلتے ہیں۔
حضرت تھانوی ؒ نے اردوزبان کی تین فضیلتیں بیان کی ہیں۔
۱۔اردوکوعربی اورفارسی سے جزئیت کی مناسبت حاصل ہے ،کہ ان کے الفاظ باہم ملتے جلتے ہیں۔
۲۔علوم دینیہ بالخصوص تصوف صحیح ومقبول کاذخیرہ اردو میں ہے جس کو علما ومشائخ نے صدیوں کی محنت اورمشقت سے جمع فرمایاہے۔
۳۔ اردو کا سلیس اورآسان ہونا۔ جتنی یہ ز بان آسان ہے، شاید ہی اتنی کوئی اورزبان ہو اورقرآنی آیت ’فانما یسرنہ بلسانک لتبشربہ المتقین‘ اور ’فانما یسرنہ بلسانک لعلھم یتذکرون‘ سے بھی مشکل زبان کی بہ نسبت آسان زبان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ۔ 
خاتم المحدثین حضرت مولانا محمد انورشاہ کشمیری ؒ کے بارے میں متعدد حضرات سے سناہے کہ آپ اردوزبان کی اہمیت کے قائل نہیں تھے لیکن جب حضرت تھانوی ؒ کی تفسیر بیان القرآن دیکھی تو فرمایا کہ ہم سمجھتے تھے کہ اردوزبان شاید علوم سے خالی ہے، لیکن بیان القرآن دیکھنے سے معلو م ہواکہ اردوزبان بھی علوم کاذخیرہ ہے۔
حضرت تھانوی ؒ اردوزبان کی شرعی حیثیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اس وقت اردوزبان کی حفاظت دین کی حفاظت ہے ، اس بنا پر یہ حفاظت حسب استطاعت اورواجب ہوگی، اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت اورسستی کرنامعصیت اورموجب مواخذہ آخرت ہوگا۔‘‘ (البلاغ ،۲،۱۷)
ہمارے ہاں چونکہ اکثر مدارس میں اردوزبان بطور نصاب اور زبان کے نہیں پڑھائی جاتی جبکہ عصری تعلیم گاہوں میں اردو زبان بطور نصاب پڑھائی جاتی ہے اور اس پر خوب توجہ دی جاتی ہے، اس لیے مدارس کے طلبہ کے لیے اس میں متعد د مشکلات ہیں۔ اس کے لیے طلبہ کی خدمت میں گزارش ہے کہ جب تک اردوزبان مدارس کے نصاب میں شا مل نہیں کی جاتی، اس وقت تک اپنے طورپر اس کو سیکھنے کی کوشش کریں۔ اردو کے نامور اور معروف ادیبوں کی تحریریں پڑھیں اوراگر موقع میسر ہو توان کی اردو گفتگو کو توجہ سے سنیں اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کریں۔ اپنی بول چال اور اپنی تقریر وتحریر میں اردو الفاظ سوچ سمجھ کراستعمال کریں، پھرا ن کی خوب عملی مشق کریں۔
اردو ادب پرلکھی جانے والی اچھی کتابوں کااپنے اساتذہ کرام سے انتخاب کرا کے ان کانہ صرف مطالعہ کریں بلکہ بآواز بلند ان کی خواندگی کریں اور ایک دوسرے کو ان کی تحریر پڑھ کرسنائیں۔ بلند آواز سے پڑھتے ہوئے تلفظ کی صحت، لب و لہجہ کی عمدگی اور آوازکے اتارچڑھاؤ کا ضرور خیال رکھیں۔ ہلکے پھلکے اور زور دار جملوں کو پڑھتے وقت بھی آواز میں اتار چڑھاؤ کوظاہر کریں۔ اسی طرح الفاظ کے معانی کے ساتھ آواز کی مناسبت کابھی لحاظ کریں۔
اس مقصدکے لیے ہمیں کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل وکرم سے یہ ملکہ بھی ہمارے اکابرین کو حاصل ہے۔ ہمارے اکابر میں ایک سے بڑھ کر ایک اردو ادب پر ماہرانہ دسترس رکھنے والے موجود ہیں اور ان کی کتابیں موجود ہیں۔ بالخصوص مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا سید ا بوالحسن ندوی، مولانا محمد یوسف لدھیانوی اور موجودہ اکابر میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا زاہدالراشدی، مولانا عبدالقیوم حقانی، مولانامفتی ابو لبابہ، مولانا ابن الحسن عباسی کی کتابیں اور ان کے مضامین و مقالات کو پڑھیں۔ اس سے ان شاء اللہ اردو زبان کی درستی کے ساتھ ساتھ معلومات میں بھی اضافہ ہوگا۔ اور بھی بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔

مغرب اور اسلام کیرن آرمسٹرانگ کی نظر میں

ڈاکٹر محمد شہباز منج

نامور برطانوی اسکالر کیرن آرمسڑانگ مستشرقین کے جم غفیر میں ان چند استثنائی مثالوں میں سے ایک ہیں جو اسلام سے متعلق حقیقت پسندانہ نقطہ نظر کی حامل ہیں۔ ۲؍فروری ۲۰۰۸ء کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے انٹرویو میں انہوں نے اسلام کے بارے میں جن خیالات کااظہارکیا ہے، وہ اسلام کے حوالے سے ان کے اس مبنی برعدل واعتدال موقف کاتسلسل ہیں جس کو وہ گزشتہ کئی برس سے اپنی تصانیف میں پیش کرتی چلی آرہی ہیں۔ اپنے مذکورہ انٹرویو میں موصوفہ نے مغرب میں اسلام سے متعلق غلط تصورات کی موجودگی کا واضح لفظوں میں اعتراف کیاہے۔ اس حقیقت کومس کیرن نے اپنی کتاب Muhammad: a Western Attempt to understand Islam میں پورے تاریخی پس منظر کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہاں انہوں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ مغرب میں کس طرح ا بتدا ہی جان بوجھ کر اسلام اور پیغمبر اسلام کی مسخ شدہ تصویر پیش کی جاتی رہی ہے اور کس طرح قرطبہ کے ’’مسیحی شہیدوں‘‘ (وہ عیسائی جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی پاداش میں قرطبہ کی اسلامی عدالت کی طرف سے سزاے موت دی گئی تھی) اور قرون وسطیٰ کے داستان سراؤ ں سے لے کر عصرحاضر تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بے بنیاد الزامات واتہامات کی بوچھاڑ کی جاتی رہی ہے۔ موصوفہ کے مطابق قرو ن وسطیٰ کے وہ توہمات جن کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذباللہ) عیاش، کذاب اور تشدد پسند قرار دیا جاتا تھا، ان کے آثار آج بھی مغرب میں آسانی سے تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ آج بھی لوگ ان خیالات پر یقین رکھتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مذہب کودنیاوی کامیابیوں کے لیے استعمال کیا۔ آج بھی یہ خیال عام ہے کہ اسلام تلوار کادین ہے۔ مغرب میں آج بھی بعض لوگ یہ سن کر حیرا ن ہوتے ہیں کہ مسلمان اسی خدا کی عبادت کرتے ہیں جس کی عبادت یہودی اور عیسائی کرتے ہیں۔ مغرب میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تمثیلی حیثیت نے لوگوں کے لیے اس بات کومشکل بنادیاہے کہ وہ آپ کوایک ایسے تاریخی کردارکی شکل میں دیکھیں جو اسی طرح کے سنجیدہ سلوک کامستحق ہے جس کے مستحق نپولین اور اسکندر اعظم تھے۔ کیرن آرمسٹرانگ نے یہ حقائق برسوں قبل منظر عام پرآنے والی اپنی مذکورہ کتاب میں پیش کیے تھے، لیکن اب انہوں نے نائن الیون کے بعد کی بدلی ہوئی صورت حال میں نام نہاد War on Terror کے تناظر میں پھریہی بات دہرائی ہے کہ مغرب میں اسلام سے متعلق غلط تصورات رائج ہیں۔ 
کیرن نے سوفیصد درست کہا ہے۔ مسیحی مغر ب میں اسلام کا غلط تصور اور اسلام دشمن رویہ شروع سے آج تک ایک تسلسل کے ساتھ موجود چلا آ رہا ہے۔ آج کا مغرب اسلام دشمن رویے کو عہد رفتہ کاگڑا مردہ کہہ کر اپنی صفائی پیش کرنے میں کسی طور حق بجانب نہیں کہلا سکتا۔ کیا ۲۰۰۵ء میں ڈنمارک اور بعدازاں دیگرمغربی ممالک کے اخبارات میں سرور انبیا کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت اور پھر خاکے شائع کرنے والے ملعون صحافیوں کا اعلیٰ انعامات کے لیے منتخب کیا جانا اور ابھی کچھ ہی ماہ پیشتر یہودی ومسیحی مصنفین کی طرف سے شان رسالت ماب میں کی گئی ہزرہ سرائیوں کو لفظ بلفظ دہرانے والے ملعون سلمان رشدی کو’’سر‘‘ کا خطاب ملنا اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت نہیں کر رہا کہ مغرب میں آج بھی اسلام اور پیغمبر اسلام کی مسخ شدہ تصویر ہی کو پذیرائی ملتی ہے اور مغرب آج بھی ہراس چیز کی طرف جھپٹتاہے جس میں اسلام اور پیغمبر اسلام سے متعلق نفرت اور عداوت کا کوئی پہلو نکلتاہو؟
یہ بات تو درست مانی جا سکتی ہے کہ عام اہل مغرب کے اسلام کے بارے میں غلط تصورات، ناقص اورناکافی معلومات اور اصل اسلامی ماخذ سے عدم استفادہ کانتیجہ ہیں، لیکن یہ بات قطعاً خلاف واقعہ ہے کہ عام اہل مغرب کواسلامی معلومات فراہم کرنے والے مستشرقین بھی اکثر وبیشتر اصلی اسلامی مصادر سے بے بہرہ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مستشرقین کو بالعموم اسلام کے اصلی مصادر تک رسائی حاصل تھی لیکن بمصداق فرمان خداوندی ’’الذین آتینھم الکتاب یعرفونہ کمایعرفون ابناء ھم وان فریقا منھم لیکتمون الحق وھم یعلمون‘‘ّ (البقرہ ،۱۴۶۔ جن لوگوں ہم نے کتاب دی ہے، وہ ان (پیغمبرآخرالزمانؑ ) کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کوپہچانا کرتے ہیں، لیکن ان میں سے ایک گروہ حق کوجان بوجھ کر چھپاتاہے) انہوں نے اپنے خصوصی اسلام مخالف اہداف کے پیش نظر اسلامی تصورات کو دانستہ مسخ کرکے پیش کیا۔ مثلاً میڈرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر پلاسیوس (Placious) کی تحقیق کے مطابق اٹلی کے مشہور شاعر دانتے (۱۲۶۵ تا ۱۳۲۱ء) نے، جو صرف اٹلی کی نشاۃ ثانیہ کا جد امجد ہی نہیں، یورپ کی نشاۃ ثانیہ کاپیامبر بھی ہے، اپنی شہرۂ آفاق نظم The Divine Comedy میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث معراج، ابن عربی کی ’’فتوحات مکیہ‘‘ اور المصری کے ’’رسالہ الغفران‘‘ سے استفادہ کیاتھا، لیکن ایسے اہم اسلامی مصادر تک رسائی رکھنے والے اس مستشرق شاعر نے اپنے ’’خیالات عالیہ‘‘ میں حضور کو (نعوذباللہ) عیسائیت میں تشتت وافتراق کامجرم قرار دیا، جہنم کے آٹھویں درجے میں مثلہ کردہ زیر عتاب بتایا اور حضرت علیؓ اور حضور کے دیگر اصحاب قدسی صفات کو روتے چلاتے مبتلائے عذاب ظاہر کیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ دانتے کی بات پرانی ہے اور اس وقت اہل مغرب کواسلامی مصادر تک کماحقہ رسائی حاصل نہ تھی نیز مغربی اہل قلم صلیبی جنگوں کے تعصبات میں مبتلاتھے، بنابریں وہ اسلام سے متعلق معروضی رویہ اپنانے پر آمادہ نہ ہوسکے اور یہی وجہ ہے کہ جب معروضی تحقیق کاچلن عام ہو ا توخود مغربی اہل قلم نے اپنے پیشرووں کے غیر معروضی اور متعصبانہ رویے کو نشانہ تنقید بنایا، لیکن کیا کیجیے کہ جدید مغربی معروضیت بھی اکثر وبیشتر (استنثا ہر جگہ موجود ہوتا ہے) قدیم غیر معروضیت کی اسیر نظر آتی ہے۔ مثال کے طورپر مشہور مستشرق منٹگمری واٹ جواپنی کتاب Muhammad: Prophet and Statesman میں صلیبی تعصبات کے نتیجے میں عیسائیوں کی طرف سے اسلام پرہونے والی زیادتی پر نوحہ کناں ہیں، ان کی اپنی معروضیت اور غیر جانبداری کا اندازہ واٹ کی مذ کورہ کتاب ہی میں موجود ان کے ا س ’’تجزیے‘‘ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’اسلامی جہاد قدیم عر بوں کے ہاں مروج ڈاکہ زنی اور لوٹ کھسوٹ کے عمل کا تبدیل شدہ نام ہے۔‘‘ گویا یورپ آج بھی قدیم تعصبات میں مبتلاہے۔ نائن الیون کے موقع پر جناب بش کی زبان سے ’’فی البدیہہ‘‘ crusade کے لفظ کانکلنا عیسائی ذہن میں ہنوز صلیبی تعصبات کی موجودگی کاواضح عکاس ہے۔
اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اسلام اور عیسائیت کے پیروکاروں کے مابین ڈائیلاگ کی ضرورت سے انکاری ہیں۔ ایک مسلمان تو ڈائیلاگ سے پہلو تہی کرہی نہیں سکتا،کیونکہ اسلام ہی نے توسب سے پہلے ڈائیلاگ پر زور دیتے ہوئے کہاتھا کہ یااھل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ (آل عمران، ۶۴) ’’اے اہل کتاب! آؤ اس بات کی طرف جو ہم میں اور تم میں یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے۔‘‘ ڈائیلاگ کی یہی وہ بنیاد ہے جس کی طرف مس کیرن نے اپنے مذکورہ انٹرویو میں اشارہ کیاہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ عیسائی، مسلمان اور یہودی، سب کاخدا ایک ہے اور وہ ایک دوسرے کی الہامی کتابوں کو تسلیم کرتے ہیں توپھر ایک دوسرے کی بات کیوں نہیں سن سکتے؟ انہوں نے کہا کہ مذاہب میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ اسلام اس سلسلے میں رہنما کردار اداکرسکتاہے کیونکہ اسلام تمام دیگرمذاہب کے احترام کا درس دیتا ہے۔ 
کاش عام مستشرقین یورپ، دیگر مسیحی اہل مغرب اور یہودی بھی مس کیرن کی آواز پر کان دھرتے ہوئے اور ان کی طرح وسعت قلبی کامظاہر ہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی الہامی کتاب اور ان کے پیغمبر سے متعلق احترام کا وہی رویہ اختیار کر سکیں جو ان کی الہامی کتابوں اور پیغمبروں سے متعلق مسلمان رکھتے ہیں۔ کیایہودی اور عیسائی اس وسعت قلبی کا مظاہرہ کریں گے کہ قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کواسی طرح اپنے ایمان کاحصہ بنائیں جس طرح مسلمان تورات وانجیل اور موسیٰ وعیسیٰ علیہما السلام کے احترام کو اپنے ایمان کاحصہ سمجھتے ہیں؟ توقع اور دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ مغرب سے کیرن جیسی مزید محبت بھری آوازیں اٹھیں اور مغرب اور امریکہ کے ارباب بست وکشاد کویہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں کہ ان کا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا فلسفہ درست نہیں ہے اور انتہا پسندی اور دہشت گردی صرف اسی صورت میں ختم ہوسکتی ہے کہ محروموں کی محرومیاں ختم کی جائیں اور کمزوروں پر ظلم بند کر دیا جائے۔ مس کیرن آرمسٹران! خوف و وحشت اور قتل وخونریزی کی آگ میں بھسم انسانیت آج آپ جیسے محبت کے سفیروں ہی کی راہ تک رہی ہے۔

زنا کی سزا (۱)

محمد عمار خان ناصر

(مصنف کی زیر ترتیب کتاب ’’حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ کا ایک باب۔)

قرآن مجید میں زنا کی سزا دو مقامات پر بیان ہوئی ہے اور دونوں مقامات بعض اہم سوالات کے حوالے سے تفسیر وحدیث اور فقہ کی معرکہ آرا بحثوں کا موضوع ہیں۔ 
پہلا مقام سورۂ نساء میں ہے۔ ارشاد ہوا ہے:
وَاللاَّتِیْ یَأْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِکُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْْہِنَّ أَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ فَإِنْ شَہِدُوْا فَأَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفَّاہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً ۔ وَاللَّذَانِ یَأْتِیَانِہَا مِنْکُمْ فَآذُوْہُمَا فَإِنْ تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوْا عَنْہُمَا إِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّاباً رَّحِیْماً (النساء ۴:۱۵، ۱۶)
’’اور تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کرتی ہوں، ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو۔ پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ایسی عورتوں کو گھروں میں محبوس کر دو، یہاں تک کہ انھیں موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور راستہ بیان کر دیں۔ اور تم میں سے جو مرد وعورت بدکاری کا ارتکاب کرتے ہوں، انھیں اذیت دو۔ پھر اگر وہ توبہ اور اصلاح کر لیں تو ان سے درگزر کرو۔ بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔‘‘
ان میں سے پہلی آیت، جس میں خواتین کے لیے بدکاری کی ایک عبوری سزا بیان کی گئی ہے، اپنے مدعا کے لحاظ سے واضح ہے، البتہ دوسری آیت میں ’واللذان یاتیانہا‘ کا مصداق متعین کرنے کے حوالے سے مفسرین کو الجھن کا سامنا ہے، کیونکہ عربی زبان کی رو سے تثنیہ کا صیغہ دو مردوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور مرد وعورت کے لیے بھی۔ مفسرین کے ایک بڑے گروہ کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد زانی مرد اور عورت ہیں اور پہلی آیت میں گھروں میں محبوس کرنے کی سزا بیان کرنے کے بعد ، جو خواتین کے ساتھ مخصوص ہے، دوسری آیت میں وہ سزا بیان کی گئی ہے جو مرد اور عورت، دونوں کو مشترک طور پر دی جائے گی۔ تاہم آیت اس توجیہ کو قبول نہیں کرتی، اس لیے کہ یہاں ’واللاتی یاتین الفاحشۃ‘ اور اس کے بعد ’واللذان یاتیانہا‘ کا اسلوب اپنے متبادر مفہوم کے لحاظ سے اس کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کو تکرار کے بجائے استیناف پر محمول کیا جائے اور دوسری آیت کو بدکاری کی کسی مختلف صورت سے متعلق مانا جائے۔ اس کو مزید تقویت اس سے ملتی ہے کہ دونوں آیتوں میں بیان کی جانے والی سزا کی نوعیت بھی ایک دوسرے سے مختلف بلکہ معارض ہے، چنانچہ پہلی آیت میں توبہ واصلاح کے امکان کا ذکر کیے بغیر حتمی طور پر خواتین کو گھروں میں محبوس کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاآنکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی دوسرا حکم آ جائے، جبکہ دوسری آیت میں توبہ واصلاح کے امکان کو آزمانے کی ہدایت کی گئی اور اس کے تحقق کی صورت میں زانی مرد اور عورت سے درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ 
دوسری رائے یہ ہے کہ ’واللاتی یاتین الفاحشۃ من نسائکم‘ میں شادی شدہ خواتین کی سزا بیان ہوئی ہے جبکہ ’واللذان یاتیانہا‘ میں کنوارے زانی اور زانیہ کی۔ اس پر ایک اشکال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’نساء‘ کا لفظ اپنے اصل مفہوم کے لحاظ سے ہر طرح کی خواتین کے لیے عام ہے۔ اسے شادی شدہ خواتین کے ساتھ خاص قرار دینے کے لیے سیاق کلام میں کوئی قرینہ درکار ہے جو یہاں موجود نہیں۔ قرآن مجید میں جن دوسرے مقامات پر، مثال کے طور پر ’للذین یولون من نسائہم‘ (البقرہ ۲۲۶) اور ’الذین یظاہرون منکم من نسائہم‘ (المجادلۃ ۲) میں یہ لفظ ’’بیویوں‘‘ کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے، وہاں سیاق میں واضح قرائن موجود ہیں۔ دوسرا اشکال یہ ہے کہ یہاں ’نساء‘ کو بیویوں کے معنی میں لینے کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کا مضاف الیہ بننے والی ضمیر خطاب یعنی ’کم‘ کا مصداق ان خواتین کے شوہر ہوں، اس لیے کہ ’نساء‘ کے لفظ میں بیویوں کا مفہوم شوہروں کی طرف اضافت ہی سے پیدا ہوسکتا ہے، ورنہ اگر ’کم‘ کا مصداق بحیثیت مجموعی پورے معاشرے کو مانا جائے ہو تو ’نساء‘ کا مطلب بیویاں نہیں ہو سکتا۔ اس تاویل کو ماننے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یہاں خواتین کو سزا دینے کے حکم کے مخاطب مسلمانوں کے اہل حل عقد نہیں بلکہ انفرادی حیثیت میں ان خواتین کے شوہر قرار پائیں گے، جبکہ ’فاستشہدوا علیہن اربعۃ منکم‘ کی ہدایت اس حکم کو اندرون خانہ اختیار کی جانے والی ایک تدبیر قرار دینے میں مانع ہے، اور اسے صریحاً نظم اجتماعی اور عدالت وقضا سے متعلق کر رہی ہے۔ مذکورہ تاویل پر ایک اور اشکال یہ بھی سامنے آتا ہے کہ اگر کنوارے زانی کی سزا بیان کرتے ہوئے مرد اور عورت، دونوں کا ذکر کیا گیا ہے تو پہلی آیت میں صرف شادی شدہ خواتین کیوں زیربحث ہیں اور شادی شدہ مردوں کی سزا کیوں بیان نہیں کی گئی؟ 
ایک رائے یہ ہے کہ پہلی آیت میں وہ صورت زیر بحث ہے جب بدکاری کے فعل پر چار گواہ میسر ہوں، جبکہ دوسری آیت میں اس صورت کا حکم بیان ہوا ہے جب چار گواہ موجود نہ ہوں۔ یہ بھی ایک غیر متبادر اور الفاظ سے بعید تاویل ہے، اس لیے کہ اگر یہ مقصود ہوتا تو ’فان شہدوا فامسکوہن فی البیوت‘ کے تقابل میں ’وان لم یشہدوا فآذوہما‘ یا ’وان لم یکونوا فآذوہما‘ سے ملتا جلتا کوئی اسلوب اختیار کیا جاتا جو مدعا کے ابلاغ کے پہلو سے زیادہ واضح اور صریح ہوتا۔ موجودہ صورت میں متبادر مفہوم یہ ہے کہ چار گواہوں کی شرط دوسری آیت میں بھی مقدر سمجھی جائے جسے اقتضاے عقلی کے اصول پر واضح ہونے کی بنیاد پر لفظوں میں ذکر نہیں کیا گیا۔ مزید برآں یہ اشکال اس تاویل میں بھی برقرار رہتا ہے کہ پہلی آیت میں خواتین ہی خاص طور پر کیوں زیربحث ہیں اور مردوں کی سزا بیان کرنے سے کیوں گریز کیا گیا ہے؟
ایک اور رائے یہ ہے کہ پہلی آیت صرف زانی خواتین کی سزا بیان کرتی ہے، جبکہ دوسری آیت صرف مرد زانیوں کی اور یہاں تثنیہ کا صیغہ لانے سے مقصود اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ زانی چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، اس کے لیے ایک ہی سزا ہے۔ لیکن اس پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ کسی قرینے کے بغیر مجرم کی ازدواجی زندگی کی دو مختلف حالتوں پر تثنیہ کے صیغے کی دلالت غیر واضح ہے۔ مزید یہ کہ اگر مطلقاً ہر طرح کے زانی کے لیے ایک ہی سزا کی طرف اشارہ پیش نظر ہوتا تو اس کے لیے تثنیہ کا صیغہ لانے کی ضرورت ہی نہیں تھی اور اس کے بجائے ’والذی یاتیہا‘ یا ’والذین یاتونہا‘ کا معروف اسلوب ہی کافی تھا، جیسا کہ پہلی آیت میں ’واللاتی یاتین‘ کا اسلوب ہر طرح کی زانی عورتوں پر دلالت کرنے کے لیے کافی ہے۔ جب مقصد دونوں آیتوں میں ایک ہی ہے تو دوسری آیت میں پہلی سے مختلف اسلوب اختیار کرنے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
بعض مفسرین اس آیت کو زنا سے نہیں بلکہ ہم جنس پرستی سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ ان کی رائے میں ’واللاتی یاتین الفاحشۃ‘ میں خواتین کی جبکہ ’والذان یاتیانہا‘ میں مردوں کی ہم جنس پرستی کی سزا بیان کی گئی ہے۔ تاہم یہ رائے بھی کئی پہلووں سے محل نظر ہے:
اولاً، ’فاحشۃ‘ کا لفظ اگرچہ اپنے لغوی مفہوم کے لحاظ سے زنا، لواطت اور خواتین کی ہم جنس پرستی، سب کے لیے بولا جا سکتا ہے، لیکن کسی زبان کے عرف میں الفاظ کا استعمال ان میں ایک نوع کی تخصیص پیدا کر دیتا ہے اور جب وہ لفظ بولا جائے تو اس کا وہی متبادر مفہوم مراد ہوتا ہے جس میں وہ بالعموم استعمال ہوتا ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف کوئی قرینہ پایا جائے۔ ’فاحشۃ‘ کا لفظ اور خاص طور پر ’اتی الفاحشۃ‘ کی ترکیب بھی عربی زبان میں زنا کے لیے معروف ہے، اس لیے جب تک کوئی قرینہ نہ پایا جائے، اس کا کوئی دوسرا مفہوم مراد نہیں لیا جا سکتا۔ چنانچہ ’الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ‘ (نساء، ۱۹) اور ’من یات منکن بفاحشۃ مبینۃ‘ (الاحزاب، ۳۰) میں یہ تعبیر زنا ہی کے لیے استعمال ہوئی ہے، کیونکہ اس کے برخلاف کوئی قرینہ موجود نہیں۔ البتہ اعراف ۷۹ اور نمل ۵۳ میں یہی ترکیب لواطت کے مفہوم میں استعمال ہوئی ہے اور دونوں جگہ ’ما سبقکم بہا من احد من العالمین‘ اور ’انکم لتاتون الرجال‘ کا واضح قرینہ موجود ہے۔ 
اگر ’الفاحشۃ‘ کا مصداق زنا ہے تو پھر ’والذان یاتیانہا‘ کو بھی لازماً زنا ہی سے متعلق ماننا ہوگا، کیونکہ ’یاتیانہا‘ میں ضمیر منصوب پچھلی آیت میں مذکور اسی ’الفاحشۃ‘ کی طرف لوٹ رہی ہے، چنانچہ اس کا مفہوم بھی زنا کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ اگر قرآن کا مدعا ’واللاتی یاتین الفاحشۃ‘ سے زنا کی جبکہ ’والذان یاتیانہا‘ سے بدکاری کی کسی دوسری صورت کی سزا بیان کرنا ہوتا تو لازم تھا کہ اس کے لیے کوئی زائد قرینہ کلام، مثال کے طور پر ’والذان یاتیانہا من رجالکم فاذوہما‘ کلام میں رکھا جاتا۔ اس اضافی قرینے کے بغیر ’یاتیانہا‘ میں مذکور بدکاری کو ’یاتین الفاحشۃ‘ میں ذکر ہونے والی بدکاری سے کسی طرح الگ نہیں کیا جا سکتا۔
ثانیاً، ’والذان یاتیانہا‘ کی تعبیر عربیت کی رو سے لواطت کے لیے کسی طرح موزوں نہیں، اس لیے کہ اس میں فعل کی نسبت فریقین کی طرف کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ زنا کے ارتکاب کی نسبت تو مرد اور عورت، دونوں کی طرف کی جا سکتی ہے، لیکن لواطت میں ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ قرآن مجید میں قوم لوط کا جرم جہاں بھی بیان کیا گیا ہے، وہاں ’تاتون الرجال‘ کی تعبیر استعمال ہوئی ہے جس میں فعل کی نسبت ایک ہی فریق کی طرف کی گئی ہے۔ 
ثالثاً، جرم اور سزا کے مابین مناسبت بھی یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس ہدایت کو زنا سے متعلق مانا جائے۔ اگر اس تدبیر سے مقصود ہم جنسی پرستی کا سدباب تھا تو یہ کہنا چاہیے تھا کہ ایسی خواتین کو باہمی میل ملاقات سے روک دیا جائے، جبکہ ’امسکوہن فی البیوت‘ کی تعبیر انھیں علی الاطلاق گھروں میں محبوس کر دینے کو بیان کرتی ہے اور یہ بات ہم جنس پرستی کے بجائے زنا کے سدباب کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ مزید برآں قرآن مجید نے اس جرم کے اثبات کے لیے چار گواہ طلب کرنے کی بات کی ہے جس سے واضح ہے کہ وہ اس معاملے کو عدالت سے متعلق قرار دے رہا ہے، جبکہ خواتین کی ہم جنس پرستی کے سدباب کے لیے اس اہتمام کی ضرورت نہیں۔ اگر دو خواتین اس عادت میں مبتلا ہیں تو انھیں عدالت میں پیش کرنے اور باقاعدہ مقدمہ چلانے کی ضرورت نہیں، بلکہ ان کے اہل خانہ کو یہ ہدایت دینا کافی ہے کہ وہ ان کے باہمی میل جول کو روک دیں۔
رابعاً، قرآن مجید نے یہاں ’حتی یجعل اللہ لہن سبیلا‘ سے واضح کیا ہے کہ یہ ایک عبوری سزا ہے۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی نقل کردہ روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد جب زنا کی حتمی سزا بیان کی تو اسی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ’خذوا عنی خذوا عنی قد جعل اللہ لہن سبیلا‘۔ آپ کے اس ارشاد سے بھی واضح ہے کہ زیر بحث آیت میں زنا ہی زیر بحث ہے۔
خامساً، اس رائے پر مولانا مودودی کا یہ تبصرہ بھی بالکل برمحل ہے کہ ’’قرآن انسانی زندگی کے لیے قانون واخلاق کی شاہراہ بناتا ہے اور انھی مسائل سے بحث کرتا ہے جو شاہراہ پرپیش آتے ہیں۔ رہیں گلیاں اور پگڈنڈیاں تو ان کی طرف توجہ کرنا اور ان پر پیش آنے والے ضمنی مسائل سے بحث کرنا کلام شاہانہ کے لیے ہرگز موزوں نہیں ہے۔ ایسی چیزوں کو اس نے اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عہد نبوت کے بعد جب یہ سوال پیدا ہوا کہ مرد اور مرد کے ناجائز تعلق پر کیا سزا دی جائے تو صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی یہ نہ سمجھا کہ سورۂ نساء کی اس آیت میں اس کا حکم موجود ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن، ۱/۳۳۲، ۳۳۳)
مذکورہ تمام توجیہات اور ان پر وارد ہونے والے اشکالات کے تناظر میں قاضی ابن العربی نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ ’ہذہ معضلۃ فی الآیات لم اجد من یعرفہا‘ (احکام القرآن، ۱/۴۵۷) یعنی یہ ایک بے حد مشکل آیت ہے اور مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو اس کا مطلب جانتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے حوالے سے مختلف تفسیری امکانات کا جائزہ لینے کا سلسلہ ختم نہیں ہوا اور متاخرین کے ہاں بھی اس ضمن میں بعض نئی آرا سامنے آئی ہیں۔
صاحب ’’تدبر قرآن‘‘ مولانا امین احسن اصلاحی نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ نساء کی مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت اس صورت کو بیان کرتی ہے جب زنا کی مرتکب عورت کا تعلق مسلمانوں سے جبکہ مرد کا تعلق کسی غیر مسلم گروہ سے ہو، جبکہ دوسری آیت میں وہ صورت زیر بحث ہے جب دونوں مسلمان اور اسلامی ریاست کے قانونی دائرۂ اختیار میں رہتے ہوں۔ دوسری صورت میں مرتکبین کو توبہ واصلاح کا موقع دینے جبکہ پہلی صورت میں خواتین کو اس طرح کا کوئی موقع دیے بغیر تامرگ محبوس کر دینے کی وجہ مولاناکی رائے میںیہ تھی کہ ’’دوسری صورت میں تو دونوں فریق اسلامی معاشرے کے دباؤ میں ہیں، ان کے رویے میں جو تبدیلی ہوگی وہ سب کے سامنے ہوگی۔ نیز ان کے اثرات اور وسائل معلوم ومعین ہیں، ان کے لیے بہرحال اپنے خاندان اور قبیلے سے بے نیاز ہو کر کوئی اقدام ناممکن نہیں تو نہایت دشوار ہوگا۔ لیکن پہلی صورت میں مرد، جو اصل جرم میں شریک غالب کی حیثیت رکھتا ہے، مسلمانوں کے معاشرہ کے دباؤ سے بالکل آزاد ہے۔ نہ اس کے رویے کا کچھ پتہ، نہ اس کے عزائم کا کچھ اندازہ، نہ اس کے اثرات ووسائل کے حدود معلوم ومعین۔ ایسی حالت میں اگر عورت کو یہ موقع دے دیا جاتا کہ توبہ کے بعد اس سے درگزر کی جائے تو یہ بات نہایت خطرناک نتائج پیدا کر سکتی تھی۔ اول تو مرد کے رویہ کو نظر انداز کر کے عورت کی توبہ واصلاح کا صحیح اندازہ ہی ممکن نہیں ہے اور ہو بھی تو جب مرد بالکل قابو سے باہر اور مطلق العنان ہے تو اغوا، فرار اور قتل وخون کے امکانات کسی حال میں بھی نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ اس پہلو سے اس میں احتیاط کی شدت ملحوظ ہے۔‘‘ (تدبر قرآن، ۲/۲۶۵)
مولانا اصلاحی کی اس رائے پر ایک بڑا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زنا کے واقعات میں جتنا امکان خاتون کے مسلمان جبکہ مرد کے غیر مسلم ہونے کا پایا جاتا تھا، اتنا ہی اس کے برعکس صورت کے پائے جانے کا بھی موجود تھا، لیکن قرآن مجید نے اس کو سرے سے موضوع ہی نہیں بنایا۔ مولانا کی رائے کے مطابق قرآن مجید نے دوسری آیت میں زانی مرد وعورت کو اذیت دینے اور انھیں توبہ واصلاح پر آمادہ کرنے کی جو ہدایت دی ہے، اس کاموثر ہونا اس امرپر منحصر تھا کہ دونوں مسلمان معاشرے کے افراد ہوں، جبکہ مرد کے کسی غیر مسلم گروہ کا فرد ہونے کی صورت میں اس تدبیر کاموثر ہونا مخدوش تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اگر مسلمانوں کے لیے اپنی خواتین کو توبہ واصلاح کا موقع دینا ممکن نہیں تھا اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ انھیں گھروں میں محبوس کر دیا جائے تو ظاہر ہے کہ مردوں کے معاملے میں توبہ واصلاح کے امکان کو آزمانے کا خطرہ مول لینا بدرجہ اولیٰ ممکن نہیں تھا۔ یہ صورت زیادہ اعتنا کی مستحق تھی اور تقاضا کرتی تھی کہ زانی مرد کے مسلمان جبکہ عورت کے غیر مسلم ہونے کی صورت میں بھی متعین ہدایات دی جاتیں اور بتایا جاتا کہ ایسے مرد کو زنا سے روکنے کے لیے اس پر کس طرح کی قدغنیں عائد کی جائیں۔ تاہم قرآن نے ایسا نہیں کیا جس کی کوئی وجہ، مولانا اصلاحی کی بیان کردہ صورت واقعہ کے لحاظ سے، سمجھ میں نہیں آتی۔
مولانا نے جو صورت واقعہ فرض کی ہے، وہ بھی حقیقت سے دور دکھائی دیتی ہے۔ اول تو سب کے سب غیر مسلم گروہ ایسے نہیں تھے جو ریاست مدینہ کے دائرۂ اختیار سے باہر ہوں، کیونکہ یہود کے بیشتر قبائل کا مسلمانوں کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ تھا اور ان میں سے بعض قبائل مدینہ کے حدود میں آباد تھے۔ چنانچہ خواتین کو محبوس کر دینے کی تدبیر کا محرک اگر وہی ہوتا جو مولانا اصلاحی نے بیان کیا ہے تو دونوں طرح کے گروہوں میں فرق کیا جانا ضروری تھا، جبکہ قرآن مجید کا بیان بالکل مطلق ہے۔ جہاں تک یہود کے علاوہ مدینہ کے اطراف میں آباد غیر مسلم قبائل کا تعلق ہے تو ان کے مردوں کا مدینہ کی خواتین کے ساتھ اس نوعیت کا کوئی پائیدار تعلق قائم کرنے کا امکان قبائلی معاشرت میں بہت کم تھا۔ یاری آشنائی کا تعلق بالعموم ایک ہی علاقے میں رہنے اور آپس میں عمومی میل جول رکھنے والے مردوں اور عورتوں کے مابین استوار ہوتا ہے ، جبکہ الگ الگ قبیلوں اور مقامات سکونت (localities) سے تعلق رکھنے والے افراد میں ایسا نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو اس طرح کے واقعات کی تعداد اتنی نہیں ہو سکتی کہ اسے باقاعدہ قانون کا موضوع بنانا پڑے۔ بالفرض ریاست مدینہ کے دائرۂ اختیار سے باہر کسی مجرم کے خلاف کوئی اقدام کرنا مشکل ہوتا تو بھی خود مدینہ کے حدود کے اندر بے بسی کی ایسی کوئی فضا موجود نہیں تھی کہ ایسے مجرموں کی آمد ورفت اور آزادانہ نقل وحرکت پر کوئی قدغن عائد نہ کی جا سکتی۔ عورت کے لیے توبہ واصلاح کے امکان یا اس کے رویے میں تبدیلی کا اندازہ کرنے میں مرد کے غیر مسلم ہونے کو مانع قرار دینا بھی قابل فہم نہیں، کیونکہ خاتون کا تعلق بہرحال مسلمانوں ہی کے گروہ سے تھا اور قبائلی معاشرت میں نہ تو ایسے آزادانہ مواقع اور امکانات ہوتے ہیں اور نہ افراد، بالخصوص خواتین کو اتنی آزادی حاصل ہوتی ہے کہ معاشرہ ان کی نگرانی اور محاسبہ سے عاجز ہو جائے۔ 
جناب جاوید احمد غامدی نے اس آیت کی تاویل یہ بیان کی ہے کہ یہ زنا کے ان مجرموں سے متعلق نہیں جو کسی وقت جذبات کے غلبے میں زنا کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں، بلکہ دراصل زنا کو ایک عادت اور معمول کے طورپر اختیار کرنے والے مجرموں سے متعلق ہے۔ یہ مجرم دو طرح کے تھے: ایک وہ پیشہ ور بدکار عورتیں جن کے لیے زنا شب وروز کا شغل تھا، اور دوسرے وہ مرد وعورت جن کا ناجائز تعلق یاری آشنائی کی صورت میں روز مرہ کے معمول کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ ان کی رائے میں قرآن مجید نے دوسرے مقامات پر ان میں سے پہلی صورت کو ’مسافحین‘ اور ’مسافحات‘ جبکہ دوسری صورت کو ’متخذی اخدان‘ اور ’متخذات اخدان‘ کے الفاظ سے بیان کیا ہے۔ (برہان، ۱۲۵، ۱۲۶)
ہماری رائے میں آیت کی یہ تاویل درپیش الجھن کو بظاہر حل کر دیتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ ’واللاتی یاتین الفاحشۃ‘ اور ’واللذان یاتیانہا‘ میں اسم موصول کا صلہ فعل مضارع کی صورت میں لانے کا جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے، وہ عربی زبان میں کسی فعل کے نفس وقوع کے بیان کے لیے بھی آ سکتا ہے اور کسی عادت اور معمول کو بیان کرنے کے لیے بھی، چنانچہ ’واللاتی یاتین الفاحشۃ‘ کا ترجمہ ’’وہ عورتیں جو بدکاری کی مرتکب ہوں‘‘ بھی ہو سکتا ہے اور ’’وہ عورتیں جو بدکاری کیا کرتی ہیں‘‘ بھی۔ سابق مفسرین نے اس کو پہلے مفہوم پر محمول کرتے ہوئے آیت کی تاویل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس ضمن میں جتنی مختلف تاویلیں ممکن تھیں، ان سب کی نشان دہی کی ہے لیکن، جیسا کہ ہم تفصیل سے واضح کر چکے ہیں، ان میں سے ہر تاویل پر وزنی اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ مولانااصلاحی نے اگرچہ دوسرے معنی کو اختیار کیا ہے، تاہم انھوں نے دونوں آیتوں میں جو فرق متعین کیا ہے، وہ تشفی بخش نہیں۔ ان تمام آرا کے مقابلے میں غامدی صاحب کی تاویل دو پہلووں سے قرین قیاس لگتی ہے:
ایک یہ کہ ان آیات میں زنا کے عادی مجرموں کا زیر بحث ہونا خود آیات کے داخلی قرائن سے بھی واضح ہوتا ہے، چنانچہ دوسری آیت میں زنا کے مرتکب مرد وعورت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگر وہ توبہ واصلاح کر لیں تو ان سے درگزر کیا جائے، جس سے واضح ہے کہ ان دونوں کے مابین یاری آشنائی کا تعلق تھا، ورنہ اگر یہ کسی اتفاقی صورت کا ذکر ہوتا تو انھیں سزا دینے کے بعد ان کی مزید نگرانی کرنے اور توبہ واصلاح کی صورت میں درگزر کی ہدایت کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اسی طرح ان آیات کے ساتھ متصل اگلی آیات بھی، جن میں قرآن مجید نے وقتی جذبات کے تحت گناہ کے مرتکب ہونے والوں اور اسے ایک عادت بنا لینے والوں کے مابین فرق کو واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ کسی گناہ کو معمول بنا لینے والوں کے لیے توبہ کی قبولیت کا امکان کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے، اسی بات کو واضح کرتی ہیں۔ ارشاد ہوا ہے:
وَاللَّذَانِ یَأْتِیَانِہَا مِنْکُمْ فَآذُوْہُمَا فَإِنْ تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوْا عَنْہُمَا إِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّاباً رَّحِیْماً ۔ إِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَأُولٰءِکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْْہِمْ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْماً حَکِیْماً ۔ وَلَیْْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّءَاتِ حَتّٰی إِذَا حَضَرَ أَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّیْ تُبْتُ الآنَ وَلاَ الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَہُمْ کُفَّارٌ أُولٰءِکَ أَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَاباً أَلِیْماً (النساء ۴: ۱۶-۱۸)
’’اور تم میں سے جو مرد وعورت بدکاری کا ارتکاب کرتے ہوں، انھیں اذیت دو۔ پھر اگر وہ توبہ اور اصلاح کر لیں تو ان سے درگزر کرو۔ بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔ اللہ پر انھی لوگوں کی توبہ قبول کرنا لازم ہے جو جذبات میں بہہ کر کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں اور پھر جلد ہی توبہ کر لیتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کی توبہ کو اللہ قبول کر لیتا ہے اور اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے۔ ان لوگوں کے لیے توبہ کا کوئی موقع نہیں جو برابر برائیاں کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں۔ اسی طرح ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر کی حالت میں مر جاتے ہیں۔ ان کے لیے ہم نے ایک دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
یہ آیات اس بات کا ایک مضبوط قرینہ ہیں کہ اوپر کی آیتوں میں زنا کو عادت بنا لینے والی خواتین اور جوڑے ہی زیر بحث ہیں۔ 
دوسرے یہ کہ اس رائے میں جرم کی جن دو صورتوں کو متعین کیا گیا ہے، ان کا عرب معاشرت میں پایا جانا مسلم ہے، ان کی سزا کو قانون کا موضوع بنانا بھی قابل فہم ہے اور اس سے دونوں صورتوں میں تجویز کی جانے والی الگ الگ سزاؤں کی وجہ اور حکمت بھی واضح ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ’واللاتی یاتین الفاحشۃ‘ میں صرف خواتین کی سزا کو موضوع بنانے کی وجہ یہ ہے کہ پیشہ ورانہ بدکاری میں بنیادی کردار خواتین ہی کا ہوتا ہے اور جرم کے سدباب کے لیے اصلاً انھی کی سرگرمیوں پر پہرہ بٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مرد وعورت میں یاری آشنائی کے تعلق کی صورت میں دونوں جرم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں اور دونوں ہی کی تادیب وتنبیہ کو قانون کا موضوع بنانا پڑتا ہے۔
مزید برآں، جہاں تک ہم غور کر سکے ہیں، آیت کے الفاظ اور سیاق وسباق میں کوئی چیز اس تاویل کو قبول کرنے میں مانع نہیں، اس لیے جب تک کوئی قابل غور اعتراض سامنے نہ آئے، یہ کہنا ممکن دکھائی دیتا ہے کہ اس تاویل کی روشنی میں آیت کی مشکل بظاہر قابل اطمینان طریقے سے حل ہو جاتی ہے۔
(باقی)

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب 
السلام علیکم امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ 
جنوری ۲۰۰۸ ء کے الشریعۃ کے ’’کلمۂ حق ‘‘ کے مندرجات سے عمومی اتفاق کے باوجود حسبہ بل کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں پر تنقید بری طرح کھٹکی ۔ ملک اس وقت جس سیاسی اور قانونی بحران سے گزر رہا ہے اس میں دینی جماعتوں ، بالخصوص جمعیت علمائے اسلام ( ف) ، کا کردار چنداں تسلی بخش نہیں ہے ۔ الیکشن میں لوگوں کی جانب سے جو response سامنے آرہا ہے، اس کی وجہ سے دینی سیاسی لیڈرشپ کو بھی اب احساس ہوچکا ہے کہ ان کے اپنے حلقوں میں ان کی مقبولیت کا گراف کس حد تک گر چکا ہے۔ اس لیے اب اپنی غلطیوں کا ملبہ دوسروں پر گرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر الزامات کی بوچھاڑ اسی سلسلے کا ایک حصہ ہے ۔ چنانچہ ان کے قد کو گھٹانے کے لیے پہلے یہ شوشہ یہ چھوڑا گیا کہ انہوں نے بھی تو پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا ۔ حالانکہ ۲۰۰۰ ء کے پی سی او اور ۲۰۰۷ ء کے پی سی او میں فرق سے معمولی قانونی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی واقف ہے۔ باقی باتیں ایک طرف ، ۲۰۰۰ ء کے پی سی او اور اس کے بعد ۲۰۰۲ ء کے ایل ایف او کو تو خود متحدہ مجلس عمل کی آشیر باد سے سترھویں آئینی ترمیم کے ذریعے سند جواز عطا کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جب لوگوں کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا تو اس موقف کو ذرا تبدیل کرکے کہا گیا کہ ججوں کی بحالی کے بجائے عدلیہ کی آزادی کا اصولی موقف اپنایا جائے۔ ہمارے یہ رہنما ، جو اپنی ’’عملیت پسندی ‘‘ کے لیے بہت مشہور ہیں ، کیا اس بات کا جواب دے سکیں گے کہ معزول ججوں کی بحالی کے بغیر آزاد عدلیہ کیا معنی رکھتی ہے ؟ اس کمزور موقف کے دفاع میں جو تاویلات تراشی گئیں، ان میں ایک یہ ہے کہ جسٹس افتخار نے حسبہ بل کے خلاف فیصلہ دے کر شریعت کے نفاذ کی راہ میں روڑے اٹکائے، بلکہ صوبہ سرحد کے سابق وزیر اعلی اکرم خان درانی انتخابی جلسوں میں لوگوں یہاں تک کہتے رہے ہیں کہ افتخار چوہدری کو اس بات کی سزا مل رہی ہے کہ انہوں نے حسبہ بل کے خلاف فیصلہ دیا تھا اور اور دینی مدارس کی اسناد کے بی اے کے برابر ہونے کے خلاف فیصلہ دینے والے تھے ! اس سے کچھ اندازہ ہوجاتا ہے کہ آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے جسٹس افتخار محمد چوہدری کو کن کن محاذوں پر لڑنا پڑا ہے ۔ کیا واقعی جسٹس افتخار اور ان کے ساتھیوں کو سزا مل رہی ہے ؟ انہیں اللہ تعالیٰ نے جو عزت بخشی اور جو کامیابی عطا کی، اس کا اندازہ وہ لوگ نہیں لگا سکتے جو اقتدار کی کرسی سے چمٹے رہنے کی خاطر ہر اصول کو قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں ۔ 
؂ ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں ! 
یہاں تفصیل کا موقع نہیں ہے، اس لیے میں صوبہ سرحد میں ’’ نفاذ شریعت ‘‘کے سلسلے میں کی جانے والی دو اہم کوششوں کا مختصر جائزہ پیش کروں گا۔ ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں صوبہ سرحد کے عوام نے متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں کو بھاری اکثریت سے اس لیے کامیاب کیا تھاکہ وہ صوبے میں شریعت کا نفاذ چاہتے تھے اورپچھلی حکومتوں نے اس سلسلے میں عوام کو مایوس کیا تھا۔ تاہم صوبہ سرحد میں واضح اکثریت حاصل ہونے کے باوجود شریعت کے نفاذ کے سلسلے میں کوئی خاطرخواہ پیش رفت نہیں ہو سکی ۔ جون ۲۰۰۳ء میں ’’شرعی قانون ایکٹ ‘‘ (جسے عام طور پر شریعت ایکٹ کہا جاتا ہے ) پاس کیا گیا۔ تاہم درحقیقت یہ اس قانون کا ناقص چربہ تھا جسے نوازشریف حکومت نے ۱۹۹۱ء میں پارلیمنٹ سے پاس کرایاتھا۔ چربہ اس وجہ سے کہ اس قانون میں نواز شریف کے دور کے قانون کی ۲۱ دفعات من و عن نقل کی گئی تھیں اور ناقص اس وجہ سے کہ اصل قانون کا متن انگریزی میں تھا جسے انتہائی ناقص طریقے سے اردو میں ترجمہ کیا گیا ۔ یہاں اس کی صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں ۔ 
اصل قانون میں شریعت کی تعریف یہ تھی : 
"Injunctions of Islam as laid down in the Holy Qur'an and Sunnah"
[قرآن وسنت میں مذکور احکام اسلام] 
یہ ترکیب دستور پاکستان میں کئی مقامات پر استعمال ہوئی ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی سالانہ رپورٹ ۱۹۸۷ء میں اس کی تصویب کی تھی ۔ البتہ اس کے ساتھ کونسل نے اس توضیح کا اضافہ کیا تھا کہ ’’ احکام اسلام کی تشریح میں رہنمائی کے لیے درج ذیل مآخذ سے استفاد ہ کیا جائے گا۔ (۱) سنت خلفاء راشدین (۲) تعامل صحابہ (۳) اجماع امت (۴) مسلمہ فقہائے اسلام کی تشریحات و آراء۔‘‘
صوبہ سرحد کی نفاذ شریعت کونسل نے اس تعریف میں یہ اضافہ کیا کہ قرآن و سنت سے ’’ اخذ کردہ ‘‘ احکام بھی شریعت کا حصہ ہیں ۔ مسودہ لکھنے والے غالباً یہ بتانا چاہتے تھے کہ اسلام کے احکام سے صرف نصوص (text)نہیں مراد بلکہ قواعد عامہ اور مقاصد شریعت بھی اس میں شامل ہیں۔ تاہم ’’ماخوذ احکام ‘‘ کی اصطلاح بھی مبہم ہے اور ’’اخذ‘‘ کا طریقہ بھی واضح نہیں کیا گیا۔ اس لیے تعریف واضح ہونے کے بجائے مزید مبہم ہوگئی ۔
واضح رہے کہ نواز شریف دور میں منظور کردہ شریعت ایکٹ کو تمام مذہبی جماعتوں نے جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں ایک اجلاس میں متفقہ طور پر مسترد کردیاتھا ۔ خود جماعت اسلامی کی مرکزی شوری نے ایک قرارداد کے ذریعے اسے نفاذ شریعت سے فرار کا بل قرار دیا تھا ۔ یہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اور ممتاز عالم دین جناب مولانا گوہر رحمان نے وفاقی شرعی عدالت میں اس ایکٹ کی کئی دفعات کے ’’خلاف شریعت ‘‘ ہونے کے سلسلے میں دلائل دیے اور ان کو بعد میں کتابی شکل میں بھی شائع کیا ۔ اب اسی ایکٹ کے ناقص چربے کو وہی دینی جماعتیں نفاذ شریعت کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت اور اپنے ایک اہم کارنامے کے طور پر پیش کررہی ہیں ۔ 
جو تیری زلف کو پہنچی تو حسن کہلائی 
وہ تیرگی جو میرے نامۂ سیاہ میں تھی 
شریعت ایکٹ کی منظوری کے بعد جب عملًا نفاذ شریعت کے سلسلے میں کوئی کاروائی نہیں ہوئی تو مجلس عمل کی حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ شریعت کے نفاذ کے لئے ایک اور قانون ’’حسبہ بل‘‘ کی منظوری کی ضرورت ہے جس کی تیاری کے لیے صوبائی شریعت کونسل کام کررہی ہے ۔ تاہم تقریبا ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود مجوزہ حسبہ بل اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا ۔ حسبہ بل کے سلسلے میں کئی سیمینار منعقد کیے گئے جن پر صوبائی خزانے سے تقریباً تین کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ اس کے باوجود ان سیمیناروں میں شرکا کی جانب سے جو تجاویز اور ترامیم پیش کی گئیں، ان میں کسی کو بھی مسودے میں شامل نہیں کیا گیا ۔ بعد میں حکومت نے صوبائی وزیر قانون کو بھی تبدیل کیا، لیکن اس کے باوجود اس بل سے وہ متنازعہ امور دور نہ کیے جاسکے جس پر مختلف عوامی اور علمی حلقوں اعتراضات کیے گئے تھے ۔ 
اس بل کا تجزیہ کیا گیاتو معلوم ہوا کہ اس کی اکثر دفعات وہی ہیں جو پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ ’’صوبائی محتسب ایکٹ ‘‘ میں شامل تھیں۔ یہ بل ۱۹۹۶ء میں صوبہ سرحد کی اسمبلی میں بھی پیش کیا گیا تھا لیکن پھر اس وجہ سے پاس نہیں کیا جاسکا کہ اسمبلی تحلیل کردی گئی تھی ۔ ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے اس میں بعض ایسی دفعات کا اضافہ کردیا تھا جو نہ صرف دستور اور دیگر قوانین کے خلاف تھیں بلکہ وہ شریعت کے واضح احکام سے بھی متصادم تھیں ۔ ان پر اعتراضات کیے گئے تو اعلان کیا گیا کہ اس مسودے کو اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھیجا گیا ہے جس کی سفارشات کے مطابق اس میں تبدیلی لائی جائے گی ۔ کونسل نے بھی اس مسودے کی کئی دفعات پر تنقید کی جس کے بعد صوبائی حکومت نے کونسل کی سفارشات بھی مسترد کردیں اور بہت لے دے اور تاخیری حربوں کے استعمال کے بعد سیاسی پوائنٹس سکور کرنے کے لئے بالآخر اس بل کو اسمبلی سے منظور کروایا ۔ یہ بل سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور سپریم کورٹ نے انہی دفعات کے خلاف فیصلہ دیا جن پر علمی اور قانونی حلقوں اور اسلامی نظریاتی کونسل نے پہلے ہی تحفظات پیش کیے تھے ۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں خود صوبائی حکوت کے وکیل جناب خالد اسحاق مرحوم نے اقرار کیا تھا کہ اس بل کا مسودہ انتہائی حد تک ناقص ہے۔ 
اس کے بعد حسبہ بل کا دوسرا مسودہ اسمبلی میں پیش کیا گیا جس میں کئی مقامات پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی ۔ چنانچہ جب بل سپریم کورٹ میں دوبارہ چیلنج کیا گیا تو اس نے پھر واضح کیا کہ اس کی چند دفعات اب بھی دستور سے متصادم ہیں۔ خود کردہ را علاج نیست! 
اب میں ان چند شقوں کا تذکرہ کروں گا واضح طور پر شریعت یا دستور سے متصادم تھیں ۔ 
(۱) اس بل میں ’’تعریفات‘‘ کی شق انتہائی حد تک ناقص تھی۔ ’’معروف ‘‘ اور ’’منکر‘‘ کی تعریفات اتنی مبہم تھیں کہ ان کی ہر طرح کی تعبیر ممکن تھی۔ اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے بھی اعتراض کیا گیا تھا۔نیزہر اس شخص کو ’’مستند عالم دین‘‘ قرار دیا گیا تھا جس نے شہادۃ العالمیۃ کے ساتھ ساتھ میٹرک کیاہو۔ اسی طرح ’’سینیئر صحافی‘‘ اسے قرار دیا گیا تھا جس کے پاس ایم اے جرنلزم کی ڈگری ہو یا شعبۂ صحافت سے جس کی وابستگی دس سال سے زائد رہی ہو۔ ’’سینیئر وکیل‘‘ اسے قرار دیا گیا تھا جس کے پاس وکالت کا دس سال کا تجربہ رہا ہو ، چاہے وہ ڈسٹرکٹ کورٹس ہی میں ہو ۔ اس طرح کے مستند عالم دین ، سینیئر صحافی یا سینیئر وکیل کو ضلعی محتسب بنایا جاسکتا تھا جس کو سیشن جج کے برابر اختیارات اور مراعات حاصل ہونے تھے! 
(۲) اس بل کے تحت محتسب کو عدالتی اختیارات دیے گئے لیکن اس کے باوجود حکومت کو اس کی معزولی کے سلسلے میں وسیع اختیارات دیے گئے تھے ۔ مثلا کہا گیا تھا کہ اگر محتسب کو بدعنوانی کے الزام میں معزول کیا جائے اور وہ اس کے خلاف عدالت عالیہ میں اپیل کرے تو نوے دنوں کے اندر اس کی درخواست کی سماعت نہ ہونے کی صورت میں اس کی معزولی کا حکم مؤثر سمجھا جائے گا ۔ 
(۳) محتسب کے متعلق قرار دیا گیا تھا کہ وہ مجموعۂ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۱کے مفہوم میں ’’سرکاری ملازم‘‘ متصورہوگا ۔ تاہم اس کے باوجود اس بل میں قرار دیا گیاتھا کہ بدعنوانی کی صورت میں اس کومعزول کیا جائے تو وہ چار سالوں کے لئے وفاقی ، صوبائی اور ضلعی سطح پر انتخابات کے لئے نااہل ہوگا، حالانکہ آئین کے مطابق ایسی صورت میں سزایافتہ شخص ہمیشہ کے لئے نااہل ہوجاتا ہے ۔ 
(۴) اس بل میں محتسب کو وسیع اختیارات دیے گئے تھے جن میں اکثر اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کے مطابق نہ صرف یہ کہ مبہم تھے بلکہ ان کا غلط استعمال بھی انتہائی آسان تھا ۔ 
(۵) ایک انتہائی حد تک خطرناک بات اس بل میں یہ تھی کہ محتسب کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیا گیا تھا ۔ اسی طرح ’’ توہین محتسب ‘‘ کی صورت میں دی جانے والی سزا کے خلاف بھی اپیل کا حق نہیں تھا ۔ 
(۶) بل میں یہ تو قرار دیا گیا تھا کہ کسی سرکاری اہلکار یا ایجنسی کے خلاف شکایت صحیح ثابت ہو تو یہ یہ کارروائی ہوگی لیکن اس میں یہ وضاحت نہیں تھی کہ اگر یہ شکایت بے بنیاد ہو یا بدنیتی پر مبنی ہو تو پھر کیا کیا جائے گا ؟ 
(۷) اس بل کے ذریعے ایک متنازعہ ’’حسبہ فورس‘‘ قائم کرنے کا کہا گیا تھا ۔ بعد میں قرار دیا گیا کہ یہ فورس پولیس ہی کے محکمے سے تشکیل دی جائے گی ۔ اس فورس کو سرکاری دفاتر پر چھاپوں اور ریکارڈ تک رسائی جیسے وسیع مضمرات کے حامل اختیارات دیے گئے لیکن اس کے لئے کوئی طریق کار متعین نہیں کیا گیا ۔ چاہیے یہ تھا کہ محتسب یا اس کے کسی نائب کی سرکاری دفاتر پر چھاپوں اور ریکارڈ تک رسائی کے طریق کار کو قواعد و ضوابط کے ذریعے منضبط کردیاجاتا تاکہ وہ اختیارات کا غلط استعمال نہ کرتے ۔ 
(۸) اس بل میں ضلعی محتسب کا ادارہ آئین سے صراحتاً متصادم تھا کیونکہ سترھویںآئینی ترمیم ، جو ایم ایم کے تعاون اور آشیرباد سے منظور ہوئی ، کے بعد صوبائی حکومت ضلعی نظام حکومت میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتی ۔ 
یہ محض چند امور آپ کے سامنے پیش کیے گئے ، ورنہ تفصیلی تجزیے میں جائیں تو بات بہت دور تک نکل جائے گی ۔ اس مختصر تجزیے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حسبہ بل کے خلاف سپریم کورٹ کے دونوں فیصلے مبنی برحق تھے ۔ صوبہ سرحد کے اس وقت کے وزیر قانون نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو اسمبلی کی قانون سازی کے اختیار پر حملہ قرار دیا تھا ۔ شاید ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اسمبلی کا قانون سازی کا اختیار مطلق نہیں بلکہ بہت سی قیود کے ساتھ مقید ہے جن میں ایک اہم قید یہ ہے کہ اسمبلی شریعت یا دستور سے متصادم قانون بنائے گی تو عدالت اسے تصادم کی حد تک کالعدم قرار دے سکتی ہے ۔ میں نے اپنے ایک پچھلے مکتوب میں اسی وجہ سے کہا تھا کہ محض ’’حسبہ‘‘ نام رکھ دینے سے یا اس وجہ سے کہ اس بل کو دینی جماعتوں کے اتحاد نے پیش کیا یہ بل از خود اسلامی شریعت کے مطابق نہیں ہوجاتا ۔ 
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر 
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کار تریاقی 
محمد مشتاق احمد 
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ قانون 
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد 
(۲)
مکرمی جناب حافظ عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے ایمان وصحت کی بہترین حالت میں ہوں گے۔
تسلیمات کے بعد، آپ کا موقر رسالہ ’الشریعہ‘ دار العلوم مصباح الاسلام کے ذیلی ادارہ مصباح الاسلام لائبریری کے نام باقاعدگی کے ساتھ مل رہا ہے۔ اس کے تمام مضامین ما شاء اللہ خوب تحقیقی اور حالات حاضرہ کے لیے تیر بہدف ہیں۔ اس وقت امت مسلمہ کو درپیش سب سے اہم مسئلہ مسلم امہ کا انتشار ہے۔ مسلکی وسرحداتی طور پر امت مسلمہ مختلف جماعتوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ وطن عزیز اس وقت سخت افتراق وتفریق اور اندرونی وبیرونی سازشوں کا شکار ہے۔ اس وقت پاکستان کے اندر تمام مسالک کے پیروکاروں کو متحد ہو کر ملکی سا لمیت کے لیے بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ 
الشریعہ کے گزشتہ شمارے میں محترم غلام یاسین صاحب کا خط پڑھ کر خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی! خوشی اس لیے ہوئی کہ ماشاء اللہ الشریعہ کے قارئین اس سوچ کے حامل ہیں کہ وہ پاکستان کے اندر فکری تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں اور امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے فکر مند رہتے ہیں، جبکہ افسوس اس بات پر کہ خود محترم غلام یاسین صاحب کی تحریر میں فرقہ واریت کا عنصر موجود ہے۔ وہ ایک طرف امت مسلمہ کے انتشار کا رونا رو رہے ہیں جبکہ دوسری طرف دیگر مسالک کی دل آزاری کرکے پوری دنیا پر مسلک دیوبند کی حکومت قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔ 
محترم غلام یاسین صاحب کی اس بات سے مجھے بھی اتفاق ہے کہ ’’سینکڑوں نہیں ہزاروں طلبہ وفاق المدارس کا اعلیٰ امتحان ہر سال پاس کر کے سند فضیلت (فراغت) حاصل کرتے ہیں۔ پھر معاشرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ قوموں کی تقدیر بدلنے کے لیے تو ایک مرد قلندر بھی کافی، افسوس کہ یہاں ہزاروں میں ایک بھی نہیں۔ آخر کیا وجہ ہے؟‘‘ یاسین صاحب خود اس کی وجہ فضلا میں تنگ نظری، تنگ دلی، تعصب، بغض وعناد، حسد اور انانیت کو قرار دے رہے ہیں۔ مجھے ان تمام باتوں سے اتفاق ہے کہ مذکورہ خصلتیں امت مسلمہ کے مابین انتشار کا سبب ہیں، لیکن ان خصلتوں سے باہر نکلنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہمارے دینی اداروں میں تربیت کا فقدان ہے۔ ہمارے ہاں بین المذاہب کے بجائے بین المسالک پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور ابناے امت کو اسلام کے مدمقابل مذاہب کے سامنے کھڑا کرنے کے بجائے اپنے دین ہی کے اندر دیگر مسالک کے خلاف نظریاتی طور پر تیار کر کے کھڑا کرنے کا رواج عام ہے جس کا نتیجہ اس وقت ہمارے سامنے ہے کہ اغیار کے بجائے ہم اپنوں ہی کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں جبکہ غیر اقوام ہمارے ان اختلافات سے فائدہ اٹھا کر ہمیں کمزور کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔
مسلمان ہر جگہ خوار ہو رہے ہیں۔ صرف مسلک دیوبند کی حفاظت کرنے سے کچھ نہیں ہو سکتا، نہ پوری دنیا پر مسلک دیوبند کی حکومت قائم ہونے سے امت مسلمہ انتشار سے نکل سکتی ہے۔ تین سو تیرہ نفوس کو تیار کرنے کے لیے ہمیں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث کی زنجیروں سے نکلنا ہوگا، تب کہیں جا کر فضائے بدر پیدا ہوگی اور امت مسلمہ کی نصرت کے لیے فرشتے قطار اندر قطار نازل ہوں گے۔ اور اگر ان تین سو تیرہ نفوس پر دیوبندیت کا لیبل لگا کر میدان میں نکالا گیا تو یہ بھی یقینی ہے کہ ان کے مدمقابل بریلوی، اہل حدیث کے تین سو تیرہ بھی میدان میں کھڑے ہوں گے کہ یہی بین المسالک تعصب کا نتیجہ ہے۔ امت مسلمہ اس وقت سخت امتحان کا شکار ہے۔ ہمیں اس وقت اتحاد ویک جہتی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ امت مسلمہ کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا ملے۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کا حامی وناصر ہو۔
سید عرفان اللہ ہاشمی
ایڈیٹر مجلہ ’’مصباح الاسلام‘‘
مٹہ مغل خیل، تحصیل شب قدر، ضلع چارسدہ
(۳)
برادر محترم عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم
دسمبر کے شمارے میں آپ کا نہایت ہی عالمانہ اور فکر انگیز مقالہ بعنوان ’’شریعت، مقاصد شریعت اور اجتہاد‘‘ پڑھنے کا موقع ملا۔ جس خوب صورتی اور سلیقے کے ساتھ آپ نے اس ادق موضوع کو بیان کیا ہے، اس سے آپ کے فہم اور صلاحیت تفہیم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ آپ کو دنیا اور آخرت کی بھلائیاں عطا فرمائے اور آپ کے علم میں برکت عطا فرمائے۔ آمین۔
ناصر مصطفی
مکان نمبر DV-10، ڈنہ، نزد ایف بلاک 
سیٹلائیٹ ٹاؤن، راول پنڈی
(۴)
محترمی ومکرمی مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
الشریعہ کبھی کبھی نظر سے گزرتا ہے۔ ماشاء اللہ اپنے انداز وادا سے تازگی اور جدت کا پیغامبر ہے۔ آپ جس دردمندی، محنت اور اخلاص کے ساتھ قلم اٹھاتے ہیں، وہ تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی ان کاوشوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔ آمین۔
تازہ الشریعہ (دسمبر) میں ’’کلمہ حق‘‘ کے عنوان کے تحت ایک خاتون کا خط شائع کیا گیا ہے۔ اس میں بیان کردہ حالات بہت بڑے خطرات کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ ان حالات میں علماے کرام کو کیا کرنا چاہیے، گہرے غور وفکر اور سوچ بچار کا تقاضا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ موجودہ فتنہ پرور دور اور سازشوں کا شعور وادراک عطا فرمائے، آمین۔
عمران ظہور غازی
چیف آرگنائزر ہیومن رائٹس نیٹ ورک پنجاب
۲۲۔سی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور

اپریل ۲۰۰۸ء

اسلامی سربراہ کانفرنس کا مایوس کن اجلاسمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ترکی میں احادیث کی نئی تعبیر و تشریح کا منصوبہمحمد عمار خان ناصر
شرعی قوانین کے حوالے سے برطانیہ میں جاری بحثمولانا محمد عیسٰی منصوری
زنا کی سزا (۲)محمد عمار خان ناصر
مکاتیبادارہ
مولانا ضیاء الدین اصلاحی (مرحوم) ۔ دارالمصنفین کا ایک تابندہ ستارہڈاکٹر محمد عبد اللہ صالح
مولانا محمد اشرف شادؒمولانا محمد یوسف

اسلامی سربراہ کانفرنس کا مایوس کن اجلاس

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روزنامہ ایکسپریس گوجرانوالہ ۱۵؍ مارچ کے مطابق سینیگال کے دار الحکومت ڈاکار میں منعقد ہونے والے اسلامی کانفرنس تنظیم کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے او آئی سی کے سیکرٹری جنرل جناب اکمل الدین اوغلو نے کہا ہے کہ مغربی اور اسلامی ممالک کے مابین ’’اسلام فوبیا‘‘ کے خاتمہ کے لیے سنجیدہ سرگرمیوں، مذاکرات اور باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے مذہب، ہمارے پیغمبر اورہمارے بھائیوں کو ہدف بنانے والے غیر ذمہ دارانہ حملوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اسلامی کانفرنس تنظیم کے سربراہی اجلاس سے تنظیم کے سیکرٹری جنرل کا یہ خطاب توہین رسالت کے حوالے سے مغربی دانش وروں کی مہم کے معروضی تناظر میں اصولی طور پر درست ہونے کے باوجود ہمارے نزدیک انتہائی مایوس کن ہے اور مسلم عوام کی امیدوں اور توقعات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ دنیا بھر کے اسلامی حلقوں کو توقع تھی کہ اسلامی کانفرنس تنظیم کے سربراہی اجلاس میں قرآن کریم اور جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور گستاخی کے حالیہ واقعات کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے گا اور مسلم حکومتوں کے نمائندے باہم مل بیٹھ کر اس سلسلے میں مغرب کے ساتھ دوٹوک بات کرنے کی حکمت عملی اختیار کریں گے، لیکن حسب سابق اس اجلاس میں بھی بات تقاریر اور رسمی قراردادوں سے آگے نہیں بڑھی اور اس کی کارروائی پڑھ کر ہمیں یوں محسوس ہوا ہے کہ یہ حکومتوں کی سطح کا کوئی اجلاس نہیں تھا، بلکہ کسی بین الاقوامی این جی او کی رسمی سی میٹنگ تھی جس میں موقف کے اظہار اور اس کے حق میں تقاریر اور قراردادوں پر قناعت کرنے میں ہی عافیت سمجھی گئی ہے۔
دوسری طرف ڈنمارک کے اخبارات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی بار بار اشاعت اور ہالینڈ میں قرآن کریم کے بیان کردہ واقعات کے حوالے سے ایک تحقیر آمیز فلم کی تیاری کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ایک جریدے ہفت روزہ ’’ہیومن ایونٹس‘‘ نے اعلان کیا ہے کہ وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک کتاب مفت تقسیم کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے جس کے بارے میں مسلمان حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ توہین آمیز کتاب ہے۔ روزنامہ پاکستان لاہور ۲۰ مارچ ۲۰۰۸ کی خبر کے مطابق اس دل آزار کتاب کا نام ’’دنیا کا عدم برداشت پر مبنی مذہب اور ا س کے بانی محمد کی حقیقت‘‘ بتایا جاتا ہے۔ اس کا مصنف رابرٹ اسپنسر ہے۔ یہ کتاب ہفت روزہ ’’ہیومن ایونٹس‘‘ نے شائع کی ہے اور اسے پورے امریکہ اور یورپ میں مفت تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
ہمارے خیال میں یہ مسلم حکومتوں کی بے حسی اور عدم سنجیدگی کا نتیجہ ہے کہ مغرب میں توہین رسالت اور توہین قرآن کریم کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور دنیاے اسلام کے عوامی اور دینی حلقوں کی طرف سے مسلسل احتجاج کے باوجود وقفہ وقفہ سے نئے دل آزار واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ 
جہاں تک مسلمانوں پر عدم برداشت کے الزام کا تعلق ہے، یہ واضح طور پر مغرب کی دھاندلی اور فریب کاری ہے، اس لیے کہ مغرب کی یونی ورسٹیاں اور علمی ادارے صدیوں سے اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بحث کر رہے ہیں اور مقالات، مضامین اور تجزیے لکھتے آ رہے ہیں جن میں اختلاف بھی ہوتا ہے اور تنقید بھی موجود ہوتی ہے لیکن مسلمانوں نے ان کے بارے میں کبھی عدم برداشت کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ دلیل کا جواب ہمیشہ دلیل سے دیا ہے، البتہ اختلاف اور توہین میں ہم نے ہمیشہ فرق کیا ہے اور سنجیدہ تنقید اور استہزا وتمسخر کے درمیان فاصلوں کو قائم رکھا ہے۔ اسلامیان عالم کو قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے حوالے سے جو بے پناہ محبت اور عقیدت ہے، ا س کا فطری تقاضا ہے کہ وہ ان دونوں کے حوالے سے توہین، استہزا اور تمسخر کی کوئی بات برداشت نہ کریں، اس لیے اگر وہ ایسے کسی واقعہ پر غصہ کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے جذبات میں گرمی پیدا ہوتی ہے تو یہ بالکل فطری بات ہے اور مغرب کو اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔ مغرب اگر اپنی کتاب مقدس اور حضرت مسیح بن مریم علیہما السلام کی راہ نمائی سے عملاً درست برداری اختیار کر لینے کے بعد ان کے ساتھ عقیدت ومحبت سے محروم ہو چکا ہے اور اس کی جذباتیت بے حس ہو چکی ہے تو اسے اس کا بدلہ مسلمانوں سے نہیں لینا چاہیے اور نہ ہی یہ توقع رکھنی چاہیے کہ مسلمان بھی مغرب کی مسیحی امت کی طرح دینی تعلیمات کی راہ نمائی سے دست بردار ہو جائیں گے اور قرآن کریم اور رسول اکرم کے ساتھ جذباتی وابستگی کو خیر باد کہہ دیں گے۔
باقی رہی بات آزادئ رائے اور آزادئ صحافت کی تو ہم مغرب کا یہ موقف تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس لیے کہ مغرب کے ہر ملک میں ’’ازالہ حیثیت عرفی‘‘ کے عنوان سے اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کا قانون موجود ہے اور کسی بھی شہری کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی حیثیت عرفی اور معاشرتی سٹیٹس کو مجروح ہوتا محسوس کرے تو اس کے تحفظ کے لیے قانون سے رجوع کرے، اور صرف مغرب نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک کا قانون اپنے ہر شہری کو یہ تحفظ فراہم کرتا ہے، اس لیے اگر ایک عام شہری اپنی حیثیت عرفی کے قانونی تحفظ کا حق رکھتا ہے تو حضرات انبیاے کرام علیہم السلام، بالخصوص حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہ حق ہے کہ ان کے تاریخی مقام اور عرفی حیثیت کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر قانون بنایا جائے اور دنیا کے کسی بھی شخص کو یہ حق نہ دیا جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبروں اور دنیا کے اربوں انسانوں کے محبوب مذہبی پیشواؤں کے بارے میں استہزا، تمسخر ، تحقیر اور گستاخی کا لہجہ اختیار کر سکے۔
اسلامی کانفرنس تنظیم کے مذکورہ سربراہی اجلاس میں عالم اسلام کے دیگر مسائل بھی زیر بحث آئے ہیں جن میں فلسطین کی صورت حال کو بطور خاص زیرغور لایا گیا ہے لیکن ان مسائل میں بھی رسمی خطابات اور قراردادوں سے ہٹ کر کوئی سنجیدہ پیش رفت اور لائحہ عمل سامنے نہیں آیا جس سے مایوسی میں اضافہ ہوا ہے اور ہمارے خیال میں مسلم حکومتوں سے دنیا بھرکے مسلم عوام کی اسی مایوسی سے اس رد عمل نے جنم لیا ہے جسے انتہا پسندی، دہشت گردی اور بنیاد پرستی قرار دے کر اس کے خلاف عالمی سطح پر باقاعدہ جنگ لڑی جا رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس مبینہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے اسباب میں جہاں مغرب کی سیاسی قیادت اور نام نہاد سیکولر دانش کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جانب دارانہ اور معاندانہ رویہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے، وہاں مسلم ممالک کے حکمران طبقات کا غیر سنجیدہ طرز عمل، مجرمانہ تغافل اور مغرب کے سامنے ان کا فدویانہ رویہ بھی اس کا ایک بڑا سبب ہے جسے دور کیے بغیر اس مبینہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہے جو اصلاح احوال کے معروف طریقوں پر مسلمانوں کے رہے سہے اعتماد کو بھی دھیرے دھیرے پسپائی کی طرف دھکیلتی جا رہی ہے۔
ہمارے خیال میں اس صورت حال میں سب سے زیادہ ذمہ داری مسلم حکومتوں اور عالم اسلام کے حکمران طبقات پر عائد ہوتی ہے کہ وہ حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں اور اسلامی سربراہ کانفرنس کی تنظیم کو رسمی قراردادوں اورخطابات کے بجائے عملی اقدامات اور مسلم امہ کی جرات مندانہ قیادت کا فورم بنائیں کیونکہ اس کے بغیر معاملات کا رخ صحیح سمت میں موڑنے کا اور کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔

ترکی میں احادیث کی نئی تعبیر و تشریح کا منصوبہ

محمد عمار خان ناصر

مارچ ۲۰۰۸ ءکے دوسرے ہفتے میں عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ خبر سامنے آئی کہ ترکی کی وزارت مذہبی امور کے زیر اہتمام احادیث کے حوالے سے ایک منصوبے پر کام جاری ہے جس کا بنیادی مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط طور پر منسوب کی جانے والی احادیث کی تردید اور بعض ایسی احادیث کی تعبیر نو ہے جن کا غلط مفہوم مراد لے کر انھیں ناانصافی کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ یہ منصوبہ، جس پر پینتیس اسکالر کام کر رہے ہیں، ۲۰۰۶ میں شروع کیا گیا تھا اور توقع ہے کہ حالیہ سال کے اختتام تک یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔
ترکی کی مذہبی امور سے متعلق اتھارٹی ’’دیانت‘‘ کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد گورمیز کے حوالے سے، جنھوں نے برطانیہ میں تعلیم وتربیت پائی ہے اور انقرہ یونیورسٹی میں حدیث کے سینئر استاذ ہیں، اس منصوبے کی نوعیت اور مقاصد کے حوالے سے جو بیانات ذرائع ابلاغ میں نشر ہوئے ہیں، ان میں سے بعض اہم بیانات حسب ذیل ہیں:
  • منصوبے کا بنیادی مقصد احادیث کو نئی تعبیر وتشریح کے ذریعے سے آج کے لوگوں کے لیے زیادہ قابل فہم بنانا ہے اور ہمارے کام کی نوعیت کو واضح کرنے کے لیے ’’تعبیر نو‘‘ ہی درست اصطلاح ہے۔
  • اس منصوبے کا مقصد مذہب کی الٰہیاتی بنیادوں کو تبدیل کرنا نہیں۔ یہ ایک علمی مطالعہ ہے جس کا مقصد الٰہیاتی بنیادوں کو سمجھنا اور ان کی تعبیر کرنا ہے۔
  • یہ منصوبہ اسلام کی اس تعبیر نو سے راہنمائی حاصل کرتا ہے جو جدیدیت سے ہم آہنگ ہے اور تعبیر نو اسلام کے بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ ہے۔ منصوبے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مذہب کو روایتی ثقافتی عناصر سے ممتاز کیا جائے۔
  • ہم اسلام کے مثبت پہلووں کو اجاگر کرنا اور ایک ایسی تعبیر سامنے لانا چاہتے ہیں جو شخصی احترام، انسانی حقوق، انصاف، اخلاق پسندی، خواتین کے حقوق، اور دوسروں کے احترام کو فروغ دے۔ 
  • آج مشرق اور مغرب میں پیغمبر اسلام اور ان کی تعلیمات کے حوالے سے بے حد کنفیوژن پایا جاتا ہے اور ہم اس کنفیوژن کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
  • بہت سی احادیث کا مفہوم متعین کرنا اب ممکن نہیں رہا اور بعض روایات کا ثقافتی اور جغرافیائی پس منظر بھلایا جا چکا ہے۔ 
  • متعدد احادیث کی آج کے دور میں نئی تعبیر کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر بعض احادیث میں خواتین کو خاوند کی اجازت کے بغیر تین دن کی مدت کے سفر پر جانے سے روکا گیا ہے اور ایسی احادیث مستند ہیں، لیکن یہ کوئی مذہبی نوعیت کی پابندی نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں خواتین تنہا حفاظت کے ساتھ سفر نہیں کر سکتی تھیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک عارضی نوعیت کی پابندی کو لوگوں نے مستقل حکم کی صورت دے دی ہے۔
  • کسی کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ خواتین کے اپنے سروں کو ڈھانپنے کے حوالے سے کوئی نئی انقلابی سوچ پیش کی جائے گی۔ یہ ایک علمی مطالعہ ہے اور اس میں آپ کو ایسی کوئی کوشش دکھائی نہیں دے گی جس کا مقصد اسلام کو مغربی دنیا کے لیے زیادہ خوب صورت بنا کر پیش کرنا ہو۔ 
  • ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس منصوبے سے مسلم دنیا میں خواتین کے بارے میں رائج تصورات میں تبدیلی پیدا کرنے میں مدد ملے گی؟ جواب میں انھوں نے کہا کہ اسلامی نصوص میں غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کرنے یا شادی شدہ زانی کو سنگ سار کرنے کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ اسلام کو غلط سمجھا جا رہا ہے۔ مثلاً آپ سلطنت عثمانیہ کے چھ سو سالہ دور میں ایک مثال بھی ایسی نہیں دکھا سکتے جس میں کسی شخص کو سنگ سار کیا گیا ہو یا کسی چور کا ہاتھ کاٹا گیا ہو۔
اس ضمن میں انقرہ یونیورسٹی میں شعبہ حدیث کے سربراہ اسماعیل حقی انال نے کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جانے والی بعض احادیث قرآن سے ٹکراتی ہیں۔ قرآن ہمارا بنیادی راہنما ہے اور جو چیز بھی اس سے ٹکراتی ہو، ہم اسے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے مثال کے طور پر بعض روایات پر مبنی اس رائے کا حوالہ دیا کہ خواتین کو پڑھنے لکھنے کی تعلیم دینا ممنوع ہے یا یہ کہ وہ عقل اور دین کے اعتبار سے کم تر ہیں۔انھوں نے کہا کہ خواتین کے عقل اور دین کے لحاظ سے کم تر ہونے کی بات گزرے زمانوں میں کسی استدلال کے بغیر درست مان لی گئی تھی، لیکن آج یہ بات درست نہیں مانی جا سکتی، اور یہی وجہ ہے کہ ہم اس کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز حیات اور خود قرآن کے مطابق نہیں ہے، اس لیے قبول نہیں کی جا سکتی۔ اسماعیل حقی انال نے مزید کہا کہ ’’ہم اس کو کوئی ’’اصلاح‘‘ نہیں سمجھتے، بلکہ اسلام کی اصل بنیادوں کی طرف واپسی کی کوشش سمجھتے ہیں۔‘‘
استنبول کے ایک مبصر مصطفی اکیول نے کہا ہے کہ منصوبے کے نتائج کے طور پر خواتین سے متعلق بعض احادیث کو حذف یا مسترد کیے جانے کا امکان ہے جو ایک جرات مندانہ اقدام ہوگا، یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے ساتھ ایسے تشریحی نوٹس کا اضافہ کر دیا جائے جو یہ بتائیں کہ ان احادیث کو ایک مختلف تاریخی سیاق کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
منصوبے پر کام کرنے والے محققین نے مزید بتایا ہے کہ احادیث کا یہ مجموعہ احادیث کی روشنی میں جدید ترین سوالات کا جواب بھی فراہم کرے گا، مثلاً یہ کہ گاڑی چلانے والوں کو کس طرز عمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے (کیونکہ ترکی دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جہاں حادثات کا تناسب بہت زیادہ ہے) اور یہ کہ کرۂ ارض کے ماحول میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے۔ 
مذکورہ رپورٹوں او ر بیانات سے کافی حد تک اس منصوبے کے محرکات اور ان ذہنی وفکری الجھنوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو اسلامی احکام کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے آج کے مسلمان اسکالرز کو درپیش ہیں۔ اس منصوبے کو ترکی جیسے اہم مسلم ملک کی سرکاری سرپرستی حاصل ہے اور اس سے اس کی اہمیت اور متوقع اثرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر نے اسی تناظر میں ایک خط کے ذریعے سے برصغیر کی اہم علمی شخصیات اور اداروں کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ وہ ترکی میں ہونے والی اس پیش رفت کی اہمیت اور نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے اس سلسلے میں ترکی کی وزارت مذہبی امور کو متوازن فکری راہنمائی مہیا کریں ۔ یہ خط درج ذیل ہے:

باسمہ سبحانہ
مکرمی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
برادر مسلم ملک ترکی کے حوالے سے ایک خبر اخبارات میں شائع ہوئی ہے جو اس عریضہ کے ساتھ منسلک ہے کہ اس کی وزارت مذہبی امور نے احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کے پورے ذخیرے کی ازسرنو چھان بین اور نئی تعبیر وتشریح کے کام کا سرکاری سطح پر آغاز کیا ہے جو اس حوالے سے یقیناًخوش آئند ہے کہ ترکی نے اب سے کم وبیش ایک صدی قبل ریاستی وحکومتی معاملات سے اسلام اور مذہبی تعلیمات کی لاتعلقی کا جو فیصلہ کیا تھا، یہ اس پر نظر ثانی کا نقطہ آغاز محسوس ہوتا ہے جس کا بہرحال خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔
ترکی نے خلافت عثمانیہ کے عنوان سے صدیوں عالم اسلام کی قیادت کی ہے اور اسلام کی سربلندی کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرہ میں اس کی ترویج وتنفیذ کے لیے شاندار کردار ادا کیا ہے، اس لیے خلافت اور دینی تعلیمات سے ریاستی سطح پر ترکی کی دست برداری پر دنیاے اسلام میں عمومی طور پر دل گرفتگی اور صدمہ کا اظہار کیا گیا تھا اور اب تک کیا جا رہا ہے۔ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے ترکی کے اس فکری وثقافتی انقلاب کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کے اسباب میں اپنے اس تاثر کا اظہار کیا تھا کہ ترکی قوم اپنے مزاج کے حوالے سے ایک عسکری قوم ہے جو مغربی ثقافت اور اسلام کے درمیان علمی وثقافتی کشمکش میں علمی واجتہادی صلاحیتوں کو بروے کار نہ لا سکی جس کی وجہ سے وہ مغرب کی ثقافت وفلسفہ کا علمی وفکری میدان میں مقابلہ کرنے کی بجائے پسپائی پر مجبور ہو گئی، جبکہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے اس ضمن میں لکھا ہے کہ ترکی کے علما ومشائخ اس ’’غزو فکری‘‘ (Intellectual Onslaught) کی اہمیت کا احساس نہ کر سکے اور اس کی طرف ضروری توجہ دینے کے لیے اپنے اوقات کو فارغ نہ کر سکے جس کی وجہ سے یہ عظیم سانحہ رونما ہوا۔
اس پس منظر میں احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کے پورے ذخیرے کی ازسرنو چھان بین اور ان کی نئی تعبیر وتشریح کے بارے میں ترکی حکومت کے اس فیصلے کو ماضی کی طرف لوٹنے کا نقطہ آغاز سمجھنے کے باوجود اس سلسلے میں کچھ تحفظات کو سامنے رکھنا ضروری ہے اور عالم اسلام کے دینی وعلمی حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سارے عمل کے پس منظر اور دیگر متعلقات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ترکی کی وزارت مذہبی امور کے اس کارخیر میں اس سے تعاون کریں۔ چنانچہ مختلف علمی اداروں، شخصیات اور مراکز سے ہم الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی طرف سے بطور تجویز یہ گزارش کر رہے ہیں کہ وہ احادیث نبویہ کی درجہ بندی اور تعبیر وتشریح کے لیے محدثین کرام اور فقہاے عظام کی اب تک کی علمی خدمات، احادیث نبویہ کے بارے میں مستشرقین اور ان کے خوشہ چینوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات نیز آج کے حالات وضروریات اور ملت اسلامیہ کی مسلمہ علمی حدود کے دائرے میں تعبیر نو کے ضروری تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک جامع بریفنگ رپورٹ ترکی کی وزارت مذہبی امور کو بھجوائیں جو عربی یا انگلش زبان میں ہو اور اس مسئلے میں ترکی کی وزارت مذہبی امور کی ضروری علمی وفکری راہ نمائی کی ضرورت پوری کرے۔
امید ہے کہ آنجناب اس تجویز پر سنجیدگی سے غور فرمائیں گے اور اس سلسلے میں اپنی رائے اور پیش رفت سے ہمیں بھی آگاہ فرمائیں گے۔ شکریہ
ابو عمار زاہد الراشدی
۱۲ مارچ ۲۰۰۸ء

شرعی قوانین کے حوالے سے برطانیہ میں جاری بحث

مولانا محمد عیسٰی منصوری

فروری ۲۰۰۸ کے شروع میں چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر روون ولیمز نے، جو دنیا بھر کے پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے عالمی سربراہ ہیں، برطانیہ میں اسلامی شریعت کے چند قوانین کے نفاذ پر غور وفکر کی دعوت دے کر یہاں کی فضا میں ارتعاش بلکہ تہلکہ بپا کر دیا ہے۔ آرچ بشپ ڈاکٹر روون نے یہ تجویز غور وفکر کے لیے اپنی سنڈ (چرچ آف انگلینڈ کی پارلیمنٹ) میں پیش کی تھی، مگر یہاں کے میڈیا نے، جس پر صہیونیت کی گہری چھاپ ہے، اس طرح ہنگامہ برپا کر دیا گویا صلاح الدین ایوبی نے برطانیہ پر حملہ کر دیا ہو۔ مغربی میڈیا کو، جس نے نائن الیون کے بعد ’’اسلامی خطرے‘‘ کا جو ہوا کھڑا کیا ہے، اسلام کے خلاف شور وشغف کا بہانہ مل گیا، چنانچہ میڈیا کی شرارت کے سبب ڈاکٹر روون ولیمز کو غصے سے بھرے، دھمکی آمیز اور ناشائستہ الفاظ میں بہت سے فون، خطوط اور ای میل ملے۔ آرچ بشپ کی طرف سے شریعت کے بعض قوانین کی حمایت میں ہم دردانہ حمایت کے غیر متوقع بیان پر میڈیا تو ان کی مخالفت میں پیش پیش تھا ہی، خود چرچ کے بعض ممبران اور سابق آرچ بشپ آف کنٹربری لارڈ کیری نے بھی برطانیہ میں شریعت اسلامی کے بعض قوانین کے نفاذ پر غور وفکر کی دعوت کو خطرناک قرار دے کر ڈاکٹر روون پر تنقید کی، حتیٰ کہ برطانوی پارلیمنٹ میں بشپ ولیمز کے استعفے کی گونج بھی سنائی دی۔ کینٹ پولیس کے سینئر ذرائع نے صورت حال کو دیکھتے ہوئے آرچ بشپ کو چوبیس گھنٹے پولیس تحفظ کی پیش کش کی اور ان کی سیکیورٹی کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کیا، لیکن آرچ بشپ ڈاکٹر ولیمز نے پولیس کی پیش کش کو مسترد کر دیا۔ انھوں نے پریس کو بتایا کہ وہ نہ اپنے بیان پر معذرت کریں گے اور نہ ہی استعفا دیں گے اور وہ اپنا موقف پریس کے بجائے اپنی سنڈ میں پیش کریں گے۔
اس بات پر برطانوی میڈیا نے اسلام کے خلاف جذبات میں آگ لگا دی جس میں سیاست دانوں سمیت اکثر طبقات بہہ گئے اور ہر طرف سے روون ولیمز پر تیروں کی بارش ہونے لگی۔ ایسے میں ان کو اصل حمایت ان کی سنڈ اور ان کے اپنے طبقہ سے ملی۔ ان کے حق میں ایک مضبوط آواز چرچ آف اسکاٹ لینڈ کی سربراہ ریورنڈ شیلا کیسٹک کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ بعض افراد نے جان بوجھ کر آرچ بشپ کے الفاظ کو غلط معنی پہنائے اور انھیں ذاتی طور پر نشانہ بنایا ہے جو انتہائی افسوس ناک ہے۔ میں ڈاکٹر ولیمز کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں اور سمجھتی ہوں کہ ہم خوش قسمت ہیں جن کے پاس ایک ایسا رہنما موجود ہے جو بعض اہم اور نازک مسائل میں گہری سوچ بچار سے بحث کا آغاز کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ 
یہ بات قابل ذکر ہے کہ چرچ آف انگلینڈ کی پارلیمنٹ نے آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر روون ولیمز کے ریمارکس کے خلاف میڈیا کے عام رد عمل پر مایوسی کا اظہار کیا اور آرچ بشپ کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ سنڈ (پارلیمنٹ) کا اجلاس شروع ہونے سے قبل بشپ آف لچفیلڈ جوناتھن گلیڈیل نے کہا کہ ڈاکٹر ولیمز کے ریمارکس کو غلط سمجھا گیا ہے۔ آرچ بشپ کوئی فیصلہ نہیں دے رہے تھے، محض غور وخوض کے لیے ایک مسئلہ اٹھا رہے تھے۔ سنڈ میں جب ڈاکٹر ولیمز نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ان کی بات کو غلط انداز میں لیا گیا ہے، ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ برطانیہ میں مسلم کمیونٹی بعض اسلامی قوانین پر پہلے ہی عمل پیرا ہے، اس سے ایک وقت آئے گا جب اس عمل کو قانون کا حصہ بنانا ہوگا۔ اس پر انھیں سنڈ کے ارکان کی طرف سے بھرپور حمایت ملی اور برطانوی میڈیا کی غوغا آرائی اور طوفان سمندر کے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ 
ڈاکٹر روون ولیمز نے برطانیہ میں کسی متوازی عدالتی نظام کی تجویز پیش نہیں کی، بلکہ صرف یہ کہا ہے کہ شادی بیاہ، طلاق ووراثت جیسے معاملات میں بعض اسلامی قوانین کی جگہ موجود ہے اور اسلامی شریعت کے چند قوانین اختیار کر لینے سے برطانیہ میں بسنے والی مسلمان کمیونٹی کو سماجی طور پر قریب کرنے میں مدد ملے گی۔ آرچ بشپ نے بڑے پتے کی بات کہی ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ مسیحی مذہب کے اعلیٰ ترین رہنما نے زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی قوانین کے متعلق ایک مثبت بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ اس بحث کا مقصد ایک سیکولر نظام میں رہنے والی اقلیتی کمیونٹیز کے لوگوں کو ان کے مذہبی عقائد کے مطابق زیادہ سے زیادہ سہولتیں پہنچانا اور ملکی قوانین اور مذاہب کے درمیان زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ اس کا اطلاق صرف اسلام یا مسلمانوں تک محدود نہیں ہوگا، بلکہ بتدریج دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی اس کا فائدہ پہنچے گا۔
یہ بات قابل غور ہے کہ مسلم راہنماؤں اور تنظیموں کا رد عمل اکثر منفی تھا۔ بیرون سعیدہ وارثی نے کہا کہ شرعی قوانین سے اتحاد کے بجائے تقسیم میں اضافہ ہوگا۔ دوسرے کئی مسلم راہنما شریعت سے براء ت کا اعلان کرتے نظر آئے۔ بعض ماڈرن خواتین نے برملا کہا کہ ہمیں شریعت نہیں چاہیے، اور برطانوی قانون نہایت عمدہ ہے۔ دینی تنظیموں اور علماے کرام نے عام طور پر اس بحث میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ شاید ان کے نزدیک حالات وحقائق سے آنکھیں بند رکھنا ہی سب سے مسائل کا حل ہے۔

برطانیہ ومغرب کے زمینی حقائق

برطانیہ میں اس وقت کم وبیش دو ملین یعنی بیس لاکھ مسلمان بستے ہیں۔ فرانس میں تقریباً ۵۰ لاکھ، جرمنی میں ۳۰ لاکھ، اسی طرح بیلجیم اور ہالینڈ سمیت تمام یورپی ممالک میں کروڑوں کی تعداد میں مسلمان آباد ہیں۔ سوئٹزر لینڈ میں سرکاری طور پر اسلام کو دوسرا بڑا مذہب تسلیم کیا گیا ہے۔ عملاً اسلام یورپ وامریکہ کا دوسرا بڑا مذہب بن چکا ہے۔ حالیہ دنوں میں جن چھ سات ملکوں نے یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی، ان میں بڑی تعداد میں مقامی مسلمان بستے ہیں۔ مثلاً بلغاریہ میں تقریبا تیس فی صد ترکی نسل کے مسلمان آباد ہیں۔ آئندہ جلد ہی جو ممالک یورپ کا حصہ بننے والے ہیں، ان میں کوسووو، بوسنیا، اور البانیہ جیسے مسلم علاقے اور ممالک بھی ہیں۔ عالم اسلام کا عظیم ملک ترکی بھی داخلے کے لیے یورپ کے دروازے پر کھڑا ہے۔ ایک جوہری فرق یہ ہے کہ پرانے یورپ (برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ) میں اکثر مسلمان تارکین وطن کے قبیل سے تھے یعنی باہر سے آکر آباد ہوئے تھے جبکہ جو ممالک حالیہ ای ای سی (آل یورپ) کا حصہ بنے ہیں یا عنقریب بننے والے ہیں، ان میں بسنے والے مسلمان اسی زمین کے فرزند اور اسی یورپی نسل سے ہیں۔ امریکہ ویورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خطرے کو بھانپ کر ہی صہیونی صلیبی گٹھ جوڑ نے نہایت مہارت وچابک دستی سے نائن الیون کا واقعہ انجام دے کر اسے مسلمانوں کے ذمے لگا دیا تاکہ ایک طرف مغرب کو عالم اسلام پرفوجی یلغار کر کے تباہ کرنے کا بہانہ فراہم ہو اور دوسری طرف یہاں اسلام کے خلاف نفرت کی آندھی چلا کر بڑھتی ہوئی مسلم آبادی پر بریک لگائی جا سکے۔
یہاں یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ شروع ہی سے مغرب میں اسلام کا مطالعہ کرنے والے تقریباً تمام ہی طبقات (مورخین، ادیب، شعرا) کا تعلق ارکان کلیسا اور چرچ سے رہا ہے۔ ان کے نزدیک یورپ پر بیرونی مسلمانوں کے عسکری وسیاسی دباؤ کا واحد تحفظ اسلام کے خلاف نفرت انگیز جھوٹا پراپیگنڈا تھا۔ جب صلیبی جنگوں میں پورا یورپ تین صدیوں تک اپنی پوری طاقت جھونک کر بھی اسلام کو ختم نہیں کر سکا تو ریمنڈ لل اور راجر بیکن جیسے اسکالرز نے پوپ کے سامنے اسلام کی بیخ کنی کے لیے اسلام کے مطالعہ کی تجاویز رکھیں۔ طویل بحث ومباحثہ کے بعد اسے منظوری مل گئی، چنانچہ شروع ہی سے مغرب کے مطالعہ اسلام کا بنیادی مقصد اسلام کی خامیاں تلاش کرنا اور اسلام پر نظریاتی حملوں کے لیے مواد جمع کرنا تھا۔ جب تک مغرب کو مسلمانوں سے عسکری خطرہ رہا، اس وقت تک مستشرقین کی تحریریں شدید تر عناد ونفرت میں ڈوبی رہیں۔ جیسے جیسے خطرہ کم ہوتا گیا، کھلے عناد ونفرت کی شدت میں بظاہر کمی آتی گئی۔ بیسویں صدی میں جب مغرب کو عالم اسلام پر ہمہ جہتی غلبہ حاصل ہو گیا اور مسلمان عسکری، سیاسی، علمی، فکری طور پر مغلوب ہو گئے، تب اسلام کو سمجھنے کی کوشش شروع ہوئی۔ غرض مغرب میں اسلام کا مطالعہ کرنے والے گروہ (مستشرقین) کی حیثیت ہمیشہ یہاں کی حکومتوں کے آلہ کار اور ہراول دستے کی رہی اور ان کی تحریروں کی نوعیت اسلام کے خلاف پراپیگنڈا کی تھی، اس لیے سترہویں صدی کی تحریروں کی زبان انتہائی تلخ، پر عناد اور اسلوب جارحانہ تھا۔ اٹھارویں صدی میں خلافت عثمانیہ کے کمزور ہو جانے کے باعث زبان نے کچھ متانت اور سنجیدگی لے لی۔ کچھ کچھ اسلامی، معاشرتی، تاریخی، علمی اثرات دبی زبان سے تسلیم کیے جانے لگے۔ پہلے مغربی مورخین ومصنفین اسلام کا مطالعہ ترکی سے شروع کرتے تھے۔ اٹھارویں صدی میں سائمن اوکلے نے وصال نبوی سے شروع کیا۔ پھر انیسویں صدی عالم اسلام کے ابتلا اور شکست کی صدی تھی۔ اب مغرب نے عالم اسلام کو سیاسی، اقتصادی اور علمی وفکری طو رپر شکنجے میں جکڑ لیا تھا۔ اب اسلام کے کچھ مزید محاسن تسلیم کیے جانے لگے۔ مگر انیسویں وبیسویں صدی کے مغربی اہل قلم کی تحریریں احساس برتری سے لبریز ہیں کہ اصل تہذیب، مذہب وقانون مغرب کا ہے، اسلام کا جتنا اس کے موافق ہے، اچھا ہے اور غیر موافق خراب۔ اب تکبر کے احساس نے طعن وتشنیع، دل آزاری اور انتقامی انداز نمایاں ہوا۔
غرض مغربی اسکالرز اور دانش وروں کی تحریریں ہمیشہ سے سرد جنگ کا حصہ تھیں۔ ان کا پراپیگنڈا اس قدر شدید اور طاقت ور ہے کہ ہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ، جس نے اسلام کو اپنے اصل مآخذ کے بجائے مغربی تحریروں سے پڑھا ہے، اس کی سوچ وفکر مکمل طور پر مغربی اہل قلم ومستشرقین سے ہم آہنگ ہے۔ مغرب میں روزگار کی خاطر آنے والے مسلمانوں کی بھاری اکثریت اسلام کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہے۔ نظریاتی بے یقینی معاشرے کا شیرازہ بکھیر دیتی ہے۔ نیز طاقت ور حریف انھیں بآسانی اپنے ہی معاشرے کے خلاف آلہ کار بنا لیتا ہے، جیسا کہ برطانیہ میں ہزاروں مسلمان M15 (برطانوی انٹیلی جنس) کے لیے کام کر رہے ہیں جن میں بے شمار مولوی بھی ہیں۔ یہ علمی سرد جنگ جو تقریباً پانچ صدیوں سے جاری ہے، اس کا ازالہ تو کجا، ابھی تک اس کے بیشتر گوشے پردۂ راز میں مستور ہیں۔ تاہم تاریخ میں پہلی بار اب موقع آیا ہے کہ آج گلوبل ولج کے عنوان سے مغرب اور اس کے واسطے سے پوری دنیا میں عالمی ضابطہ اخلاق اور معاشرتی اقدار کی جو تدوین وترتیب ہو رہی ہے، اس میں اسلام، قرآن اور شریعت کے انسانی معاشرہ کے لیے مفید، بہبود کے ضامن اور مثبت پہلووں سے مغرب کو روشناس کرایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انسانی معاشرتی واجتماعی مسائل کے حل کے لیے سیرت نبوی کے بہت سے گوشے ممد ومعاون ہو سکتے ہیں۔ 
آج کی دنیا ایک بستی یا گاؤں (گلوبل ولج) اور مختلف ممالک اس کے محلے بن چکے ہیں۔ ہر ملک ملٹی نیشن، ملٹی کلچر اور ملٹی ریلیجن ملک ہے۔ دنیا کے ہر بڑ ے شہر میں ایک پڑوسی کرسچین، دوسرا یہودی، تیسرا سوشلسٹ یا بدھسٹ ہونا عام بات ہو گئی ہے۔ نیز سیکولرازم، ڈیما کریسی، انسانی حقوق کو عصری دنیا بطور ایک عقیدہ ومذہب کے تسلیم کر چکی ہے اور سیکولر ازم کے معنی کسی خاص مذہب یا تمدن کی ترجیح کے بجائے ہر مذہب وکلچر کو مساوی حقوق دینا اور سب کے لیے مواقع فراہم کرنا ہے تاکہ ہر مذہب وکلچر کا فرد باہمی رواداری، قربت، محبت سے رہ کر ملک وقوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکے۔ آج دنیا کا سب سے اہم مسئلہ یہی باہمی قربت، افہام وتفہیم، اور رواداری کا ماحول ہے۔ جب تک دنیا کی دو بڑی قوموں یعنی مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان یہ رواداری اور افہام وتفہیم کی روایت قائم نہیں ہوگی، دنیا میں اس کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ ان دو بڑی قوموں کے درمیان ٹکراؤ اور کشیدگی سے صرف اور صرف صہیونی نسل پرستوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے کہ اس طرح انھیں دونوں قوموں پر اپنے خونی پنجے گاڑنے کا مزید موقع ملے گا۔ یہ بات مغرب جتنی جلدی سمجھ لے، اس کے اور انسانیت کے حق میں بہتر ہوگا۔
اس وقت دنیا کا سب سے مقبول سیاسی فلسفہ سیکولرزم اور نظام جمہوریت ہے جس پر مغرب کا نہ صرف ایمان واثق ہے بلکہ وہ اس کی خاطر قوموں کی نسل کشی پر بھی آمادہ ہے۔ افغانستان وعراق میں اپنی خونریزی کو جواز دینے کے لیے امریکہ ونیٹو کا یہی دعویٰ ہے کہ ہم ڈیماکریسی اور سیکولرزم کی برکات بانٹنے آئے ہیں۔ سیکولرزم اور جمہوریت، دونوں کی روح یہ ہے کہ حکومت اور قوانین معاشرہ کی مرضی ومنشا کے مطابق ہوں نہ کہ باہر سے مسلط کیے جائیں، حتیٰ کہ دنیا کی کسی پارلیمنٹ کو بھی یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ عوام کی مرضی کے خلاف کسی سپر پاور کے دباؤ میں آ کر قوانین معاشرہ پر مسلط کرے۔ غرض یہ عصر حاضر کی بنیادی ضرورت ہے کہ رواداری اور افہام وتفہیم کا ماحول قائم کرنے کے لیے اقوام عالم چند مشترکہ نکات پر اتحاد کریں۔ چودہ سو سال پہلے قرآن نے تینوں آسمانی مذاہب کے لیے مفاہمت واتحاد کا تین نکاتی فارمولا دیا تھا: 
۱۔ خالق کے سوا کسی کی حقیقی عبادت وتابع داری نہ کی جائے۔
۲۔ اس عبادت واطاعت میں کسی بھی طاقت وقوت کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔
۳۔ اقوام عالم ایک دوسرے پر رب وخالق بن کر اپنی مرضی مسلط نہ کریں۔
پہلے دو نکات یہودیت، مسیحیت اور اسلام میں مسلم ہیں۔ یہ تینوں آسمانی مذاہب توحید کے قائل اور شرک سے بے زار ہیں، البتہ مغرب تیسرے نکتے کے خلاف ڈیڑھ ہزار سال سے پاپا کریسی میں مبتلا رہا ہے۔ مسیحیت کے مذہبی طبقے سے بنیادی غلطی یہی ہوئی کہ انھوں نے خالق کا اطاعت وقانون سازی کا حق پوپ کو دے کر اسے عملاً رب وخالق کا درجہ دے دیا۔ ہزار سال تک پوپ مطلق العنان بن کر مذہبی، معاشرتی، سیاسی حتیٰ کہ شہنشاہوں کے عزل ونصب کے فیصلے کرتا رہا۔ یہ فیصلے محض اس کی ذاتی مرضی وصواب دید پر منحصر ہوتے تھے اور دنیا کی کسی عدالت میں انھیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس سے فائدہ اٹھا کر پوپ نے اپنے اقتدار کی خاطر یورپ کے عوام اور معاشرہ پر اپنی غلامی مسلط کر دی، سوچ او ر فکر پر پہرے بٹھا دیے۔ ہزار سال پوپ کے مطلق العنان اقتدار کے تاریک دور کے بعد علم اور سائنس کا دور شروع ہوا تو چرچ نے استبداد کی طاقت سے بے شمار اہل فکر ومحققین کو قتل کر کے اور زندہ جلا کر علم اور سائنس کی راہ روکنی چاہی۔ یورپ نے مسیحیت کی اس غلطی (پاپا کریسی) کا صدیوں تک خمیازہ بھگتا۔ علم اور مذہب کی اس جنگ میں اعلیٰ اخلاقی قدریں زوال پذیر ہوئیں اور مغرب میں اخلاقی انارکی کا دور شروع ہوا۔ گزشتہ دو صدیوں میں سازش، سرمایہ اور میڈیا کی بدولت ایک مٹھی بھر شاطر ٹولے نے یورپ کے معاشرہ کو بے بس کر کے یرغمال بنا لیا ہے۔ اب مغرب کے عوام کو اس گھناؤنی سازش کا احساس ہونے لگا ہے چنانچہ یہ شیطانی ٹولہ (جی ایٹ وسرمایہ دار ملٹی نیشنل کمپنیاں) جہاں کہیں جمع ہوتا ہے، نفرت کی صورت میں عوام کا رد عمل سامنے آتا ہے۔ اب تک انسانیت کے سارے وسائل پر قابض ہونے کی وجہ سے یہ ٹولہ کامیاب ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا حشر بھی پاپاکریسی کی طرح ہوتا نظر آ رہا ہے۔ بقول ایک مفکر کے تاریخ کا پہیہ اگرچہ آہستہ چلتا ہے مگر پیستا باریک ہے۔ لگتا ہے مغرب کا معاشرہ ایک بار پھر بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہو کر بکھراؤ کی طرف چل پڑا ہے۔ اگر مغرب کے مفکرین واہل دانش نے گلوبل ویلج معاشرہ کے لیے اقدار اور ضابطے تلاش نہ کیے تو تباہی سامنے کی بات ہے۔ یہ مسلم علماواہل دانش کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ عالمی انسانی بہبود کی ضمانت دینے والی اقدار اور ضابطوں کے تعین میں شریعت، فقہ اسلامی کا رول کیا ہو؟ اگر ہمارے علما واہل دانش اپنی سوچ وفکر اور علمی کاوشوں کا رخ اس خلا کو پر کرنے کی طرف موڑ سکیں تو اسلام ہی کی نہیں، پوری انسانیت کی سب سے بڑی خدمت ہوگی۔
اسلامی قانون وشریعت کا امتیازیہ ہے کہ یہ بنیادی طور پر غیر سرکاری قانون ہے جس کے بنانے، مرتب کرنے اور توسیع دینے میں کبھی بھی کسی حکومت، ریاست، طاقت ور طبقہ کی مداخلت نہیں رہی۔ یہ عوامی عمل کے ذریعے مرتب ہوا۔ امام ابوحنیفہ قانون تاریخ کے عظیم ترین دماغوں میں ایک تھے جن کی تعبیر قانون کو مسلمانوں کا دو تہائی کے قریب حصہ تسلیم کرتا ہے۔ وہ کسی حکومتی قانون ساز ادارے کے رکن نہیں تھے۔ امام احمد بن حنبل جن کے فقہی اقوال کو آج سعودی عرب میں قانون کی حیثیت حاصل ہے، ان کو کسی بادشاہ نے قانون سازی کے لیے مقرر نہیں کیا تھا۔ اسلام کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ اگر کبھی کسی حکمران یا فوجی ڈکٹیٹر نے طاقت کے زور پر کوئی قانون نافذ کرنا چاہا تو مسلم عوام نے اسے مسترد کر کے علما وفقہا وعابدین کی آرا پر عمل کیا جبکہ دنیا کے تمام قوانین شہنشاہوں اور طاقت ور حکمرانوں کی مرضی کے مطابق مرتب ہوئے حتیٰ کہ نیقہ کی کونسلوں کے گہرے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسیحیت کے بنیادی مذہبی عقائد تک تمام قوانین اور فیصلے رومن شہنشاہ کی مرضی سے بنتے رہے۔ مذکورہ کونسلوں کے اراکین جو صرف مذہبی پادری ہوتے تھے، ان کی آرا سے لے کر دنیا کے تمام قوانین ودساتیر کی تاریخ یہی ہے کہ پہلے ریاست قائم ہوئی، پھر اس نے اپنی طاقت سے قانون بنا کر نافذ کیا، مگر اسلام میں قانون پہلے بنا، پھر اس کے مطابق ریاست قائم ہوئی۔ اسلام میں ریاست کا جواز صرف اس وقت تک ہے جب تک وہ قانون شریعت کی حفاظت ونفاذ کرے، ورنہ وہ اپنا قانون جواز کھو بیٹھتی ہے۔
آج مغرب بلکہ دنیا کا ایک بڑا مسئلہ جرائم کی بہتات وکثرت ہے۔ ہر سال کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ قتل، چوری، ڈکیتی، زنا بالجبر سمیت تمام جرائم دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ انھیں ختم کرنے بلکہ کم کرنے کی ہر کوشش ناکام ہے۔ دنیا کی سب سے ترقی یافتہ ومتمدن کہلانے والی قوم امریکہ میں ہر روز بلکہ ہر گھنٹہ کے جرائم کے ہوش ربا اعداد وشمار اس بات کی دلیل ہیں کہ مغربی قوانین جرائم کی روک تھام میں بالکل ناکام ہو چکے ہیں۔ مغرب کے ہر ملک میں جتنی جیلیں تعمیر ہوتی ہیں، ناکافی ہو جاتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغربی تہذیب میں سب سے زیادہ حقوق مجرموں اور قاتلوں کے ہیں۔ امریکہ میں ایک شخص سو کے قریب معصوم بچوں کو اغوا کر کے ان سے بدفعلی وبدکاری کر کے انھیں بے دردی سے قتل کر دیتا ہے اور جب پکڑا جاتا ہے تو امریکہ کے بہت سے نامور وکیل انسانی ہمدردی میں اسے پھانسی سے بچانے کے لیے میدان میں آ جاتے ہیں، جبکہ یہ معلوم تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام کا قانون وشریعت جرائم کو جڑ سے اکھاڑ کر ناپید کر دیتے ہیں۔ ۱۴ سو سالہ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی اسلامی قانون وشریعت سے کسی ملک وقوم نے فائدہ اٹھایا تو سوسائٹی کو جرائم سے پاک کرنے میں انتہائی مدد ملی۔ آج سعودی عرب میں اسلامی قانون وشریعت کے صرف ایک چھوٹے سے حصے (حدود وقصاص) کے نفاذ کی وجہ سے وہاں جرائم کی تعداد دنیا میں سب سے کم ہے۔ کیا یہ بات اقوام عالم اور مغرب سمیت ہر تمدن ومعاشرہ سے غور وفکر کا تقاضا نہیں کرتی؟ 
گلوبل ولج کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ رنگ ونسل، قومیت وطبقہ کی حد بندیوں سے بالاتر ہو کر کھلے دل سے دنیا کے تمام قوانین وشرائع اور دساتیر کا جائزہ لیا جائے۔ مطمح نظر صرف جرائم کا خاتمہ اور انسانی بہبود ہو، نہ کہ کسی خاص تمدن وآئین کا تسلط۔ آرچ بشپ ڈاکٹر ولیمز کے ریمارکس سے برطانیہ میں مسلمانوں کو شریعت کے حوالے سے شریعت کا صحیح موقف پیش کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آیا تھا مگر مسلمان اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ اس کے برخلاف اسلام دشمن طاقتوں نے میڈیا کے ذریعے اسلام کا ہوا کھڑا کر کے اقوام یورپ کو ڈرا دیا حتیٰ کہ وضاحت کے بہانے ڈاکٹر روون ولیمز کو بھی ایک حد تک پسپائی اختیار کرنا پڑی، لیکن اس بحث سے مثبت نتائج بھی نکلیں گے۔ چنانچہ ۲۸ فروری کو برطانیہ کے دو روزناموں فائنانشل ٹائمز اور ٹیلی گراف نے خبر دی ہے کہ حکومت سنجیدگی سے سوچ رہی ہے کہ برطانیہ میں بسنے والے مسلم علما کو اسلامی قانون اور شریعت کی باقاعدہ ٹریننگ دی جائے۔ اس مسئلے میں برطانیہ کی اسلام دشمن اور اسلام کے متعلق سخت گیر پالیسیوں کی حامی قوتوں کی پوری کوشش ہوگی کہ شرعی قانون کی تعبیر وتشریح مغربی نقطہ نظر کے مطابق ہو یا دوسرے الفاظ میں مغربی اقدار اور نظام کو کسوٹی بنا کر کی جائے، لیکن قدرت نے ہمارے لیے بہت سے مواقع پیدا کر دیے ہیں کہ ہم انسانی سوسائٹی کی فلاح وبہبود سے متعلق اسلام اور شریعت کے فائدہ مند پہلووں کو سامنے لائیں جن میں ایک یہ ہے کہ اسلام نے اس دور میں جب ایک مذہب اور تمدن کے لوگوں کے درمیان دوسرے مذہب کے ماننے والوں کا زندہ رہنا مشکل تھا، دوسرے مذاہب وشرائع کے اپنے اپنے مذہبی قوانین کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ان پر عمل پیرا ہونے کی مکمل ضمانت دی۔ پیغمبر اسلام کے میثاق مدینہ میں یہودیوں اور مدینہ اور اس کے اطراف کے غیر مسلم بت پرست قبائل کو پوری آزادی کے ساتھ ان کے قوانین پر چلنے کی آزادی دی۔ اسی طرح دور خلفاے راشدین میں یروشلم، عراق، وسطی ایشیا کے تمام مفتوحہ ممالک میں تمام مذاہب واقوام کو ان کے قوانین پر چلنے کی آزادی وتحفظ فراہم کیا۔ آج بھی مصر کے قبطی مسیحی ہوں یا عرب دنیا کے یہودی، سب آزادی سے اپنے قوانین وشرائع پر عمل پیرا ہیں۔ اگر یہی حق اکیسویں صدی میں مغرب میں بسنے والی مختلف مذاہب کی کمیونٹیز کو مل جاتا ہے تو اس سے کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا نہ یہاں کے عدالتی سسٹم وقانون کے لیے کوئی خطرہ یا مسئلہ پیدا ہوگا، بلکہ ملک میں بسنے والی تمام کمیونٹیز میں باہمی ہم آہنگی اور قربت کا ذریعہ بنے گا۔ 
جب آرچ بشپ کے ذریعے برطانوی میڈیا میں یہ بحث چھڑ گئی ہے تو ہماری پوری کوشش ہونی چاہیے کہ بحث کو مثبت رنگ دیں اور شریعت کے انسانیت ومعاشرہ کے لیے نفع بخش پہلووں کو سامنے لائیں۔ خاص طور پر اس غلط فہمی کا ازالہ کریں کہ شریعت صرف چور کا ہاتھ کاٹنے یا زانی کے سنگسار کرنے کا نام ہے۔ حدود وقصاص کا نفاذ اسلام میں معاشرہ کی مکمل اصلاح اور معاشرہ کے مکمل طور پر آخری آسمانی تعلیمات پر استوار ہونے کے بعد ہی ممکن ہے۔

زنا کی سزا (۲)

محمد عمار خان ناصر

(مصنف کی زیر ترتیب کتاب ’’حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ کا ایک باب۔)

زنا کی سزا سے متعلق دوسری آیت سورۂ نور میں آئی ہے۔ ارشاد ہوا ہے:
اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِاءَۃَ جَلْدَۃٍ وَلَا تَأْخُذْکُم بِہِمَا رَأْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَاءِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ. (النور۲۴: ۲)
’’زانی عورت اور زانی مرد، ان میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو۔ اور اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر فی الواقع ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے معاملے میں ان دونوں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ تم پر حاوی نہ ہو جائے۔ اور ان دونوں کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود ہونا چاہیے۔‘‘
آیت، جیسا کہ واضح ہے، کسی قسم کی تخصیص کے بغیر زنا کی سزا صرف سو کوڑے بیان کرتی ہے۔ یہاں قرآن مجید کا سو کوڑوں کی سزا کے بیان پر اکتفا کرنا اور اس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ میں کسی فرق کی تصریح نہ کرنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ہر طرح کے زانی کو بس یہی سزا دینا چاہتا ہے۔ مزید برآں اسی سلسلہ بیان میں چند آیتوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے تعیین کے ساتھ شادی شدہ زانی کے لیے بھی سو کوڑوں ہی کی سزا کی تصریح فرمائی ہے۔ چنانچہ آیت ۲ و۳ میں زنا کی سزا بیان کرنے کے بعد آیت ۴و۵ میں پاک دامن عورتوں پر بدکاری کا الزام لگانے والوں کے لیے قذف کی سزا بیان ہوئی ہے اور اس کے بعد آیت ۶ تا ۱۰ میں میاں بیوی کے مابین لعان کا حکم بیان کیا گیا ہے جس کی رو سے اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور چار گواہ پیش نہ کر سکے تو اسے اپنے الزام کے سچا ہونے پر پانچ قسمیں کھانا ہوں گی۔ اس کے بعد بیوی اگر زنا کی سزا سے بچنا چاہتی ہے تو اسے بھی اس الزام کے جھوٹا ہونے پر پانچ قسمیں کھانا ہوں گی۔ ارشاد ہوا ہے:
وَیَدْرَؤُا عَنْہَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْہَدَ اَرْبَعَ شَہٰدٰتٍ بِاللّٰہِ اِنَّہُ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَ (آیت ۸)
’’اور (مرد کے قسمیں کھانے کے بعد) عورت سے یہ سزا اس صورت میں ٹلے گی جب وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ گواہی دے کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے۔‘‘
یہاں شادی شدہ عورت کی سزا کے لیے ’العذاب‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو معرفہ ہے اور عربی زبان کے قواعد کی رو سے اس سے مراد وہی سزا یعنی ۱۰۰ کوڑے ہو سکتی ہے جس کا ذکر اس سے پیچھے آیت ۲ میں ’ولیشہد عذابہما طائفۃ من المومنین‘ کے الفاظ سے ہوا ہے۔ رازی لکھتے ہیں: 
الالف واللام الداخلان علی العذاب لا یفیدان العموم لانہ لم یجب علیہا جمیع انواع العذاب فوجب صرفہما الی المعہود السابق والمعہود السابق ہو الحد لانہ تعالیٰ ذکر فی اول السورۃ ولیشہد عذابہما طائفۃ من المومنین والمراد منہ الحد (التفسیر الکبیر، ۲۳/۱۴۶)
’’العذاب پر داخل الف لام عموم کا فائدہ نہیں دیتا، کیونکہ اس عورت پر ہر نوع کاعذاب لازم نہیں، اس لیے العذابسے وہی عذاب مراد لینا ضروری ہے جس کا پیچھے ذکر ہو چکا ہے اور وہ ’حد‘ کا عذاب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ کے آغاز میں فرمایا ہے کہ ’ولیشہد عذابہما طائفۃ من المومنین‘ اور یہاں عذاب سے مراد حد ہی کا عذاب ہے۔‘‘
رازی نے یہ بات اصلاً اس تناظر میں لکھی ہے کہ ’العذاب‘ کا لفظ لعان سے انکار کرنے والی خاتون کے لیے جس سزا کو بیان کر رہا ہے، اس سے مراد آیا دنیوی سزا ہے یا آخرت کا عذاب، اور ان کی بات کا مطلب یہ ہے کہ ’العذاب‘ کا الف لام اسی عذاب یعنی دنیوی سزا پر دلالت کر رہا ہے جس کا ذکر سیاق کلام میں ’عذابہما‘ کے لفظ سے ہو چکا ہے۔ تاہم عربیت کی رو سے ’العذاب‘ کا الف لام صرف عذاب کی نوعیت کے حوالے سے نہیں بلکہ سزا کی متعین صورت کے حوالے سے بھی اسی سزا پر دلالت کرتا ہے جو ’عذابہما‘ میں بیان ہوئی ہے۔ ابن قیم نے اس نکتے کو یوں واضح کیا ہے:
والعذاب المدفوع عنہا بلعانہا ہو المذکور فی قولہ تعالیٰ ولیشہد عذابہما طائفۃ من المومنین وہذا عذاب الحد قطعا فذکرہ مضافا ومعرفا بلام العہد فلا یجوز ان ینصرف الی عقوبۃ لم تذکر فی اللفظ ولا دل علیہا بوجہ ما من حبس او غیرہ (زاد المعاد، ۹۷۸)
’’یہاں لعان کے ذریعے سے عورت سے جس سزا کے ٹلنے کا ذکر کیا گیا ہے، وہ وہی ہے جو اس سے قبل ’ولیشہد عذابہما طائفۃ من المومنین‘ میں مذکور ہے۔ اس سے مراد لازماً زنا کی مقررہ سزا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے اس کا ذکر اضافت کے ساتھ (عذابہما) کیا ہے اور اس کے بعد لام عہد (العذاب) کے ساتھ، چنانچہ ’العذاب‘ سے مراد کوئی ایسی سزا مثلاً عورت کو قید کر دینا وغیرہ ہو ہی نہیں سکتی جس کا پیچھے نہ الفاظ میں ذکر ہوا ہے اور نہ اس پر کسی قسم کا کوئی قرینہ پایا جاتا ہے۔ ‘‘
سورۂ نور کی مذکورہ آیت کی طرح سورۂ نساء کی آیت ۲۵ سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی اجازت بیان کی ہے کہ اگر کوئی شخص آزاد عورت سے نکاح کی مقدرت نہ رکھتا ہو تو وہ کسی مسلمان لونڈی سے نکاح کر سکتا ہے۔ یہاں شادی شدہ لونڈی کے لیے بدکاری کی سزا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
فَاِذَا اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ (نساء ۴:۲۵)
’پھر جب وہ قید نکاح میں آ جائیں اور اس کے بعد بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان کو اس سے آدھی سزا دی جائے جو آزاد عورتوں کو دی جاتی ہے۔‘‘
آیت میں ’نصف ما علی المحصنات من العذاب‘ کے الفاظ اس مفہوم میں صریح ہیں کہ متکلم کے نزدیک آزاد عورتوں کے لیے زنا کی ایک ہی سزا ہے اور وہ ایسی ہے جس کی تنصیف ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ رجم کی سزا اس کا مصداق نہیں ہو سکتی۔ 
مفسرین نے کلام کی کسی داخلی دلالت کے بغیر شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کو پیشگی فرض کرتے ہوئے بالعموم اس آیت کی تاویل یہ بیان کی ہے کہ چونکہ رجم کی تنصیف نہیں ہوسکتی، اس لیے لونڈیوں کے لیے نصف سزا بیان کرنا اس بات کا قرینہ ہے کہ اس سے مراد کوڑوں ہی کی سزا ہے۔ (زمخشری، الکشاف، ۱/۵۳۲۔ ابن عطیہ، المحرر الوجیز، ۲/۳۹۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۱/۴۷۸) لیکن یہ بات کلام کے مدعا کی توضیح کے بجائے اس کو الٹ دینے کے مترادف ہے، کیونکہ کلام کے اسلوب سے واضح ہے کہ متکلم زنا کی دو سزائیں فرض کرتے ہوئے ان میں سے ایک کا انتخاب کر کے اس کی تنصیف کرنے کی بات نہیں کہہ رہا، بلکہ ’العذاب‘ یعنی زنا کی ایک متعین اور معہود سزا سے آدھی سزا دینے کی بات کر رہا ہے۔ بالبداہت واضح ہے کہ اس کا اشارہ سورۂ نور میں بیان کردہ سزا کی طرف ہے جہاں کسی قسم کی تفریق کے بغیر زنا کی ایک ہی سزا بیان کی گئی ہے۔ فرض کر لیجیے کہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق متکلم کے ذہن میں پہلے سے موجود ہے، پھر بھی ’نصف ما علی المحصنت‘ کے الفاظ شادی شدہ زانی کی سزا رجم نہ ہونے پر ہی دلالت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں شادی شدہ لونڈیوں کو آزاد عورتوں کے مقابلے میں نصف سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب اگر آزاد عورتوں میں زنا کی سزا کے اعتبار سے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی تقسیم موجود ہے تو ظاہر ہے کہ شادی شدہ لونڈی کا تقابل شادی شدہ آزاد عورت ہی کے ساتھ کیا جائے گا نہ کہ غیر شادی شدہ کے ساتھ، اس لیے کہ تقابل اسی صورت میں بامعنی قرار پاتا ہے ۔ اگر متکلم اس متبادر مفہوم سے مختلف کسی مفہوم کا ابلاغ کرنا چاہتا ہے تو بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی قرینہ کلام میں بہم پہنچایا جائے جو یہاں موجود نہیں۔
قرآن مجید کے نصوص کی وضاحت کے بعد اب ہم بحث کے دوسرے نکتے کی طرف آتے ہیں۔ روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ ہونے کی بنیاد پر زانی کی سزا میں فرق کیا اور قرآن کی بیان کردہ سزا کے علاوہ کنوارے زانی کے لیے ایک سال کی جلاوطنی جبکہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی اضافی سزا مقرر فرمائی۔ اس ضمن میں روایات دو طرح کی ہیں: ایک وہ جن میں شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کا قولی حکم مذکور ہے اور دوسری وہ جن میں مختلف مقدمات کے حوالے سے بعض مجرموں کو عملاً رجم کی سزا دینے کا ذکر ہوا ہے۔ 
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
کان نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا انزل علیہ کرب لذلک وتربد لہ وجہہ قال فانزل علیہ ذات یوم فلقی کذلک فلما سری عنہ قال خذوا عنی فقد جعل اللّٰہ لہن سبیلا: الثیب بالثیب والبکر بالبکر، الثیب جلد ماءۃ ثم رجم بالحجارۃ، والبکر جلد ماءۃ ثم نفی سنۃ. (مسلم، رقم ۳۲۰۰) 
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تو آپ کو تکلیف ہوتی اور اس کی شدت سے آپ کا چہرہ کسی قدر سیاہ ہو جاتا۔ ایک دن آپ پر وحی نازل ہوئی اور یہی کیفیت آپ پر طاری ہو گئی۔ جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا: مجھ سے لے لو۔ اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے راہ پیدا کر دی ہے۔ شادی شدہ زانی شادی شدہ زانیہ کے ساتھ ہے اور کنوارا زانی کنواری زانیہ کے ساتھ۔ شادی شدہ کو سو کوڑے مارنے کے بعد سنگسار کیا جائے، جبکہ کنوارے کو سو کوڑے مارنے کے بعد ایک سال کے لیے جلاوطن کر دیا جائے۔‘‘
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
لا یحل دم امرئ مسلم یشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وانی رسول اللّٰہ الا باحدی ثلاث: النفس بالنفس والثیب الزانی والمارق من الدین التارک للجماعۃ. (بخاری، رقم ۶۳۷۰) 
’’کسی مسلمان کی، جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، جان لینا تین صورتوں کے سوا جائز نہیں: جان کے بدلے جان، شادی شدہ زانی اور وہ شخص جو دین سے نکل کر مسلمانوں کی جماعت کا ساتھ چھوڑ دے۔‘‘
بعض روایات کے مطابق رجم کا حکم قرآن مجید میں باقاعدہ ایک آیت کی صورت میں نازل ہوا تھا۔ ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر نے ایک موقع پر اپنے خطبے میں فرمایا :
ان اللہ بعث محمدا بالحق وانزل علیہ الکتاب فکان مما انزل اللہ آیۃ الرجم فقراناہا وعقلناہا ووعیناہا رجم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورجمنا بعدہ فاخشی ان طال بالناس زمان ان یقول قائل واللہ ما نجد آیۃ الرجم فی کتاب اللہ فیضلوا بترک فریضۃ انزلہا اللہ والرجم فی کتاب اللہ حق علی من زنی اذا احصن من الرجال والنساء اذا قامت البینۃ او کان الحبل او الاعتراف (بخاری، ۶۳۲۸) 
’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی۔ اللہ تعالیٰ نے جو وحی نازل کی، اس میں رجم کی آیت بھی تھی، چنانچہ ہم نے اسے پڑھا اور سمجھا اور اسے یاد کیا۔ (اس پر عمل کرتے ہوئے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کی سزا دی اور آپ کے بعد ہم نے بھی اس پر عمل کیا۔ مجھے خدشہ ہے کہ زیادہ وقت گزرنے کے بعد کوئی شخص یہ کہے گا کہ بخدا ہم کتاب اللہ میں رجم کی آیت کو موجود نہیں پاتے۔ اس طرح وہ اللہ کے اتارے ہوئے ایک فریضے کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں گے۔ جو مرد یا عورت محصن ہونے کی حالت میں زنا کا ارتکاب کرے اور اس پر گواہ موجود ہوں یا حمل ظاہر ہو جائے یا وہ خود اعتراف کر لے تو اللہ کی کتاب میں اس کے لیے رجم کی سزا ثابت ہے ۔‘‘
رجم کا حکم قرآن میں نازل ہونے کی روایات سیدنا عمر کے علاوہ ابی بن کعب اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہیں اور ان میں یہ آیت ’الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموہما البتۃ‘ (بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت جب زنا کریں تو ان کو لازماً سنگ سار کردو)کے الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔ (مسند احمد، رقم ۲۰۶۱۳۔ موطا امام مالک، رقم ۲۵۶۸)
اس باب میں نقل ہونے والے مقدمات میں ماعز اسلمی (بخاری، رقم ۴۸۶۵)، قبیلۂ غامد کی ایک خاتون (مسلم، رقم ۳۲۰۸)، اپنے مالک کی بیوی سے بدکاری کرنے والے مزدور (بخاری، رقم ۲۵۲۳)، زنا کا ارتکاب کرنے والے ایک یہودی جوڑے، (بخاری، رقم ۳۳۶۳) اور نماز کے لیے جاتی ہوئی خاتون کو راستے میں پکڑ کر اس سے زیادتی کرنے والے ایک شخص (ابو داؤد، رقم ۴۳۷۹۔ ترمذی، رقم ۱۴۵۴) کے واقعات معروف ہیں۔ 
مذکورہ روایات کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی میں فرق کیا اور دونوں کے لیے جلا وطنی اور رجم کی اضافی سزائیں مقرر کی ہیں جو بظاہر قرآن مجید کے مدعا سے متجاوز دکھائی دیتی ہیں۔ قرآن مجید کی بیان کردہ سزا اور مذکورہ روایات میں تطبیق وتوفیق کی صورت کیا ہو؟ یہ سوال ہمیشہ سے اہل علم کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ صدر اول میں خوارج اور بعض معتزلہ نے رجم کو قرآن مجید کے منافی قرار دیتے ہوئے شرعی حکم کے طور پر تسلیم کرنے سے ہی سرے سے انکار کر دیا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ نہ صرف ’الزانیۃ والزانی‘ کا عموم اس کا مقتضی ہے کہ ہر قسم کے زانی کے لیے سو کوڑے ہی شرعی حد ہو، بلکہ قرآن مجید نے جس قدر تفصیل کے ساتھ زنا سے متعلق احکام وقوانین کو موضوع بنایا ہے، اتنا کسی دوسرے جرم کو نہیں بنایا اور اگر رجم کی سزا بھی زنا کی سزاؤں میں شامل ہوتی تو قرآن مجید لازماً اس کا ذکر کرتا۔ (رازی، التفسیر الکبیر ۲۳/۱۱۷، ۱۱۸) خوارج وغیرہ نے اس بنیاد پر رجم کی روایات کو سرے سے ناقابل اعتنا قرار دیا، تاہم یہ نقطۂ نظر امت کے جمہور اہل علم کے ہاں پذیرائی حاصل نہیں کر سکا اور انھوں نے رجم کی روایات کو قبول کرتے ہوئے قرآن مجید کے ساتھ اس حکم کی توفیق وتطبیق کی راہ اختیار کی۔ اس ضمن میں جو مختلف علمی توجیہات پیش کی گئیں ہیں، ذیل کی سطور میں ہم ان کا ایک تنقیدی مطالعہ کریں گے۔ 
۱۔ ایک نقطہ نظر یہ پیش کیا گیا ہے کہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی آیت خود قرآن مجید میں نازل ہوئی تھی جو بعد میں الفاظ کے اعتبار سے تو منسوخ ہو گئی، لیکن اس کا حکم باقی رہ گیا۔ (ابن حزم، المحلیٰ ۱۱/۲۳۴۔ ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ ۲۰/۳۹۸، ۳۹۹) اس موقف کے حق میں بناے استدلال بالعموم سیدنا عمر کے اس خطبے کوبنایا جاتا ہے جس کا متن ہم نے اوپر رجم سے متعلق روایات کے ضمن میں نقل کیا ہے۔**
اس مفہوم کی روایات اس حوالے سے باہم متعارض ہیں کہ رجم کا حکم آیا قرآن مجید کی کسی باقاعدہ آیت کے طور پر نازل ہوا تھا یا قرآن سے باہر کسی الگ حکم کے طور پر۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت باقاعدہ قرآن مجید کے ایک حصے کے طور پر نازل ہوئی تھی اور اسی حیثیت سے پڑھی جاتی تھی، چنانچہ زر بن حبیش ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا کہ سورہ احزاب اپنے حجم میں سورۂ بقرہ کے برابر ہوا کرتی تھی اور اس میں یہ آیت بھی تھی: ’الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموہما البتۃ نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم‘ (بیہقی، ۱۶۶۸۸۔ نسائی، السنن الکبریٰ، ۷۱۵۰) اس کے برعکس بعض دوسری روایات یہ بتاتی ہیں کہ کہ یہ قرآن مجید سے الگ ایک حکم تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حین حیات میں اسے قرآن مجید میں لکھنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ کثیر بن ا لصلت روایت کرتے ہیں کہ زید بن ثابت نے ایک موقع پر مروان کی مجلس میں یہ کہا کہ ہم ’الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموہما البتۃ ‘ کی آیت پڑھا کرتے تھے۔ اس پر مروان نے کہا کہ کیا ہم اسے مصحف میں درج نہ کر لیں؟ زید نے کہا کہ نہیں، دیکھتے نہیں کہ جوان شادی شدہ مرد عورت بھی اگر زنا کریں تو انھیں رجم کیا جاتا ہے۔ پھر انھوں نے بتایا کہ یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں صحابہ کے مابین زیر بحث آئی تو سیدنا عمر نبی صلی اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ، مجھے رجم کی آیت لکھوا دیجیے، لیکن آپ نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ (بیہقی، ۱۶۶۹۰۔ نسائی، السنن الکبریٰ، ۷۱۴۸)
بہرحال رجم کا حکم قرآن مجید میں نازل کیے جانے کے بعد اس سے نکال لیا گیا ہو یا ابتدا ہی سے اسے قرآن کا حصہ بنانے سے گریز کیا گیا ہو، دونوں صورتوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر شارع کے پیش نظر اس کو ایک مستقل حکم کے طور پر برقرار رکھنا تھا تو مذکورہ طریقہ کیوں اختیارکیا گیا؟ اگر یہ مانا جائے کہ شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کی آیت قرآن میں نازل ہونے کے بعد اس سے نکال لی گئی تو اس کی واحد معقول توجیہ یہی ہو سکتی ہے کہ اب یہ حکم بھی منسوخ ہو چکا ہے، ورنہ حکم کو باقی رکھتے ہوئے آیت کے الفاظ کو منسوخ کر دینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ اور اگر یہ فرض کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی یہ حکم تو دیا گیا تھا لیکن اسے قرآن مجید کا حصہ بنانے سے بالقصد گریز کیا گیا تو بظاہر یہ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ ایک وقتی نوعیت کا حکم تھا جسے ابدی شرعی احکام کی حیثیت سے برقرار رکھنا اللہ تعالیٰ کے پیش نظر نہیں تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صرف اسی سزا کے بیان پر اکتفا کی جسے ابدی طور پر باقی رکھنا ضروری تھا۔ مذکورہ دونوں صورتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رجم کے حکم کے منسوخ ہو جانے کی بات بظاہر معقول دکھائی دیتی ہے، لیکن اس امر کی توجیہ کسی طرح نہیں ہو پاتی کہ یہ بات صحابہ سے کیسے مخفی رہ گئی، کیونکہ نہ صرف سیدنا عمر جیسے بلند پایہ فقیہ رجم کے ایک شرعی حکم کے طورپر باقی ہونے کے قائل ہیں، بلکہ خلفاے راشدین اور دوسرے اکابر صحابہ کے ہاں بھی متفقہ طور پر یہی تصور پایا جاتا ہے۔
۲۔ امام شافعی نے یہ زاویۂ نگاہ پیش کیا ہے کہ اگرچہ قرآن مجید کے الفاظ بظاہر عام ہیں اور ان کو غیر شادی شدہ زانی کے ساتھ خاص کرنے کا کوئی قرینہ کلام میں موجود نہیں، تاہم قرآن مجید کا حقیقی مدعا اس کے ظاہر الفاظ کے بجائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کی روشنی میں زیادہ درست طور پر متعین کیا جا سکتا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر کرنا گویا اس بات کی وضاحت ہے کہ قرآن میں ’الزانیۃ والزانی‘ کے الفاظ درحقیقت صرف کنوارے زانیوں کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ (الشافعی، الرسالہ، ۶۶، ۶۷، ۷۲)
امام صاحب کے نقطہ نظر پر ہمارا بنیادی اشکال یہ ہے کہ امام صاحب نے اس مسئلے کو سنت کے ذریعے سے قرآن مجید کی تخصیص کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے، جبکہ یہ درحقیقت تخصیص کی نہیں بلکہ قرآن پر زیادت کی مثال ہے، چنانچہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت میں، جو زنا کی سزا کے قانونی بیان کا بنیادی ماخذ ہے، کوڑوں کی سزا کے حوالے سے شادی شدہ اور کنوارے زانی میں کوئی فرق نہیں کیا گیا، بلکہ اسے دونوں پر یکساں قابل اطلاق قرار دیا گیا ہے، البتہ اس کے ساتھ ساتھ کنوارے زانی کے لیے ایک سال کی جلاوطنی کی جبکہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی اضافی سزا بھی بیان کی گئی ہے۔ امام شافعی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ سورۂ نساء میں زنا کی عبوری سزا مقرر کیے جانے کے بعد سورۂ نور کی آیات نازل ہوئیں جن میں زنا کی مستقل سزا مقرر کی گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حکم کی وضاحت میں وہ تفصیل بیان کی جو عبادہ بن صامت کی روایت میں نقل ہوئی ہے، البتہ امام صاحب کی رائے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے یہ واضح فرمایا ہے کہ شادی شدہ زانی کو صرف رجم کی سزا دی جائے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو سو کوڑوں کی سزا دینا منسوخ ہو چکا ہے۔ تاہم اس سے صورت حال میں کوئی ایسا فرق واقع نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ یہ سنت کے ذریعے سے قرآن پر زیادت کی نہیں بلکہ تخصیص کی مثال ہے، اس لیے کہ عبادہ بن صامت کی روایت سے واضح ہے کہ یہ حکم سورۂ نساء میں زنا کی عبوری سزا کے بیان کے بعد نازل ہونے والا پہلا مستقل حکم ہے اور اس میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم کے ساتھ ساتھ کوڑوں کی سزا بھی بیان ہوئی ہے، اس لیے اگر امام شافعی کی رائے کے مطابق یہ تسلیم کر لیا جائے کہ کوڑوں کی سزا بعد میں منسوخ ہو گئی تھی تو بھی عبادہ بن صامت کی روایت کی حد تک یہ ’زیادت‘ ہی ہے، اسے کسی طرح بھی ’تخصیص‘ نہیں کہا جا سکتا۔ 
برسبیل تنزل اسے ’تخصیص‘ کی مثال مان لیا جائے تو بھی امام صاحب کی اس بات سے اتفاق کرنا ممکن نہیں کہ قرآن مجید شادی شدہ زانی کی سزا بیان کرنے کے معاملے میں قطعی نہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر کرنا قرآن کے محتمل اور ظنی الدلالۃ الفاظ کی وضاحت اور بیان کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ ’الزانیۃ والزانی‘ کے ظاہری عموم کے علاوہ سورۂ نور میں ’یدرؤ عنہا العذاب‘ اور سورۂ نساء میں ’نصف ما علی المحصنت من العذاب‘ کے الفاظ صریحاً یہ بتاتے ہیں کہ شادی شدہ زانی کے لیے بھی سو کوڑے ہی کی سزا ہے۔ چنانچہ روایت نے اگر قرآن کی ’تخصیص‘ کی ہے تو شرح ووضاحت اور ’بیان‘ کے طریقے پر نہیں بلکہ نسخ اور تغییر کے طریقے پر کی ہے جس کے جواز کے خود امام شافعی بھی قائل نہیں۔ ان وجوہ سے امام شافعی کی رائے ہمارے نزدیک معاملے کو ضرورت سے زیادہ سادہ بنا کر پیش کرنے (oversimplification) کی ایک مثال ہے جسے علمی بنیادوں پر قبول کرنا ممکن نہیں۔
مولانامودودی نے امام شافعی کے زاویہ نگاہ کو ایک دوسرے انداز سے پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن مجید صرف غیر شادی شدہ زانی کی سزا بیان کرتا ہے اور اس کے لیے خود قرآن مجید میں قرائن موجود ہیں۔ مولانا نے اس ضمن میں جو استدلال پیش کیا ہے، اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
استدلال کا پہلا مقدمہ یہ ہے کہ سورۂ نساء کی آیت ۱۵ میں اللہ تعالیٰ نے زنا کی جو مستقل سزا مقرر کرنے کا وعدہ کیا اور پھر اسی سورہ کی آیت ۲۵ میں شادی شدہ لونڈی کے لیے جس سزا کا ذکر کیا ہے، وہ وہی ہے جو سورۂ نور کی آیت ۲ میں بیان کی گئی ہے۔ دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ ’نصف ما علی المحصنت‘ (نساء ۲۵) میں ’محصنات‘ کا لفظ شادی شدہ آزاد عورتوں کے مفہوم میں نہیں بلکہ غیر شادی شدہ آزاد عورتوں کے مفہوم میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ لونڈیوں کو غیر شادی شدہ آزاد عورتوں کی سزا سے آدھی سزا دی جائے۔ ان دو مقدموں سے مولانا یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ چونکہ سورۂ نساء کی آیت ۲۵ میں لونڈیوں کو غیر شادی شدہ آزاد عورتوں کی سزا سے آدھی سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ اصل سزا سورۂ نور میں بیان ہوئی ہے، اس لیے سورۂ نور میں بیان ہونے والی سزا بھی لازماً غیر شادی شدہ آزاد عورتوں ہی سے متعلق ہے۔ (تفہیم القرآن، ۳/۳۲۶)
دوسرے مقدمے کے حق میں مولانا نے دو دلیلیں پیش کی ہیں: ایک کہ اسی آیت کے شروع میں ’من لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنات المومنات‘ میں محصنات کا لفظ غیر شادی شدہ آزاد عورتوں کے لیے آیا ہے، اس لیے اسی سیاق میں جب یہ لفظ دوبارہ استعمال ہوا ہے تو اس سے مراد بھی غیر شادی شدہ عورتیں ہی ہو سکتی ہیں۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ زنا کی سزا دراصل اس حفاظت کو توڑنے کی سزا ہے جو عورت کو خاندان یا نکاح کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ شادی شدہ آزاد عورت کو دونوں حفاظتیں میسر ہوتی ہیں جبکہ غیر شادی شدہ کو صرف ایک۔ اس کے برعکس لونڈی خاندان کی حفاظت سے بالکل محروم ہوتی ہے ، جبکہ شادی شدہ ہونے کی صورت میں اسے صرف ایک حفاظت حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی ادھوری، چنانچہ لونڈی کا تقابل شادی شدہ آزاد عورت سے نہیں، جس کو دوہری حفاظت حاصل ہوتی ہے، بلکہ غیر شادی شدہ آزاد عورت سے ہونا چاہیے جسے لونڈی کی طرح ایک ہی حفاظت میسر ہوتی ہے۔ (تفہیم القرآن، ۱/۳۴۲، ۳۴۳)
مولانا کا پیش کردہ یہ استدلال واقعہ یہ ہے کہ ہر لحاظ سے بالکل بے بنیاد ہے۔ اول تو ان کا یہ استنتاج عجیب ہے کہ چونکہ نساء میں لونڈیوں کو غیر شادی شدہ آزاد عورتوں سے آدھی سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے سورۂ نور میں بیان ہونے والی سزا بھی کنوارے زانیوں ہی سے متعلق ہے۔ نساء کی آیت سے واضح ہے کہ سورۂ نور کی آیت اس سے پہلے نازل ہو چکی تھی، چنانچہ یہ بات طے کرنے کے قرائن کہ سورۂ نور میں کون سے زانی زیر بحث ہیں، خود سورۂ نور میں موجود ہونے چاہییں اور انھی روشنی میں اس کا فیصلہ کرنا چاہیے، نہ کہ سورۂ نور کے احکام کا دائرۂ اطلاق سورۂ نساء کی آیات سے متعین کرنا چاہیے۔ اگر سورۂ نور کے احکام کے دائرۂ اطلاق کی تعیین کے لیے نساء کی آیت ۲۵ ہی قرآن مجید میں واحد بنیاد ہے تو سوال یہ ہے کہ جب تک اس آیت میں مذکورہ قرینہ اگر اسے کوئی قرینہ کہا جا سکے بہم نہیں پہنچایا گیا تھا، اس وقت تک سورۂ نور میں اللہ تعالیٰ کے منشا تک رسائی کا ذریعہ کیا تھا؟ حکم کو بیان کر دینا لیکن اس کے ایک نہایت بنیادی پہلو کے فہم کو معلق رکھتے ہوئے اس کے قرائن کو بعد میں کسی دوسری جگہ پر الگ رکھ دینا آخر زبان وبیان اور بلاغت کا کون سا اسلوب ہے؟
مولانا نے سورۂ نساء کی آیت ۲۵ میں جس قرینے کی نشان دہی کی ہے، وہ بھی دلچسپ ہے۔ عربی زبان میں ’محصنات‘ کا لفظ ’’آزاد عورتوں‘‘کے مفہوم میں استعمال ہو تو اس کا مصداق بننے والے افراد اپنی حالت کے لحاظ سے شادی شدہ بھی ہو سکتے ہیں اور غیر شادی شدہ بھی، لیکن اس فرق پر کوئی دلالت لفظ کے اپنے مفہوم میں داخل نہیں۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ کسی مخصوص سیاق کلام میں قرینے کی بنا پر اس لفظ کا اطلاق صرف شادی شدہ یا غیر شادی شدہ عورتوں تک محدود ہو جائے، لیکن ’محصنات‘ کا لفظ موقع کلام سے پیدا ہونے والی اس تخصیص سے قطع نظر فی نفسہ محض ’’آزاد عورتوں‘‘ کے مفہوم پر دلالت کرتا ہے۔ زیر بحث آیت میں بھی ’من لم یستطع منکم ان ینکح المحصنات‘ میں لفظ ’محصنات‘ محض ’’آزاد عورتوں‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ’’غیر شادی شدہ آزاد عورت‘‘ ہونا اس کا معنی یا اس کے استعمالات میں سے کوئی استعمال نہیں، بلکہ اس میں یہ مفہوم اس کے ساتھ متعلق ہونے والے فعل یعنی ’ینکح‘ کے تقاضے سے پیدا ہوا ہے اور عربیت کی رو سے یہ تخصیص اسی جملے تک محدود ہے۔ اس کے بعد جب یہ لفظ ’فعلیہن نصف ما علی المحصنات من العذاب‘ میں دوبارہ استعمال ہوا ہے تو یہاں بھی اس کا مفہوم محض ’’آزاد عورتیں‘‘ ہے، جبکہ ’ینکح المحصنات‘ میں فعل ’ینکح‘ کے تقاضے سے پیدا ہونے والی تخصیص کو یہاں موثر ماننے کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ قرینہ۔ 
مولانا نے اس ضمن میں اکہرے اور دوہرے احصان کا جو نکتہ بیان کیا ہے، وہ ذہانت آمیز ہے لیکن اس کا عربی زبان یا قرآن مجید کے مدعا سے کوئی تعلق نہیں۔ عربی زبان میں ’محصنات‘ کا لفظ، جیسا کہ ہم نے واضح کیا، سادہ طور پر ’’آزاد عورتوں‘‘ یا ’’شادی شدہ خواتین‘‘ کے مفہوم پر دلالت کرتا ہے۔ ان دونوں استعمالات کی لسانی تحقیق کے تناظر میں یہ نکتہ بالکل درست ہے کہ آزاد عورتوں کو خاندان کی حفاظت حاصل ہوتی ہے اور شادی شدہ عورتوں کو نکاح کی۔ اسی طرح عقلی استدلال کی حد تک یہ بات بھی درست ہے کہ شادی شدہ آزاد عورت کو دو حفاظتیں حاصل ہوتی ہیں جبکہ غیر شادی شدہ کو صرف ایک، لیکن جہاں تک عربی زبان کے استعمال کا تعلق ہے تو اہل زبان اس لفظ کو ’’آزاد عورت‘‘ یا ’’شادی شدہ عورت‘‘ کے بالکل سادہ مفہوم میں استعمال کرتے ہیں۔ اکہرے یا دوہرے احصان کا کوئی تصور نہ اہل زبان کے استعمال میں موجود ہے اور نہ قرآن کے الفاظ میں اس بات کی طرف کوئی اشارہ موجود ہے۔ اس لیے یہ ایک دقیق نکتہ آفرینی تو ہو سکتی ہے، لیکن الفاظ کا مفہوم ومدلول اور متکلم کا مدعا ومنشا متعین کرنے کا یہ طریقہ زبان وبیان کے لیے ایک اجنبی چیز ہے۔ 
مولاناکی یہ رائے کہ نساء کی آیت ۱۵ غیر شادی شدہ زانیوں ہی سے متعلق تھی، اس وجہ سے بھی محل نظر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث عبادہ میں ’او یجعل اللہ لہن سبیلا‘ کاحوالہ دیتے ہوئے صرف کنوارے زانیوں کے ساتھ شادی شدہ زانیوں کی سزا بھی بیان کی ہے جو اس کی دلیل ہے کہ مذکورہ آیت میں بیان ہونے والی عبوری سزا بھی دونوں ہی سے متعلق تھی۔ مولانا کی بات درست مان لی جائے تویہ سوال تشنہ جواب رہتا ہے کہ اگر یہ آیت صرف غیر شادی شدہ زانیوں سے متعلق تھی تو عبوری سزا بیان کرتے ہوئے صرف انھیں کیوں مدنظر رکھا گیا اور شادی شدہ زانیوں کو کیوں نظر انداز کر دیا گیا۔ 
مذکورہ بحث کا حاصل یہ ہے کہ جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے تو اس میں کسی ابہام یا احتمال کے بغیر پوری وضاحت کے ساتھ شادی شدہ اور کنوارے زانی کے لیے ایک ہی سزا یعنی سو کوڑے کی تصریح کی گئی ہے، اس لیے قرآن مجید اور روایات کے مابین تطبیق وتوفیق پیدا کرنے کے لیے قرآن مجید کے بیان کو محتمل اور اس کی دلالت کو ظنی قرار دینے کا نقطہ نظر درست نہیں۔ قرآن کے بیان کا واضح، غیر مبہم اور غیر محتمل ہونا اس بحث کا بنیادی نکتہ ہے اور اس کو نظر انداز کر کے کی جانے والی توجیہ وتطبیق کی ہر کوشش محض دفع الوقتی ہوگی۔
۳۔ اصولیین کے ایک گروہ نے رجم کے حکم کو آیت نور کی ’تخصیص‘ کے بجائے اس پر ’زیادت‘ قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی بیان کردہ سزا ہر قسم کے زانی کے لیے عام ہے، البتہ ان میں سے شادی شدہ زانیوں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کی صورت میں ایک اضافی سزا بھی مقرر فرمائی ہے۔ اس نقطۂ نظر کے حامل اہل علم میں سے بعض شادی شدہ زانی پر دونوں سزائیں نافذ کرنے کے قائل ہیں، (ابن عبد البر، الاستذکار ۲۴/۴۹) جبکہ بعض کی رائے میں رجم کی سزا نافذ کرنے کی صورت میں چونکہ کوڑے لگانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی، اس لیے عملاً ایک ہی سزا نافذ کی جائے گی۔ (شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۲۷)
اس رائے پر بنیادی اشکال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کی بیان کردہ سزا میں یہ اضافہ آیا سورۂ نور کے نزول کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کے پیش نظر تھا یا اسے بعد میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا؟ اگر دوسری صورت فرض کی جائے تو روایت اسے قبول نہیں کرتی، کیونکہ وہ یہ بتاتی ہے کہ سورۂ نساء کی آیت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جانے والا پہلا حکم یہی تھا، چنانچہ سورۂ نور کا نزول اس حکم کے ساتھ یا اس کے بعد تو مانا جا سکتا ہے، لیکن اس سے پہلے نہیں۔ اس کے برعکس پہلی صورت مانی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ سو کوڑے لگوانے کے ساتھ ساتھ کنوارے زانی کو جلاوطن جبکہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کروانا چاہتے ہیں تو دونوں حکموں کے ایک ہی موقع پر نازل کیے جانے کے باوجود قرآن مجید کے اس پوری بات کو خود بیان کرنے سے گریز کرنے اور سزا کا ایک جزو قرآن میں جبکہ دوسرا جزو اس سے باہر نازل کی جانے والی وحی میں بیان کرنے کی وجہ اور حکمت کیا ہے اور جب قرآن نے زنا کی سزا کے بیان کو باقاعدہ موضوع بنایا ہے تو مجرم کے حالات کے لحاظ سے اس جرم کی جو مختلف سزائیں دینا اللہ تعالیٰ کے پیش نظر تھا، ان کی وضاحت میں کیا چیز مانع تھی؟ قرآن کے اسلوب کا ایجاز مسلم ہے، لیکن عدت، وراثت اور قتل خطا وغیرہ کی مختلف صورتوں اور ان کے الگ الگ احکام کی تفصیل کا طریقہ خود قرآن میں اختیار کیا گیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ زنا کی سزا کے معاملے میں اس معروف اور مانوس طریقے کو چھوڑ کر ایک ایسا انداز اختیار کیا گیا جو نہ صرف زبان وبیان کے عمومی اسلوب بلکہ خود قرآن کے اپنے طرز گفتگو سے بھی بالکل ہٹ کر ہے؟
ایک احتمال یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید نے تو زنا کی سزا سو کوڑے ہی مقرر کی تھی، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد کی بنا پر یہ فیصلہ فرمایا کہ اس پر جلا وطنی اور سنگساری کی سزا کا بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت امت پر مطلقاً فرض کی گئی ہے، اس لیے آپ نے قرآن کے علاوہ اپنے اجتہاد کی بنیاد پر جو حکم دیا، امت کے لیے اسے بھی ایک شرعی حکم کی حیثیت سے تسلیم کرنا لازم ہے۔ تاہم یہ مفروضہ بھی اصل الجھن کو حل کرنے میں کسی طور پر مددگار نہیں، اس لیے کہ اصل سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی حیثیت کو ماننے یا نہ ماننے یا آپ کی اطاعت کے دائرے کو مطلق یا مقید قرار دینے کا نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ اگر جلاوطنی اور رجم کی اضافی سزائیں مقرر کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا اجتہاد تھا تو کیا آپ کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ جس معاملے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی واضح حکم دیا گیا ہو، اس میں اپنے اجتہاد سے کام لیتے ہوئے نفس حکم میں کوئی ترمیم یا اضافہ کر لیں اور کیا آپ کے اجتہادات میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ ان سزاؤں کے اضافے کو آپ کے اجتہاد پر مبنی ماننے سے دوسرا اہم اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شرعی سزاؤں کے معاملے میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا رجحان یہ تھا کہ مجرم کو سزا سے بچنے کا موقع دیا جائے، چنانچہ آپ نے زنا کے اعتراف کے ساتھ پیش ہونے والے مجرموں کو اپنے رویے سے واپس پلٹ جانے اور توبہ واصلاح پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور عمومی طور پر بھی مسلمانوں کو یہی ہدایت کی کہ وہ جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے حتی الامکان سزا سے بچنے کا راستہ تلاش کریں۔ اس تناظر میں یہ بات ایک تضاد دکھائی دیتی ہے کہ ایک طرف آپ مجرموں سے سزا کے نفاذ کو ٹالنے کا رجحان ظاہر کر رہے ہوں اور دوسری طرف انھی مجرموں کے لیے قرآن کی بیان کردہ سزاؤں کو ناکافی سمجھتے ہوئے اپنے اجتہاد سے ان پر مزید اور زیادہ سنگین سزاؤں کا اضافہ فرما رہے ہوں۔ ان وجوہ سے جلاوطنی اور رجم کی اضافی سزاؤں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد پر مبنی قرار دینے کی بات کسی طرح قرین قیاس دکھائی نہیں دیتی۔
ایک مزید احتمال یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید نے صرف نفس زنا کی سزا بیان کی ہے، جبکہ سزا کے نفاذ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ اگر اس میں مجرم کے حالات یا جرم کی نوعیت کے لحاظ سے شناعت کا کوئی مزید پہلو شامل ہو جائے تو اس کی رعایت سے کوئی اضافی سزا بھی اصل سزا کے ساتھ شامل کی جا سکتی ہے۔ چونکہ شادی شدہ زانی جائز طریقے سے جنسی تسکین کی سہولت موجود ہوتے ہوئے ایک ناجائز راستہ اختیار کرتا اور اپنے رفیق حیات کے ساتھ بھی بے وفائی اور عہد شکنی کا مرتکب ہوتا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے زانی کے لیے اضافی سزا مقرر کرنے سے قرآن مجید کے حکم پر کوئی زد نہیں پڑتی۔ 
تاہم یہ احتمال بھی اشکال سے خالی نہیں، ا س لیے کہ قرآن نے محض ’الزانیۃ والزانی‘ کے ظاہری عموم پر اکتفا نہیں کیا بلکہ، جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں، شادی شدہ زانی کے لیے بھی سو کوڑوں ہی کی سزا بیان کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نزدیک اصل سزا یہی ہے۔ اب اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اضافی پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی زائد سزا بیان کی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ ’حد‘ نہیں بلکہ ایک تعزیری سزا ہوگی، کیونکہ اسے اصل سزا کا لازمی حصہ تصور کرنے کا مطلب اس معاملے میں قرآن کے صریح بیان کو ناکافی قرار دینا ہوگا۔ ویسے بھی مجرم کے حالات کے لحاظ سے دی جانے والی اضافی سزا اپنی نوعیت کے لحاظ سے تعزیری سزا ہی ہو سکتی ہے اور اس کے نفاذ میں یہ بات ملحوظ رکھنا پڑتی ہے کہ سزا میں جس بنیاد پر اضافہ کیا جا رہا ہے، وہ عملاً موجود بھی ہے یا نہیں۔ اس طرح اس توجیہ کا منطقی تقاضا یہ ہوگا کہ مثال کے طور پر رجم کی اضافی سزا کا نفاذ صرف ایسے شادی شدہ زانی پر کیا جائے جس کے لیے ارتکاب زنا کے وقت بھی شرعی طریقے سے اپنی بیوی یا شوہر سے جنسی استمتاع کا امکان موجود ہو۔ اگر نکاح کے بعد جدائی ہو چکی ہو یا زوجین میں سے کوئی ایک انتقال کر چکا ہو یا خاوند گھر سے دور ہو تو ازروے علت ان صورتوں میں زنا کے ارتکاب پر مجرم کے شادی شدہ ہونے کے باوجود اسے رجم کی سزا نہیں دی جانی چاہیے۔ چنانچہ یہ توجیہ اصل مقصود یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ سزاؤں کے ’حد‘ یعنی سزا کا لازمی حصہ ہونے کوکسی طرح واضح نہیں کرتی۔ مزید برآں اگر اس کو درست مانا جائے تو اس سے صرف شادی شدہ زانی کی سزا میں اضافے کی توجیہ ہوتی ہے، جبکہ کنوارے زانی کی سزا میں جلاوطنی کا اضافہ کرنے کی کوئی وجہ واضح نہیں ہو پاتی۔
واقعہ یہ ہے کہ روایت میں بیان ہونے والی اضافی سزاؤں کی اگر زنا کے علاوہ کوئی اضافی وجہ فرض نہ کی جائے اور ان سزاؤں کو قرآن ہی کی بیان کردہ سزا کے دائرۂ اطلاق میں مساوی طور پر لازم مانا جائے تو آیت اور روایت کے باہمی تعلق کی کوئی معقول توجیہ کرنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ فقہاے احناف نے کم از کم روایت کے ایک حصے یعنی کنوارے زانی کی سزا کی حد تک قرآن مجید اور روایت میں تطبیق کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔ ان کی رائے میں جلاوطنی کی سزا محض ایک تعزیری سزا ہے اور اس کے نفاذ کا مدار قاضی کی صواب دید پر ہے۔ اس ضمن میں احناف کا اصولی استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید مطلقاً ہر قسم کے زانی کے لیے صرف سو کوڑوں کی سزا بیان کے حوالے سے بالکل واضح اور قطعی ہے اور اس کے دائرۂ اطلاق میں کوئی تخصیص یا اس سزا پر کوئی اضافہ کسی قطعی دلیل کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ وہ کنوارے زانی کے لیے حدیث میں بیان ہونے والی اضافی سزا یعنی ایک سال کی جلاوطنی کو، خبر واحد سے ثابت ہونے کی بنا پر، سزا کا لازمی حصہ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی رائے میں قرآن نے جس سزا کے بیان پر اکتفا کی ہے، وہی اصل سزا ہے اور اس پر کوئی اضافہ کرنا قرآن کے نسخ کو مستلزم ہے جو خبر واحد سے نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ وہ زانی کو جلا وطن کرنے کو ایک صواب دیدی سزا کے طور پر قبول کرتے ہیں اور ان کے نزدیک اگر قاضی کسی مجرم کی آوارہ منشی کو دیکھتے ہوئے اس کے اس علاقے میں رہنے کو خطرے کا باعث سمجھے یا مزید تنبیہ کی غرض سے اسے گھر در سے دور اور اعزہ واقربا کی حمایت سے محروم کرنے کو بھی قرین مصلحت دیکھے تو وہ سو کوڑے لگانے کے بعد اسے جلا وطن بھی کر سکتا ہے۔ (سرخسی، المبسوط ۹/۵۰، ۵۱۔ جصاص، احکام القرآن ۳/۲۵۵، ۲۵۶۔ طحاوی، شرح معانی الآثار ۴۴۷۹)
امام طحاوی نے اس پر یہ استدلال پیش کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں لونڈیوں کے بارے میں یہ حکم دیا ہے کہ اگر وہ زنا کا ارتکاب کریں تو انھیں آزاد عورتوں سے نصف سزا دی جائے: ’فنصف ما علی المحصنت من العذاب‘۔ ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈیوں کی سزا بیان کرتے ہوئے صرف کوڑے لگانے کا ذکر کیا ہے اور انھیں جلاوطن کرنے کا حکم نہیں دیا۔ آپ نے فرمایا:
اذا زنت الامۃ فاجلدوہا ثم اذا زنت فاجلدوہا ثم اذا زنت فاجلدوہا فی الثالثۃ او الرابعۃ بیعوہا ولو بضفیر (بخاری، ۲۳۶۹)
’’جب لونڈی زنا کرے تو اس کو کوڑے لگاؤ۔ پھر زنا کرے تو کوڑے لگاؤ۔ پھر زنا کرے تو کوڑے لگاؤ۔ تیسری یا چوتھی مرتبہ زنا کے بارے میں فرمایا کہ اب اسے بیچ دو، چاہے قیمت میں ایک معمولی رسی ہی ملے۔‘‘
تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ شریعت کی رو سے زنا کے ارتکاب کی صورت میں لونڈی کو جلاوطن نہیں کیا جائے گا۔ چونکہ قرآن مجیدنے لونڈیوں کی سزا آزاد عورتوں سے نصف بیان کی ہے، اس لیے اگر جلا وطن کرنا آزاد عورتوں کی سزا کا لازمی حصہ ہوتا تو قرآن مجید کے مذکورہ حکم کی رو سے لونڈیوں کو بھی چھ ماہ کے لیے جلا وطن کرنا ضروری ہوتا، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈیوں کے لیے یہ سزا بیان نہیں فرمائی اور نہ اہل علم میں سے کوئی اس کا قائل ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آزاد عورتوں کے لیے بھی جلا وطن کرنا زنا کی سزا کا کوئی لازمی حصہ نہیں ہے۔ پھر چونکہ زنا کی سزا کے معاملے میں آزاد عورتوں اور آزاد مردوں کی سزا میں کوئی فرق نصوص سے ثابت نہیں، اس لیے مردوں کے بارے میں بھی لازماً یہی موقف اختیار کرنا پڑے گا۔ (طحاوی، شرح معانی الآثار، ۴۴۷۹)
زانی کو جلا وطن کرنے کی احادیث کو روایت کرنے والے بعض صحابہ کے اسلوب بیان سے بھی یہ بات نکلتی ہے کہ وہ اس سزا کو اصل حد کا حصہ نہیں، بلکہ ایک اضافی سزا سمجھتے ہیں۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قضی فی من زنی ولم یحصن ان ینفی عاما مع اقامۃ الحد علیہ (نسائی، السنن الکبریٰ، ۷۲۳۷)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر شادی شدہ زانی کے بارے میں حد جاری کرنے کے ساتھ ساتھ ایک سال کے لیے جلاوطن کرنے کاحکم دیا۔‘‘
گویا جلا وطن کرنے کی سزا فی نفسہ کسی جرم کی مستقل اور باقاعدہ سزا نہیں ہے، بلکہ اسے جرم کی نوعیت اور حالات کی مناسبت سے کسی بھی جرم کی اصل سزا کے ساتھ تعزیری طور پر شامل کیا جا سکتا ہے، اور اسی حکمت ومصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر مجرم کو جلا وطن کرنے میں بہتری کے بجائے فساد کا خدشہ ہو تو اسے جلاوطن نہ کیا جائے۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ابراہیم نخعی کی رائے یہ نقل ہوئی ہے کہ زانی مرد وعورت کو جلاوطن کرنا ’فتنہ‘ ہے، (کتاب الآثار، ۶۱۴، ۶۱۵) یعنی اس سے ان کی اصلاح کے بجائے مزید برائی میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رائے اصلاً جلا وطن کرنے کے جواز کی نفی نہیں کرتی، بلکہ معروضی حالات میں اس سزا کے مفید یا موثر ہونے کے بجائے الٹا نقصان دہ ہونے کے امکان کو بیان کرتی ہے۔
فقہاے احناف نے مذکورہ طریقہ تطبیق کو روایت کے پہلے حصے تک محدود رکھا ہے اور شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا پر اس کا اطلاق نہیں کیا بلکہ اس حوالے سے قرآن مجید اور روایت کے باہمی تعارض کونسخ کے اصول پر حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں ان کے ہاں دو زاویہ ہائے نگاہ پائے جاتے ہیں: ایک رائے کے مطابق رجم کا حکم سورۂ نور کی آیت کے لیے ناسخ کی حیثیت رکھتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اولاً ہر قسم کے زانی کے لیے سو کوڑوں ہی کی سزا مشروع کی گئی تھی، لیکن بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کو صرف کنوارے زانیوں کے ساتھ مخصوص کرتے ہوئے شادی شدہ زانیوں کے لیے رجم کی سزا مقرر کر دی۔ (ابن الہمام، فتح القدیر ۵/۲۳۰) دوسری رائے کی رو سے شادی شدہ اور کنوارے زانی کی سزا میں فرق سورۂ نور کی مذکورہ آیت سے پہلے ہی قائم کیا جا چکا تھا اور کنوارے زانی کو سو کوڑوں کے ساتھ جلا وطن کرنے جبکہ شادی شدہ زانی کو کوڑے مارنے کے ساتھ رجم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سورۂ نور کی آیت نازل ہوئی اور کنوارے زانی کو جلا وطن کرنے اور شادی شدہ زانی کو رجم سے پہلے سو کوڑے مارنے کی سزا منسوخ قرار پائی۔ (سرخسی، المبسوط ۹/۴۱، ۴۲)
ہم یہاں اصول فقہ کی اس بحث سے صرف نظر کر لیتے ہیں کہ سنت کے ذریعے سے قرآن یا قرآن کے ذریعے سے سنت کے کسی حکم کو کلی یا جزوی طور پر منسوخ کیا جا سکتا یا نہیں۔ اس بات کو فرضاً درست مان لیا جائے تو بھی زیربحث مسئلے میں نسخ کے اصول کا اطلاق کرنا مشکل ہے، اس لیے کہ اگر یہ کہا جائے کہ سورۂ نور کی آیت حدیث عبادہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی سے پہلے نازل ہو چکی تھی اور حدیث عبادہ اس کے لیے ناسخ ہے تو اس کی نفی خود روایت کے داخلی شواہد سے ہو جاتی ہے، کیونکہ روایت سے واضح ہے کہ سورۂ نساء میں زنا کی عبوری سزا کے بیان کے بعد اس موقع سے پہلے زنا سے متعلق کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اور ’او یجعل اللہ لہن سبیلا‘ کے وعدے کی تکمیل پہلی مرتبہ اسی حکم کے ذریعے سے کی جا رہی تھی۔ اس لیے یہ فرض کرنا درست نہیں ہوگا کہ سورۂ نور کی آیت اس سے پہلے نازل ہو چکی تھی اور حدیث عبادہ اس کے لیے ناسخ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اگر اس کے برعکس سورۂ نورکی آیت کو حدیث عبادہ کے لیے ناسخ مانا جائے تو یہ لازم آئے گا کہ شادی شدہ اور کنوارے، دونوں طرح کے زانیوں کے لیے سو کوڑے ہی حد شرعی قرار پائے، اس لیے کہ سورۂ نور میں، جیسا کہ واضح ہے، شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ یہ کہنا کہ سورۂ نور کی آیت کے ناسخ ہونے کا اثر کنوارے زانی کے لیے جلاوطنی اور شادی شدہ کے لیے سو کوڑوں کی سزا تک محدود ہے اور رجم کی سزا اس کے تحت نہیں آتی، محض ایک تحکم ہوگا جس کے لیے آیت کے الفاظ اور سیاق وسباق میں کوئی بعید ترین قرینہ بھی موجود نہیں۔ مزید برآں روایت کا اسلوب یہ تقاضا کرتا ہے کہ کنوارے زانی اور شادی شدہ زانی، دونوں کے لیے بیان کی جانے والی اضافی سزا کی نوعیت ایک جیسی ہو۔ اگر کنوارے زانی کی اضافی سزا تعزیری نوعیت کی ہے تو شادی شدہ زانی کی اضافی سزا کو اس سے مختلف نوعیت پرمحمول کرنے کے لیے کوئی قرینہ ہونا چاہیے جو بظاہر روایت میں موجود نہیں۔ 
روایتی علمی ذخیرے میں زیر بحث سوال کے حوالے سے پیش کی جانے والی توجیہات کے غیر اطمینان بخش ہونے کے تناظر میں متاخرین میں سے بعض اہل علم نے ان سے ہٹ کر بعض نئی توجیہات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک الجھن موجود ہے، مزید غور وفکر اور تحقیق کی گنجایش بلکہ ضرورت بھی موجود رہے گی اور اہل علم اگر اس ضمن میں نئی اور متبادل آرا پیش کرتے ہیں تو ان کو سنجیدہ توجہ کا مستحق سمجھا جانا چاہیے۔ یہ توجیہات حسب ذیل ہیں:
۴۔ مولانا انور شاہ کشمیریؒ نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ قرآن مجید میں رجم کا حکم کسی واضح آیت کی صورت میں نہیں، بلکہ سورۂ مائدہ کی آیات ۴۱۔۴۳ میں مذکور اس واقعے کے ضمن میں نازل ہوا ہے جس میں یہود کے، منافقانہ اغراض کے تحت، ایک مقدمے کے فیصلے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کا ذکر ہے۔ روایات کے مطابق یہ زنا کا مقدمہ تھا اور یہود نے نرم سزا کی توقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا تھا، لیکن آپ نے ان پر تورات ہی کی سزا یعنی رجم کو نافذ کر دیا۔ (بخاری، رقم ۴۱۹۰) مولانا کی رائے میں قرآن مجید میں اس واقعے کا ذکر اس کو حکم کا ماخذ بنانے کے لیے کافی ہے، تاہم اس کا مبہم انداز اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قرآن مجید کے نزدیک شادی شدہ زانی کے لیے بھی اصل سزا ۱۰۰ کوڑے ہی ہے اور وہ عمومی طور پر اسے رجم کی سزا نہیں دینا چاہتا۔ اسی وجہ سے اس نے اس کے نفاذ کی شرائط، یعنی مجرم کے شادی شدہ اور مسلمان ہونے کی وضاحت نہیں کی تاکہ ان کی تعیین میں اجتہادی اختلاف کی گنجایش باقی رہے، اور اسی لیے معمولی شبہات اور اعذار کی بنا پر رجم کی سزا کو ساقط کر کے سو کوڑے کی سزا دینے پر اکتفا کی جاتی ہے۔ (فیض الباری ۵/۲۳۰۔ مشکلات القرآن ۱۶۵، ۱۶۶، ۲۱۳)
شاہ صاحب کی توجیہ سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ وہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کو عملاً کیا حیثیت دیتے ہیں؟ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس پر اس سزا کے نفاذ کو لازم سمجھتے ہیں اور اس طرح ان کی توجیہ میں ایک تضاد پیدا ہو جاتا ہے، کیونکہ اگر قرآن مجید کے رجم کی سزا کو مبہم طور پر بیان کرنے سے سے مقصود یہ تھاکہ عمومی طور پر رجم کی سزا نافذ نہ کی جائے اور اس کے نفاذ میں اجتہادی اختلاف کی گنجایش باقی رہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے منشا کے برعکس شادی شدہ زانی کے لیے متعین طور پر رجم کی سزا کیوں مقرر کر دی؟ اگر قرآن کی منشا آپ پر بھی واضح نہیں ہو سکی تو بلاغت کے پہلو سے ابہام کا یہ اسلوب کمال نہیں بلکہ نقص کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ اور اگر خود قرآن کا منشاوہی ہے جو روایت میں بیان ہوا ہے تووہی سوال عود کر آتا ہے کہ قرآن خود صاف لفظوں میں اس کی تصریح کیوں نہیں کرتا اور اس کے لیے ایک جگہ زنا کی سزا مطلقاً سو کوڑے مقرر کرنے اور دوسری جگہ رجم کی سزا کا مبہم انداز میں ذکر کرنے اور پھر اس کے نفاذ کی شرائط وتفصیلات کو روایات ومقدمات پر، جو اس وقت تک وجود میں بھی نہیں آئے تھے، منحصر چھوڑ دینے کا پر پیچ طریقہ کیوں اختیارکرتا ہے؟ 
۵۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ روایت میں جلا وطنی یا رجم کی سزا آیت محاربہ پر مبنی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرموں کے لیے عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے، سولی چڑھانے، ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے اور جلا وطن کر دینے کی سزائیں بیان کی ہیں۔ مولانا کا کہنا ہے کہ شادی شدہ زانی کے لیے بھی اصل سزا سو کوڑے ہی ہے، جبکہ جلاوطنی یا رجم دراصل اوباشی اور آوارہ منشی کی سزا ہے جو ’فساد فی الارض‘ کے تحت آتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی نوعیت کے بعض مجرموں پر زنا کی سزا کے ساتھ ساتھ، مائدہ کی مذکورہ آیت کے تحت فساد فی الارض کی پاداش میں جلا وطن کرنے یا سنگ سار کرنے کی سزا بھی نافذ کی تھی۔ (تدبر قرآن ۵/۳۶۷ ۔ ۳۶۹) اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ’الثیب بالثیب جلد مائۃ والرجم‘ کے بارے میں مولانا اصلاحی کی رائے یہ ہے کہ یہاں حرف ’و‘ جمع کے لیے نہیں، بلکہ تقسیم کے مفہوم میں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ زانی کی اصل سزا تو تازیانہ ہی ہے، البتہ آیت محاربہ کے تحت مصلحت کے پہلو سے اسے جلاوطن یا سنگ سار بھی کیا جا سکتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح آیت مائدہ کے تحت ازروے مصلحت بعض مجرموں کو جلاوطنی کی سزا دی، اسی طرح بعض سنگین نوعیت کے مجرموں کے شر وفساد سے بچنے کے لیے آیت مائدہ ہی کے تحت انھیں رجم کی سزا بھی دی۔ (تدبر قرآن ۵/۳۷۴)
جناب جاوید احمد غامدی نے رجم کی سزا کے زنا کے عادی مجرموں سے متعلق ہونے کے حق میں یہ استدلال کیا ہے کہ عبادہ بن صامت کی روایت میں ’خذوا عنی خذوا عنی قد جعل اللّٰہ لہن سبیلا‘کے الفاظ اس کو صریحاً سورۂ نساء کی آیت ۱۵ اور ۱۶ سے متعلق کر رہے ہیں جہاں قحبہ عورتوں اور یاری آشنائی کا تعلق قائم کر لینے والے جوڑوں کے لیے عبوری سزا بیان کی گئی ہے اور ’حَتّٰی یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً‘ کے الفاظ میں ان کے لیے بعد میں باقاعدہ اور مستقل سزا مقرر کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ان کی رائے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ نور میں زنا اور سورۂ مائدہ میں محاربہ کے احکام نازل ہونے کے بعد زیر بحث روایت میں انھی قحبہ عورتوں کے لیے زنا کی پاداش میں سو کوڑوں اور ’فساد فی الارض‘ کی پاداش میں جلا وطنی یا سنگ ساری کی سزا مقرر کر کے اس وعدے کی تکمیل کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (جاوید احمد غامدی، حدود وتعزیرات، ۱۶)
اس رائے کو درست ماننے کے نتیجے میں ’رجم‘ کی بنیاد زانی کا شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہونا نہیں، بلکہ اس کے جرم کی نوعیت قرار پاتی ہے۔ اس طرح نہ ہر شادی شدہ زانی کو رجم کرنا لازم رہتا ہے اور نہ کوئی غیر شادی شدہ محض اپنے کنوارے ہونے کی بنا پر اس سزا سے محفوظ قرار پاتا ہے، بلکہ اگر زنا کے جرم میں سنگینی یا شناعت کا مذکورہ اضافی پہلو پایا جائے تو مجرم کی ازدواجی حیثیت سے قطع نظر، اسے رجم کیا جا سکتا ہے۔ 
رجم کی سزا کو زنا کے عام مجرموں کے بجائے زیادہ سنگین نوعیت کے مجرموں سے متعلق قرار دینے کی مذکورہ توجیہ کو قبول کر لیا جائے تو قرآن مجید اور روایات کا ظاہری تعارض باقی نہیں رہتا، اور ’البکر بالبکر‘ کی روایت کی حد تک یہ توجیہ بظاہر الجھن کو حل کر دیتی ہے، اس لیے کہ یہ روایت اصلاً زنا کے عام مجرموں سے متعلق نہیں بلکہ، جیسا کہ ’خذوا عنی خذوا عنی قد جعل اللہ لہن سبیلا‘ کے الفاظ سے واضح ہے، قحبہ عورتوں اور ان زانیوں سے متعلق ہے جن کے ہاں یاری آشنائی نے ایک مستقل تعلق کی صورت اختیار کر لی ہو۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقل وحی سے راہنمائی پا کر یا آیت محاربہ سے استنباط کرتے ہوئے ایسے مجرموں میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی سزا میں تفریق کرنے اور قرآن مجید میں بیان کردہ سو کوڑوں کی سزا کے علاوہ جلا وطنی اور رجم کی اضافی سزا دینے کا حکم بھی دیا ہو تو اس سے قرآن مجید کے ساتھ تعارض کا سوال پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ وہاں زنا کے عام مجرم زیر بحث ہیں۔ 
اسی طرح آیت محاربہ کو رجم اور جلاوطنی کی سزا کا ماخذ قرار دینے کی رائے اس پہلو سے بھی قابل توجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا کے ایک مقدمے میں فیصلہ کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ ’لاقضین بینکما بکتاب اللہ‘، یعنی میں تمھارے مابین کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا، اور پھر آپ نے زانی کو سو کوڑے مارنے اور جلا وطن کرنے کاحکم دیا۔ (بخاری، رقم ۲۴۹۸) قرآن مجید میں زانی کی سزا کے ساتھ جلاوطن کرنے کا کوئی ذکرنہیں، جبکہ سورہ مائدہ کی مذکورہ آیت ہی وہ واحد مقام ہے جہاں مجرموں کو سزا کے طور پر جلا وطن کردینے کا ذکر ہوا ہے۔ شارحین حدیث نے اس اشکال سے بچنے کے لیے ’کتاب اللہ‘ سے اللہ کا حکم یا اس کا قانون مراد لیا ہے، لیکن اگر زانی کو جلا وطن یا سنگسار کرنے کا ماخذ سورۂ مائدہ کی آیت محاربہ کو قرار دینے کی رائے درست تسلیم کر لی جائے تو مذکورہ تاویل کی ضرورت نہیں رہتی۔
البتہ جہاں تک ان روایات کا تعلق ہے جن میں زنا کے بعض مقدمات میں عملاً رجم کی سزا کے نفاذ کا ذکر ہوا ہے تو اس امر کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں کہ یہ توجیہ ان پر پوری طرح منطبق نہیں ہوتی، کیونکہ اس توجیہ کی رو سے یہ محض زنا کے سادہ مقدمات نہیں تھے، بلکہ ان میں سزا پانے والے مجرموں کو درحقیقت آوارہ منشی اور بدکاری کو ایک پیشے اور عادت کے طور پر اختیار کر لینے کی پاداش میں آیت محاربہ کے تحت رجم کیا گیا۔ اب اگر آیت محاربہ کو رجم کا ماخذ مانا جائے تو یہ ضروری تھا کہ احساس ندامت کے تحت اپنے آپ کو خود قانون کے حوالے کرنے والے مجرم سے درگزر کیا جائے یا کم ازکم سنگین سزا دینے کے بجائے ہلکی سزا پر اکتفا کی جائے، جبکہ قبیلۂ غامد سے تعلق رکھنے والی خاتون کو خود عدالت میں پیش ہونے اور سزا پانے پر خود اصرار کرنے کے باوجود رجم کیا گیا۔ ماعز اسلمی کے جرم کی نوعیت اور ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں خود پیش ہونے یا پکڑ کر لائے جانے کے حوالے سے روایات الجھی ہوئی ہیں اور تفصیلی تحقیق وتنقید کا تقاضا کرتی ہیں۔ بعض روایات کے مطابق ماعز کو رجم کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس سے اس کا ایک عادی مجرم ہونا واضح ہوتا ہے، (مسلم، ۳۲۰۳، ۳۲۰۶) جبکہ بعض دیگر روایات کے مطابق آپ نے نہ صرف ماعز کو رجم کرنے والوں سے فرمایا کہ اگر وہ رجم سے بچنے کے لیے بھاگ کھڑا ہوا تھا تو تم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا، بلکہ اس کے سرپرست ہزال سے بھی کہا کہ ’’اگر تم اس کے جرم پر پردہ ڈال دیتے تو یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہوتا‘‘۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ماعز کا آیت محاربہ کے تحت ماخوذ ہونا قابل فہم نہیں رہتا۔ ’لا یحل دم امرئ مسلم‘ کی روایت میں بھی شادی شدہ کے لیے رجم کی سزا بیان کی گئی ہے اور روایت میں اسے عادی مجرموں کے ساتھ مخصوص قراردینے کا کوئی قرینہ بظاہرموجود نہیں۔
اسی طرح یہ بات بھی بعض روایات سے بظاہر لگا نہیں کھاتی کہ مجرم کا شادی شدہ ہونا اس سزا کے نفاذ میں محض ’ایک‘ عامل کی حیثیت رکھتا تھا نہ کہ ’واحد‘ فیصلہ کن بنیاد کی۔ مثال کے طور پر مزدور کے مقدمے میں اس کے مالک کی بیوی کو رجم کی جبکہ خود مزدور کو سو کوڑوں کی سزا دی گئی اور روایت سے اس فرق کی وجہ بظاہر شادی شدہ اور غیر شادی شدہ ہونا ہی سمجھ میں آتی ہے۔ ’لا یحل دم امرئ مسلم الا باحدی ثلاث‘ میں بھی زانی کے شادی شدہ ہونے کو قتل کے جواز کی بنیاد قرار دیا گیا ہے، جبکہ کسی اضافی پہلو کو بیان کرنے کے لیے یہ اسلوب بدیہی طور پر موزوں نہیں۔ مزید برآں صحابہ کے ہاں، جنھیں رجم کے ان واقعات کے عینی شاہد ہونے کی وجہ سے مقدمے کے احوال وشرائط اور سزا کی نوعیت سے پوری طرح واقف ہونا چاہیے، اس سزا کے بارے میں جو مجموعی فہم پایا جاتا ہے، وہ بھی اس فرق کے اضافی نہیں، بلکہ اساسی اور حقیقی ہونے ہی پر دلالت کرتا ہے۔ 
مذکورہ بحث سے واضح ہے کہ اگر قرآن مجید کے ظاہر کو حکم مانا جائے تو زنا کے عام مجرموں کے حوالے سے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق کرنا بے حد مشکل ہے۔ دوسری طرف اگر روایات اور ان پر مبنی تعامل کو فیصلہ کن ماخذ مانا جائے تو شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق کی نفی یا اس کی ایسی توجیہ و تاویل بظاہر ممکن دکھائی نہیں دیتی جس سے روایات کے متبادر مفہوم ومدعا کو برقرار رکھتے ہوئے قرآن مجید کے ساتھ ان کا ظاہری تعارض فی الواقع دور ہو جائے۔ اس ضمن میں اب تک جو توجیہات سامنے آئی ہیں، وہ اصل سوال کا جواب کم دیتی اور مزید سوالات پیدا کرنے کا موجب زیادہ بنتی ہیں۔ اس وجہ سے ہماری طالب علمانہ رائے میں یہ بحث، ان چند مباحث میں سے ایک ہے جہاں توفیق وتطبیق کا اصول موثر طور پر کارگر نہیں اور جہاں ترجیح ہی کے اصول پر کوئی متعین رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ عقلاً اس صورت میں دو ہی طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں: 
ایک یہ کہ روایات سے بظاہر جو صورت سامنے آتی ہے، اس کو فیصلہ کن مانتے ہوئے یہ قرار دیا جائے کہ قرآن مجید کا مدعا اگرچہ بظاہر واضح اور غیر محتمل ہے، تاہم یہ محض ہمارے فہم کی حد تک واضح ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تفصیل اللہ تعالیٰ کے منشا کی تعیین کے حوالے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ قرآن کے ظاہر کو حکم مانتے ہوئے یہ فرض کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا یقیناًکوئی ایسا محل ہوگا جو قرآن کے ظاہر کے منافی نہ ہو، لیکن چونکہ قرآن کا مدعا ہمارے لیے بالکل واضح ہے جبکہ روایات کا کوئی واضح محل بظاہر سمجھ میں نہیں آتا، اس لیے روایات اور ان پر مبنی تعامل کو توجیہ وتاویل یا توقف کے دائرے میں رکھتے ہوئے ان پر غور وفکر جاری رکھا جائے گا تاآنکہ ان کا مناسب محل واضح ہو جائے ۔
اس دوسرے زاویۂ نگاہ کے پس منظر میں یہ تصور کارفرما ہے کہ شریعت کے جو احکام قرآن مجید میں زیر بحث آئے ہیں، ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد یا عمل قرآن مجید کے برعکس یا اس سے متجاوز نہیں ہو سکتا اور اگر بظاہر کہیں ایسی صورت دکھائی دے تو اس کی بنیاد قرآن مجید ہی میں تلاش کرنی چاہیے یا توجیہ وتاویل کے ذریعے سے حتی الامکان اس کے صحیح محل کو واضح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ تصور اصولی طور پر خود صحابہ کے ہاں موجود رہا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ جب قرآن مجید میں قصر نماز پڑھنے کی اجازت خوف کی حالت سے مشروط ہے تو امن کی حالت میں اس رعایت سے فائدہ کیوں اٹھایا جا رہا ہے؟ (مسلم، رقم ۶۸۶) ابن عباس رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول گھریلو گدھے کے گوشت کی ممانعت کو حرمت پر محمول کرنے میں تردد تھا، اس لیے کہ ان کے خیال میں یہ بات قرآن مجید کی آیت: ’قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا‘ (الانعام ۶: ۱۴۵) کے منافی تھی جس میں حصر کے ساتھ صرف چار چیزوں کو حرام کہا گیا ہے۔ (بخاری، رقم ۵۲۰۹۔ المستدرک، رقم ۳۲۳۶)
سنت کے جو احکام بظاہر قرآن مجید کے نصوص سے متجاوز دکھائی دیتے ہیں، ان کے بارے میں سوچ کا یہ زاویہ بھی صحابہ کے ہاں دکھائی دیتا ہے کہ شاید وہ قرآن مجید میں نازل ہونے والے حکم سے پہلے کے دور سے متعلق ہوں۔ مثال کے طور پر وضو میں پاؤں دھونے کے بجائے موزوں پر مسح کر لینے کے جواز کے بارے میں صحابہ کے مابین خاصی بحث موجود رہی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کے جواز کے قائل نہیں تھے اور ان کا اصرار تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا موزوں پر مسح کرنا سورۂ مائدہ میں وضو کی آیت نازل ہونے سے پہلے کا عمل تھا: 
سلوا ہؤلاء الذین یزعمون ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مسح علی الخفین بعد سورۃ المائدۃ واللّٰہ ما مسح بعد المائدۃ. (طبرانی، المعجم الکبیر ۱۱/۴۵۴، ۱۲۲۸۷) 
’’ان سے پوچھو جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد موزوں پر مسح کیا۔ بخدا، آپ نے سورۂ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد مسح نہیں کیا۔‘‘
خود رجم کی سزا کے معاملے میں بھی یہ سوال ذہنوں میں پیدا ہوا۔ ابو اسحاق شیبانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا؟ انھوں نے کہا: ہاں، میں نے پوچھا کہ سورۂ نور کے نازل ہونے سے پہلے یا اس کے بعد؟ انھوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں۔(بخاری، رقم ۱۷۰۲)
چنانچہ یہ بحث دو مختلف اصولی زاویہ ہاے نگاہ میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کی بحث ہے۔ ہماری رائے میں یہ دونوں زاویے عقلی اعتبار سے اپنے اندر کم وبیش یکساں کشش رکھتے ہیں اور اس باب میں انفرادی ذوق اور رجحان کے علاوہ کوئی چیز غالباً فیصلہ کن نہیں ہو سکتی۔ 

حواشی 

** سیدنا عمر کی طرف اس قول کی نسبت کے صحیح ہونے میں ایک اہم اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے اس خطبے کے راوی عبد اللہ بن عباس ہیں، لیکن خود ان کی رائے قرآن مجید میں رجم کا کوئی باقاعدہ حکم نازل ہونے کے برعکس ہے۔ اس ضمن میں ان سے سے مروی دو آثار قابل توجہ ہیں۔
علی بن ابی طلحہ بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن عباس نے فرمایا کہ ابتدا میں زنا کی سزا یہ تھی کہ خاتون کو گھر میں محبوس کر دیا جائے اور مرد کو زبانی اور جسمانی طور پر اذیت دی جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ’الزانیۃ والزانی‘ کی آیت اتاردی، جبکہ مرد وعورت اگر محصن ہوں تو ان کے لیے حکم یہ ہے کہ انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی رو سے رجم کر دیا جائے۔ (تفسیر الطبری، ۴/۲۹۷۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۶۶۹۱)
عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عباس نے فرمایا کہ جو شخص رجم کا انکار کرتا ہے، وہ غیر شعوری طور پر قرآن کا انکار کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’یا اہل الکتاب قد جاء کم رسولنا یبین لکم کثیرا مما کنتم تخفون من الکتاب‘ (اے اہل کتاب، تمھارے پاس ہمارا رسول آیا ہے جو تمھارے لیے تورات کی ان بہت سی باتوں کو ظاہر کرتا ہے جنھیں تم چھپاتے تھے) اور رجم کا حکم بھی امور میں سے ہے جنھیں اہل کتاب چھپاتے تھے۔ (نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ۷۱۶۲)
ان دونوں روایتوں سے واضح ہے کہ ابن عباس قرآن مجید میں واضح طور پر رجم کا حکم نازل ہونے کے قائل نہیں اور اس کے بجائے اسے اشارتاً قرآن میں مذکور مانتے اور اس کا اصل ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو قرار دیتے ہیں۔ اگر وہ فی الواقع سیدنا عمر کے مذکورہ خطبے کے راوی ہیں جس میں انھوں نے رجم کے قرآن مجید میں نازل ہونے کا ذکرکیا ہے تو پھر ان کا اس سے مختلف رائے قائم کرنا بظاہر سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔
* رجم کو زنا کی سزا کا لازمی حصہ نہ سمجھنے والے بعض دیگر اہل علم نے اس سے مختلف ماخذ بھی متعین کیے ہیں۔ مثال کے طور پر مولانا عنایت اللہ سبحانی اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی نے اس حکم کا ماخذ سورۂ احزاب (۳۳)کی آیت ۶۱ کے الفاظ ’اَیْْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلاً‘ (یہ جہاں ملیں، ان کو پکڑ لیا جائے اور عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیا جائے) کو قرار دیا ہے جن میں مدینہ منورہ کے منافقین کی فتنہ پردازیوں اور بالخصوص مسلمان خواتین کے حوالے سے ان کے مفسدانہ اور شرانگیز طرز عمل سے نمٹنے کے لیے انھیں عبرت ناک طریقے سے قتل کر دینے کی دھمکی دی گئی ہے۔ (عنایت اللہ سبحانی، حقیقت رجم ۲۰۲ ۔۲۰۷۔ محمد طفیل ہاشمی، حدود آرڈی نینس کتاب وسنت کی روشنی میں ۱۲۷ ۔ ۱۳۶) جبکہ بعض اہل علم قرآن مجید میں رجم کا کوئی ماخذ متعین کیے بغیر اسے حد کے بجائے محض ایک تعزیری سزا قرار دیتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مجرموں کو ان کے جرم کی نوعیت کے لحاظ سے دی۔ (عمر احمد عثمانی، فقہ القرآن: رجم اصل حد ہے یا تعزیر؟ ۵۵، ۹۳ ۔۹۵۔ فقہ القرآن: حدود و تعزیرات اور قصاص ۶۳۲ ۔ ۶۴۴)

مکاتیب

ادارہ

(۱)
جناب محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم
میری دعا ہے کہ رب کائنات آپ کے دل ودماغ اور مقدس لوح وقلم کو تاروز حیات سرسبز، شاداب رکھیں۔
تقریباً ایک ماہ پہلے غالباً جنوری ۲۰۰۸ کے تیسرے عشرے میں رائے ونڈ بازار کے ایک بک اسٹال سے ’’ایک علمی وفکری مکالمہ‘‘ کے نام سے آپ کی تالیف خرید کر پڑھی جس کے پڑھنے پر نہایت ہی خوشی حاصل ہوئی اور اللہ تعالیٰ کا لاکھ بار شکریہ ادا کیا کہ اس قحط الرجال کے دور میں بھی آپ جیسے سلیم الفطرت، وسیع القلب اور وسیع النظر، عالی ظرف اور نہایت ہی سنجیدہ علماے کرام موجود ہیں۔ آپ کے ذوق کتب بینی اور نہایت ہی وسیع مطالعہ کو میں سلام کرتا ہوں۔ آپ کی تحریر میں علمی محاسبہ اور احتساب کے ساتھ ساتھ نہایت ہی شایستگی، رواداری، شیریں گوئی، اعتدال اور ذہنی پختگی کا احساس کوٹ کوٹ کر بھرا ہے جس کے متعلق محترم جاوید احمد غامدی کے تینوں شاگردان رشید جناب معز امجد، جناب خورشید ندیم اور جناب ڈاکٹر فاروق خان بھی آپ کی مذکورہ تمام خوبیوں کے معترف نظر آ رہے ہیں۔ آپ کا شمار اور مقام ان علماے حق میں سرفہرست ہے جو مریض سے نہایت محبت اور ہم دردی اور اس کے مرض سے نفرت کرتے ہیں۔ ایسے فرد فرید بہت ہی کم بلکہ نایاب ہوتے ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ آپ سو فیصد رومی کے اس شعر کے مصداق ہیں جو سید منظور الحسن نے آپ کے لیے نقل کیا ہے:
دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر
کز دام ودد ملولم وانسانم آرزو ست
آپ نے مذکورہ تینوں اسکالرز کے ساتھ جو علمی وفکری مکالمہ کیا ہے، اس کے چار موضوعات: علما اور سیاست، زکوٰۃ اور ٹیکسیشن، فتویٰ بازی کا درست/غلط استعمال اور پرائیویٹ عسکری تنظیموں کے جہاد میں سے پہلے تینوں موضوعات کے بارے میں دونوں فریقوں کے موقف میں کافی وزن پایا جاتا ہے جس کو پڑھنے کے بعد اگر خود قاری کے دل میں کوئی کجی اور ٹیڑھ نہ ہو تو وہ ایک بہترین نقطہ اعتدال پر پہنچ جاتا ہے۔ البتہ ’’اسلام میں پردے کے احکام‘‘ کے موضوع پر میرا جھکاؤ آپ کی طرف بہت ہی زیادہ ہے، خاص طور پر غامدی صاحب کا یہ فرمان کہ ’’دوپٹہ کا تعلق کلچر سے ہے، شریعت سے نہیں‘‘ میرے لیے دکھ کا باعث ہے اور اس طرز فکر اور زاویہ نگاہ کی کڑی پرویز مشرف کی روشن خیالی سے جا ملتی ہے۔ حمید الدین فراہیؒ کے مکتبہ فکر میں آپ نے ’’تفردات‘‘ کی اصطلاح بہت استعمال کی ہے جو موقع اور محل کے اعتبار سے اگرچہ درست ہے لیکن میں حیران ہوں کہ ڈاکٹر اسرار احمد کے ماہنامہ میثاق کے مطابق فراہیؒ نے ایک دفعہ خود قینچی منگوا کر مولانا اصلاحیؒ کی شلوار کا اتنا حصہ کاٹ ڈالا تھا جو ٹخنوں سے نیچے لٹک رہا تھا۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ’’دوپٹہ کا تعلق کلچر سے ہے، شریعت سے نہیں‘‘ کا نقطہ نظر غامدی صاحب کا تو ہو سکتا ہے، فراہی کا نہیں۔ شریعت کے ساتھ دوپٹہ کے تعلق میں عورت ذات کا تحفظ بہت ہی زیادہ ہے۔
جہاں تک حکومتی سرپرستی کے علاوہ پرائیویٹ عسکری تنظیموں کے جہاد اور قتال کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں آپ کی رائے کے ساتھ خاکم بدہن ہرگز متفق نہیں ہوں، کیونکہ جہاد افغانستان میں امریکہ کی طرف سے بے تحاشا دولت، سرمایہ اور اسلحہ کی فراوانی میں القاعدہ کے علاوہ تقریباً چودہ عسکری تنظیمیں روس کے خلاف لڑ رہی تھیں۔ ان کا یہ قتال سرمایہ اور اسلحہ حاصل کر نے کے لیے زیادہ اور فی سبیل اللہ برائے نام تھا اور امریکہ کے اس مال غنیمت میں سب سے بڑھ کر مذہب کے شاہین، فوج کے بڑے جرنیل اختر عبد الرحمن (مرحوم)، جنرل حمید گل اور ضیاء (مرحوم) کے بیٹے سب شامل تھے۔ یہی وجہ تھی کہ روسی شکست کے بعد تمام عسکری تنظیمیں آپس میں الجھ گئیں اور تقریباً پانچ سال تک نہایت افراتفری، بد امنی اور لوٹ مار کی کیفیت رہی اور نہایت مقدس جہاد خانہ جنگی میں تبدیل ہو گیا، اس لیے کہ اس کی پشت پر کوئی منظم حکومت نہیں تھی۔ ا س کے بعد پاکستان کے ایما پر جنرل نصیر اللہ بابر نے طالبان کو منظم کیا ۔ ادھر طالبان کی حکومت تو قائم ہو گئی لیکن گلبدین حکمت یار سمیت بہت سے بڑے بڑے سابقہ جہادی لیڈر طالبان کے خلاف تھے۔ اسی دوران طالبان اور احمد شاہ مسعود کے درمیان تقریباً چار سال خانہ جنگی رہی۔ آخرکار اسامہ بن لادن کی مہربانی سے نائن الیون کے واقعات کے بعد افغانستان پر امریکہ کے حملے کے نتیجے میں طالبان کی حکومت بھی ختم ہو گئی۔ اگر ابتدا ہی سے یہ تمام تنظیمیں ایک ہی کمان کے تحت لڑتیں تو کوئی افراتفری نہ ہوتی اور یہ مقدس جہاد خانہ جنگی میں تبدیل نہ ہوتا، لیکن پاکستان یہی چاہتا تھا کہ افغانستان سو فیصد ہمارے رحم وکرم پر ہو اور وہاں کوئی مستحکم حکومت قائم نہ ہو۔
اس وقت سب سے زیادہ خطرناک اور امن عالم کے لیے نہایت ہی نقصان دہ تنظیم القاعدہ تنظیم ہے۔ اس پرائیویٹ عسکری تنظیم کے سربراہ اسامہ بن لادن کا تصور قتال کیا ہے؟ ۲۳فروری ۱۹۹۸ء کو القاعدہ کے سربراہ کی حیثیت سے اسامہ بن لادن، امیر جماعت الجہاد مصر کی حیثیت سے ڈاکٹر ایمن الظواہری اور امیر جماعت اسلامیہ مصر کی حیثیت سے جناب ابویاسر کی طرف سے افغانستان میں خوست کے مقام پر یہ فتویٰ جاری کیا گیا کہ امریکہ نے بقول اسامہ بن لادن کے پورے عالم اسلام کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے، ایسے موقع پر امریکہ کے خلاف جہاد فرض عین ہو جاتا ہے، چنانچہ ہم تمام مسلمانوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ ہر امریکی شہری اور امریکہ کے ہم نواؤں کو قتل کریں اور ان کا سامان لوٹیں۔ گویا تمام یہود ونصاریٰ کی جان، مال اور آبرو اس مرحلے پر تمام مسلمانوں کے لیے مباح اور حلال ہے۔ اس فتوے پر عمل کرنے کے لیے سب سے پہلے القاعدہ نے اگست ۱۹۹۸ء میں کینیا اور تنزانیہ کے سفارت خانوں میں بم دھماکوں سے دو سو بیس افراد کو ہلاک کیا۔ بن لادن نے اپنے ایک بیان میں حملہ آوروں کی تعریف وتحسین کی اور جتنے بھی افراد کو ان دھماکوں میں ملوث پا کر عدالتوں کی طرف سے سزائیں دی گئیں، ان سب سے القاعدہ سے تعلق کا اعتراف کیا بلکہ بن لادن نے ان دھماکوں کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ اس کے بعد نائن الیون کا عظیم حادثہ پیش آیا جس کے منطقی نتیجے کے طور پر طالبان کی شرعی حکومت ختم ہوئی اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے اس حادثے میں جو انھیں انیس پائیلٹ کریش ہوئے، وہ سب کے سب القاعدہ کے ساتھ تعلق رکھتے تھے جنھوں نے امریکہ میں آزادی کی وجہ سے امریکی فلائنگ کلب سے تربیت حاصل کی تھی۔ 
پاکستان میں بھی مختلف پرائیویٹ عسکری تنظیموں مثلاً حزب المجاہدین، حرکت الانصار، جیش محمد، لشکر طیبہ اور حرکت المجاہدین نے ملک کے اندر اور باہر ایسے بہت سے تخریبی کارنامے سرانجام دیے جس سے ملک کا امن وامان تباہ وبرباد ہو گیا۔ صوبہ سرحد میں باڑہ اورپشاو ر میں دو مذہبی عسکری تنظیموں، مفتی منیر شاکر کی طرف سے لشکر اسلام اور پیر سیف الرحمن کی طرف سے انصار الاسلام نے ایک دوسرے کے ستاسی افراد قتل کیے، سینتالیس دکانوں اور چالیس مکانات کو کو جلا دیا اور ہر تنظیم نے اپنی اس قتل وغارت کو جہاد کے نام سے موسوم کیا۔ آپ ہی کے گوجرانوالہ کے ایک جنونی مولوی محمد سرور نے ایک ایم پی اے خاتون ظل ہما کو کھلی کچہری میں قتل کر دیا اور اس قتل ناحق کو جہاد سے منسوب کیا۔ ابھی حال ہی میں سوات کے مولانا فضل اللہ کی طالبان تحریک کے ایک راہنما مسمیٰ نڈر سے جب دو ریٹائرڈ اور چار حاضر سروس پولیس اور محکمہ ملیشا کے ملازمین کو بے دردی سے ذبح کر کے سروں کو تن سے جدا کرنے کی وجہ پوچھی گئی تو ان کے خلاف فرد جرم جنرل مشرف کی ملازمت تھی اور جب ان کے سروں کو رولنگ سٹون کی طرح گاڑی کے ساتھ باندھ کر بازاروں میں پھرانے کی وجہ پوچھی گئی تو یہ عمل کرنے والوں کو معاذ ومعوذ سے اور ذبح ہونے والوں کو ابوجہل سے تشبیہ دے کر وجہ جواز بتائی گئی۔ 
ان پرائیویٹ تنظیموں نے باربر شاپس کو اس لیے بموں سے اڑایا کہ وہاں ڈاڑھیاں مونڈی جاتی ہیں۔ سوات میں طالبان نے ایک ایسے گرلز ڈگری کالج کو دھماکوں سے اڑا دیا جو ابھی حال ہی میں ایم ایم اے کی حکومت نے تقریباً دو کروڑ روپے کی لاگت سے بنایا تھا۔ غرض گزشتہ تین سالوں میں جو بھی خود کش حملے، دھماکے، گھیراؤ جلاؤ اور توڑ پھوڑ ہوتی رہی، ان سب کو اسلامی جہاد کی طرف منسوب کر کے اسلام کے پرامن روئے زیبا کو داغ دار کیا جا تا رہا جس کو مغربی دنیا میڈیا پر دیکھتی ہے اور مسلمانوں سے وحشت محسوس کر کے دعوت کے راستے بند ہو جاتے ہیں، اور سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ جنونی مسلمان اپنے اس عمل کو جائز ثابت کرنے کے لیے اسود عنسی، کعب بن اشرف اور ابو رافع کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
فی الوقت تمام پرائیویٹ عسکری تنظیموں میں سے اہل حدیث کی لشکر طیبہ (جماعۃ الدعوۃ) سب سے بڑی تنظیم ہے۔ میں نے خود مریدکے میں ان کے ساتھ تین دن گزار کر ان کے طریقہ واردات کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ان کا طریقہ مزاج اسلام کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتا، بلکہ ان کے قول کے مطابق مسعود اظہر کی اقتدا میں نماز باجماعت ادا نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ وہ حرکت الانصار کے بھی سخت خلاف ہیں۔
آپ کی سلامت طبع سے امید ہے کہ اگر آپ یہ علمی مکالمہ ۲۰۰۷ کے بعد کرتے تو پرائیویٹ ، غیر منظم اور حکومت کی سرپرستی کے بغیر جہاد وقتال کے بارے میں آپ غامدی صاحب کے موقف کی تائید کرتے۔ آپ کے مضامین ماہ اگست ۲۰۰۱ کے ہیں جو علم ومشاہدہ میں بعد کے زمینی حقائق کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے اور زمینی حقائق اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کا نقصان اس کے فائدہ سے ہزار گنا زیادہ ہے۔
سیف الحق
ڈائریکٹر چکیسر پبلک اسکول
تحصیل الیوری، ضلع شانگلہ۔ صوبہ سرحد
(۲)
مکرمی جناب مولانا عمار خاں ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاجِ گرامی!
ماہنامہ الشریعہ ہر مہینے وصول ہوکر ہوا کاایک تازہ جھونکا مہیا کرتا رہتا ہے۔ اس ہوا میں نئی خوشبو پچھلے ایک دو ماہ سے خود آپ کی، اپنے مضامین کے ذریعے حاضری سے محسوس ہورہی ہے، خصوصاً فروری کے شمارے میں حدود کی ابدیت اور آفاقیت پر آپ کا طرزِ استدلال متأثر کن تھا۔ فروری کے شمارے میں جو چیز میرے لیے سب سے زیادہ خوش گوار حیرت کا باعث بنی، وہ اہل فکرو دانش کی اس بزم میں اس ناچیز طالب علم کی اس کی ریکارڈ شدہ تقریرکے ذریعے شرکت تھی۔ راقم کو اس بات میں خاصا تردد تھا کہ اس کی گفتگو بھی الشریعہ جیسے وقیع پلیٹ فارم پر جگہ پانے کے قابل ہو سکتی ہے۔ بہرحال اس نحیف آواز کو اپنے پلیٹ فارم کے ذریعے آگے پہنچانے کا بہت بہت شکریہ۔ الشریعہ جیسے جریدے میں اپنے نقطہ نظر کی اشاعت میں ایک فائدہ یہ بھی متوقع ہے کہ اسے تنقید اور بحث کی چھلنی سے گزرنے کا موقع مل جائے گا اور اس سے مختلف کوئی رائے ہوگی تووہ بھی سامنے آجائے گی۔ دیگر دینی جرائد میں یہ بات تقریباً ناپید ہے ۔
الشریعہ کا ’’ کلمہ حق‘‘ اور بہت سے لوگوں کی طرح یہ ناچیز بڑے اشتیاق سے پڑھتا اور اس سے مستفید ہوتاہے ، لیکن جنوری کے ’’کلمۂ حق‘‘ سے ’’حسبہ بل‘‘ سے جس طرح کا ’’حسنِ عقیدت ‘‘ محسوس ہورہا تھا، وہ خاصی حیرت کا باعث بنا۔ اس پر کچھ عرض کرنے کی جسارت کا ارادہ کررہا تھا، لیکن مارچ کے شمارے میں اسلام آباد سے جناب محمد مشتاق صاحب کے مراسلے نے کافی حد تک یہ فرضِ کفایہ ادا کردیاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں قوانین کی پہلے بھی ایسی کمی نہیں ہے۔ اگر سیاسی اور انتظامی قوتِ ارادی موجود ہو تو موجودہ قوانین کے اندر رہتے ہوئے بھی بہت سے اچھے کام کیے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی حکومت واقعی رشوت اور بد عنوانی جیسے ’’منکر‘‘ کو ختم کرنا چاہے تو نہ تو اس کے لیے نئی قانون سازی کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی سپریم کورٹ اسے ایسا کرنے سے روک سکتی ہے۔ ایم ایم اے کی حکومت کو بھی اس برائی کے خاتمے سے نہ تو مرکز کی کسی پالیسی نے منع کیا تھا اور نہ ہی سپریم کور ٹ کا کوئی فیصلہ آڑے آسکتا تھا۔ ایم ایم اے نے اپنے دورِ حکومت میں اس سلسلے میں کتنی کوششیں کیں اور ان میں کس حد تک کامیاب رہی، اس کے بارے میں صوبہ سرحد کے لوگوں سے پوچھا جاسکتاہے۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ہمارے ہاں کے فہمِ اسلام میں رشوت وبد عنوانی جیسی برائی ’’منکرات ‘‘ کی ترتیب میں کتنویں نمبر آتی ہے۔
(مولانا مفتی) محمد زاہد
خادم جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد 
(۳)
محترم مدیر ماہنامہ الشریعہ ،گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
آپ کا ماہنامہ مجھے باقاعدگی سے مل رہا ہے اور میں بہت شوق سے اس کے مضامین کو دیکھتا ہوں، خاص کر وہ مضامین جن میں جاوید احمد صاحب غامدی کے کام کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں دیگربہت سے لوگوں کی طرح حافظ محمد زبیر صاحب (ریسرچ ایسوسی ایٹ، قرآن اکیڈمی، لاہور)نے بھی قلم اٹھایا اور جاوید صاحب کے کام کی علمی بنیادوں کو زیر بحث لے آئے۔ مجھے ذاتی طور پر اس بات کی بے حد خوشی تھی اور ہے کہ انھوں نے اپنی تنقید کی بنیاد جزوی اور فروعی چیزوں کے بجائے اصولی باتوں پر رکھی۔ اپنے مضامین کو جب کتاب کی صورت میں انھوں نے شائع کیا تو اس بات کو خاص طور پر اہتمام کے ساتھ بیان کیا، بلکہ یہاں تک دعویٰ کیا گیاکہ حافظ صاحب نے جاوید صاحب کے افکار کی ’جڑوں پرتیشہ‘ رکھ دیاہے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ جاوید صاحب کے حلقے سے پہلی دفعہ ایک اسکالر (منظور الحسن صاحب )نے کسی تنقید کا باقاعدہ جواب اور جواب در جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ آپ کے اسی رسالے کے صفحات پر وہ بحث چلتی رہی جس میں پہلے ’فطرت‘ اور پھر ’الکتاب‘کے بارے میں جاوید صاحب پر لکھے گئے تنقیدی مضامین اور ان کے جواب شائع ہوئے۔ خاص طورپر حافظ زبیر صاحب کی کتاب کے پہلے باب ’جاوید احمد غامدی کا تصور فطرت ‘پر جواب در جواب کی شکل میں تفصیلی بحث ہوئی۔ ایک ایک نکتہ کو زیر بحث لایا گیااوراس سلسلے کا آخری مضمون وہ تھا جس میں منظور الحسن صاحب نے آٹھ نکات کی شکل میں پوری بحث کا خلاصہ کرکے یہ بتادیا کہ حافظ زبیر صاحب کے اعتراضات کیاتھے، ان کے جوابات کیا دیے گئے ، مگر ناقد نے ان کے جواب میں مکمل خاموشی اختیار کرلی۔
ایک قاری کی حیثیت سے میں زبیر صاحب کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ان کی یہ اخلاقی اور علمی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بحث کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ یہ حسن ظن رکھا جاسکتا تھا کہ وہ کسی مصروفیت کا شکار ہیں اور اس بنا پر جواب نہیں دے پارہے ، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نت نئے موضوعات لے کر جاوید صاحب پر زور و شور سے تنقید کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اپنے اس رویے کو شاید وہ حق بجانب سمجھتے ہوں لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ رویہ کسی سنجیدہ آدمی کا ہونہیں سکتا۔ ایک سنجیدہ انسان جسے قیامت کے دن پروردگار کے حضور جواب دہی کا اندیشہ لاحق ہوجائے، وہ اس طرح کے مکالمے کے لیے قلم اٹھانے سے قبل یہ پہلے یہ سوچ لیتا ہے کہ اس بحث میں ایک تیسرا فریق خود پروردگار عالم بھی ہے۔ وہ پروردگار علم اور فہم کی غلطیاں تو معاف کرسکتا ہے، مگر عدم اعتراف پر مبنی اس طرح کی ’ذہانت‘ کا مظاہر ہ اس کے نزدیک کوئی پسندیدہ رویہ نہیں ہوسکتا۔
زبیر صاحب کے اس رویے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ ان کا طرز عمل اصل میں جاوید احمد غامدی صاحب کے افکار کی وہ خدمت ہے جو ان کا کوئی بڑے سے بڑا ہمدرد بھی سر انجام نہیں دے سکتا۔ ان کی کتاب پڑھ کر پہلے ایک آدمی جاوید صاحب کو ’گمراہ‘ سمجھتا ہے۔ پھر منظور صاحب کا جواب پڑھنے اور زبیر صاحب کی خاموشی کی داستان سننے کے بعد اسے یقین ہو جاتا ہے کہ یہ تحریر کوئی علمی کاوش نہیں بلکہ جاوید صاحب کو بدنام کرنے کی مہم کا ایک حصہ ہے۔ اس طرح زبیر صاحب جاوید صاحب کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بن رہے ہیں۔
مدیر محترم! یہاں میں آپ کی توجہ بھی ایک اہم حقیقت کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ اس امت میں اختلافات کی داستان کوئی نئی نہیں ہے۔ اہل الرائے اور اہل حدیث، معتزلہ اور اشاعرہ اور شیعہ سنی اختلافات سے امت کی تاریخ عبارت ہے۔ پھر بریلوی، اہل حدیث اور دیو بندی اختلافات کی بات تو ابھی حال ہی کا واقعہ ہے۔ آپ نے اگر یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ دینی اختلافات پر مضامین شائع کریں گے تو یہ ضرور کیجیے، لیکن ساتھ میں لوگوں کو مکالمے کے آداب،اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا جذبہ اور اعتراف کا حوصلہ سکھائیے۔ لوگوں کو یہ سکھائیے کہ تنقید کرنے سے قبل سامنے والے کی بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ پھر اس طرح اسے دیانتداری کے ساتھ بیان کیا جائے کہ وہ خود کہے کہ میری بات بالکل صحیح بیان ہوئی ہے، وگرنہ اس امت میں بریلویوں کو مشرک قرار دیا جاتا رہے گا اور ہر بریلوی اپنے بچوں کو یہی بتائے گا کہ دیوبندی منکر درود اور اہل حدیث گستاخ رسول ہیں۔ یہ کافر ہیں، کافر ہیں ،کافر ہیں، جو ان کے کافر ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایمان کے جذبے کے ساتھ اعتراف کا حوصلہ بھی عطا فرمائے ۔
ریحان احمد یوسفی
ishraqkarachi@gmail.com
(۴)
محترم جناب محمد عمار ناصر صاحب
السلام علیکم۔ امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آپ دن بدن اپنے رسالے ’الشریعہ‘ کو علمی اور تحقیقی بنانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کر رہے۔ خدارا اپنے رسالے میں تحقیق کا مرکز ومیدان امت میں موجود تفرق وتشتت کے کینسر کو بنائیں جو امت مسلمہ کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں اس تفریق کا باعث ائمہ اربعہ کی فقہی آرا ہیں یا ایک ہی موضوع پر مختلف مفہومات کی حامل احادیث ہیں یا علماے سو کے ذاتی مفادات یا کوئی اور سبب؟ بہرحال جو بھی اس کے اسباب ہیں، ان کا دقت نظر سے جائزہ لے کر ان کے استیصال کی بھرپور کوشش کرنا ہی فی زماننا دین کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ 
آپ ایسے اہل علم سے یہ مخفی نہیں ہے کہ امت کی موجودہ تفریق بھی ازروے قرآن حکیم شرک کے زمرے میں آتی ہے۔ آپ حضرات لوگوں کو شرک جلی اور شرک خفی سے تو ڈراتے دھمکاتے رہتے ہیں، لیکن اس شرک کے معاملے میں آپ کی آنکھیں کیوں بند ہیں؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
امید ہے کہ آپ میری معروضات پر مثبت رد عمل کا مظاہرہ فرمائیں گے۔
ماسٹر لال خان
ساکن بیکنانوالہ۔ ڈاک خانہ چک جانی
براستہ ڈنگہ۔ تحصیل کھاریاں۔ ضلع گجرات
(۵)
محترمی ومکرمی مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
الشریعہ کبھی کبھی نظر سے گزرتا ہے۔ ماشاء اللہ اپنے انداز وادا سے تازگی اور جدت کا پیغامبر ہے۔ آپ جس دردمندی، محنت اور اخلاص کے ساتھ قلم اٹھاتے ہیں، وہ تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی ان کاوشوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔ آمین۔
الشریعہ (دسمبر ۲۰۰۷) میں ’’کلمہ حق‘‘ کے عنوان کے تحت ایک خاتون کا خط شائع کیا گیا ہے۔ اس میں بیان کردہ حالات بہت بڑے خطرات کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ ان حالات میں علماے کرام کو کیا کرنا چاہیے، گہرے غور وفکر اور سوچ بچار کا تقاضا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ موجودہ فتنہ پرور دور اور سازشوں کا شعور وادراک عطا فرمائے، آمین۔
عمران ظہور غازی
چیف آرگنائزر ہیومن رائٹس نیٹ ورک پنجاب
۲۲۔سی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور

مولانا ضیاء الدین اصلاحی (مرحوم) ۔ دارالمصنفین کا ایک تابندہ ستارہ

ڈاکٹر محمد عبد اللہ صالح

(دار المصنفین شبلی اکیڈمی (اعظم گڑھ) کے ڈائریکٹر ، ماہنامہ ’’معارف‘‘ کے مدیر مولانا ضیاء الدین اصلاحی مؤرخہ یکم فروری ۲۰۰۸ء بروز جمعہ بنارس میں سڑک کے ایک جان لیوا حادثے کا شکار ہوگئے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)۔ مرحوم کی دارالمصنفین سے پچاس سالہ رفاقت، معارف کی بیس سالہ ادارت اور خدمات پر مضمون پیش کیا جارہا ہے۔)

سیر ت النبی ﷺ (شبلی نعمانی) کا نام جب بھی ذہن میں آتا ہے تو لازماً دارالمصنفین کا خیال دل و دماغ میں نقش ہوجاتا ہے۔ اعظم گڑھ (ہند) میں قائم ہونے والا یہ ادارہ محض مولانا شبلی نعمانی کا خواب ہی نہ تھا بلکہ ہند کے مسلمانوں کے نشاۃ ثانیہ اور علمی احیا کی ایک تحریک تھی۔ دارالمصنفین کی تقریباً ۹۲سالہ تاریخ نے یہ ثابت کردیا کہ یہ خطہ علمی طور پر ابھی بانجھ نہیں ہوا، بلکہ ایسے اداروں نے ایسے رجال کار اور علما و مصنفین پیدا کیے جس کا خواب شبلی نعمانی مرحوم نے دیکھا اور جس کی عملی تعبیر ان کے شاگردِ رشید سید سلمان ندوی نے فراہم کی۔ اس ادارے نے وہ عظیم الشان اہلِ علم و دانش پیدا کیے اور انہوں نے وہ تہذیبی و تمدّنی اور تاریخی سرمایہ چھوڑا جس پر خطہ ہندوستان بجا طور پر فخر کرسکتا ہے۔(۱)
علامہ شبلی نعمانی کے خاکہ کے مطابق اس ادارہ کو علمی تحریک کا روپ دینے میں جن شخصیات نے اپنا خونِ جگر دیا، ان میں سید سلمان ندویؒ ، مولانا معین الدین ندوی، مولانا عبدالماجد ندوی، مولانا ریاست علی ندوی، مولانا ابوظفر ندوی، مولانا عبدالسلام قدوائی، سید صباح الدین عبدالرحمٰن اور مولانا ضیاء الدین اصلاحی شامل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک دارالمصنفین کے افق پر چمکنے والا ستارہ ہے ، جس کی ضوفشانیوں سے ایک عالم منور ہورہا ہے۔

مختصر حالاتِ زندگی

مولانا ضیاء الدین اصلاحی اعظم گڑھ (یو۔پی) کے ایک چھوٹے سے گاؤں سہاریا(Sahara)میں نظام آباد کے قریب ۱۹۳۷ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مدرسۃ الاصلاح (سرائے میر) میں حاصل کی ۔ آپ مولانا اختر احسن اصلاحی کے شاگرد خاص تھے جومولانا حمید الدین فراہی کے تربیت یافتہ تھے۔ ان کے بڑے بھائی مولانا قمر الدین اصلاحی مولانا امین احسن اصلاحی کے شاگرد تھے۔ مدرسۃ الاصلاح سے فراغت کے بعد مولانا ضیاء الدین اصلاحی ۱۹۵۷ء میں دارالمصنفین شبلی اکیڈمی (اعظم گڑھ) سے بطور رفیق (ریسرچ سکالر) وابستہ ہوگئے۔ اس وقت شاہ معین الدین ندویؒ اکیڈمی کے ڈائریکٹر تھے۔ تقریباً تیس سال رفیق کی حیثیت سے کام سرانجام دیا۔ سید صباح الدین عبدالرحمٰن کی ناگہانی وفات (۲)کے بعد۱۹۸۸ء میں ضیاء الدین اصلاحی ڈائریکٹر (ناظم) کے عہدے پر فائز ہوئے جو تادمِ حیات اپنی ذمہ داریاں پوری جانفشانی سے ادا کرتے رہے۔ علاوہ ازیں مولانا ضیاء الدین مندرجہ ذیل علمی اداروں اور فلاحی تنظیموں سے وابستہ رہے۔
۱۔ ناظم (ڈائریکٹر) مدرسۃ الاصلاح (سرائے میر۔ اعظم گڑھ)
۲۔ ممبر مجلس منتظمہ ندوۃ العلماء (لکھنؤ)
۳۔ ممبر مجلس منتظمہ دارالعلوم تاج المساجد (بھوپال)
۴۔ ممبر مجلس منتظمہ جامعۃ الفلاح (اعظم گڑھ)
۵۔ ممبر مجلس عاملہ اردو اکیڈمی (یو۔پی)
۶۔ ممبر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

بطور مصنّف و قلم کار

مولانا ضیاء الدین اصلاحی کا قلم بہت رواں تھا۔ انہوں نے متعدد موضوعات پر قلم اٹھایا ۔ ان میں تفسیر، حدیث، فقہ، ترجمہ نگاری، سیرت و سوانح، تاریخ و ادبیات شامل ہیں۔ تصنیف و تالیف میں اگرچہ زیادہ تر مقالات شامل ہیں جن پر ہم الگ سے بحث کریں گے۔ تاہم مندرجہ ذیل تصنیفات ان کے قلم سے نکلیں:

۱۔ تذکرۃ المحدثین: 

رجالِ حدیث مولانا کا پسندیدہ موضوع تھا۔ مذکورہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ جلدِ اول میں دوسری صدی ہجری کے آخر سے چوتھی صدی ہجری کے اوائل تک مشہور محدثین کے حالات اور ان کی تصنیفات پر روشنی ڈالی گئی ہے، جبکہ دوسری جلد میں چوتھی صدی ہجری کے نصف آخر سے آٹھویں صدی ہجری تک محدثین کا احاطہ کیا گیا ہے جبکہ تیسری جلد میں آٹھویں صدی ہجری سے شیخ عبدالحق محدث دہلوی تک کے ممتاز صاحبِ تصنیف اور ہندوستانی محدثین کے حالات قلم بند کیے ہیں۔

۲۔ مسلمانوں کی تعلیم:

۲۲۶صفحات کی اس کتاب میں اسلام میں تعلیم کی اہمیت، طریقہ تعلیم، مدارس کی اہمیت ،ان کے نصابات میں اصلاح ،مردوں اورعورتوں کے لیے عصری تعلیم کی ضرورت اورمولانا شبلی نعمانی کے تعلیمی نظریات پر بحث کی گئی ہے ۔
۳۔ ہندوستان عربوں کی نظرمیں 
۴۔مولاناابوالکلام آزاد
۵۔ ایضاح القرآن 
۶۔انتخاب کلام اقبال 
مولاناضیاء الدین اصلاحی نے ملک میں متعدد علمی کانفرنسوں ،سیمینار ،اورتاریخ وادبیات کی مجالس میں شرکت کی اوران میں مقالات پیش کیے۔ ان کی عربی زبان و ادب کی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے ۱۹۹۵ء میں انہیں ’’پریذیڈنٹ آف انڈیا ایوارڈ ‘‘ سے نوازا ۔یہ ایوارڈ بھارت کے صدر ڈاکٹر شنکر دیال شرما نے دیا۔ 

بطورناظم دارالمصنفین شبلی اکیڈمی 

مولانا ضیاء الدین اصلاحی نے بطور ڈائریکٹر دارالمصنفین شبلی اکیڈمی نہایت جانفشانی سے کام کیا ۔ شبلی نعمانی کے خوابوں کوعملی تعبیر وتشکیل دینے میں اپنے پیش روں کے نقش قدم پر چلے ۔ نہ صرف یہ کہ اکیڈمی کی تصنیفات وتالیفات کی نشرواشاعت میں غیر معمولی تیزی آئی بلکہ انہیں کے دور میں دارالمصنفین قدیم پر یس (لیتھو)سے جدید اورمشینی پریس (آفسٹ )پر منتقل ہوا جس سے طباعت کامعیار عمدہ ہوا ۔ علاوہ ازیں دارالمصنفین کادیگر ملکی اورغیر ملکی اداروں سے تعاون وتعلق مزید پختہ ہوا۔ بطور ناظم اس پلیٹ فارم سے موثر آواز اٹھائی اورملکی اوربین الاقوامی امورپر مسلمانوں بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کے موقف کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ،فروری ۲۰۰۷ء میں جب شبلی اکیڈمی کی ویٹ سائٹ تیارہوئی تواس پر از حد خوشی کااظہار فرمایا۔

معارف اورضیاء الدین اصلاحی 

ماہ نامہ معارف (اعظم گڑھ)کااجراء رمضان المبارک ۱۳۲۴ھ /جولائی ۱۹۱۶ء کو ہوا۔ سید سلمان ندوی ؒ اس کے پہلے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس اعتبار سے اس کی عمر ۹۲سال ہوگئی ہے۔ مجلّہ معار ف کا شمار برصغیر کے قدیم علمی مجلات میں ہوتا ہے۔ سید سلمان ندوی نے مولانا شبلی نعمانی ؒ کی ہدایات کے مطابق اس کا اجرا کیا ۔ نیز اسے ایک ضابطہ کار کا پابند بنایا اور اعتدال و توازن اور توسیع پر مبنی اس نقطہ نظر کا نصب العین قرار دیا جس میں اپنی بنیادوں سے انحراف بھی نہ ہو اور زمانہ کی وسعتوں کا بھی احاطہ کیا جائے۔ اس کی حیثیت برصغیر میں دائرۃ المعارف (انسائیکلوپیڈیا) کی ہے جس کے لکھنے والوں میں نہ صرف ہندوستان و پاکستان بلکہ عالمِ اسلام کی نامور شخصیات رہی ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے مجلہ معارف کے بارے میں لکھا :
’’معارف کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں ، صرف یہی ایک پرچہ ہے اور ہر طرف سناٹا ہے۔ الحمدللہ! مولانا شبلی مرحوم کی تمنائیں رائیگاں نہیں گئیں اور صرف آپ کی بدولت ایک ایسی جگہ بن گئی جو خدمت علم و تصنیف کے لیے وقف ہے۔‘‘
عالمِ اسلام کے نامور محقق ، مصنف ڈاکٹر حمیداللہ جو معارف کے تادمِ حیات معاون و قلم کار رہے، یوں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں:
’’واقعہ تو یہ ہے کہ آج کل ساری دنیاے اسلام میں عرب ہو کہ عجم، کوئی اسلامی رسالہ اسلامیات پر اعظم گڑھ والے معارف کے معیار کا نہیں۔ اوروں کے ہاں کاغذ اور طباعت بہتر ہوسکتی ہے، لیکن مضامین کے مندرجات میں علمی معیار بدقسمتی سے کچھ بھی نہیں ۔ خدا معارف کو سلامت با کرامت رکھے۔ میں خود معارف میں جگہ پاؤں تو اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتا ہوں۔‘‘ (۳)
مولانا ضیاء الدین اصلاحی معارف (اعظم گڑھ) سے اگرچہ ۱۹۵۷ء سے وابستہ ہوگئے تھے تاہم بطور مدیر انہوں نے ۱۹۸۸ ء سے ذمہ داری سنبھالی ۔ ان کی پہلی تحریر فروری۱۹۵۵ء میں شائع ہوئی اور آخری تحریر بطور مقالہ اکتوبر۲۰۰۷ء میں شائع ہوئی۔ (۴)
ضیاء الدین اصلاحی نے اپنے پیش رو مدیروں سید سلیمان ندویؒ ، شاہ معین الدین ندوی ؒ ، عبدالسلام ندوی ؒ اور سید صباح الدین عبدالرحمن ؒ کی طرح معارف کا معیار برقرار رکھنے میں دن رات محنت کی ۔ خود ان کے قلم سے سینکڑوں مقالات نکلے اور ماہنامہ معارف کی زینت بنے۔ (۵) ان مقالات کا دائرہ کار بہت وسیع بھی ہے اور متنوّع بھی۔ سب سے بڑھ کر مدیر کی ذمہ داری ’شذرات‘ قلم بند کرنا ہے جو بالعموم تین صفحات پر تین یا چارحصوں پر مشتمل ہوتے ہیں جن میں کبھی تو ایک ہی موضوع اور کبھی مختلف پیراؤں میں مختلف موضوعا ت پر اظہارِ خیال ہوتا تھا۔ شذرات نہ صرف مدیر کے ذہن کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ معارف اور دارالمصنفین کی پالیسیوں کی بھی وضاحت کرتے ہیں۔ ان میں ملکی و علاقائی مسائل پر بھی اظہارِ خیال ہوتا ہے اور بین الاقوامی حالات پر بھی۔ بالخصوص مسلمانوں کے مسائل خواہ وہ ہندوستان کے ہوں یا بیرونِ ہندوستان کے ، کھل کر بات کی جاتی ہے۔ چند شذرات پر نظر ڈالتے ہیں۔ 
عالمی سطح پر مسلمانوں کو جس طرح سازشوں اور دہشت گردی کا سامنا ہے ، اس پر مدیرِ معارف نے یوں روشنی ڈالی ہے:
’’اس وقت دنیا کا سب سے طاقت ور ملک امریکہ ہے۔ تلک الایام نداولھا بین الناس، اور ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو جمہوریت اور امن عالم کاسب سے بڑا محافظ اورعلم بردار سمجھتاہے ،جبکہ وہ جمہوریت کاسب سے بڑا قاتل ہے ۔ خوف ودہشت انگیزی ،انتشار اوربدا منی پھیلانا اورخون خرابہ کرانا اس کامشن رہاہے۔ اس کی آمرانہ اوراستبدانہ پالیسی نے کئی کئی ملکوں میں جمہوریت کے منتخب نمائندوں کی حکومتیں قائم نہیں ہونے دیں اوران کو راستے کا روڑا سمجھ کر کنارے لگا دیا اور اپنی پسند کے حکمران مسلط کردیے ااس طرح کی کٹھ پتلی حکومتوں سے جمہوریت کاخون ہی نہیں ہوا، بلکہ حکومت نے یقینی وبے اطمینانی کی کیفیت پید اہوئی، تشدد اور خلفشار مچا، قتل وخون ریزی سے ملک کے ملک تباہ ہوگئے اورامن وچین غائب ہوگیا اس وقت افغانستان وعراق میں اس کی چنگیزیت اورنادرگری سے یہی ہورہاہے۔‘‘(۶)
پاکستان اورہندوستان کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم کرکے حوالے سے رقم طراز ہیں ۔ 
’’۱۹۴۷ء سے پہلے ہندوستان اورپاکستان ایک ہی ملک تھے ،گواب یہ دوملک بن گئے ہیں اوران کے درمیان سرحد حائل ہوگئی ہے ،لیکن اس کی وجہ سے صدیوں سے قائم نہ علمی ،تہذیبی اورثقافتی تعلقات ختم ہوسکتے ہیں اورنہ اعزہ واقارب کے دونوں ملکوں میں بٹ جانے سے خونی رشتے منقطع ہوسکتے ہیں ۔ دونوں ملکوں کافائدہ اسی میں ہے کہ یہ مل جل کررہیں،ان کے تعلقات خوشگوار ہوں اوراپنے متنازع امور کوکسی اورملک کی مداخلت کے بغیر خودہی بات چیت کے کرکے طے کرلیں اورآپس کے گلے شکوے ،رنجشیں اورعداوت دورکرلیں تاکہ ہر قسم کی کش مکش ،آویزش اورٹکراؤ کاسدباب ہوسکے بلکہ دوستوں اوربھائیوں کی طرح امن وچین سے رہیں،یہی بات دونوں ملکوں کے حکمرانوں کوبھی سمجھ لینی چاہیے کہ امن مفاہمت اوربقا کے باہمی راستہ اختیار کرنے میں ان کی فلاح اوربھلائی ہے۔‘‘ (۷)
مدیر معارف کوا س بات پر نہایت تشویش تھی کہ دارالمصنفین کی کتابیں پاکستان اور دیگر ملکوں میں بلااجازت چھپ رہی ہیں، علمی فائدہ اپنی جگہ اورکتب کی اشاعت خوب ہورہی ہے ،لیکن دارالمصنفین جوان کتب کی اصل ہے اورجس کے جملہ طباعی و اشاعتی حقوق اس کے پاس محفوظ ہیں، وہ شدید طورپر مالی دشواریوں سے دوچارہے اوروسائل نہ ہونے کی وجہ سے دارالمصنفین کے بہت سے منصوبے ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں۔ شذرات میں مولانا ضیاء الرحمن اصلاحی نے بارہا مرتبہ اپنے اضطراب کایوں اظہار کیاہے ۔
’’ہم ان صفحات میں متعدد بار لکھ چکے ہیں کہ دارالمصنفین کی کتابیں ہندوستان وپاکستان کے ناشرین غیر قانونی اورغیراخلاقی طورپر شائع کررہے ہیں ،،مگر ہماری چیخ وپکار کے باوجود وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔‘‘
ایک اور شذرے میں لکھتے ہیں :
’’دارالمصنفین کی کتابوں کی ڈاکہ زنی اورقذافی کایہ سلسلہ ہندوستان اورپاکستان میں توبہت عرصے سے جاری ہے لیکن اب عرب ملکوں میں بھی یہ سلسلہ شروع ہوگیاہے۔ ان کتابوں کی جس قدر اشاعت اورترجمے ہوں گے، اس سے ان کو خوشی ہوتی ہے لیکن ہندوستان کے اداروں اورمصنفین خصوصاًدارالمصنفین کے حالات ایسے نہیں ہیں کہ اس کے علم میں لائے بغیر اس کی کتابیں اس طرح چھپتی اوردوسری زبانوں میں ترجمے کی جاتی رہیں ، اس سے تووہ تباہی کے کنارے پر پہنچ جائے گا، اس لیے پاکستان اورعرب ملکوں یادنیا کے کسی ملک اورزبان میں جولوگ دارالمصنفین کی کتابیں ،یا ان کے ترجمے شائع کرناچاہیں، ان کے لیے اس سے اجازت لینا،معاہدے اورمعاوضے کی شرائط طے کرنا ضروری ہے۔ عرب ملکوں میںیہ ذمہ داری ڈاکٹر تقی الدین ندوی اورپاکستان میں سجاد الٰہی کے ذمہ ہوگی ۔‘‘(۹)
الحمد للہ مدیر معارف کی اس توجہ کے بعد پاکستان میں دارالمصفین کے ذمہ دارجناب سجاد الٰہی نے بھر پور طریقے سے کام کیا اور دو طریقوں سے دارالمصنفین کی بھر پور معاونت کی ۔ ایک تو وہ پبلشرز جوبرس ہابرس سے دارالمصنفین کی مطبوعات بالخصوص سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم شائع کررہے تھے،ان سے معاملات کیے گئے اورکسی قدر رائلٹی دارالمصنفین کے سپرد کی گئی۔ دوسرا اہم کام یہ کیاکہ ماہ نامہ معارف کی پاکستان میں وسیع پیمانے پر نشرواشاعت کے لیے چند دوستوں نے ملک کر بھر پور مہم چلائی اوردوسال کے اندر اندر اس وقت ۲۰۰ کی تعداد میں معارف علمی وتعلیمی اداروں اورافراد تک پہنچ رہے ہیں ۔ علاوہ ازیں دارالمصفین کی مطبوعہ کتب کوبھی وسیع پیمانے پر لائبریریوں اوردیگر خواہش مند افراد تک مناسب قیمت پر مہیا کرنے کا انتظام کیا گیا ۔(۱۰)
دارالمصنفین نے ان کاوشوں کو بنظر تحسین دیکھا اورمدیرمعارف نے شذرات میں یوں اظہار کیا :
’’گزشتہ دوبرسوں میں دارالمصفین شبلی اکیڈمی کے کر م فرماؤں نے خاص طورپر تعاون کیا ہے۔ جلسہ انتظامیہ نے ان کے شکریہ کی منظوری دی۔ جناب سجاد الٰہی (لاہور )جناب شمس الرحمن اورپروفیسر ظفرالاسلام نے معارف اور دارالمصنفین کی کتابوں کی توسیع میں بڑی دلچسپی لی۔‘‘(۱۱)
صرف ہندوستان ہی کے نہیں ،علمی واشاعتی ادارے جہاں کہیں بھی ہیں، دارالمصفین نے ان اداروں کی حوصلہ افزائی کی ہے اوران سے ہمیشہ تعاون کیا ہے۔ اقبال اکیڈمی لاہور کی بابت مدیرمعارف نے لکھا :
’’اقبال اکیڈمی پاکستان لاہور کاایک فعال ادارہ ہے جواقبالیات پربلند پایہ کتابوں کی اشاعت کے لیے مشہور ہے۔ علم دوستی کی بنا پر اس کی مطبوعات دارالمصفین کے حصے میں بھی آتی ہیں (دس کتب کی فہرست )ان کتابو ں کی اشاعت کے لیے ہم اکادمی کومبارک باددیتے ہیں، اورعطیے کے لیے اس کے شکرگزار ہیں۔‘‘ (۱۲)
مدیر معارف پاکستان کے داخلی معاملات میں کس قدر دلچسپی رکھتے تھے، اس کا اندازہ جولائی ۲۰۰۷ ء میں سانحہ لال مسجد وجامعہ حفصہ سے ہوتاہے وہ اس سانحہ پر کس قدر دل گرفتہ تھے۔ شذرات میں رقم طراز ہیں :
’’گزشتہ مہینے پاکستان میں لال مسجد اورجامعہ حفصہ کے آپریشن سائی لنس کانہایت اندوہ واقعہ پیش آیا اورایک صد سے زیادہ علوم دینیہ کے طلبہ وطالبات اورعلما کی قیمتی جانیں گئیں۔ یہ خون ریزی اوروحشیانہ کاروائی اورمسجد ومدرسے کی پامالی وبے حرمتی حکومت کی کوئی مجبوری نہیں تھی ،مذاکرات اوربااثر لوگوں کودرمیان میں لاکر مسئلے کوحل کیا جا سکتا تھا۔ اگر مسجد اورمدرسہ والوں کی انتہا پسند ی اورسرکشی اتنی بڑھ گئی تھی کہ انہوں نے متوازی حکومت بنالی تھی ،اس بنا پر یہ سخت اقدام ضروری ہوگیا تھا کہ توکیا اس میں حکومت کی غفلت نہیں تھی ،جس نے انہیں اتنی چھوٹ دے رکھی تھی ،کہ وہ مسجد ومدرسہ کواپنی باغیانہ سرگرمیوں کامرکز بنا کرامن وقانون کو پامال کرنے لگے تھے؟ پاکستان اپنے دستور کی روسے اسلامی مملکت ہے۔ اس سے اسلامی قانون وشریعت کے نفاذ اورفواحش ومنکرات کے انسداد کامطالبہ غلط نہیں تھا ،غلط مطالبہ کاطریقہ تھا۔ ضد ،غلو اورتشدد سے مطالبات نہیں منوائے جاتے اورنہ زوروقوت سے برائیاں ختم کی جاسکتی ہیں۔ اس کے لیے ذہن وکردار سازی کی جاتی ہے اورآئینی جمہوری اورپرامن طریقے سے رائے عامہ ہموار کیا جاتی ہے، مگر حکومت کی نیت ٹھیک نہیں تھی۔ اس نے یہ جارحانہ کاروائی مغربی آقاؤں کی خوش نودی کے لیے کی تھی جس کی شاباشی اسے مل چکی۔ فوج کشی اورظلم وتشدد سے وقتی طورپر سکوں ہوجاتاہے مگر آئندہ دبی ہوئی چنگاریاں بہت زوروشور سے بھڑکتی ہیں۔ مشرف صاحب کے اس طرح کے ناروا اقدامات سے ان کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔‘‘ (۱۳)
جیساکہ قبل از یں سطورمیں بیان کیاجاچکاہے کہ معارف علوم ومعارف کے اردورسائل میں اپنی ایک شاندار تاریخ کا حامل ہے، اس کے معیار کے بارے میں مدیر معارف کے کیا خیالات تھے، ملاحظہ کیجیے:
’’علامہ شبلی مرحوم نے دارالمصنفین سے معارف کے اجرا کاجوپروگرام بنایاتھا،وہ مولانا سید سلیمان ندوی کے ذریعہ روبہ عمل آیااورجولائی ۱۹۱۶ ء میں اس کاپہلا شمارہ نکلا اورالحمدللہ اس وقت سے اب تک یہ مسلسل بلاناغہ شائع ہورہاہے۔ ۹۰ سال تک اردو کے وہ بھی ایک سنجیدہ علمی اورتحقیقی رسالہ کا جس میں تمام دلچسپی کی چیزیں نہ ہوں، شائع ہوتے رہنا خدائے ذوالجلال کافضل وکرم ہے۔ معارف کاشروع سے جوبلند معیار واندازرہاہے،اسے قائم رکھنا مجھ جیسے کم مایہ کے لیے بہت مشکل ہے مگر ہمیشہ میری یہ کوشش رہی کہ اس کے معیار کوہاتھ سے نہ جانے دیاجائے ۔ اگر اس میں کچھ کامیابی ہوئی تو یہ تائید ربانی اوراہل علم ودانش کی اعانت سے ہوئی ہے، لیکن اب لوگ سہولت پسند ہوگئے ہیں اورمحنت وپتہ ماری سے گھبراتے ہیں۔ جن موضوعات پرقلم اٹھائے ہیں، ان کے اصل مراجع سے واقف نہیں ہوتے۔‘‘ (۱۴)
مدیر معارف نے امسال ۱۴۲۸ھ (دسمبر ۲۰۰۷ء) کو حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی ۔ شاید اللہ تعالیٰ کو ان کی انسانی خطاؤں اور لغزشوں کی معافی مطلوب تھی اور بلندئ درجات مقصود تھی ۔ فروری ۲۰۰۸ء کے شذرات سفرِ حج کے تاثرات و مشاہدا ت تھے۔ چند سطور ملاحظہ ہوں :
’’حج کا یہ عالم گیر اجتماع امتِ مسلمہ کے مختلف طبقوں اور گروہوں کی وحدت اور یک رنگی کا عظیم الشان مظہر ہے۔ قوم و وطن، رنگ و نسل، جنس و زباں، لباس، ذوق و مزاج، یہاں تک کہ نماز کی بعض ظاہری صورتوں میں بھی اختلاف کے باوجود سب کی زبانوں پر لبیک لبیک کی صدائیں اور احرام کی چادریں سب کے جسموں پر ہوتی ہیں اور سب اللہ کے گھر پر نثار اور ایک امام کے پیچھے نماز ادا کرتے ہیں، اختلاف میں وحدت کا یہ منظر حج کے ساتھ مخصوص ہے اور اس کی کوئی مثال دوسرے مذہب میں معدوم ہے۔‘‘ (۱۵)
معارف فروری ۲۰۰۸ء کے مذکورہ شذرات مدیر معارف کے آخری الفاظ ثابت ہوئے۔ شذرات کے آخر میں درج یہ الفاظ کس قدر دل دوز اور غم ناک ہیں:
’’آہ کس دل سے اور کس قلم سے ناظرین معارف کو خبر دی جائے کہ ان شذرات کے پاک نفس اور پاک طنیت لکھنے والے قلم کی ضیاپاشیوں سے وہ محروم ہوگئے ہیں۔ مدیر معارف اور ناظم دارالمصنفین مولانا ضیاء الدین اصلاحی اب مرحوم ہیں۔ یکم فروری کو وہ سڑک کے ایک حادثے میں سخت مجروح ہوئے اور ۲ فروری کی صبح اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔‘‘ (۱۶)

سانحہ ارتحال

کل نفس ذائقۃ الموت کے مصداق پر ذی روح اورمتنفس کو اس جہاں فانی سے رخصت ہوتاہے لیکن بعض افراد اپنے پیچھے بہت بڑا خلا چھوڑجاتے ہیں ۔ مولانا ضیاء الدین اصلاحی بھی انہی شخصیات میں سے ہیں کہ یہ فرد کی موت نہیں بلکہ ایک جہاں اور تحریک کی موت ہے۔
یکم فروری ۲۰۰۸ ء بروز جمعہ مولانا ضیاء الرحمن اصلاحی اپنی اہلیہ کے ہمراہ ایک ٹیکسی پر سفرکررہے تھے کہ شام ساڑھے بجے کے قریب ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا فوری طورپر اعظم گڑھ ہسپتال میں لے جایا گیا۔ وہاں سے نازک حالت کے پیش نظر بنار س ہندویونیورسٹی میڈیکل کالج منتقل کیاگیامگر وہ شدید زخموں کی تاب نہ لاسکے اور۲فروری بروز ہفتہ جاں جان آفریں کے سپر دکردی۔ (اناللہ وانا الیہ راجعون) ندوۃ العلماء کے ریکٹر اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا سیدرابع ندوی نے نماز جنازہ پڑھائی اورمولانا شبلی نعمانی کے پہلو میں دارالمصنفین کے احاطہ میں دفن کیاگیا۔ تدفین بروز اتواز ۳فروری ۲۰۰۸ ء صبح ساڑھے دس بجے عمل میں آئی ۔ مرحوم کے پس ماندگان میں بیوہ کے علاوہ تین بیٹے اوردوبیٹیاں چھوڑی ہیں۔ ان کی عمر۷۱ برس تھی۔ مسلمانان پاکستان دعاگوہیں کہ اللہ تعالی مرحوم کے درجات کوبلند فرمائے۔ (۱۷)
اس طرح دارالمصنفین کے افق پرچمکے والاتابندہ ستارہ پچاس برس سے زائد ضوفشانیوں کے بعد غروب ہو گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ موت العالِم موت العالَم۔

توضیحات و حواشی 

۱۔ دارالمصنفین کی تاریخ و خدمات کے لیے دیکھیے: ڈاکٹر الیاس اعظمی، دارالمصنفین کی تاریخی خدمات، خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری ، پٹنہ ۲۰۰۲ء ؛ ڈاکٹر خورشید نعمانی ، دارالمصنفین کی تاریخ اور علمی خدمات ، دارالمصنفین ، اعظم گڑھ انڈیا، ۲۰۰۳ء 
۲۔ واضح رہے کہ معارف کے سابق مدیر سید صباح الدین عبدالرحمان بھی ۱۰ نومبر ۱۹۸۷ء ؁ میں حادثے کا شکار ہوئے۔ 
۳۔ تفصیلات کے لیے دیکھیے: حافظ محمد سجاد، معارف اور ڈاکٹر محمد حمید اللہ اور ماہنامہ معارف ، اعظم گڑھ، فکر و نظر، خصوصی اشاعت، جلد ۴۰، ۴۱ ، اپریل ۔ستمبر، ۲۰۰۳ء، اسلام آباد، ص:۳۷۔۴۱۰
۴۔ پہلا مضمون ’’امام ابو حنیفہ کی فقہ (ترکِ حدیث کے الزام کا جواب ) ‘‘ فروری ۱۹۵۵ء ، جمادی الثانی ۱۳۷۴ھ میں شائع ہوا۔ آخری مضمون : ’’مولانا روم ، مولانا شبلی کی نظر میں‘‘ ، اکتوبر ، نومبر ۲۰۰۷ء دو اقساط میں شائع ہوا۔
۵۔ ۱۹۵۵ء سے ۲۰۰۷ء تک ۱۲۰ کے قریب مقالات معارف میں شامل ہیں، علاوہ ازیں مطبوعاتِ جدیدہ کا تعارف، اخبارِ علمیہ اور مختلف علمی اجلاسوں کی روداد کی ترتیب میں بھی زیادہ تر حصہ مدیر معارف ہی کا ہوتا ہے۔ 
۶۔ ضیاء الدین اصلاحی، شذرات، ماہ نامعارف (اعظم گڑھ) ، جلد ۱۷۸، عدد۵، نومبر ۲۰۰۶ء، ص:۳۲۲۔
۷۔ ایضاً، جلد ۱۷۹، عدد، ۲، فروری ۲۰۰۷ء، ص:۸۲
۸۔ ایضاً، جلد۱۷۹، عدد ۱، جنوری ۲۰۰۷ء، ص:۳
۹۔ ایضاً ، جلد ۱۷۹، عدد ۵، مئی ۲۰۰۷ء، ص:۳۲۲،۳۲۳
۱۰۔ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اور ماہ نامہ معارف کے ساتھ اخلاقی و مالی معاونت میں جہاں سجاد الٰہی صاحب نے سرگرمی دکھائی ، وہاں ڈاکٹر حافظ محمد سجاد ( علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد ) اور راقم الحروف بھی شامل ہیں۔ سجاد الٰہی کا پتہ ہے : ۲۷/اے، مال گودام روڈ، لوہا مارکیٹ، بادامی باغ، لاہور ۔ 
۱۱۔ دارالمصنفین ، شبلی اکیڈمی کا دو روزہ اجلاس، یکم ، دو ستمبر ۲۰۰۷ء ، مزید دیکھیے ،شذرات ماہ نامہ معارف، جلد ۱۸۰، عدد ۳، ستمبر ۲۰۰۷ء، ص:۱۶۳، ۱۶۴۔ 
۱۲۔ ضیاء الدین اصلاحی ، شذرات، ماہ نامہ معارف، جلد ۱۷۹، عدد۱، جنوری ۲۰۰۷ء، ص:۴
۱۳۔ ایضاً، شذرات، معارف، جلد ۱۸۰، عدد۲، اگست ۲۰۰۷ء، ص:۸۲،۸۳
۱۴۔ ایضاً، شذرات، معارف، جلد ۱۸۰، عدد۲، اگست ۲۰۰۷ ؁ء، ص:۸۲،۸۳
۱۵۔ ایضاً، ملاحظہ ہو دارالمصنفین کی ویب سائٹ۔www.shibliacademy.org۔ واضح رہے مذکورہ ویب سائٹ افضال عثمانی نے فروری ۲۰۰۷ء میں ڈاکٹر اے عبداللہ ( واشنگٹن)اور ڈاکٹر ظفر الاسلام خان (دہلی ) کے تعاون سے تیار کی ۔ 
۱۶۔ایضاً شذرات جلد ۱۸۱، عدد، ۲، ص:۸۳،۸۴

مولانا محمد اشرف شادؒ

مولانا محمد یوسف

عالم ربانی، استاذ العلماء، جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا محمد اشرف شاد گزشتہ دنوں انتقال فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ پاکستان کی عظیم دینی درس گاہ دار العلوم کبیر والا کے قدیم فضلا میں سے تھے۔ درس نظامی کی تکمیل کے بعد آپ عنفوان شباب ہی سے درس وتدریس سے وابستہ ہو گئے اور تادم واپسیں مسند تدرریس پر رونق افروز رہے۔ اس عرصے میں بے شمار تشنگان علم نے اس چشمہ علم سے اپنی پیاس بجھائی۔ آپ نے ملک کے تدریسی حلقوں میں امام الصرف والنحو کا لقب پایا اور آپ کو بجا طور پر ملک کے چوٹی کے مدرسین میں شمار کیا جاتا تھا۔ 
آپ صبح سویرے مسند تدریس پر رونق افروز ہوتے اور پھر ناشئَۃ اللیل تک علم وعرفاں کی روشنی بکھیرتے رہتے۔ گو بنیادی طور پر آپ زندگی بھر تدریسی شعبے سے وابستہ رہے، لیکن اس کے علاوہ بھی تمام ملی ودینی خدمات میں بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیتے رہے۔ عاجزی، انکسار اور سادگی میں آپ اپنے اکابر کا نمونہ تھے۔ پہلی نظر دیکھنے والا شخص یہ خیال نہیں کر سکتا تھا کہ یہی وہ عالم ربانی ہیں جن کی شبانہ روز محنت سے ملک کے تدریسی حلقوں میں پختہ کار رجال فراہم ہو رہے ہیں۔
آپ کی ایک نمایاں خوبی جس کا مشاہدہ آپ کے متعلقین میں سے ہر ایک کو ہے، زیر تعلیم طلبہ میں سے ہر ایک طالب علم کے ساتھ ایک شفیق باپ کا سا تعلق تھا۔ جب تعطیلات میں طلبہ اپنے گھروں کو لوٹتے تو طلبہ کو فرداً فرداً ملتے ہوئے آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے اور فرماتے: زینۃ المکان بالمکین۔ فرماتے کہ عزیز طلبہ، اس ادارے کی رونق آپ کے دم قدم سے ہے۔ آپ کے جانے کے بعد رونق ختم ہو جاتی ہے۔ آپ کی حیات طیبہ اور مساعی جمیلہ کے ہر گوشہ کو محفوظ کرنا اور انھیں آئندہ نسلوں تک پہنچانا بے حد ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلیں نہ صرف آپ کے کردار سے واقف ہو سکیں بلکہ اس پر عمل کرتے ہوئے دارین کی سرخ روئی بھی حاصل کر سکیں۔
ہم حضرت مولانا کے ورثا کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کو کروٹ کروٹ راحت نصیب فرمائے اور آپ کے علمی فیض کو عام اور تام فرمائے۔ ہم آپ کے علمی جانشین مولانا مفتی محمد احمد انور کے لیے بھی دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے عظیم والد کے عظیم علمی ورثہ کو آنے والی نسلوں تک بخوبی منتقل کرنے کی ہمت اور توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

مئی ۲۰۰۸ء

حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کا سانحہ وفاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ثقافتی انقلاب کی ضرورتڈاکٹر محمد امین
سرمایہ دارانہ یا سائنسی علمیت: ایک تعارفمحمد زاہد صدیق مغل
بجلی کا بحران ۔ چند تجاویزپروفیسر محمد شفیق ملک
کیا فطرت أصلاً یا تبعاً مصدر شریعت ہے؟حافظ محمد زبیر
حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے سانحہ ارتحال پر اہل علم ودانش کے تعزیتی پیغاماتادارہ
آفتاب علم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒسید احمد حسین زید
ہے یہ شام زندگی صبح دوام زندگیمولانا محمد یوسف
ڈاکٹر محمد دین مرحوممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اک مرد حر تھا خلد کی جانب رواں ہوامولانا ابوعمار زاہد الراشدی
آہ ! حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نور اللہ مرقدہسید سلمان گیلانی

حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کا سانحہ وفات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے بانی حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی نور اللہ مرقدہ ۶؍ اپریل ۲۰۰۸ کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے چھوٹے بھائی اور راقم الحروف کے چچا محترم تھے۔ انھوں نے ہجری اعتبار سے ۹۴ برس کے لگ بھگ عمر پائی اور تمام عمر علم کے حصول اور پھر اس کے فروغ میں بسر کر دی۔ وہ اس دور میں ماضی کے ان اہل علم وفضل کے جہد وعمل، زہد وقناعت اور علم وفضل کا نمونہ تھے جن کا تذکرہ صرف کتابوں میں رہ گیا ہے اور جن کے دیکھنے کو اب آنکھیں ترستی ہیں۔ 
ان کا تعلق مانسہرہ کے علاقہ میں آباد سواتی پٹھان قوم سے تھا۔ وہ ۱۹۱۷ء میں شنکیاری سے چند میل آگے کڑمنگ بالا کے پہاڑ کی چوٹی پر واقع ’’چیڑاں ڈھکی‘‘ میں جناب نور احمد خان مرحوم کے گھر میں پیدا ہوئے۔ والدہ محترمہ کا بچپن میں انتقال ہو گیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد والد محترم کا بھی انتقال ہو گیا اور وہ اپنے برادر بزرگ حضر ت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے ہمراہ قریہ قریہ مختلف مدارس میں گھوم کر علم کی پیاس بجھاتے رہے۔ دونوں بھائیوں نے بفہ، ملک پور، کھکھو، لاہور، وڈالہ سندھواں، جہانیاں منڈی، گوجرانوالہ اور دیگر مقامات کے متعدد مدارس میں اکٹھے دینی تعلیم حاصل کی اور ۱۹۴۱ء میں دارالعلوم دیوبند پہنچے جہاں انھوں نے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس اللہ سرہ العزیز اور دیگر اکابر علماے کرام سے کسب فیض کیا اور سند فراغت حاصل کر کے عملی جدوجہد کا میدان سنبھال لیا۔ 
حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نے حیدر آباد دکن کے طبیہ کالج اور لکھنو کے دار المبلغین میں امام اہل سنت حضرت مولانا عبد الشکور لکھنوی سے بھی تعلیم پائی اور گوجرانوالہ واپس آنے کے بعد کھیالی اور کرشنا نگر (محلہ فیصل آباد) کی بعض مساجد میں کچھ عرصہ دینی خدمات سرانجام دیں اور چوک نیائیں میں مطب کا آغاز کیا، مگر قدرت نے ان کے حصے میں ایک بڑی دینی خدمت رکھی تھی کہ ۱۹۵۲ء میں مفتی شہر حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ (جو ان کے استاذ بھی تھے) اور دیگر علماے کرام کے مشورے سے چوک گھنٹہ گھر کے قریب ایک بڑے جوہڑ کے کنارے مدرسہ نصرۃ العلوم کے نام سے دینی درسگاہ اور جامع مسجد نور کے نام سے مسجد کی تعمیر کا آغاز کر دیا۔ انھیں اس کار خیر میں حضرت مولانا احمد علی لاہوری، حضر ت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی اور حضرت مولانا مفتی عبد الواحد جیسے اکابر علماے کرام کی سرپرستی اور برادر بزرگ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی رفاقت حاصل تھی اور مخلص رفقا کی ایک ٹیم بھی میسر آ گئی جنھوں نے خلوص ومحنت کے ساتھ اس گلشن علم کی ایسی آبیاری کی کہ اللہ رب العزت نے مدرسہ نصرۃ العلوم کو ملک کے بڑے دینی مدارس اور علمی مراکز کی صف میں کھڑا کر دیا اور آج دنیا کا کوئی علاقہ ایسا نہیں ہے جہاں مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے براہ راست یا بالواسطہ فیض پانے والے علماے کرام دینی جدوجہد کے کسی نہ کسی شعبے میں مصروف عمل نہ ہوں۔
حضرت صوفی صاحب ایک کامیاب مدرس، حق گو خطیب، باعمل صوفی اور بے باک دینی راہ نما تھے جن سے لاکھوں افراد نے استفادہ کیا اور ہزاروں علما نے تربیت پائی۔ وہ اپنے ذوق کے حوالے سے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے مشن کے علمبردار اور ان کی حکمت وفلسفہ کے شارح تھے جس کی جھلک ان کی تین درجن سے زائد تصانیف اور ہزاروں خطبات ودروس میں جابجا پائی جاتی ہے۔
راقم الحروف نے حفظ قرآن کریم کے بعد درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنے کا بیشتر دور ان کی نگرانی میں گزارا ہے، حدیث وفقہ، ادب وتاریخ اور حکمت ولی اللہٰی کے شعبے میں بیسیوں کتابیں ان سے براہ راست پڑھی ہیں اور فکری وذہنی دنیا میں ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ انھوں نے ساری زندگی مدرسہ کے مکان میں گزار دی اور کم وبیش نصف صدی تک گوجرانوالہ کی خدمت کرنے کے باوجود اس شہر میں اپنے لیے ایک ذاتی مکان نہ بنا سکے۔ وہ زہد وقناعت میں اپنے ا ن بزرگوں کا عملی نمونہ تھے جن کا وہ اپنے بیانات، مضامین اور دروس میں اکثر تذکرہ کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو ان بزرگوں کی خدمات وفیوضات سے آگاہ کیا کرتے تھے۔
وہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے بعد شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور مفکر انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی کے ساتھ سب سے زیادہ عقیدت رکھتے تھے اور ان کے علوم وافکار اور روایات کے تذکرہ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ حضرت مولانا سندھیؒ کے بارے میں ناقدین اور نادان دوستوں کی طرف سے دو طرفہ طور پر پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات کا ازالہ کرنے میں انھوں نے بطور خاص محنت کی اور تاریخ کا قرض ادا کیا۔ وہ مسلکاً متصلب دیوبندی تھے اور علماے دیوبند کے علمی وفکری مسلک ومنہج سے نئی نسل کو متعارف کرانے میں نہ صرف اپنے برادر بزرگ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے معاون اور دست راست تھے بلکہ اس حوالے سے خود بھی ایک مستقل ذوق اور اسلوب رکھتے تھے۔
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ نے ایک مقام پر دیوبندی مسلک کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا ہے کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور شیخ اکبر امام محی الدین ابن عربی کے افکار وتعلیمات کا امتزاج قائم کیا جائے تو اس کا نام دیوبندیت ہے۔ میں اس حوالے سے عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمارا گھرانہ بحمد اللہ تعالیٰ اس کا صحیح نمونہ ہے کہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم پر ابن تیمیہؒ کا رنگ غالب ہے جبکہ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی ؒ ابن عربیؒ کے ذوق کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دونوں کے فکر وذوق میں ایک واضح تنوع پایا جاتا ہے مگر ایک حسین امتزاج بھی موجود ہے اور اس تنوع اور امتزاج کے بعض واقعات کا میں خود بھی شاہد ہوں جو حضرت صوفی صاحب کے کسی تفصیلی تذکرہ میں مناسب موقع پر ان شاء اللہ پیش کیے جائیں گے۔
حضرت صوفی صاحب نے دینی، علمی، عملی اور فکری شعبوں میں جو خدمات سرانجام دی ہیں اور خلوص وللہیت کے ساتھ سعی ومحنت کا جو نمونہ پیش کیا ہے، اس کا ایک ایک پہلو تاریخ اور نئی نسل کی امانت ہے کہ قومیں ایسے ہی لوگوں سے راہ نمائی حاصل کر کے اپنی راہیں متعین کیا کرتی ہیں۔ خدا کرے کہ ہم اس امانت کو صحیح طور پر نئی نسل اور تاریخ کے سپرد کرنے میں کامیاب ہوں، آمین۔ سردست ان جذبات غم کے اظہار کے ساتھ قارئین سے ملتمس ہوں کہ وہ حضرت صوفی صاحب کی مغفرت اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام کے لیے دعا کے ساتھ ساتھ بارگاہ ایزدی میں بطور خاص دست بدعا ہوں کہ اللہ رب العزت حضرت صوفی صاحب کے فرزند وجانشین مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی اور ان کے برادران مولانا محمد ریاض خان سواتی اور مولانا محمد عرباض خان سواتی نیز ہم جیسے دیگر پس ماندگان کو ان کے مشن کو آگے بڑھانے اور ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں اور ہر قسم کے شر سے حفاظت کرتے ہوئے دین حق کے فروغ اور سربلندی کے لیے آخر دم تک خدمات سرانجام دینے کے مواقع نصیب کریں اور خلوص ومحنت کے ساتھ اس کے لیے پیش رفت کرنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

ثقافتی انقلاب کی ضرورت

ڈاکٹر محمد امین

پاکستان میں سیاسی تبدیلی عوام کے ہاتھوں آچکی۔ گو فوج کی لائی ہوئی آمریت اپنی بقا اور اپنی پالیسوں کے تسلسل کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ یہ بجھتی ہوئی شمع کی آخری بھڑک ہے۔ جب شاہوار ملک مشرق سے طلوع ہو چکا اور سپیدۂ سحر نمودار ہو چکا تو اب تاریکی کا وجود کیسے باقی رہ سکتا ہے؟ اس کا مقدر یہی ہے کہ کو نوں کھدروں میں چھپتی پھرے اور اپنی نیستی کو قبول کر لے۔ 
یہ بھی تسلیم کر لیجیے کہ یہ تبدیلی تھوڑی غیر متوقع اور قدرے حیران کن ہے۔ اگر چہ اس تبدیلی کے لیے کئی سیاسی قوتیں میدان میں تھیں اور کشمکش و مزاحمت عرصے سے جاری تھی لیکن یہ توقع پھر بھی بہت سے لوگوں کونہ تھی کہ یہ تبدیلی انتخابات کے ذریعے آئے گی اور رائے عامہ کے زور سے آئے گی کیونکہ آمریت نے اپنے بدیسی آقاؤں کی مرضی ، خواہش اور تعاون سے رائے عامہ کو دبانے، کچلنے اور غیر موثر کر نے کے سارے انتظامات باطمینان خاطر کر رکھے تھے اور ہر روزن بند کر نے کے بعد اس کی پوری کوشش تھی کہ روشنی کی کرن کہیں سے نہ پھوٹے لیکن بالآخر اسے انتخابات کروانے پڑے اور وہ بھی بڑی حد تک شفاف، جس کے نتیجے میں اس کا دھڑن تختہ ہوگیا۔
ہم اس مثبت تبدیلی کو سراہتے اور اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ یہ تپتے ہوئے صحرا میں ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے جس نے میدان سیاست میں مشام جاں کو معطر کیا اور حیات نو کی نوید دی ہے، لیکن کیا اس سے ہمارے سارے زخم بھر جائیں گے، ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں گے؟ پُرامیدی اور خوش امیدی کے باوجود اس کا جواب ہاں میں دینا محض مبالغہ آرائی ہوگی۔ ہاں! یہ کہنا شاید صحیح ہو کہ سیاسی میدان میں یہ ایک مثبت پیش رفت کا آغاز ہے اور اگر سیاست میں یہ روش جاری رہتی ہے کہ انتخابات باقاعدگی سے ہوتے رہیں اور وہ شفاف بھی ہوں اور ان میں حقیقی رائے عامہ بھی ابھر کر سامنے آتی رہے تو یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ہمارا معاشرہ کچھ بہتر ہوجائے، انسانوں کے رہنے کے قابل ہوجائے اورلوگوں کے دکھ درد میں کچھ کمی ہو جائے اور ان کے کچھ مسائل حل ہونے لگیں، لیکن سیاسی میدان میں یہ تبدیلی یا مثبت رجحان بہر حال کوئی امرت دھارا نہیں ہے کہ اس سے ہمارے سارے امراض کا علاج ہو جائے اور ہمارے سارے نظریاتی ،معاشرتی،معاشی، قانونی، تعلیمی، تربیتی مسائل حل ہوجائیں۔ خصوصاً اس حوالے سے سو چیے کہ ہمارا سیاسی نظام اصلاً مغربی جمہوریت پر مبنی ہے (اور ہم نے اپنے ہاں کے دینی عناصر اور دین پسند عوام کے دباؤ پر محض ان کی اشک شوئی کے لیے اس میں بعض اسلامی اجزا کا اضافہ کر رکھا ہے) جو مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام اور مغرب کے لادین طرز حیات کا مظہر اور عکاس ہے۔ یوں جمہوریت محض ایک سیاسی نظام نہیں اور اسی طرح سرمایہ داری محض ایک معاشی سسٹم نہیں بلکہ یہ دونوں اس وحدت کے اجزا ہیں جسے ہم مغربی تہذیب کہتے ہیں اور مغربی تہذیب نام ہے ایک ملحدانہ ورلڈ ویو اور ایک لادین طرز زندگی کا جس کی بنیاد ہیومنزم، سیکولرزم، کیپٹل ازم، سائنس ازم جیسے ملحدانہ نظریات پر ہے۔ یو ں سمجھیے کہ مغربی تہذیب ایک دین ہے جو ساری انسانی زندگی کا احاطہ کرتا ہے، جو فرد اور اجتماع کے سارے اعمال کو کنٹرول کر تا ہے اور چونکہ یہ اس وقت غالب اور طاقتور ہے لہٰذا یہ ہر اس فکر، نظریے اور معاشرے کو کچل کر آگے بڑھ رہا ہے جو اس سے موافقت نہ کر ے یا اس کی راہ میں مزاحم ہو۔ لہٰذا مغربی جمہوریت کو محض ایک سیاسی نظام سمجھنا پہاڑ جتنی بڑی غلطی ہے۔ بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک پورا ’’دین‘‘ ہے اور مکمل طرز زندگی ہے جس کی دست برد سے فرد اور اجتماع کا کوئی معاملہ بچا ہوا نہیں ہے یا یوں کہیے کہ یہ ایک اکٹوپس (ہشت پا) ہے جس کے شکنجے سے نکل کر آپ کہیں نہیں جاسکتے۔

سیاسی تبدیلی مسئلے کا حل نہیں

آپ خود سوچیے! کیا اس جمہوری تبدیلی سے جو پاکستان میں آئی ہے، آپ کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا قبلہ درست ہوجائے گا اور جو فحاشی، عریانی اور ذہنی و فکری پراگندگی وہ پھیلا رہا ہے اسے بریک لگ جائے گی؟ کیا اس سیاسی تبدیلی سے آپ کا تعلیمی نظام ٹھیک ہو جائے گا، نصاب اسلام اور نظریہ پاکستان کے تقاضوں کو پورا کر نے والا اور بچوں کو اچھا مسلمان اور اچھا انسان بنانے والا بن جائے گا؟ کیا معیشت سے سود ختم ہو جائے گا اور افلاس کم ہو جائے گا اور غریبوں کے دن پھر جائیں گے؟ کیا اس جمہوری تبدیلی سے لوگوں کے اخلاق بہتر ہوجائیں گے اور وہ فراڈ، رشوت ، بے ایمانی اور دھوکہ دہی سے باز آ جائیں گے؟ کیا اس سے چوریاں ، ڈاکے ، زنا اور قتل بند ہو جائیں گے ؟ معاف کیجیے گا، ان میں سے کچھ بھی نہ ہوگا۔ بدی کا یہ سارا نظام ایسے ہی چلتا رہے گا۔
آپ یہ دیکھیے کہ ایم ایم اے کے نام سے پاکستان کی ساری بڑی دینی جماعتوں کا اتحاد ایک صوبے پر پانچ سال تک بر سراقتدار رہا، وہاں وہ کیا اسلامی اور تعمیری تبدیلی لاسکا؟ کچھ بھی نہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا سارا ریاستی نظام اور آپ کا سارا معاشرتی سیٹ اپ مغربی فکر و تہذیب کے قائم کردہ اداروں کی گرفت میں ہے۔ آپ اگر مغربی جمہوریت کے تحت قائم کردہ سیاسی اداروں کو قبول کر کے اور ان سے مصالحت کرتے ہوئے سیاسی میدان میں کامیاب ہو بھی جائیں تو آپ مغربی فکرو تہذیب سے مختلف اور ان کی مخالف دینی، اخلاقی، تعلیمی، معاشرتی تعلیمات و اقدار کو معاشرے میں مقبول نہیں کراسکتے اور انہیں رائج اور نافذنہیں کر سکتے ۔ ہم کہتے ہیں کہ ایم ایم اے یا دینی جماعتوں کو بالفرض پورے پاکستان میں بھی اقتدار مل جائے (جس کا پاکستان کی عملی سیاست میں دور دور تک کوئی امکان نہیں، پانچ دس فیصد بھی نہیں) تو پھر بھی وہ کوئی تبدیلی نہیں لا سکیں گے؟ (جس طرح کہ وہ صوبہ سرحد میں نہیں لا سکے) بس زیادہ سے زیادہ کچھ قانون بنا لیں گے اور کاغذوں میں شریعت نافذکر لیں گے اور اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ جنرل ضیاء الحق صاحب نے بھی اسلامی حدود نافذ کر دی تھیں اور یہ ۱۹۷۹ء کی بات ہے۔ گو یاتیئیس برس ہونے کو ہیں۔ کیا کسی ایک چور کا بھی ہاتھ کٹا ہے؟ کوئی ایک زانی بھی سنگسار ہوا ہے؟ اسی طرح جنرل ضیاء الحق نے آئین میں آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کا اضافہ کر کے اسمبلیوں میں پہنچنے والوں کے لیے اخلاقی معیار طے کردیا تھا۔ کیا اس کے بعد اسمبلیوں کے جتنے انتخابات ہوئے ہیں، ان میں حصہ لینے والے اس اخلاقی معیار پر پورا اترتے ہیں؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
خلاصہ یہ کہ تازہ سیاسی تبدیلی موجودہ تپتی جھلستی فضا میں ٹھنڈی ہواکا ایک خوشگوار جھونکا ضرور ہے لیکن اس سے ہمارے مسائل حل نہ ہو سکیں گے، خصوصاً ہمارے تہذیبی اور نظریاتی تناظر میں۔ لہٰذا ہمیں ضرورت ہے ایک ثقافتی انقلاب کی، ایک ایسے ثقافتی انقلاب کی جس کی جڑیں ہمارے عقائد، ہماری اقدار اورہماری تہذیب میں پیوست ہوں، جو فکری بھی ہو اور اخلاقی بھی۔ ہم نے اسے دینی اس لیے نہیں کہا کہ نمازیں تو ہم اب بھی پڑھتے ہیں، روزے تو ہم اب بھی رکھتے ہیں لیکن نہ ہمارے اعمال ان سے بدلتے ہیں اور نہ ہمارا کردار۔ دراصل ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارا کردار بدلے، ہمارے رویے تبدیل ہوں۔ اسی لیے ہم نے اسے ثقافتی انقلاب کا نام دیا ہے۔

مجوزہ ثقافتی انقلاب اور اس کے خدوخال 

یہ عرض کرنے کے بعد کہ سیاسی تبدیلی سے ہمارے مسائل حل نہ سکیں گے بلکہ اس کے لیے ایک ثقافتی انقلاب کی ضرورت ہے، ایک ایسے ثقافتی انقلاب کی جس کی جڑیں ہمارے عقائد، ہماری اقدار اور ہماری تہذیب میں پیوست ہوں،جو فکری بھی ہو اور اخلاقی بھی، اب ہم یہ عرض کر نے کی کوشش کریں گے کہ مجوزہ ثقافتی انقلاب کیسے آ سکتا ہے اور اسے کون لائے گا ؟ لیکن اس سے بھی پہلے ایک بنیادی بات کہ اس ثقافتی انقلاب کا فکری منہج کیا ہوگا؟ ہمارے نزدیک مجوزہ ثقافتی انقلاب تین اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے:
۱۔ اسلامی فکروتہذیب سے وابستگی (کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان رہنا چاہتے ہیں) 
۲۔ مغربیت اور مغربی تہذیب کا ردّ (کیونکہ وہ اسلامی فکر و تہذیب سے مختلف اور اس کی مخالف ہے) 
۳۔ مندرجہ بالا دو اصولوں کے مطابق فکر وعمل اور طرز زندگی میں عملاً تبدیلی تاکہ ہماری دنیا سنور جائے اور آخرت میں بھی کامیابی ملے۔ 
ان اصولوں کے مطابق پاکستان میں ثقافتی انقلاب کیسے آئے گا؟ ہماری رائے یہ ہے کہ اس کے لیے ایک بھرپور عوامی تحریک چلنی چاہیے۔ اس تحریک کو چند ایسے عملی اقدامات کی بنیاد پر اٹھایا جا سکتا ہے جو متفق علیہ ہوں اور اختلافی نہ ہوں مثلاً :
۱۔ غریبوں کی مدد 
۲۔ اخلاقی سدھار
۳۔ تعلیم عام کرنا 
۴۔ فحاشی اور عریانی کا خاتمہ۔۔۔۔۔۔وغیرہ 
وضاحت کی خاطر ہم صرف پہلے نکتے کے بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں ۔ جو لوگ غریب، نان جویں کے محتاج اور بھوک سے خودکشیاں کر رہے ہیں، وہ آخر کہیں تو رہتے ہیں۔ کسی کے تو عزیز رشتہ دار ہیں۔ تو لوگ اٹھ کھڑے ہوں۔ اپنی بستی، اپنے محلے کے غریبوں کی مدد کریں ، اپنی برادری اور خاندان کے غریبوں کی مدد کریں۔ ہم کہتے ہیں کہ امیروں کو چھوڑیے۔ اگر ہر متوسط طبقے کا گھرانہ ایک سو روپیہ بھی ماہانہ اس مد میں دے (جو وہ بسہولت دے سکتا ہے) تو اتنی رقم آسانی سے جمع ہو سکتی ہے جو اس بستی ، اس محلے کے غریبوں کو مرنے نہیں دے گی۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایوب خاں کے زمانے میں حکومت نے ’’ایک پیسہ ایک ٹینک‘‘ کا نعرہ دیا تھا یعنی ایک پاکستانی اگر ایک پیسہ روزانہ دے تو ایک دن کی آمدنی سے پاک فوج کے لیے ایک ٹینک خریدا جا سکتا ہے اور اس وقت لوگوں کی جذباتی کیفیت ایسی تھی کہ لوگوں نے پیسے دیے اور وہ اسکیم کامیاب رہی۔ کراچی کے ایک ٹرسٹ نے افغانستان میں لوگوں کو بھوک سے بچانے کے لیے وہاں کئی بستیوں میں تندورکھول دیے تھے جہاں سے لوگوں کو بلا قیمت روٹی مل جاتی تھی اور ایسے بہت سے لوگ تھے جو مثلاً ایک گاؤں یا بستی کے لیے ایک تندور کا سارا خرچ آسانی سے دے دیتے تھے۔ ہم پچھلے ہفتے ایک دینی مدرسے میں موجود تھے جہاں ہمیں پتہ چلا کہ اس دن مدرسے میں غریب دینی طلبہ کے لیے اتنا گوشت آیا تھا جو ضرورت سے زیادہ تھا اور انتظامیہ اسے سنبھالنے سے قاصر تھی، لہٰذاملازمین کو کہاگیا کہ وہ سستے داموں اسے خرید لیں۔ ان مثالوں سے ہم بتانا یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ابھی بانجھ نہیں ہوا ، جذبہ اور اخلاص موجود ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ایک شفاف اور قابل اعتماد نظام تشکیل پا جائے اور لوگوں کو اس کے لیے متحرک کر دیا جائے۔ اگر ہر بستی، ہر محلے اور ہر برادری میں اس طرح کی ایک کمیٹی تشکیل پا جائے جو شریف اور دیانت دار افراد پر مشتمل ہوتو لوگ اس پر اعتماد کریں گے اور وسائل کی قلت نہ ہوگی۔ مسجد یا مقامی سکول کو اس کا مرکز بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ہم نے ایک شعبے کی مثال دی ہے کہ اس طرح ہر بستی کے غریبوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح کی اسکیم دیگر تین نکات اور زندگی کے دوسرے شعبوں کے لیے بھی بنائی اور چلائی جا سکتی ہے۔ تاہم طوالت سے بچنے کی خاطر ہم صرف ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔ 
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ مذکورہ عوامی تحریک کون چلائے گاکہ مجوزہ ثقافتی انقلاب آ سکے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اور معاشرے کے مختلف طبقات مثلاً ادیبوں، صحافیوں، وکیلوں، اساتذہ، طلبہ وغیرہ میں ایسے لوگوں کی ہرگز کمی نہیں جو مذکورہ بالا تین نکات سے اتفاق کرتے ہوں اور اصلاح فرد و معاشرہ کے لیے ان نکات پر اکٹھے ہو سکتے ہوں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ وہ متحرک و منظم ہو جائیں اور قافلہ چل پڑے اور اس کی سمت درست ہو۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے اور طبقے سے ایسے چیدہ چیدہ لوگ جمع ہوں جن کو مجوزہ ثقافتی انقلاب اور اس کے اصول و مناہج سے اصولی اتفاق ہو اور وہ مل کر ایک وسیع البنیاد قومی کونسل تشکیل دے لیں اور تحریک کے لیے عملی پروگرام کی نوک پلک سنوار کر اسے آخری شکل دے دیں اور اللہ کا نام لے کر کام کا آغاز کر دیں۔ تحریک ان شاء اللہ آہستہ آہستہ زور پکڑتی جائے گی اور اپنے اثرات مرتب کرتی جائے گی۔ 
ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ اتنے بڑے انقلاب اور عوامی تحریک کا خواب دیکھنا تو آسان ہے، لیکن اسے عملاً برپا کرنا مشکل بلکہ ناممکن اور ناقابل عمل ہے۔ یہ وہ بھاری پتھر ہے جسے چوم کر تو چھوڑا جا سکتا ہے ، اٹھایا نہیں جا سکتا۔ یہ تو K2 بلکہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے برابر ہے۔ ہم کہتے ہیں دنیا میں کوئی کام ناممکن نہیں ہوتا۔ ہر ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ نیت صادق اور جذبہ قوی ہو اور ٹھوس پلاننگ کے ساتھ بھرپور جدوجہد کی جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو اور اسی سے توفیق طلب کی جائے۔ عقلی استدلال یہ ہے کہ مجوزہ عوامی تحریک پاکستانی معاشرے میں کامیابی سے چلائی جاسکتی ہے کیونکہ معاشرے اور ریاست کے معمول کے ادارے لوگوں کے مسائل حال کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ لوگ مایوس ہو رہے ہیں۔ جھنجھلائے ہوئے ہیں۔ ان کے کام نہیں ہورہے۔ وہ جدھر جائیں ذلیل و خوار ہوتے ہیں اور وہ موجودہ سسٹم سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ انہیں تعمیری اور مثبت انداز میں متحرک کر دیا جائے تا کہ وہ خود اپنے مسائل کو حل کر سکیں اور اپنے نظریات اور اپنے عقیدے کے مطابق حل کرسکیں۔ 
آپ پاکستان کے ماضئ قریب کے حالات پر غور کیجیے۔ جب سیاسی جماعتیں تبدیلی لانے میں ناکام ہو گئیں تو وکلا تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ کیا ایسا کسی ایک فردیا چند افراد نے پلاننگ سے کیا؟ ہماری رائے میں ہرگز نہیں۔ بہتا ہوا پانی اپنا رستہ خودبخود بنا لیتا ہے بشرطیکہ وہ سراٹھا کر زمین کا سینہ شق کرنے میں کامیاب ہوجائے اور جب اس کی مقدار زیادہ ہو اور وہ زور لگائے تو وہ زمین کا سینہ شق کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی سرزمین اس ثقافتی انقلاب کے لیے تیار ہو چکی ہے۔ اب کسی بھی وقت لاوا پھٹ پڑے گا اور جس طرح وکلا تحریک نمودار ہوگئی، اسی طرح اس ثقافتی تحریک کے لیے بھی مختلف لوگ اور مختلف طبقے اٹھ کھڑے ہوں گے، ان شاء اللہ۔ 
دیکھیے، اس ملک کی روایتی دینی قوتیں نتائج کے لحاظ سے ناکام ہوچکی ہیں۔ دینی سیاسی جماعتوں کا حشر آپ کے سامنے ہے۔ تبلیغی جماعت اور دینی مدارس اس طرح کا فرد تیارہی نہیں کر رہے جو موجودہ معاشرے کی رہنمائی کر سکے اور دین کا رشتہ حاضر و موجود سے جوڑ سکے۔ سیاسی لوگوں کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی ہے۔ وقتی طور پر حالات کچھ بہتر ٹرن لیتے محسوس ہوتے ہیں لیکن اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ پچھلے ساٹھ سالوں سے سیاستدانوں اور اصحاب اقتدار کی کارکردگی تباہ کن اور عبرتناک رہی ہے۔یہی حال سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سول و فوجی بیوروکریسی کا ہے۔ مطلب یہ کہ جو اس معاشرے کے بالا دست طبقات تھے، جنہوں نے معاشرے میں تبدیلی لانا تھی اور مسائل کو حل کرناتھا وہ ناکام ہو چکے ہیں۔ لہٰذا معاشرے کی فطری ضرورت یہ ہے کہ یہ خلا پُر ہو اور یہ خلا پُر کرنے والے منطقی طور پر وہ لوگ ہو ں گے جو مذکورہ بالا ناکام شدہ طبقات میں سے نہیں ہوں گے۔ مثلاًہم سمجھتے ہیں کہ اساتذہ کواٹھ کھڑے ہونا چاہیے، وہ کسی حد تک منظم بھی ہیں اور ہمارے معاشرے میں ان کی ایک توقیر، منصب اور مقام بھی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مزدور اور کسان زیادہ منظم نہیں ہیں اورنہ ان کی فعال انجمنیں ہیں حالانکہ سب سے زیادہ مظلوم تو وہی ہیں۔ تاہم جو اور جتنی موجود ہیں، انہیں متحرک ہو جانا چا ہیے۔ اسی طرح صحافیوں، ادیبوں، وکیلوں، انجینئرز، چھوٹے دکانداروں اور متوسط طبقے کے دوسرے عناصر کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اگر اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ متحرک ہو جائیں توان کا ایک بڑا ٹارگٹ یہ ہونا چاہیے کہ وہ طلبہ کو منظم اورمتحرک کریں اور طلبہ جب اس ثقافتی اور معاشرتی انقلاب کے لیے متحرک ہو جائیں گے تو کامیابی یقینی ہے کیونکہ نوجوانوں میں قوت کار اور جذبہ وافر مقدار میں موجود ہوتاہے اور وہ کسی بھی تحریک کا بہترین سرمایہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
اللہ کرے ہماری یہ تحریر ان لوگوں کے لیے خرد افروزی،فکر انگیزی اور تحریک کا سبب بنے جو اس معاشرے اور ملک کے لیے سوچتے ہیں، جو اپنی دنیا وآخرت کی بہتری کی فکر رکھتے ہیں اور اس کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور مجوزہ ثقافتی انقلاب و عوامی تحریک کے لیے بیج کاکام دے، ایسا بیج جو نرم و نازک کلی کی طرح پھوٹتا ہے لیکن پھر شجر سایہ دار بن کر انسانوں کو ٹھنڈک اور سایہ پہنچاتا اور زندگی کی کڑی دھوپ سے بچاتا ہے۔ 

سرمایہ دارانہ یا سائنسی علمیت: ایک تعارف

محمد زاہد صدیق مغل

کسی تہذیب کا تصور علم اس کے اہداف و مقاصد کے اظہار کا سب سے بلند ترین درجہ ہوتا ہے۔ در حقیقت تصور علم ہی وہ اساس ہے جہاں کسی تہذیب کے مقاصد علمی و فکری سطح پر متشکل ہوتے ہیں۔ ہر تصور علم ایک تہذیب کے حیات انسانی کی حقیقت کی بابت ما بعد الطبعیاتی ایمانیات کا مرہون منت ہوتا ہے۔ یعنی یہ سوال کہ علم کیا ہے کا جواب مقصد علم کے بغیر دینا ناممکن ہے اور یہ مقصد لازماً ایک ما بعد الطبعیاتی ایمان پر قا ئم ہوتا ہے ۔ یہی وہ بنیادی بات ہے جس پر غور نہ کر نے کے سبب کئی اہل علم و فکر نے مغربی علوم کو اسلامی تاریخ میں تلاش کرنے نیز ان کی اسلام کاری کرنے کی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ یہ غلط فہمی بھی کہ مغربی علوم ایک اٹل حقیقت ہیں نیز ان کی بنیاد ایسے آفاقی تصورات پر قائم ہے جو انسانیت بحیثیت مجموعی کا مظہر ہیں، اسی سوال پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح ماہیت علم اور ایمانیات کا تعلق نظر انداز کرنے کے نتیجے یہ فکری کجی بھی عام ہوئی کہ مسلمانوں کو مغربی علوم کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کو پہچاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس مضمون میں ہماری کوشش ہو گی کہ ہم علم بحیثیت مجموعی اور سرمایہ دارانہ (یا سائنسی ) نظریہ علم کی حقیقت وا ضح کریں۔ 
حقیقت علم کی تفہیم کے ضمن میں تین سوالات کے جوابات اصل اہمیت کے حامل ہیں: 
۱) علم کیا ہے ، یعنی اس کی نو عیت و ماہیت (Nature)کیا ہے ؟ 
۲) علم کہاں سے آئے گا، یعنی منبع علم (source of knowledge) کیا ہے؟ منبع علم کی تشخیص کے ساتھ ہی اس سوال کا جواب دینا بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ اس منبع علم سے حاصل ہونے والے علم کی صحت و عدم صحت (validity) کا معیار کیا ہے ؟ 
۳) اس مخصوص منبع علم سے حاصل شدہ معلومات کن شکلوں میں متشکل (embodiement) ہوئیں ، یعنی اس نظریہ علم کا اظہار کن علوم کی شکلوں میں ہوا ؟
سرمایہ دارانہ یا سائنسی علمیت کے ضمن میں ان تینوں سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے ایک طویل مضمون درکار ہوگا، لہٰذا خوف طوالت کو ملحوظ خا طر رکھتے ہوئے اس مضمون میں ہم پہلے سوال کا جواب تفصیلاً جبکہ تیسرے کا جواب اجمالاً دینے کی کو شش کریں گے۔ ان سوالات کے جوابات سمجھنے کے لیے تین امور پر روشنی ڈالنا ضروری ہے :
الف) علم کی نوعیت و ماہیت کا حقیقت کی بابت ایمانیات سے تعلق پر
ب) سرمایہ دارانہ تصور علم کا اس کے تصور حقیقت سے تعلق اور اس کی خصوصیات پر
ج) چند اہم سرمایہ دارانہ علوم کی حقیقت پر
اس مضمون میں ہم درج بالا ترتیب سے اپنے مدعا کو بیان کریں گے :

۱) ایمانیات اور تصور علم کا باہمی تعلق 

علم سے مراد عام طور پر معلومات کا ایک با مقصد مجموعہ سمجھی جاتی ہے۔ درحقیقت یہ ’عالم ‘ (knower) اور ’معلوم ‘ (known) کے درمیان ایک تعلق کا نام ہے اور ان دونوں کے درمیان اس تعلق کی مقصدیت ہی ’مجموعہ معلومات ‘ کے مافیہ (content) کی ماہیت (nature) اور درجہ بندی (hirarchy) کا تعین کرتی ہے۔یعنی کس مجموعہ معلومات پر لفظ علم کا اطلاق کیا جا ئے گا، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ علم حا صل کرنے والے شخص کا مقصد کیا ہے۔ چنانچہ ہر مقصدیت سے نکلنے والا تصور علم اور معلومات کی درجہ بندی یکساں نہیں ہوتی۔ اس کی مزید وضاحت کرنے سے پہلے ہم یہ بیان کرتے چلیں کہ معلومات کے ہر مجموعے پر لفظ علم کا اطلاق نہیں کیا جاتا بلکہ صرف ایک بامقصد معلومات کے مجموعے پر ہی یہ لفظ بولا جاتا ہے، مثلاً کسی پا گل شخص کو بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں لیکن اس کی ان معلومات کوکسی بھی تصور علم میں ’علم ‘ نہیں مانا جاتا۔ اس بنیادی وضاحت کے بعد اب ہم ایک آسان مثال بیان کرتے ہیں۔ فرض کریں آپ سائنس ، انجینئرنگ اور سو شل سائنسز کے مختلف مضامین کی ایک فہرست مرتب کرکے ان کی درجہ بندی کرنا چا ہتے ہیں ۔ اگر آپ یہ فہرست کسی سائنس کے طالب علم کے سامنے پیش کریں گے تو وہ ان مضا مین کی جو درجہ بندی کرے گا، ان کی تر تیب کچھ یو ں ہوگی: 
۱) سائنس کے مضا مین ، 
۲) انجینئرنگ کے مضا مین ، 
۳) سو شل سائنسز کے مضا مین 
اس کے برعکس اگر آپ یہی فہرست کسی انجینئرنگ کے طا لب علم کے سامنے پیش کریں تو وہ انہیں درج ذیل ترتیب سے مرتب کرے گا : 
۱) انجینئرنگ کے مضا مین ، 
۲) سائنس کے مضا مین ، 
۳) سو شل سائنسز کے مضا مین 
جبکہ ایک سو شل سائنسز یا بزنس ایڈ منسٹریشن کے طا لب علم کی مرتب کردہ فہرست درج ذیل ہو گی : 
۱) سو شل سائنسز کے مضا مین ، 
۲) سائنس کے مضا مین ، 
۳) انجینئرنگ کے مضا مین 
ان طا لب علمو ں کی مرتب کردہ فہرستوں میں علوم کی درجہ بندی کا یہ فرق اس مقصد اور تعلق (relevance) کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جس کی خا طر یہ طلبا علم حا صل کرنا چا ہتے ہیں۔ چنا نچہ اگر آپ کسی انجینئرنگ کے طا لب علم سے تاریخ کی اہمیت پر بات کریں تو شاید اس کے نزدیک تاریخ ایک غیر اہم علم کہلائے، لیکن اگر کسی فلسفی کی نظر سے دیکھا جائے تو تاریخ سے زیادہ اہم علم کوئی اور نہ ہوگا ۔ اس مثال میں نو ٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ معلومات کی علمی حیثیت اور اس کی درجہ بندی طے کرنے میں علم حاصل کرنے والے شخص کا مقصد فیصلہ کن اہمیت کا حا مل ہوتا ہے۔ اس بات کو مزید وا ضح کرنے کے لیے ایک اور مثال پر غور کریں۔ آپ اور ہم بچپن سے یہ بات سنتے چلے آئے ہیں کہ ’اصل علم تو قرآن و حدیث ہی ہیں‘۔ آج کے جدیدیت پسند مفکرین کو یہ بات مبالغہ انگیز ی دکھا ئی دیتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے آیا واقعی یہ مبا لغہ انگیزی ہے یا حقیقت وا قعہ ہے؟ اور اگر حقیقت ہے تو کن معنوں میں یہ بات درست ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے اسلام کے نزدیک انسانی زندگی کے مقصد پر غور کریں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ بات نہایت وا ضح طریقے سے بیان کی ہے کہ انسانی زندگی کا مقصد دنیا وی زندگی کوپرلطف بنانے کے لیے کائنات کو مسخر کر نے کی سعی کرنا نہیں بلکہ اپنے رب کی عبادت کرنا اور اس کی خوشنودی حا صل کرنا ہے ، نیز یہ کہ انسان کو یہ زندگی اس کے کسی حق کے طور پر نہیں دی گئی کہ جسے وہ جیسے چا ہے ترتیب دے ، بلکہ یہ زندگی اسے آزمائش کے لیے دی گئی ہے۔ جب یہ طے ہو گیا کہ زندگی کا مقصد آزمایش اور حصول رضاے الٰہی ہے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آزمایش جس شے میں ہو رہی ہے، اس کا علم کہاں سے حا صل ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں رضا ے الٰہی حا صل کرنے کے طریقے کا علم کہا ں سے ہو گا؟ کیا ہر شخص آزاد ہے کہ اپنی طرف سے زندگی کا جو بھی مقصد چا ہے بنا لے یا اس کے رب نے اس کی ہدایت کا کوئی انتظام کیا ہے؟ ہر شخص جا نتا ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے ہدایت انسانی کے لیے انبیا و رسل کا سلسلہ جاری فرمایا اور اس ہدایت کے حصول کا آخری اور واحد معتبر ذریعہ قرآن و حدیث نبوی کی صورت میں موجود ہے۔ چنا نچہ یہی وہ وا حد ذریعہ علم ہے جس سے رضاے الٰہی کے حصول کا طریقہ جا نا جا سکتا ہے اور اس ذریعہ علم کو چھوڑ کر اس دنیا میں اور کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے انسا ن یہ جان سکے کہ میرا رب مجھے کس شے میں آزما نا چا ہتا ہے، نیز وہ میرے کن اعمال سے خوش ہو گا اور کون سے اعمال اس کی نا را ضگی کا با عث ہوں گے۔ پس ثا بت ہوا کہ انسانی زندگی کے مقصد ’ عبادت رب‘ کے معیار پر پورا اترنے والا علم وہی ہے جسے مولوی صاحب ’قرآن و حدیث ‘ کہتے ہیں، لہٰذا یہ بات سو فیصد درست ہے کہ ’اصل علم تو قرآن و حدیث ہی ہیں‘، نیز دیگر عقلی علوم کی درجہ بندی ان علوم کے اس مقصد حیات کے حصول میں معا ونت و عدم معا ونت کے اصول پر طے کی جا ئے گی۔ جو علم اس مقصد حیات کے حصول میں جتنا زیادہ ممد و مددگار ہوگا، اسلامی نظریہ علم میں اتنا ہی اہم کہلائے گا، اور جس علم کا تعلق اس مقصد کے ساتھ جتنا کمزور ہو گا، وہ علوم کی درجہ بندی میں اتنا ہی نیچے دکھائی دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں قرآن و حدیث کے بعد صرف ونحو، فقہ و اصول، کلام و منطق وغیرہ کو خصوصی اہمیت حا صل رہی ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات وا ضح ہو جا نی چا ہیے کہ ہر تصور علم (یعنی مجموعہ معلومات کی نوعیت) اور اس کی درجہ بندی چند مابعد الطبعیاتی ایمانیا ت کی مرہون منت ہوتی ہے، نیز مقصد حیات کی با بت عقائد بدل جا نے سے تصور علم بھی بدل جا تا ہے۔ چنا نچہ کسی تہذ یب سے نکلنے والے تصور علم اور معلومات کی درجہ بندی کو اس تہذ یب کی ایمانیات سے ما ورا ہو کر سمجھنا نا ممکن ہے اور جو شخص بھی ایسی کوشش کرے گا، لازماً غلط نتا ئج تک ہی پہنچے گا۔ ایمانیات اور تصور علم کے تعلق کی اس اصولی بحث کے بعد اب ہم سرمایہ دارانہ تصور علم کی تفصیلات کی طرف آتے ہیں۔ 

۲) سا ئنسی علم کی نوعیت اور اس کے تصور حقیقت سے اس کا تعلق 

آ ج کی دنیا بالخصوص مغربی دنیا میں جب بھی لفظ علم بولا جا تا ہے تو اس سے مراد عام طور پر ’سائنس و ٹیکنالوجی‘ ہی سمجھا جا تا ہے۔ ایک دور ایسا بھی تھا کہ جب موجودہ سائنس و ٹیکنا لو جی نامی کوئی بھی شے علم کے مسمیٰ کے طور موجود نہ تھی۔ کچھ لوگوں کا خیا ل ہے کہ سا ئنس و ٹیکنالوجی کا موجودہ علم تمام انسانی تہذیبوں میں تحلیل ہوتا ہوا اپنا تاریخی سفرطے کرکے اس منطقی منزل تک پہنچا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کے نزدیک علم ایک مسلسل تاریخی عمل (Historical progression) کا نام ہے جو کسی قسم کی ایمانیات کا مرہون منت نہیں۔ ہمارے متجددین حضرات اس فکر کو اس وجہ سے اپنا تے ہیں تا کہ موجودہ سائنس کو اسلامی تاریخ کا تسلسل ثا بت کر دکھا ئیں۔ ہو سکتا ہے اس تجزیہ میں ان کے لیے خوشی کا بہت سا سامان ہو ، لیکن حقیقت علم کا یہ تجز یہ کوئی علمی حیثیت نہیں رکھتا۔ سرمایہ دارانہ علم (یعنی سائنس و ٹیکنالوجی وغیرہ) کسی مسلسل تا ریخی عمل کے نتیجے میں نہیں بلکہ انسانی زندگی و کا ئنات کے بارے میں تصور حقیقت کی ایک ایسی تبدیلی سے پیدا ہوا جو تحریک تنویر (enlightenment) کے نتیجے میں عام ہوئی۔ 
۲.۱ : سر مایہ دارانہ تصور حقیقت کی ایمانیات 
اس تصور حقیقت نے جن بنیادی ایما نیات اور اقدار کو اپنانے کی طرف دعوت دی وہ مختصراً یہ تھے (ان اقدار کی تفصیلی وضاحت ہم نے اپنے جمہوریت کے مضمون میں بیان کی ہے، دیکھئے: ساحل ، نومبر ۲۰۰۶): 
الف) آزادی جس کا معنی یہ ہے کہ ہر شخص اپنی خواہشات کی ترتیب متعین کرنے کا اخلاقی طور پر مستحق ہے، یعنی یہ اس کا حق ہے کہ وہ جو چاہنا چاہے، چاہ سکے اور اپنی چاہت حاصل کرنے کا زیادہ سے زیادہ مکلف ہونے کی جدوجہد کرے۔ مختصراً آزادی کا معنی خیرو شر طے کرنے کا حق انسان کو حا صل ہونا ہے، یعنی انسان کے ’حق ‘ کا ’خیر و شر‘ پر فوقیت رکھنا ہے [prioritization of right over good] (آسان لفظوں میں یہ تصور کہ خیر اور شر کا منبع اور اس کا تعین نفس انسانی سے ہوتا ہے )۔ مغربی انسان خود کو قائم بالذات (self-determined) اور آزاد (autonomous) تصور کرتا ہے، دوسرے لفظوں میں آزادی کا مطلب ہے ’عبدیت‘ کا رد، یعنی انسان کی حقیقت عبد ہونا نہیں بلکہ قائم بالذات یعنی خود اپنا خدا ہونا ہے، کیونکہ انسان کو خیرو شر طے کرنے کا حق دینے کا مطلب اس بات کا انکار ہے کہ وہ عبد ہے اور اس کا مقصد حیات خواہشات کی تکمیل نہیں بلکہ خواہش کی نفی کرکے اپنے نفس کو خدا کی رضا کے آگے جھکا دینا ہے ۔
ب) مساوات جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام انسانوں کی خوا ہشات کی ترتیب اور ان سے طے پانے والے تصور ات خیر مساوی اہمیت کے حا مل ہیں اور ان میں اصولاً کسی قسم کی درجہ بندی کرنا نا ممکن ہے، یعنی تمام تصورات خیر و شر اور زندگی گزارنے کے تمام طریقے برابر حیثیت رکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مساوات کا معنی ہے ’نظام ہدایت‘ کا رد ، یعنی اس بات کا انکار کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر بتانے کے لیے ہدایت کا کوئی سلسلہ انبیاے کرام کے ذریعے قائم کیا ہے ، نیز انبیاے کرام کی تعلیمات خیر و شر طے کرنے کا کوئی حتمی معیار ہیں ۔ یہ اس لیے کہ نظام ہدایت کا معنی ہی یہ ہے کہ تمام انسانوں کی خواہشات کی ترتیب ہرگز مساوی معاشرتی حیثیت نہیں رکھتیں بلکہ وہ شخص جس کی خواہشات کی ترتیب تعلیمات انبیا کا مظہر ہیں، تمام دوسری ترتیبوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں نظام ہدایت مساوات کا نہیں بلکہ حفظ مراتب کا متقاضی ہے جس میں افراد کی درجہ بندی کا معیار (differentiating factor)تقویٰ ہوتا ہے۔ نیز اسلامی معاشرے و ریاست کا مقصد جمہوری معاشرے کی طرح ہرفرد کو اپنی اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کے مساوی مواقع فراہم کرنا نہیں بلکہ ان کی خواہشات کو نظام ہدایت کے تابع کرنے کا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظریہ ریاست میں citizen(ایسی عوام جو اصولاً حاکم اور فیصلہ کرنے والی ہوتی ہے) اور عوامی نمائندگی (Representation of citizens) کا کوئی تصور ہے ہی نہیں کیونکہ یہاں عوام citizen نہیں بلکہ رعایا ہوتی ہے اور خلیفہ عوام کا نمائندہ نہیں ہوتا کہ جس کا مقصد عوام کی خواہشات کے مطابق فیصلے کرنا ہو بلکہ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہوتا ہے جس کا مقصد رعایا کی خواہشات کو شریعت کے تابع کرنے کے لیے نظام ہدایت کا نفاذ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس آزادی و مساوات کا معنی یہ ہے کہ خیر و شراور اپنی منزل کا تعین انسان خود طے کرے گا اور ہر شخص کا تصور خیرو زندگی گزارنے کا طریقہ مساوی معاشرتی حیثیت رکھتا ہے اور ریاست کا مقصد ایسی معاشرتی صف بندی وجود میں لانا ہوتا ہے جہاں ہر فرد اپنی خواہشات کو ترتیب دینے اورانہیں حاصل کرنے کا زیادہ سے زیادہ مکلف ہوتا چلا جائے ۔
ج) ترقی جس کا حاصل یہ ہے کہ زندگی میں انسان کا مقصد اپنے ارادے اور خواہشات کی زیا دہ سے زیادہ تکمیل (maximum satisfaction) ہے اور ارادہ انسانی کی یہی منتہا تکمیل ترقی کا جوہر ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ترقی کا مطلب ہے ’آخرت‘ کا اور دنیا کے ’دارلامتحان ‘ ہونے کارد اور دنیاوی زندگی کو بذات خود مقصد (End in itself) سمجھنا ہے۔ ترقی درحقیقت وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے آزادی اور مساوات کا اظہار ممکن ہوتا ہے، یعنی اگر کوئی معاشرہ آزادی اور مساوات کے اصول پر زندگی گزارنا چاہتا ہے تو وہ واحد طریقہ جس کے نتیجے میں ہر فرد اپنی خواہشات کی ترتیب طے کرنے اور اسے حاصل کرسکنے کا مکلف بن سکتا ہے، ترقی یعنی سرمائے میں لامحدود اضافہ کرنے کی جدوجہد ہے ۔
تصور حیات کی اس تبدیلی کے بدولت ایک ایسے ’جدید انسان ‘کی تخلیق ہوئی جسے ہیومن (Human being)کہتے ہیں ۔ تحریک تنویر سے قبل اس انسان کا کوئی معاشرتی وجود نہ تھاکیونکہ ہر مذہب میں انسان سے مراد عبد (Mankind) ہی سمجھا جاتا تھا جو اپنی پہچان اور وجود خود اپنی ذات سے نہیں بلکہ خدا کے وجود سے حاصل کرتا تھا ، ہاں یہ الگ بات ہے کہ مختلف مذاہب کے ما بین اظہار عبدیت کے معتبر طریقے میں اختلاف موجود تھا۔ فوکالٹ (بیسویں صدی کے مشہور ترین مغربی فلسفیوں میں سے ایک) کا یہ کہنا صد فیصد درست ہے کہ ہیومن تو پیدا ہی سترہویں صدی میں ہوا ہے، اس سے پہلے کسی تہذیب اور نظام زندگی میں ہیومن کا تصور موجود ہی نہیں تھا۔ ہیومن (وہ انسان جو خود کو قائم بالذات سمجھتا اور آزادی کا خواہاں ہے ) مغربی نظام زندگی کی روح رواں ہے اور تمام مغربی علوم جس انسان کے رویے سے سے بحث کرتے ہیں، وہ یہی ہیومن ہے نہ کہ عبد۔ یہ ایک ایسا انسان تھا جس کی دلچسپی کا محور مذہبی رسوم عبودیت بجا لانے کے بجائے دنیاوی معاملات سے بے پناہ رغبت تھی، اور جس میں ایک ایسا نیا ولولہ اور جوش تھا جو اسے غیر مشروط آزادی کی طرف مائل کرتا تھا۔ اس تبدیلی کی تصویر کشی ڈاکٹر ظفر حسن نے اپنی کتاب ’’سر سید اور حالی کا نظریہ فطرت‘‘ میں خوبصورت الفاظ میں کی ہے: 
’’یہ ایک ایسا انسان تھا جو اپنے سے پہلے والے انسان سے ہر قسم کا تعلق منقطع کر دینا چا ہتا تھا...اٹھا رویں صدی کے اوائل میں کہا جا نے لگا کہ بزرگوں نے نئی نسل کو ایک ایسا معا شرتی نظام دیا ہے جو نرا دکھاوا اور دھو کا ہے اور جو ہر برائی کا ذمہ دار ہے ... اٹھا رویں صدی کی نسلیں اس نظریے کو کہ انسان کو کوئی الہامی پیغا مات وصول ہوتے ہیں بالکل رد کرکے وحی کا انکار کر دینا چا ہتی تھیں ۔ القصہ مختصر وہ انسانی زندگی کو کسی حال میں بھی مذہبی طرزفکر سے نہ دیکھنا چا ہتی تھیں۔ ان کا گمان یہ تھا کہ وہ ایک نئی چیز کوجنم دیں گی، عقل کی روشنی سے وہ ظلماتی دور کو نیا نور بخشیں گی اور قدرت کے منصوبے کو دریافت کر لیں گی اور اس طرح انسان کا ایک پیدایشی حق یعنی انسانی خوشی اور خوشحالی انسان کے لیے بحال کر دیں گی ‘‘۔

۲.۲: سرمایہ دارانہ یا سائنسی علم کا مفہوم: ارادہ انسانی کی بالا دستی 

حیات انسانی کی مقصد یت کے بارے میں یہ گمراہ کن تصورات سترہویں اور اٹھا رویں صدی کی پیداوار ہیں جن کے نتیجے میں علم کا ایک نیا تصور ابھرا۔ اگر اس دنیا میں انسان کا مقصد ارادے اور خو اہشات کی تکمیل ہے تو پھر اس کائنات میں لامحدود خواہشات انسانی کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ یہا ں کی تمام اشیا و موجودات اس کے ارادے کے تابع ہوجائیں، کیونکہ جب تک وہ انسانی ارادے کے تابع نہیں ہو جا تیں، تکمیل خواہشات کا خواب کبھی شر مندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ مثلاً انسان کی ایک خوا ہش یہ بھی ہو سکتی تھی کہ وہ ہوا میں اڑے، لیکن اس کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ وہ زمین کی اپنی طرف گرانے کی قوت پر قابو پائے۔ اشیا و موجودات کو اپنے ارادے کے تابع کرنے کے لیے ضروری تھا کہ انسان ایسی معلومات حاصل کرنے کے در پے ہو جو اسے تسخیر کائنات کی راہ سجھا ئے۔ لہٰذا اس تصور حقیقت (کہ زندگی کا مقصد ارادہ انسانی کی تکمیل ہے ) سے جو تصور علم نکلا اس کے مطا بق علم سے مراد ایسی بات جاننا ہے جس کے ذریعے انسان اس چیز پر قادر ہو جا ئے کہ اس کے ارادے کی تکمیل کیسے ہوسکتی ہے اور وہ علم جو انسان کو یہ بتا تا ہے کہ کائنات پر اس کے ارادے کا تسلط کیسے ممکن ہے، اسے ’سائنس ‘ کہتے ہیں ۔ لہٰذا ترقی کا اصل معنی ہے علم کو سائنس کے ہم معنی قرار دینا، یعنی ترقی سے مراد ان معلومات میں اضافہ ہے جو انسانی ارادے کی تکمیل کو ممکن بناتی ہوں ۔ گویا مغربی تہذیب میں ’ارادے و خواہشات کی تکمیل ‘ ہی معلومات کے مجموعے اور عالم (knower)کے درمیان تعلق کی بنیاد ٹھہر ا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب میں علم وہ چیز جاننا نہیں ہے کہ جس سے انسان اپنے رب کی رضا جان لے، یعنی علم یہ نہیں کہ مجھے وضو یا غسل وغیرہ کرنے کا طریقہ اور مسائل معلوم ہو جائیں بلکہ علم تو یہ ہے کہ میں یہ جان لوں کہ پنکھا کیسے چلتا ہے، بجلی کیسے دوڑتی ہے، جہاز کیسے اڑتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ گویا اب علم رضا ے الٰہی کے حصول کا طریقہ جان لینا نہیں، بلکہ تسخیر کا ئنا ت یا با الفاظ دیگر انسانی ارادے کے کائناتی قوتوں پر تسلط قائم کرنے کا طریقہ جان لینے کے ہم معنی بن گیا ۔ دوسرے لفظوں میں یہاں علم اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں بلکہ نفس انسانی کی رضا اور اس کی تکمیل کا سامان فراہم کرنے والی معلومات کا نام پڑ گیا۔ تصور علم کی یہ تبدیلی انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی تبدیلی تھی جس نے انسان کی کامیابی کو کسی خدا کی اطا عت (obedience) کے ساتھ نہیں بلکہ لا متناہی خواہشات انسانی کی تکمیل و ارادہ انسانی کے تسلط (dominance) کے ساتھ مشروط کر دیا۔ سائنسی علم کا یہ مقصد اور اس کے پھیلاؤ کے لیے درکار ضروری اسباب کا نقشہ سائنس کے موجدین اور فلاسفہ نے بڑے وا شگاف الفاظ میں بیان کیا تھا۔ مثلاً گلیلیو کا مشہور مقولہ ہے: Bible shows us the way to heavens, but it does not show the way heavens go یعنی ’ بائبل ہمیں جنت میں جا نے کا راستہ تو بتاتی ہے، مگر یہ نہیں بتاتی کہ یہ کائنات کیسے چلتی ہے‘۔ مشہور تاریخ دان H.G. Wellsرا جر بیکن جسے جدید سائنس کا بانی سمجھا جاتا ہے، کے خیا لات کو کچھ اس طرح خراج تحسین پیش کرتا ہے: 
’’ بیکن کی کتابیں جہالت کے خلاف بغاوت تھیں۔ اس نے اپنے دور کے لوگوں کو بتایا کہ وہ جہالت میں ڈوبے ہوئے ہیں، اوریہ ایک ایسی بات تھی جسے اس دور میں کہنے کے لیے بہت ہمت درکار تھی۔ قرون وسطی کے لوگ اپنے دور کی ذہانت اورایمانیات کے سچ ہونے کے بارے میں جذباتی حد تک قائل تھے اور ان کے خلاف ہر گز کوئی تنقید بر داشت نہ کرتے۔ راجر بیکن کی کتابیں ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کی کرن تھیں۔ وہ کہتا تھا کہ ’ غیر عقلی ایمانیات اور مسلمہ مقتدرہ (Authority) کی پیروی کرنا چھوڑ دو‘۔ دنیا پر غور کرو، (حصول علم کے لیے) تجربہ تجربہ اور تجربہ (پر زور ) ہی اس کا مقصد تھا۔ اس نے جہالت کے چار اسباب بیان کیے: مسلمہ مقتدرہ کا احترام، اسلاف کے طور طریقوں پر عمل ، ریت و رواج کی پیروی ، اور ہمارے فخریہ مگر نہ سمجھ آنے والے دکھاوے۔ اگر ہم ان چیزوں سے جان چھڑالیں تو پھر سائنسی ایجادات اور مکیینیکل قوت سے بھر پور ایک نئی دنیا انسانیت کو دکھائی دے گی۔ ۔۔(میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ) بحری سفروں کے لیے بغیر ملا حوں کی ایسی مشینیں بنانا ممکن ہے جسے صرف ایک آدمی اس کشتی کی رفتار سے کئی گنا تیز چلا سکتا ہو گا جسے کئی ملا ح مل کر چلاتے ہیں۔ اسی طرح بغیر ڈھور ڈنگر سے چلنے والی ایسی سواریاں بنانا بھی ممکن ہے جو پرانے دور کی تیز ترین سواریوں سے تیز چلتی ہوں گی۔ اور ہوا میں اڑنے والی ایسی مشینیں بنانا بھی ممکن ہے جس میں انسان بیٹھ سکتا ہو اور وہ مشین بالکل پرندوں کی طرح پر ہلاکر چلتی ہو‘‘ ۔
بیکن نے یہ تمام تفصیلات اپنی کتاب The New Atlantis میں بیان کی ہیں جس میں اس نے ایک ایسے فرضی جزیرے کی تصویر کشی کی ہے جہاں سائنسی تحقیقات کرنے والا ایک بہت بڑا ادارہ قائم کردیا گیا ہے۔ جہاں کا حاکم آنے جانے والے لوگوں کو اس جگہ کی سیر کرا تا ہے اور ان سے کہتا ہے: ’’ ہمارے اس ادارے کا مقصد علل و معلول (cause and effect) و حرکت کائنات کے قوا نین اور انسانی ارادے کی حدود کی توسیع کرنے کے طریقے کا علم حا صل کرنا ہے تاکہ ہر چیز کرنا ممکن ہو سکے‘‘۔ ( A Short History of the World, by H.G. Wells, p. 200-01، بحوالہ مریم جمیلہ صا حبہ کی معرکہ آرا کتا ب Modern Technology and the Dehumanization of Man)۔ اس تصور علم میں فطرت ان معنوں میں انسا ن کی حریف ٹھہری کہ یہ انسانی ارادے کی تکمیل پر حد بندی کرتی ہے اور اسے تسخیر کرکے انسا نی ارادے و خوا ہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا ضروری ٹھہرا۔ آج بھی مو جودہ سائنسی علمیت کا یہ جنون ہے کہ انسانی عقل کو استعمال کر کے فطرت کے تمام رازوں سے پردہ اٹھا نا نیز انسانی ارادے کو خود اس کے اپنے سوا ہر بالا تر قوت سے آزاد کرنا عین ممکن ہے ۔ سائنس دانوں کا خیا ل ہے کہ جینیٹکس (Genetics) کی فیلڈ میں تحقیقات کرکے انسانی خون میں ایسی تبدیلیاں لانا ممکن ہے جس کے بعد اس کے اندر پائے جا نے والے غضب اور حسد جیسے جذبات کو ختم کرکے دنیا کو جنگوں سے نجات دلائی جا سکے گی، اسی طرح سائنس دانوں کو امید ہے کہ موت پر قابو پانا ممکن ہے ، اور نجا نے کیا کچھ اور۔ سائنس کے اس اصل جنون کا اظہار دور جدید کی انگریزی زبان میں بننے والی سائنس فکشن فلموں میں سب سے واضح انداز سے نظر آتا ہے جن کے جملوں ، الفاظ اور مرکزی خیالات میں نت نئے انداز کے ساتھ انسان کی خود اپنا خدا بننے کی خوا ہش جلوہ گر ہوتی ہے۔ 

مسلمانوں میں سائنس کیوں عروج نہ پا سکی ؟ 

تصور علم کی اس یکسر تبدیلی کو کلیتاً نظر انداز کرنے کے نتیجے میں اکثر مسلم جدیدیت پسند مفکرین دو غلط فہمیوں کا شکار ہو گئے۔ ایک طرف تو وہ قرآن و سنت کے علم کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے بلکہ ان کے نزدیک اصل علم سائنس و ٹیکنالوجی ہی کا علم ہے ، اور دوسری طرف وہ سائنس کو اسلامی تاریخ میں تلا ش کرنے اور مسلمانوں کو سائنس کا موجد ثابت کرنے کی نا کام کوششوں میں اپنی توا نائیاں صرف کرتے رہتے ہیں ۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ تقریباً پچھلی ایک صدی کی بھر پور تحقیقات کے بعد بھی جدیدیت پسند حضرات اسلام کی ابتدائی ایک ہزار سا لہ تاریخ میں پچا س سے زیادہ مسلم سائنس دونوں کے نام تلاش نہ کرسکے جبکہ اس کے مقابلے میں جدیدیت کی صرف تین سو سالہ تاریخ سے ہزاروں نہیں بلکہ لا کھوں سائنس دانوں کی فہرست مرتب کی جا سکتی ہے؟ اسی بات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ سے اگر ان لوگوں کے نا موں کی فہرست تیار کی جائے جنہوں نے قرآن و علوم قرآن ، حدیث و علوم حدیث ، فقہ واصول فقہ وغیرہ پر علمی تحقیقا ت پیش کیں تو بلا مبالغہ لاکھوں افراد کے ناموں کی فہرست تیار ہو جا ئے گی، جبکہ اگر اسی معیار پر جدیدت کی تاریخ میں عیسائی علمیت پر کام کرنے والے افراد کے نام تلاش کیے جائیں تو انہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ کیا اس سے ثا بت نہیں ہو تا کہ اصل اسلامی علمیت کیا ہے؟ نیز سائنسی تحقیقا ت وغیرہ اصل علمیت (main stream discourse) سے دور کی چیز یں تھیں۔ اگر چند افراد اپنے شوق کی تسکین کی خا طر ان تحقیقات کے پیچھے پڑتے بھی تھے تو اس کے ذریعے انہیں معا شرے میں کوئی اونچا مقام و مرتبہ حاصل نہ ہوتا بلکہ ’امام‘ اور ’علامہ‘ جیسے با وقار الفاظ ہمیشہ اسلامی علوم کے ما ہرین ہی کا خا صہ ہوتے تھے ۔ اس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ افراد جنہیں مسلمان سائنس دانوں کی حیثیت سے پیش کیا جا تا ہے ان میں سے اکثر و بیشتر کی مسلمانیت ہی مشکوک رہی ہے۔ مثلاً کندی اور فا رابی کا نام بڑے فخر سے بیان کیا جا تا ہے، لیکن کون نہیں جا نتا کہ ان کے افکار کس قدر گمراہ کن تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام سائنسی قسم کے مسلمان معتزلی یلغار کے بعد کی پیداوار ہیں، اور ان میں سے اکثر و بیشتر کا تو تعلق ہی معتزلی گروہ سے تھا۔ ایسے افراد کو اسلامی تاریخ کا ہیرو ثا بت کرنے کا مطلب اپنی اصل علمیت کو غیر معتبر ثا بت کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ؟ 
سائنسی علمیت، ترقی، تسخیر کائنات اور تصرف فی الارض جیسے تصورات اسلامی علمیت کے لیے کس قدر اجنبی ہیں، ان کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ فقہاے کرام نے جہاں اسلامی زندگی اور معاشرت و ریاست کے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کی وضاحت کے لیے کتب فقہ میں مستقل ابواب اور فصلیں قائم کی ہیں، وہاں ترقی اور تسخیر کائنات جیسے عنوانات کے تحت ایک فصل بھی نہیں ملتی، یعنی کسی فقیہ نے ایسا کوئی باب تو درکنار فصل بھی مرتب نہ کی جس میں ترقی یا تسخیر کائنات یا سائنسی تحقیقات کی شرعی حیثیت پر بحث کی گئی ہو۔ ایسے ہی کسی محدث نے بھی کتب احادیث میں ان موضوعات کے تحت احادیث جمع نہ کیں۔ اگر تسخیر کائنات، ترقی، معیار زندگی، آزادی، مساوات جیسے تصورات واقعی اسلامی علمیت کے ’اہم و مقصود‘ موضوعات ہوتے تو فقہا یقیناًان عنوانات کے تحت شرعی مسائل بیان کرنے کی خاطر ابواب اور فصلیں لکھتے، محدثین چن چن کر ایسی تمام احادیث جمع کرڈالتے جو ترقی اور دنیا سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہونے کے جذبات ابھارنے والی ہوتیں۔ اس کے بر خلاف ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ محدثین کرام کتب احادیث میں کتاب الرقاق اور کتاب الزہد جیسے عنوانات قائم کرکے وہ احادیث بیان کرتے ہیں جو تسخیر کائنات اور تصرف فی الارض کی خواہشات کم کرنے کا سبق دیتی ہیں۔ در اصل جدیدیت پسند حضرات یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہر علمیت کا میابی کے ایک مخصوص ما بعد الطبعیاتی تصور پر قائم ہوتی ہے اور ہر علمیت کا بنیادی مقصد افراد کو کامیابی کے ایک مخصوص تصور اور اس کے حصول کی جدوجہد میں منہمک ہونے کو بطور مقصد حیات قبول کرنے پر آمادہ کرنا ہوتا ہے۔ پس اگر دو مختلف داہروں سے نکلنے والی علمیتوں کے مقاصد مختلف ہوں گے تو یہ نا ممکن ہے کہ وہ دونوں ایک ساتھ پروان چڑھ سکیں۔ سائنس کو اسلامی علمیت میں تلاش کرنے کا مطلب یہ مان لینا ہے کہ اسلامی علمیت کا ہدف بھی انسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے تسخیر کائنات کرنا ہے۔ 
ایسا نہیں ہے کہ صرف مذہبی معا شروں میں ہی سائنسی علمیت نہیں پھیل سکتی، بلکہ سائنسی معا شروں میں بھی مذہبی علمیت برگ و بار نہیں لا سکتی (ذرا بیکن کے اوپر دیے گئے خیالات ایک بار پھر دہرا لیں )۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ علم کے اس جا ہلانہ تصور کو عوام الناس میں رائج کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اس وقت کے معاشروں میں پائے جانے والے مقبول عام تصور علم کو غیر معتبر اور لا یعنی ثا بت کیا جائے۔ قرون وسطی میں موجود علمیت کوئی اور نہیں بلکہ عیسائی علمیت تھی جسے ہر طرح کے جھوٹے پروپیگنڈوں اور نام نہاد عقل پرستی کے دعووں کی آڑ میں حقارت سے دیکھا جا نے لگا۔ اس ضمن میں اہم بات یہ کہ عوام الناس کا عیسائی علمیت سے ایمان کمزور کرنے کے لیے سب سے ضروری یہ تھا کہ اس علمیت کے حا مل فرد یعنی پوپ کی شخصیت کو متنازع اور مشکوک بنا یا جائے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ عوام الناس کا رابطہ کیتھو لک چرچ کے ساتھ ٹوٹ جائے جہاں سے انہیں دنیا کے دارا لا متحان ہونے اور آخرت کی تیاری کا سبق ملتا تھا تاکہ جدیدیت کے حامی ان کے قلوب میں دنیا داری کے بیج بو سکیں۔ جدیدیت دنیا کے جس ملک میں بھی گئی اس نے مذہبی پیشواؤں کے عوامی اثر و رسوخ کم کرنے کے تمام حربے استعمال کیے۔ سرمایہ داری اس وقت تک معا شروں کو مسخر نہیں کر سکتی جب تک افراد زندگی کے ہر معا ملے کو معاد کے بجائے معاش کے نقطہ نگا ہ سے نہ دیکھنے لگیں، اور نقطہ نظر کی یہ تبدیلی مذہبی پیشواؤں اور اداروں سے لا تعلقی پیدا کیے بغیر نا ممکن ہے۔ 

روایتی اداروں کی اہمیت

یہ نہا یت اہم بات ہے جس کی کچھ مزید تفصیل ہم یہاں بیا ن کرنا چا ہیں گے۔ خاندان ، مسجد، مدرسہ اور خا نقاہ اسلامی معاشروں کے ایسے فطری ادارے ہیں جو جدیدیت کے پھیلاؤ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ لیکن جدیدیت کے پھیلاؤ نے مسلمانوں کا خا نقاہ سے تعلق تقریباً ختم کر دیا ہے جو یقیناًخطرے کی علامت ہے کیونکہ خا نقاہ ہی وہ ادارہ تھا جہاں لوگ بچپن ہی سے اپنے بچوں کے تزکیہ نفس کا سامان فراہم کرنے کے لیے انہیں کسی مرد صا لح کے ہاتھ بیعت کراکے ان کی صحبت اختیار کرنے کی ترغیب دلاتے، اور اس سلسلے کے ختم ہو جا نے کے بعد اب مسلمانوں میں تز کیہ نفس کا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ کسی تہذیب کا زوال درحقیقت ان اداروں کی ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے عیاں ہوتا ہے جو ایک تہذیب کے مقا صد کے حصول کی خاطر افراد کے تعلقات کے نتیجے میں ابھرتے ہیں۔ افراد جب کسی شے کے حصول کو اپنا مقصد بنا تے ہیں تو اس کے حصول کے لیے کوئی نہ کوئی انتظامی شکل ضرور اختیار کرتے ہیں اور بہت سی انتظامی شکلوں میں سے وہی شکل زندہ رہ جاتی ہے جو زیادہ مؤثر اور قابل عمل ہوتی ہے۔ کوئی مخصوص انتظامی ہیئت ان معنوں میں تو ضروری نہیں ہوتی کہ وہ بذات خود اصلاً مطلوب تھی ، مگر ان معنوں میں یقیناضروری ہوتی ہے کہ اس کی بقا سے افراد کے معا شرتی مقاصد قائم رہتے ہیں اور اس کا انہدام ان تمام مقاصد کے انہدام کا باعث بھی بنتا ہے جو اس کے ساتھ مربوط ہوتے ہیں۔ اس کی وضاحت ایک آسان مثال سے کی جا سکتی ہے۔ ہمارے گاؤ ں دیہات میں ترپال، چوپال اور بیٹھک لوگوں کی روز مرہ زندگی کا لازمی حصہ ہوا کرتے تھے (کہیں کہیں اب بھی یہ نشستیں مو جود ہیں)۔ اب دیکھیے، اسلام چا ہتا ہے کہ اس کے ماننے والوں کے تعلقات سے جو معا شرہ وجود میں آئے وہاں پڑوسیوں کی خوب خبر گیری ہونی چاہیے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ خیال کیسے رکھا جا ئے؟ اس کا انتظام کیا ہو؟ کیا ہر شخص روز انہ رات سونے سے پہلے اپنے پڑوسی کا دروازہ بجا کر اس سے پوچھے کہ بھا ئی کیسے ہو؟ ظا ہر ہے ایسا تو نہیں ہو سکتا، مگر پھر کیا ہو ۔ اب ذرا غور کریں کہ یہ بیٹھک کیا ہے؟ عام نشست کی ایسی جگہ جہاں لوگ شام کے وقت تھوڑی دیر دل لگی اور فرحت طبع کے لیے اکھٹے بیٹھتے جس کے ذریعے انہیں پورے گاؤں اور اس کے اطراف کے لوگوں کے حالات معلوم ہوتے ، مثلاً گاؤں میں کون بیمار ہے، کس کے گھر شادی ہے، کس کے گھر فوتگی ہوئی وغیرہ وغیرہ۔ اگر کوئی شخص دو دن تک بیٹھک نہ آتا تو لوگ اس کے گھر خیریت معلوم کرنے جاتے۔ یوں سمجھیے کہ ایک طرف تو یہ گاؤں کے حالات حاضرہ کو افراد تک پہنچا نے کا ایک مکمل طریقہ تھا تو دوسری طرف ایک ساتھ مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کا خیال کرنے کی اقدار کے فروغ کا ذریعہ تھا۔ پڑوسیوں کی خبر گیری کرنے کا بھلا اس سے بہتر انتظام اور کیا ہو سکتا تھا؟ لیکن پھر ٹی وی آگیا اور ہرشخص فرحت طبع کے لیے اب بیٹھک کے بجا ئے اپنے اپنے گھر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے کا عا دی ہو نے لگا۔ نشستیں ختم ہونے لگیں، اور ان نشستوں کے ٹوٹنے سے وہ سارا ما حول بھی ہما رے معا شروں سے رخصت ہو گیا جو ان کا مر ہون منت تھا۔ کہا جا نے لگا کہ ٹی وی سے ہمیں خبریں ملتی ہیں، مگر کس کی خبریں؟ وہ خبریں جو ہمارے اسلامی معا شرے کی تشکیل کے لیے کسی کام کی نہیں۔ ٹی وی لوگوں کو یہ تو بتاتا ہے کہ بھا رت میں کس فلمی ہیرو کی شا دی کس ہیروئن سے ہوئی، امریکہ میں لوگ روزانہ کتنے کتے خریدتے ہیں، مگر انہیں یہ نہیں بتا سکتا کہ تمہارے پڑوسی کس حال میں ہیں۔ بیچارہ ٹی وی کیا کرے اس کی مجبوری یہ ہے کہ وہ وہی بات کہے گا جہاں سے اسے پیسے ملنے کی امید ہو کیو نکہ اس کا تو سارا دھندہ ہی اشتہاری کمپنیوں کے سرمائے کا فروغ ہے۔ ہم یہاں ٹی وی کے نقصانات کی بات نہیں کر رہے بلکہ معا شرتی مقا صد کے حصول کے ضمن میں اداروں کی بقا کی اہمیت و افادیت کی بات کر رہے ہیں کیو نکہ یہ ادارے ہی ہیں جو افراد کا تعلق کسی خا ص مقصد سے منسلک اور قائم رکھنے کا با عث بنتے ہیں۔ پس سرمایہ دارانہ علمیت کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ ایک طرف تو ہم اپنی مساجد اور مدا رس کے دا ئرہ کار کو بڑھائیں اور دو سری طرف خانقاہوں کو پھر سے زندہ کریں۔ 
۲.۳ : سرمایہ دارانہ علم کی خصوصیات ( طریقہ حصول علم کے اعتبار سے) 
سائنس یا سر مایہ دارانہ طریقہ حصول علم میں حتمی بات اور قانون معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ (اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سائنس پر ہمارے مضا مین ساحل اگست اور نومبر ۲۰۰۶ میں) سائنسی علمیت حقیقت کے ارتقائی تصور پر ایمان رکھتی ہے جسے سمجھا نے کے لیے ہم ارتقائی تصور علم کی چند خصو صیات بیان کرتے ہیں: 
(الف) غیر حتمیت (uncertainty): 
ارتقائی علمیت کا اول اصول یہ ہے کہ حتمی سچ جاننا نا ممکن ہے ، البتہ سائنسی طریقہ علم استعمال کرکے ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ انسانیت ایک حتمی سچ کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسانی کلیات کی مدد سے کسی حتمی سچ کا علم حاصل کرپانا ہی سرے سے ناممکن ہے۔ 
(ب) تردیدیت : 
اس تصور علم میں وہی دعوی اور قضیہ علم کہلانے کا مستحق ہے جسے تجربے میں لا کر رد کرنا ممکن ہو ۔ سائنس میں علم کو غیر علم سے ممیز کرنے کا معیار تردیدیت (falsification) ہے یعنی اگر کسی بات کو تجربے کے ذریعے غلط ثا بت کرنا نا ممکن ہو تو وہ علم کی تعریف پر پوری نہیں اترے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب میں زندگی بعد الموت وغیرہ جیسے حقائق علم نہیں سمجھے جا تے کیونکہ یہ سائنس کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے۔ اس بات کو دوسرے انداز سے یوں سمجھئے کہ ارتقائی علم وہی ہو سکتا ہے جسے غلط ثا بت کرنا ممکن ہو کیونکہ جو بات غلط ثا بت نہیں کی جا سکتی، اس میں ارتقا کہا ں سے آئے گا ؟ 
البتہ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ سرمایہ داری اور سائنس کی اپنی ایمانیات کبھی سائنس کے اس معیار پر نہیں جا نچی جا تیں بلکہ انہیں ما ننا تو ایما نیا ت کا حصہ ہے اور جو انہیں نہیں ما نتا وہ ہیو من کہلانے کا مستحق نہیں۔ مثلاً سا ئنس کا یہ مفروضہ کہ علم کا منبع انسان کی ذات ہے (یعنی علم انسان کی ذات سے نکلتا ہے) کسی بھی تجربے ثا بت نہیں کیا جا سکتا (یعنی یہ تردیدیت کے معیار پر پورا نہیں اترتا) لیکن پھر بھی سائنس اسے مفروضے کے طور ما ن کر آگے بڑھتی ہے۔ گو کہ سائنسی علمیت میں حوادثات عالم کی تشریح اور حقیقت کے لیے کسی ایسی مقصدیت کو تلاش کرنا جس کی نسبت ارادہ انسانی سے باہر مثلاً خدا کی طرف ہو، سائنس کے نزدیک ایک لایعنی بات ہے لیکن سائنس یہ نہیں بتا سکتی کہ خود انسانی ذات کی حقیقت کیا ہے بلکہ اسے آزاد اور خود مختا ر فرض کرتی ہے۔ ایسے ہی سائنس کا یہ مفروضہ بھی محض ایمان ہے کہ یہ کائنات کسی خارجی کنٹرول کے بغیر چلنے والا ایک ایسا مکمل قائم بالذات نظام ہے جس کے اندر تبدیلیاں اس کے اندرونی نظام کے تحت آتی ہیں، نیز اس کی معنویت سمجھنے کے لیے کسی خدا کی ضرورت نہیں بلکہ اس مشین کو علت و معلول کے چند اصولوں کے ما تحت سمجھنا ممکن ہے ( البتہ سائنس کی دنیا میں ہونے والی تازہ ترین Quantum Mechanics کی تحقیقات نے سائنس کے اس ایمان کی جڑیں ہلا کر کے رکھ دی ہیں)۔ گویا اگر انسان علت و معلول کے قانون کے ماتحت رونما ہونے والے سلسلے کو دریافت کرلے تو نہ صرف یہ کہ وہ اشیا کی حقیقت سمجھ سکتا ہے بلکہ اسے قابو میں لاکر ان پر اپنا تسلط قائم کرسکتا ہے۔ سائنس کے نزدیک انسان کا اپنی آزادی کی تکمیل کے لیے کائناتی تسلط قائم کرنا ہی اصل حقیقت اور مقصد انسانی ہے۔ 
(ج) شک نہ کہ ایمان : 
سرمایہ دارانہ تصور علم کے مطا بق کسی بات کو حتمی اور آخری سمجھ کر اس پر صمیم قلب سے ایمان لے آنا اور دوسروں کو اس کی دعوت و تبلیغ کرنا غیر علمی طریقہ کہلاتا ہے ۔ ہمیشہ اور ہر بات میں شک کرنا اور کسی چیز کو رد کرنے کی کوشش کرنا ہی اصل علمیت کہلا تی ہے ۔ جو شخص مذہبی حقائق پر ایمان لائے اسپر انتہا پسند ، بنیاد پرست اور دہشت گرد کے لیبل چسپاں کر دیے جا تے ہیں۔
(د) ترقی (بہتری): 
ہر نئے دور کا سچ پچھلے دور کے سچ سے بہتر گردانا جا تا ہے کیونکہ اس میں پچھلے دور کے تصور حقیقت کے اچھے پہلو کو شامل کرلیا جاتا ہے اور کمزور پہلووں کو چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ لہٰذا ہر آنے والا دور پچھلے دور سے بہتر ٹھہرتا ہے۔ مغربی دنیا میں سپنسر، ہیگل اور مارکس وغیرہ نے انسانی علم کے رفتہ رفتہ ایک خا ص منزل کی طرف بڑھنے کے تصور کی بنا پر تا ریخ کی اپنی اپنی تعبیرات پیش کی ہیں جن سب کا حا صل یہ ہے کہ بنی نو ع انسان بحیثیت مجموعی لا شعوری طور پر ایک ایسے عظیم الشان مقصد کی طرف رواں دواں ہے جہا ں پہنچنا اس کا مقدر ہے، لہٰذا ہر آنے والا دور پہلے سے بہتر ہے ۔ ان تمام تعبیرات کی حیثیت چند قصوں اور کہا نیوں سے زیادہ اور کچھ نہیں جو ان لوگوں نے اپنے اپنے کمروں میں بیٹھ کر گھڑ ی تھیں۔ 
جدیدیت پسند مسلمانوں کو مولوی کی یہ بات ایک آنکھ نہیں بھاتی کہ ’’ ہم مسلمانوں کا سب سے اچھا دور تو دور نبوی ، دور صحا بہؓ اور سلف صا لحین کا دور تھا جو گزر چکا، لہٰذا اب آنے والا ہر دور پہلے سے بہتر نہیں بلکہ برا ہو گا جیسا کہ احا دیث مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مولوی ہمیں پیچھے کی طرف لے جا نا چا ہتا ہے، اور اس میں شک بھی کیا ہے کہ مولوی تو یہی چا ہتا ہے کہ دنیا کسی طرح پھر ویسی ہی ہو جائے جیسی آقاے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحا ب کے دور میں تھی۔ اسی جرم میں مولوی پر دقیانوسی اور تنگ نظر ہونے کی پھپتی کسی جاتی ہے کہ یہ ہمیشہ یہ طے کرنے کے لیے کہ ’’ہمیں آگے کیا کرنا چا ہیے‘‘۔ مستقبل کے بجائے ما ضی کی طرف دیکھنے کو کہتا ہے ، یہ آج کے عمل کو ما ضی کے پیما نوں پر کسنے کی کو شش کر تا ہے، یہ ہدایت حا صل کرنے کے لیے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف پلٹنا سکھا تا ہے ، یہ تو ترقی کا دشمن ہے اور یہ دنیا کو پھر پتھروں کے دور میں وا پس لے جا نا چاہتا ہے۔ 
(ہ) ایک سے زیادہ حق کا امکان: 
اس نظریہ علم میں چونکہ کسی بھی چیز کی با بت مسلمہ اور حتمی علم موجود نہیں ہوتا ، لہٰذا ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ حق نیز دو مختلف افراد کے لیے دو مختلف حق ہو سکتے ہیں۔ سائنس کی دنیا میں بیک وقت ایک ہی شے کے بارے میں دو مختلف نظریات (theories) کا ہونا معمول کی بات ہے۔ 
(و) تحقیق برائے تحقیق کا نہج : 
چنانچہ تحقیق برائے تحقیق کا نام ہی علمی کاوش پڑ گیا، چاہے وہ تحقیق بندروں اور کتوں وغیرہ کے حالات زندگی جمع کرنے کا کام ہی کیوں نہ ہو۔ ہر لغو سے لغو بات جس میں انسانی خواہش کوئی معنی دیکھتی ہو لائق تحقیق ٹھیرتی ہے کیونکہ کسی شے کے معنی اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی روشنی میں نہیں بلکہ انسانی خواہشات اور ارادے کی تکمیل کے پیمانے پر تول کر متعین کیے جاتے ہیں۔ 
(ذ) ارتقائی تعبیرات کی تلا ش : 
دور حا ضر میں موجود ہر معاشرتی و انسانی ادارے و عمل کی وحی سے علی الرغم ایک ارتقائی تعبیر پیش کرنے کی روش عام ہو جا تی ہے اور اس فرضی قیاس آرائی کو ہی علمی کا رنامہ سمجھا جا نے لگتا ہے۔ اس ضمن میں ایک بہت عمدہ مثال یاد آئی۔ ایک مرتبہ ہمارے ایک بزرگ ساتھی (اللہ تعا لی انہیں جنت نصیب فرمائے) نے ایک محفل میں شادی کے مو ضوع پر ہونے والی ہوئی گفتگو میں تمام شرکاے مجلس سے سوال کیا: ’کیا آپ لوگ جا نتے ہیں کہ شادی کا ادارہ کیسے قائم ہوا؟‘ سب نے پو چھا کہ جناب آپ بتا ئیے ۔ تو انہوں نے کہا کہ اولاً تمام انسان بھی جانوروں کی طرح جنسی تعلقات استوار کرتے تھے، یعنی جس مرد و عورت کا جس سے دل چا ہا خوا ہش پوری کرلی۔ ایک عرصے تک معا ملہ یو نہی چلتا رہا، لیکن پھر آہستہ آہستہ انسا نوں میں جذبہ رقا بت نے جو ش مارا، اور لوگوں کو یہ بات بری محسوس ہونے لگی کہ کل تک جو عورت میرے ساتھ تھی، آج کسی اور مرد کے ساتھ کیوں ہے؟ اس جذبے کے زیر اثر انسانی معا شروں میں طا قت کے قانون کا راج شروع ہونے لگا یعنی جس نے آگے بڑھ کر پہلے کسی عور ت پر قبضہ جما لیا، پس وہ ہمیشہ کے لیے اس کی ہو گئی۔ پھر بچوں کی پیدائش کے بعد بیوی اور بچوں کی دیکھ بھال کے مسائل سامنے آنے لگے جنہیں حل کرنے کے لیے لوگوں نے کئی طرح کے قوانین بنانے شروع کر دیے۔ مثلاً یہ کہ بچوں کی ذمہ داری اسی پر ہو گی جس نے عورت پر قبضہ جما یاتھا وغیرہ وغیرہ۔ یوں انسانیت لمحہ بہ لمحہ آگے بڑہتی رہی یہا ں تک کہ لوگوں نے مرد و عورت کے جنسی تعلق کی بنیاد شادی کے ادارے کے ساتھ منسلک کردی۔ جب وہ بزرگ تمام کہانی سنا چکے تو میں نے پو چھا کہ یہ کہا نی آپ نے کہاں سے سنی؟ تو فرمانے لگے کہ فلاں سوشل سائنس کے جرنل میں فلاں محقق نے یہ مقا لہ لکھا ہے۔ میں نے کہا یہ بتا ئیں کہ اس پوری کہا نی میں انسانی معا شروں کی کردار سازی میں ایک لاکھ چو بیس ہزار سے زائد انبیاے کرام کا کردار کیا رہا؟ کیا انبیا نے لوگوں کو نہیں بتایا کہ انہیں کیسے زندہ رہنا چا ہیے؟ نیز کیا ان کی تعلیمات کا ان پر کوئی اثر نہیں ہو تاتھا؟ اس کہانی سے تو یہ تصور ابھرتا ہے کہ گویا اول تو انبیا نا م کی کوئی ہستی انسانی تا ریخ میں گزری ہی نہیں، اور اگر تھی بھی تو شاید وہ دنیا کی سیر وغیرہ کرنے کے لیے آتے تھے، نیز انسانوں اور معا شروں نے اپنی زندگیاں وحی الٰہی کی روشنی میں نہیں بلکہ اپنے حیوانی جذبا ت کے تحت گزاری تھیں۔ یہ کہانی تو ایسی ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیے بغیر یہ کہے کہ مسلمانوں کے معاشروں میں پایا جا نے والا شادی کا تصور در حقیقت اسلام سے قبل عربوں کے معا شرے میں پائے جانے والی جنسی بے راہ روی کی ارتقائی شکل ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ ایک مضحکہ خیز کہانی ہے، کیونکہ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ یہ معا شرتی تبدیلی انسانی جذبات کے محرکات میں ارتقا کے طور پر نہیں بلکہ ایک نبی کی تعلیمات پر عمل کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ دوسری بات یہ کہ اگر شادی کے ادارے کا یہ سفر کوئی ارتقائی سفر تھا تو پھر مغرب میں یہ ادارہ ٹوٹ کیسے گیا؟ ارتقا کا تقاضا تو یہ تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ مضبوط سے مضبوط تر ہو تا چلا جاتا ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی معاشرہ انبیاے کرام کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کرزندگی گزارتا ہے تو وہاں زندگی کا اظہار صرف حیوانی سطح پر ہی ہو تا ہے جس کا نظارہ ہم مغربی دنیا کی غلیظ اور پلید معا شرت میں کر سکتے ہیں ۔ 
یہ محض ایک مثا ل تھی، ورنہ اس طرز کی اور بھی کئی فرضی کہا نیاں ہمارے ہاں مشہور ہیں، مثلاً یہ کہ سب سے پہلے انسانیت پر غاروں اور پتھروں کا دور گزرا کہ جب سب لوگ غاروں میں رہتے تھے، پتے اور جا نوروں کی کھالوں سے اپنے بدن ڈھا نپتے تھے، جنگلوں میں جنگلیوں کی طرز کی زندگی اختیار کیے ہو ئے تھے وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام کہانیوں کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ یہ سب کی سب انسانی معا شروں کی تشکیل میں وحی اور انبیاے کرام کے کردار کو نظر انداز کرنے کے لیے گھڑی گئی ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں وحی کو علم نہیں سمجھا جاتا ۔ کیا کوئی مسلمان اس بات کا تصور کر سکتا ہے کہ معا ذاللہ انبیاے کرام جنگلیوں کی ما نند زندگیاں گزارتے رہے ہوں گے؟ 

تبدیلی شرا ئع اور فلسفہ ارتقا کا انوکھا گٹھ جوڑ 

یہاں اس بات کا ذکر فا ئدے سے خالی نہ ہوگا کہ مغرب کے اس مقبول عام ارتقائی تصور علم سے متاثر ہوکر ہمارے ہاں بھی انبیاے کرام کے حوالے سے ایک ارتقائی تعبیر اختیار کی گئی ہے جس کا حا صل یہ ہے کہ وقت اور حالات بدلنے کے ساتھ جوں جوں انسانیت آگے بڑھتی جا رہی تھی، اس کے مسائل بھی اسی لحا ظ سے تبدیل ہو رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ان ضروریات کا لحا ظ کرتے ہوئے مختلف رسل کو مختلف شریعتیں دیں۔ دوسرے لفظوں میں شریعتوں کا اختلاف انسانی حا لات میں ارتقائی تبدیلی آنے کا مرہون منت تھا ۔ چونکہ تبدیلی شرائع کی اس فرضی تعبیر کا مسئلہ یہ تھا کہ اس میں ختم نبوت کسی طرح فٹ نہیں ہوتی کیو نکہ انسانیت کا یہ سفر تو تا قیامت چلتا رہے گا، تو اسے مکمل کرنے کے لیے ایک اضا فی مفروضہ یہ گھڑ لیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت انسان بحیثیت مجموعی اپنے عہد طفولیت سے نکل کر عہد شباب میں دا خل ہو چکا تھااور گویا اب وہ اس قابل ہو گیا تھا کہ اسے ایک آخری اور اصولی پیغام دے کر ہمیشہ کی نبوت کے سہارے سے آزاد کر دیا جا ئے کیونکہ باقی کا سفر وہ اپنی عقل کی روشنی میں طے کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ تعبیر ایک فرضی کہانی ہے جس کے حق میں آج تک نصوص شرعیہ سے کوئی قطعی دلیل پیش نہیں کی گئی۔ محض قیاس آرائی ہی کو حتمی بات سمجھ کر پیش کر دیا گیا ہے۔ اس دعوے کے ثبوت کے لیے جن مثالوں کا سہارا لیا جا تا ہے، ان کا تصور ارتقا کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔ مثلاً تبدیلی احکامات کی ایک مثال یہ دی جا تی ہے کہ شریعت محمدی میں دو بہنوں کوایک ساتھ نکاح میں رکھنا حرام قرار دیا گیا جبکہ اس سے پہلے یہ جائز تھا۔ لیکن ہم یہ سمجھنے سے قا صر ہیں کہ آخر اس تبدیلی کا انسانی تمدن و حالات کے ارتقا سے کیا تعلق ہے؟ اسی طرح امت محمدی کے لیے بہت سے ایسے جانوروں کا کھا نا حلال قرار دیا گیا ہے جو پہلے کی امتوں پر حرام تھے، لیکن اس تبدیلی کا بھی ارتقا کے ساتھ کیا لینا دینا؟ کیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے نظام ہاضمہ میں کوئی تبدیلی آ گئی تھی کہ پہلے کا انسان انہیں ہضم کرنے کی صلا حیت نہ رکھتا تھا اور اب کے انسان میں یہ صلا حیت پیدا ہو گئی ہے، یا یہ کہ پہلے یہ جا نور نا پید تھے اور اللہ تعا لیٰ نے ان کی نسل کشی ہو جانے کے خوف سے ان کے کھا نے کو حرام قرار دیا تھا؟ آخر حالات کے ارتقا کا ان کی حرمت سے کیا لینا دینا؟ دوسری بات یہ کہ اگر اس کہا نی کو مان بھی لیا جائے تو بھی یہ دعویٰ قابل نزاع ہے کہ انسانیت کا عہد شباب آج سے چودہ سو سال پہلے آگیا تھا کیونکہ مغربی مفکرین کا دعویٰ یہ ہے کہ نیا انسان تو پیدا ہی سترہویں اور اٹھا رویں صدی میں ہوا جبکہ اس سے پہلے کا انسان محض افسانوں اور کہانیوں پر یقین رکھتا تھا۔ تیسری بات یہ کہ تبدیلی کا یہ عنصر تو بدستور جاری و ساری ہے، مثلاً صنعتی انقلاب کے بعد کے انسان کے معا شرتی و معا شی مسائل پہلے سے بہت مختلف ہیں تو ارتقا کی اس تعبیر کا تقا ضا یہ ہوا کہ شریعت کے بہت سے احکامات اب منسوخ قرار دیے جا ئیں اور کچھ نئے احکامات کا اضافہ کر لیا جائے۔ یہ اسی ارتقائی تعبیر کا نتیجہ ہے کہ ہمارے مسلم جدیدیت پسند مفکرین اجتہاد کے نام پر نصوص شرعیہ کی تبدیلی کے امکانات کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نیز اس دعوے سے تو جدیدیت پسند مفکرین کے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ اسلام کی جو معتبر تعبیر اجماع امت کے نام پر پیش کی جاتی ہے، وہ اب قابل عمل نہیں رہی کیونکہ وہ پرانے زمانے کے حالات کا لحاظ کرکے اپنائی گئی تھی اور اب ہمیں ایک جدید تعبیر کرنی چا ہیے وغیر وغیرہ۔ پس جا ننا چا ہیے کہ تبدیلی شرائع کی یہ ارتقائی تعبیر در حقیقت ایک خطرناک تصور ہے جس سے شریعت اسلامیہ میں قطع برید کا دروازہ کھل جا تا ہے۔ 
۲.۴: سرمایہ دارانہ علم کی منطقی منزل 
ایک نئی شخصیت کا جواز : 
سر ما یہ دارانہ جا ہلی تصور علم نے اخلاق رزیلہ سے متصف ایک نئی قسم کی شخصیت کے اظہار کا جواز فراہم کیا جس کے نتیجے میں ایک نئی انفرادیت معا شروں میں مقبول ہوئی۔ سر مایہ دارانہ تصور علم سے پہلے صرف ایسی شخصیت ہی معا شروں میں عزت کی نگا ہ سے دیکھی جاتی تھی جن کی زندگی انبیاے کرام کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ کا منہ بولتا ثبوت ہوتی۔ لیکن اس تصور علم نے ایک ایسی شخصیت کے علمی جواز کی بنیادیں فراہم کیں جو انبیاے کرام کی تعلیمات سے کوسوں دور اور اخلاق رزیلہ سے متصف ہونے کے با وجود بھی معا شرے میں ایک با عزت علمی مقام پر فائز ہوسکتی تھی۔ اس ضمن میں آئن سٹائن کی مثال نہا یت وا ضح ہے جسے سائنس کی دنیا میں ایک امام کی سی حیثیت حاصل ہے لیکن اس کی زندگی زنا و بدکاری کی غلاظت سے لت پت تھی (آئن سٹائن کے نجی معاملات زندگی ان خطوط سے واضح ہوتے ہیں جو اس کی پوتی نے چھاپے ہیں)۔ ایسے ہی با وجود اس کے کہ کانٹ اغلام باز تھا، اسے مغربی فلسفے میں بلند ترین مقام حا صل ہے۔ اگر آپ مغربی علم کے کسی دلدادہ شخص کو یہ مثال دیں تو وہ کہے گا کہ اس کے اخلاق کو مت دیکھو بلکہ اہم چیز اس کا سائنسی کارنا مہ ہے۔ گویا مذہبی اخلاقیات اب علم کے معنوں میں شا مل ہی نہیں رہیں۔ سرمایہ دارانہ تصور علم میں ایسی معلومات کو علم سمجھا جا تا ہے جو سرمایہ دارانہ اخلاقیات یعنی حرص و حسد کی غماز ی کرتی ہوں (۱س کی تفصیل آگے آرہی ہے)۔ آج علم کا تصور اس حد تک گر چکا ہے کہ اگر ایک ڈاکٹر ، وکیل، ایم بی اے وغیرہ خاتون ننگے سر اور نیم برہنہ حالت میں ٹی وی پر بیٹھ کر انٹرویو دے رہی ہو تو اس کے علمی کارناموں کا تعارف اس شان سے کرایا جاتا ہے گویا وہ کتنی بڑی عالمہ ہے۔ اس کے مقابلے میں گاؤں میں رہنے والی خاتون جس کی حیا اسے نا محرم کے سامنے جانے سے روکتی ہو، اسے جاہل ، ان پڑھ اور گنوار کہا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ تصور علم نے مادہ پرستا نہ سوچ اور دنیا داری کے رجحا نات کو تقویت بخشی اور رہی سہی عیسائی اخلاقیات کا جنازہ مارٹن لوتھراور کیلوین جیسے مفکرین کے خیالات سے برآمد ہونے والی پروٹسٹنٹ ازم نے نکال دیا۔ اس فرقے نے عیسائی عوام میں یہ خیالات عام کیے کہ بائبل کی تشریح ہر شخض خود کر سکتا ہے، انسان اور خدا کے درمیان تعلق فرد کا نجی معاملہ ہے جس کی صحت و عدم صحت پرکسی دوسرے فرد (مثلاً پوپ) کو حکم لگانے یا فتویٰ دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ، چونکہ خدا اور بندے کا تعلق نجی اور اندرونی احساسات پر مبنی ہے، لہٰذا ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ عبادت کرنے کا جو بھی طریقہ اختیار کرنا چاہے کرلے، دنیا کی کامیابی آخرت کی کا میابی کا پیش خیمہ ہے ، اصل عبادت چرچ جانا یا ذکر و ازکار کرنا نہیں بلکہ دنیا کے کام زیادہ انہماک سے کرنا ہے نیز فطرت کا مطا لعہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ جتنا بائبل کا۔ در حقیقت جدیدیت کی کامیابی کی ا صل وجہ مادہ پرست فلسفیوں کے افکار سے زیادہ وہ مذہبی عناصر تھے جنہوں نے اصلاح مذہب کے نام پر مذ ہبی تعلیمات کو مسخ کرکے جدیدیت کی مذہبی توجیہات بیان کیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کارل مارکس اورمیکس ویبر جدیدیت کی کامیابی کواصلاح مذہب کی تحریک (Reformation) کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر اصلاح مذہب کی تحریک کا میاب نہ ہوتی تو جدیدیت یورپ میں شکست کھا جاتی کیونکہ مذہبی آزادی کی روش ہی وہ راستہ ہے جو آگے چل کر نفس پرستی اور دنیا کی محبت جیسے جذبات دلوں میں راسخ کرنے کا باعث بنتی ہے۔ 
مذہبی ایمانیات کا انکار : 
ادراک حقیقت کے اس ارتقائی تصور کا دوسرا منطقی نتیجہ بالآخر پس جدیدیت (post-modernism) کی شکل میں ظاہر ہوا جس نے حق کے وجود ہی کا انکار کر ڈالا۔ جدیدیت نے ادراک حقیقت کے لیے سائنسی طریقے پر اعتماد کرنے کی دعوت تو دی، لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ حقیقت کا حتمی ادراک ممکن ہی نہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی حتمی حقیقت تک پہنچنا ممکن ہی نہیں تو اسے تلاش کیوں کیا جا ئے؟ نیز جب حقیقت معلوم ہی نہیں تو یہ کیسے طے ہو گا کہ جس سائنسی طریقے پر ہم عمل پیرا ہیں، و ہ ہمیں حقیقت کے قریب کر رہا ہے یا دور ؟ یعنی جب منزل کا ملنا ہی نا ممکن ٹھہرا تو اس بات کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے کہ ’کس طرح‘ دوڑا جائے ؟ یہی وہ سوالات ہیں کہ جن کا جدیدی مفکرین کے پاس کوئی جواب تھا ، نہ ہے اور نہ کبھی ہو سکتا ہے۔ اس فکر نے کسی حتمی حقیقت (absolute truth) کے وجود ہی کا انکار ڈالا، یعنی حقیقت ایک اضافی (relative) شے بن گئی جو ہر فرد، معا شرے اور زمانے کے لیے مختلف ہو سکتی ہے۔ ان مفکرین کے نزدیک زندگی بعد الموت وغیرہ کے سوالات کالعدم اور لا یعنی ٹھہرے یعنی جب مرنے کے بعد زندگی ہے ہی نہیں تو اس کے بارے میں سوچنا بے کار کی بات ہے۔ ان کے نزدیک اصل مسئلہ تو اس وجود انسانی کا ہے جو اس دنیا میں اسے حاصل ہے ، اس وجود سے پہلے انسا ن نہ تو کہیں تھا اور نہ ہی اس کے بعد وہ کہیں اور جا نے والا ہے۔ اس فکر کے نتیجے میں پس جدیدیت کے نزدیک دنیا وی زندگی کی حقیقت اور معنویت محض کھیل تما شہ اور مزے کرنا ہے۔ وٹنگسٹائن کی فکر کا نچوڑ یہ ہے Life is a game, and maturity is to play it seriously یعنی زندگی ایک کھیل ہے اور عقلمندی یہ ہے کہ اسے سنجیدگی سے کھیلا جائے۔ 
بیسویں صدی کے وسط میں جب یہ فکر یورپ میں عام ہوئی تو نو جوانوں میں خود کشیاں کرنے ، سب کچھ چھوڑ کر جنگلوں جا بسنے اور ہیروئن اور بھنگ استعمال کرکے مست رہنے کے رجحا نات پروان چڑھے ۔ وٹنگسٹائن جیسے بڑے فلسفی نے با لآخر تنگ آکر خود کشی کی۔ یہ نت نئے فیشن کی بھر مار اور راک موسیقی کا پھیلاؤ اسی زمانے کی پیداوار ہے ۔ الغرض ہر ایسا کام کیا جانے لگا جسے لوگ عجیب سمجھتے تھے اور ہر ایسے کام میں معنی تلاش کیے گئے جنہیں لوگ عام طور پر بے معنی گردانتے تھے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر زندگی بے معنی ہے تو پھر کسی خا ص طریقے سے ہی زندگی گزارنے میں معنی کیوں تلاش کیے جا ئیں، ہر طریقہ مساوی طور پر بے معنی ہے لہٰذا سب کا اظہار کرنا چا ہیے۔ آخر کسی خاص طریقے کے ساتھ ہی گا نا کیوں گا یا جا ئے، ہر اس طریقے سے گا نا گاؤ جسے لوگ عام طور پر غیر عقلی (senseless) سمجھتے ہیں۔ یہ اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ آئے دن سر اور دا ڑھی کے بالوں کے نئے نئے انداز نظر آ تے ہیں، کبھی پینٹ کے پائنچے پھاڑ لیے جا تے ہیں کبھی اسے الٹا کر کے پہنا جا تا ہے، کبھی مرد کانوں میں با لیاں لٹکا ئے گھومتے دکھا ئی دیتے ہیں، اور عورتوں کے فیشن کی بھر مار وغیرہ وغیرہ، اور جب ان سے پو چھا جائے کہ بھائی یہ کیا کر رہے ہو تو جواب ملتا ہے ’فیشن‘۔ فیشن کا مطلب ہی بے معنی کاموں میں معنی تلاش کرنا ہے۔ آزای کا خواہاں شخص معنویت ’فرق‘ (difference) میں تلاش کرتا ہے یعنی آزاد انفرادیت کا اظہار فرق کے طریقے سے ہوتا ہے ، جبکہ عبدیت کا اظہار فرق میں نہیں بلکہ یکسانیت (similarity) میں ہوتا ہے یعنی میری ذات جس قدر آقاے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا میں فنا ہوگی، اتنی ہی زیادہ معنی خیز ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مولوی اور صوفی وہی حلیہ اپناتا ہے جو چودہ سو برس قبل کانقشہ پیش کرسکے۔ 
زندگی بعد الموت اور اس کی اصل حقیقت کے انکار کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان مفکرین کے ہاتھ زندگی بعد الموت کے خلاف کوئی ایسی قاطع دلیل آ گئی ہے جسے رد کرنا نا ممکن ہو، بلکہ یہ حقائق حصول علم کے ان ممکنہ ذرائع کی گرفت سے ہی باہر ہیں جن پر وہ ایمان رکھتے ہیں (یعنی حواس خمسہ اور عقل انسانی )۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اس دنیا میں ادراک حقیقت کا ذریعہ اگر کوئی ہے تو وہ وحی یعنی انبیاے کرام کی تعلیمات ہیں جن کی حیثیت خبر صا دق کی ہے اور جنہیں کسی اور ذریعہ علم سے پرکھا (judge) نہیں جا سکتا ہے کیونکہ یہی اصل میزان ہیں۔ پس جدیدیت نے تو سائنس کی بالا دستی کے تمام دعوے بھی رد کردیے ہیں۔ اس کے نزدیک موجودہ سائنسی علمیت مغرب میں رونما ہونے والی چند مخصوص معاشرتی و تہذیبی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے جو مغرب میں سترہویں اور اٹھارویں صدی میں پیش آئیں جن کے نتیجے میں لوگوں کے تصورات حق و باطل ، خیر و شر ، کامیابی اور ناکامی ، عدل و ظلم، علم و جہالت سب میں یکسر تبدیلی آئی اور انسانیت کے جہاز کا سفراخروی نجات سے ہٹا کر دنیاوی عیش و عشرت، تسخیرو اصلاح قلب کے بجائے تسخیر کائنات کی منزل کی طرف موڑ دیا گیا۔ مغربی سائنس درحقیقت مقاصد کی انھیں تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والا ایک نیا طریقہ علم تھا جوان نئے قسم کے مقاصد کی تکمیل کے لیے ضروری تھا۔
پس جدیدیت کے ان افکار ات کو ان معنوں میں علمی سطح پر برتری حاصل ہوئی ہے کہ جدیدیت کے حامی مفکرین مثلاً ہیبر ماس وغیرہ کے پاس ان کے جواب میں مغربی تہذیب کے آفاقی نیز عقلی طور پر برترہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں رہی۔ البتہ ابھی اس فکر کا اظہار سیاسی سطح پر نہیں ہوا ، لیکن یا د رہے کہ فکر پہلے کتا بوں میں لکھی جاتی ہے اور پھر وہ معاشرے اور ریاست میں نفوذ کرتی ہے ۔ آخر لوگ ایک دن میں ہی تو enlightenedنہیں ہوئے تھے بلکہ کئی صدیوں کی خونی تاریخ کے بعد ہی جدیدیت معا شروں پر غالب آئی۔ بدقسمتی سے ہمارے مسلم مفکرین (جو کئی صدیاں پیچھے کی سوچتے ہیں) جدیدیت کے لیے اسلامی علمیت سے دلائل فراہم کرنے کی فکر میں کوشاں ہیں : کبھی اجتہاد کے نام پر نصوص شریعت میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں ، کبھی اسلام کی نئی تعبیر کی بات کرتے ہیں ، کبھی اجماعی مسائل امت سے انحراف کی دعوت دیتے ہیں ، کبھی مغربی افکار و تصورات کی حقیقت سمجھے بغیر ہی انہیں اسلام میں تلاش اور ان کا اسلامی جواز فراہم کرتے ہیں ، اور سب سے بڑھ کر عوام کو مذہب سے برگشتہ کرنے کے لیے مولوی کو طعن و تشنیع کا نشا نہ بناتے ہیں تاکہ عوام کا رابطہ علما سے کٹ جائے اور جدیدیت کی راہ ہموار ہو سکے۔ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ مساجد و مدارس اور علماے کرام کے وقار کا تحفظ درحقیقت جدیدیت کے خلاف جنگ میں اسلام کی زندگی اور بقا کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم اس محاذ پر ہار گئے تو پھر جدیدیت کے سیلاب کے آگے بندھ باندھنے والا کوئی منفرد گروہ باقی نہیں رہے گا ۔ 

۲.۵: سرمایہ دارانہ علم کی تشکیل 

سرمایہ دارانہ علم در حقیقت (anthopocentric approach) یعنی ’حوادثات عالم اور انسانی زندگی اور معاشروں میں رو نما ہونے والی تبدیلیوں کی تشریح و تعبیر میں انسانی نقطہ نگاہ سے غور کرنے ‘ کے رویے کا نام ہے ۔ دوسرے لفظوں میں وحی سے حا صل ہونے والے علم کی روشنی میں اس کائنات اور انسانی معاشروں کو سمجھنے کی کو شش کرنا سرمایہ دارانہ تصور علم میں معتبر علم نہیں کہلاتا۔ سائنسی علوم کے ماہرین جب بھی انسانی رویوں کے اخلاقی و غیر اخلاقی اظہار اور معا شروں و ریاست کی صحیح اور غلط تشکیل و ترتیب کے اصول وضع کرتے ہیں تو اس کے لیے وہ ہر گز وحی کی طرف رجوع نہیں کرتے، بلکہ وہ آزادی، مساوات اور ترقی کے مجموعی خا کے کو سامنے رکھ کر ان سوالات پر غور کرتے ہیں۔ 
تنویری علم سائنس کی دو شاخوں کی صورت میں متشکل ہو کر آج ہما رے سامنے موجود ہے: (۱) طبعی سائنسز اور (۲) معاشرتی سائنسز (natural and social sciences)۔ پہلے کا دائرہ کار انسانی ارادے کے کا ئناتی قوتوں پر تسلط کے امکانات کو بڑ ھا نا جبکہ دوسرے کا مطلوب ایک ایسے معیاری معا شرے اور ریاست کی ترتیب و تنظیم کا لائحہ عمل وضع کرنا ہے جہاں افراد کو زیادہ سے زیادہ آزادی اور سرمائے کی بڑہوتری کے مواقع میسر آسکیں۔ اس بات کی مثال یوں سمجھی جا سکتی ہے جیسے اسلامی علمیت علم الفقہ، کلام اور تصوف وغیرہ کی صورت میں متشکل ہوکر سا منے آئی ہے۔ یعنی جیسے علم اصول فقہ اور فقہ کا مقصد قرآن و سنت میں وارد شدہ نصوص سے وہ اصول اخذ کرنا ہے جن کی روشنی میں یہ طے کیا جا سکے کہ ان گنت انسانی اعمال و افعال سے رضاے الٰہی کے حصول کا درست طریقہ کیا ہے (یعنی ان اعمال کا شرعی حکم بیان کیا جا سکے ) نیز یہ معلوم کیا جا سکے کہ افراد کے تعلقات کو کن ضروری بندشوں کا پا بند بنا کر معاشرے کو احکامات الٰہی کے تابع کیا جاسکتا ہے۔ بالکل اسی طرح سوشل سائنسز کا مقصد ایک طرف سرمایہ دارانہ شخصیت ، معا شرے و ریاست کی علمی توجیہ پیش کرنا ہے اور دوسری طرف یہ افراد کے تعلقات میں آزادی کی ان لازمی حد ود کا تعین کرنے کے اصول وضع کرتی ہیں جن کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ معا شرتی و ریاستی صف بندی وجود میں آسکے۔ (سو شل سائنسز کا معا شرتی پالیسیا ں وضع کرنے کے ساتھ کیا تعلق ہے، اس کے لیے جمہوریت پر ہمار ا مضمون دیکھئے: ساحل نومبر ۲۰۰۶ ) تنویری مفکرین کا یقین تھا کہ جس طرح فطرت میں ایسے قوانین ہیں جو اشیا پر عائد ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح انسانی معا شروں میں بھی ایسے قوانین فطرت ہیں جن کے تحت معا شرے قائم رہتے ہیں، لہٰذا معا شروں اور انسانی تعلقات کی تفہیم کے لیے بھی سائنسی تجربے اور مشاہدے کا طریقہ استعمال کرنا ضروری ہے ۔ سو شل سائنسز کا مقصد ایک ایسے نئے دستور، ایک ایسے نئے قانون، ایک ایسے نئے معا شرتی نظام کا قیا م ہے جسے الہامی اور آسمانی قانون سے کوئی واسطہ یا رابطہ نہ ہو۔ ایک ایسا نیا سیاسی ڈھانچہ جس میں کوئی رعایا (subjects) نہ ہو بلکہ سب شہری (citizens) ہوں۔ 

سرمایہ دارانہ علمی اخلاقیات 

(’خریدو فروخت‘ (Buying and Selling) کی ذہنیت کا عموم )
لیوتارڈ ایک نامی گرامی پس جدیدی فلسفی ہے جس نے سائنسی علمیت کی حقیقت ’خرید وفروخت‘ کے معنی خیز الفاظ میں بیان کی ہے۔ اس بات کی تفہیم کے لیے خواہشات اور سرمائے کے تعلق کو سمجھنا ضروری ہے۔ تسخیر کائنات اور لامحدود خواہشات کی تکمیل کو مقصد علم ٹھہرانا درحقیقت سرمائے کی بڑھوتری (accumulation of capital) کو اپنا مقصود بنانا ہے، کیونکہ ہر خواہش کی تکمیل سرمائے ہی کی مرہون منت ہے۔ یعنی اگر کوئی فرد یا معاشرہ آزادی کا خواہاں ہے تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ درحقیقت سرمائے میں اضافے کا خواہاں ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل بغیر سرمائے کے ناممکن العمل ہے۔ مثلاً ایک شخض یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس عالی شان بنگلہ ہوجس میں دنیا بھر کی پر تعیش اشیا الٹ دی گئی ہوں، نئے ماڈل کی گاڑی ہو، کئی عدد پلاٹ اور کئی کمپنیوں کے شئیرز اس کی ملکیت ہوں جن سے حاصل ہونے والے نفع سے وہ مزید کاروبار کر سکتا ہووغیرہ وغیرہ ، تو ظاہر بات ہے کہ یہ تمام خواہشات بغیر سرمائے کے عملی شکل اختیار نہیں کر سکتیں۔چنانچہ معاشیات کا مضمون اس بات کو باور کراتا ہے کہ ایک فرد اپنی انفرادیت (یاآزادی) کا اظہار عمل صرف (Consumption) کے ذریعے کرتا ہے یعنی وہ جتنی زیادہ تعداد میں اشیاء کو اپنے استعمال میں لا کر صرف (Consume) کرتا ہے اتنی ہی زیاد ہ خواہشات کی تسکین کر سکتا ہے۔ اورایک صارف (Consumer) زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تسکین تبھی کر سکتا ہے جب اس کے پاس زیادہ سے زیاد ہ اشیا خریدنے کے لیے آمدنی (Income) ہو۔اسی طرح معاشیات کا مضمون یہ بھی کہتا ہے کہ انسان کی خواہشات لامحدود (Infinite)ہونی چاہییں ،مگر چونکہ ان خواہشات کو پورا کرنے کے ذرائع لامحدود نہیں ہیں، لہٰذا زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ فرد اپنے ذرائع کو اپنے وجود کی ممکنہ حد تک بڑھانے کی کوشش میں لگا رہے۔ (ذرائع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے کی اسی خواہش کو ماہرین معاشیات عقلیت (Rationality) کا معیار کہتے ہیں ، یعنی عقلمند شخص (Rational agent)وہی ہے جو سرمائے میں لامحدود اضافے کی خواہش رکھتا ہو )۔ بقول ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری: 
’’آزادی کا مطلب ہی سرمائے کی بڑھوتری ہے، اس کا کوئی دوسرا مطلب نہیں۔ جو شخص آزادی کا خواہاں ہے، وہ لازماً اپنے ارادے سے اقدار کی وہی ترتیب متعین کرے گا جس کے نتیجے میں اس کی آزادی میں اضافہ ہو۔ سرمایہ ہی وہ شے ہے جو ممکن بناتا ہے کہ انسان جو کچھ بھی چاہے حاصل کر سکے۔مسجد بنانا چاہے تو مسجد بنائے، شراب خانہ بنانا چاہے توشراب خانہ بنائے، چاند پر جانا چاہے تو چاند پرجائے۔کسی چیز کی کوئی اصلی قدر نہیں،ہر چیز اپنی قدر صرف اور صرف ہیومن کی خواہش اور ارادے سے حاصل کرتی ہے ۔لہٰذا قدر اصل (Intrinsic value) صرف ارادہ انسانی کی ہے۔ اس قدر اصل کے اظہار کا واحد ذریعہ ’سرمائے کی بڑھوتری ہے۔لہٰذا سرمایہ دارانہ عقلیت (آزادی )کا تقاضا ہے کہ ہر ہیومن اپنی خواہشات کو اس طرح مرتب کرے کہ ان کے حصول کی جدوجہد قدر اصل یعنی سرمائے کی بڑھوتری کے فروغ میں ممد اور معاون ہو۔خواہشات کی ہر وہ ترتیب جو ہیومن کو سرمائے کی بڑھوتری کے عمل کا آلہ کار نہیں بناتی (سر مایہ دارانہ) عقلیت کے خلاف ہے۔۔۔سرمائے کی بڑھوتری وہ کسوٹی ہے جس پر ہیومنز کی ہر خواہش اور خواہشات کی تمام ترتیبوں کو جانچا جاتا ہے اور ان کی تقابلی قدر (Exchange value) اسی قدر محض کے مطابق متعین ہوتی ہے۔ہر وہ خواہش جو سرمائے میں اضافے کا ذریعے نہیں بنتی، اس کی تقابلی قدر (سرمایہ دارانہ معاشرے میں ) صفر یا منفی ہوتی ہے‘ (دوسرے لفظوں میں ایک سرمایہ دارانہ معاشرے میں ایسی خواہشات رکھنے والے شخص کی یہی سزا ہے کہ اس کی خواہشات کی کوئی وقعت یا قدر وقیمت نہ ہو)۔۔۔ سرمایہ دارانہ ذہنیت (rationality) ہرفعل کو خود ارادیت اور خود غرضیت کے پیمانے پر تول کر اس کی تقابلی قدر متعین کرتی ہے۔ جب للہیت، محبت، طہارت، تقویٰ، آخرت کا خوف، عفت، حیا، غیرت، ایثار، شوق شہادت کو اس پیمانے پر تولا جاتا ہے تو یہ بالکل بے وقعت اور بے قدر دکھائی دیتی ہیں۔ ایک سول سوسائٹی یا سرمایہ دارانہ معاشرے میں ا ن اوصاف (حمیدہ) کے پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اس معاشرے کے نظام تعلیم کا مقصد تسخیر کائنات اور تمام فطری قوتوں کو ہیومن کے ارادے کے مطیع بنانے کو بطور مقصد کے قبول کرنے کی ایمانیات کو مستحکم بنانا ہوتا ہے‘‘۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے: ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری ، ساحل اگست ۲۰۰۶: ص ۳۸) 
اس اقتباس سے بخوبی واضح ہوا کہ سرمایہ دارانہ علم کا مقصد سرمائے کی بڑھوتری برائے بڑھوتری ہوتا ہے۔ سرمائے کی بڑھوتری کا یہ عمل اسی وقت ظہور پزیر ہوتا ہے جب علم بذات خود نفع خوری (profit-maximization) کے نظم (Discipline) کا پابند اور اس کے تابع ہوجائے ، یعنی علم تعمیر کیا جائے ’بیچنے‘ کے لیے اور اسے ’خریدا ‘ جائے صرف (consumption)کرنے کے لیے [knowledge is produced for sale, and purchased for consumption]۔ دوسرے لفظوں میں تکمیل خواہشات کی ذہنیت علم کو خریدوفروخت میں تبدیل کردیتی ہے اور خرید و فروخت کی یہ ذہنیت ہی سرمایہ دارانہ علمیت کی اصل شکل (essence) ہے۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ معاشروں میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ایجادات سے لیکر سوشل و بزنس سائنسز کی تحقیقات تک خرید وفروخت کے اسی عمل کے اظہار کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ مثلاً جب ایک یونیورسٹی میں کمپیوٹر یا بزنس سائنس کا طالب علم چار سال کی محنت شاقہ کے بعد اپنے تعلیمی کیرئیر کے آخری سال میں اپنا تحقیقی کام (Research project) کرنے لگتا ہے تو اس کے اساتذہ اس کے پلے یہ ہدایت نامہ باندھتے ہیں: ’بیٹا ایسا کام کرو جسکی کوئی مارکیٹ میں مانگ (Market value) ہو ، فضول کاموں میں وقت برباد مت کرو‘۔ درحقیقت یہی نصیحت تمام تر علم اور ٹیکنالوجی کا نقطہ آغاز و انتہا ہوتا ہے۔ تعلیم، تحقیق اور کنسلٹنسی (consultancy) کے تمام تر ادارے اسی اصول پر اور ایسا ہی علم تعمیر کرتے ہیں جسے زیادہ متوقع منافع و آمدنی کے ساتھ کمپنیوں کو بیچنا ممکن ہو، اور کمپنیاں ایسے ہی علم کو خریدتی ہیں جسے وہ اپنے پیداواری عمل میں استعمال کرکے مزید اشیا بیچ کر زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ خرید و فروخت کا یہ علم جب معاشروں میں پروان چڑھتا ہے تو معاشرے ’مارکیٹ ‘ میں تبدیل ہوجاتے ہیں جہاں تعلقات کی بنیاد محبت، صلہ رحمی، تعاون اور مذہب نہیں بلکہ ’اغراض ‘ اور اشیا اور خدمات کی لین دین (Exchange of goods and services) بن جاتی ہیں۔ ظاہر سی با ت ہے کہ کسی شے کے لین دین میں ایک شخص ڈیمانڈر (Demander) اور دو سرا سپلائیر (Supplier) ہواکرتا ہے،اورسرمایہ دارانہ معاشرے میں طلب اور رسد (Demand and Supply) کا اصول ہی درحقیقت ہر رشتے اور تعلق کی اصل روح ہوتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ تعلق کی یہ نوعیت صرف موچی، درزی، کسان، مزدور، سرمایہ دار وغیرہ کے درمیان ہی بننے والے تعلقات میں ہوتی ہے،بلکہ ایک سرمایہ دارانہ معاشرے میں ہر تعلق (چاہے میاں بیوی کا ہو یا ماں باپ کا)کی روح آہستہ آہستہ بس طلب اور رسد (Demand and Supply) پر منتج ہو جاتی ہے کیونکہ اس معاشر ے کے تمام افراد ماں باپ، بھائی بہن، استاد شاگرد یا پیر مرید نہیں بلکہ پروفیشنل (professionals) ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک مذہبی معاشرے میں استاد کا تعلق اپنے شاگرد سے باپ اور مربی کا ہوتا ہے،اس کے مقابلے میں مارکیٹ (یا سول)سوسائٹی میں یہ تعلق ڈیمانڈر اور سپلائیر (Demander and Supplier) کا ہوتا ہے یعنی استاد محض زر کی ایک مخصوص مقدار کے عوض ایک خاص قسم کی خدمت مہیا کرنے والا جبکہ طالب علم اس خدمت کا ڈیمانڈر ہوتا ہے اور بس۔ ہر وہ تعلق جس کی بنیاد ڈیمانڈ اور سپلائی کی روح پر استوار نہ ہو، سرمایہ دارانہ معاشرے میں لایعنی، مہمل، بے قدرو قیمت اور غیر عقلی (irrational)ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معیار عقلیت کے مطابق عقل مندی (Rationality)اسی کا نام ہے کہ آپ تعلقات ذاتی اغراض کی بنیاد پر قائم کریں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی معاشرے میں سائنسی (بشمول طبعی و عمرانی) علوم عام ہوں اور افراد میں ذاتی اغراض اور حرص و حسد نیز دیگر اخلاق رزیلہ پروان نہ چڑھیں۔ یہ تعلق بالکل ایسا ہی ہے جیسے مذہبی علوم کا مقصد افراد میں زہد، تقویٰ، عزیمت ، عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم وفنا جیسی صفات عام کرنا ہے۔ سرمایہ دارانہ علوم کی بالا دستی کا مطلب در حقیقت افراد کی ذہنیت اور معاشروں کو خرید وفروخت کے نظم میں شامل اور تابع کرنے کا دوسرا نام ہے۔ ایسے علوم (مثلاًمذہبی علم) جو خریدوفروخت کی کسوٹی پر پورا نہ اترتے ہوں یعنی جنہیں خریدنے اور بیچنے کے نتیجے میں سرمائے کی بڑھوتری کے مواقع کم ہوں، ان کے پنپنے کے مواقع بھی اتنے ہی کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اسی بات کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ایسے معاشرے (مثلاًمذہبی معاشرے) جہاں علم کے معنی خرید وفروخت نہ ہوں، وہاں سرمایہ دارانہ علوم ہر گز ترقی حاصل نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں ’اعتدال پسند‘ اور enlightened ہونے کا سبق دیا جا رہا ہے کیونکہ اس کے بغیر سائنسی علوم کا فروغ اور ترقی ہرگزممکن نہیں۔ 

نتائج: نوٹ کرنے کی اہم باتیں 

اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ علم سے مراد وہ مجموعہ معلومات ہے :
* جو ارادہ انسانی و خواہشات کی تکمیل (self-determination) کو ممکن بناتا ہو، اسے سائنس کہتے ہیں۔
* جو وحی کے علم ہونے کے انکارپر مبنی ہے، لہٰذا یہ جہالت خالصہ ہے ۔
* جس کا مقصدانسان کے تمتع اور تصرف فی الارض میں لا محدود اضافہ ہے ۔
* جو اس مادہ پرستانہ تصور حیات کو بطور مقصد حیات قبول کرنے کی ذہنیت عام کرتا ہے ۔
* اس کے پھیلاؤ کے نتیجے میں افراد میں بہت سے اخلاق رزیلہ پھیلتے ہیں: 
۔ خود غرضی (اپنے مقصد کے لیے دوسروں سے تعلقات قائم کرنا)
۔ حرص (زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی خواہش)
۔ حسد (دوسروں سے زیادہ دولت کی خواہش) 
۔ طول امل (دنیا کی بے پناہ محبت ، طویل العمری کی خواہش اور موت سے کراہیت)
۔ غضب (ہر شے کو قابو اور زیر کرنے کی خواہش )
۔ لذت پرستی (خواہشات نفسانی کی کثرت )
۔ عبادات کو حقیر جاننا، ضیاع اوقات، گنا ہ کے کاموں کو تفریح سمجھنا، کلام لغو (جو فحش گوئی، کھیل تماشوں، فلموں ، ٹھٹھے بازی اور جنس مخالف کے موضوعات سے پر ہوتا ہے) وغیرہ کے اوصاف کا پیدا ہوجا نا ایک فطری عمل ہے ۔
* جس میں کوئی حتمی حق نہیں ہوتا (سوائے اس کے کہ انسان قائم بالذات ہے)۔
یہ فکر اور تصوربدا ہتاً لغو اور عقلاً با طل ہے، اسی لیے فکری سطح پر سرمایہ دارانہ علمیت ایک دم توڑتی ہوئی فکر ہے ، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس کی ماہیت و مقاصد کی سمجھ بوجھ حاصل کرکے اس کا محا کمہ کرنے کی کوشش کریں نہ یہ کہ اس کی حما یت میں امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ اجماع کا انکار کرکے اس جاہلی علمیت کے لیے دلائل فراہم کر دیں۔ ہمارے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اگر مسلما نوں نے جدیدی علمیت کے افکار و نظریات کے خدوخال پر اپنے معاشروں اور ریاست کو تشکیل دیا تو وہ لازماً ایک قوم پرست مسلم سرمایہ دارانہ ریاست ہی بنا پا ئیں گے جس کے نتیجے میں اس ملک کے مسلمانوں کو تو شا ید کوئی مادی فوائد فائدہ مل جائیں لیکن اسلام کو ہر گز بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ 
اللہ تعا لیٰ سے یہی دعا ہے کہ: اللہم ارنا حقیقۃ الا شیاء کما ہی۔ 

بجلی کا بحران ۔ چند تجاویز

پروفیسر محمد شفیق ملک

اس وقت ملک عزیز میں جمہوری حکومت کی تشکیل مکمل ہوچکی ہے اور وزیراعظم پاکستان جناب یوسف رضاگیلانی نے مسائل اورپریشانیوں میں مبتلاپاکستان کے شہریوں کے لیے کچھ فوری اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ٹریڈیونین اور طلبہ یونین کی بحالی کے ساتھ ساتھ ورکرز کی بنیادی تنخواہ چھ ہزار روپے ماہانہ کرنے کااعلان کیا ہے۔ وزیراعظم نے وعدہ کیا ہے کہ ان کی حکومت عوام کی توقعات پر پوری اترے گی اور قوم کو خوشحالی کی طرف لے جائے گی۔ انہوں نے توانائی کی بحران پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کااعلان کیا ہے۔ وزیراعظم کی نیک نیتی شک سے بالاتر ہے، ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ انہیں اور ان کی کابینہ کوجرات مندانہ فیصلے کرنے کی توفیق عطافرمائے، آمین ۔ 
پاکستان میں ہرحکومت عوام کے مسائل حل کرنے کے وعدے اورکسی حد تک کوشش بھی کرتی رہی ہے، لیکن ساٹھ سال گزرنے کے باوجود پاکستان آج بھی دنیاکے پس ماندہ ترین ملکوں کی فہر ست میں قابل افسو س مقام پر کھڑا ہے۔ اس وقت ہمارا ملک توانائی کے شدید بحران میں مبتلاہے، بجلی کی کمی نے ملک کی معیشت کوہلاکررکھ دیا ہے،ہزاروں کی تعداد میں مزدور بے روزگارہوگئے ہیں، اکثر فیکٹریوں کی پیداوار نہ ہونے کے برابرہے، چھوٹے چھوٹے کاروبار تو بندہوچکے ہیں، مہنگائی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ عوام دن رات کی تگ ودو کے بعد بمشکل روٹی حاصل کرپاتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ساٹھ سال کے عرصہ میں آج تک مستقبل کی ضروریات کومدنظر رکھ کر بجلی پیداکرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ توانائی کے بحران پر قابو پانا ہے جوکہ انتہائی مشکل اورکسی حدتک ناممکن نظر آتاہے ۔ وفاقی کابینہ نے کچھ اقدامات فوری طورپر کرنے کی منظوری دی ہے جن پر کام شرو ع ہوچکاہے لیکن اس مسئلہ میں حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کابھی فرض ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ اس سلسلے میں تعاون کرے۔ حکومتی دعوے اور کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک ان کو عوام کی خدمت حاصل نہ ہو۔ فوری طورپر بڑے ڈیم بنانا ناممکن ہے۔ اس وقت ملک کے اکثر حصوں میں آٹھ سے سولہ گھنٹے تک بجلی غائب رہتی ہے۔ فوری قابوپانے کے لیے کچھ ہنگامی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی جرم کے مترادف ہوگی۔ حکومتی مشیزی کے ماہرین اگرچہ جانتے ہیں کہ اس کافوری حل ممکن نہیں کیونکہ گزشتہ حکومتوں کے دور میں زیادہ تر ڈنگ پٹاؤ پالیسیاں ہی جاری رکھیں گئی اوردوسرا آمروں نے اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔ اب جبکہ جمہوری حکومت ہے اورپاکستان کی تاریخ میں پہلی حکومت ہے جسے تقریباًتمام سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل ہے اورملک کی بڑی پارٹیوں کی نمائندگی بھی شامل ہے، اس حکومت کے ماہرین معاشیات اور منصوبہ سازوں کو ٹھوس اور طویل المیعاد پالیسیاں بنانی ہونگی۔ ملک سے بجلی کی قلت کودور کرنے کے لیے صرف اور صرف ملکی مفاد کو سامنے رکھنا ہوگا۔ بڑے ڈیم اورمنصوبے مکمل ہونے میں دیرلگے گی، جبکہ پچاس فی صد سے زائد بجلی کی قلت کامسئلہ حل کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرناہوگا۔ اس سلسلے میں کچھ تجاویز ہیں جومعاون ثابت ہوسکتی ہیں :
۱۔ سرکاری دفاتر کے اوقات کارمیں ایک گھنٹہ کی کمی کردی جائے۔
۲۔ فوری طورپر تمام سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں ہفتہ وار دوچھٹیاں کردی جائیں۔
۳۔تمام قسم کے جنریٹروں سے ہرقسم کی ڈیوٹی اور ٹیکس فوری طورپر ختم کردیے جائیں۔
۴۔ بڑے صنعتی یونٹوں کواپنی بجلی پیداکرنے کے لیے یونٹ لگانے کی ا جازت دی جائے۔
۵۔ شادی بیاہ پر چراغاں اور غیر ضروری بجلی کے استعمال پر سخت پابندی لگائی جائے۔
۶۔ عام بلب بنانے کے تمام یونٹ بند کر کے سٹاک ضائع کر دیا جائے اور انرجی سیور کے استعمال کو رواج دیا جائے۔
۷۔ایسے مکانات، پلازے اور ہوٹل بنانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے جن میں دن کے وقت روشنی نہ آسکے اور بجلی کے استعمال کی ضرورت پڑے۔
۸۔ ڈیزل اور پٹرول سے ہرقسم کے ٹیکس ختم کرکے ان کو مناسب قیمت پر لایا جائے۔ 
۹۔ نندی پور بجلی گھر کی طرح کے چھوٹے چھوٹے پاور سٹیشن فوری طورپر لگائے جائیں۔
۱۰۔ واپڈا کے اندر کالی بھیڑوں کی کمی نہیں جو بجلی چوری کرواتے ہیں۔ اس طرح چوری کی بجلی استعمال کرنے والے بجلی کا ضیاع کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کوبعض اوقات بااثر افراد بشمول افسران اور سیاست دانوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ حکومت میں شامل لوگ ان کی سرپرستی نہ کریں، بلکہ ان کی نشاندہی کر کے ان کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ 
۱۱۔ تمام سرکاری افسران، وزرا، اعلیٰ حکومتی عہدے داران اور آرمی افسران کے سرکاری دفاتر سے AC کی سہولت فوری طورپر ختم کر کے پا بندی لگا دی جائے، خلاف ورزی پر سخت سرزنش کی جائے۔
اس مہم میں عوام کوبھی حکومت سے تعاون کرنا ہوگا، گھیراؤ جلاؤ کی پالیسی ترک کرکے حکومت کی کوششوں میں اس کا ساتھ دینا ہوگا۔ عوام کو اپنے طرز زندگی پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ پرتعیش زندگی گزارنے کی عادات پر قابو پانا ہوگا۔ ACکے استعمال کوترک کرنا ہوگا تاکہ یہ بجلی کارخانوں کو چلانے میں کام آسکے۔ اپنے مکانات کو اس طرح بناناہوگا کہ دن کے وقت تمام کمروں میں سورج کی روشنی سے ہی کام چلایا جا سکے۔ عوام کا ایک بڑا طبقہ تاجر برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ دیکھا گیاہے کہ اکثر تجارتی مارکیٹیں اور بڑے بڑے کاروباری مرکز تنگ وتاریک گلیوں اور بازاروں میں ہیں جن کو روشن رکھنے کے لیے دکانداروں نے بڑے بڑے بلب لگا رکھے ہیں۔ اس رجحان کو بدلنا ہوگا۔ تاجر تنظیموں کو حکومتی اقدامات کا ساتھ دیتے ہوئے رات آٹھ بجے کے بعد دکانیں بند کرنا ہوں گی۔ یہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ بہت سے کاروباری مرکز اور بڑی بڑی مارکیٹوں کے بعض دکاندار ہفتہ وار چھٹی نہیں کرتے۔ دکانداروں کوہفتے میں دو دن بازار بند رکھنا ہوں گے۔

کیا فطرت أصلاً یا تبعاً مصدر شریعت ہے؟

حافظ محمد زبیر

(فاضل مقالہ نگار نے اپنے مفصل مقالے میں اہل سنت کے تصور فطرت کی وضاحت میں طویل اقتباسات جمع کیے ہیں جنھیں اختصار کے پیش نظر حذف کرتے ہوئے مضمون کا وہ حصہ یہاں شائع کیا جا رہا ہے جو سید منظور الحسن کے دلائل کی تنقید سے متعلق ہے۔ مدیر)

راقم الحروف نے غامدی صاحب کے ’تصور فطرت‘ کا ایک تنقیدی جائزہ لیا تھا جو کہ ماہنامہ ’الشریعہ‘ فروری ۲۰۰۷ میں شائع ہوا۔ غامدی صاحب کے ایک شاگرد رشید جناب منظور الحسن صاحب نے ہماری اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے غامدی صاحب کے ’تصور فطرت ‘کے دفاع میں ایک مضمون لکھا جو ماہنامہ ’الشریعہ‘ جولائی ۲۰۰۷ اور پھر ماہنامہ ’اشراق‘ اگست و ستمبر ۲۰۰۷ میں شائع ہوا۔ہمارے پیش نظر اس وقت منظور الحسن صاحب کی طرف سے غامدی صاحب کے ’تصور فطرت‘ کے دفاع میں لکھا جانے والا مضمون ہے۔ 
قرآن ‘سنت اور محققین اہل لغت کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت سے مراد وہ ابتدائی تخلیق ‘ پیدائشی حالت اور ہیئت ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور فطرت کے اس لغوی مفہوم پر اہل لغت کا اجماع بھی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ فطرت یعنی ابتدائی تخلیق یا ہیئت کیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو پیدا کیا ہے؟ اس بارے میں اہل علم کے مختلف اقوا ل ہیں۔ جمہور علماے محققین کے قول کے مطابق فطرت انسانی ایک قوت یااستعداد ہے کہ جس کے ذریعے انسان اسلام کے بنیادی حقائق‘اپنے رب کی معرفت اور حق وخیر کی طرف میلان محسوس کرتا ہے اور باطل وشر سے دور بھاگتا ہے۔اس کی سادہ سی مثال انسان کی قوت سماعت ہے جو پیدائش کے وقت ہر انسان میں بالقوۃ موجود ہوتی ہے اور جیسے جیسے انسان بڑا ہوتاجاتا ہے، اپنی اس قوت و صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے اپنی معلومات کو وسیع کرتا رہتا ہے۔ لیکن یہ ذہن میں رہے کہ مجرد قوت سماع کسی علم کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو علم کے حصول کا ایک ذریعہ یا صلاحیت ہے جو ہر انسان میں پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہے اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی فطرت یعنی پہلی ہیئت تخلیق یہ ہے کہ اس میں قوت سماعت موجود ہوتی ہے۔ لہٰذا قوت سماعت ‘ قوت بصارت اورقوت فکر وغیرہ کی طرح ہر انسان میں پیدائشی طور پر ایک قوت یا مَلکہ ایسا بھی موجود ہوتا ہے کہ جس کے ذریعے انسان پنی بلوغت کے بعد اپنے رب کی معرفت اورخیروحق بات کی طرف میلان اور شرو باطل سے ابا محسوس کر سکتاہے۔ لیکن یہ ذہن میں رہے کہ قوت سماعت کی طرح فطرت مجرد ایک صلاحیت، قوت یا استعداد کا نام ہے کہ جس کا کوئی تعلق علم سے نہیں ہے ۔
قرآن و سنت ‘لغت عرب اور اہل سنت کے مذہب کے مطابق فطرت نہ تو مأخذ علم ہے نہ ہی مصدر شریعت ‘بلکہ یہ ایک قوت اور صلاحیت ہے کہ جو ہر انسان میں پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہے۔ اس قوت اور صلاحیت کو استعمال کر کے انسان توحید ربوبیت کی معرفت حاصل کر سکتا ہے‘نبی کی دعوت کو حق سمجھ کر قبول کرتا ہے‘ ہرشرعی خیر کی طرف اپنے نفس میں ایک میلان محسوس کرتا ہے اور شریعت میں بیان کر دہ ہر شر سے اپنے نفس میں نفرت کرتا ہے اور اگر بیرونی و خارجی موانع و عوارض نہ ہوں تو ہر انسان بلوغت کے بعد اسی پیدائشی حالت پر برقرار رہے گا۔ جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک قرآنی معروف و منکر ‘ کھانے کی چیزوں میں طیبات و خبائث کا تعین فطرت انسانی سے ہوگا ‘ نیزفنون لطیفہ مثلا موسیقی ‘ رقص و سرود ‘مجسمہ سازی اور عشقیہ شاعری وغیرہ بھی فطرت کی بنیاد پر جائز ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ اہل سنت کا قرآن و سنت کی روشنی میں تصور فطرت غامدی صاحب کے تصور فطرت سے بالکل مختلف ہے۔
منظور الحسن صاحب نے غامدی صاحب کے تصور فطرت کے دفاع کے طور پر بعض آیات کو بطور دلیل بیان کیا ہے۔ ذیل میں ہم اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ منظور الحسن صاحب کے پیش کردہ دلائل کا مسلمہ اصول تفسیر کی روشنی میں حقیقی معنی و مفہوم کیا ہے ؟
پہلی دلیل: منظور الحسن صاحب نے سور ۃ الشمس کی آیات ’ونفس وما سوھا فألھمھا فجورھا وتقوھا‘ کو غامدی صاحب کے تصور فطرت کی دلیل بنایا ہے۔
ہمارا جواب یہ ہے کہ مفسرین نے اس آیت مبارکہ میں ’الہام‘ کے چار معانی بیان کیے ہیں:
۱) جمہور علما کا کہنا یہ ہے اس آیت مبارکہ میں’الہام‘ کا معنی واضح کرنے ‘بیان کرنے‘ بتلا دینے اور سمجھا دینے کے ہیں۔ کسی چیز کا خیر یا شر ہونا اللہ کے بتلانے اور واضح کرنے سے متعین ہوا لیکن اللہ کے بتلائے ہوئے خیر کو خیر اور شر کو شر سمجھنے کے لیے انسان نے اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں یعنی اپنی عقل و فطرت کو استعمال کیا۔امام ابن جریر طبریؒ لکھتے ہیں:
فبین لھا ما ینبغی لھا أن تأتی أو تذر من خیر أو شر أو طاعۃ أو معصیۃ (تفسیر طبری: سورۃ الشمس: ۷ تا ۸)
’’پس اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے اس چیز کو واضح کر دیا کہ کون سے خیر اور اطاعت کے کام اسے کرنے چاہئیں اور کون سے شر اور معصیت کے کاموں سے وہ اجتناب کرے۔‘‘
یہ رائے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ‘ قتادۃؒ ‘ مجاہدؒ ‘ ضحاکؒ ‘ مقاتل ؒ ‘ سفیان ثوریؒ ‘طبریؒ ‘واحدیؒ ‘ قرطبیؒ ‘ زمخشریؒ ‘ بیضاویؒ ‘فراء‘ جلال الدین محلیؒ ‘ شوکانیؒ ‘ مجد الدین فیروز آبادیؒ ‘ ابن عطیہؒ ‘ عز بن عبد السلامؒ ‘نسفیؒ ‘ الثعالبیؒ ‘ابن عادل الحنبلیؒ ‘أبو جعفر النحاسؒ ‘ ابو المظر بن السمعانیؒ ‘ بقاعیؒ ‘ أبو سعودؒ ‘ شنقیطیؒ ‘ سید طنطاویؒ ‘ أبو بکر الجزائریؒ ‘ ابن عاشورؒ ‘ علامہ صابونیؒ ‘نواب صدیق الحسن خانؒ ‘احمد مصطفی المراغیؒ ‘شیخ حسنین محمد خلوفؒ ‘ مفتی شفیع صاحبؒ ‘مولاناشبیر احمد عثمانیؒ ‘ مولاناثناء اللہ امرتسریؒ اور مولانا عبد الرحمن کیلانیؒ وغیرہم کی ہے ۔
۲) ’الہام ‘سے مراد توفیق اور خذلان ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مومن میں تقوی رکھ کر اسے نیکی کی توفیق دی اور کافر میں فجور رکھ کر اسے ذلیل کر دیا۔ یہ قول ابن زید ؒ کاہے۔ زجاج ؒ اور ابن عجیبہؒ نے بھی اسے اختیار کیا ہے۔ابن بطہؒ نے اس قول کی نسبت أبو حازم ؒ کی طرف بھی کی ہے۔ (شوکانی، فتح القدیر: سورۃ روم: ۳۰)
۳) ’الہام‘ سے مراد ساتھ لگا دینا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ اس کی بدبختی یا سعادت کو ساتھ لگا دیا ہے۔ یہ قول صحیح سند کے ساتھ ابن عباسؓ سے مروی ہے۔ امام حاکمؒ نے اس قول کو مستدرک حاکم میں بیان کرنے کے بعد صحیح کہا ہے اور اس قول کی صحت میں امام ذہبی ؒ نے امام حاکم ؒ کی موافقت کی ہے۔یہ قول سعید بن جبیرؒ سے بھی منقول ہے ۔علامہ بدر الدین عینیؒ کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا یہ قول اس آیت کا ایک مصداق ہے جیسا کہ بعض علما مثلا الشیخ مساعد بن سلیمان الطیار نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔ابن عباسؓ کے اس قول کی بنیاد مسئلہ قدر میں مروی ایک صحیح روایت ہے کہ جس کے آخر میں آپؐ نے ان آیات کی تلاوت کی ہے۔ لہٰذا اس قول کو ابن عباسؓ کے پہلے قول کے معارض نہ سمجھا جائے۔ صحابہؓ کا یہ معمول تھا کہ قرآن کی کسی آیت کی تفسیر سمجھانے کے لیے اس کے کسی ایک مصداق کی طرف اشارہ کر دیتے تھے جبکہ کسی دوسری مجلس میں اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اسی آیت کے کسی دوسرے مصداق کو بیان کردیتے تھے۔ سحابہؓ کی ایسی تمام تفاسیر اپنے مقام پر صحیح ہوتی ہیں۔بعض ناواقف لوگ صحابہؓ اور تابعینؒ کے ان تفسیری اقوال کے ظاہری اختلاف کو تعارض سمجھتے ہیں حالانکہ در حقیقت وہ اختلاف تنوع ہوتا ہے ۔
۴) ان آیات کاچوتھا معنی ان مفسرین نے کیا ہے جن میں تجدد کا عنصر کسی نہ کسی درجے میں پایا جاتا ہے اور یہ بات علما میں واضح ہے کہ یہ حضرات اپنے خلوص ‘تقویٰ‘ تدین اورامت مسلمہ کے لیے علمی و عملی خدمات کے باوصف قرآن کی تفسیر میں بہت سے مقامات پر ’فھم النصوص علی منہج السلف الصالحین‘ کے بالمقابل تجدد پسند ی کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ اس قول کے مطابق ’فألھمھا فجورھا وتقواھا‘ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نفس انسانی میں خیر و شر کا علم رکھ دیا ہے اور انسان پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنی عقل و فطرت سے معلوم شدہ خیر و شر کے علم کی اتباع کرے۔ اس فلسفے کو تفصیلاً امین احسن اصلاحی صاحب ؒ نے اپنی تفسیر تدبر قرآن میں بیان کیا ہے۔ سید جمال الدین قاسمی ؒ ‘ سید قطب شہیدؒ اور مولانا مودودیؒ کی تفاسیر میں موجود عبارات میں بھی اس قسم کے اشارات ملتے ہیں کہ یہ حضرات بھی اسی فکرکے حاملین میں سے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ چوتھی رائے غلط ہے اور اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
۱) اس آیت مبارکہ میں فطرت کا لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ ‘نفس‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔فطرت انسانی اور نفس انسانی میں بہت فرق ہے ۔قرآن و سنت کے مطابق ’فطرت ‘ سے مراد وہ قوت اور استعداد ہے کہ جس کی وجہ سے انسان خیر و شر اور حق و باطل کو پہنچانتا ہے، جبکہ ’نفس‘ سے مراد وہ روح ہے جوانسانی جسم میں داخل ہو کر اپنی تدبیر شروع کر دیتی ہے۔امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں :
و النفس ھی الروح المدبرۃ للجسم مثلا نفس الانسان اذا کانت فی جسمہ (مجموع الفتاوی‘ امام ابن تیمیہ‘جلد۴‘ص۱۱۸)
’’ ’نفس‘سے مراد وہ روح ہے جو انسانی جسم میں تدبیر کرتی ہے مثلاً انسان کا نفس جبکہ روح اس کے جسم میں ہو۔‘‘
’نفس‘ کی یہی تعریف امام اہل السنۃ ابن أبی العز الحنفیؒ نے شر ح عقیدہ طحاویہ میں بھی کی ہے۔ لہٰذا صحابہؓ و تابعین ؒ و جمہور مفسرین کی تفسیر صحیح ہے جو کہ قرآنی لفظ ’نفس‘ کے عین مطابق ہے کہ نفس انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا و رسل اور کتابوں کے ذریعے واضح کر دیا کہ اسے کس چیز کو اختیار کرنا چاہیے اور کس کو چھوڑنا چاہیے، جبکہ آیت کا وہ معنی مرادلینا جو چوتھے قول میں بیان ہوا ہے، اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ قرآن کے ظاہر کی تاویل کرتے ہوئے نفس کو فطرت کے معنی میں نہ لیا جائے۔ اور قرآن کی ایسی تاویل بغیر کسی دلیل کے جائز نہیں ہے، لہٰذا سورۃ الشمس میں ’نفس‘ سے مراد اس کا حقیقی معنی یعنی نفس انسانی ہے نہ کہ مجازی معنی یعنی فطرت ہے۔ علاوہ ازیں فطرت بھی اس صورت میں نفس کا مجازی معنی ہو گا جبکہ کلام عرب سے اس بات کے دلائل اور شواہد مل جائیں کہ اہل عرب نفس کو فطرت کے معنی میں استعمال کرتے تھے، اور ہمارے علم کی حد تک کلام عرب میں نفس کالفظ فطرت کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ۔
۲) غامدی صاحب کا بیان کردہ یہ مفہوم قرآن کی واضح نص کے خلاف ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَاللّٰہُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْءًا (النحل :۷۸)
’’اللہ تعالیٰ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حال میں کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے۔ ‘‘
امام ابن قیمؒ لکھتے ہیں کہ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے دین کا علم لے کر آیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَاللّٰہُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا ’’اللہ تعالیٰ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حال میں کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے ‘‘بلکہ حدیث سے مراد یہ ہے کہ انسان کی فطرت دین اسلام کی معرفت اور اس کی محبت کا تقاضا کرتی ہے۔‘‘ 
امام ابن قیمؒ کے علاوہ امام ابن تیمیہؒ ‘ امام قرطبیؒ اور ابن رجب حنبلیؒ نے بھی قرآن کی اس آیت کوا س مسئلے میں بطور دلیل بیان کیاہے کہ پیدا ئش کے وقت انسان کے پاس کسی قسم کا کوئی فطری علم نہیں ہوتا ‘ہم ان جلیل القدر أئمہ کی عبارات پیچھے بیان کر چکے ہیں۔ جناب منظور الحسن صاحب کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کی اس آیت کا یہ مفہوم قرآن کے سیاق و سباق کے خلاف ہے۔ منظور الحسن صاحب کے لیے پہلا جواب تو یہ ہے کہ کیاان کے خیال میں امام ابن تیمیہؒ ‘امام ابن قیمؒ ‘ امام قرطبیؒ اور ابن رجب الحنبلیؒ جیسے جلیل القدر مفسرین قرآن کے سیاق و سباق سے ناواقف تھے جو سبھی اس آیت کو بطور دلیل نقل کرتے چلے آئے ہیں؟ دوسرا جواب یہ ہے کہ جس کو منظور الحسن صاحب قرآن کا سیاق و سبا ق کہہ رہے ہیں، اس کی حیثیت ان کے ذاتی فہم سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ عربی زبان کا یہ معروف قاعدہ ہے کہ نفی کے سیاق میں جب نکرہ آئے تو وہ اپنے عموم میں نص بن جاتا ہے، لہٰذا ’لا تعلمون شیئا‘ میں نفی کے سیاق میں نکرہ ہے جس کا معنی یہ ہوگا کہ تمہارے پاس کسی قسم کا بھی علم نہ تھا اورقرآن کے اس قدر صریح مفہوم کی اپنے ذاتی فہم سے تخصیص کرنا جائز نہیں ہے۔ امام النحو أبو حیان الاأندلسیؒ اس کی تفسیر میں مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
و الأولی عموم لفظ شیء و لاسیما فی سیاق النفی (البحر المحیط: سورۃ النحل:۷۷)
’’راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ شے سے مراد اس کا عموم ہے جبکہ اس کے سیاق میں نفی بھی موجود ہے ۔‘‘
اسی طرح علامہ آلوسی ؒ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: 
و الظاہر العموم و لا داعی الی التخصیص (روح المعانی: سورۃ النحل:۷۷)
’’ظاہر نص یہی کہتی ہے کہ یہ آیت عام ہے اور اس کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ہے۔‘‘
چوتھا جواب یہ ہے کہ منظور الحسن صاحب ’وجعل لکم السمع و الأبصار و الأفئدۃ‘ کو ’واللہ أخرجکم من بطون أمھتکم لا تعلمون شیئا‘ کا سیاق بنا رہے ہیں، حالانکہ ’وجعل لکم السمع والأبصار و الأفئدۃ‘ کسی طرح بھی ’واللہ أخرجکم من بطون أمھتکم لا تعلمون شیئا‘ کا سیاق نہیں بن رہا ہے کیونکہ ’ و جعل...‘ میں ’واؤ‘ استیناف کا ہے اور ’وجعل لکم السمع و الأبصار والأفئدۃ‘ جملہ مستأنفہ ابتدائیہ ہے۔ اگر ’و جعل ...‘ کے ’واؤ‘ کو عطف کا واؤ مانیں تو پھربھی ’وجعل لکم السمع و الأبصار و الأفئدۃ‘ کا جملہ ’و اللہ أخرجکم من بطون أمھتکم لا تعلمون شیئا‘ کا معنوی سیاق نہیں بنتا کیونکہ انسان کی سماعت ‘ بصارت اور دل تو اس وقت بھی موجود تھے جبکہ وہ ماں کے پیٹ میں تھا، لہٰذا انسان اپنی قوت سماعت ‘ بصارت اور دل کے وجود کے ساتھ اپنی ماں کے پیٹ میں تھا اور وہ کچھ بھی نہیں جانتا تھا، پھر جب وہ اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا ہے تو اس وقت بھی وہ کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ اس آیت کے سیاق سے زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوتاہے کہ انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس کے پاس کسی قسم کا علم تو نہیں ہوتا لیکن ایسے آلات ضرور ہوتے ہیں کہ جن سے وہ علم حاصل کر سکتا ہے۔ امام رازیؒ لکھتے ہیں :
’’انسانی اپنی ابتدائی پیدائشی حالت میں جبکہ وہ پیدا ہوتا ہے‘ مختلف اشیا کے علم سے خالی ہوتا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بات کہی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے سماعت‘ بصارتیں اور دل بنائے‘اور اس کا معنی یہ ہے کہ انسانی نفوس چونکہ اپنی پیدائشی حالت میں اللہ کی معرفت اور اس سے متعلقہ علوم سے خالی ہوتے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ حواس عطا کیے ہیں تاکہ وہ ان کے ذریعے معارف اور علوم کو حاصل کرے۔‘‘ ( مفاتیح الغیب: سورۃ النحل: ۷۷)
۳) غامدی صاحب کا یہ بیان کردہ مفہوم حدیث کے خلاف ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
اَللّٰھُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاھَا وَزَکِّھَا اَنْتَ خَیْرٌ مَنْ زَکَّاھَا
’’اے اللہ تعالیٰ! تو میرے نفس کو اس کا تقویٰ(یعنی تقویٰ کی رہنمائی ) عنایت فرما دے اور اس کو پاک کر دے‘ بے شک تو پاک کرنے والوں میں بہترین پاک کرنے والاہے ۔ ‘‘
اگر ’فجور‘ اور’ تقویٰ ‘ انسانی فطرت میں داخل ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس تقویٰ کو مانگنے کی کیاضرورت ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دُعا اس آیت کے مفہوم کو واضح کر رہی ہے کہ اس آیت میں ’تَقْوٰی‘ سے مراد اس( تقویٰ) کی رہنمائی اور ’فجور‘ سے مراد اس( فجور) کی پہچان ہے جیسا کہ صحابہؓ و تابعینؒ نے بیان کیاہے۔منظور الحسن صاحب نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز بھی مانگی جا سکتی ہے جو کہ انسان کو حاصل ہو اور اس کی دلیل کے طور پر انہوں نے ’اھدنا الصراط المستقیم‘ کی آیت کو پیش کیا ہے کہ مسلمانوں کو ہدایت حاصل ہے وہ پھر بھی اللہ تعالیٰ سے ہر نمازمیں ہدایت مانگتے ہیں۔ منظور الحسن صاحب کو پہلا جواب تو یہ ہے ان کی اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے مسلمان بنایا ہے اور وہ پانچ وقت کی نماز میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ تعالیٰ تو مجھے مسلمان بنا دے، حالانکہ ایسی دعا کی امید و توقع کسی صاحب عقل سے نہیں کی جا سکتی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ منظور الحسن صاحب کو ’اھدنا الصراط المستقیم‘ کا صحیح مفہوم سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔ابن رجب الحنبلیؒ ’اھدنا الصراط المستقیم‘ میں بیان شدہ ہدایت کا مفہوم واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جہاں تک مومن کااللہ سے ہدایت طلب کرنا ہے ‘ تو اس کی دو قسمیں ہیں۔ایک مجمل ہدایت ہے اور اس سے مراد اسلام اور ایمان کی ہدایت ہے اور وہ ہر مومن کو حاصل ہے اور دوسری مفصل ہدایت ہے اور اس سے مراد ایمان اور اسلام کے اجزا کواس کی تفصیلات کے ساتھ جاننا ہے اور ان پر عمل کرنے کے لیے اللہ کی مدد کا طلب گار ہونا ہے ۔یہ وہ ہدایت ہے کہ جس کا ہر مومن دن رات میں محتاج ہے اور اسی ہدایت کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو پانچ وقت کی نماز میں یہ دعا پڑھنے کا حکم دیاہے ’اے اللہ !توہمیں سیدھا رستہ دکھا‘۔ اور اللہ کے رسول ﷺ بھی رات کی نماز میںیہ دعا کرتے تھے:اے اللہ !جن معاملات میں اختلاف کیا گیاہے ان میں حق بات کی طرف اپنے حکم سے تو میری رہنمائی فرما دے۔بے شک جس کو تو چاہتا ہے سیدھے رستے کی ہدایت عنایت فرماتا ہے۔ ‘‘ (جامع العلوم و الحکم: فصل الحدیث الرابع و العشرون)
۴) غامدی صاحب کا بیان کردہ مفہوم صحابہ کرامؓکی تفسیر کے خلاف ہے۔ امام طبری ؒ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباسؓکا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : ’یقول: بین الخیر و الشر‘، یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے خیر اور شر کو واضح کر دیا ہے ۔‘‘
اہل سنت میں اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ صحابہؓ اگر قرآن کی کسی آیت کا لغوی مفہوم بیان کریں تو اس کو قبول کرنا واجب ہے کیونکہ وہ قرآن کی لغت کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں جبکہ صحابہؓ کی تفسیر اجتہادی میں علما کا اختلاف ہے کہ اس کا قبول کرنا حجت ہے یا نہیں ۔یہاں پر ابن عباسؓ قرآنی لفظ ’الہام‘ کالغوی معنی بیان کر رہے ہیں کہ’ الہام‘ سے مراد’تبیین‘ ہے، لہٰذا ابن عباسؓ کی یہ تفسیر حجت ہے ۔
۵) غامدی صاحب کا بیان کردہ مفہوم جلیل القدر تابعین اور تبع تابعین کی تفسیر کے خلاف ہے۔امام طبری ؒ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت مجاہدؒ سے روایت کیا ہے کہ’’فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰاہَا‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو گناہ اور تقویٰ بتلا دیاہے ۔‘‘
امام مجاہد ؒ معروف تابعی اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے شاگرد ہیں۔مشہورمحدث سفیان ثوری ؒ فرماتے تھے کہ جب تمہیں مجاہدؒ سے تفسیر پہنچ جائے تو بس بالکل کافی ہے۔امام ابن تیمیہؒ نے ’رسالہ اصول تفسیر‘ میں لکھا ہے کہ جلیل القدر أئمہ امام شافعیؒ ‘ امام احمدؒ اور امام بخاریؒ وغیرہ حضرت مجاہدؒ کی تفسیر پر بہت زیادۃ اعتماد کرتے تھے۔ امام طبریؒ نے یہی تفسیر قتادہ، ضحاک اور سفیان سے بھی نقل کی ہے۔ جمہور مفسرین امام طبریؒ ‘واحدیؒ ‘ قرطبیؒ ‘ زمخشریؒ ‘ بیضاویؒ ‘فراء‘ جلال الدین محلیؒ ‘ شوکانیؒ ‘ مجدالدین فیروز آبادیؒ ‘ ابن عطیہؒ ‘ عز بن عبد السلامؒ ‘نسفیؒ ‘ الثعالبیؒ ‘ابن عادل الحنبلیؒ ‘أبو جعفر النحاسؒ ‘ ابو المظر بن السمعانیؒ ‘ بقاعیؒ ‘ أبو سعودؒ ‘ شنقیطیؒ ‘ سید طنطاویؒ ‘ أبو بکر الجزائریؒ ‘ ابن عاشورؒ ‘ علامہ صابونیؒ ‘نواب صدیق الحسن خانؒ ‘احمد مصطفی المراغیؒ ‘شیخ حسنین محمد خلوفؒ ‘ مفتی شفیع صاحبؒ ‘مولاناشبیر احمد عثمانیؒ ‘ مولاناثناء اللہ امرتسریؒ اور مولانا عبد الرحمن کیلانیؒ وغیرہم نے بھی اس آیت کایہی مفہوم بیان کیا ہے جو کہ صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے حوالے سے اوپر بیان ہوچکا ہے ۔
۶) اگر بفرض محال چوتھے قول کو صحیح تسلیم بھی کر لیا جائے اور یہ مان لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں نیکی اور بدی کا علم ودیعت کردیا ہے تو پھر بھی اس آیت سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس بات کاپابند بھی بنایا ہے کہ وہ اپنے اس فطری علم کے مطابق زندگی گزارے اور نہ ہی اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان سے اس کے اس فطری علم کی بنیاد پر آخرت میں کچھ مواخذہ بھی فرمائیں گے جیسا کہ غامدی صاحب کا یہ موقف واضح ہے۔
منظور الحسن صاحب نے امام ابن کثیرؒ ‘مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ‘ مولانامودودیؒ اور مولانا امین احسن اصلاحی ؒ کے اقوال اپنی اس رائے کی تائید میں نقل کیے ہیں کہ ’و اللہ أخرجکم من بطون أمھتکم لا تعلمون شیئا‘ والی عام آیت اپنے سیاق ’وجعل لکم السمع و الأبصار و الأفئدۃ‘ سے خاص ہے۔اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ ہمارے نزدیک علما کے اقوال دلیل نہیں ہیں۔ اصل دلیل قرآن و سنت ہے۔ ہاں قرآن و سنت سے ثابت شدہ مسئلے کی تائید میں علما کے اقوال نقل کیے جا سکتے ہیں، لہٰذا منظور الحسن صاحب کا یہ کہنا کہ اس آیت کی تفسیر میں ہم نے فلاں علما کے یہ اقوال نقل کیے اور حافظ صاحب نے ان کاجواب نہیں دیا، ایک لایعنی بحث ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ خود آپ نے ’و اللہ أخرجکم من بطون أمھتکم لا تعلمون شیئا‘ کی تفسیر میں ان علما کے جو چار اقوال نقل کیے ہیں، کسی ایک کے قول سے بھی آپ کے اس موقف کی تائید نہیں ہوتی کہ قرآن کی یہ آیت اپنے سیا ق کے اعتبار سے خاص ہے اور اس آیت سے فطری علم کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ صرف حواس و مشاہدے سے حاصل شدہ علم کی نفی مراد ہے ۔ 
دوسری دلیل: منظور الحسن صاحب نے غامدی صاحب کے تصور فطرت کے دفاع میں دوسری دلیل قرآن کی درج ذیل آیت کو بنایا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اناھدیناہ السبیل إما شاکرا وإما کفورا (الإنسان:۳)
ہمارا جواب یہ ہے کہ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے تین اقوال ہیں:
۱) اس آیت میں ہدایت سے مراد واضح کرنا ‘بیان کرنا‘ رہنمائی کرنا اور بتلا دینا ہے۔امام قرطبیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
بینا لہ و عرفناہ طریق الھدی و الضلال و الخیر و الشر ببعث الرسل فأمن أو کفر (تفسیر قرطبی: سورۃ الإنسان: ۳)
’’ہدایت سے مراد یہ ہے کہ ہم نے انسان کے لیے ہدایت ‘ گمراہی ‘خیر اور شر کے رستوں کو رسولوں کی بعثت سے واضح کر دیاہے پس انسان چاہے تو ایمان لے آئے اور چاہے تو کفر کرے۔ ‘‘
یہ قول جمہور مفسرین مجاہدؒ ‘ عکرمۃؒ ‘ عطیہ العوفی ؒ ‘ ابن زیدؒ ‘طبریؒ ‘ رازیؒ ‘ قرطبیؒ ‘ جلال الدین محلیؒ ‘ شوکانیؒ ‘ علامہ مجد الدین فیروز آبادیؒ ‘ علامہ سمرقندیؒ ‘ زمخشریؒ ‘ بغویؒ ‘ ابن کثیرؒ ‘ ابن عطیہؒ ‘ فراءؒ ‘ابن جوزیؒ ‘ نسفیؒ ‘ خازنؒ ‘ أبو حیانؒ ‘ الثعالبیؒ ‘ ابن عادل الحنبلیؒ ‘ البقاعیؒ ‘ علامہ آلوسیؒ ‘ واحدیؒ ‘ الثعلبیؒ ‘ سید طنطاویؒ ‘ علامہ أبو بکر الجزائری‘ علامہ صابونیؒ ‘ مولانا ثناء اللہ أمر تسریؒ نواب صدیق الحسن خانؒ ‘شیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدیؒ ‘ علامہ وحید الزمانؒ ‘ مولانا پیر کرم شاہ صاحبؒ اور مولانا مفتی شفیع صاحبؒ وغیرہم کا ہے ۔مقاتل بن حیانؒ ‘ بیضاوی اور أبو سعود ؒ کی عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ ان حضرات کارجحان بھی اسی قول کی طرف ہے۔ ہدایت کا یہ معنی قرآن کی دوسری آیات سے بھی واضح ہے جیسا کہ امام ا بن کثیرؒ لکھتے ہیں :
أی بینا لہ و وضحنا ہ و بصرناہ بہ کقولہ تعالی جل و علا أما ثمود فھدیناھم فاستحبوا العمی علی الھدی ( تفسیر ابن کثیر: سورۃ الإنسان: ۳)
’’ہدایت سے مراد یہ ہے کہ ہم نے انسان کے لیے اس رستے کو بیان اور واضح کر دیا اور اسے وہ رستہ دکھا بھی دیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے :جہاں تک قوم ثمود کا معاملہ ہے پس انہوں نے ہدایت کے بالمقابل اندھے پن کو پسند کیا۔‘‘
۲) دوسرا قول یہ ہے کہ رستے کی ہدایت سے مراد انسان کا اپنے ماں کے پیٹ سے نکلنا ہے۔امام ابن کثیرؒ نے اس قول کو غریب قرار دیاہے ۔وہ لکھتے ہیں:
و روی عن مجاہد و أبی صالح و الضحاک و السدی أنھم قالوا فی قولہ تعالی إنا ھدیناہ السبیل یعنی خروجہ من الرحم وھذا قول غریب و الصحیح المشھور الأول۔ (تفسیر ابن کثیر: سورۃ الإنسان: ۳) 
’’مجاہد ؒ ‘أبو صالحؒ ‘ ضحاکؒ اور سدیؒ سے مروی ہے کہ انہوں نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد انسان کا اپنی ماں کے پیٹ سے نکلنا ہے اور یہ قول غریب ہے جبکہ پہلا قول ہی صحیح اور معروف و مشہور ہے۔‘‘
۳) تیسرا قول اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں یہ ہے کہ ہدایت سے مراد الہام ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں خیرو شر کا علم الہام کردیا ہے اور انسان سے اللہ تعالیٰ کا یہ مطالبہ ہے کہ وہ اس فطری خیر و شر کی پابندی کرے۔یہ تفسیر مولانا اصلاحی ؒ ‘ مولانا مودودیؒ اور جناب غامدی صاحب کی ہے ۔ اس آیت مبارکہ کی یہ تفسیر صحیح نہیں ہے اور اس کی درج ذیل وجوہات ہیں :
۱) ہدایت کا لفظ عربی زبان ‘ قرآن اور سنت میں اکثرو بیشتر رہنمائی کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور یہی اس کا حقیقی معنی ہے اور جب تک قرآن کے الفاظ سے حقیقی معنی مراد لیا جا سکتا ہو اس وقت تک اس سے مجاز مراد لینا صحیح نہیں ہے۔ قرآن کے کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کرنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کسی بھی کلام میں اصل حقیقت ہوتی ہے جبکہ مجاز مراد لینے کے کوئی دلیل چاہیے۔
۲) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ’السبیل‘ کالفظ استعمال کیا ہے جواس بات کا قرینہ ہے کہ اس رستے سے مراد شریعت کا بتایاہوارستہ ہے کہ جس میں خیر وشر دونوں کو واضح کر دیا گیاہے نہ کہ فطری خیر و شرمراد ہے۔کیونکہ فطری خیر و شر کی طرف اشارہ کرنا اگر مقصود ہوتا تو اس کے لیے ’السبیلین‘ کا لفظ زیادہ مناسب تھا جیسا کہ سورۃ البلد میں ’النجدین‘ کا لفظ استعمال کیاگیاہے۔ علامہ ابن جوزیؒ ‘ نسفیؒ ‘ محلیؒ ‘ بیضاویؒ ‘ زمخشریؒ ‘ أبو حیان الأندلسیؒ ‘واحدیؒ ‘ طنطاویؒ اور علامہ أبوبکرؒ الجزائریؒ وغیرہ نے ’السبیل‘ سے شریعت یا ہدایت یعنی ایک رستہ مراد لیا ہے جبکہ مفسرین کی ایک دوسری جماعت نے’ السبیل‘ سے مراد خیر وشر یا ہدایت و ضلالت یعنی دو رستے مراد لیے ہیں لیکن ان حضرات سلف کے نزدیک خیر و شر کے یہ دونوں رستے ایک ہی رستے یعنی شریعت سے معلوم ہوئے ہیں۔ لہٰذا سلف کا اختلاف لفظی ہے سب کے نزدیک ’السبیل‘ سے ایک ہی رستہ مراد ہے ۔
۳) آیت کا سباق ’فجعلناہ سمیعا و بصیرا‘ اس بات کا قرینہ ہے کہ اس آیت میں ہدایت سے مراد وہ ہدایت کہ جس کے حصول کا ذریعہ حواس یعنی سماعت و بصارت ہو اور ایسی ہدایت انبیا و رسل کی دی ہوئی اخبار یا اللہ کا اتارا ہوا کلام ہی ہوسکتی ہے۔
۴) آیت کا سیاق ’إنا أعتدنا للکفرین سلسلا وأغلالا و سعیرا‘ بھی اس مسئلے میں واضح قرینہ ہے کہ پچھلی آیت میں ہدایت سے مراد شرعی ہدایت ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس ہدایت کی ناشکری کرنے والوں کو کافر کہا ہے اور جہنم کی وعید سنائی ہے جبکہ فطری علم کا منکر کسی کے نزدیک بھی کافر نہیں ہے اورہم نصوص قرآنیہ سے یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ آخرت کی سزا صرف شرعی علم و ہدایت کے پہنچنے کے بعد ہے۔ 
۵) آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے ساتھ ’السبیل‘ کالفظ استعمال کیا ہے جو اس بات کا صریح قرینہ ہے کہ یہاں الہام مراد نہیں ہو سکتا کیونکہ اہل عرب جب ہدایت کے لفظ کے ساتھ ’سبیل ‘ یا ’طریق‘ کے لفظ کو بطور مفعول استعمال کرتے ہیں تو اس وقت ہدایت سے ان کی مراد اس رستے کو واضح کرنا اور بیان کرنا ہوتاہے جیسا کہ معروف عربی لغات معجم مقاییس اللغۃ‘ لسان العرب اورا لقاموس المحیط وغیرہ میں ہے علاوہ ازیں اگر ہدایت کو الہام کے معنی میں لے بھی لیا جائے تو پھر رستے کے الہام کے کیا معنی ہوئے ؟
۶) اگر تو ہدایت سے مراد اس کا حقیقی معنی یعنی وضاحت ‘ بیان اور رہنمائی مراد ہو تو پھر ’السبیل‘ کامطلب بھی واضح ہے۔لیکن اگر ہدایت سے وہ معنی مراد لیا جائے جو کہ غامدی صاحب لیتے تو بغیر محذوف نکالے وہ معنی مراد لینا ممکن نہیں ہے۔ مثلاً ہدایت کو الہام کے معنی میں لینے کی صورت میں سبیل سے پہلے علم اور بعد میں خیر و شر کے الفاظ محذوف نکالنے پڑیں گے اور تقدیرعبارت ’ھدیناہ علم سبیل الخیر و الشر‘ ہو گی۔سبیل کے بعد خیر و شر کو بعض علمائے سلف نے محذوف مانا ہے لیکن خیر وشر کو محذوف ماننے کے باوجود ہدایت سے الہام کا معنی لینا اس وقت تک درست نہیں ہے جب تک کہ سبیل سے پہلے بھی علم کو محذوف نہ مان لیا جائے۔ اورعلم کو یہاں کسی نے بھی محذوف نہیں مانا۔ علاوہ ازیں اتنے محذوفات نکالنے کی دلیل کیا ہے؟ کیونکہ کلام میں اصل یہ ہے کہ اس میں حذف نہیں ہوتا اور کچھ محذوف نکالنے کے کوئی قرینہ یا دلیل چاہیے ہوتی ہے۔ 
ہمیں ا س سے انکار نہیں کہ ہدایت کے لفظ کا بعض سلف نے الہام بھی معنی کیا ہے لیکن ان کی مراد اس الہام سے توفیق الٰہی ہوتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کسی انسان کے دل میں کوئی بات ڈال کر اسے کوئی کام کرنے کی توفیق دے دیتے ہیں جیسا کہ امام ابن تیمیہؒ نے ’مجموع الفتاوی‘ میں لکھا ہے۔سلف کی بعض عبارات میں الہام کے الفاظ استعمال کرنے سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے خیر اور شر کو انسان کی پیدائش کے وقت اس کے دل میں ڈال دیاہے جیسا کہ معتزلہ کا خیال ہے،بلکہ ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص وقت میں ایک خاص شخص کے دل میں کوئی بات ڈال دی ۔ 
تیسری دلیل: منظور الحسن صاحب نے غامدی صاحب کے تصور فطرت کے دفاع میں تیسری دلیل کے طور پر سورۃ البلد کی آیت ’و ھدیناہ النجدین‘ کو بیان کیا ہے ۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مفسرین کے چار اقوال ہیں :
۱) اس آیت میں ہدایت سے مراد واضح کرنااوربیان کرنا ہے ۔یعنی اللہ تعالیٰ نے خیر و شر کے دونوں رستوں کو اپنی شریعت کے ذریعے واضح اور بیان کر دیا ۔امام قرطبیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
و ھدیناہ النجدین یعنی الطریقتین طریق الخیر و طریق الشر أی بینا ھما لہ بما أرسلناہ من الرسل (تفسیر قرطبی: سورۃ البلد: ۱۰) 
’’اور ہم نے ان کی دو رستوں کی طرف یعنی خیر اور شر کے رستوں کی طرف رہنمائی کی یعنی ہم نے ان دونوں رستوں کو اس وحی سے واضح کر دیا کہ جس کے ساتھ ہم نے رسولوں کو بھیجا ہے ۔ ‘‘
یہ رائے مقاتلؒ ‘ الثعلبیؒ ‘ مجد الدین فیروز آبادیؒ ‘ ابن عطیہؒ ‘ سمر قندیؒ ‘ ابن جوزیؒ ‘فراءؒ ‘ الثعالبیؒ ‘واحدی ؒ ‘ شنقیطیؒ ‘ طنطاویؒ ‘ عبد الرحمن بن ناصر السعدیؒ ‘ علامہ وحید الزمان ؒ ‘ مولانا مودودیؒ اورمولاناپیر کرم شاہ صاحبؒ کی ہے ۔ان کے علاوہ ابن عباسؓ ‘ عبد اللہ بن مسعودؓ ‘مجاہدؒ ‘ ضحاکؒ ‘ عکرمہؒ ‘ ابن زیدؒ ‘ ربیع بن خثیمؒ ‘ عطاا لخراسانیؒ ‘ أبو صالح ؒ ‘ محمد بن کعبؒ ‘ أبو وائلؒ ‘ حسن بصریؒ ‘ ابن قتیبہؒ ‘ فراءؒ ‘ نسفیؒ ‘عز بن عبد السلام ؒ ‘ طبریؒ ‘ زمخشریؒ ‘ رازیؒ ‘خازنؒ ‘ ابن عادل الحنبلیؒ ‘ نواب صدیق الحسن خانؒ اور أبو مسعود ؒ کا رجحان بھی اس طرف ہے ۔
۲) ’و ھدیناہ النجدین‘ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی رہنمائی اس کی پیدائش کے وقت اس کی ماں کی چھاتیوں کی طرف کی ہے کہ جہاں سے وہ اپنی خوراک حاصل کر سکتا ہے ۔ یہ رائے ابن عباسؓ ‘ علیؓ ‘ سعید بن مسیبؒ ‘ قتادۃ ؒ ‘ ضحاکؒ ‘ ربیع بن خثیم ؒ اور أبو حاتمؒ سے مروی ہے ۔امام بیضاویؒ اور امام بن کثیر ؒ کا رجحان اس طرف ہے کہ یہ دونوں اقوال درست ہیں ہمارے نزدیک بھی یہ قول راجح ہے کہیہ دونوں اقوال اس آیت مبارکہ کی تفسیر کے دو مصداقات ہیں۔
۳) تیسرا قول اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں یہ ہے کہ اس آیت میں ہدایت سے مراد الہام ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں خیر و شر کاعلم القاء کر دیا ہے ۔یہ رائے البقاعیؒ ‘ ابن عجیبہؒ ‘ ابن عاشورؒ ‘جمال الدین قاسمیؒ ‘احمد مصطفی المراغیؒ ‘ مولانا اصلاحیؒ اور غامدی صاحب کی ہے۔ 
۴) مولانا مفتی شفیع صاحبؒ ‘ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ‘نواب صدیق الحسن خانؒ اور علامہ ابو بکر الجزائری کی رائے یہ ہے کہ اس آیت میں ہدایت سے مراد فطری اور شرعی ہدایت دونوں ہیں۔لیکن ان حضرات کے نزدیک فطری ہدایت سے مرادشرعی خیرو شر کی طرف میلان و رجحان کا مادہ و استعداد ہے جیسا کہ فطرت کی بحث میں ہم تیسرے قول کی تشریح میں پڑھ چکے ہیں۔ 
ہمارے نزدیک اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں تیسرا قول درست نہیں ہے اور اس کے درج ذیل دلائل ہیں :
۱) ہم یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ ہدایت کا حقیقی معنی واضح کرنا ‘بیان کرنا اور رہنمائی کرنا ہے جبکہ الہام اس کا مجازی معنی ہو گا اور جہاں حقیقت مراد لینا ممکن ہو وہاں مجاز ی معنی کرنا جائز نہیں ہے ۔کیونکہ کلام میں اصل حقیقت ہے۔
۲) ہم یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ اہل عرب جب ہدایت کے لفظ کے ساتھ ’سبیل ‘ یا ’طریق‘ کے لفظ کو بطور مفعول استعمال کرتے ہیں تو اس وقت ہدایت سے ان کی مراد اس رستے کو واضح کرنا اور بیان کرنا ہوتاہے جیسا کہ معروف عربی لغات معجم مقاییس اللغۃ‘ لسان العرب اورالقاموس المحیط وغیرہ میں ہے ۔
۳) اگر اس آیت میں ہدایت سے مرادفطری ہدایت لے بھی لی جائے تو پھر بھی اس سے مراد کسی خیر و شر کا علم نہ ہو گا بلکہ اس سے مراد وہ ہدایت ہو گی کہ جس کا تذکرہ ’وأعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی‘ میں ہے۔اس آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے جن و انسان حتی کہ حیوانات تک کو فطری ہدایت دی ہے اور اس فطری ہدایت سے مراد ان بنیادی چیزوں کی طرف ہر ایک نوع کے افرادکا رجحان و میلان ہے جو کہ ان کے درمیان مشترک ہیں۔جیسا کہ شاہ ولی اللہ نے ’حجۃ اللہ البالغۃ ‘ میں اس کی وضاحت کی ہے ۔اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ پیدائش کے وقت ہر بچہ منہ مارتا ہے۔ اب بچے کا منہ مارنا اس کی فطرت ہے لیکن بچے کو یہ علم نہیں ہے کہ اس نے اپنا منہ کہاں مارنا ہے یا وہ کون سی جگہ ہے جہاں سے وہ اپنی غذا حاصل کر سکتا ہے، لہٰذا بچہ نہ تواپنی غذا اپنے ساتھ لے کردنیا میں آتا ہے اور نہ ہی وہ یہ شعور رکھتا ہے کہ اسے اس کی غذا کہاں سے ملے گی اور کون سی غذا اس کے جسم کے لیے صالح ہے یہ بھی اس کے علم میں نہیں ہوتا۔اگر بچے کو ایسی غذا مل جائے جو کہ اس کے جسم کے لیے نفع بخش ہو جیسے کہ ماں کا دودھ ہے تو یہ غذا حاصل کر کے اس کے جسم کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے اور اس کا جسم اس غذا کو قبول کرتا ہے۔اسی طرح ہر انسان میں پیدائشی طور پر خیر کوحاصل کرنے کا مادہ پایا جاتا ہے لیکن انسان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ خیر اس کو کہاں سے ملے گااس کے لیے وہ اللہ کی وحی کامحتاج ہوتا ہے ۔ اور جب بذریعہ وحی اس کو کوئی خیر ملتا ہے تو اس کی طرف انسان اپنی فطرت میں ایک رجحان محسوس کرتا ہے ۔ اس شرعی خیر پر عمل اس کے جسم کے لیے نفع بخش ہوتا ہے اور اس پر عمل سے اس کو اپنے نفس میں اطمینان و سکون حاصل ہوتا ہے۔
۴) اگر بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں نیکی اور بدی کا علم ودیعت کردیا ہے تو پھر بھی اس آیت سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس بات کاپابند بھی بنایا ہے کہ وہ اپنے اس فطری علم کے مطابق زندگی گزارے اور نہ ہی اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان سے اس کے اس فطری علم کی بنیاد پر آخرت میں کچھ مواخذہ بھی فرمائیں گے۔ 
چوتھی دلیل: غامدی صاحب کے تصور فطرت کے دفاع میں منظور الحسن صاحب کی چوتھی دلیل سورۃ القیامۃ کی آیت ’بل الإنسان علی نفسہ بصیرۃ‘ ہے۔
ہمار جواب یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں علماء کے تین اقوال ہیں:
۱) اس قول کے مطابق اس آیت سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال سے خوب واقف ہے او ر وہ قیامت کے دن بذات خود ان پر گواہ ہو گا۔یہ رائے أبو العالیہؒ ‘ عطاءؒ ‘ ابن کثیر ؒ ‘ زمخشریؒ ‘ اخفشؒ ‘ عز بن عبد السلامؒ ‘ فیروز آبادیؒ ‘ سمر قندیؒ ‘ فراءؒ ‘ أبو حیانؒ ‘أبو سعودؒ ‘ ابن عجیبہؒ ‘ ابن عاشورؒ ‘ آلوسیؒ ‘ طنطاویؒ ‘ شنقیطیؒ ‘ مولانا ثناء اللہ ؒ ‘ صابونیؒ ‘سعدیؒ ‘مولانا وحید الزمان ؒ ‘مولانا پیر کرم شاہ صاحبؒ ‘ مولاناشبیر احمد عثمانیؒ ‘مولانا مودودیؒ ‘ مولانا مفتی شفیع صاحبؒ ‘ کا ہے ۔اس قول کے قائلین نے اپنے موقف کی تائید میں آیت قرآنی ’کفی بنفسک الیوم علیک حسیبا‘ کو نقل کیا ہے۔
۲) بعض مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ اس آیت میں انسان سے مراداس کے اعضاء و جوارح ہیں جو کہ قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دیں گے جیسا کہ ’ألیوم نختم علی أفواھھم و تکلمنا أیدیھم و تشھد أرجلھم بما کانوا یکسبون‘ وغیرہ جیسی آیات میں مذکور ہے ۔یہ قول ابن عباسؓ ‘ سعید بن جبیرؒ ‘ ابن قتیبہؒ ‘ مقاتلؒ ‘ عکرمہ ؒ ‘ا لثعلبیؒ ‘قرطبیؒ ‘ بیضاویؒ ‘محلی ؒ ‘ نسفیؒ ‘ خازنؒ ‘ واحدی‘ؒ المراغیؒ اور الجزائریؒ کا ہے۔ان دونوں اقوال میں کوئی تعارض نہیں ہے بلکہ یہ ایک دوسرے کا بیان ہیں۔ لہٰذا اس آیت کی تفسیر میں یہ دونوں اقوال ہی درست ہیں ۔
۳) اس قول کے مطابق آیت کی تفسیر یہ ہے کہ آیت میں لفظ ’بصیرۃ‘ سے مراد فطرت انسانی میں موجود خیر و شر کاعلم ہے۔جس کی روشنی میں انسان دنیا میں ہی اپنے نفسانی اعمال کا جائزہ لے سکتا ہے۔ اس قول کو البقاعیؒ اورا صلاحیؒ صاحب نے اختیار کیا ہے ۔ابن عطیہ ؒ نے احتمال کے الفاظ کے ساتھ اس سے ملتی جلتی بات کہی ہے ۔ ہمارے خیال میں اس آیت کی تفسیر میں تیسرا قول بعیداز قیاس ہے اور اس کی درج ذیل وجوہات ہیں :
۱) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ’بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ‘ میں ’بل‘ انتقال کے لیے ہے لیکن اس کے باوجود ’ینبؤ الانسان یو مئذ بما قدم و أخر‘ اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ آیت آخرت کے بارے میں ہے کیونکہ انتقال سے مراد مضمون کلام میں انتقال ہے نہ کہ موضع میں ۔
۲) ’بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ ‘کے بعد ’ولو ألقی معاذیرہ‘ بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ آیت آخرت کے بارے میں ہے نہ کہ اس میں دنیا کا معاملہ بیان ہو رہا ہے۔تقریبا تمام مفسرین نے بھی اس آیت کو آخرت سے ہی متعلق کیاہے ۔ 
۳) آیت میں موجود لفظ ’بصیرۃ‘ سے خیر و شر کا علم مراد لینے کے بھی کوئی شرعی دلیل یا قرینہ چاہیے چہ جائیکہ اس آیت کو فطری علم کے وجود کی دلیل بنایا جائے۔جمہور مفسرین نے ’بصیرۃ‘ سے مراد ’شاہد‘ یعنی گواہ لیا ہے جبکہ بعض مفسرین نے ’عین‘ محذوف نکال کر ’عین بصیرۃ‘ مراد لی ہے۔ پہلا معنی مجازی ہے اور علاقہ ملازمت کا ہے کیونکہ کوئی بھی گواہ ایسا نہیں ہوتاجو کہ دیکھنے والا نہ ہو۔کسی فعل یا واقعے کا گواہ کہتے ہی اس کو ہیں کہ جس نے اس کو دیکھا ہے جبکہ دوسرا معنی حقیقی ہے اور مراد یہ ہے کہ ہر انسان کی آنکھ اس کے اعمال کو دیکھ رہی ہے اور قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دے گی۔ ’بصیرۃ‘ سے خیر و شر کا علم مراد لینا اس کا مجازی معنی ہے کہ جس کے لیے کوئی قرینہ چاہیے۔ 
پانچویں دلیل: منظور الحسن صاحب نے غامدی صاحب کے تصور فطرت کے دفاع میں پانچویں دلیل کے طور پر سورۃ أعراف کی آیت مبارکہ ’فلما ذاقا الشجرۃ بدت لھما سوآتھما فطفقا یخصفان علیھما من ورق الجنۃ‘ نقل کی ہے ۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ :
۱) منظور صاحب کا قرآن کی اس آیت سے غامدی صاحب کے تصور فطرت پر استدلال ایسا ہی ہے جیساکہ منکرین حجاب کا ’فتمثل لھا بشرا سویا‘ سے حجاب کے عدم وجوب پر استدلال ہے ۔ایک دفعہ راقم الحروف کوایک صاحب نے لکھا کہ قرآن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ عورت کے لیے چہرے کا پردہ نہیں ہے اور اس کی دلیل قرآن سے یوں دی کہ قرآن میں ذکر ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے پاس جب فرشتے آئے تھے توان کی اہلیہ بھی پاس موجود تھیں اور انہوں نے فرشوں سے پردہ نہیں کیا۔ اسی طرح قرآن میں یہ بھی ہے کہ حضرت مریم ؑ کے پاس حضرت جبرئیل ؑ تنہائی میں آئے تو انہوں نے پردہ نہیں کیا۔ اسی طرح حضرت موسی ؑ کے بارے میں بھی آتا ہے کہ انہوں نے دو عورتوں کی بکریوں کو پانی پلا دیا تھا اور ان دونوں عورتوں نے حضرت موسی ؑ سے پردہ نہیں کیا تھا ۔
۲) ہم یہ بات مانتے ہیں کہ ہر انسان میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے احکامات کی طرف ایک فطری رجحان رکھ دیا ہے، لہٰذا حضرت آدم ؑ کا اپنے جسم کو جنت کے پتوں سے چھپانا اسی فطرت کی وجہ سے تھا کہ جس کی تشریح ہم فطرت کے باب میں تیسرے قول کے ذیل میں بیان کر چکے ہیں ۔اپنے جسم کو چھپانا انسان کی فطرت بھی ہے لیکن شریعت نے بھی ہمیں اس کاحکم دیا ہے اور اس شرعی حکم کی بنیاد پر جسم نہ چھپانے کی صورت میں ہم سے آخرت میں مواخذہ ہوگا۔ 
۳) اس آیت مبارکہ میں تو صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ حضرت آدم ؑ اور ہوا ؑ نے اپنی شرم گاہوں کو چھپانا شروع کر دیا تھا ۔کیا مرد و عورت اپنے فطری علم کے مطابق صرف اپنی شرم گاہوں کو چھپائیں اور جسم کے باقی اعضا کو ظاہر کرنے میں کوئی شرم و جھجک محسوس نہ کریں۔اس قسم کی آیات سے اس طرح کے استدلالات سے اہل مغرب کی فطرت کو تو شاید کچھ فائدہ ہوجائے اور ان کی فطرت ‘اپنے باپ حضرت آدم ؑ کے مطابق بھی ثابت ہو جائے لیکن اہل اسلام کو سوائے‘عریانی ‘ فحاشی اور کتاب وسنت کی خلاف ورزی کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ 
۴) اس آیت سے غامدی صاحب کا یہ تصور ثابت نہیں ہوتا کہ فطرت انسانی سے جو علم حاصل ہو اس کے مطابق زندگی گزارنے کو کسی وحی کے پہنچنے سے پہلے بھی ہر انسان پر لازم قرار دیاگیاہے اور اس فطری علم پر عمل نہ کرنے کی صورت میں آخرت میں مواخذہ بھی ہو گا۔
چھٹی دلیل: جناب منظور صاحب نے غامدی صاحب کے دفاع میں بعض علما کے اقوال بھی نقل کیے ہیں۔ یہ علما مولانا اصلاحیؒ ‘ مولانا مودودیؒ ‘ مفتی شفیع صاحبؒ ‘ مولانا شبیر احمدعثمانیؒ اور شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ ہیں ۔مولانا اصلاحیؒ اور مولانا مودودیؒ کے بارے میں تو ہم پہلے ہی وضاحت کر چکے ہیں کہ فطری خیر وشر کے بارے میں ان حضرات کے تصورات وہی ہیں جو کہ غامدی صاحب کے ہیں۔ جہاں تک مفتی شفیع صاحبؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کی عبارات کا معاملہ ہے تو وہ خیر وشر کے مسئلے میں غامدی صاحب کے تصور فطرت کی تائید نہیں کر تیں بلکہ یہ عبارات درحقیقت فطرت کے اس تصور کو پیش کر رہی ہیں جسے ہم نے فطرت کی بحث میں تیسرے قول کے ذیل میں بیان کیاہے ۔شاہ ولی اللہؒ کی’حجۃ اللہ البالغۃ‘ کی عبارات اس مسئلے میں کافی پیچیدہ ہیں:
پہلی صورت تو یہ ہے کہ شاہ صاحبؒ کی ان عبارات کو ان کے ظاہری مفہوم پر محمول کیا جائے تو اس صورت میں غامدی صاحب کا موقف وہی ہے جو کہ شاہ صاحبؒ کا تھا۔لیکن اس صورت میں شاہ صاحب کایہ موقف شاذ ہے اور خود شاہ صاحبؒ کے بقول ان کا یہ موقف قابل قبول نہ ہوگا کیونکہ شاہ صاحب نے ’حجۃ اللہ البالغۃ‘ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ اگر ان کی کوئی رائے جمہور علما کے موقف کے خلاف ہو جائے تو اس کو رد کر دیاجائے۔ اور جمہور کیا اس مسئلے میں جمیع اہل سنت ماتریدیہ ‘ اشاعرہ اورسلفیہ کا موقف ہم تفصیل سے بیان کر چکے ہیں کہ جس کے مطابق أخروی جزا و سزا عقلی خیرو شر کی بجائے نبوت اور دعوت کے پہنچنے کے بعد ہے ۔شاہ صاحب ؒ لکھتے ہیں :
’’سن لو! میں ہر س بات سے بری ہوں جو بات مجھ سے قرآن و سنت کے خلاف یا خیر القرون کے اجماع کے مخالف یا جمہور مجتہدین اور مسلمانوں کے سواد اعظم کے خلاف صادر ہو گئی ہو۔اگر اس قسم کی کوئی بات مجھ سے صادر ہوئی ہو تو وہ خطا ہے ۔اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو ہمیں خواب غفلت سے بیدار کرے اور ہماری کوتاہیوں پر متنبہ کرے۔ ‘‘ (حجۃ اللہ البالغۃ‘ جلد۱‘ ص۲۰) 
دوسری صورت یہ ہے کہ شاہ صاحبؒ کی ان عبارات کی کوئی مناسب تاویل کی جائے۔شاہ صاحب ؒ نے اپنی کتاب ’المسویٰ‘ میں فطرت کا وہی معنی بیان کیا ہے جو کہ جمہور نے مراد لیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’سب سے صحیح قول جو کہ اس حدیث کی شرح میں بیان کیاگیاہے وہ یہ ہے کہ فطرت سلیمہ دین حق کے لیے ایک رستے اور سبب کی حیثیت رکھتی ہے اور بچہ صحیح و سالم صلاحیت اور دین کو قبول کرنے کے لیے تیار طبیعت لے کر پیدا ہوتا ہے ۔اگر بچے کواس کی اس فطرت پر چھوڑ دیاجائے تووہ اس پر برقرار رہے گا اور کسی دوسرے دین کی طرف متوجہ نہ ہوگا۔اگر کوئی شخص اپنی اس فطرت سے پھرے گا تو وہ ارتقاء کی آفات میں سے کسی آفت یا والدین کی تقلید کی وجہ سے پھرے گا۔اور بچے میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہوتی جو کہ اس کے لیے ایمان لانے کے حکم کوواجب کرے اور نہ ہی فطرت دین کوقبول کرنے کے لیے کوئی قطعی علت ہے بلکہ اس حدیث سے اصل مقصود دین اسلام کی تعریف اور یہ بیان کرناہے کہ اس دین کا محل عقل ہے اور اس کا حسن نفوس انسانیہ میں موجود ہے۔‘‘ (المسویٰ شرح المؤطا‘ کتاب الصلاۃ‘ باب جامع الجنائز)
شاہ صاحب ؒ کے ’المسوی‘ کے قول کو بنیاد بناتے ہوئے مفتی شفیع صاحبؒ نے’ معارف القرآن‘ میں، مولانا ادریس کاندھلویؒ نے ’التعلیق الصبیح‘ میں اور مولانا عبیداللہ مبارکپوریؒ نے ’مرعاۃ المفاتیح‘ میں شاہ صاحب کی’ حجۃ اللہ البالغۃ‘ کی عبارات کی تاویل کرتے ہوئے ان کے نزدیک فطرت کا وہی مفہوم بیان کیا ہے جس کو جمہور نے بیان کیا ہے اور خود شاہ صاحبؒ نے بھی’المسوی‘ میں اسی کو اختیار کیاہے۔
شاہ صاحب ؒ کے ’حجۃ اللہ البالغۃ‘ اور ’المسوی‘ کے اقوال میں تطبیق کی ایک تیسری صورت جو کہ راقم الحروف کے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ’المسوی‘ میں شاہ صاحبؒ نے فطرت کو جمہور کے قول کے مطابق ایک دین حق کی قبولیت کے لیے ایک رستہ اور استعداد قراردیا ہے جبکہ ’حجۃ اللہ البالغۃ‘میں شاہ صاحبؒ نے یہ واضح کیا ہے کہ اپنی فطرت سلیمہ کی بنیاد پر انسان دین اسلام کے کون کون سے احکامات کی طرف میلان اور رجحان محسوس کرتا ہے ۔شاہ صاحبؒ کے نزدیک انسان اپنی فطرت کی وجہ سے دین اسلام کے ان کلی اصولوں کی طرف اپنے نفس میں ایک رجحان و میلان محسوس کرتا ہے جو کہ تمام انبیا کے دین میں مشترک رہے ہیں۔اور اگر انسان اپنے اس فطری رجحان پر انبیاء کی بعثت سے پہلے عمل نہ کرے گا تو اس کے دنیاوی نتائج برے نکلیں گے جس کو شاہ صاحب ؒ نے ’مؤاخذۃ‘ کا نام دیا ہے ۔شاہ صاحبؒ بعض اوقات’حجۃ اللہ البالغۃ‘ میں مؤاخذۃ اورمجازاۃ کے الفاظ استعمال کر تے ہیں تو ان کی مراداس سے کوئی اخروی عذاب یا محاسبہ نہیں ہوتا بلکہ وہ اس سے دنیامیں انسان کو اس کے اعمال کا ملنے والا بدلہ مراد لے رہے ہوتے ہیں، جیسا کہ شاہ صاحب ؒ نے ’مبحث کیفیۃ المجازاۃ فی الحیاۃ و بعد المماۃ‘ کے عنوان سے’ حجۃ للہ البالغۃ‘ میں ایک مبحث قائم کی ہے۔ لہٰذاشاہ صاحبؒ کا یہ کہنا کہ انبیا کی بعثت سے پہلے بھی خیر وشر کے کلی اصولوں میں انسانوں سے ’مؤاخذۃ‘ثابت ہے‘ اس سے ان کی مراد انبیا کی بعثت سے پہلے اپنے فطری رجحان کے خلاف چلنے والے انسانوں کے افعال کے دنیاوی نتائج یعنی دنیاوی جزا و سزاہے۔واللہ أعلم بالصواب۔
(باقی)

حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے سانحہ ارتحال پر اہل علم ودانش کے تعزیتی پیغامات

ادارہ

(۱)
حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب زادت مکارمکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی اور ڈاکٹر محمد دین کی پے در پے وفات حسرت آیات آپ کے لیے اور دوسرے متعلقین کے لیے تو رنج والم کا باعث ہے ہی، لیکن حضرت صوفی صاحب مرحوم کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کے پر ہونے کی امید نہیں۔ یہ بڑا قومی سانحہ ہے۔ آج تو جو مہر تاباں غروب ہوتا ہے، اس کی جگہ معمولی چراغ بھی جلتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اب ایسے افراد پیدا ہی نہیں ہو رہے۔ علم وعمل کے جامع اور بزرگوں کے مزاج ومسلک سے بخوبی واقف، شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے علوم کے شارح وناشر، قرآن کریم کے قابل رشک مفسر، حدیث نبوی کے کامیاب ترین ماہر محدث کہاں میسر ہیں! اب تو لگتا ہے:
زندگی بے کیف ہے بے رنگ ہے تیر ے بغیر
نام بھی جینے کا گویا ننگ ہے تیرے بغیر
جو سکوں آباد رہتا تھا جوار قلب میں
آہ وہ صد میل وصد فرہنگ ہے تیرے بغیر
اب نہ احساس مسرت ہے نہ کچھ احساس غم
دل کے آئینے پہ ایک زنگ ہے تیرے بغیر
یاس کی ظمت الم کی چار سو تاریکیاں
صبح نور افروز بھی شب رنگ ہے تیرے بغیر
جناب محمد دین مرحوم کے احوال قابل رشک ولائق تقلید ہیں۔ بزرگوں سے مضبوط تعلق اور اس کے نتیجے میں تعلق مع اللہ کی دولت سے سرشار وسرفراز حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں مستعد ومحتاط، یہ ایسی صفات ہیں کہ آج ان کا قحط روز افزوں ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحومین کو جنت الفردوس میں بلند درجات عطا فرمائیں اور پس ماندگان کو صبر جمیل واجر جزیل عطا ہو۔ 
والسلام
(شیخ الحدیث حضرت مولانا) سلیم اللہ خان (دامت برکاتہم)
صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
(۲)
بخدمت گرامی اقدس حضرت شیخ الحدیث مولانا سرفراز صفدر صاحب دامت برکاتہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج گرامی بعافیت ہوں گے۔
حضرت صوفی صاحب قدس اللہ سرہ کے انتقال کی خبر یہاں برطانیہ میں نہایت صدمہ اور افسوس سے سنی گئی۔ پاکستانی چینلوں خاص طور پر جیو پر حضرت صوفی صاحبؒ کے وصال کی خبر بعض اکابرین کے تعزیتی جملوں کے ساتھ سارا دن چلتی رہی۔ برطانیہ میں علما فون کر کے ایک دوسرے سے تعزیت کرتے رہے۔ بند ہ کو بھی بہت سے تعزیتی فون آئے۔
حضرت صوفی صاحب قدس اللہ سرہ آج کے شر وفساد کے دور میں اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے۔ بندہ نے حضرت صوفی صاحبؒ کو انتہائی انکسار، تواضع اور سادگی کا پیکر پایا۔ بندہ نے جب بھی حضرت صوفی صاحب کی خدمت میں حاضری دی، انھیں ایک چھوٹے سے سادہ کمرے میں سادہ سی چارپائی پر جلوہ افروز پایا۔ آپ انتہائی شفقت ومحبت عنایت فرماتے۔ آپ سے مل کر ہمیشہ اپنائیت کا احساس ہوتا۔ ورلڈ اسلامک فورم کے عنوان سے جو ٹوٹی پھوٹی کوششیں ہم لوگ یہاں کر رہے ہیں، ان میں حضرت صوفی صاحب کی توجہات اور دعائیں شامل حال محسوس کیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت صوفی صاحبؒ سے اس قدر علمی، دعوتی، فکری وتصنیفی کام لیا کہ کوئی بڑی سے بڑی اکیڈمی نہیں کر سکتی۔ پاکستان کے ایک چھوٹے سے شہر میں چھوٹی سی جگہ بیٹھ کر انتہائی کم وسائل بلکہ کس مپرسی کی حالت میں حضرت صوفی صاحب کا اس قدر وسیع ووقیع کام کر جانا سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے کہ آپ کے ایک ایک وارث نے پچھلی امتوں کے انبیا کی طرح کام کیا۔ 
حضرت صوفی صاحب نے بلامبالغہ تفسیر، حدیث، دعوتی مضامین اور علمی مقالات کی صورت میں ہزاروں صفحات تحریر فرمائے۔ حضرت صوفی صاحب کی تحریروں میں ہمیشہ علماے دیوبند کا ٹھیٹھ، خالص، صحیح اور عزیمت والا موقف سامنے آتا رہا۔ گزشتہ نصف صدی میں پورے برصغیر میں بعض علمی مسائل خاص طور پر وحدت الوجود پر نیز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ پر جو تحریریں سامنے آئیں، آپ نے پورے طبقہ علما کی طرف سے فرض کفایہ ادا فرمایا۔ بندہ کے نزدیک آپ حضرت شیخ الہندؒ ، حضرت شیخ الاسلام مدنی کے پرعزیمت ومجاہدانہ سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی تھے۔ آپ کی زندگی علما کے لیے مشعل راہ ہے۔ 
بدقسمتی سے عرصہ سے علما کا رجحان اجتماعی ذمہ داریوں اور عملی میدانوں سے فرار ہو کر پرسکون گوشوں میں بیٹھ کر تدریسی، تعلیمی، تصنیفی کام کرنے کی طر ف بڑھ رہا ہے۔ اس قحط الرجال کے دور میں جب کوئی شخصیت رخصت ہوتی ہے تو اس کی جگہ بڑی حد تک خالی ہی رہتی ہے۔ صوفی صاحب بھی ایک ایسی ہی عظیم شخصیت تھے جن کا خلا پر ہونا بظاہر بہت مشکل ہے۔ 
اللہ تعالیٰ حضرت صوفی صاحب کی بال بال مغفرت فرمائے، اعلیٰ علیین اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، پس ماندگان کو آپ کے اوصاف وکمالات کا حامل بنائے۔ آپ نے علم وعمل، عزیمت وکردار کے جو چراغ روشن کیے، ان شاء اللہ ان کی روشنی قائم دائم رہے گی۔ جامعہ نصرت العلوم اور آپ کے تربیت کردہ سیکڑوں علما، خاص طور پر مولانا محمد فیاض خان دامت برکاتہم اور مولانا زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتہم حضرت صوفی صاحب کا مشن جاری رکھیں گے۔ 
صوفی صاحب کا وصال تمام پس ماندگان خاص طور پر حضرت والا کے لیے انتہائی غم واندوہ کا باعث ہے اور اس عمر میں حضرت والا کے لیے جان کاہ صدمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت والا اور تمام پس ماندگان کو صبر جمیل سے نوازے اور اللہ تعالیٰ حضرت والا کا سایہ تادیر ملت اسلامیہ پر قائم رکھے۔ آمین یا رب العالمین۔
محتاج دعا
(مولانا) محمد عیسیٰ منصوری
لندن
(۳)
برادر مکرم مولانا زاہد الراشدی صاحب زید فضلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آج اخبارات میں آ پ کے عم محترم شیخ التفسیر حضرت مولانا عبد الحمید سواتی رحمۃ اللہ علیہ کے سانحہ ارتحال کی خبر پڑھ کر بہت صدمہ پہنچا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت مولانا عبد الحمید سواتیؒ کے تبحر علمی اور ان کے زہد وتقویٰ کے باوصف ان کی شگفتہ مزاجی ہر زائر اور ملاقاتی کو گرویدہ بنا لیتی تھی۔ علم وادراک اور فہم وشعور کے اعتبار سے پاکستان کے بنجر بیابان میں حضرت صوفی سواتی صاحبؒ نے اسلام کے صحیح عقائد ونظریات کی ایسی تخم ریزی کی کہ ویرانہ بہار آفریں گلشن سے آراستہ ہو گیا اور معاشرہ اس کی عطر بیزی سے مہک اٹھا۔ حضرت مولانا علیہ الرحمہ فکر ولی اللہٰی کے صحیح شارح اور ترجمان تھے۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران حضرت مولانا مفتی عبد الواحد رحمہ اللہ کی رفاقت میں وہ دفتر آزاد لاہور میں کئی مرتبہ تشریف لائے اور اپنی گراں قدر تجاویز اور مشوروں سے اس فقیر کو نوازا تھا مگر میری محرومی کہ ان کی تیمار داری کے ارادے سے گوجرانوالہ میں حاضری کا کئی مرتبہ پروگرام بنانے کے باوجود حرماں نصیب ہی رہا تا آنکہ ان کے سفر آخرت کی افسوس ناک خبر ملی۔ بہت افسوس اور صدمہ پہنچا۔ اللہ تعالیٰ ہماری خطاؤں اور گناہوں کو معاف کر دے، حضرت مولانا عبد الحمید سواتی کو جنت الفردوس میں مقام علیین سے سرفراز فرمائے اور آپ سب اہل خانہ اور احباب واقربا کو صبر وتحمل کی توفیق سے نوازے، آمین۔
حضرت مولانا عبد الحمید سواتی کے داغ مفارقت سے پاکستان ایک عظیم اور عبقری شخصیت سے محروم ہو گیا ہے۔ یہ صرف شہر گوجرانوالہ یا پاکستان کا نہیں، عالم اسلام کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ آپ کی دینی، علمی وادبی اور تحقیقی خاندانی روایات کی کڑی ٹوٹنے سے جو خلا پیدا ہو گیا ہے، وہ مشکل ہی سے پر ہو سکے گا۔ اللہ تعالیٰ غیب سے ایسے اسباب فراہم کر دے کہ حضرت صوفی صاحب کی روشن کردہ دینی وعلمی شمع ہمہ جہت درخشاں وتابندہ رہے اور ہمیں استفادے کے مواقع فراہم کر کے ہمارے ظلمت کدۂ فکر ونظر کو منور فرماتا رہے۔ آمین۔
آپ کا شریک غم
(مولانا) مجاہد الحسینی
فیصل آباد
(۴)
مکرمی ومحترمی حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
عرض کہ شیخ التفسیر والحدیث حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمۃ اللہ علیہ کے سانحہ ارتحال کی خبر پڑھ کر انتہائی صدمہ ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بلاشبہ حضرت صوفی صاحب مرحوم ہمارے اکابر واسلاف کے سلسلۃ الذہب کی ایک روشن کڑی تھے جن کے انتقال سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے، لیکن رب کائنات کے قائم کردہ نظام موت وحیات کی حکمتیں برحق ہیں۔ اللہ رب العزت حضرت صاحب کی جملہ دینی خدمات کو قبول فرما کر ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے اور ان کے قائم کردہ گلشن علم وعرفاں جامعہ نصرۃ العلوم کو مزید ترقیات سے نوازے، آمین یا رب العالمین۔
(مولانا) سیف الرحمن
ناظم وفاق المدارس العربیہ پاکستان
حیدر آباد
(۵)
محترم ومکرم جناب ابو عمار زاہد الراشدی صاحب زاد مجدہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مورخہ ۷ اپریل کے اخبارات میں یہ روح فرسا خبر پڑھنے کو ملی کہ بانی مدرسہ نصرۃ العلوم مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دار فانی سے دار بقا کی طرف روانہ ہو گئے ہیں۔ یہ ایک شخص کا سانحہ ارتحال نہیں، ایک دور اور علمی تحریک سے محرومی ہے۔ حدیث مبارک کے مطابق علم نہیں اٹھتا بلکہ صاحبان علم اٹھ جاتے ہیں۔
بلاشبہ صوفی صاحب کی زندگی کا ہر لمحہ علم نبوت کی ترویج میں گزرا۔ نصرۃ العلوم کی صورت میں ایک شاندار علمی درس گاہ قائم فرمائی جس کا فیض جاری ہے اور ان شاء اللہ جاری رہے گا۔ ان کے ہزاروں پھیلے ہوئے شاگرد ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔ ان کی نجات کے لیے اس سے بڑھ کر وسیلہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ پھر دروس القرآن کا سلسلہ جو مرتب ومدون ہوا ہے، یہ بھی علمی دنیا کے لیے ایک سرمایہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے فیض کو سدا جاری رکھے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ ان کی علمی وتدریسی وتصنیفی خدمات کے پیش نظر ان کی یاد میں خصوصی نشست رکھی جائے، نیز الشریعہ میں ان کی خدمات پر جامع مضمون شائع کیا جائے۔
خیر اندیش
ڈاکٹر محمد عبد اللہ
اسلامک سنٹر، پنجاب یونیورسٹی لاہور

آفتاب علم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

سید احمد حسین زید

۶ اپریل ۲۰۰۸ بمطابق ۲۸؍ ربیع الاول ۱۴۲۹ھ بروز اتوار صبح دس بجے فکر ولی اللٰہی کے وارث اور ترجمان، مفسر قرآن، محقق ومورخ، شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی بانی مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ لاکھوں عقیدت مندوں، شاگردوں اور عزیز واقارب کو داغ مفارقت دے کر قبرستان کلاں گوجرانوالہ میں آسودۂ خاک ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ جب کسی کو اپنے دین کی اشاعت کے لیے منتخب کرتا ہے تو پھر اس پر خصوصی التفات فرماتا ہے۔ شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتی انھی چنیدہ افراد میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں شنکیاری (مانسہرہ) کے ایک دور دراز گاؤں چیڑاں ڈھکی سے اٹھایا اور دنیاے اسلام کی عظیم دینی وتعلیمی شخصیات میں لا کھڑا کیا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے مدرسے سے حاصل کی۔ کئی دینی مدارس سے فیض یاب ہونے کے بعد آپ نے مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں بھی تعلیمی پیاس بجھائی۔ یہاں آپ کو جمعیۃ علماے ہند کے مرکزی راہ نما حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ سے استفادہ کا موقع ملا۔ ۱۹۴۲ء میں آپ نے دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی اور سند فراغت حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے طبیہ کالج حیدر آباد دکن سے طب یونانی کی سند حاصل کی اور پھر دار المبلغین لکھنو سے بھی تربیت حاصل کی۔ آپ کو حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، حضرت مولانا اعزاز علی، حضرت مولانا عبد الشکور لکھنوی، حضرت مولانا احمد علی لاہوری، حضرت مولانا عبد القدیر کیمل پوری اور حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمہم اللہ جیسی نابغہ روزگار ہستیوں سے اکتساب فیض کا موقع ملا۔
گوجرانوالہ کو خان پور سانسی سے گوجرانوالہ بننے کا شرف ملا تو اسے پہلوانوں کے شہر کا نام اور تعارف ملا۔ علمی سطح پر اس وقت مدرسہ انوار العلوم اور مرکزی جامع مسجد ملحقہ شیرانوالہ باغ محدث گوجرانوالہ مولانا عبد العزیز کی یادگار کی حیثیت سے جگمگا رہے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد سینکڑوں افراد کے اس شہر میں لوگوں کی تعداد لاکھوں کو چھونے لگی۔ بدعت، بدعقیدگی اور ہندوانہ رسوم نے اس شہر پر سایہ کر لیا۔ اس ماحول میں حضرت صوفی صاحب نے گوجرانوالہ شہر کے بارہ دروازوں سے باہر چوک گھنٹہ گھر سے متصل شہر کا پانی جمع ہونے سے بننے والے ایک بڑے سے جوہڑ کے کنارے مدرسہ نصرت العلوم اور عظیم الشان مسجد نور کی بنیاد رکھی۔ آپ نے اس کام کا آغاز بے سروسامانی کے عالم میں کیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جوہڑ غائب ہو گیا اور آج عظیم جامعہ نصرت العلوم نقشہ عالم پر جگمگا رہا ہے۔
آپ نے شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کی فکر اور شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری کی اتباع میں مدرسہ نصرت العلوم میں دورۂ تفسیر کا اجرا کیا جو حضرات شیخین (حضرت صوفی صاحب اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر) کی علالت تک جاری رہا۔ آپ کی سرپرستی میں مدرسہ نصرت العلوم سے مجلہ نصرت العلوم کا بھی اجرا ہوا جو دینی اصلاح اور تحقیق کا مرقع ہوتا ہے۔
جب تک آپ کی صحت نے اجازت دی، آپ مسجد نور میں باقاعدگی سے درس قرآن وحدیث ارشاد فرماتے رہے۔ ان دروس سے اردو کی سب سے بڑی اور جدید وسہل تفسیر ’’معالم العرفان فی دروس القرآن‘‘ ۲۰ جلدوں میں منصہ شہود پر آئی جو اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس میں باطل فرقوں اور باطل نظریات کی تردید کی گئی ہے اور جدید دور کے سائنسی اور فکری مسائل کا حل سلیس اور آسان اردو میں دیا گیا ہے۔ اس میں جدید وقدیم تفسیری ذخیرے کا خلاصہ بھی ہے۔ آپ سے ہزاروں شاگردوں نے اکتساب فیض کیا ہے اور لاکھوں لوگ معالم العرفان فی دروس القرآن، نماز مسنون اور دیگر تصانیف اور خطبات سے مستفید ہو کر جادۂ حق پر گام زن ہوئے ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے فکر وفلسفہ کے امین امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی کے افکار کو جن حضرات نے گہرائی میں جا کر سمجھا اور ان کی توضیح واشاعت کے لیے کام کیا، ان میں حضرت صوفی صاحب کا نام نہایت قابل احترام ہے۔ آپ نے اس بات کو غلط ثابت کیا کہ امام انقلاب مولانا سندھی کمیونزم سے متاثر تھے۔ آپ اس موضوع پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے تھے اور آپ نے ’’مولانا عبید اللہ سندھی کے علوم وافکار‘‘ کے عنوان سے ایک شاہکار کتاب بھی تصنیف کی ہے۔
حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی بہت ہی زبردست قوت اصلاح کے مالک تھے۔ آپ نے لاکھوں لوگوں کے ایمان وعقیدہ کی اصلاح کی۔ مجھے ۲۸ سال تک ان کی سرپرستی اور راہ نمائی سے مستفید ہونے کا موقع ملا اور مجھ جیسے کالجیٹ جب حضر ت صوفی صاحب کے پاس حاضر ہوتے تو قدرتی طور پر ایسا رعب ودبدبہ طاری ہو جاتا کہ پاس ادب سے زبان گنگ ہو جایا کرتی تھی۔ آپ کی مجلس میں حاضری سے قبل یہ تسلی کر لیتے تھے کہ کہیں آپ کسی بات پر ہم سے نالاں تو نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم محدث اعظم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ اور شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد القیوم ہزاروی مدظلہ کے پاس حاضر ہو کر کچھ حوصلہ پاتے، پھر صوفی صاحب کی مجلس میں سلام کر کے ایک جانب ہو کر بیٹھ جاتے۔ سرزنش کے بعد آپ کی نصیحتیں اور دعائیں ذہنی اور قلبی تسکین کا باعث ہوتیں۔
۶؍ اپریل کا دن وہ دن ہے جس نے ہم سے ہمارا مربی، سرپرست، ہمدرد اور مخلص راہ نما، قائد اور استاذ چھین لیا ہے۔ ان کی توجہ، ان کی محبت اور ان کی دعائیں یقیناًہمارے لیے توشہ آخرت ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ روز آخرت آپ کی رفاقت نصیب فرمائے، آمین ثم آمین۔

ہے یہ شام زندگی صبح دوام زندگی

مولانا محمد یوسف

پیکر علم وعمل، علماے حق کی تابندہ روایات کے امین شیخ المفسرین والمحدثین حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان صاحب سواتی رحمہ اللہ تعالیٰ طویل علالت کے بعد ۶؍اپریل ۲۰۰۸ ؁ء بروز اتوار صبح تقریباًساڑھے نو بجے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کی وفات سے امت مسلمہ ایک نکتہ رس مفسر، عظیم محدث، مایہ ناز محقق ومولف، اسلامی علوم وفنون کے ممتاز مدرس اور علوم ومعارف ولی اللہٰی کے محقق ومدون سے محروم ہوگئی ہے۔ آپ کی وفات ملک بھر کے تمام علمی، دینی، تحریکی حلقوں کے لیے سانحہ عظیم ہے۔ بہرحال دارفانی سے داربقا کی طرف ہر ذی روح کاانتقال ایک طے شدہ حقیقت ہے۔ خداوند قدوس آپ کی مساعی جمیلہ کواپنی بارگاہ عالیہ میں اپنی شان کے مطابق قبول فرمائے اورآپ کی بشری لغزشوں سے درگزر فرماتے ہوئے آپ کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطافرمائے، آمین یارب العالمین۔
حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی ؒ ضلع مانسہرہ کی ایک غیر معروف بستی چیڑاں ڈھکی داخلی کڑمنگ بالا میں ۱۹۱۷ء میں پید اہوئے۔ آپ نے درس نظامی کی اکثرتعلیم رئیس المدرسین حضرت مولانا عبدالقدیر کیمل پوری ؒ کی زیرنگرانی مدرسہ انوارالعلوم گوجرانوالہ میں حاصل کی اور پھر ۱۹۴۱ء میں عظیم بین الاقوامی دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبندسے سند فراغت حاصل کی۔ آپ کے استاد محترم شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے آپ کی علمی لیاقت پر اعتماد کرتے ہوئے آپ کواپنی طرف سے دارالعلوم کی سند کے علاوہ بھی خصوصی سند عطافرمائی۔ ۱۹۵۲ء میں انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں محض اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم پرتوکل کرتے ہوئے گوجرا نوالہ میں ایک دینی درسگاہ مدرسہ نصر ت العلوم کی بنیاد رکھی اورپھر شباب سے شیب تک کازمانہ اسی مرکز حق میں تدریس کرتے ہوئے صرف کیا۔ آپ اپنے زمانہ تدریس میں دینی علوم وفنون کی تمام کتابیں پڑھاتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر فن میں کمال عطافرمایا تھا، لیکن علم تفسیر اورعلم حدیث میںآپ کو ایک امتیازی شان حاصل تھی۔ آپ نے صحاح ستہ میں شامل احادیث کی تمام کتب، بالخصوص بخاری شریف اورمسلم شریف کئی مرتبہ پڑھائیں۔ آپ کو شاہ ولی اللہ ؒ کے علوم ومعارف سے بھی ایک خصوصی شغف وتعلق تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ شاہ ولی اللہ ؒ محدث دہلوی کی شہرۂ آفاق تصنیف حجۃ اللہ البالغہ مسلسل پینتیس سال پڑھاتے رہے۔ 
آپ مجموعی طورپر تقریباًپچاس برس مسند تدریس پر رونق افروز رہے اورہزاروں تشنگان علم نے اس چشمہ علم سے اپنی پیاس بجھائی۔ آج آپ کے تلامذہ جنوبی ایشیا تمام ممالک میں دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔ تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ نے تصنیفی میدا ن میں بھی گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ آپ کے دروس پر مشتمل اردو زبان میں برصغیر کی سب سے ضخیم تفسیر معالم الفرقان فی دروس القرآن بیس جلدوں میں منظرعام پر آچکی ہے اور علمی حلقوں میں اس کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ قرآنی علوم ومعارف اورحدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے شغف کایہ عالم تھا کہ تقریباًنصف صدی تک آپ باقاعدگی سے ہفتہ میں چار دن بعداز نماز فجرقرآن حکیم کا اورتین دن حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادرس ارشادفرماتے رہے۔ بے شمار بندگان خداکواس مبارک سلسلہ سے فائدہ ہوا۔ اس کے علاوہ آپ زندگی بھر امت مسلمہ کے اجتماعی معاملات میں بھی ہمیشہ ایک متحرک کردار اداکرتے رہے۔ گو آپ کا ذوق ومزاج سیاسی نہ تھا، لیکن جب کبھی ضرورت پیش آئی اورحالات نے پکاراتوآپ نے اپنے شیخ طریقت مولانا سیدحسین احمد مدنی ؒ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مصائب وآلام کی پروا کیے بغیر جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر پوری تن دہی سے اس میدان میں بھی پھر پورحصہ لیا اور قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ پاکستان میں اسلامی قانون سازی کی جدوجہد، تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفی، تحریک جامع مسجدنور گوجرانوالہ میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے اپنے روشن کردارسے بعد میںآنے والوں کویہ مثالی درس دیا کہ ’جدا ہودین سیاست سے تورہ جاتی ہے چنگیزی ‘۔
اس کے علاوہ دنیا بھر کی تمام دینی تحریکات کی بھرپور حمایت کرتے رہے۔ تقویٰ وپرہیزگاری ،خلوص وایثار ،محبت ومودت میںآپ اپنے اکابر کی تابندہ روایات کے مظہر تھے۔ آپ انتہائی منکسرالمزاج، خوش اخلاق اور خندہ جبیں تھے۔ کم گوئی آپ کا خاص وصف تھا۔ بقدرضرورت تکلم فرماتے، ورنہ خاموش رہتے۔ زیرتدریس طلبہ کے ساتھ توآپ کاتعلق ایک مشفق باپ کا سا تھا۔ عصرکی نماز کے بعد مدرسہ کے دارالاقامۃ کے برآمدے میں چارپائی پر بیٹھ جاتے اور طلبہ آپ کے اردگرد جمع ہو جاتے۔ طلبہ سے مختلف موضوعات پر گفتگو فرماتے اورگاہے گاہے ان سے خوش طبعی کرتے اورطلبہ میںیوں گھل مل جاتے کہ کوئی بھی طالب علم بلاجھجک آپ سے اپنے ذوق کا سوال کرسکتاتھا۔ آپ کبھی کسی طالب کے سوال سے ناراض نہ ہوتے بلکہ خندہ پیشانی اور خوش روئی سے اس کا جواب مرحمت فرماتے۔
راقم اکثر آپ سے اکابراہل علم کے متعلق مختلف سوال پوچھتا توآپ ہمیشہ نرمی اور شفقت سے جواب دیتے۔ ایک مرتبہ راقم نے آپ سے شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کے دست حق پرست پر بیعت کی وجہ دریافت کی تو فرمانے لگے کہ عزیز! حضرت مدنی ؒ میدان تصوف کے ہی شاہسوار نہ تھے بلکہ میدان جہاد کے بھی عظیم شاہسوار تھے، اسی لیے میں نے آپ کے دست حق پرست پربیعت کی۔ آپ نے عامۃ الناس کی دینی راہنمائی کے لیے ایک جریدہ ماہنامہ نصرت العلوم کابھی اجرا کیا جس کی اشاعت کا سلسلہ بحمداللہ تعالیٰ اب بھی خوش اسلوبی سے جاری ہے۔ آپ تواپنا فرض خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے بخوبی نبھا چکے۔ اب یہ ذمہ داری آ پ کے تمام متعلقین وتلامذہ کے کندھوں پرآپڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ذمہ داری سے عہد برآہ ہونے کی توفیق عطافرمائے، آمین۔
آپ کی حیات طیبہ اورمساعی جمیلہ کے ہرگوشہ کومحفوظ کرنا اورانہیں آئندہ نسلوں تک پہنچانا بے حد ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلیں نہ صرف آپ کے روشن کردارسے واقف ہو سکیں،بلکہ اس پر عمل کرتے ہوئے دارین کی سرخروئی بھی حاصل کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ استاد محترم کو کروٹ کروٹ راحت نصیب فرمائے اور آپ کے علمی فیض کوعام اورتام فرمائے اورآپ کے علمی جانشین استاذمحترم حضرت مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی کویہ ہمت اور توفیق عطا فرمائیں کہ وہ اپنے عظیم والد کے عظیم علمی ورثہ کوآنے والی نسلوں تک بخوبی منتقل کرسکیں۔ آمین یارب العالمین۔

ڈاکٹر محمد دین مرحوم

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نور اللہ مرقدہ کی وفات پر ملک بھر اور اندرونی ممالک سے تعزیتوں کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ ہمیں ایک اور صدمہ سے دوچار ہونا پڑا اور بدھ (۹؍ اپریل ۲۰۰۸) کے روز میرے خسر بزرگوار ڈاکٹر محمد دین بھی طویل علالت کے بعد کم وبیش ۸۰ برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ بھی حضرت صوفی صاحب کی طرح کافی عرصہ سے صاحب فراش تھے۔ ان کا تعلق کھاریاں سے کوٹلہ جانے والے روڈ پر واقع قصبہ گلیانہ سے تھا اور انتہائی نیک دل اور ذاکر وشاغل بزرگ تھے۔ طب وعلاج کے شعبہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے انھیں ڈاکٹر کہا جاتا تھا، ورنہ وہ ڈسپنسر تھے۔ اسی حیثیت سے انھوں نے ریٹائرمنٹ کی عمر تک سرکاری ملازمت کی اور مختلف ہسپتالوں میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔
ڈاکٹر محمد دین مرحوم کا بیعت کا تعلق حضرت لاہوریؒ سے تھا اور یہ صرف تعلق نہیں تھا بلکہ وہ حضرت لاہوریؒ کے طریقہ پر زندگی بھر ذکر واذکار کرتے رہے۔ جب تک معذور نہیں ہوئے، شاید ہی زندگی میں کوئی دن ایسا آیا ہو کہ ان کی رات کا آخری حصہ اللہ اللہ کی ضربوں سے نہ گونج رہا ہو۔ بڑے اہتمام اور توجہ کے ساتھ ذکر کرتے تھے۔ شب زندہ دار بزرگ تھے۔ حضرت لاہوریؒ کی وفات کے بعد انھوں نے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے ساتھ بیعت کا تعلق قائم کر لیا مگر غالباً حضرت شیخ الحدیث کی ہدایت پر ذکر واذکار کا معمول وہی حضرت لاہوریؒ والا رہا۔ عبادات میں فرائض و نوافل کے معمولات کی پابندی کے ساتھ ساتھ معاملات میں بھی اکل کھرے انسان تھے اور ایک ایک پیسے کا حساب رکھتے تھے۔ وہ ڈسپنسر کے طور پر سرکاری ملازمت کے دوران ڈیوٹی کے لیے خود چن کر ایسے دور دراز ہسپتالوں کا انتخاب کرتے جہاں پیشہ ورانہ خیانت اور بدعنوانی کا امکان کم سے کم ہوتا اور ہر معاملہ میں پھونک پھونک کر قدم اٹھاتے۔ 
ہمارا خسر داماد کے طور پر اڑتیس سال ساتھ رہا ہے۔ اس دوران مجھے یاد نہیں کہ ان سے مجھے کوئی ایسی شکایت ہوئی ہو جسے واقعتا شکایت کہا جا سکتا ہو اور میں نے بھی ان کے مکمل احترام کے ساتھ ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ انھیں مجھ سے کوئی شکایت نہ ہو۔ میرے ساتھ جب بھی ملاقات ہوتی، دینی تحریکات کے حوالے سے بات کرتے، مسئلہ مسائل کا ذکر ہوتا، کسی نہ کسی دینی معاملہ کا تذکرہ کرتے یا کسی بزر گ کا ذکر چھیڑ دیتے۔ ابھی چند روز قبل ہم دونوں میاں بیوی ان کی بیمار پرسی کے لیے گلیانہ گئے تو سخت تکلیف کے عالم میں تھے۔ تکلیف کی شدت سے منہ سے ہائے ہائے بھی نکل رہا تھا مگر ہر سانس کے ساتھ اللہ اللہ کی آواز بھی صاف سنائی دے رہی تھی۔ رسم ورواج اور بدعات سے طبعی تنفر تھا۔ خاندان کے کسی ایسے فنکشن میں ان کی شرکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا جس کے بارے میں انھیں علم ہو جاتا کہ کوئی خلاف شرع بات وہاں ہوگی۔ 
بعض بزرگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آج کے زمانے کے لوگوں میں سے نہیں تھے اور ڈاکٹر محمد دین رحمہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی تکلف کے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ فی الواقع اس دور کے نہیں بلکہ پچھلے کسی زمانے کے بچھڑے ہوئے بزرگ تھے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقا م عطا فرمائیں۔ آمین ثم آمین۔ 

اک مرد حر تھا خلد کی جانب رواں ہوا

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شعر پڑھنے، سننے اور اس سے حظ اٹھانے کا ذوق بحمد اللہ تعالیٰ شروع سے رہا ہے مگر شعر گوئی کبھی زندگی کا معمول نہ بن سکی۔ طالب علمی کے دور میں گوجرانوالہ کے معروف شعرا اثر لدھیانوی مرحوم، عزیز لدھیانوی مرحوم، راشد بزمی مرحوم، بیکس فتح گڑھی مرحوم، شاکر سہارنپوری مرحوم، شہید جالندھری مرحوم اور طالب اعوان جیسے دوستوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہا۔ شاعروں میں اہتمام سے شریک ہوتا اور ادبی مجالس سے استفادہ کرتا تھا۔ ایک بار اثر لدھیانوی مرحوم نے ایک طرحی مشاعرہ میں کچھ پڑھنے پر مسلسل اصرار بھی کیا جس کا طرح مصرع تھا:
وفور کرب وغم سے خون دل بھی ہو گیا پانی
مگر دو تین روز کی مسلسل مغز کھپائی کے باوجود ایک مصرع سے زیادہ نہ کہہ سکا جو یہ تھا:
خدایا کب تھمے گی ظالموں کی یہ ستم رانی
اس ناکامی کا اس قدر صدمہ ہوا کہ اس مشاعرہ میں شرکت کا حوصلہ بھی نہ کر سکا اور یہ باب ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔
اس کے کم وبیش ربع صدی بعد حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی قدس اللہ سرہ العزیز کی وفات اور ان کے جنازے میں شریک نہ ہو سکنے کے صدمہ نے بے ساختہ چند اشعار کا روپ دھار لیا جو بعض جرائد میں شائع ہو چکے ہیں اور اب ایک طویل عرصہ کے بعد عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نور اللہ مرقدہ کی وفات پر ان کے ساتھ عقیدت ومحبت مندرجہ ذیل اشعار کی شکل میں نوک قلم پر آگئی ہے۔ ’’اشعار موزوں ہو گئے‘‘ کا جملہ عمداً استعمال نہیں کر رہا کہ وزن، قافیہ اور ردیف کے فن سے قطعی طو رپر ناآشنا ہوں اور قارئین سے درخواست ہے کہ منظوم تاثرات کو فن کے آداب ورموز کے حوالے سے جانچنے کی بجائے صرف عقیدت اور جذبات کے اظہار کے پہلو سے ہی پڑھا جائے۔

اک مرد حر تھا خلد کی جانب رواں ہوا
خاکی تھا، اہل دیں میں تھا، جنت مکاں ہوا

عبد حمید بھی تھا جو وہ عبد الحمید تھا
اسی عبدیت کی راہ میں خلد آشیاں ہوا

’’چیڑاں ڈھکی‘‘ سے اترا تو پہنچا وہ دیوبند
قسام علم اس پر جب مہرباں ہوا

توحید رب کا عمر بھر مناد تھا وہ شخص
جہل وشرک کی حرکتوں پہ نوحہ خواں ہوا

سنت کی پیروی ہی بنا اس کا ذوق وشوق
بدعت سے نفرتوں کا وہ اک نشاں ہوا

کوفہ کے بوحنیفہؒ کا وہ پیروکار تھا
اور اس کے علم وفضل کا وہ مدح خواں ہوا

تھا دہلوی ولیؒ کی وہ حکمت کا ترجماں
اور اس کے جہد وعمل کا وہ قصہ خواں ہوا

مدنی حسین احمدؒ جو تھا اس کا شیخ خاص
پھر اس کی ادائے ناز کا وہ نغمہ خواں ہوا

صفدر کے ساتھ تھا وہ اور اس کا تھا دست راست
اس کے مشن میں غافلِ سود وزیاں ہوا

ہے اس کی محنتوں کا ثمر ’’نصرت العلوم‘‘
اور اس کے فیض کا ہے یہ چشمہ رواں ہوا

ہے راشدی بھی برکتوں کا اس کی خوشہ چیں
وہ جو کہ اب ہے عازم سوے جناں ہوا

آہ ! حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نور اللہ مرقدہ

سید سلمان گیلانی

رہبر دین تھے وہ، ہادئ ایمان تھے وہ
فلک رشد وہدیٰ کے مہ تابان تھے وہ

ناز تھا علم کو جن پر وہ تھے ایسے عالم
فخر تھا جن پہ سخن کو وہ سخن دان تھے وہ

نصرت حق کے لیے وقف رہا ان کا قلم
اہل باطل کے لیے خنجر بران تھے وہ

زہد وتقویٰ میں تھے وہ مثل برادر صفدر
جس میں اوصاف ملائک ہوں وہ انسان تھے وہ

تعزیت ان کی میں فیاض سے زاہد سے کروں
اس کے والد تھے وہ اور اس کے چچا جان تھے وہ

(غم زدہ سید سلمان گیلانی)

جون ۲۰۰۸ء

مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور ایک نو مسلم کے تاثراتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
زنا بالجبر کی سزامحمد عمار خان ناصر
دینی و دنیوی طبقات کے مابین دوری: اسباب و علاجحافظ عبد الرشید
غامدی صاحب کا ’’تصور سنت‘‘مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حلال و حرام اور غامدی صاحب کا تصور فطرتحافظ محمد زبیر
حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیریؒ کا انتقالمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مکاتیبادارہ
حالات و واقعاتادارہ

مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور ایک نو مسلم کے تاثرات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

برطانیہ کے حالیہ سفر کے دوران مجھے دو روز اسکاٹ لینڈ کے دار الحکومت ایڈنبرا کے قریب ایک بستی ’’ڈنز‘‘ میں اپنے بھانجے ڈاکٹر سبیل رضوان کے ہاں گزارنے کا موقع ملا۔ رضوان کو اللہ تعالیٰ نے گزشتہ دنوں تیسری بچی دی ہے اور ۸؍ اپریل کو اس کی بڑی بچی کی سالگرہ تھی۔ رضوان نے ڈرتے ڈرتے مجھ سے پوچھا کہ اس کی اہلیہ کہہ رہی ہے کہ اگر ہم بچی کی سالگرہ پر کیک کاٹ لیں تو ماموں ناراض تو نہیں ہوں گے؟ میں نے کہا کہ نہیں بیٹا، ناراضگی کی کون سی بات ہے۔ اصل میں اس کا یہ خیال تھا کہ ایک غیر شرعی رسم ہونے کی وجہ سے میں اس پر غصے کا اظہار کروں گا جبکہ ایسے معاملات میں میرا موقف اور طرزعمل یہ ہے کہ اس قسم کی علاقائی اور ثقافتی رسمیں اگر دین کا حصہ نہ سمجھی جائیں اور انھیں ثواب کے ارادے سے انجام دینے کے بجائے محض خوشی کی علاقائی اور ثقافتی رسم کے طور پر کیا جائے تو اس پر شریعت کے منافی ہونے کا فتویٰ لگا دینا اور غیظ و غضب کا اظہار کرنا مناسب بات نہیں ہے۔ میری طالب علمانہ رائے میں کسی چیز کا غیر شرعی (یعنی شریعت سے ثابت نہ) ہونا اور بات ہے اور شریعت کے منافی ہونا اس سے مختلف امر ہے اور ہمیں ان دونوں کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
رضوان فیملی کی خوشی میں شامل ہونے کے ساتھ ایک فائدہ اور بھی ہوا کہ شام کو ایک نو مسلم مورس سے ملاقات ہو گئی۔ مورس نے اپنے قبول اسلام کا واقعہ اور اس کے بعد پیش آنے والے حالات وواقعات کے ساتھ ساتھ اپنے جذبات و احساسات کا بھی پورے جوش وخروش کے ساتھ اظہار کیا جس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
مورس نے اسلام اور قرآن مجید کے ساتھ اپنے تعارف کے پس منظر کا تفصیلی ذکر کرنے کے بعد کہا کہ ایک دن میں نیوکاسل میں اپنے گھر میں تھا کہ صبح بیدار ہوتے ہی مجھے احساس ہوا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ تھوڑی دیر کے لیے میں گھر سے باہر جا رہا ہوں اور قریب ہی ایک مسجد میں چلا گیا۔ اس سے قبل میں یہاں کسی مسلمان سے نہیں ملا تھا۔ میں نے ان کو بتایا تو انھوں نے مجھے کلمہ شہادت پڑھایا اور میرا نام تبدیل کر کے مورس بڈن کی بجائے مورس مجید رکھ دیا۔ اس کے بعد تبلیغی جماعت والوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور اپنے ساتھ لے گئے۔ انھوں نے مجھے دوبارہ کلمہ پڑھایا اور نام مورس عبد المجید رکھ دیا۔ پھر میرا کچھ عرصہ ان سے تعلق رہا۔ ان کے ساتھ مختلف مقامات پر جاتا رہا اور نیو کاسل میں کتابوں کی ایک دکان ’’بیت الحکمۃ‘‘ کے نام سے میں نے کھول لی۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ’’بیت الحکمۃ‘‘ کا نام یہاں کے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئے گا، اس لیے اس کانام ’’House of Wisdom‘‘ رکھا جائے مگر انھوں نے میری بات نہیں مانی اور میں ’’بیت الحکمۃ‘‘ کے نام سے کچھ عرصہ دکان کرتا رہا۔ پھر میں نے یہ سوچ کر نیو کاسل کو چھوڑ دیا کہ یہاں مسلمان کم ہیں اور مسلمانوں والا ماحول نہیں ہے۔ میں بیوی بچوں سمیت بلیک برن چلا گیا، اس لیے کہ وہاں مسلمانوں کی آبادی بہت ہے، مسجدیں اور مدرسے بہت ہیں اور اسلامی ماحول موجود ہے، اس سے بچوں کی تعلیم بھی اچھی ہوگی، مگر یہ تجربہ بہت تلخ ثابت ہوا۔ میرا خیال تھا کہ دینی معلومات میں اضافہ ہوگا، ماحول اور تربیت کا فائدہ ہوگا، مگر لوگوں نے مجھے چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھا دیا۔ مختلف گروہ تھے، ہر ایک مجھے اپنی طرف کھینچنے لگا۔ کوئی کہتا نماز میں پاؤں یوں رکھو، دوسرا کہتا یوں نہیں بلکہ اس طرح رکھو۔ کوئی کہتا ہاتھ اس جگہ باندھو، دوسرا کہتا کہ یہاں نہیں بلکہ یہاں باندھو۔ کوئی کہتا کہ شہادت کی انگلی ایک بار اٹھاؤ، دوسرا کہتا کہ نہیں بار بار اٹھاتے رہو۔ ہر ایک کی کوشش ہوتی کہ میں اسی کے کہنے پر چلوں، کسی دوسرے کی بات مانتا تو وہ ناراض ہو جاتا۔ میرے مزاج میں تجسس تھا اور سوالات بہت کرتا تھا۔ ہر شخص اپنی بات کی دلیل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نہ کوئی حدیث سنا دیتا۔ حدیثوں میں اس قدر تضاد دیکھ کر مجھے ان سے نفرت ہونے لگی۔ میں لوگوں سے کہتا کہ مجھے قرآن سے سمجھاؤ۔ وہ کہتے کہ قرآن کریم اس وقت تک تم نہیں سمجھ سکتے جب تک حدیث نہ پڑھو اور حدیث پڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ عربی سیکھو اور کئی سال مدرسے میں رہ کر دینی تعلیم حاصل کرو۔ مجھے سخت پریشانی ہونے لگی۔ میرے سوالات کی کثرت دیکھ کر وہ لوگ مجھے گمراہ اور کافر کہنے لگے۔ ہر گروہ مجھے اپنی کتابیں دیتا اور حدیثیں سناتا۔ مجھے ان میں واضح تضاد دکھائی دیتا، چنانچہ سخت پریشانی کی حالت میں بلیک برن کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور میں نے طے کر لیا کہ اب ایسی جگہ جا کر رہوں گا جہاں مسلمانوں کی آبادی نہ ہو اور پھر اسکاٹ لینڈ کے اس علاقے میں آ کر آباد ہو گیا۔
مورس نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ کسی مسلمان کی دعوت پر مسلمان نہیں ہوا اور نہ ہی کسی مسلمان کو دیکھ کر اور اس سے متاثر ہو کر مسلمان ہوا ہے، بلکہ وہ صرف اور صرف قرآن کریم کے مطالعہ سے مسلمان ہوا ہے بلکہ وہ دوسرے جن نومسلموں کو جانتا ہے، ان میں سے کوئی بھی کسی مسلمان کی دعوت پر یا اس سے متاثر ہو کر مسلمان نہیں ہوا بلکہ سب کے سب قرآن کریم پڑھ کر مسلمان ہوئے ہیں، البتہ مسلمان ہونے کے بعد مسلمانوں نے ان نومسلموں کو الجھایا ضرور ہے۔ وہ انھیں پکا مسلمان بنانے اور اسلام کی بنیادی باتوں کی تعلیم دینے کے بجائے پہلے حنفی، شافعی، دیوبندی، بریلوی، تبلیغی اور شیعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے وہ سخت پریشان ہو جاتا ہے۔ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ کسی شخص کے مسلمان ہونے پر کوئی مسلمان اس سے یہ تو نہیں پوچھتا کہ تمھیں مسلمان ہونے کے بعد کیا پریشانی لاحق ہوئی ہے؟ اپنے خاندان کے ساتھ تمہارے تعلقات کا کیا حال ہے؟ تمہیں کوئی مالی پریشانی تو نہیں ہے؟ کسی معاشرتی الجھن سے تو تم دوچار نہیں ہوئے ہو؟ اور تمھیں کسی قسم کی مدد کی ضرورت تو نہیں ہے؟ کسی نومسلم سے یہ بات کوئی نہیں پوچھتا، البتہ ہر شخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کے فرقے میں شامل ہو جائے، کسی دوسرے فرقے کی بات نہ سنے اور کسی اور کی مسجد میں نہ جائے۔ مجھے خود اس کا تلخ تجربہ ہوا ہے، اس لیے میں نے سب کو چھوڑ دیا ہے۔
اس نے کہا کہ مجھے ایک بات سے اور پریشانی ہے کہ مسلمانوں میں عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ ان کے سارے مسئلے خدا نے ہی حل کرنے ہیں، اس لیے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے قدرت کے کسی معجزے کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور پچھلے واقعات سنا سنا کر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ فلاں فلاں موقع پر خدا نے اس طرح ان کی مدد کی تھی۔ اسی طرح بہت سے مسلمان اس انتظار میں ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آئیں گے اور دجال ظاہر ہوگا تو اس وقت سب کچھ ہوگا۔ مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ انھیں اپنی حالت بہتر بنانے کے لیے خود کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ اس طرح انتظار میں بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ انھیں اپنے حالات درست کرنے کے لیے محنت کرنی چاہیے او رخود بھی کچھ کرنا چاہیے۔
مورس نے کہا کہ ایک اور بات پریشانی کی وجہ بنتی ہے کہ نومسلم کو اسلامی احکام وفرائض کے ساتھ ساتھ بعض لوگ اپنے اپنے علاقائی کلچر کا بھی پابند بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ لباس بھی ان جیسا پہنے اور وضع قطع بھی انھی کی اختیار کرے۔ اس پر اس قدر سختی کی جاتی ہے کہ وہ پریشان ہو جا تا ہے۔ جو باتیں اسلام میں ضروری نہیں ہیں، ان کے بارے میں نومسلموں پر اس قدر سختی نہ کی جائے اور انھیں سادہ طریقہ سے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ کیا جائے۔ مورس نے بتایا کہ وہ ایک موقع پر مسلمانوں کی اس عمومی حالت سے پریشان ہو کر یونیورسٹی کی مسجد میں گیا کہ وہاں قدرے پڑھا لکھا ماحول ہوگا، مگر وہاں بھی صورت حال اسی طرح تھی۔ شیعہ حضرات اپنی نماز کے لیے مٹی کی ٹھیکریاں سجدے کی جگہ رکھنے کے لیے الگ نظر آتے اور دوسرے فرقوں کے لوگ اپنی اپنی علامتوں کے ساتھ الگ دکھائی دیتے تھے۔ اس نے تبلیغی جماعت کے ساتھ کئی بار وقت لگایا جس سے اس کا مقصد یہ تھاکہ اسے دین کی معلومات حاصل ہوں گی اور علم میں اضافہ ہوگا، مگر وہاں بھی اسے تبلیغی نصاب اور کچن کی صفائی کے کاموں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اس نے قرآن کریم کا سالہا سال تک مطالعہ کیا تھا۔ اس کے حوالے سے جب وہ کوئی سوال کرتا تو اسے جواب ملتا کہ تم قرآن کریم کو کیا جانتے ہو؟ تمہارے پاس کیا علم ہے؟ اس سے اس کی مایوسی میں اضافہ ہوا۔ مجھے ایک بار ایک دوست ایک مجلس میں لے گیا۔ غریب لوگوں کا علاقہ تھا، مگر ایک بڑی گاڑی میں سبز چغہ پہنے ایک شیخ صاحب آئے تو ان کے گرد گلی میں بہت سے لوگ گھیرا ڈال کر بلند آواز سے اللہ ہو کا ورد کرنے لگے۔ ارد گرد کے مقامی آبادی کے لوگ کھڑکیوں سے یہ منظر دیکھ کر تعجب کر رہے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ میں بھی یہ منظر دیکھ کر وہاں سے چلا آیا۔ ایک مسجد میں رمضان المبارک کے دوران دیکھا کہ کھانے پینے کا سامان بہت ضائع ہو رہا ہے اور کھانے کا انداز بھی مجھے اچھا نہ لگا۔ اس قسم کے مناظر دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوا کہ جس اسلام کی میں تلاش میں تھا، یہ وہ اسلام نہیں ہے، اس لیے میں اب مسلمانوں کی آبادی سے الگ تھلگ یہاں زندگی بسر کر رہا ہوں۔
میں نے مورس سے سوال کیا کہ اسلام کی دعوت دینے والوں کو نو مسلموں کے ساتھ کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے؟ اس پر مورس عبد اللہ نے کہا کہ:
  • انھیں مسائل اور اختلافات میں نہ الجھائیں اور دین کی بنیادی باتوں کی سادہ انداز میں تعلیم دیں۔
  • انسانیت کے حوالے سے لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کی تلقین کریں۔
  • اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے ساتھ پیش آنے والے مسائل اور مشکلات معلوم کریں اور انھیں حل کرنے کے لیے ان سے تعاون کریں۔
  • انھیں قرآن کریم کے حوالے سے بات سمجھانے کی کوشش کریں اور احادیث کے اختلافات سے انھیں دور رکھیں۔ اس سے ان کے ذہنوں میں کنفیوژن پیدا ہوتا ہے۔
  • دین کے مسائل سمجھانے کے لیے ’’کامن سینس‘‘ کا زیادہ استعمال کریں۔ مثلاً یہ بات سمجھانے کے لیے کہ مونچھیں تراشنی چاہییں، انھیں فرض اور واجب کہہ کر بات نہ کریں بلکہ انھیں اس کے فائدے بتائیں کہ مونچھے تراشنے سے انھیں یہ فائدہ ہوگا، وغیر ذالک۔
  • انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عام لوگوں کی خدمت کا ایسا نظام بنائیں جس سے سب لوگ مذہب کی کسی تفریق کے بغیر فائدہ اٹھا سکیں تاکہ نو مسلموں کو ضرورت پڑنے پر الگ سے چیریٹی کی ضرورت نہ پڑے اور نہ یہ محسوس ہو کہ ان کی الگ سے اس حوالے سے مدد کی جا رہی ہے۔
  • اسلام کے بارے میں ان کے مطالعہ اور اسٹڈی کا احترام کریں اور انھیں اس بات کا بار بار طعنہ نہ دیں کہ تم کیا جانتے ہو؟ تمھیں کیا آتا ہے؟ اور تمھارے پاس کیا علم ہے؟
  •  انھیں قرآن کریم کے بتائے ہوئے اچھے کاموں کو بجا لانے کی تلقین کریں، دیانت وامانت کی اہمیت سے آگاہ کریں اور خیر کے کاموں کی طرف رغبت دلائیں۔
مورس عبد اللہ کی گفتگو جاری تھی اور اس کے لہجے کا جوش وخروش بڑھ رہا تھا۔ وہ کبھی کبھی خاموشی سے آسمان کی طرف سر اٹھا کر گہری سوچ میں چلا جاتا۔ اس کا جی اور بھی بہت سی باتیں کرنے کو چاہ رہا تھا، مگر رات کا وقت تھا، دیر ہو رہی تھی، مجھے صبح سفر کرنا تھا اور اس سے قبل یہ رپورٹ بھی لکھنا تھی، اس لیے بادل نخواستہ گفتگو کا سلسلہ روک کر معذرت کرتے ہوئے شکریہ کے ساتھ ہم وہاں سے رات گیارہ بجے کے لگ بھگ رخصت ہوئے۔

زنا بالجبر کی سزا

محمد عمار خان ناصر

(مصنف کی زیر طبع کتاب ’’حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ کا ایک باب۔)

قرآن مجید میں زنا کی سزا بیان کرتے ہوئے زانی اور زانیہ، دونوں کو سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے جس سے واضح ہے کہ قرآن کے پیش نظر اصلاً زنا بالرضا کی سزا بیان کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سزا کا اطلاق زنا بالجبر بھی ہوگا، لیکن چونکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ زنا بالرضا سے زیادہ سنگین جرم ہے، اس لیے زنا کی عام سزا کے ساتھ کسی تعزیری سزا کا اضافہ، جو جرم کی نوعیت کے لحاظ سے موت بھی ہو سکتی ہے، ہر لحاظ سے قانون وشریعت کا منشا تصور کیا جائے گا۔ اس ضمن میں کوئی متعین سزا تو قرآن وسنت کے نصوص میں بیان نہیں ہوئی، البتہ روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض فیصلے ضرور نقل ہوئے ہیں:
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نماز کے لیے مسجد جاتی ہوئی ایک خاتون کو راستے میں تنہا پا کر اسے پکڑ لیا اور زبردستی اس کے ساتھ بدکاری کر کے بھاگ گیا، لیکن جب اس کے شبہے میں ایک دوسرے شخص کو پکڑ لیا گیا اور اس پر سزا نافذ کی جانے لگی تو اصل مجرم نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنگسار کرنے کا حکم دے دیا۔ ۱؂ 
اس واقعے سے متعلق روایات میں اس شخص کے شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہونے کی تحقیق کیے جانے کا کوئی ذکر نہیں۔ اگر یہ شخص کنوارا تھا یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ازدواجی حیثیت کی تحقیق کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہیں کی تو پھر اس سے یہ بآسانی اخذ کی جا سکتی ہے کہ زنا بالجبر کی سزا رضامندی کے سزا کے مقابلے میں زیادہ سخت ہونی چاہیے۔
ایک دوسرے مقدمے میں، جس میں ایک شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی سے جماع کر لیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اگر اس میں لونڈی کی رضامندی شامل نہیں تھی تو پھر وہ آزاد ہے اور شوہر کے ذمے لازم ہے کہ وہ اس جیسی کوئی دوسری لونڈی اپنی بیوی کے حوالے کرے۔ ۲؂ 
یہاں زنا کے مرتکب کے لیے کسی سزا کا ذکر نہیں ہوا۔ ممکن ہے اس شخص کو کوئی سزا دی گئی ہو، لیکن روایت میں اس کا ذکر نہ ہوا ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی کو اپنے لیے حلال سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ وطی کی ہو اور اس طرح حرمت محل میں شبہے کی بنیاد پر اسے سزا سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہو۔ 
صحابہ اور تابعین سے زنا بالجبر کے بعض واقعات میں زنا کی عام سزا دینا منقول ہے۔ ۳؂ ان واقعات میں زنا بالجبر کا شکار ہونے والی زیادہ تر لونڈیاں تھیں۔ عرب معاشرت میں غلام اور لونڈیاں نہ صرف اخلاقی تربیت سے محروم ہوتے تھے بلکہ ان میں زنا اور چوری جیسی اخلاقی برائیوں کا پایا جانا ایک عام بات تھی، چنانچہ لونڈیوں کے ہاں عفت وعصمت کا تصور ایسا پختہ نہیں تھا کہ اس کے چھن جانے پر وہ محرومی یا ہتک عزت کے کسی شدید احساس کا شکار ہو جائیں۔ اس تناظر میں لونڈیوں کے ساتھ بالجبر زنا پر اگر کوئی سخت تر سزا نہیں دی گئی تو یہ بات قابل فہم ہے۔
سیدنا ابوبکر نے ایک مقدمے میں زنا بالجبرکے مجرم کو پابند کیا کہ وہ اس خاتون کے ساتھ نکاح کر لے ۴؂ جبکہ عمر بن عبدالعزیز اور حسن بصری نے زنا بالجبر کی سزا یہ تجویز کی کہ مجرم پر حد جاری کرنے کے ساتھ ساتھ اسے غلام بنا کر اسی عورت کی ملکیت میں دے دیا جس کے ساتھ اس نے زیادتی کی تھی۔ ۵؂ 
تابعی مفسر سدی کی رائے یہ تھی کہ اگر خاتون کا باقاعدہ پیچھا کر کے اس کے ساتھ بالجبر زنا کیا جائے تو مجرم کو لازماً قتل کیا جائے گا۔ سدی نے اس کے لیے سورۂ احزاب میں منافقین کے حوالے سے بیان ہونے والے حکم: ’اینما ثقفوا اخذوا وقتلوا تقتیلا‘ سے استدلال کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
ہذا حکم فی القران لیس یعمل بہ لو ان رجلا وما فوقہ اقتصوا اثر امراۃ فغلبوہا علی نفسہا ففجروا بہا کان الحکم فیہا غیر الجلد والرجم وہو ان یؤخذوا فتضرب اعناقہم (روح المعانی، ۲۲/۹۲)
’’قرآن مجید میں ایک ایسا حکم ہے جس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ اگر کوئی شخص یا کچھ افراد کسی عورت کا پیچھا کریں اور اس کو زبردستی پکڑ کر اس کے ساتھ بدکاری کریں تو ان کی سزا سو کوڑے لگانا یا رجم کرنا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ انھیں پکڑ کر ان کی گردنیں اڑا دی جائیں۔‘‘
امام باقر اور امام جعفر صادق بھی زنا بالجبر کے مجرم کو قتل کر دینے کے قائل ہیں۔ ۶؂ 
جہاں تک باقی فقہی مکاتب فکر کا تعلق ہے تو فقہا اس کو زنا بالرضا کے مقابلے میں سنگین تر جنایت تسلیم کرنے کے باوجود بالعموم اس کے مرتکب کے لیے زنا کی عام سزا ہی تجویز کرتے یا زیادہ سے زیادہ زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کو اس کے مہر کے برابر رقم کا حق دار قرار دیتے ہیں، جبکہ احناف اس کو اس رقم کا مستحق بھی نہیں سمجھتے۔ ۷؂ امام مالک سے منقول ہے کہ اس صورت میں عورت کو مہر کے علاوہ عزت وناموس اور حیثیت عرفی کے مجروح ہونے کا تاوان بھی دلوایا جائے گا۔ ۸؂ 
ہماری رائے میں یہ بات بعض صورتوں میں تو شاید نامناسب نہ ہو، لیکن اسے علی الاطلاق درست تسلیم کرنا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زنا بالجبر محض زنا کی دو صورتوں میں سے ایک صورت نہیں، بلکہ ایک بالکل مختلف نوعیت کا جرم ہے۔ رضامندی کا زنا اصلاً ایک گناہ ہے جس میں ’حق اللہ‘ پامال ہوتا ہے، جبکہ زنا بالجبر میں حق اللہ کے ساتھ ساتھ حق العبد پر بھی تعدی کی جاتی اور ایک خاتون سے اس کی سب سے قیمتی متاع چھین لی جاتی ہے۔ فقہا نے اس بات کو محسوس نہیں کیا کہ ایک پاک دامن عورت کے لیے، جو اپنی عفت اور اپنی عزت نفس کو عزیز رکھتی ہے، عصمت کا لوٹا جانا کوئی مالی نقصان نہیں کہ اس کے بدلے میں اسے کچھ رقم دے کر نقصان کی تلافی کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کا شکار ہونے والی خاتون کے زاویہ نظر سے دیکھیے تو نفسیاتی لحاظ سے یہ غالباً قتل سے بھی بڑا جرم ہے اور ابن تیمیہؒ نے بجا طور پر اسے ’مثلہ‘ (Mutilation) یعنی انسانی جسم کی بے حرمتی کے مشابہ قرار دیا ہے۔ ۹؂ بروکلین لا اسکول میں قانون کی استاد پروفیسر سوزن این ہرمن (Susan N. Herman) نے اس ضمن میں نفسیاتی تحقیقات کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا ہے:
Women who are raped suffer a sense of violation that goes beyond physical injury. They may become distrustful of men and experience feelings of shame, humiliation, and loss of privacy. Victims who suffer rape trauma syndrome experience physical symptoms such as headaches, sleep disturbances, and fatigue. They may also develop psychological disturbances related to the circumstances of the rape, such as intense fears. Fear of being raped has social as well as personal consequences. For example, it may prevent women from socializing or traveling as they wish. (Microsoft Encarta Reference Library 2003, CD edition, "Rape")
’’زنا بالجبر کا شکار ہونے والی خواتین پامالی کے ایک احساس کا شکار ہو جاتی ہیں جو جسمانی اذیت سے کہیں زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ اس کا امکان ہے کہ وہ مردوں پر اعتبار کھو بیٹھیں اور انھیں شرمندگی، تذلیل اور پرائیویسی سے محروم ہو جانے کے احساسات کا تجربہ ہوتا رہے۔ اس کا شکار ہونے والی جو خواتین Rape trauma syndrome (زیادتی کے نفسیاتی دھچکے سے پیدا ہونے والی علامات) کا شکار ہو جاتی ہیں، ان میں سر درد، نیند میں خلل اور تھکن کی جسمانی علامات بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان میں زیادتی کے حالات سے تعلق رکھنے والے نفسیاتی عدم توازن مثلاً شدید خوف کا پیدا ہو جانا بھی بعید نہیں۔ زیادتی کا شکار ہونے کا خوف سماجی اور ذاتی نتائج مرتب کرتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ خواتین کے سماجی میل جول یا اپنی مرضی سے سفر کرنے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔‘‘
مزید یہ کہ زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کے ’نقصان‘ کو پورا کرنا اور چیز ہے اور جرم کی سنگینی کے تناظر میں مجرم کی جسمانی سزا میں اضافہ ایک بالکل دوسری چیز، اور عورت کو عصمت دری کا معاوضہ دلانے کے باوجود اگر مجرم کو کوئی اضافی جسمانی سزا نہیں دی جاتی تو اس سے عدل وانصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔
بعض اہل علم نے زنا بالجبر کو مطلقاً ’حرابہ‘ کی ایک صورت قرار دیا ہے۔ ہماری رائے میں زنا بالجبر کی ہر شکل کو ’حرابہ‘ قرار دینا تو غالباً قرین انصاف نہیں ہے او ر اس کی کم یا زیادہ سنگین صورتوں میں فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہوگا۔ مثال کے طور پر کسی موقع پر وقتی جذبات سے مغلوب ہو کر کسی خاتون کی عزت لوٹ لینے اور باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے اس جرم کا ارتکاب کرنے کوایک ہی درجے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ دوسری صورت، بالخصوص جب اس کے ساتھ اغوا کا جرم بھی شامل ہو، ’حرابہ‘ کے تحت آتی ہے، جبکہ پہلی صورت نسبتاً کم سنگین ہے اور اس پرزنا کی سادہ سزا کے ساتھ جبر اور ہتک عزت کی پاداش میں کسی مناسب تعزیری سزا اور جرمانے کا اضافہ کر دینا زیادہ موزوں ہوگا۔ البتہ جہاں تک اجتماعی آبرو ریزی یا خواتین کو برہنہ کر کے سربازار رسوا کرنے یا عصمت و آبرو کے خلاف تعدی کی دیگر سنگین صورتوں کا تعلق ہے جن میں قانون کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے اور معاشرے میں جان ومال اور آبرو کے تحفظ کے احساس کو مجروح کرنے کا عنصر پایا جاتا ہے تو وہ صریحاً حرابہ اور فساد فی الارض کے زمرے میں آتی ہیں اور ایسے مجرموں کو عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے، سولی دینے یا ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے جیسی سزاؤں کا مستوجب ٹھہرانا ہر لحاظ سے شریعت کا منشا ہوگا۔ ۱۰؂

زنا بالجبر کے اثبات کے لیے چار گواہوں کی شرط

قرآن مجید میں زنا کا الزام ثابت کرنے کے لیے چار گواہوں کی گواہی کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد زنا کے جرم پر پردہ ڈالنا اور مجرم کو رسوائی سے بچاتے ہوئے توبہ واصلاح کاموقع دینا نیز پاک دامن مسلمانوں کو زنا کے جھوٹے الزام سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ چنانچہ شارع کا منشا یہ ہے کہ زنا کا جرم اثبات جرم کے عام معیارات کے مطابق ثابت ہونے کے باوجود شرعاً ثابت نہ مانا جائے اور جب تک چار گواہ پیش نہ کر دیے جائیں، مجرم کو سزا نہ دی جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے زنا کے اثبات کے لیے چار گواہ مقرر کرنے کی حکمت یہ منقول ہے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ انسانوں کے گناہوں کی پردہ پوشی کرنا چاہتے ہیں، ورنہ اگر وہ چاہتے تو ایک ہی گواہ کی گواہی پر، چاہے وہ جھوٹا ہو یا سچا، سزا دینے کا حکم دے دیتے۔ ۱۱؂ گویا زنا کے معاملے میں چار گواہوں کی گواہی اس لیے ضروری قرار نہیں دی گئی کہ اس کے علاوہ کسی اور طریقے سے عقلاً جرم ثابت نہیں ہوتا، بلکہ اس لیے دی گئی ہے کہ شارع کو حتی الامکان مجرم کی پردہ پوشی منظور ہے۔ 
چار گواہوں کی کڑی شرط عائد کرنے کا یہ پس منظر ہی واضح کر دیتا ہے کہ اس شرط کا تعلق زنا کی اس صورت سے ہے جس میں شریعت کو اصلاً گناہ کی پردہ پوشی منظور ہے۔ ظاہر ہے کہ جرم کی پردہ پوشی کا یہ اصول اسی وقت تک قائم رہے گا جب تک جرم کی نوعیت اس اصول سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کا تقاضا نہ کرے، جبکہ جرم کی ایسی صورتیں جن میں شارع کو مجرم کی پردہ پوشی اور ستر نہیں، بلکہ اسے سزا دینا مطلوب ہو، اس پابندی کے دائرۂ اطلاق میں نہیں آئیں گی بلکہ ان میں کسی بھی طریقے سے جرم کے ثابت ہو جانے کو سزا کے نفاذ کے لیے کافی سمجھا جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص نے بالجبر کسی خاتون کی عصمت لوٹی ہو اور وہ داد رسی کے لیے عدالت سے رجوع کرے تو اس سے چار گواہ طلب کرنا عقل اور شریعت، دونوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہوگا۔ 
قانون وانصاف کے زاویۂ نگاہ سے یہ ایک بالکل بدیہی نکتہ ہے اور اگرچہ فقہی لٹریچر میں اسے تسلیم نہیں کیا گیا، ۱۲؂ تاہم روایات وآثار سے ہمارے اس نقطہ نظر کی تائید ہوتی ہے۔ 
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک خاتون اندھیرے کے وقت میں مسجد میں نماز ادا کرنے کی غرض سے گھر سے نکلی تو راستے میں ایک شخص نے اس کو پکڑ کر زبردستی اس کی عزت لوٹ لی اور بھاگ گیا۔ خاتون کی چیخ پکار پر لوگ بھی اس کے پیچھے بھاگے لیکن غلط فہمی میں اصل مجرم کے بجائے ایک دوسرے شخص کو پکڑ لائے۔ مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو جس شخص کو پکڑا گیا تھا، اس نے اپنے مجرم ہونے کا انکار کیا، تاہم خاتون نے اصرار کیا کہ یہی شخص مجرم ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دے دیا۔ اس پر اصل مجرم آگے بڑھا اور اس نے اعتراف کر لیا کہ خاتون کے ساتھ زیادتی کا ارتکاب دراصل اس نے کیا ہے۔ ۱۳؂ 
اس روایت کے حوالے سے ’’سنن ابی داؤد‘‘ کے شارح شمس الحق عظیم آبادیؒ نے تو اس بات کو باعث اشکال قرار دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ملزم کے اقرار یا گواہوں کی گواہی کے بغیر محض متاثرہ عورت کے بیان پر ملزم کو رجم کرنے کا حکم کیونکر دے دیا، جبکہ اس صورت میں خود عورت پر حد قذف جاری کی جانی چاہیے تھی ۱۴؂ لیکن ابن قیمؒ نے واضح کیا ہے کہ اگر قرائنی شہادت مدعی کے بیان کی تائید کر رہی ہو تو ایسی صورت حال میں اس کی بنیاد پر ملزم کو سزا دینا کسی طرح قضا کے اصولوں کے منافی نہیں ہے۔ ۱۵؂ ابن قیم کی یہ رائے بے حد وزنی ہے، اس لیے کہ کسی بھی جرم میں متاثرہ فریق عدالت میں استغاثہ کرے تو قرائن وشواہد کی موافقت کی شرط کے ساتھ اس کے اپنے بیان کی اہمیت محض دعوے سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ 
سیدنا عمر کے دور میں ایک شخص نے ایک عورت کو تنہا پا کر اس کے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش کی، لیکن اس نے اپنا دفاع کرتے ہوئے ایک پتھر اٹھا کر اس کو دے مارا جس سے وہ ہلاک ہو گیا۔ سیدنا عمر کے سامنے مقدمہ پیش ہوا تو انھوں نے فرمایا کہ اس کو اللہ نے قتل کیا ہے، اس لیے اس کی کوئی دیت نہیں۔ ۱۶؂ سیدنا عمرؓ ہی کے دور خلافت میں ایک شخص کو قتل کر کے اس کی لاش کو راستے میں پھینک دیا گیا۔ کافی عرصہ تک تحقیق وتفتیش کے بعد سیدنا عمر آخرکار اس خاتون تک پہنچ گئے جس نے اس کو قتل کیا تھا۔ خاتون نے قتل کا اعتراف کر لیا، تاہم یہ عذر پیش کیا کہ مقتول نے اس کو سوتا ہوا پا کر اس کے ساتھ بدکاری کی تھی جس پر اس نے اپنا دفاع کرتے ہوئے اسے قتل کر کے لاش کو راستے میں پھینک دیا۔ سیدنا عمر اس کے پیش کردہ عذر پر مطمئن ہو گئے اور اسے کوئی سزا نہیں دی۔ ۱۷؂ ان میں سے پہلے مقدمے میں زنا بالجبر کی کوشش کو جبکہ دوسرے میں اس کے وقوع کو قتل کی وجہ قرار دیا گیا ہے اور سیدنا عمر نے قرائنی شہادت کی روشنی میں متاثرہ خاتون کے بیان پر اعتماد کرتے ہوئے جرم کو ثابت مان کر اسے قصاص یا دیت سے بری کر دیا ہے۔ زنا بالجبر کے ایک واقعے میں، جس میں متاثرہ خاتون نے مجرم کو قتل کر دیا تھا، خاتون کے بیان پر اعتماد کرتے ہوئے اسے قصاص سے بری قرار دینے کا فیصلہ امام جعفر صادق سے بھی مروی ہے۔ ۱۸؂ 
بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر زنا بالجبر کا شکار ہونے والی عورت کسی وجہ سے خود استغاثہ نہ کرے، لیکن یہ بات کسی اور ذریعے سے عدالت کے نوٹس میں آ جائے تو اس صورت میں بھی چار گواہوں کے نصاب پر اصرار نہیں کیا جائے گا، بلکہ عدالت کسی بھی طریقے سے جرم کے ثبوت پر مطمئن ہو جائے تو مجرم کو سزا دے دی جائے گی۔ ابو صالح روایت کرتے ہیں کہ ایک مسلمان خاتون نے کسی یہودی یا نصرانی کے ساتھ اجرت پر کوئی کام طے کیا اور اس کو ساتھ لے کر چل پڑی۔ راستے میں جب وہ ایک ٹیلے کے قریب سے گزرے تو اس آدمی نے زبردستی اس خاتون کو ٹیلے کی اوٹ میں لے جا کر اس کے ساتھ زیادتی کر ڈالی۔ ابو صالح کہتے ہیں کہ میں نے اس کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو اس کی بری طرح پٹائی کی اور اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک کہ اسے ادھ موا نہ کر دیا۔ وہ آدمی مقدمہ لے کر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور میری شکایت کی۔ ابو ہریرہ کے طلب کرنے پر میں بھی حاضر ہوا اور صورت حال ان کے سامنے عرض کی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو بلا کر دریافت کیا تو اس نے بھی میری بات کی تصدیق کی۔ اس پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس یہودی یا نصرانی سے کہا کہ ہم نے اس بات پر تم سے معاہدہ نہیں کیا (کہ تم ہماری خواتین کی عزتوں پر حملہ کرو)، چنانچہ ان کے حکم پر اس شخص کو قتل کر دیا گیا۔ ۱۹؂ 
فقہا نے اس نوعیت کے واقعات سے اخذ ہونے والے قانونی ضابطے کو غیر مسلموں کی حد تک تسلیم کیا ہے، اور ان میں سے بعض کی رائے میں اگر کوئی غیر مسلم کسی مسلمان خاتون کے ساتھ بدکاری کا مرتکب ہو اور یہ بات لوگوں میں مشہور ہو جائے تو چاہے گواہ موجود نہ ہوں، زنا کے مرتکب کو قتل کر دیا جائے گا۔ ۲۰؂ اس کی وجہ یہ ہے کہ فقہا کے نزدیک غیر مسلم کا یہ جرم عقد ذمہ کے منافی ہے جس کی رو سے وہ مسلمانوں کے زیردست اور ان کا محکوم بن کر رہنے کا پابند ہے۔ گویا جرم کی نوعیت ایسی ہے کہ اس کی پردہ پوشی کرتے ہوئے مجرم سے درگزر کا طریقہ اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے نزدیک یہی اصول بالجبر زنا کا ارتکاب کرنے والے مسلمان کے لیے بھی بالکل درست ہے اور اسے سزا دینے کے لیے چار گواہوں کی شرط عائد کرنا زنا بالجبر کو عملاً سزاکے دائرۂ اطلاق سے خارج قرار دینا ہے، جبکہ یہ بات کسی طرح بھی شارع کا مقصد اور منشا قرار نہیں دی جا سکتی۔ 

حواشی

۱؂ ابوداؤد، قم ۴۳۷۹۔ ترمذی، رقم ۱۴۵۴۔
۲؂ نسائی، رقم ۳۳۱۰۔ ابو داؤد، رقم ۳۸۶۸۔
۳؂ موطا امام مالک، رقم ۱۳۰۰، ۱۳۰۲۔ ابن ابی شیبہ، رقم ۲۸۴۲۱ تا ۲۸۴۲۷۔
۴؂ مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۲۷۹۶۔
۵؂ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۸۴۲۳، ۲۸۴۲۶۔
۶؂ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۰/۱۷، ۱۸۔
۷؂ الموطا،رقم ۲۲۹۴۔ الشافعی، الام ۳/۲۷۲۔ سرخسی، المبسوط ۹/۶۱، ۶۲۔
۸؂ المدونۃ الکبریٰ، ۱۶/۲۵۴۔
۹؂ مجموع الفتاویٰ، ۲۰/۵۶۶۔
۱۰؂ اس بات کو تقلیدی جمود ہی کا کرشمہ سمجھنا چاہیے کہ۱۹۹۷ء میں جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے اجتماعی آبرو ریزی (Gang Rape) پر سزاے موت کا قانون منظور کیا تو بعض مذہبی حلقوں نے اس قانون کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔ تاہم جناب ابو عمار زاہد الراشدی نے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے بجا طور پر لکھا: ’’ایک ہی جرم مختلف مواقع اور حالات کے حوالے سے الگ الگ نوعیت اختیار کر لیتا ہے اور جرم کی مختلف نوعیتوں کا یہ فرق علمائے احناف کے ہاں تو بطور خاص تسلیم کیا جاتا ہے۔ .... اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو ’’گینگ ریپ‘‘ زنا کی عام تعریف سے ہٹ کر ایک الگ بلکہ اس سے زیادہ سنگین جرم قرار پاتا ہے، اس لیے کہ اجتماعی بدکاری کی صورت میں زنا کے ساتھ دو مزید جرم بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ بدکاری عملاً دوسرے لوگوں کے سامنے کی جاتی ہے جس میں تذلیل اور تشہیر کا پہلو پایا جاتا ہے اور انتقام کے لیے خود ساختہ صورت اختیار کرنا بجائے خود جرم ہے۔ پھر اس موقع پر اگر ہتھیار کی موجودگی اور نمائش بھی کی گئی ہو تو تخویف اور جبر کا ایک تیسرا جرم بھی اس کے ساتھ بڑھ جاتا ہے اور ان تمام جرائم کا مجموعہ ’’گینگ ریپ‘‘ ہے جس کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کے لیے اگر ’’حدود شرعیہ‘‘ سے ہٹ کر بطور تعزیر الگ سزا مقرر کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے تو اسے شرعی اصولوں سے تجاوز قرار دینا کوئی مناسب طرز عمل نہیں ہو گا۔ ... ہمارا خیال ہے کہ ’’گینگ ریپ‘‘ کی انسانیت سوز وارداتوں میں جس طرح مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اس پر قابو پانے کے لیے موت کی سزا کا یہ قانون ایک مناسب، بلکہ ضروری قانون ہے اور شرعاً اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔‘‘ (ابو عمار زاہد الراشدی، عصر حاضر میں اجتہاد، ص ۱۸۴-۱۸۶)
۱۱؂ بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۷۳۸۱۔
۱۲؂ امام مالک کا فتویٰ یہ نقل ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص گواہوں کی موجودگی میں کسی خاتون کو زبردستی اٹھا کر کسی مکان کے اندر لے جائے اور پھر عورت باہر آکر یہ کہے کہ اس شخص نے میرے ساتھ بالجبر زنا کیا ہے جبکہ وہ آدمی اس کا انکار کرے تو اس شخص پر (جنسی استمتاع کے عوض میں) اس عورت کو مہر کے برابر رقم ادا کرنا تو لازم ہوگا لیکن اس پر حد جاری نہیں کی جا سکتی۔ (المدونۃ، ۵/۳۲۲) ابن عبد البر لکھتے ہیں کہ اگر زنا بالجبر چار گواہوں یا مجرم کے اقرار سے ثابت ہو جائے تو اس پر حد جاری کی جائے گی، بصورت دیگر تعزیری سزا دی جائے گی۔ (الاستذکار، ۷/۱۴۶) مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی زنا بالجبر پر محض تعزیری سزا کا امکان اس صورت میں تسلیم کیا ہے جب قاضی قرائن کی روشنی میں الزام کے درست ہونے پر کسی قدر مطمئن ہو جائے۔ (امداد الاحکام، ۴/۱۲۸)
۱۳؂ ابو داؤد، رقم ۴۳۷۹۔ ترمذی، رقم ۱۴۵۴۔ نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ۷۳۱۱۔
۱۴؂ عون المعبود ۱۲/۲۸۔ بعض فقہا بھی اس بات کے قائل ہیں۔ چنانچہ مالکیہ کے نزدیک اگر کوئی عورت کسی شخص پر الزام لگائے کہ اس نے اسے زنا بالجبر کا نشانہ بنایا ہے اور وہ شخص نیک شہرت کا حامل ہو تو عورت پر حد قذف جاری کی جائے گی، البتہ اگر وہ شخص فاسق ہو تو عورت حد قذف سے بچ جائے گی۔ اسی طرح اگر ملزم نیک شہرت کا حامل ہو، لیکن عورت زنا بالجبر کاشکار ہونے کے فوراً بعد اس حالت میں عدالت میں پیش ہو جائے کہ اس نے ملزم کو اپنے ساتھ پکڑ رکھا ہو اور اس کی ظاہری حالت بھی اس کے دعوے کی تائید کر رہی ہو تو قرائنی شہادت کی موافقت کی وجہ سے عورت پر حد قذف جاری نہیں کی جا ئے گی۔ (محمد علیش، منح الجلیل ۷/۱۴۲) 
۱۵؂ ابن قیم، الطرق الحکمیہ ۷۱۔ اعلام الموقعین ۶۰۴۔
۱۶؂ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۷۷۹۳، ۲۷۷۹۴۔
۱۷؂ ابن قیم، الطرق الحکمیہ ۳۴، ۳۵۔
۱۸؂ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۰/۲۰۸، ۲۰۹۔
۱۹؂ مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۰۱۶۸، ۱۰۱۷۰۔
۲۰؂ محمد بن مفلح المقدسی، الفروع وتصحیح الفروع، ۶/۲۵۷۔ منصور بن یونس، کشاف القناع، ۳/۱۴۳۔ 
یہ رائے حنبلی فقہا کی ہے۔ مالکیہ کے ہاں ایک رائے یہ ہے کہ ذمی اگر کسی مسلمان خاتون کے ساتھ بالجبر زنا کرے تو دو گواہوں کی گواہی اثبات جرم کے لیے کافی ہوگی، جبکہ دوسری رائے کے مطابق یہاں بھی چار گواہ ہی درکار ہوں گے۔ (محمد علیش، منح الجلیل، ۳/۲۲۵)

دینی و دنیوی طبقات کے مابین دوری: اسباب و علاج

حافظ عبد الرشید

عصرحاضر کے مسلم معاشروں میں دینی طبقے اور جدیدتعلیم یافتہ یا دوسرے الفاظ میں دنیاوی طبقے کے درمیان کشمکش کی ایک شدید کیفیت پائی جاتی ہے۔ ہر طبقہ معاشرے میں موجود دینی ودنیاوی کی تقسیم کاملزم دوسرے کو گردانتے ہوئے اپنے اپنے دلائل پیش کرتا ہے، جبکہ صحیح صورت حال کی عکاسی اردو زبان کے اس محاورہ سے ہوتی ہے کہ ’’تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی‘‘۔ یہ محاورہ اس صورت حال کے لیے بولا جاتا ہے جب کسی ناگوار معاملہ میں ملوث دونوں فریق ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہوں اور ہر فریق سارا ملبہ اپنے مخالف ہی پر ڈالنے پر تلا ہوا ہو۔ آئیے، ہم ان دونوں فریقوں کے طرز عمل اور اس تشتت وافتراق کی تاریخ کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں اور اصل وجوہات کا کھوج لگاتے ہوئے قابل عمل حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس اختلاف کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں گزشتہ تین چار صدیوں میں یورپ میں رونما ہونے واقعات اور سیاسی ومعاشرتی تغیرات کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ یہ زمانہ یورپ میں بادشاہ، جاگیردار اور پوپ کے ظالمانہ اقتدار کے خلاف شدید ترین رد عمل کا زمانہ تھا جس کے نتیجے میں بادشاہت اور جاگیرداری کا مکمل خاتمہ ہوا اور پوپ جو کہ مذہب کا نمائندہ تھا، اس کے کردارکو گرجے کی چاردیواری تک محدود کر دیا گیا۔ اس تبدیلی کے پس پردہ عوامل میں اس ظالم تکون کا پر تشدد رویہ اور معاشرے میں علمی وتحقیقی آزادی پر قدغن لگانے کا مزاج تھا۔ بادشاہ اورجاگیردار تواپنے اندھے اقتدار کے زعم میں عوام پر ظلم وستم کے پہاڑ گراتے اور پوپ اپنی الوہیت کوچھوتی ہوئی مذہبی حیثیت کو لوگوں سے مال ودولت لوٹنے کے لیے استعمال کرتا۔ پوپ کے خلاف رد عمل کی شدت دوسرے گروہوں کے مقابلے میں اس پہلو سے زیادہ تھی کہ چرچ کے پھیلائے ہوئے فرسودہ اور من گھڑت اعتقادات جب سائنسی وعلمی ترقی کی وجہ سے مشاہداتی طورپر غلط ثابت ہونے لگے تو اس نے اس علمی تحریک کو تشدد سے کچل دینے کی پالیسی اپنائی اور علم وتحقیق کے علمبرداروں کو الم ناک سزائیں دیں۔ آج بھی مغربی دنیانے علامتی طورپر ان جگہوں کو محفوظ رکھا ہوا ہے جہاں ایک ایک دن میں کئی کئی سائنس دانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ اس تبدیلی سے بڑے نتائج برآمد ہوئے جنہوں نے بعد میں پوری دنیا کو متاثر کیا:
۱۔ بادشاہت اور جاگیرداری کا خاتمہ ہوا اور اس کی جگہ رفتہ رفتہ جمہوری نظام حکومت رائج ہوا جس میں اقتدار اعلیٰ کا محور ’’عوام‘‘ کو قرار دیا گیا اور پارلیمنٹ ’’عوام‘‘ کی خواہش معلوم کرنے کا ذریعہ قرار پائی۔
۲۔ اجتماعی معاملات سے مذہب کے کردار کو ختم کرکے اسے صرف گرجے تک محدود کر دیا گیا، مذہب اور اس کے قوانین پر عمل کرنا فرد کا ذاتی اور شخصی معاملہ قرار پایا اور یہ طے ہوا کہ سوسائٹی اپنے اجتماعی معاملات خود ہی طے کرے گی، اسے کسی بیرونی رہنمائی کی ضرورت نہیں۔
گویا اجتماعی زندگی میں میں مذہب کے کردار کا خاتمہ کر کے ’’سیکولرزم‘‘ کے نام سے ایک نیا ایجاد کر لیا گیا اور معاشرے کے افراد کو مذہبی وغیر مذہبی گروہوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اسی زمانے میں دنیامیں صنعتی واقتصادی ترقی کی لہر اٹھی اور بدقسمتی سے مسلم ممالک کی حکومتوں نے اس طرف توجہ کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ مغرب اپنی صنعتی اور اقتصادی قوت کے بل بوتے پر دنیا پر حکمرانی کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوا اور اسلامی دنیا کے ممالک یکے بعد دیگرے اس کے سامنے ڈھیر ہوتے چلے گئے، حتیٰ کہ ۱۸۵۷ء میں برصغیر اور ۱۹۲۳ء میں خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد قوتیں عملاً اسلامی ممالک کی حکمران بن گئیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے قدیم نظام حکومت اور نظام تعلیم کو جڑسے اکھاڑدیا اور اپنا وہ نظام ان پر مسلط کر دیا جو اپنے تجربات کی روشنی میں انہوں نے تخلیق کیا تھا۔ اس تسلط کے سائے میں معاشرتی وسائنسی علوم کا ایک طوفان آیا جس نے مسلمانوں کے ذہنو ں میں یہ بات بٹھا دی کہ یہ علوم ان کے لیے ناگزیر ہیں اور اگرا نہوں نے ان کے حصول کی کوشش نہ کی توزندگی کی دوڑمیں دنیا کا ساتھ نہیں دے سکیں گے، لیکن یہ بھی بدیہی بات تھی کہ مغربی نظام کے تحت ان علوم کے حصول کے لیے انہیں اپنی تہذیبی وتمدنی روایات کی قربانی دینا پڑے گی۔ یہ بہت عظیم خطرہ تھا جو مسلمانوں کے تشخص کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا تھا۔
یہاں سے مسلم دنیا میں دینی اور دنیوی، مذہبی اور غیر مذہبی کی تقسیم شروع ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس عظیم خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کے فکر مند افراد آگے آئے اور اپنے اعتقادات اور اپنے تمدن ومعاشرے کو بچانے کے لیے میدان عمل میں کود پڑے، لیکن راہ عمل کے انتخاب میں متفق نہ رہ سکے۔ ایک گروہ نے اپنا معاشرتی کردار بلند کرنے کے لیے اسی مغربی نظام میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور دوسرے افراد نے اپنی قدیم روایات، نظریات واعتقادات کی حفاظت کو اپنا مطمح نظر بنا لیا۔ دونوں کام اہم تھے، مقصود ایک ہی تھا لیکن راہیں جداجدا تھیں۔ اول الذکر گروہ نے معاشرتی زندگی میں تو کسی نہ کسی طرح اپنی جگہ بنا لی لیکن نئے نظام کی بھول بھلیاں میں کھو کر اپنی روایات ونظریات کو پس پشت ڈالتے چلے گئے اور نئے نظام کے تحت بغیر کسی نکیر کے زندگی گزارنے لگے۔ ا ن کی آئندہ نسلوں نے اسی نظام میں آنکھ کھولی اور ابتدائی راہ عمل کے فرق کو نہ سمجھتے ہوئے اپنے ہی بھائی بندوں سے اجنیت محسوس کرنے لگے۔ جدید نظام نہ صرف ان کے دلوں میں گھر کر گیا بلکہ یہ اس کی دعوت بھی دینے لگے۔ 
دوسری طرف وہ لوگ جنہوں نے اپنے قدیم نظریات، روایات اور تمدن کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا تھا، وہ اپنے مخصوص عبوری حالات کے پیش نظر معاشرے سے بالکل کٹ کر اصحاب کہف کی طرح ایک کونے میں جا بیٹھے اور اپنے دین ودینی علوم کو سینے سے لگائے رکھا۔ یہ لوگ برصغیر کے علاوہ دوسرے خطوں میں تو اس قدر کامیاب نہ ہوسکے لیکن برصغیر میں ان کی قربانیوں اور سرفروشی نے مغربی نظام کے سامنے مزاحمت کی مثال قائم کر دی۔ انہو ں نے اپنی عزت، اجتماعی زندگی اور معاشی مفادات کو تج دے کر اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دیاکہ رہتی دنیا تک مسلم دنیا ان کا احسان نہ چکا سکیں گی۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے تمدن وروایات کا دفاع کیا بلکہ اپنی بے مثال استقامت وایمانی فراست سے مغربی نظام پر ایسے کاری حملے بھی کیے کہ وہ اپنے زخم چاٹتے ہوئے دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہوگیا۔ ان حضرات نے علمی وعملی دونوں محاذوں پر مغرب کی یلغار کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کر رہے ہیں۔ یہ لوگ بجاطورپر یہ کہنے کے مستحق ہیں 
ہم کیسے تیراک ہیں جاکر پوچھو ساحل والوں سے 
خود تو ڈوب گئے لیکن رخ موڑ دیا طوفانوں کا 
ان لوگوں کی جدوجہد، قربانیاں اور اس کے ثمرات بجا، لیکن دینی ودنیاوی طبقات کی کشمکش میں یہ لوگ بھی دانستہ نادانستہ حصہ دار ضرور ہیں۔ اس کی ایک وجہ تویہ ہے کہ اپنی دینی اقدار کی حفاظت کے لیے یہ جس غار میں جا ٹھہرے تھے، وہاں سے نکلنے میں انہوں نے کافی دیر کر دی اور اس عرصے میں معاشرہ مغربی نظام سے کافی حد تک مسموم ہو چکا تھا۔ انہوں نے سوسائٹی میں بالکل بدلا ہوا ماحول پایا ،معاشرے میں رائج زبان، ان کی زبان سے اور اصطلاحات ان کی اصطلاحات سے مختلف تھیں۔ علم وتحقیق کے باب میں علم کی کئی نئی اور مفید شاخوں کا اضافہ ہو چکا تھا۔ وہ زما نہ جوپہلے قیاسات سے بہل جاتا تھا، اب ہر بات کی دلیل مانگتا تھا۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی سے دنیا سمٹ سمٹا کر ایک چھوٹے سے گاؤں (global village) کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ یہ حضرات اپنے دامن میں حق بھی رکھتے تھے اور حق کی حفاظت کے سب دلائل بھی ان کے پاس تھے، مگرزبان وماحول کی اجنیت، لب ولہجہ کا فرق اور مروجہ اصطلاحات سے ناواقفیت کی بنا پر سیکولرزم کے علمبرداروں سے تو دور تھے ہی، معاشرے کے عام سمجھ دار افراد کی فکر اور سوچ کو بھی زیادہ متاثر نہ کر سکے اور عوام کا جتنا کچھ تعلق ان کے ساتھ رہ گیا تھا، وہ بھی محض عقیدت کی بنیاد پر تھا۔ یہ حال محدود شخصیات کے استثنا کے ساتھ تقریباً سارے ہی دینی طبقہ کا تھا۔ اس پر مستزاد مدمقابل کا ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان کے خلاف پروپیگنڈا تھا جس کے نتیجے میں دینی طبقہ اور عوام کے درمیان موجود خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی۔ ان حضرات کا فرقوں میں تقسیم در تقسیم ہونا بھی مخالفین کے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھا اور انہوں نے بطور ہتھیار اسے استعمال کرکے انہیں بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ سیکولر لوگوں کا وہی مطالبہ تھا جو مغرب میں پوپ سے کیا گیا تھا کہ اپنا دائرۂ عمل مسجد ومدرسہ تک محدور رکھو اور مذہب کو سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے علیحدہ رہنے دو۔ سیکولرزم کے نمائندہ یہ طبقہ اس وقت مسلم معاشرے اقتدار کے سرچشموں پر قابض ہے اور معاشرے کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے۔ تعلیم، سیاست، معاشرت غرض ہر شعبہ زندگی میں اس کو فیصلہ کن اتھارٹی حاصل ہے ۔
مسلم دنیا میں دینی ودنیاوی طبقات کی تقسیم اپنے ابتدائی مراحل میں صرف رائے اور طرز عمل کا اختلاف تھی، لیکن رفتہ رفتہ یہ اختلاف نظریات واعتقادات کی دو مختلف راہوں کی شکل اختیار کر گیا اور اب دونوں طبقے اپنا ایک الگ نظام عمل اور جدا جدا ’’Idealogies‘‘ رکھتے ہیں اور عملاً دونوں دریا کے دو کناروں کا روپ دھار چکے ہیں جو چلتے تو ایک ساتھ ہیں لیکن ان کا ایک دوسرے سے ہم آغوش ہو جانا خواب وخیال کی دنیا میں بھی ناممکن نظر آتا ہے۔ بہرحال معاشرے میں دینی ودنیوی طبقات میں دوری ختم کرنے کی ذمہ داری سب سے زیادہ مذہبی حضرات پر عائد ہوتی ہے جس کے لیے چند اقدامات ضروری ہیں:
(۱) دینی فکر اور مزاج رکھنے والے ایسے افراد حکومتی مشینری میں شامل کیے جائیں جو مذہبی نقطہ نظر کو حکومتی سطح پر قا بل قدر اہمیت دلا سکیں تاکہ لوگوں کو اسلام کی حقانیت کا ان کے ذریعے علم ہو۔
(۲) عوام کو اپنی بات سمجھانے کے لیے رائج طریقوں اور زبان سے آگاہی حاصل کی جائے تاکہ ا ن پر واضح کیا جا سکے کہ فلاح اپنے دین وروایات میں ہی ہے۔
(۳) غیر مذہبی فکر کامقابلہ کرنے کے لیے میڈیا میں ایسا موثر پلیٹ فارم تلاش کیا جائے جہاں سے ان کی بات توجہ اور دلچسپی سے سنی جا سکے۔
(۴) حکومتی شعبوں میں اپنے تعلیمی نظام کو عا م تعلیم کی طرح سرکاری حیثیت دلائیں تاکہ ان کے مستفیضین معاشرے کے بے کار لوگوں کی لسٹ سے نکل کر کارآمد دائرے میں داخل ہو سکیں۔
(۵) مخالفین کو دلائل سے یہ بات سمجھانے کی کوشش کریں کہ جو خطرہ مغرب کو مذہب سے تھا، وہ تم کواسلام سے ہرگز نہیں ہے۔ 
اگر یہ اقدامات کیے جائیں توان شاء اللہ معاشرہ میں اسلامی تعلیمات کے عملاً رائج ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔ 

غامدی صاحب کا ’’تصور سنت‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور سنت کے بارے میں ’الشریعہ‘ کے صفحات میں ایک عرصے سے بحث جاری ہے اور دونوں طرف سے مختلف اصحاب قلم اس سلسلے میں اپنے خیالات پیش کر رہے ہیں۔ راقم الحروف نے بھی بعض مضامین میں اس کا تذکرہ کیا تھا اور یہ عرض کیا تھا کہ غامدی صاحب نے سنت نبوی کے بارے میں جو انوکھا تصور پیش کیا ہے، اس کے جزوی پہلووں پر گفتگو کے ساتھ ساتھ اس کی اصولی حیثیت کے بارے میں بھی بحث ومکالمہ ضروری ہے تاکہ وہ جس تصور سنت سے آج کی نسل کو متعارف کرانا چاہتے ہیں، اس کا صحیح تناظر سامنے آئے اور اس کو قبول یا رد کرنے کے بارے میں متعلقہ حضرات پورے اطمینان کے ساتھ کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔
اسی پس منظر میں گفتگو کے آغاز کے طور پر چند گزارشات قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ محترم غامدی صاحب بھی اپنے موقف کی وضاحت کے لیے اس مکالمہ میں خود شریک ہوں گے اور اپنے قارئین، سامعین اور مخاطبین کی راہ نمائی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
محترم جاوید احمد غامدی اور ان کے مکتب فکر کے ترجمان ماہنامہ ’’اشراق‘‘ لاہور کا اپریل ۲۰۰۸ کا شمارہ اس وقت میرے سامنے ہے جس میں غامدی صاحب کے رفیق کار جناب محمد رفیع مفتی نے سوال وجواب کے باب میں دو سوالوں کے جواب میں سنت نبوی کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف پیش کیا ہے اور ان کے یہی ارشادات ہماری ان گزارشات کی بنیاد ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں محمد رفیع مفتی صاحب فرماتے ہیں:
’’قرآن مجید میں ہر چیز کے موجود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں جو دعوت دی گئی ہے او رحق کی شہادت کے حوالے سے جو استدلال کیا گیا ہے، اس میں کوئی کمی نہیں ہے اور وہ ہر پہلو سے جامع ہے، چنانچہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ کتاب اجزاے دین کے بیان اور ان کی تفصیلات کے پہلو سے مکمل ہے۔ اجزاے دین کے حوالے سے کئی چیزوں کو اس میں بیان ہی نہیں کیا گیا، مثلاً نماز کی رکعتیں، اوقات اور دیگر تفصیلات، زکوٰۃ کی شرحیں، مونچھیں پست رکھنا، عید الفطر اور عید الاضحی وغیرہ، شریعت سے متعلق یہ اہم چیزیں قرآن مجید میں موجود ہی نہیں۔ چنانچہ یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ قرآن مجید اس پہلو سے جامع ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے دین کے سب اجزا بیان کر دیے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنا دین ایک رسول کے ذریعے سے دیا ہے اور یہ بات ایک تاریخی سچائی ہے کہ اس رسول نے خدا کا یہ دین ہمیں علم کی صورت میں بھی دیا ہے اور عمل کی صورت میں بھی۔ جو دین ہمیں علم کی صورت میں ملا ہے، وہ سارے کا سارا قرآن مجید میں ہے اور جو عمل کی صورت میں ملا ہے، وہ سنت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت میں جاری کیا ہے۔ 
چنانچہ اگر ہم قرآن کے علاوہ سنت کے اس ذریعے کا انکار کرتے ہیں تو پھر ان سب اعمال کو ہم بطور دین قبول ہی نہیں کر سکتے۔ بے شک ان میں سے بعض چیزوں کا ذکر قرآن مجید میں بھی موجود ہے، لیکن اس میں وہ ذکر اس طرح سے موجود ہے کہ گویا یہ پہلے سے موجود اور متعارف چیزیں ہیں جن پر لوگ عمل کر رہے ہیں اور قرآن محض کسی خاص پہلو سے ان کا ذکر کر رہا ہے۔ جب یہ حقیقت ہے تو پھر پورا دین حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن وسنت دونوں کی طرف رجوع کریں۔‘‘
جبکہ اسی باب میں ایک اور سوال کے جواب میں، جس میں یہ دریافت کیا گیا ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک سنت سے کیا مراد ہے اور یہ کو ن کون سی ہیں، محمد رفیع مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’سنت دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدید واصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک یہ درج ذیل ہیں:
عبادات
۱۔ نماز، ۲۔ زکوٰۃ اور صدقہ فطر، ۳۔ روزہ واعتکاف، ۴۔ حج وعمرہ، ۵۔ قربانی اور ایام تشریق کی تکبیریں
معاشرت
۱۔ نکاح وطلاق اور اس کے متعلقات، ۲۔ حیض ونفاس میں زن وشوہر کے تعلقات سے اجتناب
خور ونوش
۱۔ سور، خون، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کی حرمت، ۲۔ اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ
رسوم وآداب
۱۔ اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا، ۲۔ ملاقات کے موقع پر السلام علیکم اور اس کا جواب، ۳۔چھینک آنے پر الحمد للہ اور اس کے جواب میں یرحمک اللہ، ۴۔ نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت، ۵۔ مونچھیں پست رکھنا، ۶۔ زیرناف کے بال کاٹنا، ۷۔ بغل کے بال صاف کرنا، ۸۔ بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا، ۹۔ لڑکوں کا ختنہ کرنا، ۱۰۔ ناک، منہ اور دانتوں کی صفائی، ۱۱۔ استنجا کرنا، ۱۲۔حیض ونفاس کے بعد غسل، ۱۳۔ غسل جنابت، ۱۴۔ میت کا غسل، ۱۵۔ تجہیز وتکفین، ۱۶۔ تدفین، ۱۷۔ عید الفطر، ۱۸۔ عید الاضحی‘‘۔
ان دونوں عبارتوں کو سامنے رکھ کر ہم جس نتیجے پر پہنچے ہیں، وہ کچھ اس طرح ہے کہ:
  • غامدی صاحب سنت نبوی کے حجت ہونے کے قائل ہیں اور اس بارے میں وہ جمہور امت کے ساتھ ہیں، مگر سنت کی تعریف اور تعین میں وہ جمہور امت سے ہٹ کر ایک الگ مفہوم طے کر رہے ہیں۔
  • وہ سنت کے صرف عملی پہلووں پر یقین رکھتے ہیں اور سنت کے ذریعے علم میں کسی نئے اضافے کے قائل نہیں ہیں۔
  • سنت کے عملی پہلووں میں بھی وہ اسے صرف دین ابراہیمی کی سابقہ روایات کی تجدید واصلاح اور ان میں جزوی اضافوں تک محدود رکھتے ہیں اور ان کے نزدیک دین ابراہیمی کی سابقہ روایات سے ہٹ کر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی نیا عمل اور ارشاد سنت میں شامل نہیں ہے۔
  • سنت کے ساتھ ساتھ وہ قرآن کریم کا وظیفہ بھی صرف اس دائرے میں محدود کر رہے ہیں کہ وہ صرف پہلے سے موجود ومتعارف چیزوں کا ذکر کرتا ہے۔ گویا پہلے سے موجود ومتعارف چیزوں سے ہٹ کر کوئی نیا حکم دینا یا دین میں کسی نئی بات کا اضافہ کرنا قرآن مجید کے دائرۂ کار میں بھی شامل نہیں ہے۔
  •  ان کے نزدیک سنت کسی اصول وضابطہ پر مبنی نہیں ہے جس کی بنیاد پر کسی بھی کام کے سنت یا غیر سنت ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہو، بلکہ سنت صرف لگی بندھی اشیا کی ایک فہرست کا نام ہے جس میں کسی بھی حوالے سے کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔
  • اس فہرست سے ہٹ کر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بھی ارشاد یا عمل غامدی صاحب کے نزدیک سنت کہلانے کا مستحق نہیں ہے اور نہ ہی اسے حجت کا درجہ حاصل ہے۔
  • سنتوں کی اس فہرست میں شامل تمام امور کا تعلق ایک مسلمان کی ذاتی زندگی اور زیادہ سے زیادہ خاندانی معاملات سے ہے جبکہ سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے تعلق رکھنے والے امور میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات واعمال کو سنت کا درجہ حاصل نہیں ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حاکم، قاضی، کمانڈر اور ڈپلومیٹ وغیرہ کے طور پر جو کچھ کیا ہے اور جو کچھ فرمایا ہے، وہ بھی سنت کے مفہوم سے خارج ہے۔
چنانچہ سنت کے اس مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے جو ہم نے مندرجہ بالا دو عبارتوں سے سمجھا ہے، یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ سنت نبوی کا یہ مفہوم نہ صرف یہ کہ جمہور امت بالخصوص خیر القرون کے اجماعی تعامل کے منافی ہے بلکہ انتہائی گمراہ کن اور عملاً سنت کے حجت ہونے سے انکار کے مترادف ہے۔ سنت اور حدیث کے حوالے سے محدثین کے بعض فنی مباحث سے قطع نظر جمہور امت کے نزدیک سنت وحدیث میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ تمام ارشادات واعمال شامل ہیں جو کسی بھی حوالے سے صحیح سند کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ ان میں ناسخ ومنسوخ اور راجح ومرجوح کی ترجیحات، صحیح وضعیف کی چھان پھٹک اور واجب العمل ہونے یا نہ ہونے کی درجہ بندی اپنے مقام پر مسلم ہے، لیکن سنت نبوی کی تعیین کا بنیادی ماخذ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ارشادات واعمال ہی ہیں جنھیں محدثین کرام نے پورے استناد واعتماد کے ساتھ محفوظ رکھا ہے۔ احادیث کے اسی ذخیرے سے سنت کا تعین اور انتخاب ہوتا ہے، اس لیے دین میں سنت کے حجت ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ماخذ کی حیثیت سے حدیث نبوی بھی حجت کا درجہ رکھتی ہے اور یہ حدیث وسنت صرف دین ابراہیمی کی سابقہ روایات کی خبر کا فائدہ نہیں دیتی بلکہ انشا کے درجے میں بہت سے نئے احکام اور قوانین کا اضافہ بھی کرتی ہے، اس لیے اگر قرآن وسنت دونوں کے کردار کو دین ابراہیم کی سابقہ روایات کی خبر دینے اور ان میں تھوڑی بہت اصلاح وترمیم نیز پہلے سے موجود ومتعارف امور کے تذکرہ تک محدود کر دیا جائے تو نہ قرآن کریم مستقل طور پر ’’الکتاب‘‘ کے درجے پر فائز رہتا ہے اور نہ ہی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’مستقل رسول‘‘ قرار دینا آسان ہوگا بلکہ (نعوذ باللہ) دونوں کی حیثیت عملاً بنی اسرائیل کے ان انبیاء کرام علیہم السلام اور ان پر نازل ہونے والی وحی کی طرح ہو جائے گی جو موسوی شریعت کے تسلسل کو آگے بڑھانے اور بعض ترامیم اور جزوی رد وبدل کے ساتھ بنی اسرائیل کو اس شریعت پر چلاتے رہنے کے لیے تشریف لاتے رہے ہیں۔
اسی طرح جمہور امت کے نزدیک حدیث وسنت صرف عمل کا فائدہ نہیں دیتی، بلکہ وہ علم کا ماخذ بھی ہے اور ہر دور میں علماے امت نے حدیث وسنت کے ذخیرے سے عمل میں راہ نمائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے ’’علم‘‘ کے باب میں بھی استفادہ کیا ہے۔ مثلاً عقیدہ کا تعلق خالصتاً ’’علم‘‘ سے ہے اور جمہور امت کے نزدیک جو باتیں عقائد وایمانیات میں شامل ہیں، ان کی بنیاد صرف قرآن کریم پر نہیں ہے، بلکہ حدیث وسنت کو بھی ایمانیات وعقائد کے تعین اور تعبیر وتشریح دونوں حوالوں سے ماخذ کی حیثیت حاصل ہے اور جس طرح قرآن کریم کے ارشادات ہمارے عقیدہ وایمان کا حصہ بنتے ہیں، اسی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات بھی ایمان وعقیدہ کی بنیاد اور اساس ہیں۔
میں اس سلسلے میں صحابہ کرامؓ کے دور کے دو واقعات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جو اس بات کی وضاحت کے لیے کافی ہیں کہ خیر القرون میں عقیدہ کے تعین اور تعبیر، دونوں میں قرآن کریم کے ساتھ ساتھ حدیث نبوی کو بھی ماخذ کی حیثیت حاصل تھی اور ان دونوں کی وضاحت اور ان کے صحیح مصداق کے تعین کے لیے صحابہ کرامؓ سے رجوع کیا جا تا تھا۔
امام مسلم نے ’’صحیح مسلم‘‘ کی سب سے پہلی روایت میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ یحییٰ بن یعمرؒ نے، جو تابعین میں سے ہیں، بیان کیا ہے کہ جب بصرہ میں معبد جہنی نے تقدیر کے انکار کی بات کی تو میں اور حمید بن عبد الرحمن حج یا عمرہ کے لیے روانہ ہوئے اور ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہمیں صحابہ کرامؓ میں سے کسی بزرگ کی زیارت نصیب ہو گئی تو ہم ان سے معبد جہنی کے اس عقیدے کے بارے میں دریافت کریں گے۔ ہمیں اس سفر میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی زیارت کا شرف حاصل ہو گیا۔ ہم نے ان سے عرض کیا کہ ہمارے علاقے میں کچھ لوگ ہیں جو قرآن کریم بھی پڑھتے ہیں اور علم کی باتیں بھی خوب کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ تقدیر کوئی چیز نہیں ہے اور دنیا میں جو کام بھی ہوتا ہے، نئے سرے سے ہوتا ہے (یعنی پہلے سے اس کے بارے میں کچھ لکھا ہوا نہیں ہے)۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ جب تم واپس جا کر ایسے لوگوں سے ملو تو انھیں میری طرف سے کہہ دو کہ میں ان سے براء ت کا اعلان کرتا ہوں اور وہ جب تک تقدیر پر ایمان نہیں لائیں گے، اگر احد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیں تو ان سے وہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک طویل حدیث سنائی جس میں ایمانیات کا ذکر کرتے ہوئے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’وتؤمن بالقدر خیر وشرہ‘۔ تم تقدیر پر بھی ایمان لاؤ کہ خیر اور شر سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق ہوتا ہے۔
دوسرا واقعہ بھی امام مسلم نے ہی کتاب الایمان میں ذکر کیا ہے اور اس میں ایک اور تابعی بزرگ حضرت یزید الفقیر فرماتے ہیں کہ میں خوارج کے اس عقیدہ سے متاثر تھا کہ جو شخص ایک بار جہنم میں چلا گیا، وہ وہاں سے کبھی نہیں نکلے گا اور شفاعت کوئی چیز نہیں ہے، مگر مجھے ایک مرتبہ بہت سے دوستوں کے ساتھ حج کے لیے جانے کا موقع ملا تو مدینہ منورہ میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کو مسجد نبوی میں دیکھا کہ وہ ایک ستون کے ساتھ ٹیک لگائے لوگوں کو وعظ فرما رہے تھے۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں کچھ لوگوں کے جہنم سے نکل کر جنت میں جانے کا ذکر کیا تو میں نے سوال کر دیا کہ حضرت! قرآن کریم تو کہتا ہے کہ ’ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ‘۔ اے اللہ، جس کو تو نے جہنم میں داخل کیا تو اسے رسوا کر دیا۔ اور قرآن کریم میں ہے کہ ’کلما ارادوا ان یخرجوا منہا اعیدوا فیہا‘، جہنم سے جب بھی لوگ نکلنے کا ارادہ کریں گے تو اسی میں لوٹا دیے جائیں گے۔ تو اس کے بعد آپ حضرات یہ کہا کہہ رہے ہیں کہ شفاعت ہوگی اور کچھ لوگوں کو جہنم میں سے نکالا جائے گا؟ حضرت جابرؓ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ کیا تم نے قرآن کریم پڑھا ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا کہ کیا اس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’’مقام محمود‘‘ کا تذکرہ بھی پڑھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں پڑھا ہے تو اس پر حضرت جابر بن عبد اللہ نے ایک طویل حدیث سنائی جس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ قیامت کے دن ’’مقام محمود‘‘ میں کھڑے ہو کر شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت پر بے شمار لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا، جبکہ وہ آگ میں جل کر کوئلہ ہو چکے ہوں گے۔ یزید الفقیر فرماتے ہیں کہ حضرت جابر سے یہ حدیث سن کر ہم نے آپس میں گفتگو کی اور ایک دوسرے سے کہا کہ تمہارے لیے بربادی ہو، کیا یہ بزرگ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جھوٹ بول رہے ہیں؟ چنانچہ ایک شخص کے سوا ہم سب رفقا نے اپنے سابقہ عقیدے سے رجوع کر لیا۔
ان دونوں واقعات کو ایک بار پھر پڑھ لیجیے، بلکہ ہم نے تو انھیں مختصراً نقل کیا ہے۔ ہو سکے تو صحیح مسلم میں انھیں براہ راست بھی دیکھ لیجیے۔ ان میں عقیدہ کی بات ہے اور ایک واقعہ میں تو اشکال کے لیے قران کریم کی دو آیات کا حوالہ دیا گیا ہے، عقیدہ کی وضاحت کے لیے صحابہ کرام سے رجوع کیا گیا ہے، دونوں بزرگوں یعنی حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت جابر بن عبد اللہؓ نے عقیدہ کی وضاحت کے لیے حدیث نبوی پیش کی ہے اور پوچھنے والوں نے اسے کافی سمجھتے ہوئے اپنے عقیدہ کو درست کر لیا ہے۔
اہل السنۃ والجماعۃ کا اسلوب یہی ہے کہ وہ دین کے حوالے سے سنت وحدیث کو ماخذ ومعیار سمجھتے ہیں، جبکہ اس کی وضاحت کے لیے صحابہ کرام سے رجوع کرتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اہل السنۃ والجماعۃ کہلاتے ہیں، چنانچہ عقائد کے باب میں جو رسالے عقائد کے بحث ومباحثہ کے آغاز میں لکھے گئے تھے، ان میں حضرت امام ابو حنیفہ کا رسالہ ’’الفقہ الاکبر‘‘، امام محمد کا رسالہ ’’عقیدۃ الشیبانی‘‘، امام احمد بن حنبل کا رسالہ ’’العقیدۃ‘‘ اور امام طحاوی کا رسالہ ’’العقیدۃ الطحاویہ‘‘ معروف رسائل ہیں۔ ان میں جتنے عقائد کا ذکر ہے اور جن پر ایمان لانا ایک مسلمان کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے، ان میں سے بیشتر کا ماخذ حدیث نبوی ہے اور قرآن کریم کے ساتھ ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات وفرمودات سے بھی عقائد وایمانیات میں استفادہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں صحیح بخاری جمہور امت اور اہل سنت کے اسلوب کا بہترین نمونہ ہے جس میں حضرت امام بخاریؒ نے ’’الجامع الصحیح‘‘ کے سب سے پہلے باب ’’کتاب الایمان‘‘ میں عقائد وایمانیات بیان کیے ہیں اور سب سے آخری باب ’’کتاب الرد علی الجہمیۃ‘‘ میں عقائد کی تعبیرات وتشریحات کا ذکر کیا ہے اور دونوں ابواب میں یعنی عقیدہ کے تعین اور اس کی تعبیر وتشریح دونوں میں قرآن کریم کے ساتھ ساتھ احادیث نبویہ کو بھی بنیاد بنایا ہے، ان دونوں کی وضاحت اور ان کے مصداق کے تعین کے لیے حضرات صحابہ کرام کے ارشادات وتوضیحات سے استدلال کیا ہے اور یہی قرآن وسنت کی بنیاد پر دین کی تعبیر وتشریح کا صحیح اسلوب اور معیار ہے۔
اس ضمن میں ماہنامہ ’’اشراق‘‘ کے مذکورہ شمارے (اپریل ۲۰۰۸) کے صفحہ ۸ میں سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی کے بارے میں جناب جاوید احمد غامدی کے اس ارشاد کا حوالہ دینا بھی شاید نامناسب نہ ہو کہ:
’’اصل الفاظ ہیں: بل رفعہ اللہ الیہ۔ اس رفع کی وضاحت قرآن نے سورۂ آل عمران (۳) کی آیت ۵۵ میں اس طرح فرمائی ہے کہ وفات کے بعد اللہ تعالیٰ انھیں اپنی طرف اٹھا لیں گے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ روح قبض کر کے ان کا جسم بھی اٹھا لیا جائے گا تاکہ ان کے دشمن اس کی توہین نہ کر سکیں۔‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بارے میں غامدی صاحب کا یہ کہنا امت کے اجماعی عقیدہ کے منافی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک عقیدہ کے تعین وتعبیر میں سنت وحدیث کا کوئی دخل نہیں ہے اور ان کے خیال میں قرآن کریم سے اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح قبض کیے بغیر زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا گیا تھا۔ اگرچہ ان کا یہ موقف بھی محل نظر ہے کہ قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ حالت میں آسمانوں کی طرف اٹھائے جانے کا ثبوت نہیں ملتا، لیکن اس وقت ہمارا یہ موضوع گفتگو نہیں ہے اور ہم سردست یہ عرض کرنا چاہ رہے ہیں کہ چونکہ غامدی صاحب سنت وحدیث کو علم کا ذریعہ نہیں سمجھتے اور عقائد کے ماخذ کے طور پر تسلیم نہیں کرتے، اس لیے انھیں امت کے اس اجماعی عقیدہ سے انحراف کرنا پڑ رہا ہے اور بات صرف اس ایک عقیدہ تک محدود نہیں ہے، اور بھی بہت سے معاملات میں جمہور امت کے اجماعی تعامل سے غامدی صاحب کے انحراف کی وجہ یہی ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک محترم جاوید احمد غامدی صاحب کا یہ ’’تصور سنت‘‘ صرف امت کے اجماعی تعامل وعقیدہ ہی کے خلاف نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ’ومن یشاقق الرسول‘ اور ’ویتبع غیر سبیل المومنین‘ کی حدوں کو چھوتا ہوا بھی نظر آ رہا ہے، اس لیے ہم ’الدین النصیحۃ‘ کے تحت پورے خلوص کے ساتھ انھیں اس گمراہ کن تصور سے رجوع کا برادرانہ مشورہ دینا اپنی دینی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

حلال و حرام اور غامدی صاحب کا تصور فطرت

حافظ محمد زبیر

غامدی صاحب کے نزدیک جس طرح معروف و منکر کا تعین فطرت انسانی سے ہوگا، اسی طرح ان کے نزدیک کھانے کے جانوروں میں بھی سوائے چارکے حلال و حرام کا تعین فطرت انسانی ہی کرے گی۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعے اسے بتایاکہ سؤر ‘خون‘مردار اور خدا کے سواکسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور بھی کھانے کے لیے پاک نہیں ہیں اور انسان کو ان سے پرہیزکرنا چاہیے۔ جانوروں کی حلت و حرمت میں شریعت کا موضوع اصلاً یہ چار ہی چیزیں ہیں۔ چنانچہ قرآن نے بعض جگہ ’قُلْ لَّا اَجِدُ فِیْمَا اُوْحِیَ‘اور بعض جگہ ’اِنَّمَا‘ کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی حلت وحرمت کے باب میں صرف یہی چار چیزیں حرام قرار دی ہیں‘‘۔
غامدی صاحب کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا کے ذریعے صرف چار چیزوں کو حرام قرار دیا ہے جو کہ قطعاًغلط ہے کیونکہ اہل سنت کے نزدیک ’ذی ناب‘ اور ’ذی مخلب‘ کی حرمت بھی اللہ کی طر ف سے ہے جیسا کہ آگے چل کر ہم دلائل سے اس بات کو واضح کریں گے۔ ایک اور جگہ غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں ‘چنگال والے پرندوں اور پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ یہ اسی فطرت کا بیان ہے جس کا علم انسان کے اندر ودیعت کیا گیا ہے۔ ہم اگر چاہیں تو ممنوعات کی اس فہرست میں بہت سی دوسری چیزیں بھی اس علم کی روشنی میں شامل کر سکتے ہیں۔ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اسے بیان فطرت کے بجائے بیان شریعت سمجھا‘‘۔
غامدی صاحب کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن جانوروں کو حرام قرار دیا ہے، وہ اپنی فطرت سے حرام قرار دیا ہے نہ کہ وحی سے۔ غامدی صاحب کا یہ موقف بھی قرآن و سنت کی صریح نصوص کے خلاف ہے۔ غامدی صاحب کے شاگردِ رشید جناب منظو ر الحسن صاحب نے غامدی صاحب کے تصور فطرت کی وضاحت میں اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ قرآن کی آیت ’یحل لھم الطیبت و یحرم علیھم الخبائث‘ میں ’الطیبات ‘ اور ’الخبائث‘ کا تعین فطرت انسانی کرے گی۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ جمہور اہل سنت کے برحق مذہب کے مطابق حلال و حرام اور خبائث و طیبات کا تعین وحی الٰہی سے ہوگا۔ اس موقف کے درج ذیل دلائل ہیں:* 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قُل لاَّ أَجِدُ فِیْ مَا أُوْحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّماً عَلَی طَاعِمٍ یَطْعَمُہُ (الأنعام: ۱۴۵)
’’اے نبی ﷺ! کہہ دیجیے :میں نہیں پاتا اس میں جو میری طرف وحی کیا گیا ہے کسی بھی چیز کو حرام کسی بھی کھانے والے پر جو کہ اس کو کھاتا ہو۔‘‘
اس آیت مبارکہ کے الفاظ ’ما أوحی الی‘ اس بات کی دلیل ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی وحی کے بغیر کسی چیز کو حرام قرار نہیں دے سکتے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کا ختیار نہیں ہے تو ایک عام انسان اپنی فطر ت سے کسی طرح کسی چیز کو حرام قرار دے سکتا ہے؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَا لَکُمْ أَلاَّ تَأْکُلُواْ مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُم مَّا حَرَّمَ عَلَیْْکُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَیْْہِ (الأنعام: ۱۱۹)
’’اور تمہیں کیاہو گیا ہے کہ تم اس جانور کو نہیں کھاتے کہ جس پر (ذبح کرتے وقت) اللہ کانام لیا گیا ہوجبکہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کھول کھول کر وہ سب چیزیں بیان کر چکا ہے جوکہ اس نے تم پر حرام ٹھہرائی ہیں، سوائے اس کے تم ان میں کسی ایک چیز کے استعمال پر مجبور ہو جاؤ۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام چیزوں کو کھول کر بیان کر دیا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت کے ذریعے ان کی مزید تشریح اور وضاحت بھی فرما دی ہے۔ لہٰذ ا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وضاحت کے بعد بھی کیا اس بات کی ضرورت باقی رہتی ہے کہ فطرت کی بنیاد پر کچھ چیزو ں کو حرام ٹھہرایا جائے؟ قرآن کی نص ’و قد فصل لکم ما حرم علیکم‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ طیبات و خبائث کے مصداقات متعین ہیں۔ اگر طیبات و خبائث کے مصداقات کا تعین فطرت انسانی سے ہونا ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گاکہ حلال و حرام کی تفصیل اللہ نے بیان نہیں کی بلکہ انسان نے اس فہرست کو ابھی مکمل کرنا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْْہِمُ الْخَبَآءِثَ (الأعراف: ۱۵۷)
’’آپؐ ان کے لیے طیبات کو حلال قرار دیں گے اور خبائث کو حرام قرار دیں گے۔‘‘
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ طیبات وخبائث کا تعین اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری تھی۔ ’یحل‘ میں ’ھو‘ ضمیر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے ‘اس سے عام انسانوں کو مراد لینا اصول تفسیرکے کس اصول کے تحت جائز ہوا؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے مطابق طیبات و خبائث کا تعین اپنی احادیث مبارکہ سے فرما دیا۔ امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں :
’’اور اللہ تعالیٰ کا قول ’’آپؐ ان کے لیے طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام ٹھہرائیں گے‘‘ اللہ کی طرف سے یہ خبر ہے کہ آپ مستقبل میں ایساکریں گے۔ پس آپؐ نے طیبات کو حلال ٹھہرایا ہے اور خبائث کو حرام قرار دیا ہے جیساکہ آپؐ نے ہر کچلی والے درندے اور ہر پنجوں والے پرندے کو حرام قرار دیا ہے ۔‘‘ (فتاویٰ ابن تیمیۃ: کتاب التفسیر‘ فصل الناس فی مقام حکمۃ الأمر و النھی علی ثلاثۃأصناف)
امام شاطبیؒ لکھتے ہیں :
’’ان میں ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طیبات کو حلا ل قرار دیا ہے اور خبائث کو حرام ٹھہرایا ہے اور کچھ چیزیں ایسی تھیں کہ ان دونوں کے درمیان تھیں، ان کا ان دونوں میں سے کسی ایک یعنی طیبات یا خبائث سے الحاق ممکن تھاتو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی تمام اشیا کے بارے میں کہ جن کے طیب یا خبیث ہونے میں اشکال ہو سکتا تھا، وضاحت فرمادی کہ یہ طیب ہے یا خبیث ہے۔ پس آپؐ نے درندوں میں سے ہر کچلی والے درندے اور پرندوں میں سے پنجوں والے پرندوں کے کھانے سے منع فرمایا۔‘‘ (الموافقات‘جلد۲‘ ص۱۸)
جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طیبات و خبائث کی وضاحت فرما دی تو حلال و حرام کی فہرست واضح ہو گئی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی حکم پر عمل کرتے ہوئے طیبات و خبائث کے افراد کے بیان کی بجائے ان کی تعیین کے لیے کچھ اصول دے دیے، مثلا آپؐ نے ہر ’ذی ناب من السباع‘ کو حرام قرار دیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ حرمت کی علل میں سے ایک علت قوت سبعیہ بھی ہے۔ یعنی جن جانوروں کا گوشت کھانے سے انسانوں میں درندگی کے اوصاف پیدا ہوں ‘ ان کے اخلاق بگڑ جائیں‘ان میں بغاوت‘ زیادتی، ظلم اور سرکشی کے جراثیم پیدا ہوں تو ایسے جانوروں کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبائث کہاہے اور ان جانوروں کی ایک معروف علامت ’ذی ناب‘ بیان کر دی تاکہ ان کی معرفت میں آسانی ہو۔ یہ ذہن میں رہے کہ صرف ’ذی ناب‘ ہونا کسی جانور کے حرام ہونے کی علت نہیں ہے، کیونکہ گوہ بھی ’ذی ناب‘ میں سے شمارہوتی ہے، جیسا کہ ابن قیمؒ نے’ اعلام الموقعین‘ میں لکھاہے ۔اس کے علاوہ بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طیبات و خبائث کا تعین کرتے ہوئے کچھ جامع اصول بیان کیے ہیں کہ جو ایک مستقل مضمون کے متقاضی ہیں۔ ان شاء اللہ ان تمام اصولوں پر ایک علیحدہ مستقل مضمون میں بحث ہوگی۔
سید منظور الحسن صاحب کے نزدیک ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کا تعین فطرت انسانی سے ہوگا جو کہ خود غامدی صاحب کے اصول ’قرآن قطعی الدلالۃہے ‘ کے خلاف ہے ۔کیونکہ اگر فطرت انسانی سے ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کا تعین کیا جائے گا تو قرآن کے ان الفاظ کا معنی کبھی بھی متعین نہ ہو سکے گااور فطرت میں اختلاف کی صورت میں ایک فقیہ کے نزدیک ایک جانور حلال ہو گا اور دوسرے کے نزدیک وہی جانور حرام ہو گا۔بعض فقہا کے جن اقوال کو منظور صاحب نے اپنے تصور فطرت کے حق میں بطور دلیل پیش کیا ہے، ان فقہا کا بعض جانوروں کی حلت و حرمت میں اختلاف ہی اس بات کی صریح دلیل ہے کہ فطرت انسانی سے حلال و حرام کی فہرستیں مرتب نہیں ہو سکتیں اور فطرت انسانی سے طیبات و خبائث کی تعیین کی صورت میں مراد الہٰی معاذ اللہ لغو قرار پاتی ہے کیونکہ ایک فقیہ ایک جانور کو طیب کہہ کر حلال قرار دے رہا ہوگا جبکہ دوسرا فقیہ اسی جانور کو خبیث قرار دے کے حرام کہہ رہا ہوگا ۔علامہ کاسانی ؒ لکھتے ہیں:
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے طیبا ت کو حلال کرتے ہیں اور خبائث کو حرام قرار دیتے ہیں اور گھوڑے کا گوشت طیب نہیں ہے بلکہ وہ خبیث ہے، کیونکہ طبائع سلیمہ اس کو اچھا نہیں سمجھتیں بلکہ اس کو برا خیال کرتی ہیں، یہاں تک کہ کسی بھی شخص کو اگر اس کی طبیعت پر چھوڑ دیا جائے تو وہ اس کوبرا ہی سمجھے گا اور اس کی طبیعت اس کے کھانے سے بچے گی۔‘‘ ( بدائع الصنائع‘ کتاب الذبائح و الصیود)
علامہ کاسانیؒ کی طبیعت کے مطابق گھوڑا خبیث جانور ہے جبکہ شوافع اورحنابلہ گھوڑے کو طیب کہتے ہیں اور اس کا گوشت استعمال کرنے میں کوئی طبعی کراہت محسوس نہیں کرتے۔ برصغیر پاک و ہند میں اہل حدیث کی فطرت بھی گھوڑے کا گوشت کھانے سے ابا نہیں کرتی،بلکہ ہمارے علاقوں میں اونٹ کا گوشت کھانے میں عامۃ الناس کوطبعاً زیادہ کراہت محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس کا گوشت کھانا ہمارے ہاں رواج میں نہیں ہے۔ اگرفقہا کا ایک گروہ کسی جانور کو کھانے میں کراہت محسوس کرے یا کسی مسلمان معاشرے میں کسی جانور کے کھانے کا رواج نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اس کا گوشت کھانا پسند نہ کرتے ہوں تو کیا وہ جانورحرام ہو جائے گا؟
۱۷) اگر یہ مان لیا جائے کہ طیبات و خبائث کا تعین فطرت انسانی سے ہوگاتو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے حکم کے مطابق طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام قرار نہیں دیا۔اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طیبات وخبائث کے بعض مصداقات کا تعین کیا تھا جبکہ بعض کی تعیین کا معاملہ امت پر چھوڑ دیا تو ہمارا سوال یہ ہے کہ اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تو طیبات و خبائث کی تعیین کا اختیار خود آیت مبارکہ سے ثابت ہوا۔ عامۃ الناس کے لیے طیبات وخبائث کے تعین کا اختیار کس نص سے ثابت ہے؟منظور صاحب کے لیے صرف یہ کہنا کافی دلیل نہیں ہے کہ چونکہ بعض علما نے بھی یہ کام کیاہے، لہٰذا ہمارے لیے بھی جائز ہے۔ حالانکہ اس مسئلے میں علما اور غامدی صاحب کے موقف میں زمین و آسمان کافرق ہے جسے ہم آگے چل کر واضح کریں گے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّہُ وَرَسُولُہُ (التوبۃ:۲۹)
’’تم جنگ کرو ان لوگوں سے جو کہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کو حرام نہیں ٹھہراتے کہ جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرایا ہو۔‘‘
یہ آیت مبارکہ میں اس مسئلے میں واضح ہے کہ حرام صرف وہی ہے جسے اللہ یا اس کے حکم سے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام ٹھہرا دیا اور یہ محرمات متعین ہیں۔ یہاں کسی فطرت کو حرمت کا اختیار نہیں دیا گیا۔ اگر توفطرت انسانی کی بنیاد پر ایک فقیہ نے کسی جانور کو طیب قرار دیتے ہوئے حلال کہا اور دوسرے نے اسے خبیث کہتے ہوئے حرام قرار دیا تویہ فقہا کے حلال و حرام ہوئے نہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے، کیونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس عیب سے پاک ہیں کہ ایک ہی جانور مثلا گھوڑے کو حلال بھی کہیں اور حرام بھی۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
الحلال بین و الحرام بین و بینھما مشبھات لا یعلمھا کثیر من الناس فمن اتقی المشبھات استبرأ لدینہ و عرضہ و من وقع فی الشبھات کراع یرعی حول الحمی یو شک أن یواقعہ (صحیح بخاری‘ کتاب الإیمان‘ باب فضل من استبرأ لدینہ)
’’حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ ملتے جلتے امور ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ پس جو کوئی بھی ان ملتے جلتے امور سے بچ گیا تو اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بھی بچا لیا اور جو ان میں مبتلا ہو گیا، اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو کہ ایک چراگاہ کے گرد اپنے مویشی چراتا ہے اور قریب ہے کہ وہ اس چراگاہ میں اپنے جانور ڈال دے۔ ‘‘
علامہ ابن حجرؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
’لا یعلم کثیر من الناس‘سے مراد یہ ہے کہ اکثر لوگ ان معاملات کا حکم نہیں جانتے اور جامع ترمذی کی ایک روایت میں وضاحت ہے کہ اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ وہ حلال ہیں یا حرام ہیں اور حدیث سے مراد یہ ہے کہ ان چیزوں کی حلت یا حرمت کا حکم معلوم کرنا تو ممکن ہے لیکن کچھ لوگوں کے لیے جو کہ اجتہاد کے درجے پر فائز ہوں۔ پس شبہات ان لوگوں کے لیے جو کہ مجتہدین نہیں ہیں کیونکہ عوام الناس کو یہ شبہات اس لیے واقع ہو جاتے ہیں کہ وہ دلیلوں میں ترجیح قائم نہیں کر سکتے ۔‘‘ (فتح الباری مع صحیح بخاری‘ کتاب الإیمان‘ باب فضل من استبرأ لدینہ)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حلال و حرام واضح ہیں اور متعین ہیں اور بعض چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں بعض شرعی دلائل کے بظاہر تعارض کی وجہ سے عوام الناس کو اشتباہ ہو جاتا ہے کہ یہ حلال ہیں یا حرام ہیں تو مجتہدین ان دو شرعی دلیلوں میں نسخ‘ تطبیق یا ترجیح کے اصولوں کے ذریعے کوئی موقف قائم کرسکتے ہیں ۔
امام نوویؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
’’اور شبہات کا مطلب یہ ہے کہ ان کا معنی واضح نہیں ہے کہ وہ حلال ہیں یا حرام ہیں اس لیے اکثر لوگوں کو ان کی حلت یا حرمت کا علم نہیں ہے اور جہاں تک علما کا معاملہ ہے تو ایسی مشتبہ چیزوں کا حکم قیاس ‘استصحاب حال یااس کے علاوہ شرعی اصولوں سے معلوم کر لیتے ہیں۔ پس جب کسی شے کی حلت یا حرمت کے بارے میں اشتباہ ہوجائے اور اس کے حلال یا حرام ہونے میں کوئی نص صریح یا اجماع نہ ہوتو مجتہد اس میں اجتہاد کر کے اس شے کو حلال یا حرام میں سے کسی ایک سے ملا دے گا .. .اور اگر مجتہد کے لیے بھی کسی چیزمیں اشتباہ باقی رہے تو کیا پھر اس کی حلت کا حکم جاری کیا جائے گا یا حرمت کا یا اس میں توقف کیا جائے گا۔ اس میں تین مذاہب ہیں کہ جن کو قاضی عیاض وغیرہ نے بیان کیا ہے اور ظاہر نص سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مذکور اختلاف سے مراد وہ اختلاف ہے جو کسی مسئلے میں شرعی حکم کے نزول سے پہلے ہو جاتا ہے اور اس مسئلے میں چار آرا ہیں جن میں سب سے صحیح یہی ہے کہ نہ اس کو حلال کہا جائے گا اور نہ حرام اور نہ مباح اور نہ اس پر اس کے علاوہ کوئی حکم جاری کیا جائے گاکیونکہ اہل حق کے ہاں تکلیف کسی شرعی حکم کے بغیر ثابت نہیں ہوتی۔‘‘ (شرح النووی مع صحیح مسلم‘ کتاب المساقاۃ‘ باب أخذ الحلال و ترک الشبھات)
امام نووی ؒ کے نزدیک کسی چیز کی حلت و حرمت کے بارے میں اگر اشتباہ ہو جائے تو مجتہد کسی شرعی اصول مثلا قیاس یا استصحاب وغیرہ کی روشنی میں اس شے کے حلال و حرام ہونے کا فیصلہ کرے گااور بغیر کسی شرعی دلیل کے حلت و حرمت ثابت نہ ہوگی۔ 
آپؐ کا فرمان ہے:
الحلال ما أحل اللہ فی کتابہ والحرام ما حرم اللہ فی کتابہ و ما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ (سنن الترمذی ‘ کتاب اللباس عن رسول اللہ‘ باب ما جاء فی لبس الفراء)
’’حلال وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے اور جس سے اللہ تعالیٰ نے خاموشی اختیار کی ہے وہ معاف ہے۔‘‘
محدث العصر علامہ مبارکپوریؒ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :
’فھو مما عفا عنہ‘ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان اشیا کے استعمال کو جائز اور ان کے کھانے کو مباح قرار دیاہے۔اور اس حدیث سے یہ اصول بھی نکلا کہ تمام اشیاء میں اصل اباحت ہے۔اور اس حدیث کی تائید اللہ تعالیٰ کے فرمان’وہی ہے کہ جس نے تمہارے فائدے کے لیے وہ سب کچھ پیدا کیاہے جو زمین میں ہے‘ سے بھی ہو رہی ہے۔‘‘ (تحفۃ الأحوذی مع سنن الترمذی‘ کتاب اللباس عن رسول اللہ‘ باب ما جاء فی لبس الفراء)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حلال و حرام وہی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال یا حرام ٹھہرایا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جو ’ذی مخلب ‘ اور ’ذی ناب‘ کو حرا م قرار دیا ہے تو وہ اللہ ہی کے حکم سے قرآنی آیت ’یحل لھم الطیبات ویحرم علیھم الخبائث‘ کا بیان ہے۔ لیکن اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی فقیہ یا مجتہد اپنی فطرت سے کسی جانور کو خبیث قرار دے کر حرام ٹھہراتا ہے تو اس کے بارے میں ہم یقین سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام ٹھہرایا ہے کیونکہ دوسرا فقیہ اس کو حلال بھی کہہ رہا ہوتا ہے۔ 
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بھنی ہوئی گوہ لائی گئی۔ آپ اس کو کھانے کے لیے جھکے تو آپؐ سے کہا گیا کہ یہ گوہ ہے۔ پس آپؐ نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ حضرت خالدبن ولیدؓ نے سوال کیا کہ کیا یہ حرام ہے؟ تو آپؐ نے جواب دیا: ’’نہیں ‘لیکن چونکہ یہ جانور میری قوم کی سرزمین (یعنی مکہ ) میں نہیں پایا جاتا اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا‘‘۔ پس حضرت خالدؓ نے اس کو کھایا اور آپؐ حضرت خالدؓ کو دیکھ رہے تھے ۔
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی خالہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کچھ پنیر ‘گھی اور گوہ ہدیہ کے طور پر بھیجے ۔پس آپؐ نے پنیر اور گھی کھا لیا اور گوہ سے کراہت کرتے ہو ئے اسے چھوڑ دیا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ گوہ آپؐ کے دستر خوان پر کھائی گئی‘ اگر وہ حرام ہوتی تو آپ ؐکے دستر خوان پر نہ کھائی جاتی۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گوہ کے گوشت کو ناپسند فرمایااور آپؐ کے سامنے گوہ کا گوشت کھایا گیالیکن آپ ؐ نے اس سے منع نہیں فرمایا۔ کھانے کے ایک جانور سے آپ ؐکی فطرت ابا کررہی تھی لیکن آپ ؐ نے اسے اپنی فطری ناپسندیدگی کی وجہ سے حرام قرار نہیں دے رہے۔ لہٰذ ثابت ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے (یعنی وحی کے بغیر) کسی چیز کو حرام قرار نہیں دے سکتے اور فطرت انسانی اگر ایک چیز سے ابا کرتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ حرام ہے‘ جیسا کہ غامدی صاحب کہتے ہیں۔ یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ زمانہ رسالت کے اہل عرب کی فطرت کو دوسرے مسلمانوں کی فطرت پر کوئی فوقیت اور تحکم حاصل نہیں ہے جیسا کہ جناب غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ معرو ف و منکر کی تعیین بذریعہ انسانی فطرت میں‘ اگر انسانوں کے درمیان اختلاف ہو جائے تو اس صورت میں اہل عرب کے فطری رجحان کو ترجیح حاصل ہو گی۔ 
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:
من أکل من ھذہ الشجرۃ الخبیثۃ فلا یقربنا المسجد فقال الناس حرمت حرمت فبلغ ذلک رسول اللہ ﷺفقال أیھا الناس انہ لیس لی تحریم ما أحل اللہ و لکنھا شجرۃ أکرہ ریحھا (مسند أحمد:۱۰۶۶۲)
’’جس نے اس خبیث درخت(یعنی پیاز) کو کھایا ہو وہ ہماری مسجد کے قریب بھی نہ آئے تو لوگ یہ کہنے لگے کہ (پیاز) حرام کر دیا گیا حرام کر دیا گیا۔جن آپؐ کو اس کی خبر ہوئی تو آپؐ نے فرمایا :اے لوگو!جس کو اللہ نے حلال ٹھہرایاہے تو مجھے کوئی اختیار نہیں ہے کہ اسے حرام قرار دوں ۔لیکن یہ ایک ایسا درخت ہے کہ جس کی خوشبو مجھے ناپسند ہے ۔‘‘
یہ حدیث بھی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ایک عام انسان کی فطرت تو کجا خیر العرب و العجم کی فطرت بھی اگر کسی کھانے کی چیز سے ابا کرے تو وہ حرام نہیں ہو سکتی جبکہ اللہ کی طرف سے اس کی حرمت کے بارے میں کوئی واضح حکم بذریعہ قرآن یا سنت نہ آ جائے۔

منظور الحسن صاحب کے دلائل

منظور صاحب نے اپنے اس موقف کی تائید میں کہ ’طیبات‘ اور ’خبائث‘ کا تعین فطرت انسانی سے ہوگا ‘قرآن و سنت سے کوئی ایک دلیل بھی نقل نہیں کی۔ منظور صاحب کی کل دلیل اس مسئلے میں بعض علما کے اقوال ہیں حالانکہ اس بات پر وہ بھی ہمارے ساتھ متفق ہیں کہ قرآن و سنت کے دلائل کو سمجھنے میں علما کی اہمیت تو مسلم ہے لیکن علما کے اقوال بذات خود کوئی شرعی دلیل نہیں ہیں۔ لیکن ہمیں اس بات سے خوشی ہوئی کہ منظور صاحب نے طیبات و خبائث کے تعین میں علما کے اقوال نقل کیے۔ چلیں اسی بہانے سہی‘ اصحاب مورد کوعلما و فقہا تو یاد آگئے۔ منظور صاحب کا یہ کہنا کہ جو موقف غامدی صاحب کا ہے وہی بعض پچھلے فقہا کا بھی ہے، لہٰذا راقم الحروف کو ان فقہا پر بھی نقد کرنی چاہیے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ طیبات و خبائث کی تعیین میں جو موقف بعض فقہا کے حوالے سے منظور صاحب نے بیان کیاہے، وہ غامدی صاحب کے نقطہ نظر سے قطعاًمختلف ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہماری بحث اس وقت غامدی صاحب سے ہو رہی ہے نہ کہ پچھلوں سے‘ لہٰذا ہم پچھلوں پر فتوے کیوں لگائیں جبکہ ہمیں ان کا موقف سمجھ میں بھی آتا ہے۔ 
سب سے پہلے ہم قرآنی آیت ’یحل لھم الطیبات ویحرم علیھم الخبائث‘ کے بارے میں مفسرین کے اقوال نقل کریں گے کہ وہ اس آیت مبارکہ کی کیا تفسیر کرتے ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں علما کے درج ذیل اقوال ہیں :
۱۔ طیبات سے مراد وہ حلال چیزیں ہیں کہ جن کو مشرکین مکہ یا یہود نے اپنی طرف سے حرام ٹھہرا لیا تھایا وہ یہود پر ان کی شرارتوں کی وجہ سے حرام کر دی گئی تھیں مثلا بحیرہ ‘ سائبہ‘ وصیلہ‘ حام اورچربی وغیرہ ‘اور خبائث سے مراد وہ حرام اشیاء ہیں کہ جن کواہل مکہ زمانہ جاہلیت میں حلال سمجھتے تھے یا یہود نے ان کو حلال بنا لیا تھا مثلاً مردار‘ خنزیر‘سود اور رشوت وغیرہ۔یہ قول ابن عباسؓ ‘ مقاتلؒ ‘ امام طبریؒ ‘زمخشریؒ ‘ابن کثیرؒ ‘محلیؒ ‘ ماوردیؒ ‘بغویؒ ‘عز بن عبد السلامؒ ‘نسفیؒ ‘خازنؒ ‘أبو سعودؒ ‘ الثعلبیؒ ‘ابن عجیبہؒ ‘واحدیؒ ‘ طنطاویؒ ‘ الشربینی الخطیب‘ؒ مفتی عبدہ الفلاحؒ ‘مولاناعبد الرحمن کیلانیؒ ‘ مولانامودودیؒ ‘ مفتی شفیع صاحبؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانیؒ وغیرہ کا ہے ۔امام بیضاویؒ کا رجحان بھی اسی طرح ہے ۔
۲۔ طیبات سے مراد وہ اشیا ہیں جنہیں شریعت نے حلال قرار دیا ہے اور خبائث سے مراد وہ چیزیں ہیں کہ جنہیں شریعت اسلامیہ میں حرام کہا گیا ہے۔ یہ قول امام مالکؒ ‘ ابن جریج ؒ ‘ فیروز آبادیؒ ‘ سمر قندیؒ ‘الثعلبیؒ ‘ابن عاشور ؒ کا ہے۔ امام قرطبیؒ ‘ ابن عطیہؒ اور الثعالبیؒ کا رجحان بھی اسی طرف ہے ۔مالکیہ کا مذہب بھی اسی قول کے مطابق ہے ۔یعنی جن چیزوں کی حلت وحرمت قرآ ن و سنت میں آ گئی وہ توحلال یاحرام ہیں اور جن کے بارے میں خاموشی ہے ان کا کھانا جائز ہے، مثلاً سانپ‘ بچھو اور بھونرے وغیرہ۔ ابو جعفر النحاس ؒ نے پہلے دونوں اقوال کو آیت کی تفسیر کے طور پر بیان کیا ہے ۔اس قول پر اگرچہ بعض اعتراضات وارد ہوتے ہیں، لیکن ابن عاشور مالکی نے اپنی تفسیر ’التحریر و التنویر‘ میں ان کامفصل جواب دیا ہے۔
۳۔ طیبات سے مراد وہ جانور ہیں کہ جنہیں اہل عرب طبعاً پسند کرتے تھے اور خبائث سے مراد ووہ حیوانات ہیں کہ جن کو عرب ناپسند کرتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن جانوروں کو حلال یا حرام کہا ہے، وہ شرعاً حلال یاحرام ہیں اور جن جانوروں کے بارے میں قرآن و سنت میں کوئی نص نہیں ہے، ان کی حلت و حرمت کافیصلہ اہل عرب کی طبیعت سے ہو گا۔ یہ قول امام شافعیؒ کا ہے۔ جمہور شوافع ور بعض حنابلہ نے بھی اس قول کو اختیار کیاہے۔شوافع کے نزدیک اہل عرب سے مراد شہروں اور بستیوں کے لوگوں ہیں نہ کہ دیہاتی اور صحرائی بدو۔ جبکہ حنابلہ کے نزدیک اہل عرب سے مراد اہل حجاز ہیں۔ یہ ذہن میں رہے کہ فقہا کے یہ دونوں گروہ طیبات و خبائث کی تعیین میں اہل عرب کے علاوہ دنیا کے دوسرے خطوں کے انسانوں کی طبیعت و مزاج کے رجحان و میلان کو کوئی حیثیت نہیں دیتے۔ 
امام شافعیؒ ‘ابن قتیبہ ؒ اورا بن قدامہ ؒ کے حوالے سے منظور صاحب نے جو عبارات پیش کی ہیں، ان کا معنی و مفہوم وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کر دیا ہے کہ ان حضرات کے نزدیک جن چیزوں کی حلت و حرمت کے بارے میں کوئی واضح نص نہ ہو، ان کی حلت و حرمت کا فیصلہ اہل عرب کی طبیعت سے ہو گا۔ جبکہ غامدی صاحب کا موقف ان فقہا سے بالکل مختلف ہے، کیونکہ ان فقہا کے نزدیک جن چیزوں کی حرمت اخبار آحاد میں آئی ہے، وہ اشیا شرعا حرام ہیں جبکہ غامدی صاحب حدیث میں موجود حرام اشیا کی حرمت کو شرعی حرمت نہیں مانتے اور اسے بیان فطرت قرار دیتے ہیں اور اگر وہ ان فقہا کی طرح ان اشیا کی حرمت کو بیانِ شریعت مان لیں تو ان کا بنایا ہوا غلط اصول کہ حدیث سے قرآن کے نسخ ا ور اس کی تحدید و تخصیص کایہ مسئلہ محض سوء فہم اور قلت تدبر کانتیجہ ہے‘ ٹوٹ جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ فقہا کا یہ گروہ طیبات و خبائث کے تعین میں اہل عرب کے طبعی رجحان کو فیصلہ کن حیثیت دیتاہے اور غیر عرب کے طبعی میلان کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے جبکہ غامدی صاحب طیبات و خبائث کی تعیین میں نوع انسانی کی فطرت کی بات کرتے ہیں ۔اس فرق کے باوجود ہم غامدی صاحب کے تصور فطرت کے ساتھ ساتھ فقہا کی اس رائے کو اس وقت تک نہیں مان سکتے جب تک کسی شرعی نص سے یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اہل عرب اور ان میں بھی شہری عربوں کی طبیعت کو ساری امت مسلمہ پر حلت و حرمت کے مسئلے میں حَکم بنایا گیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ رائے صریح نصوص کے بھی خلاف ہے جیسا کہ ابن تیمیہؒ کی عبارات ہم اس مسئلے میں پہلے نقل کر چکے ہیں۔
۴۔ طیبات سے مراد وہ جانور ہیں کہ جن کے کھانے کو نفس انسانی پسند کرتا ہے اور انسانی طبیعت ان کے استعمال سے لذت حاصل کرتی ہے جبکہ خبائث سے مراد وہ حیوانات ہیں کہ جن کے کھانے کو انسانی طبیعت ناپسند کرتی ہے ۔یہ قول امام رازی ؒ اور ابن الخطیبؒ کا ہے۔ابن عادل الحنبلی ؒ اورعلامہ آلوسیؒ کا رجحان بھی اسی قول کی طرف ہے ۔ان حضرات کے نزدیک بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن جانوروں کو حلال یا حرام کہا ہے وہ شرعاً حلال یاحرام ہیں اور جن جانوروں کے بارے میں قرآن و سنت میں کوئی نص نہیں ہے ان کی حلت و حرمت کافیصلہ یہ علماء عامۃ الناس کے طبعی رجحان و میلان پر چھوڑ دیتے ہیں۔ امام ابن حزمؒ لکھتے ہیں کہ ہر وہ چیز جس کو آپؐ نے حرا م کہا ہے مثلا گھریلو گدھے‘ کچلی والے جانور اور شکاری پرندے اور اس کے علاوہ جانور تو یہ سب خبائث میں شامل ہیں۔ (الأحکام:جلد۲‘ ص۲۰۱)
امام رازیؒ ‘ علامہ کاسانی ؒ اور ابن حزمؒ کی جو عبارات منظور صاحب نے پیش کی ہیں، ان کا یہی مفہوم ہے جو کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں ۔جناب منظور الحسن صاحب کا رجحان بھی اسی قول کی طرف معلوم ہوتا ہے ۔غامدی صاحب کا قدیم قول بھی اسی طرح کا ہے جو کہ ’میزان‘ مطبوعہ ۱۹۸۵ء میں موجود ہے ۔
۵۔ طیبات سے مراد وہ جانور ہیں کہ جن کے کھانے کو نفس انسانی پسند کرتا ہے اور انسانی طبیعت ان کے استعمال سے لذت حاصل کرتی ہے جبکہ خبائث سے مراد وہ حیوانات ہیں کہ جن کے کھانے کو انسانی طبیعت ناپسند کرتی ہے۔اورجس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں حرام قرار دیا ہے وہ اپنی فطرت سے حرام ٹھہرایا ہے نہ کہ وحی سے۔ لہٰذا حدیث میں موجود حرام اشیا بیان فطرت ہیں نہ کہ بیان شریعت۔ یہ جناب غامدی صاحب کاقول جدید ہے ۔
۶۔ طیبات سے مراد وہ چیزیں ہیں کہ جنہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال ٹھہرایا اور خبائث سے مراد وہ اشیا ہیں کہ جن کو آپؐ نے حرام قرار دیاہے یعنی آپؐ نے اپنی احادیث سے طیبات اور خبائث کے مصداقات کاتعین کر دیا ہے۔ یہ قول مالکیہ‘ جمہور حنابلہ‘بعض احناف‘ امام ابن تیمیہؒ اور امام شاطبیؒ کا ہے۔ بعد میں بعض فروعات کی حلت و حرمت میں ان فقہا کے درمیان اختلاف ہوا مثلا امام مالکؒ نے نصوص میں بیان شدہ صریح حرام جانوروں کے علاوہ باقی تمام جانوروں کو حلال قرار دیا جبکہ امام ابن تیمیہؒ نے نصوص قرآن وسنت سے علل نکال کر نصوص میں نہ بیان کیے گئے جانوروں کو بھی ان علل کی بنیاد پر حرام قرار دیا ہے۔ عبد الرحمن بن ناصر السعدیؒ ‘ أبو بکر الجزائریؒ اور ’التفسیر المیسر ‘ کے مؤلفین نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ ان حضرات کے نزدیک طیبات کی حلت اور خبائث کی حرمت کی علت خارجی یعنی اہل عرب یا عامۃ الناس کا طبعی رجحان و میلان نہیں ہے بلکہ یہ علت و حکمت ذاتی ہے اور اس علت وحکمت کا علم ہمیں احادیث مبارکہ سے حاصل ہوا ہے یعنی ہر وہ جانور کہ جس کا گوشت انسانی اعضا اور اخلاق کے لیے نفع بخش ہو وہ طیب ہے اور ہر وہ جانور جو انسان کے جسمانی اعضا یا اخلاقی رویوں میں فساد پیدا کرے وہ خبیث ہے۔امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں :
’’جمہور علما کاکہنا یہ ہے کہ طیبات سے مراد وہ چیزیں ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اور ان کا کھانادین میں نفع کا باعث ہے اور خبیث سے مراد ہر وہ چیز ہے کہ جو اپنے کھانے والے کے دین کو نقصان پہنچانے والی ہو۔ اور دین کی أصل عدل ہے کہ جس کے قیام کے لیے اللہ تعالی نے رسولوں کو مبعوث فرمایا‘ پس جو چیز اپنے کھانے والے میں ظلم اور زیادتی پیدا کرتی ہے اللہ تعالی نے اسے حرام قرار دے دیا ہے۔ جیسا کہ ہر کچلی والے درندے کے کھانے کو حرام قرار دیا گیاکیونکہ ایسادرندہ سرکش اور حد سے بڑھنے والاہوتا ہے اور غذا دینے والاغذا لینے والے کے مشابہ ہوتا ہے ۔پس جب کسی ا نسان کاگوشت ایسے جانور سے پیدا ہو گاتو اس انسان کے اخلاق میں سرکشی اور زیادتی پیدا ہو جائے گی۔ اسی قسم کا حکم خون کا بھی ہے جو کہ شہوت اور غصے سے متعلقہ نفسانی قوتوں کو جمع کرتا ہے۔پس جب انسان ایسی چیزوں کو بطور غذا استعمال کرتا ہے تو اس کی شہوت اور غصہ اعتدال سے بڑھ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے بہائے گئے خون کو حرام قرار دیا گیا ہے اور اس تھوڑے سے خون کو جائز قرار دیا گیا جو کہ جانور کے جسم میں باقی رہ جاتا ہے کیونکہ یہ ضرر نہیں دیتا (یعنی انسان کی شہوت اور غصہ نہیں بڑھاتا)اور خنزیر کا گوشت اس لیے خبیث ہے کہ یہ لوگوں میں برے اخلاق پیدا کرتا ہے۔‘‘ (فتاویٰ ابن تیمیۃ: جلد۱۹‘ ص۲۴ و ۲۵)
ہمارے عام طور پر لوگوں کی عادت ہے کہ وہ فقہا کے اختلافات کوتو خوب بیان کرتے ہیں لیکن اس بنیاد کو بیان نہیں کرتے کہ جس پر ان کا اختلاف قائم ہے۔ متقدمین میں ابن رشد ؒ نے ’بدایۃ المجتہد‘ میں اس منہج کو اختیار کیا ہے کہ فقہا کے اختلاف میں اصل بنیاد کو تلاش کر کے نمایاں کیاجائے تاکہ ان کے اختلاف کی حقیقت معلوم ہو سکے۔فقہا کے ایک گروہ کا کہنا یہ ہے کہ صرف وہی جانور حر ام ہیں کہ جن کی حرمت قرآن و سنت میں ہے ۔علما کی اس جماعت نے جانوروں کی حرمت کے مسئلے میں شدت احتیاط کو اپنا منہج بنایا ہے اور یہ کوشش کی ہے کہ کسی بھی جانور کو اس وقت تک حرام نہ کہیں جب تک کہ اس کے بارے میں کوئی صریح نص موجود نہ ہو‘تاکہ اللہ پروہ بہتان لازم نہ آئے جو کہ مشرکین مکہ پر لگایا گیا تھا۔اس گروہ کے امام ‘ امام مالکؒ ہیں۔ اپنے اسی منہج کے تحت امام صاحبؒ نے سانپ ‘ بچھو اور حشرات الأرض کو بھی حلال کہا ہے،جبکہ فقہا کے ایک دوسرے گروہ کا کہنا یہ ہے کہ جن چیزوں کی حرمت قرآن و سنت میں وارد ہے وہ تو شرعاًحرام ہیں لیکن ان کے علاوہ بھی کچھ جانور حرام ہیں۔ اب اس گروہ میں اس مسئلے میں اختلاف ہو گیا کہ نصوص میں موجود حرام جانوروں کے علاوہ حیوانات کی حرمت کاعلم کیسے حاصل ہوگا؟ بعض فقہا نے کہا کہ نصوص کے علاوہ جانوروں کی حلت وحرمت کا فیصلہ اہل عرب کی طبیعت اور رجحان سے ہوگا کیونکہ ’یحل لھم الطیبات و یحرم الخبائث‘ میں خطاب انہی میں سے ایک فرد سے ہے لہٰذا عرب جس کو طیب کہیں گے، اس کوآپؐ نے حلال قراردیااور وہ جس کو خبیث کہیں گے، آپؐنے اس کوحرام کہا ہے۔ اس جماعت کے امام ‘ امام شافعیؒ ہیں جبکہ بعض دوسرے فقہا کا کہنا یہ تھا کہ نصوص شریعت کی وسعتوں میں باقی جانوروں کی حلت و حرمت کا حکم بھی تلاش کیا جائے گااورنصوص سے حرمت کی علل نکال کر غیر منصوص جانوروں کا کا حکم قیاس سے تلاش کیا جائے گا۔ اس جماعت کے امام ‘ امام ابن تیمیہؒ ہیں۔ہمارے نزدیک یہی موقف جو کہ امام ابن تیمیہ ؒ کا ہے ‘قوی ہے اور اس کے راجح ہونے کے درج ذیل دلائل ہیں:
۱) اگر توطیبات و خبائث کا تعین انسانی کے طبعی رجحان پر چھوڑ دیا جائے تواللہ کی مرادکبھی بھی واضح نہ ہوسکے گی کیونکہ فقہا کی ایک جماعت اپنی طبیعت و رجحان کی بنیاد پرایک جانور کو حرام ٹھہرائے گی تو دوسری اسے حلال کہے گی۔ مثلاً علامہ کاسانیؒ کی طبیعت کے مطابق گھوڑا خبیث جانور ہے جبکہ شوافع اورحنابلہ گھوڑے کو طیب کہتے ہیں اور اس کا گوشت استعمال کرنے میں کوئی طبعی رکاوٹ محسوس نہیں کرتے۔ سوال یہ ہے کہ فقہا کے اس اختلاف کی صورت میں طیب و خبیث کے تعین میں کس کی طبیعت اور مزاج معتبر ہوگا؟ فقہاے شافعیہ کا‘ احناف کے علما کا یا حنابلہ کا؟ ظاہر ہے ان میں سے کسی ایک کے مزاج یا طبیعت کو دوسروں پر حَکم بنانے کی کوئی بھی شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔ سب سے اہم بات تویہ ہے کہ جو شخص مقلد ہے، وہ بھی ایک مزاج ا ور طبیعت رکھتا ہے لہٰذا ایک ایسے مسئلے میں وہ کسی فقیہ کی تقلید کیوں کرے کہ جس کی بنیاد کسی شرعی دلیل پر نہیں بلکہ طبیعت و مزاج پرہے؟ فقہا کو اس مسئلے میں عامۃ الناس پر حَکم بنانے کی شرعی دلیل کیاہے ؟
۲) اگر تو کوئی شخص طیبات و خبائث کی تعیین میں اختلاف کی صورت میں اہل عرب کو حَکم مانیں تو اس کی شرعی دلیل کیاہے؟ بلکہ یہ تو صریح نصوص کے خلاف بھی ہے۔ امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں :
’’اور اسی طرح علما میں سے جس کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے تمام مسلمانوں پر اس کوحرام قرار دیا ہے کہ جس کو اہل عرب خبیث سمجھتے تھے اور اس کو حلال قرار دیاہے کہ کہ جس کو اہل عرب طیب سمجھتے تھے تو جمہور علما امام مالکؒ ‘ امام ابو حنیفہؒ ‘ امام احمد ؒ ‘ اور متقدمین حنابلہ کا قول اس کے خلاف ہے۔لیکن امام احمدؒ کے اصحاب میں سے خرقی ؒ اور ایک گروہ نے اس مسئلے میں امام شافعیؒ کی موافقت اختیار کی ہے۔لیکن امام احمد ؒ سے مروی عام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خود ان کا مسلک وہی ہے جو کہ جمہورعلماء ‘صحابہؓ اور تابعینؒ کامسلک ہے کہ کسی چیز کی حرمت و حلت کا تعلق اہل عرب کے کسی چیز کو طیب یاخبیث سمجھنے سے معلق نہیں ہے بلکہ اہل عرب بہت سی ایسی چیزوں کو بھی طیب سمجھتے تھے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے جیسا کہ خون‘مردار‘گلا گھٹ کر مرنے والے جانور ‘ چوٹ کھا کر مرنے والے جانور ‘کسی جگہ سے گر کر مرنے والے جانور‘ کسی دوسرے جانور کے سینگ سے مرنے والے جانور‘درندوں کے شکار کا باقی ماندہ‘اور وہ جانور ہیں کہ جن کو ذبح کرتے وقت ان پر غیر اللہ کانام لیا گیا ہو۔اور اہل عرب بلکہ ان کے بہترین لوگ بہت سی ایسی چیزوں کو ناپسند کرتے تھے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی حرام نہیں ٹھہرایاجیساکہ گوہ کے گوشت کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند کرتے تھے اور آپؐ نے فرمایا چونکہ یہ میری قوم کی سرزمین میں نہیں پائی جاتی اس لیے میں اپنے آپ کو اس سے دور رکھ رہاہوں اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ حر ا م نہیں ہے اور آپؐ کے دستر خوان پر گوہ کھائی گئی اور آپؐ دیکھ رہے تھے۔(یعنی آپؐ نے اس کے کھانے سے منع نہیں فرمایا)‘‘ (فتاویٰ ابن تیمیۃ: جلد۱۹‘ ص۲۴)
۳) اگر تو امام مالک ؒ کا موقف اپنا لیا جائے تو بہت سی ایسی چیزیں بھی حلال قرار پائیں گی جو کہ انسانی جان اور اس کے روحانی و اخلاقی وجود کے لیے مضرت رساں ہوں گی جبکہ ان کا حلال ہونا مقاصد شریعہ کے خلاف بھی معلوم ہوتا ہے۔ امام مالکؒ نے طیبات سے مراد حلال اور خبائث سے مراد حرام جانور لیے ہیں ۔امام ابن تیمیہؒ ‘ امام مالکؒ کے موقف کا انکارکرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیت (یأمرھم بالمعروف و ینھاھم عن المنکر و یحل لھم الطیبات و یحرم علیھم الخبائث) میں یہ خبردی ہے کہ آپؐ معروف کاحکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے۔طیب کو حلال ٹھہرائیں گے اور خبیث کو حرام قراردیں گے ۔اگر تو معروف کامعنی یہ لیا جائے کہ اس سے مراد مأمور(جس کا حکم دیا گیاہو) ہے اور منکر سے مراد صرف وہ چیزیں ہوں کہ جن کو شریعت میں حرام کہا گیا ہے تو اس آیت کا مفہوم یہ بنے گا:آپؐ ان کو حکم دیتے ہیں اس کا جس کا ان کو حکم دیتے ہیں اور ان کو منع کرتے ہیں اس سے جس سے ان کو منع کرتے ہیں اور ان کے لیے حلال کرتے ہیں اس کو کہ جس کو ان کے حلال کیا گیاہے اور ان کے لیے حرام ٹھہراتے ہیں اس کو جس کو ان کے لیے حرام کیا گیا ہے۔ اس صورت میں اللہ کا کلام ہر قسم کے فائدے سے خالی ہوگاچہ جائیکہ اس کلام سے آپؐ کی باقی انبیا پر کوئی فضیلت ثابت ہو۔یہ بات بھی معلوم ہے کہ اگر آیت کا یہی معنی مراد لیاجائے تو جو بھی کسی چیز کاحکم دے گا، وہ اس آیت کے مفہوم میں داخل ہو گا اور تمام انبیا ایسے ہی ہوتے ہیں (یعنی کسی نہ کسی چیز کا حکم دیتے ہیں لہٰذ ا وہ سب اس آیت کا مصداق بنیں گے تو آپؐ کے لیے اس کلام کو لانے کا کوئی فائدہ باقی نہ رہے گا) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہود کے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر بعض ایسی طیبات کو حرام کر دیاتھا جو کہ ان کے حلال کی گئی تھیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ طیب ہونا ایک ذاتی وصف ہے۔اللہ تعالیٰ بعض اوقات طیبات کو ان کے ذاتی وصف کے ساتھ باوصف ہونے کے باوجود اپنے بعض بندوں کو سزا دینے کے لیے حرام کر دیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جب ان چیزو ں کا ذکر کیا جو کہ بنی اسرائیل پر حرام کی گئی تھیں تو فرمایا:یہ ہم نے انہیں ان کی سرکشی کی سزا دی اور بے شک ہم سچے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا :وہ آپؐ سے سوال کرتے ہیں کیا چیز ان کے لیے حلال کی گئی ہے تو آپؐ ان سے کہہ دیں :تمہارے لیے طیبات حلال کیے گئے ہیں۔ اگر طیبات سے مراد حلال ہی ہوتو کلام کا فائدہ باقی نہ رہے گا (یعنی سوال یہ ہوا تھا کہ کیا حلال کیاگیا ہے اور طیب سے مراد حلال لینے کی صورت میں جواب یہ ہو گاکہ حلال کو حلال کیا گیاہے) پس یہ معلوم ہوا کہ طیب یا خبیث ہو نا چیزوں کے ذاتی اوصاف ہیں۔‘‘ (مجموع الفتاوی:جلد۱۷‘ ص ۱۷۷)
امام ابن تیمیہؒ ‘ امام شافعیؒ کی رائے کا انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
’’طیب سے مراد صرف کسی کھانے کا انسان کے نزدیک لذیذ ہونا نہیں ہے کیونکہ انسان بعض اوقات بعض ایسی چیزوں کو کھاکر لذت حاصل کرتا ہے جو کہ ا س کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں مثلاً زہراور بہت سی ایسی چیزیں کہ جن کے استعمال سے طبیب(ڈاکٹر) انسانوں کوروکتے ہیں ۔اور نہ ہی طیب سے مراد یہ ہے کہ عرب اقوام میں سے ایک جماعت اس کے کھانے سے لذت محسوس کرے یا عرب جس کے کھانے کے عادی ہوں۔کیونکہ مسلمان اقوام میں سے کسی ایک قوم کا محض کسی چیز کو کھانا یا اس کو پسند کرنا یا ناپسند جاننا اس وجہ سے کہ وہ ان کے علاقوں میں نہیں پائی جاتی‘ سے یہ لازم نہیں آتاکہ اللہ تعالیٰ ہر اس چیزکوتمام امت مسلمہ پر حرام کر دیں کہ جن کو اہل عرب کی طبیعتیں پسند نہیں کرتیں۔اور نہ ہی اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ جس چیز کے کھانے کے اہل عرب عادی ہوں اس کو تمام ا مت کے حلال کر دیا جائے کیونکہ عرب تو خون اور مردار اور اس کے علاوہ بہت سی ایسی چیزوں کو کھانے کے عادی تھے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے۔ بعض عرب سے جب یہ سوال ہوا کہ تم کیا کھاتے ہو تو انہوں نے جواب دیا: ہر زندہ اور مردہ چیز کو سوائے أم حبین(ایک زہریلا درخت) کے۔تو اس شخص نے جواب دیا :أم حبین کو عافیت مبارک ہو۔خود قریش کی صورت حال یہ تھی کہ وہ بہت سے ایسی خبیث چیزیں کھاتے تھے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے اور ایسی چیزوں کے کھانے سے بچتے تھے کہ جن کو اللہ تعالی نے حرام نہیں ٹھہرایا ہے۔‘‘ (مجموع الفتاوی:جلد۱۷‘ ص ۱۷۷ و ۱۷۸)
امام شافعیؒ کے نزدیک خبیث یا طیب ہونا ایک اضافی وصف ہے یعنی کسی چیز کے خبیث یا طیب ہونے کا اعتبار اس کے کھانے والوں کی نسبت سے ہوگا۔ امام ابن تیمیہؒ اس رائے کو نہیں مانتے اور یہ کہتے ہیں کہ خبیث یا طیب ہونا اشیا کے ذاتی اوصاف ہیں اور طیب سے مراد ہر وہ شے ہے جو انسان کے لیے نفع بخش ہواور خبیث سے مراد ہر وہ شے ہے کہ جوا نسان کے لیے ضرر رساں ہو۔
اصولیین نے علت کی شرائط میں لکھا ہے کہ اس کے لیے منضبط وصف ہونا اس کی بنیادی شرائط میں سے ایک شرط ہیں۔ لہٰذا وہی وصف کسی حکم کی علت بن سکتا ہے جوکہ منضبط وصف ہویعنی ایسا وصف ہو جو کہ اشخاص اور احوال کے اعتبار سے تبدیل نہ ہوتاہو۔ غامدی صاحب نے چیزوں کی حلت و حرمت کے بارے میں جو وصف(یعنی انسان کی فطرت و طبیعت) بیان کیاہے، وہ بالکل بھی منضبط وصف نہیں ہے کیونکہ ہر شخص کے اعتبار سے حکم بھی تبدیل ہو رہے، البتہ امام شافعی ؒ نے اس وصف کو منضبط کرنے کے لیے اہل عرب کے ایک خاص طبقے کے ساتھ اس کو متعلق کر دیا ہے، لیکن اس کے باوجود اس وصف میں کامل انضباط موجود نہیں ہے جس کی دلیل گوہ کوکھانے والی حدیث ہے۔اگر امام شافعیؒ کا بیان کردہ وصف(یعنی اہل عرب کی طبیعت) ایک منضبط وصف ہوتا تو دو عرب یعنی آپؐ اور خالد بن ولید میں گوہ کھانے میں اختلاف نہ ہوتا۔ 
اسی طرح غامدی صاحب اور امام شافعیؒ کے بیان کردہ اوصاف مناسب وصف بھی نہیں ہیں اور علت کی بنیادی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ مناسب وصف ہویعنی شارع نے اس حکم سے جس مصلحت کا قصد کیا ہو وہ اس وصف سے پوری ہوتی ہویا آسان الفاظ میں حکم کی اس وصف کے ساتھ مناسبت عقلاً سمجھ میں آتی ہو جیسا کہ شراب کے حرام ہونے کے حکم کے لیے نشہ ایک مناسب وصف ہے کیونکہ اس وصف کی وجہ سے شراب کی حرمت کے حکم سے شارع کا مقصد(انسان کی عقل کی حفاظت) پور اہوتا ہے جبکہ شراب کامائع ہونا اس کی حرمت کے لیے ایک غیر مناسب وصف ہے کہ جس سے شارع کا کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا، لہٰذا یہ وصف شراب کی حرمت کی علت نہیں بن سکتا۔ایسے اوصاف کو اصولیین وصف طردی یا اتفاقی بھی کہہ دیتے ہیں۔ غامدی صاحب اور اما م شافعیؒ کا بیان کردہ وصف غیر مناسب وصف ہے کیونکہ اس سے شارع کا کوئی مقصد اور مصلحت پوری نہیں ہوتی لہٰذا یہ وصف حرمت و حلت کے حکم کی علت بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔اگر یہ ثابت بھی کر دیا جائے کہ امام شافعیؒ کا بیان کردہ وصف حکم کے مناسب ہے تو پھر بھی بعض اوقات کسی وصف کی حکم کے ساتھ مناسبت کسی مجتہد کے لیے تو ثابت ہو جاتی ہے لیکن شارع کے نزدیک وہ وصف لغو ہو تاہے، اس کو اصولیین کی اصطلاح میں مناسب ملغی کہتے ہیں۔ اہل عرب کی طبیعت کو حرمت و حلت کی بنیادبنانے کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ انعام میں لغو وصف قرار دیا ہے جیسا کہ اس بارے میں ہم پیچھے آیات نقل کر چکے ہیں۔
امام ابن تیمیہؒ نے جو وصف بیان کیا ہے، وہ منضبط بھی ہے اور مناسب بھی ہے لہٰذا امام صاحب ؒ کا بیان کردہ وصف ہی کسی جانور کے حلال یا حرام ہونے کی بنیادو علت ہے۔ امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:
’’اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام کریں گے پس ہر وہ چیز جو کہ نفع بخش ہو، وہ طیب ہے اور ہر وہ چیزجو کو ضرر رساں ہو وہ خبیث ہے۔اس وصف کی حکم کے ساتھ مناسبت ہر صاحب عقل کے لیے واضح ہے کیونکہ منفعت ‘تحلیل کے لیے ایک مناسب وصف ہے جبکہ ضرر ‘ تحریم کے لیے ایک مناسب وصف ہے ۔ اور مسلک دوران(اصولیین کے نزدیک علت معلوم کرنے کا ایک طریقہ) سے بھی ہماری بیان کردہ علت ثابت ہے کیونکہ تحریم ‘ مضرتوں کے موجود ہونے کے اعتبارسے مردار ‘ خون ‘ خنزیر کے گوشت‘ کچلی والے درندوں‘ پنچوں والے پرندوں اور شراب وغیرم میں گھومتی ہے۔‘‘ (مجموع الفتاوی‘جلد۲۱‘ ص۵۴۰)
ہمارا نقطہ نظر اس مسئلے میں وہی ہے جو کہ امام ابن تیمیہؒ کاہے ۔اس مضمون میں ہم نے حلت و حرمت کے حوالے سے چند اصولی بحثیں کی ہے۔ فروعات میں کیا چیزیں حرام ہیں اور کیا حلال ہیں، ان شاء اللہ ان اصولی بحثوں کی روشنی میں کسی اور وقت میں اس پر بھی مفصل بحث ہو گی۔

*یہاں مقالہ نگار نے بعض ان دلائل کا اعادہ کیا ہے جو ان کے مضمون ’’غامدی صاحب کے تصور فطرت کا تنقیدی جائزہ‘‘ (الشریعہ، فروری ۲۰۰۷) میں پیش کیے گئے ہیں۔ اختصار کے پیش نظر انھیں حذف کیا جا رہا ہے۔ (مدیر)

حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیریؒ کا انتقال

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۲۷ اپریل کو ہم مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نور اللہ مرقدہ کی یاد میں تعزیتی جلسہ کی تیاریوں میں تھے کہ یہ اطلاع ملی کہ دار العلوم دیوبند (وقف) کے شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمد انظر شاہؒ کا دہلی میں انتقال ہو گیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ 
حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کے ساتھ ملاقاتوں اور نیاز مندی کا سلسلہ پرانا تھا اور مختلف مجالس او رپروگراموں میں ان کے ساتھ رفاقت کا شرف حاصل رہا ہے۔ گوجرانوالہ میں مدرسہ نصرۃ العلوم اور جامعہ قاسمیہ میں متعدد بار تشریف لائے، جامعہ خیر المدارس ملتان اور کراچی کے بعض اجتماعات میں بھی ان سے ملاقات ہوئی اور چند سال قبل ڈھاکہ (بنگلہ دیش) کے نواحی علاقہ مادھوپور میں حضرت مولانا عبد الحمید صاحب کے دینی مدرسہ کے سالانہ جلسہ میں بھی ان کے ساتھ رفاقت رہی۔ 
حضرت علامہ سید محمد انور شاہ صاحبؒ اور ان کے خاندان کے ساتھ عقیدت ومحبت کا تعلق اس حوالے سے شروع سے تھا کہ میں بحمد اللہ تعالیٰ ایک شعوری دیوبندی ہوں اور دیوبند کے جن اکابر کے ساتھ نسبت وعقیدت سے ’’دیوبندیت‘‘ تشکیل پاتی ہے، ان میں ایک بڑا نام حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری قدس اللہ سرہ العزیز کا بھی ہے۔ اس تناظر میں حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ صاحب سے جب بھی ملاقات ہوتی تو میں اس سے حظ اٹھانے کی ہر ممکن کوشش کرتا، مگر گزشتہ چند ماہ سے حضرت شاہ صاحب کے ساتھ فون کا تعلق مسلسل رہا۔ میری بدقسمتی کہ وعدہ کے باوجود میں ایک بار بھی خود انھیں فون نہ کر سکا، مگر انھوں نے کئی بار فون کیا، بلکہ ان کے فرزند سید احمد خضر صاحب نے بتایا کہ حضرت شاہ صاحب اپنی وفات سے دو روز قبل بھی فون پر راقم الحروف سے رابطہ کی کوشش کرتے رہے، مگر بات نہ ہو سکی تو انھوں نے احمد خضر صاحب کو تاکید کی کہ وہ فون پر رابطہ کر کے ان کی طرف سے حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کی خدمت میں سلام مسنون اور دعا کے لیے بطور خاص عرض کریں۔ ایک بار دریافت کیا کہ میں روحانی سلسلہ میں کس سے مجاز ہوں؟ میں نے عرض کیا کہ اگرچہ اپنے ذوق کے حوالے سے اس میدان کا آدمی نہیں ہوں مگر میرا بیعت کا تعلق سلسلہ قادریہ میں حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ اور ان کے بعد حضرت مولانا سید ابو الحسن ندویؒ سے رہا ہے اور والد محترم حضرت مولانا سرفراز خان صفدر نے سلسلہ نقشبندیہ میں اپنے خلفاے مجازین میں میرا نام لکھ رکھا ہے۔ حضرت مولانا سید محمد انظر شاہؒ نے فرمایا کہ میں بھی آپ کو اپنے مجازین میں شامل کرتا ہوں اور اپنی اسناد کے ساتھ روایت حدیث کی اجازت بھی دیتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ حضرت شاہ صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین درجات سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
بخدمت جناب مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب سلمہ اللہ وحفظہ 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
ماہنامہ الشریعہ کے اپریل کے شمارے میں جنا ب کا مضمون ’’زنا کی سز ا‘‘ (۲) پڑھا۔ پورے مضمون کاتفصیلی جواب دینے کی ہمت نہیں، البتہ جواب کا جو جوہر ہو سکتا ہے، وہ پیش خدمت ہے۔ اللہ کرے کہ اس سے آ پ کے ذکر کردہ تمام اشکالات کاحل نکل آئے۔ یہ اقتباس احقرکی کتاب ’’تحفہ اصلاحی ‘‘سے ہے۔ یہ جواب الشریعہ میں چھپوانے کے ارادہ سے نہیں لکھا، صرف آپ کے مطالعہ اور غوروفکر کے لیے لکھا ہے۔ ویسے اگر آپ اس کو شائع بھی کر دیں تو مجھے اعتراض نہیں۔
مزید ایک بات پر غورکرنے کے لیے عرض کروں گا کہ علم کس کوکہتے ہیں؟ کیا جو اہل سنت کا اجماعی مسئلہ ہو، وہ علم نہیں؟ اگر وہ علم ہے توپھر اگر کچھ اشکا ل ہے تو ہماری کم علمی اور کم فہمی کی وجہ سے ہے، اور اگر وہ بھی علم نہیں توپھر ہماری اور آپ کی عقلوں اور سمجھوں کا بھی کیا اعتبار ہے ،اوروہ کیا معیاریت رکھتی ہیں؟ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: الدین النصیحۃ۔ وما علینا الا البلاغ۔
(مولانا مفتی) عبدالواحد غفرلہ 
دارالافتاء، جامعہ مدنیہ لاہور 

’’تحفہ اصلاحی‘‘ سے اقتباس:

امین اصلاحی صاحب نے رجم کے حد ہونے کے خلاف نسخ القرآن بالسنۃ کے عدم جواز کو اپنے لیے بڑی حتمی دلیل سمجھا تھا، ورنہ جہاں تک اصل مسئلہ کاتعلق ہے، احکام کی جو ترتیب واقع میں ہمیں ملتی ہے، اس میں نسخ القرآن بالسنۃ کا قول کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ قرآن پاک میں زنا کی سزا کے متعلق پہلے پہل یہ آیتیں نازل ہوئیں:
وَاللاَّتِیْ یَأْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِن نِّسَآءِکُمْ فَاسْتَشْہِدُواْ عَلَیْْہِنَّ أَرْبَعۃً مِّنکُمْ فَإِن شَہِدُواْ فَأَمْسِکُوہُنَّ فِیْ الْبُیُوتِ حَتَّیَ یَتَوَفَّاہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللّہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً (النساء،۱۵)
’’اور جو عورتیں بے حیائی کا کام کریں تمہاری بیویوں میں سے، تم لوگ ان عورتوں پر چار آدمی اپنوں میں سے گواہ کرلو۔ پھر اگر وہ آدمی گواہی دے دیں توتم ان کوگھروں کے اندر بند رکھو، یہاں تک کہ موت ان کا خاتمہ کر دے یااللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور راہ تجویز فرمادیں۔‘‘
وَاللَّذَانِ یَأْتِیَانِہَا مِنکُمْ فَآذُوہُمَا فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُواْ عَنْہُمَا إِنَّ اللّہَ کَانَ تَوَّاباً رَّحِیْماً (النساء ،۱۶)
’’اور وہ مرد وعورت جو تم میں سے یہ برائی کریں، انہیں ایذا پہنچاؤ۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور اصلاح کر لیں توان سے درگزر کرو۔ بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والاہے۔‘‘
ان دوآیتوں سے دوحکم ملے:
۱۔ اگر شوہر بیویوں پر زنا کا الزام رکھیں اور ان کے جرم پر چارگواہ بھی لے آئیں تو آئندہ حکم آنے تک ان کو گھروں میں محبوس رکھا جائے۔
۲۔ اجنبی مرد وعورت زنا کریں، خواہ وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ ہوں، ان کو حسب حال تعزیر کی جائے۔
زنا کی مرتکب بیویاں ایسی بھی ہوسکتی ہیں جن سے صحبت ہو چکی ہو یعنی وہ ثیب ہوں یا ان سے صحبت نہ ہوئی ہو یعنی وہ باکرہ ہوں۔ اسی طرح زنا کے مرتکب مردوں میں بعض ایسے ہیں جو نکاح کے بعد صحبت کر چکے ہوں اور کچھ وہ ہیں جو ابھی تک صحبت نہ کر پائے ہوں اور کچھ وہ ہیں جن کا نکاح ہی نہ ہو ا ہو۔ جب یہ کہا گیا کہ ’’آئندہ حکم آنے تک زناکی مرتکب بیویوں کو گھروں میں محبوس رکھو‘‘ تو انتظار صرف ان بیویوں کے حکم کا نہیں بلکہ ان سے زناکرنے والوں کے حکم کا بھی یہی ہے کیونکہ اول یہ انہیں سے ملوث ہوئے ہیں اور دوسرے ان کے بارے میں بھی کوئی متعین حکم نہیں دیا۔
مذکورہ بالاحکم کے بعد دوسرا حکم سنت وحدیث میں بیان ہوا۔ صحیح مسلم میں حضرت عبادہ بن صامتؓ سے نقل ہے :
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: خذوا عنی خذوا عنی قد جعل اللہ لھن سبیلا، البکر بالبکر جلد ماءۃ ونفی سنۃ والثیب بالثیب جلد ماءۃ والرجم۔
’’رسول اللہ نے فرمایا: مجھ سے لے لو، مجھ سے لے لو۔ اللہ تعالیٰ نے ان زناکار بیویوں کے لیے (اور ان سے ملوث مردوں کے لیے) ضابطہ مقرر فرما دیا ہے۔ غیر شادی شدہ مرد کی غیر شادی شدہ عورت سے بدکاری میں سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے۔ (یہی حکم ان مردوں اور عورتوں کا ہے جن کا نکاح ہو چکاہو، لیکن صحبت نہ ہوئی ہو) اور شادی شدہ مرد کی شادی شدہ عورت (جو صحبت بھی کر چکے ہوں۔ ان) کی بدکاری کی سزا سو کوڑے اور رجم ہے۔‘‘
اس حدیث وسنت سے اس بیوی کا حکم بھی معلوم ہوا ہے جس سے صحبت ہو چکی ہو، پھر اس نے زنا کیا ہو اور شوہر نے اس پر چار گواہ قائم کر دیے ہوں کہ اس کی سزا رجم ہے۔
تیسرے درجہ میں سورۃ نور کی آیات نازل ہوئیں۔ ان کے ساتھ ہی رجم سے متعلق آیت بھی نازل ہوئی۔ ان آیات میں مندرجہ ذیل احکام ملے:
۱۔ شوہر بیوی پر زناکاالزام رکھے لیکن چارگواہ پیش نہ کرسکے تولعان ہوگا۔
۲۔ الزانیۃ والزانی کے الفاظ سے غیر شادی شدہ کاحکم بتایا کہ اس کی سزا صرف سوکوڑے ہے اورایک سالہ جلاوطنی کومنسوخ کر دیا گیا۔
۳۔ رجم کی آیت بھی نازل ہوئی جس سے رجم کی سزا کو برقرار رکھا گیا اور سو کوڑوں کی سزا کو منسوخ کر دیا گیا۔ بعد میں اس آیت کے الفاظ منسوخ کردیے گئے۔


(۲)
بخدمت جناب عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔ مزاج بخیر !
بعض ذرائع سے چند ماہ قبل ماہنامہ’’الشریعہ ‘‘کے چند شمارے پڑھنے کا موقع ملا۔ یقیناًیہ رسالہ خالص علمی نوعیت کا ہے اور اس کے مضا مین علمی مباحث پر مشتمل ہیں، مگر معاشرہ میں ان مضامین کو سمجھنے والے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ بعض مضامین سے طے شدہ مسائل میں شک اور تذبذ ب پیدا ہوتا ہے اور تحقیق کے عنوان سے تشکیک کا دروازہ کھلتا ہے۔ امت میں بھی پہلے ہی اختلاف در اختلاف ہے۔ جس چیز کو بنیاد بنا کر یہ مضامین تحریر کیے جا رہے ہیں، وہ بنیا دقوم میں اب سرے سے موجود نہیں، نہ اس قسم کے مضامین کی ننانوے فی صد عوام کو ضرورت ہے۔ دین کاوہ حصہ جوقطعی دلائل سے ثابت ہے اور متفق علیہ ہے، اگرامت میں وہ احکام ز ندہ ہو جائیں تو یہ بھی غنیمت ہے۔ اس قسم کے مضامین سے جس قسم کا ذہن تیار ہوگا، وہ کام مختلف ٹی وی پروگرام اور عالم آن لائن سے زیادہ موثرانداز میں ہو رہا ہے۔ قوم دین کی بنیادی باتوں سے بھی ناواقف ہے۔ اس کا تجزیہ آپ اپنے اردگرد کے ماحول میں لوگوں سے گھل مل کر بھی کر سکتے ہیں۔ اگر دین کا علم رکھنے والے اپنی صلاحیتوں کو اس طرح استعمال کریں کہ مختلف مساجد میں یومیہ درس قرآن اور درس حدیث عام فہم انداز میں دیں، عوام کے سامنے بنیادی عقائد اور فرائض کی ادائیگی، انسانیت کی ہمدردی، معاملات کی صفائی، معاشرت کی پاکیزگی، صلہ رحمی، عفو ودرگزر، تحمل وبرداشت اور دین کابنیادی علم حاصل کرنے کا جذبہ، مغربی تہذیب کی بے حیائی سے بچنا، رشوت وسود کی نفرت جیسے عنوانات بیان کیے جائیں، وکلا کو تیار کیا جائے کہ جھوٹاکیس نہ لیں، تجارکی ایک جماعت ملک میں تیار کی جائے جو کم منافع پر عوام کو ضروریات مہیا کرے، ڈاکٹروں کو آمادہ کیا جائے کہ وہ مناسب فیس لے کر انسانیت کی خدمت کو شعار بنائیں اور اسی قسم کے مضامین کی اشاعت ہو تو قوم کوا س سے زیادہ فائدہ ہوگا۔
اگر آپ کے کسی مضمون سے تحقیق کے عنوان پر کوئی ایسا حکم جو دور صحا بہ سے امت میں نقل ہوتا آ رہا ہے اور اس کو محدثین اور فقہا اسی طرح نقل کرتے آرہے ہیں اور آپ نے اپنے مضامین سے اپنے قاری کو شک میں مبتلا کر دیا تو اللہ کو اس کا کیا جواب دیں گے؟ اگرآپ کے مضامین کے تسلسل سے ایک جماعت ایسی تیار ہوگی جوامت کے متفق علیہ مسائل میں شک کرے اور اس کا ذہن یہ بنا کہ چودہ سوسال میں کسی مفسر، فقیہ، محدث کی نگاہ اس پہلو پر نہیں گئی تو پھر یہ سلسلہ صرف رجم اور اس جیسے پر مسائل پر موقوف نہ ہوگا بلکہ مشترقین کا خوشہ چین بن کر نہ معلوم کس کس مسئلہ کوتختہ مشق بنائے۔ 
امت بہت ضعیف ہوچکی، خدارا اس پر رحم کریں اور تحقیق کا رخ ان مسائل کی طرف کریں جو امت کے حقیقی مسائل اور ضروریات ہیں۔ کیا سود سے قوم کو نکالنے کے لیے تمام وسائل مہیاکر دیے گئے ہیں اور اس کا بہتر متبادل دے کر اہل علم اپنا فریضہ ادا کر چکے ہیں؟ انشورنس کا متبادل قوم کو مل چکا ہے؟ مظلوموں کو واضح ظلم سے نکالنے کے لیے ہر شہر میں وکلا کی جماعت تیار ہو چکی؟ نہایت خستہ حال لاکھوں انسانوں کوایسے تاجر میسر آچکے ہیں جوجائز منافع لے کر ضروریات زندگی مہیا کر دیں؟ ہے کوئی زمیندار اور ملوں کا مالک جو بہاولپور کے صحرا میں بسنے والوں کو اس شدت کی گرمی میں صرف پینے کا پانی مہیا کر دے؟ ذرا شہر سے پانچ کلومیٹر نکل کرجائزہ لیں، ہزاروں مردوعورت ایسے ملیں گے جو واضح حلال وحرام، جائز وناجائز کا کوئی تصور بھی نہیں رکھتے۔
ایک طرف یہ حالت، دوسری طرف آپ کے رسالہ میں چھپنے والے مضامین اس سطح کے کہ شاید کسی پی ایچ ڈی کرنے والے کو بھی زندگی میں ا س کی ضرورت نہ پڑے۔ آپ اس جذبہ کو لے کر عوام میں آئیں توآپ کا حلقہ ا حباب، آپ کے شانہ بشانہ چلنے والے ایک سال میں اتنے ہوں گے کہ موجودہ طرز کے مضامین سے بیس سال میں بھی ایسے افراد مہیا نہ ہوں گے جن میں انسانیت کی تڑپ ہو۔ انسانیت کے لیے آنسو بہانے والے، مسلمان کو تکلیف میں دیکھ کر بے چین ہونے والے ایسے مضامین سے پیدا نہ ہوں گے۔ 
تمہاری ایک بہن 
(۳)
محترم المقام جناب حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب زیدمجدکم 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ امیدہے ایمان وصحت کی بہترین حالت میں ہوں گے۔
تسلیمات کے بعد ! ۵؍ اپریل کوالشریعہ کاتازہ شمارہ ملا اور ۷؍ اپریل کے تمام قومی اخبارات میںآپ کے پیارے چجا ولی کامل اور عہد حاضرکی عظیم صوفی وروحانی شخصیت حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی کی وفات کی خبرشائع ہوئی۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ پہلی ہی فرصت میں خط لکھنے کاارادہ تھا مگربخار کے شدید حملے کی وجہ سے تاخیر ہوئی۔ اب تھوڑا سا افاقہ ہوا ہے تو یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ ہمارے دارالعلوم مصباح الاسلام میں حضرت اقدس ؒ کی وفات کے دوسری دن برادر مکرم مولانا سید عنایت اللہ شاہ ہاشمی صاحب کے حکم پر حضرت اقدس ؒ کے ایصال ثوا ب کے لیے قرآنی خوانی کااہتمام کیا گیا،اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ 
مرحوم یقیناًاس صدی کی عظیم روحانی شخصیت تھے۔ وہ اخلاص ومحبت، زہد وتقویٰ، سادگی ودرویشی کا مجسمہ اور بلاشبہ اکابر کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ ایسے فرشتہ صفت لوگ عطیہ خداوندی ہوتے ہیں جو اپنے اعلیٰ اخلاق وکردار، پاکیزہ سوچ، عالی نظری، حق وصداقت کا علمبردار اور روحانی طبیب ہونے کی بدولت لاکھوں مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت، تزکیہ نفس اور جنت کی طرف رہنمائی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ قحط الرجال کے اس پرفتن دورمیں مرحوم ومغفور کا وجود مسعود بہت بڑی نعمت تھی اور ان کادنیاسے چلے جانا امت مسلمہ کے لیے ایک بڑے سانحہ سے کم نہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم ومغفور کواپنے جوار رحمت میں جگہ دیں اور پس ماندگان کو صبرجمیل واجر جزیل سے نوازیں، آمین ثم آمین۔
الشریعہ کے اپریل ۲۰۰۸ ہی کے شمارہ میں آپ کے نام جناب محترم سیف الحق کا خط شائع ہوا ہے جس میں آپ کے ’’علمی وفکری مکالمہ‘‘ نامی کتاب پر طویل بحث کی گئی ہے اور آپ کے بعض افکار سے اتفاق اور بعض سے اختلاف کیا گیا ہے۔ آپ کے افکار سے اختلاف یا اتفاق کے بارے میں محترم سیف الحق صاحب کے رائے کے بارے میں مجھے کچھ کہنے کا حق نہیں، البتہ خط کے مندرجات میں موجود جس بات نے مجھے سخت دکھ سے دوچار کیا، وہ یہ ہے کہ ’’اس وقت سب سے زیادہ خطرناک اور امن عالم کے لیے نہایت ہی نقصان دہ تنظیم القاعدہ کی تنظیم ہے۔‘‘
پرائیویٹ عسکری تنظیموں کی جذباتیت سے رونما ہونے والے اثرات کے بارے میں، میں خود بھی سیف الحق صاحب کے خیالات وافکار سے کسی حد تک اتفاق کرتاہوں، لیکن دنیا میں جاری جنگ وجدل اور بدامنی کا الزام القاعدہ پر لگانا حقائق سے چشم پوشی ہے اور یہ بات عالم اسلام کی اجتماعی سوچ وفکر سے ہٹ کرہے۔ میرے خیال میں ایسے بے سروپا الزامات لگانے سے امریکہ کی سوچ وفکر کو تقویت ملتی ہے اور یہ دہشت گردی کے نام سے عالم اسلام کے خلاف جاری امریکی جدوجہد کو ٹھوس ثبوت فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ امن عالم کے لیے اس وقت سب سے خطرناک اور نقصان دہ امریکہ ہے جب کہ القاعدہ اس کے خلاف بطور رد عمل رونما ہونے والے سوچ وفکر کی عکاسی کر رہی ہے۔ زمینی حقائق اور مشاہدات کی روشنی میں یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ اس وقت کون امن عالم کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ دنیابھر میں امریکہ کے شدت پسندانہ رویہ کے خلاف سب سے پہلے ۱۹۸۰ء میں استاد عبداللہ عزام نے ’’مکتب الخدمت‘‘ کے نام سے ایک عسکری تنظیم کی بنیادرکھی جبکہ عبداللہ عزام کی شہادت کے بعد اس تنظیم کی تمام ذمہ داری اسامہ بن لادن پرآئی جس نے اس تنظیم کا تبدیل کرکے ’’القاعدہ‘‘ رکھا۔ سوال یہ ہے کہ عرب کی سرزمین سے چند نوجوانوں کے امریکہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے اسبا ب کیا تھے؟ ان عوامل کا اگر سراغ لگایا جائے تو بات امریکہ کی بدمعاشی اور دہشت گردی پر آکر رک جاتی ہے اور دائروں کے اس سفرکے اختتام پر امریکہ کی خونخواری مسلمانوں کے سامنے منہ کھولے ہوئے نظرآتی ہے۔
جنگ عظیم دوم کے بعدامریکہ کی توسیع پسندانہ پالیسی اور انسانی حقوق کے تحفظ اور جمہوریت کے نام پر دنیا کے کمزور ملکوں کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنانے کے دل سوز واقعات کو سامنے رکھا جائے تو ان جارحانہ اقدامات کے تناظر میں اس بات کو سمجھنا کوئی مشکل بات نہیں کہ دنیا میں جاری بدامنی اور دہشت گردی ’’القاعدہ‘‘ کی وجہ سے نہیں بلکہ امریکہ کی بدمعاشی اور شدت پسندانہ اقدامات کی وجہ سے ہے۔ القاعدہ اور دیگر عرب مجاہدین کے خلاف امریکی زبان بولنے والے محترم سیف الحق کو اگر امریکی جارحیت کے سیکڑوں سے زائد دل سوز واقعات کاعلم نہیں توتاریخ کے دریچے کھلے ہیں، ذرا ان میں جھانک کر تو دیکھیں تاکہ فرعونیت کی راہ اختیار کرنے والی امریکی تاریخ کا انھیں پتہ چل سکے۔
نائن الیون کے واقعہ کاالزام القاعدہ پرلگاتے ہوئے محترم سیف الحق اپنے خط میں یوں رقم طراز ہیں کہ ’’اس کے بعد نائن الیون کا عظیم حادثہ پیش آیا جس کے منطقی نتیجے کے طور پر طالبان کی شرعی حکومت ختم ہوئی اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے اس حادثہ میں جو انیس پائیلٹ کریش ہوئے، وہ سب کے سب القاعدہ کے ساتھ تعلق رکھتے تھے جنہوں نے امریکہ میںآزادی کی وجہ سے امریکی فلائنگ کلب سے تربیت حاصل کی تھی‘‘۔ 
یہ ایک ایساالزام ہے جس کو ابھی تک مسلم تجزیہ نگارماننے سے انکاری ہیں۔ واشنگٹن اور نیویارک میں اس تباہ کن ڈرامے کاذمہ دار کسی مسلم گروپ کو ٹھہرانا یہودیوں کی پشت پناہی ہے۔ نائن الیون کا ڈرامہ کس نے رچایا؟ یہ سوال ا ب ایسا نہیں ہے جس کا جواب نہ ڈھونڈا جا سکے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے یک طرفہ پراپیگنڈا کے باوجود ایسے ٹھوس شواہدسامنے آئے ہیں جنھوں نے اسرائیل کے خون آلود ہاتھوں سے دستانے اتار دیے ہیں۔ ایک خلیجی اخبار ’’الوطن‘‘ کے مطابق ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پنٹاگون کی تباہی اور بربادی میں امن پسند عالم اسلام نہیں بلکہ یہودی لا بی ملوث ہے۔ تفصیلات کے مطابق ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں چارہزار سے زائدیہودی کام کرتے تھے۔ یہ کیساحسن اتفاق ہے کہ گیارہ ستمبر کوان چارہزار یہودیوں میں سے ایک بھی یہودی ڈیوٹی پر حاضر نہ ہوا! نائن الیون کاواقعہ رونماہونے کے چند منٹ بعدہی اسرائیلی وزیراعظم ایہود باراک ایک پہلے سے تیار شدہ انٹرویو دینے کے لیے بی بی سی پر کیسے آگئے؟ علاوہ ازیں امریکی انٹیلی جنس کے ایک افسرنے حادثے سے چار ہفتے قبل جاری ہونے والی انٹیلی جنس رپورٹ کا حوالہ دیاہے جو اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ یہ حملے اسرائیلی انٹیلی جنس موساد کی کارروائی ہیں۔ مذکورہ افسر نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پراس میمو کا حوالہ دیا تھا جس میں بتایاگیا تھاکہ موساد امریکی سرزمین پر امریکہ کے خلاف کوئی خفیہ آپریشن کرے گی تاکہ دنیامیں مسلمان بد نام ہو جائیں۔ واشنگٹن ،ٹائمز نے انکشاف کیا تھا کہ پینٹاگون سے ٹکرانے والے ہوائی جہاز کا پائلٹ جارج برینگھم امریکی محکمہ دفاع کاسابق افسرتھا جس کو برخاست کیا گیا تھا۔ یہ پائلٹ جو کہ کٹڑ یہودی تھا، امریکی وزارت دفاع کے انسداد دہشت گردی کے شعبے میں کام کرتا تھا۔ اسی طرح تمام امریکی ایجنسیوں اور اداروں میں موساد کے کارکن موجود ہیں۔ ہر اسرائیلی کے پاس امریکی شہر یت بھی ہے اور ہر امریکی یہودی اسرائیلی شہریت کا حامل ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ چارطیارے دیر تک اپنی پروازوں کی اصل سمت سے ہٹ کر خطرناک سمتوں میں پرواز کر رہے ہوں اور امریکی ملٹری اور سول ایوی ایشن کے ریڈار اور کنٹرول ٹاوروں کا سٹاف چپ بیٹھے تماشا دیکھ رہے ہوں۔ 
ایک فوجی ماہرکے مطابق ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں جس وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے، اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ سنٹر کے ٹاوروں میں، جن سے یہ طیارے ٹکرائے، پہلے سے آتش گیر اور دھماکہ خیز مواد رکھا گیا تھا اور یہ کام وسیع مہارت اور وسائل رکھنے اور امریکہ کے اندررہنے والا کوئی گروپ ہی کر سکتاتھا جو اسرائیل کے بغیر دوسرا کوئی نہیں ہو سکتا۔ ایک اطلاع کے مطابق اسرائیل نے اپنی جاسوسی تنظیم موساد کے ذریعے یہ حملہ کرایا۔ اس کا کوڈ 233ny تھا۔ اس کوڈ کو اگر wing ding کے fonts میں تبدیل کیاجائے توجو الفاظ اور اشارات سامنے آتے ہیں، ان کامفہوم یہ ہے : ’’طیارے کو دو عمارتوں سے ٹکراؤ تاکہ لوگ مریں اور فتح یہود کی ہو‘‘۔ یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم نیتن پاہو کا جب اپنے دورحکمرانی میں انتخابات کے معاملے میں صدر کلنٹن سے الجھاؤ پیدا ہوا تھا تواس نے برملا دھمکی دی تھی کہ اسرائیل چاہے تو واشنگٹن کوآن واحد میں بھسم کر سکتا ہے۔
محترم سیف الحق صاحب ان تمام ترشواہد کے باوجود جو تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں، وہی ز بان استعمال کر رہے ہیں جو نائن الیون کے بعد امریکیوں اور یہودیوں کا ورد بن چکی ہے۔ اسرائیل کی خفیہ جاسوسی تنظیم موساد نے اپنے فرائض مستعدی کے ساتھ کیوں پورے کیے اور اس عظیم سانحہ کو برپاکرنے کا مقصد کیا تھا؟ صرف یہی کہ دنیاکی ا کثریت کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کر دیا جائے اور فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم سے دنیاکی نظر یں ہٹا دی جائیں۔ آج گردنیا میں موجود کش مکش کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسرائیل اپنے مقصدمیں کامیاب نظر آرہا ہے۔ انتہا پسندی اور شدت پسندی کے کسی بھی معمولی واقعہ کو مسلمانوں ہی کے سر تھوپا جا رہا ہے جبکہ ہمارے مسلمانوں کایہ حال ہے کہ حالات وواقعات سے اتنے بے خبر ہیں کہ ان تمام واقعات کا ذمہ دار خود اپنے مسلمان بھائیوں کو ٹھہرا رہے ہیں۔
ان گزارشات سے میرا مقصد صرف یہ ہے کہ محترم سیف الحق صاحب کے سامنے یہ باتیں ٹھوس دلائل کے ساتھ پیش کروں کہ دنیا میں موجود دہشت گردی کا ذمہ دار القاعدہ نہیں بلکہ خودامریکہ ہے اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے واقعہ میں کسی مسلمان گروپ کا ہاتھ نہیں بلکہ اسرائیل ملوث ہے۔ میں امید کرتاہوں کہ میری یہ معروضات الشریعہ کی وساطت سے محترم سیف الحق صاحب تک پہنچائی جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمارا، آپ کا اور تمام امت مسلمہ کا حامی وناصرہو۔
سید عرفان اللہ شاہ ہاشمی 
ایڈیٹر مجلہ مصباح الاسلام 
مٹہ مغل خیل، شب قدر، ضلع چارسدہ
(۴)
محترم جنا ب مولانا زاہدالراشدی صاحب دامت برکاتہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ امید ہے مزاج بعافیت ہوں گے۔
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ تقریباً مطالعہ میں رہتا ہے، لیکن مستقل خریدار نہ ہونے کی وجہ سے کچھ شمارے محرومیت کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ ماہنامہ الشریعہ کو میں ایک ایسی دعوت فکر سمجھتا ہوں جس کی آج کے مذہبی طبقہ کو اشد ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہم آج اس فکر وسوچ سے اتنے تہی دامن ہو چکے ہیں کہ بسا اوقات بلکہ آج کل اکثر اوقات سرپیٹ لینے کوجی چاہتا ہے۔ میری سوچ ناقص ہو سکتی ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آج کے دورمیں بے دینوں کی اصلاح سے کہیں بڑھ کر دین داروں اور مذہب پسند طبقہ کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہم نماز روزہ کے مسائل تومسجد کے عام مولوی صاحب سے پوچھنا بھی لازمی سمجھتے ہیں، لیکن جہاد کے بارے میں ہمارے اپنے جذبات اور فیصلے اور خلوص بھری نادانی حتمی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو یہ فکرعام کرنے کے لیے ہمت، وسائل اور قبول عام بخشے۔ آمین 
محمد آفتاب عاصم 
مدرس ومعاون مفتی 
جامعہ اسلامیہ، صدر راولپنڈی

حالات و واقعات

ادارہ

مولانا زاہد الراشدی کا دورۂ برطانیہ

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ڈائریکٹر مولانازاہدالراشدی نے برطانیہ جاتے ہوئے ۲۹؍اپریل کو ایک روز کراچی میں قیام کیا اور انتہا کی مصروف دن گزارا۔ 
نماز فجر کے بعد جامعہ انوارالقرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی میں درجہ تخصص فی الفقہ کے طلبہ کو ’’اجتہاد اور اس کے ضروری تقاضے‘‘ کے عنوا ن پر لیکچر دیا۔
گیارہ بجے جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل ٹاؤن میں درجہ تخصص فی الادب العربی کے طلبہ سے ’’ادب وانشا کی اہمیت اور ضرورت‘‘ پر گفتگوکی۔
نماز ظہر کے بعد دارالعلوم کورنگی کراچی کے درجہ تخصص فی الدعوۃ والارشاد کے طلبہ کو ’’دورحاضر میں دعوت اسلام کا عمومی تناظر اور اس کی ضروریات‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیا۔
نما ز مغرب کے بعد دارالعلوم کورنگی کراچی کی اسی کلاس کو ’’اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اسلامی تعلیمات‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیا۔
نماز عشا کے بعد دارالعلوم کورنگی کراچی کے دورۂ حدیث کے طلبہ کی فرمایش پر دارالحدیث میں ان سے حدیث وسنت کی اہمیت پر گفتگو کی اور اپنی سند کے ساتھ ایک حدیث سنائی۔
اس کے بعد دارالعلوم کے صدرمہتمم حضرت مولانامفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم اور نائب صدر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم اور دیگر اساتذہ کے ساتھ رات کے کھانے میں شرکت کی اور مختلف امور پر باہمی تبادلہ خیالات کیا۔ 
۳۰ ؍اپریل کو صبح د س بجے مولانازاہدالراشدی پی آئی اے کے ذریعے کراچی سے لندن روانہ ہوگئے اور ۱۵مئی ۲۰۰۸ تک برطانیہ میں قیام کیا اور مختلف شہروں میں احباب سے ملاقات کے علاوہ ورلڈاسلامک فورم کے سالانہ اجلاس میں بھی شرکت کی ۔ 
مولانا راشدی نے ۱۳ مئی کو ابراہیم کمیونٹی کالج وائٹ چیپل لندن میں ورلڈاسلامک فورم کے زیراہتمام ایک فکری نشست میں جبکہ اسی روز لندن ایسٹ لندن کی مرکزی جامع مسجد میں بنگلہ دیش کی دینی جماعتوں کے مشترکہ فورم ’’بنگلہ دیشی مسلمز‘‘ کی ایک نشست میں عورتوں کے بارے میں امتیازی قوانین کے خلاف عالمی مہم کے پس منظر پر گفتگو کی۔ بنگلہ دیش میں ان دنوں عبوری حکومت کی طرف پیش کردہ ایک مسودہ قانون پربحث جاری ہے جس میں وراثت میں لڑکے اور لڑکی کے حصے کو برابرقرار دے دیاگیا ہے اور بنگلہ دیش کے دینی حلقے اسے قرآن کریم کے حکم کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف احتجاجی مہم میں مصروف ہیں۔ لندن میں بنگلہ دیشی مسلمز کی یہ نشست اسی پس منظر میں تھی۔
اس کے علاوہ مولانا راشدی نے جامع مسجد اپٹن لین لندن، جامع مسجد صدام حسین برمنگھم، مرکزی جامع مسجد گلاسکو، جامع مسجد الفرقان گلاسکو، مدرسہ عربیہ اسلامیہ گلاسکو، جامع مسجد ابوبکروالسال، جامع مسجد فاروق اعظم فرملی، مدنی مسجد نوٹنگھم، مدنی مسجد بریڈ فورڈ، جامع مسجد پلیشٹ گرو لندن، جامع مسجد ابوبکر ساؤتھال، جامع مسجد امدادیہ مانچسٹر اور جامع الہدیٰ شیفیلیڈ میں مختلف دینی اجتماعات میں گفتگو کی جبکہ جامعہ الہدیٰ نوٹنگھم میں طالبات اوراساتذہ کی نشست میں ’’توہین رسالت اور آزادئ رائے‘‘ کے عنوان پر تفصیلی خطاب کیا۔
مولانا راشدی نے ختم نبوت ایجوکیشن سنٹر برمنگھم میں حضرت مولاناصوفی عبدالحمید سواتی، حضرت مولانا سید نفیس الحسینی اور حضر ت مولانا سیدانظرشاہ کاشمیری کی وفات پر منعقدہونے والی تعزیتی کانفرنس میں ان بزرگان دین کو خراج عقیدت پیش کیا اور دو ہفتے کی ان مصروفیات کے بعد ۱۶؍ مئی کو گوجرانوالہ واپس پہنچ گئے۔

ورلڈاسلامک فورم کاسالانہ اجلاس

ورلڈاسلامک فورم کی ورکنگ کونسل کا سالانہ اجلاس ۱۳؍ مئی ۲۰۰۸ء کو ابراہیم کمیونٹی کالج وائٹ چیپل لندن میں فورم کے چیئرمین مولانامحمد عیسیٰ منصوری کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں پاکستان سے ورلڈ اسلامک فورم کے سرپرست مولانا زاہدالراشدی اور ڈھاکہ سے نائب صدر مولانا سلمان ندوی نے بھی شرکت کی جبکہ دوسرے شرکا میں سیکرٹری جنرل مولانا مفتی برکت اللہ، مولانامحمد اکرم ندوی، جناب مسرور احمد، رفعت لودھی، مفتی عبدالمنتقم سلہٹی، مفتی صدر الدین، مولانا محمد عمران خان جہانگیری، مولانا محمد حسن، مولانا شمس الضحیٰ، مولانا مشفق الدین، مولانا بلال احمد، جناب کامران احمد، مولانا عادل فاروقی، مفتی محمد عمیر، جناب محمد اصغر، جناب غلام قادر خان اور جناب الطاف احمد شامل ہیں۔
اجلاس میں گزشتہ سال کی رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایاگیا کہ :
۱۔ فورم کے تعارف اور کارکردگی پر مشتمل تفصیلی کتابچہ شائع کر کے تقسیم کیا گیا۔
۲۔ ماہانہ فکری نشست تسلسل کے ساتھ جاری ہے جو ہر ماہ کے آخری ہفتہ کے روز شام چھ بجے ابراہیم کمیونٹی کالج میں ہوتی ہے اور اب تک (۱) شریعت کے بارے میں آرچ بشپ آف کنٹر بری کے بیان اور اس پر مختلف حلقوں کا رد عمل (۲) وڈیوچینل کی ضرورت اوراس کے تقاضے (۳) بین الاقوامی قانون اور اسلامی قوانین کا تقابلی جائزہ کے عنوانات پرفکری نشستیں ہو چکی ہیں جبکہ ایک نشست حضرت مولاناسید نفیس الحسینی شاہ اور حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی کی تعزیت کے سلسلہ میں منعقد ہوئی جس میں دونوں بزرگوں کی خدمات پر خرا ج عقیدت پیش کیا گیا۔
۳۔ مولاناعیسیٰ منصوری نے بھارت کی تیرہ ریاستوں کا دورہ کیا اور بیسیوں اجتماعات سے ورلڈاسلامک فورم کے پروگرام اور اہداف کے حوالے سے خطاب کیا۔ مولانا زاہدالراشدی نے اگست ۲۰۰۷ ؁ء کے دوران داراالہدیٰ اسپرنگ فیلڈ واشنگٹن امریکہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ حجۃ الوداع اور انسانی حقوق پر پانچ تفصیلی لیکچر دیے جبکہ مولانا مفتی برکت اللہ نے پاکستان کے مختلف شہروں کا دورہ کیا اور الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں فکری نشست سے خطاب کیا۔
۴۔ ورلڈ اسلامک فورم کی ویب سائٹ قائم کی گئی جو جناب محمد جعفر کی نگرانی میں www.wifuk.org کے عنوان سے کام کر رہی ہے۔
۵۔ برطانیہ، بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ورلڈاسلامک فورم کے باقاعدہ حلقے قائم ہو چکے ہیں جو فورم کے عنوان سے کام کر رہے ہیں جبکہ جنوبی افریقہ میں فورم کا حلقہ قائم کرنے کے لیے فورم کے نائب صدر مولانا سلمان ندوی اگلے ماہ وہاں جا رہے ہیں۔
۶۔ عالم اسلام کو درپیش مسائل اور حالات حاضرہ کے اہم عنوانات پر مولانا محمد عیسیٰ منصوری اور مولانا زاہدالراشدی کے مضامین روزنامہ جنگ لندن، روزنامہ پاکستان لاہور، روزنامہ اسلا م کراچی، ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ اور دیگر جرائد میں اہتمام کے ساتھ شائع ہوتے رہے اور اس سال کے دوران مختلف موضوعات پر دونوں راہ نماؤں کے ایک سو سے زیادہ مضامین شائع ہوئے۔
اجلاس میں اگلے سال کے لیے ورلڈاسلامک فورم کی سرگرمیوں کا مندرجہ ذیل پروگرام طے کیا گیا:
۱۔ فورم کی سرگرمیوں اور حالات حاضرہ پر راہنمائی کے حوالہ سے ماہوار نیوز لیٹر جاری کیا جائے گا جو ویب سائٹ پر نشر کیے جانے کے علاوہ اہم حضرات کو بذریعہ ڈاک بھی بھجوایا جائے گا۔
۲۔ مولانا محمد عیسیٰ منصوری ہر ہفتہ کو شام چھ بجے ابراہیم کمیونٹی کالج میں علماے کرام کو تاریخ اسلامی کے اہم ادوار کے حوالے سے لیکچر دیں گے جب کہ آخری ہفتہ کوحسب معمول ماہانہ فکری نشست ہوا کرے گی۔
۳۔ جنوری ۲۰۰۹ ء کے دوران ڈھاکہ میں ’’ساؤتھ ایشیا میں نئی نسل کی د ینی وفکری راہنمائی کے تقاضے‘‘ کے عنوان پر سیمینار ہوگا جس سے مولانا سید سلمان الحسنی الندوی (لکھنو) مولانا محمد عیسیٰ منصوری (لند ن) اور مولانا زاہدالراشدی (گوجرانوالہ) خطاب کریں گے۔
۴۔ وڈیوچینل کی ضروریات اور امکانات کا جائزہ لینے کے لیے جناب کامران رعد اور جناب عادل فاروقی پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی جس کی رپورٹ پر آئندہ پروگرام طے کیا جائے گا۔
۵۔ فورم کی دیگر سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رہیں گی۔ان شاء اللہ تعالیٰ 
اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے مسلمانوں کے لیے شرعی احکام کے حوالے سے آرچ بشپ آف کنٹربری کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے حکومت برطانیہ پر زور دیا گیا کہ وہ اس پر منفی ردعمل کا اظہار کرنے کی بجائے مسلمانوں کے جداگانہ تہذیبی شخص اور اقوام عالم کے مسلمہ حقوق کے حوالہ سے اس کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے۔ ایک قرارداد میں اقوام متحدہ پر زور دیا گیا ہے حضرات انبیاے کرام علیہم السلام کی عزت وناموس کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی سطح پر قانون طے کیا جائے اور شرپسند عناصر کو مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی مذموم حرکات سے روکنے کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جائیں۔ ایک قرارداد میں اسلامی سربراہ کانفرنس کی تنظیم سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ عالم اسلام کے مسائل کے حل کے لیے آزادانہ اور باوقار موقف اور حیثیت اختیار کرے اور فلسطین، عراق، افغانستان اور کشمیر جیسے مسائل کوحل کرانے کے لیے جرات مندانہ کردار ادا کرے، نیز اقوام متحدہ میں ویٹو پاور کے حصول اور انسانی حقوق کے چارٹر پر نظرثانی کے لیے عالم اسلام کے مفاد اور معروضی حقائق کی بنیاد پر موثر پیش رفت کا اہتمام کرے۔

تین وقت نماز کی اجازت دینے کا فتویٰ

مشرق وسطیٰ میں گزشتہ تین ماہ سے علما کے مابین اس پر بحث جاری ہے کہ آیا ترکی سے جاری ہونے والا ایک حالیہ فتویٰ اسلامی قانون کے مطابق درست ہے یا نہیں۔ اس فتوے کے مطابق ۲۰۰۸ کے آغاز سے ترکی کے مسلمانوں کو اجازت ہوگی کہ وہ معمول کے پانچ اوقات کے بجائے صرف تین وقت نماز ادا کریں اور ایسا کرنے سے وہ گنہگار نہیں ہوں گے۔ استنبول یونیورسٹی کی سائنٹفک کونسل کے رکن محمد نور دوغان نے یہ متنازعہ فتویٰ جاری کر کے نماز کے فریضے کو پانچ سے کم کر کے تین اوقات تک محدود کر دیا ہے۔ اس فتوے نے وسیع پیمانے پر ایک بحث کو جنم دیا ہے اور قدامت پسند علما نے اس کی مخالفت کی ہے۔ 
اسلامی قانون کی رو سے لازم ہے کہ ایک مسلمان دن میں پانچ مرتبہ نماز ادا کرے، البتہ اس بات کی اجازت ہے کہ بیماری یا سفر کی حالت میں دن میں تین اوقات میں نماز ادا کر لی جائے۔ تاہم حالیہ فتوے نے اس اختیار کا دائرہ وسیع کر دیا ہے اور اجازت دی ہے کہ مسلمان تین وقت نماز ادا کر سکتے ہیں، بالخصوص جب وہ (دفتری) کام یا کسی ذاتی مصروفیت میں بے حد مصروف ہوں۔
ترکی میں جاری بحث سے ملتی جلتی بحث مصر میں بھی چل رہی ہے جہاں اس فتوے کی کچھ حمایت سامنے آئی ہے۔ حیرت انگیز طور پر الاخوان المسلمون کے بانی حسن البنا کے بھائی جمال البنا نے ترکی سے جاری ہونے والے فتوے کی تائید کی ہے۔ انھوں نے ایک عرب نیوز ویب سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا دور جدید کی ایک ضرورت بن چکا ہے۔ جدید طرز زندگی کے دباؤ کی وجہ سے لوگ زیادہ تر صورتوں میں پانچ نمازیں ان کے مقررہ اوقات میں ادا نہیں کر پا رہے۔‘‘ جمال البنا پر عام طور پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ اسلامی قوانین کی جدت پسندانہ تعبیر کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے پیروکاروں کو یہ اختیار دیا ہے اور اسے اس صورت میں استعمال کیا جا سکتا ہے جب نمازیں اپنے مقررہ اوقات میں ادا نہ کی جا سکیں۔ تاہم بعض لوگوں کی جانب سے فتوے کی تائید کے باوجود دوسرے لوگ دن بدن اس سے اختلاف کے اظہار میں بلند آہنگ ہو رہے ہیں۔ مصر کی سپریم کونسل فار اسلامک افیئرز کے رکن شیخ یوسف البدری نے ٹیلی فون پر اسلامک ٹائمز کو بتایا کہ وہ ترکی عالم کے استدلال کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ سفر، بیماری، بارش یا حج کے علاوہ کسی اور وجہ سے دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا درست نہیں۔ یہ بحث ابھی چل رہی ہے۔
(www.islamictimes.co.uk)

الشریعہ اکادمی میں ہفتہ وار نشست سے مولانا اللہ وسایا کا خطاب

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہ نما مولانا اللہ وسایا نے کہا ہے کہ دستور پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی دفعہ اور دیگر اسلامی دفعات کو چھیڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اگر عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور نفاذ اسلام سے متعلقہ دستوری دفعات کو ختم کرنے یا غیر موثر بنانے کی کوشش کی گئی تو اس کے خلاف عوامی تحریک چلائی جائے گی۔ وہ ۲؍اپریل ۲۰۰۸ کو الشریعہ اکادمی ہاشمی کالونی گوجرانوالہ کی ہفتہ وار فکری نشست سے خطاب کر رہے تھے جس کی صدارت اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کی اور اس میں علماے کرام، وکلا اور پروفیسر حضرات کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ 
مولانا اللہ وسایا نے جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور اقتدار میں قادیانیوں کی سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا اور کہا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے اجماعی فیصلے اور پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ میں متفقہ طور پر منظور شدہ دستوری ترمیم کو ماننے سے واضح انکار کے باوجود اس دوران قادیانی گروہ پاکستان میں پوری طرح متحرک رہا اور جنرل پرویز مشرف کی انتظامیہ ان کی پشت پناہی کرتی رہی۔ انھوں نے کہا کہ قادیانی گروہ اندرون ملک اور بیرون ملک اس بات کے لیے مسلسل متحرک ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے بارے میں دستوری فیصلے کو ختم کرایا جائے اور قادیانیوں کو اسلام کے نام پر اپنے مذہب کی تبلیغ سے روکنے والے قوانین کو غیر موثر بنایا جائے لیکن یہ دستوری اور قانونی فیصلے ملک کے عوام کی پرجوش تحریک اور ہزاروں افراد کی قربانیوں کے نتیجے میں ہوئے ہیں اور ملت اسلامیہ کے متفقہ عقائد کی نمائندگی کرتے ہیں، اس لیے انھیں ختم کرنے کی کسی صورت میں اجازت نہیں دی جائے گی اور اگر کسی نے ایسی کوشش کی تو اسے شدید عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مولانا زاہد الراشدی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سیکولر لابیاں دستور پاکستان کی ترامیم پر نظر ثانی کے نام پر قرارداد مقاصد، عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور وفاقی شرعی عدالت کے بارے میں دستوری دفعات کو ختم کرانا چاہتی ہیں اور اس کے لیے ہوم ورک کیا جا رہا ہے، اس لیے دینی قوتوں کو بیداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور تمام مذہبی جماعتوں اور مکاتب فکر کو تحریک ختم نبوت کے ایک نئے راؤنڈ کی تیاری شروع کر دینی چاہیے۔

جولائی ۲۰۰۸ء

’’اسلام اور شہری حقوق و فرائض‘‘ ۔ غیر مسلم معاشرے کے تناظر میںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ابلیس اور حکمرانمحمد مشتاق احمد
ایک تحریک علماء کی ضرورتحسن الامین
اسلامی درس گاہوں میں تعلیم قرآن کا طریقہمولانا محمد بشیر سیالکوٹی
’’سرمایہ دارانہ یا سائنسی علمیت‘‘ پر ایک تنقیدی نظرڈاکٹر محمد شہباز منج
مکاتیبادارہ

’’اسلام اور شہری حقوق و فرائض‘‘ ۔ غیر مسلم معاشرے کے تناظر میں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(برطانیہ کے ایک تحقیقاتی فورم کی طرف سے موصولہ سوال نامہ کے جواب میں حسب ذیل گزارشات پیش کی گئی ہیں۔ یہ ذاتی مطالعہ اور غور وفکر کا نتیجہ ہیں جن کے کسی بھی پہلو سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی صاحب علم علمی انداز میں ان کے بارے میں اظہار خیال کرنا چاہیں تو ’الشریعہ‘ کے صفحات حاضر ہیں۔  ابو عمار زاہد الراشدی)

جمہوریت اور انصاف

۱۔ سماجی زندگی پر اثر انداز ہونے کے لیے فیصلہ سازی اور انتخابی عمل میں فعال حصہ لینے، ایک شہری کی حیثیت سے متحرک کردار ادا کرنے او رجمہوریت کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کیا ہے؟ 
جواب: اسلام ایک مسلمان کو اور کسی اسلامی مملکت کے ایک شہری کو سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں حصہ لینے اور سوسائٹی کی بہتری کے لیے کردار ادا کرنے کا نہ صرف حق دیتا ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ’تعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان‘ کے تحت جو ہدایت دی گئی ہے، وہ اس کی واضح علامت ہے، اس لیے کہ بر وتقویٰ اور اثم وعدوان کا اطلاق صرف ذاتی نیکی اوربدی پر نہیں ہوتا بلکہ سوسائٹی کا اجتماعی خیر وشر اور نفع وضرر بھی اس کے دائرے میں شامل ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک سے جو مسلمان نقل مکانی کر کے مغربی ممالک میں گئے ہیں اور انھوں نے ان ممالک کو اپنا وطن بنا لیا ہے تو جہاں وہ ان ممالک کے وسائل اور سہولتوں سے استفادہ کر رہے ہیں، وہاں اس سوسائٹی کا بھی ان پر حق ہے کہ وہ اسے کچھ دیں۔ اس ملک اور سوسائٹی نے مسلمانوں کو بہت کچھ دیا ہے اور وہ اسے بھرپور طریقے سے وصول کر رہے ہیں، لیکن صرف لینا اور لیتے ہی چلے جانا انصاف کی بات نہیں ہے اور اس سوسائٹی کو کچھ دینا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔
اس سلسلے میں احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے پاس انھیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ہمارے پاس بہت کچھ ہے اور ہم انھیں بہت کچھ دے سکتے ہیں۔ اس سوسائٹی کے پاس دنیا کے وسائل اور سہولتوں کی فراوانی ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے اور یہ ہمیں ان سے بہرہ ور کر رہے ہیں، لیکن ان کے پاس روح کا سکون اور آخرت کی نجات کا سامان نہیں جو بحمد اللہ تعالیٰ تمام تر خرابیوں کے باوجود ہمارے پاس موجود ہے، وہ ہم انھیں دے سکتے ہیں اور یہ ہماری دینی ذمہ داری بھی ہے کہ ہم وہ انھیں مہیا کریں۔ میں نے چند سال قبل نوٹنگھم برطانیہ میں ایک بڑے پادری صاحب سے اس سلسلے میں بات کی اور ان سے پوچھا کہ مغربی سوسائٹی میں خاندانی سسٹم کی بربادی اور روحانی سکون کے فقدان کے حوالے سے جو صورت حال ہے، کیا وہ اس سے مطمئن ہیں؟ انھوں نے نفی میں سر ہلایا اور کہا کہ یہ صورت حال ہمارے لیے بڑی پریشان کن ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ آپ کے نزدیک اس کا حل کیا ہے؟ تو انھوں نے بڑے صاف انداز میں یہ بات کہہ دی کہ ’’ہمارے پاس اس کا کوئی حل نہیں ہے، ہم تو آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں‘‘ ۔ 
جمہوریت کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر یہ ہے کہ:
  • حکومت کی تشکیل عوام کی رائے اور مشورہ سے ہوگی، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جانشین نامزد کرنے کی بجائے اس کا انتخاب لوگوں کی اجتماعی صواب دید پر چھوڑ دیا تھا۔
  • حکومت خاندانی نہیں ہوگی، جیسا کہ صحابہ کرامؓ کے دور میں بننے والے خلفا حضر ت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کا نسبی وارث نہیں تھا۔
  • حکومت عوام کے سامنے جواب دہ ہوگی، جیسا کہ حضرت ابوبکر نے اپنے پہلے خطبے میں عام لوگوں کا یہ حق تسلیم کیا کہ ’’میں سیدھا چلوں تو میرا ساتھ دو اور اگر ٹیڑھا چلوں تو مجھے سیدھا کر دو۔‘‘ یا جیسا کہ صحابہ کرامؓ کے دور میں اور بعد میں بھی عام لوگ خلفا کے طرز عمل پر کھلے بندوں انھیں ٹوک دیا کرتے تھے اور خلفا کو بعض اوقات اپنے فیصلے واپس بھی لینا پڑتے تھے۔
  • حکمران اپنے معاملات عوام کے مشورہ سے چلائیں گے۔ عوامی معاملات عام لوگوں کے مشورہ سے اور علمی وفنی معاملات عوام کے مشورہ سے چلانے کے بارے میں خلفاے راشدینؓ کے طرز عمل کا ذکر تاریخ کی بہت سی روایات میں موجود ہے، بلکہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسے امور میں جن میں وحی نازل نہیں ہوتی تھی، عام لوگوں یا متعلقہ لوگوں سے مشاورت کیا کرتے تھے، حتیٰ کہ اپنی رائے کے خلاف عمومی مشاورت کی رائے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمائی ہے، جیسا کہ غزوۂ احد کے موقع پر ہوا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے یہ تھی کہ مدینہ میں رہ کر حملہ آور لشکر کا مقابلہ کیا جائے، لیکن نوجوان صحابہ کے اصرار پر آپ نے مدینے سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا فیصلہ فرمایا۔
  • البتہ ایک اسلامی ریاست میں قرآن وسنت کی بالادستی کو تسلیم کرنا اور ان کے واضح احکام کی پابندی حکمرانوں اور رعیت، دونوں کے لیے ضروری ہے اور ان میں سے کوئی بھی قرآن وسنت کے صریح احکام سے انحراف کا مجاز نہیں ہے، نیز قران وسنت کے صریح احکام کو بطور قانون نافذ کرنا مسلمان حکمران کی منصبی ذمہ داری ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں فرمایا تھا کہ ’’اپنے حکمران کی اطاعت کرو، اگرچہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، جب تک کہ وہ تم میں کتاب اللہ کے احکام کو نافذ کرے‘‘، اور خلیفہ اول سیدنا ابوبکرؓ نے اپنے پہلے خطبے میں اعلان کیا تھا کہ ’’میری اطاعت تم پر واجب ہے، جب تک میں قرآن وسنت کی پابندی کروں اور اگر اس سے انحراف کروں تو میری اطاعت تم پر واجب نہیں ہے۔‘‘
۲۔ اسلام اس بات کی کیسے حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ (سیاسی دائرے میں) مختلف صورت حال میں جائز اور ناجائز کے مابین امتیاز جائے، تاکہ نوجوان درست فیصلہ کر سکیں؟
جواب: اسلام ہر شخص کا یہ حق تسلیم کرتا ہے کہ وہ جس بات کو قانون کے حوالے سے غلط اور باہمی حقوق کے حوالے سے زیادتی سمجھتا ہو، اس کے خلاف آواز اٹھائے بلکہ سوسائٹی کے اجتماعی نقصان کی صورت میں یہ آواز اٹھانا اور معروف ذرائع سے اس کے سدباب کی عملی کوشش کرنا اس کے مذہبی فرائض میں شامل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سوسائٹی میں خیر کے فروغ اور شر کے سدباب کے لیے محنت کرنا بھی ہر شخص کا حق بلکہ اس کی ذمہ داری ہے۔
ایک اسلامی ریاست میں قرآن وسنت کی خلاف ورزی اور غیر مسلم ریاست میں مسلمہ دستور ومعاہدات کی خلاف ورزی پر اسے ٹوکا جا سکتا ہے اور جہاں حق تلفی ہو رہی ہو، اس کی نشان دہی کی جا سکتی ہے اور اس روک ٹوک، نشان دہی اور احتجاج کے لیے وہ سب ذرائع اختیار کیے جا سکتے ہیں جو اس دور اور علاقے میں معروف اور تسلیم شدہ ہوں۔ حضرت معاویہؓ رومیوں کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کی مدت ختم ہونے سے پہلے اپنا لشکر لے کر روم کی سرحد کی طرف جا رہے تھے اور ان کا ارادہ تھا کہ وہ مدت ختم ہونے تک سرحد تک پہنچ جائیں گے اور مدت ختم ہوتے ہی حملہ کر دیں گے، لیکن حضرت عمرو بن عبسہؓ نے انھیں روک دیا اور کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کی رو سے اگر کسی قوم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ہو تو جنگ بندی کی میعاد ختم ہونے سے پہلے اس کے خلاف فوجوں کو حرمت میں لانا درست نہیں۔ حضرت معاویہؓ یہ سن کر راستے سے ہی واپس آ گئے اور فوج کو چھاؤنی میں بھیج دیا۔ اس طرح کے درجنوں واقعات خلفاے اسلام کے مختلف ادوارمیں ملتے ہیں۔
۳۔ ایک جمہوری ڈھانچے میں انصاف کے حوالے سے اسلام کا تصور کیا ہے؟ (کیا عمومی عدالتی نظام قابل قبول نہیں اور مسلمانوں کی علیحدہ عدالتیں قائم کرنا ضروری ہے؟)
جواب: جمہوری ڈھانچے میں انصاف کے حوالے سے اسلام کا تصور حالات او رزمینی حقائق کی روشنی میں مختلف دائروں میں تقسیم ہے:
  • جہاں مسلم اکثریت یا مسلم اقتدار ہے، وہاں اسلامی عدالتوں کا قیام ضروری ہے جو قرآن وسنت کے مطابق لوگوں کو انصاف فراہم کریں، مگر غیر مسلم اقلیتیں اپنے خاندانی معاملات اور مذہبی معاملات میں ان عدالتوں کی پابند نہیں ہوں گی اور ان کے فیصلے ان دو حوالوں سے ان کے مذہب وروایات کے مطابق کیے جائیں گے جس کے لیے عدالتی نظام بھی ان کے اطمینان کے مطابق فراہم کیا جائے گا۔
  • جن ممالک میں مسلمان اکثریت یا اقتدار میں نہیں ہیں، وہاں چونکہ وہ ایک سماجی معاہدے کے تحت رہ رہے ہیں، اس لیے اس سماجی معاہدہ (نیشنیلٹی کے قوانین) کی پابندی ان کے لیے ضروری ہے جو وہاں کی ریاستی عدالتوں کے ذریعے ہی ہوگا، البتہ مذہبی معاملات اور خاندانی احکام وقوانین میں ان کے مذہب کے مطابق عدالتی نظام کا فراہم کیا جانا ان کا حق ہے۔ اس حق کے لیے وہ کوشش کرتے رہیں گے اور اس کے لیے ہر ممکن ذریعہ اختیار کریں گے۔ نیز اس ملک کے عمومی قوانین میں اگر کوئی بات قرآن وسنت کے صریح احکام اور مسلمانوں کے کسی اجماعی عقیدہ سے ٹکراتی ہے تو وہ اس کے خلاف احتجاج کریں گے، اسے تبدیل کرانے کی کوشش کریں گے اور حکمرانوں کو اس کی طرف توجہ دلائیں گے اور اگر اس کے باوجود وہ تبدیل نہیں ہوتے تو مسلمانوں کے لیے دو ہی راستے ہیں کہ یا وہ ملک چھوڑ دیں اور یا مجبوری کے درجے میں وہاں رہتے ہوئے اپنا احتجاج مسلسل ریکارڈ کراتے رہیں، مگر قانون کو ہاتھ میں لینے یا مروجہ سسٹم سے بغاوت کرنے کا ان کو اس سماجی معاہدہ کی رو سے حق نہیں ہوگا۔ 
۴۔ سماج میں امن قائم رکھنے کے لیے قانون کی اہمیت کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے؟ (سیاسی فیصلوں سے اختلاف کرتے ہوئے قانون کی پابندی کرنے کی کیا اہمیت ہے؟)
جواب: اسلام سوسائٹی میں امن کو برقرار رکھنے اور اس کا احترام کرنے کا حکم دیتا ہے اور رائج الوقت قانون کی پابندی کا حکم دیتا ہے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’حاکم وقت اگر تمھاری حق تلفی بھی کر رہا ہو تو اس کی اطاعت کرو‘‘۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور احتجاج کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ ان دونوں ارشادات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اصول اخذ ہوتا ہے کہ ظلم وزیادتی کے خلاف احتجاج کرنا، اپیل کرنا اور آواز اٹھانا تو مظلوم کا حق ہے، لیکن قانون سے انحراف اور فیصلوں سے بغاوت کا اسے حق نہیں ہے۔ البتہ مسلم اقتدار کی صورت میں مسلمان حکمران کی طرف سے صریح کفر (کفر بواح) کے ارتکاب پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام مسلمانوں کو بغاوت کی اجازت دیتے ہیں جس کے لیے فقہاے کرام نے شرط لگائی ہے کہ اگر ’’کفر بواح‘‘ یعنی صریح کفر کے مرتکب مسلم حکمران کو عوامی بغاوت کے ذریعے تبدیل کر دینے کا غالب امکان نظر آ رہا ہو تو ایسا کرنا ضروری ہے، ورنہ خواہ مخواہ عام لوگوں کو بدامنی کا شکار بنانا اور ان کی جان ومال کو خطرے میں ڈال دینا شرعاً جائز نہیں ہے۔ لیکن یہ حکم اسلامی ریاست کے لیے ہے۔ غیر مسلم ریاست کے لیے ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ ایسی صورت میں مسلمان یا ملک چھوڑ دیں اور یا اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے وہاں رہیں، لیکن قانون کی پابندی ان کے لیے ضروری ہوگی۔
اس وقت عالمی تناظرمیں عراق، فلسطین، کشمیر اور افغانستان وغیرہ کے حوالے سے مغربی حکومتوں کا جو طرز عمل ہے، اس کے بارے میں صرف مسلمانوں کا ہی نہیں، بلکہ عالمی رائے عامہ اور غیر جانب دار مبصرین کا کہنا بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، اس لیے مسلمانوں بالخصوص گرم خون رکھنے والے نوجوانوں کے ذہنوں میں اس کا رد عمل پیدا ہونا فطری بات ہے۔ اس لیے آج کے ورلڈ میڈیا کی کھلی فضا میں دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف مسلمان نوجوانوں کے دل ودماغ میں رد عمل کے پیدا ہونے کو تو کسی صورت میں نہیں روکا جا سکتا اور نہ ہی اس کے اظہار پر کوئی قدغن لگائی جا سکتی ہے، البتہ اس رد عمل کے اظہار کو مناسب حدوں کا پابند ضرور کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً برطانیہ میں رہنے والے مسلمان نوجوانوں کو ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ عراق، فلسطین، کشمیر، افغانستان یا کسی اور جگہ کے مسلمانوں کی مظلومیت پر رد عمل کا شکار نہ ہوں یا اپنے رد عمل کا اظہار نہ کریں، کیونکہ ان سے یہ کہنا صریحاً زیادتی اور ناانصافی کی بات ہوگی، البتہ ہم ان سے یہ ضرو رکہہ سکتے ہیں اور ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ وہ اپنے جذبات اور رد عمل کے اظہا رمیں اپنے ملک کے احوال وظروف، دستور وقوانین اور اپنے دیگر ہم وطنوں کے جذبات واحساسات کی ضرور پاس داری کریں اور اپنی حکومت، مسلمان بھائیوں اور دیگر برادران وطن کے لیے مشکلات پیدا نہ کریں۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن عبسہؓ کو قبول اسلام کے بعد اپنے قبیلے میں جا کر خاموشی کے ساتھ وقت گزارنے اور غلبہ اسلام کی صورت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ جانے کی ہدایت کی تھی۔ (صحیح مسلم) آپ نے حضرت ابوذر غفاری کو بھی قبول اسلام کے بعد اسی قسم کی ہدایت کی تھی۔ (صحیح بخاری) جنگ بدر کے موقع پر حضرت حذیفہ بن الیمانؓ اور ان کے والد محترم دونوں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ رہے تھے کہ راستے میں کافروں نے پکڑ لیا اور اس شرط پر چھوڑا کہ آپ دونوں ہمارے خلاف جنگ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک نہیں ہوں گے۔ کفار کی قید سے رہا ہو کر دونوں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا قصہ بیان کر دیا۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یہ کہہ کر جنگ میں شرکت سے روک دیا کہ چونکہ آپ دونوں نے کفار کی یہ شرط منظور کر لی تھی، اس لیے آپ ہمارے ساتھ جنگ میں شریک نہیں ہوں گے۔ چنانچہ دونوں باپ بیٹا موجود ہوتے ہوئے بھی غزوۂ بدر میں شامل نہ ہو سکے۔ ان واقعات سے اس سلسلے میں اصولی راہ نمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
میری رائے میں حالیہ عالمی کشمکش میں ہمیں مغربی ممالک واقوام کو اقوام وممالک کی حیثیت سے اپنا حریف نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ جس طرح مسلم ممالک میں حکومتوں کے اہداف عوام کے اہداف ومقاصد سے مختلف ہیں، اسی طرح مغربی ممالک میں بھی حکومتوں اور بالادست قوتوں کے اہداف وعزائم کا عوام کے اہداف ومقاصد سے ہم آہنگ ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر ان دونوں میں فرق کو محسوس کرتے ہوئے مغرب کی رائے عامہ سے اس کی نفسیات اور ذہنی سطح کے مطابق براہ راست مخاطب ہو کر اس کے سامنے اپنا مقدمہ صحیح طور پر پیش کیا جا سکے تو مسلمان اپنے اختلاف اور احتجاج کو زیادہ موثر طریقے سے ریکارڈ کرا سکتے ہیں۔
مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ جس ملک میں رہتے ہیں، وہاں کے دستور وقانون کی پوری طرح پابندی کریں اور اس کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے دین اور ملت کے لیے جو بھی کر سکتے ہوں، اس سے گریز نہ کریں۔ میں ایسی سرگرمیوں کے حق میں نہیں ہوں جن سے ملک کے دستور وقانون کی پابندی کا عہد متاثر ہوتا ہو اور عام مسلمانوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا ہو اور ایسی خاموشی کو بھی جائز نہیں سمجھتا جس میں اسلام اور مسلمانوں کے جائز حقوق اور ان کے حصول وتحفظ کے قانونی استحقاق سے بھی دست برداری اختیار کر لی جائے۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ مسلمانوں کو ان کے درمیان اعتدال اور توازن کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور پوری ہوشیاری اور بیداری کے ساتھ اپنے ملی اور معاشرتی حقوق ومفادات کا تحفظ کرنا چاہیے۔ 
۵۔ رواداری اور احترام کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے، بالخصوص ان لوگوں کے حوالے سے جو مختلف اعتقادات اور پس منظر کے حامل اور مختلف روایتوں سے وابستہ ہیں؟
جواب: اسلام عقیدہ ومذہب کے اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے احترام کا حکم دیتا ہے، ایک دوسرے کے معبودوں او رمسلمہ بڑوں کے خلاف بد زبانی سے روکتا ہے، اپنے اپنے دائرے میں مذہبی احکام وروایات پر عمل کا حق دیتا ہے اور مذہبی آزادی کو تسلیم کرتا ہے، لیکن ایک اسلامی ریاست میں اسلامی روایات واقدار کو کھلے بندوں چیلنج کرنے کا حق نہیں دیتا اور یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی بھی ریاست اپنے تمام شہریوں کو اپنے اپنے دائرے میں اپنے عقائد، کلچر اور روایات کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیتی ہے، لیکن ریاست کے عمومی دستور وقانون اور ریاست کی تہذیبی بنیادوں کو چیلنج کرنے کا کسی کو بھی حق حاصل نہیں ہوتا۔
جہاں تک معاشرتی اور سماجی تعلقات کا تعلق ہے تو اسلام ابراہیمی مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ رواداری اور احترام کے رویے کی خصوصی تلقین کرتا ہے۔ سیرت نبوی میں اس کی جھلک حسب ذیل چند واقعات میں دیکھی جا سکتی ہے:
  • مکی عہد نبوت میں جب روم کے مسیحیوں اور فارس کے مجوسیوں کے مابین جنگ میں رومیوں کو شکست ہوئی تو مسلمان بہت غمگین ہوئے۔ رومیوں کے ساتھ اس ہمدردی کو قرآن مجید نے بنظر استحسان دیکھا اور مسلمانوں کی تسلی کے لیے یہ وعدہ فرمایا کہ عنقریب رومیوں کو ایرانیوں پر غلبہ حاصل ہوگا اور اس دن مسلمانوں کو خوشی حاصل ہوگی۔
  • ہجرت کے بعد ایک مخصوص عرصے تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہود کی تالیف قلب کے لیے ان کے قبلہ یعنی بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے رہے۔
  • فرعون کی غلامی سے بنی اسرائیل کے نجات پانے کی خوشی میں مدینہ منورہ کے یہود محرم کی دس تاریخ کو روزہ رکھا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موافقت میں عاشورا کا روزہ رکھنا شروع کر دیا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا اور فرمایا کہ ’’ہم موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تم سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔‘‘
  • ایک انصاری نے یہ جملہ زبان سے ادا کرنے پر ایک یہودی کو تھپڑ مار دیا کہ: ’’اس اللہ کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت عطا کی ہے‘‘ اور کہا کہ تم موسیٰ علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی افضل قرار دیتے ہو؟ یہودی شکایت لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس کی شکایت سن کر انصاری سے شدید ناراض ہوئے اور یہود کے مذہبی جذبات کی رعایت سے صحابہ کو اس بات سے منع فرما دیا کہ وہ ان کے سامنے انبیا میں سے بعض کو بعض سے افضل قرار دیں۔
  • ۹ ہجری میں نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ منورہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے انھیں مسجد نبوی میں ٹھہرایا۔ جب عصر کی نماز کا وقت آیا اور انھوں نے نماز پڑھنی چاہی تو صحابہ نے ان کو روک دیا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انھیں نماز پڑھنے دو۔ چنانچہ انھوں نے مسجد نبوی ہی میں مشرق کی سمت میں اپنے قبلے کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی۔
  • ایک شخص کا جنازہ گزرا تو آپ اس کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ کہا گیا کہ یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے، تو فرمایا: ’’کیا وہ انسان نہیں ہے؟‘‘
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ان کے ساتھ معاشرتی اور قانونی معاملات میں ہر موقع پر عدل وانصاف کا رویہ اختیار فرمایا جس کی شہادت ایک موقع پر خود یہود نے یوں دی کہ: ’’یہی وہ حق اور انصاف ہے جس کے سہارے زمین اور آسمان قائم ہیں۔‘‘
  • جن معاملات میں آپ کو کوئی واضح ہدایت نہیں ملی ہوتی تھی، ان میں آپ اہل کتاب کے قوانین اور طریقوں کے مطابق فیصلہ فرمایا کرتے تھے۔
  • لباس اور وضع قطع سے متعلق امور میں بھی آپ مشرکین کے مقابلے میں اہل کتاب کے طریقے کی موافقت کو پسند فرماتے تھے۔
۶۔ دوسرے مسلم گروہ، جو کسی مختلف مکتب فکر سے متعلق ہیں، ان کے ساتھ طرز عمل کے بارے میں اسلام کی کیا تعلیم ہے؟
جواب: اسلام کے دائرے میں شمار کیے جانے والے تمام مسلمان گروہوں کو جنھیں اسلامی اصطلاح میں اہل قبلہ کہا جاتا ہے، ایک اسلامی ریاست میں برابر کے حقوق حاصل ہیں اور تمام گروہوں کے معتقدات وجذبات کے احترام کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ فقہی اور اعتقادی اختلافات کی صورت میں ملک کا عمومی قانون اکثریت کے رجحانات کے مطابق ہوگا اور اقلیتی گروہوں کو اپنے مذہبی اور خاندانی معاملات اپنی اپنی فقہ کے مطابق طے کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ البتہ اہل قبلہ کے تعین میں یہ فرق ملحوظ رکھنا ہوگا کہ اسلام کے کسی بنیادی عقیدہ مثلاً ختم نبوت سے منحرف گروہوں (قادیانیوں اور بہائیوں وغیرہ) کو اسلام کے دعوے کے باوجود اس دائرے میں شامل نہیں کیا جائے گا اور اس سلسلے میں مسلمانوں کے اجماعی فیصلے اور جذبات کا احترام ضروری ہوگا۔
جہاں تک مسلمانوں کے باہمی اعتقادی مسائل اور فقہی اختلافات کا تعلق ہے تو ان اختلافات کی درجہ بندی اور ترجیحات مسلمانوں کے سامنے واضح ہونی چاہیے اور انہیں اس با ت کا علم ہونا چاہیے کہ کون سی بات کفر واسلام کی ہے اور کون سی بات اولیٰ اور غیر اولیٰ کی ہے، کس اختلاف پر سخت رویہ اختیار کرنا ضروری ہے او ر کون سے اختلاف کو کسی مصلحت کی خاطر نظر انداز بھی کیا جاسکتاہے ۔ اگر نظری،فقہی اور فروعی مباحث میں ایک دوسرے کے نقطہ نظر کے احترام اور برداشت کا رویہ باقی نہ رہے تو خالصتاً فروعی حتیٰ کہ اولیٰ وغیر اولیٰ کے جزوی اختلافات بھی بحث ومباحثہ میں اس قدر شدت اختیار کرلیتے ہیں کہ کفرو اسلام میں معرکہ آرائی کا تاثر ابھرنے لگتاہے اور بیشتر اوقات اس سے خود اسلام کے تعارف میں مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر برطانوی معاشرہ اسلام کی تبلیغ ودعوت کا ایک وسیع اور ہموار میدان ہے، لیکن اسلام کی دعوت وتبلیغ کی راہ میں یہاں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمانوں کے فرقہ وارانہ اختلافات، بالخصوص دیوبندی بریلوی کشیدگی ہے جس کے دل خراش اور سنگ دلانہ مظاہروں نے یہاں کی مقامی آبادی کے سامنے اسلام اور مسلم معاشرہ کا ایک ایسا نقشہ پیش کیا ہے جسے کشش، پسندیدگی یا قبولیت کا باعث کسی طرح بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کشیدگی کا اہتمام کرنے والے عناصر خواہ کوئی ہوں، انھوں نے اس کے ذریعے اپنے فرقہ وارانہ جذبات کی وقتی تسکین کا سامان شاید فراہم کر لیا ہو مگر اسلام کی قطعاً کوئی خدمت نہیں کی بلکہ اسلام کی دعوت وتبلیغ کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔
۷۔ عقیدہ و طرز حیات کے تنوع اور ان کے مابین انتخاب کی آزادی کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟
جواب: عقیدہ اور طرز حیات کے تنوع کو اسلام تسلیم کرتا ہے اور اسے سوسائٹی کاناگزیر حصہ تصور کرتا ہے، لیکن چونکہ اسلام کے نزدیک آسمانی تعلیمات کی پابندی اور وحی الٰہی کو قبول کرنا ہی انسان کے لیے صحیح راستہ ہے اور اسلامی نقطہ نظر سے آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی محفوظ اور فائنل صورت قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت وسنت ہے، اس لیے وہ اس سے انحراف کی اجازت نہیں دیتا، بالکل اسی طرح جیسے آج کی مغربی قیادت ویسٹرن کلچر کو انسانی کلچر کی صحیح ترین اور فائنل شکل قرار دیتے ہوئے دنیا میں کسی قوم یا طبقہ کو بھی اس سے انحراف کی اجازت نہیں دے رہی اور جہاں بھی ویسٹرن کلچر سے ہٹ کر کسی دوسرے کلچر کے سوسائٹی میں اسٹیبلش ہونے کا امکان نظر آتا ہے، وہاں مغربی ممالک طاقت کے اندھا دھند استعمال کے ذریعے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
اس معاملے میں اسلام اور مغرب کے نقطہ نظر میں اصولی طور پر اتفاق پایا جاتا ہے اور صرف اتنا فرق ہے کہ اسلام آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کو اس کی فائنل صورت (قرآن وسنت) میں انسانی سوسائٹی کی صحیح ترین اور حتمی شکل قرار دیتا ہے اور اس سے انحراف کو برداشت نہیں کرتا، جبکہ مغرب اپنے موجودہ کلچر کو حتمی اور فائنل سمجھتا ہے اور دنیا میں کسی کو اس سے ہٹ کر کوئی اور کلچر اختیار کرنے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
۸۔ حکومت اور معاشرہ کے حوالے سے ایک شہری کے کردار اور ذمہ داریوں کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟
جواب: اسلام ایک عام شہری کو ملکی معاملات میں شریک ہونے، ملک کے مشاورتی نظام کا حصہ بننے، خیر کے کاموں میں تعاون کے راستے تلاش کرنے اور شر کی راہ میں رکاوٹ بننے کا نہ صرف حق دیتا ہے ، بلکہ اس کی تلقین کرتا ہے اور اسے مذہبی فرائض میں شمار کرتا ہے۔
۹۔ اسلام میں ارباب حل وعقد کو ان کے اعمال کے لیے جواب دہ ٹھہرانے کا طریقہ کیا ہے؟ (حکومت کے فیصلوں سے اختلاف اور ان پر تنقید کا درست طریقہ کیا ہے؟)
جواب: خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ کا پہلا خطبہ اس سلسلے میں اسلامی مزاج کی صحیح عکاسی کرتا ہے کہ اگر میں قرآن وسنت (یعنی قانون) کے مطابق چلوں تو میرا ساتھ دیتے رہو، اور اگر ٹیڑھا چلنے لگوں تو مجھے سیدھا کر دو۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام حاکم وقت کو عوام کے سامنے جواب دہ بناتا ہے اور عوام کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ حاکم وقت کو قانون کے خلاف چلنے کی صورت میں نہ صرف یہ کہ ٹوک دیں بلکہ اسے سیدھا کر دینے کے جو ذرائع میسر ہوں، وہ بھی اختیار کریں۔ حکام کو روک ٹوک کرنے اور انھیں سیدھا کر دینے کا کوئی متعین طریقہ اسلام نے نہیں طے کیا، بلکہ اسے حالات اور مواقع کی مناسبت سے کھلا چھوڑ دیا ہے اور اس کے لیے حالات زمانہ کے حوالے سے کوئی بھی مناسب طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً آج کے دور میں ووٹ، سیاسی عمل، احتجاج اور میڈیا ولابنگ اس کی مروجہ اور معروف صورتیں ہیں۔

حقوق اور فرائض

۱۔ حقوق اور فرائض کی ان مختلف قسموں کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے جن کا اثر فرد اور سماجی گروہوں، دونوں پر پڑتا ہے؟ (دوسروں کے حقوق کا کیسے خیال رکھا جائے، حقوق میں ٹکراؤ کی صورت میں کیا کرنا چاہیے اور اختلاف کے حدود اور آداب کیا ہیں؟)
۲۔ اسلام کی نظر کی اس بات کو یقینی بنانے کے حوالے سے حکومت کی ذمہ داری کیا ہے کہ مختلف تنظیموں اور افراد کے حقوق کے مابین توازن قائم رہے اور ان حقوق کو تحفظ فراہم کیا جائے؟
۳۔ ایسے مسائل کو اسلام کیسے ڈیل کرتا ہے جہاں حقوق کے مابین تصادم کی کیفیت پیدا ہو جائے؟ تصادم کے حل کے لیے اس کا تجویز کردہ طریقہ کیا ہے؟
جواب: مختلف افراد، طبقات یا گروہوں کے درمیان حقوق کے باہمی تصادم اور ٹکراؤ کی صورت میں اسلام انصاف، عدل اور قانون کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیتا ہے اور کسی فریق کی ناجائز طرف داری سے روکتا ہے۔ اسی طرح وہ متصادم گروہوں کے درمیان مفاہمت اور مصالحت کا ماحول قائم کرنے پر زور دیتا ہے اور ثالثی، محاکمہ اور گفت وشنید کے ذریعے ایک دوسرے کو قریب لانا اسلامی تعلیمات کا ایک مستقل باب ہے۔
عدل وانصاف کو قائم رکھنے اور افراد اور طبقات کو ایک دوسرے کی زیادتی سے بچانے کے حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس ضمن میں خلفاے اسلام کے بہت سے واقعات بطور مثال پیش کیے جا سکتے ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں نقل کیا ہے کہ فتح بیت المقدس کے موقع پر حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ شہر کا دورہ کرتے ہوئے مسیحیوں کی ایک عبادت گاہ میں گئے اور وہاں نماز کا وقت آ گیا تو وہ نماز کی ادائیگی کے لیے باہر آ گئے اور الگ جگہ نماز ادا فرمائی۔ اس پر بعض ساتھیوں نے دریافت کیا کہ امیر المومنین! وہ بھی تو عبادت گاہ تھی۔ اس جگہ نماز ادا کرنے میں کیا حرج تھا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں اس جگہ نماز ادا کر لیتا تو بعد میں تم نے وہاں مستقل قبضہ کر لینا تھا کہ یہاں ہمارے امیر المومنین نے نماز ادا کی ہے، اس لیے ہم اس جگہ مسجد بنائیں گے۔ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں پر اس طرح قبضہ کیا جائے۔
حضرت عمر بن عبد العزیز نے خلافت کا منصب قبول کیا اور ذمہ داریاں سنبھال کر گزشتہ حکومتوں کے مظالم کی تلافی کا سلسلہ شروع کیا تو ان کے عدل وانصاف کے واقعات سن کر سمرقند کے غیر مسلم باشندوں کا ایک وفد ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ اب سے پندرہ سال قبل جب مسلم کمانڈر قتیبہ بن مسلم نے سمرقند فتح کیا تو اس شہر پر حملے سے قبل اسلامی احکام کے مطابق نہ تو انھیں اسلام کی دعوت دی اور نہ ہی دوسری شرائط پیش کیں بلکہ اچانک حملہ کر کے فتح کر لیا، اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے اور اس کی تلافی ہونی چاہیے۔ سمرقند کی فتح حضرت عمر بن عبد العزیز کے خلیفہ بننے سے پندرہ برس قبل ہوئی تھی، لیکن انھوں نے اسے ماضی کے حوالے سے ٹالنے کی بجائے غیر مسلموں کی شکایت کی تلافی ضروری سمجھی اور جمیع بن حاضر الباجی کو اس شکایت کی انکوائری اور تصفیے کے لیے خصوصی قاضی مقرر کر دیا۔ انھوں نے تحقیقات کے بعد شکایت کو درست پایا تو اس پر فیصلہ صادر کر دیا کہ شہر پر قبضہ چونکہ اسلامی احکام کے مطابق نہیں ہوا، اس لیے مسلم افواج سمرقند شہر خالی کر دیں، چنانچہ قاضی کا فیصلہ نافذ ہ وگیا اور اسلامی افواج اس عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہوئے پندرہ سال قبل فتح کیا ہوا شہر خالی کر کے باہر کھلے میدان میں نکل آئیں۔ 

تشخص اور تنوع

۱۔ کیا ’’مسلم تشخص‘‘ نام کی کوئی چیز موجود ہے؟ ایک غیر مسلم ریاست میں رہتے ہوئے مسلمان اپنے مذہبی تشخص اور اعتقادات کے ساتھ کس طرح وابستہ رہ سکتے ہیں؟ اس ریاست سے متعلق ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟
جواب: ’’مسلم تشخص‘‘ یہی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک عقیدہ پر قائم ہیں، قرآن وسنت کے ساتھ واضح کمٹمنٹ رکھتے ہیں، اپنی تہذیبی شناخت کو باقی رکھنے پر مصر ہیں، خاندانی نظام میں مذہبی احکام سے ہٹ کر کسی مداخلت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ان کی مساجد ومکاتب اور دینی تعلیم کا بنیادی نظام یکساں ہے اور وہ دینی روایات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان تمام معاملات میں دنیا بھر کے مسلمانوں میں پائی جانے والی یکسانیت واضح طور پر نظر آنے والی معروضی حقیقت ہے اور سب سے بڑھ کر اپنے مرکز بیت اللہ شریف اور مدینہ منورہ میں بلا امتیاز حاضری دے کر ایک ہی طریقے سے اپنی کمٹمنٹ کا مسلسل اظہار کرتے رہتے ہیں۔ 
ایک مسلمان کے کسی غیر مسلم ملک (مثلاً برطانیہ) کا شہری ہونے کا مطلب اسلامی تعلیمات کی رو سے یہ ہے کہ وہ:
  • خود کو برطانیہ کا شہری تصور کرے۔
  • جس معاہدے کے تحت وہ شہری بنا ہے، اس کی پابندی کرے۔
  • قانون ودستور اور سسٹم کو چیلنج نہ کرے۔
  • اپنے مذہب اور کلچر پر برقرار رہنے کے مسلمہ حق سے دست بردار نہ ہو۔
  • ملکی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مذہبی احکام پر عمل کرے اور اپنے دیگر مسلمان برادران وطن بلکہ ملک سے باہر کے مسلمانوں کے ساتھ بھی بھائی چارے اور باہمی تعاون وحمایت کا قانونی حق استعمال کرے، البتہ قانون اور سسٹم کو چیلنج نہ کرے اور اس حوالے سے میرے نزدیک دنیا کے کسی ملک میں رہنے والے مسلمانوں کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جن حقوق کو یہودی اس ملک کے قانون کی پابندی اور عالمی سطح پر یہودیوں کے مفادات وحقوق کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
  • ملک کے سیاسی نظام میں شریک ہوں اور مسلمانوں کے حقوق ومفادات کے ساتھ ساتھ ملک کی عمومی آبادی اور عام شہریوں کے حقوق ومفادات کے تحفظ اور ملک وقوم کے اجتماعی مفاد کے لیے کردار ادا کرے۔
  • اگر ملک کے دستور وقانون میں کوئی بات اپنے عقیدہ اور مسلمہ حق کے خلاف سمجھتا ہے تو اس کے لیے معروف طریقوں سے آواز اٹھائے، لابنگ کرے اور پالیسی سازوں کو اپنے موقف پر قائل کرنے کی ہر ممکنہ صورت اختیار کرے۔
۲۔ کیا وقت کے ساتھ ساتھ ’تشخص‘ کے بدلنے کے حوالے سے کوئی اسلامی نقطہ نظر موجود ہے جس میں اس امر کی گنجایش مانی جاتی ہو کہ ’’کسی ملک (مثلاً برطانیہ) کا شہری ہونے کا کیا مطلب ہے؟‘‘ کے سوال کا جواب مختلف طریقوں سے دیا جا سکتا ہے؟
جواب: اسلام ایک مسلمان کے بنیادی تشخص (مثلاً اسلام پر قائم رہنے اور قرآن وسنت کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ برقرار رکھنے) میں تغیر کو قبول نہیں کرتا اور ہر حال میں ایک مسلمان کو اس کی پابندی کا حکم دیتا ہے، البتہ وقت کے ساتھ ساتھ تشخص وتنوع میں جزوی تغیر کو اسلام تسلیم کرتا ہے اور یہ فطری بات ہے۔ آج کے عالمی ماحول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ گلوبلائزیشن کا دور ہے اور تہذیبوں کے اختلاط کا دور ہے کیونکہ فاصلے اس قدر سمٹ گئے ہیں کہ تہذیبوں اور ثقافتوں کے درمیان صدیوں سے قائم سرحدیں پامال ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ آج کے دور میں جبکہ تہذیبوں اور ثقافتوں کے درمیان حدود اور فاصلوں کو برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا، منطقی طور پر یہ مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے کہ مختلف تہذیبوں کے اختلاط کے دور میں اسلام کیا راہ نمائی کرتا ہے؟ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات وارشادات میں اس بارے میں واضح راہ نمائی موجود ہے اور احادیث کے ذخیرے میں بہت سی روایات پائی جاتی ہیں۔ 
مثال کے طور پر بخاری شریف کی ایک روایت کا حوالہ دینا چاہوں گاجو امام بخاریؒ نے کتاب النکاح، باب عظۃ الرجل بنتہ اور بعض دیگر ابواب میں بیان کی ہے اور اس تفصیلی روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ قریش کے بہت سے خاندان مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو مہاجرین اور انصار کی خاندانی روایات میں واضح فرق موجود تھا۔ مہاجرین کے ہاں کسی عورت کا خاوند کو کسی بات پر ٹوکنا یا اس کی کسی بات کو رد کرنا سرے سے متصور نہیں تھا جبکہ انصار کے خاندانوں میں عورتوں کو یہ آزادی حاصل تھی کہ وہ خاوند کو کسی بات پر ٹوک سکتی ہیں، کسی بات کا جواب دے سکتی ہیں اور کسی بات سے انکار بھی کر سکتی ہیں۔ حضرت عمرؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں ایک روز ان کی بیوی نے کسی بات پر ٹوک دیا تو انہیں بہت غصہ آیا اور انہوں نے بیوی کو ڈانٹا۔ بیوی نے جواب دیا کہ مجھے ڈانٹنے کی ضرورت نہیں، یہ تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بھی ہوتا ہے کہ ان کی ازواج مطہرات کسی بات پر ٹوک دیتی ہیں اور کسی بات کا جواب بھی دے دیتی ہیں۔ حضرت عمر نے اسے اس بات سے تعبیر کیا کہ انصار کی عورتوں کی عادات ہماری عورتوں پر اثر انداز ہوتی جا رہی ہیں چنانچہ حضرت عمرؓ اسی غصے کی حالت میں سیدھے ام المومنین حضرت حفصہؓ کے گھر پہنچے جو ان کی بیٹی تھیں اور انہیں سمجھایا بجھایا کہ ایسا مت کیا کرو۔ وہ تو بیٹی تھیں، خاموش رہیں مگر یہی بات جب حضرت عمرؓ نے ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے کہنا چاہی تو انہوں نے آگے سے یہ کہہ کر ٹوک دیا کہ ’’آپ نے میاں بیوی کے معاملات میں بھی مداخلت شروع کر دی ہے؟‘‘ حضرت عمرؓ نے یہ واقعہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ صرف یہ فرمایا کہ ’’آخر ام سلمہ ہے‘‘۔
یہ دو علاقائی ثقافتوں اور معاشرتی روایات کے اختلاط اور ٹکراؤ کا قصہ ہے اور میری طالب علمانہ رائے ہے کہ تہذیبوں کے اختلاط اور مختلف ثقافتوں کے باہمی میل جول کے مسائل میں یہ روایت اصولی اور بنیادی حیثیت رکھتی ہے جس سے ہمیں راہ نمائی حاصل کرنی چاہیے اور دور نبوی کے اس طرز کے واقعات اور روایات واحادیث کی روشنی میں آج کے عالمی حالات کے تناظر میں اصول وضوابط وضع کرنے چاہییں کہ مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے تال میل میں کہاں ایڈجسٹ منٹ کی گنجائش ہے، کہاں صاف انکار کی ضرورت ہے اور کہاں کوئی درمیان کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں یہ واضح رہنا چاہیے کہ دین اور ثقافت میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ ان کے درمیان حد فاصل قائم رہنی چاہیے اور دونوں کو گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔ دین کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر ہے اور اس کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے جبکہ ثقافت کی بنیاد ایک علاقہ میں رہنے والے لوگوں کے درمیان خود بخود تشکیل پا جانے والی معاشرتی اقدار وروایات پر ہوتی ہے اور اس کا سرچشمہ سوسائٹی اور اس کا ماحول ہوتا ہے۔ اگر علاقائی ثقافتوں پر دین وشریعت کا لیبل لگا کر انہیں ساری دنیا سے ہرحال میں منوانے کی جائے گی تو اس سے طرح طرح کے مسائل پیدا ہوں گے۔
۳۔ عالمی سطح پر (مثلاً برطانیہ، یورپ کے باقی ممالک اور وسیع تر دنیا کے مابین) باہمی تعلقات کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے؟ کیا دنیا کے ایک عالمی کمیونٹی ہونے کے حوالے سے اسلام کوئی منفرد نقطہ نظر رکھتا ہے؟
جواب: اسلام خود گلوبل سوسائٹی کا علم بردار ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دین کی دعوت کے لیے پوری نسل انسانی کو خطاب کیا ہے اور حجۃ الوداع کے خطبے میں (دنیا کی تاریخ میں پہلی بار) گلوبل انسانی سوسائٹی کے خد وخال واضح کیے ہیں اور اس کے بنیادی اصول بیان فرمائے ہیں، البتہ اسلام گلوبل سوسائٹی کی نظریاتی بنیاد آسمانی تعلیمات کو سمجھتا ہے اور قرآن وسنت کو اس کی محفوظ اور فائنل شکل قرار دیتا ہے جیسا کہ مغرب ویسٹرن کلچر کو گلوبل سوسائٹی کی بنیاد قرار دیتا ہے اور اسے دنیا بھر سے منوانے کے لیے ہر جائز وناجائز حربہ استعمال کر رہا ہے۔
۴۔ کیا ایک یکجان اور آپس میں جڑی ہوئی کمیونٹی وجود میں لانے کے بارے میں کوئی اسلامی نقطہ نظر پایا جاتا ہے؟
جواب: آسمانی تعلیمات کے معاشرتی کردار کی نفی اور وحی الٰہی سے انحراف کی بنیاد پر کمیونٹی کے باہمی اتحاد کو اسلام قبول نہیں کرتا۔
۵۔ اسلام میں رضا کارانہ خدمت اور (غریبوں کی) مالی امداد اتنی اہم کیوں ہے؟
جواب: وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات نے ہر دور میں انسان کو راستی کی تعلیم دی ہے، امن کا راستہ دکھایا ہے، باہمی محبت اور رواداری کا سبق دیا ہے، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی ہے، نادار اور بے سہارا افراد کی خدمت پر آمادہ کیا ہے، سچائی اور دیانت وامانت کو انسانی سوسائٹی کی اساسی اقدار قرار دیا ہے اور حیا وپاک دامنی کو انسان کا زیور بتایا ہے۔ بائبل اور قرآن کریم کے سینکڑوں اوراق وحی الٰہی کی ان تعلیمات پر گواہ ہیں اور حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کے متعدد ارشادات مقدس کتابوں میں اس حوالہ سے موجود ومحفوظ ہیں۔ ہم اس حوالے سے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں سے دو حوالے دینا مناسب سمجھیں گے:
ایک یہ کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہلی وحی کے نزول کے بعد غار حرا سے اتر کر گھر آئے اور اس اچانک واقعہ پر کچھ گھبراہٹ کا اظہار کیا تو ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ گھبرائیں نہیں، اس لیے کہ آپ
’’۱۔ صلہ رحمی کرتے ہیں، ۲۔ ناداروں اور بے سہارا لوگوں کا سہارا بنتے ہیں، ۳۔مہمانوں اور مسافروں کی خدمت کرتے ہیں، ۳۔ ناگہانی آفتوں میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں، ۵۔ محتاجوں کو کما کر کھلاتے ہیں۔‘‘
دوسرا حوالہ اس موقع کا ہے جب بخاری شریف ہی کی روایت کے مطابق سلطنت روما کے فرمانروا شاہ ہرقل کے نام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب گرامی پہنچا اور شاہ ہرقل نے عرب دنیا میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وقت کے سب سے بڑے حریف جناب ابو سفیانؓ کو دربار میں بلا کر ان سے حضرت محمد کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو ابو سفیان نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور پیغام کا تعارف قیصر روم کے دربار میں ان الفاظ میں کرایا کہ:
۱۔ وہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا عقیدہ رکھنے کی تلقین کرتے ہیں،
۲۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور نماز کا حکم دیتے ہیں،
۳۔ سچائی کی تلقین کرتے ہیں،
۴۔ صلہ رحمی کو ضروری قرار دیتے ہیں،
۵۔ اور پاک دامن رہنے کا سبق دیتے ہیں۔
سوسائٹی اور تمدن کا قیام چونکہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور سوسائٹی اور تمدن کی بنیاد باہمی تعاون پر ہے، اس لیے باہمی تعاون کی رضاکارانہ صورتوں کو اسلام نہ صرف ضروری قرار دیتا ہے، بلکہ انھیں مذہبی فرائض میں شمار کرتا ہے اور ان سے انحراف کو گناہ اور جرم تصور کرتا ہے، جیسا کہ ایک حدیث نبوی میں ہے کہ:
’’جو شخص خود پیٹ بھر کر رات کو سویا رہا اور اس کے پڑوسی نے بھوک کی حالت میں رات گزار دی، جبکہ اسے اس کے بارے میں معلوم بھی ہے تو ایسے شخص کو مومن کہلانے کا حق حاصل نہیں ہے۔‘‘
اسی طرح اور بھی بہت سی احادیث میں سماجی ضروریات اور خدمات سے غفلت برتنے کو مذہبی طور پر گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے۔ حضرات انبیاے کرام علیہم السلام کی تعلیمات کا یہی خلاصہ ہے۔ نسل انسانی نے جس دور میں بھی ان تعلیمات کو اپنایا ہے، اسے سکون واطمینان کی وافر دولت ملی ہے اور انسانوں نے باہمی محبت واعتماد کی زندگی بسر کی ہے اور جب بھی ان آسمانی تعلیمات کے بارے میں افراط وتفریط سے کام لیا گیا ہے، انسانی سوسائٹی میں امن اور سکون کا توازن بگڑ گیا ہے۔ 
۶۔ صنفی مساوات کے حوالے سے اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے؟
جواب: اسلام مرد اور عورت کو سوسائٹی اور تمدن کی دو ناگزیر بنیادیں تصور کرتا ہے اور باہمی برتری اور فضیلت کے لیے بر وتقویٰ کو بنیاد قرار دیتا ہے، لیکن معاشرتی معاملات میں دونوں کے درمیان مکمل فطری مساوات کا قائل نہیں ہے اور اس کے نزدیک یہ غیر فطری اور مصنوعی بات ہے، اس لیے کہ مرد اور عورت کی جسمانی تخلیق، نفسیات اور ان کے فطری فرائض میں ایسا تنوع موجود ہے جس سے نہ تو انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے تبدیل کرنے کی کوئی صورت ممکن ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان جسمانی تخلیق، نفسیاتی رجحانات اور فطری ذمہ داریوں میں جو واضح فرق موجود ہے، اسلام ان کے باہمی حقوق وفرائض کے تعین وتقسیم میں اسی کو بنیاد قرار دیتا ہے اور اس کے مطابق دونوں کے لیے احکام وقوانین میں ا س نے فرق وامتیاز قائم رکھا ہے۔ 
اسلام نے عورت کے معاشی حقوق اور تحفظات کا متوازن نظام پیش کیاہے۔ یہ شعبہ ایسا ہے جہاں بڑے بڑے نظام افراط وتفریط کا شکار ہو گئے ہیں، لیکن اسلام نے اعتدال اور توازن کا اصول یہا ں بھی پوری طرح قائم رکھا ہے۔ اسلام نے فرائض کی ایک فطری تقسیم کر دی ہے کہ گھر کے اندر کی ذمہ داری عورت کی ہے اور باہر کی ذمہ داری مرد پر ہے اور مردو عورت کی خلقت میں فطرت نے جو طبعی فرق رکھا ہے، اس کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے سوا کوئی تقسیم ممکن ہی نہیں ہے۔ چونکہ گھر کے اندر کا نظام عور ت کی سپرداری میں ہے، اس لیے باہر کی کوئی ڈیوٹی اس کے سپرد کرنا اس پر ظلم ہے۔ اسی لیے عورت کے تمام اخراجات مرد کے ذمہ لگا دیے گئے ہیں اور ان اخراجات کے سلسلہ میں عور ت کو عدالتی تحفظات بھی فراہم کیے گئے ہیں تاکہ کوئی مرد اس معاملے میں عورت کے ساتھ ناانصافی نہ کرسکے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام عورت کے ملازمت کرنے پر کلی پابندی لگاتا ہے۔ ہرگز نہیں! بلکہ اسلام عورت کو ایسی ہر ملازمت کی اجازت دیتا ہے جس سے اس پر اس کی طاقت وصلاحیت سے زیادہ بوجھ نہ پڑے۔
اسی طرح اسلام کے نزدیک ’’خاندان‘‘ سوسائٹی کی بنیادی اکائی ہے جس کا تحفظ ضروری ہے اور خاندان کا یونٹ اس کے سوا قائم نہیں رہ سکتا کہ رشتوں کا تقدس تسلیم کیا جائے، مرد وعورت کے کسی ایسے باہمی میل جول کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے جس کے نتیجے میں آزادانہ جنسی ملاپ اور رشتوں کے تقدس کی پامالی اور خاندان کے بکھر جانے کی صورت پیدا ہو جائے۔ نیز خاندان کے یونٹ کا ڈسپلن اور نظم برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ گھر کے سسٹم میں فائنل اتھارٹی ایک ہو، اس لیے اسلام خاندان کے نظام میں مرد کی برتری کی تعلیم دیتا ہے، البتہ مرد کی سنیارٹی کو خاندان کے تحفظ کی ضمانت قرار دیتے ہوئے عورت کو وہ تمام حقوق فراہم کرتا ہے جو ایک شہری، ایک مسلمان اور سوسائٹی کے ایک فرد کے طور پر اس کے لیے ضروری ہیں۔ نسل انسانی کی نشو ونما اور ترقی میں عورت کا بھی اتنا ہی عمل دخل ہے جتنا مرد کا ہے، اس لیے اسلام نے عورت کے وجود کو نہ صرف تقدس واحترام بخشا بلکہ ان کی اہمیت وافادیت کا بھرپور اعتراف کیا ہے اور اسے ان تمام حقوق اور تحفظات سے نوازا ہے جو مرد اور عورت کے فطری فرائض کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں۔ 
مثال کے طور پر آزادی رائے کو انسانی حقوق میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ تاریخ یہ منظر پیش کرتی ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک بوڑھی خاتون خولہ بنت حکیمؓ امیر المومنین حضرت عمر کو سرعام روک کر کھڑی ہے اور کہہ رہی ہے : ’’عمر! وہ دن یاد رکھو جب تمہیں عکاظ کے بازار میں صرف عمر کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور آج تم امیر المومنین کہلاتے ہو، اس لیے خدا سے ڈرتے رہو اور انصاف کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہو‘‘۔ حضرت عمرؓ اس بڑھیا کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہیں اور اپنے عمل کے ساتھ دنیا کو بتا رہے ہیں کہ انسانی معاشرہ میں مرد کی طرح عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ راہ چلتے امیر المومنین کا راستہ روک کر کھڑی ہوجائے اور انصاف کی طلب گار ہو۔
اسلام مر دکی طرح عورت کو بھی یہ حق دیتاہے کہ وہ اپنے جائز حق کے لیے ڈٹ جائے اور اس کے خلاف کسی بڑے سے بڑے دباؤ کی پروا نہ کرے۔ حضرت عائشہ کی باندی بریرہ کو آزاد ہونے کے بعد شرعی طورپر یہ حق حاصل ہو گیاتھا کہ وہ اپنے سابقہ خاوند مغیثؓ کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو اس سے الگ ہو جائے۔ بریرہؓ نے اپنا یہ حق استعمال کیا تو مغیثؓ پریشان ہوگئے۔ وہ مدینہ کی گلیوں میں روتے پھرتے تھے اور کہتے تھے کہ کوئی ہے جو بریرہؓ کو دوبارہ میرے ساتھ رہنے پر آمادہ کرے؟ اس کی حالت دیکھ کر خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ سے بات کی اور اسے اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کے لیے کہا۔ بریرہؓ نے صرف یہ پوچھا کہ یارسول اللہ! یہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صرف مشورہ ہے، تو بریرہؓ نے دو ٹوک کہہ دیا کہ میں یہ مشورہ قبول نہیں کرسکتی۔ چنانچہ بریرہؓ مغیثؓ سے الگ رہنے کے فیصلے پر قائم رہی اور اپنے عمل کے ساتھ اسلام کا یہ اصول دنیا کے سامنے پیش کیا کہ عورت اپنے جائز حق سے از خود دستبردار نہ ہونا چاہے تو اسے اس کے حق سے کسی صورت میں محروم نہیں کیا جا سکتا۔
خلافت راشدہ کے دور میں عورت اجتماعی معاملات میں بھی مشاورت کے دائرہ میں شامل رہی ہے،بالخصوص ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن کو تو اس دور میں امت مسلمہ کی اجتماعی راہ نمائی کا مقام حاصل تھا۔ اہم امور میں ان سے مشورہ کیا جاتا تھا اور ان سے اجتماعی معاملات میں راہ نمائی حاصل کی جاتی تھی، حتیٰ کہ ایک موقع پر مدینہ منورہ کے عامل امیر مروان بن حکم نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’جب تک ازواج مطہرات موجود ہیں، ہمیں دوسرے لوگوں سے مسائل دریافت کرنے کی ضرورت ہی کیاہے!‘‘ اور عورتوں سے متعلقہ امور میں تو مشورہ ہی عورتوں سے کیا جاتا تھا۔ مشہور تاریخی واقعہ ہے کہ حضرت عمر بن الخطابؓ نے ام المومنین حضرت حفصہؓ کے ذمہ لگایا کہ وہ سمجھدار عورتوں سے مشورہ کرکے بتائیں کہ ایک عورت خاوند کے بغیر کتنا عرصہ آسانی کے ساتھ گزار سکتی ہے۔ چنانچہ ان کی رائے پر حضرت عمرؓ نے حکم جاری کیا کہ ہر فوجی کو چھ ماہ کے بعد کچھ دنوں کے لیے ضرور گھر بھیجا جائے۔
خلافت راشدہ کے دور میں خواتین کو علم حاصل کرنے اور تعلیم دینے کے آزادانہ مواقع میسر تھے۔ حضرت عائشہؓ اور ان کے ساتھ بیسیوں خواتین کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات امت تک پہنچانے کا شرف حاصل ہے۔ ان کے شاگردوں میں مر د بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں۔ وہ نہ صرف احادیث بیان کرتی تھیں، بلکہ فتویٰ بھی دیتی تھیں اور ان کے فتوے پر عمل کیا جاتاتھا۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ سے جو فتاویٰ منقول ہیں، ان سے ایک بڑا مجموعہ مرتب ہو سکتا ہے۔ حضرت عائشہؓ سے بڑے بڑ ے علما صحابہ مسائل میں رجوع کرتے تھے اور اپنے اشکالات کا تسلی بخش جواب پاتے تھے۔ اسی طرح حضرت ام سلمہؓ سے بھی علمی معاملات میں رجوع کیا جاتا تھا۔ الغرض علم اور افتا کا میدان بھی خواتین کے لیے کھلا تھا اور اس میں ان کی اہمیت تسلیم کی جاتی تھی۔
الغرض اسلام عورت کو انسانی زندگی کی گاڑی کا برابر کا پہیہ تسلیم کرتا ہے اور اس کو وہ تمام حقوق دیتا ہے جو انسانی معاشرہ میں اپنا فطری کردار ادا کرنے کے لیے اسے درکار ہیں، البتہ فرائض کی تقسیم وہ مرد اور عورت کے طبعی تقاضوں اور فطری ضروریات کو سامنے رکھ کر کرتاہے اور عورت کو ہر ایسے عمل سے روکتاہے جو اس کے نسوانی وقار، فطری ذمہ داریوں اور طبعی مناسبت کے منافی ہو اور اسلا م کا یہ اصول حق تلفی نہیں بلکہ عین انصاف ہے جس کے بغیر انسانی معاشرت کو متوازن رکھنا ممکن ہی نہیں ہے۔

جستجو، تنقیدی غور وفکر اور اختلاف رائے

۱۔ اسلام جستجو اور تنقیدی غور وفکر کو کیسے پروان چڑھاتا ہے تاکہ نوجوان نسل مختلف آرا اور آپشنز میں ذہنی دلچسپی لے اور ان پر غور کر سکے؟
۲۔ کیا تحقیق اور جستجو کے حوالے سے کوئی اسلامی اپروچ پائی جاتی ہے؟
۳۔ اسلام طالب علموں کو اپنا استدلال پیش کرنے اور اپنی رائے کو بیان اور واضح کرنے کے حوالے سے کیا مدد فراہم کر سکتا ہے؟
۴۔ اسلام نوجوانوں کو دوسرے کے ایسے خیالات کو سمجھنے اور انھیں بیان کرنے کے حوالے سے کیا مدد دے سکتا ہے جن سے ضروری نہیں کہ وہ متفق ہوں؟
جواب: قرآن کریم غور وفکر کی دعوت دیتا ہے، تاریخ کے حوالے سے بھی، اقوام کے عروج وزوال کے حوالے سے بھی، ارد گرد کے زمینی اور ماحولیاتی حقائق کے مشاہدہ کے حوالے سے بھی، آیات قرآنی پر تدبر کے حوالے سے بھی، کائنات کے مشاہدات اور سائنسی ارتقا کے حوالے سے بھی اور سوسائٹی کے مسائل پر بحث ومباحثہ کے حوالے سے بھی۔ اسلام سوسائٹی کے ہر فرد کا یہ حق تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھائے، حکمرانوں اور مقتدر طبقات پر تنقید کرے اور سوسائٹی کے مفاد کے لیے ہر سطح پر مشورہ دے۔ اسلام جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا یہ مقام تسلیم نہیں کرتا کہ اس کی بات حرف آخر ہے۔ وہ خلفاے راشدین کو بھی مجتہد کے درجے میں تسلیم کرتا ہے جن کی ہر بات میں خطا اور صواب دونوں کا احتمال موجود ہے اور ان کے کسی بھی فیصلے اور رائے سے اختلاف کی نہ صرف گنجایش موجود ہے، بلکہ بے شمار لوگوں نے ان کی بہت سی آرا سے عملاً اختلاف کیا ہے اور علمی اختلاف سے اسلامی کتب بھری پڑی ہیں۔ اسلام بنیادی طور پر تحقیق و جستجو کا دین ہے اور ایسے معاملات میں اسلامی لٹریچر سے ہزاروں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ 
اختلاف رائے انسانی فطرت کا اظہار اور عقل ودانش کا خوش ذائقہ ثمر ہے جو اپنی جائز حدود کے اندر اور جائز طریقہ سے ہو تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق امت کے لیے رحمت بن جاتا ہے اور اسے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تعالیٰ نے نہایت خوب صورت انداز میں یوں بیان فرمایا ہے کہ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان مسائل میں اختلاف نہ ہوتا تو مجھے یہ بات بالکل اچھی نہ لگتی، کیونکہ اس طرح امت ہر مسئلہ میں ایک لگے بندھے راستے پر چلنے کی پابند ہو جاتی۔ اب اختلاف ہے، ایک ایک مسئلہ میں چار چار پانچ پانچ قول ہیں، تنوع ہے، چوائس ہے اور امت کے ارباب علم ودانش اپنے اپنے فہم، ذوق، ضرورت، حالات اور سہولت کے مطابق ان میں سے کسی ایک کے انتخاب کا حق رکھتے ہیں جس سے علم ودانش کی دنیا رنگا رنگ خوش نما پھولوں کے ایک چمنستان کا روپ اختیار کر گئی ہے۔
اسلام گفتگو او رمکالمہ میں انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت بھی کرتا ہے اور دوسروں کے موقف کو صحیح طور پر دیانت داری کے ساتھ سمجھنا، بیان کرنا اور دلیل کے ساتھ اس کا جواب دینا ’وجادلہم بالتی ہی احسن‘ کا مصداق ہے جو اس سلسلے میں قرآن کریم کی ہدایت ہے۔ اسی طرح مقابل فریق کے طرز عمل کی خامیوں کی نشان دہی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی خوبیوں کا اعتراف کرنا بھی اسلامی اخلاقیات کا حصہ ہے۔
صحیح مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی مجلس میں ایک روز مستورد قرشی رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے۔ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’قیامت سے پہلے رومی لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔‘‘ روم اس دور میں مسیحی سلطنت کا پایہ تخت تھا اور رومیوں سے عام طور پر مغرب کے مسیحی حکمران ہوتے تھے۔ حضرت عمرو بن العاص نے سنا تو چونکے اور پوچھا کہ ’’دیکھو! کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ مستورد قرشی نے کہا کہ میں وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ حضرت عمرو بن العاص نے فرمایا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر ان رومیوں میں چار خصلتیں موجود ہوں گی (جن کی وجہ سے وہ انسانی سوسائٹی پر غالب آئیں گے):
پہلی یہ کہ وہ فتنے اور آزمایش کے وقت دوسرے لوگوں سے زیادہ تحمل او ربردباری کا مظاہرہ کریں گے۔
دوسری یہ کہ وہ مصیبت گزر جانے کے بعد سنبھلنے میں دوسرے لوگوں سے زیادہ تیز ہوں گے۔
تیسری یہ کہ وہ شکست کے بعد دوبارہ جلدی حملہ آور ہونے والے ہوں گے۔
چوتھی یہ کہ وہ اپنے یتیموں، مسکینوں اور کمزوروں کے لیے اچھے لوگ ثابت ہوں گے۔ 
اتنا کہہ کر حضرت عمرو بن العاص نے فرمایا کہ ان میں ایک اور پانچویں خصلت بھی ہوگی جو اچھی اور خوب ہوگی کہ وہ لوگوں کو حکمرانوں کے مظالم سے روکنے میں پیش پیش ہوں گے۔
آج مغرب سے ہمیں شکوہ ہے کہ مغرب ہمارے خلاف صف آرا ہے اور ہمیں اپنا سب سے بڑا حریف سمجھ کر زیر کرنے کے لیے جو کچھ وہ کر سکتا ہے، کر رہا ہے۔ مغرب سے ہمیں یہ بھی شکایت ہے کہ وہ ہم پر اپنی ثقافت مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور انسانی حقوق کے خود ساختہ فلسفے کے ہتھیار سے ہماری اخلاقی، دینی اور معاشرتی اقدار کو ملیا میٹ کرنے کے درپے ہے۔ یہ سب شکایا ت بجا ہیں، لیکن ہمیں حضرت عمرو بن العاص کے مذکورہ ارشاد کے حوالے سے مغرب کے ساتھ اپنا تقابل بھی کر لینا چاہیے کہ :
۱۔ مصیبت اور مشکل کے وقت مغربی اقوام اور ہمارے طرز عمل میں کیا فرق ہوتا ہے؟
۲۔ مصیبت کے گزر جانے کے بعد سنبھلنے میں ہم کتنا وقت لیتے ہیں؟
۳۔ شکست کے بعد اس کی تلافی کرنے یا ماتم کرتے رہنے میں سے ہم کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں؟
۴۔ معاشرہ کے نادار اور بے سہارا لوگوں کی کفالت کے لیے ہمارے پاس کون سا نظام موجود ہے؟
۵۔ عام لوگوں کو حکام کے مظالم اور ریاستی جبر سے بچانے کے لیے ہمارا ’’معاشرتی شعور‘‘ کس مرحلے میں ہے۔
انسانی حقوق کے حوالے سے مغرب کا گزشتہ نصف صدی کا ریکارڈ سامنے رکھا جائے تو یہ شکایت ضرور سامنے آتی ہے کہ مسلم ممالک کے بارے میں مغرب دوہرا معیار رکھتا ہے اور جن ممالک کی حکومتیں مغرب کے مفادات کی نگہبانی کر رہی ہیں، وہاں کے عوام کے انسانی اور سیاسی حقوق کے معاملے میں مغرب نے مجرمانہ غفلت اور خاموشی اختیار کر رکھی ہے، لیکن اس سے ہٹ کر عمومی تناظر میں دیکھا جائے تو اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ آج مغربی ممالک دنیا بھر کے مختلف خطوں کی حکومتوں کے ستائے ہوئے مظلوموں کی سب سے بڑی پناہ گاہ بھی ہیں اور معاشرے کے نادار اور معذور افراد کے لیے اگر زندگی کی سب سے زیادہ سہولتیں میسر ہیں تو وہ بھی انھی مغربی ممالک میں ہیں۔

درست معلومات پر مبنی اور ذمہ دارانہ عملی اقدام 

۱۔ معاصر دنیا میں درست معلومات پر مبنی اور ذمہ دارانہ اقدام کرنے کے بارے میں اسلام نوجوان مسلمانوں کی کیسے مدد کر سکتا ہے؟
۲۔ معاصر ذرائع ابلاغ سے نبرد آزما ہونے اور سچ کو جھوٹ سے الگ کرنے کے حوالے سے اسلام نوجوان مسلمانوں کی کیسے راہنمائی کر سکتا ہے؟
جواب: قرآن کریم نے مسلمانوں کو تلقین کی ہے کہ وہ محض سنی سنائی خبروں پر کوئی فیصلہ نہ کریں جب تک کہ ان کی تحقیق نہ کر لیں، تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ نادانی میں کسی گروہ کو نقصان پہنچا بیٹھیں اور پھر انھیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ (سورۃ الحجرات) اسی طرح قرآن کریم کی ہدایت ہے کہ جو لوگ امن یا خوف کی ہر خبر کو پھیلا دیتے ہیں، ان کا رویہ غیر ذمہ دارانہ ہے اور اگر وہ خبر کی تحقیق اور اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں تک خبر پہنچائیں تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ (سورۃ النساء)

ابلیس اور حکمران

محمد مشتاق احمد

امام ابو الفرج عبد الرحمن ابن الجوزی رحمہ اللہ ( متوفی ۵۹۷ ھ ) نے اپنی کتاب ’’ تلبیس ابلیس ‘‘ اس مقصد کے لیے لکھی تھی کہ لوگوں پر واضح کیا جائے کہ ابلیس ان پر کس کس طرح حملہ کرسکتا ہے ۔ چنانچہ انہوں نے مثال کے طور پر واضح کیا ہے کہ محدثین پر وہ کیسے حملہ آور ہوتا ہے؟ فقہا کو وہ کیسے نشانہ بناتا ہے؟ صوفیا کو کیسے اپنے دام میں پھنساتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس کتاب کے ساتویں باب میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ ابلیس حکمرانوں کو کس طرح اپنے متبعین میں شامل کرتا ہے۔ اس باب کا مطالعہ کرتے ہوئے بار بار خیال جنرل (ر) پرویز مشرف کے آٹھ سال سے زائد عرصے پر محیط دور حکومت کی طرف جا رہا تھا۔ ابن الجوزی نے ابلیس کی بارہ چالوں کا ذکر کیا ہے ۔ ذرا دیکھیے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف ان میں سے کس کس چال کا شکار ہوئے؟ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ کیا نئے حکمران ابلیس کی ان چالوں سے خود کو بچانے کی کوشش کریں گے؟ 
۱۔ ابلیس حکمرانوں کے دلوں میں یہ خیال ڈال دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ مخلوق ہیں، جبھی تو اس نے انہیں حکومت دی ہے، حالانکہ اگر یہ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے منتخب کیا ہے تو چاہیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق فیصلے کریں تاکہ درحقیقت اس کے پسندیدہ افراد میں شامل ہوجائیں۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ بارہا ظالموں کی رسی دراز کردیتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر مطالم ڈھاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ان کا پیمانہ بھر جاتا ہے ۔ 
۲۔ ابلیس ان کے دلوں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ حکمران کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں پر اس کی دہشت قائم ہو ۔ چنانچہ ایک طرف وہ مظالم ڈھانا شروع کردیتے ہیں اور دوسری طرف علما اور سنجیدہ و فہمیدہ لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر یہی بات ان کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے ۔ 
۳۔ ابلیس حکمرانوں کو ان کے مزعومہ دشمنوں سے ڈراکر اس بات پر مجبور کردیتا ہے کہ وہ عام لوگوں سے دور رہیں اور اپنے ارد گردہ سخت حفاظتی پہرا بٹھائیں۔ اس طرح وہ اس حدیث کا مصداق بن جاتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ جو حکمران لوگوں کی حاجات پوری نہ کرے اور ان سے کنارہ کشی اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری نہیں کرتا اوران سے کنارہ کشی کرلیتا ہے۔ 
۴۔ ابلیس کے دام میں پھنس کر حکمران ایسے ماتحتوں کو لوگوں پر مسلط کردیتا ہے جن میں نہ علم ہوتا ہے اور نہ تقوی ٰ۔ چنانچہ وہ لوگوں کا حق کھاتے اور ان پر ظلم کرتے ہیں ، بے گناہوں کو سزائیں دیتے ہیں اور مجرموں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر لوگوں کی بدعائیں صرف ان ماتحت افسران ہی کو نہیں لگتیں بلکہ ان کو تعینات کرنے والے حکمران بھی ان کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ 
۵۔ ابلیس کے اثر سے حکمران اپنی رائے کو حتمی اور مبنی برصواب سمجھنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ بے گناہوں کو سزائیں دینے اور مجرموں کو آزاد چھوڑنے کو ہی ’’ سیاست‘‘ اور ’’ تقاضاے مصلحت ‘‘ قرار دینا شروع کردیتے ہیں ، حالانکہ شریعت کی خلاف ورزی میں کوئی مصلحت نہیں ہوسکتی اور ظلم ڈھا نا کبھی بھی مصلحت کا تقاضا نہیں ہوسکتا۔ 
۶۔ حکمران ابلیس کے مغالطے میں آکر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ریاست کے تمام خزانے ان کے اختیار میں ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان اگر اپنے مال کو بھی بے جا اڑانا شروع کردے تو شریعت کے تحت اس پر اپنے مال میں تصرف سے بھی روکا جاسکتا ہے۔ پھر اس ملازم کو کیسے کھلی چھٹی دی جاسکتی ہے جسے ایک مخصوص اجرت پر اس کام کے لیے ملازم رکھا گیا ہو کہ وہ لوگوں کے مال کی حفاظت کرے؟ 
۷ ۔ ابلیس حکمرانوں کے دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ چونکہ وہ ملک اور قوم کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں، اس لیے وہ اگر چھوٹے موٹے گناہ کریں گے تو ان سے کچھ باز پرس نہیں ہوگی ، حالانکہ اگر انہوں نے باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی ہے تو ان کا فرض ہے کہ وہ ملک اور قوم کی حفاظت کریں۔ اس فرض کی ادائیگی میں وہ کوتاہی کریں گے تو انہیں سزا ملے گی۔ چنانچہ اس فرض کی ادائیگی کو ایک استحقاق سمجھ کر مزید گناہوں کا ارتکاب کیسے کرسکتے ہیں ؟ 
۸۔ ابلیس حکمرانوں کو ہر جانب سے مطمئن کردیتا ہے اور وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک جارہا ہے، حالانکہ اگر حقیقت تک ان کی نظر پہنچتی تو وہ جان لیتے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے بلکہ ہر طرف ان کی غلط روش کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوچکا ہے۔ 
۹۔ ابلیس کے اثر سے حکمران یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ بدعنوان لوگوں کے قبضے میں جو کچھ بھی ہے، وہ ان سے چھین لینا نہایت مستحسن کام ہے، حالانکہ اگر کوئی شخص بدعنوان ہو تب بھی اس کی ملکیت میں موجود مال کے متعلق جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ وہ بدعنوانی سے حاصل کیا گیا ہے، وہ اس سے نہیں چھینا جاسکتا۔ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو ان کے ایک ماتحت نے لکھا کہ کچھ بدعنوان لوگ ایسے ہیں جنہوں نے لوگوں سے ناجائز مال بٹور لیا ہے، لیکن اس کی وصولی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان کو سخت سزا نہ دی جائے۔ عمر بن عبد العزیز نے جواب میں لکھا کہ وہ بدعنوانی سے حاصل کیے گئے مال سمیت اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں، یہ اس سے بہتر ہے کہ میں ان پر ڈھائے گئے ظلم سمیت اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں ۔ 
۱۰ ۔ ابلیس حکمرانوں کو یہ بات سجھا دیتا ہے کہ وہ ظلم کے ذریعے چھینے گئے مال میں سے صدقہ کریں تو ان کا ظلم معاف ہوجائے گا، حالانکہ ظلم کا گناہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔ اگر صدقہ لوٹے گئے مال سے ہی دیا جارہا ہو تو وہ صدقہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہی نہیں ہے ۔ اور اگر ظالم نے صدقہ اپنے جائز مال سے دیا ہے تب بھی ظلم کا گناہ معاف نہیں ہوسکتا کیونکہ ظلم اس نے کسی اور پر ڈھایا ہوتا ہے اورصدقہ یہ کسی اور کو دیتا ہے ۔ 
۱۱ ۔ ابلیس حکمرانوں کو اس روش پر ڈال دیتا ہے کہ ایک جانب وہ ظلم اور گناہوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوتے ہیں اور دوسری طرف بعض نیکوکاروں اور مشائخ کے پاس جا کر ان سے اپنے حق میں دعا کرواتے ہیں ۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ اس طرح ان کے گناہ کا اثر کم ہوجاتا ہے، حالانکہ اس اچھے کام سے اس برے کام کے وبال کو نہیں ٹالاجاسکتا ۔ مالک بن دینار رحمہ اللہ نے ایسے ہی موقع پر کہا تھا کہ ظالم مجھ سے اپنے لیے دعا کرنے کو کہتا ہے حالانکہ ہزار افراد سے بد دعا دے رہے ہوتے ہیں، تو کیا ایک کی دعا قبول ہوگی اور ہزار کی بد دعا رد کی جائے گی ؟ 
۱۲ ۔ بعض حکومتی اہلکار حکمرانوں کو خوش کرنے کے لیے ان کے کہنے پر لوگوں کا حق چھینتے اور ان پر مظالم ڈھاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کا وبال ان کے حکمرانوں پر ہی آئے گا، حالانکہ ظلم کے لیے آلہ بننے والا اور ظلم پر مدد دینے والا ظالم کے جرم میں برابر کا شریک ہے ۔ گناہ میں مدد دینے والے بھی گنہگار ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے لعنت کی سود کھانے والے پر، سود کھلانے والے پر، سودی لین دین لکھنے والے پر اور اس لین دین پر گواہ ہونے والوں پر، اور فرمایا کہ وہ برابر کے گنہگار ہیں۔ مالک بن دینار رحمہ اللہ نے کہا تھا کہ کسی کے خائن ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ خائنوں کے لیے امین بن جائے۔ 

ایک تحریک علماء کی ضرورت

حسن الامین

پاکستان میں ججوں کی بحالی کے لیے چلائی جانے والی وکلا کی تحریک کو اس کی کامیابی، ناکامی، خفیہ سیاسی عزائم اور اس نوعیت کے دیگر ایشوز سے الگ کرکے صرف اس زاویے سے دیکھا جائے کہ یہ جدید تعلیم یافتہ اور پروفیشنل لوگوں کی ایک پرامن تحریک تھی جو پاکستان جیسے کم تعلیم یافتہ اور پیچیدہ معاشرے میں سول سوسائٹی کے پلیٹ فارم سے چلائی گئی تو یقیناًوکلا کی یہ کوشش کسی سعی مشکور سے کم نہیں تھی۔ بالکل انہی خطوط پر، ایک تحریک علما کی تجویزپیش نظرہے۔ اس بارے میں پہلے چند سوالات اٹھانا چاہتا ہوں:
  • وکیلوں کی تحریک کے طرز پرپاکستان کے روایتی علماے کرام بھی کیا ایک غیرسیاسی تحریک شروع کرسکتے ہیں جس کا ہدف سیاسی ہونے کی بجائے سماجی ہو؟
  • موجود حالات کے تناظر میں ایسی کوئی تحریک اگر اٹھتی ہے تو اس کے سامنے اصل ہدف کیا ہونا چاہئے؟
  • اور ممکنہ طور پر علماے کرام کی اس سماجی تحریک کے کون ے فائدے سامنے آسکتے ہیں؟ 
ان سوالات پر غور کرنے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ وکلا اور علما کے درمیان قدر مشترک کیا ہے؟
۱۔ سماجی لحاظ سے، وکیلوں کی طرح، علماے کرام بھی ایک پبلک ڈیلنگ والے پیشہ سے وابستہ ہیں اور صبح و شام ان کو لوگوں سے متفرق معاملات کرنے پڑتے ہیں۔ وہ صرف نماز ہی نہیں پڑھاتے بلکہ لوگوں کے دینی، معاشی، سماجی، عائلی، نفسیاتی اور ثقافتی مسائل سے متعلقہ سوالات کے جوابات بھی دیتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کے جوابات ان کی اپنی سمجھ اور فقہی مسلک کے مطابق ہوتے ہیں۔ وکیلوں کا کام اگر عدالتی نظام میں اپنے موکلوں کی نمائندگی کرنا اور ان کی قانونی چارہ جوئی کرنا ہے تو علماے کرام کا کام مذہب کے میدان میں لوگوں کو دین بتانا، سکھانا اور اس کی تشریح کرنا ہے۔
۲۔ جیسا کہ جب بھی قانون اور آئین کی حکمرانی اور اس کی پاسداری کی بات آئے گی تو فطری طور پر سب سے پہلے نگاہ انتخاب وکلا پر ہی جاکر ٹھہرے گی، بالکل اسی طرح، مذہب کے معاملے میں علماے کرام ہی کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول ہوگی اور ہمارے موجودہ سماجی و ثقافتی ڈھانچے میں ابھی ان کا کوئی متبادل تیار نہیں ہوسکاہے۔
۳۔ معاشرے میں وکلا برادری کی طرح ایک علما برادری بھی اپنا وجود رکھتی ہے جو اصل میں سول سوسائٹی کا حصہ ہے، اگرچہ سیکولر حلقوں میں جب بھی سول سوسائٹی کا تذکرہ ہوتا ہے تو ان کو شامل نہیں کیا جاتا جو ناقابل فہم ہے۔ لیکن عملی طور پر علماے کرام، مساجد اور مدرسے سول سوسائٹی کا ہی حصہ ہے بلکہ سب سے موثر حصہ ہے۔
۴۔ وکلا اگر کچہریوں میں منظم ہوتے اور باررومز کے ذریعے سے اپنی تنظیم سازی کرتے ہیں تو علما مسجد اور مدرسہ کے ذریعے سے منظم ہیں اور یہ ان کے اور عام لوگوں کے درمیان رابطہ کا ذریعہ بھی ہے۔
۵۔ لیکن جیسے وکلا سول سوسائٹی کا حصہ ہونے کے باوجود سیاسی وابستگیوں سے آزاد نہیں ہوتے بلکہ ہر وکیل کسی نہ کسی صورت میں کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ہی وابستگی رکھتا ہوتا ہے، یہی حال علماے کرام کی اکثریت کا بھی ہے۔ لیکن جب وکلا نے ججوں کی بحالی کا پروجیکٹ سنبھالا تو وکلا کی اکثریت نے اپنی سیاسی شناخت کو اس نئی سماجی شناخت میں (ججوں کی بحالی اور آئین کی بحالی) ضم کردیا۔ اسی طرح، علماے کرام بھی ایک "کامن سماجی پروجیکٹ" کے اوپر کچھ عرصہ کے لیے اپنے مسلکی و فروعی شناختوں کو بھلا کر ایک نئی سماجی شناخت تخلیق کرسکتے ہیں جو ان کو ایک کاز پر منظم کردے۔ 
اگر اس مفروضے کو درست مان لیا جائے کہ علما سول سوسائٹی کا اہم حصہ ہیں اور یہ کہ ایک مشترکہ سماجی منصوبہ شروع کیا جاسکتا ہے جو علما کو وکلا کی طرح اکٹھا کرنے، ان کو متحرک کرنے، اور ان کو اس مقصد کے حصول کے لیے جمع ہونے کا محرک بنے تو پھر کئی سماجی، معاشی اور ثقافتی مسائل کی فہرست مرتب کی جاسکتی ہے جن میں علماے کرام کا کردار نہایت موثر ہوسکتا ہے لیکن اس وقت میرے پیش نظر صرف اور صرف ایک ہی زیرغور مسئلہ ہے جو کہ امن و امان کی بحالی اور عسکریت پسندی کے لیے ہمارے سماج میں موجود پسندیدگی کی اس جڑ کو کاٹ دینے سے بھی متعلق ہے جس کی وجہ سے ہم اس خونیں صورت حال سے مقابل ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اکثر جگہوں پر عسکریت پسندی کا وجود کسی نہ کسی شکل میں مذہب سے وابستہ ہے اور بدقسمتی سے مسلمان اس میں یا تو جھونک دیے گئے ہیں یا وہ خود اس کو لیڈ کررہے ہیں۔ لیکن اس سے بھی ایک بڑی سماجی حقیقت موجود ہے، وہ یہ کہ اس ملک کے علما کی واضح اکثریت نے ہر قسم کی عسکری کارروائیوں کو نہ صرف یہ کہ خلاف شریعت قرار دیا ہے بلکہ اس کے خلاف واضح فتوے بھی دیے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی سے لے کر مولانا زاہد الراشدی صاحب سے مولانا حسن جان شہید تک، سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگرچہ عسکری کاروائیوں کے واضح اسباب اور وجوہات موجود ہیں لیکن پھر بھی اس طرح کرنا نہ صرف یہ کہ اسلای شریعت سے انحراف پر مبنی ہے بلکہ اس کی مجموعی روح کے بھی خلاف ہے اور خلف و سلف کے علما نے بھی پر امن ذرائع سے اپنی جدوجہد کی ہے۔ انڈیا میں منعقدہ دیوبندی علما کانفرنس نے بھی اس کے خلاف اسلام ہونے کے حوالے سے اپنا فتویٰ جاری کردیا ہے۔ اس طرح سے اگرچہ ان علما کی علمی ذمہ داری تو ادا ہوگئی ہے لیکن اس کے ساتھ ان کی ایک دعوتی اور سماجی ذمہ داری بھی ہے جو فتویٰ دینے سے کہیں زیادہ مشکل اور صبر آزما ہے، کیونکہ مولانا حسن جان شہید نے اپنی علمی حیثیت سے بڑھ کر جب اسی سماجی و دعوتی ذمہ داری کو نبھانا چاہا تو ان کو اپنی زندگی کی شہادت دینی پڑی۔
ایک ایسی ہی پرامن سماجی تحریک شروع کرنے کا موزون وقت ہے، شرط یہ ہے کہ علماے کرام کا ایجنڈا یک نکاتی اور آخری حد تک غیرسیاسی ہو۔ علماے کرام اپنی اس تحریک کو مذہبی سیاستدانوں سے دور رکھیں اور بالکل مذہبی اور دعوتی انداز میں نکل کر سوسائٹی کو مخاطب کریں اور اپنی دعوتی و سماجی ذمہ داری پوری کریں۔ اس تحریک کے موثر ہونے کے دو امکانات ہیں:۔
۱۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی موجودگی جو ان کی آواز کو ملک کے کونے کونے تک پہنچا دے گا اور اس میں یقیناًان کا ساتھ دیا جائے گا۔ 
۲۔ سوسائٹی کی وہ خاموش اکثریت جو امن وامان کی ابتر صورت حال سے تنگ ہے اور جو اس کو صحیح نہیں سمجھتی اور اس سے جان چھڑانا چاہتی ہے لیکن نہ ان کو قیادت میسر ہے اور نہ ہی وہ خود یہ کام کرسکتے ہیں، اور نہ ہی ان کو مذہبی و سیکولر سیاست دانوں سمیت اپنی فوج پر اعتماد ہے۔ اس تحریک کا فائدہ یہ ہوگا کہ سوسائٹی میں سیکولر اور مذہبی کی پولرائیزیشن کے درمیان یہ علما ایک پل کا کام دے سکیں گے اور اس کامن پروجیکٹ میں ایک بڑا سیکولر اور لبرل طبقہ ان کے پیچھے کھڑا ہوجائے گا۔
پوری دنیا میں عسکریت کے مسئلے کو اسلام کے تناظر میں سمجھا اور بیان کیا جاتا ہے، حالانکہ علما کی اکثریت کم از کم اس مسئلے میں بالکل دوسرا موقف رکھتی ہے جو امن و آشتی اور اخوت و محبت پر مبنی ہے۔ اس تاثر کو یوں زائل کیا جاسکے گا جب علماے کرام از خود عسکریت کے مسئلے کے جڑ اور سبب بننے کی بجائے مسئلے کے حل کے طور پر سامنے آئیں گے۔ 

اسلامی درس گاہوں میں تعلیم قرآن کا طریقہ

مولانا محمد بشیر سیالکوٹی

یہ امر کسی صاحب علم سے مخفی نہیں ہے کہ ہمارے ملک بلکہ برصغیر پاک وہند کے پورے علاقے کی اسلامی درسگاہوں بلکہ سرکاری سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی، قرآن کریم کی تعلیم وتدریس کا جو طریقہ عرصہ دراز سے رائج چلا آ رہا ہے، وہ ’ترجمہ قرآن کریم‘ کے نام سے معروف ہے۔ یہ بچوں کی ابتدائی تعلیم کے مرحلے میں تین چار سال تک جاری رہتا ہے اور اس کی تدریس یوں ہوتی ہے کہ درس کے آغاز پر ایک طالبعلم مقررہ آیات تلاوت کرتا ہے، پھر معلم ان آیات کریمہ کا اپنی مقامی زبان اردو، پشتو یا سندھی وغیرہ میں ترجمہ سکھاتا ہے۔ وہ ان کا ترجمہ کرتے ہوئے ان میں مذکور مشکل الفاظ اور تراکیب کی حسب ضرورت تشریح بھی کرتا جاتا ہے۔ طلبہ اور طالبات اس ترجمہ اور تشریح کو نہایت توجہ اور انہماک سے سنتے ہوئے یاد کرلیتے ہیں۔ کچھ مدرسین اور شیوخ خصوصاً تفسیر قرآن کے مرحلے میں قرآنی مطالب کی تفسیر کو املا بھی کرا دیتے ہیں۔
بلا شبہ قرآن کریم کی تعلیم وتدریس اور تفسیر کے اس منہج سے زیر تعلیم طلبہ کو متنوع تعلیمی اور دینی فوائد حاصل ہوتے ہیں: (۱) وہ قرآن کریم کے لفظی اور بامحاورہ معنی سیکھ لیتے ہیں۔ (۲) وہ قرآن کریم کے الفاظ اور تراکیب کو سمجھنے لگتے ہیں اور کسی حد تک ان کی لغوی، صرفی اور نحوی تشریح سے آگاہ ہوجاتے ہیں۔ (۳) وہ قرآن حکیم کا ترجمہ اور تشریح نیز تفسیر پڑھ کر اس کے متن کے براہ راست فہم ومطالعہ کی اہلیت حاصل کرلیتے ہیں، اور قرآنی احکام اور ارشادات سے استفادہ کے اہل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ان متعدد فوائد کی بنا پر ’ترجمہ قرآن حکیم‘ کا یہ مضمون ہماری تمام چھوٹی اور بڑی درسگاہوں میں جاری و ساری ہے اور اس کی افادیت پر تمام علما اور مدرسین کا اتفاق ہے۔
میں اس امر سے اتفاق کرتا ہوں کہ ترجمہ قرآن کریم کی تدریس سے مذکورہ بالا فوائد حاصل ہوتے ہیں، اور اس مضمون کے مروجہ طریقۂ تدریس کی اتنی افادیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ لیکن قرآن کریم کی تعلیم وتدریس کے یہ فوائد خود ناکافی اور محدود ہیں اور یہ اس کی تعلیم وتدریس کے کئی بنیادی تعلیمی مقاصد کا احاطہ نہیں کرتے، کیونکہ یہ طریقۂ تدریس عالمی سطح پر مسلّمہ تعلیمی معیار پر پورا نہیں اترتا اور بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت کے کم از کم لازمی تقاضوں کی تکمیل نہیں کرتا۔ چنانچہ انہی اسباب کی بنا پر ہمارے نونہالوں کی تعلیم وتربیت کے کئی اہم اور بنیادی گوشے تشنہ رہ جاتے ہیں اور مملکت پاکستان میں ہماری دینی اور تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لیے جس سطح کے ماہر معلمین، اساتذہ، علما اور اسکالرز کی ضرورت ہے، ان کی تعلیم وتربیت میں بھی یہی ناقص طریقۂ تدریس نافذ وغالب ہے، اس لیے بہتر نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ اس طریقۂ تدریس کے نقصانات، فوائد کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس میں زیر تعلیم بچوں کو قرآن کریم کی آیات کریمہ کا صرف مقامی زبان میں ترجمہ کرنے پر لگا کر اس کی آسان عربی زبان اور ادب کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور انہیں اس کو لکھنے یا بولنے کی کوئی تربیت نہیں دی جاتی۔ بلکہ انہیں ایسی تربیت یا مشق سے کئی سال تک مسلسل لاتعلق رکھتے ہوئے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اتنا جامد کردیا جاتا ہے کہ اس کے بعد وہ عربی زبان وادب میں اچھی صلاحیت یا بلند مقام کا سوچ بھی نہیں سکتے، اور اس بارے میں ہمیشہ کے لیے مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس لیے تعلیم قرآن کریم کے مروجہ طریقۂ تدریس کی فوری اصلاح کرتے ہوئے اسے اپنے قومی اور ملی مقاصد اور تعلیم وتربیت کے جدید تقاضوں کے مطابق ترقی دینا ضروری ہوجاتا ہے۔ میں دینی مدارس کے اساتذہ، مہتمم حضرات اور تعلیمی وفاقوں کے ذمہ دار بلند مرتبہ علما اور شیوخ سے درخواست کرتا ہوں کہ میری ان گزارشات پر توجہ فرمائیں۔ إن أرید إلا الاصلاح ما استطعت وما توفیقی إلا بااللہ۔
ہمارے پورے تعلیمی نظام کا اہم ترین مضمون تعلیم قرآن کریم ہے اور زیر تعلیم طلبہ وطالبات کو اس کی بہتر تعلیم وتفہیم کی خاطر انہیں عربی زبان وادب اور حدیث وفقہ نیز اصول کے کئی علوم وفنون کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ اس لیے ایک ایسی جماعت جسے ہم مستقبل میں امت کی تعلیمی اور فکری قیادت کے لیے تیار کر رہے ہیں اور وہ عنقریب معلم، ادیب، مفتی وخطیب اور محدث ومفسر کی عظیم ذمہ داریوں کو سنبھالیں گے، کو کتاب اللہ اور فرقان حمید کی تعلیم وتدریس کا طریقہ اور منہج ایسا جامع، منظم اور مثالی ہونا چاہیے جو انہیں قرآنی الفاظ اور عبارتوں کا ترجمہ سکھانے کے ساتھ ساتھ ان کی عمدہ فکری، لسانی اور ادبی تربیت ومہارت کی اساس بن سکے۔

لفظی ترجمہ رٹنے کا متعدی مرض

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ تعلیم قرآن کریم کا یہ عظیم ترین مضمون اس کی عبارت کا صرف لفظی اور زبانی ترجمہ رٹنے اور رٹانے تک محدود چلا آ رہا ہے اور تین چار سال تک اسی نہج پر چلتا رہتا ہے، اور ایسا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا کہ اس مضمون کے دوسرے سال یا اگلے سالوں میں اس کے تعلیمی مقاصد یا تدریسی نہج میں مزید ترقی کرتے ہوئے اس میں مزید تعلیمی مقاصد کا اضافہ کردیا جائے۔ نتیجتاً معلمین اور طلبہ وطالبات سب کی نظریں اسی لفظی ترجمہ کو پڑھنے اور پڑھانے اور یاد کرنے تک مرکوز اور محدود رہتی ہیں۔ رہا قرآن کریم کا اصل عربی متن تو وہ ان سب کی نظروں سے اس قدر اوجھل رہتا ہے کہ اس پورے عرصے میں انہیں اس کی عبارتوں، استعمالات اور الفاظ کے فہم ومطالعہ پر کوئی بحث یا مشق نہیں کرائی جاتی، اس لیے وہ قرآن کریم کے نہایت آسان عربی استعمالات اور محاوروں سے بھی ناواقف رہتے ہیں اور مشہور قرآنی افعال کے مادوں اور ان کے صلات تک کو نہیں سمجھتے۔
ہماری اسلامی درسگاہوں میں تعلیم قرآن ایسے بنیادی اور اہم اسلامی مضمون کا یہ جمود نسل در نسل چلا آرہا ہے اور اس نے ہمارے لاکھوں ذہین اور محنتی نوجوانوں کی تعلیم وتربیت پر کئی منفی اثرات ڈالے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ نمایاں نقصان یہ ہے کہ ان لاکھوں نوجوانوں کو کتاب حکیم کی عربی زبان وادب کے فہم ومطالعہ سے اس حد تک محروم رکھا جاتا ہے کہ اس کی تدریس تین چار سال کا طویل عرصہ جاری رہنے کے باوجود معلمین یا طلبہ کو اس پر عربی زبان میں چند صفحات لکھنے یا بولنے کی مشق نہیں کرائی جاتی۔ آپ کو شاید دنیا کے کسی ترقی یافتہ تعلیمی نظام میں کسی کتاب یا کورس کا محض لفظی ترجمہ رٹانے کے اس جمود کی ایسی کوئی مثال نہ ملے جو ہماری درسگاہوں میں سالوں تک جاری رہتا ہے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ جمود عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے۔
یہاں یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ عام لوگ جو کسی مستند تعلیمی درسگاہ میں نہ پڑھتے ہوں وہ اگر اپنی کاروباری مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر صرف ترجمہ قرآن کریم پڑھیں تو یہ ان کے لیے بہت کام کی بات ہے، کہ وہ اس طرح قرآن کریم کے الفاظ کا لفظی ترجمہ یاد کرکے اللہ تعالیٰ کے احکام اور ارشادات سے آگاہ ہورہے ہیں، لیکن جس گروہ نے اپنی عمروں کا بہترین وقت کسب وتعلم کے لیے وقف کیا ہوا ہے اور وہ اسلامی تعلیم اور عربی زبان کے تمام بنیادی علوم وفنون کو سالہا سال پڑھیں گے اور مستقبل میں بلند علمی مناصب پر فائز ہوں گے، کیا وہ بھی ان عام لوگوں کی طرح سالوں تک قرآن کریم کا صرف لفظی ترجمہ ہی رٹتے رہیں؟ ایسی صورت حال میں یہ لازمی اور مفید ہوگا کہ جب ان میں مناسب صلاحیت موجود ہوتی ہے اور وقت کی گنجائش بھی ہوتی ہے تو انہیں اس کتاب حکیم کا مقامی زبان میں ترجمہ کرنے کے علاوہ اس کی آسان اور مبارک عربی لغت، محاوروں اور استعمالات پرمفید معلومات فراہم کی جائیں اور پھر ان معلومات کو ان کے ذہنوں میں راسخ کرنے اور ان کے عملی استعمالات کی تربیت دینے کی غرض سے ان سے متنوع مشقیں حل کرائی جائیں۔

ہم تعلیم قرآن اور عربی زبان کے اچھے معلم کیوں تیار نہ کرسکے؟

ہماری عظیم درسگاہوں میں کتاب اللہ کی تعلیم وتدریس جس سادہ اور ناقص طریقے پر چلی آ رہی ہے، اس کے مضر اثرات کی وسعت کا جائزہ لینے کے لیے ان پہلوؤں پر غور کرنا مفید ہوگا:
اولاً: ہمارے طلبہ اور طالبات اپنی نوعمری میں پوری لگن اور شوق سے اپنا تعلیمی سفر شروع کرتے ہیں، اس لیے یہ ان کی عمدہ تعلیم، بہتر تربیت اور تخلیقی صلاحیتوں کی اچھی نشو ونما کا سنہری وقت ہوتا ہے، اور انہیں عربی زبان کو لکھنے اور بولنے کا ابتدائی سلیقہ اور تربیت دینے کا بھی یہی فطری وقت ہوتا ہے لیکن چونکہ ہماری درسگاہوں میں مروجہ طریقۂ تدریس کا زیادہ زور عربی عبارتوں کا لفظی ترجہ رٹنے اور صرف ونحو کی گردانوں اور قواعد کو استعمالات کے بغیر یاد کرنے پر ہی رہتا ہے، اس لیے ہمارے نہایت ذہین اور محنتی بچے بھی عربی ایسی آسان زبان کو لکھنے اور بولنے کی مشق نہیں کرتے اور وہ قدرتی طور پر اس پہلو میں جمود کا شکار ہوتے ہیں جو آگے جا کر عملی زندگی میں ان کے لیے طرح طرح کی مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت جو طریقۂ تدریس ہمارے ہاں رائج ہے اس میں طالبعلم سورہ فاتحہ سے لے کر والناس تک پڑھتے ہوئے عربی میں چند صفحات بھی لکھنے کی مشق نہیں کرتا۔
ثانیاً: پھر اس ایک مضمون کے طریقۂ تدریس کی پسماندگی صرف اس ایک مضمون تک محدود نہیں ہے، بلکہ اکثر معلمین تعلیم وتدریس کے فن سے نا آشنا ہوتے ہیں اور مدارس کی انتظامیہ بھی انہیں فن تعلیم میں تربیت اور تدریب کے مواقع فراہم نہیں کرتی، اس لیے وہ اس پرانے طریقۂ تدریس کو آسان اور چلتا ہوا سکہ خیال کرتے ہوئے اپنائے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت ہماری درسگاہوں میں اکثر مضامین کی تدریس اسی لفظی اور زبانی ترجمہ اور تشریح تک محدود رہتی ہے اور یہ طرز تدریس سال اول سے لے کر شہادۃ العالیۃ اور شہادۃ العالمیۃ تک بلکہ اس سے بھی آگے تخصص کی اقسام (تخصص فی التفسیر، تخصص فی الحدیث، تخصص فی الفقہ، تخصص فی الافتا وغیرہ) اور یونیورسٹی کے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے کورس میں بھی جاری رہتا ہے۔ یوں کاہلی اور جمود کا یہ متعدی مرض نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔
ثالثاً: ہمارے عربی مدارس اور اسلامی درسگاہوں میں رائج اس ناقص اور مضر طریقۂ تدریس کا ایک وسیع اور قومی سطح کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ یہ درسگاہیں آج تک سرکاری اور غیر سرکاری سکولوں اور کالجوں میں عربی زبان وادب اور اسلامی علوم کی معیاری تدریس کے لیے اچھے معلمین اور اساتذہ تیار نہیں کرسکیں کیونکہ جن معلمین نے خود ایسے ماحول میں تعلیم پائی ہوتی ہے وہ عملی زندگی میں تدریس کی جدید اور ترقی یافتہ انداز اپنانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ یہ مسلّمہ قاعدہ ہے کہ فاقد الشئ لا یعطیہ  (جو شخص خود کسی خوبی سے محروم ہو وہ اسے دوسروں کو نہیں دے سکتا)۔ انہی اسباب کی بنا پر ہم قیام پاکستان کے بعد آج تک ماہر معلمین اور اساتذہ کی تیاری کے اس خلا کو پر نہیں کرسکے۔
چونکہ زیر بحث مسئلہ ملک بھر کے اسلامی مدارس کے نظام تعلیم سے متعلق ہونے کی وجہ سے نہایت اہم ہے اور عمیق غور وفکر کا متقاضی ہے، اس لیے میں اس موقع پر محترم علما اور اساتذہ کی اطلاع اور اطمینان کے لیے اپنا مختصر تعارف عرض کرنا مفید خیال کرتا ہوں۔
میں یہ گذارشات بتوفیقہ سبحانہ وتعالٰی تعلیم وتربیت کے میدان میں اپنے طویل تجربات اور غور وفکر کی روشنی میں ان عظیم اسلامی درسگاہوں کو بہتر علمی وتعلیمی ترقی دینے کی غرض سے پیش کر رہا ہوں۔ میں خود متعدد اسلامی درسگاہوں کا بانی ہوں، اور دن رات ان کے بہتر اور ترقی یافتہ نصاب کی ترتیب وتصنیف میں مشغول رہتا ہوں۔ ماضی میں ملت کے جن اکابر علما اور مفکرین سے میرا کسی طرح کا تعلق رہا ہے، میں ان کی قیمتی آرا سے استفادہ کرتے ہوئے ہی اسلامی علوم اور عربی زبان کی خدمت کر رہا ہوں۔ ان میں اولاً میرے اساتذہ مولانا عبدالغفار حسن، محدث مولانا حافظ محمد گوندلوی، مولانا معاذ الرحمن، مولانا عبد اللہ امرتسری، مولانا مفتی سیاح الدین کاکاخیل اور مولانا مفتی ابوالبرکات مدراسی ہیں۔ ان کے علاوہ مولانا عبدالرحیم اشرف، مفتی پاکستان مولانا محمد شفیع (ان کی جو تقریر اب وحدت امت کے عنوان سے چھپتی ہے، اسے انہوں نے پہلی بار مولانا عبدالرحیم اشرف کی درخواست پر ہمارے ادارے جامعہ تعلیمات اسلامیہ میں بیان فرمایا تھا، پھر راقم نے اسے کیسٹ سے قرطاس پر منتقل کیا تھا)، محدث مولانا محمد یوسف بنوری، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا خلیل احمد حامدی، مولانا عطاء اللہ حنیف نیز مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا منظور احمد نعمانی، اور معلم الانشاء کے مؤلف مولانا عبدالماجد ندوی نیز اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ کے وائس چانسلر اور سعودی عرب کے مفتی اکبر شیخ عبدالعزیز بن باز، الطریقۃ الجدیدۃ کے مؤلف ڈاکٹر احمد امین مصری کے اسماے گرامی شامل ہیں۔ رحمہم اﷲ جمیعا وغفر لہم ورفع درجاتہم۔
میں ۱۹۷۳ء کے آخر میں اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ میں اعلیٰ تربیتی کورس کے لیے گیا تو میرے ہمراہ محترم ڈاکٹر شیرعلی اور مولانا محمود اشرف بھی تھے۔ میں اس سے پہلے ہی پاکستان میں عربی زبان اور دیگر اسلامی علوم کی جدید نہج پر تدریس کر رہا تھا۔ مولانا عبدالرحیم اشرف کی سرپرستی میں سات آٹھ سال جامعہ تعلیمات اسلامیہ میں بہت عمدہ تجربات ہوئے اور یہیں سے نصابی کتابوں کی تصنیف شروع کی۔ بعدازاں چند ماہ محتر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی تنظیم اسلامی اور جامعہ اشرفیہ میں عربی زبان کی تدریس کرتا رہا۔ وہاں کے بزرگوں مولانا عبیداللہ، مولانا عبدالرحمن اشرفی اور مولانا فضل الرحیم سب کا اعتماد اور تعاون حاصل رہا۔ اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ میں اپنے قیام کے دوران مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ سے گاہے گاہے ملاقات ہوتی تو ان سے دار العلوم ندوۃ العلما کے اس وقت کے نصاب تعلیم اور برصغیر پاک وہند میں عربی زبان وادب کی اشاعت پر تبادلہ خیال ہوتا۔ وہ اکثر میری سوچ اور جذبہ عمل کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ ایک بار انہوں نے حرم مکی میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’بشیر صاحب، مملکت پاکستان میں عربی زبان کے ایک سپاہی کی ضرورت ہے اور وہ آپ ہی ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا سفارت خانے کی ملازمت کو چھوڑ کر پاکستان جائیے۔‘‘
میں پہلے ہی اسی نظریے کو لے کر عالم عرب میں عربی زبان وادب کی ترقی کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنے کی غرض سے سعودی عرب گیا تھا۔ مزید کسی ڈگری یا سروس کا حصول میرا مقصد نہ تھا۔ اس سے قبل ان کی تصنیف ’پاجا سراغ زندگی‘ پڑھ چکا تھا اور اس سے متاثر تھا۔ اس لیے ان کی اس رائے سے میرے پرانے تصور کو تقویت ملی۔ میں نے جدہ کے پاکستانی سفارت خانے میں ملازمت کے دنوں میں ’اقرأ‘ الجزء الاول کا مسودہ تیار کر لیا تھا اور الجزء الثانی کی ترتیب جاری تھی۔ آخر میں اپنے مہربان دوست اور تعلیم عربی کے عالمی ماہر جناب ڈاکٹر ف عبد الرحیم مؤلف کتاب دروس اللغۃ العربیۃ (تین حصے) کا تذکرہ ضروری ہے۔ سعودی عرب میں اپنے قیام کے دوران اور کئی تعلیمی کانفرنسوں میں میرا ان سے تبادلہ خیال ہوتا، اور ان کے تجربات سے استفادہ کرتا۔

پس چہ باید کرد؟

اسلامی مدارس کے ابتدائی سالوں میں جو طلبہ اور طالبات عربی زبان اور اسلامی تعلیم کے مختلف علوم وفنون پڑھتے ہیں، انہیں کتاب اللہ کی تعلیم وتدریس جدید تعلیمی نظریات اور تجربات کے مطابق اور عالمی سطح پر مسلّمہ اور معیاری طریقۂ تدریس کے مطابق کی جائے۔ جس کا خاکہ ذیل میں دیا جا رہا ہے، واﷲ الموفق والمستعان۔
اولاً: اس مضمون کا موجودہ عنوان ’ترجمہ قرآن کریم‘ بدل کر اسے تعلیم القرآن الکریم یا تدریس القرآن الکریم کا نام دیا جائے۔
ثانیاً: ان طلبہ اور طالبات کے لیے تدریس القرآن الکریم کے ہر سبق میں درج ذیل تین اجزا یا حصے ہوں گے: ۱۔ شرح الکلمات، ۲۔ ترجمۃ الآیات وشرحہا، ۳۔ المناقشۃ۔

۱۔ شرح الکلمات: 

معلم ہر سبق کے شروع میں اس کی مقررہ آیات کریمہ کے الفاظ اورتراکیب کی لغوی تشریح کو تختہ سیاہ پر لکھے تاکہ بچے اسے اپنی کاپیوں میں درج کریں۔ اس جزء کے تیس (۳۰) نمبر ہوں گے۔

۲۔ ترجمۃ الآیات وشرحہا: 

بعد ازاں معلم ان آیات کریمہ کا مقامی زبان میں ترجمہ کرے گا اور بچوں کے معیار کے مطابق ان کی تشریح کرے گا۔ اس ترجمہ کے پچیس (۲۵) نمبر اور تشریح کے پندرہ (۱۵) نمبر ہوں گے۔ یوں اس جز کے کل چالیس (۴۰) نمبر ہوں گے۔

۳۔ المناقشۃ: 

آخر میں معلم ان آیات کریمہ کے جملوں اور مضمون پر زیر تعلیم بچوں کے معیار کے مطابق آسان عربی زبان میں سوالات تختہ سیاہ پر لکھے گا اور بچے ان سوالات کے عربی میں جواب دینے کی زبانی مشق کرینگے اور بعد میں ان سوالات اور ان کے جوابات کو اپنی کاپیوں میں لکھیں گے۔اس جزء کے تیس (۳۰) نمبر ہوں گے۔

۱۔ مجوزہ تبدیلیاں

ملکی درسگاہوں میں کتاب اللہ کی ایسی معیاری اور جامع تدریس کے لیے ہمیں اس کے موجودہ طریقۂ تدریس میں درج ذیل دو بڑی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔

۱۔ قرآن کریم کے الفاظ کی لغوی تشریح کا بہتر اور منظم اسلوب 

اس وقت ترجمہ قرآن کریم پڑھاتے ہوئے اکثر معلمین قرآنی الفاظ کی جو تشریح کرتے ہیں، وہ بہت کم اور سرسری ہوتی ہے، اور وہ بھی اکثر زبانی بتا دی جاتی ہے اور بچوں کو املا نہیں کرائی جاتی، الا ما شاء اﷲ۔ اس لیے اس سے زیر تعلیم بچوں کے ذہنوں میں لغوی معلومات کو راسخ کرنے میں چنداں مدد نہیں ملتی۔ یہ سلسلہ بہرحال کم سن بچوں کی تعلیم وتربیت میں بہت مفید ہے، اس لیے اسے زیادہ مؤثر اور منظم صورت دینے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے دو باتوں کو واضح اور متعین کرلیا جائے:
۱۔ ان مطلوبہ لغوی معلومات کا دائرہ متعین کرلیا جائے۔
۲۔ اور پھر انہیں جماعت کے طلبہ کو پیش کرنے کا طریق کار واضح کردیا جائے۔
(۱) مطلوبہ لغوی معلومات
۱۔ شروع میں صرف مشہور اور کثیر الاستعمال عربی افعال کا ماضی، مضارع، مصدر اور معنی بتائے جائیں۔
۲۔ اگر آیت کریمہ میں اسم مفرد استعمال ہوا ہے تو اس کا معنی اور جمع بتائی جائے، اور جمع کی صورت میں اس کا معنی اور مفرد بتایا جائے، وغیرہ۔
جبکہ دو تین پارے پڑھنے کے بعد ان میں درج ذیل معلومات کا اضافہ کر لیا جائے:
۱۔ مشہور افعال کے صلات یعنی ان حروف جر کابتایا جائے جو ان افعال کو متعدی بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، مثلاً قال کے بعد لِ  کا استعمال، مثلاً واذ قال ربک للملائکۃ، وغیرہ
۲۔ قرآن کریم میں مستعمل متضاد کلمات نیز مترادف کلمات بتائے جائیں۔
۳۔ اس مرحلے پر نسبتاً مشکل افعال اور اسما کی تشریح بھی کی جائے۔
۴۔ لغت قرآن، صرف ونحو نیز علم بلاغت کی آسان اور عام فہم معلومات بھی لکھائی جائیں جنہیں معلم بچوں کے معیار کے مطابق مناسب تصور کرے۔ (مزید راہنمائی اور نمونے کے لیے دیکھیے دلیل قصص النبیین جز اول، دوم، سوم)
ان لغوی معلومات کو بچوں کو اس طریقے پر پڑھایا جائے:
۱۔ معلم سبق پڑھانے سے قبل مقررہ آیات کے منتخب الفاظ کی تشریح تیار کرکے لائے۔
۲۔ اور وہ اسے درس کے شروع میں بچوں کے سامنے تختہ سیاہ پر لکھے۔
۳۔ اور بچے اسے آواز سے پڑھتے ہوئے یاد کریں اور اپنی کاپیوں میں لکھیں۔
۴۔ اور معلم اس امر کا اہتمام کرے کہ تمام بچے ان معلومات کو اپنی اپنی کاپیوں میں لکھیں۔

۲۔ عربی زبان کے استعمالات اور سوال وجواب کی مؤثر تربیت 

قرآن کریم کی عربی زبان نہایت آسان اور سلیس ہے۔ اس کے الفاظ سہل اور عام فہم ہیں اور زیادہ تر چھوٹی چھوٹی ترکیبات اور مختصر جملے اور میٹھے میٹھے بول ہیں۔ پھر اہل زبان کے ہاں انتہائی معروف ومشہور محاورے اور استعمالات، اور اسلوب بیان اسقدر عام فہم کہ اوسط درجے کا قاری اسے بخوبی سمجھ لے۔ اس کی اس خوبی کو خود اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بیان فرمایا ہے: (وَاِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُo عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ o بِلِسَانٍ عَرَبيٍّ مُّبِیْنٍ) (سورۃ الشعراء، آیات ۱۹۲ تا ۱۹۵)۔ نیز فرمایا: (وَھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِیْنٌ) (سورۃ النحل، آیت ۱۰۳)۔
میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ہم عجمی مسلمان ہیں اور ہماری مادری اور قومی زبان عربی نہیں ہے۔ اس لیے ہمارے بچے قرآن کریم کی عبارت کو براہ راست عربی میں نہیں سمجھ سکتے، لیکن ہم اپنی اس کمزوری کے ازالے کی خاطر اپنے زیر تعلیم بچوں کو قرآن کریم کے ابتدائی فہم کے لیے اس کے الفاظ، ترکیبوں، اور مشہور محاوروں اور استعمالات کی مناسب تشریح اور معنی یاد کراتے ہیں، نیز انہیں اس کی آیات کریمہ کا پورا ترجمہ پڑھاتے ہیں تو اب ان کے لیے کتاب اللہ کے ابتدائی فہم ومطالعہ کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ پھر اس حقیقت کو مدنظر رکھیں کہ وہ ایک دینی درسگاہ کے طلبہ اور طالبات ہیں اور ابتدائی عربی زبان (نثر ونظم) کے کئی اسباق نیز علم صرف، علم نحو اور دوسرے کئی ایسے مضامین کو پڑھ رہے ہیں جو عربی زبان کے فہم اور استعمال میں معاون اور خادم ہیں۔ اس لیے اب وہ قرآن کریم کے اسباق میں ابتدائی سطح کی آسان عربی زبان میں سوال وجواب اور دیگر ایسی مشقوں کو حل کرنے کی اچھی قدرت رکھتے ہیں، جو ان کی مزید علمی اور لسانی ترقی میں معاون بنیں گی۔ اس لیے اس مرحلے پر معلم قرآن کریم کی آیات کریمہ کے مضمون اور جملوں پر آسان عربی میں سوالات تیار کرے اور انہیں تختہ سیاہ پر لکھے۔ بچے انہیں سمجھیں اور پھر عربی میں ان کے جوابات بولیں۔ جہاں ضرورت ہو معلم ان کی مدد کرے۔ بعد میں بچے سوال وجواب کی ایسی مشقوں کو اپنی کاپیوں میں لکھیں گے اور معلم ان کی تصحیح کرے گا، جبکہ اس کورس کے تیسرے اور چوتھے سال میں طلبہ سبق کی مقررہ آیات کا عربی زبان میں مختصر خلاصہ بھی پیش کیا کریں گے۔

۲۔ سورہ فاتحہ کی تدریس کی مثال

اب میں اپنی معروضات کو مزید واضح کرنے کے لیے اس مجوزہ تدریسی خاکے کے مطابق سورہ فاتحہ کی تدریس کی مثال پیش کرتا ہوں۔

۱۔ شرح الکلمات: 

معلم سبق کے شروع میں سورہ فاتحہ کے الفاظ کی درج ذیل تشریح کو تختہ سیاہ پر لکھے گا جسے طلبہ آواز سے پڑھتے ہوئے اپنی کاپیوں میں لکھیں گے۔
أعوذ: میں پناہ مانگتا ہوں ۔ (عاذ یعوذ عوذا وعیاذا: پناہ مانگنا)
بااللہ :اللہ کی ۔ (مِنْ : سے)
الشیطان الرجیم: راندہ ہوا شیطان
بسم: نام سے (اصل میں باِسم تھا)
الرحمن: بہت زیادہ رحم کرنے والا ۔ (الذی یرحم کل شيء.)
الرحیم: سدا رحم کرنے والا ۔ (الذی یرحم دائما وأبدا.)
الحمد: سب تعریفیں ۔ (حمِد یَحمَد حمدا: تعریف کرنا)
رب: پروردگار، ج أرباب
العالَمین: جہانوں، م عالَم
یوم: دن، ج أیّام
الدِّین: بدلہ
إیاک: صرف تیری ہی
نعبُد: ہم عبادت کرتے ہیں ۔ (عبَد یعبُد عبادۃ: عبادت کرنا)
نستعینُ: ہم مدد مانگتے ہیں ۔ (استعان یستعین استعانۃ: مدد مانگنا)
اہدنا: آپ ہماری راہنمائی کریں ۔ (ہَدی یَہدِی ہُدًی: راہنمائی کرنا)
الصراط المستقیم: سیدھی راہ ۔ (وہو سبیل الأنبیاء والمرسلین)
أنعمتَ علیہم: جن پر تو نے انعام کیا ۔ (أنعمَ یُنعم إنعاما: انعام کرنا)
غیر: وہ لوگ نہیں
المغضوب علیہم: جن پر غضب ہوا
الضالین: گمراہ لوگ
آمین: قبول فرما

۲۔ ترجمۃ الآیات: 

پھر معلم جماعت کو اپنی مقامی زبان میں ترجمہ پڑھائے گا اور زیر تعلیم بچوں کے معیار کے مطابق اس کی تشریح کرے گا۔

۳۔ المناقشۃ

التمرین الاول: اب تیسرے مرحلے پر معلم تختہ سیاہ پر سورہ فاتحہ کے بارے میں عربی میں درج ذیل سوالات لکھے گا جنہیں طلبہ آواز سے پڑھتے ہوئے اپنی کاپیوں میں درج کرینگے:
۱۔ لمن الحمد؟ (الحمد لِلّہ)
۲۔ من رب العالمین؟
۳۔ من رب الإنسان؟
۴۔ من رب الحیوان؟
۵۔ من رب السماوات؟
۶۔ من رب الأرض؟
۷۔ من الرحمن؟
۸۔ من الذی یرحم کل شيء؟
۹۔ من الرحیم؟
۱۰۔ من الذی یرحم دائما وأبدا؟
۱۱۔ من نعبد؟
۱۲۔ من نستعین؟
۱۳۔ من یہدینا الصراط المستقیم؟
۱۴۔ من یجیب دعائنا؟
سوالات کی تحریر سے فراغت کے بعد معلم جماعت کو ان کے عربی میں جواب دینے کی مشق کرائے گا اور حسب ضرورت ان کی مدد بھی کرے گا۔ بعد میں بچے سوال وجواب کی اس مشق کو اپنی کاپیوں میں حل کرکے لائیں گے جنہیں معلم چیک کرکے ضروری تصحیح کرے گا۔
التمرین الثانی: اب معلم طلبہ سے کہے کہ وہ اپنی کاپیوں میں الحمد لِلّٰہ کی طرح کے عربی میں دس جملے لکھیں، مثلاً 
۱۔ الحمد لِلّٰہ
۲۔ التحیات لِلّٰہ
۳۔ الشکر لِلّٰہ
۴۔ الأرض لِلّٰہ 
وغیرہ۔
اگر معلم چاہے اور وقت کی گنجائش موجود ہو تو طلبہ کو کہے کہ وہ اوپر کی مشق میں اپنے تمام عربی جملوں کے ترتیب وار سوالات بنائیں اور ان کے سامنے جوابات لکھیں، مثلاً:
۱۔ لمن الحمد؟
۲۔ لمن التحیات؟
وغیرہ
آپ دیکھ رہے ہیں کہ الحمد للّٰہ ان آسان مشقوں کو حل کرتے ہوئے بچے قرآنی عربی زبان کے پچاس ساٹھ جملے بآسانی لکھ بول رہے ہیں۔

۳۔ بحث کے نتائج

۱۔ اس وقت اسلامی مدارس میں تعلیم قرآن کریم کا مروجہ طریقۂ تدریس (ترجمہ قرآن کریم) اس کی تعلیم وتدریس کے صرف چالیس فیصد (40%) مقاصد کو پورا کر رہا ہے جبکہ ساٹھ فیصد (60%) بنیادی مقاصد کو نظرانداز کرتا ہے، اس بنا پر ہمارے طلبہ اور طالبات کی تعلیم وتربیت کے کئی اہم گوشے تشنہ رہ جاتے ہیں۔
۲۔ قرآن کریم کی عربی زبان اور اسلوب بیان نہایت آسان اور پرکشش ہونے کے باوجود ہمارا طریقۂ تدریس اور معلمین زیر تعلیم بچوں کو ان کے عملی استعمال اور لکھنے بولنے کی تربیت نہیں دیتے، جس کے نتیجے میں وہ اپنی نوعمری میں اس نقص سے برا اثر لیتے ہوئے جمود کا شکار ہوجاتے ہیں۔
۳۔ اپنے طلبہ اور طالبات کی بہتر اور معیاری تعلیم وتربیت کیلئے اس ناقص طریقۂ تدریس کی فوری اصلاح کرتے ہوئے اسے جدید تعلیمی تجربات اور تحقیق کے مطابق از سر نو ترتیب دینا ضروری ہے۔
۴۔ اگر ہم اپنی درسگاہوں کے اس طریقۂ تدریس کی مناسب اصلاح اور ترقی کا اہتمام کرلیں تو ان کے طلبہ اور طالبات کی علمی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ان درسگاہوں کا مقام اور وقار بڑھے گا۔
۵۔ اور ان کے فضلا کے لیے اندرون وبیرون ملک مختلف میدانوں میں کام اور ترقی کے وسیع اور اچھے مواقع میسر ہوں گے، اور وہ چھ یا آٹھ سالہ تعلیمی کورس مکمل کرنے کے بعد نہیں، بلکہ صرف تین سالہ کورس کرنے کے بعد عربی زبان اور اسلامیات کے اچھے معلم بنیں گے، نیز وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے عرب دنیا کی کسی یونیورسٹی میں داخلے کے اہل ہوں گے، ان شاء اﷲ تعالیٰ. وہو الموفق والمستعان۔

۴۔ تقاضے اور ضروریات

قرآن کریم کی تعلیم وتدریس کو ترقی دینے کی اس تجویز پر اگر صدق دل اور محنت سے عمل کیا گیا تو یہ ان شاء اﷲ تعالیٰ ہماری عظیم اسلامی درسگاہوں کے نصاب تعلیم، طریقۂ تدریس اور مجموعی ماحول میں ایک مثبت اور تعمیری انقلاب کا ذریعہ بنے گی، اور ان کے اسلامی اور ملی کردار اور عظمت میں اضافہ ہوگا۔ اس لیے محترم علما اور مدرسین کو کتاب اللہ اور دوسرے علوم شرعیہ کی تدریس میں موجود اس دیرینہ نقص کا فوری ازالہ کرتے ہوئے اپنے طلبہ اور طالبات کی زیادہ معیاری تعلیم وتربیت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اس اصلاحی مہم میں ایسے حضرات کو زیادہ مؤثر کردا ادا کرنا چاہیے جو ان عظیم اسلامی درسگاہوں کے ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں، خصوصاً وہ حضرات جنہوں نے الجامعۃ الاسلامیۃ العالمیۃ اسلام آباد، الجامعۃ الاسلامیۃ مدینہ منورہ اور مکہ، ریاض یا قاہرہ وغیرہ کی دوسری یونیورسٹیوں اور اداروں سے کسب فیض کیا ہے۔ البتہ اس تجویز کے مناسب اور مؤثر نفاذ کے لیے دو چیزوں کی فوری ضرورت ہوگی:
(۱) قرآن کریم کی ایسی تدریس میں معلمین اور طلبہ وطالبات کی راہنمائی اور مدد کے لیے مناسب دلیل یا مرشد المعلم (teacher's guide) کی تیاری۔ الحمد لِلّٰہ، معہد اللغۃ العربیۃ میں اس کی تیاری اور تصنیف کئی سال سے جاری ہے۔
(۲) قرآن کریم کی اس نہج پر تعلیم وتدریس کی راہنمائی کے لیے معلمین اور معلمات کو کم از کم دو ہفتے کی تعلیمی تربیت دی جائے۔ یہ عملی تربیت وفاق کی سطح پر دی جاسکتی ہے۔ وفاق المدارس السلفیۃ نے گذشتہ ماہ فیصل آباد میں ۱۵۰ معلمین اور معلمات کی تربیت کا پہلا کورس مکمل کراتے ہوئے اس میدان میں پہل کردی ہے۔ ان عظیم مقاصد کی تکمیل کے لیے ایسے تربیتی کورسز کے انعقاد سے ہماری درسگاہوں کی بہتر تعمیر وترقی کے راستے کھلیں گے اور ان کے فضلا کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر زیادہ پذیرائی حاصل ہوگی۔ ان کورسز کے انعقاد کے لیے موجودہ حکومت اور جامعۃ الدول العربیۃ (عرب لیگ) سے مناسب مالی اور فنی امداد لی جاسکتی ہے، ان شاء اﷲ تعالیٰ۔

’’سرمایہ دارانہ یا سائنسی علمیت‘‘ پر ایک تنقیدی نظر

ڈاکٹر محمد شہباز منج

مئی ۲۰۰۸ء کے ’الشریعہ‘ میں محمد زاہد صدیق مغل صاحب کا مضمون ’’سرمایہ دارانہ یاسائنسی علمیت، ایک تعارف‘‘ مسئلہ زیربحث میں ایک خاص نقطہ نظرسے تدبر اور اس کے نتائج کو منظم ومرتب شکل میں پیش کر نے کے حوالے سے توقابل تحسین ہے، لیکن مضمون کے مندرجات مذکورہ حو الے سے صاحب مضمون کے فکری بے اعتدالی کا شکار ہو جانے کی واضح غمازی کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طرف وہ صاحبان فکر ہیں جو سائنس کو قرآن میں گھسیڑ کر سائنس کومسلمان بنانے یا قرآن کو سائنس کا منبع ثابت کرنے کی سعی کرتے ہیں اور دوسری طرف محترم مضمون نگا ر جیسے اہل علم ہیں جو سائنس کو شجر ممنوعہ ظاہر کر کے اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں، حالانکہ قرآن اور اسلام نہ عین سائنس ہیں اور نہ دشمن سائنس۔ اگر اول الذکر حضرات کا نتیجہ فکر غلط ہے توثانی الذکر افراد کا حاصل تدبر بھی ہرگز درست نہیں۔ 
فاضل مضمون نگار کے خیالات کاحاصل یہ ہے کہ سائنس دراصل علم ہے ہی نہیں، یہ وحی کے انکارپر مبنی سرگرمی اور جہالت خالصہ ہے۔ یہ آدمی کو آزاد و خودمختار فرض کرتی ہے اور اس کے پھیلاؤ کا لازمی نتیجہ معاشرے میں فواحش ومنکرات کا شیوع ہے۔ اہل سائنس پچھلے دورمیں جانے کو دقیانوسیت اور پتھر کے زمانے میں جانے سے تعبیر کرتے ہیں، جبکہ اہل حق مسلمانوں کے نزدیک مسلمانوں کی بہتری ہی پیچھے جانے میں ہے۔ اہل سائنس مثلاً راجر بیکن وغیرہ مذہبی معلومات کو جہل سے تعبیر کرتے ہیں، انہوں نے اپنے عہد میں بحری اور ہوائی جہازوں وغیرہ کی ایجاد سے متعلق ببانگ دہل دعوے کیے، حالانکہ اس زمانے میں ان چیزوں کے وجود میں آنے کا ابھی کوئی امکان ہی تھا۔ سائنس دانوں نے مذہبی علمیت کو جو اصلی علمیت تھی، رد کر کے ایسی علمیت رائج کرنے کی کوشش کی جس کا مقصد ومنتہا صرف اور صرف انسانی خواہشات کی تکمیل تھا۔ موجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو ایساعلم کہنا جو مسلسل تاریخی عمل کا نتیجہ ہے، یکسر غلط ہے۔ یہ دراصل سترہویں اور اٹھارویں صدی میں انسانی زندگی اور کائنات کے بارے میں انسان کے تصور حقیقت کی اس تبدیلی کی پیداوار ہے جو تحریک تنویر (enlightenment) کے نتیجے میں عام ہوئی۔ سائنسی اور مذہبی تصورات علم دو متضاد چیزیں ہیں جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ سائنس خالص دنیوی اور مادہ پرستانہ اغراض پر مبنی ہے جبکہ مذہب بالکلیہ اخروی فلاح وکامرانی کی جدوجہد سے عبارت ہے۔ مذہب کے نقطہ نظر سے سائنس سے کسی خیر کا برآمد ہونا تو درکنار، سائنسی علمیت کھڑی ہی مذہبی علمیت کے ملبے پر ہوتی ہے۔
ہمار ے نزدیک فاضل مضمون نگار کا نتیجہ فکر درست نہیں ہے۔ ان کایہ کہنا کہ موجودہ سائنس وٹیکنالوجی، جسے وہ سرمایہ دارانہ علم کانام دیتے ہیں، کسی مسلسل تاریخی عمل کے بجائے زندگی اور کائنات کے بارے میں انسان کے اس تصور حقیقت کی تبدیلی کانتیجہ ہے جو سترھویں اور اٹھارویں صدی کی پیداوار ہے، سراسر غلط ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سائنس ایک مسلسل تاریخی عمل کا ہی نتیجہ ہے۔ یہ باور نہیں کیاجاسکتا کہ تاریخ میں کسی خاص موڑ پر انسان نے یکایک زندگی اور کائنات کے بارے میں ایک خاص نقطہ نظر اپنا کر سائنس کی بنیاد رکھی اور پھر کچھ ہی عرصے بعد یہ اپنی موجودہ حیرت ناکیوں کے ساتھ سامنے آگئی۔ تاریخی حقائق موجودہ سائنس کو ایک تاریخی عمل کی پیداوار ثابت کرتے ہیں۔ سائنس نے تاریخ انسانی کے ارتقا کے ساتھ ساتھ ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ یہ بات تاریخ کی اس حقیقت پر نگاہ ڈالنے سے بآسانی سمجھ میں آجاتی ہے کہ بعد کے دور کی معلو مات اور ایجادات واختراعات پہلے دور کی معلومات اور ایجادات واختراعات سے بہتر اور اچھی ہیئت اور شکل میں سامنے آتی رہی ہیں۔ مضمون نگار کو یہ فکر لاحق ہے کہ اگر گزشتہ معلومات میں پیہم بہتری کے امکان کو تسلیم کر لیا گیا تو مختلف مسائل میں مذہب کے پیش کردہ حتمی تصورات خطرے میں پڑ جائیں گے، حالانکہ و ہ چیز حتمی ہی کیا جس کے انسانی غوروفکر کے نتیجے میں غیر حتمی ثابت ہوجانے کا اندیشہ ہو! دراصل مذہب کو سائنس سے کوئی خطرہ ہے اور نہ سائنس کو مذہب سے کوئی خوف۔ مذہب وسائنس اپنی اپنی نوعیت کے اعتبار سے باہم معاون تو ہو سکتے ہیں، مخالف اور دشمن نہیں۔ 
مذہب کے بارے میں اہل سائنس کے معاندانہ خیالات اور ریمارکس زندگی اور کائنات کے بارے میں ان کے بدلے ہوئے خیالات کے بجائے اہل کلیسا کے مسخ شدہ بائبل اور بائبل کی غلط تعبیرات کی بنیا دپر اختیار کردہ غیر علمی رویے اور جامد سوچ کا رد عمل تھے۔ گویا اہل سائنس کو مذہب اور خدا سے بیزار کرنے والا کوئی اور نہیں، خود اہل مذہب تھے۔ سائنس دانوں کو اگرچہ اصولاً عیسائیت سے اپنی بیزاری کو مطلقاً مذہب تک ممتد نہیں کرنا چاہیے تھا، لیکن چونکہ اس زمانے میں مغرب میں مذہب کی واحد نمائندہ صرف عیسائیت تھی اور اہل مغرب کا کسی ایسے مذہب کے بارے میں سوچنا قریب قریب ناممکن تھا جو عیسائیت جیسے علمی جمود وکج روی سے مبرا ہو، اس لیے ان کی عیسائیت بیزاری مذہب بیزاری پر منتج ہوئی۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اگر عیسائیت سائنس کی راہ روکنے کی کوشش نہ کرتی تو سائنس اور اہل سائنس اس کے کبھی دشمن نہ بنتے اور نتیجتاً سائنس اور مذہب میں کوئی مخاصمت نہ ہوتی۔ جب ز مام اقتدار کلیسا کے ہاتھ میں تھی تو مذہبی پیشواؤں نے مسخ شد ہ مذہب یا مذہب کی غلط تعبیرات کی بنا پر ان لوگوں کے خلاف سخت معاندانہ کارروائیاں کیں جو سائنس کی ترقی کے خواہاں تھے، یہاں تک کہ بعض اہل سائنس کوزندہ جلا دیا گیا۔ گلیلیو محض اس بنا پر مستوجب سزا قرار پایا کہ اس نے زمین کی گردش سے متعلق کوپرنیکس کے نظریے کو مان لیا تھا۔ پھر جب نشاۃ ثانیہ ہوئی تو سائنس دانوں نے بھی فطری طور پر شدید ردعمل ظاہر کیا اور اپنے سابقہ دشمنوں سے بدلہ لینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ چنانچہ ان کے نزدیک مذہب کی ہر چیز کو، خواہ اس کا سائنس سے نفیاً یا اثباتاً کسی بھی طرح سے کوئی تعلق نہ بنتا ہو، پاے حقارت سے ٹھکرانا ضروری قرار پایا اور یہ سلسلہ ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہا اور آج تک جاری ہے۔ 
یہاںیہ بات بھی قابل ذکرہے کہ مغرب کے بعض اہل علم نے جنہوں نے سائنس کے ساتھ ساتھ اسلام کاتفصیلی معروضی مطالعہ بھی کیا ہے، اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ رد عمل کی نفسیات کے شکار سائنس دانوں کا مطلقاً مذہب پر برسنا ایک انتہاپسندانہ رویہ ہے کیونکہ اسلام کواس مذہب کا ہرگز مصداق قرار نہیں دیا جا سکتا جس سے اہل سائنس کو دشمنی ہے۔ اس سلسلے میں The Bible, the Quran and Science کے مصنف مورس بکائے (Mauice Bucaille) کی مثال دی جا سکتی ہے۔ بکائی نے اپنی مذکورہ کتاب میں تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ مغرب میں مذہب اور سائنس میں جو حریفانہ کشاکش ہے، وہ درحقیقت سائنس اور یہودیت وعیسائیت کے مابین ہے۔ وہاں لوگ مذہب سے مراد یہودیت و عیسائیت ہی لیتے ہیں اور اس حوالے سے اسلام سے متعلق کم ہی سوچتے ہیں، کیونکہ اسلام کے بارے میں مغرب میں انتہائی غلط تصورات رائج ہیں، لیکن اگر اسلام کا صحیح اور معروضی مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مغرب کا سائنس اور مذہب کی مخاصمت کا تصور اسلام اور سائنس کے حوالے سے قطعاً غلط ہے۔ یہاں نہ صرف یہ کہ ان خرافات کا وجود تک نہیں، بلکہ الٹا سائنس کی ترقی اور اس سے ہم آہنگی وموافقت کے و سیع امکانات ہیں۔
سائنسی علمیت کو محض سرمایہ دارانہ یا خواہشات انسانی کی تکمیل کے لیے سرگرم ذہنیت کی پیداوار سمجھنا ایک بے بنیاد تصور ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بعض طبقات وافراد انسانی کے مذہب کو اپنے بعض مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بنا پر مذہب کو ان طبقات وافراد انسانی کی استحصالی ذہنیت کا شاخسانہ قرار دے دیا جائے۔ سائنس ایک علم ہے۔ اسے مختلف افراد اپنے اپنے اغراض ومقاصد اور ترجیحات کے تحت استعمال کر سکتے ہیں۔ تاریخ کے کسی موڑپر اگر سرمایہ دارانہ اور خواہشات انسانی کی تکمیل میں سرگرم ذہنیت نے سائنس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا اور عصر حاضر تک اسے تسلسل کے ساتھ استعمال کیے جا رہی ہے تو اس میں سائنس کا کیا قصور؟ اگرانسان اسے اپنے دینی وفلاحی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتا تووہ اس کے لیے بھی تیار تھی، اور حق یہ ہے کہ بہت سے صاحبان نظر نے اسے موخرالذکر مقصد کے لیے استعمال کیا بھی ہے اور آج تک کرتے آ رہے ہیں۔ یہاں ہم پھر مورس بکائی کی مثال دیں گے۔ موصوف نے اپنی مذکورہ کتاب میں جدیدسائنس کے ثابت شدہ حقائق سے قرآنی بیانات کے توافق یاعدم تخالف کوثابت کرکے جس طرح جدید تعلیم یافتہ افراد کی مذہب بیزار ذہنیت کو مضمحل کیا ہے، اس سے سائنس کا مذہب کے لیے مفید خدمات سرانجام دے سکنے کا تصور ایک حقیقت بن کر سامنے آ جاتا ہے۔ بنابریں سائنس صرف ایک علمیت ہے جسے سرمایہ دارانہ کہنا ایسے ہی ہے جیسے اسے مذہبی علمیت کہا جائے۔ اگر بالفرض یہ مان لیاجائے کہ سائنس کی تمام تحقیقات انسانی خواہشات اور سرمایہ دارانہ مقاصد کی تکمیل کی غرض سے کی جاتی ہیں تو بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ اس نہج پرہونے والی تحقیقات کے نتائج آدمی کو ہر حال میں مادہ پرست اور خواہشات کا بندہ ہی بنائیں گے۔ سائنس کے میدان میں داد تحقیق دینے والے بہت سے بے خدا ایسے ہوں گے جنہیں ان کی تحقیقات کے نتائج نے باخدا بنا دیا۔
مضمون نگار کا خیال ہے کہ مذہبی اور سائنسی علمیت ایک دوسرے کی ضد ہیں جن کا کسی ایک ہی معاشرے میں برا بر پھیلنا محال ہے۔ اس سلسلہ میں وہ راجر بیکن کے ان خیالات کاحوالہ دیتے ہیں جو اس نے عیسائی علمیت کے مقابل پیش کیے تھے۔ یہ امر باعث تعجب ہے کہ مضمون نگار نے مذہب اور سائنس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہیں بھی اسلام اور عیسائیت میں فرق نہیں کیا، حالانکہ جیسے اوپر ذکر کیا گیا، خود نامور مغربی اہل قلم اس ضمن میں اسلام اور عیسائیت میں واضح فرق کرتے ہیں اور سائنسی علمیت کے مقابلہ میں عیسائی علمیت کا دفاع کرنے میں خود عیسائی اہل مذہب بھی بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ موصوف کے خیال میں عیسائی علمیت کو لوگوں کی نظروں میں حقیر ہو جانا سائنسی علمیت کے جھوٹے پروپیگنڈے کا نتیجہ تھا، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور وہ یہ کہ عیسائیت میں اتنا دم خم ہی نہ تھا کہ وہ سائنسی علمیت کے شائع ہو جانے کے بعد اپنی حیثیت برقرار رکھ سکتی۔ جہاں تک مذکورہ حوالے سے سائنسی اور اسلامی علمیتوں کا سوال ہے تو یہاں معارضے اور مقابلے کو کبھی حریفانہ نقطہ نگاہ سے دیکھا ہی نہیں گیا بلکہ عیسائیت کے بالکل برعکس سائنسی علمیت کی ترقی کو مہمیز ملی۔ 
جس زمانہ میں عیسائی دنیا میں سائنسی ترقی پر بابندیاں عائد تھیں، اسلامی جامعات میں سائنس کے حوالے سے آزادانہ تحقیق ومطالعہ جاری تھا اور سائنس ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے بین الاقوامی صورت اختیار کررہی تھی، اس دور میں یورپ کے لوگ اسلامی جامعات میں تحصیل علم کے لیے اسی طرح کھنچے چلے آتے تھے جس طرح آج کل ہم مسلمان یورپ اور امریکہ جاتے ہیں۔ فاضل مضمون نگار سائنسی علمیت کو مذہبی علمیت کی ضدبتا رہے ہیں جبکہ مسلم معاشروں میں سائنسی اور مذہبی علمیتیں واضح طور پر توام دکھائی دیتی ہیں۔ نامور مورخ رینان(Renan) کے مطابق قرطبہ کی مسجدیں، جہاں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ تعلیم پاتے تھے، سائنسی مطالعات کا مرکز تھیں۔ مسجد میں، جو مذہبی تعلیم کا مرکز ہے، سائنسی مطالعات اس حقیقت کا ناقابل تردید ثبوت ہیں کہ مسلم معاشروں میں مذہبی وسائنسی علمیت کو کبھی ایک دوسرے کی ضد نہیں سمجھا گیا۔ اگر سائنسی علمیت اسلامی علمیت سے متعارض یا اس سے کوئی دور کی چیز ہوتی تو مسلم خلفا کو،جو اس زمانے کے مقتدر ترین حکمران تھے، اور باوقار علما ومدرسین کو کس نے مجبور کیا تھا کہ وہ اپنی جامعات اور مساجد میں ایک ایسی علمیت کو پوری تن دہی سے پروان چڑھائیں جو ان کی اپنی علمیت سے معارض یااس کے لیے نقصان دہ تھی۔ 
مضمون نگار کا خیال ہے کہ مسلمانوں میں سائنسی تحقیقات کے پیچھے پڑنے والے لوگوں کومعاشرے میں کوئی اونچا مقام حاصل نہیں ہوتاتھا بلکہ امام اور علامہ جیسے الفاظ صرف اسلامی علوم کے ماہرین کے لیے استعمال ہوتے تھے، لیکن موصوف کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس دورکے اسلامی علوم کے ماہرین صرف نماز روزے یا فقہی مسائل سے متعلق علم کے ماہر نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ ان علوم کے ساتھ ساتھ طب، فلسفہ، ہیئت اور طبیعیات وغیرہ علوم کے بھی ماہر ہوتے تھے۔ ا بن باجہ، ابن رشد اور ابن خلدون وغیرہ اسی قبیل کے علما تھے جو معروف دینی علوم کے علاوہ سائنسی، عقلی اور عمرانی علوم کے بھی ماہر تھے۔ کیاان حضرات کے ناموں کے ساتھ امام اور علامہ کے باوقار الفاظ لگے ہوئے ہونے یا اسلامی معاشرہ میں ان کے اعلیٰ مقام ومرتبے میں کسی کو شک ہے؟
قرآ ن اور صاحب قرآن کے فیضان سے علم وعمل اور تہذیب وتمدن سے عاری وناآشنا عرب بادیہ نشیں اور گلہ بان دیکھتے ہی دیکھتے علم وعمل اور تہذیب وتمدن کے اعتبار سے دنیاکے امام بن گئے۔ مشہور مصنف جانسن (Johnson) کے بقول قرآن ایک ایسی پکارتھی جو عالمگیر معنی کی حا مل ہے۔ اس نے اپنے خاص مخاطبوں میں کائنات کی تسخیر کاولولہ پیدا کیا اور پھر ایک تعمیری قوت بن گئی تاکہ اس کے ذریعے یونان اور ایشیا کی ساری تخلیقی روشنی عیسوی یورپ کی گہری تاریکی کا پردہ چاک کر کے اس کے اندر داخل ہو جائے کیونکہ عیسائیت اس وقت رات کی ملکہ تھی۔ سائنسی عمل اگرچہ قدیم تہذیبوں میں بھی جاری رہا، مگراس سلسلہ میں بقول چارلس سنگر یونانیوں سے ابتدا اس لیے کی جاتی ہے کہ ان کی سائنسی جستجو کا ہمارے پاس باقاعدہ ریکارڈ ہے۔ یونانی سلطنت تہہ وبالا ہوئی اور عیسائیت کو غلبہ حاصل ہوا تو یونانی علوم کی تعلیم ممنوع قرار پائی تھی۔ یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے اسلام کے عطا کیے ہوئے علم کی روشنی میں نہ صرف یونانی علوم سے استفادے کی راہیں ہموار کیں بلکہ ان میں اصلاحاتی ترامیم اور اضافے کر کے انہیں اگلی نسلوں کو منتقل کیا۔ اگر سائنس سے متعلق اسلام کا مزاج عیسائیت جیسا ہی ہوتا تو مسلمان بھی سائنس سے متعلق وہی رویہ اختیار کرتے جواہل کلیسا نے اختیار کیا تھا۔ یہ حقائق جہاں اس تصور کی نفی کرتے ہیں کہ سائنسی علمیت سترھویں اور اٹھارویں صد ی میں آدمی کے بدلے ہوئے تصور علم کی پیداوار ہے، وہاں اس تصور کی بھی واضح تردید کر رہے ہیں کہ ایک مذہبی معاشرے میں سائنسی علمیت برگ وبار نہیں لاسکتی۔ کجا یہ تخیل کہ دنیا میں سائنسی علمیت اور اس کا نفوذ مغرب کی مادہ پرستانہ ذہنیت کی فسوں کاری ہے اور کجا یہ حقیقت کہ اہل مغرب کو سائنسی علمیت ملی ہی اسلام اور اہل اسلام کے واسطے سے ہے۔
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ سازکرے 
فاضل مضمون نگار نے سائنس کی مخالفت میں اس روایت کا تذکرہ بھی کیاہے جس کے مطا بق مسلمانوں کا سب سے اچھا دورعہد نبوی، عہد صحابہ اور عہد سلف صالحین ہے اور اس کے بعد آنے والا ہر دور مسلمانوں کے لیے برا ہے اور اس سے استدلال کرتے ہوئے وہ اس نتیجے کی تحسین کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو آگے کی بجائے پیچھے کی طرف دیکھنا چاہیے، لیکن مذکورہ روایت اور اس سے اخذ کردہ نتیجے کا سائنس کی مخالفت میں پیش کیا جانا ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص اس مشہور روایت کو جس کے مطابق ’’وہ مسلمان تباہ وبرباد ہو گیاجس کا آج اس کے کل سے بہتر نہیں‘‘ سائنس کی حمایت میں پیش کرے اور اس سے یہ نتیجہ نکالے کہ مسلمانوں کو پیچھے کے بجائے آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ دونوں روایتیں مسلمانوں کو اپنی اخلاقی حالت بہتر سے بہتر بنانے کی ترغیب دے رہی ہیں اور سائنس کی حمایت یا مخالفت سے ان کا نفیاً یا اثباتاً کوئی علاقہ ہی نہیں۔ لوگ نیکی وتقویٰ کے اعتبارسے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا نمو نہ پیش کرنے لگیں تواس کے مطلوب اور قابل ستائش وتحسین ہونے میں کسی مسلمان کو کوئی کلام نہیں ہو سکتا، لیکن اگر اس سے مراد یہ ہے کہ لوگ گاڑیوں اور ہوائی جہازو ں کی بجائے گدھوں اور اونٹوں پر سفر کریں، میدان کارزار میں جنگی جہازوں اور بموں کی بجائے گھوڑوں اور تلواروں پر انحصار کریں تو اس کے نامحمود وقابل مذمت ہونے میں بھی کسی باشعور مسلمان کو کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔ نہ یہ ضروری ہے کہ سائنسی علمیت کے ثمرات سے تمتع آدمی کو خدا اور رسول کی بتائی ہوئی اخلاقیات سے بیزار ہی کرے گا، اور نہ یہ لازم ہے کہ سائنسی علمیت کے ثمرات سے عدم تمتع آدمی کونیکی وتقویٰ کے اعلیٰ مقام پرفائز کر دے گا۔ اگرآپ اسلامی اخلاقیات کالحاظ رکھیں تو اسلام کو اس سے کچھ سروکار نہیں کہ آپ ہوائی جہازوں پر سفر کرتے ہیں یا اونٹوں اور خچروں پر۔ یہی نہیں بلکہ جدید دور میں اکثر صورتوں میں تو آپ جدید سہولیات سے صرف نظر کر کے مذہبی حوالے سے سخت خسارے کا سودا کریں گے۔ مثال کے طور پر آپ کا دشمن ایٹم بموں سے لیس آپ کے سامنے ہواور آپ اپنے آبا کی پیروی میں تلواریں لیے مقابلے کو نکلیں تو نتیجہ زیادہ غور وفکر کا محتاج نہیں۔
غالب گمان یہ ہے کہ فاضل مضمون نگار بھی سائنسی ترقی کے ان بیش قیمت ثمرات کو برا نہیں سمجھتے ہوں گے جن سے ہم آج کل اپنی روزمرہ زندگی میں نہ صرف متمتع ہوتے ہیں بلکہ ان میں سے بہت سی چیزیں ہماری زندگی کا لاز می حصہ بن چکی ہیں۔ اگریہ گمان حقیقت ہے تویہ امر انتہائی حیرا ن کن ہے کہ ایک علمیت کے مثبت ثمرات سے آدمی نہ صرف فائدہ اٹھائے بلکہ ان کی طرف لپک لپک کر جائے اور اسی علمیت سے برآمد ہونے والے بعض منفی ثمرات کو بنیاد بنا کر اس علمیت کے علمیت ہونے ہی کا انکار کر ڈالے اور اسے سرمایہ دارانہ ومادہ پرستانہ ذہنیت ہونے کاشاخسانہ قراردے دے۔ حالانکہ سائنس سے خیر یا شر برآمدہونے اور اس کے ثمرات کے مثبت ومنفی استعمال کا انحصار انسان پر ہے، لہٰذا اسے فی نفسہ برائی سمجھنا قطعی غیر متوازن سوچ کا مظہر ہے۔ 
فاضل مضمون نگار نے راجر بیکن کے خیالات کو اس کے مذہب دشمن تصورات کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ وہ لوگوں سے کہتا تھا کہ بحری سفروں کے لیے ایسی مشینیں بنانا ممکن ہے جسے صرف ایک آدمی اس کشتی کی رفتار سے کئی گنا تیز چلا سکتا ہوگا جسے کئی ملاح مل کر چلاتے ہیں، بغیر ڈھور ڈنگر کے چلنے والی ایسی سواریاں بنانا ممکن ہے جو پرانے دور کی تیز ترین سواریوں سے تیز چلتی ہوں گی، اور ہوا میں اڑنے والی ایسی مشینیں بنانا بھی ممکن ہے جس میں انسان بیٹھ سکتا ہو اور وہ مشین بالکل پرندوں کی طرح پر ہلا کر چلتی ہو، لیکن بیکن کی مذہبیت کے اعتبار وعدم اعتبار کی بحث سے قطع نظر مستقبل میں امکانی سائنسی ترقی سے متعلق اس کے مذکورہ خیالات کو مذہب مخالف کہنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی مذہبی آدمی آج کے کسی سائنس دان کے مستقبل میں امکانی سائنسی ترقی سے متعلق اس طرح کے خیالات کو مذہب مخالف قرار دے دے کہ آئندہ انسان کا چاند اور مریخ کے علاوہ دیگر سیاروں پرقدم رکھنا ممکن ہے یا اس بات کاامکان ہے کہ آدمی زمین کے علاوہ دیگر سیاروں پر رہائشی کالونیاں بنا لے، یا یہ بھی ممکن ہے کہ مستقبل میں چاند اور زمین کے درمیان باقاعدہ آمد ورفت شروع ہو جائے ، یا ممکن ہے زمین کے علاوہ دیگر سیاروں پر بھی زندگی کا وجود مل جائے یا ہو سکتاہے کہ بچوں کو ماؤں کے رحموں کی بجائے لیبارٹریوں کے اندر پروان چڑھانے کا سلسلہ شروع ہو جائے، وغیرہ وغیرہ۔ بیکن کے مذکورہ خیالات آج حقائق ہیں لیکن کوئی بھی ان حقائق کو کسی مذہبی حقیقت سے متصادم قرار نہیں دیتا جس کا واضح مطلب یہ نکلتا ہے کہ اس زمانے میں ان خیالات و مفروضات کو خلاف مذہب وحقانیت کہنے والے خود مذہب وحقانیت کی مخالفت کر رہے تھے۔ ایسے ہی وہ مفروضات جن کاہم نے اوپر ذکرکیا، اگر کل کلاں کو حقائق کی صورت میں سامنے آجاتے ہیں تو وہ کسی طور پر مذہبی حقائق سے متصادم نہیں ہوں گے اور اگر آج ہم ان مفروضات کو مذہب کے لیے خطرہ قرار دے کر ان کے خلاف شروع واویلا کر دیں تو عین ممکن ہے کہ کل کے اہل مذہب، مذہب سے متعلق ہماری اس جہالت زدہ ذہنیت پر ہنسیں اور ہمیں سائنسی علمیت کی راہ روکنے کی کوشش کاملزم قرار دے دیں۔
واقعہ یہ ہے کہ سائنس جیسے چاہے مفروضات قائم کرلے، ان میں سے جومفروضات بھی حقائق بن کر سامنے آئیں گے، وہ مذہبی حقائق یاحقیقی مذہبی بیانات کی صحیح تعبیر سے متصادم نہیں ہوسکتے۔ ہاں یہ ہوسکتاہے کہ سائنسی مشاہدے میں آنے والا کوئی امرکسی حقیقی مذہبی بیان یا بیانات کی روایتی تعبیر سے مختلف ہو۔ اس صورت میں مذہبی بیانات کی ایسی تعبیر ہوگی جو ثابت شدہ سائنسی حقیقت سے ہم آہنگ ہو اور دراصل وہی صحیح تعبیر بھی ہوگی۔ مثال کے طورپر ہماری پرانی تفسیروں میں عام طور پر قرآنی بیانات کی روشنی میں زمین کو ساکن تصور کیا گیا ہے، لیکن جدید دورمیں جب کہ زمین کی حرکت مشاہدہ میں آچکی ہے، پرانی تعبیر پر اصرار کرنا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہوگا، چنانچہ بہت سے جدید اہل تفسیر نے ا ن قرآنی بیانات کا مفہوم اس حقیقت کی رو شنی میں متعین کیا ہے اور آج لوگ اصرار کرتے ہیں کہ قرآن سے سکون زمین پر دلائل لانا غلط طرز فکر تھا، کیونکہ قرآنی الفاظ میں تو سکون کی بجائے حرکت کی طرف واضح اشارے موجود ہیں۔ سائنس کے غیر حتمیت کے حامل طرز فکر پر اعتراض کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ اگر مذہبی تعبیرات کی پیروی میں سائنس دان بھی سکون زمین کے تصور کو حتمی سمجھ لیتے تو حرکت زمین کاثبوت کبھی بھی نہ ملتا، اور انسانیت ایک حتمی سچ تک پہنچنے میں ناکام رہتی۔
اس سلسلے میں ایک اورحقیقت یہ بھی ہے کہ اہل مذہب کے ہاں ایسے مسلمہ حقائق یاحقیقی مذہبی بیانات جن کی کوئی دوسری تعبیر ممکن نہیں، ان سے متعلق اگر سائنس دان کسی طرح کے مفروضات قائم کرتے ہیں تو بھی اہل مذہب کوخوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ایسے مفروضات کبھی حقیقت بن ہی نہیں سکتے۔ البتہ یہ امکان موجود ہوگاکہ ایسے مفروضات کی بنیاد پر تحقیق کرنے والے ایک دن اس سچ تک پہنچ جائیں جو اہل مذہب کے ہاں شروع سے مسلمہ تھا۔ مثلاً اہل مذہب یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا موجود ہے اور کائنات اس کی تخلیق ہے، لیکن سیکولرذہن کے سائنس دان یہ مفروضہ قائم کرتے ہیں کہ خدا کوئی نہیں اور یہ کائنات علت ومعلول کے چند اصولوں کی مدد سے سمجھی جا سکتی ہے۔ ا ب اہل مذہب یہ تونہیں کرسکتے کہ سیکولر ذہن کے ان سائنس دانوں کواپنے مفروضہ کی بنا پر غوروفکر سے روک دیں، ہاں اہل مذہب اپنے انداز میں اپنے عقیدے کے حق میں دلائل دیتے جائیں گے ،اور اہل سائنس سے صرف نظر کریں گے تاکہ آنکہ سائنس دان اس حقیقت کو پالیں کہ کائنات بے خدانہیں۔ اس صور ت میں سائنس دانوں کی تحقیقات بالآخر مذہبی حقیقت سے موافق ہو جائیں گے اور وہ اس حقیقت کومان لیں گے جس کو وہ محض مذہبی لوگوں کے کہنے پر کبھی نہ مانتے۔ یوں بھی سائنس اپنی آخری تحقیق میں مذہب کی معاون ٹھہرے گی۔ مختصریہ کہ اپنی اپنی نفسیات میں مذہب اور سائنس میں کوئی تضاد پایا ہی نہیں جا سکتا۔ ظنیا ت میں البتہ دونوں میں اختلاف ہو سکتا ہے، مگریہاں بھی کبھی ظن کے یقین میں بدلنے کی صورت میں دونوں اکٹھے ہو جائیں گے اور جو بھی ظن، یقین بنے گا، وہ ایک کا نہیں، دونوں کا یقین ہوگا۔
زاہد صدیق مغل صاحب نے اپنے زیربحث مضمون میں سائنس کے حوالے سے جس فکر کی نمائندگی کی ہے، اس سے ایک ایسے جمود کی بو آتی ہے جس کے ڈانڈے قرون وسطیٰ کے سائنس دانوں کے حریف اہل کلیسا کے فکری جمود سے جا ملتے ہیں۔ فکری جمود کے ضمن میں مذکورہ تشبیہ نرم تر ہے کیوں کہ اس دور کے اہل مذہب کے لیے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے حریفوں کے پیش کردہ حقائق پر نہیں بلکہ محض قیاسات وگما نات پر شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ نیز ان کے پاس ان کا مذہب اپنی حقیقی شکل میں موجود نہیں تھا، لیکن ہمارے دوستوں نے تونہ صرف ان بہت سے تصورات کوحقائق بنے ہوئے دیکھاہے جن کو قدیم لوگ وہم وگمان سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہ تھے، بلکہ ان لاتعداد خیالات کواپنی آنکھوں سے واقعات کی شکل میں ڈھلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں جن کو سو دو سو سال قبل یار لوگ اپنی محفلوں میں دیوانے کے خوا ب سے تعبیر کر کے بحث وگفتگو کارخ دوسری طرف موڑ دیا کرتے تھے۔ اس پرمستزاد یہ کہ ہمارے ممدوحوں کا مذہب بھی اپنی حقیقی واصلی شکل میں موجود ہے۔ 
مقام حیرت ہے کہ ’کل یوم ھوفی شان‘ (الرحمن ۲۹) کی شان والے پر ایمان رکھنے والے اس تغیر پذیر کائنات میں ٹھہراؤ کے خواہاں ہیں اور خدا کی عطاکردہ فہم وفراست کے مسلسل استعمال کے ذریعے انسان کی خدمت کی خاطر رواں دواں علمیت کو، جو کسی خاص قوم وملت کی بجائے انسانیت کی میراث ہے، جاہلی اور مادہ پرستانہ علمیت ثا بت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کاش دوسروں کوسکون وثبات کی طرف مائل کرنے والے اسے فریب نظر سمجھ کر کائنات کے ذرے ذرے کی طرح خود بھی تڑپنے لگیں۔ دعا ہے !
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے 
کہ تیرے بحرکی موجوں میں اضطراب نہیں 

مکاتیب

ادارہ

(۱)
لندن ۔ ۲۴ مئی ۲۰۰۸ء
بخدمت محترم مولانا زاہد الراشدی زید مجدہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ملاقات بڑی مختصر رہی۔ میں اچھا ہوتا تو خود آپ کی قیام گاہ پر آتا، تب زیادہ موقع مل جاتا۔تاہم آپ جو کتب خانہ عنایت فرماگئے، اس نے خاصی تلافی کر دی۔ اگرچہ واقعہ یہ بھی ہے کہ میں کتابوں کا اتنا بڑابنڈل دیکھ کے گھبرایا تھا۔ کوئی اور ہوتا تو معذرت کردیتا کہ بھائی میں آج کل اس حال میں نہیں ہوں، اخبار ہی پڑھنا مشکل ہو رہا ہے۔ مگر طبیعت میں ذرا سا فرق آیا تو پرسوں وقت گزاری کے خیال سے سوچا کہ آپ کابنڈل کھولوں، شاید کوئی ہلکی پھلکی چیز نکل آئے اور کچھ وقت اچھا کٹ جائے۔ سب سے ہلکی کتاب جامعہ حفصہ نظر آئی۔ اور اللہ جزائے خیر دے، حسبِ مطلب نکلی۔ تھوڑی تھوڑی کرکے کئی دن میں پڑھی۔ آپ کی جتنی قدر اب تک تھی، اور وہ بھی کچھ کم نہ تھی، اس چھوٹی سی کتاب نے اس میں اور بڑا اضافہ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کی بڑی تعداد میں اشاعت ہونی چاہیے۔ ذہن و فکر کو متوازن کرنے میں(ِ جو ہماری بڑی اہم ضرورت ہے) یہ بقامت کہتر ہونے کے باوجود بہت معاون ہو سکتی ہے۔ اور اس سے یہ جان کر تو اور ہی خوشی ہوئی ہے کہ وہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ا س طرح سوچ سکتے ہیں اور اس کے اظہار کی جرأت رکھتے ہیں، جیسا کہ ایک صاحب نے آ پ سے سوال کیا کہ’’جب صدر مشرف نے مصالحتی فارمولا مسترد کردیا تھا تو بظاہر گفتگو اس نکتے پر منقطع ہوئی کہ مولانا عبد الرشید غازی شہید گرفتاری دینے کے لیے تیار نہیں تھے اور حکومت انھیں ہر صورت میں گرفتار کرنا چاہتی تھی .... اور (یہ کہ)وہ اگر اپنی گرفتاری کے لیے تیار ہو جاتے توحکومت کے لیے اس آپریشن کا کوئی جواز باقی نہ رہ جاتا اور اتنی جانیں اس سانحے کی نذر نہ ہوتیں۔‘‘ نیز ان صاحب کا یہ کہنا بھی آپ نے آگے نقل کیا ہے کہ’’اگر مولانا عبد الرشید غازی گرفتاری دے دیتے تو کیا ہو جاتا؟ ان کے بھائی بھی تو گرفتار تھے۔‘‘ (صفحہ۸۹؍۹۹) بہرحال یہ پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ آپ حضرات سے تعلق والے لوگوں میں بھی ایسی سوچ کے لوگ موجود تھے، جو واقعہ میں ایک حقیقت پسندانہ سوچ ہے۔
مگر اس کے آگے جب اگلی سطر میں اس سوال کے جواب میں آپ کا یہ فرمانا دیکھتاہوں کہ ’’میں دیانت داری سے عرض کرتا ہوں کہ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا اور میں نے بڑی مشکل کے ساتھ گول مول جواب دے کر انھیں چُپ کرایا‘‘ تو خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھئے! کامخمصہ بنتا ہے۔اے کاش کہ گول مول جواب سے ان صاحب کو چپ کرانے کے بجائے’’ دیانت داری‘‘ کے تقاضے والا جواب آپ کی طرف سے دیا گیا ان سطروں میں پایا ہوتا تو اپنی خوشی حسرت آمیز ہوکے نہ رہ جاتی، اور شاید لال مسجد کے حوالے سے میرے مضمون مجریہ الشریعہ(غالباً اکتوبر ۷۰۰۲)سے لوگوں کو یہ شکایت نہ ہوتی کہ دور بیٹھیے لوگ ہی اس طرح کی بات کرسکتے ہیں۔ میں نے تو پھر بھی آپ کے یہاں کا حال دیکھ کر اپنے آپ کو بہت مجبور پایا تھا کہ عام جذبات کی بھی رعایت رکھوں، ورنہ بات ازراہِ دیانت داری صرف اسی پر نہیں رکتی ہے کہ جامعہ حفصہ کے المیے کی اوّلین ذمہ داری غازی عبدالرشید صاحب پر جاتی ہے (اللہ ان کی مغفرت کرے) بلکہ ذہن میں یہ سوال اٹھے بغیر بھی نہیں رہتا کہ دین کے ایک ایسے شیدائی اور نفاذِ شریعتِ کے ایسے علمبردار کے لیے یہ ممکن کیونکر ہوا کہ وہ اپنی شرط کی خاطر ہزاروں لڑکیوں کی جان کو صاف نظر آنے والے خطرے میں ڈٖال دے؟ کیسے نہیں ان کو اپنی اس شرعی ذمہ داری کا خیال آیا کہ کُلُّکُم راعِِ وَکُلُّکُم مَسؤلُٗ عَن رِعیّتِہٖ (حدیثِ نبوی)؟
یقیناًکوئی چیز ہونی چاہیے جو مرحوم کو اپنی اس کھلی شرعی ذمہ داری کو پسِ پشت ڈالنے پر آمادہ یا مجبور کر ہی ہو۔وہ کیا چیز تھی؟ یہ عقدہ شاید حل ہوجاتا اگر آپ حضرات(اصحابِ مذاکرات )نے مرحوم کے اس آخری جواب پر کہ ’’پھر ٹھیک ہے ان سے کہیں ہمارا قتلِ عام کریں۔ قیامت کے دن میں آپ سب حضرات سے اس کے بارے میں بات کرلوں گا‘‘ انھیں متنبہ کیاہوتا کہ برادرم کیا اس طریقہ سے تم کُلُّکم راعِ کی نبوی آگاہی کی خلاف و رزی نہیں کر رہے ہو؟، اور جب تمھیں اپنی ’’رعیّت‘‘ کی پرواہ نہیں تو جنرل مشرف سے کیا امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کوئی پرواہ کریں گے؟ بہر حال اللہ مغفرت کرے۔ 
(مولانا) عتیق الرحمن سنبھلی 
(۲)
۲۶/۴/۱۴۲۹ھ
مکرمی ومحترمی جناب ابو عمار زاہد راشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ ملا۔ اس میں ترکی میں احادیث شریفہ کی ترتیب جدید کی خبر کے حوالے سے ترکی کی وزارت اوقاف کو مناسب علمی مشورہ دینے کی تجویز ہے۔ یہ تجویز مناسب ہے۔ اس کے سلسلے میں ہمارے یہاں سے جو ہو سکے گا، ان شاء اللہ اس کی کوشش کی جائے گی۔
امید ہے مزاج بخیر ہوگا۔ دین وملت کے فروغ اور رہنمائی کے سلسلے میں آپ جو کر رہے ہیں، اس کی خبر مجھے ملتی رہتی ہے جس کی میرے دل میں بڑی قدر ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین
(مولانا) محمد رابع حسنی ندوی
مہتمم دار العلوم ندوۃ العلما لکھنؤ
(۳)
مکرمی وعزیزی جناب مولانا محمد عمار صاحب زیدمجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
امید ہے کہ مزا ج گرامی بعافیت ہوں گے۔ دیگر اپریل کے ’’الشریعہ ‘‘ میں آنجناب کا مضمون بعنوان ’’ز نا کی سزا‘‘ نظر سے گزرا۔ ماشاء اللہ کیا زور قلم ہے، قاری کو ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ خطابت وطلاقت لسانی کو سحرکہا گیا ہے۔ اسی طرح قلم کا سحر اس سے کم نہیں ہوتا۔ یہ دونوں اللہ کی عظیم نعمت ہیں۔ اگر خطیب یا اہل قلم صحیح موقف (جمہور کے دائرے یا دھارے) پر نہ ہو تو لوگوں کے لیے بڑی آزمائش بنتا ہے۔ 
آنجناب نے ’’رجم‘‘ پر اس قدر محققانہ مضمون لکھنے کی زحمت کی۔ خاطر جمع رکھیں، پاکستان میں کہیں رجم ہونے نہیں جا رہا۔ جب حدود آرڈیننس موجود تھا، تب بھی نہیں ہو سکا۔ ا ب تو حدود آرڈیننس کا خاتمہ بالخیرہو چکا ہے۔ ملائیشیا اور نائجیریا کے بعض صوبوں میں لوگ شریعت کے نفاذ کے ولولہ کے ساتھ اٹھے تھے، وہاں بھی نہ ہو سکا۔ دعا کریں سپرپاور کا استقبال سلامت رہے تورجم کے مسئلہ پر فکر مند یا پریشان ہو نے کی ضرورت نہیں۔ چند سال پہلے یہاں ( برطانیہ) کے وزیر خارجہ نے کہا تھا: ہم (مغرب) دنیا بھر میں تین باتیں کبھی نہیں ہونے دیں گے۔ (۱) خلافت کا احیا (۲) شریعت کا نفاذ (۳)عورت کے مسئلہ پر ادنیٰ لچک۔ 
علما انبیا کے وارث ہیں۔ کوئی کام کرنے سے پہلے اتنا استحضار کر لیا کریں کہ اگر آج اصل (نبی) ہوتے تو اپنی توانائیاں کہاں خرچ کرتے یا کس کام کو اختیار فرماتے تو بہت سی آزمائش سے بچ جائیں۔ انبیا کا بنیادی کام لوگوں تک ایمان پہنچانے کے ساتھ وقت کے اربا ب وخداؤں (کفر کے طاغوت) کے چنگل سے غریب عوام کو نجات دلانا بھی ہوتا تھا۔ مغربی استعمار پوری انسانیت کے ساتھ کس قدر بھیانک منصوبہ رکھتا ہے؟ گزشتہ سالوں میں بے شمار تحقیقات مسلسل سامنے آرہی ہیں جیسے کیلی فورنیا کے سوشیالوجی کے پروفیسر مائیکل مین کی بے شمار تحقیقات۔ کاش کہ ہمارے ذہین وفطین حضرات کسی ایسے موضوع پر توجہ مرکوز کرتے۔ بندہ کے نزدیک موجودہ دور کا اہم ترین فتنہ ہمارے ذہین وفطین حضرات کا دین کی اپنی پیش کردہ تعبیرات پر ضرورت سے زیادہ اعتماد واصرار ہے۔ اس مشغلہ کا کچھ حاصل نہیں۔ تاریخ میں اچھے اچھے ذہین وفطین وذکی حضرات اپنی اپنی تعبیر وفکر کے بلبلے اٹھا اٹھا کر غائب ہوتے رہے ہیں، جیسے مولانا قمر عثمانی صاحب توکل کی بات ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ عہد بنی عباس میں تقریباً ڈیڑھ سو سال تک قلم و تلوار کے دھنی معتزلہ تھے۔ کہاں گئیں ان کی علمی وعقلی تحقیقات؟ 
مئی کے تازہ شمارے میں ’’بجلی کے بحران‘‘ کے موضوع پر مضمون دیکھ کر حیرانی ہوئی۔ یہ موضوع قومی اخبارات کا ہے نہ کہ علمی وفکری رسالہ کا۔ مولا نا راشدی صاحب کا دورۂ برطانیہ نہایت کامیاب و عمدہ رہا۔ آج عافیت سے پہنچ گئے ہوں گے۔ حاضرین کی خدمت میں سلام مسنون۔ دعا کی استدعا ۔
(مولانا) محمد عیسیٰ منصوری 
چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم لندن
(۴)
مکرم ومحترم جناب مولانا محمد عیسیٰ منصوری صاحب 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
زنا کی سزا سے متعلق میرے مضمون کے حوالے سے آپ کا عنایت نامہ موصول ہوا۔ میرے لیے یہ بات حوصلہ افزائی کا باعث ہے کہ آپ جیسے بزرگ میری ناچیز طالب علمانہ تحریروں کو دیکھنے کے لیے اپنی متنوع مصروفیات میں سے وقت نکالتے ہیں، اور میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی آپ کی یہ شفقت مجھے حاصل رہے گی۔ البتہ آپ کا یہ تبصرہ حیرت انگیز ہے کہ میرامضمون جمہور کے مقابلے میں ’’اپنی پیش کردہ تعبیرات پر ضرورت سے زیادہ اعتماد واصرار ‘‘ کی غمازی کرتا ہے، اس لیے کہ میں نے اس مضمون میں خود اپنی کوئی تعبیر پیش نہیں کی، بلکہ محض زیر بحث مسئلے کے حوالے سے پیش کی جانے والی مختلف علمی توجیہات کا تنقیدی جائزہ لیا اور ان کے غیر اطمینان بخش ہونے کے تناظر میں ایک یا دوسرا اصولی منہج اختیار کرنے کی گنجایش کو واضح کیا ہے۔ 
علمی روایت کے ارتقا کے نتیجے میں روایتی فقہی تعبیرات کے بارے میں جو سوالات واشکالات دور جدید میں سامنے آئے ہیں، روایتی اہل علم نے عام طور پر انھیں درخور اعتنا نہیں سمجھا اور انھیں یہ بات بھی گوارا نہیں کہ یہ تعبیرات سرے سے کسی تنقیدی تجزیے کا موضوع بنیں، چہ جائیکہ وہ بحث کی تنقیح اور تصفیے کے لیے مثبت طور پر کوئی کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ ہوں۔ البتہ آپ جیسے وسیع النظر بزرگ سے میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ آپ یا تو میرے علم وفہم میں پائے جانے والی کسی کمزوری کی نشان دہی فرمائیں گے یا اگر ان سوالات واشکالات میں کچھ وزن ہے تو اہل علم کو ان کے حل کی طرف متوجہ کریں گے۔ 
ورلڈ اسلامک فورم کی ویب سائٹ قائم ہونے پر مبارک باد قبول فرمائیے۔ میرے خیال میں حلقہ علما کو درپیش مسائل کی طرف متوجہ کرنے سے آگے بڑھ کر اب فورم کو ایک باقاعدہ ادارے کی شکل دے دی جانی چاہیے جہاں فکری اور تحقیقاتی وتجزیاتی مواد کی فراہمی کا کام منظم طریقے سے کیا جا سکے۔ موجودہ صورت میں یہ کام شخصیات تک محدود رہ جائے گا اور شاید اس کے زیادہ دیرپا اثرات مرتب نہ ہو سکیں۔ 
محمد عمار خان ناصر
۲۸؍ مئی ۲۰۰۸
(۵)
محترم جناب مولانا زاہدالراشدی صاحب 
السلام علیکم ۔ مزاج بخیر
ماہنامہ الشریعہ (جون ۲۰۰۸) کے شمارہ میں آنجناب کی تحریر ’’ مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور ایک نو مسلم کے تاثرات‘‘ نظر سے گزری۔ آپ کی وسعت ظرفی کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ آپ نے لکھا ہے کہ : 
’’علاقائی اور ثقافتی رسمیں اگر دین کا حصہ نہ سمجھی جائیں اور انہیں ثواب کے ارادے سے انجام دینے کی بجائے محض خوشی کی علاقائی اور ثقافتی رسم کے طور پر کیا جائے تو اس پر شریعت کے منافی ہونے کا فتویٰ لگا دینا اور غیظ و غضب کا اظہار کرنا مناسب بات نہیں ہے ‘‘ ۔
بندہ کو آج سے تقریباً چالیس سال پرانا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ جھنگ کے علاقہ میں ایک شادی کے موقع پر دلہن کو رخصتی کے وقت جب ڈولی میں بٹھا یا جانے لگا تو وہاں کے ایک بزرگ عالم دین نے اس علاقائی رسم کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ یہ شریعت کے منافی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برادری میں کا فی اختلاف پیدا ہو گیا، کیونکہ دلہن والے ان بزرگ عالم دین کے مرید ہونے کی وجہ سے دلہن کو ڈولی میں بٹھانے پر رضا مند نہ تھے جبکہ دولہا والے خاندانی رسم ہونے کی وجہ سے مصر تھے کہ لڑکی ڈولی میں ہی جائے گی۔ اس قسم کی علاقائی رسومات پر شریعت کے منافی ہونے کا فتو یٰ لگا دینا لوگوں میں اختلافات پیدا ہونے اور مذہب سے دوری کا سبب بنتا ہے۔ 
اسی شمارے میں عمار خان ناصر کا مضمون ’’ زنا با لجبرکی سزا‘‘ شائع ہوا ہے۔ میں بڑھتی ہوئی معاشرتی برائیوں کی وجہ سے مصنف کے نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہوئے آپ کی وساطت سے علماے کرام سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس مضمون کو صرف تنقیدی نظر سے دیکھنے کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بحث کو علمی انداز میں آگے بڑھائیں تاکہ اس زنا بالجبر اور اجتماعی آبروریزی جیسے جرائم کے سد باب کے لیے از سر نو غور کرکے مناسب سزا مقرر کی جا سکے۔ 
ماہنا مہ الشریعہ کی اس پالیسی کی تعریف نہ کی جائے تو یقیناًناانصافی کی بات ہوگی کہ اس نے مختلف نقطہ ہاے نظر کو اظہار رائے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔ اس طریقہ سے اتحاد بین المسلمین کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کی ساری ٹیم کو اجر عظیم عطا فرمائے ۔ آمین
(مولانا) محمد اسامہ سہیل 
مہتمم دارالعلوم نعمانیہ 
پرانی سبزی منڈی ، گوجرانوالہ 
(۶)
جناب محمد عمار خان ناصر صاحب !
السلام علیکم 
ماہنامہ ’’اشراق‘‘ میں آپ کامضمون ’’شرعی سزاؤں کی ابدیت وآفاقیت‘‘ دیکھا۔ میرے نزدیک اس میں دوسرا نقطہ نظر درست ہے کہ اصل مقصد سزائیں جاری کرنا نہیں بلکہ جرائم کو روکنا ہے۔ آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کی طرح مخصوص حالات کی وجہ سے سزا معاف کی جا سکتی ہے، لیکن یہ قانون ابدی ہے۔ اگر قانون ابدی ہے توعمر فاروقؓ نے اس پر عمل کیوں نہیں کیا؟ میرے نزدیک موجودہ حالات میں بھی ان سزاؤں کے نفاذ سے، جیسا کہ سعودی عرب میں ہیں، سوائے اسلام کی بدنامی کے کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔ اس سلسلہ میں، میں نے جاوید احمد غامدی صاحب سے فون پر بات کی توانہوں نے فرمایا کہ شریعت نے جو رعایت کا پہلو رکھا ہے جس کے تحت مجرم کی سزا معاف کی جا سکتی ہے، اس میں زمانے کے حالات بھی شامل ہیں۔ اگرکسی زمانے میں ان سزاؤں کے نفاذ سے نقصان ہوتا ہو تو ضروری نہیں کہ یہ سزائیں دی جائیں۔ میرا بھی یہی موقف ہے کہ ہم قرآن سے سزائیں نہیں نکال سکتے، وہ اللہ کاحکم ہے لیکن اپنے آئین سے تو نکال سکتے ہیں۔ غامدی صاحب نے آپ کی طرح سزاؤں کے ا بدی ہونے کا اظہار کیا اور میرے اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کیا کہ اصل مقصد جرائم کو روکنا ہے، جیسا کہ جہاد تلوار سے بھی ہو سکتا ہے اور ٹینک سے بھی۔ 
آپ نے لکھا ہے کہ ’’معاشرتی جرائم پر موثر طریقے سے قابو پانا سخت اور سنگین سزاؤں ہی کی مدد سے ممکن ہے۔‘‘ پاکستان میں قتل کے بدلے قتل کی سزا موجود ہے۔ یورپی یونین کے ممالک میں یہ سزا نہیں۔ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو پاکستان میں قتل نہ ہوتے یا بہت کم ہوتے۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پاکستان میں اوسطاً سالانہ دس ہزار سے زائد قتل ہوتے ہیں جو کہ بہت سے مغربی ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ شاید یہ سوال کریں کہ ہمارے ہاں سزاؤں پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ یہ بھی مکمل صحیح نہیں۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ سزائے موت دی جاتی ہے۔ اگر کوئی قرآن میں موجود سزاؤں کو وحشی کہتا ہے تو وحشی قوم کے لیے تھی۔ دنیا کے کئی ممالک میں پاکستان اور سعودی عرب کی طرح سنگین سخت سزائیں موجود نہیں تاہم وہاں جرائم کی شرح بہت کم ہے۔ غالباً فرانس کے بارے میں پڑھا ہے کہ ان کی لغت میں ریپ کا لفظ موجود نہیں۔ گویاان کی پوری تاریخ میں اجتماعی زیادتی کا واقعہ پیش نہیں آیا، جبکہ ہمارے ہاں حدود جیسے سخت قوانین کے باوجود ہر روز ایسے شرمناک واقعات پیش آتے ہیں۔ 
بہرحال یہ فلسفہ تو غلط ثابت ہو چکا ہے کہ بعض سزاؤں کے نفاذ سے جرائم ختم کیے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کی تعلیم وتر بیت، معاشی خوش حالی اور دیگر بہت سے عوامل ہیں جن کو درست کرنا ضروری ہے۔ ہمارے بہت سے دانشور مغرب کی اندھی مخالفت میں مبتلا ہیں اور مغرب کی ہر بات میں نقص نکالنا اپنا مذہبی فرض سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مغرب نے اخلاقی لحاظ سے بہت ترقی کی ہے۔ ہمیں ہرحال میں انصاف پر قائم رہنا ہے۔ مغرب کی اچھی باتوں کی تعریف کرنے سے ہمارا ایمان خطرے میں نہیں پڑ جائے گا۔ امید ہے آپ اس پہلو پر غور فرمائیں گے۔
حافظ ممتاز علی 
سنگھوئی، ضلع جہلم
(۷)
مکرمی جناب ابو عمار زاہد الراشدی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اللہ کرے آپ بخیریت ہوں۔ ایک بہن کے خط نے مجھ سے کم ہمت میں ہمت پیدا کی کہ میں بھی ایک بہن کے خیالات سے سو فی صد اتفاق ظاہر کر سکوں۔ چند ماہ سے آپ کا رسالہ شاید شبیر احمد خان میواتی کی سفارش پر مجھے مل رہا ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ آپ نے حضرت مولانا علامہ جاوید الغامدی کے ساتھ کوئی معاہدہ کر رکھا ہے کہ آپ ان کے خیالات و نظریات کو آگے بڑھائیں۔ پہلی بات تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ علما حضرات ہمیں تو احادیث سناتے نہیں تھکتے کہ اپنے بچوں کے نام اللہ کے نام پر رکھو، لیکن آپ کے نام احمد میاں، محمد میاں، الغامدی، ابو عمار زاہد الراشدی! میرا خیال ہے کہ اتنے موٹے موٹے نام رکھنے سے شاید ان پڑھ اور جاہل عوام کو یہ تاثر دینا مقصود ہوتا ہے کہ جب آپ ہمارے ناموں کا مطلب ہی نہیں سمجھ سکتے تو جو کچھ ہم بیان کرتے ہیں، لکھتے ہیں، وہ آپ کے سر سے گزر جائے گا۔
آپ کا رسالے اور دیگر مذہبی رسائل میں جو کچھ چھپتا ہے، ا س کا غریب عوام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس مرتبہ بھی آپ کے رسالے میں ایک مضمون زنا کے حوالے سے شائع ہوا ہے۔ آپ کے خیال میں اس وقت کل مسلمانوں کے کتنے فی صد زنا کرتے ہیں جن کی اصلاح کے لیے آپ اس قسم کے مضامین شائع کرتے ہیں؟ کیا مسلمانوں کے معاشرے میں صرف زنا ہی ہو رہا ہے؟
غامدی کے نظریات کے فروغ کے لیے آپ کی خدمات بے مثال ہیں۔ غالباً میں نے کراچی سے شائع ہونے والے ایک رسالے ساحل میں پڑھا تھا کہ آپ کے کوئی قریبی عزیز غامدی کے انسٹی ٹیوٹ میں کام کرتے ہیں۔ ویسے میں جاننا چاہوں گا کہ کیا غامدی کوئی فقہی اصطلاح ہے یا کسی نئے سلسلہ باطنیہ کا نام ہے؟ ایک گم نام مصنف نے سرسید احمد خان مرحوم سے کہا تھا کہ کوئی ایسا طریقہ بتلائیے کہ مجھے بھی آپ جیسی شہرت ومقام حاصل ہو جائے تو سرسید احمد نے کہا کہ میری کتابوں کی تردید لکھنا شروع کردو۔
آپ کے مضمون سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ انگلستان تشریف لے گئے تھے۔ مجھے بھی دو سال قبل کافروں کے ملک جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ میں تو سیر وتفریح کے لیے گیا تھا، تبلیغ یا اشاعت اسلام مقصد نہیں تھا کیونکہ ہمارے اسلام کی سچی تصویر تو مورس مجید نے کھینچ دی ہے۔ میں ایک روز اپنی بیوی کے ہمراہ ٹیوب میں سفر کر رہا تھا کہ ایک اسٹیشن پر ایک نوجوان جوڑا ٹیوب میں داخل ہوا اور بوس وکنار میں مصروف ہو گیا۔ میری بیوی کے لیے یہ منظر اور قسم کا تھا۔ اس سے وہ اپنی طرز کی برہمی کا اظہار کرنے لگی اور اسٹیشن سے اتر کر کہنے لگی کہ یہ کس قدر بے شرم لوگ ہیں۔ اس پر میں نے اس کو کہا کہ مجھے یہ بتلاؤ کہ جب وہ اس کام میں مصروف تھے تو ٹرین میں ایک بھی شخص نے ان کے معاملات میں مداخلت کی؟ کیا کسی ایک شخص نے بھی ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا؟ اب تو مجھے بتلا کہ میں جب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تجھے یا تیری بیٹی کو اسکوٹر پر لے جاتا ہوں تو ہر شخص کا طرز عمل کیا ہوتا ہے؟ جب تک وہ تجھے یا تیری بیٹی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی نہیں کر لیتے، وہ تجھ سے نظر نہیں ہٹاتے۔ بتا مسلمان کو ن ہیں؟ تو یا وہ کافر عیسائی؟
آپ کو وہاں باہر نکلنے کا بھی موقع ملا ہوگا۔ ’’اپنے گھروں کے آگے برآمدوں کو صاف رکھا کرو‘‘، اس حدیث پر کہاں عمل ہوتا ہے؟ آپ کی مساجد کے غسل خانے اور واش روم اور مسلمانوں کے محلے اور علاقے اس حدیث پر کس قدر عمل کرتے ہیں، شاید وہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ مولانا تقی عثمانی نے اپنے ایک سفر نامے میں اسی صورت حال کی خوب صورت عکاسی کی ہے۔ آپ کو وہاں Spencer اسٹور پر جانے کا اتفاق ہوا ہوگا۔ میں بھی ایک مرتبہ نہیں، بے شمار مرتبہ وہاں گیا۔ ایک روز وہاں خربوزے ایک شیلف میں دو پونڈ فی دانہ تھے اور ایک شیلف میں ایک پونڈ کے دو دانے۔ میں نے اپنے بھائی سے معلوم کیا تو وہ کہنے لگا کہ خربوزے تو ایک ہی قسم کے ہیں، لیکن جو سستے والے ہیں، وہ کل نہیں بک سکے تھے اس لیے باسی ہو گئے۔ میں نے کہا، لیکن انسانوں نے دیکھا تو نہیں، جس طرح وہ لڑکی کہہ رہی تھی کہ ماں، دودھ میں پانی ملا دے، اس وقت صبح کا وقت ہے، کوئی نہیں دیکھ رہا۔ تو ان کافروں عیسائیوں کو بھی تو کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا۔
یقیناًآپ نے اپنے کسی میزبان کی موٹر میں بھی سفر کیا ہوگا۔ یقیناًان کے پاس ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں ہوگا اور اگر ہوگا تو رشوت، نہیں ’’چائے پانی‘‘ پلا کر حاصل کیا ہوگا، حالانکہ سڑک پر ٹریفک پولیس بھی نہیں ہوتی، لیکن اس کے باوجود انھوں نے ٹریفک کے اصولوں کی خلاف ورزی بھی کی ہوگی۔ ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہے ہوں گے کہ میں ہر کسی سے آگے نکل جاؤں۔ معاملہ یہ ہے کہ ہمارا مذہب محض رسومات کا مجموعہ ہے۔ اس کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، وگرنہ ہر روز صرف پاکستان سے سینکڑوں لوگ ہر ہفتے بعد عمرہ کرنے جاتے ہیں اور پھر واپس آ کر اسلام پر عمل کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔
آپ کو وہاں کسی نہ کسی دفتر میں خدا نخواستہ جانے کی ضرورت تو نہیں پیش آئی ہوگی اور یہاں تو ہمیں دفاتر، ہسپتالوں اور عدالتوں میں ہی جانا پڑتا ہے۔ کس ملک کے دفتر، ہسپتال اور عدالت میں اسلام پر عمل ہوتا ہے؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان یا ملک کفار میں؟ میں ۳۵ سال اپنے مخاطبین سے یہ کہتا رہا ہوں کہ یا اللہ، میری دشمن اندرا گاندھی کو بھی پاکستان کے کسی دفتر، کسی ہسپتال، کسی عدالت میں نہ لے جانا۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام معاملات تو علماے کرام وعظام کے وعظ ونصیحت سے خارج ہیں کیونکہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ علما ومشائخ (اللہ ہو والے پیر صاحب، رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ وغیرہ) گرمیوں میں یورپی ممالک میں ہی تبلیغ اسلام کے لیے کیوں جاتے ہیں، سردیوں میں کیوں نہیں؟ شاید سردیوں میں وہاں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔
مورس مجید کے واقعے سے مجھے یہ واقعہ یاد آیا کہ میرے گھر کے قریب کی مسجد کے جو صاحب ’’مالک‘‘ ہیں، وہ تین چار لاکھ روپے کے قریب ’’کرایہ‘‘ کھا کر زندگی گزارتے اور تبلیغ کرتے ہیں۔ ایک صاحب جو یہاں قریبی ریستوران میں بیرا گیری کرتے تھے، وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئے۔ اس غریب شخص نے کئی مرتبہ دبے لفظوں میں یہ کہا کہ مسلمان ہونے کے بعد میرے سماجی اور معاشی مسائل بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں تو تبلیغی جماعت کے مفکر اور کرایہ خوار صاحب فرمانے لگے کہ انھیں چلے پر بھیج دو، یوں ان کے تمام معاشی، سماجی اور مذہبی معاملات طے ہو جائیں گے۔
ایک بہن نے علماے کرام وعظام سے جوتوقعات وابستہ کی ہیں، مجھے تو سو فی صد یقین ہے کہ انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمیں بتلایا جاتا ہے کہ پاکستان کی ستر فی صد آبادی گاؤں میں رہتی ہے۔ گاؤں تو زمیندار کا ہوتا ہے یا کسی پیر مخدوم کا، اور وہاں کا عالم دین تو جمعرات کی روٹی وڈیرہ صاحب سے لیتا ہے۔ وہ کس طرح یہ کہہ سکتا ہے کہ وڈیرہ صاحب! بہاول پور میں لوگوں کے لیے پینے کا جوہڑ تک کا پانی دست یاب نہیں۔ صاف پانی کی فراہمی کا اگر وہ کہے گا تو اپنی جان سے ہاتھ گنوا بیٹھے گا۔ گاؤں کے اسلا م میں تو یہ چیزیں کوئی معنی نہیں رکھتیں، وہاں تو نور اور بشر کے مسائل ہی ابھی تک حل نہیں ہو سکے۔ انسان کے حقوق تو ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔
باقی رہا شہری اسلام تو یہاں کے مسائل مختلف ہیں۔ یہاں کے وڈیروں او رپیر صاحبان نے تو علماے کرام سے یہ لکھوا رکھا ہے کہ جمعے کے ہر خطبے میں یہ پڑھنا ضروری بلکہ واجب ہے کہ السلطان المسلم ظل اللہ فی الارض من اہان سلطانہ اہانہ اللہ۔ اب ظاہر ہے کہ جتنے بھی جرنیل ظل اللہ اور سویلین ظل اللہ ہیں، انھوں نے تو فی الحال عوام کے مسائل کو حل کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے، وہ تو سمجھ لیجیے کہ حل ہو ہی گئے۔ اب تو عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ ہری پگڑی پہنیں یا کالی پگڑی، نماز کے بعد زور زور سے لا الہ الا اللہ کا ورد ضروری ہے یا نہیں۔ یہی مسائل ہیں جن کا اسلام سے گہرا تعلق ہے۔ باقی خواہ آپ ہر ہفتے عمرہ کریں یا انگلستان کا تبلیغی سفر یا اب ایک نیا ڈرامہ شروع ہوا ہے: بین المذاہب مکالمہ، یہی اسلام ہے۔ اسلام کا دفتر، عدالت، ہسپتال، محلے، شہر یا ملک میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اسلام کا تعلق روحانی دنیا سے ہے، عملی دنیا سے نہیں۔ یہ ذاتی معاملہ ہے اور اس کی سزا وجزا کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔
بہرحال آپ اسلام کی تبلیغ جاری رکھیے۔ اللہ آپ کا حامی وناصر ہو۔
احمد سعید 
مکان ۷۲۔ بلاک جی ۴
محمد علی جوہر ٹاؤن ii ۔ لاہور

اگست ۲۰۰۸ء

سزائے موت کے خاتمے کی بحثمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
سانحہ لال مسجد اور علماء ایکشن کمیٹیمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز صفدر کی علمی و تحقیقی تصانیفمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دو اجنبیوں سے ملاقاتحسن الامین
مذہبی رویے: چند اصلاح طلب امورادارہ
اسلامی معاشیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز؟ (۱)محمد زاہد صدیق مغل
جمعے کی امامت اور غامدی صاحب کا نقطۂ نظرالیاس نعمانی ندوی
مکاتیبادارہ
تعارف و تبصرہادارہ
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی سالانہ کارکردگی رپورٹادارہ

سزائے موت کے خاتمے کی بحث

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کی سالگرہ کے موقع پر وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی طرف سے سزاے موت کے قیدیوں کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا اعلان ملک بھر کے دینی حلقوں میں زیر بحث ہے اور اس کے مختلف پہلووں پر اظہار خیال کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک کے قانونی نظام میں سزاے موت کو ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی مطالبہ اور دباؤ بھی موجود ہے، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی بھی کچھ عرصہ قبل یہ قرارداد منظور کر چکی ہے جس میں تمام ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے قانونی نظاموں میں سزاے موت ختم کر دیں اور آئندہ کسی شخص کو کسی ملک میں کسی بھی جرم کے تحت موت کی سزا نہ دی جائے۔ اس کے لیے بین الاقوامی سطح پر لابنگ جاری ہے اور پاکستان کے اندر بھی سینکڑوں این جی اوز اس کے لیے متحرک دکھائی دے رہی ہیں، لیکن ہمارے موجودہ دستوری ڈھانچے میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔
دستور پاکستان میں اسلام کو ملک کا سرکاری دین قرار دیا گیا ہے، قرآن وسنت کے احکام وقوانین کے مکمل نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے اور قرآن وسنت کے منافی کوئی قانون نافذ نہ کرنے کا واضح طور پر وعدہ کیا گیا ہے۔ دستور پاکستان کی ان دفعات کی موجودگی میں ملک کے کسی بھی ایوان میں پیش کیا جانے والا ایسا بل دستور سے متصادم ہوگا جس میں سزاے موت ختم کرنے کی بات کی گئی ہو، کیونکہ قرآن وسنت میں بہت سے جرائم کے لیے موت کی سزا مقرر کی گئی ہے اور اسے ایک اسلامی ریاست کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً سورۃ البقرہ کی آیت ۱۷۸ اور ۱۷۹ میں کہا گیا ہے کہ اے ایمان والو! تم پر قصاص (جان کے بدلے جان) کا قانون فرض کیا گیا ہے اور یہ قانون معاشرے میں جان کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ چنانچہ قرآن وسنت کے ساتھ دستوری کمٹ منٹ پر قائم رہتے ہوئے ہمار ے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اس قرارداد پر عمل کریں جس میں ملک کے قانونی نظام سے موت کی سزا کو ختم کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ اگرچہ عملی صورت حال مختلف ہے اور ہمارا قومی رویہ گزشتہ ساٹھ سال سے یہی چلا آ رہا ہے کہ ہم قرآن وسنت کے ساتھ وفاداری کا بھی ہر موقع پر اظہار کرتے ہیں، لیکن قانونی نظام میں وہ تمام تبدیلیاں یکے بعد دیگرے کرتے چلے جا رہے ہیں جن کا ہم سے مغرب مطالبہ کرتا ہے، جیسا کہ حدود آرڈیننس میں کیا گیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ موت کی سزا کے بارے میں بھی پارلیمنٹ میں اسی نوعیت کا کوئی بل لانے کی کوشش کی جائے، لیکن ایسا کرنا قرآن وسنت کے ساتھ ساتھ دستور سے بھی انحراف کے مترادف ہوگا۔
باقی رہی یہ بات کہ سزاے موت کو قانون کو چھیڑے بغیر ملک میں اس وقت سزاے موت پانے والے قیدیوں کی سزاے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کے لیے وزیر اعظم نے صدر کو سمری بھجوائی ہے تو اس حوالے سے بھی شرعی پوزیشن یہ ہے کہ ’’قتل نفس‘‘ سے تحفظ کو قرآن کریم نے حقوق اللہ اور ریاست کا حق قرار دینے کے ساتھ ساتھ ’’حقوق العباد‘‘ میں بھی شامل کیا ہے اور اس میں قاتل سے قصاص لینے یا قصاص معاف کر کے دیت (خوں بہا) وصول کرنے یا دیت بھی معاف کر دینے کو مقتول کے ورثا کا حق بتایا ہے، اس لیے قصاص یا دیت کے کسی معاملے میں مقتول کے وارث اگر معاف کر دیں تو وہ سزا معاف ہوتی ہے اور ان کے علاوہ کوئی دوسرا شخص حتیٰ کہ ریاست بھی اس حق کو صاحب حق کی مرضی کے بغیر معاف نہیں کر سکتی۔ ہمیں سزاے موت کے قیدیوں کو موت کے پھندے تک لازماً پہنچانے سے کوئی غرض نہیں ہے اور اگر وہ کسی جائز ذریعے سے موت کے پھندے سے بچ جائیں تو ہمیں بھی خوشی ہوگی، لیکن اس میں کسی دوسرے کی حق تلفی نہیں ہونی چاہیے اور ایسا کوئی عمل قرآن وسنت کے احکام کو کراس کر کے نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے ہم وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی سے یہ گزارش کریں گے کہ وہ سزاے موت کے قیدیوں کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنے کے لیے صدر کو سمری بھیجنے کی بجائے ان مقتولین کے خاندانوں سے رابطہ کریں اور انھیں راضی کر کے ان کی طرف سے ان قیدیوں کو معافی دلوانے کی کوشش کریں جن کے قتل کے جرم میں انھیں سزاے موت سنائی گئی ہے، اس لیے کہ انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے اور قرآن و سنت کی ہدایات بھی یہی ہیں۔

سانحہ لال مسجد اور علماء ایکشن کمیٹی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

لال مسجد کے سانحہ کو ایک سال گزر گیا ہے مگر اس سے متعلقہ مسائل ابھی تک جوں کے توں باقی ہیں۔ عوام نے تو اپنا فیصلہ الیکشن میں صادر کر دیا تھا کہ لال مسجد کے آپریشن کی ذمہ داری میں شریک جماعتوں اور ان کے حامیوں کو مسترد کر کے لال مسجد کے سانحہ پر غم وغصے کا اظہار کرنے والی جماعتوں اور راہ نماؤں کو اپنے اعتماد سے نوازا۔ یہ الیکشن خاتون شہدا کے نام پر جیتا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر ووٹ حاصل کیے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے شہداے لال مسجد کا کارڈ استعمال کیا جس کا پاکستان مسلم لیگ (ق) کے متعدد راہ نماؤں نے واضح اعتراف کیا کہ ان کی شکست کا باعث لال مسجد کا آپریشن ہے، جبکہ راول پنڈی کی فضاؤں میں انتخابی مہم کے دوران بلند کیے جانے والے اس نعرے کی گونج اب تک سنائی دے رہی ہے کہ ’’ووٹ کس کا؟ لال مسجد کا یا لال حویلی کا؟‘‘ مگر الیکشن گزر جانے کے بعد لال مسجد کسی کو یاد نہ رہی اور جامعہ حفصہ کی طالبات ابھی تک قومی راہ نماؤں کا منہ تک رہی ہیں کہ الیکشن جیت جانے کے بعد بھی کسی کی زبان پر لال مسجد کا نام آ رہا ہے یا نہیں؟
لال مسجد کے حوالے سے توجہ طلب مسائل واضح ہیں کہ جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے خلاف اس وحشیا نہ آپریشن کی ذمہ داری کس پر ہے جس میں سینکڑوں معصوم بچیوں کو آگ اور خون میں تڑپا دیا گیا؟ سپریم کورٹ میں اس سلسلے میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی رٹ زیر سماعت ہے، مگر عدالت عظمیٰ کا اپنا بحران کسی طرف لگے تو لال مسجد جیسے مسائل کو اس کی توجہ حاصل ہو۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے جامعہ حفصہ کی دوبارہ تعمیر اور جامعہ فریدیہ کی تعلیمی سرگرمیاں بحال کرنے کا حکم دے رکھا ہے، مگر دونوں فیصلوں پر عمل درآمد کی طرف کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔ مولانا عبد العزیز کی بیشتر مقدمات میں ضمانت منظور ہو چکی ہے، مگر جو ایک دو باقی ہیں، ان میں تاریخ دی جا رہی ہے۔ اس طرح ان کی رہائی کا بظاہر مستقبل قریب میں کوئی امکان نظر نہیں آ تا، حالانکہ اسی نوعیت کے مقدمات اور سرگرمیوں کے الزام میں مولانا صوفی محمد صوبہ سرحد کی حکومت کے ساتھ باقاعدہ معاہدے کے تحت رہا ہو چکے ہیں، بلکہ انھیں پرامن رہنے کے وعدے پر نفاذ شریعت کی جدوجہد کے لیے سرگرمیوں کی اجازت بھی دے دی گئی ہے جو ایک خوش آیند بات ہے۔ اسی قسم کا معاہدہ مولانا عبد العزیز کے ساتھ بھی ہو سکتا تھا جو اس بحران کے پرامن خاتمے کی طرف پیش رفت ہوتا، مگر ارباب حل وعقد اس رخ پر سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کچھ پس پردہ قوتیں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے معاملات کو بدستور جوں کا توں رکھنا چاہتی ہیں تاکہ اس سے بین الاقوامی سطح پر وہ مقاصد حاصل ہوتے رہیں جن کے لیے اس سب کچھ کا اہتمام کیا گیا تھا۔
اس پس منظر میں راول پنڈی اور اسلام آباد کے علماے کرام نے ’’لال مسجد علما ایکشن کمیٹی‘‘ قائم کر کے اس مسئلے پر رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے احتجاجی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ۶ جولائی کو لال مسجد اسلام آباد میں پہلا احتجاجی جلسہ منعقد کر کے اپنی جدوجہد کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں دوسرا جلسہ ۱۰ جولائی کو کوئٹہ میں ہو چکا ہے اور تیسرا جلسہ ۱۰؍اگست کو لاہور میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ۶ جولائی کے جلسے میں جمعیۃ علماے اسلام، وفاق المدارس، کالعدم سپاہ صحابہ اور دیگر دینی جماعتوں کے رہنماؤں نے خطاب کیا اور ان مطالبات کو دہرایا جن کا ہم سطور بالا میں تذکرہ کر چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مسمار شدہ جامعہ حفصہ کی زمین پر خیموں میں طالبات کی تعلیم شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اخباری اطلاعات اور تصویروں کے مطابق علامتی طور پر اس جگہ خیمے میں طالبات کی کلاس کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ لال مسجد کے قائم مقام خطیب مولانا عبد الغفار اور ان کے نائب مولانا عامر صدیق بھی اس جدوجہد میں ’’لال مسجد علما ایکشن کمیٹی‘‘ کے ساتھ شریک ہیں اور سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ مولانا عبد العزیز کی اہلیہ محترمہ ام حسان صاحبہ نے، جو اپنی رہائی کے بعد سے مسلسل ملک کے مختلف حصوں میں خواتین کے اجتماعات سے خطاب کر رہی ہیں، دو روز بعد لال مسجد میں ہی خواتین کا اجتماع منعقد کر کے ۶ جولائی کی ’’شہداے لال مسجد کانفرنس‘‘ کے اعلانات اور مطالبات کی تائید کر دی ہے جو اس حوالے سے یقیناًقابل اطمینان بات ہے کہ لال مسجد کی تحریک اور اس کے خلاف آپریشن کے دوران غازی عبد الرشید شہید کے خاندان اور ملک کی معروف دینی جماعتوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا قائم کرنے اور پھر اسے برقرار رکھنے کی بطور خاص کوشش کی گئی تھی اور ایک مخصوص حلقے نے مسلسل اس پرمحنت کی تھی کہ غازی عبد الرشید شہید کے خاندان کے معروف دینی قیادت بالخصوص وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور اسی طرح اسلام آباد اور راول پنڈی کے علماے کرام کے ساتھ اس قسم کے روابط اور باہمی اعتماد کی وہ کیفیت نہ رہے کہ دونوں ایک دوسرے کے کام آ سکیں۔
بعض اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوشش اب تک جاری ہے اور اس کے لیے فرضی شکوک وشبہات کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں، لیکن اسلام آباد اور راول پنڈی کے علماے کرام پر مشتمل لا ل مسجد علما ایکشن کمیٹی کی ۶ جولائی کی کانفرنس میں وفاق المدارس کی قیادت اور دیگر دینی جماعتوں کے قائدین کی شرکت وخطاب اور اس کے بعد محترمہ ام حسان کی طرف سے خواتین کے اجتماع میں اس کانفرنس کے فیصلوں پر اعتماد اور اطمینان کا اظہار اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ باہمی غلط فہمیوں کے بادل چھٹ رہے ہیں اور مطلع بتدریج صاف ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ’’لال مسجد علما ایکشن کمیٹی‘‘ کے فورم پر جمعیت علماے اسلام، وفاق المدارس، کالعدم سپاہ صحابہ اور دوسری جماعتوں کے ساتھ غازی عبد الرشید شہید کا خاندان اور مولانا عبد العزیز کا مشاورتی حلقہ بھی شریک کار ہو جائیں اور پالیسی ترجیحات باہمی مشاورت واعتماد کے ساتھ طے کر لیں تو لال مسجد کے حوالے سے مطالبات کی جدوجہد کو موثر طریقے سے آگے بڑھایا جا سکتا ہے اور نفاذ شریعت کی تحریک کے لیے بھی ایک اچھی بنیاد فراہم ہو سکتی ہے، بلکہ ہم تو اس سے بھی آگے جدوجہد کے دائرے کو مزید وسعت دیے جانے کے خواہش مند ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے مذہبی مکاتب فکر اور طبقات بالخصوص سیاسی جماعتوں اور وکلا کو بھی اعتماد میں لینے اور شریک کار بنانے کی ضرورت ہے اور لال مسجد علما ایکشن کمیٹی کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائز لینا چاہیے۔


انا للہ وانا الیہ راجعون
گزشتہ ماہ کے دوران ہمارے احباب ومخلصین میں سے 
o کھیالی کے جناب حاجی ثناء اللہ طیب کے والد محترم بشیر احمد صاحبؒ 
o جناب محمد فاروق شیخ (شارجہ) اور مولانا فضل القادر کے والد محترم حاجی محمد شیخ صاحبؒ 
o اور ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے ناظم ترسیل حافظ محمد طاہر صاحب کی والدہ محترمہ
قضاے الٰہی سے انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ادارے کے رفقا پس ماندگان کے 
ساتھ دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے مرحومین کی مغفرت ورفع درجات کے لیے دعا گو ہیں۔ 

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز صفدر کی علمی و تحقیقی تصانیف

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(محمد عمار خان ناصر کے مرتب کردہ مجموعہ ’’فن حدیث کے اصول ومبادی‘‘ کے دیباچہ کے طور پر لکھا گیا۔)

نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔
والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کو اللہ تعالیٰ نے مطالعہ، تحقیق اور احقاق حق کا جو خصوصی ذوق عطا فرمایا ہے، ان کی تین درجن سے زائد علمی اور تحقیقی کتابیں اس کی گہرائی اور گیرائی کا اندازہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ برصغیر کے معروضی حالات میں مختلف مسائل کے حوالے سے اہل السنۃ والجماعۃ حنفی دیوبندی مسلک کی وضاحت اور اثبات ان کی تدریسی، تحقیقی اور تصنیفی سرگرمیوں کی جولان گاہ رہا ہے اور اس میدان میں ان کی مسلسل محنت اور خدمات کی وجہ سے بحمد اللہ تعالیٰ انھیں دیوبندی مسلک کا علمی ترجمان سمجھا جاتا ہے۔
دور طالب علمی میں میرا لکھنے پڑھنے کا ذوق دیکھ کر حضرت والد محترم مدظلہ کی خواہش اور کوشش رہی ہے کہ میں اس محاذ پر ان کا معاون بنوں، چنانچہ فاتحہ خلف الامام کے مسئلہ پر ان کی ضخیم تصنیف ’’احسن الکلام‘‘ کی ’’اطیب الکلام‘‘ کے نام سے تلخیص اسی کوشش کا ثمرہ تھا اور اس موقع پر میرے لیے خوشی کی سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس کتابچہ پر جو پیش لفظ اس وقت میں نے تحریر کیا تھا، اس میں والد محترم مدظلہ نے ایک جملہ کی تبدیلی کے علاوہ اور کسی تصحیح کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ میں نے اس میں ’’بیک بندش چشم‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی جسے انھوں نے ’’چشم زدن‘‘ کے محاورہ سے تبدیل کر دیا اور اس کے علاوہ میرے لکھے ہوئے ’’پیش لفظ‘‘ کو من وعن کتابچہ میں شامل کر لیا۔ 
اس پر مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ اس واقعہ کو چار عشروں سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود اس کا نشاط ابھی تک ذہن میں موجود ہے، مگر میں اس راہ پر نہ چل سکا، اس لیے کہ جمعیۃ طلباے اسلام اور جمعیۃ علماے اسلام کے پلیٹ فارم پر سیاسی سرگرمیوں میں متحرک ہو جانے کے بعد میرے فکر ونظر کا زاویہ قدرے مختلف ہو چکا تھا اور میرے لکھنے پڑھنے کے موضوعات میں اسلامی نظام کی اہمیت وضرورت، مغربی فلسفہ وثقافت کی یلغار، اسلام پر مغرب کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات وشبہات، آج کے عالمی تناظر میں اسلامی احکام وقوانین کی تشریح، اسلامائزیشن کے علمی وفکری تقاضے، نفاذ اسلام کے حوالے سے دینی حلقوں کی ضروریات اور ذمہ داریاں، اسلام دشمن لابیوں کی نشان دہی اور تعاقب اور ان حوالوں سے طلبہ، دینی کارکنوں اور باشعور نوجوانوں کی راہ نمائی اور تیاری کو اولین ترجیح کا درجہ حاصل ہو گیا تھا، چنانچہ گزشتہ پینتالیس برس سے انھی موضوعات پر مسلسل لکھتا چلا آ رہا ہوں۔
میں بحمد اللہ تعالیٰ راسخ العقیدہ سنی، شعوری حنفی اور متصلب دیوبندی ہوں اور اپنے دائرۂ کار کو کراس کیے بغیر ان مسائل پر سنجیدہ کام کرنے والوں سے حتی الوسع تعاون اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا رہتا ہوں، مگر میرا اپنا دائرۂ کار وہی ہے جن کا اوپر ذکر کر چکا ہوں اور اسی دائرے میں آخر وقت تک محنت کرتے رہنے کو اپنے لیے باعث سعادت ونجات سمجھتا ہوں۔ میرے لیے یہ بات خوشی کا باعث ہے کہ میرے چھوٹے بھائی اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے استاذ حدیث مولانا عبد القدوس قارن سلمہ نے حضرت والد محترم کی معاونت کا میدان سنبھال رکھا ہے اور وہ مسلسل اس خدمت کی پوری محنت او رذوق کے ساتھ سرانجام دیتے آ رہے ہیں مگر ا س کے باوجود اس بات کی خود مجھے شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ حضرت والد محترم دامت برکاتہم کی تحقیقات وتصنیفات میں مختلف حوالوں سے علمی ابحاث اور معلومات کا جو ذخیرہ بکھرا ہوا ہے، اسے اختلافی مسائل کے تناظر سے ہٹ کر مثبت انداز میں بھی سامنے لایا جائے تاکہ وہ لوگ جو کسی بھی وجہ سے اختلافی مسائل کے حوالے سے مطالعہ کا ذوق نہیں رکھتے، وہ بھی اس سے استفادہ کر سکیں، بلکہ میرے سامنے اس کی افادیت کا ایک اور پہلو بھی ہے جو اس سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ وہ یہ کہ یہ مباحث اگر مثبت انداز میں ازسرنو مرتب ہو جائیں تو نہ صرف دینی مدارس کے مدرسین بلکہ کالجوں میں اسلامیات کے اساتذہ کے لیے بھی بہت مفید ہوں گے بلکہ آج کے عمومی حالات کے تناظر میں دینی مدارس اور عصری کالجوں کے دینیات کے نصاب میں تبدیلی، اصلاح اور ترمیم واضافہ کے لیے جو آواز اٹھائی جا رہی ہے اور اس پر کسی درجے میں کام بھی ہو رہا ہے، اس میں یہ علمی ذخیرہ نئی نصاب سازی کے لیے ایک بہتر بنیاد بن سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں جب میرے بڑے بیٹے حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ (فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ وایم اے انگلش پنجاب یونیورسٹی) نے بتایا کہ وہ اپنے دادا محترم مدظلہ کی تصنیفات پر اس حوالے سے کام کر رہا ہے اور اس نے اس سلسلے میں چند مجموعے مرتب بھی کر لیے ہیں تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی، چنانچہ ’’علم حدیث کے اصول ومبادی‘‘ کے عنوان پر ان مباحث کا مسودہ میں خود لے کر حضرت والد محترم مدظلہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انھیں اس بات کی اطلاع دیتے ہوئے دعا کی درخواست کی تو انھوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور اس کام کی تکمیل اور کامیابی کے لیے دعا فرمائی۔ بعد میں عزیزم عمار خان سلمہ بھی ان کی خدمت میں اس کی باقاعدہ اجازت کی درخواست کے لیے حاضر ہوا تو انھوں نے اجازت کے ساتھ دعاؤں سے نوازا۔
میرے دل میں ایک کسک شروع سے رہی ہے کہ میں اپنی علمی وفکری تگ وتاز کا میدان مختلف ہو جانے کے باعث حضرت والد محترم مدظلہ کا ان کی جدوجہد کے میدان میں معاون نہیں بن سکا۔ اس کسک کے ایک پہلو کی کسی حد تک تسکین برادرم مولانا عبد القدوس قارن سلمہ، عزیز م مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی سلمہ، برادرم مولانا عبد الحق خان بشیر سلمہ اور برادرم مولانا قاری حماد الزہراوی سلمہ کی مسلکی سرگرمیاں دیکھ کر ہوتی رہتی ہے، جبکہ دوسرے پہلو کی تسکین کا سامان عزیزم عمار خان سلمہ نے فراہم کر دیا ہے اور میں پورے اطمینان اور خوشی کے ساتھ دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اسے نظر بد سے محفوظ رکھیں، اس کار خیر کی جلد از جلد تکمیل کی توفیق دیں اور اپنی صلاحیتوں کو دین حق کی خدمت کے لیے صرف کرتے رہنے کے مواقع، توفیق، اسباب اور پھر قبولیت ورضا سے بہرہ ور فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
(ابو عمار زاہد الراشدی)

استاذ گرامی وجد مکرم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کی زندگی دینی علوم کی تعلیم وتدریس اور قرآن، حدیث، فقہ اور تاریخ وسیرت کے ذخائر کے مطالعہ سے عبارت رہی ہے اور ان کی وسعت مطالعہ، دینی علوم کے دقائق اور اکابر اہل علم کی آرا واقوال پر ان کی گہری نظر کا اعتراف ہر اس شخص کو کرنا پڑتا ہے جسے مختلف اور متنوع موضوعات پر ان کی تصانیف دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ 
استاذ گرامی کی تحقیق وتصنیف کا موضوع زیادہ تر وہ مسائل ومباحث رہے ہیں جو اہل سنت اور اہل بدعت کے مابین اور اسی طرح احناف اور اہل حدیث وغیرہ کے مابین متنازع فیہ امور کہلاتے ہیں، تاہم اپنے ذوق اور مزاج کے لحاظ سے چونکہ وہ دینی علوم کے ایک پختہ کار ناقد اور محقق ہیں، اس لیے اس طرح کے موضوعات پر گفتگو کے دوران میں بھی انھوں نے سنجیدہ اور ٹھوس علمی بحث کا طریقہ اختیار کیا ہے اور زیر بحث نکتے سے متعلق مختلف اصولی وعلمی بحثوں کی وضاحت کے علاوہ، جن کا دائرہ تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ، کلام اور دیگر علوم تک پھیلا ہوا ہے، انھوں نے اس بات کا بطور خاص اہتمام کیا ہے کہ متعلقہ موضوع پر سند سمجھے جانے والے ائمہ اور محققین کی زیادہ سے زیادہ آرا اور عبارات کو بھی باحوالہ جمع کر دیا جائے۔ اس طرح ان کی تصانیف اپنے علمی مواد اور افادیت کے اعتبار سے محض بعض فروعی مسائل کی وضاحت تک محدود نہیں رہیں بلکہ دینی علوم کے متنوع اصولی اور مستقل افادیت رکھنے والے مباحث کا بھی ایک گراں قدر ذخیرہ بن گئی ہیں۔
مجھے استاذ گرامی کی ان تصانیف کی طرف مراجعت کا موقع وقتاً فوقتاً ملتا رہتا ہے اور ہر موقع پر مجھے اس بات کا شدت کے ساتھ احساس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی تصانیف میں جگہ جگہ تفسیر وحدیث اور فقہ وکلام کے جن مختلف اور متنوع مباحث پر اپنی محنت اور وسعت مطالعہ کا حاصل پیش کیا ہے، وہ بعض ضمنی اور فروعی مسائل کے تحت زیر بحث آنے کی وجہ سے دب گئے ہیں اور دینی علوم کے طلبہ اور اہل علم کے لیے ان سے ان کی مستقل حیثیت میں استفادہ کرنا آسان نہیں رہا۔ استاذ گرامی کی مبسوط اور مختصر تصانیف کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے اور ان میں زیر بحث آنے والے مسائل وموضوعات اور علمی نکات کا کوئی انڈیکس بھی ابھی تک میسر نہیں، چنانچہ یہ اندازہ کرنا ممکن نہیں کہ کس علمی بحث سے متعلق کہاں اور کس نوعیت کی تفصیل مل سکے گی۔ 
میں اسی احساس کے تحت استاذ گرامی کی تصانیف کے مطالعہ کے دوران میں اس نوعیت کی علمی بحثوں کی ایک الگ فہرست اس ارادے سے مرتب کرتا رہا ہوں کہ اہل علم کی سہولت اور استفادہ کے لیے ان مباحث کو ترتیب دے کر مستقل مجموعوں کی صورت میں پیش کیا جائے۔ میں استاذ گرامی کا بے حد ممنون ہوں کہ جب ان کی تصانیف پر مبنی اس طرح کے مجموعوں کی ترتیب وتدوین کا ارادہ ان کے سامنے ظاہر کیا گیا تو انھوں نے کمال شفقت ومحبت سے نہ صرف فی الفور اس کی اجازت دے دی بلکہ حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ اس ارادے میں کامیابی کے لیے دعا بھی فرمائی۔ 
بحمد اللہ تعالیٰ ’’فن حدیث کے اصول ومبادی‘‘ کے نام سے زیر نظر مجموعہ اس سلسلے کی پہلی کڑی کے طور پرپیش کیا جا رہا ہے جبکہ اسی نہج پر اصول تفسیر، اصول فقہ، علم عقائد اور سیرت وغیرہ کے موضوعات پر مجموعوں کی ترتیب وتدوین کا کام جاری ہے۔ یہ مباحث استاذ گرامی کی جن تصانیف سے لیے گئے ہیں، ان کے حوالے درج کر دیے گئے ہیں تاکہ اصل سے مراجعت کرنا بآسانی ممکن ہو۔ عبارت میں ربط پیدا کرنے، اسے مناسب حال یا قاری کے لیے قابل فہم بنانے کی غرض سے استاذ گرامی کی اصل عبارات میں حسب موقع جزوی ترمیم، تقدیم وتاخیر اور تسہیل سے بھی کام لیا گیا ہے، جبکہ بہت سے مقامات پر عربی عبارات کے ترجمے شامل کیے گئے ہیں۔ متعدد مقامات پر زیر بحث نکتے سے متعلق بعض مفید اضافی معلومات یا مثالوں کا اضافہ کیا گیا اور انھیں ’’اضافہ از مرتب‘‘ کے الفاظ سے ممتاز کر دیا گیا ہے۔ اس طرح اس مجموعے کی تیاری میں مرتب نے اپنی بساط کی حد تک جو کوشش اور کاوش صرف کی ہے، امید ہے کہ علم حدیث کے طلبہ اسے مفید پائیں گے۔
حضرت شیخ الحدیث دامت برکاتہم گزشتہ کئی سال سے علیل اور صاحب فراش ہیں اور پیرانہ سالی کے علاوہ گوناگوں امراض وعوارض سے نبرد آزما ہیں۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہمارے جلیل القدر استاذ حضرت مولانا عبد الحمید سواتی نور اللہ مرقدہ کی مغفرت ورفع درجات اور حضرت شیخ الحدیث دامت برکاتہم کی صحت کے لیے خصوصی دعا فرمائیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ درخواست کریں کہ وہ ان بزرگوں کی علمی ودینی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی برکات وفیوض کے سلسلے کو جاری رکھے، اور ان کے اہل خاندان، تلامذہ ومتوسلین اور ان کی سرپرستی میں قائم ہونے والے اداروں، بالخصوص مدرسہ نصرۃ العلوم اور الشریعہ اکادمی کو اپنے بزرگوں کی علمی، دینی اور اخلاقی روایت کے مطابق دین حق کی خدمت کے تسلسل کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 
(محمد عمار خان ناصر)

دو اجنبیوں سے ملاقات

حسن الامین

مجھے دو ’’اجنبیوں‘‘ سے ملنے اور ان کا گردوپیش دیکھنے اور جانچنے کا موقع ملا۔ ایک ’’اجنبی‘‘ کا تعلق الٹرا ماڈرن معاشرت کی ایک این جی او سے تھا، اور دوسرے اجنبی کا تعلق قدامت پسندمعاشرت کے نقیب تحریک نفاذ شریعت محمدی سے۔ دونوں جگہ شدید گھٹن کا احساس ہوا۔ شدید ذہنی کوفت سے گزرنا پڑا۔ جدت اور قدامت کی علمبردار یہ دونوں تحریکیں مختلف زاویوں سے مجھے اپنے آپ اور اپنے گردوپیش کے مسائل سے بیگانہ نظر آئیں۔ میں نے دونوں کو اپنے آپ اور اپنے گردوپیش کی حقیقتوں سے غیرمتعلق پایا۔ دونوں کو ایک اجنبی کے روپ میں دیکھا۔
(۱) ہم اسلام آباد کے ایف سیکٹر میں واقع ایک ایسے عالی شان بنگلہ میں داخل ہوئے جہاں ملک کے تاریک ترین مشرف و شوکت عزیز دور کے دو سابق وزرا (محمد علی درانی اور بیرسٹر سیف ) ایک این جی او کا آفس کھول چکے ہیں، جہاں سول سوسائٹی الائنس کے نام سے ایک این جی او کا دفتر بنا دیا گیا ہے۔ اس بنگلے کے باہر نہایت کڑی سیکورٹی کا پہرہ تھا، اس کو قیمتی قالینوں اور فرنیچر سے مزین کیا گیا ہے، اس دفتر میں جہاں این جی او کے مالکان کا ذوق جمالیات جھلکتا ہے، وہاں یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ اس دفتر میں جو بھی پروجیکٹ آئے گا، اس کا بیشتر حصہ کس بے رحمی سے اس دفتر کی تزئین و آرائش اور اس میں کام کرنے والے ملازمین کے لمبے چوڑے اخراجات پر خرچ کیا جائے گا۔ اس محل کا کرایہ اور اس کے یوٹیلیٹی چارجز اس کے علاوہ ہوں گے۔ میں تھوڑی دیر اس دفتر میں بیٹھ کر در ودیوار کا جائزہ لیتا رہا، کچھ ہی دیر میں اپنے آپ کو پس زنداں محسوس کیا، گھٹن اور حبس کا احساس ہوا، پریشانی اور ڈیپرشن میں اضافہ ہوا۔ اس دفتر کے "مالکان"اور ان سے ملنے والے مہمانوں کے درمیان اتنی ہی بڑی بڑی باتیں ہو رہی تھیں جتنی اسلامی انقلاب کے لیڈروں اور امت مسلمہ کے عروج کا خواب دیکھنے والے شاعروں اور ادیبوں کے درمیان ہوا کرتی ہیں۔ ان کی اصطلاحات، ان کی تشبیہات اور ان کے خیالات مغربی تھے، ترقی پسندانہ تھے، لبرل اور پروگریسیو تھے۔ الفاظ کی جنگ میں ان کا کوئی مقابل نہیں تھا، سماجی تبدیلی سے وابستہ خیالات میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ میں ان کی اصطلاحات سنتا، ان کے جملوں کے دروبست کا جائزہ لیتا، پھر ان چہروں کی طرف دیکھتا جو گزشتہ حکومتوں میں موجود رہے اور کوئی تبدیلی نہیں لاسکے، وہی چہرے، وہی لوگ، وہ شخصیات لیکن اب ایک اور نام سے۔ ان دونوں شخصیات کے ماضی میں اور سماجی تبدیلی کے اس نئے ایجنڈے کے درمیان کیا ربط اور علاقہ ہے؟ ان دونوں میں تو ہزاروں کائناتوں کی خلیج حائل ہے۔ اتنے پرتعیش طرززندگی کے عادی لوگ کوئی بڑی سماجی تبدیلی کیسے لاسکتے ہیں؟ ان کے بطن سے کسی بڑے سماجی خیر کا چشمہ کیسے پھوٹ سکتا ہے؟ یہ تو سیاسی نظام کا بیڑہ غرق کرنے کے بعد اب سماجی تبدیلی کے عمل کو سبوتاژ کرنے نکلے ہیں۔ پہلے ہم نے سنا کہ دنیا کی اکثر ترقی پذیر ریاستیں لوگوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں ناکام ہوئیں اور ان کے اوپر اپنے شہریوں کا اعتماد نہیں رہا تو ناکام ریاستیں اور ناکام حکومتیں کہلائیں اور پھر یہ عالمی بیداری وجود میں آئی کہ ان کرپٹ بااثر سیاسی و فوجی اشرافیہ کو پیسے دینے کی بجائے یہی رقم سول سوسائٹی کی تنظیموں کو دی جائے اور ان کے ذریعے سے عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانے کی تگ ودو کی جائے۔ افسوس کہ بااثر اور بالادست طبقے صرف سیاسی پوزیشنز پر ہی نہیں بلکہ دوسرے تمام عہدوں پر بھی فائز ہوتے ہیں۔ ریاست کی ناکامی کے بعد اب سماجی شعبے کی ناکامی۔ وہ دن دور نہیں۔ اب جو سرمایہ سول سوسائٹی کے نام سے اس ملک میں آئے گا، اس کو بھی وہ روایتی سیاسی اشرافیہ اور ان کے عزیز واقارب مختلف ناموں سے ہڑپ کر جائیں گے۔ میں مسلسل اس کوشش میں رہا کہ پوری وسعت نظری سے خود کو ایک عام اور غریب پاکستانی مسلمان شہری کی حیثیت سے اس این جی او سے متعلق کرسکوں، مگر میں اس کوشش میں ناکام رہا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی رہے۔
(۲) دوسرا اجنبی مالاکنڈ کے مولانا صوفی محمد اور ان کی تحریک نفاذ شریعت محمدی (TNSM) ہے۔ امان درہ کے مقام پر واقع ان کے مرکزی مدرسے میں ہم داخل ہوئے۔ مولانا صوفی محمد مسجد کے ایک کونے میں واقع کمرے میں تشریف فرما تھے۔ بزرگ، سفید ریش، سادہ اوراپنے مقصد سے اخلاص ان کے چہرے سے جھلکتا۔ دین کو جیسا سمجھتے ہیں، ویسا ہی اپنے اوپرنافذ کرتے ہیں۔ کسی سے معانقہ نہیں کرتے، صرف ہاتھ ملاتے ہیں کیونکہ کسی حدیث سے انہوں نے ایسا ہی سمجھا ہے۔ چھوٹا سا سفری بیگ ان کے قریب پڑا ہے جس میں ایک جوڑا کپڑوں کا، ایک مسواک اور چند دیگر مسنون چیزیں نظر آئیں۔ لگتا ہے کسی لمبی چوڑی تیاری کے بغیر مسلسل حالت سفر میں اور شاید جیل جانے کے لیے بھی ہروقت تیار رہتے ہیں۔ مولانا کے لباس سے غربت جھلکتی ہے، ان کے چہرے کی جھریوں سے متوازن غذا کی کمی کا احساس ہوتا ہے، وہ بالکل عام پاکستانی سے بھی زیادہ فقیر اور خستہ حال دکھائی دیتے ہیں، عام آدمی ان کواپنا جیسا محسوس کرتا ہے، اس لیے لوگ ان کے اشارے پر جان دینے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اپنے جیسے غریبوں کی حالت بدلنے کے لیے اس مرد درویش کے ایشوز کیا ہیں اور ان کے سامنے اپنے جیسے خستہ حال کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بدلنے کا ایجنڈا کیا ہے؟ افسوس کہ اپنے ایشوز اور ایجنڈے کی بنیاد پر مولانا بھی اپنے گردوپیش کے مسائل سے اتنے ہی اجنبی اور غیرمتعلق نظر آئے جتنے کہ درانی صاحب اور بیرسٹر سیف صاحب کی عالی شان این جی او اپنے شاہانہ اخراجات کے حساب سے نظر آئی تھی۔ 
مولانا صوفی محمد صاحب خواتین کی تعلیم کو ناجائز سمجھتے ہیں، حتیٰ کہ وہ ان کو کسی اسلامی مدرسے میں بھیجنے کے بھی قائل نہیں۔ ان کا ایجنڈا ہے باطل کی تردید اور اس سے انکار، جمہوریت اسلام میں کفر ہے اور اس کفر میں قاضی حسین احمد، نوازشریف اور زرداری سب برابر ہیں۔ کوئی صالح نظام صرف علما ہی قائم کرسکتے ہیں اور انہی کے ذریعے سے عام آدمی کی زندگی بدل سکتی ہے۔ افسوس کہ مولانا صوفی محمد کو اپنے گرودوپیش میں ہونے والی علمی اور تمدنی تبدیلی، سماجی و معاشرتی علم میں ہونے والے ارتقا کا ذرہ برابر علم نہیں۔ دنیا کے مختلف مسلم ممالک اور مسلم معاشروں میں اسلامی نظام برپا کرنے کے نام لیوا کیوں ناکام ہوئے؟ وہ کوئی بڑا انقلاب کیوں برپا نہیں کرسکے؟ دنیا کے سماجی اورمعاشرتی علم میں کیا تبدیلیاں آچکی ہیں؟ انسانی علم اور تمدنی علم نے کیا کیا منزلیں طے کی ہیں؟ مولانا کی سادگی دیکھ کر رونا آیا اور ان کا اخلاص دیکھ کر رشک آیا۔ مولانا تصویر کو ناجائز سمجھتے ہیں مگر اسی کیمرے میں اپنی آواز کو ریکارڈ کرانے کو جائز سمجھتے ہیں، آخر کیوں اور کس اصول کی بنیاد پر؟ مولانا میوزک کو حرام سمجھتے ہیں مگر موبائل فون پر میوزیکل رنگ ٹون سن لینے کو مائنڈ ہی نہیں کرتے، آخر کیوں اور یہ استثنا کس اصول کی بنیاد پر؟ مولانا مغرب و امریکہ و اسرائیل کو کوستے ہیں مگر مہمانوں کو کوکا کولا اور پیپسی سے نوازتے ہیں۔ مولانا نے جو گھڑی اپنی کلائی پر پہن رکھی ہے، وہ چین کی بنی ہے جو ایک غیرمسلم ملک ہے۔ انہوں نے جو کپڑے پہنے ہیں، اس کی ٹیکنالوجی کسی مغربی ملک سے آئی ہے۔ میں مسلسل اس کوشش میں تھا کہ خود کو ایک عام گناہ گار پاکستانی مسلمان کی حیثیت سے مولانا صوفی محمد سے متعلق کرسکوں مگر میں اس کوشش میں ناکام رہا۔ میں ان کے لیے اور وہ میرے لیے اجنبی رہے۔
مولانا کی محفل سے رخصت ہونے لگے تو ان کی شوریٰ کا اجلاس شروع ہونے کو تھا جس میں کالی پگڑیوں میں ملبوس ان کی شوریٰ کے سینکڑوں بزرگ تشریف لاچکے تھے، مخلص، سادہ اور پرانی روایت کے امین بزرگ۔ مگر ایک ایسے سفر کے مسافر جس کی نہ طوالت کا علم، نہ پڑا و کا پتہ اور نہ منزل کی خبر۔ 

مذہبی رویے: چند اصلاح طلب امور

ادارہ

ہمارے ملی ادارے جوکبھی عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے تھے، آہستہ آہستہ ذاتی اورموروثی اداروں میں بدلتے جارہے ہیں۔ ہر ادارے کے منتظم کی یہ خواہش چھپی نہیں رہتی کہ ادارہ اس کی اولاد اور خاندان تک محدود ہو کر رہ جائے۔ یہ ساری ریشہ دوانیاں اور اتھل پتھل، کہیں دبی دبی بے چینی اور کہیں کھلا کھلا انتشار سب اسی خواہش کانتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ اصل میں اس طرز عمل سے بہت سے حق داروں کی حق تلفی ہوتی ہے اور وہ کھلاپن باقی نہیں رہتاکہ ہرشخص کو اپنی قابلیت کے جوہر دکھانے اور ترقی کرنے کے مساوی موقعے مل سکیں۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ جب حق داروں کوان کاحق نہیں ملتا اور محنت کرنے والوں کی محنت کانتیجہ ان کے سامنے نہیں آتا تو پھر اداروں میں چاپلوسی، خوشامد اور انتظامیہ کو ہر حال میں خوش رکھنے کے راستے تلاش کیے جاتے ہیں۔
یہ بھی سچائی ہے، چاہے کڑوی ہی کیوں نہ ہو کہ ہمارے ملک میں اب بہت سے اداروں کا مدار باہر کے ملکوں سے امداد پر زیادہ ہو گیا ہے۔ کیونکہ یہ باہر کا پیسہ قانونی مرحلے طے کر کے نہیں پہنچتا، اس لیے یا تو اس پیسے کو ظاہر نہیں کیا جاتا یا پھر فرضی حساب بنایا جاتا ہے۔ پہلے ہمارے اداروں کی بڑی مفصل سالانہ روئیدادیں شائع ہوا کرتی تھیں جن میں ایک ایک پیسہ کی آمد وخرچ کے حسا ب کی تفصیل حاصل ہوتی تھی، تعلیم کی پوری کارکردگی آئینے کی طرح سامنے ہوتی تھی، طلبہ کے مکمل نام، ان کے حاصل کردہ نمبرات، یہ سب بڑی تفصیل کے ساتھ عوام کے سامنے رکھ دیے جاتے تھے اور لوگ بھی اپنے اداروں کی کارکردگی دیکھ کرمطمئن رہتے تھے۔ یہ اصل میں عوامی محاسبے کاایک بہت ہی سائنٹیفک اور صاف ستھرا انتظام تھا۔ اب یہ سب کچھ دھیرے دھیرے سمٹتا جا رہا ہے۔
ہمارے تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ خیال تعلیم کے معیار کا رہتا تھا۔ اسباق کی پابندی، طلبہ کی حاضری کا خیال، حاضری پر ان کو انعامات، مقررہ نصاب کی تکمیل، ان سب پر بہت زیادہ توجہ رہتی تھی۔ اس کے ساتھ طلبہ کی تربیت اوراخلاقی حالت پر پوری نظر رکھی جاتی تھی۔ ماننا چاہیے کہ اب ان سب چیزوں سے زیادہ عمارتوں پر توجہ ہے، بڑی بڑی عمارتیں، پرشکوہ بلڈنگیں ہمارے اداروں کی شان بنتی جا رہی ہیں۔
دیوبند جانا ہوتا رہتا ۔ہے کئی بار دیکھا ہے کہ طلبہ کی ایک بڑی بھیڑ کہیں سے نکلی چلی آرہی ہے جس سے سڑک پر آمد و رفت معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ معلوم کیا توپتہ لگا کہ ہمارے طلبہ عزیز کہیں ٹیلی ویژن مرکز پر کرکٹ کا میچ دیکھ کر آرہے ہیں جہاں ہر دیکھنے والے سے پانچ روپے لے کر ٹیلی ویژن پر میچ دکھایا جاتا ہے۔ اب نہ فکر نماز کی نہ اسباق کی، کرکٹ کی شکست وفتح ہمارے طلبہ عزیز کی توجہ کا مرکز ہے۔ یہ چند باتیں کچھ اشارات کے طورپر عرض کر دی گئیں اور ان کامنشا اپنی اس فکر مندی کا اظہار ہے جو ملی اداروں کی حالت دیکھ کر قدرتی طور پر ہوتاہے اور شاید ہر حساس انسان کو ہونا بھی چاہیے۔
بات چلی تھی کہ ہمارے ادارے ذاتی اور موروثی حیثیت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ غالباًوقت آچکاہے کہ ملت کے دردمند لوگ سرجوڑ کر بیٹھیں اور اعلیٰ سطح کی ایک ایسی کمیٹی تشکیل دیں جو ان اداروں پر خاص طورپر مرکزی حیثیت کے مدرسوں اور اہم جماعتوں پر نظر رکھیں اور اس کمیٹی کو عوام کا اتنااعتماد حاصل ہو جائے کہ لوگ اس کی غیر جانب داری اور انصاف پسندی پر بھر پور اعتماد کر سکیں۔ اس سے ان اداروں کو اس بات کا خیال رہے گا کہ بہرحال عوام کے سامنے جواب دہ ہیں اور عوامی اداروں کے لیے عوام کا اعتماد کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ (طارق عمیر عثمانی)
(بشکریہ ماہنامہ دار السلام، اپریل ۲۰۰۸۔ مالیر کوٹلہ، بھارت)

جمعیۃ العلماء ہند میں چچا بھتیجے کے اختلاف کا موضوع ہم چھیڑنا نہیں چاہتے۔ اخبارات میں یہ مسئلہ جس انداز سے آتا رہا ہے، وہ سبھی کے لیے تکلیف دہ رہا ہے۔ ڈر یہ ہے کہ اس اختلاف کا اثر دار العلوم دیوبند پر نہ پڑے اور وہاں کی فضا میں کوئی ایسی ہلچل پیدا نہ ہو جو دار العلوم کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ہو۔
اس قضیہ نامرضیہ میں ایک بات جو شروع سے ہمیں کھلتی رہی ہے، وہ یہ ہے کہ کیا پورے ملک میں اس خاندان کے دو گروپ کے علاوہ کوئی نہیں ہے جو ملت کے مسئلوں کو سلجھانے کے لیے آگے بڑھے؟ جمعیۃ العلماء مولانا اسعد میاں صاحب کے زمانے سے ہی ان کے حلقہ مریدین کی جماعت بن کر رہ گئی تھی۔ ہمیں معلوم ہے، اگرچہ کافی وقت گزر چکا ہے، کہ ہمارے والد محترم جس زمانے میں دار العلوم دیوبند کے شعبہ فارسی میں پڑھانے کی خدمت انجام دے رہے تھے، جمعیۃ العلماء کا ترجمان روزنامہ ’الجمعیۃ‘ مولانا عثمان فارقلیط کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ مولانا فارقلیط نے ایک اداریہ لکھا جس میں شکوہ کیا کہ جمعیۃ العلماء کی ممبر سازی عوامی طور پر کرنے کے بجائے خاص لوگوں کے نام بھر دیے جاتے ہیں اورممبر سازی کے پیسے دفتر میں جمع کرا دیے جاتے ہیں۔ یہ ممبر حقیقی طور پر ممبر نہیں ہوتے، بلکہ بعض کو تو یہ پتہ بھی نہیں ہوتا کہ ہمیں ممبر بنایا گیا ہے۔ یہ اداریہ شائع ہوا تو میرے والد صاحب نے اس کی تائید میں ایڈیٹر کو ایک خط لکھ دیا اور غضب یہ ہوا کہ حضرت مولانا محمد میاں صاحب نے اپنے تائیدی نوٹ کے ساتھ اس خط کو نمایاں طور پر شائع کر دیا۔ بس پھر کیا تھا، پورے حلقے میں ایک ہلچل مچ گئی۔الجمعیۃ ترجمان جمعیۃ کے تعلق سے اداریہ اور پھر اس خط کی اشاعت!
ہمیں معلوم ہے کہ درجہ فارسی میں ایک مدرس ہوا کرتے تھے مولانا شمیم احمد عثمانی دیوبندی۔ یہ مولانا اسعد میاں صاحب کے بہت قریبی رازدار دوستوں میں سے تھے۔ انھوں نے والد صاحب سے کہا کہ جمعیۃ العلماء کی ممبر سازی ہونے والی ہے۔ اب کی مرتبہ آپ اس میں حصہ لیں اور ممبر بنائیں۔ والد صاحب نے کہا کہ ہم ضرور تیار ہیں۔ ہمیں آپ رسید بک لا کر دے دیں، ان شاء اللہ ہم ممبر سازی کریں گے۔ کہنے کو تو انھوں نے کہہ دیا مگر والد صاحب کے بار بار یاد دلانے اور تقاضا کرنے کے باوجود انھوں نے والد صاحب کو ممبر بنانے کا موقع نہیں دیا۔ جب ممبر سازی کی تاریخ نکل گئی تو والد صاحب نے ان سے کہا کہ ہمیں یہی امید تھی کہ آپ ہمارے ذریعے ممبر نہیں بنائیں گے اور اس وقت ایک لفظ ان کی زبان سے نکلا کہ ’’سکہ بند‘‘ لوگوں کے علاوہ کس کی مجال ہے جو جمعیۃ میں داخل ہو سکے۔
تو حقیقت یہی ہے کہ جمعیۃ العلماء مریدوں کے حلقے میں محدود ہو کر رہ گئی تھی اور آج بھی کچھ صورت حال مختلف نہیں ہے، اس لیے جمعیۃ العلماء کا ماضی کتنا بھی شاندار رہا ہو، اب وہ ایک حلقے میں محدود ہے۔ یہی حال ان لوگوں نے دار العلوم دیوبند کا کر دیا کہ قبضے کے بعد سے اس پر ایک ہی خاندان اور ایک ہی فکر کے لوگ قابض ہیں۔ جب تک یہ صورت حال نہیں بدلے گی، چاہے اختلافات ہوں، لڑائیاں بجتی رہیں یا کچھ بھی ہوتا رہے، ملت کے لیے یہ ایک مستقل ناسور بنا رہے گا۔ لوگ کہیں گے علما لڑ رہے ہیں، حالانکہ علما نہیں، بلکہ ایک خاندان کے لوگ اپنی انا اور مفادات کے لیے برسر پیکار ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس امت پر رحم فرمائے کہ اس نازک دور میں بھی لوگ اپنے مفاد سے اوپر اٹھ کر دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
(طارق عمیر عثمانی)
(بشکریہ ماہنامہ دار السلام، مئی ۲۰۰۸۔ مالیر کوٹلہ، بھارت)

تبلیغی جماعت میں دین کے صرف ظاہری فارم کو بنانے کی بات پر زور دیا جاتا ہے، نہ کہ اندرونی انسان سازی پر۔ پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ طریقہ امت کے عوام طبقہ کے لیے درست ہو سکتا ہے جس کو سرے سے اس بات کا علم ہی نہیں کہ دین کیا ہے؟ خدا، رسول اور آخرت کیا ہے؟ لیکن اب میری سمجھ میں یہ بات آئی ہے کہ عوام ہوں یا خواص، تبلیغی جماعت میں جڑنے کے بعد مسلمان ذہنی جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے سے باہر کسی بات پر سوچنے اور سمجھنے کے قابل نہیں رہتا، اس لیے کہ اس میں کچھ گنی چنی باتوں کو دہرایا جاتا ہے اور خالص روایتی انداز میں بات کہی جاتی ہے، بنا کسی دلیل کے۔ 
میرے محلے کا واقعہ ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ کچھ دنوں پہلے میری بیٹی کے گھر ڈلیوری ہونے والی تھی۔ میرے داماد پر محلے کی جماعت کے ساتھیوں نے چار مہینہ جماعت میں لے جانے کے لیے زور دیا۔ اس پر میں نے یہ بات جماعت والوں کو بتائی تو انھوں نے کہا کہ اللہ سب اچھا کرے گا۔ ایسا کہہ کر وہ اس کو اپنے ساتھ لے گئے۔ کچھ دنوں بعد میری لڑکی کی طبیعت خراب ہو گئی۔ پھر میں اس کو اپنے گھر لایا اور اسپتال میں بھرتی کرایا جس میں مجھے قریب ۱۷۰۰۰ روپے کا خرچ اٹھانا پڑا۔ نہیں تو میری بچی کی جان خطرے میں تھی۔یہ بات جب میں نے اپنے داماد کو جماعت سے واپس آنے پر بتائی تو وہ میرا احسان ماننے کے بجائے مجھ سے جھگڑا کرنے لگے اور ۱۷۰۰۰ میں سے ایک پیسہ بھی مجھے نہیں دیا۔ تب سے مجھے جماعت کے نام سے نفرت ہو گئی ہے۔ یہ بات مذکورہ صاحب نے مجھے اس وقت بتائی جب میں نے ان سے فجر کی نماز کے بعد مسجد سے باہر نکلتے وقت پوچھا کہ آج کل آپ تعلیم میں کیوں نہیں بیٹھتے؟ اسی طرح کے اور بھی واقعات ہیں۔
اصل یہ ہے کہ تبلیغی جماعت میں بھیڑ دیکھ کر آدمی اس سے جڑ تو جاتا ہے لیکن وہ خدا کی معرفت اور دین کی حقیقت سے ہمیشہ بے خبر رہتا ہے۔ الرسالہ پڑھنے کے بعد جب میرے اندر صحیح طرز فکر پیدا ہوا تو میں نے ان حضرات سے کہا کہ آپ لوگ صبح شام ایک ہی کتاب پڑھتے رہتے ہیں اور وہ فضائل اعمال ہے، اور بات کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کی۔ حالانکہ آپ کا طریقہ تو یہ تھا کہ آپ لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے تھے اور قرآن سے ہی دعوت دیتے تھے، جبکہ ان کی مخاطب قوم تو جہالت کی حد پر تھی۔ پھر جب وہ قوم قرآن کے ذریعے ہمارے لیے نمونہ بنا دی گئی تو ہمیں جھوٹے فضائل کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے؟ جس دین میں خدا کی کتاب ہی کا وجود نہیں، وہ دین کیسا؟ میری اس بات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، لہٰذا وہ کسی مفتی سے یہ جواب لے آئے کہ قرآن کو صرف علما ہی سمجھ سکتے ہیں، عام مسلمان اس کو پڑھنے سے بھٹک سکتا ہے۔ اس طرح کی باتوں سے جماعت کے آدمی کا ذہن ایسا ہو جاتا ہے کہ وہ خود کسی بات پر کھلے ذہن سے سوچ نہیں پاتا۔ بس ایک بات یا جملہ ان کے بڑوں نے کہہ دیا تو وہ پتھر کی لکیر ہو گئی۔ صحیح ہے یا غلط، اس پر کسی کو عقل لگانے کی ضرورت نہیں۔ (شکیل احمد، اندور)
تبلیغی جماعت کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے ذمے داروں نے عوام کے اندر دینی شوق پیدا کرنے کے لیے اس کام کو شروع کیا۔ انھوں نے محسوس کیا کہ عوام زیادہ گہری باتوں کو سمجھ نہیں سکتے، اس لیے انھوں نے فضائل کی روایات کے اوپر اپنی تحریک کی بنیاد رکھی۔ عوام کی اصلاح کے اعتبار سے یہ طریقہ مفید ہو سکتا ہے لیکن بعد کو یہ ہوا کہ تبلیغ کے ذمے داروں نے اپنے طریق کار کو بدلے بغیر خواص کو اپنے دائرۂ عمل میں شامل کر لیا۔ تبلیغی جماعت کی یہ توسیع الٹا نتیجہ پیدا کرنے کا سبب بن گئی کیونکہ فضائل کی روایتیں عوام کو متاثر کر سکتی تھیں، لیکن خواص کا ذہن اس سے ایڈریس نہیں ہوتا، چنانچہ خواص تبلیغی جماعت سے قریب ہونے کے بعد جلد ہی اس سے دور ہونے لگے۔ 
خواص کی یہ دوری سادہ طور پر تبلیغ سے دوری نہ تھی، بلکہ عملاً وہ دین سے دوری کا سبب بن گئی۔ خواص یہ سمجھنے لگے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو عوام کی ضرورت کو تو پوری کرتا ہے، لیکن اس میں خواص کے لیے اطمینان کا سامان نہیں۔ دہلی کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان، جو پہلے تبلیغی جماعت سے قریب ہوئے تھے اور پھر وہ دل برداشتہ ہو کر اس سے دور ہو گئے، انھوں نے ا س معاملے کو بتاتے ہوئے یہ بامعنی جملہ کہا: ’’تبلیغ والوں نے پہلے میواتیوں کو مسلمان بنایا، اب وہ مسلمانوں کو میواتی بنا رہے ہیں۔‘‘ (مولانا وحید الدین خان)
(بشکریہ ماہنامہ تذکیر لاہور، جون ۲۰۰۸)

اسلامی معاشیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز؟ (۱)

محمد زاہد صدیق مغل

(وضاحت: مضمون کا مقصد کسی کی علمی حیثیت کم کرنا یا کسی کے خلوص پر شک کرنا ہرگز نہیں، بلکہ راقم الحروف کے خیال میں اسلامی معاشیات و بینکاری سے منسلک تمام حضرات خلوص دل کے ساتھ اسے خدمت اسلام سمجھتے ہیں اور ان کی غلطی اجتہادی خطا پر محمول ہے۔ واللہ اعلم بالصواب)

ارباب فکر و نظر پر خوب واضح ہے کہ پچھلی دو صدیوں کے دوران سر مایہ دارانہ نظام کے غلبے کے نتیجے میں اسلا می اصولوں کے مطا بق زندگی گزارنے کے مواقع کم سے کم تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ چو نکہ معاش معا شرتی زندگی کا وہ شعبہ ہے جس سے ہر خاص وعا م کو وا سطہ پڑتا ہے، لہٰذا اس کے تباہ کن اثرات سب سے زیادہ اسی شعبہ زندگی پر پڑے ہیں۔ نیز چونکہ سرمایہ داری کا اصل مقصد و محور صرف معاش ہی معاش ہے، لہٰذا موجودہ دور میں معا شی مسائل ہی نے سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر لی ہے اورزندگی کے ہر مسئلے کو ’معاد‘ کے بجا ئے ’معا ش‘ کے نقطہ نگاہ سے دیکھے جانے کی روش عام ہونے لگی ہے اور اسی روش کے عام ہونے سے سرمایہ داری معا شروں پر غالب آاتی ہے۔ مثلاً سود کے مسئلے کو لیجیے، اس کے حق میں جتنی بھی عقلی تو جیہات پیش کی جاتی ہیں، ان کا لب لباب یہی تو ہے کہ یہ ترقی یعنی معا ش کی بڑھوتری کا ضامن ہے۔ لیکن معاد کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ سود اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان جنگ ہے، نیز آخرت میں ذلت و رسوائی کا باعث ہے۔ پس جب تک افراد اپنے معاش کے معا ملات کو معاد کے نقطہ نگاہ سے دیکھتے رہیں گے، سرمایہ داری کبھی معاشرے پر غالب نہیں آ سکتی، اور یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی کی تمام تو جیہات، چاہے وہ لبرلزم ہو یا سوشلزم، مذہب کی معا شرتی بالا دستی کی شدید دشمن ہیں۔ 
معا شی مسا ئل حل کرنے کے لیے علماے کرام پہلے ہی دن سے جز واً جزواً پیش آنے والے مختلف مسا ئل اور ان کی شرعی حیثیت کے بارے میں ار با ب اختیار اور عوام کو آگاہ اور متنبہ کرتے چلے آئے ہیں اور الحمد للہ یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ ایسے ہی پیش آنے والے مسا ئل میں سے ایک اہم مسئلہ موجودہ سود پر مبنی بینکاری نظام کی شرعی حیثیت اور اس کے متبادل کا بھی تھا۔ علماے کرام نے اس مسئلے پر مختلف جہات سے اپنی اپنی تحقیقات پر مبنی لائق تحسین آرا پیش کیں جن کے نتیجے میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو کر سامنے آگئی کہ موجودہ بینکاری نظام میں جاری و ساری سود وہی ربا ہے جسے قرآن نے حرام قرار دیا ہے، لہٰذا جب تک بینکاری نظام کو سود سے پاک نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ کاروبار شرعاً جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بینکاری نظام کی اس شرعی حیثیت کو متعین کرنے کے بعد دوسرا مسئلہ اسکا متبادل نظام وضع کرنے کا تھا تو اس سلسلے میں بھی امت مسلمہ کے مختلف ممالک کے علما نے کئی حل پیش کیے ہیں اور مملکت پاکستان میں بھی اس امر میں کافی پیش قدمی ہوئی اور اس ضمن مولانا مفتی تقی عثمانی صا حب کی کاوشیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ البتہ اس سلسلے میں کی گئیں تمام تر تحقیقات علماے کرام کے ذاتی اجتہا دات و آرا پر مبنی ہیں اور اب تک کوئی اجماعی رائے سامنے نہیں آسکی ۔ اسی طرح مروجہ اسلامی نظام بینکاری و زر (Finance) کی شرعی حیثیت اور مقاصد شریعہ کے حصول میں اس کی افادیت پر بھی علماے کرام مختلف الرائے ہیں۔ اسلامی بینکاری نظام پر تنقیدی تناظر میں کئی جہتوں پر بحث کرنا ممکن ہے، مثلاً: 
  • موجودہ بینکاری کی اسلام کاری کے امکانات، جس میں یہ سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آیا موجودہ نظام بینکاری کو اسلامیانے کا کوئی طریقہ ممکن بھی ہے یا نہیں۔ کیا واقعی بینک ایک زری ثالث (financial intermediate) ہوتا ہے یا کچھ اور؟ 
  • اسلامی بینکاری نظام کار (methodology)کا اصول شریعہ کی روشنی میں تنقیدی جائزہ ، جس میں جزواً جزواً یہ دیکھا جاتا ہے کہ اسلامی بینک جو زری سروسز اور پراڈکٹس (Financial products and services) مہیا کرتے ہیں، آیا وہ قواعد شریعہ کے مطابق ہیں یا نہیں ؟
  • اسلامی اور مروجہ بینکاری نظام کا تطبیقی موازنہ، جس میں یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آیا واقعی اسلامی بینک موجودہ بینکاری نظام سے علیحدہ کوئی کام کربھی رہے ہیں یا محض لفظی ہیر پھیر سے کام چلا رہے ہیں ۔
  • سرمایہ داری اور اسلامی بینکاری کا باہمی ربط، جس میں اسلامی بینکاری نظام کار کو جزوی طور پر نہیں بلکہ ایک بڑے نظام زندگی کے ایک پرزے کے طور پر جانچ کر یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آیا اس طریقہ کار سے مقاصد الشریعہ کا حصول ممکن ہے بھی یا نہیں ۔
اس مضمون کا مقصد ان تمام تناظروں پر نہیں بلکہ صرف آخری تناظر میں بحث کرنا ہے، یعنی ہمارے تجزیے کی بنیاد (unit of analysis) جزوی تفصیلات نہیں بلکہ نظام ہے۔ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ کس طرح اسلامی معاشیات و بینکاری نظام کا فلسفہ اور حکمت عملی سرمایہ داری کی تقویت اور اسلامی زندگی کی بیخ کنی کا باعث بنتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں اسلامی بینکاری وغیرہ پر سب سے عمدہ تحقیق مولانا تقی عثمانی صاحب نے فرمائی ہے، لہٰذا ہمارے پیش نظر آپ کی کتاب ’’اسلام اور جدید معیشت و تجارت‘‘ ہے۔ مولانا کی قد آور شخصیت اور علماے کرام کے سامنے خطبات کی صورت میں پیش کیے جانے کی بنا پر اس کتاب کی علمی اہمیت و ثقاہت (authenticity) دیگر کتب سے بہت بڑھ کر ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کو مدارس میں ایک بنیادی نصابی کتاب کے طور پر شامل کرلیا گیا ہے۔ 
مباحث مضمون کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلے حصے میں اسلامی معاشیات کا علمیاتی تناظر اور عمومی ڈھانچہ (framework) بیان کرکے یہ دکھایا جائے گا کہ کیونکر اسلامی معاشیات کا لازمی نتیجہ سرمایہ داری ہی کی بالادستی ہے اور دوسرے حصے میں مولانا کی کتاب سے اس عمومی ڈھانچے کی تصویب (endorsement) بیان کرکے اس کی بنیادی غلطیاں واضح کی جائیں گی۔ وماتوفیقی الا باللہ 

۱ ) اسلامی معاشیات کا علمیاتی ڈھانچہ (epistemological framework)

دیگر سائنسز کی اسلام کاری کی طرح اسلامی معاشیات کی بنیادی غلطی سوشل سائنسز کو غیر اقداری (value-neutral) علمیت سمجھ کر اختیار کرلینا ہے۔ اسلامی ماہرین معاشیات کے خیال میں سوشل سائنسز کوئی ایسا غیر اقداری فریم ورک ہے جو کسی ’مجرد انسان ‘ (abstract and neutral human being) کے رویے سے بحث کرتا ہے، یعنی سوشل سائنسز کے فراہم کردہ فریم ورک کو ’کسی بھی‘ فرد اور معاشرے کے عمومی رویے کو سمجھنے اور ان سے حاصل ہونے والی پالیسیوں کو کسی بھی معاشرے پر لاگو کرکے ہر قسم کے مقاصد حاصل کرنا ممکن ہے۔ گویا ان کا مفروضہ یہ ہے کہ سوشل سائنسز کی حیثیت بس ایک آلے (tool) کی ہے جسے اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم مفکرین مغربی علوم کو ’’جو اچھا ہے وہ لے لو اور جو برا ہے اسے چھوڑ دو‘‘ کے پیرایے میں دیکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سوشل سائنسز ہرگز کوئی غیر اقداری علوم نہیں بلکہ علوم اسلامیہ کی طرح ان کا ایک مخصوص مقصد ہے۔ سوشل سائنسز کسی ایسے ماورا انسان کے رویے سے بحث نہیں کرتے جس کے تناظر میں ’ہر‘ فرد اور معاشرے کا رویہ سمجھنا ممکن ہے اور نہ ہی یہ کوئی ایسی اٹل حقیقت ہیں جن کی بنیاد ایسے آفاقی تصورات پر قائم ہے جو ’انسانیت بحیثیت مجموعی‘ کا مظہر ہیں، بلکہ یہ اس مخصوص انسان کے رویے سے بحث کرتی ہیں جسے ہیومن بینگ (Human being)کہا جاتا ہے۔(ہیومن بینگ کی تفصیلات کے لیے دیکھیے راقم الحروف کا مضمون، ماہنامہ الشریعہ، مئی ۲۰۰۸) مختصراً ہیومن بینگ سے مراد ایسا انسا ن ہے: 
۱) جو خود کو قائم بالذات (الصمد) مانتا ہے ،
۲) جس کی نظر میں تمام تصورات خیر اور زندگی گزارنے کے تمام طریقے مساوی حیثیت رکھتے ہیں، اور جس کے خیال میں قدر متعین کرنے کا واحد پیمانہ انسانی ارادہ ہے، 
۳) جس کا مقصد زندگی انسانی ارادے و خواہشات کی لامحدود تکمیل یعنی سرمایے میں لامحدود اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ 
تمام سوشل سائنسز درحقیقت اس مخصوص انسان اور اس کے تعلقات سے ابھرنے والی معاشرت و ریاست سے بحث کرتی ہیں، یعنی ان کا مطمع نظر ایک ایسے معیاری معا شرے اور ریاست کی ترتیب و تنظیم کا لائحہ عمل وضع کرنا ہے جہا ں افراد کو زیادہ سے زیادہ آزادی اور سرمایے کی بڑھوتری کے مواقع میسر آسکیں۔ اس مخصوص انفرادی پس منظر کے علاوہ کسی دوسری انفردایت اور معاشرت کے رویے کی تفہیم کے لیے یہ سرے سے کوئی بنیاد فراہم ہی نہیں کرتیں۔ اس کی مثال یوں سمجھی جا سکتی ہے جیسے اسلامی علمیت میں علم الفقہ کا مقصد قرآن و سنت میں وارد شدہ نصوص سے وہ اصول اخذ کرنا ہے جن کی روشنی میں یہ طے کیا جا سکے کہ ان گنت انسانی اعمال و افعال سے رضا ے الہٰی کے حصول کا درست طریقہ کیا ہے (یعنی ان اعمال کا شرعی حکم بیان کیا جا سکے) نیز یہ معلوم کیا جا سکے کہ افراد کے تعلقات کو کن تعلیمات کا پا بند بنا کر معاشرے کو احکامات الہٰی کے تابع کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح علم تصوف کا مقصد وہ لائحہ عمل فراہم کرنا ہے جس کے ذریعے فرد اپنے نفس کو احکامات الہٰی پر راضی کرنے کے قابل ہوجائے۔ بالکل اسی طرح سوشل سائنسز کا مقصد ایک طرف سرمایہ دارانہ شخصیت ، معا شرے و ریاست کی علمی توجیہ پیش کرنا ہے اور دوسری طرف یہ افراد کے تعلقات میں آزادی کی ان لازمی حد ود کا تعین کرنے کے اصول وضع کرتی ہیں جن کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ معا شرتی و ریاستی صف بندی وجود میں آسکے۔ (سو شل سائنسز کا معا شرتی پالیسیاں وضع کرنے کے ساتھ کیا تعلق ہے، اس کے لیے جمہوریت پر ہمار ا مضمون دیکھیے : ساحل نومبر ۲۰۰۶ )۔ سو شل سائنسز کا مقصد ایک ایسے دستور، ایک ایسے قانون، ایک ایسے معا شرتی نظام کا قیا م ہے جسے الہامی اور آسمانی قانون سے کوئی واسطہ یا رابطہ نہ ہو۔ جس طرح علم تصوف کوئی ایسا غیر اقداری علم نہیں جس کے ذریعے ’ہر قسم کی انفرادیت ‘ کا فروغ ممکن ہوسکے ، بالکل اسی طرح سوشل سائنسز بھی کوئی غیر اقداری علوم نہیں بلکہ یہ ایک مخصوص انفرادیت کے رویے سے بحث کرتی ہیں۔ 
اس ضمن میں دوسری بات یہ کہ ہر اجتماعیت یا معاشرتی صف بندی کو تشکیل دینے کے لیے ایک خاص نوعیت کی پالیسیاں اور قوت نافذہ یا ریاستی ادارے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ پالیسیاں ایک علمیت سے نکلتی ہیں جو ایک مخصوص انفرادیت، معاشرت و ریاست کی تشکیل اور تنظیم کو ممکن بنانے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ ہر پالیسی ہر قسم کے معاشرے میں قابل استعمال نہیں ہوتی جس کی بنیادی وجہ اس مقصد کا اختلاف ہوتا ہے جس کے لیے افراد کسی معاشرتی صف بندی کی پابندی کو قبول کرتے ہیں۔ مثلاً ایک ایسا معاشرہ جس کا مقصد وجود آزادی اور لذت پرستی ہو، اس میں شراب وشباب خانے پھیلانے، قرضے کی معیشت کو عام کرنے عورتوں کو ملازمت کا پیشہ اختیار کرنے پر ابھارنے وغیرہ کی پالیسی اس مقصد کی منطق کے عین مطابق ہے، جبکہ یہی پالیسیاں ایک مذہبی معاشرے کے مقصد کے لیے سم قاتل ثابت ہوتی ہیں۔ایک لبرل سرمایہ دارانہ (capitalist) معاشرے کو کامیاب طریقے سے چلانے کے لیے مارکیٹ کے ادارے کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی پالیسی اپنانا پڑتی ہے جبکہ ایک اشتراکی (socialist) معاشرے کے قیام کے لیے سب سے پہلے اسی مارکیٹ کے ادارے کوتہس نہس کرنا ضروری امر ہوتا ہے[گو کہ سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں کا اصل مقصد آزادی یا سرمایے کی بڑھوتری ہی ہوتا ہے، دونوں ہی تحریک تنویر سے نکلنے والے دو دھارے ہیں جن میں اختلاف اس بات پر ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کا صحیح ترین طریقہ کیا ہے] چنانچہ پالیسی اور مقصد کا تعلق اس قدر واضح بات ہے کہ اگر آپ سے کوئی کہے ’’پالیسی بناؤ‘‘ تو آپ اس سے پہلا سوال یہی پوچھیں گے ’’کس لیے‘‘۔ آپ پالیسی کو کسی حکیم کے نسخے کے مشابہ سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے ہر نسخہ ہر بیماری میں قابل استعمال نہیں ہوتا، با لکل ایسے ہی ہر مقصد ہر پالیسی کے ذریعے قابل حصول نہیں ہوتا۔ مقصد کا یہ تعلق نہ صرف پالیسی کے ساتھ، بلکہ خاص نوعیت کے ریاستی ادارے کی ہیئت کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک لبرل سرمایہ دارانہ معاشرہ جمہوری طرز حکومت جبکہ اشتراکی معاشرہ مزدوروں کی ڈکٹیٹر شپ کا خواہاں ہوتا ہے۔ چنانچہ سوشل سائنسز کے تجزیے سے ماخوذ شدہ پالیسیاں ہر گز اسلامی معاشرت کے فروغ کاباعث نہیں بنتیں بلکہ ان کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ انفرادیت و معاشرت ہی کا فروغ ظہور پزیر ہوتا ہے۔ پس یوں سمجھیے کہ سوشل سائنسز سرمایہ دارانہ نظام زندگی کی علمیت (Epistemology) ہیں جو اس نظام کے تحت گزاری جانے والی زندگی کی عملی شکل اور اس کے لوازمات کی وضاحت کرتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ سرمایہ داری کے بازو ہیں جن کے سہارے یہ ایک عملی نظام زندگی کی شکل اختیار کر پاتا ہے۔ 

علم معاشیات کا خاکہ 

اس اصولی تمہید کے بعد اب ہم معاشیات کے مضمون کے علمی ڈھانچے کا عمومی نقشہ پیش کرتے ہیں۔ یوں تو معاشیات کے مضمون میں کئی مکتبہ ہائے فکر نمایاں اہمیت کے حامل ہیں، البتہ تین اہم ترین نظریات درج ذیل ہیں: 
۱) نیوکلاسیکل (neoclassical) یا مارکیٹ اکانومی جوسرمایہ داری کی لبرل (یعنی Individualistic ) تعبیر کی توجیہ و تشریح بیان کرتی ہے ۔
۲) سوشلزم و مارکسزم ، جو سرمایہ داری کی اجتماعی (collectivist)تعبیر بیان کرتی ہیں ۔
۳) سوشل ڈیموکریسی جو اول الذکر دونوں کی خامیوں کو دور کرکے اور خوبیوں کو جمع کرکے سرمایہ داری کے لیے ایک قدرے بہتر فریم ورک فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے ، اسے مکسڈ (mixed)اکانومی وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔ 
ان تینوں نظریات کے اندر بذات خود کئی ذیلی نظریات بھی موجود ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ (اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے فقہ حنفی کے اندر پھر بریلوی یا دیوبندی کی تقسیم وغیرہ )۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ان تمام نظریات میں اختلاف اہداف (ends) پر نہیں بلکہ طریقہ کار (method) پر ہے ، یعنی لبرل سرمایہ داری ہو یا اشتراکی سرمایہ داری دونوں کے نزدیک اصل اہداف و مقاصد آزادی، مساوات اور ترقی ہی ہیں، البتہ اختلاف اس امر میں ہے کہ ان اہداف کو حاصل کرنے کا درست طریقہ کار کیا ہے۔ ایک کے نزدیک وہ طریقہ مارکیٹ اکانومی جبکہ دوسرے کے نزدیک پلاننگ ہے۔ اسی طرح سوشل ڈیموکریسی بھی ان تینوں سے علیحدہ کوئی منفرد نظام نہیں بلکہ انہی مقاصد کے لیے دونوں کی خوبیوں کو جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیے جیسے فقہ کے مختلف مکاتب فکر میں یہ مقصد مشترک ہے کہ سب کے سب شارع ہی کی رضا حاصل کرنے کا درست طریقہ معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ اسلامی معاشیات در حقیقت نیوکلاسیکل نظریہ اکنامکس کی ایک ذیلی شکل (off-shoot) ہے نہ کہ بذات خود کوئی علیحدہ مکتبہ ہائے فکر (independent school of thought)۔ ایسا اس لیے کہ اسلامی معاشیات نیوکلاسیکل اکنامکس کے تمام بنیادی تصورات کو ’فطری حقائق ‘ مان کر اس میں چند تحدیدات تجویز کرتی ہے۔ نیوکلاسیکل اکنامکس بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ شخصیت ہیومن بینگ کے رویے سے بحث کرتی ہے جس کے مطابق : 
۱) انسان اصلاً آزاد ہے، اس کی خواہشات لامحدود ہونی چاہئیں اور زندگی کا مقصد زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل ہے۔
۲) ہر قسم کے نظام ہدایت سے علی الرغم اپنی خواہشات کی ترجیحات طے کرنے کا معیار ہر فرد کا نفس ہے جسے حاصل کرنے کی جدوجہد کا اسے حق ہے (every individual is the best judge of his own welfare) ۔
۳) عمل صرف کا مقصد زیادہ سے زیادہ لذت (utility maximization)کا حصول ہے۔ لذت پرستی کے اس انفرادی تعقل اور روحانیت کی بنیاد پر علم معاشیات صارف کا رویہ (consumer behavior) کچھ یوں بیان کرتی ہے کہ اس کا مقصد تو حصول لذت ہی ہوتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس اتنی آمدن نہیں کہ وہ اپنی تمام خواہشات پوری کرنے پر قادر ہو۔ لہٰذا صارف کو چاہیے کہ وہ حصول لذت کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ آمدن کمانے کی کوشش کرتا رہے اور ذرائع میں اضافہ کرنے کی جدوجہد کرنا ہی عقلمندی (rationality) کا معیار ہے۔
۴) پیداواری عمل کا مقصد زیادہ سے زیادہ نفع خوری (profit maximization) اور سرمایے کی بڑھوتری (accumulation of capital) ہونا چاہیے۔ پیداواری عمل میں منتہا اضافے کے لیے ضروری ہے کہ یہ عمل مسابقت (competition) کے اصول پر مرتب ہو اور ہر فرد کو چاہئے کہ وہ اپنی توانیاں اور مہارت (talent) سرمایے میں اضافے کے لیے تج کردے ۔
۵) تمام تر معاشرتی تعلقات غرض کی بنیاد پر قائم ہونے چاہئیں جن کا مقصد اپنے اپنے مقاصد کا حصول ہوتا ہے۔ 
ان تمام تصورات کوفطری ماننے کے بعد نیوکلاسیکل اکنامکس ان سوالا ت کا جواب دیتی ہے کہ:
الف) وہ کون سی معاشرتی ادارتی صف بندی (institutional arrangment)ہے جس کے نتیجے میں ہر فرد کے لیے سرمائے کی بڑھوتری اور عمل صرف کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں ۔
ب) حکومت کا تعلق معاشرے کے ساتھ کس نوعیت کا ہونا چاہیے، یعنی وہ ریاستی لائحہ عمل (state policy)کیا ہے جسے اپنانے کے نتیجے میں سرمایے کا اضافہ تیز ہوسکے اور سرمایے کی بڑھوتری کے لیے کس قسم کے محرکات کو معاشرے میں عام کرنا چاہیے، وغیرہ غیرہ ۔
نیوکلاسیکل ماہرین معاشیات کے خیال میں مارکیٹ (market) وہ ادارہ ہے جو سرمایے میں تیز ترین اضافے کی بنیاد فراہم کرتا ہے، یعنی اگر تمام ذرائع پیداوار کو مارکیٹ کے تابع کردیا جائے تو سرمایے میں اضافے کی شرح سب سے زیادہ ہوسکے گی۔ مارکیٹ سے مراد وہ نظام ہے جہاں افراد غرض کی بنیاد پر ایک دوسرے سے تعلق قائم کرتے ہیں اور کسی شے و خدمت کی قدر کا تعین اس معیار سے طے پاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں مجموعی لذت (aggregate utility) اور سرمایے کی بڑھوتری میں کتنا اضافہ ہوتا ہے۔ مثلاً ایک کرکٹر کی تنخواہ امام مسجد سے کئی لاکھ گناہ زیادہ اس لیے ہوتی ہے کہ اس کے عمل سے سرمایے میں اتنی ہی مناسبت سے زیادہ اضافہ ہوتا ہے، ایک ڈاکٹر کی فیس قرآن پڑھانے والے قاری صاحب کی فیس سے ، نیز بینک کے شریعہ ایڈوائزر کی فیس مدرسے کے مدرس سے اسی بنیاد پر زیادہ ہوتی ہے کہ ان کی صلاحیتیں سرمایے میں زیادہ اضافے کا باعث بنتی ہے۔ الغرض مارکیٹ جس بنیاد پر قدر کا تعین کرتی ہے، وہ سرمایے میں اضافے کا اصول ہے اور اس پیمانے کے علاوہ کسی عمل کی قدر متعین کرنے کا کوئی دوسراپیمانہ سرمایہ داری میں سرے سے مفقود ہے۔ طلب و رسد (supply and demand) کے قوانین سرمایے میں اضافے ہی کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ ان قوانین کے پیچھے جو ذہنیت (rationality) کار فرما ہوتی ہے وہ سرمایے میں اضافے (accumulation) اور مسابقت (competition) کی عقلیت ہے، یعنی مارکیٹ در حقیقت حرص و حسد (accumulation and competition) کی روحانیت کا اظہار ہوتی ہے۔ 
المختصر اس نظریہ معاشیات کے مطابق مارکیٹ وہ ادارہ ہے جہاں ہر شخص کو اپنی ’ہر قسم ‘ کی خواہشات حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کمانے کے موقع ملتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس معاشرتی صف بندی میں حکومت کا کام خود کاروبار کرنا نہیں بلکہ نفع خوری کے مجموعی عمل پر مبنی کاروبار کا تحفظ ہوتاہے جسے nightwatch man state کہتے ہیں۔ اس ریاست کا کام ایسا لائحہ عمل (macroeconomic policy) بنانا ہوتا ہے جس کے ذریعے مسابقت کی بنیاد پر قائم بڑھوتری سرمایے کا نظام باہمی مسابقت کی وجہ سے انتشار کا شکار نہ ہو۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مارکیٹ اکانومی میں بڑھوتری سرمایے کا طریقہ کمپنیوں کے درمیان مسابقت ہوتا ہے اور اس طریقہ کار میں یہ امکان ہمیشہ رہتا ہے کہ کمپنیوں اور افراد کی رسہ کشی کے نتیجے میں مجموعی نفع میں اضافے کے بجائے کمی ہوجائے، لہٰذا لبرل جمہوری حکومت ایسی پالیسی اپناتی ہے کہ متضاد مفادات (conflicting interests) کے گروہوں (مثلاً مزدور اور سرمایہ دار) اور کمپنیوں کی باہمی رسہ کشی کے باوجود مجموعی نفع میں اضافہ ہوتا چلا جائے ۔ 
اس تفصیل سے واضح ہے کہ نیوکلاسیکل اکنامکس جو معاشرتی و ریاستی لائحہ عمل فراہم کرتی ہے، وہ ہر گز بھی غیر اقداری نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ مقصد (عمل تکاثر) اور اخلاقیات (حرص و حسد ) کے حصول کا ذریعہ ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ مارکیٹ کا اثر و نفوذ تو معاشرے میں بڑھ رہا ہو مگر افراد حرص و حسد کی ذہنیت میں مبتلا نہ ہورہے ہوں۔ یاد رہے کہ مارکیٹ محض کسی ’مخصوص جگہ ‘ کا نام نہیں جیسے عام طور پر سمجھا جاتا ہے بلکہ مارکیٹ سے مراد ہر وہ تعلق ہے جس کی بنیاد زر کی مقدار کے عوض اشیا و خدمات کی لین دین ہو۔ موجودہ دور کے تعلیمی ادارے ، ہسپتال، کنسلٹنسی کمپنیاں وغیرہ بھی سب مارکیٹ میں شامل ہیں۔ انہی معنی میں مارکیٹ کسی مخصوص دائرہ عمل کا نام نہیں بلکہ یہ پورے معاشرے یہاں تک کہ خاندان تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جس کا نظارہ ہم مغرب میں دیکھ سکتے ہیں۔ اسی بات کو یوں کہا جاتا ہے کہ market is atotalizer۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مارکیٹ اب مدارس تک میں گھس آئی ہے جس کا اظہار علماے کرام کا پیسے لے کر فتوے دینے کی روش میں ظاہر ہے۔ اپنی چودہ سو سالہ تاریخ پر خط تنسیخ پھیرتے ہوئے پیسے لے کر فتوے دینے کے اس عمل کا خوبصورت نام ’کنسلٹنسی فرم ‘ اور ’بینک کنسلٹنسی‘ وغیرہ رکھ لیا گیا ہے۔ 

اسلامی معاشیات کا فریم ورک 

اسلامی معاشیات جدیدی (revisionist) فکر کا شاخسانہ ہے جس کا اصل ہدف مغرب کی اسلام کاری (Islamization of west) ہے۔ اس مکتبہ فکر کے خیال میں مغرب اور اسلام میں بنیادی نوعیت کی مماثلت پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ طبقہ اسلامی تاریخ و علمیت کی معتبر تعبیر چھوڑ کر ایک نئی تعبیر تلاش و پیش کرتا ہے۔ اس فکر کے حاملین اسلامی تاریخ اور علمیت کو مکمل طور پر رد نہیں کرتے، لیکن جدید دور میں پائے جانے والے تمام مغربی تصورات کو خیر تسلیم کرکے اسلامی تاریخ ہی کا تسلسل گردانتے ہیں۔ ان کے خیال میں سائنس کے اصل موجد تو مسلمان تھے نیز یہ کہ سائنس اصل میں مسلمانوں کی کھوئی ہوئی میراث ہے، کبھی ملٹی کلچرلزم (multi-culturalism) یعنی کثیر معاشرتی نظام کو مدنی معاشرے میں تلاش کیا جاتا ہے، امام ابوحنیفہ ؒ کی ذات میں موجودہ بینکاری نظام کا بانی دکھایا جاتا ہے، جمہوریت کو بھی اسلام ہی کا عطیہ قرار دیا جاتا ہے وغیرہ۔ المختصر دور جدید میں مقبول عام ہر جاہلانہ تصور کو کسی نہ کسی طرح اسلامی تاریخ سے جوڑ دینے میں ہی اسلام کی بقا سمجھی جاتی ہے ۔ 
اسلامی ماہرین علم معاشیات کے اوپر بیان کردہ فریم ورک کوغیر اقداری اور ’فطری‘ (یعنی انسانی فطرت کا جائز اظہار) سمجھ کراپناتے ہیں ۔ ان کے خیال میں معاشیات کا بنیادی مقدمہ تو عین درست ہے، البتہ اسے چند شرعی تحدیدات کا پابند بنانے کی ضرورت ہے، یعنی وہ لبرل سرمایہ داری کو ’دائرہ شریعت کا پابند ‘ بنانے کی بات کرتے ہیں، بالکل اس طرح جیسے سیاسی مسلم مفکرین جمہوریت کو دائرہ شریعت کا پابند بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ گویا ان مفکرین کا مفروضہ ہے کہ لبرل سرمایہ داری کو شریعت کا پابند بنا کر اسلامی اہداف کا حصول ممکن ہے۔ چنانچہ اسلامی معاشیات کے ماہرین معاشیات کے ان مفروضات کو قبول کرتے ہیں کہ : 
۱) فرد کی خواہشات لامحدود ہونی چاہئیں۔
۲) اسے عملِ صرف مزے لینے (utility maximization) کے لیے ہی کرنا چاہیے۔
۳) کاروبار کا اصل مقصد نفع خوری (profit maximization) یعنی سرمایے کی بڑھوتری ہی ہونا چاہیے۔ 
لذت پرستی اور نفع خوری کے اس فریم ورک کو انفرادیت کے اظہار کا ’فطری حق ‘ مان کر اسلامی معاشیات کے ماہرین اس میں چند اسلامی تحدیدات (constraints) کا اضافہ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق زید کو عملِ صرف تو منتہا مزے اٹھانے کے لیے ہی کرنا چاہیے لیکن یہ لامحدود خواہشات پوری کرنے کے لیے اسے ایسا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے جس سے معاشرے کی مجموعی لذت (aggregate utility OR social welfare) میں کمی نہ ہو۔ مثلاً یہ کہ وہ ایسی اشیا استعمال نہ کرے جن کی شرع میں ممانعت ہے وغیرہ۔ اسی طرح زید کے کاروبار کا اصل مقصد تو نفع خوری (profit maximization) ہی ہونا چاہیے، البتہ یہ نفع خوری معاشرے کے مجموعی مفاد اور نفع کی قیمت پر نہیں ہونی چاہیے، لہٰذا ضروری ہے کہ نفع خوری کے جذبات کو چند ضروری اسلامی تحدیدات کا پابند بنایا، یعنی وہ سرمایے میں اس طرح اضافہ نہ کرے جس کی شرع اجازت نہ دیتی ہو۔ مثلاً وہ چاہے تو زر کا بازار یعنی بینک تو بنائے، البتہ سودی کاروبار کرنے کے بجائے شرعی حیلے استعمال کرکے جائز طریقے سے سرمایہ دارانہ معاشرت کو فروغ دے، ایسے ہی سٹے کے بازار یعنی اسٹاک ایکسچینج میں شرعی اصولوں کے مطابق سٹے بازی کو فروغ دے۔ 
اسلامی معاشیات کے مطابق زید کے ’دائرہ شریعت کے پابند لذت پرستی اور نفع خوری ‘ کے اس رویے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ معاشرے میں سب کے لیے زیادہ سے زیادہ لذت پرستی ممکن ہوسکے گی اور صحیح معنی میں سرمایے میں اضافے اور ترقی کا عمل تیز ہوسکے گا۔ ان ماہرین کے خیال میں اسلام کا مقصد بھی معاشی ترقی اور اجتماعی انصاف کا حصول ہے (Khursheed A: 1979, p. 226) ، تزکیے اور فلاح کا معنی وہی ہے جسے علم معاشیات میں ’زیادہ سے زیادہ انسانی ویلفئیر و بہبود ‘ (optimization of human well being) کہاجاتا ہے۔ (Khursheed A: 1979, p. 231)، بہتر زندگی و مادی بہبود و غیرہ کا فروغ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کا ایک حصہ تھا، نیز مادی وسائل کے حصول کی جدوجہد کرنا بھی اتنی ہی روحانیت کا باعث ہے کہ جتنا نماز ادا کرنا‘ (Chapra U: 1979, p. 197)۔ اسلامی ریاست کو انہی معنی میں ایک ویلفئیر اسٹیٹ کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے جن معنی میں سوشل ڈیموکریٹ معیشت دان اسے پیش کرتے ہیں۔ (Chapra U: 1979, p. 176, 200) اسلامی معاشرے میں بھی بینک اور اسٹاک ایکسچینج اسی طرح کام کرتی رہیں گی جس طرح سرمایہ دارانہ معاشروں میں ہم دیکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے لفظوں میں اسلام اور سرمایہ داری میں اصولاً کوئی فرق نہیں کیونکہ جن تحدیدات کو ’اسلام‘ کے نام پر پیش کیا جاتا ہے، ان کا اصل مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ان کے نتیجے میں زیادہ لذت پرستی اور ترقی ممکن ہو سکے گی۔ (Chapra U: 1993, p. 113, 116) 

اسلامی معاشیات بطور سرمایہ داری کی خادم 

اس تفصیل سے عین واضح ہے کہ اسلامی تحدیدات (constraints) لگانے کا مقصد سرمایہ دارانہ اہداف (لذت پرستی، نفع خوری و سرمایے میں اضافے) کا رد نہیں بلکہ اس کے حصول کا درست طریقہ کا رہے جو ان مفکرین کے خیال میں اسلام فراہم کرتا ہے۔ جو چیز اسلامی معاشیات کے ایجنٹ (economic agent (کو موجودہ معاشیات کے ایجنٹ سے ممیز کرتی ہے، وہ ان کی زندگیوں کے اہداف کا فرق نہیں بلکہ یہ ہے کہ اسلامی صارف طویل المدت (long term) لذت پرستی کے لیے قلیل المدت (short term) لذت پرستی کے رویے کو ترک کردیتا ہے، گویا وہ ایک عمدہ لذت پرست ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اسلامی ماہرین معاشیات دراصل Rule utilitarianism فلسفے پر عمل پیرا ہیں اور ان کے خیالات سوشل ڈیموکریٹ معیشت دانوں کے افکار کا ہو بہو چربہ ہیں۔ یعنی اسلامی معاشیات جو بنیادی بات کہتی ہے، وہ یہ ہے کہ زیدکو چاہیے کہ وہ زہد و فقر کی اقدار اپنانے کے بجائے دنیا سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہونے کے لیے خوب عملِ صرف (consumption) کرے، ہاں حرام اشیا استعمال نہ کرے، نیز وہ کاروبار کو اللہ تعالیٰ کی رضا یا آخرت کا گھر کمانے کا ذریعہ نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لیے کرے، البتہ حرام اشیا کی پیداوار کا باعث نہ بنے۔ اسلامی معاشیات کے خیال میں اسلامی تعلیمات، مثلاً سود کی ممانعت و نظام زکوٰۃ کے اجرا وغیرہ، پر صحیح معنی میں عمل کرنے کا ثمر یہ ہوگا کہ معاشرے میں زیادہ سے زیادہ لذت پرستی کے مواقع فراہم ہو جائیں گے اور ’ا صل ترقی‘ تب ہی ممکن ہوگی جب اسلامی تحدیدات کے اندر رہتے ہوئے لذت پرستی اور نفع خوری کے مجموعی عمل کو فروغ دیا جائے گا۔ گویا لبرل مفکر کانٹ کی Kingdom of Ends اور اشتراکی مفکر مارکس کیMarxist Utopia کا خواب صحیح معنی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے بعد شرمندہ تعبیر ہو گا جہاں ہر فرد کو جو وہ چاہے گا، میسر ہوسکے گا ۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی ماہرین معاشیات یہ کہتے ہیں کہ سرمایہ داری اپنے لیے جو ہدف (عمل تکاثر) مقرر کرتی ہے، وہ تو عین حق ہے البتہ اس کے حصول کا درست طریقہ وہ نہیں جو معاشیات کا مضمون بتاتا ہے بلکہ اس کا اصل طریقہ تو اسلام کے پاس چودہ سو سال سے محفوظ ہے ۔ 
علم معاشیات کے اس فریم ورک کو غیر اقداری اور ٹیکنیکل سمجھ کر اپناتے وقت اسلامی ماہرین معاشیات یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے ذریعے وہ سرمایہ دارانہ اخلاقیات مثلاً لذت پرستی، حرص وحسد، شہوت، مادی مفادات کی فوقیت وغیرہ کا اسلامی جواز فراہم کررہے ہیں کیونکہ اگر اسلام کا ہدف بھی ترقی اور سرمایے کی بڑھوتری ہی ہے نیز انسان کی خواہشات لامحدود ہونی چاہئیں توماننا پڑے گا کہ اسلام بھی لذت پرستی اور حرص و حسد جیسے رزائل نفس کے فروغ کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ سرمایہ داری کی مخلص خدمت ہی کا صلہ ہے کہ جہاں استعماری طاقتیں دیگر شعائر و احکامات اسلامی کو تو مٹانے دینے کے درپے ہیں ، وہی طاقتیں اسلامی معاشیات و بینکاری کو ہاتھوں ہاتھوں لے کر کر خود اپنے ممالک میں فروغ دے رہی ہیں۔ شاید یہ پہلا اسلامی حکم ہوگا جس پر عمل کرنے کے لیے مسلمانوں سے زیادہ کفار گرم جوش ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس حکمت عملی کا خوبصورت نام 'Shariah compliance' (اصول شریعہ سے ہم آہنگی) رکھ لیا گیا ہے جس کا مطلب ’دائرہ شریعت کی پابند سرمایہ داری‘ ہے۔ اسلامی ماہرین معاشیات پر امید ہیں کہ اس حکمت عملی کے نتیجے میں ’اسلام ‘ کا فروغ ہوگا۔ اپنے آپ کودھوکہ دینے کی اس سے بہترین مثال شاید ہی کوئی دی جا سکے کیونکہ اس لائحہ عمل کا مقصد سرمایہ دارانہ نظم اجتماعی کا انہدام (Destruction)نہیں بلکہ اس کی اسلامی تطہیر (Reconstruction)اور سرمایہ داری کی اسلامی توجیہ (Islamic version of capitalism) تیار کرنا ہے۔ یہ حکمت عملی اپنانے والے مفکرین کبھی اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ اس نام نہاد Shariah complianceکے نتیجے میں جو انفرادیت و معاشرت عام ہو رہی ہے، وہ اسلامی ہے یا سرمایہ دارانہ؟ کیا اسلامی بینکاری کے نتیجے میں اس شخصیت کے وقوع پزیر ہونے کی ادنی امید بھی کی جاسکتی ہے جس کا نقشہ احادیث کی کتاب الرقاق میں پیش کیا جاتا ہے؟ کیا بلاسود بینکاری کے نام پر لوگوں کو مصنوعی طریقے سے معیار زندگی بلند کرنے کے لیے قرضے دے کر انہیں دنیا پرستی کا سبق دیا جاتا ہے یا زہد کا؟ اسلامی معاشیات کے بنیادی مقدمات مان لینے کے بعد جو شخصیت پروان چڑھے گی، وہ کیونکر تقوے و پرہیزگاری کا پیکر ہوگی؟ آخر کیا وجہ ہے کہ حکمت عملی تو استعمال ہو اسلامی، مگر فروغ ہو سرمایہ داری کا؟ اس حکمت عملی کو اپنانے والے ماہرین یا تو سرمایہ داری سے ناواقف ہیں اور یا پھر اسلام سے۔ اسلامی معاشیات کی یہ حکمت عملی درحقیقت نظام اسلامی کے احیاء نہیں بلکہ اس کی تحلیل کی ضمانت ہے جس کے ذریعے دنیا پرستوں کی ایک فوج دین کے نام پر تیار کی جارہی ہے۔ 
اسلامی معاشیات کے اس فریم ورک کی ایک اور خامی فقہ اسلامی کا ناقص تصور قائم کرنا بھی ہے۔ علم معاشیات و بینکاری وغیرہ کو دائرہ شریعت کا پابند بنانے کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام کو ئی علمیت نہیں بلکہ اسلام مخصوص اعمال و افعال (fixed dos and don'ts) کا نام ہے۔ یعنی اسلام کوئی ایسا با ضابطہ نظام نہیں جس کی ادارتی صف بندی خود اس کی اپنی علمی بنیادوں سے طے پاتی ہوں بلکہ وہ تو محض ایک ’مخصوص رویہ ‘ ہے جس کا اظہار کسی بھی نظام زندگی کے اندر ممکن ہے۔ ظاہر بات ہے اسلام اگر ایک علمیت اور دین ہے تو پھر کسی دوسرے نظام میں اس کی پیوندکاری کے کیا معنی ؟ خوب یاد رہے کہ دائرہ شریعت کی پابند معاشیات و بینکاری کا فروغ مقاصد الشریعہ و تزکیے وغیرہ کا نہیں بلکہ لذت پرستی، حرس و حسد، دنیا پرستی و بڑھوتری سرمایے کے فروغ کا ہم معنی ہے۔ اس اقرار کے بعد ہماری معاشرتی و ریاستی حکمت عملی کا مطمع نظر (end result) ایسی فضا پیدا کرنا نہیں ہوتا جس کے بعد لوگوں کے لیے اپنی ذات کو آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں فنا کرنے کے زیادہ مواقع میسر آجائیں اور نبی علیہ السلام کی ہر سنت پر عمل کرنا نیز خلافت راشدہ کی طرف مراجعت ممکن ہوسکے، بلکہ ہم شرع کو چند گنے چنے افعال کا نام سمجھ کر حالات کے تناظر میں کم سے کم درجے کا تعین (retreat) کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں تاکہ لوگوں کے لیے دائرہ شریعت کے اندر رہتے ہوئے اپنی خواہشات پر چلنا ممکن ہوسکے۔ ایسا نظام زندگی جس کی معاشرتی پالیسیاں اس کے نقطہ انتہا (optima) کے بجائے ادنیٰ درجے (minima) کے معیار سے متعین ہوں، خود اپنی موت کا سامان اکھٹا کرتا ہے کیونکہ انسانی زندگی کے دائرے عمل میں کسی ایک نظام کے سکڑنے کا لازمی مطلب کسی دوسرے نظام کی بالادستی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اسلامی بینکاری اور سودی بینکار ی کے کاروبار میں مماثلت بڑھتی چلی جارہی ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ حرام قرار دی جانے والی زری (financial) پراڈکٹس کی فہرست شرعی حیلے استعمال کرکے سکڑتی چلی جارہی ہے۔ دائرہ شریعت کے سکڑنے کا مطلب انسانی ارادے کی عمل داری (human self-determination) بڑھنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ چنانچہ اسلامی معاشیات کے ذریعے انسانی آزادی یعنی سرمایے کی بڑھوتری کا جواز پابندی شریعت کی شرط کے ساتھ فراہم کیا جارہا ہے اور اس اصول کے مطابق ہم اسلام کو بطور مستقل نظام زندگی نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر بطور چند حدود (limiting constraints) کے شامل (treat)کرتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ سرمایہ داری کا اسلام پر غلبہ ہوتا ہے اور نام نہاد اسلامی تحدیدات آہستہ آہستہ سکڑتی چلی جاتی ہیں۔ (جاری)

جمعے کی امامت اور غامدی صاحب کا نقطۂ نظر

الیاس نعمانی ندوی

ماہنامہ اشراق (بابت ماہ اپریل ۲۰۰۸ء) کے شذرات کے کالم میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی گفتگو پر مبنی ایک تحریر نظر نواز ہوئی ہے۔ عنوان ہے: ’’جمعے کی امامت‘‘۔ اسی کی بابت کچھ عرض کرنے کا اس وقت ارادہ ہے۔ غامدی صاحب کا حاصل مدعا خود انہی کے الفاظ میں یہ ہے:
’’جہاں تک جمعے کی نماز کا تعلق ہے تو اس کا قانون پنج وقتہ نماز سے کچھ مختلف ہے۔ اس کی رو سے مسلمانوں کے نظم اجتماعی، یعنی حکومت وریاست کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ہفتہ میں ایک دن جمعے کے روز خصوصی نماز کا اہتمام کریں۔ ۔۔۔اس نماز کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کا اہتمام عام مسلمان نہیںِ بلکہ ان کے حکمراں کرتے ہیں۔ اس کی امامت اور خطاب کا حق بھی انہی کو حاصل ہے اور اس کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہے۔‘‘
جمعہ کی امامت کی بابت یقیناًاصل حکم شرعی یہی ہے، اور ملت کے بعض مصالح کی بنا پر یہ ایک ایسا مؤکد حکم ہے کہ رسالت مآب (ﷺ) کی یہ صراحت بعض احادیث میں موجود ہے کہ امام متقی ہو کہ فاسق وفاجر بہر حال اس کے پیچھے نماز پڑھی جائیگی۔ (ملاحظہ ہو:سنن ابو داوٗد: ۲۵۳۳، سنن ابن ماجہ:۱۰۸۱)لیکن غامدی صاحب نے جس ’’گرد وپیش‘‘ میں پہلے یہ گفتگو فرمائی اور پھر اسی ماحول میں یہ شائع بھی ہوئی ہے اسکی بنا پر یہ عرض کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ یہ حکم تب تک ہے جب تک حکمراں ( چاہے وہ فاسق وفاجر ہی کیوں نہ ہو) اسلام وکفر کی کشمکش میں کفر کی طاقتوں کا ساتھ نہ دے،اس کے برخلاف اگر اس کا حال یہ ہو کہ وہ عالمی سیاست میں ان طاقتوں کا حلیف اور معاون ہو جو اسلام کے خلاف براہ راست برسر پیکار اور قرآن مجید کے الفاظ میں ’إفساد في الأرض‘ کی مجرم ہوں ،وہ مملکت کے اندرامن عالم،اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کو فوجی کاروائیاں کرنے کی اجازت دے اور خود بھی دوسروں کے کہنے پربے قصوروں کا قتل کرے تو ایسے حکمراں کا یہ حق ہرگز نہ ہوگا۔ بلکہ ایسی صورت میں شریعت کا اصل حکم تویہ ہے کہ ایسے حکمرانوں کو اقتدار سے الگ کر دیا جائے۔ (ملاحظہ ہو:بخاری:۷۰۵۶، مسلم: ۱۷۰۹)ہاں اگر ایسے حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی کوششوں میں کامیابی کی امید نہ ہو اور مزید فتنہ بھڑکنے کا ڈر ہو تو ان کو برداشت تو کرلیا جائے گا لیکن ان کو حکمرانوں والے اختیارات حاصل نہ ہوں گے۔
غامدی صاحب نے اپنی اسی گفتگو میں ’’جمعے کے منبر کے حکمرانوں کی تحویل سے نکلنے اور علما کی تحویل میں جانے کے نہایت مضر رساں[کذا] نتائج‘‘ بیان کیے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ :’’حکمرانوں کے لیے عبادت اور اللہ کے دین کے ساتھ تعلق کا ایک لازمی موقع ختم ہوگیاہے۔ حکمران اگر جمعے کے لیے مسجدوں میں آتے تو ان کا کچھ وقت عبادت میں گزرتا۔ خطبۂ جمعہ میں وعظ ونصیحت کے لیے انھیں دینی تعلیمات سے رجوع کرنا پڑتا۔ نماز کی امامت میں تلاوت کے لیے قرآن کے اجزاء کو یاد کرنا پڑتا۔ ایسی وضع اختیار کرنی پڑتی جو مسجد میں حاضری کے لیے موزوں ہو۔یہ ساری چیزیں ظاہر ہے کہ انھیں اللہ اور اس کے دین سے قریب کرنے کا باعث بنتیں‘‘۔لیکن ہماری عقل ناقص کے مطابق تو یہ خیال محض خوش فہمی ہی ہے، ہمارے حکمرانوں کا جب حال یہ ہے کہ وہ اپنے اوپر سے دین پسندی کی ہر’’ تہمت‘‘ ہٹانا چاہتے ہیں، اقتدار میں آتے ہیں تو ’’عالمی برادری‘‘ کو یہ پیغام دینا اپنا فرض اولیں سمجھتے ہیں کہ وہ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے قائل ہیں لہٰذا وقت کے چیرہ دست سپر پاوروں کو راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے، اوراس کے لیے ہر حد تک چلے جائیں گے، تو کیا ان حکمرانوں کے سلسلے میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اکیلا جمعے کا منبر ان کو راہ ہدایت پر لے آئے گا اور ’’انھیں اللہ اور اس کے دین سے قریب کرنے کا ‘‘ باعث بنے گا۔ اور کیا ان کو یہ خوف لاحق نہ ہوگا کہ اگر بر سر منبر ہوئے تو شدید تنقید اور احتساب کا سامنا کرنا پڑے گااور ایسی صورت میں ان کو عافیت کیا اس میں نظر نہیں آئے گی کہ ع
اگر ٹھہری یہ شرطِ وصلِ لیلیٰ
تو استعفیٰ میرا با حسرت ویاس
کہتے ہوئے راہ فرار اختیار کرلیں۔ خود غامدی صاحب کا بیان ہے کہ: ’’بنو امیہ کے زمانے تک جمعے کا منبر حکمرانوں ہی کے پاس رہا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ حکمران لوگوں سے خوف زدہ ہونا شروع ہوگئے۔ یعنی وہ جب مسجد میں آتے تو انھیں لوگوں کی تنقید اور رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس خوف کی وجہ سے انہوں نے جمعہ کے منبر کو چھوڑ دیا‘‘۔ تو اب کے حکمراں کیسے عوام میں آئیں گے، اور کیسے وہ رد عمل سہیں گے جو ان کے ظلموں کے نتیجہ میں عوام میں پنپ رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنے نائبین کو جمعہ کا منبر سونپ دیں گے، اور ان کے نائبین؟ بس اللہ نہ کہلوائے۔
’’جمعے کے منبر کے حکمرانوں کی تحویل سے نکلنے اور علما کی تحویل میں جانے‘‘ کا ایک نتیجہ غامدی صاحب نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ:’’ مسجدیں فرقہ بندی کا مرکز بن گئی ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ ہر مسجد کسی نہ کسی فرقہ سے منسوب ہے۔ چنانچہ یہاں پر اہل حدیث کی مسجدیں ہیں،دیوبندیوں کی مسجدیں ہیں اور بریلویوں کی مسجدیں ہیں۔۔۔‘‘۔ لیکن اگر یہ منبر حکمرانوں کی تحویل میں ہوتے تو منظر اس سے بھی زیادہ درد ناک ہوتا، عالمی ایجنسیز میں سے جس کو جس علاقہ میں اپنے پاؤں جمانے ہوتے اس علاقے کی مسجدوں کے منبر اس ایجنسی کے زیر تصرف ہوتا، یہ خدشہ کوئی بے بنیاد نہیں ہے بلکہ ان حکمرانوں کا طرز عمل یہی بتاتا ہے، جو پالیسی ساز ادارے ان کے زیر تصرف ہیں کیا ان میں ایسا نہیں ہے؟ اکیلے محکمۂ تعلیم کی ہی مثال سب کچھ سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
اپنی اس گفتگو کے آخر میں غامدی صاحب نے اپنے موقف کو فقہ حنفی کے عین مطابق بتایا ہے، اس موقع پر غالباً ان کے ذہن سے یہ بات اوجھل ہوگئی کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے اپنی زندگی میں ہمارے بعض موجودہ حکمرانوں سے بدرجہا بہتر حکمرانوں کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کی مدد فرمائی تھی، یعنی امام صاحب کے نزدیک بھی ایسے حکمراں حکمرانوں والے حقوق نہیں رکھتے ورنہ وہ کیوں ان کے خلاف ہونے والی بغاوتوں میں کسی طور شریک ہوتے۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم
امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔ الشریعہ جون ۲۰۰۸ء کے شمارے میں ’’ غامدی صاحب کا تصور سنت‘‘ کے عنوان سے استاذِ محترم جاوید احمد صاحب غامدی کے افکار پر آپ کی تنقید و تبصرہ دیکھنے کا موقع ملا۔ اصحاب المورد جب بھی اپنے پیش کردہ افکار پر کسی جید عالم کی طرف سے کوئی تنقید و تبصرہ دیکھتے ہیں تو تہہ دل سے اُن کے شکر گزار ہوتے اور یہ امید کرتے ہیں کہ علما کی یہ توجہ اُن کے لیے رہنمائی کی باعث ہو گی۔ چونکہ آپ نے راقم الحروف کی ایک تحریر کو غامدی صاحب کی فکر پر بحث کرنے کا ذریعہ بنایا ہے، اس لیے میں آپ کی اس حوصلہ افزائی سے ہمت پاتے ہوئے،آپ کی تنقید و تجزیے کے بارے میں کچھ گزارشات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
۱۔ آپ نے ایسا کیوں مناسب سمجھا کہ قرآن، سنت اور حدیث (اسوۂ رسول اور دین کی تفہیم و تبیین)، ان سب کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف، جو ان کی کتاب ’’میزان‘‘ میں تفصیل سے لکھا ہوا ہے اور یہ کتاب آپ کو میسر بھی ہے، اُن کی کتاب کے بجائے ان کے ایک رفیق کار کی طرف سے کسی سوال کے جواب میں لکھی جانے والی تحریر سے اخذ کیا جائے؟ سوال کا جواب تو لازماً سوال کے زاویے اور اس کے دائرے کی محدودیت کے ساتھ وجود میں آتا ہے، اور کسی مخصوص سوال کے جواب میں مسئلے کے تمام پہلووں کا احاطہ مقصود نہیں ہوتا۔
۲۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ استاذ محترم ’’سنت‘‘ کی تعریف میں عام رائے سے اختلاف کرتے ہیں، لیکن یہ محض اصطلاح کا اختلاف ہے۔ عام طور پر سنت کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تشریع کے طور پر قرآن کے علاوہ جو قول فعل یا تقریر صادر ہوئی، وہ سنت ہے‘‘۔ اس تعریف کے مطابق اعمالِ سنن، آپ کی بیان کردہ تفہیم و تبیین اور آپ کا اسوہ سب کچھ سنت شمار ہوتا ہے۔ جب کہ غامدی صاحب ’’سنت‘‘ کا اطلاق دین کے ان مستقل بالذات احکام پر کرتے ہیں جن کی ابتدا قرآن سے نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ دین سے متعلق احادیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے، اسے وہ دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:
۱۔ قرآن و سنت کی تفہیم و تبیین
۲۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ 
ان دو چیزوں کو وہ سنت کی اصطلاح کے تحت نہیں لاتے، بلکہ انھیں وہ تفہیم و تبیین اور اسوہ کے الفاظ سے بیان کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ 
’’(تفہیم و تبیین اور اسوہ کے )دائرے کے اندر ، البتہ اِس (حدیث) کی حجت ہر اُس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اِس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل یا تقریر و تصویب کی حیثیت سے اِسے قبول کر لیتا ہے ۔ اِس سے انحراف پھر اُس کے لیے جائز نہیں رہتا ، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اِس میں بیان کیا گیا ہے تو اُس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔‘‘  (اصول و مبادی، ص۱۵)
سوال یہ ہے کہ کیا غامدی صاحب نے واضح طور پر ’’سنت‘‘ کے علاوہ احادیث میں بیان ہونے والی تفہیم و تبیین اور آپؐ کے اسوے کی حجت کو پوری طرح سے تسلیم نہیں کیا؟ اگر تسلیم کیا ہے تو پھر آپ نے چھ نکات کی صورت میں غامدی صاحب پر جو اعتراضات بیان فرمائے ہیں، وہ بالکل وارد نہیں ہوتے۔
۳۔ آپ نے غامدی صاحب کی تعریف سنت پر یہ اعتراض کیا ہے کہ:
’’جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حاکم، قاضی، کمانڈر اور ڈپلومیٹ وغیرہ کے طور پر جو کچھ کیا ہے اور جو کچھ فرمایا ہے، وہ بھی سنت کے مفہوم سے خارج ہے۔‘‘
ہمارا سوال یہ ہے کہ قضا اور تشریع میں فرق تو علماے امت نے ہمیشہ کیا ہے۔ یہی فرق غامدی صاحب بھی کر رہے ہیں، اور اسی لیے وہ قضا سے متعلق امور کو ’’سنت‘‘ میں نہیں لاتے۔
۴۔ آپ نے ایمان بالقدر اور مسلمانوں کے جہنم سے نکلنے کے بارے میں جو احادیث بیان کی ہیں، غامدی صاحب انھیں اسی طرح قبول کرتے ہیں جیسے آپ کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں وہ آپ سے مختلف نہیں ہیں، لہٰذا اس حوالے سے بھی ان پر اعتراض سمجھ میں نہیں آتا۔
۵۔ آپ نے غامدی صاحب کی اس رائے کو کہ سیدنا مسیح علیہ السلام کو وفات دینے کے بعد آسمان کی طرف اٹھایا گیا تھا، حدیث کو حجت تسلیم نہ کرنے کا نتیجہ قرار دیا ہے، حالانکہ یہ اختلاف دراصل ’متوفیک‘ کی تفسیر پر مبنی ہے۔ اگر ’متوفیک‘ کی وضاحت کسی حدیث میں موجود ہوتی اور غامدی صاحب اس کی نسبت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت مانتے ہوئے اس سے اختلاف کرتے تو آپ کا اعتراض درست قرار دیا جا سکتا تھا،لیکن کیا کوئی ایسی مستند حدیث موجود ہے جس میں ’متوفیک‘ کی تفسیر کرتے ہوئے یا ویسے بطور ایک واقعہ کے یہ بات کہی گئی ہو کہ مسیح علیہ السلام کو زندہ اٹھایا گیا تھا؟
محمد رفیع مفتی
ریسرچ فیلو، المورد
(۲)
محترم جناب عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم
امید ہے کہ آپ ایمان وصحت کی بہترین حالت میں دین متین کی سربلندی کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے اور ہم سب کو ہمہ وقت دین کی خدمت کے لیے قبول رکھے۔
حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات حسرت آیات تمام اہل حق کے لیے نقصان عظیم ہے، مگر موت تو اٹل حقیقت ہے اور اس کائنات رنگ وبو میں آیا ہی ہر کوئی جانے کے لیے ہے۔ ایسے حضرات بظاہر ’کل نفس ذائقۃ الموت‘ کے قاعدے کے تحت موت کا پیالہ ضرور پیتے ہیں کہ اس کے بغیر چارۂ کار نہیں اور قدرت کا طریقہ کار بھی ہے نیز رب تعالیٰ کا فیصلہ بھی جہاں چونکہ چنانچہ اور اگر مگر کی گنجایش ہی نہیں، مگر ایسے حضرات مرتے نہیں ہیں بلکہ اپنے تقویٰ، اخلاص، للہیت، اپنی دینی خدمات، اپنی تحریر اور اپنی شاندار تدریسی اور تقریری روایات کی شکل میں ہمیشہ کے لیے زندہ رہتے ہیں۔ حضرت نے دنیا سے انتقال ضرور فرمایا ہے اور حضرت پر وہ کیفیت جس کا نام موت ہے اور جو نزع وسکرات سے شروع ہو کر روح کی پرواز پر ختم ہوتی ہے، ضرور طاری ہوئی ہے مگر حضرت اپنی مختلف تصانیف اور اپنے دروس اور اپنے تلامذہ کی شکل میں زندہ ہیں۔ بارہا حضرت کی خدمت میں حاضری کا سوچا مگر میری انتہائی بدقسمتی تھی کہ زیارت سے محروم رہا اور آپ کے انتقال کا دو دن کے بعد گاؤں میں علم ہوا۔ بہر کیف رب کریم نے جو توفیق دی، تلاو ت اور استغفار کی صورت میں ہدیہ بھیجنے کی کوشش جاری رہتی ہے۔
اس خط کے ذریعے سے حاضری کا اصل مقصد تو آپ سے تعزیت ہے، ساتھ ہی ایک چھوٹا سا شکوہ بھی کہ شکوہ بھی ہمیشہ اپنوں سے ہی کیا جاتا ہے نہ کہ غیروں سے۔ دو شمارے قبل ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں سیف الحق نامی ایک صاحب نے، جو خدا جانے قادیانی ہیں یا پرویزی، جدید روشن خیال یا مادہ پرست، یا کسی این جی او کے نمائندہ ہیں، بیک جنبش قلم دنیا بھر کی جہادی تحریکات کو لتاڑا ہے اور اس انداز میں رگیدا ہے کہ گویا دنیا بھر کی مشکلات کا سبب یہی تحریکات ہیں اور شاید موجودہ معاشرے کے سب سے بڑے گنہگار بھی۔ حالانکہ میرے ایمان کے مطابق یہی چند تحریکات اس وقت گھپ اندھیرے میں امید کے چراغ ہیں۔ تنظیمات اور ادارے افراد پر مشتمل ہوا کرتے ہیں اور افراد مختلف طبائع، رنگ ونسل نیز تعلیم، برادری، علاقائیت اور مختلف قسم کی تربیت کے حامل ہوتے ہیں۔ غلطیاں افراد میں ہوتی ہیں، ان کا الزام اداروں یا تنظیمات کو دینا کم ظرفی ہی نہیں، بے وقوفی بھی ہوتی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کون سی تنظیم ٹھیک ہے اور کون سی غلط، سوال یہ ہے کہ اگر القاعدہ سے لے کر حماس تک، حرکت المجاہدین سے لے کر حزب المجاہدین تک، اور جیش محمد سے لے کر لشکر طیبہ تک یہ سب غلط ہیں تو پھر صحیح کون ہے؟ اور اگر یہ جو کچھ کفار کے ساتھ کر رہے ہیں، وہ جہاد نہیں تو پھر جہاد وقتال کہاں ہے اور نعوذ باللہ قرآن پاک کی وہ ۴۸۲ آیات کس کھاتے میں ہیں جو جہاد وقتال سے متعلق ہیں؟ اگر یہ سب کچھ غلط ہے تو پھر جو لوگ کشمیر ، افغانستان، عراق اور چیچنیا میں شہید ہو گئے ہیں، وہ کس کھاتے میں ہیں اور پھر ماضی میں تمام اکابر علماے حق مثلاً ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب، ڈاکٹر شامزئی شہید، حضرت لدھیانوی شہید، مفتی عبد السمیع شہید، مفتی احمد الرحمن شہید اور حضرت ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید کی سرپرستی کس کھاتے میں ہے؟ نیز حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کا مجاہدین کے ساتھ تعلق اور سرپرستی اور مختلف مواقع پر ان کا خطاب اور تربیتی نشستوں میں تعلیم کس طرح جائز ہے؟ 
میں صرف ایک مثال دوں گا۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں تقریباً ۱۷۸۰ نفوس قدسیہ کو خاک وخون میں غرق کر دیا گیا۔ اب اس کے مقابلے میں ری ایکشن تو ہونا ہی تھا اور اگر یہ کچھ نہ ہوتا تو شاید آج تک بڑے بڑے مدارس بھی بلڈوز ہو چکے ہوتے۔ آج مذہبی جماعتیں ہوں یا سیاسی، نہ جانے کس مجبوری کے تحت مشرف/بش ایجنڈے کی تکمیل میں کوشاں ہیں، سوائے چند ایک جماعتوں کے جو اب بھی صحیح نہج پر چل رہی ہیں۔ ہم وانا کا گلہ کرتے ہیں۔ میں اصل دشمن کے علاوہ جہاں کوئی اور چارہ کار نہ ہو، کسی کے خلاف خودکش حملوں کو جائز نہیں سمجھتا ۔ میں بھی فوج اور سیکیورٹی فورسز کے قتل عام کا قائل نہیں ہوں، مگر آپ ہی فرمائیں یا سیف الحق صاحب جواب دیں کہ جب مرد، عورتوں کی جامہ تلاشی لیں گے یا جب کسی مطلوب فرد کی جوان بہن، جوان بیوی یا ۶۰ سالہ بوڑھی والدہ کو تھانوں میں ننگا کیا جائے گا تو کیا وہ فوج اور پولیس پر گلاب کی پتیاں نچھاور کرے گا یا اپنی جان داؤ پر لگا کر انھیں سبق سکھلائے گا؟ جب کشمیری مجاہدین کو ہراساں کیا جائے گا بلکہ انہیں گرفتار کر کے ان کے ساتھ بدترین سلوک ہوگا تو پھر رد عمل کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ یہ بھی عرض کر دوں کہ اگر کسی تنظیم کے کسی فرد نے پاکستان میں کوئی کارروائی کی ہے تو وہ انفرادی انتقام تو ہو سکتا ہے، تنظیمی پالیسی نہیں۔ 
گستاخی معاف، مگر یہ چند تلخ حقائق ہیں جن کا ادراک ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ڈالروں کے عوض ہمارے نمازی پرہیز گار لوگوں کو امریکہ کے ہاتھ بیچا گیا؟ ان کا کیا جرم تھا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ آج ہر ڈاڑھی والے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے؟ یہ سب کچھ کیوں ہے؟ کیا دین دار لوگوں کو جینے کا حق نہیں؟ اور پھر معاملات یہاں تک پہنچے کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے اعلیٰ عہدے دار کو خود انصاف کی بھیک مانگنی پڑ رہی ہے۔ یہ سب کچھ یہودیوں اور عیسائیوں کے ایجنٹوں کی کارستانی ہے جو انہوں نے ہمارے اوپر مسلط کیے ہوئے ہیں، کبھی مشرف شیطانی کی شکل میں اور کبھی نام نہاد گیلانی کی شکل میں۔ انہوں نے دین کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش شروع کی ہوئی ہیں۔ فوج کے لیے یہ بدنامی کا سبب ہیں۔ قومی ہیروز کو یہ ذلیل کر رہے ہیں اور پاکستان کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ امریکہ اور دیگر عالم کفر کے معاون ہیں۔ کیا بچا ہے ا س ملک میں؟ یہ سب کچھ قرآن وسنت اور جہاد سے روگردانی کا نتیجہ ہے۔ اگر جہاد اپنے جوبن پر ہوتا تو شاید یہ دن اس بدقسمت پاکستانی قوم کو نہ دیکھنے پڑتے۔
مانا کہ آپ حضرات انتہائی وسیع الظرفی کے ساتھ دین کی خدمت کے لیے کوشاں ہیں اور کھلے دل ودماغ کے ساتھ لوگوں کو دعوت فکر دے رہے ہیں، نیز بحث ومباحثہ میں سنجیدہ رویہ اپنا رہے ہیں، مگر کہیں فراہی صاحب، غامدی صاحب اور مودودی صاحب کی طرح حد سے باہر ہی معاملہ نہ نکل جائے۔ ایسی تحریر جو لچر گفتگو پر مشتمل ہے، جس میں صرف اندھی تنقید ہو اور جس سے خبث باطن ظاہر ہو رہا ہو اور جس میں ذاتی بغض کارفرما ہو، ایسی تحریر ایسے علمی مجلہ کے ہرگز لائق نہیں بلکہ میرے خیال میں تو ایسی تحریر کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنا بھی اس ٹوکری کی توہین ہوگی۔ ایسی تحریرات کو چھان پھٹک کر رسالہ کی زینت بنانا چاہیے، نہ کہ جو رطب ویابس آئے، اسے شائع کر دیا جائے۔ حضرت صوفی صاحب، حضرت شیخ الحدیث صاحب اور پھر مولانا زاہد الراشدی کا پوری دنیا میں ایک نام ہے۔ ایسی تحریرات ان کے لیے بھی بدنامی کا سبب ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے نازک وقت میں مجاہدین جو درحقیقت محافظین اسلام وپاکستان ہیں، ان کی پشت پناہی کی جائے نہ یہ کہ اپنے پاکیزہ مجلے میں اسلام وجہاد دشمن عناصر کی تحریرات شائع کر کے کفر کے ہاتھوں کو مضبوط کیا جائے۔ جو کچھ یہودی اور عیسائی اور لادین عناصر کہہ رہے ہیں، وہی زبان اگر ہم نے بھی استعمال کی تو پھر شاید ہماری داستاں بھی نہ رہے داستانوں میں۔ 
اگر کوئی بات طبع پر گراں گزرے تو پیشگی معذرت۔ ویسے بھی ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی رائے سے اتفاق ضروری نہیں۔
قاضی محمد حفیظ 
ناظم تعلیمات مدرسہ عبد اللہ بن عمر
میرا تنولیاں۔ مظفر آباد۔ آزاد کشمیر
(۳)
محترمی ومکری حضرت مولانا زاہدا لراشدی صاحب
السلام علیکم 
امید ہے کہ مزاج گرامی بعافیت ہو ں گے۔ گزشتہ ماہ حضرت صوفی صاحبؒ کے ارتحال کی خبر علمی حلقوں کے لیے حادثہ فاجعہ سے کم نہ تھی کہ قحط الرجال کے دور میں ایسی جبال العلم ہستیا ں یقیناًاللہ تعالیٰ کا محض فضل اور رحمت ہوا کرتی ہیں۔ جنازہ میں حاضری ہو گئی تھی مگر ازدحام کی بنا پر آپ سے ملاقات نہ ہو سکی۔ آپ سے تعزیت کے ساتھ رب العزت سے عاجزانہ التماس ہے کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی دینی خدمات کواپنی بارگاہ عالی میں قبول فرمائیں اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائیں۔ آمین۔ حضرت شیخ الحدیث مدظلہ العالی اکابرین کے صحیح جانشین اور تمام اہل علم کے لیے سرمایہ حیات ہیں۔ ر ب کریم سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ نصیب فرمائے اور ان کا سایہ تادم دیر ہم سب پر قائم رکھے اور ہم سب کو ان کی روحانی برکات سے حصہ نصیب فرمائے ۔ آمین۔
’’الشریعہ ‘‘ ہمارے مدرسہ میں اعزازی مل رہا ہے جس کے لیے ہم انتہائی مشکور ہیں۔ حالات حاضرہ اور بعض علمی نکات کے حل میں الشریعہ کا شاید ہی کوئی ثانی ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس سعی کو شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین۔
ماہ اپریل ۲۰۰۸ ء کے شمارے میں ’’مکاتیب‘‘ کے ذیل میں کسی سیف الحق نامی (سیف الحق کم اور زیغ الحق زیادہ) شخص کا خط شائع ہوا ہے۔ خط کیا ہے، الزامات ا ور ہر زہ سرائی کا مرقع ہے۔ ہمیں اس شخص کی تحریر پر کو ئی دکھ نہیں، اس لیے کہ برتن کے اندر سے وہی کچھ نکلتا ہے جو اس میں بھر ا ہوتا ہے۔ اس شخص کاامیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد، شیخ اسامہ، ایمن الظواہری اور دیگر مقتدر ومحترم شخصیات وتنظیمات پر کیچڑا چھالنا چاند پر تھوکنے کے مترادف ہے اور چاند پر تھوکا ہو ا ہمیشہ تھوکنے والے کے اپنے منہ پر گرتا ہے اور چاند اپنی اسی آب وتاب کے ساتھ چمکتا رہتا ہے۔ 
اعتراض یہ نہیں کہ کسی ناعاقبت اندیش نے ان محترم حضرات کے خلاف زبا ن کیوں استعمال کی۔ وہ تو بیمار ذہنیت کا مالک تھا، یہاں توجدید روشن خیالی کی آڑ میں امام بخاری ؒ کو بھی گالیاں دی جاتی ہیں۔ شکوہ تو یہ ہے کہ ’’الشریعہ‘‘ جیسے موقر جریدے میں، جو کہ علماے حق اور اسلامی تحریکات کا نمائندہ اور ترجمان سمجھا جاتا ہے، یہ زہر آلودہ تحریر کیسے شائع ہو گئی۔ حیرت ہے کہ آپ کے ادارے نے اس تحریر کو من وعن شائع کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو یا آپ کے ادارے کے کسی شخص کو اس تحریر سے اتفاق نہیں ہو گا، لیکن کیا کوئی تحریر آپ کے ادارہ میں کسی علما دشمن اور جہاد مخالف اور اکابر امت کے خلاف گندی گالیوں سے آلودہ پہنچتی ہے تو کیا آپ اس کو بغیر تبصرہ کے اور بغیر کسی تحقیق کے شائع کر دیں گے جس سے یہ تاثر ملے کہ آپ کے ادارے کا بھی کسی درجے میں اس سے اتفاق ہے؟ حضرت محترم! اس خط سے سینکڑوں مجاہدین اور ہزاروں اہل علم کی دل آزاری ہوئی ہے اور ہزاروں شہدا کے ورثا کو تکلیف پہنچی ہے۔ عالم بالا سے شہدا کی ارواح آپ سے سوال کر رہی ہیں کہ آپ توہمارے سرپرست تھے، آپ نے توہمیشہ تحریری وتقریری طور پر ہماری حمایت کی ہے، آپ کادست شفقت تو ہمیشہ ہمارے سر پر رہا ہے، پھر کیوں ایسا ہوا کہ ہمیں اس تحریر میں نہ صرف یہ کہ مطعون کیا گیا بلکہ ہماری شہادت کو بھی مشکوک بنایا گیا۔
ماہنامہ ’الشریعہ‘ وحدت امت کا داعی اور غلبہ اسلام کا علمبردار کہلاتا ہے، لیکن اس قسم کاروے سخن جو اس خط میں مستعمل ہوا، وہ اس نعرے کی نفی کرتا ہے۔ وحدت تو تب ہی قائم ہو گی جب حقائق کو مسخ نہ کیا جائے بلکہ دن کو دن اور رات کو رات کہا جائے۔ غلطی ممکن ہے۔ خطا سے مبراکوئی نہیں مگر بیک جنبش قلم دنیا بھر کی تحریکات جہاد کی نفی اور ا ن پر لعن طعن کم از کم ماہنامہ الشریعہ اور اس کے عملہ کے وقار کے منافی ہے۔ یقیناًیہ خط آپ کی جہاد کی حمایت میں لکھی گئی تحریر کا جواب ہے مگر یہ خط صرف سستی شہرت کے حصول کا ذریعہ اور محرر کے باطنی بغض کا اظہار ہے۔ یہ کسی فلمی اخبار یا مجلے کی زینت تو بن سکتا ہے مگر ’الشریعہ‘ جیسے پاکیزہ مجلے کے اجلے دامن پر بدنما اور بد بودار داغ ہے۔ اگر تحریر میں کوئی سقم ہو تو پیشگی معذرت ۔
(مولانا) محمد فاروق کشمیری
امیر حرکت المجاہدین جموں وکشمیر 
(۳)
بخدمت جناب ابوعمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 
میں ..... یونیورسٹی ..... کے شعبہ فائن آرٹس کی طالبہ ہوں۔ روزنامہ اسلام میں آپ کے کالم کی قاریہ بھی ہوں۔ عموماً آپ کے کالم فکری، انقلابی اور تہذیبی تصادم کے متعلق ہوتے ہیں۔ فکری انقلاب کسی معاشرے کو بدلنے کے لیے جڑ اور بنیاد ہے۔ اللہ کرے یہ بات دینی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کی سمجھ میں آجائے۔ اگر دینی جماعتوں کے کارکن، تمام دینی مدارس کے اساتذہ، طلبہ اور طالبات ہفتہ میں صرف دو دن تعلیمی اوقا ت سے فارغ ہو کر صرف دوگھنٹے، ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے، بے لوث ہو کر، جذبہ رحم سے، فروعی اختلاف سے ہٹ کر، خالص دینی ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کے لیے عوامی رابطہ مہم شروع کر دیں اور اس میں تسلسل جاری رکھیں تو اس کا وہ نتیجہ نکلے گا کہ بڑی بڑی کانفرنسیں، جلسے اورطویل تدریسی محنت وہ نتیجہ نہیں دے سکتی۔ غریب اورمتوسط طبقہ آپ کا میدان ہے۔ انقلاب ہمیشہ اسی طبقے سے آتا ہے اور قربانی بھی یہی طبقہ دیتا ہے، مگر علما اور دینی جماعتوں کا اس طبقہ سے عمومی رابطہ نہیں ہے۔
حضر ت مجد د الف ثانی ؒ نے طبقہ امرا میں جس طرز پر محنت کی، اس کے نتیجہ میں جو دینی اقدار کو بعد والی صورتوں میں تحفظ ملا، علما کا ایک طبقہ جو سنجیدہ ہو، جو دینی ضرورت پر ذاتی خواہشات کو قربان کرنا جانتا ہو، مضبوط علمی دلائل کے ساتھ تحمل وبرداشت کا عنصر رکھتاہو، ایسے علما حضرت مجد د الف ثانی کے طرز پر اپنے علاقے کے اعلیٰ افسران، صوبائی وقومی اسمبلی کے ممبرا ن، ناظم وغیرہ سے دینی بنیا د پر بار بار ملاقات کریں، ان سے رابطہ پیدا کریں، خطوط کے ذریعہ اعلیٰ سطح پر اٹھنے والے دینی مسائل کو مضبوط دلائل سے ذہن نشین کرا کر قانون سازی کرنے والوں پر دباؤ بڑھائیں۔ آپ صرف چھ ماہ اس کا تجربہ کرلیں اور پھر برسوں کی محنت کو سامنے رکھ کر نتیجہ اخذکرلیں، آپ خود حیران ہوں گے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اجلاس سے قبل علما اور عمومی وفود دینی مسائل دیکر ان کو اجلاسوں میں روانہ کریں، ان کی طرف سے قانون ساز اداروں میں دینی آواز کا اٹھنا دینی کام کرنے والوں کے لیے معاون ہوگا۔
آپ فکری اور تہذیبی کشمکش کی بات ہر مجلس میں کرتے ہیں۔ میر ی گزارش ہے کہ اسلامی تہذیب کے بنیادی اصول کیا ہیں؟ اسلامی تہذیب وتمدن سے ایک مسلم نوجوان کیسے متعارف ہو سکتا ہے؟ یورپ وامریکہ جو اپنی تہذیب کو اعلیٰ تہذیب کہتے ہیں، اس میں اور اسلامی تہذیب میں بنیادی فرق کیا ہے؟ اس کے متعلق کوئی جاندار کتاب اگر ہو تو رہنمائی کریں۔ یورپ اور امریکہ میں دفتروں میں، علاج معالجہ، جانی ومالی تحفظ، عوامی سہولیات میں جو مراعات ہیں، کیا یہ اسلامی تہذیب کاحصہ نہیں جو ہم نے چھوڑ دیا اور انہوں نے اپنا لیا؟
مولانا صاحب !دینی مدارس کے متعلق چند تلخ حقیقتیں تحریر کرنے کی جسا ر ت کر رہی ہوں۔ امیدہے محسو س نہیں کریں گے۔
(۱) علما اور دینی طبقہ میں دوسرے کا موقف سننے کے لیے تحمل وبرداشت بالکل نہیں، جلد غصہ میں آجاتے ہیں اور اپنی رائے کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔
(۲) دینی کام جس طبقہ میں کرناہے، اس کے لیے طویل منصو بہ بندی اور نفسیات کا مطالعہ اور رعایت نہیں۔
(۳) طریقہ تعلیم میں طلبا کا چناؤ نہیں، ہر طالب علم کو ایک جیسا نصا ب پڑھنا پڑتا ہے، خواہ اس کی استعداد رکھتا ہو یا نہیں، خواہ اس کی طبیعت کا میلان اس مضمون میں ہو یا نہیں، حالانکہ آپ کا موجودہ نصاب فطین، نہایت ذہین اور ذہین کے لیے مفید ہے، متوسط اور غبی کے لیے اس نصاب کوجاری رکھنا اس کے ساتھ زیادتی ہے۔
(۴) بچیوں کے نصاب پر آپ کے علما خود مطمئن نہیں۔ جو مقصد آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ اس سے حاصل نہیں ہو رہا اور قوم کا کروڑوں روپیہ اس پر خرچ ہو رہا ہے۔ جو استعداد چار سال پڑھ کر فارغ ہونے والی طالبات میں ہے، میرے سروے کے مطابق وہ صرف ایک سال میں صرف اردو کی دینیات کا نصا ب مرتب کر کے حاصل کی جا سکتی ہے۔
۵۔ مولانا صاحب! میرے اور کچھ طلبا کے ذمہ دینی مدارس کا تعلیمی اور تہذیبی سروے کرنا تھا جسے ایک ماہ میں مکمل کرنا تھا۔ اس کی چند بنیاد ی چیزیں جو عملی مشاہد ہ میں آئیں، تحریر کر رہی ہوں۔
(۱) دینی مدارس میں صفائی کا اہتما م نہیں۔
(۲) عمارت کی اکثر تعمیر بغیر منصوبہ بندی کے کی جاتی ہے جسے کئی دفعہ گرا کر بنانا پڑتاہے اور قوم کا سرمایہ ضائع ہوتا ہے۔
(۳) اساتذہ اور منتظمین مدرسہ کا معاشی معیار میں فرق ہے جس سے چھوٹے اساتذہ میں کافی احساس کمتری ہے۔ بعض مدارس کے منتظمین کے آفس وزرا کے آفس معلوم ہوتے ہیں جبکہ درسگا ہ میں دری بھی پھٹی ہوئی ہے اور شعبہ حفظ کی حالت اس سے بھی بدتر ہے۔
(۴) شعبہ حفظ جو مدارس کا بنیادی شعبہ ہے، اس میں اساتذہ کا انتخاب انتہائی غیر معیاری ہے جس میں سادہ حفظ کے علاوہ کوئی تعلیمی قابلیت شرط نہیں، کوئی تدریسی تربیت ضروری نہیں، حالانکہ بچوں میں یہی زمانہ فکری انقلاب کا ہے۔ شعبہ حفظ کے اساتذہ کی اکثر یت سادہ اردو، بنیادی دینی تعلیم، اپنے شعبہ کے متعلق بنیادی تجویدی قواعد کا علم نہیں رکھتی۔ تمام علما کی رائے ہے کہ مکمل حفظ فرض نہیں مگر طلبا کو ان میں حفظ کی صلاحیت ہویانہ، حفظ پر مجبور کیا جاتا ہے، سخت سزا دی جاتی ہے۔ بعض طلبا ایسے بھی تھے جن کو شعبہ حفظ میں چھ سال سے زائد عرصہ گزر چکا تھا مگر حفظ مکمل نہ تھا۔ شعبہ حفظ کے بچوں کے لیے بنیادی لکھنے پڑھنے کا اہتما م نہیں، بنیادی دینی تعلیم بھی اس شعبہ کے نصا ب میں شامل نہیں ۔
(۵)ہمیں شعبہ عربی اور اسلامیات کے پروفیسر حضرات کی طرف سے دینی مدارس کے تعلیمی وتہذیبی سروے میں راہنمائی کے لیے ایک سوال نامہ دیا گیا تھا۔ ان میں سے کچھ سوال فقہ کے متعلق تھے۔ چنانچہ ایک بڑے دینی ادارہ کے کچھ طلبہ سے رابطہ کر کے میں نے ہدایہ کی جماعت کے چند طلبہ سے گفتگو کی۔ مجھے معلوم ہوا کہ وہ چار سال سے فقہ کا مضمون پڑھ رہے ہیں اور یہ آخری کتاب ہے۔ میرا سوال تھاکہ اگر میں اپنے لاکٹ میں دس لاکھ کا ہیرا بطور زینت کے لگوا لوں تو کیا اس کی مالیت پر مجھ پر زکوٰۃ واجب ہوگی؟ نیز جدید کاروبار کے متعلق چند عمومی سوال تھے، مگر کوئی طالب علم مجھے مطمئن نہ کر سکا۔ آپ کے موجودہ نصاب میں ہر فن میں بعض قدیم ترین کتب شامل ہیں جو موجودہ زمانہ میں اپنی افادیت شاید نہ رکھتی ہوں اور موجودہ ز مانہ کے تقاضوں کو پورا نہ کریں، مگر ان کی تعلیم بدستور جاری ہے جو وقت کا ضیاع معلوم ہوتا ہے۔ مکمل نصاب عربی میں ہونے کے باوجود عربی ز بان وادب کی اہلیت نہیں۔
(۶) دینی مدارس کے متعلق سنا تھا کہ ان کا اصل مقصد اخلاقی ودینی تربیت ہے۔ اس کے ٹیسٹ کے لیے تہذیب وکلچر کی پروفیسرصاحبہ نے تین طالبات اور تین طلبا کوتیارکیا۔ طالبات کا لباس دینی مدرسہ کے ماحول کے اعتبار سے کوئی بہت زیادہ مناسب نہ تھا۔ آخری سال کے طلبہ سے ملاقات مقصودتھی۔ طالبات کو ہدایت تھی کہ گفتگوکے دوران سوالات کے جواب سے زیادہ جواب دینے والوں کی جسمانی حرکات نوٹ کرنی ہیں۔ مولانا صاحب!آپ یقین کریں کہ ان کی حرکات یونیورسٹی کے طلبہ سے کوئی زیادہ مختلف نہ تھیں۔ بعض طلبا نے اشاروں میں فقرے بھی کہے۔
(۷) دینی مدارس کا چندہ کیسے ہوتا ہے؟ مدارس کے سفیر کیا کرتے ہیں؟ کچھ طلبہ نے اس پر سروے کرنا ہے۔ غالباً رمضان المبارک میں اس پر کام ہوگا۔ اگراس کی رپورٹ مجھے مل سکی تو ضرور ارسال کروں گی۔
مولانا صاحب! میر ا تعلق بنیاد ی طورپر مذہبی گھرانہ سے ہے۔ اپنی دوست کے ذریعے جو ایک عالم کی بیٹی ہے، آپ کا ایڈریس معلوم کر کے یہ خط ارسال کر رہی ہوں اور آپ سے عاجزانہ گزارش ہے کہ اسلامی تہذیبی اقدار اور روایات کے متعلق کوئی مواد عنایت فرما سکیں تو عنایت ہوگی۔ شاید اپنے شعبہ میں کسی موقع پر میں اسلام کی ترجمانی کر سکوں۔
ایک مزید گزارش ہے کہ ایک دینی تعلیمی نصا ب تجویز فرماکر ممنون فرمائیں جس کے تین درجے ہوں: چالیس روزہ، چھ ماہ، ایک سال۔ تعلیمی دورانیہ یومیہ چار گھنٹے میں جس کو کم فرصت خواتین وحضرات فائد ہ حاصل کر سکیں اور علما وعالمات کے ذریعہ اسے محلوں میں شروع کیا جا سکے جس سے معاشرہ کی دینی ضروریات پوری ہو سکیں۔ 
حنا ر اشد
(۴)
حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب 
سلام مسنون! امید ہے مزاج گرامی خیریت سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی قدم قدم پر حفاظت فرمائیں۔
ایک سال سے زیادہ عرصہ سے ’’الشریعہ‘‘ کا قار ی ہوں۔ رسالہ جاری کروانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ آپ کی معتدل سوچ ہے اور اسلامی فلسفہ کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ دوسرا جہاں بہت سے اکابر ا سلام کی فکری اور نظریاتی سرحدات کے محافظ ہیں، الحمدللہ آپ کا شمار بھی ان میں سے ہے۔ جب بھی کوئی مسئلہ اٹھتا ہے تو آپ کی رائے کی طرف بھی خصوصیت سے توجہ ہوتی ہے کہ آپ اس مسئلہ کے بارے میں کیا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ 
’’الشریعہ‘‘ کا اداریہ بہت عمد ہ ہوتا ہے جس کو پڑھ کر بہت خوشی ہوتی ہے، مگر بعض اوقات مضامین کی بھرمار ہوتی ہے۔ سوائے آپ کے اداریہ کے باقی مضامین انتہائی مشکل، طویل اور ذہن پر مزید بوجھ لاتے ہیں اور طبیعت اکتا جاتی ہے۔ الشریعہ کے تمام مضامین پر کمانڈ نہیں ہوتی۔ اگر الشریعہ صرف علما اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کے لیے ہے تو پھر تود رست ہے لیکن اگر متوسطہ طبقہ کو بھی آپ اپنے ساتھ شامل رکھنا چاہتے ہیں تو پھر مضامین کا معیار اونچا ہو مگر عام فہم ہوں تاکہ قاری آسانی کے ساتھ مطلوبہ نتائج تک پہنچ سکے۔ انڈیا کا ’’الفرقان‘‘ اس وقت ایک بہترین جرید ہ ہے جس کے مضامین اور اداریوں کو جتنی داد دی جائے کم ہے۔ اول تا آخر پورے رسالہ پر اپنی فکر کو حاوی رکھتے ہیں اور آگے پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور جس چیز کو حق سمجھتے ہیں، پوری جرات سے اس کو بیان کرتے ہیں، خواہ کوئی چین بہ جبیں ہو۔ آپ سے بھی یہی گزارش ہے کہ ازاول تا آخر رسالہ آپ کی فکر ونظر کا امین ہو اور ہمارے اکابر کی فکر ونظر کاامین ہو۔ موجود ہ زمانے کی کشمکش میں اسلامی فکر کو جس طرح ہمارے اکابر نے پیش کیا ہے، اس کی مثال نہ ملے گی۔ 
انتہائی ادب کے ساتھ صرف سمجھنے کے لیے دوسری گزارش پیش کرنے کی جرات کر رہا ہوں۔ جون ۲۰۰۸ کے شمارے میں سالگرہ سے متعلق آپ کا اداریہ پڑھا۔ اس میں آپ نے گنجایش دی ہے مگر عوام تو حدود کو پھلانگ جاتے ہیں۔ یہی سالگرہ بے جا اسراف اور غیرشرعی امور مثلاً فوٹو گرافی، ویڈیو وغیرہ کا سبب بن جاتی ہے اور اس سالگرہ میں ناچ اور گانے وغیرہ کی محفل بھی بعض دفعہ سجائی جاتی ہے۔ عوام کو تھوڑی سی اجازت ملنے سے حدود سے تجاوز ہو جاتا ہے۔ 
علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ فرماتے ہیں: ’’اگر کوئی فعل خلاف شریعت ہو تو وہ گناہ او ر معصیت ضرور ہو گا مگر بدعت نہیں کہا جا سکتا۔ بدعت وہی ہے جس کو دین کا کام سمجھ کر او ر موجب اجر وثواب خیال کر کے کیا جائے۔ اس سے بدعت اور رسم میں فرق نکلتاہے ۔ رسم بے اصل اور خلاف شرع ہوتی ہے مگر بہت سی رسوم کو دین سمجھ کر نہیں کیا جاتا۔ بخلاف بدعت کے کہ وہ بے اصل ہے مگر لوگ اسے دین سمجھ کر کرتے ہیں۔‘‘ (فضل الباری ۴۴ تا ۴۵ ج ۱) اس سے معلوم ہوا کہ رسم بھی معصیت ہے۔ 
خدا م الدین صفحہ ۳۲ جنوری ۲۰۰۴ء میں دارالافتا جامعہ فاروقیہ کے فتویٰ کا متن شائع ہوا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’’سالگرہ ایک فضول رسم ہے۔ اس میں مال خرچ کرنا اسراف اور وقت صرف کرنا تضییع اوقات ہے، لہٰذا اس سے بہرصورت اجتناب ضروری ہے۔ مسلمانوں کا وقت اورمال اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے ہے۔‘‘ 
فتاویٰ رحیمیہ جلد ۱ صفحہ ۱۹۲ میں عنوان ہے: ’’سالگرہ کا کیا حکم ہے؟‘‘ سائل کہتا ہے کہ انگلینڈ میں عیسائیوں کے اندر بچہ کی سالگرہ (برتھ ڈے) منانے کا دستور ہے۔ جواب میں مفتی صاحب نے دیگر احادیث کے ساتھ ساتھ ’من تشبہ بقوم فھو منھم‘ بھی درج کی ہے۔ ۱۹۲سے ۱۹۶تک اس پر بحث کی ہے۔ ص۱۹۴پر لکھا ہے کہ ’’حضرت عثمان بن ابی العاص ختنہ کی دعوت میں شریک نہ ہوتے تھے۔ .... رسم سالگرہ، یہ خالص غیر اقوام کا طریقہ اور ا نہی کی رسم ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ مذکورہ طریقہ سے اجتناب کریں ورنہ اس کی نحوست سے ایمان خطرے میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ ‘‘
خیرالفتاویٰ ص۵۵۴ جلد۱ میں ختنہ کی دعوت کو بدعت لکھا اور شریک ہونے سے منع فرمایا ہے۔ نیز ۵۶۷ جلد۱ پر سہرا بندی کو رسم کفر کہا ہے۔ اب سوال یہ ہے اگر سالگر ہ منائی جا سکتی ہے تو پھر ختنہ کی دعوت اور پھر سہرا بندی کا جوپرانا رواج ہے، اس کا کیا بنے گا؟ دوسری بات یہ کہ کیا واقعی سالگرہ ہماری علاقائی رسم ہے یا عیسائیت کی رسم ہے؟ تیسرے اگر حدود سے تجاوز ہو تو پھر بھی علاقائی رسم سمجھ کر شرکت کرنا درست ہے یا نہیں؟ 
میرے ذہن میں چند اشکالات تھے جولکھ دیے ہیں۔ باقی اس بے ادبی اور جرات پر پھر معافی کا خواستگار ہوں۔ چونکہ آپ کی شخصیت عام نہیں ہے، لہٰذا آپ کے اقوال اور قلم سے نکلے ہوئے الفاظ پر لوگوں کی نظر ہوتی ہے۔ جب آپ کی طرف سے اجازت سمجھیں گے تو شاید کل وہ کسی بڑے فساد میں مبتلا ہو جائیں، کیونکہ سنت تو حد بند ی کرتی ہے مگر رسم کی کوئی حد بندی نہیں۔ یہ ایک رواں دواں سلسلہ ہے جو آنے والے وقت میں نئے نئے گل کھلاتا ہے۔ 
محمد اسلم معاویہ 
چاہ ملک والا ڈاکخانہ مریالی
ڈیرہ اسماعیل خان 
(۵)
محترمی و مکرمی جناب عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
گزشتہ ہفتے محترم مولانا زاہد الراشدی کے دست شفقت سے ’الشریعہ‘ جون ۲۰۰۸ء کا شمارہ ملا جس کو ابتدا سے آخر تک پڑھنے کا موقع ملا۔ ’الشریعہ‘ کے کلمہ حق سے لے کر اخبار و آثارتک ایک ایک چیز متعدد مرتبہ پڑھی۔ پڑھنے کے بعد یہ احساس پیدا ہوا کہ بلا شبہ ’الشریعہ‘ جیسے رسالہ کی یقیناًضرورت تھی، ایک ایسا رسالہ جس میں علمی ابحاث کے ساتھ ساتھ جدید زمانہ میں پیدا ہونے والے مسائل پر بھی علمی اور تحقیقی انداز میں قلم اٹھایا جائے اور جو جدیدزمانہ میں عوام کی رہبری و راہنمائی اور شرعی مسائل سے آگاہی کا فریضہ سرانجام دے سکے۔ میرے خیال میں الشریعہ دینی رسائل میں اعلیٰ مقام کا حامل مجلہ ہے۔ آج کے دور میں اس وقت تک کو ئی عالم معاشرہ کے مسائل پر تک قلم نہیں اٹھا سکتا جب تک وہ معاشرتی، سماجی، سیاسی اور معاشرہ میں پائے جانے والے رسوم رواج سے آگاہ نہ ہو۔ آج ہمارا دینی طبقہ عوامی مسائل اور سماج سے بہت دور ہے ا ور شاید یہ دوری کئی خلیجوں سے کم نہ ہو۔ الشریعہ اس لحاظ اپنی ذمہ داری پو ری کرتا نظر آاتا ہے۔ ۲۵ جون کو اسلامک میڈیا فانڈیشن کے اجلاس منعقدہ گوجرانوالہ کے موقع پر الشریعہ کے چند سابقہ شمارے بھی ملے جن کو پڑھنے کے بعد اپنے احساس کو مزید تقویت ملی۔ اللہ آپ کی اس محنت جلیلہ کو قبول فرمائے۔ 
حافظ محمد ابوبکر چودھری (سابق لکچرر) 
پنجاب یونیوسٹی کالج آف انفار میشن ٹیکنالوجی 
پنجاب یونیوسٹی لاہور 

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’ڈاکٹر محمد اقبال اور مولانا اشرف علی تھانوی‘‘

’’ڈاکٹر محمد اقبال اور مولانا اشرف علی تھانوی افکار کا تقابلی جائزہ‘‘ (برائے ایم فل اقبالیات) کی مبسوط جلدسامنے ہے۔ یہ مقالہ جناب محمد یونس میو کے رشحات قلم کا نتیجہ ہے۔ پہلے تو اتنی ضخیم کتاب کو دیکھ کر ایک مرعوب کن تاثر ابھرتا ہے۔ ساتھ ہی خیال گزرتا ہے کہ اتنی ضخامت میں رطب و یابس بھی ہو گا۔ آخور کی بھرتی ہی سے ایسی طول کلامی ہو سکتی ہے، کیونکہ ’ خیرالکلام ماقل ودل‘ کا فرمان رسول بھی اپنے ا ندر حقائق کا سمندر لیے ہوئے ہے۔ شیکسپیئر نے بھی کہا تھا اور سچ ہی کہا تھا: Brevity is the soul of will ۔
قاری حوصلہ کر کے پہلے تو اس کے محتویات کا جائزہ لیتا ہے اور پھر جی کڑا کر کے آگے بڑھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جوں جوں اس کے مشمولات نظر سے گزرتے ہیں، ایک بے نام مسرت بھی ہوتی ہے اور مقالہ نگار کی ژرف نگاہی کے لیے ستایش کا داعیہ بھی ابھرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ حسن ترتیب کی گرہیں بھی کھلتی چلی جاتی ہیں، تاآنکہ پیش لفظ سے گزر کر پہلے باب اور پھر چھٹے باب کے آخر میں فقہ واجتہاد اور کتابیات تک پہنچتے پہنچتے یہ مرعوبیت فاضل مقالہ نگار کی علمی وجاہت کی حد تک تو قائم رہتی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، مگر علم وآگہی اور معلومات فراواں کی جو قندیلیں فروزاں ہوتی چلی جاتی ہیں، ان کی روشنی میں دونوں جید ہستیوں ڈاکٹر محمد اقبال اور مولانا اشرف علی تھانوی کی فکری مماثلتیں اور ذہنی ہم آہنگی کے مختلف پہلو دل ودماغ میں نئی کسمسا ہٹیں پیدا کر دیتے ہیں۔ دونوں کے تعلیمی نظریات، سیاسی نظریات بالخصوص دو قومی نظریہ، تصوف، نظریہ شعر وسخن، تحریک علی گڑھ اور اس کے اساطین کے بارے میں مستند معلومات اور آخر میں دونوں کے نظریہ اجتہاد اور دینی تفقہ سے متعلق گراں قدر معلومات قاری کو ایک انسائیکلوپیڈیائی فضا میں لے جاتی ہیں۔ 
مقالہ نگار کا یہ تقابلی مطالعہ ا ن کی علمی بصیرت، تحقیقی کاوش، موضوع پر مضبوط گرفت اور ہمہ جہت مطالعے کا آئینہ دار ہے۔ ان عظیم شخصیتوں کے افکار وخیالات اور احوال وکوائف کے ساتھ ساتھ کتنی ہی علمی وادبی شخصیات کے احوال وآثار اور روشن فکری کے گوشے بے نقاب ہو گئے ہیں۔ دیوبند، علی گڑھ اور ندوۃ العلماء کی کئی جہتیں اس مقالے سے روشن تر ہو کر سامنے آ گئی ہیں۔ سید انور شاہ کشمیری، خواجہ عزیزالحسن مجذوب، مولانا ڈاکٹر عبدالحئ عارفی، ذکی کیفی، سید سلیمان ندوی، مولانا شاہ حکیم محمد اختر جیسے مختلف الجہات عظیم رجال اپنی گوناگوں صفات کے ساتھ صفحہ قرطاس پر منتقل ہو گئے ہیں۔ 
سیاسی میدان میں اقبال وتھانوی کے ساتھ ساتھ سرسید احمد خان، قائد اعظم محمد علی جناح، موہن داس کرم چند گاندھی، مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا عبدالباری جیسی سیاسی شخصیات کے سیاسی نظریات اور موضوع مقالہ کی دونوں عظیم شخصیتوں سے ان کے ربط وارتباط کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ 
یوں تو مقالے کا ایک ایک باب اور ہر باب کے ذیلی عنوان اپنی پوری تحقیقی روح کے ساتھ مقالہ نگار کے علم وآگہی کا پتہ دیتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نے اس کی تحریر وتسوید، مواد کی چھان پھٹک، اصول تحقیق کی پابندی سے لے کر تبویب وتدوین کے جملہ مراحل میں کئی ہفت خواں طے کیے ہیں، تاہم تصوف اور اجتہاد جیسے دقیق موضوعات میں اصل مآخذ سے استفادہ کرنے کی صلاحیت نے مقالے کو بڑا ہی جاندار، شاندار اور قابل قدر بنا دیا ہے۔ 
وحدت الوجود جیسا دقیق اور پیچیدہ موضوع جس میں اتفاق واختلاف رکھنے والے مشرق ومغرب کے بعد پرہیں، علامہ اقبال اور مولانا تھانوی کے تعلق سے تحقیقی مقتضیات کو پورا کرتے ہوئے اس سے عہدہ برآ ہونا مقالہ نگار کی علمی گہرائی اور فنی مہارت کا غماز ہے، بالخصوص یہ باور کرانا کہ علامہ اقبال مولانا تھانوی کے پیروکار تھے اور اسے پرزور دلیل سے ثابت کرنا کارے دارد۔ موصوف کی یہ رائے ہے کہ ’’مولانا کے اتحاد وحلول کی نفی اور وجود حقیقی کامل کے سامنے ان کے وجود کو کالعدم اور لاشی سمجھنا‘‘ ایک دلیل قاطع ہے۔
تصوف کی بات چھڑی تو مقالے میں دونوں بزرگوں کی زندگی سے متعلق معلومات تو ہیں ہی اور ان کی فکر کے میلانات تو سامنے آئے ہی ہیں، ابن عربیؒ ، حلاج، جلال الدین رومی اور حافظ شیرازی سے ان کی فکری یگانگت یا جزوی اختلافات بھی نکھر کر منظر عام پر آ گئے ہیں۔ ان اتفاقات واختلافات کو سامنے رکھ کر قاری خود اخذ نتائج اور اقامت رائے کے لیے آزاد ہو جاتا ہے۔ 
تقلید واجتہاد کا باب اس مقالے میں خاص اہمیت کاحامل ہے۔ علامہ اقبال کا تجدیدی فکرونظر کے لیے سراپا ستایش ہونا اور عموماً تقلید سے گریز کی راہیں تلاش کرنے کے باوجود ان کی ذہنی یافت کا نتیجہ ہے۔ مقالہ نگار نے ڈاکٹر سید عبداللہ کے حوالے سے اقبال کا ایک اقتباس پیش کر کے انہیں تقلید جامد سے متنفر اور تقلید اجتہاد آمیز کا قائل ثابت کیا ہے، کیونکہ اقبال ایک طرف تو کہتے ہیں:
کامل بسطام در تقلید فرد
اجتناب از خوردن خربوزہ کرد
دوسری طرف ان کا کہنا ہے :
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی 
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے 
خطاب ’’مطالعہ اقبال کے چند نئے رخ‘‘ از عبداللہ کا اقتباس یہ ہے : ’’اگرچہ یورپ نے مجھے بدعت کا چسکا ڈال دیا ہے، تاہم میرا مسلک بھی وہی تھے جو قرآن کا ہے۔ میرا میلان بھی قدیم کی طرف ہے۔‘‘ (مقالہ ہذا، ص۴۳۲)
جہاں تک مولانا تھانوی کا تعلق ہے وہ تو مسلمانوں کے شاندار ماضی کے بہت بڑے مناد ہیں۔ وہ اپنی تمام تحریروں میں ماضی کے شفاف آئینے میں جھانک کر حال واستقبال کی اصلاح و ابقا کے بہت بڑے علمبردار ہیں۔ وہ ماضی سے کسی صورت میں ہٹ سکتے ہیں نہ کٹ سکتے ہیں۔ یوں دونوں ( اقبال و تھانوی) میں کامل ہم آہنگی موجود ہے۔ دونوں ہی ماضی سے صرف نظر نہیں کر سکتے۔ اس مقام پر دونوں میں فکری مماثلت بھی بدرجہ اتم پیدا ہو گئی ہے اور عملی مساعی بھی قدرے اختلاف کے ساتھ ایک جیسی ہو گئی ہیں۔ دونوں تجدد کے زبردست مخالف ہیں، مگر بصد احتیاط تجدید واجتہادکے سرگرم داعی بھی ہیں۔ ترکی کی مغرب پرستی اور غیر اسلامی تجدد، اذان ونماز کو ترکی زبان کاجامہ پہنانا دونوں کے نزدیک ناقابل قبول بھی ہے اور ناقابل عمل بھی۔ مقالہ نگار نے اس پہلو کوبطریق احسن پیش کیا ہے۔ دونوں کے نزدیک اجتہاد وتجدید دین کا دروازہ تو کھلا ہے مگر ہرکہ ومہ کومنہ اٹھائے اندر جانے کی اجازت نہیں، سوائے ان اہل خبرونظر کے جواس میں داخلے کی اہلیت و استعداد سے بہرہ مند ہوں۔ ان کے نزدیک صلاحیت وصالحیت دونوں کا ہونا ضروری ہے۔ 
پایان کار یہ امر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتاکہ اتنے اچھے مواد کو جس حسن وخوبی سے پیش کیا گیا ہے وہ لائق توصیف ہے مگریہ بات رہ رہ کر کھٹکتی ہے کہ اس ضخامت کے مقالے کی مسودہ خوانی جس امعان نظر کے ساتھ ہونی چاہیے تھی، نہیں کی گئی۔ زیر نظر کاپی میں ان گنت غلطیاں ہیں۔ بہت سی تصحیح کر دی گئی ہے مگر بہت سی ایسی باتیں ہیں جو استیعا باً مطالعے کی متقاضی ہیں جس کے لیے فاضل مقالہ نگار کو خصوصی محنت ودقت نظر سے کام لینا چاہیے۔ اشعار میں بہت غلطیاں ہیں اور عربی عبارات میں تو اغلاط کی بھرمار ہے۔ جب تک ان کانٹوں کو ہٹا نہیں دیا جاتا، یہ گل تراپنی اصلی بہار نہیں دکھا سکتا۔ 
میرا خیال ہے کہ اگر ان اغلاط کا ازالہ کر دیا جائے تو یہ مقالہ ایم فل کے چوٹی کے مقالات میں شمار کیے جا نے کے قابل ہے۔ معلومات کی فراوانی، اسلوب کی ندرت، تحقیق وتدقیق کے تقاضوں کی تکمیل اور موضوع سے شیفتگی کی حد تک وابستگی اس تحریرکو اہل ذوق کے لیے اپنی سطح کا ایک نادرہ کار کارنامہ بنا رہی ہے۔ مقالے میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی۔ موضوع وسعت طلب تھا، اس میں گہرائی کا آنا ایک بدیہی امر تھا۔ مقالہ نگار نے ’’دریا بحباب اندر‘‘ کے مصداق اس وسعت صحرا کو سمیٹ کر قارئین کے سامنے پھولوں سے لدی پھندی کیاری بنا دیا ہے۔ (پروفیسر غلام رسول عدیم)

’’عصر حاضر میں اجتہاد: چند فکری وعملی مباحث‘‘

(۱)
لغت کا ایک لفظ ہے ’یلغار‘۔ اس لفظ کے ساتھ فوری طور پر یہ تصویر ذہن میں بنتی ہے کہ ایک گروہ یا لشکر اپنی قوت کے بل بوتے پر دوسرے کو پچھاڑنے، بے بس کرنے یا اپنی مرضی کا تابع بنانے کے لیے امڈا چلا آ رہا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے دین اسلام کے کچھ ’ہمدردوں‘ نے تو واقعی اس لفظ کے پردے میں خود اسلام کی ’تشکیل نو‘ کے لیے یلغار کر رکھی ہے۔ وہ جو دین کی ابجد سے بھی واقف نہیں اور وہ جو اس لفظ کے دائرۂ اثر کی نزاکتوں اور عملی سطح پر اس کی وسعتوں تک سے بے خبر ہیں، وہ بھی اس لفظ کو اس زعم میں گھما پھرا کر اسلامی فکریات کے ایوان پر دے مارتے ہیں کہ گویا اہل دین تو دین اور دنیا سے بے خبر بیٹھے ہیں اور عقل ودانش کی دولت بس اس یلغاری گروہ کی ملکیت ہے۔ یہ ایک عجیب منظر ہے۔ 
مولانا زاہد الراشدی اس کتاب میں مذکورہ صورت حال پر نظر دوڑانے کے ساتھ علماے کرام کو دین، ایمان اور عقل کی بنیاد پر وسعت نظر، منصبی ذمہ داری اور قوت عمل کی دعوت دیتے ہیں: ’’ایک طرف سرے سے اجتہاد کی ضرورت سے انکار کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف اجتہاد کے نام پر امت کے چودہ سو سالہ علمی مسلمات اور اجتماعی اصولوں کا دائرہ توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ حق ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہے۔‘‘ (ص ۲۸۷)
زیر نظر کتاب اجتہاد کے حوالے سے اس بحث کے پس منظر، عملی جہتوں، اس کے مقدمات، نظائر، امکانات اور مضمرات کو اس طرح پیش کرتی ہے کہ قاری بڑی حد تک معاملے کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھ لیتا ہے۔ چونکہ یہ کتاب مولانا راشدی کے ان بیش تر اخباری کالموں پر مشتمل ہے جو انھوں نے اکتوبر ۱۹۹۰ء سے تاحال سپرد قلم کیے (مگر اخباری کالم ہونے کے باوجود ان میں گہرائی اور تازگی ہے) چنانچہ اس عرصے کے دوران میں زیر بحث موضوع کے بارے میں اٹھنے والے مناقشوں کا ایک ریکارڈ بھی سامنے آ جاتا ہے۔ مصنف نے استدلال کے لیے عام فہم نظائر اور مثالوں کو خوبی سے چن چن کر فکر وخیال کا دیوان سجایا ہے۔ چند در چند ناہمواریوں کے باوجود اہل دین ان کی اس کاوش کو یقیناًخوش آمدید کہیں گے۔
مصنف کو علمی حلقے ایک معتدل شخصیت کے طور پر جانتے ہیں، تاہم زیر تبصرہ کتاب میں یہ نثر پارہ ان کی مذکورہ حیثیت کو متاثر کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’مولانا ]عبید اللہ[ سندھیؒ اور ابو الکلام آزادؒ کے علمی تفردات پر ان کے شاگردوں اور معتقدین نے دفاع اور ہر حال میں انھیں صحیح ثابت کرنے کی وہ روش اختیار نہیں کی جو خود مولانا مودودی اور ان کے رفقا نے ان کی تحریروں پرعلما کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات پر اپنا لی تھی۔ چنانچہ اس روش کے نتیجے میں وہ جمہور علما ]؟[ کے مدمقابل ایک فریق کی حیثیت اختیار کرتے چلے گئے۔‘‘ (ص ۳۱۷) اس ٹکڑے میں الزام تراشی اور مبالغہ آمیزی کا وہ لحن کارفرما ہے جو گزشتہ صدی کے پانچویں اور چھٹے عشرے میں منظر پر چھایا ہوا تھا۔ ]موصوف نے یہ عجب دعویٰ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودودی نے اس غوغا آرائی کا جواب نہ ہونے کے برابر دیا اور ان کے رفقا نے گنتی کی چند چیزوں کے سوا کوئی جواب نہیں دیا، جبکہ دوسری جانب سے تنقید کا ایک طوفان اٹھایا جاتا رہا[ سبحان اللہ، ان ’جمہور علما‘ میں سے واقعی کتنے حضرات نے خدا ترسی اور علمی مناسبت سے تنقید کی اور کتنے حضرات نے عصبیت کی چوکھٹ پر سچائی، اخلاق، علم اور شائستگی کا خون کیا؟ مذکورہ بالا فرد جرم کا جائزہ اور ’جمہور علما‘ کے اسلوب نگارش کا گل دستہ اس مختصر تبصرے میں پیش کرنا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان ’کرم فرماؤں‘ کو خوش رکھے۔ (تبصرہ نگار: سلیم منصور خالد)
(بشکریہ ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور، جولائی ۲۰۰۸)
(۲)
ابو عمار زاہد الراشدی علمی حلقوں میں نام ور ہیں۔ ان کے یہ مضامین مختلف اخبارات اور ماہنامہ الشریعہ (گوجرانوالہ) میں شائع ہوئے اور اب اس موضوع کو انھوں نے زیر نظر کتاب میں یکجا کر دیا ہے۔ 
مولانا راشدی صاحب پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
’’اجتہاد موجودہ دور میں زیر بحث آنے والے اہم موضوعات میں سے ایک ہے اور دین کی تعبیر کے حوالے سے قدیم وجدید حلقوں کے درمیان کشمکش کی ایک وسیع جولان گاہ ہے۔ اس پر دونوں طرف سے بہت کچھ لکھا گیا، لکھا جا رہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا اور جب تک قدیم وجدید کی بحث جاری رہے گی، یہ موضوع بھی تازہ رہے گا۔‘‘
اجتہاد کے حوالے سے دو نقطہ نظر ہیں۔ ایک طبقے کا نظریہ ہے کہ اجتہاد کی تکمیل ہو گئی ہے اور اب مزید کی ضرورت نہیں رہی اور دروازہ بند کر دیا۔ دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ اجتہاد کا عمل جاری رہنا ضروری ہے اور ان کے نزدیک اس دروازے کو بند کرنا نقصان کا باعث ہے۔ مولانا راشدی صاحب نے ان مضامین میں اس بحث کو مختلف انداز میں دیکھا ہے۔ اب اگر ہم راشدی صاحب کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ان کا ایک نہایت اہم خطبہ ’’دور جدید میں اجتہا دکی ضرورت اور دائرۂ کار‘‘ دیکھنا ہوگا۔ مولانا فرماتے ہیں:
’’جہاں تک اجتہاد کے بنیادی اصول وضوابط کے تعین کی بات ہے، اس کا دروازہ تو ابتدائی تین صدیوں کے بعد اس لحاظ سے بند ہے کہ اس کے بعد اجتہاد کا عمل انھی دائروں میں ہوتا آ رہا ہے جو مسلمہ فقہی مکاتب فکر نے طے کر دیے تھے اور یہ دروازہ کسی کے بند کرنے سے بند نہیں ہوا، بلکہ ضرورت پوری ہو جانے کے بعد فطری طور پر خود بخود بند ہو گیا ہے جیس اکہ کسی بھی علم کا فطری پراسس ہوتا ہے۔‘‘
مولانا راشدی صاحب اکثر ملکی اور غیر ملکی سفر کرتے ہیں، اس لیے ان کا مکالمہ عام طور پر عوام سے ہوتا ہے جنھوں نے اجتہاد کا نام تو سنا ہے مگر اس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔ شاید عالم لوگوں کا خیال ہے کہ مذہب کو ضرورت پڑنے پر تبدیل کر دیا جائے تو یہی اجتہاد ہے، جبکہ ایسا نہیں۔ دین کے بنیادی قوانین میں ترمیم ممکن نہیں ہے، وہ جیسے ہیں ویسے ہی رہیں گے۔ اجتہادی گنجایش ہر جگہ ممکن بھی نہیں ہے۔ 
مولانا کے انداز تحریر کی خوبی یہ ہے کہ وہ عام لوگوں کے مسائل اور مطالبات کو زیر بحث لاتے ہیں اور ان کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا انداز بیان سہل ہے، اس لیے قارئین کو ان کی بات سمجھنے میں دقت پیش نہیں آتی۔ زیر نظر کتاب کی خوبی یہی ہے کہ یہ عام لوگوں کے لیے جو عالم نہیں ہیں، لیکن اپنے طور پر دین کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کے ذہن میں سوال پیدا ہوتے ہیں۔ اجتہاد بھی ایک ایسا ہی سوال ہے۔ اس کتاب میں اس موضوع پر تمام سوالات کے جواب آپ کو مل جائیں گے۔ میرا خیال ہے کہ اس کتاب کی تدوین سے ایک مشکل موضوع کو ایک آسان راستہ مل گیا۔ یہی خوبی راشدہ صاحب کی ہے۔ وہ مشکل بات کو آسان انداز میں بیان کرنے پر بے پناہ عبور رکھتے ہیں۔ (تبصرہ نگار: جاوید اختر بھٹی)
(بشکریہ ماہنامہ نقیب ختم نبوت ملتان، جولائی ۲۰۰۸)

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی سالانہ کارکردگی رپورٹ

ادارہ

(شعبان المعظم ۱۴۲۸ھ تا رجب ۱۴۲۹ھ ۔ ستمبر ۲۰۰۷ء تا اگست ۲۰۰۸)

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ ایک علمی، فکری اور تعلیمی ادارہ ہے جو ۱۹۸۹ء سے درج ذیل مقاصد کے لیے سرگرم عمل ہے:
  • امت مسلمہ کو درپیش فکری وعملی مسائل کا تجزیہ وتحقیق اور ان کے حل کے لیے درست خطوط پر رہنمائی
  • امت مسلمہ کے مختلف علمی مکاتب فکر اور نظریاتی تحریکات کے مابین مفاہمت، رواداری اور رابطہ وتعاون اور اشتراک کی فضا کا فروغ
  • مغربی فکر وتہذیب کے پیدا کردہ نظریاتی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی چیلنجوں کے مضمرات کے درست ادراک اور ان کے مقابلہ کے لیے صحیح لائحہ عمل کی وضاحت
  • روایتی دینی حلقوں میں جدید فکر وفلسفہ، معاصر دنیا کے احوال ووقائع اور نشر وابلاغ کے جدید ترین ذرائع، ان کے طریق کار اور اثر ونفوذ سے آگاہی اور شعور کا فروغ
مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے صدر مدرس مولانا زاہد الراشدی اکادمی کے ڈائریکٹر ہیں جبکہ حافظ محمد عمار خان ناصر (فاضل وفاق المدارس العربیہ، ایم اے انگلش پنجاب یونیورسٹی) ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر ان کی معاونت کرتے ہیں۔ 
اکادمی کی سال رواں کی رپورٹ احباب ومعاونین کی خدمت میں پیش ہے:

اکادمی کے زیر اہتمام دینی مراکز

  • ۱۹۹۹ سے جی ٹی روڈ گوجرانوالہ پر کنگنی والا بائی پاس کے قریب سرتاج فین کے عقب میں ہاشمی کالونی میں ایک کنال زمین پر اکادمی کی تین منزلہ عمارت زیر تعمیر ہے جو اس وقت اکادمی کی بیشتر تعلیمی اور علمی وفکری سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ 
  • کینال ویو واپڈا ٹاؤن کے عقب میں کوروٹانہ کے مقام پر کھیالی کے مخیر دوست حاجی ثناء اللہ طیب نے الشریعہ اکادمی کے لیے ایک ایکڑ (آٹھ کنال) زمین وقف کی ہے جہاں چار دیواری کی بنیادیں بھرنے کے علاوہ مدرسہ طیبہ تحفیظ القرآن کا ایک بلاک بھی تعمیر کیا جا چکا ہے۔ 
  • کھوکھرکی گوجرانوالہ کے مخیر بزرگ حاجی مہر عبد العزیز صاحب نے جہانگیر کالونی میں ایک کنال رقبہ پر دو منزلہ جامع مسجد ابو ذر غفاریؓ تعمیر کر کے اس کا انتظام الشریعہ اکادمی کے سپرد کر دیا ہے اور اب اس کا انتظام اکادمی چلا رہی ہے۔ مولانا مجاہد اختر (فاضل درس نظامی) کو مسجد ابوذرؓ کا خطیب اور امام مقرر کیا گیا ہے۔ وہ خطابت وامامت کے ساتھ محلہ کے بچوں اور بچیوں کو قرآن کریم کی تعلیم دے رہے ہیں اور علاقہ کے نوجوانوں کے لیے فہم دین کورس بھی جاری ہے۔

تعلیمی سرگرمیاں

  • مقامی بچوں اور بچیوں کے لیے نا ظرہ قرآن کریم کی کلاسیں معمول کے مطابق چل رہی ہیں، جبکہ کوروٹانہ میں تعمیر کیے جانے والے مرکز میں پرائمری پاس طلبہ کے لیے حفظ قرآن کریم مع مڈل کی کلاس بھی جاری ہے۔
  • گزشتہ سال میٹرک پاس طالبات کے لیے وفاق المدارس کے مقرر کردہ نصاب کے مطابق درجہ ثانویہ عامہ وثانویہ خاصہ پر مشتمل دو سالہ کورس کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس کورس میں شریک طالبات کو تجوید کی ضروری تعلیم دینے کے علاوہ عربی ادب وانشا کے ساتھ مناسبت پیداکرنے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ کلاس میں شریک چار طالبات اس سال وفاق المدارس العربیہ کے تحت ثانویہ عامہ کاسالانہ امتحان دیں گی۔ تعلیم کے فرائض اکادمی کے رفیق مولانا حافظ محمد یوسف اور ان کی اہلیہ انجام دے رہے ہیں۔ 
  • موسم گرما کی تعطیلات میں میٹرک پاس طلبہ کو درس نظامی کے درجہ اولیٰ کے مضامین پر مشتمل کورس مکمل کروایا گیا۔ اس سے قبل اس نوعیت کی پانچ کلاسز مکمل ہو چکی ہیں۔
  • اسکول وکالج کے طلبہ اور طالبات کے لیے عربی گریمر کے ساتھ ترجمہ قرآن مجید کی کلاسز کا سلسلہ بحمد اللہ جاری ہے۔ اب تک طلبہ کی چار کلاسز ترجمہ قرآن مجید مکمل کر چکی ہیں اور پانچویں کلاس جاری ہے، جبکہ طالبات کی دوسری کلاس اس وقت چھبیس پاروں کا ترجمہ پڑھ چکی ہے۔
  • اپریل؍مئی ۲۰۰۸ میں اکادمی کے زیر اہتمام شہر کے دینی مدارس کے طلبہ کے لیے جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں تیس روزہ عربی لینگویج کورس کا انعقاد کیا گیا جس میں تیس کے قریب طلبہ نے شرکت کی۔ ان کلاسز کے لیے روزانہ نماز عصر کے بعد کا وقت مقرر کیا گیا اور اکادمی کے ناظم مولانا حافظ محمد یوسف دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کو انگریزی زبان اور عربی بول چال کی تعلیم دی۔ کورس میں مجموعی طور پر چالیس سے زائد طلبہ نے شرکت کی۔ 
  • عامۃ الناس کوامور زندگی سے متعلق دینی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے مجلس مشاورت برائے تعلیمی وتربیتی کورسز اور الشریعہ اکادمی کے تعاون سے شہر کی مختلف مساجد میں تعلیمی کلاسز کاسلسلہ جاری ہے۔ 

دعوت وابلاغ

  • علمی وفکری جریدہ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ پابندی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے جس میں ملت اسلامیہ کو درپیش مسائل ومشکلات اور جدید علمی وفکری چیلنجز کے حوالہ سے ممتاز اصحاب قلم کی نگارشات شائع ہوتی ہیں۔
  • ۲۰۰۲ء میں اردو زبان میں اسلامی ویب سائٹ www.alsharia.org  لانچ کی گئی ہے جس پر ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے علاوہ مختلف اہم عنوانات پر منتخب مقالات ومضامین ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • حالات حاضرہ کے حوالے سے اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کے ہفتہ وار کالم روزنامہ اسلام کراچی میں ’’نوائے حق‘‘ کے عنوان سے اور روزنامہ پاکستان لاہور میں ’’نوائے قلم‘‘ کے عنوان سے شائع ہوتے ہیں۔ 

نشر واشاعت

 ۲۰۰۷  میں اکادمی کے شعبہ نشر واشاعت کے زیر اہتمام اہم علمی وفکری موضوعات پر مطبوعات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اب تک اکادمی کی طرف سے حسب ذیل کتب اور کتابچے شائع کیے جا چکے ہیں:
  • ’’جناب جاوید احمد غامدی کے حلقہ فکر کے ساتھ ایک علمی وفکری مکالمہ‘‘ 
  • از ابو عمار زاہد الراشدی/معز امجد/ ڈاکٹر فاروق خان/خورشید ندیم (صفحات ۲۰۰)
  • ’’حدود آرڈیننس اور تحفظ نسواں بل‘‘ از ابو عمار زاہد الراشدی (صفحات ۱۵۲)
  • ’’عصر حاضر میں اجتہاد: چند فکری وعملی مباحث‘‘ از ابو عمار زاہد الراشدی (صفحات ۳۲۴)
  • ’’مذہبی جماعتیں اور قومی سیاست‘‘ از ابو عمار زاہد الراشدی (صفحات ۱۰۴)
  • ’’متحدہ مجلس عمل: توقعات، کارکردگی اور انجام ‘‘ از ابو عمار زاہد الراشدی (صفحات ۱۵۲)
  • ’’دینی مدارس کا نصاب ونظام: نقد ونظر کے آئینے میں‘‘ از ابو عمار زاہد الراشدی (صفحات ۴۱۶)
  • ’’دینی مدارس اور عصر حاضر‘‘ (اکادمی کے زیر اہتمام فکری وتربیتی نشستوں کی روداد) (صفحات ۲۳۴)
  • ’’جامعہ حفصہ کا سانحہ: حالات وواقعات اور دینی قیادت کا لائحہ عمل‘‘ از ابو عمار زاہد الراشدی (صفحات ۱۲۸)
  • ’’خطبہ حجۃ الوداع: اسلامی تعلیمات کا عالمی منشور ‘‘ از ابو عمار زاہد الراشدی (صفحات ۱۲۸)
  • ’’جنرل پرویز مشرف کا دور اقتدار‘‘ از ابوعمار زاہد الراشدی (صفحات ۵۹۲)
  • ’’قرارداد مقاصد کا مقدمہ‘‘ از سردار شیر عالم خان ایڈووکیٹ/چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ (صفحات ۲۰۸)
  • ’’مغرب کا فکری وتہذیبی چیلنج اور علما کی ذمہ داریاں‘‘ از ڈاکٹر محمود احمد غازی (صفحات ۳۶)
  • ’’ہمارے دینی مدارس: چند اہم سوالات کا جائزہ‘‘ از ابو عمار زاہد الراشدی (صفحات ۸۸)
  • ’’حدود آرڈیننس اور تحفظ نسواں بل‘‘ از ابو عمار زاہد الراشدی (صفحات ۲۴)
  • ’’صحیح بخاری کی ثلاثی احادیث‘‘ از وقار احمد (صفحات ۳۲)

تربیتی ورکشاپس

جون ۲۰۰۸ میں اکادمی میں ’’عامۃ الناس کی تعلیم وتربیت اور ائمہ وخطبا کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان پر ایک تربیتی ورک شاپ منعقد کی گئی جس میں ڈاکٹر محمد امین (سابق سینئر ایڈیٹر دائرۂ معارف اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی) اور اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کے علاوہ مولانا داؤد احمد (استاذ الحدیث مدرسہ انوار العلوم) اور مولانا محمد یوسف (رفیق الشریعہ اکادمی) نے گفتگو کی اور ائمہ وخطبا کو بتایا کہ نسل نو کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اس ضمن میں انھیں کن تعلیمی، اخلاقی اور نفسیاتی تقاضوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔

علمی وفکری نشستیں 

  •  گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی اکادمی کے زیر اہتمام ہفتہ وار فکری نشستوں کا اہتمام کیا گیا جن میں اکادمی ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے اپنی ذاتی، خاندانی، تعلیمی اور سیاسی یادداشتیں بیان کیں۔ یہ یادداشتیں کیسٹ پر محفوظ کر لی گئی ہیں اور انھیں صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کا کام جاری ہے۔ 
  • ۱۵؍ اکتوبر ۲۰۰۷ء کو ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا مفتی برکت اللہ نے الشریعہ اکادمی کی طرف سے اپنے اعزاز میں دی جانے والی ’’عید ملن پارٹی‘‘ میں شرکت کی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آج کی عالمی صورت حال گزشتہ صدی سے بالکل مختلف ہے اور دنیا بھر کی اقدار وروایات تیزی سے تبدیل اور ایک دوسرے میں مدغم ہو رہی ہیں، اس لیے ہمیں اسلام کی دعوت اور نفاذ کے لیے روایتی طریق کار پر قناعت کرنے کی بجائے جدید ضروریات اور تقاضوں کا ادراک کرنا ہوگا اور جذباتیت اور سطحیت کے دائرہ سے نکل کر زمینی حقائق اور معروضی حالات کی روشنی میں اپنی حکمت عملی اور ترجیحات طے کرنا ہوں گی۔ 
  • ۲ نومبر ۲۰۰۷ کو الشریعہ اکادمی میں نئے تعلیمی سال کے افتتاح کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علماے اسلام پنجاب کے امیر مولانا قاضی حمید اللہ خان نے کہا کہ انسان کے لیے راہنمائی کا ذریعہ اور اس کی زینت ووقار کا باعث ہے اور معاشرہ میں علمی اداروں کا وجود اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور اس سے قوم کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے، اس لیے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ علمی اداروں سے بھرپور استفادہ کریں اور ان کے ساتھ تعاون کریں۔
  • ۵؍ نومبر ۲۰۰۷ کو الشریعہ اکادمی میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس کے ساتھ، جو حال ہی میں اسکاٹ لینڈ سے پوسٹ ڈاکٹرل ریسرچ کی تکمیل کے بعد واپس آئے ہیں، ایک فکری نشست کا اہتمام کیا گیا۔ ڈاکٹر شمس نے اسکاٹ لینڈ اور پاکستان کے تعلیمی نظاموں کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ اسکاٹ لینڈ میں تعلیمی نظام کی بہتری کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں اساتذہ کا رویہ طلبہ کے ساتھ شفقت ومحبت اور محنت کا ہے اور تدریسی اوقات کا زیادہ تر دورانیہ سوال وجواب اور تنقید وتبصرہ پر صرف کیا جاتا ہے اور اساتذہ کا ہدف طلبہ میں علمی کمی کو دور کرنا اور ان کے تصورات میں نکھار پیدا کرنا ہوتا ہے۔
  • ورلڈ اسلامک فورم کے راہ نما اور آسٹریلیا میں گولڈ کوسٹ اسلامک سنٹر کے خطیب مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی نے اکادمی میں ایک نشست سے خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ مغرب کے ساتھ تہذیبی جنگ اور فکری کشمکش میں مسلمانوں کے جو تعلیمی اور فکری ادارے کام کر رہے ہیں، ان کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی اور بالآخر وہ اپنے مشن میں کامیابی حاصل کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ دنیا میں الشریعہ اکادمی جیسے علمی وفکری ادارے سینکڑوں کی تعداد میں اپنے اپنے دائرہ میں مصروف کار ہیں اور ان کی محنت اور جدوجہد کی وجہ سے ہی آج دنیا کے ہر خطہ کے مسلم معاشرہ میں دینی بیداری اور اسلامی تشخص کے تحفظ کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ 
  • انسانی حقوق کے عالمی دن ۱۰؍ دسمبر کے موقع پر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ایک خصوصی فکری نشست کا اہتمام کیا گیا۔ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے خطا ب کرتے ہوئے کہاکہ اسلام نے چودہ سو برس پہلے معاشرہ میں انسانی حقوق کا علم بلند کیا تھا اور اسلام آج بھی مغربی دنیا سے کہیں زیادہ فطری انسانی حقوق کا علمبردار ہے اور انسانی سوسائٹی کو فلاح اور کامیا بی کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پروفیسر غلام رسول عدیم نے خطا ب کرتے ہوئے کہاکہ مغرب نے انسانی حقوق کے زیر سایہ فلسطین، عراق، افغانستان اور دنیا کے دیگر خطوں میں عوام کے بنیادی حقو ق کو جس طرح پامال کیا ہے، اس نے انسانی حقوق کے حوالے سے مغر ب کے دوہرے معیار کا پردہ چاک کر کے رکھ دیا ہے۔ 
  • ۱۲؍ دسمبر ۲۰۰۷ کو علماے کرام، طلبہ اور اہل دانش کی ایک بھرپور نشست سے ندوۃ العلما لکھنو کے استاذ الحدیث مولانا سید سلمان الحسینی الندوی نے خطاب کیا۔ مولانا سید سلمان الحسینی نے اپنے خطاب میں کہا کہ علماے کرام کا کام صرف لوگوں کو عبادات سکھانا اور نماز روزے کے مسائل بتانا نہیں ہے بلکہ زندگی کے دوسرے معاملات میں ان کی راہ نمائی کرنا اور انھیں شریعت کے مطابق مسائل سے آگاہ کرنا بھی علماے کرام کی ذمہ داری ہے۔ مولانا قاری سیف اللہ اختر نے اس نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی شعبہ میں دین کا کام کرنے والوں کو دوسرے دینی شعبوں کے کام کا احترام کرناچاہیے اور باہمی تعاون واشتراک کے ساتھ دینی جدوجہد میں اجتماعیت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ 
  • ۹ جنوری ۲۰۰۸ کوالشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں مولانا زاہدالراشدی کے ہفتہ وارلیکچرز کے سال نو کے پروگرام کے آغاز پرایک تقریب منعقد ہوئی۔ ماہنامہ ’’نور علیٰ نور‘‘ کراچی کے چیف ایڈیٹر مولانا عبدالرشید انصاری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے دینی حلقے مغرب کی تہذیبی یلغاراورفکری حملے کامتحد ہو کرہی مقا بلہ کرسکتے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ نوجوان علما کو بطور خاص اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ وہ آج کی عالمی فکری اورتہذیبی کشمکش کے بارے میں معلومات حاصل کریں اورصورت حال کاپوری طرح ادراک کرتے ہوئے اس عالمی تناظر میں قرآن وسنت کی صحیح ترجمانی کے لیے خود کوتیار کریں۔ 
  • ۱۸؍ فروری ۲۰۰۸ کو برطانیہ کے معروف دینی راہ نما اور دانش ورمحترم حاجی محمد بوستان صاحب آف ڈیوزبری نے مغرب الشریعہ اکادمی میں ایک خصوصی فکری نشست سے خطاب کیا اور قوموں کے عروج وزوال میں علمی وفکری کام کرنے والے افراد اور اداروں کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ علمی وفکری کام کے اثرات نہایت گہرے اور دور رس ہوتے ہیں اور پاکستانی معاشرے کو چاہیے کہ وہ اس نوعیت کے اداروں کو اپنے وسائل کا وافر حصہ مہیا کرے تاکہ اہل فکر معاشی تگ ودو سے بے نیاز ہو کر یکسوئی کے ساتھ علمی وفکری کام کر سکیں۔
  • ۲؍اپریل ۲۰۰۸ کو اکادمی کی ہفتہ وار فکری نشست میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہ نما مولانا اللہ وسایا نے اپنے تفصیلی خطاب میں جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور اقتدار میں قادیانیوں کی سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا اور کہا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے اجماعی فیصلے اور پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ میں متفقہ طور پر منظور شدہ دستوری ترمیم کو ماننے سے واضح انکار کے باوجود اس دوران قادیانی گروہ پاکستان میں پوری طرح متحرک رہا اور جنرل پرویز مشرف کی انتظامیہ ان کی پشت پناہی کرتی رہی۔ مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ دینی قوتوں کو بیداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور تمام مذہبی جماعتوں اور مکاتب فکر کو تحریک ختم نبوت کے ایک نئے راؤنڈ کی تیاری شروع کر دینی چاہیے۔ 
  • ۲۳؍ اپریل ۲۰۰۸ کو اکادمی کی ہفتہ وار فکری نشست شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نور اللہ مرقدہ کی شخصیت اور خدمات کے تذکرہ کے لیے مخصوص کی گئی اور اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے حضرت صوفی صاحبؒ اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے ابتدائی حالات، تعلیمی دور اور تعلیمی وتدریسی اور دینی خدمات کے حوالے سے اپنی بعض یادداشتیں حاضرین کے سامنے پیش کیں۔ 

رفاہ عامہ

الشریعہ اکادمی کے زیر انتظام ہاشمی کالونی میں فری ڈسپنسری روزانہ عصر تا عشا کام کرتی ہے اور روزانہ اوسطاً ۱۰۰ مریض اس سے استفادہ کرتے ہیں۔

ستمبر ۲۰۰۸ء

امریکہ میں مسلمانوں کی دینی سرگرمیاںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ۔ ولادت سے تکمیل تعلیم تکمولانا محمد یوسف
قرآن مجید میں قصاص کے احکام ۔ چند غور طلب پہلو (۱)پروفیسر میاں انعام الرحمن
اسلامی معاشیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز؟ (۲)محمد زاہد صدیق مغل
مکاتیبادارہ
’’مولانا مودودیؒ کی تحریک اسلامی‘‘ ۔ چند تاثرات واحساساتچوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

امریکہ میں مسلمانوں کی دینی سرگرمیاں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

میں ۲ اگست کو نیو یارک پہنچا تھا۔ ۹؍ اگست تک کوئنز کے علاقے میں واقع دینی درس گاہ دار العلوم نیو یارک کے سالانہ امتحانات میں مصروف رہا جہاں درس نظامی کا وہی نصاب پڑھایا جاتا ہے جو ہمارے ہاں کے مدارس میں مروج ہے۔ برطانیہ اور امریکہ میں بیسیوں مدارس اس نصاب کے مطابق نئی نسل کی دینی تعلیم وتدریس میں سرگرم عمل ہیں۔ طلبہ کے مدارس بھی ہیں اور طالبات کے مدارس بھی ہیں۔ درس نظامی سے میری مراد یہ ہے کہ بنیادی ڈھانچہ اور اہداف وہی ہیں کہ دینی تدریس وتعلیم اور امامت وخطابت کے لیے رجال کار تیار کیے جائیں اور قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کے ساتھ ان علوم وفنون کی انھیں تعلیم دی جائے جو قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کے بنیادی لٹریچر تک موثر رسائی کے لیے ضروری ہیں، البتہ اس میں مقامی اور علاقائی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ رد وبدل اور ترامیم واضافہ جات بھی کیے گئے ہیں۔
ان مدارس میں زیادہ تر طلبہ اور طالبات پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے آئے ہوئے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، البتہ افریقہ او ر مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور طالبات بھی بعض مدارس میں ان کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ دار العلوم نیو یارک کے منتظم بھائی برکت اللہ صاحب کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے اور ان کی اس سال خواہش تھی کہ میں اس مدرسہ کے طلبہ کا تفصیل کے ساتھ امتحان لوں اور مجموعی صورت حال کے بارے میں انھیں بریف کروں کہ کام کیسا چل رہا ہے اور اسے مزید بہتر اور بامقصد بنانے کے لیے اور کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟ چنانچہ میں مسلسل پانچ روز تک طلبہ کا امتحان لیتا رہا۔ روزانہ دو تین گھنٹے اس میں صرف ہوتے تھے۔ دار العلوم کے اساتذہ میں بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے علماے کرام کے علاوہ ہمارے گوجرانوالہ کے پرانے ساتھی مولانا حافظ اعجاز احمد، شام سے تعلق رکھنے والے ایک استاذ اور ایک نومسلم اسپینش عالم دین بھی ہیں جنھوں نے قبول اسلام کے بعد درس نظامی کی مکمل تعلیم حاصل کی اور اب وہ اس نصاب کے اسباق پوری دلچسپی کے ساتھ طلبہ کو پڑھا رہے ہیں۔ اساتذہ کی محنت اور ذوق کا اندازہ طلبہ کی صلاحیت واستعداد سے بخوبی ہو رہا تھا جس کا میں نے اپنی رپورٹ میں اظہار کیا اور کام کو مزید بہتر بنانے کے لیے مشورے دیے ہیں۔
اسی دوران مجھے اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کے ہیڈ آفس میں بھی جانے کا موقع ملا۔ یہ تنظیم جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے حضرات پر مشتمل ہے اور شمالی امریکہ میں اپنا ایک مستقل حلقہ اثر رکھتی ہے۔ ابتدا میں یہ حضرت اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ کے ساتھ منسلک تھے جو شمالی امریکہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم سمجھی جاتی ہے۔ اس میں عرب ممالک کے علماے کرام اور دانش وروں کی تعداد زیادہ ہے، لیکن دوسرے مسلم ممالک کے حضرات بھی اس میں شریک ہیں، لیکن اب سے دو عشرے قبل اس سے ہٹ کر اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کی تشکیل عمل میں لائی گئی۔ اس کے بانیوں میں ہمارے پرانے دوست عبد الشکور صاحب بھی شامل ہیں جو ایک زمانے میں پنجاب یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین کے صدر رہے ہیں، ۱۹۷۴ کی تحریک ختم نبوت میں ہمارے ساتھ سرگرم عمل تھے۔ ۱۹۸۷ میں جب میں پہلی بار امریکہ آیا تو وہ میرے میزبانوں میں شامل تھے اور ان سے اس دور میں امام سراج وہاج سمیت بہت سے حضرات کے ساتھ میری ملاقاتیں ہوئیں۔ آج کل وہ پاکستان میں ہیں اور تحصیل کھاریاں میں واقع اپنے گاؤں گکھڑ چنن میں ایک معیاری اسکول چلا رہے ہیں۔
اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ یہاں کے حلقوں میں ’’اثنا‘‘ (ISNA ) کے نام سے اور اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ ’’اکنا‘‘ (ICNA) کے نام سے متعارف ہیں۔ اکنا کے دفتر میں حاضر ہوئی اور وہاں کے ذمہ دار حضرات سے ملاقات ہوئی۔ اکنا کے دوست آج کل دعوت اسلام کی ایک نئی مہم کی تیاریوں میں مصروف ہیں جس کے تحت رمضان المبارک کے دوران نیو یارک کی زیر زمین ریلورے کے اسٹیشنوں پر اسلام کی دعوت اور تعارف کے حوالے سے ہزاروں پوسٹر لگائے جائیں گے اور مختصر جملوں میں ’’سب وے‘‘ کے مسافروں کو اسلام کے مطالعہ اور اسلامی تعلیمات سے واقفیت کی طرف توجہ دلائی جائے گی۔ اس مہم کی تفصیلات معلوم کر کے بے حد خوشی ہوئی۔ یہ ہماری دینی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ جس ماحول اور معاشرہ میں ہم رہتے ہیں، وہاں کی عمومی آبادی کو اسلام کی دعوت اور بنیادی تعلیمات سے متعارف کرائیں اور دعوت اسلام کے مواقع تلاش اور استعمال کریں۔ اکنا کے ذمہ دار جناب طارق صاحب نے بتایا کہ امریکی میڈیا میں اس مہم کی مخالفت میں بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن اس سے مہم کو فائدہ پہنچا ہے کہ اس مخالفت کے ماحول میں زیادہ لوگ اس طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور اکنا کے ذمہ دار حضرات کو امریکی میڈیا پر اپنے موقف او رپروگرام کی وضاحت کا بھی موقع مل رہا ہے۔
اس کے علاوہ مجھے مسجد سیدنا صدیق اکبرؓ میں ’’شریعہ بورڈ آف امریکہ‘‘ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کا بھی موقع ملا جو ۹؍اگست کو منعقد ہوا، بلکہ مجھے اس کے خصوصی مہمانوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ شریعہ بورڈ کا مقصد مسلمانوں کو ان کے خاندانی اور مالی نوعیت کے تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ امریکہ کے علماے کرام کو اس طرف سب سے زیادہ توجہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے دلائی اور اس کے لیے شکاگو کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا مفتی نوال الرحمن صاحب نے محنت کی جس کے نتیجے میں نہ صرف شکاگو میں بلکہ نیو یارک میں بھی ’’شریعہ بورڈ‘‘ کئی سالوں سے کام کر رہا ہے۔ سرکردہ علماے کرام ایک جیوری کی شکل میں نکاح وطلاق، وراثت اور مالی تنازعات کے مقدمات سنتے ہیں اور شریعت اسلامیہ کے تحت ان کے فیصلے کرتے ہیں۔ اس بورڈ کو امریکی قانون کے تحت منظور کرایا گیا ہے اور اس کے فیصلوں کا امریکی عدالتیں بھی احترام کرتی ہیں۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ شکاگو میں دو مسلمانوں کے درمیان کاروباری شراکت کے حوالے سے ایک مقدمہ کم وبیش سات برس تک عدالتوں میں چلتا رہا اور ہزاروں ڈالر خرچ ہونے کے باوجود وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچا تو متعلقہ عدالت نے وہ کیس ’’شریعہ بورڈ‘‘ کے پاس بھجوا دیا جس کا فیصلہ شریعہ بورڈ نے کسی بھی قسم کے خرچہ اور فیس کے بغیر صرف گیارہ روز میں کر دیا جس پر دونوں فریق مطمئن ہیں اور متعلقہ عدالت نے بھی اسی فیصلے پر صاد کر دیا ہے۔
مجھے ’’شریعہ بورڈ‘‘ کے سالانہ اجلاس میں اس کی کارکردگی کی رپورٹ سننے کے بعد خطاب کے لیے کہا گیا تو میں نے عرض کیا کہ جن بزرگوں نے اس کے لیے محنت کی ہے، وہ مبارک باد اور تحسین کے مستحق ہیں، لیکن اس میں تھوڑا سا حصہ بحمداللہ تعالیٰ میرا بھی ہے کہ ۱۹۹۰ کے دوران شکاگو کے مسلم کمیونٹی سنٹر میں مجھے پاکستان میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کے مرحلہ وار جائزہ کے حوالے سے ایک نشست میں گفتگو کی دعوت دی گئی تو میں نے ۲؍ دسمبر ۱۹۹۰ کو مسلم کمیونٹی سنٹر شکاگو کی اس نشست سے خطاب کرتے ہوئے علماے کرام اور دانش وروں کو توجہ دلائی تھی کہ امریکی دستور کے تحت آپ حضرات کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ مسلمانوں کے نکاح وطلاق اور وراثت کے معاملات کے ساتھ ساتھ مالی معاملات میں بھی اپنے مذہبی قوانین پر عمل کا حق حاصل کر سکتے ہیں جس کے لیے آپ کو یہاں کے عدالتی نظام کی منظوری سے باقاعدہ طور پر ایک ثالثی بورڈ (Board of arbitration) قائم کرنا ہوگا اور اگر آپ ایسا بورڈ قائم کر لیتے ہیں تو امریکی دستور کے مطابق یہاں کی عدالتیں بھی اس بورڈ کی قائم کردہ عدالتوں کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کی پابند ہوں گی۔ میں نے اس نشست میں علماے کرام اور مسلم راہ نماؤں سے گزارش کی تھی کہ اگر آپ کو امریکی دستور یہ حق دیتا ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا آپ کی دینی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ آج اس رخ پر شکاگو اور نیو یارک (او رمیری معلومات کے مطابق اٹلانٹا میں بھی) شریعہ بورڈ قائم ہوئے ہیں اور پیش رفت کر رہے ہیں۔ تو یہ میرے ایک پرانے خواب کی تعبیر بھی ہے جس پر شریعہ بورڈ کے ذمہ دارحضرات کو مبارک باد دیتے ہوئے اس مشن کی کامیابی او رپورے امریکہ میں اس کا دائرہ وسیع ہونے کی دعا کرتا ہوں۔ آمین یا رب العالمین۔
اس کے ساتھ میں نے یہ گزارش بھی کی کہ شریعہ بورڈ آف امریکہ کو مسلمانوں کے مسائل، تنازعات اور مقدمات کے شریعت اسلامیہ کے مطابق حل کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ ساتھ اسلامی شریعت کے حوالے سے مسلمانوں کی فکری راہ نمائی کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور آج کے عالمی تناظر میں شریعت اسلامیہ کے احکام وقوانین کے بارے میں جو شکوک وشبہات پیدا کیے جا رہے ہیں اور اسلامی نظام کے بارے میں جو منفی مہم ہر سطح پر جاری ہے، اسے سامنے رکھ کر نئی نسل کی راہ نمائی، ذہن سازی اور بریفنگ کا بھی اہتمام کرنا چاہیے کیونکہ مسائل ومشکلات کے عملی حل سے پہلے ان کی فکری بنیادوں اور تہذیبی پس منظر کا واضح ہونا ضروری ہے اور ایمان وعقیدہ کے رسوخ اور احکام شرعیہ پر مخلصانہ عمل کے لیے فکری وذہنی اطمینان بھی ایک ناگزیر ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے جسے نظر انداز کر کے ہم نفاذ شریعت کی جدوجہد میں موثر پیش رفت نہیں کر سکتے۔ 

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ۔ ولادت سے تکمیل تعلیم تک

مولانا محمد یوسف

(مصنف کی زیر ترتیب کتاب ’’شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر: حیات وخدمات‘‘ کا پہلا باب۔)

ولادت اور نام ونسب

بیسویں صدی عیسوی کے دوسرے عشرے اورچودھویں صدی ہجری کے عشرہ ثالثہ میں مملکت پاکستان کے صوبہ سرحد کے علاقہ ہزارہ میں واقع ضلع مانسہر ہ کی ایک غیر معروف بستی ڈھکی چیڑاں داخلی ’’کڑمنگ بالا‘‘ کے افق سے رشدو ہدایت کاایک آفتاب طلوع ہوا جس کو علمی دنیا میں امام اہل سنت، استاذ العلما،شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا ا بوالزاہد محمد سرفراز خان صاحب صفدر دامت برکاتہم کے نام سے شہرت دوام حاصل ہوئی۔
آپ نے ۱۹۱۴ء میں اس جہا ن رنگ وبومیں آنکھ کھولی۔ آپ کا آبائی گاؤں کڑمنگ بالاہے جوشاہراہ ابریشم پر شنکیاری سے کچھ آگے اوربٹل سے پہلے واقع ہے۔ اس گاؤں کے بالائی طرف پہاڑ پر واقع ایک چھوٹا ساڈیرہ’’ ڈھکی چیڑاں‘‘ کے نام سے موسوم تھا۔ یہی ڈیرہ آپ کی جاے پیدائش ہے۔ آپ کے برادر عزیز مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان صاحب سواتی ؒ بھی ۱۹۱۷ء میں اسی مقام پر پیدا ہوئے۔ 
آپ کا اسم گرامی محمد سرفرازخان، کنیت ابوالزاہد، تخلص صفدراور لقب امام اہل سنت ہے۔آپ نے ابوالزاہد کنیت اپنے بڑے فرزند مولانا زاہدالراشدی کے نام کی مناسبت سے اختیار کی، جبکہ تخلص ’صفدر‘ کی وجہ آپ خود یہ بیان فرمایا کرتے تھے: ’’ میں دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم تھا۔ میں ایک روز کسی وجہ سے کچھ تاخیر سے جماعت میں حاضر ہوا اور طلبا کی صفوں کے درمیان سے گزرتا ہوا اپنی جگہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ میرے استاد محترم شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے مجھے یوں جلدی جلدی آتے دیکھا تو فوراً بول اٹھے، صفدرآرہا ہے۔ تمام طلبہ نیا نام سن کر مسکر ا پڑے تو شیخ العرب والعجم ؒ نے فرمایا: یہ وہ صفدر ہے جوان شاء اللہ حق وباطل کی صفوں میں تمیز کرے گا‘‘ ۔ سبحان اللہ! کیسا سہانا وقت تھا اورکتنی مقبولیت کی گھڑی تھی کہ آپ کے استاد محترم کی زبان مبارک سے نکلا ہوا لفظ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایسا قبول ہو اکہ آپ زندگی بھر حق وباطل کی صفوں میں تمیز کرتے رہے۔ تمام فرق باطلہ کے عقائد باطلہ کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کاعلمی انداز میں رد کرتے رہے۔ بقول آپ کے:’’ عزیز طلبہ! میں نے چومکھی لڑائی لڑی ہے، یعنی جس جہت سے دین اسلام پر حملہ ہوا ہے میں نے بحمداللہ تعالیٰ اس کا بھرپور جواب دیا ہے‘‘۔
ممتاز اصحاب فضل وکمال نے آپ کی ہمہ جہت دینی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے فرط عقیدت سے آپ کوامام اہل سنت کے لقب سے موسوم کیا۔ مولانا مفتی احمدا لرحمن صاحب (جانشین محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری ؒ ) اور شیخ الحدیث والتفسیر مولانا زرولی خاں صاحب کی تحریک پر سفرکراچی کے دوران اصحاب علم ودانش نے آپ کو اسی لقب سے سرفراز فرمایا۔ حضرت شیخ الحدیث صاحب کی عاجزی وانکساری کایہ عالم کہ آپ اس لقب کی توجیہ ان الفاظ میں بیان فرمایا کرتے تھے: ’’ میں امام اہل سنت صرف اس مفہوم ومعنی میں ہوں کہ میں گوجرانوالہ شہرمیں واقع گگھڑ میں اہل سنت کی ایک مسجد کاامام ہوں‘‘۔ 

خاندانی پس منظر

حضرت شیخ الحدیث کاسلسلہ نسب درج ذیل ہے: ’’محمد سرفراز خان بن نور احمد خان بن گل احمد خان بن مولوی گل‘‘ ۔ قومیت کے اعتبار سے آپ یوسف زئی پٹھان ہیں۔ یوسف زئی خاندان کا یہ حصہ ہزارہ کے علاقہ میں سواتی برادر ی کے نام سے معروف ہے۔ آپ کا خاندانی تعلق اسی سواتی برادری کی شاخ مند راوی سے ہے ۔ ضلع مانسہرہ میں اورخاص طورپر شکیاری سے ایک میل آگے اچھڑیاں گاؤں میں آج کل یہ برادری بڑی تعداد میں آباد ہے ۔
آپ کے والد بزرگوار محترم نوراحمد خان مرحوم ایک نیک سیرت ،صوم وصلوۃ کے پابند اورباخدا انسان تھے۔ حضرت شیخ الحدیث صاحب اپنے ایک مضمون میں خود تحریر فرماتے ہیں: ’’ہم نے جب ہوش سنبھالا تووالدمحترم کوبالکل سفید ریش دیکھا۔ ایک بال بھی سراور داڑھی میں سیاہ نہ تھا۔ بخلاف اس کے ہمارے دادا جی مرحوم بھی اس وقت زندہ تھے، ان کی ڈاڑھی اور سر میں بال سیاہ بھی تھے اوران کی عمر سو سال کے لگ بھگ تھی۔ جب دونوں باپ بیٹا اکٹھے ہوتے تو دیکھنے والوں کو الٹ شبہ پڑتاتھا۔ ہمارے گھر کے قریب کوئی اورمکان نہ تھا تقریباً دو فرلانگ فاصلہ پر ہمارے دادا صاحب مرحوم اور ان کے چھوٹے بھائی میر عالم خان مرحوم کے دومکان تھے جو بالکل آس پاس تھے اورا نہوں نے اپنی سہولت کے لیے مسجد بھی تعمیر کر لی تھی۔ بحمداللہ سبھی بزرگ متشرع اور پختہ نمازی تھے۔ ہمارے والد محترم نے گھر سے باہر ایک چبوترہ نمازکے لیے بنا رکھاتھا اور جانوروں سے اس کی بڑی حفاظت کیاکرتے تھے۔ تہجد اور با قی سب نمازوں کی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ یہی حال ہماری سوتیلی والدہ محترمہ کاتھا۔ والدمحترم کبھی کبھی اذان خود بھی کہتے تھے، مگر زیادہ تر مقابل میں دوسرے پہاڑ پر جگوڑی کے موذن کی اذان پر نمازوں اور افطاری وسحری کا انحصار تھا۔ والد محترم اور اسی طرح دادا محترم بالکل ان پڑھ تھے۔ جوانی کے دورمیں والد محترم نے قرآن کریم کاپہلا پارہ ناظرہ پڑھا تھا۔ اس کے بعض مقامات پڑھ لیا کرتے تھے۔ ہاں قرآن کریم کی بعض سورتیں خوب یاد تھیں ، نماز اور تلاوت میں انہیں سورتوں کو پڑھتے تھے۔ عمرگو خاصی تھی، مگر صحت بفضلہ تعالیٰ قابل رشک تھی، اور اپنا تمام کاروبار خودکرتے تھے ۔ ایک معمر نوکر رکھا تھا جو کوہ مری کے علاقہ کا تھا اور عباسی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ بڑا پرہیز گار ، متشرع ،نمازی اور نہایت خدمت گزار تھا۔ ہمارے مال مویشی اکثر وہی چرایا کرتا تھا، اورہم بھی کبھی کبھی اس کے ساتھ مال مویشی چرا نے کے لیے شرکت کرتے تھے۔ پانی خاصی دور تھا اور وہ پانی بھی اکثر لایا کرتا تھا۔ ہمارا گھر گو اکیلاتھا، مگر مہمان بکثرت آتے رہتے تھے اور خصوصاً لمبی کے ہمارے پھوپھی زاد بھائی تو اکثر وہاں رہا کرتے تھے۔ خوب چہل پہل تھی۔ والد محترم بڑے مہمان نواز تھے۔ بٹ کس کی صاف شفاف ندی سے خود مچھلیاں پکڑ کر لاتے اور مہمانوں کی مچھلیوں اور اس کے علاوہ مرغوں اور گوشت سے خوب تواضع کیا کرتے تھے ۔ جب کسی موقع پر کوئی مہمان نہ آتا تو خاصے پریشان دکھائی دیتے تھے، لیکن مہمانوں کے نہ آنے کاواقعہ سال میں کبھی کبھی پیش آتا تھا‘‘۔ 
آپ کے والد محترم ریاست سوات کے ایک باعمل عالم دین، ولی کامل، خواجہ عبدالغفور اخوند ؒ کے دست حق پر ست پر بیعت تھے۔ آپ روحانی تربیت وتزکیہ کے لیے اکثر اپنے شیخ کامل کی خدمت میں حاضر ہوتے اور درخواست کرتے کہ حضرت دعا فرمائیں: ’’ میری اولاد عالم دین ہو‘‘۔ خداوندقدوس نے آپ کی قلبی خواہش اور آپ کے شیخ طریقت کی دعا کو یوں قبول فرمایاکہ آج آپ کی اولاد کاعلمی وروحانی فیض ہر سو عالم پھیلاہوا ہے۔ آپ کی اولاد حضر ت شیخ الحدیث صاحب اور مفسر قرآن مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی ؒ کے علمی وتدریسی، تحقیقی وتصنیفی کارناموں نے دنیاے اسلام کو متاثر کیا ہے۔ آج ان کا نام دنیاے علم میں انتہائی ادب واحترام سے لیاجاتا ہے اورا ن کوبرصغیر کی عظیم شخصیتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ 
آپ کے والدمحترم کی پہلی شادی اپنے حقیقی چچا محمد خان مرحوم کی بیٹی رحمت نور مرحومہ سے ہوئی۔ (یہ حضرت شیخ الحدیث صاحب وحضرت صوفی صاحب ؒ کی سوتیلی والدہ محترمہ تھیں اور قیام پاکستان کے بعد ۱۹۴۹ء میں گگھڑ ضلع گوجرانوالہ میں ان کی وفات ہوئی اور یہیں وہ مدفون ہیں) ان کے ہاں ایک بیٹا پید ا ہوا اور اس نومولود کانام خواجہ عبدالغفور اخوند کے نام کی مناسبت سے عبدالغفور رکھاگیا لیکن تقدیر الہٰی غالب آگئی اور ان کاجوانی ہی میں انتقال ہوگیا ۔ ان کے انتقال کے بعد تقریباً تیس سال تک حضرت شیخ کے والدمحترم کے ہاں باوجود والدہ مرحومہ کے علاج معالجہ کے کوئی اولاد نہ ہوئی ۔
جب آپ کے والد محترم کی عمر تقریباً ساٹھ سال ہوئی تو آپ کی سوتیلی والدہ مرحومہ اور خاندان کے بعض دیگر بزرگوں نے اولاد کی غرض سے ان کو دوسری شادی پر مجبور کیا تو ابتدا میں تو وہ پہلو تہی کرتے رہے مگر بالآخر وہ بھی راضی ہو گئے اور ڈنہ کے مقام کے چیچی خاندان کی پندرہ وسولہ سال کی ایک خاتون سے جن کانام بی بی بخت آور تھا خاصی کش مکش کے بعد نکاح ہوگیا۔ دونوں کی عمروں کے نامناسب ہونے کی وجہ سے بعض رشتہ دار ابتدائی مرحلہ میں سخت مخالف تھے۔ بالآخر یہ سب راضی ہوگئے۔ یہ حضرت شیخ کی حقیقی والدہ محترمہ تھیں۔ شادی کے بعد ان کے بطن سے ۱۹۱۱ ء میں ایک بیٹی حکم جان پیدا ہوئی۔ دوسرا بیٹا ۱۹۱۴ ء میں پیدا ہوا جس کا نام محمد سرفراز خان رکھا گیا جو بعدمیں امام اہلسنت ، استاذ العلماء شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا ابواالزاہد محمد سرفراز خان صفدر کے نام سے معروف ہوئے۔ تیسرا ہونہار فرزند ۱۹۱۷ء میں پیدا ہوا جن کو علمی دنیامیں مفسر قرآن ، شیخ المفسرین والمحدثین حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی ؒ کے نام سے شہرت دوام حاصل ہوئی۔ اس کے بعد ۱۹۲۰ء میں ایک بیٹی، بی بی خانم مرحومہ پیدا ہوئی (جن کی وفات ۱۹۴۴ء میں لاہور میں ہوئی اور وہ باغبانپورہ کے قبرستان میں مدفون ہیں کیونکہ اس وقت ان کے خاوند دولت خان ساکن اچھڑیاں وہاں ٹیکسالی میں ملازم تھے) ۱۹۲۰ء میں جب بی بی خا نم مرحومہ پیداہوئیں تو ابھی تقریباً وہ چالیس دن کی تھیں کہ ان کی حقیقی والدہ بی بی بخت آور مرحومہ چیچک کی بیماری میں مبتلا ہوکر تقریباً پچیس سال کی عمرمیں دنیاسے رخصت ہو گئیں۔ یوں یہ چاروں بہن بھائی اپنی حقیقی ماں کی مامتا سے محروم ہوگئے اوروہ بھی اپنے معصوم بچوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے آخرت کوروانہ ہوگئیں۔ ان کے دل میں کیا کیا حسرتیں ہوں گی، کون اندازہ کرسکتا ہے! ان تمام حسرتوں کے عوض اللہ تعالی مرحومہ کو جنت الفردوس مرحمت فرمائے۔ حقیقی والدہ کے انتقا ل سے پہلے بھی چاروں بہن بھائی سوتیلی والدہ کی گود میں رہتے تھے اور حقیقی والدہ کی وفات کے بعد تو گود ہی وہی تھی۔ حضرت شیخ صاحب اپنی سوتیلی والدہ محترمہ کے حسن سلوک کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: ’’ یہ بالکل ایک حقیقت ہے کہ ایسی نیک دل خدمت گزار، ہمدرد اور شفیق ومہربان سوتیلی والدہ شاید کسی کو میسر ہوئی ہو جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں مرحمت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے جوار میں جگہ مرحمت فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ ‘‘

تعلیم کا آغاز

حضرت شیخ الحدیث صاحب نے جب ہوش سنبھالا تو زمینداری طریقہ سے گھر کے سب کام کاج میں 
ہاتھ بٹانے لگے لیکن آپ کے والد مرحوم کو آپ کی تعلیم کی بے حد فکر تھی اور اس پسماندہ اور غیر معروف بستی میں تعلیم کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لیکن حسن اتفاق سے آپ کے ایک پھوپھی زاد بھائی محترم سید فتح علی شاہ صاحب بن سید دین علی شاہ صاحب مرحوم ساکن لمبی بٹل میں واقع ایک سکول میں چھٹی جماعت میں پڑھتے تھے۔ ۱۹۲۷ء میں جب آپ تیرہ برس کی عمر کو پہنچے تو آپ کے والد محترم نے آپ کو اپنے بھانجے سید فتح علی شاہ صاحب کی نگرانی میں بٹل کے سکول میں پہلی جماعت میں داخل کروا دیا ۔ اس وقت آپ کی رہائش بٹل کی ایک بڑھیا خاتون کے ہاں تھی۔ اس بڑھیا کا گھر یعقوب خان مرحوم کے گھر کے قریب ہی تھا۔ حضرت شیخ اس خاتون کے ہاتھ کے پکے ہوئے لذیذ کھانوں کی بڑی تعریف کرتے تھے۔ اپنے ایک مضمون میں یوں تحریر فرماتے ہیں۔ مکئی کی روٹی اورکڑی اس مائی کے ہاتھ کی پکی ہوئی اب تک یاد ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو جزاے خیر دے۔ 
آپ کے پھوپھی زاد بھائی سید فتح علی شاہ نہ معلوم وجوہ اور اسباب کی بناپر بٹل سے ملک پور چلے گئے اور وہاں فقیرا خان مرحوم کی مسجد میں بحیثیت امام اپنے فرائض سرا نجام دینے لگے اور شیر پور کے مڈل سکو ل میں داخل ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد آپ کے والد محترم بھی آپ کو ملک پور چھوڑ آئے۔ اس وقت آپ کی رہائش ملک پور کی مسجد میں سید فتح علی شاہ کے پاس تھی اور حصول تعلیم کے لیے آپ اپنے برادر محترم کے ہمراہ روزانہ شیرپور کے مڈل سکول میں جایا کرتے تھے ۔ آپ نے شیرپور کے مڈل سکول سے دوسری جماعت پاس کی اور ا س کے ساتھ ساتھ اپنے برادر محترم سے قاعدہ ناظرہ قرآن کریم اور ضروری دینی مسائل کی تعلیم حاصل کی۔
برادر محترم نے شیر پور میں مڈل سکول پاس کر لیا اور آپ دوسری جماعت سے تیسری جماعت میں پہنچ گئے۔اسی موقع پر آپ کے والد محترم نے حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی کو بھی حصول تعلیم کے لیے ملک پور پہنچا دیا ۔ یہ حضرت صوفی صاحب کاپہلا سفر تھا لیکن چونکہ اپنے ہی رشتہ دار چند ہم عصر ساتھی پہلے سے وہاں موجود تھے، اس لیے انہوں نے کوئی زیادہ تکلیف محسوس نہ کی۔ (اس زمانہ میں اخبار زمیندار بہت عروج پر تھا اور افغانستان میں بچہ سقہ کی شورش کی شہ سرخیاں اخبارات میں نمایاں ہوئی تھیں)۔
اس زمانہ میں بطل حریت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی اور محترم جناب غلام احمد (عرضی نویس) کی کوششوں سے ایک دینی مدرسہ اصلاح الرسوم کے نام سے قائم ہو ا اور سید فتح علی شاہ اس مدرسہ میں داخل ہوگئے اور رہائش مانسہرہ کے قریب گنڈاکی مسجد میں رکھی۔ حضرت شیخ اور حضرت صوفی صاحب دونوں بھائی ملک پور سے کوچ کرکے گنڈا چلے گئے اور مانسہرہ کے مدرسہ اصلاح الرسوم میں داخل ہوگئے۔ حضرت شیخ تیسری جماعت اور حضرت صوفی صاحب ابتدائی جماعت میں تھے۔ اس مدرسہ میں حضرت شیخ نے تیسری جماعت تکمیل کی اوردینی مسائل پر مشتمل ابتدائی کتاب تعلیم الاسلام اورنحو کی ابتدائی کتاب نحومیر حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی سے پڑھی۔ اس مدرسہ میں زیر تعلیم طلبہ کو فن تقریر بھی سکھایا جاتا تھا۔ چنانچہ آپ نے ا پنی استعداد کے مطابق تقریر کافن بھی سیکھا، اس دوران دونوں بھائی پیدل ہی گھر آجایاکرتے تھے ۔اس وقت بس وغیرہ کاکوئی انتظام نہ تھا اور آپ کے والد محترم بھی اکثر خبرگیری کے لیے تشریف لاتے اور دیکھ بھال کر تسلی دے کر کچھ رقم دے کر چلے جاتے۔ 

کٹھن اور مشکل حالات

اس اثنا میں آپ کے دادا محترم غالباً ۱۹۳۰ء کو رمضان المبارک کے مہینہ میں بحالت روزہ وفات پاگئے۔ چونکہ اس وقت سواری کا انتظام نہ ہوتا تھا، اس لیے دونوں بھائیوں کو اطلاع نہ بھیجی جا سکی، جب کہ گنڈا اور آپ کے گھر کے درمیان چھپیس میل کی مسافت تھی۔ دادامحترم کے انتقال کے ایک سال بعد رمضان المبارک ہی کے مہینہ میں ۱۹۳۱ء کے قریب آپ کے والد محترم کا بھی انتقال ہوگیا ۔ اس موقع پر دونوں بھائی حضرت شیخ اور حضرت صوفی صاحب گھر میں ہی تھے۔ چنانچہ دونوں بھائی اپنے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ والد مرحوم کی تجہیز وتکفین میں شریک ہوئے اور آپ کے والد مرحوم کو ’’پادرے‘‘ کے قبرستان میں ان کے والد محترم(حضرات شیخین کے دادا مرحوم )کے پہلو میں سپردخاک کردیا گیا۔ اسی پادرے کے قبرستان میں آپ کی حقیقی والد ہ محترمہ بھی مدفون ہیں۔ 
آپ کی حقیقی والدہ محترمہ تو پہلے ہی انتقال فرما چکی تھیں اور پھر ۱۹۳۱ء میں والد محترم کے انتقال کے بعد ایک سخت ابتلاو آزمائش کادور شروع ہوا۔ حضرت شیخ صاحب کبھی کبھی اس زمانہ کو یاد کرکے خود فرمایا کرتے تھے: ’’ ہم نے یتیمی کی حالت میں بڑی غربت دیکھی ہے۔ ہمارے پاس کبھی کبھی پہننے کے لیے جوتے نہیں ہوتے تھے اور ہمارے کپڑے بہت پرانے ہوتے تھے‘‘۔ بہرحال یتیموں کی داستان خاصی دردناک اور طویل ہوا کرتی ہے جس سے حضرات شیخین کو بھی دو چار ہونا پڑا۔ حضرت شیخ کی زندگی میں بہت سارے نشیب وفراز آئے، تلخ وترش حالات سے دوچا رہوئے ، دنیا کی دھوپ چھاؤں دیکھی، لیکن غیرت وخود داری کے ٹھوس جذبے کو کبھی ٹھیس نہیں لگنے دی۔ آپ کو یہ پاکیزہ جذبہ اپنے آباء واجداد سے موروثی طور پر ملا تھا۔ چنانچہ آ پ کے والد محترم کے انتقال کے بعد آپ کی آبائی زمین پر لوگ صرف اس وجہ سے قابض ہوگئے تھے کہ یہ زمین آ پ کے خاندان کے نام نہ تھی جس کی وجہ بھی یہی تھی کہ آپ کے آباواجداد میں غیرت وخودداری بدرجہ کمال موجود تھی۔ 
جب مانسہر ہ میں ایک انگریز افسر زمینوں کے سرکاری کاغذات وغیرہ بنانے کے لیے آیا تو لوگوں نے آپ کے دادا گل احمدخان ؒ کو توجہ دلائی کہ کاغذات وغیرہ بنو ا کر زمین اپنے نام لکھوا لو۔ انگریزوں کی نفرت ان کے رگ وپے میں اس قدر سمائی ہوئی تھی کہ انہوں نے زمین کے کاغذات وغیرہ بنوانے کے لیے بھی اس قوم کے ایک انگریزافسر کے پاس جانا بھی مناسب نہ سمجھا اور جواب دیا ’’ میں اس سور کامنہ نہیں دیکھنا چاہتا‘‘۔ والدمرحوم کے انتقال کے بعد بظاہر تحصیل علم کے تمام اسباب مسدود ہوگئے تھے، لیکن جب مسبب الاسباب کسی خوش قسمت کو اپنے دین متین کی خدمت کے لیے منتخب فرمالیں تو اسباب خود ہی مرحمت فرما کر اسباب اور راحت وآسائش کی دنیا میں پلنے، بڑھنے والوں پر اپنی شان بے نیازی ظاہر فرماتے ہیں تاکہ ان پر یہ حقیقت واضح آجائے کہ وہ قادر مطلق ناتواں اور کمزوروں سے بھی خدمت دین کاکام لینے پر قادر ہے۔ ان المقادیر اذا ساعدت الحقت العاجز بالقادر (جب تقدیر الہٰی مدد کرتی ہے تو عاجز کو قادر کے ساتھ ملادیتی ہے)۔
آپ کے والد محترم کی وفات کے بعد خاندان کا شیرازہ کچھ ایسا بکھرا کہ اس کے بعد آپ سب بہن بھائی اور سوتیلی والدہ محترمہ کبھی اکٹھے نہیں رہ سکے۔ کہیں دو اکٹھے ہو جاتے اور کہیں تین، آپ کی سوتیلی والدہ محترمہ اور چھوٹی ہمشیرہ بی بی خانم مرحومہ کو آپ کی سوتیلی والدہ کے بھانجے حاجی گوہر امان خان اچھڑیاں لے گئے۔ بڑی ہمشیرہ کو پھوپھی درمرجان صاحبہ لمی لے گئیں جن کے فرزندسے آپ کے والدمرحوم اپنی زندگی ہی میں انکی منگنی کرچکے تھے۔ حضرات شیخین دونوں بھائی کبھی لمبی اور کبھی اچھڑیاں اور کبھی کورے میں اور زیادہ تر مسجدوں میں وقت گزارتے۔ گھر کا اثاثہ ، سامان اورجانور کچھ اس انداز سے تقسیم کیے گئے کہ آج تک وثوق سے نہیں کہاجا سکتا کہ ان سے فائدہ کس کس نے اٹھایا۔ اس دور میں سید فتح علی شاہ مرحوم کی شادی ہوگی اور وہ باوجود شوق کے تعلیم جاری نہ کرسکے اور اکثر گھر ہی میں رہنے لگے اور حضرات شیخین گنڈا سے نکل کر ادھر ادھر چلے گئے ۔ 
والد مرحوم کی وفات کے بعد گھر کے اجڑنے اور گنڈا سے نکل چکنے کے بعد تھوڑے عرصہ میں خاصی جگہیں بدلنا پڑیں چنانچہ آپ کچھ عرصہ بٹل میں پڑھتے رہے اس کے بعد ہروڑی پائیں میں حضرت مولانا سخی شاہ ؒ کے پاس رہے۔ وہاں نورالایضاح اور صر ف کی کچھ ابتدائی گردانیں یاد کیں۔ اس کے بعد کھکھو میں حضرت مولانا عیسی ؒ کے پاس رہے اور سنگل کوٹ میں مولانا احمد نبی ؒ صاحب کے پاس رہے اور نحومیر کاکچھ حصہ پڑھا پھر بائی پائین میں کچھ عرصہ رہے لیکن ان تما م جگہوں میں تعلیم کا خاطر خواہ انتظام نہ ہو سکا اور تعلیمی کام نہ ہونے کے برابر رہا۔ اس دوران حضرت صوفی ؒ صاحب زیادہ تر اچھڑیاں اور کورے میں رہے اور کبھی کبھار لمبی چلے جاتے۔ 
اس اثنا میں ایک خوش قسمت اورنیک دل بزرگ نے آپ کومشورہ دیاکہ تمہارا وطن میں کیا دھرا ہے، کہیں جاکر تعلیم حاصل کرو۔ چنانچہ حضرت شیخ اپنے برادر عزیز حضرت صوفی صاحب ؒ کو ساتھ لے کر ۱۹۳۳ء کے لگ بھگ حصو ل علم کے لیے روانہ ہوئے۔ کیا ہی صاحب بصیرت تھے وہ رجل مومن جنہوں نے مستقبل کی ان دوعبقری شخصیات کوحصول علم کا مشورہ دیا اور رسول برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان فیض ترجمان سے نکلی ہوئی اس خوش خبری کامصداق ٹھہرے۔ الدال علی الخیر کفاعلہ۔ نیکی اور خیر کی طرف رہنمائی کرنے والانیکی کرنے والے کی طرح ہوتاہے ۔چنانچہ دونوں بھائی سفر کرتے ہوئے کوئٹہ(بلوچستان) جا پہنچے اور وہاں کوئٹہ کے متصل ایک بستی میں ایک پرانے طرز کے مدرسہ میں داخل ہوگئے۔ یہ مدرسہ ایک مسجد میں قائم تھا اس مدرسہ میں ابتدائی کتابیں پڑھناشروع کردیں لیکن کچھ عرصہ بعد نہ معلوم وجوہ کی بنا پر دونوں بھائی کوئٹہ سے عازم سفر ہوئے اورکلکتہ جاپہنچے وہاں کچھ دن رہ کر پھر تے پھراتے پھر وطن پہنچ گئے۔ اس کے بعد حضرت شیخ دوبارہ اپنے ایک رفیق سفر کے ہمراہ جو چٹہ بٹہ کا رہنے والا تھا عازم سفر ہوئے اور اجمیر شریف جا پہنچے کچھ عرصہ اجمیر شریف قیام کے بعد دوبارہ وطن واپس آگئے۔ 
اجمیر شریف سے واپسی پر آپ شیٹر کے مقام پر واقع گجر برادری کی ایک مسجد میں امامت کرنے لگے۔ اس مسجد کے آس پاس کوئی گھر نہ تھا۔ کبھی کچھ لوگ نماز کے لیے آجاتے تو جماعت ہوجاتی اور کبھی کوئی نہ آتا تو آپ اکیلے ہی اذان کہہ کر نماز پڑھ لیتے۔ ان دنوں آزاد قبائل انگریز کے خلاف برسرپیکار تھے جن کی قیادت مشہور مجاہد مولانا اللہ داد خان کرتے تھے۔ لمبی سے تقریباً د ومیل کی مسافت پر آزاد علاقہ شروع ہوتاتھا، جہازوں کی بمباری کے علاوہ توپوں مشین گنوں حتیٰ کہ رات کے وقت رائفلوں کی فائرنگ کی آواز سنائی دیتی تھی۔ حضرت شیخ نے ان دنوں شوق جہاد میں ایک تلوار بھی خریدی جبکہ آپ کے پاس بندوق توپہلے ہی سے موجود تھی۔ 
لمبی کے ایک بزرگ سید محمود شاہ نے ایک مرتبہ آپ کو پا س بٹھا کر بڑے نرم لہجہ میں آپ کو نصیحت کرتے ہوے فرمایا : ’’سرفراز!تو خاصا ذہین اور محنتی آدمی ہے اور ابھی تمہاری عمر بھی کوئی زیادہ نہیں، کہیں جا کر علم حاصل کرو اور ان گوجروں کی مسجد میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کرو۔ ‘‘ان کی اس نصیحت کا دل پر گہرا اثر ہوا، چنا نچہ دفعتاً آپ کاوہاں سے دل اچاٹ ہوگیا اور آپ اپنے پھوپھی زاد بھائی محمد ایوب خان اور حضرت صوفی صاحب ؒ کے ہمراہ ہری پور جا پہنچے وہاں سے کھلا بٹ ہوتے ہوئے دو ڑ کی ندی کے کنارے پر نام کی ایک چھوٹی سی بستی میں مقیم ہوگئے اور پکا پیالہ میں دن کو جاکر سبق پڑھ آتے اور رات کو اپنے مستقر پر آجاتے۔ پہاروں نامی بستی کے ایک معمر بزرگ جناب سکندرخان آپ کے کھانے وغیرہ کاخصوصی خیال رکھتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت صوفی صاحب سوتیلی والدہ مرحومہ اور چھوٹی حقیقی ہمشیرہ مرحومہ کے پاس واپس اچھڑیاں چلے آئے جب کہ آ پ خانپور (جو ہر ی پور سے جنوب مشرق کی طرف روہی کی ندی کے کنارے سر سبز علاقہ ہے اورراجوں کا خان پور کہلاتا ہے) چلے گئے اوروہاں لوہاروں کی ایک مسجد میں قیام پذیر ہوگئے اوراسی مسجد کے امام حضرت مولانا عبدالعزیز ؒ سے صرف کی ابتدائی کتابیں شروع کردیں۔ آپ چند ماہ وہاں رہے اور یہاں بھی تعلیمی کام نہ ہونے کے برابر رہا۔ اس دوران آپ اکثر اوقات حضرت مولاناعبدالعزیز ؒ کی بکریاں چرایا کرتے تھے، آپ دو تین میل باہر پہاڑوں پر چلے جاتے اور وہاں سے بکریوں کے لیے چارہ وغیرہ لاتے۔ اس دوران مولانا عبدالعزیز نے اپنی ہی برادری کی ایک لڑکی سے آپ کی شادی کرنے کی سعی شروع کر دی۔ جب آپ کواس پتہ چلا تو آپ واپس وطن چلے آئے اوروہاں سے اپنے برادر عزیز حضرت صوفی صاحب ؒ کو لے کر لاہور چلے آئے۔ 

حصول علم کے لیے لاہور آمد

آپ اپنے برادرعزیز کے ہمراہ حصول علم کے لیے مصری شاہ لاہور پہنچے اس زمانہ میں مصری شاہ لاہور میں ایک ڈاڑھی منڈھے مولوی صاحب رہتے تھے جن کا نام عبدالواحد تھا اور عرب استاد کے نام سے مشہور تھے۔ موصوف صر ف ونحو میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ عربی زبان بڑی روانی سے بولتے تھے اور پشتو بھی بڑی فصیح اور سلیس بولتے تھے۔ ان کی علمی شہرت کی وجہ سے ان کے پاس دودراز سے طلبا نحو کی مشکل او ردقیق کتب ’’ عبدالغفور‘‘ اور ’’مغنی اللبیب ‘‘ وغیرہ پڑھنے کے لیے آتے تھے۔ دونوں بھائیوں کی جب عرب استاذ صاحب سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ طلبہ پڑھنے کابے حد شوق رکھتے ہیں لیکن ناتجربہ کاری کی وجہ سے کسی مناسب تعلیمی درسگاہ میں نہیں پہنچ سکے تو انہوں نے دونوں بھائیوں کو تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں واقع اک گاؤں مرہانہ میں حضرت مولانا غلام محمد ؒ کے پاس بھیج دیا، چنانچہ حضرت شیخ صاحب اپنے برادر عزیز اورایک اور طالب علم مولوی عبدالحق ساکن کھکھو کولے کر مرہانہ پہنچے لیکن جب یہ تینوں ساتھی مرہانہ پہنچے تو تعلیمی داخلہ بند ہو چکا تھا۔ نیز یہ تینوں ابتدائی کتب کے طلبہ تھے او رمرہانہ کی تعلیمی درسگاہ میں طلبہ کی تعداد پہلے ہی سے زیادہ ہوچکی تھی اس لیے حضرت مولانا غلام محمد ؒ نے داخلہ سے تو معذوری ظاہر کر دی لیکن اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزاے خیردے کہ انہوں نے ان کی صحیح رہنمائی کرتے ہوئے انہیں مرہا نہ سے چند میل کی مسافت پر واقع ایک قصبہ وڈالہ سندھواں میں حضرت مولانا محمد اسحاق رحمانی ساکن چونیاں منڈی کی خدمت میں بھیج دیا۔ 

باقاعدہ تعلیم

حضرت شیخ اور حضرت صوفی صاحب ؒ کی باقاعدہ تعلیم کاآغاز ضلع سیالکوٹ کے اسی مشہور قصبہ وڈالہ سندھواں سے ہوا۔ اس قصبہ میں حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی کے ایک شاگرد حضرت مولانا اسحاق رحمانی مسند تدریس پر رونق افروز تھے۔ آپ غضب کے ذہین بہترین مدرس اورچوٹی کے مقرر تھے۔ مسلکاً اہل حدیث تھے مگر خاصے معتدل تھے۔ فروعی مسائل میں نزاع اور اختلاف پسند نہ کرتے تھے۔ جب حضرت شیخ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے آپ سے داخلہ کاامتحان لیا اورمعرفہ ونکرہ کی تعریف دریافت فرمائی اور بھی بعض سوالات کیے۔ جب آپ نے فی الفور صحیح جوابات دے دیے تو بہت خوش ہوئے اور آپ کو اور آپ کے برادرعزیز کوداخلہ دے دیا۔ وڈالہ سندھواں کی مرکزی دو منزلہ مسجد میں تقریباً دو سال آپ مولانا محمدا سحاق ؒ کے پاس زیر تعلیم رہے۔ آپ نے سبعہ معلقہ ، شرح جامی اور قطبی تک کتابیں وڈالہ سندھواں ہی میں پڑھیں جب کہ حضرت صوفی صاحب ؒ کی ابتدائی کتابیں پڑھی تھیں۔ تقریباً دو سال کے بعد حضرت صوفی صاحب ؒ اپنے ایک اور رفیق درس مولانا سید امیر حسن شاہ ساکن تھب تحصیل باغ ضلع پونچھ کے ہمراہ بغیر اطلاع وڈالہ سندھواں سے چلے گئے۔ 
جب حضر ت صوفی صاحب وڈالہ سندھواں سے بغیر کچھ بتلائے چلے گئے تو حضرت شیخ وڈالہ سندھواں میں اکیلے رہ گئے۔ پھر کچھ دنوں بعد آپ ان کی تلاش میں نکلے۔ غربت کا زمانہ تھا رقم پاس نہ تھی چنانچہ پیدل ہی وہاں سے گوجرانوالہ پھر قلعہ دیدا ر سنگھ پھر حافظ آباد اور پھروہاں سے ونیکے تارڑ پہنچے۔ ان تمام مقامات پر اس زمانہ میں دینی کتب پڑھائی جاتی تھی اور بیرونی طلبہ پڑھتے تھے، مگر ان مقامات پر حضر ت صوفی صاحب کا کوئی پتہ نہ چل سکا۔ بالآخر آپ کشتی کے ذریعے دریاے چناب کو عبور کرتے ہوئے قادرآباد اور پھر وہاں سے’’انھی‘‘ کی مشہور در سگاہ میں جاپہنچے جہاں ماہر علوم عقلیہ ونقلیہ یادگار اسلاف حضرت مولاناولی اللہ ؒ (جانشین ماہر معقول ومنقول حضر ت مولانا غلام رسول ؒ ) پڑھاتے تھے۔ 
انھی کی درسگاہ بلامبالغہ برصغیر کی مشہور درسگاہوں میں سے ایک ہے جہاں ممتاز اصحاب علم وکمال زیر تعلیم رہے۔ یہ درسگاہ پہلے تو ماہر معقول ومنقول حضرت مولانا غلام رسول ؒ کے دم قدم سے آباد رہی پھر آپ ہی کے شاگرد رشید استاذ العلماء حضرت مولانا ولی اللہ ؒ کی محنت اور توجہ نے اس کومرکز علم وعرفان بنا دیا۔ مختلف علاقوں سے ذہین اور باذوق طلبہ کااس چھوٹے سے قصبے میں ہجوم رہتا تھا۔ حضرت شیخ بھی حضر ت صوفی صاحب کو تلاش کرتے ہوئے انہی کی اس درسگاہ میں پہنچ کر شریک درس ہوگئے۔ آپ انھی سے چندمیل دور ککہ میں مقیم ہوگئے جہاں کشمیر کے مولانا عبدالمجید صاحب بھی رہتے تھے۔ صبح سویرے دونوں ہی پیدل چل کر انھی آجاتے اور سبق پڑھ کر ظہر تک واپس چلے جاتے۔ 
انھی میں طریقہ تعلیم یہ تھا کہ طالب علم ہر فن کی کتاب کا مطالعہ کرتا اور خو ب سمجھ کر کتاب کا مطلب استاد کے سامنے بیان کر دیتا اور غلطی پر استاد اس کی اصلاح کردیتے۔ اس طریقہ سے طالب علم بمشکل ایک دو سبق ہی حل کر سکتا۔ نہایت ہی ذہین طالب علم تین اسباق پڑھ سکتا تھا۔ اس طرز سے طلبہ میں مطالعہ اور کتابوں کو سمجھنے اور حل کرنے کا جذبہ بخوبی اجاگر ہوتا تھا ۔ آپ نے اسی طریقہ تعلیم سے اس مشہور درسگاہ میں سے درس نظامی کی دقیق اورمشکل کتب خیالی ، میبذی اور ملا حسن وغیرہ پڑھیں۔ 
پھر آپ نے اپنے برادرعزیز کی تلاش میں رخت سفر باندھا اور انہی سے پکھی ،منڈی بہاؤالدین ، ملکوال، پنڈدادخان، بھیرہ، خوشاب سے ہوتے ہوئے شاہ پور اور پھر وہاں سے سرگودھا اور وہاں سے تقریباً بیس میل دور جہاں آباد پپدل پہنچے جہاں سے آپ کو اتنا معلوم ہوا کہ صوفی صاحب بمع اپنے رفیق کے یہاں آئے تھے اورکچھ دن یہاں رہے ہیں اور پھر چلے گئے ہیں چنانچہ آپ وہاں ایک رات رہ کر پھر عازم سفر ہوئے اور خوشاب، واں بھچراں، کندیاں، کلورکوٹ سے ہوتے ہوئے لائل پور (فیصل آباد) کے ایک قصبہ بازار والا میں واقع بریلوی مسلک کی ایک درسگاہ میں جاپہنچے جہاں بیرونی طلبہ بھی رہتے تھے۔ اس درسگاہ سے اتنا معلوم ہوا کہ حضر ت صوفی صاحب بمع اپنے رفیق کے ملتان میں مولانا عبدالعلیم صاحب کے مدرسہ میں زیر تعلیم ہیں۔ 
چنانچہ آ پ فیصل آباد سے ملتان روانہ ہوئے اور مولانا عبدالعلیم صاحب کے مدرسہ میں جاپہنچے جہاں آپ کی ملاقات حضر ت صوفی صاحب اورا ن کے رفیق درس حضرت مولانا سید امیر حسن صاحب سے ہوئی۔ حضرت شیخ اپنی اس ملاقات کو ان الفاظ میں بیا ن فرماتے ہیں : ’’ راقم فیصل آباد سے روانہ ہو کر ملتان پہنچا اور عزیزم عبدالحمید بمع اپنے رفیق کے وہاں موجود تھا۔ ملاقات ہوئی، گلہ شکوہ اور سفر کی تکلیفوں کاتذکرہ بھی ہوا اور ملاقات کر کے خوشی بھی ہوئی‘‘۔ تینوں حضرات کچھ عرصہ مولانا عبدالعلیم کے مدرسہ ہی میں رہے، اورموصوف سے علم میراث کاایک رسالہ پڑھاجس کے مصنف خود ہی مولانا تھے۔ حضرت شیخ موصوف کی مسلکی وابستگی کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ مولانا بہت معمر تھے۔ ان کے فرزند مولانا عبدالحلیم اورا ن کے فرزند مولانا عبدالکریم اور ان کے فرزند مولانا عبدالشکور سب زندہ تھے ۔ لانگے خان کے باغ کے قریب ان کی مسجد تھی اور اس میں درس کتب جاری تھا۔ یہ حضرات نہ پکے دیوبندی اور نہ پختہ بریلوی تھے بلکہ بین بین تھے۔ علم اور علما سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔‘‘ جب تعلیمی سال ختم ہوا تو تینوں حضرات وہاں سے روانہ ہو کر ملتان کے قریب ہی پیراں غائب کے مقام پر پہنچے اور اتفاقاً وہاں ایک امام مسجد میاں عبداللہ سے ملاقات ہوگئی ۔ میاں صاحب سادات کی بڑی قدر کرتے تھے اور حسن اتفاق تینوں رفقاے سفر میں سے ایک رفیق سفر سید امیر حسن شاہ سادات کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے چنانچہ انہوں نے تینوں حضرات کی بڑی قدر کی اوران کے اصرار پر تینوں نے رمضان المبارک کا مہینہ ان کے ہاں گزارا۔ 
۱۹۳۷ء میں آپ حضر ت صوفی صاحب اور سید امیر حسن شاہ کے ہمراہ حصول علم کے لیے جہانیاں منڈی میں مولانا غلام محمد لدھیانویؒ کی خدمت حاضر ہوئے۔ موصوف حضرت مولانا سید انور شاہ کشمیری کے شاگرداور فضلائے دیوبند میں سے تھے اور جہانیاں منڈی کی مرکزی مسجد کے خطیب اورمدرس تھے۔ مسجد کے متصل طلبہ کی رہائش کے لیے کمرے تھے۔ چنانچہ وہاں اسباق شر وع ہوگئے۔ اسباق شروع ہونے کے چند دن بعد دارالعلوم دیوبند کے قدیم فضلا میں سے مولانا عبدالخالق مظفر گڑھی بھی بحیثیت مدرس وہاں تشریف لے آئے۔ حضرت شیخ نے وہاں عبدالغفور ،حمداللہ، مسلم الثبوت اور مختصرالمعانی وغیرہ کتابیں پڑھیں جب کہ حضر ت صوفی صاحب نے ملاں حسن اور شرح جامی وغیرہ کتابیں پڑھیں۔ تینوں رفقا ایک سال جہانیاں منڈی کے مدرسہ رحمانیہ میں زیر تعلیم رہے۔ 
جہانیاں منڈی میں تعلیمی سال کے اختتام کے قریب مولانا سیدا میر حسن شاہ کے اصرار پر تینوں رفقا گوجرانوالہ کے لیے رواانہ ہوئے اور رمضان سے قبل ہی مدرسہ انوارالعلوم گوجرانوالہ میں نئے سال کے داخلہ کی منظوری لے لی۔ اس وقت مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ کے مہتمم محدث گوجرانوالہ مولانا عبدالعزیز (متوفی،۱۳۵۹ھ) تھے۔ آپ فضلاے دیوبند میں سے تھے اور وسیع ا لنظر ،علم حدیث اور طبقات روات پر بڑی گہری نگاہ رکھنے والے تھے۔ 
داخلہ کی منظوری کے بعد دونوں بھائیوں نے رمضان المبارک میں گوجرا نوالہ حافظ آباد اور شیخوپورہ کے بہت سے دیہات کا تبلیغی اور اکتسابی دورہ کیا۔ رمضان المبارک کے بعد ماہ شوال میں مدرسہ انوار العلوم تشریف لے آئے۔ اس وقت مدرسہ انوارالعلوم میں حضرت مولانا عبدالقدیر ؒ صدر مدرس تھے۔ مولانا عبدالقدیر کیمل پوری عوامی حلقوں میں توزیادہ معروف نہ تھے لیکن تدریسی حلقوں میں آپ کو ایک مایہ ناز استاد ،محقق دوراں اور شیخ المعقول والمنقول کے نام سے شہرت حاصل تھی۔ اگر آپ کو برصغیر کی چوٹی کے مدرسین کی فہرست میں شمار کیا جائے تو تدریسی میدان کے وابستگان جانتے ہیں کہ یہ مبالغہ نہ ہوگا۔ موصوف حضرت مولانا سید انور شاہ کے مایہ ناز شاگردوں میں سے تھے۔ حضرات شیخین تقریباً تین سال مدرسہ انوارالعلوم میں رہے اور یہ وہ دورتھا جس میں ہٹلر کی اتحادیوں سے جنگ عظیم چھڑی ہوئی تھی اور سر کار برطانیہ کی قوت کی چولیں ڈھیلی دکھائی دیتی تھی۔ حضرت شیخ اپنے علمی ذوق وشوق کے بارے میں خود فرمایا کرتے تھے ’’ میرا تعلیمی ذوق وشوق اور علمی استعداد استاد محترم حضرت مولانا عبدالقدیر کی خصوصی شفقت اور توجہ کی مرہون منت ہے‘‘۔ استاد محترم آپ کے ذوق وشوق ، قوت حافظہ اور علمی استعداد سے اس قدر مطمئن تھے کہ زمانہ طالب علمی ہی میں اپنی نگرانی میں آپ کوتدریس کاموقع عطا فرما کر آ پ کی علمی لیاقت پر اعتماد کیا ۔ 
مفسر قرآن شیخ الحدیث والتفسیر حضر ت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتیؒ اپنے استاذ محترم ؒ کی شفقت کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: ’’احقر نے تقریباًتین سال دوران تعلیم آپ کی خدمت میں گزارے۔ شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر توآپ کے اجل تلامذہ میں سے تھے ان کی ذہانت اورفطانت کی وجہ سے مولاناان کا بہت خیال فرماتے تھے، لیکن احقرکی طبعی خاموشی اورمسکینی کی وجہ سے اوراس لیے کہ صبح کی نماز باجماعت ادا کرتا تھا، بہت لحاظ فرماتے تھے۔‘‘ حضرات شیخین نے موقوف علیہ تک کی تمام اہم کتابیں انہی سے پڑھیں۔ راقم کے استفسار پر ایک مرتبہ حضرت شیخ نے فرمایا کہ میں نے تما م اہم کتابیں مثلاً ہدایہ اولین، اخیرین، تفسیرجلالین، تفسیر بیضاوی، تصریح، اقلیدس ، صدرا، قاضی مبارک، شمس بازغہ، شرح نخبۃ الفکر، حسامی، توضیح وتلویح، حمداللہ، خیالی، متن متین، ملا حسن اور حماسہ وغیرہ کتابیں حضرت ہی سے پڑھیں جبکہ مطول، سراجی، شرح وقایہ وغیرہ کتب مدرسہ انوارالعلوم میں مفتی شہر حضرت مولانا مفتی عبدالواحد ؒ سے پڑھیں۔ 
جب آپ مدرسہ انوارالعلو م سے اپنے اسباق کی تکمیل کرچکے توآپ کے دل میں یہ پاکیزہ جذبہ پیدا ہواکہ مسلمانوں کی نامور علمی ودینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کی روح پروراورایمان افروز فضا میں دینی تعلیم کاآخری سال گزاریں اوراسی درسگاہ سے سند فراغت حاصل کریں، لیکن آپ کو اپنے شوق کی تکمیل کے لیے دوبرس مزید انتظار کرناپڑا۔ چونکہ آپ کی خواہش تھی کہ آپ کے برادرعزیز مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی ؒ بھی آپ کے ساتھ ہی دارالعلوم دیوبند جائیں، لہٰذا جب انہوں نے اپنے اسباق مکمل کرلیے توپھر اپنے برادرعزیز کے ہمراہ دارالعلوم کی طرف عازم سفر ہوئے۔ حضرت صوفی صاحب جب مدرسہ انوارالعلوم میں اپنے اسباق کی تکمیل کر رہے تھے تو اس دوران حضرت شیخ بحکم استاد محترم تقریباً ڈیڑھ سال پرائیویٹ طور پر ایک جگہ پچیس روپے ماہانہ مشاہراہ پرمولوی فاضل کا کورس پڑھاتے رہے۔ 
مصری شاہ لاہور میں تحصیل علم کے لیے تشریف آوری سے لے کر مدرسہ انوارالعلوم گوجرانوالہ میں اسباق کی تکمیل تک حضرات شیخین کا اپنے رشتہ داروں سے کوئی رابطہ نہ ہوا۔ کچھ پتہ نہ تھا کہ دونوں بھائی کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ حضرات شیخین کی والدہ محترمہ اور آپ کی ہمشیرگان ان کے بارے میں سخت متفکر اور پریشان تھیں۔ اس زمانہ میں آپ کی برادری کے ایک بزرگ محترم گل خان ساکن اچھڑیاں راہوالی میں ریلوے کے محکمہ میں ملازم تھے۔ ان کی وساطت سے گھروالوں کو دونوں بھائیوں کی خیریت معلوم ہوئی۔ چنانچہ آپ کے خالہ زاد بھائی حاجی گوہر امان خان ملاقات کے لیے گوجرانوالہ تشریف لائے اوران کے ذریعہ گھر اور خاندان کے دیگر افراد کی خیروعافیت کا حضرات شیخین کو بھی علم ہوا ۔ پھر چند دنوں بعد حضرت شیخ وطن تشریف لے گئے او ر اعزہ واقارب سے ملاقات ہوئی اور بعض مقامات پر تقریریں بھی کیں۔ حضرت شیخ نے چند روز اپنے وطن میں قیام کیا اورواپس گوجرانوالہ تشریف لے آئے۔ 

دارالعلوم دیوبند کا سفر 

 ۱۹۳۹ء میں حضرات شیخین نے اپنے چند دیگر رفقا کے ہمراہ دارالعلوم دیوبند کی طرف رخت سفر باندھا۔ جب آپ دارالعلوم دیوبند پہنچے تواس وقت دارالعلوم کی مسند تدریس پر بہت سی ایسی ہستیاں رونق افروز تھیں جن کو بجاطورپر علمی دنیا میں مسند تدریس کی آبرو کہاجاسکتاہے ۔ بالخصوص شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد ؒ مدنی مدینۃ الرسول میں ایک عرصہ تک علم وعرفان کے موتی بکھیر کر اوروہاں کے علمی وروحانی سوتوں سے بقدرتوفیق الٰہی اپنی روح کوسیرا ب کرکے واپس دیوبند تشریف لاچکے تھے۔ حضرات شیخین نے دارالعلوم میں داخلہ کا امتحان دیا اور بفضلہ تعالیٰ کامیاب رہے اور حدیث شریف کے دورہ میں شریک ہوگئے ۔ اس سال دارالعلوم میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد ۱۹۹۵تھی جب کہ دورہ حدیث میں شریک طلبہ کی تعدد ۳۳۳ تھی۔ جضرات شیخین کے علاوہ حضرت مولانا خواجہ خان محمدصاحب اور حضرت مولانا محمد یوسف صاحب پلندری بھی دورۂ حدیث میں شریک تھے۔ آپ حضرات کوجن اصحاب فضل وکمال کے دامن فضل سے وابستگی اور سرچشمہ علم وفن سے کسب فیض اور اکتساب علم کا شرف حاصل ہوا، ان میں سے اکثر اس زمانہ کے عبقری رہنما اور علوم دینیہ کے ممتاز مدرس تھے۔ 
حضرت شیخ نے بخاری شریف اور ترمذی جلداول حضرت مدنی ؒ کے پاس پڑھی۔ حضرت مدنی صبح کے وقت دو گھنٹے ترمذی اور ایک گھنٹہ بخاری شریف جلد اول پڑھاتے تھے اور رات کے وقت بخاری جلددوم پڑھاتے تھے۔ دوران درس طلبا کو کیسا ایمان پرور ماحول نصیب ہوتا تھا، اس کی ایک ہلکی سی جھلک حضرت صوفی صاحب کی اس تحریر میں ملاحظہ فرمائیں: ’’دوران سبق شرکا کو ایسا عجیب روحانی ماحول نصیب ہوتاتھا کہ ہر شریک درس کی یہ دلی خواہش ہوتی تھی کہ کاش یہ مجلس دراز سے دراز ہوتی جائے۔ ہم کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ہمارے قلوب زنجیروں کے ساتھ عالم بالا میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ جو علما اور طلبا شریک درس ہوتے تھے، اپنے شکوک وشبہات اور اعتراضات پرچیوں پر لکھ کر بھیجتے تھے۔ آپ (حضرت مدنی) ان کو پڑھ کر ہر ایک سوال کا جواب دیتے تھے۔کسی معترض کی تلخ کلامی یا غلط تحریر پڑھ کر کبھی ناراض نہ ہوتے تھے‘‘۔ 
آپ نے مسلم شریف (کامل) حضرت مولانا ابراہیم ؒ سے پڑھی جب کہ ابوداؤد مکمل اور ترمذی جلدثانی اور شمائل ترمذی شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہوی سے پڑھی۔ نسائی شریف مولانا عبدالحق نافع گل، اورابن ماجہ حضرت مولانا مفتی ضیاء الدین سے پڑھی، موطاامام مالک حضرت مولانا ادریس کاندھلوی سے اورطحاوی مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع سے پڑھی(ان تمام اساتذہ گرامی کے اسما حضرت شیخ نے خود راقم کو ایک ملاقات میں بتلائے) تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ دیگر ہم نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، خاص طور پر دارالعلوم دیوبند میں فن خطابت میں طلبہ بڑے جوش وخروش سے اپنی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے تھے۔ حضرت شیخ نے تقریر کافن تو بچپن ہی میں حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی کے قائم کردہ مدرسہ اصلاح الرسوم سیکھ لیاتھا جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس فن میں پختگی اور حسن پیدا ہوتا چلا گیا حتیٰ کہ دارالعلوم دیوبند میں ایک دوتقریر کے بعدہی یہ تاثر قائم ہوگیاتھا کہ آپ ایک بہترین مقرر ہیں۔ علامہ صابری نے ایک مرتبہ حضرت شیخ کی تقریر سے متاثر ہو کر جو تبصرہ کیا، قارئین حضرت شیخ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں۔ ’’ راقم کے بارے میں بلاوجہ ایک دو تقریروں کے بعد یہ تاثر قائم کر لیا گیا کہ یہ اچھا مقرر ہے بلکہ ایک موقع پر مشہور شاعر محمد انور صابری نے راقم کی تقریر سن کر یہ فرمایا کہ سر حدیوں میں سے یہ ابو الکلام کہاں سے پیدا ہو گیا ہے؟‘‘ 

حضرت مدنی ؒ کی گرفتاری

دوران سال مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے مراد آباد میں ایک تقریر فرمائی۔ اس سلسلہ میں حکومت برطانیہ کی طرف سے آپ پر مقدمہ چلا اور آپ گرفتار ہوگئے۔ اس گرفتاری کے خلاف طلبہ کا مشتعل ہونا ایک فطری امر تھا، چنانچہ طلبہ نے حضرت کی گرفتاری کے خلاف زبردست احتجاج کیاحتیٰ کہ پولیس اور فوج کومداخلت کرنا پڑی۔ طلبہ نے اپنے احتجاج کو منظم کرنے کے لیے طلبہ میں سے متحدہ ہندوستان کے ہر صوبے کے لیے ایک ایک نمائندہ مقر ر کر دیا۔ اس وقت متحدہ ہندوستان کے گیارہ صوبے تھے۔ حضرت شیخ کو صوبہ سرحد اور افغانستان کانمائندہ مقرر کیا گیا اور پھر ان تمام نمائندوں کا صدر بھی آپ ہی کو منتخب کیا گیا۔ حضرت مدنی کی گرفتاری کے خلاف طلبہ کی اس تحریک کی قیادت میں آپ نے بھر پور قائدانہ کردار اداکیا ۔ چونکہ آپ طلبہ تحریک کے رہنما تھے اس لیے ارباب دارالعلوم دیوبند ،مجلس شوریٰ کے اراکین اور حکومت کے نمائندوں کاسلسلہ بھی آپ سے وابستہ ہوگیا۔ اس نازک موقع پر آپ ارباب دارالعلوم، مجلس شوریٰ کے اراکین اور طلبہ کے اعتماد پر بفضلہ تعالیٰ پورے اترے اور آپ نے سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا ۔ 
اس تحریک میں ایک ایسا موقع بھی آیا کہ اراکین دارالعلوم مدرسہ کے مستقبل کے بارے میں سخت متفکر ہوگئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت برطانیہ غیر معین عرصہ تک دارالعلوم بند کردے یا حکومت برطانیہ کوئی اور ایسا فتنہ کھڑا کر دے جس کو سبنھالنا اراکین دارالعلوم کے بس میں نہ ہو۔ چنانچہ حضرت مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی ؒ نے حضرت شیخ کو بلایا اور اس پر یشانی سے آگاہ کرتے ہوئے یہ مخلصانہ مشورہ دیا کہ عزیز! تم اس وقت طلبہ کے نمائندے ہو، اس وقت دارالعلوم کامفاد اسی میں ہے کہ ہنگامہ ختم کر دیا جائے اور طلبہ جلسوں اور جلوسوں اور نعرہ بازی سے گریز کریں اور فوراً اپنی اپنی کلاسوں میں چلے جائیں اور ذوق وشوق سے تعلیم جاری رکھیں‘‘۔ حضرت شیخ نے حضرت مفتی صاحب ؒ کے اس مخلصانہ اور معقول مشورہ کو بغور سنا اور آپ سے اتفاق کیا، لیکن آپ کے لیے مشکل یہ تھی کہ ایک طرف حضرت مفتی صاحب کی یہ معقول اور وزنی رائے تھی اور دوسری طرف طلبہ کے قلبی جذبات تھے جن کو یک لخت ٹھنڈا کرنا بظاہر ناممکن نظر آرہا تھا۔ بہرحال توفیق الہٰی شامل حال ہوئی۔ آپ نے انتہائی مدبرانہ سیاست اور فہم وبصیرت سے طلبہ کے جوش وخروش کا رخ نہ صرف اراکین دارالعلوم کی طے کردہ حکمت عملی کی طرف پھیر دیا بلکہ طلبہ اپنی اپنی کلاسوں میں جانے کے لیے بھی تیار ہو گئے۔ آپ کی اس سیاسی بصیرت اور حکمت عملی کی تفصیل ان شاء اللہ قارئین آئندہ صفحات میں بعنوان’’ حضرت شیخ کا سیاسی کردار‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ چنانچہ دارالعلوم میں تعلیم کا سلسلہ جاری ہوگیا اور طلبہ دورۂ حدیث نے بخاری اور ترمذی کا بقیہ حصہ مولانا اعزازعلی سے پڑھا۔ بعدازاں اللہ تعالیٰ نے حضرت مدنی ؒ کو بھی باعزت رہائی نصیب فرمادی۔ 
جب سالانہ امتحان قریب آیا تو پھر چند ہنگامہ خیز طبیعتوں کے حامل افراد نے دفعتاً ہنگامہ برپاکر دیااور مطالبہ یہ رکھا کہ امتحان کے بغیر ہی ہمیں تصور پاس کیاجائے اور مفت میں اسناد مل جائیں اوراس ہنگامہ میں غبی، بے محنت اور نالائق طلبہ پیش پیش تھے مگر چونکہ یہ مطالبہ سراسر غیرمعقول تھا اس لیے اراکین مدرسہ نے اس پر آمادہ نہ ہوئے اور معمول سے چند دن پہلے ہی دارالعلوم بندکر دیا گیا اور اہتمام کی طرف سے صاف اعلان کر دیا گیا کہ کسی مناسب موقع پر ان شاء اللہ امتحان ہو گا اور کامیاب طلبہ کو اسناد دی جائیں گی۔ 

وطن واپسی

حضرات شیخین دارالعلوم سے سیدھے اچھڑیاں اپنے وطن پہنچے جہاں سوتیلی والدہ محترمہ اور چھوٹی ہمشیرہ بی بی خانم مرحومہ تھیں۔ یہاں پہنچ کر سب سے پہلے آپ نے اپنی ہمشیرہ کی شادی کا انتظام کیا اور ان کی شادی محترم دولت خان سے کردی۔ اس ضروری کام سے فارغ ہوکر آپ اپنے دیگر اعزہ واقربا اور دوست احباب سے ملتے رہے۔ بعدازاں دونوں بھائی مدرسہ انوارالعلوم گوجرانوالہ تشریف لے آئے ۔ گوجرانوالہ تشریف آوری کے بعد حضرت شیخ کو آپ کے اساتذہ نے مدرسہ انوارالعلوم میں پندرہ روپے ماہانہ وظیفہ پر درجہ وسطی کاا ستاد مقرر کر دیا جب کہ حضرت صوفی صاحب کھیالی (گوجرانوالہ) کی ایک مسجد میں خطیب مقرر ہوگئے۔ اسی اثنا میں تمام طلبا دارالعلوم کو امتحان کے لیے طلب کر لیا گیا چنانچہ حضرات شیخین بھی گوجرانوالہ سے روانہ ہو کر دیوبند پہنچ کرامتحان میں شریک ہوگئے ۔امتحان سے فراغت کے بعد واپس گوجرانوالہ تشریف لے آئے، کچھ عرصہ بعد دارالعلوم کی طرف سے دونوں بھائیوں کو بذریعہ ڈاک کامیابی کی اسناد بھی موصول ہوگئیں۔ 

حضرت مدنی ؒ کی طرف سے خصوصی سند

آپ کے ممتاز استاد گرامی حضرت مدنی ؒ نے دونوں بھائیوں کی علمی لیاقت پر اعتماد کرتے ہوئے دارالعلوم کی سند کے علاوہ اپنی طرف سے بھی خصوصی سند واجازت عطا فرمائی۔ حضرت صوفی صاحب نے دارالعلوم سے تحصیل علم کے بعد بھی حصول علم کا سفر جاری رکھا، چنانچہ آپ دارالمبلغین (لکھنو) تشریف لے گئے اورامام اہل سنت رئیس المناظرین مولانا عبدالشکور فاروقی لکھنوی سے تقابل ادیان کی تعلیم حاصل کی اور مناظرہ کافن سیکھا۔ بعدازاں آ پ نے نظامیہ کالج حیدر آباد (دکن) میں علم طب کا چارسالہ کورس بھی کیاا ور کالج میں چاروں سال فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ پھر آپ ۱۹۵۱ء میں واپس گوجرانوالہ تشریف لائے اور کچھ عرصہ تک طب کے شعبہ سے وا بستہ ہوکر عوامی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۹۵۲ء میں انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں مدرسہ نصرۃ العلوم کی بنیاد رکھی گئی اور صوفی صاحب زندگی بھر اس مرکز حق میں حق وصداقت کی آواز بلند کرتے رہے اور اسی مرکز سے اپریل ۲۰۰۸ء میں عالم دنیا سے عالم عقبی کی طرف روانہ سفر ہوئے ۔ 
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

قرآن مجید میں قصاص کے احکام ۔ چند غور طلب پہلو (۱)

پروفیسر میاں انعام الرحمن

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَی بِالأُنثَی فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ أَلِیْمٌ وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ یَاْ أُولِیْْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (البقرۃ۲: ۱۷۸، ۱۷۹)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ،لکھا گیاہے اوپر تمہارے برابری کرنامارے گیوں کے بیچ ، آزاد بدلے آزاد کے اور غلام بدلے غلام کے اور عورت بدلے عورت کے ، تو جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی ہو، تو پیروی کرنا ہے ساتھ اچھی طرح کے ، اور ادا کرنا ہے طرف اس کے ساتھ نیکی کے ، یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت ، اس کے بعد جو زیادتی کرے ، تو اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ اور قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے اے اہلِ عقل تاکہ تم(قتل و خون ریزی سے، یعنی اللہ کے غضب سے کہ قتل و خون ریزی غضب کی ایک صورت ہے ) بچو‘‘۔
سورۃ البقرۃ کی آیت۱۷۸ کے پہلے حصے میں قصاص کی لزومیت کا بھر پور تاثر موجود ہے ۔ قرآن مجید میں فرضیت و لزومیت کے معنوں میں کُتِبَ مختلف مواقع پر استعمال ہوا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ آیت کے اس حصے میں سب ایمان والوں (یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ) کو مخاطب کیا گیا ہے ، مومنین میں سے کسی اقلیت یا اکثریت کو نہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قصاص کی لزومیت کا تعلق اہلِ ایمان کی اجتماعی حیثیت سے ہے نہ کہ کسی فرد یا کسی مخصوص گروہ سے، وہ گروہ چاہے اقلیت میں ہو یا اکثریت میں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کے مطابق ، قصاص کی تنفیذ کا صحیح محل، اجتماع ہے ، جوا جتماعی اتھارٹی کو استعمال کرتے ہوئے قصاص (الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی) کو یقینی بنائے گا ۔آج کے محاورے میں ہم یہ بات اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ فرد کے بجائے فقط ریاستی اتھارٹی ( یا ایمان والوں کی کوئی بھی مقتدر اجتماعی ہیت ) آیت کے اس حصے کی مخاطب ہے ۔ اور آیت کے الفاظ نہایت قطعیت کے ساتھ قصاص کی لزومیت کے آئینہ دار ہیں اور ریاستی اتھارٹی کے لیےْ قصاص کے علاوہ کوئی آپشن باقی نہیں رکھا گیا یعنی کسی قسم کی لچک کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریاستی اتھارٹی کے ذمے محض قصاص کو بھر پور طریقے سے یقینی بنانا ہے ، جس کے پیچھے لازمی دوہری حکمت یہ ہے: (۱) قصاص کے اصول کی موجودگی اور اس کے پیچھے مقتدر اجتماعی ہیت کی قوت نافذہ ، ارتکابِ قتل کے رجحان کا قلع قمع کر سکے۔ (۲)مقتول کے ورثا اپنے طور پر بدلہ لینے کے خواہاں نہ ہو سکیں اور جذبات کی رو میں بہہ کر اشتعالی کیفیت میں ظلم و تعدی کے مرتکب نہ ہو سکیں ۔ 
قصاص کے حوالے سے مذکورہ اصول کی سختی و استواریت (اور اس میں پنہاں حکمت)کے بیان کے بعد فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْء کے الفاظ، ایک طرف، لچک اور نرمی کے پہلو کو عیاں کرتے ہیں، اور دوسری طرف، مخاطب،مقتدر اجتماعی ہیئت کے بجائے افراد ہو جاتے ہیں ۔ یہاں دو سوالات جنم لیتے ہیں : ایک تو یہ کہ، آئیڈیلی استواراصول (الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی)کے بیان کے بعد نرمی و لچک کا پہلو کیوں نکالا گیا؟ دوسرا یہ کہ ، مخاطب، مقتدر اجتماعی ہیئت کے بجائے افراد کو کیوں بنایا گیا؟ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ شارع کی منشا ، حقیقت میں نرمی و لچک کی تنفیذ ہے وگرنہ لچک کی گنجائش ہی نہ نکالی جاتی اور سیدھے سادے طریقے سے محض قصاص کا حکم دے دیا جاتا۔ نرمی و لچک کے پہلو کا اس موقع پر بیان بنفسہٖ اس امر پر دال ہے کہ اس آیت کا اصل مقصود ، قتل ہونے کی صورت میں ، خون بہا کا دستور کے موافق تقاضا اور بھلے طریقے سے اس کا ادا کرنا ہے ۔جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ شارع نے اس سلسلے میں حکم و اصول کو حرکت میں لانے کے بجائے مومنین کی ’’اخلاقی قوت‘‘ کو انگیخت کرنے کی راہ نکالی ہے ۔ اگر یہاں بھی افراد کے بجائے مقتدر اجتماعی ہیت کو خطاب کیا جاتا، تو لازمی طور پر مومنین کی اخلاقی قوت کے ظہور کے بجائے ریاستی جبر سامنے آتا ، اور مقتدر حلقے (قاتل ہونے کی صورت میں )ہمیشہ جبراً خون بہا کے نام پر کچھ دے دلا کر مقتول کے ورثا کو فارغ کر دیتے جس کے نتیجے میں لازماََ انتشار پیدا ہوتا، کیونکہ مقتول کے ورثا کی عدم تسلی ، ردِ عمل کی کوئی نہ کوئی سبیل ضرور ڈھونڈ نکالتی۔مومنین کی اخلاقی قوت کو انگیخت کرنے کا بیان ہماری ذہنی اختراع نہیں ، کیونکہ واضح طوپر آیت ۱۷۸ میں اخیہکا لفظ اسی اخلاقی قوت کی نمائندگی کر رہا ہے ۔ قتل جیسے سنگین جرم کے ثابت ہونے کے بعد (ذرا غور کیجیے کہ الزام کے بعد نہیں )، قاتل و مقتول کو الفت و اخوت کی لڑی میں پرونے کا بیان ، ایسی اخلاقی قوت کے زور دار ظہور کا آئینہ دار نہیں ہے تو پھر کیا ہے ؟ ۔ سورۃ آل عمران کی آیت ۱۰۳ ہمارے موقف کی مزید تصریح کرتی ہے : 
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً وَکُنتُمْ عَلَیَ شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ
’’ اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رکھو اور متفرق نہ ہو اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے ، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا ، اس طرح اللہ تم کو اپنی آیات کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ ‘‘ 
چونکہ اخلاقی قوت کی نمود ، ریاست کے ذریعے ممکن نہیں بلکہ محال ہے ، اس لیے اس اخلاقی قوت کی آبیاری کی ذمہ داری افراد اور معاشرے پر ڈال دی گئی ہے اور مخاطب بھی افراد اور معاشرہ ہیں ۔(خیال رہے کہ جہاں دو یا دو سے زیادہ افراد موجود ہوں وہاں معاشرہ وجود میں آجاتا ہے ، اور یہاں تو قاتل ومقتول کے دو خاندانوں کے علاوہ ان کے دوست احباب بھی اپنا اپنا کردار ادا کرنے لازماََ آ موجود ہوتے ہیں ) ۔ 
یہاں ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب شارع نے افراد و معاشرہ کی اخلاقی قوت پر ہی بھروسہ کرنا ہے ، تو پھر یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَی بِالأُنثَی کے بیان کا مقصد کیا ہے ؟ ۔ قتل کا ذکر کر کے براہ راست دیت کی ادائیگی کا حکم دیا جا سکتا تھا ، کہ مقصود یہی ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَی بِالأُنثَی کے بیان کی حکمت سمجھ میں آجاتی ہے ۔ اگرمعاشرے کی محض اخلاقی قوت پر بھروسہ کرتے ہوئے دیت کی ادائیگی کا حکم براہ راست دے دیا جاتا، تومرورِ ایام سے لازمی طور پر یہ اخلاقی قوت مضمحل ااور دبی دبی سی ہو جاتی ۔ مقتول کے ورثا کی تشفی نہ ہو پاتی اور دیت کی وصولی کے بعد بھی وہ نفسیاتی اعتبار سے خود کو مظلوم خیال کرتے اور بدلہ لینے کے درپے ہوتے ۔ اس لیے قصاص کا حکم مقتول کے ورثا کی نفسیاتی ضرورت کا لحاظ رکھے ہوئے ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی حیثیت ایک ’’ چیک ‘‘ کی بھی ہے کہ قصاص کی تلوار تلے ہی قاتل اور اس کے بھائی بندے خون بہا کی ادائیگی عمدگی (بِإِحْسَان) کے ساتھ کریں گے اور مقتول کے ورثا کے ممنون بھی رہیں گے۔ 
آیت ۱۷۸ میں عفی کے ذکر سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قاتل کو مقتول کے ورثا سے معافی مل گئی تو پھر اس مقام پرخون بہا کا بیان کیا معنی رکھتا ہے؟ عفی کے ساتھ شئ کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ قصاص سے دست برداری، مکمل معافی کے بجائے ایک خاص درجے میں معافی کے زمرے میں آتی ہے ۔اگر مکمل معافی مقصود ہوتی تو (فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ) کے بعد شئ کا لفظ نہ ہوتا ، اور دستور کے موافق تقاضاکرنے اور عمدگی کے ساتھ اداکرنے کا بیان بھی موجود نہ ہوتا، لیکن عفیکا لفظ صاف ظاہر کر رہا ہے کہ مقتول کے ورثا کی طرف سے یہ عمل ، بہرحال کسی نہ کسی درجے میں معاف کر دینے کا ہی آئینہ دار ہے ۔اس آیت کے مندرجات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خون بہا ، قصاص کا بدل نہیں ہے ۔ اگر خون بہا ، قصاص کا بدل ہوتا تو درمیان میں معافی کا تذکرہ بھی ناگزیر نہ ہوتا ، اور عفی کے بجائے ایسا لفظ وارد ہوتا جو مدعا بہتر طریقے سے ادا کرسکتا تھا۔ اس آیت میں عفی کا لفظ اس امر پر دال ہے کہ اگرچہ مقتول کے ورثا خون بہا لینے پر آمادہ ہو جائیں، پھر بھی ان کی قصاص سے دست برداری ایک درجے میں’’ معافی‘‘ کے زمرے میں ہی آتی ہے، ’’چھوڑنے ‘‘ کے معنی میں نہیں اور قصاص کے’’ متبادل‘‘ کے معنی میں نہیں ۔ قرآن مجید کے اس اسلوبِ بیان سے مقتول کے ورثا کی ایک اور نفسیاتی ضرورت پوری ہوتی نظر آتی ہے ۔ اگرفقط خون بہا ہی قصاص کا متبادل ہوتا، تو مقتول کے ورثا نفسیاتی طور پر تذبذب کا شکار ہوتے کہ وہ آخر کیونکرمحض مال کے لالچ میں اپنے پیارے کی موت کا سودا کریں، اس لیے ان کا غالب رجحان ، خون بہا کے بجائے قصاص لینے کی طرف ہوتا ۔ معاف کر دینے کے بیان سے مقتول کے ورثا کی اس نفسیاتی الجھن کا خاتمہ کیا گیا ہے کہ وہ قصاص کے متبادل کے طور پر کسی قسم کا سودا کر رہے ہیں ۔لہٰذا مقتول کے ورثا کو یقینِ واثق ہوجاتا ہے کہ اولاً انہوں نے کسی نہ کسی درجے میں قاتل کو ’’معاف‘‘ کیا ہے پھر معاف کردینے کے ایسے رویے کے بعد ہی ’’خون بہا ‘‘ کا مرحلہ آیا ہے۔ دوسری طرف قاتل اور اس کا خاندان بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں کہ محض مال کی ادائیگی سے ان کی جان نہیں چھوٹی بلکہ اس سے قبل مقتول کے ورثا اخوت و فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کر دینے کے انتہائی دشوار مرحلے سے گزرے ہیں۔ اور یہ لازمی بات نہیں کہ آئندہ کسی ایسی صورت میں کسی مقتول کے ورثا اتنی ہی فراخ دلی کا مظاہرہ کریں گے۔ یہ سبق قاتل اس کے خاندان اور دیگر لوگوں کی عبرت کے لیے کافی ہوتاہے ۔ 
مذکورہ نکتے سے ایک اور اہم نکتہ مترشح ہوتا ہے کہ اگر شارع کی منشا یہ نہ ہوتی کہ مقتول کے ورثا قصاص کے بجائے خون بہا لیں تو سیدھے سادے طریقے سے دو آپشنز ، مقتول کے ورثا کے لیے کھلے چھوڑ دیے جاتے ، قصاص کا بیان ہوتا اور اس کے متبادل کے طور پر خون بہا کا ۔ ایسی صورت میں اکثر و بیشتر حالات میں مقتول کے ورثا ، مذکورہ نفسیاتی الجھن کی وجہ سے قصاص لینے کو ترجیح دیتے ۔ بفرضِ محال ،اگر کوئی وارث نرمی سے کام لیتے ہوئے خون بہا لینے پر آمادہ بھی ہو جاتا تو ارد گرد کے لوگ طعنے دے کر اس کا جینا دوبھر کردیتے کہ خون کا سودا کر لیا ہے، اسے ہم معاشرتی جبر کہہ سکتے ہیں اور اس معاشرتی جبر کے سامنے مقتول کا پورا خاندان ہمیشہ رسوا ہوتا رہتا ۔ چونکہ شارع کی منشا قصاص کے بجائے خون بہا کی ادائیگی ہے ، اس لیے شارع نے اپنی منشا کی جانب راہ ہموار کرنے کی خاطر ، مقتول کے ورثا کی ایک بہت سنجیدہ الجھن کے خاتمے کا اہتمام کر کے، فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ  کے ذریعے ، بالواسطہ طور پرخون بہا لینے کی ترغیب کا سامان پیدا کیا ہے، جس کی عد م موجودگی مقتول کے ورثا کو مشکلات سے دوچار کرتی اور قصاص لینے کی طرف مائل کرتی ۔لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ کے الفاظ، شارع کی منشا پر دلالت کرتے ہیں۔ 
البقرۃ کی آیت ۱۷۸ کی متصل آیت ۱۷۹ میں پھر قصاص کا ذکر ہے ۔ یہ ذکر بہت شدت لیے ہوئے ہے کہ قصاص میں حیات ہے (فِیْ الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ) ۔اہم بات یہ ہے کہ آیت ۱۷۸ کی ابتداء میں قصاص کا ذکر ہے اس کے بعد آیت ۱۷۹ میں اس کا بیان نہایت زوردار اسلوب میں ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان مذکورہ اخلاقی قوت کا تذکرہ ہے ۔ غور کیجیے کہ شارع ہمیں اصل اصول (قصاص )کی طرف متوجہ رکھنا چاہتے ہیں کہ کہیں اصول سے بے توجہی مقصود کو گنوا دینے کا باعث نہ بن جائے ۔اس لیے آیت ۱۷۹ میں اصل اصول (الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی) کی یاد دہانی (فِیْ الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ) بہت شدت لیے ہوئے ہے تاکہ مقصود(ایک خاص درجے میں معافی ، خون بہا کا معروف کے مطابق تقاضا اور اس کی عمدگی سے ادائیگی ) کی تحصیل کے عمل میں اصل (الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی) نگاہوں سے پوشیدہ نہ ہو جائے ۔ کیونکہ اگر اصل نگاہوں سے پوشیدہ ہو گیا تو مقصود کی تحصیل اپنی اصل سپرٹ میں ممکن نہیں رہے گی ، کہ قصاص اصول کی سطح پر ہے اور معافی و خون بہا مقصود کی سطح پر۔ اگر آیت ۱۷۹ میں اصل کی تذکیر (فِیْ الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ) نہ ہوتی تو عین ممکن ہے کہ آیت ۱۷۸ کے اصل (الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی) کو مقصود کی تحصیل (معافی و خون بہا )کے ضمن میں بھلا دیا جاتا ، کہ مقصود تو حاصل ہو رہا ہے اور اصل کی حیثیت اب ثانوی ہے ۔ لیکن اصل کے متروک ہو نے سے ، ایک تو مقتول کے ورثا کے ہاتھ سے معاف کر دینے کا نفسیاتی اطمینان چھن جاتا ( کہ قصاص سرے سے موجود ہی نہیں ) ، اور دوسرا ، آ ہستہ آہستہ خون بہا کا معروف کے مطابق تقاضا اور اس کی عمدگی سے ادائیگی میں کافی گڑبڑ کی جاتی جو لازماً اخلاقی قوت کے زوال کا شاخسانہ ہوتی، اس طرح شارع کی منشا دھری کی دھری رہ جاتی ۔ لیکن شارع نے آیت ۱۷۹ میں نہ صرف تذکیراً بلکہ اصل پر تاکیداً زور دے کر کما ل حکمت سے اس احتمال کا خاتمہ کر دیا ہے ۔
البقرۃ کی آیت ۱۷۸ میں معاف کرنے اور خون بہا لینے کے بیان میں مخاطب مقتول کے ورثا ہیں ، اس لیے قاتل کے لیے کسی قسم کی وعید کا تذکرہ نہیں کیا گیا ، بلکہ مقتول کے ورثا کو معافی اور خون بہا کی طرف راغب کرنے کا واضح اہتمام کیا گیا ہے۔ اخیہ کے لفظ سے اور ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ کے بیان سے قاتل کے حوالے سے جو تاثر ملتا ہے، وہ اخوت و الفت اور نرمی و رحمت سے عبارت ہے۔ آیت کے آخر میں فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ أَلِیْمٌ کے الفاظ سے جو تنبیہ کی گئی ہے اس کا مصداق بھی محض قاتل کو قرار نہیں دیا جا سکتا ، بلکہ مقتول کے ورثا بھی مخاطب معلوم ہوتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تومعلوم ہو گا کہ ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ کا بیان بھی صرف قاتل کے لیے نہیں ہے بلکہ مقتول کے وارثوں کے لیے بھی قصاص سے دست برداری ایک درجے میں تخفیف و رحمت کا باعث معلوم ہوتی ہے ۔ قصاص سے دستبردار ہو کر، در حقیقت مقتول کے ورثا منشائے الہی کے مطابق خود کو ڈھال لیتے ہیں ، جس سے وہ قصاص لینے کے عمل میں متوقع ، کسی بھی قسم کے ظلم و تعدی کے عمل سے رک جاتے ہیں۔(کہ مقتول ، مظلوم نہیں تھا ، بلکہ وہ خود بھی کسی طور قتل کی وجہ تھا ، اس لیے اسے بنی اسرائیل آیت ۳۳ کی طرح مظلوم نہیں کہا گیا)۔ 
اس آیت میں مضمر اخلاقی دلالتیں فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَان کے بیان میں نہایت نمایاں ہو جاتی ہیں ۔ مقتول کے ورثا کو کہا جا رہا ہے کہ معروف کی اتباع کریں ، ایسا نہ ہو کہ وہ تھوڑی معافی دینے کے بعد ، قاتل کی نفسیاتی ممنونیت کو بھانپتے ہوئے ، دھونس زبردستی سے اسے اینٹھنے کی کوشش کریں جس کے نتیجے میں قاتل اور اس کا خاندان (خاص طور پر معاشی اعتبار سے) تباہ وبرباد ہو جائے ۔ معروف کی اتباع کا یہ حکم ، قاتل کے لیے بھی ہے کہ وہ معاف کیے جانے کی سبیل پانے کے بعد ، مقتول کے ورثا کا ایسا تقاضا ، جس کی خوبی عقل و شریعت سے ثابت ہوتی ہو ، رد نہ کرے ۔ عام طور پر کسی کے قتل کے بعد، دیگر لوگ صلح صفائی کے لیے دخیل ہو جاتے ہیں ، اور ان میں ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو مشاورت کے عمل میں، قاتل و مقتول دونوں خاندانوں کی یا کسی ایک خاندان کی غلط راہنمائی کرکے معاملے کو سلجھانے کے بجائے بگاڑ نے کا باعث بن سکتے ہیں ، اس لیے قرآ ن مجید نے معروف کی اتباع کا حکم دیا ہے ۔ چونکہ مقتول کے ورثا ، کسی کے غلط سلط مشورے سے جلد بھڑک سکتے ہیں، اس لیے فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ کے بنیادی مخاطب وہی معلوم ہوتے ہیں کہ وہ عقل و منطق کو چھوڑ کر دھونس زبردستی کی روش نہ تو خود اپنائیں اور نہ ہی کسی ایسے مشورے یا حکم کے سامنے سرتسلیم خم کریں : 
لاَّ خَیْْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّن نَّجْوَاہُمْ إِلاَّ مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَۃٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلاَحٍ بَیْْنَ النَّاسِ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ ابْتَغَاء مَرْضَاتِ اللّہِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ أَجْراً عَظِیْماً (النساء ۰۴/ ۱۱۴) 
’’ عام لوگوں کی اکثر سرگوشیوں میں خیر نہیں ہوتی، ہاں مگر وہ جو کہ صدقہ کا یا معروف کا یا لوگوں میں باہم اصلاح کر دینے کا حکم دے ، اور جو شخص یہ کام کرے گا اللہ کی رضا کے لیے ، ہم اسے عنقریب اجرِ عظیم عطا فرمائیں گے۔‘‘ 
اہم بات یہ ہے کہ قرآن نے معروف کی’’ اتباع‘‘ کا حکم تو دیا ہے لیکن معروف ہے کیا؟ اس کا تعین نہیں کیا ۔اب اگر معروف کا تعین مقتول کے ورثا پر چھوڑ دیا جائے تو دھونس زبردستی کا در آنا لازم ہو جاتا ہے۔ بِالْمَعْرُوفِ کے دیگر قرآنی اطلاقات سے یہ نکتہ کھل کر سامنے آتا ہے کہ معروف کا تعین کسی سماج کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ کسی بھی مسئلے میں فریقین معروف کا تعین از خود نہیں کریں گے بلکہ انہیں اپنے سماج کے اجتماعی شعور پر بھروسہ کرنا ہو گا : 
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَیُطِیْعُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَءِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّہُ إِنَّ اللّہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (التوبۃ ۰۹/ ۷۱)
’’ اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے منع کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں ، ان لوگوں پر ضرور اللہ رحمت کرے گا ، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے ‘‘ 
کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلَوْ آمَنَ أَہْلُ الْکِتَابِ لَکَانَ خَیْْراً لَّہُم مِّنْہُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَکْثَرُہُمُ الْفَاسِقُونَ (آل عمران ۰۳/۱۱۰)
’’ تم بہترین امت ہو ان سب امتوں میں سے جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں ، معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہلِ کتاب ایمان لاتے تو ان کے لیے خیر تھا ، بعضے ان میں سے ایمان والے ہیں اور اکثر ان کے فاسق ہیں ‘‘ ۔
مومن مردوں اور مومن عورتوں کی رفاقت کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ بات’’ سماج‘‘ کی ہو رہی ہے ۔ یہی بات امت کے حوالے سے سچ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ معروف کیا ہے ؟ اس کا تعین حقیقت میں کوئی سماج اجتماعی طور پر کرتا ہے اور سماجی قوت کے بل بوتے پر متعین معروف کے استقلال کو یقینی بناتا ہے، البتہ اس متعین معروف کی تنفیذ کی ذمہ دارریاست قرار پاتی ہے کہ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ اورِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ کے الفاظ تحکمانہ لہجہ لیے ہوئے ہیں۔ لیکن ایک احتمال ہماری زیرِ نظر آیت میں پھربھی موجود رہتا ہے کہ معروف کی ’’نوعیت ‘‘اس میں واضح نہیں ہے۔ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ،ِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ کے مانند فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ میں بھی معروف عمومی نوعیت کا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں معروف کی اتباع کا حکم ہے اور وہاں معروف کے حکم کا بیان ہے۔ لیکن قرآن مجید کے بعض مقامات پر معروف کی نوعیت واضح کی گئی ہے، مثلاً: وَمَن کَانَ فَقِیْراً فَلْیَأْکُلْ بِالْمَعْرُوفِ / وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوف ( النساء ۴/۶،۱۹)،ِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ / مَتَاعاً بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُحْسِنِیْن/ وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ۲/ ۲۲۹، ۲۳۶،۲۴۱)، فَأَمْسِکُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ ( الطلاق ۶۵/ ۲)۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ کے بعدِ وَأَدَاء کے الفاظ زیرِ نظر آیت میں معروف کی نوعیت کا اشاریہ بن جاتے ہیں کہ اس کا تعلق کسی ایسی چیز سے ہے جسے ایک ہی بار میں پورے کا پورا ’’ادا‘‘ کرنا لازم ہے ۔ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء کے الفاظ سے ( قانونی اعتبار سے مکمل اور قدرے اخلاقی لحاظ سے بھی )مدعا ، اداہوجاتا ہے، سوال یہ ہے کہ اس کے بعد إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ کے الفاظ کیوں بیان کیے گئے ہیں؟ہماری رائے میں ان کی بنیادی نوعیت، اخلاقی ہے۔ اگرچہ قاتل نے کسی نہ کسی جواز کے تحت ہی قتل کیا ہے(اس لیے مقتول ، مظلوم نہیں ہے ) ، لیکن جرم اپنی نوعیت میں نہایت سنگین ہے جس سے ایک طرف تو سماج کا اخلاقی نظم شدید متاثر ہوا ہے اور دوسری طرف یہ جرم خود سماج کی اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی کرتا ہے ، اس لیے احسان کی داخلی معنویت ملحوظ رکھتے ہوئے اس لفظ کا خصوصی انتخاب کیا گیا ہے ۔ احسان کا مطلب ہے حق سے زیادہ دینا یا حق سے کم لینا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کی نفسیاتی شخصیت میں اسی قدر کی کمی نے اس سے قتل جیسا سنگین جرم کروایا تھا ( جوازِ قتل عام طورکوئی حق جتانے سے عبارت ہوتا ہے) ۔چونکہ قاتل سماج کا ہی ایک فرد ہے اس لیے ظاہر ہوتا ہے کہ سماج میں یہ قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہے۔ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء کے بعد احسان کا تاکیدی ذکراس کمی کی تلافی کی نشاندہی کرتا ہے ۔لہٰذا شارع نے سزا دینے کے عمل میں ، سماج کے اخلاقی نظم کی سدھار کی خاطر قاتل کی مخصوص نفسیاتی کم زوریوں کی اصلاح کا بھی بیڑا اٹھایاہے ۔ 
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مقتول کے ورثا کے ساتھ معاملہ معروف کے مطابق ’’طے‘‘ پا جائے تو اس کے بعد نظر ثانی کی گنجائش باقی رہتی ہے یا نہیں ؟ ۔ ظاہر ہے نظر ثانی کے کسی ایسے مطالبے کے پیچھے یہی منطق کارفرما ہو سکتی ہے کہ معاملہ اصلاً معروف کے مطابق طے نہیں پایا ۔اس سلسلے میں ان قرآنی آیات سے استشہاد کیا جا سکتا ہے : 
کُتِبَ عَلَیْْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَکَ خَیْْراً الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْْنِ وَالأقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ ۰۲/۱۸۰) 
’’ تم پر فرض ہوا کہ جب تم میں سے کسی کو موت آئے اگر کچھ مال چھوڑے تو وصیت کر جائے اپنے ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں کے لیے معروف کے مطابق، یہ متقیوں پر حق ہے ‘‘ 
فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفاً أَوْ إِثْماً فَأَصْلَحَ بَیْْنَہُمْ فَلاَ إِثْمَ عَلَیْْہِ إِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (البقرۃ۰۲/۱۸۲)
’’ پھر جسے اندیشہ ہو اکہ وصیت کرنے والے نے کچھ بے انصافی یا گناہ کیا تو اس نے ان میں صلاح کرا دی اس پر کچھ گناہ نہیں ، بے شک اللہ بخشنے والا مہربا ن ہے ‘‘ 
معلوم یہ ہوتا ہے کہ گڑبڑ کی صورت میں، اصلاح کی خاطر ، مقتول کے ورثا کا نظر ثانی کا مطالبہ قابلِ غور ہو سکتا ہے ۔ لیکن دو احتمالات اس نتیجے کے آڑے آتے ہیں: 
(۱)مقتول کے ورثا قدرے جارحانہ پوزیشن میں ہوتے ہیں چونکہ ان کا بھائی بندہ قتل ہوا ہے اس لیے معاملہ طے کرنے میں ان سے اسراف کی امید تو کی جاسکتی ہے، بخل کی نہیں ۔ان کی اسی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے قرآن میں ، فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ کے بلیغ الفاظ استعمال ہوئے ہیں تاکہ وہ ذاتی اور نفسانی رجحانات کے تحت غیر معقول مطالبہ نہ کر بیٹھیں ۔ وصیت والے معاملے میں صور تِ حال مختلف ہے( اس کی وضاحت ہمارے موضوع سے خارج ہے ) ۔ 
(۲) بفرضِ محال، اگر انیس بیس کا فرق پایا بھی جاتا ہے تو اس کی تلافی وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ کے الفاظ کرتے نظر آتے ہیں۔ احسان کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے ۔ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ کا حکم قاتل کے لیے ہے ۔ 
احسان کے لفظ کے قرآنی اطلاقات میں، ایسی دلالتیں موجود ہیں جن کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ ، یہاں پر اس لفظ کے انتخاب کا مقصد، قاتل کے تزکیے کو ظاہر کرنا ہے۔ اگر اس نے قتل کیا ہے تو ظاہر ہے کسی جواز کے تحت کیا ہے ۔ وہ جواز لازمی طور پر اس نوعیت کا ہے کہ اس نے قاتل کے ذہن کو اپنے کنٹرول میں لے کر اسے قتل جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا ۔ قصاص سے بچ جانے ، معافی پانے اور اس کے ساتھ خون بہا طے کرنے کے عمل سے وہ جواز اس کے ذہن سے نہیں نکلتا، خاص طور پر خون بہا طے کرنے کا عمل اس کے جواز کو مزید تقویت دے سکتا ہے کہ یہ خوامخواہ دینا پڑے گا، میں تو حق بجانب ہوں ۔ قرآن نے ادائیگی کے ضمن میں احسان کا لفظ اختیار کر کے قاتل کی اسی الجھن کا خاتمہ کیا ہے کہ وہ حق سے زیادہ دے اور حق سے کم لے ، یعنی ایک طرف ادا کرے اور دوسری طرف جواز چھوڑدے ۔ اب اگر قاتل معروف کے مطابق معاملہ طے پانے کے بعد ادائیگی کرتا ہے تواحسان کے جذبے سے کرتا ہے کہ ادائیگی کے حوالے سے اتنا حق نہیں بھی بنتا جتنا طے کیا گیا ہے تو پھر بھی حکمِ ربی کی اطاعت میں مجھے اتنا ہی ادا کر نا چاہیے ۔ یہ عمل قاتل کا تزکیہ کر کے اسے محسنین میں شامل کر دیتا ہے ۔ لہٰذا معروف اور احسان محض دو الفاظ نہیں، بلکہ ان معاشرتی اقدار کی تلافی کی صورتیں ہیں جن سے سماج میں ایسا اخلاقی توازن جنم لیتا ہے جس کی توقع اور تقاضا ، قرآن مجیدافرادِ معاشرہ سے کرتا ہے ۔
فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ کے ذکر کے بعد ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ کا بیان شارع کی منشا مزید واضح کرتا ہے ۔ غالباََ تَخْفِیْفٌ  کا مصداق عُفِیَہے کہ قصاص سے جان بچ گئی ہے۔لفظ ’’تخفیف‘‘ کا انتخاب داخلی شہادت دے رہا ہے کہ شارع کی منشا بھی قصاص نہیں ہے، آخر کیوں؟ اس کیوں کا جواب اس آیت میں ملتا ہے جہاں تخفیف کا ذکر ، اس کے بیان کی ’’وجہ‘‘ کے ساتھ کیا گیا ہے : 
یُرِیْدُ اللّہُ أَن یُخَفِّفَ عَنکُمْ وَخُلِقَ الإِنسَانُ ضَعِیْفاً (النساء ۰۴/۲۸)
’’ اللہ چاہتا ہے کہ تم پر تخفیف کرے اور انسان کم زور بنایا گیا ہے ‘‘ ۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ’’ ضعف ‘‘ انسان کی خلقی خصوصیات میں سے ہے ۔ اسی بنا پر انسان کے خالق نے ضعف کے ذکر کے ساتھ ہی(بلکہ اس سے پہلے ) تخفیف کے بیان سے اپنی بے پایہ رحمت کا اظہار کیا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ضعف کی وجہ سے انسان کوئی جرم( قتل ) کر بیٹھتا ہے تو پھر ضعف کی خلقی خصوصیت کے پیشِ نظر، انسان کے لیے مکمل معافی کی سبیل کیوں نہیں نکالی گئی؟ البقرۃ آیت ۱۷۸ میں، قاتل کو مکمل معاف کرنے کی ترغیب کے بجائے عفی شئ یعنی کچھ معافی کے بیان سے مقتول کے ورثا کو خون بہا لینے کی طرف کیوں راغب کیا گیا؟ ( خیال رہے کہ عفی شئ اور تخفیف میں ایک داخلی ربط موجود ہے) جواب یہ ہے کہ اس ضعف کے علاوہ، رب العالمین نے انسان کو علم سے بھی نوازا ہے: الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنسَانَ عَلَّمَہُ الْبَیَانَ (الرحمن ۵۵/۱،۲،۳، ۴) اس علم کا تقاضا ہے کہ انسان خلقی ضعف کو ایک حد سے آگے بڑھنے نہ دے ، جب انسان اس ضعف کو اس کے فطری مقام سے آگے لے جاتا ہے تو اللہ رب العزت کے دیے گئے علم کی نفی کرتاہے ۔ چونکہ ضعف کو اس کے فطری مقام سے آگے لے جانے کا ایک ہی درجہ نہیں ہے بلکہ اس کے مختلف مدارج ہو سکتے ہیں ، اس لیے قرآن مجید نے ایک لحاظ سے، سزا تجویز کرتے وقت انہی مدارج کو مدِ نظر رکھا ہے ۔ آیت ہذا میں چونکہ قتلِ ناحق جیسا انتہائی سنگین جر م کیا گیا ہے جو ضعف کے فطری حالت سے آگے بڑھنے کی علامت ہے اس لیے مکمل معافی کی ترغیب نہیں دی گئی ( کہ ضعف ،شہ پاکر اس سے بھی اگلی خلافِ فطرت حالت تک پہنچ سکتا ہے ) ، اور قصاص جیسی انتہائی سخت سزا بھی اس لیے نہیں دی گئی کیونکہ ضعف ، علم کو روند تا ہوا اس خلافِ فطرت حالت تک ابھی نہیں پہنچا کہ انسان سزاوارِ قصاص ہو جائے ۔ 
جہاں تک ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ  میں رحمت کے ذکر کا تعلق ہے ، اس کا داخلی ربط فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ کے ساتھ معلوم ہوتا ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ معافی کی گنجائش پیدا کرنے کے بعد اللہ رب العزت نے ایسی سزا تجویز کی ہے جس کے دیے جانے کے عمل میں ، ضعف کی تلافی کے ساتھ ساتھ اس علم کی بازیافت کی راہ بھی نکلتی ہے جو ضعف کے اس درجے میں انسان سے کھو گیا ہے ۔ ( اس سلسلے میں معروف و احسان کی معنویت کا بیان پچھلی سطور میں ہو چکا) ۔ ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ میں اسمِ ذات (اللہ )کے بجائے اسمِ صفت(رب) کا بیان ہوا ہے ۔رب کے معنی پروردگار کے بھی ہیں اور تربیت کرنے والے ، تدریجاََ نشوونما دے کر حد کمال تک پہنچانے والے کے بھی ۔ اس لیے من اللہ کے بجائے من ربکم کے خاص انتخاب سے عفو ، معروف و احسان کے بیان میں مضمر حکمت مزید واضح ہو جاتی ہے ۔ 
ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ کے بعد فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ أَلِیْمٌ سے مراد یہ ہے کہ جب ایک واقعہ ہوجانے کے بعد تمہارے خالق نے اس کے سلجھاؤ کا ، انتہائی حکمت پر مبنی حل دے دیا ہے ، ایسا سلجھاؤ ، جو سزا ہونے کے ساتھ ساتھ کھوئے ہوئے کردار کی بحالی سے عبارت ہے ، جس کی وجہ سے اس واقعہ میں ملوث مختلف کردارنہ صرف اس واقعہ سے سے قبل کی نارمل نفسیاتی اخلاقی صورتِ حال میں لوٹ جاتے ہیں بلکہ تربیت و تجربہ کا ایک درجہ طے کرنے کے سبب کمال کی سمت بڑھتے ہیں جس سے سماج کا اخلاقی نظم درہم برہم ہونے سے بچ جاتا ہے، پھر اس تمام عمل کے بعد اگر کوئی زیادتی کرنے میں’’ پہل ‘‘ کرتا ہے تو اس کے لیے درد ناک عذاب ہے ۔اس موقع پر فَلَہُ عَذَابٌ أَلِیْمٌ کا بیان تصورِ آخرت پر مبنی ہونے کی وجہ سے ، علم کی بنیاد پر تشکیل پائے اس نظامِ اقدار کا محافظ معلوم ہوتا ہے، جس کو گزند پہنچنے کے بعدنہایت حکیمانہ طریق پر بحال کیا گیاتھا ۔ 
خیال رہے کہ زیرِ نظر آیت( البقرۃ ۱۷۸) کے مطابق سزا کی انتہائی صورت قصاص ہے ۔ اس لیے اگر قصاص کو پہلی اور حتمی ترجیح میں رکھا جائے تو آہستہ آہستہ غلو کے باعث ، ظلم و تعدی کے در آنے کا اندیشہ موجود رہتا ہے ۔دوسری ترجیح جو معافی اور خون بہا سے عبارت ہے ، اس سے آگے اگرچہ( غلو کی صورت میں ) قصاص کی انتہائی صورت موجود ہے لیکن اس کے باوجود یہاں بھی تعدی پر تنبیہ کئی گئی ہے، فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ أَلِیْمٌ ، غور کیجیے کہ پھر قصاص میں غلو کی صورت میں اس سے آگے کیا ہو گا؟ اس لیے بدرجہ اولیٰ قصاص کے بیان کے ضمن میں شدید قسم کی تنبیہ کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے قرآن مجید میں جہاں بھی قصاص کا ذکر آیا ہے وہاں اس پہلو کو خاص مدِ نظر رکھا گیا ہے، مثلاً البقرۃ کی آیت ۱۷۹ ہی کو لیجیے اور غور کیجیے کہ اس میں قصاص کو حیات قرار دے کر ایک انتہائی صورت پیدا کی گئی ہے لیکن ساتھ ہی آیت کا اختتام تَتَّقُون کے بلیغ تنبیہی اشارے سے ہوتا ہے ، جس میں نہایت لطیف پیرایے میں ظلم و تعدی پر مبنی کسی بھی نوعیت کے عمل کی روک تھام مطلوب و مقصود دکھائی دیتی ہے۔البقرۃ ہی کی ایک اور آیت میں قصاص و تعدی کے محل اور تقوی( اللہ کے غضب سے بچنے کے معنی میں ) کے ساتھ ان کی مناسبت کو اجاگر کیا گیا ہے :
الشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَی عَلَیْْکُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَیْْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَی عَلَیْْکُمْ وَاتَّقُواْ اللّہَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ۲/ ۱۹۴)
’’حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینے کے بدلے ہے اور حرمتوں میں قصاص ہے پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ویسی ہی تم اس پر کرو اور اللہ سے بچو اور جان لو کہ اللہ متقین کے ساتھ ہے ‘‘ ۔ 
بعض مقامات پر’’ الا بالحق ‘‘ کی مخصوص ترکیب سے تحدید کی گئی ہے ،مثلاً وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ( الانعام ۰۶/ ۱۵۱)، وَلا تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ إِلاَّ بِالحَقِّ (بنی اسرائیل ۱۷/۳۳)، وَلَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللَّہُ إِلَّا بِالْحَقّ (ِالفرقان ۲۵/ ۶۸) ۔ اور فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْل (بنی اسرائیل ۱۷/۳۳) ، وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أنزَلَ اللّہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ (المائدۃ۵/ ۴۵) ، میں مذکورہ تنبیہی امر نہایت واضح ہے۔
البقرۃ کی آیت ۱۷۸ کے بین السطور ایک اور تاثر ملتا ہے کہ قاتل نے اگرچہ ناحق قتل کیا ہے لیکن اس کے قتل کرنے کے پیچھے کوئی ’’ جواز ‘‘ بھی ہے ، یعنی ایک لحاظ سے شدید نوعیت کا ناحق قتل نہیں ہے( اور بالحق بھی نہیں ہے کہ بالحق قتل کی صورتوں کا قرآن مجید میں تعین کر دیا گیا ہے ) ۔ چونکہ شدید نوعیت کا ناحق قتل نہیں ہے اسی لیے ان آیات میں قصاص کے بجائے خون بہا کی ادائیگی کا بڑے سلیقے سے اہتمام کیا گیا ہے اور مذکورہ غلو کے وقوع پذیر ہونے کو نا ممکن بنایا گیا ہے ۔ معافی و خون بہا کو مقصود کی سطح پر رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کہیں قاتل کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوجائے کہ اس کے پاس قتل کرنے کا کوئی نہ کوئی جوا ز ضرور ہے ۔ لیکن چونکہ کسی فرد نے اگرچہ جواز کے تحت ہی لیکن جان بوجھ کر’’ اپنے طور پر‘‘ قتل کرنے کا انتہائی قدم اٹھایا ہے ، اور شارع کے نزدیک ایسا طرزِ عمل کسی ایسے رجحان کے فروغ کا باعث بن سکتا ہے جو سماجی نظم کے اخلاقی پہلوؤں کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ ، مومنین کی مقتدر اجتماعی ہئیت کی ’’مقتدرحیثیت ‘‘کو بری طرح مجروح کر سکتا ہے، اس لیے قتل کا کوئی جواز ہوتے ہوئے بھی قصاص کی تنفیذ کی ذمہ داری مقتدر اجتماعی ہئیت پر ڈال دی گئی ہے ، تاکہ اس کی مقتدر حیثیت اور سماجی نظم کے اخلاقی پہلوؤں کی آن شان قائم رہے اور ظلم و تعدی کے پھیلاؤ کی کوئی صورت سر نہ اٹھا سکے ۔ قابلِ غور امر یہ ہے کہ مقتول کی کسی قسم کی مظلومیت کا کوئی اشارہ البقرۃ کی آیت ۱۷۸ میں نہیں پایا جاتا(اگرچہ اس کا مقتول ہونا بنفسہٖ ایک درجے کا مظلوم ہونا ہے )، بلکہ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی میں محض مطلق قتل کا بیان ہوا ہے، ایسے مطلق قتل کے بیان کے بعد معافی و خون بہا کی ترغیب اور تخفیف و رحمت کا بیان ، ایک درجے میں خود شاہد بن جاتا ہے کہ قتل کے پیچھے کوئی ایسا جواز ضرور ہے جس کی وجہ سے قصاص کو اصول کی سطح پر رکھتے ہوئے بھی( کہ مقتول ، مقتول ہونے کی وجہ سے بہر حال مظلوم ہے ) مقصود کی سطح پر نہیں رکھا گیا ۔ ویسے بھی یہ بدیہی امر ہے کہ بالحق قتل کے ماسوا قتل کی دیگر صورتوں میں، قاتل کسی جواز کے تحت ہی قتل کرتا ہے ، راہ چلتے خوامخواہ کوئی کسی کو قتل نہیں کرتا ۔ اگر ایسا ہو بھی تو یہ ایک استثنائی صورت ہو گی۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن مجید میں قتل کی دوصورتیں بیان کی گئی ہیں ، (۱) بالحق ، (۲) ناحق ۔ اگر قتل بالحق نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ ناحق ہو گا۔ اب اگر بالحق قتل کی صورتیں متعین ہیں تو ان کے سوا قتل کی ہر نوع ناحق کے زمرے میں آئے گی ۔ چونکہ ناحق قتل کی ہر نوع، مختلف اعتبارات سے یکساں نہیں ہوسکتی ، اس لیے ہر ناحق قتل کو ایک ہی خانے میں فٹ نہیں جا سکتا ، بلکہ ان کی درجہ بندی ضروری ہو جاتی ہے ۔
قصاص کے قرآنی مفہوم کی جزئیات ، معاشرے کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت اور اس کے مقاصد سے آگاہی درج ذیل آیت سے ہوتی ہے : 
وَکَتَبْنَا عَلَیْْہِمْ فِیْہَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْْنَ بِالْعَیْْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَن تَصَدَّقَ بِہِ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہُ وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أنزَلَ اللّہُ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ (المائدۃ۵/ ۴۵)
’’ اور ہم نے ان پر اس (تورات) میں یہ بات فرض کی تھی کہ جان بدلے جان کے اور آنکھ بدلے آنکھ کے اور ناک بدلے ناک کے اور کان بدلے کان کے اور دانت بدلے دانت کے اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے پھر جو شخص اس کو صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہو جائے گا اور جو شخص اللہ کے نازل کیے ہوئے کے موافق حکم نہ کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں ‘‘ 
اس آیت کے آغاز میں، بیان کے اعتبار سے ایسی اٹھان ہے جس سے نہ صرف بدلے و قصاص سے متعلق تمام اسالیب سامنے آجاتے ہیں بلکہ انصاف کے حصول کا یقین ، نفسیاتی تشفی کی راہ گزر سے ہوتا ہوا باطنی تطہیر کی سرحدوں میں داخل ہو جاتاہے ۔لیجیے دوبارہ غور کیجیے، أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْْنَ بِالْعَیْْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ۔ قصاص و بدلے کی جزئیات دیکھیے اور ان کے محلات و وقوع پذیر ہونے کے محرکات کا تصور کیجیے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جزئیات کے باقاعدہ ذکر سے ، قرآن مجید نے ا نسان کی فطرت اور اس سے وابستہ بعض علائق کی نشاندہی کی ہے کہ عام معاشرتی صورتِ حال میں انسان آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں ۔اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ انسان معاشرتی حیوان ہے وہ اکیلا زندگی بسر نہیں کر سکتا ، اور معاشرے میں اکھٹے رہنے سے جہاں اسے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں وہاں نقصانات سے بھی اس کاو اسطہ پڑتا ہے ۔ تقریباََ ہر شخص کسی نہ کسی حوالے سے دھونس زبردستی کرتا ہے ، دانستہ و نا دانستہ کسی کی حق تلفی کرتا ہے ، جس سے جھگڑوں کا رونما ہونا فطری امر ہو جاتا ہے ۔اس لیے ان جھگڑوں کی وجہ بظاہر معاشرتی معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت میں انسان کا خلقی ضعف ( جس کا ذکر ہوچکا ) اور جھگڑالو پن ، اسے مائل بہ جرم کرتا ہے: 
خَلَقَ الإِنسَانَ مِن نُّطْفَۃٍ فَإِذَا ہُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ (النحل ۱۶/ ۰۴)
’’ پیدا کیا انسان کو نطفے سے ، تو جبھی کھلا جھگڑالو ہے ‘‘ 
أَوَلَمْ یَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاہُ مِن نُّطْفَۃٍ فَإِذَا ہُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ (یس ۳۶/ ۷۷) 
’’ اور کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا ، جبھی وہ صریح جھگڑالو ہے ‘‘ 
ایسی خلقی خصوصیات کے ہوتے ہوئے اگر انسان کسی کی آنکھ ، ناک ، کان ، دانت کو نقصان پہنچاتا ہے یا کسی کو زخمی کر دیتا ہے ، اس سے بھی بڑھ کر ، کسی کی جان ہی لے لیتا ہے تو یہ تعجب انگیز نہیں ہے ۔ عمومی صورتِ حال میں انسان باقاعدہ طے کر کے جان لینے کے ارادے سے لڑائی جھگڑا نہیں کرتا ، بلکہ کوئی خارجی صورتِ حال اس کے داخل میں موجود خصومت کے جذبے کو بھڑکا دیتی ہے(یا خصومت کا جذبہ ، جان لیوا خارجی صورتِ حال کو جنم دیتا ہے ) اور وہ انجانے میں کسی کی جان لے لیتا ہے یا ناک دانت وغیرہ توڑ دیتا ہے اور اس کے بعد پشیمانی سے دوچار ہوتا ہے ۔ایسی صورتِ حال میں یہ محض اتفاق ہوتا ہے کہ مضروب یا مقتول ، مضروب یا مقتول بن جاتا ہے، ورنہ امر واقعہ تو یہ ہے کہ وہی خصومت کا جذبہ مضروب یا مقتول کے داخل میں بھی موجود ہوتا ہے، اور عموماً وہ بھی اپنے تئیں ( انجانے میں سہی ) مقابل کو پچھاڑنے کی کوشش کرتا ہے ، یعنی مقتول یا مضروب بنانے کی۔ اسی لیے قرآن مجید نے اگرچہ یہاں بھی اصول کی سطح پر، قصاص ہی کا حکم دیا ہے لیکن منشا چونکہ ( البقرۃ آیت ۱۷۸ سے بھی بڑھ کر ) مکمل معافی ہے اس لیے ایک تو، اطلاقی پہلو سے اکثر و بیشتر صورتوں میں قصاص لیا ہی نہیں جا سکتا ، اور دوسرا یہ کہ ، اگر ایسی صورت بن بھی جائے تو فَمَن تَصَدَّقَ بِہِ کے حکیمانہ اسلوب میں معافی کی زبردست ترغیب دی ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں خون بہا لینے کا بیان کیوں نہیں کیا گیا ؟ قصاص یا مکمل معافی ، یہ دو انتہائیں کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ’’اور آنکھ بدلے آنکھ کے اور ناک بدلے ناک کے اور کان بدلے کان کے اور دانت بدلے دانت کے اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ‘‘کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ ایسے جھگڑوں کی واقعیت اپنی جگہ ، لیکن ان کے محلات اور وقوع پذیری کے محرکات ، انسانی احوال و ظروف سے پرے نہیں ہٹتے۔اس لیے أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ بھی انہی محلات اور احوال و ظروف کی انتہائی صورت ہونے کے ناطے ، نوعیت کے اعتبار سے قتلِ ناحق کی شدید حالت کو ظاہر نہیں کرتا۔ اسی لیے(خالصتاً قانونی نقطہ نظر سے ) قصاص کو ایک انتہا پر رکھنے کا مقصد ، خارجی صورتِ حال کو نظم میں رکھنا ہے اور دوسری انتہا پر ( جو خالصتاً اخلاقی ہے) مکمل معافی کا مقصد ، اس امر کا اعتراف کرنا ہے کہ ضعف و خصومت کی بنا پر انسان سے گناہ سرزد ہو سکتے ہیں اس لیے انہیں بدلہ لینے کے انتقامی جذبے کے بجائے اپنے گناہوں کے کفارے کی سبیل نکالنی چاہیے۔ لہٰذا دو انتہاؤں کے بیان کے ساتھ اگر خون بہا کا بھی ذکر کیا جاتا ، تو ضعف و خصومت کے ہاتھوں انسان سے سرزد ہونے والے گناہوں کا کفارہ نہ ہونے سے ، بے غرضانہ معافی(دنیاوی لحاظ سے بے غرضانہ )کا کلچر پروان نہ چڑھ سکتا ، جس کی قرآن کے نظامِ اقدار میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔ 
اس لیے زیرِ نظر آیت میں ’’قصاص ‘‘کے تقریباََ مخالف کھڑے ہو کر ’’ کفارہ ‘‘ نہایت اعلی درجے کی ترغیب کی علامت بن جاتا ہے ۔ اگر البقرۃ آیت ۱۷۸ کے اس حصے فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ کا المائدۃ آیت۴۵ کے اس حصےٌ فَمَن تَصَدَّقَ بِہِ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہُ سے تقابل و موازنہ کریں کہ ہر دو جگہ محلات یکساں ہیں تو اخلاقی معنویت کی مختلف پرتیں کھلنی شروع ہو جاتی ہیں ۔ چونکہ المائدۃآیت ۴۵ میں مقصود، مکمل معافی ہے (اور اس کے مقابل صرف قصاص کی آپشن ہے)، اس لیے مضروب یا مقتول کے ورثا کو معاف کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی خاطر ’’ عفو ‘‘ کے بجائے ’’صدقہ‘‘ کے لفظ کا انتخاب کیا گیا ہے ۔ صدقے کے داخلی مفہوم میں تزکیے کا پہلو بھی پایا جاتا ہے کہ صدقہ ، تزکیہ نفس ہے ۔ اس لیے قرآن مجید میں ’عفا اللہ‘ کی ترکیب تو ملتی ہے لیکن ’تصدق اللہ‘ کے بیان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ چونکہ عفو میں تزکیے کا پہلو مفقود ہے اس لیے البقرۃ آیت ۱۷۸ میں قاتل و مقتول کے ورثا کے لیے، معروف و احسان کے الفاظ سے یہ عنصر، اس ماحول کے خاص سیاق میں شامل کر دیا گیا ۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ عنصر معافی دینے کے عمل کا حصہ نہیں بنتا ، بلکہ قدرے معافی (عفی شئ ) دیے جانے کے بعد دخیل ہوتا ہے ۔ لیکن المائدۃ آیت ۴۵ میں تزکیے کا یہ عنصر ، بعد میں شامل نہیں ہوتا بلکہ (صدقہ کی بنا پر ) معافی دیے جانے کے عمل کا حصہ ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ اگر یہاں’’ عفو‘‘ استعمال کیا جاتا، تو کیا صرف دو آپشن کی موجودگی میں ورثا ، قصاص کو ترجیح نہ دیتے؟ قرآن مجید میں ’’ صدقے ‘‘ کے جو مفاہیم وارد ہوئے ہیں ، ان سے آگاہی کے بعد مضروب یا مقتول کے ورثا کے ’’ صدقے ‘‘ کے آپشن کو چننے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں ، جو شارع کی بھی منشا ہے ۔ صدقے کا ایک قرآنی اطلاق ملاحظہ کیجیے : 
وَإِن کَانَ ذُو عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ إِلَی مَیْْسَرَۃٍ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَیْْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرۃ ۰۲/ ۲۸۰)
’’ اور اگر تنگ دست ہو تو اسے مہلت دو آسودگی تک ، اور اس پر بالکل چھوڑ دینا تمہارے لیے اور بھلا ہے اگر تم جانو ‘‘ 
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَیْْرٌ لَّکُمْ کے بیان میں صدقہ کرنے کی صورت میں، نتیجے کے اعتبار سے ’’خیر‘‘ کا ذکر ہے جو ایجابی معنی لیے ہوئے ہے۔ اس کے برعکس فَمَن تَصَدَّقَ بِہِ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہُ کے بیان میں، نتیجے کے لحاظ سے ’’ کفارے‘‘ کا ذکر ہے جو قدرے سلبی معنی لیے ہوئے ہے۔ اس لیے اگر انسان ’’ خیر ‘‘ کے لیے صدقہ نہیں بھی کرتا تو کوئی مضائقہ نہیں ، کہ وہ اخلاقی اعتبار سے مفعولی حالت میں نہیں ( بلکہ صرف بہتری مقصود ہے )۔ اس کے برعکس ’’کفارے‘‘ کے قرآنی مفاہیم شاہد ہیں کہ اخلاقی لحاظ سے انسان کو مفعولیت کی پست سطح سے بلند کرنے کی خاطر ہی کفارے کا حکم دیا جاتا ہے: 
لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّہُ بِاللَّغْوِ فِیْ أَیْْمَانِکُمْ وَلَکِن یُؤَاخِذُکُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الأَیْْمَانَ فَکَفَّارَتُہُ إِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِیْنَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَہْلِیْکُمْ أَوْ کِسْوَتُہُمْ أَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ ذَلِکَ کَفَّارَۃُ أَیْْمَانِکُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُواْ أَیْْمَانَکُمْ کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ (المائدۃ ۰۵/ ۸۹)
’’ اللہ تمہیں نہیں پکڑتا تمہاری غلط فہمی کی قسموں پر ، ہاں ان قسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم نے مضبوط کیا تو ایسی قسموں کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا دینا اپنے گھر والوں کو جو کھلاتے ہو اس کے اوسط میں سے ، یا انہیں کپڑے دینا یا ایک گردن آزاد کرنا ، تو جو ان میں کچھ نہ پائے تو تین دن کے روزے ، یہ کفارہ ہے تمہاری قسموں کا جبکہ تم قسم کھا لو اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو ، اسی طرح اللہ تم سے اپنی آیات بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو ‘‘ 
سورۃ المائدۃ کی آیت ۹۵ کے اس حصے سے بھی کفارے کی نوعیت پر روشنی پڑتی ہے : أَوْ کَفَّارَۃٌ طَعَامُ مَسَاکِیْنَ أَو عَدْلُ ذَلِکَ صِیَاماً لِّیَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِہِ ’’ یا کفارہ دے چند مسکینوں کا کھانا یا اس کے برابر روزے تاکہ اپنے کیے کی پاداش کا مزہ چکھ لے‘‘۔ ان قرآنی اسالیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ ہماری زیرِ نظر آیت (المائدۃ ۴۵)میں صدقے کے بعد کفارے کا تذکرہ ، معاف کر دینے کی انتہائی ترغیب کی علامت بن جاتا ہے ۔ چونکہ کفارہ سلبی معنی لیے ہوئے ہے ، اس لیے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ انسان کو(گناہ گار ہونے کے ناطے ) نفسیاتی طور پر’’ ہائی جیک ‘‘ کیا جا رہا ہے کہ وہ لازماََ معاف کر دے ، اگرچہ اس ترغیب کی تنفیذ کا مکمل انحصار ، مضروب یا مقتول کے ورثا کے اخلاقی شعور پر ہی کیا گیا ہے۔ ( ہائی جیک کی ترکیب اگرچہ منفی معنی کی حامل ہے لیکن چونکہ ایسا اسلوب خود قرآن نے بھی اختیار کیا ہے کہ منفی نوعیت کا لفظ استعمال کر کے ، مخاطب کو پورا تاثر ذہن نشین کرایا جائے ، مثلاً وَمَکَرُواْ وَمَکَرَ اللّہُ وَاللّہُ خَیْْرُ الْمَاکِرِیْنَ (آل عمران ۰۳/ ۵۴)، ا س لیے ہم نے بھی قرآنی ترغیب میں مضمر لزوم کی شدت ملحوظ رکھتے ہوئے ہائی جیک کا لفظ برتا ہے) 
ایک اعتبار سے ، زیرِ نظر آیت کی تکمیل کافی سخت الفاظ سے ہوتی ہے : وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أنزَلَ اللّہُ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں امرِ واقعہ کو ظلم نہیں کہا گیا، بلکہ واقعہ رونما ہونے کے بعد ، اللہ کے دیے گئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے کو ظالم کہا گیا ہے ،اس کا مطلب یہ ہوا کہ قصاص یا مکمل معافی کے بجائے اگر کوئی اور سزا (سخت یا نرم ) تعزیراََ تجویز کی جائے تو وہ قرآن کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوگی ، بلکہ بنفسہٖ ظلم ہو گی، اس لیے منفیت کے لحاظ سے امرِ واقعہ سے بھی بڑھ کر ہو گی ۔ اس کے برعکس سورۃ بنی اسرائیل آیت ۳۳ میں امرِ واقعہ کو ظلم کہا گیا ہے : وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً ’’ جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو ‘‘ ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ المائدۃ آیت ۴۵ کے مطابق قتل کیا گیا شخص ، بہرحال مظلوم نہیں ہے اسی لیے قصاص کو اصول کی سطح پر رکھتے ہوئے بھی ، مکمل معافی کی مکمل ترغیب دی گئی ہے ، جبکہ بنی اسرائیل کی پوری آیت میں ایسی کسی ترغیب کا شائبہ تک نہیں ہے ۔
ایک اور زاویے سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بعض مماثلتوں کے باوجود ، المائدۃ آیت ۴۵ کا اختتام ، البقرۃ آیت ۱۷۸ کے برعکس کسی تخفیف و رحمت کے تذکرے کے بغیر ہی وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أنزَلَ اللّہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ کے الفاظ سے ہو جاتا ہے۔ آخر کیوں؟ اس کا بدیہی جواب یہ ہے کہ یہاں قرآن نے’’صدقہ و کفارہ‘‘ کی مخصوص اصطلاحات کے ذریعے ، انسان کو ذہنی و نفسیاتی لحاظ سے ، مکمل معافی دینے کے لیے تقریباََ پابند کر دیا ہے۔ چونکہ انسان صدقہ کرکے ’’پہل ‘‘کرتا ہے جو نتیجے کے اعتبار سے اس کے لیے کفارہ بن جاتا ہے ، اس لیے صدقہ کے داخلی مفاہیم کو ملحوظ رکھتے ہوئے قرآن نے انسان کے پہل کرنے کے عمل کو سراہا ہے ۔آیت کے اختتام پر ، تخفیف و رحمت کے بیان سے انسان کے اس عمل پر ، جو تزکیہ نفس کی علامت ہے ، توجہ مرکوز نہیں رہ سکتی تھی ۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس آیت میں قرآن نے انسانی اخلاقی شعور کی توقع و تقاضا ، البقرۃ آیت ۱۷۸ سے کہیں زیادہ کیا ہے ۔ 
(جاری)

اسلامی معاشیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز؟ (۲)

محمد زاہد صدیق مغل

اسلامی معاشیات پر اس عمومی تبصرے کے بعد اب ہم مولانا تقی عثمانی صاحب کی کتاب کی طرف چلتے ہیں۔ 

۲) مولانا تقی عثمانی اور اسلامی معاشیات 

مولانا کی کتاب ’’اسلام اور جدید معیشت و تجارت‘‘ کھلے عام لبرل سرمایہ داری کا اسلامی جواز پیش کرتی ہے۔ مولانا معاشیات کو غیر اقداری علم سمجھ کر معاشی مسئلے کے بارے میں یہ تصور قائم کرتے ہیں : 
’’انسانی وسائل محدود ہیں اور اسکے مقابلے میں ضروریات اور خواہشات بہت زیادہ ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لامحدود ضروریات اور خواہشات کو محدود وسائل کے ذریعے کس طرح پورا کیا جائے؟ اقتصاد اور اکنامکس کے یہی معنی ہیں کہ ان وسائل کو اس طریقے سے استعمال کیا جائے کہ انکے ذریعے زیادہ سے زیادہ ضرورتیں پوری ہو سکیں‘ ‘ ۔ (ص ۲۰-۱۹) 
گویا مولانا مانتے ہیں کہ scarcity (لامحدود خواہشات اورمحدود وسائل میں فرق کی وجہ سے پیدا ہونے والی قلت) ایک فطری انسانی کیفیت کا نام ہے اور اصل انسانی مسئلہ ’تزکیہ نفس‘ نہیں کہ جس کے بعد اس کی ضرورتیں اور خواہشات کم ہو جائیں بلکہ یہ ہے کہ وہ کون سا طریقہ کار ہے جسے استعمال کرکے وہ ان وسائل سے زیادہ سے زیادہ خواہشیں پوری کرسکے۔ اس کے بعد مولانا چار بنیادی معاشی مسائل کا ذکر کرتے ہیں جو ان کے خیال میں تمام انسانی معاشروں کو درپیش ہوتے ہیں: 
۱) ترجیحات کا تعین: چونکہ خواہشات لامحدود اور وسائل محدود ہیں لہٰذا یہ طے کرنا ضروری ہے کہ کن خواہشات کو پورا کیا جائے ۔
۲) وسائل کی تخصیص: ذرائع پیداوار کو کن مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے ۔
۳) آمدنی کی تقسیم کار: ذرائع پیداوار کو کام میں لانے کے نتیجے میں جو آمدنی حاصل ہو اسے معاشرے میں کس اصول کے تحت تقسیم ہونا چاہیے۔
۴) ترقی: ایسا کیا جائے کہ جس سے ’’جو پیداوار حاصل ہورہی ہے وہ معیار کے لحاظ سے پہلے سے اچھی ہو اور مقدار کے اعتبار سے اس میں اضافہ ہو، اور کس طرح نئی نئی ایجادات اور مصنوعات وجود میں لائی جائیں تاکہ معاشرہ ترقی کرے اور لوگوں کے اسباب معیشت میں اضافہ ہو‘‘۔ (ص: ۲۱-۲۰) 
اس کے بعد مولانا فرماتے ہیں کہ ’’یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ مسائل اگرچہ فطری مسائل ہیں لیکن ایک نظام کے تحت ان کو سوچنے، ان کا حل تلاش کرنے کی فکر آخری صدیوں میں زیادہ پیدا ہوئی‘ ‘ ۔(ص: ۲۱) یعنی مولانا کے نزدیک نفس امارہ کا غلبہ (خواہشات کی لامحدودیت اور مادی ترقی کے پردے میں چھپی ہوئی دنیا پرستی کی روحانیت) فطری انسانی کیفیت ہے، نیز یہ کیفیت محض موجودہ دور کے انسان کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ ہر دور کے انسان اور معاشروں کے اوپر غالب رہی ہے، لیکن مولانا اپنے سامعین و قارئین کو وہ وجہ نہیں بتاتے کہ آخری دو صدیوں میں ہی کیوں ان مسائل کو بنیادی اہمیت حاصل ہوئی۔ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ’لامحدود خواہشات کی تکمیل‘ کو انسانی فطرت کا جائز اظہار سمجھنے اور ’ترقی‘ کی ذہنیت (rationality) بذات خود انہیں آخری صدیوں کی پیداوار ہے؟ 
ان ’فطری‘ معاشی مسائل کی تعیین کے بعد مولانا ان کے حل کے طور پیش کیے گئے دو نظاموں سرمایہ داری اور اشتراکیت پر عمومی تبصرہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں: 
’’اسلام کوئی معاشی نظام نہیں ہے بلکہ وہ ایک دین ہے جس کے احکام ہر شعبہ زندگی سے متعلق ہیں‘جس میں معیشت بھی شامل ہے۔ لہٰذا قرآن و حدیث نے معروف معنی میں کوئی معاشی فلسفہ یا نظریہ پیش نہیں کیا ‘ ‘ (ص: ۳۸) 
اولاً مولانا کے اس اقتباس سے یوں محسوس ہوتا ہے گویا وہ سرمایہ داری اور اشتراکیت کو محض ’معاشی نظریات ‘ ہی سمجھتے ہیں نہ کہ مکمل طرز زندگی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ داری محض کسی ’معاشی نظریے ‘ کا ہی نام نہیں اور نہ ہی سرمایہ دارانہ عقلیت اور عمل معاشی جدوجہد تک ہی محدود رہ سکتے ہیں، بلکہ یہ ایک نظام زندگی ہے جس کا ایک خاص تصور فرد،معاشرہ اور ریاست ہے اور جو پوری انسانی زندگی پر محیط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں آج کوئی ایسا ملک نہیں جہاں سرمایہ دارانہ معیشت ترقی کررہی ہو لیکن افراد حرص وحسد کا شکار نہ ہورہے ہوں، خاندان تباہ نہ ہو رہے ہوں،زنا عام نہ ہو رہا ہو، ادب اور ثقافت دھوکہ ،غلیظ ترین اور فحش ترین رجحانات کی عکاسی نہ کر رہا ہو، استبداد، ظلم اور جعل سازی عام نہ ہو۔ درج بالا اقتباس سے دوسراتصور یہ ابھرتا ہے گویا مولانا کے خیال میں اسلام کا اپنا کوئی معاشی نظام نہیں بلکہ اس کی چند لگی بندھی تعلیمات ہیں جسے کسی بھی ماوراے اسلام معاشی اصول میں برت کر اسے اسلامی بنایا جاسکتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ آپ کے خیال میں اسلام لبرل سرمایہ دارانہ معیشت کا حامی ہے ۔ چنانچہ مولانا نیوکلاسیکل اکنامکس کے پیش کردہ طلب و رسد کے قوانین کو ’ فطری ‘ مانتے ہونے فرماتے ہیں: 
’’اس کائنات میں بہت سے قدرتی قوانین کار فرما ہیں جو ہمیشہ ایک جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں، انہی میں سے ایک قانون رسد اور طلب کا بھی ہے۔‘‘ (ص: ۲۳)، ’’معاشی مسائل کے حل کے لیے ذاتی منافع کے محرک اور بازار کو قوتوں یعنی طلب و رسد سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہیں‘‘ (ص: ۳۵)، ’’اسلام نے بازار کی قوتوں یعنی طلب و رسد کے قوانین کو فی الجملہ تسلیم کیا ہے، اسی طرح ذاتی منافع کے محرک سے بھی کام لیا ہے‘‘۔ (ص: ۳۹) 
پہلی بات یہ کہ اگر واقعی مولانا کے بقول اسلام رسد و طلب کے ’فطری قوانین ‘ کی تصویب (endorsement) کرتا ہے تو ماننا پڑے گا کہ اسلام موجودہ دور کے معروف نظاموں میں سے ’لبرل سرمایہ داری‘ یا کم از کم ’سوشل ڈیموکریسی‘ ہے اور مولانا کا یہ فرمانا کچھ معنی نہیں رکھتا کہ ’قرآن و حدیث نے معروف معنی میں کوئی معاشی فلسفہ یا نظریہ پیش نہیں کیا ‘ ۔ پھر اگر طلب و رسد کے قوانین فطری ہیں تو ان کے پیچھے جو قوت محرکہ کام کرتی ہیں یعنی انفرادی لذت اور نفع خوری وہ بھی فطری ٹھہریں۔ اتنا ہی نہیں، ان قوانین کو فطری مان کر مولانا بے خبری میں ایڈم سمتھ (Adam Smith) کے یہ مفروضے بھی مان بیٹھے ہیں کہ (۱) معاشرے کی بنیادی اکائی مجرد فرد (ananymous individual)ہے ، (۲) ہر فرد کو بنیادی طور پر خود غرض (self-interested) ہی ہوناچاہیے، (۳) معاشرتی تعلقات کی بنیاد اغراض ہونی چاہئیں، (۴) ذاتی اغراض کی ذہنیت معاشرتی ہم آہنگی کے حصول اور فروغ کا سب سے عمدہ ذریعہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طلب و رسد کے قوانین بیان کرنے کا مقصد ہی لبرل سرمایہ داری کے ان مفروضات کا جواز فراہم کرنا ہے کہ بنیادی معاشرتی اکائی فرد ہے نہ کہ خاندان وغیرہ نیز خود غرضانہ انفرادی ذہنیت کا لازمی نتیجہ معاشرتی ہم آہنگی (social harmony) اور ولفئیر (welfare) ہوتا ہے، یعنی اس فلسفے کے مطابق معاشرے کی مجموعی ولفئیر بڑھانے کا طریقہ یہ نہیں کہ افراد اس کے حصول کی شعوری کوشش کریں بلکہ اس کا سب سے بہترین حصول تب ممکن ہوتا ہے جب ہر فرد صرف اور صرف اپنے ذاتی مقاصد پورے کرنے کی کوشش کرے (self-interestedness reinforces social harmony)جسے سمتھ یوں کہتا ہے : 
"The universal, constant and uninterrupted effort of everyman to better his condition", and, "every individual ... intends only his own gain, and he is led by an invisible hand to promote an end which was not part of his intention. Nor is it always the worse for the society that it was no part of it. By pursuing his own interest he frequently promotes that of the society more effectually than when he really intends to promote it" [Smith (1776): Wealth of Nations, p. 423]
نیز :
"man has almost constant occasion for the help of his brethren, and it is in vain for him to expect it from their benevolence only. (It) will be more likely to prevail if he can interest their self-love in his favor, and show them that it is for their own advantage to do for him what he required of them....We address ourselves not to their humanity but to their self-love..." [Wealth of Nations: p. 14]
مفہوم اوپر بیان کردیا گیا۔ اگر ہر فرد اپنے فائدے کا سب سے بہترین جاننے والا ہے نیز ان کی ذاتی اغراض کا حصول ہی معاشرتی تشکیل کا سب سے بہترین طریقہ ہے تو پھر کسی ریاست، مولوی یا چرچ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ افراد کی ذاتی اغراض کے حصول کی جدوجہد میں رکاوٹ بنیں اور ذاتی اغراض کا حصول ہی ہر عمل کے جواز کی بنیاد ٹھہرتا ہے : 
"Greed of one man is considered to be the adequate check on that of another and universal greed can work out the highest attainable good for all. Hands off, then, state, church, etc and let selfishness have its perfect work" [Clark (1877): p. 712] 
"Nature has placed mankind under the governance of two sovereign masters, pain and pleasure. It is for them alone to point out what we ought to do as well as to determine what we shall do" [Bentham (1789)]
مزے کی بات یہ ہے کہ مولانا کے الفاظ بھی ان سے ملتے جلتے ہی ہیں: 
’’(مارکیٹ میں) ہر شخص اگرچہ اپنے منافع کی خاطر کام کررہا ہے لیکن رسد و طلب کی قدرتی طاقتیں اسے مجبور کررہی ہیں کہ وہ معاشرے کی طلب اور ضرورت کو پورا کرے‘‘ (ص: ۲۳)
حیرت ہے کہ نفس پرستی کی اس روحانیت کو مان لینے کے بعد مولانا کے پاس ’اصلاحی خطبات‘ بیان فرمانے اور چھپوانے کا کیا جواز باقی رہ جاتاہے کیونکہ یہ مان لینا کہ طلب و رسد کے قانون ہی یہ طے کرتے ہیں کہ کیا چیز پیداکی جائے اور کیا نہیں نیز انہیں سے قدر کا تعین ہوتا ہے (ص : ۲۳) یہ مان لینے کے مترادف ہے کہ قدر کا تعین انسانی خواہشات سے ہوتا ہے، نیز فیصلوں کی بنیاد آزاد انسانی خواہشات ہونی چاہئیں ۔ مولانا کے خیال میں سرمایہ داری کا بنیادی مقدمہ اور ہدف عین حق ہیں، البتہ اسے حاصل کرنے میں چند غلطیاں سر زد ہو گئیں: 
’’سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی فلسفے میں اس حد تک تو بات درست تھی کہ معاشی مسائل کے حل کے لیے ذاتی منافع کے محرک اور بازار کی قوتوں یعنی رسد وطلب سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہیں، لیکن غلطی یہاں سے لگی کہ ایک فرد کو زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے حصول کی بے لگام آزادی دی گئی جس میں حلال و حرام کی کوئی تفریق نہیں تھی نہ ہی اجتماعی فلاح کی طرف خاطر خواہ توجہ تھی۔ چنانچہ اس کے لیے ایسے طریقے اختیار کرنا بھی جائز ہوگیا جن کے نتیجے میں وہ زیادہ سے زیادہ دولت مند بن کر بازار پر اپنی اجارہ داری (monopoly)قائم کرلے ‘‘۔ (ص: ۳۵) 
مولانا کے خیال میں تعین قدر کا فطری نظام وہ ہے جسے معاشیات دان perfect competition (مکمل مسابقت)کہتے ہیں۔ (ص ۳۵) خیال رہے کہ معاشیات میں perfect competition سے مراد ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں (۱) ہر فرد ایسامجرد انسان ہوتا ہے جس کی خواہشات لامحدود ہوتی ہیں، (۲) ہر کسی کا مقصد اپنی اپنی اغراض کا حصول ہوتا ہے، (۳) واحد شے جس کی بنیاد پر فرد کوئی فیصلہ کرتا ہے وہ نفع خوری و سرمائے کی بڑہوتری کے امکانات ہیں۔ (تفصیل کیلئے معاشیات کی کوئی بھی اچھی درسی کتاب دیکھ لیجئے) مولانا کے نزدیک سرمایہ داری کے بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر اسے کھلی چھٹی دے دی جائے تو اسکے نتیجے میں اجارہ داریاں قائم ہوجاتی ہیں اور قدر کے تعین کا فطری نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ (ص: ۳۶) مزید یہ کہ سود اور سٹے کا مسئلہ بھی یہ ہے کہ اس سے معیشت کا فطری توازن خراب ہوتا ہے اور اجارہ داریاں قائم ہوتی ہیں۔ (ص : ۳۵) گویا سرمایہ داری کا مسئلہ اس کے مقاصد نہیں بلکہ ان کے حصول کا طریقہ ہے جس سے اجارہ داری جنم لیتی ہے اور اجتماعی مصالح کا کما حقہ لحاظ نہیں ہوپاتا۔ انہی معنی میں مولانا سوشل ڈیموکریٹ نظریات کے حامی بن جاتے ہیں کیونکہ سرمایہ داری پر ان مفکرین کے بنیادی اعتراضات بھی یہی ہیں کہ اسے کھلی چھٹی دینے سے اجارہ داریاں بنتی ہیں، تقسیم دولت کا نظام خراب ہوتا ہے، اجتماعی مصالح کا حصول مشکل ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ نفع خوری کے عمل پر حد بندیاں (regulations)لگنی چاہئیں۔ مولانا اور سوشل ڈیموکریٹ مفکرین میں فرق نظریات (approach) کانہیں بلکہ چند حد بندیوں کی نوعیت (nature of regulations)کا ہے، جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ : 
’’ اسلام نے بازار کی قوتوں کو فی الجملہ تسلیم کیا ہے، اسی طرح ذاتی نفع کے محر ک سے بھی فی الجملہ کام لیا ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں اس محرک کو بالکل آزاد چھوڑ دیا گیا ہے جسکے نتیجے میں خرابیاں پیدا ہوئیں۔ اسلام نے ... تجارتی اور معاشی سرگرمیوں پر کچھ ایسی پابندیاں عائد کردیں کہ ان پر عمل کی صورت میں ذاتی نفع کا محرک ایسے غلط رخ پر نہیں چل سکتا جو معیشت کو غیر متوازن کرے‘‘۔ (ص: ۴۰)
مولانا کے نزدیک نفع خوری پر دیگر معاشی حد بندیوں کے علاوہ حرام اشیا کی پیداوار پر قدغن، سفلی جذبات بھڑکانے والے کاروباری طریقوں پر پابندی وغیرہ بھی لگنی چاہئے۔ (ص: ۴۰) گو کہ مولانا یہ بات مانتے ہیں کہ ’’معاشی سرگرمیاں اور ان سے حاصل ہونے والے مادی فوائد انسان کی زندگی کا منتہاے مقصود نہیں ہے‘‘ (ص: ۴۲) لیکن ان معاملات میں ’’شریعت نے کوئی وجوبی حکم (mandatory order) نہیں دیا‘‘ (ص: ۴۲) جس کامطلب یہ ہوا کہ وسائل کی تخصیص و تقسیم کار اصولاً نفع خوری کے جذبات کے ماتحت وقوع پزیر ہوتی رہیں تو بھی اسلامی ریاست کو ان محرکات کے فروغ پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ 
مولانا کے نزدیک اسلامی تعلیمات پر عمل کا فائدہ اجارہ داریوں کے خاتمے اور ترقی کی صورت میں ظاہر ہوگا، چنانچہ پیدائش دولت پر تینوں نظاموں (سرمایہ داری، اشتراکیت و اسلام) کے مجموعی اثرات پر بحث کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں : 
’’ذاتی منافع کے محرک پر حلال و حرام کی پابندی نہ ہونے کی وجہ سے سود، قمار، سٹہ وغیرہ سب سرمایہ دارانہ نظام میں جائز ہیں، حالانکہ یہ وہ چیزیں ہیں کہ جو معیشت کے فطری توازن میں بگاڑ پیدا کرتی ہیں جس کا ایک مظاہرہ یہ ہے کہ ان کے نتیجے میں بکثرت اجارہ داریاں قائم ہو جاتی ہیں‘‘ (ص: ۳۶)، ’’اسلام نے ایک طرف ذاتی منافع کے محرک کو تسلیم کیا جو پیداوارکی کمیت اور کیفیت میں اضافے کا موجب ہوتا ہے لیکن دوسری طرف اس پر وہ پابندی عائد کردیں جو اسے ان معاشی اور اخلاقی خرابیوں سے باز رکھ سکے جو سرمایہ دارانہ نظام کا لازمی خا صہ ہے۔ اس کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام میں سود کی اجازت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کسی کاروبار کو سرمایہ فراہم کرنے والا کاروبار کی بہبود سے قطعی لاتعلق رہتا ہے، اس کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ کاروبار کو فائدہ ہوا یا نقصان کیونکہ اس کو ہر صورت میں معین شرح سود ملنی ہے۔ اس کے بر خلاف اسلام میں چونکہ سود حرام ہے اس لیے کسی کاروبار کو سرمایہ فراہم کرنے کی بنیاد شرکت و مضاربت پر ہی ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں سرمایہ فراہم کرنے والے کی پوری خواہش اور کوشش یہ ہوگی کہ جس کاروبار میں اس نے سرمایہ لگایا ہے وہ ترقی کرے اور اس سے نفع حاصل ہو، ظاہر ہے کہ اس سے پیدائش دولت پر بہتر اثرات قائم ہوں گے‘‘۔ (ص: ۵۱) 
گویا مولانا کے خیال میں مضاربت اور مشارکت سے ترقی سودی کاروبار کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے اور نفع خوری کے جذبات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ 
لبرل سرمایہ داری کے اس فریم ورک کو فطری اور اسلامی ثابت کرنے کے بعد مولانا تھوک کے حساب سے سرمایہ دارانہ اداروں کی اسلام کاری اور اسلامی سرمایہ داری کا لائحہ عمل کچھ اس طرح وضع فرماتے ہیں: 
  • وقف، بیت المال اور ترکہ جیسے بغیر نفع (non-profit) پر چلنے والے اسلامی اقدارکے محافظ اداروں پر قیاس کرتے ہوئے نفع8 خوری کے تصور پر مبنی ’کمپنی بطور شخص قانونی‘ (legal personality) کو جواز فراہم کیا گیا ۔ آپ فرماتے ہیں کہ شخص قانونی کی صرف اصطلاح نئی ہے، اس کا تصور اسلام میں پہلے سے موجود ہے۔ (ص: ۸۱) 
  • کمپنی کے محدود ذمہ داری (limited liability) کے کا روبار کا جواز مضاربت سے فراہم کردیا گیا۔ (ص: ۸۲-۸۱) 
  • شئیرز کی خریدوفروخت کا جواز اس مفروضے پر فراہم کیا گیا کہ شئیرز کی پشت پر کمپنی کے املاک و اثاثہ جات ہوتے ہیں۔ شئیرز کے منافع کا وجہ جواز یہ بیان فرمایا گیا کہ یہ کمپنی کے غیرزری (non-financial) اثاثہ جات کی مالیت ظاہر کرتا ہے۔ (ص: ۸۷-۸۵)
  • سودی کاروبار میں شریک کمپنیوں کے شئیرز کی خرید و فروخت کی حلت اس قید کے ساتھ فراہم کی گئی کہ ’’ شئیر ہولڈر سالانہ جمعیت (A.G.M.) میں سود کے خلاف آواز اٹھا دے‘‘ ، اللہ اللہ خیر سلا ۔ اور تو اور، سود کے خلاف یہ براء ت اس صورت میں بھی کفایت کرے گی جب یہ معلوم ہو کہ یہ بالکلیہ برائے نام ہی ہے۔ (ص: ۸۸) 
  • سودی کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے شئیرز پر ملنے والے منافع (dividend) کی تطہیر کا طریقہ یہ تجویز کیا گیا کہ اس میں سے کچھ رقم ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردی جائے۔ (ص: ۸۹) 
  • سٹے پر مبنی لین دین اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ شرعی شرائط کا خیال رکھا جائے کیونکہ تخمینہ بازی (speculation) بذات خود حرام نہیں۔ (ص: ۹۰) 
  • بینکاری نظام پر قائم شدہ فرضی نظام زر کی تخلیق (fictitious money) اور بینک زر (bank money)کو زر اعتباری سمجھ کر قبول کرلیا گیا ہے 
  • اس کے بعد مولانا مالیات کا ہو بہو وہی اسلامی نظام تجویز کرتے ہیں جو نجات اللہ صدیقی، عمر چھاپرا اور پروفیسر خورشید احمد وغیرہ نے بیان فرمایا ہے۔ (ص: ۱۵۸-۱۲۶) موجودہ نظام زر اور بینکاری کو منہدم کرنا تو ایک طرف مولانا کے خیال میں موجودہ مالیاتی نظام کو سود سے مکمل پاک کیے بغیر بھی اسلامی بینکاری کرنا ممکن ہے ۔
  • مولانا کے خیال میں اسلامی بینکاری کی کامیابی کے امکانات روشن ہونے کی امید یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ بھی اس کی تائید کررہے ہیں ۔ (ص: ۱۷۱) 

مولانا کی کتاب پر ایک نظر 

قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ مولانا تقی عثمانی صاحب کا اسلامی معاشیات و بینکاری کا تصور (vision) اور حکمت عملی ہو بہو وہی ہے جو پچھلے سیکشن میں بیان کی گئی، لہٰذا پچھلے سیکشن میں کیا گیا تمام تبصرہ اس پر صد فیصد صادق آتا ہے۔ یہاں ہم چند مزید باتوں کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ 

علم معاشیات کا ناقص تصور: 

سب سے اہم بات یہ کہ مولانا کا علم معاشیات کا یہ تصور ہی غلط ہے کہ یہ کسی آفاقی انسانی مسائل کا ٹیکنکل حل پیش کرتی ہے، نیز اس کا کام اخلاقیات سے ماورا ہوکر حقائق کا بیان ہے، یعنی مولانا اسے مثبت سائنس (positive science) سمجھتے ہیں جس کا کام بس حقائق کو جوں کا توں بیان (describe)کردینا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشیات ایک اخلاقی سائنس (moral or normative science)ہے جس کا مقصد حرص و حسد کی اخلاقیات کا جواز فراہم کرنا ہے ، جیسا کہ اس کے بنیادی مقدمات (کہ انسان کی خواہشات لا محدود ہونی چاہئیں، عقلمندی کا معیار دنیا سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہونے کے لیے سرمائے کی بڑہوتری ہے وغیرہ ) سے عین واضح ہے۔ علم معاشیات کے بارے میں یہ غلط تصور ہی اسلامی ماہرین معاشیات کی تمام تر مشکلات کا اصل پیش خیمہ ہے۔ 

کل (whole)کو نظر انداز کرنے کی غلطی : 

یہاں اسلامی بینکاری پر علماے کرام کے اس اعتراض کا ذکر فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ موجودہ بینکاری اس لیے اسلامی نہیں کیونکہ اس میں کیے جانے والے کاروبار کی جزوی تفصیلات شرعی تقاضوں کے مطابق نہیں، یعنی علماے کرام کو اسلامی بینکاری کی اسلامیت پر اعتراض اس لئے نہیں کہ یہ جن مقاصد کا حصول ممکن بناتی ہے وہ غیر اسلامی ہیں ، بلکہ یہ ہے کہ اس کاروبار کا طریقہ کار (methodology) شرعی اصولوں (مثلاً شرکت و مضاربت) پر منطبق نہیں ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں ان کے تجزیے کا نقطہ ماسکہ (unit of analysis) نظام نہیں بلکہ جزوی تفصیلات ہیں۔ ان کی تنقید کا حاصل یہ ہے کہ اگر بینکاری نظام وغیرہ کو شرکت و مضاربت اور دیگر شرعی اصولوں کا پابند بنا لیا جائے تو پھر انہیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ اسلامی بینکاری کی جزوی تفصیلات شرعی اصولوں کے مطابق ہوبھی جائیں، تب بھی یہ ہرگز اسلامی نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ جن مقاصد (لذت پرستی و نفع خوری کی ذہنیت کا عموم) کے حصول کا ذریعہ بنتی ہے، وہ صد فیصد غیر اسلامی ہیں۔ سرمایہ داری کا مسئلہ یہ نہیں کہ اسکا طریقہ کار درست نہیں بلکہ یہ ہے کہ جس ہدف (عمل تکاثر) کو یہ فرد، معاشرے اور ریاست کا مقصد وجود قرار دیتی وہ عین شر ہے، لذت پرستی و نفع خوری کے جن احساسات کو یہ تعقل کی بنیاد قرار دیتی ہے، وہ عین جہالت ہیں اور جن کے عموم کے نتیجے میں بلا شک وشبہ زیادہ مادی ترقی ممکن ہوتی ہے لیکن اس معاشرے میں زندگی گزارنے کے بعد ہر فرد اپنے لیے جہنم کا راستہ آسان بنالیتا ہے۔ کل کو نظر انداز کر کے جز پر فتوے دینے کی غلطی واضح کرنے کیلئے ہم ایک مثال بیان کرتے ہیں۔ فرض کریں کسی معاشرے میں فحاشی و بدکاری عام ہوجائیں اور کوئی ’خداترس‘ عالم لوگوں کو ’بدکاری کے گناہ سے بچانے ‘ کے لیے ’عموم بلویٰ‘ کو دلیل بنا کر ’اسلامی قحبہ خانے‘ بنائے جس کا نقشہ فرض کریں کچھ ایسا ہو: 
  • وہاں بڑی تعداد میں دھندہ کرنے والی عورتوں کو جمع کرلے اور لوگوں سے کہے کہ مباشرت کرنے سے پہلے ’نکاح‘ کی رسم ادا کرکے ’مہر ‘ کی رقم طے کرلو ،
  • نکاح کرانے کے لیے شرعی قاضیوں اور گواہوں کا انتظام موجود ہو ،
  • مباشرت کے بعد شوہر بیوی کو طلاق دے کر مہر کی رقم ادا کردے ،
  • چونکہ عورت کے لیے ہر طلاق کے بعد نئے نکاح کی راہ میں عدت کی طویل مدت حائل ہوگی، لہٰذا یہاں غامدی صاحب کے فتوے پر عمل کرلے کہ اگر میڈیکل ٹیسٹ سے ثابت ہوجائے کہ حمل نہیں ٹھہرا تو عدت ختم ہوجائے گی، لہٰذا اسلامی قحبہ خانے میں بہترین لیبارٹری بھی بنوا لے ۔
قریہ قریہ ’اسلامی قحبہ خانے ‘ بنانے کے بعد یہ نقشہ وہ علماے کرام کے سامنے پیش کرکے کہے کہ بتائیے اس کا کون سا ’جز‘ اصول شریعہ کے خلاف ہے اور علما بجائے اسے ایک ’کل‘ کے جزواً جزواً پرکھ کر یہ کہنے لگیں کہ ’میاں یہاں عدت گزارنے کا طریقہ فقہ حنفی کے مطابق نہیں‘ یا ’گواہ صفت عدالت سے متصف نہیں ‘ وغیرہ، تو ایسے طریقہ اجتہاد کو کیا کہا جائے گا؟ کیا عدت گزارنے کے طریقے کو درست کرلینے سے واقعی یہ ’اسلامی قحبہ خانے‘ کہلانے کے مستحق ٹھہریں گے اور ہم خلق خدا کو ’غیر اسلامی کوٹھوں‘ کے بجائے ’اسلامی قحبہ خانے‘ جانے کی ترغیب دلائیں گے اورخود ان میں کنسلٹنٹ بھرتی ہونے کی فکر کرنے لگیں گے کہ دیکھیں کہیں یہ قحبہ خانے ’غیر شرعی‘ اصولوں پر نہ چل نکلیں؟ ہو سکتا ہے کسی کو ’اسلامی قحبہ خانے‘ کی ہماری یہ مثال محض ایک ذہنی عیاشی لگتی ہو، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ مصر کے فقیہ العصر علامہ یوسف قرضاوی صاحب نے نکاح المسیار کی اجازت دے کراسلامی قحبہ خانے بنانے کی راہ ہموار کردی ہے۔ اب ضرورت ہے تو صرف ہمت کی۔ پس یاد رہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے انہدام کے لیے اس وقت تک کوئی مثبت اسلامی حکمت عملی تیار نہیں کی جاسکتی جب تک تجزیے کا نقطہ ماسکہ جزوی تفصیلات نہیں بلکہ ’نظام‘ نہ بن جائے۔ مقصدیت کسی شے کی کلیت (totality) میں ہوتی ہے، کسی کل کو اس کے اجزا میں توڑ کر دیکھنے سے اس کی مقصدیت نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ (اس نکتے کی مزیدتفصیل آگے آرہی ہے)۔ 

لذت پرستی و نفع خوری کو فطری فرض کرنے کی غلط فہمی: 

تمام الہامی مذاہب بشمول اسلام ان مفروضات کو کلیتاً رد کرتے ہیں جنہیں مولانا سمیت دیگر اسلامی ماہرین معاشیات ’انسانی فطرت‘ سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔ لذت پرستی اور نفع خوری بے شک ان معنی میں تو انسانی فطرت ہیں کہ انسان میں جتنی صلاحیت احسن تقویم بننے کی ہے اتنی ہی اسفل سافلین کی بھی ہے، لیکن ان معنی میں نہیں کہ ایسا کرنا ہی کوئی معیاری یا طبعی (normal)انسانی کیفیت ہے۔ نفس امارہ ہر گز بھی کوئی معیاری نفسی کیفیت نہیں، البتہ مغربی علمیت میں نفس امارہ ہی فطری نفسی کیفیت مانی جاتی ہے کیونکہ مغرب خیر کے جس تصور پر یقین رکھتا ہے، وہ نفس امارہ ہی کا دوسرا نام ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغربی علوم میں قانون اور معاہدے (contract) جیسے تصورات تو ملتے ہیں لیکن گناہ کا ذکر سرے سے مفقود ہے۔ گناہ کیا ہے؟ یہ کہ انسان اپنے ارادے کو خدا کی مرضی پر غالب کردے، مغرب میں خیر عین اسی چیز کا نام ہے کہ انسان ارادہ خدا وندی سے علی الرغم اپنے لیے جو چاہنا چاہے، چاہ سکے۔ ظاہر ہے خیر کے اس تصور پر ایمان لانے کے بعد گناہ نامی کوئی شے باقی نہیں رہتی۔ الہامی مذاہب جسے گناہ کہتے ہیں، مغرب میں عین اسی شے کو اصل خیر اور تعقل کہتے ہیں۔ اسلام نہ تو فرد کی خودمختاریت (sovereignty) کا قائل ہے جس کا حصول علم معاشیات کا اصل مقصد ہے اور نہ ہی خواہشات کے لامحدود ہونے کو جائز قرار دیتا ہے۔ اس کی تعلیمات میں تعقل کی بنیاد حرص وحسد نہیں بلکہ زہدوقناعت کی ذہنیت کا معاشرتی عموم ہے۔ معاشی عمل کی بنیاد لامحدود خواہشات کی تکمیل ، نفع خوری اور ترقی نہیں بلکہ حصول رضائے الہٰی اور اخروی کامیابی ہے۔ ریاست کا کام سرمایے میں بڑھوتری کا لائحہ عمل طے کرنا نہیں بلکہ ایسی ادارتی صف بندی فراہم کرنا ہوتا ہے کہ معاشی عمل کے ذریعے مذہبی اقدار کا فروغ ظہور پزیر ہو اور لوگ زہد و قناعت کے خوگر ہوسکیں۔ اسلامی ماہرین معاشیات کے مقابلے میں امام غزالیؒ لذت پرستی و نفع خوری کا مکمل رد فرماتے ہیں ۔ چنانچہ عمل صرف کے مقصد utility maximization (یعنی لذت پرستی و حرص و حسد) کے بارے میں امامؒ فرماتے ہیں : 
’’(شیطان) انسانی قلب کو غضب اور شہوت کی حالت میں قابو کرتا ہے ... پیٹ بھر کھانا خواہ وہ حلال اور صاف ستھرا ہی کیوں نہ ہو شیطان کے مدخل ہونے کا بڑا راستہ ہے اس لیے کہ شکم سیری سے خواہشات کو تقویت ملتی ہے اور خواہشات شیطان کا ہتھیار ہیں‘‘ (اح: ج ۳، ص ۶۲)۔ ’’دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے، دنیا کی محبت کا اثر یہ ہے کہ دل دنیا سے خوش ہو‘‘۔ (اح: ج ۴، ص ۶۷)، ’’ شیطان کا کام خواہشات بھڑکانہ ہے...خواہشات لامحالہ ناقابل تسکین شے ہیں اور بالآخر انسان کا ایمان برباد کرکے چھوڑتی ہیں‘‘ (اح: ج ۳، ص ۶۷)، ’’خدا تک پہنچنے کا واحد راستہ خواہشات کی مخالفت ہے‘‘ (اح:ج۳، ص ۱۱۱)، ’’آخرت کی سعادت حاصل کرنے کا صرف یہی ذریعہ ہے کہ نفس کو خواہشات کی اتباع سے روکا جائے‘‘ (اح: ج ۳: ص ۱۱۲)۔ 
امام صاحبؒ ’مباحات سے مزے اٹھانے کی حلت‘ ثابت کرنے کے فلسفے پر فرماتے ہیں: 
’’یہ (فلسفہ) غلط ہے اصل حقیقت ان لوگوں پر منکشف ہوئی جنہوں نے دنیا کی محبت کو تمام گناہوں کی جڑ کہا... ضرورت سے زائد مباح چیز مباح ہونے کے باوجود دنیا میں شامل ہے اور انسان کو اس کے خالق سے دور کرتی ہے...نفس کی اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے مباحات کی لذت سے نہ روکا جائے، اس لیے کہ انسان مباحات کی لذت سے تجاوز کرکے محظورات میں مبتلا ہوجاتا ہے...اور یہ اس کی ادنی آفت ہے... اس کی ایک آفت یہ ہے کہ نفس دنیا کی لذتوں سے خوش ہوتا ہے اور ان لذتوں میں وہ اپنے لیے سکون تلاش کرتا ہے‘‘۔ (اح: ج ۳: ص ۱۱۵-۱۱۴)۔ 
اسی طرح نفع خوری اور عمل تکاثر کے بارے میں امام صاحب ؒ فرماتے ہیں: 
’’وہ شخص جو مال جمع کرنے کو اپنا مقصد بناتا ہے ملعون ہے‘‘ (ک: ص ۲۰۰)، ’’وہ شخص جو بازار صرف اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لییجاتا ہے حقیقی مقصد (نجات) کو نہیں پا سکتا ‘‘ (ک: ص ۲۲۴-۲۲۱)، ’’حسد (یعنی دنیاوی مسابقت کا جذبہ) نفرت و بغض سے پیدا ہوتا ہے، حسد انسان کو ہلاک کرڈالتا ہے‘‘ (ک: ص ۴۰۲)، ’’حب مال بڑی آفت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’مال اور شہرت کی محبت اسی طرح قلب میں نفاق پیدا کرتے ہیں جیسے پانی فصل اگاتا ہے‘، نیز ’دو بھوکے بھیڑیے بکریوں کے ریوڑ کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے کہ جتنا نقصان حب مال اور شہرت ایک انسان کے ایمان کو پہنچاتے ہیں‘‘ (ک: ص ۴۱۵)۔ ’’مال (سرمایہ) معصیت کا دروازہ کھولتا ہے اور قلب میں خواہشات و لذات کو بھڑکاتا ہے، صاحب مال کے لیے تعیشات سے بچنا اور صبر کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔‘‘ (ک: ص ۴۱۹-۴۱۸)
ان تعلیمات کو بار بار پڑھیے اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجیے کہ اسلامی معاشیات اس میں کہاں فٹ ہوتی ہے۔ 
مولانا کا کاروبار کو نفع خوری کے ساتھ جوڑنا نہ صرف یہ کہ اسلامی تعلیمات بلکہ انسانی تاریخ کے بھی خلاف ہے کیونکہ سرمایہ داری سے پہلے دنیا کی کسی بھی تہذیب میں پیداواری عمل کا مقصد نفع خوری نہ تھا ۔ تاریخی تجزئیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ طلب و رسد کے قوانین صرف ان معاشروں میں عمل پزیر ہوتے ہیں جہاں عمل پیداوار قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کے تابع ہو، اور روایتی معاشروں میں ایسا ہر گز نہیں ہوتا کیونکہ وہاں پیداوار کا بنیادی یونٹ فرم (firm)نہیں بلکہ خاندان ہواکرتا ہے اور پیداوار کا مقصد ایک مخصوص علاقے کے لوگوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل ہوتا ہے نہ کہ زائد قدر (surplus value) کی پیداوار۔ مزید یہ کہ رسد و طلب کو فطری قوانین کہنے کا فلسفہ بھی غلط در غلط ہے کیونکہ انسانی معاشروں میں کچھ ’فطری قوانین ‘ ماننے کا مطلب یہ ہے کہ انسانیت کے اظہار کا کوئی دائرہ ایسا بھی ہے جو ہر قسم کی مابعد الطبعیات سے ماورا ہے۔ ظاہر ہے علمی طور پر یہ ایک غلط دعویٰ ہے کیونکہ انسانی معاشروں میں ایسا کوئی ’طبعی قانون ‘ کارفرما نہیں ہوتا جو ہر قسم کے انسانی مقاصد سے ما وراء ہو، یعنی انسانی معاشرہ طبعی کائینات (physical world) کی مانند نہیں جہاں انسانی ارادے و مقصد سے ماوراء بھی چند قوانین نافذ ہیں۔ ایڈم سمتھ یا دیگر ماہرین معاشیات جو یہ کہتے ہیں کہ طلب و رسد کو ئی فطری قوانین ہیں نیز افراد کے میل جول کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ نظام خود بخود وقوع پزیر ہوجاتا ہے ایک سفید جھوٹ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ قوانین صرف سرمایہ دارانہ معاشروں میں وقوع پزیر ہوتے ہیں اور چونکہ ماہرین معاشیات سرمایہ داری ہی کو فطری نظام مانتے ہیں لہٰذا ان کے نزدیک رسد و طلب فطری قوانین ہیں۔ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کے طرز زندگی میں حصول لذت اور نفع خوری کا رویہ نظر آتا ہے ؟ کیا حضرت عثمانؓ کے کاروبار کا مقصد نفع خوری یا زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل تھا؟ کیا کاروبار میں کامیابی کے بعد حضرت عثمانؓ نے اپنا اور دیگر صحابہ کرام کا ’معیار زندگی‘ بلند کرنے کی کوئی مہم چلائی؟ اگر معاذاللہ ان کے کاروبار کا مقصد نفع خوری اور خواہشات کی تکمیل ہی ہوتا تو یقیناًوہ اپنے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے عمدہ ہاتھی وغیرہ بطور سواری استعمال کرنا شروع کردیتے، صحابہ کرام کو قسطوں پر قرضے دے کر بہترین گھوڑے اور اونٹ فراہم کرنے کا کاروبار جماتے اور یوں غریب صحابہ کے روز گار کا بندوبست فرماتے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، آج بھی گاؤں دیہات میں رہنے والے لوگ ذاتی لذت پرستی ، نفع خوری اور حرص وحسد کی ذہنیت سے کوسوں دور ہیں۔ اسلامی معاشیات کی ایک اہم غلطی انسانی زندگی کو مختلف حصوں میں بانٹ کر دیکھنا ہے ۔ چنانچہ ایک طرف تو مولانا اپنے ’ا صلاحی خطبات ‘ میں فرد کو اپنی ذاتی زندگی میں انہیں اقدار کو اختیار کرنے کا وعظ فرماتے ہیں جن کی تلقین صوفیاے کرام نے کی، لیکن وہی فرد جب معاشی تگ و دو کرنے لگتا ہے تو اس کے لیے ان اخلاق حمیدہ سے بالکلیہ متضاد اخلاق اپنانے کا جواز فراہم کرتے ہیں، فیا للعجب ۔ 
(جاری)

مکاتیب

ادارہ

(۱)
حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی!
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ سے مسلسل فیض یاب ہو رہا ہوں۔ اللہ کریم آپ کی توانائیوں اور دینی وعلمی خدمات میں مزید برکت مرحمت فرمائے۔ آمین۔ دینی حلقوں میں پائے جانے والے فکری جمود کوتوڑنے کا عزم لائق تحسین ہے۔ اس سلسلے میں مختلف الخیال دینی وعلمی حلقوں کے افکار کی ’’الشریعہ‘‘ میں اشاعت قابل قدر ہے۔ اللہ کرے کہ یہ اقدام ’’تلذذ بالمسائل‘‘ کے بجائے قارئین ومعاونین میں دوسروں کی رائے صبر وتحمل کے ساتھ سننے اور معقول آرا پر غور وفکر کا ذریعہ بن جائے۔ 
عصر حاضر میں دینی مدارس کے اساتذہ کی فنی تربیت بہت ضروری ہے۔ یہ امر بہت حوصلہ افزا ہے کہ دینی حلقوں خصوصاً وفاق المدارس نے اس سلسلے میں کچھ اقدامات کیے ہیں۔ آپ نے ’’الشریعہ ‘‘ میں بھی اس سلسلے میں گاہے گاہے کچھ رپورٹیں اور مواد شائع کیا ہے، لیکن یہ امر محتاج بیان نہیں کہ ان سرگرمیوں کی حیثیت محض ابتدائی نوعیت کی ہے جو بالعموم اعتراف ضرورت اور ترغیبی وعظ سے زیادہ نہیں۔ 
یہ امر آپ سے مخفی نہیں کہ موجودہ دور میں فن تعلیم باقاعدہ ایک سائنس کامقام رکھتا ہے۔ چنانچہ اس میدان میں رسمی نظام تعلیم میں ہونے والی پیش رفت سے استفادہ کرتے ہوئے اسباق کی تیاری، پیشکش، سوالات کی ترتیب وتیاری، اسباق کا اعادہ، جائزہ( Evaluation) اور نظام امتحانات میں کافی بہتری لائی جا سکتی ہے تاکہ تدریس زیادہ دلچسپ اور موثر ہو، نظام امتحانات جملہ مقاصد تدریس (خصوصاً درسی مواد پر عبور اور رویے میں تبدیلی یعنی تعمیر سیرت وکردار) بشمول تلامذہ میں پیدا ہونے والی فکری اور تخلیقی صلاحیتوں کا قرار واقعی جائزہ لے سکے اور معلومات وکردار ی تبدیلیوں کی پیمائش بھی کی جا سکے۔ اس سلسلے میں ایسے ماہرین تعلیم جو رسمی علوم میں مہارت کے ساتھ ساتھ دینی علوم خصوصاً مدارس دینیہ میں مروج تعلیمی نظام سے کما حقہ آگاہی رکھتے ہوں، کے علوم، تجربات اور آرا سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
واضح رہے، میری ان گزارشات کا ہر گز یہ مدعانہیں کہ خدانخواستہ دینی مدارس کے نصابات اور تشخص میں کوئی بنیادی تبدیلی لائی جائے، بلکہ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تدریس زیادہ موثر، بامقصد اور نتیجہ خیز ہو اور تشخص مزید مستحکم اور معتبر ہو۔ یہی روایت اور تشخص جاری نسلوں کی اسلامیت کا رہن ہے۔ 
امید ہے میری ان معروضات پر توجہ فرمائیں گے اور وفاق المدارس کے ذمہ داران کو بھی دعوت دیں گے۔ 
ابوطاہر 
۴۴/۱ ، کورنگ ٹاؤن
اسلام آباد 
(۲)
محترم مدیر صاحب
السلام علیکم
اگست کے شمارے میں شائع ہونے والے مضمون ’’مذہبی رویے۔ چند اصلاح طلب امور‘‘ میں تبلیغی جماعت پر کچھ غیر حقیقت پسندانہ اعتراضات کیے گئے ہیں۔ 
شکیل احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ’’تبلیغی جماعت میں دین کے صرف ظاہری فارم کو بنانے پر زور دیا جاتا ہے نہ کہ اندرونی انسان سازی پر۔‘‘ مجھے ان کے اس جملے پر حیرت ہو رہی ہے۔ تبلیغی جماعت کے لوگوں کا نمازوں کے ذریعے اللہ پاک سے مسئلے حل کروانا، تہجد کی تنہائی میں اللہ کے حضور رونا، صبح وشام کی تسبیحات کا اہتمام کرنا کیا یہ سب ’’ظاہری فارم‘‘ ہے؟ آگے لکھتے ہیں: ’’اور خالص روایتی انداز میں بات کہی جاتی ہے بنا کسی دلیل کے۔‘‘ قرآن پاک کی آیات مبارکہ، احادیث مبارکہ، انبیاے کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام کے واقعات بیان کرنا ان کے نزدیک ’’روایتی انداز‘‘ اور ’’بنا کسی دلیل کے‘‘ ہے۔
اس کے بعد اپنے محلے کے ایک صاحب کا واقعہ بیان کرتے ہیں جو ۱۷۰۰۰ کا رونا رو رہے ہیں، حالانکہ انھی صاحب کے داماد کا اگر امریکا یا کینیڈا کا ویزا لگ رہا ہوتا تو بخوشی چار ماہ نہیں بلکہ چار سال کے لیے بھی گوارا کرتے۔ پھر نہ تو بیٹی کی ڈلیوری کا شکوہ ہوتا اور نہ ہی ۱۷۰۰۰ کا۔ آگے تبلیغی جماعت سے جڑنے والوں کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’وہ خدا کی معرفت اور دین کی حقیقت سے ہمیشہ بے خبر رہتا ہے۔‘‘ گویا زنا، شراب، سود، رشوت، موسیقی اور دیگر برائیاں چھوڑ کر پابند صلوٰۃ بننے والے افراد، امت مسلمہ کے لیے اللہ پاک کے حضور رو رو کر دعائیں مانگنے والے افراد اور اپنا جان مال وقت خرچ کر کے لوگوں کی ہدایت کے لیے در در پھرنے والے افراد ’’خدا کی معرفت اور دین کی حقیقت سے بے خبر‘‘ رہتے ہیں۔ اس کے بعد تو کوتاہ علمی کی حد سے گزر کر فضائل اعمال اور فضائل صدقات کو ’’جھوٹے فضائل‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، حالانکہ اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ فضائل اعمال اور فضائل صدقات میں موجود فضائل قرآن اور حدیث سے بحوالہ نقل کیے گئے ہیں۔
مضمون کے آخر میں وحید الدین خان صاحب نے خواص کی تبلیغی جماعت سے دوری کا مفروضہ قائم کیا ہے۔ اگر ان کے نزدیک ’’خواص‘‘ سے مراد علماے کرام ہیں تو الحمد للہ علما کی اکثریت تبلیغی جماعت کے کام سے مطمئن اور اس سے محبت رکھتی ہے اور اگر ان کے نزدیک ’’خواص‘‘ سے دنیاوی تعلیم یافتہ حضرات ہیں تو یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تبلیغی جماعت میں فوج اور سول اداروں کے بڑے بڑے افسران، یونی ورسٹی اور کالجز کے کثیر تعداد میں اساتذہ اور طلبہ سرگرم عمل ہیں۔
تبلیغی جماعت نے پوری دنیا میں ایک انقلاب سے برپا کیا ہوا ہے۔ صرف فرانس کی مثال لے لیجیے جہاں آج سے چالیس پچاس سال پہلے ایک مسجد بھی نہیں تھی اور گنتی کے چند مسلمان تھے۔ اب تبلیغی جماعت کی نقل وحرکت کی وجہ سے چار ہزار سے زائد مساجد اور ساٹھ لاکھ سے زائد مسلمان ہیں۔ تبلیغی جماعت کی دینی خدمات سے انکار دن کے اندر سورج کی روشنی سے انکار کے مترادف ہے۔
آخر میں ’الشریعہ‘ کے ذمہ داران سے گزارش کروں گا کہ اس انٹرنیشنل لیول کی دینی تحریک کے بارے میں اس قسم کے لچر اعتراضات پر مشتمل مضمون اپنے رسالہ شائع نہ کریں۔ کیا یہ بھی ایک ’’فکری‘‘ مضمون تھا؟
محمد وسیم انجم
جھنگ صدر
(۳)
بخدمت مولانا زاہد الراشدی صاحب 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے رسالہ میں تبلیغی جماعت کے بارے میں پڑھ کر کہ پہلے یہ میواتیوں کو مسلمان بناتی تھی، اب مسلمانوں کو میواتی بناتی ہے، دکھ ہوا۔ ہمارے بزرگوں کی بنائی ہوئی جماعت بے راہ روی کا شکار کیوں ہے؟ آپ حضرات اس کے لیے کھوئی ٹھوس قدم کیوں نہیں اٹھاتے تاکہ عوام کالانعام کا ایمان محفوظ ہو جائے؟ مولانا الیاسؒ اپنے ملفوظات میں فرماتے ہیں کہ چلہ چار ماہ لگا کر لوگوں میں دینی شعور آ جائے اور واپس آ کر علما کی خدمت میں حاضری دے کر اپنی بقیہ زندگی دین کے مطابق گزاریں۔ اب تو چلہ چار ماہ لگانے والا علما کا دشمن بن کر واپس آتا ہے۔ قرآن وحدیث کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان کے فیصلے مشورے سے طے ہوتے ہیں اور اپنے مشوروں کویہ لوگ الہامی قرار دے دیتے ہیں۔ گویا انھوں نے مشوروں کے ذریعے قرآن وحدیث کو ریٹائرڈ کر دیا ہے۔
ان کا اصول ہم سنتے تھے کہ کسی کے خلاف نہیں بولنا، لیکن یہ لوگ اب صحابہ کرام سے لے کر مولانا نانوتوی تک کسی کو معاف نہیں کرتے۔ بیس بیس لاکھ کے مجمع میں مجاہدین اور جہاد کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لوگوں کے عقیدے برسرمیدان خراب کیے جا رہے ہیں۔ درس قرآن اور درس حدیث کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ آخر کب تک اس جماعت کو مقدس گائے سمجھتے رہیں گے؟ ا ن کو کچھ سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ یہ لوگ نجی محفلوں میں کہتے ہیں کہ جب تک مدارس دینیہ قائم ہیں، تبلیغ کا کام نہیں چل سکتا۔ مدارس کو چندے دینا حرام ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس بارے میں علماے کرام کی ایک فکری نشست رکھی جائے اور کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے کیا جائے۔ انھوں نے ابلیسی ڈائیلاگ بنائے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب کوئی انھیں سمجھاتا ہے کہ تمہارا یہ کام قرآن وسنت کے خلاف ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ’’سنو سب کی، کرو اپنی۔‘‘ ان کے بڑوں کو سمجھانا بھی فضول ہے۔ ان میں صرف ان لوگوں کی اصلاح ہو سکتی ہے جو نئے نئے تبلیغ میں وقت لگائیں۔ پرانوں کے بارے میں شیخ سلیم اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ جو تبلیغ میں جتنا پرانا ہوتا ہے، اتنا ہی بگڑتا ہے۔
علماے دیوبند ان کو اپنا سمجھتے ہیں، لیکن یہ علماے دیوبند کے کسی کام میں شریک نہیں ہوتے بلکہ علماے دیوبند کو ہی دین کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ گردانتے ہیں۔ اس وقت تبلیغی جماعت میں وقت لگانے سے حق وباطل کی پہچان کی صلاحیت مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔ صرف تبلیغ کو ہی دین کا کام سمجھا جانے لگا ہے، باقی سارے شعبے بیکار گردانے جا رہے ہیں۔ 
نذیر احمد
نذیر کیمسٹ۔ بوہڑ بازار
راول پنڈی

’’مولانا مودودیؒ کی تحریک اسلامی‘‘ ۔ چند تاثرات واحساسات

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

نام کتاب: مولانا مودودی کی تحریک اسلامی مع جماعت اسلامی اور اسلامی دستور
مصنف: پروفیسر محمد سرور
ناشر: دار الکتاب، کتاب مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار لاہور
سال اشاعت: جولائی ۲۰۰۴ء
قیمت: ۲۰۰ روپے
سید مودودیؒ کا دور (۱۹۰۳ تا ۱۹۷۹) برصغیر ہند و پاک کی تاریخ میں بڑا اہم دور تھا۔ مسلمانوں میں رہنماؤں کے قحط کا رونا پرانا رونا ہے، مگر اس دور میں مسلمانوں ہی میں بڑے سر برآوردہ رہنما سامنے آئے۔ سرسید، عبیداللہ سندھی، جمال الدین افغانی، محمد علی جوہر، علامہ اقبال، ابو الکلام آزاد، سید عطا ء اللہ شاہ بخاری، مولانا ظفر علی خان اور آخر میں سید مودودی۔ رہنماؤں کی پوری ایک کھیپ نظر آتی ہے، لیکن تاریخ نے قائد اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمہ کو ان سب پر بھاری کر دیا۔ 
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
اوپر کے تمام نام دینی اور سیاسی شناخت رکھتے ہیں، جبکہ سیادت و قیادت میں سبقت لے جانے والا نام دینی شناخت کے لحاظ سے کسی درجے میں شمار نہیں ہوتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے۔ قیادت کی عطا میں اس کی کیا حکمت ہے، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ قیادت میں قائد اعظم کی سبقت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی واضح ہے کہ قائد اعظم کو ایک بنی بنائی جماعت ملی اور وہ اس جماعت میں موجود لوگوں کو ساتھ لے کر اپنی منزل کی جانب رواں ہونے پر مجبور تھے۔ ان کے پاس اپنی صحت کے پیش نظر محدود وقت تھا۔ اس میں حصول منزل کے لیے عملی طور پر قریب ترین راستہ اختیار کرنا لازم تھا۔ وہ اسی ٹوٹی پھوٹی تنظیم کے لوگوں کو لے کر چلے اور منزل پر جا کر ہی دم لیا۔ ان کے ساتھی کسی درجے کے لوگ نہیں تھے۔ ان کے بارے میں ایک معروف روایت کے مطابق قائد اعظمؒ نے خود کہا تھا کہ میری جیب میں تمام سکے کھوٹے ہیں۔ یہ کمال قیادت ہی تھا کہ کھوٹے سکوں کی مدد سے ایک انتہائی بیمار ااور لاغر شخص، جو صحیح اردو بھی نہیں بول سکتا تھا، مقتدر انگریز اور برصغیر کی سب سے بڑی قوم یعنی ہندؤں سے چومکھی لڑائی لڑ کر ان سب کو پچھاڑنے میں کامیاب ہوا۔ یہ ان کی بہترین حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔ مسلم لیگ کیا تھی اور کیا نہیں تھی، اس بارے میں زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ قائد محترم نے خود کہا: ’’مسلم لیگ کیا ہے ، میں اور میری بہن‘‘، ’’مسلم لیگ کیا ہے ،میں اور میرا ٹائپ رائٹر‘‘۔ تاریخ کا شعور رکھنے والا شخص یہ کہے بغیر نہیں رہے گا کہ حصول پاکستان کی تمام تر جد وجہد یقینی طور پر ایک شخص کی مرہون منت ہے۔ بر صغیر میں دوسرا قائد اعظم تو ہو ہی نہیں سکا، نہ ہو گا۔ قائد کو جو تنظیم میسر تھی، اسے مسلم لیگ کے نام سے پکارا جاتا ہے مگر اسے تنظم کہنے کے لیے دل اور دماغ پر پتھر رکھنا پڑے گا۔ 
ان حالات کے تناظر سے بالکل الگ رہ کر ایک شخص لوگوں کی تنظیم کے لیے مخصوص ہو کر رہا۔ اسے سید مودودی کہتے ہیں۔ سید ۱۹۰۳ء میں پیدا ہوئے اور انہوں نے ۱۹۷۹ء میں وفات پا ئی۔ دین اسلام کو ایک مشن کی صورت میں، صحافیانہ استعداد کو بروے کار لا کر انہوں نے قوم کی تنظیم کے لیے بھر پور کام کیا۔ ان کی قائم کردہ جماعت، جماعت اسلامی ابھی زندہ و سرگرم عمل ہے۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ سید مودودی کا دور ابھی تک جاری ہے۔ سید علیہ الرحمہ سے براہ راست استفادہ کرنے والے ابھی باقی ہیں۔ وہ کسی حد تک سرگرم بھی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ مایوسیوں کے خلاف نبرد آزما رہے، مگر اپنی جگہ یہ بھی حقیقت ہے کہ انقلاب کی منزل، سید حاصل کر سکے اور نہ ان کی جماعت۔ اس کے باوجود، پرانے لوگ اسلامی انقلاب کی آرزؤں کی اپنے سینوں میں پرورش کر رہے ہیں۔ البتہ اب ان میں سے زیادہ تر لوگ مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں۔ 
افسوس صد افسوس کہ مایوسیوں کی تخم ریزی اور افزایش اور اس کی بار آوری کے تمام مراحل بھی جماعت کی پوری تاریخ کے ساتھ ساتھ ہی رہے۔ خود سید مودودی کی اپنی تحریریں دیکھیں تو یہ بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ قیام جماعت سے پہلے اور بعد کی تحریروں میں بہت فرق ہے۔ اس دور کے ’’ایک صالح جماعت کی ضرورت‘‘ جیسے مضامین بڑے ہی جاندار ہیں۔ پھر سیاسی کشمکش کے فولادی تحزیے ذہن و دل ہلا دینے والے ہیں۔ اس دور میں ان کا قلم آگ اور بارود سے کم طاقت ور نہیں تھا، مگر جماعت کے قیام کے بعد کی تحریروں میں وہ انداز ہی معدوم ہو گیا۔ یوں لگتا ہے کہ سید نے اپنی زور دار تحریروں سے برصغیر کا دینی ٹیلنٹ جمع کرنے کا منشا حاصل کر لیا ہے۔ اب اسے چھانٹنا لازم ہے۔ چنانچہ دو تین سال کے اندر اندر اسے چھانٹنے میں کام یاب ہو گئے۔ لے دے کر ایک ہی شخص رہ گیا جو کشتیاں جلا کر آیا تھا، اس کے لیے واپسی کا راستہ ہی نہیں تھا، چنانچہ وہ خم ٹھونک کر ڈٹا رہا، لیکن کب تک! آخر کار ۱۹۵۷ء میں اس کے لیے جماعت کی اندرونی فضا تنگ ہو گئی۔ وہ بھی باہر آزاد فضا میں آ نے پر مجبور ہوا۔ اس کانام گرامی امین احسن اصلاحی ہے۔
قائد کے لیے سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ وہ مایوسیوں کے خلاف مزاحمت کے لیے ماحول تیار کرے، مگر خود کبھی مایوسی کا اظہار نہ کرے۔ اگر اس کے کسی ایک جملے سے بھی مایوسی کا اظہار ہو جائے تو تاریکیوں اور مایوسیوں کو خود کمک فراہم کر دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ ترجمان القرآن جماعت کی فکر کا جشمہ جاری ہے۔ قیام جماعت کے بعد، مولانا مودودی سے لے کر مولانا نعیم صدیقی، پروفیسر عبدالحمید صدیقی اور پروفیسر خورشید احمد صدیقی تک ہر دور کے اشارات دیکھ لیں۔ ان سے مایوسی پھوٹتی نظر آتی ہے۔ یہ کہنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ اشارات پڑھ پڑھ کر بوڑھا ہو گیا ہوں۔ بلاشبہ میں نے ان تحریروں سے اپنی استعداد کے مطابق استفادہ کیا، لیکن ایک بات ہمیشہ ذہن میں کھٹک پیدا کرتی رہی کہ ان تحریروں کا مجموعی اثر مایوسی کا ہے۔ بلاشبہ میں خود متاثر نہ ہوا، لیکن ترجمان کے دیگر قاریوں کو پڑھنے کے بعد مایوسیاں پھیلانے کے مشن پر رواں دواں دیکھا۔ نتیجہ کیا ہو سکتا تھا؟ مایوسیاں اور تاریکیاں پھیلتی گئیں۔ اس پر مزید یہ ہوا کہ ان تاریکیوں اور ناکامیوں کی تعبیر روشنی اور کامیابی کی صورت میں کر لی گئی۔ اس کے لیے تمام تر اجتہادی بصیرت کام میں لائی گئی۔
فکری سرچشموں پر بیٹھ کر مایوس کن تحریریں ایسا زہر گھولتی ہیں جس پر دشمن پلتا اور دوست گھل گھل کر مر جاتا ہے۔ ایک حساس اور دل زندہ رکھنے والے کارکن کے طور پر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں ، کوئی سنے یا نہ سنے، مجھے اس سے کیا غرض ہو گی۔ 
نوا را تلخ تر می زن چوں محمل را گراں بینی
یہ بات بہر حال صاف ہے کہ ایسے لوگ اپنے منصب کے لائق نہیں۔ یہ فقہ کا مسئلہ نہیں، دل کی بات ہے۔ میری ’’اہلیت‘‘ صرف یہ ہے کہ میں نے ان حضرات کی مایوس کن تحریروں کو اپنے اندر خوب جذب کیا مگر مایوسی کو فلٹر کر کے۔ مطلب یہ ہوا کہ مایوسی کو اپنے اندر داخل نہیں ہونے دیا۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ایک کارکن کی سطح سے اوپر نہیں گیا لیکن ذہن کو کارکن کی سطح سے بلند رکھنے کی کوشش کی۔ مایوسیوں کے خلاف جنگ آزما رہا مگر مایوسیوں کو قریب پھٹکنے نہ دیا۔ 
بہر حال میری زندگی کی پوری کہانی اسی ساز وستیز کے گرد گھومتی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں اپنے سے بر تر پوزیشن والے شخص کے ساتھ گزارا کر سکا ہوں۔ اس میں بھی ایک بات قطعی ہے کہ جنگ کی ابتدا کبھی میری جانب سے نہیں ہوئی۔ فطری بات بھی یہ ہے کہ فروترشخص با لا دست سے چھیڑ چھاڑ کی ابتدا نہیں کر سکتا۔ جماعت اسلامی سے میرے اخراج کی اصل حقیقت صرف اتنی ہے۔ اخراج کرنے والے ارباب جماعت، با اختیار لوگ، میں ان کا کیا بگاڑ سکتا ہوں، مگر ہمیشہ یہی خیال کیا کہ وہ بھی اخراج کے سوا میرا کیا بگاڑ سکے ہیں۔ اخراج کے بعد تو ان سمجھ داروں نے مجھے مکمل آزادی دے دی ہے۔ چلیے میں اس آزادی کو برتنے میں تو آزاد ہوں، چنانچہ یہ میرے لیے سب سے بڑی متاع حیات ہے۔
بڑا دکھ ہوتا ہے کہ مجھے نکالنے والے مجھ پر خیانت، بد دیانتی، نالائقی اور کم کاری کا کوئی بھی الزام نہ لگا سکے، مگر ان کے دامن ایسی آلائشوں سے ’’روشن ‘‘رہے۔ کاش ایسا نہ ہوتا۔ مجھ پر ایسے الزامات لگتے، جھوٹے ہی لگ جاتے۔ کچھ تو کالک میرے چہرے پر آ جاتی۔ اس سے میرے مربیوں کا چہرہ تو روشن ہی رہتا۔ لیکن آج تو کیفیت یہ ہے میں ان کے روشن چہروں کو مزید روشن کرنے کی کوشش میں منہمک ہوتا ہوں تو دوست مجھ سے اصرار پوچھتے ہیں: ’’اتنے برے لوگوں کی جماعت میں دوبارہ گھسنے پر بضد کیوں ہو؟‘‘ میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ ’’اگر میرے گھر سے، چور اور ڈاکو مجھے گھر سے نکال کر قبضہ کر لیں تو کیا میں اس ناجائز قبضے کو تسلیم کر لوں؟ ہرگز نہیں، مجھے قبضہ واپس ملے نہ ملے، میں ان کا قبضہ جائز تسلیم نہیں کروں گا۔ میں سر پھوڑتا رہوں گا۔‘‘
مجھے ہر دور میں ایسی آزمائش سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ پہلی بار میرے ساتھ یہ تجربہ طالب علمی کے دور میں ہوا۔ ہم چار پانچ دوست اسلامی جمعیت طلبہ کے رفقا پر مشتمل تھے۔ اس دور میں عشرے کے بعد جمعیت کی کل کائنات تھی۔ خواجہ امتیاز احمد مقامی ناظم تھے۔ انہوں نے میرے خلاف تادیبی کاروائی کی اور اخبارات میں خبر بھی چھپوائی۔ ہم آپس میں ایک دوسرے کو بڑے پروٹو کول کے ساتھ پکارا کرتے تھے۔ قبلہ و کعبہ کے بغیر تخاطب ممکن نہیں تھا۔ میرے بارے میں اخباری خبر یوں تھی: ’’اسلامی جمعیت طلبہ کے مقامی رفیق محمد یوسف بتخانہ کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔‘‘ گویا مجھے جو پروٹوکول دیا گیا، وہ کچھ زیادہ ہی تھا۔ بہر حال میں نے اس پر خاموشی اختیار کی، اس کے بعد کئی سال جمعیت سے کوئی تعلق نہ رکھا، ما سواے اس کے کہ پنجاب یونی ورسٹی میں جہانگیر بدر کے مقابلے میں حافظ ادریس اور حفیظ خان کو دونوں دفعہ جتوانے کے لیے نعرے لگائے اور ووٹ دئیے۔ حفیظ خان کے ساتھ جاوید ہاشمی سیکریٹری منتخب ہوئے۔
لا کالج میں تعلیم کے دوران میری سرگرمیاں زیادہ تر تعلیم تک محدود رہیں۔ قانون کی ڈگری لی۔ دو سال کی تربیت حاصل کی۔ میرے سینئر چوہدری مختار احمد ایڈووکیٹ تھے۔ پنجاب بار کونسل کی انرولمنٹ کمیٹی کے روبرو پیش ہوا۔ اس طرح یہ مرحلہ پورا ہونے کو تھا کہ والد محترم نے گوجرانوالہ سے نکال دیا اور ان کے حکم کے مطابق کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ میں پریکٹس کی ابتدا کی۔ یکم اپریل ۱۹۷۲ء کو کوٹ ادو میں سب ڈویژنل کورٹس میں بسم اللہ کی۔ یہ شہر میرے لیے مکمل اجنبی تھا۔ کوئی شخص میرا واقف تھا اور نہ ہی اس سے پہلے میں نے کبھی یہ شہر دیکھا تھا۔ میرے خاندان کے لوگ دس میل دور قصبہ سنانواں میں رہتے تھے۔ گوجرانوالہ سے یہاں آ کر برف خانہ کھولنے والے حافظ عبد الماجد ایڈووکیٹ مجھ سے پہلے یہاں وکالت اور کارو بار کر رہے تھے۔ اہل جماعت نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ بار میں میرا نمبر سولہواں تھا۔ سب سے سینئیر وکیل جناب عبد الغفور گرمانی تھے۔ گیارہ سال پلک جھپکنے میں گزر گئے۔ جماعت کا رکن ہی نہیں، مقامی سطح پر جماعت کی جانب سے نہایت منہ زور نمائندہ بھی تسلیم کیا گیا۔
یکم ستمبر ۱۹۸۳ء کو والد مرحوم کے حکم پر واپس گھر لوٹا۔ گھر لوٹے تو جماعت کی رکنیت کا متاع غرور ہی میرا سرمایہ تھا۔ اسے لے کر یہاں پہنچا تو ایک بار پھر زیرو پوزیشن تھی۔ کوٹ ادو گیا تو صفر سے ابتدا کی۔ گیارہ سال بعد گوجرانوالہ صفر ہی سے پریکٹس شروع کی۔ پرائمری سے لے کر ایل ایل بی تک کے زمانہ اسی شہر میں گزارنے کے بعد ایک بار پھر اجنبی کے طور پر داخل ہوا۔ گوجرانوالہ جماعت کا ماحول ہمیشہ ہی سے صاف ستھرے شخص کے لیے بیزاری کا رہا۔ ہر جانب با صلاحیت اور پڑھے لکھے شخص کی جو کچھ نمایاں کار کردگی انجام دینے والا سامنے آیا، اسے کوئے یار سے سوئے دار تک کا سفر کرنا پڑا۔ اسی انجام سے خوف کھاتے ہوئے میرے والد محترم جماعت کے رکن بننے سے گریزاں رہے۔ میں بھی یہاں وکالت شروع کرتا تو کبھی رکن نہ بنتا۔ خیال تھا کہ شاید اکتیس سال بلا فصل امیر ضلع رہنے والے شخص کے شہرت کے راکٹ پر چاند تک پہنچنے کے بعد شاید حالات میں معمولی فرق ہوا ہو، مگر حالات پہلے سے بھی سخت تھے۔ لہٰذا مجھے اخراج کے سنچری ٹارگٹ پورا کرنے کا پندرہ سال بعد موقعہ ملنے لگا تو میں نے اپنی گردن پیش کر دی۔ ٹارگٹ کے جانب کا یہ سفر بڑا دلچسپ اور خوبصورت ہے۔ اس کی روئیداد میرے لیے زندگی بڑھانے والی ہے۔
ایک روز ایک بزرگ سے گفتگو ہو رہی تھی۔ ان کی یہ بات میرے دل کی بات تھی، اس لیے بہت اچھی لگی۔ فرمانے لگے، اہل جماعت نے سخت غلطی کی۔ وہ اگر جماعت کے اندر کڑے ڈسپلن اور ماحول میں تم کو درست نہیں کر سکے تو نکال کر بدل دینے کا مطالبہ کرنے میں کیسے حق بجانب ہو سکتے ہیں؟ بہر صورت جماعت سے اخراج کے بعد اسلامی جمعیت وکلا اور اس کی قائم قام تنظیم اسلامک لائرز موومنٹ میں مجھے آخری پناہ ملی ہوئی ہے۔ یہاں سے مجھے نکالنے کی کوششیں رہتی ہیں، کبھی کبھی میں بے حمیتی اختیار کر کے لچک اختیار کر لیتا ہوں، اس طرح یہ رشتہ و پیوند بتان وہم وگماں کی طرح چل رہا ہے، لیکن اس کے باوجود میرے جیسے بے شمار دوستوں کے سینوں میں انقلاب کی آرزو مر نہیں سکی۔ جماعت کو تو میں تاریخ کا اثاثہ خیال کرتا ہوں۔ اثاثہ اس معنے میں کہ اس کا مطالعہ کیا جائے اور معلوم کرنے کی کوشش کی جائے کہ اتنی منظم تحریک اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام کیوں رہی تاکہ آئندہ اٹھنے والی تحریکیں اس تحریک کی ناکامی کے اسباب سے خبر دار رہیں۔
خود سید مودودی نے اپنے دور سے پہلے کی تحریکوں کا اس پہلو سے بھر پور جائزہ لیا۔ اس لحاظ سے ان کی ’’تجدید و احیاے دین‘‘ دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ’’خلافت و ملوکیت‘‘ میں تو پوری اسلامی تاریخ پر گرفت کی۔ سیاسی تاریخ پر نقد بالکل ایک نیا موضوع تھا۔ سید مودودی علیہ الرحمہ نے اس موضوع کو دریافت کیا۔ اردومیں اس موضوع پر خلافت و ملوکیت اولین کتاب ہے۔ مجھ سے اگر کوئی پوچھے تو اس کتاب کو سید کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دوں گا۔ تصنیف کے طور پر اس کتاب کو دیکھا جائے تو سید مودودی کی شاید یہ واحد معیاری تصنیف ہو گی۔ سید کی باقی کتابیں فنی لحاظ سے مکمل تصنیف کے درجے میں مشکل ہی سے شمار ہوتی ہیں۔
سید مودودی کی خدمات کا تذکرہ یہاں مقصود نہیں۔ اس پر تو ان کا پورا دور گواہ ہے اور آئندہ کتنے زمانوں تک یہ شہادت باقی رہے گی، اس کا تعین نہیں ہو سکتا۔ سید کی فکری خدمات اور اثرات تو عالمگیر ہیں۔ ایک شخص اپنی صلاحیتوں، وسائل اور توانائیوں کے بل بوتے پر اک دنیا کو متاثر کر جائے تو اس کی زندگی کے پلس اور نیگیٹو پوانٹس کا بیلنس نکالنا بے معنی سا کام ہے۔ پھر یہ کام میرے لیے اس لیے مشکل ہے کہ میرے ذہن کا تانا بانا سید علیہ الرحمہ کی فکر سے مرتب ہوا ہے۔ یہ انہی کا دیا ہوا درس ہے کہ آنکھیں بند کر کے پیچھے چلنے کے بجائے آکھیں کھول کر سفر کیا جائے۔ وہ تو نمار میں، خدا کے حضور بھی آنکھیں بند کر کے کھڑے ہونے کو ترجیح دینے پر آمادہ نہیں، تو ایک شعوری سفر میں آنکھیں بند کر کے سفر کرنے پر اگر کوئی جماعت آمادہ ہو جائے تو ایسی جماعت کو اندھوں کی جماعت تو کہا جا سکتا ہے مگر سید کی جماعت نہیں کہا جا سکتا۔ سید مودودی علیہ الرحمہ کی خدمات کے اعتراف کرنے والے بے شمار ہیں۔ مجھے اس سے انکار کیسے ہو سکتا ہے۔ کسی کے کام کی نقد، تحسین و تعریف کے مقابلے پر کافی مشکل ہے۔ پھر اس کو اہمیت بھی نہیں دی جاتی، مگر اس کی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ نقد و جرح کرنے والا ہزار میں ایک بھی نہیں ملتا۔ پھر نقد و جرح میں یہ بھی مشکل پیش آتی ہے کہ اس میں مقصدیت اور افادیت کا پہلو سامنے رکھا جائے تو کام تو بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
نقد و جرح میرا دل پسند موضوع ہے۔ پچھلے دنوں پروفیسر محمد سرور صاحب کی ایک کتاب دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کتاب میں موصوف نے سید مودودی کی تحریک اور فکر کا مطالعہ پیش کیا۔ یہ کتاب پہلی بار ۱۹۵۶ء میں شائع ہوئی۔ جولائی ۲۰۰۴ء میں اسے سندھ ساگر اکیڈیمی لاہور نے دوبارہ شائع کیا ہے۔ یہ ۴۱۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ موضوع سے اپنی دلچسپی کی بنا پر میں نے کتاب کو پورے انہماک سے پڑھا۔ کتاب کے مرتب پروفیسر محمد سرور جامعہ ملیہ دہلی کے استاذ رہ چکے ہیں۔ دینی حلقوں میں ایک بڑا نام ہیں۔ شاہ ولی اللہ اور مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار و تحریک پر پھی اپنے کام کی وجہ سے معروف ہیں۔ شورش کاشمیری کے مطابق پاکستان کے دو چار پڑھے لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے مولانا سید مودودی علیہ الرحمہ کی شخصیت اور فکر کو ان کے ماحول کے تناظر میں پیش کیا ہے۔ اس میں انہوں نے اس دور کی ہم عصر شخصیات کے ساتھ ان کا تقابل کے ساتھ ساتھ تاریخی پس منظر کو بھی پیش کیا ہے۔ اس طرح یہ مطالعہ اور دلچسپ ہو جاتا ہے۔
پروفیسر محمد سرور خود مولانا مودودی علیہ الرحمہ کے ہم عصر ہیں۔ پروفیسر صاحب ۱۹۰۶ء میں پیدا ہوئے، جب کہ سید مودودی علیہ الرحمہ کی ولادت ۱۹۰۳ء کی ہے۔ سید مودودی ۱۹۷۹ء میں وفات پا گئے تو پروفیسر سرور صاحب ان کا تعاقب کرتے ہوئے ۱۹۸۳ء میں خدا کے حضور پہنچے۔ اس طرح ان کا مطالعہ اپنے دور کا مطالعہ ہے۔ اس پہلو سے بھی ان کے مشاہدات وزن رکھتے ہیں۔ سید مودودی کے بارے میں ان کا مشاہدہ یہ ہے کہ وہ اپنے دور اور ماحول کی پیداور تھے۔ یہی بات ان کے مشاہدات کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ انہوں نے سید مودودی کو جامعہ ملیہ کے ماحول میں دیکھا ہے۔ اس طرح سید مودودی علیہ الرحمہ کا مطالعہ کرتے ہوئے پروفیسر صاحب اپنے مخصوص نقطہ نظر کے دائرہ سے باہر نہیں نکل سکے۔ اپنے مطالعے میں پروفیسر صاحب نے سید مودودی کے دور کی شخصیات سے تقابل بھی کیا ہے اور اس تقابل میں انہوں نے کسی لاگ لپیٹ سے کام نہیں لیا۔ ابوالکلام آزاد سے تقابل کرتے ہوئے انہوں نے سید مودودی کی فکر کو مولانا آزاد کی فکر کا نقش ثانی قرار دیا ہے۔ اپنے جائزے میں وہ سید کے ذہنی ڈھانچے کو سید کے خاندانی پس منظر کو اور تاریخی پس منظر کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ اس طرح وہ سید مودودی رحمہ اللہ کی نظریاتی فکر کی صداقت کوچیلنج کرتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ اللہ کی حاکمیت اور اس کی بنیاد پر کسی نظام کا تصور کوئی ٹھوس بنیاد نہیں رکھتا۔ ان کے مطابق یہ طرز فکر خلافت اور بنو امیہ کے دور تک بھی موجود نہیں تھی۔ اس کی شروعات بنو عباس کے دور میں ہوئیں۔ ان کے بقول بنو عباس کے دور میں ظل الٰہی جیسے تصورات نے رواج پایا اور حکمرانوں نے مذہبی تقدس کو اپنے سیاسی اقتدار کے ساتھ جوڑا۔ وہ آئندہ کے لیے بھی اسلامی نظام یا انقلاب کے منشا کے ساتھ میدان عمل میں آنے کو کسی طرح قابل عمل تسلیم نہیں کرتے۔ 
سید کے فکری نظام سے اتنے واضح اختلاف کے ساتھ ساتھ وہ جماعت کے ارکان کو بڑے درد مندانہ طور پر اپیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں آ کر ان کے تجزیوں کی تمام تر عمارت بوسیدہ بنیادوں پر تعمیر شدہ معلوم ہوتی ہے۔ در اصل سید مودودی کی تحریروں کے زور میں آ کر جو دینی ٹیلنٹ ان کے گرد جمع ہوا، وہ جلد ہی چھٹ گیا۔ اس میں پروفیسر صاحب کا حلقہ بھی شامل ہے۔ اس طرح یہ حلقہ سید کی تحریروں اور فکر کے بارے میں اسی طرح کے نقطہ نظر کو پیش کرتا رہتا ہے۔ یہاں تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ جماعت کے ارکان سے ہمدردانہ اپیل کرنے کا یہ انداز میرے لیے ناقابل فہم ہے۔ تجزیہ نگار خود تو کبھی میدان عمل میں اترے ہی نہیں۔ دور بیٹھ کر خالی خولی علمی تجزیے کرنے کا شغل بڑی اچھی علمی تفریح ہو سکتی ہے، مگر وہ اپنے اندر کوئی تاثیر نہیں لا سکتی۔ یہ بات میں کسی علمی سند کے ساتھ کہنے کے بجائے اپنے تجربات کی روشنی میں کہ سکتا ہوں۔ میرا اپنا جائزہ یہ ہے کہ سید مودودی علیہ الرحمہ کی تحریروں سے کھنچ کر آنے والوں کو مولانا ساتھ لے کر نہیں چل سکے۔ سید مودودی کا یہ رویہ ان کی تحریک کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ اس میں کسی کو قصور وار ٹھہرانا تو ممکن نہیں، لیکن اس کی ذمہ داری بہر صورت بطور ’’تاحیات امیر جماعت‘‘ سید مودودی پر ہی عائد ہو گی۔
بہرصورت یہاں اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ ان کی تمام تر کاوش out of range firing(ہدف چھوڑ کر گولہ باری) کے مترادف ہے۔ ظاہر ہے کہ مجھے ایسی فائرنگ سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ جناب سرور صاحب کے مخاطبین کو بھی اس سے مشکل ہی سے کوئی دلچسپی ہو گی۔ بلا شبہ ان کا انداز بیان بڑا ٹھوس اور مناظرانہ ہے۔ علمی لحاظ سے بھی انہوں نے کافی محنت کی ہے مگر ہدف واضح نہیں ہوتا۔ لگتا ہے کہ کسی خاص ماحول میں، فرمائش کے تحت لکھاگیا ہے۔ جماعت کے بارے میں پروفیسر صاحب نے جو کہنا چاہا، وہ آج کے دور میں دینی سیاسی کارکن قبول نہیں کرے گا۔ ہاں میرے علم میں اضافہ ہوا ہے کہ شاہ ولی اللہ کی فکر کا ایک سرچشمہ ان کے خواب بھی ہیں۔ بلاشبہ علم نفسیات کی رو سے خواب علم کا ذریعہ ہیں۔ اس مرحلہ پر کیانی کی ایک تقریر کا عنوان یاد آ گیا ہے ’’ساڈیاں خواباں وچ آیا کرو‘‘، لیکن خواب کو ہدایت اور حکمت مان لینا، کم از کم میرے لیے مشکل ہے۔ 
جناب پروفیسر محمد سرور صاحب نے سید مودودی پر فکری، نظریاتی لحاظ سے اپنے نقطہ نظر سے شدید اختلاف کیا ہے مگر سید مودودی کی تحریری اور تنظیمی صلاحیتوں کا کھل کر اور بار بار اعتراف کیا ہے۔ سید کی تحریری اسلوب کے بارے میں ان کا فرمان تو درست ہے مگر ان کی تنظیمی صلاحیتوں اور جماعت کی تنظیمی خوبیوں کے بارے میں ان کے اعترافات پر مجھے شدید تحفظات لاحق ہیں۔ اس سلسلہ میں مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ سید کے تنظیمی پہلوؤں کی حقیقت سے شناسا نہیں۔ ویسے بھی جماعت پر تنقید کے سلسلہ میں میری ساری دلچسپی کا نیوکلیس تنظیمی امور ہی ہیں۔ میرے نزدیک سید مودودی کی ناکامیوں کا ایک بہت بڑا سبب جماعت کی تنظیمی خرابیاں ہیں۔ ان خرابیوں اور کمزوریوں کی نوعیت، ان کی ابتدا اور معراج، پورا ایک سلسلہ ہے جس کا مطالعہ میرا خاص موضوع ہے۔ ان کمزوریوں اور انحطاط کی ابتدا کے بارے میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ
تیری تعمیر میں مضمر ہے اک خرابی کی
میرا منشا یہ ہے کہ جماعت کی تنظیمی صورت اپنی ابتدا ہی سے بے حد کمزور اور دقیانوسی تھی۔ اس میں سید مودودی رحمہ اللہ نے اپنی میزبانی کی حیثیت سے فائدہ اٹھایا اور اپنے لیے تاحیات امارت کا اہتمام کر لیا۔ جماعت کا نظام ایسا متشکل ہوا کہ سید علیہ الرحمہ کے برابری کے کسی شخص کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا کوئی امکان نہ تھا۔ اس وجہ سے سید کے ہم مرتبہ لوگ جماعت کی تشکیل کے ایک دو سال بعد ہی جماعت سے دور ہو گئے۔ جماعت کی تشکیل کے موقع پر جتنا زبردست ٹیلنٹ جمع ہوا تھا، وہ چھٹ گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۷۲ء میں جب سید علیہ الرحمہ کی توانائیاں جواب دے گئیں اور وہ جماعت کی امارت ترک کرنے پر مجبور ہوئے تو اس منصب کو سنبھالنے والا کوئی صاحب صلاحیت شخص، جماعت کے اندر موجود ہی نہیں تھا۔ چاروناچار جناب میاں طفیل محمد کو یہ بار گراں اٹھانا پڑا۔ محترم میاں صاحب کی سید مرحوم کے قیم کے طور پر خدمات درجہ کمال کی ہیں مگر امارت جماعت کے منصب پر ان کا فائز ہونا بہر حال خانہ پری سے زیادہ نہیں تھا۔ اس انتخاب کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ میاں صاحب تیس سال قیم رہ کر حقیقت میں ایگزاسٹ ہو چکے تھے۔ ایک ایگزاسٹ شخص سے کسی بڑی کارکردگی کا توقع مشکل ہوتی ہے۔ ذرا ان سے پہلے کا عرصہ دیکھیں تو سید مرحوم بھی ایوب خان کے خلاف تحریک کے بعد اگزاسٹ ہو چکے تھے۔ اس ضعف کو دیکھا جائے تو امارت جماعت کے منصب پر سید مودودی علیہ الرحمہ کا تواتر سے طویل عرصہ تک فائز رہنا بھی جماعت کی تنظیمی قوت کو گھن کی طرح کھا گیا تھا۔ بہر حال ان پہلوؤں سے ہم دقت نظر سے اپنی معروضات مرتب کریں گے۔
پروفیسر محمد سرور صاحب کی کتاب پر ہم جو کچھ کہہ سکتے تھے، کہہ چکے ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جماعت کے بارے میں لکھنے کا جو ارادہ مدت سے محتاج تکمیل چلا آ رہا تھا، اب شاید میرے اوقات میں سے کچھ زیادہ حصہ لے سکے۔ موجودہ تبصرے کو اس سلسلے کی اولین کڑی خیال کیا جا سکتا ہے۔ سردست اتنا کہنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ ترجمان القرآن کا گرتا ہوا معیار میرے لیے سخت صدمے کا باعث ہے۔ اس ماہنامے کے مدیر جناب پروفیسر خورشید احمد کی ادارت میں یہ انحطاط ناقابل فہم ہے۔ پروفیسر صاحب محترم کو لڑکپن سے پڑھتا آ رہا ہوں۔ ان کے تجزیے بڑے چشم کشا ہوتے ہیں، مگر جماعتی پالیسی کی حدوں میں قید۔ جولائی ۲۰۰۸ء کے شمارے میں پروفیسر صاحب نے آئینی پیکیج کا پوسٹ مارٹم پیش کیا ہے۔ ان کی یہ پیشکش واقعتاً بڑی ہی خوب ہے، لیکن ایک مقام پر آ کر ایک لفظ ایسا لکھ دیا ہے جو میری دانست میں ان کے موقر و محترم قلم سے سر زد نہیں ہو سکتا۔ لکھتے ہیں:
’’چیف جسٹس کی میعاد کی تحدید تین سال ہو یا پانچ سال، اس سے کم زیادہ بھی اسی قبیل کی شے ہے۔ ایک خاص شخص سے نجات اور کسی خاص شخص کو اس عہدے پر لانے کے لیے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے جو دستور کے ساتھ بد دیانتی بلکہ بد فعلی کے مترادف ہے۔‘‘ (ترجمان القرآن جولائی ۲۰۰۸ء صفحہ نمبر ۱۳)

اکتوبر ۲۰۰۸ء

اسلامی شریعت کی تعبیر و تشریح: علمی و فکری سوالاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
شرعی سزاؤں میں ترمیم و تغیر کا مسئلہحافظ محمد سلیمان
قرآن مجید میں قصاص کے احکام ۔ چند غور طلب پہلو (۲)پروفیسر میاں انعام الرحمن
اسلامی معاشیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز؟ (۳)محمد زاہد صدیق مغل
’سنت‘ اور ’حدیث‘: جناب جاوید احمد غامدی کا نقطہ نظر (۱)سید منظور الحسن
مکاتیبادارہ

اسلامی شریعت کی تعبیر و تشریح: علمی و فکری سوالات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(محمد عمار خان ناصر کی تصنیف ’’حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ کے دیباچہ کے طور پر لکھا گیا۔)

نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔
مسلم ممالک میں شریعت اسلامیہ کے نفاذ اور اسلامی احکام وقوانین کی عمل داری کا مسئلہ جہاں اپنی نوعیت واہمیت کے حوالے سے ہمارے ملی فرائض اور دینی ذمہ داریوں میں شمار ہوتا ہے، وہاں اس کی راہ میں حائل متنوع مشکلات اور رکاوٹوں کے باعث وہ ایک چیلنج کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور مسلم معاشروں میں اس سے نمٹنے کے لیے مختلف اطراف سے کوششیں جاری ہیں۔
ان مشکلات اور رکاوٹوں میں سیاسی، تہذیبی، اقتصادی اور عسکری امور کے ساتھ ساتھ یہ علمی رکاوٹ بھی نفاذ اسلام کی راہ روکے کھڑی ہے کہ آج کے بین الاقوامی حالات اور جدید عالمی تہذیبی ماحول میں اسلامی احکام وقوانین کی مقامی وبین الاقوامی سطح پر تطبیق کی عملی صورتیں کیا ہوں گی، اور گلوبلائزیشن کی اس فضا میں جبکہ دنیا کی کوئی قوم دوسری اقوام کے حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی اور اقوام عالم میں ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے اور ایک دوسرے کا اثر قبول کرنے کا دائرہ دن بدن وسیع اور ناگزیر ہوتا جا رہا ہے، اسلامی احکام وقوانین کی اس کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی قابل قبول اور قابل عمل شکل کیا ہو سکتی ہے؟
مسلم ممالک میں اس حوالے سے تین رجحانات عام طو رپر پائے جاتے ہیں اور ان کے درمیان امتیاز بلکہ کشاکش دن بدن واضح ہوتی جا رہی ہے:
  • آج کے عالمی ماحول، جدید ثقافتی فضا اور بین الاقوامی مطالبات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اسلامی احکام وقوانین کو اس علمی ورثے اور فقہی ذخیرے کی بنیاد پر بالکل اسی طرح نافذ کر دیا جائے جس طرح وہ ترکی کی خلافت عثمانیہ اور جنوبی ایشیا کی مغل سلطنت میں نافذ تھے اور جن کی اس وقت تک کی ارتقائی شکل ہمارے پاس ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ اور ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ کی صورت میں موجود ہے۔
  • اس علمی ورثے اور فقہی ذخیرے کو ایک طرف رکھتے ہوئے جدید عالمی تقاضوں اور بین الاقوامی مطالبات کو سامنے رکھ کر قرآن وسنت بلکہ بعض حلقوں کے نزدیک صرف قرآن کریم کی بنیاد پر نئی فقہ تشکیل دی جائے اور اسے مسلم ممالک میں قانون سازی کی اساس قرار دیا جائے۔
  •  گزشتہ چودہ سو سال کے علمی ورثے اور فقہی ذخیرے سے ترک تعلق اور اس سے براء ت کا اظہا ر کرنے کی بجائے اسی کی بنیاد پر اور اس کے مسلمہ اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے نئے مسائل کا حل تلاش کیا جائے، جدید قانون سازی کے تقاضوں کی تکمیل کی جائے اور جن بین الاقوامی مطالبات اور تقاضوں کو پورا کرنے کی عملی صورتیں اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے نکالی جا سکتی ہیں، ان سے گریز نہ کیا جائے۔ 
پورے عالم اسلام میں ان تین حوالوں سے علمی کام جاری ہے اور ہر حلقہ اپنی سوچ کو آگے بڑھانے کے لیے تگ وتاز میں مصروف ہے۔ راقم الحروف خود کو اس تیسرے حلقے میں شمار کرتا ہے اور پورے شرح صدر کے ساتھ یہ سمجھتا ہے کہ پہلی دونوں صورتیں غیر متوازن اور غیر عملی ہیں، اس لیے کہ نہ تو یہ ممکن ہے کہ ہم آج کے عالمی ماحول کو کلیتاً نظر انداز کر دیں اور جدید بین الاقوامی تمدنی تقاضوں سے آنکھیں بند کرتے ہوئے دو سو سال قبل کے اجتہادی فیصلوں اور عمل کو آج کے لیے بھی مکمل طور پر واجب العمل قرار دے دیں، ا ور نہ ہی یہ ہو سکتا ہے کہ ہم امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ اجماعی تعامل، فقہاے امت کی علمی کاوشوں اور دنیا بھر کے مسلم معاشروں میں اسلامی احکام و قوانین کی حکمرانی کے کم وبیش ایک ہزار سالہ تسلسل کو بین الاقوامیت کے جدید ماحول کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے قرآن کریم یا قرآن وسنت کی نئی تعبیر وتشریح کرنے بیٹھ جائیں، کیونکہ ایسا کوئی بھی عمل مسلمہ اسلامی اصولوں کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کی غالب ترین اکثریت کے نزدیک بھی قابل قبول نہیں ہوگا اور اس کا عملی نتیجہ مسیحیت میں مارٹن لوتھر کی پراٹسٹنٹ تحریک کی طرح سوسائٹی کو دین سے کلیتاً لاتعلق کر دینے کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوگا۔ اس لیے راقم الحروف کے نزدیک اسلامی قوانین واحکام کی تعبیر وتشریح کے لیے صحیح، قابل عمل اور متوازن راستہ یہ ہے کہ:
  • امت مسلمہ کے اجماعی تعامل اور اہل السنۃ والجماعۃ کے علمی مسلمات کے دائرہ کی بہرحال پابندی کی جائے۔
  • امت مسلمہ کی غالب اکثریت کی فقہی وابستگیوں کا احترام کرتے ہوئے ہر ملک میں وہاں کی اکثریت کے فقہی رجحانات کو قانون سازی کی بنیاد بنایا جائے، البتہ قانون سازی کو صرف اسی دائرے میں محدود رکھنے کی بجائے دوسری فقہوں سے استفادہ یا بوقت ضرورت قرآن وسنت سے براہ راست استنباط کا دروازہ بھی کھلا رکھا جائے۔ مثلاً انڈونیشیا میں شوافع کی اکثریت ہے تو اس اکثریت کا یہ حق تسلیم کیا جائے کہ ان کے ملک میں قانون سازی کی بنیاد فقہ شافعی پر ہو، کیونکہ یہ ایک اصولی اورمعقول بات ہونے کے علاوہ ہاں کی اکثریتی آبادی کا جمہوری حق بھی ہے۔
  • جدید عالمی ثقافتی ماحول اور گلوبلائزیشن سے پیدا ہونے والے مسائل اور بین الاقوامی مطالبات اور تقاضوں کو نہ تو حق اور انصاف کا معیار تصور کیا جائے کہ ہم ہر تقاضے کے سامنے سپرانداز ہوتے چلے جائیں اور اس کے لیے اسلامی اصولوں اور احکام سے دست برداری یا ان کی مغرب کے لیے قابل قبول توجیہ وتعبیر ہی ہماری علمی کاوشوں کا ہدف بن کر رہ جائے اور نہ ہی ہم انھیں یکسر نظر انداز کرتے ہوئے نفاذ اسلام کے لیے اپنی پیش رفت کا راستہ خود ہی روکے کھڑے رہیں، بلکہ جن مطالبات اور تقاضوں کو ہم قرآن وسنت کی تعلیمات، اہل سنت کے علمی مسلمات اور اجتہاد شرعی کے دائرے میں قبول کر سکتے ہیں، انھیں کھلے دل سے قبول کریں اور جو امور قرآن وسنت کی نصوص صریحہ اور اجتہاد شرعی کے مسلمہ اصولوں سے متصادم ہوں، ان کے بارے میں کسی قسم کا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیے بغیر پوری دل جمعی کے ساتھ ان پر قائم رہیں۔
اس پس منظرمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذ شریعت اور اسلامی قوانین واحکام کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے مختلف اطراف میں جو کام ہو رہا ہے، اس کے بارے میں بھی کچھ اصولی گزارشات ضروری سمجھتا ہوں:
۱۔ صرف قرآن کریم کو قانون سازی کی بنیاد بنانا اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قانون سازی کا ماخذ تسلیم نہ کرنا قطعی طور پر ناقابل قبول اور خود قرآنی تعلیمات کے منافی ہے۔
۲۔ سنت رسول سے مراد وہی ہے جو امت مسلمہ چودہ سو سال سے اس کا مفہوم سمجھتی آ رہی ہے اور اس سے ہٹ کر سنت کا کوئی نیا مفہوم طے کرنا اور جمہور امت میں اب تک سنت کے متوارث طور پر چلے آنے والے مفہوم کو مسترد کر دینا بھی عملاً سنت کو اسلامی قانون سازی کا ماخذ تسلیم نہ کرنے کے مترادف ہے۔
۳۔ ایک رجحان آج کل عام طور پر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ سنت مستقل ماخذ قانون نہیں ہے، بلکہ اس کی حیثیت ثانوی ہے اور قرآن کریم کے ساتھ اس کی مطابقت کی صورت میں ہی اسے احکام وقوانین کی بنیاد قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بظاہر بہت خوب صورت بات ہے، لیکن اس صورت میں اصل اتھارٹی سنت نہیں بلکہ مطابقت تسلیم کرنے یا نہ کرنے والے کا ذہن قرار پاتا ہے کہ وہ جس سنت کو قرآن کریم کے مطابق سمجھ لے، وہ قانون کی بنیاد بن سکتی ہے اور جس سنت کو اس کا ذہن قرآن کریم کے مطابق قرار نہ دے، وہ احکام وقوانین کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ 
یہاں ایک بات یہ بھی مغالطہ کا باعث بنتی ہے کہ قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں مطابقت کے لیے عقل عام کو معیار تسلیم کر لیا جائے تو معاملہ قرین قیاس ہو جاتا ہے، مگر یہ سراسر مغالطہ ہے، اس لیے کہ عقل عام کی بنیاد میسر معلومات، مشاہدات اور تجربات پر ہوتی ہے جن کے دائرے زمان ومکان دونوں حوالوں سے تغیر پذیر رہتے ہیں، اس لیے عقل عام کو قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح یا ان کے درمیان تطبیق وتوفیق کا حتمی معیار قرار دینے کا مطلب قرآن وسنت کو کسی ایک دور یا علاقہ کی عقل عام کا پابند بنا دینے یا ہر زمانہ اور علاقہ کے لیے الگ الگ تعبیر وتشریح کا دروازہ کھول دینے کے مترادف ہوگا، اس لیے صحیح راستہ یہی ہے کہ سنت کو ثانوی درجہ کا ماخذ قانون قرار دینے کی بجائے اسلامی قانون سازی کا مستقل ماخذ اور قرآن وسنت کی تعبیر و تشریح کا حتمی معیار تسلیم کیا جائے، جیسا کہ حضرات صحابہ کرامؓ کے دور میں ہوتا تھا اور اسی پر امت مسلمہ کا اجماعی تعامل چلا آ رہا ہے۔
البتہ ان حدود کی پابندی کی یہ بات فیصلہ کے مراحل کی ہے اور میرے نزدیک علامہ محمد اقبالؒ کی طرف سے قانون سازی کے لیے منتخب پارلیمنٹ کو حتمی اتھارٹی قرار دینے کی تجویز کا ایک افادی پہلو یہ بھی ہے کہ رائے عامہ کو مسترد کر کے کسی ایک گروہ کی رائے کو مسلط کر دینے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں جس کا تجربہ ہم پاکستان میں اس طرح کر چکے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک عرصہ تک سنت نبوی کو نظر انداز کرکے صرف قرآن کریم کو قانون سازی کا ماخذ قرار دینے کی تحریک چلتی رہی اور اس کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر بہت محنت کی گئی، لیکن جب عوام کی منتخب دستور ساز اسمبلی نے ۱۹۷۳ء میں قانون سازی کی دستوری بنیادیں طے کیں تو اس کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ موجود نہیں تھا کہ وہ رائے عامہ کا احترام کرتے ہوئے قرآن وسنت ، دونوں کو قانون سازی کی بنیاد کے طور پر تسلیم کرے، بلکہ اگر کسی معاملے میں پارلیمنٹ نے بھی عوام کی جمہوری رائے اور رجحانات کو نظر انداز کیا ہے تو رائے عامہ نے اسے قبول نہیں کیا، جیسا کہ مروجہ عائلی قوانین کو اگرچہ پارلیمنٹ نے قبول کر رکھا ہے، لیکن اس کے باجود اس کی قرآن وسنت سے متصادم شقوں کے بارے میں آج بھی عوام کی غالب اکثریت اپنے سابقہ رجحانات پرقائم ہے اور ذہنی طور پر انھیں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس لیے مجھے اس بارے میں کوئی شبہہ یا پریشانی نہیں ہے کہ جب بھی حتمی فیصلہ کا مرحلہ آئے گا، عوام کے جمہوری اور اکثریتی رجحانات کو نظر انداز کر دینا کسی کے بس میں نہیں ہوگا اور نہ ہی ان سے ہٹ کر کیا جانے والا کوئی فیصلہ امت مسلمہ کو باور کرایا جا سکے گا، البتہ کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے علمی بحث ومباحثہ کا میدان محدود نہیں رہنا چاہیے اور نہ ہی ماضی میں اہل علم کے ہاں اس کا دائرہ کبھی تنگ رہا ہے۔ ہماری علمی روایت یہ چلی آ رہی ہے کہ کسی بھی مسئلہ پر بحث ومباحثہ ہمیشہ کھلے دل ودماغ سے کیا گیا ہے، مسئلہ کے ہر پہلو پر بات ہوئی ہے، تجزیہ وتنقیح کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا گیا اور استدلال واستنباط کی کوئی گنجایش ادھوری نہیں رہنے دی گئی، کیونکہ جس طرح کسی مقدمے میں صحیح فیصلے تک پہنچنے کے لیے تفتیش کے کسی امکانی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح کسی علمی مسئلے میں صحیح نتیجے تک رسائی کے لیے اس کے تمام امکانی پہلووں کو کھنگالنا بھی ضروری ہوتا ہے اور اسی وجہ سے میں اہل علم میں بحث ومباحثہ کے لیے کھلے ماحول کو پسند کرتا ہوں اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہوں۔
عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے جب حدود وتعزیرات کے حوالے سے اپنی کاوش اس کتابچہ کی صورت میں پیش کی جو اسلامی نظریاتی کونسل نے شائع کیا ہے تو مجھے اس کے تمام مندرجات سے اتفاق نہیں تھا، لیکن اس نوعیت کے مسائل میں علمی بحث ومباحثہ کے کھلے ماحول کو میں نے ہمیشہ نہ صرف پسند کیا ہے بلکہ اسے ضروری بھی سمجھتا ہوں، جیسا کہ مجھ سے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے ’’خطبہ اجتہاد‘‘ کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ بطور موقف اور فیصلے کے میں اسے قبول نہیں کرتا، لیکن بحث ومباحثہ کی بنیاد اور ایجنڈے کے طور پر اس کا احترام کرتا ہوں اور اس میں اٹھائے گئے نکات پر سنجیدہ علمی بحث ومباحثہ کی حمایت کرتا ہوں۔
آج کے نوجوان اہل علم جو اسلام کے چودہ سو سالہ ماضی اور جدید گلوبلائزیشن کے ثقافتی ماحول کے سنگم پر کھڑے ہیں، وہ نہ ماضی سے دست بردار ہونا چاہتے ہیں اور نہ مستقبل کے ناگزیر تقاضوں سے آنکھیں بند کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ اس کوشش میں ہیں کہ ماضی کے علمی ورثہ کے ساتھ وابستگی برقرار رکھتے ہوئے قدیم وجدید میں تطبیق کی کوئی قابل قبول صورت نکل آئے، مگر انھیں دونوں جانب سے حوصلہ شکنی کا سامنا ہے اور وہ بیک وقت ’قدامت پرستی‘ اور ’تجدد پسندی‘ کے طعنوں کا ہدف ہیں۔ مجھے ان نوجوان اہل علم سے ہمدردی ہے، میں ان کے دکھ اور مشکلات کو سمجھتا ہوں اور ان کی حوصلہ افزائی کو اپنی دینی ذمہ داری سمجھتا ہوں، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ امت کے اجماعی تعامل اور اہل السنۃ والجماعۃ کے علمی مسلمات کا دائرہ کراس نہ ہو، کیونکہ اس دائرے سے آگے بہرحال گمراہی کی سلطنت شروع ہو جاتی ہے۔
عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے اسی علمی کاوش کا سلسلہ آگے بڑھایا ہے اور زیادہ وسیع تناظر میں حدود وتعزیرات اور ان سے متعلقہ امور ومسائل پر بحث کی ہے جو آپ کے سامنے ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کے ہر پہلو سے اتفاق کیا جائے، البتہ اس علمی کاوش کا یہ حق ضرور بنتا ہے کہ اہل علم اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیں، بحث ومباحثہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کے مثبت ومنفی پہلووں پر اظہار خیال کریں اور جہاں کوئی غلطی محسوس کریں، اسے انسانی فطرت کا تقاضا تصور کرتے ہوئے علمی مواخذہ کا حق استعمال کریں تاکہ صحیح نتیجے تک پہنچنے میں ان کی معاونت بھی شامل ہو جائے۔
میں دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت عزیزم عمار سلمہ کی اس کاوش کو حق تک رسائی کا ذریعہ بنائیں اور آج کے دور میں نفاذ اسلام کے حوالے سے درپیش علمی وفکری چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے ہم سب کو اپنا اپنا کردار صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

شرعی سزاؤں میں ترمیم و تغیر کا مسئلہ

حافظ محمد سلیمان

موجودہ دور میں فرد کی تقدیس و احترام میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے اور اس کو پوری معاشرتی زندگی کا محور ومرکز قرار دیتے ہوئے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام کی سزائیں وحشیانہ، ظالمانہ اور متشددانہ ہیں اور ان کے ذریعے معاشرہ میں خونریزی اور بربریت وجود میں آتی ہے۔ نیز یہ سزائیں درحقیقت قدیم زمانہ کے وحشیوں کے لیے وضع کی گئی تھیں۔ چونکہ معاشرہ مسلسل ترقی کی طرف رواں دواں ہے، لہٰذا اب ان سزاؤں کو نافذ کرنا موجودہ انسانی معاشرہ کے ساتھ ناانصافی اور سراسر ظلم ہے، اس لیے اسلامی سزاؤں کو کالعدم قرار دے کر یا ان میں ترمیم کرکے عصرحاضر کے مزاج کے مطابق سزائیں رائج کی جانی چاہییں اور مثال کے طور پر قتل کے بدلے میں قتل جیسی سزا کو عمر قید میں بدل دیا جانا چاہیے۔ 
یہاں تین امور پر الگ الگ غور کرنا ضروری ہے:
(۱) کیا اسلامی سزائیں وحشیانہ اور بے انصافی پر مبنی ہیں اور خونریزی وبربریت کو جنم دیتی ہیں؟
(۲) کیا یہ سزائیں صرف زمانہ قدیم کے لوگوں کے لیے وضع کی گئی تھیں؟ 
(۳) کیا نصوص قطعیہ سے ثابت ہونے والی سزاؤں کو کالعدم کر نے یا ان میں ترمیم کرنے کا ارباب اقتدار کو اختیار حاصل ہے؟

وحشیانہ سزائیں؟

پہلا اعتراض یہ ہے کہ اسلامی سزائیں وحشیانہ اور ناانصافی پر مبنی ہیں اور ان سے خونریزی اور بربریت جنم لیتی ہے۔ اگراس مفروضہ کا بنظرغائر جائزہ لیا جائے تو بالکل مہمل اور غلط نظر آتا ہے، اس لیے کہ اسلامی سزائیں نہ تو وحشیانہ ہیں اور نہ ہی بے انصافی پر مبنی ہیں، بلکہ یہ سزائیں عدل وانصاف کا تقاضا اور امن وامان کو قائم رکھنے کی ضمانت ہیں۔ مثال کے طورپر قتل کی صورت میں مقتول کے ورثا کے لیے حصول حق کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں: یا تو ورثاے مقتول قاتل کو اسی طرح منطقی انجا م تک پہنچا دیں جیساکہ اس نے فساد فی الارض کا ارتکاب کیا ہے اور یا قاتل پر رحم کھاتے ہوئے اس سے خون بہا (دیت) لینے کا طریقہ اختیار کر لیں۔ دیکھا جائے تو یہ عین انصاف اور عقل کا تقاضا تھا کہ مقتول کے ورثا کو ان کا حق کسی نہ کسی صورت میں ملے۔ اس کو وحشیانہ اور ظالمانہ سلوک کہنا کسی طرح درست نہیں، اس لیے کہ ایک شخص نے ناحق طور پر خون بہایا اور ملک میں بدامنی اور فساد کا بیج بویا ہے، تو اب وہ اس چیز کا سزاوار ہے کہ اس کو عبرت ناک سزا دی جائے تاکہ ورثاے مقتول کے جذبہ انتقام کو تسکین ملے اور دوسرے لوگوں کے سامنے ایک انسان کے قاتل کا منطقی انجام آجائے اور وحشت وبربریت کو پروان چڑھنے کا موقع نہ ملے۔ اسی پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ ’ولکم فی القصاص حیوۃ یا اولی الالباب لعلکم تتقون‘ (البقرۃ،۲:۱۷۹) ’’اے اہل فہم! تمہارے لیے (قانون)قصاص میں زندگی ہے تاکہ تم بچو۔‘‘ اسلامی دستور میں اعلان کیا گیا ہے ہر مومن کی اور امت کے ہر فرد کی زندگی یکساں قابل احترام ہے۔ مرد ہو، عورت ہو، آزاد ہو، غلام ہو، کوئی بھی ہو، جس کا جو قاتل ہو گا وہی سزا پائے گا۔ پھر سزا بھی مماثلت ومساوات پر مبنی ہے۔ (المائدۃ، ۵: ۳۲) اس کے ساتھ اسلامی قانون قصاص میں عفو کے پہلو پر بھی توجہ دی گئی ہے کہ اگر ورثاے مقتول معاف کر دیتے ہیں تواسلامی قانون اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ شریعت موسوی میں تو خون کا بدلہ صرف خون تھااور تورات میں اس طرح کی تصریحات موجود ہیں کہ ’’جو انسان کو مارڈالے گا، وہ مار ڈالا جائے گا‘‘ (احبار، ۲۴:۱۷)، ’’جو انسان کو مار ڈالے، جان سے مارا جائے‘‘ (احبار، ۲۴:۲۱)، ’’توڑنے کے بدلہ توڑنا، آنکھ کے بدلہ آنکھ، دانت کے بدلہ دانت، جیسا کوئی کسی کا نقصان کرے ، اس سے ویسا ہی کیا جائے‘‘ (احبار، ۲۳: ۲۰)، مگرشریعت اسلامیہ نے صاحب حق کو عفو کے پہلو کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ (البقرۃ، ۲:۱۷۸) ایک طرف قصاص کی بظاہر سختی، دوسری طرف دیت اور عفو کی نرمی، یہ حسن امتزاج اور اعتدال وتوازن کا یہ مکمل قوام اسی قانون کا حصہ ہو سکتا ہے جوبشری دماغ سے نہیں، حکمت مطلقہ سے نکلا ہوا ہو۔
انسانی تمدن کی بنیاد جس قانون پر قائم ہے، اس کی سب سے پہلی دفعہ یہ ہے کہ انسان کی جان اور اس کا خون محترم ہے۔ اس لیے تمام حقوق میں سب سے زیادہ اہم حق جان کا تحفظ ہے کیونکہ زندگی کے تحفظ کے بغیر ایک تو انفرادی ترقی ناممکن ہے، دوسرا اجتماعی طورپر کوئی بہتر معاشرہ بھی وجود میں نہیں آ سکتا اور جب تک زندگی کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہ ہو، زندگی کے مقاصد کا حصول ناممکن ہو جاتاہے ۔ انسان کے مدنی حقوق میں اولین حق زندہ رہنے کا حق ہے اور اس کے مدنی فرائض میں سے اولین فرض زندہ رہنے دینے کا فرض ہے۔ کسی ذاتی فائدہ کی خاطر یاکسی ذاتی عداوت کی خاطر اپنے ایک بھائی کو قتل کرنا بدترین قساوت اور انتہائی سنگ دلی ہے جس کا ارتکاب کر کے انسان میں کوئی اخلاقی بلندی پیدا ہونا تو درکنار، اس کادرجہ انسانیت پر قائم رہنا بھی محال ہے۔ 
ایک اور جہت سے دیکھاجائے تو سزائیں ایسی وضع کی جانی چاہییں جن سے فرد اور معاشرہ کی اصلا ح مقصود ہو اور مجرم دست اندازی سے رک جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجرم کو نرم سزا مل جانے کے بعد وہ جرائم میں ملوث اور دندناتا پھرتا رہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسی سزا دی جائے جو خوف ناک اور دوسروں کے لیے سامان عبرت ہو۔ یہ مذکورہ صفات اسلامی سزاؤں میں بخوبی پائی جاتی ہیں۔ قرآن حکیم میں اسی پہلو کے پیش نظر حکم دیا گیا ہے کہ زانی مرد وعورت کو سزا دیتے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو موجود رہنا چاہیے۔ (النور:۲) اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ مقصود محض سزا ہی نہیں بلکہ سزا کو عبرت کا ذریعہ بنانا ہے کہ خود فرد کی بھی اصلاح ہو اوراس سزا کی نمائش سے دیگر افراد معاشرہ بھی عبرت پکڑیں۔ 
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اسی پہلو کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مجرم کے لیے بتقاضاے عقل ایسی سزا ہونی چاہیے کہ اس کامرتکب اپنے معاشرے میں نفور کی نگاہ سے دیکھا جائے اور ساری زندگی سوسائٹی کے دیگر افراد کے لیے سامان عبرت بنا رہے اور اس کے انجام کو دیکھ کر بہت کم لوگ اس قسم کے جرائم کرنے کی جسارت کریں گے اور اگر ایسی سزائیں نافذ نہ کی جائیں تو معاشرہ کشت وخون سے بھر جائے گا اور لوگوں کے حقوق پامال ہوتے رہیں گے۔ شاہ صاحب ؒ لکھتے ہیں کہ اس طرح کے جرائم میں محض آخرت کا خوف دلانا اور نصیحت کرنا کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ ایسی سخت اور عبرت آموز سزا مقرر کی جائے کہ معاشرہ کے دیگر افراد کے لیے سامان عبرت بنا رہے اور لوگ اسی قسم کے فعل کی جرات نہ کریں۔ (حجۃ اللہ البالغہ، ۲: ۱۵۸)
اس اعتراض کا ایک اور پہلو سے بھی جواب دیا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ قوانین شرعیہ اور قوانین وضعیہ کے مابین نتائج وعواقب کے اعتبار سے پائے جانے والے فرق کو سمجھ نہیں پاتے۔ شریعت اور وضعی قانون دونوں اس بات پر تو متفق ہیں کہ جرائم کا سد با ب ہو نا چاہیے تاکہ سوسائٹی کے نظام امن میں کوئی خلل واقع نہ ہو، چنانچہ شریعت اور وضعی قانون دونوں، جرائم کے سدباب کے لیے قوانین وضع کرتے ہیں،لیکن فرق یہ ہے کہ قوانین شرعیہ کی بنیادا ور زاویہ نگاہ جرائم کے سد باب کے ساتھ ساتھ ’’اخلاق فاضلہ‘‘ پر بھی ہوتا ہے، کیونکہ شارع چاہتا ہے کہ اخلاقی اقدار کا پورا پورا تحفظ کیا جائے، اس لیے ہر غیر اخلاقی یا مخرب اخلاق فعل پر سزائیں وضع کی گئیں ہیں۔ اس کے برخلاف قوانین وضعیہ کو انفرادی اخلاق سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، البتہ اگر غیر اخلاقی فعل سے کسی دوسرے فردیا جماعت کے نظام یاامن عامہ کو نقصان پہنچنے کا امکان ہو تو پھر قانون حرکت میں آ جاتا ہے۔ مثلاً زنا کو لیجیے۔ اگر عورت اورمرد دونوں اپنی رضامندی سے زنا کا ارتکاب کریں تو وضعی قانون اس سے کوئی تعرض نہیں کرتا کیونکہ یہ افراد کا ذاتی معاملہ ہے، لیکن اگر زنا بالجبر ہوتو چونکہ یہ فعل ایک دوسرے فرد کے حق میں اس کی مرضی کے خلاف مداخلت ہے، اس لیے وضعی قانون اس میں دست اندازی کرے گا۔ لیکن شریعت زنا کو ایک غیر اخلاقی عمل سمجھتی ہے، اس لیے اس کا ارتکاب خواہ جانبین کی رضا مندی سے ہو یا بالجبر، شریعت اسے مستوجب سزا قرار دے گی۔ شریعت کایہ اصول ہے کہ اگر افراد کے اخلاق خراب ہوں گے تو جماعت بھی خراب ہو جائے گی۔ مزید برآں قوانین وضعیہ بشری میلانات ورجحانات اور انسانی کمزوریوں سے مبرا نہیں ہو سکتے، جبکہ قوانین شرعیہ منزل من اللہ ہونے کی وجہ سے بے عیب اور تقاضاے فطرت کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں اسلامی قوانین کی بجائے صرف قوانین وضعیہ پر عمل درآمد ہوتا ہے، وہاں عائلی نظام شکست وریخت کاشکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برخلاف جہاں جہاں بھی قوانین شرعیہ کاعملی نفاذ ہوتا ہے وہاں پرشرپسند اور دون فطرت عناصر اپنے کردار کش اقدامات سے رک جاتے ہیں اور معاشرہ کو سکون قلب اور روحانی طمانینت میسر آ جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے اسلامی حدودکی وجہ نفاذ یہی بتلائی ہے کہ بعض معاصی جن کے ارتکاب پر شریعت نے حد مقرر کی ہے، یہ وہی معاصی ہیں جن کے ارتکاب سے زمین پر فساد پھیلتا ، نظام تمدن میں خلل واقع ہوتا اور مسلمانوں کے معاشرے کی طمانینت اور سکون قلب رخصت ہوجاتا ہے۔ (جحۃ اللہ البالغہ:۲،۱۵۸) 

کیا اسلامی سزائیں آفاقی نہیں؟

دورحاضر میں اسی نوعیت کا یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ درحقیقت یہ اسلامی سزائیں مخصوص زمان ومکان میں مخصوص تمدنی مزاج اور معاشرتی عادات واطوار کو ملحوظ رکھتے ہوئے تجویز اور وضع کی گئیں تھیں اور اب چونکہ زمانہ میں ارتقا آگیا ہے اور وہ مخصوص تمدنی مزاج اور معاشرتی عادات واطوار نہیں رہے جن کی بنیاد پر اس طرح کی اسلامی سزائیں نافذ کی گئی تھیں، لہٰذا ضروریات زمانہ کو سامنے رکھتے ہوئے ان اسلامی سزاؤں میں تجدید وترمیم کرنا ہو گی اور عصر حاضر میں ان اسلامی سزاؤں کو بعینہ رائج اور نافذ کرنا موثر اور موزوں نہیں ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ جدید ذہن مختلف تمدنی اور نفسیاتی عوامل کے تحت اسلامی سزاؤں سے اجنبیت محسوس کرتا ہے اور اس بات کاامکان ہے کہ ان سزاؤں کا نفاذ نفسیاتی طورپر دین سے دوری کا سبب بن جائے، اس لیے مصلحت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان اسلامی سزاؤں کے نفاذ کو روک دیا جانا چاہیے۔ اس کی تائید میں سیدنا عمرؓ کے عمل کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے دورحکومت میں قحط سالی کی زمانہ میں چور کے لیے قطع ید کی سزا کے نفاذ پر عمل در آمد روک دیا تھا جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان شرعی سزاؤں کا نفاذ ہر حالت میں ضرور ی نہیں ہے۔ 
اس اعتراض کا جواب یہ ہے نصوص شرعیہ سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اسلامی سزائیں محض مخصوص سماج کی معاشرتی عادات واطوار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے وضع نہیں کی گئی تھیں بلکہ اس کا مقرر کیا جانا اور ان کا نفاذ خداے عزوجل کے حق کے طور پر تھا۔ لہٰذا شارع کے حکم کے بغیر علمی وعقلی طو ر پر ان میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ چنانچہ جب یہودیوں نے تورات میں مقرر کردہ بعض سزاؤں کو سنگین تصور کرتے ہوئے بعض مقدمات اور فیصلوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں نرمی کی توقع کرتے ہوئے آپ کی طرف رجوع کیا تو قرآن مجید نے اس عمل یہود پر سخت تنقید کی اور فرمایا کہ ان کے پاس تورات موجود ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے، پھر یہ اس کوچھوڑ کر آپ کو کیسے حکم بنا سکتے ہیں؟ (مائدہ۵:۴۳) نبی علیہ السلام نے اس مقدمے میں مجرموں پر تورات کے مطابق سزا نافذ فرمائی اور پھر فرمایا: اللھم انی اول من احیاک امرک اذ اماتوہ۔ ’’ اے خدا! میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا جب کہ ان لوگوں نے اسے مردہ کر رکھا تھا۔ (مسلم: رقم ۳۲۱۲) 
جہاں تک اسلامی سزاؤں کے نفاذ کی وجہ سے دین سے دوری کی بات ہے تو یہ بات اس حد تک درست ہے کہ دین کے احکام پر موثر عمل درآمد ان کی اعتقادی واخلاقی اساسات پر مضبوط ایمان اور شکوک وشبہات کو ازالہ کیے بغیر ممکن نہیں، تاہم اس نکتہ کی بنیاد پر شرعی سزاؤں کو جدید دور میں کلیتاً ناقابل نفاذ قرار دے کر مستقل بنیادوں پر متبادل سزاؤں کا جواز اخذ کرنا درست نہیں، اس لیے کہ پھر یہ معاملہ قانون کے عملی نفاذ کی مصلحت تک محدود نہیں رہتا بلکہ فکرونظر کے زاویے میں ایک نہایت بنیادی اختلاف کو قبول کرنے تک جا پہنچتا ہے۔ جدید ذہن کا اشکال یہ ہے کہ یہ سزائیں وحشیانہ دور کی یاد گار ہیں۔ زاویہ نگاہ کایہ فرق قانون کی مابعدالطبیعیاتی اور اعتقادی بنیادوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اسلام خدا کے سامنے مکمل تسلیم اور سپردگی کا نام ہے۔ یہ سپردگی مجرد قسم کے ایمان واعتقاد اور بعض ظاہری پابندیوں کو بجا لانے تک محدود نہیں، بلکہ انسانی جذبات واحساسات بھی اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ محبت ،نفرت، ہمدردی اور غصے جیسے جذبات اور حب ذات، آزادی اور احترام انسانیت جیسے احساسات وتصورات نفس انسانی میں خدا ہی کے ودیعت کردہ اور اس اعتبار سے بجائے خود امانت کی ہیں۔ چنانچہ اسلام کے نزدیک ان کا اظہار اسی دائرۂ عمل میں اوراسی حد تک قابل قبو ل ہے جب تک وہ خداکے مقرر کردہ حدود کے پابند رہیں۔ اس سے تجاوز کرتے ہوئے اگر ان کو کوئی مقام دیا جائے گا تو یہ خدا کی امانت کا صحیح استعمال نہیں، بلکہ اس میں خیانت کے متراد ف ہوگا۔ چنانچہ جدید انسانی نفسیات اگر جرم وسزا سے متعلق قرآنی احکام سے نفور محسو س کرتی ہے تو یہ محض قانون کی مصلحت یا اس کے سماجی تناظر کے بدل جانے کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کی جڑیں قانون کی مابعدالطبیعیاتی اساسات میں پیوست ہیں اور اس معاملے میں جدید فکرکے ساتھ کمپرومائز کا جواز فراہم کرنے کے لیے ’’اجتہاد‘‘ کے دائرے کو ایمان و اعتقاد تک وسیع کرنا پڑے گا۔ 
اسی طرح اس ضمن میں حضرت عمرؓ کے فیصلے سے استدلال کرنا بھی درست نہیں، اس لیے کہ کسی حکم کا اصولی طور پر واجب الاتباع نہ ہونا ایک اور چیز ہے اور کسی مخصوص صورت حال میں اس کے اطلاق میں کسی اخلاقی اور شرعی مصلحت کو ملحوظ رکھنا ایک دوسری چیز ہے۔ شریعت میں مختلف معاشرتی جرائم پرجو سزائیں مقرر کی گئی ہیں، ان کے نفاذ میں ا ن تمام شروط وقیود اور مصالح کو ملحوظ رکھنا لازمی ہے جو جرم وسزا کے باب میں عقل عام پر مبنی اخلاقیات قانون اور خود شریعت کی ہدایات ثابت ہیں۔ جرم کی نوعیت وکیفیت اور مجرم کے حالات کی رعایت کرنا اور اگر وہ کسی پہلو سے معاف کیے جانے کامستحق ہو تو اسے معاف کر دینا ا نہی اصولوں میں سے ایک بنیادی اصول ہے۔ کسی بھی مجرم پر سزا کا نفاذ اسی صورت میں قرین انصاف ہے جب مجرم بھی کسی بھی پہلو سے رعایت کا مستحق نہ ہو۔ اگر جرم کی نوعیت وکیفیت اور مجرم کے حالات کسی رعایت کا تقاضا کر رہے ہوں تو اس پہلو کونظر انداز کرتے ہوئے سزا کو نافذ کرنا عدل وانصاف اور خود شارع کی منشا کے خلاف ہے۔ چنانچہ سیدناعمرؓ نے اسی اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے قحط سالی کے زمانے میں قطع ید کی سزا پر عمل درآمد کو روک دیا تھا۔ ان کے اس فیصلے سے کسی طرح یہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت عمرؓ فی نفسہ ان سزاؤں کے نفاذکو غیر ابدی یا غیر آفاقی خیال کرتے تھے۔ 
(مذکورہ اعتراض اور اس کا جواب مکرمی مولانا عمارخان ناصر صاحب کے مضمون ’’شرعی سزاؤں کی ابدیت وآفاقیت کی بحث‘‘ (ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘ فروری ۲۰۰۸ء) سے اخذ کیا گیا ہے)۔ 
پاکستان جیسی اسلامی سلطنت میں بعض لوگ اسلامی سزاؤں میں تغیر وتبدل کے خواہاں ہیں، حالانکہ خدا کے قانون اور اس کے رسول کی سنت نے جو حقوق مقرر کر دیے ہیں، خواہ ان کا تعلق تحفظ جان، تحفظ حرمت اور تحفظ ملکیت ہے ہو یا حصول انصاف، مساوات، آزادی اظہار رائے اور آزادی عقیدہ وغیرہ سے، ان میں کسی قسم کا تغیر وتبدل کسی کے، حتیٰ کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائرہ اختیار میں بھی نہیں ہے۔ اس کی توثیق اس حدیث سے ہوتی ہے جسے مستند کتب حدیث میں روایت کیا گیا ہے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چوری کا ایک مقدمہ لایا گیا اور سفارش کے ذریعے مجرم کی سزا معاف کرانے کی کوشش کی گئی تو آپ نے فرمایا: اتشفع فی حد من حدود اللہ، (کیا تم اللہ کی مقر کردہ سزا کے معاملے میں سفارش کر رہے ہو؟) اس موقع پر آپ نے خطبہ دیا اور فرمایا: انما اھلک الذین قبلکم انہم کانو ا اذا سرق فیہم الشریف ترکوہ واذا سرق فیہم الضعیف اقاموا علیہ الحد، وایم اللہ لو ان فاطمۃ بنت محمد سرقت لقطعت یدھا۔ (بخاری، رقم ۶۷۸۸) 
شارع علیہ السلام کے اس ارشاد میں تنبیہ کی جا رہی ہے کہ اللہ کے مقرر کردہ حدود وفرائض میں تغیر ناممکن ہے اور اس امر کا تقاضا کیا جا رہا ہے کہ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، ان میں رائے زنی اور مداخلت نہ کرو ، بلکہ اسے من وعن لاگو کرو۔ معلوم ہوا کہ اگر کوئی مقدمہ شرعی شرائط کے ساتھ ثابت ہوجائے اور شرعی نقطہ نگاہ سے سزا کے نفاذ میں کوئی مانع نہ پایا جائے تو سفارش سزا کو ٹالنے میں کار گر نہیں ہوگی۔ چنانچہ ایک شخص حضرت زبیر بن عوام کے پاس ایک چور کو لے کر آیا اور اس کامقصد یہ تھا کہ حضرت زبیر سے اس کے حق میں سفارش کروائیں، لیکن حضرت زبیر نے کہا کہ سلطان کے دربار میں مسئلہ جانے کے بعد اب سفارش نہیں کی جا سکتی، بلکہ انہوں نے اس پر سفارش کرنے اور کروانے والے، دونوں کو لعنت کا مستحق قرار دیا۔ (تحفۃ الاحوذی، ۴:۵۸۲) جب معاملہ ارباب اقتدار تک پہنچ جائے اور وہ کسی شرعی وجہ کے بغیر اس سے پہلو تہی کرتے ہوئے اسے معاف کر دیں تو ان کا معاف کردینا شارع کے ہاں معافی متصور نہیں ہو گا۔ عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ فاذا وصل الی الوالی فعفا فلا عفا اللہ عنہ (سنن دارقطنی، ۲:۱۴۳) 

قرآن مجید میں قصاص کے احکام ۔ چند غور طلب پہلو (۲)

پروفیسر میاں انعام الرحمن

وَلا تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ إِلاَّ بِالحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْلِ إِنَّہُ کَانَ مَنْصُوراً (بنی اسرائیل ۱۷/ ۳۳)
’’قتلِ نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہوتو بے شک ہم نے اس کے ولی کو اختیار دیا ہے پس چاہیے کہ وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے ، ضرور اس کی مدد کی جائے گی ‘‘ 
اس آیت کے آغاز میں وَلا تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ إِلاَّ بِالحَقِّ کے بیان سے یہ واضح تاثر ملتا ہے کہ مقتول کو خون کے بدلے یا فساد فی الارض کے بجائے کسی اور وجہ سے قتل کیا گیا ہے اور یہ تاثر زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ دیتا ہے کہ قتل ، قتلِ حق نہیں ، بلکہ قتلِ ناحق ہے۔لیکن قرآنی اسلوب پکار پکار کر قاری کی توجہ اس جانب مبذول کر رہا ہے کہ بات صرف قتلِ ناحق تک محدود نہیں ، بلکہ کافی بڑھی ہوئی ہے۔ اگر وَلا تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ إِلاَّ بِالحَقِّ کے بعدیہ بیان کر دیا جاتا کہ: ’’جو قتل کر دیا جائے تو بے شک ہم نے اس کے ولی کو طاقت دی ہے پس چاہیے کہ وہ حد سے تجاوز نہ کرے، اس کی ضرور مدد کی جائے گی ‘‘ تو قتلِ ناحق کے ابلاغ کی حد تک ، بیان میں کسی قسم کی کوئی کمی یا خامی موجود نہیں تھی ، لیکن قرآن نے ایسے بیان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک لفظ مَظْلُوماً کا اضافہ کیا ہے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس لفظ کے بغیر قرآنی منشا پوری نہیں ہو رہی تھی، اسی لیے یہ لفظ باقاعدہ برتا گیا۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ یہ لفظ اس آیت میں قرآن کی منشا جاننے کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔
ظلم کا مطلب ہے کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رہنے دینا ، خواہ کمی کرکے یا زیادتی کر کے ، یا اسے اس کے صحیح وقت یا اصلی جگہ پر نہ رکھنا یا ہٹا دینا ۔ اس لیے ظلم کا اطلاق ہر قسم کی زیادتی اور تجاوز پر ہوتا ہے خواہ تجاوز قلیل ہو یا کثیر ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے قبل ظلم کے قرآنی مفاہیم کا مطالعہ نہایت ضروری ہے ۔قرآن مجید میں ظلم اپنی نوع کے اعتبار سے ، نفس پر ظلم سے لے کر خدا کے شریک ٹھہرانے تک پھیلا ہوا ہے ۔ لیکن ایک بات تقریباََ طے ہے کہ ظلم کی کوئی بھی صورت ہو ، وہ درحقیقت ظلم علی النفس ہی ہے ۔ کیونکہ انسان جب ظلم کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے ۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ظالم اپنے ظلم کا آغاز ہمیشہ اپنی ذات سے کرتا ہے ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ظلم کی یہ نوعیت واضح کی گئی ہے مثلاََ، البقرۃ ۰۲ : ۵۴ ، ۵۷ ، ۲۳۱ / آل عمران ۰۳: ۱۱۷، ۱۳۵ /النساء ۰۴ : ۶۴، ۱۱۰ /الاعراف ۰۷: ۲۳،۱۶۰ ، ۱۷۷ / توبہ ۹: ۳۶ ، ۷۰ / یونس ۱۰: ۴۴/ھود ۱۱ : ۱۰۱ / النحل ۱۶: ۳۳، ۱۱۸ /الکھف ۱۸ : ۳۵ / النمل ۲۷ : ۴۴ / القصص ۲۸: ۱۶ / العنکبوت ۲۹: ۴۰ / الروم ۳۰ : ۰۹/سبا ۳۴ : ۱۹ / الطلاق ۶۵ : ۰۱۔
ظلم اپنی اصل میں ظلم علی النفس ہونے کے باوجود ، محرکات و نتائج میں تنوع کے اعتبار سے ، کئی سمتوں میں پھیلا ہوا ہے ۔ مثلاً قصہ آدم و ابلیس کے اس پہلو کو ہی لیجیے کہ اللہ رب العزت نے وَقُلْنَا یَا آدَمُ اسْکُنْ أَنتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَکُلاَ مِنْہَا رَغَداً حَیْْثُ شِءْتُمَا وَلاَ تَقْرَبَا ہَذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُونَا مِنَ الْظَّالِمِیْنَ ( البقرۃ ۰۲: ۳۵)کے بیان میںآدم ؑ کو متنبہ کیا ہے کہ حکم کی خلاف ورزی کے نتیجے میں وہ ظالم قرار پائیں گے ، لیکن آدم ؑ شیطان کے وسوسے (فَوَسْوَسَ إِلَیْْہِ الشَّیْْطَانُ قَالَ یَا آدَمُ ہَلْ أَدُلُّکَ عَلَی شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلَی (طہ ۲۰: ۱۲۰) میں آکر (وَعَصَی آدَمُ رَبَّہُ فَغَوَی (طہ ۲۰:۱۲۱) اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہیں ، جس کی وجہ سے فَتَکُونَا مِنَ الْظَّالِمِیْنَ (البقرۃ ۰۲: ۳۵) کے خدائی حکم کی تتبع میں رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا کہتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی معافی کی درخواست کرتے ہیں  وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَاَ (الاعراف ۰۷:۲۳) ۔معافی کی درخواست میں تشویش اور خوف کا پہلونہایت عیاں ہے۔ لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (الاعراف ۰۷:۲۳) بہرحال ! معافی کی یہ التجا ظاہر کرتی ہے کہ آدم ؑ نے نافرمانی یا پھسلاہٹ کا مظاہرہ ، خدائی حکم کی جان بوجھ کرخلاف ورزی کے لیے نہیں کیا ، ورنہ وہ لازماََ متکبرانہ انداز اختیار کرتے اور اکڑتے پھرتے ، بلکہ اس کے برعکس ان کی التجا ایک لحاظ سے گواہ بن جاتی ہے کہ ان کی نافرمانی کے پیچھے (جس کی وجہ سے وہ ظالمین میں شامل ہو گئے ہیں ) ، کوئی ایسا محرک ہے جس نے ان سے نافرمانی کراتے ہوئے بھی ، انہیں اس اخلاقی سطح پر قائم و دائم رکھا ہے کہ وہ اکڑنے کے بجائے مغفرت و بخشش کے طلب گار ہوئے ہیں ۔ قرآن کے مطابق وہ محرک ،بھو ل نسیان ہے (وَلَقَدْ عَہِدْنَا إِلَی آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہُ عَزْماً (طہ ۲۰: ۱۱۵) ۔ اس لیے انہیں معاف کر دیا جاتا ہے (فَتَلَقَّی آدَمُ مِن رَّبِّہِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْْہِ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (البقرۃ ۰۲ : ۳۷)۔ قرآن مجید میں دیگر مقامات پر بھی ، اسی نوعیت کے بھول چوک والے ظالم کو مغفرت کی بشارت دی گئی ہے، مثلاً: 
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللّہِ وَلَوْ أَنَّہُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَہُمْ جَآؤُوکَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّہَ تَوَّاباً رَّحِیْماً (النساء ۰۴ : ۶۴)
’’ اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تمہارے حضور حاضر ہوں پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول بھی ان کے لیے اللہ سے معافی چاہے ، تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ‘‘ 
وَمَن یَعْمَلْ سُوء اً أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّہَ یَجِدِ اللّہَ غَفُوراً رَّحِیْماً (النساء ۰۴ : ۱۱۰)
’’ اور جو کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش چاہے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا ‘‘ 
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا زیرِ نظر آیت ( بنی اسرائیل ۱۷ : ۳۳)میں ظلم ، اسی نوعیت کا ہے ؟ اس کابدیہی جواب یہ ہے کہ ظالم (قاتل) کی نہ تو کسی بھول کا بیان ہوا ہے اور نہ ہی توبہ استغفار کا کوئی ذکر کیا گیا ہے، اس لیے اسے ظلم کی مذکورہ نوع میں شامل کرنا کسی طرح مناسب نہیں ۔ ظلم اگرچہ آغاز کے اعتبار سے ، ظلم علی النفس ہی ہے، لیکن محرکات و نتائج اسے نہایت سنگین بنا دیتے ہیں ۔ ظلم کی انتہائی سنگین نوع سے شناسائی بھی قصہ آدم و ابلیس سے ہوجاتی ہے: 
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَاءِکَۃِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیْسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّہِ أَفَتَتَّخِذُونَہُ وَذُرِّیَّتَہُ أَوْلِیَاء مِن دُونِیْ وَہُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ بِءْسَ لِلظَّالِمِیْنَ بَدَلاً (الکہف ۱۸: ۵۰)
’’ اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ، قوم جن سے تھا ، تو اپنے رب کے حکم سے نکل گیا ، بھلا کیا اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو ، اور وہ تمہارے دشمن ہیں ، ظالموں کو کیا ہی برا بدل ملا ‘‘۔
ایک اور مقام پر اس کی وضاحت إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ (لقمان ۳۱: ۱۳) کے الفاظ میں کی گئی ہے ۔ظلم کے حوالے سے ہی سورۃ المائدۃ (آیات ۲۷ تا ۳۱) میں آدم ؑ کے بیٹوں میں سے ایک کے دوسرے کو قتل کر دینے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس قصے کے ظالم بھائی کی ندامت کو، جو غالباََ لاش چھپانے سے لاعلمی پر مبنی ہے ، بڑھا چڑھا کر بھائی کے قتل تک بھی پھیلا لیا جائے تو یہ ندامت فرعون کے اس نا قابلِ قبول ایمان کے مانند معلوم ہوتی ہے جو وہ ڈوبتے وقت لے آیا تھا ۔ مقتول بھائی نے یہ کہہ کرکہ ’’ میں چاہتا ہوں کہ تم اٹھاؤ میرا بھی گناہ اور اپنا بھی گناہ ، تو ہو جاؤ گے اہلِ دوزخ میں سے ، اور یہ سزا ہے ظالموں کی ‘‘قتل پر آمادہ بھائی کے انجام کے ساتھ ساتھ اپنے قتل کی نوعیت کی بھی نشاندہی کر دی ہے کہ وہ مظلوم مقتول ہے ۔ ’’تو اس کے نفس نے اسے اپنے بھائی کی جان لینے پر رغبت دلائی ، تو اسے قتل کر دیا ، اور خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گیا‘‘ کا بیان آدم ؑ کے مقتول بیٹے کا بیان نہیں ، بلکہ الہی حکم ہے ، جس میں کسی ابہام کے بغیر نہایت صراحت سے ظالم بھائی کو خاسر قرار دیا گیا ہے ۔ قصہ آدم و ابلیس میں ، آدم ؑ کی تشویش کا ذکر ہوا تھا کہ ظالم ہونے کے ناطے ، انہیں خاسر قرار دیے جانے کا ڈر تھا: لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (الاعراف ۰۷:۲۳) ۔لیکن ان کے ظلم کے محرک اور ظلم کی نو عیت نے انہیں خاسر ہونے سے بچا لیا تھا۔ آ دم ؑ کے ظلم کی نوعیت ، کسی دوسرے شخص کی حق تلفی یا اس سے بھی بڑھ کر جان لینے کی حد تک نہیں بڑھی ، بلکہ نسیان کے سبب ، حکمِ الٰہی کی نافرمانی تک محدود ہے ۔ لیکن آدم ؑ کے بیٹوں کے قصے میں حکمِ الہی کی صریحاََ نافرمانی تو ہے ہی ، اس کے علاوہ ظلم اپنی نوعیت کے لحاظ سے کسی دوسرے شخص کی حق تلفی سے بڑھتا ہوا اس کی جان لینے کی انتہائی حد تک جا پہنچاہے ۔ 
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا زیرِ نظر آیت (بنی اسرائیل ۱۷ : ۳۳)کے مظلوم کا قاتل ، آدم ؑ کے ظالم بیٹے سے مماثل ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہر دو جگہ تقریباََ یکسانیت پائی جاتی ہے ۔ صاف معلوم ہورہا ہے کہ قتل ، ظالمانہ ہے اور ظلم ، کسی دوسرے کی جان لینے کی حد تک بڑھ گیا ہے۔ ’ مَظْلُوما‘ بہت ٹھوس انداز میں مقتول کی مظلومیت کی شہادت دے رہا ہے کہ صرف قتلِ ناحق ہی وقوع پذیر نہیں ہوا ، بلکہ ایسا ظلم رونما ہوا ہے جس میں مقتول نے قاتل کو کسی قسم کا اشتعال نہیں دلایا اور قاتل نے تقریباً یک طرفہ طور پر انتہائی ظالمانہ انداز میں قتل کا ارتکاب کیا ہے جیسا کہ آدم ؑ کے مقتول بیٹے کے بیان سے بھی واضح ہوتا ہے ’’ اگر تم نے میری طرف ہاتھ بڑھایا کہ مجھے قتل کرو تو میں اپنا ہاتھ تمہاری طرف تمہیں قتل کرنے کے لیے نہیں بڑھاؤں گا ، میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘ ۔ لہٰذا ہر دو مقامات پر قاتل کوئی ایسا جواز پیش کرنے سے قاصر ہے جس کی وجہ سے مقتول کو بھی ایک درجے میں ذمہ دار ٹھہراکر قاتل کے لیے نرمی کی کوئی گنجایش نکالی جا سکے ، اس لیے بنی اسرائیل ۱۷:۳۳ کے مظلوم کا قاتل بھی ، آدم ؑ کے مقتول بیٹے کے اس قول کا مصداق ہے ’’ میں چاہتا ہوں کہ تم اٹھاؤ میرا بھی گناہ اور اپنا بھی گناہ ، تو ہو جاؤ گے اہلِ دوزخ میں سے ، اور یہ سزا ہے ظالموں کی‘‘۔ اور اس امر میں بھی شک کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی کہ مظلوم کے قاتل پر حکمِ الہٰی ’’ اور خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گیا‘‘ کا بھی اطلاق ہوتا ہے ، اسی لیے یہاں معافی و خون بہا کا سرے سے بیان ہی موجود نہیں ۔ المختصر ! زیرِ نظر آیت (بنی اسرائیل ۱۷:۳۳) میں ، ظلم کی نوعیت و معنویت ، قتل کے ساتھ منسلک ہے ۔ قرآن میں قتل کی انواع کا بھی بیان ہوا ہے اور قتلِ خطا و قتلِ عمد کا باقاعدہ ذکر کیا گیا ہے(النساء ۰۴ : ۹۲، ۹۳) لیکن زیرِ نظر آیت میں قُتِلَ مَظْلُوماً کے الفاظ، قتل و ظلم کے معنوی حدود اربع کے فہم کے لیے، آدم ؑ کے بیٹوں کے قصے سے استفادہ کر رہے ہیں ۔ 
مَظْلُوماً اور آیت کا تکمیلی لفظ مَنْصُوراً پورے قرآن میں غالباََ اسی مقام پر استعمال ہوئے ہیں ۔ اس لیے ان کا ایک ہی مقام پر خاص انتخاب ، دونوں میں کسی گہرے داخلی تعلق کی غمازی کرتا ہے ۔ اس تعلق سے جنم لینے والی معنویت ، چھپائے نہیں چھپتی ۔مظلوم کی مدد کا یہ بیان بھی دیکھیے : 
أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ (الحج۲۲:۳۹)
’’ اجازت دی جاتی ہے انہیں جن سے جنگ کی جارہی ہے اس بنا پر کہ ان پر ظلم ہوا ہے اور بلاشبہ اللہ ان کی مدد پر قادر ہے ‘‘ 
ان دونوں الفاظ (ظلم، نصر ) کے قرآنی محلات ، باہمی تعلق پر مبنی معنویت مزید واضح کرتے ہیں۔ قرآن نے نہایت صراحت سے بیان کیا ہے کہ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ، جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مظلوم کا کوئی مددگار ہوتا ہے : 
فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِن نَّصِیْرٍ (فاطر ۳۵: ۳۷)
’’ تو اب چکھو کہ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ‘‘ 
وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِن نَّصِیْرٍ (الحج ۲۲ :۷۱)
’’ اور ان ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے ‘‘
وَالظَّالِمُونَ مَا لَہُم مِّن وَلِیٍّ وَلَا نَصِیْرٍ ( الشوری ۴۲/ ۰۸)
’’ اور ظالموں کا نہ کوئی ولی اور نہ مددگار ‘‘ 
بَلِ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا أَہْوَاء ہُم بِغَیْْرِ عِلْمٍ فَمَن یَہْدِیْ مَنْ أَضَلَّ اللَّہُ وَمَا لَہُم مِّن نَّاصِرِیْنَ (الروم ۳۰: ۲۹) 
’’ بلکہ ان ظالموں نے بغیر علم کے اپنے خیالات کا اتباع کر رکھا ہے ، سو اسے کون راہ پر لائے جسے خدا گم راہ کرے ، اور ان کا کوئی مددگار نہیں ‘‘
زیرِ نظر آیت ( بنی اسرائیل ۱۷ / ۳۳ ) میں قصاص کے بجائے ’سُلْطَاناً‘ کا استعمال غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔غالباً یہ مقتول کا مظلوم ہونا ہے جس کی وجہ سے یہ لفظ یہاں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ، مقتول کے مظلومانہ قتل کے پیشِ نظر اس کے ولی کی ذہنی حالت اور نفسیاتی کیفیت کا لحاظ رکھنے کے سلسلے میں یہ لفظ یہاں وارد ہو اہے ۔ ہماری رائے میں ’سُلْطَاناً‘ کا آیت کے تکمیلی لفظ ’ مَنْصُوراً‘ کے ساتھ گہرا داخلی ربط قائم ہے، اس ربط کی ایک نظیر قرآن میں ایسی صراحت سے سامنے آئی ہے جس سے زیرِ نظر آیت میں اس ربط کی معنویت و حکمت پوری شان کے ساتھ واضح ہو جاتی ہے: 
وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّیْ مِن لَّدُنکَ سُلْطَاناً نَّصِیْراً ( بنی اسرائیل۱۷:۸۰ ) 
’’ اور کہہ اے میرے رب داخل کر مجھ کو داخل کرنا سچا اور نکال مجھ کو نکالنا سچا ، اور مجھے اپنی طرف سے مددگار غلبہ (سُلْطَاناً نَّصِیْراً) دے ‘‘ 
مقتول کی مظلومیت اور اس کے ولی کو سلطان بنانے کا بیان ، اس لحاظ سے اہم ہے کہ سلطان اور ظالم کے قرآنی اطلاقات، ایک دوسرے کے تقریباََ مقابل کھڑے نظر آتے ہیں : 
سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوبِ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ الرُّعْبَ بِمَا أَشْرَکُواْ بِاللّہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَاناً وَمَأْوَاہُمُ النَّارُ وَبِئْسَ مَثْوَی الظَّالِمِیْنَ (آل عمران ۰۳ :۱۵۱)
’’ ہم ابھی کافروں کے دلوں میں رعب ڈالیں گے کہ انہوں نے اللہ کا شریک ٹھہرایا جس پر کوئی دلیل(سُلْطَاناً) اس نے نہیں اتاری ہے اور جگہ ان کی آگ ہے اور کیا برا ٹھکانہ ہے ظالموں کا ‘‘
وَقَالَ الشَّیْْطَانُ لَمَّا قُضِیَ الأَمْرُ إِنَّ اللّہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّکُمْ فَأَخْلَفْتُکُمْ وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْْکُم مِّن سُلْطَانٍ إِلاَّ أَن دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلاَ تَلُومُونِیْ وَلُومُواْ أَنفُسَکُم مَّا أَنَاْ بِمُصْرِخِکُمْ وَمَا أَنتُمْ بِمُصْرِخِیَّ إِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَا أَشْرَکْتُمُونِ مِن قَبْلُ إِنَّ الظَّالِمِیْنَ لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ (ابراہیم ۱۴:۲۲)
’’اور شیطان کہے گا کہ بے شک اللہ نے تم سے سچے وعدے کیے تھے اور میں بھی کچھ وعدے کیے تھے سو میں نے وہ وعدے تم سے خلاف کیے تھے اور میرا تم پر اور تو کچھ زور (سُلْطَان) نہ چلتا تھا بجز اس کے کہ میں نے تم کو بلایا تھا سو تم نے میرا کہنا مان لیا تو تم مجھ پر ملامت مت کرو اور ملامت اپنے آپ کو کرو ، نہ میں تمہاری فریاد کو پہنچ سکوں اور نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکو ، وہ جو تم نے پہلے مجھے شریک ٹھہرایا تھا میں اس سے سخت بیزار ہوں ، بے شک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے ‘‘ 
ہَؤُلَاء قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِن دُونِہِ آلِہَۃً لَّوْلَا یَأْتُونَ عَلَیْْہِم بِسُلْطَانٍ بَیِّنٍ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللَّہِ کَذِباً (الکہف ۱۸: ۱۵) 
’’ یہ جو ہماری قوم ہے اس نے اللہ کے سوا الہ بنا رکھے ہیں ،کیوں نہیں لاتے ان پر کوئی روشن سند (بِسُلْطَانٍ بَیِّن) تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے ‘‘ 
اس کا مطلب یہ ہوا کہ بنی اسرائیل ۱۷آیت ۳۳ میں مظلوم مقتول کے ولی کو (سُلْطَاناً) بنانے کا بیان خاص حکمت کا حامل ہے ۔ اگر ولی کو صرف طاقت و زور دینا مقصود ہوتا تو کسی اور لفظ کے ذریعے بھی ادائیگی ہو سکتی تھی ۔ اس لیے معنوی سطح پر سُلْطَاناً، ایک طرف (مَظْلُوماً) کے ساتھ اور دوسری طرف (مَنْصُوراً) کے ساتھ ، گہرا داخلی تعلق رکھتا ہے ۔ ذرا مختلف زاویے سے ، اس تعلق کی ایک مثال یہ آیت ہے : 
وَیَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَاناً وَمَا لَیْْسَ لَہُم بِہِ عِلْمٌ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِن نَّصِیْرٍ (الحج ۲۲: ۷۱) 
’’ اور وہ عبادت کرتے ہیں اللہ کو چھوڑ کر اس کی جس کے لیے اللہ نے کوئی دلیل ( سُلْطَاناً )نہیں اتاری اور نہ اس کے متعلق انہیں کچھ علم ہے اور ان ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے ‘‘ 
اندریں صورت ، قرآنی منشا کی تلاش میں ’’ سُلْطَاناً‘‘ کے قرآنی مفاہیم تک رسائی بہت ضروری ہو جاتی ہے : 
أَتُرِیْدُونَ أَن تَجْعَلُواْ لِلّہِ عَلَیْْکُمْ سُلْطَاناً مُّبِیْناً (النساء ۰۴:۱۴۴) 
’’ کیا یہ چاہتے ہوکہ اپنے اوپر اللہ کے لیے صریح حجت(سُلْطَاناً مُّبِیْناً) کر لو ‘‘ 
اس آیت کا استفہامیہ انداز بتاتا ہے کہ سلطان، صفاتِ الہیہ میں سے نہیں ہے ، لیکن چونکہ استفہام کے ایک سرے پر خدا موجود ہے اور اسی کے لیے (سُلْطَاناً مُّبِیْناً) استعمال ہوا ہے ، اس لیے (سُلْطَاناً) کی معنویت کی بابت یہ بات یقینی ہو جاتی ہے کہ کسی قسم کی بے انصافی اور اخلاق باختگی اسے چھو کر بھی نہیں گزری ۔حضرت سلیمان ؑ بھی جب ہد ہد کو غیر حاضر پاتے ہیں تو فرماتے ہیں : 
لَأُعَذِّبَنَّہُ عَذَاباً شَدِیْداً أَوْ لَأَذْبَحَنَّہُ أَوْ لَیَأْتِیَنِّیْ بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ (النمل ۲۷: ۲۱)
’’ ضرور میں اسے سخت عذاب کروں گا یا ذبح کر دوں گا یا کوئی صاف حجت (بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ) میرے پاس لائے‘‘ 
مذکورہ دو آیات (النساء ۴: ۱۴۴ /النمل ۲۷: ۲۱) کے تقابلی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’سلطان‘‘ ساختیاتی اعتبار سے کسی ایسے جواز پر دلالت کرتا ہے، جس کے بعد مزید حیل و حجت کی گنجایش باقی نہیں رہتی ۔ البتہ، طرفین کے مقام اور موقع محل کی نسبت سے ، جواز کی نوعیت اور درجے میں تبدیلی ہو سکتی ہے ۔ قرآن میں مختلف مواقع پر ’’سلطان‘‘ کا جس طرح بیان ہوا ہے اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہر قسم کی آلایشوں سے پاک جوازاور صریح حجت ، عطیہ خداوندی ہے ۔ اس لیے جب رسولوں سے ’’سلطان ‘‘ کا تقاضا کیا گیا : 
فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ (ابراہیم ۱۴: ۱۰)
’’ اب کوئی روشن سند (بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ) ہمارے پاس لے آؤ ‘‘
تو انہوں نے جواب دیا : 
وَمَا کَانَ لَنَا أَن نَّأْتِیَکُم بِسُلْطَانٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّہِ (ابراہیم ۱۴:۱۱)
’’ اور ہمارے اختیار کی بات نہیں کہ ہم اللہ کے حکم کے بغیر تم کو دلیل (بِسُلْطَانٍ)دکھائیں‘‘
ایک مقام پر، سلطان کی استثنائی حیثیت کے ساتھ ، جن و انس کو چیلنج کیا گیا ہے : 
یَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ (الرحمن ۵۵: ۳۳)
’’ اے جن و انس کے گرو ہ اگر تم سے ہو سکے کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ ، مگر بدون زور (بِسُلْطَانٍ )کے نہیں نکل سکتے ‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ جن و انس ، سلطان کے ساتھ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل سکتے ہیں ، اور سلطان (وَمَا کَانَ لَنَا أَن نَّأْتِیَکُم بِسُلْطَانٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّہِ (ابراہیم ۱۴:۱۱) کے مصداق ، عطیہ خداوندی ہے ۔ بعض مقامات پر تو قرآن نے طنز کی آمیزش کے ساتھ باقاعدہ چیلنج کیا ہے کہ تمہارے پاس ’’سلطان‘‘ ہو ہی نہیں سکتا : 
أَمْ لَہُمْ سُلَّمٌ یَسْتَمِعُونَ فِیْہِ فَلْیَأْتِ مُسْتَمِعُہُم بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ (الطور ۵۲:۳۸)
’’ یا ان کے پاس کوئی زینہ ہے جس میں چڑھ کر سن لیتے ہیں تو ان کا سننے والا کوئی روشن سند ( بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ) لائے ‘‘۔
إِنْ عِندَکُم مِّن سُلْطَانٍ بِہَذَا (یونس ۱۰: ۶۸)
’’ تمہارے پاس اس کی کوئی بھی سند (سُلْطَانٍ )نہیں ‘‘ 
اسی لیے قرآنی اطلاقات میں، کہیں بھی شیطان کوحقیقی معنوں میں ’’ سلطان‘‘ حاصل نہیں : 
إِنَّ عِبَادِیْ لَیْْسَ لَکَ عَلَیْْہِمْ سُلْطَانٌ وَکَفَی بِرَبِّکَ وَکِیْلاً (بنی اسرائیل ۱۷:۶۵)
’’ بے شک جو میرے بندے ہیں ان پر تیرا کچھ قابو(سُلْطَانٌ ) نہیں ، اور تیرا رب کافی ہے کام بنانے کو ‘‘ 
وَمَا کَانَ لَہُ عَلَیْْہِم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن یُؤْمِنُ بِالْآخِرَۃِ مِمَّنْ ہُوَ مِنْہَا فِیْ شَکٍّ وَرَبُّکَ عَلَی کُلِّ شَیْْءٍ حَفِیْظٌ (سبا۳۴:۲۱)
’’ اور شیطان کا ان پر کچھ قابو (سُلْطَانٍ) نہ تھا مگر اس لیے کہ ہم دکھا دیں کہ کون آخرت پر ایمان لاتا ہے اور کون اس سے شک میں ہے اور تمہارا رب ہر چیز پر نگہبان ہے ‘‘ 
اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی کو سلطان اس لیے ہی حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اس کا مستحق ہے بلکہ اس کے ذریعے دوسروں کی آزمایش مقصود ہوتی ہے ، اس لیے سلطان کا حامل حقیقی معنوں میں سلطان کا حامل نہیں بھی ہو سکتا ۔ اس نکتے کی مزید وضاحت سورۃ النحل کی ان آیات سے ہوتی ہے : 
إِنَّہُ لَیْْسَ لَہُ سُلْطَانٌ عَلَی الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ إِنَّمَا سُلْطَانُہُ عَلَی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَہُ وَالَّذِیْنَ ہُم بِہِ مُشْرِکُونَ (النحل، ۹۹، ۱۰۰)
’’ بے شک اس کا کوئی قابو (سُلْطَان) ان پر نہیں جو ایمان لاتے ہیں اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔اس کا قابو (سُلْطَانُہُ) انہیں پر ہے جو اس سے تعلق رکھتے ہیں اور اسے شریک ٹھہراتے ہیں ‘‘
غور کیجیے کہ طرفین (انسان اور شیطان ) میں سے انسان جس مقام پر کھڑا ہوتا ہے اسی سے سلطان کی نوعیت اور وقوع پذیری میں فوری تبدیلی آ جاتی ہے ۔ سورۃ النحل ۱۶ آیت ۱۰۰ کے مطابق ، چونکہ انسان(پورے قرآنی سیاق میں ) کذب و ظلم کا مرتکب ہو کر شیطان کو شریک ٹھہراتا ہے ،جو توحید کے مقابل جعل سازی ہے اس لیے شیطان کو بھی ایسے انسان پر جعلی سلطان حاصل ہو جاتا ہے ۔ بہرحال ! سورۃ سبا اور سورۃ النحل کی مذکورہ آیات کو دیکھیے اور غور کیجیے کہ سلطان کے ساتھ، آخرت ، توکل ، اور توحید جیسے اہم قرآنی تصورات وابستہ ہو گئے ہیں ۔قرآن مجید میں بعض مقامات پر ، لوگوں کے شرک کرنے اور دیگر اخلاقی امراض میں مبتلا ہونے پر ، یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا اللہ نے ان کو(ان امور کے لیے کوئی جواز ) سلطان عطا کیا ہے ؟: 
أَمْ أَنزَلْنَا عَلَیْْہِمْ سُلْطَاناً فَہُوَ یَتَکَلَّمُ بِمَا کَانُوا بِہِ یُشْرِکُونَ (الروم ۳۰: ۳۵)
’’ کیا ہم نے ان پر کوئی سند (سُلْطَاناً )نازل کی ہے کہ وہ ان کو شرک کرنے کو کہہ رہی ہے ‘‘ 
وَأَن تُشْرِکُواْ بِاللّہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَاناً (الاعراف ۰۷:۳۳)
’’اور یہ کہ تم شریک بناؤ اللہ کا ان کو کہ نہیں نازل کی اللہ نے ان کے بارے میں کوئی سند(سُلْطَاناً )‘‘
مزید دیکھیے: الانعام ۰۶:۸۱/الاعراف ۰۷: ۷۱/غافر۴۰:۳۵۔ 
سلطان، قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ کی طرف سے ، حجت ، سند ، دلیل ، اختیار اور غلبہ وغیرہ کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے :
وَأُوْلَءِکُمْ جَعَلْنَا لَکُمْ عَلَیْْہِمْ سُلْطَاناً مُّبِیْناً (النساء ۰۴:۹۱) 
’’ اور یہ ہیں جن پر ہم نے تمہیں صریح اختیار(سُلْطَاناً مُّبِیْناً ) دیا ہے۔‘‘ 
وَآتَیْْنَا مُوسَی سُلْطَاناً مُّبِیْناً (النساء ۰۴:۱۵۳)
’’ اور موسیٰ کو صریح غلبہ ( سُلْطَاناً مُّبِیْناً )دیا ‘‘ 
ِّوَنَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطَاناً (القصص ۲۸:۳۵)
’’ اور تم دونوں کو شوکت (سُلْطَاناً)عطا فرمائیں گے‘‘
وَأَنْ لَّا تَعْلُوا عَلَی اللَّہِ إِنِّیْ آتِیْکُم بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ (الدخان ۴۴: ۱۹)
’’ اور اللہ کے مقابل سرکشی نہ کرو میں تمہارے پاس ایک روشن سند( بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ ) لاتا ہوں ‘‘ 
وَفِیْ مُوسَی إِذْ أَرْسَلْنَاہُ إِلَی فِرْعَوْنَ بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ (الذاریات ۵۱:۳۸)
’’ اور موسی میں جب ہم نے اسے روشن سند (َ بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ )کے ساتھ فرعون پاس بھیجا ‘‘ 
سلطان کے مذکورہ مفاہیم، اس کی متنوع معنویت کی بابت داخلی شہادت فراہم کر رہے ہیں ۔ اگر ان آیات کو تفصیل سے دیکھا جائے جہاں اللہ نے رسولوں کو سلطان عطا فرمایا ہے تو یہ اہم نکتہ بھی سامنے آتا ہے کہ اس اتمامِ حجت اور عطیہ خداوندی کے بعد حکم عدولی کی صورت میں متعلقہ قومیں تباہ و برباد کر دی گئیں ۔ اب زیرِ نظر آیت (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۳) کے اس حصے (فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً) پر غور کیجیے کہ ولی کو آخر سلطان ہی کیوں بنایاگیا ہے ؟۔اگر ولی کواختیار ، طاقت یا زور دینا مقصود تھا تو کسی اور لفظ سے مدعا ادا ہو سکتا تھا ، اور اگر مقصود ، دلیل و حجت یا سند دینا تھا تو اس کے لیے بھی ایسا لفظ برتا جا سکتا تھا جو اسی مفہوم کو قطعیت کے ساتھ ادا کرسکتا تھا ۔ لہٰذا اس آیت میں ( سُلْطَاناً) کا بیان ، معنوی سطح پر کم ازکم دو سمتوں میں پھیلا ہوا ہے۔ اگر ایک سمت میں ولی کو ایسا اختیار، جواز اور زور ملتا نظر آتا ہے جس کے پیچھے خدائی سند موجود ہے تو دوسری سمت میں معاشرے کے لیے انذار کا اہتمام موجود ہے کہ مظلوم مقتول کے ولی کو جب اللہ رب العزت نے سُلْطَاناً بنا دیا تو پھر اس کے بعد حکم عدولی کی صورت میں ، تباہی و بربادی اس معاشرے کا مقدر ہو گی ۔اگر سُلْطَاناً اور آیت کے تکمیلی لفظَ مَنْصُوراً کے باہمی داخلی ربط پر نظر رکھی جائے تو ولی کے لیے بشارت اور معاشرے کے لیے انذار کی مذکور معنویت مزیداجاگر ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس آیت میں مقتول کی مظلومیت کی وجہ سے ولی کو سُلْطَاناً بنانے کا بیان ، ایک اعتبار سے رسولوں کو سُلْطَاناً عطا کرنے کے مماثل ہے، جس کے انکار کا نتیجہ بربادی ہی بربادی ہے۔ 
بنی اسرائیل ۱۷: ۳۳ کے اس حصے (فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً) کا، البقرۃ ۰۲: ۱۷۸ کے اس حصے( فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْءٌ) سے تقابل و موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک مقام پر مقتول کے وارث کو بھائی کہا گیا ہے اور دوسرے مقام پر ولی ۔ اب اگر قاتل کو معاملہ طے کرنا ہو تو ، جس مقتول کے وارث کو بھائی کہا جارہا ہے، اس کے ساتھ معاملہ طے کرنے میں اسے آسانی ہو گی یا اس کے ساتھ ، جسے مقتول کا ولی قرار دیا جارہا ہے ؟ ۔ ظاہر ہے قاتل کے لیے بھائی کے بجائے ولی کافی روکھا اور سرد لفظ معلوم ہوتا ہے ۔ ایک اور زاویے سے دیکھیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ (لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً) کے بیان میں ولی کوایسی زبردست طاقت و جواز دینے کا اہتمام پایا جاتا ہے جس کے بعد کسی دلیل یا حجت کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، جبکہ أَخِیْہِ کے بیان میں ولی کے حوالے سے ، اخوت و الفت جیسی جملہ خصوصیات سموئی گئی ہیں ۔اسی طرح فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً میں ولی،کسی سمجھوتے کے بجائے طاقت و جواز کا جھنڈا لہراتا نظر آتا ہے جبکہ فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْء کے بیان میں مقتول کا وارث معافی کی درخواست ایک حد تک قبول کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ لہٰذا ہر دو مقامات پر مخصوص الفاظ کا انتخاب ، قتل کی مختلف انواع کی غمازی کر تاہے ۔ یعنی جواز کے تحت قتل اور ظالمانہ قتل ، اگرچہ دونوں قتلِ ناحق کے ذیل میں آتے ہیں ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بنی اسرائیل آیت ۳۳میں مقتول کو باقاعدہ مظلوم گرداننا اور اس کے ولی کا طاقت (سُلْطَانا)مکمل اختیار رکھنا ، قتلِ ناحق کی شدید صورت کو ظاہر کرتا ہے ۔ شاید اسی لیے اس آیت میں معافی و خون بہا کا سرے سے ذکر ہی نہیں ۔ ظاہر ہے ایسے اعصاب شکن اور انتہائی تناؤ والے ماحول میں ولی کواسراف فی القتل سے روکنا ہی بڑی بات ہے چہ جائے کہ اس سے معافی کی توقع رکھی جائے ۔ 
بنی اسرائیل ۱۷ کی زیرِ نظر آیت ۳۳ میں سُلْطَانا کی موجودگی اور دیت ، عفو اور صدقے جیسے الفاظ کی عدم موجودگی اس تاثر کو مزید تقویت دیتی ہے کہ قاتل کو کسی بھی قیمت پر ہرگز نہ چھوڑا جائے ۔ ظاہر ہے ظالم قاتل سے کسی کو بھی ہمدردی نہیں ہوگی اور زبان خلق پکار پکار کر کہے گی کہ اسے بالکل نہ چھوڑا جائے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کے مطابق کسی شخص کا مظلومانہ قتل ، کسی بھی معاشرے کے ا جتماعی اخلاقی ضمیر کے لیے ناقابلِ برداشت اور ناقبلِ ہضم ہونا چاہیے ۔ مقتول کے ولی کی طاقت و معاونت کے پیچھے درحقیقت یہی ضمیر کارفرما ہے۔ 
جہاں تک قتل کے فعل میں ، اسراف کی ممانعت کا تعلق ہے اس سلسلے میں’’ اسراف‘‘ کے قرآنی اطلاقات راہنمائی فراہم کرتے ہیں ،جن سے صراحت ہوتی ہے کہ قتل کے فعل میں ’’غلو‘‘ سے روکا گیا ہے ، مثلاََ : (النساء ۰۴:۰۶ / الانعام ۰۶:۱۴۱/ الاعراف ۰۷:۳۱)۔قرآن میں ایک مقام پر اسراف کے مقابل دوسری انتہا کا ذکر کرکے مطلوب و مقصود ’’توازن‘‘کی نشاندہی کر دی گئی ہے :
وَالَّذِیْنَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْْنَ ذَلِکَ قَوَاماً (الفرقان ۲۵/ ۶۷)
’’اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال پر رہیں ‘‘ 
اگر بنی اسرائیل آیت ۳۳ کے بیان(فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْلِ) میں، دوسری انتہا (وَلَمْ یَقْتُرُوا) کو بوجوہ، شامل سمجھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حدِ اعتدال ، معروف کے مطابق قتل ہے ۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ مظلوم مقتول کے بدلے میں قتل نہ کرنا بھی قرآنی منشا کے منافی ہے ، شاید اسی لیے یہاں معافی و خون بہا کو کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ۔قرآن میں ایک مقام پر اسراف کی معنویت ، زیرِ نظر آیت میں اسراف کی ممانعت کو قتل کرنے کے طریقہ کار تک بڑھا دیتی ہے:
إِنَّکُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَہْوَۃً مِّن دُونِ النِّسَاء بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ (الاعراف ۰۷/۸۱)
’’تم تو مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں چھوڑ کر ، بلکہ تم قوم ہو حد سے نکل جانے والے ‘‘ 
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ولی پر لازم کر دیا گیا ہے کہ وہ قاتل کو قتل کرنے کے عمل میں ، خلافِ فطرت، خلافِ وضع یا معروف کے خلاف ، کوئی شرم ناک طریقہ نہیں اپنائے گا۔ اس لیے (فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْلِ) کے بعد (إِنَّہُ کَانَ مَنْصُوراً) کے الفاظ داخلی شہادت دے رہے ہیں کہ ولی کو کسی ایسے منفی اقدام سے روک کر اس کی مدد کی جائے گی۔قابلِ غور امر یہ ہے کہ اس مدد کرنے کے بیان میں، ولی کو ایک خاص درجے میں متنبہ کیا گیا ہے ، لیکن یہ تنبیہ اتنے لطیف کنایے میں ہے کہ ولی پر گراں نہیں گزرتی ۔ ظاہر ہے کہ تنبیہ پر مشتمل یہ مدد ، ریاستی نظم کے ذریعے سے ہی ممکن ہو سکے گی جس کے پیچھے اجتماعی معاشرتی ضمیر لازماً موجود ہو گا۔ قرآن میں اسراف کا بیان ، اللہ سے لا تعلقی و بے نیازی کے معنی میں بھی آیا ہے :
وَإِذَا مَسَّ الإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِہِ أَوْ قَاعِداً أَوْ قَآءِماً فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہُ مَرَّ کَأَن لَّمْ یَدْعُنَا إِلَی ضُرٍّ مَّسَّہُ کَذَلِکَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفِیْنَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ (یونس ۱۰/۱۲)
’’ اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے ہمیں پکارتا ہے لیٹے اور بیٹھے اور کھڑے ، پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو وہ ایسا چلتا ہوتا ہے گویا کبھی کسی تکلیف کے پہنچنے پر ہمیں پکارا ہی نہ تھا ، اسی طرح مسرفین کے لیے آراستہ ہوا وہ طرزِ عمل جو وہ اختیار کیے ہوئے تھے ‘‘ 
گویا زیرِ نظر آیت (بنی اسرائیل ۱۷:۳۳)میں یہ معنویت بھی موجود ہے کہ اگرچہ مظلوم مقتول کا ولی مشکل حالات میں اللہ کو پکارتا ہے اور اللہ اس کو ’’سلطان‘‘ بنا دیتا ہے ، لیکن جب قاتل اس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے تو وہ خود کو حق بجانب خیال کرتے ہوئے ظالم قاتل کو انتہائی برے انداز میں قتل کرکے ، اپنے تئیں عین فطرت کے مطابق حق کام سرانجام دینے کی کوشش کر سکتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی شخص کا مظلومانہ قتل ایسی صورتِ حال کو جنم دے سکتا ہے جس میں مقتول کا ولی بھڑک کر اسراف فی القتل کا نہ صرف مرتکب ہو سکتا ہے بلکہ اپنے عمل کو حق بجانب بھی خیال کر سکتا ہے ۔ اس لیے ایسے قتل کی مخصوص نوعیت کے پیشِ نظر ہی اس آیت میں ’’ قصاص ‘‘ کے بجائے اسراف فی القتل کی ممانعت کرکے حقیقت میں قصاص کا حکم دیا گیا ہے اور اس حکم میں مضمر ممانعت کے اندر ہی نہایت لطیف انداز میں ولی کو اسراف سے وابستہ، آراستگی و زینت پر متنبہ بھی کر دیا گیا ہے ۔ قرآن کے مطابق مسرفین ، اسراف کو اس وقت مزین و آراستہ دیکھتے ہیں جب وہ اللہ سے لاتعلقی و بے نیازی کا رویہ اختیار کرتے ہیں ، اس لیے مسرف کو آیاتِ الہی اور خدائی احکامات کا منکر قرار دیا گیا ہے، دیکھیے : یونس ۱۰:۸۳/طہ ۲۰ :۱۲۷/الانبیاء ۲۱:۰۹/ غافر ۴۰: ۲۸ ، ۳۴ ، ۴۳/ الزخرف ۴۳: ۰۵/الدخان ۴۴:۳۱/الذاریات ۵۱:۳۴ ۔اس استشہاد سے، مذکورہ لطیف تنبیہ ابھر کر سامنے آجاتی ہے ۔ لہٰذا نفسیاتی اور اخلاقی لحاظ سے ، ولی کو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہنا چاہیے کہ اسراف فی القتل کا عمل اسے آیاتِ الہٰی کے منکرین میں شامل کر سکتا ہے ۔ 
زیرِ نظر آیت میں چونکہ مقتول ، مظلوم ہے اس لیے معاشرے کی اس کے ساتھ فطری ہمدردی اور اس کے ولی کی ذہنی حالت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ، اسراف فی القتل کی ممانعت کے حکم کے باوجود ، اسراف ہوجانے کی صورت میں لچک کا پہلو رکھا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ قرآن مجید میں اسراف کی جو معنوی پرتیں پائی جاتی ہیں ان میں اسراف کے محرکات و نتائج کو کافی اہمیت دی دگئی ہے، مثلاً: ’’اور مت مانو حکم مسرفین کا ، جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور نہیں اصلاح کرتے‘‘ (الشعراء ۲۶/۱۵۱، ۱۵۲) لیکن جہاں کہیں انسان ضد اور ہٹ دھرمی کے بجائے بے اختیاری و مجبوری میں اسراف کا ارتکاب کرتا ہے، وہاں اللہ رب العزت نے بخشش و رحمت کی بھر پور امید دلائی ہے : 
وَمَا کَانَ قَوْلَہُمْ إِلاَّ أَن قَالُواْ ربَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِیْ أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وانصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ (آل عمران ۰۳/۱۴۷)
’’اور وہ کچھ بھی نہ کہتے تھے سوائے اس دعا کے کہ اے ہمارے رب بخش دے ہمارے گناہ اور جو زیادتیاں ہم نے اپنے کام میں کیں اور ہمارے قدم جما دے اور مدد دے ہم کو اوپر قوم کافروں کے ‘‘ 
قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعاً إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ (الزمر ۳۹/۵۳) 
’’ تم فرماؤ اے میرے وہ بندو اجنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو بے شک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے بے شک وہی بخشنے والا مہربان ہے ‘‘ 
چونکہ مظلوم مقتول کا ولی اسراف کرنے کی صورت میں ، بے اختیاری کی کیفیت میں اسراف کرتا ہے ، اس لیے وہ جان بوجھ کر ایک خاص باغی ذہن کے ساتھآیاتِ الہی اور منشائے ربانی کی خلاف ورزی نہیں کرتا ۔ اب چونکہ ولی ، ذہنی حالت کے لحاظ سے خدا کا باغی نہیں ہے اس لیے اسراف ہو جانے کی صورت میں اسے مغفرت و رحمت کی امید لازماََ رکھنی چاہیے ۔ زیرِ نظر آیت کے تکمیلی الفاظ إِنَّہُ کَانَ مَنْصُوراً سے اس نکتے کی مزید تصریح ہوتی ہے ۔ کیونکہ قرآن میں اسراف کی ممانعت کی آیات کا خاتمہ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ (الانعام ۰۶/۱۴۱، الاعراف ۰۷/۳۱)کے الفاظ میں کیا گیا ہے ، لہذ اسراف کی صورت میں، اگر ولی کے لیے لچک کی گنجایش مقصود نہ ہوتی تو اس آیت کے اختتام پر بھیِ إِنَّہُ کَانَ مَنْصُوراً کے بجائے إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْن کے الفاظ پائے جاتے ۔لہٰذاِ إِنَّہُ کَانَ مَنْصُوراً کے الفاظ دلالت کر رہے ہیں کہ قرآن نے مقتول کی مظلومیت اور ولی کی ذہنی حالت کا پورا خیال رکھا ہے ۔ اگر إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْن کے الفاظ برتے جاتے تو مقتول کی مظلومیت اور ولی کی ذہنی حالت دھیان میں نہیں رہ سکتی تھی ، اس پر مستزاد یہ تاثر ملتا کہ قرآن، قاتل کو (ظالم ہونے کے باوجود ) کسی نہ کسی حوالے سے کوئی تحفظ دینا چاہتا ہے ۔ 
اسراف کے محرکات و نتائج کے حوالے سے ، بنی اسرائیل ۱۷/آیت ۳۳ کا تقابل المائدۃ ۰۵/۳۲ سے کیا جائے تو اس مسرف کو چہرہ سامنے آتا ہے جو قرآن کی نظر میں معتوب ہے: 
مِنْ أَجْلِ ذَلِکَ کَتَبْنَا عَلَی بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ أَنَّہُ مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاً وَلَقَدْ جَاء تْہُمْ رُسُلُنَا بِالبَیِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ کَثِیْراً مِّنْہُم بَعْدَ ذَلِکَ فِیْ الأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ (المائدۃ ۰۵/۳۲)
’’اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی ، مگر ان کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے درپے کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے پھر بھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں ‘‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ حقیقی (سزا کا مستحق )مسرف وہ ہے جو خون کے بدلے یا فساد فی الارض کے علاوہ کسی اور وجہ سے قتلِ نفس کا رتکاب کر کے احکامات الہٰی کی دھجیاں اڑا تاہے۔ لہٰذا بنی اسرائیل کی زیرِ نظر آیت میں مقتول کا قاتل ، مقتول کے ’’ مظلوم ‘‘ ہونے کی وجہ سے مسرفین میں شمار کیا جا سکتا ہے کہ وہ مذکورہ وجوہات کے علاوہ کسی اور وجہ سے پہل کرتے ہوئے قتل کا مرتکب ہوا ہے ۔ مظلوم مقتول کے ولی کی پوزیشن اس سے کافی مختلف ہے، وہ اگر اسراف کا مرتکب ہوتا بھی ہے تو اولاََ ، پہل نہیں کرتا ، دوم ، خون کے بدلے میں اسراف کرتا ہے جس کے پیچھے بشری کم زوری چھپی ہوتی ہے نہ کہ حقیقی مسرف کے مانند احکاماتِ الہٰی کو چیلنج کرنے کی باغیانہ ذہنیت ۔اسی لیے محرکات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، مسرف ہونے کی صورت میں اس کے لیے لچک کی گنجایش باقی رکھی گئی ہے ۔ 
المختصر ! بنی اسرائیل ۱۷: ۳۳ سے واضح ہوتا ہے کہ مظلومانہ قتل کا واقعہ رونما ہونے کی صورت میں ، مقتول کے ولی کے پاس بدلہ لینے کا، خدائی سند پر مبنی پورا جواز موجود ہوگا ، یہ جواز اسے طاقت و اختیار سے نوازے گا ۔ خدائی سند اور سماجی منظوری کی حامل ایسی زبردست طاقت ملنے کے بعد ولی کو اسراف فی القتل کی آراستگی سے بچنا ہو گا کہ وہ آیاتِ الہی کے منکرین میں شمار ہو سکتا ہے ۔ اگر وہ نہیں بچ پاتا تو معاشرے و ریاست کوچاہیے کہ اس پر آیاتِ الہی کے منکرکا لیبل چسپاں نہ کریں اور اس کے عمل کو بشری کم زوری پر محمول کرتے ہوئے حکمت و تدبر سے کام لیں۔ 
(جاری) 

اسلامی معاشیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز؟ (۳)

محمد زاہد صدیق مغل

نفع کمانے کو نفع خوری پر قیاس کرنے کی غلطی:

اسلامی ماہرین معاشیات نفع کمانے اور علم معاشیات کے تصور نفع خوری (profit-maximization) کو خلط ملط کردیتے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ کاروبار کے نتیجے میں جو نفع حاصل ہوتا ہے اسلام اس کا قائل ہے لیکن اسلام نفع خوری کا ہرگز قائل نہیں۔ نفع تو کسی مقصد کے لیے کمایا جاتا ہے جیسے حضرت عثمانؓ کے نفع کمانے کا مقصد غزوات میں سرمایے کی فراہمی، غریب مسلمانوں کی مدد وغیرہ تھا، اس کے مقابلے میں نفع خوری کا مطلب نفع کا حصول بالذات مقصود (profit for the sake of profit) اور تعقل (rationality) کی بنیاد بنا لینا ہے۔ نفع خوری کی اس مکروہ ذہنیت کا سب سے عمدہ اظہار اسٹاک ایکسچینج کاروبار میں ہوتا ہے جہاں فرد اسٹاک صرف اور صرف اس لیے خریدتا ہے کہ وہ سرمایے میں لگاتار اضافہ کرتا ہی چلا جائے اور اس دھن میں لگا رہے کہ کس کمپنی کے شئیرز منافع (capital gain) پر بیچ کر ایسی کمپنی کے شئیرز میں لگائے جہاں سے مزید نفع کی امید ہو۔ اگر آپ اس سے پوچھیں کہ یہ شئیرز تم کیوں خرید اور بیچ رہے ہو تو اس کا جواب ’مزید نفع سے مزید نفع کمانا‘ ہوگا، یعنی وہ نفع اس لیے کماتا ہے کہ اس سے مزید نفع کماتا چلا جائے ۔ جوائنٹ اسٹاک کمپنی درحقیقت اسی نفع خوری (accumulation for the sake of accumulation)کی ذہنیت کا اظہار ہے جس کا مقصد وجود صرف اور صرف سرمایے کی بڑھوتری ہوتا ہے، اس کا اور کوئی معاشرتی مقصد ہے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود ایک کامیاب تاجر ہونے کے حضرت عثمانؓ نے امیر صحابہ کی دولت جمع کرکے زر کے بازار (بینک اور اسٹاک ایکسچینج ) کی داغ بیل نہ ڈالی کیونکہ ان اداروں کا تو مقصد ہی نفع خوری کا عموم ہے ۔ انسانی خواہشات کی لامحدودیت اور اس کے حصول کو انسانی جدوجہد کی بنیاد مان کر جو معاشرتی صف بندی وجود میں آتی ہے وہاں ایسے اداروں کی ضرورت پڑتی ہے جو ذرائع میں لگاتار اور جلد از جلد اضافے کا حصول ممکن بناتے ہوں اور زر کے بازار اسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ 
نفع کمانے اور نفع خوری کا فرق نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ ’اسلام نے نفع کمانے کو حرام قرار نہیں دیا‘۔ آج کل ’فلاں کام حرام نہیں ہے‘ کا فلسفہ بے دریغ استعمال کیا جانے لگا ہے، لہٰذا یہاں اس پر بھی کچھ کہنا ضروری ہے۔ اگر ایک لمحے کے لیے مان لیا جائے کہ اسلام نفع خوری کو حرام نہیں کہتا، پھر بھی اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ یہ کوئی مطلوب و مستحسن کام ہے؟ کسی عمل کے حرام نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ مطلوب بھی ہے۔ مثلاً دنیا کا ہر مفتی یہ فتویٰ دے گا کہ طلاق دینا حرام نہیں ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس بنیاد پر کوئی شخص طلاق کے فروغ کے لیے قریہ قریہ جا کر دفاتر کھول لے، عورتوں کو طلاق لینے پر اکسانے کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کرتا پھرے، انہیں طلاق کے بعد پہنچنے والے معاشی نقصانات کا مداوا کرنے کے لیے معاشی سکیمیں پیش کرے وغیرہ، اور جب اس سے پوچھا جائے کہ بھائی یہ کیا غضب کررہے ہو تو وہ معصومیت سے جواب دے کہ ’جناب اسلام میں طلاق دینا اور لینا حرام کب ہے؟ میں تو مظلوم عورتوں کے حقوق کا تحفظ کررہا ہوں‘۔ اسی طرح اسلام میں پر تعیش زندگی گزارنا بہر حال ’حرام‘ نہیں بلکہ نا پسندیدہ (مکروہ) ہی ہے لیکن اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ اسلامی ریاست کا مقصد معاشرے میں ایسے اداروں کا فروغ ہوگا جو لوگوں کو پر تعیش زندگی گزارنے کی ترغیب دیں گے؟ اور پھر ’اسلامی قحبہ خانے‘ کے مالک کا کیا قصور ہے کہ اس کا یہ ’شرعی جواز‘ نہ مانا جائے کہ اسلام نے شہوانی جذبے کا جائز طریقے سے اظہار حرام کب قرار دیا ہے، اگر ایسا ہوتا تو اسلام مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہی کیوں دیتا؟ نیز اسلامی معیشت دانوں کے فلسفے کو بنیاد بنا کر وہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ’جناب اسلام میں جائز اور ناجائز کا فرق صرف طریقہ کار پر مبنی ہے، اگر جانور بسم اللہ پڑھ کر ذبح کیا جائے تو وہ حلال ہوجاتا ہے ورنہ حرام، اسی طرح میں نے غیر اسلامی کوٹھوں کو غیر شرعی طریقوں سے پاک کرکے اصول شریعہ (Shariah compliance) کی روشنی میں اسلامی قحبہ خانے میں تبدیل کرکے اسے جائز کردیا ہے‘۔ مسلم مفکرین کی ایک بہت بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ مغرب اور اسلام میں چند ظاہری (superficial)مماثلتوں کو بنیاد بنا کر اسلامی تعلیمات کو مغربی تناظر پر چسپاں کرنے لگتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ دونوں نظاموں میں ان اعمال کی مقصدیت یکسر مختلف ہوتی ہے جو اس کی مابعد الطبعیات سے طے پاتی ہے۔ ’اسلام میں نفع حرام نہیں ہے‘ کو بنیاد بنا کر تمام سرمایہ دارانہ اداروں (بینک اور اسٹاک ایکسچینج وغیرہ ) کی اسلام کاری اسی غلط فہمی کا شاخسانہ ہے۔ اس دلیل کی غلطی واضح کرنے کے لیے ’اسلامی قحبہ خانے‘ کی مثال ہی کافی ہے لیکن چونکہ یہ غلطی ہر جگہ عام ہے لہٰذا اسے سمجھانے کے لیے ہم چند اور مثالیں پیش کرتے ہیں۔ دیکھئے حضرت عیسی علیہ السلام بطور ایک جسمانی وجود ایک معین شخصیت ہیں لیکن مسلمانوں اور عیسائیوں کے تصور مسیحیت میں زمین آسمان کا فرق ہے، ہماری مابعد الطبعیات میں وہ ایک رسول بشر جبکہ ان کے ہاں خدا ہیں۔ اگر کوئی مسلمانوں کے ہاں حضرت عیسی علیہ السلام کا نام سن کر یہ دعویٰ کرے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے حضرت عیسی علیہ السلام ایک ہی شخص ہیں تو کیا یہ کہنا درست ہوگا؟ اب ایک عملی مثال لیجئے۔ فرض کریں کوئی شخص صحابہ کرام کی گھوڑ دوڑ اور نیزہ بازی اور چند دیگر کھیلوں کی بنیاد پر دور جدید کے اولمپک گیمز اور عالمی کھیلوں کے مقابلوں کا اثبات کرنے لگے تو ایسے قیاس کو قیاس مع الفارق نہ کہیں تو اور کیا کہیں ؟ اس شخص کا قیاس اس مفروضے پر مبنی ہے کہ موجودہ کھیل کی نوعیت بھی ویسی ہی ہے جیسی صحابہ کے کھیلوں کی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ کھیل صرف کھیل نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک معاشرتی ادارہ (social institution)ہیں، جن کی حیثیت اربوں ڈالر سرمایے کی ایک انڈسٹری کی ہے، جس کے بقا کے لیے ضروری ہے کہ کچھ لوگوں کی زندگیوں کا مقصد ہی کھیلنا بن جائے یعنی کھیل ہی انکی پہچان (profession)ہو ، عوام الناس دنیا و آخرت سے بے پرواہ ہوکر جنونیوں کی طرح کھیلوں کے تماش بین بن کر اربوں ڈالر ان پر برباد کردیں، اور تو اور حکومتوں کا بھی یہ بنیادی وظیفہ ہو کہ وہ کھیلوں کے فروغ کے لیے سہولتیں فراہم کرے تاکہ عوام الناس ان میں مشغول ہوں اور اپنی نسلوں کو جہنم کی تیاری کرنے کے لیے کھلاڑی بنانے پر راغب ہوں وغیرہ وغیرہ۔ آخر کھیل ایک ’وقتی شخصی تفریح ‘ اور ’کھیل ایک معاشرتی ادارے ‘ میں کیا مماثلت ہے؟ بالکل اسی طرح ’مقاصد زندگی کے لیے نفع کمانے ‘ اور ’نفع ہی کمانے کو مقصد بنانے والے ادارے‘ میں مماثلت ہی کیا ہے؟ اسی طرز کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ بخاری شریف (کتاب الحدود) میں ایک ایسے صحابیؓ کا ذکر موجود ہے جو رسالت ماب ﷺ کی فرحت طبع کی خاطر مزاح فرماتے۔ اب فرض کریں کوئی شخص ان صحابیؓ کے عمل کو بنیاد بنا کر معاذاللہ موجودہ دور میں مزاحیہ اداکاری (comedy) کی پوری انڈسٹری کو ’اسلامی ثابت‘ کرنے لگے تو ایسے اجتہاد کو فساد نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ 

ساخت اور مقصد کا تعلق باہمی نظر انداز کرنے کی غلطی:

چنانچہ اسلامی تصور ات وقف اور بیت المال سے کمپنی بطور شخص قانونی کا جواز ایسا ہی ہے جیسے صحابہ کے کھیل سے اولمپک گیمز کا جواز۔ اسلامی معاشیات کی ایک بڑی خامی ساخت (structure)اور مقصدیت (sprit) کے تعلق باہمی کو نظر انداز کرنا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل کے لیے یہ نقطہ سمجھ لینا چاہیے کہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اس کی ساخت (structure) کا حصول مقصد اور اس کے دوام کے ساتھ نہایت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ افراد جب کسی شے کے حصول کو اپنا مقصد بنا تے ہیں تو اس کے حصول کے لیے کوئی نہ کوئی انتظامی شکل ضرور اختیار کرتے ہیں اور بہت سی انتظامی شکلوں میں سے وہی شکل زندہ رہ جاتی ہے جو زیادہ مؤثر اور قابل عمل ہوتی ہے۔ افراد کی خود سے اختیار کردہ مخصوص انتظامی ہیئت ان معنوں میں تو ضروری نہیں ہوتی کہ وہ بذات خود اصلاً مطلوب تھی ، مگر ان معنوں میں یقیناضروری ہوتی ہے کہ اس کی بقا سے افراد کے معا شرتی مقاصد قائم رہتے ہیں اور اس کا انہدام ان تمام مقاصد کے انہدام کا باعث بھی بنتا ہے جو اس کے ساتھ مربوط ہوتے ہیں۔ ساخت و ڈھانچے کے اندر جو روح [spirit or substance] موجود ہوتی ہے اسے اس ساخت سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے شریعت کے بیان کردہ ڈھانچے غیر متبدل ہوتے ہیں کیونکہ شریعت نے ایسے ڈھانچوں کی نشان دہی کردی ہے جنہیں اختیار کرکے مقاصد الشریعہ کا حصول ممکن ہوجاتا ہے۔ درحقیقت اسلامی نظام زندگی بدن اور روح کے آمیختے کا نام ہے ، ساخت اور روح ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ ہر ڈھانچے اور نظام کی اپنی روحانیت (spirituality) اور دانش (wisdom) ہوتی ہے جو اس کے اندر سرایت کیے ہوئے ہوتی ہے ، جب تک آپ اس نظام کو اس کی ساخت کے ساتھ چلاتے رہتے ہیں تو اس کی مخفی دانش (potential wisdom) اور روحانیت(potential spirituality) ایسے ایسے طریقوں سے اپنا اظہار کرتی رہتی ہے کہ جن کا ادراک کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ عمل کی ساخت اور اس کی روح کے تعلق کی وضاحت چند آسان مثالوں سے کی جا سکتی ہے۔ کھڑے ہو کر کھانے والے نظام کی اپنی دانش وروحانیت ہے جو حرص و حسد کی عمومیت کے ذریعے ظہور پزیر ہوتی ہے، لیکن اسلامی آداب طعام کی روحانیت و دانش دسترخوان پربیٹھ کر کھانے میں مضمر ہے۔ جو شخص دسترخوان پر بیٹھ جاتا ہے وہ کھڑے ہو کر کھانے والوں کی طرح لوٹ مار، چھینا جھپٹی نہیں کرسکتا، وہ دسترخوان پر تعلقات کے ایک ایسے تانے بانے میں بند ھ جاتا ہے جہاں اس کی نقل و حرکت ناممکن ہو جاتی ہے۔ وہ حالت حرکت سے حالت سکون میں آجاتا ہے، وہ ایک پیالے سے دوسرے پیالے ایک برتن سے دوسرے برتن کی طرف آزادانہ رجوع نہیں کرسکتا۔ جو کچھ اس کے سامنے میسر و موجود ہے وہ اسی پر اکتفا کرتاہے ، صرف اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس کے ساتھ جو لوگ فروکش ہیں ان کا حصہ بھی ان چیزوں میں موجود ہے جو سامنے برتنوں میں رکھی ہیں اس سے وہ اعتناء نہیں کرسکتا ۔ اگر برتن میں پانچ بوٹیاں ہیں اور کھانے والے بھی پانچ ہیں توکوئی فرد پانچوں بوٹیاں اپنی رکابی میں ڈالنے کی جرات نہیں کرسکتا کہ پانچ نگاہیں اس کے تعاقب میں ہوں گی، اس کا اخلاقی وجود کڑی نگرانی میں ہوتا ہے۔ کوئی قانون نافذ نہیں ہوتا لیکن نفس لوامۃ اور اخلاقیات کا قانون دسترخوان کے ڈھانچے کے ذریعے فرد پر مسلط ہو جاتا ہے اور وہ اس کے جبر سے اوپر نہیں اٹھ سکتا۔ اس کے برعکس کھڑے ہو کر کھانے کی اخلاقیات ہی دوسری ہوتی ہے، ایک میز سے وہ پسند کی بوٹیاں و اشیاء چنتا ہے پسند نہیں آتیں تو دوسری میز پر پھینک کر نئی رکابی اٹھا کر دوسری اشیاء استعمال کرنا شروع کردیتا ہے، پسندیدہ اشیاء ایک میز پر نہ ملیں تو وہ ہر میز پر گھوم پھر کر ڈھونڈتا اور لوٹتا رہتا ہے۔ کیوں کہ وہ اپنا زماں و مکاں تیزی سے بدل رہاہے لہٰذا کسی کی نظر میں نہیں ہے صرف نفس امارہ (حرص و حسد و ہوس) کی گرفت میں ہے۔ دیکھئے ہمارے گاؤں دیہات میں بیٹھک وغیرہ جیسے ادارے گاؤں کے حالات حاضرہ کو افراد تک پہنچا نے اور ایک ساتھ مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کا خیال کرنے کی اقدار کے فروغ کا مکمل نظام تھا ۔ ان نشستوں کے ختم ہونے سے وہ روحانی ما حول بھی ہما رے معا شروں سے رخصت ہو گیا جو انکا مرہون منت تھا۔ غور کیجئے نماز تراویح جب مساجد سے نکل کر شادی ہالوں، کمیونٹی سینٹروں اور ہالوں میں جاتی ہے تو اس کی روحانیت سلب ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگ اس تقریب کے انتظامات میں مصروف ہو کر تراویح کی عبادت سے قصداً رضا کارانہ محروم ہو جاتے ہیں کیونکہ کچھ ویڈیو بناتے ہیں ،کچھ صوتی نظام چلاتے ہیں ، کچھ کتابوں کے اسٹال پر بیٹھتے ہیں، کچھ کتابیں پڑھ رہے ہوتے ہیں، کچھ چائے بنانے کے انتظام میں مصروف ہوتے ہیں، کچھ تھک کر کرسیوں پر آرام فرما ہوکرچائے پی رہے ہوتے ہیں، کچھ سستانے لگتے ہیں، وقفوں میں چائے کا دور اور کھانے پینے کاسلسلہ چلتا ہے۔ نتیجتاً وہ روحانیت مفقود ہو تی ہے جو تراویح کا حاصل ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مسجد کا ادارہ چھوڑتے ہی یہ روحانیت بھی رخصت ہو جاتی ہے، روحانیت اس خاص ڈھانچے کے اندر ہے وہ ڈھانچہ نہیں رہے گا تو روحانیت بھی نہیں رہے گی اور دنیا کو، حرص و ہوس کو ، لذت دنیا کو اس روحانیت میں دخل اندازی کی کھلی اجازت خود بخود مل جاتی ہے ۔ ساخت کوئی غیر اقدار ی (value-neutral or objective free)شے نہیں ہوتی، بلکہ ہر ساخت ایک مخصوص مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہی مددگار ہوتی ہے۔ چوپالوں اور بیٹھکوں کے ذریعے مل جل کر رہنے کی معاشرت ہی کو عام کیا جا سکتا ہے ان کے ذریعے اغراض پر مبنی معاشرت کبھی قائم نہیں ہو سکتی۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہر ساخت افراد کے مخصوص مقاصد کو حاصل کرنے کی خاطر وضع کردہ تعلقات کے نتیجے میں وقوع پزیر ہوتی ہے۔ ساخت اور روح کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ساخت ختم ہوتے ہی روح بھی تحلیل ہوجاتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ساخت ختم ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ افراد کے تعلقات کا وہ تانا بانا جو اس مقصد کے حصول کی ضمانت تھا، اب موجود نہیں رہا۔ 
ساخت اور مقصد کا تعلق بیان کرنے کے لیے مثالیں اس لیے بیان کی گئیں کہ اسلامی تصورات وقف اور بیت المال سے کمپنی کے جواز کی غلطی واضح ہوسکے۔ کمپنی یا کارپوریشن کیا ہے؟ بڑھوتری برائے بڑھوتری(accumulation for the sake of accumulation) کے مقصد و عمل کو ممکن بنانے کا ذریعہ اور ساخت۔ اسے خوبصورت الفاظ میں یوں ادا کرتے ہیں کہ کمپنی کا مقصد شئیر ہولڈرز کے نفع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنا ہے اور اس اضافے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر چکر میں حاصل ہونے والے نفع کی کاروبار میں سرمایہ کاری (reinvestment) کرتے چلے جاؤ۔ یہی وجہ ہے کہ کمپنی کے منافع میں اضافے کی کوئی حد مقرر نہیں ہوتی، یعنی یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ کمپنی کتنا نفع کمانا چاہتی ہے اور کاروبار کے حجم میں کتنی توسیع چاہتی ہے کیونکہ یہ تو لامحدود انسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے سرمایے میں لامحدود اضافہ کرنے کی انسانی کوشش کا اظہار ہے۔ کمپنی اور شراکت (partnership)میں دو بنیادی فرق ہیں: 
  • اولاً کمپنی ایک شخص قانونی (legal personality) ہوتی ہے جو اپنے تمام مالکان سے علی الرغم اپنا ایک وجود رکھتی ہے۔ مثلاً فرض کریں اگر زید اور ناصر مل کر کوئی کاروبار کریں اور دونوں کسی وجہ سے کاروبار بند کردیں تو وہ کاروبار اور شراکت ختم ہوجائے گی، اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہتا ، نہ ہی اس کے ذمے کسی کی ادائیگیاں وغیرہ ہوتی ہیں، نہ کوئی شخص عدالت میں اس ’کاروبار ‘ کے خلاف مقدمہ درج کرسکتا ہے کیونکہ شراکت میں ملکیت ذاتی ہوتی ہے اور افراد ہی اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں کمپنی ایک علیحدہ (independent) وجود رکھتی ہے، اس کے تما م شئیر ہولڈرز اگر مر بھی جائیں تب بھی کمپنی نہیں مرتی، اس کے خلاف مقدمہ کیا جا سکتا ہے۔ 
  • دوئم ملکیت اور تصرف میں دوئی (separation of ownership and control)، یعنی کمپنی ملکیت میں تصرف کرنے کے حق کو فرد سے چھین کر ایسے افراد کے ہاتھوں میں مرکوز کر دیتی ہے جو فیصلے صرف بڑھوتری سرمایہ (profit maximization)کے اصول پر کرتے ہیں۔ ملکیت جب تک ذاتی ہو اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ فرد بڑہوتری سرمایہ کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے اسے استعمال کرے جو سرمایہ داری کو مطلوب نہیں۔ لبرل سرمایہ داری بھی اشتراکیت کی طرح انفرادی ملکیت ختم کردیتی ہے، فرق یہ ہے کہ اشتراکیت ایسا ریاستی جبر کے ذریعے کرتی ہے اور لبرل سرمایہ داری کارپوریشن کے ذریعے۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ نظام جتنا مضبوط ہوتا جاتا ہے، فرد کے لیے یہ مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا ہے کہ وہ ذاتی ملکیت کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرے۔ فرض کریں زید آج ٹیکسی چلاکر اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے اور ناصر پرچون کی دکان چلاتا ہے، لیکن سرمایہ داری اور زر کے بازار کے فروغ کے نتیجے میں بڑی بڑی کارپوریشن ٹیکسیاں اور رکشے تک چلانے لگتی ہیں، بڑے بڑے میکرو (makro) قائم کر دئیے جاتے ہیں جن سے مقابلہ (compete) کرنا ایک فرد کے بس کی بات نہیں رہتی۔ نتیجتاً فرد مجبور ہوجاتا ہے کہ یا تو اپنی ملکیت (property)کو بینک کے حوالے کردے اور یا پھر کمپنیوں کے شئیرز وغیرہ میں لگا (invest)دے، دونوں صورتوں میں ملکیت فرد کے ہاتھ سے نکل کر ان ہاتھوں میں پہنچ جاتی ہے جو سرمایے کے غلام ہوتے ہیں ۔ فرد کا کام صرف اتنا ہی رہ جاتا ہے کہ وہ اپنی ملکیت کو سرمایے کے حوالے کرکے مناسب نفع ملنے کی امید رکھے لیکن اسے یہ حق نہیں ہوتا کہ اپنی ملکیت پر اپنی مرضی سے تصرف کرسکے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ کمپنی کے مالکان شئیر ہولڈرز ہوتے ہیں یہ محض رسمی یا فرضی ملکیت (fictitious ownership) ہوتی ہے کیونکہ انہیں کمپنی کے کسی فیصلے پر اثر انداز ہونے کا حق نہیں ہوتا، وہاں فیصلے صرف اس بنیاد پر ہوتے ہیں کہ سرمایے میں اضافہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کمپنی میں فیصلے ہمیشہ وہی لوگ کرتے ہیں جو پیسے سے پیسہ بنانے کے علوم میں ماہر ہوتے ہیں (مثلاً financial analysts وغیرہ)۔ 
کارپوریشن در حقیقت حرص وحسد اور نفع خوری کی ذہنیت و عقلیت کو معاشرے پر مسلط کردینے کا ڈھانچہ ہے۔ اس کی مثال بالکل موبائیل فون کی سی ہے جو انسان کی حد سے بڑھی ہوئی حب دنیاکا اظہار ہے، یعنی انسان نے چوبیس گھنٹے دنیا سے جڑ جانے کی خواہش پورا کرنے کے لیے ایک آلہ تیار کر لیا ہے، اب چاھے وہ حالت نماز میں ہو یا حالت احرام میں، ہر حال میں دنیا سے اس کا تعلق قائم ہے، یہ آلہ اسے کسی لمحے دنیا سے قطع تعلق کرنے نہیں دیتا۔ بالکل اسی طرح کمپنی انسان کی سرمایے میں لامحدود اضافہ کرنے کی خواہش کا عملی اظہار ہے، اس ڈھانچے (structure)کا اور کوئی مقصد نہیں اور نہ ہی یہ کسی اور مقصدیت کے فروغ کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ کسی معاشرے میں کمپنی کا نفس وجود اور اس کا فروغ اس بات کی ضمانت ہے کہ افراد بڑھوتری سرمایہ کو اپنا مقصد حیات بناتے چلے جائیں، اس ساخت سے کسی اور شخصیت کا وقوع پزیر ہونا ہی نا ممکن ہے۔ ہو نہیں سکتا کہ کمپنیاں فروغ پائیں اور معاشرے میں حرص و حسد کی ذہنیت عام نہ ہو، اس مقصدیت و روحانیت کو کمپنی سے جدا کرنا خوش فہمی ہے، جب تک یہ ڈھانچہ (structure)موجود رہے گا اس کے اندر موجود روح افراد کو جکڑے رکھے گی۔ کمپنی کو وقف اور بیت المال پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے، بھلا وقف اور بیت المال جیسے اسلامی اداروں کانفع خوری سے کیا لینا دینا؟ اس کے بر خلاف وقف کی ملکیت تو عموماً غیر منافع بخش کاموں پر صرف کی جاتی ہے، جیسے مساجد و مدارس اوقاف کے ما تحت کام کرتے ہیں۔ یہ قیاس صرف ظاہری مماثلت کی بنیاد پر کیا گیا ہے جس کی حقیقت اوپر بیان کردہ مثالوں سے واضح ہوجانی چاہیے۔ ایک ثقافتی طائفے (art group) میں شامل ہو کر اشعار پڑھنے، ہجو کہنے، خطابت کرنے اور ڈھول بجانے کومیدان جنگ کے طبل جنگ سے تشبیہ دے کر اسلامی روایت قرار دینا باطل قیاس ہے۔ میدان جنگ میں ڈھول بجانا، رجزیہ اشعار پڑھنا، ہجو کہنا اور خطابت کا صور پھونکنا دو مختلف وسیلے [medium] اورراستے [ways] ہیں۔ میدان جنگ میں کوئی غیر پاکیزہ جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا، زندگی اور موت کی دہلیز پر ڈھول بجانے والا اور جنسی جذبات مشتعل کرنے کے لیے آلات موسیقی استعمال کرنے والے ثقافتی طائفے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اسی طرح کمپنی کا جواز عبد ما ذون فی التجارۃ(ایسا غلام جو اپنے آقا کی طرف سے تجارت کرتا ہے لیکن مقروض ہونے کی صورت میں اس کے قرضہ جات کی بازیابی غلام کی قیمت کی حد تک محدود ہوگی) سے نکالنا بھی ظاہری قیاس ہے، بھلا کمپنی کا غلام سے کیا تعلق؟ یہاں تو فرضی مالکان (شئیرہولڈرز) بشمول ڈائرکٹرز سب کے سب الٹا کمپنی کے غلام ہوتے ہیں، سب سرمایے کی خدمت و غلامی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اگر کسی کمپنی کے ڈائرکٹر زسرمایے میں اضافے کے سواء کسی اور بنیاد پر فیصلہ کرنے لگیں تو انہیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، اور اگر چند ڈائرکٹرز مل کر سرمایے میں اضافے کی ذہنیت معطل کرنے کی کوشش کریں تو کمپنی دیوالیہ ہوجاتی ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کمپنی سرمایے میں اضافے کے سواء کسی اور مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے، جیسے ہی وہ ایسا کرتی ہے کمپنی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کی ساخت کو اس کے مقصد سے علیحدہ کرنا نا ممکن ہے۔ 

اسلامی ریاستی حکمت عملی کا ناقص تصور:

پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اصل سوال یہ نہیں کہ ’کیا حرام نہیں ‘ ہے ، بلکہ یہ ہے کہ ’شریعت کا مدعا کیا ہے‘، شریعت کا مقصد کس قسم کی انفرادیت و معاشرت کا فروغ ہے ۔ معاشرتی و ریاستی پالیسیاں ’مطلوب‘ کے معیار سے طے پاتی ہیں نہ کہ ’عدم حرمت’ سے، کیونکہ عدم حرمت کا اصول تو کم از کم (bare-minimum) کا فلسفہ ہے جس کے ذریعے ہر گز بھی کوئی مثبت تبدیلی نہیں لائی جاسکتی بلکہ اس کا لازمی نتیجہ کسی دوسرے نظام کے سامنے پسپائی (retreat) اختیار کرنا ہوتا ہے۔ عدم حرمت کا فلسفہ صرف ’کیا نہیں کرنا‘ بتاتا ہے جب کہ کوئی اصولی اور مثبت تبدیلی لانے کے لیے ’کیا کرنا ہے‘ طے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ علمیت (epistemology)اور رویے (attitude) میں یہی فرق ہے کہ علمیت زندگی کے ’ہر‘ معاملے میں ’کیا کرنا چاہیے‘ (desired) کا اپنا ایک مخصوص نقطہ نظر رکھتی ہے جبکہ رویہ چند گنے چنے اعمال کا نام ہوتا ہے جن پر کسی بھی نظام زندگی کے اندر ایک شاخسانے کے طور پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ ’عدم حرمت‘ کے فلسفے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کوئی علم نہیں بلکہ چند مخصوص مطالبے کرنے کے بعد زندگی کے باقی دیگر معاملات کے بارے میں یکسر خاموش ہوجاتا ہے اور انسان کو جو وہ چاہنا چاہے چاہنے اور کرنے کے لیے آزادچھوڑ دیتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک غلط مفروضہ ہے کیونکہ اسلام دین یعنی ایک مکمل نظام زندگی ہے جو ہر انسانی فعل کو اپنی مخصوص اقدار میں سموتا ہے ۔ اسلام ایک دین کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ تمام انسانی زندگی بشمول عقائد، اخلاق، احساسات و اعمال کو یک رنگی (coherence) میں پرو دیتا ہے۔ اگر اسلام نظام و علمیت نہیں تو اصول فقہ کی تمام کتابوں کو دریا برد کر دیجئے کیونکہ جب تک یہ صفحہ ہستی پر موجود رہیں گی اسلام ایک نظام اور علمیت کا اعلان کرتی رہیں گی۔ اگر شریعت چند گنے چنے اعمال کا نام ہے تو آج بھی مدارس میں اصول فقہ کیوں پڑھائے جاتے ہیں؟ آخر انہیں پڑھانے کا مقصد اس کے سواء اور کیا ہے کہ علماء کرام نئے پیش آنے والے مسائل کو مقاصد الشریعہ کی روشنی میں حل کرسکیں؟ ہر نظام زندگی کے معاشرتی ادارے اس کی اپنی علمیت اور خیر و شر کے اپنے معیارات سے وجود میں آتے ہیں اور یہی وہ بات ہے جسے اسلامی ماہرین معاشیات سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ ایک اسلام دشمن علمیت و تہذیبی تاریخیت سے نکلے ہوئے اداروں کو ’حرام نہیں ہے‘ کے فلسفے پر پرکھ کر اسلامی جواز فراہم کررہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی احکامات پر عمل کرنے کا دائرہ چھوٹے سے چھوٹا ہوتا چلا جارہا ہے اور غیر نظام زندگی اپنا اثر و نفوذ بڑھا تا جارہا ہے ۔ مغربی (اور اب چند مسلم ممالک مثلاً کویت) میں کسی شخص کے مرنے کے بعد مردے کی تجہیز و تدفین وغیرہ کا انتظام یہ نہیں ہوتا کہ سب عزیز و اقارب اور اہل محلہ وغیرہ مل کر اس میں حصہ لیں جیسا کہ ہمارے یہاں کا معمول ہے بلکہ وہاں یہ کام چند ’ویلفیئر ادارے‘ سر انجام دیتے ہیں۔ اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ کسی شخص کے مرنے کے بعد کوئی ’ذمہ دار‘ شخص اس ادارے کو فون کردیتا ہے اور ادارے کے اراکین میت اپنے ساتھ اٹھا لیجاتے ہیں اور تدفین کی جگہ اور وقت کی اطلاع میت کے کسی قریبی عزیز کو بذریعہ فون دے دیجاتی ہے کہ اگر اس کے پاس ’فرصت کے چند لمحات ‘ میسر ہوں تو قبرستان چلا آئے، بصورت دیگر اسے فکر کرنے کی ضرورت نہیں، ادارہ اس کے بغیر بھی تدفین کا کام سر انجام دے دے گا۔ ایک ایسا مذہب جو پڑوسیوں کے بے شمار حقوق ادا کرنے کی تعلیم دیتا ہو اس کے ماننے والے اگر تجہیز و تدفین کا سستا انتظام کرنے والا کوئی ادارہ کھول کر یہ سمجھنے لگیں کہ ہم کوئی ’اسلامی کام ‘ کررہے ہیں تو اسے اسلام کے نام پر مذاق نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے ؟ کیا اسلامی معاشرت میں اس قسم کے اداروں کے ابھرنے کی کوئی ادنی امید بھی کی جاسکتی ہے؟ ایسے ادارے تو صرف ایسی ہی معاشرت میں پنپ سکتے ہیں جو انفرادیت پسندی (individualism)کی انتہا کو چھو چکے ہوں۔ ایسے اداروں کو اسلامی جواز فراہم کرنے کا مطلب اسلام کے نام پر ایسی معاشرت پروان چڑھانا ہے جہاں صلہ رحمی سرے سے کوئی قدر ہی نہ ہو۔ چنانچہ اسلامی معاشرتی و ریاستی حکمت عملی میں دیکھنے کی بات یہ نہیں ہوتی کہ آیا کوئی عمل حرام ہے یا نہیں، بلکہ یہ ہوتی ہے کہ مقاصد الشریعہ کا حصول کس طریقے سے ممکن ہے، یعنی اسلامی پالیسی سازی کوئی انفعالی عمل (passive activity)نہیں بلکہ فعلی عمل (active activity)کا نام ہے جن کا مقصد مقاصد الشریعہ کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کا فروغ بھی ہوتا ہے۔ شرع محض فرائض ، واجبات اور محرمات کا ہی نام نہیں بلکہ اس کا دائرہ سنن، مندوب، مستحب، مکروہ ، اساء ت و خلاف اولی کے درجات تک اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ پیدائش سے لے کر موت تک کوئی ادنی سے ادنی انسانی فعل بھی اس کی گرفت سے باہر نہیں۔ اگر اسلام واقعی ایک دین ہے تو لازماً اس کا کوئی مطلوب (desired)طرز زندگی (life style) بھی ہونا چاہیے اور اس طرز زندگی کا ماخذ بھی دیگر احکامات شریعہ کی طرح آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی ہونا چاہیے نہ کہ اس سے ماورا کوئی اور تصوریا معیار۔ اگر اسلام کا کوئی مطلوب طرز زندگی نہیں ہے تو ’اسلام ایک نظام زندگی اور دین‘ کا دعویٰ ایک لغو و لایعنی دعویٰٰ ہے ، اور اگر واقعی اسلامی طرز زندگی نامی کوئی شے ہے تو اسلامی ریاست اسی کے تحفظ اور فروغ کی پابند ہوگی۔ ہر وہ ادارتی صف بندی جو اسلامی طرز زندگی کو مشکل بناتی ہو کسی صورت اسلامی نہیں ہوسکتی چاہے کوئی لاکھ حیلے تراش کر اسے اصول شریعہ پر منطبق کردکھائے ۔ ’حرام نہیں ہے‘ اور ’مباح ہے‘ کہہ کر ہر چیز کو مطلوب سمجھنے والوں کے لیے ہم امام غزالی ؒ کا اقتباس دوبارہ پیش کیے دیتے ہیں، غور سے پڑھئے: ’’یہ (فلسفہ) غلط ہے، اصل حقیقت ان لوگوں پر منکشف ہوئی جنہوں نے دنیا کی محبت کو تمام گناہوں کی جڑ کہا... ضرورت سے زائد مباح چیز مباح ہونے کے باوجود دنیا میں شامل ہے اور انسان کو اس کے خالق سے دور کرتی ہے...نفس کی اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے مباحات کی لذت سے نہ روکا جائے اس لیے کہ انسان مباحات کی لذت سے تجاوز کرکے محظورات میں مبتلا ہوجاتا ہے ... اور یہ اس کی ادنی آفت ہے... اس کی ایک آفت یہ ہے کہ نفس دنیا کی لذتوں سے خوش ہوتا ہے اور ان لذتوں میں وہ اپنے لیے سکون تلاش کرتا ہے‘‘ (اح: ج ۳: ص ۱۱۵-۱۱۴)
جب ان تمام باتوں کا کوئی جواب نہ بن پائے تو اسلامی معاشیات کے حق میں یہ عذر پیش کردیا جاتا ہے کہ عموم بلوی کی وجہ سے لوگوں کو سود کے گناہ سے بچانے کے لیے اسلامی بینکاری کی ترکیب نکالی گئی ہے، نیز جب تک خلافت اسلامی کا قیام عمل میں نہیں آجاتا اس وقت تک اجتناب حرام کے لیے آئیڈیل کے بجائے رخصت پر عمل کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ بہر حال کرنا ہی ہوگا۔ یہ عذر در حقیقت نام نہاد اسلامی بینکاری کے نام پر کیے جانے والے کاروبار کو دوام بخشنے کا ایک بہانہ ہے کیونکہ اسلامی ماہرین معاشیات کی تحریریں اور رویہ دیکھ کر یہ قطعاً باور نہیں کیا جا سکتا کہ اسلامی بینکاری کوئی حادثاتی حکمت عملی ہے بلکہ یہ حضرات اسلامی معاشیات و بینکاری کو خالصتاً اسلامی بنا کر پیش کرتے ہیں، یعنی یہ اسلامی معاشیات کو بطور حکمت عملی (strategy)نہیں بلکہ بطور آئیڈیل اپناتے ہیں جیسا کہ مولانا تقی عثمانی صاحب کی پیش کردہ تحریروں سے عین واضح ہے۔ پھر ایک لمحے کے لیے مان لیجئے کہ یہ محض حکمت عملی ہی ہے، لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حکمت عملی کا آخر کار نتیجہ (end result)کیا ہوگا؟ آخر حکمت عملی کیوں وضع کی جاتی ہے، اس لیے کہ اصلاً مطلوب مقاصد حاصل ہوسکیں یا اس لیے کہ انکا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے؟ یہ بات درست ہے کہ سن ۲۰۰۸ میں آئیڈیل اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ممکن نہیں، لیکن حکمت عملی وضع کرنے کا مقصد تو یہ ہونا چاہیے کہ ایسا کیا کیا جائے کہ سن ۲۰۲۸ یا ۲۰۴۸ میں ہم اس قابل ہوجائیں کہ زیادہ اسلامی تعلیمات پر عمل ممکن ہو سکے۔ لیکن کیا ایسی حکمت عملی کو بھی ’اسلامی‘ کہا جا سکتا ہے جو ہمیشہ کے لیے اسلامی تعلیمات کو معطل بنادینے کی ترکیب ہو؟ کوئی بھی حکمت عملی تب ہی ’اسلامی ‘ کہلانے کی مستحق ٹھہرے گی کہ جب وہ مقاصد اسلامی کے حصول کا ذریعہ بنے نہ یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی کو نافذالعمل اور پختہ بنائے۔ ایک ایسی حکمت عملی جس کے نتیجے میں اسلامی نظام زندگی تحلیل ہورہا ہے اس پر ’اسلامی‘ کا لیبل چسپاں کرکے دین کے نام پر سرمایہ داری کا جواز کیوں فراہم کیا جا رہا ہے ؟ یہ عذر پیش کرکے اسلامی بینکاری پر کاربند رہنے کا مطلب احیاو غلبہ اسلامی کے کام کو پیچھے دھکیلنا ہے نہ کہ اس کا ممد و معاون بننا۔ خلافت اسلامیہ کی غیر موجودگی کو بہانہ بنا کر اس عذر کو بطور رخصت پیش کرنے کا مطلب یہ مان لینا ہے کہ اسلامی بینکاری وغیرہ کا احیا و غلبہ اسلام سے کوئی سرو کا ر نہیں، تو ایک ایسی حکمت عملی جس کا احیائے اسلام سے کچھ لینا دینا ہی نہیں اسے ’اسلامی‘ کیوں کہا جارہا ہے؟ پھر اسلامی بینکاری سے منسلک عمائدین کا رویہ ’نظریہ ضرورت‘ کی بنیاد پر اسلامی بینکاری کے جواز کو بھی سخت مشکوک بنا دیتا ہے۔ فقہ کا مشہور قاعدہ ہے کہ ضرورتاً جائز قرار دی جانے والی شے بمقدار ضرورت ہی جائز ہوتی ہے نہ یہ کہ وہ اصلاً مطلوب یا حق سمجھ کر اختیار کر لی جائے۔ کیا نظریہ ضرورت کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی بینکاری سے زیادہ سے زیادہ مادی فوائد حاصل کیے جائیں؟ اسے خود اور لوگوں کو بھی معیار زندگی بلند کرنے کی خاطر اپنانے کا درس دیا جائے ؟ اس کی کنسلٹنسی کے نام پر بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات حاصل کی جائیں؟ اگر ان علماء کے نزدیک نظریہ ضرورت اسی شے کا نام ہے تو پھر انہیں حجاب اور مردو زن کے اختلاط سے متعلق اسلامی احکامات پر بھی نظریہ ضرورت کے تحت اجتہاد کرنا چاہیے کیونکہ یہ بھی ’وقت کا تقاضا‘ ہے اور مسلمانوں کو اس معاملے میں بھی گناہ سے بچانے کی اشد ضرورت ہے۔ نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دی جانے والی شے کا مقصد اس غیر شرعی ضرورت کو ختم کردینا ہوتا ہے نہ کہ اسے زندگی کا لازمی حصہ بنا دینا، کیا ضرورت کے نام پر اسلامی بینکاری کے ذریعے جو حل پیش کیا جارہا ہے وہ اسلامی انفرادیت، معاشرت و ریاست کے فروغ کا ذریعہ بن رہا ہے یا سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے تقاضوں کو ہمیشہ کے لیے اسلامی زندگی کا حصہ بنا رہا ہے؟ ایک ایسی عورت جس کا کمانے والا کوئی محرم رشتہ دار نہ ہو اسے نوکری کرنے کی اجازت دینے کا مطلب یہ کہاں سے نکل آیا کہ women job promotion bureau (عورتوں میں نوکری کرنے کا شعور بیدار کرنے کا ادارہ) قائم کردیا جائے؟ 

عالمی استعماری نظام میں شمولیت کا جواز: 

اسلامی معاشیات و فائنا نس کا نتیجہ عالم اسلام کو عالمی استعماری سرمایہ دارانہ نظام میں سمو دینے اور اس کے تابع کردینے کے سواء کچھ نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں شمولیت کی یہ گنجائش زر اور سٹے کے بازاروں (money and capital markets) کا اسلامی جواز فراہم کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اسلامی ماہرین معاشیات یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لبرل سرمایہ داری بھی ریاستی سرمایہ داری یعنی سوشلزم کی مانند نجی ملکیت کا خاتمہ کردیتی ہے، صرف اتنے فرق کے ساتھ کہ سوشلزم میں یہ کام ریاست جبکہ لبرل سرمایہ داری میں زر کے بازار سر انجام دیتے ہیں۔ چنانچہ شخص قانونی، ملکیت اور حق تصرف میں جدائی، نظام قدر کا تعین بذریعہ تخمینہ بازی، فائنانس اور پیداواری عمل میں دوئی وغیرہ وہ ذرائع ہیں جن کے نتیجے میں نجی ملکیت کارپوریٹ ملکیت میں تحلیل ہوکر بڑھوتری سرمایہ کے اصل الاصول میں ضم ہو جاتی ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام زر میں شمولیت کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کو ئی نظام زندگی نہیں بلکہ ایک بڑے نظام زندگی یعنی سرمایہ داری کا ایک جز ہے کیونکہ اسلامی فائنانس و بینکاری وغیرہ کا مقصد اس عالمی نظام زر کا خاتمہ نہیں بلکہ اسے فطری مان کر اس میں چند اصلاحات کا نفاذ ہے تاکہ سرمایے میں زیادہ اضافہ ممکن ہوسکے۔ اسلامی بینکاری، اسلامی بانڈز، اسلامی انشورنس وغیرہم کا حاصل صرف اور صرف مسلم ذرائع کو عالمی نظام زر میں شامل کرکے نفع خوری کو بڑھاوا دینا ہے۔ پھر اسلامی فائنانس کا نتیجہ اتنا ہی نہیں کہ ایک فرد اس نظام میں شمولیت کو اپنا جائز حق سمجھے، بلکہ مسلم ریاستیں بھی خود کو اس عالمی نظام کے سپرد کردیں اور تمام معاشی و ریاستی پالیسیاں لبرل سرمایہ دارانہ نظام کے تقاضوں کے مطابق وضع کریں۔ اگر بالفرض اسلامی معاشیات و بینکاری نظام عالمی سطح پر ایک غالب نظام کی حیثیت اختیار کر لے تب بھی استعماری نظام کو اس سے کچھ خطرہ نہیں کیونکہ اسلامی معاشیات درحقیقت انہیں مقاصد کی محافظ، معاون اور وکیل ہے جو موجودہ عالمی نظام کے اصل اہداف ہیں۔ یعنی اسلامی فائنانس وغیرہ کی بڑھتی ہوئی عالمی مقبولیت کی وجہ اس کی اسلامیت یا سرمایہ داری سے علی الرغم کوئی متبادل نظام معیشت پیش کردینا نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ اہداف کے حصول میں عمدہ آلہ کار کی حیثیت رکھنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ استعمار اسلامی معاشیات و بینکاری کے ممکنہ غلبے سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتا بلکہ خود اس کا حامی اور موید ہے۔ سچ کہا قرآن نے کہ اے مسلمانوں یہود و نصاری اس وقت تک تم سے راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقوں کی پیروی نہ کرنے لگو۔ 
پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سرمایہ دارانہ نظام سے نکلے ہوئے اداروں پر ایک کل (totality) کی نظر سے فتویٰ لگائیں بصورت دیگر اسلامی شخصیت، اقدار و روحانیت کا ذکر صرف ’اصلاحی خطبات‘ میں پڑھ کر ’سبحان اللہ‘ کہہ دینے تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گا۔ یہ مفروضہ مان لینے کے بعد کہ لامحدود انسانی خواہشات کی تکمیل کرنا انسانی فطرت کا جائز اظہار ہے تزکیہ نفس کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا، ایسے معاشرے جہاں افراد کا مقصد لامحدود خواہشات کا حصول ہو وہاں حرص وحسد کو عموم و دوام بخشنے والے ادارے (زر اور سٹے کے بازار) ہی پھل پھول سکتے ہیں ، نہ کہ خانقاہی نظام۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کئی مسلم مفکرین اس فکری انتشار کا شکار ہیں کہ وہ اسلامی جمہوریت (Islam via democracy)کے تو خلاف ہیں لیکن اسلامی معاشیات کے سحر میں گرفتار ہیں حالانکہ دونوں کے پیچھے ’دائرہ شریعت کی پابندی‘ کا فلسفہ ہی کارفرما ہے، ایک جگہ اسے سیاسی عمل پر اور دوسری جگہ معاشی عمل پر منطبق کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔ درحقیقت اسلامی جمہوریت اور اسلامی معاشیات دونوں ہی احیاء و غلبہ اسلام کے راستے میں حائل دیگر رکاوٹوں سے زیادہ مہلک ہیں جس کی وجہ مسلم مفکرین کا انہیں غلبہ اسلام کا پیش خیمہ فرض کر لینا ہے۔ مسلمان جس قدر زیادہ انہیں اختیار کریں گے غلبہ اور انقلاب اسلامی کا کام اتنا ہی پسپا ہوتا چلا جائے گا۔ اسلامی معاشیات کا مقصد موجودہ غالب لبرل سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہر قسم کی انقلابی اسلامی جدوجہد کا جواز کالعدم قرار دینا ہے کیونکہ اس کے بنیادی فلسفے کے مطابق لبرل سرمایہ داری کے مقاصد اور انہیں حاصل کرنے کے اصول عین حق اور انسانی فطر ت کا جائز اظہار ہیں، البتہ اس میں چند عملی (operational) مگر قابل اصلاح نوعیت کی خرابیاں ہیں جنہیں درست کرنے کے لیے کسی انقلابی جدوجہد نہیں بلکہ اصلاحی سیاست (reformist politics) اور سرمایہ دارانہ علوم یعنی سائنسز (بشمول سوشل اور بزنس ) میں مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ 
فی الحقیقت اسلامی معاشیات اور اسلامی جمہوریت نے مل کر وہ سراب پیدا کیا ہے جس کے بعد اسلامی تحریکات کی توجہ انقلابی جدوجہد کے بجائے محض پر امن او رحقوق کی سیاست پر منتج ہوکر رہ گئی ہے اور ان کے لیے غالب نظام کے خلاف جہاد اور مجاہدین کی جدوجہد اجنبی اور لایعنی عمل کی حیثیت اختیار کرتے چلے جارہے ہیں۔ اسلامی معاشیات و فائنانس سے وابستگی کے نتیجے میں اسلامی تحریکات کے لیے کسی اعلی اسلامی آئیڈیل کا تصور اور اس کے حصول کا کوئی انقلابی لائحہ عمل وضع کرنا ہی محال ہوجاتا ہے کیونکہ انکی تمام تر توجہ ان پست سرمایہ دارانہ مقاصد کے حصول پر مرکوز ہوجاتی ہے جنہیں اسلامی معاشیات اسلام کے نام پر پیش کرتی ہے۔ یہ مضمون ہم نے ’شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے مری بات‘ کے جذبے کے تحت لکھا ہے۔ اگر اہل علم محسوس کریں کہ اس میں جس رائے کا اظہار کیا گیا ہے وہ صائب نہیں تو ہمیں ہماری غلطی پر مطلع کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقت حال سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 

مباحث مضمون سے متعلق مطالعے کے لیے درج ذیل حوالہ جات دیکھئے :
۱۔ سرمایہ داری اور علم معاشیات کے مختلف تصورات کی تشریح اور تعلق کے لیے دیکھئے: 
1. Friedman Milton (1982), Capitalism and Freedom, Chicago, University of Chicago Press
2. Cole K, J. Cameron, and C. Edwards (1983), Why Economists Disagree, The political economy of economics, Longman group limited
3. Hayek, F. A. (1967), "The Principles of a Liberal Society", Studies in Philosophy, Politics and Economics, London Routledge and Kegan Paul, p 70 - 94
4- علم معاشیات کی کوئی سی اچھی درسی کتاب
۲۔ ایڈم سمتھ کے اخلاقی ومعاشی افکار جاننے کے لیے دیکھئے : 
1. Smith Adam (1759), The Theory of Moral Sentiments, New York, 1971
2. Smith Adam (1776), An Inquiry into the Nature and Causes of the Wealth of Nations, New York 1973
۳۔ اسلامی معاشیات و بینکاری کے عمومی فریم ورک کی تفصیلات کے لیے دیکھئے: 
1. Chapra, Umar (1993), Islam and Economic Development, Islamic Research Institute, Islamabad
2. Chapra, Umar (1979), "The Islamic welfare state and its role in the economy" in Ahmed and Ansari (1979), Islamic Perspective, p. 195-227, Saudi Publishing House, Jeddah
3. Kursheed Ahmed (1979), "Islamic Development in an Islamic Framewrok", in Ahmed and Ansari (1979), p. 223-240
4. Siddiqui Nijatullah (1996), Teaching Economics in Islamic Perspective, King Abdul Aziz University, Jeddah
5. Usmani Maulana Taqi (2002), An Introduction to Islamic Finance, The Hague Kluver Law International
6- مولانا تقی عثمانی (۱۹۹۳) ، اسلام اور جدید معیشت و تجارت، ادارۃ المعارف ، کراچی
۴۔ سوشل ڈیموکریٹ معیشت دانوں اور اسلامی ماہرین معاشیات کے خیالات میں مماثلت کے لیے دیکھئے: 
1. Giddens A. (1999), The Third Way: The Renewal of Social Democracy, Cambridge Polity
2. Sen, A.K. (2001), Development as Freedom, New Delhi Oxford University Press
۵۔ اسلامی معاشیات و بینکاری کے فریم ورک پر نظامیاتی نقطہ نگاہ سے تفصیلی تنقید کے لیے دیکھئے: 
1. Ansari, Javed Akbar (2004), Rejecting Freedom and Progress, chap 4, Jareeda (29), Karachi University Press
2. Ansari, Javed Akbar (2001), "Reading Islam aur Jadid Maeshat-o-Tijarat", Pakistan Business Review, Vol 2 (3), p. 3-17
3. Ansari, J. and Zeeshan Arshad (2007), "Conflicting Paradigms: Alternative Islamic Approaches to Business Ethics Discourse", Business Review, Vol 2 (2), July-December, p. 104-120
۶۔ امام غزالی رحمہ اللہ کی تعلیمات کے لیے دیکھئے: 
1- احیاء العلوم (اح): مترجم، مولانا ندیم الواجدی، دارالاشاعت کراچی
2- کیمیائے سعادت (ک): مترجم، محمد سعید الرحمن، مکتبہ رحمان لاہور

’سنت‘ اور ’حدیث‘: جناب جاوید احمد غامدی کا نقطہ نظر (۱)

سید منظور الحسن

ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے ستمبر ۲۰۰۶ کے شمارے میں جناب حافظ محمد زبیر کا مضمون ’’غامدی صاحب کے تصور سنت کا تنقیدی جائزہ‘‘شائع ہوا تھا جو اب ان کی تصنیف ’’فکر غامدی ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ‘‘ کا حصہ ہے۔ اس مضمون میں فاضل ناقد نے یہ بیان کیا ہے کہ سنت کے تصور ،اس کے تعین، اس کے مصداق اور اس کے ثبوت کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف عقل و نقل کی روشنی میں درست نہیں ہے۔ اسی طرح الشریعہ کے جون ۲۰۰۸ کے شمارے میں محترم جناب مولانا زاہد الراشدی نے ’’غامدی صاحب کا تصور سنت‘‘ کے زیر عنوان اپنی تنقید میں غامدی صاحب کے موقف کی تعبیر یوں کی ہے کہ غامدی صاحب اپنی مخصوص اصطلاح کے مطابق ’سنت‘ کے دائرے میں آنے والے امور کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر ارشادات اور افعال وتقریرات کو دین کا حصہ اور حجت نہیں سمجھتے جو ایک گمراہی کی بات ہے۔ 
زیر نظر تحریر میں ہم مذکورہ دونوں تنقیدات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے فہم کی حد تک غامدی صاحب کے تصور سنت وحدیث کی وضاحت ان کی اپنی تحریرات کی روشن میں کریں گے،اس موضوع پر اہل علم کی آرا کی تنقیح کریں گے اور عقل و نقل کی روشنی میں تنقیدی سوالات کا جائزہ لیں گے۔ 

تصور ’سنت‘

جناب جاوید احمد غامدی اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے مقدمے ’’اصول و مبادی‘‘ میں دین کے مآخذ کے بارے میں اپنا اصولی موقف ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’دین اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جو اُس نے پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی اور اِس کے بعد اُس کی تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسان کو دی ہے۔ اِس سلسلہ کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ چنانچہ دین کا تنہا ماخذ اِس زمین پر اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔ یہ صرف اُنھی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کو اُن کے پروردگار کی ہدایت میسر ہو سکتی اور یہ صرف اُنھی کا مقام ہے کہ اپنے قول و فعل اور تقریر و تصویب سے وہ جس چیز کو دین قرار دیں، وہی اب رہتی دنیا تک دین حق قرار پائے:
ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ.(الجمعہ ۶۲: ۲ )
’’وہی ذات ہے جس نے اِن امیوں میں ایک رسول اِنھی میں سے اٹھایا ہے جو اُس کی آیتیں اِن پر تلاوت کرتا ہے اور اِن کا تزکیہ کرتا ہے اور (اِس کے لیے ) اِنھیں قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘ 
یہی قانون و حکمت وہ دین حق ہے جسے ’’اسلام‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اِس کے ماخذ کی تفصیل ہم اِس طرح کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے : 
۱۔ قرآن مجید 
۲ ۔سنت 
... سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اُس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے ۔ ‘‘ (میزان ۱۳۔۱۴)
اسی مقدمے میں ایک مقام پر انھوں نے سنت کے اس تصور کے پس منظر کو بیان کیا ہے۔ ’’مبادی تد بر قرآن‘‘ کے تحت فہم قرآن کے اصول بیان کرتے ہوئے ’’دین کی آخری کتاب‘‘ کے زیر عنوان یہ واضح کیا ہے کہ قرآن جس دین کو پیش کرتا ہے، تاریخی طور پر وہ اس کی پہلی نہیں، بلکہ آخری کتاب ہے ۔ دین فطرت، ملت ابراہیمی کی روایت اورنبیوں کے صحائف تاریخی لحاظ سے اس سے مقدم ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’... دین کی تاریخ یہ ہے کہ انسان کو جب اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھیجا تو اُس کے بنیادی حقائق ابتدا ہی سے اُس کی فطرت میں ودیعت کر دیے۔ پھر اُس کے ابوالآبا آدم علیہ السلام کی وساطت سے اُسے بتا دیا گیا کہ اولاً، اُس کا ایک خالق ہے جس نے اُسے وجود بخشا ہے،وہی اُس کا مالک ہے اور اِس کے لازمی نتیجے کے طور پر تنہا وہی ہے جسے اُس کا معبود ہونا چاہیے ۔ثانیاً ،وہ اِس دنیا میں امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے اور اِس کے لیے خیر وشر کے راستے نہایت واضح شعور کے ساتھ اُسے سمجھا دیے گئے ہیں ۔پھر اُسے ارادہ و اختیار ہی نہیں ، زمین کا اقتدار بھی دیا گیا ہے۔ اُس کا یہ امتحان دنیا میں اُس کی زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہے گا ۔وہ اگر اِس میں کامیاب رہا تو اِس کے صلے میں خدا کی ابدی بادشاہی اُسے حاصل ہو جائے گی جہاں نہ ماضی کا کوئی پچھتاوا ہو گا اور نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ۔ ثالثاً، اُس کی ضرورتوں کے پیش نظر اُس کا خالق وقتاً فوقتاً اپنی ہدایت اُسے بھیجتا رہے گا ،پھر اُس نے اگر اِس ہدایت کی پیروی کی تو ہر قسم کی گمراہیوں سے محفوظ رہے گا اور اِس سے گریز کا رویہ اختیار کیا تو قیامت میں ابدی شقاوت اُس کا مقدر ٹھیرے گی ۔ 
چنانچہ پروردگار نے اپنا یہ وعدہ پورا کیا اور انسانوں ہی میں سے کچھ ہستیوں کو منتخب کر کے اُن کے ذریعے سے اپنی یہ ہدایت بنی آدم کو پہنچائی۔ اِس میں حکمت بھی تھی اور شریعت بھی۔حکمت، ظاہر ہے کہ ہر طرح کے تغیرات سے بالا تھی، لیکن شریعت کا معاملہ یہ نہ تھا ۔وہ ہر قوم کی ضرورتوں کے لحاظ سے اترتی رہی، یہاں تک کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی نبوت میں پوری انسانیت کے لیے اُس کے احکام بہت حد تک ایک واضح سنت کی صورت اختیار کر گئے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جب بنی اسرائیل کی ایک باقاعدہ حکومت قائم ہو جانے کا مرحلہ آیا تو تورات نازل ہوئی اور اجتماعی زندگی سے متعلق شریعت کے احکام بھی اترے۔ اِس عرصے میں حکمت کے بعض پہلو نگاہوں سے اوجھل ہوئے تو زبور اور انجیل کے ذریعے سے اُنھیں نمایاں کیا گیا۔ پھر اِن کتابوں کے متن جب اپنی اصل زبان میں باقی نہیں رہے تو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے آخری پیغمبر کی حیثیت سے مبعوث کیا اور اُنھیں یہ قرآن دیا۔...
یہ دین کی تاریخ ہے ۔چنانچہ قرآن کی دعوت اِس کے پیش نظر جن مقدمات سے شروع ہوتی ہے ،وہ یہ ہیں:
۱۔ فطرت کے حقائق 
۲۔ دین ابراہیمی کی روایت
۳۔ نبیوں کے صحائف۔‘‘ (میزان ۴۳۔۴۵)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ملت ابراہیمی کی اتباع لازم ہونے کا حکم قرآن مجید میں یوں بیان ہوا ہے:
ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا، وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ. (النحل ۱۶ :۱۲۳)
’’پھر ہم نے تمھیں وحی کی کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا۔‘‘
غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ عربوں کے ہاں دین ابراہیمی کی روایت پوری طرح مسلم تھی ۔ لوگ بعض تحریفات کے ساتھ کم و بیش وہ تمام امور انجام دیتے تھے جنھیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جاری کیا تھا اور جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تصویب سے امت میں سنت کی حیثیت سے جاری فرمایا۔ چنانچہ ان کے نزدیک نماز، روزہ، حج،زکوٰۃ،نماز جنازہ، جمعہ، قربانی، اعتکاف اور ختنہ جیسی سنتیں دین ابراہیمی کے طور پر قریش میں معلوم و معروف تھیں۔لکھتے ہیں:
’’...نماز ،روزہ ،حج ،زکوٰۃ، یہ سب اِسی ملت کے احکام ہیں جن سے قرآن کے مخاطب پوری طرح واقف ،بلکہ بڑی حد تک اُن پر عامل تھے ۔ سیدنا ابوذر کے ایمان لانے کی جو روایت مسلم میں بیان ہوئی ہے ، اُس میں وہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی وہ نماز کے پابند ہو چکے تھے۔ جمعہ کی اقامت کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ قرآن کے مخاطبین کے لیے کوئی اجنبی چیز نہ تھی۔ نماز جنازہ وہ پڑھتے تھے ۔ روزہ اُسی طرح رکھتے تھے، جس طرح اب ہم رکھتے ہیں۔ زکوٰۃ اُن کے ہاں بالکل اُسی طرح ایک متعین حق تھی، جس طرح اب متعین ہے۔ حج و عمرہ سے متعلق ہر صاحب علم اِس حقیقت کو جانتا ہے کہ قریش نے چند بدعتیں اُن میں بے شک داخل کر دی تھیں، لیکن اُن کے مناسک فی الجملہ وہی تھے جن کے مطابق یہ عبادات اِس وقت ادا کی جاتی ہیں ،بلکہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اِن بدعتوں پر متنبہ بھی تھے ۔ چنانچہ بخاری و مسلم، دونوں میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے پہلے جو حج کیا ،وہ قریش کی اِن بدعتوں سے الگ رہ کر بالکل اُسی طریقے پر کیا ، جس طریقے پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حج ہمیشہ جاری رہا ہے۔ 
یہی معاملہ قربانی، اعتکاف، ختنہ اور بعض دوسرے رسوم و آداب کا ہے۔یہ سب چیزیں پہلے سے رائج ،معلوم و متعین اور نسلاً بعد نسلٍ جاری ایک روایت کی حیثیت سے پوری طرح متعارف تھیں ۔ چنانچہ اِس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ قرآن اِن کی تفصیل کرتا ۔ لغت عرب میں جو الفاظ اِن کے لیے مستعمل تھے ، اُن کا مصداق لوگوں کے سامنے موجود تھا۔ قرآن نے اُنھیں نماز قائم کرنے یا زکوٰۃ ادا کرنے یا روزہ رکھنے یا حج و عمرہ کے لیے آنے کا حکم دیا تو وہ جانتے تھے کہ نماز، زکوٰۃ ، روزہ اور حج و عمرہ کن چیزوں کے نام ہیں۔‘‘ (میزان۴۵۔۴۶)
غامدی صاحب نے ’’میزان‘‘ کے مقدمے ’’اصول و مبادی‘‘ میں ’’مبادی تدبر سنت‘‘ کے زیر عنوان سنت کی نوعیت اور اس کی تعیین کے حوالے سے چند رہنما اصول متعین کیے ہیں۔ ان کے مطالعے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اگر انھوں نے کسی چیز کو سنن میں شمار کیا ہے تو کیوں کیا ہے اور اگر سنن میں شمار نہیں کیا تو اس کا کیا سبب ہے۔ ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
پہلا اصول یہ ہے کہ سنت صرف وہی چیز ہو سکتی ہے جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے دین ہو۔ چنانچہ وہ چیزیں جو اصلاً عرب کے تہذیب و تمدن یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی پسند و ناپسند پر مبنی ہیں، وہ سنت نہیں ہیں۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ سنت سرتاسر عملی زندگی سے متعلق امور پر مشتمل ہے، یعنی دین کی وہ چیزیں جنھیں عملاً انجام دیا جاتا ہے۔ ایمانیات، اخلاقیات اوراس نوعیت کی دوسری چیزیں اس کے دائرے میں شامل نہیں ہیں۔ 
تیسرا اصول یہ ہے کہ سنت اگر چہ عملی زندگی سے متعلق ہے، مگر عملی نوعیت کی وہ چیزیں سنت نہیں ہیں جن کی ابتدا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بجاے قرآن سے ہوئی ہے۔چنانچہ صرف وہی چیزیں سنت قرار پائیں گی جو اصلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب پر مبنی ہیں اور جوآپ کا قرآن کے کسی حکم پر عمل یا قرآن ہی کی کسی بات کی تفہیم اور شرح و وضاحت نہیں ہیں ۔
چوتھا اصول یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر کسی سنت پر بطور تطوع عمل کیا ہے تو اس کے نتیجے میں اسے نئی اور الگ سنت تصور نہیں کیا جاسکتا۔چنانچہ جو چیزیں اپنی اولین حیثیت میں سنت قرار پا چکی ہیں ،ان پرفقط بطور تطوع عمل کی بنا پر انھیں سنت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثلاً نماز کے سنت قرار پا جانے کے بعدنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف اوقات میں نفل نمازیں، روزے کے سنن میں شامل ہونے کے بعد رمضان کے علاوہ نفل روزے،اسی طرح مختلف موقعوں پر نفل قربانی ، اور دین کے کسی عمل کو درجۂ کمال پر انجام دینے والے آپ کے اعمال ، سب اسوۂ حسنہ قرار پا ئیں گے۔ انھیں سنت قرار نہیں دیا جائے گا۔
پانچواں اصول یہ ہے کہ وہ اعمال جو دین میں بیان شریعت کے طور پر نہیں، بلکہ بیان فطرت کے طور پر آئے ہیں، وہ بھی سنت نہیں ہیں۔ البتہ، فطرت کے جن اعمال کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی احکام کی حیثیت سے مقرر کر دیا ہے، انھیں، بہرحال سنت ہی کے زمرے میں شمار کیا جائے گا۔
چھٹا اصول یہ ہے کہ وہ چیزیں بھی سنت نہیں ہیں جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی رہنمائی تو کی ہے، مگر انھیں سنت کی حیثیت سے جاری نہیں فرمایا۔
غامدی صاحب کی تحقیق کے مطابق حسب ذیل اعمال کو سنن کی حیثیت حاصل ہے:
عبادات:
۱۔ نماز ۔۲۔ زکوٰۃ اور صدقۂ فطر ۔۳۔ روزہ و اعتکاف ۔۴۔ حج و عمرہ ۔۵۔ قربانی اور ایام تشریق کی تکبیریں ۔
معاشرت:
۱۔ نکاح و طلاق اور اُن کے متعلقات ۔ ۲۔حیض و نفاس میں زن و شو کے تعلق سے اجتناب۔ 
خورونوش:
۱۔ سؤر ، خون ، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کی حرمت ۔ ۲۔ اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ ۔ 
رسوم و آداب:
۱۔ اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا ۔ ۲۔ ملاقات کے موقع پر ’السلام علیکم ‘اور اُس کا جواب۔ ۳۔ چھینک آنے پر ’الحمدللہ ‘اور اُس کے جواب میں ’یرحمک اللہ ‘ ۔ ۴ ۔نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت۔ ۵۔مونچھیں پست رکھنا۔ ۶۔ زیر ناف کے بال کاٹنا۔ ۷۔بغل کے بال صاف کرنا۔ ۸۔ بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا۔ ۹۔لڑکوں کا ختنہ کرنا ۔ ۱۰۔ ناک ،منہ اور دانتوں کی صفائی۔ ۱۱۔استنجا۔ ۱۲۔ حیض و نفاس کے بعد غسل۔ ۱۳۔غسل جنابت۔ ۱۴۔میت کا غسل۔ ۱۵ ۔تجہیز و تکفین ۔ ۱۶۔تدفین ۔۱۷ ۔عید الفطر ۔ ۱۸۔ عید الاضحی ۔

تصور ’حدیث‘

غامدی صاحب کے نزدیک دین اپنے بنیادی مآخذ کے لحاظ سے قرآن وسنت میں محصور ہے، جبکہ اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تصویبات کی جو روایات اخبار آحاد کی صورت میں امت نے نقل کی ہیں، اس میں دین کے مستقل بالذات احکام نہیں پائے جاتے، بلکہ یہ اخبار آحاد قرآن وسنت ہی میں بیان ہونے والے احکام کی تفہیم وتبیین اور ان پر عمل کرنے کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو بیان کرتی ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’دین لاریب، انھی دو صورتوں میں ہے۔ ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے، نہ اسے دین قرار دیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کے اخبار آحاد جنھیں بالعموم ’’حدیث‘‘ کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ کبھی درجہ یقین کو نہیں پہنچتا، اس لیے دین میں ان سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا۔ دین سے متعلق جو چیزیں ان میں آتی ہیں، وہ درحقیقت، قرآن وسنت میں محصور اسی دین کی تفہیم وتبیین اور اس پر عمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا بیان ہیں۔ حدیث کا دائرہ یہی ہے۔ چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہو سکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (میزان، ۱۵)
تاہم حدیث کے دائرے کی اس تعیین سے اس کی دینی حیثیت اور اہمیت میں کسی طرح کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، بلکہ اس دائرے میں وہ دینی علم کا نہایت اہم ذریعہ ہے جس سے کوئی مسلمان بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبار آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنھیں اصطلاح میں حدیث کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ وعمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس مضمون کی تمہید میں ہم نے پوری صراحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے کہ یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وسوانح، آپ کے اسوۂ حسنہ اور دین سے متعلق آپ کی تفہیم وتبیین کے جاننے کا سب سے بڑا اور اہم ترین ذریعہ حدیث ہی ہے۔ لہٰذا اس کی یہ اہمیت ایسی مسلم ہے کہ دین کا کوئی طالب علم اس سے کسی طرح بے پروا نہیں ہوسکتا۔‘‘ (میزان، ۶۱)
دین کی تفہیم وتبیین کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ کے اسوۂ حسنہ کی تشریعی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس دائرے کے اندر، البتہ اس کی حجت ہر اس شخص پر قائم ہوجاتی ہے جو اس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل یا تقریر وتصویب کی حیثیت سے اسے قبول کر لیتا ہے۔ اس سے انحراف پھر اس کے لیے جائز نہیں رہتا، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اس میں بیان کیا گیا ہے تو اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔‘‘ (میزان، ۱۵)
غامدی صاحب کے موقف کی وضاحت کے بعد اب ہم اس حوالے سے دیگر علما ومحققین کے موقف کا مطالعہ کریں گے۔

علماے محققین کی راے

پہلے ’سنت‘ کو لیجیے جو غامدی صاحب کی اصطلاح میں دین ابراہیمی کی اس عملی روایت کا نام ہے جو اسلام سے پہلے اہل عرب میں اپنی اصولی حیثیت میں موجود تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تحت اسی کی تجدید واصلاح کر کے اسے امت مسلمہ میں جاری فرمایا۔ دین اسلام کے پس منظر کے حوالے سے کم و بیش یہی موقف ہے جسے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں انھوں نے لکھا ہے کہ اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے ۔ تمام انبیا نے بنیادی طور پر ایک ہی جیسے عقائد اور ایک ہی جیسے اعمال کی تعلیم دی ہے۔ شریعت کے احکام اور ان کی بجا آوری کے طریقوں میں حالات کی ضرورتوں کے لحاظ سے ، البتہ کچھ فرق رہا ہے۔ سر زمین عرب میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اس موقع پر اس دین کے احوال یہ تھے کہ صدیوں کے تعامل کے نتیجے میں اس کے احکام دینی مسلمات کی حیثیت اختیار کر چکے تھے اورملت ابراہیم کے طور پر پوری طرح معلوم و معروف تھے، تاہم بعض احکام میں تحریفات اور بدعات داخل ہو گئی تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہوا: ’فَاتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا‘ یعنی ملت ابراہیم کی پیروی کرو۔ آپ نے یہ پیروی اس طریقے سے کی کہ اس ملت کے معلوم و معروف احکام کو برقرار رکھا، بدعات کا قلع قمع کیااور تحریف شدہ احکام کو ان کی اصل صورت پر بحال فرمایا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں:
’’جان لو کہ نبوت عام طور پر اسی ملت کے تابع ہوتی ہے (جس میں نبی مبعوث ہوا ہو)، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ‘۔ نیز فرمایا: ’وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِہِ لَاِبْرَاہِیْمَ‘۔ اس کا راز اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ جب کسی دین پر بہت صدیاں گزر جاتی ہیں اور اس لوگ اس کی پابندی اور اس کے شعائر کی تعظیم اور احترام میں مشغول رہتے ہیں اور اس کے احکام اس قدر شائع وذائع ہو جاتے ہیں کہ ان کو نہایت بدیہی باتوں کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا، پھر ایک دوسرا نبی آتا ہے تاکہ پہلے نبی کی تعلیمات میں اختلاط پیدا ہو جانے کے بعد جو کجی پیدا ہو گئی ہے، اس کو سیدھا کرے اور جو بگاڑ آ گیا ہے، اس کی اصلاح کرے۔ چنانچہ جو احکام اس قوم میں جس کی طرف وہ مبعوث ہوا ہے، شائع و ذائع ہوتے ہیں، ان پر وہ ایک نظر غائر ڈالتا ہے اور جو احکام سیاست ملیہ کے اصول کے مطابق درست ہوتے ہیں، ان کو تبدیل نہیں کرتا، بلکہ لوگوں کو ان کی دعوت دیتا اور ان کے پابند رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ البتہ جو چیزیں غیر مناسب ہوتی ہیں اور ان میں تحریف ہو چکی ہوتی ہے، ان میں حسب ضرورت تبدیلی کرتا ہے اور جس چیز کا اضافہ کرنا مناسب ہو، اس کا اضافہ کر دیتا ہے۔‘‘ (حجۃاللہ البالغہ ۱/ ۲۰۹)
شاہ صاحب نے ملت ابراہیمی کے حوالے سے اسی بات کو ایک دوسرے مقام پر ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملت حنیفیہ اسماعیلیہ کی کجیاں درست کرنے اور جو تحریفات اس میں واقع ہوتی تھیں، ان کا ازالہ کرنے اور اس کے نور کو پھیلانے کے لیے مبعوث فرمایا ۔ چنانچہ : ’مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ‘ میں اسی حقیقت کا اظہار ہے۔ اس لیے یہ ضروری تھا کہ اس ملت کے اصولوں کو تسلیم کیا جائے اور اس کے طریقوں اور سنن کو برقرار رکھا جائے۔ کیونکہ جب نبی کسی ایسی قوم میں مبعوث ہوتا ہے جس کے ہاں سنت راشدہ کسی حد تک محفوظ ہو تو کو بدلنا بے معنی بات ہے، بلکہ لازم ہے کہ اس کو برقرار رکھا جائے، کیونکہ اس کی پیروی پر ان کے نفوس زیادہ آمادہ ہوں گے اور ان کے خلاف حجت قائم کرنے کے لیے بھی وہ زیادہ مضبوط بنیاد ثابت ہوگی۔‘‘ (حجۃاللہ البالغہ ۱/ ۴۲۷) 
یہ بات اہل علم کے ہاں پوری طرح مسلم ہے کہ دین ابراہیمی کے سنن عربوں میں قبل از اسلام رائج تھے۔شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ عرب نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، اعتکاف، قربانی، ختنہ، وضو، غسل، نکاح اور تدفین کے احکام پر دین ابراہیمی کی حیثیت سے عمل پیرا تھے۔ ان احکام کے لیے شاہ صاحب نے ’سنۃ‘ (سنت)، ’سنن متاکدہ‘ (مؤکد سنتیں)، ’سنۃ الانبیاء‘ (انبیا کی سنت) اور ’شعائر الملۃ الحنیفیۃ‘ (ملت ابراہیمی کے شعار) کی تعبیرات اختیار کی ہیں:
’’یہ بات وہ سب جانتے تھے کہ انسان کا کمال اس میں ہے کہ وہ اپنایظاہر وباطن کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے اور اس کی عبادت میں اپنی انتہائی کوشش صرف کرے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ طہارت عبادت کا جزو ہے اورجنابت سے غسل کرنا اور اسی طرح ختنہ اور دیگر خصال فطرت ان کے ہاں معمول بہ طریقے کی حیثیت رکھتے تھے۔ تورات میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام اور اس کی اولاد کے لیے ختنہ کو ایک نشان قرار دیا تھا۔ یہود اور مجوس وغیرہ میں بھی وضو کرنے کا رواج تھا اور حکماے عرب بھی وضو کیا کرتے تھے۔ نماز بھی ان کے ہاں رائج تھی اور ابوذر غفاری اسلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے بھی تین سال پہلے نماز پڑھا کرتے تھے۔ اسی طرح قس بن ساعدہ ایادی بھی نماز پڑھا کرتے تھے۔ یہود اور مجوس اور باقی اہل عرب میں نماز کا جو طریقہ محفوظ تھا، وہ تعظیمی افعال بالخصوص سجدے پر، اور دعا اورذکر پر مشتمل تھا۔ زکوٰۃ بھی ان میں رائج تھی۔ .... صبح صادق سے غروب آفتاب تک روزہ بھی موجود تھا اور جاہلیت میں قریش عاشورا کے دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ مسجد میں اعتکاف کی عبادت بھی معلوم تھی۔ حضرت عمر نے زمانۂ جاہلیت میں ایک دن کے لیے اعتکاف کی منت مانی تھی۔ ... اور بیت اللہ کے حج اور اس کے شعائر اور اشہر حرم کی تعظیم کا معاملہ تو اظہر من الشمس ہے۔ ..... جانور کو حلق پر چھری پھیر کر اور اونٹ کو سینے میں نیزہ چبھو کر ذبح کرنے کا طریقہ بھی ان کے ہاں رائج تھا۔ وہ جانور کا گلا نہیں گھونٹ دیتے تھے اور نہ اسے چیرتے پھاڑتے تھے۔ ... کھانے پینے، لباس، عید اور ولیمہ، مردوں کی تجہیزوتکفین، نکاح اور طلاق، عدت اور سوگ، خریدوفروخت اور دیگر معاملات کے متعلق ان کے ہاں ایسے واجب الاتباع سنن تھیں جن کے ترک کرنے والے کو مستوجب ملامت قرار دیا جاتا تھا۔ماں بہن اور دیگر محرمات سے نکاح کرنے کو وہ ہمیشہ سے حرام سمجھتے رہے ہیں۔ اسی طرح ظلم وزیادتی کی سزائیں اور حرام کاری اور چوری کے لیے سزائیں بھی ان کے ہاں مقرر تھیں۔‘‘ (حجۃاللہ البالغہ ۱ /۲۹۰۔۲۹۲) 
’’انبیا علیہم السلام کی سنت ذبح اور نحر ہے جو سب انبیا کے ہاں متوارث چلی آرہی ہے۔ .... اہل عرب کے ہاں ذبح اور نحر ملت ابراہیمی کے ایک شعار کی حیثیت رکھتا تھا اور ابراہیمی اور غیر ابراہیمی کے مابین امتیاز کا ذریعہ تھا۔ اس طرح اسے ختنہ اور دیگر خصال فطرت کی سی اہمیت حاصل تھی۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملت ابراہیمی کے احیا اور تجدید کے لیے بھیجا گیا تو لازم تھا کہ اس شعار کو بھی قائم رکھا جائے۔‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ ۲/۳۱۹۔۳۲۰)
امام رازی نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ عربوں میں حج اور ختنہ وغیرہ کو دین ابراہیمی ہی کی حیثیت حاصل تھی:
’’... اور یہ بات معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چند مخصوص شرائع اور احکام جیسے بیت اللہ کا حج اور ختنہ وغیرہ مقرر کیے تھے۔... اور اہل عرب ان چیزوں کو اختیار کیے ہوئے تھے۔‘‘ (تفسیر کبیر ۴/ ۱۸)
ختنہ کی سنت کے حوالے سے ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: 
’’ختنہ کو واجب کہنے والوں کا قول ہے کہ یہ دین ابراہیمی کی علامت، اسلام کا شعار، فطرت کی اصل اور ملت کا عنوان ہے۔... دین ابراہیمی کی اتباع کرنے والے اپنے امام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد سے لے کر خاتم الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد تک ہمیشہ اسی پر کاربند رہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ملت ابراہیمی کی تکمیل اور توثیق کے لیے مبعوث فرمایا گیا نہ کہ اس میں تغیر و تبدل کرنے کے لیے۔‘‘ (مختصر تحفۃ المولود ۱۰۳۔ ۱۰۴) 
قبل از اسلام تاریخ کے محقق ڈاکٹر جواد علی نے اپنی کتاب ’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘ میں نماز ، روزہ، اعتکاف، حج و عمرہ، قربانی ، جانوروں کا تذکیہ، ختنہ، مو نچھیں پست رکھنا ، زیر ناف کے بال کاٹنا، بغل کے بال صاف کرنا، بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا، ناک ، منہ اور دانتوں کی صفائی، استنجا، میت کا غسل، تجہیز و تکفین اور تدفین کے بارے واضح کیا ہے کہ یہ سنن دین ابراہیم کے طور پر رائج تھیں اور عرب بالخصوص قریش ان پر کاربند تھے۔ لکھتے ہیں:
’’بنو معد بن عدنان کی اکثریت دین ابراہیمی کے بعض اجزا پر کاربند تھی۔وہ بیت اللہ کا حج کرتے اور اس کے مناسک ادا کرتے تھے۔ مہمان نواز تھے ، حرمت والے مہینوں کی تعظیم کرتے تھے۔ فواحش ،قطع رحمی اور ایک دوسرے کے ساتھ ظلم و زیادتی کو برا جانتے تھے۔ جرائم کی صورت میں سزا بھی دیتے تھے۔‘‘ (۶/ ۳۴۵) 
’’بنو معد بن عدنان کی اکثریت دین ابراہیمی کے بعض اجزا پر کاربند تھی۔وہ بیت اللہ کا حج کرتے اور اس کے مناسک ادا کرتے تھے۔ مہمان نواز تھے ، حرمت والے مہینوں کی تعظیم کرتے تھے۔ فواحش ،قطع رحمی اور ایک دوسرے کے ساتھ ظلم و زیادتی کو برا جانتے تھے۔ جرائم کی صورت میں سزا بھی دیتے تھے۔‘‘ (۶/ ۳۴۵) 
’’روایتوں میں ہے کہ قریش یوم عاشور کا روزہ رکھتے تھے۔ ...روایتوں میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نبوت سے پہلے یہ روزہ رکھتے تھے۔‘‘ (۶/۳۳۹)
’’دین ابراہیمی کے پیرو نساک، یعنی عبادت گزاروں میں سے تھے۔ وہ قربانی کے جانور کو بھی ’نسک‘ میں شمار کرتے تھے اور زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کے نزدیک قربانی زہد و عبادت کے اہم مظاہر میں سے ایک تھی۔‘‘ (۶/۵۱۰) 
’’بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مردوں کی نماز جنازہ پڑھتے تھے جس کا طریقہ یہ تھا کہ میت کو چٹائی پر لٹا دیا جاتا، پھر اس کا وارث کھڑا ہوتا اور اس کے تمام محاسن بیان کرتا اور اس کی تعریف کرتا۔ پھر کہتا: تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔ پھر اس کو دفن کر دیا جاتا۔‘‘ (۶/۳۳۷)
’’غسل جنابت اور مردوں کو نہلانا بھی (زمانہ قبل از اسلام کی) ان سنتوں میں سے ہے جو اسلام میں قائم رکھی گئیں۔ افوہ اودی کے شعر میں غسل میت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اعشیٰ اور بعض جاہلی شعرا کی طرف منسوب اشعار میں بھی مردوں کی تکفین اور ان کی نماز جنازہ پڑھنے کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ روایتوں میں ہے کہ قریش اپنے مردوں کو غسل دیتے اور خوشبو لگاتے تھے۔‘‘ (۶/۳۴۴)
’’مورخین بیان کرتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کے متبعین کے ہاں کچھ ایسی علامات اور عادات تھیں جن کے ذریعے سے وہ اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز کرتے تھے۔ ان میں ختنہ، زیرناف بال کاٹنا اور مونچھیں ترشوانا شامل ہیں۔ ... شریعت ابراہیم کی سنتوں میں سے ایک سنت ختنہ بھی تھا اور یہ ان قدیم طریقوں میں سے تھا جو زمانۂ جاہلیت کے بت پرستوں میں رائج تھے۔‘‘ (۶/۵۰۸)
(جاری)

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم! امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔
’الشریعہ‘ پڑھنے کو ملتا ہے۔ الحمد للہ! موجودہ حالات میں امت مسلمہ کی فکری و نظری رہنمائی کے لیے ایک بہت ہی عمدہ پلیٹ فارم ہے۔عصر حاضر میں ہونے والے جہاد و قتال سے ہر پاکستانی بالعموم اور نوجوان طبقہ بالخصو ص کسی نہ کسی پہلو سے متاثر ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے کچھ گزارشات کو ایک مضمون کی شکل دی ہے جس میں پاکستان میں ہونے والے معاصر طالبان جہاد کا ایک تاریخی‘ تجزیاتی و تحقیقی مطالعہ پیش کیاگیا ہے۔ مضمون اگرچہ طویل ہے، لیکن امید ہے کہ ’الشریعہ‘ میں شائع فرمائیں گے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ علما کی اس حوالے سے بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ان پیچیدہ حالات میں امت کی رہنمائی فرمائیں۔ آپ کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دین کے علاوہ احوال عالم کا بھی گہرا شعور عطا کیا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے علما کے کسی ایسے سیمینار یا مجلس کے انعقاد کی کوشش کریں جس میں پاکستان میں کام کرنے والے مختلف طالبان گروپوں کی تاریخ‘ عقائد و نظریات اور ان کے مناہج جہادو قتال کی شرعی حیثیت کو موضوع بحث بنایا جائے اور علما کی طرف سے اس معاصرجہاد کے بارے میں کوئی متفقہ رائے سامنے آئے جو اس امت کے نوجوانوں کے لیے ان حالات میں دین کا کام کرنے کے لیے مشعل راہ بن سکے اور خود کش حملہ آوروں کے لیے یہ واضح ہو جائے کہ خود کش حملوں میں ان کے لیے عام شہریوں‘ جنگ میں حصہ نہ لینے والے سپاہیوں‘ معصوم بچوں اور عورتوں‘ عام پولیس اہل کاروں‘ رینجرز اور حکومت پاکستان کے ملازمین کو ہلاک کرنا جہاد ہے یا فساد‘ فرض عین ہے‘ مستحب ہے‘ مباح ہے یا حرام۔ 
بلاشبہ معصوم انسانی جانوں کا ضیاع شریعت اسلامیہ میں ایک بہت بڑا جرم ہے اور یہ ضیاع آئے دن جہاد و قتال کے نام پر بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اگر واقعتا معاصر جہاد ایک اسلامی جہاد ہے تو اس کی شرعی حیثیت علما کے فتاویٰ سے واضح ہونی چاہیے اور پھر سب علما کو بھی اس میں شریک ہونا چاہیے، اور اگر یہ غیر اسلامی ہے تو اس کی مذمت علماے امت کا فریضہ ہے اور یہی اصل جہاد ہوگا‘ چاہے اس کو غیر اسلامی کہنے کی صورت انہیں اپنی جان ہی سے ہاتھ کیوں نہ دھونے پڑیں۔
حافظ محمد زبیر
ریسرچ ایسوسی ایٹ۔ قرآن اکیڈمی
۳۶۔کے، ماڈل ٹاؤن، لاہور
(۲)
جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم! امید ہے مزاج گرامی بخیریت تمام ہوں گے۔
ماہنامہ الشریعہ کا تازہ شمار نظر نواز ہوا۔ مولانا حافظ محمد یوسف صاحب کی زیر ترتیب کتاب ’’شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر: حیات وخدمات‘‘ کے پہلے باب میں تحقیق کی جس خوب صورت روایت کا رخ روشن پیش کیا گیا ہے، وہ ہدیہ تبریک کے لائق ہے۔ اسی طرح میاں انعام الرحمن صاحب کا مضمون ’’قرآن مجید میں قصاص کے احکام‘‘ اپنی جامعیت کے اعتبار سے قابل مطالعہ ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ البتہ اسی شمارے میں پروفیسر محمد سرور صاحب کی تصنیف ’’مولانا مودودی کی تحریک اسلامی‘‘ کے بارے میں چودھری محمد یوسف صاحب کی تحریر ’’تعارف وتبصرہ‘‘ کے ذیل میں اشاعت پذیر ہوئی ہے۔ اس کے حوالے سے کچھ باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔
علماے زبان وادب کے نزدیک مطالعہ کرنے کے دو اسلوب ہیں: وقت گزاری کے لیے پڑھنا اور کچھ سیکھنے سمجھنے کے لیے پڑھنا۔ دوسرے اسلوب کی امتیازی راہ یہ ہے کہ جو پڑھا ہے، اس کا حاصل دوسروں کے سامنے پیش کیا جائے جبکہ اختصاصی صورت، جو میرے نزدیک حاصل مطالعہ کی اعلیٰ ترین صورت ہے، یہ ہے کہ:
جو سیکھا ہے سب کو سکھاتے چلو
دیے سے دیے کو جلاتے چلو
کسی کتاب پر تنقید وتبصرہ کرنا کسی ایسے صاحب علم ہی کی ذمہ داری ہے جو کتاب سے اخذ واستفادے کی اہلیت بھی رکھتا ہو اور دوسروں پر اس کے محاسن ومصائب کو بھی واضح کر سکتا ہو۔ ایسے افراد کا مطالعہ علم وادب بہت بھرپور اور وسیع ہونا لازمی و لابدی ہے اور کتاب کی گہری غواصی سے گوہر تابدار برآمد کر کے قارئین وناقدین تک پہنچانے کا عمل اس کا لازمی نتیجہ ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں بیشتر احباب سرسری کتاب خوانی کرتے ہیں جس کے باعث کتاب میں موجود مواد اور علم ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پاتے۔ ایسے احباب کتب بینی کے شوق کے ذیل میں تو آ سکتے ہیں (جس کا انھیں بہرحال حق حاصل ہے) لیکن کتاب، اس کا دور، مصنف کی فکری وعلمی وسعت اور کتاب میں پیش کردہ مواد کے تنقیدی وتحقیقی وتجزیاتی ماحصل کو پیش کرنے کی اہلیت چیزے دیگر است۔
مولانا مودودی اور جماعت اسلامی پر جرح وتنقید کے حوالے سے چودھری صاحب کو کس نوعیت کے اور کس حد تک حقوق حاصل ہیں، جماعت اور چودھری صاحب اس کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ میرا اس سے مطلق تعلق نہیں ہے، لیکن پروفیسر محمد سرور صاحب جیسے نابغہ عصر کی تحقیقی وتنقیدی تصنیف کے بارے میں تعارف وتبصرہ کے ذیل میں کوئی علمی بات نہ کر سکنا اور محض اپنے دل کی بھڑاس نکالنا کم از کم تبصرہ کے ذیل میں نہیں آتا۔ پروفیسر محمد سرور علمی وادبی ودینی حلقوں کا ایک انتہائی محترم نام ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ اور مولانا عبید اللہ سندھی کے افکار کی تحقیق وترویج کے حوالے سے ان کا کام ان کو دائمی حیات بخشنے کے لیے بہت کافی ہے۔ ا ن کی فکری اور علمی سطح کا اعتراف غلام مصطفی خان، جمیل جالبی، ابو اللیث صدیقی، ڈاکٹر وحید قریشی، سید عبد اللہ جیسے دانش وروں نے کیا ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ ان کے معترف ہیں۔ شورش کاشمیری کے مطابق پاکستان کے دو چار پڑھے لکھے لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے (بحوالہ چودھری محمد یوسف صاحب)۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ چودھری محمد یوسف صاحب ایسے صاحب اسلوب محقق وناقد کی یادگار پر تنقیدی وتحقیقی حوالے سے خامہ فرسائی فرماتے او رکتاب کے محاسن ومعائب کا تفصیلی تجزیہ پیش کرتے ہوئے علمی محاسبے یا تحسین کی درخشندہ مثال پیش کرتے او رکتاب کے مختلف ابواب اور مندرجات کے علمی اشکال، ابہام یا حسن تحریر پر اپنے معروضات پیش کرتے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ چودھری محمد یوسف اگر اپنی فکری بصیرت کو بروے کار لاتے تو یقیناًایک یادگار مقالہ علم وادب کے دل دادگان کو نصیب ہوتا۔ چودھری محمد یوسف صاحب مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے حوالے سے (جماعت سے اپنے اخراج کے باعث) جو جی چاہے لکھیں یا فرمائیں، کم از کم پروفیسر محمد سرور صاحب جیسے بلند مرتبہ اور صاحب اسلوب مصنف کی کتاب پر تعارف وتبصرہ لکھنے سے پہلے کسی کتاب پر تنقید وتبصرہ کے اصولوں کا مطالعہ ضرور فرمائیں اور کتاب کا تعارف کرانے کی بجائے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے عمل کا بھی خود ہی تجزیہ فرما لیں۔ 
ڈاکٹر انوار احمد اعجاز
کمال منزل۔ عبد اللہ کالونی
ریس کورس روڈ۔ گوجرانوالہ

نومبر و دسمبر ۲۰۰۸ء

’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ اور پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
علمائے کرام کی ارکانِ پارلیمنٹ سے درد مندانہ اپیلادارہ
پارلیمنٹ کے معزز ارکان کی خدمت میں پاکستان شریعت کونسل کی عرضداشتادارہ
پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کا متنادارہ
جدیدیت کے خلاف مسلم معاشرے کا ردعمل ۔ نئی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورتڈاکٹر محمد امین
آداب القتال: بین الاقوامی قانون اور اسلامی شریعت کے چند اہم مسائلمحمد مشتاق احمد
پاکستان کی جہادی تحریکیں: ایک تاریخی و تحقیقی جائزہحافظ محمد زبیر
خود کش حملے: چند توجہ طلب پہلوحافظ محمد سلیمان
مکاتیبادارہ

’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ اور پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

صدر مملکت نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ۸؍اکتوبر کو طلب کر لیا ہے جس میں حساس اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان پارلیمنٹ کے ارکان کو بریفنگ دیں گے۔ اجلاس میں امن وامان کی صورت حال پر تفصیلی بحث کی جائے گی اور حکمت عملی وضع کی جائے گی۔ صدر اور وزیر اعظم کا یہ اقدام موجودہ حالات میں یقیناًخوش آئند ہے اور اس سے جہاں عوام کے منتخب نمائندوں کو حکومتی اقدامات اور پالیسیوں کے بارے میں تفصیلات جاننے کا موقع ملے گا، وہاں حکومت کے ذمہ دار حضرات بھی عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے عوام کے جذبات اور تاثرات سے مزید آگاہی حاصل کریں گے۔ 
ملک میں امن وامان کی صورت حال کے حوالے سے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ’’ دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ‘‘ کے عنوان سے سرفہرست ہے اور اس جنگ کا پھیلاؤ جوں جوں بڑھتا جا رہا ہے، عوام کے اضطراب میں اضافے کے ساتھ ساتھ قومی خود مختاری اور ملکی سا لمیت کے بارے میں سوالات میں بھی شدت پیدا ہو رہی ہے۔ یہ ’’دہشت گردی ‘‘ کیا ہے اور اس کے خلاف جنگ کے اہداف ومقاصد کیا ہیں؟ اس کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے پہلے گزشتہ چند روز میں قومی اخبارات کے ذریعے سامنے آنے والی بعض رپورٹوں اور خبروں پر ایک نظر ڈال لینا مناسب معلوم ہوتا ہے:
  • ۳۰؍ستمبر کو شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی طرف سے کرائے جانے والے ایک عالمی سروے کے مطابق دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ اپنے سب سے بڑے ہدف ’’القاعدہ‘‘ کو کمزور کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ تیس میں سے بائیس ممالک کے افراد کے مطابق اوسطاً بائیس فی صد رائے دہند گان کا خیال ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی وجہ سے القاعدہ تنظیم کمزور ہوئی ہے، جبکہ سروے میں شریک ہر پانچ میں سے تین راے دہندگان کہتے ہیں کہ اس جنگ کاالقاعدہ پرکوئی اثر نہیں ہوا بلکہ القاعدہ اس جنگ سے مضبوط ہوئی ہے۔ 
  • ۳۰؍ ستمبر کوہی شائع ہونے والی ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں امریکہ کی سفیر محترمہ این ڈبلیو پیٹرسن نے لاہور کے ایوان صنعت وتجارت کے کاروباری افراد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم افغانستان اور قبائلی علاقوں میں تعلقات عامہ کی جنگ ہار چکے ہیں اور امریکی پیغام نہیں پہنچا سکے۔ امریکہ پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ کے متاثرہ علاقوں کے لیے ایک ارب ستر کروڑ ڈالر سالانہ دے رہاہے، لیکن ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پیسہ وہاں خرچ ہونے کی بجائے درآمدی بل کی ادائیگی میں خرچ ہو رہا ہے۔ 
  • ۵؍اکتوبر کوشائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق عالمی امدادی ادارے ’’ریڈ کراس‘‘ کے ترجمان مارکوسی نے اسلام آباد میں ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کو دنیا کا نیا ’’وار زون‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ قبائلی علاقے مکمل میدان جنگ بن چکے ہیں، پاکستانی فوج طالبان کے خلاف بر سر پیکار ہے، بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے ہیں، فورسز کی بمباری اور جنگجوؤں کے خوف سے اڑھائی لاکھ افراد نقل مکانی کر گئے ہیں، اور کئی ہزار افغانستان میں داخل ہونے کے منتظر ہیں، ہزاروں افراد پناہ گزین کیمپوں میں پڑے ہیں اور وادی سوات جہنم میں تبدیل ہو چکی ہے۔ 
  • ۵؍اکتوبر کو ہی شائع ہونے والی ایک اور خبر کے مطابق عراق میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل پیٹر یوس نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردوں سے نمٹنے اور بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بغداد میں غیر ملکی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بعض علاقوں میں طالبان کاکنٹرول ختم کرنا انتہائی مشکل ہے۔ بعض لوگوں کا خیا ل ہے کہ عراق میں حاصل ہونے والے تجربہ کو افغانستان میں استعمال کرنا چاہیے تھا، لیکن ہر جگہ صورت حال مختلف ہوتی ہے۔ 
  • یکم اکتوبر کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق افغانستان کے لیے یورپی یونین کے سابق اعلیٰ سفارت کار فرانسس منشال نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں تباہی وبربادی سے بچنے کے لیے حکمت عملی پر نظر ثانی کرے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کومزید تباہی وبربادی سے بچانا وقت کی اہم ضرورت ہے، اس لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری افغانستان میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنی سرگرمیوں اور حکمت عملی میں تبدیلی لائے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اتحادی افواج کی کارروائیوں کے دوران شہریوں کی ہلاکت کے باعث عوامی غم وغصہ میں اضافہ ہوا ہے جس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ 
  • ۴؍اکتوبر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مغربی ملکوں کے تمام انٹیلی جنس ادارو ں کے اہل کار کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اور مغربی ممالک اگلے سات برسوں میں بھی افغانستان کو زیر نہیں کر سکتے۔ ان کاکہنا ہے کہ القاعدہ اور اس سے وابستہ لوگ اب بھی اتنے ہی مضبوط ہیں جتنے نائن الیون کے حملوں کے وقت تھے۔ 
  • ۶؍اکتوبر کو روزنامہ پاکستان نے یہ خبر شائع کی ہے کہ افغانستان میں برطانوی کمانڈر بریگیڈیئر مازک اسمتھ نے اعتراف کیا ہے کہ افغانستان میں فیصلہ کن فتح ممکن نہیں ہے، اس لیے برطانیہ کو طالبان کے ساتھ ممکنہ ڈیل کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ برطانوی اخبار ’’سنڈے ٹائمز‘‘ کو دیے گئے انٹرویو میں کمانڈر مازک اسمتھ نے کہا ہے کہ افغانستان میں برطانیہ کا جنگ جیتنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اس بارے میں عوام کو اپنی توقعات میں کمی کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں عسکریت پسندی کی سطح کوکم کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ کام افغان فوج کے ذریعے کیا جا سکتا ہے اور طالبان سے مذاکرات کر کے مسئلے کا سیاسی حل نکالا جا سکتا ہے۔ 
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران شائع ہونے والی بیسیوں خبروں اور رپورٹوں میں سے ان چند خبروں کا ہم نے بطور مثال حوالہ دیا ہے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے گزشتہ سات برس میں کیا کچھ حاصل کیا ہے اور مستقبل قریب میں مزید کیا کچھ حاصل ہونے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس جنگ کا نتیجہ اس کے سوا کچھ برآمد ہونے والا نہیں تھا اور ہم جنگ کے آغاز میں ہی اس خیال کا اظہار کرچکے ہیں، اس لیے کہ اس جنگ کی بنیاد ہی مغالطوں ا ور فریب کاری پر تھی اور مغالطوں اور فریب کاری کی اساس پر لڑی جانے والی جنگوں کا نتیجہ یہی ہوا کر تا ہے۔ 
  • ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف یہ جنگ دہشت گردی کا کوئی واضح مفہوم اور مصداق طے کیے بغیر لڑی جا رہی ہے، کسی گروہ یا ملک کو دہشت گرد قرار دینے اور اس کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے کے لیے کوئی اصول اور ضابطہ موجود نہیں ہے اور یہ اختیار اتحادی افواج اورا ن کے قائد امریکہ کے پاس ہے کہ وہ جس کوچاہیں، دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف عسکری یلغار کر دیں۔ اس جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادی کہتے ہیں کہ طالبا ن اور القاعدہ دہشت گرد ہیں، اس لیے ان کے خلاف جنگ ضروری ہے جبکہ طالبان اور القاعدہ کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان اور مڈل ایسٹ میں غیر ملکی مداخلت اور غیر ملکی افواج کی موجودگی کے خلاف اپنی آزادی اور خود مختاری کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بد قسمتی سے ان دونوں کے موقف سن کر غیر جانبداری کے ساتھ فیصلہ کرنے والا کوئی ایسا فورم دنیا میں موجود نہیں ہے جس پر دونوں فریق اعتماد کرتے ہوں، اس لیے ظاہر ہے کہ یہ جنگ ہتھیاروں سے ہی لڑی جائے گی اور وہی غالب ہوگا جو طاقت اور ہتھیار سے دوسرے کوشکست دے گا۔ 
  • امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے غلط طور پر یہ سمجھ لیاہے اور دنیا کو بھی مسلسل یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ القاعدہ اور طالبان صرف دو طبقے یا گروہ ہیں جن کوزیر کرنے سے معاملہ حل ہو جائے گا، جب کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ یہ صرف دو طبقے نہیں بلکہ افغان اور عرب عوام کی اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں جس کا اظہار وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ کسی قوم کو زیر کرنے میں آج تک کسی کو کامیابی نہیں ہوئی اور نہ ہی آئندہ کبھی اس کاامکان موجودہے۔ 
  • امریکہ اور اس کے اتحادی دنیا کو غلط طور پر یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ دہشت گردی غربت اور جہالت کی وجہ سے ہے، اس لیے اگر مغربی تعلیم سے لوگوں کو بہرہ ور کر دیا جائے اور چارپیسے دے دیے جائیں تو فتح حاصل ہو سکتی ہے، جب کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ جسے دہشت گردی قرار دیا جا رہا ہے، وہ در اصل امریکہ اور مغربی اقوام کی ان مسلسل زیادتیوں، ناانصافیوں اور مظالم کارد عمل ہے جو وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ بالعموم اور فلسطین، عراق، افغانستان اور کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف بالخصوص طویل عرصہ سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس لیے جب تک ان زیادتیوں اور ناانصافیوں کا خاتمہ نہیں ہوگا، ان کے رد عمل کو روکنا بھی ممکن نہیں ہو گا۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ دہشت گردی کی سب سے بڑی علامت اسامہ بن لادن کو بتایا جاتا ہے اور وہ اوراس کے گروپ کے افراد نہ غریب ہیں اور نہ ہی ان پڑھ ہیں۔ 
اس پس منظر میں ۸؍اکتوبر کو عوام کے منتخب نمائندے اسلام آباد میں صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے جمع ہو رہے ہیں توہم اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ بالآخر عوام کے منتخب نمائندوں کوا س کا موقع مل گیا ہے کہ وہ اس اہم ترین قومی مسئلہ پر باہمی تبادلہ خیالات کریں، لیکن اس کے ساتھ ہم یہ گزارش بھی کرنا چاہیں گے کہ بلاشبہ پاکستان میں امن وامان کے حوالے سے ہمارے لیے دو بڑے چیلنج ہیں: ایک یہ کہ وطن عزیز کی سرحدوں میں بیرونی مداخلت اور حملوں کو روکنے اور قومی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ ملک کے اندر خود کش حملوں میں اضافہ اور ان میں ہزاروں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کاکیسے سدباب کیا جا سکتا ہے؟ ہم پاکستان کی سرحدوں کے اندر بیرونی حملوں اور اندر ون ملک خودکش حملوں کی یکساں مذمت کرتے ہوئے آپ کے ساتھ ہیں، البتہ یہ درخواست ہم ضرور کریں گے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ کے عمومی اور عالمی تناظر کو بھی سامنے رکھیں اور صورت حال کے تمام پہلو ؤں کاجائزہ لیتے ہوئے ملک میں امن وامان کی بحالی، قومی خود مختاری کے تحفظ اور ملکی وقار کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو۔ آمین یار ب العالمین۔ 

مذکورہ گزارشات راقم الحروف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قبل روز نامہ پاکستان میں اپنے کالم کے ذریعے پیش کیں جو ۷؍ اکتوبر کو شائع ہوئیں، جبکہ اس کے بعد اجلاس کے دوران جیو ٹی وی کے معروف پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ کی دو نشستوں میں مجھے پروفیسر عبد الجبار شاکر، مولانا ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی اور مولانا امین شہیدی کے ساتھ مدعو کیا گیا۔ ان نشستوں میں راقم الحروف نے مختلف سوالات کے جواب میں جو گزارشات پیش کیں، ان کا خلاصہ درج کیا جا رہا ہے۔
سوال: خود کش حملوں کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
جواب: خود کش حملہ ایک جنگی ہتھیار ہے جو مظلوم قومیں ہمیشہ سے استعمال کرتی آ رہی ہیں۔ یہ ہتھیار جاپانیوں نے بھی استعمال کیا تھا، جنگ عظیم میں برطانیہ نے بھی استعمال کیا تھا اور ۱۹۶۵ء کی جنگ میں پاک فوج نے بھی چونڈہ کے محاذ پر استعمال کیا تھا۔ دوسرے جنگی ہتھیاروں کی طرح یہ بھی میدان جنگ میں استعمال ہو تو جائز ہے، لیکن پرامن ماحول میں اس کا استعمال ناجائز ہوگا۔
سوال: پاکستان میں خود کش حملوں کے بارے میں علما کا فتویٰ شائع ہوا ہے کہ یہ حرام ہیں۔ اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: پاکستان میں خود کش حملوں کو ناجائز کہنے والوں میں خود میں بھی شامل ہوں، اس لیے کہ پاکستان اس حوالے سے نظریاتی طور پر ایک اسلامی ریاست ہے کہ پاکستان کا دستور قرارداد مقاصد کو اپنی بنیاد قرار دیتا ہے، قرآن وسنت کی بالادستی کو تسلیم کرتا ہے، اسلام کو ریاست کا مذہب تسلیم کرتا ہے، قرآن وسنت کے خلاف قانون سازی سے پارلیمنٹ کو روکتا ہے اور قرآن وسنت کے احکام وقوانین کے نفاذ کا وعدہ کرتا ہے، اس لیے جب تک یہ دستوری پوزیشن موجود ہے، پاکستان عملی طور پر کچھ بھی ہو، مگر نظریاتی طور پر بہرحال ایک اسلامی ریاست ہے اور اسلامی ریاست میں حکومت کے خلاف کسی بھی مطالبہ کے لیے ہتھیار اٹھانا جائز نہیں ہے۔
سوال: قبائلی علاقہ میں جو فوجی آپریشن اور خود کش حملے ہو رہے ہیں، ان کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: اس وقت پاکستان کی مغربی سرحد پر جو کچھ ہو رہا ہے، اس میں ہمارے خیال میں تین قسم کے عناصر ملوث ہیں: وہ انتہا پسند او رجذباتی مسلمان بھی ان میں شامل ہیں جو نفاذ شریعت کے سلسلے میں حکومت کے مسلسل منفی طرز عمل کے باعث رد عمل کا شکار ہو کر ایسا کررہے ہیں۔ ان کے طریق کار سے ہمیں اختلاف ہے، لیکن ان کا یہ موقف بہرحال درست ہے کہ ملک بھر میں اور خاص طور پر قبائلی علاقوں میں شرعی نظام نافذ کیا جائے۔ دوسرے نمبر پر ان واقعات میں بین الاقوامی محرکات کارفرما ہیں اور مختلف قوتیں اس میں ملوث ہو کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان میں امریکہ، اسرائیل اور بھارت کو کسی طرح نظرا نداز نہیں کیا جا سکتا۔ اور تیسرے نمبر پر بہت سے جرائم پیشہ لوگ بھی اس فضا کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد پورا کرنے کے لیے اس میں شامل ہو گئے ہیں جیسا کہ ایسے مواقع پر اس طرح ہوتا ہے، اس لیے اس ’’مبینہ دہشت گردی‘‘ پر قابو پانے کے لیے ان تمام عناصر کو سامنے رکھ کر صورت حال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ہوگا، ورنہ حالات کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
سوال: علماے کرام اور آپ حضرات اس سلسلے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
جواب: ہم اس صورت حال میں ان ناراض حضرات سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں جو نفاذ شریعت کے لیے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔ ہم ان کی منت کریں گے اور ان کو پوری طرح سمجھانے کی کوشش کریں گے، لیکن اس کے لیے پیشگی طور پر ضروری ہے کہ حکومت بھی اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور اس کا ثبوت دے اور میرے نزدیک اس سنجیدگی کا ثبوت دو صورتوں میں ہو سکتا ہے: ایک یہ کہ پارلیمنٹ کی سطح پر فیصلہ کیا جائے کہ قبائلی علاقوں کا مسئلہ فوجی آپریشن کی بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا، اور دوسرا یہ کہ سوات اور مالاکنڈ ڈویژن کے لیے جس ’’شرعی نظام عدل ریگولیشن‘‘ کے نفاذ کا حکومت اس علاقے کے لوگوں سے بار بار وعدہ کر رہی ہے اور اس کا کئی بار اعلان ہو چکا ہے، حکومت علامت کے طور پر وہاں کے لوگوں کو اعتماد میں لے کر وہ شرعی نظام عدل ریگولیشن نافذ کر دے۔ جب حکومت یہ دو کام پیشگی کر لے گی تو باقی ماندہ امور کے لیے ہم وہاں جانے اور کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔

اس پس منظر میں پارلیمنٹ نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے سلسلے میں مختلف اداروں کی طرف سے دی جانے والی بریفنگ اور اس پر کئی روز کے بحث ومباحثہ کے بعد جو قرارداد متفقہ طور پر منظور کی ہے، وہ کئی حوالوں سے ہمارے لیے اطمینان بخش ہے۔ مثلاً یہ کہ:
  • قوم کے منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لیا گیا ہے اور انھیں پالیسی سازی میں اصولی طو رپر شریک کیا گیا ہے۔
  • پارلیمنٹ نے قومی خود مختاری اور ملکی سا لمیت کے تحفظ کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حکمت عملی اور سٹریٹجی پر نظر ثانی اور اس کی ازسرنو تشکیل کو ضروری قرار دیا ہے۔
  • ملٹری آپریشن پر مذاکرات کو ترجیح دیتے ہوئے متعلقہ فریقوں سے مذاکرات کے لیے کہا گیا ہے۔
ہماری معلومات کے مطابق پارلیمنٹ کے ارکان کی بریفنگ اور متفقہ قرارداد کو متوازن بنانے کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے راہ نماؤں ار جمعیۃ علماے اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن نے موثر کردار ادا کیا ہے جس کے لیے وہ پوری پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ خصوصی طور پر بھی تشکر وتبریک کے مستحق ہیں او رہم اس متفقہ قرارداد پر پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں کو مبارک بار پیش کرتے ہیں۔
ہمارے خیال میں پارلیمنٹ کی اس متفقہ قرارداد سے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے حوالے سے پوری قوم کے جذبات واحساسات کی عکاسی ہوئی ہے اور مجموعی طو رپر قوم کا موقف دنیا کے سامنے آ گیا ہے، لیکن یہ بہرحال قرارداد ہے جس کو عمل کے دائرے میں لانے کے لیے حکومتی کیمپ اور حکومت کی ترجیحات اور رجحانات فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں اور پوری قوم کی نظریں اب حکومت پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کی قرارداد پر عمل درآمد کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے اور عوام کے منتخب نمائندوں کا یہ موقف پاکستان کی خود مختاری، سرحدوں کے تقدس، مکمل سا لمیت اور امن وامان کے حوالے سے صورت حال کو بہتری کی طرف لے جانے میں کس قدر موثر ثابت ہوتا ہے۔
ہماری دعا ہے کہ پاکستان کے حکمران اس نازک مرحلے میں ملک وقوم کی بہتری اور وقار واستحکام کے لیے موثر کرداد ادا کریں اور وطن عزیز کو اس دلدل سے باعزت طور پر باہر نکالنے میں کامیاب ہوں۔ آمین یا رب العالمین۔

علمائے کرام کی ارکانِ پارلیمنٹ سے درد مندانہ اپیل

ادارہ

الحمدﷲ رب العالمین ، والصلاۃ والسلام علی سیدنا وشفیعنا ومولانا محمد وآلہ وأصحابہ أجمعین،ومن تبعہم باحسان إلی یوم الدین۔ أما بعد:
معزز ارکانِ پارلیمنٹ!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان جن نامساعد حالات سے گذر رہاہے،او رجس نازک صورتِ حال سے دوچار ہے، اور اس نے پوری پاکستان قوم کو جس تشویش او رفکر میں مبتلا کررکھا ہے ،وہ اہلِ نظر پر پوشیدہ نہیں۔ الحمدﷲ!کہ قومی اسمبلی،سینٹ کے منتخب ممبران او رحکومت کے سرکردہ افراد اس پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس نازک صورتِ حال پر غور کرنے کے لیے جمع ہیں۔اس اہم موقع پر ہماری یہ قومی اور شرعی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ کی خدمت میں اپنی کچھ گذارشات پیش کریں،تاکہ امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال اور ملک کے موجودہ بحران کے حقیقی اسباب اور حکومتی اقدامات اور خارجی وقومی پالیسیوں کا جائزہ لے کر متفقہ لائحہ عمل تجویز کیا جاسکے۔
ہمارے خیال میں اگر ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ صوبہ سرحد، قبائلی علاقوں او رسوات وغیرہ کے بگڑتے ہوئے حالات کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہاں کے عوام وخواص درج ذیل طبقات میں منقسم نظر آتے ہیں:
(الف) مسلمانوں کی وہ بھاری اکثریت جو ہمیشہ پُرامن رہی ہے اور اب بھی پُرامن ہے وہ پاکستان کی بھرپور حامی رہی ہے،او راب بھی پاکستان کی صرف حامی ہی نہیں بلکہ اس کی شمالی سرحدوں کی نگہبان و محافظ بھی ہے، وہ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی بھی محافظ رہی ہے، اور اس کی نظریاتی سرحدوں کی بھی، اور دشمن کے لیے ہمیشہ ناقبلِ تسخیر رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی قدیم روایات کی بھی حامل ہے، یہ بھاری اکثریت پاکستان کے دوسرے علاقوں کی بہ نسبت نماز ،روزہ وغیرہ کے اعتبار سے زیادہ دین دار اور باغیرت ہے، اگر کوئی حکومت دین یااہل دین کا مذاق اڑائے،یا دین یا اور اہل دین کو رسوا کرنے ،یا ان کی قدیم روایات کو پامال کرکے ان پر غیر ملکی حکمرانوں کو ،یا غیر ملکی نظریات کو مسلط کرنے کی کوشش کرے تو وہ مکمل طور پر پُرامن ہونے کے باوجود اسے انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،او رغیر ملکی افواج،یا غیر ملکی نظریات کے تسلط کو اپنے لیے اور ملک وملّت کے لیے ہرحالت میں ناقابلِ برداشت سمجھتے ہیں، ان علاقوں کے علماءِ کرام ان میں سر فہرست ہیں،اس وقت ان علاقوں میں جو بمباری ہورہی ہے،یا تشدد کو روکنے کے لیے متشددانہ کاروائیاں ہورہی ہیں، ان کا زیادہ نشانہ یہی مظلوم اکثریت ہے،جس میں جواں بھی شامل ہیں ،بوڑھے بھی، عورتیں بھی ان کاروائیوں کا نشانہ ہیں،اور معصوم بچے بھی۔
(ب) (الف) میں ذکرکردہ مسلمانوں کی اس بھاری اکثریت میں سے چند مخلص مگر حد سے زیادہ مشتعل نوجوان ایسے بھی مسلسل رونما ہورہے ہیں جو جامعہ حفصہ اور اپنے علاقوں میں مظلوم مسلمانوں کی شہادت پر اور حکومت کی خلافِ اسلام اورافغانستان پالیسی پر انتقام کی آگ میں جل اٹھے ہیں، اور انہوں نے علماے کرام کے منع کرنے کے باوجود دینی اخلاص ،علاقائی غیرت،اور اپنے پیارے عزیزوں کی لاشیں دیکھ کر ہتھیار اٹھالیے ہیں،یا خودکُش حملوں کا پاکستان کے اندر ہی وہ راستہ اختیار کرلیا ہے جو حد درجہ خطرناک ہے،او رعام مسلمانوں کے درمیان ان حملوں کو علما اپنے ایک مشترکہ مؤقف میں بالاتفاق ناجائز قرار دے چکے ہیں، لیکن مذکورہ بالا اسباب کی بنا پر یہ جذباتی او رمشتعل نوجوان انتقام کی پیاس کو خود اپنے خون سے سیراب کررہے ہیں۔
(ج) جب کسی علاقے میں افراتفری ،بمباری او رخانہ جنگی کی سی صورتِ حال پید ہوجاتی ہے تو سماج دشمن عناصر مثلاً چور ،ڈاکوؤں کی بن آتی ہے، وہ بھی اپنے مذموم عزائم کی خاطر کبھی غیر ملکی افواج سے جاکر مل جاتے ہیں ،کبھی ملکی افواج سے، او رکبھی ان نوجوانون کے ساتھ آکر شریک ہوجاتے ہیں جن کا ذکر (ب )میں گذرا، اور حالات کی خرابی میں وہاں کے باخبر اور بااثر حضرات کے بیان کے مطابق ایسے عناصر کا بھی بڑا حصہ ہے۔
(د) امریکی افواج اپنی معاون نیٹو افواج نیز بھارتی ایجنسیوں کے ساتھ گذشتہ سات سال سے افغانستان پر فتح حاصل کر نے کی کوشش کرتی رہی ہیں،اب ان کے اپنے کمانڈروں ،او رسفارت کاروں نے ان تمام کوششوں کی ناکامی کا مختلف بیانات کے ذر یعے اقرار کرلیا ہے،ان غیر ملکی افواج نے اپنی کھلی آنکھوں نظر آنے والی شرمناک شکست کو فتح ،یا باعزت پسپائی میں بدلنے کے لیے آخر ی کوشش یہ کی ہے کہ انہوں نے اپنے ایجنٹوں کو اسلحہ، ڈالر او رافغانی ،اور پاکستانی کرنسی دیکر ہمارے قبائلی علاقوں میں گھسا دیا ہے، او ریہ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ جب یہ ایجنٹ پکڑے گئے ،یا ان لاشیں ملیں تو ان میں سے کئی غیر مختون تھے، اور بہت سے واضح طو رپر غیر ملکی افواج کے نمائندے تھے،جو طالبان کے بھیس میں پاکستانی افواج سے لڑے، او ران علاقوں میں افرا تفری پیدا کرنے کے لیے داخل ہوئے تھے۔ایسے ایجنٹوں کی تعداد اب روز بروز بڑھ رہی ہے،حتیٰ کہ بعض قبائلی علاقوں کے علماء نے یہ بتایا کہ اب ہمیں اپنے علاقوں میں وہ وہ چہرے بکثرت نظر آرہے ہیں جنہیں ہم نے ساری زندگی کبھی نہیں دیکھا۔یہ امریکی ،بھارتی ایجنٹ اصل طالبان کو بدنام کرنے کے لیے طالبان کے روپ میں پاکستانی افواج سے لڑ رہے ہیں، اور علاقے میں اور پاکستان کے شہروں میں بم دھماکوں میں بربادی پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔
اگر گذشتہ ساری صورتِ حال سامنے رکھی جائے تو صاف واضح ہوگا کہ (الف) میں ذکرکردہ مسلمانوں کی بھاری اکثریت جن میں علماے کرام بھی شامل ہیں، اس وقت سب سے زیادہ متأثر ہیں،غیر ملکی افواج کے، بغیر پائلٹ طیاروں کی بمباری ہو، یا ان کے میزائلوں کی بارش ہو،یا پاکستانی مسلح فورسز کی کاروائیاں ہوں،ان کا زیادہ تر نشانہ وہ بے گناہ مسلمان بن رہے ہیں جن کا (الف )میں ذکر کیا گیا ہے۔ (ب) میں ذکرکردہ نوجوان جو بہت کم تعداد میں ہیں وہ تو ویسے ہی اپنا خون دینے کے لیے تیار ہیں۔اور (ج) اور (د) میں مذکور طبقات اپنے اثرورسوخ ،سازشوں اور غیر ملکی پشت پناہی کی وجہ سے محفوظ رہتے ہیں،او رسارا نزلہ عام مسلمانوں پر گر رہا ہے۔

علاج:

اس پیچیدہ صورتِ حال کا اس کے سواکوئی علاج نہیں ہے کہ :
۱۔ بمباری ،میزائلوں کی بارش او راندھادھند فوجی کاروائیاں فوی طور پر بند کی جائیں۔
۲۔ ہر علاقے کے مقامی علما، دین دار حضرات اور محب وطن سرداروں کو ساتھ ملاکر ان لوگوں کو پکڑا جائے جن کا ذکر (ج) اور (د ) میں کیا گیا ہے، اور ان کو سرِ عام عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔
۳۔ (الف) اور (ب)میں ذکرکردہ حضرات کے جو جائز مطالبات ہیں انہیں فوری طور پر خلوص دل سے اس طرح پورا کیا جائے کہ علاقے لوگوں کو یہ اطمینان ہو کہ حکومت یہ کام محض وقت گذاری کے لیے نہیں کررہی بلکہ واقعتا وہ یہاں انصاف مہیا کرکے امن وامان قائم کررہی ہے۔
۴۔ اندرون ملک بھی خلافِ اسلام پالیسیوں او راقدامات کا سلسلہ بند کیا جائے۔
۵۔ غیر ملکی طاقتوں کی اطاعت و فرمانبرداری کا رویہ ختم کرکے محب وطن عوام کو ساتھ ملایا جائے ، اور ان کے تمام جائز مطالبات کو ممکنہ حد تک پورا کیا جائے۔
۶۔ اپنی موجودہ خارجہ پالیسی اور خصوصاً امریکہ کے ساتھ کئے جانے والے ’’اُس کی دہشت گردی میں تعاون‘‘ کے شرمناک معاہدے سے جان چھڑانے کا محتاط راستہ جلد از جلد نکالا جائے، جو درحقیقت اپنی سلامتی کا راستہ ہے۔
۷۔ عدلیہ کو آزاد او ربحال کیا جائے کیونکہ فوری انصاف کی فراہمی، او رآزاد عدلیہ کے بغیرامن وامان کا قیام ممکن نہیں۔
آخرمیں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا ضروری ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی او رمعاشی بدحالی کے موجودہ طوفان کے مختلف اسباب ہیں، لیکن تین بڑے سبب یہ ہیں:
۱۔بدامنی:جسے ختم کیے بغیراسلامی جمہوریہ پاکستان کے معاشی استحکام کاتصوّر نہیں کیا جاسکتا،بدامنی کے خاتمہ کے لیے تجاویز اوپر تحریر کردی گئی ہیں۔
۲۔ کرپشن:کرپشن کی یہ دیمک اس وقت ملک کے بالائی طبقات سے لے کر نچلے طبقات تک سرایت کرچکی ہے، امانت ودیانت او رسچائی کے ساتھ کسبِ حلال کا تصوّر کم سے کم ہوتا جارہا ہے، ان اخلاقی اسلامی اوصاف کا احیا ہر سطح پر ضروری ہے تاکہ کرپشن کا کا خاتمہ کیا جاسکے، او راس کے لیے موجودہ قوانین کا آزاد عدلیہ کے ذریعہ نفاذ ضروری ہے۔
۳۔ تعیشانہ زندگی :پاکستان کے بالائی طبقات جس پُر عیش زندگی کے عادی ہوگئے ہیں اس کے واقعات اب عوام کی زبانوں پر ہیں،اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ تعیشانہ زندگی ختم کرکے ہر سطح پر سادگی کو فروغ دیا جائے ،اور ملک وقوم کے لیے جو پیسہ بچایا جاسکتا ہے اسے ہر قیمت پر بچایا جائے۔
یہ سب تجاویز نیک نیتی او راخلاص کے ساتھ دی جارہی ہیں،ان کا کوئی سیاسی مقصد نہیں،امید ہے کہ آپ حضرات اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہوئے ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ ان پر غور فرمائیں گے۔
اللہ جل شانہ ہمیں اپنے محبوب وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جغرافیائی او رنظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی توفیق نصیب کرے۔آمین۔ وآخر دعوانا ان الحمدﷲ رب العالمین۔

گزارش کنندگان:

* مولانا محمد سرفراز خان صفدر، شیخ الحدیث جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ * مولانا سلیم اللہ خان، صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان * ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، مہتمم جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی * مفتی محمد رفیع عثمانی، صدر جامعہ دار العلوم کراچی * مفتی محمد تقی عثمانی، نائب صدر جامعہ دار العلوم کراچی *مفتی منیب الرحمن، صدر تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان * مولانا نعیم الرحمن، ناظم اعلیٰ وفاق المدارس السلفیہ پاکستان * مولانا عبد المالک، صدر رابطۃ المدارس الاسلامیہ پاکستان * علامہ ریاض حسین نجفی، صدر وفاق المدارس الشیعہ پاکستان * علامہ قاضی نیاز حسین نقوی، نائب صدر وفاق المدارس الشیعہ پاکستان * پیر امین الحسنات شاہ، رئیس دار العلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف *مولانا عبد الرحمن سلفی، امیر جماعت غرباے اہل حدیث پاکستان * مولانا حافظ محمد سلفی، مدیر جامعہ ستاریہ اسلامیہ *مولانا محمود احمد حسن، شیخ الحدیث جامعہ ستاریہ اسلامیہ *مولانا حافظ محمد انس مدنی، وکیل جامعہ ستاریہ اسلامیہ *مفتی محمد ادریس سلفی، رئیس دار الافتاء جماعت غرباے اہل حدیث پاکستان * مولانا عبید اللہ، مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور *قاری محمد حنیف جالندھری، مہتمم جامعہ خیر المدارس ملتان * مولانا انوار الحق، نائب مہتمم دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک *مولانا محمود اشرف، نائب مفتی جامعہ دار العلوم کراچی * مفتی عبد الرؤف، نائب مفتی جامعہ دار العلوم کراچی *مفتی سید عبد القدوس ترمذی، مہتمم جامعہ حقانیہ ساہیوال سرگودھا *مفتی محمد، رئیس دار الافتاء والارشاد کراچی *مفتی عزیز الرحمن، جامعہ دار العلوم کراچی * مولانا فضل الرحیم، ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ لاہور *مولانا زاہد الراشدی، شیخ الحدیث جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ * مولانا فداء الرحمن درخواستی، امیر پاکستان شریعت کونسل * مولانا عبد الغفار، منتظم جامعہ فریدیہ اسلام آباد * قاری ارشد عبید، ناظم اعلیٰ جامعہ اشرفیہ لاہور *مولانا محمد اکرم کاشمیری، رجسٹرار جامعہ اشرفیہ لاہور * مولانا محمد صدیق، شیخ الحدیث جامعہ خیر المدارس ملتان * مفتی عبد اللہ، جامعہ خیر المدارس ملتان *مفتی محمد طیب، صدر جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد * مفتی محمد زاہد، نائب صدر جامعہ امدادیہ اسلامیہ فیصل آباد *مولانا محمد یوسف کرخی، مدیر مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن، گلشن بلال کراچی۔

پارلیمنٹ کے معزز ارکان کی خدمت میں پاکستان شریعت کونسل کی عرضداشت

ادارہ

(اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے ۸؍ اکتوبر ۲۰۰۸ کو شروع ہونے والے اجلاس کے موقع پر پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی نے ارکان پارلیمنٹ اور قومی پریس کی خدمت میں مندرجہ ذیل عرض داشت پیش کی گئی۔)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
بگرامی خدمت معزز ارکان پارلیمنٹ اسلامی جمہوریہ پاکستان
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
ملک بھر کے محب وطن اور اسلام دوست عوام بالخصوص علماے کرام اور دینی حلقوں کے لیے یہ بات باعث مسرت واطمینان ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام کے منتخب نمائندے ۸؍اکتوبر ۲۰۰۸ سے ملک کی موجودہ نازک، سنگین اور حساس صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں جمع ہو رہے ہیں اور انھیں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ملک میں امن وامان کی تازہ ترین صورت حال اور حکومتی اقدامات اور پالیسیوں کے بارے میں بریف کیا جا رہا ہے۔ 
گزشتہ آٹھ برس سے ملک جس بدترین شخصی آمریت سے دوچار تھا اور قوم، اس کے نمائندوں اور جمہوری اداروں کو جس طرح قومی پالیسیوں کے حوالے سے مسلسل نظر انداز کیا جا رہا تھا، اس فضا میں پارلیمنٹ کا یہ مشترکہ اجلاس خوشگوار ہوا کا ایک جھونکا ہے جس پر ملک کے ہر محب وطن شہری نے یک گونہ طمانینت محسوس کی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ یہ اجلاس اپنے مقاصد کے حوالے سے بارآور ہو اور قومی وقار اور اعتماد کی بحالی کا ذریعہ ثابت ہو۔ آمین یا رب العالمین۔
اس موقع پر ہم ارکان پارلیمنٹ کی خدمت میں حب الوطنی، قومی ہمدردی اور ملی خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے کچھ ضروری گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ عوام کے منتخب نمائندے ملک وقوم کو درپیش اس سنگین بحران کے بارے میں قومی رائے اور پالیسی طے کرتے وقت ان کو بھی ضرور سامنے رکھیں گے۔
معزز ارکان پارلیمنٹ!
وطن عزیز کو اس وقت جن سنگین مسائل کا سامنا ہے، ان میں سے سرفہرست چند اہم ترین مسائل کی طرف اس وقت ہم آپ کو توجہ دلا رہے ہیں:
  • اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی اساس اور اسلامی تشخص کو خدانخواستہ ختم کرنے یا کم از کم غیر موثر بنا دینے کے لیے بین الاقوامی سازشوں کا اس وقت ہر طرف جال پھیلا ہوا ہے جس کی تقویت کے لیے ملک کے اندر سیکولر حلقے اور لادین عناصر بھی متحرک ہیں اور اس کے لیے ریاستی وسائل کا بھی بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی اساس اسلام اور مسلمانوں کا جداگانہ تشخص ہے۔ اسی بنیاد پر متحدہ ہندوستان کی تقسیم ہوئی تھی اور پاکستان کے نام سے ایک نئی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ کوئی بھی قوم اپنی نظریاتی اساس اور تہذیبی تشخص سے محروم ہو کر دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتی، اس لیے عوام کے منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی نظریاتی اساس، اسلامی تشخص اور تہذیبی امتیاز کے تحفظ کی طرف خصوصی توجہ دیں اور ان عناصر سے ہوشیار رہیں جو:
    ۱۔ ملک کے دستور وقانون کی اسلامی دفعات کو غیر موثر بنانے کے لیے سازشیں کر رہے ہیں۔
    ۲۔ میڈیا اور ابلاغ کے ذرائع کو فحاشی وعریانی کے فروغ اور اسلامی تہذیبی اقدار کو خدا نخواستہ مٹانے کے لیے مسلسل اور بے تحاشا استعمال کر رہے ہیں۔
    ۳۔ نئی نسل کو اسلامی تعلیمات اور ملت اسلامیہ کے ماضی سے لاتعلق اوربے خبر بنانے کے لیے ملک کے تعلیمی نظام کا حلیہ بگاڑ رہے ہیں اور
    ۴۔ لسانی وعلاقائی عصبیتیں پھیلا کر قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں۔
  • قومی خود مختاری کا تحفظ بلکہ بحالی اس وقت ہمارے لیے اہم ترین مسئلہ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہی ملک کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جو بڑھتے بڑھتے اب ساٹھ سال کے بعد یہ خوف ناک اور شرم ناک صورت اختیار کر گیا ہے کہ غیر ملکی فوجیں پاکستان کی سرحدوں کے اندر حملے کر رہی ہیں، بمباری کی جا رہی ہے، بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور بین الاقوامی سرحدات کا تقدس مسلسل پامال کیا جا رہا ہے۔ یہ ہمارے بہت سے راہ نماؤں اور حکمرانوں کی مسلسل غفلت، بے پروائی اور امریکہ کے ساتھ ان کی فدویانہ وفاداری کے تلخ ثمرات ہیں جو پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہے ہیں اور ان کا ایک انتہائی اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ خاکم بدہن ملک کی جغرافیائی وحدت، قومی خود مختاری اور ملکی سالمیت کے مستقبل کے بارے میں بین الاقوامی حلقوں میں سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں اور مشرقی پاکستان کی تاریخ دہرائے جانے کی باتیں بھی زبانوں پر آنے لگی ہیں۔
    ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کی سرحدوں کے اندر غیرملکی فوجوں کے زمینی اور فضائی حملوں کی روک تھام کے لیے قومی سطح پر دوٹوک اور باوقار موقف اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ قومی خود مختاری کے تحفظ کا ہمہ جہت جائزہ لینابھی ضروری ہے اور قومی پالیسیوں کے تعین اور ملکی انتظامات کے حوالے سے دستوری اور قومی اداروں کی آزادانہ حیثیت کی بحالی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ قومی خود مختاری کا اصل سرچشمہ پارلیمنٹ ہے۔ اگر عوام کے منتخب نمائندے اپنی دستوری، جمہوری اور اخلاقی پوزیشن کا صحیح طور پر ادراک کرتے ہوئے اپنا دستوری کردار موثر طریقے سے ادا کرنے کا فیصلہ کر لیں تو وطن عزیز کی سالمیت، خود مختاری اور جغرافیائی وحدت کے خلاف اندرونی وبیرونی ہر قسم کی سازشوں کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔
    ہم پوری دیانت داری کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ (۱) دستور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کا تحفظ (۲) پارلیمنٹ کا آزادانہ کردار اور (۳) دستور کے مطابق آزاد عدلیہ کی بحالی ہی پاکستان اور پاکستانی قوم کے محفوظ، باوقار اور بہتر مستقبل کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اس سارے معاملے کی کنجی اس وقت پارلیمنٹ اور اس کے ارکان کے ہاتھ میں ہے اور اگر خدا نخواستہ اس نازک ترین مرحلے میں بھی عوام کے منتخب نمائندے اپنی دستوری پوزیشن کے موثر استعمال کی بجائے وقتی مفادات اور محدود وابستگیوں کی بھول بھلیاں میں گم رہے تو وطن عزیز اور پاکستانی قوم کو درپیش سنگین خطرات اور ان کے ممکنہ تلخ نتائج وثمرات کی ذمہ داری سے وہ عند اللہ اور عند الناس کسی جگہ بھی سرخروئی حاصل نہیں کر سکیں گے۔
  • ملک میں مبینہ دہشت گردی اور خود کش حملوں کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ان میں سیکڑوں بے گناہ شہریوں کی مسلسل شہادتیں بھی ایک بڑا قومی المیہ ہے جس پر ہر شہری مضطرب اور پریشان ہے۔ ہم نے ملک کے اندر خود کش حملوں، دینی یا سیاسی مقاصد کے لیے ہتھیار اٹھانے اور کسی بھی مطالبہ کے لیے حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے کے طرز عمل کی ہمیشہ مخالفت کی ہے، اسے ناجائز قرار دیتے ہوئے بے گناہ لوگوں کے قتل عام کی مذمت کی ہے اور اب بھی ہم اسے قابل مذمت سمجھتے ہیں، لیکن اس کے اسباب وعوامل کو نظرانداز کرتے ہوئے یک طرفہ مذمت اور ہرحال میں کچل دینے کی پالیسی کو بھی ہم درست نہیں سمجھتے۔ ہمارے نزدیک اس کے اسباب میں بین الاقوامی محرکات اور علاقائی محرومیاں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں اور ان عوامل کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے ان کا سدباب کیے بغیر ان پر قابو پانا ممکن ہی نہیں ہے۔
    اس امر کے شواہد اب کھلم کھلا سامنے آ رہے ہیں کہ اس کار شر میں بین الاقوامی ایجنسیاں بھی ملوث ہیں اور پوری پلاننگ کے ساتھ مختلف حلقوں میں ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ عوام اور پاکستانی فوج کے درمیان تصادم کے مواقع پیدا ہوں اور ملک کے اندر عوام اور فوج کے درمیان بے اعتمادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ دینی قوتوں اور بالخصوص طالبان کو بدنام کرنے کی مہم کو آگے بڑھایا جائے۔ افغانستان کے طالبان کے بارے میں ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا پاکستان کے اس داخلی خلفشار سے کوئی تعلق نہیں ہے اور طالبان کے بعض ذمہ دار راہ نماؤں نے اس سلسلے میں خود وضاحت بھی کی ہے، لیکن میڈیا کے یک طرفہ پراپیگنڈے کے ذریعے ’’طالبان‘‘ کا نام استعمال کر کے ان غریبوں کی خواہ مخواہ کردار کشی کی جا رہی ہے، جبکہ وہ اپنے ملک افغانستان کا اندر غیر ملکی فوجی مداخلت کے خلاف آزادئ وطن کی جنگ میں مصروف ہیں اور پاکستان کے اندر اس قسم کی کارروائیاں کرنا یا ایسی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرنا خود ان کے مفاد کے خلاف ہے۔ اس لیے ہم عوام کے منتخب نمائندوں سے گزارش کریں گے کہ وہ اس مبینہ دہشت گردی اور خود کش حملوں کے بین الاقوامی محرکات اور عوامل کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں اور اس کے اصل ذمہ دار عناصر کو بے نقاب کر کے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کریں۔
    اس کے ساتھ ہم اس امکان کو بھی کلیتاً مسترد نہیں کر رہے کہ اس خطے میں امریکہ کے جبری اقدامات اور اس کی حمایت میں سابقہ مشرف حکومت کی عوام دشمن کارروائیوں کا رد عمل بھی ان خود کش حملوں کی صورت میں سامنے آ رہا ہے اور بعض ایسے لوگ بھی اس میں ملوث ہو سکتے ہیں جن کے خلوص پر تو شبہ نہیں کیا جا سکتا لیکن ان کا طریق کار یقیناًدرست نہیں ہے اور ایسے افراد کو ان کاموں سے روکنے کے لیے ان کی شکایات او رمحرومیوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ مثلاً سوات کے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ انھیں وہ شرعی عدالتی نظام واپس کیا جائے جو پاکستان کے ساتھ ریاست سوات کے الحاق کے وقت ختم کر دیا گیا تھا۔ ان کا یہ مطالبہ بالکل درست ہے، اس لیے کہ وہ اس عدالتی شرعی نظام کے ساتھ مانوس چلے آرہے ہیں، یہ نظام ان کے عقیدہ وایمان اور کلچر وثقافت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور یہ عدالتی نظام سستے اور فوری انصاف کا ضامن ہے، جیسا کہ جامعہ حفصہ اور لال مسجد کی تحریک کے طریق کار سے اختلاف کے باوجود ان کا یہ مطالبہ بالکل درست تھا کہ ملک میں شرعی نظام نافذ کیا جائے۔
    حکومتی حلقے بھی ان کے اس مطالبہ کو جائز تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ پہلے بھی اس خطے میں شرعی نظام عدل ریگولیشن نافذ کیا گیا تھا جو محض رسمی اور غیر واضح ہونے کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکا تھا اور اب بھی سرحد حکومت سوات ومالاکنڈ کے عوام سے شرعی نظام عدل ریگولیشن کے نفاذ کا بار بار وعدہ کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب اس خطے کے عوام کا مطالبہ درست ہے اور حکومت اس کو تسلیم بھی کرتی ہے تو اس میں مسلسل تاخیر اور ٹال مٹول کرکے بے اعتمادی کو بڑھانے اور ان لوگوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کرنے کی آخر کیا تک ہے؟ اس لیے ہم گزارش کریں گے کہ مبینہ دہشت گردی اور خود کش حملوں کے بین الاقوامی اور داخلی محرکات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور ان کے اسباب وعوامل اور زمینی ومعروضی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اس سلسلے میں واضح حکمت عملی طے کی جائے۔
قابل صد احترام ارکان پارلیمنٹ!
ملک کے اندر مبینہ دہشت گردی کے خاتمہ، خود کش حملوں کی روک تھام اور امن عامہ کی بحالی کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ پر قابو پانا بھی ہمارے سرفہرست قومی مسائل میں سے ہے۔ اشیاے صرف کی قیمتوں نے غریب عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے، عام آدمی کی قوت خرید جواب دے چکی ہے، خود کشیاں بڑھ رہی ہیں اور انارکی کا خوف ناک عفریت منہ کھولے مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے جس پر لوڈ شیڈنگ جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ ان مسائل کا حل تلاش کرنا بھی عوام کے منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہے اور انھیں محض بیورو کریسی کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا غریب عوام سے ووٹ لے کر ایوان اقتدار اور پارلیمنٹ تک پہنچنے والوں کے شایان شان نہیں ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کا قومی سطح پر اور ہنگامی بنیادوں پر حل تلاش کیا جانا ضروری ہے اورہمارے خیال میں شرعی اصولوں کی بنیاد پر بیت المال کا قیام اور ملک کے تمام شہریوں کو ان کی ضروریات زندگی ان کی قوت خرید کے اندر فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم، سرمایہ دارانہ نظام سے گلو خلاصی، تعیش اور لگژری پر پابندی اور قناعت اور بچت کے ساتھ غریب عوام کو بنیادی ضروریات میں سبسڈی کی فراہمی کے بغیر کوئی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہم ارکان پارلیمنٹ سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے عوام کو نجات دلانے کے لیے بھی موثر کردار ادا کریں گے اور اس سلسلے میں کوئی واضح اور ٹھوس پروگرام طے کرنے کی طرف عملی پیش رفت کریں گے۔
ہم ایک بار پھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے انعقاد پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ملتمس ہیں کہ عوام کے منتخب نمائندے ہماری ان مخلصانہ گزارشات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں۔ اللہ تعالیٰ آپ حضرات کو ملک وقوم کی بہتری کے لیے اچھے اور نتیجہ خیز فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کا متن

ادارہ

پارلیمنٹ کے اس مشترکہ ان کیمرہ سیشن نے ان معاملات کو نہایت تشویش کی نظر سے دیکھا ہے جو قومی ریاست کی سالمیت اور استحکام کے لیے سنگین خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ بات ایوان کے سامنے رہی ہے کہ ماضی میں آمرانہ حکومتوں نے ایسی پالیساں اختیار کیے رکھی ہیں جن کا مقصد قومی مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے محض اپنے اقتدار کو دوام بخشنا تھا۔
یہ ایوان صورت حال پر پوری طرح اور تفصیلی غور وخوض کرنے کے بعد اس نتیجے تک پہنچا ہے کہ قوانین وضع کرنے، اداروں کو مضبوط بنانے، شہریوں کو تشدد سے بچانے، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے، معیشت کی تشکیل نو اور محروم طبقات کے لیے معاشی مواقع پیدا کرنے کے حوالے سے ہم سب درج ذیل امور کے ساتھ گہری وابستگی کا اظہار کریں:
۱۔ یہ کہ ہمیں قومی سلامتی کی حکمت عملی پر فوری نظر ثانی کی ضرورت ہے اور آزادانہ خارجہ پالیسی کے ذریعے پاکستان میں اور خطے میں امن اور استحکام کی بحالی کے لیے دہشت گردی کے مقابلے کے طریق کار پر بھی دوبارہ غور کیا جانا چاہیے۔ 
۲۔ یہ کہ عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کے چیلنج کا سامنا اتفاق رائے پیدا کر کے اور تمام متعلقہ فریقوں کے ساتھ مکالمہ کے ذریعے سے کرنا چاہیے۔ 
۳۔ یہ کہ قوم اس بڑھتی ہوئی لعنت کے مقابلے کے لیے متحد ہے۔ رائے عامہ پرزور طریقے سے دہشت گردی کی تمام صورتوں اور مظاہر کی، جن میں فرقہ وارانہ نفرت اور تشدد کا فروغ بھی شامل ہے، مذمت کرتی ہے اور اس کا مقابلہ کرنے اور اس کے بنیادی اسباب کو دور کرنے کا پختہ عزم رکھتی ہے۔
۴۔ یہ کہ پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا تحفظ کیا جائے گا۔ قوم وطن عزیز میں کسی نوع کی مداخلت اور حملوں کے خلاف متحد ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں کے ساتھ موثر طریقے سے نمٹے۔
۵۔ یہ کہ پاکستان کی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف کسی نوع کے حملوں کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا اور اگر ملک میں کہیں غیر ملکی جنگ جو پائے جائیں تو انھیں ہماری سرزمین سے نکال باہر کیا جائے گا۔
۶۔ یہ کہ تصادم سے نمٹنے اور اس کو حل کرنے کے لیے بنیادی وسیلے کے طور پر اب مذاکرات ہی اولین ترجیح ہوں گے۔ ان تمام عناصر کے ساتھ مذاکرات کی حوصلہ افزائی کی جائے گی جو پاکستان کے آئین اور قانون کی حکومت کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوں۔
۷۔ یہ کہ شورش زدہ علاقوں، خصوصاً قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد (پختون خواہ) کی ترقی کے لیے تمام ممکنہ طریقے اور جائز ذرائع اختیار کیے جائیں گے تاکہ لوگوں میں یقین پیدا ہو کہ ان کے مفادات امن وامان کے ساتھ وابستہ ہیں۔ کم ترقی یافتہ علاقوں کو ملک کے دیگر حصوں کے برابر لانے کے لیے نئے معاشی مواقع پیدا کیے جائیں گے۔
۸۔ یہ کہ بلوچستان کے عوام سے سیاسی مذاکرات کیے جائیں گے، ان کی شکایات دور کی جائیں گی اور وسائل کی تقسیم کو بہتر بنانے کا عمل تیز رفتاری سے کیا جائے گا۔
۹۔ یہ کہ وفاق قانون کی حکمرانی کو قائم رکھے گا اور جب کبھی شہریوں کی زندگی کے تحفظ کے لیے ریاست کو مداخلت کی ضرورت محسوس ہو تو تصادم کے علاقے میں آباد غیر جانبدار شہریوں کو جانی نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے پوری احتیاط سے کام لیا جائے گا۔
۱۰۔ یہ کہ وفاق کو جمہوری کثرت رائے، سماجی انصاف، مذہبی اقدار اور رواداری اور ۱۹۷۳ء کے آئین کے مطابق صوبوں کے درمیان وسائل کی مساوی تقسیم کے ذریعے سے مضبوط بنایا جائے گا۔
۱۱۔ یہ کہ مملکت شورش زدہ علاقوں میں اپنی رٹ قائم کرے گی، روایتی اور مقامی جرگوں سے مدد لیتے ہوئے اعتماد سازی کے اقدامات کیے جائیں گے اور جتنی جلدی ممکن ہو، فوج کی جگہ قانون نافذ کرنے والی سول ایجنسیوں کو، جن کی کارکردگی کی صلاحیت کو بہتر بنایا گیا ہو، متعین کیا جائے گا، اور مشاورت کے ذریعے ایک قابل تسلسل سیاسی نظام کو مستحکم کیا جائے گا۔ 
۱۲۔ یہ کہ مغربی اور مشرقی سرحدوں پر (دو طرفہ) مفادات کو علاقائی امن اور تجارت کے ساتھ منسلک کر کے پاکستان کے تزویراتی مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔
۱۳۔ یہ کہ تشدد کا نشانہ بننے والوں کو معاوضہ ادا کر کے اور بے گھر ہونے والوں کی ان کے گھروں میں جلد از جلد آباد کر کے داخلی سطح پر تحفظ کے انتظامات کو ادارہ جاتی شکل دی جائے گی، دہشت گردی کے توسع پذیر اثرات پر پورے ملک میں قابو پایا جائے گا، اور ذرائع ابلاغ اور مذہبی (طبقات) کو شریک کار بناتے ہوئے رائے عامہ کی سطح پر دہشت گردی کے خلاف اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا۔
۱۴۔ یہ کہ پارلیمنٹ کی ایک خصوصی کمیٹی قائم کی جائے گی جو اس قرارداد میں متعین کردہ اصولوں اور بتائے گئے لائحہ عمل پر وقتاً فوقتاً نظر ثانی کرے گی، راہنما خطوط فراہم کرے گی اور ان کے نفاذ کے عمل کی نگرانی کرے گی۔ یہ ایوان قومی اسمبلی کی اسپیکر کو اختیار دیتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے پارلیمانی لیڈروں سے صلاح مشورہ کر کے اس کمیٹی کا قیام عمل میں لائیں۔ کمیٹی اجلاس کے موقع پر اپنے قواعد وضوابط خود وضع کرے گی۔ 
(انگریزی سے ترجمہ: ابو طلال)

جدیدیت کے خلاف مسلم معاشرے کا ردعمل ۔ نئی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت

ڈاکٹر محمد امین

امت مسلمہ علمی، تہذیبی ، سماجی ، معاشی، دفاعی اور سیاسی شعبوں میں اپنی برتری ایک ہزار سال تک برقرار رکھنے کے بعد جب زوال پذیر ہوئی تو اس کے دو بنیادی سباب تھے۔ ایک اس کی اپنے نظریہ حیات سے مستحکم وابستگی میں کمزوریاں در آئیں اور دوسرے اس کی حریف صلیبی اور یہودی قوتوں کی سازشیں جنہوں نے نہ صرف مسلم معاشرے کو مغلوب کیا بلکہ اس پر قبضہ کر کے اسے پنے فکر ونظر کے مطابق قوت سے بدل ڈالاتاکہ مسلمان آئندہ کبھی سر نہ اٹھاسکیں اور ہمیشہ ان کے غلام ہی رہیں ۔ لیکن اسلام چونکہ اپنے ماخذ سمیت محفوظ موجود تھا اور وہ مزاجاً کفر سے مغلوبیت کو قبول نہیں کرتا اور مسلمانوں کی اسلام سے وابستگی کمزور ضرور پڑی تھی، بالکل ختم نہ ہوئی تھی اس لیے جلد ہی مسلم معاشرے نے انگڑائی لی اور ایک دو صدیوں کے اندر ہی اس نے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالیں۔ اگر چہ فکری اور ذہنی غلامی کے اثرات ابھی تک باقی چلے آرہے ہیں، کہیں کم اور کہیں زیادہ۔
بیسویں صدی کے وسط میں مغربی استعمارسے آزادی کے بعد مسلم معاشرے اور حضو صاً اس کے دینی عناصر نے، جنہوں نے آزادی کی تحریکوں میں نمایاں حصہ لیا اور بعد میں بھی اہم کردار ادا کیا، اپنے لیے جس راہ عمل کا انتخاب کیا اور مغربی فکر و نظر کے رد و قبول کے حوالے سے جو فیصلے کیے ، انہیں ہم سہولتِ بیان کی خاطر تین اقسام میں شمار کر سکتے ہیں: مصالحت ، مزاحمت اور صرفِ نظر ۔ اور اب ان کی کچھ تفصیل :

مصالحت کی پالیسی

مسلم زوال کے وقت چونکہ مسلم معاشرے کا روایتی ڈھانچہ استعمار نے توڑ ڈالا تھا لہذا اب حصول آزادی کے بعد مسلمانوں کو ایک نیا آغاز کرنا تھا اور چونکہ استعمار نے اکثر جگہ اقتدار ایک پلاننگ کے تحت ان طاقتوں کو منتقل کیا جو فکر و عمل کے لحاظ سے اس کی پروردہ تھیں تاکہ مسلم معاشرہ آزادی حاصل کرنے کے باوجود اپنی فکر و عمل میں مغرب ہی کا زیر دست رہے، اس لیے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد مسلم حکمرانوں نے مغربیت اور جدیدیت کو اپنا نے ہی کا راستہ اختیارکیا ۔ مسلم دینی قوتوں نے ان کی مزاحمت کی کوشش کی لیکن انہیں اس میں کامیابی نہ ہوئی اور انہیں عملاً زندگی گزارنے کے لیے رائج الوقت نظام سے مفاہمت کرنا پڑی ۔ اس کو آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اس صورت حال کو بدلنے کے لیے تصادم کی بجائے مفاہمت اور مصالحت کا راستہ اختیار کر لیا یعنی اس نظام کومجبوراً قبول کرتے ہوئے اور اس کے اندر رہتے ہوئے اسے بدلنے کا راستہ اپنایا تاکہ اس میں اسلامی حوالے سے کمی بیشی کر کے اسے مسلم معاشرے کے لیے قابل قبول بنایا جاسکے۔ اس کی بہترین مثال سیاسی نظام کی ہے ۔ مغرب اور مغرب کے پروردہ مسلم حکمران مغربی جمہوریت ہی کو مسلم ریاستوں میں نافذ کرنا چاہتے تھے۔ (اس کے باوجودکہ اس کی روح اور بنیادی اصول خلاف اسلام تھے) اب بعض دینی قوتوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ اگر یہ جمہوری ڈھانچہ اسلام کے بعض بنیادی مطالبات، خواہ نظری طور پر ہی سہی ، مان لے تو اسے اسلامی لحاظ سے قابل قبول گردانا جاسکتا ہے چنانچہ انہوں نے اس قبولیت کے بعد اسے’’ اسلامی جمہوریت ‘‘ قرار دے دیا ۔ اور اس کے تحت انتخابات میں حصہ لینے اور اس نظام کا ایک حصہ بن کر اسے بدلنے اوراسلامی لحاظ سے مزید بہتر بنانے کی جدوجہد میں لگ گئے۔
اس حکمت عملی کا نتیجہ نکلا؟ یہ کہ اس میں وہ سیاسی عناصرتو اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے جن کے پیش نظر مسلم معاشرے کی بقا اور دنیوی مفادات کے لیے اپنا ایک کردار مطلوب تھا لیکن وہ دینی عناصر جن کے پیش نظر اسلامی فکرو تہذیب کا احیا تھا، انہیں عموماً اس نظام میں کامیابی نہ ملی جیسے مثلاً پاکستان، انڈونیشیا ، ملائیشیا، نائجیریا، مصر ، شام ، لیبیا ، تیونس وغیرہ میں اور جہاں ملی بھی تو وہاں مغربی قوتوں نے اسے بروئے کار نہ آنے دیا جیسے مثلاً الجزائر، میں یا سیاسی دباؤ سے اسے موثر نہ ہونے دیا جیسے ترکی میں ،یا اگر کوئی بطور استثنا حکومت بنانے میں کامیاب ہو بھی گیا جیسے مثلاً ایران میں تو مغرب نے ہر سطح پر اس کی مزاحمت کر تے ہوئے اسے غیر مستحکم بنانے کی کوشیش شروع کر دیں۔اس حکمت عملی پر کا ر بند لوگ (جن میں دوسرے دینی عناصر کے علاوہ عالم عرب کی ا خوان المسلمین، برصغیر پاک و ہند کی جماعت اسلامی اور دیگر مسلم ممالک میں ان سے ملتی جلتی جدید اسلامی تحریکیں شامل ہیں) تو اب بھی اپنے موقف کو صحیح سمجھتے ہیں، اس کی وکالت کرتے ہیں اور اس کے حق میں دلائل دیتے ہیں لیکن اگر غیر جانبداری سے ان کی حکمت عملی کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہے بغیر نہیں رہاجا سکتا کہ ان کی بہت ساری دیگر خوبیوں اور مثبت اقدامات کے باوجود انہوں نے اپنے تئیں مغربی مفاہیم کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی جو کوشش کی تھی اس کے نتیجے میں بالاآخر اسلام کی سیاسی تعلیمات مغربی سانچے میں ڈھل گئی ہیں یایوں کہئے کہ نئے سیاسی ڈھانچے میں عملاً برتری اب بھی مغربی سیاسی تصورات ہی کو حاصل ہے اور اسلامی سیاسی تصورات کم بھی ہیں اور غیر موثر بھی بلکہ وہ مغربی تصورات کا حصہ بن کر اس میں مد غم ہوگئے ہیں اور اپنی شناخت کھوچکے ہیں۔
اور بات محض سیاست تک محدود نہیں رہی بلکہ عصر حاضر میں ریاست کا کردار اتنا وسیع ہوگیا ہے اور اس کا عمل دخل ہر شعئبہ زندگی میں اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ زندگی کے سارے شعبوں کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتی ہے چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جدیدیت زندگی کے سارے شعبوں تعلیم ، ثقافت ،قانون ، معیشت ، معاشرت وغیرہ میں ہر جگہ غالب آگئی ہے اور ان شعبوں میں اسلامی تعلیمات پس پشت چلی گئی ہیں اور مغلوب ہو چکی ہیں اور عملاً گویا پورامسلم معاشرہ مغربیت وجدیدیت کے سیلاب میں بہتا چلا جارہا ہے اور اس کے خلاف دینی عناصر کی قوت مزاحمت دم توڑ رہی ہے بلکہ بڑی حد تک دم توڑ چکی ہے۔ 
یہاں چونکہ ہم مسلم معاشرے کے اجتماعی رد عمل کی بات کر رہے ہیں اس لیے ہم نے ان افراد کے رویے کا ذکر نہیں کیا جنہوں نے مغربی تہذیب کی فکری بالادستی کو ذہنی مرعوبیت کے ساتھ قبول کر لیا اور اسلامی تعلیمات کی تشریح اس انداز میں کرنے لگے کہ وہ مغربی فکر و تہذیب کے مطابق نظر آئیں ،کیونکہ مسلم معاشرے نے بحیثیت مجموعی اس فکری طرز عمل کو کبھی قبول نہیں کیا بلکہ اسے رد ہی کیا۔ اگرچہ اس میں شک نہیں کہ اس طرح کے افراد ہر مسلم ملک میں پائے جاتے رہے ہیں بلکہ اب بھی پائے جاتے ہیں جیسے برصیغر پاک و ہند میں سرسید احمد خاں ، غلام احمد قادیانی اور آج کل کے پرویز اور جاوید احمد غامدی وغیرہ۔ 

مزاحمت کی پالیسی

مغربی ممالک سے آزاد ہونے والے مسلم معالک کے بعض گروہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اجتماعی زندگی میں مغربی اداروں کو قبول نہ کیا جائے بلکہ عوام کے اندر ان کے خلاف مزاحتمی شعور بیدار کیا جائے تاکہ مغرب کی ملحدانہ تہذیب اور اس کے مقامی ایجنٹوں کے خلاف تحریک چلائی جائے اور ایک ایسا اجتماعی نظام تشکیل دیا جائے جو خالص اسلامی ہو اور مغربی اثرات کو کلیۃََ رد کردے ۔بظاہر یہ نقطۂ نظر بہت صحیح اور مدلل تھالیکن بد قسمتی سے اس کے پیروکار صبرو حکمت اور اعتدال کی پالیسی نہ اپنا سکے اور جونہی ان کو کہیں معمولی منظم ہونے میں کامیابی ملی وہ دیگر دینی قوتوں اور مسلم حکومتوں سے ٹکرا گئے جس کے نتیجے میں وہ اس تھوڑی بہت قوت کو بھی جو انہیں میسر ہوئی گنوا بیٹھے ۔ اس کی بہترین مثال مصر کی جماعۃ الہجرۃ والتکفیر، حزب التحریر اور پاکستان کے طالبان وغیرہ ہیں ۔
القاعدہ تحریک کو بھی اس کا ایک حصہ سمجھا جاسکتا ہے جس نے مغربی تہذیب اور مغربی ممالک کے سرخیل امریکہ پر حملہ کرکے اہل مغرب کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ مسلمانوں اور اسلامی تہذیب کے خلاف مغرب کی سازشوں اور جدوجہد میں اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا خواہ اس میں ان کے اپنے ہاتھ ہی کیوں نہ قلم ہو جائیں۔
ان مسلم گروہوں کی غیر معتد ل اسلامی فکر اور مغرب کی فوجی قوت کو چیلنج کر نے والی اس مزاحمانہ پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مغرب اس پر مشتعل ہو گیا ہے اور مغربی فکر و تہذیب کی پشتیبان اور دنیا کی واحدسپر پاور پر امریکہ نے ، جہاں آج کل ایسے عناصربرسر اقتدار ہیں جو اسلام کے خلاف متعصب عیسائیوں جیسا روایتی جوش و جذبہ رکھتے ہیں، مسلم دنیا کے طاقتور ممالک کو بزور قوت تہس نہس کر کے انہیں کمزور، بے بس اور اپنا دست نگر بنانے کا فیصلہ کر لیا تاکہ وہ مغربی فکر و تہذیب کے غلبے کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں اور یورپ اگرچہ امریکہ کے واحد سپر پاور ہونے کے خلاف ہے لیکن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بہر حال اس کا ساتھ دے رہا ہے ۔ چنانچہ امریکہ نے مسلمانوں (اور اسلام) کو دہشت گردقرار دے کر ان کے خلاف ایک عالمی جنگ چھیڑرکھی ہے اور وہ اقوام متحدہ کے ادارے ، یورپ اور دیگر ممالک کو اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کے بل پر گھسیٹ کر اپنے ساتھ کھڑا کر رہا ہے ۔وہ افغانستان اور عراق کو نگل چکا ہے اور ایران اور پاکستان پر اس کی یلغار جاری ہے۔
خلاصہ یہ کہ بعض مسلم دینی عناصر نے مغربی فکر و عمل کے خلاف عملی عسکری مزاحمت کرنے کی جو حکمت عملی اپنائی ہے اس کے نتیجے میں مسلم معاشرہ مزید کمزور ہوا ہے ۔ ان عناصر نے مغرب کے خلاف لڑائی تو چھیڑ لی لیکن وہ مغرب کے خلاف چونکہ باقاعدہ جنگ لڑنے کی سکت نہیں رکھتے لہذا اس نے گوریلا لڑائی بلکہ اکا دکا خود کش حملوں کی شکل اختیار کر لی ہے ۔ اگرچہ یہ عناصر سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے جہاد اور گوریلا کاروائیوں سے دشمن کو بتدریج کمزور کرنے اوربالآخر اس کے قدم اکھاڑنے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن ، ان کے اس زعم کو چیلنج نہ بھی کیا جائے، تو بھی دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ محض مغرب خصوصاً امریکہ کے زوال سے مسلمانوں کو کیا فائدہ حاصل ہو گا؟ اس سے پہلے ہم یہ تجربہ کر چکے ہیں کہ پاکستان ، افغانستان بلکہ سارے عالم اسلام نے مغرب وامریکہ کا ساتھ دیا اور شلزم کا علمبردار روس ، (جو دوسری سپر پاور تھا) ٹوٹ گیا تو امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا اور مسلمانوں (خصوصاً پاکستان اور افغانستان) کو کچھ بھی نہ ملا بلکہ خود امریکہ آج انہیں برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔ لہذا سوال یہ نہیں کہ امریکہ کو کیسے شکست دی جائے؟ فرض کیجیے اور یہ بہت بڑا مفروضہ ہے کہ اگر مسلمان اگلے ایک عشرے میں امریکہ کو شکست دینے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں یا اسے کمزور کر دیتے ہیں تو بھی نظر یہ آتا ہے کہ اس کی جگہ چین یا یورپ لے لے گا ، مسلمانوں کے ہاتھ پھر بھی کچھ نہیں آئے گا کیونکہ (اور یہ دوسرا نکتہ ہے کہ ) اس مزاحمانہ پالیسی کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرے کو ابھارنے ، مستحکم کر نے اور اسے مضبوط اور ترقی یا فتہ بنانے کی کوئی متحد، منظم اور موثر تحریک اور حکمت عملی موجود نہیں ہے بلکہ الٹایہ مزاحمتی پالیسی مسلم معاشرے میں خلفشار پیدا کرنے اور اسے کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہے کیونکہ ان جہادی تنظیموں نے امریکہ اور یورپ کے خلاف محاذ جنگ کھولنے کے ساتھ ساتھ ان مسلم حکمرانوں اور ریاستو ں کے خلاف بھی محاذ کھول رکھا ہے جوطوعاً اور کرہاً امریکہ و یورپ کا ساتھ دے رہی ہیں ۔ اوریوں مسلم عوام اور ان کے حکمرانوں میں مزید بُعداور کشمکش پیدا ہو رہی ہے ۔اندر یں حالات یہ باور کرنا مشکل ہے کہ ان مسلم گروپوں کی مزاحمانہ عسکری پالیسی مغرب کے زوال اور مسلمانوں کے عروج کا باعث بن سکتی ہے۔

صرف نظر کی پالیسی

بعض مسلم دینی تحریکوں اور تنظیموں نے مغرب اور اس کی فکر و تہذیب کے حوالے سے ایک تیسری حکمت عملی اپنائی ہے جسے صرف نظر کی پالیسی کہا جا سکتا ہے جس کا مفاد اور مطلب یہ ہے کہ سیاست میں عملی حصہ نہ لیا جائے اور اجتماعی زندگی میں تغیر لانے کی کوئی کوشش نہ کی جائے اور لوگوں تک دین پہنچانے کے عمل کو فرد اور عبادات و اخلاق تک محدود رکھا جائے ۔ اس پالیسی کی علمبردار، بعض دیگرر دینی عناصر کے علاوہ، تبلیغی جماعت ہے جو عالم اسلام کی غالباً سب سے بڑی دینی تحریک ہے اور حج کے بعد سب سے بڑے اجتماعات کئی مسلم ممالک میں ہر سال منعقد کرتی رہتی ہے ۔یہ جماعت اس بات سے کوئی غرض نہیں رکھتی کہ کسی مسلمان ملک کا حکمران نیک ہے یا بد اور وہ اجتماعی زندگی میں اسلام نافذ کرتا ہے یا نہیں ؟ ان لوگوں کو تبلیغ سے غرض ہے کہ وہ لوگوں کے کلمے سیدھے کرادیں اوردین کی بنیادی معلومات ان تک پہنچا دیں اور انہیں اس دین پر عمل کرنے والا بنا دیں ۔ اسی طرح انہیں امریکہ و یورپ سے بھی کوئی دلچسپی یا گلہ نہیں کہ وہ مسلم ممالک میں اپنی تہذیب و ثقافت کیوں متعارف اور نافذ کر رہے ہیں یا عراق و افغانستان جیسے مسلم ممالک کو کیوں کچل رہے ہیں۔ان کی روش یہ ہے کہ یہ سیاسی امور ہیں اور انہوں نے سیاست میں حصہ نہیں لینا۔
تبلیغی جماعت کے لوگوں کی سادگی، اخلاص اور محنت اپنی جگہ لیکن اسلام کے کسی ایسے تصور کو صحیح کیسے سمجھا جا سکتا ہے جو امت کی اجتماعی، سیاسی اور تہذیبی زندگی سے صرف نظر کرتا ہو، اسے اہمیت نہ دیتا ہو اور ان پر منفی طور پر اثر انداز ہونے والے عوامل کے رد کو نہی عن المنکر کے اسلامی تصورکا حصہ نہ سمجھتا ہو۔ لہذا ہم تبلیغی جماعت اور اس سے ملتی جلتی تنظیموں کے موقف کو اسلامی حوالے سے امت مسلمہ کے سیاسی اور تہذیبی مستقبل کے تناظر میں غیر مفید بلکہ نقصان دہ سمجھتے ہیں۔

نئی حکمت عملی کی ضرورت

ہماری اب تک کی گفتگو اس امر پر مرتکز رہی ہے کہ دنیا میں مغربیت اور جدید یت کے غلبے کے ماحول میں مسلم معاشرے کے دینی عناصرنے اس فکری اور تہذیبی غلبے کے رد عمل میں مسلم معاشرے میں اسلامی تعلیمات و اقدار کے بقا، احیا اور نفاذکے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی ۔اور اس گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ اس رد عمل میں دینی قوتوں نے جو موقف اپنائے ہیں وہ ناقص اور غیر موثر ثابت ہوئے ہیں لہذا اس امرکی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ معاملے پر از سر نو غور کیا جائے اور نئی حکمت عملی وضع کی جائے۔ لیکن آگے بڑھنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسلم ممالک کے حوالے سے خود مغرب کے رویے پر ایک نظر ڈال لی جائے تاکہ نئی حکمت عملی وضع کرنے میں آسانی رہے۔
اس ضمن میں اہل مغرب نے ایک حکمت عملی تو یہ اپنائی ، جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، کہ مسلم ممالک کو آزادی دیتے وقت وہاں اقتدار اپنے تربیت یافتہ آدمیوں کے سپرد کیا ۔ پھر اس کے بعد بھی اپنا سیاسی اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے پر امن ذرائع سے (جیسے میڈیا اور تعلیم و تربیت وغیرہ) مسلم اوراجتماعی اداروں کی تشکیل اور ورکنگ کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں کی اور ان کو ششوں میں اسے عموماً کامیابی ملی ۔ اس کے باوجود بعض مسلم ممالک اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں کامیاب ہوگئے اور مغرب کی خواہشات کے بر عکس اپنی پالیسیاں خود مختاری سے وضع کرنے کی کوشش کرنے لگے جیسے پاکستان ، عراق ، ملائیشیا ، ترکی اور ایران وغیرہ ۔
اس موقع پر سرد جنگ کے خاتمے اور روس کے ٹوٹ جانے کے نتیجے میں امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر ابھرا اوراسے من مانی سے روکنے کے لیے کوئی طاقت موجود نہ رہی۔ دوسری طرف بعض مسلم ممالک کے کچھ ترقی کرنے اور اپنی مرضی چلانے کے نتیجے میں بعض مغربی مفکر ین نے تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کیا کیونکہ ان کی رائے میں مذہبی اختلافات اوردیگر مسائل اب ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔( ’’تہذیبی‘‘ تصادم کی بات انہوں نے اس لیے کی کہ ’’مذہب‘‘ کو اہل مغرب رد کر چکے ہیں اور اس کی جگہ ان کے ہاں’’ تہذیب‘‘ لے چکی ہے) اور انہوں نے محسوس کیا کہ اسلام ہی اب ایک ایسی بڑی نظریاتی قوت ہے جس کے مغربی فکر و تہذیب کے مدمقابل آنے کا امکان ہے یا پھر چین ایک ابھرتی ہوئی بڑی قوت ہے۔ لیکن کمیونزم اور کنفیوشس ازم کے اثرات کے باوجود جدید چین جس طرح نظری اور عملی طور پر مغربی فکر و تہذیب کے قریب آرہا ہے، اسے وہ کوئی بڑا نظریاتی مد مقابل نہیں سمجھتے اور ہر پھر کر ان کی نظریں اسلام ،مسلم معاشروں اور حضوصاًان جماعتوں اور تحریکوں پر پڑتی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کی متمنی ہیں چنانچہ انہوں نے تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کیااور دنیاکی بدقسمتی یہ کہ پچھلے کئی سالوں سے امریکی اقتدار پر قابض حکمران جماعت نے اسے قبول کر لیا۔ چنانچہ پر امن ذرائع سے مسلم ممالک کو قابو میں رکھنے کی پالیسی ترک کر کے امریکہ نے یورپ اور اقوام متحدہ کو ساتھ ملا کر ، اور جہاں انہوں نے ساتھ نہ دیا، وہاں اکیلے ہی، اپنی برتر فوجی قوت سے مسلم ممالک پر چڑھائی کر دی ۔ اس نے افغانستان اور عراق کو تباہ و برباد کر دیا اور ایران اور پاکستان کو روندنے کے حیلے بہانے تلاش کئے جارہے اور دباؤ بڑھا یا جارہا ہے۔

نئی حکمت عملی کے خدوخال 

ان حالات میں کہ اسلامی فکر و تہذیب کا بقاء و استحکام خطرے میں ہے اور مغربی فکر و تہذیب کا غلبہ و استیلاء جاری ہے اور مسلم دینی عناصر کی اس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے بنائی جانے والی پالیسیاں ناکام ہو چکی ہیں، یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ اس معاملے پر از سر نوغور کیا جائے اور اس صورت حال سے عہدہ بر آہونے کے لیے نئی حکمت عملی وضع کی جائے ۔ ہماری طالب علمانہ رائے میں نئی حکمت عملی کی تشکیل کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہونے چاہئیں:

۱۔ پر امن ہونا 

یہ بات واضح ہے کہ فوجی تصادم اس مسئلے کا کوئی حل نہیں؟ مسلم ممالک بفرض محال اکٹھے ہو بھی جائیں(جس کے امکانات نہایت معدوم ہیں) تو وہ یورپ اور امریکہ کی فوجی قوت کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ گوریلا جنگ، جیسا کہ اس وقت بعض مسلم تنظیمیں لڑ رہی ہیں، وہ طاقتور مغرب کو مشتعل تو کر سکتی ہے اور طویل مدتی حکمت عملی کے تحت اسے کچھ کمزور بھی کر سکتی ہے اور مسلمانوں میں جذبہ جہاد بھی بیدار رکھ سکتی ہے لیکن یہ نہ تو مغرب کو شکست دے سکتی ہے اور نہ اس کی علمی اور تہذیبی برتری کو دھندلا سکتی ہے اور نہ مسلم معاشرے کو ترقی اور عروج کی متبادل اساس فراہم کر سکتی ہے بلکہ الٹا اہل مغرب کی نفرت کو بڑھا کر انہیں اسلام اور مسلمانوں سے دور لے جا سکتی ہے۔ اس لیے ہماری رائے میں مغرب سے فوجی تصادم اس مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ ہاں !اگر کسی مسلمان ملک پر حملہ ہو تو پھر دفاع اس کا قانونی حق بھی ہے اور مجبوری بھی۔

۲۔ تعلیم و تربیت اور میڈیا پر ترکیز

مسلم جماعتوں اور اداروں کو چاہیے کہ تعلیم و تربیت اور میڈیا پر اپنی توجہ مرکوز کر یں حضوصاً تعلیم و تربیت کا میدان ایسا ہے جو صحیح مسلم فرد اور شخصیت کی تیاری میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور اس کام کی گنجائش اور اس کے مواقع و امکانات بھی موجود ہیں۔ تعلیم میں اس وقت دنیا بھر میں پرائیویٹ سیکٹر کا کردار تسلیم کیا جاتا ہے۔ مسلم عناصرا گر، گر اس روٹ لیول پرکام کریں اور ایسے سکول و کالج ہزاروں کی تعداد میں مسلم معاشرے میں پھیلا دیں جو مسلم شخصیت کی نمومیں مثبت کردار ادا کریں تو اس کام کے مثبت اثرات مستقل قریب میں ضرور نکلیں گے۔ دیکھیے! تعلیم ایک خاموش انقلاب لاتی ہے۔ اس کے لیے نعروں کی ضرورت نہیں ہوتی، اس کے لیے کسی اسلحے اور ایٹم بم کی بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے حکومتی امداد کی بھی ضرورت نہیں ۔ مقامی مسلم آبادی کو متحرک کیا جائے اور انہیں تعلیم و تربیت کی اہمیت بتائی جائے تو یقیناًاتنے وسائل مہیا کئے جا سکتے ہیں جن سے مقامی سکول و کالج چلایا جاسکے ۔ ہاں! اس کی ضمانت دیناہوگی کہ اس اسکول کا نصاب مغربی تعلیم کا چربہ نہ ہو بلکہ آزاد مسلم سوچ کا نتیجہ ہو یہ نصاب اسلامی نظرئیہ علم اور اسلامی ورلڈ و یو پر مبنی ہو۔ مغرب کے تعلیمی تجربات کو سامنے ضرور رکھا جائے لیکن ان کی اندھی پیروی نہ کی جائے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے اداروں کے لیے چونکہ بھاری فنڈز درکار ہوتے ہیں جو حکومتوں ہی کے بس میں ہوتے ہیں اس لیے مجوزہ تعلیمی اداروں میں سوشل سائنس یا عمرانی علوم پر توجہ مرکوزکی جائے۔ ان سکولوں میں مسلم طلبہ و طالبات کو نہ صرف صحیح خطوط پر تعلیم دی جائے بلکہ ان کی تربیت بھی کی جائے یعنی تعمیر سیرت اور کردار سازی اس کا لازمی حصہ اور نتیجہ ہو۔ اس سے بڑی تعداد میں ایسے افراد تیار ہونا شروع ہو جائیں گے جو اپنی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والے ہوں گے اوروہ اسلامی اقدار کے پشیتبان ہوں گے۔ یہ لوگ زندگی میں جہاں بھی جائیں گے مثبت انداز میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں گے۔ وہ اگر اجتماعی اداروں کی تشکیل میں حصہ لیں گے تو ان کی بنا اسلامی اصولوں پر رکھیں گے اور جہاں ضروری ہو گا مغربی تجربات سے استفادہ بھی کر لیں گے۔ یہ کام مسلم معاشرے میں وسیع پیمانے پر کیا جائے تو اس سے اسلامی فکر و تہذیب کو یقیناًفروغ حاصل ہوگا،اس کا تشخص بحال ہو گا اور مسلم معاشرہ بحیثیت مجموعی مستحکم ہو گا۔
مسلمان عوام کی فکری و عملی و تربیت اور ذہن سازی میں تعلیم و تربیت کے علاوہ الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا کی مد د لینا بھی ضروری ہے کیو نکہ ان کی افادیت اور اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔مسلم ممالک میں میڈیا اگر آزاد انہ خطوط پر استوار ہو تو بین الاقوامی سطح پر اس سے یہ موقع بھی ملے گا کہ مغرب کے عوام اور اہل دانش میں اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کو دور کیا جائے اوربتدریج ایسی فضا پروان چڑھے جس سے اہل مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ نفرت اور تعصب ختم ہو اور وہ معروضی انداز میں اسلامی حقائق کی تفہیم پر قادر ہو سکیں۔اگر ایسا ہو جائے تو اسلام کی مقناطیسی قوت انہیں خوداپنی طرف کھینچ لے گی خواہ ان کے حکمران اس کی جتنی بھی مخالفت کریں۔

۳۔ فرد پر توجہ

اس سے پہلے مصالحت اور مزاحمت پر مبنی جو حکمت عملی اختیار کی گئی اس میں ترکیز نظام پر تھی مثلاً یہ کہ سیاسی نظام اسلامی ہو جائے، قانونی نظام اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو۔۔۔ وغیرہ۔ نئی حکمت عملی میں نظام کے برعکس ترکیز فرد پر ہو۔ معاشرہ چونکہ افرد ہی سے مل کر بنتا ہے لہذا اگر فرد کی صحیح تعلیم و تربیت کا فعال اور موثر نظام وضع ہو جائے تو معاشرے کے سدھرنے اور صحیح سمت میں اس کی پیش رفت کے امکانات غالب ہو جائیں گے ۔ معاشرے کی ترقی اور عروج کے لیے فرد کی اصلاح اور ترقی نہ صرف فطری تدریج کے اصول کے عین مطابق ہے بلکہ یہ اس اسلامی اصول کے مطابق بھی ہے جس کی رو سے اصلاح ود عوت کا کام نیچے سے اوپر کو جانا چاہئے نہ کہ اوپر سے نیچے کی طرف آنا چاہیے اور الاقرب فالا قرب کی ترجیح پر مبنی ہونا چاہئے نہ کہ عمومی معاشرتی تبدیلی کی اساس پر۔

۴۔ فکری جارحیت

ماضی کی مفاہمانہ حکمت عملی نے مسلم امت کو مغربی فکر سے مرعوبیت اور اس کی اندھی پیروی کے راستے پر ڈال دیا ہے جو تہذیبی خود کشی کے مترادف ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو فکری لحاظ سے کسی دست گیری کی ضرورت نہیں۔ ہمارے دینی مآخذ (قرآن و سنت) الحمدللہ محفوظ و مامون ہیں۔ پھر مسلمانوں کا سماجی اور اقداری ڈھانچہ مغربی تسلط کے باوجود ابھی تک قائم ہے۔ لہذا ہم اب بھی مغرب کو بہت کچھ دینے کے قابل ہیں جیسے مستحکم خاندانی نظام ، پر سکون زندگی، اعلیٰ اقدار، اطمینان ذہن و قلب وغیرہ ۔اور چونکہ اسلام ایک مشنری دین ہے، لہٰذا مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ مغرب سے فکری مرعوبیت کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور مدافعانہ اسلوب اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے رد کرتے ہوئے اور اس پر فکری و علمی تنقید کر کے اسے ناقص اور انسانیت کے لیے مضر ثابت کیا جائے اور ہجومی انداز اختیار کر تے ہوئے اور دعوت و تبلیغ کا کام جدید خطو ط پر اور احسن انداز میں منظم کر کے اہل مغرب کے دل و دماغ کو فتح کر لینے کی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے ۔ اس سے بالواسطہ یہ فائدہ بھی ہو گا کہ نوجوان مسلم نسل اپنے ماضی پر فخر کرنا سیکھے گی،اپنے مستقبل کے بارے میں پر امید ہو جائے گی اور اس کی ملی انا مستحکم ہوگی اور یہ تاثر پختہ ہوگا کہ ہم بھی کچھ چیزہیں، ہماری بھی کچھ اہمیت ہے اور دینا میں ہمارا بھی کچھ کردارہے۔

۵۔ تیز رفتار ترقی

دراصل چیز کی مسلم امہ کو ضرورت ہے وہ یہ کہ کسی تصادم اورچپقلش میں پڑنے کی بجائے اسے موقع ملے کہ وہ خاموشی سے مسلم عوام کی ترقی اور بہبود کے لیے تیز رفتار اقدامات کر سکے (ترقی اسلامی ماڈل کے مطابق [جیسی مثلاً خلافت راشدہ میں ہوئی] نہ کہ مغربی ماڈل کے مطابق) جس کی اساس صحیح اسلامی تعلیم و تربیت ہی ہوسکتی ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلم معاشرے میں شرح خواندگی سو فیصد ہو جائے، غربت کا خاتمہ ہو، سیاسی نظام مستحکم ہو، سماجی اقدار پر عمل ہو اور معاشی نظام کو یہودیوں کے زیر تسلط عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل اور قرض کی معیشت سے چھٹکارا دلایا جائے۔

۶۔ قیادت

نئی حکمت عملی کے وضع و نفاذ کے لیے قیادت اور عمل درآمدی قوت کے بارے میں بھی نئی سوچ سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ اس کی قیادت روایتی دینی عناصر کی بجائے سول سوسائٹی کے ان افراد کو کرنی چاہیے جو جدید تعلیم یافتہ ہوں، لیکن ساتھ ہی اپنے ماضی، دین، تعلیم اور اقدار سے بھی وابستہ ہوں۔ اسی طرح اس کے نفاذ کے لیے بوڑھوں اور ادھیڑ عمر افراد کی بجائے ایسے نوجوانوں کو اس کے لیے تیار اور متحرک کیا جائے جو اسلامی تناظر میں صحیح نقطہ نظر کے حامل ہوں اور جو اس حکمت عملی کی تفہیم کے بعد اخلاص اور جذبے کے ساتھ اس کے لیے متحرک کردار ادا کرنے پر آمادہ ہوں۔ 
یہ وہ رہنما خطوط ہیں جن پر عمل کر کے ہماری رائے میں، نہ صرف مسلم معاشرے کو مغربیت اور جدید یت کے تباہ کن سیلاب سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ مسلم امہ کو اسلامی تناظر میں دنیا وی ترقی اور غلبہ و عرو ج کی سمت میں متحرک کیا جا سکتا ہے ۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور مسلم اہل دانش کو اس پر غور و تدبر کرنا چاہئے اور اپنے نتائج فکر سامنے لانے چاہئیں ۔ ظاہر ہے سٹیٹس کو کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا اور نئے حالات میں نئی حکمت وضع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کام صرف آزادانہ اور تنقیدی سوچ ہی سے ممکن ہے، لہٰذا اس موضوع پر مسلم اہل دانش کے درمیان ڈائیلاگ ضروری ہے جس کی ابتدا ہم نے کردی ہے۔ فہل من مزید؟

آداب القتال: بین الاقوامی قانون اور اسلامی شریعت کے چند اہم مسائل

محمد مشتاق احمد

مسلمان اہل علم کے لیے اس وقت جن مسائل پر بحث از بس ضروری ہوگئی ہے، ان میں شاید سب سے زیادہ اہم مسئلہ آداب القتال کا ہے ۔ فلسطین ، افغانستان ، عراق اور پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک اس وقت ایک بظاہر نہ ختم ہونے والے مسلح تصادم میں مبتلا ہیں ۔ یہ مسلح تصادم خواہ مسلمانوں میں سے بعض افراد نے شروع کیا ہو یا ان پر غیروں کی جانب سے مسلط کیا گیا ہو ، بہر حال ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ آداب اور قواعد لوگوں کے لیے واضح کیے جائیں جن کی پابندی ان پر اسلامی شریعت اور موجود بین الاقوامی قانون کی رو سے لازم ہے ۔ ایک افسوسناک امر اس سلسلے میں یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو جنگ اور آداب القتال سے متعلق بین الاقوامی قانون کی مبادیات تک کا علم نہیں ہے ۔ اس لیے اس مقالے میں پہلے بین الاقوامی قانون کی روشنی میں آداب القتال کا جائزہ لیا جائے گا ۔ اس کے بعد دوسرے حصے میں اسلامی شریعت کی روشنی میں ان مسائل پر بحث کی جائے گی ۔ 
اس مقالے کو فقہ اسلامی اور بین الاقوامی قانون کے ایک طالب علم کی کاوش سمجھا جائے ۔ راقم الحروف اپنی رائے کو حتمی نہیں سمجھتا ، اس لیے اصلاح کی خاطر کی جانے والی تنقید کھلے دل سے قبول کی جائے گی ۔ 

حصۂ اول : آداب القتال اور بین الاقوامی قانون 

جنگ اور قتال سے متعلق بین الاقوامی قانون کے دو بڑے حصے ہیں : ایک کو jus ad bellum کہتے ہیں جس میں جنگ کے جواز او عدم جواز سے متعلق احکام ہوتے ہیں ؛ دوسرے حصے کو ، جو جنگ کے طریق کار کو منضبط کرتا ہے ، jus in bello کہا جاتا ہے ۔ گویا اول الذکر حصہ ’علۃ القتال‘ سے بحث کرتا ہے جبکہ ثانی الذکر ’آداب القتال‘ سے متعلق ہے۔ (۱) اس مقالے میں ہم علۃ القتال سے صرف نظر کرتے ہوئے آداب القتال کے متعلق بین الاقوامی قانون کے چند ایسے اہم قواعد کا ذکر کریں گے جو پاکستان کے اندر اور باہر جاری جنگوں اور مسلح تصادم کے سلسلے میں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں ۔ پھر عصر حاضر میں جاری مسلح تصادم کے چند اہم مسائل پر ان قواعد کی روشنی میں بحث کی جائے گی ۔ 

فصل اول : آداب القتال کے متعلق بین الاقوامی قانون ۔ ایک تعارف 

بین الاقوامی قانون کے دیگر حصوں کی طرح آداب القتال کا قانون بھی بنیادی طور پر دو مآخذ سے ماخوذ ہے ؛ بین الاقوامی معاہدات (Treaty) اور بین الاقوامی رواج (Custom)۔ (۲) معاہدات سے ماخوذ قانون اور رواج پر مبنی قانون میں بنیادی فرق یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کے مسلمہ اصول Pacta sunt servanda کے بموجب معاہدے کی پابندی صرف ان ریاستوں پر لازم ہوتی ہے جنہوں نے معاہدے کی توثیق کی ہو ، جبکہ رواج پر مبنی قانون کا ماننا ہر ریاست پر لازم ہوتا ہے ۔ (۳) یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بالعموم معاہدے میں مذکور ضوابط رواج پر مبنی ضوابط کی بہ نسبت زیادہ واضح ہوتے ہیں (اگرچہ دیگر قواعد عامہ کی طرح اس قاعدے سے بھی استثناء ات پائے جاتے ہیں )۔ مغرب میں بین الاقوامی قانون اپنے ارتقا کے ابتدائی مراحل میں زیادہ تر رواج پر مبنی تھا ۔ تاہم انیسویں صدی کے آخر سے باقاعدہ کوششیں شروع ہوئیں کہ اس قانون کو معاہدات کی صورت میں مدون کیا جائے ۔ چنانچہ بیسویں صدی میں کئی بین الاقوامی معاہدات کے ذریعے رواج پر مبنی بین الاقوامی قانون کو مدون کیا گیا ۔ بین الاقوامی قانون کے ماہرین کے نزدیک یہ امر بھی مسلم ہے کہ بہت سے ایسے قواعد ، جو پہلی دفعہ کسی بین الاقوامی معاہدے کے ذریعے وضع کیے گئے ، وقت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی رواج کا حصہ بن گئے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بسا اوقات ایک ہی قاعدہ رواج سے بھی ماخوذ ہوتا ہے اور وہ کسی معاہدے میں بھی مذکور ہوتا ہے ۔ پس اگر کوئی ریاست ایسے کسی قاعدے کو اپنے اوپر لازم نہ سمجھے اور دلیل یہ دے کہ اس نے تو اس معاہدے پر دستخط ہی نہیں کیے تو اس پر دوسری جانب سے یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ یہ قاعدہ صرف معاہدے میں ہی مذکور نہیں، بلکہ یہ رواج کا بھی حصہ ہے اور رواج کی پابندی تمام ریاستوں پر لازم ہے ۔ 
آداب القتال سے متعلق بین الاقوامی قانون ، جسے ’’ مبنی بر انسانیت بین الاقوامی قانون ‘‘ (International Humanitarian Law) بھی کہا جاتا ہے ، کئی معاہدات اور رواجی قواعد کا مجموعہ ہے لیکن چار جنیوا معاہدات ایسے ہیں جن کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔ ان میں پہلا جنیوا معاہدہ بری جنگ میں زخمی ، بیمار یا معذور ہونے والے فوجیوں کے حقوق سے متعلق ہے جبکہ دوسرا جنیوا معاہدہ بحری جنگ میں زخمی ، بیمار یا معذور ہونے والے فوجیوں کے حقوق کے بارے میں ہے۔ تیسرا جنیوا معاہدہ جنگی قیدیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہے اور چوتھا جنیوا معاہدہ جنگ کے دوران میں غیر مقاتلین اور عام شہریوں کے تحفظ کے لیے ہے ۔ یہ چاروں معاہدات دوسری جنگ عظیم کے بعد ۱۹۴۹ء میں وضع کیے گئے اور ان پر پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک نے دستخط کیے ہیں ۔ 
جنیوا معاہدات بنیادی طور پر اس مسلح تصادم سے متعلق ہیں جس میں دو ریاستیں حصہ لیں ۔ بہ الفاظ دیگر ان معاہدات کا اطلاق ’’ بین الاقوامی مسلح تصادم ‘‘ (International Armed Conflict) پر ہوتا ہے ۔ ان معاہدات کی صرف دفعہ ۳ ، جو ان چاروں معاہدات میں مشترک ہے ، کا اطلاق ’’غیر بین الاقوامی مسلح تصادم ‘‘ (Non-international Armed Conflict) پر ہوتا ہے۔ جیسا کہ عام طور پر معلوم ہے ، دوسری جنگ عظیم کے بعد ایشیا ، افریقہ اور مشرق بعید میں آزادی کی جنگوں اور خانہ جنگیوں کا ایک طویل سلسلہ ، جو اب تک جاری ہے ، شروع ہوا ۔ یہ بھی عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اس قسم کے مسلح تصادم میں بالعموم عام شہری آبادی کا زیادہ نقصان ہوتا ہے ۔ مسلح تصادم اور جنگ کی ان قسموں پر جنیوا معاہدات کا اطلاق نہیں ہوتا تھا ۔ اس لیے ۱۹۷۷ء میں جنیوا معاہدات کے ساتھ دو اضافی معاہدات ملحق کیے گئے جنہیں Additional Protocols کہا جاتا ہے ۔ان دونوں اضافی پروٹوکولز کا تعلق عام شہریوں کے تحفظ سے ہے ۔ البتہ پہلے پروٹوکول کا اطلاق بین الاقوامی مسلح تصادم پر ہوتا ہے اور دوسرے پروٹوکول کا اطلاق غیر بین الاقوامی مسلح تصادم پر ہوتا ہے ۔ بہ الفاظ دیگر ، پہلا پروٹوکول چوتھے جنیوا معاہدے پر مزید اضافہ ہے ، جبکہ دوسرا پروٹوکول جنیوا معاہدات کی مشترک دفعہ ۳ کی توسیع اور تفصیل کی حیثیت رکھتا ہے ۔یہ بات اپنی جگہ نہایت اہم ہے کہ پہلے پروٹوکول کی دفعہ ۱ ، ذیلی دفعہ ۴ کے مطابق آزادی کی جنگ ’’ بین الاقوامی مسلح تصادم ‘‘ ہے ، نہ کہ کسی ملک کا اندرونی معاملہ ۔ یہ ایک بنیادی سبب ہے اس امر کا کہ پاکستان اور بھارت سمیت کئی ممالک نے ابھی تک ان پروٹوکولز پر دستخط نہیں کیے ۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ’’قانون جنیوا‘‘ (Geneva Law) یعنی جنیوا معاہدات اور اس کے ساتھ متعلقہ اضافی پروٹوکولز مسلح تصادم سے متاثر ہونے والے افراد (Victims of Warfare) یعنی عام شہری ، زخمی ، بیمار اور معذور جنگجو اور جنگی قیدیوں کا تحفظ کرتے ہیں ۔ 
آداب القتال سے متعلق بین الاقوامی قانون کا ایک دوسرا حصہ بھی ہے جسے ’’ قانون ہیگ ‘‘ (Hague Law) کہا جاتا ہے ۔ اس قانون کا تعلق جنگ کے طریقوں اور ہتھیاروں (Means and Methods of Warfare) سے ہے ۔ اسے قانون ہیگ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ۱۸۹۹ ء اور ۱۹۰۷ء کے ہیگ معاہدات کے ذریعے پہلی دفعہ کوشش کی گئی کہ جنگ کے طریقوں اور ہتھیاروں پر مناسب پابندیاں لگائی جائیں اور اس سلسلے میں پہلے سے موجود بین الاقوامی رواج کے قواعد و ضوابط کو معاہدات کی صورت میں منظم اور مرتب کیا جائے ۔ (۴)
پس مبنی بر انسانیت بین الاقوامی قانون نے کوشش کی ہے کہ ایک جانب ہتھیاروں کے استعمال اور حملوں کے طریقوں میں جائز اور ناجائز کی تقسیم کرکے ریاست کے لامحدود اختیار کو محدود کیا جائے اور دوسری جانب جنگ سے متاثرہ افراد کا تحفظ کیا جائے ۔ گویا اس قانون کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جنگ کے جواز اور عدم جواز سے قطع نظر اس بات کی کوشش کی جائے کہ جنگ میں انسانیت کے تقاضوں کا حتی الامکان لحاظ رکھا جائے اور اس طرح جنگ کے نقصان کو ممکن حد تک محدود کیا جائے ۔ اس قانون نے صاحبان اقتدار کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جنگ میں ’’ سب کچھ ‘‘ جائز نہیں ہے ( بالکل اسی طرح جیسے محبت میں بھی ’’سب کچھ ‘‘جائز نہیں ہوتا ) ۔ 

فصل دوم: آداب القتال کے قانون کے بنیادی اصول 

اس قانون کا اولین اور بنیادی اصول ’’ انسانیت ‘‘ (Humanity) ہے ۔ یہ قانون جنگ کو بطور ایک امر اضطراری اور امر واقعی تو مان لیتا ہے مگر قرار دیتا ہے کہ جنگ کے دوران میں انسانیت کے تقاضوں کا لحاظ رکھنا لازم ہے ۔ مثال کے طور پر جنگ کے دوران میں فریق مخالف کے فوجی کو قتل کرنا اس قانون کے تحت ناجائز نہیں ہے لیکن اگر وہ ہتھیار ڈالے ، یا زخمی ہوجائے ، یا معذور ہوجائے ، یا کسی اور وجہ سے جنگ سے باہر (hors de combat) ہوجائے تو پھر اسے قتل کرنا ناجائز ہوجاتا ہے ، الا یہ کہ اس نے قید ہونے سے پہلے یا بعد میں کوئی ایسا جرم کیا ہو جس کی سزا موت ہو ۔ اس آخری صورت میں بھی انسانیت کے تقاضوں کا لحاظ رکھا جائے گا ۔ چنانچہ اس پر باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے گا اور اسے صفائی کا پورا موقع دیا جائے گا ۔ (۵)
اسی اصول کے ایک لازمی نتیجے کے طور پر ’’ تمییز ‘‘ ( Distinction) کا بنیادی اصول بھی وضع کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حملے کے دوران میں جائز اور ناجائز ہدف (Target) میں فرق کیا جائے ۔ چنانچہ دشمن کے فوجی ٹھکانوں پر حملہ جائز ہے جبکہ شہری آبادی ، ہسپتالوں ، سکولوں ، بازاروں اور عبادت گاہوں پر حملہ ناجائز ہے ۔ اسی طرح ایسے حملے ناجائز ہیں جن میں فوجی اور غیر فوجی دونوں کے نشانہ بننے کا احتمال ہو۔ اسی اصول پر ایسے ہتھیاروں کا استعمال بھی ناجائز ہے جس کا اثر صرف دشمن کے فوجیوں تک ہی محدود نہ ہو ، مثلاً کیمیائی ہتھیار ۔ (۶)
تاہم ، جیسا کہ ذکر کیا گیا ، یہ قانون جنگ کو مکمل طور پر حرام نہیں ٹھہراتا بلکہ جنگی حملے کو جائز قرار دیتا ہے اگر اس میں اوپر مذکورہ اصولوں اور قواعد کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔ بہ الفاظ دیگر، اس قانون نے فوجی ضرورت (Military Necessity) کے اصول کو تسلیم کیا ہے ۔ چنانچہ اس اصول کے تحت ایسے حملوں کو جائز قرار دیا گیا ہے جن میں بنیادی ہدف دشمن کا فوجی ٹھکانہ ہو اگرچہ اس میں اضطراری طور پر کچھ عام شہری بھی نشانہ بنیں ۔ ایسے حملوں میں عام شہریوں کو پہنچنے والے ضرر کو ’’ ضمنی نقصان ‘‘ (Collateral Damage) کہا جاتا ہے ۔ (۷)
اضطرار کے اس اصول کو انسانیت اور تمییز کے اصولوں کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو نتیجے کے طور پر ایک اور اہم اصول سامنے آجاتا ہے جسے ’’تناسب کا اصول‘‘ (Principle of Proportionality) کہا جاتا ہے ۔ اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ جنگ میں دشمن کو صرف اتنا ہی نقصان پہنچایا جائے جتنا اس کے حملے کی پسپائی یا اس پر فتح کے حصول کے لیے ضروری ہو ۔ گویا جنگ کا مقصد دشمن کا صفایا کرنا (Extermination) نہیں ہونا چاہیے ۔ اس اصول کی بنیاد پر ایسے ہتھیاروں یا طریقوں کا استعمال بھی ناجائز ہوجاتا ہے جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائے ، یا جو غیر ضروری اذیت دے ، خواہ اس کا استعمال دشمن کے فوجیوں پر ہی ہو ۔ (۸)
بین الاقوامی عدالت انصاف نے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے جواز و عدم جواز کے متعلق اپنے فیصلے میں واضح کیا ہے کہ ان ہتھیاروں سے آداب القتال کے چند اہم قواعد کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ عدالت کے مطابق ان قواعد میں اہم ترین یہ ہیں : 
۱ ۔ شہری آبادی کو نقصان پہنچانے کی ممانعت 
۲ ۔ اندھا دھند حملوں ( Indiscriminate Attacks) کی ممانعت 
۳ ۔ فریق مخالف کے فوجیوں کو غیر ضروری نقصان پہنچانے کی ممانعت 
۴ ۔ تناسب کا اصول 
۵ ۔ جنگ میں غیر جانبدار رہنے والے ملک کو نقصان پہنچانے کی ممانعت 
۶ ۔ قدرتی ماحول کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچانے کی ممانعت 
۷ ۔ زہریلے مواد کے استعمال کی ممانعت ۔ (۹)
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ بین الاقوامی قانون نے بالعموم دو ریاستوں کے مابین تعلقات کے ضمن میں معاملۃ بالمثل یا مجازاۃ (Reciprocity) کے اصول کو تسلیم کیا ہے لیکن جہاں تک آداب القتال کا تعلق ہے، اس میں معاملۃ بالمثل کا اصول قابل قبول نہیں ہے ۔ پس اگر ایک فریق دوسرے فریق کے عام شہریوں کو نشانہ بنائے، تب بھی دوسرے فریق کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ جواب میں شہریوں کو نشانہ بنائے۔ اگر اس نے بھی شہریوں کو نشانہ بنایا تو یہ اسی طرح کا جرم ہوگا جیسے فریق اول کا فعل جرم تھا۔ 
اس کی وجہ یہ ہے کہ آداب القتال کے مسلمہ اصولوں میں ایک اصول ’’ جرم کے ارتکاب کے لیے انفرادی ذمہ داری ‘‘ (Individual Criminal Responsibility) ہے۔ اس اصول کے مطابق نہ صرف ریاست بلکہ ہر فرد بھی آداب القتال کی خلاف ورزی کے لیے انفرادی طور پر ذمہ دار ہے۔ مثال کے طور اگر کسی کمانڈر کے حکم کی اطاعت میں ماتحتوں نے کسی عبادت گاہ پر حملہ کرکے اسے مسمار کردیا اور وہاں موجود افراد کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تو ماتحت یہ عذر نہیں پیش کرسکتے کہ وہ اس مجرمانہ فعل کے ارتکاب پر مجبور تھے کیونکہ ان پر لازم تھا کہ وہ اپنے کمانڈر کا حکم مانیں۔ اگر عدالت میں ثابت کیا گیا کہ ماتحت عملاً اس کام پر مجبور تھے اور انہوں نے کرھاً اس کام کا ارتکاب کیا تب بھی وہ سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ البتہ اس بنیاد پر ان کی سزا میں تخفیف کی جاسکے گی۔ اسی طرح کمانڈر اپنے تمام افعال کے لیے بھی ذمہ دار ہوتا ہے اور اپنے ماتحتوں کے افعال کے لیے بھی ۔ پس اگر کسی کمانڈر کے ماتحتوں نے کسی علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں کی آبادی پر مظالم ڈھائے تو کمانڈر لاعلمی کا عذر نہیں پیش کرسکتا ۔ (۱۰)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگرچہ بین الاقوامی قانون بنیادی طور پر ریاستوں کے مابین تعلقات کو منظم کرتا ہے لیکن آداب القتال کے متعلق بین الاقوامی قانون کا اطلاق ریاستوں کے علاوہ افراد پر بھی ہوتا ہے ۔ 

فصل سوم : مقاتلین اور غیر مقاتلین میں تمییز 

مبنی بر انسانیت بین الاقوامی قانون کا بنیادی کارنامہ یہ ہے کہ اس نے غیر مقاتلین (Non-combatants) کو جنگ کے اثرات سے محفوظ کرنے اور جنگ کے طریقوں اور ہتھیاروں کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ اس قانون کا اصل اصول یہ ہے کہ عام شہریوں پر حملہ ناجائز ہے ۔ عام شہری صرف دو صورتوں میں حملے کا ہدف بن سکتے ہیں : ایک صورت یہ ہے کہ وہ جنگ میں حصہ لیں اور مقاتلین (Combatants) بن جائیں ؛دوسری صورت یہ ہے کہ مقاتلین اور عام شہریوں میں تمییز ممکن نہ ہو ۔ اول الذکر صورت میں ان کو براہ راست اور عمداً نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔ ثانی الذکر صورت میں ان کو براہ راست اور عمداً نشانہ نہیں بنایا جاسکتا ، بلکہ لازم ہوگا کہ حملہ کرنے والا فریق حملے کو ناگزیر ثابت کرے اور حملے کو مقاتلین تک محدود رکھنے کی حتی الامکان کوشش کرے ۔ ایسی صورت میں ، جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ، عام شہریوں کو پہنچنے والا نقصان ’’ ضمنی نقصان ‘‘ ( Collateral Damage) کہلاتا ہے ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جس طرح عام شہری جنگ میں حصہ لے تو اس پر حملہ جائز ہوجاتا ہے ، اسی طرح مقاتل جب زخمی یا معذور ہوجائے ، یا ہتھیار ڈال دے ، یا اسے قید کیا جائے ، یا کسی اور وجہ سے جنگ سے باہر (hors de combat) ہوجائے تو اس پر حملہ ناجائز ہو جاتا ہے ۔ 
واضح رہے کہ اس قانون کے مطابق ’’غیر مقاتل ‘‘ (Non-combatant) اور ’’ شہری ‘‘ (Civilian) باہم مترادف ہیں ۔ بہ الفاظ دیگر، ہر فوجی مقاتل ہے الا یہ کہ وہ جنگ سے باہر (hors de combat) ہوجائے ، اور ہر شہری غیر مقاتل ہے الا یہ کہ وہ جنگ میں باقاعدہ حصہ لے ۔ مقاتل اور غیر مقاتل کی حیثیت کے تعین کے لیے جنس یا مذہب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ چنانچہ خاتون اگر جنگ میں حصہ لے تو مقاتلہ ہے اور اگر مرد اگر جنگ سے باہر ہو تو غیر مقاتل ہے۔ 
رواجی بین الاقوامی قانون کے مطابق ہر وہ شخص جنگ میں حصہ لے سکتا ہے ، یا حملہ کرسکتا ہے ، جو مندرجہ ذیل چار شرائط پوری کرے : 
۱ ۔ وہ ایک ذمہ دار کمان کے ماتحت ہو ؛ 
۲ ۔ وہ غیر مقاتلین سے خود کو ممیز کرنے کے لیے کوئی امتیازی نشان یا لباس (Uniform) استعمال کرے ؛ 
۳ ۔ وہ واضح طور پر ہتھیار سے مسلح ہو ؛ اور 
۴ ۔ وہ آداب القتال کی پابندی کرے ۔ (۱۱)
یہ چاروں شرائط ۱۹۰۷ء کے ہیگ معاہدے میں بھی مذکور ہیں اور تیسرے جنیوا معاہدے میں بھی انہیں دہرایا گیا ہے ۔ ان چار شرائط کو پورا کرنے والا شخص قانوناً ’’مقاتل ‘‘ (Combatant) کہلانے کا مستحق ہوتا ہے اور گرفتار ہونے کی صورت میں اسے ’’جنگی قیدی ‘‘ (Prisoner of War) کی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ 
تاہم یہ اصول بھی مسلمہ ہے کہ بعض اوقات ان میں سے پہلی اور دوسری شرائط معطل ہوسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی علاقے پر حملہ ہو اور اس علاقے کے عام لوگ ، کھیتوں میں ہل چلانے والے کسان ، کالجوں کو جانے والے طلبا ، تجارت پیشہ دوکاندار ، وغیرہ اچانک ہی حملہ آوروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور جو ہتھیار جس کے ہاتھ لگے اسی سے حملہ آوروں سے لڑنے لگے تو ان سب کو مقاتل کی حیثیت حاصل ہوگی اگر وہ اوپر مذکور آخری دو شرائط پوری کرتے ہوں ، خواہ وہ باقاعدہ طور کسی کمان کے تحت منظم نہ ہوئے ہوں اور ان کا کوئی امتیازی نشان یا لباس نہ ہو۔ اس قسم کی عمومی اور اچانک شروع ہونے والی مزاحمت کو اصطلاحاً levee en masse کہا جاتا ہے ۔(۱۲) اسی طرح ۱۹۷۷ء کے پہلے اضافی پروٹوکول نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ مسلح تصادم کے ہر مرحلے میں امتیازی نشان یا لباس کے استعمال کی شرط پر عمل ممکن نہیں ہوتا ۔ اس لیے اگر کوئی شخص امتیازی نشان یا لباس کا بعض اوقات استعمال نہ کرے لیکن وہ اوپر مذکور آخری دو شرائط پر عمل کرے تو اسے مقاتل کی حیثیت حاصل رہے گی ۔ (۱۳) یہ بھی واضح رہے کہ ہتھیار سے مسلح ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ جنگجو اپنے مخالف فریق پر حملہ کرنے سے پہلے اسے دکھائے کہ اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف ہے یا راکٹ لانچر ۔ بلکہ اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ وہ اپنے فعل اور حرکات و سکنات سے مخالف فریق کو یہ تاثر نہ دے کہ وہ غیر مقاتل ہے ۔ مخالف فریق کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی طرف بڑھنے والا شخص حملہ کرنے کے لیے آرہا ہے ۔ گویا اصل مقصد دھوکہ دہی کی ممانعت ہے۔ 

فصل چہارم : دھوکہ دہی ( Perfidy) کی ممانعت اور جنگی چالوں (Ruses of War) کی اجازت 

مبنی بر انسانیت بین الاقوامی قانون نے جنگ کے جن طریقوں کو ’’ جنگی جرائم ‘‘ (War Crimes) میں شمار کیا ہے ان میں ایک ’’دھوکہ دہی ‘‘ (Perfidy) ہے ۔ (۱۴) اس سے مراد یہ ہے کہ دشمن کو پہلے اپنے قول یا فعل کے ذریعے اطمینان دلایا جائے کہ اس پر حملہ نہیں کیا جائے گا اور پھر اس کے بعد اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا کر دھوکے سے اس پر حملہ کیا جائے ۔ مثال کے طور پر ہم نے اوپر ذکر کیا کہ مقاتل اگرجنگ سے باہر ہوجائے تو اس پر حملہ ناجائز ہوجاتا ہے ۔ اب اگر کوئی مقاتل دشمن کے سامنے ہاتھ اٹھائے ، یا سفید پرچم بلند کرے ، یا ہتھیار پھینک دے، یا خود کو زخمی یا معذور ظاہر کرے ، اور جب دشمن کے فوجی اس کے قریب آئیں تو یہ اچانک ان پر حملہ کردے ، تو یہ جنگی جرم ہوگا ۔ اسی طرح ایمبولینس پر حملہ ناجائز ہے۔ اگر ایک فریق ایمبولینس میں ڈاکٹروں اور نرسوں کے بھیس میں اپنے جنگجو بھیجے اور دوسرا فریق انہیں اپنے درمیان آنے دے اور پھر ان کے بیچ میں پہنچ کر ایمبولینس میں بیٹھے افراد ان پر حملہ کردیں تو یہ دھوکہ دہی اور جنگی جرم ہوگا ۔ اسی طرح ہلال احمر اور صلیب احمر کی تنظیموں کے افراد ، دفاتر ، تنصیبات اور گاڑیوں پر حملہ ناجائز ہے کیونکہ ان کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ میدان جنگ میں جاکر زخمیوں اور لاشوں کو اکٹھا کریں اور قیدیوں کے متعلق معلومات بہم پہنچائیں ، اور یہ جنگ میں غیر جانبدار رہتے ہیں ۔ ان کو حملوں کی زد سے بچانے کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے امتیازی نشانات (Distinctive Emblems) اس طور پر استعمال کریں کہ دور سے بھی لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ ہلال احمر یا صلیب احمر کے لوگ ہیں۔ اب اگر کوئی فریق ہلال احمر یا صلیب احمر کی گاڑی یا ان کے امتیازی نشانات استعمال کرکے دشمن کے قریب پہنچ جائے اور پھر اس حملہ کرے تو یہ دھوکہ دہی اور جنگی جرم شمار کیا جائے گا ۔ بعینہ اسی طرح اگر کوئی شخص غیر مقاتل کے بھیس میں ہو اور دشمن اسے غیر مقاتل سمجھ کر اسے نزدیک آنے دے اور اس کے بعد وہ ان پر حملہ کرے تو یہ دھوکہ دہی اور جنگی جرم ہے۔ 
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری محسوس ہوتی ہے کہ ’’ دھوکہ دہی ‘‘ کی ممانعت کا مطلب یہ نہیں کہ ’’ جنگی چالیں‘‘ ( Ruses of War) بھی ممنوع ہیں ۔ (۱۵) مثال کے طور پر دشمن پر اچانک حملہ (Surprise Attack) جائز ہے ۔ اسی طرح یہ جائز ہے کہ آپ اپنی فوجوں کی حرکت سے دشمن کو یہ تاثر دیں کہ آپ مشرقی محاذ پر حملہ کرنے والے ہیں اور جب وہ مشرقی محاذ کی حفاظت پر توجہ دے کر مغربی محاذ سے لاپروا ہوجائے تو آپ مغربی محاذ پر حملہ کردیں ۔ اسی طرح فوجوں کی نقل و حرکت کے متعلق دشمن کو شبہ میں مبتلا کیے رکھنا ، یا اسے غلط اطلاع پہنچانا ، یا اپنی فوجوں کی پوزیشن ، تعداد اور صلاحیت کے متعلق اسے غلط فہمی میں مبتلا کرنا جائز جنگی چال ہے ، بشرطیکہ ان میں کسی فعل کی بنا اس بات پر نہ ہو کہ آپ پہلے دشمن کو اعتماد میں لیں کہ آپ اس پر حملہ نہیں کریں گے اور پھر اس اعتماد کو ٹھیس پہنچائیں ۔ پس دھوکہ دہی میں ایک فریق دوسرے کو یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ جنگ میں حصہ نہیں لے رہا ، یا یہ کہ اسے حملے کا ہدف بننے سے قانونی تحفظ حاصل ہے اور جب فریق دوم اس پر بھروسہ کرکے اس پر حملے سے باز رہتا ہے تو فریق اول اس پر حملہ کرلیتا ہے ۔ اس کے برعکس جائز جنگی چال میں ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔ فریق دوم جانتا ہے کہ فریق اول اس پر حملہ کرے گا لیکن ’’کہاں سے ‘‘اور ’’کیسے ‘‘کے تعین میں وہ ٹھوکر کھا جاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے فریق اول کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ اسی طرح جائز جنگی چال میں فریق اول خود کو حملے کے لیے ناجائز ہدف بنا کر نہیں پیش کرتا بلکہ فریق دوم جانتا ہے کہ فریق اول کو ہدف بنانا جائز ہے لیکن فریق اول کی جنگی چال کی وجہ سے وہ اس بات کے تعین میں غلطی کر بیٹھتا ہے کہ اس پر ’’کہاں‘‘ اور ’’کیسے‘‘ حملہ کرے ؟ اور یہ اس کا اپنا قصور ہوتا ہے ۔ اس میں فریق اول کی جانب سے غدر یا خیانت نہیں ہوتی ۔ 
بین الاقوامی قانون نے دہشت گردی کی متفقہ اور مسلمہ جامع مانع تعریف نہیں پیش کی مگر حملے کی چند صورتیں ایسی ہیں جن کو بالاتفاق دہشت گردی میں شمار کیا جاتا ہے ، مثلاً : 
۱۔ شہری آبادی یا تنصیبات پر براہ راست اور عمداً حملہ ؛
۲ ۔ شہری ہوابازی کے طیاروں کو اغوا کرنا ؛ 
۳ ۔ شہریوں یا مقاتلین کو یرغمال بنانا ؛ 
۴ ۔ مقاتلین پر ’’ دھوکہ دہی ‘‘ کے ذریعے حملہ ؛
۵۔ مقاتلین پر زہریلی گیسوں اور کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال (۱۶)؛ وغیرہ ۔ 

فصل پنجم : خود کش حملوں کی قانونی حیثیت 

بین الاقوامی قانون کے ان اصول و ضوابط کی روشنی میں اگر خود کش حملوں کے جواز اور عدم جواز کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے جواز کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پورا کرنا لازم ہوگا : 
اولاً : یہ کہ حملہ مسلح تصادم کے دوران میں کیا جائے ، نہ کہ حالت امن میں ۔ 
ثانیاً : یہ کہ حملہ کرنے والا مقاتل ہو ۔ 
ثالثاً : یہ کہ حملے کا ہدف فریق مخالف کے مقاتلین ہوں ۔ 
رابعاً : یہ کہ حملے میں ایسا طریقہ یا ہتھیار استعمال نہ کیا جائے جو قانوناً ناجائز ہو ۔ 
چنانچہ اگر جنگ کے دوران میں ایک مقاتل سینے سے بم باندھ کر فریق مخالف کے مقاتلین کی صفوں کے اندر گھس جائے اور پھر بم ڈیٹونیٹ کر لے ، یا بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے آگے لیٹ جائے ، یا جنگی جہاز کا پائلٹ جہاز کو دشمن کے فوجی ٹھکانے پر گرائے ، اور اس طرح خود اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کرلے اور فریق مخالف کو بھی سخت مادی اور نفسیاتی نقصان پہنچائے تو اس قسم کے حملوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت ناجائز نہیں قرار دیا جاسکے گا ۔ 
تاہم چونکہ بالعموم خود کش حملہ کرنے والا شہری آبادی کے اندر حملہ کرتا ہے اس لیے یہ فعل دہشت گردی کے ضمن میں آئے گا ۔ پھر چونکہ وہ مقاتل کے لباس میں نہیں ہوتا بلکہ بظاہر وہ عام شہری کے بھیس میں ہوتا ہے اس لیے وہ ’’ دھوکہ دہی ‘‘ (Perfidy) کا بھی ارتکاب کرتا ہے ۔ اسی طرح خود کش حملوں کا ہدف بالعموم ایسا ہوتا ہے کہ اس میں فریق مخالف کے مقاتلین اور غیر مقاتلین دونوں نشانہ بن جاتے ہیں ۔ بہ الفاظ دیگر ، ان حملوں سے اس قاعدے کی مخالفت ہوتی ہے کہ اندھادھند حملہ ناجائز ہے ۔ بسا اوقات حملے کا مقام یا وقت ایسا ہوتا ہے کہ اس میں غیر مقاتلین کو پہنچنے والا نقصان بہت شدید ہوتا ہے اور اس قسم کے نقصان کو ’’ ضمنی نقصان ‘‘ (Collateral Damage) نہیں کہا جاسکتا ۔ 
اس قسم کے حملوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ فریق مخالف بد اعتمادی کا شکار ہوجاتا ہے اور وہ ہر شخص کو حملہ آور فرض کرنے لگتا ہے خواہ وہ عام شہری کے لباس میں ہی کیوں نہ ہو ۔ اس طرح وہ بسا اوقات عام شہریوں کو خود کش حملہ آور فرض کر کے اس پر حملہ کردیتا ہے ۔ یوں عام شہریوں کی زندگی ہر وقت خطرے میں رہتی ہے ۔ باہمی بد اعتمادی کی اس فضا میں آداب القتال کے بنیادی قاعدے مسمار ہوجاتے ہیں ۔ چنانچہ ایک فریق دوسرے پر الزام رکھتا ہے کہ وہ حملے میں مقاتلین اور عام شہریوں میں تمییز روا نہیں رکھتا اور دوسرا فریق جواب میں قرار دیتا ہے کہ فریق اول کے مقاتلین عام شہریوں کا بھیس بدل کر حملہ کرتے ہیں ۔ یوں آداب القتال کی تمام بحث غیر متعلق ہوجاتی ہے اور فریقین کی جانب سے تمام قواعد و ضوابط کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں ۔ پھر ان کے نزدیک جنگ میں ’’ سب کچھ ‘‘ جائز ہوجاتا ہے ۔ فلسطین کی سرزمین پر یہی کچھ عرصے سے ہوتا رہا ہے اور اب پاکستان میں بھی خدانخواستہ حالات کا رخ اسی نہج پر ہے ۔ 

حصۂ دوم : اسلامی شریعت اور آداب القتال 

آداب القتال کے ان مسائل پر جب اسلامی شریعت کی رو سے بحث کی جاتی ہے تو سب سے پہلے اس امر کا تعین کرنا ضروری ہوتا ہے کہ اس بین الاقوامی قانون کی کیا حیثیت ہے جس نے ان آداب کا تعین کیا ہے ؟ بعض لوگوں نے ان بین الاقوامی معاہدات ، بلکہ پورے بین الاقوامی قانون کو اسلامی شریعت سے متصادم قرار دے کر ان کی پابندیاں ماننے سے انکار کیا ہے ۔ اس لیے پہلے اس اصولی بحث کا فیصلہ ضروری ہے ۔ اس کے بعد ہم اس امر کا جائزہ لیں گے کہ کیا آداب القتال کے متعلق بین الاقوامی قانون کے اصول و مبادیات اسلامی شریعت سے مطابقت رکھتے ہیں یا وہ اس سے متصادم ہیں؟ پھر عصر حاضر کے مسلح تصادم کے حوالے سے چند نہایت اہم مسائل کا شریعت کی روشنی میں تجزیہ کیا جائے گا۔ و باللہ التوفیق ۔ 

فصل اول : آداب القتال کے بین الاقوامی معاہدات کی حجیت کا مسئلہ 

آداب القتال کے متعلق بین الاقوامی قانون ، جیسا کہ واضح کیا گیا ، بنیادی طور پر معاہدات اور بین الاقوامی عرف سے ماخوذ ہے ۔ شریعت کے مسلمہ اصولوں کے مطابق عرف اور رواج کی پیروی بھی جائز ہے اور معاہدات پر عمل بھی لازم ہے ، الا یہ کہ کسی رواج یا معاہدے کی کسی شق سے شریعت کی خلاف ورزی ہوتی ہو ۔ خلاف شریعت کسی شرط کا ماننا مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے ( المسلمون علی شروطھم الا شرطاً حرم حلالاً أو أحل حراماً) (۱۷) بلکہ اگر اس قسم کی شرط مان بھی لی گئی تو اس پر عمل ناجائز ہوگا ۔ (ما من شرط لیس فی کتاب اللہ فھو باطل ، ولو کان مائۃ شرط) (۱۸) تاہم بعض شرائط کے مقتضیات کے تعین پر اختلاف ہوسکتا ہے ۔ چنانچہ یہ ممکن ہے کہ بعض شروط کے ماننے سے بعض لوگوں کے نزدیک کفر کی بالادستی ماننی لازم آتی ہو ، جبکہ بعض دوسرے لوگوں کے خیال میں ہوسکتا ہے کہ یہ ان شروط کے ماننے کا لازمی تقاضا نہ ہو ۔ اس لیے کوئی sweeping statement دینا مناسب نہیں ہوگا ، بلکہ ضروری ہوگا کہ ہر ہر شرط کے مقتضیات پر الگ الگ بحث کی جائے اور پورے معاہدے کے مجموعی اثر پر اس کے بعد نظر ڈالی جائے۔ اس کے بعد ہی اس معاملے کی صحیح شرعی تکییف کی جاسکے گی ۔ عقود اور شروط کے بارے میں اصل صحت ، نفاذ اور لزوم کا ہے ۔ (۱۹) جو شخص دعوی کرے کہ کوئی شرط یا عقد اس اصل کے خلاف ہے تو ثبوت کا بار بھی اسی کے ذمے ہے ۔ مزید برآں ، اگر کسی شرط پر مسلمان اس وجہ سے عمل نہیں کرسکتے کہ وہ خلاف شریعت ہے تب بھی معاہدے کے دوسرے فریق کو اس بات کی اطلاع دینا لازم ہے کہ مسلمان اس معاہدے یا اس شرط کو قبول نہیں کرتے۔ اگر وہ ایسا کیے بغیر اس شرط کی خلاف ورزی کریں گے تو یہ غدر ہوگا جو شرعاً حرام ہے ۔ 
شریعت نے مسلمانوں پر لازم کیا ہے کہ جنگ کے دوران بعض قواعد اور ضوابط کا لحاظ رکھیں گے قطع نظر اس سے کہ دوسرا فریق ان کا خیال رکھتا ہے یا نہیں ۔ ظاہر ہے کہ اگردوسرا فریق ان قواعد کو معاہدے کا حصہ بناکر ان کی پابندی پر آمادہ ہو تو مسلمانوں کے لیے اس قسم کے معاہدات میں شامل ہونا مستحسن ہی ہوگا ۔ اس کے علاوہ ان معاہدات میں بعض مزید کاموں کو بھی ممنوع قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اس قسم کے معاہدات کے تحت ممنوع کام اس وقت تک ممنوع رہیں گے جب تک وہ معاہدات مؤثر ہوں ، الا یہ کہ ان کاموں کو شریعت نے بھی ممنوع قرار دیا ہو ۔ ظاہر ہے کہ شریعت کے تحت ممنوع شدہ کام مسلمانوں کے لیے ممنوع رہیں گے خواہ دوسرے فریق کے ساتھ معاہدہ ختم ہوجائے ۔ 
اس قسم کے معاہدات سے بعض اوقات مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ۔ مثلاً جنگی قیدیوں کے متعلق نص قرآنی ( سورۃ محمد ، آیت ۴ ) کے بموجب مسلمان حکمران کو دو اختیار دیے گئے ہیں ؛ من اور فداء ، یعنی بغیر معاضہ کے یا معاوضہ لے کر رہائی ۔ بعض دیگر آیات اور احادیث کی روشنی میں احناف کی رائے یہ ہے کہ حکمران جنگی قیدیوں کو قتل بھی کرسکتا ہے اور غلام بھی بنا سکتا ہے ۔ (۲۰) تیسرے جنیوا معاہدے کے ذریعے طے کیاگیا ہے کہ جنگ کے خاتمے پر قیدیوں کو بغیر معاوضہ کے رہاکیاجائے گا ۔ (۲۱) اس شق کو شریعت کے خلاف متصور کیا جائے گا یا اسے حکمران کے اختیارات کا جائزاستعمال سمجھا جائے گا ؟ 
امام محمد بن الحسن الشیبانی نے، جو فی الحقیقت آیۃ من آیات اللہ تھے، ’’السیر الکبیر ‘‘ میں کئی ایسے معاہدات پر بحث کی ہے جو مسلمان دیگر اقوام کے ساتھ آداب القتال کے سلسلے میں کرسکتے ہیں۔ شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل السرخسی نے ’’شرح السیر الکبیر‘‘ میں ان کی توضیح میں کئی اہم قانونی اصول مستخرج کیے ہیں۔ یہاں اس بحث پر ایک نظر ڈالنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ 
امام شیبانی نے اس قسم کے معاہدات پر بحث اس ضمن میں شروع کی ہے کہ اگر مسلمان لشکر کسی علاقے میں داخل ہونا چاہتا ہے لیکن راہ میں دشمن کے فوجی حائل ہیں اور وہ مسلمانوں کو یہ معاہدہ کرنے کی تجویز دیں کہ اگر مسلمان اس عام اور مختصر راستے کو چھوڑ ایک دوسرے طویل اور پر مشقت راستے سے جائیں تو وہ ان سے نہیں لڑیں گے اور انہیں بحفاظت وہاں سے گزرنے کا حق (Right of Safe Passage) دے دیں گے ، تو اگر ایسا کرنا مسلمانوں کے حق میں بہتر ہو تو مسلمان ایسا معاہدہ کرسکتے ہیں ۔ پھر اگر انہوں نے ایسا معاہدہ کرلیا اور بعد میں مسلمان محسوس کریں کہ انہیں اس مختصر اور عام راستے سے ہی جانا چاہیے تو اس وقت تک اس راستے سے نہیں جاسکتے جب تک کہ وہ فریق مخالف کو باقاعدہ اطلاع نہ دیں کہ ان کا معاہدہ ختم ہوچکا ہے ۔ مسلمان یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس راستے سے جائیں یا اس راستے ، ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا نہ ہی ان کا کوئی نقصان ہوتا ہے :
لأن ھذا بمنزلۃ الموادعۃ والأمان، فیجب الوفاء بہ و التحرز عن الغدر الی أن ینبذوا الیھم (۲۲)
[کیونکہ اس معاہدے کی حیثیت امن کے معاہدے کی ہے ، اس لیے اس پر عمل اور عہد شکنی سے احتراز واجب ہے جب تک مسلمان انہیں باقاعدہ طور معاہدہ ختم ہونے کی اطلاع نہ دیں۔ ] 
اسی طرح وہ بعض مزید شروط کا ذکر کرتے ہیں جن سے مندرجہ ذیل قواعد عامہ مستخرج ہوتے ہیں : 
اولاً : اگر معاہدے میں کسی کام کو ممنوع کیا گیا تو ایسے تمام کام جو اس ممنوع کام کی نوعیت کے ہوں ممنوع ٹھہریں گے ۔ مثلاً اگر فصلوں کو جلانا ممنوع کیا گیا تو انہیں پانی میں غرق کرنا بھی ممنوع ہوگا ۔ 
لأن ھذا فی معنی المنصوص من کل وجہ (۲۳) 
[کیونکہ یہ ہر پہلو سے منصوص حکم کے مفہوم میں داخل ہے ۔ ] 
ثانیاً : ممنوع کام سے اوپر کے درجے کے کام بھی ممنوع ٹھہریں گے ۔ مثلاً فصل میں سے کھانے کے لیے کچھ لینا ممنوع کیا گیا تو جلانا بدرجۂ اولی حرام ہوگا ۔ 
فان الاحراق افساد للعین ، و الأکل انتفاع بالعین ۔ فاذا شرطوا أن لا یؤکل فمقصودھم بقاء العین لھم ، و ذلک ینعدم بالاحراق کما ینعدم بالأکل (۲۴) 
[کیونکہ جلانا اس چیز کو ضائع کرنا ہے ، جبکہ کھانا اس سے فائدہ اٹھانا ہے ۔ پس جب انہوں نے یہ شرط لگائی کہ اسے نہ کھایا جائے تو ان کا مقصد اس چیز کے وجود کو باقی رکھنا تھا ، اور جیسے اس کا وجود کھانے سے معدوم ہوتا ہے ایسے ہی جلانے سے بھی معدوم ہوتا ہے ۔ ] 
اسی طرح اگر معاہدے میں طے پایا کہ مسلمان ان کی کشتیوں کو نہ جلائیں گے اور نہ ہی انہیں غرق کریں گے تو جلانے اور غرق کرنے کے علاوہ ان کشتیوں کو چھین کر لے جانا بھی ممنوع ہوگا : 
لأنھم انما أرادوا أن لا نستھلکھا علیھم ، الا أنہ تعذر علیھم التنصیص علی جمیع أنواع الاستھلاک ، و ذکروا ما ھو الظاھر من أسبابہ ، و ھو التغریق و الاحراق (۲۵) 
[کیونکہ ان کا اردہ دراصل یہ تھا کہ ہم ان کی کشتیاں ان کے لیے ناکارہ نہ بنائیں ، مگر چونکہ ناکارہ بنانے کے تمام طریقوں کا معاہدے میں ذکر کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے انہوں نے صرف اس کے ظاہری اسباب ذکر کیے جو ڈبونا اور جلانا ہیں ۔ ] 
ثالثاً: ممنوع کام سے نچلے درجے کا کام ممنوع نہیں ہوگا ۔ مثلاً جلانا ممنوع کیا گیا تو کھانا ممنوع نہیں ٹھہرے گا ۔ 
والأصل أن ما ثبت بالشرط نصاً لا یلحق بہ ما لیس فی معناہ من کل وجوہ(۲۶) 
[ قاعدہ یہ ہے کہ معاہدے میں مذکور شرط سے جو بات ثابت ہوتی ہو اس کے ساتھ اس بات کو نہیں ملحق کیا جائے گا جو تمام پہلوؤں سے اس کے مفہوم میں داخل نہ ہو ۔ ] 
ان قواعد کی وضاحت کے بعد وہ جنگی قیدیوں کے متعلق معاہدے کا ذکر کرتے ہیں اور قرار دیتے ہیں کہ مسلمان جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں بھی دوسرے فریق سے معاہدہ کرسکتے ہیں اور جب تک یہ معاہدہ برقرار رہے گا اس پر عمل واجب ہوگا ۔ اگر مسلمان اس معاہدے پر عمل نہیں کرنا چاہتے تو اس کا ایک ہی راستہ ہے ، اور وہ یہ کہ دوسرے فریق کو باقاعدہ اطلاع دے دی جائے کہ وہ ان کے ساتھ کیا گیا معاہدہ ختم کر رہے ہیں ۔ 
امام شیبانی نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ معاہدے میں یہ شرط رکھی جاسکتی ہے کہ مسلمان دوسرے فریق کے قیدیوں کو قتل نہیں کریں گے۔ اس شرط کے بعد قیدیوں کو قتل کرنا ممنوع ٹھہرے گا مگر قید کرنا اور غلام بنانا جائز ہوگا : 
لأن الأسر لیس فی معنی ما شرطوا من القتل (۲۷) 
[کیونکہ انہوں نے قتل کی ممانعت کی شرط رکھی اور قید کرنا قتل کے مفہوم میں داخل نہیں ہے ۔ ] 
امام شیبانی نے آگے یہ بھی قرار دیا ہے کہ اس قسم کے معاہدے کے ذریعے یہ بھی طے کیا جاسکتا ہے کہ مسلمان سرے سے انہیں قید ہی نہیں کریں گے ۔ اگر یہ طے پایا تو پھر انہیں قید کرنا بھی ناجائز ہوگا اور غلام بنانا اور قتل کرنا بدرجۂ اولیٰ ناجائز ہوگا : 
لأن القتل أشد من الأسر (۲۸) 
[کیونکہ قتل قید سے زیادہ سنگین نوعیت کا کام ہے ۔ ] 
البتہ اگر معاہدے میں طے پایا ہو کہ دوسرا فریق بھی اس قسم کے کاموں سے باز رہے گا اور اس کے بعد دوسرے فریق نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو اس فعل سے معاہدہ ٹوٹ جائے گا اور مسلمانوں کے لیے جائز ہوگا کہ وہ ان کو قید کریں، غلام بنائیں اور قتل کریں ، جیسا کہ معاہدے کے وجود میں آنے سے پہلے حکم تھا ۔ 
اگر اس شرط کی خلاف ورزی ان کی جانب سے کسی ایک فرد نے کی ہو اور ان کی حکومت نے اس کی اجازت نہ دی ہو تو اس سے معاہدہ نہیں ٹوٹے گا : 
لیس لھذا الواحد ولایۃ نقض العھد علی جماعتھم (۲۹) 
[اس تنہا شخص کو اپنی جماعت پر یہ قانونی اختیار حاصل نہیں کہ وہ ان کی جانب سے معاہدہ ختم کر لے۔] 
تاہم اگر اس کی خلاف ورزی ان کی حکومت نے کی ، یا ایک بڑے گروہ نے کی ، یا ایک فرد یا چند افراد کھلے عام اس کا ارتکاب کریں اور ان کی حکومت انہیں نہ روکے تو یہ ان کی جانب سے عہد شکنی تصور کی جائے گی : 
ان السفیہ اذا لم ینہ مأمور (۳۰) 
[غلط روش پر چلنے والے کو اگر روکا نہ گیا تو گویا اسے اس کی اجازت دی گئی ۔ ] 
اگر معاہدے میں یہ شرط رکھی گئی کہ فریقین میں کوئی بھی فریق دوسرے فریق کے قیدیوں کو قتل نہیں کرے گا ، اور اس کے بعد وہ مسلمانوں کو قید کریں لیکن قتل نہ کریں تو مسلمانوں کے لیے بھی ان کو قید کرنا جائز اور انہیں قتل کرنا ناجائز ہوگا : 
لأن ھذا لیس نقض العھد منھم ، فانھم التزموا بأن لا یقتلوا ، و ما التزموا بأن لا یأسروا واذا بقی العھد ، نعاملھم کما یعاملوننا جزاء وفاقاً (۳۱) 
[کیونکہ یہ ان کی جانب سے نقض عہد نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ ذمہ داری اٹھائی تھی کہ وہ قیدیوں کو قتل نہیں کریں گے ، یہ نہیں کہ وہ انہیں سرے سے قید ہی نہیں کریں گے ۔ پس جب معاہدہ برقرار ہے تو ہم ان کے ساتھ ان کے عمل کے عین مطابق اسی طرح کا معاملہ کریں گے جیسے وہ ہمارے ساتھ کرتے ہیں ۔] 
امام شیبانی کی ان تصریحات اور امام سرخسی کی توضیحات سے معلوم ہوا کہ آداب القتال کے تعین کے لیے مسلمان دوسرے فریق کے ساتھ معاہدات کرسکتے ہیں ۔ جنیوا معاہدات اور اس کے ساتھ اضافی ملحقات اسی نوعیت کے معاہدات ہیں ۔ تمام اسلامی ممالک نے ان معاہدات پر دستخط کیے ہیں ۔ اس لیے ان معاہدات کی پابندی مسلمانوں پر لازم ہے ۔ 

فصل دوم : آداب القتال کے بنیادی اصول اور اسلامی شریعت 

اسلامی شریعت نے انسانی زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح جنگ کو بھی تہذیب اور انسانیت کے دائرے میں رکھنے کے لیے احکام ، اصول اور قواعد دیے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین کے طرز عمل سے آداب القتال کے متعلق فقہا نے تفصیلی ضابطہ اخذ کیا ہے جس کی پابندی مسلمانوں پر ہر صورت میں لازم ہے ، خواہ فریق مخالف اس ضابطے کی پابندی کرے یا نہ کرے ۔ اس ضابطے کی تفصیلات کے متعلق عصر حاضر میں بہت کچھ لکھا گیا ہے ، اور لکھا جارہا ہے۔ ان تفصیلات سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ آداب القتال کے متعلق بین الاقوامی قانون کے جو قواعد عامہ ہم نے ابتدا میں ذکر کیے ہیں ، اسلامی شریعت نے ان سب کو تسلیم کیا ہوا ہے ۔ 
چنانچہ اسلامی شریعت نے حملے کے دوران میں انسانیت کے تقاضوں کی پابندی لازم ٹھہرائی ہے ۔ مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حملے کے دوران میں غیر مقاتلین کو ہدف بنانے سے منع فرمایا ، لاشوں کا مثلہ کرنے سے منع فرمایا ، لوٹ مار اور قتل عام سے منع فرمایا، امیر کی اطاعت کا حکم دیا ، جنگ کو منظم طریقے سے لڑنے کا حکم دیا، بعض مخصوص قسم کے ہتھیاروں کے استعمال کی ممانعت کی ، جنگی قیدیوں اور مفتوحین کے ساتھ حسن سلوک کی شاندار مثالیں قائم کیں، معاہدات کی پابندی کی اور کروائی ، وغیرہ وغیرہ ۔ (۳۲)
اسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ شریعت نے جنگ کو اس وجہ سے جائز ٹھہرایا ہے کہ بعض اوقات اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا، ورنہ اگر پر امن طریقوں سے مسئلہ حل ہوسکتا ہے تو شریعت نے پر امن طریقے اپنانے کی ہدایت کی ہے ۔ مثال کے طور پر فقہا کی غالب اکثریت نے قرار دیا ہے کہ غیر مسلموں سے جنگ کا حکم اس وجہ سے نہیں دیا گیا کہ وہ اسلام قبول نہیں کرتے، بلکہ اس وجہ سے ان سے جنگ کا حکم دیا گیا وہ اسلام یا مسلمانوں کے خلاف جنگ کرتے ہیں ۔ اصطلاحی الفاظ میں اس بات کی تعبیر یوں کی جاتی ہے کہ قتال کی علت کفر نہیں بلکہ محاربہ ہے ۔ (۳۳) اسی طرح شریعت نے لازم ٹھہرایا ہے کہ جنگ سے پہلے مخالف فریق کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جائے ، اگر ان تک اسلام کی دعوت پہلے ہی نہ پہنچ چکی ہو۔ اسی طرح ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا : 
لا تقاتلھم حتی تدعوم ھم ۔ فان أبوا فلا تقاتلوھم حتی یبدء وکم ۔ فان بدء وکم فلا تقاتلوھم حتی یقتلوا منکم قتیلا ۔ ثم أروھم ذلک القتیل و قولوا لھم : ھل الی خیر من ھذا سبیل ؟ فلأن یھدی اللہ تعالیٰ علی یدیک خیر لک مما طلعت علیہ الشمس وغربت (۳۴) 
[ان سے جنگ نہ کرو جب تک کہ ان کو دعوت نہ دو ۔ اگر انہوں نے دعوت کی قبولیت سے انکار کیا تو ان سے جنگ نہ کرو جب تک کہ وہ شروع نہ کریں ۔ پھر اگر وہ جنگ شروع کریں تو ان سے نہ لڑو یہاں تک کہ وہ تم میں کسی کو قتل کرلیں ۔ پھر انہیں مقتول کی لاش دکھا کر کہو : کیا اس سے بہتر کی طرف کوئی راہ نکل سکتی ہے ؟ پس اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعے کسی کو ہدایت نصیب کرے تو یہ تمہارے لیے اس سب کچھ سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع اور غروب ہوا۔ ] 
تاہم شریعت نے فوجی ضرورت کے قاعدے کو بھی تسلیم کیا ہوا ہے ۔ چنانچہ بعض مخصوص شرائط کے ساتھ شریعت نے دشمن پر شب خون کی اجازت دی ہے حالانکہ اس میں غیر مقاتلین کے نشانہ بننے کا احتمال بھی ہوتا ہے ۔ اسی طرح اگر کسی قلعے میں مسلمانوں کا کوئی قیدی ہو اور اس قلعے پر حملہ ناگزیر ہو تومسلمان اس قلعے پر حملہ کرسکتے ہیں اگر چہ اس میں احتمال ہوتا ہے کہ حملے کی زد میں وہ مسلمان قیدی بھی آجائے ۔ اس قسم کے حملوں میں مسلمان جن شرائط کا خیال رکھیں گے ان میں اہم ترین یہ ہیں کہ جن لوگوں کو ہدف بنانا ناجائز ہے ( مثلاً غیر مقاتلین یا مسلمان قیدی)ان کو عمداً نشانہ نہ بنایا جائے ، ان پر حملے کی نیت نہ کی جائے ، انہیں جہاں تک بچایا جاسکتا ہو بچانے کی کوشش کی جائے ، حملے کو جائز ہدف تک ہی محدود رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ فوجی ضرورت یا اضطرار کے ساتھ ساتھ شریعت نے جائز ضمنی نقصان اور تناسب کے اصولوں کو بھی تسلیم کیاہوا ہے ۔ 
جہاں تک انفرادی فوجداری ذمہ داری ( Individual Criminal Responsibility) کے اصول کا تعلق ہے شریعت نے اسے بھی تسلیم کیا ہے اور صراحتاً قرار دیا ہے کہ جن کاموں کو شریعت نے حرام ٹھہرایا ہے ان کا ارتکاب اس بنیاد پر جائز نہیں ہوسکتا کہ ان کے ارتکاب کا حکم حاکم یا امیر نے دیا ہے اور حاکم یا امیر کی اطاعت لازم ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح اور قطعی الفاظ میں یہ اصول بیان کیا ہے کہ کسی مخلوق کی اطاعت کسی ایسے کام میں جائز نہیں جس سے خالق نے منع کیا ہو ۔ 
لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ اللہ عز و جل (۳۵) 
[ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے ۔ ] 
ایک موقع پر صحابہ کے ایک فوجی دستے کے امیر نے طیش میں آکر آگ لگا کر اپنے ماتحتوں کو حکم دیا کہ اس آگ میں داخل ہوں ، اور دلیل یہ دی ان پر اپنے امیر کی اطاعت لازم ہے ۔ ماتحتوں نے اس حکم کو ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ ہم تو آگ سے بچنے کے لیے ہی مسلمان ہوئے ہیں۔ بعد میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: 
لو دخلوھا ما خرجوا منھا أبداً ، انما الطاعۃ فی المعروف لا فی المنکر (۳۶) 
[ اگر وہ اس میں داخل ہوتے تو کبھی اس سے نہ نکلتے ۔ اطاعت صرف جائز کام میں ہے نہ کہ ناجائز کام میں ۔ ] 
اسی طرح یہ اصول بھی شریعت نے تسلیم کیا ہوا ہے کہ امیر اپنے ماتحتوں کے عمل کے لیے ذمہ دار ہوتا ہے ۔ چنانچہ جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بنو جذیمہ کے لوگوں کو غلط فہمی کی بنیاد پر قتل کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولین کا خون بہا بھی ادا کیا اور ان کو پہنچنے والے مالی نقصان کی بھی تلافی کی ، باوجود اس کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اس کام کی اجازت نہیں دی تھی ۔ (۳۷)
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد شکنی اور غدر کو انتہائی شدید الفاظ میں منع فرمایا ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ جنگی چالوں کی اجازت اپنے فعل سے بھی دی ہے اور قول سے بھی ۔ چنانچہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا : 
الحرب خدعۃ (۳۸)
[جنگ چالبازی کا نام ہے ۔ ] 
شریعت کی روشنی میں ناجائز غدر اور جائز جنگی چال میں کیسے فرق کیا جائے گا ؟ اس مسئلے پر آگے تفصیلی بحث آرہی ہے ۔ 
اس سے معلوم ہوا کہ آداب القتال کے متعلق بین الاقوامی قانون اپنے اصول عامہ اور قواعد عامہ کے لحاظ سے اسلامی قانون کے عین مطابق ہے ۔ اگر دونوں نظامہائے قوانین میں کسی جزئیے میں کہیں اختلاف آرہا ہو تو وہ الگ بات ہے، لیکن بنیادی طور پر ان میں توافق اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ بلکہ بعض اوقات وضعی قانون کی بہ نسبت اسلامی قانون میں زیادہ پابندیاں پائی جاتی ہیں ۔ مثال کے طور پر بین الاقوامی قانون کی رو سے خود کش حملوں کے جواز یا عدم جواز کی بحث میں اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں کہ خود کشی جائز ہے یا ناجائز ؟ تاہم جب اس قسم کے حملوں کے جواز یا عدم جواز پر اسلامی قانون کی رو سے بحث کی جاتی ہے تو یہ سوال بہت اہم ہوتا ہے کہ کیا اس قسم کا حملہ ’’خود کشی ‘‘ہے یا نہیں کیونکہ اسلامی شریعت کی رو سے خودکشی ایک بہت بڑا گناہ ہے؟ 
ان بنیادی اصولوں میں توافق اور ہم آہنگی کے باوجود بعض مسائل ایسے ہیں جن میں عصر حاضر کے تناظر میں ان دونوں نظام ہائے قوانین کے درمیان تفصیلی موازنہ ضروری ہے ۔ 

فصل سوم : مقاتلین اور غیر مقاتلین کی حیثیت کے تعین کا مسئلہ 

دونوں نظام ہائے قوانین نے لازم ٹھہرایا ہے کہ حملے کا جائز ہدف صرف مقاتلین ہی ہوسکتے ہیں اور حتی الامکان اس بات کی کوشش کی جائے گی کہ غیر مقاتلین حملے کی زد میں نہ آئیں ۔ تاہم مقاتل اور غیر مقاتل کے تعین کے اصولوں میں بظاہر اختلاف نظر آتا ہے ۔ جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ، مبنی بر انسانیت بین الاقوامی قانون کی رو سے ’’غیر مقاتل ‘‘ (Non-Combatant) اور ’’شہری ‘‘ یا ’’غیر فوجی ‘‘(Civilian) تقریباً مترادف اصطلاحات ہیں ۔ اس قانون کی رو سے باقاعدہ فوجی یا جنگجو تو مقاتل ہیں الا یہ کہ وہ کسی وجہ سے جنگ سے باہر ہوجائیں ، اور عام شہری ، خواہ مرد ہوں یا عورتیں ، غیر مقاتل ہیں ، الا یہ کہ وہ جنگ میں باقاعدہ حصہ لیں۔ اس کے برعکس فقہاء کے نصوص پر سرسری نظر دوڑائی جائے تو بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک برسر جنگ قوم کا ہر عاقل بالغ مرد اصلاً مقاتل ہے ، الا یہ کہ کسی اور سبب سے اسے مقاتل نہ سمجھا جائے ، اور نا بالغ بچے اور عورتیں غیر مقاتلین ہیں الا یہ کہ وہ جنگ میں حصہ لیں ۔ عورتوں کو اصلاً غیر مقاتلین میں شمار کرنے سے تو اتنے بڑے مسائل پیدا نہیں ہوتے لیکن تمام مردوں کو اصولاً مقاتلین فرض کرنے سے بظاہر بڑے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ۔ تاہم اگر اس اصول کا تفصیلی قانونی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی اسلامی شریعت اور بین الاقوامی قانون میں توافق اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ 
مردوں کو فقہانے اس وجہ سے اصولاً مقاتلین میں شمار کیا کہ زمانۂ قدیم میں، جبکہ فقہا نے اسلامی قانون کے اصولوں کا استخراج کیا ، جنگوں میں بنیادی کردار مرد ہی ادا کرتے تھے اور کسی قوم کے تقریباً تمام ہی عاقل بالغ مرد جنگ میں حصہ لیتے تھے۔ البتہ بعض حالات کی وجہ سے بعض مرد جنگ میں حصہ نہ لے پاتے تو فقہاان کو مقاتلین میں شمار نہیں کرتے تھے۔ مثلاً فقہا نے ایک طرف یہ اصول طے کیا ہے کہ ہر مرد مقاتل ہے اور دوسری طرف یہ بھی قرار دیا ہے کہ دشمن کے علاقے میں داخل ہونے والے تاجر غنیمت میں حصہ لینے کے مستحق نہیں ہیں کیونکہ وہ قتال میں حصہ لینے کے لیے نہیں بلکہ تجارت کے لیے وہاں جاتے ہیں ۔ پس وہ صرف اسی صورت میں غنیمت میں حصہ لینے کے مستحق ہوں گے جب وہ قتال میں باقاعدہ شرکت کریں ۔ امام سرخسی اس حکم کے پیچھے کارفرما قانونی اصول کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں : 
فانھم کانوا تجاراً قبل ھذا ، لا غزاۃً (۳۹) 
[ کیونکہ وہ قتال میں حصہ لینے سے پہلے تاجر تھے ، نہ کہ غازی ۔ ] 
پس اصل قاعدہ یہ ہے کہ مقاتل اور غیر مقاتل کی حیثیت کا تعین کسی شخص کی جنس سے نہیں بلکہ اس کے قتال میں حصہ لینے یا نہ لینے سے ہوتا ہے ۔ چونکہ اس زمانے میں بالعموم تمام مرد قتال میں حصہ لیتے تھے اس لیے مفروضہ یہ ہوتا تھا کہ تمام مرد مقاتلین ہیں الا یہ کہ ان کا غیر مقاتل ہونا ثابت ہو ۔ 
اس مسئلے کا تجزیہ ایک اور پہلو سے بھی کیا جاسکتا ہے ۔ غیر مقاتلین کی ممانعت کا حکم کہاں سے اخذ کیا گیا ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگوں میں عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا ۔ (۴۰) اہل ظاہر قرار دیتے ہیں کہ اصلاً جنگ میں ہر غیر مسلم کا قتل جائز ہے ، سوائے عورتوں اور بچوں کے ۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ سورۃ التوبۃ میں تمام مشرکین کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت گویا قاعدے سے استثنا ہے ۔ (۴۱) اس کے برعکس جمہور فقہا عورتوں اور بچوں کے علاوہ دیگر ایسے لوگوں کو بھی غیر مقاتلین میں شمار کرتے ہیں جو جنگ میں حصہ نہیں لیتے مثلاً شیخ فانی، خانقاہ میں باقی دنیا سے الگ تھلگ رہنے والے راہب ، کھیتوں میں کام کرنے والے کسان وغیرہ ۔ (۴۲) اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض دیگر احادیث ، جو متشدد روایت پسندوں کے نزدیک قابل قبول نہیں ہیں ، میں ان لوگوں کا بھی ذکر آیا ہے ۔ نیز خلفاے راشدین کے فرامین اور احکامات میں بھی یہ استثناء ات مذکور ہیں ۔ 
سوال یہ ہے کہ اگر سورۃ التوبۃ کی آیت ۵ کے حکم فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم  [پس مشرکین کو قتل کرو جہاں بھی ان کو پاؤ ] کو عام حکم مانا جائے تو ان احادیث اور خلفا کے فرامین نے اس عام کی تخصیص کیسے کردی ؟ یہ سوال شافعی فقہا کے لیے اتنا اہم نہیں ہے کیونکہ ان کے نزدیک عام ظنی الدلالۃ ہوتا ہے جس کی تخصیص خبر واحد ، بلکہ قیاس ، کے ذریعے بھی ہوسکتی ہے ۔ تاہم احناف کے نزدیک عام قطعی الدلالۃ ہوتا ہے اور اس کی پہلی تخصیص کے لیے قطعی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ البتہ پہلی تخصیص کے بعد احناف کے نزدیک بھی مزید تخصیص خبر واحد اور قیاس کے ذریعے ہوسکتی ہے کیونکہ ’’عام مخصوص منہ البعض ‘‘ ان کے نزدیک بھی ظنی الدلالۃ ہوجاتا ہے۔ (۴۳) یہاں اس عام حکم کی تخصیص اس آیت کریمہ کے معاً بعد آنے والی آیت نے کر دی ہے : 
وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَأَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلاَمَ اللّٰہِ ثُمَّ أَبْلِغْہُ مَأْمَنَہُ (سورۃ التوبۃ ، آیت ۶ ) 
[ اگر ان مشرکین میں کوئی تم سے امان مانگے تو اسے امان دو تاکہ وہ اللہ کا کلام سن لے ۔ پھر اسے اس کے امان کی جگہ تک پہنچاؤ ۔ ] 
اس آیت نے واضح کیا کہ ماسبق آیت میں لفظ ’المشرکین‘ بظاہر عام ہے لیکن درحقیقت عام نہیں ہے ، بلکہ اس سے ایک مخصوص گروہ مراد ہے کیونکہ مستامن کو قتل کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ وہ مشرک ہو ۔ گویا ما سبق آیت میں مذکور حکم کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ’’ تمام مشرکین ‘‘ کو قتل کرو ۔ اب جب لفظ ’المشرکین‘ عام نہیں رہا تو دیگر دلائل احادیث مبارکہ ، صحابہ کرام کے فیصلوں اور قیاس کے ذریعے اس بظاہر عام حکم کی مزید تخصیص ہوسکتی ہے۔ 
باقی رہا یہ سوال کہ عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں ، راہبوں اور کسانوں کو اس حکم سے کیوں مستثنیٰ کیا گیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہیں مستثنیٰ کرنے کی وجہ وہی ہے جو مستامن کو مستثنی کرنے کی ہے ۔ جیسے مستامن مسلمانوں سے لڑتا نہیں بلکہ ان سے امن کا معاہدہ کرتا ہے اسی طرح یہ لوگ بھی جنگ میں حصہ نہیں لیتے ۔ بہ الفاظ دیگر ، یہ لوگ ’’غیر مقاتلین‘‘ ہیں ۔ یہ علت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارک سے براہ راست بھی معلوم ہوتی ہے۔ جب آپ نے میدان جنگ میں ایک خاتون کی لاش دیکھی تو اس پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : 
ما کانت ھذہ فیمن یقاتل (۴۴) 
[یہ تو لڑنے والوں میں نہیں تھی ۔ ] 
پس جن سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے وہ صرف وہ ہیں جن کو مقاتلین کہا جاسکے ، اور جو غیر مقاتلین ہیں وہ اس حکم سے مستثنی ہوئے ۔ البتہ غیر مقاتلین میں کوئی فرد اگر قتال میں حصہ لے تو اس پر حملہ جائز ہوجاتا ہے کیونکہ جس ’’علت‘‘ کی وجہ سے اس پر حملہ ناجائز تھا وہ علت معدوم ہوگئی ، یا یوں کہیے کہ جس ’’علت ‘‘ کی وجہ سے کسی پر حملہ کرنا جائز ہوجاتا ہے وہ علت اس میں اب پائی جاتی ہے ۔ چنانچہ اگر عورت جنگ میں حصہ لے تو اسے ہدف بنایا جاسکتا ہے کیونکہ اسے استثنا عورت ہونے کی وجہ سے نہیں دیا گیا تھا بلکہ غیر مقاتلہ ہونے کی وجہ سے دیا گیا تھا اور اب وہ غیر مقاتلہ نہیں رہی ۔ 
پس اصل چیز جو دیکھنے کی ہے ، اور جس پر حکم کے وجود اور عدم کا مدار ہے ، وہ یہ ہے کہ کون جنگ میں حصہ لیتا ہے اور کون نہیں لیتا ؟ اول الذکر کو مقاتل کہا جائے گا اور ثانی الذکر کو غیر مقاتل ۔ چونکہ عصر حاضر میں جنگوں میں ، ماسوائے استثنائی حالات کے ، عام شہری حصہ نہیں لیتے اس لیے عام شہریوں کو غیر مقاتلین ہی کہا جائے گا جب تک وہ جنگ میں باقاعدہ حصہ نہ لیں ۔ 
یہاں یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ ’’ جنگ میں باقاعدہ حصہ لینے ‘‘ سے کیا مراد ہے ؟ بعض لوگوں کی جانب سے یہ رائے سامنے آئی ہے کہ چونکہ فوج کے اخراجات ان ٹیکسوں سے پورے کیے جاتے ہیں جو حکومت اپنے شہریوں پر لگاتی ہے، اس لیے ہر وہ شخص مقاتل ہے جو حکومت کو ٹیکس ادا کرتا ہے کیونکہ اس طرح وہ مال کے ذریعے قتال میں حصہ لے رہا ہے۔ اسی طرح ان لوگوں کے نزدیک وہ تمام دانشور ، ماہرین اور اہل علم بھی مقاتل شمار ہوں گے جن کی آرا یا نظریات کسی بھی طور پر جنگ میں ممد و معاون ہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس رائے کو تسلیم کیا گیا تو پورے اسلامی آداب القتال کا حلیہ ہی تبدیل ہوجائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی جنگوں کے لیے سرمائے کی ضرورت ہوتی لیکن کیا انہوں نے ہر اس شخص کو مقاتل قرار دیا جس نے جنگ کے لیے فنڈ میں ذرا سا بھی حصہ ڈالا ہو ؟ ہر شخص جانتا ہے کہ غزوۂ بدر میں شکست کے بعد اہل مکہ کے ہر مرد و عورت نے بدلے کے لیے تیاری میں بھرپور حصہ لیا اور غزوۂ احد کے لیے باقاعدہ Fund Raising ہوئی۔ خود قرآن کریم اس پر گواہ ہے : 
إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوا یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ لِیَصُدُّوا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَسَیُنفِقُونَہَا ثُمَّ تَکُونُ عَلَیْْہِمْ حَسْرَۃً ثُمَّ یُغْلَبُونَ (سورۃ الانفال ، آیت ۳۶ ) 
[کفر کرنے والے اپنا مال اس مقصد سے خرچ کررہے ہیں کہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکیں ۔ پس وہ اسے خرچ تو کرلیں گے ، پھر یہ ان کے لیے سرمایۂ حسرت بنے گا ، پھر وہ مغلوب ہو جائیں گے ۔ ] 
اس سے بھی آگے بڑھ کر مشرکین کی عورتیں اپنے مردوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے میدان جنگ میں بھی آئیں اور شعر اور نغمے گا گا کر مردوں کے جذبات کو برانگیختہ کرتی رہیں ۔ اس کے باوجود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں پر حملہ کرنے سے منع فرمایا ۔ 
یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتی بلکہ اس کے لیے مادی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ شریعت نے مباشر اور متسبب میں فرق کیا ہے یا نہیں ؟ پھر دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ایک سبب کے وجود میں آنے کے بعد نتیجہ نمودار ہونے سے پہلے درمیان میں ایک اور سبب طاری ہوجائے تو فعل کی نسبت کس کی طرف کی جائے گی ؟ اگر ایک سبب کا کوئی نتیجہ برآمد ہو اور وہ نتیجہ ایک اور فعل کا سبب بنے تو یہ آخری فعل سبب اول کی طرف منسوب ہوگا یا سبب ثانی کی طرف ؟ کیا نتیجے اور سبب کے درمیان رابطہ سببیہ (Causal Link) ثابت کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟ اسباب کا یہ سلسلہ کہاں روکا جائے گا ؟ کیا شہد کی مکھی کے باغ میں داخل ہونے کو پروانے کے خونِ ناحق کا اس بنا پر سبب قرار دیا جاسکتا ہے کہ نہ وہ باغ میں داخل ہوتی نہ رس چوستی ، نہ اس سے موم بنتا ، نہ موم بتی وجود میں آتی ، نہ موم بتی جلائی جاتی ، نہ ہی پروانے اس پر نثار ہوتے ؟ 
پس جن لوگوں کا جنگ کی تیاری میں براہ راست حصہ ہو ، جنہیں جنگ کا ’’متسبب‘‘ قرار دیا جاسکے ، جن کے فعل اور جنگ کے درمیان رابطہ سببیہ ثابت کیا جاسکے ، جن کے فعل اور جنگ کے درمیان کوئی اور قوی سبب طاری نہ ہوا ہو ، ان کو یقیناًجنگ کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے خواہ انہوں نے باقاعدہ ہتھیار نہ اٹھائے ہوں ۔ کعب بن الاشرف کو مقاتل قرار دیا گیا تو محض اس وجہ سے نہیں کہ اس نے غزوۂ بدر میں قریش کے مقتولین کا مرثیہ کہا تھا ، بلکہ دراصل اس نے اپنی اس شاعری اورخطابت کے زور پر مشرکین مکہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کے لیے ابھارا تھا اور اس کے لیے باقاعدہ مہم چلائی تھی اور منصوبہ بندی میں حصہ لیا تھا ۔ (۴۵) نیز اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کی تھیں جو نص قرآنی کے بموجب ’’طعن فی الدین‘‘ ہونے کے سبب سے قتال کی علت میں شامل ہے۔ (۴۶) اسی سبب سے ابو عزہ شاعر کو سزاے موت سنائی گئی کہ وہ قریہ قریہ جا کر اپنے اشعار کے ذریعے لوگوں کو جنگ کے لیے اکٹھا کرتا رہا ، اور ساتھ ہی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجو میں شعر کہتا تھا۔ اسی طرح عمر رسیدہ درید ابن الصمہ کو مقاتل شمار کیا گیا کیونکہ اس نے جنگ کی منصوبہ بندی میں باقاعدہ حصہ لیا تھا اور جنگ کی ابتدا میں مسلمانوں کو جو سخت جانی نقصان ہوا، اس میں درید کے مشوروں نے اہم کردار ادا کیا تھا ۔ (۴۷) پس مقاتلین میں کچھ تو وہ لوگ ہیں جن کو ’’مباشر ‘‘ کی حیثیت حاصل ہے ، یعنی جنگجو یا فوجی، اور کچھ وہ ہوتے ہیں جن کو ’’ متسبب‘‘ کی حیثیت حاصل ہے ۔ اس ثانی الذکر گروہ میں صرف انہی کو شامل کیا جاسکتا ہے جن پر جنگ کی براہ راست ذمہ داری ڈالی جاسکے ۔ یہی اصول بین الاقوامی قانون کا بھی ہے ۔ مثال کے طور پر ریاست کا سربراہ جنگ میں فوجی کے طور پر حصہ نہیں لیتا لیکن اس کے باوجود جنگ شروع کرنے اور جنگ کے دوران میں کیے جانے والے بعض کاموں کے لیے اسے ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور بعض کے لیے ذمہ داری اس پر نہیں ڈالی جاتی ۔ 
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت کو جو ٹیکس ادا کیا جاتا ہے وہ خالصتاً جنگ کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس پر حکومت اور ریاست کا پورا نظام چلایاجاتا ہے اور اس کا کچھ ہی حصہ جنگ کے مصارف پر بھی خرچ کیا جاتا ہے ۔ جو لوگ ٹیکس دیتے ہیں، وہ لازماً اس نیت سے نہیں دیتے کہ اس کو جنگ پر خرچ کیا جائے، بلکہ ان میں سے کئی لوگ جنگ کے مخالف بھی ہوتے ہیں۔ عراق پر حملے کے خلاف جتنے بڑے مظاہرے خود امریکہ میں ہوئے اس کے عشر عشیر کے برابر بھی پاکستان سمیت کسی مسلمان ملک میں نہیں ہوئے ۔ کیا ان جنگ کے مخالفین کو بھی ’’مقاتلین‘‘ میں شمار کیا جائے گا کیونکہ یہ جب ٹیلی فون کا بل ادا کرتے ہیں تو اس ضمن میں حکومت کو ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں ؟ پس عام شہریوں کو محض اس بنا پر مقاتلین میں شمار کرنا کہ وہ حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں بدیہی طور پر غلط ہے ۔ 

فصل چہارم : مقاتل کی حیثیت کے لیے چار شرائط 

یہاں ایک اور مسئلہ بھی اہمیت رکھتا ہے ۔ ہم نے اوپر ذکر کیا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ’’مقاتل ‘‘کی حیثیت اسی شخص کو دی جاتی ہے جو چند مخصوص شرائط پوری کرے ۔ ان شرائط کو پورا کیے بغیر کوئی شخص جنگ میں حصہ نہیں لے سکتا ۔ شریعت کی رو سے ان شرائط کی کیا حیثیت ہے ؟ اصولی طور پر ، جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ، مسلمان اگر آداب القتال کے تعین کے لیے معاہدہ کرلیں تو جب تک وہ معاہدہ برقرار رہتا ہے مسلمانوں پر اس کی پابندی لازم ہوتی ہے البتہ مسلمان معاہدے میں کسی ایسی شرط کو نہیں مان سکتے جس کے ماننے سے شریعت کی خلاف ورزی لازم آتی ہو ۔ پس اصولاً اس قسم کے شرائط طے کرنا صحیح ہے ۔ اگر کسی کو کسی شرط پر اعتراض ہے تو اس شرط کا بطلان ثابت کرنا اسی کی ذمہ داری ہے ۔ ہماری ناقص رائے میں ان چاروں شرائط میں کوئی شرط بھی شریعت سے متصادم نہیں ہے ۔ 
یہ شرط کہ قتال میں حصہ لینے والے خود کو غیر مقاتلین سے ممیز کرنے کے لیے کوئی امتیازی لباس یا نشان استعمال کریں ، جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ، دھوکہ دہی (Perfidy) کی ممانعت کا لازمی تقاضا ہے ۔ اس پر شریعت کی روشنی میں تفصیلی بحث ہم آگے غدر اور خدعہ میں فرق کے ضمن میں کریں گے ۔ جہاں تک اس شرط کا تعلق ہے کہ مقاتل کی حیثیت اسی جنگجو کو حاصل ہوگی جو آداب القتال کی پابندی کرے تو ظاہر ہے کہ جن آداب القتال کی پابندی شرعاً لازم ہے ان کے متعلق کوئی دو رائیں نہیں ہوسکتیں ، اور جن اضافی آداب کی پابندی بین الاقوامی معاہدات کے ذریعے لازم ٹھہرائی گئی ہے ان کے متعلق بھی ہم نے تفصیل سے واضح کیا کہ اسلامی شریعت کی رو سے مسلمانوں کو اجازت ہے کہ اس قسم کے معاہدات کریں اور یہ کہ وہ ان معاہدات پر عمل کے پابند ہوں گے ۔ البتہ باقی دو شرائط پر ذرا تفصیلی بحث کی ضرورت ہے ۔ 

ذمہ دار کمان کے تحت لڑائی کی شرط 

درحقیقت یہ شرط شریعت کے مقتضیات کے عین مطابق ہے ۔ یہ شرط اصل میں اس مقصد کے لیے رکھی گئی ہے کہ جنگ منظم طریقے سے ہو اور لوٹ مار اور دہشت گردی یا رہزنی کی سی صورت پیدانہ ہو ۔ زمانۂ جاہلیت میں رائج جنگ کے طور طریقوں میں شریعت نے جو اصلاحات کیں ان میں ایک اہم اصلاح یہ ہے کہ اس نے جنگ کو منظم کیا اور حکمران اور امیر کی اطاعت میں جنگ کا حکم دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: 
الغزو غزوان ۔ فاما من ابتغی وجہ اللہ و أطاع الامام و أنفق الکریمۃ و اجتنب الفساد فان نومہ و نبھتہ أجر کلہ ۔ و أما من غزا ریاء و سمعۃ و عصی الامام و أفسد فی الأرض فانہ لا یرجع بالکفاف (۴۸)
[جنگیں دو قسم کی ہیں : جس شخص نے خاص اللہ کی خوشنودی کیلیے جنگ کی ، امام کی اطاعت کی ، اپنا بہترین مال خرچ کیا اور فساد سے اجتناب کیا اس کا سونا اور جاگنا سب اجر کا مستحق ہے ۔ اور جس نے دکھاوے اور شہرت کے لیے جنگ کی ، امام کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد پھیلایا تو وہ برابر بھی نہیں چھوٹے گا ۔ ] 
ایک اور موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
من أطاعنی فقد أطاع اللہ ، و من یطع الأمیر فقد أطاعنی ، و من یعص الأمیر فقد عصانی ۔ و انما الامام جنۃ یقاتل من ورآۂ و یتقی بہ ۔ فان أمر بتقوی اللہ و عدل فان لہ بذلک أجرا ، و ان قال بغیرہ فان علیہ منہ (۴۹)
[جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ،اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی، اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ۔ امام تو ڈھال ہے جس کے پیچھے رہ کر جنگ کی جاتی ہے اور جس کے ذریعے اپنا بچاؤ کیاجاتا ہے ۔ پس اگر وہ اللہ سے ڈرنے کا حکم دے اور عدل کرے تو اس سب کا جر اسے ملے گا ، اور اگر وہ اس کے سوا کچھ اور حکم دے تو اس کا وبال بھی اس پر آئے گا ۔ ] 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی واضح فرمایا کہ حاکم چاہے اچھا ہو یا برا جہاد اسی کی امارت میں کیا جائے گا: 
الجھاد واجب مع کل أمیر برا کان او فاجرا (۵۰)
[جہاد ہر امیر کے ساتھ ، چاہے وہ نیک ہو یا بد ، واجب ہے ]
ایک اور موقع پر فرمایا: 
لا یدخل الجنۃ الا نفس مسلمۃ و ان اللہ لےؤید ھذا الدین بالرجل الفاجر (۵۱) 
[جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے ، البتہ اللہ تعالی اس دین کی مدد کسی فاجر شخص سے بھی کرتا ہے ۔ ] 
اسی بنا پر تمام فقہا نے قرار دیا کہ جہاد حکمران کی اطاعت میں کیاجائے گا ۔ امام ابو حنیفہ کے عظیم المرتبت شاگرد اور اپنے عہد کے چیف جسٹس امام ابو یوسف نے صراحتاً قرار دیا ہے کہ کوئی جہادی کاروائی حکمران یا اس کے نائب کی اجازت کے بغیر نہیں کی جائے گی ۔ 
لا تسری سریۃ بغیر اذن الامام (۵۲)
[کوئی لشکرکشی امام کی اجازت کے بغیر نہیں کی جائے گی ۔ ] 
مشہور حنبلی فقیہ ابن قدامہ کا قول ہے : 
و أمر الجھاد موکول الی الامام و اجتھادہ ، و یلزم الرعیۃ طاعتہ فیما یراہ من ذلک (۵۳)
[جہاد کا معاملہ امام اور اس کے اجتہاد کے حوالے ہے ، اوروہ اس معاملے میں جو فیصلہ کرے رعیت پر لازم ہے کہ اس کی اطاعت کرے ۔ ] 
بلکہ ، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ، امام محمد بن الحسن الشیبانی نے تو صراحت کی ہے کہ ہم اسی قاعدے کو غیرمسلموں پر بھی لاگو کریں گے ۔ چنانچہ اگر کسی غیر مسلم ملک کے چند افراد نے اسلامی ملک کے کسی علاقے پہ حملہ کیا تو حملہ آوروں کے خلاف تو کارروائی کی جائے گی لیکن اسے اس ملک کی جانب سے حملہ اس وقت تک نہیں تصور کیا جائے گا جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ یہ حملہ اس ملک کی حکومت کی اجازت سے ہوا ہے۔ 
یہ قاعدہ اور اصول کہ جنگی کاروائی حکومتی نظم کے تحت ہو صرف حملے ہی کے لیے نہیں بلکہ دفاع میں بھی اصول یہی ہے ۔ جب مسلمان ملک پر حملہ ہو تو حکومت ہی مدافعت کرے گی اور وہی مختلف محاذوں پر فوجیں بھیجے گی ۔ اسی طرح حکومت ہی نفیر عام کا فریضہ ادا کرے گی ، یعنی وہی اعلان کرے گی کہ سارے ہی لوگ دفاع کے لیے اٹھ جائیں۔ (۵۴) مزید برآں فقہا نے اس کی بھی صراحت کی ہے جنگ سے متعلق دیگر جتنے امور ہیں ۔۔۔ جیسے مقبوضہ علاقوں اور آبادی نیز جنگی قیدیوں کے مستقبل کے متعلق فیصلہ ، جنگ بندی یا مستقل امن کا معاہدہ طے کرنا وغیرہ ۔۔۔ تو یہ سب حکومت کے کرنے کے کام ہیں۔ (۵۵)
البتہ یہاں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے : 
ایک یہ کہ موجودہ دور میں اس شرط سے عام طور پر نتیجہ یہ اخذ کیاجاتا ہے کہ یہ حکومت کا حق (Prerogative)ہے ، جبکہ اس کے برعکس فقہاء جہاد کو حکومت کا فریضہ قرار دیتے ہیں۔ ظاہر ہے فریضے کو حق میں تبدیل کرنے سے پورا مفہوم اور مدعا ہی بدل جاتا ہے ۔
دوسری یہ کہ بعض استثنائی صورتیں ایسی ہیں جن میں یہ شرط ساقط ہوجاتی ہے ، یا تو اس وجہ سے کہ اس شرط پر عمل ممکن ہی نہیں رہ جاتا اور یا اس وجہ سے کہ اس شرط کا شرعی بدل موجود ہوتا ہے ۔ ان صورتوں کی کچھ وضاحت یہاں کی جاتی ہے ۔ 
اولاً: اچانک حملہ (Surprise Attack) اور حق دفاع شخصی (Right of Private Defense) 
اگر حملہ اچانک ہو اور مرکزی حکومت یا اس کے نائبین کے ساتھ رابطہ ممکن نہ ہو ، یا اس میں بہت سخت نقصان کا اندیشہ ہو تو پھر حملے کی زد میں آئے ہوئے لوگ خود ہی مدافعت کا فرض ادا کریں گے اور ان کے لیے حکومت یا کسی بھی شخص کی اجازت ضروری نہیں ہوگی ۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ ایسی صورت میں دفاع کا فریضہ فرض عینی کی حیثیت حاصل کرلیتا ہے ، اور فرض عینی کی ادائیگی میں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔(۵۶) دوسرا سبب اس کا یہ ہے کہ ایسی صورت میں دفاع صرف فریضہ ہی نہیں بلکہ حق بھی ہوتا ہے ۔ اپنی جان ، مال اور عزت بچانا ہر شخص کا حق ہے اور حملہ آور کے خلاف اس کے حملے کو روکنے اور خطرہ دفع کرنے کے لیے طاقت کا استعمال بھی ہر انسان کا حق ہے ۔ اس لیے اس سلسلے میں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ (۵۷) اس کی ایک مثال حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کی کاروائی ہے جو انہوں نے اچانک حملہ کرنے والوں کے خلاف کی تھی اور جس کے لیے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے موقع پر یا پیشگی اجازت نہیں لی تھی۔ (۵۸)
ثانیاً: حکومت کی خاموش تائید جو اجازت کے قائم مقام ہوجاتی ہے :
بعض اوقات کسی فرد یا جتھے کو حکومت باقاعدہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ مخالفین کے خلاف فوجی کاروائی کرے ۔ تاہم حکومت کے مختلف اقدامات ، بلکہ بعض اوقات اس کی خاموشی بھی ، اجازت کے قائم مقام ہوجاتی ہے ۔ اس اجمال کی تفصیل امام سرخسی نے یوں بیان کی ہے کہ مخالفین کے خلاف کاروائی کرنے والے چار طرح کے ہوسکتے ہیں: یا تو وہ ایک یا چند ہی افراد ہوں گے جو کچھ خاص فوجی اور سیاسی طاقت (منعۃ) نہ رکھتے ہوں ؛ یا وہ ایک مضبوط جتھے کی صورت میں جو منعۃ رکھتے ہوں کاروائی کریں گے ۔ پھر ہر دو صورتوں میں انہیں یا تو حکومت کی اجازت حاصل ہوگی یا نہیں ہوگی ۔ 
۱۔ پس اگر وہ چند ہی لوگ ہوں جو منعۃ نہ رکھتے ہوں اور انہیں حکومت کی اجازت بھی حاصل نہ ہو تو سرخسی کے الفاظ میں وہ گویا چوروں اور ڈاکووں کی طرح (علی سبیل التلصص) وہاں گئے ہیں ۔ اگر وہ وہاں پھنس جائیں تو مسلمانوں کی حکومت پر ان کی مدد واجب نہیں ہوگی اور اگر وہ کچھ مال حاصل کرلیں تو اسے مال غنیمت کی حیثیت بھی حاصل نہیں ہوگی ، کیونکہ مال غنیمت اس مال کو کہا جاتا ہے جو اعلاء کلمۃ اللہ کی راہ میں مل جائے اور جسے مقصود اصلی کی حیثیت حاصل نہ ہو۔ 
۲۔ اگر وہ چند ہی لوگ ہوں اور انہیں حکومت نے اجازت دی ہو تو ان کی حیثیت حکومت کے نمائندوں یا جاسوسوں یا چھاپہ مار دستوں کی ہوگی۔ ان کی مدد بھی حکومت پر واجب ہوگی اور انہیں جو مال وغیرہ ملے، اس کی حیثیت مال غنیمت کی ہوگی۔ 
۳۔ اگر بہت سارے لوگ جو منعۃ بھی رکھتے ہوں حکومت کی اجازت سے دوسرے ملک میں کارروائی کریں تو ان کی حیثیت فوج کے مختلف دستوں کی ہوگی ۔ حکومت پر ان کی نصرت واجب ہوگی اور جو مال وہ حاصل کریں، وہ مال غنیمت متصور ہوگا ۔
۴۔ اگر بہت سارے لوگ جو منعۃ بھی رکھتے ہوں دوسرے ملک میں کاروائی کریں لیکن انہیں حکومت نے باقاعدہ صریح اجازت نہ دی ہو تب بھی قانوناً پوزیشن یہی ہوگی کہ ان کی حیثیت فوج کے مختلف دستوں کی ہوگی ۔ اس کی وجہ سرخسی نے یہ ذکر کی ہے کہ ایک مضبوط جتھا جو فوجی طاقت اور شوکت کا حامل ہو اور وہ کاروائی کے لیے اسلامی ملک سے کسی دوسرے ملک جاتا ہے تو یہ حکومت کے علم میں آئے بغیر نہیں ہوسکتا ، اور جب حکومت نے باوجود علم کے انہیں جانے دیا تو یہ اس کی جانب سے خاموش تائید ہے جو صریح اجازت کے قائم مقام ہوجاتی ہے ۔ اس لیے حکومت پر ان کی نصرت بھی واجب ہوگی اور جو مال وہ حاصل کریں وہ مال غنیمت ہی متصور ہوگا ۔ (۵۹)
ہمارے نزدیک سرخسی کا یہ تجزیہ بالکل صحیح ہے اور اس کی روشنی میں جہادی تنظیموں کی صحیح حیثیت بہ آسانی متعین ہوجاتی ہے۔ جب حکومت نہ صرف یہ کہ لوگوں کو مسلح تنظیمیں بنانے کا موقع دیتی ہے ، بلکہ انہیں ہر قسم کی سہولیات بھی فراہم کرتی ہے ۔۔۔ ان کی ٹریننگ ، ان تک اسلحہ کی فراہمی ، ان کو سرحد پار کاروائی میں مدد دینا اور پھر واپس آنے پر محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنا، وغیرہ ۔۔۔جب ان میں سے ہر ہر مرحلہ حکومت کی تائید اور نگرانی میں طے پاتا ہو تو پھر صریح اجازت محض ایک کاغذی کاروائی (Formality) ہو جاتی ہے ۔اس کاغذی کاروائی کے بغیر بھی قانونی پوزیشن یہی ہوگی کہ ان مسلح تنظیموں کی کاروائیاں حکومت کی اجازت سے ہی متصور ہوں گی ۔
ثالثاً: اسلامی حکومت کی عدم موجودگی میں حق دفاع شخصی کے لیے منظم جدوجہد 
جیسا کہ پیچھے اشارہ کیاگیا ، کبھی کبھار شرط کی عدم موجودگی میں اس کا بدل اس کا قائم مقام بن جاتا ہے ۔ اس اصول پر اگر کبھی اسلامی ملک پر حملے کے نتیجے میں وہاں کی حکومت کا عملاً خاتمہ ہو جائے اور ابھی جنگ جاری ہو تو دفاع کا فریضہ ادا کرنے کے لیے کسی جگہ باقاعدہ نظمِ حکومت قائم کرنے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ مزاحمت کرنے والے آپس میں کسی کو امیر چن کر اس کی اطاعت کا اقرار کریں تو یہ حکومت کا بدل ہو جائے گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت اور ریاست بذات خود مقصد نہیں ، بلکہ فریضۂ دفاع و اعلاء کلمۃ اللہ کے اچھے طریقے سے انجام دینے کے لیے ایک ذریعہ ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو کسی ظالمانہ نظام سے آزادی چاہتے ہو تاکہ اپنے حقوق کا تحفظ کریں تو ان پر بھی ریاست و حکومت کے تحت لڑنے کی شرط لاگو نہیں ہوتی ، بلکہ وہ تو لڑیں گے ہی اس مقصد کے لیے کہ اپنی ریاست اور حکومت قائم کرسکیں ۔ یہ حق انہیں موجودہ بین الاقوامی قانون نے بھی دیا ہے اور شریعت نے بھی ۔ (۶۰)
امام سرخسی نے لکھا ہے کہ اگر کوئی غیرمسلم قوم مسلمانوں کے ملک پر حملہ کرے اور حملہ آور قوم کے ملک میں چند مسلمان عارضی یا مستقل طور پر مقیم ہوں تو ان پر جہاد کا فریضہ عائد نہیں ہوتا ۔ جہاد اور نصرت کا فریضہ اصلاً اسلامی ملک میں مقیم مسلمانوں پر ہی عائد ہوتا ہے ۔ یہ حکم اس وقت بھی ہوگا جب حملہ آور مسلمان مردوں کو قیدی بنائیں ۔تاہم اگر وہ مسلمان عورتوں اور بچوں کو قید کریں تو اب ان کا چھڑانا ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو اس کے لیے جدوجہد کی استطاعت رکھتا ہو ، چاہے وہ اس غیر مسلم ملک میں بطور مستامن ہی مقیم ہو۔ ایسی صورت میں اگر وہ مسلح کاروائی کریں گے تو اس کے لیے یہ ضروری نہیں ہوگا کہ وہ پہلے باقاعدہ حکومت قائم کریں ، بلکہ اتنا ہی کافی ہوگا کہ وہ منظم ہوکر امیر کی اطاعت میں جنگ کریں ۔ (۶۱)
جنیوا معاہدات کے تحت بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جس کمان کے تحت جنگجو جنگ میں حصہ لے رہے ہوں اس کمان کو لازماً ہی جنگ کے دوسرے فریق نے جائز تسلیم کیا ہو ، بلکہ صرف اس قدر ضروری ہے کہ کمانڈر اور جنگجو کے درمیان امیر اور مامور کا تعلق واضح طور پر موجود ہو ۔ چنانچہ تیسرے جنیوا معاہدے کی دفعہ ۴ الف کی ذیلی دفعہ ۲ کا کہنا ہے کہ مندرجہ ذیل لوگ بھی مقاتلین میں شمار ہوں گے اور گرفتار ہونے پر انہیں جنگی قیدی کی حیثیت حاصل ہوگی : 
Member of regular armed forces who profess allegiance to a government or authority not recognized by the Detaining Power. 
[ باقاعدہ فوج کے ارکان جو ایسی حکومت یا طاقت کے وفادار ہیں جسے قید کرنے والی طاقت نے تسلیم نہیں کیا ۔ ] 
اضافی پروٹوکول کی دفعہ ۴۳ میں اس اصول کو مزید وسعت دی گئی ہے اور غیر ملکی تسلط کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو بھی باقاعدہ مقاتل تسلیم کیا گیا ہے : 
The armed forces of a Party to a conflict consist of all organized armed forces, groups and units, which are under a command responsible to that Party for the conduct of its subordinates, even if that Party is represented by a government or authority not recognized by an adverse Party. Such armed forces shall be subject to an internal disciplinary system which, inter alia, shall enforce compliance with the rules of international applicable in armed conflict. 
[ تصادم کے کسی فریق کے فوجیوں میں تمام منظم فوجی ، گروہ اور یونٹ شامل ہیں جو کسی ایسی کمان کے ماتحت ہیں جو اس فریق کے سامنے اپنے ماتحتوں کے افعال کے لیے جوابدہ ہے ، خواہ اس فریق کی نمائندگی ایسی حکومت یا طاقت کرے جسے مخالف فریق نے تسلیم نہیں کیا ۔ ایسے فوجی اندرونی طور پر ایک تنظیمی ڈھانچے میں بندھے ہوں گے جو دیگر امور کے علاوہ مسلح تصادم پر لاگو ہونے والے بین الاقوامی قانون کے ضابطوں کی پابندی کو یقینی بنائے گا ۔ ] 
ہم نے اوپر یہ بھی ذکر کیا ہے کہ آزادی کی جنگ کو پہلے اضافی پروٹوکول نے ’’بین الاقوامی جنگ‘‘ قرار دیا گیا ہے حالانکہ ظاہر ہے کہ آزادی کے لیے لڑنے والوں کے امیر اور کمانڈر کو دوسرا فریق جائز تسلیم نہیں کرتا ، نہ ہی آزادی کے لیے لڑنے والے کسی ’’ریاست‘‘کی جانب سے لڑتے ہیں ۔ 
مزید برآں ، یہ بھی پیچھے ذکر کیا گیا کہ غیر ملکی حملے کی صورت میں عوامی سطح پر مزاحمت کرنے والے لوگ بھی مقاتل شمار ہوتے ہیں اگرچہ وہ باقاعدہ طور پر کسی کمان کے تحت منظم نہیں ہوئے ہوتے ۔ ایسے لوگوں کو اصطلاحی طور پر levee en masse کہاجاتا ہے ۔ 

کھلے عام ہتھیار لیے پھرنے کی شرط 

قتال میں حصہ لینے کے لیے بین الاقوامی قانون کے تحت یہ شرط بھی رکھی گئی ہے کہ حملہ کرنے والا حملے کے وقت واضح طور پر مسلح ہو ، وہ کھلے عام ہتھیار لیے پھرے ، اسے چھپا کر نہ رکھے ۔ یہ شرط بھی ، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ، دھوکہ دہی کی ممانعت کا حصہ ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مقاتل اور غیر مقاتل میں تمیز ممکن ہو تاکہ غیر مقاتل کو مقاتل سمجھ کر اس پر حملہ نہ کیا جائے ، نہ ہی مقاتل خود کو غیر مقاتل ظاہر کرکے فریق مخالف کو دھوکہ دے ۔ بعض لوگوں نے اس شرط کو بھی شریعت سے متصادم قرار دیا ہے کیونکہ صحیح بخاری کی روایت میں آیا ہے کہ غزوۂ بدر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایات دیں، ان میں ایک یہ تھی : 
لا تسلوا السیوف حتی یغشوکم (۶۲)
[ تلوار نیام سے نہ نکالو جب تک وہ تم پر چھا نہ جائیں ۔ ] 
تاہم یہ موقف ہماری ناقص رائے میں صحیح نہیں ہے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہتھیار کھلے عام لیے پھرنے کی شرط کا یہ مطلب نہیں کہ مقاتل جنگ کے ہر مرحلے پر اور ہر لمحے ہتھیار ہاتھ میں اٹھائے رکھے ، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ مقاتل غیر مقاتل سے ممیز ہو اور دھوکے کا احتمال نہ ہو ۔ باقی رہا میدان جنگ کا معاملہ ، جب فوجیں آمنے سامنے ہوں اور لڑائی جاری ہو تو چاہے لڑنے والا تلوار ہاتھ میں لیے رہے یا اسے نیام میں رکھے رہے ہر دو صورتیں جائز ہیں کیونکہ ہر دو صورتوں میں فریق مخالف کو معلوم ہوتا ہے کہ آنے والا لڑنے ہی کے لیے آرہا ہے ۔ البتہ اگر اس نے ہتھیار چھپا لیے اور ہاتھ بلند کرکے یہ تاثر دیا کہ وہ گرفتاری دے رہا ہے ، یا پناہ مانگ رہا ہے ، اور پھر مخالف فوجی کے قریب آنے پر اس پر حملہ کیا تو یہ دھوکہ دہی ہوگی جو بین الاقوامی قانون کے تحت ممنوع ہے اور ، جیسا کہ ہم آگے ذکر کریں گے ، اسلامی قانون کے تحت بھی ناجائز ہے ۔ پس اگر جنگجو نے تلوار باندھ رکھی ہے تو یہ بات اس کے مسلح ہونے اور مقاتل ہونے کا کافی ثبوت ہے ، چاہے تلوار اس کے نیام میں ہو ، یا اس نے نیام سے نکال لی ہو ۔ 
اس بحث کی روشنی میں اس روایت پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت سے یہ استدلال بالکل غلط ہے کہ ہتھیار کھلے عام لیے پھرنے کی شرط اسلامی شریعت سے متصادم ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہدایت میدان جنگ میں اس وقت دی گئی جب فوجیں آمنے سامنے تھیں اور فریقین میں ہر ایک جانتا تھا کہ جو کوئی بھی سامنے ہے وہ قتال کے لیے آیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں یہ نہیں بتایا گیا کہ خود کو غیر مقاتل بنا کر پیش کرو ، پھر جب دشمن قریب آئے تو اچانک اس پر حملہ کرو۔ اس حکم کا مقصد یہ تھا کہ دور ہی سے تلوار لہراتے نہ جاؤ کیونکہ اس طرح تمہارا رعب باقی نہیں رہے گا ، بلکہ جب دشمن قریب آئے تو اچانک تلوار نکالو تاکہ اس کی چمک اور تیزی دیکھ کر دشمن کے دل پر دھاک بیٹھ جائے ۔ مزید برآں ، یہ کوئی دینی حکم نہیں تھا جس کی پابندی لازم ہو ، بلکہ یہ ایک جنگی چال تھی جو انسانی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو سکھائی ۔ چنانچہ اس روایت کی توضیح میں امام سرخسی کہتے ہیں : 
بیانہ أنہ لا ینبغی للغازی أن یسل سیفہ حتی یصیر من العدو بحیث تصل الیہ ضربتہ ، لا أن ذلک مکروہ فی الدین ، و لکنہ من مکایدۃ العدو ، فبریق السیف مخوف للعدو فی أول ما یقع بصرہ علیہ ( ۶۳) 
[اس کی وضاحت یہ ہے کہ غازی کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ دور ہی سے تلوار سونت کر نکلے جبکہ ابھی اس کی تلوار کی ضرب اس کے دشمن تک نہ پہنچ سکتی ہو ۔ یہ حکم اس وجہ سے نہیں کہ ایسا کرنا دینی لحاظ سے ناپسندیدہ ہے ، بلکہ یہ دشمن کے خلاف ایک جنگی چال ہے ، کیونکہ جب دشمن کی نظر تلوار کی چمک پر پہلی دفعہ پڑتی ہے تو اس پر خوف طاری ہوجاتا ہے ۔ ] 

فصل پنجم : غدر کی ممانعت اور خدعہ کی اجازت 

اسلامی شریعت نے جنگ اور امن کی ہر صورت میں غدر اور عہد شکنی کی ممانعت کی ہے اور عہد کی پابندی کو لازم ٹھہرایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : 
یٰایھا الذین آمنوا أوفوا بالعقود (سورۃ المآئدۃ ، آیت ۱ ) 
[ اے ایمان والو ! بندشوں کی پابندی کرو ۔ ] 
ایک اور جگہ فرمایا : 
و أوفوا بالعھد ، ان العھد کان مسؤلا ( سورۃ بنی اسرائیل ، آیت ) 
[ عہد کو پورا کرو ۔ بے شک عہد کی پابندی کے متعلق پوچھا جائے گا ۔ ] 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد معاہدوں کی خلاف ورزی کی سنگینی کو اچھی طرح واضح کرتا ہے : 
ألا، انہ ینصب لکل غادر لواء یوم القیمۃ بقدر غدرتہ ، و لا غدرۃ أعظم من غدرۃ امام عامۃ یرکز عند أستہ(۶۵) 
[ آگاہ رہو کہ عہد توڑنے والے ہر شخص کے لیے ایک علم ہوگا جو اس کی عہد شکنی کی مقدار کے برابر بلند ہوگا ۔ اور لوگوں کے حکمران کی عہد شکنی سے بڑی عہد شکنی کوئی نہیں ہے ۔ ] 
شریعت نے معاہدات کے متعلق یہ قاعدہ عامہ دیا : 
فی العھود و فاء ، لا غدر (۶۴) 
[ معاہدات کا پورا کرنا لازم ہے ، ان میں خیانت جائز نہیں ہے ۔ ] 
اس طرح کی نصوص کی وجہ سے فقہاء نے بالاتفاق قرار دیا ہے کہ جنگ میں بھی غدر کی اجازت نہیں ہے ، بلکہ فقہاء ان چالوں کو بھی ناجائز قرار دیتے ہیں جو صورۃً غدر ہوتی ہیں نہ کہ حقیقتاً ۔ (۶۶)
غدر کی ممانعت کے متوازی قاعدہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی چالوں کی اجازت دی ہے اور جنگ کو خدعۃ (چالبازی) کا نام دیا ۔ کیا خدعہ سے مراد یہ ہے کہ جنگ میں جھوٹ بولنا جائز ہے ؟ امام سرخسی اس روایت کی توضیح میں کہتے ہیں : 
و أخذ بعض العلماء بالظاھر فقالوا: یرخص فی الکذب فی ھذہ الحالۃ ۔ و استدلوا بحدیث أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ أن النبی ﷺ قال: لا یصلح الکذب الا فی ثلاث : فی الصلح بین اثنین ، و فی القتال ، و فی ارضاء الرجل أھلہ ۔ و المذھب عندنا : أنہ لیس المراد الکذب المحض ، فان ذلک لا رخصۃ فیہ ۔ و انما المراد : استعمال المعاریض ۔ و ھو نظیر ما روی أن ابراھیم صلوات اللہ و سلامہ علیہ کذب ثلاث کذبات ، و المراد أنہ تکلم بالمعاریض ، اذ الأنبیاء علیہم صلوات اللہ و سلامہ معصومون عن الکذب المحض ۔ و قال عمر رضی اللہ عنہ : ان فی المعاریض لمندوحۃ عن الکذب ۔ و تفسیرہذا ما ذکرہ محمد رحمہ اللہ فی الکتاب و ھو : أن یکلم من یبارزہ بشیء و لیس الأمر کما قال ، و لکنہ یضمر خلاف ما یظھرہ لہ (۶۷) 
[ بعض علما نے ظاہری معنی کو دیکھتے ہوئے کہا کہ اس حالت میں جھوٹ بولنے کی رخصت ہے ، اور اس کے لیے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے استدلال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جھوٹ جائز نہیں مگر تین مواقع پر : دو افراد کے درمیان صلح کے لیے ، جنگ کے دوران میں اور کسی شخص کے اپنی بیوی کو منانے کے سلسلے میں۔ ہمارے نزدیک مذہب یہ ہے کہ یہاں مراد محض جھوٹ نہیں ہے کیونکہ اس میں کوئی رخصت نہیں ہے۔ ( وہ کسی حالت میں بھی جائز نہیں ہے ۔ ) بلکہ مراد ہے ذو معنی الفاظ کا استعمال ۔ اس قسم کے استعمال کی مثال وہ روایت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام نے تین مواقع پر جھوٹ بولا ۔ اس روایت میں بھی مراد ذو معنی الفاظ کا استعمال ہے کیونکہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام محض جھوٹ کے بولنے سے معصوم ہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا : ذو معنی کلام کے ذریعے جھوٹ سے بچا جاسکتا ہے ۔ خدعہ کے لفظ کی تفسیر امام محمد رحمہ اللہ نے کتاب ( سیر کبیر ) میں یہ ذکر کی ہے کہ : جنگ کے لیے مد مقابل آنے والے سے کوئی بات کہی جائے جس سے وہ معاملے کو یوں سمجھ بیٹھے جیسے وہ حقیقت میں نہیں ہے ، لیکن یہ بولنے والا اس اصل حقیقت کو دل میں چھپائے رکھے ۔ ] 
آگے امام سرخسی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں : 
و کان من الخدعۃ أن یقول لأصحابہ قولاً لیری من سمعہ أن فیہ ظفراً ، أو أن فیہ أمراً یقوی أصحابہ و لیس الأمر کذلک حقیقۃً ، و لکن یتکلم علی وجہ لا یکون فیہ کاذباً فیہ ظاھراً (۶۸) 
[ خدعہ کی ایک مثال یہ ہے کہ امیر اپنے ساتھیوں سے ایسی بات کہے جس سے سننے والے کو یہ تاثر ملتا ہو کہ اس میں انہیں کامیابی نصیب ہوگی ، یا اس میں کچھ ایسی بات ہے جس سے اس کے ساتھیوں کو تقویت ملے گی ، حالانکہ درحقیقت ایسا نہ ہو ، لیکن شرط یہ ہے کہ ایسی بات وہ اس طرح کہے کہ اس میں اسے ظاہری طور پر جھوٹ نہ بولنا پڑے ۔ ] 
اس قسم کے قول کی مثال میں سرخسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا ذکر کرتے ہیں جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ جنت میں بوڑھیاں داخل نہیں ہوں گی ۔ اس پر ایک بوڑھی خاتون بہت زیادہ پریشان ہوئیں تو آپ نے وضاحت کی کہ جنت میں داخل ہونے والی خواتین دوبارہ جوان ہوں گی ۔ اسی طرح ایک اور طریقے کا ذکر سرخسی نے یوں کیا ہے : 
و من ھذا النوع أن یقید کلامہ بلعل و عسی ، فان ذلک بمنزلۃ الاستثناء ، یخرج بہ الکلام من أن یکون عزیمۃ (۶۹) 
[ اس کی ایک قسم یہ ہے کہ بات کو ’’ کیا خبر ؟ ‘‘ یا ’’ ممکن ہے ‘‘ جیسے الفاظ کے ساتھ مقید کرے ، کیونکہ ان الفاظ کی حیثیت استثنا کی ہے جس سے کلام عزیمت سے نکل جاتا ہے ۔ ] 
پھر اس کی مثال میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک چال کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے غزوۂ خندق کے موقع پر چلی۔ جب بنی قریظہ نے مسلمانوں سے عہد شکنی کی اور قریش کے ساتھ ایکا کرلیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا ذکر کیا گیا ۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا : 
فلعلنا نحن أمرناھم بھذا (۷۰) 
[ کیا خبر ہم ہی نے ان کو اس کا مشورہ دیا ہو ! ] 
ایک اور روایت کے بموجب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر کہی تھی جب بنی قریظہ نے قریش سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے کچھ افراد ان کے پاس بطور ضمانت چھوڑ دیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ قریش واپس مکہ چلے جائیں اور بنی قریظہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تنہا رہ جائیں۔ (۷۱) 
یہ بات جب قریش کے سپہ سالار ابو سفیان رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو انہوں نے اس سے یہ تاثر لیا کہ بنی قریظہ قریش کا ساتھ دینے میں مخلص نہیں بلکہ انہوں نے مسلمانوں کے کہنے پر قریش کا ساتھ دیا ہے ، یا وہ مسلمانوں کے کہنے پر قریش سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ انہیں کچھ افراد بطور ضمانت دیں ۔ اس طرح وہ بنی قریظہ سے بد ظن ہوگئے ۔ پھر ان کا آپس میں اختلاف اتنا بڑھا کہ ان کا اتحاد ٹوٹ گیا۔ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت یہ بات کہہ رہے تھے انہیں اندازہ تھا کہ یہ بات قریش تک پہنچائی جائے گی ۔ اس لیے انہوں نے ایسی ذو معنی بات کی ۔ اس موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بنی قریظہ کا معاملہ اتنا اہم نہیں ہے، لیکن آپ کی طرف جھوٹ کی نسبت کی جائے تو یہ بہت بڑی بات ہوگی ، یعنی اگر دشمن کل آپ کے متعلق کہیں کہ آپ نے تو ان سے جھوٹ کہا تھا تو یہ بہت بڑا الزام ہوگا ۔ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا : 
الحرب خدعۃ ، یا عمر! (۷۲)
[اے عمر ! جنگ چالبازی کو کہتے ہیں ۔ ] 
اسی طرح ایک اور اصطلاحی لفظ ’’ توریۃ‘‘ ہے جس سے مراد یہ ہے کہ متکلم ایسا لفظ استعمال کرے جو فی نفسہ تو صحیح ہو مگر مخاطب اس سے کوئی دوسری بات مراد لے ۔ مثال کے طور پر روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی طرف لشکر کشی کرتے تو بالعموم لوگوں کو صحیح طور پر معلوم نہ ہوپاتا تھا کہ اصل منزل مقصود کیا ہے ۔ 
ان النبی ﷺ کان اذا أراد غزوۃ ورّی غیرھا ، و کان یقول : الحرب خدعۃ (۷۳) 
[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی طرف لشکر کشی کا ارادہ کرتے تو اس کے بجائے کسی اور طرف کا تاثر دیتے اور کہتے تھے کہ جنگ چالبازی کا نام ہے ۔ ] 
اس قسم کی چال کی ایک مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر ہجرت میں بھی ملتی ہے ۔ مکہ مکرمہ سے نکلنے کے بعد آپ نے سیدھا مدینہ مدینہ منورہ کی طرف رخ کرنے کے بجائے اس کے بالکل مخالف سمت میں غارثور کا رخ کیا ۔ کئی دن وہاں قیام کے بعد ایک لمبا چکر کاٹنے کے بعد آپ نے مدینہ منورہ کی راہ پر سفر شروع کیا تو اس وقت تک آپ کا پیچھا کرنے والوں کی سرگرمیاں ماند پڑ چکی تھیں ۔ 
جہاں تک ایسی چال کا تعلق ہے جس سے غدر ، عہد شکنی یا اعتماد شکنی لازم آتی ہو تو وہ جائز خدعہ میں شامل نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر اسلامی قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ اگر جنگ میں کسی ایک مسلمان غازی نے بھی مخالفین میں کسی کو امان دیا تو وہ شخص یا اشخاص حملے سے محفوظ ہوگئے ۔ اس کے بعد ان پر حملہ کرنا ناجائز ہوگا ۔ اب اگر کسی مسلمان نے لڑائی کے دوران میں مخالفین کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا اور زیر لب کہا کہ تم یہاں آؤ تو میں تمہیں قتل کردوں ، اور اس اشارے پر اعتماد کرتے ہوئے مخالفین مسلمانوں کی طرف آئے تو ان پر حملہ ناجائز ہوگا ۔ اشارہ کرنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ تو اس نے ایک چال چلی تھی کہ دشمن کسی طرح حملے کی زد میں آجائے ۔ پس یہ خدعہ نہیں بلکہ غدر ہے ۔ یہ اصول سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور اس کی وضاحت میں امام سرخسی کہتے ہیں : 
لأنہ بالاشارۃ دعاہ الی نفسہ ، و انما یدعی بمثلہ الآمن لا الخائف ۔ و ما تکلم بہ : ان جئت قتلتک ، لا طریق للکافر الی معرفتہ بدون الاستکشاف منہ ۔ و لا یتمکن من ذلک قبل أن یقرب منہ ۔ فلا بد من اثبات الأمان بظاھر الاشارۃ ، و اسقاط ما وراء ذلک للتحرز عن الغدر (۷۴) 
[ کیونکہ اس نے اشارے سے اسے اپنی طرف بلایا ، اور اس طرح کے اشارے سے اس شخص کو بلایا جاتا ہے جو خوف سے محفوظ ہو ، نہ کہ اس کو جو خائف ہو ۔ اور اس نے جو بات کہی کہ : اگر تم میرے قریب آئے تو میں تمہیں قتل کردوں گا ، تو کافر کے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ اتنی دور سے اس بات کو سن اور سمجھ لے ، جب تک کہ وہ اس کے قریب نہ آئے ۔ پس غدر سے بچنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ظاہری اشارے سے امان کا اثبات کیا جائے اور اس کے علاوہ اس نے جو کچھ کہا اسے غیر مؤثر سمجھا جائے۔ ] 
آگے امام سرخسی اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ اس فعل کو غدر کیوں کہا جائے گا کہتے ہیں : 
فان ظاھر اشارتہ أمان لہ ، و قولہ : ان جئت قتلتک ، بمعنی النبذ لذلک الأمان۔ فما لم یعلم بالنبذ کان آمناً۔ (۷۵) 
[کیونکہ اس کا ظاہری اشارہ دوسرے فریق کے لیے امان ہے اور اس کا قول کہ ’ اگر تم میرے قریب آئے تو میں تمہیں قتل کردوں گا ‘ اس امان کے خاتمے کے مترادف ہے ۔ پس جب تک دوسرے فریق کو امان کے خاتمے کا علم نہ ہو اسے امان حاصل رہے گا ۔ ] 
اسی طرح یہ ناجائز ہے کہ کوئی مسلمان خود کو مسلمانوں کے سفیر کے طور پر پیش کرے اور پھر جب دوسرا فریق اس کی جانب سے مطمئن ہوکر اسے قریب آنے دے تو یہ اس پر حملہ کرے ۔ یہ کام ناجائز ہوگا خواہ یہ مسلمان درحقیقت سفیر ہو یا اس نے بطور جنگی چال خود کو سفیر بنا کر پیش کیا ہو ۔ یہ جنگی چال نہیں بلکہ غدر ہے ۔ امام شیبانی نے تصریح کی ہے : 
و لو أن رھطاً من المسلمین أتوا أول مسالح أھل الحرب فقالوا: نحن رسل الخلیفۃ ، و أخرجوا کتابا یشبہ کتاب الخلیفۃ ، أو لم یخرجوا ، و کان ذلک خدیعۃ منھم للمشرکین ، فقالوا لھم : ادخلوا ، فدخلوا دار الحرب ، فلیس یحل لھم قتل أحد من أھل الحرب ، و لا أخذ شیء من أموالھم ماداموا فی دارھم(۷۶) 
[ اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ دشمنوں کے پہلے مورچوں کی طرف آکر ان سے کہے کہ ہم اپنے حکمران کے سفیر ہیں ، پھر خواہ وہ سفارت کی دستاویز پیش کریں جو مسلمانوں کے حکمران کی دستاویز سے مشابہ ہو ، یا ایسی کوئی دستاویز پیش نہ کریں ، اور اس طرح وہ مشرکین کے ساتھ چال چل رہے ہوں (درحقیقت وہ سفیر نہ ہوں ) ، تو اگر مشرکین نے انہیں اپنے علاقے میں داخل ہونے کی اجازت دی تو داخل ہونے کے بعد جب تک وہ ان کے علاقے میں ہوں گے ان کے لیے جائز نہیں ہوگا کہ اس علاقے کے لوگوں میں کسی کو قتل کریں یا ان کا مال چھینیں۔] 
اس حکم کی وضاحت میں امام سرخسی نے جو کچھ کہا ہے اس کے لفظ لفظ پر ڈیرے ڈالنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس تشریح سے جو اہم قانونی اصول سامنے آتے ہیں ان سے عصر حاضر کی جنگی چالوں بالخصوص خود کش حملوں کے متعلق نہایت واضح رہنمائی حاصل ہوتی ہے : 
لأن ما أظھروہ لو کان حقاً کانوا فی أمان أھل الحرب ، و أھل الحرب فی أمان منھم أیضاً، لا یحل لھم أن یتعرضوا لھم بشیء ۔ ھو الحکم فی الرسل اذا دخلوا الیھم کما بینا، فکذلک اذا أظھروا ذلک من أنفسھم ، لأنہ لا طریق لھم الی الوقوف علی ما فی باطن الداخلین حقیقۃً ۔ و انما یبنی الحکم علی ما یظھرون، لوجوب التحرز عن الغدر ۔ و ھذا لما بینا أن أمر الأمان شدید ، والقلیل منہ یکفی ۔ فیجعل ما أظھروہ بمنزلۃ الاستئمان منھم ۔ و لو استأمنوا فأمنوھم وجب لھم أن یفوا لھم ۔ فکذلک اذا ظھر ما ھو دلیل الاستئمان (۷۷) 
[ کیونکہ جو کچھ انہوں نے ظاہر کیا ( کہ وہ سفیر ہیں ) اگر یہ حقیقت ہوتی تو وہ دشمن قوم کی جانب سے امان میں ہوتے اور دشمن قوم بھی ان کی جانب سے امان میں ہوتی کیونکہ ان مسلمانوں کے لیے جائز نہ ہوتا کہ دشمن کو کسی قسم کا جانی یا مالی نقصان پہنچائیں ۔ سفیر جب ان کے علاقے میں داخل ہوں تو ان کے لیے حکم یہی ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے واضح کیا ہے ۔ پس یہی حکم اس صورت میں بھی ہوگا جب وہ خود کو سفیر ظاہر کریں کیونکہ جو کچھ ان داخل ہونے والوں کے دلوں میں چھپا ہوا ہے اسے جاننے کا کوئی ذریعہ دوسرے فریق کے پاس نہیں ہے ۔ پس حکم کا بنا ان کے ظاہر پر کیاجائے گا کیونکہ غدر سے بچنا واجب ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ، جیسا کہ ہم نے واضح کیا ہے ، کہ امان کا معاملہ انتہائی سنگین ہے اور اس کی خلاف ورزی کے لیے معمولی بات بھی کافی ہوتی ہے ۔ پس جو کچھ انہوں نے ظاہر کیا اس کے متعلق کہا جائے گا کہ یہ گویا انہوں نے دوسرے فریق سے امان طلب کیا ۔ پس اگر ان کے امان طلب کرنے پر وہ انہیں امان دیتے تو ان کے لیے لازم ہوتا کہ اس کی پابندی کرتے ( اور ان پر حملہ نہ کرتے)۔ پس یہی حکم اس صورت میں بھی ہے جب ان کی جانب سے ایسا طرز عمل سامنے آیا جو امان طلب کرنے کے برابر ہے ۔ ] 
انہی اصولوں پر آگے امام شیبانی نے قرار دیا ہے کہ اگر مسلمان تاجر کے روپ میں جا کر انہیں یہ تاثر دیں کہ وہ تو لڑنے نہیں آئے تو ان کے لیے جائز نہیں ہوگا کہ وہ ان پر حملہ کریں ۔اس کی تشریح میں امام سرخسی کہتے ہیں : 
لأنھم لو کانوا تجاراً حقیقۃً کما أظھروا لم یحل لھم أن یغدروا بأھل الحرب ۔ فکذلک اذا أظھروا ذلک لھم۔ ( ۷۸) 
[ کیونکہ اگر وہ درحقیقت تاجر ہوتے ، جیسا کہ انہوں نے ظاہر کیا ، تو ان کے لیے جائز نہ ہوتا کہ دشمن قوم کے ساتھ غدر کرتے ۔ پس یہ حکم اس صورت میں بھی ہوگا جب انہوں نے خود کو تاجر ظاہر کیا ۔ ] 
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس قسم کا حملہ تبھی غدر میں شمار ہوگا اور ناجائز ہوگا جب مسلمان اپنے قول یا فعل سے اپنا ارادہ یہ ظاہر کریں کہ وہ ان سے امان چاہتے ہیں ۔ اگر مسلمانوں نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ مخالفین نے از خود ان کو بے ضرر سمجھ کر ان کو نظر انداز کیا تو مسلمانوں کے لیے جائز ہوگا کہ ان پر حملہ کریں کیونکہ جب انہوں نے امان طلب نہیں کیا ، نہ ہی قول سے نہ فعل سے ، تو ان کی جانب سے حملے کو غدر بھی نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ چنانچہ امام شیبانی ایسے مسلمان قیدیوں کے متعلق، جنہیں دشمن آزاد کردے ، کہتے ہیں : 
ولو أن رھطاً من المسلمین کانوا أسراء فی أیدیھم فخلوا سبیلھم ، لم أر بأساً أن یقتلوا من أحبوا منھم ، و یأخذوا أموالھم ، و یھربوا ان قدروا علی ذلک (۷۹) 
[ اگر مسلمانوں کے کچھ لوگ ان کے قبضے میں قید ہو ں اور وہ انہیں رہا کردیں تو مجھے اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی کہ وہ ان میں جسے چاہیں قتل کریں ، ان کا مال چھینیں اور اگر ہوسکے تو وہاں سے فرار ہوں ۔ ] 
اس کی وجہ یہ ہے کہ دشمن کو معلوم تھا کہ یہ جنگجو تھے ، اسی لیے تو اس نے ان کو قید کیا تھا ۔ چنانچہ قید میں آنے سے پہلے ان کے لیے جائز تھا کہ دشمن پر حملہ کرتے اور قید میں آنے کے بعد انہوں نے اپنے قول یا طرز عمل سے ایسا کو ئی ارادہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ دشمن پر حملہ نہیں کریں گے ۔ گویا انہوں نے صراحتاً یا دلالۃً امان طلب نہیں کیا ۔ امام سرخسی کہتے ہیں : 
لأنھم کانوا مقھورین فی أیدیھم ، و قبل أن یخلوا سبیلھم لو قدروا علی شیء من ذلک کانوا متمکنین منہ ۔ فکذلک بعد تخلیۃ سبیلھم ، لأنھم ما أظھروا من أنفسھم ما یکون دلیل الاستئمان ۔ و ما خلوھم علی سبیل اعطاء الأمان ، بل علی وجہ قلۃ المبالاۃ و الالتفات الیھم (۸۰) 
[ کیونکہ وہ ان کے قبضے میں بالکل بے بس تھے ، اور رہائی سے پہلے اگر وہ اس طرح کے کسی کام پر قادر ہوتے تو اس کا کرنا ان کے لیے جائز ہوتا۔ پس یہ حکم ان کے رہا ہونے کے بعد بھی ہے کیونکہ ان قیدیوں نے اپنی جانب سے ایسا کچھ ظاہر نہیں کیا جسے امان طلب کرنے کی دلیل سمجھا جائے ۔ اور انہوں نے انہیں اس وجہ سے رہا نہیں کیا کہ وہ انہیں امان دے رہے تھے بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ انہوں نے ان کو حقیر سمجھا اور ان کو نظر انداز کردیا ۔ ] 
اگر دشمن ان قیدیوں کو خاموشی سے رہا کرنے کے بجائے ان سے کہے کہ ہم نے تمہیں امان دیا ، پس جہاں چاہو جاؤ ، اور یہ قیدی اس کے جواب میں خاموش رہیں ، تب بھی ان کے لیے دشمن پر حملہ جائز ہوگا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قیدیوں نے امان طلب نہیں کیا ، نہ ہی دشمن کو اطمینان دلایا ہے کہ وہ ان پر حملہ نہیں کریں گے ، بلکہ جو کچھ بھی کیا ہے دشمن نے اپنی جانب سے کیا ہے ۔ 
و قول أھل الحرب لا یلزمھم شیئا لم یلتزموہ (۸۱) 
[اور دشمن قوم کا قول ان قیدیوں پر ایسی کوئی بات لازم نہیں کرتا جس کی ذمہ داری انہوں نے اپنے اوپر نہ لی ہو ۔ ] 
البتہ اگر مسلمان اپنے علاقے سے دشمن کے علاقے میں داخل ہورہے ہوں اور دشمن نے ان سے کہا کہ ہم نے تمہیں امان دیا ، پس جہاں چاہو جاؤ ، تو ان مسلمانوں کے لیے ناجائز ہوگا کہ وہ ان پر حملہ کریں خواہ دشمن کے اس قول کے جواب میں خاموش ہی کیوں نہ رہے ہوں ۔ ان دونوں حالات میں فرق کی وضاحت کرتے ہوئے امام سرخسی کہتے ہیں : 
لأن ھناک جاء وا عن اختیار مجئ المستأمنین ، فانھم حین ظھروا لأھل الحرب فی موضع لا یکونون ممتنعین منھم بالقوۃ ، فکأنھم استأمنوھم و ان لم یتکلموا بہ ۔ و أما الأسراء فحصلوا فی دارھم مقھورین لا عن اختیار منھم ۔ فلا بد للاستئمان من قول او فعل یدل علیہ (۸۲) 
[ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں وہ اپنے اختیار سے چل کر امان طلب کرنے والوں کی طرح آئے کیونکہ جب وہ ایسے مقام پر دشمن کے سامنے ظاہر ہوئے جہاں وہ قوت کے ذریعے دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے تو گویا انہوں نے امان طلب کیا خواہ انہوں نے امان کی بات نہ کہی ہو ۔ اس کے برعکس قیدی تو دشمن کے علاقے میں بغیر اپنے اختیار کے بے بس پائے گئے۔ چنانچہ ان کی جانب امان طلب کرنے کی نسبت کے لیے ضروری ہے کہ ان کی جانب سے کوئی قول یا فعل ایسا پایا جائے جو امان طلب کرنے پر دلالت کرے ۔ ] 
پس اگر ان قیدیوں کی جانب سے ایسا قول یا فعل پایا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امان طلب کررہے ہیں تو پھر ان کے لیے بھی حکم یہی ہوگا کہ وہ دشمن پر حملہ نہیں کرسکتے ۔ امام شیبانی قرار دیتے ہیں : 
و لو أن قوماً منھم لقوا الأسراء فقالوا : من أنتم ؟ فقالوا : نحن قوم تجار دخلنا بأمان من أصحابکم ، أو قالوا : نحن رسل الخلیفۃ ، فلیس ینبغی لھم بعد ھذا أن یقتلوا أحداً منھم (۸۳) 
[ اور اگر ان میں سے کچھ لوگ قیدیوں سے ملے اور ان سے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ تو اس کے جواب میں اگر انہوں نے کہا کہ ہم تاجر ہیں جو تمہارے ساتھیوں سے امان لے کر تمہارے ہاں آئے ہیں ، یا یہ کہا کہ ہم اپنے حکمران کے سفیر ہیں ، تو ایسی صورت میں ان کے لیے جائز نہیں ہوگا کہ اس کے بعد وہ ان میں کسی کو قتل کریں ۔ ] 
اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح بین الاقوامی قانون نے اس قسم کے حملوں کو Perfidy قرار دے کر جنگی جرم قرار دیا ہے اسی طرح اسلامی قانون کی رو سے بھی اس قسم کے حملے قطعی طور پر ناجائز ہیں اور ان کو جائز جنگی چال قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اگر اسلامی قانون نے اس قسم کے حملوں کو ناجائز نہ قرار دیا ہوتا تب بھی مسلمانوں کے لیے یہ حملے ناجائز ہوتے کیونکہ ان حملوں کو جنیوا معاہدات کے ذریعے ناجائز قرار دیا گیا ہے اور ، جیسا کہ اوپر تفصیل سے واضح کیا گیا ، آداب القتال کے لیے کیے گئے اس طرح کے معاہدات کی پابندی مسلمانوں پر لازم ہے ۔ تاہم یہاں امام شیبانی کی تصریحات اور امام سرخسی کی توضیحات سے معلوم ہوا کہ اصلاً بھی اسلامی قانون کا اس معاملے میں موقف وہی ہے جو بین الاقوامی قانون کا ہے۔ بلکہ بسا اوقات کوئی چال بین الاقوامی قانون کے تحت جائز ہو تب بھی اسلامی قانون کے تحت وہ ناجائز ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر دشمن کو اپنی پوزیشن یا حملے کے ارادے کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا رکھنا بین الاقوامی قانون اور اسلامی قانون دونوں کی رو سے جائز جنگی چال ہے ۔ البتہ بین الاقوامی قانون کی رو سے دشمن کو غلط اطلاع دینا (Misinformation) جائز ہے اور اسلامی قانون کی رو سے یہ صرف اس صورت میں جائز ہوسکتا ہے جب اس کے لیے جھوٹ نہ بولنا پڑے ۔ 

فصل ششم : خود کش حملوں کی شرعی حیثیت 

اوپر ہم نے ذکر کیا تھا کہ اگر خود کش حملوں میں چار شرائط پوری کی جائیں تو ان کو بین الاقوامی قانون کی رو سے ناجائز نہیں کہا جائے گا : 
اولاً : یہ کہ حملہ مسلح تصادم کے دوران میں کیا جائے ، نہ کہ حالت امن میں ۔ 
ثانیاً : یہ کہ حملہ کرنے والا مقاتل ہو ۔ 
ثالثاً : یہ کہ حملے کا ہدف فریق مخالف کے مقاتلین ہوں ۔ 
رابعاً : یہ کہ حملے میں ایسا طریقہ یا ہتھیار استعمال نہ کیا جائے جو قانوناً ناجائز ہو ۔ 
اسلامی شریعت کی رو سے بھی ان شرائط کا پورا کرنا ضروری ہے ، ایک تو اس وجہ سے بین الاقوامی معاہدات اور عرف کی پابندی اسلامی شریعت کی رو سے بھی ضروری ہے ، اور دوسرے اس وجہ سے کہ یہ شرائط خود اسلامی شریعت نے بھی مقرر کی ہیں۔ چنانچہ ہم نے اوپر تفصیل سے ذکر کیا کہ مقاتل کی حیثیت حاصل کرنے کے لیے جو چار شرائط بین الاقوامی قانون نے مقرر کی ہیں ( ذمہ دار کمان کے ماتحت ہونا ، امتیازی لباس کا استعمال کرنا ، واضح طور پر ہتھیار سے مسلح ہونا اور آداب القتال کی پابندی کرنا ) یہ سب شرائط اسلامی قانون نے بھی مقرر کی ہیں ۔ اسی طرح اسلامی شریعت نے لازم ٹھہرایا ہے کہ حملے کا ہدف مقاتلین تک ہی محدود ہو اور حتی الامکان کوشش کی جائے کہ غیر مقاتلین ہدف نہ بنیں ۔ بعینہ اسی طرح بعض ہتھیاروں کا استعمال شریعت نے از خود ناجائز ٹھہرایا ہے اور بعض کو اس وجہ سے ناجائز قرار دیا جائے گا کہ ان کو بین الاقوامی قانون نے ناجائز ٹھہرایا ہے اور بین الاقوامی قانون کی پابندی اصولاً لازم ہے ۔ مثال کے طور پر شریعت نے غیر مقاتلین کو ہدف بنانا ناجائز قرار دیا ہے ۔ پس ایسے ہتھیاروں کا استعمال ناجائز ہوگا جن کا اثر مقاتلین تک ہی محدود نہ رہے بلکہ غیر مقاتلین بھی اس کی زد میں آئیں ، جیسے کیمیائی و جراثیمی ہتھیار یا ایٹمی ہتھیار ۔ اسی طرح شریعت نے مثلہ حرام ٹھہرایا ہے اور ، جیسا کہ امام شیبانی اور امام سرخسی نے تصریح کی ہے ، شریعت کی رو سے باؤلے کتے کا مثلہ بھی حرام ہے ۔ (۸۴) اس لیے ایسے ہتھیاروں کا استعمال بھی اصولاً ناجائز ہوگا جس سے لاشوں کا مثلہ لازم آتا ہو ۔ مثال کے طور پر کسی بھی قسم کے بم کے استعمال کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ لاشوں کے ٹکڑے بکھر کر ادھر ادھر منتشر ہوجائیں ۔ اس لیے اصولاً کسی بھی قسم کے حملے میں کسی بھی قسم کا بم استعمال کرنا ناجائز ہے ۔ اس کا جواز صرف اضطرار کے قاعدے ہی کے تحت پایا جاسکتا ہے لیکن یہ بھی واضح ہے کہ حالت اضطرار کی اپنی پابندیاں اور حدود ہیں جن کی پابندی لازم ہے ۔ اسی طرح شریعت کی رو سے یہ ناجائز ہے کہ کوئی شخص خود کو غیر مقاتل ظاہر کرکے فریق مخالف کو اعتماد میں لے اور پھر غدر کرتے ہوئے اس پر حملہ کرے ۔ 
البتہ جو پہلی شرط ہے کہ حملہ مسلح تصادم کے دوران میں کیا جائے ، نہ کہ حالت امن میں تو اس کی کچھ وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے ۔ عام طور پر خود کش حملوں کے جواز کے لیے فقہ کے جس جزئیے سے استدلال کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ فقہا نے اسے جائز ٹھہرایا ہے کہ کوئی غازی تنہا دشمنوں کی صفوں میں گھس جائے اگر اسے یقین ہو کہ اس طرح کے حملے سے وہ دشمن کو شدید نقصان پہنچائے گا ، یا اس طرح وہ دشمن کو مرعوب کردے گا ۔ امام شیبانی کہتے ہیں : 
لا بأس بأن یحمل الرجل وحدہ و ان ظن أنہ یقتل ، اذا کان یری أنہ یصنع شیئاً یقتل او یجرح أو یھزم (۸۵) 
[ اس میں کوئی حرج نہیں کہ تنہا ایک آدمی دشمن پر حملہ کرے خواہ اس کا گمان ہو کہ اسے قتل کردیا جائے گا ، بشرطیکہ اس کی رائے یہ ہو کہ وہ کچھ بڑا کام کرلے گا دشمن کو قتل کرکے ، یا زخمی کرکے ، یا پسپا کرکے ۔ ] 
اس کی تشریح میں امام سرخسی کہتے ہیں : 
فقد فعل ذلک جماعۃ من الصحابۃ بین یدی رسول اللہ ﷺ یوم أحد ، ومدحھم علی ذلک (۸۶) 
[ کیونکہ ایسا کام بہت سے صحابہ نے احد کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا اور آپ نے ان کی تعریف کی ۔ ] 
تاہم اس جزئیے پر معمولی غور سے بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ حکم اس موقع کے لیے ہے جب دو فوجیں جنگ کر رہی ہوں یا جنگ کرنے والی ہوں اور ہر فریق دوسرے کے متعلق جانتا ہے کہ وہ مقاتل ہے اور اس پر حملہ کرنے کے لیے آیا ہے ۔ پس بدیہی طور پر یہ شرط بھی شریعت نے مقرر کی ہے کہ اس قسم کے حملے جنگ کے دوران میں بطور مقاتل کیے جائیں ، نہ کہ غیرمقاتل کے بھیس میں ۔ اس کے برعکس خود کش حملوں میں ہوتا یہ ہے کہ حملہ آور بالعموم غیر مقاتل کے بھیس میں آکر اس گروہ کے بیچ میں پہنچ جاتا ہے جسے وہ ہدف بنانا چاہتا ہے ۔ واضح رہے کہ اس جزئیے سے خود کش حملوں کے جواز کے لیے استدلال بالکل باطل ہے ، جیسا کہ ہم آگے واضح کریں گے ۔ 

خود کشی یا شہادت؟ 

اوپر ہم نے ذکر کیا تھا کہ خود کش حملوں کے جواز پر جب شریعت کی روشنی میں بحث کی جاتی ہے تو بعض ایسے سوالات کا جواب بھی دینا پڑتا ہے جن کی کوئی اہمیت بین الاقوامی قانون برائے آداب القتال کی رو سے نہیں ہوتی ۔ مثال کے طور پر بین الاقوامی قانون کی رو سے اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ اس طرح کے حملوں میں حملہ آور خود کو ہلاک کرنے کا باعث بنتا ہے ، یا بہ الفاظ دیگر خود کشی کرتا ہے ، تو کیا اس کا یہ فعل جائز ہے ؟ تاہم اسلامی شریعت کی روشنی میں یہ سوال نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی شریعت نے خود کشی کو بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے اور اس پر بڑی سخت وعید کا اعلان کیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : 
من قتل نفسہ بحدیدۃ فحدیدتہ فی یدہ یجأ بھا نفسہ فی نار جھنم خالداً مخلداً ۔ و من تردی من موضع فھو یتردی فی نار جھنم خالداً مخلداً ۔ و من شرب سماً فمات فھو یشربھا فی نار جھنم خالداً مخلداً ۔ (۸۷) 
[ جس نے اپنے آپ کو لوہے کے ذریعے قتل کیا تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ اس لوہے کو اپنے جسم میں گھونپتا رہے گا ۔ اور جس نے کسی بلند جگہ سے چھلانگ لگائی تو جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھلانگ لگاتا رہے گا ۔ اور جس نے زہر پی کر خود ہلاک کیا تو اسے جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسے پیتا رہے گا ۔ ] 
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس قسم کے حملوں میں اپنی زندگی ختم کرنے والا حملہ آور شہید ہوگا یا اسے خود کشی کا مرتکب ٹھہرایا جائے گا ؟ اس سلسلے میں اولین بات تو یہ ہے کہ اوپر مذکور جزئیے سے خود کش حملوں کے جواز کے لیے استدلال ناجائز ہے اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ خود کش حملہ آور بھی ان صحابۂ کرام کی طرح دشمنوں کی صف میں گھس کر ان میں بہت سوں کو قتل کردیتا ہے اور اس حملے کے نتیجے میں خود بھی قتل ہوجاتا ہے ۔ 
اس کی ایک وجہ تو اوپر ذکر کی گئی کہ صحابۂ کرام کے ان حملوں میں غدر کا شائبہ بھی نہیں تھا کیونکہ وہ جنگ کے دوران میں اس طرح کا حملہ کرتے تھے، جبکہ خود کش حملہ آور بالعموم اس طرح کا حملہ غیر مقاتل کے بھیس میں کرتا ہے جو غدر ہے اور حرام ہے ۔ 
دوسری وجہ یہ ہے کہ دشمن کی صفوں میں تنہا مجاہد کے گھسنے کے نتیجے میں مجاہد کا قتل ہونا یقینی نہیں بلکہ محض ایک امکان کے طور پر ہوتا ہے اور اسے اس لیے جائز قرار دیا گیا ہے کہ اس کے نتیجے میں دشمن کو سخت مادی یا نفسیاتی نقصان پہنچتا ہے ۔ چنانچہ فقہاء نے تصریح کی ہے کہ اگر اس طرح کے حملے میں دشمن کو مادی یا نفسیاتی نقصان نہ پہنچتا ہو تو پھر اس قسم کا حملہ ناجائز ہے کیونکہ یہ خود کشی کے مترادف ہے ۔ امام شیبانی کہتے ہیں : 
فأما اذا کان یعلم أنہ لا ینکی فیھم فانہ لا یحل لہ أن یحمل علیھم (۸۸) 
[ اگر وہ جانتا ہو کہ اس طرح دشمن کے حوصلے پست نہیں کرسکے گا تو اس کے لیے جائز نہیں کہ ان پر اس طرح تنہا حملہ کرے ۔ ] 
اس کی تشریح میں امام سرخسی کہتے ہیں : 
لأنہ لا یحصل بحملتہ شیء مما یرجع الی اعزاز الدین ، ولکنہ یقتل فقط ، وقد قال اللہ تعالیٰ : و لا تقتلوا أنفسکم (۸۹) 
[ کیونکہ اس کے اس حملے سے کوئی ایسا نتیجہ برآمد نہیں ہوتا جس سے دین کو سرفرازی حاصل ہو ، بلکہ اس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ وہ قتل کردیا جائے گا جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے : ’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو ۔ ‘‘] 
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب اس قسم کے حملے میں مجاہد کے قتل ہونے کا صرف امکان ہی ہوتا ہے پھر بھی فقہاء اس حملہ آور کو اپنے قتل کا ذمہ دار گردانتے ہیں تو اس صورت میں جبکہ حملہ آور کا قتل ہونا یقینی ہوتا ہے ، بلکہ جب دشمن کی موت کے لیے ضروری ہو کہ حملہ آور خود کو قتل کردے ، تو اسے کیسے خود کشی قرار نہیں دیا جائے گا ؟ 
تیسری وجہ ، جو قانونی لحاظ سے زیادہ اہم ہے ، یہ ہے کہ جب مجاہد دشمن کی صفوں میں گھس کر ان کو قتل اور زخمی کرنے لگتا ہے اور پھر دشمن کے حملے کے نتیجے میں وہ قتل ہوجاتا ہے تو درحقیقت اس کے قتل کا باعث دشمن کا فعل بنا ہے ۔ اس کے برعکس خود کش حملے میں حملہ آور کی موت کا باعث خود اس کا اپنافعل ہوتا ہے ۔ فقہاء نے قرار دیا ہے کہ اگر جنگ کے دوران میں حملہ آور نے دشمن پر تلوار چلائی اور غلطی سے وہ تلوار خود اس حملہ آور کو ہی لگ گئی جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوئی تو ایسا شخص ، خواہ آخرت کے احکام کے لحاظ سے شہید ہو ، دنیوی احکام کے لحاظ سے شہید نہیں کہلائے گا کیونکہ اس کے قتل کا باعث اس کا اپنا فعل بنا ہے ۔ امام سرخسی کہتے ہیں : 
فأما من ابتلی بھذا فی الدنیا یغسل و یکفن و یصلی علیہ ، لأن الشہید الذی لا یغسل من یصیر مقتولا بفعل مضاف الی العدو ، و ھذا صار مقتولا بفعل نفسہ و لکنہ معذور فی ذلک ، لأنہ قصد العدو لا نفسہ ، فیکون شہیداً فی حکم الآخرۃ ، و یصنع بہ ما یصنع بالمیت فی الدنیا ۔ (۹۰) 
[ البتہ جس پر اس قسم کی آزمائش آئی تو دنیا میں اس کے لیے حکم یہ ہے کہ ( شہید کے برعکس) اسے غسل دیا جائے گا ، اسے کفن پہنایا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حکم کہ اسے غسل نہیں دیا جاتا ( اور کفن نہیں پہنایا جاتا ) اس شہید کے لیے ہے جو کسی ایسے فعل سے قتل ہوجائے جسے دشمن کی طرف منسوب کیا جاسکے ، جبکہ یہ شخص خود اپنے فعل کے نتیجے میں قتل ہوا ۔ تاہم چونکہ وہ اس معاملے میں معذور تھا کہ اس نے دشمن کے قتل کا ارادہ کیا تھا نہ کہ اپنے آپ کو قتل کرنے کا ، اس لیے آخرت کے احکام میں وہ شہید ہوگا ۔ اور دنیا میں اس کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے گا جو عام میت کے ساتھ دنیا میں کیا جاتا ہے ۔ ] 
پس جب مجاہد دشمن پر حملہ کرتے ہوئے غلطی سے خود کو زخمی کرلے اور اس زخم سے اس کی موت واقع ہوجائے تو اسے آخرت کے احکام کے لحاظ سے تو شہید کہا جائے گا لیکن اس پر شہید کے دنیوی احکام کا اطلاق نہیں ہوگا ۔ جو شخص قصداً اپنی موت کا باعث بنے ظاہر ہے کہ اس پر شہید کے دنیوی کا احکام کا اطلاق تو قطعاً نا ممکن ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسے آخرت کے احکام کے لحاظ سے شہید کہا جاسکے گا ؟ قرآن و سنت کے نصوص اور فقہاء کی تشریحات کی روشنی میں ہماری ناقص رائے تو یہ ہے و اللہ اعلم کہ ایسا شخص آخرت کے احکام کے لحاظ سے بھی شہید نہیں کہلا سکتا کیونکہ اپنے قتل کا آپ باعث بن کر وہ شریعت کے ایک بنیادی حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔ غزوۂ خیبر کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حملہ روک دینے کا حکم دیا تو اس کے بعد آپ کو اطلاع ملی کہ فلاں شخص شہید کیا گیا ۔ جب پوچھنے پر آپ کو معلوم ہوا کہ اسے حملے کی ممانعت کے کے حکم کے بعد قتل کیا گیا تو آپ نے فرمایا : 
ان الجنۃ لا تحل لعاص (۹۱) 
[ یقیناًجنت میں نافرمان داخل نہیں ہوسکتا۔ ] 
ایک وقتی حکم کی مخالفت پر اتنی سخت وعید سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ ایک ابدی حکم کی مخالفت کرنے والا خود کو کتنی بڑی سزا کا مستحق بناتا ہے ! و العیاذ باللہ ۔ 

خود کش حملے اور مسلمانوں کا قتل ناحق 

قرآن و سنت میں جن کاموں پر انتہائی سخت وعید آئی ہے ان میں ایک مسلمان کا قتل بھی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : 
وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَاباً عَظِیْماً ( سورۃ النسآء ، آیت ۹۳ ) 
[اور جو کوئی کسی مسلمان کو عمداً قتل کرے گا تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، اور پر خدا کا غضب اور اس کی لعنت ہے ، اور اللہ نے اس کے لیے ایک عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے ۔ ]
اہل سنت کا عام اصول یہ ہے کہ وہ کسی بھی کبیرہ گناہ کے مرتکب کو کافر نہیں ٹھہراتے ۔ اس لیے اس قسم کی آیات اور احادیث کے متعلق ، جن میں کسی گناہ کی سزا میں خلود فی النار کی وعید آئی ہو ، ان کی تاویل یہ ہوتی ہے کہ یہ سزا اس شخص کے لیے ہے جو اس حرام کو حلال قرار دیتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے اور ظاہر ہے کہ حرام کو حلال سمجھنا کفر ہے ۔ ایک اور تاویل یہ پیش کی جاتی ہے کہ یہاں خلود فی النار سے مراد جہنم میں طویل مدت کے لیے رہنا ہے ۔ اہل سنت کے اصول کی صحت پر اعتقاد رکھتے ہوئے اس بات کی نشاندہی ضروری محسوس ہوتی ہے کہ اس آیت کریمہ میں صرف خلود فی النار کی سزا ہی ذکر نہیں ہوئی بلکہ اس کے علاوہ چار دیگر سزائیں بھی ذکر کی گئی ہیں : 
۱۔ یہ کہ اس کا بدلہ جہنم ہے ۔ 
۲ ۔ یہ کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے غضب کیا ۔ 
۳ ۔ یہ کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ۔ 
۴ ۔ یہ کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے شدید عذاب تیار کیا ہے ۔ 
خلود فی النار کی سزا کی طرح یہ چار سزائیں بھی قرآن کریم میں صرف کفار ۔ بلکہ یہود ، نصاری ، مشرکین اور منافقین میں بد ترین کفار ۔ کے لیے آئی ہیں ۔ اس لیے ہماری ناقص رائے میں آیت کا مقتضا یہ ہے کہ مسلمان کا قتل عمد (Cold Blooded Murder) کوئی ایسا شخص کر ہی نہیں سکتا جس کے دل میں ایمان کی ذرا سی بھی رمق باقی ہو ۔ 
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن یَقْتُلَ مُؤْمِناً إِلاَّ خَطَئاً ( سورۃ النسآء ، آیت ۹۲) 
[ یہ کسی مومن کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے مگر یہ کہ غلطی سے ایسا ہوجائے ۔ ] 
بہ الفاظ دیگر، مسلمان کا قتل عمد کرتے وقت ایمان اس میں سے نکل جاتا ہے ۔ البتہ توبہ کا دروازہ کھلا ہے ۔ وہ سچے دل سے توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرما کر یہ گناہ معاف کرسکتا ہے ، بلکہ جیسا کہ حدیث صحیح میں وارد ہوا ہے وہ سو آدمیوں کے قاتل کو بھی معاف کرسکتا ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ توبہ سے دنیوی سزا ساقط نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ مقتول خود موت سے قبل یا اس کی موت کے بعد اس کے اولیاء الدم قاتل کو معاف کردیں یا اس کے ساتھ صلح کرلیں ۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ دنیوی سزا قاتل کو مل بھی جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے لازماً ہی آخرت کی سزا ساقط ہوگئی ، بلکہ آخرت کی سزا کا تعلق توبہ سے ہے ۔ نیز چونکہ قتل اللہ تعالیٰ کے حق کے علاوہ بندے کے حق پر بھی اعتدا ہے اس لیے آخرت کی سزا کی معافی کے لیے بھی مقتول کی رضامندی ضروری ہے ۔ چنانچہ احادیث میں آیا ہے کہ جس قاتل نے سچے دل سے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ اس کے مقتول کو جنت میں اعلی مقامات اور انعامات سے سرفراز کرکے اسے اس کا قائل کردے گا کہ وہ اپنے قاتل کو معاف کردے ۔ 
قتل مومن کا معاملہ انتہائی حد تک سنگین معاملہ ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جہاد کے دوران میں خصوصاً اس بات کا حکم دیا کہ مسلمان حملے کے دوران میں خصوصی احتیاطی اقدامات اٹھائیں تاکہ حملے کی زد میں کوئی مسلمان نہ آجائے، بلکہ اگر کسی کا ظاہر اس پر دلالت کرتا ہو کہ وہ مسلمان ہے تو وہ حملے سے محفوظ سمجھا جائے اور اس کے متعلق یہ نہ کہا جائے کہ وہ مسلمان نہیں ہے: 
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ فَتَبَیَّنُواْ وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ أَلْقَی إِلَیْْکُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِناً ( سورۃ النسآء ، آیت ۹۴ ) 
[اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلو تو اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو اور جو تمہیں سلام کرے اس کو یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے۔ ] 
چنانچہ شریعت کے مقتضیات کو سمجھتے ہوئے فقہا نے قرار دیا ہے کہ جہاد کے دوران میں بھی کسی مسلمان کا قتل عمد جائز نہیں ہے ، بلکہ انہوں نے یہاں تک تصریح کی ہے کہ اگر کفار کے کسی قلعے کو فتح کرنے کے بعد ان کے تمام لوگوں کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا جائے، لیکن یہ معلوم ہوا ہو کہ اس قلعے میں کوئی شخص مسلمان بھی ہے تو جب تک اس ایک مسلمان کا علم نہ ہو جائے کہ وہ کون ہے ، تب تک اس قلعے میں کسی ایک شخص کا قتل بھی جائز نہیں ہوگا ۔ امام ابن عابدین کہتے ہیں : 
ان أمر الدم خطر عظیم ، حتی لو فتح الامام حصناً أو بلدۃً وعلم أن فیھا مسلماً لا یحل لہ قتل أحد من أھلہا لاحتمال أن یکون المقتول ھو المسلم ۔ (۹۲) 
[کسی کی جان لینا بڑا سنگین معاملہ ہے ۔ یہاں تک کہ اگر امام کوئی قلعہ یا شہر فتح کرے اور اسے علم ہو کہ وہاں ایک مسلمان ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ وہاں کے لوگوں میں کسی ایک کو بھی قتل کرے کیونکہ ہر شخص کے متعلق یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ شاید وہی مسلمان ہو ۔ ] 
البتہ اضطرار کے قاعدے کے تحت فقہاء نے قرار دیا ہے کہ اگر دشمن کے قلعے پر حملہ ناگزیر ہو تو اس پر حملہ کیا جاسکتا ہے خواہ یہ اندیشہ یا یقین ہو کہ اس قلعے میں کوئی مسلمان قیدی ہے جو حملے کی زد میں آسکتا ہے ۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے مسلمان کا قتل عمد جائز ہے ۔ امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام حسن بن زیاد کہتے ہیں : 
ھذا اذا علم أنہ لیس فی ذلک الحصن أسیر مسلم ۔ فأما اذا لم یعلم ذلک فلا یحل التحریق و التغریق ، لأن التحرز عن قتل المسلم فرض و تحریق حصونھم مباح ۔ و الأخذ بما ھو الفرض أولی۔ (۹۳) 
[دشمن کے قلعے کو جلانا یا اسے پانی میں غرق کرنا اس وقت جائز ہے جب معلوم ہو کہ اس قلعے میں کوئی مسلمان قیدی نہیں ہے ۔ اگر اس بارے میں علم نہ ہو تو اس قلعے کو جلانا یا غرق کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ مسلمان کے قتل سے بچنا فرض ہے اور دشمن کے قلعوں کو جلانا یا غرق کرنا مباح ہے اور فرض پر عمل مباح پر عمل سے زیادہ ضروری ہے۔] 
اس کے جواب میں امام سرخسی اور دیگر فقہائے احناف نے اضطرار کے قاعدے کا ذکر کیا ہے اور قرار دیا ہے کہ اگر ایسے قلعے پر حملہ ناگزیر ہو تو حملہ کیا جاسکتا ہے لیکن حملہ آور مسلمان کے قتل کا ارادہ نہیں کریں گے کیونکہ مسلمان کا قتل عمد حرام ہے۔ امام سرخسی کہتے ہیں : 
لو منعناھم من ذلک یتعذر علیھم قتال المشرکین و الظھور علیھم ، و الحصون قلّ ما تخلو عن أسر ۔ و کما لا یحل قتل الأسیر لا یحل قتل النساء و الولدان ۔ ثم لا یمتنع تحریق حصونھم بکون النساء و الولدان فیھا ۔ فکذلک لا یمتنع ذلک بکون الأسیر فیھا ، و لکنھم یقصدون المشرکین بذلک ، لأنھم لو قدروا علی التمییز فعلاً لزمھم ذلک ۔ فکذلک اذا قدروا علی التمییز بالنےۃ یلزمھم ذلک۔ (۹۴) 
[ اگر ہم مسلمانوں کو اس قلعے پر حملے سے روکیں تو ان کے لیے مشرکین سے لڑنا اور ان پر غالب ہونا ناممکن ہوجائے گا کیونکہ ان کے قلعے میں کم ہی کوئی ایسا ہوگا جس میں کوئی مسلمان قیدی نہ ہو ۔ پھر جس طرح مسلمان قیدی کا قتل ناجائز ہے اسی طرح دشمن کی عورتوں اور بچوں کا قتل بھی ناجائز ہے ۔ اس کے باوجود اس قلعے پر حملہ جائز ہے خواہ وہاں دشمن کی عورتیں اور بچے ہوں ۔ اسی طرح اس قلعے میں مسلمان قیدی کا ہونا اس حملے کی ممانعت کا سبب نہیں بن سکتا ۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ حملہ کرنے والوں کی نیت مشرکین پر حملے کی ہو کیونکہ اگر ان کے لیے عملاً مسلمان اور مشرک میں تمیز ممکن ہوتی تو ان پر لازم ہوتا کہ وہ تمیز کرتے ۔ پس اس صورت میں جبکہ وہ نیت میں تمیز پر قادر ہیں تو ان پر یہی لازم ہے ۔ ] 
کیا کوئی ایسی صورت ہوسکتی ہے جس میں مسلمان کا قتل عمد جائز ہوسکے ؟ امام غزالی نے ایک فرضی صورتحال ذکر کی ہے جس میں کفار مسلمان قیدیوں کو ڈھال بنا کر مسلمانوں پر حملہ کرتے ہیں ۔ ایسی صورت میں مسلمان اگر دشمن پر حملہ کریں گے تو اس کے لیے ضروری ہوگا کہ پہلے ان مسلمانوں کو قتل کیا جائے جن کو انہوں نے ڈھال بنا کر آگے کیا ہوا ہے ۔ اگر مسلمان انہیں قتل نہیں کریں گے تو یقینی ہے کہ مسلمانوں پر فتح پانے کے بعد دشمن ان قیدیوں کو بھی قتل کردے گا ۔ پس ایسی صورت میں ان قیدیوں کو بہر حال قتل ہونا ہے ۔ تو کیا ان کا قتل جائز ہوگا ؟ یا ان کے قتل سے باز رہ کر مسلمان دشمن کو آگے بڑھ کر اپنے اوپر غالب ہونے کا موقع دیں گے ؟ 
ان الکفار اذا تترسوا بجماعۃ من أساری المسلمین ، فلو کففنا عنھم لصدمونا ، و غلبوا علی دار الاسلام ، و قتلوا کافۃ المسلیمن ۔ و لو رمینا الترس لقتلنا مسلماً معصوماً لم یذنب ذنباً ، و ھذا لا عھد بہ الشرع ۔ و لو کففنا لسلطنا الکفار علی جمیع المسلمین ، فیقتلونھم ، ثم یقتلون الأساری أیضاً ۔ فیجوز أن یقول قائل : ھذا الأسیر مقتول بکل حال ، فحفظ جمیع المسلمین أقرب الی مقصود الشرع لأنا نعلم قطعاً أن مقصود الشرع تقلیل القتل کما یقصد حسم سبیلہ عند الامکان ۔ فان لم نقدر علی الحسم قدرنا علی التقلیل ۔ و کان ھذا التفاتاً الی مصلحۃ علم بالضرورۃ کونھا مقصود الشرع ، لا بدلیل واحد و أصل معین بل بأدلۃ خارجۃ عن الحصر ۔ لکن تحصیل ھذا المقصود بھذا الطریق ، و ھو قتل من لم یذنب ، غریب لم یشھد لم أصل معین ۔ فھذا مثال مصلحۃ غیر مأخوذۃ بطریق القیاس علی أصل معین ، و انقدح اعتبارھا باعتبار ثلاثۃ أوصاف : أنھا ضرورۃ ، قطعیۃ ، کلیۃ ۔ (۹۵) 
[ اگر کفار مسلمانوں کے قیدیوں کو ڈھال بنائیں تو اگر ہم ان پر حملے سے گریز کریں گے تو وہ ہمیں سخت نقصان پہنچا کت دار الاسلام پر غالب آئیں گے اور پھر تمام مسلمانوں کو قتل کردیں گے ۔ تاہم اگر ہم ان ڈھال بنائے گئے قیدیوں کو نشانہ بنائیں گے تو ہم ایک ایک ایسے مسلمان کو ، جس کی زندگی قانونی طور پر محفوظ ہے ، قتل کریں گے حالانکہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا ، اور شریعت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اور اگر ہم ان پر حملہ نہیں کریں گے تو ہم کفار کو تمام مسلمانوں پر مسلط ہونے کا موقع دیں گے جو غالب ہونے کے بعد ان مسلمانوں کو بھی کریں گے اور ان کے بعد ان قیدیوں کو بھی ۔ پس کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ یہ قیدی تو دونوں صورتوں میں قتل ہوں گے تو تمام مسلمانوں کی حفاظت شریعت کے مقصود سے زیادہ قریب ہے کیونکہ ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ شریعت کا مقصود قتل کو روکنا ہے لیکن اگر روکنا ممکن نہ ہو تو پھر شریعت اسے کم سے کم کرنا چاہتی ہے ۔ پس اگر ہم قتل کو روک نہیں سکتے تو اسے کم تو کرسکتے ہیں ۔ پس یہ ایسی مصلحت کی طرف التفات ہے جس کا شریعت کا مقصود ہونا کسی ایک مخصوص دلیل یا معین اصل سے نہیں بلکہ بے شمار دلائل سے ضرورۃً معلوم ہے ۔ تاہم اس مصلحت کا اس مخصوص طریقے سے حصول ، کہ اس کے لیے کسی بے قصور کا قتل کرنا پڑے ، غریب ہے جس کے لیے کوئی معین اصل شاہد نہیں ہے ۔ پس یہ ایسی مصلحت کی مثال ہوئی جو کسی اصل معین پر قیاس کے ذریعے ماخوذ نہیں ہوتی ، اور اس کے معتبر ہونے کے لیے تین شرائط ضروری ہیں : کہ یہ ضرورات میں ہو ، قعطی ہو اور کلی ہو ۔ ] 
امام غزالی نے اس صورت حال کو ’’ مصلحۃ غریبۃ‘‘ کا عنوان دیا ہے ، یعنی وہ مصلحت جس کی شریعت نہ تو تائید کرے نہ تردید ۔ مصلحت غریبہ پر عمل کے لیے امام غزالی نے تین شرائط ذکر کی ہیں : 
(۱) یہ کہ اس کا تعلق ضرورات کے ساتھ ہو ۔ یعنی اس کے ذریعے دین ، نفس ، عقل ، نسل یا مال کی حفاظت مقصود ہو۔ 
(۲) یہ کہ یہ قطعی ہو ۔یعنی اس کے نتائج کے متعلق ہمیں پورا یقین ہو کہ اس کے ذریعے مذکورہ مقصد کی حفاظت ہوگی ۔ 
(۳) یہ کہ یہ کلی ہو ۔ یعنی یہ امت کے کسی ایک فرد یا افراد کے مجموعے کے لیے نہ ہو بلکہ پوری امت کے لیے ہو۔ 
ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے ایک گروہ ، خواہ وہ کتنا ہی بڑا گروہ ہو ، کی مصلحت کو پوری امت کی مصلحت نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس لیے خواہ یہ امکان ہو کہ ایسی صورت میں مسلمانوں کے اس گروہ پر کفار غالب آجائیں گے تب بھی ان کے لیے جائز نہیں ہوگا کہ ڈھال بنائے گئے مسلمانوں کا قتل عمد کریں ۔ اسی وجہ سے امام غزالی آگے کئی مثالیں ذکر کرتے ہیں جن کے متعلق وہ صراحتاً کہتے ہیں کہ ان صورتوں میں کسی مسلمان کا قتل جائز نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں ان شرائط میں کوئی شرط مفقود ہوتی ہے : 
ولیس فی معناھا : ما لو تترس الکفار فی قلعۃ بمسلم ، اذ لا یحل رمی الترس، اذ لا ضرورۃ، فینا غنیۃ عن القلعۃ، فنعدل عنھا، اذ لم نقطع بظفرنا بھا لأنھا لیست قطعیۃ ، بل ظنیۃ۔ ولیس فی معناھا: جماعۃ فی سفینۃ لو طرحوا واحداً منھم لنجوا، و الا غرقوا بجملتھم ، لأنھا لیست کلیۃ ، اذ یحصل بھا ھلاک عدد محصور، ولیس ذلک کاستئصال کافۃ المسلمین ، و لأنہ لیس یتعین واحد للاغراق الا أن یتعین بالقرعۃ، و لا أصل لھا۔ وکذلک جماعۃ فی مخمصۃ، لو أکلوا واحداً بالقرعۃ لنجوا، فلا رخصۃ فیہ لأن المصلحۃ لیست کلیۃ ۔(۹۶)
[ ایسی مصلحت کی مثال یہ نہیں ہے کہ اگر کسی قلعے میں کفار نے کسی مسلمان کو ڈھال بنا لیا ہو ، کیونکہ ایسی صورت میں اس ڈھال بنائے گئے مسلمان کو نشانہ بنانا ناجائز ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حملہ ناگزیر نہیں ہے ۔ ہم اس قلعے پر قبضہ کرنے سے بے نیاز ہیں ۔ پس ہم اس قلعے پر حملہ کرنے سے باز رہیں گے کیونکہ ہم یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ ہم اسے فتح ہی کرلیں گے ۔ پس یہ مصلحت قطعی نہیں بلکہ ظنی ہے ۔ اسی طرح اس کی مثال یہ بھی نہیں کہ اگر کسی ڈوبتی کشتی میں کئی لوگ سوار ہوں اور اگر وہ کسی ایک کو دریا میں پھینک دیں تو باقی بچ جائیں گے ، اور اگر کسی کو نہیں پھینکیں گے تو سارے ہی ڈوب جائیں گے۔ اس مصلحت کے غیر معتبر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ کلی نہیں ہے کیونکہ اس طرح چند لوگ ہی غرق ہوں گے جسے تمام مسلمانوں کا صفایا ہونے کے مترادف نہیں قرار دیا جاسکتا۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ کسی ایک کو دریا میں پھینکنے کے لیے منتخب کرنے کا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ قرعہ ڈالیں جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی گروہ بھوک سے مجبور ہوجائے اور وہ چاہیں کہ ان میں کسی ایک کو قتل کرکے اس کا گوشت کھائیں ورنہ سارے ہی مر جائیں گے تو اس کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اس کی وجہ وہی ہے کہ یہ مصلحت کلی نہیں ہے ( ان چند لوگوں کے مرنے سے پوری امت کا خاتمہ نہیں ہوگا ۔ ] 
قرآن و سنت کے نصوص اور فقہا کی ان تصریحات کے بعد جب خود کش حملوں کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ نظر آتی ہے کہ ان حملوں میں ان تمام نصوص اور تصریحات کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ ان حملوں کے نتیجے میں اب تک کتنے معصوم مسلمانوں کو قتل کیا گیا ہے ؟ اس کا کوئی صحیح اندازہ اس وقت تک نہیں لگایا جاسکتا جب تک ان حملوں کے پورے ریکارڈ کا تجزیہ نہ کیا جائے ۔ تاہم اتنی بات تو بالکل واضح ہے کہ مسجد ، جنازگاہ ، جرگہ کی مجلس اور بازار وں میں کیے جانے والے ان حملوں کا نشانہ معصوم مسلمان ہی بنتے ہیں ۔ پچھلے کچھ عرصے سے ان حملوں کا رخ فوج کے علاوہ دیگر سیکیورٹی فورسز بالخصوص پولیس کی طرف ہوا ہے ۔ کیا یہ فوجی اور پولیس غیر مسلم ہیں ؟ کیا ان کا قتل عمد جائز ہے ؟ 
اس قسم کے سوالات سے بچنے کے لیے ہی خود کش حملہ آور کو تیار کرنے والے لوگوں کا زور اس کی جسمانی تربیت کے علاوہ اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ حملہ آور کو یہ پختہ یقین دلایا جائے کہ جس ہدف پر حملے کے لیے اسے تیار کیا جارہا ہے وہ بالکل جائز ہے کیونکہ یہ لوگ مسلمان نہیں بلکہ مرتد ہیں اور اس وجہ سے واجب القتل ہیں ۔ فوجیوں اور پولیس کو مرتد کیسے قرار دیاجا سکتا ہے ؟ اس کا انہوں نے بڑا سیدھا حل نکالا ہے ۔ عام طور پر استدلال اس طرح کیا جاتا ہے : 
  • امریکہ اور اس کے اتحادی کفار نے مسلمانوں پر حملہ کیا ہے ۔ 
  • ان کفار کا ساتھ دینا حرام ہے ۔ 
  • مسلمان حکمران جو ان کفار کا ساتھ دیتے ہیں وہ مرتد ہوچکے ہیں ۔ 
  • ان حکمرانوں کی حفاظت کرنے والے اور ان کے پشتیبان بننے والے بھی ان کے ساتھ شامل ہیں اور ظاہر ہے کہ حکومت کا دفاع کرنے والوں میں فوجی پہلے درجے میں اور دوسری سیکورٹی فورسز ان کے بعد دوسرے درجے میں آتے ہیں۔ 
یہ استدلال بالبداہت غلط ہے لیکن اس پر بحث اس مقالے کے حدود سے باہر ہے ۔ یہاں صرف اس بات کی طرف اہل علم کی توجہ دلانا مقصود ہے کہ خود کش حملوں کے جواز اور عدم جواز کی بحث میں ’’مسلمان کی تکفیر ‘‘کا مسئلہ بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے جسے خود کش حملوں پر بحث میں بالعموم نظر انداز کیا گیا ہے۔ 

مقتولین کی دیت ، زخمیوں کا ارش اور املاک کو نقصان پہنچنے والے نقصان کا ضمان 

اگر ایک لمحے کے لیے اسلام اور کفر کے مسئلے سے صرف نظر بھی کیا جائے اور فرض کیا جائے کہ خود کش حملہ آور کا ہدف بنیادی طور پر صحیح ہوتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرض کیا جائے کہ اس کا ارادہ بے قصور لوگوں کو مارنے کا نہیں ہوتا تب بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان بے قصور مقتولین کی دیت کی ادائیگی لازم نہیں ہے ؟ اسی طرح کیا زخمی ہونے والوں کے زخموں کے ارش یا ضمان کی ادائیگی لازم نہیں ہے ؟ اگر دیت ، ارش اور ضمان کی ادائیگی لازم ہے تو اس کی ادائیگی کا کون ذمہ دار ہے ؟ یہی سوال املاک کو پہنچنے والے نقصان کے متعلق بھی ہے ۔ کیا غلطی سے کسی کا مال ضائع کرنے یا خراب کردینے والے کو شریعت نے ضمان ادا کرنے کا پابند نہیں کیا؟ 
فقہ اسلامی کا مسلمہ اصول ہے کہ جنگ کے دوران میں بھی اگر کوئی شخص غلطی سے کسی ایسے شخص کو قتل کرلے جس کا قتل اس کے لیے جائز نہیں ہے تو دیت کی ادائیگی واجب ہوتی ہے ۔ چنانچہ قتل خطا کی تمثیل میں بالعموم یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ مسلمان نے کسی شخص کو حربی سمجھ کر اس پر حملہ کیا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ تو مسلمان تھا ، یا اس نے حربی کو نشانہ بنایا لیکن غلطی سے کوئی دوسرا مسلمان اس کی زد میں آکر قتل ہوا ۔ امام شیبانی کہتے ہیں: 
و اذا کان القوم من المسلمین یقاتلون المشرکین فقتل مسلم مسلماً ظن أنہ مشرک ، أو رمی الی مشرک فرجع السھم فأصاب مسلماً فقتلہ فعلیہ الدیۃ و الکفارۃ۔ (۹۷) 
[ اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ مشرکین سے لڑ رہا ہو اور کسی مسلمان نے کسی دوسرے مسلمان کو مشرک سمجھ کر قتل کیا ، یا اس نے مشرک کی طرف تیر پھینکا مگر وہ پلٹ کر کسی مسلمان کو لگا جس کے نتیجے میں وہ قتل ہوگیا ، تو ہر دو صورتوں میں اس پر دیت اور کفارہ لازم ہے ۔ ] 
امام سرخسی اس کی وضاحت میں کہتے ہیں : 
لأن ھذا صورۃ الخطأ ، و الدیۃ و الکفارۃ فی قتل الخطأ واجب بالنص (۹۸) 
[ کیونکہ یہ خطا کی صورت ہے ، اور قتل خطا میں دیت اور کفارے کا وجوب نص سے ثابت ہے ۔ ] 
دیت کا حکم اس صورت میں بھی ہے جب حملے کی زد میں ایسا غیر مسلم آئے جس کا قتل ناجائز ہو ، مثلاً وہ مسلمان ملک میں مستقل اقامت پذیر ہو ( اہل ذمہ ) ، یا وہ ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہو جس کے ساتھ مسلمانوں نے امن کا معاہدہ کیا ہو ( اہل موادعہ) ، یا وہ مسلمانوں سے اجازت لے کر مسلمانوں کے درمیان آیا ہو ( مستامن ) ۔ ارش اور ضمان کا بھی یہی حکم ہے ۔ یہ اصول بھی فقہا کے نزدیک مسلمہ ہے کہ دیت کی ادائیگی قاتل کی عاقلہ کرتی ہے بشرطیکہ قتل عمد نہ ہو یا دیت کی ادائیگی صلح کے نتیجے میں لازم نہ ہوئی ہو ۔ ان آخری دو صورتوں میں دیت کی ادائیگی کے لیے تنہا قاتل ذمہ دار ہوگا ۔ (۹۹)
پس اگر خود کش حملوں کے نتیجے میں قتل و زخمی ہونے والوں میں کوئی ایسا ہو جس پر حملہ ناجائز ہو ( اور بالعموم ان حملوں کی زد میں وہی لوگ آتے ہیں جن پر حملہ ناجائز ہوتا ہے ) اور یہ فرض کیا جائے کہ یہ غلطی سے حملے کی زد میں آئے تو ان کی دیت کی ادائیگی قاتل کے عاقلہ پر لازم ہوگی، اور اگر یہ مانا جائے کہ ان لوگوں کو قصداً نشانہ بنایا گیا تو پھر اس کی ادائیگی کی ذمہ داری قاتل پر ہوگی ۔ اول الذکر صورت میں یہ تعین کرنا بھی ضروری ہوگا کہ قاتل کا عاقلہ کسے سمجھا جائے ؟ کیا اس کے اہل خاندان کو ؟ یا اس کے ان مربّیوں کو جن کو اس نے اپنا اہل و عیال چھوڑ کر اپنایا ہوتا ہے اور جن کی رہنمائی میں وہ اس حملے پر آمادہ ہوتا ہے ؟ ثانی الذکر صورت میں دیت کی ادائیگی اس کے ترکے سے کی جائے گی کیونکہ قاتل تو خود بھی اس حملے میں ہلاک ہوجاتا ہے ۔ اگر قاتل کے متعلق معلوم نہ ہو کہ وہ کون تھا ؟ یا اس کے عاقلہ کا تعین نہ ہوپارہا ہو ، یا اس نے جو ترکہ چھوڑا ہو، اس میں سے تمام مقتولین و مجروحین کی دیت ، ارش اور ضمان کی ادائیگی ممکن نہ ہو تو پھر اس کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی ۔ کیا حکومت اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے تیار ہے ؟ 
اسی طرح شریعت نے ضمان کے سلسلے میں عقل ، بلوغت یا عمد کی شرائط نہیں رکھیں ۔ اس لیے کسی کی املاک کو اگر بچہ یا مجنون بھی نقصان پہنچائے ، یا کوئی عاقل بالغ شخص غلطی سے نقصان پہنچائے، تب بھی ان تمام صورتوں میں شریعت نے لازم کیا ہے کہ نقصان پہنچانے والے کے مال سے اس نقصان کی تلافی کی جائے ۔ اس نقصان کی تلافی کے لیے عاقلہ ذمہ دار نہیں ہوتی ۔ اگر نقصان پہنچانے والے کا تعین نہ ہوپارہا ہو تو یہاں بھی آخری ذمہ داری حکومت پر آتی ہے ۔ (۱۰۰) 
اسلامی شریعت کے قواعد عامہ جو خود کش حملے کے نتیجے میں پامال ہوتے ہیں :
اس ساری بحث سے معلوم ہوا کہ خود کش حملوں کے نتیجے میں اسلامی آداب القتال کے کئی قواعد عامہ پامال ہوتے ہیں ۔ ان میں سے چند اہم قواعد عامہ یہاں ذکر کیے جاتے ہیں : 
اولاً : غدر کی ممانعت ۔ خود کش حملہ آور بالعموم مقاتل کے روپ میں نہیں ہوتا اور غدر کا مرتکب ہوتا ہے ۔ 
ثانیاً : غیر مقاتلین پر حملہ ۔ ان حملوں کی زد میں آنے والے لوگوں کی اکثر یت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن پر حملہ کرنا ناجائز ہوتا ہے ۔ 
ثالثاً : اندھا دھند حملے کی ممانعت ۔ حملہ بالعموم میدان جنگ کے بجائے عام شہری آبادی میں کیا جاتا ہے جس میں عام شہریوں کے قتل اور زخمی ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے ۔ 
رابعاً : خود کشی کی ممانعت ۔ حملہ آور کی موت کا باعث خود اس کا اپنا فعل ہوتا ہے ، نہ کہ دشمن کا کوئی فعل ۔ 
خامساً : مثلہ کی ممانعت ۔ حملہ آور بم اور بارود کا استعمال کرکے خود اپنی لاش کا اور دوسروں کی لاشوں کا مثلہ کرتا ہے۔ 
سادساً : قتل مومن کی ممانعت ۔ اگر حملہ مسلمانوں پر ہو تو خود کش حملہ آور ان کے قتل کے گناہ کبیرہ کا بھی ارتکاب کرتا ہے ۔ 
سابعاً : دیت ، ارش اور ضمان ادا کرنے کے حکم کی خلاف ورزی ۔ حملے کی زد میں آنے والے بے قصور مقتولین اور مجروحین کے قتل یا زخمی ہونے ، اور لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے لازم ہونے والی دیت ، ارش یا ضمان کی ادائیگی نہیں کی جاتی ۔ 
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری محسوس ہوتی ہے کہ خود کش حملوں کے جواز کے لیے ’’ اضطرار ‘‘ کا قاعدہ بھی ناکافی ہے ۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل نکات پر غور کیجیے : 
اولاً : یہ صحیح ہے کہ اگر مقاتلین اور غیر مقاتلین میں تمییز ممکن نہ ہو اور غیر مقاتلین کو حملے سے بچانے کے لیے تمام ممکنہ احتیاطی اقدامات اٹھائے جائیں تب بھی چند غیر مقاتلین حملے کی زد میں آجائیں تو اضطرار کے قاعدے کے تحت اس کی گنجائش نکل سکتی ہے ۔ تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس صورت میں اضطرار کی پابندیوں پر عمل لازم ہوتا ہے ۔ پس شہری آبادی میں حملہ بہر صورت ناجائز ہوگا کیونکہ اس حملے کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں غیر مقاتلین بلا ارادہ ضمنی طور پر نشانہ بنے ۔ 
ثانیاً : دیت ، ارش یا ضمان کی ادائیگی کے حکم کو اضطرار کے نام پر معطل نہیں کیا جاسکتا ۔ 
ثالثاً : چونکہ حملہ آور کا غیر مقاتل کے بھیس میں آنا غدر ہے اس لیے اسے بھی اضطرار کے نام پر جواز نہیں مل سکتا ۔ 
رابعاً : مسلمان کا قتل عمد اضطرار کے قاعدے سے بھی جائز نہیں ٹھہرتا ، بلکہ اس کے لیے چند اضافی شرائط کی پابندی لازمی ہے جو بہت ہی مخصوص حالات کے ماسوا ممکن نہیں ہوسکتا ۔ 
خامساً : عام حملوں میں بم اور بارود کے استعمال کو اضطرار کے قاعدے کے تحت جائز قرار دیا جاسکتا ہے اور مثلہ کی ممانعت کے حکم کو اضطرار کے قاعدے کے تحت غیر مؤثر سمجھا جاسکتا ہے لیکن خود کش حملے میں ان کے استعمال کو اس وجہ سے جائز نہیں قرار دیا جاسکتا کہ اس کے نتیجے میں حملہ آور خود اپنی موت کا باعث بنتا ہے ۔ گویا اگر اس اجازت دی گئی تو یہ خود کشی کی ممانعت کے حکم کو معطل کرنے کے مترادف ہوگا ۔ کیا خود کشی کی ممانعت کو اضطرار کے تحت معطل کیا جا سکتا ہے ؟ 
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگر اسلامی شریعت کے قواعد کی پابندی کرتے ہوئے حملہ کیا جائے تو وہ ’’ خود کش حملہ ‘‘ نہیں ہوگا ۔ پس اسلامی آداب القتال کی پابندی کرتے ہوئے خود کش حملوں کے جواز کے لیے کوئی راہ نہیں نکالی جاسکتی ۔ 
ھذا ما عندی ، و العلم عند اللہ ۔ اللھم أرنا الحق حقاً و ارزقنا اتباعہ، و أرنا الباطل باطلاً و ارزقنا اجتنابہ ۔


حواشی 

۱۔ اس موضوع پر بین الاقوامی قانون کے ایک اچھے تعارف کے لیے دیکھئے : 
Michael Akehurst, Modern Introduction to International Law (New York: Routledge, 1997), pp 306-363. 
۲ ۔ ایضاً ، ص ۳۵ ۔ ۴۷ 
۳ ۔ تفصیل کے لیے دیکھئے : 
Larry Maybee and Benerji Chakka (ed.), Custom as a Source of International Humanitarian Law (New Delhi: ICRC, 2006). 
۴ ۔ آداب القتال کے بین الاقوامی قانون کے خلاصے اور تعارف کے لیے دیکھئے : 
Hans-Peter Gasser, International Humanitarian Law (Haupt: Henry Dunant Institute, 1993). 
۵ ۔ تیسرے جنیوا معاہدے کی دفعہ ۸۵ کے تحت جنگی قیدی کے خلاف کسی ایسے جرم میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے جو اس نے قید کرنے والے فریق کے خلاف کیا ہو ۔ دفعہ ۱۰۰ کے تحت اسے سزائے موت بھی سنائی جاسکتی ہے ۔ 
۶۔
 International Humanitarian Law, 58-61 
۷ ۔ ایضاً ، ص ۶۲ ۔ ۶۶ 
۸ ۔ ایضاً ، ص ۵۰ ۔ ۵۲ ۔ 
۹۔
 The Legality of the Threat or Use of Nuclear Weapons, ICJ 1996 Rep 66 
۱۰ ۔ اس اصول کی بنیاد پر دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپانی اور جرمن جرنیلوں کو سزائیں دینے کے لیے خصوصی عدالتیں ٹوکیو اور نورمبرگ میں قائم کی گئیں ۔ اسی طرح یوگوسلاویہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد وہاں بڑے پیمانے پر جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مجرموں کو سزا دینے کے لیے خصوصی عدالت قائم کی جس نے اس اصول کو پھر تسلیم کیا ۔ اس اصول کو روانڈا کے لیے قائم کی گئی خصوصی عدالت نے بھی تسلیم کیا ہے ۔ اب اس قسم کے مجرموں کو سزا دینے کے لیے جو مستقل ’’ عالمی فوجداری عدالت ‘‘ (International Criminal Court) قائم ہوئی ہے اس کے دستور میں بھی اس اصول کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ روایتی طور پر سفیر اور سربراہ ریاست کو عام طور پر فوجداری قانون کے اطلاق سے مستثنی مانا گیا تھا لیکن جنرل پنوشے کیس سے ثابت ہوا ہے کہ اب بین الاقوامی فوجداری قانون (International Criminal Law) کے اطلاق سے سفیر اور سربراہ ریاست بھی مستثنی نہیں ہیں ۔ سوڈان کے صدر عمر البشیر کے خلاف کاروائی کی بنیاد بھی یہی اصول ہے ۔ 
۱۱ ۔ دیکھئے چوتھے ہیگ معاہدے کی دفعہ ۱ ؛ تیسرے جنیوا معاہدے کی دفعہ ۴۔ 
۱۲ ۔ چوتھے ہیگ معاہدے کی دفعہ ۲ ؛ تیسرے جنیوا معاہدے کی دفعہ ۴ ۔ 
۱۳ ۔ پہلے اضافی پروٹوکول کی دفعہ ۴۳ 
۱۴ ۔ دیکھئے : پہلے اضافی پروٹوکول کی دفعہ ۳۷ 
۱۵ ۔ دیکھئے :
International Humanitarian Law, 56-58; Pietro Verri, Dictionary of the International Law of Armed Conflict (Geneva: International Committee of the Red Cross, 1992), p 100. 
۱۶ ۔ تفصیل کے لیے دیکھئے : 
Muhammad Mushtaq Ahmad, Use of Force for the Right of Self- determination in International Law and Shari'ah: A Comparative Study, Dissertation of LLM Shari'ah and Law, International Islamic University Islamabad, 2006, pp 88-97 and 121-35.
۱۷ ۔ سنن الترمذی ، کتاب الأحکام ، باب ما ذکر عن النبی ﷺ فی الصلح بین الناس ، حدیث رقم ۱۲۷۲ 
۱۸ ۔ صحیح البخاری ، کتاب البیوع ، باب اذا اشترط شروطاً فی البیع لا تحل ، حدیث رقم ۲۰۲۳ 
۱۹ ۔ اس اصول پر فقہاء نے لاتعداد جزئیات کی بنیاد رکھی ہے ۔ مثال کے طور پر انہوں نے قرار دیا ہے کہ اگر کسی نے معاہدہ کرکے دو دراہم اور ایک دینار کے بدلے ایک درہم اور دو دینار لیے تو یہ معاہدہ صحیح ہوگا حالانکہ معلوم ہے کہ ایک درہم کا دو دراہم کے ساتھ اور ایک دینار کا دو دینار کے ساتھ تبادلہ جائز نہیں ہے ۔ تاہم معاہدے کی تصحیح حسب الامکان واجب ہے ۔ اس لیے یہ فرض کیا جائے گا کہ اس نے دو دراہم کے بدلے دو دینار لیے اور ایک دینار کے بدلے ایک درہم لیا ، اور یہ دونوں معاملات اپنی جگہ صحیح ہیں ۔( امام ابو بکر برہان الدین المرغینانی ، الھدایۃ شرح بدایۃ المبتدی ( بیروت : دار احیاء التراث العربی ، تاریخ ندار ) ، کتاب الصرف ، ج ۳ ، ص ۸۳ ) 
۲۰ ۔ اس موضوع پر تفصیلی فقہی تجزیے کے لیے دیکھئے : امام ابو بکر محمد بن احمد ابی سہل السرخسی ، شرح کتاب السیر الکبیر (بیروت : دار الکتب العلمیۃ ، ۱۹۹۷ م ) ، باب قتل الأساری و المن علیہم ، ج ۳ ، ص ۱۲۴ ۔ ۱۳۵ ۔ 
۲۱ ۔ تیسرے جنیوا معاہدے کی دفعہ ۱۱۸ 
۲۲ ۔ شرح کتاب السیر الکبیر ، باب الأمان ، ج ۱ ، ص ۲۱۰ 
۲۳ ۔ ایضاً 
۲۴ ۔ ایضاً 
۲۵ ۔ ایضاً ، ص ۲۱۳ 
۲۶ ۔ ایضاً ، ص ۲۱۲
۲۷ ۔ ایضاً 
۲۸ ۔ ایضاً 
۲۹ ۔ ایضاً ، ص ۲۱۴ 
۳۰ ۔ ایضاً 
۳۱ ۔ ایضاً 
۳۲ ۔ اسلامی آداب القتال کے ایک اچھے مطالعے کے لیے دیکھئے : 
محمد منیر ، أحکام المدنیین فی الحرب فی الفقہ الاسلامی و القانون الدولی الانسانی ۔ دراسۃ مقارنۃ ، بحث مقدم لنیل درجۃ الماجستیر فی الشریعۃ و القانون ، کلیۃ الشریعۃ و القانون ، الجامعۃ الاسلامیۃ العالمیۃ ، اسلام آباد ، ۱۹۹۶ م 
مزید دیکھئے : 
Muhammad Mushtaq Ahmad, International Humanitarian Law and Islamic Law, Journal of Law and Society, Vol. XXXVI, No. 49, January 2007, Legal Research Centre, Law College, University of Peshawar 
۳۳ ۔ تفصیل کے لیے دیکھئے : ابو الولید محمدبن احمد ابن رشد ، بداےۃ المجتھد و نھایۃ المقتصد ، (الریا ض: مکتبۃ مصطفی باز ، ۱۹۹۵ء ) ، ج ۱ ، ص ۳۷۱ ؛ کمال الدین محمد ابن الھمام الاسکندری ، فتح القدیرعلی الھدایۃ شرح بدایۃ المبتدی، (القاھرۃ : دارالکتب العربیۃ ، ۱۹۷۰ء ) ، ج ۴ ، ص ۲۹۱ ؛ سحنون عبد السلام بن سعید بن حبیب التنوخی ،المدونۃ الکبری، (القاھرۃ ، دارالباز ، ۱۳۲۳ ھ) ، ج ۳، ص ۶ ؛ تقی الدین ابن شہاب الدین ابن تیمیۃ ، قاعدۃ فی قتال الکفار ، (دمشق : مطبعۃ السنۃ المحمدیۃ ، ۱۹۴۹ء) ، ص۱۱۶ ۔ 
۳۴ ۔ امام ابو بکر محمد بن احمد بن ابی سہل السرخسی ، المبسوط (بیروت : دار الکتب العلمیۃ ، ۲۰۰۱ م ) ، کتاب السیر ، باب معاملۃ الجیش مع الکفار ، ج ۱۰ ، ص ۳۶ 
۳۵ ۔ مسند احمد ، مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ ، و من مسند علی بن أبی طالب ، حدیث رقم ۱۰۴۱ ؛ مسند المکثرین من الصحابۃ ، باب و من مسند علی بن أبی طالب ، حدیث رقم ۳۶۹۴ ؛ أول مسند البصریین ، باب بقیۃ حدیث الحکم بن عمرو الغفاری ، حدیث رقم ۱۹۷۳۲ ۔ 
۳۶ ۔ شرح کتاب السیر الکبیر ، باب ما یجب من طاعۃ الوالی و ما لا یجب ، ج ۱ ، ص ۱۱۷ 
۳۷ ۔ صحیح البخاری ، کتاب المغازی ، باب بعث النبی ﷺ خالد بن الولید الی بنی جذیمۃ ، حدیث رقم ۳۹۹۴؛ علامہ شبلی نعمانی ، سیرت النبی ﷺ ( کراچی : دار الاشاعت ، ۱۹۸۵ء ) ، ج ۱، ص ۳۴۴ ۔ 
۳۸ ۔ صحیح البخاری ، کتاب الجھاد و السیر ، باب الحرب خدعۃ ، حدیث رقم ۲۸۰۳ ؛ صحیح مسلم ، کتاب الجھاد و السیر ، باب جواز الخداع فی الحرب ، حدیث رقم ۳۲۷۳ ؛ سنن الترمذی ، کتاب الجھاد ، باب ما جاء فی الرخصۃ فی الکذب و الخدیعۃ فی الحرب ، حدیث رقم ۱۵۹۸ ۔ 
۳۹ ۔ شرح کتاب السیر الکبیر ، باب سھمان الخیل فی دار الحرب ، ج ۳ ، ص ۴۸ ۔ عورتوں کا غنیمت میں حصہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ جنگ میں حصہ نہیں لیتیں ۔ تاہم یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر وہ جنگ میں زخمیوں کی تیمار داری کریں یا اور کسی طریقے سے جنگ میں حصہ لیں تب بھی ان کو مال غنیمت میں مقررہ حصہ (سھم) نہیں ملے گا ۔ البتہ اس صورت میں امام ان کی کارکردگی کے اعتراف میں انہیں مال غنیمت میں ہی کچھ مال بطور انعام (رضخ) دے گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غنیمت میں مقررہ حصہ مقاتلین کے لیے ہے ، جبکہ عورتوں کے متعلق مفروضہ یہ ہے کہ وہ اصلاً غیر مقاتلہ ہے ۔ تاہم قتال میں حصہ لینے کی وجہ سے وہ غنیمت میں سے کچھ حصہ لینے کی مستحق ہوجاتی ہے ۔ یہ حصہ باقاعدہ مقاتل کے حصے کے برابر تو نہیں ہوتالیکن اسے اس بات کے اعتراف کے طور پر ادا کیا جاتا ہے کہ اس جنگ میں حصہ لیا تھا ۔ گویا وہ وقتی طور پر مقاتلہ ہوگئی تھی ۔ امام سرخسی نے واضح کیا ہے کہ سہم ہو یا رضخ ، چونکہ ہر دو صورتوں میں اس کی ادائیگی مال غنیمت میں ہوتی ہے اس لیے ہر دو صورتوں میں ادائیگی کا استحقاق جنگ میں حصہ لینے کی بنا پر ہوتا ہے ۔ ( ایضاً ، ص ۴۹ ) ان دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ سہم باقاعدہ مقاتل کو ادا کیا جاتا ہے جبکہ رضخ اس کو ادا کیا جاتا ہے جو باقاعدہ مقاتل نہ ہو مگر کسی موقع پر قتال میں حصہ لے ۔ 
۴۰ ۔ کئی روایات میں یہ ممانعت وارد ہوئی ہے ۔ مثال کے طور پر پر دیکھئے : صحیح مسلم ، کتاب الجہاد و السیر ، باب تأمیر الامام الأمراء علی البعوث و وصیتہ ایاھم ، حدیث رقم ۳۲۶۱ ؛ سنن الترمذی ، کتاب السیر ، باب ما جاء فی وصیتہ فی القتال ، حدیث رقم ۱۵۴۲ ۔
۴۱ ۔ امام علی بن احمد ابن حزم الظاھری ، المحلی بالآثار (القاھرۃ : ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ ، ۱۹۳۴ م ) ، ج ۷ ، ص ۲۹۶۔ ۲۹۷ 
۴۲ ۔ المغنی، ج ۸ ، ص ۴۷۷؛ محمد بن علی الشوکانی ، نیل الأوطار شرح منتقی الأخبار ( بیروت : دار الفکر، ۱۹۹۴ م ) ، ج ۷ ، ص ۲۰۱ ۔ 
۴۳ ۔ امام ابو بکر محمد بن احمد بن ابی سہل السرخسی ، تمھید الفصول فی الأصول ( لاہور : مکتبہ مدنیہ ، تاریخ ندارد ) ، ج ۱ ، ص ۱۴۴ ۔ ۱۴۹ 
۴۴ ۔ سنن ابن ماجۃ ، کتاب الجھاد ، باب الغارۃ و البیات و قتل النساء و الصبیان ، حدیث رقم ۲۸۳۲ 
۴۵ ۔ صحیح مسلم ، کتاب الجھاد و السیر ، باب قتل کعب بن الأشرف طاغوت الیھود ، حدیث رقم ؛ سنن أبی داود ، کتاب الخراج و الامارۃ و الفیء ، باب کیف کان اخراج الیھود من المدینۃ ، حدیث رقم ۲۶۰۶ 
۴۶ ۔ سورۃ النسآء کی آیت ۴۶ کے بموجب رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی ’’ طعن فی الدین ‘‘ ہے ، اور سورۃ التوبۃ کی آیت ۱۳ کے بموجب قتال کا ایک بنیادی سبب طعن فی الدین ہے ۔ 
۴۷ ۔ ابو عزہ عمرو بن عبد اللہ الجمحی نامی اس شاعر کو غزوۂ بدر میں گرفتار ی کے بعد رسول اللہ ﷺ نے احساناً رہا کیا اور اس سے وعدہ لیا کہ وہ آئندہ ایسی حرکتیں نہیں کرے گا ۔ تاہم وہ رہائی کے بعد مزید زور و شور سے آپ کے خلاف اشعار کہتا رہا اور مشرکین کو آپ کے خلاف ابھارتا رہا ۔ غزوۂ احد میں وہ دوبارہ گرفتار ہوا تو اسے قتل کردیا گیا ۔ ( نصب الرایۃ لأحادیث الھدایۃ ، ج ۳ ، ص ۴۰۹ ) یہ بھی واضح ہے کہ وہ دونوں دفعہ جنگ میں پکڑا گیا ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی شاعری سے قطع نظر کیا جائے تب بھی وہ مقاتل تھا ۔ درید بن الصمۃ ایک نہایت عمر رسیدہ (بعض روایات کے مطابق ایک سو ساٹھ سال کی عمر کا ) تھا ۔ اس نے غزوۂ حنین کی منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ یہ قبیلۂ جشم کا سردار تھا اور اس کی شاعری کے علاوہ بہادری کے قصے بھی ضرب المثل کی حیثیت رکھتے تھے ۔ مزید برآں ، وہ ہزاروں کی جمعیت لے کر جنگ میں شرکت کے لیے اوطاس آیا تھا ۔ ( مزید تفصیلات کے لیے دیکھئے : شبلی ، سیرت النبی ﷺ ، ج ۱ ، ص ۳۰۵ ۔ ۳۱۱ ) 
۴۸ ۔ سنن النسائی ، کتاب البیعۃ ، باب فی تشدید عصیان الامام ،حدیث رقم ۴۱۲۴ ؛ سنن ابی داود ، کتاب الجھاد ، باب فی من یغزو و یلتمس الدنیا ،حدیث رقم ۲۱۵۴ 
۴۹۔ صحیح البخاری ، کتاب الجھاد و السیر ، باب یقاتل من وراء الامام و یتقی بہ ، حدیث رقم ۲۷۳۷ ؛ صحیح مسلم ، کتاب الامارۃ ، باب الامام جنۃ یقاتل من وراۂ و یتقی بہ ،حدیث رقم ۳۴۱۸ 
۵۰ ۔ سنن ابی داود ، کتاب الجھاد ، باب فی الغزو مع أئمۃ الجور ، حدیث رقم ۲۱۷۱ 
۵۱ ۔ صحیح البخاری ، کتاب الجھاد و السیر ، باب ان اللہ یؤید ھذا الدین بالرجل الفاجر ، حدیث رقم ۲۸۳۴ ؛ صحیح مسلم، کتاب الایمان ، باب غلظ تحریم قتل الانسان نفسہ ، حدیث رقم ۱۶۲
۵۲ ۔ امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم ، کتاب الخراج (القاھرۃ : المطبعۃ السلفیۃ ، ۱۹۳۴ ء ) ، ص ۲۱۵ 
۵۳ ۔ امام موفق الدین ابن قدامۃ الحنبلی ، المغنی فی فقہ امام السنۃ احمد بن حنبل الشیبانی ، (بیروت : دار احیاء التراث العربی ، تاریخ ندارد ) ، ج ۸ ، ص ۳۵۲ 
۵۴ ۔ ایضاً ، ص ۳۵۳ 
۵۵ ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : 
Use of Force for the Right of Self-determination, pp 216-226 
۵۶ ۔ جہاد عام حالات میں فرض کفائی ہوتا ہے لیکن بعض مخصوص حالات میں یہ فرض عینی ہوجاتا ہے ۔ دیکھئے : الھدایۃ ، کتاب السیر ، ج ۲ ، ص ۳۷۸ ۔ 
۵۷ ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حقوق کی حفاظت میں قتل ہونے والے کو شہید قرار دیا ہے ۔ دیکھئے : صحیح البخاری ، کتاب المظالم و الغصب ، باب من قاتل دون مالہ ، حدیث رقم ۲۳۰۰ ؛ سنن الترمذی ، کتاب الدیات ، باب ما جاء فی من قتل دون مالہ فھو شہید ،حدیث رقم ۱۳۴۰ و ۱۳۴۱ ؛ سنن النسائی ، کتاب تحریم الدم ، باب من قتل دون مالہ ، حدیث رقم ۴۰۲۵ ۔ 
۵۸ ۔ صحیح البخاری ، کتاب الجھاد و السیر، باب من رأی العدو فنادی بأعلی صوتہ ، حدیث رقم ۲۸۱۴ 
۵۹۔ تفصیل کے لیے دیکھئے : المبسوط ، کتاب السیر ، باب ما أصیب فی الغنیمۃ مما کان المشرکون أصابوہ من مال المسلم، ج ۱۰ ، ص ۸۲ ۔ اس مسئلے کے بعض دیگر اہم پہلوؤں کی وضاحت کے لیے دیکھئے : شرح کتاب السیر الکبیر ، باب النفل فی دار الحرب ، ج ۲ ، ص ۱۵۰ ؛ باب النفل من أسلاب الخوارج ، ج ۲ ، ص ۲۲۷ ؛ باب ما یجوز من النفل بعد اصابۃ الغنیمۃ ، ج ۲ ، ص ۲۵۹ ؛ باب سھمان الخیل فی دار الحرب ، ج ۳ ، ص ۴۸۔ 
۶۰ ۔ اس موضوع پر تفصیلی بحث کے لیے دیکھئے : 
Muhammad Mushtaq Ahmad, Use of Force for the Right of Self- determination in International Law and Shari'ah: A Comparative Study, Dissertation of LLM Shari'ah and Law, International Islamic University Islamabad, 2006. 
۶۱ ۔ المبسوط ، کتاب السیر ، باب نکاح أھل الحرب و دخول التجار الیھم بالأمان ، ج ۱۰ ، ص ۱۰۶ ۔ ۱۰۷ 
۶۲ ۔ سنن أبی داود ، کتاب الجھاد ، باب فی سل السیوف عند اللقاء ، حدیث رقم ۲۲۹۰ 
۶۳ ۔ شرح کتاب السیر الکبیر ، باب وصایا الأمراء ، ج ۱ ، ص ۴۴ 
۶۴ ۔ اصحاب السنن نے اسے رسول اللہ ﷺ کے صحابی عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کے قول کے طور پر روایت کیا ہے ۔ ایک موقع پر جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اہل روم سے معاہدہ کیا تھا تو معاہدہ ختم ہونے کی مدت سے کچھ قبل انہوں نے روم کی طرف پیش قدمی شروع کی تھی تاکہ معاہدے کا وقت ختم ہوتے ہی ان پر حملہ کردیں ۔ اس موقع پر عمرو بن عبسہ لشکر میں یہ آواز بلند کرتے ہوئے آگے بڑھے کہ : فی العھود وفاء ، لا غدر۔ اس کے بعد آپ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث سنائی : 
من کان بینہ و بین قوم عھد فلا یحلن عقداً و لا یشدن حتی یمضی أمدہ أو ینبذ الیھم علی سواء ۔ ( سنن الترمذی ، کتاب السیر، باب ما جاء فی الغدر ، حدیث رقم ۱۵۰۶ ) 
[ جس نے کسی قوم کے ساتھ معاہدہ کیا تو وہ نہ اس معاہدے کی گرہ کھولے نہ ہی اسے مزید سخت کرے یہاں تک کہ اس کی مدت پوری ہو ، یا وہ انہیں معاہدہ ختم کرنے کے متعلق باقاعدہ طور پر آگاہ کردے ۔ ] 
۶۵ ۔ سنن الترمذی ، کتاب الفتن ، باب ما جاء ما أخبر النبی ﷺ أصحابہ بما ھو کائن الی یوم القیامۃ، حدیث رقم ۲۱۱۷؛صحیح البخاری ،کتاب الجزیۃ ، باب اثم الغادر للبر والفاجر ، حدیث رقم ۲۹۴۹؛ صحیح مسلم، کتاب الجھاد و السیر ، باب تحریم الغدر ، حدیث رقم ۳۲۶۹۔ 
۶۶ ۔ اوپر ہم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا جو واقعہ ذکر کیا وہ درحقیقت غدر کے مفہوم میں داخل نہیں تھا لیکن چونکہ صورۃً اسے غدر کہا جاسکتا تھا اس لیے سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے اس سے روکا ۔ (شرح کتاب السیر الکبیر ، باب الأمان ثم یصاب المشرکون بعد أمانھم ، ج ۱ ، ص ۱۸۴ ۔ ۱۸۵ ) 
۶۷ ۔ ایضاً ، باب الحرب خدعۃ ، ج ۱ ، ص ۸۵ ۔ ۸۶ 
۶۸ ۔ ایضاً ، ص ۸۶ 
۶۹۔ ایضاً 
۷۰ ۔ کنز العمال ، ج ۱۰ ، ص ۷۴۲ 
۷۱ ۔ شرح کتاب السیر الکبیر ، باب الحرب خدعۃ ، ج۱ ، ص ۸۶ 
۷۲ ۔ کنز العمال ، ج ۱۰ ، ص ۷۴۲ 
۷۳ ۔ سنن أبی داود ، کتاب الجھاد ، باب المکر فی الحرب ، حدیث رقم ۲۲۶۷ ۔ بعض مواقع پر رسول اللہ ﷺ نے بعض دیگر مصالح کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کے برعکس طرز عمل بھی اختیار کیا ۔ مثلاً غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے صراحتاً پہلے ہی سے لوگوں کو مطلع کیا کہ ان کا ارادہ کئی سو میل دور جاکر روم کے ساتھ لڑنے کا ہے ۔ اس غزوہ نے منافقین اور مومنین کے درمیان تمیز کا کام تکمیل تک پہنچایا ، جیسا کہ سورۃ التوبۃ میں مفصل مذکور ہے ۔ 
۷۴ ۔ شرح کتاب السیر الکبیر ، باب الأمان ثم یصاب المشرکون بعد أمانھم ، ج۱ ، ص۱۸۳ 
۷۵ ۔ ایضاً 
۷۶ ۔ ایضاً ، باب ما یکون أماناً ممن یدخل دار الحرب و الأسری و ما لا یکون أماناً ، ج ۲ ، ص ۶۶ 
۷۷ ۔ ایضاً ، ص ۶۶۔ ۶۷ 
۷۸ ۔ ایضاً 
۷۹۔ ایضاً ، ص ۶۸ 
۸۰ ۔ ایضاً 
۸۱ ۔ ایضاً 
۸۲ ۔ ایضاً ، ص ۶۸ ۔ ۶۹ 
۸۳ ۔ ایضاً ، ص ۶۹ 
۸۴ ۔ المبسوط ، کتاب السیر ، باب الخوارج ، ج ۱۰ ، ص ۱۳۹ ؛ مجمع الزوائد ، ج ۶ ، ص ۳۷۶ 
۸۵ ۔ شرح کتاب السیر الکبیر ، باب من یحل لہ الخمس و الصدقۃ ، ج ۱ ، ص ۱۱۵ 
۸۶ ۔ ایضاً 
۸۷ ۔ صحیح البخاری ، کتاب الجنائز ، باب ما جاء فی قاتل النفس ، حدیث رقم ۱۲۷۵ ؛ کتاب الطب ، باب شرب السم و الدواء بہ ، حدیث رقم ۵۳۳۳ ؛ صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب غلظ تحریم الانسان قتل نفسہ ، حدیث رقم ۱۵۸ ؛ سنن الترمذی ، کتاب الطب ، باب ما جاء فی من قتل نفسہ بسم أو غیرہ ، حدیث رقم ۱۹۶۶ ؛ سنن النسائی ، کتاب الجنائز، باب ترک الصلوۃ علی من قتل نفسہ ، حدیث رقم ۱۹۳۹ ۔ 
۸۸ ۔ شرح کتاب السیر الکبیر ، باب من یحل لہ الخمس و الصدقۃ ، ج ۱ ، ص ۱۱۵ 
۸۹ ۔ ایضاً 
۹۰ ۔ ایضاً ، باب من قاتل فأصاب نفسہ ، ص ۷۳ 
۹۱ ۔ مسند احمد ، باقی مسند الأنصار ، باب و من حدیث ثوبان ، حدیث رقم ۲۱۳۳۰ ؛ مجمع الزوائد ، ج ۳ ، ص ۱۵۴۔ ۱۵۵؛ کنز العمال ، ج ۱ ، ص ۵۰۷ ۔ 
۹۲ ۔ محمد امین ابن عابدین الشامی ، مجموعۃ رسائل ابن عابدین ( دمشق : المکتبۃالھاشمیۃ ، ۱۳۲۵ ھ ) ، ج ۱ ، ص ۳۴۴ 
۹۳ ۔ المبسوط ، کتاب السیر ، باب معاملۃ الجیش مع الکفار ، ج ۱۰ ، ص ۳۸ 
۹۴ ۔ ایضاً 
۹۵ ۔ المستصفی من علم الأصول ، ج ۱ ، ص ۲۱۸ 
۹۶ ۔ ایضاً 
۹۷۔ شرح کتاب السیر الکبیر ، باب من قاتل فأصاب نفسہ ،ج ۱ ، ص ۷۵ 
۹۸۔ ایضاً 
۹۹۔ بدایۃ المبتدی کے متن میں مذکور ہے : 
و کل عمد سقط القصاص فیہ بشبھۃ فالدیۃ فی مال القاتل ۔ و کل أرش وجب بالصلح فھو فی مال القاتل ۔ (الہدایۃ ، کتاب الدیات ،ج ۴ ، ص ۴۷۰ ) 
[ ہر وہ عمد جس میں قصاص کسی شبہے کی وجہ سے ساقط ہوجائے تو اس کی دیت قاتل کے مال میں سے ادا کی جائے گی ۔ اور وہ ارش جو صلح کی وجہ سے واجب ہو تو وہ بھی قاتل کے مال سے ادا کیا جائے گا ۔ ] 
البتہ اس قاعدے سے یہ استثنا آگے ذکر کیا گیا ہے کہ بچے اور مجنون کا عمد بھی خطا شمار ہوتا ہے : 
و عمد الصبی و المجنون خطأ ، و فیہ الدیۃ علی العاقلۃ ۔( ایضاً ) 
[ بچے اور مجنون کا عمد خطا شمار ہوتا ہے ، اور اس میں دیت عاقلہ پر واجب ہوتی ہے ۔ ] 
۱۰۰ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو جذیمہ کو پہنچنے والے مالی نقصان کی تلافی بھی اپنی طرف سے کی تھی۔ اس سلسلے میں ایک رائے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے لیے عاقلہ ہونے کے ناطے یہ تاوان ادا کیا مگر سرخسی اس موقف کو اس بنا پر رد کرتے ہیں کہ عاقلہ مالی نقصان کی تلافی کی ذمہ دار نہیں ہوتی ۔ (شرح کتاب السیر الکبیر ، باب الأمان ثم یصاب المشرکون بعد أمانھم ، ج ۱ ، ص ۱۸۱) ان کے نزدیک یہ ادائیگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور تبرع کی تھی ۔ ہماری ناقص رائے میں زیادہ صحیح موقف یہ ہے کہ یہ ادائیگی حکومت کی جانب سے کی گئی تھی کیونکہ مقتولین کی دیات ، مجروحین کے اروش اور املاک کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کے لیے ساری ادائیگی بیت المال سے کی گئی۔ 

پاکستان کی جہادی تحریکیں: ایک تاریخی و تحقیقی جائزہ

حافظ محمد زبیر

ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے اپریل ۲۰۰۸ء کے شمارے میں جناب سیف الحق صاحب کی طرف سے القاعدہ اوردوسری معاصرتحریکوں کے جہاد پر ایک تنقیدی تحریرشائع ہوئی ۔اس تحریر کے جواب میں جون ۲۰۰۸ء میں سید عرفان اللہ شاہ ہاشمی کا ایک خط شائع ہوا ۔مزید برآں اگست ۲۰۰۸ء کے شمارے میں سیف الحق صاحب کی تحریر پر شدید رد عمل کا اظہار دو خطوط کی صورت میں پڑھنے کو ملا ‘ جن میں سے ایک خط جناب مولانا محمد فاروق کشمیری صاحب کا تھا جبکہ دوسرا قاضی محمد حفیظ کا ‘۔جناب سید عرفان صاحب‘ مولانا فاروق کشمیری اور قاضی حفیظ صاحب کے شریعت اسلامیہ کے حکمِ جہاد کے حق میں جذبات قابل قدر ہیں لیکن ان میں سے بعض حضرات کا یہ کہنا کہ سیف الحق صاحب کی تحریر کو شائع ہی نہیں کرنا چاہیے تھا ‘ ایک بالکل غیر شرعی ‘ غیر اخلاقی اور غیر علمی رویہ ہے۔یہ واضح رہے کہ قرآن و سنت میں بیان شدہ جہادو قتال کے تصور اورمعاصر جہاد ی تحریکوں کے اعمال و افعال میں وہی فرق ہے جو کہ اسلام اور کسی مسلمان کے عمل میں ہوتا ہے۔کسی مسلمان کے اعمال و افعال پر تنقید کرنے کا مطلب اسلام پر نقد کرنا نہیں ہے۔ہاں اگر تو کوئی شخص قرآن وسنت میں بیان کیے گئے احکام جہاد کا انکار کر دے یا انہیں منسوخ سمجھے تو ایسے شخص کی تحریر واقعتاً قابل اشاعت نہیں ہونی چاہیے۔جہادی تحریکوں میں عموماًجذباتی رویہ یہ پایا جاتا ہے کہ جب مجاہدین کے اخلاق ‘ رویوں ‘ کردار و اعمال اور ان کی ذاتی رائے پر مبنی بعض نظریات پر تنقید کی جاتی ہے تو اس کو جہادو قتال پر نقد سمجھتے ہیں۔کسی نظریے یا نکتہ نظر کی صحت کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ اپنے مخاطب کو اس کی دلیل کے طور پر قرآن کی کوئی آیت پڑھ کر سنا دی جائے ۔قرآن کو اپنے نکتہ نظر کی دلیل کے طور پر تو غلام احمد قادیانی بھی نقل کرتا رہا ہے اور غلام احمد پرویز بھی۔جناب طاہر القادری صاحب بھی قرآن بیان کرتے ہیں اور علامہ طالب جوہری بھی۔غامدی صاحب بھی قرآن سے دلیل پکڑتے ہیں اور جہادی تحریکوں کے رہنما بھی ‘ڈاکٹر اسرار صاحب بھی اپنی تقاریرو مجالس میں کثرت سے قرآن پڑھتے ہیں اور مولانا طارق جمیل بھی‘ حالانکہ ان سب حضرات کے نظریات میں زمین و آسمان کا فر ق ہے۔اصل سوال یہ ہے کہ قرآن کی جس آیت کو اپنے موقف کی دلیل کے طور پرپیش کیا جا رہا ہے وہ ان اصول وضوابط کے مطابق کہ جنہیں علما کے ہاں اصول تفسیر و اصول فقہ کہتے ہیں‘ اس نکتہ نظر کی دلیل بن رہی ہے یانہیں۔ اگرتو علماے سلف صالحین کے منہج فہم کے مطابق قرآن کی آیت کو سمجھا جا رہا ہے اور بطور دلیل نقل کیا جا رہا ہے تو قرآن کی دلیل بہت ہی اعلیٰ دلیل ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو پھر ہماری بات وہی ہے جو کہ حضرت علیؓ نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کو اس وقت کی تھی جبکہ ان کو خوارج کی طرف بھیج رہے تھے ۔حضرت علیؓ نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کو نصیحت کی تھی کہ خوارج کو سمجھاتے وقت قرآن سے دلیل نہ دینا کیونکہ قرآن میں اجمال ہے اور وہ اس کاغلط مفہوم نکال لیں گے۔ 
مولانا فاروق کشمیری اور قاضی حفیظ صاحب کی طرح جناب سیف الحق صاحب کے دین و ایمان کے بارے میں بھی حسن ظن رکھتے ہیں اور مناسب طرز عمل تو یہ تھا کہ سیف الحق صاحب نے مروجہ جہاد و قتال کے حوالے سے جن اعتراضات کا اظہار کیاتھا، ان کا علمی اسلوب میں جواب دیا جاتا‘ نہ کہ اس کے چھاپنے کو ہی ایک ایشو بنا لیا جانا چاہیے۔مسئلہ صرف سیف الحق صاحب کانہیں ہے بلکہ ہزاروں مسلمانوں ‘ علماء ‘ جہادی تحریکوں کے سابقہ کارکنان ‘ دوسری اسلامی تحریکوں کے رہنماؤں اور کارکنان کو مروجہ جہاد کے حوالے سے کچھ اشکالات لاحق ہیں اور وہ ان کا علمی اسلوب میں جواب چاہتے ہیں جبکہ جہادی تحریکوں کے پاس ہر سوال کا بس ایک ہی جواب ہوتاہے کہ ’یہ جہاد کے مخالفین ہیں‘۔ہم ایک مکالمے کی صورت میں اپنے کچھ سوالات و اشکالات جہادی تحریکوں کے سامنے رکھ رہے ہیں۔جہادی تحریکوں کے علماء یا امراء اس حوالے سے ہماری رہنما ئی کے لیے کچھ لکھیں گے تو دلیل کی روشنی میں اپنی رائے تبدیل کرنے میں ہمیں ہر گز پیچھے نہ پائیں گے۔ 
ہمارے ہاں طالبان کی تین قسمیں پائی جاتی ہیں۔پہلی قسم افغانستان کے طالبان کی ہے ۔دوسرے پاکستانی طالبان ہیں اور تیسرے جرائم پیشہ لوگ ہیں جو کہ طالبان کی آڑ میں ملکی نظام اور امن عامہ کو تباہ و برباد کرنے کے درپے ہیں۔ذیل میں ہم طالبان کی ان تما م جماعتوں کے وجود میں آنے کے اسباب و محرکات‘ تاریخ ‘ عقائد و نظریات اور عملی جدوجہد کا ایک تجزیاتی جائزہ لیں گے۔

شمالی و جنوبی وزیرستان کا جہاد: تاریخ و أسباب

وزیرستان پاکستان کے شمال مغرب میں ایک پہاڑی علاقہ ہے کہ جس کی سرحد افغانستان سے بھی ملتی ہے۔ وزیرستان جغرافیائی اعتبار سے دو حصوں’شمالی وزیرستان‘اور ’جنوبی وزیرستان‘ میں تقسیم ہے۔۱۹۹۸ء کے اندازے کے مطابق شمالی وزیرستان کی آبادی تقریباًتین لاکھ اکسٹھ ہزار اور جنوبی وزیرستان کی آبادی چار لاکھ انتیس ہزار تھی۔شمالی وزیرستان کا صدر مقام’ میران شاہ ‘ہے جبکہ جنوبی وزیرستان کا ہیڈ کوارٹر ’وانا‘ ہے۔
وزیرستان کے مقامی لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد جہاد افغانستان اور طالبان تحریک میں بھی شامل رہی تھی۔ نومبر ۲۰۰۱ء میں افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بہت سے غیر ملکی اورمقامی مجاہدین نے وزیرستان کا رخ کیااور یہاں پناہ لی۔امریکہ نے ان مجاہدین کے حوالے سے حکومتِ پاکستان پر دباؤڈالا۔
حکومت پاکستان نے جولائی ۲۰۰۲ء میں مقامی قبائلیوں کی رضامندی سے علاقے کی ترقی کے بہانے ’وادی تیرہ ‘اور ’خیبر ایجنسی‘ میں اپنی فوجیں اتاریں۔ اور کچھ ہی عرصہ بعدحکومت نے اچانک ہی جنوبی وزیرستان پر ہلا بول دیا۔مقامی لوگوں نے حکومت پاکستان کے اس اقدام کو اپنی آزادی کے منافی سمجھا اور پاکستانی افواج و مقامی قبائلیوں کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہو گیا۔مارچ ۲۰۰۴ء میں ’وانا‘ کے قریب ’أعظم وارسک‘ کے مقام پر حکومت اور قبائلیوں کے مابین ایک بڑی جھڑپ ہوئی۔ 
اپریل ۲۰۰۴ء میں پے در پے ناکامیوں کے بعدحکومت پاکستان نے ’نیک محمد‘ کی قیادت میں لڑنے والے قبائلیوں سے امن معاہدہ کر لیا۔جون ۲۰۰۴ء میں ’نیک محمد‘ کو ایک امریکی میزائل کے ذریعے شہید کر دیاگیا۔اکتوبر ۲۰۰۴ء میں جنوبی وزیرستان کے ایک بڑے رہائشی محسودقبیلے کے جنگجو عبد اللہ محسود مقامی قبائلیوں کے رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے ۔یہ حضرت تقریباً ڈیڑھ سال تک گوانتاناموبے جیل میں قید رہے تھے بعد ازاں امریکی حکام نے ا ن کو رہا کر دیا تھااور ان کی رہائی کی وجہ آج تک ایک سوالیہ نشان ہے۔مارچ ۲۰۰۳ء میں یہ رہا کیے گئے تھے۔درمیان میں ایک ڈیڑھ سال چھپے رہے اور اکتوبر ۲۰۰۴ء کے قریب ایک دم سے میڈیا میں ان کے بیانات آنے شروع ہو گئے ۔عبد اللہ محسود کو میڈیا میں آنے کا بہت شوق تھا یہاں تک کہ ان کانام ہی میڈیا فرینڈلی کمانڈر کے طور پر معروف ہو گیا تھا‘یہ حضرت خود سے ٹی وی چینلز کو فون کر کے اپنے انٹر ویو ریکارڈ کرواتے تھے۔دو چینی انجینیئرز کو اغواء کرنے کی وجہ سے ۲۰۰۷ء میں ان کو حکومت پاکستان کی طرف سے شہید کر دیاگیا۔
عبد اللہ محسود کے علاوہ ایک اور جنگجو بیت اللہ محسود بھی مقامی طالبان کے رہنما کے طور پر سامنے آئے۔بیت اللہ محسود ایک سنجیدہ مزاج اور فہم و فراست رکھنے والے کمانڈر ہیں۔فروری ۲۰۰۵ء میں بیت اللہ محسود کی قیادت میں قبائلیوں کا حکومت پاکستان سے معاہدہ ہوا۔ بیت اللہ محسودنے عبد اللہ محسود کو بھی اس معاہدے میں شریک کرنے کی درخواست کی لیکن حکومت پاکستان نے چینی انجینیئرز کے اغواء کے معاملے کی وجہ سے عبد اللہ کو اس معاہدے میں شامل کرنے سے انکار کر دیا۔
جولائی ۲۰۰۷ء میں حکومت پاکستان نے لال مسجد پر حملہ کر تے ہوئے بیسیوں طلباء اورسینکڑوں بچیوں کو شہید کر دیا‘ جس کے رد عمل میں بیت اللہ محسود نے افواج پاکستان پر خود کش حملوں کی دھمکیاں دیں اور معاہدہ توڑنے کا اعلان کیا۔
دسمبر ۲۰۰۷ء میں سات قبائلی ایجنسیوں شمالی وزیرستان ‘ جنوبی وزیرستان‘ کرم ایجنسی‘ باجوڑ ایجنسی‘ خیبر ایجنسی‘ أورکزئی ایجنسی اور مہمند ایجنسی کے علاوہ مالاکنڈ ڈویزن‘ سوات اور درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والے بیس کے قریب طالبان رہنماؤں کا اجلاس ہوااور بیت اللہ محسود کی قیادت میں ’تحریک طالبان پاکستان ‘ کا قیام عمل میں آیا۔چالیس رکنی شوری بھی مقرر کی گئی اور مولوی عمر کو تحریک کا ترجمان بنایا گیا۔
جنوری ۲۰۰۸ء میں حکومت پاکستان نے دوبارہ محسود قبائل کے خلاف آپریشن شروع کر دیاجس کی وجہ سے ہزاروں افراد نے وزیرستان علاقے سے نقل مکانی شروع کر دی۔۶فروری ۲۰۰۸ء کو ’تحریک طالبان پاکستان‘ نے سوات سے وزیرستان تک افواجِ پاکستان کے خلاف کاروائیاں بند کرنے کا اعلان کیا۔ 
جنوبی وزیرستان کے مقامی جنگجو’نیک محمد‘ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۴ء میں سینکڑوں غیر ملکیوں کو ’وانا‘ لے کر آئے تھے۔ یہ غیر ملکی یہاں آ کر آباد ہو گئے تھے اور قبائلیوں نے ان پر کوئی اعتراض نہ کیا۔۲۰۰۴ء میں ’نیک محمد‘ کی قیادت میں قبائلیوں نے افواج پاکستان کوبھاری نقصان پہنچایا جس کے نتیجے میں امن معاہدہ ہوا اور بعد ازاں نیک محمد ایک میزائل حملے میں شہید ہو گئے۔ان کی شہادت کے بعد ان کے کمانڈروں نے مختلف دھڑے بنا لیے اور اپنی اپنی اجارہ داریاں قائم کر لیں۔طالبان کی اعلی قیادت نے جنوبی وزیرستان میں ’ملا نذیر‘ کو طالبان کا لیڈر مقرر کردیا۔
جنوبی وزیرستان میں اسی عرصے میں مقامی طالبان کو غیر ملکی ازبک مجاہدین کے رویوں سے کچھ شکایات پیدا ہوئیں اور بہت سے مقامی سرداروں کے قتل کا الزام بھی ازبکوں پر لگایا جاتا رہا۔ازبک کسی بھی مقامی سردار پر جاسوسی کا الزام لگا کر اس کو قتل کر دیتے تھے۔انہوں نے زمین میں گڑھے کھود کر اپنی جیلیں بنائی ہو ئی تھیں جہاں وہ اپنے مخالفین کو قید رکھتے تھے۔صورت حال اس وقت زیادہ خراب ہوئی جب القاعدہ سے متعلق ایک عرب مجاہد سیف العادل کو ازبکوں نے شہید کر دیا۔مقامی طالبان ملا نذیر کی قیادت میں ازبکوں کے خلاف اکھٹے ہو گئے اور مقامی و غیر ملکی مجاہدین میں آپس کی لڑائی شروع ہوگئی۔ ازبک مجاہدین تین حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ ان کا ایک حصہ تومقامی طالبان سے مل گیا جب ایک حصہ میر علی کی قیادت میں شمالی وزیرستان چلا گیا اور تیسرا حصہ قاری طاہر یلداشیو کی قیادت میں مقامی طالبان سے جہاد کرتا رہا۔اس جہاد کے نتیجے سینکڑوں مجاہدین شہید ہوئے اوربالآخر مقامی طالبان نے ازبک مجاہدین کا کنٹرول علاقے سے ختم کر دیا۔ 
شمالی وزیرستان کی طرف پیش قدمی افواج پاکستان کی طرف سے ۲۰۰۲ء میں ہوئی تھی۔۲۰۰۴ء کے شروع سے ہی مقامی طالبان اور سیکورٹی فورسز کے مابین گاہے بگاہے جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں۔حکومت پاکستان کا یہ دعوی تھا کہ اس علاقے میں وہ غیر ملکی اور القاعدہ کے مجاہدین موجود ہیں جو حکومت پاکستان اور امریکہ کو مطلوب ہیں۔شمالی وزیرستان کی صورت حال اس وقت زیادہ خراب ہو گئی جب مارچ ۲۰۰۶ء میں پاکستانی سیکورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان کے صدر مقام’ میران شاہ‘ پر حملہ کر دیا اور اس حملے میں فضائیہ کا بھرپور استعمال کیا گیا۔فضائی حملوں کے نتیجے میں شہر تباہ ہو کر رہ گیا اور تقریباً تمام آبادی پشاور‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور ضلع ٹانک کی طرف ہجرت کر گئی۔اڑھائی برس کی اس باہمی جنگ کے بعد ۴۵ قبائل کے گرینڈ جرگہ اور حکومت کے مابین امن معاہدہ ہو گیا۔یہ معاہدہ ۲۰جولائی ۲۰۰۶ء کو ہوا۔

سوات کا جہاد: تاریخ و اسباب

مالاکنڈ ڈویزن سے سے تعلق رکھنے والے عالم دین صوفی محمد نے مالاکنڈ میں شریعت کے نفاذ کے لیے ’تحریک نفاذ شریعت محمدی ‘ کی بنیاد رکھی۔۱۹۹۴ء میں اس تحریک نے بغاوت کی جو کہ ناکام ہوگئی ۔ ۲۰۰۱ء میں جب طالبان حکومت پرامریکہ نے حملہ کیا تو صوفی محمد کی قیادت میں دس ہزار افراد کا لشکر مالاکنڈ سے طالبان کی نصرت کے لیے افغانستان گیا۔طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد یہ افراد واپس پاکستان آ گئے اور امریکہ کو مطمئن کرنے کے لیے حکومت پاکستان نے ان کی ایک بڑی تعداد کو القاعدہ کے ارکان کے طور پر پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنا شروع کر دیا جس کہ وجہ سے مقامی لوگوں میں حکومت اور سیکورٹی فورسز کے خلاف نفرت اور ردعمل میں اضافہ ہوا۔
۲۰۰۲ء میں پرویز مشرف نے تحریک پر پابندی لگا دی۔صوفی محمد کے داماد مولوی فضل اللہ کی قیادت میں مقامی مجاہدین اکٹھے ہو گئے۔مولوی فضل اللہ نے اپنے ایف ایم چینل کے ذریعے علاقے میں جہادی فکر پھیلانا شروع کر دیا۔’نفاذ شریعت محمدی‘ کے ضلع سوات کے امیر نے یہ بیان جاری کیا کہ مولوی فضل اللہ کا تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے اور صوفی محمد نے ان کو غیر قانونی ایف ایم چینل چلانے کی وجہ سے تحریک سے نکال دیا ہے۔
مولانا فضل اللہ نے ’امام ڈھیرئی ‘ کو اپنا صدر مقام بنایااور وہاں دو کروڑ کی لاگت کے تخمینے سے ایک مدرسے کی بنیاد رکھی۔انہوں نے ’شاہین فورس‘ کے نام سے ایک عسکری جماعت بھی قائم کی کہ جس میں پانچ ہزار کے قریب مسلح افرادشامل تھے ۔ ۲۰۰۶ء میں ان ا فراد نے مبینہ طور پر بازاروں میں مسلح ہو کر گشت کرنا شروع کر دیا‘تاہم علاقے کی صورت حال اس وقت خراب ہوئی جب جولائی ۲۰۰۷ء میں لال مسجد پر حکومت کے آپریشن نے ان کو آگ بگولا کر دیا اور انہوں نے سیکورٹی فورسرز پر خود کش حملے شروع کر دیے۔مولانا فضل اللہ نے سوات کی کئی ایک تحصیلوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔حکومت نے ان کے خلاف آپریشن میں فضائیہ او ر آرٹلری کو بھی استعمال کیا جس کی وجہ سے سینکڑوں شہری شہید ہوئے اور ہزاروں افراد نے دوسرے علاقوں کی طرف نقل مکانی شروع کر دی ۔ڈاکوؤں اور پرانی قبائلی دشمنیاں رکھنے والوں نے طالبان کے روپ میں لوگوں کو لوٹنا اور قتل کرنا شروع کر دیا۔علاقے میں طوائف الملوکی عام ہو گئی ۔
۲۷ نومبر ۲۰۰۷ء کو طالبان اپنے مورچے خالی کرتے ہوئے نامعلوم مقامات کی طرف روپوش ہوگئے اور ۳ دسمبر کوافواج پاکستان نے امام ڈھیرئی کا کنٹرول سنبھال لیا۔بعد ازاں مولانا فضل اللہ بھی بیت اللہ محسود کی قیادت میں ’تحریک طالبان پاکستان‘ میں شامل ہو گئے۔

لال مسجد کا جہاد: تاریخ و اسباب 

اسلام آباد میں جامعہ حفصہ و لال مسجد اور حکومت پاکستان کی انتظامیہ کے مابین تنازع کی رپورٹیں۲۰ جنوری ۲۰۰۷ء کو حکومت پاکستان کی طرف سے مسجد امیر حمزہ اوراس سے ملحق مدرسے کو گرانے کے بعد میڈیا میں آنا شروع ہوئی۔ لال مسجد کے خطیب کے ایک مبینہ بیان کے مطابق سی ڈی اے اسلام آباد کی طرف سے کچھ عرصے کے وقفے کے ساتھ سات سے زائد مساجد کو گرایا گیا۔علاوہ ازیں اسلام آباد انتظامیہ نے جامعہ مسجد ضیاء الحق ‘جامعہ مسجد شکر لال ‘جامعہ مسجد منگرال ٹاؤن‘جامعہ مسجد راول چوک ‘مسجد شہداء‘جامعہ مسجد مدنی ‘جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کو بھی گرانے کے لیے نوٹس جاری کر دیے تھے ۔اسلام آباد انتظامیہ کی طرف سے مساجد و مدارس کوشہید کرنے کی اس مہم کی وجہ سے ملک بھر کے علماء ا ور مذہبی حلقوں میں اضطراب اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی ۔علماء کے ایک اجلاس میں ’تحریک تحفظ مساجد ‘ کے قیام کا اعلان ہواجس میں جامعہ حفصہ کی طالبات نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے عزم کا اظہارکیااورحکومت کو اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے جامعہ حفصہ سے ملحق دو بڑے کمروں پر مشتمل ایک چلڈرن لائبریری پر قبضہ کر لیا۔
۲۷ جنوری کو لال مسجد کے مہتم مولانا عبد العزیز صاحب کی طرف سے اخبارات میں ایک بیان شائع ہوا کہ جس میں حکومت سے چند مطالبات کیے گئے تھے ‘ان مطالبات میں گرائی جانے والی مساجد کی تعمیر نو‘ملک میں فحاشی کلچرکا خاتمہ ‘جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کو بھیجے گئے حکومتی نوٹس کی واپسی اور پرویز مشرف کامساجد گرانے کے حوالے سے اللہ اور قوم سے معافی مانگنا شامل تھا۔مولانا نے مزید یہ بھی کہا کہ طالبات کا چلڈرن لائبریری پر اس وقت تک قبضہ برقرار رہے گا جب تک ملک کے اندر اسلامی نظام نافذ نہیں کیا جاتا۔
۳ فروری کے اخباری بیانات کے مطابق اسلام آباد پولیس نے کریک ڈاؤن کر کے مدارس کے ۱۲۵ اساتذہ اور طلباء کو گرفتار کر لیا۔نیزجامعہ حفصہ اور جامہ فریدیہ کو اپنے تجاوزات ختم کرنے کے لیے ۲۴ گھنٹے کا نوٹس دے دیا۔ 
۱۲ فروری کی اخباری اطلاعات کے مطابق لائبریری سے طالبات کا قبضہ ختم کروانے کے لیے علماء اور حکومت کے مابین مذاکرات کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئے ‘جس پر انتظامیہ نے ویمن پولیس ‘ایف سی اور رینجرز طلب کر لی‘جامعہ حفصہ نے بھی فارغ التحصیل طالبات کو بلوا لیا۔
درمیان میں کچھ دن فریقین کی طرف سے خاموشی رہی لیکن۲۵ مارچ کوجامعہ حفصہ کی طالبات اور لال مسجد کے طلباء کی طرف سے آنٹی شمیم نامی ایک خاتون اور اس کی بہو اور بیٹی کے جامعہ حفصہ منتقلی کا ایک واقعہ ایسا ہواکہ جس نے ا س تنازع کو ایک دفعہ پھر بھڑکادیا ۔
۲۹مارچ:مبینہ ذرائع کے مطابق پولیس نے جامعہ حفصہ کی دو معلمات ‘ان کے دو مرد ساتھوں اور ڈرائیور کو آنٹی شمیم اغوا کیس میں گرفتارکرلیا‘جبکہ جوابی کاروائی کرتے ہوئے لال مسجد کے طلباء نے دوپولیس اہلکاروں او ر دو پولیس کی گاڑیوں کو اپنے قبضے میں لے لیا‘رات گئے تک ضلعی حکومت اور لال مسجد کی انتظامیہ میں مذاکرات ہوتے رہے‘مذاکرات کے نتیجے میں ضلعی حکومت نے ان دو معلمات ‘ان کے دو مرد ساتھیوں اور ڈرائیور کو رہاکر دیاجن پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے جی سکس اسلام آباد سے آنٹی شمیم نامی ایک خاتون ‘ان کی بیٹی ‘بہو اورچھ ماہ کی پوتی کوجامعہ حفصہ پہنچا دیا تھا۔لال مسجد کے خطیب نے ان افراد کی رہائی کے بعد دو پولیس اہل کاروں اور موبائلز گاڑیوں کو چھوڑ دیا لیکن آنٹی شمیم اور ان کی رشتہ دار خواتین کوتاحال لال مسجدنے اپنی تحویل میں رکھا ۔ 
۳۰مارچ :مبینہ ذرائع کے مطابق بدکاری کا اڈا چلانے کے الزام میں محبوس شمیم اختر ‘اس کی بیٹی اور بہو کواڑھائی دن کی یرغمالی کے بعد لال مسجد کی انتظامیہ نے برقعے پہنا کررہا کر دیا۔
۳۱مارچ :مبینہ ذرائع کے مطابق لال مسجد کے کے خطیب نے اپنے خطاب جمعہ کے دوران درج ذیل مطالبات کیے:حکومت فوری طور پر نفاذ شریعت کا اعلان کرے ورنہ آئندہ جمعہ لال مسجد میں منعقدہ نفاذ شریعت کانفرنس میں ہم خود اس کا اعلان کریں گے۔حکومت عریانی ور فحاشی کے اڈے بند کرے اور اسلامی نظام نافذکر کے فحاشی کے مرتکب افراد کو بیس کوڑے لگائے‘ورنہ لال مسجد میں قاضی کی عدالت میں ان پر حد لاگو کی جائے گی۔ بہت صبر کیا ‘مر جائیں گے لیکن فحاشی کے ا ڈے نہیں چلنے دیں گے۔نائب خطیب جناب عبد الرشید غازی صاحب کا بیان آیا کہ آنٹی شمیم سے پورا محلہ تنگ تھاآنٹی شمیم کے خلاف تقریبا اڑھائی سو معززین محلہ نے میڈیا کو بیانات دیے ۔
۹ اپریل :مبینہ ذرائع کے مطابق وزیر داخلہ جناب آفتاب احمد شیر پاؤ نے ایک نجی ٹی وی کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا:حکومت کا موقف ہے کہ معاملہ پر امن طریقے سے حل ہو‘جامعہ حفصہ کی طالبات کے والدین کو متنبہ کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے ایک اشتہاری مہم چلانے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔دوسری طرف سے لال مسجد کے نائب خطیب عبد الرشید غازی صاحب کی طرف سے اعلان ہوا :ہم نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے۔
۱۱اپریل :مبینہ ذرائع کے مطابق جناب چوہدری شجاعت نے ایک دفعہ پھر منگل کی شب جامعہ حفصہ کا دورہ کیایہ مذاکرات تقریبا اڑھائی گھنٹے جاری رہے جن کے نتیجے میں حکومت نے سات شہید کی گئی مساجد کی دوبارہ تعمیر کی یقین دہانی کرائی ‘علاوہ ازیں دونوں بھائیوں نے اس وقت تک چلڈرن لائبریری پر قبضہ برقرار رکھنے کا اعلان کیا جب تک کہ حکومت شریعت کو نافذ نہیں کرنے کی یقین دہانی نہیں کراتی۔ 
۱۲اپریل :مبینہ ذرائع کے مطابق وزیراعظم جناب شوکت عزیز کی صدارت میں وفاقی کابینہ کا اجلاس تقریبا پانچ گھنٹے تک جاری رہا۔وفاقی وزیر برائے بند گاہ و جہاز رانی جناب بابر غوری ‘وفاقی وزیر تعلیم جناب جاوید اشرف اور وزیر خارجہ جناب خورشید قصوری کا کہنا تھا کہ لال مسجد کے خلاف فورا ایسا ایکشن لیا جائے کہ جس سے یہ معاملہ ختم ہو جائے جبکہ بعض دوسرے وزراء جن میں وزیر مذہبی امورجناب اعجاز الحق ‘وزیر داخلہ جناب آفتاب احمد شیر پاؤ اور جناب ہمایوں اخترشامل ہیں‘کا بیان تھا کہ معاملہ مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہونا چاہیے۔جبکہ دوسری طرف آئی این پی کو دیے گئے اپنے ایک انٹر ویو کے دوران مولاناعبد العزیزغازی صاحب نے کہا: ایم۔ ایم۔ اے‘ والے سرحد میں اپنی حکومت کے باوجود اسلامی نظام نافذ نہیں کر سکے وہ ہماری مدد کیا کریں گے۔ایم ۔ایم ۔اے ‘والے جمہوریت کے ذریعے اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہم جہاد کے ذریعے۔پانچ لاکھ کے قریب استحصالی ٹولے نے سترہ کروڑ عوام کو یر غمال بنا رکھا ہے۔جب تک اسلامی نظام نافذ نہیں ہوتا چلڈرن لائبریری پر اپنا قبضہ ختم نہیں کریں گے۔
۱۴اپریل :مبینہ ذرائع کے مطابق لال مسجد کے نائب خطیب مولاناعبد الرشید غازی صاحب نے کہا:چوہدری شجاعت سے مذاکرات کے اختتام تک شرعی عدالت غیر فعال رہے گی۔جبکہ مولانا عبد العزیز غازی صاحب نے اپنے جمعہ کے خطبے میں کہا:اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے پرامن تحریک چلائیں گے۔اسلامی نظام کے نفاذ کے موقف سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ہماری جدوجہد باطل نظام کے خلاف ہے اگر پرویزمشرف اسلامی نظام نافذ کرتے ہیں تو ان کی جوتیاں اٹھانے کو تیار ہوں ۔ڈنڈے اور تیزاب کی بات ہم نے نہیں کی‘ ڈنڈا تو وہ استعمال کر رہے ہیں جنہوں نے وزیرستان میں تباہی پھیلائی۔انہوں نے مزید کہاکہ چوہدری شجاعت کا رویہ مثبت ہے لیکن اعجاز الحق آپریشن کی بات کرتے ہیں ۔
۲۰اپریل :وفاق المدارس العربیہ کی مجلس عاملہ کی دو روز ہ میٹنگ کے بعد ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے حکومت پاکستان درج ذیل مطالبات کیے گئے :حکومت جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے مطالبات کو منظور کرے ‘ملک میں اسلامی نظام نافذ کرے ‘گرائی جانے والی مسجد کو دوبرہ تعمیر کروائے ‘بدکاری اور فحاشی کے اڈے ختم کرے ۔اس اعلامیہ کے مطابق مجلس عاملہ نے جامعہ حفصہ کے مطالبات کو درست قرار دیا لیکن انہوں نے کہا کہ جا معہ حفصہ کی طالبات اور لال مسجد کی انتطامیہ کا طریق کار غلط ہے ۔
۲ مئی : امام کعبہ نے وفاقی وزیر اعجاز الحق سے سعودی عرب میں ملاقات کے دوران کہا کہ پاکستان میں خود کش حملے کرنے والے گمراہ ہیں ۔اسلام سرکاری یا کسی کی ذاتی زمین پر قبضہ کر کے مسجد یا مدرسہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا ۔حکومت کے ہوتے ہوئے کوئی فرد اپنی شرعی عدالت قائم نہیں کر سکتا یہ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے اگر وہ پورا نہیں کرتے تو اللہ کو جوابدہ ہوں گے۔ 
یہ تنازع بڑھتا ہی گیا اوربالآخر۱۰جولائی کو حکومت نے قدام کیا اور لال مسجد کو شہید کر دیا۔سینکڑوں طلبہ و طالبات نے سر نڈر کرتے ہوئے اپنے آپ کو حکومت کے حوالے کر دیاجبکہ باقی طلبہ و طالبات کو شہید کر دیاگیا۔لال مسجد کے نائب خطیب عبد الرشید غازی صاحب شہید کر دیے گئے جبکہ خطیب عبد العزیز صاحب کو گرفتار کر لیا گیا جو کہ تاحال حکومت کی قید میں ہیں۔

طالبان جہاد کا ایک تجزیاتی مطالعہ

وزیرستان کا جہاد ہمارے نزدیک دفاعی جہاد تھا جو کہ حکومت پاکستان نے قبائلیوں پر مسلط کیا تھا۔لیکن سوات اور لال مسجدکے جہاد کو ہم ایک بڑی غلطی سمجھتے ہیں کیونکہ یہ دونوں اقدامی جہاد تھے اور مسلمان حکومت کے خلاف تھے۔فقہی اصطلاح میں یہ’ خروج‘ کی بحث بنتی ہے ۔ہمیں اس بات سے بحث نہیں کرنی ہے کہ موجودہ حکمرانوں کے خلاف خروج جائز ہے یا نہیں ۔ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ خروج اس مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سے مسئلہ اور زیادہ بگڑے گا۔اس کی ہمارے نزدیک درج ذیل وجوہات ہیں:
۱) امریکہ اور عالمی طاقتیں یہی چاہتی ہیں کہ پاکستانی افواج کو مجاہدین سے لڑا کر دونوں کو کمزور کر دیا جائے۔
۲) مجاہدین ‘ پاکستان میں عسکری رستوں سے کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے اور اس کی وجہ عسکری تنظیموں اور ریاست میں طاقت کا عدم توازن ہے۔
۳) صوفی محمد کی بغاوت‘ لال مسجد اور سوات کے واقعے نے مجاہدین کوکیا دیا؟ ہزاروں لوگوں کی شہادت ‘ نقل مکانی اور گھروں اور اموال کی تباہی ؟
۴) مذکورہ بالاتینوں تحریکوں کے رہنما اس نتیجے تک پہنچ گئے تھے کہ حکوت پاکستان کے خلاف عسکری کاروائیوں کا کوئی نتیجہ نہیں ہے ۔صوفی محمد صاحب نے عسکریت سے توبہ کر لی تھی اور یہاں تک کہ اپنے داماد مولانا فضل اللہ کو یہ طریقہ اختیار کرنے پر اپنی جماعت سے نکال دیا۔لال مسجد کے غازی برادران کے آخری بیانات اس بات کے شاہد ہیں کہ وہ حکومت سے مفاہمت سے چاہتے تھے لیکن پرویز مشرف صاحب آپریشن پر ڈٹے ہوئے تھے۔مولانا فضل اللہ نے بھی تین ماہ بعد سوات خالی کر دیا اور روپوش ہوگئے ۔
۵) حال ہی میں ’تحریک طالبان پاکستان‘ کے امیر بیت اللہ محسود نے یہ بیان دیا ہے کہ ہم پاکستان میں سیکورٹی فورسز کے خلاف کاروائیاں نہیں کریں گے اور ہمارے نزدیک یہ مجاہدین کی فہم و فراست‘ تجربات اور گہری بصیرت کا نتیجہ ہے کہ وہ یہ بات جان چکے ہیں کہ پاکستان حکمرانوں کے خلاف ان کے قتال کا فائدہ سراسر اسلام دشمنوں امریکہ اور انڈیا کوہو گا۔ 
۶) پاکستان کسی خلا میں نہیں ہے بلکہ اسی دنیا میں موجود ہے۔ہمیں کوئی بھی تحریک قائم کرنے سے پہلے پاکستان کی جغرافیائی حدود میں رہتے نہیں سوچنا چاہیے بلکہ اپنی تحریک کواقوام عالم کا ایک حصہ سمجھتے ہوئے کوئی اقدام کرنا چاہیے۔مبینہ ذرائع کے مطابق اصل صورت حال یہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑنے والے طالبان کو حکومت پاکستان اور آئی ایس آئی نے اپنی پشت پناہی فراہم کی تھی اور پاکستانی ایجنسیوں ہی کی اجازت سے سرحد کے پاکستانی طالبان بھی امریکہ کے خلاف کاروائیوں میں اہم کردار ادا کر رہے تھے ۔امریکہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے انڈیا اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ سے ایک پلان بنایا جس کے مطابق سرحد کے قبائلی علاقوں میں ایک نئی طالبان تحریک کو حکومت پاکستان کے خلاف کھڑا کر کے ان کی چال کو انہی کے خلاف الٹ دیا مقصود تھا۔أمر واقعہ یہ ہے کہ امریکہ اپنی چال میں کامیاب رہا اور اس نے ایک ایسی طالبان تحریک کو جنم دیا جو کہ حکومت پاکستان کو کمزور کر رہی تھی ۔اخبارات میں یہ بیانات واضح طور پر شائع ہوتے رہے ہیں کہ القاعدہ ‘ مولوی فضل اللہ کی قیادت میں سوات کے طالبان اور بیت اللہ محسود کی قیادت میں تمام طالبان نے کئی بار اس عزم کا ظہار کیا تھا کہ وہ حکومت پاکستان کے خلاف کاروائی نہیں کریں گے اور ان اور حکومت پاکستان کے درمیان کئی معاہدے بھی ہوئے ۔بعد میں فریقین نے ایک دوسرے پر کئی دفعہ معاہدے توڑنے کا الزام بھی لگایا ہے ۔اس صلح کو ختم کرنے میں درحقیقت امریکہ اور اس کی سازش کا شکار ہونے والے بعض نام نہادطالبان عناصر کارفرما تھے اور امریکہ کا اس کاروائی سے ایک طرف تویہ مقصود ہے کہ پاکستانی حکومت اور آئی ایس آئی‘ امریکہ کے خلاف لڑنے والے طالبان کی خفیہ امداد بند کرے اور دوسرا وہ یہ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑنے والے پاکستانی طالبان اپنے وطن واپس آ کر اپنی ہی حکومت کے خلاف بر سر پیکار ہو ں تاکہ امریکہ اپنے دو دشمنوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑا کر کمزور کر دیں۔کرم ایجنسی میں ہونے والے حالیہ سنی شیعہ فسادات بھی امریکہ کی اسی جنگی چال کا ایک حصہ ہے کہ ان کو باہم لڑا کر کمزور کرو اور ان پر حکومت کرو۔
ہماری رائے کے مطابق جہادی تحریکوں کو ایک خاص عرصے تک کے لیے ہر قسم کے جنگ و جدال سے علیحدہ رہتے ہوئے اسلامی ریاستوں کے حکمرانوں سے خیر خواہی کے جذبے کے تحت اپنے روابط بڑھانے چاہئیں۔ حکمرانوں کے ساتھ اس اتحاد میں اصل بنیاد امریکہ کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کی روک تھام‘ پاکستان کی سا لمیت اور مسلمانوں پر ظلم کے خاتمے کو بنانا چاہیے نہ کہ اعلاے کلمۃ اللہ اور نفاذ شریعت جیسے نعروں کوکہ جس سے حکمرانوں کو پہلے ہی چڑ ہے ۔اور اسی قسم کی جنگی سیاست و تدابیر کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’الحرب خدعۃ‘ کا نام دیا ہے ۔
جہادی تحریکوں کو یہ بھی چاہیئے کہ وہ ایسے نوجوانوں کو اکٹھا کریں جو کہ انجینئرنگ‘ سائنس اور ٹیکنالوجی میں اعلی تعلیم یافتہ ہوں ۔ ان نوجوانوں کومختلف اسلامی ریاستوں مثلا سعودیہ‘ ایران‘ مصر اور پاکستان وغیرہ میں حکومتی سطح پر ایک مشن کے طور پر کھپایا جائے اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول کی طرف خصوصی توجہ دی جائے۔
اسلامی ممالک کی تنظیم أو آئی سی میں تحریک پیدا کرنے کے لیے کوششیں کی جائیں اورعالم اسلام کو متحد کیا جائے۔
دین دار تاجر طبقوں خصوصاعرب سرمایہ داروں کو اکٹھا کرتے ہوئے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مقابلے میں اسلامی انڈسٹریز بنانی چاہیے تاکہ مسلمان اپنی معاشی ضرورتوں میں خود کفیل ہوں وغیر ذلک۔
مقصود یہ ہے کہ جہادی تحریکوں کو کچھ عرصے تک اپنی توانائیاں عالمی سطح پرمسلمانوں کی تعلیم‘ معیشت‘ ٹیکنالوجی اور سیاسی گٹھ جوڑ پر صرف کرنی چاہئیں تاکہ اسلامی ریاستیں اور جہادی تحریکیں مل کر ایک خاص عرصے میں سپر پاور نہ سہی ایک منی سپر پاور کے طور پر سامنے آئیں۔اس سلسلے میں پہلی جنگ عظیم میں امریکہ اور دوسری جنگ عظیم کے بعد چین کی پالیسیوں سے رہنمائی لی جا سکتی ہے کہ دونوں نے ایک خاص وقت تک کے لیے اپنے ممالک کو ہر قسم کے جنگ و جدال سے دور رکھتے ہوئے معاشی و ٹیکنالوجی کی ترقی پر اپنی ساری توجہ مرکوز رکھی اور اس کے نتائج وہ آج حاصل کر رہے ہیں۔
علاوہ ازیں اسلامی ریاستوں کے حکمرانوں کی اصلاح کے لیے کسی بھی عسکری طریقہ کار کی بجائے آئینی‘ دعوتی‘ تبلیغی‘ اصلاحی‘ انتخابی‘احتجاجی‘ پر امن مظاہروں‘ پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا کے ذرائع وغیرہ کو استعمال کرنا چاہیے۔ 

چند شبہات اور ان کے جوابات

۱) طالبان تحریک سے بہت سے گروہ نظریاتی اختلافات کی بنا پر علیحدہ ہو کر چھوٹے چھوٹے دھڑوں میں تقسیم ہو تے گئے۔ان دھڑوں میں سے بعض ایسے تھے جو کہ حکومت پاکستان کو کافر قرار دیتے تھے اور حکومت کی معاونت کی وجہ سے افواج پاکستان‘ رینجرز اور پولیس پر بھی کفر کا فتوی لگاتے ہیں لہذا یہ حضرات سیکورٹی فورسز پر پاکستان میں ہر جگہ خود کش حملوں کو جائز قرار دیتے ہیں۔ان مقاتلین میں سے ایک طبقہ تو اس قدرشدت پسند ہے کہ اس کے نزدیک حکومت پاکستان کے تمام ملازمین طاغوتی نظام کی اعانت کی وجہ سے کافر اور مباح الد م ہیں۔ہمارے نزدیک تکفیر کے اس فتنے کا نتیجہ مسلمانوں کی باہمی قتل و غارت کے سواکچھ نہیں ہے ۔اس فتنے میں چند ایک ناسمجھ ‘جاہل اور جوشیلے نوجوان مبتلا ہیں اور اس تکفیر کے نتیجے میں مسلمان حکمرانوں اور پاکستانی سیکورٹی فورسز سے قتال کو ہر مسلمان پر فرض عین قرار دیتے ہیں۔یہ نوجوان عام طور پر قرآن کی آیات اور أئمہ سلف کے فتاوی کو اپنے موقف کے حق میں دلیل کے طور پرپیش کرتے ہیں۔
ہماری رائے کے مطابق یہ تکفیری ٹولہ امت مسلمہ کے مسائل حل کرنے کی بجائے بڑھا رہا ہے ۔یہ حضرات واضح طور پر کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کو بھی عراق بنانا چاہتے ہیں۔ٹینشن ‘ فرسٹیشن اور ڈیپریشن میں مبتلا اس قتالی تحریک کو سوئی ہوئی امت مسلمہ کو جگانے کا بس ایک ہی طریقہ نظر آتا ہے کہ ان سب کو باہمی جنگ و جدال میں جھونک دو۔یہ حضرات مسلمانوں کو چولہے(حکومتی ظلم وستم) سے اٹھانے کی بات کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی تنور(باہمی قتل و غارت) میں جھونکنا چاہتے ہیں۔شریعت ہمارے مسائل حل کرنے کے آئی ہے نہ کہ پیدا کرنے کے لیے ۔اگر ان حضرات کے منہج کو اختیار کر لیا جائے تو شاید ایک مسئلہ حل ہو جائے لیکن اس سے جو آگے بیس مسائل پیدا ہوں گے‘ ان کی طرف ان کی نظر بالکل بھی نہیں جاتی۔یہ نوجوان طبقہ حکمرانوں پر کفر کے فتوے لگا کر ان سے قتال یا افواج پاکستان پر خود کش حملوں کا رستہ تو تجویز کرتے ہیں لیکن اس کے نتائج سے بلی کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔پاکستانی حکومت کے کمزور ہونے کا اصل فائدہ کس کو ہو گا؟امریکہ ‘ اسرائیل اور انڈیا کویا اس قتالی تحریک کو۔ہم پہلے ہی اسلام دشمنوں سے لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور باہمی جنگ و جدال سے اپنے ملک کو اورزیادہ کمزور کر لیں۔پاکستانی حکومت کی شکست اور پاکستان کا بھی عراق جیسا حشر ہونے سے کیا امت مسلمہ کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپؐ سے سناہے:
’’آخری زمانے میں ایک جماعت ایسی ہو گی جو کہ نوجوانوں اور جذباتی قسم کے احمقوں پر مشتمل ہو گی وہ قرآن سے بہت زیادہ استدلال کریں گے اور اسلام سے اس طرح نکل جائیں کہ جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے پس یہ جہاں بھی تمہیں ملیں تم ان کوقتل کرو کیونکہ جس نے ان کو قتل کیا اس کے لیے قیامت کے دن اجر ہو گا۔‘‘ (صحیح بخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب إثم من رأی بقراء ۃ القرآن أو تأکل بہ)
راہ اعتدال اور اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران‘ افواج ‘ رینجرز‘ پولیس اور ملازمین کافر نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بعض ظالم ہیں ‘ بعض فاسق ہیں اور بعض مؤمن صادق ہیں۔اہل سنت کی عقیدے کی معروف کتاب ’شرح عقیدہ طحاویہ‘ میں ’لا نکفر أحدا بذنب ما لم یستحلہ‘ کے تحت بڑی عمدہ بحث موجود ہے۔
سیکورٹی فورسز کے جن اہلکاروں نے وزیرستان میں قبائلیوں پر حملہ کیا تو قبائلیوں کے لیے اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھانا اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کو قتل کرنا جائز ہے لیکن اس قتل و غارت کی صورت میں دونوں طرف سے مرنے والے مسلمان ہیں اور ان کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی‘لیکن سیکورٹی فورسرز کی یہ قتل و غارت گناہ کبیرہ کے درجے میں آئے گی اور وہ ظالم و فاسق شمار ہوں گے۔
دوسری صورت میں اگر تو اقدام مجاہدین کی طرف سے ہوتا ہے تو دونوں طرف کے مسلمان شہید ہوں گے اور ان کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اس صورت میں سیکورٹی فورسز کے اہلکار ظالم و فاسق یا گناہ کبیرہ کے مرتکب نہیں ہوں گے کیونکہ وہ دفاعی قتال کر رہے ہیں ۔
تیسری بات یہ ہے کہ مجاہدین اپنے دفاع میں کسی اہلکار کو ہلاک کر سکتے ہیں لیکن جو اہلکار مجاہدین سے لڑنے نہیں جاتے مثلا وہ کراچی ‘ لاہور یا دوسرے شہروں میں تعنیات ہیں تو ان اہلکاروں پر خود کش حملے کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور اس کا قصاص لینا واجب ہے اور یہ جہاد نہیں فساد ہے ۔ کیونکہ یہ اہلکار کلمہ پڑھتے ہیں‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے ہیں‘ اللہ کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں۔قرآن ‘ آخرت‘ فرشتوں‘ رسالت اور تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں لہذاو ہ مومن صادق ہیں۔
اگر بفرض محال تکفیری گروپ کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ حکمران اور سیکورٹی فورسز کے اہلکار فلال فلاں اسباب کی وجہ سے کافر ہو گئے ہیں تو ہمارا سوال یہ ہے کہ کسی مرتد کافر کے اسلام لانے کا کیا طریقہ کار ہے؟ظاہری بات ہے کہ یہی طریقہ ہے کہ وہ کلمہ شہادت کا اقرار کرے اور سیکورٹی فورسز کے اہلکارکلمہ شہادت کا اقرار بدستور کر رہے ہیں لہذا مسلمان ہیں۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ پرویز مشرف اور اس کی کابینہ کے فیصلوں میں ایک عام سیکورٹی اہلکار کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کی اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے جو پرویز مشرف کو گالیاں دیتی ہے اور ان کو اگر کسی جگہ مجاہدین کے خلاف آپریشن کا حکم دیا بھی جاتا ہے تو وہ رضامندی کی بجائے جبراً ایسی کاروائی کرتے ہیں۔ان میں سے ایک بہت بڑی تعداد توایسے افراد کی ہے جو معاشی مجبوریوں کے تحت حکومت کی بات ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں حکومت کی طرف سے قرآن وسنت کی روشنی میں ان اہلکارں کے سامنے یہ بات ثابت کی جاتی ہے کہ مجاہدین ریاست کے باغی ہیں اور ان کے خلاف قتال واجب ہے ۔لہذا یہ حضرات مجاہدین کے خلاف جہاد ایک دینی فریضہ سمجھ کر ادا کر رہے ہوتے ہیں۔پس ان کا حکم متأولین کا ہو گا اورامت کا اس بات پر اجماع ہے کہ تأویل کی غلطی کی وجہ سے کسی پر بھی کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جائے گا۔ لہٰذ ا یہ مومن صادق ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور جوکوئی بھی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تواس کا بدلہ جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہو گا اور اللہ کی لعنت ہو گی اور اللہ تعالی نے اس کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ (النساء:۹۳)
اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے أبی بن کعب اور اس کے ساتھیوں کے کفر اکبر کے باوجود ان سے قتال نہیں کیا جبکہ ان کے کفر پر قرآن بھی شاہد تھا تو ان کلمہ گو مسلمان اہلکاروں کوکافر قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قتال کیسے جائز ہو جاتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں شاید حجاج بن یوسف جیسے سفاک اور ظالم حکمران کی کوئی مثال موجود ہو جس نے صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی خلافت کے خاتمے کے لیے مکہ کا محاصرہ کیا‘ ان کو شہید کروا کے سولی پر چڑھایا‘ بیت اللہ پر سنگ باری کروائی اور ہزاروں مسلمانوں کو صرف اپنے اور بنو امیہ کے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے قتل کراویا۔اس شخص کے فتنوں سے تنگ آ کر جب دو صحابیؓ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے پاس آئے تو کہنے لگے:
’’لوگوں نے امانت کو ضائع کر دیا( یعنی حقدار کو امارت و خلافت عطا نہ کی ) اور آپؐ ابن عمرؓ ہیں ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابیؓ بھی ہیں تو پھر بھی آپ ان ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کیوں نہیں کرتے تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا مجھے اللہ کا یہ حکم ان کے خلاف خروج سے روکتا ہے کہ اللہ تعالی نے مسلمان بھائی کے خون کو حرام کیا ہے تو اس شخص نے کہا : کیا اللہ تعالی نے یہ حکم نہیں دیا کہ ان سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو جائے(یعنی حضرت عبد اللہ بن زبیر کو بنو أمیہ کے فتنے سے نکالنے کے لیے قتال ہونا چاہیے) تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے جواب دیا: ہم نے قتال کیا تھا یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو گیااور دین (یعنی اطاعت) اللہ ہی لیے ہو گیا اور تم یہ چاہتے ہوئے کہ تم قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ (مسلمانوں کی باہمی قتل و غارت)پیدا ہو اور دین غیر اللہ کے لیے ہوجائے۔(صحیح بخاری‘ کتاب التفسیر‘ باب و قاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ)
صحیح بخاری ہی کی ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓؓ سے آکر کہاکہ آپ ہر سال حج و عمرہ تو کرتے ہیں لیکن اللہ کے رستے میں جہاد نہیں کرتے تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا : ارکان اسلام پانچ ہی ہیں یعنی جہاد ان میں شامل نہیں ہے تو اس شخص نے کہا اللہ تعالی نے تو یہ حکم دیا کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ اور اگر پھر ان میں کوئی ایک زیادتی کرے تو اس کے خلاف لڑو۔یہ شخص دراصل حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو کہہ رہا تھا کہ ’فقاتلوا الیے تبغی‘ کی نص کے تحت آپ پر ظالم گروہ کے ساتھ قتال واجب ہے تو پھر حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے اسے وہ جواب دیا جو اوپر مذکور ہے۔ 
اسی طرح قرآن مجید نے مسلمانوں کے آپس میں لڑنے والے دونوں گروہوں کو مومن کہا ہے اگرچہ ان میں سے ایک ظالم بھی ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور اگر اہل ایمان کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ‘ پس اگر ان میں سے ایک دوسرے پر ظلم کرے تو اس ظلم کرنے والے کے خلاف لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم(یعنی صلح) کی طرف لوٹ آئے۔پس جب وہ ظلم کرنے والا گروہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان پھر عدل و انصاف سے صلح کرواؤ بے شک اللہ تعالی نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (الحجرات:۹)
عام مسلمانوں کے لیے ظالم اور باغی گروہ کے خلاف قتال اس صورت میں ہے جبکہ اس سے قتال کی صلاحیت و استطاعت موجود ہو لیکن عصر حاضر میں ریاست کو اس کے ظلم سے روکنے کے لیے احتجاجی و آئینی طریقہ تو اختیار کیا جا سکتا ہے لیکن قتال کا نہیں۔حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے بھی اسی اندیشے سے حکومت کے باغی گروہ کے خلاف قتال کے طریقہ کو فتنہ قرار دیا تھا کہ اس سے مسئلہ سلجھنے کی بجائے باہمی قتل و غارت کے بڑھنے کے یقینی امکانات موجود تھے۔
جہاں تک أئمہ سلف کے ان فتاوی کا تعلق ہے جوکہ قتال کی فرضیت کے بارے میں مروی ہیں‘ تو وہ ایک خاص ماحول اور حالات کے تحت جاری کیے گئے تھے جو کہ آج موجود نہیں ہیں۔قرآن و سنت دائمی ہیں یعنی ان میں قیامت تک کے لیے رہنمائی موجود ہے لیکن أئمہ کے فتاوی کی شرعی حیثیت یہ نہیں ہے کہ وہ ہر زمانے کے قابل عمل ہوں۔اسی لیے اصول فقہ کا یہ معروف قاعدہ ہے ’یتغیر الفتوی بتغیرا لزمان‘ یعنی عرف کے بدلنے سے فتاوی یا اجتہادبدل جاتے ہیں۔ 
۲) تکفیری گروپ کی طرف سے ایک شبہ یہ بھی پیش کیاجاتا ہے کہ یا تو ہم دار الحرب میں ہیں یا دار الاسلام میں ہیں ۔اب پاکستان دار الاسلام تو نہیں ہے کیونکہ یہاں طاغوتی نظام قائم ہے لہذا دار الحرب ہے۔جب پاکستان دار الحرب ہے تو قتال فرض عین ہے۔
دار الحرب و دار الاسلام کی تقسیم کون سی آسمان سے نازل شدہ ہے کہ جس کاخلاف جائز نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ فقہاء نے اپنے زمانوں میں مسلمانوں کو بعض مسائل سمجھانے کے لیے یہ تقسیم پیش کی تھی کہ جس کا شریعت سے سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔آج ہم اپنے زمانے کے اعتبار سے مسلمانوں کے مختلف خطوں کو مختلف نام دیں گے۔آج جس دنیا میں مسلمان آباد ہیں وہ کئی داروں میں تقسیم ہے مثلا دارالحرب‘ دار الاسلام‘ دار الکفر‘دار المسلمین‘ دار العہد‘ دار الصبر‘ دار الأمن اوردار الہجرت وغیرہ۔دار الحرب سے مراد وہ مسلمان علاقے ہیں جہاں کافروں نے جبری قبضہ کر رکھا ہے اور مسلمان ان کے خلاف جنگ کر رہے ہیں جیسا کہ عراق ‘افغانستان‘ کشمیر اور فلسطین ہیں۔دار الاسلام سے مراد وہ علاقے ہیں کہ جہاں اللہ کی حاکمیت بالفعل نافذ ہوجیسا کہ امارت اسلامیہ افغانستان کی ریاست تھی یا پھر موجودہ سعودی عرب اور ایران کسی درجے میں اس کی مثال بن سکتا ہے کہ جہاں شیعہ اسلام نافذ ہے۔دار الکفر سے مراد وہ علاقے ہیں جہاں کافروں کی اکثریت ہے اور حکومت بھی انہی کے کنٹرول میں ہے۔ دارلمسلمین سے مراد وہ مسلمان ریاستیں ہیں جہاں فاسق و فاجر حکمران قابض ہیں اور اسلامی نظام اپنی مکمل شکل میں بالفعل نافذ نہیں ہے جیسا کہ پاکستان‘ مصر وغیرہ ہیں۔دار العہد سے مراد وہ کافر ریاستیں ہیں کہ جہاں مسلمان ایک اقلیت کے طور پرآباد ہیں اور ان کا ریاست سے یہ عہد ہے کہ وہ اس کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے اور جواباً کافر ریاست بھی ان کے حقوق ٹھیک طرح سے اداکرے گی جیسا کہ انڈیا‘امریکہ ‘ برطانیہ اور یورپین ممالک میں بسنے والے مسلمان ہی۔اس سے مراد وہ کافر ریاستیں بھی ہیں کہ جن کے ساتھ مسلمان ریاستوں نے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا ہو۔دار الصبر سے مراد مسلمانوں کے وہ علاقے ہیں کہ جن پر کفار نے قبضہ کر لیا ہو اور وہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم جاری ہواور مسلمان اس پوزیشن میں نہ ہوں کہ وہ کافر حکمرانوں سے جنگ کر سکیں جیسا کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کا حال تھا۔ان علاقوں میں کفار حکمرانوں سیجنگ کی بجائے پر امن ذرائع سے آزادی کی کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔دار الأمن سے مراد کفار کے وہ علاقے ہیں جو کہ پوری دنیا میں امن و امان کے خواہاں ہیں اور کسی بھی قوم سے لڑائی نہیں چاہتے یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے اپنی فوج بھی نہیں بنائی مثلا سوئٹزر لینڈ اور جاپان وغیرہ۔دار الہجرت سے مسلمانوں کے وہ علاقے کہ جن کی طرف مسلمان اپنے علاقوں میں کفار کے ظلم سے تنگ آ کر ہجرت کریں جیسا کہ انڈیا اور افغانستان سے مسلمانوں نے بڑی تعداد میں پاکستان کی طرف ہجرت کی تھی وغیر ذلک۔ 
۳) تیسرا مغالطہ جو عام طور پر دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ دفاعی قتال فرض عین ہے۔افغانستان پر امریکہ کاحملہ ہوا‘اب افغانیوں پرقتال فرض عین ہے اگر وہ قتال کے لیے کافی نہ ہوں تو ساتھ والی ریاستوں کے باشندوں پر قتال فرض عین ہو جائے گااگر وہ بھی کفایت نہ کریں تو یہ فرض پھیلتے پھیلتے تمام امت مسلمہ پر فرض عین ہو جائے گا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ دفاعی قتال بھی ہر حال میں فرض عین نہیں ہوتا یہ اس صورت میں فرض عین ہو گا جبکہ گمانِ غالب ہو کہ مسلمانوں کے اس دفاعی قتال کے نتیجے میں بالآخر ان کو فتح ہو گی یا دشمن کو بھاری نقصان پہنچے گا ۔اس بات کو ہم ایک سادہ سی مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص رستے میں جا رہا ہواور اس کو چار افراد گن پوائنٹ پر روک لیں اور یہ حکم جاری کریں کہ اپنا مال ہمارے حوالے کر دو یا چار مسلح افراد آپ کے سامنے کسی دوسرے شخص کو قتل کر رہے ہوں تو ایسی صورت میں جبکہ آپ کے پاس حفاظت اور بچاؤ کا کوئی ہتھیار بھی نہیں ہے اور غالب گمان یہ ہے کہ اگر آپ نے اپنا مال یا دوسرے شخص کی جان بچانے کے لیے مزاحمت کی تو آپ کی اپنی جان بھی ضائع ہو جائے گی تو ایسی صورت میں آپ پر ان ا فراد کے ساتھ لڑنا فرض عین تو کجا مستحب بھی قرار نہیں دیا جا سکتاہے۔اس لیے اگرتو مسلمانوں کی مقبوضہ سرزمین پر کسی کافر حکمران کے خلاف دفاعی قتال کے نتیجے میں مسلمانوں کی آزادی کا گمانِ غالب ہے اور کفر کو کوئی بڑا ضرر پہنچنے کے امکانات ہیں تو ایساقتال اس مقبوضہ سرزمین کے افراد پر فرض عین ہو گا لیکن اگر کسی جگہ مسلمانوں کے دفاعی قتال کا نتیجہ ان کی نسل کشی کی صورت میں نکل رہا ہو تو پھر یہ دفاعی قتال جائز نہیں ہو گا۔عام طور پر اس مسئلے میں ایک حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے۔حضرت ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر سوال کیا:
’’اے اللہ کے رسول ! آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے کہ ایک شخص مجھ سے میرا مال زبردستی لینا چاہتا ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو اپنا مال مت دے۔تو اس شخص نے دوبارہ سوال کیا:آپؐ کی اس بارے میں کیا رائے ہے کہ وہ میرا مال لینے کے لیے مجھ سے قتال تک کرنے کو تیار ہے تو آپؐ نے فرمایا:تو بھی اس سے قتال کر۔اس شخص نے کہا: آپؐ کا کیاخیال ہے اگر وہ شخص مجھے قتل کر دے توآپؐ نے فرمایا : تو شہید ہے۔اس شخص نے پھر سوال کیا اور آپؐ کی اس بارے میں کیا رائے ہے کہ میں اس کو قتل کر دوں تو آپؐ نے فرمایا وہ جہنمی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب الدلیل علی من قصد أخذ مال غیرہ بغیر حق کان)
یہ حدیث اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص گن پوائنٹ پر مجھ سے میرا مال چھیننا چاہے جبکہ میں نہتا ہوں تو میں اس سے لڑائی کروں اور اپنی جان قربان کر دوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے’ قتال ‘ کا حکم دیا ہے اور قتال دو طرفہ ہوتا ہے اور اس وقت ہوتا ہے جب دونوں طرف طاقت کا کوئی توازن موجود ہو۔چار افراد کے پاس کلاشنکوفیں ہیں اور دوسری طرف خالی ہاتھ ایک آدمی ہے تو یقینی صورت ہے کہ اس نہتے آدمی کی موت قطعی ہے سوائے اس کے کہ وہ مارشل آرٹ کا ورلڈ چیمپیئن ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں طاقت کا توازن موجود تھا اور عرف میں یہ بات عام تھی کہ ہر شخص اپنا ہتھیار مثلا تلوار وغیرہ اپنے پاس رکھتا تھا لہذا اگر کوئی شخص کسی سے اس کا مال چھیننا چاہتا تو وہ جواباً اس کو بھی قتل کر سکتا ہے اسی لیے صحابیؓ نے اس بارے میں سوال بھی کیا کہ اگر میں اس کو قتل کردوں تو پھر اس کا حکم کیا ہو گا۔ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اگر کسی درجے میں طاقت کا توازن قائم ہو جیسا کہ قبائلی علاقوں میںیہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ وہاں عرف یہ ہے کہ ہر شخص اپنا ہتھیار اپنے پاس رکھتا ہے‘لہذاایسے علاقوں اور صورت حال میں انسان کو اپنا دفاع لازما کرنا چاہیئے اور اس دفاع میں اگر وہ قتل بھی ہو جائے تو شہید ہے ۔ 
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں بھی دفاعی قتال کا منہج اختیار کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان ۵۰ سال تک قیادت سے محروم ہو گئے ۔انگریزوں نے ردعمل میں آ کر آزادی کی اس تحریک کو اس قدر کچلا کہ مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والا کوئی لیڈر باقی نہ چھوڑا۔پھر پچاس سال کے بعد نئی نسل میں علامہ اقبال بھی پیدا ہورہے ہیں اور قائد اعظم بھی‘ مولانا ابو الکلام آزاد بھی اور شیخ الہند بھی‘اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس تحریک کے ذریعے انگریز کی غلامی سے آزادی حاصل ہوئی وہ قتال کی تحریک نہیں تھی بلکہ ایک آئینی و سیاسی تحریک تھی۔کیا وہ مقصود یعنی ظلم کا خاتمہ کہ جس کے لیے قتال کو مشروع قرار دیا گیا ہے ‘ قتال کے علاوہ کسی اور منہج سے بہتر طور پر حاصل ہورہا ہو‘ تو کیا اس جدید ذریعے سے اس مقصود کا حصول حرام ہو گا؟
دوسری بات یہ ہے کہ کوئی بھی فرض کفایہ اگرچہ امت کے بعض طبقوں پر فرض عین ہو جاتا ہے لیکن تمام امت پر فرض عین کبھی بھی نہیں ہوتا ۔اس کی سادہ سی مثال نماز جنازہ ہے۔مثلا کسی بستی مثلا پشاورمیں کسی شخص کا انتقال ہو جاتا ہے اور اگر پشاور کے علماء یا مسلمان اس کا نماز جنازہ نہیں پڑھتے تواس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ افریقہ یا یورپ میں بیٹھا ہوا مسلمان بھی گناہ گار ہو گا اور یہ فرض عدم ادائیگی کی صورت میں پھیلتا پھیلتا امت کے تمام افراد پر فرض عین ہو جائے گا۔یہ بات بالکل درست ہے کہ فرض کفایہ کی عدم ادائیگی کی صورت میںیہ فرض الأقرب فالأقرب کے اصول کے تحت امت میں آگے منتقل ہو گا، لیکن اس منتقلی میں بنیادی شرط اس فرض کی ادائیگی کی اہلیت و أ سباب ذرائع ہیں، اس لیے اگر افغان باشندے امریکہ کے بالمقابل اپنے ملک کادفاع نہیں کر سکتے تو افغانستان کے ساتھ ملحقہ ریاستوں کے حکمرانوں اور سربراہان پر یہ قتال فرض عین ہو گا نہ کہ عامۃ الناس پر۔ ہم یہ بات پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ آج جہاد و قتال کی کامیابی کا دارومدار عددی قوت پر منحصر نہیں ہے بلکہ ٹیکنالوجی اور جدید آلات حرب وضرب پر ہے۔ جب عامۃ الناس کے پاس نہ تو قتال کی اہلیت ہے اور نہ اس کے اسباب و ذرائع ‘تو ان پر قتال کیسے فرض عین ہو سکتا ہے ؟سورۃ توبہ میں تو یہ ہے کہ اہلیت اور اسباب وذرائع نہ ہونے کی وجہ سے قتال غزوہ تبوک کے موقع پر بھی فرض نہیں ہوا جبکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قتال کے لیے نفیر عام تھی۔ أسباب و ذرائع سے ہماری مراد افغانستان‘ عراق یا کشمیر جانے کا کرایہ‘ کلاشنکوف یاہینڈ گرنیڈ نہیں ہے بلکہ ہماری مراد وہ أسباب و ذرائع ہیں کہ جن کے ذریعے امریکہ ‘انڈیا یا اسرائیل کی شکست کا کم از کم امکان تو ہو۔ ہمارے خیال میں یہ أسباب و ذرائع اس وقت پاکستانی ریاست کے پاس تو موجود ہیں لیکن کسی جہادی تحریک کے پاس نہیں ہیں ۔
۳) عام طور پر جہادی تحریکیں کے رہنماؤں کی تقاریر اور علما کی تحریروں میں عوام الناس کو ایک مغالطہ یہ بھی دیا جاتا ہے کہ ریاست کے بغیر ہونے والے اس جہاد کے نتیجے میں کل ہی امریکہ کے ٹکڑے ہو جائیں گے یا انڈیا فتح ہو جائے گا یا اسرائیل دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا،اس لیے ہمیں یہ قتال ضرور کرنا چاہیے۔
اصل سوال یہ ہے کہ اس بات کا تعین کیسے ہو گا کہ معاصر جہادی تحریکوں کے قتال کے نتیجے میں امت مسلمہ کومجموعی سطح پر کوئی فائدہ ہو رہا ہے یا ضرر پہنچ رہا ہے؟ ہمارے خیال میں اس کا تعین‘ماضی قریب کے واقعات‘ حالات حاضرہ اور مستقبل قریب کی تاریخ سے ہو سکتا ہے ۔حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک بندہ مؤمن کو نہ تو سی این این اور بی بی سی کی اخبار و اطلاعات پر اندھا اعتماد کرنا چاہیے اور نہ ہی جہادی تحریکوں کے اس پروپیگنڈے کا شکار ہونا چاہیے کہ جس میں ہرفدائی کاروائی میں فرشتوں کے نزول کی کہانی بیان کی جاتی ہے یا روس کی طرح امریکہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی خوشخبری سنائی جاتی ہے یاانڈیا کے فتح ہونے کی نوید ہوتی ہے۔ہمارے خیال میں ایسی تمام تقاریر اور تحریریں مبالغے پر مبنی اور حقائق کے خلاف ہوتی ہیں ۔راقم الحروف کو اسلام آباد کی ایک جامع مسجد میں ایک معروف جہادی تحریک کے مفتی صاحب کا خطاب سننے کو ملا کہ جس میں انہوں نے حاضرین مجلس کو یہ خوشخبری سنائی کہ مسلمان مجاہدین نے ایک ایسی گن ایجاد کر لی ہے جو کہ کئی کلو میٹر ز سے بھی دشمن کا صحیح نشانہ لگاکر اس کو موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے اور اس گن کی وجہ سے امریکی فوجی اتنے خوفزدہ ہو گئے ہیں کہ انہوں نے مارے خوف کے پیمپرز(pampers) پہننا شروع کر دیے ہیں۔حقائق یہ ہیں کہ عراق کو امریکہ نے جہنم کی بھٹی بنا رکھا ہے اور اگر امریکہ ‘عراق سے نکل بھی جائے تو اس نے پیچھے کیا چھوڑا کہ جس پر مجاہدین اللہ کے دین کا غلبہ کریں گے؟ویران کھنڈر!کہ جن کے زیر زمین مکینوں کی تعداد اوپر رہنے والوں سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔اگربالفرض امریکہ ‘عراق سے نکل بھی جائے کہ جس کے نکلنے کے دور دور تک کوئی امکانات بھی نظر نہیں آ رہے تو پھر بھی عراق کو معاشی طور پر خود کفیل ہونے میں ایک صدی کا عرصہ درکار ہے اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ عراق میں مجاہدین کی حکومت قائم ہونے کے بعد وہاں امریکہ اپنے مفادات کو خطرہ محسوس کرنے کی صورت میں دوبارہ حملہ آور نہیں ہو گا‘اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ عراق میں سنی مجاہدین کی حکومت ہو گی یا شیعہ کی ؟ علاوہ ازیں یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر کسی مجاہد کی فدائی کاروائیوں کے نتیجے میں دو امریکی فوجی جہنم واصل ہوتے ہیں تو پچاس مسلمان بھی شہادت کے مرتبے پر فائز ہوتے ہیں کہ جسکے بارے میں جہادی تحریکوں کے پاس یہ عذر ہے کہ جنگ میں تو سب جائز ہے۔ ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا جنگ میں جانتے بوجھتے سینکڑوں مسلمانوں کی جان لینا جائز ہو جاتا ہے؟جبکہ ایک مسلمان کی جان کی حرمت کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبے کی حرمت سے بڑ ھ کر بیان کیا ہے۔ حقائق سے متعلقہ یہ اور اس جیسے بیسیوں سلگتے ہوئے سوالات ایسے ہیں کہ جس کے جوابات کسی جہادی تحریک کے پاس نہیں ہیں ۔
ہم عراق میں ہونے والے قتال کے خلاف نہیں ہیں لیکن ہمارے خیال میں عدل و انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ قتال کے لیے ابھارنے والے ان واعظین کو عوام الناس سے تصویر کا دوسرا رخ چھپانا نہیں چاہیے تاکہ ہر مسلمان حقائق کی روشنی میں خود فیصلہ کرلے کہ معاصر جہادی تحریکوں کا یہ جہاداپنے نتیجے کے اعتبار سے امت مسلمہ کو کوئی فائدہ پہنچا رہا ہے یا نہیں؟اگر تو کوئی مسلمان صدق دل سے اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ ریاست کے بغیر ہونے والے اس قتال سے امریکہ ٹوٹ جائے گا یاا نڈیا فتح ہو جائے گا یااسرائیل سے بیت المقدس کو آزاد کروا لیا جا ئے گا تو اسے ضرور بالضرور اس قتال میں شریک ہونا چاہیے بلکہ اس کے لیے اس قتال میں شرکت فرض عین ہے۔اور اگر کوئی بندہ مؤمن یہ سمجھتا ہے کہ اس قسم کے قتال سے اگرچہ مسلمانوں کو کوئی فتح تو نصیب نہیں ہوگی لیکن اس سے دشمن کو کوئی بڑا مالی یا جانی ضرر پہنچایا جا سکتا ہے تو ایسی صورت میں بھی اس کے لیے یہ قتال مستحب ہو گا ‘لیکن اگر کوئی مؤمن اپنے مشاہدے‘ تجزیے اور تجربے کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ جس قتا ل کا وہ حصہ ہے یا حصہ بننے جا رہا ہے اس سے کسی جہادی تحریک کے رہنماؤں کے مفادات وابستہ ہیںیا کسی جہادی تحریک کے لیڈر‘علما اور قتال کو فرض عین کہنے والے مفتی حضرات حب جاہ‘ حب مال اور اپنے وی آئی پی پروٹوکول کی خاطرقتال کے لیے نوجوانوں کو تیار کرتے ہیں حالانکہ وہ خود اور اپنی اولاد کواسی قتال کی سعادت سے محروم رکھتے ہیںیا معصوم‘ لاعلم اورسیدھے سادھے جذباتی نوجوانوں کے لیے ان تحریکوں کے معسکرات ایسے خرکار کیمپ ثابت ہوتے ہیں جو ان کو جبراً فریضہ قتال کی ادائیگی پر مجبور کرتے رہتے ہیں اور اس کی انتہاء ایک مجاہد کے اپنے گھر والوں کے لیے یہ الفاظ ہوتے ہیں کہ میں واپس ہونا چاہتا ہوں لیکن اب میرے لیے واپسی کا کوئی رستہ نہیں ہے شہادت میرا مقدر ہو چکی ہے اگر میدان جنگ میں نہ شہید ہو ا تو یہ مجھے شہید کردیں گے‘ یا اگر کوئی بندہ مؤمن یہ سمجھتا ہے کہ اس قسم کے قتال سے اگر دو امریکی مریں گے تو ساتھ ہی پچاس مسلمان بھی شہید ہوں گے اور اس قتال کا نتیجہ مسلمانوں کی نسل کشی کے سوا کچھ نہیں ہے تو ایسے شخص پریہ فرض عین ہے کہ قتال کے نام ہونے والے اس ظلم سے ممکن حد تک دور چلا جائے۔
ریاست کی سطح پرایسی جنگ‘ کہ جس کے نتیجے میں امریکہ کے ٹوٹنے کے پچاس فی صد بھی امکانات ہوں‘میں اگرپچاس ہزار مسلمان بھی شہید ہو جائیں تو کوئی پرواہ نہیں ہے لیکن دو امریکی فوجیوں کو مارنے کے پچاس مسلمانوں کو شہید کرنا کون سی عقلمندی ہے؟
ہمارے ہاں عام طور پر یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ جہادی تحریکوں کے قتال کے نتیجے میں روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے حالانکہ حقائق بالکل اس کے خلاف ہیں ۔روس کے ٹکڑے مجاہدین کے ہاتھوں اس لیے ہوئے کہ اس قتال کے پیچھے دو ریاستوں امریکہ اور پاکستان کا پورا عمل دخل موجود تھا۔ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا روس جو کہ اس وقت عالمی سپر پاور تھا ‘اس کے لیے کیایہ مشکل تھا کہ وہ امریکہ کی طرح افغانستان پر بمباری کر کے مجاہدین کو پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیتا؟ ہمارے خیال میں روس بالکل ایساکرسکتا تھا لیکن اس کو اس وقت امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں کے جس دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا، امریکہ کو طالبان پر حملہ کرتے وقت اس سے واسطہ نہیں پڑا۔طالبان کی حکومت کو اگر صرف پاکستانی ریاست و حکومت کی امداد بھی حاصل ہوتی تو امریکہ کو کبھی بھی افغانستان پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ 
کچھ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر میں ہونے والے قتال میں تو پاکستانی ریاست کا تعاون بھی شامل ہے اس لیے وہاں قتال کی صورت میں کامیابی کے امکانات ہیں۔ہمارے خیال میں یہ کامیابی ممکن تو کیاقطعی اور یقینی ہے بشرطیکہ پاکستانی فوج اور ایجنسیاں واقعتا کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں مخلص ہوں۔
کشمیر میں بہت سی جہادی تحریکیں کام کر رہی ہیں جن میں حزب المجاہدین‘جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ‘ حرکۃ الأنصار‘ تحریک جہاد ‘ جمعیت المجاہدین‘ الجہاد‘ تحریک المجاہدین‘ العمر مجاہدین‘ مسلم جانباز فورس ‘ حزب اللہ ‘ الفتح ‘ حزب المؤمنین اور جموں و کشمیر اسلامک فرنٹ وغیرہ شامل ہیں ۔یہ تیرہ عسکری جماعتیں متحدہ جہاد کونسل کی ممبربھی ہیں کہ جس کہ بنیاد ۱۹۹۰ء میں رکھی گئی‘متحدہ جہاد کونسل کا ہیڈ کوارٹر مظفرآباد میں ہے۔ان عسکری تناظیم کے علاوہ لشکر طیبہ ‘ جیش محمد اور البدر بھی معروف جماعتیں ہیں۔
جہاد کشمیرکے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ جہاد فرض ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مظلوم مسلمانوں کے لیے جہاد و قتال کو امت مسلمہ پر فرض قرار دیا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا ہے :
’’اور اے مسلمانو!تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے رستے میں قتال کیوں نہیں کرتے جبکہ کمزور مرد‘ عورتیں اور بچے کہہ رہے ہیں: اے ہمارے رب!ہمیں اس بستی سے نکال کہ جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی ولی یا مددگار مقرر فرما۔‘‘(النساء: ۱۷۵)
ہمارے نزدیک کشمیر کا جہاد فرض ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کس پرفرض ہے ؟اس مسئلے میں ہمیں جہادی تحریکوں کے موقف سے اختلاف ہے ۔ہمارے موقف کے مطابق کشمیر کا جہاد پاکستانی حکمرانوں اور افواج پر فرض ہے جو کہ اُس کی کامل استطاعت رکھتے ہیں جبکہ پاکستان کے عوام کے لیے ہم اس جہاد کو فرض عین نہیں سمجھتے ۔عامۃ الناس کا فرض یہی ہے کہ وہ اُس جماعت کو جہاد و قتال پر آمادہ کریں جو کہ اس کی استطاعت و اہلیت رکھتی ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ عوام الناس کروڑوں نہیں بلکہ أربوں روپے اس لیے خرچ کرتے ہیں کہ ملکی افواج اپنے عوام اور ان کی علاقائی سرحدوں کی حفاظت کریں اور پاکستانی افواج کی بقا کامقصد ہی یہی ہے۔لہذا ہمارے نزدیک اصلاً کشمیر کا جہاد پاکستانی افواج کی ذمہ داری ہے اور اگر اس میں مجاہدین کی معاونت بھی ان کو شامل ہو جائے تو یہ سونے پر سہاگہ ہے۔جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کے فورا بعد افواج پاکستان کے ساتھ مل کر جب مجاہدین نے کاروائیاں کیں تو موجودہ آزاد کشمیر ہمیں حاصل ہوا اور اس کی تازہ ترین مثال کارگل کی جنگ ہے۔لہذاکشمیر کی آزادی کے مسئلے کا واحد حل ہمارے نزدیک یہی ہے کہ اس محاذ پر پاکستانی افواج لڑیں جو کہ اس کو آزاد کرانے کی استطاعت و صلاحیت بھی رکھتی ہیں اور ان کا مقصد حیات و بنیادی ذمہ داری بھی یہی ہے اور اسی کی وہ تنخواہ بھی لیتی ہیں۔
جو لوگ بھی’ جیش محمد‘ اور’ لشکر طیبہ‘ کی عسکری تربیت کے نظام سے گزرے ہیں، وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان جماعتوں کے معسکرات میں عسکری تربیت کم ہوتی ہے اور مسلکی تعصب کی تعلیم زیادہ دی جاتی ہے۔ دونوں مکاتب فکرکے معسکرات میں تقاریر و دروس کے ذریعے احسن طریقے سے ایک دوسرے کے مسلک کا رد کیا جاتا ہے لیکن بعض اوقات دوسری جماعت کے مجاہدین سے اس قدر تعصب کا اظہار کیا جاتاہے کہ ’تحسبھم جمیعا و قلوبھم شتی‘ والی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔
اگر ہم یہ مان لیں کہ کشمیر‘ انڈیا سے آزاد ہونے کے بعد ایک خود مختار آزاد ریاست کے طور پر قائم رہ سکتا ہے‘ جیسا کہ دنیا میں اس طرح کی اور بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی موجود ہیں مثلا کویت وغیرہ‘ اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس چھوٹی سی آزاد مسلم ریاست کا حکمران کون ہو گا؟ کشمیری عوام کی ترجمان سیاسی ‘سماجی اور مذہبی تنظیمیں یا غیر کشمیری جہادی تحریکیں؟صرف آل پارٹیز حریت کانفرنس تقریبا۳۰ سیاسی و سماجی تنظیموں پر مشتمل ہے جو کشمیری عوام کی آزادی کے لیے کوشاں ہیں۔ ان میں مسلم کانفرنس‘ تحریک حریت ‘ کشمیری جمعیت علمائے اسلام‘ عوامی کانفرنس‘ جماعت اسلامی‘ اتحاد المسلمین‘ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ(یسین ملک) ‘عوامی لیگ‘ آزادی کونسل‘ جموں و کشمیر عوامی کانفرنس‘ عوامی ایکشن کمیٹی‘ انجمن تبلیغ اسلام‘ جمعیت اہل حدیث‘ جمعیت حمدانیہ‘ کشمیر بار ایسوسی ایشن‘ کشمیر بزم توحید‘ تحریک حریت کشمیری‘ سیاسی کانفرنس‘ جموں و کشمیر ہیومن رائٹس کمیٹی‘ سٹوڈنٹ اسلامک لیگ‘ دختران ملت اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ(امان اللہ خان) وغیرہ ہیں۔ان سیاسی ‘ سماجی اور مذہبی تنظیموں کااصل منشورانڈیا کے مظالم سے کشمیری عوام کی آزادی ہے نہ کہ اعلائے کلمۃ اللہ۔ اگر تو جہادی تحریکوں کا منشور بھی وہی ہے جو کہ ان سیاسی و سماجی کشمیری تنظیموں کا ہے تو پھر ان عسکری تناظیم کو چاہئے وہ اپنے موقف میں اس بات کو اچھی طرح واضح کریں کہ وہ کسی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے نہیں لڑ رہے بلکہ ایک خطہ ارضی کے حصول کے لیے قربانی دے رہے ہیں اور ان کا مقصد صرف کشمیری عوام کی آزادی ہے نہ کہ اعلاے کلمۃ اللہ۔ اور اگر جہادی تحریکیں یہ موقف اپناتی ہیں کہ ہم اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے لڑ رہی ہیں تو پھر ان کے پاس اس سوال کا جواب کیا ہے کہ کشمیر کی آزادی کے بعد اس کے عوام اور ان کی مقامی سیاسی تنظیموں کو کشمیر میں حکمرانی کا حق حاصل ہے یا غیر ملکی پاکستانی مجاہدین کو(اگرکشمیر علیحدہ ریاست بنے گا تو اس صورت میں پاکستانی مجاہدین کشمیریوں کے لیے غیر ملکی ہوں گے)۔ 
بفرض محال اگرہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کے بعد اس کا الحاق نہ پاکستان کے ساتھ ہو گا اور نہ انڈیا کے ساتھ‘ بلکہ یہ ایک آزاد خود مختار ریاست ہو گی اور ہم یہ بھی فرض کرلیتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کے بعد اس کی تمام مقامی سیاسی ‘ سماجی اورمذہبی جماعتیں مجاہدین کے حق میں حکومت اور اس کی ذمہ داریوں سے دست بردار ہو جاتی ہیں ‘ توپھر بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ کشمیر میں کون سی عسکری تنظیم اپنا اقتدار قائم کرے گی۔ اس وقت کشمیر میں تقریباً سترہ عسکری تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن میں سے بعض مقامی مجاہدین پر مشتمل ہیں مثلا حزب المجاہدین وغیرہ ۔۱۹۹۶ء کی بات ہے کہ راقم الحروف اٹک کالج میں ایف۔ ایس۔ سی کا طالب علم تھا کہ اس دوران کالج میں ایک معروف جہادی تنظیم حزب المجاہدین کے ایک سپریم کمانڈر کی تقریر سننے کا موقع ملا۔خطاب کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک طالب علم نے یہی سوال اٹھایا کہ کشمیر میں اس وقت چودہ عسکری جماعتیں کام کر رہی ہیں تو کشمیر کی آزادی کے بعد کشمیر پر حکومت کون سی جماعت کرے گی اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ جماعتیں افغانستان کی طرح ایک دوسرے کے خلاف جہاد نہ شروع کر دیں گی؟تو ان مجاہد صاحب کا جواب یہ تھا کہ ہم نے کشمیر کے چودہ حصے بنا رکھے ہیں جن کو ہم آپس میں بانٹ لیں گے لہذا آپ حضرات اطمینان رکھیں کشمیر میں افغانستان جیسی خانہ جنگی پیدا ہونے کا ذرا برابر بھی امکان نہیں ہے۔ و اللہ المستعان علی ما تصفون! 
جہادی کشمیری تحریکوں کے مفتیان کرام نے عرصہ دراز سے یہ رٹ لگا رکھی ہے کہ جہاد کشمیر فرض عین ہے ۔جہادی تحریکوں کا یہ طرز عمل بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان میں جن لوگوں پر ان تحریکوں کی طرف سے کفر و شرک کے فتوے لگائے جاتے ہیں انہی کی آزادی کے لیے قتال کو عامۃا لناس پر فرض عین قرار دیاجاتا ہے۔اس کی سادہ سی مثال ایک معروف جہادی تحریک کے مفتی صاحب کی کتاب ’کلمہ گو مشرک‘ ہے ۔ان مفتی صاحب نے جس گروہ اور طبقے کے لیے یہ کتاب لکھی اسی فرقے کی اکثریت مقبوضہ کشمیر میں آباد ہے۔جہادی تحریک سے وابستہ ایک مفتی صاحب جس گروہ کو مشرک قرار دے رہے ہیں اسی جماعت کے ایک دوسرے مفتی صاحب ’الجہاد الاسلامی‘ نامی کتاب میں اس گروہ کی آزادی کے لیے قتال کو فرض عین قرار دے رہے ہیں۔فیا للعجب!مشرکین کی آزادی کے لیے مسلمانوں پر قتال کیسے فرض عین ہو گیا؟ 
’قتال فرض عین ہے ‘کی ایک نئی تعبیر جو کہ کشمیری جہادی تحریکوں کے مفتی حضرات نے متعارف کروائی ہے‘ وہ یہ ہے کہ’ قتال فرض عین ہے‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مفتی صاحب یا کسی جہادی تحریک کے سربراہ خود بھی میدان جنگ میں جا کر لڑیں‘بلکہ ’قتال فرض عین ہے‘ کا فتوی دینے والے مفتی صاحب جہادی تحریک کے کسی مدرسے میں بیٹھے سارا سال ’بخاری‘ پڑھاتے ہیں یا کسی جہادی تحریک کے امراء‘ نوجوانوں کو جہاد کی ترغیب و تشویق دلانے کے لیے تقاریر و سیمینارز کا انعقاد کرواتے ہیں تو یہ بھی قتال ہی ہے ۔
ہمارے خیال میں ایسے مفتی حضرات یا تو فرض عین کا مطلب نہیں سمجھتے یا ان کا علم ان کی عقل سے مستغنی ہے ‘کیا نماز فرض عین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بعض لوگ وضو کرلیں اور بعض سنتیں پڑھ لیں اور بعض فرائض ادا کرلیں تو سب کی نماز اد ہو جائے گی یا روزے کے فرض عین ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ بعض لوگ سحری کا خرچہ اٹھا لیں‘ بعض سحری تیار کر دیں اور بعض روزہ رکھ لیں تو فرض عین ادا ہو جائے گا۔اگر یہ مفتی حضرات اپنی اور اپنے أمراء کی قتال سے جان بچانے کے لیے ’کتاب الحیل‘ کا سہارا نہ لیں تو قتال کے فرض عین ہونے کا مطلب اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ بنفس نفیس میدان جنگ میں جاکر لڑا جائے ‘اور جو بھی میدان جنگ میں لڑ رہا ہے وہ اس فرض کو ادا کر رہا ہے اور جو نہیں لڑ رہا وہ اس فرض کو ادانہیں کررہا۔فتوی یہ حضرات قتال کے فرض عین ہونے کا دیتے ہیں اور اس فرض عین کی تعبیر و تشریح وہ کرتے ہیں جو کہ فرض کفایہ کی ہے۔ أئمہ سلف میں سے کس فقیہ یا محدث نے قتال کے فرض عین ہونے کا یہ مفہوم بیان کی ہے کہ وہ عامۃ الناس کے لیے تو میدان جنگ میں جا کر لڑنا ہے لیکن جہادی تحریکوں کے مفتیان کرام و أمرا کے لیے بخاری پڑھانا یا میجر جنرل کے اعزازی عہدے کی سہولیات و پروٹو کول سے فائدہ اٹھانا ہے۔
بعض جذباتی قسم کے نوجوانوں سے جب یہ بات کی جاتی ہے کہ قتال اصل میں حکومت کا فرض ہے تو وہ بھڑک اٹھتے ہیں اور جواباً کہتے ہیں: مسلمان قتل ہورہے ہیں‘ ان کے بچوں کو ذبح کیا جا رہا ہے‘ ان کی عورتوں کی عزتیں لٹ رہی ہیں‘ان پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں ہم قتال نہ کریں ۔
اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نے یہ بالکل بھی نہیں کہا کہ مسلمان قتال نہ کریں ‘ ہم توقتال کے قائل ہیں بلکہ قتال کے منکر کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں ‘ہمارا موقف یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اس کوختم کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ اسلامی ریاستوں کی سطح پر قتال ہو۔کشمیر ہو یا افغانستان‘عراق ہو یا فلسطین ‘اگر صرف مملکت خدادادپاکستان کے حکمران ہی ریاست کی سطح پر امریکہ یا یہود و نصاری سے قتال کرتے تو آج ان مقبوضہ علاقوں میں ہمیں یہ ظلم و ستم نظر نہ آتا۔جن حکمرانوں کے قتال سے امت مسلمہ کے مسائل کا حل ممکن ہے انہیں تو اس طرف توجہ نہیں دلائی جاتی بلکہ سا را زور اس بات پر صرف ہوتاہے کہ عامۃ الناس پر کسی نہ کسی طرح اس کو فرض عین قرار دیا جائے۔دوسری بات یہ ہے کہ آج دنیا میں تمام مسلمان ریاستوں میں فاسق و فاجر اور ظالم حکمران مسلط ہیں جنہوں نے اللہ کی شریعت کے بالمقابل اپنے ظالمانہ قوانین کا نفاذ کر رکھا ہے ‘ اگرکوئی شخص ذاتی طور پر محسوس کرتا ہے کہ مقتول کے ورثا کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا اور قاتل کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں لہذا ایسے قاتل کو اپنے طور پر قتل کر دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے مظلوم بھائی کی مدد کر سکے تو ہم اسے یہی مشورہ دیں گے کہ تمہارے لیے یہ جائز نہیں ہے۔ تمہارے کرنے کااصل کام ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے جسے اللہ کے رسولﷺ جہاد قرار دیا ہے ‘اس لیے تمہارا جہاد ان حالات میں حکمران کے فریضے اپنے ہاتھ میں لینا نہیں ہے بلکہ حکمران کو اس فریضے کی ادائیگی پر مجبور کرنا ہے۔ 
ہم جہاد کشمیر کو بھی فرض عین سمجھتے ہیں لیکن ریاست کے حکمرانوں اور افواج پاکستان پر‘ جوکہ اس کی صلاحیت و اہلیت رکھتے ہیں۔عامۃ الناس کے لیے ہمارے نزدیک جہادی ٹریننگ تولازم ہے لیکن جہاد کشمیر نہیں۔جہاد کشمیر کے بارے میں عوام الناس کی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اس جماعت کو جہاد کی ادائیگی پر بذریعہ تقریر ‘ تحریر‘ میڈیا‘پریس‘قانونی ‘ آئینی ‘ سیاسی اور انقلابی جدوجہد آمادہ کریں کہ جس پر یہ فرض عین ہے اور جو اس کی صلاحیت و اہلیت رکھتی ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے نبی! اہل ایمان کو قتال پر ابھاریں۔اگر تم میں بیس ڈٹ جانے والے ہوں گے تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں ایک سو ڈٹ جانے والے ہوں گے تو وہ ایک ہزار کافروں پرغٖالب آئیں گے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ ایک ایسی قوم ہیں جو کہ سمجھتے نہیں ہیں۔اب اللہ تعالی نے تمہارے لیے تخفیف کر دی ہے کہ اگر تم میں ایک سو ڈٹ جانے والے ہوں گے تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے اور اگر ایک ہزار ہوں گے تو وہ دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے اور اللہ تعالی ڈٹ جانے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘(الأنفال:۶۵‘۶۶) 
آیت :۶۶ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ بیان کیا ہے کہ مسلمانوں کی کسی جماعت یا حکومت پر قتال اس وقت فرض ہوتا ہے جبکہ اس کی قوت ‘ دشمن کی قوت سے نصف ہو۔ امام قرطبی ؒ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں:
’’میں یہ کہتا ہوں:حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی حدیث اس طرف رہنمائی کر رہی ہے کہ یہ حکم (آیت نمبر ۶۵ والا) مسلمانوں پر فرض تھا پھر جب اس حکم کی فرضیت ان کو بھاری محسوس ہوئی تو اللہ تعالی نے فرضیت میں تخفیف کرتے ہوئے یہ حکم جاری کیا کہ اگر ایک دو کی نسبت ہو تو پھر اس کی فرضیت باقی ہے(اور اس سے کم ہو تو ساقط ہے)۔پس اللہ تعالی نے ان سے تخفیف کر دی اور ان پر یہ فرض کر دیا کہ دو سو کے مقابلے میں ایک سو میدان جنگ سے نہ بھاگیں۔اس قول کے مطابق یہ حکم تخفیف کا ہے نہ کہ نسخ کا‘ اور یہ قول بہترین ہے۔‘‘(تفسیر قرطبی:الأنفال:۶۶)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قوت میں تعداد کو ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی لہذا اس کا تذکرہ آیت میں کر دیا گیا ہے۔ آج بھی اگر مسلمانوں کی کسی جماعت یا حکومت کے پاس دشمن کے مقابلے میں نصف قوت موجود ہو تو اس پردفاعی یا دوسرے خطوں میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف اقدامی و دفاعی قتال فرض ہو گااور اگر نصف سے کم قوت ہو تو پھر قتال کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں یعنی یہ مستحب بھی ہو سکتا ہے او ر حرام بھی ۔امام ابن قیمؒ لکھتے ہیں:
’’انکار منکر کے چار درجات ہیں پہلا درجہ وہ ہے کہ جس سے منکر ختم ہو جائے اور اس کی جگہ معروف قائم ہو جائے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ منکر کم ہو جائے اگرچہ مکمل ختم نہ ہو۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ وہ منکر تو ختم ہو جائے لیکن اس کی جگہ ایک ویسا ہی منکر اور آ جائے اور چوتھا درجہ یہ ہے کہ اس منکر کے خاتمے کے بعد اس سے بھی بڑا اور بدترین منکر آ جائے ۔پس پہلے دو درجے مشروع ہیں جبکہ تیسرا درجہ اجتہاد کا میدان ہے اور چو تھا درجہ حرام ہے ۔‘‘(اعلام ا لموقعین: جلد ۳‘ص۱۵۱)
حکومت پاکستان پر کشمیر کے مسلمانوں کو ہندوؤں کے ظلم و ستم سے بچانے کے قتال فرض عین ہے لیکن عوامی جہادی تحریکیں جب بھی قتال کریں گی چاہے وہ کشمیر میں ہو یا دنیا کے کسی بھی خطے میں ‘ اس قتال کی یہ چاروں صورتیں بنیں گی جو کہ ابن قیم ؒ نے بیان کی ہیں۔اصل میں علماء کا دنیا بھر میں ہونے والے جہاد سے علمی اختلاف اسی مسئلے میں ہے ۔یعنی علماء جہاد کی نصوص یا احکام کے انکاری نہیں ہیں۔وہ اسلامی ریاستوں کے لیے جہاد و قتال کو فرض قرار دیتے ہیں لیکن عوامی جہادی تحریکوں کی صورت میں اس بات کو مد نظر رکھتے ہیں کہ اس جہاد کے نتیجے میں ظلم و منکر ختم ہو رہا ہے یا بڑھ رہا ہے ۔کشمیر یا دنیا کے مختلف خطوں میں جہادی تحریکوں کے جہادسے ظلم ختم ہورہا ہے یا بڑھا رہا ہے‘ اس کاتعلق شریعت سے نہیں ہے بلکہیہ حالات و واقعات کا موضوع ہے۔اگر کوئی عالم دین حالات و اخبار عالم سے واقف ہے اور اس کا گہرائی میں تجزیہ کرتے ہوئے اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ جہاد کو اللہ تعالی نے ظلم ختم کرنے کے لیے مشروع کیا تھا لیکن فلاں فلاں خطے میں جہادی تحریکوں کے جہاد کے نتیجے میں ظلم بڑھ رہا ہے تو اس عالم دین کو منکر جہاد یا امریکہ کا حمایتی کہنا سراسر ظلم و زیادتی ہے۔ہاں جہادی تحریکوں کے رہنماؤں اور ہمدردوں کو یہ چاہیے کہ وہ علماء پر اس قسم کے فتوے لگانے کی بجائے یہ ثابت کریں کہ واقعتاً ان کے جہاد و قتال کے نتیجے میں ظلم ختم ہورہا ہے‘ امریکہ تباہ ہو جائے گا ‘ انڈیا فتح ہو جائے گا اور اسرائیل کا غرور خاک میں مل جائے گا۔ یہ واضح رہے کہ قتال نہ تو ہر آدمی پر فرض ہوتا ہے اور نہ ہی ہر صورت میں فرض ہوتا ہے ۔ہرصورت میں اس کے فرض نہ ہونے کو ہم بیان کر چکے ہیں کہ جب مسلمانوں کی تعدادو قوت دشمنوں کی نصف تعداد و قوت سے بھی کم ہو تو ان حالات میں ان پر قتال فرض نہیں ہے۔اور ہر آدمی پر اس کے فرض نہ ہونے کی مثال غزوہ تبوک ہے ‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی ریاست پر شاہ روم کے ممکنہ حملے کی خبر کے پیش نظر تبوک کی طرف نکلے تھے ۔اور موقع پر ہر مسلمان پر قتال فرض نہیں کیا گیا تھا۔اس لحاظ سے غزوہ تبوک دفاعی و اقدامی قتال کی ایک ملی جلی صورت تھی ۔ارشاد باری تعالی ہے:
’’نہیں ہے کمزور لوگوں پر کوئی گناہ اور ان لوگوں پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے جو کہ مریض ہیں اور ان لوگوں پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے جو کہ خرچ نہیں پاتے جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خیر خواہ ہوں ‘ہر کام کو بخوبی انجام دینے والوں پر کوئی الزام نہیں ہے اور اللہ تعالی بخشنے والا رحم کرنے والا ہے‘اور نہ ان لوگوں پر کوئی گناہ ہے جو کہ آپؐ کے پاس آئے تاکہ آپؐ ان کو کسی سواری پر سوار کریں توآپؐ ان کو کہتے ہیں میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس پر تم کو سوار کروں‘وہ پھر جاتے ہیں اس حال میں کہ ان کی آنکھیں غم کی وجہ سے آنسو بہا رہی ہوتی ہیں کہ وہ ایسی چیز نہیں پاتے کہ جس کووہ خرچ کر سکیں۔‘‘(التوبۃ:۹۱)
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ عورتو ں پر قتال غزوہ تبوک کے موقع پر نفیرِ عام کے باوجودبھی فرضِ عین نہیں تھا حالانکہ اس دور میں عورتیں نہ صرف قتال کی اہلیت رکھتی تھیں بلکہ بالفعل کئی غزوات میں شریک بھی ہوتی تھیں اور ان میں میدان جنگ میں اسلام کے دشمنوں سے لڑنے کا جذبہ بھی بدرجہ أتم موجود تھا جیسا کہ بعض روایات کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے ‘ اس سب کے ہوتے ہوئے بھی ان پر قتال فرض نہیں کیا گیا۔اسی طرح وہ صحابہ کرامؓ کہ جن میں قتال کی اہلیت نہیں تھی یعنی بوڑھے اور مریض ‘ان پر بھی قتال فرض نہیں کیا گیا‘علاوہ ازیں وہ صحابہ ؓ کہ جن میں قتال کی اہلیت و قدرت توتھی لیکن ان کے پاس قتال کے أسباب و ذرائع یعنی کوئی سواری یارستے کا خرچ نہیں تھا تو ان کو بھی مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں قتال کی فرضیت سے مستثنی قرار دیا گیا۔لیکن جن لوگوں میں قتال کی اہلیت بھی تھی اور ان پر وہ فرض بھی تھا اور ان کے پاس اس فرض کی ادائیگی کے ذرائع و وسائل بھی موجود تھے لیکن اس کے باوجود وہ غزوہ تبوک میں نفیرِ عام کے بعد بھی شریک نہ ہوئے تو ان کا مواخذہ کیا گیا جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
’’سوا اس کے نہیں گناہ تو ان لوگوں پر ہے جو کہ آپ سے غنی ہونے کے باوجود اجازت طلب کرتے ہیں ‘وہ اس بات پر راضی ہو گئے کہ وہ پیچھے رہ جانے والیوں کے ساتھ ہو جائیں‘اور اللہ تعالی نے ان کے دل پر مہر لگا دی ہے پس وہ نہیں جانتے۔‘‘ (التوبۃ:۹۳)
لہٰذا قتال امت کے اس خاص طبقے کے لیے‘ خاص حالات میں فرض ہوتا ہے جو اس کی ادائیگی کی اہلیت اورأسباب و ذرائع رکھتا ہے۔ہر دور میں قتال کی مکمل اہلیت و استطاعت اور أسباب وذرائع کسی بھی خطے میں مسلمانوں کی حکمران جماعت کے پاس ہوتے ہیں۔
جہاد کشمیر کے مفتیان کرام کے نزدیک جب یہ جہاد پاکستانی عوام پرفرض عین ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی افواج ‘ ایجنسیاں اور حکمران اہل پاکستان میں شامل نہیں ہیں ؟اگر عامۃ الناس کو یہ سبق پڑھا یا جا سکتا ہے تو ’جہادِ کشمیر فرض عین ہے ‘ کایہی فتوی حکمرانوں اور ایجنسیوں کو کیوں نہیں سنایا جا سکتا۔کیا پاکستانی افواج و پاکستانی حکمرانوں کا جہاد صرف وزیرستان ‘ سوات اور لال مسجد کے طلباء و عوام کے خلاف ہی ہونا چاہیے۔جتنا زور جہادی تحریکیں عامۃ الناس پر جہاد کشمیر کو فرض عین قرار دینے میں صرف کرتی ہیں اگر اس کا دسواں حصہ بھی حکمرانوں کو جہاد کشمیر کے لیے کھڑا کرنے میں لگایا جاتا تونتائج بہت بہتر ہوتے۔ اگر ایجنسیاں مجاہدین کو کشمیر کا باڈر کراس کروا دیتی ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ فوج نے اپنے حصے کا فرض عین ادا کر دیا ہے ۔ہمیں تو کشمیری جہادی تحریکوں کے مفتی حضرات کے فتاوی سے یہی سمجھ میںآتا ہے کہ جہاد کشمیر فرض عین ہے لیکن غریب عوام کے لیے ‘ نہ کہ ان مفتی حضرات کے لیے اورنہ جہادی تحریکوں کے سربراہان اور پاکستانی حکمرانوں کے لیے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس میدان جنگ میں شریک ہوتے تھے لہذا جہادی تحریکوں کے سربراہان کو بھی چاہیے کہ امارت و قیادت اپنے پچھلوں کے سپرد کر کے کشمیر میں قتال کرتے ہوئے شہادت حاصل کر یں اور جہاد کشمیر کے فرض عین ہونے کی گواہی اپنے قول کے ساتھ عمل سے بھی دیں۔عام طور پرجہادی تحریکوں کے کارکنان کی طرف سے یہ عذر بھی پیش کیاجاتا ہے کہ جہاد کشمیر تو فرض عین ہے لیکن ہمارے امیر صاحب بیمار ہیں یا اس قابل نہیں ہیں کہ وہ میدان جنگ میں شریک ہوںیاانہیں فلاں عذر ہے یا انہیں گھٹنوں کی تکلیف ہے۔معلوم ایسا ہوتا ہے کہ امیر صاحب نے جب سے تحریک شروع کی اس وقت سے بیمار ہیں اگر نہیں تو اس وقت انہوں نے جہاد کیوں نہیں کیا جبکہ وہ صحت مند تھے اور تحریک میں شامل بھی تھے۔کیا امیر صاحب کے علاوہ باقی تمام اعلی عہدیدار اوراراکین شوری بھی بیمار ہیں اگر ایسا ہی ہے تو بیماروں کی اس تحریک کو ختم کر دینا چاہیے اور جہاد کے لیے کوئی صحت مند افراد تلاش کرنے چاہئیں اور اگر ایسا معاملہ نہیں ہے تو ان اعلی عہدیدران کے لیے قتال فرض عین ہونے کا معنی مفتی صاحب کیا بیان فرماتے ہیں ؟اور اس معنی کی دلیل شرعی کیا ہے؟ جہادی تحریکوں کے بعض ارکان یہ عذر بھی پیش کرتے ہیں کہ ہمارے امیر صاحب نے ہمیں تعلیمی ‘ تدریسی ‘ دعوتی‘ تبلیغی یا انتظامی ذمہ داریاں سونپی ہیں اس لیے ہمارے لیے قتال فرض عین ہونے کا معنی یہی ذمہ داریاں ادا کرنا ہے۔اگر قتال فرض عین ہونے کا یہ معنی جہادی تحریکوں کے اراکین کے لیے ہوسکتا ہے تو ان علماء یا مذہبی جماعتوں کے افراد کے لیے کیوں نہیں ہو سکتاجوکہ کسی جہادی تحریک میں شامل نہیں ہیں اور تعلیم‘ تدریس‘دعوت یاتبلیغ وغیرہ کے میدان میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔جہادی تحریکوں کے مفتیان علماء پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ جہاد کا عمومی معنی مراد لیتے ہیں اور دین کے لیے ہر قسم کی جدوجہد کو جہاد میں شامل کرتے ہیں جبکہ خود جہادی تحریکوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جہاد تو کجا قتال کوبھی اسی عمومی معنی میں لیتے ہوئے زندگی کے ہر شعبے میں دین اسلام کی خدمت کو قتال کا نام دیتے ہیں لیکن اس کے لیے شرط یہ لگاتے ہیں کہ کسی جہادی تحریک کے امیر صاحب سے اس کام کے کرنے کی اجازت لے لی جائے۔ہمارے خیال میں صرف وہ چند مجاہدین جو کہ بالفعل کشمیر میں لڑ رہے ہیں جہادی تحریکوں کے مفتیان کے فتوی کے مطابق فرض عین قتال کی ادائیگی کر رہے ہیں جبکہ جہادی تحریکوں کے باقی تمام افرادبشمول مفتی صاحبان اس فرض عین کی ادائیگی سے محروم ہیں۔نماز فرض عین کا یہ معنی کس فقیہ نے بیان کیا ہے کہ اس کے فرض عین ہونے سے مراد یہ ہے کہ بعض لوگ اس کو ادا کر لیں بعض اس کی ادائیگی کے لیے لوگوں کو تقاریر و خطبات سے تیار کریں اوران کا فرض عین اسی سے ادا ہو جائے گا اور بعض اس کے فرض عین ہونے کا صرف فتوی جاری کر دیں تو ان کا فرض عین ادا ہو جائے گا۔ سبحن ربک رب العزۃ عما یصفون
علماے دیوبند‘ علماے اہل حدیث‘ سعودی علما اور عالم اسلام کے بڑے بڑے نامی گرامی فقہا‘ محدثین ‘ مجتہدین اور اسکالرز کی ایک بہت بڑی جماعت کے علاوہ تبلیغی جماعت‘ جماعت اسلامی اور ڈاکٹر اسرار صاحب کی تنظیم اسلامی سے وابستہ‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے والے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مؤمنین صادقین جہادی تحریکوں کے منہج جہاد و قتال کو درست نہیں سمجھتے اور اس پر گاہے بگاہے نقد کرتے رہتے ہیں ۔جہادی تحریکوں کو ان تمام تنقیدات کی روشنی میں اپنے لائحہ عمل اور منہج پر غور کرنا چاہیے نہ کہ ان سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے ان پر مخالفین جہاد کا فتویٰ لگا دینا چاہیے۔ میں تو کہتا ہوں کہ آج اگر شیخ عبد اللہ عزام ؒ زندہ ہوتے تو وہ اپنے اس منہج سے رجوع کر لیتے جو کہ انہوں نے اپنی کتاب ’ قتال فرض عین ہے ‘ میں پیش کیا تھا جیسا کہ سعودی علماء کی ایک بہت بڑی جماعت جو کہ روس کے خلاف ہونے والے جہاد کے حق میں تھی اور اس کی فرضیت کے فتوے بھی جاری کرتی رہی۔ اب القاعدۃ و طالبان تحریک کے رہنماؤں کو بھی اپنا منہج تبدیل کرنے کا مشورہ کئی سالوں سے دے رہی ہے۔ 
۴) عام طور پر جہادی تحریکوں کی طرف سے حضرت أبو بصیرؓ جیسے واقعات کوریاست و امیر کے بغیر قتال کے جواز کی دلیل کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے ؟
ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ ہم اس کے قائل ہیں کہ ریاست کے بغیر بھی قتال ہوسکتا ہے بشرطیکہ اس سے دشمن کو کوئی بڑا ضرر پہنچ رہا ہو لیکن خودجہادی تحریکیں ایک امیر کے تحت قتال نہیں کر رہی اور اس کے مفاسد بہت زیادہ ہیں۔ہمارے خیال میں اگر کسی خطہ ارضی میں ایک امیر کے بغیر قتال ہو رہا ہو تو وہ ایک امیر کے تحت ہونا چاہیے۔ اگر تو وہ ایک سے زائد امرا کے تحت ہو رہا ہے تو ایسے قتال کا نتیجہ سوائے فساد کے کچھ نہیں ہے جیسا کہ ہم افغانستان میں دیکھ چکے ہیں بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فتنوں کے دور میں اپنے ایک صحابیؓ کو نصیحت فرمائی:
’’تم مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑو‘پس میں(حذیفہ بن یمانؓ) نے کہا: اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت اور ان کا امام نہ ہو تو آپؐ نے فرمایا:پھر تمام فرقوں سے علیحدہ رہ ‘یہاں تک کہ تجھے کسی درخت کی جڑ ہی کیوں نہ چبانی پڑ جائے یہاں تک کہ تجھے موت آ جائے اور تو اسی حال میں ہو۔‘‘ (صحیح بخاری‘ کتاب الفتن‘ بابکیف الأمر اذا لم تکن جماعۃ)
اس حدیث کا اطلاق اس قتال پر بھی ہوتا ہے کہ جو ایک امیر کی قیادت کے تحت نہ ہو رہا ہو جیسا کہ ہم دیکھتے کہ افغانستان میں روس کے خلاف ہونے والا قتال ایک امیر کے تحت نہ ہونے کی وجہ سے فساد بن گیا تھا اور جہادی تحریکیں اور ان کے امرا اقتدار کی خاطر باہم دست و گریبان ہو گئے تھے ۔یہی حال اس وقت کشمیر میں ہونے والے قتال کا بھی نکل سکتاہے۔
مسلمانوں کی جماعت اور اس کے امیر کے بغیر ہونے والے قتال کے حق میں فتوی دیتے وقت علما کواس قسم کے قتال کے نتائج اورنقصانات سے چشم پوشی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان میں موجود تمام معروف جہادی تحریکیں ایک سرابرہ بیت اللہ محسود کی قیادت میں اکٹھی ہیں ‘اللہ اس اتحاد کو برقرار رکھے۔ریاست کی سطح پر فوج میں بالقوۃ یہ طاقت موجود ہوتی ہے کہ بغاوت کے امکانات کم سے کم ہوں لیکن جہادی تحریکوں کے اتحادوں میں اس قسم کے خطرات ہر وقت سر پر منڈالتے رہتے ہیں۔

قتال کی علت

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو احکامات دیے ہیں وہ علل پر مبنی ہوتے ہیں بعض اوقات ان احکامات کی علل خود شارع کی طرف سے نصوص میں بیان کر دی جاتی ہے جبکہ بعض اوقات فقہاء ان کو مسالک علت کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں۔قتال کی علت جو کہ اللہ سبحانہ و تعالے نے قرآن میں بیان کی ہے وہ ظلم ہے یعنی ظلم کے خاتمے کے لیے اللہ تعالی نے قتال کو مشروع قراردیا ہے ‘جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا ( الحج:۳۹)
اجازت دی گئی ان لوگوں کو (قتال کی)جو کہ قتال کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ان پر ظلم ہوا۔
اس آیت میں ‘باء‘ تعلیلیہ ہے یعنی یہ اذنِ قتال کی علت بیان کر رہا ہے۔یہ ذہن میں رہے کہ حکم قتال کی علت کفر یا شرک نہیں ہے اگرچہ قتال اصلاً مشرکین اور کافروں سے ہی سے ہوتا ہے۔مسلمانوں کوکافروںیا مشرکین سے قتال کا حکم اس لیے نہیں دیا گیا کہ وہ کافر یا مشرک ہیں یا اسلام کا مقصود دنیا کو کافروں یا مشرکین سے پاک کرنا نہیں ہے بلکہ کافروں اور مشرکین سے قتال کے حکم کی بنیادی وجہ بھی ظلم ہی ہے کیونکہ جہاں جس قدر شرک اور کفر ہو گا وہاں اتنا ہی ظلم ہو گا اس لیے کافروں اور مشرکین سے قتال دراصل ظالمین سے قتال ہے کیونکہ ظلم اور کفر و شرک تقریباًلازم و ملزوم ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں قرآن میں کئی جگہ شرک کے لیے ظلم اور کافروں کے لیے ظالمین کے الفاظ آئے ہیں۔لہذا گر ظلم مسلمان بھی کرے تو اس سے بھی قتال ہو گا جیسا کہ ارشاد باری ہے :
’’اور اگر اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ اور اگر(صلح کے بعد) ان میں ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو تم سب اس سے قتال کرو جو زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔‘‘ (الحجرات:۹)
اسی طرح اگر کافر‘ظالم نہ ہو تو اس کے ساتھ قتال نہیں ہو گابلکہ ایسے کافروں کے ساتھ حسن سلوک بھی جائز ہے ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
’’اللہ تعالی تمہیں ان کافروں سے حسن سلوک یا انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا کہ جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں قتال نہیں کیا اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا بے شک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (الممتحنۃ:۸)
لہٰذا قتال صرف ان کافروں اور مشرکین سے ہے جوکہ ظلم کے مرتکب ہوں ۔اب ظلم کئی طرح کا ہوتاہے‘ ایک ظلم وہ ہے جس کا تعلق انسان کی اپنی جان سے ہوتا ہے جیسا کسی شخص کا‘ کافر یا مشرک ہونابھی ایک ظلم ہے لیکن ایسا ظلم جو کہ کسی انسان کے اپنے نفس تک محدود رہے اور متعدی نہ ہو تو اس ظلم کے خلاف بھی قتال نہیں ہے بلکہ اسلام ایسے ظلم کو برداشت کرتا ہے جیساکہ یہود و نصاریٰ کے صریح کفر و شرک کے باوجود اللہ نے ان کو زندہ رہنے کی اجازت دی ہے‘ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’تم یہود و نصاری سے قتال کرو جو کہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کو حرام نہیں ٹھہراتے کہ جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرایا ہو اور دینِ حق کو بطور دین اختیار نہیں کرتے یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔‘‘(التوبۃ:۲۹)
لیکن ایسا ظلم جو کہ متعدی ہویعنی جس کے اثرات صرف انسان کی اپنی ذات تک محدود نہ ہوں بلکہ عامۃ الناس بھی اس کے ظلم سے متأثر ہو رہے ہوں تو ایسے شخص کے خلاف قتال ہو گا۔قرآن و سنت کی نصوص سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک کافر یا مشرک کی حکومت اللہ تعالی کبھی بھی برداشت نہیں کرتے کیونکہ جہاں بھی کافریا مشرک کی حکومت ہو گی وہاں ظلم متعدی ہو گا اور عوام الناس اس ظلم سے متأثر ہوں گے اس لیے اہل کتاب کے انفرادی کفر وشرک کو برداشت کیا گیا ہے لیکن مذکورہ بالاآیت میں ان کی ذلت و رسوائی اور حکو مت کے خاتمے کو قتال کی غایت وانتہاء قرار دیا گیا ہے۔ یہاں اس آیت میں اعطائے جزیہ اور اہل کتاب کی ذلت کو قتال کی غایت قرار دیا ہے تو ایک اور جگہ اللہ تعالی نے مشرکین سے قتال میں فتنے کے خاتمے اور اطاعت کا صرف اللہ ہی کے لیے ہو جانے کو قتال کا منتہائے مقصود بیان کیا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے :
’’اور ان (یعنی مشرکین)سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین(اطاعت) کل کی کل اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔‘‘ (الأنفال:۲۹)
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اجتماعی کفر(یعنی کفر کی حکومت) اور اجتماعی شرک (یعنی شرک کی حکومت ) کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ایسی حکومت میں ہمیشہ ظلم ہوتا ہے۔اسی طرح اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کئی اور مقامات پر بھی ایسے کافر سے قتال کا حکم دیا ہے کہ جس کا ظلم متعدی ہو۔ارشاد باری تعالی ہے:
’’(اے مسلمانو!)اور تمہیں کیاہو گیا ہے کہ تم اللہ کے رستے میں قتال نہیں کرتے جبکہ کمزور مرد اور عورتیں اور بچے یہ کہہ رہے ہیں :اے ہمارے رب!ہمیں اس بستی سے نکا ل کہ جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور تو ہمارے لیے اپنی طرف سے ایک ولی مقرر کر اور ہمارے لیے اپنی طرف سے ایک مددگار بنا۔‘‘ (النساء:۷۵)
ایک اور جگہ قرآن میں ایسے کفار سے دوستی اور حسن سلوک کر نے سے بھی منع فرمایا ہے‘کہ جنہوں نے مسلمانوں پر ظلم کیا ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:
’’سوا اس کے نہیں اللہ تعالی تم کو ان لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے کہ جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے قتال کیا اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا اور تمہارے نکالنے پر (تمہارے دشمنوں ) کی مدد کی۔پس یہی کافر ظالم ہیں۔‘‘(الممتحنۃ:۹)
اللہ تعالیٰ نے جو احکامات دیے ہیں، ان کو فقہا نے دو طرح سے تقسیم کیا ہے: ایک حسن لذاتہ اور دوسرے حسن لغیرہ۔ حسن لذاتہ سے مراد ایسے احکامات ہیں جو کہ فی نفسہ اسلام میں مطلوب ہیں۔ اسلام نے لڑنے بھڑنے کو فی نفسہ ناپسند قرار دیا ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ’لا تتمنوا لقاء العدو‘ میں مذکورہے کہ دشمن سے ملاقات کی تمنا نہ کرو۔اسلام نے کچھ مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے قتال کو فرض قرار دیا ہے لہذا قتال حسن لذاتہ نہیں ہے بلکہ حسن لغیرہ ہے ۔ظلم کے خاتمے کے لیے انسانوں کے قتل کو جائز قرار دیا گیا اور جس مقصد کے لیے قتال کو جائز کہا گیا ہے اگر وہ مقصود ہی پور انہ ہو رہا ہو اور جہاد و قتال سے ظلم ختم ہونے بجائے بڑھ رہا ہو تو ہمارے نزدیک یہ جہاد و قتال جائز نہیں ہے۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ جہاد و قتال ظلم کو ختم کرنے کے لیے ہے نہ کہ ظلم بڑھانے کے لیے ہے۔

قتال کی غایت 

قتال کی غایت یا منتہائے مقصود ایسے فتنے ‘عدم اطاعت ‘کفر ‘شرک یا زیادتی کا خاتمہ ہے جس کا نتیجہ ظلم ہو۔ یعنی قتال ہر ایسے فتنے‘عدم اطاعت‘کفر ‘شرک یا زیادتی کے ختم ہونے تک جاری رہے گا کہ جس سے دوسروں پر ظلم ہو رہا ہو‘جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ (البقرۃ:۱۹۳)
اور ان (یعنی مشرکین)سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین(اطاعت) اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے :
وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ کُلُّہُ لِلّٰہِ (الأنفال:۲۹)
اور ان (یعنی مشرکین)سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین(اطاعت) کل کا کل اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔
اس آیت میں فتنے سے مرادکفار کی طرف سے مسلمانوں پر ہونے والا وہ تشدداور ظلم ہے جو کہ اہل ایمان کے ایمان کے لیے آزمائش بن جا تا ہے جبکہ ’دین‘ کا بنیادی معنی اطاعت اور بدلہ ہے جیسا کہ امام راغب ؒ نے لکھاہے اور یہاں پردین سے مراد اجتماعی اطاعت ہے کیونکہ انفرادی اطاعت میں تو مسلمان بھی بعض اوقات اللہ کی اطاعت نہیں کرتے ‘اس لیے یہاں پر مراد اللہ تعالیٰ کی ایسی اطاعت ہے کہ جس کے عدم کی صورت میں کسی پر ظلم لازم آئے مثلا اللہ کے نازل کردہ حدود کے نفاذ میں اس کی اطاعت کا نہ ہونامعاشرے میں ظلم کا سبب ہو گااس لیے حدوداللہ میں اللہ کی اطاعت تک امت مسلمہ پر کافروں سے قتال واجب رہے گا۔
لہٰذا ان آیات کامفہوم یہ ہے کہ قتال اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک کہ کفار کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کا سلسلہ جاری رہتا ہے یاجب تک کفار و مشرکین کو ہر اس معاملے میں مطیع و فرمانبردار نہ بنا لیا جائے کہ جس کی عدم اطاعت کی صورت میں دوسروں پر ظلم و زیادتی ہو۔ظاہری بات ہے کہ کفار و مشرکین کے اپنے عقیدے پر قائم رہنے یا اس کے مطابق عبادات کرنے سے کسی پر ظلم و زیادتی نہیں ہوتی لہذا ان سے اس معاملے میں اطاعت جبرا نہیں کروائی جائے گی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’دین (قبول کرنے میں)میں کسی قسم کا جبر نہیں ہے۔‘‘ (البقرۃ:۲۵۶)
لیکن ریاست و حکومت کے انتظامی أمور میں کفار و مشرکین کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے اور قتال اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ تمام کے تمام کافر و مشرک اس دنیا وی نظام میں اللہ کے مطیع و فرمانبردار نہیں بن جاتے یعنی جب تک اللہ کے دین کا غلبہ تما م ادیان باطلہ پر نہیں ہو جاتا اس وقت تک قتال جاری رہے گا۔ اسی بات کو قرآن نے اس طرح بھی بیان کیاہے :
’’تم یہود و نصاریٰ سے قتال کرو جو کہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کو حرام نہیں ٹھہراتے کہ جس کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام ٹھہرایا ہو اور دینِ حق کو بطور دین اختیار نہیں کرتے یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔‘‘ (التوبۃ:۲۹) 
اور اسی بات کو ایک اور جگہ اس طرح بیان کیاہے :
’’وہی اللہ تعالیٰ ہے کہ جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا قرآن مجید اور دین حق دے کر تاکہ وہ اس کو تمام ادیان (باطلہ) پر غالب کردے اگرچہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے۔‘‘(التوبۃ:۳۳)
اور اسی بات کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان کیا ہے:
’’مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کرو جب تک کہ وہ یہ اقرار نہ کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم نہ کریں اور زکوٰۃ اداکریں پس جب وہ یہ کر لیں گے تو اپنے مال اور جانیں مجھ سے بچا لیں گے سوائے اسلام کے حق کے‘اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔‘‘ (صحیح بخاری‘ کتاب الایمان‘ باب فان تابوا وأقامو ا الصلاۃ و آتوا الزکوۃ)
اس حدیث مبارکہ میں ’الناس‘ سے مراد مشرکین ہیں کیونکہ سنن ابی داؤد اور سنن نسائی کی ایک روایت میں ’أن أقاتل المشرکین‘ کے الفاظ آئے ہیں‘قرآن میں سورۃ توبہ میں بھی یہ حکم ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:
’’پس تم مشرکین کو قتل کرو جہاں بھی ان کو پاؤ اور ان کو پکڑو اور ان کا گھیراؤ کرو اور ان کے لیے ہر گھات لگانے کی جگہ میں بیٹھو پس اگر وہ لوٹ آئیں(یعنی اپنے کفر سے)اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔‘‘(التوبۃ:۵)
قرآن کے اسی حکم کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’أمرت أن أقاتل الناس‘ کے الفاظ سے بیان کیا ہے جیسا کہ امام بخاری نے بھی اس حدیث کو اسی آیت کی تفسیر کے طور پر بیان کیا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مشرکین عرب کی طرف خاص طور پر ہوئی تھی اس لیے ان کے معاملے میں یہود و نصاری اور دوسرے کفارکی نسبت زیادہ سختی کی گئی ہے اور ان کے لیے جزیہ کی صورت باقی نہیں رکھی گئی ۔ ان مشرکین کے لیے دو ہی صورتیں تھیں یا تو اسلام قبول کر لیں یا پھر قتال کے لیے تیار ہو جائیں یا تیسری صورت یہ تھی کہ حجاز کاعلاقہ چھوڑ کر بھاگ جائیں۔
یہ واضح رہے کہ قتال کی اس علت اور غایت کی بنیاد پر قتال اس وقت ہوگا جبکہ کوئی مسلمان ریاست یا جہادی تحریک ان اسباب و ذرائع اور اس استعداد و صلاحیت کی حامل ہو کہ جن کا ہم اس مضمون میں بار بار ذکر کر چکے ہیں ۔جب تک ہمارے پاس کفار سے جنگ کی استعداد و صلاحیت موجود نہیں ہے، اس وقت اسلام کے پھیلانے کا منہج دعوت و تبلیغ ہے نہ کہ جنگ و جدال‘ اور کفار کے ظلم کا جواب صبرہے نہ کہ قتال۔اسلام کے کسی بھی معاشرے میں نفوذ کے لیے مسلمانوں کو ان کے حالات کے اعتبار سے بنیادی طور پر دو منہج دیے گئے ہیں ایک دعوت و تبلیغ کا ور دوسرا جہاد و قتال کا‘ دونوں مناہج کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات میں کام کیا ہے اور اب بھی جیسے حالات ہوں گے ویسا ہی منہج اختیار کیاجائے گا۔یہ کہنا کہ دعوت و تبلیغ اور صبر و مصابرت کا منہج منسوخ ہو چکاہے ‘ ایک باطل دعوی ہے کہ جس کی کوئی دلیل شریعت اسلامیہ میں موجود نہیں ہے۔دعوت و تبلیغ اور صبر و مصابرت سے متعلق قرآن کی سینکڑوں آیات کو بغیر کسی دلیل کے منسو خ قرار دینا سوائے جہالت کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔امام زرکشی ؒ نے ’البرہان‘ میں ناسخ و منسوخ کی بحث کے تحت اس موضوع پر عمد ہ کلا م کیا ہے اور لکھا ہے کہ اسلام کے یہ دونوں مناہج اب بھی برقرار ہیں اور حالات کے تحت کسی بھی منہج کو اختیار کیاجا سکتا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ’الفوز الکبیر‘ میں قرآن کی صرف پانچ آیات کو منسوخ قرار دیاہے۔بعض قتالی حضرات تو قرآن کی قتال سے متعلق ان آیات کو بھی بغیر کسی دلیل کے منسوخ قرار دیتے ہیں کہ جن میں کفار کے ساتھ کسی صلح یا معاہدے کا حکم ہے اور عملاً قرآن کاایک تہائی حصہ منسوخ ہو کر رہ جاتا ہے۔ 

خلاصہ کلام

ہم آخر میں ایک دفعہ پھر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم قتال کے خلاف نہیں ہیں۔ہم جہادی تحریکوں کے اس موقف سے متفق ہیں کہ امریکہ بہادر‘ انڈیا ور اسرائیل کے ظلم و ستم کا جواب صرف صبر کرنا یا دعوت تبلیغ نہیں ہے بلکہ ان ظالموں کا واحد علاج قتال ہے، لیکن کس کے قتال میں؟یہاں ہمیں جہادی تحریکوں ا ور ان کے رہنماؤں سے اختلاف ہے ۔ہماری رائے اس مسئلے میںیہ ہے کہ ریاست یا ایک امیر کے بغیر قتال میں دشمن کو کچھ نقصان تو پہنچایا جا سکتا ہے لیکن اس سے نہ تو دین کا غلبہ ممکن ہے اور نہ ہی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا خاتمہ‘ پوری دنیا میں مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل ریاستی اور ایک امیر کے تحت ہونے والے قتال میں ہے اور اسی کے لیے ہمیں اپنی جدوجہد اور توانائیاں صرف کرنی چاہئیں‘کیونکہ ایک ایسا قتال شریعت اسلامیہ میں حرام ہے کہ جس سے ایک چھوٹا منکر تو رفع ہو جائے لیکن اس سے بڑا منکر یا منکرات کے پیدا ہو نے کے امکانات ہوں۔اس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں ایسا قتال کہ جس کے نتیجے میں پرویز مشرف کی حکومت تو ختم ہو جائے لیکن بش کی حکومت قائم ہو جائے ‘حرام ہو گا۔اسی بات کو امام ابن قیمؒ نے بڑے خوبصورت پیرایے میں بیان کیاہے ۔ امام صاحب ؒ فرماتے ہیں : 
’’انکار منکر کے چار درجات ہیں پہلا درجہ وہ ہے کہ جس سے منکر ختم ہو جائے اور اس کی جگہ معروف قائم ہو جائے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ منکر کم ہو جائے اگرچہ مکمل ختم نہ ہو۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ وہ منکر تو ختم ہو جائے لیکن اس کی جگہ ایک ویسا ہی منکر اور آ جائے اور چوتھا درجہ یہ ہے کہ اس منکر کے خاتمے کے بعد اس سے بھی بڑا اور بدترین منکر آ جائے ۔پس پہلے دو درجے مشروع ہیں جبکہ تیسرا درجہ اجتہاد کا میدان ہے اور چو تھا درجہ حرام ہے ۔‘‘(اعلام ا لموقعین: جلد ۳‘ص۱۵۱)
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جہادی تحریکوں کی مساعی اور مجاہدین کی قربانیوں سے کئی منکرات کا خاتمہ ہو رہا ہے لیکن کیا ریاست کے بغیر ہونے والے اس جہاد سے کچھ اور منکرات اور مفاسد بھی پیدا رہے ہیں؟ تو یہ سارا حالات حاضرہ اور تاریخ کا موضوع ہے اس کا کوئی تعلق شریعت سے نہیں ہے اور اگر حالات پر گہری نظر رکھے والے بعض علما یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے قتال سے کئی بڑے بڑے منکرات پیدا ہو رہے ہیں تو ایسے علما پر یہ فتوے لگانا کہ وہ جہاد کے مخالف ہیں‘ محض تنگ نظری‘ ہٹ دھرمی اور جماعتی تعصب ہے۔اس لیے ہماری نظر میں اس وقت مسئلہ شرعی نہیں ہے‘ کیونکہ شرعاً تو تمام علما قتال کو جائز سمجھتے ہیں‘بلکہ أصل مسئلہ أمر واقعہ کا ہے کہ فقہ الواقع میں کیاہو رہا ہے؟ کیا یہ وہی جہاد و قتال ہے کہ جس کا قرآن و سنت کی نصوص میں تذکرہ ہے ؟قرآن و سنت میں قتال کے بارے میں آنے والی نصوص اور کسی جہادی تحریک کے قتال میں بہر حال زمین و آسمان کا فرق ہے۔یہ نصوص صحابہ کرامؓ کے قتال کی تائید تو کرتی ہیں کہ جس کے بارے میں ان کا نزول ہوا لیکن کوئی جہادی تحریک ان نصوص کا مصداق بنتی ہے یا نہیں ‘یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے جس میں اختلاف کی گنجائش ہر زمانے میں باقی رہے گی۔

خود کش حملے: چند توجہ طلب پہلو

حافظ محمد سلیمان

موجودہ دور میں اس غلط تصور کو رواج دے دیا گیا ہے کہ خودکش حملے مذہب اسلام کی پیدا وار یا اسلامی تعلیمات کا نتیجہ ہیں، حالانکہ یہ چیز واضح ہے کہ خود کش حملوں کا تعلق کسی خاص مذہب و ملت سے نہیں ہے۔ اگر ان کے اسباب کا جائزہ لیا جائے تو یہ صورت حال سامنے آتی ہے کہ خود کش حملے دراصل سیاسی اور معاشرتی جبرواستبداد کی پیدا وار ہیں اور جہاں بھی مخصوص اسباب پائے جائیں گے، وہاں لوگ اس طرح کی کارروائیوں پر مجبور ہوں گے۔ انسان استبدادی نظام کو فطرتاً اور طبعاً پسند نہیں کرتے اور یہ چیزان کے عقل ومزاج کے خلاف ہوتی ہے، اس لیے جب انہیں اپنی مظلومیت کا احساس وادراک ہو جا تا ہے تو وہ مستبدانہ نظام کے خلاف مزاحمت کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ یہی بات اصولی طور پر ان مغربی استعماری قوتوں پر صادق آتی ہے جنہوں نے وسطی ایشیا پراپنی قوت وطاقت کے بل بوتے پر قبضہ جمایا۔ اسی طرح جب انسان کے بنیادی حقوق، خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی، معاشرتی ہوں یا معاشی، سلب ہو جاتے ہیں تو قومیں اپنے حقوق کے حصول کی خاطر اپنی طاقت کی حد تک اپنی زندگی کا تحفظ یقینی بنانے کی جدوجہد کرتی ہیں۔ جب انہیں حصول انصاف اور آزادی وخود مختاری سے ناامیدی اور مایوسی ہو جاتی ہے تووہ اس صورت میں اپنی اور دوسروں کی زندگی کاامن وامان اور سلامتی پامال اور تہس نہس کر دیتی ہیں۔ کبھی خونزیزی کا سبب اور وجہ طبقاتی تقسیم ہو ا کرتا ہے۔ جو معاشرہ طبقاتی تقسیم میں مبتلا ہو اور وسائل چند مخصوص گروہوں اور افراد کے ہاتھوں میں ہوں تو محروم طبقات غیر روایتی طرزعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تشدد کا پہلو اختیار کرتے ہیں۔
انسانی تمدن کی بنیاد جس قانون پر قائم ہے، اس کی سب سے پہلی دفعہ یہ ہے کہ انسان کی جان اور اس کا خون محترم ہے۔ تمام حقوق میں سب سے زیادہ اہم حق جان کا تحفظ ہے، کیونکہ زندگی کے تحفظ کے بغیر نہ تو انفرادی ترقی ناممکن ہے اور نہ اجتماعی طورپر کوئی معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے۔ جب تک زندگی کی حفاظت کی ضمانت نہ ہو، زندگی کے مقاصد کا حصول ناممکن بن جاتا ہے۔ انسان کے مدنی حقوق میں اولین حق زندہ رہنے کا حق ہے اور اس کے مدنی فرائض میں سے اولین فرض زندہ رہنے دینے کا فرض ہے۔ کسی ذاتی فائدہ کی خاطر یاکسی ذاتی عداوت کی بنیاد پر اپنے ایک بھائی کو قتل کر دینا بدترین قساوت اور انتہائی سنگ دلی ہے جس کا ارتکاب کر کے انسان میں کوئی اخلاقی بلندی پیدا ہونا تو درکنار، اس کادرجہ انسانیت پر قائم رہنا بھی محال ہے۔ 
اسلام نے انسانی جان کو محترم قرار دیا ہے۔ احترام نفس کی جیسی صحیح اور موثر تعلیم اسلام میں دی گئی ہے، کسی دوسرے مذہب میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ یہ بات مذہب اسلام کی خصوصیات میں شمار کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے افکار ونظریات کی بنیاد پر انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو امن اور تحفظ کا یقین دلاتا ہے اور اس بات کا درس دیتا ہے کہ کوئی انسان اپنے جذبات وخواہشات کی بنیاد پر دوسروں کے حقوق کو پامال نہ کردے اور انسانی جان ومال کو بلاوجہ ہلاک اور ضائع نہ کرے۔ مذہب اسلام میں انسانی جان کی ہلاکت اور اموال محترمہ کے ضیاع کو ایک قابل سزا جرم قرار دیاگیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ناحق طور پر ہونے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ (المائدۃ،۵:۹۱) اس لیے کہ مذہب اسلام نے ہر انسان کو پوری آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا حق عطا کیا ہے اوراگر انسانی نظام حیات میں خلل واقع ہو جائے تو اس مقاصد شریعت یعنی حفاظت دین، حفاظت نفس، حفاظت عقل، حفاظت نسل اورحفاظت مال وغیرہ میں فساد لازم آئے گا۔ 
جہاں تک خود کش حملوں کا تعلق ہے تو میدان جنگ میں دشمن کو نقصان پہنچانے کے لیے فدائی کارروائیوں یا کسی دوسری صورت کو اختیار کرنے کی گنجایش ہے، لیکن ایک اسلامی ریاست اور سلطنت میں مسلمانوں یا معاہد غیر مسلموں کے خلاف کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنے کا جواز نہیں جس سے ناحق طور پر جانوں کی ہلاکت اور اموال کا ضیاع ہو۔ اس ضمن میں تشدد پسند عناصر کا رویہ اسلام کے حقیقی فلسفہ امن وامان کو مسخ کرنے اور اسلام کی ایک بے حد غلط تصویر دکھانے کا موجب بن رہا ہے۔ جو تنظیمیں اور جماعتیں ایک مسلم ریاست کے اندر مسلمانوں کے خلاف ان کارروائیوں اور حملوں کو جائز سمجھتی ہیں، انہیں چاہیے کہ اسلام جیسے پاکیزہ مذہب اور جہاد جیسے مقدس فریضہ کی اصل روح کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے طرز عمل کے نتائج وعواقب کاادراک کریں اور یہ دیکھیں کہ کہیں وہ جہاد کی اصل حقیقت یعنی اعلاے کلمۃ اللہ ہی سے نا آشنا اور شرعی واخلاقی حدود وقیود سے رو گرداں تو نہیں۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ ایک شخص مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جہاد کرتا ہے، دوسرا شخص اس لیے جہاد کرتا ہے کہ دنیا میں اس کا چرچا ہو، تیسرا شخص اس لیے جہاد کرتاہے کہ فن سپہ گری کی اعلیٰ مہارت دکھائے توان میں سے فی سبیل اللہ کرنے والا کون سا ہے؟ جنا ب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو صرف اس لیے جہاد کرتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ (بخاری، رقم:۲۵۹۹) سوال یہ ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم اعلاے کلمۃ اللہ کی بجائے دین کا چہرہ مسخ کرنے اور لوگوں کو اس سے دور کرنے کا سبب بن رہے ہیں؟
ان تنظیموں اور افراد کا مقصود اگر ان کارروائیوں سے معاشرے کی ایسی شخصیات یا عناصر کو ختم کرنا ہے جو ان کے خیال میں مذہب اور ملت کے لیے نقصان دہ ہیں تو اسلامی قانون میں اس کی بھی گنجایش نہیں۔ ملت ومذہب کی تقویم کے لیے ضروری ہے کہ معاشرہ میں کشت وخون نہ ہو اورنہ لوگوں کو جبر واکراہ کے ذریعے اسلامی احکام پر عمل پیرا کیا جائے۔ ایسے ماحول میں حکمت کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن ا لمنکر کا فریضہ ادا کرنا چاہیے تاکہ ارباب اقتدار میں اسلامی احکام و قوانین کورائج کرنے کی طرف جھکاؤ پیدا ہو جائے اور عوام الناس اس پر عمل پیرا ہو ں۔ اگر اسلامی احکام پر عمل کرنے اور انھیں رواج دینے میں معاشرہ اور حکام کی طرف رکاوٹ پائی جائے تو اس وقت چاہیے کہ آدمی اپنی قوت وبساط کے مطابق احکام پر عمل پیرا ہو، اس لیے کہ عدم استطاعت کا شرعی عذر موجود ہے اور اللہ تعالیٰ نے ’لا یکلف اللہ الاوسعہا‘ (البقرہ،۲:۲۸۶) میں اسی طرح اشارہ فرمایا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ انسان اعتدال پسندی کا عملی مظاہر ہ کرے نہ یہ کہ معاشرہ میں خون ریزی اور فساد برپا کر دے جو کہ مصلحت شرعی اور مصلحت عامہ کے خلاف ہے۔
پھر یہ بات بھی اسلام کی بنیادی اخلاقی تعلیمات میں سے ہے کہ جرم کی سزا مجرم ہی کو دی جانی چاہیے اور سزا بھی شرعی حدود وقیود کے مطا بق ہونی چاہیے۔ قرآن مجید نے عدل وانصاف پر زور دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’ولا یجرمنکم شنآن قوم علی ان لاتعدلوا، اعدلوا‘ کہ کسی طبقے کے ساتھ دشمنی اور مخالفت تم کو ناانصافی کے راستے پر نہ لے جائے، بلکہ تم ان کے ساتھ بھی انصاف کا حق ادا کرو۔ (المائدۃ،۵:۸) ایسے ہی مذہبی معاملات میں بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان کارروائیوں کے جملہ اخلاقی پہلووں پر غور وفکر اور مشاہداتی نتائج کی روشنی میں عدل وانصاف، مساوات اور رواداری وغیرہ جیسے امور کے مفقود ہونے کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ پھر یہ طرز عمل متعصبانہ اور جاہلانہ رویے کی نشاندہی کرتا ہے، حالانکہ تعصب تنگ نظری اور انتہاپسندی کی علامت ہوا کرتا ہے۔ 
اسلام کا نقطہ نظر یہ ہے کہ احتجاج کا قانونی راستہ ہمیشہ کھلا رکھا جائے۔ اگر احتجاج مبنی بر حقیقت ہے تو اسے قبول کیا جائے اور اگر خلاف واقعہ ہے تو متاثرین کو مطمئن کیا جائے۔ ملک کے ایک عام شہری کو بھی امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے دائرہ کار کا لحاظ رکھتے ہوئے ارباب اقتدار کو روکنے ٹوکنے کا حق حاصل ہے۔ اگر کچھ لوگ اسلامی نظریہ سے ہٹ کر کوئی غیر سنجیدہ طریقہ اختیار کریں تو ان کا بھی بہتر طریقہ پر جواب دیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ادفع بالتی ھی احسن السیءۃ (مومنون: ۹۶) یعنی برائی کو بھی احسن طریقے سے دور کرو۔ گویا اسلام ہر آدمی کو ایک دائرہ کار دیتا ہے جس کے مطا بق وہ زندگی اختیار کرے۔ ایسی سرگرمیاں اور کارروائیاں جن سے دوسروں کی دل آزاری ہو، منافرت اور عداوت کی چنگاریاں سلگاتی ہیں جو کسی وقت بھی پورے معاشرے کے امن وامان کو تباہی اور بربادی سے بدل سکتی ہیں، لہٰذا اسی خطرہ کے انسداد کے لیے یہ حکم ہوا کہ مخالفین کے سب وشتم کا جواب تلوار سے دینے کے بجائے ایسا انداز اختیار کیا جائے کہ اس قسم کی نوبت بھی نہ آئے کہ دوسروں کی دل آزاری اور دل شکنی ہو۔ مذہب اسلام کی شناخت ہی یہی ہے کہ جبر وتشدد کا راستہ ترک کرکے اعتدال پسندی اور رواداری کا راستہ اختیار کیا جائے۔ 
تخریب کاری اور دہشت گردی پھیلانے کو اس لیے بھی فساد فی الارض قرار دیا گیا ہے کہ وہ تمام جنگی امور میدان کارزار میں جائز ہوا کرتے ہیں جن سے دشمن کو نقصان پہنچے، مگر ایک اسلامی ریاست میں ایسے امور کو اختیار کرنا جن سے اسلامی سلطنت کی بنیادیں کمزور ہوں، قومی املاک اور اثاثوں کو نقصان پہنچایا جائے اور نتیجتاً ملت کا شیرازہ بکھر جائے، قطعاً ایک مذموم امر ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں ملک شام کی طرف ایک اسلامی لشکر روانہ کیا تو آپؓ نے لشکر کے امیر یزید بن ابی سفیانؓ کو حکم دیا کہ ’’عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا، پھل دار درخت نہ کاٹنا، بستیاں ویران نہ کرنا، کوئی بکری یا اونٹ کھانے کے سوا ذبح نہ کرنا، کھجور کے درخت نہ کاٹنا اور نہ ہی جلانا، خیانت نہ کرنا، اور نہ بزدلی دکھانا۔‘‘ (موطاامام مالک ،رقم: ۱۳۴۷ ) 
اس معاملے کا یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ دور حاضر میں عالم اسلام کے جتنے بھی ممالک ہیں، دوسروں کے مقابلہ میں قوت وشوکت میں کمزور اور ضعیف ہیں اور خود ان ممالک کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں سے مزید سیاسی انتشار وافتراق پیدا ہوگا جس سے عالم اسلام کی انفرادی اور اجتماعی قوت مستحکم ہونے کی بجائے مزید کمزور پڑ جائے گی، جبکہ جہاد وقتال کا مقصد کلمۃ اللہ کی بلند ی اور دین اسلام کی سربلندی ہے اور دنیا کو تخریب کاری اور فساد سے نجات دلانا ہے۔ ایسی صورتوں میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ان چیزوں میں خلل اور فساد واقع ہوتا ہے اور بین الاقوامی طاقتوں کی طرف سے ان کارروائیوں کے خلاف ردعمل ظاہر ہوتا ہے جس سے مسلمان مزید مصائب ور مشکلات میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جبکہ اسلامی قانون اس بات پر زور دیتا ہے کہ جہاد وقتال کا مقصد فتنہ کی سرکوبی ہے نہ کہ فتنہ وفساد میں مزید اضافے کا سبب بن جانا۔
جو حضرات ان پالیسیوں اور سرگرمیوں کو مطلقاً اچھا سمجھتے ہیں اور اس میں شریک ہیں، انھیں ماضی کے حالات پر بھی گہری نظر رکھنی چاہیے کہ ان پالیسیوں کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی مختار اور نیم خودمختار حکومتیں قائم ہوں اور پھر خانہ جنگیوں اور باہم اختلافات کی وجہ سے باہم دست وگریباں ہوں اور مسلم دشمن عناصر اپنی قوت کے بل بوتے پر ان ریاستوں پر اپنا قبضہ جما لیں۔ یہی صورت حال زمانہ قدیم کے مسلمانوں کی ہلاکت کا سبب بنی، چنانچہ اموی اور عباسی دورحکومت میں چھوٹی چھوٹی خود مختار اور نیم خود مختار حکومتیں قائم ہوئیں۔ آخر کار یہود ونصاریٰ نے ان اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان تمام ریاستوں پر قبضہ جما لیا جو آج تک آزاد اور خود مختار نہ بن سکیں۔
آج صورت حال یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر نہ تو مسلمانوں کا کوئی سیاسی وزن ہے اور نہ سماجی مقام، نہ تعلیم میں ان کی حیثیت نمایاں ہے اور نہ معیشت میں۔ مسلمانوں کو دہشت گرد، انتہا پسند اور بنیاد پرست مشہور کر کے اس مقام پر پہنچا دیا گیا کہ وہ ایک قابل نفرت قوم بن گئے ہیں اور لوگ ان سے خوف کھاتے ہیں۔ آج بین الاقوامی معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو چاہیے کہ ایک ایسی راہ اور منصوبہ بنائیں جو دیر سے سہی، لیکن انھیں منزل مقصود تک پہنچائے جس سے ان کے مسائل بھی حل ہوں، ملی تشخص بھی باقی رہے اور وہ دنیا میں اسلام کی اشاعت وحفاظت کا ذریعہ بھی بنیں۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
گرامی قدر حضرت والد صاحب دام مجدہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بین الاقوامی سطح پر غیر مسلم لابیاں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر آلود پراپیگنڈا میں مصروف ہیں۔ ان کے موثر جواب کے لیے مسلم رہنما اسلامی ٹی وی چینل اور کیبل کا سوچ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں علما کی دو رائے سامنے آ رہی ہیں۔ ایک طبقہ، جس کی قیادت مولانا عبد الحفیظ مکی صاحب مدظلہ اور مولانا علی احمد سراج صاحب مدظلہ وغیرہ کر رہے ہیں، یہ کہتا ہے کہ ایسا ٹی وی چینل اور کیبل جائز اور درست ہے جس میں فوٹو بھی آتی ہے اور ان حضرات نے آپ کے حوالے سے ایک خبر شائع کی جو کہ اخبارات میں شائع ہوئی کہ آپ نے حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان مرحوم کو ایسے چینل کی اجازت دی تھی اور پھر علما کے ایک وفد سے بھی، جس میں مولانا محمد اسلم شیخوپوری صاحب مدظلہ بھی تھے، آپ نے ایسے الفاظ فرمائے جس میں فوٹو والے چینل کی تائید ہوتی ہے۔ علما کے اس نظریے کے باعث اب مساجد اور مدارس میں بھی دینی مجالس کی فوٹو اور ان کی سی ڈی بے دھڑک تیار کی جا رہی ہیں۔ علما کے دوسرے طبقے کا، جس میں سرفہرست مولانا سعید احمد صاحب جلال پوری مدظلہ ہیں، خیال یہ ہے کہ دنیا میں ایسے چینل اور کیبل بھی کام کر رہے ہیں جن میں فوٹو نہیں آتی اور آواز سے مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں، اس لیے فوٹو والا چینل اور کیبل ناجائز ہے۔ 
آپ کے بیانات اور تحریروں میں تصویر کو ناجائز کہا گیا ہے، خواہ وہ تصویر کیمرہ کی ہو یا ویڈیو سے تیار شدہ ہو۔ جب آپ کے ہاں تصویر ہر حال میں حرام ہے تو آپ نے تصویر والے ٹی وی چینل اور کیبل کی اجازت کیسے دے دی ہے؟ اس بارے میں کسی عزیز سے اپنے موقف کی ایسی وضاحت فرمائیں کہ کوئی ابہام باقی نہ رہے اور آپ کے ہزاروں شاگرد اور لاکھوں معتقدین اس کی روشنی میں ٹھوس رائے قائم کر سکیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائے اور تادیر آپ کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ آمین ثم آمین۔
حافظ عبد القدوس قارن
مدرس مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
۲۰؍ رمضان المبارک، ۲۱ ستمبر ۲۰۰۸

حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کا جواب

میں نے کبھی بھی فوٹو کی اجازت نہیں دی۔ میرا موقف وہی ہے جو مولانا سعید احمد جلال پوری کا ہے۔ جس چیز میں فوٹو ہو، وہ قطعاً جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جو چیز میری طرف منسوب ہے، وہ یا غلط بیانی ہے یا کج فہمی ہے۔ مولانا اسلم شیخوپوری صاحب سے جو میں نے کہا تھا، وہ اسلامی بینکاری اور بغیر تصویر والے چینل سے متعلق تھا۔
ابو الزاہد محمد سرفراز
(۲)
محترم عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گزشتہ دو ڈھائی برس سے آپ کی جانب سے تو نہیں، البتہ آپ کے قابل قدر پرچے میں جماعت اسلامی، مولانا مودودی، ترجمان القرآن، قاضی حسین احمد، پروفیسر خورشید احمد پر طعنہ زنی اور گاہے بہتان طرازی کا ایک ہوکا پڑھنے کو ملتا ہے۔ یہ خدمت کوئی ایڈووکیٹ صاحب انجام دیتے ہیں۔
اب کے پانچویں مرتبہ، اور وہ بھی نہایت بھونڈے انداز میں، ستمبر ۲۰۰۸ کے شمارے میں انھی حضرت کی جانب سے یہ کھیل کھیلا گیا ہے۔ اگر تو یہ سب آپ کی پالیسی کے عین مطابق ہے تو پھر بسرو چشم، جو جی میں آئے کہیے، بلکہ فرمائیے ]کہ مولانا غلام غوث ہزاروی کی کوثر وتسنیم سے دھلی زبان سے زیادہ شائستہ زبان بھلا کس کے نصیبے میں ہے! اگر وہ پڑھ سن لی تو یہ کس شمار قطارمیں[۔ لیکن اگر خود آپ کی ترجیحات میں، چن کر کسی ایک شخصیت یا جماعت کو ہدف بنانا شامل نہیں ہے تو پھر ایک ایسا فرد جو جماعت کی اجتماعی زندگی میں اپنے افعال، گفتار اور غیر متوازن رویوں کے باعث اخراج شدہ ہے، اس کی جانب سے انفرادی سطح پر بہانے ہی بہانے میں جماعت اسلامی اور اس کے متعلقین کو نفرت کا نشانہ بنانے کا کھیل کسی درجے میں سمجھ میں آتا ہے، مگر کیا ’’وحدت امت کا داعی اور غلبہ اسلام کا علم بردار‘‘ یہ الشریعہ ہی اس مقصد کے لیے رہ گیا ہے کہ بستہ بند ایڈووکیٹ صاحب اپنی فکری تلچھٹ اور قلمی پھوہڑ پن کو قارئین کے سامنے پے درپے انڈیلتے چلے جائیں۔
میں آپ سے ہرگز، ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ اس شغل کو بند کر دیں، مگر یہ ضرور کہہ رہا ہوں کہ لڑنا ہے، حملہ کرنا ہے تو میرے بھائی، اپنے ہتھیاروں سے لڑیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ بچہ جمہورا کے ہاتھوں لذت ثواب لے رہے ہیں۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور محبت ونفرت کی راہوں پر بھی اپنے خاص فضل سے نوازے۔
سلیم منصور خالد 
486/C، سیٹلائیٹ ٹاؤن، گوجرانوالہ
یہ خط اشاعت کی غرض سے نہیں، توجہ کی غرض سے ہے۔ باقی آپ صاحب اختیار ہیں۔ 

(۳)
حضرت مولانا
السلام اور عید مبارک، آپ کو اور کل اصحاب شریعہ کو۔ آپ امریکا سے بالا بالا واپس ہو گئے۔ ہم انتظار سحر دیکھتے رہے۔ اللہ کرے عافیت سے ہوں۔
اکتوبر کا الشریعہ آ پہنچا ہے۔ اسلامی معاشیات پر مضمون تمام ہوا۔ میں اس موضوع پر کچھ پڑھنے کے لیے کبھی اپنے اندر دلچسپی نہیں پا سکا۔ یہ پہلا مضمون ہے جس نے پکڑ لیا۔ یہ کون صاحب ہیں؟ اس پر کسی رد عمل کا انتظار رہے گا۔ چودھری محمد یوسف صاحب کے تبصرے پر جو تبصرہ آیا ہے، بالکل برحق کہے جانے کے لائق ہے۔ مجھے بھی تقاضا اس کے بارے میں لکھنے کا ہوا تھا کہ اس کی اشاعت ’الشریعہ‘ کے صفحات اور قارئین دونوں کے ساتھ نا انصافی کا درجہ رکھتی ہے۔
(مولانا) عتیق الرحمن سنبھلی
لندن
(۴)
عزیز القدر عمار خان ناصر
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کی عظیم القدر تالیف ’’حدود وتعزیرات۔ چند اہم مباحث‘‘ موصول ہوئی۔ شگفتہ عبارت، تحقیق کا اعلیٰ معیار، تفقہ فی الدین کا حسین اسلوب، فکر انگیز طرز استدلال، کسر جمود کی خوب صورت سعی!
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
آپ نے کل ۱۳۹ ؍مراجع ومصادر کے حوالے دیے ہیں۔ کاش کتاب کے آخر میں ’’المصادر والمراجع‘‘ کے عنوان سے اندراج ہو جاتا تو ایک حسین اضافہ ہو جاتا۔ فقیر نے آپ کی اس نادر تالیف کو مورخہ ۲۷ رمضان المبارک کی شب میں ختم کر دیا اور ۲۸ کی شب کو مصادر ومراجع کی فہرست مرتب کردی۔ تفصیلی تبصرہ پھر کسی نشست، سر دست فہرست مراجع ارسال ہے۔
میری تجویز ہے کہ مصنف کا نام پہلے مع تاریخ ولادت ووفات، اور پھر کتاب کا نام، جیسے 
المرغینانی، برہان الدین، مولود .....، متوفی ....، ہدایہ
فہرست مراجع کمپوز کروا کر ارسال کی جا رہی ہے۔ 
اگر آپ کے پاس مقاصد الشریعہ اسحاق شاطبی ہو تو اس سے ضرور استفادہ کریں۔ آپ کے تمام مباحث کے لیے یہ کتاب امہات الکتب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ آئندہ ایڈیشن کے لیے قواعد الاحکام لعز بن عبد السلام کا مطالعہ بھی مفید رہے گا۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
راشدی صاحب سے دیباچہ لکھوا کر آپ نے اس کاوش کی توقیر میں اضافہ کردیا ہے۔ جزاہ اللہ وجزاک اللہ۔
پرخلوص دعاؤں اور نیک تمناؤں کے ساتھ۔
(مولانا قاضی) محمد رویس خان ایوبی
سرپرست مجلس افتاء آزاد کشمیر، میر پور
(۵)
برادرم مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب زید مجدہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کی وقیع اور قابل قدر علمی کاوش ’’حدود وتعزیرات‘‘ کے عنوان سے وصول ہوئی۔ اس کتاب کا ہر عنوان اور ہر صفحہ گواہی دیتا ہے کہ آپ نے اخذ واستنباط، محنت اور جستجو کا حق ادا کیا ہے۔ بڑا نازک موضوع تھا جس پر آپ نے قلم اٹھایا مگر مشکل مقامات سے جس طرح آپ دامن بچا کر نکلے ہیں، اس نے صغر سنی کے باوصف علمی حلقوں میں آپ کا قد بہت اونچا کر دیا ہے۔ ’’شاب شیخ‘‘ کی ترکیب بجا طو رپر آپ پر صادق آتی ہے۔ مخدوم ومحترم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتہم خوش نصیب ہیں کہ انھیں آپ جیسا ذہین وفطین اور مطالعہ کا شوقین فرزند عطا ہوا۔
یقیناًآپ کی تحقیق کے بعض نتائج سے اختلاف کیا جائے گا اور اختلاف کرنا بھی چاہیے کہ اختلاف رحمت ہے اور خوب سے خوب تر کو سامنے لانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اختلاف، اختلاف ہی رہے، ضد او رخلاف میں تبدیل نہ ہو جائے۔ امید ہے کہ آپ بھی دلائل کی بنیاد پر کیے جانے والے اختلاف کو خندہ پیشانی سے برداشت کریں گے اور اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ ظاہر نہیں کریں گے۔
دعا ہے کہ باری تعالیٰ شرور وفتن سے آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کے علم، قلم، زبان اور ذہنی صلاحیتوں سے امت مرحومہ کو بیش از بیش فائدہ پہنچے۔
(مولانا) محمد اسلم شیخوپوری 
جامع مسجد توابین۔ سیکٹر Y6
گلشن معمار۔ کراچی 
(۶)
بخدمت جناب محترم محمد عمار خان صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کی ارسال کردہ کتاب ’’حدود وتعزیرات۔ چند اہم مباحث‘‘ وصول ہوئی۔ بھیجنے پر مشکور ہوں، لیکن اس کا ظاہر وباطن دیکھ کر دلی رنج ہوا۔ اس کی تفصیل ان شاء اللہ پھر کسی موقع پر۔ اس وقت تو صرف رسید دینی مقصود تھی۔
(مولانا مفتی) عبد الواحد
دار االافتاء جامعہ مدنیہ لاہور
(۷)
عزیز القدر محمد عمار خان ناصر سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔
آج آپ کی کتاب ’’حدود وتعزیرات‘‘ موصو ل ہوئی۔ نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے یاد رکھا۔ قبل ازیں آپ کی دونوں ارسال کردہ کتابیں بھی موصول ہو گئی ہیں۔ آپ کی یہ کتاب ماشاء اللہ نہایت علمی ہے، کیونکہ چیدہ چیدہ مقامات میں نے دیکھے ہیں۔ ان شاء اللہ عید الفطر کے بعد پوری کتاب کا مطالعہ کروں گا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے علم وعمل اور عمر میں برکت عطا فرمائے۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب کو بھی میرا سلام مسنون عرض کر دیں۔
(مولانا) حکیم محمود احمد ظفر 
روڈس روڈ ۔مبارک پورہ ۔سیالکوٹ
(۸)
مکرمی محمد عمار خان صاحب
السلام علیکم
آپ کی کتاب ’’حدود وتعزیرات، چند اہم مباحث‘‘ مجھے ۴؍ اکتوبر کو لاہور کے پتے پر موصول ہو گئی تھی۔ یہ عرصہ میں سفر میں ہوں اور اس طرح مجھے کتاب کو پڑھنے کا موقع بھی مل گیا، لیکن خط لکھنے میں تاخیر کا باعث یہ ہوا کہ مجھے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کتاب بھجوانے کا شکریہ آپ کا ادا کرنا ہے یا اس تحفہ کے متعلق جناب غامدی صاحب کو خط لکھنا ہے یا اسے میں جناب زاہد الراشدی صاحب کی مہربانی سمجھوں۔ کتاب کے ساتھ کوئی خط یا کارڈ منسلک نہیں تھا۔ بہرحال میں یہ خط آپ کو بھیج رہا ہوں۔ دونوں حضرات کی خدمت میں میرا سلام عرض کر دیں۔
آپ نے بلاشبہ اہم موضوعات پر اپنا موقف پیش کیا ہے۔ بطور خاص ’’شریعت، مقاصد شریعت اور اجتہاد‘‘ کے موضوع پر آپ کا مضمون قابل قدر اضافہ ہے۔ راشدی صاحب کا دیباچہ آپ کی تحقیقی کاوش کا خوب صورت تعارف ہے۔
کتاب بھجوانے کا بار دگر شکریہ!
(جسٹس) سید افضل حیدر 
جج فیڈرل شریعت کورٹ، اسلام آباد
(۹)
برادر محترم حافظ عمار خان صاحب
السلام علیکم 
’’حدود وتعزیرات‘‘ مل گئی۔ بے حد شکریہ! مگر شاید میں تبصرہ نہ کر سکوں، کیونکہ جاوید غامدی صاحب اور ان کے حلقہ احباب کے بارے میں بے حد تلخ تجربہ ہے۔ خود آنجناب نے بھی بندہ کے خط کا جواب دینے سے معذرت کی تھی۔ اگر آپ اس وقت بات کر لیتے تو ارتداد سے متعلق آپ کی کتاب کا مبحث بہتر ہو سکتا تھا کیونکہ مرتد سے متعلق آنجناب کا مقدمہ محض روایت پرستی پر مبنی ہے، یعنی بنیادی مقدمہ ہی غلط ہے۔ خبر واحد سے صفحہ ؟؟ پر آپ کا استدلال؟ حیرت ہے۔
محمد امتیاز عثمانی
I-157,158 سردار عالم خان روڈ
نزد کمیٹی چوک۔ راول پنڈی
(۱۰)
محترم عمار خان ناصر صاحب
سلام مسنون
آپ کی کتاب ’’حدود وتعزیرات‘‘ اتفاقاً راول پنڈی میں ایک صاحب کے پاس نظر سے گزری۔ اس میں ارتداد کی سزا پڑھ کر یہ سطور لکھنے پر مجبور ہوا۔ قرآن حکیم کے واضح ارشادات کے مطابق صرف دو قسم کے لوگوں کو قتل کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اولاً: محارب یعنی فساد فی الارض کے مرتکب کو، ثانیاً: قاتل کو۔ یقیناًنبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام اس کے خلاف ’من بدل دینہ فاقتلوہ‘ نہیں فرما سکتے، کیونکہ آپ وحی کی اتباع کے پابند تھے نہ کہ اس میں تغییر وتبدیل یا نسخ کے۔
امید ہے میری گزارشات پر ہمدردانہ غور فرمائیں گے۔
محمد رضوان حیدر
مکان ۱۴۔ گلی ۵۔ ماڈل ٹاؤن
HMC روڈ۔ ٹیکسلا