2008

جنوری ۲۰۰۸ء

محترمہ بے نظیر بھٹو کا الم ناک قتلمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی مدارس میں تخصص اور اعلیٰ تعلیم و تحقیقڈاکٹر محمود احمد غازی
اسلام کا تصور علم اور دینی مدارس کا کردارمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
فضلائے مدارس کے علمی و روحانی معیار کا مسئلہمولانا عبد الحق خان بشیر
معلم کا منصب اور اس کے فنی و اخلاقی تقاضےمولانا عبد الرؤف فاروقی
تعلیم و تعلم میں اخلاص نیت کی اہمیتمولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی
احیائے ثقافت اسلامی کی تحریکحافظ صفوان محمد چوہان
کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ (۳)حافظ محمد زبیر
مکاتیبادارہ
الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام فکری نشستیںادارہ
عام انتخابات اور متحدہ مجلس عمل کا مستقبلمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
وکلا تحریک کے قائدین کی خدمت میں چند معروضاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
لاہور میں ایک چرچ کا افسوس ناک انہدام / کراچی کے چند اداروں میں حاضریمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

محترمہ بے نظیر بھٹو کا الم ناک قتل

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو ۲۷؍ دسمبر کو راول پنڈی کے لیاقت باغ میں انتخابی جلسہ عام سے خطاب کرنے کے بعد واپس جاتے ہوئے ایک خود کش حملے میں جاں بحق ہو گئی ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ محترمہ بے نظیر بھٹو گزشتہ ماہ جب اپنی نو سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس آئی تھیں تو کراچی میں استقبالیہ جلوس کے دوران بھی ایک خود کش حملہ کا نشانہ بنی تھیں جس میں بہت سے دیگر افراد جاں بحق ہوئے تھے مگر وہ خود محفوظ رہی تھیں، لیکن راول پنڈی کے جلسہ کے بعد ان پر ہونے والا حملہ اس قدر اچانک اور منظم تھا کہ وہ اس سے بچ نہ سکیں اور حملہ آور اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور عوامی لیڈر جناب ذو الفقار علی بھٹو مرحوم کی بیٹی اور جانشین تھیں۔ وہ خود بھی دو مرتبہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہی ہیں اور ان کی پارٹی آئندہ انتخابات کے بعد انھیں ایک بار پھر وزیر اعظم بنانے کا عزم ظاہر کر رہی تھی، مگر اسی مہم کے دوران ان کی زندگی کا تسلسل ایک خود کش حملہ آور کے ہاتھوں منقطع ہو گیا اور وہ خالق حقیقی سے جا ملیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے سیاسی افکار ونظریات، اہداف ومقاصد اور پالیسیوں سے ملک کے بہت سے لوگوں کو اختلاف تھا اور خود ہمیں بھی ان کی بہت سی باتوں سے اختلاف رہا ہے، لیکن اختلاف کے اظہار کا یہ طریقہ کی مخالف کی جان لے لی جائے اور اس طرح کے خود کش حملوں کے ذریعے اسے راستے سے ہٹا دیا جائے، نہ صرف یہ کہ سراسر ناجائز اور ظلم ہے بلکہ ملک وقوم کے لیے بھی انتہائی خطرناک اور تباہ کن ہے اور اس کی جس قدر مذمت کی جائے، کم ہے۔
ہم نے ان صفحات میں بار بار عرض کیا ہے کہ حکومت یا کسی بھی جماعت، طبقہ اور شخصیت کے ساتھ اختلاف کا ہر شہری کو حق حاصل ہے اور اس اختلاف کے اظہار اور اس کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے کا بھی ہر شخص کو حق ہے، لیکن اس کے لیے طاقت کا استعمال، ہتھیار اٹھانا اور کسی کی جان کے درپے ہونا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے، نہ اسلامی تعلیمات اس کی اجازت دیتی ہیں اور نہ ہی آج کا معروف جمہوری کلچر اس کا متحمل اور روادار ہے۔ اس لیے ہم محترمہ بے نظیر بھٹو کا اس الم ناک قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کے خاندان، پارٹی اور دیگر متعلقین کے ساتھ اس غم میں شریک ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جوار رحمت میں جگہ دیں اور تمام متعلقین وپس ماندگان کو صبر وحوصلہ کے ساتھ اس صدمہ سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ 
ہمیں امید ہے کہ حکومت اس سلسلے میں اپنی قانونی واخلاقی ذمہ داریوں کو پورا کرے گی اور اس قسم کی افسوس ناک وارداتوں کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرے گی۔

دینی مدارس میں تخصص اور اعلیٰ تعلیم و تحقیق

ڈاکٹر محمود احمد غازی

دینی مدارس میں درجات تخصص کا قیام اور اسلامی علوم وفنون کی اعلیٰ تعلیم وتحقیق کا بندوبست وقت کی ایک ایسی اہم اور فوری ضرورت ہے جس کی اہمیت اور فوری نوعیت کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ بہت سے مدارس میں درس نظامی کے بعد تخصص اورتکمیل کے شعبے گزشتہ چند عشروں کے دوران کثرت سے قائم ہوئے ہیں۔ تخصص اور تکمیل کے یہ شعبے عموماًتفسیر، فقہ، فتویٰ اور تجوید وقراء ت کے میدانوں سے متعلق ہیں۔ بلاشبہ یہ شعبے مفید کام کر رہے ہیں اور ان کی موجودگی سے اسلامی تخصصات کی اہمیت کا احساس بڑھا ہے، لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی شعبہ سے تخصص کے وہ مقاصد اب تک کما حقہ پورے نہیں ہو سکے جس کی آج ملک وملت کو شدید ضرورت ہے۔ 
تخصص کے شعبہ کا مقصد درج ذیل قسم کے اصحاب کی تیاری ہونا چاہیے :
۱۔ نمایاں اسلامی علوم (تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، اسلامی معاشیات) کے اعلیٰ مضامین کی تدریس کے لیے ایسے اساتذہ کی تیاری جو ان مضامین کی اعلیٰ سطح پر کماحقہ تعلیم دے سکیں اور دینی مدارس کے طلبہ کو آنے والے چیلنجوں اور خطرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کر سکیں۔
۲۔ ایسے علماے کرام کی تیار ی جو ملکی جامعات اور عصری تعلیمی اداروں میں اعلیٰ سطح پر اسلامی علوم کی تدریس کی ذمہ داریاں کامیابی سے انجام دے سکیں اور وطن عزیز میں نفاذ اسلام کے عمل کی موثر رہنمائی کر سکیں۔ 
۳۔ ایسے اہل علم اور اصحا ب تخصص کی تیاری جو اسلامی علوم کے بارے میں پیدا کی جانے والی بدگمانیوں اور اسلامی عقائد واحکام کے بارے میں کیے جانے والے اعتراضات کا مدلل اور تسلی بخش جواب دے سکیں۔
۴۔ ایسے اہل علم کی تیاری جو اپنی عمیق دینی مہارت کی بنیاد پر مغربی علوم وفنون کا ناقدانہ جائزہ لے سکیں اور مغربی افکار وتصورات کا اسلامی شریعت کی روشنی میں تنقیدی مطالعہ کر کے ا ن کے رطب ویابس کو الگ الگ کر سکیں۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دینی مدارس کے نظام اور نصاب میں ان میں سے کسی بھی ضرورت کی تکمیل کا کوئی بندوبست نہیں۔ تفسیر میں تخصص کے شعبے متعدد مدارس میں قائم ہیں، لیکن وہ چند ماہ میں پورا قرآ ن حکیم کسی ایک استاد یا مفسر کے طرز تفسیر کے مطا بق سرسری طور پر پڑھا دینے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان تفسیری پروگراموں کے فارغ التحصیل اصحاب زیادہ سے زیادہ اپنے شیخ کے طرز پر عوامی یا مناظرانہ انداز کا درس قرآن دینے کے قابل تو ہو سکتے ہیں لیکن ان پروگراموں کے نتیجے میں وہ علوم قرآن، ذخائر تفسیر، تفسیر کے مہتم بالشان مسائل، مناہج مفسرین، دور جدید میں قرآن پاک پرکیے جانے والے اعتراضات اور شبہات، تاریخ تدوین قرآن اور ان جیسے امہات مسائل سے اکثر ناواقف ہی رہتے ہیں۔
امرواقعہ یہ ہے کہ آج قرآن پر از سرنو اعتراضات اور شبہات کی لہریں زوروشور کے ساتھ مشرق ومغرب میں پھیل رہی ہیں۔ قرآن مجید کی تفسیر وتشریح کے بارے میں طرح طرح کے شبہا ت عقلی وعلمی انداز میں مشرق ومغر ب میں اٹھائے جا رہے ہیں۔ مسلمانو ں کی طرف سے ان روز افزوں اعتراضات اور شبہات کا مدلل اور سنجیدہ جواب دینے کے لیے جس طرح کے متخصص اہل علم درکار ہیں، وہ ناپید ہیں یہاں تک کہ خود مسلمانوں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں یہ نئے گمراہ کن اسالیب جگہ پا رہے ہیں اور مسلمان طلبہ کے ذہنوں کو پراگندہ اور پریشان کر رہے ہیں۔
یہی حال حدیث اور فقہ کے تخصص کا ہے۔ علم حدیث کے وسیع ذخائر، علوم حدیث کے لامتناہی دفاتر اور معارف حدیث کے عمیق مباحث عموماً تخصص حدیث کے شعبوں میں بار نہیں پاتے۔ حدیث میں تخصص اور دو دو سال میں دورۂ حدیث کرنے والے طلبہ علوم حدیث کے امہات مسائل بلکہ اہم کتابوں کے ناموں تک سے ناواقف رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں تخصص حدیث دراصل احادیث احکام کے مسلکی مطالعے سے عبارت بن کر رہ گیا ہے۔ مختلف مسالک کے اہل علم نے اپنے اپنے مسلک کی تائید کے نقطہ نظر سے منتخب احادیث کے مطالعے کوتخصص کا نام دے دیا ہے۔ اس کانتیجہ یہ نکلتاہے کہ طلبہ کو اپنے اپنے فقہی اور کلامی موقف کے بارے میں چند گنی چنی احادیث اور روایات کے بارے میں تو واقفیت خوب ہو جاتی ہے، لیکن علوم حدیث کے اعلیٰ مباحث، ہدایت نبوی کے حقائق ومعارف اور محدثین اسلام کی غیر معمولی کاوشیں طلبہ کی پہنچ سے باہر رہتی ہیں۔ یہی بلکہ اس سے بھی گیا گزرا حال فقہ کے تخصص کا ہے۔
اس صورت حال میں ا ب تک کیے جانے والے تجربہ پر ازسرنو غور کر کے تخصصات کے ایسے نئے نصاب اور نظام کی تیاری کی فوری ضرورت ہے جہاں دینی مدارس کے فارغ التحصیل اصحاب سے ذی استعداد نوجوان اہل علم کو منتخب کرکے متعلقہ اسلامی علوم وفنون میں ٹھوس تربیت دی جائے۔ لیکن تخصص کاکوئی بھی نظام یانصاب اس وقت تک موثر اورنتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتاجب تک تعلیم کے ا بتدائی مراحل پر بھی بھرپور اور تفصیلی نظر ثانی نہ کی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تخصص کے لیے جس صلاحیت اور سطح کے رجال کار اورطلبہ درکارہوں گے ،جب تک وہ بنیادی اسلامی علوم میں گہری استعداد اور علوم آلیہ سے اچھی طرح واقفیت نہ رکھتے ہوں، ان کے لیے تخصص کی سطح پر اعلیٰ تعلیم کاحصول ممکن نہ ہوگا۔ اس لیے تخصص پر گفتگو کرنے سے پہلے چند ضروری اشارات قبل از تخصص مراحل کے بارے میں بھی پیش کرنا ضرور ی ہے۔
اس وقت امر واقعہ یہ ہے کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کی بہت بڑی تعداد مساجد کی امامت اورخطابت کے فرائض سرانجام دی رہی ہے۔ بلاشبہ مساجد کی امامت اورخطابت مسلم معاشرہ میں ایک انتہائی اوربنیادی کردار اداکرتی ہے۔ معاشرہ کی دینی تشکیل اوررائے عامہ کی اسلامی تربیت میں ائمہ اورخطبا کے کام کواساسی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی باک نہیں کہ درس نظامی کاموجودہ نظام اورنصاب پاکستان کے لیے مطلوبہ صلاحیت اورصفات کے ائمہ اورخطبا تیارنہیں کرتا۔ امامت وخطابت کے لیے بہت سی ضروری صلاحیتوں کی تیاری بندوبست درس نظا می میں موجود نہیں۔ اسی طرح مستقبل کاامام بہت سی ایسی چیزیں پڑھنے پر خود کو مجبور پاتاہے جواس کے لیے امامت اورخطابت میں کسی بھی حیثیت سے کارآمد نہیں۔ منطق اورقدیم یونانی فلسفہ کے اعلیٰ مسائل سے پاکستان میں کسی بھی امام کوکوئی واسطہ نہیں پڑتا۔ اس لیے مناسب یہ معلوم ہوتاہے کہ مدارس کے ثانوی اوراعلیٰ ثانوی سطح کے تین بلکہ چارسالوں کانصاب اس طرح تیار کیا جائے کہ اس کے فارغ التحصیل حضرات اچھے امام، اچھے خطیب یاا بتدائی مدرس اورسرکاری سکولوں کے اچھے مدرس بن سکیں۔ اس سطح پر درس نظامی کی عام کتابوں کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشیات ،اسلامی کے سیاسی افکار ،سیرۃ النبی،صدر اسلام کی تاریخ، تاریخ پاکستان، برصغیر میں اسلامی تحریکات کی تاریخ جیسے موضوعات کے علاوہ تجوید وقراء ت کے مضامین کو لازمی طورپر شامل کیاجائے۔ اس سطح پر اردو وعربی کی ایک آسان تفسیر اورحدیث کی دویا تین کتب ضرور شامل ہوں۔ ابتدائی سالوں میں جب طلبہ کی عربی کی استعداد زیادہ نہ ہو تو اردو میں دستیاب احادیث کے مجموعوں میں سے کوئی ایک مجموعہ منتخب کیا جا سکتاہے۔ میر ی ناچیز رائے میں سال اول ودوم میں معارف الحدیث اور سال سوم اور چہارم میں ترجمان السنۃ شامل کی جا سکتی ہیں۔ مزیدبرآں فقہ اوراصول فقہ کی متداول درسی کتب کے ساتھ ساتھ ایک یادوکتابیں اردو اور آسان عربی میں شامل ہونی چاہییں۔ علماے ندوہ نے اور مولانا محمد انوربدخشانی نے یہ کام بہت آسان کر دیا ہے۔
جوطلبہ نصا ب کایہ مرحلہ مکمل کرلیں، ان کو مناسب سند دے کر ادارہ سے فارغ التحصیل کردیا جائے۔ میری ذاتی رائے میں طلبہ کاتقریباًپچاس فی صد حصہ اس مرحلہ پر فارغ ہو کرچلاجائے۔ اگلے مرحلے کے لیے صرف ذی استعداد طلبہ قبول کیے جائیں جن کا اصل مقصد امامت، خطابت، ابتدائی اداروں کی تدریس یا سرکاری اسکولوں کی ملازمت نہیں بلکہ ذرا اعلیٰ سطح کی تدریس ہو۔ یہ مرحلہ بھی تین سے چار سال تک مشتمل ہو سکتاہے۔ مناسب یہ ہوگا کہ یہ اس مرحلہ میں تخصص کے پہلے قدم کے طورپر طلبہ کو دو یا زائد گروپوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ کچھ طلبہ جو فقہ اورعلوم فقہ میں تخصص کرناچاہیں، ان کے نصاب کی تفصیلات میں فقہی کتابوں اور مضامین اور فقہی موضوعات میں مہارت اور تخصص پر زیادہ زور دیا جائے۔ جو طلبہ مثلاً علوم قرآن وتفسیر اور علوم حدیث میں تخصص کرنا چاہیں، ا ن کے تجویز کردہ نصاب میں فقہی کتب کی تعداد کونسبتاًکم کرکے حدیث وتفسیر کی کتب شامل کی جائیں۔ لیکن درس نظامی کی موجودہ کتب چند ایک کے اضافے کے ساتھ دونوں گروپوں کے لیے رہنی چاہییں۔ اس سطح پر طلبہ کو اسلامی معاشیات، اسلامی بنکاری، اسلامی بیمہ کاری کے ساتھ ساتھ مغربی افکار اور نظریات کے بارے میں بھی ایک دو کتب لا زمی طور پر پڑھائی جائیں۔ مناسب یہ ہوگاکہ اس مرحلے میں جو طلبہ داخل کیے جائیں، وہ انگریزی زبان سے کسی حد تک واقفیت رکھتے ہوں۔ مغربی افکار سے واقفیت کا بندوبست باقاعدہ نصابی کتب کے ذریعے بھی ہو سکتاہے اور ماہرین کے توسیعی خطبات کے ذریعے بھی۔
مناسب یہ معلوم ہوتاہے کہ اس مرحلے کوبھی دو ذیلی مرحلوں میں تقسیم کیا جائے۔ پہلاذیلی مرحلہ جودوسال پر مشتمل ہو تو وہ تمام طلبہ کے لیے مشترک ہو اور کوشش یہ کی جائے کہ ان دوسالوں کے دوران موقوف علیہ تک کی بنیادی اور اساسی کتب اور مضامین ختم ہو جائیں۔ دوسرا ذیلی مرحلہ حدیث اور تفسیر کے طلبہ کے لیے الگ اورفقہ اوراصول فقہ کے طلبہ کے لیے الگ ہو۔ کچھ مضامین میں دونوں طلبہ شریک ہوں ۔ مثال کے طورپر جامع ترمذی کے درس میں دونوں گروپوں کے طلبہ شریک ہوں۔ اسی طرح آیات احکام یافقہی تفسیر کے متعلق مضامین بھی دونوں گروپوں کے لیے لازمی ہوں ۔ ان دونوں کے علاوہ چند اورمضامین بھی مشترک ہوسکتے ہیں ۔ 
امید کی جانی چاہیے کہ ہدایہ کے چاروں حصے ابتدائی دوسالوں تک مکمل ہوجائیں گے ۔ اب اگلے دوسالوں کے نصابات میں جو طلبہ آگے چل کر فقہ میں تخصص کرناچاہتے ہیں، ان کے لیے کل مضامین کا آدھا حصہ فقہی مضامین پر مشتمل ہو اور باقی مضامین مشترک ہوں۔ اسی طرح جوطلبہ آگے چل کرحدیث اورتفسیر میں تخصص کرناچاہتے ہیں، ان کے لیے کل مضامین کا کم از کم پچاس فیصد حدیث اور تفسیر پر مشتمل ہونا چاہیے۔ ان دوسالوں میں فقہ اور اصول فقہ میں آگے چل کر تخصص کرنے والے طلبہ کے لیے نصا ب کاخاکہ اس طرح کا ہو سکتا ہے:

سال اول کی پہلی شش ماہی

۱۔عقود رسم المفتی 
۲۔ بدائع الصنائع کے منتخب ابواب، مثلاً کتا ب الزکوۃ ، کتاب النکاح ، کتاب الطلاق۔
۳۔ البحرالرائق کے منتخب ابواب
۴۔ بدایۃ المجتہد (حصہ اول )
۵۔ مجلۃ الاحکام العدلیہ (باب اول)
۶۔مشترک مضامین 
۷۔مشترک مضامین
۸۔درس نظامی کی بقیہ کتب

سال اول کی دوسری شش ماہی 

۱۔رد المحتار کے منتخب ا بواب 
۲۔اصول السرخسی
۳۔بدایہ المجتہد،حصہ اول 
۴۔المغنی لابن قدامہ (منتخب ابواب)
۵۔المہذب فی اصول الفقہ المقارن ۔جلد اول 
۶۔مشترک مضامین
۷۔مشتر ک مضامین
۸۔درس نظامی کی بقیہ کتب
سال دوم کی دوسری شش ماہی 
۱۔نیل الاوطار، منتخب ابواب
۲۔شرح معانی الآثار
۳۔احکام القرآن للجصاص
۴۔المہذب فی اصول الفقہ المقارن، جلد دوم 
۵۔المستصفی للغزالی (از آغاز تانہایت قطب ثانی )
۶۔مشترک مضامین 
۷ ۔مشترک مضامین
۸۔درس نظامی کی بقیہ کتب
ان دو مرحلوں کی کامیا ب تکمیل کے بعد طلبہ کی بڑی تعداد فارغ التحصیل ہو جائے گی۔ وہ متداول در س نظامی کی تمام اہم کتابیں اور بنیادی مضامین پڑھ چکی ہوگی۔ ان کے علاوہ اوربھی متعدد مضامین سے ضروری واقفیت حاصل کر چکی ہوگی۔ اب صرف وہ ذی استعداد طلبہ رہ جائیں گے جو اس مرحلہ پر بھی بہت ممتاز اور نمایا ں رہے ہوں۔ ان کو تخصص کی سطح کی تعلیم کے لیے منتخب کیا جائے۔ گویا اگر ادارے میں ابتدائی مرحلے میں ایک سو طلبہ داخل ہوئے ہوں تو ان میں سے پہلے مرحلے میں یعنی ثانوی تعلیم کے چار سال کی تکمیل پر کم از کم پچاس طلبہ کو فارغ کردیاجائے ۔ بقیہ پچاس طلبہ میں سے کم ازکم نصف یعنی پچیس اگلے مرحلے یعنی مزیدچارسال کی تکمیل پر فارغ کردیے جائیں اور تخصص کے مرحلے پر صرف ایک چوتھائی طلبہ کو قبول کیا جائے۔ یہ بات کہ ہرطالب عالم کوآخرتک ہر چیز پڑھائی جائے، نہ مناسب ہے اورنہ قابل عمل۔نہ ہر طالب علم کی یہ استعداد ہے اورنہ اس کی ضرورت ہے کہ اس کو آخری سطح تک ادارے سے وابستہ رکھنے پر اصرار کیا جائے۔
یوں تو تخصص کی ضرورت مختلف میدانوں میں ہے لیکن خاص طورپر درج ذیل شعبوں میں تخصص کی ضرورت آج انتہائی شدید ہے:
۱۔تفسیر اورعلوم قرآن
۲۔حدیث اورعلوم حدیث
۳۔فقہ اوراصول فقہ 
۴۔افتا اورقضا
۵۔عقیدہ اور کلام 
۶۔اسلامی معیشت وتجارت 
۷۔تقابل ادیان 
۸۔فکر جدید اور مطالعہ مغرب
۹۔اسلام اور اسلامی تہذیب عصرجدید میں 
۱۰۔عربی زبان وادب
تخصص کاپروگرام کسی صورت میں بھی تین سال سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ ان تین سالوں میں ابتدائی دوسال باقاعدہ نصابات اور مقررہ کتب کی تدریس کے لیے وقف ہوں، اور تیسرا سا ل تحقیقی مقالہ اور اپنے موضوع سے متعلق چند مضامین کی، جن کی تعداد دو یا تین سے زیادہ نہ ہو، تدریس پر مشتمل ہونا چاہیے۔
تخصص کی سطح پر متعلقہ میدان میں مغربی مفکرین نے جو کچھ لکھا ہے، اس سے طلبہ کوگہری واقفیت ہونی چاہیے۔ امید کی جانی چاہیے کہ تخصص تک پہنچنے والے تمام طلبہ انگریزی کتب اور تحریروں سے بسہولت استفادہ کرنے کے اہل ہوں گے۔
تخصص کی سطح پرمضامین، موضوعات اورکتب کا تعین کرنے کے لیے تین معیارات کو پیش نظر رکھنا چاہیے:
۱۔ متعلقہ میدان تخصص کے بارے میں اکابر اسلام کی نمایاں خدمات اور ان کے اساسی کام سے طلبہ براہ راست واقف ہو جائیں۔
۲۔ متعلقہ میدان تخصص میں جو جو توسیعات اور ترقیاں ہوئی ہیں، ان سے طلبہ براہ راست مانوس ہو جائیں۔
۳۔ متعلقہ میدان تخصص کی موجود ہ صورت حال پورے طورپر طلبہ کو گرفت میں ہو،یعنی بیسویں صدی میں اس موضوع پر مسلمان اہل علم کا نمایاں کام کیا ہے، مغربی مستشرقین نے اس بار ے میں کیا کہا ہے اور مستشرقین کے اثرات کے تحت دنیاے اسلام میں جو رجحانات پیدا ہوئے ہیں، ان سے کس طرح عہد ہ برآ ہوا جا سکتا ہے۔
مثال کے طورپر فقہ اور اصول فقہ میں تخصص کے لیے ضروری ہوگا کہ ا بتدائی دوسالوں میں جو نصاب پڑھایا جائے، وہ متقدمین کی کتابوں سے لے کر متاخرین تک ہردور کی نمائندہ کاوشوں پر مشتمل ہو۔ اس سطح پر فقہ اسلامی کاتقا بلی مطالعہ ناگزیر ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج دنیاے اسلام میں مختلف فقہی مسالک کا ایک دوسرے سے ارتباط اور احتکاک ہو رہا ہے۔ دنیا کے ہر بڑے شہر میں تقریباً ہر فقہی مسلک سے وا بستہ مسلمان بڑی تعداد میں موجود ہیں جن کاایک دوسرے سے روزانہ کوئی نہ کوئی فقہی واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ ان حالات میں فقہ کے متخصصین کواپنے فقہی مسلک کے علادہ دوسرے مسالک سے کسی قدر واقفیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کام کے لیے ا بن رشد کی بدایہ المجتہد کے علاوہ دوسرے فقہی مسالک کی بعض منتخب کتب کے ابواب طلبہ کو پڑھانے چاہییں۔ اسی طرح اصول فقہ کا تقابلی مطالعہ بھی ناگزیر ہے۔ ایک معاصر سعودی عالم نے ’’المہذب فی اصول الفقہ المقارن‘‘ کے نام سے تقابلی اصول فقہ پر ایک جامع کتاب پانچ جلدوں میں تیار کی ہے۔ وہ اس مرحلے پر بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
فقہ میں تخصص کے طلبہ کے لیے انگریزی اصول فقہ، ضابطہ فوجداری ودیوانی، تعزیرات پاکستان اور پاکستان کے آئین اور دو ایک منتخب قوانین کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ ان قوانین کے مطالعے کامقصد طلبہ کووکیل یاانگریزی قانون کاماہر بنانا نہیں بلکہ اس طرز فکر سے واقف کرانا ہے جس کی بنیاد پر انگریزی قوانین مرتب ہوئے ہیں۔ اگر تخصص فی الفقہ کامقصد اور ہدف ملک میں اسلامی شریعت کے نفاذ کے عمل میں حصہ لینا اور اس مقصد کو آگے بڑھا ناہے تو ملک کے قانون، عدالتی نظام اور دستوری نظام سے واقفیت ضروری ہے۔
تخصص کی سطح پر امیدکی جانی چاہیے کہ طلبہ اعلیٰ استعداد کے حامل ہوں گے اور ان کو کوئی کتاب سبقاً سبقاً اول سے لے کر آخر تک پڑھانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس سطح پر استاذ کا کام رہنمائی کرنا اور طلبہ کا کام از خود مطالعہ ہونا چاہیے۔ تعلیم کے دوسالوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے۔ یہ چاروں حصے پانچ پانچ مہینوں پر مشتمل ہو سکتے ہیں۔ پانچ مہینوں کی اس مدت میں ایک طالب علم پانچ سے سات موضوعات تک بآسانی مطالعہ کر سکتا ہے۔ اس مرحلے پر پوری پوری کتابیں سبقاً سبقاً پڑھانے کے بجائے امہات الکتب کے منتخب ابواب پڑھائے جائیں۔ ایک مضمون کااستاذ ہفتے میں تین یا چار مرتبہ طلبہ کو درس یا رہنمائی کے لیے دستیاب ہو اور بقیہ اوقات میں طلبہ ازخود مطالعہ کریں اور مطالعہ کے نتائج کو تحریری طور پر مرتب کریں۔ یہ اسلوب انگریزی اور ملکی قانون کے مطالعہ میں بہت آسانی سے اختیار کیا جا سکتا ہے۔
یہاں مختلف موضوعات اور میدا نوں میں تخصص کی مکمل اسکیم کی نشان دہی قبل از وقت ہوگی۔ اگر ان گزارشات سے فی الجملہ اتفاق ہو تو آغاز سے انتہا تک ایک مکمل نقشہ تجویز کرنا ہوگا۔ بنیاد اور ڈھانچہ کی تعمیر سے قبل اونچی منزلوں کی تعمیر کاکام اور اس کی تجاویز غیر مناسب ہیں۔ ان صفحات میں تخصص کے لیے دس میدان تجویز کیے گئے ہیں۔ کسی ایک ادارہ کے لیے ان سب میں بیک وقت تخصص کا پروگرام شروع کرنا نہ قا بل عمل ہے اور نہ مناسب۔ بہتر یہی ہوگا کہ پہلے قدم کے طورپر بڑے بڑے دینی ادارے ایک ایک یا زیادہ سے زیادہ دو دو میدانوں میں تخصص کا پروگرام شروع کریں اور آہستہ آہستہ دوسرے شعبوں کی طرف قدم بڑھائیں۔
وفاق المدارس کی طرف سے ایک مستقل نظامت اعلیٰ برائے تخصصات شرعیہ قائم کی جانی چاہیے جو تخصص کا نصاب اور نظام وضع کرے۔ وفاق کی اجازت اور منظوری کے بغیر کسی ادارہ کو تخصص کا شعبہ قائم کرنے کی اجازت نہ ہونی چاہیے۔ جہاں ایسے شعبے قائم ہوں، ان کی نگرانی مذکورہ نظامت اعلیٰ کرے اور معیار کی پابندی کویقینی بنائے۔
ان صفحات میں اگرچہ گفتگو تخصص کے بارے میں کی گئی ہے، لیکن دواہم باتوں کی نشاندہی کی اجازت چاہتا ہوں۔ ان دونوں باتوں کا تخصص کے پروگراموں کی کامیابی سے بھی اگر براہ راست نہیں تو بالواسطہ تعلق ضرور ہے۔ میری مراد عربی اور فارسی زبان کی تدریس سے ہے۔ 

عربی زبان کی تدریس 

مجھے یہ عرض کرنے کی اجازت دیجیے کہ بیشتر دینی مدارس میں عربی زبان کی تدریس کا موجودہ نظام، نصاب اور انداز انتہائی ناقص، غیر تسلی بخش اور ناقابل قبول ہے۔ عربی فارسی سے نابلد طلبہ فارسی کے ذریعے عربی صرف ونحو کے ضروری قواعد حفظ کرتے ہیں، پھر عربی کی ازکار رفتہ اور فضول کتابوں کے ذریعے عربی صرف ونحو میں ’’مہارت‘‘ حاصل کرتے ہیں اور اس نامکمل اور انتہائی ناقص علم کے چند صفحات کو رٹ کر عربی زبان واد ب کے ماہرین بن جاتے ہیں۔ میں اپنے ذاتی تجربہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر عرض کرتاہوں کہ مدارس میں عربی ادب کی ان کتا بوں کی سالہاسال تدریس کرنے والے اساتذہ میں سے بیشتر ان کتا بوں کے درسی اجزا کے علاوہ عربی زبان واد ب کے پورے ذخیرہ سے ناواقف رہتے ہیں۔
عر بی ز بان، جودنیا کی سب سے زیادہ دقیق اورسائنٹفک ز بان ہے، عربی ذخیرۂ الفاظ جو دنیا کی ز بانوں کا سب سے وسیع ذخیرہ الفاظ ہے، عربی صرف ونحو جس کا مقابلہ شاید ہی کسی زبان کی صرف ونحو کرسکے، دینی مدارس کے علما کی بڑی تعداد کے لیے ایک بند دروازہ ہی رہتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عربی ز بان کی تدریس میں ندوۃالعلما کاتجربہ بہت کامیا ب اورشاندار رہا ہے۔اس تجربہ نے گزشتہ نصف صدی سے زائد کے عرصے میں اپنی افادیت اورخوبی کو اچھی طرح ثابت کردیا ہے ۔ لہٰذاعربی ز بان کی تدریس کے پورے نصاب ونظام پرندوہ کے تجر بہ کی روشنی میں نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ندوہ کی مرتب کردہ ابتدائی کتا بیں وسطانی مدار س میں پڑھائی جانی چاہییں۔ مزید برآں عربی نثر کی عمدہ کتا بوں کے منتخب حصے نصا ب میں شامل ہونے چاہییں۔ عربی شعر میں بھی متعدد مجموعے ایسے دستیاب ہیں جو حماسہ اور سبعہ معلقہ سے پہلے پڑھا دیے جائیں توزبان کااچھا ذوق پیدا ہو سکتا ہے۔ 
عربی نثر میں سیرت ا بن ہشام، البدایہ والنہایہ اور مقدمہ ا بن خلدون کے منتخبات پر مشتمل ایک ترتیب دے دی جائے اور نفحۃ العرب کے بعد پڑھائی جائے تو عربی نثر کی اچھی بنیاد بن سکتی ہے۔ میری ذاتی رائے میں مقامات حریری کی تدریس محض وقت کا ضیاع ہے۔ زیادہ سے زیادہ دوتین مقامے نمونے کے طورپر پڑھا دینا کافی ہے۔

فارسی زبان کااہتمام 

برصغیر میں ایک طویل عرصہ تک دینی علوم وفنون کی تدریس فارسی ز بان میں ہوتی رہی ہے۔ فارسی ہی جنوبی ایشیا اور افغانستان کی علمی اور ثقافتی زبان رہی ہے۔ ہندو پاکستان کے دینی مدارس میں ابتدائی تعلیم بھی فارسی ہی میں ہوتی تھی۔ اگرچہ فارسی کو ذریعہ تعلیم بنانا اور دینی وعربی علوم کے لیے فارسی زبان کو استعمال کرناا ردو کے رواج پا جانے کے بعد غیر موزوں اور غیر مفید تھا، لیکن فی نفسہ فارسی زبان وادب کی ضروری تعلیم میں بہت افادیت تھی۔ طلبہ برصغیر کے دینی ورثہ سے واقف ہو جاتے تھے۔ برصغیر کے دینی اکابر کی تحریروں تک ان کو رسائی حاصل ہوجاتی تھی۔ لیکن گزشتہ تیس چالیس سال سے فارسی کومکمل طورپر ختم کردینے کے رجحان سے بہت نقصان ہو ا ہے۔ آج بہت سے علما کے لیے مجد د الف ثانی اورشاہ ولی اللہ محدث دہلوی جیسے اکابر کی کتابیں ناقابل فہم ہوگئی ہیں۔ فارسی زبان کے ذریعے اخلاق، تہذیب اور روحانیت کا جو عنصر نصاب تعلیم کی بنیادوں میں شامل ہو جاتا تھا، اس سے طلبہ قریب قریب محروم ہو گئے ہیں۔
ان حالات میں فارسی ز بان کی (بطورایک مضمون کے) تدریس کا احیا کرناضروری ہے ۔ اگرابتدائی دینی مدارس میں حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ اردو، فارسی، حساب اور معاشرتی علو م کے مضا مین شا مل کر دیے جائیں تو پانچ سال کی مدت میں طالب علم قرآن مجید کا حافظ ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف اردو اور فارسی کی ضروری استعداد کا حامل ہو سکتا ہے بلکہ ضروری حسا ب اور ابتدائی ریاضی سے بھی واقف ہو سکتا ہے۔
وسطانی مدارس میں فارسی کو ایک لازمی مضمون کی حیثیت دی جانی چاہیے۔ اگرطالب علم ابتدائی مدارس میں آمدنامہ، گلزار د بستان، کریما، پندنامہ، گلستان اور بوستان پڑھ چکا ہو (جو ایک گھنٹہ روزانہ کے حسا ب سے چار سال میں بہت آسان ہے) تو وسطانی مدارس میں مثنوی مولانا روم کے منتخبات، بہار ستان جامی، کشف المحجوب، امام غزالی کی کیمیائے سعادت کے منتخب ابواب پڑھانا مشکل نہ ہوگا۔ پھر ثانویہ عامہ اور عالیہ میں حضرت مجدد الف ثانی کے بعض منتخب مکتوبات اور مولانا اسماعیل شہید کی منصب امامت کو شامل کرنا آسان ہوگا۔ حضرت مجدد کے بعض طویل مکتو بات عقائد اورتصوف کے بنیادی اورمہتم بالشان مسائل کے بارے میں انتہائی عالمانہ اور وقیع مباحث پر مشتمل ہیں اوراچھی خاصی کتاب کی ضخامت کے برابر ہیں۔ ایسے چند مکتوبات کو نصا بی کتاب کے طور پر پڑھایا جا سکتا ہے۔

اسلام کا تصور علم اور دینی مدارس کا کردار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۱۴ نومبر ۲۰۰۶ کو الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام تربیتی ورکشاپ سے خطاب-)

علم انسان کا وہ امتیاز ہے جس نے انہیں فرشتوں پر فضیلت عطا کی اور معلّم وہ منصب ہے جسے سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرماکر اپنے تعارف کے طورپر پیش کیا کہ ’انما بعثت معلما‘ (میں معلم اور استاذ بنا کر بھیجا گیا ہوں)، جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی قراء ت، قلم اور تعلیم کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔ اسی لیے اسلا م میں تعلیم کے مشغلہ اور معلم کے منصب کو ہمیشہ عزت اور وقار کا مقام حاصل رہاہے اور دنیا کی ہر مہذب اور متمدن قوم میں معلم کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ البتہ اسلام نے معلم خیر اور معلم شر کا فرق ضرور کیا ہے اورعلم کو نافع اور ضار کے شعبوں میں تقسیم کرکے خیرو نفع کے معلم کو فضیلت ووقا ر کے مقام سے نوازا ہے جبکہ شر اور ضرر کا باعث بننے والے علوم کی مذمت کرتے ہوئے ان کی تعلیم کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ شیطان بھی اصل میں ایک معلم ہی تھا لیکن چونکہ اس نے شر اور ضرر کا راستہ اختیار کرلیا تھا، اس لیے راندۂ درگاہ قرار پایا اور قیامت تک کے لیے لعنت کا طوق اس کی گردن میں پڑ گیا۔
اسلام علم برائے علم کا قائل نہیں ہے بلکہ صرف ان علوم کو اپنے تعلیمی نظام کے دائرہ میں جگہ دیتا ہے جو انسان اور انسانی سوسائٹی کے لیے نفع اور خیر کا باعث ہوں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جادو اور اس نوعیت کے دیگر علوم کی فنی اور واقعاتی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی تعلیم وتعلّم سے منع فرمایا ہے، بلکہ قرآن کریم نے تو جائز علوم کی بھی درجہ بندی کرکے یہ اصول پیش کیا ہے کہ ہرعلم ہر شخص کے لیے موزوں نہیں ہے، بلکہ ذہنی سطح، منصبی فرائض اور مقام وحیثیت کو ملحوظ رکھ کر تعلیم وتعلّم کے لیے مضامین کے انتخاب کی سمت قرآن کریم نے راہنمائی فرمائی ہے جیسا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے کہ: ’وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ‘ (ہم نے آپ کو شعروشاعری نہیں سکھائی اور وہ آپ کے لیے مناسب بھی نہیں ہے)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی علم کا حصول صرف اس لیے ضروری یا مناسب نہیں ہوجاتا کہ وہ علم ہے بلکہ ضرورت ومناسبت کے لیے یہ بھی دیکھنا پڑتاہے کہ علم حاصل کرنے والے کو اس کی عملی زندگی میں اس علم کی کس حد تک ضرورت ہے اور وہ اس کے لیے کس درجہ میں مناسب حال ہے۔
اسلام نے علم کو نافع اور ضار کے درجوں میں تقسیم کیاہے۔ یہ نفع وضرر دنیا اور آخرت دونوں حوالوں سے ہے اور آج کے عالمی تعلیمی نظام اور اسلا م کے فلسفہ تعلیم میں یہی جوہری فرق ہے کہ آج کی دنیا کے نزدیک نفع وضرر صرف اس دنیا کے حوالے سے ہے۔ جو بات اس دنیا کی زندگی کو بہتر بنانے اور شخصی، طبقاتی یا اجتماعی زندگی کی کامیابی کے لیے مفید ہے، وہ تعلیمی نظام کا حصہ ہے لیکن اسلام اس دنیا کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے کہیں زیادہ آخرت کی فوزو فلاح اور اس ابدی زندگی میں نجات کو اپنے تعلیمی وتربیتی نظام کا اساسی ہدف قرار دیتا ہے۔ اسلام اس دنیا کی زندگی اور اس کی بہتری اور کامیابی کی نفی نہیں کرتا، بلکہ اس کے لیے ہر جائز صورت کو اختیار کرنے کی اجازت بلکہ بعض صورتوں میں حکم دیتاہے مگر اس شرط اور ترجیح کے ساتھ کہ دنیا کی زندگی کی آسائش، سہولتیں اور اس کی بظاہر بہتری کی کوئی صورت انسان کی اخروی زندگی میں اس کے لیے خرابی کا باعث نہ بن جائے اور دنیاوی زندگی کی سہولتیں اخروی نجات کی قیمت نہ ہوں۔
میری طالب علمانہ رائے میں اسلام نے علوم کو دنیاوی اور دینی حوالے سے تقسیم نہیں کیا بلکہ نفع وضرر کو علوم کی تقسیم کا باعث سمجھا ہے اور یہ نفع وضرر دنیا اور آخرت دونوں حوالوں سے ہے۔ اس لیے جو علوم انسان کے لیے فرد اور معاشرہ کے دونوں دائروں میں اس کی آخرت کی نجات اور فوزو فلاح اور دنیا کی زندگی کوزیادہ سے زیادہ بہتر، پر امن اور باسہولت بنانے کے لیے مفید ہے، وہ اسلام کی نظر میں مطلوب علم ہے، اور جو علم ان دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے لیے نقصان کا باعث بنتاہے، وہ علوم ضارہ میں شمار ہوتاہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا اسی سمت ہماری راہ نمائی کرتی ہے کہ ’’اے اللہ !مجھے وہ علم عطا فرماجو نفع بخش ہواوراس علم سے محفوظ رکھ جو ضرر کا باعث ہویا نفع بخش نہ ہو۔‘‘ میں سمجھتاہوں کہ ہمارے دینی مدارس میں تعلیم کا انتظام کرنے والے ارباب بست وکشاد اور تعلیم وتدریس کا فریضہ انجام دینے والے اساتذہ کو آج کے عالمی ماحول میں اس کے تعلیمی فلسفہ ونظام کی اس بنیاد اور امتیاز کو ہر وقت سامنے رکھنا چاہیے تاکہ وہ اپنے زیر تعلیم اور زیر تربیت افراد کو ایک بہتر انسان اور مسلمان کے طور پر اچھی زندگی گزارنے کے قابل بنانے کے ساتھ ساتھ پوری انسانی سوسائٹی کے سامنے اسلا م کے صحیح نمائندہ کا مقام دے سکیں۔
اب سے کم وبیش ڈیڑھ سو سال قبل جب ہمارے معاشرہ میں دینی مدارس کا یہ نظام وجود میں آیاتھا، اس وقت ہمارے بزرگوں کا بنیادی ہدف یہ تھا کہ جنوبی ایشیا کے مسلم معاشرہ میں مسجد و مدرسہ کا ادارہ موجود رہے اور اسے امام، حافظ، قاری، مدرس، مفتی اور خطیب کے طور پر رجال کار ملتے رہیں تاکہ مسلما نوں کی عبادات اور دینی تعلیم کے ماحول اور تسلسل کو باقی رکھا جاسکے اور اس میں کوئی تعطل یا رکاوٹ نہ ہو۔ بحمد اللہ ہمارے دینی مدارس اپنے اس مقصد او رہدف میں کامیاب ہیں اور آج بھی اس پورے خطے میں مسجد ومدرسہ کے ادارے کے لیے ضروری رجال کار یہ دینی مدارس فراہم کررہے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ضروریات کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی دینی راہ نمائی کا تقاضا بڑھ رہا ہے جو نہ صرف یہ کہ وقت کی ضرورت ہے بلکہ ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ اسی طرح آج کی گلوبل دنیا اور مستقبل کا بین الاقوامی ماحول ہمیں اس طرف توجہ دلا رہا ہے کہ ہم اپنے محدود اور مقامی وعلاقائی ماحول کا اسیر رہنے کی بجائے عا لمیت، گلوبلائزیشن اور بین الاقوامیت کے تقاضوں اور ضروریات کو بھی سمجھیں اور اس کے لیے اپنے تعلیمی نصاب اور تربیتی نظام میں جس ردوبدل اور تنوع کی ضرورت ہو، اس سے گریز نہ کریں تاکہ دینی مدارس اپنے مستقبل کے کردار کو امت مسلمہ کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید بنا سکیں۔ ہمارے اکابر نے ہر دو ر میں یہ عمل سرانجام دیاہے اور آج بھی یہ عمل ہم سے پیش رفت کا متقاضی ہے۔ ان تمام امور کے حوالہ سے سب سے پہلی ضرورت دینی مدارس کے اساتذہ کو اس طرف توجہ دلانے، انہیں وقت کے تقاضوں اور مستقبل کی ضروریات سے آگاہ کرنے اور فکری، علمی اور فنی طورپر اس کے لیے تیار کرنے کی ہے اور اسی مقصد کے لیے اس ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ ہم باہمی مشاورت اور تبادلہ خیالات کے ذریعہ اس سلسلے میں کوئی قابل عمل پروگرام وضع کرسکیں۔

فضلائے مدارس کے علمی و روحانی معیار کا مسئلہ

مولانا عبد الحق خان بشیر

(۱۴ نومبر ۲۰۰۶ کو الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام تربیتی ورکشاپ سے خطاب۔)

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ اما بعد!
صدر گرامی قدر ، معزز علماے کرام!
اساتذہ کی تربیت کے سلسلے میںیہ نشست منعقد کی گئی ہے۔ اگرچہ میں تدریس کی لائن کا آدمی نہیں ہوں، لیکن چونکہ مدارس کے اندر وقت گزارا ہے، اس لیے چند باتیں عرض کروں گا۔
ایک مسئلہ ہے نصاب میں تبدیلی کا تو جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، حضرت شیخ الہندؒ اور امام انقلا ب مولانا عبید اللہ سند ھی ؒ کے دور سے نصاب میں تبد یلی کی ضرورت بڑی شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے اور اپنے طور پر کوششیں بھی ہوئی ہے کہ اس نصا ب میں کچھ ایسی ترامیم کی جائیں جو وقت کے تقاضوں کے مطابق ہو ں۔ حضرت حجۃالاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے بارے میںآتاہے کہ بحری سفر کے دوران ایک جرمن سے ان کی گفتگو ہوئی۔ وہ انگلش جانتا تھا، عربی نہیں جانتا تھا۔ حضرت نانوتویؒ عربی جانتے تھے، انگلش نہیں جانتے تھے۔ درمیان میں ترجمان مقرر کرنا پڑا تو اس وقت حضرت نانوتویؒ نے ارادہ ظاہر کیا کہ واپسی پر میں سب سے پہلے انگلش سیکھوں گا۔ گویا حضرت نانوتو ی ؒ نے اس بات کا اشارہ دیا کہ وقت کے تقاضوں کے مطا بق علما کے لیے انگلش کا جاننا بھی ضروری ہے۔ حضرت امام انقلاب مولانا عبید اللہ سند ھی ؒ نے تو اس کی طرف خصوصی توجہ دی۔ حضرت سندھی ؒ کا موقف یہ تھا کہ ہمارے نصاب کے اندر امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی کتابو ں کو خاص اہمیت دی جانی چاہیے، کیونکہ ان کتابوں کے اندر وقت کے تقاضوں کے مطابق وہ تمام چیزیں موجود ہیں جن کی آگے علما کو ضرورت پیش آسکتی ہے۔ 
ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ نصاب کا ہے۔ اس کے بعد بڑا مسئلہ نظام کا ہے، لیکن وہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ اس وقت ہمارا موضوع ’’دینی مدارس کے اساتذہ کرام کی تربیت اور اس کے تقاضے ’’ہے کہ اساتذہ جو ہمارے دینی مدارس میں پڑھانے کے لیے مقرر ہیں، کیا وہ اپنا حق ادا کر رہے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر وہ اپنا حق ادا کر رہے ہوتے تو آج قحط الر جال کا دور نہ ہوتا۔ ہمیں ایک مدرس کی ضرورت ہوتی ہے تو ہمیں بیسیوں مدارس سے رابطہ کرنا پڑتا ہے ۔ باوجود اس کے کہ ہر سال ہزاروں علما فارغ التحصیل ہوتے ہیں، پھر بھی ان میں سے تدریس کے منصب پر بیٹھنے والے بہت کم ہوتے ہیں اور ہمیں ان کی تلاش کرنا پڑتی ہے۔ اور اب تو حالت یہ ہے کہ اوپر میز پر استاد نے کتاب کھولی ہوتی ہے اور نیچے دراز میں شرح کھولی ہوتی ہے۔ کبھی کتاب کی طرف دیکھتا ہے اور کبھی شرح کی طرف دیکھتا ہے اور سبق پڑھاتا ہے۔ ایسے استاد سے کوئی شاگرد اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوال کا اظہار کرے گا تو اسے ڈانٹ نہیں پڑے گی تو اور کیا ہوگا؟ اس کیفیت میں نہ وہ شاگرد اپنے استاد سے استفادہ کر سکتا ہے اور نہ استاد ہی اپنا فیض اسے منتقل کر سکتا ہے ۔
کسی بھی استاد کے لیے سب سے بنیادی اورضروری بات یہ ہوتی ہے کہ وہ طلبا کی نفسیات کو سمجھتا ہو۔ جو استاد طلبا کی نفسیات سے واقف نہ ہو، وہ صحیح طور پر تعلیم نہیں دے سکتا۔ استاد کو معلوم ہونا چاہیے کہ میری کلاس کا فلاں طالب علم کتنی استعداد کا مالک ہے، اس میں کس قدر صلاحیتیں ہیں، اس کی ذہنی کیفیت کیا ہے۔ میں نے محدث کبیر حضرت علامہ انور شاہ صاحب کاشمیری ؒ کے بارے میں پڑھا ہے کہ حضرت کبھی اپنے طلبہ کا امتحان نہیں لیتے تھے۔ ان کو اپنی کلاس کے ایک ایک طالب علم کی ذہنی استعداد کا پتہ ہوتا تھا، حالانکہ ان کی کلاس میں سینکڑوں طلبہ ہوا کرتے تھے۔ لیکن جب امتحان کا وقت آتا ، علامہ کاشمیری ؒ رجسٹر دیکھتے اور امتحان لیے بغیر وہیں بیٹھ کرنمبر لگا دیتے تھے، اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ اس طالب علم کی استعداد کیا ہے اور اس کی نفسیات کیا ہے۔
چونکہ دینی تعلیم کا تمام تر انحصار روحانیت پرہے، اس لیے دینی تعلیم کا حق وہی مدرس صحیح طور پر ادا کر سکتا ہے جس میں روحانیت، خشیت اور اخلاص پورے طور پر موجود ہے۔ اور اگر کوئی مدرس روحانیت سے خالی ہے تو چاہے وہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو، وہ دینی تعلیم کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ اس سے مجھے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ حضرت سے کسی نے پوچھا کہ جب آپ بیان کرتے ہیں تو عجیب وغریب نکات بیان کرتے ہیں۔ آپ نے کون سی کتابیں پڑھی ہیں؟ تو حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ میں نے تین کتابیں پڑھی ہیں، انہی کتابوں کا فیض میرے اندر موجود ہے۔ ان میں سے پہلی کتاب کا نام ہے حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ ، دوسری کا نام حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ، اور تیسری کتاب کانام مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ ان چلتی پھرتی کتابوں کے فیض یافتہ تھے اور اگر تعلیم کا تعلق پریکٹیکل کے ساتھ ہے تو استا د کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ طلبا اپنے استاد کے صرف الفاظ پر نہیں بلکہ طرزعمل پر بھی نگاہ رکھتے ہیں۔
یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ آج ہم اپنے دینی مدارس میں اس بات کا رونا روتے ہیں کہ ہمارے نظام تعلیم کی کوتاہیاں ہمیں مسلسل زوال کی طرف لے کر جا رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے مدارس خانقاہی نظام سے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں اپنے خانقاہی مدارس سے ہی روحانیت ملتی تھی، ہمارا تزکیہ ہوتا تھا، ہم میں خلوص اور للہیت پیدا ہوتی تھی، لیکن خانقاہی مدارس کے ختم ہونے کے بعد اب اگرچہ ممکن ہے کہ ہمیں اچھا بخاری شریف پڑھانے والا مل جائے، اچھا مسلم شریف پڑھانے والا مل جائے، اچھاجامی وکافیہ پڑھانے والا مل جائے، لیکن ایسا مدرس جو طلبا کے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتا ہو، ایسے مدرس ہمارے ہاں بہت کم ہیں، اس لیے کہ ہمارے مدارس میں روحانی تربیت باقی نہیں رہی۔ تو نصاب کی وجہ سے علمی طور پر زوال تو آ ہی رہا تھا، اب خانقاہی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے روحانی زوال بھی آرہا ہے۔

معلم کا منصب اور اس کے فنی و اخلاقی تقاضے

مولانا عبد الرؤف فاروقی

(۱۴ نومبر ۲۰۰۶ کو الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام تربیتی ورکشاپ سے خطاب۔)

نحمد ہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد فا عوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم اقرا باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا وربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم۔
میں نے جو آیات مبارکہ پڑھی ہیں، ان میں کہاگیا ہے: اقرا وربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم۔ تعلیم بالقلم، یہ طریقہ تدریس ہے ۔اللہ تعالیٰ نے خود کو جب معلم کہاہے کہ میں نے تعلیم دی ہے تو یہ کہا کہ بالقلم ، ایک واسطہ اور سبب استعمال کیا ہے اور وہ قلم ہے۔ چنانچہ مدرسین کو چاہیے کہ اپنے طلبہ کو زیادہ سے زیادہ علم دینے کے لیے ان مفید ذرائع کو استعمال کریں اور اپنے مدرسے کے منتظمین سے یہ درخواست کریں کہ میں اپنے طلبہ کو زیادہ سے زیادہ مستفید کرنا چاہتا ہوں، مجھے یہ چیزیں مہیا کی جائیں۔پہلے بلیک بورڈ ہوا کرتا تھا، اس پر چاک کے ساتھ لکھا کرتے تھے۔ اب وائٹ بورڈ آگیا ہے، اس پر مارکر کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ بڑے آسان طریقے آگئے ہیں تو اگر اس کو استعمال کرنے کی تھوڑی سی مشق کرلی جائے تو اس پر کوئی اسکول وکالج کی اجارہ داری نہیں ہے کہ وہ استعمال کرسکتے ہیں اور ہم نہیں، یا وہاں اس کو استعمال کیا جاسکتاہے، یہاں نہیں۔ آپ صرف ونحو پڑھا رہے ہیں، آپ قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا رہے ہیں، آپ حدیث مبارکہ پڑھا رہے ہیں، اس کے لیے وہ چیز جو سمجھ میں نہیں آرہی، اس کو اگر آپ وائٹ بورڈ کے ذریعے اپنے طلبہ کو سمجھانے کی کوشش کریں یا کسی کو سمجھا تے ہوئے دیکھ لیں تو آپ کو خود بخود ان شاء اللہ اس کا طریقہ آجائے گا۔اس کا استعمال طریقہ تدریس میں اور تربیتی کام میں ضروری ہے۔ 
جب ہم پڑھتے تھے تو اس وقت ایک درجے میں دس پندرہ طلبہ ہوا کرتے تھے۔اب ایک درجے میں ڈیڑھ سو تک طلبہ ہوتے ہیں، یعنی مدارس بھی بڑھے ہیں اور مدارس میں طلبہ کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ ایک استاذ ایک گھنٹے میں ڈیڑھ سو طلبہ کی نفسیات کے ساتھ کس طرح نباہ کرے گا؟ جامعہ اشرفیہ میں جب میں پڑھتاتھا تو ایک درجے میں بارہ، تیرہ طلبہ تھے۔ اب وہاں میرا بیٹا پڑھتا ہے، اس کے درجے میں طلبہ کی تعداد ۱۴۵ ہے۔ استاذکا تعلق اپنے طلبہ کے ساتھ صرف پون گھنٹے کا ہے، اپنے فن کے اعتبار سے۔ اس کے بعد استاذ چور دروازے سے اپنے گھر چلا جاتا ہے اور طالب علم اپنے ہاسٹل اور دارالاقامہ میں چلا جاتا ہے۔ باقی چوبیس گھنٹے طلبہ کا اپنے اساتذہ کے ساتھ ربط ضبط نہیں ہوتا۔ اب ایک استاذ ڈیڑھ سو طلبہ کی نفسیات کا کیسے مطالعہ کرے گا اور وہ کیسے ان کی نفسیات سے واقف ہوگا؟ اس لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ ہم چالیس چالیس طلبہ کی کلاسیں بنالیں، ایک ہی درجے کے چار پانچ فریق بنا لیے جائیں۔ اس طرح استاذ کو اپنے ہر ایک طالب علم کی نفسیات کو سمجھنے میں آسانی ہوگی اور وہ ہر ایک پر ذاتی توجہ دے سکے گا۔ جب کلاس کم ہوگی تو آپ دھیان رکھ سکیں گے کہ کون متوجہ ہے اور کون متوجہ نہیں ہے، کون جاگ رہا ہے اور کون بین النوم والیقظۃ ہے۔ ہمارا آٹھ سال کا جو دورانیہ ہے، اس میں تعلیم تو روزانہ چھ گھنٹے ہوتی ہے۔ ان چھ گھنٹوں میں میرا خیال ہے کہ اکثر طلبہ دو گھنٹے جاگ کر اور چار گھنٹے سو کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اساتذہ کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ اس قطار کے پیچھے جو حضرات ہیں، وہ کیا کر رہے ہیں۔ رقعے بازی ہو رہی ہے یا کتاب کھولی ہوئی ہے اور اپنے گھر والوں کو خط لکھ رہا ہے۔ لیکن اگر طلبہ کی تعداد کم ہوگی تو استاذ ہر ایک طالب علم کے تمام معاملات کو دیکھ رہا ہوگا۔ 
آپ مدرس ہیں یا مدرس بننے جا رہے ہیں تو آج آپ یہ طے کریں کہ جب میں مدرس بنوں گا تو اپنے شاگرد کے علم وفن، اس کی اخلاقی تربیت اور اس کے مدرسے کے جو مسائل ہیں، ان میں وہ میری اولاد کی طرح ہے۔ جس طرح گھر میں آپ کو چار پانچ بچوں کی تمام ضروریات پوری کرنا ہوتی ہیں، اسی طرح مجھے اپنے طلبہ کی تمام ضروریات پوری کرنا ہیں۔ ایک باپ کی حیثیت سے اپنی کلاس کو دیکھیں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ ایک کامیاب معلم ہیں۔ 
تکرار کا ہمارے ہاں جو ماحول تھا، وہ اب آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔اس کا بہترین حل یہ ہے کہ جو کہا گیا ہے کہ اذا تکرر الکلام علی السمع تقرر فی القلب، ایک پون گھنٹے میں جتنا سبق ہمیں پڑھایا جاتا تھا، دس منٹ میں پڑھا کر فارغ کر دیا۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ باقی آدھا گھنٹہ فارغ رہتا ہے۔ اگر وہ آدھا گھنٹہ فارغ نہ رہے، ایک استاذ کو چالیس پینتالیس منٹ کا جو وقت دیا گیاہے، اگر وہی پون گھنٹہ استاذ اس سبق کو بار بار دہرائے اور طلبہ سے بھی اس کا اعادہ کروائے تو تکرار کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اور ہم جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس انگریزی سیکھنے کے لیے یا کمپیوٹر سیکھنے کے لیے یا کسی اور کام کے لیے وقت نہیں بچتا تو اس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ جتنا کام کسی فن کا ہم چوبیس گھنٹے میں کرتے ہیں، وہ چالیس منٹ میں ہوسکتاہے اگر ہم کلا س کی جتنی ضروریات ہیں، ان کو پورا کردیں۔ ایک مدرس ہونے کی حیثیت سے آپ اس کا تجربہ کریں شروع میں کتاب کے متعلق جو بنیاد بن جاتی ہے وہ آخر تک قائم رہتی ہے ۔منتظمین کی طرف سے آپ کو جو چالیس ،پینتالیس منٹ کا پیریڈ دیا گیا ہے، آپ اس کا استعمال اس طرح کریں کہ آپ سبق پڑھائیں تو پھر دوبارہ اس کا اعادہ کریں اور دوتین دفعہ دوتین طلبہ سے سنیں۔ کبھی کسی سے، کبھی کسی سے، تو ہر طالب علم اپنا سبق چوکنا ہو کر سنے گا۔اب تو ایسے اسکول آگئے ہیں جو کہتے ہیں کہ بستہ بھی گھر لے جانے کی ضرورت نہیں۔ بستہ یہاں رہے، بچہ صبح اسکول آئے اور شام کو گھر چلا جائے۔ گھر کا جتنا کام ہے، ہم اس کو یہاں کرائیں گے۔ باقی وقت وہ ٹی وی دیکھتا ہے، کھیلتا کودتا ہے۔ تو اگر ہم جدید طریقہ ہائے تدریس سے کچھ استفادہ کریں تو ہمارے بچوں کے پاس بہت سا وقت بچ سکتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم ان کو اپنے آپ پر مسلط کر لیں۔
طریقہ تدریس میں ہمارے ہاں تکرار اور مطالعے کا جو ماحول ہے، اس کے بارے میں ہمارے اساتذہ ہمیشہ سے یہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ بغیر مطالعہ کے سبق پڑھانا تو زنا کرنے کے برابر ہے۔ یہ جملہ ہمارے ہاں چلتا ہے کہ یہ ایسے ہی کتاب کے ساتھ ظلم اور طالب علم کے ساتھ ناانصافی ہے جیسے ایک آدمی نے ایک بہت بڑے کبیرہ گناہ زنا کا ارتکاب کرلیا ہے۔ طالب علم کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ مطالعہ کر کے آئے۔ پھر استاذ کا علم اور طالب علم کا علم، یعنی علم اور طلب علم جب آپس میں ملیں گے تو کام بنے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ بات ہے علم کو سینوں میں اتارنے کی۔ اور تدریس کے طریقے کے لیے تو وہی پرانا معاملہ ہے کہ دن کو آپ گھوڑے کی پیٹھ پر ہوں اور رات کو مصلے پر کھڑے ہوں۔ کہا گیا ہے کہ ’ان للتقویٰ مھابۃ‘ ، تقویٰ کا اپنا ایک رعب ہے۔ اور علم کے بارے میں مجھے میرے شیخ حضرت عبید اللہ انورؒ نے کئی دفعہ یہ بات سنائی، مولانا زاہد الراشدی بھی اس کے گواہ ہوں گے کہ حضرت مدنی فرمایا کرتے تھے کہ تسخیر کائنات کا سب سے بڑا وظیفہ تقویٰ ہے۔ آپ جتنے زیادہ متقی ہوں گے، کائنات اتنی آپ کے سامنے مسخر کر دی جائے گی۔ تو اللہ تعالیٰ آپ کو مجتہد فی التدریس بنادیں گے، شرط یہ ہے کہ آپ کا اپنا ذوق، اپنا اخلاص یہ ہو کہ میں جو کچھ بنا ہوں، میرا شاگرد مجھ سے بھی اونچی جگہ پر پہنچے۔ یہ تودنیا کا نظام ہے۔ ہر باپ یہ چاہتا ہے کہ میرا بیٹا مجھ سے آگے بڑھ جائے، تو جب آپ باپ کے درجے پر آئیں گے اور شاگرد کے بارے میں یہ سمجھیں گے کہ میں باپ ہوں اور یہ میرا بیٹا ہے تو آپ کی یہ خواہش ہو گی کہ آج میں جس جگہ پر بیٹھا ہوں، میرا شاگرد مجھ سے بھی آگے بڑھے اور دنیا میں اس کے علم کا فیضان ہو۔ یہ میرا ایک صدقہ جاریہ ہے۔ تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب ایسا جذبہ ہو گا، یہ اخلاص ہو گا تو اللہ تعالیٰ آپ کے لیے تدریس کے طریقوں میں خود مجتہدانہ صلاحیت پیدا کر دے گا۔ روزانہ نئے سے نئے طریقے سمجھ میں آتے رہیں گے۔ ان سے آپ اپنا علم آگے پہنچاتے رہیں گے۔ 
مولانا سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاریؒ برصغیر کے سب سے بڑے اردو کے خطیب تھے ۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ پیر مہر علی شاہ صاحب ؒ سے بیعت ہوئے اور پھر بعد میں حضرت رائے پوریؒ سے بیعت ہوئے۔ پیر مہر علی شاہ صاحب ؒ کے پاس بیعت کے لیے جانے سے پہلے وہ میاں شیر محمد شرقپوریؒ کے پاس گئے کہ مجھے بیعت کر لیں۔ (تو یہ ہمارا ایک اور بھی مسئلہ ہے کہ ہم نے اپنے مشائخ کو ان کے کھاتے میں ڈال دیا ہے جو کبھی مشائخ کے مزاج کے تھے ہی نہیں) تو کہتے ہیں کہ میاں صاحب نے کہا کہ ’’شاہ جی، تہاڈا حصہ میرے کول نہیں ہے۔ میر ے کول ہوندا تے میں تہانوں گھڑ دیندا‘‘۔ گھڑ دینے کا مفہوم آپ کے ذہن میں ہے، ایک غیر متوازن چیز کو متوازن بنا دینا۔ یہ ہوتا ہے اصل میں استاد کا کام۔ امیر شریعت کا حصہ یہاں نہیں تھا تو پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کے پاس چلے گئے۔ وہاں بیعت ہوئے تو پیر مہر علی شاہ صاحب ؒ کے بعد ان کے خاندان میں وہی صاحبزادگی تھی۔ وہاں مزاج نہ بن سکا تو حضرت رائے پوریؒ کے پاس آئے تو حضرت رائے پوریؒ نے بہر حال گھڑا۔ آپ اگر امیر شریعت کی صرف خطابت نہیں، ان کی وہ زندگی جو تربیت کی زندگی ہے کہ انہوں نے کس طرح اللہ اللہ کرنا سیکھا ہے، وہ کبھی معلوم کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ کس طرح وہ گھڑا کرتے ہیں۔
آپ کے پاس والدین ایک سرکش بچہ، ان گھڑا بچہ، غیرمتوازن بچہ، اپنی بہت بڑی متاع آپ کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اس کو گھڑنا،سنوارنا اور زمانے کا معلم بنانا یہ آپ کی ذمہ داری ہے، اور یہ تبھی ہوگا جب ہم اس بچے کے اوقات کو اور اس بچے کی زندگی کو اپنے پاس امانت سمجھیں گے اور کل قیامت کے دن ’لاایمان لمن لا امانۃ لہ ولا دین لمن لا عہد لہ ‘  کو سامنے رکھتے ہوئے جواب دہی کے احساس کے ساتھ اپنی ذمہ داری کو انجام دیں گے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے اور آپ کو اپنے پیغمبر کے طریقہ تدریس کی روشنی میں اپنے زمانے کا معلم بننے کی توفیق عنایت فرمائے اور جو لوگ ہمارے پاس علم سیکھنے کے لیے اور فیضان کی روشنی لینے کے لیے آتے ہیں، ہم ان کو زمانے کا معلم بنا سکیں۔ وہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ جیسے وہ ’’سراج منیر‘‘ تھا اور اس نے صحابہ کو ’’نجوم‘‘ بنا دیا، ہم بھی اپنے طلبہ کو آئندہ کی نسلوں کے لیے اسی طرح تیار کریں تو ہم اللہ تعالیٰ کے ہاں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ 

تعلیم و تعلم میں اخلاص نیت کی اہمیت

مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

(۱۴ نومبر ۲۰۰۶ کو الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ایک تربیتی ورکشاپ سے خطاب۔)

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد!
محترم حاضرین ،برادران اسلام واساتذہ کرام !
آج کی یہ تربیتی محفل آپ صبح سے سماعت فرما رہے ہیں اور یہ اس کی دوسری نشست ہے۔ اس میں بہت سے اہل علم وفضل کی تقاریر آپ نے سنیں، تجاویز اور آرا آپ کے سامنے آئیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں پر جن مقررین نے خطاب کیا ہے، انہوں نے دینی تعلیم کے علاوہ عصری تعلیم کے بارے میں بھی بات کی ہے۔ یہ مجلس چونکہ دینی مدارس کے اساتذہ کرام کی ورک شاپ کے سلسلے میں ہے، یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ ہم عصری تعلیم کی اہمیت کو بھی اپنی جگہ ملحوظ رکھتے ہیں اور اگر دونوں پہلوؤں پر بات کرنی ہے تو پھر میری ناقص رائے کے مطابق اس میں ایسے مقررین کو بلانا چاہیے جو دینی مدارس کی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم سے بھی بہرہ ور ہوں۔ کیونکہ ہمارے ہاں جن مقررین نے تقریر کی ہے، ان میں سے بعض نے کہاکہ میرا دینی مدارس کے ساتھ تعلق نہیں اور بعض نے کہا کہ میرا تعلق صرف دنیاوی تعلیم سے ہے، جبکہ اگر دونوں پہلوؤں پر یکساں تبصرہ کرنا ہے تو ایسی شخصیات کو دعوت دینی چاہیے جن کی دونوں پہلوؤں پر نظر ہو تاکہ ان کے سامنے صرف کالج اور یونیورسٹی کا ماحول نہ ہو یا ان کے سامنے صرف دینی مدرسہ اور مکتب کا ماحول نہ ہو۔ دونوں ہوں تو پھر وہ ایک جامع تبصرہ کر سکتے ہیں۔ اگر صرف ایک پہلو ہوگا تو وہ اپنے متعلق خوبیاں یا خامیاں بیان کرسکتے ہیں، لیکن دوسرے پہلو پر وہ کچھ عرض نہیں کر سکتے۔ اس حوالے سے یہ میری ایک سفارش ہے ۔
باقی جن حضرات نے یہاں پر تقاریر کی ہیں اور اپنی تجاویز دی ہیں، ان کو کئی پہلو ؤں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ میں اس کے صرف ایک پہلو پر اختصار کے ساتھ کچھ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ تمام پہلو جن میں ہم علم کو، تربیت کو، اخلاق کو اور ارتقا کو تقسیم کرتے ہیں، یہ تمام پہلو اسی وقت ٹھیک ہو سکتے ہیں جب کسی انسان کی نیت ٹھیک ہو گی۔ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’انما الاعمال بالنیات‘۔ اگر ایک آدمی باعمل ہے تو جب اس کی نیت ٹھیک ہوگی، اس کے ساتھ اخلاص ہوگا، باقی چیزیں ہوں گی تو پھر وہ آدمی کامیاب ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ او راگر ایک آدمی کی نیت ٹھیک نہیں ہے تو چاہے وہ اپنے فن کا کتنا ہی ماہر ہو، اس کا فیض عام نہیں ہو سکتا۔ اس کے پاس وسیع معلومات تو ہیں، لیکن نیت ٹھیک نہیں ہے، اخلاص نہیں ہے تو نہ اس کو خود کچھ فائدہ ہو گا اور نہ اس سے پڑھنے والوں کو، تربیت حاصل کرنے والوں کو فائدہ ہوگا۔ جیساکہ مولانا عبدالحق خان بشیر صاحب نے بیان کیا، روحانیت کا سلسلہ دینی مدارس کے اندر کم ہوتا جا رہا ہے یا ختم ہوتا جا رہا ہے۔یہ بڑی اہم بات ہے۔اس سلسلے میں، میں اپنے استاذ الاستاذ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی اپنی بیان کی ہوئی بات عرض کرناچاہوں گا جو انہوں نے اپنی ترمذی کی تقریر میں بیان کی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ میں پڑھ رہا تھا۔ وہاں مجھے ہدایہ اخیرین کی ایک بحث میں مشکل پیش آگئی ۔میں نے اس کو سمجھنے کی پوری کوشش کی، شروحات دیکھیں، حواشی دیکھے، علما کی طرف رجوع کیا، لیکن مسئلہ حل نہ ہوا۔ فرماتے ہیں کہ میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر پر حاضر ہوا، درود وسلام پیش کیا، مراقبہ کیا اور جب میں مراقبے سے اٹھا تو میرا وہ ہدایہ اخیرین کا مسئلہ حل ہو چکا تھا۔ تو روحانیت کا یہ اثر ہے، کیونکہ جو ہم تعلیم پڑھ رہے ہیں یا پڑھا رہے ہیں، چاہے اس کا تعلق وحی جلی سے ہو یا وحی خفی سے، بہرحال اس کا تعلق روحانیت کے ساتھ ہے اور اس کا دارومدار نیت پر ہے۔ گویا تمام گفتگو اور بحث کا خلاصہ نیت ہے۔ اگر انسان کی نیت ٹھیک ہے تو وہ سارے کام ٹھیک طریقے سے کرے گا۔ تعلیم ٹھیک طریقے سے حاصل کرے گا، پڑھائے گا صحیح طریقے سے اور اسی طرح اخلاق وعبادات بھی صحیح طریقے سے سرانجام دے گا۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی کوتاہیاں دورکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

احیائے ثقافت اسلامی کی تحریک

حافظ صفوان محمد چوہان

دعوت و تبلیغ کا کام اپنے معروف معنوں میں حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے سے شروع ہوتا ہے۔ جتنی انسانی آبادی اُن کی حیات تک موجود رہی وہ اُس سب کے باپ اور مربی تو تھے ہی، اُن کے نبی اور رسول بھی تھے۔ اپنی اولاد کو خالقِ کائنات کا تعارف کرانا، اُس کی مرضیات پر چلنے یعنی اطاعت و عبادت پر آمادہ کرنا، زخارفِ دنیا میں الجھ کر راہ گم کردینے کے بجائے آخرت کو مطمحِ نظر بنائے رکھنے پر لانا، وغیرہ، سب امور اُن کے فرائضِ منصبی تھے۔ اِن فرائض کو ایک باپ اور ایک نبی کی حیثیت سے ادا کرتے کرتے وہ اپنے اللہ کے حضور حاضر ہوگئے۔ 
اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے جن مردوں کو نبوت اور رسالت جیسے عالی منصب کے لیے انتخاب کیا اُن کی زندگیوں میں یہ دونوں خصوصیات کچھ ایسی واضح اور تواَم نظر آتی ہیں کہ گویا اُن کی فطرتِ ثانی ہوں، یعنی باپ والی شفقت کے ساتھ امت کے مرد و زن کو اِطاعتِ خالق پر آمادہ کرنا۔ جتنے بھی نبی دنیا میں تشریف لائے وہ اللہ کی حدود کو پھلانگنے والے مجرموں اور اللہ کی اطاعت کے نشے میں مدہوش بندوں، دونوں طرح کے آدمیوں کے لیے یکساں محبت اور شفقت کا پرتو ہوتے تھے۔ 
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے آخری نبی بناکر دنیا میں بھیجا اور اُن کی بعثت کے بعد نبوت اور رسالت کا دروازہ قیامت تک کے لیے بند کردیا۔ دنیا میں آنے والے پہلے نبی سے لے کر آخری نبی تک سب انبیاء ایک ہی مقصد لے کر آئے، یعنی مخلوق کو خالق سے جوڑنا۔ اِس مقصد کے پورا کرنے کے لیے نبی مخلوق میں سے کسی سے بھی سے کسی نفع کا طالب یا متمنی نہیں ہوتا بلکہ اپنی جان پر جھیل کر یہ کام کرتا ہے۔ ہر نبی نے دعوت و تبلیغ کا کام کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ وہ اپنا اجر سوائے اللہ کے اور کسی نہیں چاہتا۔ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا علیٰ رَبِ العٰلَمین سب نبیوں کی اجتماعی آواز ہے جسے قرآنِ پاک نے محفوظ کیا ہے۔ یہ تبلیغِ دین کے کام کی اصالت کا معیار ہے۔ جس طرح کوئی باپ اپنی اولاد کے لیے نفع رسانی کی کوئی بھی کوشش کسی مالی یا دنیاوی منفعت کی حرص یا امید میں نہیں کرتا بلکہ خالصتًا باپ ہونے کی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اور شفقتِ پدری کی وجہ سے کرتا ہے اُسی طرح نبی بھی ہر ہر امتی کو جنت کے دروازے پر لاکھڑا کرنے کے کام کی مشقت اپنی ذمہ داری اور امت کے لیے بے کراں، بے تعصب اور بے میل شفقت کی وجہ سے اُٹھاتا ہے۔ بندوں کا بندوں میں نبی سے زیادہ بے غرض پرسانِ حال کوئی نہیں ہوتا۔ کوئی ہو بھی نہیں سکتا۔ 
یہ حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اِسی شفقت اور محبت کا نتیجہ تھا اور اپنوں پرائیوں ہر ایک کو دنیاوآخرت کی بھلائیوں اور کامرانیوں کا حقدار بنانے پر مصر اور تُلا ہونا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سبھی ساتھی (رضوان اللہ علیہم اجمعین) آپ پر دل و جان سے فدا تھے اور ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں‘‘ کے خیرمقدمی الفاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اور تخاطب کرتے تھے۔ اِس شفقت اور محبت کا امت میں ظہور یوں ہوا کہ صحابہؓ اپنی جان کو اپنے مسلمان بھائی کے مقابلے میں ہلکا جانتے تھے۔ دنیا کا فائدہ درپیش ہوتا تو خود کو پیچھے کرلیتے اور دین کے لیے مشقت کا کام سامنے آتا تو خود کو آگے کرتے۔ کہیں نام آوری یا ناموری کا موقع بنتا تو منھ پر کپڑا ڈال لیتے اور کہیں جان دینے کا موقع بنتا تو آگے آگے ہوتے۔ زندگی کی آخری سانس تک اور قبر کے گڑھے میں اُترتے تک اپنے بھائیوں پر ایثار کرتے۔ اُن میں کا دکاندار اپنے گاہک کو خود دوسرے دکاندار کی دکان پر بھیج دیتا تھا کہ اُس کی بھی بِکری ہوجائے۔ یوں ایک ایسا ماحول وجود میں آگیا تھا جس میں ہر ایک کا جان و مال محفوظ تھا۔ ہر ایک کا کاروبار ترقی بھی پارہا تھا۔ حتٰی کہ زکوٰۃ کا مستحق کوئی نہ ملتا تھا۔ اور یہ دنیاوی آسائش و ترقی صرف آنکھ بند ہونے تک کے زمانے کے لیے نہیں تھی بلکہ اُخروی درجات کی ترقی کا ضمیمہ بھی تھی۔ یہ سب اِس لیے ہوا کہ ایمان سازی سے مملو افراد سازی کی ایک مسلسل محنت کی وجہ سے اِن لوگوں میں ایمان جیسی بے مثال قوت، اعمال جیسا کارگر ہتھیار اور حیا جیسا یکدانہ جوہر وجود میں آچکا تھا۔ 
محبت اور شفقت کے یہ مظاہر مسلمانوں میں صرف اپنے دینی بھائیوں کے لیے مخصوص نہیں رہے تھے بلکہ تمام مخلوق اِن سے منتفع ہورہی تھی اور غیرمسلموں سے معاملت حتٰی کہ جانوروں سے سلوک تک میں یہ اثرات نفوذ کیے ہوئے تھے۔ حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سالہا سالی مشقت مدینۂ منورہ اور تمام فرماں روے اسلام کے اندر اِس ماحول اور اِس ثقافت کو وجود میں لانے کا سبب بنی تھی جس میں تحفیظِ مراتب یعنی بڑے چھوٹے کا لحاظ ملاحظہ، حقوقِ انسانی کی پاسداری اور تمام مخلوق سے اللہ کے حکم کے مطابق اور موافق سلوک کرنا ہی فخرومباہات کا باعث تھا نہ کہ دنیا کی چیزوں اور عہدوں کا کسی کی ذات میں جمع ہوجانا یا کرلیا جانا۔ 
لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب برکات ضمنًا حاصل ہوئی تھیں۔ روٹی، کپڑا، مکان، ملازمتوں، ترقیاتی منصوبوں اور بڑے منصوبوں (Mega Projects) کا اعلان کسی نبی نے نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کبھی اِس بات کا اعلان نہیں کیا کہ مجھے لوگوں کی معاشی صورتِ حال بہتر کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا ہے یا میری بعثت کا مقصد امن و امان کی صورتِ حال کی بہترائی ہے۔ یہ سب خوبیاں جن کے حاصل کرنے کے لیے آج پوری دنیا میں دوڑ لگی ہوئی ہے اور جن کے حصول کے لیے سب سے زیادہ خرچ کیا جارہا ہے، اللہ کا انعام ہیں۔ انعام صرف اُسے ملتا ہے جس سے انعام دینے والا راضی ہو۔ قرنِ اوّل کے مسلمانوں کو یہ انعامات اِس لیے ملے کہ وہ دین اور اشاعتِ دین کو اپنی زندگیوں میں پہلے نمبر پر رکھے ہوئے تھے اور بقیہ سب ضروریات کو ثانوی درجہ دیتے تھے۔ آج مسلمان نے اپنی زندگی کی ترجیحات بدل دی ہیں اور ثانوی درجہ والی چیزیں پہلے درجے پر لے آیا ہے۔ یوں اللہ ناراض ہوگیا ہے، اور وہ سب انعامات ملنا بند ہوگئے ہیں جو پہلے ملا کرتے تھے۔ دنیا میں امن و آشتی، راحت، شجاعت، غیرت، ایمان، حیا اور اِس قبیل کی ساری برکات کا اُترنا بند ہوگیا ہے۔ غیرمسلموں کو تو امن وآشتی جیسی چیزیں ملی ہی مسلمانوں کی وجہ سے تھیں۔ جب خود اُن پر ہی یہ انعامات بند ہوگئے ہیں تو اُن کے طفیلیوں کو یہ کیسے ملیں؟ 
بحیثیتِ امت مسلمان آج اپنا مقصد بھول چکے ہیں۔ افسوس پر افسوس اِس بات کا ہے کہ امت یہ بھولنا بھی بھول چکی ہے۔ یوں منزل کھوبیٹھنے کے احساس سے تہی ایک انبوہِ مردوزن ہے جو بے مقصد سرگرداں ہے۔ ہر چمکتی چیز اور ہر نئی آواز کی طرف دیوانہ وار لپک جانا اِن پر ختم ہے۔ ایک طرف سے دھتکار پڑتی ہے تو یہ دوسری طرف رخ کرلیتے ہیں۔ وہاں سے بھی جوتا پڑتا ہے تو کسی تیسری اور پھر چوتھی طرف منھ کرلیتے ہیں۔ اور پھر بے مزا نہ ہونے کے مصداق پہلی ہی طرف کو مڑ آتے ہیں کہ شاید ہماری کوئی ضرورت اب پھر پیدا ہوگئی ہو۔ جس امت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبلے کی طرف منھ کرکے نماز پڑھتا چھوڑکر گئے تھے، آج دنیا میں ہر سَمت اپنا قبلہ رکھتی ہے: کہیں منھ کرکے نیت باندھ کر مال مانگتی ہے، کہیں اسبابِ حفاظت اور صحت کے حصول کے لیے سجدہ ریز ہے، کہیں نظامِ تعلیم کی عطا کے لیے منزل انداز ہے، اور کہیں محض تعلقات اُستوار رکھنے کے لیے ناک سے لکیریں کھینچ رہی ہے۔ لامقصدیت امت کا سب بڑا سانحہ ہے۔ امت کی ایسی مت ماری گئی ہے کہ یہ اپنے صیاد کو اپنا ہمدرد سمجھے ہوئے ہے۔ وہ اِسے مرغیوں کی طرح پالتا ہے، اور یہ یہ سمجھتی ہے کہ اُسے چوگا اپنے ذاتی فائدے کے لیے دیا جارہا ہے۔ ملکوں ملکوں کشکول بجاتے پھرنے اور دنیا زادگی کی نحوست نے مسلمان سے اُس کا جوہر اور پہچان چھین لی ہے۔ ؂
مایا کے جادو نے گیان کے لکھشن بندھن توڑے
جوگی جی سے مالا چھوٹی، سادھو سے لنگوٹ
جوں جوں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے سے بُعد ہوتا گیا، اعمالِ دعوتِ دین کو مقصد کے درجے میں رکھ کر کرنے میں تدریجًا کمی ہوتی گئی ۔ دین کا فکر رکھنے والے اسلاف اِس انحطاط کو دور کرنے کی سعی فرماتے رہے۔ ماضیِ قریب یعنی تیرھویں اور چودھویں صدی ہجری میں بھی کئی لوگوں اور جماعتوں نے امت کو مقصد پر لانے کی کوششیں کی ہیں۔ مدارِس، مساجد، اشاعتِ کتب اور دورِحاضر کے تمام آلاتِ نشرواشاعت کو استعمال کرتے ہوئے دین کے پھیلانے کی فکر کرنا، راہ بھٹکی ہوئی امت کا غم کھانا اور اصلاحِ احوال کی فکر کرنا اللہ نے کئیوں کو نصیب کیا۔ کچھ راستہ چلنے کے بعد یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ اِبطال اور انکار یا مناظرہ کی بجائے، یا اپنے ظن و تخمین یا اپنی خواہشات کو کسی من پسند یا مطلوب سانچے میں ڈھال کر اُس کا نام اشاعتِ دین رکھ دینے کی بجائے، دین کو خالص شکل میں پیش کرنا اور اُس پر لوگوں کو چلنے پر آمادہ کرنا ہی اصل ہے کیونکہ دین صرف دین ہی کی محنت سے آئے گا؛ اور یہ کہ کسی بات کا صرف پہنچادینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ لوگوں کو اُس پر لے آنا زیادہ نفع مند ہوتا ہے۔ اِن غمخوار مصلحینِ کرام پر یہ بھی کھلا کہ لوگوں کو ایک طرزِزندگی سے دوسرے طرزِزندگی پر لے آنے میں اُن کے ماحول کا بدلنا، خواہ عارضی طور پر سہی، بنیادی شرط ہوتا ہے۔ آج جب کہ مصروفیت سب سے بڑا عذاب ہے اور وقت کسی کے پاس نہیں، اللہ نے امت پر رحم کیا اور حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃاللہ علیہ پر دین کے زندہ کرنے کی محنت اور امت کو مقصد پر لانے کا کام ایسے انداز میں کرنے کا ڈھنگ کھولا جو اپنی بُنت، ڈھب اور شباہت میں اصلِ اوّل سے قریب ترین بھی ہو اور امت کا بلاتخصیص ہر طبقہ انتہائی قلیل وقت میں دین کی مبادیات کا ضروری علم ، تجربے کے ساتھ حاصل کرسکے۔ ماحول میں چونکہ دینداری بہت کم ہے اِس لیے ایک آدمی محنت و ریاضت سے خواہ دین کے کیسے ہی بلند مقامات کو پاچکا ہو، کے لیے کچھ وقت کے بعد اپنے سب مشاغل کو ملتوی کرکے خالص دین کے ماحول میں کچھ وقت گزارنا ضروری ہوجاتا ہے۔ سلامتیِ قلب اور تطہیرِ فکرونظر کا یہ مقصد جس کی ضرورت سے کوئی مسلمان بے نیاز نہیں رہ سکتا، پہلے خانقاہوں سے بتمام و کمال حاصل ہوجاتا تھا لیکن آج کی مصروف زندگی کی وجہ سے کاروبارِ حیات کو تج کر دنیا سے یکسو ہوجانا اور ایک بڑی مدت تک کسی اللہ والے کی جوتیاں سیدھی کرکے دین والی زندگی کو سیکھنا امت کے بڑے طبقے کے لیے اب ممکن نہیں رہا۔ جب دین کی طلب اور اعمال کا ذوق و شوق ہی باقی نہ رہا ہو، اللہ کی جناب میں حضوری کا احساس ہی مرگیا یا کم سے کم مضمحل ہوگیا ہو، اور سنن و مستحبات تو الگ رہے فرائض بھی بوجھ محسوس ہونے لگے ہوں تو خانقاہوں میں کون جائے؟ یہی وجہ ہوئی کہ ازاں جملہ تبلیغی جماعت کے عرف سے موسوم اِس چلتی پھرتی خانقاہ کو جس میں دین کے مبادیات ہی کا نہیں بلکہ جس میں ہر امتی اپنے دنیاوی شغل کو دینی ترتیب پر چلانے کا ڈھنگ بھی بہت ہی کم وقت اور انتہائی کم خرچ میں ہاتھ کے ہاتھ سیکھ لیتا ہے، اللہ پاک نے قبولِ عام عطا فرمایا۔ 
امت کے لیے درد اور کڑھن کی جو کیفیت اللہ پاک نے مولانا محمد الیاس رحمۃاللہ علیہ کو ودیعت کی تھی، اُس میں وہ اپنے سب معاصرین میں ممتاز تھے۔ امت کے مذہبی جذبات ومیلانات، صلاحیتوں اور مالی وسائل کو جس طرح بے جگہ اور عارضی (اور بیشتر دنیاوی) مقاصد کے حصول کے لیے جھونکا اور جھونکوایا جارہا تھا، اللہ نے حضرت مولاناؒ پر اِسے پوری بصیرت کے ساتھ روشن کردیا تھا۔ کہیں ابنائے زمانہ کی چیرہ دستیوں اور کہیں دین فروش یا سادہ خیال اصحابِ کلاہ و دستار کے ہاتھوں لُٹنے پُٹنے والے مسلمانوں کی حالتِ زار اور اِس کے نتیجے میں دنیا و آخرت کی بربادی کے اِس ادراک نے اُن کو وہ بے آرامی نصیب فرمادی تھی جو دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذی ہوش اور راہ دان مقتداؤں کا جوہرِ اصلی رہی ہے151 دین کے مٹنے کے غم کی شدت سے ہونے والی وہ بے آرامی جو نیندیں اُڑادیا کرتی ہے۔ 
مولانا محمد الیاس رحمۃاللہ علیہ کا کام کثیرالمقاصد ہے۔ دراصل اُس اسلامی ثقافت کا اِحیا اُن کا مقصدِ وحید ہے جس نے قرونِ اوّل کے اُن لوگوں کو جو ایک وقت میں انسانیت کے نام پر دھبہ تھے، ستاروں کو نشانِ راہ دکھانے والا بنادیا۔ یوں امت سازی یعنی امت کو صحیح الفاظ اور مفہوم میں امت بنانے کا کام دعوت و تبلیغ کا مقصد ہے۔ اِس میں کلام نہیں کہ مساجد و مدارس وغیرہ شعائراللہ ہیں۔ لیکن ذرا سا غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ مسلمان ہی بذاتِ خود اللہ کا سب بڑا شعیرہ ہے۔ اِسی لیے تو رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کعبہ کی حرمت سے ایک عام مسلمان کی جان قیمتی ہے۔ دین کی طلب سے خالی، اللہ سے غافل اور روٹھے ہوئے مسلمان کو اللہ کے سامنے جھکادینا اور اللہ سے دوستی کرلینے پر آمادہ کرنا، مسلمان کا سب سے بڑا اِکرام ہے۔ اِسی طرح ایک کافر جو اپنی کم قسمتی سے یا اسلام کی حقیقی، عملی تصویر سامنے نہ ہونے کے باعث ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بننے کی راہ پر سرپٹ دوڑ رہا ہے، کے جی میں تلاشِ حق کے شعلے کو روشن کرنا اور پھر اِس شعلے کو ہوا دینا، منت و زاری سے اور سمجھابجھاکر اسلام کی نعمت سے بہرہ مند کردینا151 اولادِ آدمؑ میں کے ہر غیرمسلم انسان کا بنیادی انسانی حق (human right) ہے۔ قیامت کے دن حقوق کی اَدائی کے بارے میں سوال ہوگا۔ دعوت و تبلیغ کی محنت سے امت کے اندر یہ احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہر مسلمان بحیثیتِ فردِ امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا سفارت کار ہے اور دنیا بھر کے انسانوں کے حقوق کی اَدائی کے سلسلے میں فعّال کردار ادا کرنے پر مامور اور اِس ضمن میں اپنی ذاتی اعانت اور دین کے اجتماعی کاموں میں اپنا حصہ ڈالنے کی بابت اللہ کو جوابدہ ہے۔ 
حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے کام میں کسی گروہ، مسلک یا فرقے کے لیے نہیں بلکہ ہر مسلمان کے لیے ، نِری اُس کی مسلمانی کی وجہ سے، راستہ کھلا رکھا۔ یوں مختلف خانوں میں بٹے ہوئے اور ذات برادری، علاقوں، زبان اور پیشوں کے کھونٹوں سے بندھے اور کولھوؤں میں پِلتے مسلمانوں کو صرف اور محض مسلمان ہونے کی وجہ سے ایک جگہ پر اِکٹھا ہونا نصیب ہوا۔ اِس اِکٹھا ہونے سے مسلمانیت سرسبز ہوئی اور جگہ جگہ دین پر بہار آنا نظر آنے لگا ہے۔ اسلام کی ثقافت جس کے رنگ پھیکے پڑگئے تھے اور جو بساحالات دوسری ثقافتوں میں رل مل کر اپنی ایکیت اور وضاحت کھوبیٹھی تھی، ایک بار پھر پنپنے لگی ہے۔ دنیا بھر میں گھروں کے اندر اسلامی معاشرت اور محلوں میں اسلامی کلچر زندہ ہوا ہے۔ دعوت و تبلیغ میں لگنے والے لوگوں کے چارٹر میں پوری دنیا میں دین کو زندہ کرنا (صرف پھیلانا نہیں) پہلے نمبر پر ہے۔ پہلے دور میں یہ کام ہر مسلمان کیا کرتا تھا۔ آج اِس آواز کے لگانے والے یہ واحد لوگ ہیں جو اللہ کی توفیق سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو جگا رہے، اُنھیں اُن کا کام و مقصد یاد دلارہے اور مقصد پر واپس کھینچ لانے کے لیے اللہ کی زمین میں بے تابانہ پھر رہے ہیں۔ 
اللہ کا شکر ہے کہ تبلیغ کی اِس محنت کی برکت سے دینی جماعتوں میں ایک دوسرے کی ضرورت اور خوبیوں کے اعتراف، ساتھ مل کر چلنے اور برداشت کا کلچر پیدا ہوا۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کا ایک مسلک پر جمع ہونا ممکن نہیں، البتہ دین سب کا مشترک ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام جو ایک وقت میں ازالۂ منکَر کا نقیب ہوتا تھا اور جو ہماری کم قسمتی کی وجہ سے کہیں اشاعتِ مسلک کا نمائندہ اور کہیں محض اظہارِ منکَر بن کر رہ گیا تھا، بحمداللہ اپنے قدیم، روایتی معنوں میں زندہ ہوا اور دینی جماعتیں151 اشاعتِ مسلک اور وقتی ضرورتوں اور ضرورتِ حادثہ کی پیداکردہ خودبافتہ ترتیبوں پر چلنے کے ساتھ ساتھ151 دین کی اجتماعی فکر پر جمع ہونے لگیں۔ اجتماعیت اور نقل و حرکت وہ بنیاد تھی جس پر اِس امت کا ’’امت پنا‘‘ اُستوار تھا۔ آج یہ بنیاد کمزور پڑگئی ہے۔ جماعتوں کا یہ پھرنا پھرانا بحمداللہ اِسی بنیاد کو بھررہا اور مضبوط کررہا ہے۔ ؂
مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے
مومن کا مقام ہر کہیں ہے
رائے ونڈ کا اجتماع بھی اِسی سلسلے ہوتا ہے کہ امت اپنے کام کو پہچانے، اپنی حیثیت پہچانے اور اپنے کام پر واپس آجائے۔ سروں کا گننا، سیاست گردی، دنیا طلبی، کرسیوں اور کرسی داروں کی ہواخواہی، وغیرہ، کا یہاں گزر نہیں۔ اجتماعِ حجِ بیت اللہ کے بعد یہ واحد فورم ہے جہاں ہر مشرب، طبقے، زبان اور ملک کے مسلمان جمع ہوتے ہیں اور اپنی آتشِ مسلمانی کو ہوا دیتے ہیں۔ اللہ پاک مجھے، آپ کو اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو اِس عالی کام میں لگنے کی توفیق دے۔ یہ کام سراسر عمل ہے، باتیں نہیں۔ دعا ہے کہ اللہ اِس نقل و حرکت اور اجتماعیت کی حفاظت فرمائے، قربانی اور صفات میں مزید آگے بڑھنے والا بنائے اور تمام عالم میں دین کی سرسبزی اور شادابی کو سر کی آنکھوں سے دیکھنا نصیب فرمائے۔ آمین۔ 

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ (۳)

حافظ محمد زبیر

امام شاطبیؒ کا موقف

امام شاطبیؒ کا موقف بھی وہی ہے جو کہ امام شافعی ؒ کاہے کہ سنت نہ توقرآن کو منسوخ کرتی ہے اور نہ ہی اس کے کسی حکم پر اضافہ کرتی ہے بلکہ یہ اس کا بیان(یعنی قرآن کے اجمال کیتفصیل‘ مشکل کا بیان‘مطلق کی مقید اور عام کی مخصص) ہے۔امام شاطبیؒ لکھتے ہیں :
’’سنت یا تو کتاب کا بیان ہوتی ہے یا اس پر اضافہ ہوتی ہے اگر تو وہ کتاب کا بیان ہو تو اس کے مقابلے میں کہ جس کا وہ بیان ہے ثانوی حیثیت رکھتی ہے...اور اگر وہ بیان نہ ہوتو پھر اس کا اعتبار اس وقت ہو گا جبکہ وہ کتاب اللہ میں موجود نہ ہو۔ ‘‘ (الموافقات‘جلد۲‘ الجز الرابع‘ ص۳‘دار الفکر)
غامدی صاحب نے امام شاطبی ؒ کی اس عبارت کواپنے موقف کی تائید میں تو نقل کر دیا کہ دیکھیں امام شاطبیؒ بھی یہ کہتے ہیں کہ سنت ‘قرآن پر اضافہ نہیں کر سکتی ‘لیکن ان سینکڑوں روایات کا غامدی صاحب نے بالکل بھی تذکرہ نہ کیا کہ جو بظاہر قرآن پر اضافہ معلوم ہوتی تھیں لیکن امام شاطبیؒ نے انہیں قرآن کا بیان ثابت کیا۔امام شاطبیؒ کا موقف یہ نہیں ہے کہ جو روایات تمہیں کتاب اللہ پر اضافہ معلوم ہوں‘ ان کو رد کر دوجیسا کہ غامدی صاحب نے ان کے قول سے یہ مطلب نکالنے کی کوشش کی ہے بلکہ امام شاطبی ؒ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جو روایات بھی کتاب اللہ پر اضافہ معلوم ہو ں وہ کتاب ا للہ کا بیان ہی ہوں گی ہم اگر غور و فکر کریں تو اس بات کو آسانی سے معلوم کر سکتے ہیں پھر اسی موقف کو ثابت کرنے کے لیے امام شاطبیؒ نے اپنی کتاب ’المواقفات‘ میں ان سینکڑوں روایات کو قرآن کی آیات کا بیان ثابت کیا ہے کہ جو بظاہر قرآنی احکام پر اضافہ معلوم ہوتی تھیں۔امام شاطبی ؒ اپنے اسی موقف کی وضاحت کرتے ہوئے ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’سنت کے احکامات کا اصل قرآن میں موجود ہوتا ہے۔پس سنت ‘قرآن کے مجمل کی تفصیل‘مشکل کا بیان‘اور اختصار کی شرح ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ سنت‘ قرآن کا بیان ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :ہم نے آپؐ کی طرف ذکر کو نازل کیا ہے تا کہ آپؐ لوگوں کے لیے ان کی طرف نازل کیے گئے کو واضح کریں ۔پس تم سنت میں کوئی بھی ایسا حکم نہ پاؤ گے کہ جس پر قرآن نے اجمالاً یا تفصیلاً رہنمائی نہ کی ہو۔ ‘‘ (الموافقات ‘ ۲/۶)
جیسا کہ امام شاطبی ؒ نے لکھا ہے کہ سنت‘قرآن کا ہر حال میں بیان ہی ہوتی ہے اسی طرح انہوں نے الحمد للہ اس اصول کواپنی کتاب ’الموافقات‘ میں ثابت بھی کیا ہے۔امام شاطبی ؒ کا کہنا یہ ہے کہ 
۱) بعض اوقات ہمیں سنت کے بعض احکامات ‘قرآن پر اضافہ معلوم ہوتے ہیں لیکن وہ اضافہ نہیں ہوتے بلکہ قرآن کا بیان ہوتے ہیں کیونکہ شرح بھی مشروح سے زائد ہی ہوتی ہے۔امام شاطبیؒ لکھتے ہیں :
’’جیسا کہ سائل کے سوال میں ہے تو لازمی بات ہے کہ(سنت کے یہ احکامات) اضافہ ہے اور اس کو اضافہ مانا جائے گا ۔لیکن اس اضافے کے بارے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ کیا یہ اضافہ ایسا اضافہ ہے جو کہ شرح کا مشروح پر ہوتا ہے جیسا کہ ہر شرح اس بیان پر مشتمل ہوتی ہے جو کہ مشروح میں نہیں ہوتا ‘اگر ایسا نہ ہو تو پھر اس کو کوئی شرح نہیں کہے گایا یہ اضافہ کسی دوسرے ایسے معنی کو شامل ہے جو کہ کتاب میں موجود نہیں ہے اور یہ مسئلہ علماء کے درمیا ن اصل محل نزاع ہے(یعنی بعض علماء سنت کے اضافے کو قرآن کے مجمل کا بیان بناتے ہیں جیسا کہ اما م شافعیؒ کا موقف ہے اور بعض علماء سنت کے اضافے کو قرآنی حکم میں اضافہ کی بجائے معنی جدید کا اضافہ قرار دیتے ہوئے قبول کرتے ہیں جیسا کہ ابن تیمیہؒ اور ابن قیم ؒ نے بیان کیاہے) ...اسی طرح اگر قرآن میں ایک حکم اجمالی طور پر ہے اور سنت میں اس کی تفصیل ہے تو جو سنت میں حکم ہے وہ ‘ وہ حکم نہیں ہے جو کہ قرآن میں ہے ۔جیسا کہ قرآن کا حکم ہے ’أقیموا الصلاۃ‘ ۔قرآن کے اس حکم میں ’الصلاۃ‘ کا لفظ مجمل ہے اور اللہ کے رسولﷺ نے اس کے اجمال کو بیان کیا ہے اور اللہ کے رسولﷺ کے بیان سے جو معنی حاصل ہوا ہے وہ ’مبین‘ یعنی صرف کتاب سے حاصل نہیں ہوتا تھااگرچہ اللہ کے رسولﷺ کے بیان کی مراد اور کتاب کی مراد ایک ہی ہے لیکن پھر بھی دونوںیعنی’ بیان‘ اور’ مبین‘ً حکم میں مختلف ہوں گے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب تک مجمل کا بیان نہ ہو اس وقت تک اس پر عمل کرنے کا حکم توقف ہے لیکن جب مجمل کا بیان ہو جائے تو اس کے مقتضی پر عمل کیا جائے گا(جیسے قرآن کا حکم ’أقیموا الصلاۃ‘ ایک مجمل حکم ہے اور اس پر عمل اس وقت تک نہ ہو گا جب تک اللہ کے رسولﷺ اس کا بیان نہ فرما دیں) لہذا جب ثابت ہو گیا کہ دونوں یعنی کتاب اور بیان کا حکم مختلف ہے (کیونکہ ’أقیموا الصلاۃ‘ میں کتاب کے حکم پر توتوقف ہو گا جبکہ سنت کے حکم پر عمل ہو گا) تو دونوں کا معنی بھی مختلف ہو گاپس اس طرح سنت کے احکامات کا بھی کتاب کے بالمقابل انفرادی حیثیت میں بھی اعتبار ہو گا۔‘‘ (الموافقات‘ ۲/۱۰‘۱۱)
۲) امام شاطبی ؒ کے نزدیک بعض وہ روایات جوکہ قرآن پر اضافہ معلوم ہوتی ہیںیا اس کے کسی حکم کی تحدیدکررہی ہوتی ہیں وہ درحقیقت قرآنی آیات میں اللہ کی منشا و مراد کو واضح کر رہی ہوتی ہیں۔امام شاطبیؒ لکھتے ہیں:
’’جیسا کہ سنت تبیین کرتی ہے یہ مجمل کی وضاحت ‘مطلق کی تقیید اور عموم کی تخصیص کرتی ہے ۔ پس اس توضیح ‘تقیید اور تخصیص کی وجہ سے بعض اوقات قرآن کے بہت سے صیغے اپنے ظاہری لغوی مفہوم سے باہر نکل جاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سنت ان تمام صورتوں میں یہ واضح کر رہی ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کی ان صیغوں سے مراد کیا ہے ؟پس جس شخص نے ان تین صورتوں میں سنت کی وضاحت کو چھوڑ کر خواہش نفس سے ظاہری صیغوں کی پیروی کی تو ایسا غور و فکر کرنے والا اپنے غور و فکر میں گمراہ بن جائے گا‘کتاب اللہ سے جاہل شمار کیا جائے گا اور جہالت کے اندھیروں میں پڑا رہے گا اور کبھی ہدایت نہ پا سکے گا۔ ‘‘ (الموافقات‘ ۲/۱۱)
امام شاطبیؒ اس کی مثال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مثلا جب قرآن کے حکم ’چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹو‘کا بیان ہمیں سنت سے یہ ملا کہ ہاتھ کلائی سے کاٹا جائے گااور چوری کی ہوئی چیز کا بھی ایک نصاب مقرر ہے( اس نصاب جتنے یا اس سے زائد مال کی چوری ہو گی تو ہاتھ کاٹا جائے گا) اور یہ چوری مالِ محفوظ میں سے ہووغیرہ توسنت کے ان تمام احکامات کے بارے میں ہم یہی کہیں گے کہ سنت نے اللہ تعالی کی اس آیت سے مراد کو واضح کیا ہے نہ کہ اپنی طرف سے کچھ مزید احکامات کو ثابت کیا ہے۔اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ امام مالکؒ اور اس طرح دوسرے مفسرین ہمارے لیے قرآن کی کسی آیت یاحدیث کا معنی واضح کرتے ہیں تو جب ہم امام مالکؒ کی تفسیر وتوضیح پر عمل کرتے ہیں تو ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم یہ بات کہیں:کہ ہم نے فلاں مفسر کے قول پر عمل کیاہے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے قول پر عمل نہیں کیا۔‘‘ (الموافقات‘ ۲/۵)
لہٰذا امام شاطبیؒ کے بیان کے مطابق سنت میں موجود تخصیص ‘ تحدید اور تقیید وغیرہ قرآنی الفاظ سے اللہ کے منشا کو واضح کر رہے ہوتے ہیں جیسا کہ ہر مفسراور عالم اللہ کی منشا ومراد کو اپنے محدودعلم کی روشنی میں متعین کرتا ہے۔ 
۳) امام شاطبیؒ کے نزدیک سنت کے بعض وہ احکامات جوقرآن کی کسی آیت کے ناسخ یا اس کے مفہوم کو تبدیل کرنے والے معلوم ہوتے ہیں‘ وہ درحقیقت اللہ کے رسول ﷺ کا قرآن کی کسی آیت کا وہ گہرا فہم ہے کہ جس کی عدم موجودگی کی صورت میں امت قرآن کوسمجھنے میں غلطی کھا سکتی تھی ۔اما م شاطبیؒ کے نزدیک اللہ کے رسولﷺ نے آیت ’و امھتکم التی أرضعنکم و أخواتکم من الرضاعۃ ‘کے ساتھ اور بھی بہت سے رضاعی رشتوں کو قیاس کے ذریعے ملا دیاکیونکہ نص میں موجود ان دورضاعی رشتوں اور باقی رضاعی رشتوں میں کوئی فارق موجود نہیں ہے ‘عام اہل اجتہاد کے لیے ان دو رضاعی رشتوں سے باقی رضاعی رشتوں کی حرمت نکالنا ممکن نہ تھا ‘ لہذا اللہ کے رسولﷺ نمے قرآن کی اس نص کے گہرے فہم کو اپنی سنت کے ذریعے امت تک منتقل کر دیا کہ جس تک پہنچنے میں امت ترددو اختلاف کا شکار ہوسکتی تھی ۔امام شاطبیؒ لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالی نے آیت مبارکہ ’اور تمہاری وہ مائیں کہ جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعی بہنیں بھی تمہارے اوپر حرام کی گئی ہیں ‘میں رضاعت کے دو رشتوں کی حرمت کا تذکرہ کیا ہے تو اللہ کے رسولﷺ نے ان دو رشتوں کے ساتھ رضاعت کے باقی ان تمام رشتوں کو بھی ملا دیا جو کہ نسب کی وجہ سے حرام ہیں جیسا کہ پھوپھی ‘خالہ‘بھتیجی ‘بھانجی وغیرہ ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے ان رضاعی رشتوں کو قیاس کے بعد آیت میں مذکورہ دو رشتوں سے ملا دیا کیونکہ سنت میں بیان شدہ رضاعی رشتوں اور قرآن کے رضاعی رشتوں میں کوئی فرق کرنے والی چیز موجود نہیں ہے ۔اگر اللہ کے رسولﷺ کی سنت نہ ہوتی تواللہ کے رسولﷺ کے علاوہ جو مجتہدین ہیں وہ اس غور و فکر اور تردد میں مبتلا ہو جاتے کہ نص میں موجود رضاعی رشتوں کی حرمت پر ہی اکتفاکریں یانص میں قیاس کر تے ہوئے اور بھی رضاعی رشتوں کو ان دو رشتوں کے ساتھ ملا دیں۔پس اللہ کے رسولﷺ نے اپنے علاوہ مجتہدین کو اس تردد سے نکالنے کے لیے اس آیت کے بیان میں یہ سنت جاری فرما دی کہ ’اللہ تعالی نے جورشتے نسب سے حرام ٹھہرائے ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام کیے ہیں ‘ اور اس طرح کی باقی تمام روایات کا بھی یہی معنی ہے ۔‘‘ (الموافقات‘ ۲/۲۴) 
غامدی صاحب اس بات پر مصر ہیں کہ اس آیت کا اسلوب بیان ایسا ہے کہ ہر شخص قرآن میں موجو د ’وأخواتکم من الرضاعۃ‘ کے الفاظ سے باقی رضاعی رشتوں کی حرمت بھی خود ہی نکال سکتا ہے جبکہ امام شاطبیؒ جو کہ غامدی صاحب کی طرح عجمی نہیں ہیں اور امت نے ان کو مجتہدین علماء میں بھی شمار کیا ہے ‘ ان کی رائے یہ ہے کہ ایک عام آدمی توکجا ایک مجتہد کے لیے بھی قرآن کی اس عبارت ’و امھاتکم التی أرضعنکم و أخواتکم من الرضاعۃ‘سے سنت کے بیان کے بغیر باقی رضاعی رشتوں کی حرمت نکالنا بہت مشکل تھا ۔ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ غامدی صاحب کے عجمی ہونے کے باوجود یہ ممکن ہے کہ وہ امام شاطبی ؒ جیسے عربی النسل‘امام ‘فقیہ ‘مجتہد اور اصولی سے زیادہ قرآن کے اسلوب سے واقف ہوں۔غامدی صاحب کے دعوی کے مطابق قرآن پر تدبر کرنے والے ہر شخص کے لیے ’و أخواتکم من الرضاعۃ‘سے بالبداہت باقی بھی رضاعی رشتوں کی حرمت واضح ہوجاتی ہے لیکن ہم یہ کہتے ہیں یا توقرآنی الفاظ کی یہ بداہت و وضاحت صرف غامدی صاحب کے حصے میں ہی آئی یا پھر قرآن پر تدبر کا شرف پچھلی چودہ صدیوں میں غامدی صاحب کو ہی حاصل ہوا کیونکہ غامدی صاحب کی طرح کسی بھی عربی النسل فقیہ ‘مجتہد یا اصولی کو ’و أخواتکم من الرضاعۃ‘ سے باقی رضاعی رشتوں کی حرمت سمجھ میں نہیں آئی۔بلکہ امام شاطبیؒ جیسے مجتہد اور فقیہ کا کہنا تو یہ ہے کہ ان الفاظ سے باقی رضاعی رشتوں کی حرمت نکالنا ایک عام مجتہد کے بس کی بات نہ تھی اسی لیے تو سنت کو جاری کیا گیا۔
امام شاطبی ؒ اپنی کتاب ’الموافقات‘ میں اس کی ایک اورمثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے جو ’ذی مخلب‘ اور ’ذی ناب‘ کو حرام قرار دیا وہ ’قل لا أجد فیما أوحی الی محرما...‘ پر اضافہ نہیں ہے بلکہ یہ آیت مبارکہ ’یحل لھم الطیبات و یحرم علیھم الخبائث‘ کابیان ہے کیونکہ بعض جانور اور پرندے ایسے تھے کہ جن کے بارے میں آپؐ کے علاوہمجتہدین کو یہ اشکال پیدا ہوسکتا تھا کہ وہ ’الطیبات‘ میں سے ہیں یا ’الخبائث‘ میں سے‘تو اللہ کے رسولﷺ نے ایسے جانوروں کے بارے میں اپنی سنت جاری فرما دی۔امام شاطبیؒ لکھتے ہیں:
’’ان میں ایک یہ ہے کہ اللہ تعالی نے طیبات کو حلا ل قرار دیا ہے اور خبائث کو حرام ٹھہرایا ہے اور کچھ چیزیں ایسی تھیں کہ ان دونوں کے درمیان تھیں ان کا ان دونوں میں سے کسی ایک یعنی طیبات یا خبائث سے الحاق ممکن تھاتو اللہ کے رسولﷺ نے ایسی تمام اشیاء کے بارے میں کہ جن کے طیب یا خبیث ہونے میں اشکال ہو سکتا تھا وضاحت فرمادی کہ یہ طیب ہے یا خبیث ہے پس آپؐ نے درندوں میں سے ہر کچلی والے درندے اور پرندوں میں سے پنجوں والے پرندوں کے کھانے سے منع فرمایا۔ ‘‘ (الموافقات‘جلد۲‘ الجز الرابع‘دار الفکر‘ ص۱۸)
غامدی صاحب کے نزدیک ’یحل لھم الطیبات و یحرم علیھم الخبائث ‘میں ’الطیبات ‘ اور ’الخبائث‘ کا تعین فطرت انسانی سے ہو گا اور جہاں فطرت انسانی میں کسی جانور کے بارے میں اختلاف ہوجائے کہ یہ طیبات میں سے ہے یا خبائث میں سے ہے وہاں اہل عرب کے مزاج اور فطرت کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو گی ۔غامدی صاحب کا یہ موقف جمہور اہل سنت امام ابو حنیفہؒ ‘ امام مالکؒ ‘ امام احمدؒ ‘امام ابن تیمیہ ؒ اور امام شاطبی ؒ وغیرہ کے نقطہ نظر کے خلاف ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہؒ نے ’مجموع الفتاوی‘ میں اس پر مفصل بحث کی ہے کہ اہل عرب کی فطرت یا مزاج سے طیبات یا خبائث کا تعین قرآن و سنت اور جمہور کی رائے کے خلاف ہے ۔

امام ابن تیمیہؒ کا موقف

امام ا بن تیمیہ ؒ بھی قرآن کے ‘ سنت سے نسخ کے قائل نہیں ہیں اور سنت کو قرآن کا صرف بیان ہی مانتے ہیں۔ امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:
’’پس اس آیت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کو صرف قرآن ہی منسوخ کر سکتا ہے جیسا کہ امام شافعی ؒ مذہب ہے اور امام احمدؒ سے ثابت شدہ دو روایتوں میں سے صحیح روایت یہی ہے بلکہ یہی قول امام احمدؒ سے نصاً ثابت ہے کہ قرآن کو بعد میں آنے والا قرآن ہی منسوخ کرے گا اور عام حنابلہ کا مذہب بھی یہی ہے ۔‘‘ (فتاوی ابن تیمیۃ ۱۷/۱۹۵)
یہ واضح رہے کہ امام صاحب کی یہاں پر نسخ سے مراد قرآن کے کسی حکم کا مکمل طور پر رفع ہو جانا ہے نہ کہ جزوی حکم کا اٹھ جانا۔امام ابن تیمیہ ؒ نے بعض ایسی روایات کو جو کہ بظاہر قرآن پر اضافہ معلوم ہوتی ہیں‘ قرآن کا نسخ شمار کرنے کی بجائے اس کی کسی دوسری آیت کا بیان قرار دیتے ہیں ۔امام صاحبؒ کے نزدیک اللہ کے رسولﷺ نے ’ذی ناب‘ اور ’ذی مخلب ‘ کو جو حرام قرار دیا ہے وہ قرآن کے حکم ’قل لا أجد فیما أوحی الی ...‘ کا نسخ نہیں ہے اور نہ ہی اس پر اضافہ ہے کیونکہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اس آیت کے نزول تک جو وحی آپؐ پر نازل ہوئی ہے اس میں صرف چار چیزوں کو حرام قرار دیا گیا۔ امام ابن تیمیہ ؒ لکھتے ہیں :
’’اسی وجہ سے آپؐ کا درندوں میں سے کچلی والوں اور پرندوں میں سے پنجوں والوں کو حرام قرار دینا قرآن کی آیت ’آپؐ کہہ دیں کہ جو میری طرف وحی کی گئی ہے ‘ اس میں ‘ مَیں کسی بھی کھانے والے پرکسی چیز کو حرام قرار نہیں دیتا کہ جس کو وہ کھاتا ہے ‘کا نسخ نہیں ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس آیت کے نزول سے قبل تین قسم کی چیزوں کو ہی حرام قرار دیا تھا۔یہ آیت اپنے نزول تک تین قسم کی چیزوں کے علاوہ کی حرمت کی نفی کرتی ہے(نہ کہ اپنے نزول کے بعد حرام ہونے والی چیزوں کی حرمت کی نفی) ۔اس آیت سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ ان تین چیزوں کے علاوہ تمام اشیاء حلال ہیں ۔لیکن اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ (اس آیت کے نزول تک تو اللہ تعالی نے صرف چار ہی چیزوں کو حرام قرار دیا ہے لیکن) اللہ تعالی نے باقی چیزوں کی حلت و حرمت کو درگزر کرتے ہوئے بیان نہیں کیا (یعنی باقی اشیاء اس آیت کے نزول تک نہ حلال ہیں نہ حرام‘بلکہ اپنا حکم آنے تک معفو عنھا ہیں)جیساکہ کسی بچے کایا مجنون کا فعل ہے ۔اسی طرح معروف حدیث میں ہے :حلال وہ ہے جسے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں حرام ٹھہرایا ہے اور جس کے بارے میں اللہ تعالی خاموش ہیں اس سے اللہ تعالی نے درگزر فرما دیا ہے (یعنی اللہ کے رسولﷺ نے جو ’ذی ناب‘ اور ’ذی مخلب‘ کو حرام قرار دیا ہے وہ ‘وہ جانور تھے کہ جن کے بارے میں کتاب اللہ میں سکوت تھا) اور یہ حدیث حضرت سلمان فارسیؓ سے محفوظ موقوفاً یا مرفوعاً ثابت ہے ۔‘‘ (فتاوی ابن تیمیۃ: کتاب الفقہ‘ فصل الانکار علی من یأکل ذبائح أھل الکتاب)
ایک اور جگہ اپنے اسی موقف کی وضاحت کرتے ہوئے امام صاحب ؒ لکھتے ہیں کہ ’ذی ناب‘ اور ’ذی مخلب‘ کی تحریم سنت کی طرف سے ایک ابتدائی حکم تھا نہ کہ قرآن کا نسخ یا اس پر اضافہ‘ اور سنت کا ایسا حکم کہ جس میں سنت ابتداء کسی چیز کو حرام قرار دے‘ اس کو ماننا واجب ہے ۔امام صاحبؒ لکھتے ہیں :
’’اللہ کے نبیﷺ نے ہر کچلی والے درندے اور پنجوں والے پرندوں کو حرام قرار دیا ہے اور یہ کتاب اللہ کا نسخ نہیں ہے کیونکہ کتاب اللہ نے ان درندوں اور پرندوں کو کبھی بھی حلال قرار نہیں دیا بلکہ ان کی حرمت سے سکوت اختیار کیاتھا۔پس ان جانوروں اور پرندوں کی حرمت آپؐ سے شریعت کے ایک ابتدائی حکم کے طور پر جاری ہوئی۔اور ایسی حرمت جو کہ آپؐ سے ابتدائی طور پر جاری ہوئی ہو اس کے بارے میںآپؐ سے حضرت أبو رافعؓ ‘حضرت أبو ثعلبہؓ اور حضرت أبو ھریرۃؓ وغیرہم سے مروی روایتکے الفاظ ہیں :میں تم میں سے کسی ایک کو تکیہ لگائے ہوئے اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کے پاس میری طرف سے کوئی ایسا أمر آئے کہ جس کے کرنے کا میں نے حکم دیا ہو یا جس سے میں نے منع کیا ہوتو وہ یہ کہے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان قرآن ہی کافی ہے جس کو قرآن نے حلال کہا ہے ہم اس کو حلال کہتے ہیں اور جس کوقرآن نے حرام ٹھہرایا ہے ہم اسے حرام ٹھہراتے ہیں ۔خبرار!مجھے قرآن بھی دیا گیاہے اور اس کی مانند اس کے ساتھ کچھ اور بھی دیا گیا ہے ۔ایک اور روایت کے الفاظ ہیں :مجھے قرآن کی مثل یا قرآن سے زائد بھی کچھ دیا گیا ہے ۔خبردار!میں نے کچلی والے درندوں کو حرام ٹھہرایاہے ۔پس آپؐ نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ آپؐ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی نازل ہوتی تھی اور یہی وحی ’حکمت‘ کہلاتی ہے(یعنی جس کا ذکرقرآن کی آیت مبارکہ ’واذکرن ما یتلی فی بیوتکن من آیات اللہ و الحکمۃ‘ میں ہے )اور اسی وحی میں (جو قرآن کے علاوہ ہے)آپؐ کو اللہ تعالی نے خبر دی کہ ’ذی ناب‘ اور ’ذی مخلب‘ حرام ہیں اور آپؐ کا یہ فرمان کتاب اللہ کا نسخ نہیں ہے کیونکہ کتاب اللہ نے ان جانوروں اور پرندوں کو کبھی بھی حلال نہیں کہا بلکہ کتاب اللہ نے تو ’الطیبات‘ کو حلال قرار دیا ہے اور یہ جانور اور پرندے’ طیبات‘ میں سے نہیں ہیں۔ ‘‘ (فتاوی ابن تیمیۃ:کتاب العقیدۃ‘ فصل أحادیث تنازع الناس فی صحتھا)
امام ابن تیمیہؒ کے نزدیک ’ذی مخلب‘ اور ’ذی ناب‘ کی سنت میں حرمت ‘ قرآن کی آیت ’یحل لھم الطیبات و یحرم علیھم الخبائث ‘ کا بیان ہے ۔امام صاحبؒ لکھتے ہیں :
’’اور اللہ تعالی کا قول’آپؐ ان کے لیے طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام ٹھہرائیں گے ‘اللہ کی طرف سے یہ خبر ہے کہ آپ مستقبل میں ایساکریں گے پس آپؐ نے طیبات کو حلال ٹھہرایا ہے اور خبائث کو حرام قرار دیا ہے جیساکہ آپؐ نے ہر کچلی والے درندے اور ہر پنجوں والے پرندے کو حرام قرار دیا ہے ۔ ‘‘ (فتاوی ابن تیمیۃ: کتاب التفسیر‘ فصل الناس فی مقام حکمۃ الأمر و النھی علی ثلاثۃ أصناف)
غامدی صاحب کے نزدیک ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کا تعین فطرت انسانی سے ہوگا جو کہ خود غامدی صاحب کے اصول ’’قرآن قطعی الدلالۃہے‘‘ کے خلاف ہے ۔کیونکہ اگر فطرت انسانی سے ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کا تعین کیا جائے گا تو قرآن کے ان الفاظ کا معنی کبھی بھی متعین نہ ہو سکے گااور فطرت میں اختلاف کی صورت میں ایک فقیہ کے نزدیک ایک جانور حلال ہو گا اور دوسرے کے نزدیک وہی جانور حرام ہو گا۔ کیا عربی معلی میں ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کا کوئی معنی نہیں ہے؟کہ غامدی صاحب کویہ کہنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کے معنی اور مصداقات کا تعین فطرت انسانی سے ہو گا۔حقیقت یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ بھی قرآنی الفاظ’ الصلاۃ‘ اور ’الحج‘ اور ’الصیام‘ اور ’الزکوۃ‘ وغیرہ کی طرح مجمل ہیں کہ جن کا بیان سنت ہے نہ کہ فطرت‘ کیونکہ صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے گوہ کے گوشت اور پیازکوطبعاً ناپسند کرنے کے باوجود حلال قرار دیا۔ امام ابن تیمیہ ؒ ’الخبائث‘ اور ’الطیبات‘ کا معنی اور ان کی حرمت و حلت کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’جمہور علماء کاکہنا یہ ہے کہ طیبات سے مراد وہ چیزیں ہیں کہ جنہیں اللہ تعالی نے حلال قرار دیا ہے اور ان کا کھانادین میں نفع کا باعث ہے اور خبیث سے مراد ہر وہ چیز ہے کہ جو اپنے کھانے والے کے دین کو نقصان پہنچانے والی ہو۔اور دین کی أصل عدل ہے کہ جس کے قیام کے لیے اللہ تعالی نے رسولوں کو مبعوث فرمایا‘پس جو چیز اپنے کھانے والے میں ظلم اور زیادتی پیدا کرتی ہے اللہ تعالی نے اسے حرام قرار دے دیا ہے۔ جیسا کہ ہر کچلی والے درندے کے کھانے کو حرام قرار دیا گیاکیونکہ ایسادرندہ سرکش اور حد سے بڑھنے والاہوتا ہے اور غذا دینے والاغذا لینے والے کے مشابہ ہوتا ہے ۔پس جب کسی ا نسان کاگوشت ایسے جانور سے پیدا ہو گاتو اس انسان کے اخلاق میں سرکشی اور زیادتی پیدا ہو جائے گی۔ اسی قسم کا حکمخون کا بھی ہے جو کہ شہوت اور غصے سے متعلقہ نفسانی قوتوں کو جمع کرتا ہے۔پس جب انسان ایسی چیزوں کو بطور غذا استعمال کرتا ہے تو اس کی شہوت اور غصہ اعتدال سے بڑھ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے بہائے گئے خون کو حرام قرار دیا گیا ہے اور اس تھوڑے سے خون کو جائز قرار دیا گیا جو کہ جانور کے جسم میں باقی رہ جاتا ہے کیونکہ یہ ضرر نہیں دیتا(یعنی انسان کی شہوت اور غصہ نہیں بڑھاتا)اور خنزیر کا گوشت اس لیے خبیث ہے کہ یہ لوگوں میں برے اخلاق پیدا کرتا ہے ۔‘‘ (فتاوی ابن تیمیۃ: جلد۱۹‘ ص۲۴ و ۲۵)
غامدی صاحب کے نزدیک اگر کسی جانور کے بارے میں فطرت انسانی میں اختلاف ہوجائے کہ وہ ’الطیبات‘ میں سے ہے یا ’الخبائث ‘ میں سے ہے ‘تو ایسی صورت حال میں اہل عرب کافطری رجحان فیصلہ کن ہو گا ۔ جبکہ امام ابن تیمیہؒ اس مسئلے میں اہل علمء کی آراء نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اور اسی طرح علماء میں سے جس کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے تمام مسلمانوں پر اس کوحرام قرار دیا ہے کہ جس کو اہل عرب خبیث سمجھتے تھے اور اس کو حلال قرار دیاہے کہ کہ جس کو اہل عرب طیب سمجھتے تھے تو جمہور علماء امام مالکؒ ‘امام ابو حنیفہؒ ‘ امام احمد ؒ ‘ اور متقدمین حنابلہ کا قول اس کے خلاف ہے۔لیکن امام احمدؒ کے اصحاب میں سے خرقی ؒ اور ایک گروہ نے اس مسئلے میں امام شافعیؒ کی موافقت اختیار کی ہے۔لیکن امام احمد ؒ سے مروی عام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خود ان کا مسلک وہی ہے جو کہ جمہورعلماء ‘صحابہؓ اور تابعینؒ کامسلک ہے کہ کسی چیز کی حرمت و حلت کا تعلق اہل عرب کے کسی چیز کو طیب یاخبیث سمجھنے سے معلق نہیں ہے بلکہ اہل عرب بہت سی ایسی چیزوں کو بھی طیب سمجھتے تھے کہ جن کو اللہ تعالی نے حرام ٹھہرایا ہے جیسا کہ خون‘مردار‘گلا گھٹ کر مرنے والے جانور ‘ چوٹ کھا کر مرنے والے جانور ‘کسی جگہ سے گر کر مرنے والے جانور‘ کسی دوسرے جانور کے سینگ سے مرنے والے جانور‘درندوں کے شکار کا باقی ماندہ‘اور وہ جانور ہیں کہ جن کو ذبح کرتے وقت ان پر غیر اللہ کانام لیا گیا ہو۔اور اہل عرب بلکہ ان کے بہترین لوگ بہت سی ایسی چیزوں کو ناپسند کرتے تھے کہ جن کو اللہ تعالی نے کبھی بھی حرام نہیں ٹھہرایاجیساکہ گوہ کے گوشت کو اللہ کے نبیﷺ ناپسند کرتے تھے اور آپؐ نے فرمایا چونکہ یہ میری قوم کی سرزمین میں نہیں پائی جاتی اس لیے میں اپنے آپ کو اس سے دور رکھ رہاہوں اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ حر ا م نہیں ہے اور آپؐ کے دستر خوان پر گوہ کھائی گئی اور آپؐ دیکھ رہے تھے۔(یعنی آپؐ نے اس کے کھانے سے منع نہیں فرمایا)۔ ‘‘ (فتاوی ابن تیمیۃ: جلد۱۹‘ ص۲۴)
امام ابن تیمیہؒ کا کلام ختم ہوا۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ بعض روایات میں پیاز کابھی ذکرہے۔خیبر فتح ہونے کے بعد جب بعض صحابہؓپیاز کھا کر مسجد میں آئے تو آپؐنے فرمایا:
من أکل من ھذہ الشجرۃ الخبیثۃ فلا یقربنا المسجد فقال الناس حرمت حرمت فبلغ ذلک رسول اللہ ﷺفقال أیھا الناس انہ لیس لی تحریم ما أحل اللہ و لکنھا شجرۃ أکرہ ریحھا (مسند أحمد:۱۰۶۶۲)
’’جس نے اس خبیث درخت(یعنی پیاز) کو کھایا ہو وہ ہماری مسجد کے قریب بھی نہ آئے تو لوگ یہ کہنے لگے کہ پیاز حرام کر دیا گیا ‘حرام کر دیا گیا۔جب آپؐ کو اس کی خبر ہوئی تو آپؐ نے فرمایا :اے لوگو!جس کو اللہ نے حلال ٹھہرایاہے تو مجھے کوئی اختیار نہیں ہے کہ اسے حرام قرار دوں ۔لیکن یہ ایک ایسا درخت ہے کہ جس کی خوشبو مجھے ناپسند ہے ۔‘‘
اس روایت اور اسی جیسی اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی عام انسان کی فطرت یا اہل عرب کی فطرت تو کجااللہ کے رسول ﷺ بھی اپنی فطرت سے کسی چیز کو حرام قرار نہیں دے سکتے۔ بلکہ حلال وہی ہے جسے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے حلال ٹھہرا دیا ہے اور حرام وہی ہے جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام کہا ہے اور جس کے بارے میں قرآن و سنت کی نصوص میں سکوت ہے تووہ حدیث کے الفاظ کے مطابق’ معفو عنھا‘ میں شامل ہے اور مباح ہے۔اس لیے جمہور اہل سنت کے نزدیک ہر حرام کی حرمت نص سے ثابت ہے اسی طرح ہر حلال کی حلت بھی نص سے ثابت ہے ۔امام ابن تیمیہؒ نے کسی جانور کے حرا م ہونے کی اصل بنیاد اس کی خباثت کو ہی بنایا ہے ۔امام صاحب ؒ لکھتے ہیں :
’’اسباب تحریم دو قسم کے ہیں ایک تو درندگی کی قوت ہے جو کہ درندے کے نفس میں ہوتی ہے ا ور اس درندے کو کھانے سے انسان کے جسم میں اس کی بہیمانہ قوت کے اثرات آ جاتے ہیں اور لوگوں کے اخلاق درندوں کے سے اخلاق بن جاتے ہیں یا اس وجہ سے کہ اللہ تعالی اس کو بہتر سمجھتے ہیں اور بعض اوقات حرمت کی وجہ کسی خبیث کا کھانا ہوتا ہے جیسا کہ بعض پرندے کسی گلی سڑی لاش کو کھاتے ہیں یا کچھ چیزوں کی حرمت کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ فی نفسہ خبیث ہوتی ہیں جیساکہ حشرات الأرض ہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ کھانے کی پاکیزگی و خباثت حلت و حرمت میں اثر رکھتی ہے جیساکہ سنت میں جلالۃ(وہ جانور جو کہ گندگی کھاتا ہے ) کے گوشت اور اس کے دودھ اور اس کے انڈے کے استعمال کے بارے میں ممانعت آئی ہے۔کیونکہ بعض اوقات طیب ‘خبیث غذا کی وجہ سے بھی حرام ہو جاتا ہے ۔ ‘‘ (فتاویٰ ابن تیمیۃ: جلد ۲۱‘ ص ۵۸۵)
(باقی)

مکاتیب

ادارہ

(۱)
مکرم ومحترم حافظ عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم
دسمبر کے الشریعہ میں مقاصد شریعہ سے متعلق آپ کا مفصل مضمون پڑھ کر آپ کے علم کی گہرائی وگیرائی کا گمان یقین میں بدل گیا۔ اس مضمون پرتبصرہ کرنا میرے کم علم کے بس کی بات نہیں۔ چند باتیں جو ذہن میں آئی ہیں، لکھ رہا ہوں۔
جاوید احمد غامدی صاحب اور ان کے استاذ نے مشرکین مکہ سے متعلق جو آرا قائم کی ہیں، ان میں سے بیشتر قرآن سے ثابت نہیں۔ افسوس، جاوید صاحب اور ان کے متوسلین علم کے کبر کی وجہ سے ڈھنگ سے جواب نہیں دیتے۔ آپ نے بھی قانون رسالت، اتمام حجت جو لکھا ہے، یہ بھی انھی حضرات کی دین ہے ورنہ سرفراز صاحب صفدر نے میرے علم کی حد تک ایسی بات نہیں لکھی۔ دیکھیں مکہ میں الکہف نازل ہوئی۔ اس میں یہ صراحت ہے: ’من شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر‘۔ لہٰذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انھی مکیوں کو جبراً ایمان قبول کروایا جائے؟ پھر الاعراف ۹۴ سے بھی قانون رسالت ٹوٹ جاتا ہے کہ وہاں نبی کا لفظ آیا ہے۔ ریحان احمد یوسفی کو میں نے قرآن سے بہت سی آیات کی روشنی میں لکھا تھا کہ ’ارسلنا‘ کے لفظ میں رسول بنا کر بھیجنا ثابت نہیں ہوتا، مگر یہ لوگ باوجود ہمارے قرآنی آیات ان کے موقف کے خلاف پیش کرنے کے، ماننے کے لیے تیار نہیں۔ بہرحال آپ نے بھی التوبہ آیت ۱۴ سے استدلال کیا ہے کہ مشرکین مکہ کے لیے بھی عذاب کی علت انکار رسالت تھا۔ معاف کریں، آیت ۱۳ میں اس قتال کی علت بیان کر دی گئی ہے جو یہ تین ہیں: (۱) معاہدوں قسموں کا ایفا نہ کرنا، (۲) رسول کو جلاوطن کرنا، (۳) جنگ کی ابتدا کرنا۔ بتائیے انکار رسالت کہاں سے کشید کر لیا گیا؟
محترم طالب حسین صاحب سے چھ ماہ مغز ماری کے بعد میں خاموش ہو گیا۔ قرآن میں عذاب کی علت بیان کر دی گئی ہے۔ القصص ۵۹ اور سورہ ہود ۱۰۱، ۱۰۲ کو سیاق سے پڑھیں۔ السید الشیخ محمد علی کاندھلوی نے بجا طور پر مشرکین مکہ پر عذاب کی علت الانفال آیت ۱۳، ۱۴ کی تفسیر میں لکھ دی ہے، یعنی دنیا میں عذاب کی علت مخالفت رسول (نہ کہ انکار) اور آخرت میں سزاکی علت انکار رسالت ہے۔ مزید اطمینان کے لیے الاعراف ۱۶۵ تا ۱۶۳ پڑھیں۔ وہاں تو نہ نبی تھا اور نہ رسول، محض مصلحین تھے اور عذاب آ گیا۔ 
آپ بہت ذی علم انسان ہیں۔ میں آپ کی بے حد قدر کرتا ہوں، اس لیے محض اشارات کر دیے ہیں۔ غامدی صاحب کے قانون رسالت کی تغلیط کے لیے ڈھائی سال قرآن دیکھا کہ میرا ایمان اجازت نہیں دیتا کہ قرآن کی عطا کردہ آزادی کو جبر میں تبدیل کر دیا جائے۔ اس آزادی پر ہی تو جزا وسزا ملے گی۔ مشرکین مکہ کے لیے مکہ میں رہنے پر جبر تھا۔ آپ سورۂ انفال اور التوبہ دھیان سے پڑھیں، میری بات سمجھ آ جائے گی۔
الانفال آیت ۳۴ کی شرح میں صاحب تدبر قرآن نے لکھا ہے کہ جھگڑا تولیت کعبہ کا تھا، اسی بنا پر انھیں بے دخل کیا گیا۔ التوبہ کی آیت ۲۸ سے بھی میری تائید ہوتی ہے۔ لہٰذا ان کے لیے بھی تین آپشنز تھے۔ (۱) ایمان لا کرمکہ میں رہ سکتے تھے۔ (۲) مکہ چھوڑ کر چلے جائیں۔ (۳) بصورت دیگر جنگ وقتال۔ یہ بات صرف امین احسن اور ان کے متوسلین کی سمجھ میں نہیں آتی، باقی جمہور مفسرین نے یہ بات لکھی ہے۔ التوبہ کی ابتدائی آیات کی شرح کسی بھی مفسر کی پڑھ لیں، مثلاً تفسیر عثمانی اور تفسیر احسن البیان وغیرہ۔ اس خط کے ہمراہ میں ایک خط بھیج رہا ہوں۔ جاوید صاحب اور ان کی المورد کی ٹیم تو جواب دے نہیں رہی۔ آپ جواب دے سکیں تومیری خلش دور ہو جائے گی۔
آپ نے بھی اپنے مضمون میں دیگر اہل سنت کی طرح لکھا ہے کہ رجم کی سزا تورات میں تھی۔ شاید میں اپنے علم کی حد تک واحد انسان ہوں جو یہ بات نہیں مانتا کیونکہ قرآن سے ثابت ہے کہ رجم کی سزا تورات میں بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ المائدہ آیت ۳۲ میں بنی اسرائیل کے لیے بھی موت کا قانون بیان کر دیا گیا ہے۔
صفحہ ۲۹ پر آپ نے لکھا ہے کہ کوئی حکم کسی علت پر مبنی ہے تو حکم کا وجود وعدم علت کے وجود وعدم پر منحصر ہوگا۔ یہ بات سو فی صد درست ہے، مگر آپ لوگ خود اس پر عمل پھر کیوں نہیں کرتے؟ مثلاً صلوٰۃ قصر کی علت کافروں کا (صرف کافروں کا) خوف ہے۔ تعدد ازواج کی علت یتیموں سے ناانصافی کا اندیشہ وغیرہ۔ ایسے ہی جمع بین الصلاتین پھر ناقابل عمل ہونا چاہیے، کیونکہ نماز وقت موقوت میں ہی فرض ہے۔ 
صفحہ ۲۷ پر آپ نے رسول اللہ پر ایمان لانے اور امت میں شامل ہونے کو لازمی قرار دیا ہے۔ یہ بات ایک پہلو سے ضروری ہے، مگر جنت میں داخلہ امت محمدیہ کے لیے خاص نہیں۔ قرآن میں (۲:۶۲) جنت میں داخلہ کے لیے بغیر شرک کی آمیزش کے اللہ پر صحیح صحیح ایمان لانا، آخرت پر صحیح طور پر ایمان لانا اورعمل صالح بنیادی شرائط ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کیوں ضروری ہے؟ سادہ سی بات ہے کہ ’ان ہذا القرآن یہدی للتی ہی اقوم‘۔ آج قرآن سمجھے بغیر اللہ کی منشا معلوم کرنا بہت مشکل ہے۔ امین احسن صاحب اور شیخ القرآن غلام اللہ صاحب کی شرح اس آیت کے حوالے سے بداہتاً غلط ہے اور غامدی صاحب نے جو ترجمہ اس آیت کا کیا ہے، ان کے عدم تدبر قرآن کا نتیجہ ہے۔ دیکھیں آل عمران ۱۱۳، ۱۱۴ میں بھی اہل کتاب کی تعریف کی گئی ہے۔ چند آیات پہلے بھی ان میں مومنین کا وجود تسلیم کیا گیا ہے۔ آل عمران ۶۴ میں دور رسالت کے اہل کتاب کو صرف توحید مان لینے کی دعوت دی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ یہ دعوت مان لیتے تو جنت میں جا سکتے تھے یا نہیں؟ یہ موضوع بہت تفصیل طلب ہے۔ چند آیات لکھ رہا ہوں۔ ہو سکے تو غور فرمائیں۔ ۱:۷۶، ۲:۵۹و ۶۲ و ۱۰۵، ۳: ۱۱۰ و ۱۱۳ و ۱۱۴، ۴:۱۲۳، ۵:۶۹ سے ثابت ہے کہ اہل کتاب کے بارے میں جمہور امت کی رائے درست نہیں۔
محمد امتیاز عثمانی
امتیاز پائپ اسٹور، H153-154
سردار عالم خان روڈ، راول پنڈی
(۲)
مکرمی امتیاز عثمانی صاحب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ مزاج گرامی؟
میں ممنون ہوں کہ آپ نے میرے مضمون کے بعض بحث طلب نکات کے حوالے سے اپنے خیالات کااظہار فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب کفار سے متعلق جہاد وقتال کے احکام کے حوالے سے آپ نے جس زاویہ نگاہ کی ترجمانی کی ہے، کئی برس سے جاری غور وفکر کے باوجود میں اس سے اتفاق کرنا ممکن نہیں پاتا۔ میں نے اپنی زیر ترتیب کتاب ’’جہاد۔ ایک تقابلی مطالعہ‘‘ میں اس موضوع سے متعلق سوالات پر تفصیلی بحث کی ہے۔ امید ہے کہ آپ اس کی اشاعت تک انتظار کی زحمت گوارا فرمائیں گے۔
عمار ناصر 
(۳)
محترمی ومکرمی !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ مزاج گرامی !
اس اللہ کے نام سے جس کے قبضہ قدرت میں میری آپ کی ساری دنیا جہان کی جان ہے۔ خدارا مسلک دیوبند کی حفاظت کیجیے۔ حضرت ! افغانستان میں خونخوار وحشی درندوں نے جس سفاکی اور درندگی کامظاہر ہ کیا ہے، باجوڑ ایجنسی، لال مسجد، جامعہ حفصہ میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں، اللہ کے مہمانوں کو جس سفاکی، بے رحمی، بے دردی سے شہید کیا گیا، پھر آئے دن علماے کرام بزرگان دین کو جس عیاری مکاری سے شہید کیا جا رہا ہے، دل خون کے آنسو رو رہا ہے، چیخیں نکل گئی ہیں۔
حضرت! اس وقت پور املک ہی نہیں بلکہ ساری امت مسلمہ یتیم ہوچکی ہے۔ ہم ہیں کہ بلک بلک کر رو رہے ہیں۔ ہمار ا کوئی ایک بھی پرسان حال نہیں ہے، نہ فقط نوجوان نسل سے کچھ امید کرسکتے ہیں۔ شاید کوئی ایک شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، قاسم نانوتوی، محمود الحسن، حسین احمد مدنی یا شاہ اشرف علی تھانوی پیدا ہو اور ہمارے سروں پر دست شفقت رکھے۔ مایوسی گناہ ہے مگر موجودہ حالات میں تو معاملہ مایوسی سے بھی کہیں بہت دور پہنچ چکا ہے۔
حضرت! سنا ہے کہ سینکڑوں نہیں ہزاروں طلبہ وفاق المدارس کا اعلیٰ امتحان ہر سال پاس کر کے سند فضیلت حاصل کرتے ہیں، پھر معاشرہ میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ قو موں کی تقدیربدلنے کے لیے توایک مرد قلندر بھی کافی، افسوس کہ یہاں ہزاروں میں ایک بھی نہیں۔ آخر کیا وجہ ہے؟
حضرت! محسو س نہ فرمائیں تو عرض کروں کہ اس کی وجہ ’’تربیت کافقدان‘‘ ہے۔ جسے دیکھو تنگ نظر، تنگ دل، سخت متعصب، بغض، عناد، حسد سے معمور، نہ ملاقات کا ڈھنگ، نہ بات کرنے کا سلیقہ، فقط اپنی ’’انا‘‘ تک محدود۔ پچھلے دنوں ہمارے ہاں ایک بڑا جلسہ ہوا۔ علماے کرام، مقررین، مختلف مدارس کے اساتذہ وطلبہ نے شرکت کی۔ جو بھی آیا اکڑ کر آیا، روکھے تیکھے اندازمیں علیک سلیک کی، عجیب انداز میں الگ ہو کر بیٹھ گیا۔ ایک دوسرے کو گھورتے رہے۔ کن انکھیوں سے بھی دیکھتے رہے مگر خوشگوار ماحول بنا کر کسی نے دوسرے سے بات نہ کی۔ ایسا محسو س ہوا کہ آنے والے کودکھ تھا کہ بیٹھنے والوں نے کھڑے ہوکر میرا استقبا ل کیوں نہیں کیا۔ بیٹھنے والے سوچ رہے تھے کہ آنے والا ہمیں جھک کر کیوں نہیں ملا۔ کسی نے کسی کی عزت اد ب احترام نہیں کیا۔ 
حضرت! اس پر مجھے بڑ ادکھ اور افسوس ہوا کہ مولوی مولوی کی عزت نہیں کرتا۔ ایک ہی مسلک، ایک ہی مشن، عوام تو کالانعام، منتظمین جلسہ نے بھی عزت نہ کی، وہ کیوں کرتے۔ مولوی مولوی کی عزت کرتا ہے، عوام سے بھی علما کی عزت کرواتا ہے۔
حضرت! طلبہ کی تربیت کا سوچیں۔ مدارس میں کتابیں تو رٹوا دی جاتی ہیں، مگر تربیت کا فقدان ہے۔ تربیت کے لیے بڑی عاجزانہ رائے ہے کہ مسجد میں درس قرآن اور در س حدیث کا انتظام کیا جائے۔ نماز فجر کے بعد تمام درجات کے طلبہ کی حاضری لی جائے، ہر درجے کا مانیٹر اپنے اپنے درجہ کی حاضری لے۔ پھر ایک استاد طلبہ سے مخاطب ہو۔ کہے کہ بچو! اللہ ہمارا خالق مالک حاکم ہے، اس کاحکم قرآن کی صورت میں حضور کے واسطے سے ہم تک پہنچا ہے۔ میں اللہ کاحکم پڑھتاہوں،آپ غورسے سنیں، پھر اس پر عمل کریں۔ قرآن کی کوئی آیت پڑھ کر ترجمہ اورمختصر تشریح کرے۔ فلسفیانہ ،منطقیانہ بحث سے اجتناب کرے، سادہ ترجمہ سادہ تشریح ہو،جیسے کسی افسر کاحکم ماتحت ملا زمین کوپڑھ کر سنایا جاتا ہے اورانہیں عمل کی تلقین کی جاتی ہے ۔ بعینہ اسی طرح عشا کی نماز کے بعد حاضری ہو، ایک دوحدیثیں پڑھ کر ان پر عمل کی تلقین کی جائے۔ 
اساتذۃ میں باری باری ایک استادکو ’’معلم الیوم‘‘ مقرر کریں، وہ سارا دن جامعہ میں گھومے پھرے،جائزہ لے کہ طلبہ احکامات الٰہی اور فرمان رسول کے مطابق کس قدر عمل کر رہے ہیں، بچوں کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، آپس کامیل ملاپ، بڑوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت، مہمانوں کا اکرام، اساتذہ کی عزت، بول چال غرض ہر چیز چیک کر کے جامعہ کی ڈائری میں لکھے۔ درس قرآن وحدیث کے بعد کھڑا ہو، کسی طالب علم کانام لیے بغیر مطلق کہے کہ بعض بچے یہ یہ غلطی کرتے ہیں، ملاقات بول چال میں فلاں فلاں کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں، ایسی غلطیوں کوتاہیوں سے اجتناب کریں۔
اساتذہ کی تربیت کا بھی ا نتظام کیاجائے۔ جدید طریقہ ہاے تدریس سے انہیں واقف کیاجائے ۔بچوں کی نفسیات اور ان کی ضروریات سے آگاہی ہو۔ ہر فن کی کتابیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں، لے کر مطالعہ کریں۔ اساتذہ کی شخصیت پرنگاہ رکھیں۔ سب سے اہم مسئلہ یہی ہے۔ طلبہ کی تربیت میں اساتذہ کی ذات گرامی بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔
حضرت! میں نہایت عاجزانہ مود بانہ دست بستہ عرض کرتا ہوں کہ خدارا، مسلک دیوبند کی حفاظت کیجیے۔ میری رائے اور مشورہ سے اتفاق نہ کریں توکوئی بات نہیں، آپ صاحب علم ہیں خود غورفرمائیں۔ جیسے مناسب سمجھیں ویسے کریں۔ یقین جانیے کہ ہم بڑے ذلیل وخوار ہیں، معاشرہ میں ہماری ذرہ برابر عزت نہیں۔ ہم خود آپس میں ایک دوسرے کی عزت نہیں کرتے، نہ اتحاد نہ اتفاق ہے، جس سے فائدہ اٹھاکر لوگ ہمیں پیٹ رہے ہیں۔ فی الحال سیاست میں حصہ نہ لیں، پس پردہ زیر زمین کام کریں، تین سو تیرہ نفوس تیار کریں۔ یقین جانیں چند سالوں میں انقلاب آجائے گا، پوری دنیا میں مسلک دیوبند کی حکومت ہوگی۔
غلام یاسین ،استاد 
نہر کنارہ اللہ آباد 
تحصیل لیاقت پور، ضلع رحیم یارخان 
(۴)
جنا ب مدیر الشریعہ 
السلام علیکم ! ’’الشریعہ‘‘ کے تازہ شمارہ میں جناب منظورالحسن صاحب کا مضمون بعنوان ’’ غامدی صاحب کے تصور کتاب پر اعتراضات کاجائزہ‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ جناب منظور احمد صاحب نے لکھاہے کہ ان کے الفاظ ’’دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں‘‘ سے حافظ زبیر صاحب کا یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ فطرت کے حقائق اور قدیم صحائف بھی غامدی صاحب کے مصادر دین میں سے ہیں۔ میں منظورالحسن صاحب کی اس بات سے متفق ہوں، لیکن مجھے یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ الشریعہ کے تازہ شمارے میں بھی غامدی صاحب کے دفاع میں منظور الحسن نے ہی لکھاہے کہ فطرت کے حقائق اور قدیم صحائف غامدی صاحب کے مآخذدین نہیں ہیں۔ منظور الحسن کے غامدی صاحب کے دفاع میں لکھے جانے والے ان مضامین کو میں کیا سمجھوں؟ غامدی صاحب کی رائے یا منظورالحسن کی؟ منظورالحسن صاحب کے اب تک کے بیانات کے مطابق جو کچھ وہ غامدی صاحب کے دفاع میں لکھ رہے ہیں، حافظ زبیر صاحب کو اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ غامدی صاحب کے الفاظ نہیں ہیں۔ یعنی قارئین منظورا لحسن صاحب کے جواب کو غامدی صاحب کی طرف سے جوا ب سمجھیں، لیکن اگر منظور الحسن صاحب کے جواب پر نقد ہو تو وہ منظورالحسن صاحب پر نقد ہوگی نہ کہ غامدی صاحب پر۔ منظورصاحب بتائیں کیا میں درست سمجھاہوں؟
اسی طرح منظور الحسن صاحب نے اردوالفاظ مآخذ اور مصادر میں کوئی باریک فرق کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرے خیال میں منظور صاحب کی ایسی کوششیں کسی رضوان علی ندوی جیسے عالم کے لیے اس معا ملے میں بہترین محرک ثابت ہوسکتی ہیں کہ وہ اہل مورد کی اردو دانی کا بھی تحقیقی جائزہ لیں۔ مجھے خوشی ہوگی اگر منظور صاحب اہل لغت سے اس باریک فرق کو ثابت کر دیں جو انہوں نے ماخذ اور مصادر میں کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہرحال میں نے حافظ زبیر صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنی کتاب ’’فکر غامدی‘‘ میں جہاں جہاں ماخذ کالفظ ہے، اس کو مصادر سے بدل دیں۔ جناب حافظ زبیر صاحب نے یقین دلایا ہے کہ اگلے ایڈیشن میں ماخذ کی جگہ مصادر کے الفاظ ہوں گے۔
حافظ طاہر اسلام عسکری
قرآن اکیڈمی، ۳۶ ۔کے
ماڈل ٹاؤن، لاہور

الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام فکری نشستیں

ادارہ

  • انسانی حقوق کے عالمی دن ۱۰؍ دسمبر کے موقع پر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ایک خصوصی فکری نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت اکادمی کے ڈائریکٹر مولانازاہد الراشدی نے کی اور اس سے ممتاز ماہرتعلیم پروفیسر غلام رسول عدیم، مولانا مشتاق احمد چنیوٹی اور اکادمی کے ناظم پروفیسر محمد اکرم ورک نے خطاب کیا۔
    مولانا زاہد الراشدی نے خطا ب کرتے ہوئے کہاکہ مغرب میں انسانی حقوق کی جدوجہد کا نقطہ آغاز بارہویں صدی عیسوی کا میگنا کارٹا بتایا جاتا ہے جو بلاشبہ مغربی دنیا کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، لیکن اسلام نے اس سے چھ سو برس پہلے معاشرہ میں انسانی حقوق کا علم بلند کیا تھا اور نہ صرف یہ کہ عوام کو خلیفہ کے انتخاب کا حق دیا بلکہ آزادی رائے، حکومت کے احتساب اور بیت المال سے مستحق لوگوں کی کفالت کا حق بھی سوسائٹی کو دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آج بھی مغربی دنیا سے کہیں زیادہ فطری انسانی حقوق کا علمبردار ہے اور انسانی سوسائٹی کو فلاح اور کامیا بی کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
    مولانا مشتاق احمد چنیوٹی نے خطا ب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی طرز پر انسانی حقوق کے اسلامی چارٹر کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے اسلامی سر براہ کانفرنس کی تنظیم او آئی سی کو موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔
    پروفیسر غلام رسول عدیم نے خطا ب کرتے ہوئے کہاکہ مغرب نے انسانی حقوق کے زیر سایہ فلسطین، عراق، افغانستان اور دنیا کے دیگر خطوں میں عوام کے بنیادی حقو ق کو جس طرح پامال کیا ،ہے اس نے انسانی حقوق کے حوالے سے مغر ب کے دوہرے معیار کا پردہ چاک کر کے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں انسانی حقوق کاڈھنڈوراپیٹنے والوں کو اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ کس طرح وہ انسانی معاشرہ میں اپنے مفادات کی خاطر مظلوم قوموں اور ملکوں کے عوام کے حقوق کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ 
  • ۱۲؍ دسمبر ۲۰۰۷ کو الشریعہ اکادمی میں علماے کرام، طلبہ اور دیگر اہل دانش کی ایک بھرپور نشست منعقد کی گئی جس میں بھارت کے ممتاز عالم دین اور ندوۃ العلما لکھنو کے استاذ الحدیث مولانا سید سلمان الحسینی الندوی نے خطاب کیا۔ نشست کی صدارت الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کی اور اس سے مولانا قاری سیف اللہ اختر، مولانا حافظ محمد یوسف اور دیگر حضرات نے بھی خطاب کیا۔
    مولانا سید سلمان الحسینی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلام ایک مکمل دین اور ضابطہ حیات ہے جسے پورے کا پورا قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے اس طرح حصے بخرے نہیں کیے جا سکتے کہ جس حکم کو چاہا قبول کر لیا اور جسے نہ چاہا نظر انداز کر دیا۔ قرآن کریم نے ایسے طرز عمل کی مذمت کی ہے اور بتایا ہے کہ بنی اسرائیل نے یہ طرز عمل اختیار کیا تو ان پر ذلت ورسوائی مسلط کر دی گئی جبکہ آج ہماری صورت حال یہ ہے کہ ہم نے بھی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے مکمل دین کو مختلف خانوں میں بانٹ رکھا ہے اور ہر خانے میں کام کرنے والے مسلمان اپنے اپنے دائرے پر قناعت کیے ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے آج امت مسلمہ دنیا میں عزت ووقار اور وحدت سے محروم ہو چکی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ضابطے سب کے لیے یکساں ہوتے ہیں۔ جس جرم پر بنی اسرائیل کو ذلت ورسوائی سے دوچار ہونا پڑا، ہمارے لیے اس جرم کی سزا اس سے مختلف نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ علماے کرام کا کام صرف لوگوں کو عبادات سکھانا اور نماز روزے کے مسائل بتانا نہیں ہے بلکہ زندگی کے دوسرے معاملات میں ان کی راہ نمائی کرنا اور انھیں شریعت کے مطابق مسائل سے آگاہ کرنا بھی علماے کرام کی ذمہ داری ہے۔ انھوں نے کہا کہ دینی تعلیم کو صرف مساجد ومدارس تک محدود رکھنا دین کے تصورکو محدود کر دینے کے مترادف ہے جبکہ دین کا دائرہ اس سے بہت زیادہ وسیع ہے اور قرآن وسنت میں عقائد وعبادات کے ساتھ ساتھ اخلاق ومعاملات، تجارت، معیشت، سیاست، عدالت اور دیگر معاملات کے لیے بھی واضح راہ نمائی موجود ہے۔ انھوں نے کہا کہ علماے کرام کو دینی تعلیم کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے اور سوسائٹی کی جو بھاری اکثریت دینی مدارس میں نہیں آتی، انھیں دین کی بنیادی تعلیم سے آراستہ کرنے کا پروگرام بھی تشکیل دینا چاہیے۔
    مولانا قاری سیف اللہ اختر نے اس نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی شعبہ میں دین کا کام کرنے والوں کو دوسرے دینی شعبوں کے کام کا احترام کرناچاہیے اور باہمی تعاون واشتراک کے ساتھ دینی جدوجہد میں اجتماعیت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
    نشست کے شرکا میں مولانا مفتی محمد اویس، مولانا عبد القدوس خان قارن، مولانا عبد الحق خان بشیر، مولانا محمد ظفر فیاض، مولانا محمد ریاض خان سواتی، مولانا حافظ گلزار احمد آزاد، قاری حماد الزہراوی، چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ، حافظ محمد یحییٰ میر، حافظ محمد عمار خان ناصر، پروفیسر محمد اکرم ورک اور دیگر سرکردہ علماے کرام اور اہل دانش شامل تھے۔
    مولانا زاہد الراشدی نے اکادمی کی طرف سے معزز مہمان سید سلمان الحسینی اور ان کے رفقا کی تشریف آوری پر ان کا خیرمقدم کیا اور ان کی دینی وعلمی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا۔ بعد ازاں مولانا سید سلمان الحسینی اور ان کے رفقا نے واپڈا ٹاؤن میں الشریعہ اکادمی کی مجلس مشاورت کے رکن حاجی محمد معظم میر کی طرف سے دیے گئے عشائیہ میں شرکت کی۔

عام انتخابات اور متحدہ مجلس عمل کا مستقبل

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ملک میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے اور بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں اتر چکی ہیں۔ قاضی حسین احمد، عمران خان اور محمود خان اچکزئی کی جماعتوں کے ساتھ ساتھ وکلا کی نمائندہ تنظیموں نے انتخابات کا بائیکاٹ کر رکھا ہے جبکہ ان کے علاوہ کم وبیش تمام سیاسی ودینی جماعتیں الیکشن کے عمل میں شریک ہیں اور دن بدن انتخابی مہم میں تیزی آ رہی ہے۔ ۸؍ جنوری ۲۰۰۸ کو ہونے والے ان انتخابات پر دنیا بھر کی نظریں لگی ہوئی ہیں اور مختلف ممالک اور عالمی اداروں کی طرف سے ان کے نمائندے الیکشن کے عمل کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان آنے والے ہیں۔ 
الیکشن کا بائیکاٹ کرنے والوں کا موقف یہ ہے کہ ایمرجنسی اور پی سی او کے ذریعے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو ان کے مناصب سے الگ کر کے ملک کے عدالتی نظام کو مفلوج کر دیا گیا ہے اور آئین میں شخصی طور پر کی گئی ترامیم کے ساتھ آئین کو مسخ کیا جا چکا ہے، اس لیے ان انتخابات میں حصہ لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ ان کا بائیکاٹ کر کے ایک ایسی تحریک برپا کرنا ضروری ہو گیا ہے جو آئین کی سابقہ پوزیشن کی بحالی اور چیف جسٹس اور ان کے ساتھ پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے تمام ججوں کی ان کے دستوری مناصب پر واپسی پر منتج ہو کیونکہ اس کے بغیر عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت کا قیام ممکن نہیں ہے، جبکہ انتخابات میں حصہ لینے والوں میں سے اکثر کا موقف یہ ہے کہ موجودہ حالات میں اس الیکشن میں حصہ لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ سیاسی عمل سے الگ رہ کر آئین کی بحالی، ججوں کی واپسی اور جمہوری عمل کی بالادستی کے لیے موثر جدوجہد نہیں کی جا سکتی، اس لیے وہ بادل نخواستہ اس عمل میں شریک ہو رہے ہیں تاکہ عوام کی حمایت کے ساتھ اسمبلیوں میں پہنچ کر وہ ملک کا دستوری قبلہ درست کرنے کے لیے کردار ادا کر سکیں۔
دونوں موقف اپنے اندر وزن رکھتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے حق میں دلائل پیش کیے جا سکتے ہیں، لیکن یہ بات ۸؍ جنوری کے انتخابات میں ڈالے جانے والے ووٹوں کے تناسب سے معلوم ہوگی کہ ملک کے عوام نے ان میں سے کس موقف کو ترجیح دی ہے اور ملک کے آئندہ سیاسی نقشے کے خدوخال بھی اس کے بعد ہی صحیح طور پر واضح ہوں گے، البتہ ان انتخابات کے تناظر میں ایک بات جو ہمارے لیے باعث تشویش بنی ہے، وہ متحدہ مجلس عمل کا انتشار وخلفشار ہے کہ قومی سیاست میں دینی حلقوں کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعتوں کا طویل مدت کے بعد ایک ایسا مشترکہ محاذ سامنے آیا تھا جس نے عام ووٹروں کی توجہ حاصل کی تھی اور اس کے نتیجے میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں دینی سیاست کی معقول نمائندگی کے علاوہ صوبہ سرحد کی مکمل حکومت اور بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شرکت دینی راہ نماؤں کے حصے میں آئی تھی اور یہ توقع پیدا ہونے لگی تھی کہ اگر متحدہ مجلس عمل اپنی اس پوزیشن کو مزید پیش رفت کے لیے موثر طور پر کام میں لے آئی تو وہ قومی سیاست میں مزید آگے بڑھنے اور نفاذ اسلام کے لیے زیادہ موثر جدوجہد کے مواقع حاصل کر لے گی، لیکن ایسا نہ ہو سکا اور اس کی پالیسی ترجیحات میں معروضی سیاست اور وقتی ضروریات کی بالادستی نے اس کے بارے میں عام حلقوں بالخصوص دینی عناصر کی توقعات اور امیدوں کو بریک لگا دی۔ بادی النظر میں قبائلی علاقوں میں دینی مدارس اور مجاہدین کے خلاف امریکی آپریشن، حدود آرڈیننس میں کی جانے والی خلاف شریعت ترامیم اور جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے سانحہ کے بارے میں متحدہ مجلس عمل کی مصلحت آمیز روش اور صوبہ سرحد میں نفاذ اسلام کے حوالے سے کوئی نظر آنے والی پیش رفت نہ کر سکنے کی صورت حال نے دینی جماعتوں کے اس متحدہ محاذ کے بارے میں دینی حلقوں میں مایوسی کو جنم دیا ہے جبکہ سیاسی حلقوں میں سترھویں آئینی ترمیم کی منظوری میں متحدہ مجلس عمل کا کردار اور جنرل (ر) پرویز مشرف کے دوبار صدر منتخب ہونے کے موقع پر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے سوال پر اس کا طرز عمل اس کے اعتماد کو مجروح کرنے کا باعث بنا، لیکن اس سب کچھ کے باوجود اگر متحدہ مجلس عمل اپنا اتحاد برقرار رکھتی اور ۸؍ جنوری کے انتخابات کے حوالے سے کوئی متفقہ فیصلہ کر لینے میں کامیاب ہو جاتی تو گزشتہ غلطیوں یا غلط فہمیوں کی تلافی کے امکانات موجود تھے، لیکن افسوس کہ یہ بھی نہ ہو سکا اور ہمارے نزدیک اس معاملے کا سب سے زیادہ تشویش ناک پہلو یہی ہے۔
ہماری دینی جماعتوں بلکہ زیادہ واضح الفاظ میں مسلکی حلقوں نے قومی سیاست میں نفاذ اسلام کے نعرے کے ساتھ اپنے الگ اور الگ الگ تشخص کے اظہار کو ضروری سمجھتے ہوئے ایک اسلامی معاشرہ اور ریاست کی تشکیل کے قومی مقصد کو ایک حد تک کارنر تو کر ہی لیا تھا جس کے مالہ وماعلیہ پر گفتگو ایک مستقل بحث کی متقاضی ہے لیکن اگر وہ اس کے منطقی اور ناگزیر تقاضوں کا ادراک کرتے ہوئے ان کی تکمیل کا ہی اہتمام کر پائیں تو بھی اس حوالے سے توقعات اور امیدوں کا تسلسل قائم رہنے کی صورت دکھائی دے رہی تھی مگر متحدہ مجلس عمل کے پانچ سالہ سیاسی کردار کے پس منظر میں نفاذ اسلام کے حوالے سے عوام کی امیدیں ایک سوالیہ نشان کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔
متحدہ مجلس عمل کا مشترکہ محاذ ابھی رسمی طور پر قائم ہے اور اس کے دائرۂ کار کو کسی حد تک محدود کرتے ہوئے اسے غیر سیاسی طور پر باقی رکھنے کی باتیں بھی بعض ذمہ دار حلقوں کی طرف سے کی جا رہی ہیں لیکن ہمارے نزدیک یہ سب دل کو بہلانے کی باتیں ہیں، اس لیے کہ متحدہ مجلس عمل کا اصل مقصد وجود قومی سیاست میں دینی حلقوں کی مشترکہ نمائندگی، نفاذ اسلام کے لیے متحدہ سیاسی کردار اور اسلامائزیشن کے عمل میں رائے عامہ کی متفقہ راہ نمائی ہے۔ اگر اس میں بھی متحدہ مجلس عمل کے قائدین کے راستے الگ الگ ہو رہے ہیں تو کسی اور بہانے سے خود کو قوم کے سامنے ’’متحدہ‘‘ شو کرنے کے تکلف کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟
ہماری خواہش اور دعا ہے کہ متحدہ مجلس عمل اپنے حقیقی مقاصد کے لیے قائم رہے، خاص طور پر جمعیۃ علماے اسلام اور جماعت اسلامی کی قیادتیں اپنی معروضی اور جماعتی ضروریات ومفادات پر اجتماعی تقاضوں اور ملی مقاصد کو ترجیح دیتے ہوئے ایثار وقربانی سے کام لیں اور نفاذ اسلام کے حوالے سے عوامی امیدوں کی اس (خاکم بدہن) آخری شمع کو گل ہونے سے بچا لیں، آمین یا رب العالمین۔

وکلا تحریک کے قائدین کی خدمت میں چند معروضات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

چودھری اعتزاز احسن صاحب ہمارے ملک کے نامور وکلا اور معروف سیاست دانوں میں سے ہیں اور قومی حلقوں میں ان کا تعارف ایک شریف النفس، شائستہ اور دانش ور راہ نما کے طور پر ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چودھری جب دستور کی بالادستی اور عدلیہ کے وقار کی بحالی کے لیے میدان میں آئے تو ان کے قریبی رفیق کار کے طور پر مسلسل ان کا ساتھ دے کر چودھری اعتزاز احسن نے اپنی عزت میں مزید اضافہ کیا اور اسی کے نتیجے میں انھیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا صدر چن کر ملک بھر کے وکلا نے دستور کی بحالی اور عدلیہ کی بالادستی کے لیے اپنی تحریک کی قیادت سونپ دی ہے جو فی الواقع ایک بڑے اعزاز کی بات ہے اور ہم اس پر چودھری صاحب موصوف کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت انھیں دستور پاکستان کی بحالی اور عدلیہ کی بالادستی کی ایک تحریک میں سرخ روئی اور کامیابی سے ہمکنار کریں، آمین یا رب العالمین۔
وکلا اس تحریک کے لیے کئی ماہ سے میدان عمل میں ہیں اور عدالتوں کے بائیکاٹ، عوامی مظاہروں اور عام انتخابات کے بائیکاٹ کی صورت میں دستور کی بحالی اور پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے محترم جج صاحبان کی ان کے دستوری مناصب پر واپسی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جس میں ملک کا ہر باشعور شہری ان کے ساتھ ہے۔ چودھری اعتزاز احسن ایمرجنسی اور پی سی او کے نفاذ کے بعد سے مسلسل زیر حراست ہیں اور انھیں اس بات سے روکنے کے لیے کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ وکلا کی اس تحریک کی عملاً قیادت کریں، چنانچہ بظاہر ایمرجنسی ختم ہو جانے کے باوجود ان کی حراست کا تسلسل جاری ہے مگر وہ اپنے عزم پر قائم نظر آتے ہیں جس کا اظہار انھوں نے عید الاضحی کے موقع پر اپنی ’’عارضی رہائی‘‘ کے دوران یہ کہہ کر کیا ہے کہ ۸؍ جنوری کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کو اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی بحالی کے لیے تین ہفتوں کا وقت دیا جائے گا اور اگر اس وقت تک چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور ان کے ساتھی ججوں کو بحال نہ کیا گیا تو حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا جائے گا۔
ہم چودھری اعتزاز احسن صاحب کے اس عزم اور اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور دستور کی بالادستی اور عدلیہ کے محترم ججوں کی بحالی کے لیے وکلا کی جدوجہد کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ اسی حوالے سے ہم دو گزارشات وکلا کی اس تحریک کی قیادت، بالخصوص چودھری اعتزاز احسن صاحب کی خدمت میں پیش کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔
ایک یہ کہ قوم کے دوسرے طبقات کو ساتھ لیے بغیر صرف وکلا کے فورم پر اس تحریک کو منظم کرنے اور آگے بڑھانے کی حکمت عملی ہمارے نزدیک محل نظر ہے، اصولاً بھی کہ جب یہ قومی مسئلہ ہے تو اس کے لیے منظم کی جانے والی تحریک میں قوم کے تمام طبقات کی نمائندگی نظر آنی چاہیے اور عملاً بھی کہ کسی ایک طبقے کی بنیاد پر چلائی جانے والی تحریک کی کامیابی کے امکانات ہمارے خیال میں زیادہ روشن دکھائی نہیں دیتے، اس لیے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اس تحریک کی قیادت اور کنٹرول بے شک اپنے ہاتھ میں رکھے لیکن اس میں ملک کے دینی وسیاسی حلقوں کی نمائندگی کا اہتمام ضرور کرے۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے تمام تر احترام کے باوجود اس کے ساٹھ سالہ مجموعی کردار کے بارے میں ملک کے عوام اور مختلف طبقات کو جو شکایات ہیں اور ان کے جو تحفظات ہیں، تحریک کے اہداف طے کرتے وقت ان سب کو سامنے رکھنا ضروری ہے اور اسی صورت میں اس تحریک کو پوری قوم کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔ مثلاً ملک کے جمہوری حلقوں کا شکوہ ہے کہ جسٹس محمد منیر مرحوم نے دستور ساز اسمبلی کے توڑے جانے کے غیر جمہوری عمل کو جواز کی جو سند بخشی تھی، اسے اس کے بعد روایت ہی کا درجہ دے دیا گیا ہے اور اب تک ہر آمر کے دستور شکن اقدامات کو ’’عدالتی تحفظ‘‘ مل رہا ہے۔ یہ صورت حال ملک کے ہر شہری کے لیے پریشان کن اور باعث اضطراب ہے اور وکلا کی موجودہ دستوری جدوجہد بھی اسی کا فطری رد عمل ہے۔ اسی طرح ملک کے دینی حلقوں کو بھی شکایت ہے کہ ملک میں اسلامی نظام وقوانین کی عمل داری کے لیے، جسے قیام پاکستان کا اہم ترین مقصد ہونے کے ساتھ ساتھ دستور پاکستان کی بنیاد اور اس کی طرف سے فراہم کی گئی ضمانت کا درجہ حاصل ہے، عدالت عظمیٰ کا اب تک کا مجموعی رول حوصلہ افزائی کا نہیں ہے اور جس طرح جمہوری اقدار کی سربلندی کے خواہاں حلقوں کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے اب تک وہ ’’ریلیف‘‘ نہیں ملا جو جمہوریت کی عمل داری کے لیے ضروری ہے، اسی طرح اسلامی اقدار کی بالادستی کے لیے بھی قوم اسی طرح عدالت عظمیٰ کی طرف سے دیے جانے والے ’’ریلیف‘‘ کا انتظار کر رہی ہے اور اس کا یہ انتظار اب رفتہ رفتہ حسرت میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔
اسلام اور جمہوریت دونوں ملک کی نظریاتی اساس ہیں۔ دستور پاکستان کی بنیاد بھی انھی دو اصولوں پر رکھی گئی ہے اور ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ یہ بات دستور میں ہمیشہ کے لیے طے کر دی گئی ہے کہ ملک میں حکومت کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہوگا اور پارلیمنٹ کو ہی قانون سازی کا اختیار حاصل ہوگا، لیکن وہ قرآن وسنت کے اصولوں کی پابند اور اسلامی قوانین کے نفاذ کی ذمہ دار ہوگی۔ اس لیے جہاں جمہوری اقدار کی سربلندی کا اہتمام کرنا اعلیٰ عدالتوں کی ذمہ داری ہے، وہاں اسلامی اصولوں کی بالادستی کا خیال رکھنا بھی ان کے فرائض میں شامل ہے، لیکن اب تک کی معروضی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے ملک کے مجموعی عدالتی کردار میں اسلام اور جمہوریت دونوں سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔
ملک کے دینی حلقوں کا عمومی تاثر یہ ہے کہ ۱۔ قرارداد مقاصد کی بالادستی کو تسلیم نہ کرنے کا عدالتی فیصلہ، ۲۔ سود کے خاتمہ کے لیے شریعت کورٹ کے فیصلے کا تعطل، اور ۳۔ صوبہ سرحد میں حسبہ ایکٹ کے نفاذ کو عدالتی طور پر روک دینے کا عمل اپنے نتائج وثمرات کے حوالے سے جسٹس محمد منیر محروم کے اس فیصلے سے مختلف نہیں ہے جسے کے ذریعے انھوں نے دستور ساز اسمبلی کو توڑنے کے غیر جمہوری اقدام کو ’’نظریہ ضرورت‘‘ کا شیلٹر مہیا کر دیا تھا، بلکہ ہماری معلومات کے مطابق اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی بحالی کی تحریک کے سلسلے میں مولانا فضل الرحمن کا گریز کا عمل بھی حسبہ ایکٹ کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے پس منظر میں ہے جس کا دکھ صرف مولانا فضل الرحمن کو نہیں ہے بلکہ ملک میں نفاذ اسلام کی خواہش رکھنے والا ہر شخص اس کی کسک اپنے دل میں محسوس کر رہا ہے اور اعلیٰ عدالتوں سے جسٹس محمد منیر مرحوم کے فیصلے کی طرح مذکورہ بالا فیصلوں کی تلافی کی بھی بجا طور پر توقع رکھتا ہے جس پر اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان اور ملک کے سینئر وکلا کو پوری سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینی چاہیے۔ ہم مولانا فضل الرحمن کے موجودہ سیاسی کردار اور پالیسیوں کا دفاع نہیں کر رہے اور بہت سے دیگر سیاسی حلقوں کی طرح ہم بھی ان کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں، البتہ ’’حسبہ ایکٹ‘ ‘ کے بارے میں مولانا فضل الرحمن کے تحفظات کو ہم بے جا نہیں سمجھتے، اس لیے اس کا ذکر ان گزارشات میں ہم نے مناسب سمجھا ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ وکلا تحریک کی اعلیٰ قیادت اس کا ضرور جائزہ لے گی۔
ان گزارشات کے ساتھ ہم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قیادت، بالخصوص چودھری اعتزاز احسن صاحب کی طرف سے دستور کی بالادستی اور اعلیٰ عدالتوں کے معزول ججوں کی بحالی کے لیے تحریک کے اعلان کا ایک بار پھر خیر مقدم کرتے ہیں اور انھیں یقین دلاتے ہیں کہ دستور پاکستان اور اس کی دونوں بنیادوں یعنی اسلام اور جمہوریت کی بالادستی کی اس جدوجہد میں انھیں ہمارا ہر ممکن تعاون حاصل ہوگا۔

لاہور میں ایک چرچ کا افسوس ناک انہدام / کراچی کے چند اداروں میں حاضری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۱۸؍ دسمبر ۲۰۰۷ کو روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق لاہور چرچ کونسل کے سیکرٹری جناب مشتاق سجیل بھٹی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ گارڈن ٹاؤن لاہور کے ابوبکر بلاک میں ۱۹۶۳ء سے قائم ایک چرچ کو، جو ’’چرچ آف کرائسٹ‘‘ کے نام سے مسیحیت کی مذہبی سرگرمیوں کا مرکز تھا، ایک بااثر قبضہ گروپ نے ۱۱؍ دسمبر کو اس پر زبردستی قبضہ کرنے کے بعد ۱۶؍ دسمبر کو مسمار کر دیا ہے اور اسے ایک کمرشل پلاٹ کی شکل دے دی ہے۔ مشتاق سجیل بھٹی کے بقول قبضہ کرنے والے بااثر افراد کو پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے فرزند چودھری مونس الٰہی اور ایک سابق صوبائی وزیر علیم خان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ چر چ کونسل کے سیکرٹری کا کہنا ہے کہ اس کی ایف آئی آر تھانہ گارڈن ٹاؤن میں درج کرائی گئی ہے مگر پولیس کوئی کارروائی نہیں کر رہی۔ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق مسیحی کمیونٹی کے کچھ حضرات نے اس سلسلے میں گورنر ہاؤس کے سامنے مظاہرہ بھی کیا ہے۔ دوسری طرف ایس پی ماڈل ٹاؤن پولیس عمران احمر نے ایک اخباری انٹرویو میں تسلیم کیا ہے کہ اس جگہ کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور اس میں پانچ چھ پارٹیاں فریق ہیں جبکہ اس پر یک طرفہ قبضہ کے بارے میں ایف آئی آر پر انکوائری کی جا رہی ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر واقعات کی ترتیب یہی ہے جو مشتاق سجیل بھٹی اور ایس پی عمران احمر کے اخباری بیانات سے ظاہر ہے تو اس عمارت پر قبضہ اور اس کو گرائے جانے کا یہ عمل سراسر زیادتی اور ظلم ہے جس کی سنگینی میں اس بات سے اضافہ ہو جاتا ہے کہ یہ عمارت چرچ کی ہے اور اس میں مسیحی حضرات ۱۹۶۳ء سے مسلسل عبادت کرتے آ رہے ہیں۔
ایک مسلمان ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں کو اس بات کا پورا تحفظ حاصل ہوتا ہے کہ ان کی عبادت، مذہبی سرگرمیوں اور عبادت گاہوں سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا۔ امام ابو یوسف نے ’’کتاب الخراج‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کے دور خلافت میں جب حضرت خالد بن ولید نے ’’حیرہ‘‘ فتح کیا تو وہاں کے باشندوں کو اس بات کی ضمانت دی جس کی حضرت صدیق اکبر نے توثیق فرمائی کہ ’لا یہدم بیعۃ ولا کنیسۃ ولا یمنعون من ضرب النواقیس ولا من اخراج الصلبان فی یوم عیدہم‘ (ان کی عبادت گاہوں اور خانقاہوں کو منہدم نہیں کیا جائے گا اور انھیں ناقوس بجانے اور اپنی عید کے دن صلیب لے کر باہر نکلنے سے منع نہیں کیا جائے گا)۔ مگر گارڈن ٹاؤں لاہور میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نام سے موسوم بلاک میں مسیحیوں کے چرچ کو زبردستی قبضہ کے بعد مسمار کر دیا گیا ہے اور اسے کمرشل پلاٹ بنا کر غالباً بیچنے یا کوئی پلازا کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو انتہائی افسوس ناک امر ہے۔ ہم حکومت پنجاب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس صورت حال کا فوری نوٹس لیا جائے اور مسیحی کمیونٹی کے ساتھ مبینہ طور پر ہونے والی اس زیادتی اور ظلم کا بلاتاخیر ازالہ کیا جائے۔

کراچی کے چند اداروں میں حاضری

۸؍ دسمبر ۲۰۰۷ کو مجھے دو روز کے لیے کراچی حاضری کا موقع ملا۔ ہمارے پرانے دوست مولانا عبد الرشید انصاری نے اپنے جریدہ ماہنامہ ’’نور علیٰ نور‘‘ کے ’’دورۂ تفسیر قرآن کریم نمبر‘‘ کی تقریب رونمائی کا نماز مغرب کے بعد جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی میں اہتمام کر رکھا تھا۔ پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی نے تقریب کی صدارت کی جبکہ راقم الحروف کے علاوہ شیخ الحدیث حضرت مولانا زر ولی خان صاحب نے بھی اس سے خطاب کیا۔ اس خصوصی نمبر میں دورۂ تفسیر قرآن کریم کے مختلف حلقوں کا تعارف کرایا گیا ہے اور ان دوروں کی افادیت وضرورت پر مختلف اہل علم کے مضامین شامل اشاعت ہیں۔ 
۹؍ دسمبر کو فجر کی نماز کے بعد جامعہ انوار القرآن کے شعبہ ’’تخصص فی الفقہ والافتاء‘‘ کے اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ ایک تفصیلی نشست ہوئی اور شعبہ کے سربراہ مولانا مفتی حماد اللہ صاحب کی فرمایش پر انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے تاریخی پس منظر اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے اس کے بارے میں اپنے تحفظات سے اساتذہ وطلبہ کو آگاہ کیا۔
دس بجے دار العلوم کورنگی کراچی میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی طرف سے قائم کردہ خصوصی کمیٹی کا اجلاس تھا جو مختلف دینی مدارس میں تخصصات کے حوالے سے پڑھائے جانے والے نصابات کا جائزہ لینے اور اس سلسلے میں جامع سفارشات اور تجاویز پر مشتمل رپورٹ مرتب کرنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے اور راقم الحروف کو اس کا مسؤل قرار دیا گیا ہے۔ اجلاس میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا منظور احمد مینگل، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور راقم الحروف نے شرکت کی اور اجلاس میں اب تک ہونے والی پیش رفت پر ایک نظر ڈالتے ہوئے رپورٹ کی ترتیب کے لیے راہ نما اصول طے کیے گئے۔
بعد ازاں ’’آواری ٹاورز‘‘ میں ’’عصر حاضر کے چیلنج اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے دو روزج سیمینار کی دو نشستوں میں شرکت کی۔ اس کا اہتمام انٹر نیشنل اسلامک سنٹر جوہر ٹاؤن لاہور نے، جو جامعہ خیر المدارس ملتان کا ایک شعبہ ہے، دار العلم والتحقیق برائے اعلیٰ تعلیم وٹیکنالوجی کراچی کے تعاون سے کیا تھا۔ دار العلم والتحقیق برائے اعلیٰ تعلیم وٹیکنالوجی کراچی کے ایک فاضل بزرگ مولانا سید فضل الرحمن کی سربراہی میں کام کر رہا ہے جو سلسلہ نقشبندیہ کے معروف بزرگ حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ کے فرزند وجانشین ہیں۔ اس سیمینار کی ظہر سے قبل کی نشست میں محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کا مفصل خطاب سنا جو ’’مکالمہ بین المذاہب،: اہداف، مقاصد اور اصول وضوابط‘‘ کے عنوان پر تھا اور ظہر کے بعد سیمینار کی آخری نشست میں ’’عصر حاضر کے چیلنج اور علماے کرام کی ذمہ داریاں‘‘ کے موضوع پر راقم الحروف نے معروضات پیش کیں جبکہ ان کے علاوہ دیگر نشستوں سے مولانا مفتی منیب الرحمن، پروفیسر عبد الجبار شاکر، مولانا عزیز الرحمن، مولانا محمد اسماعیل آزاد اور حافظ محمد نعمان نے مختلف عنوانات پر شرکا کو اپنے خیالات وافکار سے آگاہ کیا۔ 
میری کراچی حاضری کا پروگرام دراصل اسی سیمینار کے لیے مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کی خصوصی دعوت پر طے پایا تھا مگر اس کی برکت سے دوسرے مفید پروگراموں میں شرکت کی سعادت بھی حاصل ہو گئی، فالحمد للہ علیٰ ذالک۔

فروری ۲۰۰۸ء

مسئلہ فلسطین اور مغربی ممالک کا کردارمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی عدالتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
موجودہ شورش: اسباب اور علاجادارہ
آئین اور قانون کی بالادستی کی جدوجہد اور دینی حلقوں کی ذمہ داریمولانا مفتی محمد زاہد
شرعی سزاؤں کی ابدیت و آفاقیت کی بحثمحمد عمار خان ناصر
کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ (۴)حافظ محمد زبیر
غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا تنقیدی جائزہمحمد زاہد صدیق مغل
الشریعہ اکادمی میں ہفتہ وار فکری نشستوں کا آغازادارہ

مسئلہ فلسطین اور مغربی ممالک کا کردار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش مشرق وسطیٰ کادورہ کر کے واپس جا چکے ہیں۔ اس دوران انہوں نے سعودی عرب، کویت، مصر، متحدہ عرب امارات، فلسطین اور اسرائیل وغیر ہ کا دورہ کیا اور اسرائیل اور فلسطین کے راہنماؤں سے بھی تبادلہ خیالات کیا۔ ان کے اس دورے کے مقاصد کیا تھے؟ اس کی ایک جھلک بعض عرب اخبارات کے مندرجہ ذیل تبصروں سے دیکھی جا سکتی ہے :
ایک عرب اخبار ’’الحیاۃ ‘‘ کا کہنا ہے کہ : ’’امریکی صدر کایہ دورہ ایک شہنشاہ کا دورہ تھا۔ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک مغربی اور امریکی صدور اور وزراے اعظم کے نظارے دیکھتے رہتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی مسئلہ فلسطین حل کر سکا ہے اور نہ ہی مشرق اوسط کے عوام کے سنگین مصائب کوکم کرسکاہے ۔ عرب ممالک کے تعلیم یافتہ عوام بادشاہوں اورشہزادوں کے زیرنگیں رہنے کی بجائے جمہوریت کی فضامیں زندگی گزارناچاہتے ہیں، لیکن انہیں یہ مواقع فراہم نہیں کیے جا رہے ۔ اس کا قصوروار امریکہ بھی ہے۔‘‘
’’عرب نیوز‘‘ کاکہناہے کہ: ’’امریکی صدر کے اس دورے کے دوران مشرق وسطیٰ کے سلگتے مسائل میں سے ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوا ہے اور عراق میں جگہ جگہ لگی ہوئی آگ میں سے کوئی آگ بجھ نہ سکی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ مشرق وسطیٰ کے اس دورے کے دوران امریکی صدر ایران کے خلاف شعلہ فشانیاں کرتے رہے، حالانکہ انہوں نے مشرق وسطیٰ کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل واشنگٹن میں کہاتھا کہ میں فلسطین کے مسائل کم کرنے کے لیے اسرائیل کو مقبوضات خالی کرنے پر مجبور کروں گا۔ لیکن ایک ہفتہ گزرگیا، امریکی صد ر اسرائیلی حکمرانوں کواس طرف مائل نہ کرسکے۔‘‘
’’الشر ق الاوسط ‘‘نے لکھا ہے کہ : ’’امریکی صدر جارج بش نے جس بے فکری اور غیر سنجیدگی سے اسرائیل، کویت، فلسطین اورعرب امارات کادورہ کیاہے اور آج وہ سعودی عرب آرہے ہیں، یوں محسو س ہوتاہے کہ جیسے پکنک پر آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کسی ایک جگہ بھی درپیش سنگین مسائل کے حل کی طر ف توجہ دی، نہ فریقین کو ایک جگہ بٹھانے کا اہتمام ہی کیا ..... امریکہ چونکہ اکلوتی سپر پاور ہے اور محض اکلوتی سپر سے تمام ترتوقعات وابستہ کیے رکھنا عالمی سطح پر اپنے تعلقات کو گرانے اور زک پہنچانے کے مترادف ہے، عرب ممالک سے غلطی یہ ہوئی کہ ا نہوں نے گزشتہ پچاس سال میں صرف امریکہ کو اپنا نجات دہندہ خیال کیا ہے، لیکن یہ خیال باربار غلط اور غیر مفید ثابت ہوا۔‘‘
’’گلف نیوز‘‘ کاتبصرہ اس طرح ہے کہ : ’’مشرق وسطیٰ کے اس دورے کے دوران امریکی صدر کی اولین ترجیح ایران رہی ہے۔ وہ ایران کے بارے میں جوپالیسی بیان دیتے رہے، ان سے یہی عیاں ہوتاہے کہ یہ دورہ محض ایران کے لیے تھا کیونکہ جن ممالک کاموصوف نے دورہ کیا، ان کے بالکل ہمسایے میں ایران واقع ہے۔ گویایہ بات بجا طورپر کہی جاسکتی ہے کہ ایران کے معاملات سے براہ راست آگاہی حاصل کرنے او رعرب حکمرانوں اور عوام کی نفسیات سے آگاہی کے لیے ہی مشرق وسطیٰ کے دورے کاڈول ڈالاگیا۔ ...... اگرایران اس خطہ کے لیے خطرہ ہے بھی تو ہم سعودی عرب کے وزیرخارجہ سعود الفیصل کے اس قول پر عمل کر کے خطرے کا مقابلہ کرسکتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایران سے ہمارے تعلقات ہیں، ہماری اس کے ساتھ کھلی بول چال ہے، اگرہمیں اس سے کبھی خطرہ محسوس ہوا تو ہم ایران سے براہ راست بات چیت کر کے معا ملات حل کر لیں گے۔ امریکی صدر نے اس دورہ کے دوران اس خطے کے لیے باربار انصاف اور آزادی کی بات کی۔ اگر امریکی صدر ان دونو ں الفاظ کی معنو یت سے آگاہ ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کوبھی انصاف اور آزادی فراہم کرنے میں فوری اور طاقت ور امداد دیں۔‘‘
یہ تو وہ تبصرے ہیں جو معروف عرب اخبارات نے امریکی صدر کے دورۂ مشرق وسطیٰ کے اہداف اور دورے کے درمیان ان کی سرگرمیوں اور ارشادات کے حوالہ سے کیے ہیں۔ ا ب ایک جھلک اس صورت حال کی بھی دیکھ لی جائے جو ان کے دورے کے فوراً بعد مشرق وسطیٰ میں سامنے آئی ہے اور جس نے لاکھوں فلسطینیوں کو اسرائیل کے ہاتھوں جبر اور استبداد کے ایک اور مرحلے سے دوچار کر دیا ہے۔ روزنامہ’’ پاکستان‘‘ لاہور میں ۲۴؍ جنوری ۲۰۰۸ کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطا بق اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس اور ملحقہ علاقے میں یہودی آبادیوں کے لیے نئے مکانات تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیلی انتظامیہ کے ترجمان نے بتایاکہ آٹھ ہزار میں سے تقریباً اڑھائی ہزار مکانات مشرقی مقبوضہ بیت المقدس اور ملحقہ علاقوں میں بنائے جائیں گے، جبکہ فلسطینی صدر محمود عباس نے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہودی بستیوں کی تعمیر سے مشرق وسطیٰ میں امن کا عمل متاثر ہوگا۔
’’پاکستان ‘‘ میں ہی ۱۶؍ جنوری ۲۰۰۸ کو شائع ہونے والی خبر کے مطا بق غزہ میں اسرائیلی فوج کی تازہ کارروائی میں جاں بحق ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد سترہ ہوگئی ہے جن میں حماس کے ایک اہم رہنما اور سا بق وزیر خارجہ محمود الزہار کا بیٹا بھی شامل ہے۔ ا س کارروائی کے بعد اسرائیلی فوج اور فلسطینیوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں چالیس دیگر شہری بھی زخمی ہوئے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطا بق اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کررکھی ہے جس سے نہ صرف بجلی بلکہ خوراک کی ترسیل کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے اور عالمی رائے عامہ کے مسلسل احتجاج کے باوجود اسرائیل ابھی تک اس ناکہ بندی میں نر می کرنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ پاکستان میں ۲۴ جنوری کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرت نے کہا ہے کہ اگر فلسطینی عوام امن چاہتے ہیں تو حماس کے خلاف بغاوت کریں اوران کے تحفظ کاایک ہی راستہ ہے کہ فلسطین سے عسکریت پسندی کاخاتمہ کر دیا جائے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے یہ بھی کہاہے کہ غزہ کے شہری اگر اسرائیل پر حملہ کرتے ہیں تووہ گاڑیوں کے بجائے پیدل چلیں، روشنی کی بجائے اندھیرے میں رہیں اور بھوک وافلاس سے مرتے رہیں۔
یہ ہے ایک منظر امریکی صدر کے دورۂ مشرق وسطی اور اس کے فوراً بعد رونما ہونے والی صورت حال کا، جبکہ امریکہ دنیا کو یہ تاثر دینے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کام کر رہا ہے اور صدر بش چاہتے ہیں کہ ان کا دور اقتدار ختم ہونے سے پہلے آزاد فلسطینی ریاست کے اعلان کی کوئی شکل سامنے آجائے۔ 
اس پس منظر میں اس حوالے سے ایک اور رپورٹ پر بھی نظر ڈال لی جائے جو نئی دہلی سے شائع ہونے والے سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نے ۷ جنوری ۲۰۰۷کی اشاعت میں شائع کی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دنوں لبنان میں برطانیہ کی سفیر محترمہ فرانسز گائی نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’فلسطین میں ہمارے پیش روؤں نے جو غلطیاں کی ہیں، ان کو سدھارنا ہمارے لیے ناممکن ہے، لیکن ’’عدل وانصاف‘‘ پر مبنی امن وسلامتی کے لیے کوشش کرنا ہمارے لیے یقیناًممکن ہے، تاہم مسئلہ یہ ہے کہ برطانیہ کوایک موثر طاقت نہیں سمجھاجاتا۔‘‘ ا ب اس بات کی وضاحت محترمہ فرانسز گائی ہی کرسکیں گی کہ ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کیے بغیر ’’عدل وانصاف‘‘ پر مبنی امن وسلامتی کے قیام کے لیے ان کے پاس کون سا فارمولا ہے، البتہ اس حوالے سے ان کاخیال توجہ طلب ہے کہ ’’دیگر ممالک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ فلسطین کا دورہ وہاں کے عوام کی ذلت وخواری کو دیکھنے اور سمجھنے کی نیت سے اور اس نیت سے کریں کہ ایسی پالیسی اختیار کی جا سکے جس سے اہل فلسطین اس صورت حال سے باہر آ جائیں۔‘‘
مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر یہ تبصرہ کسی عرب راہنما یا فلسطینی لیڈر کانہیں بلکہ برطانیہ کی ایک سفارت کار خاتو ن کا ہے جسے سامنے رکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور اس کی قیادت میں مغربی حکمران مشرق وسطیٰ میں صرف ایسا امن چاہتے ہیں جس میں اسرائیل کے ا ب تک کے تمام اقدامات اور اس کے موجودہ کردار کو جائز تسلیم کر لیا جائے اور اس کی بالادستی کے سامنے سرخم تسلیم کرتے ہوئے فلسطینی عوام خود کو اس کے رحم وکرم پرچھوڑدیں اور اسرائیل جوکچھ بھی کرے، فلسطینی عوام اس کے خلاف کسی بھی قسم کی مزاحمت کے حق میں ہمیشہ کے لیے دست برداری کا اعلان کردیں۔ اگر صدر بش فلسطینیوں کو امن وسلامتی کے اسی نکتے پر لاناچاہتے ہیں تو ایسا ہونا ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ قوموں کواس طرح دبانے اورد بائے رکھنے کی کوئی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہواکرتی اور آزادی، خودمختاری اور اقوام عالم میں باوقار حیثیت دنیا میں ہر قوم کی طرح فلسطینیوں کا بھی حق ہے جو جلد یا بدیر وہ ان شاء اللہ تعالیٰ حاصل کر کے رہیں گے۔

مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی عدالت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

رونامہ’’ پاکستان‘‘ لاہور میں ۲۴ جنوری ۲۰۰۸ کو بی بی سی کے حوالہ سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ سرحدکی نگران حکومت نے ۱۹۹۴ میں نافذ کیے جانے والے شرعی نظام عدل ریگولیشن میں ترامیم کا فیصلہ کیا ہے جن کے مطا بق مالا کنڈ ڈویژن کی قاضی عدالتوں کے فیصلوں کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا جا سکے گا۔ صوبہ سرحد کے نگران وزیر قانون میاں محمد اجمل نے بی بی سی کوبتایا ہے کہ شرعی نظام عدل ریگولیشن میں یہ ترامیم مالاکنڈ کے عوام کے مطالبہ پرکی جا رہی ہیں اور اس ترمیمی مسودہ کامقصد اس بات کو ممکن بنانا ہے کہ کسی بھی قاضی کورٹ کے فیصلے کوہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی بجائے فیڈرل شرعی کورٹ میں چیلنج کیا جا سکے اور ایسے مقدمات کے فیصلے جلد از جلد ہوسکیں۔
شرعی نظام عدل ریگولیشن ۱۹۹۴ء کے دوران مولانا صوفی محمد کی قیادت میں تنظیم نفاذ شریعت محمدی کی طرف سے چلائی جانے والی عوامی تحریک کے نتیجے میں اس وقت کے وزیراعلیٰ سرحد جناب آفتا ب احمد شیر پاؤ کی حکومت نے نافذ کیا تھا جس کے تحت مالاکنڈ ڈویژن میں تحصیل اور ضلع کی سطح پر قاضی عدالتوں کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ یہ قاضی عدالتیں شریعت محمدیہ کے مطا بق مقدمات کے فیصلے کریں گے۔ اس پر مولانا صوفی محمد اوران کے رفقا کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ ان قاضی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کا حق رکھا گیا ہے جو شرعی قوانین کی بجائے انگریزی قوانین کے مطا بق فیصلے کرتی ہیں اور اس طرح ان شرعی عدالتوں کو عملی طور پر غیر موثر کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد اس خطہ میں مولانا فضل اللہ کی طرف سے شروع کی جانے والی حالیہ تحریک میں بھی مکمل نفاذشریعت کا مطالبہ سامنے آیاہے، اس لیے یوں محسوس ہوتاہے کہ اس د باؤ کے پیش نظر نگران صوبائی حکومت نے یہ ترامیم لانے کافیصلہ کیاہے تاکہ عوام کویہ باور کرایاجاسکے کہ مالاکنڈ ڈویژن کی قاضی کورٹس کے خلاف اپیلوں کی سماعت کاحق ہائی کورٹ کی بجائے وفاقی شرعی عدالت کومنتقل کرکے اس اعتراض کو ختم کر دیا گیا ہے کہ یہ قاضی عدالتیں عملی طورپر غیر موثر ہیں اور اس کے بعد اب مالاکنڈ ڈویژن میں شریعت کا نفاذ عملاً ہو گیا ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں یہ بھی بیوروکریسی کی ان چالوں میں سے ایک ہے جو وہ وقتاً فوقتاً پاکستان کے عوام کواسلامی نظام کے نفاذ، شرعی قوانین کی عملداری اور قرآن وسنت کی ترویج وتنفیذ کے حوالے سے یقین دلانے کے لیے کرتی رہتی ہے، لیکن گزشتہ ساٹھ برس کے دوران اس قسم کی بیسیوں چالوں کے باوجود ابھی تک صورت حال جوں کی توں ہے اورملک میں شرعی قوانین کی عملداری کی کوئی شکل عمل درآمدکے دائرے کی طرف بڑھتی ہوئی نظرنہیں آتی، بلکہ اس حوالہ سے سوات (مالاکنڈ ڈویژن)، قلات، خیرپور، بہاول پور اور چترال کی ریاستیں زیادہ بد قسمت رہیں کہ ان نیم خود مختار ریاستوں میں انگریزوں کے دورمیں بھی ایک حد تک شرعی قوانین کا نفاذ قاضی عدالتوں کے ذریعہ موجود تھا جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ ان ریاستوں کے الحاق کے بعد ختم ہو گیا اور مالاکنڈ ڈویژن یعنی سوات کے عوام اپنی موجودہ جدوجہد کے ذریعہ اسی ختم کی جانے والی صورت حال کو دوبارہ بحال کرانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
ہمیں مولانا صوفی محمد اور مولانا فضل اللہ کی تحریکوں کے طریق کار سے اتفاق نہیں ہے اور ہم اس ملک میں نفاذ اسلام کے لیے مسلح جدوجہد کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں لیکن ہمیں ان کے اس موقف سے اتفاق ہے کہ باقی پاکستان میں اسلامی قوانین کانفاذ جب بھی عمل میں آئے، مگر ان کی سا بقہ ریاست سوات کی حدود میں جہاں پاکستان کے ساتھ اس کے الحاق سے پہلے تک شرعی قوانین اور قاضی عدالتیں موجود تھیں، کم از کم وہاں تو حسب سا بق شرعی عدالتوں کی عمل داری قائم کر دی جائے۔ چنانچہ ۱۹۹۴ء میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کے نام سے مالاکنڈ ڈویژن میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر قاضی عدالتوں کاقیام عمل میں لایا گیاجن کے با رے میں ہم نے اس وقت بھی مینگورہ کے ایک مطالعاتی دورہ کے بعد یہ عرض کردیاتھا کہ کہ اس ریگولیشن سے اس کے سوا عملاً کوئی فرق نہیں پڑا کہ مروجہ قوانین کے تحت کا م کرنے والی عدالتوں کو قاضی عدالتوں کانام دے دیا گیا ہے اور اب چودہ سال بعد ان عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا اختیار ہائیکورٹ سے وفاقی شرعی عدالت کو منتقل کرنے کی مجوزہ کارروائی سے بھی کوئی عملی تبدیلی نہیں ہوگی، اس لیے کہ ان ترامیم کے اعلان کے ساتھ ہی نگران صوبائی وزیر قانون میاں محمد اجمل نے بی بی سی کی مذکورہ رپورٹ کے مطا بق یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ ’’مالا کنڈ ڈویژن میں ریگولر قانون ہی نافذ ہوگا، تاہم جج صاحبان کوئی بھی فیصلہ سنانے میں قرآن وسنت کے احکامات کو زیادہ اہمیت دیں گے۔ جج صاحبان معاون قاضیوں اور شرعی وکلا کی راہنمائی میں فیصلے سنائیں گے مگروہ ان کی تجاویز کو ماننے کے پابندنہیں ہوں گے۔‘‘
اس وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی شخص یا حلقہ اس غلط فہمی کاشکار رہتا ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن میں قاضی کورٹس کے نام سے قائم یہ عدالتیں شرعی عدالتیں ہیں اور ان کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق وفاقی شرعی عدالت کو منتقل کرنے سے ان کی شرعی حیثیت مزید پختہ ہو جائے گی تو اس بھولپن پر ہم اس کے لیے دعاے خیر بلکہ دعاے صحت کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں؟ 

موجودہ شورش: اسباب اور علاج

ادارہ

آج کل وطنِ عزیز تہہ درتہہ بحرانوں کے جس سنگین دور سے گذررہا ہے، اس کی کوئی مثال ملک کی ساٹھ سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ملک کا ہر حساس باشندہ اس صورتِ حال پر بے چین ہے، اور اُسے ان حالات میں روشنی کی کوئی کرن بھی نظر نہیں آرہی۔ ایسے پُر آشوب حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کے وجود و بقا کی خاطر ہر شخص اپنی ذات سے بلند ہوکر سوچے، اور ملک کے تمام طبقات، تنظیمیں اور جماعتیں اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈالیں اور ملک کو مل جل کر اس گرداب سے نکالنے کی کوشش کریں۔ ملک کے گوناگوں مسائل میں جس چیز نے کئی گناہ اضافہ کردیا ہے، وہ بڑھتی ہوئی بد امنی، سڑکوں پر غارت گری اور بالخصوص بم دھماکوں اور خود کُش حملوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس کے نتیجے میں تقریباً ہر ہفتے کہیں نہ کہیں درجنوں افراد کی ہلاکت سینکڑوں خاندانوں کو اُجاڑ چکی ہے اور یہ سلسلہ کسی حد پر رکتا نظر نہیں آرہا۔
یہ بات تقریباً ہرمسلمان کو معلوم ہے کہ اسلام میں خود کُشی حرام ہے، اور قرآنِ حکیم اور احادیثِ شریفہ کے احکام وارشادات اس بارے میں بالکل واضح ہیں، لیکن جب کسی دشمن سے جائز اور برحق جنگ ہورہی ہو، اُس وقت دشمن کو مؤثر زک پہنچانے کے لیے کیا کوئی خود کُش حملہ کیا جاسکتاہے؟ شرعی اور فقہی طور پر اس بارے میں دو رائے ہوسکتی ہیں۔ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ اگر ایک جائز اور برحق جنگ کے دوران حقیقی ضرورت پیش آجائے اور ہدف بے گناہ لوگ نہ ہوں تو خود کُش حملہ جائز ہے، یہ اُسی طرح کاخود کُش حملہ ہوگا جیسے ۱۹۶۵ ؁ء میں ہندوستان کے حملے کے وقت ’’چونڈہ‘‘ کے محاذ پر پاکستانی فوج کے جوانوں کی یہ داستانیں مشہور ہیں کہ وہ جسموں سے بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں سے ٹکراگئے تھے۔ او راُ س کے نتیجے میں ٹینکوں کی پیش قدمی روک دی تھی ۔ چونکہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے او رملک وملت کو دشمن سے بچانے کے لیے ایک جائز او ربرحق جنگ کے دوران کوئی شخص ایسا اقدام کرے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ا س کے حسنِ نیت کی بنا پر اس کی قربانی کو قبول فرمالیں ۔ لیکن یہ ساری بات اُ س وقت ہے جب کھلے ہوئے دشمن سے کوئی جائز اور برحق جنگ ہورہی ہو، اس بحث کا اُس صورت سے کوئی تعلق نہیں ہے جہاں خود کُش حملے کا نشانہ ایسے کلمہ گو مسلمانوں کو یا ایسے غیر مسلموں کو بنایا جائے جن کے جان ومال کو اللہ تعالیٰ نے حرمت بخشی ہے۔ ایک کلمہ گو مسلمان ، خواہ عملی اعتبار سے کتنا گناہ گار ہو، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اس حرمت کا حامل ہے، اورقرآن وحدیث کے ارشادات نے ایسے شخص کے قتل کرنے کو ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کی جان و مال کو کعبے سے بھی زیادہ حرمت کا حامل قرار دیا ہے۔ بلکہ وہ خودکُش حملہ جس کانشانہ مسلمان یا مسلمان ریاست کے پُر امن شہری ہوں، دوہراگُناہ ہے، ایک تووہ دوسرے کے خلاف قتلِ عمد کا گناہ ہے، اور اس کے نتیجے میں جتنے انسان ناحق قتل ہوں، وہ اتنے ہی زیادہ گناہوں کا مجموعہ ہے۔ اوردوسرے اس صورت میں خود کُشی کے حرام ہونے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس لیے خود کُشی کا گناہ اس کے علاوہ ہے۔
اس لحاظ سے ہمارے ملک کے مختلف حصوں میں جو خود کش حملے ہورہے ہیں او رجن کے نتیجے میں سینکڑوں مسلمان اور پُر امن شہری ناحق ہلاک ہوچکے ہیں، وہ دینی اعتبار سے انتہائی سنگین گناہ ہیں اور ’’ فساد فی الأرض‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ خود کُش حملے کون کررہا ہے؟ او رکیوں کررہا ہے؟ ان اقدامات کی پوری مذمت کے ساتھ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ جو لوگ بھی اس قسم کے حملے کرتے ہیں، وہ یہ جان کر کرتے ہیں کہ کوئی دوسرا نشانہ بنے یا نہ بنے، سب سے پہلے وہ خود موت کے منہ میں جائیں گے۔ عام حالات میں زندگی ہر شخص کو پیاری ہوتی ہے، اور کوئی بھی شخص انتہائی غیر معمولی حالا ت کے بغیر خود اپنے آپ کو موت کے گھاٹ نہیں اتار سکتا۔ لہٰذا سوچنے کی بات یہ ہے کہ انسانوں کی اتنی بڑی تعداد یکایک کس وجہ سے اس غیر معمولی اقدام پر آمادہ ہوگئی ہے کہ نہ اُسے اپنی جان کی پروا ہے، نہ اپنے یتیم ہونے والے بچوں، بیوہ ہونے والی بیوی اور غم زدہ خاندان کا کوئی خیال ہے، اور نہ اس بات سے کوئی بحث ہے کہ اُ س کے مرنے کے بعد دنیا اُسے کیا کہے گی؟
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ خود کُش حملوں کی یہ بہتات ہمارے ملک میں پچھلے چند سالوں ہی سے پیدا ہوئی ہے، اس سے پہلے اس کا کوئی وجود ہمارے ملک میں نہیں تھا۔ یقیناًاس کے کچھ اسباب ہیں جنہیں دور کیے بغیر محض ایسے لوگوں پر غصّے سے دانت پیس کر تشدد کی فضا کو اور ہوا دینے سے یہ صورتِ حال ختم نہیں ہوسکتی۔ اگر واقعی ہم اس صورت حال کو ختم کرکے ملک میں امن امان بحال کرنے میں مخلص ہیں تو ہمیں پوری حقیقت پسندی کے ساتھ اپنی پالیسیوں پر تنقیدی نگاہ ڈالنی ہوگی، اور جو غلط پالیسیاں اس کا سبب بنی ہیں، انہیں تبدیل کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔
یہ خود کُش حملے جن میں ایک انسان اپنے ساتھ کبھی دو چار، کبھی آٹھ دس، کبھی پچیس تیس اور کبھی اس سے بھی زیادہ افراد کو ہلاکت کے غار میں دھکیل دیتا ہے، در حقیقت ایک شدید جھنجھلاہٹ اور چڑچڑاھٹ ہے جو ہر طرف سے مایوس ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ یوں تو ہماری بیشتر حکوتیں امریکہ کے زیرِ اثر رہی ہیں، لیکن ۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ ؁ء کے بعد ہماری حکومت نے امریکہ کا بالکل تابع مہمل بن کر جس طرح اپنے آپ کو امریکہ کی بھینٹ چڑھایا ، اورامریکی مفادات کی جنگ کو اپنے ملک میں لاکرجس بے دردی سے قومی مفادات کا خون کیا، وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ ہماری افواج کو امریکہ کی رضامندی کی خاطر خود اپنے ہم وطنوں کے خلاف آپریشن میں استعمال کیا گیا۔امریکہ او ربھارت کے مقابلے میں بزدلی دکھائی گئی، اور تمام تر بہادری کامظاہرہ وانا، وزیرستان، سوات، بلوچستان اور لال مسجد کے نہتوں پر کیا گیا، او رخواتین کے حقوق کاڈھنڈورا پیٹنے والوں نے جامعہ حفصہ کی سینکڑوں خواتین کو بھی خون میں نہلا کر واشنگٹن کی شاباش حاصل کی۔
دوسری طرف ’’روشن خیالی ‘‘اور ’’ اعتدال پسندی‘‘ کی آڑ میں ملک کو بے دینی کی طرف لے جانے کی کوششیں پورے اہتمام کے ساتھ جاری ہوئیں،نظامِ تعلیم کو اپنے قومی مقاصد اور مصالح کے بجائے غیروں کے لیے خوش نما بنانے کی خاطر نصاب میں تبدیلیاں کی گئیں، حدود کے قوانین میں عورتوں کے حقوق کے نام پر سراسر بے جواز ترمیمات کی گئیں جن کا نہ صرف یہ کہ عورتوں کے حقوق سے تعلق نہ تھا، بلکہ وہ ان کے لئے مزید بے انصافی پر مشتمل تھیں۔ عریانی وفحاشی کو فروغ دیا گیا، اور فحاشی کے اڈوں کی عملاً سرپرستی کی گئی، روز افزوں گرانی اور بے روز گاری نے غریبوں کے لیے جینا دوبھر کردیا، ملک بھر میں قتل وغارت گری او رلوٹ مار کا طوفان برپاہے،جس کی بنا پر کوئی شخص ایسا نہیں جو اپنی جان او رمال کے بارے میں ہروقت خطرات کا شکار نہ ہو، اور حکومت ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے میراتھن ریس، بسنت اوررقص وسرود کو فروغ دینے میں مصروف رہی۔ عدالتوں سے انصاف حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مرادف بن گیا، پھر عدلیہ کو انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ پامال کیا گیا، اور دفتروں میں رشوت ستانی کے نتیجے میں عوام در بدر کی ٹھوکریں کھا کر بھی اپنے چھوٹے چھوٹے کام کرانے سے قاصر ہوگئے۔
ان تمام حالات کے باوجود حکومت نے اپنے طرزِ عمل سے لوگوں کو یہ تأثر دیا کہ اُ س کے دربار میں عوام کے حقوق اور مطالبات کی کوئی شنوائی نہیں ہے، او راس ملک میں پُر امن اور آئینی راستے سے کوئی معقول مطالبہ منوانے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ یہاں لاقانونیت کا راج ہے، دھونس، دھاندلی لوٹ مار اور قتل وغارت گری کرنے والے دندناتے پھر تے ہیں اورقانون پر چلنے والوں کو قدم قدم پر مصائب کاسامنا ہے۔ یہاں پُر امن طریقے پر اسلام کے نفاذ کا مطالبہ ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے، او راس کے حق میں قرآن وسنت اور عقل و دانش کی کوئی دلیل نہ صرف کارگر نہیں، بلکہ مقتدر حلقے اُسے توجّہ سے سننے کے بھی روادار نہیں ہیں۔
بہ ظاہر یہ وہ مجموعی حالات ہیں جنہوں نے کچھ جذباتی اور مایوس افراد کے دل میں وہ جھنجلاہٹ پیدا کی جو خود کُش حملوں کی صورت میں ظاہر ہورہی ہے،یہ لوگ ہر طرح کے پُر امن راستوں سے مایوس ہوکر تشدّد کے راستے پر چل پڑے ہیں۔ ان میں ایسے نوجوان بھی ہوں گے جن کے گھر حکومت یا امریکہ کے آپریشنوں میں ملبے کا ڈھیر بنا دیے گئے، اور جنہوں نے ان فوجی کارروائیوں میں اپنے پیاروں کو تڑپ تڑپ کر جان دیتے ہوئے دیکھا، اور اب ان کے پاس انتقام کی آگ کے سوا کچھ نہیں بچا، جو وہ خود اپنی جان دیکر ٹھنڈا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ وہ ملک دشمن طاقتیں جو پاکستان کو (خاکم بدہن) افراتفری کی نذر کرکے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاھتی ہیں، یا اس افراتفری سے فائدہ اٹھاکر اس پر حملہ آور ہونا چاھتی ہیں، وہ بھی اس آتش گیر فضا سے فائدہ اٹھا کر ایک طرف خود بھی دھماکے کرارہی ہیں، تاکہ ہر دھماکہ انہی انتہا پسندوں کی طرف منسوب کیا جاسکے، دوسرے انہوں نے ایسے جذباتی افراد کو در پردہ ابھارا ہے کہ وہ اپنایہ مشن جاری رکھیں۔ انہیں یہ کہہ کرگمراہ کیاگیا ہے کہ موجودہ حالات کی ذمہ داری جس طرح حکومت پر عائد ہوتی ہے، اسی طرح وہ شہر ی بھی اس کے جرائم میں برابر کے شریک ہیں جنہوں نے ایسی حکومت کی اطاعت قبول کر رکھی ہے، لہٰذا ان سب پر حملہ کرکے انہیں ختم کرنا جائز ہے۔
یہ جذباتی ذہنیت اب اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ان کے سامنے کوئی زبانی کلامی دلیل فائدہ مند نہیں ہوتی۔ اور اس ذہنیت کا مقابلہ کرنے کے لئے جتنا زیادہ تشدّد اختیار کیا جائے گا، اُس کی اشتعال پذیری میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ لہذا پاکستان کی سول آبادی پر ہونے والے فوجی آپریشن اس صورتِ حال کا حل نہیں ہیں۔ اس ذہنیت کے مقابلے کے لئے جوش سے زیادہ ہوش اور ہتھیار سے زیادہ ناخنِ تدبیر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
ہمارے نزدیک سب سے اہم او ربنیادی بات یہ ہے کہ یہ لوگ جنہیں ’’ شدّت پسند‘‘ یا ’’ انتہا پسند‘‘ کہا جارہا ہے، حکومت ان کو امریکی آنکھ سے دیکھنے کے بجائے پاکستانی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کرے۔ یہ لوگ، خواہ آزاد قبائل میں ہوں، یا سوات اور مالاکنڈ میں، یابلوچستان میں، دراصل ہمارے ہی بھائی ہیں، ہمارے ہم وطن او رہمارے ہم مذہب ہیں۔ یہ پاکستان کے دشمن نہیں، بلکہ ان میں بہت بڑی تعداد اُ ن کی ہے جو قبائلی علاقوں میں ہمیشہ پاکستان کی سرحدوں کے محافظ رہے ہیں، لیکن حالات نے انہیں حکومت کا دشمن، اور انتہا پسند جذباتیت نے انہیں ہر اُس شخص کا دشمن بنادیا ہے جو حکومت دشمنی میں ان کے ساتھ شریک نہ ہو۔ اگر حکومت اپنی پالیسیوں میں مثبت تبدیلیاں لا سکتی ہو تو اُن اسباب کو ختم کیا جاسکتا ہے جن کی بنیاد پر ان کی انتہاء پسندی کوہوا ملی ہے، اورجن کی وجہ سے وہ سازشوں کا شکار ہورہے ہیں۔
مرے طائر نفس کو نہیں گلستاں سے رنجش
ملے گھر میں آب ودانہ تو یہ دام تک نہ پہنچے
اگر اس طرز فکر کی سچائی ایک مرتبہ دل میں بیٹھ جائے تو کچھ تجاویز ہیں جن پر عمل کرکے ہم موجودہ بحران سے نجات حاصل کرسکتے ہیں:
(۱) ’’ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر ہم نے جس طرح آنکھ بند کرکے امریکہ کی حکمت عملی اختیار کی ہے،اُس کے بارے میں اس حقیقت کا دل سے اعتراف کیا جائے کہ وہ قطعی طور پر ناکام ہوچکی ہے۔
(۲) شمالی علاقہ جات او ربلوچستان میں فوجی آپریشن فوری طور پر بند کرکے وہاں کی شورش کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کی جائے،اور شورش کے رہنماؤں سے اس پر کھلے دل کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں، اور ان کے جائز مطالبات کو وہ اہمیت دی جائے جس کے وہ مستحق ہیں۔
(۳) اس حقیقت کا ادراک کیا جائے کہ اصل میں طالبان دہشت گرد نہیں ہیں، اور نہ ان میں سب لوگ انتہاء پسند جذباتی ہیں، اُن میں ایسے عناصر موجود ہیں جن سے معقولیت کے ساتھ بات چیت ہوسکتی ہے۔
(۴) شمالی علاقہ جات اور آزاد قبائل کے معتدل علماء اور خوانین خونریزی کے حق میں نہیں ہیں، لیکن اُ ن کی بات مشتعل عناصر میں اس لئے مؤثر نہیں ہورہی کہ حکومت کی طرف سے مسلسل خلافِ اسلام پالیسیاں جاری رہی ہیں، اور اُن کی موجودگی میں ان معتدل علماء اور خوانین کی طرف سے عدمِ تشدد کی اپیلیں بے اثر ہیں، کیونکہ تشدد رکوانے کے لئے اُن کے ہاتھ میں کوئی ایسی مثبت بات نہیں ہے جو وہ ان مشتعل عناصر کے سامنے پیش کرکے سرخ رُو ہوسکیں۔ اگر حکومت لوگوں کے دلوں میں یہ اعتماد پیدا کرسکے کہ اب وہ اپنی پالیسیاں مرتب کرتے وقت واشنگٹن کی چشم وابرو کا اشارہ دیکھنے کے بجائے ملک وملت کے مفاد پر نظر رکھے گی، اپنے ہم وطنوں کے خلاف فوجی کاروائیاں بند کریگی اور اپنی خلافِ اسلام پالیسیوں کو ختم کردے گی، اور اس غرض کے لیے عملی اقدامات کرکے بھی دکھائے جائیں اور انہیں مؤثر طور پر جاری رکھا جائے تو یہ معتدل عناصر جذباتی عناصر کی ایک بڑی تعداد کو شورش سے باز رکھ سکتے ہیں۔
(۵) اس حقیقی کوشش کے باوجود اگرکچھ لوگ شورش پرآمادہ رہیں تو اوّلاً اُ ن کی آواز اتنی مؤثر نہیں رہے گی، اور دوسرے معتدل حلقوں کی طرف سے اُن کے خلاف کھل کر اعلانِ براء ت ممکن ہوگا، اور عام تائید کے فقدان کے بعد یہ شورش خود بخود دب جائے گی۔
(۶) بلوچستان کے لوگوں کے کچھ حقیقی مسائل او رمطالبات ہیں جو بڑی حد تک انصاف پر مبنی ہیں، ان مطالبات کو ملک دشمنی سے تعبیر کرکے ان کے خلاف فوجی آپریشن کسی بھی طرح دانشمندی نہیں ہے، وہاں کے رہنماؤں سے ایک مرتبہ پھر سنجیدہ اور بامعنی مذاکرات کا سلسلہ شروع کرکے وہاں کی شورش پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔
(۷) پچھلے چند روز میں صدر مملکت کی طرف سے امریکہ کے بارے میں پہلی بار کچھ ایسے جرأت مندانہ بیانات آئے ہیں جو قومی غیرت کے عین مطابق ہیں، او ران سے عوام کے دلوں کو کچھ حوصلہ ملا ہے۔ ان بیانات کو صرف لفظی بیانات کی حد تک محدود رکھنے کے بجائے ان کو آئندہ اپنی عملی پالیسی کی بنیاد بنانے کی ضرورت ہے۔
ابھی وقت ہے کہ ان خطوط پر نیک نیتی سے کام شروع کرکے ملک وملت کو اس گرداب سے نکالا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لیے قومی اتفاقِ رائے بھی نہایت ضروری ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان نازک حالات میں حکومت، سیاست دان اور فکری رہنما اپنی ذات سے بلند ہو کر ملک وملت کی سا لمیت کے لیے بنیادی نکات پر متفق ہوں، اور اس مقصد کے لیے یک جان ہوکر کام کریں۔ اس اتفاقِ رائے کو حاصل کرنے کے لئے صدر مملکت کو پہل کرنی ہوگی، ان پر یہ فریضہ سب سے زیادہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات سے بلند ہوکر تمام طبقۂ خیال کے لوگوں کو جمع کریں، اور اگر اختلافات کو ختم کرنے کے لئے موجودہ سیاسی ڈھانچے میں جوہری تبدیلیاں کرنی پڑیں ، انتخابات کو قابلِ اطمینان بنانے کے لیے سیاسی رہنماؤں کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنا پڑے، خواہ وہ صدر صاحب کی پہلے اعلان شدہ پالیسی کے خلاف ہوں، تو ملک وملت کی سا لمیت اور ملک میں سیاسی استحکام کی خاطر ا ن کو گوارا کریں۔ سیاسی رہنماؤں سے بھی ہماری درخواست ہے کہ وہ اس موقع پر ملک کو بچانے کے لئے سیاسی عداوتوں کو فراموش کرکے کم سے کم نکات پر متفق ہوں جو ملک کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔
موجودہ تہہ در تہہ بحرانوں کے حل کے لیے ہماری دیانت دارانہ رائے یہ ہے کہ عدلیہ کو فعّال کیا جائے، عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کیا جائے تاکہ لوگ سڑکوں پر انصاف کے حصول کی کوشش کے بجائے عدلیہ میں فریادرسی کرکے حقیقی انصاف حاصل کرسکیں۔ ہماری یہ بھی رائے ہے کہ جملہ ماورائے آئین اقدمات کو منسوخ کیا جائے، ان مقاصد کے حصول کے لیے اگر صدر پرویز مشرف کو ملک وملّت کی خاطر مستعفی ہونا پڑے تو اس سے گریز نہ کریں، یہ ایک باوقار طریقہ ہوگا، جس کا اس منصب کے شایانِ شان راستہ یہ ہے کہ وہ آئین کے مطابق صدارت کا منصب سنیٹ کے چیئر مین کے حوالے کریں، اور وہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر معینہ تاریخ کو شفاف انتخابات کراکر اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کردیں۔
ہمارا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے ،اور نہ ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے، اس لیے یہ تجویز کسی مخاصمت یا کسی ذاتی یا گروہی سیاسی مقصد پر مبنی نہیں ہے، بلکہ ملک وملت اور خود صدر پرویز مشرف صاحب کی خیر خواہی پر مبنی ہے، انہوں نے آئین سے ماورا جن اقدامات کے ذریعے صدارت کا عہدہ حاصل کیا ہے، وہ کبھی ملک میں دیر پا استحکام پیدا نہیں کرسکتے،ان کی وجہ سے انہیں جلد یا بدیر یہ عہدہ چھوڑنا ہوگا، لیکن اُس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی، اس کے برعکس اگر وہ رضا کارانہ طور پر ملک و ملت کی خاطر یہ اقدام کریں تو ایک طرف اُن کا وقار بلند کرنے کا ذریعہ بنے گا، دوسری طرف ملک موجودہ سیاسی بحران سے نکل کر پٹری پر آجائے گا، او رامید یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں شورش زدہ علاقوں میں بھی فوری بہتری آئے گی۔

(۱) حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم ۔مہتمم جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی۔
(۲) حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم۔ صدر جامعہ دارالعلوم کراچی ۔
(۳) حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب دامت برکاتہم۔مہتمم جامعۃ العلوم الاسلامیہ 
علامہ بنوری ٹاؤن کراچی۔
(۴) حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم۔نائب صدر جامعہ دارالعلوم کراچی۔
(۵) حضرت مولانا قاری حنیف جالندھری صاحب دامت برکاتہم۔ مہتمم جامعہ خیر المدارس ملتان۔
(۶) حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب دامت برکاتہم۔ شیخ الحدیث جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک۔
(۷) حضرت مولانا محمد سلفی صاحب دامت برکاتہم۔ نائب مہتمم جامعہ ستاریہ 
(۸) حضرت مولانا انوار الحق صاحب۔ نائب مہتمم دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک۔
(۹) حضرت مولانا محمود اشرف صاحب دامت برکاتہم۔ نائب مفتی جامعہ دارالعلوم کراچی۔
(۱۰) حضرت مولانا مفتی عبد الرؤف صاحب۔ نائب مفتی جامعہ دارالعلوم کراچی۔
(۱۱) حضرت مولانا مفتی سید عبدالقدوس ترمذی صاحب۔ مہتمم جامعہ حقانیہ ساہیوال سرگودھا۔
(۱۲) حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب دامت برکاتہم۔ جامعہ دارالعلوم کراچی۔
(۱۳) حضرت مولانا عبید اللہ صاحب دامت برکاتہم۔ مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور۔
(۱۴) حضرت مولانا عبد الرحمن اشرفی صاحب دامت برکاتہم۔نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور
(۱۵) حضرت مولانا فضل الرحیم صاحب ۔ ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ لاہور۔
(۱۶) حضرت مولانا قاری ارشد عبید صاحب۔ ناظم اعلی جامعہ اشرفیہ لاہور۔
(۱۷) حضرت مولانا محمد اکرم کاشمیری صاحب۔رجسٹرار جامعہ اشرفیہ لاہور۔
(۱۸) حضرت مولانا غلام الرحمن صاحب۔ چیئر مین نفاذ شریعت کونسل صوبہ سرحد۔
(۱۹) حضرت مولانا محمد صدیق دامت برکاتہم۔ شیخ الحدیث جامعہ خیر المدارس ملتان۔
(۲۰) حضرت مولانا مفتی عبد اللہ صاحب دامت برکاتہم۔ مفتی جامعہ خیر المدارس ملتان۔


آئین اور قانون کی بالادستی کی جدوجہد اور دینی حلقوں کی ذمہ داری

مولانا مفتی محمد زاہد

(۱۲ نومبر ۲۰۰۷ کو جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے فضلاء کے ایک اجتماع سے خطاب۔)

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس وقت ہمارا ملک بلکہ پورا عالم اسلام اور پوری دنیا بڑے عجیب وغریب حالات سے گزر رہی ہے۔ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور تبدیلیاں بھی فیصلہ کن، خاص طور پر عالم اسلام میں اور عالم اسلام کے چنداہم ملکوں میں جن میں شاید سرفہرست ہمارا وطن عزیز پاکستان ہے۔ ہم امت مسلمہ کاایک حصہ ہونے کے ساتھ پاکستان کے شہری بھی ہیں اوریہ ملک ہماراگھر ہے۔ جوحضرات دین کے کام سے وابستہ ہیں، وہ ہماری برداری ہے اوراللہ کے فضل وکرم سے ہم ان کا بھی ایک حصہ ہیں، اس لیے ہم کبھی بھی اپنے آپ کو امت، پاکستان اور دینی حلقوں کے مسائل سے الگ نہیں رکھ سکتے اور بے فکر بھی نہیں رہ سکتے۔ جو کام کسی بھی میدان میں ہو رہا ہے، چاہے وہ ملکی سطح پر ہو، عالم اسلام کی سطح پر ہو یادینی حلقوں کی سطح پر، ہم اپنے آپ کو اس سے لاتعلق نہیں رکھ سکتے۔ ایک حدیث میں آتاہے کہ: من لم یھتم بامر المسلمین فلیس منھم۔ حضوراقد س صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مسلمانوں کے معاملات میں فکرمند نہیں ہوتا،بے فکری اور بے حسی کا شکار رہتا ہے جسے پنجابی میں کہتے ہیں کہ ’’سانوں کی‘‘ (ہمیں کیا) وہ مسلمانوں میں شمار کیے جانے کے قابل نہیں۔ ہماری بحیثیت مسلمان اور بحیثیت انسان یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہماری نظر میں ہو کہ کیا ہو رہا ہے اور ان حالات میں ہمارے کرنے کا کیا کام ہے، خاص طورپر اس حیثیت سے کہ اللہ جل جلالہ نے ہمیں اپنے دین کے کسی نہ کسی کام سے وابستہ کیا ہوا ہے، اور کسی نہ کسی حد تک ہماری بات سنی اور مانی جاتی اور اس کا اثر ہوتا ہے، کسی کا زیادہ اور کسی کا کم۔ اس لیے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہمیں حالات کا علم ہوا ور حالات پر ہماری مکمل نظرہو کہ کیا ہو رہا ہے اورہمارے کرنے کا کیا کام ہے۔ کام کرنے کے کئی میدا ن ہوتے ہیں، کئی پہلو اور کئی رخ ہوتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ سب کے سب ایک ہی انداز کے کام میں لگے ہوں،لیکن بہرحال ملت اور امت اور خاص طورپر اپنے ملک کے حالات کے بارے میں فکرمندی اور دائرے کے اندر رہتے ہوئے، اپنے کام کی نوعیت برقرار رکھتے ہوئے، حالات کی بہتری کے لیے جوکچھ ہو سکتا ہے، وہ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
اس وقت ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں، پوری امت کے لیے بالعموم اور دین کا کام کرنے والوں کے لیے بالخصوص فیصلہ کن لگ رہے ہیں۔ حالات یا آگے جائیں گے یا اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے، ریورس گیئر لگ سکتاہے۔ ان حالات میں کیا کرنا چاہیے اور کس طرح کرنا چاہیے، یہ ایک ایسی بحث ہے کہ اس میں ایک سے زیادہ آرا ہو سکتی ہیں اور یہ آرا کا تنوع ہمیشہ مفید ثابت ہوتا ہے، بشرطیکہ ایک دوسرے کے احترام کے ساتھ ہو۔ بعض اوقات متضاد پالیسیاں ہوتی ہیں اور متضاد آرا ہوتی ہیں، ہرکوئی اپنے اپنے طریقے پر چل رہا ہوتا ہے ،لیکن بحیثیت مجموعی اللہ تعالیٰ اس میں خیر پیدا فرما دیتے ہیں۔ آپ اپنی گھڑی کو کھول کردیکھیں، اس میں کئی کچھ گراریاں دائیں سے بائیں اور کچھ بائیں سے دائیں چل رہی ہوں گی، لیکن بحیثیت مجموعی ساری گراریاں مل کر جو نتیجہ د ے رہی ہوتی ہیں، وہ ایک ہوتا ہے اور وہ ہے وقت بتانا۔ تویہ آرا کاتنوع، طریقہ کار کا تنوع ہمیشہ فائدہ مند رہاہے اور اسی کو کہا گیا ہے کہ اس امت کا اور علما کا اختلاف رحمت ہے۔ مغربی دنیا خاص طورپر اس پر بڑا فخرکرتی ہے کہ ہمارے معاشرے کے اندر تنوع آرا کا بڑا احترام کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں diversity ہے، pluralism ہے، لیکن وہ یہاں تک صدیوں کے دھکے کھانے کے بعد پہنچے ہیں اور ہمیں یہ بات ابتدا ہی سے سمجھا دی گئی تھی کہ سب کے سب ایک ہی کھینچی ہوئی لکیر پر چل رہے ہوں، یہ کوئی ضروری نہیں،بلکہ بہت سی جگہوں پرتنوع اور تعدد آرا کی گنجایش رکھی گئی ہے کہ پالیسیوں اور طرز عمل میں آرا کااختلاف اور تنوع اگرایک دوسرے کے احترام کے ساتھ ہو تو بظاہر بالکل مختلف رخ بھی نظر آرہے ہوں، تب بھی بحیثیت مجموعی امت کو،معاشرے کو، دین کو اور دین کے کام کو فائدہ ہی پہنچتا ہے۔
میں صرف ایک چھوٹی سی بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس وقت یوں لگ رہاہے کہ جیسے ہمارا ملک خاص طورپر ایک خاص حوالے سے فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ دو راستوں میں سے ایک اختیار کرنا پڑے گا۔ یہ ملک یاصحیح راستے پر چڑھے گا یا غلط راستے پر، لیکن جس راستے پرایک دفعہ چڑھ گیا، اس سے ہٹانا انتہائی مشکل ہوگا۔ یہ وقت فیصلہ کن ہے اور جس طرف کو گاڑی چل پڑی، بظاہر اسی طرف چلتی رہے گی۔ ا س میں ہمارا وزن کس جانب ہونا چاہیے؟ دو راستے ہیں۔ ایک راستہ تویہ ہے کہ اس ملک کے اندر عوام کی آواز کوتسلیم کیاجائے۔ ہمارا دستور وآئین یہ کہتاہے کہ اس ملک کے اصل مالک تو اللہ تعالیٰ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بعد اس ملک کی قسمت کے مالک باہر سے یا اندر سے مسلط کیے ہوئے چند افراد نہیں بلکہ اس ملک کے عوام ہیں۔ یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ یہاں کے شہری سب کے سب انسان ہیں اور انسان ہونے کے ناطے ان کے کچھ حقوق ہیں جنہیں شہر ی حقوق کہا جاتا ہے۔ شہری حقوق اور شخصی آزادیوں کی ضمانت عملاً نظر آئے۔ ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ نامی کسی چڑیا کے کہنے پر یاکسی بھی بہانے سے ان پر جبر کرنے اور قدغنیں لگانے کا اختیار کسی کونہ ہو۔ آپ یہ کہہ سکتے ہو یانہیں، آپ یہ لکھ سکتے ہو یا نہیں۔بہت واضح اور معقول وجہ کے بغیر کسی کو بات کہنے سے روکا نہ جاسکے۔ تم نے یہ کیوں لکھا ہے؟ تم نے یہ کیوں کہا ہے؟ فلاں جگہ پر تم جمع کیوں ہوئے تھے؟ فلاں پارٹی کے ساتھ تمہاری وابستگی کیوں ہے؟ اس طرح کی پابندیاں لگانے کے بجائے ان معاملات میں آزادی ہو۔
یہ باتیں ہمیں تھوڑی سی اجنبی لگتی ہیں۔ اجنبی اس لیے لگتی ہیں کہ پچھلی چند صدیوں سے ان باتوں کی مغرب نے رٹ لگائی ہے اور اپنے ہاں انہوں نے اپنے عوام کوایک بڑی حدتک یہ حقوق اور آزادیاں دے رکھی ہیں۔ جس طرح کی ایمرجنسیاں اور قوانین یہاں چلتے ہیں اور جس طرح کی پا بندیاں یہاں لگتی ہیں، کسی مغربی ملک برطانیہ، امریکا اور یورپ کے کسی ملک میںیہ آسان کام نہیں۔ ا گر وہاں اس طرح کی کوئی چھوٹی سی بھی بات ہو، ایک طوفان کھڑا ہو جاتا ہے۔ لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ چند سال پہلے بعض چھوٹی چھوٹی باتوں پر لاکھوں لوگوں کے مظاہرے ہوئے ،لاکھوں لوگ باہر نکلے۔ انہوں نے اپنے ہاں ان چیزوں کو منوا لیا ہے ۔ توچونکہ انہوں نے اپنے ہاں منوایا ہے، اپنے ہاں روبعمل لائے ہیں، اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شایدیہ چیزیں ان کی ہیں، یہ باتیں اسلام سے کوئی تعلق اورواسطہ نہیں رکھتیں۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ آپ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کایہ ارشاد سناہوگا کہ ’’تم نے لوگوں کو کب سے غلام سمجھنا شروع کر دیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے توان کو آزاد جنا تھا‘‘۔ جو انسان پیدا ہوتا ہے، وہ اپنی ماں کے پیٹ سے آزادی ساتھ لے کر آتاہے۔ فطری طورپر وہ آزاد ہوتا ہے۔ آپ کسی کو کسی معاملے میں جکڑنا چاہتے ہیں تو جکڑنے کی کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے۔ کسی کو آزاد رہنے کی وجہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مثلاًمیں کوئی کام کر رہا ہوں، آپ مجھے روکنا چاہتے ہیں تو آپ وجہ بتائیں کہ آپ کیوں روکنا چاہتے ہیں۔ میں اس چیز کا پابند نہیں ہوں کہ آپ چونکہ اس ملک کے حاکم ہیں، آپ ڈی سی ہیں، آپ تھانیدار ہیں، اس لیے پہلے میں آپ کو قائل کروں گا کہ میں یہ کام کرنا چاہتا ہوں۔ نہیں، میر ی مرضی۔ میں آزاد ہوں، یہ میرا حق ہے۔ آپ اگر روکنا چاہتے ہیں تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ مجھے بتائیں اور سمجھائیں کہ آپ مجھے کیوں روکنا چاہتے ہیں؟ پیدایشی آزادی کایہی مطلب ہے کہ کسی کوکسی چیز سے روکنے کے لیے وجہ درکار ہے، کرنے کے لیے نہیں۔ 
مغر ب نے اپنے ہاں شہری آزادیوں کو نافذ کیا ہے اوریہ بات یاد رکھیں کہ مغرب نے صدیوں کی جدوجہد سے جویہ مقام حاصل کیاہے اوریہاں تک پہنچاہے، یہ ہمارے لیے نہیں ہے، بلکہ صرف گوروں کے لیے ہے اور ہمیں اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے کہ یہ ان کی صدیوں کی جدوجہد ہے جو انہوں نے اپنے لیے کی ہے۔ ہم جدوجہد کریں گے تواپنے لیے کریں گے۔ انہوں نے ایک چیز حاصل کی ہے تو وہ اپنے لیے حاصل کی ہے۔ ہم یہ چاہیں کہ مغرب چونکہ ان شہری آزادیوں کو تسلیم کرتاہے، وہاں امریکا اور برطانیہ میں پائی جاتی ہیں تواسی معیار کی یہ آزادیاں امریکا، برطانیہ وغیرہ اسلامی ملکوں میں ہمیں دلوا دیں گے، اس کی توقع رکھنا فضول ہے۔ اپنے گھر خود بنانے پڑتے ہیں۔ اگرآپ کے ہمسایے نے اچھا گھر بنا لیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ کا گھر بھی خو ب صورت بنا دے گا۔ یہ چیز ہمیں خود اپنی محنت سے حاصل کرنا ہوگی۔ اس کے لیے آزاد اورمضبوط ریاستی ادارے ناگزیر ہوتے ہیں، چاہے وہ پارلیمنٹ اور مقننہ ہو، انتظامیہ ہو یا عدلیہ ہو، خاص طورپر عدلیہ آزاد ہو۔ 
آپ کومعلوم ہوگا کہ الیکشن کے دنوں میں انڈیا کے اندر الیکشن کمیشن کی اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وزیراعظم تک اس سے تھرتھر کانپ رہاہوتا ہے۔ اندرا گاندھی نے اپنے ایک الیکشن میں اپنی سرکاری حیثیت کا استعمال کرلیا تھا تووہاں کی عدالتوں نے الیکشن کالعدم قرار دے دیا تھا۔ عدالتوں کی آزادی ناگزیر ہوتی ہے۔ امریکی انتظامیہ نے کیوبا، گوانتا ناموبے کے قیدیوں کے بارے میں یہ چاہا کہ ان پر صرف فوجی قانون لاگو ہو، امریکا کا عام قانون ان پر لاگو نہ ہو۔ اس پر بہت زور لگایا لیکن امریکہ کی سپریم کورٹ نے اسے نہیں چلنے دیا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ عام لوگوں کو جتنا اعتماد برطانیہ، امریکاکی عدالتوں پر ہے، اتنا اعتماد پاکستان بلکہ کسی بھی اسلامی ملک کی عدالتوں پر نہیں ہے، کیونکہ آزاد اداروں کا تصور، شہری حقوق اور شخصی آزادیوں کا تسلیم کیا جانا،اس طرح کی باتیں ہمارے معاشرے میں فکری عیاشی سمجھی جاتی ہیں۔ عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک فکری عیاشی ہے، اس کا ہماری روٹی سے کوئی تعلق ہے نہ پہناوے سے اور نہ ہماری بنیادی ضرورتوں سے، لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔یہ چیزیں کسی بھی معاشرے کے لیے بنیادی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔ جب تک یہ چیزیں حاصل نہ ہوں، اس وقت تک قومیں ترقی نہیں کرتیں۔ بے شک سڑکیں اچھی بن جائیں، جال بچھ جائیں، سڑکوں پرپل بن جائیں، یہ صرف ظاہری ترقی ہے۔ اصل ترقی انسانی،سیاسی اور سماجی ترقی ہے جس میں مضبوط اداروں کے زیرسایہ شہری حقوق اور شخصی آزادیاں تسلیم شدہ ہوں۔
اس وقت ملک میں جوکچھ ہو رہا ہے، وہ ایک انتہاہے۔ مختلف اداروں پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہو رہی ہیں، ٹی وی چینلو ں اور اخبارات وجرائد پر پابندیاں اور جکڑنیں ہیں اور یہ سب کچھ روشن خیالی کا نام جپنے والوں کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔ اگرچہ ہماری معلومات کے مطا بق الحمد للہ ابھی تک بعض اخبارات اور ٹی وی والوں نے حکومت کے آگے ہتھیا رنہیں ڈالے، حکومت جس طرح کا قانون نافذکرنا چاہتی ہے، اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیارنہیں ہوئے، بند پڑے ہوئے ہیں۔ اوربھی کئی طبقے اللہ کے فضل سے اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ حکومتی جبر نہیں مانیں گے۔ اب دو راستے ہیں۔ یا تو ملک کو دستور پسند اور مہذب معاشرہ دیکھنے کے خواہشمند بھرپور طریقے سے اپنی بات تسلیم کروائیں گے اور موجودہ حالات کا ایسا نتیجہ نکلے گا کہ آئندہ آنے والوں کو یقین ہوجائے کہ یہاں کے لوگ ا ب اتنے باشعورہوچکے ہیں کہ یہاں کسی کی مطلق العنانی نہیں چل سکتی، لوگوں کے حقوق چھینے نہیں جا سکتے، لوگوں پر بے جاریاستی دباؤ اور جبر نہیں چل سکتا، فرد واحد کی خواہش پر اداروں کوتہس نہس نہیں کیاجاسکتا۔ اس سے ملک ایک خاص راستے پر چڑھے گا۔ ایک دفعہ یہ بات سمجھ میں آگئی توپھر ا ن شاء اللہ یہ ملک صحیح رخ پر چلتا رہے گا۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ قوم بحیثیت مجموعی تسلیم کرلے کہ ’’سانوں کی‘‘ (ہمیں کیا) موجودہ صورت حال سے ہماراکوئی تعلق نہیں، یہ اخبارات والوں کامسئلہ ہے، یہ ٹی وی چینل والوں کا مسئلہ ہے، یہ ججوں کا مسئلہ ہے، یہ وکیلوں کا مسئلہ ہے، یہ دینی حلقوں اور مولویوں کا مسئلہ ہے۔ ہرکوئی اپنے حصے کی مار الگ الگ کھاتارہے۔ اس سے ملک ایک خاص راستے پر چڑھے گا۔آنے والی حکومتوں کو پتہ ہوگا کہ جیسے پہلے ساٹھ سال سے ہوتاآرہا ہے، جب دیکھاکہ عدلیہ ہماری تا بعداری سے نکل رہی ہے توکسی نہ کسی طریقے سے اپنے مرضی پر لے آئیں۔ جب دیکھاکہ لوگوں تک بات پہنچانے کے جتنے ذرائع ہیں، جتنا میڈیا ہے، وہ ایک خاص حدسے نکل رہا ہے، ہماری منشا کے مطا بق نہیں چل رہا تو ان کو پکڑ کر جکڑ دیں اور کہیں کہ لوگوں نے مان لیا اور ’’سانوں کی‘‘ کا رویہ اختیار کر کے ہماری خاموشی نے تصدیق کر دی۔ لہٰذا یہ صرف چندلوگوں کا مسئلہ ہے۔ اس سے ملک ایک دوسری قسم کی ڈگر پر چلے گا اور یاد رکھیں کہ گاڑی کارخ جس طرف کوبھی مڑا، اس کے اچھے یا برے اثرات ہم یعنی دین کا کام کرنے والوں پر بھی لازماً پڑیں گے۔ اگر ملک کی یہ گاڑی شخصی آزادیوں کے راستے پر چل نکلی، شہری حقو ق، دستورپسندی اور آئین کی پاس داری کے راستے پر چل نکلی تواس کے اثرات وثمرات سے دینی حلقے بھی مستفید ہوسکیں گے۔ اس کافائدہ جہاں لادین طاقتوں کو ہوگا، وہیں ہمیں بھی ان آزادیوں اور شہری حقوق سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔
اگر خدانخواستہ گاڑی کارخ دوسری طرف ہوگیا اور آپ نے کسی کایہ اختیار تسلیم کرلیا کہ وہ اپنی مرضی سے جس کا چاہے، گلا دبا دے توجس نے آج ان کا دبایاہے، کل آ پ کا بھی دبا سکتا ہے۔ آج اگر اس کا گلہ د بانے کی طاقت حاصل کرتاہے توکل آپ کا بھی د بادے گا،بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ تمہارا اس سے زیادہ دبائے۔ آج کئی لوگوں کے لیے بات کہنا اور لکھنا مشکل ہے اور دوسرے شہری حقوق بھی پامال ہو رہے ہیں توکل کوہمارے لیے دین کے کام میں بھی مشکلات آسکتی ہیں۔ آپ دوسرے اسلامی ملکوں کاحال دیکھ لیں۔ سعودی عرب اور ترکی کا حال دیکھ لیں، وہاں کی حکومتوں کے نقطہ نظر سے ہٹ کر آپ دین کی کوئی بات بھی کر سکتے ہیں؟ تبلیغی جماعت کا کام آزادی سے کرسکتے ہیں؟ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ تبلیغ والے حضرات کہنے لگے کہ آج کل ہمیں ترکوں پر زیادہ محنت کرنے کا کہا گیا ہے۔ میں نے سوچا کہ جماعتیں ترکی میں جا رہی ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ نہیں، اس مقصدکے لیے جماعتیں زیادہ تر جرمنی میں جا رہی ہیں۔ میں نے کہا کہ محنت ترکوں پر اور جماعتیں جرمنی میں جا رہی ہیں؟ کہنے لگے اس لیے کہ ترکی میں وہ حقوق نہیں، وہ آزادیاں نہیں ہیں جو جرمنی میں ہیں۔ ترک چونکہ جرمنی میں کثر ت سے ہیں ملازمت اور کسب معاش وغیر ہ کے سلسلے میں، اس لیے جرمنی میں جا کر ترکوں پرمحنت کرتے ہیں اور ترکی میں یہ کام نہیں ہوسکتا۔
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ شایدہماری نفسیات میں کہیں سے یہ بات آگئی ہے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ کوئی آکر لوگوں کو جکڑے، ان کے ہاتھ پاؤں باندھے اور ہم ان جکڑے ہوئے لوگوں میں دین کا جام انڈیلیں، لیکن یاد رکھیں یہ ہم میں سے کسی کی خواہش تو ہو سکتی ہے، خود اسلام فطری طورپر اتنا بودا اور بے کشش نہیں ہے کہ اسے اس طرح کی کسی بیساکھی کی ضرورت ہو۔ آپ پچھلے کچھ عرصہ کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ جن جن ملکوں میں شہری حقوق اور شخصی آزادیاں جتنی زیادہ تسلیم کی گئی ہیں، جتنا زیادہ کھلا ماحول ملا ہے، وہاں اسلام اتنا زیادہ پھیلاہے اور جو ملک اشتراکی نظام کے زیر اثر رہے ہیں، اشتراکیت میں چونکہ ان حقوق کو سلب اور چھینا جاتا ہے، جیسے روس ہے، چائنا ہے، وہاں اسلام اتنا نہیں پھیلا جتنا امریکہ، برطانیہ اور فرانس وغیرہ میں پھیلا ہے۔ آج مسلمان ملکوں کے اندر عورتیں حجاب چھوڑ ر ہی ہیں، لیکن مغرب میں مسلمان ہو کر حجا ب اوڑھ رہی ہیں۔ کھلے ماحول میں جب بھی اسلام کی بات چلے گی تووہ لوگوں کے دل ودماغ میں خود جگہ بنائے گی۔
بات یہ کررہاتھاکہ اس وقت ہماری ہمدردیاں کس کے ساتھ ہونی چاہییں؟ میں کسی خاص طبقے کی بات نہیں کر رہا۔ ہم اگر عملی طورپر کچھ نہیں کرسکتے توکم ازکم ذہنی اورفکری طورپر ہماری ہمدردیاں کس کے ساتھ ہونی چاہییں؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ اس وقت چند ججوں اور وکیلوں کا نہیں، نہ اخبارات والوں اور ٹی وی والوں کا ہے، بلکہ مسئلہ اصول اور رخ کا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمیں کون سا راستہ سوٹ کرے گا۔ اس وقت ہم اپنا وزن صحیح جانب ڈالیں کیونکہ یہ فیصلہ کن موڑہے۔اپنے آپ کو بالکل لاتعلق نہ رکھیں، ا ب یہ کہنے کا موقع نہیں رہاکہ ’’سانوں کی‘‘۔ اگر آزادیوں اورحقو ق کوتسلیم کرلیا گیا تواس سے ہم بھی مستفید ہوں گے۔قانونی ڈھانچے اور قانونی دائرے کے اندر رہتے ہوئے آپ کوئی مدرسہ بنائیں یاکوئی مسجد بنائیں توآپ کوکوئی نہیں روک سکے گا۔ برطانیہ اورامریکا میں اوریورپ کے دیگر ملکوں میں وہاں کے قانون کے مطابق اگر مسجد بنانا چاہتے ہیں تو وہاں کی حکومت کی مجال نہیں کہ وہ آپ کوروک دے، محض اس وجہ سے کہ ہمیں پسند نہیں۔ آپ مند ربنا نا چاہیں توآپ کاحق ہے، آپ بنائیں۔ آپ گرجاگھر بنانا چاہیں، آپ کاحق ہے، بنائیں۔ توحقوق کو تسلیم کیے جانے کا جو راستہ ہے، شہری حقوق اور شہری آزادیوں کا جو راستہ ہے، اس سے جتنا زیادہ فائدہ دوسروں کوہوگا، اس سے کہیں زیادہ فائدہ ہم اٹھا سکیں گے۔یہ ٹھیک ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو ایک خاص قانونی دائرے کے اندر رکھنا پڑے گا، لیکن اس حد کے اندر رہتے ہوئے توکم ازکم روک ٹوک نہیں ہوگی۔ ہم اپنا کام آزادی سے کرسکیں گے، دین کی بات بڑھا سکیں گے، پھیلا سکیں گے، لوگوں تک پہنچا سکیں گے، اور یہ ہماری طاقت نہیں بلکہ دین کی اپنی طاقت ہے۔ دین اپنے آپ کو خود منواتاہے۔ توجہاں تک ہماری بات چلتی ہے، جہاں تک ہمارے قلم کی دسترس ہے، ورنہ کم از کم ہمدریوں کی حدتک ہمیں صحیح جانب وزن ڈالنا چاہیے، خاص طورپر ہم میں سے جولوگ سیاسی میدانوں میں ہیں۔ ہمیں اپنی سیاسی قیادت پر نظر رکھنی چاہیے۔ اگر امیرالمومنین کو برسرعام غلطی پرٹوکا جاسکتاہے تودینی سیاسی قیادت اگر غلط راستے پر چل رہی ہے تواس کو بھی بتایا جا سکتاہے کہ جناب!آپ یہ ٹھیک نہیں کر رہے۔ خاص طورپر جولوگ سیاسی میدان میں ہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ قیادت کوبتائیں کہ ہمیں پتہ ہے کہ اندر سے کیا ہو رہا ہے اور باہر کیا کیا جا رہا ہے۔ آپ یہ مت سمجھیں کہ ہمیں پتہ نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لیڈروں کوبتائیں کہ ہم محض آپ کی ز بان کی چکناہٹ اور خوب صورت دلیلوں سے متاثر ہونے والے نہیں ہیں۔اب وقت آگیاہے کہ آپ کے بیانات اورطرز عمل اورپالیسیوں میں یکسانیت نمایاں نظر آئے۔
اس ملک کے ساتھ اس وقت چند قائدین اتنا سنگین مذاق کر رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہماری چالبازیوں اور مذاق سے لوگ بے وقو ف بن جائیں گے۔ اس کا نقصان جس طرح ملک کو پہنچے گا، ویسے ان کو بھی پہنچے گا۔ اس وقت کی صورت حال سے دل اتنا دکھا ہواہے کہ کوئی قیادت نظر نہیں آرہی ہے۔ نچلی سطح پرپہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ لوگوں میں شعور بیدار ہو رہا ہے، لیکن اوپر کی سطح پرکوئی قیادت ہی نہیں۔ پھرایک بات یہ بھی ہے کہ ملک کاجوبہت متمول طبقہ ہے تواسے اپنے مفادات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا اور نچلا طبقہ مہنگائی کی چکی میں ایسا پسا ہواہے کہ اسے اپنی دال روٹی سے فرصت نہیں۔ لے دے کے مذل کلاس خصوصاً اپر مذل کلاس رہ جاتی ہے۔ اس وقت بیداری کی لہربھی سب سے زیادہ اس میں ہے اور علما کے ساتھ رابطہ اورتفاعل اس کا سب سے زیادہ ہے۔ اس لیے بھی اس طبقے پر خاصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ مطلق العنانی کے خلاف مزاحمت کی علامت مولوی ہوتا تھا۔ لوگوں کی نظر یں مولا نا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ پر ہوتی تھیں، مفتی محمود ؒ پر ہوتی تھیں، لیکن آج لوگ سوچنے پر مجبورہیں۔ آج لوگوں کی نظریں اعتزاز احسن پر ہیں، جاوہد ہاشمی پرہیں، منیراے ملک، افتخار چوہدری پر ہیں۔ آپ لوگوں سے خود جاکر پوچھ لیں، خود سرو ے کرلیں۔ اور نہیں تو کم از کم اپنے مقتدیوں کا ہی سروے کرلیں، ہم لوگ کسی زمانے میں ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کی علامت ہوتے تھے، ۔ اب اس جگہ پر پہنچ گئے،یہ ہمارے لیے سوچنے کی بات ہے۔ ہم عام تقریریں نہیں کر سکتے، عوام کو بھڑکانہیں سکتے توکم از کم اپنے دائرے کے اندر رہتے ہوئے سوچ توسکتے ہیں اوراپنی دینی لیڈر شپ کو جتا سکتے ہیں۔ اگر ان کویہ پتہ چل جائے کہ نیچے والوں نے صرف ہمارے حق میں نعرے نہیں لگانے بلکہ ہماری پالیسیوں کو چیک بھی کرناہے توانہیں بھی اپنی پالیسیوں پر غور اور نظرثانی کے لیے وقت نکالنا پڑے گا۔ اس معاملے میں اگرہم نے سستی کی توخدانخواستہ ہم پر کہیں وہ وقت نہ آجائے کہ ہم چیخیں لیکن کوئی سننے والا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے، آمین۔
(ضبط وتلخیص:مولانا مفتی محمد اصغر۔ بشکریہ مجلہ ’’الحقانیہ‘‘ ساہیوال، سرگودھا، جنوری ۲۰۰۸)

شرعی سزاؤں کی ابدیت و آفاقیت کی بحث

محمد عمار خان ناصر

(مصنف کی زیر ترتیب کتاب ’’حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ کا ایک باب)

شرعی قوانین اور بالخصوص سزاؤں سے متعلق شرعی احکام کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے معاصر مسلم فکر میں ایک اہم اور بنیادی بحث یہ ہے کہ قرآن وسنت میں مختلف معاشرتی جرائم مثلاً زنا، چوری، قذف اور محاربہ وغیرہ سے متعلق جو متعین سزائیں بیان کی گئی ہیں، آیا وہ ابدی اور آفاقی نوعیت کی ہیں یا ان کی معنویت اور افادیت ایک مخصوص زمان ومکان تک محدود تھی۔ ایک مکتب فکر یہ رائے رکھتا ہے کہ یہ سزائیں تجویز کرتے وقت اہل عرب کے مخصوص تمدنی مزاج اور معاشرتی عادات واطوار کو پیش نظر رکھا گیا تھا اور اس معاشرت میں جرائم کی روک تھام کے حوالے سے یہ موزوں اور موثر تھیں، تاہم ان کی ظاہری صورت کو ہر دور میں بعینہٖ برقرار رکھنا ضروری نہیں اور اصل مقصد یعنی عدل وانصاف پر مبنی معاشرے کے قیام اور جرائم کی روک تھام کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی معاشرے کی نفسیات اور تمدنی حالات وضروریات کے لحاظ سے قرآن کی بیان کردہ سزاؤں سے مختلف سزائیں تجویز کی جا سکتی ہیں۔ 
یہاں تنقیح طلب نکتہ یہ ہے کہ آیا شارع نے کیا فی الواقع ان سزاؤں کی اساس یہی بیان کی ہے کہ ان کے ذریعے سے محض معاشرے میں جان ومال اور آبرو وغیرہ کا تحفظ مقصود ہے اور یہ کہ سزا کے اصل مقصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے، ان سزاؤں کی ظاہری صورت میں تبدیلی کی گنجایش موجود ہے؟ قرآن مجید کے متعلقہ نصوص کے مطالعے سے اس سوال کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ قرآن سے واضح ہوتا ہے کہ اس معاملے میں اس کا زاویہ نگاہ جوہری طور پر زیر بحث زاویہ نگاہ سے مختلف ہے۔ قرآن ان سزاؤں کو اصلاً ’حقوق العباد‘ یعنی جان ومال اور آبرو کے تحفظ کے ایک ذریعے کے طور پر بیان نہیں کرتا اور نہ اس نے ان سزاؤں کو بیان کرتے ہوئے وہ مقدمہ ہی قائم کیا ہے جو زیر بحث نقطہ نظر میں ان سزاؤں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے، یعنی یہ کہ انسانی معاشرے میں امن ہونا چاہیے، اور چونکہ مذکورہ جرائم امن وامان کو تباہ کر دیتے ہیں، اس لیے یہ معاشرے کے تحفظ کا تقاضا ہے کہ ان جرائم کی روک تھام کے لیے مجرموں کو مذکورہ سزائیں دی جائیں۔ قرآن نے یہ بات نہیں کہی، بلکہ وہ ان سزاؤں کو ’حق اللہ‘ کے طور پر بیان کرتا ہے اور اس کا مقدمہ یہ ہے کہ انسان کی جان، مال اور اس کی آبرو کو اللہ نے حرمت بخشی ہے اور اللہ کی اجازت کے بغیر یہ حرمت کسی صورت میں ختم نہیں کی جا سکتی، اس لیے اگر کوئی مجرم کسی انسان کی جان، مال یا آبرو پر تعدی کرتا ہے تو وہ دراصل خدا کی قائم کی ہوئی ایک حرمت کو پامال کرتا ہے اور اس طرح خدا کی طرف سے سزا کا مستحق قرار پاتا ہے، چنانچہ کسی بھی جرم پر خدا کی بیان کردہ سزا دراصل خدا کا حق ہے جس کے نفاذ کو اس نے انسانوں کی ذمہ داری ٹھہرایا ہے۔ 
شرعی سزاؤں کا یہ پہلو قرآن مجید نے کم وبیش ہر موقع پر واضح کیا ہے۔ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت ۱۷۸ میں اللہ تعالیٰ نے قاتل سے قصاص لینے کو فرض قرار دیا ہے۔قصاص کا قانون تورات میں بھی بیان کیا گیا تھا، تاہم اس میں قاتل کو معاف کر کے دیت لینے کی گنجایش نہیں رکھی گئی تھی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ اجازت تمھارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قتل کی صورت میں قاتل کو قتل کرنا یا اس سے دیت لے کر معاف کر دینا انسانوں کی صواب دید پر مبنی نہیں، بلکہ یہ اجازت خدا کی طرف سے رحمت کی وجہ سے ملی ہے اور اگر وہ تورات کے قانون کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی اجازت نہ دیتا تو قاتل کو قصاص میں قتل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔ 
سورۂ نور کی آیت ۲ میں زانی مرد اور زانی عورت کے لیے سو کوڑوں کی سزا بیان کی گئی ہے۔ یہاں قرآن نے اپنی بیان کردہ سزا کے نفاذ کو اللہ کے دین پر عمل درآمد کا معاملہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ مجرم پر کوئی ترس کھائے بغیر اس پر سزا کا نفاذ اہل ایمان کے ایمان کا تقاضا ہے۔ 
سورۂ مائدہ کی آیت ۳۸ میں چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس سزا کو ’نکالا من اللہ‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف عبرت کا نمونہ کہا گیا ہے۔ اس سے پہلے آیت ۳۳، ۳۴ میں نے محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرموں کی سزائیں بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر یہ مجرم قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے توبہ کر لیں تو جان لو کہ اللہ معاف کرنے والا، مہربان ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ توبہ کی صورت میں اللہ کی طرف سے معافی کی پوری توقع ہے، اس لیے ایسے مجرموں پر سزا نافذ نہ کی جائے۔
ان سزاؤں کا یہ پہلو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات سے بھی واضح ہوتا ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ جو شخص قتل، زنا، چوری اور بہتان طرازی کا مرتکب ہو اور دنیا ہی میں اپنے کیے کی سزا پا لے، اس کی سزا اس کے گناہ کا کفارہ بن جائے گی، لیکن اگر دنیا میں وہ سزا سے بچ گیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا حق ہوگا کہ وہ چاہے تو اسے سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے۔ (بخاری، ۱۷) ایک دوسری روایت میں آپ نے اس بات کو یوں بیان کیا کہ اگر کسی شخص کو دنیا ہی میں اس کے جرم کی سزا مل جائے تو یہ بات اللہ تعالیٰ کے عدل سے بعید ہے کہ وہ آخرت میں اسے دوبارہ اس کی سزا دے۔ (ترمذی، ۲۵۵۰) دونوں روایتوں سے واضح ہے کہ دنیا میں ملنے والی سزا بھی دراصل اللہ کا حق ہے جس کا نفاذ مجرم کو آخرت کے عذاب سے بچا لیتا ہے۔ 
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً بھی بہت سے مقدمات میں مجرم کے ساتھ ہمدردی محسوس کرنے، صاحب حق کے معاف کر دینے یا تلافی کی متبادل صورت موجود ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سزا ہی کے نفاذ پر اصرار کیا۔ چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلے جس شخص کا ہاتھ کاٹا گیا، اسے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور آپ کو بتایا گیا کہ اس نے چوری کی ہے تو آپ کا چہرہ مبارک اس طرح سیاہ ہو گیا جیسے اس پر راکھ پھینک دی گئی ہو۔ صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ، آپ کو کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا: ’’میں اس پر سزا نافذ کرنے سے کیسے رک سکتا ہوں جبکہ تم خود اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مدد کرنے والے ہو؟ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ (تمھیں چاہیے تھا کہ اس کو میرے سامنے پیش نہ کرتے کیونکہ) حکمران کے سامنے جب سزا سے متعلق کوئی معاملہ پیش ہو جائے تو اس کے لیے سزا کو نافذ کرنا ہی مناسب ہے۔‘‘ (مسنداحمد، ۳۷۸۰) 
ایک شخص نے صفوان بن امیہ کی چادر چرا لی۔ اس کو پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کاحکم دیا۔ صفوان نے چور پر ترس کھاتے ہوئے کہا کہ یارسول اللہ، میرا مقصد یہ نہیں تھا کہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے، اس لیے میں اپنی چادر اس چور کو ہبہ کرتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے میرے پاس لانے سے قبل اسے کیوں معاف نہیں کر دیا؟ چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ (نسائی، ۴۷۹۵۔ ابن ماجہ، ۲۵۸۵) 
عبد اللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے چوری کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ ہم اس کا عوض مال کی صورت میں دینے کے لیے تیار ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ انھوں نے کہا کہ ہم پانچ سو دینار تک دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن آپ نے فرمایا کہ اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ (مسند احمد، ۶۳۷۰)
اس تفصیل سے واضح ہے کہ قرآن وسنت ان سزاؤں کو اصلاً ایک سماجی ضرورت کے طور پر نہیں ،بلکہ خدا کے حق کے طور پر بیان کرتے ہیں جس میں خود اس کے حکم کے بغیر کسی تبدیلی کی علمی وعقلی طور پر کوئی گنجایش نہیں۔ جہاں تک جرائم کے سدباب کا تعلق ہے تو یقیناًوہ بھی ان سزاؤں کا ایک اہم پہلو ہے، لیکن اس کی حیثیت اضافی اور ثانوی ہے اور اسے بنیاد بنا کر سزا کی اصل اساس کو اس کے تابع بنا دینے بلکہ بالکل نظر انداز کر دینے کو کسی طرح بھی شارع کے منشاکی ترجمانی نہیں کہا جا سکتا۔ شرعی سزاؤں کو یہی حیثیت سابقہ شرائع میں بھی حاصل رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب یہود نے تورات میں بیان ہونے والی بعض سزاؤں کو سنگین تصور کرتے ہوئے نرم سزا کی توقع پر بعض مقدمات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا تو قرآن نے ان کے اس طرز عمل پر تنقید کی اور فرمایا کہ ان کے پاس تورات ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے، پھر یہ اس کو چھوڑ کر آپ کو کیسے حکم بنا سکتے ہیں؟ (مائدہ ۵:۴۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقدمے میں یہود کی منشا کو بالکل الٹتے ہوئے مجرموں پر تورات ہی کی سزا نافذ فرمائی اور پھر کہا: ’اللہم انی اول من احیا امرک اذ اماتوہ‘ (یا اللہ، میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا، جبکہ انھوں نے اسے مردہ کر رکھا تھا)۔ (مسلم، ۳۲۱۲)
نصوص کی روشنی میں اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ان استدلالات پر بھی تبصرہ کر دیا جائے جو اس ضمن میں بالعموم پیش کیے جاتے ہیں:
پہلا استدلال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ سیدنا عمر نے اپنے عہد حکومت میں قحط سالی کے زمانے میں چور کے لیے قطع ید کی سزا کے نفاذ پر عمل درآمد روک دیا تھاجو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس سزا کا نفاذ ہر حالت میں ضروری نہیں ہے۔ تاہم یہ نکتہ اصل بحث سے بالکل غیر متعلق ہے، اس لیے کہ کسی حکم کا اصولی طور پر واجب الاتباع نہ ہونا ایک چیز ہے اور کسی مخصوص صورت حال میں اس کے اطلاق میں کسی اخلاقی اور شرعی مصلحت کو ملحوظ کھنا ایک بالکل دوسری چیز۔ سیدنا عمر کا مذکورہ فیصلہ دوسرے دائرے کی چیز ہے اور اپنی جگہ بالکل درست ہے، اس لیے کہ شریعت میں مختلف معاشرتی جرائم پر جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں، ان کے نفاذ میں ان تمام شروط وقیود اور مصالح کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو جرم وسزا کے باب میں عقل عام پر مبنی اخلاقیات قانون اور خود شریعت کی ہدایات سے ثابت ہیں۔ جرم کی نوعیت وکیفیت اور مجرم کے حالات کی رعایت کرنا اور اگر وہ کسی پہلو سے معاف کیے جانے کا مستحق ہو تو اسے معاف کر دینا انھی اصولوں میں سے ایک بنیادی ہے۔ کسی بھی مجرم پر سزا کا نفاذ اسی صورت میں قرین انصاف ہے جب مجرم کسی بھی پہلو سے رعایت کا مستحق نہ ہو۔ اگر جرم کی نوعیت وکیفیت اور مجرم کے حالات کسی رعایت کا تقاضا کر رہے ہوں تو اس پہلو کونظر انداز کرتے ہوئے سزا کو نافذ کرنا عدل وانصاف اور خود شارع کی منشا کے خلاف ہے اور سیدنا عمر نے اسی کو ملحوظ رکھتے ہوئے قحط سالی کے زمانے میں قطع ید کی سزا پر عمل درآمد کو روکا تھا۔ ان کے اس فیصلے سے کسی طرح یہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ فی نفسہ ان سزاؤں کو ہی شریعت کا کوئی ابدی حکم تصور نہیں کرتے تھے۔
دوسرا استدلال یہ سامنے آیا ہے کہ چونکہ جدید ذہن مختلف تمدنی اور نفسیاتی عوامل کے تحت شرعی سزاؤں سے اجنبیت محسوس کرتا ہے اور ان سزاؤں کا نفاذ نفسیاتی طور پر دین سے دوری کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے موجودہ دور میں ان سزاؤں کا نفاذ مصلحت کے خلاف ہے۔ ہماری رائے میں یہ بات تو درست ہے کہ دین کے احکام پر موثر عمل درآمد ان کی اعتقادی واخلاقی اساسات پر مضبوط ایمان اور شکوک وشبہات کا ازالہ کیے بغیر ممکن نہیں، تاہم اس نکتے کی بنیاد پر شرعی سزاؤں کو جدید دور میں کلیتاً ناقابل نفاذ قرار دے کر مستقل بنیادوں پر متبادل سزاؤں کا جواز اخذ درست نہیں، اس لیے کہ پھر یہ معاملہ قانون کے عملی نفاذ کی مصلحت تک محدود نہیں رہتا، بلکہ فکر ونظر کے زاویے میں ایک نہایت بنیادی اختلاف کو قبول کرنے تک جا پہنچتا ہے۔ جدید ذہن کو ان سزاؤں پر یہ اشکال نہیں ہے کہ یہ جرائم کی روک تھام میں مددگار نہیں یا ان سے زیادہ موثر سزائیں دریافت کر لی گئی ہیں، بلکہ اسے یہ سزائیں سنگین،متشددانہ اور قدیم وحشیانہ دور کی یادگار دکھائی دیتی ہیں اور وہ انھیں انسانی عزت اور وقار کے منافی تصور کرتا ہے۔ زاویۂ نگاہ کا یہ فرق قانون کی مابعد الطبیعیاتی اور اعتقادی بنیادوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اسلام خدا کے سامنے مکمل تسلیم اور سپردگی کا نام ہے۔ یہ سپردگی مجرد قسم کے ایمان واعتقاد اور بعض ظاہری پابندیوں کو بجا لانے تک محدود نہیں، بلکہ انسانی جذبات واحساسات بھی اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ محبت، نفرت، ہمدردی اور غصے جیسے جذبات اور حب ذات، آزادی اور احترام انسانیت جیسے احساسات وتصورات نفس انسانی میں خدا ہی کے ودیعت کردہ اور اس اعتبار سے بجائے خود خدا کی امانت ہیں، چنانچہ اسلام کے نزدیک ان کا اظہار اسی دائرۂ عمل میں اور اسی حد تک قابل قبول ہے جب تک وہ خدا کے مقرر کردہ حدود کے پابند رہیں۔ اس سے تجاوز کرتے ہوئے اگر ان کو کوئی مقام دیا جائے گا تو یہ خدا کی امانت کا صحیح استعمال نہیں، بلکہ اس میں خیانت کے مترادف ہوگا۔ چنانچہ جدید انسانی نفسیات اگر جرم وسزا سے متعلق قرآنی احکام سے نفور محسوس کرتی ہے تو یہ محض قانون کی مصلحت یا اس کے سماجی تناظر کے بدل جانے کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کی جڑیں قانون کی مابعد الطبیعیاتی اساسات میں پیوست ہیں اور اس معاملے میں جدید فکر کے ساتھ کمپرومائز کا جواز فراہم کرنے کے لیے ’اجتہاد‘ کے دائرے کو ایمان واعتقاد تک وسیع کرنا پڑے گا۔
اس بحث سے متعلق تیسرا اہم استدلال برصغیر کے جلیل القدر عالم شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے۔ مولانا شبلی نعمانی نے اپنی کتاب ’’الکلام اور علم الکلام‘‘ میں شاہ صاحب کی تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ سے ایک اقتباس نقل کر کے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شاہ صاحب قتل، زنا اور چوری وغیرہ سے متعلق قرآن کی بیان کردہ سزاؤں کو اہل عرب کی عادات پر مبنی اور ان کی مخصوص معاشرت ہی کے لیے موزوں سمجھتے ہیں، جبکہ دنیا کے دیگر معاشروں میں ان سزاؤں کے نفاذ کو لازم قرار نہیں دیتے۔ یہ عبارت ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے ’المبحث السادس‘ کے ’باب الحاجۃ الی دین ینسخ الادیان‘ سے لی گئی ہے۔ ذیل میں ہم سیاق وسباق کی روشنی میں اس کا مفہوم واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔
مذکوہ باب میں بحث کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں مختلف اقوام اورملل کے وجود میں آ جانے اور ان کے اختیار کردہ سنن وشرائع میں راہ راست سے کجی اور انحراف واقع ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اب ایک ایسا امام راشد سامنے آئے جو تمام ملتوں کو ایک ملت پر جمع کر دے اور ان ملتوں میں پائے جانے والے انحراف کو درست کرنے کے لیے وہی کردار ادا کرے جو ایک خلیفہ راشد دوسرے ظالم حکمرانوں کے ظلم وجور کو ختم کر کے دنیا میں عدل قائم کرنے کے لیے ادا کرتا ہے۔ اس عالمگیر مقصد کے حصول کے لیے امام راشد کو ان عمومی اصولوں کے علاوہ جن کی وضاحت شاہ صاحب ’باب الارتفاق الرابع‘ نے میں کی ہے، چند مزید اصولوں کی بھی ضرورت ہے۔ شاہ صاحب نے اس ضمن میں حسب ذیل اصولوں کا تذکرہ کیا ہے:
۱۔ یہ امام راشد ایک مخصوص قوم کو تزکیہ وتربیت کے بعد اپنا آلہ جارحہ بنائے اور پھر وہ قوم دنیا کی دیگر ملتوں کو اس امام کی لائی ہوئی ملت پر جمع کرنے کی ذمہ داری انجام دے۔
۲۔ یہ قوم صاحب ملت کی مقرر کردہ ملت کے لیے دینی حمیت کے ساتھ ساتھ نسبی حمیت بھی رکھتی ہو۔
۳۔ صاحب ملت اس مقصد کے لیے اپنے دین کو دنیا کے دوسرے سارے ادیان پر غالب کر دے جس کی صورت یہ ہو کہ اس دین کے شعائر کا عام چرچا کیا جائے جبکہ دیگر ادیان کے شعائر کے عمومی اظہار کو ممنوع قرار دیا جائے۔ اسی طرح غیر مسلموں کو قانونی اور معاشرتی امور میں مسلمانوں کے ہم پلہ نہ سمجھا جائے بلکہ انھیں پستی اور کہتری کا احساس دلا کر اسلام قبول کرنے پر آمادہ کیا جائے۔
۴۔ صاحب ملت لوگوں کو شریعت کے ظاہری احکام کا پابند بنائے اور ان احکام کے اسرار ومصالح کے ساتھ انھیں زیادہ مشغول نہ ہونے دے، کیونکہ اسرار ومصالح پر غور کے نتیجے میں اختلاف پیدا ہوگا اور شریعت دینے سے اللہ تعالیٰ کے پیش نظر جو مقصد ہے، وہ فوت ہو جائے گا۔
۵۔ اس دین کے بارے میں یہ واضح کر دیا جائے کہ یہی واضح، آسان اور معقول دین ہے اور اس میں مقرر کیے جانے والے طریقے انسانوں کی اکثریت کے لیے زیادہ فائدہ مند ہیں، جبکہ دیگر تمام ادیان تحریف اور انحراف کا شکار ہونے کی وجہ سے قابل اتباع نہیں رہے۔
باب کے اس پورے نظم سے واضح ہے کہ یہاں بنیادی نکتہ یہ زیر بحث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت اور شریعت پر پوری انسانیت کو جمع کرنے کے لیے کون کون سے اصولوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ان اصولوں میں سے پہلے اصول یعنی ایک مخصوص قوم کو تزکیہ وتربیت کے بعد دنیا کی دیگر ملتوں کو امام راشد کی ملت پر جمع کرنے کا ذریعہ بنانے کی توضیح کرتے ہوئے شاہ صاحب نے وہ عبارت لکھی ہے جو شبلی نے نقل کی ہے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ شرعی سزاؤں کو ابدی اور آفاقی نہیں سمجھتے۔ ’باب الحاجۃ الی دین ینسخ الادیان‘  کا جو بنیادی نکتہ اور رخ اوپر واضح کیا گیا ہے، اس کی روشنی میں اب اس عبارت کو دیکھیے:
منہا ان یدعو قوما الی السنۃ الراشدۃ ویزکیہم ویصلح شانہم ثم یتخذہم بمنزلۃ جوارحہ فیجاہد اہل الارض ویفرقہم فی الآفاق وہو قولہ تعالیٰ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس وذلک لان ہذا الامام نفسہ لا یتاتی منہ مجاہدۃ امم غیر محصورۃ واذا کان کذلک وجب ان تکون مادۃ شریعتہ ما ہو بمنزلۃ المذہب الطبیعی لاہل الاقالیم الصالحۃ عربہم وعجمہم ثم ما عند قومہ من العلم والارتفاقات ویراعی فیہم حالہم اکثر من غیرہم ثم یحمل الناس جمیعا علی اتباع تلک الشریعۃ لانہ لا سبیل الی ان یفوض الامر الی کل قوم او الی ائمۃ کل عصر اذ لا یحصل منہ فائدۃ التشریع اصلا ولا الی ان ینظر ما عند کل قوم ویمارس کلا منہم فیجعل لکل شریعۃ اذ الاحاطۃ بعاداتہم وما عندہم علی اختلاف بلدانہم وتباین ادیانہم کالممتنع وقد عجز جمہور الرواۃ عن روایۃ شریعۃ واحدۃ فما ظنک بشرائع مختلفۃ والاکثر انہ لا یکون انقیاد الآخرین الا بعد عدد ومدد لا یطول عمر النبی الیہا کما وقع فی الشرائع الموجودۃ الآن فان الیہود والنصاری والمسلمین ما آمن من اوائلہم الا جمع ثم اصبحوا ظاہرین بعد ذلک فلا احسن ولا ایسر من ان یعتبر فی الشعائر والحدود والارتفاقات عادۃ قومہ المبعوث فیہم ولا یضیق کل التضییق علی الآخرین الذین یاتون بعد ویبقی علیہم فی الجملۃ والاولون یتیسر لہم الاخذ بتلک الشریعۃ بشہادۃ قلوبہم وعاداتہم والآخرون یتیسر لہم ذلک بالرغبۃ فی سیر ائمۃ الملۃ والخلفاء فانہا کالامر الطبیعی لکل قوم فی کل عصر قدیما او حدیثا (حجۃ اللہ البالغہ، ۱/۲۴۸)
’’ان میں سے ایک اصول یہ ہے کہ وہ ایک قوم کو سنت راشدہ کی طرف دعوت دے اور ان کا تزکیہ اور اصلاح کرنے کے بعد انھیں اپنا آلہ وجارحہ بنا ئے اور انھیں مختلف خطوں کی طرف بھیج کر ان کے ذریعے سے اہل زمین کے ساتھ جہاد کرے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس‘ کا یہی مطلب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام کے لیے بذات خود دنیا کی لاتعداد قوموں کے خلاف جہاد کرنا ممکن نہیں۔ اس صورت حال میں ضروری ہے کہ اس کی شریعت کا مادہ ایک تو وہ (احکام وقوانین) ہوں جو عرب وعجم کی مہذب قوموں کے لیے ایک فطری طریقے کی حیثیت رکھتے ہیں اور پھر وہ علوم وارتفاقات جو امام کی مخاطب قوم کے ہاں پائے جاتے ہیں اور اس شریعت میں اس قوم کے حالات کی دوسروں کی نسبت زیادہ رعایت کی جائے۔ پھر امام راشد دنیا کے تمام لوگوں کو اس شریعت کی پیروی پر مجبور کرے، کیونکہ نہ تو یہ ممکن ہے کہ وضع شریعت کا معاملہ ہر قوم یا ہر دور کے ائمہ کے سپرد کر دیا جائے، اس لیے کہ اس سے شریعت مقرر کرنے کا فائدہ ہی سرے سے فوت ہو جاتا ہے، اور نہ یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ امام راشد ہر قوم کے احوال وعادات کو دیکھے اور ان میں سے ہر ایک کے معاملات کا خود تجربہ حاصل کرے اور پھر سب کے لیے الگ الگ شریعت مقرر کر دے، کیونکہ خطہ ہائے زمین اور مذاہب کے اختلاف اور تباین کے باعث ان سب قوموں کی عادات اور اطوار کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ راویوں کی اکثریت ایک ہی شریعت کو (بحفاظت) آگے منتقل کرنے سے عاجز ہے تو الگ الگ شریعتوں کے نقل کیے جانے کا کیسے تصور کیا جا سکتا ہے! پھر یہ بھی ہے کہ دوسری قوموں کا امام راشد کے دین کی پیروی اختیار کرنا عام طور پر عرصہ دراز کی کوششوں اور کاوشوں کے بعد ہی ہو سکتا ہے اور نبی کی عمر اس قدر طویل نہیں ہوتی۔ چنانچہ دنیا کے موجودہ مذاہب میں ایسا ہی ہوا ہے، کیونکہ یہود ونصاریٰ اور مسلمانوں کی ابتدائی نسلوں میں ایک گروہ ہی ایمان لایا تھا جنھیں بعد میں غلبہ نصیب ہوا۔ اس صورت حال میں اس سے اچھا اور آسان طریقہ کوئی نہیں ہو سکتا کہ امام راشد شعائر، رسوم واحکام اور ارتفاقات میں اس قوم کی عادات کی رعایت کرے جس کی طرف اسے مبعوث کیا گیا ہے، جبکہ بعد میں آنے والوں کے لیے اس معاملے میں بہت زیادہ سختی کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ ان کے لیے امام راشد کی شریعت اصولی حیثیت میں لازم رہے۔ (اولین قوم اور بعد کی اقوام میں فرق یہ ہوگا کہ) پہلوں کے لیے اس شریعت کو اختیار کرنا اپنے قلوب کی شہادت اور اپنی عادات کے ساتھ موافقت کی بنیاد پر آسان ہوگا جبکہ بعد میں آنے والوں کے لیے یہ یوں آسان ہوگا کہ وہ اس ملت کے ائمہ اور حکمرانوں کے طریقوں اور عادات کی پیروی میں راغب ہوں، کیونکہ حکمران قوم کے طریقوں کی پیروی کی رغبت پیدا ہونا قدیم اور جدید، ہر دور میں ہر قوم کے لیے ایک فطری طریقہ رہا ہے۔‘‘
مولانا شبلی نے اس اقتباس میں ’فلا احسن ولا ایسر من ان یعتبر فی الشعائر والحدود والارتفاقات عادۃ قومہ المبعوث فیہم ولا یضیق کل التضییق علی الآخرین الذین یاتون بعد‘ سے یہ نکتہ اخذ کیا ہے کہ ’’اس اصول سے یہ ظاہر ہو گیا کہ شریعت اسلامی میں چوری، زنا، قتل وغیرہ کی جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں، ان میں کہاں تک عرب کی رسم ورواج کا لحاظ رکھا گیا ہے اور یہ کہ ان سزاؤں کا بعینہا اور بخصوصہا پابند رہنا کہاں تک ضروری ہے‘‘۔ (الکلام، ص ۱۲۴) تاہم باب کے پورے نظم اور خود اس جملے کے سیاق وسباق سے واضح ہوتا ہے کہ یہ بات کسی طرح بھی شاہ صاحب کے مدعا کی ترجمانی نہیں ہے۔ شاہ صاحب نے مذکورہ اقتباس میں بنیادی طور پر دو سوالات کا جواب دیا ہے:
پہلا یہ کہ تمام ملتوں کو ایک ملت پر جمع کرنے کے لیے امام راشد کو کسی مخصوص قوم کو اپنا آلہ جارحہ بنانے کی ضرورت کیوں ہے؟ شاہ صاحب نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ تمام ملتوں کو اس ایک ملت پر بالفعل جمع کرنے کی ذمہ داری براہ راست امام راشد پر ڈال دینا مناسب نہیں تھا کیونکہ امام کے لیے بذات خود دنیا کی بے شمار اقوام کے خلاف جہاد کر کے انھیں مغلوب کرنا ممکن نہیں، چنانچہ مناسب یہی تھا کہ وہ ایک مخصوص قوم کو تزکیہ وتربیت کے ذریعے سے اس مقصد کے لیے تیار کرے اور پھر آفاق عالم میں اس ملت کی اشاعت کی ذمہ داری اس قوم کے سپرد کر دی جائے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ شاہ صاحب نے شرائع اور مناہج کے حوالے سے پیغمبر کی مبعوث الیہ قوم کی عادات اور سنن کو ملحوظ رکھنے کی جو اصولی بحث کی ہے ، اس کی روشنی میں اس مخصوص قوم کو دی جانے والی شریعت کی نوعیت کیا ہوگی اور دنیا کی دوسری اقوام اور ملل کو کیونکر اس کا پابند کیا جا سکے گا؟ اس کے جواب میں شاہ صاحب نے تین امکانی طریقے بیان کیے ہیں: ایک یہ کہ شریعت کا معاملہ ہر قوم یا ہر زمانے کے ائمہ کے سپرد کر دیا جائے۔ شاہ صاحب نے اس امکان کی صاف نفی کی ہے اور کہا ہے کہ یہ طریقہ، تشریع کے بنیادی مقصد اور فائدے ہی کو فوت کر دینے والا ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ شریعت کے معاملے کو اقوام اور ائمہ کی صواب دید پر چھوڑنے کے بجائے تمام لوگوں کو امام راشد ہی کی دی ہوئی شریعت کا پابند کیا جائے۔ (ثم یحمل الناس جمیعا علی اتباع تلک الشریعۃ لانہ لا سبیل الی ان یفوض الامر الی کل قوم او الی ائمۃ کل عصر اذ لا یحصل منہ فائدۃ التشریع اصلا
دوسرا امکان یہ ہو سکتا ہے کہ خود امام راشد دنیا کی ہر ہر قوم کے لیے الگ الگ شریعت مقرر کر دے۔ شاہ صاحب نے اس کو بھی ناممکن قرار دیا ہے، اس لیے کہ ایک تو دنیا کے دور دراز علاقوں میں آباد تمام اقوام کی عادات کا احاطہ عملاً محال ہے اور دوسرے ان اقوام کے، دائرۂ ملت میں داخل ہونے کے لیے عادتاً ایک طویل عرصہ چاہیے جبکہ امام راشد اس قدر طویل عرصے تک زندہ نہیں رہ سکتا۔
ان دو امکانات کی نفی کرتے ہوئے شاہ صاحب نے تیسرے امکان کو احسن اور ایسر قرار دیا ہے، یعنی یہ کہ امام راشد کو جو شریعت دی جائے، اس میں ان عادات کو تو ملحوظ رکھا ہی جائے جو عرب وعجم کے تمام صالح مزاج اقالیم کے لیے ’مذہب طبیعی‘ کی حیثیت رکھتی ہیں، لیکن اس مخصو ص قوم کے علوم وارتفاقات اور اس کے حالات کی زیادہ رعایت کی جائے جس کی طرف امام راشد کو مبعوث کیا گیا ہے۔ رہا یہ سوال کہ اس مخصوص قوم کی عادات کی رعایت سے مقرر کی جانے والی شریعت کو دنیا کی باقی اقوام کے لیے کیسے مانوس ومالوف بنایا جائے تو شاہ صاحب نے اس کی حکمت عملی یہ بیان کی ہے کہ یہ شریعت اصولی حیثیت میں تو ان کے لیے لازم رہے لیکن انھیں عملاً اس کا پابند بنانے کے لیے زیادہ سختی اور تنگی سے کام نہ لیا جائے۔ (لا یضیق کل التضییق علی الآخرین الذین یاتون بعد ویبقی علیہم فی الجملۃ) شاہ صاحب ان اقوام کو شریعت کے ان احکام سے جو ان کے لیے ’بمنزلہ مذہب طبیعی‘ کے نہیں ہیں، مانوس کرنے کے لیے ایک دوسرا فطری طریقہ تجویز کرتے ہیں جو ان کی رائے میں ہر زمانے میں ہر قوم کے لیے فطری طریقے کی حیثیت رکھتا ہے، یعنی یہ کہ بعد میں آنے والی ان اقوام میں اپنے حکمرانوں (جو پیغمبر کی مبعوث الیہ قوم سے تعلق رکھتے ہیں) کی سیرت اور طور طریقوں کی طرف رغبت پیدا ہو اور وہ ان سے متاثر ہو کر رفتہ رفتہ اس شریعت کو اپنانے کے لیے آمادہ ہو جائیں۔ (والآخرون یتیسر لہم ذلک بالرغبۃ فی سیر ائمۃ الملۃ والخلفاء فانہا کالامر الطبیعی لکل قوم فی کل عصر قدیما وحدیثا
اس تفصیل سے واضح ہے کہ شاہ صاحب کا مدعا ہرگز وہ نہیں جو شبلی وغیرہ نے اخذ کیا ہے۔ اول تو اس عبارت میں وہ فقہی اصطلاح کے مطابق خاص حدود کے حوالے سے کوئی بحث نہیں کر رہے، بلکہ عمومی طور پر شرعی احکام کے نفاذ کا فلسفہ اور اس کی حکمت عملی واضح کر رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ انھوں نے شرعی احکام کے اہل عرب کی عادات پر مبنی ہونے کے نکتے کو انھیں غیر ابدی اور غیر آفاقی قرار دینے کے لیے بنیاد نہیں بنایا، بلکہ ان احکام کو ابدی مان کر انھیں دیگر اقوام پر نافذ کرنے کی حکمت عملی کو موضوع بحث بنایا ہے۔ شاہ صاحب کی بیان کردہ حکمت عملی پر کئی سوال اٹھائے جا سکتے ہیں، لیکن اتنی بات واضح ہے کہ اہل عرب کو دی جانے والی شریعت کو غیر عرب اقوام کے لیے لازم نہ سمجھنے کا نقطہ نظر ان کی طرف کسی طرح منسوب نہیں کیا جا سکتا۔
جہاں تک قتل، زنا اور چوری وغیرہ کی شرعی سزاؤں کا تعلق ہے تو شاہ صاحب نے اپنی اسی تصنیف میں ان کو الگ سے اور باقاعدہ موضوع بحث بنایا ہے اور غیر مبہم الفاظ میں یہ واضح کیا ہے کہ وہ انھیں اہل عرب کی مخصوص عادات پر مبنی نہیں سمجھتے بلکہ ان قوانین میں شمار کرتے ہیں جو عرب وعجم کی سب قوموں کے لیے فطری طریقے کی حیثیت رکھتے ہیں، چنانچہ یہ سزائیں دنیا کی تمام اقوام کے لیے لازم ہیں اور انھیں کسی حال میں ترک نہیں کیا جا سکتا۔ فرماتے ہیں:
’’جان لو کہ مسلمانوں کی جماعت میں ایک حکمران کا ہونا ضروری ہے کیونکہ بہت سے مصالح اس کے وجود کے بغیر حاصل نہیں ہو سکے۔ یہ مصالح بہت سے ہیں اور انھیں بنیادی طورپر دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن کا تعلق سیاست مدینہ سے ہے، مثلاً حملہ آور اور قابض ہونے والے لشکروں کی مدافعت، مظلوم کو ظالم کی دست رس سے بچانا، مقدمات کا فیصلہ وغیرہ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام حاجات کو چار ابواب میں جمع فرما دیا ہے۔ ایک نزاعات، دوسرے حدود، تیسرے قضا اور چوتھے جہاد۔ پھر حاجت پیش آئی کہ ان چاروں ابواب کے کلیات طے کر دیے جائیں جبکہ جزئیات کو ارباب حل وعقد کی صواب دید پر چھوڑ دیا جائے اور انھیں تاکید کر دی جائے کہ وہ عوام کے بارے میں خیر خواہی کا رویہ اختیار کریں۔‘‘ (حجۃ اللہ ۲/۳۸۲، ۳۸۳)
اس کے بعد انھوں نے وہ ضروریات اور مصالح بیان کیے ہیں جو اس باب کے کلیات کو ضبط کرنے کے متقاضی ہیں۔ ان میں سے ایک مصلحت یہ ہے کہ جرم اور سزا کے مابین تناسب کی تعیین کو اگر لوگوں کی صواب دید پر چھوڑ دیا جاتا تو یہ افراط اور تفریط کا موجب ہوتا اور لوگ اس معاملے میں اعتدال پر قائم نہ رہ سکتے، اس لیے یہ مناسب تھا کہ شارع جرم وسزا کے باب میں ’کلیات‘ کو خود متعین کر دے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’تمام صورتوں کا حکم بیان کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ یہ ایک امر محال کامکلف ٹھہرانے کے مترادف ہوتا، اس لیے یہ ضروری تھا کہ بنیادی باتیں طے کر دی جائیں (جبکہ فروع کو متعین نہ کیا جائے) کیونکہ اصول کے مقابلے میں فروع میں لوگوں کا اختلاف کرنا نسبتاً قابل برداشت ہے۔ بنیادی سزاؤں کو طے کرنے کی ایک حکمت یہ تھی کہ یہ قوانین جب شارع کی طرف سے بیان کیے جائیں گے تو لوگ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے انھیں نماز اور روزہ کے احکام ہی کے مانند سمجھیں گے۔ ؟؟؟ ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس معاملے کو نہ تو بالکلیہ خواہشات اور درندگی جیسی خصلت سے مغلوب انسانی نفوس کے سپرد کر دینا ممکن تھا اور نہ یہ ہو سکتا تھا کہ حکمرانوں میں سے عادل اور انصاف پسند کو (پیشگی) ممتاز کر لیا جاتا (اور عادلانہ سزاؤں کی تعیین ان کی صواب دید پر چھوڑ دی جاتی) چنانچہ شرعی قانون سازی اور احکام کی ظاہری صورتوں کو متعین کرنے میں جتنے بھی مصالح پیش نظر ہو سکتے ہیں، وہ سب اس باب میں پائے جاتے ہیں (اور اسی لیے شارع نے بنیادی سزاؤں کی ظاہری صورت کو بھی متعین کر دیا ہے)‘‘ (حجۃ اللہ، ۲/۳۸۳، ۳۸۴)
ان ’اصول‘ یعنی بنیادی سزاؤں کی وضاحت کرتے ہوئے جنھیں شریعت نے متعین کر دیا ہے، شاہ صاحب لکھتے ہیں:
’’جان لو کہ قتل کی صورت میں قصاص، زنا کی صورت میں رجم اور چوری کی صورت میں ہاتھ کاٹنے کی سزائیں ہم سے پہلی شریعتوں میں بھی موجود تھیں۔ یہ تین سزائیں آسمانی شریعتوں میں متوارث چلی آ رہی ہیں اور ان پر انبیا اور اقوام عالم کی اکثریت کا اتفاق رہا ہے، چنانچہ اس طرح کی سزاؤں کو مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہیے اور انھیں چھوڑنا نہیں چاہیے۔ البتہ شریعت محمدی میں ان سزاؤں میں ایک اور طرح کا تصرف کیا گیا ہے اور ان میں سے ہر جرم کی سزا کے دو درجے مقرر کیے گئے ہیں۔ ایک بے حد سخت اور آخری درجے کی سزا جس کا حق یہ ہے کہ اسے سنگین قسم کے جرم میں نافذ کیا جائے، اور دوسری اس سے کم تر سزا جس کا حق یہ ہے کہ اسے پہلے کی بہ نسبت کم سنگین جرم میں نافذ کیا جائے۔‘‘ (حجۃ اللہ، ۲/۴۰۷)
شاہ صاحب کے نزدیک ان سزاؤں میں تخفیف یا رعایت کا فیصلہ بھی نصوص ہی کی روشنی میں کیا جا سکتا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں کہ احادیث میں زنا کی سزا کے طور پر زانی کو جلاوطن کرنے کا جو ذکر ہوا ہے، اسے معاف بھی کیا جا سکتا ہے اور اس طریقے سے متعارض روایات میں تطبیق دی جا سکتی ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ، ۲/۴۱۱)

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ (۴)

حافظ محمد زبیر

امام ابن قیمؒ کا موقف

امام صاحب سنت کے ذریعے قرآن کے نسخ کے قائل نہیں ہیں اور سنت کو ہر صورت میں قرآن کا بیان ہی ثابت کرتے ہیں۔ امام ابن قیمؒ نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ متقدمین علمائے سلف تخصیص ‘تقیید وغیرہ کے لیے بھی نسخ کا لفظ استعمال کر لیتے تھے اور اس معنی میں قرآن کا نسخ ‘سنت کے ذریعے سب علماء کے نزدیک جائز ہے لیکن جمہور متأخرین علمائتخصیص ‘تقیید‘استثناء وغیرہ کے لیے نسخ کا لفظ بطور اصطلاح استعمال نہیں کرتے ۔امام صاحب ؒ لکھتے ہیں ۔
’’اگر نسخ کا معنی عام لیا جائے جسے سلف نسخ کہتے ہیں وہ یہ کہ کسی تخصیص ‘ تقیید ‘شرط یا مانع سے قرآن کے کسی حکم کا ظاہری مفہوم باقی نہ رہے تو اس کو اکثر سلف نسخ کہہ دیتے ہیں بلکہ وہ تو استثناء کو بھی نسخ کہہ دیتے ہیں ...اور اس معنی میں قرآن کے سنت کے ذریعے نسخ کا انکار کسی بھی عالم نے نہیں کیا ہے ۔‘‘ (اعلام الموقعین: باب المراد بالنسخ فی السنۃ الزائدۃ علی القرآن)
امام ابن قیمؒ نے سنت کے اضافے کی تمام اقسام کو قرآن کابیان ہی قرار دیا ہے۔یہاں تک امام صاحبؒ کے نزدیک سنت کے وہ احکامات کہ جن کے بارے میں قرآن خاموش ہے ‘وہ بھی قرآن ہی کا بیان ہیں ۔امام ابن قیمؒ اپنے مخالفین کا اعتراض نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اگر یہ کہا جائے کہ وہ سنن جو کہ قرآن پر اضافہ ہیں وہ بعض صورتوں میں تو قرآن کا بیان ہوتی ہیں اور بعض صورتوں میں ایک ایسے حکم کی موجد ہوتی ہیں کہ جو قرآن میں موجود نہیں ہے اور بعض اوقات وہ قرآن کے کسی حکم کو تبدیل کرنے والی ہوتی ہیں اور پہلی دو قسموں میں تو ہمارا کوئی نزاع نہیں ہے کیونکہ وہ بالاتفاق حجت ہیں لیکن ہمارا نزاع تیسری قسم میں ہے ۔ ‘‘ ( اعلام الموقعین: باب أنواع السنن الزائدۃ علی القرآن)
امام صاحبؒ اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اضافے کی ان تینوں قسموں میں کوئی ایک بھی بیان سے باہر نہیں ہیں بلکہ سلف صالحین کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب بھی وہ کوئی حدیث سنتے تھے تو اس کی اصل قرآن میں پا لیتے تھے(امام شافعیؒ وغیرہ کی طرف اشارہ ہے) اور کسی نے بھی ایک حدیث کے بارے میں بھی یہ کبھی بھی نہیں کہا کہ یہ حدیث قرآن پر اضافہ ہے لہذا ہم اسے نہ تو قبول کریں کریں گے ا ور نہ ہی سنیں گیاور نہ ہی اس پر عمل کریں گے اور اللہ کے رسولﷺ کا مرتبہ ان کے نزدیک بہت بلند تھا اور آپؐ کی سنت ان کے ہاں اس (قسم کے فلسفوں)سے اعلی مقام کی حامل تھی۔ ‘‘ (اعلام الموقعین:باب أنواع السنن الزائدۃ علی القرآن)
امام ابن قیمؒ کے نزدیک وہ روایت جو کہ قرآن پر اضافہ معلوم ہوتی ہیں وہ درحقیقت قرآن ہی کا بیان ہیں۔امام صاحبؒ کے نزدیک یہ روایات قرآن کے سنت کے ذریعے بیان کی درج ذیل دس اقسام سے باہر نہیں ہیں ۔امام صاحبؒ لکھتے ہیں :
’’اللہ کے نبیﷺ کے بیان کی کئی اقسام ہیں ۔ان میں سے ایک خود وحی کا آپؐ کی زبان سے بیان اور ظہور ہے جبکہ وہ اس بیان سے پہلے پوشیدہ تھی۔بیان کی دوسری قسم آپؐ کا وحی کے معانی بیان کرنا اور قرآن کے ان الفاظ کی تفسیر کرنا ہے کہ جن کی تفسیر کی ضرورت ہو(یعنی جن الفاظ قرآنی کی تفسیر اگر اللہ کے رسولﷺ نہ بتائیں تو لوگ گمراہ ہو جائیں گے)جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے اللہ کے قول ’اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی قسم کے ظلم کونہیں ملایا‘میں ’ظلم‘ کی تفسیر ’شرک‘ سے کی ہے ...بیان کی تیسری قسم آپؐ کا فعل ہے جیسا کہ آپؐ نے اس شخص کے لیے نمازوں کے اوقات اپنے فعل سے بیان کیے کہ جس نے آپؐ سے سوال کیا تھا۔بیا ن کی چوتھی قسم وہ احکامات ہیں کہ جن کے بارے میں آپؐ سے جب سوال ہوا تو اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی جیساکہ آپؐ سے قذف کے بارے میں سوال ہوا تو قرآن میں لعان وغیرہ کی آیات نازل ہوئیں۔بیان کی پانچویں قسم وہ وحی ہے جو آپ ؐ سے کسی سوال کے بعد نازل ہوئی اور یہ وحی قرآن کے علاوہ نازل ہوئی جیسا کہ آپؐ سے اس شخص کے بارے میں سوال ہوا کہ جس نے اپنے جبے کو حالت احرام میں ایک خوشبولگائی ہوئی تھی توآپؐ کی طرف وحی نازل ہوئی کہ آپ ؐ اس شخص کو کہیں کہ وہ اپنا جبہ اتار کر اس خوشبو کے نشان کو دھو ڈالے۔چھٹی قسم ایسے احکامات کا سنت میں بیان ہے کہ جن میں آپؐ نے بغیر کسی سائل کے سوال کے ابتدائی طور پر کسی حکم کو اپنی سنت کے ذریعے جاری فرمایا جیسا کہ آپؐ نے گدھوں کی حرمت‘ متعہ کی حرمت ‘مدینہ میں شکار کی حرمت اور عورت کو اس کی پھوپھی اور خالہ کے ساتھ نکاح میں لانے وغیرہ کی حرمت بیان کی(یعنی امام ابن قیمؒ کے نزدیک پھوپھی کو خالہ کے ساتھ جمع کرنا معنی جدیدیا ایک نئی نوعیت میں ابتدائی طور پر ایک نیا حکم جاری کرنا ہے نہ کہ قرآنی الفاظ پر اضافہ ہے)۔ساتویں قسم خود آپؐ کا اپنے کسی فعل سے کسی کام کے جواز کو بیان کرنا ہے اور آپؐ اس فعل میں اپنی پیروی کرنے سے کسی امتی کو بھی نہ روکیں۔آٹھویں قسم آپؐ کا کسی کوکوئی کام کرتے دیکھنا اور اس پر خاموش رہنا ہے یا آپؐ امت کو کسی بات کی تعلیم دی ہو اور امت اس پر عمل کرے۔نویں قسم کسی شیء کو حرام قرار دینے سے آپؐ کا سکوت اختیار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مباح ہے اگرچہ آپؐ نے اس کی اباحت کو الفاظ میں بیان نہ بھی کیا ہو۔دسویں قسم یہ ہے کہ قرآن کا کسی چیز کے واجب ‘حرام یا مباح ہونے کا حکم جاری فرمانا لیکن اس حکم کی شرائط ‘موانع ‘قیود ‘ مخصوص اوقات ‘احوال اور اوصاف ہوں جن کے بیان کو اللہ تعالی اپنے نبیﷺ پر چھوڑ دیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’اور تمہارے لیے اس کے علاوہ جو بھی عورتیں ہیں حلال کی گئی ہیں ‘۔اس آیت مبارکہ میں باقی تمام عورتوں کی حلت شرائطِ نکاح ‘موانعِ نکاح کے نہ ہونے‘اس کے وقت کے آنے اور محل کی اہلیت پر موقوف ہے ۔پس حدیث جب بیان کی ان قسموں میں سے کسی قسم کو بیان کرے تو وہ قرآن پر اضافہ نہیں ہے کہ اس کی ناسخ ہو اگرچہ بیان کی ان اقسام سے آیت کا ظاہری اطلاق اٹھ جاتا ہے۔پس اسی قسم کا حکم ہر اس روایت کا بھی ہے کہ جس کو قرآن پر زائد کہا گیا ہے۔‘‘ (اعلام الموقعین: باب بیان السنۃ علی أنواع)
ان میں سے کون سی قسم ایسی ہے جو کہ غامدی صاحب کی عربی معلی کے مطابق بیان کی قسم شمار نہیں ہو سکتی ‘اگر یہ سب بیان ہی کی اقسام ہیں تو امام ابن قیم ؒ نے سینکڑوں روایات کو جو کہ بظاہرقرآن پراضافہ یا اس کے کسی حکم کو تبدیل کرنے والی معلوم ہوتی ہیں‘انہیں ان اقسام میں میں داخل کر کے انہیں قرآن کا بیان ثابت کیا ہے ۔مثلا امام ابن قیم ؒ ’تغریب عام‘ کی سزا کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’پس ’تغریب عام‘ کی سزااللہ تعالی کے قول ’یا اللہ تعالی ان کے لیے کوئی رستہ نکال دے گا‘ کا بیان ہے اور اللہ کے رسولﷺ نے اس بات کی وضاحت بھی کی ہے کہ ’تغریب‘ اس آیت میں مذکور رستے کاہی بیان ہے تو آپ ؐ کی اس وضاحت کے بعد یہ کہنا کیسے جائز ہے کہ آپؐ کی یہ حدیث قرآن کے مخالف ہے اوراگر ہم اس روایت کو قبول کر لیں گے تو ہم قرآن کے حکم کو باطل کر دیں گے۔ ‘‘ (اعلام الموقعین: باب بیان السنۃ علی أنواع)
جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ کیا اللہ کے رسولﷺ کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ قرآن کے کسی حکم پر اضافہ کریں ؟تو امام ابن قیم ؒ کا اگرچہ موقف تو یہی ہے کہ سنت کا قرآن پر اضافہ ‘ اضافہ نہیں ہے بلکہ اس کا بیان ہے اور امام صاحب اس کو بیان ثابت بھی کرتے ہیں جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں لیکن امام صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر یہ اضافہ بھی ہوتا تو پھر بھی اس کو ماننا واجب ہے اور اللہ کے رسولﷺ کے پاس اس اضافے کا اختیار تھا اور اللہ کے رسولﷺ کو اس کااختیار اللہ تعالی نے دیاتھا۔امام صاحب اپنی کتاب ’اعلام الموقعین ‘ میں اس کے درج ذیل دلائل بیان کرتے ہیں :
۱) اللہ تعالی نے قرآن میں جہاں بھی اپنے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا ہے وہ مطلقاً اطاعت کا حکم ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں کہیں بھی یہ بیان نہیں فرمایا کہ اگر میرا رسول کوئی ایسی بات کہے جو تم کو قرآن پر اضافہ معلوم ہو تو تم اس کو رد کر دینا۔
۲) جس طرح آپؐ ایسی چیز میں کوئی شرعی حکم مقرر کر سکتے ہیں کہ جس میں قرآن خاموش ہے اور اس کو سب مانتے ہیں ‘اسی طرح آپؐ اللہ کے بتلانے سے قرآن پر اضافہ بھی کر سکتے ہیں اور قرآن نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ اس اضافے کو قبول کریں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’ما آتاکم الرسول فخذوہ و ما نھاکم عنہ فانتھوا‘۔ 
۳) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی ذمہ داری یہ لگائی ہے کہ وہ قرآن کی تبیین فرمائیں ‘اب آپؐ کی سنت سے جو احکامات معلوم ہوئے وہ سب قرآن کا ہی بیان ہوں گے‘ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ آپ ؐ کی بعض روایات قرآن کی تبیین میں شامل نہیں ہیں وہ گویا کہ آپ ؐ پر الزام لگا رہاہے کہ آپؐ نے قرآن کے بیان میں ایک ایسا کام کیا کہ جس کے منصب پرآپؐ مقرر نہیں کیے گئے تھے ۔ 
۴) سنت کا قرآن پر اضافہ نہ تو اس کے کسی حکم میں تغیر یا تبدیلی پید ا کرتا ہے اور نہ ہی یہ نسخِ ِ قرآن ہے بلکہ درحقیقت یہ اضافہ برات أصلیہ کو ختم کر دیتا ہے جیسا کہ سنت میں موجود’تغریب عام‘ کی سزانے قرآن کے سو کوڑوں کے حکمِ ِ قرآنی کو تبدیل نہیں کیا بلکہ حکمِ استصحاب کو اٹھا دیا ہے ۔
۵) اضافے اور زیادتی کی وجہ سے یہ سمجھنا کہ قرآن کا کوئی حکم تبدیل ہو گیاہے یہ لغتاً‘عقلاً‘شرعاًاور عرفاً درست نہیں ہے اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میری تھیلی میں موجود رقم میں اضافہ ہو گیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جو رقم پہلے تھی وہ جاتی رہی ہے ۔
۶) زیادتی اور اضافے سے مزید علیہ(جس پر زیدتی کی گئی ہے)کی تاکید اور بیان مزید بڑھ جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’رب زدنی علما‘ اور ’واذا تلیت علیھم آیاتہ زادتھم ایمانا‘۔
۷) ناسخ و منسوخ میں جمع نہیں ہو سکتی لیکن زیادتی اور مزید علیہ کو جمع کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان دونوں میں نہ توتعارض ہوتا ہے اور نہ ہی تناقض‘دونوں مسقل ہیں۔ دونوں الگ الگ حکم ہیں۔دونوں پر عمل ممکن ہے ۔پھر دونوں میں سے ایک کولغو و باطل قرار دینا کون سا انصاف ہے۔ 
۸) سنت کی زیادتی و اضافہ ایک معنی جدید ہے نہ کہ قرآنی حکم میں تغیر و تبدل‘اور معنی جدید میں اللہ کے رسول ﷺ کی اتباع سب کے نزدیک فرض ہے۔

امام ابن حزم ؒ کا موقف

امام ابن حزمؒ سنت کو قرآن کا بیان ہی سمجھتے ہیں لیکن امام صاحب جس طرح قرآن کے عام کی سنت کے ذریعے تخصیص کو قرآن کابیان کہتے ہیں اسی طرح قرآن کے سنت کے ذریعے نسخ کو بھی قرآن کے بیان میں شمار کرتے ہوئے اس کے جواز کے قائل ہیں۔امام صاحبؒ لکھتے ہیں:
’’ہم یہ کہتے ہیں کہ تخصیص اور استثناء ‘بیان ہی کی دو قسمیں ہیں کیونکہ مجمل کا بیان بعض اوقات اس کی کیفیت یا کمیت کی تفسیر سے ہو تا ہے اور اس بیان میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہوتی کہ جس کی وجہ سے قرآن کے الفاظ اپنے لغوی معنی سے نکل جائیں ۔جیساکہ قرآن کا حکم ہے ’اور تم زکوۃ ادا کرو‘۔تو اللہ کے رسولﷺ نے اس زکوۃ کی ماہیت کو واضح کیا ہے کہ جس کی ادائیگی کاقرآن میں حکم دیا گیا ہے اور آپؐ کے اس بیان سے قرآن کالفظ’الزکوۃ‘ اپنے لغوی معنی سے نہیں نکلا‘اسی طرح آپ ؐ نے نکاح اور حج وغیرہ کی بھی ان کی صفات کے ذکر سے تفسیر کی ہے اور بعض اوقات یہ بیان استثناء کے ذریعے ہوتا ہے جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے خشک کھجور کو تر کھجور کے ساتھ بیچنے سے منع فرمایا ہے(یعنی آپؐ کا یہ فرمان’ أحل اللہ البیع و حرم الربو‘ اور ’ ولا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل‘کا بیان تھا) لیکن بعد میں آپؐ نے بیع العرایا میں‘اگر وہ پانچ وسق( تقریباً۷۵۰کلو گرام ) سے کم ہو ‘تواس کی رخصت دے دی ۔ بعض اوقات یہ استثنا الفاظ کے ذریعے ہوتا ہے جیسا کہ ’الا‘ اور ’خلا‘ اور ’حاشا‘ اور ’ما لم‘ وغیرہ ہیں اور بعض اوقات یہ استثنا ایک حکم کی شکل میں ہوتا جو کہ أمر یا خبر کے صیغے میں ہوتا ہے اور یہ استثنا ایک عمومی حکم سے ہوتا ہے اور اسی کو تخصیص کہتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے مشرک عورتوں سے نکاح کرنے سے یکبارگی منع فرمایا اور پھر اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کے ذریعے شادی کی اجازت دے دی تو یہ اس آیت کے عمومی حکم کی تخصیص ہے۔جہاں تک نسخ کا معاملہ ہے تو نسخ کامعنی حکم کو کلی طور پر یا اس کے ایک جز کو اٹھا لینا ہے اور بیان کی جن قسموں کاہم نے ذکر کیا ہے یعنی تفسیر ‘استثنا اور تخصیص وغیرہ تو بعض اوقات یہ بیان قرآن کے لیے خود قرآن سے ہوتا ہے اور بعض اوقات حدیث سے اور بعض اوقات اجماع سے ہوتا ہے (اجماع کو بیان اس لیے کہا ہے کہ وہ مظہرِ شریعت ہو تا ہے نہ کہ مثبتِ شریعت) ۔اور بعض اوقات یہ بیان حدیث کے لیے قرآن سے ہوتا ہے اور حدیث سے ہوتا ہے اور اجماع سے ہوتا ہے اور ہمارے قول کے مطابق حدیث سے مراد آپؐ کا حکم ‘فعل ‘ تقریر اور اشارہ سب شامل ہیں اور یہ سب احادیث قرآن کا بیان ہیں اور قرآن ان کا بیان ہے ۔ ‘‘ (الاحکام:باب الثامن فی البیان و معناہ)
ایک اور جگہ امام ابن حزم ؒ لکھتے ہیں :
’’علماء کے ایک گروہ کا کہنا یہ ہے کہ سنت قرآن کو منسوخ نہیں کر سکتی اور نہ قرآن سنت کو منسوخ کر سکتا ہے اور ایک دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ یہ سب جائز ہے یعنی قرآن‘ قرآن سے بھی منسوخ ہوتا ہے اور سنت سے بھی اور اسی طرح سنت قرآن سے بھی منسوخ ہوتی ہے اور سنت سے بھی۔ابو محمد(ابن حزمؒ ) کا کہنا یہ ہے:ہمارا قول بھی یہی(یعنی دوسرا) ہے اور یہی قول صحیح بھی ہے اور ہمارے نزدیک سنت متواتر ہو یا اخبار آحاد ہو ‘سب برابر ہیں ان میں سے ہر ایک دوسرے کو منسوخ کرتا ہے ۔‘‘ (الاحکام:الباب العشرون الکلام فی النسخ‘ فصل فی نسخ القرآن بالسنۃ و السنۃ بالقرآن)
امام ابن حزم ؒ اپنے اس موقف کی دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اور ہمارے اس موقف کی دلیل وہی ہے جو کہ ہم نے اس کتاب کے اس باب میں واضح کی ہے جو کہ اخبار آحاد سے متعلق ہے اور وہ (یعنی اس دلیل کا خلاصہ)یہ ہے کہ جب آپ ؐ سے ایک چیز ہمیں ملے اس کی اطاعت ایسے ہی واجب ہے جیسے کہ اس کی اطاعت واجب ہے جو کہ ہمیں قرآن سے ملتا ہے۔اور ان دونوں اطاعتوں میں کوئی فرق نہیں ہے* اور یہ دونوں اللہ ہی کی اطاعتیں ہیں جیسا کہ اللہ کا تعالی کا فرمان ہے ’اور آپؐ اپنی خواہش نفس سے بات نہیں کرتے ‘آپؐ جو بھی بات کرتے ہیں وہ وحی ہوتی ہے جوکہ اپؐ کی طرف وحی کی جاتی ہے ۔جب آپؐ کا کلام اللہ کی طرف سے وحی ہے اور قرآن بھی وحی ہے تو دونوں کا ایک دوسرے کو منسوخ کرنا جائز ہے کیونکہ یہ دونوں کلام وحی ہونے کے اعتبار سے برابر ہیں ۔‘‘ (الاحکام:الباب العشرون الکلام فی النسخ‘ فصل فی نسخ القرآن بالسنۃ و السنۃ بالقرآن )
*بعض حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جو آپؐ سے ہمیں ملا ہے وہ تو ایسی سند کے ساتھ ہے کہ جس میں ظن ہے اور جو ہمیں قرآن سے ملا ہے وہ ایسی سند کے ساتھ ہے کہ جس سے علم یقین حاصل ہوتا ہے‘اس لیے دونوں کی اطاعت برابر نہیں ہے ۔ہم یہ کہتے ہیں کہ جس صحابیؓکی روایت ہے اس کے لیے تو آپؐ کا حکم اور قرآن دونوں واسطے اور سند کے اعتبار سے برابر ہیں تو کیا صحابیؓ کے لیے تو حکم یہ ہو کہ وہ اللہ کے رسولﷺ کی حدیث کو لے لے کیونکہ اس کے لیے سند کے ظنی ہونے کا مسئلہ نہیں ہے اور ہمارے لیے یہ ہے کہ ہم اس کو پہلے ظنی قرار دیں پھر اس کا قرآن کی کسی آیت سے ٹکراؤ پیدا کریں اورپھر اس روایت کو رد کر دیں تو کیا نتائج کے اعتبار سے صحابہؓ اور ان کے مابعد کی شریعت مختلف نہیں ہو جائے گی؟کیونکہ جس روایت کو ہم صرف ظنی الثبوت ہونے کی وجہ سے رد کر رہے ہوں گے، صحابہؓ اس کو قطعی الثبوت ہونے کی وجہ سے قبول کر رہے ہوں گے۔
امام ابن حزمؒ نے ایسی بہت سی احادیث بھی نقل کی ہیں جو کہ اس بات کی دلیل بنتی ہیں کہ قرآن کا نسخ سنت سے جائز ہے اور یہ واقع بھی ہواہے۔اسی طرح امام صاحب کا کہنا ہے کہ تخصیص بعض اعیان کے لیے حکم کے اثبات کا نام ہے اور نسخ بعض ازمان کے لیے حکم کے اثبات کا نام ہے لہذ ادونوں میں کوئی بڑا اختلاف نہیں ہیعلاوہ ازیں جس طرح تخصیص میں بعضِ حکم مرفوع ہو جاتا ہے اسی طرح نسخ میں کل حکم مرفوع ہو جاتا ہے جب سنت سے بعض حکم کا رفع ثابت ہے تو سنت سے کل حکم کا رفع کیوں جائزنہیں ؟ اس کے بعد امام ابن حزمؒ اپنے اس موقف کے خلاف دیے جانے والے دلائل کا ذکر کرتے ہیں اور ان کا ردبھی کرتے ہیں ۔ امام ابن حزمؒ کی اس عبارت کا خلاصہ ہم اپنے الفاظ میں ذکر کر رہے ہیں :
۱) بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا موقف قرآن کی آیت ’قل ما یکون لی أن أبدلہ من تلقاء نفسی ان أتبع الا ما یوحی الی‘ کے خلاف ہے ۔ہمارا جواب ان کو یہ ہے اس آیت میں ’من تلقاء نفسی‘کے الفاظ ہیں اور ہمارا عقیدہ تویہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ اللہ کے حکم ’ان أتبع الا ما یوحی الی‘ کے تحت ہی اس کی کتاب کے کسی حکم کو منسوخ کرتے ہیں اور ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ’ اللہ کے رسولﷺ اپنی طرف سے بغیر وحی کے قرآن کی کسی آیت میں تبدیلی کا اختیار رکھتے تھے‘ تو ہم ایسے شخص کو کافر سمجھتے ہیں ۔
۲) ابن حزمؒ لکھتے ہیں کہ دوسری دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ ہماراموقف قرآن کی آیت ’ماننسخ من آیۃ أو ننسھا نأت بخیر منھا أو مثلھا‘ کے خلاف ہے کیونکہ سنت نہ تو قرآن کے مثل ہے اور نہ اس سے بہتر ہے ۔ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن کی ایک آیت جب دوسری آیت کو منسوخ کرتی ہے تو کیا قرآن کا بعض اس کے بعض سے بہتر ٹھہرا‘ایسا معاملہ نہیں ہے اور اس آیت کامفہوم یہ ہے ’نأت بخیر منھا لکم أو مثلھا لکم‘ ۔یعنی تمہارے لیے اس سے بہتر یا تمہارے لیے اس کے جیسا حکم لے کر آتے ہیں۔
۳) ابن حزمؒ لکھتے ہیں کہ بعض علماء ہمارے اس موقف کے خلاف ’و أنزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم‘ سے دلیل پکڑتے ہیں ۔ہمارا کہنایہ ہے کہ یہ آیت بھی دلیل نہیں بنتی کیونکہ نسخ ‘بیان ہی کی ایک قسم ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ نسخ ‘ایک حکم کے ارتفاع اور دوسرے حکم کے اثبات کا بیان ہے ۔دوسری بات یہ کہ جوبعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’مُبَیّن‘ کبھی ’ناسخ‘ نہیں ہوتا ‘تویہ ایسا دعوی ہے کہ جس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور بغیر دلیل کے دعوی قابل قبول نہیں ۔
۴) بعض لوگ ’و اذ ابدلنا آیۃ مکان آیۃ‘ سے استدلال پکڑتے ہیں کہ سنت سے قرآن کا نسخ جائز نہیں ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت بھی اس مسئلے میں قابل حجت نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی نے یہ نہیں کہا کہ ہم کسی آیت کو دوسری آیت ہی سے تبدیل کرتے ہیں ‘بلکہ یہ تو ایک مثبت خبر ہے کہ اللہ تعالی ایک آیت کی جگہ دوسری آیت لے آتے ہیں اور ہم اس کے پہلے ہی قائل ہیں۔اس کے علاوہ بھی بعض ایسی آیات کا ابن حزمؒ نے جواب دیا جو کہ عموماً ان کے اس موقف کے خلاف پیش کی جا سکتی تھیں‘جنہیں طوالت کے خوف سے ہم نقل نہیں کر رہے۔
امام شافعی ؒ ‘امام شاطبیؒ ‘امام ابن تیمیہ‘ؒ امام ابن حزم ؒ اور امام ابن قیمؒ وغیرہ کا اصل امتیاز یہی تو ہے کہ وہ کس طرح بظاہر قرآن کی ناسخ یا اس پر اضافہ یااس کے کسی حکم کو تبدیل کرنے والی روایات کو قرآن کا بیان ثابت کرتے ہیں ‘خود غامدی صاحب کی صورت حال یہ ہے کہ انہیں صرف چھ روایات ہی ایسی نظر آئیں جو کہ بظاہر قرآن پر اضافہ یا اس کے کسی حکم کو تبدیل کرنے والی تھیں کیونکہ باقی روایات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور ان چھ روایات کی قرآنی آیات سے تطبیق کے لیے انہوں جس انداز سے اپنی ذہانت کو استعما ل کیاہے اس پر کچھ تبصرہ آئندہ صفحات میں آ رہا ہے ‘ لیکن ہمیں افسوس تواس بات کا ہے کہ سلف صالحین میں سے بہت سے ایسے جلیل القدر أئمہ جو اسی اصولی موقف کے قائل ہیں جو کہ غامدی صاحب کا ہے کہ قرآن صرف سنت کا بیان ہے اور اپنے اس موقف کے اثبات کے لیے انہوں نے صرف چھ نہیں بلکہ سینکڑوں ایسی روایات کو قرآن کا بیان ثابت کیاہے ‘ جو بظاہر قرآن کے کسی حکم کی ناسخ یا اس پر اضافہ یا اس کو تبدیل کرنیوالی معلوم ہوتی ہیں لیکن غامدی صاحب ان میں سے بعض اصحاب کے حل سے استفادہ کرنے کے باوجود ان کاذکرتک نہیں کرتے۔غامدی صاحب ہی کے موقف کو أئمہ سلف نے اس قدر منطقی‘عقلی اور شرعی دلائل سے اچھی طرح ثابت کر دیا ہے جو شاید اکیلے غامدی صاحب کے بس میں نہ تھا لیکن غامدی صاحب اگر ان حضرات کا نام لے کر اس موقف کو بیان کریں تو ان کو وہ سب روایات ماننی پڑتی کہ جن کا وہ اپنے استاذ امام کی تقلید میں انکار کرنا چاہتے ہیں ‘مثلا امام شوکانیؒ نے لکھا ہے کہ قرآن کی آیت ’الزانیۃ و الزانی‘ شادی شدہ اور غیر شادی دونوں کو شامل ہے اس لیے اللہ کے رسولﷺ نے غیرشادی شدہ کے لیے ’سو کوڑے اور تغریب عام‘ اور شادی شدہ کے لیے ’سوکوڑے اور رجم ‘ کی سزا مقرر کی ہے اور حدیث میں ہے کہ آپ ؐ کی طرف سے یہ سزا قرآن کی آیت ’أو یجعل اللہ لھن سبیلا‘ کا بیان ہے اور ہم یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ بعض علما کا کہنا ہے کہ رجم کی سزا ’أو یقتلوا‘اور تغریب عام کی سزا ’أو ینفوا من الأرض‘ کا بیان ہے ۔جب حدیث میں موجود ہر سزا قرآن کے مطابق ہے اور اس کا بیان ہے تو غامدی صاحب أئمہ سلف کی اس تعبیر دین کو ماننے سے کیوں انکاری ہیں؟

غامدی صاحب کا اپنے اصول سے انحراف

غامدی صاحب قرآن کو قطعی الدلالۃ مانتے ہیں اور حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تخصیص وتحدید یا تغیرو ترمیم کے اس لیے قائل نہیں ہیں کہ اس سے قرآن کی قطعیت اور اس کی ’میزان‘ یا’ فرقان ‘ہونے کی حیثیت باقی نہیں رہتی ۔ قرآن کا ’میزان‘ یا ’فرقان‘ ہونا ‘ یہ کیا ہے ؟یہ غامدی صاحب کا قرآن کے بارے میں ایک فلسفہ ہے کہ جس کے رد میں ماہنامہ محدث اکتوبر۲۰۰۷ میں ایک مضمون شائع ہو چکا ہے۔
أمر واقعہ یہ ہے کہ غامدی صاحب نے بہت سی جگہ پر اپنے اس اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بہت سی ایسی روایات کو قبول کیا کہ جن کے قبول کرنے سے قرآن کے الفاظ کی اپنے معانی پرنہ تو قطعیت باقی رہتی ہے اور نہ ہی قرآن کوغامدی صاحب کے بقول ’میزان‘ یا’ فرقان ‘قرار دیاجا سکتا ہے۔ ذیل میں ہم غامدی صاحب کی اپنے ہی اصول کی خلاف ورزی کی کچھ مثالیں بیان کر رہے ہیں :
۱) جناب غامدی صاحب نے موزوں پر مسح کی روایات کو قبول کیا ہے اور وہ موزوں پر مسح کے قائل ہیں ‘حالانکہ موزوں پر مسح کومان لیا جائے تو قرآن کے الفاظ ’فاغسلوا‘ کی اپنے معنی پر قطعیت باقی نہیں رہتی‘کیونکہ ’غسل‘ کا معنی عربی معلی ہو یا عربی مبین‘حقیقت ہو یا مجاز‘کسی صورت بھی ’مسح کرنا ‘نہیں ہوتا۔قرآن پاؤں کے دھونے کا حکم دیتا ہے جبکہ غامدی صاحب کہتے ہیں مسح کرنا بھی جائز ہے۔غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’رسول ﷺ نے تیمم کے اسی حکم پر قیاس کرتے ہوئے موزوں اور عمامے پر مسح کیا‘‘۔(قانون عبادات )
غامدی صاحب کے نزدیک موزوں پر مسح قرآن کی آیت ’فتییمموا صعیدا طیبا‘ کا بیان ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگرغامدی صاحب کی اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے موزوں پر مسح کا حکم آیتِ تیمم پر قیاس کرتے ہوئے بیان کیا ہے توپھر بھی قرآن کی آیت ’فاغسلوا‘ کی قطعیت توباقی نہ رہی ۔غامدی صاحب نے ’مسح علی الخفین‘ کو قرآن کا بیان تو ثابت کر دیا لیکن سوال تو یہ ہے کہ قرآنی الفاظ ’فاغسلوا‘ کی قطعیت اور قرآن کا ’میزان‘ یا ’فرقان‘ ہوناکہاں با قی رہا۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ بھی تومحض ایک احتمال ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے آیت تیمم سے’ مسح علی الخفین‘کا حکم نکالا ہو گا اور اس احتمال یا دعوی کی غامدی صاحب کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے تو پھر ہر اس روایت کے بارے میں غامدی صاحب یہ احتمال قائم کیوں نہیں کر لیتے جو کہ انہیں قرآن کے کسی حکم کی مخصص یا محدد نظر آتی ہے ‘ کہ وہ قرآن ہی کسی نہ کسی آیت کا بیان ہو گا ‘اور میرا علم اتنا نہیں ہے لہذ امجھے کسی روایت کو اس لیے رد نہیں کرنا چاہیے کہ وہ مجھے قرآن کے کسی حکم میں تغیر یا تبدیلی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔تیسری بات یہ کہ أئمہ سلف امام شافعیؒ ‘امام شاطبیؒ اور امام ابن قیمؒ نے ہر ایسی روایت کو قرآن کی کسی نہ کسی کا آیت کی تشریح یا تفسیرثابت کیا ہے جو کہ بظاہر قرآن پر اضافہ یا اس کے کسی حکم کو تبدیل کرنے والی معلوم ہوتی ہے لہذا غامدی صاحب کو ان تمام روایات کو ماننا چاہیے۔ چوتھی بات یہ کہ جب اللہ کے رسولﷺ خود بیان فرمائیں کہ ’تغریب عام‘اور ’رجم‘ قرآن پر اضافہ نہیں ہے بلکہ ’أو یجعل اللہ لھن سبیلا‘ کا بیان ہے۔ اس کو غامدی صاحب اس لیے رد کر دیں کہ وہ قرآن کے حکم ’الزانیۃ و الزانی‘ کے خلاف ہے تو ’مسح علی الخفین‘کو جو غامدی صاحب نے ’فتیمموا صعیدا طیبا‘ کا بیان قرار دیا ہے توکیا وہ قرآن کی آیت ’فاغسلوا ‘کے خلاف نہیں ہے؟ ۔ پانچویں بات یہ کہ سلف نے ایسی روایات کو عام طور پر جس طرح سے قرآنی آیات کابیان ثابت کیا ہے وہ انتہائی معقول ‘منطقی اور قابل فہم بھی ہے لیکن غامدی صاحب جب قرآن پر اضافہ اور اس کے مفہوم کو تبدیل کرنے والی بعض ایسی روایات کو مان لیتے ہیں اور ان کو قرآنی آیات کا بیان ثابت کرنا شروع کرتے ہیں توان کا یہ بیان کسی اور کو سمجھ آناتو دور کی بات ہے خود غامدی صاحب بھی اس پر مطمئن ہو جائیں تو بڑی بات ہے۔ مثلا امام شافعی ؒ کا کہنا یہ ہے کہ پاؤں دھونے کا فرض ہر شخص پر عائد ہوتا ہے چاہے کسی نے موزے پہنے ہوں یا نہ پہنے ہوں کیونکہ سنت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ موزوں پر مسح وہی شخص کر سکتا ہے کہ جس نے پاؤں دھوئے ہوں ‘یعنی جس نے کامل وضو کر کے اور پاؤں دھو کر موزے پہنے ہوں‘اب اگر اس کا وضو ٹوٹ جائے تو اسے دوبارہ پاؤں دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔اس لیے قرآن کی آیت ’فاغسلوا‘ پر ہر صورت میں عمل ہو گاچاہے موزے پہننے ہوں یا نہ پہننے ہوں۔
۲) قرآن مجید نے چوری کی سزا قطعِ ید بیان کی ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
السارق و السارقۃ فاقطعوا أیدیھما (المائدۃ:۳۸)
چوری کرنے والا مرد اورچوری کرنے والی عورت‘ دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔
اس آیت مبارکہ میں ’السارق‘ اور ’السارقۃ‘ کے الفاظ مطلقاًاستعمال ہوئے ہیں اور عام ہیں لہذاعربی زبان و اسلوب کے مطابق ہر چوری کرنے والے مرد اور عورت پر اس صیغے کا اطلاق ہوتا ہے لیکن غامدی صاحب قرآن کے ان الفاظ کے معانی کی تحدید و تخصیص کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اگر کوئی بچہ اپنے باپ یا کوئی عورت اپنے شوہر کی جیب سے چند روپے اڑا لیتی ہے یا کوئی شخص کسی کی بہت معمولی قدر و قیمت کی کوئی چیز چرا لے جاتا ہے یا کسی کے باغ سے کچھ پھل یا کسی کے کھیت سے کچھ سبزیا ں توڑ لیتا ہے یا بغیر حفاظت کے کسی جگہ ڈالا ہوا کوئی مال اچک لیتاہے یا آوارہ چرتی ہوئی کوئی گائے یابھینس ہانک کر لے جاتا ہے یا کسی اضطرار اور مجبوری کی بنا پر اس فعل شنیع کا ارتکاب کرتا ہے تو بے شک‘ یہ سب نا شایستہ افعال ہیں اور ان پر تادیب و تنبیہ ہونی چاہیے ‘لیکن یہ وہ چوری نہیں ہے جس کا حکم ان آیات میں بیان ہوا ہے ‘‘۔ (میزان:ص۳۰۶)
غامدی صاحب نے بہت سے ایسے افراد کو کہ جن پر عربی لغت کے مطابق لفظ ’السارق‘ اور ’السارقۃ‘کا اطلاق ہوتا ہے ان کو اس لفظ سے نکال دیا ۔أمر واقعہ یہ ہے کہ جن افراد کو غامدی صاحب نے ’السارق‘ اور ’السارقۃ‘ سے نکالا ہے وہ عربی لغت و زبان کے مطابق اس لفظ میں داخل ہیں ۔مثلا غامدی صاحب کہتے ہیں کہ اگرکوئی شخص معمولی چیز چرا لے تو یہ ایسی چوری نہیں ہو گی کہ جس پر الفاظ قرآنی ’السارق‘ اور’السارقۃ‘ کاا طلاق ہو۔ہم غامدی صاحب سے کہتے ہیں کہ آپ نے معمولی چیز کی چوری کرنے والے کو ’السارق‘ کے الفاظ سے نکالا ہے یہ قرآن کے الفاظ کی قطعیت کے خلاف ہے‘کیونکہ قرآن کی قطعیت کا تقاضا تو اسی وقت پورا ہو گا جبکہ ’السارق‘ کو اس کے لغوی معنی پر برقرار رکھا جائے۔اہل عرب نے ان تما م افراد کے لیے ’السارق‘ کا لفظ استعمال کیا ہے کہ جن کو غامدی صاحب ’السارق‘ کے لفظ کی تحدید کرتے ہوئے اس کے معنی سے نکال رہے ہیں مثلا دیوان حماسہ (باب الحماسۃ‘قال جمیل بن عبد اللہ بن معمر العذری ‘۸۷‘المکتبۃ السلفیۃ) میں ہے :
أبوک حباب سارق الضیف بردہ
و جدی یا حجاج فارس شمرا
علامہ زمخشری ؒ ‘اپنی کتاب (أساس البلاغۃ:ص۲۹۶‘دار صادر‘ بیروت) میں أبو مقدام کا شعر نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
سرقت مال أبی یوما فأدبنی
و جل مال أبی یا قومنا سرق
غامدی صاحب کے نزدیک حدیث بھی عربی معلی کے مأخذ و مصادر میں سے ہے اور حدیث میں بھی یہ لفظ ایک حقیر چیز کی چوری کے لیے استعمال ہوا ہے ۔آپ ؐ کافرمان ہے :
لعن اللہ السارق یسرق البیضۃ فتقطع یدہ ویسرق الحبل فتقطع یدہ (صحیح بخاری‘ کتاب الحدود‘باب لعن السارق اذا لم یسم)
’’اللہ تعالی اس چور پر لعنت کرے کہ جو انڈا چوری کرتا ہے اور اس وجہ سے اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے اور رسی چوری کرتا ہے پس اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔ ‘‘
اگر تو غامدی صاحب یہ کہیں کہ ہم نے ایک حدیث ’لا قطع فی ثمر معلق و لا فی حریسۃ جبل ...‘ کی وجہ سے بعض افراد کو ’السارق‘ اور ’السارقۃ‘کے مفہوم سے نکالا ہے تو ہم یہ کہیں گے کہ اس کے علاوہ مسائل میں اس طرح کی تمام احادیث سے پھر آپ قرآن کے الفاظ کے معنی کی تحدید و تخصیص کیوں نہیں کرتے؟ دوسری بات یہ کہ ایک معضل اور مرسل روایت کو آپ نے قرآن کا بیان بنا دیا جو کہ آپ کے عربی معلی کے خلاف بھی ہے کیونکہ عربی معلی تو یہ کہتی ہے کہ یہ سب ’سرقہ‘ ہے اور اس کے فاعل ’سارق‘ ہیں۔تیسری بات یہ کہ ایک صحیح روایت کہ جس میں انڈے اور رسی کی چوری کو بھی ایسی چوری قرار دیا گیا کہ جس پر چور کے ہاتھ کاٹے جائیں گے ‘کو آپ نے قرآن کا بیان کیوں نہ مان لیا کہ جس کو قرآن کا بیان ماننے سے ’السارق‘ کے ان بعض فراد کو آپ کونکالنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی کہ جن کو آپ نے اپنی عقل و خواہش سے نکال لیا ہے۔ اگر تو غامدی صاحب اپنی عربی معلی سے یہ ثابت کر دیں کہ جن افراد کو انہوں نے ’السارق‘ اور ’السارقۃ‘ یا ’سرقۃ‘سے نکالا ہے ان پر اہل عرب اپنی لغت میں ’سرقۃ‘یا ’السارق‘ یا’السارقۃ‘ کے لفظ کا اطلاق نہیں کرتے تھے تو ہم مان لیں گے کہ انہوں نے اپنے اصول کی اتباع کی ہے۔لیکن ہمارے خیال میں غامدی صاحب کے لیے ا یسا ثابت کرنا ناممکن ہے کیونکہ ہم نے عربی ادب سے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ عرب شعراء ہر قسم کی چوری پر لفظ ’سرقۃ‘ کا اطلاق کرتے تھے اور اس فعل کے مرتکب کو’سارق‘ کہتے تھے۔لہذا جب عربی معلی کے مآخذ و مصادر سے قرآن کے الفاظ’السارق‘ اور ’السارقۃ‘ کا معنی ثابت ہو گیا تو اس معنی کی تحدید و تخصیص غامدی صاحب کی محض رائے سے کیسے جائز ہوگئی؟ جبکہ غامدی صاحب اللہ کے رسول ﷺ کے لیے تو اس اختیار کے قائل نہیں ہیں۔ 
۳) غامدی صاحب حیض والی عورت کے لیے نماز نہ پڑھنے کے قائل ہیں جو کہ قرآنی حکم ’وأقیموا الصلاۃ‘ کا نسخ اور اس میں تغیر ہے ۔کیونکہ قرآن کا حکم نماز پڑھنے کا ہے۔ہم مانتے ہیں کہ آیت مبارکہ ’وأقیموا الصلاۃ‘ مجمل حکم ہے لیکن کیا اجمال کے بیان کا معنی یہ ہوتا ہے کہ أمر سے مراد نہی لی جائے۔ ’وأقیموا الصلاۃ‘ کا معنی نماز قائم کرنا ہے اس سے مراد ’نماز نہ قائم کرنا‘ بیان کی کون سے قسم ہے؟ دوسر ی بات یہ کہ حائضہ عورت کے بارے میں قرآن خاموش نہیں ہے بلکہ قرآن نے حائضہ کے بارے میں یہ حکم جاری کیا ہے کہ وہ أیام حیض میں شوہر سے علیحدہ رہے۔جب قرآن نے حائضہ کوصرف ایک چیز یعنی شوہرسے علیحدگی کا حکم دیا تو اس کا نماز اور روزے سے علیحدہ رہنا کیا قرآنی حکم پر اضافہ نہیں ہے؟۔اسی طرح ’فاعتزلوا النساء‘ میں ’اعتزال‘ کا حکم عمومی ہے جو کھانے ‘ پینے ‘ ملنے ‘جلنے‘ اٹھنے ‘ بیٹھنے اور مباشرت وغیرہ جیسے سب افعال سے علیحدگی کو شامل ہے لیکن ’اعتزال‘ سے غامدی صاحب کا صرف مباشرت مراد لینا کیاقرآن کے عمومی مفہوم کی تخصیص و تحدید نہیں ہے؟

غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا تنقیدی جائزہ

محمد زاہد صدیق مغل

اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد وعلی الہ وا صحابہ اجمعین ومن اتبعہ الی یوم الدین۔
اس مضمون میں ہم جاوید احمد غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا ایک مختصر مگر جامع تنقیدی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ غامدی صاحب کا نظریہ اخلاق درحقیقت اسلام کے بجائے مغربی ما بعد الطبیعیات پر مبنی ہے اور امت مسلمہ کو اعتزال قدیمہ کی راہوں پر ڈالنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ غامدی صاحب کا یہ نظریہ ان کی ’’اخلاقیات‘‘ نامی کتاب میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ چونکہ غامدی نظریہ اخلاق اور غامدی نظریہ فطرت باہم مربوط ہیں، لہٰذا نظریہ اخلاق کے کچھ مباحث ’’میزان‘‘ نامی کتاب کے باب ’’اصول ومبادی‘‘ میں بھی بیان ہوئے ہیں۔ اس مضمون کے لیے ہم انہیں دو کتب کے مباحث کو اپنی تنقید کی بنیاد بنائیں گے۔ کتاب ’’اخلاقیات‘‘ کے ابتدائی باب ’’بنیادی مباحث‘‘ میں غامدی صاحب نے تین سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے: (الف) انسان کے لیے خیر وشر کے جا ننے کا ذریعہ کیا ہے؟ (ب) وہ اصل محرک کیا ہے جو انسان کو تزکیہ اخلاق پر آمادہ کرتا ہے؟ (ج) اس (اخلاقی) سعی و عمل کی غایت و مقصود کیا ہے؟ درحقیقت یہ تینوں سوالات فلسفہ اخلاق کے بنیادی مباحث ہیں اور انہیں کے جوابات سے کسی تہذیب کا نظریہ اخلاق (یعنی خیر وشرکا تصور واصول) وجود میں آتا ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ غامدی صاحب نے ان تینوں سوالات کے جواب دینے میں چند بنیادی نوعیت کی علمی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ آئیے، ہم باری باری ان تینوں سوالات پر غامدی صاحب کے خیالات کا خلاصہ پیش کرکے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ 

پہلا سوال 

اس سوال کے جواب میں کہ انسان کے پاس خیر وشر جاننے کا حتمی ذریعہ کیا ہے، غامدی صاحب انسانی نفس کو بحیثیت معیار ما نتے ہیں، یعنی خیر وشر طے کرنے کا اصل منبع انسانی نفس ہے۔ اپنے اس تصور کے لیے غامدی صاحب درج ذیل قرآنی آیت پیش فرماتے ہیں: 
ونفس وما سواہا فالہمہا فجورہا وتقواہا (الشمس ۹۱: ۸۔۷ ) 
’’اور نفس گواہی دیتا ہے، اور جیسا اسے سنوارا، پھر نیکی اور بدی اس میں الہام کردی۔‘‘
اس آیت کو بنیاد بنا کر غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ نیکی اور بدی میں تمیز کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک اخلاقی حاسہ عطا فرمایا ہے اور اسی احساس کی بنا پر ایک برے سے برا آدمی بھی جب گناہ کرتا ہے تو اسے چھپانے کی کوشش کرتا ہے اور اگر اس کی خاطر حیلے بہانے تراشتا بھی ہے تو انہیں اپنی فطرت کے خلاف پاتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ انسانوں کی ہر معاشرت میں کسی نہ کسی تصور حق و انصاف کا پایا جانا بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسانی نفس میں خیر وشر کا احساس ایک عالمگیر حقیقت ہے۔ لیکن اس اخلاقی حاسہ کے باوجود چونکہ انسانی اعمال و تصورات خیر وشر میں تفاوت و اختلاف کا امکان ہوسکتا تھا، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ایسے بڑے اختلافات کو رفع کرنے کے لیے اپنے رسولوں کے ذریعے وضاحت کردی۔ دوسرے لفظوں میں خیروشر کا اصل منبع تو انسانی نفس ہی ہے، اور وحی کی ضرورت صرف اس وقت آتی ہے جب انسان اپنے نفس کے ذریعے کسی معاملے کا حتمی طور پر خیریاشر ہونا طے نہ کر سکے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خیر و شر (یا فطرت) کو متعین کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا تو غامدی صاحب کے نزدیک وہ طریقہ استقرا (induction ) ہے، یعنی تاریخ کی روشنی میں اقوام عالم کا مطالعہ کرکے انسانی فطرت کا درست تعین کرنا ممکن ہے۔ چنانچہ اپنی کتاب ’’میزان‘‘ (یا اصول و مبادی) میں غامدی صاحب یہ اصول بیان فرماتے ہیں کہ خیر وشر کا تعین (جسے وہ انسانی فطرت بھی کہتے ہیں) بذریعہ استقرا ممکن ہے اور اس ضمن میں جب کبھی اختلاف ہو گا تو تعیین فطرت کے لیے امت ابراہیمی کی اکثریت کا عمل معتبر ہوگا۔ 
ہم کہتے ہیں کہ غامدی صاحب نے پہلے سوال کا جواب دینے میں کئی فاش غلطیاں کی ہیں:
پہلی غلطی یہ کہ اپنے دعوے کے اثبات کی خاطر جو قرآنی آیت انہوں نے پیش کی ہے، وہ کسی بھی طرح اس کی دلیل نہیں بن سکتی۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ کب کہا کہ خیروشر کاتعین نفس انسانی کے ذریعے ہو سکتا ہے؟ اس آیت میں تو صرف اتنی خبر دی گئی ہے کہ اصل خیر و شر جو بھی ہے، وہ ہم نے انسانی نفس میں ودیعت کر دیا ہے اور بس۔ لیکن خیر و شر کے ما فیہ کا تصور کیا ہے، یعنی کسی عمل کے خیر و شر ہونے کا اصول کیا ہے ، آیا اس کا تعین انسانی نفس کے ذریعے ہو سکتا ہے یا نہیں؟ یہ آیت اس بارے میں کچھ نہیں بتاتی۔ قرآن مجید کی بے شمار آیات اس مضمون کو بیا ن کرتی ہیں کہ خیر وشر، حق و انصاف، عدل و ظلم کا واحد حتمی ذریعہ صرف اور صرف وحی ہے۔ نیز کسی عمل کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ انسانی نفس نہیں بلکہ صرف اور صرف شریعت کی روشنی میں ہوتا ہے، یعنی آیا نماز پڑھنا، زنا کرنا یا شراب پینا اچھا عمل ہے یا برا، اس کا تعین میرے نفس سے نہیں ہو سکتا (قرآن مجید کی وہ تمام آیات جن میں یہ فرمایا گیا کہ رسول کی اتباع کرو، رسول جو دے لے لو اور جس سے منع کرو اس سے رک جاؤ، نیز انبیاے کرام پر نازل شدہ وحی کی پیروی کرو ، قرآن مجید میزان و فرقان ہے وغیرہ کا مضمون یہی موضوع ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے کسی مقام پر اپنے نفس کی پیروی کرنے کا نہیں بلکہ اس شریعت کی پیروی کا حکم دیا ہے جو انبیاے کرام پر نازل ہوتی ہے۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ کیا خیر و شر انسانی فطرت میں موجود ہیں یا نہیں یا آیا یہ بھی معاشرے سے سیکھے ہوئے چند تصورات ہیں؟ تو اس سوال کا جواب اثبات میں ہو گا یا نفی میں۔ ہر دو صورت میں آپ کو اپنے جواب کی دلیل بیا ن کرنا ہوگی، یعنی آپ کو بتانا ہو گا کہ آپ کو کس ذریعے سے معلوم ہوا کہ انسانی فطرت میں خیر وشر ہیں یا نہیں۔ اپنے دعوے کی دلیل بیان کرنے کے لیے آپ کو لا محالہ حواس خمسہ، عقل اور خبر تینوں میں سے کسی ایک سے دلیل پیش کر نا ہوگی۔ ایک مسلمان جب آیت بالا کو اپنے مثبت جواب کے حق میں پیش کرتا ہے تو گویا وہ صرف یہ کہتا ہے کہ خیر و شر انسان کے اندر موجود ہیں اور اس کا علم مجھے خبر صادق (قرآن) سے ملا ۔ جدید فلسفے میں علم اخلا قیات کے مبا حث و مسا ئل کا ہر طالب علم خوب جانتا ہے کہ حواس اور عقل کے ذریعے خیر وشر کا انسانی نفس میں ہونا یا نہ ہونا قطعاً ثابت نہیں کیا جا سکتا، یعنی انسانی ذرائع علم میں ایسا کوئی حتمی طریقہ موجود ہی نہیں جس کے ذریعے ہم نفس انسانی کا مطالعہ کرکے کسی حتمی خیر و شر کا ادراک حاصل کر سکیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ نفس انسانی کے ذریعے خیر وشر کا تعین تو رہا درکنار، انسانی نفس میں خیر وشر کا وجود ہے بھی یا نہیں، اس کا علم بھی صرف اور صرف خبر ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی کہ ہم نے تم سے عالم ارواح میں الست بربکم قالوا بلی کا عہد لیا تھا۔ ظاہر بات ہے ہم میں سے نہ تو کسی کو وہ عہد یاد ہے اور نہ ہی اس عہد کا علم سوائے خبر صادق کے کسی دوسرے ذریعہ علم سے ممکن ہے۔ کوئی شخص چاہے کتنا ہی سو چ بچار کرلے، بجز وحی کسی بھی دوسرے ذریعہ علم سے اس عہد کی حقیقت و ماہیت اور اس کے مضامین کو نہیں جان سکتا۔ اس کی دوسری مثال یوں بھی ہے جیسے خبر صادق کے ذریعے معلوم ہوا کہ انسان میں ایک شے روح (امر ربی) بھی موجود ہے، لیکن وہ روح کیا ہے نیز اس کی حقیقت و ماہیت کیا ہے، اس کا ادراک اور تعین کسی انسانی ذریعہ علم سے ممکن نہیں۔ بالکل اسی طرح میرے نفس میں خیر وشر موجود ہیں یا نہیں، اس کی خبر مجھے اس آیت میں دی گئی ہے، لیکن وہ خیر وشر کیا ہے اور اس کا تعین کیسے ہوگا، یہ آیت اس ضمن میں بالکل خاموش ہے۔ قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ انسانی نفس سے خیر وشر معلوم کیے جا سکتے ہیں، اگر ایسا کرنا ممکن ہوتا تو قرآن یقیناًاس نفسانی فطرت کی اتباع کا حکم بھی دیتا۔ قرآن مجید کی اس خبر سے کہ انسانی نفس میں خیر وشر موجود ہیں، یہ نتیجہ نہیں نکا لا جا سکتا کہ انسانی نفس سے ان کا تعین بھی ممکن ہے (جو غامدی صا حب کا اصل مدعا ہے)۔ چنانچہ غامدی صاحب کے دعوے اور دلیل میں مطابقت نہیں، وہ ایسے کہ ان کا دعویٰ تو نفس انسانی کے ذریعے خیر وشر کی تعیین کا ہے جبکہ دلیل وہ نفس انسانی میں خیر وشر کے وجود ہونے کی دیتے ہیں۔ یہی وہ نقطہ ہے جسے سمجھنے میں غامدی صاحب اور ان کے مکتبہ فکر نے شدید ٹھوکر کھائی ہے۔ (اس غلطی کی ابتدا سید احمد خان سے ہوتی ہے)۔ 
غامدی صاحب کا یہ کہنا کہ ہر معاشرت میں حق و انصاف کا کوئی نہ کوئی تصور موجود ہوتا ہے، ان کے دعوے کے حق میں سرے سے کوئی دلیل ہے ہی نہیں۔ بحث یہ نہیں کہ آیا خیر وشر انسانی نفس میں موجود ہیں یا نہیں، بلکہ سوال تو یہ ہے کہ کیا انسانی ذرائع سے خیر وشر کی تعیین ممکن ہے یا نہیں؟ دوسرے لفظوں میں حق و انصاف ، عدل و ظلم کا درست تصور کیا ہے، اس کا تعین کیسے ہوگا؟ چونکہ غامدی صاحب کی یہ دلیل عمرانیاتی (sociological) بنیادوں پر مبنی ہے، لہٰذا اگر خالصتاً عمرانیاتی نقطہ نگاہ سے بھی غامدی صاحب کی اس دلیل کا جائزہ لیا جائے تو بھی غامدی صاحب کا موقف ثابت نہیں ہوتا۔ وہ ایسے کہ تمام انسانی معاشرتوں میں حق و انصاف کے کسی نہ کسی تصور کاپایا جانا اس بات کی لازمی دلیل نہیں بن سکتی کہ حق و انصاف کا تصور فطری ہے۔ پیور باخ، ہیگل، مارکس، فرائیڈ اور نطشے وغیرہ کے مطابق تو خیر وشر، حق و انصاف وغیرہ جیسے تمام تصورات در حقیقت معاشرتی تعلقات اور ان کے نتائج میں قائم ہونے والی معاشرتی درجہ بندی (social structure) کے پیداوار ہیں، یعنی عدل و انصاف کا سوال ہی اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دو افراد کے تعلق کے بعد حقوق و فرائض کا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے ، اور جب تک یہ تعلق قائم نہ ہو، حقوق و فرائض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں ماہر عمرانیات کے مطابق حق اور انصاف کا تصوربذات خود ایک خاص طریقے سے وجود انسانی کے اظہار کے بعد پیدا ہوا ہے نہ کہ یہ تصور پہلے سے اس کی فطرت میں موجود ہیں۔ (خیال رہے کہ راقم کاان خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں، ہم یہ بحث صرف اتنا ثابت کرنے کے لیے کر رہے ہیں کہ غامدی صاحب جو عمرانی دعویٰ فرما رہے ہیں، خود عمرانیاتی علوم کی روشنی میں وہ ایک کمزور دعویٰ ہے)۔ دوسرے لفظوں میں غامدی صاحب کی دلیل سے نفس انسانی کے ذریعے کسی خیر وشر کا امکانِ تعین ثابت ہونا تو رہا ایک طرف، اس دلیل سے تو انسانی فطرت میں کسی خیر وشر کا وجود ہونا بھی ثابت نہیں ہوتا۔
اسی طرح غامدی صاحب کا یہ کہنا بھی بے معنی ہے کہ ہر شخص گنا ہ کے کام کو چھپا تا ہے یا اس کے لیے جھوٹی دلیلیں تراشتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک شخص یا معاشرے کے تصور خیر وشر میں کوئی عمل برا ہے ہی نہیں تو وہ اسے کیوں چھپائے گا؟ مثلاً اشتراکی تصور خیر کے مطا بق اپنی سگی بہن سے نکاح کرلینا کوئی گناہ کا کام نہیں۔ اب اگر کوئی شخص اشتراکی تصور خیر پر صمیم قلب سے ایمان رکھتا ہو، اسے اس عمل کو چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ وہ تو ایسے لوگوں کو بے و قوف گردانتا ہے جو اپنی خوبصورت بہن سے خود نکاح کرنے کے بجائے اسے دوسرے شخص کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اگر غامدی صاحب کہیں کہ اشتراکی تصور خیر غلط اور غیر فطری ہے تو ہم پوچھیں گے کہ انہیں یہ علم کیسے ہوا؟ ان کے پاس بجز وحی اصل خیر کا معیار کیا ہے؟ اس لمحے پر یقیناًغامدی صاحب استقرا اور امت ابراہیمی کی پناہ تلاش کریں گے۔ مگر غامدی صاحب کا استقرا کو خیر وشر کی تعیین کے طریقے کے طور پر پیش کرنا ایک نہایت گمراہ کن تصور ہے۔ 
اس ضمن میں پہلی بات یہ کہ اس اصول کی شرعی دلیل کیا ہے، یعنی یہ اصول قرآن مجید کی کس آیت سے اخذ کیا گیا ہے کہ خیر وشر کا تعین اقوام عالم کی تاریخ سے ممکن ہے؟ غامدی صاحب کے اصول کے برعکس قرآن مجید تو ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر تم زمین میں اکثریت کی پیروی کرو گے تو گمراہ ہو جا ؤ گے۔ (انعام ۶۔ ۱۱۶) اسی ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ غامدی صاحب کے پاس اس اصول کی شرعی دلیل کیا ہے کہ اختلاف اعمال کی صورت میں تعیین فطرت اور خیر و شر کے لیے امت ابراہیمی کی اکثریت کا عمل معتبر ہوگا؟ آخر یہ اصول کس قرآنی آیت سے ماخوذ ہے؟ دوسری بات یہ کہ غامدی صاحب کا یہ دعویٰ بھی قابل نزاع ہے کہ اقوام عالم کی تاریخ کے مطالعے سے فطری خیر وشر کا درست تعین ممکن ہے۔ غامدی صاحب تو یہ دعویٰ یوں فرمارہے ہیں گویا انہوں نے اقوام عالم کا تاریخی مطالعہ کرکے تمام اعداد وشمار جمع کررکھے ہیں۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے جو عادات و اطوار اپنے معاشرے سے سیکھے ہیں، انہیں بغیر کسی دلیل آفاقی سمجھ بیٹھے ہیں۔ مثلاً موجودہ حالات میں ہم دیکھتے ہیں کہ امت ابراہیمی کی اکثریت شراب پینے، سود خوری، دو مردوں کی آپس میں شادی کرنے اور ہیومن رائٹس کے نام پر نجانے کس کس غلاظت کو خیر اور انسانی فطرت کا جائز تقاضا گردانتی ہے۔ تو کیا اصول استقرا کی بنا پر یہ سب اعمال اب خیر کی لسٹ میں شمار کیے جا نے لگیں گے؟ اس ضمن میں اہم بات یہ بھی ہے کہ کیا امت ابراہیمی کی تاریخ کا کوئی ایسا معتبر ریکارڈ موجود ہے جس کی بنیاد پر خیر وشر اور انسانی فطرت کی تعیین جیسے اہم امور طے کیے جا سکتے ہوں؟ تیسری اہم بات یہ کہ اگر خیر وشر کا فیصلہ استقرا پر چھوڑ دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو ا کہ خیر وشر کبھی متعین ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ راجربیکن (وہ شخص جس نے حصول علم کے لیے وحی کے بجائے استقرا پر زور دینے کی مہم کا آغاز کیا) سے لے کر آج تک کوئی بڑے سے بڑا فلسفی بھی مسئلہ استقرا (problem of induction) حل نہیں کر سکا۔ (مسئلہ استقرا کی تفصیل منطق کی ہر کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے ، یا دیکھئے سائنس پر راقم کا مضمون ، ساحل اگست ۲۰۰۶ )۔ استقرائی طریقہ علم کی سب سے بڑی کمزوری ہی یہ ہے کہ اس سے حاصل ہونے والا علم نہ تو حتمی ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے ذریعے کسی بات کا اثبات ممکن ہوتا ہے، بلکہ وہ علم ہمیشہ ظنی(probable) اور ارتقائی (evolutionary) ہوتا ہے۔ چنانچہ خیر وشر کا تعین استقرا کے حوالے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خیر وشر کسی متعین اور آفاقی حقیقت کا نام نہیں بلکہ یہ زمانے اور مکان کا پابند ہے۔ دوسرے لفظوں میں خیر وشر اضافی (relative) تصورات ہیں نہ کہ ابدی (absolute)۔ ایک طرف تو غامدی صاحب کا دعویٰ ہے کہ خیر وشر ابدی حقائق کا نام ہے اور دوسری طرف وہ انہیں جاننے کا ذریعہ استقرا قرار دے کر اپنے اسی دعوے کا رد فرما رہے ہیں۔ ہم غامدی صاحب سے پوچھتے ہیں کہ بتائیے آپ کے پاس مسئلہ استقرا کا حل کیا ہے؟ اور اگر اس کا حل نہیں ہے تو بتائیے بجز وحی آپ کے پاس خیر وشر اور انسانی فطرت کی تعیین کا قطعی طریقہ علم کیا ہے؟ اور اگر ایسا کوئی طریقہ نہیں تو پھر نفس انسانی کے ذریعے خیر وشر کے تعین کے معنی کیا ہوئے؟ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نظریہ استقرائیت جو سائنس کی دنیا میں بھی بری طرح مات کھا چکا ہے، غامدی صاحب اسے مذہب پر لاگو کرکے آخر کون سے طلسماتی نتائج حاصل کر نے کی امید رکھے ہوئے ہیں۔ نیز خیر وشر جاننے کے لیے اقوام عالم کے تاریخی مطالعے کا طریقہ بھی خوب ہے۔ گویا ہر شخض خیر وشر پر عمل پیراہونے سے پہلے تاریخ کی کتب کھول کر بیٹھ جائے اور دنیا کی تمام تہذیبوں کا باری باری مطالعہ کرے۔ پھر اپنے مطالعے سے درست نتائج نکالنے کے لیے استقرائی منطق کے قواعد و اصول سیکھے، اور اتنا ہی نہیں بلکہ اب تک دنیا کے دوسرے افراد نے مطالعہ تاریخ سے جو نتائج اخذ کیے ہیں، ان سے بھی واقفیت حاصل کرے تاکہ درست نتیجہ نکالنے میں مدد مل سکے۔ چونکہ غامدی صاحب تقلید کے قائل نہیں تو اب مطلب یہ ہوا کہ ہر شخص اپنی ساری عمر اخلاقی اصول معین و مرتب کرنے پر ہی صرف کرڈالے اور اگر اس کے بعد قسمت نے یارانہ کرکے فرصت کے چند لمحات میسر کردیے تو ان پر عمل کرنے کی کچھ سعی کر لے۔ 

دوسرا سوال 

اب ہم غامدی نظریہ اخلاق کے دوسرے سوال کی جانب چلتے ہیں۔ وہ دوسرا سوال یہ ہے کہ انسان کو تزکیہ اخلاق پر آمادہ کرنے والا اصل محر ک کیا ہے؟ غامدی صاحب کے خیال میں وہ محرک خیر وشر پر مبنی انسان کا یہ احساس ہے کہ ان دونوں کے نتائج اس کے لیے یکساں نہیں ہو سکتے۔ ان کے خیال میں اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انسان اپنے اعمال کے صلے میں لازماً جزا و سزا سے دو چار ہوگا۔ پھر خوف و طمع کا یہی احساس جب ایمان باللہ میں تبدیل ہو تا ہے تو یہی احساس خدا سے متعلق ہو جاتا ہے، یعنی خدا کی محبت، اس کی رضا اور ناراضگی کا خوف اخلاق کی پابندی کا محر ک بن جاتا ہے۔ 
غامدی صاحب کی تقریرسے واضح ہوتا ہے کہ خیر و شر کا تعین گویا ایمان باللہ سے قبل ہی ہو جا تا ہے اور ایمان باللہ کی ضرورت صرف اس کے محرک کے لیے پڑتی ہے۔ وہ یہ حقیقت سمجھنے میں نا کام رہے ہیں کہ ہر تصور خیر بذات خود ایک ما بعد الطبیعیاتی ایمان پر قائم ہوتا ہے، یعنی ہر اخلاقی نظریہ ما بعد الطبیعیات سے اخذ شدہ ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر ایما نیات سے نکلنے والا تصورو اصول اخلاق مختلف ہوتا ہے۔ غامدی صاحب جب یہ فرماتے ہیں کہ انسانی نفس کے احساس کی بنا پر خیر وشر کا تعین ممکن ہے، نیز اس کا اصل محرک یہی احساس انسانی ہے تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خیر و شر کا تعین ہر قسم کی ایمانیات سے ماورا ہے، یعنی کسی مابعد الطبیعیاتی حقیقت پر ایمان لائے بغیر بھی خیر وشر طے کرنا ممکن ہے، لیکن اس خیال کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ایں خیال است، محال است و جنوں۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ یہ سوال کہ انسانی اعمال کی صحت اور بطلان کا معیار کیا ہے، اس وقت تک لا ینحل رہتا ہے جب تک یہ طے نہ کر لیا جائے کہ اس دنیا میں انسان کی حیثیت کیا ہے۔ کسی معاملے میں انسان کے جائز تصرفات اور اشیا و موجودات کے ساتھ جائز و ناجائز رویے کا تعین تبھی ممکن ہے جب یہ طے ہوجائے کہ اس کی اپنی حیثیت کیا ہے، نیز اس کا تعلق ان معاملات اور موجودات کے ساتھ کیسا ہے؟ یعنی آیا اس دنیا میں وہ مالک ہے یا امین، خود مختار ہے یا ما تحت، اپنے اعمال کے لیے آزادہے یا جواب دہ، اس کی زندگی بامقصد ہے یا نہیں، نیز وہ مقصد کیا ہے، اپنا ضابطہ حیات اسے خود طے کرنا ہے یا کسی اور کو وغیرہ وغیرہ۔ یہی وہ سوالات ہیں جن کا تعلق ما بعد الطبیعیاتی ایمانیات سے ہے اور ہر تہذیب کا نظریہ خیروشر انہیں کے جوابات سے وجود میں آتا ہے۔ (اس موقع پر ہم غامدی صاحب سے عرض کرتے ہیں کہ اگر وہ مولانا مودودیؒ کی کتا ب ’’اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات‘‘ کے مضامین ’’اسلام اور جاہلیت‘‘ اور ’’اسلام کا اخلاقی نقطہ نظر‘ ‘ ہی کا مطالعہ فرما لیں تو ان شاء اللہ بہت سی فکری لغزشوں سے بچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہاں مودودی صاحب کاحوالہ اس لیے دیا گیا کہ غامدی صاحب بذات خود مولاناکے بہت بڑے مداح ہیں) اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا : 
لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من آمن باللہ و الیوم الاخر و الملئکۃ والکتاب والنبیین (بقرۃ ۲: ۱۷۷)
یعنی نیکی کسی خاص عمل کرنے کا نام نہیں، بلکہ نیکی کی حقیقت تو یہ ہے کہ تم ایمان لاؤ اللہ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر، آسمانی کتابوں (یعنی وحی ) پر، انبیاے کرام پر۔ اس تقاضاے ایمان کے بعد قرآن نیکی کرنے کے چند خاص اعمال کا ذکر کرتا ہے، مثلاً نماز پڑھنا ، غریبوں کی مدد کرنا وغیرہ۔ یہ آیت واضح طور پر یہ حقیقت بیان کر رہی ہے کہ خیر وشر کا منبع ایمان ہے، نہ کہ انسانی نفس کا مطالعہ وغیرہ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ کوئی عمل بذات خود اچھا یا برا نہیں ہے بلکہ اصل حیثیت حکم الٰہی کی پیروی کرنے کی ہے، یعنی نہ تو غریب کی مدد کرنا ہی بالذات نیکی ہے اور نہ ہی جھوٹ بولنا بالذات گناہ ہے بلکہ نیکی اور بدی کی بنیاد حکم الٰہی کی پیروی کرنا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص اس احساس کی بنا پر کسی غریب کی مدد کرتا ہے کہ ایسا کرنے سے اسے خوشی ہوتی ہے ، یا ایسا کرنے کو اس نے بذات خود اپنے اوپر لازم کر رکھا ہے یا ایسا کرنے سے اس کی قوم کی بھلائی ہوتی ہے تو یہ ہرگز بھی کوئی نیکی نہیں بلکہ یہ عمل نیکی تب ہوگا جب اس ایمان کے ساتھ اسے کیا جائے کہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس کی جزا کا وعدہ اس نے مجھ سے کیا ہے۔ گویا جب نیکی اور بدی کا تعین ہی حکم الٰہی سے ہوتا ہے تو اس کا محرک بھی اس حکم الٰہی سے متعلق جواب دہی کا احساس ہی ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے اصولیین یوں بیان کرتے ہیں کہ شارع کا حکم ہی بندے کو کسی عمل کا مکلف بناتا ہے نہ کہ اس کا داخلی احساس یا فطرت وغیرہ۔ حکم الٰہی کے سوا کوئی دوسری شے نہ توخیر و شر کی بنیاد بن سکتی ہے اور نہ ہی اس حکم سے متعلق جواب دہی کے احساس کے علاوہ کوئی شے خیر وشر کا محرک ہو سکتا ہے۔ درحقیقت غامدی صاحب انسانی فطرت کو خیر وشر کا ماخذ، استقرا کو اس کے جاننے کا طریقہ اور انسانی احساس کو اس کے محرک کی بنیاد مان کر انجانے میں مغربی ما بعد الطبیعیات پر ایمان لا بیٹھے ہیں جس کے مطابق انسان عبد نہیں بلکہ آزاد ہے اور علم کا منبع خدا کی ذات نہیں بلکہ نفس انسانی ہے ، اور یہ تمام تر تصورات صریح گمراہی اور اعتزال قدیمہ کے شاخسانہ ہیں۔ غامدی صاحب ہمیں بتائیں کہ حکم الٰہی کے سوا وہ کون نسا اصول ہے جو کسی عمل کے خیریا شر ہونے کا تعین کرتا ہے۔ نیز آخرت کی جواب دہی کے علاوہ کیونکر انسان کسی خیر و شر کی پابندی پر آمادہ ہو سکتا ہے؟ 

تیسرا سوال 

فلسفہ اخلاق کا آخری سوال یہ ہے کہ خیر وشر پر عمل پیرا ہونے کا مقصد کیا ہونا چا ہیے۔ غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ اخلاقی سعی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی ابدی بادشاہی کا حصول ہے ۔ ان کے نزدیک علماے اخلاقیات نے اخلاقی سعی کے جتنے بھی مقاصد بیان کیے ہیں، وہ سب کے سب ایک معنی میں حصول رضائے الٰہی میں خود بخود شامل ہو جاتے ہیں۔ خیال رہے کہ علماے اخلاقیات کے ایک گروہ نے اخلاقی سعی کا مقصد utility(جس کا ترجمہ غامدی صاحب نے ’مسرت‘ کیا ہے) کا حصول قرار دیا ہے جبکہ ایک دوسرے گروہ کے نزدیک فرض برائے فرض کی ادئیگی (duty-ethics) اس کا مقصد ہونا چاہئے۔ اس سوال کے جواب میں بھی غامدی صاحب نے کئی غلطیاں کی ہیں جن کی نشاندی ہم یہاں کیے دیتے ہیں۔ 
ہم غامدی صاحب سے ایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں: جب خیر وشر کا تعین انسانی نفس اور فطرت سے ہوتا ہے اور اس پر عمل پیراہونے کا محرک بھی ارادہ و احساس انسانی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اخلاقی جدوجہد کا مقصد انسانی ارادہ سے باہر کیسے ہو گیا؟ علماے اخلاقیات اخلاقی سعی کا مقصد انسانی مسرت، کمال یا ارادہ انسانی کے ماتحت فرض برائے فرض کے تصور ات کو اسی لیے تو کہتے ہیں کیونکہ وہ خیر وشر کا ماخذ اور اس کا محرک انسانی نفس کو مانتے ہیں۔ جب نیکی اور بدی انسانی ذات سے نکلتے ہیں تو اس کا مقصد بھی انسانی ذات ہی سے نکلے گا۔ غامدی صاحب کا معاملہ عجب ہے کہ ایک طرف تو وہ خیر وشر کا ماخذ اور اس کا محرک انسانی نفس کو قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف اس کا مقصد نفس انسانی سے باہر تلاش کرتے ہیں۔ اخلاقی جدوجہد کا مقصد حصول رضاے الٰہی تبھی قرار پاتا ہے جب یہ مانا جائے کہ خیر وشر کا ماخذ حکم الٰہی اور اس کا محرک اللہ کے سامنے مسؤلیت کا تصور ہے۔ غامدی صاحب کا نظریہ اخلاق درحقیقت مباحث اخلاقیات اور مذہبی ایمانیات کی خلط مبحث پر مبنی ہے۔ 
غامدی صاحب کا یہ خیال کہ علماے اخلاقیات کے اخلاقی سعی کے تمام تر مقاصد حصول رضاے الٰہی میں شامل ہیں، ایک فاش غلطی ہے۔ علماے اخلاقیات جب یہ کہتے ہیں کہ اخلاقی جدوجہد کا مقصد حصول لذت (utility)ہے تو وہ انسان کو آزاد (self-determined) مانتے ہیں اور اسی تصور کی بنا پر وہ حصول لذت کا طریقہ اختیار کرنے کا حق انسان کو دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں حصول لذت کا مقصد نفس انسانی کی پیروی (obedience and dominance of self) کرنے کا نام ہے جبکہ حصول رضاے الٰہی نفس کی نفی (submission of self to God)کرنے کا نام ہے۔ ایک ما بعد الطبیعیات میں انسان آزاد جبکہ دوسری میں وہ عبد ٹھہرتا ہے۔ اسی طرح اخلاقی جدوجہد کا مقصد فرض برائے فرض کی ادائیگی قرار دینے کا مطلب یہی ہے کہ انسان صرف اور صرف اپنے ارادے کا مطیع بن کر اخلاقی جدوجہد کرے، نہ کہ اپنے ارادے کو اپنے رب کے سامنے جھکا کر۔ اپنے نفس کی پیروی کرنے اور اسے اپنے رب کے سامنے جھکا دینے میں جو فرق ہے، ہر شخص اسے با آسانی سمجھ سکتا ہے، مگر غامدی صاحب اس فرق میں تمیز کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ 
غامدی صاحب کا یہ فرمانا کہ اخلاقی سعی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی ابدی بادشاہی کا حصول ہے، نہایت خطرناک نظریہ ہے کیونکہ اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ انسان خدا ئی عمل میں شریک بن جائے۔ ہم یہ خدشہ کسی وہم کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس حقیقت کی بنا پر پیش کر رہے ہیں کہ بہت سے مسلم مفکرین کسی معنی میں انسان کو تخلیقی عمل میں شامل اور تقدیر یزداں مانتے رہے ہیں۔ (حسن ادب ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہم یہاں کسی کا نام لینا نہیں چاہتے) گو کہ غامدی صاحب نے اپنی کتاب میں (فادخلی فی عبادی وادخلی جنتیکے قرآنی الفاظ سے) اس کی کچھ وضاحت ضرور فرمائی ہے، لیکن چونکہ ’’الٰہی بادشاہی کا حصول‘‘ اسلامی سے زیادہ عیسائی تمثیل اور علم الکلام پر مبنی ہے، لہٰذا بہتر ہوگا اگر غامدی صاحب یہ وضاحت بھی فرما دیں کہ آیا یہ معنی ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی بادشاہی اور اس کے حصول میں شامل ہیں یا نہیں کیونکہ اگر یہ معنی بھی اس میں شامل ہیں جو ہم نے بیان کیے تو خیال رہے یہ نہایت گمراہ کن اور خلاف اسلام تصور ہے کیونکہ اللہ کی بادشاہی کے حصول اور اس میں شرکت کا امکان ہی وہ تصور ہے جو الوہیت انسانی کا جواز فراہم کر تا ہے اور جدیدیت پسند عیسائی علما کے اسی قسم کے مذہبی تصورات اور تاویلات کے ذریعے مغربی تہذیب میں انسان کو خدا تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں شمولیت کو اپنا مقصد بنانے کے بعد انسانی زندگی کا جو عملی نقشہ ابھرتا ہے، وہ یہ نہیں کہ انسان رسوم عبودیت بجا لانے کی فکر کرتا پھرے، بلکہ یہ ہے کہ وہ تصرف فی الارض یعنی اس کائنات کو اپنے ارادے اور خواہشات کے تابع کرنے کی سعی کرے اور یہی جدوجہد در حقیقت سائنس و ٹیکنالوجی کے جواز کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ لہٰذا خوب یاد رہے کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے اخلاقی سعی کا مقصد درحقیقت حصول رضاے الٰہی اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی موعود جنت ہے اور اس جنت کا مل جانا کسی بھی معنی میں اللہ کی بادشاہی کا حصول یا اس میں شرکت نہیں بلکہ عبدیت ہی کا پرتو ہے ، یعنی انسان جنت پہنچ کر بھی عبد ہی رہے گا نہ کہ اللہ تعالی کی خدائی اور بادشاہی کا حصہ بن جائے گا۔ بھلا کون ہے جو اللہ کی بادشاہی میں ذرا برابر بھی حصہ حاصل کر سکے کیونکہ اللہ تعالیٰ محض صفات کے مجموعے نہیں بلکہ ایک ذات کا نام ہے اور بادشاہی صرف اور صرف اس ہی کی ذات کو سزا وار ہے۔ 

ایک اہم لغوی غلطی 

آخر میں ہم غامدی صاحب کی توجہ ترجمہ و بیان مفہوم کی ایک اہم لغوی غلطی کی طرف دلانا چا ہتے ہیں۔ علماے اخلاقیات کے ایک گروہ نے اخلاقی جدوجہد کامقصد utility maximization کو قرار دیا ہے۔ (اس فکر کو Utilitarianism کہتے ہیں) ۔غامدی صاحب نے اپنی کتاب اخلاقیات میں لفظ utility کا ترجمہ ’’مسرت‘‘ کیا ہے حالانکہ یہ اس لفظ کی نہایت غلط تعبیر ہے کیونکہ اس لفظ کی درست تعبیر اگر اردو زبان کے کسی الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہے تو وہ ہیں حصول لذت، مزے کرنا یا نفس پرستی وغیرہ۔ گو کہ لذت، مزہ، خوشی، مسرت وغیرہ قریب المعنی الفاظ ہیں، لیکن کیفیات کے اعتبا رسے یہ الفاظ احساس خوشی کے مختلف درجات پربولے جاتے ہیں۔ مثلاًخوشی کا ایک احساس وہ ہے جو کسی غریب کی مدد کرنے سے پیدا ہوتا ہے اور ایک کیفیت وہ ہے جو بدکاری کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ ظاہر بات ہے خوشی کی ان دونوں کیفیات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اردو زبان میں لفظ ’’ مسرت‘‘ درحقیقت ایک باوقار اور قابل ستائش احساس خوشی کے لیے بولا جاتا ہے جبکہ لفظ ’’مزہ‘‘ اپنے متعلقات سمیت عموماً خوشی کے سفلی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح انگریزی زبان میں بھی خوشی کے احساسات بیان کرنے کے لیے کئی الفاظ مستعمل ہیں اور ان تمام الفاظ میں لفظ utility سب سے گھٹیا ترین معنوں کا حامل ہے جس کا مفہوم قریب قریب وہی ہے جو اردو زبان میں ’مزے کرنے‘ یا نفس پرستی کا ہے۔ اس لفظ کا سب سے بہترین اور درست مفہوم خود بینتھم (جو Utilitarianism کا بانی ہے) نے یوں بیان کیا تھا کہ Man and pig are equal in their capacity to derive utility from consumption activity. یعنی عملِ صرف کے ذریعے مزہ (utility) اٹھانے کے معاملے میں انسان اور سور یکساں صلاحیت کے حامل ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ لفظ احساس خوشی کے سب سے نچلے یعنی حیوانی درجے کی کیفیات بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ غامدی صاحب نے لفظ utility کا ترجمہ مسرت کرکے ایک حیوانی کیفیت کو اعلیٰ مرتبے پر فائز کر ڈالا اور بیان مفہوم کی اسی غلطی نے نتیجتاً انہیں اس غلط فہمی میں بھی مبتلا کر دیا کہ utility کا حصول کسی معنی میں حصول رضائے الٰہی کے مفہوم میں شامل ہو سکتا ہے۔ چونکہ غامدی صاحب بزعم خود عربی زبان کے ماہر ہیں، لہٰذا انہیں ترجمے کی ایسی فاش غلطیوں کے نتائج و عواقب کا خوب اندازہ ہو نا چاہیے۔ بظاہر یہ ترجمے کی ایک معمولی غلطی دکھائی دیتی ہے مگر ایسی غلطیوں کے نتیجے میں انسان بسا اوقات گہری فکری گمراہیوں کا شکار ہو جاتا ہے اور مسلم مفکرین تو پہلے ہی مغرب سے آنے والے ہر گمراہ کن تصور کا خوبصورت اور ’’ایمانی‘‘ ترجمہ کرکے ان گنت غلط فہمیوں کا شکا ر ہیں ، چنانچہ ہم نے ہیومن رائٹس کا ترجمہ حقوق العباد، ہیومن کا انسان، فریڈم کا آزادی ، equality کامساوات، ولفئیر کا فلاح، ٹولیرنس کا رواداری، Enlightenment کا روشن خیالی وغیرہ کرکے مغربی افکار و علوم کا ایک خوبصورت محل قائم کر رکھا ہے۔ غامدی صاحب سے گزارش ہے کہ اگر وہ ایسی غلط فہمیوں کا مداوا نہیں کر سکتے تو نہ سہی، لیکن کم ازکم ان میں اضافہ کرکے مزید فکری خلفشار کا باعث تو نہ بنیں۔ 

ایک تقابلی مطالعہ 

اب ہم اسلامی ، غامدی اور مغربی نظریاتِ خلاق کا تقابلی مطالعہ پیش کرتے ہیں تاکہ قارئین خود فیصلہ کرسکیں کہ غامدی نظریہ اخلاق دونوں میں سے کس نظریے پر مبنی ہے۔

اس تقابلی مطالعے میں دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ اسلامی و مغربی نظریاتِ اخلاق میں پانچوں جوابات کے مابین ایک منطقی ربط موجو د ہے یعنی اسلامی نظریہ اخلاق میں ہر جگہ خدا جبکہ مغربی نظریات میں انسان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جبکہ غامدی صاحب کا نظریہ چوتھے مسئلے تک انسان کی مرکزیت پر قائم ہے اور اس کے بعد یکایک ایک غیرمنطقی چھلانگ لگا کر خدا کوبھی شامل بحث کر لیتا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ غامدی نظریہ اخلاق کی یہ بے ربطی در حقیقت مغربی و اسلامی نظریہ اخلاق کے خلط مبحث کا شاخسانہ ہے۔ 

غامدی صاحب سے چند سوالات 

غامدی نظریہ اخلاق پر اپنے تنقیدی نکات کو ہم چند سوالات کی صورت میں غامدی صاحب کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ بہتر ہوگا غامدی صاحب اپنے مقلدین کے بجائے خود ان کے جوابات عنایت فرمائیں۔ (وہ اور بات ہے کہ ان کے مقلدین جو بھی کہتے ہیں، اپنے استاد صاحب کی تصویب کے ساتھ ہی شائع کرتے ہیں)۔ 
۱) قرآن مجید کی کس آیت میں یہ کہا گیا کہ خیر وشر کی تعیین نفس انسانی کے ذریعے ممکن ہے؟ 
۲) انسانی نفس میں خیر وشر موجود ہیں سے یہ نتیجہ کیسے نکل آیا کہ اس کا تعین بھی انسانی نفس سے کیا جا سکتا ہے؟ 
۳) غامدی صاحب انسانی فطرت سے کیا مراد لیتے ہیں؟ نیز اس کی تعیین کے لیے خبر صادق کے علاوہ دوسرا حتمی ذریعہ اور طریقہ علم کیا ہے؟ 
۴) غامدی صاحب کے پاس اس اصول کی شرعی دلیل کیا ہے کہ خیر وشر اور انسانی فطرت کی تعیین کے لیے استقرا کا طریقہ اختیار کیا جائے؟ اسی طرح اختلاف اعمال کی صورت میں تعیین فطرت کے لیے امت ابراہیمی کی اکثریت کا عمل معتبر قرار دینے کی شرعی دلیل کیا ہے؟ 
۵) کیا امت ابراہیمی کی تاریخ کا ایسا معتبر ریکارڈ موجود ہے جس کی روشنی میں خیروشر کا ٹھیک ٹھیک تعین کیا جاسکے؟ 
۶) غامدی صاحب کے پاس مسئلہ استقرا کا حل کیا ہے؟ 
۷) ایمان باللہ اور حکم الٰہی سے ما ورا رہ کر خیر وشر طے کرنے کا اصول کیا ہے؟ 
۸) کیا غامدی صاحب خیر وشر کی بنا حکم الہٰی کومانتے ہیں یا انہیں حکم الہٰی سے ما ورا اور مستقل تصورات مانتے ہیں؟ 
۹) خیر وشر کا ماخذ اور اس کا محرک انسانی نفس کو قرار دینے کے بعد اس کا مقصد نفس انسانی سے باہر کیسے ہو سکتا ہے؟ 
۱۰) علماے اخلاقیات کے نفس پرستی پر مبنی خیالات کیسے خدا پرستی پر محمول کیے جا سکتے ہیں؟ 

الشریعہ اکادمی میں ہفتہ وار فکری نشستوں کا آغاز

ادارہ

۹ جنوری ۲۰۰۸ کوالشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں مولانا زاہدالراشدی کے ہفتہ وارلیکچرز کے سال نو کے پروگرام کے آغاز پرایک تقریب منعقد ہوئی جس کی صدارت پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمن اخترنے کی اورشہر کے سرکردہ علماے کرام اوردیگر ارباب دانش نے اس میں شرکت کی۔
پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل اورماہنامہ ’’نور علیٰ نور‘‘ کراچی کے چیف ایڈیٹر مولانا عبدالرشید انصاری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے دینی حلقے مغرب کی تہذیبی یلغاراورفکری حملے کامتحد ہو کرہی مقا بلہ کرسکتے ہیں اور اس کے لیے تمام دینی مکاتب فکر اورعلمی مراکز کی باہمی مشاورت کاکوئی مربوط نظام قائم کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہاکہ نوجوان علما کو بطور خاص اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ وہ آج کی عالمی فکری اورتہذیبی کشمکش کے بارے میں معلومات حاصل کریں اورصورت حال کاپوری طرح ادراک کرتے ہوئے اس عالمی تناظر میں قرآن وسنت کی صحیح ترجمانی کے لیے خود کوتیار کریں۔ 
صدر نشست مولانا قاری جمیل الرحمن اختر نے مولانا زاہد الراشدی کی یادداشتوں کے اس پروگرام پر خوشی کااظہار کیا اورکہاکہ اس طرح گزشتہ نصف صدی کی پوری تاریخ ہمارے سامنے آجائے گی 
پروگرام کے مطابق مولانا زاہد الراشدی ہر بدھ کو مغرب کی نماز کے فوراً بعد الشریعہ اکادمی میں اپنی پینتالیس سالہ دینی ،سیاسی اور فکری جدوجہد کی یادداشتیں ترتیب واربیان کریں گے۔

مارچ ۲۰۰۸ء

عام انتخابات کے نتائج اور متحدہ مجلس عمل کا مستقبلمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
معاصر اسلامی فکر کے اخلاقی چیلنجزڈاکٹر ابراہیم موسٰی
پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ کی تعلیمی اصلاحاتپروفیسر محمد اکرم ورک
اردو زبان کی ضرورت و اہمیت اور دینی مدارس کے طلبہمولانا مفتی محمد اصغر
مغرب اور اسلام کیرن آرمسٹرانگ کی نظر میںڈاکٹر محمد شہباز منج
زنا کی سزا (۱)محمد عمار خان ناصر
مکاتیبادارہ

عام انتخابات کے نتائج اور متحدہ مجلس عمل کا مستقبل

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۱۸ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج ملک بھر میں زیر بحث ہیں اور ان کے حوالے سے ملک کے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ نتائج خلاف توقع نہیں ہیں۔ ملک کے سیاسی حالات جس رخ پر آگے بڑھ رہے تھے، ان سے ایسا ہی محسوس ہو رہا تھا کہ الیکشن میں ووٹروں کا ٹرن آؤٹ کم رہے گا، پیپلز پارٹی سیٹوں کے حصول میں سب سے آگے رہے گی اور مسلم لیگ ق کے ساتھ ساتھ متحدہ مجلس عمل کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہرحال اب قومی سیاست کی نئی صف بندی ہو چکی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان مسلم لیگ (ق)، متحدہ قومی موومنٹ اور نیشنل عوامی پارٹی اس پوزیشن میں آ گئی ہیں کہ وہ مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی کے لیے کسی نہ کسی درجے میں کوئی کردار ادا کر سکیں اور اس کے لیے مختلف سطحوں پر جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔
الیکشن کے نتائج سے ظاہر ہے کہ جتنے لوگوں نے بھی ووٹ ڈالے ہیں، ان کی غالب اکثریت نے سابقہ حکومت کی پالیسیوں کومسترد کر دیا ہے اور ملک کی رائے عامہ کی یہ خواہش نمایاں نظر آ رہی ہے کہ الیکشن کے بعد صرف حکومت ہی تبدیل نہ ہو، بلکہ قومی پالیسیوں میں بھی واضح تبدیلی نظر آئے، لیکن صدر پرویز مشرف مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حکومت بے شک الیکشن کے نتائج کی روشنی میں نئی بن جائے، لیکن ان کی پالیسیوں کا تسلسل اسی طرح جاری رہے اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی نئی حکومت عوامی رجحانات کو اپنی پالیسیوں کی بنیاد بنانے کی بجائے صدر پرویز مشرف کی پالیسیوں کو بدستور قائم رکھے، جبکہ اس مقصد کے لیے انھیں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی سفارتی سرگرمیوں کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری طرف سابقہ حکمران پارٹی کے ذمہ دار راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ ان کی شکست کے اسباب میں (۱) امریکہ نواز پالیسی، (۲) قبائلی علاقوں میں فوج کشی، (۳) لال مسجد کے خلاف وحشیانہ آپریشن (۴) مہنگائی میں ہوش ربا اضافے اور (۵) عدلیہ کی بالادستی کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کو کلیدی حیثیت حاصل ہے جس کا مطلب ظاہر ہے کہ عوام نے ان پالیسیوں کو مسترد کر دیا ہے اور وہ ان میں جوہری تبدیلیوں کے خواہاں ہیں، اس لیے اس مرحلے میں سابقہ حکومت کی پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھنے کی کوششیں الیکشن کے نتائج اور ملک کی رائے عامہ کے اجتماعی فیصلے کو مسترد کرنے کے مترادف ہوں گی۔ ایسی کوششوں کو آگے بڑھانے میں سب سے زیادہ افسوس ناک کردار امریکہ سمیت ان مغربی ممالک اور حکومتوں کا دکھائی دے رہا ہے جو مشر ف حکومت کی پالیسیوں کو بچانے کے لیے منتخب سیاسی پارٹیوں کی لیڈر شپ پر دباؤ ڈال رہی ہیں اور اگر خدانخواستہ یہ کوششیں کامیاب ہو گئیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان میں ۱۸؍ فروری کے انتخابات کا ڈول صرف چہروں کی تبدیلی کے لیے ڈالا گیا تھا اور قومی پالیسیوں کے حوالے سے پاکستان کے عوام کی رائے کو کوئی حیثیت نہیں دی جا رہی جو انتہائی افسوس ناک اور مایوس کن بات ہوگی۔ اس لیے ان انتخابات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والی سیاسی جماعتوں کی قیادتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور یہ ان کی سیاسی فراست، حب الوطنی اور حوصلہ وتدبر کا امتحان ہے کہ وہ اس الیکشن کے نتیجے میں صرف چہروں کی تبدیلی اور حکومتی مناصب پر اکتفا کرتی ہیں یا عوامی رائے اور رجحانات کا احترام کرتے ہوئے سابقہ حکومت کی ان پالیسیوں کو تبدیل کرنے میں بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہیں جن پر نہ صرف یہ کہ عوام کی ایک بڑی اکثریت نے انتخابات میں عدم اعتماد کر دیا ہے بلکہ لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے ان پالیسیوں کے ساتھ شدید نفرت کی وجہ سے پولنگ اسٹیشنوں تک آنا بھی گوارا نہیں کیا۔
ہمارے ہاں سیاسی عمل اور ووٹ کے ذریعے تبدیلی کے طریق کار پر لوگوں کا اعتماد پہلے ہی کم ہوتا جا رہا ہے جو ۱۸؍ فروری کے انتخابات میں ڈالے جانے والے ووٹوں کے تناسب سے واضح طور پر محسوس کیا جا رہا ہے اور اگر ووٹ ڈالنے والوں کا اعتماد بھی اس عمل پر باقی نہ رہا تو سیاسی عمل کی افادیت سے عام لوگوں کی یہ مایوسی شدید رد عمل کا باعث بھی بن سکتی ہے جس کا ان نازک حالات میں ہمارا ملک متحمل نہیں ہو سکے گا۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (نواز گروپ) اور دوسری بڑی سیاسی جماعتیں اس مرحلے پر ذمہ داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوامی رجحانات کی پاس داری کے لیے موثر کردار ادا کریں گی اور جمہوری عمل کو مایوسی اور تذبذب کی دلدل کی طرف دھکیلنے کی بجائے امید اور حوصلہ افزائی کی شاہراہ پر گامزن کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی کہ قوم کے بہتر اور روشن مستقبل کی طرف یہی راستہ جاتا ہے۔
اس موقع پر ہم متحدہ مجلس عمل کے بارے میں بھی کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ پانچ سال قبل ہونے والے عام انتخابات میں دینی جماعتوں کے اس متحدہ محاذ نے جو پیش رفت کی تھی، اس سے ملک میں نفاذ اسلام اور دینی اقدار کے تحفظ وفروغ کے حوالے سے امید کی ایک کرن ذہنوں میں نمودار ہونے لگی تھی اور عوام یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ پاکستان جس مقصد کے لیے وجود میں آیا تھا، اس کی تکمیل کا کوئی راستہ اب نکل آئے گا، لیکن حالیہ الیکشن سے قبل متحدہ مجلس عمل کے باہمی خلفشار اور الیکشن میں اس کی پسپائی نے امید کی اس شمع کو گل کر دیا ہے اور قومی سیاست میں دینی حلقوں کا کردار پھر ایک بار سوالیہ نشان بنتا جا رہا ہے۔
۲۰۰۲ کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کی نمایاں کامیابی کے اسباب ہمارے خیال میں یہ تھے:
  • یہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی دینی سیاسی جماعتوں کا متحدہ محاذ تھا اور پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ دینی جماعتوں نے جب بھی مسلکی دائروں سے بالاتر ہو کر دینی وقومی مقاصد کے لیے جدوجہد کی ہے، ملک کے عوام نے ان کا ساتھ دینے میں بخل سے کام نہیں لیا۔
  • افغانستان پر امریکی اتحاد کی فوج کشی اور طالبان حکومت کے جبری خاتمہ نے پاکستانی عوام کے دینی جذبات میں ہلچل پیدا کر دی تھی جس کا براہ راست فائدہ دینی جماعتوں کے اس متحدہ محاذ کو ہوا۔
  • مغرب کی فکری یلغار اور اسلامی اقدار کے خلاف مغربی لابیوں کی طوفانی پیش قدمی میں پاکستانی عوام یہ امید کر رہے تھے کہ اس کی روک تھام کے لیے متحدہ مجلس عمل کوئی بھرپور کردار ادا کر سکے گی۔
اس پس منظر میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے متحدہ مجلس عمل کا ساتھ دیا اور قومی اسمبلی اور سینٹ میں معقول نمائندگی کے ساتھ ساتھ صوبہ سرحد کی حکومت اور بلوچستان کی حکومت میں اشتراک ایم ایم اے کے حصے میں آیا جس سے عوام کو حوصلہ ہوا کہ ان کے امریکہ مخالف جذبات اور نفاذ اسلام کی خواہش کو اچھی ترجمانی میسر آ گئی ہے، لیکن متحدہ مجلس عمل اپنے پانچ سالہ دور میں عوام کی توقعات اور امیدوں کا ساتھ نہیں دے سکی۔ اس سلسلے میں معترضین کی شکایات کی فہرست طویل ہے، لیکن چند امور ان میں ایسے ہیں جن پر سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے:
  • باجوڑ کے دینی مدرسہ پر امریکی بمباری کے موقع پر ملک بھر کے دینی حلقے بجا طور پر یہ توقع کر رہے تھے کہ صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت اور متحدہ مجلس عمل کی قیادت عوام کی احتجاجی لہر کی قیادت کرے گی، مگر ایم ایم اے نے عوامی احتجاج کی قیادت پر اپنی حکومت کے تحفظ کو ترجیح دی جس سے دینی حلقوں کے جذبات کو دھچکا لگا۔
  • حدود آرڈیننس کے بارے میں وفاقی حکومت کے عزائم سب پر واضح تھے اور ا س نے حدود شرعیہ کا تیا پانچہ کر دیا، مگر متحدہ مجلس عمل کا کردار اس میں یہ رہا کہ نہ تو وہ خود اس سلسلے میں اپنے بلند بانگ دعووں کو عملی جامہ پہنا سکی اور نہ ہی اس نے اس کے لیے کوئی دوسرا احتجاجی فورم وجود میں آنے دیا، حتیٰ کہ ’’مجلس تحفظ حدود شرعیہ پاکستان‘‘ کے عنوان سے ایک احتجاجی فورم تشکیل پاتے پاتے رہ گیا اور اس کے تشکیل نہ پا سکنے کی بنیادی وجہ ایم ایم اے کی قیادت کا طرز عمل تھا۔
  • لال مسجد کے سانحہ میں بھی متحدہ مجلس عمل سے جس کردار کی توقع ملک کے عوام اور خاص طور پر دینی حلقے بجا طور پر رکھتے تھے، ایم ایم اے کی قیادت نے خود کو اس کردار سے دور رکھا۔ اس سلسلے میں عوامی جذبات اور احتجاج کی قیادت کرنا اور اسے صحیح رخ پر رکھتے ہوئے موثر بنانا بنیادی طور پر متحدہ مجلس عمل کی ذمہ داری تھی، لیکن ایم ایم اے کی قیادت کی ترجیحات میں یہ ذمہ داری اپنی جگہ نہ بنا سکی جس کا خمیازہ اپنے دائرے میں تھوڑا بہت کردار ادا کرنے والے وفاق المدارس العربیہ کو بھگتنا پڑا اور لوگوں کے جذبات کی شدت کا رخ اس کی طرف مڑ گیا حالانکہ کوئی احتجاجی تحریک سرے سے وفاق المدارس کے دائرۂ کار میں ہی شامل نہیں تھی اور نہ ہی یہ اس کی ذمہ داری بنتی تھی۔
  • متحدہ مجلس عمل کی قیادت سے لوگوں کو یہ توقع تھی کہ وہ اپنے دائرے میں ملک کے ان دیگر دینی حلقوں کو بھی شامل کرنے کا راستہ اختیار کرے گی جو دینی وملی مقاصد میں اس کا ساتھ دے سکتے ہیں اور اس طرح یہ متحدہ محاذ زیادہ موثر حیثیت حاصل کرے گا، لیکن ایم ایم اے سے باہر کے دینی حلقوں کو اعتماد میں لینے کی بجائے خود اس کے داخلی حلقوں کا باہمی اعتماد بھی مسلسل سکڑنے لگا جو پہلے دو جماعتوں (جمعیۃ علماے اسلام اور جماعت اسلامی) کے دائرے تک محدود ہوا اور پھر ان دونوں میں ایک دوسرے پر بالادستی حاصل کرنے کی کشمکش نے الیکشن سے قبل متحدہ مجلس عمل کا شیرازہ مکمل طور پربکھیر کر رکھ دیا۔ ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ اگر جمعیۃ علماے اسلام اور جماعت اسلامی ہی ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کی بجائے باہمی اعتماد کے ساتھ حالیہ الیکشن میں کوئی مشترکہ موقف اختیار کر لیتیں تو صورت حال اس قدر خراب نہ ہوتی۔
  • اس سب کچھ کے باوجود بلوچستان کی حد تک ہمیں یہ توقع تھی کہ جمعیۃ علماے اسلام ان انتخابات میں پہلے سے زیادہ اچھی پوزیشن حاصل کر لے گی اور متحدہ مجلس عمل کا صف اول کا سیاسی کردار باقی رہ جائے گا مگر وہاں بھی جمعیۃ علماے اسلام میں پیدا ہو جانے والے باہمی خلفشار پر حکمت عملی کے ساتھ قابو پانے کی بجائے دستوری موشگافیوں کو ترجیح دی گئی جس سے سیاسی عمل میں جمعیۃ کی مزید پیش رفت کا خواب بکھر کر رہ گیا۔
ان حالات میں متحدہ مجلس عمل کے گزشتہ پانچ سالہ سیاسی کردار پر ایک حد تک مایوسی کا اظہار کرنے کے باوجود بھی ہماری شدید خواہش ہے کہ ایم ایم اے کا فورم قائم رہے اور وہ مذکورہ بالا شکایات کا ازالہ کرتے ہوئے مستقبل کے سیاسی سفر میں باہمی اشتراک وتعاون کو جاری رکھنے کا اہتمام کرے۔
ہمیں متحدہ مجلس عمل سے یہ شکایت نہیں ہے کہ وہ اپنے حکومتی دائرے میں نفاذ اسلام کا اہتمام کیوں نہیں کرسکی، کیونکہ ہم بخوبی یہ بات سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومتی نیٹ ورک میں ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ہے جس کی تصدیق حسبہ بل کے ساتھ وفاقی دار الحکومت کی طرف سے روا رکھے جانے والے طرز عمل نے کر دی ہے، البتہ ہم اس شکایت کو بے جا نہیں سمجھتے کہ عوام کے دینی جذبات کی ترجمانی، دینی حلقوں کے درمیان مفاہمت وتعاون کو وسعت دینے اور ان کی احتجاجی قوت کو منظم واستعمال کرنے کے لیے متحدہ مجلس عمل جو کچھ کر سکتی تھی اور جو کچھ اسے کرنا چاہیے تھا، وہ نہیں ہوا اور متحدہ مجلس عمل کی پالیسی ترجیحات میں آہستہ آہستہ معروضی اور روایتی سیاست کا غلبہ ہوتا چلا گیا۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر متحدہ مجلس عمل اور دینی جماعتوں نے بھی معروضی سیاست ہی کو اوڑھنا بچھونا بنانا ہے تو اس کے لیے دوسری روایتی سیاسی جماعتیں ہی کافی ہیں اور وہ ان سے زیادہ اچھے انداز میں معروضی سیاست کے تقاضے پورے کر رہی ہیں۔ دینی جماعتوں کا اصل اور امتیازی کردار ہمارے نزدیک یہ ہے کہ وہ معروضی سیاست میں صرف اس حد تک ملوث ہوں جتنا نظریاتی اور دینی مقاصد کے لیے ناگزیر حد تک ضروری ہو۔ وہ اسے اساس بنا کر موجودہ عالمی اور قومی تناظر میں دینی اقدار کے تحفظ وفروغ اور نفاذ اسلام کے لیے پیش رفت کا راستہ نکالیں اور اس سلسلے میں عوامی احتجاج کی قیادت کریں۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر اب بھی متحدہ مجلس عمل کے قائدین ایک بار پھر مل بیٹھیں اور گزشتہ کوتاہیوں کا احساس وادراک کرتے ہوئے باہمی مفاہمت واعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے کا راستہ اختیار کر لیں تو بہت سی باتوں کی تلافی ہو سکتی ہے اور قومی سیاست میں دینی جماعتوں کے کردار کو موثر بنانے کے راستے نکل سکتے ہیں۔ خدا کرے کہ ہماری یہ گزارشات متحدہ مجلس عمل کے قائدین کے اذہان وقلوب تک رسائی حاصل کر پائیں اور دینی جدوجہد کے ازسرنو منظم ہونے کی کوئی صورت پیدا ہو جائے، آمین یا رب العالمین۔ 
(۲۳ فروری ۲۰۰۷)

معاصر اسلامی فکر کے اخلاقی چیلنجز

ڈاکٹر ابراہیم موسٰی

ترجمہ: وارث مظہری (مدیر ماہنامہ ترجمان دار العلوم، انڈیا)

(شاہ مراکش کی طرف سے اسلامی خطبات کے سالانہ سلسلے کے طور پر اکتوبر ۲۰۰۷ میں ’’فاس ‘‘ (مراکش) میں منعقد ہونے والے پروگرام میں پیش کیا گیا۔)

ہم نے اپنے اس مقالے کے لیے ’’معاصر اسلامی فکر کے اخلاقی تحدیات‘‘ کا عنوان منتخب کیا ہے، اس لیے کہ ہمارا یقین ہے کہ مسلمان اپنی ابتدا سے اکثر قوموں کے مقابلے میں اخلاق کی اہمیت سے زیادہ واقف اور متوارث اخلاقی ڈھانچے سے انحراف کے بارے میں زیادہ حساس رہے ہیں۔ تاہم جہاں تک قرآن کے پیش کردہ اور رسول اللہ کے قول و فعل سے ثابت اخلاقیات کے بروئے کار لائے جانے کا مسئلہ ہے، اس میں ہر زمانے میں شدید ترین دشواریاں پیش آتی رہی ہیں۔ ان دشواریوں کا تعلق ایک طرف احوال زمانہ اور اخلاقی نظریات کی عملی تشکیل سے رہا ہے تو دوسری طرف اجتہادی مساعی کے امکانات سے۔ چنانچہ میں اپنے اس محاضرے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو بنیاد بنانا چاہوں گا جو مختلف الفاظ و روایات کے ساتھ کتب حدیث میں وارد ہوئی ہے: ان الدین بدأ غریبا و یرجع غریبا فطوبی للغرباء الذین یصلحون ما افسد الناس من بعدی من سنتی (دین اپنی ابتدا میں اجنبی تھا۔ وہ اجنبی ہونے کی صورت میں ہی لوٹ جائے گا۔ اس لیے ان اجنبیوں کو خوش خبری ہو جو میرے بعد میری سنت میں پیدا کیے گئے بگاڑ کو درست کریں گے۔)
یہ حدیث بخاری و مسلم جیسی حدیث کی اساسی کتابوں میں وارد ہوئی ہے اور اس کے راوی اکابرین صحابہ ہیں جیسے عبداللہ بن عمر، ابو ہریرہ، عمر و بن عوف اور عبد اللہ بن مسعود وغیرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم)۔ ہم نے جن الفاظ کے ساتھ اس حدیث کو یہاں ذکر کیا ہے وہ اپنے آخری جز کے ساتھ ابوبکر بن العربی المالکی کی کتاب ’’عارضۃ الاحوذی‘‘ میں موجود ہے۔
اسلامی مفکرین پچھلی دو صدیوں سے فکر اسلامی اور سائنسی و تکنیکی ترقیات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اہم اور حیرت انگیز تبدیلیوں کے درمیان مصالحت اور ہم آہنگی کی کوششیں کرتے آرہے ہیں۔ وہ اپنی ان کوششوں میں اصولی دینی تعلیمات کی عملی تشکیل اور اس سے حاصل ہونے والے ایسے نتیجے کے درمیان حیران و سرگرداں رہے ہیں جس کے تحت انھیں پورا یقین حاصل ہو کہ اللہ کو مطلوب اس کامل و مکمل دین میں ایسی کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہوسکتی جو لوگوں کے حق میں ضروری اور مفید ہو۔ اس تعلق سے عالم اسلام کی سطح پر اجتہادی فکر رکھنے والے علما و مفکرین کے کہکشانی سلسلے کے جو چند نام اس وقت ذہن میں آرہے ہیں، ان میں رفاعہ رافع الطہطاوی،سر سید احمد خاں، شبلی نعمانی، مفتی محمد عبدہ، طاہربن عاشور اور علال فاسی وغیرہ ہیں۔ ان مفکرین کی زیادہ کوششیں اس بات پر مرکوز رہیں کہ تجدد(Modernity) اور روایت (Tradition) کے درمیان ایک قسم کی موافقت اور ہم آہنگی سامنے آجائے۔ ان مفکرین کی غالب سوچ یہ تھی کہ روشن خیالی کے بعد کی فکر (Post-enlightment thought) اور فکر اسلامی (Islamic thought)کے درمیان مشترک عنصر ’عقل‘ ہے۔ چنانچہ ان کی نظر میں اسلامی اور مغربی دونوں فکر عقل اور تعقل پسندی (Rationalism) کو ہی اپنی مشترک اساس بناتے ہیں۔ اس زمرے میں مشہور فلسفی شاعر محمد اقبال (وفات:۱۹۳۸) کا بھی نام آتا ہے جنھیں تجدد اور اس کے وظائف کے ساتھ فکری تعامل برتنے کی حقیقی قدرت حاصل تھی۔ چنانچہ تجدد پسندی اقبال کی نظر میں محض ایک ایسی تہذیب کا ہی نام نہیں جس کی تاسیس عقل پر ہوئی ہو، اس لیے کہ سائنسی اکتشافات اور تیز رفتار فنیاتی ارتقا نے موجودہ اور خیالی زندگی کے مختلف جدید طریقے ایجاد کیے ہیں۔ جدید طریقے خود روز مرہ زندگی سے بھی تعلق رکھتے ہیں، جن کی بنا پر انسان کا ماضی اور ماضی کے اعمال اور سرگرمیوں سے رشتہ منقطع ہوگیا ہے۔ 
تجدد پسندی نے موجودہ زمانے میں فرد کے معاشرتی تخیل (Social imaginary) میں نہایت اہم اور بنیادی قسم کی تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں۔ ہم اس جگہ Social imaginary کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے ذریعے ہم ان غیر شعوری مفہومات کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جو فرد کے ذہن پر چھائے ہوئے ہیں اور اس کی اپنی ثقافت اور اس زمانے کے مطابق جس میں وہ زندگی گزار رہا ہے، اس کے افکار کی تشکیل کرتے ہیں۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ تجدد پسندی نے ہر چیز کی دوبارہ نئی ترتیب قائم کی ہے، جس میں فرد اور اجتماع کے نزدیک معاشرتی تخیل بھی شامل ہے۔ گویا اس طرح تجدد پسندی نے کائنات کے ساتھ انسان کے تعلق اور سیاست و حکمرانی کے تعلق سے اس کے مفاہیم کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ نیز فرد اور خاندان سے متعلق بہت سے مسلمات میں بھی زبردست تبدیلیاں پیدا کردی ہیں، اس لیے کہ سائنس اور ٹکنالوجی نے فضائی اور فطری سرحدوں پر کمندیں ڈال دی ہیں۔ جس کے نتیجے میں خود انسان کے اندرون سے تعلق رکھنے والی نئی دریافتیں سامنے آئی ہیں۔
تجدد پسندی کے سیاق میں علوم و افکار کے نتائج کے سامنے آنے کے ساتھ جو اہم تبدیلیاں پیدا ہوئیں، ان میں دینی قدر کی باز شناسی (re-evaluation) بھی شامل ہے۔ چنانچہ تجدد پسندی کے سیکولر تصور کے تحت دین کو ایک دوسرے سیاق میں لاکر بحث و گفتگو کا موضوع بنا دیا گیا۔ بعض لوگوں نے یہ کوشش کی کہ اسے صرف فر دکی زندگی تک خاص اور محدود کردیا جائے۔ جہاں تک مسلم مفکرین کی بات ہے، حقیقت یہ ہے کہ ان کی اکثریت کے نزدیک تجدد پسندی کی تعبیر جامع اور ہمہ گیر نہ تھی، اس لیے کہ انھوں نے خاص و عام کی زندگی جن میں سیاسی زندگی بھی شامل ہے کے تعلق سے عقل و دین کے دو مسئلوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھی اور اس اعتبار سے ان مسئلوں کو روایتی اسلامی فکر کے لیے انھوں نے چیلنج سمجھا۔ اگرچہ ایسا سمجھنا پوری طرح غلط نہیں، تاہم وہ قضیے کے تمام تر پہلوؤں کا احاطہ نہیں کرتے۔ چنانچہ مسلم مفکرین نے تجدد پسندی کی خامیوں اور خوبیوں سے خوب خوب بحثیں کیں، جن کی تفصیلات تو کجا ان کے اہم محوروں پر بھی روشنی ڈالنا اس وقت ممکن نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تجدد پسندی نے مسلمانوں کی زندگی کے اکثر شعبوں میں زبردست اثرات قائم کیے جو سائنس سے شروع ہوکر صحت، اقتصاد، اجتماعی تنظیم کے ساتھ خاندان اور فرد کے مفاہیم کا احاطہ کرتی ہے۔ تاہم اس سلسلے کی اصل مشکل یہ ہے کہ بعض اسلامی مفکرین اس بات پر اصرار کرتے آرہے ہیں کہ اسلام جدت یا تجدد پسندی کے معارض ہے۔ یہ ان کی نظر میں ایک طرح سے اسلام کے تحفظ کی شکل ہے۔ حالانکہ حقیقت میں اکثر حالات میں وہ محض اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ سے آگے کچھ بھی نہیں۔ حقیقتاً تجدد پسندی اپنے تمام تر عناصر کے ساتھ انسانی زندگی پر پوری طرح حاوی و غالب ہے۔ اکثر اوقات لوگوں کے شعور بلکہ ان کی امیدوں و آرزوؤں اور زندگی کی مجبوریوں کے درمیان ایک قسم کا تضاد اور تناقض (Paradox) پایا جاتا ہے۔
بہت سے اسلامی معاشروں میں ایسے دینی حلقے پائے جاتے ہیں جنھیں تجدد پسندی سے مزاحمت کی اپنی خیالی قدرت پر فخر ہے حالانکہ حقیقت میں ان حلقوں کی یہ حرکت جدید سماجی تصور کے ریلے کے تعلق سے اپنے سر کو مکمل تجاہل کے ساتھ شترمرغ کی طرح ریت میں چھپانے کے مترادف ہے۔ بعض لوگ اسے امر محمود بلکہ ضروری امر تصور کرتے ہیں۔ حالاں کہ اگر اسلام کے دور زریں میں پائی جانے والی اسلامی فکر کو سامنے رکھ کر دیکھیں کہ اسے کس طرح فراریت اور داخلی سکڑاؤ کے بجائے اپنے زمانے کا فہم، نئے پیش آمدہ مسائل اور چیلنجوں کے حل کی دریافت کے ساتھ ان کے ساتھ تعامل کی قدرت حاصل تھی، تو موجودہ دور کے مسلم مفکرین کا یہ رویہ ایک قسم کی فکری پسپائی نظر آتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جدید علوم اور ایک حد تک انسانی اور اجتماعی علوم ہی ان اجتماعی آفاق کی طرف لے جاتے ہیں، جن سے صحت، زراعتی طریقے یہاں تک کہ کھانے پینے کے تعلق سے بھی ہم روزانہ گزرتے اور محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ جدید علوم اپنی شکل میں کامل اور اٹل ہیں وہ مستقل ارتقا اور تغیرات کی راہوں سے گزر رہے ہیں، انھیں جن ثقافتوں سے واسطہ پڑتا ہے وہ ان سے متاثر ہوتے ہیں اور اس طرح تجدد پسندی پر بھی وہ اپنی خصوصیات کی نئی چھاپ قائم کر رہے ہیں۔ اس طرح ایک متعین فہم کے ساتھ مصالحت میں ان اجتماعی تصورات (Social imaginaries) کی ناکامی موجودہ دور کے مسلمانوں کی زندگی میں کمزور نقطے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ اگر روایتی اسلامی فکر جدید علوم کے ساتھ تعامل برت سکے تو اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ ایک نتیجہ خیز اور خلاقیت سے بھرپور چیز وجود میں آجائے۔
یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ تمام اسلامی ممالک میں ایسے علما و مفکرین موجود ہیں جو ان دونوں ثقافتوں کے درمیان مصالحت کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم حقیقت میں ان کی کوششیں اب تک ایسے جزیروں میں بند ہیں، جن کا کوئی اثر ان اہم مراکز اور اداروں تک نہیں پہنچ سکا ہے، جو عمومی اور عالمی سطح پر اپنے افکار کی تشکیل کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی کتاب ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ (Reconstruction of Religious Thought in Islam) میں بیسویں صدی کے رُبع اول میں لکھا تھا:
’’وہ روحانی نظامات جن پر جامد اور مردہ مابعد الطبعیاتی اصطلاحات کی پرت پری ہوئی ہے کسی مختلف فکری پس منظر رکھنے والے شخص کو مطلقاً کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ ایسے میں دور حاضر کے مسلمانوں کی ذمے داری دو چند ہوجاتی ہے۔ ان کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ ماضی سے اپنا رشتہ بحال رکھتے ہوئے، اسلام کے پورے نظام میں غور و فکر کریں۔ شاید شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (وفات:۱۷۶۲) وہ پہلے مسلم مفکر ہیں جنھوں نے نئی اسپرٹ کی ضروت کو محسوس کیا۔ ان کے بعد جمال الدین افغانی کا نام آتا ہے۔ اس لیے ہمارے سامنے واحد کشادہ راستہ یہ ہے کہ ہم ایک مستقل، اسی کے ساتھ غیر جانب دار موقف کے ساتھ علوم عصریہ پر متوجہ ہوں اور ان علوم کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کو پہچاننے کی کوشش کریں، خواہ اپنے پیش روؤں کے ساتھ اختلافات سے کام لینا پڑے۔‘‘ (ص:۹۷)
اقبال کی یہ دقیق تشخیص آج بھی اتنی ہی صحیح ہے جتنی وہ کل تھی۔ اپنے اس جملے ’’نظام اسلامی میں نئے سرے سے غور و فکر‘‘ سے اقبال کی جو مراد ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم علم کے اس فریم ورک اور بنیادی ساخت میں جس کا تعلق دینی فکر کے ساتھ معاملت سے ہے، اس انداز میں نئے سرے سے غور و فکر کریں جو ہمارے اجتماعی تصور کے اُس ڈھانچے اور ذہنی و خیالی پیکر کے مطابق ہو جو ہماری معاصر زندگی کی تشکیل کرتا ہے۔ اس کے برعکس یہ اجتماعی تصور ان لوگوں کے ذہنوں کے مطابق نہ ہو، جو ہم سے صدیوں قبل اس دنیا سے گزر چکے ہیں۔
اس لیے وہ اخلاقی چیلنج جس سے متعلق ہم یہاں گفتگو کر رہے ہیں، اس کا تعلق علم و معرفت کی پیداوار اور دینی و اسلامی فکر میں اس کی اہمیت سے ہے۔ اہل فلسفہ اسے ’’علمیاتی مشکل‘‘ (Epistemological problem) سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ بہت سے تعلیمی اداروں جیسے جامعات، دینی مدارس و مکاتب پر جہاں دینی افکار کی تشکیل و تدوین ہوتی ہے، اثر انداز ہوتے ہیں، عالم اسلامی میں ایسی جگہیں بہت کم ہی ہیں جہاں روایتی دینی علوم جیسے تفسیر، حدیث، کلام، فقہ، اصولِ فقہ کے ساتھ عمرانیات، انسانیات، نفسیات اور تاریخ جیسے علوم کے درمیان سنجیدہ اور موثر ’ڈائیلاگ‘ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہو۔ یہاں ’ڈائیلاگ‘ سے ہماری مراد جدید علوم کے درمیان سنجیدہ تعامل سے ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم مسلمانوں کے جدید و معاصر حالات کا دینی علوم سے نئے سرے سے ربط قائم کریں۔ اگر ایسا نہ ہوسکا تو دینی علوم عقائد و اعمال کے مسئلے میں اپنی بعض ایسی دخل اندازیوں پر قائم رہیں گے جو عصر حاضر کے سیاق سے ہٹی ہوئی ہیں اور اس طرح ان کے ذریعہ دین و دنیا کے درمیان علاحدگی اور انفصال کو تقویت ملتی رہے گی۔ ان دونوں بُعدوں دین و دنیا کے درمیان ناہم آہنگی نے مسلمانوں خصوصاً نوجوان طبقے کے اندر فکری پراگندگی کو جنم دیا ہے۔ اس مشکل کا حل اس بات کا متقاضی ہے کہ دینی تعلیم کے طریقۂ کار اور مشتملات دونوں کی تجدید کی جائے ۔ نوجوانوں کا طبقہ اس وقت داخلی کشمکش سے دوچار ہے۔ وہ یہ احساس رکھتا ہے کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں دین کے معیاری تقاضوں کے مطابق زندگی بسر نہیں کر پا رہا ہے اور اس طرح وہ ایک طرح کے شدید ترین احساسِ گناہ میں مبتلا ہے۔ کیوں کہ جدید تعلیم کو اب تک ایک معارض ثقافت کی دخل اندازی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ 
گزشتہ دو سالوں کے درمیان خاص طور پر ہندوستان و پاکستان کے متعدد مدارس کے اہم ذمہ داروں سے ہماری ملاقاتیں ہوئیں، جن سے ہمارے اندر یہ احساس پختہ ہوا کہ ان ممالک کے علما پر ہنوز یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فکر اسلامی کے سیاق میں جدید علوم اور ان کے منہاجات سے تعلق رکھنے والی مشکلات کو حل کریں۔ اس تعلق سے علمی و اسلامی حلقوں میں جو کنفیوژن پایا جاتا ہے، اس نے نوجوانوں کے اذہان میں جدید علوم کے تئیں دوہرا رویہ پیدا کردیا ہے ۔ یعنی ایک ہی وقت میں وہ ان سے شغف بھی رکھتے ہیں اور انھیں ناپسند بھی کرتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر ایک زبردست فکری اور اکیڈمک گراوٹ ان حلقوں میں دیکھنے کو مل رہی ہے اور عمومی سطح پر معاشرے پر اس کے نہایت منفی اثرات قائم ہو رہے ہیں۔ چنانچہ بہت سے نوجوان دنیوی علوم کی طرف متوجہ ہو ئے ہیں۔ وہ اس میں کامیاب بھی ہیں لیکن دین کے ساتھ ان کا صحیح تعامل نہیں ہو پاتا۔ دوسری طرف وہ طبقہ یا جماعت جو دینی امور کی انجام دہی کے ساتھ عصری علوم کے حصول کی طرف متوجہ ہو رہی ہے، اس کی شدت پسند دینی حلقوں کی طرف سے مذمت کی جاتی ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی تخلیقی کارکردگی نصف تک بھی نہیں پہنچ پاتی، اس لیے کہ وہ اپنی تعلیم اور مطالعے میں جوش اور مکمل آمادگی کے ساتھ حصہ نہیں لے پاتے اور اکثر یہ خیال انھیں کچوکے لگاتا رہتاہے کہ ان کا ڈاکٹر، انجینئر، یا بزنس مینیجر ہونا کچھ بھی قیمت نہیں رکھتا۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی دنیا دین سے دور اور علیحدہ ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ہم دنیوی علوم کو اس حیثیت سے دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں کہ وہ مادیت اور دنیوی مال و متاع کے پیچھے دوڑ لگانے کا نام ہے۔جیسے مادی منافع کا حصول اسلام میں حرام ہو۔ حالانکہ مادیت پسندی دراصل اس کا نام ہے کہ انسان خدا کو بھول کر متاع دنیا کے پیچھے اس طرح پڑ جائے جس میں پوری انسانیت کا نقصان ہو۔ جبکہ متوسط طبقہ دنیا کے حصول کو دینی مقاصد کے حصول کا وسیلہ تصور کرتا ہے۔دوسرے لفظوں میں صرف دینی مقصد کی خاطر ہی کوشش و عمل کو صحیح تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن آپ ذرا اس المیے پر غور فرمائیں کہ کروڑوں مسلمان جو اپنے اوقات کا بڑاحصہ اس طرح کے بظاہر دنیوی کاموں میں خرچ کرتے ہیں، وہ اپنے ان کاموں کو دین و اخلاق کا جز تصور نہیں کرتے۔ اسلامی معاشروں میں دین و دنیا کے درمیان اس نوع کی تفریق کا نظریہ اسلامی معاشروں کے فروغ و ارتقا میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔
اقبال نے اس دینی و دنیوی یا مقدس اور ناپاک کے درمیان علاحدگی برتے جانے سے متعلق بصیرت کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اقبال کی بات کا اسلامی حلقوں پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوا۔ اقبال ’’تشکیل جدید‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’روحانی اور مادی میدان الگ الگ نہیں ہیں، کوئی عمل اپنے ظاہر کے اعتبار سے خواہ کتنا ہی دنیوی کیوں نہ ہو، اس کی حقیقت کا دار و مدار اس عمل کے انجام دینے والے کے ذہن اور نیت پر ہوتا ہے۔ غیر مرئی ذہن اور پس منظر (نیت) ہی وہ چیز ہے جو متعلقہ عمل کی حقیقت کو متعین کرتا ہے۔ کوئی عمل اگر کائنات کے ساتھ مضبوط اور قیمتی ولامتناہی رابطے سے ہٹ کر انجام دیا جائے تو وہ بلاشبہ مادی اور دنیاوی ہوگا اور اگر وہ اس لامتناہی ربط سے جڑا ہوا اور اس میں پیوست ہوگا تو یقیناًروحانی ہوگا۔‘‘
ماضی کے مفکرین کی ایک بڑی تعداد نیز حال کے بعض مفکرین نے اس حقیقت کو واحد اور قطعی حقیقت کے طور پر سمجھا کہ جس میں کسی تقسیم کی گنجائش نہیں۔ ابو حامد الغزالی نے مثال کے طور پر ایک قضیہ کی حیثیت سے اس بات کا ادراک کیا کہ ان کے زمانے میں فقہ و اخلاق سے تعلق رکھنے والے اعمال ومشاغل کی صورت حال بگڑ چکی ہے۔ فقہ سے تقویٰ کی روح نکل چکی ہے۔ جب کہ اسلام کے ابتدائی عہد میں یہ اخروی نجات کی طرف رہنمائی کرنے والا علم تھا۔ اس طرح فقہ کوئی ایسا محفوظ اور پاکیزہ شعبۂ علم نہیں جو سراسر تقویٰ اور للہیت پر مبنی ہو بلکہ وہ ایک ایسامنہج ہے جو علم آخرت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔حقیقت میں آخرت کی نجات دنیا میں اخلاقی اعمال سے وابستہ ہے۔ سورہ توبہ میں اللہ کا ارشاد ہے:
وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُواْ کَآفَّۃً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُونَ. (التوبۃ: ۱۲۲)
’’اور مسلمانوں کو یہ نہیں چاہیے کہ وہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں۔ سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وہ ڈر جائیں۔‘‘ 
اسی لیے غزالی کا خیال ہے کہ انسان کے اندر تدین یا اللہ کی خشیت اور اس کی تعظیم کا احساس اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ وہ اس بنیا دپر فقہ کا علم حاصل کرنے والا ہو کہ یہ علم دنیا و آخرت میں اس کی رہنمائی اور نجات کا ضامن ہے۔ فقہ اپنی روح کے اعتبار سے نکاح و طلاق اور خرید و فروخت وغیرہ کی تفصیلات پر ہی مبنی اور مرکوز نہیں۔ غزالی کے نزدیک دین کا اصل جوہر اس بات میں مضمر ہے کہ ہم اپنے تمام اعمال اور سرگرمیوں کے اخلاقی ابعاد (Dimentions) کا ادراک کریں اور یہ جانیں کہ دنیا و دین ایک دوسرے کے لیے معاون ہیں۔
اندلسی فقیہ ابو الولید ابن رشد نے اپنی مشہور و متداول کتاب ’’بدایۃ المجتہد‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :
’’ شرعی احکام کی دو قسمیں ہیں ایک قسم وہ ہے جس کا حکام اور قضاۃ فیصلہ کرتے ہیں اور دوسری قسم وہ ہے جس کا قضاۃ (و حکام) فیصلہ نہیں کرتے اور وہ مستحب احکام کے ضمن میں آتے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر کا تعلق اخلاق سے ہے لیکن اپنی اہمیت میں وہ کسی بھی طرح احکام سے کم نہیں۔‘‘
پھر ابن رشد اس کی تشریح کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ سلوک سے متعلق سنتوں ، جنھیں انھوں نے ’’السنن المشروعۃ العملیۃ‘‘ کا نام دیا ہے، کی ایک ہی غرض یا مقصد ہے اور وہ فرد کے اندر ’’فضیلت‘‘ (الفضیلۃ) پیدا کرنا ہے، اسے انھوں نے ’’الفضائل النفسانیۃ‘‘ کا نام دیا ہے۔ پھر عبادات کے شعائر کو ابن رشد نے کریمانہ اعمال کے طور پر اخلاق کے ضمن میں رکھتے ہوئے ’’السنن الکرامیۃ‘‘ کا نام دیا ہے جو عفت کی فاضلانہ صفت (فضیلۃ العفۃ) پر مبنی ہے، اورجو قبیح عادات سے اجتناب کا نام ہے۔ اس کے بعد ’’عدل‘‘ (العدل)، شجاعۃ (الشجاعۃ) اور سخاوت (السخاء) کا نمبر آتا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ دین کی حقیقت اور اس کا جوہر ان چار فضائل میں منحصر ہے۔ جن کا اختیار کرنا فرد کے لیے لازمی ہے۔ تاکہ وہ معاشرے میں ایک ذمہ دار اور کج روی و انحراف سے پاک شخصیت کا کردار ادا کرسکے۔
ابن رشد سے ہی ملتی جلتی بات شاہ ولی اللہ دہلوی علیہ الرحمہ نے فرمائی ہے۔ اپنی مشہور کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں وہ لکھتے ہیں کہ:
’’اصول اخلاق چار ہیں: طہارت (الطہارۃ) اخبات (الاخبات)، سماحت نفس (سماحۃ النفس) اور عدالت (العدا لۃ) اس کی شرح وہ اس طرح کرتے ہیں کہ: پہلی چیز ’’طہارت‘‘ ہے اس لیے کہ وہ انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ ملائکہ کی مشابہت اختیار کرسکے۔ دوسری چیز ’’اخبات‘‘ (خشوع و تواضع) ہے۔ اس لیے کہ وہ انسان کو اللہ سے قریب کرتی ہے۔ اور اس لائق بناتی ہے کہ وہ ۔ان کی تعبیر میں۔ جبروت کا مشاہدہ کرنے والا بن جاتا ہے۔ تیسری چیز ’’سماحت نفس‘‘ ہے، جس کے ذریعے انسان اپنے ملکوتی صفت پر غلبے کو یقینی بناتا ہے۔ چوتھی چیز عدالت ہے اور وہ کسی ایسے نظام کو چلانے کی قدرت کا نام ہے جو حیات خاصہ کے حق میں ہو اور اسی کے ساتھ حیات عامہ سے تعلق رکھنے والے امور کا بھی انتظام و انصرام کرنے والا ہو۔ ان کے الفاظ میں: ھی ملکۃ یصدر منھا اقامۃ النظام العادل المصلح فی تدبیر المنزل و سیاسۃ المدنیۃ  (یہ ایسے ملکہ کا نام ہے کہ جس کے ذریعے ایسا عادل نظام قائم ہوتا ہے جو تدبیر منزل اور سیاست مدنیہ میں اصلاح کرنے والا ہو۔ (شاہ ولی اللہ: حجۃ اللہ البالغہ : ۱۸۴-۱۸۷)
اس تفصیل کے بعد میں یہاں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمارا مقصد ابن رشد اور شاہ ولی اللہ دہلوی کے بیان کردہ فضائل کے مابین تقابل کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ قدیم مسلم مفکرین اخلاق کو مسلمانوں کی زندگی کی اساس تصور کرتے تھے۔ چناں چہ ابن رشد اگرچہ ایک فلسفی اور فقیہ تھے اور ان کے اور شاہ ولی اللہ دہلوی، جو ایک عالم وصوفی تھے، کے زمانے کے درمیان پانچ صدیوں کا فاصلہ ہے۔ اول اندلسی اور ثانی ہندی ہیں، تاہم وہ اور اس طرح کے دوسرے بہت سے ہمارے علما دین کی روح کو اخلاق کے تناظر میں دیکھتے تھے۔ اس لیے کہ اگر دینی اعمال اس سے قاصر رہ جاتے ہیں کہ وہ متعلقہ افراد اور جماعتوں کے اندر اخلاقی شعور و احساس کو ابھار سکیں تو اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوگا کہ اسلامی تصور (Concept) اور عمل (Practice) میں زبردست خلل پایا جاتا ہے۔
اخلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ زندگی میں ایک اہم مشروع کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا: انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق  (میں اس لیے مبعوث کیا گیا ہوں کہ مکارم اخلاق کی تکمیل کروں) قرآن میں اس مشروع کا اثبات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے ان لفظوں میں کیا گیا ہے: انک لعلی خلق عظیم (آپ عظیم اخلاق سے متصف ہیں۔ ۶:۶۸)
آئیے ہم ان اعلیٰ اخلاقی مفاہیم و اقدار کا موازنہ ان اعمال اور سرگرمیوں سے کریں جو اسلام کے نام پر مسلمانوں کی طرف سے انجام دی جا رہی ہیں اور جن کی بنیادوں پر دنیا میں مسلمانوں کی عزت خاک میں مل رہی ہے اور ان کی شبیہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا تعلق غیر مسلموں کی عداوت سے نہیں ہے۔ یہ خود مسلمانوں کے اپنے غلط اعمال بلکہ اسلام اور اس کی اقدار کو پامال کردینے والی حرکتوں کا طبعی نتیجہ ہے۔ ایسے بہت سے لوگ جو دین و سیاست کے تعلق سے خود کو مسلمانوں کا رہنما اور ترجمان تصور کرتے ہیں ان کی طرف سے ان اعلیٰ اخلاقی اصولوں کی پامالی کو جنھیں ابن رشد اور شاہ ولی اللہ دہلوی علیہ الرحمہ نے مستنبط کیا تھا (جن کی وضاحت اوپر کی گئی) دیکھ کر ان کی کوتاہ فکری پر عقل حیرت میں ڈوب جاتی ہے کہ ایں چہ بو العجبی ست۔ مثال کے طور پر مسلم خواتین کے معاملے میں مسلمانوں پر ہمیشہ اعتراض کیا جاتا رہا ہے۔ ہم غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ ہم نے خواتین کے تعلق سے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ ان کے حق میں اخلاقی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔ اگر ایسا نہیں تو پھر بہت سے اسلامی ملکوں میں مسلم عورتوں کو ازدواجی معاملات میں توہین آمیز اور ناشائستہ سلوک سے کیوں دوچار ہونا پڑ رہا ہے؟آخر بعض اسلامی معاشروں میں عورتوں کی عزت و عفت کو پامال کردینے والے جرائم سے چشم پوشی کیوں کی جا رہی ہے؟ اس سیاق میں ان مثبت اور جرأت مندانہ اصلاحات کی گونج مغرب اور اسلامی دنیا دونوں میں سنائی دے رہی ہے۔ 
ہر شہری کا یہ حق ہے کہ ان کے ان حقوق کی حفاظت کی جائے جن کی پامالی کا امکان ہے۔ لیکن اکثر اسلامی ملکوں میں ان عادلانہ مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جو وسائل استعمال کیے جاتے ہیں وہ اکثر اوقات ان مقاصد سے میل نہیں کھاتے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ’’الغایۃ تبرر الوسیلۃ‘‘ (مقصد طریقہ کار کو جواز عطا کرتا ہے) کا اصول یا شعار اسلامی اخلاق کی روح سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اسلامی اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ عادلانہ مقاصد کے لیے عادلانہ طریقہ ہائے کار اختیار کیے جائیں۔ اس تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو مثال کے طور پر خود کش حملوں کا طریقہ اسلام کے اعلیٰ اقدار کی بالکلیہ مسخ کاری ہے۔ حیرت اور افسوس کی بات ہر اعتبار سے یہ ہے کہ اس طرح کے نہایت درجہ قبیح اعمال کو فقہی حیلوں اور حوالوں سے جائز ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ معرکۂ کارزار میں نبرد آزمائی اور شجاعت کا جوہر دکھانا اور بات ہے۔ خاص طور پر وہ معرکے جو وقار اور قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے ہوں، لیکن ایسے ضروری اور دفاعی معرکوں میں بھی اخلاقیات سے دست کش ہوجانا کسی بھی طور پر صحیح نہیں ہے، کجا کہ پوری دنیا کو میدان جنگ تصور کرلیا جائے اور پوری انسانیت کو اپنے غضب و انتقام کا ہدف بنالیا جائے۔ یہ حد درجہ خوفناک اور شیطانی فعل ہے۔ اسی نوع کی فقہ سے امام غزالی نے لوگوں کو ہوشیار و خبردار کیا ہے۔ چناں چہ وہ دین کے فہم میں خارجی احوال یعنی ’’فقہ باطن‘‘ کو نظر انداز کرتے ہوئے ’’فقہ ظاہر‘‘ پر ارتکاز سے منع فرماتے ہیں۔ خاص طور پر جب کہ فقہ ظاہر رحمت، عدل، طہارت اور وہ تمام فضائل جن کا ذکر پچھلی سطور میں کیا گیا، کو بروئے کار لانے سے قاصر ہو۔ 
یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی ایک تعداد ضمنی طور پر بسا اوقات نہ صرف تشدد کے اس نوع کے واقعات کی موافقت کرتی ہے بلکہ اس طرح کے رجحانات نے بہت سے اسلامی معاشروں کو ایک قسم کی گھٹن میں مبتلا کردیا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بہت سے منکرات کو معروفات اور معروفات کو منکرات کا جامہ پہنا دیا گیا ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ ان اعمال اور طریقوں کا دوبارہ احیا کیا جائے جنھیں ہم بھول یا بھلا چکے ہیں۔ یعنی وہ اعمال اور فضائل جن کی اپنے اپنے زمانوں میں غزالی، ابن رشد، اور شاہ ولی اللہ دہلوی علیہم الرحمہ اور دوسرے بہت سے اصحاب ہمت و شجاعت نے لوگوں کو ترغیب دی تھی اور جن سے ہمارا وسیع علمی تاریخی ورثہ مالا مال ہے۔لیکن آج کے دور میں اس طرح کے اصحاب ہمت نہایت کم نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ان مسائل سے متعلق بالکل چپ سادھ رکھی ہے۔ اگر وہ اپنی زبان کھولتے ہیں اور اس طرح کے شاذ و منحرف افعال کی مذمت کرتے ہیں تو ان کی حیثیت حدیث میں مذکور ’’غربا‘‘ جیسی ہوتی ہے۔
امام غزالی نے اس امر (اخلاقی انحراف) سے متعلق اپنے زمانے میں جو کچھ لکھا ہے، اس کا مطالعہ کرنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے انھوں نے یہ باتیں ہمارے زمانے کے تعلق سے لکھی ہوں۔ اگر ہم دین کے ظاہری امور پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ وہ پوری طرح فروغ پارہے ہیں کیوں کہ ان کے وسائل موجود ہیں۔ اسی طرح عبادات پر کافی زور دیا جا رہا ہے لیکن اگر رسالت محمدی کی روح پر نظر ڈالی جائے جو پوری انسانیت کی نجات کے لیے آئیتھی، خاص طور پر اسلامی اخلاق جنھیں دوسری قوموں کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے، تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دین کو داخل و خارج سے درپیش مختلف قسم کے خطرات اور چیلنجوں نے عجیب و غریب چیز بنا دیا ہے۔ ضرورت ایسے مصلحین کی ہے کہ جو لوگوں کے بگاڑ اور فساد کی اصلاح کرسکیں۔ابن بیہ (عربی اسلامی قلم کار)نے بالکل صحیح طور پر ان مصلحین غربا کو قرآن میں ذکر کردہ ’’اولو بقیہ‘‘ میں شمار کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا کہ : اسلام اپنی ابتدا میں غریب تھا اور اخیر میں پھر غریب ہو جائے گا۔ آپ سے سوال کیا گیا کہ غربا کون لوگ ہیں؟ آپ نے جواب دیا: غربا وہ لوگ ہیں جو میری سنت میں لوگوں کے پیدا بگاڑ کی اصلاح کرنے والے ہیں اور میری سنت کے اس حصے کو جسے لوگوں نے ترک کر دیا ہے، زندہ کرنے والے ہیں۔‘‘
اسلامی تناظر میں اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ خالص اسلامی معیار کے مطابق اسلامی اقدار پر ایک نیا اجماع منعقد ہو۔ ضروری ہے کہ مسلمانوں کے درمیان آپس میں ایک قسم کا اجتماعی اخلاقی عہد (Collective Moral Consensus) اور مسلمانوں اور سول سوسائٹیز کے درمیان ایک لازمی رشتہ قائم ہو۔ اس کے لیے مسلم دانش وران اور علما کو سامنے آنے کی ضرورت ہے۔ وہی اس بات کے اہل ہیں کہ تعلیم و ابلاغ کے ذرائع سے عام لوگوں کے درمیان اس کی تبلیغ و توضیح کریں۔ ایسے مستقبل کے لیے جس میں مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود مضمر ہے، ان علما اور دانش وروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس اخلاقی عہد کی اہمیت کو واضح اور مدلل کریں۔ اس نوع کے پروجیکٹ کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ہماری نئی نسلیں ان اعلیٰ اخلاقی اقدار سے بہرہ ور ہوں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے جیسے: عفت، طہارت، سماحتِ نفس اور عدالت۔
موجودہ دور میں ہم پر مزید یہ ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ہم ان اقدار کی فہرست میں نئی قدروں کا اضافہ یا ان کی تخصیص کریں۔ ایسی کئی قدریں میرے ذہن میں اس وقت آرہی ہیں لیکن میں یہاں خصوصیت کے ساتھ دو قدروں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ پہلی قدر تکثیریت و تنوع یا دوسرے لفظوں میں رواداری ہے۔ چنانچہ عام شعبوں اور خاص طور پر ارباب دانش کے تعلق سے ضروری ہے کہ تکثیریت ہمارے معاشرے کا ایک اہم جز بن جائے کیونکہ حق تو یقیناًایک ہے لیکن اس کی تجلیات متعدد ہیں۔ حق مطلق کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ جب کہ ہماری حقیقت کی قدر شناسی علمی اور نسبتی ہے۔ ہم جب کسی چیز سے متعلق یہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس کا قطعی علم ہے تو اس وقت علمی زاویے سے اس سے متعلق گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ آخری سطح پر اشیا کی حقیقت کا علم ہمیں مستقبل میں ہوگا۔ اس لیے کہ ہم انسان ہیں اور کسی چیز سے متعلق ہمارا حکم لگانا کامل نہیں ہوسکتا۔ اس طرح ہمارے حکم لگانے میں غلطیوں کا صدور ہوگا اور ہمارا اجتہاد خواہ کتنی ہی دقت رسی پر مبنی ہو، اس میں کوتاہی کا دخل ہوگا۔ اور صحیح نیت کے ساتھ حق کی تلاش و جستجو میں غلطی کرجانا اسلام میں کبھی حرام نہیں سمجھا گیا۔ بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یعنی اس کے لیے اللہ کی طرف سے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اگر ہم نے راہ حق میں فکری کوشش کی اور ہم نے مطلوبہ حق کو پالیا تو ہمارے لیے دو اجر ہیں جب کہ اگر ہم سے خطا کا صدور ہوا تب بھی ہمارے لیے ایک اجر کا وعدہ ہے۔ اس طرح داخلی سطح پر مسلمانوں کے اندر تکثیریت کا پایا جانا خدا کی رحمت و قوت کی نشانی ہے۔حدیث میں امت کے اختلاف کو رحمت کہا گیا ہے نہ کہ باعث نزاع و جدال۔ اختلاف اور تعدد عمومی سطح پر کائنات کے مزاج، قانون اور اللہ کی سنت سے ہم آہنگ ہے۔
دوسری اہم قدر اختلاف کے حل کے لیے ہمارا تشدد کے راستے کو اختیار کرنا ہے۔ تشدد ہمارے معاشرے کا مزمن مرض بن چکا ہے جو ہماری صلاحیتوں کو گھن کی طرح کھائے جا رہا ہے۔ اس سے ہماری ترقی و خوشحالی کے راستے میں رکاوٹ آرہی ہے۔ انسانی جان کے احترام اور اس کی قیمت و اہمیت پر ازسرنو توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ انسانی جان کی حفاظت اسلامی شریعت کے مقاصد خمسہ میں سے ایک ہے۔ انسان کا قتل اسلام میں ایک بڑا گناہ ہے۔ اہل اسلام کے ہاتھوں اس کو سستا اور آسان سمجھا جانا کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ انسانیت کے ماتھے پر ایک کلنک ہے جسے ہم اسلام پر لگا رہے ہیں حالاں کہ دین اس سے بری ہے۔
محی الدین ابن عربی نے اپنی کتاب ’’ترجمان الاشواق‘‘ میں کعبہ کو ایک ذی روح پیکر کی شکل میں فرض کرتے ہوئے لکھا ہے:
تطوف بقلبی ساعۃ بعد ساعۃ
لوجد و تبریح و تلثم ارکانی
کما طاف خیر الرسل بالکعبۃ التی
یقول دلیل العقل فیھا بنقصان
ّوقبل احجارا بھا و ھو ناطق
و این مقام البیت من قدر انسان
’’تم ہر ہر لمحہ وجد اور دردِ دل سے ہمارے دل کا طواف کرتے ہو اورہمارے ارکان کو چومتے ہو۔ جس طرح پیغمبر اعظم نے اس کعبے کا طواف کیا جس کے بارے میں عقل کہتی ہے کہ اس میں کمی ہے۔ اور لبیک کہتے ہوئے اس کے پتھروں کو چوما۔ بیت اللہ انسان کی اہمیت کو بھلا کیسے پا سکتا ہے۔‘‘
ان اشعار میں ابن عربی کا مقصد اس حقیقت کو ذہن نشیں کرانا ہے کہ انسان کی قدر و اہمیت اسلام کی سب سے مقدس نشانی کعبے سے بھی برتر و بالا ہے جسے تمام مسلمانوں کا قبلہ اور اس کی روحانیت کا مرکز ہونے کا شرف حاصل ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم ان دونوں قدروں، تکثیریت اور عدم تشدد کو نیز ان اقدار کو جن کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا۔ اولین بنیادی اقدار کے طور پر اپنے معاشرے میں نافذ کرنے میں کامیاب رہے تو ہم اپنی قوم کے لیے زیادہ بہتر مستقبل کی توقع کرپائیں گے۔ چناں چہ جو قوم انسانی جان کا احترام کرتی اور تکثیریت میں یقین رکھتی ہے وہ بہ ذات خود ایسی قدرت کی حامل ہو جاتی ہے کہ وہ علم کی حامل قوم بن جائے۔ جو قوم علوم کو ترقی دینے پر قادر ہوتی ہے وہ قوم اس بات پر بھی قادر ہوتی ہے کہ وہ تہذیبی ارتقا کو تیز رو کرسکے۔ پھر ایسی قوم کی ترقی صرف اسی کی ذات تک محدود نہیں رہتی بلکہ دوسری اقوام کے تہذیبی ارتقا کا سبب بنتی ہے۔ یہ انسانیت کی معلم اور حقیقی معنوں میں خیر امم جس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے امت اسلام کی طرف کی ہے، ہوتی ہے۔
اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے تعلیم کے ابتدائی مرحلے سے اعلیٰ مرحلے تک مسلم تعلیمی اداروں میں عقل اور اور خیال (Imagination) کی اہمیت و قوت کو زندہ و تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔کسی بھی اسلامی مشروع (Project) کے لیے عقل کی ضرورت مسلم ہے۔ عقل کے بغیر اسلام میں فرد پر کوئی اخلاقی ذمے داری عائد نہیں ہوتی، جسے اصطلاح میں ’’تکلیف‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ عاقلانہ مخاطبت کے لیے شعور و فہم بنیادی عنصر کا درجہ رکھتے ہیں۔ حتی کہ وحی کے ادراک اور اس کے ساتھ تعامل میں ہم عقل پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہم اس ضمن میں بہت سے اقوال و مراجع کا حوالہ تو دیتے ہیں لیکن ان اقوال سے فائدہ اٹھانے کی کم ہی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں: کونوا للعلم دُعاۃ و لا تکونوا للعلم رواۃ (علم کوسمجھنے والے بنو صرف اس کو روایت کرنے والے نہ بنو) ابن عساکر نے لکھا ہے کہ: ھمۃ العلماء ،الوعایۃ و ھمۃ السفھاء، الروایۃ  (علما کی کوشش علم کو سمجھنے کی اور سفہا کی کوشش علم کو روایت کرنے کی ہوتی ہے)۔ ابن عساکر کے اس قول سے وہ لوگ مراد ہیں جو نصوص کو سمجھے بغیر استعمال کرتے ہیں۔ لیکن عقل کو خیال سے مزین کرنا چاہیے کیو ں کہ ،جیسا کہ فریڈریکوگار سیا لور کا نے لکھا ہے: 
’’خیال عقل کے گرد اس طرح پھیل جاتا ہے جس طرح خوشبو پھولوں کے گرد، جو ان برگہائے گل سے الگ نہیں ہوتی جن سے وہ پھوٹ رہی ہوتی ہے، بلکہ وہ ایک ہی وقت میں فضا میں بکھر رہی ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ اپنے دائمی اعجاز آفریں مرکز سے وابستہ بھی ہوتی ہے۔‘‘
علامہ اقبال اپنی مشہور اردو نظم ’’شکوہ جواب شکوہ‘‘ میں مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں۔ رسول اللہ کی سیرت، اقبال کی نظر میں، انسان کو اس کے شعور ذات کو برسر عمل لانے کی قدرت عطا کرتی ہے اور اس کو کائنات کی تمام تر موجودات سے ہم آہنگ اور اسی کے ساتھ بشری ذرائع پر اعتماد کرنے والا بنا دیتی ہے۔ چناں چہ تخلیق نو اور تازہ کاری کی وہ روح جس کی ربانی نوازش سے انسانی تجربات عبارت ہیں ،نیز طبیعات و تاریخ نے ان مواد کو وجود بخشا جن سے زندہ تہذیب کی تخلیق ہوئی۔ اقبال کی خواہش تھی کہ اگر مسلمان اپنے عزم و عہد کو عملی شکل دیں تو اپنی تقدیر کی کلید خود ان کے ہاتھ میں ہوگی۔ اس تناظر میں وہ کہتے ہیں:
عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش خلافت ہے جہاں گیر تری
ما سو اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
(کلیات: ۲۰۸)
مسلمان تاریخ کے مختلف ادوار میں شدید طور پر مصائب و مشکلات سے دوچار ہوتے رہے ہیں، بسا اوقات مسلمان اسلام کے مستقبل کے تعلق سے قنوطیت کا شکار ہوگئے۔ ہم نے مقالے کے شروع میں اسلام کے غریب ہوجانے کے تعلق سے جو حدیث نقل کی تھی، اس کی بعض لوگوں نے ایسی شرحیں کی ہیں، جن سے مزید ان لوگوں کی مایوسی میں اضافہ ہوا ہے ان لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ اسلام غربت کا شکار ہوکر ختم ہوجائے گا۔ حالانکہ یہ تاویل بالکل باطل ہے۔ اس لیے کہ وہ کتاب و سنت میں وارد بہت سے اہم احکام و ہدایات سے متصادم ہے۔ اس میں سرفہرست اللہ کا صالحین بندوں سے یہ وعدہ ہے کہ وہی اس زمین کے وارث ہوں گے۔ اس لیے اس حدیث کو اس روشنی میں دیکھا جانا چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو بیدار ہونے کی حوصلہ افزائی کرتی اور احیا و تجدید کے عمل پر مائل کرتی ہے۔ اسلامی عمل میں جب بھی انحراف واقع ہوگا، اس کی اصلاح ضروری ہوگی۔ رسول اللہ کی ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ امت محمدیہ حق پر قائم رہے گی اس کے مخالفین اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں پائیں گے، یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آجائے گا۔

پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ کی تعلیمی اصلاحات

پروفیسر محمد اکرم ورک

تعلیم اور نصاب کاتعلق صرف استاذ ،شاگرد اور درس گاہ سے نہیں بلکہ اس کا براہ راست تعلق اس زندگی سے ہے جو ہر لمحہ رواں دواں اور تغیر پذیر ہے اس لیے بہترین نصاب وہی ہو سکتاہے، جو ایسے علوم وفنون پر مشتمل ہوجو انسانی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں نیز انسانی فکر کے تاریخی ارتقا کے عکاس ہوں اور جن کے پیشِ نظر ایسے رجال کار کی تیاری ہو ، جو سوسائٹی کے انفرادی اور اجتماعی رویوں کی مثبت تشکیل ممکن بنا سکیں ۔ 

مسلم تاریخ میں نصاب تعلیم کا ارتقا

اسلامی تاریخ کا سرسری مطالعہ بھی اس بات کی ثبوت کے لیے کافی ہے کہ نبوت کے مکی اور مدنی ادوار میں نظا م تعلیم اور نصاب میں معروضی حالات کے پیش نظر بقدر ضرورت تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔دار ارقمؓ اور شعب ابی طالب میں تعلیم کا نصاب اور نظام اس سے بہرحال مختلف تھا جس کی تعلیم مسجد نبویؑ کی درس گاہ (صفہ)میں دی جاتی تھی۔صفہ میں حالات کے تقاضوں اور ضرورتوں کے پیش نظر قرآن وسنت کی لازمی تعلیم کے ساتھ ساتھ خطاطی،طب،تیر اندازی،تلوار زنی،اور نیزہ بازی کے فنون بھی سکھائے جاتے تھے ۔مرورِ ایام کے ساتھ قرآن وسنت جیسے بنیادی اور لازمی مضامین کی اہمیت و افادیت میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا ۔ ان کے علاوہ دیگر علوم وفنون ارتقاء اور تبدیلیوں کے مختلف مراحل طے کرتے رہے ۔ ان میں سے بعض مضامین اگر حالات کے تقاضوں کے پیش نظرداخل نصاب ہوئے تو بعض دیگر کو ضرورت پوری ہونے پر نصاب سے خارج بھی کر دیا گیا ۔ 
ہلاکو خان کے حملہ بغداد ۱۲۵۸ء ؁ تک مسلم فکر میں زبردست ارتقاء نظر آتاہے ۔بغداد کی تباہی سے نہ صرف مسلمانوں کی صدیوں کی علمی ترقی اور ذہنی ریاضت دریا برد ہوگئی بلکہ کئی نامور علما بھی تاتاری تلوار کی نذرہوگئے ۔اور پھر ۱۴۹۲ء ؁ میں سقوط غرناطہ کے بعد مسلم فکر کے تقریبا تمام علمی سر چشمے خشک ہوگئے ۔اور علمی روایت مکمل طورپر مغر ب کی طرف منتقل ہوگئی۔ اگر چہ ان دو بڑے حادثات کے بعد بھی مسلمانوں کو سیاسی عروج حاصل رہاہے ۔لیکن فکری اور علمی اعتبار سے یہی مسلمانوں کادور انحطاط ہے۔درس نظامی کے روایتی نصاب پر ایک نظر ڈالنے سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس نصاب میں شامل اکثر کتب اور علوم وفنون اسی دور زوال کی یاد گار ہیں۔جب مسلمانوں کا علمی انحطاط شروع ہوچکاتھا اور مسلم فکر پر جمود کے سائے پڑنا شروع ہوگئے تھے ۔
نئے علوم وفنون اور موضوعات پر غور وفکر کی بجائے ایسی کتابیں منصہ شہود پر آنے لگیں ۔جن میں اختصار نویسی ،لفظی بحثوں اور لفظی موشگافیوں کو ہی کمال فن سمجھا جانے لگا۔بڑا کمال یہی سمجھا گیا کہ عبارت ایسی دقیق اور غامض ہو جس کے لئے شرح وحاشیہ کی ضرورت ہو ، لطیفہ یہ ہے کہ بعض اصحاب علم نے ذہنی عیاشی کی خاطر انتہائی مختصر کتب تصنیف کیں ۔اور پھر خود ہی ان پر طویل حواشی لکھنے بیٹھ گئے اور اب ہمارے مدرسین اپنی عمر عزیز کا زیادہ حصہ انہی دقیق عبارتوں کے سمجھنے اور سمجھانے میں گزار دیتے ہیں۔مصنف کی مراد ،ضمائر کے امکانی مراجع اور عبارت کی اعرابی حالتوں کے ایسے خیالی پلاؤ پکائے جاتے ہیں کہ بسااوقات ایسی بحثوں میں کئی کئی ہفتے گزر جاتے ہیں اور نتیجہ پھر بھی غیر حتمی ہی رہتاہے۔گویا فن میں مہارت کے بجائے کتاب کی تفہیم حقیقی مقصد بن کر رہ گئی ہے۔

برصغیر میں مدارس کا نصاب تعلیم 

برصغیر میں انگریزی عہد اقتدار سے قبل مدارس میں جن علوم وفنوں کی تعلیم دی جاتی تھی ان کی افادیت محدود ہوچکی تھی ،تاہم اس وقت جو نظام تعلیم اور نصاب رائج تھا اس میں دینی اور دینوی کی کوئی تفریق نہ تھی۔اور یہ نصاب مسلم دور کی ضرورتوں اور تقاضوں کو کسی نہ کسی حد تک پورا کررہاتھا۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغلیہ دور میں جس نظام تعلیم اور نصاب نے مجدد الف ثانیؒ جیسامذہبی عبقری پیداکیااسی نظام نے نواب سعداللہ خان جیسا شخص بھی تیار کیا۔جو سلطنت مغلیہ کاوزیراعظم بنااور جو حضرت مجدؒ د کاہم جماعت تھا،پھر استاذاحمد معمارجس نے تاج محل،جس کاشمار دنیا کے سات عجائبات میں ہوتاہے ، تعمیر کیا۔یہ بھی حضرت مجدؒ د کاکلاس فیلوتھا۔یہ تینوں ایک ہی استاذکے شاگرد اور ایک ہی درس گاہ کے پڑھے ہوئے تھے اور ایک ہی نصاب اور تعلیمی نظام کی پیداوار تھے۔
۱۸۵۷ء ؁میں برصغیر پر انگریز کے مکمل قبضہ واختیار کے بعد ہمارے سامنے نظام تعلیم اور نصاب کے حوالے سے دو گروہ ابھر کر سامنے آتے ہیں ایک گروہ کاتعلق روایتی دینی مدارس سے ہے۔ فی الوقت جن کی نمائندگی شیعہ اور سنی وفاق (بریلوی ،دیوبندی،سلفی)کررہے ہیں۔دوسرے گروہ کاتعلق جدید تعلیم کے علمبرداروں سے ہے۔سر سید احمد خانؒ کی علمی تحریک اسی گروہ کی نمائندہ تحریک ہے۔روایتی دینی مدارس کانصاب ہو یاعلی گڑھ کا،دونوں کانصاب تعلیم دور غلامی کے مخصوص حالات ،تقاضوں اور پس منظر کا عکاس ہے۔یقینی طور پر کہاجاسکتاہے کہ ان دونوں نصاب ہائے تعلیم کی بنیاد خوف اور ذہنی تحفظات پر تھی۔ایک طبقہ اس خوف میں مبتلاتھا کہ جدید تعلیم سے احتراز مسلمانوں کے لیے انتہائی تباہ کن ہوگا۔مسلمان تجارت ،اسباب معیشت ،ملازمتوں اور دیگر قومی معاملات میں پیچھے رہ جائیں گے۔جبکہ دوسرے طبقہ کو یہ خوف دامن گیر تھا کہ انگریزجو برصغیر کو دوسرا اسپین بنانے کی حکمت عملی پر عمل پیراہیں ،کے عزائم کو ملیامیٹ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وقتی فوائد سے صرف نظر کرتے ہوئے دینی علوم کی تدریس کے لیے مدارس کا ایسا نظام قائم کیا جائے جو قوم کو تہذیبی ارتداد سے بچاسکے اور جو مسلمانوں کے دین ،ایمان اور اسلامی تہذیب وتمدن کے تحفظ کاضامن ہو۔حقیقت یہ ہے کہ برصغیر میں دین وایمان کی بہاریں ہمارے اسلاف کی اسی محنت ،خلوص اور حکمت عملی کا نتیجہ ہیں ، تاہم یہ بات واضح ہے کہ ہر دو طبقات کی حکمت عملی دفاعی نوعیت کی تھی۔اور یہ حکمت عملی اپنے مخصوص پس منظر میں بالکل درست تھی۔

پاکستانی مدارس کا نصاب تعلیم 

۱۹۴۷ء کے بعد حالات وضروریات اور تقاضے بدل گئے اس وقت دونوں (دینی ودینوی)نصاب ہائے تعلیم میں انقلابی اور اجتہادی نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت تھی۔ان دونوں نظام ہائے تعلیم کو ختم کرکے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ایسا نصاب مرتب ہونا چاہیے تھا ،جو جدید علمی اور فکری چیلنچز کابھر پورجواب مہیا کرتا۔خاص طور پر پاکستان میں تو اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ علماء کو سوسائٹی میں قائدانہ کرادار اداکرنے کے قابل بنایاجاتا،لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے دینی مدارس سے فارع ہونے والے علماء جب عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو چونکہ وہ سوسائٹی کے عرف اور محاورے سے واقف نہیں ہوتے اس لیے عجیب طرح کی اجنبیت کاشکار ہو جاتے ہیں۔اور عملا معاشرے سے کٹ کر رہ جاتے ہیں ۔بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی:
’’آج ہمار ا امام سوسائٹی میں جاکر یہ محسوس کرتاہے کہ میں نے جو کچھ پڑھا ہے وہ تو Irrelevantہے اور یہاں لوگ جو سوال کررہے ہیں اس کامیرے پاس جواب نہیں تو وہ پڑھی ہوئی چیزوں کو Relevant بنانے کے لیے وہاں وہ مسائل پیداکرتاہے جو اس کے اپنے مسائل ہیں تاکہ وہ لوگوں کے بھی مسائل بن جائیں اور جب وہ ان کے مسائل بن جائیں گے اور وہ پوچھیں گے تو میں ان کا جواب دوں گا ۔وہ مسائل کیا ہوتے ہیں ؟وہ فرقہ ورانہ ہوتے ہیں اب جن بیچاروں کو کچھ پتہ نہیں ہوتا اور نہ کبھی ان کے ذہن میں یہ خیال آیاہوتاہے کہ حضور ؑ نور تھے یا بشر تھے،ان کے لیے امام مسئلہ پیدادیتاہے۔رسول اللہ کاحکم واجب التعمیل ہے یہ کوئی نہیں بتاتا،لیکن ایک اس پر زور دیتاہے کہ آپ ﷺ بشر تھے اور دوسرا اس پر کہ آپﷺ نور تھے ۔وہ نور کا ایک محدو د مفہوم بیاں کرتاہے یہ بشر کامحدود مفہوم بیاں کرتاہے۔اور جب علم کی کمی کی وجہ سے لوگوں کا ایک گروہ اس کام کے لئے تیار ہوجائے گا تو اب امام صاحب کی نوکری پکی ہوجا ئے گی اور انہیں کوئی وہاں سے نہیں اٹھائے گا۔یہ ایک افسو س ناک بات ہے جس پر غور کرنا چاہیے‘‘۔(ماہنامہ الشریعہ مارچ ۲۰۰۵ء:۲۶)
ایسے ہی سطحی علم رکھنے والے حضرات معاشرے میں فتنہ وفساد اور فرقہ ورانہ تشدد کا باعث بنتے ہیں ۔یہ صورت حال ایسی خوف ناک اور گھمبیر ہے جس کی وجہ سے ایک طرف سیلم الفطرت لوگ مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں تو دوسری طرف عام لوگ دین سے دوری میں ہی اپنی ’’عافیت‘‘ سمجھنے لگے ہیں بقول علامہ اقبال:
کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے 
کہ میر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی 
ضرورت اس امر کی تھی کہ دور غلامی میں حالت جبر میں اختیار کردہ تعلیمی نظام پر نئے سرے سے غور وفکر کیا جاتا اور قیام پاکستان کے بعد ماہرین تعلیم کی مشاور ت سے مناسب ا ور معقول قومی تعلیمی پالیسی تشکیل دی جاتی ۔لیکن بد قسمتی سے ایسی کوئی بھی سنجیدہ کوشش بروئے کار نہیں لائی گئی ۔ اس وقت صورت حال یہ کہ پاکستان میں طبقاتی نظام تعلیم میں مز ید پھیلاؤ آیا ہے۔
جدید تعلیمی اداروں سے جو نسل تیار ہوکر نکل رہی ہے ان کا دین سے تعلق انتہائی کمزور ہے اور دوسری طرف جو نسل روایتی دینی اداروں سے فارغ التحصیل ہو رہی ہیں ان کا حالات حاضرہ ،جدید معاشی ،سیاسی اور عمرانی علوم سے کوئی تعارف نہیں،عالمی قانون ،عرف،رسم ورواج اور مغربی فکر وفلسفہ توان کے لئے قطعا اجنبی چیزیں ہیں ۔ نصاب کی اس تقسیم کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر نصاب کے پڑھنے والے اس نصاب کے آثارونتائج سے قطعا بے گانہ ہیں جیسے انھوں نے نہیں پڑھا ہے ۔ملک میں پڑھے لکھے طبقہ کی دو مستقل جماعتیں قائم ہوگئیں ہیں ایک طبقہ دوسرے پر فسق والحاد اور بے دینی کا الزام عائد کرتاہے تو دوسرا اس پرتاریک خیالی اور زمانے سے ناواقفیت کی پھبتیاں کستا ہے۔مسڑاور ملا ں کے طنزیہ ناموں سے قائم ان طبقوں میں کشمکش مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے۔
ارباب دانش کی نظر میں نصاب تعلیم کی وحدت کے علاوہ اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے ۔اس حوالے سے حکومتی اور اعلیٰ ترین سطح پر پیش قدمی کی ضرورت تھی تاہم حکومت کی مجرمانہ غفلت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دینی مدارس کے ارباب بست وکشاد بھی اسی عدم تدبر کا مظاہرہ کرتے ،نئے حالات میں ان کی حکمت عملی دفاعی کی بجائے اقدامی ہونی چاہیے تھی ،کیونکہ آزادی کے بعد عوام الناس زندگی کے ہر میدان میں ان سے قائدانہ کردار کی توقع کر رہے تھے لیکن بدقسمتی سے ہماری دینی قیادت اس فہم وفراست کا مظاہرہ نہ کرسکی جس کامظاہر ہ ہمارے اسلاف ہر دور میں کرتے رہے ہیں۔

برِ صغیر کے علما کی فکر مندی

نصابِ تعلیم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا احساس تقریباََ تمام مکاتبِ فکر کے اکابرین میں شروع سے ہی رہا ہے ۔ اس حوالے سے ، نصابِ تعلیم کی ماہیت پر مشتمل کتابوں میں تمام مکاتبِ فکر کے اسلاف کی آراء ملاحظہ کی جا سکتی ہیں ۔ طوالت سے بچتے ہوئے ہم صرف مولانا قاری محمد طیب ؒ کے ایک خطاب کے اس اقتباس پر اکتفا کرتے ہیں: 
’’اب رہا مدارس عربیہ کا نصاب میں تبدیلی کا قضیہ ،سو مجھے اس اصول سے انکا رنہیں اور نہ کسی کو ہو سکتاہے ۔جن تعلیمات کا تعلق وحی الہی سے ہے ،ان کی تبدیلی پر نہ ہم قادر ہیں ،نہ ہمیں حق ہے ۔باقی جو فنون یا کتابیں قرآن کے خادم کی حیثیت سے زیر تعلیم آتی ہیں ،وہ زمانہ اور احوال کے لحاظ سے بدل سکتی ہیں۔قرآن ہر زمانہ میں ایک رہا ،لیکن اس کی تفہیمات کا انداز بدلتارہا ۔جس دور میں مثلاً فلسفہ کا زور ہوا تو قرآن کو فلسفیانہ انداز میں سمجھایا گیا۔جس دور میں تصوف کا زور ہوا تو قرآن کو صوفیانہ انداز میں سمجھایا گیا ۔آج سائنس کازور ہے تو وہ سائنسی رنگ میں تجلی کرے گا۔اس ساری حقیقت کو میں بطور خلاصہ ان الفاظ میں لاسکتاہوں کہ’’مسائل پرانے ہوں تو دلائل نئے ہوں۔ ‘‘ (۲۲،۲۳ فروری ۱۹۴۷ء کو اسمبلی ہال لکھنو میں منعقدہ’’تعلیمی کانفرنس ‘‘سے خطاب)

ضیاء الامت ؒ کے عملی اقدامات اور اصلاحات

ضیاء الامت پیرمحمد کرم شاہ الازہری ؒ نے علماء اور جدید تعلیم یافتہ نسل کے درمیاں بڑھتے ہوئے خلا کو آج سے نصف صدی قبل محسوس کیا۔ چنانچہ آپ نے قدیم اور جدید علوم کے امتزاج سے ایک ایسے نصاب تعلیم کی ضرورت محسوس کی جو علماء کو نہ صرف قومی دھارے سے جوڑے رکھے بلکہ انہیں قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل بھی بناسکے ۔چنانچہ پیر صاحبؒ نے ۱۹۵۷ء ؁ میں اپنے والد محترم کے قائم کردہ ادارے ’’دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ‘‘ کی نشاۃ ثانیہ کا آغازفرمایا ۔نئے نصاب کی ترتیب ،تدوین ،اور تنفیذ میں پیر صاحبؒ کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہ بڑے گھٹن اور صبر آزما تھے ۔چونکہ یہ بالکل نیا اور منفرد تجربہ تھا۔اس لیے جب پیر صاحبؒ نے اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے میدان عمل میں اترے تو وہ اس منزل کے تنہا مسافر تھے ۔پیر صاحبؒ نے ا پنی ذات میں ایک پورے ادارے کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ آپ کے مشہور سوانح نگار پروفیسر حافط احمد بخش صاحب نے پیر صاحب ؒ کی سوانح عمری ’’جمال کرم‘‘جلد اول میں ان تمام حالات کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ نئے نصاب کی ترتیب میں حضرت ضیاء الامتؒ کے پیش نظر جو خصوصی امور تھے ان کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
’’دینی مدارس کا نصاب تعلیم ایسا ہونا چاہیے جس سے فراغت پانے کے بعد انسان میں علوم جدیدہ سے پوری واقفیت اور حالا ت حاضرہ پر گہری نظر ہونے کے ساتھ علوم دینیہ میں ٹھوس قابلیت پیداہوجائے،سطحی قسم کے علماء الحاد وفجور کے اس خوف ناک سیلاب کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ملت کو ایسے علماء کی ہرگز ضرورت نہیں جو اسلام کی ابدی تعلیمات کو حالات حاضرہ سے ہم آہنگ کرنے کے خبط میں قطع وبرید اور تبدیلی وتحریف تک آمادہ ہوں بلکہ ایسے مردان کار کی ضرورت ہے جو ایمانی فراست کو کام میں لاتے ہوئے حالات کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور اس کے لیے علوم دینیہ میں مہارت ضروری ہے۔‘‘(جمال کرم ۱/۳۳۲)
دارالعلوم محمدیہ غوثیہ میں داخلہ کے خواہش مند طلباء کے لیے میڑک پاس ہونا بنیادی شرط ہے۔نو سالہ دورانیے پر مشتمل اس نصاب میں ایف ۔اے ۔اور بی ۔اے کے امتحانات بالترتیب سرگودھا بورڈ اور پنجاب یونیورسٹی کے زیر انتظام دلوائے جاتے ہیں ۔جبکہ دارالعلوم کی تکمیلی سند کو حکومت نے ایم۔اے اسلامیات وعربی کے مساوی تسلیم کیا ہے ۔یہاں سے فارغ التحصیل علما کو ’’شاہین‘‘ کہا جاتاہے ۔دارالعلوم میں دینی تعلیم میں رسوخ کو اولیت اور تر جیح حاصل ہے۔
پیر صاحبؒ نے دینی مدارس کے روایتی نصاب میں جو انقلابی اصلاحات تجویزفرمائیں زیر نظر سطور میں ہم اس کے صرف چند اہم پہلووں کا اختصا ر کے ساتھ تعارف پیش کریں گے اور ان کوششوں کے عملی فوائد وثمرات کا تجزیہ کریں گے۔

صرف ونحو

کسی بھی زبان کی سمجھ بوجھ کے لیے گریمر خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے ۔گریمر کا کردار زبان کی تسہیل اور تفہیم سے ہے جبکہ مدارس کے طرز تعلیم میں علمِ صرف اور خاص طور پرعلمِ نحو کو زبان کے مشکل بنانے کے لیے استعمال کیا جاتاہے کافیہ اور شرح جامی جیسی کتب جس تحقیق اور لفظی موشگافیوں کی ابحاث کے ساتھ پڑھی پڑھائی جاتی ہیں ،کاش قرآن وسنت کی تعلیم میں بھی یہی شوق پیش نظر ہو۔عموما اساتذہ کافیہ کی پہلی سطر ’’الکلمۃ لفظ وضع لمعنی مفردا‘‘ کی تقریر میں ہی کئی ہفتے گزار دیتے ہیں۔مولانا ابو الکلام آذاد کی یہ رائے بالکل درست ہے کہ برصیغیر میں صرف ونحو کی تعلیم میں طلباء پر بیک وقت تین بوجھ ڈال دیے جاتے ہیں۔
ایک اجنبی زبان (کہ صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں زیادہ تر فارسی زبان میں ہیں )۔
دوسرا حلِ عبارت کا ،طالب علم کی بیشتر توانائی مغلق وغامض عبارت کے حل پر صرف ہو جاتی ہے۔
تیسر ا اگر دما غ میں کچھ گنجائش باقی رہ گئی ہے تو وہ اصل علم حاصل کرے ۔ 
یہی وجہ ہے کہ گوہرِ مقصود ہاتھ نہیں آتا ۔ہمیں یہ چیز ذہن میں رکھنی چاہیے کہ صرف ونحو اور دیگر علوم صرف قرآنی بصیر ت تک رسائی کے وسائل اور ذرائع ہیں اس لیے ایسی تمام کتب کو آسان اور عام فہم ہونا چاہئے ۔پیر صاحب ؒ نے صرف ونحو کے روایتی اسلوب میں جو تبدیلی کی ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں:
’’عربی علوم میں دسترس حاصل کرنے کے لیے صرف ونحو کو کلیدی حیثیت ہے اس سے کسے انکار ہے ،اس لیے میں نے مفید خیال کیا کہ ابتدائی سالوں میں صرف ونحو پر زیادہ سے زیادہ زور دیا جائے اور اس کے لیے ایسی کتب کاانتخاب کیا جائے جو آسان اور واضح ہونے کے ساتھ ساتھ فن کی تمام خصوصیتوں کی حامل ہوں اور ان کی تعداد بھی زیادہ نہ ہو‘‘(جمال کرم ۱/۳۳۲)
دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ میں صرف ونحو کی تعلیم میں جن چیزوں کا خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے ان کی نوعیت درج ذیل ہے:
۱۔روایتی دینی مدارس کے بر عکس صرف و نحو کی تعلیم کے لیے کتب کی تعداد واضح طور پر کم کی گئی ہے۔
۲۔جو کتب منتخب کی گئی ہیں وہ سادہ عام فہم اور آسان اردو اور عربی زبان میں ہیں ۔ابتدائی تعلیم کی مادری زبان میں ضرورت واہمیت ماہرین تعلیم کے ہاں مسلم ہے۔تسہیل النحو اور تسہیل الصر ف (مولانا حافظ محمد خان نوری) اردو زبان میں ہیں ۔نیز اس کے ساتھ عربی زبان میں عصر جدید کی مطبوعات النحو الواضح(از علی جارم مصطفی امین )کے چھ حصوں کی تدریس بہت عمدہ انتخاب ہے۔یہ کتا ب اپنے موضوع پر انتہائی مفید اور سلجھے ہوئے انداز میں لکھی گئی ہے ۔اس کتاب کی خاص خوبی یہ ہے ،قواعد عربی کاعملی اجراء بھی ساتھ ساتھ ہوتاجاتا ہے۔اور عربی زبان کے قواعد اس طرح پڑھائے جاتے ہیں کہ جس طرح ایک زندہ زبان کے پڑھائے جانے چاہییں۔

ادب وانشا 

درس نظامی کے روایتی نصاب میں ادب وانشاء کی تعلیم برائے نام ہے ۔ادب وانشاء کی جگہ فن بدیع (لفظی صنعت گری)کی کتابین داخل نصاب ہیں ۔مطول جیسی کتابوں کی تعلیم کے بعد طلبہ میں ادبی ذوق پروان چڑھنے کی توقع رکھنا عبث ہے ۔آج کی علمی دنیا میں اگر کسی کو یہ بتایا جائے کہ کچھ’’اصحاب علم‘‘ دنیا میں ایسے بھی ہیں جو بیس پچیس سال تک عربی زبان وادب کی تدریس کے بعد بھی اس میں اپنے مافی الضمیر کے اظہار پر قادر نہیں تو یقیناًوہ اسے قبل از تاریخ کی کوئی من گھڑت کہانی قرارد یں گے۔ ویسے بھی جس قسم کی عربی زبان ہمارے علماء بولتے ہیں وہ روز مرہ کی زبان نہیں ہے اس لیے جدید نسل کے لیے اس کو سمجھنا کافی مشکل ہے آج کے معروضی حالات میں عالم عرب سے رابطہ وتعلق کیلئے جدید عربی کا جاننا انتہائی ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ دینی مدارس کے قیام کااصل مقصد قرآن وسنت کی تفہیم ہے جبکہ قرآن وسنت کے معانی ومفاہیم سے واقفیت کے لیئے قدیم عربی زبان وادب میں مہارت وممارست ضروری ہے ،لہٰذا عربی زبان کے قدیم اور جدید دونوں اسالیب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، اس لیے دونوں کااپنی اپنی جگہ سیکھنا ضروری ہے۔
پیر صاحبؒ نے اپنے مجوزہ نصاب میں ان دونوں ضرورتوں کو پیش نظر رکھا ہے ۔طلباء میں قدیم عربی ادب کاذوق پیدا کرنے کے لیے البلاغۃ الواضحۃ (علی الجارم ومصطفی امین)کے ساتھ دیوان متنبی ،دیوان حماسہ،دیوان حسان ، المفضلیات ،نثر میں العبرات ،مقامات حریری ،الکامل للمبرد،تلخیص المفتاح،اور اسرارالبلاغۃ جیسی کتب شامل نصاب ہیں تو دوسری طرف ابتدائی سالوں میں ہی مفید الطالبین(محمد احسن نانوتوی)تسہیل الانشاء مکمل حصے (محمد سعید الازہری،محمداکرم الازہر یؒ ) معلم الانشاء(محمد رابع حسنی ندوی )اور الاسلوب الصحیح (دوحصے) جیسی کتب سے طلبہ میں جدید عربی زبان وادب کا ذوق پیدا کیا جاتاہے۔عام طورپر کہا جاتاہے کہ ادب لادین ہوتاہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پیر صاحبؒ نے اپنے مرتب کردہ نصاب تعلیم میں ادب کو بھی مشرف بہ اسلام کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور کسی لمحہ بھی زبان دانی کے ساتھ ساتھ طلبہ کی اخلاقی تربیت کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا ۔چنانچہ قصیدہ اطیب النغم (شاہ ولی اللہؒ )اور قصیدہ بردہ شریف (امام بو صیریؒ ) کاشامل نصا ب ہونا ہمارے اس موقف کی تائید کرتاہے۔

معاشیات اور سیاسیات

درس نظامی کے روایتی نصاب کی تدریس میں عموما اسلام کے اجتماعی پہلووں کو بری طرح نظر انداز کر دیا جاتاہے۔بالخصوص اقوام عالم میں رائج نظا م سیاست اور جدید نظام معیشت سے ہمارے علماء کی واقفیت برائے نام ہے جدید علوم سے بے اعتنائی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ طبقہ علماء آہستہ آہستہ ایک ایسا گروہ بنتا جارہاہے جس کا کار گاہ حیات اور زندگی کے عملی اور زندہ مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔سوسائٹی میں ہمارے علماء کاکردار بھی اب دیگر مذاہب کے مذہبی راہنماوں جیسا بنتاجارہاہے جن سے صرف حصول ثواب کی نیت سے مخصوص مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لئے رجوع کیا جاتاہے۔ظاہر ہے یہ صورت حال اسلام جیسے مکمل ضابطہ حیات کے لیے کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے ۔علوم جدیدہ سے علماء کی عدم واقفیت کی وجہ سے ہی اس غلط فہمی نے بھی جنم لیا ہے کہ شاید اسلام جدید معاشی ،سیاسی اور عمرانی افکار کامقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ہمارے اکثر علماء کی سادگی کا یہ عالم ہے کہ وہ ان علوم میں رسوخ تو بڑی دور کی بات ،ان کی بنیادی اصطلاحات تک سے واقف نہیں ہیں۔بقول مولانا زاہد الراشدی:
’’دینی تعلیم وتدریس اور بحث وتمحیص کے حوالے سے ہماری گفتگو اعتقادات ،عبادات ،اخلاقیات ،یا سے زیادہ خاندانی معاشرت کے چندمسائل تک محدود رہتی ہے جب ہم حدیث یا فقہ کی کوئی کتاب پڑھاتے ہیں تو سارا زور کتاب الطہارت سے کتاب الحج تک ہوتاہے ۔بہت زور مارا تو نکاح وطلاق کے مسائل گویا یہ آخری حد ہے حالانکہ انہی کتابوں میں کتاب البیوع بھی ہے ،کتاب الاجارہ بھی ،کتاب المزارعۃ بھی ،کتاب الجہاد بھی،کتاب الامارہ بھی ہے اور کتاب القاضی بھی۔اس طرح سیاست ،معیشت اور زندگی کے دیگر اجتماعی شعبوں سے تعلق رکھنے والے دوسرے ابواب بھی،لیکن ہم ان ابواب سے اس طرح گزر جاتے ہیں جیسے یہ سب منسوخ ہوں۔‘‘ (مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی دینی ذمہ داریاں )
پیر صاحبؒ اپنی دوررس نگاہوں سے علما اور سوسائٹی میں بڑھتے ہوئے فاصلے کو گہری تشویش کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔چنانچہ انھوں نے اپنے مجوزہ نصاب تعلیم میں اس کمزوری کا ازالہ کرنے کی حتی الوسع کوشش کی ہے ۔آپؒ فرماتے ہیں:
’’اس نصا ب میں انگریزی ،جغرافیہ ،طبعیات کے علاوہ فلسفہ جدیدہ، علم سیاست (Politics)، علم اقتصادیات (Economics) کو بھی شامل کیا گیاہے۔کیونکہ آج اسلامی تعلیمات کو موثر طور پر پیش کرنے کے لیے ہمارا ان علوم سے روشناس ہونا از حد ضروری ہے ۔علم سیاست واقتصادیات اسلام کے لیے کوئی نئی چیزیں نہیں ہیں اسلام نے جہاں عقائد باطلہ کے بت کدے پاش پاش کیے وہاں اس نے روز ازل سے مستبدانہ ملوکیت اور ظالمانہ نظام معاشیات پر بھی بھر پور وار کیا اور اقتصادی اور سیاسی میدانوں میں ایسی بنیادی اور عادلانہ اصلاحات کیں جن کی گردِ راہ کو بھی عقل کا کاروانِ تیز گام آج تک نہیں پہنچ سکا ،لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ موجودہ دور میں سیاست ومعاشیات کے علوم کو ایسے خطوط پر مرتب کیا گیا ہے کہ بادی النظر میں وہ بالکل جدید علوم دکھائی دیتے ہیں ،ضروری ہے کہ ہم بھی موجودہ معنی میں ان کو سمجھیں تاکہ اپنے نظریات عہد حاضر کی عقلوں کو سمجھا سکیں ۔اس لیے پہلے ان مضامین کو ان کی موجودہ شکل میں پڑھانے کا انتظام کیا گیا ہے ۔اس کے بعد اسلام کے نظریات کا دوسرے نظریات کے ساتھ تقابل کیا گیا ہے‘‘( جمال کرم۱/۳۳۴)
ہمارے بعض قارئین کے لیے شاید یہ بات نئی ہو کہ پیر صاحبؒ کے مرتب کردہ نصاب تعلیم میں ایف اور بی اے کی سطح پر معاشیات اور سیاسیات اختیاری کے بجائے بطور لازمی مضامین پڑھائے جاتے ہیں ۔جس کی وجہ سے طلباء کے لیے معیشت اور سیاست کے جدید نظاموں کا سمجھنا اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ ان کا تقابل کرنا آسان ہوجاتاہے۔تعلیم یافتہ طبقے میں تبلیغ کا کام کرنے کے لیے یہ صلاحیت انہیں نسبتاً زیادہ اعتماد اور اعتبار مہیا کرتی ہے۔

اردو اور انگریزی زبانوں کی تدریس

چونکہ اسلام کا تمام علمی سرمایہ عربی زبان میں ہے اس لیے قدیم اور جدید عربی زبان وادب سے واقفیت علماء کے لیے نا گزیر ہے لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ عربی زبان کے بعد بر صغیر کے اہل علم کے لیے اردو زبان بڑی اہمیت کی حامل ہے جو بجا طور پر اس خطے کی زندہ علمی زبان ہے اور شاید یہ مبالغہ نہ ہو کہ عربی کے بعد اسلامی کتب کا سب سے بڑا علمی اور تحقیقی ذخیرہ اردو زبان میں ہی ہے لیکن دینی مدارس کے روایتی نصاب سے ہمارے علماء میں عربی ،اردو اور انگریزی کا جو ذوق پید ہو رہا ہے اس کا حقیقی نقشہ ہمارے ایک بزرگ سید عماد الدین قادری نے اپنے مکتوب میں ان الفاظ میں کھینچا ہے :
’’ہمارے وارثان منبر ومحراب!! انگریزی سن کر ہی جن کی اکثریت کو غسل شرعی واجب ہو جاتاہے ،عربی اتنی ہی سیکھتے ہیں جو شاید جنت کی حوریں بولتی ہوں تو ہوں، کیونکہ منتہائے نظر وہی مقام ہے اور اسی غرض سے ہے ،اور رہی اردو،ذرا کسی دارالعلوم میں باوضو ہی سہی ،جانے کی ہمت تو کر لیجئے، اردو کا جنازہ آپ کو دارالافتاء کے باہر ہی رکھا ہوا بے کفن ملے گا۔(ماہنامہ الشریعہ ،گوجرانوالہ بابت ماہ جولائی، ص:۳۹)
محترم قادری صاحب کے الفاظ سخت ضرور ہیں لیکن حقیقت کے قریب ہیں فتوی نویسی میں ’’کیا فرماتے ہیں علماء کرام بیچ اس مسئلہ کے ‘‘جیسے فقروں کا طویل عرصہ سے مسلسل استعمال ہمارے علما کی ’’اردو دانی ‘‘کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
پیر صاحب چونکہ خود اردو زبان کے صاحب طرز ادیب تھے اور اردو زبان وادب کی اہمیت سے آگاہ تھے نیز طبقہ علماء سے تعلق رکھنے کی وجہ سے علماء کی اس کمزوری کا احساس رکھتے تھے اس پر انھوں نے اپنے مجوزہ نصاب میں اردو زبان کی تدریس کو خصوصی اہمیت دی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ علماء کے لیے انگریزی زبان میں مہارت کو انتہائی اہم سمجھتے تھے۔چنانچہ فرماتے ہیں:
’’یہ ایک حقیقت ہے کہ انگریزی زبان ایک علمی اور بین الاقوامی زبان ہے ایک عالم دین کے لیے اس پر عبور حاصل کرنا متعدد افادیتوں کا حامل ہے اس لئے ابتداء سے آخر تک اس کا سلسلہ تعلیم جاری رکھا گیا ہے ۔تاکہ طلباء نصا ب سے فراغت پانے کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی کے گریجویٹ بھی ہو جائیں‘‘۔(جمال کرم۱/۳۳۴)
گلوبلائزیشن کے موجودہ دور میں انگریزی زبا ن کی اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے آج سے نصف صدی قبل انگریزی جیسی بین الاقوامی زبان کی تعلیم کو اپنے نصاب تعلیم میں لازمی مضمون کے طور پر داخل کرنا پیر صاحبؒ کی دور اندیشی اور بصیرت کا منہ بولتاثبوت ہے۔

علوم القرآن والحدیث 

اسلام کے فکری سرچشمے دو ہیں۔ایک قرآن دوسر ا سنت ،اس لیے منطقی طورپر نظام تعلیم کی اساس بھی ا نہی کو ہونا چاہیے۔لیکن مدارس کے نظام تعلیم میں طلباء کو پہلے دیگر علوم پڑ ھا کر ان کا ایک مخصوص مزاج اور ذہنی سانچا بنا دیا جاتاہے اور پھر اس سانچے کی روشنی میں قرآن پڑھایا جاتاہے ۔قرآن کو اصل معیار اور کسوٹی بنانے کی بجائے اس کا مطالعہ فقہی مذاہب اور اقوال فقہاء کی روشنی میں کیا جاتاہے۔اس سے بڑھ کر قرآن پر اور کیا ظلم ہو گا۔حدیث کی صورت حال اس سے بھی افسوس ناک ہے،رفع یدین ،فاتحہ خلف الامام اور آمین بالجھر جیسے اولی اور خلاف اولی مسائل پر سال کا اکثر حصہ صرف کرنے کے بعد اجتماعی مسائل سے تعلق رکھنے والی احادیث کی تلاوت کے لیے ایسے طالب علم کو تلاش کیا جاتاہے ،جو روزانہ تیس ،چالیس صفحات کی تیز رفتار تلاوت پر’’ قدرت کاملہ‘‘ رکھتاہو۔اللہ کے رسول ؑ کیا فرماتے ہیں اس سے نہ استاذکوغرض ہے اور نہ طلباء کو ۔ ہمارے ممدوح حضرت پیر کرم شاہ الازہرؒ ی اس حوالے سے اپنے احساس کا تذکرہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
’’مروجہ نصاب میں علوم اسلامیہ یعنی قرآن حکیم ،حدیث اور اصول فقہ کی تعلیم سے عملی طور پر جو بے اعتنائی روا رکھی ہے وہ باعث ہزار تاسف ہے ،اس کو پورا کرنے پر پوری توجہ دی گئی ہے تاکہ ان مضامین سے طلباء کا سرسری تعارف ہی نہ ہو بلکہ ان کی گہرائیوں تک ان کی رسائی ہو ۔ان علوم میں ان کو مہارت حاصل ہو ،تاکہ ہر لحظہ تغیر پذیر حالات میں پوری ذمہ داری کے ساتھ اسلام کے ابدی حقائق کو اس طرح پیش کر سکیں کہ موجودہ ذہن انہیں قبول کرنے بلکہ عملی طورپر انہیں اپنا لینے پر مجبور ہو جائے‘‘(جمال کرم ۱/۳۳۳)
دینی مدارس میں ایک آدھ کتاب کے استثنی کے ساتھ حدیث کی تمام کتب دورہ حدیث شریف کے نام سے مخصوص آخری سال پڑھائی جاتی ہیں ۔لیکن پیر صاحب ؒ نے اپنے مجوزہ نصاب میں ابتدائی سالوں سے لے کر آخری سال تک مسلسل حدیث نبویؑ کی تعلیم وتدریس پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے ۔طلباء کی کردار سازی میں حدیث کی ضرورت واہمیت اور مقام کی وضاحت کر تے ہوئے پیر صاحبؒ رقمطراز ہیں:
’’اخلاقی تربیت کی اہمیت کے پیش نظر تیسرے سال (نو ترقیم شدہ نصا ب میں دوسرے سال)سے احادیث نبویؑ کی دل پذیر یوں اور درخشانیوں سے چشم قلب وخردروشن کرنے کے ساتھ ساتھ مکارم اخلاق کے ان زرین اصولوں سے بھی روشناس ہوں گے جو بعثت نبویؑ کا مقصد اعلی ہیں‘‘(جمال کرم ۱/۳۳۳)
چنانچہ اربعین نووی دوسرے سال، ریاض الصالحین تیسرے،مشکوۃ چوتھے ،شرح معانی الاثار چھٹے ،مو طا امام مالک ساتویں جبکہ صحیحین ،سنن ابی داود اور جامع ترمذی نویں اور آخری سال کے نصا ب میں شامل ہیں۔ اسی طرح اصول حدیث اور تاریخ حدیث پر کئی کتب مختلف سالوں کے نصاب میں شامل کی گئی ہیں۔
اسی طرح دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کے نصاب تعلیم میں قرآن مجید کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے ۔انتسویں اور تیسویں پارے کا حفظ کرنانیز تجوید کے ساتھ تلاوت قرآن کی صلاحیت ہر طالب علم کے لیے لازمی ہے۔اگر چہ تفسیر بیضاوی کے منتخب حصے مختلف سالوں میں داخل نصاب ہیں ،تاہم پورے قرآن کا ترجمہ اور معاصر تفاسیر کی روشنی میں فہم قرآن نصا ب کا لازمی حصہ ہے ۔اس کے علاوہ اصول تفسیر میں الفوز الکبیر ،الاتقان اور تاریخ قرآن جیسے موضوعات بھی نصا ب کا حصہ ہیں۔ اس مختصر جائزے سے یہ واضح ہوتاہے کہ پیر صاحبؒ نے اپنے مرتب کردہ نصاب میں قرآن وسنت کو پوری اہمیت دی ہے۔

تاریخ

اہل دانش کے نز دیک تاریخ کی مثال جھیل کے صاف اور پاک پانی جیسی ہے جس میں قومیں اپنی ماضی کا عکس دیکھتی ہیں اور پھر مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ قوموں کا تابناک ماضی ہی ان کو روشن مستقبل کے لیے تگ وتاز پر آمادہ کرتا ہے۔ اس لیے یہ بات درست ہی معلوم ہوتی ہے کہ’’ جس قوم کاکوئی ماضی نہیں اس کا کوئی مستقبل نہیں ‘‘علامہ اقبال کا نوجوانوں سے یہ مطالبہ اسی پس منظر میں تھا:
کبھی اے نوجواں مسلم !تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیاگردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹاہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالاہے آغوش محبت میں 
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِدارا
اپنے اسلاف کے کارناموں سے بے بہرہ رہ کر کوئی قوم ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتی ۔مسلمانوں کے لیے تو سیرت رسول ﷺاور سیرت صحابہؓوخلفاء راشدین سے واقف ہوئے بغیر اسلام کی عملی تعبیر وتشریح کاتصور ہی محال ہے،اور پھر پوری اسلامی تاریخ کو جس طرح روایت اور درایت کے اصول پر پرکھ کر ہر قسم کے خرافات اور قصے کہانیوں سے پاک کرکے خالص ،علمی ،تحقیقی اور عقلی بنیادوں پر مرتب کیا گیا ہے ، تحقیق وتنقید کے اس اسلوب نے اسلامی تاریخ کی قدروقیمت میں اضافہ کردیا ہے۔ علم اسماء الرجال جیسا فن تو خالصتا مسلمانوں کی ہی ایجاد ہے تاریخ میں جس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔
درس نظامی کے روایتی نصاب میں تاریخ سے جس بے اعتنائی کامظاہرہ کیا گیا ہے محترم پیر صاحبؒ نے کسی حد تک اس کا ازالہ کرنے کی سعی فرمائی ہے ۔چنانچہ ان کے رائج نصاب میں تاریخ قرآن ،تاریخ حدیث کے علاوہ سال بہ سال پوری اسلامی تاریخ کا مطالعہ شامل ہے ۔سیرت نبوی ﷺ کے تمام ادوار کا مفصل مطالعہ نصاب کا اہم حصہ ہے ۔زیر تبصرہ نصاب کی یہ ایسی خصوصیت ہے جس نے اس کو تمام وفاقوں کے نصاب سے انفرادی شان عطاکی ہے۔

ضیاء الامت کی کاوشوں کے نتائج واثرات

دارالعلوم محمدیہ غوثیہ میں جس نظام تعلیم کا تجربہ کیا گیا وہ بالکل نیا اور انفرادی توعیت کا تھا۔پروفیسر حافظ احمد بخش صاحب کا یہ دعوی بجا طور پر درست ہے :
’’یہ ایک تاریخی اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ ہی برصغیر پاک وہند میں وہ پہلا ادارہ ہے جس کے سربراہ نے سب سے پہلے قدیم اور جدید علوم کو یکجا کرکے نصاب کا ایسا حسین گلدستہ قوم کی نذر کیا جس کی مہک پھیلتے پھیلتے آفاق کی وسعتوں میں پہنچ گئی اور نہ صرف پورے پاکستان بلکہ بنگلہ دیش بلکہ یورپ کے مختلف ممالک میں بھی یہ دانش گاہ مختلف واسطوں سے اسلام کا فیضان پہنچا رہی ہے‘‘۔ (جمال کرم،۱/۳۳۸)
لیکن ابتدائی سالوں میں صورت حال قطعا قابل رشک نہ تھی نئے نظام تعلیم کی تنفیذ میں پیر صاحبؒ کو جن مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا اور پھر آپ نے ان مشکلات کا جس خندہ پیشانی ،استقامت اور مستقل مزاجی سے سامنا کیا اس کی بعض جھلکیاں ’’جمال کرم ‘‘ کی پہلی جلد میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ۔تاہم جوں جوں وقت گزرتاگیا دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کا نظام تعلیم لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتا گیا اور آج تقریبا نصف صدی بعد، جو کسی بھی علمی تحریک کے لیے زیادہ مدت نہیں ہے ،دارالعلوم محمدیہ غوثیہ ایک ایسے علمی اور فکری مرکز کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس کے ذیلی اداروں کی تعداد سو سے زائدہے جبکہ یورپی ممالک اور دوسرے ملکوں میں دارالعلوم کی ذیلی شاخوں کی حیثیت سے کام کرنے والے ادارے اس کے علاوہ ہیں۔
دارالعلوم محمدیہ غوثیہ سے فارع التحصیل فضلا کی قومی اور عالمی سطح پر دعوتی خدما ت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ پیر صاحبؒ نے جس شجر سایہ دار کی آبیاری اپنے خون جگر سے کی تھی وہ کاروان نہ تو رکا ہے اور نہ ہی فکر ی جمود کا شکار ہوا بلکہ ایک ایسی علمی تحریک کا روپ دھار چکا ہے جس کے تجربات سے استفادہ کرنا دینی مدارس کے ارباب دانش کی اہم ضرورت اور حالات کا تقاضا ہے۔ دینی اور عصر ی تعلیم کے حسین امتزاج پرمشتمل اس نصاب تعلیم ہی کا یہ ثمرہ ہے کہ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کے فضلا اس وقت ،مساجد ،مدارس ،افواج پاکستان ،سکول ،کالج،جامعات اور زندگی کے دیگر شعبوں میں اعلی عہدوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔دارالعلوم کے فضلا کی علمی فکر ی اور ملی خدمات ایک مستقل مضمون کی متقاضی ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے ۔

تجاویز و گزارشات 

دارالعلوم کے نصاب تعلیم میں وقتافوقتا ہونے والی تبدیلیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ یہ نصاب کبھی بھی جمود کا شکار نہیں ہوا اور اس کے موسس اعلی نے اپنے علمی ورثاکے لیے عملی مثال قائم کی ہے کہ وہ حالات اور ضرورتوں کے مطابق نصاب میں مناسب تبدیلیوں سے گریز نہ کریں ۔اس پس منظر میں ہم دارالعلوم کی موجودہ نصاب کمیٹی سے چند گزارشات کریں گے ۔ 
۱۔ عبا سی دور میں یونانی فلسفہ کے اثرات سے امت کو محفوظ رکھنے کے لیے مسلمان اہل علم اور متکلمین نے شاندار خدمات سر انجام دیں یہاں تک کہ یہ فتنہ فناہوگیا۔ آج پھر یونانی فلسفہ کی مانند مغربی فلسفہ و تہذیب چیلنج بن کر سامنے آئی ہے اس لیے مغربی فکر وفلسفہ کا تفصیلی تعارف اور جائزہ عصر حاضر کا اہم موضوع بن گیا ہے ۔ اس وقت اسلامی فکر کا براہ راست تصادم اور ٹکراو بھی مغربی فکروفلسفہ سے ہے اس لئے ہماری عاجزانہ رائے یہ ہے کہ معتزلہ ،جبریہ ،قدریہ اور دیگر کلامی فرقوں اور ان کے ائمہ کوکچھ وقت کے لیے معاف کر دیا جائے ۔ مناسب یہ ہوگا کہ تقابل ادیان کی طرز رپر مغربی فکر وفلسفہ کو شامل نصاب کیا جائے ،فرائیڈ ،ڈارون ،مالتھس ،آئن سٹائن ایرک فرام ،ایڈلر ،سارتر اور دیگر مغربی علماء کے افکار کا جائزہ لیا جائے کیونکہ انہی اہل علم کے نظریات مغربی تہذیب کے اصل سر چشمے ہیں ۔نوجوان نسل کومغرب کے فکر ی اثرات سے بچانے کے لیے اس میدان میں بھی دارالعلوم کے قائدانہ کردار کی ضرورت ہے۔ 
۲۔ ہمارے ہاں مدارس میں زیادہ زور فقہ اور اصول فقہ کی تدریس پر دیا جاتاہے اساتذہ کرام اپنی ساری ذہنی صلاحیتں دیگر فقہی مذاہب پر فقہ حنفی کی فوقیت ثابت کرنے میں صرف کر دیتے ہیں ،سوال یہ ہے کہ کیا فقہ شافعی یا کسی دوسری فقہ کے عالمی سطح پر غلبے کا خطرہ ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر دیگر فقہی مذاہب کی پر زور تردید بلکہ مذمت کا کیا فائدہ ہے؟۔اس سلسلے میں ہماری رائے یہ ہے کہ عصر حاضر کے تقاضوں کے پیش نظر آئمہ اربعہ کے فقہی مذاہب کے تعارفی مطالعہ کے ساتھ ساتھ اسلامی قانون (فقہ) کا ملکی اور بین الاقوامی قانون کے ساتھ تقابلی مطالعہ وقت کی اہم ضرورت ہے ،تاکہ اسلامی قانون کی آفاقیت اور ابدیت کو مدلل اندز میں پیش کیا جا سکے۔اس کے بغیر نہ فقہ کی تدریس کا حق ادا ہوسکتاہے اور نہ جدید فکری چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکتاہے ۔اس لیے مناسب یہ ہے کہ اقوام متحدہ (UNO) کے چارٹر ’’بنیادی انسانی حقوق کا عالمی منشور‘‘ کو جو اس وقت عالمی قانون کا درجہ رکھتا ہے،شامل نصاب کیا جائے اور پھر تقابلی مطالعہ کے بعد اسلامی حدو د وتعزیرات اور عائلی قوانین پر ہونے والے اعتراضات کا علمی اور تحقیقی انداز میں جواب دیا جائے ۔
۳۔اگر چہ دارالعلوم میں زیر تدریس نصاب تعلیم میں فہم قرآن مجید پر خصوصی توجہ دی گئی ہے تاہم اس پہلو پر ابھی مزید سوچ بچار کی ضرورت ہے ،بالخصوص قرآن مجید کی آیاتِ احکام خصوصی توجہ کی مستحق ہیں ۔اس لیے اگر آیاتِ احکام کو ایک خصوصی پرچے کے طور پر شامل نصاب کیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔

اردو زبان کی ضرورت و اہمیت اور دینی مدارس کے طلبہ

مولانا مفتی محمد اصغر

ملک کے معروف معیاری جرائد ورسائل میں ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں مختلف الخیال لوگوں کے آرا وافکار اورجدید افکار ونظریات رکھنے والے ارباب علم ودانش اور مفکرین کے مضامین ومقالات شائع ہوتے ہیں جس سے ان کے خیالات سے آگاہی ہوتی ہے اورغور وفکر کاموقع ملتا ہے۔ دوسروں کا نقطہ نظر سامنے آتاہے اور ان کے موقف کی کمزوری یابرتری ثابت ہوتی ہے۔ علمی دنیا میں اس کی جتنی ضرورت ہے، شاید ہی کسی صاحب علم کواس سے اختلاف ہو ۔
’’الشریعہ ‘‘میں وقتاًفوقتاًدینی مدارس کے مسائل کوزیر بحث لایاجاتاہے اور نظام تعلیم، اساتذہ اور طلبہ کی تعلیم وتربیت سے متعلق ماہرین تعلیم کی آرا پیش کی جاتی ہیں۔ گزشتہ چند شماروں میں دینی مدارس کے نظام تعلیم، اساتذہ اورطلبہ کی تعلیم و تربیت سے متعلق مسائل اور ان کے حل پر متعدد اصحاب علم ودانش کے خیالات پڑھنے کاموقع ملا اور دینی مدارس کے مسائل سے آگاہی ہوئی۔ یہ مفید سلسلہ آئندہ بھی چلتا رہنا چاہیے۔
بندہ دینی مدارس کے طلبہ کی اردودانی اور اردو زبا ن وادب میں کمزوری سے متعلق ارباب مدارس کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہے۔ دینی مدارس کے طلبہ کی ایک معتد بہ تعداد کی اردو بول چال کیسی ہے اور اردو گفتگو کااندازہ کیا ہے، اس کی ایک جھلک ذیل کے واقعات میں ملاحظہ فرمائیں:
معروف اسلامی اسکالر اورمتعددکتابوں کے مصنف ڈاکٹر قاری فیوض الرحمن صاحب سے بندہ نے یہ واقعہ خود سنا۔ فرماتے ہیں:
’’ایک دن میں شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر شیرعلی شاہ صاحب سے ملنے کے لیے ان کے پاس دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک گیا۔ حضرت اس وقت دارالحدیث میں دورۂ حدیث کے طلبہ کوسبق پڑھارہے تھے۔ جب گیٹ کراس کرکے اندر پہنچا تومیں نے ایک طالب علم سے پوچھا کہ ڈاکٹر شیرعلی شاہ صاحب کہاں ہیں؟اس طالب علم نے جواب دیا کہ ’’وہ دارالحدیث پڑھتی ہے ‘‘۔ میں حیران ہوا کہ اب اس عمر میں حضرت کو پڑھنے کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے۔ میں دارالحدیث میں پہنچا تو دیکھاکہ حضرت ،طلبہ کوبخاری شریف کاسبق پڑھارہے ہیں ۔‘‘
ایک اورواقعہ خود بند ہ کے ساتھ پیش آیا۔ دوتین سال قبل کی بات ہے کہ بندہ مغر ب کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلا توایک منتہی طالب علم (جو ماشاء اللہ اپنے رقبے کے طول وعرض کے اعتبار سے بڑے وسیع واقع ہوئے تھے) نے سلام کیا۔ بندہ نے ابھی سلام کاجواب دیاہی تھا کہ کہنے لگا: ’’استادجی !تومجھے بہت اچھی لگتی ہے‘‘۔ بندہ نے متعجبانہ اور سوالیہ انداز سے اس کی طرف دیکھا توکہنے لگا کہ ’’تونے ہم کو بہت اچھا’’ کنز‘‘ پڑھاتی تھی ‘‘یہ دوواقعے توبطور نمونہ لکھ دیے ہیں ،ورنہ دینی مدارس سے تعلق رکھنے والے احباب کواس طرح کے کلمات واحوال سے روزانہ کسی نہ کسی طرح واسطہ پڑتا رہتا ہے، ورنہ کم ازکم طلبہ سے سبق سننے کے دوران یاان سے گفتگو کے وقت توضرور موقع مل ہی جاتاہے۔ صرف کسی خاص علاقے اوروہاں کے باشندگان کی بات نہیں، بلکہ ملک کے دوسرے مختلف حصوں سے آنے والے طلبہ سے بھی اردو گفتگو کے وقت ان کی اردوزبان کی غلطیاں ایک ایک کرکے واضح ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگرلفظی اورزبان کی غلطی نہ بھی ہو، تب بھی کم از کم مادری زبان کا لب ولہجہ اردو گفتگو میں ضرور شامل ہو جاتا ہے جس سے پتہ چلتاہے کہ متکلم کی مادری زبان کیاہے اورکس علاقے کا رہنے والاہے ۔
ہمارے اکثردینی مدارس میں درس نظامی کاکورس اگرچہ اردوزبان میں پڑھایاجاتاہے،لیکن بطور زبا ن کے اردونہیں پڑھاتی ہے اورنہ اس کی طرف ارباب مدارس کی توجہ ہے۔ اس لیے فراغت کے بعد بھی ہمارے طلبہ کی اردوبول چال، تقریر اور گفتگومیں صریح غلطیاں ہوتی ہیں جواہل مدارس کے لیے شرمندگی کا باعث بنتی ہیں۔ اس وقت اردوزبان کی ضرورت واہمیت سے کوئی بھی ذی فہم انسان انکارنہیں کرسکتا۔ اس کااثرورسوخ پوری دنیا میں دن بدن پھیل رہاہے، بلکہ بہت سے علوم اردو میں منتقل ہوچکے ہیں اور کیے جارہے ہیں۔ ہماری ملکی زبان اردوہونے کے ناتے سے اور شرعی لحاظ سے بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم سب اردوزبان پرمکمل طور پر عبور حاصل کریں، اس کو ترقی دیں اور اس کو ضائع ہونے سے بچائیں۔
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ (جن کو اللہ تعالیٰ نے دین کے تقریباً تمام شعبوں کی خدمت سے نوازا تھا) انہوں نے اردوزبا ن کی شرعی حیثیت پر ایک وقیع مقالہ تحریر فرمایا تھا۔ حضرت نے دنیامیں رائج مختلف زبانوں کاشرعی لحاظ سے جائزہ لیا، ان میں سے عربی زبان کی مختلف جہات سے فوقیت وبرتریت اورفضیلت ثابت فرمائی اور واقعتاً عربی زبان مختلف حوالوں سے ہے بھی فضائل کامجموعہ۔ اس کی فضیلت ایک مسلمان کے لیے تواتنی ہی کافی ہے کہ یہ عربی زبان قرآن کی اور رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ہے اوراہل جنت کی زبان ہے۔ عربی کے بعد دوسرے درجے میں فارسی زبان ہے کیونکہ فصاحت میں فارسی عربی کے قریب ترہے اور اشرف اللغات ہے۔ عربی سے مناسبت کی وجہ سے فارسی کو فضیلت حاصل ہے، حتیٰ کہ ایک وقت میں توحضرت امام اعظم ؒ فارسی میں قراء ت کوجائز قرار دیتے تھے، اگرچہ بعدمیں رجوع فرما لیا تھا۔ اور دینی علوم کا بہت سا ذخیرہ بھی فارسی زبان میں ہے، خاص طورپر علم تصوف کااکثر وبیشتر حصہ توفارسی زبان میں ہی ہے۔ تیسرے درجے میں حضرت تھانوی ؒ نے اردو زبان کو بیان کیا ہے۔ اردوزبان کے بکثرت الفاظ عربی کے ہیں اور عربی اوراردوکے الفاظ تقریباًملتے جلتے ہیں۔
حضرت تھانوی ؒ نے اردوزبان کی تین فضیلتیں بیان کی ہیں۔
۱۔اردوکوعربی اورفارسی سے جزئیت کی مناسبت حاصل ہے ،کہ ان کے الفاظ باہم ملتے جلتے ہیں۔
۲۔علوم دینیہ بالخصوص تصوف صحیح ومقبول کاذخیرہ اردو میں ہے جس کو علما ومشائخ نے صدیوں کی محنت اورمشقت سے جمع فرمایاہے۔
۳۔ اردو کا سلیس اورآسان ہونا۔ جتنی یہ ز بان آسان ہے، شاید ہی اتنی کوئی اورزبان ہو اورقرآنی آیت ’فانما یسرنہ بلسانک لتبشربہ المتقین‘ اور ’فانما یسرنہ بلسانک لعلھم یتذکرون‘ سے بھی مشکل زبان کی بہ نسبت آسان زبان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ۔ 
خاتم المحدثین حضرت مولانا محمد انورشاہ کشمیری ؒ کے بارے میں متعدد حضرات سے سناہے کہ آپ اردوزبان کی اہمیت کے قائل نہیں تھے لیکن جب حضرت تھانوی ؒ کی تفسیر بیان القرآن دیکھی تو فرمایا کہ ہم سمجھتے تھے کہ اردوزبان شاید علوم سے خالی ہے، لیکن بیان القرآن دیکھنے سے معلو م ہواکہ اردوزبان بھی علوم کاذخیرہ ہے۔
حضرت تھانوی ؒ اردوزبان کی شرعی حیثیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اس وقت اردوزبان کی حفاظت دین کی حفاظت ہے ، اس بنا پر یہ حفاظت حسب استطاعت اورواجب ہوگی، اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت اورسستی کرنامعصیت اورموجب مواخذہ آخرت ہوگا۔‘‘ (البلاغ ،۲،۱۷)
ہمارے ہاں چونکہ اکثر مدارس میں اردوزبان بطور نصاب اور زبان کے نہیں پڑھائی جاتی جبکہ عصری تعلیم گاہوں میں اردو زبان بطور نصاب پڑھائی جاتی ہے اور اس پر خوب توجہ دی جاتی ہے، اس لیے مدارس کے طلبہ کے لیے اس میں متعد د مشکلات ہیں۔ اس کے لیے طلبہ کی خدمت میں گزارش ہے کہ جب تک اردوزبان مدارس کے نصاب میں شا مل نہیں کی جاتی، اس وقت تک اپنے طورپر اس کو سیکھنے کی کوشش کریں۔ اردو کے نامور اور معروف ادیبوں کی تحریریں پڑھیں اوراگر موقع میسر ہو توان کی اردو گفتگو کو توجہ سے سنیں اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کریں۔ اپنی بول چال اور اپنی تقریر وتحریر میں اردو الفاظ سوچ سمجھ کراستعمال کریں، پھرا ن کی خوب عملی مشق کریں۔
اردو ادب پرلکھی جانے والی اچھی کتابوں کااپنے اساتذہ کرام سے انتخاب کرا کے ان کانہ صرف مطالعہ کریں بلکہ بآواز بلند ان کی خواندگی کریں اور ایک دوسرے کو ان کی تحریر پڑھ کرسنائیں۔ بلند آواز سے پڑھتے ہوئے تلفظ کی صحت، لب و لہجہ کی عمدگی اور آوازکے اتارچڑھاؤ کا ضرور خیال رکھیں۔ ہلکے پھلکے اور زور دار جملوں کو پڑھتے وقت بھی آواز میں اتار چڑھاؤ کوظاہر کریں۔ اسی طرح الفاظ کے معانی کے ساتھ آواز کی مناسبت کابھی لحاظ کریں۔
اس مقصدکے لیے ہمیں کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل وکرم سے یہ ملکہ بھی ہمارے اکابرین کو حاصل ہے۔ ہمارے اکابر میں ایک سے بڑھ کر ایک اردو ادب پر ماہرانہ دسترس رکھنے والے موجود ہیں اور ان کی کتابیں موجود ہیں۔ بالخصوص مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا سید ا بوالحسن ندوی، مولانا محمد یوسف لدھیانوی اور موجودہ اکابر میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا زاہدالراشدی، مولانا عبدالقیوم حقانی، مولانامفتی ابو لبابہ، مولانا ابن الحسن عباسی کی کتابیں اور ان کے مضامین و مقالات کو پڑھیں۔ اس سے ان شاء اللہ اردو زبان کی درستی کے ساتھ ساتھ معلومات میں بھی اضافہ ہوگا۔ اور بھی بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔

مغرب اور اسلام کیرن آرمسٹرانگ کی نظر میں

ڈاکٹر محمد شہباز منج

نامور برطانوی اسکالر کیرن آرمسڑانگ مستشرقین کے جم غفیر میں ان چند استثنائی مثالوں میں سے ایک ہیں جو اسلام سے متعلق حقیقت پسندانہ نقطہ نظر کی حامل ہیں۔ ۲؍فروری ۲۰۰۸ء کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے انٹرویو میں انہوں نے اسلام کے بارے میں جن خیالات کااظہارکیا ہے، وہ اسلام کے حوالے سے ان کے اس مبنی برعدل واعتدال موقف کاتسلسل ہیں جس کو وہ گزشتہ کئی برس سے اپنی تصانیف میں پیش کرتی چلی آرہی ہیں۔ اپنے مذکورہ انٹرویو میں موصوفہ نے مغرب میں اسلام سے متعلق غلط تصورات کی موجودگی کا واضح لفظوں میں اعتراف کیاہے۔ اس حقیقت کومس کیرن نے اپنی کتاب Muhammad: a Western Attempt to understand Islam میں پورے تاریخی پس منظر کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہاں انہوں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ مغرب میں کس طرح ا بتدا ہی جان بوجھ کر اسلام اور پیغمبر اسلام کی مسخ شدہ تصویر پیش کی جاتی رہی ہے اور کس طرح قرطبہ کے ’’مسیحی شہیدوں‘‘ (وہ عیسائی جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی پاداش میں قرطبہ کی اسلامی عدالت کی طرف سے سزاے موت دی گئی تھی) اور قرون وسطیٰ کے داستان سراؤ ں سے لے کر عصرحاضر تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بے بنیاد الزامات واتہامات کی بوچھاڑ کی جاتی رہی ہے۔ موصوفہ کے مطابق قرو ن وسطیٰ کے وہ توہمات جن کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذباللہ) عیاش، کذاب اور تشدد پسند قرار دیا جاتا تھا، ان کے آثار آج بھی مغرب میں آسانی سے تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ آج بھی لوگ ان خیالات پر یقین رکھتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مذہب کودنیاوی کامیابیوں کے لیے استعمال کیا۔ آج بھی یہ خیال عام ہے کہ اسلام تلوار کادین ہے۔ مغرب میں آج بھی بعض لوگ یہ سن کر حیرا ن ہوتے ہیں کہ مسلمان اسی خدا کی عبادت کرتے ہیں جس کی عبادت یہودی اور عیسائی کرتے ہیں۔ مغرب میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تمثیلی حیثیت نے لوگوں کے لیے اس بات کومشکل بنادیاہے کہ وہ آپ کوایک ایسے تاریخی کردارکی شکل میں دیکھیں جو اسی طرح کے سنجیدہ سلوک کامستحق ہے جس کے مستحق نپولین اور اسکندر اعظم تھے۔ کیرن آرمسٹرانگ نے یہ حقائق برسوں قبل منظر عام پرآنے والی اپنی مذکورہ کتاب میں پیش کیے تھے، لیکن اب انہوں نے نائن الیون کے بعد کی بدلی ہوئی صورت حال میں نام نہاد War on Terror کے تناظر میں پھریہی بات دہرائی ہے کہ مغرب میں اسلام سے متعلق غلط تصورات رائج ہیں۔ 
کیرن نے سوفیصد درست کہا ہے۔ مسیحی مغر ب میں اسلام کا غلط تصور اور اسلام دشمن رویہ شروع سے آج تک ایک تسلسل کے ساتھ موجود چلا آ رہا ہے۔ آج کا مغرب اسلام دشمن رویے کو عہد رفتہ کاگڑا مردہ کہہ کر اپنی صفائی پیش کرنے میں کسی طور حق بجانب نہیں کہلا سکتا۔ کیا ۲۰۰۵ء میں ڈنمارک اور بعدازاں دیگرمغربی ممالک کے اخبارات میں سرور انبیا کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت اور پھر خاکے شائع کرنے والے ملعون صحافیوں کا اعلیٰ انعامات کے لیے منتخب کیا جانا اور ابھی کچھ ہی ماہ پیشتر یہودی ومسیحی مصنفین کی طرف سے شان رسالت ماب میں کی گئی ہزرہ سرائیوں کو لفظ بلفظ دہرانے والے ملعون سلمان رشدی کو’’سر‘‘ کا خطاب ملنا اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت نہیں کر رہا کہ مغرب میں آج بھی اسلام اور پیغمبر اسلام کی مسخ شدہ تصویر ہی کو پذیرائی ملتی ہے اور مغرب آج بھی ہراس چیز کی طرف جھپٹتاہے جس میں اسلام اور پیغمبر اسلام سے متعلق نفرت اور عداوت کا کوئی پہلو نکلتاہو؟
یہ بات تو درست مانی جا سکتی ہے کہ عام اہل مغرب کے اسلام کے بارے میں غلط تصورات، ناقص اورناکافی معلومات اور اصل اسلامی ماخذ سے عدم استفادہ کانتیجہ ہیں، لیکن یہ بات قطعاً خلاف واقعہ ہے کہ عام اہل مغرب کواسلامی معلومات فراہم کرنے والے مستشرقین بھی اکثر وبیشتر اصلی اسلامی مصادر سے بے بہرہ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مستشرقین کو بالعموم اسلام کے اصلی مصادر تک رسائی حاصل تھی لیکن بمصداق فرمان خداوندی ’’الذین آتینھم الکتاب یعرفونہ کمایعرفون ابناء ھم وان فریقا منھم لیکتمون الحق وھم یعلمون‘‘ّ (البقرہ ،۱۴۶۔ جن لوگوں ہم نے کتاب دی ہے، وہ ان (پیغمبرآخرالزمانؑ ) کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کوپہچانا کرتے ہیں، لیکن ان میں سے ایک گروہ حق کوجان بوجھ کر چھپاتاہے) انہوں نے اپنے خصوصی اسلام مخالف اہداف کے پیش نظر اسلامی تصورات کو دانستہ مسخ کرکے پیش کیا۔ مثلاً میڈرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر پلاسیوس (Placious) کی تحقیق کے مطابق اٹلی کے مشہور شاعر دانتے (۱۲۶۵ تا ۱۳۲۱ء) نے، جو صرف اٹلی کی نشاۃ ثانیہ کا جد امجد ہی نہیں، یورپ کی نشاۃ ثانیہ کاپیامبر بھی ہے، اپنی شہرۂ آفاق نظم The Divine Comedy میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث معراج، ابن عربی کی ’’فتوحات مکیہ‘‘ اور المصری کے ’’رسالہ الغفران‘‘ سے استفادہ کیاتھا، لیکن ایسے اہم اسلامی مصادر تک رسائی رکھنے والے اس مستشرق شاعر نے اپنے ’’خیالات عالیہ‘‘ میں حضور کو (نعوذباللہ) عیسائیت میں تشتت وافتراق کامجرم قرار دیا، جہنم کے آٹھویں درجے میں مثلہ کردہ زیر عتاب بتایا اور حضرت علیؓ اور حضور کے دیگر اصحاب قدسی صفات کو روتے چلاتے مبتلائے عذاب ظاہر کیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ دانتے کی بات پرانی ہے اور اس وقت اہل مغرب کواسلامی مصادر تک کماحقہ رسائی حاصل نہ تھی نیز مغربی اہل قلم صلیبی جنگوں کے تعصبات میں مبتلاتھے، بنابریں وہ اسلام سے متعلق معروضی رویہ اپنانے پر آمادہ نہ ہوسکے اور یہی وجہ ہے کہ جب معروضی تحقیق کاچلن عام ہو ا توخود مغربی اہل قلم نے اپنے پیشرووں کے غیر معروضی اور متعصبانہ رویے کو نشانہ تنقید بنایا، لیکن کیا کیجیے کہ جدید مغربی معروضیت بھی اکثر وبیشتر (استنثا ہر جگہ موجود ہوتا ہے) قدیم غیر معروضیت کی اسیر نظر آتی ہے۔ مثال کے طورپر مشہور مستشرق منٹگمری واٹ جواپنی کتاب Muhammad: Prophet and Statesman میں صلیبی تعصبات کے نتیجے میں عیسائیوں کی طرف سے اسلام پرہونے والی زیادتی پر نوحہ کناں ہیں، ان کی اپنی معروضیت اور غیر جانبداری کا اندازہ واٹ کی مذ کورہ کتاب ہی میں موجود ان کے ا س ’’تجزیے‘‘ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’اسلامی جہاد قدیم عر بوں کے ہاں مروج ڈاکہ زنی اور لوٹ کھسوٹ کے عمل کا تبدیل شدہ نام ہے۔‘‘ گویا یورپ آج بھی قدیم تعصبات میں مبتلاہے۔ نائن الیون کے موقع پر جناب بش کی زبان سے ’’فی البدیہہ‘‘ crusade کے لفظ کانکلنا عیسائی ذہن میں ہنوز صلیبی تعصبات کی موجودگی کاواضح عکاس ہے۔
اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اسلام اور عیسائیت کے پیروکاروں کے مابین ڈائیلاگ کی ضرورت سے انکاری ہیں۔ ایک مسلمان تو ڈائیلاگ سے پہلو تہی کرہی نہیں سکتا،کیونکہ اسلام ہی نے توسب سے پہلے ڈائیلاگ پر زور دیتے ہوئے کہاتھا کہ یااھل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ (آل عمران، ۶۴) ’’اے اہل کتاب! آؤ اس بات کی طرف جو ہم میں اور تم میں یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے۔‘‘ ڈائیلاگ کی یہی وہ بنیاد ہے جس کی طرف مس کیرن نے اپنے مذکورہ انٹرویو میں اشارہ کیاہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ عیسائی، مسلمان اور یہودی، سب کاخدا ایک ہے اور وہ ایک دوسرے کی الہامی کتابوں کو تسلیم کرتے ہیں توپھر ایک دوسرے کی بات کیوں نہیں سن سکتے؟ انہوں نے کہا کہ مذاہب میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ اسلام اس سلسلے میں رہنما کردار اداکرسکتاہے کیونکہ اسلام تمام دیگرمذاہب کے احترام کا درس دیتا ہے۔ 
کاش عام مستشرقین یورپ، دیگر مسیحی اہل مغرب اور یہودی بھی مس کیرن کی آواز پر کان دھرتے ہوئے اور ان کی طرح وسعت قلبی کامظاہر ہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی الہامی کتاب اور ان کے پیغمبر سے متعلق احترام کا وہی رویہ اختیار کر سکیں جو ان کی الہامی کتابوں اور پیغمبروں سے متعلق مسلمان رکھتے ہیں۔ کیایہودی اور عیسائی اس وسعت قلبی کا مظاہرہ کریں گے کہ قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کواسی طرح اپنے ایمان کاحصہ بنائیں جس طرح مسلمان تورات وانجیل اور موسیٰ وعیسیٰ علیہما السلام کے احترام کو اپنے ایمان کاحصہ سمجھتے ہیں؟ توقع اور دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ مغرب سے کیرن جیسی مزید محبت بھری آوازیں اٹھیں اور مغرب اور امریکہ کے ارباب بست وکشاد کویہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں کہ ان کا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا فلسفہ درست نہیں ہے اور انتہا پسندی اور دہشت گردی صرف اسی صورت میں ختم ہوسکتی ہے کہ محروموں کی محرومیاں ختم کی جائیں اور کمزوروں پر ظلم بند کر دیا جائے۔ مس کیرن آرمسٹران! خوف و وحشت اور قتل وخونریزی کی آگ میں بھسم انسانیت آج آپ جیسے محبت کے سفیروں ہی کی راہ تک رہی ہے۔

زنا کی سزا (۱)

محمد عمار خان ناصر

(مصنف کی زیر ترتیب کتاب ’’حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ کا ایک باب۔)

قرآن مجید میں زنا کی سزا دو مقامات پر بیان ہوئی ہے اور دونوں مقامات بعض اہم سوالات کے حوالے سے تفسیر وحدیث اور فقہ کی معرکہ آرا بحثوں کا موضوع ہیں۔ 
پہلا مقام سورۂ نساء میں ہے۔ ارشاد ہوا ہے:
وَاللاَّتِیْ یَأْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِکُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْْہِنَّ أَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ فَإِنْ شَہِدُوْا فَأَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفَّاہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً ۔ وَاللَّذَانِ یَأْتِیَانِہَا مِنْکُمْ فَآذُوْہُمَا فَإِنْ تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوْا عَنْہُمَا إِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّاباً رَّحِیْماً (النساء ۴:۱۵، ۱۶)
’’اور تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کرتی ہوں، ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو۔ پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ایسی عورتوں کو گھروں میں محبوس کر دو، یہاں تک کہ انھیں موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور راستہ بیان کر دیں۔ اور تم میں سے جو مرد وعورت بدکاری کا ارتکاب کرتے ہوں، انھیں اذیت دو۔ پھر اگر وہ توبہ اور اصلاح کر لیں تو ان سے درگزر کرو۔ بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔‘‘
ان میں سے پہلی آیت، جس میں خواتین کے لیے بدکاری کی ایک عبوری سزا بیان کی گئی ہے، اپنے مدعا کے لحاظ سے واضح ہے، البتہ دوسری آیت میں ’واللذان یاتیانہا‘ کا مصداق متعین کرنے کے حوالے سے مفسرین کو الجھن کا سامنا ہے، کیونکہ عربی زبان کی رو سے تثنیہ کا صیغہ دو مردوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور مرد وعورت کے لیے بھی۔ مفسرین کے ایک بڑے گروہ کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد زانی مرد اور عورت ہیں اور پہلی آیت میں گھروں میں محبوس کرنے کی سزا بیان کرنے کے بعد ، جو خواتین کے ساتھ مخصوص ہے، دوسری آیت میں وہ سزا بیان کی گئی ہے جو مرد اور عورت، دونوں کو مشترک طور پر دی جائے گی۔ تاہم آیت اس توجیہ کو قبول نہیں کرتی، اس لیے کہ یہاں ’واللاتی یاتین الفاحشۃ‘ اور اس کے بعد ’واللذان یاتیانہا‘ کا اسلوب اپنے متبادر مفہوم کے لحاظ سے اس کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کو تکرار کے بجائے استیناف پر محمول کیا جائے اور دوسری آیت کو بدکاری کی کسی مختلف صورت سے متعلق مانا جائے۔ اس کو مزید تقویت اس سے ملتی ہے کہ دونوں آیتوں میں بیان کی جانے والی سزا کی نوعیت بھی ایک دوسرے سے مختلف بلکہ معارض ہے، چنانچہ پہلی آیت میں توبہ واصلاح کے امکان کا ذکر کیے بغیر حتمی طور پر خواتین کو گھروں میں محبوس کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاآنکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی دوسرا حکم آ جائے، جبکہ دوسری آیت میں توبہ واصلاح کے امکان کو آزمانے کی ہدایت کی گئی اور اس کے تحقق کی صورت میں زانی مرد اور عورت سے درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ 
دوسری رائے یہ ہے کہ ’واللاتی یاتین الفاحشۃ من نسائکم‘ میں شادی شدہ خواتین کی سزا بیان ہوئی ہے جبکہ ’واللذان یاتیانہا‘ میں کنوارے زانی اور زانیہ کی۔ اس پر ایک اشکال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’نساء‘ کا لفظ اپنے اصل مفہوم کے لحاظ سے ہر طرح کی خواتین کے لیے عام ہے۔ اسے شادی شدہ خواتین کے ساتھ خاص قرار دینے کے لیے سیاق کلام میں کوئی قرینہ درکار ہے جو یہاں موجود نہیں۔ قرآن مجید میں جن دوسرے مقامات پر، مثال کے طور پر ’للذین یولون من نسائہم‘ (البقرہ ۲۲۶) اور ’الذین یظاہرون منکم من نسائہم‘ (المجادلۃ ۲) میں یہ لفظ ’’بیویوں‘‘ کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے، وہاں سیاق میں واضح قرائن موجود ہیں۔ دوسرا اشکال یہ ہے کہ یہاں ’نساء‘ کو بیویوں کے معنی میں لینے کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کا مضاف الیہ بننے والی ضمیر خطاب یعنی ’کم‘ کا مصداق ان خواتین کے شوہر ہوں، اس لیے کہ ’نساء‘ کے لفظ میں بیویوں کا مفہوم شوہروں کی طرف اضافت ہی سے پیدا ہوسکتا ہے، ورنہ اگر ’کم‘ کا مصداق بحیثیت مجموعی پورے معاشرے کو مانا جائے ہو تو ’نساء‘ کا مطلب بیویاں نہیں ہو سکتا۔ اس تاویل کو ماننے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یہاں خواتین کو سزا دینے کے حکم کے مخاطب مسلمانوں کے اہل حل عقد نہیں بلکہ انفرادی حیثیت میں ان خواتین کے شوہر قرار پائیں گے، جبکہ ’فاستشہدوا علیہن اربعۃ منکم‘ کی ہدایت اس حکم کو اندرون خانہ اختیار کی جانے والی ایک تدبیر قرار دینے میں مانع ہے، اور اسے صریحاً نظم اجتماعی اور عدالت وقضا سے متعلق کر رہی ہے۔ مذکورہ تاویل پر ایک اور اشکال یہ بھی سامنے آتا ہے کہ اگر کنوارے زانی کی سزا بیان کرتے ہوئے مرد اور عورت، دونوں کا ذکر کیا گیا ہے تو پہلی آیت میں صرف شادی شدہ خواتین کیوں زیربحث ہیں اور شادی شدہ مردوں کی سزا کیوں بیان نہیں کی گئی؟ 
ایک رائے یہ ہے کہ پہلی آیت میں وہ صورت زیر بحث ہے جب بدکاری کے فعل پر چار گواہ میسر ہوں، جبکہ دوسری آیت میں اس صورت کا حکم بیان ہوا ہے جب چار گواہ موجود نہ ہوں۔ یہ بھی ایک غیر متبادر اور الفاظ سے بعید تاویل ہے، اس لیے کہ اگر یہ مقصود ہوتا تو ’فان شہدوا فامسکوہن فی البیوت‘ کے تقابل میں ’وان لم یشہدوا فآذوہما‘ یا ’وان لم یکونوا فآذوہما‘ سے ملتا جلتا کوئی اسلوب اختیار کیا جاتا جو مدعا کے ابلاغ کے پہلو سے زیادہ واضح اور صریح ہوتا۔ موجودہ صورت میں متبادر مفہوم یہ ہے کہ چار گواہوں کی شرط دوسری آیت میں بھی مقدر سمجھی جائے جسے اقتضاے عقلی کے اصول پر واضح ہونے کی بنیاد پر لفظوں میں ذکر نہیں کیا گیا۔ مزید برآں یہ اشکال اس تاویل میں بھی برقرار رہتا ہے کہ پہلی آیت میں خواتین ہی خاص طور پر کیوں زیربحث ہیں اور مردوں کی سزا بیان کرنے سے کیوں گریز کیا گیا ہے؟
ایک اور رائے یہ ہے کہ پہلی آیت صرف زانی خواتین کی سزا بیان کرتی ہے، جبکہ دوسری آیت صرف مرد زانیوں کی اور یہاں تثنیہ کا صیغہ لانے سے مقصود اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ زانی چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، اس کے لیے ایک ہی سزا ہے۔ لیکن اس پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ کسی قرینے کے بغیر مجرم کی ازدواجی زندگی کی دو مختلف حالتوں پر تثنیہ کے صیغے کی دلالت غیر واضح ہے۔ مزید یہ کہ اگر مطلقاً ہر طرح کے زانی کے لیے ایک ہی سزا کی طرف اشارہ پیش نظر ہوتا تو اس کے لیے تثنیہ کا صیغہ لانے کی ضرورت ہی نہیں تھی اور اس کے بجائے ’والذی یاتیہا‘ یا ’والذین یاتونہا‘ کا معروف اسلوب ہی کافی تھا، جیسا کہ پہلی آیت میں ’واللاتی یاتین‘ کا اسلوب ہر طرح کی زانی عورتوں پر دلالت کرنے کے لیے کافی ہے۔ جب مقصد دونوں آیتوں میں ایک ہی ہے تو دوسری آیت میں پہلی سے مختلف اسلوب اختیار کرنے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
بعض مفسرین اس آیت کو زنا سے نہیں بلکہ ہم جنس پرستی سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ ان کی رائے میں ’واللاتی یاتین الفاحشۃ‘ میں خواتین کی جبکہ ’والذان یاتیانہا‘ میں مردوں کی ہم جنس پرستی کی سزا بیان کی گئی ہے۔ تاہم یہ رائے بھی کئی پہلووں سے محل نظر ہے:
اولاً، ’فاحشۃ‘ کا لفظ اگرچہ اپنے لغوی مفہوم کے لحاظ سے زنا، لواطت اور خواتین کی ہم جنس پرستی، سب کے لیے بولا جا سکتا ہے، لیکن کسی زبان کے عرف میں الفاظ کا استعمال ان میں ایک نوع کی تخصیص پیدا کر دیتا ہے اور جب وہ لفظ بولا جائے تو اس کا وہی متبادر مفہوم مراد ہوتا ہے جس میں وہ بالعموم استعمال ہوتا ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف کوئی قرینہ پایا جائے۔ ’فاحشۃ‘ کا لفظ اور خاص طور پر ’اتی الفاحشۃ‘ کی ترکیب بھی عربی زبان میں زنا کے لیے معروف ہے، اس لیے جب تک کوئی قرینہ نہ پایا جائے، اس کا کوئی دوسرا مفہوم مراد نہیں لیا جا سکتا۔ چنانچہ ’الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ‘ (نساء، ۱۹) اور ’من یات منکن بفاحشۃ مبینۃ‘ (الاحزاب، ۳۰) میں یہ تعبیر زنا ہی کے لیے استعمال ہوئی ہے، کیونکہ اس کے برخلاف کوئی قرینہ موجود نہیں۔ البتہ اعراف ۷۹ اور نمل ۵۳ میں یہی ترکیب لواطت کے مفہوم میں استعمال ہوئی ہے اور دونوں جگہ ’ما سبقکم بہا من احد من العالمین‘ اور ’انکم لتاتون الرجال‘ کا واضح قرینہ موجود ہے۔ 
اگر ’الفاحشۃ‘ کا مصداق زنا ہے تو پھر ’والذان یاتیانہا‘ کو بھی لازماً زنا ہی سے متعلق ماننا ہوگا، کیونکہ ’یاتیانہا‘ میں ضمیر منصوب پچھلی آیت میں مذکور اسی ’الفاحشۃ‘ کی طرف لوٹ رہی ہے، چنانچہ اس کا مفہوم بھی زنا کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ اگر قرآن کا مدعا ’واللاتی یاتین الفاحشۃ‘ سے زنا کی جبکہ ’والذان یاتیانہا‘ سے بدکاری کی کسی دوسری صورت کی سزا بیان کرنا ہوتا تو لازم تھا کہ اس کے لیے کوئی زائد قرینہ کلام، مثال کے طور پر ’والذان یاتیانہا من رجالکم فاذوہما‘ کلام میں رکھا جاتا۔ اس اضافی قرینے کے بغیر ’یاتیانہا‘ میں مذکور بدکاری کو ’یاتین الفاحشۃ‘ میں ذکر ہونے والی بدکاری سے کسی طرح الگ نہیں کیا جا سکتا۔
ثانیاً، ’والذان یاتیانہا‘ کی تعبیر عربیت کی رو سے لواطت کے لیے کسی طرح موزوں نہیں، اس لیے کہ اس میں فعل کی نسبت فریقین کی طرف کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ زنا کے ارتکاب کی نسبت تو مرد اور عورت، دونوں کی طرف کی جا سکتی ہے، لیکن لواطت میں ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ قرآن مجید میں قوم لوط کا جرم جہاں بھی بیان کیا گیا ہے، وہاں ’تاتون الرجال‘ کی تعبیر استعمال ہوئی ہے جس میں فعل کی نسبت ایک ہی فریق کی طرف کی گئی ہے۔ 
ثالثاً، جرم اور سزا کے مابین مناسبت بھی یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس ہدایت کو زنا سے متعلق مانا جائے۔ اگر اس تدبیر سے مقصود ہم جنسی پرستی کا سدباب تھا تو یہ کہنا چاہیے تھا کہ ایسی خواتین کو باہمی میل ملاقات سے روک دیا جائے، جبکہ ’امسکوہن فی البیوت‘ کی تعبیر انھیں علی الاطلاق گھروں میں محبوس کر دینے کو بیان کرتی ہے اور یہ بات ہم جنس پرستی کے بجائے زنا کے سدباب کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ مزید برآں قرآن مجید نے اس جرم کے اثبات کے لیے چار گواہ طلب کرنے کی بات کی ہے جس سے واضح ہے کہ وہ اس معاملے کو عدالت سے متعلق قرار دے رہا ہے، جبکہ خواتین کی ہم جنس پرستی کے سدباب کے لیے اس اہتمام کی ضرورت نہیں۔ اگر دو خواتین اس عادت میں مبتلا ہیں تو انھیں عدالت میں پیش کرنے اور باقاعدہ مقدمہ چلانے کی ضرورت نہیں، بلکہ ان کے اہل خانہ کو یہ ہدایت دینا کافی ہے کہ وہ ان کے باہمی میل جول کو روک دیں۔
رابعاً، قرآن مجید نے یہاں ’حتی یجعل اللہ لہن سبیلا‘ سے واضح کیا ہے کہ یہ ایک عبوری سزا ہے۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی نقل کردہ روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد جب زنا کی حتمی سزا بیان کی تو اسی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ’خذوا عنی خذوا عنی قد جعل اللہ لہن سبیلا‘۔ آپ کے اس ارشاد سے بھی واضح ہے کہ زیر بحث آیت میں زنا ہی زیر بحث ہے۔
خامساً، اس رائے پر مولانا مودودی کا یہ تبصرہ بھی بالکل برمحل ہے کہ ’’قرآن انسانی زندگی کے لیے قانون واخلاق کی شاہراہ بناتا ہے اور انھی مسائل سے بحث کرتا ہے جو شاہراہ پرپیش آتے ہیں۔ رہیں گلیاں اور پگڈنڈیاں تو ان کی طرف توجہ کرنا اور ان پر پیش آنے والے ضمنی مسائل سے بحث کرنا کلام شاہانہ کے لیے ہرگز موزوں نہیں ہے۔ ایسی چیزوں کو اس نے اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عہد نبوت کے بعد جب یہ سوال پیدا ہوا کہ مرد اور مرد کے ناجائز تعلق پر کیا سزا دی جائے تو صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی یہ نہ سمجھا کہ سورۂ نساء کی اس آیت میں اس کا حکم موجود ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن، ۱/۳۳۲، ۳۳۳)
مذکورہ تمام توجیہات اور ان پر وارد ہونے والے اشکالات کے تناظر میں قاضی ابن العربی نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ ’ہذہ معضلۃ فی الآیات لم اجد من یعرفہا‘ (احکام القرآن، ۱/۴۵۷) یعنی یہ ایک بے حد مشکل آیت ہے اور مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو اس کا مطلب جانتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے حوالے سے مختلف تفسیری امکانات کا جائزہ لینے کا سلسلہ ختم نہیں ہوا اور متاخرین کے ہاں بھی اس ضمن میں بعض نئی آرا سامنے آئی ہیں۔
صاحب ’’تدبر قرآن‘‘ مولانا امین احسن اصلاحی نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ نساء کی مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت اس صورت کو بیان کرتی ہے جب زنا کی مرتکب عورت کا تعلق مسلمانوں سے جبکہ مرد کا تعلق کسی غیر مسلم گروہ سے ہو، جبکہ دوسری آیت میں وہ صورت زیر بحث ہے جب دونوں مسلمان اور اسلامی ریاست کے قانونی دائرۂ اختیار میں رہتے ہوں۔ دوسری صورت میں مرتکبین کو توبہ واصلاح کا موقع دینے جبکہ پہلی صورت میں خواتین کو اس طرح کا کوئی موقع دیے بغیر تامرگ محبوس کر دینے کی وجہ مولاناکی رائے میںیہ تھی کہ ’’دوسری صورت میں تو دونوں فریق اسلامی معاشرے کے دباؤ میں ہیں، ان کے رویے میں جو تبدیلی ہوگی وہ سب کے سامنے ہوگی۔ نیز ان کے اثرات اور وسائل معلوم ومعین ہیں، ان کے لیے بہرحال اپنے خاندان اور قبیلے سے بے نیاز ہو کر کوئی اقدام ناممکن نہیں تو نہایت دشوار ہوگا۔ لیکن پہلی صورت میں مرد، جو اصل جرم میں شریک غالب کی حیثیت رکھتا ہے، مسلمانوں کے معاشرہ کے دباؤ سے بالکل آزاد ہے۔ نہ اس کے رویے کا کچھ پتہ، نہ اس کے عزائم کا کچھ اندازہ، نہ اس کے اثرات ووسائل کے حدود معلوم ومعین۔ ایسی حالت میں اگر عورت کو یہ موقع دے دیا جاتا کہ توبہ کے بعد اس سے درگزر کی جائے تو یہ بات نہایت خطرناک نتائج پیدا کر سکتی تھی۔ اول تو مرد کے رویہ کو نظر انداز کر کے عورت کی توبہ واصلاح کا صحیح اندازہ ہی ممکن نہیں ہے اور ہو بھی تو جب مرد بالکل قابو سے باہر اور مطلق العنان ہے تو اغوا، فرار اور قتل وخون کے امکانات کسی حال میں بھی نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ اس پہلو سے اس میں احتیاط کی شدت ملحوظ ہے۔‘‘ (تدبر قرآن، ۲/۲۶۵)
مولانا اصلاحی کی اس رائے پر ایک بڑا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زنا کے واقعات میں جتنا امکان خاتون کے مسلمان جبکہ مرد کے غیر مسلم ہونے کا پایا جاتا تھا، اتنا ہی اس کے برعکس صورت کے پائے جانے کا بھی موجود تھا، لیکن قرآن مجید نے اس کو سرے سے موضوع ہی نہیں بنایا۔ مولانا کی رائے کے مطابق قرآن مجید نے دوسری آیت میں زانی مرد وعورت کو اذیت دینے اور انھیں توبہ واصلاح پر آمادہ کرنے کی جو ہدایت دی ہے، اس کاموثر ہونا اس امرپر منحصر تھا کہ دونوں مسلمان معاشرے کے افراد ہوں، جبکہ مرد کے کسی غیر مسلم گروہ کا فرد ہونے کی صورت میں اس تدبیر کاموثر ہونا مخدوش تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اگر مسلمانوں کے لیے اپنی خواتین کو توبہ واصلاح کا موقع دینا ممکن نہیں تھا اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ انھیں گھروں میں محبوس کر دیا جائے تو ظاہر ہے کہ مردوں کے معاملے میں توبہ واصلاح کے امکان کو آزمانے کا خطرہ مول لینا بدرجہ اولیٰ ممکن نہیں تھا۔ یہ صورت زیادہ اعتنا کی مستحق تھی اور تقاضا کرتی تھی کہ زانی مرد کے مسلمان جبکہ عورت کے غیر مسلم ہونے کی صورت میں بھی متعین ہدایات دی جاتیں اور بتایا جاتا کہ ایسے مرد کو زنا سے روکنے کے لیے اس پر کس طرح کی قدغنیں عائد کی جائیں۔ تاہم قرآن نے ایسا نہیں کیا جس کی کوئی وجہ، مولانا اصلاحی کی بیان کردہ صورت واقعہ کے لحاظ سے، سمجھ میں نہیں آتی۔
مولانا نے جو صورت واقعہ فرض کی ہے، وہ بھی حقیقت سے دور دکھائی دیتی ہے۔ اول تو سب کے سب غیر مسلم گروہ ایسے نہیں تھے جو ریاست مدینہ کے دائرۂ اختیار سے باہر ہوں، کیونکہ یہود کے بیشتر قبائل کا مسلمانوں کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ تھا اور ان میں سے بعض قبائل مدینہ کے حدود میں آباد تھے۔ چنانچہ خواتین کو محبوس کر دینے کی تدبیر کا محرک اگر وہی ہوتا جو مولانا اصلاحی نے بیان کیا ہے تو دونوں طرح کے گروہوں میں فرق کیا جانا ضروری تھا، جبکہ قرآن مجید کا بیان بالکل مطلق ہے۔ جہاں تک یہود کے علاوہ مدینہ کے اطراف میں آباد غیر مسلم قبائل کا تعلق ہے تو ان کے مردوں کا مدینہ کی خواتین کے ساتھ اس نوعیت کا کوئی پائیدار تعلق قائم کرنے کا امکان قبائلی معاشرت میں بہت کم تھا۔ یاری آشنائی کا تعلق بالعموم ایک ہی علاقے میں رہنے اور آپس میں عمومی میل جول رکھنے والے مردوں اور عورتوں کے مابین استوار ہوتا ہے ، جبکہ الگ الگ قبیلوں اور مقامات سکونت (localities) سے تعلق رکھنے والے افراد میں ایسا نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو اس طرح کے واقعات کی تعداد اتنی نہیں ہو سکتی کہ اسے باقاعدہ قانون کا موضوع بنانا پڑے۔ بالفرض ریاست مدینہ کے دائرۂ اختیار سے باہر کسی مجرم کے خلاف کوئی اقدام کرنا مشکل ہوتا تو بھی خود مدینہ کے حدود کے اندر بے بسی کی ایسی کوئی فضا موجود نہیں تھی کہ ایسے مجرموں کی آمد ورفت اور آزادانہ نقل وحرکت پر کوئی قدغن عائد نہ کی جا سکتی۔ عورت کے لیے توبہ واصلاح کے امکان یا اس کے رویے میں تبدیلی کا اندازہ کرنے میں مرد کے غیر مسلم ہونے کو مانع قرار دینا بھی قابل فہم نہیں، کیونکہ خاتون کا تعلق بہرحال مسلمانوں ہی کے گروہ سے تھا اور قبائلی معاشرت میں نہ تو ایسے آزادانہ مواقع اور امکانات ہوتے ہیں اور نہ افراد، بالخصوص خواتین کو اتنی آزادی حاصل ہوتی ہے کہ معاشرہ ان کی نگرانی اور محاسبہ سے عاجز ہو جائے۔ 
جناب جاوید احمد غامدی نے اس آیت کی تاویل یہ بیان کی ہے کہ یہ زنا کے ان مجرموں سے متعلق نہیں جو کسی وقت جذبات کے غلبے میں زنا کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں، بلکہ دراصل زنا کو ایک عادت اور معمول کے طورپر اختیار کرنے والے مجرموں سے متعلق ہے۔ یہ مجرم دو طرح کے تھے: ایک وہ پیشہ ور بدکار عورتیں جن کے لیے زنا شب وروز کا شغل تھا، اور دوسرے وہ مرد وعورت جن کا ناجائز تعلق یاری آشنائی کی صورت میں روز مرہ کے معمول کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ ان کی رائے میں قرآن مجید نے دوسرے مقامات پر ان میں سے پہلی صورت کو ’مسافحین‘ اور ’مسافحات‘ جبکہ دوسری صورت کو ’متخذی اخدان‘ اور ’متخذات اخدان‘ کے الفاظ سے بیان کیا ہے۔ (برہان، ۱۲۵، ۱۲۶)
ہماری رائے میں آیت کی یہ تاویل درپیش الجھن کو بظاہر حل کر دیتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ ’واللاتی یاتین الفاحشۃ‘ اور ’واللذان یاتیانہا‘ میں اسم موصول کا صلہ فعل مضارع کی صورت میں لانے کا جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے، وہ عربی زبان میں کسی فعل کے نفس وقوع کے بیان کے لیے بھی آ سکتا ہے اور کسی عادت اور معمول کو بیان کرنے کے لیے بھی، چنانچہ ’واللاتی یاتین الفاحشۃ‘ کا ترجمہ ’’وہ عورتیں جو بدکاری کی مرتکب ہوں‘‘ بھی ہو سکتا ہے اور ’’وہ عورتیں جو بدکاری کیا کرتی ہیں‘‘ بھی۔ سابق مفسرین نے اس کو پہلے مفہوم پر محمول کرتے ہوئے آیت کی تاویل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس ضمن میں جتنی مختلف تاویلیں ممکن تھیں، ان سب کی نشان دہی کی ہے لیکن، جیسا کہ ہم تفصیل سے واضح کر چکے ہیں، ان میں سے ہر تاویل پر وزنی اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ مولانااصلاحی نے اگرچہ دوسرے معنی کو اختیار کیا ہے، تاہم انھوں نے دونوں آیتوں میں جو فرق متعین کیا ہے، وہ تشفی بخش نہیں۔ ان تمام آرا کے مقابلے میں غامدی صاحب کی تاویل دو پہلووں سے قرین قیاس لگتی ہے:
ایک یہ کہ ان آیات میں زنا کے عادی مجرموں کا زیر بحث ہونا خود آیات کے داخلی قرائن سے بھی واضح ہوتا ہے، چنانچہ دوسری آیت میں زنا کے مرتکب مرد وعورت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگر وہ توبہ واصلاح کر لیں تو ان سے درگزر کیا جائے، جس سے واضح ہے کہ ان دونوں کے مابین یاری آشنائی کا تعلق تھا، ورنہ اگر یہ کسی اتفاقی صورت کا ذکر ہوتا تو انھیں سزا دینے کے بعد ان کی مزید نگرانی کرنے اور توبہ واصلاح کی صورت میں درگزر کی ہدایت کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اسی طرح ان آیات کے ساتھ متصل اگلی آیات بھی، جن میں قرآن مجید نے وقتی جذبات کے تحت گناہ کے مرتکب ہونے والوں اور اسے ایک عادت بنا لینے والوں کے مابین فرق کو واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ کسی گناہ کو معمول بنا لینے والوں کے لیے توبہ کی قبولیت کا امکان کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے، اسی بات کو واضح کرتی ہیں۔ ارشاد ہوا ہے:
وَاللَّذَانِ یَأْتِیَانِہَا مِنْکُمْ فَآذُوْہُمَا فَإِنْ تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوْا عَنْہُمَا إِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّاباً رَّحِیْماً ۔ إِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَأُولٰءِکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْْہِمْ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْماً حَکِیْماً ۔ وَلَیْْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّءَاتِ حَتّٰی إِذَا حَضَرَ أَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّیْ تُبْتُ الآنَ وَلاَ الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَہُمْ کُفَّارٌ أُولٰءِکَ أَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَاباً أَلِیْماً (النساء ۴: ۱۶-۱۸)
’’اور تم میں سے جو مرد وعورت بدکاری کا ارتکاب کرتے ہوں، انھیں اذیت دو۔ پھر اگر وہ توبہ اور اصلاح کر لیں تو ان سے درگزر کرو۔ بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔ اللہ پر انھی لوگوں کی توبہ قبول کرنا لازم ہے جو جذبات میں بہہ کر کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں اور پھر جلد ہی توبہ کر لیتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کی توبہ کو اللہ قبول کر لیتا ہے اور اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے۔ ان لوگوں کے لیے توبہ کا کوئی موقع نہیں جو برابر برائیاں کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں۔ اسی طرح ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر کی حالت میں مر جاتے ہیں۔ ان کے لیے ہم نے ایک دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
یہ آیات اس بات کا ایک مضبوط قرینہ ہیں کہ اوپر کی آیتوں میں زنا کو عادت بنا لینے والی خواتین اور جوڑے ہی زیر بحث ہیں۔ 
دوسرے یہ کہ اس رائے میں جرم کی جن دو صورتوں کو متعین کیا گیا ہے، ان کا عرب معاشرت میں پایا جانا مسلم ہے، ان کی سزا کو قانون کا موضوع بنانا بھی قابل فہم ہے اور اس سے دونوں صورتوں میں تجویز کی جانے والی الگ الگ سزاؤں کی وجہ اور حکمت بھی واضح ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ’واللاتی یاتین الفاحشۃ‘ میں صرف خواتین کی سزا کو موضوع بنانے کی وجہ یہ ہے کہ پیشہ ورانہ بدکاری میں بنیادی کردار خواتین ہی کا ہوتا ہے اور جرم کے سدباب کے لیے اصلاً انھی کی سرگرمیوں پر پہرہ بٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مرد وعورت میں یاری آشنائی کے تعلق کی صورت میں دونوں جرم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں اور دونوں ہی کی تادیب وتنبیہ کو قانون کا موضوع بنانا پڑتا ہے۔
مزید برآں، جہاں تک ہم غور کر سکے ہیں، آیت کے الفاظ اور سیاق وسباق میں کوئی چیز اس تاویل کو قبول کرنے میں مانع نہیں، اس لیے جب تک کوئی قابل غور اعتراض سامنے نہ آئے، یہ کہنا ممکن دکھائی دیتا ہے کہ اس تاویل کی روشنی میں آیت کی مشکل بظاہر قابل اطمینان طریقے سے حل ہو جاتی ہے۔
(باقی)

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب 
السلام علیکم امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ 
جنوری ۲۰۰۸ ء کے الشریعۃ کے ’’کلمۂ حق ‘‘ کے مندرجات سے عمومی اتفاق کے باوجود حسبہ بل کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں پر تنقید بری طرح کھٹکی ۔ ملک اس وقت جس سیاسی اور قانونی بحران سے گزر رہا ہے اس میں دینی جماعتوں ، بالخصوص جمعیت علمائے اسلام ( ف) ، کا کردار چنداں تسلی بخش نہیں ہے ۔ الیکشن میں لوگوں کی جانب سے جو response سامنے آرہا ہے، اس کی وجہ سے دینی سیاسی لیڈرشپ کو بھی اب احساس ہوچکا ہے کہ ان کے اپنے حلقوں میں ان کی مقبولیت کا گراف کس حد تک گر چکا ہے۔ اس لیے اب اپنی غلطیوں کا ملبہ دوسروں پر گرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر الزامات کی بوچھاڑ اسی سلسلے کا ایک حصہ ہے ۔ چنانچہ ان کے قد کو گھٹانے کے لیے پہلے یہ شوشہ یہ چھوڑا گیا کہ انہوں نے بھی تو پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا ۔ حالانکہ ۲۰۰۰ ء کے پی سی او اور ۲۰۰۷ ء کے پی سی او میں فرق سے معمولی قانونی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی واقف ہے۔ باقی باتیں ایک طرف ، ۲۰۰۰ ء کے پی سی او اور اس کے بعد ۲۰۰۲ ء کے ایل ایف او کو تو خود متحدہ مجلس عمل کی آشیر باد سے سترھویں آئینی ترمیم کے ذریعے سند جواز عطا کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جب لوگوں کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا تو اس موقف کو ذرا تبدیل کرکے کہا گیا کہ ججوں کی بحالی کے بجائے عدلیہ کی آزادی کا اصولی موقف اپنایا جائے۔ ہمارے یہ رہنما ، جو اپنی ’’عملیت پسندی ‘‘ کے لیے بہت مشہور ہیں ، کیا اس بات کا جواب دے سکیں گے کہ معزول ججوں کی بحالی کے بغیر آزاد عدلیہ کیا معنی رکھتی ہے ؟ اس کمزور موقف کے دفاع میں جو تاویلات تراشی گئیں، ان میں ایک یہ ہے کہ جسٹس افتخار نے حسبہ بل کے خلاف فیصلہ دے کر شریعت کے نفاذ کی راہ میں روڑے اٹکائے، بلکہ صوبہ سرحد کے سابق وزیر اعلی اکرم خان درانی انتخابی جلسوں میں لوگوں یہاں تک کہتے رہے ہیں کہ افتخار چوہدری کو اس بات کی سزا مل رہی ہے کہ انہوں نے حسبہ بل کے خلاف فیصلہ دیا تھا اور اور دینی مدارس کی اسناد کے بی اے کے برابر ہونے کے خلاف فیصلہ دینے والے تھے ! اس سے کچھ اندازہ ہوجاتا ہے کہ آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے جسٹس افتخار محمد چوہدری کو کن کن محاذوں پر لڑنا پڑا ہے ۔ کیا واقعی جسٹس افتخار اور ان کے ساتھیوں کو سزا مل رہی ہے ؟ انہیں اللہ تعالیٰ نے جو عزت بخشی اور جو کامیابی عطا کی، اس کا اندازہ وہ لوگ نہیں لگا سکتے جو اقتدار کی کرسی سے چمٹے رہنے کی خاطر ہر اصول کو قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں ۔ 
؂ ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں ! 
یہاں تفصیل کا موقع نہیں ہے، اس لیے میں صوبہ سرحد میں ’’ نفاذ شریعت ‘‘کے سلسلے میں کی جانے والی دو اہم کوششوں کا مختصر جائزہ پیش کروں گا۔ ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں صوبہ سرحد کے عوام نے متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں کو بھاری اکثریت سے اس لیے کامیاب کیا تھاکہ وہ صوبے میں شریعت کا نفاذ چاہتے تھے اورپچھلی حکومتوں نے اس سلسلے میں عوام کو مایوس کیا تھا۔ تاہم صوبہ سرحد میں واضح اکثریت حاصل ہونے کے باوجود شریعت کے نفاذ کے سلسلے میں کوئی خاطرخواہ پیش رفت نہیں ہو سکی ۔ جون ۲۰۰۳ء میں ’’شرعی قانون ایکٹ ‘‘ (جسے عام طور پر شریعت ایکٹ کہا جاتا ہے ) پاس کیا گیا۔ تاہم درحقیقت یہ اس قانون کا ناقص چربہ تھا جسے نوازشریف حکومت نے ۱۹۹۱ء میں پارلیمنٹ سے پاس کرایاتھا۔ چربہ اس وجہ سے کہ اس قانون میں نواز شریف کے دور کے قانون کی ۲۱ دفعات من و عن نقل کی گئی تھیں اور ناقص اس وجہ سے کہ اصل قانون کا متن انگریزی میں تھا جسے انتہائی ناقص طریقے سے اردو میں ترجمہ کیا گیا ۔ یہاں اس کی صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں ۔ 
اصل قانون میں شریعت کی تعریف یہ تھی : 
"Injunctions of Islam as laid down in the Holy Qur'an and Sunnah"
[قرآن وسنت میں مذکور احکام اسلام] 
یہ ترکیب دستور پاکستان میں کئی مقامات پر استعمال ہوئی ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی سالانہ رپورٹ ۱۹۸۷ء میں اس کی تصویب کی تھی ۔ البتہ اس کے ساتھ کونسل نے اس توضیح کا اضافہ کیا تھا کہ ’’ احکام اسلام کی تشریح میں رہنمائی کے لیے درج ذیل مآخذ سے استفاد ہ کیا جائے گا۔ (۱) سنت خلفاء راشدین (۲) تعامل صحابہ (۳) اجماع امت (۴) مسلمہ فقہائے اسلام کی تشریحات و آراء۔‘‘
صوبہ سرحد کی نفاذ شریعت کونسل نے اس تعریف میں یہ اضافہ کیا کہ قرآن و سنت سے ’’ اخذ کردہ ‘‘ احکام بھی شریعت کا حصہ ہیں ۔ مسودہ لکھنے والے غالباً یہ بتانا چاہتے تھے کہ اسلام کے احکام سے صرف نصوص (text)نہیں مراد بلکہ قواعد عامہ اور مقاصد شریعت بھی اس میں شامل ہیں۔ تاہم ’’ماخوذ احکام ‘‘ کی اصطلاح بھی مبہم ہے اور ’’اخذ‘‘ کا طریقہ بھی واضح نہیں کیا گیا۔ اس لیے تعریف واضح ہونے کے بجائے مزید مبہم ہوگئی ۔
واضح رہے کہ نواز شریف دور میں منظور کردہ شریعت ایکٹ کو تمام مذہبی جماعتوں نے جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں ایک اجلاس میں متفقہ طور پر مسترد کردیاتھا ۔ خود جماعت اسلامی کی مرکزی شوری نے ایک قرارداد کے ذریعے اسے نفاذ شریعت سے فرار کا بل قرار دیا تھا ۔ یہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اور ممتاز عالم دین جناب مولانا گوہر رحمان نے وفاقی شرعی عدالت میں اس ایکٹ کی کئی دفعات کے ’’خلاف شریعت ‘‘ ہونے کے سلسلے میں دلائل دیے اور ان کو بعد میں کتابی شکل میں بھی شائع کیا ۔ اب اسی ایکٹ کے ناقص چربے کو وہی دینی جماعتیں نفاذ شریعت کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت اور اپنے ایک اہم کارنامے کے طور پر پیش کررہی ہیں ۔ 
جو تیری زلف کو پہنچی تو حسن کہلائی 
وہ تیرگی جو میرے نامۂ سیاہ میں تھی 
شریعت ایکٹ کی منظوری کے بعد جب عملًا نفاذ شریعت کے سلسلے میں کوئی کاروائی نہیں ہوئی تو مجلس عمل کی حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ شریعت کے نفاذ کے لئے ایک اور قانون ’’حسبہ بل‘‘ کی منظوری کی ضرورت ہے جس کی تیاری کے لیے صوبائی شریعت کونسل کام کررہی ہے ۔ تاہم تقریبا ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود مجوزہ حسبہ بل اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا ۔ حسبہ بل کے سلسلے میں کئی سیمینار منعقد کیے گئے جن پر صوبائی خزانے سے تقریباً تین کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ اس کے باوجود ان سیمیناروں میں شرکا کی جانب سے جو تجاویز اور ترامیم پیش کی گئیں، ان میں کسی کو بھی مسودے میں شامل نہیں کیا گیا ۔ بعد میں حکومت نے صوبائی وزیر قانون کو بھی تبدیل کیا، لیکن اس کے باوجود اس بل سے وہ متنازعہ امور دور نہ کیے جاسکے جس پر مختلف عوامی اور علمی حلقوں اعتراضات کیے گئے تھے ۔ 
اس بل کا تجزیہ کیا گیاتو معلوم ہوا کہ اس کی اکثر دفعات وہی ہیں جو پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ ’’صوبائی محتسب ایکٹ ‘‘ میں شامل تھیں۔ یہ بل ۱۹۹۶ء میں صوبہ سرحد کی اسمبلی میں بھی پیش کیا گیا تھا لیکن پھر اس وجہ سے پاس نہیں کیا جاسکا کہ اسمبلی تحلیل کردی گئی تھی ۔ ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے اس میں بعض ایسی دفعات کا اضافہ کردیا تھا جو نہ صرف دستور اور دیگر قوانین کے خلاف تھیں بلکہ وہ شریعت کے واضح احکام سے بھی متصادم تھیں ۔ ان پر اعتراضات کیے گئے تو اعلان کیا گیا کہ اس مسودے کو اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھیجا گیا ہے جس کی سفارشات کے مطابق اس میں تبدیلی لائی جائے گی ۔ کونسل نے بھی اس مسودے کی کئی دفعات پر تنقید کی جس کے بعد صوبائی حکومت نے کونسل کی سفارشات بھی مسترد کردیں اور بہت لے دے اور تاخیری حربوں کے استعمال کے بعد سیاسی پوائنٹس سکور کرنے کے لئے بالآخر اس بل کو اسمبلی سے منظور کروایا ۔ یہ بل سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور سپریم کورٹ نے انہی دفعات کے خلاف فیصلہ دیا جن پر علمی اور قانونی حلقوں اور اسلامی نظریاتی کونسل نے پہلے ہی تحفظات پیش کیے تھے ۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں خود صوبائی حکوت کے وکیل جناب خالد اسحاق مرحوم نے اقرار کیا تھا کہ اس بل کا مسودہ انتہائی حد تک ناقص ہے۔ 
اس کے بعد حسبہ بل کا دوسرا مسودہ اسمبلی میں پیش کیا گیا جس میں کئی مقامات پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی ۔ چنانچہ جب بل سپریم کورٹ میں دوبارہ چیلنج کیا گیا تو اس نے پھر واضح کیا کہ اس کی چند دفعات اب بھی دستور سے متصادم ہیں۔ خود کردہ را علاج نیست! 
اب میں ان چند شقوں کا تذکرہ کروں گا واضح طور پر شریعت یا دستور سے متصادم تھیں ۔ 
(۱) اس بل میں ’’تعریفات‘‘ کی شق انتہائی حد تک ناقص تھی۔ ’’معروف ‘‘ اور ’’منکر‘‘ کی تعریفات اتنی مبہم تھیں کہ ان کی ہر طرح کی تعبیر ممکن تھی۔ اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے بھی اعتراض کیا گیا تھا۔نیزہر اس شخص کو ’’مستند عالم دین‘‘ قرار دیا گیا تھا جس نے شہادۃ العالمیۃ کے ساتھ ساتھ میٹرک کیاہو۔ اسی طرح ’’سینیئر صحافی‘‘ اسے قرار دیا گیا تھا جس کے پاس ایم اے جرنلزم کی ڈگری ہو یا شعبۂ صحافت سے جس کی وابستگی دس سال سے زائد رہی ہو۔ ’’سینیئر وکیل‘‘ اسے قرار دیا گیا تھا جس کے پاس وکالت کا دس سال کا تجربہ رہا ہو ، چاہے وہ ڈسٹرکٹ کورٹس ہی میں ہو ۔ اس طرح کے مستند عالم دین ، سینیئر صحافی یا سینیئر وکیل کو ضلعی محتسب بنایا جاسکتا تھا جس کو سیشن جج کے برابر اختیارات اور مراعات حاصل ہونے تھے! 
(۲) اس بل کے تحت محتسب کو عدالتی اختیارات دیے گئے لیکن اس کے باوجود حکومت کو اس کی معزولی کے سلسلے میں وسیع اختیارات دیے گئے تھے ۔ مثلا کہا گیا تھا کہ اگر محتسب کو بدعنوانی کے الزام میں معزول کیا جائے اور وہ اس کے خلاف عدالت عالیہ میں اپیل کرے تو نوے دنوں کے اندر اس کی درخواست کی سماعت نہ ہونے کی صورت میں اس کی معزولی کا حکم مؤثر سمجھا جائے گا ۔ 
(۳) محتسب کے متعلق قرار دیا گیا تھا کہ وہ مجموعۂ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۱کے مفہوم میں ’’سرکاری ملازم‘‘ متصورہوگا ۔ تاہم اس کے باوجود اس بل میں قرار دیا گیاتھا کہ بدعنوانی کی صورت میں اس کومعزول کیا جائے تو وہ چار سالوں کے لئے وفاقی ، صوبائی اور ضلعی سطح پر انتخابات کے لئے نااہل ہوگا، حالانکہ آئین کے مطابق ایسی صورت میں سزایافتہ شخص ہمیشہ کے لئے نااہل ہوجاتا ہے ۔ 
(۴) اس بل میں محتسب کو وسیع اختیارات دیے گئے تھے جن میں اکثر اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کے مطابق نہ صرف یہ کہ مبہم تھے بلکہ ان کا غلط استعمال بھی انتہائی آسان تھا ۔ 
(۵) ایک انتہائی حد تک خطرناک بات اس بل میں یہ تھی کہ محتسب کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیا گیا تھا ۔ اسی طرح ’’ توہین محتسب ‘‘ کی صورت میں دی جانے والی سزا کے خلاف بھی اپیل کا حق نہیں تھا ۔ 
(۶) بل میں یہ تو قرار دیا گیا تھا کہ کسی سرکاری اہلکار یا ایجنسی کے خلاف شکایت صحیح ثابت ہو تو یہ یہ کارروائی ہوگی لیکن اس میں یہ وضاحت نہیں تھی کہ اگر یہ شکایت بے بنیاد ہو یا بدنیتی پر مبنی ہو تو پھر کیا کیا جائے گا ؟ 
(۷) اس بل کے ذریعے ایک متنازعہ ’’حسبہ فورس‘‘ قائم کرنے کا کہا گیا تھا ۔ بعد میں قرار دیا گیا کہ یہ فورس پولیس ہی کے محکمے سے تشکیل دی جائے گی ۔ اس فورس کو سرکاری دفاتر پر چھاپوں اور ریکارڈ تک رسائی جیسے وسیع مضمرات کے حامل اختیارات دیے گئے لیکن اس کے لئے کوئی طریق کار متعین نہیں کیا گیا ۔ چاہیے یہ تھا کہ محتسب یا اس کے کسی نائب کی سرکاری دفاتر پر چھاپوں اور ریکارڈ تک رسائی کے طریق کار کو قواعد و ضوابط کے ذریعے منضبط کردیاجاتا تاکہ وہ اختیارات کا غلط استعمال نہ کرتے ۔ 
(۸) اس بل میں ضلعی محتسب کا ادارہ آئین سے صراحتاً متصادم تھا کیونکہ سترھویںآئینی ترمیم ، جو ایم ایم کے تعاون اور آشیرباد سے منظور ہوئی ، کے بعد صوبائی حکومت ضلعی نظام حکومت میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتی ۔ 
یہ محض چند امور آپ کے سامنے پیش کیے گئے ، ورنہ تفصیلی تجزیے میں جائیں تو بات بہت دور تک نکل جائے گی ۔ اس مختصر تجزیے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حسبہ بل کے خلاف سپریم کورٹ کے دونوں فیصلے مبنی برحق تھے ۔ صوبہ سرحد کے اس وقت کے وزیر قانون نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو اسمبلی کی قانون سازی کے اختیار پر حملہ قرار دیا تھا ۔ شاید ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اسمبلی کا قانون سازی کا اختیار مطلق نہیں بلکہ بہت سی قیود کے ساتھ مقید ہے جن میں ایک اہم قید یہ ہے کہ اسمبلی شریعت یا دستور سے متصادم قانون بنائے گی تو عدالت اسے تصادم کی حد تک کالعدم قرار دے سکتی ہے ۔ میں نے اپنے ایک پچھلے مکتوب میں اسی وجہ سے کہا تھا کہ محض ’’حسبہ‘‘ نام رکھ دینے سے یا اس وجہ سے کہ اس بل کو دینی جماعتوں کے اتحاد نے پیش کیا یہ بل از خود اسلامی شریعت کے مطابق نہیں ہوجاتا ۔ 
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر 
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کار تریاقی 
محمد مشتاق احمد 
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ قانون 
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد 
(۲)
مکرمی جناب حافظ عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے ایمان وصحت کی بہترین حالت میں ہوں گے۔
تسلیمات کے بعد، آپ کا موقر رسالہ ’الشریعہ‘ دار العلوم مصباح الاسلام کے ذیلی ادارہ مصباح الاسلام لائبریری کے نام باقاعدگی کے ساتھ مل رہا ہے۔ اس کے تمام مضامین ما شاء اللہ خوب تحقیقی اور حالات حاضرہ کے لیے تیر بہدف ہیں۔ اس وقت امت مسلمہ کو درپیش سب سے اہم مسئلہ مسلم امہ کا انتشار ہے۔ مسلکی وسرحداتی طور پر امت مسلمہ مختلف جماعتوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ وطن عزیز اس وقت سخت افتراق وتفریق اور اندرونی وبیرونی سازشوں کا شکار ہے۔ اس وقت پاکستان کے اندر تمام مسالک کے پیروکاروں کو متحد ہو کر ملکی سا لمیت کے لیے بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ 
الشریعہ کے گزشتہ شمارے میں محترم غلام یاسین صاحب کا خط پڑھ کر خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی! خوشی اس لیے ہوئی کہ ماشاء اللہ الشریعہ کے قارئین اس سوچ کے حامل ہیں کہ وہ پاکستان کے اندر فکری تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں اور امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے فکر مند رہتے ہیں، جبکہ افسوس اس بات پر کہ خود محترم غلام یاسین صاحب کی تحریر میں فرقہ واریت کا عنصر موجود ہے۔ وہ ایک طرف امت مسلمہ کے انتشار کا رونا رو رہے ہیں جبکہ دوسری طرف دیگر مسالک کی دل آزاری کرکے پوری دنیا پر مسلک دیوبند کی حکومت قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔ 
محترم غلام یاسین صاحب کی اس بات سے مجھے بھی اتفاق ہے کہ ’’سینکڑوں نہیں ہزاروں طلبہ وفاق المدارس کا اعلیٰ امتحان ہر سال پاس کر کے سند فضیلت (فراغت) حاصل کرتے ہیں۔ پھر معاشرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ قوموں کی تقدیر بدلنے کے لیے تو ایک مرد قلندر بھی کافی، افسوس کہ یہاں ہزاروں میں ایک بھی نہیں۔ آخر کیا وجہ ہے؟‘‘ یاسین صاحب خود اس کی وجہ فضلا میں تنگ نظری، تنگ دلی، تعصب، بغض وعناد، حسد اور انانیت کو قرار دے رہے ہیں۔ مجھے ان تمام باتوں سے اتفاق ہے کہ مذکورہ خصلتیں امت مسلمہ کے مابین انتشار کا سبب ہیں، لیکن ان خصلتوں سے باہر نکلنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہمارے دینی اداروں میں تربیت کا فقدان ہے۔ ہمارے ہاں بین المذاہب کے بجائے بین المسالک پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور ابناے امت کو اسلام کے مدمقابل مذاہب کے سامنے کھڑا کرنے کے بجائے اپنے دین ہی کے اندر دیگر مسالک کے خلاف نظریاتی طور پر تیار کر کے کھڑا کرنے کا رواج عام ہے جس کا نتیجہ اس وقت ہمارے سامنے ہے کہ اغیار کے بجائے ہم اپنوں ہی کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں جبکہ غیر اقوام ہمارے ان اختلافات سے فائدہ اٹھا کر ہمیں کمزور کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔
مسلمان ہر جگہ خوار ہو رہے ہیں۔ صرف مسلک دیوبند کی حفاظت کرنے سے کچھ نہیں ہو سکتا، نہ پوری دنیا پر مسلک دیوبند کی حکومت قائم ہونے سے امت مسلمہ انتشار سے نکل سکتی ہے۔ تین سو تیرہ نفوس کو تیار کرنے کے لیے ہمیں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث کی زنجیروں سے نکلنا ہوگا، تب کہیں جا کر فضائے بدر پیدا ہوگی اور امت مسلمہ کی نصرت کے لیے فرشتے قطار اندر قطار نازل ہوں گے۔ اور اگر ان تین سو تیرہ نفوس پر دیوبندیت کا لیبل لگا کر میدان میں نکالا گیا تو یہ بھی یقینی ہے کہ ان کے مدمقابل بریلوی، اہل حدیث کے تین سو تیرہ بھی میدان میں کھڑے ہوں گے کہ یہی بین المسالک تعصب کا نتیجہ ہے۔ امت مسلمہ اس وقت سخت امتحان کا شکار ہے۔ ہمیں اس وقت اتحاد ویک جہتی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ امت مسلمہ کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا ملے۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کا حامی وناصر ہو۔
سید عرفان اللہ ہاشمی
ایڈیٹر مجلہ ’’مصباح الاسلام‘‘
مٹہ مغل خیل، تحصیل شب قدر، ضلع چارسدہ
(۳)
برادر محترم عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم
دسمبر کے شمارے میں آپ کا نہایت ہی عالمانہ اور فکر انگیز مقالہ بعنوان ’’شریعت، مقاصد شریعت اور اجتہاد‘‘ پڑھنے کا موقع ملا۔ جس خوب صورتی اور سلیقے کے ساتھ آپ نے اس ادق موضوع کو بیان کیا ہے، اس سے آپ کے فہم اور صلاحیت تفہیم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ آپ کو دنیا اور آخرت کی بھلائیاں عطا فرمائے اور آپ کے علم میں برکت عطا فرمائے۔ آمین۔
ناصر مصطفی
مکان نمبر DV-10، ڈنہ، نزد ایف بلاک 
سیٹلائیٹ ٹاؤن، راول پنڈی
(۴)
محترمی ومکرمی مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
الشریعہ کبھی کبھی نظر سے گزرتا ہے۔ ماشاء اللہ اپنے انداز وادا سے تازگی اور جدت کا پیغامبر ہے۔ آپ جس دردمندی، محنت اور اخلاص کے ساتھ قلم اٹھاتے ہیں، وہ تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی ان کاوشوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔ آمین۔
تازہ الشریعہ (دسمبر) میں ’’کلمہ حق‘‘ کے عنوان کے تحت ایک خاتون کا خط شائع کیا گیا ہے۔ اس میں بیان کردہ حالات بہت بڑے خطرات کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ ان حالات میں علماے کرام کو کیا کرنا چاہیے، گہرے غور وفکر اور سوچ بچار کا تقاضا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ موجودہ فتنہ پرور دور اور سازشوں کا شعور وادراک عطا فرمائے، آمین۔
عمران ظہور غازی
چیف آرگنائزر ہیومن رائٹس نیٹ ورک پنجاب
۲۲۔سی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور

اپریل ۲۰۰۸ء

اسلامی سربراہ کانفرنس کا مایوس کن اجلاسمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ترکی میں احادیث کی نئی تعبیر و تشریح کا منصوبہمحمد عمار خان ناصر
شرعی قوانین کے حوالے سے برطانیہ میں جاری بحثمولانا محمد عیسٰی منصوری
زنا کی سزا (۲)محمد عمار خان ناصر
مکاتیبادارہ
مولانا ضیاء الدین اصلاحی (مرحوم) ۔ دارالمصنفین کا ایک تابندہ ستارہڈاکٹر محمد عبد اللہ صالح
مولانا محمد اشرف شادؒمولانا محمد یوسف

اسلامی سربراہ کانفرنس کا مایوس کن اجلاس

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روزنامہ ایکسپریس گوجرانوالہ ۱۵؍ مارچ کے مطابق سینیگال کے دار الحکومت ڈاکار میں منعقد ہونے والے اسلامی کانفرنس تنظیم کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے او آئی سی کے سیکرٹری جنرل جناب اکمل الدین اوغلو نے کہا ہے کہ مغربی اور اسلامی ممالک کے مابین ’’اسلام فوبیا‘‘ کے خاتمہ کے لیے سنجیدہ سرگرمیوں، مذاکرات اور باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے مذہب، ہمارے پیغمبر اورہمارے بھائیوں کو ہدف بنانے والے غیر ذمہ دارانہ حملوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اسلامی کانفرنس تنظیم کے سربراہی اجلاس سے تنظیم کے سیکرٹری جنرل کا یہ خطاب توہین رسالت کے حوالے سے مغربی دانش وروں کی مہم کے معروضی تناظر میں اصولی طور پر درست ہونے کے باوجود ہمارے نزدیک انتہائی مایوس کن ہے اور مسلم عوام کی امیدوں اور توقعات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ دنیا بھر کے اسلامی حلقوں کو توقع تھی کہ اسلامی کانفرنس تنظیم کے سربراہی اجلاس میں قرآن کریم اور جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور گستاخی کے حالیہ واقعات کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے گا اور مسلم حکومتوں کے نمائندے باہم مل بیٹھ کر اس سلسلے میں مغرب کے ساتھ دوٹوک بات کرنے کی حکمت عملی اختیار کریں گے، لیکن حسب سابق اس اجلاس میں بھی بات تقاریر اور رسمی قراردادوں سے آگے نہیں بڑھی اور اس کی کارروائی پڑھ کر ہمیں یوں محسوس ہوا ہے کہ یہ حکومتوں کی سطح کا کوئی اجلاس نہیں تھا، بلکہ کسی بین الاقوامی این جی او کی رسمی سی میٹنگ تھی جس میں موقف کے اظہار اور اس کے حق میں تقاریر اور قراردادوں پر قناعت کرنے میں ہی عافیت سمجھی گئی ہے۔
دوسری طرف ڈنمارک کے اخبارات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی بار بار اشاعت اور ہالینڈ میں قرآن کریم کے بیان کردہ واقعات کے حوالے سے ایک تحقیر آمیز فلم کی تیاری کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ایک جریدے ہفت روزہ ’’ہیومن ایونٹس‘‘ نے اعلان کیا ہے کہ وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک کتاب مفت تقسیم کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے جس کے بارے میں مسلمان حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ توہین آمیز کتاب ہے۔ روزنامہ پاکستان لاہور ۲۰ مارچ ۲۰۰۸ کی خبر کے مطابق اس دل آزار کتاب کا نام ’’دنیا کا عدم برداشت پر مبنی مذہب اور ا س کے بانی محمد کی حقیقت‘‘ بتایا جاتا ہے۔ اس کا مصنف رابرٹ اسپنسر ہے۔ یہ کتاب ہفت روزہ ’’ہیومن ایونٹس‘‘ نے شائع کی ہے اور اسے پورے امریکہ اور یورپ میں مفت تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
ہمارے خیال میں یہ مسلم حکومتوں کی بے حسی اور عدم سنجیدگی کا نتیجہ ہے کہ مغرب میں توہین رسالت اور توہین قرآن کریم کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور دنیاے اسلام کے عوامی اور دینی حلقوں کی طرف سے مسلسل احتجاج کے باوجود وقفہ وقفہ سے نئے دل آزار واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ 
جہاں تک مسلمانوں پر عدم برداشت کے الزام کا تعلق ہے، یہ واضح طور پر مغرب کی دھاندلی اور فریب کاری ہے، اس لیے کہ مغرب کی یونی ورسٹیاں اور علمی ادارے صدیوں سے اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بحث کر رہے ہیں اور مقالات، مضامین اور تجزیے لکھتے آ رہے ہیں جن میں اختلاف بھی ہوتا ہے اور تنقید بھی موجود ہوتی ہے لیکن مسلمانوں نے ان کے بارے میں کبھی عدم برداشت کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ دلیل کا جواب ہمیشہ دلیل سے دیا ہے، البتہ اختلاف اور توہین میں ہم نے ہمیشہ فرق کیا ہے اور سنجیدہ تنقید اور استہزا وتمسخر کے درمیان فاصلوں کو قائم رکھا ہے۔ اسلامیان عالم کو قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے حوالے سے جو بے پناہ محبت اور عقیدت ہے، ا س کا فطری تقاضا ہے کہ وہ ان دونوں کے حوالے سے توہین، استہزا اور تمسخر کی کوئی بات برداشت نہ کریں، اس لیے اگر وہ ایسے کسی واقعہ پر غصہ کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے جذبات میں گرمی پیدا ہوتی ہے تو یہ بالکل فطری بات ہے اور مغرب کو اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔ مغرب اگر اپنی کتاب مقدس اور حضرت مسیح بن مریم علیہما السلام کی راہ نمائی سے عملاً درست برداری اختیار کر لینے کے بعد ان کے ساتھ عقیدت ومحبت سے محروم ہو چکا ہے اور اس کی جذباتیت بے حس ہو چکی ہے تو اسے اس کا بدلہ مسلمانوں سے نہیں لینا چاہیے اور نہ ہی یہ توقع رکھنی چاہیے کہ مسلمان بھی مغرب کی مسیحی امت کی طرح دینی تعلیمات کی راہ نمائی سے دست بردار ہو جائیں گے اور قرآن کریم اور رسول اکرم کے ساتھ جذباتی وابستگی کو خیر باد کہہ دیں گے۔
باقی رہی بات آزادئ رائے اور آزادئ صحافت کی تو ہم مغرب کا یہ موقف تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس لیے کہ مغرب کے ہر ملک میں ’’ازالہ حیثیت عرفی‘‘ کے عنوان سے اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کا قانون موجود ہے اور کسی بھی شہری کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی حیثیت عرفی اور معاشرتی سٹیٹس کو مجروح ہوتا محسوس کرے تو اس کے تحفظ کے لیے قانون سے رجوع کرے، اور صرف مغرب نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک کا قانون اپنے ہر شہری کو یہ تحفظ فراہم کرتا ہے، اس لیے اگر ایک عام شہری اپنی حیثیت عرفی کے قانونی تحفظ کا حق رکھتا ہے تو حضرات انبیاے کرام علیہم السلام، بالخصوص حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہ حق ہے کہ ان کے تاریخی مقام اور عرفی حیثیت کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر قانون بنایا جائے اور دنیا کے کسی بھی شخص کو یہ حق نہ دیا جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبروں اور دنیا کے اربوں انسانوں کے محبوب مذہبی پیشواؤں کے بارے میں استہزا، تمسخر ، تحقیر اور گستاخی کا لہجہ اختیار کر سکے۔
اسلامی کانفرنس تنظیم کے مذکورہ سربراہی اجلاس میں عالم اسلام کے دیگر مسائل بھی زیر بحث آئے ہیں جن میں فلسطین کی صورت حال کو بطور خاص زیرغور لایا گیا ہے لیکن ان مسائل میں بھی رسمی خطابات اور قراردادوں سے ہٹ کر کوئی سنجیدہ پیش رفت اور لائحہ عمل سامنے نہیں آیا جس سے مایوسی میں اضافہ ہوا ہے اور ہمارے خیال میں مسلم حکومتوں سے دنیا بھرکے مسلم عوام کی اسی مایوسی سے اس رد عمل نے جنم لیا ہے جسے انتہا پسندی، دہشت گردی اور بنیاد پرستی قرار دے کر اس کے خلاف عالمی سطح پر باقاعدہ جنگ لڑی جا رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس مبینہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے اسباب میں جہاں مغرب کی سیاسی قیادت اور نام نہاد سیکولر دانش کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جانب دارانہ اور معاندانہ رویہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے، وہاں مسلم ممالک کے حکمران طبقات کا غیر سنجیدہ طرز عمل، مجرمانہ تغافل اور مغرب کے سامنے ان کا فدویانہ رویہ بھی اس کا ایک بڑا سبب ہے جسے دور کیے بغیر اس مبینہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہے جو اصلاح احوال کے معروف طریقوں پر مسلمانوں کے رہے سہے اعتماد کو بھی دھیرے دھیرے پسپائی کی طرف دھکیلتی جا رہی ہے۔
ہمارے خیال میں اس صورت حال میں سب سے زیادہ ذمہ داری مسلم حکومتوں اور عالم اسلام کے حکمران طبقات پر عائد ہوتی ہے کہ وہ حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں اور اسلامی سربراہ کانفرنس کی تنظیم کو رسمی قراردادوں اورخطابات کے بجائے عملی اقدامات اور مسلم امہ کی جرات مندانہ قیادت کا فورم بنائیں کیونکہ اس کے بغیر معاملات کا رخ صحیح سمت میں موڑنے کا اور کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔

ترکی میں احادیث کی نئی تعبیر و تشریح کا منصوبہ

محمد عمار خان ناصر

مارچ ۲۰۰۸ ءکے دوسرے ہفتے میں عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ خبر سامنے آئی کہ ترکی کی وزارت مذہبی امور کے زیر اہتمام احادیث کے حوالے سے ایک منصوبے پر کام جاری ہے جس کا بنیادی مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط طور پر منسوب کی جانے والی احادیث کی تردید اور بعض ایسی احادیث کی تعبیر نو ہے جن کا غلط مفہوم مراد لے کر انھیں ناانصافی کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ یہ منصوبہ، جس پر پینتیس اسکالر کام کر رہے ہیں، ۲۰۰۶ میں شروع کیا گیا تھا اور توقع ہے کہ حالیہ سال کے اختتام تک یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔
ترکی کی مذہبی امور سے متعلق اتھارٹی ’’دیانت‘‘ کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد گورمیز کے حوالے سے، جنھوں نے برطانیہ میں تعلیم وتربیت پائی ہے اور انقرہ یونیورسٹی میں حدیث کے سینئر استاذ ہیں، اس منصوبے کی نوعیت اور مقاصد کے حوالے سے جو بیانات ذرائع ابلاغ میں نشر ہوئے ہیں، ان میں سے بعض اہم بیانات حسب ذیل ہیں:
  • منصوبے کا بنیادی مقصد احادیث کو نئی تعبیر وتشریح کے ذریعے سے آج کے لوگوں کے لیے زیادہ قابل فہم بنانا ہے اور ہمارے کام کی نوعیت کو واضح کرنے کے لیے ’’تعبیر نو‘‘ ہی درست اصطلاح ہے۔
  • اس منصوبے کا مقصد مذہب کی الٰہیاتی بنیادوں کو تبدیل کرنا نہیں۔ یہ ایک علمی مطالعہ ہے جس کا مقصد الٰہیاتی بنیادوں کو سمجھنا اور ان کی تعبیر کرنا ہے۔
  • یہ منصوبہ اسلام کی اس تعبیر نو سے راہنمائی حاصل کرتا ہے جو جدیدیت سے ہم آہنگ ہے اور تعبیر نو اسلام کے بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ ہے۔ منصوبے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مذہب کو روایتی ثقافتی عناصر سے ممتاز کیا جائے۔
  • ہم اسلام کے مثبت پہلووں کو اجاگر کرنا اور ایک ایسی تعبیر سامنے لانا چاہتے ہیں جو شخصی احترام، انسانی حقوق، انصاف، اخلاق پسندی، خواتین کے حقوق، اور دوسروں کے احترام کو فروغ دے۔ 
  • آج مشرق اور مغرب میں پیغمبر اسلام اور ان کی تعلیمات کے حوالے سے بے حد کنفیوژن پایا جاتا ہے اور ہم اس کنفیوژن کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
  • بہت سی احادیث کا مفہوم متعین کرنا اب ممکن نہیں رہا اور بعض روایات کا ثقافتی اور جغرافیائی پس منظر بھلایا جا چکا ہے۔ 
  • متعدد احادیث کی آج کے دور میں نئی تعبیر کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر بعض احادیث میں خواتین کو خاوند کی اجازت کے بغیر تین دن کی مدت کے سفر پر جانے سے روکا گیا ہے اور ایسی احادیث مستند ہیں، لیکن یہ کوئی مذہبی نوعیت کی پابندی نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں خواتین تنہا حفاظت کے ساتھ سفر نہیں کر سکتی تھیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک عارضی نوعیت کی پابندی کو لوگوں نے مستقل حکم کی صورت دے دی ہے۔
  • کسی کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ خواتین کے اپنے سروں کو ڈھانپنے کے حوالے سے کوئی نئی انقلابی سوچ پیش کی جائے گی۔ یہ ایک علمی مطالعہ ہے اور اس میں آپ کو ایسی کوئی کوشش دکھائی نہیں دے گی جس کا مقصد اسلام کو مغربی دنیا کے لیے زیادہ خوب صورت بنا کر پیش کرنا ہو۔ 
  • ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس منصوبے سے مسلم دنیا میں خواتین کے بارے میں رائج تصورات میں تبدیلی پیدا کرنے میں مدد ملے گی؟ جواب میں انھوں نے کہا کہ اسلامی نصوص میں غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کرنے یا شادی شدہ زانی کو سنگ سار کرنے کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ اسلام کو غلط سمجھا جا رہا ہے۔ مثلاً آپ سلطنت عثمانیہ کے چھ سو سالہ دور میں ایک مثال بھی ایسی نہیں دکھا سکتے جس میں کسی شخص کو سنگ سار کیا گیا ہو یا کسی چور کا ہاتھ کاٹا گیا ہو۔
اس ضمن میں انقرہ یونیورسٹی میں شعبہ حدیث کے سربراہ اسماعیل حقی انال نے کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جانے والی بعض احادیث قرآن سے ٹکراتی ہیں۔ قرآن ہمارا بنیادی راہنما ہے اور جو چیز بھی اس سے ٹکراتی ہو، ہم اسے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے مثال کے طور پر بعض روایات پر مبنی اس رائے کا حوالہ دیا کہ خواتین کو پڑھنے لکھنے کی تعلیم دینا ممنوع ہے یا یہ کہ وہ عقل اور دین کے اعتبار سے کم تر ہیں۔انھوں نے کہا کہ خواتین کے عقل اور دین کے لحاظ سے کم تر ہونے کی بات گزرے زمانوں میں کسی استدلال کے بغیر درست مان لی گئی تھی، لیکن آج یہ بات درست نہیں مانی جا سکتی، اور یہی وجہ ہے کہ ہم اس کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز حیات اور خود قرآن کے مطابق نہیں ہے، اس لیے قبول نہیں کی جا سکتی۔ اسماعیل حقی انال نے مزید کہا کہ ’’ہم اس کو کوئی ’’اصلاح‘‘ نہیں سمجھتے، بلکہ اسلام کی اصل بنیادوں کی طرف واپسی کی کوشش سمجھتے ہیں۔‘‘
استنبول کے ایک مبصر مصطفی اکیول نے کہا ہے کہ منصوبے کے نتائج کے طور پر خواتین سے متعلق بعض احادیث کو حذف یا مسترد کیے جانے کا امکان ہے جو ایک جرات مندانہ اقدام ہوگا، یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے ساتھ ایسے تشریحی نوٹس کا اضافہ کر دیا جائے جو یہ بتائیں کہ ان احادیث کو ایک مختلف تاریخی سیاق کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
منصوبے پر کام کرنے والے محققین نے مزید بتایا ہے کہ احادیث کا یہ مجموعہ احادیث کی روشنی میں جدید ترین سوالات کا جواب بھی فراہم کرے گا، مثلاً یہ کہ گاڑی چلانے والوں کو کس طرز عمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے (کیونکہ ترکی دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جہاں حادثات کا تناسب بہت زیادہ ہے) اور یہ کہ کرۂ ارض کے ماحول میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے۔ 
مذکورہ رپورٹوں او ر بیانات سے کافی حد تک اس منصوبے کے محرکات اور ان ذہنی وفکری الجھنوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو اسلامی احکام کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے آج کے مسلمان اسکالرز کو درپیش ہیں۔ اس منصوبے کو ترکی جیسے اہم مسلم ملک کی سرکاری سرپرستی حاصل ہے اور اس سے اس کی اہمیت اور متوقع اثرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر نے اسی تناظر میں ایک خط کے ذریعے سے برصغیر کی اہم علمی شخصیات اور اداروں کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ وہ ترکی میں ہونے والی اس پیش رفت کی اہمیت اور نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے اس سلسلے میں ترکی کی وزارت مذہبی امور کو متوازن فکری راہنمائی مہیا کریں ۔ یہ خط درج ذیل ہے:

باسمہ سبحانہ
مکرمی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
برادر مسلم ملک ترکی کے حوالے سے ایک خبر اخبارات میں شائع ہوئی ہے جو اس عریضہ کے ساتھ منسلک ہے کہ اس کی وزارت مذہبی امور نے احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کے پورے ذخیرے کی ازسرنو چھان بین اور نئی تعبیر وتشریح کے کام کا سرکاری سطح پر آغاز کیا ہے جو اس حوالے سے یقیناًخوش آئند ہے کہ ترکی نے اب سے کم وبیش ایک صدی قبل ریاستی وحکومتی معاملات سے اسلام اور مذہبی تعلیمات کی لاتعلقی کا جو فیصلہ کیا تھا، یہ اس پر نظر ثانی کا نقطہ آغاز محسوس ہوتا ہے جس کا بہرحال خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔
ترکی نے خلافت عثمانیہ کے عنوان سے صدیوں عالم اسلام کی قیادت کی ہے اور اسلام کی سربلندی کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرہ میں اس کی ترویج وتنفیذ کے لیے شاندار کردار ادا کیا ہے، اس لیے خلافت اور دینی تعلیمات سے ریاستی سطح پر ترکی کی دست برداری پر دنیاے اسلام میں عمومی طور پر دل گرفتگی اور صدمہ کا اظہار کیا گیا تھا اور اب تک کیا جا رہا ہے۔ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے ترکی کے اس فکری وثقافتی انقلاب کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کے اسباب میں اپنے اس تاثر کا اظہار کیا تھا کہ ترکی قوم اپنے مزاج کے حوالے سے ایک عسکری قوم ہے جو مغربی ثقافت اور اسلام کے درمیان علمی وثقافتی کشمکش میں علمی واجتہادی صلاحیتوں کو بروے کار نہ لا سکی جس کی وجہ سے وہ مغرب کی ثقافت وفلسفہ کا علمی وفکری میدان میں مقابلہ کرنے کی بجائے پسپائی پر مجبور ہو گئی، جبکہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے اس ضمن میں لکھا ہے کہ ترکی کے علما ومشائخ اس ’’غزو فکری‘‘ (Intellectual Onslaught) کی اہمیت کا احساس نہ کر سکے اور اس کی طرف ضروری توجہ دینے کے لیے اپنے اوقات کو فارغ نہ کر سکے جس کی وجہ سے یہ عظیم سانحہ رونما ہوا۔
اس پس منظر میں احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کے پورے ذخیرے کی ازسرنو چھان بین اور ان کی نئی تعبیر وتشریح کے بارے میں ترکی حکومت کے اس فیصلے کو ماضی کی طرف لوٹنے کا نقطہ آغاز سمجھنے کے باوجود اس سلسلے میں کچھ تحفظات کو سامنے رکھنا ضروری ہے اور عالم اسلام کے دینی وعلمی حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سارے عمل کے پس منظر اور دیگر متعلقات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ترکی کی وزارت مذہبی امور کے اس کارخیر میں اس سے تعاون کریں۔ چنانچہ مختلف علمی اداروں، شخصیات اور مراکز سے ہم الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی طرف سے بطور تجویز یہ گزارش کر رہے ہیں کہ وہ احادیث نبویہ کی درجہ بندی اور تعبیر وتشریح کے لیے محدثین کرام اور فقہاے عظام کی اب تک کی علمی خدمات، احادیث نبویہ کے بارے میں مستشرقین اور ان کے خوشہ چینوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات نیز آج کے حالات وضروریات اور ملت اسلامیہ کی مسلمہ علمی حدود کے دائرے میں تعبیر نو کے ضروری تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک جامع بریفنگ رپورٹ ترکی کی وزارت مذہبی امور کو بھجوائیں جو عربی یا انگلش زبان میں ہو اور اس مسئلے میں ترکی کی وزارت مذہبی امور کی ضروری علمی وفکری راہ نمائی کی ضرورت پوری کرے۔
امید ہے کہ آنجناب اس تجویز پر سنجیدگی سے غور فرمائیں گے اور اس سلسلے میں اپنی رائے اور پیش رفت سے ہمیں بھی آگاہ فرمائیں گے۔ شکریہ
ابو عمار زاہد الراشدی
۱۲ مارچ ۲۰۰۸ء

شرعی قوانین کے حوالے سے برطانیہ میں جاری بحث

مولانا محمد عیسٰی منصوری

فروری ۲۰۰۸ کے شروع میں چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر روون ولیمز نے، جو دنیا بھر کے پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے عالمی سربراہ ہیں، برطانیہ میں اسلامی شریعت کے چند قوانین کے نفاذ پر غور وفکر کی دعوت دے کر یہاں کی فضا میں ارتعاش بلکہ تہلکہ بپا کر دیا ہے۔ آرچ بشپ ڈاکٹر روون نے یہ تجویز غور وفکر کے لیے اپنی سنڈ (چرچ آف انگلینڈ کی پارلیمنٹ) میں پیش کی تھی، مگر یہاں کے میڈیا نے، جس پر صہیونیت کی گہری چھاپ ہے، اس طرح ہنگامہ برپا کر دیا گویا صلاح الدین ایوبی نے برطانیہ پر حملہ کر دیا ہو۔ مغربی میڈیا کو، جس نے نائن الیون کے بعد ’’اسلامی خطرے‘‘ کا جو ہوا کھڑا کیا ہے، اسلام کے خلاف شور وشغف کا بہانہ مل گیا، چنانچہ میڈیا کی شرارت کے سبب ڈاکٹر روون ولیمز کو غصے سے بھرے، دھمکی آمیز اور ناشائستہ الفاظ میں بہت سے فون، خطوط اور ای میل ملے۔ آرچ بشپ کی طرف سے شریعت کے بعض قوانین کی حمایت میں ہم دردانہ حمایت کے غیر متوقع بیان پر میڈیا تو ان کی مخالفت میں پیش پیش تھا ہی، خود چرچ کے بعض ممبران اور سابق آرچ بشپ آف کنٹربری لارڈ کیری نے بھی برطانیہ میں شریعت اسلامی کے بعض قوانین کے نفاذ پر غور وفکر کی دعوت کو خطرناک قرار دے کر ڈاکٹر روون پر تنقید کی، حتیٰ کہ برطانوی پارلیمنٹ میں بشپ ولیمز کے استعفے کی گونج بھی سنائی دی۔ کینٹ پولیس کے سینئر ذرائع نے صورت حال کو دیکھتے ہوئے آرچ بشپ کو چوبیس گھنٹے پولیس تحفظ کی پیش کش کی اور ان کی سیکیورٹی کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کیا، لیکن آرچ بشپ ڈاکٹر ولیمز نے پولیس کی پیش کش کو مسترد کر دیا۔ انھوں نے پریس کو بتایا کہ وہ نہ اپنے بیان پر معذرت کریں گے اور نہ ہی استعفا دیں گے اور وہ اپنا موقف پریس کے بجائے اپنی سنڈ میں پیش کریں گے۔
اس بات پر برطانوی میڈیا نے اسلام کے خلاف جذبات میں آگ لگا دی جس میں سیاست دانوں سمیت اکثر طبقات بہہ گئے اور ہر طرف سے روون ولیمز پر تیروں کی بارش ہونے لگی۔ ایسے میں ان کو اصل حمایت ان کی سنڈ اور ان کے اپنے طبقہ سے ملی۔ ان کے حق میں ایک مضبوط آواز چرچ آف اسکاٹ لینڈ کی سربراہ ریورنڈ شیلا کیسٹک کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ بعض افراد نے جان بوجھ کر آرچ بشپ کے الفاظ کو غلط معنی پہنائے اور انھیں ذاتی طور پر نشانہ بنایا ہے جو انتہائی افسوس ناک ہے۔ میں ڈاکٹر ولیمز کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں اور سمجھتی ہوں کہ ہم خوش قسمت ہیں جن کے پاس ایک ایسا رہنما موجود ہے جو بعض اہم اور نازک مسائل میں گہری سوچ بچار سے بحث کا آغاز کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ 
یہ بات قابل ذکر ہے کہ چرچ آف انگلینڈ کی پارلیمنٹ نے آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر روون ولیمز کے ریمارکس کے خلاف میڈیا کے عام رد عمل پر مایوسی کا اظہار کیا اور آرچ بشپ کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ سنڈ (پارلیمنٹ) کا اجلاس شروع ہونے سے قبل بشپ آف لچفیلڈ جوناتھن گلیڈیل نے کہا کہ ڈاکٹر ولیمز کے ریمارکس کو غلط سمجھا گیا ہے۔ آرچ بشپ کوئی فیصلہ نہیں دے رہے تھے، محض غور وخوض کے لیے ایک مسئلہ اٹھا رہے تھے۔ سنڈ میں جب ڈاکٹر ولیمز نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ان کی بات کو غلط انداز میں لیا گیا ہے، ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ برطانیہ میں مسلم کمیونٹی بعض اسلامی قوانین پر پہلے ہی عمل پیرا ہے، اس سے ایک وقت آئے گا جب اس عمل کو قانون کا حصہ بنانا ہوگا۔ اس پر انھیں سنڈ کے ارکان کی طرف سے بھرپور حمایت ملی اور برطانوی میڈیا کی غوغا آرائی اور طوفان سمندر کے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ 
ڈاکٹر روون ولیمز نے برطانیہ میں کسی متوازی عدالتی نظام کی تجویز پیش نہیں کی، بلکہ صرف یہ کہا ہے کہ شادی بیاہ، طلاق ووراثت جیسے معاملات میں بعض اسلامی قوانین کی جگہ موجود ہے اور اسلامی شریعت کے چند قوانین اختیار کر لینے سے برطانیہ میں بسنے والی مسلمان کمیونٹی کو سماجی طور پر قریب کرنے میں مدد ملے گی۔ آرچ بشپ نے بڑے پتے کی بات کہی ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ مسیحی مذہب کے اعلیٰ ترین رہنما نے زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی قوانین کے متعلق ایک مثبت بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ اس بحث کا مقصد ایک سیکولر نظام میں رہنے والی اقلیتی کمیونٹیز کے لوگوں کو ان کے مذہبی عقائد کے مطابق زیادہ سے زیادہ سہولتیں پہنچانا اور ملکی قوانین اور مذاہب کے درمیان زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ اس کا اطلاق صرف اسلام یا مسلمانوں تک محدود نہیں ہوگا، بلکہ بتدریج دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی اس کا فائدہ پہنچے گا۔
یہ بات قابل غور ہے کہ مسلم راہنماؤں اور تنظیموں کا رد عمل اکثر منفی تھا۔ بیرون سعیدہ وارثی نے کہا کہ شرعی قوانین سے اتحاد کے بجائے تقسیم میں اضافہ ہوگا۔ دوسرے کئی مسلم راہنما شریعت سے براء ت کا اعلان کرتے نظر آئے۔ بعض ماڈرن خواتین نے برملا کہا کہ ہمیں شریعت نہیں چاہیے، اور برطانوی قانون نہایت عمدہ ہے۔ دینی تنظیموں اور علماے کرام نے عام طور پر اس بحث میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ شاید ان کے نزدیک حالات وحقائق سے آنکھیں بند رکھنا ہی سب سے مسائل کا حل ہے۔

برطانیہ ومغرب کے زمینی حقائق

برطانیہ میں اس وقت کم وبیش دو ملین یعنی بیس لاکھ مسلمان بستے ہیں۔ فرانس میں تقریباً ۵۰ لاکھ، جرمنی میں ۳۰ لاکھ، اسی طرح بیلجیم اور ہالینڈ سمیت تمام یورپی ممالک میں کروڑوں کی تعداد میں مسلمان آباد ہیں۔ سوئٹزر لینڈ میں سرکاری طور پر اسلام کو دوسرا بڑا مذہب تسلیم کیا گیا ہے۔ عملاً اسلام یورپ وامریکہ کا دوسرا بڑا مذہب بن چکا ہے۔ حالیہ دنوں میں جن چھ سات ملکوں نے یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی، ان میں بڑی تعداد میں مقامی مسلمان بستے ہیں۔ مثلاً بلغاریہ میں تقریبا تیس فی صد ترکی نسل کے مسلمان آباد ہیں۔ آئندہ جلد ہی جو ممالک یورپ کا حصہ بننے والے ہیں، ان میں کوسووو، بوسنیا، اور البانیہ جیسے مسلم علاقے اور ممالک بھی ہیں۔ عالم اسلام کا عظیم ملک ترکی بھی داخلے کے لیے یورپ کے دروازے پر کھڑا ہے۔ ایک جوہری فرق یہ ہے کہ پرانے یورپ (برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ) میں اکثر مسلمان تارکین وطن کے قبیل سے تھے یعنی باہر سے آکر آباد ہوئے تھے جبکہ جو ممالک حالیہ ای ای سی (آل یورپ) کا حصہ بنے ہیں یا عنقریب بننے والے ہیں، ان میں بسنے والے مسلمان اسی زمین کے فرزند اور اسی یورپی نسل سے ہیں۔ امریکہ ویورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خطرے کو بھانپ کر ہی صہیونی صلیبی گٹھ جوڑ نے نہایت مہارت وچابک دستی سے نائن الیون کا واقعہ انجام دے کر اسے مسلمانوں کے ذمے لگا دیا تاکہ ایک طرف مغرب کو عالم اسلام پرفوجی یلغار کر کے تباہ کرنے کا بہانہ فراہم ہو اور دوسری طرف یہاں اسلام کے خلاف نفرت کی آندھی چلا کر بڑھتی ہوئی مسلم آبادی پر بریک لگائی جا سکے۔
یہاں یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ شروع ہی سے مغرب میں اسلام کا مطالعہ کرنے والے تقریباً تمام ہی طبقات (مورخین، ادیب، شعرا) کا تعلق ارکان کلیسا اور چرچ سے رہا ہے۔ ان کے نزدیک یورپ پر بیرونی مسلمانوں کے عسکری وسیاسی دباؤ کا واحد تحفظ اسلام کے خلاف نفرت انگیز جھوٹا پراپیگنڈا تھا۔ جب صلیبی جنگوں میں پورا یورپ تین صدیوں تک اپنی پوری طاقت جھونک کر بھی اسلام کو ختم نہیں کر سکا تو ریمنڈ لل اور راجر بیکن جیسے اسکالرز نے پوپ کے سامنے اسلام کی بیخ کنی کے لیے اسلام کے مطالعہ کی تجاویز رکھیں۔ طویل بحث ومباحثہ کے بعد اسے منظوری مل گئی، چنانچہ شروع ہی سے مغرب کے مطالعہ اسلام کا بنیادی مقصد اسلام کی خامیاں تلاش کرنا اور اسلام پر نظریاتی حملوں کے لیے مواد جمع کرنا تھا۔ جب تک مغرب کو مسلمانوں سے عسکری خطرہ رہا، اس وقت تک مستشرقین کی تحریریں شدید تر عناد ونفرت میں ڈوبی رہیں۔ جیسے جیسے خطرہ کم ہوتا گیا، کھلے عناد ونفرت کی شدت میں بظاہر کمی آتی گئی۔ بیسویں صدی میں جب مغرب کو عالم اسلام پر ہمہ جہتی غلبہ حاصل ہو گیا اور مسلمان عسکری، سیاسی، علمی، فکری طور پر مغلوب ہو گئے، تب اسلام کو سمجھنے کی کوشش شروع ہوئی۔ غرض مغرب میں اسلام کا مطالعہ کرنے والے گروہ (مستشرقین) کی حیثیت ہمیشہ یہاں کی حکومتوں کے آلہ کار اور ہراول دستے کی رہی اور ان کی تحریروں کی نوعیت اسلام کے خلاف پراپیگنڈا کی تھی، اس لیے سترہویں صدی کی تحریروں کی زبان انتہائی تلخ، پر عناد اور اسلوب جارحانہ تھا۔ اٹھارویں صدی میں خلافت عثمانیہ کے کمزور ہو جانے کے باعث زبان نے کچھ متانت اور سنجیدگی لے لی۔ کچھ کچھ اسلامی، معاشرتی، تاریخی، علمی اثرات دبی زبان سے تسلیم کیے جانے لگے۔ پہلے مغربی مورخین ومصنفین اسلام کا مطالعہ ترکی سے شروع کرتے تھے۔ اٹھارویں صدی میں سائمن اوکلے نے وصال نبوی سے شروع کیا۔ پھر انیسویں صدی عالم اسلام کے ابتلا اور شکست کی صدی تھی۔ اب مغرب نے عالم اسلام کو سیاسی، اقتصادی اور علمی وفکری طو رپر شکنجے میں جکڑ لیا تھا۔ اب اسلام کے کچھ مزید محاسن تسلیم کیے جانے لگے۔ مگر انیسویں وبیسویں صدی کے مغربی اہل قلم کی تحریریں احساس برتری سے لبریز ہیں کہ اصل تہذیب، مذہب وقانون مغرب کا ہے، اسلام کا جتنا اس کے موافق ہے، اچھا ہے اور غیر موافق خراب۔ اب تکبر کے احساس نے طعن وتشنیع، دل آزاری اور انتقامی انداز نمایاں ہوا۔
غرض مغربی اسکالرز اور دانش وروں کی تحریریں ہمیشہ سے سرد جنگ کا حصہ تھیں۔ ان کا پراپیگنڈا اس قدر شدید اور طاقت ور ہے کہ ہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ، جس نے اسلام کو اپنے اصل مآخذ کے بجائے مغربی تحریروں سے پڑھا ہے، اس کی سوچ وفکر مکمل طور پر مغربی اہل قلم ومستشرقین سے ہم آہنگ ہے۔ مغرب میں روزگار کی خاطر آنے والے مسلمانوں کی بھاری اکثریت اسلام کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہے۔ نظریاتی بے یقینی معاشرے کا شیرازہ بکھیر دیتی ہے۔ نیز طاقت ور حریف انھیں بآسانی اپنے ہی معاشرے کے خلاف آلہ کار بنا لیتا ہے، جیسا کہ برطانیہ میں ہزاروں مسلمان M15 (برطانوی انٹیلی جنس) کے لیے کام کر رہے ہیں جن میں بے شمار مولوی بھی ہیں۔ یہ علمی سرد جنگ جو تقریباً پانچ صدیوں سے جاری ہے، اس کا ازالہ تو کجا، ابھی تک اس کے بیشتر گوشے پردۂ راز میں مستور ہیں۔ تاہم تاریخ میں پہلی بار اب موقع آیا ہے کہ آج گلوبل ولج کے عنوان سے مغرب اور اس کے واسطے سے پوری دنیا میں عالمی ضابطہ اخلاق اور معاشرتی اقدار کی جو تدوین وترتیب ہو رہی ہے، اس میں اسلام، قرآن اور شریعت کے انسانی معاشرہ کے لیے مفید، بہبود کے ضامن اور مثبت پہلووں سے مغرب کو روشناس کرایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انسانی معاشرتی واجتماعی مسائل کے حل کے لیے سیرت نبوی کے بہت سے گوشے ممد ومعاون ہو سکتے ہیں۔ 
آج کی دنیا ایک بستی یا گاؤں (گلوبل ولج) اور مختلف ممالک اس کے محلے بن چکے ہیں۔ ہر ملک ملٹی نیشن، ملٹی کلچر اور ملٹی ریلیجن ملک ہے۔ دنیا کے ہر بڑ ے شہر میں ایک پڑوسی کرسچین، دوسرا یہودی، تیسرا سوشلسٹ یا بدھسٹ ہونا عام بات ہو گئی ہے۔ نیز سیکولرازم، ڈیما کریسی، انسانی حقوق کو عصری دنیا بطور ایک عقیدہ ومذہب کے تسلیم کر چکی ہے اور سیکولر ازم کے معنی کسی خاص مذہب یا تمدن کی ترجیح کے بجائے ہر مذہب وکلچر کو مساوی حقوق دینا اور سب کے لیے مواقع فراہم کرنا ہے تاکہ ہر مذہب وکلچر کا فرد باہمی رواداری، قربت، محبت سے رہ کر ملک وقوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکے۔ آج دنیا کا سب سے اہم مسئلہ یہی باہمی قربت، افہام وتفہیم، اور رواداری کا ماحول ہے۔ جب تک دنیا کی دو بڑی قوموں یعنی مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان یہ رواداری اور افہام وتفہیم کی روایت قائم نہیں ہوگی، دنیا میں اس کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ ان دو بڑی قوموں کے درمیان ٹکراؤ اور کشیدگی سے صرف اور صرف صہیونی نسل پرستوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے کہ اس طرح انھیں دونوں قوموں پر اپنے خونی پنجے گاڑنے کا مزید موقع ملے گا۔ یہ بات مغرب جتنی جلدی سمجھ لے، اس کے اور انسانیت کے حق میں بہتر ہوگا۔
اس وقت دنیا کا سب سے مقبول سیاسی فلسفہ سیکولرزم اور نظام جمہوریت ہے جس پر مغرب کا نہ صرف ایمان واثق ہے بلکہ وہ اس کی خاطر قوموں کی نسل کشی پر بھی آمادہ ہے۔ افغانستان وعراق میں اپنی خونریزی کو جواز دینے کے لیے امریکہ ونیٹو کا یہی دعویٰ ہے کہ ہم ڈیماکریسی اور سیکولرزم کی برکات بانٹنے آئے ہیں۔ سیکولرزم اور جمہوریت، دونوں کی روح یہ ہے کہ حکومت اور قوانین معاشرہ کی مرضی ومنشا کے مطابق ہوں نہ کہ باہر سے مسلط کیے جائیں، حتیٰ کہ دنیا کی کسی پارلیمنٹ کو بھی یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ عوام کی مرضی کے خلاف کسی سپر پاور کے دباؤ میں آ کر قوانین معاشرہ پر مسلط کرے۔ غرض یہ عصر حاضر کی بنیادی ضرورت ہے کہ رواداری اور افہام وتفہیم کا ماحول قائم کرنے کے لیے اقوام عالم چند مشترکہ نکات پر اتحاد کریں۔ چودہ سو سال پہلے قرآن نے تینوں آسمانی مذاہب کے لیے مفاہمت واتحاد کا تین نکاتی فارمولا دیا تھا: 
۱۔ خالق کے سوا کسی کی حقیقی عبادت وتابع داری نہ کی جائے۔
۲۔ اس عبادت واطاعت میں کسی بھی طاقت وقوت کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔
۳۔ اقوام عالم ایک دوسرے پر رب وخالق بن کر اپنی مرضی مسلط نہ کریں۔
پہلے دو نکات یہودیت، مسیحیت اور اسلام میں مسلم ہیں۔ یہ تینوں آسمانی مذاہب توحید کے قائل اور شرک سے بے زار ہیں، البتہ مغرب تیسرے نکتے کے خلاف ڈیڑھ ہزار سال سے پاپا کریسی میں مبتلا رہا ہے۔ مسیحیت کے مذہبی طبقے سے بنیادی غلطی یہی ہوئی کہ انھوں نے خالق کا اطاعت وقانون سازی کا حق پوپ کو دے کر اسے عملاً رب وخالق کا درجہ دے دیا۔ ہزار سال تک پوپ مطلق العنان بن کر مذہبی، معاشرتی، سیاسی حتیٰ کہ شہنشاہوں کے عزل ونصب کے فیصلے کرتا رہا۔ یہ فیصلے محض اس کی ذاتی مرضی وصواب دید پر منحصر ہوتے تھے اور دنیا کی کسی عدالت میں انھیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس سے فائدہ اٹھا کر پوپ نے اپنے اقتدار کی خاطر یورپ کے عوام اور معاشرہ پر اپنی غلامی مسلط کر دی، سوچ او ر فکر پر پہرے بٹھا دیے۔ ہزار سال پوپ کے مطلق العنان اقتدار کے تاریک دور کے بعد علم اور سائنس کا دور شروع ہوا تو چرچ نے استبداد کی طاقت سے بے شمار اہل فکر ومحققین کو قتل کر کے اور زندہ جلا کر علم اور سائنس کی راہ روکنی چاہی۔ یورپ نے مسیحیت کی اس غلطی (پاپا کریسی) کا صدیوں تک خمیازہ بھگتا۔ علم اور مذہب کی اس جنگ میں اعلیٰ اخلاقی قدریں زوال پذیر ہوئیں اور مغرب میں اخلاقی انارکی کا دور شروع ہوا۔ گزشتہ دو صدیوں میں سازش، سرمایہ اور میڈیا کی بدولت ایک مٹھی بھر شاطر ٹولے نے یورپ کے معاشرہ کو بے بس کر کے یرغمال بنا لیا ہے۔ اب مغرب کے عوام کو اس گھناؤنی سازش کا احساس ہونے لگا ہے چنانچہ یہ شیطانی ٹولہ (جی ایٹ وسرمایہ دار ملٹی نیشنل کمپنیاں) جہاں کہیں جمع ہوتا ہے، نفرت کی صورت میں عوام کا رد عمل سامنے آتا ہے۔ اب تک انسانیت کے سارے وسائل پر قابض ہونے کی وجہ سے یہ ٹولہ کامیاب ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا حشر بھی پاپاکریسی کی طرح ہوتا نظر آ رہا ہے۔ بقول ایک مفکر کے تاریخ کا پہیہ اگرچہ آہستہ چلتا ہے مگر پیستا باریک ہے۔ لگتا ہے مغرب کا معاشرہ ایک بار پھر بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہو کر بکھراؤ کی طرف چل پڑا ہے۔ اگر مغرب کے مفکرین واہل دانش نے گلوبل ویلج معاشرہ کے لیے اقدار اور ضابطے تلاش نہ کیے تو تباہی سامنے کی بات ہے۔ یہ مسلم علماواہل دانش کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ عالمی انسانی بہبود کی ضمانت دینے والی اقدار اور ضابطوں کے تعین میں شریعت، فقہ اسلامی کا رول کیا ہو؟ اگر ہمارے علما واہل دانش اپنی سوچ وفکر اور علمی کاوشوں کا رخ اس خلا کو پر کرنے کی طرف موڑ سکیں تو اسلام ہی کی نہیں، پوری انسانیت کی سب سے بڑی خدمت ہوگی۔
اسلامی قانون وشریعت کا امتیازیہ ہے کہ یہ بنیادی طور پر غیر سرکاری قانون ہے جس کے بنانے، مرتب کرنے اور توسیع دینے میں کبھی بھی کسی حکومت، ریاست، طاقت ور طبقہ کی مداخلت نہیں رہی۔ یہ عوامی عمل کے ذریعے مرتب ہوا۔ امام ابوحنیفہ قانون تاریخ کے عظیم ترین دماغوں میں ایک تھے جن کی تعبیر قانون کو مسلمانوں کا دو تہائی کے قریب حصہ تسلیم کرتا ہے۔ وہ کسی حکومتی قانون ساز ادارے کے رکن نہیں تھے۔ امام احمد بن حنبل جن کے فقہی اقوال کو آج سعودی عرب میں قانون کی حیثیت حاصل ہے، ان کو کسی بادشاہ نے قانون سازی کے لیے مقرر نہیں کیا تھا۔ اسلام کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ اگر کبھی کسی حکمران یا فوجی ڈکٹیٹر نے طاقت کے زور پر کوئی قانون نافذ کرنا چاہا تو مسلم عوام نے اسے مسترد کر کے علما وفقہا وعابدین کی آرا پر عمل کیا جبکہ دنیا کے تمام قوانین شہنشاہوں اور طاقت ور حکمرانوں کی مرضی کے مطابق مرتب ہوئے حتیٰ کہ نیقہ کی کونسلوں کے گہرے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسیحیت کے بنیادی مذہبی عقائد تک تمام قوانین اور فیصلے رومن شہنشاہ کی مرضی سے بنتے رہے۔ مذکورہ کونسلوں کے اراکین جو صرف مذہبی پادری ہوتے تھے، ان کی آرا سے لے کر دنیا کے تمام قوانین ودساتیر کی تاریخ یہی ہے کہ پہلے ریاست قائم ہوئی، پھر اس نے اپنی طاقت سے قانون بنا کر نافذ کیا، مگر اسلام میں قانون پہلے بنا، پھر اس کے مطابق ریاست قائم ہوئی۔ اسلام میں ریاست کا جواز صرف اس وقت تک ہے جب تک وہ قانون شریعت کی حفاظت ونفاذ کرے، ورنہ وہ اپنا قانون جواز کھو بیٹھتی ہے۔
آج مغرب بلکہ دنیا کا ایک بڑا مسئلہ جرائم کی بہتات وکثرت ہے۔ ہر سال کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ قتل، چوری، ڈکیتی، زنا بالجبر سمیت تمام جرائم دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ انھیں ختم کرنے بلکہ کم کرنے کی ہر کوشش ناکام ہے۔ دنیا کی سب سے ترقی یافتہ ومتمدن کہلانے والی قوم امریکہ میں ہر روز بلکہ ہر گھنٹہ کے جرائم کے ہوش ربا اعداد وشمار اس بات کی دلیل ہیں کہ مغربی قوانین جرائم کی روک تھام میں بالکل ناکام ہو چکے ہیں۔ مغرب کے ہر ملک میں جتنی جیلیں تعمیر ہوتی ہیں، ناکافی ہو جاتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغربی تہذیب میں سب سے زیادہ حقوق مجرموں اور قاتلوں کے ہیں۔ امریکہ میں ایک شخص سو کے قریب معصوم بچوں کو اغوا کر کے ان سے بدفعلی وبدکاری کر کے انھیں بے دردی سے قتل کر دیتا ہے اور جب پکڑا جاتا ہے تو امریکہ کے بہت سے نامور وکیل انسانی ہمدردی میں اسے پھانسی سے بچانے کے لیے میدان میں آ جاتے ہیں، جبکہ یہ معلوم تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام کا قانون وشریعت جرائم کو جڑ سے اکھاڑ کر ناپید کر دیتے ہیں۔ ۱۴ سو سالہ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی اسلامی قانون وشریعت سے کسی ملک وقوم نے فائدہ اٹھایا تو سوسائٹی کو جرائم سے پاک کرنے میں انتہائی مدد ملی۔ آج سعودی عرب میں اسلامی قانون وشریعت کے صرف ایک چھوٹے سے حصے (حدود وقصاص) کے نفاذ کی وجہ سے وہاں جرائم کی تعداد دنیا میں سب سے کم ہے۔ کیا یہ بات اقوام عالم اور مغرب سمیت ہر تمدن ومعاشرہ سے غور وفکر کا تقاضا نہیں کرتی؟ 
گلوبل ولج کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ رنگ ونسل، قومیت وطبقہ کی حد بندیوں سے بالاتر ہو کر کھلے دل سے دنیا کے تمام قوانین وشرائع اور دساتیر کا جائزہ لیا جائے۔ مطمح نظر صرف جرائم کا خاتمہ اور انسانی بہبود ہو، نہ کہ کسی خاص تمدن وآئین کا تسلط۔ آرچ بشپ ڈاکٹر ولیمز کے ریمارکس سے برطانیہ میں مسلمانوں کو شریعت کے حوالے سے شریعت کا صحیح موقف پیش کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آیا تھا مگر مسلمان اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ اس کے برخلاف اسلام دشمن طاقتوں نے میڈیا کے ذریعے اسلام کا ہوا کھڑا کر کے اقوام یورپ کو ڈرا دیا حتیٰ کہ وضاحت کے بہانے ڈاکٹر روون ولیمز کو بھی ایک حد تک پسپائی اختیار کرنا پڑی، لیکن اس بحث سے مثبت نتائج بھی نکلیں گے۔ چنانچہ ۲۸ فروری کو برطانیہ کے دو روزناموں فائنانشل ٹائمز اور ٹیلی گراف نے خبر دی ہے کہ حکومت سنجیدگی سے سوچ رہی ہے کہ برطانیہ میں بسنے والے مسلم علما کو اسلامی قانون اور شریعت کی باقاعدہ ٹریننگ دی جائے۔ اس مسئلے میں برطانیہ کی اسلام دشمن اور اسلام کے متعلق سخت گیر پالیسیوں کی حامی قوتوں کی پوری کوشش ہوگی کہ شرعی قانون کی تعبیر وتشریح مغربی نقطہ نظر کے مطابق ہو یا دوسرے الفاظ میں مغربی اقدار اور نظام کو کسوٹی بنا کر کی جائے، لیکن قدرت نے ہمارے لیے بہت سے مواقع پیدا کر دیے ہیں کہ ہم انسانی سوسائٹی کی فلاح وبہبود سے متعلق اسلام اور شریعت کے فائدہ مند پہلووں کو سامنے لائیں جن میں ایک یہ ہے کہ اسلام نے اس دور میں جب ایک مذہب اور تمدن کے لوگوں کے درمیان دوسرے مذہب کے ماننے والوں کا زندہ رہنا مشکل تھا، دوسرے مذاہب وشرائع کے اپنے اپنے مذہبی قوانین کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ان پر عمل پیرا ہونے کی مکمل ضمانت دی۔ پیغمبر اسلام کے میثاق مدینہ میں یہودیوں اور مدینہ اور اس کے اطراف کے غیر مسلم بت پرست قبائل کو پوری آزادی کے ساتھ ان کے قوانین پر چلنے کی آزادی دی۔ اسی طرح دور خلفاے راشدین میں یروشلم، عراق، وسطی ایشیا کے تمام مفتوحہ ممالک میں تمام مذاہب واقوام کو ان کے قوانین پر چلنے کی آزادی وتحفظ فراہم کیا۔ آج بھی مصر کے قبطی مسیحی ہوں یا عرب دنیا کے یہودی، سب آزادی سے اپنے قوانین وشرائع پر عمل پیرا ہیں۔ اگر یہی حق اکیسویں صدی میں مغرب میں بسنے والی مختلف مذاہب کی کمیونٹیز کو مل جاتا ہے تو اس سے کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا نہ یہاں کے عدالتی سسٹم وقانون کے لیے کوئی خطرہ یا مسئلہ پیدا ہوگا، بلکہ ملک میں بسنے والی تمام کمیونٹیز میں باہمی ہم آہنگی اور قربت کا ذریعہ بنے گا۔ 
جب آرچ بشپ کے ذریعے برطانوی میڈیا میں یہ بحث چھڑ گئی ہے تو ہماری پوری کوشش ہونی چاہیے کہ بحث کو مثبت رنگ دیں اور شریعت کے انسانیت ومعاشرہ کے لیے نفع بخش پہلووں کو سامنے لائیں۔ خاص طور پر اس غلط فہمی کا ازالہ کریں کہ شریعت صرف چور کا ہاتھ کاٹنے یا زانی کے سنگسار کرنے کا نام ہے۔ حدود وقصاص کا نفاذ اسلام میں معاشرہ کی مکمل اصلاح اور معاشرہ کے مکمل طور پر آخری آسمانی تعلیمات پر استوار ہونے کے بعد ہی ممکن ہے۔

زنا کی سزا (۲)

محمد عمار خان ناصر

(مصنف کی زیر ترتیب کتاب ’’حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ کا ایک باب۔)

زنا کی سزا سے متعلق دوسری آیت سورۂ نور میں آئی ہے۔ ارشاد ہوا ہے:
اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِاءَۃَ جَلْدَۃٍ وَلَا تَأْخُذْکُم بِہِمَا رَأْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَاءِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ. (النور۲۴: ۲)
’’زانی عورت اور زانی مرد، ان میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو۔ اور اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر فی الواقع ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے معاملے میں ان دونوں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ تم پر حاوی نہ ہو جائے۔ اور ان دونوں کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود ہونا چاہیے۔‘‘
آیت، جیسا کہ واضح ہے، کسی قسم کی تخصیص کے بغیر زنا کی سزا صرف سو کوڑے بیان کرتی ہے۔ یہاں قرآن مجید کا سو کوڑوں کی سزا کے بیان پر اکتفا کرنا اور اس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ میں کسی فرق کی تصریح نہ کرنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ہر طرح کے زانی کو بس یہی سزا دینا چاہتا ہے۔ مزید برآں اسی سلسلہ بیان میں چند آیتوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے تعیین کے ساتھ شادی شدہ زانی کے لیے بھی سو کوڑوں ہی کی سزا کی تصریح فرمائی ہے۔ چنانچہ آیت ۲ و۳ میں زنا کی سزا بیان کرنے کے بعد آیت ۴و۵ میں پاک دامن عورتوں پر بدکاری کا الزام لگانے والوں کے لیے قذف کی سزا بیان ہوئی ہے اور اس کے بعد آیت ۶ تا ۱۰ میں میاں بیوی کے مابین لعان کا حکم بیان کیا گیا ہے جس کی رو سے اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور چار گواہ پیش نہ کر سکے تو اسے اپنے الزام کے سچا ہونے پر پانچ قسمیں کھانا ہوں گی۔ اس کے بعد بیوی اگر زنا کی سزا سے بچنا چاہتی ہے تو اسے بھی اس الزام کے جھوٹا ہونے پر پانچ قسمیں کھانا ہوں گی۔ ارشاد ہوا ہے:
وَیَدْرَؤُا عَنْہَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْہَدَ اَرْبَعَ شَہٰدٰتٍ بِاللّٰہِ اِنَّہُ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَ (آیت ۸)
’’اور (مرد کے قسمیں کھانے کے بعد) عورت سے یہ سزا اس صورت میں ٹلے گی جب وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ گواہی دے کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے۔‘‘
یہاں شادی شدہ عورت کی سزا کے لیے ’العذاب‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو معرفہ ہے اور عربی زبان کے قواعد کی رو سے اس سے مراد وہی سزا یعنی ۱۰۰ کوڑے ہو سکتی ہے جس کا ذکر اس سے پیچھے آیت ۲ میں ’ولیشہد عذابہما طائفۃ من المومنین‘ کے الفاظ سے ہوا ہے۔ رازی لکھتے ہیں: 
الالف واللام الداخلان علی العذاب لا یفیدان العموم لانہ لم یجب علیہا جمیع انواع العذاب فوجب صرفہما الی المعہود السابق والمعہود السابق ہو الحد لانہ تعالیٰ ذکر فی اول السورۃ ولیشہد عذابہما طائفۃ من المومنین والمراد منہ الحد (التفسیر الکبیر، ۲۳/۱۴۶)
’’العذاب پر داخل الف لام عموم کا فائدہ نہیں دیتا، کیونکہ اس عورت پر ہر نوع کاعذاب لازم نہیں، اس لیے العذابسے وہی عذاب مراد لینا ضروری ہے جس کا پیچھے ذکر ہو چکا ہے اور وہ ’حد‘ کا عذاب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ کے آغاز میں فرمایا ہے کہ ’ولیشہد عذابہما طائفۃ من المومنین‘ اور یہاں عذاب سے مراد حد ہی کا عذاب ہے۔‘‘
رازی نے یہ بات اصلاً اس تناظر میں لکھی ہے کہ ’العذاب‘ کا لفظ لعان سے انکار کرنے والی خاتون کے لیے جس سزا کو بیان کر رہا ہے، اس سے مراد آیا دنیوی سزا ہے یا آخرت کا عذاب، اور ان کی بات کا مطلب یہ ہے کہ ’العذاب‘ کا الف لام اسی عذاب یعنی دنیوی سزا پر دلالت کر رہا ہے جس کا ذکر سیاق کلام میں ’عذابہما‘ کے لفظ سے ہو چکا ہے۔ تاہم عربیت کی رو سے ’العذاب‘ کا الف لام صرف عذاب کی نوعیت کے حوالے سے نہیں بلکہ سزا کی متعین صورت کے حوالے سے بھی اسی سزا پر دلالت کرتا ہے جو ’عذابہما‘ میں بیان ہوئی ہے۔ ابن قیم نے اس نکتے کو یوں واضح کیا ہے:
والعذاب المدفوع عنہا بلعانہا ہو المذکور فی قولہ تعالیٰ ولیشہد عذابہما طائفۃ من المومنین وہذا عذاب الحد قطعا فذکرہ مضافا ومعرفا بلام العہد فلا یجوز ان ینصرف الی عقوبۃ لم تذکر فی اللفظ ولا دل علیہا بوجہ ما من حبس او غیرہ (زاد المعاد، ۹۷۸)
’’یہاں لعان کے ذریعے سے عورت سے جس سزا کے ٹلنے کا ذکر کیا گیا ہے، وہ وہی ہے جو اس سے قبل ’ولیشہد عذابہما طائفۃ من المومنین‘ میں مذکور ہے۔ اس سے مراد لازماً زنا کی مقررہ سزا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے اس کا ذکر اضافت کے ساتھ (عذابہما) کیا ہے اور اس کے بعد لام عہد (العذاب) کے ساتھ، چنانچہ ’العذاب‘ سے مراد کوئی ایسی سزا مثلاً عورت کو قید کر دینا وغیرہ ہو ہی نہیں سکتی جس کا پیچھے نہ الفاظ میں ذکر ہوا ہے اور نہ اس پر کسی قسم کا کوئی قرینہ پایا جاتا ہے۔ ‘‘
سورۂ نور کی مذکورہ آیت کی طرح سورۂ نساء کی آیت ۲۵ سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی اجازت بیان کی ہے کہ اگر کوئی شخص آزاد عورت سے نکاح کی مقدرت نہ رکھتا ہو تو وہ کسی مسلمان لونڈی سے نکاح کر سکتا ہے۔ یہاں شادی شدہ لونڈی کے لیے بدکاری کی سزا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
فَاِذَا اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ (نساء ۴:۲۵)
’پھر جب وہ قید نکاح میں آ جائیں اور اس کے بعد بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان کو اس سے آدھی سزا دی جائے جو آزاد عورتوں کو دی جاتی ہے۔‘‘
آیت میں ’نصف ما علی المحصنات من العذاب‘ کے الفاظ اس مفہوم میں صریح ہیں کہ متکلم کے نزدیک آزاد عورتوں کے لیے زنا کی ایک ہی سزا ہے اور وہ ایسی ہے جس کی تنصیف ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ رجم کی سزا اس کا مصداق نہیں ہو سکتی۔ 
مفسرین نے کلام کی کسی داخلی دلالت کے بغیر شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کو پیشگی فرض کرتے ہوئے بالعموم اس آیت کی تاویل یہ بیان کی ہے کہ چونکہ رجم کی تنصیف نہیں ہوسکتی، اس لیے لونڈیوں کے لیے نصف سزا بیان کرنا اس بات کا قرینہ ہے کہ اس سے مراد کوڑوں ہی کی سزا ہے۔ (زمخشری، الکشاف، ۱/۵۳۲۔ ابن عطیہ، المحرر الوجیز، ۲/۳۹۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۱/۴۷۸) لیکن یہ بات کلام کے مدعا کی توضیح کے بجائے اس کو الٹ دینے کے مترادف ہے، کیونکہ کلام کے اسلوب سے واضح ہے کہ متکلم زنا کی دو سزائیں فرض کرتے ہوئے ان میں سے ایک کا انتخاب کر کے اس کی تنصیف کرنے کی بات نہیں کہہ رہا، بلکہ ’العذاب‘ یعنی زنا کی ایک متعین اور معہود سزا سے آدھی سزا دینے کی بات کر رہا ہے۔ بالبداہت واضح ہے کہ اس کا اشارہ سورۂ نور میں بیان کردہ سزا کی طرف ہے جہاں کسی قسم کی تفریق کے بغیر زنا کی ایک ہی سزا بیان کی گئی ہے۔ فرض کر لیجیے کہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق متکلم کے ذہن میں پہلے سے موجود ہے، پھر بھی ’نصف ما علی المحصنت‘ کے الفاظ شادی شدہ زانی کی سزا رجم نہ ہونے پر ہی دلالت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں شادی شدہ لونڈیوں کو آزاد عورتوں کے مقابلے میں نصف سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب اگر آزاد عورتوں میں زنا کی سزا کے اعتبار سے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی تقسیم موجود ہے تو ظاہر ہے کہ شادی شدہ لونڈی کا تقابل شادی شدہ آزاد عورت ہی کے ساتھ کیا جائے گا نہ کہ غیر شادی شدہ کے ساتھ، اس لیے کہ تقابل اسی صورت میں بامعنی قرار پاتا ہے ۔ اگر متکلم اس متبادر مفہوم سے مختلف کسی مفہوم کا ابلاغ کرنا چاہتا ہے تو بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی قرینہ کلام میں بہم پہنچایا جائے جو یہاں موجود نہیں۔
قرآن مجید کے نصوص کی وضاحت کے بعد اب ہم بحث کے دوسرے نکتے کی طرف آتے ہیں۔ روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ ہونے کی بنیاد پر زانی کی سزا میں فرق کیا اور قرآن کی بیان کردہ سزا کے علاوہ کنوارے زانی کے لیے ایک سال کی جلاوطنی جبکہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی اضافی سزا مقرر فرمائی۔ اس ضمن میں روایات دو طرح کی ہیں: ایک وہ جن میں شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کا قولی حکم مذکور ہے اور دوسری وہ جن میں مختلف مقدمات کے حوالے سے بعض مجرموں کو عملاً رجم کی سزا دینے کا ذکر ہوا ہے۔ 
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
کان نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا انزل علیہ کرب لذلک وتربد لہ وجہہ قال فانزل علیہ ذات یوم فلقی کذلک فلما سری عنہ قال خذوا عنی فقد جعل اللّٰہ لہن سبیلا: الثیب بالثیب والبکر بالبکر، الثیب جلد ماءۃ ثم رجم بالحجارۃ، والبکر جلد ماءۃ ثم نفی سنۃ. (مسلم، رقم ۳۲۰۰) 
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تو آپ کو تکلیف ہوتی اور اس کی شدت سے آپ کا چہرہ کسی قدر سیاہ ہو جاتا۔ ایک دن آپ پر وحی نازل ہوئی اور یہی کیفیت آپ پر طاری ہو گئی۔ جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا: مجھ سے لے لو۔ اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے راہ پیدا کر دی ہے۔ شادی شدہ زانی شادی شدہ زانیہ کے ساتھ ہے اور کنوارا زانی کنواری زانیہ کے ساتھ۔ شادی شدہ کو سو کوڑے مارنے کے بعد سنگسار کیا جائے، جبکہ کنوارے کو سو کوڑے مارنے کے بعد ایک سال کے لیے جلاوطن کر دیا جائے۔‘‘
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
لا یحل دم امرئ مسلم یشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وانی رسول اللّٰہ الا باحدی ثلاث: النفس بالنفس والثیب الزانی والمارق من الدین التارک للجماعۃ. (بخاری، رقم ۶۳۷۰) 
’’کسی مسلمان کی، جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، جان لینا تین صورتوں کے سوا جائز نہیں: جان کے بدلے جان، شادی شدہ زانی اور وہ شخص جو دین سے نکل کر مسلمانوں کی جماعت کا ساتھ چھوڑ دے۔‘‘
بعض روایات کے مطابق رجم کا حکم قرآن مجید میں باقاعدہ ایک آیت کی صورت میں نازل ہوا تھا۔ ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر نے ایک موقع پر اپنے خطبے میں فرمایا :
ان اللہ بعث محمدا بالحق وانزل علیہ الکتاب فکان مما انزل اللہ آیۃ الرجم فقراناہا وعقلناہا ووعیناہا رجم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورجمنا بعدہ فاخشی ان طال بالناس زمان ان یقول قائل واللہ ما نجد آیۃ الرجم فی کتاب اللہ فیضلوا بترک فریضۃ انزلہا اللہ والرجم فی کتاب اللہ حق علی من زنی اذا احصن من الرجال والنساء اذا قامت البینۃ او کان الحبل او الاعتراف (بخاری، ۶۳۲۸) 
’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی۔ اللہ تعالیٰ نے جو وحی نازل کی، اس میں رجم کی آیت بھی تھی، چنانچہ ہم نے اسے پڑھا اور سمجھا اور اسے یاد کیا۔ (اس پر عمل کرتے ہوئے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کی سزا دی اور آپ کے بعد ہم نے بھی اس پر عمل کیا۔ مجھے خدشہ ہے کہ زیادہ وقت گزرنے کے بعد کوئی شخص یہ کہے گا کہ بخدا ہم کتاب اللہ میں رجم کی آیت کو موجود نہیں پاتے۔ اس طرح وہ اللہ کے اتارے ہوئے ایک فریضے کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں گے۔ جو مرد یا عورت محصن ہونے کی حالت میں زنا کا ارتکاب کرے اور اس پر گواہ موجود ہوں یا حمل ظاہر ہو جائے یا وہ خود اعتراف کر لے تو اللہ کی کتاب میں اس کے لیے رجم کی سزا ثابت ہے ۔‘‘
رجم کا حکم قرآن میں نازل ہونے کی روایات سیدنا عمر کے علاوہ ابی بن کعب اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہیں اور ان میں یہ آیت ’الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموہما البتۃ‘ (بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت جب زنا کریں تو ان کو لازماً سنگ سار کردو)کے الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔ (مسند احمد، رقم ۲۰۶۱۳۔ موطا امام مالک، رقم ۲۵۶۸)
اس باب میں نقل ہونے والے مقدمات میں ماعز اسلمی (بخاری، رقم ۴۸۶۵)، قبیلۂ غامد کی ایک خاتون (مسلم، رقم ۳۲۰۸)، اپنے مالک کی بیوی سے بدکاری کرنے والے مزدور (بخاری، رقم ۲۵۲۳)، زنا کا ارتکاب کرنے والے ایک یہودی جوڑے، (بخاری، رقم ۳۳۶۳) اور نماز کے لیے جاتی ہوئی خاتون کو راستے میں پکڑ کر اس سے زیادتی کرنے والے ایک شخص (ابو داؤد، رقم ۴۳۷۹۔ ترمذی، رقم ۱۴۵۴) کے واقعات معروف ہیں۔ 
مذکورہ روایات کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی میں فرق کیا اور دونوں کے لیے جلا وطنی اور رجم کی اضافی سزائیں مقرر کی ہیں جو بظاہر قرآن مجید کے مدعا سے متجاوز دکھائی دیتی ہیں۔ قرآن مجید کی بیان کردہ سزا اور مذکورہ روایات میں تطبیق وتوفیق کی صورت کیا ہو؟ یہ سوال ہمیشہ سے اہل علم کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ صدر اول میں خوارج اور بعض معتزلہ نے رجم کو قرآن مجید کے منافی قرار دیتے ہوئے شرعی حکم کے طور پر تسلیم کرنے سے ہی سرے سے انکار کر دیا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ نہ صرف ’الزانیۃ والزانی‘ کا عموم اس کا مقتضی ہے کہ ہر قسم کے زانی کے لیے سو کوڑے ہی شرعی حد ہو، بلکہ قرآن مجید نے جس قدر تفصیل کے ساتھ زنا سے متعلق احکام وقوانین کو موضوع بنایا ہے، اتنا کسی دوسرے جرم کو نہیں بنایا اور اگر رجم کی سزا بھی زنا کی سزاؤں میں شامل ہوتی تو قرآن مجید لازماً اس کا ذکر کرتا۔ (رازی، التفسیر الکبیر ۲۳/۱۱۷، ۱۱۸) خوارج وغیرہ نے اس بنیاد پر رجم کی روایات کو سرے سے ناقابل اعتنا قرار دیا، تاہم یہ نقطۂ نظر امت کے جمہور اہل علم کے ہاں پذیرائی حاصل نہیں کر سکا اور انھوں نے رجم کی روایات کو قبول کرتے ہوئے قرآن مجید کے ساتھ اس حکم کی توفیق وتطبیق کی راہ اختیار کی۔ اس ضمن میں جو مختلف علمی توجیہات پیش کی گئیں ہیں، ذیل کی سطور میں ہم ان کا ایک تنقیدی مطالعہ کریں گے۔ 
۱۔ ایک نقطہ نظر یہ پیش کیا گیا ہے کہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی آیت خود قرآن مجید میں نازل ہوئی تھی جو بعد میں الفاظ کے اعتبار سے تو منسوخ ہو گئی، لیکن اس کا حکم باقی رہ گیا۔ (ابن حزم، المحلیٰ ۱۱/۲۳۴۔ ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ ۲۰/۳۹۸، ۳۹۹) اس موقف کے حق میں بناے استدلال بالعموم سیدنا عمر کے اس خطبے کوبنایا جاتا ہے جس کا متن ہم نے اوپر رجم سے متعلق روایات کے ضمن میں نقل کیا ہے۔**
اس مفہوم کی روایات اس حوالے سے باہم متعارض ہیں کہ رجم کا حکم آیا قرآن مجید کی کسی باقاعدہ آیت کے طور پر نازل ہوا تھا یا قرآن سے باہر کسی الگ حکم کے طور پر۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت باقاعدہ قرآن مجید کے ایک حصے کے طور پر نازل ہوئی تھی اور اسی حیثیت سے پڑھی جاتی تھی، چنانچہ زر بن حبیش ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا کہ سورہ احزاب اپنے حجم میں سورۂ بقرہ کے برابر ہوا کرتی تھی اور اس میں یہ آیت بھی تھی: ’الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموہما البتۃ نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم‘ (بیہقی، ۱۶۶۸۸۔ نسائی، السنن الکبریٰ، ۷۱۵۰) اس کے برعکس بعض دوسری روایات یہ بتاتی ہیں کہ کہ یہ قرآن مجید سے الگ ایک حکم تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حین حیات میں اسے قرآن مجید میں لکھنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ کثیر بن ا لصلت روایت کرتے ہیں کہ زید بن ثابت نے ایک موقع پر مروان کی مجلس میں یہ کہا کہ ہم ’الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموہما البتۃ ‘ کی آیت پڑھا کرتے تھے۔ اس پر مروان نے کہا کہ کیا ہم اسے مصحف میں درج نہ کر لیں؟ زید نے کہا کہ نہیں، دیکھتے نہیں کہ جوان شادی شدہ مرد عورت بھی اگر زنا کریں تو انھیں رجم کیا جاتا ہے۔ پھر انھوں نے بتایا کہ یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں صحابہ کے مابین زیر بحث آئی تو سیدنا عمر نبی صلی اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ، مجھے رجم کی آیت لکھوا دیجیے، لیکن آپ نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ (بیہقی، ۱۶۶۹۰۔ نسائی، السنن الکبریٰ، ۷۱۴۸)
بہرحال رجم کا حکم قرآن مجید میں نازل کیے جانے کے بعد اس سے نکال لیا گیا ہو یا ابتدا ہی سے اسے قرآن کا حصہ بنانے سے گریز کیا گیا ہو، دونوں صورتوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر شارع کے پیش نظر اس کو ایک مستقل حکم کے طور پر برقرار رکھنا تھا تو مذکورہ طریقہ کیوں اختیارکیا گیا؟ اگر یہ مانا جائے کہ شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کی آیت قرآن میں نازل ہونے کے بعد اس سے نکال لی گئی تو اس کی واحد معقول توجیہ یہی ہو سکتی ہے کہ اب یہ حکم بھی منسوخ ہو چکا ہے، ورنہ حکم کو باقی رکھتے ہوئے آیت کے الفاظ کو منسوخ کر دینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ اور اگر یہ فرض کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی یہ حکم تو دیا گیا تھا لیکن اسے قرآن مجید کا حصہ بنانے سے بالقصد گریز کیا گیا تو بظاہر یہ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ ایک وقتی نوعیت کا حکم تھا جسے ابدی شرعی احکام کی حیثیت سے برقرار رکھنا اللہ تعالیٰ کے پیش نظر نہیں تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صرف اسی سزا کے بیان پر اکتفا کی جسے ابدی طور پر باقی رکھنا ضروری تھا۔ مذکورہ دونوں صورتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رجم کے حکم کے منسوخ ہو جانے کی بات بظاہر معقول دکھائی دیتی ہے، لیکن اس امر کی توجیہ کسی طرح نہیں ہو پاتی کہ یہ بات صحابہ سے کیسے مخفی رہ گئی، کیونکہ نہ صرف سیدنا عمر جیسے بلند پایہ فقیہ رجم کے ایک شرعی حکم کے طورپر باقی ہونے کے قائل ہیں، بلکہ خلفاے راشدین اور دوسرے اکابر صحابہ کے ہاں بھی متفقہ طور پر یہی تصور پایا جاتا ہے۔
۲۔ امام شافعی نے یہ زاویۂ نگاہ پیش کیا ہے کہ اگرچہ قرآن مجید کے الفاظ بظاہر عام ہیں اور ان کو غیر شادی شدہ زانی کے ساتھ خاص کرنے کا کوئی قرینہ کلام میں موجود نہیں، تاہم قرآن مجید کا حقیقی مدعا اس کے ظاہر الفاظ کے بجائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کی روشنی میں زیادہ درست طور پر متعین کیا جا سکتا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر کرنا گویا اس بات کی وضاحت ہے کہ قرآن میں ’الزانیۃ والزانی‘ کے الفاظ درحقیقت صرف کنوارے زانیوں کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ (الشافعی، الرسالہ، ۶۶، ۶۷، ۷۲)
امام صاحب کے نقطہ نظر پر ہمارا بنیادی اشکال یہ ہے کہ امام صاحب نے اس مسئلے کو سنت کے ذریعے سے قرآن مجید کی تخصیص کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے، جبکہ یہ درحقیقت تخصیص کی نہیں بلکہ قرآن پر زیادت کی مثال ہے، چنانچہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت میں، جو زنا کی سزا کے قانونی بیان کا بنیادی ماخذ ہے، کوڑوں کی سزا کے حوالے سے شادی شدہ اور کنوارے زانی میں کوئی فرق نہیں کیا گیا، بلکہ اسے دونوں پر یکساں قابل اطلاق قرار دیا گیا ہے، البتہ اس کے ساتھ ساتھ کنوارے زانی کے لیے ایک سال کی جلاوطنی کی جبکہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی اضافی سزا بھی بیان کی گئی ہے۔ امام شافعی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ سورۂ نساء میں زنا کی عبوری سزا مقرر کیے جانے کے بعد سورۂ نور کی آیات نازل ہوئیں جن میں زنا کی مستقل سزا مقرر کی گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حکم کی وضاحت میں وہ تفصیل بیان کی جو عبادہ بن صامت کی روایت میں نقل ہوئی ہے، البتہ امام صاحب کی رائے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے یہ واضح فرمایا ہے کہ شادی شدہ زانی کو صرف رجم کی سزا دی جائے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو سو کوڑوں کی سزا دینا منسوخ ہو چکا ہے۔ تاہم اس سے صورت حال میں کوئی ایسا فرق واقع نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ یہ سنت کے ذریعے سے قرآن پر زیادت کی نہیں بلکہ تخصیص کی مثال ہے، اس لیے کہ عبادہ بن صامت کی روایت سے واضح ہے کہ یہ حکم سورۂ نساء میں زنا کی عبوری سزا کے بیان کے بعد نازل ہونے والا پہلا مستقل حکم ہے اور اس میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم کے ساتھ ساتھ کوڑوں کی سزا بھی بیان ہوئی ہے، اس لیے اگر امام شافعی کی رائے کے مطابق یہ تسلیم کر لیا جائے کہ کوڑوں کی سزا بعد میں منسوخ ہو گئی تھی تو بھی عبادہ بن صامت کی روایت کی حد تک یہ ’زیادت‘ ہی ہے، اسے کسی طرح بھی ’تخصیص‘ نہیں کہا جا سکتا۔ 
برسبیل تنزل اسے ’تخصیص‘ کی مثال مان لیا جائے تو بھی امام صاحب کی اس بات سے اتفاق کرنا ممکن نہیں کہ قرآن مجید شادی شدہ زانی کی سزا بیان کرنے کے معاملے میں قطعی نہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر کرنا قرآن کے محتمل اور ظنی الدلالۃ الفاظ کی وضاحت اور بیان کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ ’الزانیۃ والزانی‘ کے ظاہری عموم کے علاوہ سورۂ نور میں ’یدرؤ عنہا العذاب‘ اور سورۂ نساء میں ’نصف ما علی المحصنت من العذاب‘ کے الفاظ صریحاً یہ بتاتے ہیں کہ شادی شدہ زانی کے لیے بھی سو کوڑے ہی کی سزا ہے۔ چنانچہ روایت نے اگر قرآن کی ’تخصیص‘ کی ہے تو شرح ووضاحت اور ’بیان‘ کے طریقے پر نہیں بلکہ نسخ اور تغییر کے طریقے پر کی ہے جس کے جواز کے خود امام شافعی بھی قائل نہیں۔ ان وجوہ سے امام شافعی کی رائے ہمارے نزدیک معاملے کو ضرورت سے زیادہ سادہ بنا کر پیش کرنے (oversimplification) کی ایک مثال ہے جسے علمی بنیادوں پر قبول کرنا ممکن نہیں۔
مولانامودودی نے امام شافعی کے زاویہ نگاہ کو ایک دوسرے انداز سے پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن مجید صرف غیر شادی شدہ زانی کی سزا بیان کرتا ہے اور اس کے لیے خود قرآن مجید میں قرائن موجود ہیں۔ مولانا نے اس ضمن میں جو استدلال پیش کیا ہے، اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
استدلال کا پہلا مقدمہ یہ ہے کہ سورۂ نساء کی آیت ۱۵ میں اللہ تعالیٰ نے زنا کی جو مستقل سزا مقرر کرنے کا وعدہ کیا اور پھر اسی سورہ کی آیت ۲۵ میں شادی شدہ لونڈی کے لیے جس سزا کا ذکر کیا ہے، وہ وہی ہے جو سورۂ نور کی آیت ۲ میں بیان کی گئی ہے۔ دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ ’نصف ما علی المحصنت‘ (نساء ۲۵) میں ’محصنات‘ کا لفظ شادی شدہ آزاد عورتوں کے مفہوم میں نہیں بلکہ غیر شادی شدہ آزاد عورتوں کے مفہوم میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ لونڈیوں کو غیر شادی شدہ آزاد عورتوں کی سزا سے آدھی سزا دی جائے۔ ان دو مقدموں سے مولانا یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ چونکہ سورۂ نساء کی آیت ۲۵ میں لونڈیوں کو غیر شادی شدہ آزاد عورتوں کی سزا سے آدھی سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ اصل سزا سورۂ نور میں بیان ہوئی ہے، اس لیے سورۂ نور میں بیان ہونے والی سزا بھی لازماً غیر شادی شدہ آزاد عورتوں ہی سے متعلق ہے۔ (تفہیم القرآن، ۳/۳۲۶)
دوسرے مقدمے کے حق میں مولانا نے دو دلیلیں پیش کی ہیں: ایک کہ اسی آیت کے شروع میں ’من لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنات المومنات‘ میں محصنات کا لفظ غیر شادی شدہ آزاد عورتوں کے لیے آیا ہے، اس لیے اسی سیاق میں جب یہ لفظ دوبارہ استعمال ہوا ہے تو اس سے مراد بھی غیر شادی شدہ عورتیں ہی ہو سکتی ہیں۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ زنا کی سزا دراصل اس حفاظت کو توڑنے کی سزا ہے جو عورت کو خاندان یا نکاح کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ شادی شدہ آزاد عورت کو دونوں حفاظتیں میسر ہوتی ہیں جبکہ غیر شادی شدہ کو صرف ایک۔ اس کے برعکس لونڈی خاندان کی حفاظت سے بالکل محروم ہوتی ہے ، جبکہ شادی شدہ ہونے کی صورت میں اسے صرف ایک حفاظت حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی ادھوری، چنانچہ لونڈی کا تقابل شادی شدہ آزاد عورت سے نہیں، جس کو دوہری حفاظت حاصل ہوتی ہے، بلکہ غیر شادی شدہ آزاد عورت سے ہونا چاہیے جسے لونڈی کی طرح ایک ہی حفاظت میسر ہوتی ہے۔ (تفہیم القرآن، ۱/۳۴۲، ۳۴۳)
مولانا کا پیش کردہ یہ استدلال واقعہ یہ ہے کہ ہر لحاظ سے بالکل بے بنیاد ہے۔ اول تو ان کا یہ استنتاج عجیب ہے کہ چونکہ نساء میں لونڈیوں کو غیر شادی شدہ آزاد عورتوں سے آدھی سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے سورۂ نور میں بیان ہونے والی سزا بھی کنوارے زانیوں ہی سے متعلق ہے۔ نساء کی آیت سے واضح ہے کہ سورۂ نور کی آیت اس سے پہلے نازل ہو چکی تھی، چنانچہ یہ بات طے کرنے کے قرائن کہ سورۂ نور میں کون سے زانی زیر بحث ہیں، خود سورۂ نور میں موجود ہونے چاہییں اور انھی روشنی میں اس کا فیصلہ کرنا چاہیے، نہ کہ سورۂ نور کے احکام کا دائرۂ اطلاق سورۂ نساء کی آیات سے متعین کرنا چاہیے۔ اگر سورۂ نور کے احکام کے دائرۂ اطلاق کی تعیین کے لیے نساء کی آیت ۲۵ ہی قرآن مجید میں واحد بنیاد ہے تو سوال یہ ہے کہ جب تک اس آیت میں مذکورہ قرینہ اگر اسے کوئی قرینہ کہا جا سکے بہم نہیں پہنچایا گیا تھا، اس وقت تک سورۂ نور میں اللہ تعالیٰ کے منشا تک رسائی کا ذریعہ کیا تھا؟ حکم کو بیان کر دینا لیکن اس کے ایک نہایت بنیادی پہلو کے فہم کو معلق رکھتے ہوئے اس کے قرائن کو بعد میں کسی دوسری جگہ پر الگ رکھ دینا آخر زبان وبیان اور بلاغت کا کون سا اسلوب ہے؟
مولانا نے سورۂ نساء کی آیت ۲۵ میں جس قرینے کی نشان دہی کی ہے، وہ بھی دلچسپ ہے۔ عربی زبان میں ’محصنات‘ کا لفظ ’’آزاد عورتوں‘‘کے مفہوم میں استعمال ہو تو اس کا مصداق بننے والے افراد اپنی حالت کے لحاظ سے شادی شدہ بھی ہو سکتے ہیں اور غیر شادی شدہ بھی، لیکن اس فرق پر کوئی دلالت لفظ کے اپنے مفہوم میں داخل نہیں۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ کسی مخصوص سیاق کلام میں قرینے کی بنا پر اس لفظ کا اطلاق صرف شادی شدہ یا غیر شادی شدہ عورتوں تک محدود ہو جائے، لیکن ’محصنات‘ کا لفظ موقع کلام سے پیدا ہونے والی اس تخصیص سے قطع نظر فی نفسہ محض ’’آزاد عورتوں‘‘ کے مفہوم پر دلالت کرتا ہے۔ زیر بحث آیت میں بھی ’من لم یستطع منکم ان ینکح المحصنات‘ میں لفظ ’محصنات‘ محض ’’آزاد عورتوں‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ’’غیر شادی شدہ آزاد عورت‘‘ ہونا اس کا معنی یا اس کے استعمالات میں سے کوئی استعمال نہیں، بلکہ اس میں یہ مفہوم اس کے ساتھ متعلق ہونے والے فعل یعنی ’ینکح‘ کے تقاضے سے پیدا ہوا ہے اور عربیت کی رو سے یہ تخصیص اسی جملے تک محدود ہے۔ اس کے بعد جب یہ لفظ ’فعلیہن نصف ما علی المحصنات من العذاب‘ میں دوبارہ استعمال ہوا ہے تو یہاں بھی اس کا مفہوم محض ’’آزاد عورتیں‘‘ ہے، جبکہ ’ینکح المحصنات‘ میں فعل ’ینکح‘ کے تقاضے سے پیدا ہونے والی تخصیص کو یہاں موثر ماننے کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ قرینہ۔ 
مولانا نے اس ضمن میں اکہرے اور دوہرے احصان کا جو نکتہ بیان کیا ہے، وہ ذہانت آمیز ہے لیکن اس کا عربی زبان یا قرآن مجید کے مدعا سے کوئی تعلق نہیں۔ عربی زبان میں ’محصنات‘ کا لفظ، جیسا کہ ہم نے واضح کیا، سادہ طور پر ’’آزاد عورتوں‘‘ یا ’’شادی شدہ خواتین‘‘ کے مفہوم پر دلالت کرتا ہے۔ ان دونوں استعمالات کی لسانی تحقیق کے تناظر میں یہ نکتہ بالکل درست ہے کہ آزاد عورتوں کو خاندان کی حفاظت حاصل ہوتی ہے اور شادی شدہ عورتوں کو نکاح کی۔ اسی طرح عقلی استدلال کی حد تک یہ بات بھی درست ہے کہ شادی شدہ آزاد عورت کو دو حفاظتیں حاصل ہوتی ہیں جبکہ غیر شادی شدہ کو صرف ایک، لیکن جہاں تک عربی زبان کے استعمال کا تعلق ہے تو اہل زبان اس لفظ کو ’’آزاد عورت‘‘ یا ’’شادی شدہ عورت‘‘ کے بالکل سادہ مفہوم میں استعمال کرتے ہیں۔ اکہرے یا دوہرے احصان کا کوئی تصور نہ اہل زبان کے استعمال میں موجود ہے اور نہ قرآن کے الفاظ میں اس بات کی طرف کوئی اشارہ موجود ہے۔ اس لیے یہ ایک دقیق نکتہ آفرینی تو ہو سکتی ہے، لیکن الفاظ کا مفہوم ومدلول اور متکلم کا مدعا ومنشا متعین کرنے کا یہ طریقہ زبان وبیان کے لیے ایک اجنبی چیز ہے۔ 
مولاناکی یہ رائے کہ نساء کی آیت ۱۵ غیر شادی شدہ زانیوں ہی سے متعلق تھی، اس وجہ سے بھی محل نظر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث عبادہ میں ’او یجعل اللہ لہن سبیلا‘ کاحوالہ دیتے ہوئے صرف کنوارے زانیوں کے ساتھ شادی شدہ زانیوں کی سزا بھی بیان کی ہے جو اس کی دلیل ہے کہ مذکورہ آیت میں بیان ہونے والی عبوری سزا بھی دونوں ہی سے متعلق تھی۔ مولانا کی بات درست مان لی جائے تویہ سوال تشنہ جواب رہتا ہے کہ اگر یہ آیت صرف غیر شادی شدہ زانیوں سے متعلق تھی تو عبوری سزا بیان کرتے ہوئے صرف انھیں کیوں مدنظر رکھا گیا اور شادی شدہ زانیوں کو کیوں نظر انداز کر دیا گیا۔ 
مذکورہ بحث کا حاصل یہ ہے کہ جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے تو اس میں کسی ابہام یا احتمال کے بغیر پوری وضاحت کے ساتھ شادی شدہ اور کنوارے زانی کے لیے ایک ہی سزا یعنی سو کوڑے کی تصریح کی گئی ہے، اس لیے قرآن مجید اور روایات کے مابین تطبیق وتوفیق پیدا کرنے کے لیے قرآن مجید کے بیان کو محتمل اور اس کی دلالت کو ظنی قرار دینے کا نقطہ نظر درست نہیں۔ قرآن کے بیان کا واضح، غیر مبہم اور غیر محتمل ہونا اس بحث کا بنیادی نکتہ ہے اور اس کو نظر انداز کر کے کی جانے والی توجیہ وتطبیق کی ہر کوشش محض دفع الوقتی ہوگی۔
۳۔ اصولیین کے ایک گروہ نے رجم کے حکم کو آیت نور کی ’تخصیص‘ کے بجائے اس پر ’زیادت‘ قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی بیان کردہ سزا ہر قسم کے زانی کے لیے عام ہے، البتہ ان میں سے شادی شدہ زانیوں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کی صورت میں ایک اضافی سزا بھی مقرر فرمائی ہے۔ اس نقطۂ نظر کے حامل اہل علم میں سے بعض شادی شدہ زانی پر دونوں سزائیں نافذ کرنے کے قائل ہیں، (ابن عبد البر، الاستذکار ۲۴/۴۹) جبکہ بعض کی رائے میں رجم کی سزا نافذ کرنے کی صورت میں چونکہ کوڑے لگانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی، اس لیے عملاً ایک ہی سزا نافذ کی جائے گی۔ (شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۲۷)
اس رائے پر بنیادی اشکال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کی بیان کردہ سزا میں یہ اضافہ آیا سورۂ نور کے نزول کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کے پیش نظر تھا یا اسے بعد میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا؟ اگر دوسری صورت فرض کی جائے تو روایت اسے قبول نہیں کرتی، کیونکہ وہ یہ بتاتی ہے کہ سورۂ نساء کی آیت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جانے والا پہلا حکم یہی تھا، چنانچہ سورۂ نور کا نزول اس حکم کے ساتھ یا اس کے بعد تو مانا جا سکتا ہے، لیکن اس سے پہلے نہیں۔ اس کے برعکس پہلی صورت مانی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ سو کوڑے لگوانے کے ساتھ ساتھ کنوارے زانی کو جلاوطن جبکہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کروانا چاہتے ہیں تو دونوں حکموں کے ایک ہی موقع پر نازل کیے جانے کے باوجود قرآن مجید کے اس پوری بات کو خود بیان کرنے سے گریز کرنے اور سزا کا ایک جزو قرآن میں جبکہ دوسرا جزو اس سے باہر نازل کی جانے والی وحی میں بیان کرنے کی وجہ اور حکمت کیا ہے اور جب قرآن نے زنا کی سزا کے بیان کو باقاعدہ موضوع بنایا ہے تو مجرم کے حالات کے لحاظ سے اس جرم کی جو مختلف سزائیں دینا اللہ تعالیٰ کے پیش نظر تھا، ان کی وضاحت میں کیا چیز مانع تھی؟ قرآن کے اسلوب کا ایجاز مسلم ہے، لیکن عدت، وراثت اور قتل خطا وغیرہ کی مختلف صورتوں اور ان کے الگ الگ احکام کی تفصیل کا طریقہ خود قرآن میں اختیار کیا گیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ زنا کی سزا کے معاملے میں اس معروف اور مانوس طریقے کو چھوڑ کر ایک ایسا انداز اختیار کیا گیا جو نہ صرف زبان وبیان کے عمومی اسلوب بلکہ خود قرآن کے اپنے طرز گفتگو سے بھی بالکل ہٹ کر ہے؟
ایک احتمال یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید نے تو زنا کی سزا سو کوڑے ہی مقرر کی تھی، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد کی بنا پر یہ فیصلہ فرمایا کہ اس پر جلا وطنی اور سنگساری کی سزا کا بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت امت پر مطلقاً فرض کی گئی ہے، اس لیے آپ نے قرآن کے علاوہ اپنے اجتہاد کی بنیاد پر جو حکم دیا، امت کے لیے اسے بھی ایک شرعی حکم کی حیثیت سے تسلیم کرنا لازم ہے۔ تاہم یہ مفروضہ بھی اصل الجھن کو حل کرنے میں کسی طور پر مددگار نہیں، اس لیے کہ اصل سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی حیثیت کو ماننے یا نہ ماننے یا آپ کی اطاعت کے دائرے کو مطلق یا مقید قرار دینے کا نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ اگر جلاوطنی اور رجم کی اضافی سزائیں مقرر کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا اجتہاد تھا تو کیا آپ کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ جس معاملے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی واضح حکم دیا گیا ہو، اس میں اپنے اجتہاد سے کام لیتے ہوئے نفس حکم میں کوئی ترمیم یا اضافہ کر لیں اور کیا آپ کے اجتہادات میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ ان سزاؤں کے اضافے کو آپ کے اجتہاد پر مبنی ماننے سے دوسرا اہم اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شرعی سزاؤں کے معاملے میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا رجحان یہ تھا کہ مجرم کو سزا سے بچنے کا موقع دیا جائے، چنانچہ آپ نے زنا کے اعتراف کے ساتھ پیش ہونے والے مجرموں کو اپنے رویے سے واپس پلٹ جانے اور توبہ واصلاح پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور عمومی طور پر بھی مسلمانوں کو یہی ہدایت کی کہ وہ جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے حتی الامکان سزا سے بچنے کا راستہ تلاش کریں۔ اس تناظر میں یہ بات ایک تضاد دکھائی دیتی ہے کہ ایک طرف آپ مجرموں سے سزا کے نفاذ کو ٹالنے کا رجحان ظاہر کر رہے ہوں اور دوسری طرف انھی مجرموں کے لیے قرآن کی بیان کردہ سزاؤں کو ناکافی سمجھتے ہوئے اپنے اجتہاد سے ان پر مزید اور زیادہ سنگین سزاؤں کا اضافہ فرما رہے ہوں۔ ان وجوہ سے جلاوطنی اور رجم کی اضافی سزاؤں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد پر مبنی قرار دینے کی بات کسی طرح قرین قیاس دکھائی نہیں دیتی۔
ایک مزید احتمال یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید نے صرف نفس زنا کی سزا بیان کی ہے، جبکہ سزا کے نفاذ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ اگر اس میں مجرم کے حالات یا جرم کی نوعیت کے لحاظ سے شناعت کا کوئی مزید پہلو شامل ہو جائے تو اس کی رعایت سے کوئی اضافی سزا بھی اصل سزا کے ساتھ شامل کی جا سکتی ہے۔ چونکہ شادی شدہ زانی جائز طریقے سے جنسی تسکین کی سہولت موجود ہوتے ہوئے ایک ناجائز راستہ اختیار کرتا اور اپنے رفیق حیات کے ساتھ بھی بے وفائی اور عہد شکنی کا مرتکب ہوتا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے زانی کے لیے اضافی سزا مقرر کرنے سے قرآن مجید کے حکم پر کوئی زد نہیں پڑتی۔ 
تاہم یہ احتمال بھی اشکال سے خالی نہیں، ا س لیے کہ قرآن نے محض ’الزانیۃ والزانی‘ کے ظاہری عموم پر اکتفا نہیں کیا بلکہ، جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں، شادی شدہ زانی کے لیے بھی سو کوڑوں ہی کی سزا بیان کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نزدیک اصل سزا یہی ہے۔ اب اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اضافی پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی زائد سزا بیان کی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ ’حد‘ نہیں بلکہ ایک تعزیری سزا ہوگی، کیونکہ اسے اصل سزا کا لازمی حصہ تصور کرنے کا مطلب اس معاملے میں قرآن کے صریح بیان کو ناکافی قرار دینا ہوگا۔ ویسے بھی مجرم کے حالات کے لحاظ سے دی جانے والی اضافی سزا اپنی نوعیت کے لحاظ سے تعزیری سزا ہی ہو سکتی ہے اور اس کے نفاذ میں یہ بات ملحوظ رکھنا پڑتی ہے کہ سزا میں جس بنیاد پر اضافہ کیا جا رہا ہے، وہ عملاً موجود بھی ہے یا نہیں۔ اس طرح اس توجیہ کا منطقی تقاضا یہ ہوگا کہ مثال کے طور پر رجم کی اضافی سزا کا نفاذ صرف ایسے شادی شدہ زانی پر کیا جائے جس کے لیے ارتکاب زنا کے وقت بھی شرعی طریقے سے اپنی بیوی یا شوہر سے جنسی استمتاع کا امکان موجود ہو۔ اگر نکاح کے بعد جدائی ہو چکی ہو یا زوجین میں سے کوئی ایک انتقال کر چکا ہو یا خاوند گھر سے دور ہو تو ازروے علت ان صورتوں میں زنا کے ارتکاب پر مجرم کے شادی شدہ ہونے کے باوجود اسے رجم کی سزا نہیں دی جانی چاہیے۔ چنانچہ یہ توجیہ اصل مقصود یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ سزاؤں کے ’حد‘ یعنی سزا کا لازمی حصہ ہونے کوکسی طرح واضح نہیں کرتی۔ مزید برآں اگر اس کو درست مانا جائے تو اس سے صرف شادی شدہ زانی کی سزا میں اضافے کی توجیہ ہوتی ہے، جبکہ کنوارے زانی کی سزا میں جلاوطنی کا اضافہ کرنے کی کوئی وجہ واضح نہیں ہو پاتی۔
واقعہ یہ ہے کہ روایت میں بیان ہونے والی اضافی سزاؤں کی اگر زنا کے علاوہ کوئی اضافی وجہ فرض نہ کی جائے اور ان سزاؤں کو قرآن ہی کی بیان کردہ سزا کے دائرۂ اطلاق میں مساوی طور پر لازم مانا جائے تو آیت اور روایت کے باہمی تعلق کی کوئی معقول توجیہ کرنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ فقہاے احناف نے کم از کم روایت کے ایک حصے یعنی کنوارے زانی کی سزا کی حد تک قرآن مجید اور روایت میں تطبیق کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔ ان کی رائے میں جلاوطنی کی سزا محض ایک تعزیری سزا ہے اور اس کے نفاذ کا مدار قاضی کی صواب دید پر ہے۔ اس ضمن میں احناف کا اصولی استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید مطلقاً ہر قسم کے زانی کے لیے صرف سو کوڑوں کی سزا بیان کے حوالے سے بالکل واضح اور قطعی ہے اور اس کے دائرۂ اطلاق میں کوئی تخصیص یا اس سزا پر کوئی اضافہ کسی قطعی دلیل کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ وہ کنوارے زانی کے لیے حدیث میں بیان ہونے والی اضافی سزا یعنی ایک سال کی جلاوطنی کو، خبر واحد سے ثابت ہونے کی بنا پر، سزا کا لازمی حصہ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی رائے میں قرآن نے جس سزا کے بیان پر اکتفا کی ہے، وہی اصل سزا ہے اور اس پر کوئی اضافہ کرنا قرآن کے نسخ کو مستلزم ہے جو خبر واحد سے نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ وہ زانی کو جلا وطن کرنے کو ایک صواب دیدی سزا کے طور پر قبول کرتے ہیں اور ان کے نزدیک اگر قاضی کسی مجرم کی آوارہ منشی کو دیکھتے ہوئے اس کے اس علاقے میں رہنے کو خطرے کا باعث سمجھے یا مزید تنبیہ کی غرض سے اسے گھر در سے دور اور اعزہ واقربا کی حمایت سے محروم کرنے کو بھی قرین مصلحت دیکھے تو وہ سو کوڑے لگانے کے بعد اسے جلا وطن بھی کر سکتا ہے۔ (سرخسی، المبسوط ۹/۵۰، ۵۱۔ جصاص، احکام القرآن ۳/۲۵۵، ۲۵۶۔ طحاوی، شرح معانی الآثار ۴۴۷۹)
امام طحاوی نے اس پر یہ استدلال پیش کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں لونڈیوں کے بارے میں یہ حکم دیا ہے کہ اگر وہ زنا کا ارتکاب کریں تو انھیں آزاد عورتوں سے نصف سزا دی جائے: ’فنصف ما علی المحصنت من العذاب‘۔ ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈیوں کی سزا بیان کرتے ہوئے صرف کوڑے لگانے کا ذکر کیا ہے اور انھیں جلاوطن کرنے کا حکم نہیں دیا۔ آپ نے فرمایا:
اذا زنت الامۃ فاجلدوہا ثم اذا زنت فاجلدوہا ثم اذا زنت فاجلدوہا فی الثالثۃ او الرابعۃ بیعوہا ولو بضفیر (بخاری، ۲۳۶۹)
’’جب لونڈی زنا کرے تو اس کو کوڑے لگاؤ۔ پھر زنا کرے تو کوڑے لگاؤ۔ پھر زنا کرے تو کوڑے لگاؤ۔ تیسری یا چوتھی مرتبہ زنا کے بارے میں فرمایا کہ اب اسے بیچ دو، چاہے قیمت میں ایک معمولی رسی ہی ملے۔‘‘
تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ شریعت کی رو سے زنا کے ارتکاب کی صورت میں لونڈی کو جلاوطن نہیں کیا جائے گا۔ چونکہ قرآن مجیدنے لونڈیوں کی سزا آزاد عورتوں سے نصف بیان کی ہے، اس لیے اگر جلا وطن کرنا آزاد عورتوں کی سزا کا لازمی حصہ ہوتا تو قرآن مجید کے مذکورہ حکم کی رو سے لونڈیوں کو بھی چھ ماہ کے لیے جلا وطن کرنا ضروری ہوتا، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈیوں کے لیے یہ سزا بیان نہیں فرمائی اور نہ اہل علم میں سے کوئی اس کا قائل ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آزاد عورتوں کے لیے بھی جلا وطن کرنا زنا کی سزا کا کوئی لازمی حصہ نہیں ہے۔ پھر چونکہ زنا کی سزا کے معاملے میں آزاد عورتوں اور آزاد مردوں کی سزا میں کوئی فرق نصوص سے ثابت نہیں، اس لیے مردوں کے بارے میں بھی لازماً یہی موقف اختیار کرنا پڑے گا۔ (طحاوی، شرح معانی الآثار، ۴۴۷۹)
زانی کو جلا وطن کرنے کی احادیث کو روایت کرنے والے بعض صحابہ کے اسلوب بیان سے بھی یہ بات نکلتی ہے کہ وہ اس سزا کو اصل حد کا حصہ نہیں، بلکہ ایک اضافی سزا سمجھتے ہیں۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قضی فی من زنی ولم یحصن ان ینفی عاما مع اقامۃ الحد علیہ (نسائی، السنن الکبریٰ، ۷۲۳۷)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر شادی شدہ زانی کے بارے میں حد جاری کرنے کے ساتھ ساتھ ایک سال کے لیے جلاوطن کرنے کاحکم دیا۔‘‘
گویا جلا وطن کرنے کی سزا فی نفسہ کسی جرم کی مستقل اور باقاعدہ سزا نہیں ہے، بلکہ اسے جرم کی نوعیت اور حالات کی مناسبت سے کسی بھی جرم کی اصل سزا کے ساتھ تعزیری طور پر شامل کیا جا سکتا ہے، اور اسی حکمت ومصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر مجرم کو جلا وطن کرنے میں بہتری کے بجائے فساد کا خدشہ ہو تو اسے جلاوطن نہ کیا جائے۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ابراہیم نخعی کی رائے یہ نقل ہوئی ہے کہ زانی مرد وعورت کو جلاوطن کرنا ’فتنہ‘ ہے، (کتاب الآثار، ۶۱۴، ۶۱۵) یعنی اس سے ان کی اصلاح کے بجائے مزید برائی میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رائے اصلاً جلا وطن کرنے کے جواز کی نفی نہیں کرتی، بلکہ معروضی حالات میں اس سزا کے مفید یا موثر ہونے کے بجائے الٹا نقصان دہ ہونے کے امکان کو بیان کرتی ہے۔
فقہاے احناف نے مذکورہ طریقہ تطبیق کو روایت کے پہلے حصے تک محدود رکھا ہے اور شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا پر اس کا اطلاق نہیں کیا بلکہ اس حوالے سے قرآن مجید اور روایت کے باہمی تعارض کونسخ کے اصول پر حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں ان کے ہاں دو زاویہ ہائے نگاہ پائے جاتے ہیں: ایک رائے کے مطابق رجم کا حکم سورۂ نور کی آیت کے لیے ناسخ کی حیثیت رکھتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اولاً ہر قسم کے زانی کے لیے سو کوڑوں ہی کی سزا مشروع کی گئی تھی، لیکن بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کو صرف کنوارے زانیوں کے ساتھ مخصوص کرتے ہوئے شادی شدہ زانیوں کے لیے رجم کی سزا مقرر کر دی۔ (ابن الہمام، فتح القدیر ۵/۲۳۰) دوسری رائے کی رو سے شادی شدہ اور کنوارے زانی کی سزا میں فرق سورۂ نور کی مذکورہ آیت سے پہلے ہی قائم کیا جا چکا تھا اور کنوارے زانی کو سو کوڑوں کے ساتھ جلا وطن کرنے جبکہ شادی شدہ زانی کو کوڑے مارنے کے ساتھ رجم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سورۂ نور کی آیت نازل ہوئی اور کنوارے زانی کو جلا وطن کرنے اور شادی شدہ زانی کو رجم سے پہلے سو کوڑے مارنے کی سزا منسوخ قرار پائی۔ (سرخسی، المبسوط ۹/۴۱، ۴۲)
ہم یہاں اصول فقہ کی اس بحث سے صرف نظر کر لیتے ہیں کہ سنت کے ذریعے سے قرآن یا قرآن کے ذریعے سے سنت کے کسی حکم کو کلی یا جزوی طور پر منسوخ کیا جا سکتا یا نہیں۔ اس بات کو فرضاً درست مان لیا جائے تو بھی زیربحث مسئلے میں نسخ کے اصول کا اطلاق کرنا مشکل ہے، اس لیے کہ اگر یہ کہا جائے کہ سورۂ نور کی آیت حدیث عبادہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی سے پہلے نازل ہو چکی تھی اور حدیث عبادہ اس کے لیے ناسخ ہے تو اس کی نفی خود روایت کے داخلی شواہد سے ہو جاتی ہے، کیونکہ روایت سے واضح ہے کہ سورۂ نساء میں زنا کی عبوری سزا کے بیان کے بعد اس موقع سے پہلے زنا سے متعلق کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اور ’او یجعل اللہ لہن سبیلا‘ کے وعدے کی تکمیل پہلی مرتبہ اسی حکم کے ذریعے سے کی جا رہی تھی۔ اس لیے یہ فرض کرنا درست نہیں ہوگا کہ سورۂ نور کی آیت اس سے پہلے نازل ہو چکی تھی اور حدیث عبادہ اس کے لیے ناسخ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اگر اس کے برعکس سورۂ نورکی آیت کو حدیث عبادہ کے لیے ناسخ مانا جائے تو یہ لازم آئے گا کہ شادی شدہ اور کنوارے، دونوں طرح کے زانیوں کے لیے سو کوڑے ہی حد شرعی قرار پائے، اس لیے کہ سورۂ نور میں، جیسا کہ واضح ہے، شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ یہ کہنا کہ سورۂ نور کی آیت کے ناسخ ہونے کا اثر کنوارے زانی کے لیے جلاوطنی اور شادی شدہ کے لیے سو کوڑوں کی سزا تک محدود ہے اور رجم کی سزا اس کے تحت نہیں آتی، محض ایک تحکم ہوگا جس کے لیے آیت کے الفاظ اور سیاق وسباق میں کوئی بعید ترین قرینہ بھی موجود نہیں۔ مزید برآں روایت کا اسلوب یہ تقاضا کرتا ہے کہ کنوارے زانی اور شادی شدہ زانی، دونوں کے لیے بیان کی جانے والی اضافی سزا کی نوعیت ایک جیسی ہو۔ اگر کنوارے زانی کی اضافی سزا تعزیری نوعیت کی ہے تو شادی شدہ زانی کی اضافی سزا کو اس سے مختلف نوعیت پرمحمول کرنے کے لیے کوئی قرینہ ہونا چاہیے جو بظاہر روایت میں موجود نہیں۔ 
روایتی علمی ذخیرے میں زیر بحث سوال کے حوالے سے پیش کی جانے والی توجیہات کے غیر اطمینان بخش ہونے کے تناظر میں متاخرین میں سے بعض اہل علم نے ان سے ہٹ کر بعض نئی توجیہات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک الجھن موجود ہے، مزید غور وفکر اور تحقیق کی گنجایش بلکہ ضرورت بھی موجود رہے گی اور اہل علم اگر اس ضمن میں نئی اور متبادل آرا پیش کرتے ہیں تو ان کو سنجیدہ توجہ کا مستحق سمجھا جانا چاہیے۔ یہ توجیہات حسب ذیل ہیں:
۴۔ مولانا انور شاہ کشمیریؒ نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ قرآن مجید میں رجم کا حکم کسی واضح آیت کی صورت میں نہیں، بلکہ سورۂ مائدہ کی آیات ۴۱۔۴۳ میں مذکور اس واقعے کے ضمن میں نازل ہوا ہے جس میں یہود کے، منافقانہ اغراض کے تحت، ایک مقدمے کے فیصلے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کا ذکر ہے۔ روایات کے مطابق یہ زنا کا مقدمہ تھا اور یہود نے نرم سزا کی توقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا تھا، لیکن آپ نے ان پر تورات ہی کی سزا یعنی رجم کو نافذ کر دیا۔ (بخاری، رقم ۴۱۹۰) مولانا کی رائے میں قرآن مجید میں اس واقعے کا ذکر اس کو حکم کا ماخذ بنانے کے لیے کافی ہے، تاہم اس کا مبہم انداز اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قرآن مجید کے نزدیک شادی شدہ زانی کے لیے بھی اصل سزا ۱۰۰ کوڑے ہی ہے اور وہ عمومی طور پر اسے رجم کی سزا نہیں دینا چاہتا۔ اسی وجہ سے اس نے اس کے نفاذ کی شرائط، یعنی مجرم کے شادی شدہ اور مسلمان ہونے کی وضاحت نہیں کی تاکہ ان کی تعیین میں اجتہادی اختلاف کی گنجایش باقی رہے، اور اسی لیے معمولی شبہات اور اعذار کی بنا پر رجم کی سزا کو ساقط کر کے سو کوڑے کی سزا دینے پر اکتفا کی جاتی ہے۔ (فیض الباری ۵/۲۳۰۔ مشکلات القرآن ۱۶۵، ۱۶۶، ۲۱۳)
شاہ صاحب کی توجیہ سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ وہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کو عملاً کیا حیثیت دیتے ہیں؟ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس پر اس سزا کے نفاذ کو لازم سمجھتے ہیں اور اس طرح ان کی توجیہ میں ایک تضاد پیدا ہو جاتا ہے، کیونکہ اگر قرآن مجید کے رجم کی سزا کو مبہم طور پر بیان کرنے سے سے مقصود یہ تھاکہ عمومی طور پر رجم کی سزا نافذ نہ کی جائے اور اس کے نفاذ میں اجتہادی اختلاف کی گنجایش باقی رہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے منشا کے برعکس شادی شدہ زانی کے لیے متعین طور پر رجم کی سزا کیوں مقرر کر دی؟ اگر قرآن کی منشا آپ پر بھی واضح نہیں ہو سکی تو بلاغت کے پہلو سے ابہام کا یہ اسلوب کمال نہیں بلکہ نقص کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ اور اگر خود قرآن کا منشاوہی ہے جو روایت میں بیان ہوا ہے تووہی سوال عود کر آتا ہے کہ قرآن خود صاف لفظوں میں اس کی تصریح کیوں نہیں کرتا اور اس کے لیے ایک جگہ زنا کی سزا مطلقاً سو کوڑے مقرر کرنے اور دوسری جگہ رجم کی سزا کا مبہم انداز میں ذکر کرنے اور پھر اس کے نفاذ کی شرائط وتفصیلات کو روایات ومقدمات پر، جو اس وقت تک وجود میں بھی نہیں آئے تھے، منحصر چھوڑ دینے کا پر پیچ طریقہ کیوں اختیارکرتا ہے؟ 
۵۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ روایت میں جلا وطنی یا رجم کی سزا آیت محاربہ پر مبنی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرموں کے لیے عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے، سولی چڑھانے، ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے اور جلا وطن کر دینے کی سزائیں بیان کی ہیں۔ مولانا کا کہنا ہے کہ شادی شدہ زانی کے لیے بھی اصل سزا سو کوڑے ہی ہے، جبکہ جلاوطنی یا رجم دراصل اوباشی اور آوارہ منشی کی سزا ہے جو ’فساد فی الارض‘ کے تحت آتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی نوعیت کے بعض مجرموں پر زنا کی سزا کے ساتھ ساتھ، مائدہ کی مذکورہ آیت کے تحت فساد فی الارض کی پاداش میں جلا وطن کرنے یا سنگ سار کرنے کی سزا بھی نافذ کی تھی۔ (تدبر قرآن ۵/۳۶۷ ۔ ۳۶۹) اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ’الثیب بالثیب جلد مائۃ والرجم‘ کے بارے میں مولانا اصلاحی کی رائے یہ ہے کہ یہاں حرف ’و‘ جمع کے لیے نہیں، بلکہ تقسیم کے مفہوم میں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ زانی کی اصل سزا تو تازیانہ ہی ہے، البتہ آیت محاربہ کے تحت مصلحت کے پہلو سے اسے جلاوطن یا سنگ سار بھی کیا جا سکتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح آیت مائدہ کے تحت ازروے مصلحت بعض مجرموں کو جلاوطنی کی سزا دی، اسی طرح بعض سنگین نوعیت کے مجرموں کے شر وفساد سے بچنے کے لیے آیت مائدہ ہی کے تحت انھیں رجم کی سزا بھی دی۔ (تدبر قرآن ۵/۳۷۴)
جناب جاوید احمد غامدی نے رجم کی سزا کے زنا کے عادی مجرموں سے متعلق ہونے کے حق میں یہ استدلال کیا ہے کہ عبادہ بن صامت کی روایت میں ’خذوا عنی خذوا عنی قد جعل اللّٰہ لہن سبیلا‘کے الفاظ اس کو صریحاً سورۂ نساء کی آیت ۱۵ اور ۱۶ سے متعلق کر رہے ہیں جہاں قحبہ عورتوں اور یاری آشنائی کا تعلق قائم کر لینے والے جوڑوں کے لیے عبوری سزا بیان کی گئی ہے اور ’حَتّٰی یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً‘ کے الفاظ میں ان کے لیے بعد میں باقاعدہ اور مستقل سزا مقرر کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ان کی رائے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ نور میں زنا اور سورۂ مائدہ میں محاربہ کے احکام نازل ہونے کے بعد زیر بحث روایت میں انھی قحبہ عورتوں کے لیے زنا کی پاداش میں سو کوڑوں اور ’فساد فی الارض‘ کی پاداش میں جلا وطنی یا سنگ ساری کی سزا مقرر کر کے اس وعدے کی تکمیل کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (جاوید احمد غامدی، حدود وتعزیرات، ۱۶)
اس رائے کو درست ماننے کے نتیجے میں ’رجم‘ کی بنیاد زانی کا شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہونا نہیں، بلکہ اس کے جرم کی نوعیت قرار پاتی ہے۔ اس طرح نہ ہر شادی شدہ زانی کو رجم کرنا لازم رہتا ہے اور نہ کوئی غیر شادی شدہ محض اپنے کنوارے ہونے کی بنا پر اس سزا سے محفوظ قرار پاتا ہے، بلکہ اگر زنا کے جرم میں سنگینی یا شناعت کا مذکورہ اضافی پہلو پایا جائے تو مجرم کی ازدواجی حیثیت سے قطع نظر، اسے رجم کیا جا سکتا ہے۔ 
رجم کی سزا کو زنا کے عام مجرموں کے بجائے زیادہ سنگین نوعیت کے مجرموں سے متعلق قرار دینے کی مذکورہ توجیہ کو قبول کر لیا جائے تو قرآن مجید اور روایات کا ظاہری تعارض باقی نہیں رہتا، اور ’البکر بالبکر‘ کی روایت کی حد تک یہ توجیہ بظاہر الجھن کو حل کر دیتی ہے، اس لیے کہ یہ روایت اصلاً زنا کے عام مجرموں سے متعلق نہیں بلکہ، جیسا کہ ’خذوا عنی خذوا عنی قد جعل اللہ لہن سبیلا‘ کے الفاظ سے واضح ہے، قحبہ عورتوں اور ان زانیوں سے متعلق ہے جن کے ہاں یاری آشنائی نے ایک مستقل تعلق کی صورت اختیار کر لی ہو۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقل وحی سے راہنمائی پا کر یا آیت محاربہ سے استنباط کرتے ہوئے ایسے مجرموں میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی سزا میں تفریق کرنے اور قرآن مجید میں بیان کردہ سو کوڑوں کی سزا کے علاوہ جلا وطنی اور رجم کی اضافی سزا دینے کا حکم بھی دیا ہو تو اس سے قرآن مجید کے ساتھ تعارض کا سوال پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ وہاں زنا کے عام مجرم زیر بحث ہیں۔ 
اسی طرح آیت محاربہ کو رجم اور جلاوطنی کی سزا کا ماخذ قرار دینے کی رائے اس پہلو سے بھی قابل توجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا کے ایک مقدمے میں فیصلہ کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ ’لاقضین بینکما بکتاب اللہ‘، یعنی میں تمھارے مابین کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا، اور پھر آپ نے زانی کو سو کوڑے مارنے اور جلا وطن کرنے کاحکم دیا۔ (بخاری، رقم ۲۴۹۸) قرآن مجید میں زانی کی سزا کے ساتھ جلاوطن کرنے کا کوئی ذکرنہیں، جبکہ سورہ مائدہ کی مذکورہ آیت ہی وہ واحد مقام ہے جہاں مجرموں کو سزا کے طور پر جلا وطن کردینے کا ذکر ہوا ہے۔ شارحین حدیث نے اس اشکال سے بچنے کے لیے ’کتاب اللہ‘ سے اللہ کا حکم یا اس کا قانون مراد لیا ہے، لیکن اگر زانی کو جلا وطن یا سنگسار کرنے کا ماخذ سورۂ مائدہ کی آیت محاربہ کو قرار دینے کی رائے درست تسلیم کر لی جائے تو مذکورہ تاویل کی ضرورت نہیں رہتی۔
البتہ جہاں تک ان روایات کا تعلق ہے جن میں زنا کے بعض مقدمات میں عملاً رجم کی سزا کے نفاذ کا ذکر ہوا ہے تو اس امر کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں کہ یہ توجیہ ان پر پوری طرح منطبق نہیں ہوتی، کیونکہ اس توجیہ کی رو سے یہ محض زنا کے سادہ مقدمات نہیں تھے، بلکہ ان میں سزا پانے والے مجرموں کو درحقیقت آوارہ منشی اور بدکاری کو ایک پیشے اور عادت کے طور پر اختیار کر لینے کی پاداش میں آیت محاربہ کے تحت رجم کیا گیا۔ اب اگر آیت محاربہ کو رجم کا ماخذ مانا جائے تو یہ ضروری تھا کہ احساس ندامت کے تحت اپنے آپ کو خود قانون کے حوالے کرنے والے مجرم سے درگزر کیا جائے یا کم ازکم سنگین سزا دینے کے بجائے ہلکی سزا پر اکتفا کی جائے، جبکہ قبیلۂ غامد سے تعلق رکھنے والی خاتون کو خود عدالت میں پیش ہونے اور سزا پانے پر خود اصرار کرنے کے باوجود رجم کیا گیا۔ ماعز اسلمی کے جرم کی نوعیت اور ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں خود پیش ہونے یا پکڑ کر لائے جانے کے حوالے سے روایات الجھی ہوئی ہیں اور تفصیلی تحقیق وتنقید کا تقاضا کرتی ہیں۔ بعض روایات کے مطابق ماعز کو رجم کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس سے اس کا ایک عادی مجرم ہونا واضح ہوتا ہے، (مسلم، ۳۲۰۳، ۳۲۰۶) جبکہ بعض دیگر روایات کے مطابق آپ نے نہ صرف ماعز کو رجم کرنے والوں سے فرمایا کہ اگر وہ رجم سے بچنے کے لیے بھاگ کھڑا ہوا تھا تو تم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا، بلکہ اس کے سرپرست ہزال سے بھی کہا کہ ’’اگر تم اس کے جرم پر پردہ ڈال دیتے تو یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہوتا‘‘۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ماعز کا آیت محاربہ کے تحت ماخوذ ہونا قابل فہم نہیں رہتا۔ ’لا یحل دم امرئ مسلم‘ کی روایت میں بھی شادی شدہ کے لیے رجم کی سزا بیان کی گئی ہے اور روایت میں اسے عادی مجرموں کے ساتھ مخصوص قراردینے کا کوئی قرینہ بظاہرموجود نہیں۔
اسی طرح یہ بات بھی بعض روایات سے بظاہر لگا نہیں کھاتی کہ مجرم کا شادی شدہ ہونا اس سزا کے نفاذ میں محض ’ایک‘ عامل کی حیثیت رکھتا تھا نہ کہ ’واحد‘ فیصلہ کن بنیاد کی۔ مثال کے طور پر مزدور کے مقدمے میں اس کے مالک کی بیوی کو رجم کی جبکہ خود مزدور کو سو کوڑوں کی سزا دی گئی اور روایت سے اس فرق کی وجہ بظاہر شادی شدہ اور غیر شادی شدہ ہونا ہی سمجھ میں آتی ہے۔ ’لا یحل دم امرئ مسلم الا باحدی ثلاث‘ میں بھی زانی کے شادی شدہ ہونے کو قتل کے جواز کی بنیاد قرار دیا گیا ہے، جبکہ کسی اضافی پہلو کو بیان کرنے کے لیے یہ اسلوب بدیہی طور پر موزوں نہیں۔ مزید برآں صحابہ کے ہاں، جنھیں رجم کے ان واقعات کے عینی شاہد ہونے کی وجہ سے مقدمے کے احوال وشرائط اور سزا کی نوعیت سے پوری طرح واقف ہونا چاہیے، اس سزا کے بارے میں جو مجموعی فہم پایا جاتا ہے، وہ بھی اس فرق کے اضافی نہیں، بلکہ اساسی اور حقیقی ہونے ہی پر دلالت کرتا ہے۔ 
مذکورہ بحث سے واضح ہے کہ اگر قرآن مجید کے ظاہر کو حکم مانا جائے تو زنا کے عام مجرموں کے حوالے سے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق کرنا بے حد مشکل ہے۔ دوسری طرف اگر روایات اور ان پر مبنی تعامل کو فیصلہ کن ماخذ مانا جائے تو شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق کی نفی یا اس کی ایسی توجیہ و تاویل بظاہر ممکن دکھائی نہیں دیتی جس سے روایات کے متبادر مفہوم ومدعا کو برقرار رکھتے ہوئے قرآن مجید کے ساتھ ان کا ظاہری تعارض فی الواقع دور ہو جائے۔ اس ضمن میں اب تک جو توجیہات سامنے آئی ہیں، وہ اصل سوال کا جواب کم دیتی اور مزید سوالات پیدا کرنے کا موجب زیادہ بنتی ہیں۔ اس وجہ سے ہماری طالب علمانہ رائے میں یہ بحث، ان چند مباحث میں سے ایک ہے جہاں توفیق وتطبیق کا اصول موثر طور پر کارگر نہیں اور جہاں ترجیح ہی کے اصول پر کوئی متعین رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ عقلاً اس صورت میں دو ہی طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں: 
ایک یہ کہ روایات سے بظاہر جو صورت سامنے آتی ہے، اس کو فیصلہ کن مانتے ہوئے یہ قرار دیا جائے کہ قرآن مجید کا مدعا اگرچہ بظاہر واضح اور غیر محتمل ہے، تاہم یہ محض ہمارے فہم کی حد تک واضح ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تفصیل اللہ تعالیٰ کے منشا کی تعیین کے حوالے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ قرآن کے ظاہر کو حکم مانتے ہوئے یہ فرض کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا یقیناًکوئی ایسا محل ہوگا جو قرآن کے ظاہر کے منافی نہ ہو، لیکن چونکہ قرآن کا مدعا ہمارے لیے بالکل واضح ہے جبکہ روایات کا کوئی واضح محل بظاہر سمجھ میں نہیں آتا، اس لیے روایات اور ان پر مبنی تعامل کو توجیہ وتاویل یا توقف کے دائرے میں رکھتے ہوئے ان پر غور وفکر جاری رکھا جائے گا تاآنکہ ان کا مناسب محل واضح ہو جائے ۔
اس دوسرے زاویۂ نگاہ کے پس منظر میں یہ تصور کارفرما ہے کہ شریعت کے جو احکام قرآن مجید میں زیر بحث آئے ہیں، ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد یا عمل قرآن مجید کے برعکس یا اس سے متجاوز نہیں ہو سکتا اور اگر بظاہر کہیں ایسی صورت دکھائی دے تو اس کی بنیاد قرآن مجید ہی میں تلاش کرنی چاہیے یا توجیہ وتاویل کے ذریعے سے حتی الامکان اس کے صحیح محل کو واضح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ تصور اصولی طور پر خود صحابہ کے ہاں موجود رہا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ جب قرآن مجید میں قصر نماز پڑھنے کی اجازت خوف کی حالت سے مشروط ہے تو امن کی حالت میں اس رعایت سے فائدہ کیوں اٹھایا جا رہا ہے؟ (مسلم، رقم ۶۸۶) ابن عباس رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول گھریلو گدھے کے گوشت کی ممانعت کو حرمت پر محمول کرنے میں تردد تھا، اس لیے کہ ان کے خیال میں یہ بات قرآن مجید کی آیت: ’قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا‘ (الانعام ۶: ۱۴۵) کے منافی تھی جس میں حصر کے ساتھ صرف چار چیزوں کو حرام کہا گیا ہے۔ (بخاری، رقم ۵۲۰۹۔ المستدرک، رقم ۳۲۳۶)
سنت کے جو احکام بظاہر قرآن مجید کے نصوص سے متجاوز دکھائی دیتے ہیں، ان کے بارے میں سوچ کا یہ زاویہ بھی صحابہ کے ہاں دکھائی دیتا ہے کہ شاید وہ قرآن مجید میں نازل ہونے والے حکم سے پہلے کے دور سے متعلق ہوں۔ مثال کے طور پر وضو میں پاؤں دھونے کے بجائے موزوں پر مسح کر لینے کے جواز کے بارے میں صحابہ کے مابین خاصی بحث موجود رہی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کے جواز کے قائل نہیں تھے اور ان کا اصرار تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا موزوں پر مسح کرنا سورۂ مائدہ میں وضو کی آیت نازل ہونے سے پہلے کا عمل تھا: 
سلوا ہؤلاء الذین یزعمون ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مسح علی الخفین بعد سورۃ المائدۃ واللّٰہ ما مسح بعد المائدۃ. (طبرانی، المعجم الکبیر ۱۱/۴۵۴، ۱۲۲۸۷) 
’’ان سے پوچھو جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد موزوں پر مسح کیا۔ بخدا، آپ نے سورۂ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد مسح نہیں کیا۔‘‘
خود رجم کی سزا کے معاملے میں بھی یہ سوال ذہنوں میں پیدا ہوا۔ ابو اسحاق شیبانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا؟ انھوں نے کہا: ہاں، میں نے پوچھا کہ سورۂ نور کے نازل ہونے سے پہلے یا اس کے بعد؟ انھوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں۔(بخاری، رقم ۱۷۰۲)
چنانچہ یہ بحث دو مختلف اصولی زاویہ ہاے نگاہ میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کی بحث ہے۔ ہماری رائے میں یہ دونوں زاویے عقلی اعتبار سے اپنے اندر کم وبیش یکساں کشش رکھتے ہیں اور اس باب میں انفرادی ذوق اور رجحان کے علاوہ کوئی چیز غالباً فیصلہ کن نہیں ہو سکتی۔ 

حواشی 

** سیدنا عمر کی طرف اس قول کی نسبت کے صحیح ہونے میں ایک اہم اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے اس خطبے کے راوی عبد اللہ بن عباس ہیں، لیکن خود ان کی رائے قرآن مجید میں رجم کا کوئی باقاعدہ حکم نازل ہونے کے برعکس ہے۔ اس ضمن میں ان سے سے مروی دو آثار قابل توجہ ہیں۔
علی بن ابی طلحہ بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن عباس نے فرمایا کہ ابتدا میں زنا کی سزا یہ تھی کہ خاتون کو گھر میں محبوس کر دیا جائے اور مرد کو زبانی اور جسمانی طور پر اذیت دی جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ’الزانیۃ والزانی‘ کی آیت اتاردی، جبکہ مرد وعورت اگر محصن ہوں تو ان کے لیے حکم یہ ہے کہ انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی رو سے رجم کر دیا جائے۔ (تفسیر الطبری، ۴/۲۹۷۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۶۶۹۱)
عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عباس نے فرمایا کہ جو شخص رجم کا انکار کرتا ہے، وہ غیر شعوری طور پر قرآن کا انکار کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’یا اہل الکتاب قد جاء کم رسولنا یبین لکم کثیرا مما کنتم تخفون من الکتاب‘ (اے اہل کتاب، تمھارے پاس ہمارا رسول آیا ہے جو تمھارے لیے تورات کی ان بہت سی باتوں کو ظاہر کرتا ہے جنھیں تم چھپاتے تھے) اور رجم کا حکم بھی امور میں سے ہے جنھیں اہل کتاب چھپاتے تھے۔ (نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ۷۱۶۲)
ان دونوں روایتوں سے واضح ہے کہ ابن عباس قرآن مجید میں واضح طور پر رجم کا حکم نازل ہونے کے قائل نہیں اور اس کے بجائے اسے اشارتاً قرآن میں مذکور مانتے اور اس کا اصل ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو قرار دیتے ہیں۔ اگر وہ فی الواقع سیدنا عمر کے مذکورہ خطبے کے راوی ہیں جس میں انھوں نے رجم کے قرآن مجید میں نازل ہونے کا ذکرکیا ہے تو پھر ان کا اس سے مختلف رائے قائم کرنا بظاہر سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔
* رجم کو زنا کی سزا کا لازمی حصہ نہ سمجھنے والے بعض دیگر اہل علم نے اس سے مختلف ماخذ بھی متعین کیے ہیں۔ مثال کے طور پر مولانا عنایت اللہ سبحانی اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی نے اس حکم کا ماخذ سورۂ احزاب (۳۳)کی آیت ۶۱ کے الفاظ ’اَیْْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلاً‘ (یہ جہاں ملیں، ان کو پکڑ لیا جائے اور عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیا جائے) کو قرار دیا ہے جن میں مدینہ منورہ کے منافقین کی فتنہ پردازیوں اور بالخصوص مسلمان خواتین کے حوالے سے ان کے مفسدانہ اور شرانگیز طرز عمل سے نمٹنے کے لیے انھیں عبرت ناک طریقے سے قتل کر دینے کی دھمکی دی گئی ہے۔ (عنایت اللہ سبحانی، حقیقت رجم ۲۰۲ ۔۲۰۷۔ محمد طفیل ہاشمی، حدود آرڈی نینس کتاب وسنت کی روشنی میں ۱۲۷ ۔ ۱۳۶) جبکہ بعض اہل علم قرآن مجید میں رجم کا کوئی ماخذ متعین کیے بغیر اسے حد کے بجائے محض ایک تعزیری سزا قرار دیتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مجرموں کو ان کے جرم کی نوعیت کے لحاظ سے دی۔ (عمر احمد عثمانی، فقہ القرآن: رجم اصل حد ہے یا تعزیر؟ ۵۵، ۹۳ ۔۹۵۔ فقہ القرآن: حدود و تعزیرات اور قصاص ۶۳۲ ۔ ۶۴۴)

مکاتیب

ادارہ

(۱)
جناب محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم
میری دعا ہے کہ رب کائنات آپ کے دل ودماغ اور مقدس لوح وقلم کو تاروز حیات سرسبز، شاداب رکھیں۔
تقریباً ایک ماہ پہلے غالباً جنوری ۲۰۰۸ کے تیسرے عشرے میں رائے ونڈ بازار کے ایک بک اسٹال سے ’’ایک علمی وفکری مکالمہ‘‘ کے نام سے آپ کی تالیف خرید کر پڑھی جس کے پڑھنے پر نہایت ہی خوشی حاصل ہوئی اور اللہ تعالیٰ کا لاکھ بار شکریہ ادا کیا کہ اس قحط الرجال کے دور میں بھی آپ جیسے سلیم الفطرت، وسیع القلب اور وسیع النظر، عالی ظرف اور نہایت ہی سنجیدہ علماے کرام موجود ہیں۔ آپ کے ذوق کتب بینی اور نہایت ہی وسیع مطالعہ کو میں سلام کرتا ہوں۔ آپ کی تحریر میں علمی محاسبہ اور احتساب کے ساتھ ساتھ نہایت ہی شایستگی، رواداری، شیریں گوئی، اعتدال اور ذہنی پختگی کا احساس کوٹ کوٹ کر بھرا ہے جس کے متعلق محترم جاوید احمد غامدی کے تینوں شاگردان رشید جناب معز امجد، جناب خورشید ندیم اور جناب ڈاکٹر فاروق خان بھی آپ کی مذکورہ تمام خوبیوں کے معترف نظر آ رہے ہیں۔ آپ کا شمار اور مقام ان علماے حق میں سرفہرست ہے جو مریض سے نہایت محبت اور ہم دردی اور اس کے مرض سے نفرت کرتے ہیں۔ ایسے فرد فرید بہت ہی کم بلکہ نایاب ہوتے ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ آپ سو فیصد رومی کے اس شعر کے مصداق ہیں جو سید منظور الحسن نے آپ کے لیے نقل کیا ہے:
دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر
کز دام ودد ملولم وانسانم آرزو ست
آپ نے مذکورہ تینوں اسکالرز کے ساتھ جو علمی وفکری مکالمہ کیا ہے، اس کے چار موضوعات: علما اور سیاست، زکوٰۃ اور ٹیکسیشن، فتویٰ بازی کا درست/غلط استعمال اور پرائیویٹ عسکری تنظیموں کے جہاد میں سے پہلے تینوں موضوعات کے بارے میں دونوں فریقوں کے موقف میں کافی وزن پایا جاتا ہے جس کو پڑھنے کے بعد اگر خود قاری کے دل میں کوئی کجی اور ٹیڑھ نہ ہو تو وہ ایک بہترین نقطہ اعتدال پر پہنچ جاتا ہے۔ البتہ ’’اسلام میں پردے کے احکام‘‘ کے موضوع پر میرا جھکاؤ آپ کی طرف بہت ہی زیادہ ہے، خاص طور پر غامدی صاحب کا یہ فرمان کہ ’’دوپٹہ کا تعلق کلچر سے ہے، شریعت سے نہیں‘‘ میرے لیے دکھ کا باعث ہے اور اس طرز فکر اور زاویہ نگاہ کی کڑی پرویز مشرف کی روشن خیالی سے جا ملتی ہے۔ حمید الدین فراہیؒ کے مکتبہ فکر میں آپ نے ’’تفردات‘‘ کی اصطلاح بہت استعمال کی ہے جو موقع اور محل کے اعتبار سے اگرچہ درست ہے لیکن میں حیران ہوں کہ ڈاکٹر اسرار احمد کے ماہنامہ میثاق کے مطابق فراہیؒ نے ایک دفعہ خود قینچی منگوا کر مولانا اصلاحیؒ کی شلوار کا اتنا حصہ کاٹ ڈالا تھا جو ٹخنوں سے نیچے لٹک رہا تھا۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ’’دوپٹہ کا تعلق کلچر سے ہے، شریعت سے نہیں‘‘ کا نقطہ نظر غامدی صاحب کا تو ہو سکتا ہے، فراہی کا نہیں۔ شریعت کے ساتھ دوپٹہ کے تعلق میں عورت ذات کا تحفظ بہت ہی زیادہ ہے۔
جہاں تک حکومتی سرپرستی کے علاوہ پرائیویٹ عسکری تنظیموں کے جہاد اور قتال کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں آپ کی رائے کے ساتھ خاکم بدہن ہرگز متفق نہیں ہوں، کیونکہ جہاد افغانستان میں امریکہ کی طرف سے بے تحاشا دولت، سرمایہ اور اسلحہ کی فراوانی میں القاعدہ کے علاوہ تقریباً چودہ عسکری تنظیمیں روس کے خلاف لڑ رہی تھیں۔ ان کا یہ قتال سرمایہ اور اسلحہ حاصل کر نے کے لیے زیادہ اور فی سبیل اللہ برائے نام تھا اور امریکہ کے اس مال غنیمت میں سب سے بڑھ کر مذہب کے شاہین، فوج کے بڑے جرنیل اختر عبد الرحمن (مرحوم)، جنرل حمید گل اور ضیاء (مرحوم) کے بیٹے سب شامل تھے۔ یہی وجہ تھی کہ روسی شکست کے بعد تمام عسکری تنظیمیں آپس میں الجھ گئیں اور تقریباً پانچ سال تک نہایت افراتفری، بد امنی اور لوٹ مار کی کیفیت رہی اور نہایت مقدس جہاد خانہ جنگی میں تبدیل ہو گیا، اس لیے کہ اس کی پشت پر کوئی منظم حکومت نہیں تھی۔ ا س کے بعد پاکستان کے ایما پر جنرل نصیر اللہ بابر نے طالبان کو منظم کیا ۔ ادھر طالبان کی حکومت تو قائم ہو گئی لیکن گلبدین حکمت یار سمیت بہت سے بڑے بڑے سابقہ جہادی لیڈر طالبان کے خلاف تھے۔ اسی دوران طالبان اور احمد شاہ مسعود کے درمیان تقریباً چار سال خانہ جنگی رہی۔ آخرکار اسامہ بن لادن کی مہربانی سے نائن الیون کے واقعات کے بعد افغانستان پر امریکہ کے حملے کے نتیجے میں طالبان کی حکومت بھی ختم ہو گئی۔ اگر ابتدا ہی سے یہ تمام تنظیمیں ایک ہی کمان کے تحت لڑتیں تو کوئی افراتفری نہ ہوتی اور یہ مقدس جہاد خانہ جنگی میں تبدیل نہ ہوتا، لیکن پاکستان یہی چاہتا تھا کہ افغانستان سو فیصد ہمارے رحم وکرم پر ہو اور وہاں کوئی مستحکم حکومت قائم نہ ہو۔
اس وقت سب سے زیادہ خطرناک اور امن عالم کے لیے نہایت ہی نقصان دہ تنظیم القاعدہ تنظیم ہے۔ اس پرائیویٹ عسکری تنظیم کے سربراہ اسامہ بن لادن کا تصور قتال کیا ہے؟ ۲۳فروری ۱۹۹۸ء کو القاعدہ کے سربراہ کی حیثیت سے اسامہ بن لادن، امیر جماعت الجہاد مصر کی حیثیت سے ڈاکٹر ایمن الظواہری اور امیر جماعت اسلامیہ مصر کی حیثیت سے جناب ابویاسر کی طرف سے افغانستان میں خوست کے مقام پر یہ فتویٰ جاری کیا گیا کہ امریکہ نے بقول اسامہ بن لادن کے پورے عالم اسلام کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے، ایسے موقع پر امریکہ کے خلاف جہاد فرض عین ہو جاتا ہے، چنانچہ ہم تمام مسلمانوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ ہر امریکی شہری اور امریکہ کے ہم نواؤں کو قتل کریں اور ان کا سامان لوٹیں۔ گویا تمام یہود ونصاریٰ کی جان، مال اور آبرو اس مرحلے پر تمام مسلمانوں کے لیے مباح اور حلال ہے۔ اس فتوے پر عمل کرنے کے لیے سب سے پہلے القاعدہ نے اگست ۱۹۹۸ء میں کینیا اور تنزانیہ کے سفارت خانوں میں بم دھماکوں سے دو سو بیس افراد کو ہلاک کیا۔ بن لادن نے اپنے ایک بیان میں حملہ آوروں کی تعریف وتحسین کی اور جتنے بھی افراد کو ان دھماکوں میں ملوث پا کر عدالتوں کی طرف سے سزائیں دی گئیں، ان سب سے القاعدہ سے تعلق کا اعتراف کیا بلکہ بن لادن نے ان دھماکوں کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ اس کے بعد نائن الیون کا عظیم حادثہ پیش آیا جس کے منطقی نتیجے کے طور پر طالبان کی شرعی حکومت ختم ہوئی اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے اس حادثے میں جو انھیں انیس پائیلٹ کریش ہوئے، وہ سب کے سب القاعدہ کے ساتھ تعلق رکھتے تھے جنھوں نے امریکہ میں آزادی کی وجہ سے امریکی فلائنگ کلب سے تربیت حاصل کی تھی۔ 
پاکستان میں بھی مختلف پرائیویٹ عسکری تنظیموں مثلاً حزب المجاہدین، حرکت الانصار، جیش محمد، لشکر طیبہ اور حرکت المجاہدین نے ملک کے اندر اور باہر ایسے بہت سے تخریبی کارنامے سرانجام دیے جس سے ملک کا امن وامان تباہ وبرباد ہو گیا۔ صوبہ سرحد میں باڑہ اورپشاو ر میں دو مذہبی عسکری تنظیموں، مفتی منیر شاکر کی طرف سے لشکر اسلام اور پیر سیف الرحمن کی طرف سے انصار الاسلام نے ایک دوسرے کے ستاسی افراد قتل کیے، سینتالیس دکانوں اور چالیس مکانات کو کو جلا دیا اور ہر تنظیم نے اپنی اس قتل وغارت کو جہاد کے نام سے موسوم کیا۔ آپ ہی کے گوجرانوالہ کے ایک جنونی مولوی محمد سرور نے ایک ایم پی اے خاتون ظل ہما کو کھلی کچہری میں قتل کر دیا اور اس قتل ناحق کو جہاد سے منسوب کیا۔ ابھی حال ہی میں سوات کے مولانا فضل اللہ کی طالبان تحریک کے ایک راہنما مسمیٰ نڈر سے جب دو ریٹائرڈ اور چار حاضر سروس پولیس اور محکمہ ملیشا کے ملازمین کو بے دردی سے ذبح کر کے سروں کو تن سے جدا کرنے کی وجہ پوچھی گئی تو ان کے خلاف فرد جرم جنرل مشرف کی ملازمت تھی اور جب ان کے سروں کو رولنگ سٹون کی طرح گاڑی کے ساتھ باندھ کر بازاروں میں پھرانے کی وجہ پوچھی گئی تو یہ عمل کرنے والوں کو معاذ ومعوذ سے اور ذبح ہونے والوں کو ابوجہل سے تشبیہ دے کر وجہ جواز بتائی گئی۔ 
ان پرائیویٹ تنظیموں نے باربر شاپس کو اس لیے بموں سے اڑایا کہ وہاں ڈاڑھیاں مونڈی جاتی ہیں۔ سوات میں طالبان نے ایک ایسے گرلز ڈگری کالج کو دھماکوں سے اڑا دیا جو ابھی حال ہی میں ایم ایم اے کی حکومت نے تقریباً دو کروڑ روپے کی لاگت سے بنایا تھا۔ غرض گزشتہ تین سالوں میں جو بھی خود کش حملے، دھماکے، گھیراؤ جلاؤ اور توڑ پھوڑ ہوتی رہی، ان سب کو اسلامی جہاد کی طرف منسوب کر کے اسلام کے پرامن روئے زیبا کو داغ دار کیا جا تا رہا جس کو مغربی دنیا میڈیا پر دیکھتی ہے اور مسلمانوں سے وحشت محسوس کر کے دعوت کے راستے بند ہو جاتے ہیں، اور سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ جنونی مسلمان اپنے اس عمل کو جائز ثابت کرنے کے لیے اسود عنسی، کعب بن اشرف اور ابو رافع کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
فی الوقت تمام پرائیویٹ عسکری تنظیموں میں سے اہل حدیث کی لشکر طیبہ (جماعۃ الدعوۃ) سب سے بڑی تنظیم ہے۔ میں نے خود مریدکے میں ان کے ساتھ تین دن گزار کر ان کے طریقہ واردات کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ان کا طریقہ مزاج اسلام کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتا، بلکہ ان کے قول کے مطابق مسعود اظہر کی اقتدا میں نماز باجماعت ادا نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ وہ حرکت الانصار کے بھی سخت خلاف ہیں۔
آپ کی سلامت طبع سے امید ہے کہ اگر آپ یہ علمی مکالمہ ۲۰۰۷ کے بعد کرتے تو پرائیویٹ ، غیر منظم اور حکومت کی سرپرستی کے بغیر جہاد وقتال کے بارے میں آپ غامدی صاحب کے موقف کی تائید کرتے۔ آپ کے مضامین ماہ اگست ۲۰۰۱ کے ہیں جو علم ومشاہدہ میں بعد کے زمینی حقائق کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے اور زمینی حقائق اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کا نقصان اس کے فائدہ سے ہزار گنا زیادہ ہے۔
سیف الحق
ڈائریکٹر چکیسر پبلک اسکول
تحصیل الیوری، ضلع شانگلہ۔ صوبہ سرحد
(۲)
مکرمی جناب مولانا عمار خاں ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاجِ گرامی!
ماہنامہ الشریعہ ہر مہینے وصول ہوکر ہوا کاایک تازہ جھونکا مہیا کرتا رہتا ہے۔ اس ہوا میں نئی خوشبو پچھلے ایک دو ماہ سے خود آپ کی، اپنے مضامین کے ذریعے حاضری سے محسوس ہورہی ہے، خصوصاً فروری کے شمارے میں حدود کی ابدیت اور آفاقیت پر آپ کا طرزِ استدلال متأثر کن تھا۔ فروری کے شمارے میں جو چیز میرے لیے سب سے زیادہ خوش گوار حیرت کا باعث بنی، وہ اہل فکرو دانش کی اس بزم میں اس ناچیز طالب علم کی اس کی ریکارڈ شدہ تقریرکے ذریعے شرکت تھی۔ راقم کو اس بات میں خاصا تردد تھا کہ اس کی گفتگو بھی الشریعہ جیسے وقیع پلیٹ فارم پر جگہ پانے کے قابل ہو سکتی ہے۔ بہرحال اس نحیف آواز کو اپنے پلیٹ فارم کے ذریعے آگے پہنچانے کا بہت بہت شکریہ۔ الشریعہ جیسے جریدے میں اپنے نقطہ نظر کی اشاعت میں ایک فائدہ یہ بھی متوقع ہے کہ اسے تنقید اور بحث کی چھلنی سے گزرنے کا موقع مل جائے گا اور اس سے مختلف کوئی رائے ہوگی تووہ بھی سامنے آجائے گی۔ دیگر دینی جرائد میں یہ بات تقریباً ناپید ہے ۔
الشریعہ کا ’’ کلمہ حق‘‘ اور بہت سے لوگوں کی طرح یہ ناچیز بڑے اشتیاق سے پڑھتا اور اس سے مستفید ہوتاہے ، لیکن جنوری کے ’’کلمۂ حق‘‘ سے ’’حسبہ بل‘‘ سے جس طرح کا ’’حسنِ عقیدت ‘‘ محسوس ہورہا تھا، وہ خاصی حیرت کا باعث بنا۔ اس پر کچھ عرض کرنے کی جسارت کا ارادہ کررہا تھا، لیکن مارچ کے شمارے میں اسلام آباد سے جناب محمد مشتاق صاحب کے مراسلے نے کافی حد تک یہ فرضِ کفایہ ادا کردیاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں قوانین کی پہلے بھی ایسی کمی نہیں ہے۔ اگر سیاسی اور انتظامی قوتِ ارادی موجود ہو تو موجودہ قوانین کے اندر رہتے ہوئے بھی بہت سے اچھے کام کیے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی حکومت واقعی رشوت اور بد عنوانی جیسے ’’منکر‘‘ کو ختم کرنا چاہے تو نہ تو اس کے لیے نئی قانون سازی کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی سپریم کورٹ اسے ایسا کرنے سے روک سکتی ہے۔ ایم ایم اے کی حکومت کو بھی اس برائی کے خاتمے سے نہ تو مرکز کی کسی پالیسی نے منع کیا تھا اور نہ ہی سپریم کور ٹ کا کوئی فیصلہ آڑے آسکتا تھا۔ ایم ایم اے نے اپنے دورِ حکومت میں اس سلسلے میں کتنی کوششیں کیں اور ان میں کس حد تک کامیاب رہی، اس کے بارے میں صوبہ سرحد کے لوگوں سے پوچھا جاسکتاہے۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ہمارے ہاں کے فہمِ اسلام میں رشوت وبد عنوانی جیسی برائی ’’منکرات ‘‘ کی ترتیب میں کتنویں نمبر آتی ہے۔
(مولانا مفتی) محمد زاہد
خادم جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد 
(۳)
محترم مدیر ماہنامہ الشریعہ ،گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
آپ کا ماہنامہ مجھے باقاعدگی سے مل رہا ہے اور میں بہت شوق سے اس کے مضامین کو دیکھتا ہوں، خاص کر وہ مضامین جن میں جاوید احمد صاحب غامدی کے کام کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں دیگربہت سے لوگوں کی طرح حافظ محمد زبیر صاحب (ریسرچ ایسوسی ایٹ، قرآن اکیڈمی، لاہور)نے بھی قلم اٹھایا اور جاوید صاحب کے کام کی علمی بنیادوں کو زیر بحث لے آئے۔ مجھے ذاتی طور پر اس بات کی بے حد خوشی تھی اور ہے کہ انھوں نے اپنی تنقید کی بنیاد جزوی اور فروعی چیزوں کے بجائے اصولی باتوں پر رکھی۔ اپنے مضامین کو جب کتاب کی صورت میں انھوں نے شائع کیا تو اس بات کو خاص طور پر اہتمام کے ساتھ بیان کیا، بلکہ یہاں تک دعویٰ کیا گیاکہ حافظ صاحب نے جاوید صاحب کے افکار کی ’جڑوں پرتیشہ‘ رکھ دیاہے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ جاوید صاحب کے حلقے سے پہلی دفعہ ایک اسکالر (منظور الحسن صاحب )نے کسی تنقید کا باقاعدہ جواب اور جواب در جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ آپ کے اسی رسالے کے صفحات پر وہ بحث چلتی رہی جس میں پہلے ’فطرت‘ اور پھر ’الکتاب‘کے بارے میں جاوید صاحب پر لکھے گئے تنقیدی مضامین اور ان کے جواب شائع ہوئے۔ خاص طورپر حافظ زبیر صاحب کی کتاب کے پہلے باب ’جاوید احمد غامدی کا تصور فطرت ‘پر جواب در جواب کی شکل میں تفصیلی بحث ہوئی۔ ایک ایک نکتہ کو زیر بحث لایا گیااوراس سلسلے کا آخری مضمون وہ تھا جس میں منظور الحسن صاحب نے آٹھ نکات کی شکل میں پوری بحث کا خلاصہ کرکے یہ بتادیا کہ حافظ زبیر صاحب کے اعتراضات کیاتھے، ان کے جوابات کیا دیے گئے ، مگر ناقد نے ان کے جواب میں مکمل خاموشی اختیار کرلی۔
ایک قاری کی حیثیت سے میں زبیر صاحب کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ان کی یہ اخلاقی اور علمی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بحث کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ یہ حسن ظن رکھا جاسکتا تھا کہ وہ کسی مصروفیت کا شکار ہیں اور اس بنا پر جواب نہیں دے پارہے ، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نت نئے موضوعات لے کر جاوید صاحب پر زور و شور سے تنقید کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اپنے اس رویے کو شاید وہ حق بجانب سمجھتے ہوں لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ رویہ کسی سنجیدہ آدمی کا ہونہیں سکتا۔ ایک سنجیدہ انسان جسے قیامت کے دن پروردگار کے حضور جواب دہی کا اندیشہ لاحق ہوجائے، وہ اس طرح کے مکالمے کے لیے قلم اٹھانے سے قبل یہ پہلے یہ سوچ لیتا ہے کہ اس بحث میں ایک تیسرا فریق خود پروردگار عالم بھی ہے۔ وہ پروردگار علم اور فہم کی غلطیاں تو معاف کرسکتا ہے، مگر عدم اعتراف پر مبنی اس طرح کی ’ذہانت‘ کا مظاہر ہ اس کے نزدیک کوئی پسندیدہ رویہ نہیں ہوسکتا۔
زبیر صاحب کے اس رویے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ ان کا طرز عمل اصل میں جاوید احمد غامدی صاحب کے افکار کی وہ خدمت ہے جو ان کا کوئی بڑے سے بڑا ہمدرد بھی سر انجام نہیں دے سکتا۔ ان کی کتاب پڑھ کر پہلے ایک آدمی جاوید صاحب کو ’گمراہ‘ سمجھتا ہے۔ پھر منظور صاحب کا جواب پڑھنے اور زبیر صاحب کی خاموشی کی داستان سننے کے بعد اسے یقین ہو جاتا ہے کہ یہ تحریر کوئی علمی کاوش نہیں بلکہ جاوید صاحب کو بدنام کرنے کی مہم کا ایک حصہ ہے۔ اس طرح زبیر صاحب جاوید صاحب کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بن رہے ہیں۔
مدیر محترم! یہاں میں آپ کی توجہ بھی ایک اہم حقیقت کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ اس امت میں اختلافات کی داستان کوئی نئی نہیں ہے۔ اہل الرائے اور اہل حدیث، معتزلہ اور اشاعرہ اور شیعہ سنی اختلافات سے امت کی تاریخ عبارت ہے۔ پھر بریلوی، اہل حدیث اور دیو بندی اختلافات کی بات تو ابھی حال ہی کا واقعہ ہے۔ آپ نے اگر یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ دینی اختلافات پر مضامین شائع کریں گے تو یہ ضرور کیجیے، لیکن ساتھ میں لوگوں کو مکالمے کے آداب،اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا جذبہ اور اعتراف کا حوصلہ سکھائیے۔ لوگوں کو یہ سکھائیے کہ تنقید کرنے سے قبل سامنے والے کی بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ پھر اس طرح اسے دیانتداری کے ساتھ بیان کیا جائے کہ وہ خود کہے کہ میری بات بالکل صحیح بیان ہوئی ہے، وگرنہ اس امت میں بریلویوں کو مشرک قرار دیا جاتا رہے گا اور ہر بریلوی اپنے بچوں کو یہی بتائے گا کہ دیوبندی منکر درود اور اہل حدیث گستاخ رسول ہیں۔ یہ کافر ہیں، کافر ہیں ،کافر ہیں، جو ان کے کافر ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایمان کے جذبے کے ساتھ اعتراف کا حوصلہ بھی عطا فرمائے ۔
ریحان احمد یوسفی
ishraqkarachi@gmail.com
(۴)
محترم جناب محمد عمار ناصر صاحب
السلام علیکم۔ امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آپ دن بدن اپنے رسالے ’الشریعہ‘ کو علمی اور تحقیقی بنانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کر رہے۔ خدارا اپنے رسالے میں تحقیق کا مرکز ومیدان امت میں موجود تفرق وتشتت کے کینسر کو بنائیں جو امت مسلمہ کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں اس تفریق کا باعث ائمہ اربعہ کی فقہی آرا ہیں یا ایک ہی موضوع پر مختلف مفہومات کی حامل احادیث ہیں یا علماے سو کے ذاتی مفادات یا کوئی اور سبب؟ بہرحال جو بھی اس کے اسباب ہیں، ان کا دقت نظر سے جائزہ لے کر ان کے استیصال کی بھرپور کوشش کرنا ہی فی زماننا دین کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ 
آپ ایسے اہل علم سے یہ مخفی نہیں ہے کہ امت کی موجودہ تفریق بھی ازروے قرآن حکیم شرک کے زمرے میں آتی ہے۔ آپ حضرات لوگوں کو شرک جلی اور شرک خفی سے تو ڈراتے دھمکاتے رہتے ہیں، لیکن اس شرک کے معاملے میں آپ کی آنکھیں کیوں بند ہیں؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
امید ہے کہ آپ میری معروضات پر مثبت رد عمل کا مظاہرہ فرمائیں گے۔
ماسٹر لال خان
ساکن بیکنانوالہ۔ ڈاک خانہ چک جانی
براستہ ڈنگہ۔ تحصیل کھاریاں۔ ضلع گجرات
(۵)
محترمی ومکرمی مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
الشریعہ کبھی کبھی نظر سے گزرتا ہے۔ ماشاء اللہ اپنے انداز وادا سے تازگی اور جدت کا پیغامبر ہے۔ آپ جس دردمندی، محنت اور اخلاص کے ساتھ قلم اٹھاتے ہیں، وہ تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی ان کاوشوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔ آمین۔
الشریعہ (دسمبر ۲۰۰۷) میں ’’کلمہ حق‘‘ کے عنوان کے تحت ایک خاتون کا خط شائع کیا گیا ہے۔ اس میں بیان کردہ حالات بہت بڑے خطرات کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ ان حالات میں علماے کرام کو کیا کرنا چاہیے، گہرے غور وفکر اور سوچ بچار کا تقاضا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ موجودہ فتنہ پرور دور اور سازشوں کا شعور وادراک عطا فرمائے، آمین۔
عمران ظہور غازی
چیف آرگنائزر ہیومن رائٹس نیٹ ورک پنجاب
۲۲۔سی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور

مولانا ضیاء الدین اصلاحی (مرحوم) ۔ دارالمصنفین کا ایک تابندہ ستارہ

ڈاکٹر محمد عبد اللہ صالح

(دار المصنفین شبلی اکیڈمی (اعظم گڑھ) کے ڈائریکٹر ، ماہنامہ ’’معارف‘‘ کے مدیر مولانا ضیاء الدین اصلاحی مؤرخہ یکم فروری ۲۰۰۸ء بروز جمعہ بنارس میں سڑک کے ایک جان لیوا حادثے کا شکار ہوگئے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)۔ مرحوم کی دارالمصنفین سے پچاس سالہ رفاقت، معارف کی بیس سالہ ادارت اور خدمات پر مضمون پیش کیا جارہا ہے۔)

سیر ت النبی ﷺ (شبلی نعمانی) کا نام جب بھی ذہن میں آتا ہے تو لازماً دارالمصنفین کا خیال دل و دماغ میں نقش ہوجاتا ہے۔ اعظم گڑھ (ہند) میں قائم ہونے والا یہ ادارہ محض مولانا شبلی نعمانی کا خواب ہی نہ تھا بلکہ ہند کے مسلمانوں کے نشاۃ ثانیہ اور علمی احیا کی ایک تحریک تھی۔ دارالمصنفین کی تقریباً ۹۲سالہ تاریخ نے یہ ثابت کردیا کہ یہ خطہ علمی طور پر ابھی بانجھ نہیں ہوا، بلکہ ایسے اداروں نے ایسے رجال کار اور علما و مصنفین پیدا کیے جس کا خواب شبلی نعمانی مرحوم نے دیکھا اور جس کی عملی تعبیر ان کے شاگردِ رشید سید سلمان ندوی نے فراہم کی۔ اس ادارے نے وہ عظیم الشان اہلِ علم و دانش پیدا کیے اور انہوں نے وہ تہذیبی و تمدّنی اور تاریخی سرمایہ چھوڑا جس پر خطہ ہندوستان بجا طور پر فخر کرسکتا ہے۔(۱)
علامہ شبلی نعمانی کے خاکہ کے مطابق اس ادارہ کو علمی تحریک کا روپ دینے میں جن شخصیات نے اپنا خونِ جگر دیا، ان میں سید سلمان ندویؒ ، مولانا معین الدین ندوی، مولانا عبدالماجد ندوی، مولانا ریاست علی ندوی، مولانا ابوظفر ندوی، مولانا عبدالسلام قدوائی، سید صباح الدین عبدالرحمٰن اور مولانا ضیاء الدین اصلاحی شامل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک دارالمصنفین کے افق پر چمکنے والا ستارہ ہے ، جس کی ضوفشانیوں سے ایک عالم منور ہورہا ہے۔

مختصر حالاتِ زندگی

مولانا ضیاء الدین اصلاحی اعظم گڑھ (یو۔پی) کے ایک چھوٹے سے گاؤں سہاریا(Sahara)میں نظام آباد کے قریب ۱۹۳۷ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مدرسۃ الاصلاح (سرائے میر) میں حاصل کی ۔ آپ مولانا اختر احسن اصلاحی کے شاگرد خاص تھے جومولانا حمید الدین فراہی کے تربیت یافتہ تھے۔ ان کے بڑے بھائی مولانا قمر الدین اصلاحی مولانا امین احسن اصلاحی کے شاگرد تھے۔ مدرسۃ الاصلاح سے فراغت کے بعد مولانا ضیاء الدین اصلاحی ۱۹۵۷ء میں دارالمصنفین شبلی اکیڈمی (اعظم گڑھ) سے بطور رفیق (ریسرچ سکالر) وابستہ ہوگئے۔ اس وقت شاہ معین الدین ندویؒ اکیڈمی کے ڈائریکٹر تھے۔ تقریباً تیس سال رفیق کی حیثیت سے کام سرانجام دیا۔ سید صباح الدین عبدالرحمٰن کی ناگہانی وفات (۲)کے بعد۱۹۸۸ء میں ضیاء الدین اصلاحی ڈائریکٹر (ناظم) کے عہدے پر فائز ہوئے جو تادمِ حیات اپنی ذمہ داریاں پوری جانفشانی سے ادا کرتے رہے۔ علاوہ ازیں مولانا ضیاء الدین مندرجہ ذیل علمی اداروں اور فلاحی تنظیموں سے وابستہ رہے۔
۱۔ ناظم (ڈائریکٹر) مدرسۃ الاصلاح (سرائے میر۔ اعظم گڑھ)
۲۔ ممبر مجلس منتظمہ ندوۃ العلماء (لکھنؤ)
۳۔ ممبر مجلس منتظمہ دارالعلوم تاج المساجد (بھوپال)
۴۔ ممبر مجلس منتظمہ جامعۃ الفلاح (اعظم گڑھ)
۵۔ ممبر مجلس عاملہ اردو اکیڈمی (یو۔پی)
۶۔ ممبر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

بطور مصنّف و قلم کار

مولانا ضیاء الدین اصلاحی کا قلم بہت رواں تھا۔ انہوں نے متعدد موضوعات پر قلم اٹھایا ۔ ان میں تفسیر، حدیث، فقہ، ترجمہ نگاری، سیرت و سوانح، تاریخ و ادبیات شامل ہیں۔ تصنیف و تالیف میں اگرچہ زیادہ تر مقالات شامل ہیں جن پر ہم الگ سے بحث کریں گے۔ تاہم مندرجہ ذیل تصنیفات ان کے قلم سے نکلیں:

۱۔ تذکرۃ المحدثین: 

رجالِ حدیث مولانا کا پسندیدہ موضوع تھا۔ مذکورہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ جلدِ اول میں دوسری صدی ہجری کے آخر سے چوتھی صدی ہجری کے اوائل تک مشہور محدثین کے حالات اور ان کی تصنیفات پر روشنی ڈالی گئی ہے، جبکہ دوسری جلد میں چوتھی صدی ہجری کے نصف آخر سے آٹھویں صدی ہجری تک محدثین کا احاطہ کیا گیا ہے جبکہ تیسری جلد میں آٹھویں صدی ہجری سے شیخ عبدالحق محدث دہلوی تک کے ممتاز صاحبِ تصنیف اور ہندوستانی محدثین کے حالات قلم بند کیے ہیں۔

۲۔ مسلمانوں کی تعلیم:

۲۲۶صفحات کی اس کتاب میں اسلام میں تعلیم کی اہمیت، طریقہ تعلیم، مدارس کی اہمیت ،ان کے نصابات میں اصلاح ،مردوں اورعورتوں کے لیے عصری تعلیم کی ضرورت اورمولانا شبلی نعمانی کے تعلیمی نظریات پر بحث کی گئی ہے ۔
۳۔ ہندوستان عربوں کی نظرمیں 
۴۔مولاناابوالکلام آزاد
۵۔ ایضاح القرآن 
۶۔انتخاب کلام اقبال 
مولاناضیاء الدین اصلاحی نے ملک میں متعدد علمی کانفرنسوں ،سیمینار ،اورتاریخ وادبیات کی مجالس میں شرکت کی اوران میں مقالات پیش کیے۔ ان کی عربی زبان و ادب کی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے ۱۹۹۵ء میں انہیں ’’پریذیڈنٹ آف انڈیا ایوارڈ ‘‘ سے نوازا ۔یہ ایوارڈ بھارت کے صدر ڈاکٹر شنکر دیال شرما نے دیا۔ 

بطورناظم دارالمصنفین شبلی اکیڈمی 

مولانا ضیاء الدین اصلاحی نے بطور ڈائریکٹر دارالمصنفین شبلی اکیڈمی نہایت جانفشانی سے کام کیا ۔ شبلی نعمانی کے خوابوں کوعملی تعبیر وتشکیل دینے میں اپنے پیش روں کے نقش قدم پر چلے ۔ نہ صرف یہ کہ اکیڈمی کی تصنیفات وتالیفات کی نشرواشاعت میں غیر معمولی تیزی آئی بلکہ انہیں کے دور میں دارالمصنفین قدیم پر یس (لیتھو)سے جدید اورمشینی پریس (آفسٹ )پر منتقل ہوا جس سے طباعت کامعیار عمدہ ہوا ۔ علاوہ ازیں دارالمصنفین کادیگر ملکی اورغیر ملکی اداروں سے تعاون وتعلق مزید پختہ ہوا۔ بطور ناظم اس پلیٹ فارم سے موثر آواز اٹھائی اورملکی اوربین الاقوامی امورپر مسلمانوں بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کے موقف کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ،فروری ۲۰۰۷ء میں جب شبلی اکیڈمی کی ویٹ سائٹ تیارہوئی تواس پر از حد خوشی کااظہار فرمایا۔

معارف اورضیاء الدین اصلاحی 

ماہ نامہ معارف (اعظم گڑھ)کااجراء رمضان المبارک ۱۳۲۴ھ /جولائی ۱۹۱۶ء کو ہوا۔ سید سلمان ندوی ؒ اس کے پہلے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس اعتبار سے اس کی عمر ۹۲سال ہوگئی ہے۔ مجلّہ معار ف کا شمار برصغیر کے قدیم علمی مجلات میں ہوتا ہے۔ سید سلمان ندوی نے مولانا شبلی نعمانی ؒ کی ہدایات کے مطابق اس کا اجرا کیا ۔ نیز اسے ایک ضابطہ کار کا پابند بنایا اور اعتدال و توازن اور توسیع پر مبنی اس نقطہ نظر کا نصب العین قرار دیا جس میں اپنی بنیادوں سے انحراف بھی نہ ہو اور زمانہ کی وسعتوں کا بھی احاطہ کیا جائے۔ اس کی حیثیت برصغیر میں دائرۃ المعارف (انسائیکلوپیڈیا) کی ہے جس کے لکھنے والوں میں نہ صرف ہندوستان و پاکستان بلکہ عالمِ اسلام کی نامور شخصیات رہی ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے مجلہ معارف کے بارے میں لکھا :
’’معارف کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں ، صرف یہی ایک پرچہ ہے اور ہر طرف سناٹا ہے۔ الحمدللہ! مولانا شبلی مرحوم کی تمنائیں رائیگاں نہیں گئیں اور صرف آپ کی بدولت ایک ایسی جگہ بن گئی جو خدمت علم و تصنیف کے لیے وقف ہے۔‘‘
عالمِ اسلام کے نامور محقق ، مصنف ڈاکٹر حمیداللہ جو معارف کے تادمِ حیات معاون و قلم کار رہے، یوں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں:
’’واقعہ تو یہ ہے کہ آج کل ساری دنیاے اسلام میں عرب ہو کہ عجم، کوئی اسلامی رسالہ اسلامیات پر اعظم گڑھ والے معارف کے معیار کا نہیں۔ اوروں کے ہاں کاغذ اور طباعت بہتر ہوسکتی ہے، لیکن مضامین کے مندرجات میں علمی معیار بدقسمتی سے کچھ بھی نہیں ۔ خدا معارف کو سلامت با کرامت رکھے۔ میں خود معارف میں جگہ پاؤں تو اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتا ہوں۔‘‘ (۳)
مولانا ضیاء الدین اصلاحی معارف (اعظم گڑھ) سے اگرچہ ۱۹۵۷ء سے وابستہ ہوگئے تھے تاہم بطور مدیر انہوں نے ۱۹۸۸ ء سے ذمہ داری سنبھالی ۔ ان کی پہلی تحریر فروری۱۹۵۵ء میں شائع ہوئی اور آخری تحریر بطور مقالہ اکتوبر۲۰۰۷ء میں شائع ہوئی۔ (۴)
ضیاء الدین اصلاحی نے اپنے پیش رو مدیروں سید سلیمان ندویؒ ، شاہ معین الدین ندوی ؒ ، عبدالسلام ندوی ؒ اور سید صباح الدین عبدالرحمن ؒ کی طرح معارف کا معیار برقرار رکھنے میں دن رات محنت کی ۔ خود ان کے قلم سے سینکڑوں مقالات نکلے اور ماہنامہ معارف کی زینت بنے۔ (۵) ان مقالات کا دائرہ کار بہت وسیع بھی ہے اور متنوّع بھی۔ سب سے بڑھ کر مدیر کی ذمہ داری ’شذرات‘ قلم بند کرنا ہے جو بالعموم تین صفحات پر تین یا چارحصوں پر مشتمل ہوتے ہیں جن میں کبھی تو ایک ہی موضوع اور کبھی مختلف پیراؤں میں مختلف موضوعا ت پر اظہارِ خیال ہوتا تھا۔ شذرات نہ صرف مدیر کے ذہن کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ معارف اور دارالمصنفین کی پالیسیوں کی بھی وضاحت کرتے ہیں۔ ان میں ملکی و علاقائی مسائل پر بھی اظہارِ خیال ہوتا ہے اور بین الاقوامی حالات پر بھی۔ بالخصوص مسلمانوں کے مسائل خواہ وہ ہندوستان کے ہوں یا بیرونِ ہندوستان کے ، کھل کر بات کی جاتی ہے۔ چند شذرات پر نظر ڈالتے ہیں۔ 
عالمی سطح پر مسلمانوں کو جس طرح سازشوں اور دہشت گردی کا سامنا ہے ، اس پر مدیرِ معارف نے یوں روشنی ڈالی ہے:
’’اس وقت دنیا کا سب سے طاقت ور ملک امریکہ ہے۔ تلک الایام نداولھا بین الناس، اور ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو جمہوریت اور امن عالم کاسب سے بڑا محافظ اورعلم بردار سمجھتاہے ،جبکہ وہ جمہوریت کاسب سے بڑا قاتل ہے ۔ خوف ودہشت انگیزی ،انتشار اوربدا منی پھیلانا اورخون خرابہ کرانا اس کامشن رہاہے۔ اس کی آمرانہ اوراستبدانہ پالیسی نے کئی کئی ملکوں میں جمہوریت کے منتخب نمائندوں کی حکومتیں قائم نہیں ہونے دیں اوران کو راستے کا روڑا سمجھ کر کنارے لگا دیا اور اپنی پسند کے حکمران مسلط کردیے ااس طرح کی کٹھ پتلی حکومتوں سے جمہوریت کاخون ہی نہیں ہوا، بلکہ حکومت نے یقینی وبے اطمینانی کی کیفیت پید اہوئی، تشدد اور خلفشار مچا، قتل وخون ریزی سے ملک کے ملک تباہ ہوگئے اورامن وچین غائب ہوگیا اس وقت افغانستان وعراق میں اس کی چنگیزیت اورنادرگری سے یہی ہورہاہے۔‘‘(۶)
پاکستان اورہندوستان کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم کرکے حوالے سے رقم طراز ہیں ۔ 
’’۱۹۴۷ء سے پہلے ہندوستان اورپاکستان ایک ہی ملک تھے ،گواب یہ دوملک بن گئے ہیں اوران کے درمیان سرحد حائل ہوگئی ہے ،لیکن اس کی وجہ سے صدیوں سے قائم نہ علمی ،تہذیبی اورثقافتی تعلقات ختم ہوسکتے ہیں اورنہ اعزہ واقارب کے دونوں ملکوں میں بٹ جانے سے خونی رشتے منقطع ہوسکتے ہیں ۔ دونوں ملکوں کافائدہ اسی میں ہے کہ یہ مل جل کررہیں،ان کے تعلقات خوشگوار ہوں اوراپنے متنازع امور کوکسی اورملک کی مداخلت کے بغیر خودہی بات چیت کے کرکے طے کرلیں اورآپس کے گلے شکوے ،رنجشیں اورعداوت دورکرلیں تاکہ ہر قسم کی کش مکش ،آویزش اورٹکراؤ کاسدباب ہوسکے بلکہ دوستوں اوربھائیوں کی طرح امن وچین سے رہیں،یہی بات دونوں ملکوں کے حکمرانوں کوبھی سمجھ لینی چاہیے کہ امن مفاہمت اوربقا کے باہمی راستہ اختیار کرنے میں ان کی فلاح اوربھلائی ہے۔‘‘ (۷)
مدیر معارف کوا س بات پر نہایت تشویش تھی کہ دارالمصنفین کی کتابیں پاکستان اور دیگر ملکوں میں بلااجازت چھپ رہی ہیں، علمی فائدہ اپنی جگہ اورکتب کی اشاعت خوب ہورہی ہے ،لیکن دارالمصنفین جوان کتب کی اصل ہے اورجس کے جملہ طباعی و اشاعتی حقوق اس کے پاس محفوظ ہیں، وہ شدید طورپر مالی دشواریوں سے دوچارہے اوروسائل نہ ہونے کی وجہ سے دارالمصنفین کے بہت سے منصوبے ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں۔ شذرات میں مولانا ضیاء الرحمن اصلاحی نے بارہا مرتبہ اپنے اضطراب کایوں اظہار کیاہے ۔
’’ہم ان صفحات میں متعدد بار لکھ چکے ہیں کہ دارالمصنفین کی کتابیں ہندوستان وپاکستان کے ناشرین غیر قانونی اورغیراخلاقی طورپر شائع کررہے ہیں ،،مگر ہماری چیخ وپکار کے باوجود وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔‘‘
ایک اور شذرے میں لکھتے ہیں :
’’دارالمصنفین کی کتابوں کی ڈاکہ زنی اورقذافی کایہ سلسلہ ہندوستان اورپاکستان میں توبہت عرصے سے جاری ہے لیکن اب عرب ملکوں میں بھی یہ سلسلہ شروع ہوگیاہے۔ ان کتابوں کی جس قدر اشاعت اورترجمے ہوں گے، اس سے ان کو خوشی ہوتی ہے لیکن ہندوستان کے اداروں اورمصنفین خصوصاًدارالمصنفین کے حالات ایسے نہیں ہیں کہ اس کے علم میں لائے بغیر اس کی کتابیں اس طرح چھپتی اوردوسری زبانوں میں ترجمے کی جاتی رہیں ، اس سے تووہ تباہی کے کنارے پر پہنچ جائے گا، اس لیے پاکستان اورعرب ملکوں یادنیا کے کسی ملک اورزبان میں جولوگ دارالمصنفین کی کتابیں ،یا ان کے ترجمے شائع کرناچاہیں، ان کے لیے اس سے اجازت لینا،معاہدے اورمعاوضے کی شرائط طے کرنا ضروری ہے۔ عرب ملکوں میںیہ ذمہ داری ڈاکٹر تقی الدین ندوی اورپاکستان میں سجاد الٰہی کے ذمہ ہوگی ۔‘‘(۹)
الحمد للہ مدیر معارف کی اس توجہ کے بعد پاکستان میں دارالمصفین کے ذمہ دارجناب سجاد الٰہی نے بھر پور طریقے سے کام کیا اور دو طریقوں سے دارالمصنفین کی بھر پور معاونت کی ۔ ایک تو وہ پبلشرز جوبرس ہابرس سے دارالمصنفین کی مطبوعات بالخصوص سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم شائع کررہے تھے،ان سے معاملات کیے گئے اورکسی قدر رائلٹی دارالمصنفین کے سپرد کی گئی۔ دوسرا اہم کام یہ کیاکہ ماہ نامہ معارف کی پاکستان میں وسیع پیمانے پر نشرواشاعت کے لیے چند دوستوں نے ملک کر بھر پور مہم چلائی اوردوسال کے اندر اندر اس وقت ۲۰۰ کی تعداد میں معارف علمی وتعلیمی اداروں اورافراد تک پہنچ رہے ہیں ۔ علاوہ ازیں دارالمصفین کی مطبوعہ کتب کوبھی وسیع پیمانے پر لائبریریوں اوردیگر خواہش مند افراد تک مناسب قیمت پر مہیا کرنے کا انتظام کیا گیا ۔(۱۰)
دارالمصنفین نے ان کاوشوں کو بنظر تحسین دیکھا اورمدیرمعارف نے شذرات میں یوں اظہار کیا :
’’گزشتہ دوبرسوں میں دارالمصفین شبلی اکیڈمی کے کر م فرماؤں نے خاص طورپر تعاون کیا ہے۔ جلسہ انتظامیہ نے ان کے شکریہ کی منظوری دی۔ جناب سجاد الٰہی (لاہور )جناب شمس الرحمن اورپروفیسر ظفرالاسلام نے معارف اور دارالمصنفین کی کتابوں کی توسیع میں بڑی دلچسپی لی۔‘‘(۱۱)
صرف ہندوستان ہی کے نہیں ،علمی واشاعتی ادارے جہاں کہیں بھی ہیں، دارالمصفین نے ان اداروں کی حوصلہ افزائی کی ہے اوران سے ہمیشہ تعاون کیا ہے۔ اقبال اکیڈمی لاہور کی بابت مدیرمعارف نے لکھا :
’’اقبال اکیڈمی پاکستان لاہور کاایک فعال ادارہ ہے جواقبالیات پربلند پایہ کتابوں کی اشاعت کے لیے مشہور ہے۔ علم دوستی کی بنا پر اس کی مطبوعات دارالمصفین کے حصے میں بھی آتی ہیں (دس کتب کی فہرست )ان کتابو ں کی اشاعت کے لیے ہم اکادمی کومبارک باددیتے ہیں، اورعطیے کے لیے اس کے شکرگزار ہیں۔‘‘ (۱۲)
مدیر معارف پاکستان کے داخلی معاملات میں کس قدر دلچسپی رکھتے تھے، اس کا اندازہ جولائی ۲۰۰۷ ء میں سانحہ لال مسجد وجامعہ حفصہ سے ہوتاہے وہ اس سانحہ پر کس قدر دل گرفتہ تھے۔ شذرات میں رقم طراز ہیں :
’’گزشتہ مہینے پاکستان میں لال مسجد اورجامعہ حفصہ کے آپریشن سائی لنس کانہایت اندوہ واقعہ پیش آیا اورایک صد سے زیادہ علوم دینیہ کے طلبہ وطالبات اورعلما کی قیمتی جانیں گئیں۔ یہ خون ریزی اوروحشیانہ کاروائی اورمسجد ومدرسے کی پامالی وبے حرمتی حکومت کی کوئی مجبوری نہیں تھی ،مذاکرات اوربااثر لوگوں کودرمیان میں لاکر مسئلے کوحل کیا جا سکتا تھا۔ اگر مسجد اورمدرسہ والوں کی انتہا پسند ی اورسرکشی اتنی بڑھ گئی تھی کہ انہوں نے متوازی حکومت بنالی تھی ،اس بنا پر یہ سخت اقدام ضروری ہوگیا تھا کہ توکیا اس میں حکومت کی غفلت نہیں تھی ،جس نے انہیں اتنی چھوٹ دے رکھی تھی ،کہ وہ مسجد ومدرسہ کواپنی باغیانہ سرگرمیوں کامرکز بنا کرامن وقانون کو پامال کرنے لگے تھے؟ پاکستان اپنے دستور کی روسے اسلامی مملکت ہے۔ اس سے اسلامی قانون وشریعت کے نفاذ اورفواحش ومنکرات کے انسداد کامطالبہ غلط نہیں تھا ،غلط مطالبہ کاطریقہ تھا۔ ضد ،غلو اورتشدد سے مطالبات نہیں منوائے جاتے اورنہ زوروقوت سے برائیاں ختم کی جاسکتی ہیں۔ اس کے لیے ذہن وکردار سازی کی جاتی ہے اورآئینی جمہوری اورپرامن طریقے سے رائے عامہ ہموار کیا جاتی ہے، مگر حکومت کی نیت ٹھیک نہیں تھی۔ اس نے یہ جارحانہ کاروائی مغربی آقاؤں کی خوش نودی کے لیے کی تھی جس کی شاباشی اسے مل چکی۔ فوج کشی اورظلم وتشدد سے وقتی طورپر سکوں ہوجاتاہے مگر آئندہ دبی ہوئی چنگاریاں بہت زوروشور سے بھڑکتی ہیں۔ مشرف صاحب کے اس طرح کے ناروا اقدامات سے ان کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔‘‘ (۱۳)
جیساکہ قبل از یں سطورمیں بیان کیاجاچکاہے کہ معارف علوم ومعارف کے اردورسائل میں اپنی ایک شاندار تاریخ کا حامل ہے، اس کے معیار کے بارے میں مدیر معارف کے کیا خیالات تھے، ملاحظہ کیجیے:
’’علامہ شبلی مرحوم نے دارالمصنفین سے معارف کے اجرا کاجوپروگرام بنایاتھا،وہ مولانا سید سلیمان ندوی کے ذریعہ روبہ عمل آیااورجولائی ۱۹۱۶ ء میں اس کاپہلا شمارہ نکلا اورالحمدللہ اس وقت سے اب تک یہ مسلسل بلاناغہ شائع ہورہاہے۔ ۹۰ سال تک اردو کے وہ بھی ایک سنجیدہ علمی اورتحقیقی رسالہ کا جس میں تمام دلچسپی کی چیزیں نہ ہوں، شائع ہوتے رہنا خدائے ذوالجلال کافضل وکرم ہے۔ معارف کاشروع سے جوبلند معیار واندازرہاہے،اسے قائم رکھنا مجھ جیسے کم مایہ کے لیے بہت مشکل ہے مگر ہمیشہ میری یہ کوشش رہی کہ اس کے معیار کوہاتھ سے نہ جانے دیاجائے ۔ اگر اس میں کچھ کامیابی ہوئی تو یہ تائید ربانی اوراہل علم ودانش کی اعانت سے ہوئی ہے، لیکن اب لوگ سہولت پسند ہوگئے ہیں اورمحنت وپتہ ماری سے گھبراتے ہیں۔ جن موضوعات پرقلم اٹھائے ہیں، ان کے اصل مراجع سے واقف نہیں ہوتے۔‘‘ (۱۴)
مدیر معارف نے امسال ۱۴۲۸ھ (دسمبر ۲۰۰۷ء) کو حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی ۔ شاید اللہ تعالیٰ کو ان کی انسانی خطاؤں اور لغزشوں کی معافی مطلوب تھی اور بلندئ درجات مقصود تھی ۔ فروری ۲۰۰۸ء کے شذرات سفرِ حج کے تاثرات و مشاہدا ت تھے۔ چند سطور ملاحظہ ہوں :
’’حج کا یہ عالم گیر اجتماع امتِ مسلمہ کے مختلف طبقوں اور گروہوں کی وحدت اور یک رنگی کا عظیم الشان مظہر ہے۔ قوم و وطن، رنگ و نسل، جنس و زباں، لباس، ذوق و مزاج، یہاں تک کہ نماز کی بعض ظاہری صورتوں میں بھی اختلاف کے باوجود سب کی زبانوں پر لبیک لبیک کی صدائیں اور احرام کی چادریں سب کے جسموں پر ہوتی ہیں اور سب اللہ کے گھر پر نثار اور ایک امام کے پیچھے نماز ادا کرتے ہیں، اختلاف میں وحدت کا یہ منظر حج کے ساتھ مخصوص ہے اور اس کی کوئی مثال دوسرے مذہب میں معدوم ہے۔‘‘ (۱۵)
معارف فروری ۲۰۰۸ء کے مذکورہ شذرات مدیر معارف کے آخری الفاظ ثابت ہوئے۔ شذرات کے آخر میں درج یہ الفاظ کس قدر دل دوز اور غم ناک ہیں:
’’آہ کس دل سے اور کس قلم سے ناظرین معارف کو خبر دی جائے کہ ان شذرات کے پاک نفس اور پاک طنیت لکھنے والے قلم کی ضیاپاشیوں سے وہ محروم ہوگئے ہیں۔ مدیر معارف اور ناظم دارالمصنفین مولانا ضیاء الدین اصلاحی اب مرحوم ہیں۔ یکم فروری کو وہ سڑک کے ایک حادثے میں سخت مجروح ہوئے اور ۲ فروری کی صبح اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔‘‘ (۱۶)

سانحہ ارتحال

کل نفس ذائقۃ الموت کے مصداق پر ذی روح اورمتنفس کو اس جہاں فانی سے رخصت ہوتاہے لیکن بعض افراد اپنے پیچھے بہت بڑا خلا چھوڑجاتے ہیں ۔ مولانا ضیاء الدین اصلاحی بھی انہی شخصیات میں سے ہیں کہ یہ فرد کی موت نہیں بلکہ ایک جہاں اور تحریک کی موت ہے۔
یکم فروری ۲۰۰۸ ء بروز جمعہ مولانا ضیاء الرحمن اصلاحی اپنی اہلیہ کے ہمراہ ایک ٹیکسی پر سفرکررہے تھے کہ شام ساڑھے بجے کے قریب ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا فوری طورپر اعظم گڑھ ہسپتال میں لے جایا گیا۔ وہاں سے نازک حالت کے پیش نظر بنار س ہندویونیورسٹی میڈیکل کالج منتقل کیاگیامگر وہ شدید زخموں کی تاب نہ لاسکے اور۲فروری بروز ہفتہ جاں جان آفریں کے سپر دکردی۔ (اناللہ وانا الیہ راجعون) ندوۃ العلماء کے ریکٹر اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا سیدرابع ندوی نے نماز جنازہ پڑھائی اورمولانا شبلی نعمانی کے پہلو میں دارالمصنفین کے احاطہ میں دفن کیاگیا۔ تدفین بروز اتواز ۳فروری ۲۰۰۸ ء صبح ساڑھے دس بجے عمل میں آئی ۔ مرحوم کے پس ماندگان میں بیوہ کے علاوہ تین بیٹے اوردوبیٹیاں چھوڑی ہیں۔ ان کی عمر۷۱ برس تھی۔ مسلمانان پاکستان دعاگوہیں کہ اللہ تعالی مرحوم کے درجات کوبلند فرمائے۔ (۱۷)
اس طرح دارالمصنفین کے افق پرچمکے والاتابندہ ستارہ پچاس برس سے زائد ضوفشانیوں کے بعد غروب ہو گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ موت العالِم موت العالَم۔

توضیحات و حواشی 

۱۔ دارالمصنفین کی تاریخ و خدمات کے لیے دیکھیے: ڈاکٹر الیاس اعظمی، دارالمصنفین کی تاریخی خدمات، خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری ، پٹنہ ۲۰۰۲ء ؛ ڈاکٹر خورشید نعمانی ، دارالمصنفین کی تاریخ اور علمی خدمات ، دارالمصنفین ، اعظم گڑھ انڈیا، ۲۰۰۳ء 
۲۔ واضح رہے کہ معارف کے سابق مدیر سید صباح الدین عبدالرحمان بھی ۱۰ نومبر ۱۹۸۷ء ؁ میں حادثے کا شکار ہوئے۔ 
۳۔ تفصیلات کے لیے دیکھیے: حافظ محمد سجاد، معارف اور ڈاکٹر محمد حمید اللہ اور ماہنامہ معارف ، اعظم گڑھ، فکر و نظر، خصوصی اشاعت، جلد ۴۰، ۴۱ ، اپریل ۔ستمبر، ۲۰۰۳ء، اسلام آباد، ص:۳۷۔۴۱۰
۴۔ پہلا مضمون ’’امام ابو حنیفہ کی فقہ (ترکِ حدیث کے الزام کا جواب ) ‘‘ فروری ۱۹۵۵ء ، جمادی الثانی ۱۳۷۴ھ میں شائع ہوا۔ آخری مضمون : ’’مولانا روم ، مولانا شبلی کی نظر میں‘‘ ، اکتوبر ، نومبر ۲۰۰۷ء دو اقساط میں شائع ہوا۔
۵۔ ۱۹۵۵ء سے ۲۰۰۷ء تک ۱۲۰ کے قریب مقالات معارف میں شامل ہیں، علاوہ ازیں مطبوعاتِ جدیدہ کا تعارف، اخبارِ علمیہ اور مختلف علمی اجلاسوں کی روداد کی ترتیب میں بھی زیادہ تر حصہ مدیر معارف ہی کا ہوتا ہے۔ 
۶۔ ضیاء الدین اصلاحی، شذرات، ماہ نامعارف (اعظم گڑھ) ، جلد ۱۷۸، عدد۵، نومبر ۲۰۰۶ء، ص:۳۲۲۔
۷۔ ایضاً، جلد ۱۷۹، عدد، ۲، فروری ۲۰۰۷ء، ص:۸۲
۸۔ ایضاً، جلد۱۷۹، عدد ۱، جنوری ۲۰۰۷ء، ص:۳
۹۔ ایضاً ، جلد ۱۷۹، عدد ۵، مئی ۲۰۰۷ء، ص:۳۲۲،۳۲۳
۱۰۔ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اور ماہ نامہ معارف کے ساتھ اخلاقی و مالی معاونت میں جہاں سجاد الٰہی صاحب نے سرگرمی دکھائی ، وہاں ڈاکٹر حافظ محمد سجاد ( علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد ) اور راقم الحروف بھی شامل ہیں۔ سجاد الٰہی کا پتہ ہے : ۲۷/اے، مال گودام روڈ، لوہا مارکیٹ، بادامی باغ، لاہور ۔ 
۱۱۔ دارالمصنفین ، شبلی اکیڈمی کا دو روزہ اجلاس، یکم ، دو ستمبر ۲۰۰۷ء ، مزید دیکھیے ،شذرات ماہ نامہ معارف، جلد ۱۸۰، عدد ۳، ستمبر ۲۰۰۷ء، ص:۱۶۳، ۱۶۴۔ 
۱۲۔ ضیاء الدین اصلاحی ، شذرات، ماہ نامہ معارف، جلد ۱۷۹، عدد۱، جنوری ۲۰۰۷ء، ص:۴
۱۳۔ ایضاً، شذرات، معارف، جلد ۱۸۰، عدد۲، اگست ۲۰۰۷ء، ص:۸۲،۸۳
۱۴۔ ایضاً، شذرات، معارف، جلد ۱۸۰، عدد۲، اگست ۲۰۰۷ ؁ء، ص:۸۲،۸۳
۱۵۔ ایضاً، ملاحظہ ہو دارالمصنفین کی ویب سائٹ۔www.shibliacademy.org۔ واضح رہے مذکورہ ویب سائٹ افضال عثمانی نے فروری ۲۰۰۷ء میں ڈاکٹر اے عبداللہ ( واشنگٹن)اور ڈاکٹر ظفر الاسلام خان (دہلی ) کے تعاون سے تیار کی ۔ 
۱۶۔ایضاً شذرات جلد ۱۸۱، عدد، ۲، ص:۸۳،۸۴

مولانا محمد اشرف شادؒ

مولانا محمد یوسف

عالم ربانی، استاذ العلماء، جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا محمد اشرف شاد گزشتہ دنوں انتقال فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ پاکستان کی عظیم دینی درس گاہ دار العلوم کبیر والا کے قدیم فضلا میں سے تھے۔ درس نظامی کی تکمیل کے بعد آپ عنفوان شباب ہی سے درس وتدریس سے وابستہ ہو گئے اور تادم واپسیں مسند تدرریس پر رونق افروز رہے۔ اس عرصے میں بے شمار تشنگان علم نے اس چشمہ علم سے اپنی پیاس بجھائی۔ آپ نے ملک کے تدریسی حلقوں میں امام الصرف والنحو کا لقب پایا اور آپ کو بجا طور پر ملک کے چوٹی کے مدرسین میں شمار کیا جاتا تھا۔ 
آپ صبح سویرے مسند تدریس پر رونق افروز ہوتے اور پھر ناشئَۃ اللیل تک علم وعرفاں کی روشنی بکھیرتے رہتے۔ گو بنیادی طور پر آپ زندگی بھر تدریسی شعبے سے وابستہ رہے، لیکن اس کے علاوہ بھی تمام ملی ودینی خدمات میں بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیتے رہے۔ عاجزی، انکسار اور سادگی میں آپ اپنے اکابر کا نمونہ تھے۔ پہلی نظر دیکھنے والا شخص یہ خیال نہیں کر سکتا تھا کہ یہی وہ عالم ربانی ہیں جن کی شبانہ روز محنت سے ملک کے تدریسی حلقوں میں پختہ کار رجال فراہم ہو رہے ہیں۔
آپ کی ایک نمایاں خوبی جس کا مشاہدہ آپ کے متعلقین میں سے ہر ایک کو ہے، زیر تعلیم طلبہ میں سے ہر ایک طالب علم کے ساتھ ایک شفیق باپ کا سا تعلق تھا۔ جب تعطیلات میں طلبہ اپنے گھروں کو لوٹتے تو طلبہ کو فرداً فرداً ملتے ہوئے آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے اور فرماتے: زینۃ المکان بالمکین۔ فرماتے کہ عزیز طلبہ، اس ادارے کی رونق آپ کے دم قدم سے ہے۔ آپ کے جانے کے بعد رونق ختم ہو جاتی ہے۔ آپ کی حیات طیبہ اور مساعی جمیلہ کے ہر گوشہ کو محفوظ کرنا اور انھیں آئندہ نسلوں تک پہنچانا بے حد ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلیں نہ صرف آپ کے کردار سے واقف ہو سکیں بلکہ اس پر عمل کرتے ہوئے دارین کی سرخ روئی بھی حاصل کر سکیں۔
ہم حضرت مولانا کے ورثا کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کو کروٹ کروٹ راحت نصیب فرمائے اور آپ کے علمی فیض کو عام اور تام فرمائے۔ ہم آپ کے علمی جانشین مولانا مفتی محمد احمد انور کے لیے بھی دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے عظیم والد کے عظیم علمی ورثہ کو آنے والی نسلوں تک بخوبی منتقل کرنے کی ہمت اور توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

مئی ۲۰۰۸ء

حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کا سانحہ وفاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ثقافتی انقلاب کی ضرورتڈاکٹر محمد امین
سرمایہ دارانہ یا سائنسی علمیت: ایک تعارفمحمد زاہد صدیق مغل
بجلی کا بحران ۔ چند تجاویزپروفیسر محمد شفیق ملک
کیا فطرت أصلاً یا تبعاً مصدر شریعت ہے؟حافظ محمد زبیر
حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے سانحہ ارتحال پر اہل علم ودانش کے تعزیتی پیغاماتادارہ
آفتاب علم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒسید احمد حسین زید
ہے یہ شام زندگی صبح دوام زندگیمولانا محمد یوسف
ڈاکٹر محمد دین مرحوممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اک مرد حر تھا خلد کی جانب رواں ہوامولانا ابوعمار زاہد الراشدی
آہ ! حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نور اللہ مرقدہسید سلمان گیلانی

حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کا سانحہ وفات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے بانی حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی نور اللہ مرقدہ ۶؍ اپریل ۲۰۰۸ کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے چھوٹے بھائی اور راقم الحروف کے چچا محترم تھے۔ انھوں نے ہجری اعتبار سے ۹۴ برس کے لگ بھگ عمر پائی اور تمام عمر علم کے حصول اور پھر اس کے فروغ میں بسر کر دی۔ وہ اس دور میں ماضی کے ان اہل علم وفضل کے جہد وعمل، زہد وقناعت اور علم وفضل کا نمونہ تھے جن کا تذکرہ صرف کتابوں میں رہ گیا ہے اور جن کے دیکھنے کو اب آنکھیں ترستی ہیں۔ 
ان کا تعلق مانسہرہ کے علاقہ میں آباد سواتی پٹھان قوم سے تھا۔ وہ ۱۹۱۷ء میں شنکیاری سے چند میل آگے کڑمنگ بالا کے پہاڑ کی چوٹی پر واقع ’’چیڑاں ڈھکی‘‘ میں جناب نور احمد خان مرحوم کے گھر میں پیدا ہوئے۔ والدہ محترمہ کا بچپن میں انتقال ہو گیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد والد محترم کا بھی انتقال ہو گیا اور وہ اپنے برادر بزرگ حضر ت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے ہمراہ قریہ قریہ مختلف مدارس میں گھوم کر علم کی پیاس بجھاتے رہے۔ دونوں بھائیوں نے بفہ، ملک پور، کھکھو، لاہور، وڈالہ سندھواں، جہانیاں منڈی، گوجرانوالہ اور دیگر مقامات کے متعدد مدارس میں اکٹھے دینی تعلیم حاصل کی اور ۱۹۴۱ء میں دارالعلوم دیوبند پہنچے جہاں انھوں نے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس اللہ سرہ العزیز اور دیگر اکابر علماے کرام سے کسب فیض کیا اور سند فراغت حاصل کر کے عملی جدوجہد کا میدان سنبھال لیا۔ 
حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نے حیدر آباد دکن کے طبیہ کالج اور لکھنو کے دار المبلغین میں امام اہل سنت حضرت مولانا عبد الشکور لکھنوی سے بھی تعلیم پائی اور گوجرانوالہ واپس آنے کے بعد کھیالی اور کرشنا نگر (محلہ فیصل آباد) کی بعض مساجد میں کچھ عرصہ دینی خدمات سرانجام دیں اور چوک نیائیں میں مطب کا آغاز کیا، مگر قدرت نے ان کے حصے میں ایک بڑی دینی خدمت رکھی تھی کہ ۱۹۵۲ء میں مفتی شہر حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ (جو ان کے استاذ بھی تھے) اور دیگر علماے کرام کے مشورے سے چوک گھنٹہ گھر کے قریب ایک بڑے جوہڑ کے کنارے مدرسہ نصرۃ العلوم کے نام سے دینی درسگاہ اور جامع مسجد نور کے نام سے مسجد کی تعمیر کا آغاز کر دیا۔ انھیں اس کار خیر میں حضرت مولانا احمد علی لاہوری، حضر ت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی اور حضرت مولانا مفتی عبد الواحد جیسے اکابر علماے کرام کی سرپرستی اور برادر بزرگ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی رفاقت حاصل تھی اور مخلص رفقا کی ایک ٹیم بھی میسر آ گئی جنھوں نے خلوص ومحنت کے ساتھ اس گلشن علم کی ایسی آبیاری کی کہ اللہ رب العزت نے مدرسہ نصرۃ العلوم کو ملک کے بڑے دینی مدارس اور علمی مراکز کی صف میں کھڑا کر دیا اور آج دنیا کا کوئی علاقہ ایسا نہیں ہے جہاں مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے براہ راست یا بالواسطہ فیض پانے والے علماے کرام دینی جدوجہد کے کسی نہ کسی شعبے میں مصروف عمل نہ ہوں۔
حضرت صوفی صاحب ایک کامیاب مدرس، حق گو خطیب، باعمل صوفی اور بے باک دینی راہ نما تھے جن سے لاکھوں افراد نے استفادہ کیا اور ہزاروں علما نے تربیت پائی۔ وہ اپنے ذوق کے حوالے سے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے مشن کے علمبردار اور ان کی حکمت وفلسفہ کے شارح تھے جس کی جھلک ان کی تین درجن سے زائد تصانیف اور ہزاروں خطبات ودروس میں جابجا پائی جاتی ہے۔
راقم الحروف نے حفظ قرآن کریم کے بعد درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنے کا بیشتر دور ان کی نگرانی میں گزارا ہے، حدیث وفقہ، ادب وتاریخ اور حکمت ولی اللہٰی کے شعبے میں بیسیوں کتابیں ان سے براہ راست پڑھی ہیں اور فکری وذہنی دنیا میں ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ انھوں نے ساری زندگی مدرسہ کے مکان میں گزار دی اور کم وبیش نصف صدی تک گوجرانوالہ کی خدمت کرنے کے باوجود اس شہر میں اپنے لیے ایک ذاتی مکان نہ بنا سکے۔ وہ زہد وقناعت میں اپنے ا ن بزرگوں کا عملی نمونہ تھے جن کا وہ اپنے بیانات، مضامین اور دروس میں اکثر تذکرہ کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو ان بزرگوں کی خدمات وفیوضات سے آگاہ کیا کرتے تھے۔
وہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے بعد شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور مفکر انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی کے ساتھ سب سے زیادہ عقیدت رکھتے تھے اور ان کے علوم وافکار اور روایات کے تذکرہ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ حضرت مولانا سندھیؒ کے بارے میں ناقدین اور نادان دوستوں کی طرف سے دو طرفہ طور پر پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات کا ازالہ کرنے میں انھوں نے بطور خاص محنت کی اور تاریخ کا قرض ادا کیا۔ وہ مسلکاً متصلب دیوبندی تھے اور علماے دیوبند کے علمی وفکری مسلک ومنہج سے نئی نسل کو متعارف کرانے میں نہ صرف اپنے برادر بزرگ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے معاون اور دست راست تھے بلکہ اس حوالے سے خود بھی ایک مستقل ذوق اور اسلوب رکھتے تھے۔
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ نے ایک مقام پر دیوبندی مسلک کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا ہے کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور شیخ اکبر امام محی الدین ابن عربی کے افکار وتعلیمات کا امتزاج قائم کیا جائے تو اس کا نام دیوبندیت ہے۔ میں اس حوالے سے عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمارا گھرانہ بحمد اللہ تعالیٰ اس کا صحیح نمونہ ہے کہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم پر ابن تیمیہؒ کا رنگ غالب ہے جبکہ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی ؒ ابن عربیؒ کے ذوق کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دونوں کے فکر وذوق میں ایک واضح تنوع پایا جاتا ہے مگر ایک حسین امتزاج بھی موجود ہے اور اس تنوع اور امتزاج کے بعض واقعات کا میں خود بھی شاہد ہوں جو حضرت صوفی صاحب کے کسی تفصیلی تذکرہ میں مناسب موقع پر ان شاء اللہ پیش کیے جائیں گے۔
حضرت صوفی صاحب نے دینی، علمی، عملی اور فکری شعبوں میں جو خدمات سرانجام دی ہیں اور خلوص وللہیت کے ساتھ سعی ومحنت کا جو نمونہ پیش کیا ہے، اس کا ایک ایک پہلو تاریخ اور نئی نسل کی امانت ہے کہ قومیں ایسے ہی لوگوں سے راہ نمائی حاصل کر کے اپنی راہیں متعین کیا کرتی ہیں۔ خدا کرے کہ ہم اس امانت کو صحیح طور پر نئی نسل اور تاریخ کے سپرد کرنے میں کامیاب ہوں، آمین۔ سردست ان جذبات غم کے اظہار کے ساتھ قارئین سے ملتمس ہوں کہ وہ حضرت صوفی صاحب کی مغفرت اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام کے لیے دعا کے ساتھ ساتھ بارگاہ ایزدی میں بطور خاص دست بدعا ہوں کہ اللہ رب العزت حضرت صوفی صاحب کے فرزند وجانشین مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی اور ان کے برادران مولانا محمد ریاض خان سواتی اور مولانا محمد عرباض خان سواتی نیز ہم جیسے دیگر پس ماندگان کو ان کے مشن کو آگے بڑھانے اور ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں اور ہر قسم کے شر سے حفاظت کرتے ہوئے دین حق کے فروغ اور سربلندی کے لیے آخر دم تک خدمات سرانجام دینے کے مواقع نصیب کریں اور خلوص ومحنت کے ساتھ اس کے لیے پیش رفت کرنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

ثقافتی انقلاب کی ضرورت

ڈاکٹر محمد امین

پاکستان میں سیاسی تبدیلی عوام کے ہاتھوں آچکی۔ گو فوج کی لائی ہوئی آمریت اپنی بقا اور اپنی پالیسوں کے تسلسل کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ یہ بجھتی ہوئی شمع کی آخری بھڑک ہے۔ جب شاہوار ملک مشرق سے طلوع ہو چکا اور سپیدۂ سحر نمودار ہو چکا تو اب تاریکی کا وجود کیسے باقی رہ سکتا ہے؟ اس کا مقدر یہی ہے کہ کو نوں کھدروں میں چھپتی پھرے اور اپنی نیستی کو قبول کر لے۔ 
یہ بھی تسلیم کر لیجیے کہ یہ تبدیلی تھوڑی غیر متوقع اور قدرے حیران کن ہے۔ اگر چہ اس تبدیلی کے لیے کئی سیاسی قوتیں میدان میں تھیں اور کشمکش و مزاحمت عرصے سے جاری تھی لیکن یہ توقع پھر بھی بہت سے لوگوں کونہ تھی کہ یہ تبدیلی انتخابات کے ذریعے آئے گی اور رائے عامہ کے زور سے آئے گی کیونکہ آمریت نے اپنے بدیسی آقاؤں کی مرضی ، خواہش اور تعاون سے رائے عامہ کو دبانے، کچلنے اور غیر موثر کر نے کے سارے انتظامات باطمینان خاطر کر رکھے تھے اور ہر روزن بند کر نے کے بعد اس کی پوری کوشش تھی کہ روشنی کی کرن کہیں سے نہ پھوٹے لیکن بالآخر اسے انتخابات کروانے پڑے اور وہ بھی بڑی حد تک شفاف، جس کے نتیجے میں اس کا دھڑن تختہ ہوگیا۔
ہم اس مثبت تبدیلی کو سراہتے اور اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ یہ تپتے ہوئے صحرا میں ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے جس نے میدان سیاست میں مشام جاں کو معطر کیا اور حیات نو کی نوید دی ہے، لیکن کیا اس سے ہمارے سارے زخم بھر جائیں گے، ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں گے؟ پُرامیدی اور خوش امیدی کے باوجود اس کا جواب ہاں میں دینا محض مبالغہ آرائی ہوگی۔ ہاں! یہ کہنا شاید صحیح ہو کہ سیاسی میدان میں یہ ایک مثبت پیش رفت کا آغاز ہے اور اگر سیاست میں یہ روش جاری رہتی ہے کہ انتخابات باقاعدگی سے ہوتے رہیں اور وہ شفاف بھی ہوں اور ان میں حقیقی رائے عامہ بھی ابھر کر سامنے آتی رہے تو یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ہمارا معاشرہ کچھ بہتر ہوجائے، انسانوں کے رہنے کے قابل ہوجائے اورلوگوں کے دکھ درد میں کچھ کمی ہو جائے اور ان کے کچھ مسائل حل ہونے لگیں، لیکن سیاسی میدان میں یہ تبدیلی یا مثبت رجحان بہر حال کوئی امرت دھارا نہیں ہے کہ اس سے ہمارے سارے امراض کا علاج ہو جائے اور ہمارے سارے نظریاتی ،معاشرتی،معاشی، قانونی، تعلیمی، تربیتی مسائل حل ہوجائیں۔ خصوصاً اس حوالے سے سو چیے کہ ہمارا سیاسی نظام اصلاً مغربی جمہوریت پر مبنی ہے (اور ہم نے اپنے ہاں کے دینی عناصر اور دین پسند عوام کے دباؤ پر محض ان کی اشک شوئی کے لیے اس میں بعض اسلامی اجزا کا اضافہ کر رکھا ہے) جو مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام اور مغرب کے لادین طرز حیات کا مظہر اور عکاس ہے۔ یوں جمہوریت محض ایک سیاسی نظام نہیں اور اسی طرح سرمایہ داری محض ایک معاشی سسٹم نہیں بلکہ یہ دونوں اس وحدت کے اجزا ہیں جسے ہم مغربی تہذیب کہتے ہیں اور مغربی تہذیب نام ہے ایک ملحدانہ ورلڈ ویو اور ایک لادین طرز زندگی کا جس کی بنیاد ہیومنزم، سیکولرزم، کیپٹل ازم، سائنس ازم جیسے ملحدانہ نظریات پر ہے۔ یو ں سمجھیے کہ مغربی تہذیب ایک دین ہے جو ساری انسانی زندگی کا احاطہ کرتا ہے، جو فرد اور اجتماع کے سارے اعمال کو کنٹرول کر تا ہے اور چونکہ یہ اس وقت غالب اور طاقتور ہے لہٰذا یہ ہر اس فکر، نظریے اور معاشرے کو کچل کر آگے بڑھ رہا ہے جو اس سے موافقت نہ کر ے یا اس کی راہ میں مزاحم ہو۔ لہٰذا مغربی جمہوریت کو محض ایک سیاسی نظام سمجھنا پہاڑ جتنی بڑی غلطی ہے۔ بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک پورا ’’دین‘‘ ہے اور مکمل طرز زندگی ہے جس کی دست برد سے فرد اور اجتماع کا کوئی معاملہ بچا ہوا نہیں ہے یا یوں کہیے کہ یہ ایک اکٹوپس (ہشت پا) ہے جس کے شکنجے سے نکل کر آپ کہیں نہیں جاسکتے۔

سیاسی تبدیلی مسئلے کا حل نہیں

آپ خود سوچیے! کیا اس جمہوری تبدیلی سے جو پاکستان میں آئی ہے، آپ کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا قبلہ درست ہوجائے گا اور جو فحاشی، عریانی اور ذہنی و فکری پراگندگی وہ پھیلا رہا ہے اسے بریک لگ جائے گی؟ کیا اس سیاسی تبدیلی سے آپ کا تعلیمی نظام ٹھیک ہو جائے گا، نصاب اسلام اور نظریہ پاکستان کے تقاضوں کو پورا کر نے والا اور بچوں کو اچھا مسلمان اور اچھا انسان بنانے والا بن جائے گا؟ کیا معیشت سے سود ختم ہو جائے گا اور افلاس کم ہو جائے گا اور غریبوں کے دن پھر جائیں گے؟ کیا اس جمہوری تبدیلی سے لوگوں کے اخلاق بہتر ہوجائیں گے اور وہ فراڈ، رشوت ، بے ایمانی اور دھوکہ دہی سے باز آ جائیں گے؟ کیا اس سے چوریاں ، ڈاکے ، زنا اور قتل بند ہو جائیں گے ؟ معاف کیجیے گا، ان میں سے کچھ بھی نہ ہوگا۔ بدی کا یہ سارا نظام ایسے ہی چلتا رہے گا۔
آپ یہ دیکھیے کہ ایم ایم اے کے نام سے پاکستان کی ساری بڑی دینی جماعتوں کا اتحاد ایک صوبے پر پانچ سال تک بر سراقتدار رہا، وہاں وہ کیا اسلامی اور تعمیری تبدیلی لاسکا؟ کچھ بھی نہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا سارا ریاستی نظام اور آپ کا سارا معاشرتی سیٹ اپ مغربی فکر و تہذیب کے قائم کردہ اداروں کی گرفت میں ہے۔ آپ اگر مغربی جمہوریت کے تحت قائم کردہ سیاسی اداروں کو قبول کر کے اور ان سے مصالحت کرتے ہوئے سیاسی میدان میں کامیاب ہو بھی جائیں تو آپ مغربی فکرو تہذیب سے مختلف اور ان کی مخالف دینی، اخلاقی، تعلیمی، معاشرتی تعلیمات و اقدار کو معاشرے میں مقبول نہیں کراسکتے اور انہیں رائج اور نافذنہیں کر سکتے ۔ ہم کہتے ہیں کہ ایم ایم اے یا دینی جماعتوں کو بالفرض پورے پاکستان میں بھی اقتدار مل جائے (جس کا پاکستان کی عملی سیاست میں دور دور تک کوئی امکان نہیں، پانچ دس فیصد بھی نہیں) تو پھر بھی وہ کوئی تبدیلی نہیں لا سکیں گے؟ (جس طرح کہ وہ صوبہ سرحد میں نہیں لا سکے) بس زیادہ سے زیادہ کچھ قانون بنا لیں گے اور کاغذوں میں شریعت نافذکر لیں گے اور اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ جنرل ضیاء الحق صاحب نے بھی اسلامی حدود نافذ کر دی تھیں اور یہ ۱۹۷۹ء کی بات ہے۔ گو یاتیئیس برس ہونے کو ہیں۔ کیا کسی ایک چور کا بھی ہاتھ کٹا ہے؟ کوئی ایک زانی بھی سنگسار ہوا ہے؟ اسی طرح جنرل ضیاء الحق نے آئین میں آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کا اضافہ کر کے اسمبلیوں میں پہنچنے والوں کے لیے اخلاقی معیار طے کردیا تھا۔ کیا اس کے بعد اسمبلیوں کے جتنے انتخابات ہوئے ہیں، ان میں حصہ لینے والے اس اخلاقی معیار پر پورا اترتے ہیں؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
خلاصہ یہ کہ تازہ سیاسی تبدیلی موجودہ تپتی جھلستی فضا میں ٹھنڈی ہواکا ایک خوشگوار جھونکا ضرور ہے لیکن اس سے ہمارے مسائل حل نہ ہو سکیں گے، خصوصاً ہمارے تہذیبی اور نظریاتی تناظر میں۔ لہٰذا ہمیں ضرورت ہے ایک ثقافتی انقلاب کی، ایک ایسے ثقافتی انقلاب کی جس کی جڑیں ہمارے عقائد، ہماری اقدار اورہماری تہذیب میں پیوست ہوں، جو فکری بھی ہو اور اخلاقی بھی۔ ہم نے اسے دینی اس لیے نہیں کہا کہ نمازیں تو ہم اب بھی پڑھتے ہیں، روزے تو ہم اب بھی رکھتے ہیں لیکن نہ ہمارے اعمال ان سے بدلتے ہیں اور نہ ہمارا کردار۔ دراصل ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارا کردار بدلے، ہمارے رویے تبدیل ہوں۔ اسی لیے ہم نے اسے ثقافتی انقلاب کا نام دیا ہے۔

مجوزہ ثقافتی انقلاب اور اس کے خدوخال 

یہ عرض کرنے کے بعد کہ سیاسی تبدیلی سے ہمارے مسائل حل نہ سکیں گے بلکہ اس کے لیے ایک ثقافتی انقلاب کی ضرورت ہے، ایک ایسے ثقافتی انقلاب کی جس کی جڑیں ہمارے عقائد، ہماری اقدار اور ہماری تہذیب میں پیوست ہوں،جو فکری بھی ہو اور اخلاقی بھی، اب ہم یہ عرض کر نے کی کوشش کریں گے کہ مجوزہ ثقافتی انقلاب کیسے آ سکتا ہے اور اسے کون لائے گا ؟ لیکن اس سے بھی پہلے ایک بنیادی بات کہ اس ثقافتی انقلاب کا فکری منہج کیا ہوگا؟ ہمارے نزدیک مجوزہ ثقافتی انقلاب تین اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے:
۱۔ اسلامی فکروتہذیب سے وابستگی (کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان رہنا چاہتے ہیں) 
۲۔ مغربیت اور مغربی تہذیب کا ردّ (کیونکہ وہ اسلامی فکر و تہذیب سے مختلف اور اس کی مخالف ہے) 
۳۔ مندرجہ بالا دو اصولوں کے مطابق فکر وعمل اور طرز زندگی میں عملاً تبدیلی تاکہ ہماری دنیا سنور جائے اور آخرت میں بھی کامیابی ملے۔ 
ان اصولوں کے مطابق پاکستان میں ثقافتی انقلاب کیسے آئے گا؟ ہماری رائے یہ ہے کہ اس کے لیے ایک بھرپور عوامی تحریک چلنی چاہیے۔ اس تحریک کو چند ایسے عملی اقدامات کی بنیاد پر اٹھایا جا سکتا ہے جو متفق علیہ ہوں اور اختلافی نہ ہوں مثلاً :
۱۔ غریبوں کی مدد 
۲۔ اخلاقی سدھار
۳۔ تعلیم عام کرنا 
۴۔ فحاشی اور عریانی کا خاتمہ۔۔۔۔۔۔وغیرہ 
وضاحت کی خاطر ہم صرف پہلے نکتے کے بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں ۔ جو لوگ غریب، نان جویں کے محتاج اور بھوک سے خودکشیاں کر رہے ہیں، وہ آخر کہیں تو رہتے ہیں۔ کسی کے تو عزیز رشتہ دار ہیں۔ تو لوگ اٹھ کھڑے ہوں۔ اپنی بستی، اپنے محلے کے غریبوں کی مدد کریں ، اپنی برادری اور خاندان کے غریبوں کی مدد کریں۔ ہم کہتے ہیں کہ امیروں کو چھوڑیے۔ اگر ہر متوسط طبقے کا گھرانہ ایک سو روپیہ بھی ماہانہ اس مد میں دے (جو وہ بسہولت دے سکتا ہے) تو اتنی رقم آسانی سے جمع ہو سکتی ہے جو اس بستی ، اس محلے کے غریبوں کو مرنے نہیں دے گی۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایوب خاں کے زمانے میں حکومت نے ’’ایک پیسہ ایک ٹینک‘‘ کا نعرہ دیا تھا یعنی ایک پاکستانی اگر ایک پیسہ روزانہ دے تو ایک دن کی آمدنی سے پاک فوج کے لیے ایک ٹینک خریدا جا سکتا ہے اور اس وقت لوگوں کی جذباتی کیفیت ایسی تھی کہ لوگوں نے پیسے دیے اور وہ اسکیم کامیاب رہی۔ کراچی کے ایک ٹرسٹ نے افغانستان میں لوگوں کو بھوک سے بچانے کے لیے وہاں کئی بستیوں میں تندورکھول دیے تھے جہاں سے لوگوں کو بلا قیمت روٹی مل جاتی تھی اور ایسے بہت سے لوگ تھے جو مثلاً ایک گاؤں یا بستی کے لیے ایک تندور کا سارا خرچ آسانی سے دے دیتے تھے۔ ہم پچھلے ہفتے ایک دینی مدرسے میں موجود تھے جہاں ہمیں پتہ چلا کہ اس دن مدرسے میں غریب دینی طلبہ کے لیے اتنا گوشت آیا تھا جو ضرورت سے زیادہ تھا اور انتظامیہ اسے سنبھالنے سے قاصر تھی، لہٰذاملازمین کو کہاگیا کہ وہ سستے داموں اسے خرید لیں۔ ان مثالوں سے ہم بتانا یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ابھی بانجھ نہیں ہوا ، جذبہ اور اخلاص موجود ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ایک شفاف اور قابل اعتماد نظام تشکیل پا جائے اور لوگوں کو اس کے لیے متحرک کر دیا جائے۔ اگر ہر بستی، ہر محلے اور ہر برادری میں اس طرح کی ایک کمیٹی تشکیل پا جائے جو شریف اور دیانت دار افراد پر مشتمل ہوتو لوگ اس پر اعتماد کریں گے اور وسائل کی قلت نہ ہوگی۔ مسجد یا مقامی سکول کو اس کا مرکز بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ہم نے ایک شعبے کی مثال دی ہے کہ اس طرح ہر بستی کے غریبوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح کی اسکیم دیگر تین نکات اور زندگی کے دوسرے شعبوں کے لیے بھی بنائی اور چلائی جا سکتی ہے۔ تاہم طوالت سے بچنے کی خاطر ہم صرف ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔ 
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ مذکورہ عوامی تحریک کون چلائے گاکہ مجوزہ ثقافتی انقلاب آ سکے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اور معاشرے کے مختلف طبقات مثلاً ادیبوں، صحافیوں، وکیلوں، اساتذہ، طلبہ وغیرہ میں ایسے لوگوں کی ہرگز کمی نہیں جو مذکورہ بالا تین نکات سے اتفاق کرتے ہوں اور اصلاح فرد و معاشرہ کے لیے ان نکات پر اکٹھے ہو سکتے ہوں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ وہ متحرک و منظم ہو جائیں اور قافلہ چل پڑے اور اس کی سمت درست ہو۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے اور طبقے سے ایسے چیدہ چیدہ لوگ جمع ہوں جن کو مجوزہ ثقافتی انقلاب اور اس کے اصول و مناہج سے اصولی اتفاق ہو اور وہ مل کر ایک وسیع البنیاد قومی کونسل تشکیل دے لیں اور تحریک کے لیے عملی پروگرام کی نوک پلک سنوار کر اسے آخری شکل دے دیں اور اللہ کا نام لے کر کام کا آغاز کر دیں۔ تحریک ان شاء اللہ آہستہ آہستہ زور پکڑتی جائے گی اور اپنے اثرات مرتب کرتی جائے گی۔ 
ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ اتنے بڑے انقلاب اور عوامی تحریک کا خواب دیکھنا تو آسان ہے، لیکن اسے عملاً برپا کرنا مشکل بلکہ ناممکن اور ناقابل عمل ہے۔ یہ وہ بھاری پتھر ہے جسے چوم کر تو چھوڑا جا سکتا ہے ، اٹھایا نہیں جا سکتا۔ یہ تو K2 بلکہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے برابر ہے۔ ہم کہتے ہیں دنیا میں کوئی کام ناممکن نہیں ہوتا۔ ہر ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ نیت صادق اور جذبہ قوی ہو اور ٹھوس پلاننگ کے ساتھ بھرپور جدوجہد کی جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو اور اسی سے توفیق طلب کی جائے۔ عقلی استدلال یہ ہے کہ مجوزہ عوامی تحریک پاکستانی معاشرے میں کامیابی سے چلائی جاسکتی ہے کیونکہ معاشرے اور ریاست کے معمول کے ادارے لوگوں کے مسائل حال کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ لوگ مایوس ہو رہے ہیں۔ جھنجھلائے ہوئے ہیں۔ ان کے کام نہیں ہورہے۔ وہ جدھر جائیں ذلیل و خوار ہوتے ہیں اور وہ موجودہ سسٹم سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ انہیں تعمیری اور مثبت انداز میں متحرک کر دیا جائے تا کہ وہ خود اپنے مسائل کو حل کر سکیں اور اپنے نظریات اور اپنے عقیدے کے مطابق حل کرسکیں۔ 
آپ پاکستان کے ماضئ قریب کے حالات پر غور کیجیے۔ جب سیاسی جماعتیں تبدیلی لانے میں ناکام ہو گئیں تو وکلا تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ کیا ایسا کسی ایک فردیا چند افراد نے پلاننگ سے کیا؟ ہماری رائے میں ہرگز نہیں۔ بہتا ہوا پانی اپنا رستہ خودبخود بنا لیتا ہے بشرطیکہ وہ سراٹھا کر زمین کا سینہ شق کرنے میں کامیاب ہوجائے اور جب اس کی مقدار زیادہ ہو اور وہ زور لگائے تو وہ زمین کا سینہ شق کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی سرزمین اس ثقافتی انقلاب کے لیے تیار ہو چکی ہے۔ اب کسی بھی وقت لاوا پھٹ پڑے گا اور جس طرح وکلا تحریک نمودار ہوگئی، اسی طرح اس ثقافتی تحریک کے لیے بھی مختلف لوگ اور مختلف طبقے اٹھ کھڑے ہوں گے، ان شاء اللہ۔ 
دیکھیے، اس ملک کی روایتی دینی قوتیں نتائج کے لحاظ سے ناکام ہوچکی ہیں۔ دینی سیاسی جماعتوں کا حشر آپ کے سامنے ہے۔ تبلیغی جماعت اور دینی مدارس اس طرح کا فرد تیارہی نہیں کر رہے جو موجودہ معاشرے کی رہنمائی کر سکے اور دین کا رشتہ حاضر و موجود سے جوڑ سکے۔ سیاسی لوگوں کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی ہے۔ وقتی طور پر حالات کچھ بہتر ٹرن لیتے محسوس ہوتے ہیں لیکن اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ پچھلے ساٹھ سالوں سے سیاستدانوں اور اصحاب اقتدار کی کارکردگی تباہ کن اور عبرتناک رہی ہے۔یہی حال سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سول و فوجی بیوروکریسی کا ہے۔ مطلب یہ کہ جو اس معاشرے کے بالا دست طبقات تھے، جنہوں نے معاشرے میں تبدیلی لانا تھی اور مسائل کو حل کرناتھا وہ ناکام ہو چکے ہیں۔ لہٰذا معاشرے کی فطری ضرورت یہ ہے کہ یہ خلا پُر ہو اور یہ خلا پُر کرنے والے منطقی طور پر وہ لوگ ہو ں گے جو مذکورہ بالا ناکام شدہ طبقات میں سے نہیں ہوں گے۔ مثلاًہم سمجھتے ہیں کہ اساتذہ کواٹھ کھڑے ہونا چاہیے، وہ کسی حد تک منظم بھی ہیں اور ہمارے معاشرے میں ان کی ایک توقیر، منصب اور مقام بھی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مزدور اور کسان زیادہ منظم نہیں ہیں اورنہ ان کی فعال انجمنیں ہیں حالانکہ سب سے زیادہ مظلوم تو وہی ہیں۔ تاہم جو اور جتنی موجود ہیں، انہیں متحرک ہو جانا چا ہیے۔ اسی طرح صحافیوں، ادیبوں، وکیلوں، انجینئرز، چھوٹے دکانداروں اور متوسط طبقے کے دوسرے عناصر کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اگر اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ متحرک ہو جائیں توان کا ایک بڑا ٹارگٹ یہ ہونا چاہیے کہ وہ طلبہ کو منظم اورمتحرک کریں اور طلبہ جب اس ثقافتی اور معاشرتی انقلاب کے لیے متحرک ہو جائیں گے تو کامیابی یقینی ہے کیونکہ نوجوانوں میں قوت کار اور جذبہ وافر مقدار میں موجود ہوتاہے اور وہ کسی بھی تحریک کا بہترین سرمایہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
اللہ کرے ہماری یہ تحریر ان لوگوں کے لیے خرد افروزی،فکر انگیزی اور تحریک کا سبب بنے جو اس معاشرے اور ملک کے لیے سوچتے ہیں، جو اپنی دنیا وآخرت کی بہتری کی فکر رکھتے ہیں اور اس کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور مجوزہ ثقافتی انقلاب و عوامی تحریک کے لیے بیج کاکام دے، ایسا بیج جو نرم و نازک کلی کی طرح پھوٹتا ہے لیکن پھر شجر سایہ دار بن کر انسانوں کو ٹھنڈک اور سایہ پہنچاتا اور زندگی کی کڑی دھوپ سے بچاتا ہے۔ 

سرمایہ دارانہ یا سائنسی علمیت: ایک تعارف

محمد زاہد صدیق مغل

کسی تہذیب کا تصور علم اس کے اہداف و مقاصد کے اظہار کا سب سے بلند ترین درجہ ہوتا ہے۔ در حقیقت تصور علم ہی وہ اساس ہے جہاں کسی تہذیب کے مقاصد علمی و فکری سطح پر متشکل ہوتے ہیں۔ ہر تصور علم ایک تہذیب کے حیات انسانی کی حقیقت کی بابت ما بعد الطبعیاتی ایمانیات کا مرہون منت ہوتا ہے۔ یعنی یہ سوال کہ علم کیا ہے کا جواب مقصد علم کے بغیر دینا ناممکن ہے اور یہ مقصد لازماً ایک ما بعد الطبعیاتی ایمان پر قا ئم ہوتا ہے ۔ یہی وہ بنیادی بات ہے جس پر غور نہ کر نے کے سبب کئی اہل علم و فکر نے مغربی علوم کو اسلامی تاریخ میں تلاش کرنے نیز ان کی اسلام کاری کرنے کی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ یہ غلط فہمی بھی کہ مغربی علوم ایک اٹل حقیقت ہیں نیز ان کی بنیاد ایسے آفاقی تصورات پر قائم ہے جو انسانیت بحیثیت مجموعی کا مظہر ہیں، اسی سوال پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح ماہیت علم اور ایمانیات کا تعلق نظر انداز کرنے کے نتیجے یہ فکری کجی بھی عام ہوئی کہ مسلمانوں کو مغربی علوم کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کو پہچاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس مضمون میں ہماری کوشش ہو گی کہ ہم علم بحیثیت مجموعی اور سرمایہ دارانہ (یا سائنسی ) نظریہ علم کی حقیقت وا ضح کریں۔ 
حقیقت علم کی تفہیم کے ضمن میں تین سوالات کے جوابات اصل اہمیت کے حامل ہیں: 
۱) علم کیا ہے ، یعنی اس کی نو عیت و ماہیت (Nature)کیا ہے ؟ 
۲) علم کہاں سے آئے گا، یعنی منبع علم (source of knowledge) کیا ہے؟ منبع علم کی تشخیص کے ساتھ ہی اس سوال کا جواب دینا بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ اس منبع علم سے حاصل ہونے والے علم کی صحت و عدم صحت (validity) کا معیار کیا ہے ؟ 
۳) اس مخصوص منبع علم سے حاصل شدہ معلومات کن شکلوں میں متشکل (embodiement) ہوئیں ، یعنی اس نظریہ علم کا اظہار کن علوم کی شکلوں میں ہوا ؟
سرمایہ دارانہ یا سائنسی علمیت کے ضمن میں ان تینوں سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے ایک طویل مضمون درکار ہوگا، لہٰذا خوف طوالت کو ملحوظ خا طر رکھتے ہوئے اس مضمون میں ہم پہلے سوال کا جواب تفصیلاً جبکہ تیسرے کا جواب اجمالاً دینے کی کو شش کریں گے۔ ان سوالات کے جوابات سمجھنے کے لیے تین امور پر روشنی ڈالنا ضروری ہے :
الف) علم کی نوعیت و ماہیت کا حقیقت کی بابت ایمانیات سے تعلق پر
ب) سرمایہ دارانہ تصور علم کا اس کے تصور حقیقت سے تعلق اور اس کی خصوصیات پر
ج) چند اہم سرمایہ دارانہ علوم کی حقیقت پر
اس مضمون میں ہم درج بالا ترتیب سے اپنے مدعا کو بیان کریں گے :

۱) ایمانیات اور تصور علم کا باہمی تعلق 

علم سے مراد عام طور پر معلومات کا ایک با مقصد مجموعہ سمجھی جاتی ہے۔ درحقیقت یہ ’عالم ‘ (knower) اور ’معلوم ‘ (known) کے درمیان ایک تعلق کا نام ہے اور ان دونوں کے درمیان اس تعلق کی مقصدیت ہی ’مجموعہ معلومات ‘ کے مافیہ (content) کی ماہیت (nature) اور درجہ بندی (hirarchy) کا تعین کرتی ہے۔یعنی کس مجموعہ معلومات پر لفظ علم کا اطلاق کیا جا ئے گا، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ علم حا صل کرنے والے شخص کا مقصد کیا ہے۔ چنانچہ ہر مقصدیت سے نکلنے والا تصور علم اور معلومات کی درجہ بندی یکساں نہیں ہوتی۔ اس کی مزید وضاحت کرنے سے پہلے ہم یہ بیان کرتے چلیں کہ معلومات کے ہر مجموعے پر لفظ علم کا اطلاق نہیں کیا جاتا بلکہ صرف ایک بامقصد معلومات کے مجموعے پر ہی یہ لفظ بولا جاتا ہے، مثلاً کسی پا گل شخص کو بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں لیکن اس کی ان معلومات کوکسی بھی تصور علم میں ’علم ‘ نہیں مانا جاتا۔ اس بنیادی وضاحت کے بعد اب ہم ایک آسان مثال بیان کرتے ہیں۔ فرض کریں آپ سائنس ، انجینئرنگ اور سو شل سائنسز کے مختلف مضامین کی ایک فہرست مرتب کرکے ان کی درجہ بندی کرنا چا ہتے ہیں ۔ اگر آپ یہ فہرست کسی سائنس کے طالب علم کے سامنے پیش کریں گے تو وہ ان مضا مین کی جو درجہ بندی کرے گا، ان کی تر تیب کچھ یو ں ہوگی: 
۱) سائنس کے مضا مین ، 
۲) انجینئرنگ کے مضا مین ، 
۳) سو شل سائنسز کے مضا مین 
اس کے برعکس اگر آپ یہی فہرست کسی انجینئرنگ کے طا لب علم کے سامنے پیش کریں تو وہ انہیں درج ذیل ترتیب سے مرتب کرے گا : 
۱) انجینئرنگ کے مضا مین ، 
۲) سائنس کے مضا مین ، 
۳) سو شل سائنسز کے مضا مین 
جبکہ ایک سو شل سائنسز یا بزنس ایڈ منسٹریشن کے طا لب علم کی مرتب کردہ فہرست درج ذیل ہو گی : 
۱) سو شل سائنسز کے مضا مین ، 
۲) سائنس کے مضا مین ، 
۳) انجینئرنگ کے مضا مین 
ان طا لب علمو ں کی مرتب کردہ فہرستوں میں علوم کی درجہ بندی کا یہ فرق اس مقصد اور تعلق (relevance) کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جس کی خا طر یہ طلبا علم حا صل کرنا چا ہتے ہیں۔ چنا نچہ اگر آپ کسی انجینئرنگ کے طا لب علم سے تاریخ کی اہمیت پر بات کریں تو شاید اس کے نزدیک تاریخ ایک غیر اہم علم کہلائے، لیکن اگر کسی فلسفی کی نظر سے دیکھا جائے تو تاریخ سے زیادہ اہم علم کوئی اور نہ ہوگا ۔ اس مثال میں نو ٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ معلومات کی علمی حیثیت اور اس کی درجہ بندی طے کرنے میں علم حاصل کرنے والے شخص کا مقصد فیصلہ کن اہمیت کا حا مل ہوتا ہے۔ اس بات کو مزید وا ضح کرنے کے لیے ایک اور مثال پر غور کریں۔ آپ اور ہم بچپن سے یہ بات سنتے چلے آئے ہیں کہ ’اصل علم تو قرآن و حدیث ہی ہیں‘۔ آج کے جدیدیت پسند مفکرین کو یہ بات مبالغہ انگیز ی دکھا ئی دیتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے آیا واقعی یہ مبا لغہ انگیزی ہے یا حقیقت وا قعہ ہے؟ اور اگر حقیقت ہے تو کن معنوں میں یہ بات درست ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے اسلام کے نزدیک انسانی زندگی کے مقصد پر غور کریں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ بات نہایت وا ضح طریقے سے بیان کی ہے کہ انسانی زندگی کا مقصد دنیا وی زندگی کوپرلطف بنانے کے لیے کائنات کو مسخر کر نے کی سعی کرنا نہیں بلکہ اپنے رب کی عبادت کرنا اور اس کی خوشنودی حا صل کرنا ہے ، نیز یہ کہ انسان کو یہ زندگی اس کے کسی حق کے طور پر نہیں دی گئی کہ جسے وہ جیسے چا ہے ترتیب دے ، بلکہ یہ زندگی اسے آزمائش کے لیے دی گئی ہے۔ جب یہ طے ہو گیا کہ زندگی کا مقصد آزمایش اور حصول رضاے الٰہی ہے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آزمایش جس شے میں ہو رہی ہے، اس کا علم کہاں سے حا صل ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں رضا ے الٰہی حا صل کرنے کے طریقے کا علم کہا ں سے ہو گا؟ کیا ہر شخص آزاد ہے کہ اپنی طرف سے زندگی کا جو بھی مقصد چا ہے بنا لے یا اس کے رب نے اس کی ہدایت کا کوئی انتظام کیا ہے؟ ہر شخص جا نتا ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے ہدایت انسانی کے لیے انبیا و رسل کا سلسلہ جاری فرمایا اور اس ہدایت کے حصول کا آخری اور واحد معتبر ذریعہ قرآن و حدیث نبوی کی صورت میں موجود ہے۔ چنا نچہ یہی وہ وا حد ذریعہ علم ہے جس سے رضاے الٰہی کے حصول کا طریقہ جا نا جا سکتا ہے اور اس ذریعہ علم کو چھوڑ کر اس دنیا میں اور کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے انسا ن یہ جان سکے کہ میرا رب مجھے کس شے میں آزما نا چا ہتا ہے، نیز وہ میرے کن اعمال سے خوش ہو گا اور کون سے اعمال اس کی نا را ضگی کا با عث ہوں گے۔ پس ثا بت ہوا کہ انسانی زندگی کے مقصد ’ عبادت رب‘ کے معیار پر پورا اترنے والا علم وہی ہے جسے مولوی صاحب ’قرآن و حدیث ‘ کہتے ہیں، لہٰذا یہ بات سو فیصد درست ہے کہ ’اصل علم تو قرآن و حدیث ہی ہیں‘، نیز دیگر عقلی علوم کی درجہ بندی ان علوم کے اس مقصد حیات کے حصول میں معا ونت و عدم معا ونت کے اصول پر طے کی جا ئے گی۔ جو علم اس مقصد حیات کے حصول میں جتنا زیادہ ممد و مددگار ہوگا، اسلامی نظریہ علم میں اتنا ہی اہم کہلائے گا، اور جس علم کا تعلق اس مقصد کے ساتھ جتنا کمزور ہو گا، وہ علوم کی درجہ بندی میں اتنا ہی نیچے دکھائی دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں قرآن و حدیث کے بعد صرف ونحو، فقہ و اصول، کلام و منطق وغیرہ کو خصوصی اہمیت حا صل رہی ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات وا ضح ہو جا نی چا ہیے کہ ہر تصور علم (یعنی مجموعہ معلومات کی نوعیت) اور اس کی درجہ بندی چند مابعد الطبعیاتی ایمانیا ت کی مرہون منت ہوتی ہے، نیز مقصد حیات کی با بت عقائد بدل جا نے سے تصور علم بھی بدل جا تا ہے۔ چنا نچہ کسی تہذ یب سے نکلنے والے تصور علم اور معلومات کی درجہ بندی کو اس تہذ یب کی ایمانیات سے ما ورا ہو کر سمجھنا نا ممکن ہے اور جو شخص بھی ایسی کوشش کرے گا، لازماً غلط نتا ئج تک ہی پہنچے گا۔ ایمانیات اور تصور علم کے تعلق کی اس اصولی بحث کے بعد اب ہم سرمایہ دارانہ تصور علم کی تفصیلات کی طرف آتے ہیں۔ 

۲) سا ئنسی علم کی نوعیت اور اس کے تصور حقیقت سے اس کا تعلق 

آ ج کی دنیا بالخصوص مغربی دنیا میں جب بھی لفظ علم بولا جا تا ہے تو اس سے مراد عام طور پر ’سائنس و ٹیکنالوجی‘ ہی سمجھا جا تا ہے۔ ایک دور ایسا بھی تھا کہ جب موجودہ سائنس و ٹیکنا لو جی نامی کوئی بھی شے علم کے مسمیٰ کے طور موجود نہ تھی۔ کچھ لوگوں کا خیا ل ہے کہ سا ئنس و ٹیکنالوجی کا موجودہ علم تمام انسانی تہذیبوں میں تحلیل ہوتا ہوا اپنا تاریخی سفرطے کرکے اس منطقی منزل تک پہنچا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کے نزدیک علم ایک مسلسل تاریخی عمل (Historical progression) کا نام ہے جو کسی قسم کی ایمانیات کا مرہون منت نہیں۔ ہمارے متجددین حضرات اس فکر کو اس وجہ سے اپنا تے ہیں تا کہ موجودہ سائنس کو اسلامی تاریخ کا تسلسل ثا بت کر دکھا ئیں۔ ہو سکتا ہے اس تجزیہ میں ان کے لیے خوشی کا بہت سا سامان ہو ، لیکن حقیقت علم کا یہ تجز یہ کوئی علمی حیثیت نہیں رکھتا۔ سرمایہ دارانہ علم (یعنی سائنس و ٹیکنالوجی وغیرہ) کسی مسلسل تا ریخی عمل کے نتیجے میں نہیں بلکہ انسانی زندگی و کا ئنات کے بارے میں تصور حقیقت کی ایک ایسی تبدیلی سے پیدا ہوا جو تحریک تنویر (enlightenment) کے نتیجے میں عام ہوئی۔ 
۲.۱ : سر مایہ دارانہ تصور حقیقت کی ایمانیات 
اس تصور حقیقت نے جن بنیادی ایما نیات اور اقدار کو اپنانے کی طرف دعوت دی وہ مختصراً یہ تھے (ان اقدار کی تفصیلی وضاحت ہم نے اپنے جمہوریت کے مضمون میں بیان کی ہے، دیکھئے: ساحل ، نومبر ۲۰۰۶): 
الف) آزادی جس کا معنی یہ ہے کہ ہر شخص اپنی خواہشات کی ترتیب متعین کرنے کا اخلاقی طور پر مستحق ہے، یعنی یہ اس کا حق ہے کہ وہ جو چاہنا چاہے، چاہ سکے اور اپنی چاہت حاصل کرنے کا زیادہ سے زیادہ مکلف ہونے کی جدوجہد کرے۔ مختصراً آزادی کا معنی خیرو شر طے کرنے کا حق انسان کو حا صل ہونا ہے، یعنی انسان کے ’حق ‘ کا ’خیر و شر‘ پر فوقیت رکھنا ہے [prioritization of right over good] (آسان لفظوں میں یہ تصور کہ خیر اور شر کا منبع اور اس کا تعین نفس انسانی سے ہوتا ہے )۔ مغربی انسان خود کو قائم بالذات (self-determined) اور آزاد (autonomous) تصور کرتا ہے، دوسرے لفظوں میں آزادی کا مطلب ہے ’عبدیت‘ کا رد، یعنی انسان کی حقیقت عبد ہونا نہیں بلکہ قائم بالذات یعنی خود اپنا خدا ہونا ہے، کیونکہ انسان کو خیرو شر طے کرنے کا حق دینے کا مطلب اس بات کا انکار ہے کہ وہ عبد ہے اور اس کا مقصد حیات خواہشات کی تکمیل نہیں بلکہ خواہش کی نفی کرکے اپنے نفس کو خدا کی رضا کے آگے جھکا دینا ہے ۔
ب) مساوات جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام انسانوں کی خوا ہشات کی ترتیب اور ان سے طے پانے والے تصور ات خیر مساوی اہمیت کے حا مل ہیں اور ان میں اصولاً کسی قسم کی درجہ بندی کرنا نا ممکن ہے، یعنی تمام تصورات خیر و شر اور زندگی گزارنے کے تمام طریقے برابر حیثیت رکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مساوات کا معنی ہے ’نظام ہدایت‘ کا رد ، یعنی اس بات کا انکار کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر بتانے کے لیے ہدایت کا کوئی سلسلہ انبیاے کرام کے ذریعے قائم کیا ہے ، نیز انبیاے کرام کی تعلیمات خیر و شر طے کرنے کا کوئی حتمی معیار ہیں ۔ یہ اس لیے کہ نظام ہدایت کا معنی ہی یہ ہے کہ تمام انسانوں کی خواہشات کی ترتیب ہرگز مساوی معاشرتی حیثیت نہیں رکھتیں بلکہ وہ شخص جس کی خواہشات کی ترتیب تعلیمات انبیا کا مظہر ہیں، تمام دوسری ترتیبوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں نظام ہدایت مساوات کا نہیں بلکہ حفظ مراتب کا متقاضی ہے جس میں افراد کی درجہ بندی کا معیار (differentiating factor)تقویٰ ہوتا ہے۔ نیز اسلامی معاشرے و ریاست کا مقصد جمہوری معاشرے کی طرح ہرفرد کو اپنی اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کے مساوی مواقع فراہم کرنا نہیں بلکہ ان کی خواہشات کو نظام ہدایت کے تابع کرنے کا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظریہ ریاست میں citizen(ایسی عوام جو اصولاً حاکم اور فیصلہ کرنے والی ہوتی ہے) اور عوامی نمائندگی (Representation of citizens) کا کوئی تصور ہے ہی نہیں کیونکہ یہاں عوام citizen نہیں بلکہ رعایا ہوتی ہے اور خلیفہ عوام کا نمائندہ نہیں ہوتا کہ جس کا مقصد عوام کی خواہشات کے مطابق فیصلے کرنا ہو بلکہ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہوتا ہے جس کا مقصد رعایا کی خواہشات کو شریعت کے تابع کرنے کے لیے نظام ہدایت کا نفاذ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس آزادی و مساوات کا معنی یہ ہے کہ خیر و شراور اپنی منزل کا تعین انسان خود طے کرے گا اور ہر شخص کا تصور خیرو زندگی گزارنے کا طریقہ مساوی معاشرتی حیثیت رکھتا ہے اور ریاست کا مقصد ایسی معاشرتی صف بندی وجود میں لانا ہوتا ہے جہاں ہر فرد اپنی خواہشات کو ترتیب دینے اورانہیں حاصل کرنے کا زیادہ سے زیادہ مکلف ہوتا چلا جائے ۔
ج) ترقی جس کا حاصل یہ ہے کہ زندگی میں انسان کا مقصد اپنے ارادے اور خواہشات کی زیا دہ سے زیادہ تکمیل (maximum satisfaction) ہے اور ارادہ انسانی کی یہی منتہا تکمیل ترقی کا جوہر ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ترقی کا مطلب ہے ’آخرت‘ کا اور دنیا کے ’دارلامتحان ‘ ہونے کارد اور دنیاوی زندگی کو بذات خود مقصد (End in itself) سمجھنا ہے۔ ترقی درحقیقت وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے آزادی اور مساوات کا اظہار ممکن ہوتا ہے، یعنی اگر کوئی معاشرہ آزادی اور مساوات کے اصول پر زندگی گزارنا چاہتا ہے تو وہ واحد طریقہ جس کے نتیجے میں ہر فرد اپنی خواہشات کی ترتیب طے کرنے اور اسے حاصل کرسکنے کا مکلف بن سکتا ہے، ترقی یعنی سرمائے میں لامحدود اضافہ کرنے کی جدوجہد ہے ۔
تصور حیات کی اس تبدیلی کے بدولت ایک ایسے ’جدید انسان ‘کی تخلیق ہوئی جسے ہیومن (Human being)کہتے ہیں ۔ تحریک تنویر سے قبل اس انسان کا کوئی معاشرتی وجود نہ تھاکیونکہ ہر مذہب میں انسان سے مراد عبد (Mankind) ہی سمجھا جاتا تھا جو اپنی پہچان اور وجود خود اپنی ذات سے نہیں بلکہ خدا کے وجود سے حاصل کرتا تھا ، ہاں یہ الگ بات ہے کہ مختلف مذاہب کے ما بین اظہار عبدیت کے معتبر طریقے میں اختلاف موجود تھا۔ فوکالٹ (بیسویں صدی کے مشہور ترین مغربی فلسفیوں میں سے ایک) کا یہ کہنا صد فیصد درست ہے کہ ہیومن تو پیدا ہی سترہویں صدی میں ہوا ہے، اس سے پہلے کسی تہذیب اور نظام زندگی میں ہیومن کا تصور موجود ہی نہیں تھا۔ ہیومن (وہ انسان جو خود کو قائم بالذات سمجھتا اور آزادی کا خواہاں ہے ) مغربی نظام زندگی کی روح رواں ہے اور تمام مغربی علوم جس انسان کے رویے سے سے بحث کرتے ہیں، وہ یہی ہیومن ہے نہ کہ عبد۔ یہ ایک ایسا انسان تھا جس کی دلچسپی کا محور مذہبی رسوم عبودیت بجا لانے کے بجائے دنیاوی معاملات سے بے پناہ رغبت تھی، اور جس میں ایک ایسا نیا ولولہ اور جوش تھا جو اسے غیر مشروط آزادی کی طرف مائل کرتا تھا۔ اس تبدیلی کی تصویر کشی ڈاکٹر ظفر حسن نے اپنی کتاب ’’سر سید اور حالی کا نظریہ فطرت‘‘ میں خوبصورت الفاظ میں کی ہے: 
’’یہ ایک ایسا انسان تھا جو اپنے سے پہلے والے انسان سے ہر قسم کا تعلق منقطع کر دینا چا ہتا تھا...اٹھا رویں صدی کے اوائل میں کہا جا نے لگا کہ بزرگوں نے نئی نسل کو ایک ایسا معا شرتی نظام دیا ہے جو نرا دکھاوا اور دھو کا ہے اور جو ہر برائی کا ذمہ دار ہے ... اٹھا رویں صدی کی نسلیں اس نظریے کو کہ انسان کو کوئی الہامی پیغا مات وصول ہوتے ہیں بالکل رد کرکے وحی کا انکار کر دینا چا ہتی تھیں ۔ القصہ مختصر وہ انسانی زندگی کو کسی حال میں بھی مذہبی طرزفکر سے نہ دیکھنا چا ہتی تھیں۔ ان کا گمان یہ تھا کہ وہ ایک نئی چیز کوجنم دیں گی، عقل کی روشنی سے وہ ظلماتی دور کو نیا نور بخشیں گی اور قدرت کے منصوبے کو دریافت کر لیں گی اور اس طرح انسان کا ایک پیدایشی حق یعنی انسانی خوشی اور خوشحالی انسان کے لیے بحال کر دیں گی ‘‘۔

۲.۲: سرمایہ دارانہ یا سائنسی علم کا مفہوم: ارادہ انسانی کی بالا دستی 

حیات انسانی کی مقصد یت کے بارے میں یہ گمراہ کن تصورات سترہویں اور اٹھا رویں صدی کی پیداوار ہیں جن کے نتیجے میں علم کا ایک نیا تصور ابھرا۔ اگر اس دنیا میں انسان کا مقصد ارادے اور خو اہشات کی تکمیل ہے تو پھر اس کائنات میں لامحدود خواہشات انسانی کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ یہا ں کی تمام اشیا و موجودات اس کے ارادے کے تابع ہوجائیں، کیونکہ جب تک وہ انسانی ارادے کے تابع نہیں ہو جا تیں، تکمیل خواہشات کا خواب کبھی شر مندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ مثلاً انسان کی ایک خوا ہش یہ بھی ہو سکتی تھی کہ وہ ہوا میں اڑے، لیکن اس کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ وہ زمین کی اپنی طرف گرانے کی قوت پر قابو پائے۔ اشیا و موجودات کو اپنے ارادے کے تابع کرنے کے لیے ضروری تھا کہ انسان ایسی معلومات حاصل کرنے کے در پے ہو جو اسے تسخیر کائنات کی راہ سجھا ئے۔ لہٰذا اس تصور حقیقت (کہ زندگی کا مقصد ارادہ انسانی کی تکمیل ہے ) سے جو تصور علم نکلا اس کے مطا بق علم سے مراد ایسی بات جاننا ہے جس کے ذریعے انسان اس چیز پر قادر ہو جا ئے کہ اس کے ارادے کی تکمیل کیسے ہوسکتی ہے اور وہ علم جو انسان کو یہ بتا تا ہے کہ کائنات پر اس کے ارادے کا تسلط کیسے ممکن ہے، اسے ’سائنس ‘ کہتے ہیں ۔ لہٰذا ترقی کا اصل معنی ہے علم کو سائنس کے ہم معنی قرار دینا، یعنی ترقی سے مراد ان معلومات میں اضافہ ہے جو انسانی ارادے کی تکمیل کو ممکن بناتی ہوں ۔ گویا مغربی تہذیب میں ’ارادے و خواہشات کی تکمیل ‘ ہی معلومات کے مجموعے اور عالم (knower)کے درمیان تعلق کی بنیاد ٹھہر ا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب میں علم وہ چیز جاننا نہیں ہے کہ جس سے انسان اپنے رب کی رضا جان لے، یعنی علم یہ نہیں کہ مجھے وضو یا غسل وغیرہ کرنے کا طریقہ اور مسائل معلوم ہو جائیں بلکہ علم تو یہ ہے کہ میں یہ جان لوں کہ پنکھا کیسے چلتا ہے، بجلی کیسے دوڑتی ہے، جہاز کیسے اڑتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ گویا اب علم رضا ے الٰہی کے حصول کا طریقہ جان لینا نہیں، بلکہ تسخیر کا ئنا ت یا با الفاظ دیگر انسانی ارادے کے کائناتی قوتوں پر تسلط قائم کرنے کا طریقہ جان لینے کے ہم معنی بن گیا ۔ دوسرے لفظوں میں یہاں علم اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں بلکہ نفس انسانی کی رضا اور اس کی تکمیل کا سامان فراہم کرنے والی معلومات کا نام پڑ گیا۔ تصور علم کی یہ تبدیلی انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی تبدیلی تھی جس نے انسان کی کامیابی کو کسی خدا کی اطا عت (obedience) کے ساتھ نہیں بلکہ لا متناہی خواہشات انسانی کی تکمیل و ارادہ انسانی کے تسلط (dominance) کے ساتھ مشروط کر دیا۔ سائنسی علم کا یہ مقصد اور اس کے پھیلاؤ کے لیے درکار ضروری اسباب کا نقشہ سائنس کے موجدین اور فلاسفہ نے بڑے وا شگاف الفاظ میں بیان کیا تھا۔ مثلاً گلیلیو کا مشہور مقولہ ہے: Bible shows us the way to heavens, but it does not show the way heavens go یعنی ’ بائبل ہمیں جنت میں جا نے کا راستہ تو بتاتی ہے، مگر یہ نہیں بتاتی کہ یہ کائنات کیسے چلتی ہے‘۔ مشہور تاریخ دان H.G. Wellsرا جر بیکن جسے جدید سائنس کا بانی سمجھا جاتا ہے، کے خیا لات کو کچھ اس طرح خراج تحسین پیش کرتا ہے: 
’’ بیکن کی کتابیں جہالت کے خلاف بغاوت تھیں۔ اس نے اپنے دور کے لوگوں کو بتایا کہ وہ جہالت میں ڈوبے ہوئے ہیں، اوریہ ایک ایسی بات تھی جسے اس دور میں کہنے کے لیے بہت ہمت درکار تھی۔ قرون وسطی کے لوگ اپنے دور کی ذہانت اورایمانیات کے سچ ہونے کے بارے میں جذباتی حد تک قائل تھے اور ان کے خلاف ہر گز کوئی تنقید بر داشت نہ کرتے۔ راجر بیکن کی کتابیں ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کی کرن تھیں۔ وہ کہتا تھا کہ ’ غیر عقلی ایمانیات اور مسلمہ مقتدرہ (Authority) کی پیروی کرنا چھوڑ دو‘۔ دنیا پر غور کرو، (حصول علم کے لیے) تجربہ تجربہ اور تجربہ (پر زور ) ہی اس کا مقصد تھا۔ اس نے جہالت کے چار اسباب بیان کیے: مسلمہ مقتدرہ کا احترام، اسلاف کے طور طریقوں پر عمل ، ریت و رواج کی پیروی ، اور ہمارے فخریہ مگر نہ سمجھ آنے والے دکھاوے۔ اگر ہم ان چیزوں سے جان چھڑالیں تو پھر سائنسی ایجادات اور مکیینیکل قوت سے بھر پور ایک نئی دنیا انسانیت کو دکھائی دے گی۔ ۔۔(میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ) بحری سفروں کے لیے بغیر ملا حوں کی ایسی مشینیں بنانا ممکن ہے جسے صرف ایک آدمی اس کشتی کی رفتار سے کئی گنا تیز چلا سکتا ہو گا جسے کئی ملا ح مل کر چلاتے ہیں۔ اسی طرح بغیر ڈھور ڈنگر سے چلنے والی ایسی سواریاں بنانا بھی ممکن ہے جو پرانے دور کی تیز ترین سواریوں سے تیز چلتی ہوں گی۔ اور ہوا میں اڑنے والی ایسی مشینیں بنانا بھی ممکن ہے جس میں انسان بیٹھ سکتا ہو اور وہ مشین بالکل پرندوں کی طرح پر ہلاکر چلتی ہو‘‘ ۔
بیکن نے یہ تمام تفصیلات اپنی کتاب The New Atlantis میں بیان کی ہیں جس میں اس نے ایک ایسے فرضی جزیرے کی تصویر کشی کی ہے جہاں سائنسی تحقیقات کرنے والا ایک بہت بڑا ادارہ قائم کردیا گیا ہے۔ جہاں کا حاکم آنے جانے والے لوگوں کو اس جگہ کی سیر کرا تا ہے اور ان سے کہتا ہے: ’’ ہمارے اس ادارے کا مقصد علل و معلول (cause and effect) و حرکت کائنات کے قوا نین اور انسانی ارادے کی حدود کی توسیع کرنے کے طریقے کا علم حا صل کرنا ہے تاکہ ہر چیز کرنا ممکن ہو سکے‘‘۔ ( A Short History of the World, by H.G. Wells, p. 200-01، بحوالہ مریم جمیلہ صا حبہ کی معرکہ آرا کتا ب Modern Technology and the Dehumanization of Man)۔ اس تصور علم میں فطرت ان معنوں میں انسا ن کی حریف ٹھہری کہ یہ انسانی ارادے کی تکمیل پر حد بندی کرتی ہے اور اسے تسخیر کرکے انسا نی ارادے و خوا ہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا ضروری ٹھہرا۔ آج بھی مو جودہ سائنسی علمیت کا یہ جنون ہے کہ انسانی عقل کو استعمال کر کے فطرت کے تمام رازوں سے پردہ اٹھا نا نیز انسانی ارادے کو خود اس کے اپنے سوا ہر بالا تر قوت سے آزاد کرنا عین ممکن ہے ۔ سائنس دانوں کا خیا ل ہے کہ جینیٹکس (Genetics) کی فیلڈ میں تحقیقات کرکے انسانی خون میں ایسی تبدیلیاں لانا ممکن ہے جس کے بعد اس کے اندر پائے جا نے والے غضب اور حسد جیسے جذبات کو ختم کرکے دنیا کو جنگوں سے نجات دلائی جا سکے گی، اسی طرح سائنس دانوں کو امید ہے کہ موت پر قابو پانا ممکن ہے ، اور نجا نے کیا کچھ اور۔ سائنس کے اس اصل جنون کا اظہار دور جدید کی انگریزی زبان میں بننے والی سائنس فکشن فلموں میں سب سے واضح انداز سے نظر آتا ہے جن کے جملوں ، الفاظ اور مرکزی خیالات میں نت نئے انداز کے ساتھ انسان کی خود اپنا خدا بننے کی خوا ہش جلوہ گر ہوتی ہے۔ 

مسلمانوں میں سائنس کیوں عروج نہ پا سکی ؟ 

تصور علم کی اس یکسر تبدیلی کو کلیتاً نظر انداز کرنے کے نتیجے میں اکثر مسلم جدیدیت پسند مفکرین دو غلط فہمیوں کا شکار ہو گئے۔ ایک طرف تو وہ قرآن و سنت کے علم کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے بلکہ ان کے نزدیک اصل علم سائنس و ٹیکنالوجی ہی کا علم ہے ، اور دوسری طرف وہ سائنس کو اسلامی تاریخ میں تلا ش کرنے اور مسلمانوں کو سائنس کا موجد ثابت کرنے کی نا کام کوششوں میں اپنی توا نائیاں صرف کرتے رہتے ہیں ۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ تقریباً پچھلی ایک صدی کی بھر پور تحقیقات کے بعد بھی جدیدیت پسند حضرات اسلام کی ابتدائی ایک ہزار سا لہ تاریخ میں پچا س سے زیادہ مسلم سائنس دونوں کے نام تلاش نہ کرسکے جبکہ اس کے مقابلے میں جدیدیت کی صرف تین سو سالہ تاریخ سے ہزاروں نہیں بلکہ لا کھوں سائنس دانوں کی فہرست مرتب کی جا سکتی ہے؟ اسی بات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ سے اگر ان لوگوں کے نا موں کی فہرست تیار کی جائے جنہوں نے قرآن و علوم قرآن ، حدیث و علوم حدیث ، فقہ واصول فقہ وغیرہ پر علمی تحقیقا ت پیش کیں تو بلا مبالغہ لاکھوں افراد کے ناموں کی فہرست تیار ہو جا ئے گی، جبکہ اگر اسی معیار پر جدیدت کی تاریخ میں عیسائی علمیت پر کام کرنے والے افراد کے نام تلاش کیے جائیں تو انہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ کیا اس سے ثا بت نہیں ہو تا کہ اصل اسلامی علمیت کیا ہے؟ نیز سائنسی تحقیقا ت وغیرہ اصل علمیت (main stream discourse) سے دور کی چیز یں تھیں۔ اگر چند افراد اپنے شوق کی تسکین کی خا طر ان تحقیقات کے پیچھے پڑتے بھی تھے تو اس کے ذریعے انہیں معا شرے میں کوئی اونچا مقام و مرتبہ حاصل نہ ہوتا بلکہ ’امام‘ اور ’علامہ‘ جیسے با وقار الفاظ ہمیشہ اسلامی علوم کے ما ہرین ہی کا خا صہ ہوتے تھے ۔ اس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ افراد جنہیں مسلمان سائنس دانوں کی حیثیت سے پیش کیا جا تا ہے ان میں سے اکثر و بیشتر کی مسلمانیت ہی مشکوک رہی ہے۔ مثلاً کندی اور فا رابی کا نام بڑے فخر سے بیان کیا جا تا ہے، لیکن کون نہیں جا نتا کہ ان کے افکار کس قدر گمراہ کن تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام سائنسی قسم کے مسلمان معتزلی یلغار کے بعد کی پیداوار ہیں، اور ان میں سے اکثر و بیشتر کا تو تعلق ہی معتزلی گروہ سے تھا۔ ایسے افراد کو اسلامی تاریخ کا ہیرو ثا بت کرنے کا مطلب اپنی اصل علمیت کو غیر معتبر ثا بت کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ؟ 
سائنسی علمیت، ترقی، تسخیر کائنات اور تصرف فی الارض جیسے تصورات اسلامی علمیت کے لیے کس قدر اجنبی ہیں، ان کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ فقہاے کرام نے جہاں اسلامی زندگی اور معاشرت و ریاست کے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کی وضاحت کے لیے کتب فقہ میں مستقل ابواب اور فصلیں قائم کی ہیں، وہاں ترقی اور تسخیر کائنات جیسے عنوانات کے تحت ایک فصل بھی نہیں ملتی، یعنی کسی فقیہ نے ایسا کوئی باب تو درکنار فصل بھی مرتب نہ کی جس میں ترقی یا تسخیر کائنات یا سائنسی تحقیقات کی شرعی حیثیت پر بحث کی گئی ہو۔ ایسے ہی کسی محدث نے بھی کتب احادیث میں ان موضوعات کے تحت احادیث جمع نہ کیں۔ اگر تسخیر کائنات، ترقی، معیار زندگی، آزادی، مساوات جیسے تصورات واقعی اسلامی علمیت کے ’اہم و مقصود‘ موضوعات ہوتے تو فقہا یقیناًان عنوانات کے تحت شرعی مسائل بیان کرنے کی خاطر ابواب اور فصلیں لکھتے، محدثین چن چن کر ایسی تمام احادیث جمع کرڈالتے جو ترقی اور دنیا سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہونے کے جذبات ابھارنے والی ہوتیں۔ اس کے بر خلاف ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ محدثین کرام کتب احادیث میں کتاب الرقاق اور کتاب الزہد جیسے عنوانات قائم کرکے وہ احادیث بیان کرتے ہیں جو تسخیر کائنات اور تصرف فی الارض کی خواہشات کم کرنے کا سبق دیتی ہیں۔ در اصل جدیدیت پسند حضرات یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہر علمیت کا میابی کے ایک مخصوص ما بعد الطبعیاتی تصور پر قائم ہوتی ہے اور ہر علمیت کا بنیادی مقصد افراد کو کامیابی کے ایک مخصوص تصور اور اس کے حصول کی جدوجہد میں منہمک ہونے کو بطور مقصد حیات قبول کرنے پر آمادہ کرنا ہوتا ہے۔ پس اگر دو مختلف داہروں سے نکلنے والی علمیتوں کے مقاصد مختلف ہوں گے تو یہ نا ممکن ہے کہ وہ دونوں ایک ساتھ پروان چڑھ سکیں۔ سائنس کو اسلامی علمیت میں تلاش کرنے کا مطلب یہ مان لینا ہے کہ اسلامی علمیت کا ہدف بھی انسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے تسخیر کائنات کرنا ہے۔ 
ایسا نہیں ہے کہ صرف مذہبی معا شروں میں ہی سائنسی علمیت نہیں پھیل سکتی، بلکہ سائنسی معا شروں میں بھی مذہبی علمیت برگ و بار نہیں لا سکتی (ذرا بیکن کے اوپر دیے گئے خیالات ایک بار پھر دہرا لیں )۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ علم کے اس جا ہلانہ تصور کو عوام الناس میں رائج کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اس وقت کے معاشروں میں پائے جانے والے مقبول عام تصور علم کو غیر معتبر اور لا یعنی ثا بت کیا جائے۔ قرون وسطی میں موجود علمیت کوئی اور نہیں بلکہ عیسائی علمیت تھی جسے ہر طرح کے جھوٹے پروپیگنڈوں اور نام نہاد عقل پرستی کے دعووں کی آڑ میں حقارت سے دیکھا جا نے لگا۔ اس ضمن میں اہم بات یہ کہ عوام الناس کا عیسائی علمیت سے ایمان کمزور کرنے کے لیے سب سے ضروری یہ تھا کہ اس علمیت کے حا مل فرد یعنی پوپ کی شخصیت کو متنازع اور مشکوک بنا یا جائے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ عوام الناس کا رابطہ کیتھو لک چرچ کے ساتھ ٹوٹ جائے جہاں سے انہیں دنیا کے دارا لا متحان ہونے اور آخرت کی تیاری کا سبق ملتا تھا تاکہ جدیدیت کے حامی ان کے قلوب میں دنیا داری کے بیج بو سکیں۔ جدیدیت دنیا کے جس ملک میں بھی گئی اس نے مذہبی پیشواؤں کے عوامی اثر و رسوخ کم کرنے کے تمام حربے استعمال کیے۔ سرمایہ داری اس وقت تک معا شروں کو مسخر نہیں کر سکتی جب تک افراد زندگی کے ہر معا ملے کو معاد کے بجائے معاش کے نقطہ نگا ہ سے نہ دیکھنے لگیں، اور نقطہ نظر کی یہ تبدیلی مذہبی پیشواؤں اور اداروں سے لا تعلقی پیدا کیے بغیر نا ممکن ہے۔ 

روایتی اداروں کی اہمیت

یہ نہا یت اہم بات ہے جس کی کچھ مزید تفصیل ہم یہاں بیا ن کرنا چا ہیں گے۔ خاندان ، مسجد، مدرسہ اور خا نقاہ اسلامی معاشروں کے ایسے فطری ادارے ہیں جو جدیدیت کے پھیلاؤ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ لیکن جدیدیت کے پھیلاؤ نے مسلمانوں کا خا نقاہ سے تعلق تقریباً ختم کر دیا ہے جو یقیناًخطرے کی علامت ہے کیونکہ خا نقاہ ہی وہ ادارہ تھا جہاں لوگ بچپن ہی سے اپنے بچوں کے تزکیہ نفس کا سامان فراہم کرنے کے لیے انہیں کسی مرد صا لح کے ہاتھ بیعت کراکے ان کی صحبت اختیار کرنے کی ترغیب دلاتے، اور اس سلسلے کے ختم ہو جا نے کے بعد اب مسلمانوں میں تز کیہ نفس کا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ کسی تہذیب کا زوال درحقیقت ان اداروں کی ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے عیاں ہوتا ہے جو ایک تہذیب کے مقا صد کے حصول کی خاطر افراد کے تعلقات کے نتیجے میں ابھرتے ہیں۔ افراد جب کسی شے کے حصول کو اپنا مقصد بنا تے ہیں تو اس کے حصول کے لیے کوئی نہ کوئی انتظامی شکل ضرور اختیار کرتے ہیں اور بہت سی انتظامی شکلوں میں سے وہی شکل زندہ رہ جاتی ہے جو زیادہ مؤثر اور قابل عمل ہوتی ہے۔ کوئی مخصوص انتظامی ہیئت ان معنوں میں تو ضروری نہیں ہوتی کہ وہ بذات خود اصلاً مطلوب تھی ، مگر ان معنوں میں یقیناضروری ہوتی ہے کہ اس کی بقا سے افراد کے معا شرتی مقاصد قائم رہتے ہیں اور اس کا انہدام ان تمام مقاصد کے انہدام کا باعث بھی بنتا ہے جو اس کے ساتھ مربوط ہوتے ہیں۔ اس کی وضاحت ایک آسان مثال سے کی جا سکتی ہے۔ ہمارے گاؤ ں دیہات میں ترپال، چوپال اور بیٹھک لوگوں کی روز مرہ زندگی کا لازمی حصہ ہوا کرتے تھے (کہیں کہیں اب بھی یہ نشستیں مو جود ہیں)۔ اب دیکھیے، اسلام چا ہتا ہے کہ اس کے ماننے والوں کے تعلقات سے جو معا شرہ وجود میں آئے وہاں پڑوسیوں کی خوب خبر گیری ہونی چاہیے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ خیال کیسے رکھا جا ئے؟ اس کا انتظام کیا ہو؟ کیا ہر شخص روز انہ رات سونے سے پہلے اپنے پڑوسی کا دروازہ بجا کر اس سے پوچھے کہ بھا ئی کیسے ہو؟ ظا ہر ہے ایسا تو نہیں ہو سکتا، مگر پھر کیا ہو ۔ اب ذرا غور کریں کہ یہ بیٹھک کیا ہے؟ عام نشست کی ایسی جگہ جہاں لوگ شام کے وقت تھوڑی دیر دل لگی اور فرحت طبع کے لیے اکھٹے بیٹھتے جس کے ذریعے انہیں پورے گاؤں اور اس کے اطراف کے لوگوں کے حالات معلوم ہوتے ، مثلاً گاؤں میں کون بیمار ہے، کس کے گھر شادی ہے، کس کے گھر فوتگی ہوئی وغیرہ وغیرہ۔ اگر کوئی شخص دو دن تک بیٹھک نہ آتا تو لوگ اس کے گھر خیریت معلوم کرنے جاتے۔ یوں سمجھیے کہ ایک طرف تو یہ گاؤں کے حالات حاضرہ کو افراد تک پہنچا نے کا ایک مکمل طریقہ تھا تو دوسری طرف ایک ساتھ مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کا خیال کرنے کی اقدار کے فروغ کا ذریعہ تھا۔ پڑوسیوں کی خبر گیری کرنے کا بھلا اس سے بہتر انتظام اور کیا ہو سکتا تھا؟ لیکن پھر ٹی وی آگیا اور ہرشخص فرحت طبع کے لیے اب بیٹھک کے بجا ئے اپنے اپنے گھر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے کا عا دی ہو نے لگا۔ نشستیں ختم ہونے لگیں، اور ان نشستوں کے ٹوٹنے سے وہ سارا ما حول بھی ہما رے معا شروں سے رخصت ہو گیا جو ان کا مر ہون منت تھا۔ کہا جا نے لگا کہ ٹی وی سے ہمیں خبریں ملتی ہیں، مگر کس کی خبریں؟ وہ خبریں جو ہمارے اسلامی معا شرے کی تشکیل کے لیے کسی کام کی نہیں۔ ٹی وی لوگوں کو یہ تو بتاتا ہے کہ بھا رت میں کس فلمی ہیرو کی شا دی کس ہیروئن سے ہوئی، امریکہ میں لوگ روزانہ کتنے کتے خریدتے ہیں، مگر انہیں یہ نہیں بتا سکتا کہ تمہارے پڑوسی کس حال میں ہیں۔ بیچارہ ٹی وی کیا کرے اس کی مجبوری یہ ہے کہ وہ وہی بات کہے گا جہاں سے اسے پیسے ملنے کی امید ہو کیو نکہ اس کا تو سارا دھندہ ہی اشتہاری کمپنیوں کے سرمائے کا فروغ ہے۔ ہم یہاں ٹی وی کے نقصانات کی بات نہیں کر رہے بلکہ معا شرتی مقا صد کے حصول کے ضمن میں اداروں کی بقا کی اہمیت و افادیت کی بات کر رہے ہیں کیو نکہ یہ ادارے ہی ہیں جو افراد کا تعلق کسی خا ص مقصد سے منسلک اور قائم رکھنے کا با عث بنتے ہیں۔ پس سرمایہ دارانہ علمیت کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ ایک طرف تو ہم اپنی مساجد اور مدا رس کے دا ئرہ کار کو بڑھائیں اور دو سری طرف خانقاہوں کو پھر سے زندہ کریں۔ 
۲.۳ : سرمایہ دارانہ علم کی خصوصیات ( طریقہ حصول علم کے اعتبار سے) 
سائنس یا سر مایہ دارانہ طریقہ حصول علم میں حتمی بات اور قانون معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ (اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سائنس پر ہمارے مضا مین ساحل اگست اور نومبر ۲۰۰۶ میں) سائنسی علمیت حقیقت کے ارتقائی تصور پر ایمان رکھتی ہے جسے سمجھا نے کے لیے ہم ارتقائی تصور علم کی چند خصو صیات بیان کرتے ہیں: 
(الف) غیر حتمیت (uncertainty): 
ارتقائی علمیت کا اول اصول یہ ہے کہ حتمی سچ جاننا نا ممکن ہے ، البتہ سائنسی طریقہ علم استعمال کرکے ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ انسانیت ایک حتمی سچ کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسانی کلیات کی مدد سے کسی حتمی سچ کا علم حاصل کرپانا ہی سرے سے ناممکن ہے۔ 
(ب) تردیدیت : 
اس تصور علم میں وہی دعوی اور قضیہ علم کہلانے کا مستحق ہے جسے تجربے میں لا کر رد کرنا ممکن ہو ۔ سائنس میں علم کو غیر علم سے ممیز کرنے کا معیار تردیدیت (falsification) ہے یعنی اگر کسی بات کو تجربے کے ذریعے غلط ثا بت کرنا نا ممکن ہو تو وہ علم کی تعریف پر پوری نہیں اترے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب میں زندگی بعد الموت وغیرہ جیسے حقائق علم نہیں سمجھے جا تے کیونکہ یہ سائنس کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے۔ اس بات کو دوسرے انداز سے یوں سمجھئے کہ ارتقائی علم وہی ہو سکتا ہے جسے غلط ثا بت کرنا ممکن ہو کیونکہ جو بات غلط ثا بت نہیں کی جا سکتی، اس میں ارتقا کہا ں سے آئے گا ؟ 
البتہ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ سرمایہ داری اور سائنس کی اپنی ایمانیات کبھی سائنس کے اس معیار پر نہیں جا نچی جا تیں بلکہ انہیں ما ننا تو ایما نیا ت کا حصہ ہے اور جو انہیں نہیں ما نتا وہ ہیو من کہلانے کا مستحق نہیں۔ مثلاً سا ئنس کا یہ مفروضہ کہ علم کا منبع انسان کی ذات ہے (یعنی علم انسان کی ذات سے نکلتا ہے) کسی بھی تجربے ثا بت نہیں کیا جا سکتا (یعنی یہ تردیدیت کے معیار پر پورا نہیں اترتا) لیکن پھر بھی سائنس اسے مفروضے کے طور ما ن کر آگے بڑھتی ہے۔ گو کہ سائنسی علمیت میں حوادثات عالم کی تشریح اور حقیقت کے لیے کسی ایسی مقصدیت کو تلاش کرنا جس کی نسبت ارادہ انسانی سے باہر مثلاً خدا کی طرف ہو، سائنس کے نزدیک ایک لایعنی بات ہے لیکن سائنس یہ نہیں بتا سکتی کہ خود انسانی ذات کی حقیقت کیا ہے بلکہ اسے آزاد اور خود مختا ر فرض کرتی ہے۔ ایسے ہی سائنس کا یہ مفروضہ بھی محض ایمان ہے کہ یہ کائنات کسی خارجی کنٹرول کے بغیر چلنے والا ایک ایسا مکمل قائم بالذات نظام ہے جس کے اندر تبدیلیاں اس کے اندرونی نظام کے تحت آتی ہیں، نیز اس کی معنویت سمجھنے کے لیے کسی خدا کی ضرورت نہیں بلکہ اس مشین کو علت و معلول کے چند اصولوں کے ما تحت سمجھنا ممکن ہے ( البتہ سائنس کی دنیا میں ہونے والی تازہ ترین Quantum Mechanics کی تحقیقات نے سائنس کے اس ایمان کی جڑیں ہلا کر کے رکھ دی ہیں)۔ گویا اگر انسان علت و معلول کے قانون کے ماتحت رونما ہونے والے سلسلے کو دریافت کرلے تو نہ صرف یہ کہ وہ اشیا کی حقیقت سمجھ سکتا ہے بلکہ اسے قابو میں لاکر ان پر اپنا تسلط قائم کرسکتا ہے۔ سائنس کے نزدیک انسان کا اپنی آزادی کی تکمیل کے لیے کائناتی تسلط قائم کرنا ہی اصل حقیقت اور مقصد انسانی ہے۔ 
(ج) شک نہ کہ ایمان : 
سرمایہ دارانہ تصور علم کے مطا بق کسی بات کو حتمی اور آخری سمجھ کر اس پر صمیم قلب سے ایمان لے آنا اور دوسروں کو اس کی دعوت و تبلیغ کرنا غیر علمی طریقہ کہلاتا ہے ۔ ہمیشہ اور ہر بات میں شک کرنا اور کسی چیز کو رد کرنے کی کوشش کرنا ہی اصل علمیت کہلا تی ہے ۔ جو شخص مذہبی حقائق پر ایمان لائے اسپر انتہا پسند ، بنیاد پرست اور دہشت گرد کے لیبل چسپاں کر دیے جا تے ہیں۔
(د) ترقی (بہتری): 
ہر نئے دور کا سچ پچھلے دور کے سچ سے بہتر گردانا جا تا ہے کیونکہ اس میں پچھلے دور کے تصور حقیقت کے اچھے پہلو کو شامل کرلیا جاتا ہے اور کمزور پہلووں کو چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ لہٰذا ہر آنے والا دور پچھلے دور سے بہتر ٹھہرتا ہے۔ مغربی دنیا میں سپنسر، ہیگل اور مارکس وغیرہ نے انسانی علم کے رفتہ رفتہ ایک خا ص منزل کی طرف بڑھنے کے تصور کی بنا پر تا ریخ کی اپنی اپنی تعبیرات پیش کی ہیں جن سب کا حا صل یہ ہے کہ بنی نو ع انسان بحیثیت مجموعی لا شعوری طور پر ایک ایسے عظیم الشان مقصد کی طرف رواں دواں ہے جہا ں پہنچنا اس کا مقدر ہے، لہٰذا ہر آنے والا دور پہلے سے بہتر ہے ۔ ان تمام تعبیرات کی حیثیت چند قصوں اور کہا نیوں سے زیادہ اور کچھ نہیں جو ان لوگوں نے اپنے اپنے کمروں میں بیٹھ کر گھڑ ی تھیں۔ 
جدیدیت پسند مسلمانوں کو مولوی کی یہ بات ایک آنکھ نہیں بھاتی کہ ’’ ہم مسلمانوں کا سب سے اچھا دور تو دور نبوی ، دور صحا بہؓ اور سلف صا لحین کا دور تھا جو گزر چکا، لہٰذا اب آنے والا ہر دور پہلے سے بہتر نہیں بلکہ برا ہو گا جیسا کہ احا دیث مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مولوی ہمیں پیچھے کی طرف لے جا نا چا ہتا ہے، اور اس میں شک بھی کیا ہے کہ مولوی تو یہی چا ہتا ہے کہ دنیا کسی طرح پھر ویسی ہی ہو جائے جیسی آقاے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحا ب کے دور میں تھی۔ اسی جرم میں مولوی پر دقیانوسی اور تنگ نظر ہونے کی پھپتی کسی جاتی ہے کہ یہ ہمیشہ یہ طے کرنے کے لیے کہ ’’ہمیں آگے کیا کرنا چا ہیے‘‘۔ مستقبل کے بجائے ما ضی کی طرف دیکھنے کو کہتا ہے ، یہ آج کے عمل کو ما ضی کے پیما نوں پر کسنے کی کو شش کر تا ہے، یہ ہدایت حا صل کرنے کے لیے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف پلٹنا سکھا تا ہے ، یہ تو ترقی کا دشمن ہے اور یہ دنیا کو پھر پتھروں کے دور میں وا پس لے جا نا چاہتا ہے۔ 
(ہ) ایک سے زیادہ حق کا امکان: 
اس نظریہ علم میں چونکہ کسی بھی چیز کی با بت مسلمہ اور حتمی علم موجود نہیں ہوتا ، لہٰذا ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ حق نیز دو مختلف افراد کے لیے دو مختلف حق ہو سکتے ہیں۔ سائنس کی دنیا میں بیک وقت ایک ہی شے کے بارے میں دو مختلف نظریات (theories) کا ہونا معمول کی بات ہے۔ 
(و) تحقیق برائے تحقیق کا نہج : 
چنانچہ تحقیق برائے تحقیق کا نام ہی علمی کاوش پڑ گیا، چاہے وہ تحقیق بندروں اور کتوں وغیرہ کے حالات زندگی جمع کرنے کا کام ہی کیوں نہ ہو۔ ہر لغو سے لغو بات جس میں انسانی خواہش کوئی معنی دیکھتی ہو لائق تحقیق ٹھیرتی ہے کیونکہ کسی شے کے معنی اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی روشنی میں نہیں بلکہ انسانی خواہشات اور ارادے کی تکمیل کے پیمانے پر تول کر متعین کیے جاتے ہیں۔ 
(ذ) ارتقائی تعبیرات کی تلا ش : 
دور حا ضر میں موجود ہر معاشرتی و انسانی ادارے و عمل کی وحی سے علی الرغم ایک ارتقائی تعبیر پیش کرنے کی روش عام ہو جا تی ہے اور اس فرضی قیاس آرائی کو ہی علمی کا رنامہ سمجھا جا نے لگتا ہے۔ اس ضمن میں ایک بہت عمدہ مثال یاد آئی۔ ایک مرتبہ ہمارے ایک بزرگ ساتھی (اللہ تعا لی انہیں جنت نصیب فرمائے) نے ایک محفل میں شادی کے مو ضوع پر ہونے والی ہوئی گفتگو میں تمام شرکاے مجلس سے سوال کیا: ’کیا آپ لوگ جا نتے ہیں کہ شادی کا ادارہ کیسے قائم ہوا؟‘ سب نے پو چھا کہ جناب آپ بتا ئیے ۔ تو انہوں نے کہا کہ اولاً تمام انسان بھی جانوروں کی طرح جنسی تعلقات استوار کرتے تھے، یعنی جس مرد و عورت کا جس سے دل چا ہا خوا ہش پوری کرلی۔ ایک عرصے تک معا ملہ یو نہی چلتا رہا، لیکن پھر آہستہ آہستہ انسا نوں میں جذبہ رقا بت نے جو ش مارا، اور لوگوں کو یہ بات بری محسوس ہونے لگی کہ کل تک جو عورت میرے ساتھ تھی، آج کسی اور مرد کے ساتھ کیوں ہے؟ اس جذبے کے زیر اثر انسانی معا شروں میں طا قت کے قانون کا راج شروع ہونے لگا یعنی جس نے آگے بڑھ کر پہلے کسی عور ت پر قبضہ جما لیا، پس وہ ہمیشہ کے لیے اس کی ہو گئی۔ پھر بچوں کی پیدائش کے بعد بیوی اور بچوں کی دیکھ بھال کے مسائل سامنے آنے لگے جنہیں حل کرنے کے لیے لوگوں نے کئی طرح کے قوانین بنانے شروع کر دیے۔ مثلاً یہ کہ بچوں کی ذمہ داری اسی پر ہو گی جس نے عورت پر قبضہ جما یاتھا وغیرہ وغیرہ۔ یوں انسانیت لمحہ بہ لمحہ آگے بڑہتی رہی یہا ں تک کہ لوگوں نے مرد و عورت کے جنسی تعلق کی بنیاد شادی کے ادارے کے ساتھ منسلک کردی۔ جب وہ بزرگ تمام کہانی سنا چکے تو میں نے پو چھا کہ یہ کہا نی آپ نے کہاں سے سنی؟ تو فرمانے لگے کہ فلاں سوشل سائنس کے جرنل میں فلاں محقق نے یہ مقا لہ لکھا ہے۔ میں نے کہا یہ بتا ئیں کہ اس پوری کہا نی میں انسانی معا شروں کی کردار سازی میں ایک لاکھ چو بیس ہزار سے زائد انبیاے کرام کا کردار کیا رہا؟ کیا انبیا نے لوگوں کو نہیں بتایا کہ انہیں کیسے زندہ رہنا چا ہیے؟ نیز کیا ان کی تعلیمات کا ان پر کوئی اثر نہیں ہو تاتھا؟ اس کہانی سے تو یہ تصور ابھرتا ہے کہ گویا اول تو انبیا نا م کی کوئی ہستی انسانی تا ریخ میں گزری ہی نہیں، اور اگر تھی بھی تو شاید وہ دنیا کی سیر وغیرہ کرنے کے لیے آتے تھے، نیز انسانوں اور معا شروں نے اپنی زندگیاں وحی الٰہی کی روشنی میں نہیں بلکہ اپنے حیوانی جذبا ت کے تحت گزاری تھیں۔ یہ کہانی تو ایسی ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیے بغیر یہ کہے کہ مسلمانوں کے معاشروں میں پایا جا نے والا شادی کا تصور در حقیقت اسلام سے قبل عربوں کے معا شرے میں پائے جانے والی جنسی بے راہ روی کی ارتقائی شکل ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ ایک مضحکہ خیز کہانی ہے، کیونکہ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ یہ معا شرتی تبدیلی انسانی جذبات کے محرکات میں ارتقا کے طور پر نہیں بلکہ ایک نبی کی تعلیمات پر عمل کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ دوسری بات یہ کہ اگر شادی کے ادارے کا یہ سفر کوئی ارتقائی سفر تھا تو پھر مغرب میں یہ ادارہ ٹوٹ کیسے گیا؟ ارتقا کا تقاضا تو یہ تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ مضبوط سے مضبوط تر ہو تا چلا جاتا ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی معاشرہ انبیاے کرام کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کرزندگی گزارتا ہے تو وہاں زندگی کا اظہار صرف حیوانی سطح پر ہی ہو تا ہے جس کا نظارہ ہم مغربی دنیا کی غلیظ اور پلید معا شرت میں کر سکتے ہیں ۔ 
یہ محض ایک مثا ل تھی، ورنہ اس طرز کی اور بھی کئی فرضی کہا نیاں ہمارے ہاں مشہور ہیں، مثلاً یہ کہ سب سے پہلے انسانیت پر غاروں اور پتھروں کا دور گزرا کہ جب سب لوگ غاروں میں رہتے تھے، پتے اور جا نوروں کی کھالوں سے اپنے بدن ڈھا نپتے تھے، جنگلوں میں جنگلیوں کی طرز کی زندگی اختیار کیے ہو ئے تھے وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام کہانیوں کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ یہ سب کی سب انسانی معا شروں کی تشکیل میں وحی اور انبیاے کرام کے کردار کو نظر انداز کرنے کے لیے گھڑی گئی ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں وحی کو علم نہیں سمجھا جاتا ۔ کیا کوئی مسلمان اس بات کا تصور کر سکتا ہے کہ معا ذاللہ انبیاے کرام جنگلیوں کی ما نند زندگیاں گزارتے رہے ہوں گے؟ 

تبدیلی شرا ئع اور فلسفہ ارتقا کا انوکھا گٹھ جوڑ 

یہاں اس بات کا ذکر فا ئدے سے خالی نہ ہوگا کہ مغرب کے اس مقبول عام ارتقائی تصور علم سے متاثر ہوکر ہمارے ہاں بھی انبیاے کرام کے حوالے سے ایک ارتقائی تعبیر اختیار کی گئی ہے جس کا حا صل یہ ہے کہ وقت اور حالات بدلنے کے ساتھ جوں جوں انسانیت آگے بڑھتی جا رہی تھی، اس کے مسائل بھی اسی لحا ظ سے تبدیل ہو رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ان ضروریات کا لحا ظ کرتے ہوئے مختلف رسل کو مختلف شریعتیں دیں۔ دوسرے لفظوں میں شریعتوں کا اختلاف انسانی حا لات میں ارتقائی تبدیلی آنے کا مرہون منت تھا ۔ چونکہ تبدیلی شرائع کی اس فرضی تعبیر کا مسئلہ یہ تھا کہ اس میں ختم نبوت کسی طرح فٹ نہیں ہوتی کیو نکہ انسانیت کا یہ سفر تو تا قیامت چلتا رہے گا، تو اسے مکمل کرنے کے لیے ایک اضا فی مفروضہ یہ گھڑ لیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت انسان بحیثیت مجموعی اپنے عہد طفولیت سے نکل کر عہد شباب میں دا خل ہو چکا تھااور گویا اب وہ اس قابل ہو گیا تھا کہ اسے ایک آخری اور اصولی پیغام دے کر ہمیشہ کی نبوت کے سہارے سے آزاد کر دیا جا ئے کیونکہ باقی کا سفر وہ اپنی عقل کی روشنی میں طے کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ تعبیر ایک فرضی کہانی ہے جس کے حق میں آج تک نصوص شرعیہ سے کوئی قطعی دلیل پیش نہیں کی گئی۔ محض قیاس آرائی ہی کو حتمی بات سمجھ کر پیش کر دیا گیا ہے۔ اس دعوے کے ثبوت کے لیے جن مثالوں کا سہارا لیا جا تا ہے، ان کا تصور ارتقا کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔ مثلاً تبدیلی احکامات کی ایک مثال یہ دی جا تی ہے کہ شریعت محمدی میں دو بہنوں کوایک ساتھ نکاح میں رکھنا حرام قرار دیا گیا جبکہ اس سے پہلے یہ جائز تھا۔ لیکن ہم یہ سمجھنے سے قا صر ہیں کہ آخر اس تبدیلی کا انسانی تمدن و حالات کے ارتقا سے کیا تعلق ہے؟ اسی طرح امت محمدی کے لیے بہت سے ایسے جانوروں کا کھا نا حلال قرار دیا گیا ہے جو پہلے کی امتوں پر حرام تھے، لیکن اس تبدیلی کا بھی ارتقا کے ساتھ کیا لینا دینا؟ کیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے نظام ہاضمہ میں کوئی تبدیلی آ گئی تھی کہ پہلے کا انسان انہیں ہضم کرنے کی صلا حیت نہ رکھتا تھا اور اب کے انسان میں یہ صلا حیت پیدا ہو گئی ہے، یا یہ کہ پہلے یہ جا نور نا پید تھے اور اللہ تعا لیٰ نے ان کی نسل کشی ہو جانے کے خوف سے ان کے کھا نے کو حرام قرار دیا تھا؟ آخر حالات کے ارتقا کا ان کی حرمت سے کیا لینا دینا؟ دوسری بات یہ کہ اگر اس کہا نی کو مان بھی لیا جائے تو بھی یہ دعویٰ قابل نزاع ہے کہ انسانیت کا عہد شباب آج سے چودہ سو سال پہلے آگیا تھا کیونکہ مغربی مفکرین کا دعویٰ یہ ہے کہ نیا انسان تو پیدا ہی سترہویں اور اٹھا رویں صدی میں ہوا جبکہ اس سے پہلے کا انسان محض افسانوں اور کہانیوں پر یقین رکھتا تھا۔ تیسری بات یہ کہ تبدیلی کا یہ عنصر تو بدستور جاری و ساری ہے، مثلاً صنعتی انقلاب کے بعد کے انسان کے معا شرتی و معا شی مسائل پہلے سے بہت مختلف ہیں تو ارتقا کی اس تعبیر کا تقا ضا یہ ہوا کہ شریعت کے بہت سے احکامات اب منسوخ قرار دیے جا ئیں اور کچھ نئے احکامات کا اضافہ کر لیا جائے۔ یہ اسی ارتقائی تعبیر کا نتیجہ ہے کہ ہمارے مسلم جدیدیت پسند مفکرین اجتہاد کے نام پر نصوص شرعیہ کی تبدیلی کے امکانات کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نیز اس دعوے سے تو جدیدیت پسند مفکرین کے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ اسلام کی جو معتبر تعبیر اجماع امت کے نام پر پیش کی جاتی ہے، وہ اب قابل عمل نہیں رہی کیونکہ وہ پرانے زمانے کے حالات کا لحاظ کرکے اپنائی گئی تھی اور اب ہمیں ایک جدید تعبیر کرنی چا ہیے وغیر وغیرہ۔ پس جا ننا چا ہیے کہ تبدیلی شرائع کی یہ ارتقائی تعبیر در حقیقت ایک خطرناک تصور ہے جس سے شریعت اسلامیہ میں قطع برید کا دروازہ کھل جا تا ہے۔ 
۲.۴: سرمایہ دارانہ علم کی منطقی منزل 
ایک نئی شخصیت کا جواز : 
سر ما یہ دارانہ جا ہلی تصور علم نے اخلاق رزیلہ سے متصف ایک نئی قسم کی شخصیت کے اظہار کا جواز فراہم کیا جس کے نتیجے میں ایک نئی انفرادیت معا شروں میں مقبول ہوئی۔ سر مایہ دارانہ تصور علم سے پہلے صرف ایسی شخصیت ہی معا شروں میں عزت کی نگا ہ سے دیکھی جاتی تھی جن کی زندگی انبیاے کرام کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ کا منہ بولتا ثبوت ہوتی۔ لیکن اس تصور علم نے ایک ایسی شخصیت کے علمی جواز کی بنیادیں فراہم کیں جو انبیاے کرام کی تعلیمات سے کوسوں دور اور اخلاق رزیلہ سے متصف ہونے کے با وجود بھی معا شرے میں ایک با عزت علمی مقام پر فائز ہوسکتی تھی۔ اس ضمن میں آئن سٹائن کی مثال نہا یت وا ضح ہے جسے سائنس کی دنیا میں ایک امام کی سی حیثیت حاصل ہے لیکن اس کی زندگی زنا و بدکاری کی غلاظت سے لت پت تھی (آئن سٹائن کے نجی معاملات زندگی ان خطوط سے واضح ہوتے ہیں جو اس کی پوتی نے چھاپے ہیں)۔ ایسے ہی با وجود اس کے کہ کانٹ اغلام باز تھا، اسے مغربی فلسفے میں بلند ترین مقام حا صل ہے۔ اگر آپ مغربی علم کے کسی دلدادہ شخص کو یہ مثال دیں تو وہ کہے گا کہ اس کے اخلاق کو مت دیکھو بلکہ اہم چیز اس کا سائنسی کارنا مہ ہے۔ گویا مذہبی اخلاقیات اب علم کے معنوں میں شا مل ہی نہیں رہیں۔ سرمایہ دارانہ تصور علم میں ایسی معلومات کو علم سمجھا جا تا ہے جو سرمایہ دارانہ اخلاقیات یعنی حرص و حسد کی غماز ی کرتی ہوں (۱س کی تفصیل آگے آرہی ہے)۔ آج علم کا تصور اس حد تک گر چکا ہے کہ اگر ایک ڈاکٹر ، وکیل، ایم بی اے وغیرہ خاتون ننگے سر اور نیم برہنہ حالت میں ٹی وی پر بیٹھ کر انٹرویو دے رہی ہو تو اس کے علمی کارناموں کا تعارف اس شان سے کرایا جاتا ہے گویا وہ کتنی بڑی عالمہ ہے۔ اس کے مقابلے میں گاؤں میں رہنے والی خاتون جس کی حیا اسے نا محرم کے سامنے جانے سے روکتی ہو، اسے جاہل ، ان پڑھ اور گنوار کہا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ تصور علم نے مادہ پرستا نہ سوچ اور دنیا داری کے رجحا نات کو تقویت بخشی اور رہی سہی عیسائی اخلاقیات کا جنازہ مارٹن لوتھراور کیلوین جیسے مفکرین کے خیالات سے برآمد ہونے والی پروٹسٹنٹ ازم نے نکال دیا۔ اس فرقے نے عیسائی عوام میں یہ خیالات عام کیے کہ بائبل کی تشریح ہر شخض خود کر سکتا ہے، انسان اور خدا کے درمیان تعلق فرد کا نجی معاملہ ہے جس کی صحت و عدم صحت پرکسی دوسرے فرد (مثلاً پوپ) کو حکم لگانے یا فتویٰ دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ، چونکہ خدا اور بندے کا تعلق نجی اور اندرونی احساسات پر مبنی ہے، لہٰذا ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ عبادت کرنے کا جو بھی طریقہ اختیار کرنا چاہے کرلے، دنیا کی کامیابی آخرت کی کا میابی کا پیش خیمہ ہے ، اصل عبادت چرچ جانا یا ذکر و ازکار کرنا نہیں بلکہ دنیا کے کام زیادہ انہماک سے کرنا ہے نیز فطرت کا مطا لعہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ جتنا بائبل کا۔ در حقیقت جدیدیت کی کامیابی کی ا صل وجہ مادہ پرست فلسفیوں کے افکار سے زیادہ وہ مذہبی عناصر تھے جنہوں نے اصلاح مذہب کے نام پر مذ ہبی تعلیمات کو مسخ کرکے جدیدیت کی مذہبی توجیہات بیان کیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کارل مارکس اورمیکس ویبر جدیدیت کی کامیابی کواصلاح مذہب کی تحریک (Reformation) کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر اصلاح مذہب کی تحریک کا میاب نہ ہوتی تو جدیدیت یورپ میں شکست کھا جاتی کیونکہ مذہبی آزادی کی روش ہی وہ راستہ ہے جو آگے چل کر نفس پرستی اور دنیا کی محبت جیسے جذبات دلوں میں راسخ کرنے کا باعث بنتی ہے۔ 
مذہبی ایمانیات کا انکار : 
ادراک حقیقت کے اس ارتقائی تصور کا دوسرا منطقی نتیجہ بالآخر پس جدیدیت (post-modernism) کی شکل میں ظاہر ہوا جس نے حق کے وجود ہی کا انکار کر ڈالا۔ جدیدیت نے ادراک حقیقت کے لیے سائنسی طریقے پر اعتماد کرنے کی دعوت تو دی، لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ حقیقت کا حتمی ادراک ممکن ہی نہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی حتمی حقیقت تک پہنچنا ممکن ہی نہیں تو اسے تلاش کیوں کیا جا ئے؟ نیز جب حقیقت معلوم ہی نہیں تو یہ کیسے طے ہو گا کہ جس سائنسی طریقے پر ہم عمل پیرا ہیں، و ہ ہمیں حقیقت کے قریب کر رہا ہے یا دور ؟ یعنی جب منزل کا ملنا ہی نا ممکن ٹھہرا تو اس بات کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے کہ ’کس طرح‘ دوڑا جائے ؟ یہی وہ سوالات ہیں کہ جن کا جدیدی مفکرین کے پاس کوئی جواب تھا ، نہ ہے اور نہ کبھی ہو سکتا ہے۔ اس فکر نے کسی حتمی حقیقت (absolute truth) کے وجود ہی کا انکار ڈالا، یعنی حقیقت ایک اضافی (relative) شے بن گئی جو ہر فرد، معا شرے اور زمانے کے لیے مختلف ہو سکتی ہے۔ ان مفکرین کے نزدیک زندگی بعد الموت وغیرہ کے سوالات کالعدم اور لا یعنی ٹھہرے یعنی جب مرنے کے بعد زندگی ہے ہی نہیں تو اس کے بارے میں سوچنا بے کار کی بات ہے۔ ان کے نزدیک اصل مسئلہ تو اس وجود انسانی کا ہے جو اس دنیا میں اسے حاصل ہے ، اس وجود سے پہلے انسا ن نہ تو کہیں تھا اور نہ ہی اس کے بعد وہ کہیں اور جا نے والا ہے۔ اس فکر کے نتیجے میں پس جدیدیت کے نزدیک دنیا وی زندگی کی حقیقت اور معنویت محض کھیل تما شہ اور مزے کرنا ہے۔ وٹنگسٹائن کی فکر کا نچوڑ یہ ہے Life is a game, and maturity is to play it seriously یعنی زندگی ایک کھیل ہے اور عقلمندی یہ ہے کہ اسے سنجیدگی سے کھیلا جائے۔ 
بیسویں صدی کے وسط میں جب یہ فکر یورپ میں عام ہوئی تو نو جوانوں میں خود کشیاں کرنے ، سب کچھ چھوڑ کر جنگلوں جا بسنے اور ہیروئن اور بھنگ استعمال کرکے مست رہنے کے رجحا نات پروان چڑھے ۔ وٹنگسٹائن جیسے بڑے فلسفی نے با لآخر تنگ آکر خود کشی کی۔ یہ نت نئے فیشن کی بھر مار اور راک موسیقی کا پھیلاؤ اسی زمانے کی پیداوار ہے ۔ الغرض ہر ایسا کام کیا جانے لگا جسے لوگ عجیب سمجھتے تھے اور ہر ایسے کام میں معنی تلاش کیے گئے جنہیں لوگ عام طور پر بے معنی گردانتے تھے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر زندگی بے معنی ہے تو پھر کسی خا ص طریقے سے ہی زندگی گزارنے میں معنی کیوں تلاش کیے جا ئیں، ہر طریقہ مساوی طور پر بے معنی ہے لہٰذا سب کا اظہار کرنا چا ہیے۔ آخر کسی خاص طریقے کے ساتھ ہی گا نا کیوں گا یا جا ئے، ہر اس طریقے سے گا نا گاؤ جسے لوگ عام طور پر غیر عقلی (senseless) سمجھتے ہیں۔ یہ اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ آئے دن سر اور دا ڑھی کے بالوں کے نئے نئے انداز نظر آ تے ہیں، کبھی پینٹ کے پائنچے پھاڑ لیے جا تے ہیں کبھی اسے الٹا کر کے پہنا جا تا ہے، کبھی مرد کانوں میں با لیاں لٹکا ئے گھومتے دکھا ئی دیتے ہیں، اور عورتوں کے فیشن کی بھر مار وغیرہ وغیرہ، اور جب ان سے پو چھا جائے کہ بھائی یہ کیا کر رہے ہو تو جواب ملتا ہے ’فیشن‘۔ فیشن کا مطلب ہی بے معنی کاموں میں معنی تلاش کرنا ہے۔ آزای کا خواہاں شخص معنویت ’فرق‘ (difference) میں تلاش کرتا ہے یعنی آزاد انفرادیت کا اظہار فرق کے طریقے سے ہوتا ہے ، جبکہ عبدیت کا اظہار فرق میں نہیں بلکہ یکسانیت (similarity) میں ہوتا ہے یعنی میری ذات جس قدر آقاے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا میں فنا ہوگی، اتنی ہی زیادہ معنی خیز ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مولوی اور صوفی وہی حلیہ اپناتا ہے جو چودہ سو برس قبل کانقشہ پیش کرسکے۔ 
زندگی بعد الموت اور اس کی اصل حقیقت کے انکار کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان مفکرین کے ہاتھ زندگی بعد الموت کے خلاف کوئی ایسی قاطع دلیل آ گئی ہے جسے رد کرنا نا ممکن ہو، بلکہ یہ حقائق حصول علم کے ان ممکنہ ذرائع کی گرفت سے ہی باہر ہیں جن پر وہ ایمان رکھتے ہیں (یعنی حواس خمسہ اور عقل انسانی )۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اس دنیا میں ادراک حقیقت کا ذریعہ اگر کوئی ہے تو وہ وحی یعنی انبیاے کرام کی تعلیمات ہیں جن کی حیثیت خبر صا دق کی ہے اور جنہیں کسی اور ذریعہ علم سے پرکھا (judge) نہیں جا سکتا ہے کیونکہ یہی اصل میزان ہیں۔ پس جدیدیت نے تو سائنس کی بالا دستی کے تمام دعوے بھی رد کردیے ہیں۔ اس کے نزدیک موجودہ سائنسی علمیت مغرب میں رونما ہونے والی چند مخصوص معاشرتی و تہذیبی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے جو مغرب میں سترہویں اور اٹھارویں صدی میں پیش آئیں جن کے نتیجے میں لوگوں کے تصورات حق و باطل ، خیر و شر ، کامیابی اور ناکامی ، عدل و ظلم، علم و جہالت سب میں یکسر تبدیلی آئی اور انسانیت کے جہاز کا سفراخروی نجات سے ہٹا کر دنیاوی عیش و عشرت، تسخیرو اصلاح قلب کے بجائے تسخیر کائنات کی منزل کی طرف موڑ دیا گیا۔ مغربی سائنس درحقیقت مقاصد کی انھیں تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والا ایک نیا طریقہ علم تھا جوان نئے قسم کے مقاصد کی تکمیل کے لیے ضروری تھا۔
پس جدیدیت کے ان افکار ات کو ان معنوں میں علمی سطح پر برتری حاصل ہوئی ہے کہ جدیدیت کے حامی مفکرین مثلاً ہیبر ماس وغیرہ کے پاس ان کے جواب میں مغربی تہذیب کے آفاقی نیز عقلی طور پر برترہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں رہی۔ البتہ ابھی اس فکر کا اظہار سیاسی سطح پر نہیں ہوا ، لیکن یا د رہے کہ فکر پہلے کتا بوں میں لکھی جاتی ہے اور پھر وہ معاشرے اور ریاست میں نفوذ کرتی ہے ۔ آخر لوگ ایک دن میں ہی تو enlightenedنہیں ہوئے تھے بلکہ کئی صدیوں کی خونی تاریخ کے بعد ہی جدیدیت معا شروں پر غالب آئی۔ بدقسمتی سے ہمارے مسلم مفکرین (جو کئی صدیاں پیچھے کی سوچتے ہیں) جدیدیت کے لیے اسلامی علمیت سے دلائل فراہم کرنے کی فکر میں کوشاں ہیں : کبھی اجتہاد کے نام پر نصوص شریعت میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں ، کبھی اسلام کی نئی تعبیر کی بات کرتے ہیں ، کبھی اجماعی مسائل امت سے انحراف کی دعوت دیتے ہیں ، کبھی مغربی افکار و تصورات کی حقیقت سمجھے بغیر ہی انہیں اسلام میں تلاش اور ان کا اسلامی جواز فراہم کرتے ہیں ، اور سب سے بڑھ کر عوام کو مذہب سے برگشتہ کرنے کے لیے مولوی کو طعن و تشنیع کا نشا نہ بناتے ہیں تاکہ عوام کا رابطہ علما سے کٹ جائے اور جدیدیت کی راہ ہموار ہو سکے۔ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ مساجد و مدارس اور علماے کرام کے وقار کا تحفظ درحقیقت جدیدیت کے خلاف جنگ میں اسلام کی زندگی اور بقا کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم اس محاذ پر ہار گئے تو پھر جدیدیت کے سیلاب کے آگے بندھ باندھنے والا کوئی منفرد گروہ باقی نہیں رہے گا ۔ 

۲.۵: سرمایہ دارانہ علم کی تشکیل 

سرمایہ دارانہ علم در حقیقت (anthopocentric approach) یعنی ’حوادثات عالم اور انسانی زندگی اور معاشروں میں رو نما ہونے والی تبدیلیوں کی تشریح و تعبیر میں انسانی نقطہ نگاہ سے غور کرنے ‘ کے رویے کا نام ہے ۔ دوسرے لفظوں میں وحی سے حا صل ہونے والے علم کی روشنی میں اس کائنات اور انسانی معاشروں کو سمجھنے کی کو شش کرنا سرمایہ دارانہ تصور علم میں معتبر علم نہیں کہلاتا۔ سائنسی علوم کے ماہرین جب بھی انسانی رویوں کے اخلاقی و غیر اخلاقی اظہار اور معا شروں و ریاست کی صحیح اور غلط تشکیل و ترتیب کے اصول وضع کرتے ہیں تو اس کے لیے وہ ہر گز وحی کی طرف رجوع نہیں کرتے، بلکہ وہ آزادی، مساوات اور ترقی کے مجموعی خا کے کو سامنے رکھ کر ان سوالات پر غور کرتے ہیں۔ 
تنویری علم سائنس کی دو شاخوں کی صورت میں متشکل ہو کر آج ہما رے سامنے موجود ہے: (۱) طبعی سائنسز اور (۲) معاشرتی سائنسز (natural and social sciences)۔ پہلے کا دائرہ کار انسانی ارادے کے کا ئناتی قوتوں پر تسلط کے امکانات کو بڑ ھا نا جبکہ دوسرے کا مطلوب ایک ایسے معیاری معا شرے اور ریاست کی ترتیب و تنظیم کا لائحہ عمل وضع کرنا ہے جہاں افراد کو زیادہ سے زیادہ آزادی اور سرمائے کی بڑہوتری کے مواقع میسر آسکیں۔ اس بات کی مثال یوں سمجھی جا سکتی ہے جیسے اسلامی علمیت علم الفقہ، کلام اور تصوف وغیرہ کی صورت میں متشکل ہوکر سا منے آئی ہے۔ یعنی جیسے علم اصول فقہ اور فقہ کا مقصد قرآن و سنت میں وارد شدہ نصوص سے وہ اصول اخذ کرنا ہے جن کی روشنی میں یہ طے کیا جا سکے کہ ان گنت انسانی اعمال و افعال سے رضاے الٰہی کے حصول کا درست طریقہ کیا ہے (یعنی ان اعمال کا شرعی حکم بیان کیا جا سکے ) نیز یہ معلوم کیا جا سکے کہ افراد کے تعلقات کو کن ضروری بندشوں کا پا بند بنا کر معاشرے کو احکامات الٰہی کے تابع کیا جاسکتا ہے۔ بالکل اسی طرح سوشل سائنسز کا مقصد ایک طرف سرمایہ دارانہ شخصیت ، معا شرے و ریاست کی علمی توجیہ پیش کرنا ہے اور دوسری طرف یہ افراد کے تعلقات میں آزادی کی ان لازمی حد ود کا تعین کرنے کے اصول وضع کرتی ہیں جن کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ معا شرتی و ریاستی صف بندی وجود میں آسکے۔ (سو شل سائنسز کا معا شرتی پالیسیا ں وضع کرنے کے ساتھ کیا تعلق ہے، اس کے لیے جمہوریت پر ہمار ا مضمون دیکھئے: ساحل نومبر ۲۰۰۶ ) تنویری مفکرین کا یقین تھا کہ جس طرح فطرت میں ایسے قوانین ہیں جو اشیا پر عائد ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح انسانی معا شروں میں بھی ایسے قوانین فطرت ہیں جن کے تحت معا شرے قائم رہتے ہیں، لہٰذا معا شروں اور انسانی تعلقات کی تفہیم کے لیے بھی سائنسی تجربے اور مشاہدے کا طریقہ استعمال کرنا ضروری ہے ۔ سو شل سائنسز کا مقصد ایک ایسے نئے دستور، ایک ایسے نئے قانون، ایک ایسے نئے معا شرتی نظام کا قیا م ہے جسے الہامی اور آسمانی قانون سے کوئی واسطہ یا رابطہ نہ ہو۔ ایک ایسا نیا سیاسی ڈھانچہ جس میں کوئی رعایا (subjects) نہ ہو بلکہ سب شہری (citizens) ہوں۔ 

سرمایہ دارانہ علمی اخلاقیات 

(’خریدو فروخت‘ (Buying and Selling) کی ذہنیت کا عموم )
لیوتارڈ ایک نامی گرامی پس جدیدی فلسفی ہے جس نے سائنسی علمیت کی حقیقت ’خرید وفروخت‘ کے معنی خیز الفاظ میں بیان کی ہے۔ اس بات کی تفہیم کے لیے خواہشات اور سرمائے کے تعلق کو سمجھنا ضروری ہے۔ تسخیر کائنات اور لامحدود خواہشات کی تکمیل کو مقصد علم ٹھہرانا درحقیقت سرمائے کی بڑھوتری (accumulation of capital) کو اپنا مقصود بنانا ہے، کیونکہ ہر خواہش کی تکمیل سرمائے ہی کی مرہون منت ہے۔ یعنی اگر کوئی فرد یا معاشرہ آزادی کا خواہاں ہے تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ درحقیقت سرمائے میں اضافے کا خواہاں ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل بغیر سرمائے کے ناممکن العمل ہے۔ مثلاً ایک شخض یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس عالی شان بنگلہ ہوجس میں دنیا بھر کی پر تعیش اشیا الٹ دی گئی ہوں، نئے ماڈل کی گاڑی ہو، کئی عدد پلاٹ اور کئی کمپنیوں کے شئیرز اس کی ملکیت ہوں جن سے حاصل ہونے والے نفع سے وہ مزید کاروبار کر سکتا ہووغیرہ وغیرہ ، تو ظاہر بات ہے کہ یہ تمام خواہشات بغیر سرمائے کے عملی شکل اختیار نہیں کر سکتیں۔چنانچہ معاشیات کا مضمون اس بات کو باور کراتا ہے کہ ایک فرد اپنی انفرادیت (یاآزادی) کا اظہار عمل صرف (Consumption) کے ذریعے کرتا ہے یعنی وہ جتنی زیادہ تعداد میں اشیاء کو اپنے استعمال میں لا کر صرف (Consume) کرتا ہے اتنی ہی زیاد ہ خواہشات کی تسکین کر سکتا ہے۔ اورایک صارف (Consumer) زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تسکین تبھی کر سکتا ہے جب اس کے پاس زیادہ سے زیاد ہ اشیا خریدنے کے لیے آمدنی (Income) ہو۔اسی طرح معاشیات کا مضمون یہ بھی کہتا ہے کہ انسان کی خواہشات لامحدود (Infinite)ہونی چاہییں ،مگر چونکہ ان خواہشات کو پورا کرنے کے ذرائع لامحدود نہیں ہیں، لہٰذا زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ فرد اپنے ذرائع کو اپنے وجود کی ممکنہ حد تک بڑھانے کی کوشش میں لگا رہے۔ (ذرائع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے کی اسی خواہش کو ماہرین معاشیات عقلیت (Rationality) کا معیار کہتے ہیں ، یعنی عقلمند شخص (Rational agent)وہی ہے جو سرمائے میں لامحدود اضافے کی خواہش رکھتا ہو )۔ بقول ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری: 
’’آزادی کا مطلب ہی سرمائے کی بڑھوتری ہے، اس کا کوئی دوسرا مطلب نہیں۔ جو شخص آزادی کا خواہاں ہے، وہ لازماً اپنے ارادے سے اقدار کی وہی ترتیب متعین کرے گا جس کے نتیجے میں اس کی آزادی میں اضافہ ہو۔ سرمایہ ہی وہ شے ہے جو ممکن بناتا ہے کہ انسان جو کچھ بھی چاہے حاصل کر سکے۔مسجد بنانا چاہے تو مسجد بنائے، شراب خانہ بنانا چاہے توشراب خانہ بنائے، چاند پر جانا چاہے تو چاند پرجائے۔کسی چیز کی کوئی اصلی قدر نہیں،ہر چیز اپنی قدر صرف اور صرف ہیومن کی خواہش اور ارادے سے حاصل کرتی ہے ۔لہٰذا قدر اصل (Intrinsic value) صرف ارادہ انسانی کی ہے۔ اس قدر اصل کے اظہار کا واحد ذریعہ ’سرمائے کی بڑھوتری ہے۔لہٰذا سرمایہ دارانہ عقلیت (آزادی )کا تقاضا ہے کہ ہر ہیومن اپنی خواہشات کو اس طرح مرتب کرے کہ ان کے حصول کی جدوجہد قدر اصل یعنی سرمائے کی بڑھوتری کے فروغ میں ممد اور معاون ہو۔خواہشات کی ہر وہ ترتیب جو ہیومن کو سرمائے کی بڑھوتری کے عمل کا آلہ کار نہیں بناتی (سر مایہ دارانہ) عقلیت کے خلاف ہے۔۔۔سرمائے کی بڑھوتری وہ کسوٹی ہے جس پر ہیومنز کی ہر خواہش اور خواہشات کی تمام ترتیبوں کو جانچا جاتا ہے اور ان کی تقابلی قدر (Exchange value) اسی قدر محض کے مطابق متعین ہوتی ہے۔ہر وہ خواہش جو سرمائے میں اضافے کا ذریعے نہیں بنتی، اس کی تقابلی قدر (سرمایہ دارانہ معاشرے میں ) صفر یا منفی ہوتی ہے‘ (دوسرے لفظوں میں ایک سرمایہ دارانہ معاشرے میں ایسی خواہشات رکھنے والے شخص کی یہی سزا ہے کہ اس کی خواہشات کی کوئی وقعت یا قدر وقیمت نہ ہو)۔۔۔ سرمایہ دارانہ ذہنیت (rationality) ہرفعل کو خود ارادیت اور خود غرضیت کے پیمانے پر تول کر اس کی تقابلی قدر متعین کرتی ہے۔ جب للہیت، محبت، طہارت، تقویٰ، آخرت کا خوف، عفت، حیا، غیرت، ایثار، شوق شہادت کو اس پیمانے پر تولا جاتا ہے تو یہ بالکل بے وقعت اور بے قدر دکھائی دیتی ہیں۔ ایک سول سوسائٹی یا سرمایہ دارانہ معاشرے میں ا ن اوصاف (حمیدہ) کے پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اس معاشرے کے نظام تعلیم کا مقصد تسخیر کائنات اور تمام فطری قوتوں کو ہیومن کے ارادے کے مطیع بنانے کو بطور مقصد کے قبول کرنے کی ایمانیات کو مستحکم بنانا ہوتا ہے‘‘۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے: ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری ، ساحل اگست ۲۰۰۶: ص ۳۸) 
اس اقتباس سے بخوبی واضح ہوا کہ سرمایہ دارانہ علم کا مقصد سرمائے کی بڑھوتری برائے بڑھوتری ہوتا ہے۔ سرمائے کی بڑھوتری کا یہ عمل اسی وقت ظہور پزیر ہوتا ہے جب علم بذات خود نفع خوری (profit-maximization) کے نظم (Discipline) کا پابند اور اس کے تابع ہوجائے ، یعنی علم تعمیر کیا جائے ’بیچنے‘ کے لیے اور اسے ’خریدا ‘ جائے صرف (consumption)کرنے کے لیے [knowledge is produced for sale, and purchased for consumption]۔ دوسرے لفظوں میں تکمیل خواہشات کی ذہنیت علم کو خریدوفروخت میں تبدیل کردیتی ہے اور خرید و فروخت کی یہ ذہنیت ہی سرمایہ دارانہ علمیت کی اصل شکل (essence) ہے۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ معاشروں میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ایجادات سے لیکر سوشل و بزنس سائنسز کی تحقیقات تک خرید وفروخت کے اسی عمل کے اظہار کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ مثلاً جب ایک یونیورسٹی میں کمپیوٹر یا بزنس سائنس کا طالب علم چار سال کی محنت شاقہ کے بعد اپنے تعلیمی کیرئیر کے آخری سال میں اپنا تحقیقی کام (Research project) کرنے لگتا ہے تو اس کے اساتذہ اس کے پلے یہ ہدایت نامہ باندھتے ہیں: ’بیٹا ایسا کام کرو جسکی کوئی مارکیٹ میں مانگ (Market value) ہو ، فضول کاموں میں وقت برباد مت کرو‘۔ درحقیقت یہی نصیحت تمام تر علم اور ٹیکنالوجی کا نقطہ آغاز و انتہا ہوتا ہے۔ تعلیم، تحقیق اور کنسلٹنسی (consultancy) کے تمام تر ادارے اسی اصول پر اور ایسا ہی علم تعمیر کرتے ہیں جسے زیادہ متوقع منافع و آمدنی کے ساتھ کمپنیوں کو بیچنا ممکن ہو، اور کمپنیاں ایسے ہی علم کو خریدتی ہیں جسے وہ اپنے پیداواری عمل میں استعمال کرکے مزید اشیا بیچ کر زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ خرید و فروخت کا یہ علم جب معاشروں میں پروان چڑھتا ہے تو معاشرے ’مارکیٹ ‘ میں تبدیل ہوجاتے ہیں جہاں تعلقات کی بنیاد محبت، صلہ رحمی، تعاون اور مذہب نہیں بلکہ ’اغراض ‘ اور اشیا اور خدمات کی لین دین (Exchange of goods and services) بن جاتی ہیں۔ ظاہر سی با ت ہے کہ کسی شے کے لین دین میں ایک شخص ڈیمانڈر (Demander) اور دو سرا سپلائیر (Supplier) ہواکرتا ہے،اورسرمایہ دارانہ معاشرے میں طلب اور رسد (Demand and Supply) کا اصول ہی درحقیقت ہر رشتے اور تعلق کی اصل روح ہوتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ تعلق کی یہ نوعیت صرف موچی، درزی، کسان، مزدور، سرمایہ دار وغیرہ کے درمیان ہی بننے والے تعلقات میں ہوتی ہے،بلکہ ایک سرمایہ دارانہ معاشرے میں ہر تعلق (چاہے میاں بیوی کا ہو یا ماں باپ کا)کی روح آہستہ آہستہ بس طلب اور رسد (Demand and Supply) پر منتج ہو جاتی ہے کیونکہ اس معاشر ے کے تمام افراد ماں باپ، بھائی بہن، استاد شاگرد یا پیر مرید نہیں بلکہ پروفیشنل (professionals) ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک مذہبی معاشرے میں استاد کا تعلق اپنے شاگرد سے باپ اور مربی کا ہوتا ہے،اس کے مقابلے میں مارکیٹ (یا سول)سوسائٹی میں یہ تعلق ڈیمانڈر اور سپلائیر (Demander and Supplier) کا ہوتا ہے یعنی استاد محض زر کی ایک مخصوص مقدار کے عوض ایک خاص قسم کی خدمت مہیا کرنے والا جبکہ طالب علم اس خدمت کا ڈیمانڈر ہوتا ہے اور بس۔ ہر وہ تعلق جس کی بنیاد ڈیمانڈ اور سپلائی کی روح پر استوار نہ ہو، سرمایہ دارانہ معاشرے میں لایعنی، مہمل، بے قدرو قیمت اور غیر عقلی (irrational)ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معیار عقلیت کے مطابق عقل مندی (Rationality)اسی کا نام ہے کہ آپ تعلقات ذاتی اغراض کی بنیاد پر قائم کریں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی معاشرے میں سائنسی (بشمول طبعی و عمرانی) علوم عام ہوں اور افراد میں ذاتی اغراض اور حرص و حسد نیز دیگر اخلاق رزیلہ پروان نہ چڑھیں۔ یہ تعلق بالکل ایسا ہی ہے جیسے مذہبی علوم کا مقصد افراد میں زہد، تقویٰ، عزیمت ، عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم وفنا جیسی صفات عام کرنا ہے۔ سرمایہ دارانہ علوم کی بالا دستی کا مطلب در حقیقت افراد کی ذہنیت اور معاشروں کو خرید وفروخت کے نظم میں شامل اور تابع کرنے کا دوسرا نام ہے۔ ایسے علوم (مثلاًمذہبی علم) جو خریدوفروخت کی کسوٹی پر پورا نہ اترتے ہوں یعنی جنہیں خریدنے اور بیچنے کے نتیجے میں سرمائے کی بڑھوتری کے مواقع کم ہوں، ان کے پنپنے کے مواقع بھی اتنے ہی کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اسی بات کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ایسے معاشرے (مثلاًمذہبی معاشرے) جہاں علم کے معنی خرید وفروخت نہ ہوں، وہاں سرمایہ دارانہ علوم ہر گز ترقی حاصل نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں ’اعتدال پسند‘ اور enlightened ہونے کا سبق دیا جا رہا ہے کیونکہ اس کے بغیر سائنسی علوم کا فروغ اور ترقی ہرگزممکن نہیں۔ 

نتائج: نوٹ کرنے کی اہم باتیں 

اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ علم سے مراد وہ مجموعہ معلومات ہے :
* جو ارادہ انسانی و خواہشات کی تکمیل (self-determination) کو ممکن بناتا ہو، اسے سائنس کہتے ہیں۔
* جو وحی کے علم ہونے کے انکارپر مبنی ہے، لہٰذا یہ جہالت خالصہ ہے ۔
* جس کا مقصدانسان کے تمتع اور تصرف فی الارض میں لا محدود اضافہ ہے ۔
* جو اس مادہ پرستانہ تصور حیات کو بطور مقصد حیات قبول کرنے کی ذہنیت عام کرتا ہے ۔
* اس کے پھیلاؤ کے نتیجے میں افراد میں بہت سے اخلاق رزیلہ پھیلتے ہیں: 
۔ خود غرضی (اپنے مقصد کے لیے دوسروں سے تعلقات قائم کرنا)
۔ حرص (زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی خواہش)
۔ حسد (دوسروں سے زیادہ دولت کی خواہش) 
۔ طول امل (دنیا کی بے پناہ محبت ، طویل العمری کی خواہش اور موت سے کراہیت)
۔ غضب (ہر شے کو قابو اور زیر کرنے کی خواہش )
۔ لذت پرستی (خواہشات نفسانی کی کثرت )
۔ عبادات کو حقیر جاننا، ضیاع اوقات، گنا ہ کے کاموں کو تفریح سمجھنا، کلام لغو (جو فحش گوئی، کھیل تماشوں، فلموں ، ٹھٹھے بازی اور جنس مخالف کے موضوعات سے پر ہوتا ہے) وغیرہ کے اوصاف کا پیدا ہوجا نا ایک فطری عمل ہے ۔
* جس میں کوئی حتمی حق نہیں ہوتا (سوائے اس کے کہ انسان قائم بالذات ہے)۔
یہ فکر اور تصوربدا ہتاً لغو اور عقلاً با طل ہے، اسی لیے فکری سطح پر سرمایہ دارانہ علمیت ایک دم توڑتی ہوئی فکر ہے ، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس کی ماہیت و مقاصد کی سمجھ بوجھ حاصل کرکے اس کا محا کمہ کرنے کی کوشش کریں نہ یہ کہ اس کی حما یت میں امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ اجماع کا انکار کرکے اس جاہلی علمیت کے لیے دلائل فراہم کر دیں۔ ہمارے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اگر مسلما نوں نے جدیدی علمیت کے افکار و نظریات کے خدوخال پر اپنے معاشروں اور ریاست کو تشکیل دیا تو وہ لازماً ایک قوم پرست مسلم سرمایہ دارانہ ریاست ہی بنا پا ئیں گے جس کے نتیجے میں اس ملک کے مسلمانوں کو تو شا ید کوئی مادی فوائد فائدہ مل جائیں لیکن اسلام کو ہر گز بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ 
اللہ تعا لیٰ سے یہی دعا ہے کہ: اللہم ارنا حقیقۃ الا شیاء کما ہی۔ 

بجلی کا بحران ۔ چند تجاویز

پروفیسر محمد شفیق ملک

اس وقت ملک عزیز میں جمہوری حکومت کی تشکیل مکمل ہوچکی ہے اور وزیراعظم پاکستان جناب یوسف رضاگیلانی نے مسائل اورپریشانیوں میں مبتلاپاکستان کے شہریوں کے لیے کچھ فوری اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ٹریڈیونین اور طلبہ یونین کی بحالی کے ساتھ ساتھ ورکرز کی بنیادی تنخواہ چھ ہزار روپے ماہانہ کرنے کااعلان کیا ہے۔ وزیراعظم نے وعدہ کیا ہے کہ ان کی حکومت عوام کی توقعات پر پوری اترے گی اور قوم کو خوشحالی کی طرف لے جائے گی۔ انہوں نے توانائی کی بحران پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کااعلان کیا ہے۔ وزیراعظم کی نیک نیتی شک سے بالاتر ہے، ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ انہیں اور ان کی کابینہ کوجرات مندانہ فیصلے کرنے کی توفیق عطافرمائے، آمین ۔ 
پاکستان میں ہرحکومت عوام کے مسائل حل کرنے کے وعدے اورکسی حد تک کوشش بھی کرتی رہی ہے، لیکن ساٹھ سال گزرنے کے باوجود پاکستان آج بھی دنیاکے پس ماندہ ترین ملکوں کی فہر ست میں قابل افسو س مقام پر کھڑا ہے۔ اس وقت ہمارا ملک توانائی کے شدید بحران میں مبتلاہے، بجلی کی کمی نے ملک کی معیشت کوہلاکررکھ دیا ہے،ہزاروں کی تعداد میں مزدور بے روزگارہوگئے ہیں، اکثر فیکٹریوں کی پیداوار نہ ہونے کے برابرہے، چھوٹے چھوٹے کاروبار تو بندہوچکے ہیں، مہنگائی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ عوام دن رات کی تگ ودو کے بعد بمشکل روٹی حاصل کرپاتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ساٹھ سال کے عرصہ میں آج تک مستقبل کی ضروریات کومدنظر رکھ کر بجلی پیداکرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ توانائی کے بحران پر قابو پانا ہے جوکہ انتہائی مشکل اورکسی حدتک ناممکن نظر آتاہے ۔ وفاقی کابینہ نے کچھ اقدامات فوری طورپر کرنے کی منظوری دی ہے جن پر کام شرو ع ہوچکاہے لیکن اس مسئلہ میں حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کابھی فرض ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ اس سلسلے میں تعاون کرے۔ حکومتی دعوے اور کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک ان کو عوام کی خدمت حاصل نہ ہو۔ فوری طورپر بڑے ڈیم بنانا ناممکن ہے۔ اس وقت ملک کے اکثر حصوں میں آٹھ سے سولہ گھنٹے تک بجلی غائب رہتی ہے۔ فوری قابوپانے کے لیے کچھ ہنگامی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی جرم کے مترادف ہوگی۔ حکومتی مشیزی کے ماہرین اگرچہ جانتے ہیں کہ اس کافوری حل ممکن نہیں کیونکہ گزشتہ حکومتوں کے دور میں زیادہ تر ڈنگ پٹاؤ پالیسیاں ہی جاری رکھیں گئی اوردوسرا آمروں نے اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔ اب جبکہ جمہوری حکومت ہے اورپاکستان کی تاریخ میں پہلی حکومت ہے جسے تقریباًتمام سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل ہے اورملک کی بڑی پارٹیوں کی نمائندگی بھی شامل ہے، اس حکومت کے ماہرین معاشیات اور منصوبہ سازوں کو ٹھوس اور طویل المیعاد پالیسیاں بنانی ہونگی۔ ملک سے بجلی کی قلت کودور کرنے کے لیے صرف اور صرف ملکی مفاد کو سامنے رکھنا ہوگا۔ بڑے ڈیم اورمنصوبے مکمل ہونے میں دیرلگے گی، جبکہ پچاس فی صد سے زائد بجلی کی قلت کامسئلہ حل کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرناہوگا۔ اس سلسلے میں کچھ تجاویز ہیں جومعاون ثابت ہوسکتی ہیں :
۱۔ سرکاری دفاتر کے اوقات کارمیں ایک گھنٹہ کی کمی کردی جائے۔
۲۔ فوری طورپر تمام سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں ہفتہ وار دوچھٹیاں کردی جائیں۔
۳۔تمام قسم کے جنریٹروں سے ہرقسم کی ڈیوٹی اور ٹیکس فوری طورپر ختم کردیے جائیں۔
۴۔ بڑے صنعتی یونٹوں کواپنی بجلی پیداکرنے کے لیے یونٹ لگانے کی ا جازت دی جائے۔
۵۔ شادی بیاہ پر چراغاں اور غیر ضروری بجلی کے استعمال پر سخت پابندی لگائی جائے۔
۶۔ عام بلب بنانے کے تمام یونٹ بند کر کے سٹاک ضائع کر دیا جائے اور انرجی سیور کے استعمال کو رواج دیا جائے۔
۷۔ایسے مکانات، پلازے اور ہوٹل بنانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے جن میں دن کے وقت روشنی نہ آسکے اور بجلی کے استعمال کی ضرورت پڑے۔
۸۔ ڈیزل اور پٹرول سے ہرقسم کے ٹیکس ختم کرکے ان کو مناسب قیمت پر لایا جائے۔ 
۹۔ نندی پور بجلی گھر کی طرح کے چھوٹے چھوٹے پاور سٹیشن فوری طورپر لگائے جائیں۔
۱۰۔ واپڈا کے اندر کالی بھیڑوں کی کمی نہیں جو بجلی چوری کرواتے ہیں۔ اس طرح چوری کی بجلی استعمال کرنے والے بجلی کا ضیاع کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کوبعض اوقات بااثر افراد بشمول افسران اور سیاست دانوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ حکومت میں شامل لوگ ان کی سرپرستی نہ کریں، بلکہ ان کی نشاندہی کر کے ان کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ 
۱۱۔ تمام سرکاری افسران، وزرا، اعلیٰ حکومتی عہدے داران اور آرمی افسران کے سرکاری دفاتر سے AC کی سہولت فوری طورپر ختم کر کے پا بندی لگا دی جائے، خلاف ورزی پر سخت سرزنش کی جائے۔
اس مہم میں عوام کوبھی حکومت سے تعاون کرنا ہوگا، گھیراؤ جلاؤ کی پالیسی ترک کرکے حکومت کی کوششوں میں اس کا ساتھ دینا ہوگا۔ عوام کو اپنے طرز زندگی پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ پرتعیش زندگی گزارنے کی عادات پر قابو پانا ہوگا۔ ACکے استعمال کوترک کرنا ہوگا تاکہ یہ بجلی کارخانوں کو چلانے میں کام آسکے۔ اپنے مکانات کو اس طرح بناناہوگا کہ دن کے وقت تمام کمروں میں سورج کی روشنی سے ہی کام چلایا جا سکے۔ عوام کا ایک بڑا طبقہ تاجر برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ دیکھا گیاہے کہ اکثر تجارتی مارکیٹیں اور بڑے بڑے کاروباری مرکز تنگ وتاریک گلیوں اور بازاروں میں ہیں جن کو روشن رکھنے کے لیے دکانداروں نے بڑے بڑے بلب لگا رکھے ہیں۔ اس رجحان کو بدلنا ہوگا۔ تاجر تنظیموں کو حکومتی اقدامات کا ساتھ دیتے ہوئے رات آٹھ بجے کے بعد دکانیں بند کرنا ہوں گی۔ یہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ بہت سے کاروباری مرکز اور بڑی بڑی مارکیٹوں کے بعض دکاندار ہفتہ وار چھٹی نہیں کرتے۔ دکانداروں کوہفتے میں دو دن بازار بند رکھنا ہوں گے۔

کیا فطرت أصلاً یا تبعاً مصدر شریعت ہے؟

حافظ محمد زبیر

(فاضل مقالہ نگار نے اپنے مفصل مقالے میں اہل سنت کے تصور فطرت کی وضاحت میں طویل اقتباسات جمع کیے ہیں جنھیں اختصار کے پیش نظر حذف کرتے ہوئے مضمون کا وہ حصہ یہاں شائع کیا جا رہا ہے جو سید منظور الحسن کے دلائل کی تنقید سے متعلق ہے۔ مدیر)

راقم الحروف نے غامدی صاحب کے ’تصور فطرت‘ کا ایک تنقیدی جائزہ لیا تھا جو کہ ماہنامہ ’الشریعہ‘ فروری ۲۰۰۷ میں شائع ہوا۔ غامدی صاحب کے ایک شاگرد رشید جناب منظور الحسن صاحب نے ہماری اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے غامدی صاحب کے ’تصور فطرت ‘کے دفاع میں ایک مضمون لکھا جو ماہنامہ ’الشریعہ‘ جولائی ۲۰۰۷ اور پھر ماہنامہ ’اشراق‘ اگست و ستمبر ۲۰۰۷ میں شائع ہوا۔ہمارے پیش نظر اس وقت منظور الحسن صاحب کی طرف سے غامدی صاحب کے ’تصور فطرت‘ کے دفاع میں لکھا جانے والا مضمون ہے۔ 
قرآن ‘سنت اور محققین اہل لغت کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت سے مراد وہ ابتدائی تخلیق ‘ پیدائشی حالت اور ہیئت ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور فطرت کے اس لغوی مفہوم پر اہل لغت کا اجماع بھی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ فطرت یعنی ابتدائی تخلیق یا ہیئت کیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو پیدا کیا ہے؟ اس بارے میں اہل علم کے مختلف اقوا ل ہیں۔ جمہور علماے محققین کے قول کے مطابق فطرت انسانی ایک قوت یااستعداد ہے کہ جس کے ذریعے انسان اسلام کے بنیادی حقائق‘اپنے رب کی معرفت اور حق وخیر کی طرف میلان محسوس کرتا ہے اور باطل وشر سے دور بھاگتا ہے۔اس کی سادہ سی مثال انسان کی قوت سماعت ہے جو پیدائش کے وقت ہر انسان میں بالقوۃ موجود ہوتی ہے اور جیسے جیسے انسان بڑا ہوتاجاتا ہے، اپنی اس قوت و صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے اپنی معلومات کو وسیع کرتا رہتا ہے۔ لیکن یہ ذہن میں رہے کہ مجرد قوت سماع کسی علم کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو علم کے حصول کا ایک ذریعہ یا صلاحیت ہے جو ہر انسان میں پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہے اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی فطرت یعنی پہلی ہیئت تخلیق یہ ہے کہ اس میں قوت سماعت موجود ہوتی ہے۔ لہٰذا قوت سماعت ‘ قوت بصارت اورقوت فکر وغیرہ کی طرح ہر انسان میں پیدائشی طور پر ایک قوت یا مَلکہ ایسا بھی موجود ہوتا ہے کہ جس کے ذریعے انسان پنی بلوغت کے بعد اپنے رب کی معرفت اورخیروحق بات کی طرف میلان اور شرو باطل سے ابا محسوس کر سکتاہے۔ لیکن یہ ذہن میں رہے کہ قوت سماعت کی طرح فطرت مجرد ایک صلاحیت، قوت یا استعداد کا نام ہے کہ جس کا کوئی تعلق علم سے نہیں ہے ۔
قرآن و سنت ‘لغت عرب اور اہل سنت کے مذہب کے مطابق فطرت نہ تو مأخذ علم ہے نہ ہی مصدر شریعت ‘بلکہ یہ ایک قوت اور صلاحیت ہے کہ جو ہر انسان میں پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہے۔ اس قوت اور صلاحیت کو استعمال کر کے انسان توحید ربوبیت کی معرفت حاصل کر سکتا ہے‘نبی کی دعوت کو حق سمجھ کر قبول کرتا ہے‘ ہرشرعی خیر کی طرف اپنے نفس میں ایک میلان محسوس کرتا ہے اور شریعت میں بیان کر دہ ہر شر سے اپنے نفس میں نفرت کرتا ہے اور اگر بیرونی و خارجی موانع و عوارض نہ ہوں تو ہر انسان بلوغت کے بعد اسی پیدائشی حالت پر برقرار رہے گا۔ جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک قرآنی معروف و منکر ‘ کھانے کی چیزوں میں طیبات و خبائث کا تعین فطرت انسانی سے ہوگا ‘ نیزفنون لطیفہ مثلا موسیقی ‘ رقص و سرود ‘مجسمہ سازی اور عشقیہ شاعری وغیرہ بھی فطرت کی بنیاد پر جائز ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ اہل سنت کا قرآن و سنت کی روشنی میں تصور فطرت غامدی صاحب کے تصور فطرت سے بالکل مختلف ہے۔
منظور الحسن صاحب نے غامدی صاحب کے تصور فطرت کے دفاع کے طور پر بعض آیات کو بطور دلیل بیان کیا ہے۔ ذیل میں ہم اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ منظور الحسن صاحب کے پیش کردہ دلائل کا مسلمہ اصول تفسیر کی روشنی میں حقیقی معنی و مفہوم کیا ہے ؟
پہلی دلیل: منظور الحسن صاحب نے سور ۃ الشمس کی آیات ’ونفس وما سوھا فألھمھا فجورھا وتقوھا‘ کو غامدی صاحب کے تصور فطرت کی دلیل بنایا ہے۔
ہمارا جواب یہ ہے کہ مفسرین نے اس آیت مبارکہ میں ’الہام‘ کے چار معانی بیان کیے ہیں:
۱) جمہور علما کا کہنا یہ ہے اس آیت مبارکہ میں’الہام‘ کا معنی واضح کرنے ‘بیان کرنے‘ بتلا دینے اور سمجھا دینے کے ہیں۔ کسی چیز کا خیر یا شر ہونا اللہ کے بتلانے اور واضح کرنے سے متعین ہوا لیکن اللہ کے بتلائے ہوئے خیر کو خیر اور شر کو شر سمجھنے کے لیے انسان نے اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں یعنی اپنی عقل و فطرت کو استعمال کیا۔امام ابن جریر طبریؒ لکھتے ہیں:
فبین لھا ما ینبغی لھا أن تأتی أو تذر من خیر أو شر أو طاعۃ أو معصیۃ (تفسیر طبری: سورۃ الشمس: ۷ تا ۸)
’’پس اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے اس چیز کو واضح کر دیا کہ کون سے خیر اور اطاعت کے کام اسے کرنے چاہئیں اور کون سے شر اور معصیت کے کاموں سے وہ اجتناب کرے۔‘‘
یہ رائے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ‘ قتادۃؒ ‘ مجاہدؒ ‘ ضحاکؒ ‘ مقاتل ؒ ‘ سفیان ثوریؒ ‘طبریؒ ‘واحدیؒ ‘ قرطبیؒ ‘ زمخشریؒ ‘ بیضاویؒ ‘فراء‘ جلال الدین محلیؒ ‘ شوکانیؒ ‘ مجد الدین فیروز آبادیؒ ‘ ابن عطیہؒ ‘ عز بن عبد السلامؒ ‘نسفیؒ ‘ الثعالبیؒ ‘ابن عادل الحنبلیؒ ‘أبو جعفر النحاسؒ ‘ ابو المظر بن السمعانیؒ ‘ بقاعیؒ ‘ أبو سعودؒ ‘ شنقیطیؒ ‘ سید طنطاویؒ ‘ أبو بکر الجزائریؒ ‘ ابن عاشورؒ ‘ علامہ صابونیؒ ‘نواب صدیق الحسن خانؒ ‘احمد مصطفی المراغیؒ ‘شیخ حسنین محمد خلوفؒ ‘ مفتی شفیع صاحبؒ ‘مولاناشبیر احمد عثمانیؒ ‘ مولاناثناء اللہ امرتسریؒ اور مولانا عبد الرحمن کیلانیؒ وغیرہم کی ہے ۔
۲) ’الہام ‘سے مراد توفیق اور خذلان ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مومن میں تقوی رکھ کر اسے نیکی کی توفیق دی اور کافر میں فجور رکھ کر اسے ذلیل کر دیا۔ یہ قول ابن زید ؒ کاہے۔ زجاج ؒ اور ابن عجیبہؒ نے بھی اسے اختیار کیا ہے۔ابن بطہؒ نے اس قول کی نسبت أبو حازم ؒ کی طرف بھی کی ہے۔ (شوکانی، فتح القدیر: سورۃ روم: ۳۰)
۳) ’الہام‘ سے مراد ساتھ لگا دینا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ اس کی بدبختی یا سعادت کو ساتھ لگا دیا ہے۔ یہ قول صحیح سند کے ساتھ ابن عباسؓ سے مروی ہے۔ امام حاکمؒ نے اس قول کو مستدرک حاکم میں بیان کرنے کے بعد صحیح کہا ہے اور اس قول کی صحت میں امام ذہبی ؒ نے امام حاکم ؒ کی موافقت کی ہے۔یہ قول سعید بن جبیرؒ سے بھی منقول ہے ۔علامہ بدر الدین عینیؒ کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا یہ قول اس آیت کا ایک مصداق ہے جیسا کہ بعض علما مثلا الشیخ مساعد بن سلیمان الطیار نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔ابن عباسؓ کے اس قول کی بنیاد مسئلہ قدر میں مروی ایک صحیح روایت ہے کہ جس کے آخر میں آپؐ نے ان آیات کی تلاوت کی ہے۔ لہٰذا اس قول کو ابن عباسؓ کے پہلے قول کے معارض نہ سمجھا جائے۔ صحابہؓ کا یہ معمول تھا کہ قرآن کی کسی آیت کی تفسیر سمجھانے کے لیے اس کے کسی ایک مصداق کی طرف اشارہ کر دیتے تھے جبکہ کسی دوسری مجلس میں اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اسی آیت کے کسی دوسرے مصداق کو بیان کردیتے تھے۔ سحابہؓ کی ایسی تمام تفاسیر اپنے مقام پر صحیح ہوتی ہیں۔بعض ناواقف لوگ صحابہؓ اور تابعینؒ کے ان تفسیری اقوال کے ظاہری اختلاف کو تعارض سمجھتے ہیں حالانکہ در حقیقت وہ اختلاف تنوع ہوتا ہے ۔
۴) ان آیات کاچوتھا معنی ان مفسرین نے کیا ہے جن میں تجدد کا عنصر کسی نہ کسی درجے میں پایا جاتا ہے اور یہ بات علما میں واضح ہے کہ یہ حضرات اپنے خلوص ‘تقویٰ‘ تدین اورامت مسلمہ کے لیے علمی و عملی خدمات کے باوصف قرآن کی تفسیر میں بہت سے مقامات پر ’فھم النصوص علی منہج السلف الصالحین‘ کے بالمقابل تجدد پسند ی کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ اس قول کے مطابق ’فألھمھا فجورھا وتقواھا‘ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نفس انسانی میں خیر و شر کا علم رکھ دیا ہے اور انسان پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنی عقل و فطرت سے معلوم شدہ خیر و شر کے علم کی اتباع کرے۔ اس فلسفے کو تفصیلاً امین احسن اصلاحی صاحب ؒ نے اپنی تفسیر تدبر قرآن میں بیان کیا ہے۔ سید جمال الدین قاسمی ؒ ‘ سید قطب شہیدؒ اور مولانا مودودیؒ کی تفاسیر میں موجود عبارات میں بھی اس قسم کے اشارات ملتے ہیں کہ یہ حضرات بھی اسی فکرکے حاملین میں سے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ چوتھی رائے غلط ہے اور اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
۱) اس آیت مبارکہ میں فطرت کا لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ ‘نفس‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔فطرت انسانی اور نفس انسانی میں بہت فرق ہے ۔قرآن و سنت کے مطابق ’فطرت ‘ سے مراد وہ قوت اور استعداد ہے کہ جس کی وجہ سے انسان خیر و شر اور حق و باطل کو پہنچانتا ہے، جبکہ ’نفس‘ سے مراد وہ روح ہے جوانسانی جسم میں داخل ہو کر اپنی تدبیر شروع کر دیتی ہے۔امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں :
و النفس ھی الروح المدبرۃ للجسم مثلا نفس الانسان اذا کانت فی جسمہ (مجموع الفتاوی‘ امام ابن تیمیہ‘جلد۴‘ص۱۱۸)
’’ ’نفس‘سے مراد وہ روح ہے جو انسانی جسم میں تدبیر کرتی ہے مثلاً انسان کا نفس جبکہ روح اس کے جسم میں ہو۔‘‘
’نفس‘ کی یہی تعریف امام اہل السنۃ ابن أبی العز الحنفیؒ نے شر ح عقیدہ طحاویہ میں بھی کی ہے۔ لہٰذا صحابہؓ و تابعین ؒ و جمہور مفسرین کی تفسیر صحیح ہے جو کہ قرآنی لفظ ’نفس‘ کے عین مطابق ہے کہ نفس انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا و رسل اور کتابوں کے ذریعے واضح کر دیا کہ اسے کس چیز کو اختیار کرنا چاہیے اور کس کو چھوڑنا چاہیے، جبکہ آیت کا وہ معنی مرادلینا جو چوتھے قول میں بیان ہوا ہے، اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ قرآن کے ظاہر کی تاویل کرتے ہوئے نفس کو فطرت کے معنی میں نہ لیا جائے۔ اور قرآن کی ایسی تاویل بغیر کسی دلیل کے جائز نہیں ہے، لہٰذا سورۃ الشمس میں ’نفس‘ سے مراد اس کا حقیقی معنی یعنی نفس انسانی ہے نہ کہ مجازی معنی یعنی فطرت ہے۔ علاوہ ازیں فطرت بھی اس صورت میں نفس کا مجازی معنی ہو گا جبکہ کلام عرب سے اس بات کے دلائل اور شواہد مل جائیں کہ اہل عرب نفس کو فطرت کے معنی میں استعمال کرتے تھے، اور ہمارے علم کی حد تک کلام عرب میں نفس کالفظ فطرت کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ۔
۲) غامدی صاحب کا بیان کردہ یہ مفہوم قرآن کی واضح نص کے خلاف ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَاللّٰہُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْءًا (النحل :۷۸)
’’اللہ تعالیٰ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حال میں کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے۔ ‘‘
امام ابن قیمؒ لکھتے ہیں کہ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے دین کا علم لے کر آیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَاللّٰہُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا ’’اللہ تعالیٰ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حال میں کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے ‘‘بلکہ حدیث سے مراد یہ ہے کہ انسان کی فطرت دین اسلام کی معرفت اور اس کی محبت کا تقاضا کرتی ہے۔‘‘ 
امام ابن قیمؒ کے علاوہ امام ابن تیمیہؒ ‘ امام قرطبیؒ اور ابن رجب حنبلیؒ نے بھی قرآن کی اس آیت کوا س مسئلے میں بطور دلیل بیان کیاہے کہ پیدا ئش کے وقت انسان کے پاس کسی قسم کا کوئی فطری علم نہیں ہوتا ‘ہم ان جلیل القدر أئمہ کی عبارات پیچھے بیان کر چکے ہیں۔ جناب منظور الحسن صاحب کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کی اس آیت کا یہ مفہوم قرآن کے سیاق و سباق کے خلاف ہے۔ منظور الحسن صاحب کے لیے پہلا جواب تو یہ ہے کہ کیاان کے خیال میں امام ابن تیمیہؒ ‘امام ابن قیمؒ ‘ امام قرطبیؒ اور ابن رجب الحنبلیؒ جیسے جلیل القدر مفسرین قرآن کے سیاق و سباق سے ناواقف تھے جو سبھی اس آیت کو بطور دلیل نقل کرتے چلے آئے ہیں؟ دوسرا جواب یہ ہے کہ جس کو منظور الحسن صاحب قرآن کا سیاق و سبا ق کہہ رہے ہیں، اس کی حیثیت ان کے ذاتی فہم سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ عربی زبان کا یہ معروف قاعدہ ہے کہ نفی کے سیاق میں جب نکرہ آئے تو وہ اپنے عموم میں نص بن جاتا ہے، لہٰذا ’لا تعلمون شیئا‘ میں نفی کے سیاق میں نکرہ ہے جس کا معنی یہ ہوگا کہ تمہارے پاس کسی قسم کا بھی علم نہ تھا اورقرآن کے اس قدر صریح مفہوم کی اپنے ذاتی فہم سے تخصیص کرنا جائز نہیں ہے۔ امام النحو أبو حیان الاأندلسیؒ اس کی تفسیر میں مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
و الأولی عموم لفظ شیء و لاسیما فی سیاق النفی (البحر المحیط: سورۃ النحل:۷۷)
’’راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ شے سے مراد اس کا عموم ہے جبکہ اس کے سیاق میں نفی بھی موجود ہے ۔‘‘
اسی طرح علامہ آلوسی ؒ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: 
و الظاہر العموم و لا داعی الی التخصیص (روح المعانی: سورۃ النحل:۷۷)
’’ظاہر نص یہی کہتی ہے کہ یہ آیت عام ہے اور اس کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ہے۔‘‘
چوتھا جواب یہ ہے کہ منظور الحسن صاحب ’وجعل لکم السمع و الأبصار و الأفئدۃ‘ کو ’واللہ أخرجکم من بطون أمھتکم لا تعلمون شیئا‘ کا سیاق بنا رہے ہیں، حالانکہ ’وجعل لکم السمع والأبصار و الأفئدۃ‘ کسی طرح بھی ’واللہ أخرجکم من بطون أمھتکم لا تعلمون شیئا‘ کا سیاق نہیں بن رہا ہے کیونکہ ’ و جعل...‘ میں ’واؤ‘ استیناف کا ہے اور ’وجعل لکم السمع و الأبصار والأفئدۃ‘ جملہ مستأنفہ ابتدائیہ ہے۔ اگر ’و جعل ...‘ کے ’واؤ‘ کو عطف کا واؤ مانیں تو پھربھی ’وجعل لکم السمع و الأبصار و الأفئدۃ‘ کا جملہ ’و اللہ أخرجکم من بطون أمھتکم لا تعلمون شیئا‘ کا معنوی سیاق نہیں بنتا کیونکہ انسان کی سماعت ‘ بصارت اور دل تو اس وقت بھی موجود تھے جبکہ وہ ماں کے پیٹ میں تھا، لہٰذا انسان اپنی قوت سماعت ‘ بصارت اور دل کے وجود کے ساتھ اپنی ماں کے پیٹ میں تھا اور وہ کچھ بھی نہیں جانتا تھا، پھر جب وہ اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا ہے تو اس وقت بھی وہ کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ اس آیت کے سیاق سے زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوتاہے کہ انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس کے پاس کسی قسم کا علم تو نہیں ہوتا لیکن ایسے آلات ضرور ہوتے ہیں کہ جن سے وہ علم حاصل کر سکتا ہے۔ امام رازیؒ لکھتے ہیں :
’’انسانی اپنی ابتدائی پیدائشی حالت میں جبکہ وہ پیدا ہوتا ہے‘ مختلف اشیا کے علم سے خالی ہوتا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بات کہی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے سماعت‘ بصارتیں اور دل بنائے‘اور اس کا معنی یہ ہے کہ انسانی نفوس چونکہ اپنی پیدائشی حالت میں اللہ کی معرفت اور اس سے متعلقہ علوم سے خالی ہوتے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ حواس عطا کیے ہیں تاکہ وہ ان کے ذریعے معارف اور علوم کو حاصل کرے۔‘‘ ( مفاتیح الغیب: سورۃ النحل: ۷۷)
۳) غامدی صاحب کا یہ بیان کردہ مفہوم حدیث کے خلاف ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
اَللّٰھُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاھَا وَزَکِّھَا اَنْتَ خَیْرٌ مَنْ زَکَّاھَا
’’اے اللہ تعالیٰ! تو میرے نفس کو اس کا تقویٰ(یعنی تقویٰ کی رہنمائی ) عنایت فرما دے اور اس کو پاک کر دے‘ بے شک تو پاک کرنے والوں میں بہترین پاک کرنے والاہے ۔ ‘‘
اگر ’فجور‘ اور’ تقویٰ ‘ انسانی فطرت میں داخل ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس تقویٰ کو مانگنے کی کیاضرورت ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دُعا اس آیت کے مفہوم کو واضح کر رہی ہے کہ اس آیت میں ’تَقْوٰی‘ سے مراد اس( تقویٰ) کی رہنمائی اور ’فجور‘ سے مراد اس( فجور) کی پہچان ہے جیسا کہ صحابہؓ و تابعینؒ نے بیان کیاہے۔منظور الحسن صاحب نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز بھی مانگی جا سکتی ہے جو کہ انسان کو حاصل ہو اور اس کی دلیل کے طور پر انہوں نے ’اھدنا الصراط المستقیم‘ کی آیت کو پیش کیا ہے کہ مسلمانوں کو ہدایت حاصل ہے وہ پھر بھی اللہ تعالیٰ سے ہر نمازمیں ہدایت مانگتے ہیں۔ منظور الحسن صاحب کو پہلا جواب تو یہ ہے ان کی اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے مسلمان بنایا ہے اور وہ پانچ وقت کی نماز میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ تعالیٰ تو مجھے مسلمان بنا دے، حالانکہ ایسی دعا کی امید و توقع کسی صاحب عقل سے نہیں کی جا سکتی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ منظور الحسن صاحب کو ’اھدنا الصراط المستقیم‘ کا صحیح مفہوم سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔ابن رجب الحنبلیؒ ’اھدنا الصراط المستقیم‘ میں بیان شدہ ہدایت کا مفہوم واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جہاں تک مومن کااللہ سے ہدایت طلب کرنا ہے ‘ تو اس کی دو قسمیں ہیں۔ایک مجمل ہدایت ہے اور اس سے مراد اسلام اور ایمان کی ہدایت ہے اور وہ ہر مومن کو حاصل ہے اور دوسری مفصل ہدایت ہے اور اس سے مراد ایمان اور اسلام کے اجزا کواس کی تفصیلات کے ساتھ جاننا ہے اور ان پر عمل کرنے کے لیے اللہ کی مدد کا طلب گار ہونا ہے ۔یہ وہ ہدایت ہے کہ جس کا ہر مومن دن رات میں محتاج ہے اور اسی ہدایت کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو پانچ وقت کی نماز میں یہ دعا پڑھنے کا حکم دیاہے ’اے اللہ !توہمیں سیدھا رستہ دکھا‘۔ اور اللہ کے رسول ﷺ بھی رات کی نماز میںیہ دعا کرتے تھے:اے اللہ !جن معاملات میں اختلاف کیا گیاہے ان میں حق بات کی طرف اپنے حکم سے تو میری رہنمائی فرما دے۔بے شک جس کو تو چاہتا ہے سیدھے رستے کی ہدایت عنایت فرماتا ہے۔ ‘‘ (جامع العلوم و الحکم: فصل الحدیث الرابع و العشرون)
۴) غامدی صاحب کا بیان کردہ مفہوم صحابہ کرامؓکی تفسیر کے خلاف ہے۔ امام طبری ؒ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباسؓکا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : ’یقول: بین الخیر و الشر‘، یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے خیر اور شر کو واضح کر دیا ہے ۔‘‘
اہل سنت میں اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ صحابہؓ اگر قرآن کی کسی آیت کا لغوی مفہوم بیان کریں تو اس کو قبول کرنا واجب ہے کیونکہ وہ قرآن کی لغت کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں جبکہ صحابہؓ کی تفسیر اجتہادی میں علما کا اختلاف ہے کہ اس کا قبول کرنا حجت ہے یا نہیں ۔یہاں پر ابن عباسؓ قرآنی لفظ ’الہام‘ کالغوی معنی بیان کر رہے ہیں کہ’ الہام‘ سے مراد’تبیین‘ ہے، لہٰذا ابن عباسؓ کی یہ تفسیر حجت ہے ۔
۵) غامدی صاحب کا بیان کردہ مفہوم جلیل القدر تابعین اور تبع تابعین کی تفسیر کے خلاف ہے۔امام طبری ؒ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت مج