2007

جنوری ۲۰۰۷ء

تجدد پسندوں کا تصور اجتہادمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی مدارس اور جدید تعلیمڈاکٹر محمد امین
’تحفظ نسواں ایکٹ‘ کتاب و سنت کے تناظر میںڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی
علامہ اقبال کا تصور اجتہاد اور علمائے کرامیوسف خان جذاب
حدیث نبوی میں ’اخوان‘ کا مصداقریحان احمد یوسفی
ذبیح حضرت اسماعیل یا حضرت اسحاق؟برہان الدین ربانی
مکاتیبادارہ
مولانا صفی الرحمن مبارک پوریؒعاصم نعیم
الشریعہ اکادمی کی سرگرمیاںادارہ

تجدد پسندوں کا تصور اجتہاد

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بخاری شریف میں ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم پہلی امتوں کے نقش قدم پر چلوگے، حتیٰ کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ (صحرائی جانور) کے بِل میں گُھسا ہے تو تم بھی ضرور گھسو گے۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ! کیا پہلی امتوں سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ’تو اور کون ہے‘؟
اس حدیث مبارک کی تشریح میں محدثین کرام نے مختلف پہلو ذکر کیے ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ یہود ونصاریٰ نے جس طرح توراۃ، انجیل اور زبور میں تحریفات کا راستہ اختیار کیا اوراللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں میں معنوی تبدیلیوں اور خدائی احکام کو اپنی خواہش کے سانچے میں ڈھالنے کے ساتھ ساتھ ان کے الفاظ تک بدل ڈالے اور آسمانی تعلیمات سے انحراف کی جو صورتیں انہوں نے اختیار کیں، مسلمانوں میں بھی ایسے گروہ ہوں گے جو اس ڈگر پر چلیں گے اور قرآن وسنت کی تعلیمات کو اپنی خواہش یا فہم ودانش کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اسی طرح کی صورتیں اختیار کریں گے۔ چودہ سو سال کی تاریخ گواہ ہے کہ اس کے لیے بیسیوں گروہ آئے جنہوں نے قرآن کریم کی آیات اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو نت نئے معانی پہنانے کی کوشش کی اور یہود ونصاری ٰ کی یاد تازہ کردی۔ البتہ قرآن وسنت کے الفاظ میں ردوبدل کی سہولت انہیں کبھی حاصل نہیں رہی، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت اپنے ذمہ لے کر اس کے ساتھ اس کی عملی تشریح کے طورپر جناب نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث وسنت کو بھی قیامت تک محفوظ رکھنے کا اہتمام کر دیا۔ اس لیے مسلمانوں میں ایسے گروہوں کا سارا زور معنوی تحریف پر صرف ہوتاچلا آرہاہے اور علامہ اقبالؒ کے بقول ’’خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں‘‘ کے مصداق قرآنی تعلیمات ایسے گروہوں کی تحریفی تلبیسات کا مسلسل شکار ہوتی چلی آرہی ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام کا حصہ ہے کہ امت مسلمہ کی غالب اکثریت اوراجتماعی دھارے نے اپنے لیے ’’اہل السنۃ والجماعۃ‘‘ کا ٹائٹل اختیار کرکے اس تحریف وتلبیس کے راستے میں بھی مضبوط اور ناقابل شکست دیوار کھڑی کررکھی ہے کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورجماعت صحابہ کو دین کی تعبیر وتشریح کا حتمی معیار تسلیم کرلینے کے بعد کسی ایسی تحریف وتلبیس کا راستہ کھلا نہیں رہ جاتاجس پر چل کر یہود ونصاریٰ کی طرح قرآن وسنت کو من مانے معانی اور خود ساختہ تعبیرو تشریح کا جامہ پہنایا جاسکے۔ البتہ یہ کشمکش مسلسل جاری ہے اور قیامت تک اسی طرح چلتی رہے گی۔ 
اس پس منظر میں ہمارے’’ تجدد پسند‘‘ دانش وروں کی فکری وعلمی کاوشوں پر نظر ڈالی جائے تو اس کا ایک اور دلچسپ پہلو سامنے آتاہے جس کا ہم آج کی محفل میں مختصر تذکرہ کرنا چاہ رہے ہیں اوروہ یہ کہ پندرہویں صدی عیسوی میں مغرب میں نصاریٰ کے بعض علما نے، جن میں جرمن مسیحی راہ نما مارٹن لوتھر سرفہرست ہیں، پاپائے روم کے خلاف بغاوت کی اور پاپائیت کے نظام کو چیلنج کرتے ہوئے بائبل کی تعبیرو تشریح کا ایک نیا سسٹم قائم کیا جس کی بنیاد پر پروٹسٹنٹ فرقہ وجود میں آیا اور پاپائے روم کے کیتھولک فرقہ کے ساتھ مارٹن لوتھر کے پروٹسٹنٹ فرقہ کی یہ کشمکش بائبل کی تعبیرو تشریح اور مسیحی تعلیمات کے سوسائٹی پر عملی اطلاق کے حوالہ سے مسلسل چلی آرہی ہے۔
ہمارے بعض دانش ور دوستوں کے دل میں بھی یہ خیال آیا کہ ہم آخر کیوں ایسا نہیں کرسکتے کہ دین کی تعبیرو تشریح کے اب تک صدیوں سے چلے آنے والے فریم ورک کو چیلنج کرکے اس کی نفی کریں اورمارٹن لوتھر کی طرح قرآن وسنت کی نئی تعبیرو تشریح کی بنیاد رکھیں چنانچہ انہوں نے بھی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کے جذبہ کے ساتھ مارٹن لوتھر کی’’ قدم بہ قدم ‘‘پیروی کا راستہ اختیار کیا اور قرآن وسنت کی تعبیر نو کے کام کا آغاز کر دیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا کام مارٹن لوتھر کی وفات کے فوراً بعد اکبر بادشاہ کے دور میں شروع ہوگیا۔ لوتھر کی وفات ۱۵۴۶ عیسوی میں ہوئی، جبکہ اکبر بادشاہ کی ولادت کاسن ۱۵۴۲ عیسوی ہے۔ گویا عالم اسلام میں لوتھر کے نقش قدم پر چلنے کے لیے جلال الدین اکبر، لوتھر کی زندگی میں ہی جنم لے چکاتھا۔
اکبر بادشاہ کی ابتدائی زندگی ٹھیٹھ مذہبی تھی، مگر درباری قسم کے علما اور دانش وروں کی مذبوحی حرکات نے اس کے دل میں یہ خیال پیداکیا کہ دین اسلام کو ایک ہزار سال ہوچکے ہیں اور اس کی تعبیرو تشریح پرانی ہوگئی ہے جس کی تجدید ضروری ہے اور اب کوئی ایسا ’’مجتہد مطلق‘‘ سامنے آنا چاہیے جو دین کی نئی تعبیرو تشریح کے لیے اتھارٹی کی حیثیت اختیار کرے اور اس کی بات کو دین کے معاملے میں فیصلہ کن تصور کیاجائے، چنانچہ اس نے اس مقصد کے لیے سب سے پہلے علما ے امت کے اس اجتہادی نظام کو چیلنج کیا جس نے دین کی تعبیرو تشریح کو ایک مربوط نظام سے وابستہ کیا ہوا تھا اور جس کی موجود گی میں دین کے کسی حکم کی کوئی ایسی تشریح ممکن نہ تھی جسے مارٹن لوتھر کی تعبیرات وتشریحات کی طرح ’’ری کنسٹرکشن‘‘ قراردیاجاسکے، چنانچہ اس نے اپنے لیے اجتہاد مطلق کا منصب ضروری خیال کیا اور خود اس کے ایک درباری عالم ملا عبدالقادر بدایونی نے ’’منتخب التوریخ ‘‘میں اس محضر نامے کا یہ متن نقل کیا ہے جس پر ملک بھر کے علماے کرام سے جبراً دستخط کرائے گئے، اور جنہوں نے دستخط کرنے سے گریز کیا، وہ ملا عبداللہ سلطان پوری ؒ اورملا عبد النبی گنگوہی ؒ کی طرح جلاوطنی اور شہادت کے مقام سے سرفراز ہوئے۔ اکبر بادشاہ کو ’’مجتہد مطلق ‘‘قراردینے کا محضر نامہ ملا عبدالقادر بدایونی کے بقول یہ ہے کہ :
’’خدا کے نزدیک سلطان عادل کا مرتبہ مجتہد کے مرتبہ سے زیادہ ہے اورحضرت سلطان کہف الانام امیر المومنین ظل اللہ علی العالمین ابو الفتح جلال الدین محمد اکبر بادشاہ سب سے زیادہ عدل والے، عقل والے اورعلم والے ہیں۔ اس بنیادپر ایسے دینی مسائل میں جن میں مجتہدین باہم اختلاف رکھتے ہیں، اگر وہ اپنے ثاقب ذہن اور رائے صائب کی روشنی میں بنی آدم کی آسانیوں کے پیش نظر کسی ایک پہلو کو ترجیح دے کر اس کو معین کر دیں اور اس کا فیصلہ کریں تو ایسی صورت میں بادشاہ کا فیصلہ قطعی اوراجماعی قرارپائے گا اوررعایا اور برایا کے لیے اس کی پابندی حتمی وناگزیر ہوگی۔‘‘
اس کے بعد جلال الدین اکبر نے ملا مبارک، ابوالفضل اور فیضی جیسے ارباب علم ودانش کی معاونت ومشارکت سے اسلام کی جو ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کی، وہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ اس تعبیر نو کی بنیاد اسلام کو محدود ماحول سے نکال کر مختلف مذاہب کے لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے، مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے اوراسلامی احکام وقوانین کو تقلید وجمود کے دائرے سے نکالنے کے تصور پر تھی اور خود اکبر بادشاہ کے درباری عالم ملا عبدالقادر بدایونی کی تصریحات کے مطابق اس کا عملی نقشہ کچھ یوں تھا کہ:
  • سورج کی پوجا دن میں چار وقت کی جاتی تھی ۔ 
  • بادشاہ کو سجدہ کیاجاتاتھا ۔ 
  • کلمہ طیبہ میں لاالٰہ الا اللہ کے ساتھ ’’اکبر خلیفۃ اللہ‘‘ کہنا لازمی کردیاگیاتھا۔ 
  • بادشاہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں سے درج ذیل عہد لیاجاتا تھا کہ ’’میں اپنی خواہش، رغبت اوردلی شوق سے دین اسلام مجازی اور تقلیدی سے علیحدگی اورجدائی اختیار کرتاہوں اور اکبر شاہی دین الٰہی میں داخل ہوتاہوں اور اس دین کے اخلاص کے چاروں مرتبوں یعنی ترک مال، ترک جان، ترک ناموس وعزت اور ترک دین کو قبول کرتاہوں۔‘‘
  • بادشاہ کے مرید آپس میں ملتے تو ایک ’’اللہ اکبر‘‘کہتا اور دوسرا جواب میں ’’جل جلالہ‘‘ کہتا۔ یہی ان کا سلام وجواب ہوتاتھا ۔
  • خط کے آغاز میں ’’اللہ اکبر‘‘ لکھنے کا رواج ڈالا گیا۔ 
  • سود اور جوئے کو حلا ل قرار دیاگیا، شاہی دربار میں جواگھر بنایا گیا اور شاہی خزانہ سے جواریوں کو سودی قرضے دیے جاتے تھے۔
  • شراب کی محفلوں میں فقہاے کرام کا مذاق اڑایاجاتا اور اکبر بادشاہ کا درباری ملا فیضی اکثر شراب پیتے وقت کہتاکہ یہ پیالہ میں فقہا کے ’’اندھے پن‘‘ کے نام پر پیتا ہوں ۔
  • ڈاڑھی منڈوانے کا حکم دیاگیا اور ڈاڑھی کا مذاق اڑانے کا رواج عام ہوا۔
  • غسل جنابت کو منسوخ کردیاگیا۔
  • ایک سے زیادہ شادی کو ممنوع قرار دیاگیا۔
  • سولہ سال سے کم عمر لڑکے اورچودہ سال سے کم عمر لڑکی کانکاح ممنوع قراردیاگیا۔
  • حکم صادر ہوا کہ جوان عورتیں جو کوچہ وبازار میں نکلتی ہیں، باہر نکلتے وقت چاہیے کہ چہرہ یا کھلا رکھیںیا چہرے کو اس وقت کھول دیاکریں۔
  • زنا کو قانوناً جائز قراردیاگیا اور اس کے لیے باقاعدہ قحبہ خانے بنائے گئے ۔
  • بارہ سال کی عمر تک لڑکے کا ختنہ کرانے کو ممنوع قراردیاگیا۔
  • مردہ کو دفن کرنے کے بجائے یہ حکم تھا کہ خام غلہ اور پکی اینٹیں مردہ کی گردن میں باندھ کر اس کو پانی میں ڈال دیاجائے اور جس جگہ پانی نہ ہو، جلا دیاجائے یا چینیوں کی طرح کسی درخت سے مردہ کو باندھ دیاجائے۔
  • سور اور کتے کے ناپاک ہونے کا مسئلہ منسوخ قراردیاگیا۔ شاہی محل کے اندر اور باہر یہ دونوں جانور رکھے جاتے تھے اور صبح سویرے ان کے دیکھنے کو بادشاہ عبادت خیال کرتا تھا۔
  • شیر اور بھیڑیے کا گوشت حلال کردیاگیا جبکہ گائے، بھینس، گھوڑے، بھیڑ اور اونٹ کا گوشت حرام قراردیاگیا۔
  • حکم صادر ہوا کہ کوئی ہندو عورت اگر کسی مسلمان مرد پر فریفتہ ہوکر مسلمانوں کا مذہب اختیار کر لے تو اس عورت کو جبراً وقہراً اس کے گھر والوں کے سپرد کیاجائے ۔
  • یہ حکم صادر ہوا کہ علوم عربیہ کی تعلیم ختم کردی جائے اور نجوم، طب، حساب اورفلسفہ کی تعلیم کو عام کیا جائے۔ عربی پڑھنا عیب سمجھا جانے لگا اور فقہ، تفسیر اورحدیث پڑھنے والے مردود ومطعون ٹھہرائے گئے۔ ملا عبدالقادر بدایونی کے بقول ان اقدامات کے نتیجے میں مدرسے اور مسجدیں سب ویران ہوئے، اکثر اہل علم جلا وطن ہوئے اور ان کی اولاد ناقابل جو اس ملک میں رہ گئی ہے، پاجی گیری میں نام پیدا کررہی ہے۔
  • ایسے حروف جو عربی زبان کے ساتھ مخصوص ہیں، مثلاً ث، خ، ع، ص، ض، ط، ظ، ان کو بول چال سے بادشاہ نے خارج کردیا ۔
  • ملا عبد القادر بدایونی نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے بارے میں اکبر بادشاہ کے ایک خطاب کا یہ حصہ نقل کیا ہے کہ آخر اس بات کو عقل کس طرح مان سکتی ہے کہ ایک شخص بھاری جسم رکھنے کے باوجود یکایک نیند سے آسمان پر چلا جاتاہے اور راز ونیاز کی نوے ہزار باتیں خدا سے کرتاہے، لیکن اس کا بستر اس وقت تک گرم ہی رہتاہے۔ تعجب ہے لوگ اس دعویٰ کو مان لیتے ہیں اور اسی طرح شق القمر وغیرہ جیسی باتوں کو بھی مان لیتے ہیں۔
  • احمد، محمد، مصطفی وغیرہ نام بیرونی کافروں اور اندرونی خواتین کی وجہ سے بادشاہ پر گراں گزرنے لگے۔ اپنے خاص لوگوں کے نام اس نے بدل ڈالے، مثلاً یار محمد خان اور محمد خان کو وہ ’رحمت‘ ہی کے نام سے پکارتاتھا ۔
  • علماے سو اپنی تصنیفات میں خطبہ سے بچنے لگے۔ صرف توحید اور بادشاہی القاب کے ذکر پر قناعت کرتے تھے۔ ان کی مجال نہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک زبان قلم پر لاتے۔
  • نماز، روزہ اور حج ساقط ہوچکے تھے اور دیوان خانہ میں کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ علانیہ نماز اداکرسکے۔
  • نماز، روزہ اور وہ ساری چیزیں جن کا تعلق نبوت سے ہے، ان کا نام’’تقلیدات ‘‘رکھا گیا یعنی یہ سب حماقت کی باتیں ٹھہرائی گئیں اور مذہب کی بنیاد عقل پر رکھی گئی۔
  • اسلام کی ضد اور اس کے توڑ پر ہر وہ حکم جو کسی دوسرے مذہب کا ہوتا، اس کو بادشاہ نص قاطع اور دلیل قطعی خیال کرتے۔ بخلاف اسلامی ملت کے کہ اس کی ساری باتیں مہمل، نامعقول، نوپیدا اور عرب مفلسوں کی گھڑی ہوئی خیال کی جاتیں۔
  • جس کسی کو اپنے اعتقاد کے موافق نہ پاتے، وہ بادشاہ کے نزدیک کشتنی، مردوداور پھٹکارا ہوا شمار ہوتا تھا اور اس کا نام ’’فقیہ ‘‘رکھ دیا جاتا تھا۔
مارٹن لوتھر نے پاپائیت اور ملوکیت کے خلاف بغاوت کی تھی اور اس کے کچھ واضح اسبا ب بھی تھے۔ پاپائے روم کو بائبل کی تعبیرو تشریح میں فیصلہ کن اتھارٹی کا درجہ حاصل تھا اور بات دلیل کی بجائے شخصیت کی بنیاد پر ہوتی تھی۔ پوپ کو خدا کا نمائندہ تصورکیا جاتاتھا اور اب بھی تصور کیا جاتا ہے۔ مغرب میں اندلس کی اسلامی معاشرت اوتعلیم کے نتیجے میں فکری بیداری پیدا ہوئی اور سائنسی علوم نے آگے بڑھنا شروع کیا تو کلیسا اس کی راہ میں مزاحم ہوا ۔پاپائیت نے بادشاہ اور جاگیردار کے ساتھ مل کر ظلم وجبر کی تکون قائم کردی اور سائنس کی ترقی کو کفر کے مترادف قراردیا۔ بادشاہ اور جاگیر دار کے مظالم کے خلاف عوام کا ساتھ دینے کے بجائے پوپ نے ظلم وجبر کا ساتھی بننے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے بغاوت پیدا ہوئی۔ پوپ کی طرف سے بائبل کی شخصی اور جانبدارانہ تعبیرو تشریح کی مزاحمت کے لیے مارٹن لوتھر آگے بڑھا اور جب دیکھا کہ پاپائیت اپنے عوام دشمن اورعلم دشمن طرز عمل میں کوئی تبدیلی پید اکرنے کے لیے تیار نہیں تو اس نے علم بغاوت بلند کرکے پاپائیت کی نفی کردی اور پروٹسٹنٹ فرقہ کی بنیاد رکھی جو مسیحیت کی تشکیل جدید اور بائبل کی نئی تعبیرو تشریح کی اساس بنی۔ مغرب کی معروضی صورت حال ایسی ہی تھی اور مغر ب کی یہ ضرورت تھی کہ وہاں یہ تبدیلی آئے، لیکن ہمارے مہربانوں نے یہ دیکھے بغیر کہ مغرب کے اس عمل کے لیے پائے جانے والے اسباب ہمارے پاس موجود ہیں یانہیں اورہماری معروضی صورتحال اس کی متقاضی ہے یا نہیں، صرف اس شوق میں کہ چونکہ مغرب نے اپنے مذہب کی تشکیل نو کی ہے اورمسیحیت کی تعبیروتشریح کے قدیمی فریم ورک کو مسترد کردیاہے، اس لیے ہمیں بھی یہ کام ضرور کرنا ہے اورجیساکہ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ پڑوسی کا منہ سرخ ہو تو اپنا منہ تھپڑ مار مار کر سرخ کرلیا جائے، ہم نے اپنے ہی منہ پر تھپڑ برسانا شروع کر دیے جو اب تک مسلسل برستے چلے جا رہے ہیں۔
ہمار ے جدت پسندوں نے دو مفروضوں پر اپنی فکری کاوشوں کی بنیاد رکھی۔ ایک یہ کہ انہوں نے مسیحیت کے پاپائی سسٹم کی طرح اسلام کی تعبیرو تشریح میں فقہا کے قائم کردہ فریم ورک کو بھی پاپائیت قرار دے دیا، حالانکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ پاپائیت میں فائنل اتھارٹی شخصیت کو حاصل ہے اور اسے خدا کا نمائندہ تصورکیاجاتاہے جبکہ اسلام میں خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ نے اپنے پہلے خطبہ میں اس بات کی یہ کہہ کر نفی کر دی تھی کہ میں قرآن وسنت کے مطابق چلوں گا تو میرا ساتھ دو اور اگر ٹیڑھا چلنے لگوں تو مجھے سیدھا کردو۔ یہ فرما کر حضرت صدیق اکبرؓنے شخصیت کے بجائے دلیل کی بالادستی کا اعلان کیا اور جب حضرت ابو بکر صدیق کو کسی نے خلیفۃ اللہ کہہ کرپکارا تو انہوں نے فوراً ٹوک دیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہوں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں۔ اس ارشاد کا مطلب بھی پاپائیت کے اس تصور کی نفی تھا کہ کوئی شخص خود کو خدا کا نمائندہ کہہ کر دین کی تعبیرو تشریح میں حتمی اتھارٹی قرار دینے لگے۔
پھر جن ائمہ کرام کے فقہی اصولوں پر سب سے زیادہ تنقید کی جاتی ہے، ان میں سے کسی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ان کی بات کو صرف اس لیے قبول کیا جائے کہ وہ بات امام ابو حنیفہ ؒ نے کہی ہے یا امام شافعیؒ نے کہی ہے یا امام مالکؒ نے کہی ہے یا امام احمد بن حنبل ؒ کا یہ قول ہے۔ اگر کوئی شخص تقلید کا یہ معنی سمجھتاہے تو وہ سرے سے اجتہاد اور تقلید کے مفہوم سے واقف نہیں ہے، اس لیے کہ امام ابوحنیفہ ؒ کی بات کو قبول کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی دلیل، قبول کرنے والے کے نزدیک زیادہ وزن رکھتی ہے اور امام شافعی ؒ کی بات کو ان کے پیروکار ترجیح دیتے ہیں تو اس کے پیچھے یہی ذہن کار فرما ہوتاہے کہ ا ن کی دلیل دوسروں سے زیادہ وزنی ہے۔
جب ہر امام کے پیروکار یہ کہہ کر ان کی بات کو قبول کرتے ہیں کہ ان کی بات صحیح ہے مگر اس میں خطا کا احتمال بھی موجود ہے اور جب یہ منظر سب کے سامنے ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ کے سامنے بیٹھ کر ان کے شاگرد ان سے اختلاف کررہے ہیں اور دلیل کی بنیاد پر ان کے قول کے بجائے اپنے استدلال کو ترجیح دے رہے ہیں تو اس سارے عمل کو پاپائیت کے مترادف قراردینے والے دوست یا تو پاپائیت کے مفہوم سے آگاہ نہیں ہیں اور یا پھر اجتہاد اور تقلید کے مسلمہ فریم ورک کے ادراک سے محروم ہیں، اس لیے کہ پاپائے روم کی بات کو قبول کرنے کی بنیاد ان کی شخصیت ہے اور ائمہ مجتہدین کے ا رشادات کو قبول کرنے کی اساس ان کی دلیل اور استدلال ہے۔ اتنی واضح سی بات اگر کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تو اس میں اجتہاد اور تقلید کے فریم ورک کا کیا قصور ہے؟
اس حوالے سے ہمارے جدت پسندوں کا دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ دین کی تعبیرو تشریح کے لیے اس کی تعبیر وتشریح کے پرانے فریم ورک کو چیلنج کرنا اور اس کی نفی کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ مارٹن لوتھر نے ایسا ہی کیاتھا جبکہ دین کی تعبیرو تشریح کے پرانے فریم ورک نے جسے اجتہاد اور تقلید کے نظام سے تعبیر کیا جاتا ہے، کبھی پاپائیت کی طرح وقت کی ضروریات کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرنے سے انکار نہیں کیا اور جب بھی ضرورت پیش آئی ہے، اجتہاد اور تقلید کے نظام میں ایسی لچک اورگنجائش موجود رہی ہے کہ وقت کے تقاضوں کو اس میں سمویا جا سکے اور چودہ سو سال کے طویل دور میں کسی ایسے مرحلے کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی کہ اجتہاد اور تقلید کے روایتی نظام نے قرون مظلمہ کی پاپائیت کی طرح علم کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہو، سائنس کے ارتقا کی مخالفت کی ہو، جاگیردار اور بادشاہ کی طرفداری اس طرح کی ہو کہ پورے کا پورا سسٹم ظلم وجبر کا پشت پناہ بن گیا ہو۔ افراد کی بات الگ ہے، ظالم حکمرانوں کو افراد ضرور ایسے ملتے رہے ہیں جو دین کے نام پر ان کے ظلم وجبر کو سند جواز فراہم کرتے رہے ہیں، لیکن پاپائیت کی طرح دین کی تعبیرو تشریح کا پورا نظام ظلم و جبر کا ساتھی بن گیا ہو، اس کی ایک مثال بھی پوری تاریخ اسلام میں پیش نہیں کی جاسکتی، جبکہ اس کے برعکس اسلام کے مجتہدین نے حق کی خاطر ،عوام کے حقوق کی خاطر، اور ظلم وجبر کے خلاف ہر دو ر میں جیلیں آباد کی ہیں، پھانسی کے تختے کو چوما ہے اور ظلم وجبر کا حوصلہ واستقامت کے ساتھ مقابلہ کیاہے۔ اس لیے دین کی تعبیر وتشریح اور اجتہاد وتقلید کے روایتی نظام کو کسی بھی حوالہ سے پاپائیت سے تشبیہ دینا درست نہیں ہے اور ایسا کرنا صریحاً ظلم اور ناانصافی کے زمرے میں آتاہے مگر ہمارے جدت پسند مہربان پورے زور کے ساتھ اسے پاپائیت قراردینے پر مصرہیں، صرف اس لیے کہ دین کی تعبیرو تشریح کے روایتی نظام اورفریم ورک پر پاپائیت کی پھبتی کسے بغیر اسے چیلنج کرنے اور اسے مسترد کرکے دین کی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کا نعرہ لگانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔
اس حوالے سے ابھی بہت کچھ کہنے کی گنجائش بلکہ ضرورت ہے، اور ان شاء اللہ وقتاً فوقتاً ہم اس پر اظہار خیال کرتے رہیں گے۔ سرِدست جناب نبی اکرم ﷺ کے اس ارشاد گرامی کی روشنی میں کہ’’تم یہود ونصاریٰ کی قدم بہ قدم پیرو ی کروگے ‘‘ اس کے صرف ایک پہلو کی طرف ہم قارئین کو توجہ دلا رہے ہیں کہ مارٹن لوتھر نے جو کچھ مسیحیت کی تعبیر نو کے لیے ضروری سمجھا، اس سے قطع نظر کہ ہمارے ہاں اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں اورہمارے ہاں وہ اسباب جنہوں نے مارٹن لوتھر کو اس کام کے لیے مجبور کیاتھا، پائے بھی جاتے ہیں یا نہیں، اس کی پیروی کو ہر حال میں ضروری تصورکیا جارہاہے۔ کیا’’قدم بہ قدم پیروی‘‘ کی ا س سے بہتر کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے؟

دینی مدارس اور جدید تعلیم

ڈاکٹر محمد امین

حیدر آباد سے شائع ہونے والے ماہنامہ بیداری کے مدیر شہیرجناب محمد موسیٰ بھٹو صاحب نے اپنے جریدے کے ستمبر کے شمارے میں مدیر الشریعہ جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب کی شخصیت پر قلم اٹھایا ہے اور اپنے مخصوص اسلوب میں (جس میں وہ شخصیات کو اہم مسائل پر ان کے موقف کے حوالے سے زیربحث لاتے ہیں) دینی مدارس میں اصلاح اور بہتری کے ضمن میں مولانا زاہد الراشدی (اور بعض دیگر اہل علم) کے اس موقف سے اختلاف کیا ہے جس کی رو سے وہ دینی مدارس میں جدید تعلیم کے شمول کے حامی ہیں۔ چونکہ ہم بھی کئی برسوں سے (تحریک اصلاح تعلیم ٹرسٹ کے تحت) پاکستان کے نظام تعلیم و تربیت میں جدید تعلیم میں اصلاح کے علاوہ) دینی مدارس کے نظام میں عصری تقاضوں کے حوالے سے اصلاح و بہتری کے لیے نہ صرف سوچ رہے ہیں بلکہ جو کچھ ہم سے ہوسکے عملاً کر بھی رہے ہیں، اس لیے جو موضوع موسیٰ بھٹو صاحب نے چھیڑا ہے، اسے آگے بڑھاتے ہوئے ہم بھی اپنی کچھ معروضات اہل فکر و نظر کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں۔
دینی مدارس میں جدید علوم کی تعلیم دی جائے یا نہ دی جائے؟ اس سے فائدہ ہوگا یا نقصان؟ اور اگر دی جائے تو کس سطح پر ، کتنی اور کیسے دی جائے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا آج دینی مدارس چلانے والے علماء کرام اور دینی موضوعات و مسائل پر سوچنے والے دینی اسکالرز کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مغرب کا دباؤ

ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اس بحث یا مسئلے کا فوری محرک مغرب کا دباؤ ہے جو بظاہر مطالبہ یہ کر رہا ہے کہ دینی مدارس میں جدید تعلیم دی جائے کیونکہ اس کی رائے میں دینی مدارس میں جو دینی تعلیم اس وقت دی جاتی ہے اور جس طرح دی جاتی ہے اس سے انتہا پسندی اور دہشت گردی جنم لیتی ہے۔ اس لیے مدارس کے ماحول میں روا داری اور کھلاپن پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ معاشرے کے مرکزی دھارے میں کھپ سکیں۔ یہ مغرب کا ظاہری موقف ہے لیکن متعدد عوامل سے اندازہ ہوتا ہے کہ بباطن اس کی خواہش یہ ہے کہ دینی مدارس کو غیر موثر کر دیا جائے اور ہوسکے تو ختم ہی کر دیا جائے کیونکہ وہ ایسی شخصیت پیدا کرتے ہیں جو مغربی تہذیب کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کرتی۔ ہمارے ناعاقبت اندیش حکمران مغرب کا یہ دباؤ بلاسوچے سمجھے آگے دینی مدارس تک منتقل کر دیتے ہیں اور جیسا کہ ہم سب کے علم میں ہے کہ حکومت پاکستان نے دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ان کے نصابات کی تبدیلی کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں اور مزید کیے جا رہے ہیں اور دینی تعلیم کے وفاقوں کے سربراہوں کے ساتھ ان کے مذاکرات اور مباحثات ہوتے رہتے ہیں۔ ان مذاکرات کا عمومی رخ یہی ہوتا ہے کہ حکومت اپنے مطالبات منوانے پر زور دیتی ہے اور اہل مدارس کا رویہ مزاحمت کا ہوتا ہے۔ تاہم پچھلے دنوں، ہماری معلومات کی حد تک، مدارس کی اعلی رابطہ کمیٹی نے حکومت کے سامنے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ دینی مدارس ان طلبہ کو جو میٹرک پاس نہیں ہیں، میٹرک پاس کروانے کا اہتمام کریں گے۔ لیکن ہمارا مشاہدہ یہ ہے اور بڑے مدارس کی اکثریت نے اپنے طلبہ کے لیے شام کے وقت میٹرک کے علاوہ ایف اے اور بی ا ے کے مضامین کی تدریس اور امتحانات کی تیاری کا اہتمام بھی شروع کر دیا ہے۔

مخلصانہ مساعی

اب ذرا دوسری طرف آئیے۔ کئی علماء کرام اور دینی اسکالرز جو موجودہ حالات میں دینی مدارس کے کردار کو زیادہ موثر بنانے کے خواہاں ہیں۔ ماضی میں یہ سوچتے رہتے ہیں اور اب بھی سوچتے ہیں کہ مدارس کے نظام تعلیم و نصاب میں عصری حوالے سے اصلاح و تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور کم از کم یہ تو ہونا ہی چاہیے کہ علماء کرام جدید مغربی افکارو علوم کی کنہ و ہیئت سے واقف ہوں کیونکہ جب تک وہ ان کی حقیقت کو نہیں سمجھیں گے ان کا رد بھی نہیں کر سکیں گے۔
دوسروں کو چھوڑیے خود ہم نے ۲۰۰۰ء میں لاہور میں دینی وفاقوں کے ذمہ داران کے ساتھ مل کر ۱۸ ماہ کی محنت سے دینی مدارس کے نظام تعلیم کے حوالے سے ایک اصلاحی پیکج بنا کر ان سے منظور کروایا اور متبادل نصاب بھی بنا کر پیش کیا۔ اس کے بعد ہم نے ۲۰۰۴ء سے دینی مدارس کے اساتذہ کی تربیت کا پروگرام بھی شروع کر رکھا ہے جس میں طرق تدریس کے علاوہ انگریزی زبان اور مغربی فکرو تہذیب اور علوم کا تعارفی مطالعہ بھی شامل ہے۔ اندریں حالات جب ہم نے مدارس میں جدید تعلیم کی قبولیت اور مدارس کے اپنے زیر اہتمام میٹرک، ایف اے، بی اے کے امتحانات دلوانے کا رحجان دیکھا تو ہمیں تشویش ہوئی۔ چنانچہ ہم نے پچھلے سال مولانا زاہد الراشدی صاحب کو تجویز دی کہ آیئے مل کر لاہور میں دینی مدارس کا ایک کنونشن منعقد کرتے ہیں اور یہ مسئلہ وہاں زیر بحث لاتے ہیں کہ دینی مدارس کے جدید علوم کو اسی صورت میں جیسے کہ وہ اس وقت پاکستان کے جدید تعلیمی اداروں میں پڑھائے جا رہے ہیں، اپنا لینے کے نتائج کیا نکلیں گے؟ کیونکہ ہمارے نزدیک دینی مدارس کی اس جدید روش میں بہت سے خطرے پنہاں ہیں اس لیے کہ ہمارے ہاں جدید تعلیم مغربی فکرو تہذیب کا محض چربہ ہے او رمغرب کی فکر اپنی اصل میں ملحدانہ ہے لہٰذا مغرب میں سارے علوم کی اٹھان اور ان کا مواد و ہیئت الحادی اور غیر اسلامی ہے۔ ملحدانہ فکر پر مبنی ان علوم نے جدید تعلیم کے راستے مسلم فکر اور مسلم معاشرے کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور مسلمانوں کی دین سے دوری اور ان کے بے کرداری کا سب سے بڑا سبب یہی جدید تعلیم ہے لہٰذا ہمارے نزدیک یہ بہت خطرناک امر ہے کہ دینی مدارس نے انہی جدید علوم کو اپنے مدارس میں پڑھانے اور ان کا امتحان دلوانے کا اہتمام شروع کر دیا ہے۔ مولانا زاہدالراشدی صاحب نے، جن کی ان معاملات پر خوب نظر ہے، بلکہ وہ خود بھی فارغ التحصیل علماء کرام کے لیے ایک سالہ کورس منعقد کرتے ہیں، جس میں جدید علوم کا تعارفی مطالعہ انہیں کرواتے ہیں، ہماری اس تجویز کو قبول کر لیا لیکن عملاً کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ پھر ہم نے چند ماہ پیشتر دینی مدارس کے سارے وفاقوں کے سربراہوں اور ناظمین اعلیٰ کو ایک خط لکھا اور اس صورت حال میں مضمر خطرناک پہلوؤں کی طرف ان کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے انہیں اس موضوع پر مل بیٹھنے اور اس کاحل سوچنے کی دعوت دی اور یہ پیشکش بھی کی کہ اگر اصحاب وفاق چاہیں تو ہم تحریک اصلاح تعلیم ٹرسٹ کی طرف سے جدید علوم کی ایسی کتب مدون کر کے دے سکتے ہیں جن میں مغرب کی ملحدانہ فکر کا زہر نہ ہو اور وہ ٹھیٹھ اسلامی نقطۂ نظر پر مبنی ہوں۔ اس کے جواب میں وفاق المدارس العربیۃ کے ناظم اعلیٰ جناب مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب نے ہمیں ایک مدافعانہ قسم کا جواب دیا اور اس کی کاپیاں سارے وفاقوں کے صدور و ناظمین کو بھجوائیں، جس سے ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ معاملے کی خطرناکی اور گہرائی تک ان کی نظر نہیں پہنچی۔ دریں اثناء ہمارے بعض شرکاء کار نے ہمیں ڈرایا کہ اگر و فاقوں نے سچ مچ ہمیں یہ کام کرنے کا کہہ دیا تو اس کام کے لیے جو وسیع مادی وسائل درکار ہیں وہ ہمیں میسر نہیں ہیں (اور شاید وفاق بھی وہ مہیا نہ کر سکیں) مزید یہ کہ ہم خود ایک دوسرے بڑے دینی پراجیکٹ میں مصروف تھے،چنانچہ ان حالات میں ہم نے خاموش رہنا مناسب سمجھا۔ اب موسیٰ بھٹو صاحب نے یہ موضوع چھیڑا ہے تو ہم نے مناسب سمجھا کہ اس معاملے کو دوبارہ اٹھائیں تاکہ اس کے فکری اور عملی پہلو زیادہ واضح ہو کر سامنے آسکیں۔

عصری تقاضے

ہمارے نقطۂ نظر سے مغرب کے دباؤ سے قطع نظر دینی مدارس کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ عصری تقاضوں کے حوالے سے موثر علماء کیسے تیار کیے جائیں؟ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس چیز کا تعین کر لیا جائے کہ یہ ’’عصری تقاضے‘‘ کیا بلا ہیں اور ان کی کیا اہمیت ہے؟ کیونکہ بہت سے علماء کرام یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے تو قرآن و حدیث پڑھانا ہے، ہمیں عصری تقاضوں سے کیا لینا؟ دیکھیے ! دین نام ہے اس ہدایت کا ہے جو اللہ تعالیٰ بندوں کو اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے عطا فرماتا ہے تو گویا دین کا ہماری دنیوی زندگی سے گہرا ربط اور تعلق ہے بلکہ دین ہے ہی زندگی گزارنے کا لائحہ عمل تاکہ انسان دنیا کی یہ زندگی اللہ کے احکام کے مطابق اس کی عبادت و اطاعت میں گزارے تاکہ آخرت میں اس کی خوشنودی سے بہرہ ور ہوسکے۔
پیغمبر کتاب کی جو تبیین کرتا ہے وہ بھی اس ہدایت کو معاشرے کے زندہ حقائق سے مربوط کرنے کاہی ایک ذریعہ ہوتی ہے۔ لہٰذا دین کس مجرد ہدایت کا نام نہیں جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہ ہو بلکہ زندہ مسلم معاشرہ ہی دین کا ہدف اور نمائندہ ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم کردہ مدنی معاشرہ اسلام کے استحکام اور اشاعت کا سبب بنا کیونکہ وہ صحیح اسلام کا نمائندہ تھا اور آج چونکہ صحیح اسلامی فرد اور معاشرہ موجود نہیں اس لیے غیر مسلم اسلام سے متاثر نہیں ہوتے حالانکہ ہمارے پاس وہی قرآن و سنت موجود ہیں جو صحابہ کرامؓ کے پاس تھے۔ خلاصہ یہ کہ دین کو عصری حوالے کے بغیر پیش کیا ہی نہیں جاسکتا۔
یہاں ہمیں دینی مدارس چلانے والے علماء کرام کی فطانت سے توقع ہے کہ وہ دو چیزوں میں فرق کریں گے ، ایک ہے تقدس اور دوسرے ہے قدامت۔ قرآن و سنت میں تقدس قدامت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ وہ ہمارے دین کا مآخذ ہیں اور ان کی نصوص ناقابل تغیر ہیں۔ ان کے علاوہ جتنے علوم ہیں وہ محض اپنی قدامت کی وجہ سے ’مقدس‘ نہیں ہوسکتے بلکہ ان کی اہمیت کی وجہ ان کی افادیت ہی ہوسکتی ہے اور اس افادیت میں زبان و مکان کے تغیر سے کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ ہم چند مثالوں سے اپنی بات کی وضاحت کریں گے:
۱۔ دینی مدارس میں جو فلسفہ پڑھایا جاتا ہے وہ یونانی فلسفہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ یونانی فلسفہ مسلمانوں کے لیے چیلنج تھا۔ آج یونانی فلسفے کی بجائے مغربی فلسفہ ہمارے لیے چیلنج ہے تو ہم یونانی فلسفے کی بجائے مغربی (یورپی و امریکی) فلسفہ کیوں نہ پڑھیں پڑھائیں؟
۲۔ برصغیر میں مسلم نظام تعلیم کے انگریزوں کے ہاتھوں خاتمے کے وقت ذریعۂ تعلیم فارسی زبان تھی اور اس وقت صرف و نحو اور دوسرے علوم فارسی میں پڑھائے جاتے تھے۔ آج فارسی زبان ہمارے ہاں غیر متداول ہوگئی ہے تو ہم کیوں اصرار کریں کہ اسے ہی ذریعۂ تعلیم ہونا چاہیے اور یہ ضروری ہے کہ صرف و نحو کی کتابیں فارسی ہی میں رہیں۔ پہلے ہم اپنے بچوں کو فارسی پڑھائیں اور پھر فارسی میں لکھی گئی صرف و نحو کی کتابیں!
یہ دو مثالیں ہم نے محض بطور نمونہ مشتے از خروارے دی ہیں ورنہ ایسی چیزوں کی فہرست کافی طویل ہے جو مدارس میں عصری حوالے سے تبدیل کیے جانے کے لائق ہیں اور قرآن و سنت کی طرح مقدس اور ناقابل مس (Untouchable) نہیں ہیں کہ ہم ان کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے۔ بلکہ ہم تو عرض کرتے ہیں کہ مدارس میں علوم القرآن و علوم السنہ کے نصابات میں بھی تغیر کی ضرورت ہے اور ان کے طریق تدریس میں بھی اور ہم کوئی نئی بات نہیں کر رہے۔ اہل علم ہمیشہ ان باتوں پر غور کرتے رہے ہیں ، مثلاً علامہ ابن خلدون نے اپنے مشہور عالم ’مقدمہ‘ میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ مبحث بھی چھیڑا ہے کہ قرآن حکیم کی تعلیم بچے کو کس عمر میں دینی چاہیے؟ عربی زبان کی باقاعدہ تعلیم سے پہلے یا بعد؟ پھر دونوں صورتوں کے بارے میں تفصیل دی ہے کہ اسلامی دنیا کے کن ممالک میں پہلی صورت پر ، عمل ہوتا ہے اور کن ممالک میں دوسری صورت پر، اور دونوں کے فائدے اور نقصانات کیا ہیں؟
تو بات عصری تقاضوں کی ہورہی تھی کہ کبھی عصری تقاضا یہ تھا کہ مدارس میں یونانی فلسفہ اور اس کا رد پڑھایا جائے، آج عصری تقاضا یہ ہے کہ یونانی فلسفے کی بجائے (یا اس کے ساتھ) مغربی فلسفہ اور اس کا رد پڑھایا جائے۔ کبھی عصری تقاضا یہ تھا کہ فارسی ذریعۂ تعلیم ہو، آج عصری تقاضا یہ ہے کہ فارسی ذریعۂ تعلیم نہ ہو بلکہ پاکستان میں اردو ہو، برطانیہ میں انگریزی ہو اور ایران میں فارسی ہو وغیرہ۔ آج عصری تقاضے کیا ہیں ہم چند اہم امور کی طرف اشارات پر اکتفا کرتے ہیں:
۱۔ مسلمان پہلے غالب تھے، آج مغلوب ہوگئے۔ (ایک ضمنی بات۔ ہمارے بس میں ہو تو دینی مدارس کے آخری سالوں میں ایک نئے مضمون کا اضافہ کریں جس میں یہ مسئلہ تفصیل سے زیربحث آئے کہ مسلمان امت کو زوال کیوں آیا اور وہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ کیسے حاصل کر سکتی ہے؟ اور یہ کہ ہمارا تعلیمی نظام اس کا کس حد تک ذمہ دار ہے؟)
۲۔ مغربی فکر اور تہذیب اور اس کے علوم جو لادینیت اور الحاد پر مبنی ہیں آج دنیا پر غالب آگئے ہیں۔
۳۔ مسلم معاشرہ مغربی فکر و تہذیب کے اثرات قبول کر رہا ہے۔ اس کا نظام تعلیم، نظام قانون، نظام معیشت ، طرز معاشرت غرض سب کچھ تغیر کی زد میں ہے۔
۴۔ مغرب کا تصور دین ہم سے مختلف سے لیکن مغرب کے تہذیبی اور سیاسی غلبے کی وجہ سے وہ ہمارے تصورِ دین کو بھی متاثر کر رہا ہے۔
مندرجہ بالا صرف چند کلیات ہیں۔ ان کے تقاضے کیا ہیں مثلاً علماء کرام اگر مغرب کی ملحدانہ فکر و فلسفے کا رد کرنا چاہتے ہیں اور مسلم معاشرے کو اس کے اثرات بد سے بچانا چاہتے ہیں تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے ان کا مطالعہ کیا جائے اور انہیں سمجھا جائے۔ یہ علوم انگریزی میں ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ انگریزی زبان سیکھی جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا علماء کرام اس نصابی تغیر کے لیے تیار ہیں؟
فقہ کی مثال لیجیے۔ ائمہ اربعہ نے جب فقہی احکام مرتب کیے تھے تو اس وقت کے حالات اور اس وقت کے مسائل ان کے پیش نظر تھے۔ آج نہ وہ حالات ہیں اور نہ وہ مسائل۔ آج عصری تقاضا یہ ہے کہ آج کے حالات اور آج کے مسائل پر غور کیا جائے اور ان کا فقہی حل دریافت کیا جائے۔ کیا دینی مدارس نے اس تغیر کو قبول کیا ہے اور جدید مسائل پر غور وفکر کو اپنے نصاب میں شامل کیا ہے؟

جدید تعلیم کے نصاب کی اہمیت

یہ باتیں ہم نے صرف اس لیے کی ہیں کہ علماء کرام اس بات پر غور فرمائیں کہ عصری تقاضوں کی وجہ سے دینی مدارس کے نظام و نصاب تعلیم میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس اصولی اور عمومی بحث کے بعد اب آئیے دینی مدارس میں جدید علوم کی تدریس کے معین سوال کی طرف۔
  • کیا دینی مدارس کے طلبہ کو مغربی فکرو علوم کا تعارفی مطالعہ اور انگریزی زبان پڑھانی چاہیے؟ ہمارا جواب ہے ، ’’ہاں‘‘۔ 
  • کیا دینی مدارس کو اس غرض سے وہ کتابیں پڑھائی جائیں جو جدید تعلیمی اداروں میں میٹرک، ایف اے ، بی اے ، ایم اے میں مروج ہیں۔ ہمارا جواب ہے ’’بالکل نہیں‘‘۔
ممکن ہے آپ کہیں کہ ہمارے جواب میں تضاد ہے۔ ہم کہتے ہیں با لکل نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ مسئلے کو پوری طرح سمجھا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مغرب کی ملحدانہ اور غیر اسلامی فکر و تہذیب اس وقت دنیا پر غالب ہے۔بدقسمتی سے مسلم معاشرے خصوصاً مسلم حکمرانوں کی کمزوری سے آج کے مسلم معاشرے میں مروج جدید تعلیم اسی مغربی ملحدانہ اور غیر اسلامی فکر پر مبنی ہے۔ اب اگر دینی مدارس نے بھی اسی الحادی مغربی فکر و فلسفے کے تحت مرتب کی گئی کتب کو اپنے ہاں پڑھانا شروع کر دیا تو لامحالہ جلد یا بدیر وہ بھی انہی ساری خرابیوں کا شکار ہوجائیں گے جنہوں نے ہماری جدید تعلیم بلکہ ہمارے معاشرے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے اور اس کے اسلامی افکار و اقدار کو متزلزل اور مضمحل کر کے رکھ دیا ہے۔
یہ بات جو ہم کہہ رہے ہیں کہ غلط اور غیر اسلامی نصاب تعلیم انسانی شخصیت کو مسخ کر دیتا اور معاشرے کو تباہ کر دیتا ہے، ممکن ہے عام لوگ نہ سمجھیں لیکن دینی مدارس کے اہل حل و عقد کو ضرور یہ بات سمجھ میں آجانی چاہیے کیونکہ وہ خود معلم ہیں اور جانتے ہیں کہ جیسی تعلیم ہوتی ہے ویسی ہی ذہنیت اور شخصیت اور ویسے ہی افراد بنتے ہیں اور یہ کہ قوموں کے عروج و زوال اور ان کے بناؤ اور بگاڑ میں تعلیم اور نصاب بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ لہٰذا انہیں خدا کے لیے معاملے کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے۔ 
خلاصہ یہ کہ دینی مدارس کو میٹرک، ایف اے ، بی اے کی مروجہ کتب نہیں پڑھانی چاہئیں بلکہ ان کی جگہ انہیں خود ایسی کتب مرتب کرنی اور کروانی چاہئیں جو مغربی فکر و تہذیب کے زہر سے آلودہ نہ ہوں۔ اگر وہ اس کا ارادہ اور ہمت کر لیں تو یہ مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔ عملاً اس کی دو صورتیں ممکن ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ جدید علوم اپنے طلبہ کو اپنے نظام کے اندر رہ کر پڑھائیں اور اسے حکومتی ڈگری سے متعلق نہ کریں تو وہ پھر بالکل آزاد ہیں کہ جو کتب چاہیں وہ اپنے ہاں لگائیں اور پڑھائیں، حکومت پاکستان کو اس سے سروکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے توخوش ہونا چاہیے کہ دینی مدارس جدید علوم پڑھائیں گے۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مدارس اپنی خصوصی حیثیت کے پیش نظر میٹرک، ایف اے، بی اے کی اپنی مرتب کردہ کتب حکومت پاکستان سے منظور کروا لیں۔ ان کتب کو اس طریقے سے مرتب کیا جاسکتا ہے کہ وہ حکومتی نصاب کے خلاف بھی نہ ہوں لیکن ان میں مغربی تہذیب کا زہر بھی نہ ہو اور وہ اسلامی تقاضوں کے بھی مطابق ہوں (یہ ایک فنی کام ہے اور پیشہ ورانہ مہارت کا تقاضا کرتا ہے اور ہم اپنی اس پیشکش پر قائم ہیں کہ ہم مدارس کے لیے یہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔

مقاصد تعلیم میں وسعت کا مسئلہ

دینی مدارس میں جدید تعلیم کے حوالے سے یہاں ایک اور اہم سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کیا دینی مدارس اپنے مقاصد تعلیم میں وسعت پیدا کرنے کے لیے تیار ہیں؟ دوسرے لفظوں میں کیا اب بھی وہ صرف مساجد اور مدارس کے لیے علماء تیار کرنا چاہتے ہیں یا معاشرے کو اسلامی خطوط پر چلانے کے لیے اہم شعبوں کے ماہرین پیدا کرنا بھی ان کے پیش نظر ہے؟ اس سوال کی نوعیت اور اہمیت کو سمجھنے کے لیے اس کا پس منظر ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
دیکھیے! انگریزوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کر لیا تو بتدریج مسلمانوں کا نظام تعلیم ختم کر دیا اور اپنا نظام تعلیم نافذ کر دیا۔ اس پر اہل فکر و نظر پریشان ہوگئے کہ ہندوستان کا حشر کہیں اندلس جیسا نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے سوچا کہ جیسے تیسے ہو بنیادی دینی علم کو زندہ رکھا جائے تاکہ مسجدیں آباد رہیں اور مسلمان نکاح و طلاق اور غم و خوشی کے روزمرہ کے امور میں دین سے جڑے رہیں۔ چنانچہ علماء کرام نے درختوں کے نیچے بیٹھ کر اور کچی مٹی کے بنے حجروں میں بیٹھ کر قرآن و سنت اور فقہ کی تعلیم دینی شروع کی اور چونکہ قوم اس وقت ہزیمت خوردہ، منتشر اور مفلس تھی اس لیے اس کام سے دنیا وابستہ نہ تھی بلکہ علماء کرام کو ایثار سے کام لیتے ہوئے پیٹ پر پتھر باندھ کر یہ کام کرنا پڑا (جس کے لیے قوم کے سرہمیشہ علماء کے اس احسان کے سامنے جھکے رہیں گے)۔ یہ اس وقت کے حالات کے دباؤ کا نتیجہ تھا کہ علماء کرام نے یہ تعلیمی پروگرام شروع کیا اور بعد میں جب مسلمانوں نے ’جدید تعلیم‘ کے اپنے ادارے کھولنے شروع کیے تو دیوبند کے بانیوں خصوصاً مولانا رشید احمد گنگوہی کا خیال ابتداءً یہ تھا کہ وہ اپنے تعلیمی پروگرام کو کچھ مختصر کر کے اپنے طلبہ کو یہ موقع دیں گے کہ دینی تعلیم سے فراغت کے بعد وہ جدید تعلیم کے لیے چند سال فارغ کر سکیں لیکن غاصب انگریز کے خلاف جذبات اس وقت اتنے شدید تھے اور دونوں طرف کی تعلیم کے علمبرداروں کے درمیان سیاسی، سماجی، دینی اور معاشرتی حوالوں سے خلا اتنا زیادہ تھا کہ تعلیمی تبادلے کے اس پروگرام پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ چنانچہ دینی تعلیم دنیوی علوم سے کٹ کر اور جدید تعلیم مغربی فکر وتہذیب کے سانچے میں ڈھل کر آگے بڑھتی رہی۔ ندوہ اور جامعہ ملیہ کی صورت میں باہم انجذاب کی کچھ کوشش ہوئی جو کامیاب نہ ہوسکی اور بدقسمتی سے یہ دونوں تعلیمی دھارے آج تک متوازی انداز میں کام کرتے چلے آرہے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کا فرض تھا کہ وہ نظام تعلیم کی وحدت کا انتظام کرتے اور اسلامی تعلیم اور جدید علوم کی مناسب انداز میں یکجائی کا اہتمام کرتے لیکن انہوں نے اس ضمن میں کچھ نہ کیا۔ عوام اور اسلامی قوتوں کے دباؤ پر انہوں نے صرف اتنا کیا کہ جدید نظام تعلیم میں جومغربی فکر و تہذیب پر مبنی تھا، کچھ سطحی قسم کی پیوند کاری ’دینیات‘ کی تعلیم کے اضافے سے کی جو حسب توقع غیر موثر ثابت ہوئی۔ دینی مدارس اور دینی تعلیم ان کا درد سر نہ تھی، چنانچہ نہ کبھی حکومت نے دینی مدارس کی سرپرستی کی ، نہ ان کے لیے بجٹ مختص کیا، نہ کبھی ان کے نصابات کی اصلاح کے لیے کچھ کیا اور یوں نہ صرف مدارس سے سرد مہری اور لاتعلقی کا رویہ رکھا بلکہ الٹا مغربی حکومتوں کے زیر اثر اوراپنی سیاسی مصلحتوں کی خاطر انہوں نے دینی مدارس کی مخالفت کی۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ارباب دینی مدارس نے بھی اس امر پر غور نہ کیا کہ عہد غلامی میں انہوں نے دینی تعلیم کو صرف مساجد و مدارس تک محدود رکھنے کی جو روش اپنائی تھی اب ایک آزاد مسلم معاشرے میں اس میں تبدیلی کی ضرورت تھی۔ علماء کرام اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے نظام تعلیم میں ہمیشہ وحدت رہی ہے۔ دین و دنیا کی الگ الگ تعلیم کا تصور اسلامی دور حکومت میں کبھی بھی نہیں رہا۔ ماضی میں مسلمان معاشرے میں ’دینی مدارس‘ نہیں محض ’مدارس‘ ہوتے تھے جو دینی تعلیم بھی دیتے تھے اور ان علوم کی تعلیم بھی دیتے تھے جن کی مسلمانوں کو دنیا میں ضرورت تھی۔ چنانچہ مسلمانوں کے مدارس میں دینی تعلیم میں تخصص کے علاوہ سائنسی کی تعلیم بھی دی جاتی تھی (جیسے طب (میڈیکل) ، ہندسہ (انجینئرنگ) ، ہیئت (اسٹرانومی اور سپیس سائنس)، کیمیا (کیمسٹری)، حساب (ریاضی و الجبرا وغیرہ) ۔ اسی طرح ان مدارس میں سماجی و عمرانی علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی (جیسے فلسفہ، منطق، تاریخ، جغرافیہ، ادب وغیرہ)۔ زبانیں بھی یہاں سکھائی جاتی تھیں چنانچہ عربی کے علاوہ مقامی زبانیں جیسے فارسی، ترکی وغیرہ کی تعلیم بھی عام تھی بلکہ فارسی تو برصغیر میں ذریعۂ تعلیم بن گئی تھی۔ غرض یہ کہ مسلمانوں کے مدارس سے نہ صرف دین کے متخصص علماء تیار ہو کر دینی شعبے کی خدمت کرتے تھے بلکہ زندگی کے سارے شعبوں کو چلانے کے لیے مردان کار یہیں سے تیار ہو کر نکلتے تھے۔ حکومت چلانے والے منتظم، انصاف کرنے والے جج (قاضی)، مالی شعبے کے ٹیکس کلیکٹر، شعبۂ تعمیرات کے لیے انجینئر، دھاتوں کو سونے میں بدلنے والے کیمیا گر اور علم الافلاک کے ماہر منجم سب انہی مدارس سے نکلتے تھے۔ بلکہ ان مدارس کی ایک بڑی اور بنیادی خوبی یہ تھی کہ مذکورہ بالا شعبوں کے یہ سارے متخصصین دینی علوم کے ماہر اور آج کی زبان میں عالم دین بھی ہوتے تھے۔ گویا یوں کہیے کہ ابتدائی اورعمومی تعلیم کی بنیاد سب کے لیے دینی تھی اور تخصص کے لیے حسب ذوق و ضرورت کچھ لوگ دینی علوم میں سند لیتے تھے، کچھ سائنسی علوم میں اور کچھ عمرانی علوم میں۔ 
اور آج پھر دینی مدارس کے سامنے سوال یہ ہے کہ ان کا مقصد تعلیم کیا ہونا چاہیے؟ کیا صرف مسجد و مدرسے کے امام و معلم پید اکرنا یا معاشرے کے لیے درکار دوسرے شعبوں کے ماہرین بھی پیدا کرنا۔ موسیٰ بھٹو صاحب اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ دینی مدارس کو مسجد و مدرسے تک محدود رہنا چاہے جیسا کہ ہمارے دینی مدارس کی موجودہ پالیسی ہے۔ ہم اس رائے کو صحیح نہیں سمجھتے اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں:

دین و دنیا کی تعلیم کی علیحدگی کے نقصانات 

۱۔ اس پالیسی نے مسلم معاشرے میں دین و دنیا کی تفریق کے تصور کو مستحکم کیا ہے۔ معاف کیجیے گا اسی کو سیکولرزم کہتے ہیں اور یہ سیکولرازم بالبداہت خلاف اسلام ہے۔ ہم مغربی تہذیب کو الزام دیتے ہیں کہ وہ سیکولزم کی علمبردار ہے اور اس نے بے دینی پھیلائی ہے اور ہم اس امر پر غور نہیں کرتے کہ ہم خود دین کے نام پر جو سیکولرزم پھیلا رہے ہیں کیا اس کا اس کا نتیجہ بے دینی نہیں نکلا؟ اور کیا مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب یہ نہیں کہ ہمارے علماء و صلحاء نے مساجد و مدارس اور خانقاہوں میں ڈیرہ لگا کر سیاست اور اجتماعی زندگی کو بے دینوں کے حوالے کر دیا اور یوں صدیوں سے ہمارا سیاسی نظام برائے نام خلافت کا لبادہ اوڑھ کر منہاج نبوت اور منہاج خلافت راشدہ سے دور رہا اورآج بھی ہے۔
۲۔ اس پالیسی نے مسلم معاشرے کو مسٹر اور ملا میں تقسیم کر دیا ہے۔ اس تقسیم کے منفی اثرات بہت دوررس اور گہرے ہیں۔ اس سے مسلم معاشرہ ہی تقسیم نہیں ہوا بلکہ اس کا بنیادی نقصان یہ ہوا ہے کہ اس کی وجہ سے مسلم شخصیت میں وحدت نہیں پیدا ہو پاتی اور یہ علمی و فکری انتشار کو جنم دیتی ہے جو ہماری بے کرداری کا بنیادی سبب ہے۔ موجودہ نفسیات نے یہ ثابت کیا ہے (اور اسلامی علم النفس بھی یہی کہتا ہے) کہ انسانی اعمال کا منبع اس کی فکر ہوتی ہے۔ فکر منظم ہو کر نیت ، ارادے اور عزم کے ذریعے عمل کو جنم دیتی ہے، عمل کا دوام عادات بناتا ہے اور جیسی عادات ہوتی ہیں ویسی ہی شخصیت وجود میں آتی ہے۔ لہٰذا فکر میں یکسوئی اور وحدت شخصیت کی جان ہوتے ہیں۔ آپ دین و دنیا میں تفریق کو قبول کر کے اورمسلمانوں کو جدید تعلیم کے لیے مغربی فکر کے حوالے کر کے ( جس کا تصورِ دین و دنیا اسلام کے بالکل الٹ ہے) مسلم شخصیت کو تباہ کرنے کی بنیاد رکھ دیتے ہیں، لہٰذا ہم اس معاملے میں بالکل یکسو ہیں کہ ہماری بے کرداری کا بنیادی سبب فکری عدم یکسوئی ہے اور ہماری فکری عدم یکسوئی کا سبب ہمارے نظام تعلیم کی ثنویت اور دوئی ہے جس کے کچھ ذمہ دار ہمارے دینی مدارس بھی ہیں، فھل من مدکر؟ 
۳۔ اس پالیسی نے مسلم معاشرے میں مغرب پرست سیکولر حکمرانوں کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا ہے اور وہ معاشرے کو بڑی آسانی سے بگٹٹ اپنی مرضی کے مطابق سیکرلر بنیادوں پر چلائے بلکہ بھگائے جا رہے ہیں کیونکہ دینی عناصر اسلامی ریاست چلانے کے لیے رجال کا ر پیداہی نہیں کر رہے۔ سوال یہ ہے کہ آج کے میڈیا کو اسلامی انداز میں چلانے کے لیے جو آدمی درکار ہیں کیا دینی مدارس وہ آدمی پیدا کر رہے ہیں؟ آج کے معاشرے میں اسلامی انداز میں نظام معیشت چلانے کے لیے جو ماہرین درکار ہیں کیا دینی مدارس وہ اشخاص پیدا کر ہے ہیں؟ اور یہی حال زندگی کے دوسرے شعبوں کا ہے خصوصاً نظام تعلیم، نظام قانون، قضا، انتظامیہ وغیرہ کا، کہ آپ ان شعبوں کے ماہرین پیدا ہی نہیں کر رہے۔ اس قحط الرجال کا نقصان یہ ہے کہ آج اگر دینی عناصر کو پاکستان میں اقتدار مل بھی جائے تو وہ صحیح اور موثر نظام حکومت چلا کر نہیں دکھا سکتے (جس کا مظاہرہ حال ہی میں دو صوبوں میں دینی عناصر کو اقتدار ملنے کی صورت میں ہوا ہے اور جس کے نتائج سے مایوسی پیدا ہوئی ہے)۔
۴۔ اگر علماء کرام معاف فرمائیں تو ہم عرض کریں گے کہ ثنویت پر مبنی اس نظام تعلیم سے معاشرے میں علماء کرام کی بے توقیری ہوئی ہے۔ جاگیر دار اپنی مسجد کے مولوی صاحب کو کمیں سمجھتے ہیں اور دیگر اہل حرفہ موچی، ترکھان، لوہار کی طرح مولوی صاحب کو بھی سالانہ ایک دو من گندم دے کر فارغ کر دیتے ہیں اور بعض دیہات میں تو ابھی تک مولوی صاحب شام کے وقت گھر گھر جا کر روٹی مانگ کر لاتے ہیں اور یوں بچوں کا پیٹ پالتے ہیں اور سرمایہ دار مولوی صاحب کو معمولی ملازم سمجھتے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں مسجد کے مولوی اور خطیب زیادہ سے زیادہ دس گیارہ گریڈ کے ملازم ہوتے ہیں جب کہ افسر کا گریڈ ۱۷ سے شروع ہوتا ہے۔ اس لیے افسر مولوی صاحب کو ادنی درجے کا ملازم سمجھنے میں حق بجانب ہیں اور یہ تاثر لینے میں بھی حق بجانب ہیں کہ مولوی بننا اسی سطح کے لوگوں کا کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ہمارے مدارس اندھوں، لنجوں، ناداروں (جو غریب والدین اپنے بچوں کو پال نہیں سکتے یا سکولوں میں تعلیم نہیں دلوا سکتے، وہ انہیں مدرسہ بھجوا دیتے ہیں) اور نالائقوں (جو سکولوں میں کسی وجہ سے چل نہیں سکتے ) کی آماجگاہ رہے ہیں اور قوم کے کھاتے پیتے لوگ اپنے ذہین بچوں کو یہاں بھجوانا پسند نہیں کرتے کیونکہ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ اہل دین کی دنیاوی شوکت سے یہ محرومی معاف کیجئے گا، خود دین کے استخفاف کا سبب بنی ہے اور معاشرے پر اس کے برے اثرات انتہائی گہرے ہیں۔
اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ مولوی صاحب مانگنے والے بن گئے ہیں۔ کوئی بھی سرمایہ دار یا مرفہ الحال شخص جب مولوی صاحب کو آتے دیکھتا ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ مولوی صاحب چندہ مانگنے کے لیے آئے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ علماء مسجد اور مدرسے کے لیے مانگنے جانتے ہیں اپنی ذات کے لیے نہیں لیکن بقول اقبال ۔۔۔مانگنے والا گدا ہے صدقہ مانگے یا خراج۔ اورلینے والے ہاتھ کا نیچے ہونا اور دینے والے ہاتھ کا اوپر ہونے کا فلسفہ بہر حال ایک خاص نوع کی ذہنیت اور رویے کو جنم دیتا ہے اور بعض لوگ تو اس امر کو بھی مدارس کی بے برکتی کی ایک وجہ گردانتے ہیں کہ مولوی صاحب کو سرمایہ دار سے مانگتے ہوئے اس سے صرف نظر کرنا پڑتا ہے کہ اس کی کمائی حلال کی بھی ہے یا نہیں، ان کو توبہر حال مسجد اور مدرسے کو چلانے کے لیے فنڈز درکار ہوتے ہیں۔
دینی تعلیم کو مسجد اور مدرسے تک محدود رکھنے کے یہ چند بڑے نقصانات جو ہم نے گنوائے ہیں (امید ہے کوئی صاحب ہمارے نیک نیتی پر مبنی اس نا گزیر تجزیے کی بناء پر ہمیں علماء کرام اور دینی مدارس کے استخفاف کا مرتکب قرار نہیں دیں گے) وہ اس قابل ہیں کہ ہمارے دینی مدارس کے اہل حل و عقد ان پر غور فرمائیں اور ان کی بنیاد پر جس استدلال کی عمارت کھڑی ہوتی ہے اس کا وزن کو محسوس کریں۔

علماء کرام کے خدشات

ہمارے علم میں ہے کہ علماء کرام کی ایک خاصی بڑی تعداد خصوصاً پرانے اور بزرگ علماء ہماری اس تجویز کو کوئی اہمیت نہیں دیں گے۔ اس کی وجہ ان کے بعض خدشات ہیں اور وہ اپنے موقف کو صحیح سمجھنے کے لیے بعض دلائل بھی رکھتے ہیں۔ ہم خواہ مخواہ بحث کو طول دینا نہیں چاہتے لیکن جو نقطۂ نظر ہم پیش کر رہے ہیں، اس کے اثبات کے لیے ان خدشات و دلائل کا ذکر اور رد ناگزیر ہے۔ اپنے نقطۂ نظر کے حق میں علماء کرام جو دلائل اور خدشات رکھتے ہیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱۔ اگر ہم نے اپنے طلبہ کو انگریزی اور جدید علوم پڑھانے شروع کر دیے تو مسجدیں اور مدرسے ویران ہو جائیں گے اور علماء کی اکثریت دفتروں اور اسکولوں میں ملازمت کرلے گی۔
۲۔ ہم پہلے ہی مانگ تانگ کر اور رو پیٹ کر گزارہ کر رہے ہیں، اگر ہم نے جدید علوم بھی پڑھانے شروع کر دیے تو لا محالہ اخراجات بڑھیں گے اور ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ 
۳۔ یہ حکومتوں کا کام ہے کہ وہ اس سطح کے آدمی تیار کرے۔ ہم اگر اس کام میں لگ گئے تو جو کام ہم کر رہے ہیں وہ بھی متاثر ہو گا اور کمزور ہو جائے گا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دلائل نہیں محض خدشات ہیں اور خدشات بھی ٹھوس نہیں محض خوف پر مبنی ہیں۔وجہ اس کی یہ ہے کہ:
۱۔ اس بات میں کوئی وزن نہیں کہ دینی مدارس کے طلبہ کے انگریزی اور جدید علوم پڑھنے سے مدرسے اور مسجدیں ویران ہو جائیں گی کیونکہ جتنے طلبہ اس وقت سالانہ دینی مدارس سے فارغ ہوتے ہیں ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ سب مساجدو مدارس میں کھپ نہیں سکتے لہٰذا ان میں سے بعض دیگر شعبوں میں چلے جاتے ہیں، بعض بے روزگار رہ جاتے ہیں اور بعض جدید تعلیم حاصل کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں لہٰذا دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کی ایک تعداد اگر مساجد و مدارس کا رخ نہ بھی کرے تو ان شاء اللہ مسجدیں و مدارس پھر بھی آباد رہیں گے۔
۲۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے مسلم معاشرے میں مغرب کی مادہ پرستی نے خاصا غلبہ حاصل کر لیا ہے اور اعلیٰ معیار زندگی کی دوڑ، راتوں رات امیر بن جانے کا جنون، بیرون ملک جانے کا خبط، تعلیم میں کمرشل ازم کا غلبہ وغیرہ ان سارے رحجانات سے دینی مدارس کے فارغ التحصیل علماء کا متاثر ہونا بہت اچنبھے کی بات نہیں کہ وہ بھی بالآخر اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ اس کے باوجود ان قباحتوں سے بچنے کی کوشش کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔ تاہم تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے اور وہ یہ کہ جائز ذرائع سے اپنی مالی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا کوئی جرم نہیں۔ لہٰذا دینی مدارس سے فارغ ہونے والے علماء کرام کے لیے اگر مدارس و مساجد سے ہٹ کر اچھی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہونے کی کوئی صورت بنے تو اسے بالآخر مذموم کیوں سمجھا جائے؟ دین کے لیے ایثار و قربانی بوقت ضرورت بلا شبہ محمود ہے۔ ہمارے علماء کرام یہ ایثار ماضی میں کرتے آئے ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ بھی کرتے رہیں گے لیکن علماء کرام کے اعلی تعلیم یافتہ ہونے سے اگر موجودہ مساجد کمیٹیاں اس امر پر مجبور ہوتی ہیں کہ وہ مساجد کے ائمہ و خطباء کی تنخواہیں بڑھائیں تو یہ بھی وقت کی ضرورت ہے اور علماء کرام اس کے مستحق ہیں۔ پھر جیسا کہ ہم نے سعودی عرب میں دیکھا کہ یونیورسٹیوں کے علوم اسلامیہ کے سارے پروفیسر مسجدوں کے خطیب ہیں۔ اسی طرح کا کلچر ہمیں پاکستان میں بھی پروان چڑھانا چاہیے کہ اعلی تعلیم یافتہ علماء کرام خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہوں، مساجد کی خطابت (بلکہ امامت بھی) انہی کے پاس ہونی چاہیے۔ اس سے علماء کا وقار بھی بڑھے گا، ان کی آمدنی بھی بڑھے گی اور مساجد کا کردار بھی پہلے سے زیادہ موثر ہو جائے گا جو ہماری فوری دینی اور معاشرتی ضرورت ہے۔ 
۲۔ مقاصد تعلیم میں توسیع سے بلاشبہ مدارس کے اخراجات بڑھیں گے لیکن جو قوم اس وقت بھی دینی مدارس کو کروڑوں نہیں بلکہ کئی ارب روپے سالانہ امداد دیتی ہے، جب وہ دیکھے گی کہ دینی مدارس کا کردار معاشرے کے لیے زیادہ موثر اور وسیع ہوگیا ہے تو وہ یقیناًمدارس کی اضافی ضروریات بھی پوری کرے گی۔ الحمدللہ! کہ مدارس کی اکثریت معاشرے کے اعتماد کی حامل ہے اور لوگ محض ثواب کی خاطر مدارس کی امداد کرتے ہیں۔ قوم کھلی آنکھوں سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ اس لیے ہم نہیں سمجھتے کہ اگر دینی مدارس اپنے مقاصد تعلیم میں توسیع کا فیصلہ کریں تو قوم انہیں مایوس کرے گی۔
دوسری بات یہ کہ پچھلی دو تین دہائیوں میں معاشرے کے رجحان میں یہ تبدیلی محسوس کی گئی ہے کہ اب نادار لوگوں کے علاوہ (جو اپنے بچے مجبوراً دینی مدارس میں بھجواتے تھے) ، اب بعض متوسط طبقے کے اور بعض کھاتے پیتے گھروں کے بچے بھی دینی مدارس میں آنے لگے ہیں جو کسی مجبوری سے نہیں بلکہ اپنی خوشی و مرضی سے مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ لہٰذا اس امر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ مدارس میں ’مفت تعلیم‘ کے تصور پر بھی نظرثانی کی جائے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کے لیے باقاعدہ فیس مقرر کی جائے بلکہ درمیان کے راستے بھی سوچے جاسکتے ہیں مثلاً ایسے کھاتے پیتے والدین کو مدرسے کے وقف کی رکنیت دے دی جائے (اور ایسی رکنیت کو عام کر دیا جائے) والدین مدرسے کے آمد و خرچ سے آگاہ ہوں اور ہر ماہ یا ہر سال اپنی مالی حیثیت کے مطابق مدرسہ کے وقف کی مدد کرتے رہیں تاکہ مدرسہ کے اخراجات پورے ہوتے رہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے لہٰذا جب مدارس اپنے منہاج میں تبدیلی کریں گے تو سب متعلقہ لوگ اس پر سوچیں گے اور ذرائع آمدنی کے حصول کے لیے بھی کئی دوسرے راستے ان شاء اللہ سامنے آئیں گے اور خدانخواستہ یہ صورت نہیں بنے گی کہ دینی مدارس مالیات نہ ہونے کی وجہ سے کام بند کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں اس ضمن میں کامیاب تجربے ہوئے ہیں۔
۳۔ تعلیم خواہ دینی ہو یا دنیوی اور خواہ ابتدائی سطح کی ہو یا اعلیٰ سطح کی بلاشبہ حکومت کی، ذمہ داری ہے لیکن ہماری تیرہ سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ علماء نے کبھی بھی اس کے لیے حکومتوں پر انحصار نہیں کیا اور وہ معاشرے کی مدد سے کمیونٹی کو متحرک کر کے ہمیشہ مسلم عوام کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرتے رہے ہیں اور مسلمان علماء و صلحا نے پرائیویٹ سیکٹر میں ہزاروں مدارس اور خانقاہیں قائم کر کے تعلیمی و تربیتی نظام کو قائم و دائم رکھا ہے۔ خود برصغیر کی تعلیمی روایت بھی یہی ہے کہ یہاں حکومتی سرپرستی سے محروم ہونے کے باوجود مسلم ملت نے دیوبند، ندوہ، علی گڑھ، جامعہ ملیہ، انجمن حمایت اسلام، اسلامیہ کالج پشاور غرض ایک پورا تعلیمی نظام اور نیٹ ورک قائم کیا اورچلایا۔ اب بھی اگر حکومت یہ کام نہیں کرتی تو علماء کرام کو حکومت کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہیے اور اس کے لیے حکومت پر انحصار کرنا ہی نہیں چاہیے۔ جس طرح وہ مساجد و مدارس کے لیے حکومتی مدد کے بغیر آج تک افراد کار مہیا کرتے آئے ہیں اگر وہ ہمت کر کے اپنا دائرہ کار امت کے مفاد میں وسیع کر لیں تو وہ ان شاء اللہ اس کو بھی کامیابی سے چلالیں گے جیسے کہ ہمارے اسلاف ماضی میں کرتے آئے ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی نیا کام نہیں بلکہ اسلاف کی پیروی میں سابقہ کامل و شامل تعلیمی منہج کا احیا ہی ہے۔
یہ بھی محض خدشہ ہے کہ منہج کی توسیع سے دینی مدارس کا موجودہ نظام کمزور ہوجائے گا۔ ہم دینی مدارس کے موجودہ نظام میں، جس سے مقصود دین کے متخصص عالم پیدا کرنا ہے، کسی بنیادی تبدیلی کی تجویز نہیں دے رہے بلکہ اس میں ایک خاص نوع کی توسیع کی بات کر رہے ہیں مثلاً یوں سمجھیے کہ اگر اس وقت دینی مدارس مڈل پاس طلبہ کو داخلہ دیتے ہیں جو آٹھ سال میں شہادۃ عالمیہ (علوم اسلامیہ و عربیہ میں ایم اے) کرتے ہیں تو اس سسٹم کو علی حالہ باقی رکھا جائے البتہ طلبہ کا ایک اور گروپ ہو جو ثانویہ خاصہ میں دوسرے طلبہ کے ساتھ سارے اسلامی مضامین پڑھنے کے ساتھ ایک اضافی مضمون مثلاً معاشیات کا پڑھے۔ اسی طرح عالیہ میں دوسرے اسلامی مضامین کے ساتھ وہ اسلامی معاشیات کا مضمون بھی پڑھے۔ پھر عالمیہ میں دو سال لگا کر وہ اسلامی معاشیات پڑھے (مغربی معاشیات کا تقابلی مطالعہ بھی اس کا جزو ہوگا) اور اسلامی معاشیات میں وہ شہادۃ عالمیہ حاصل کرے۔ اسی طرح انگریزی، اردو، قانون، تربیت اساتذہ، ابلاغ عامہ، فلسفہ وغیرہ میں دینی مدارس شہادہ عالمیہ کروا سکتے ہیں اور حکومت سے اپنی سند منظور کروا سکتے ہیں۔ اور حکومت کو یہ سند اصولاً خوشی سے منظور کرنی چاہیے کیونکہ اس کی تو خواہش اور مطالبہ ہی یہ ہے کہ دینی مدارس جدید تعلیم دیں۔
ہم ارباب دینی مدارس کی خدمت میں مزید عرض کرتے ہیں کہ علوم کے تین بڑے شعبے ہیں: ۱۔ دینی علوم ۲۔سماجی یا عمرانی علوم اور ۳۔ سائنسی علوم ۔علماء کرام اس وقت پہلے شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ وہ دوسرے شعبے یعنی سماجی علوم میں سے بھی بعض اہم تخصصات ہاتھ میں لے لیں کیونکہ یہ علوم بھی درحقیقت اسلامی ہی ہیں کیونکہ یہ مسلم شخصیت کی تکوین میں اہم حصہ لیتے ہیں اور مسلم معاشرے کو اسلام کے مطابق چلانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں مثلاً اگر علماء کرام اچھے ذہن کے اساتذہ تیار کر یں تو وہ سارے پاکستان کی کایا پلٹ سکتے ہیں۔ اگر وہ اسلامی ذہن رکھنے والے میڈیا کے افراد تیار کر دیں تو عوام کے ذہنوں کو اسلام پر عمل کے لیے آسانی سے تیار کیا جاسکتا ہے۔ اگر وہ قانون کے شعبے کو ہاتھ میں لیں تو ایسے جج اور وکلاء تیار کر سکتے ہیں جو اسلامی فقہ اور جدید قانون میں بیک وقت ماہر ہوں گے۔ وقس علی ذلک۔ اور یہ کوئی نیا کام نہیں بلکہ یہ کام وہ پہلے ہی جزوًا کر رہے ہیں مثلاً سماجی علوم میں سے لغت، ادب، فلسفہ، منطق، قانون (فقہ) وہ پہلے ہی پڑھا رہے ہیں ہم ان میں چند ایک مضامین کے محض اضافے کی بات کر رہے ہیں اور ان میں تخصص کروانے کی بات کر رہے ہیں۔

صحیح نظام تعلیم کی اہمیت

اس بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم علماء کرام کی خدمت میں عرض کریں گے کہ اگر وہ غور فرمائیں تو وہ بھی ہماری طرح اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ امت زوال کے موجودہ گرداب سے اس وقت تک نہیں کل سکتی جب تک وہ اپنے نظام تعلیم کو صحیح نہیں کر لیتی اور اس کا نظام تعلیم اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے سارے نظام تعلیم کو اسلامی بنیادوں پر استوار نہیں کر لیتی اور مغرب کی ذہنی غلامی سے نجات نہیں حاصل کر لیتی۔ صحیح اسلامی نظام تعلیم سے ہماری مراد دینی مدارس کا نظام نہیں بلکہ ایک موحد نظام تعلیم ہے جس میں دینی علوم (عصری تقاضوں کے مطابق ۔۔۔ جن کا کچھ ذکر پہلے ہوچکا ) کے علاوہ دنیوی علوم کی تعلیم بھی اسلامی تناظر میں اور مغربی فکر کو رد کر تے ہوئے ، شامل ہو۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ:
۱۔ دینی علوم کی موجودہ تعلیم میں عصری ضرورتوں کے مطابق ضروری تبدیلیاں لائی جائیں۔
۲۔ سماجی علوم (معاشیات، سیاسیات، قانون، ابلاغ عامہ، فلسفہ، تاریخ وغیرہ) از سرنو اسلامی بنیادوں پر مرتب کیے جائیں۔
۳۔ سائنسی علوم (کیمیا، طبیعیات، حیاتیات، علم الافلاک وغیرہ) اور ٹیکنالوجی کو اسلامی ذہن کے ساتھ فروغ دیا جائے۔
اس کے ساتھ ہی اسلامی تناظر میں اساتذہ کی تدریب اور طلبہ کی تربیت کا انتظام کیا جائے اور تعلیمی اداروں کے ماحول کو بدلا جائے۔
مندرجہ بالا کام انتہائی مشکل اور وسیع کام ہے اور اس کے لیے وسیع مادی وسائل اور اسلامی ذہن کی بہترین افرادی قوت درکار ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہماری مغرب کی گماشتہ حکومتوں کو یہ کام کرنے کا احساس نہیں تو کیا پرائیویٹ سیکٹر خصوصاً علماء کرام بھی اس کے لیے متحرک نہ ہوں اور وہ ٹھنڈ سے پیٹوں برداشت کرتے رہیں کہ قوم جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتی اور زوال کے گڑھے میں ڈبکیاں کھاتی رہے؟
ہم سمجھتے ہیں کہ بہرحال دینی مدارس کے اہل حل و عقد کو اس کام کے کرنے کا دوسروں سے بڑھ کر احساس ہونا چاہیے اور اگر وہ اس کی اہمیت کا ادراک کر لیں تو یقیناًقوم اس کام کے کرنے میں ان کا ساتھ دے گی۔ ہم کہتے ہیں کہ چلیے وہ اس سارے پراجیکٹ میں ہاتھ نہیں ڈال سکتے تو کم از کم ان چند مضامین کی کتب ہی نئے سرے سے مدون کر لیں جنہیں وہ اپنے طلبہ کو میٹرک، ایف اے اور بی اے میں پڑھانا چاہتے ہیں اور اپنے نظام میں عصری ضرورتوں کے مطابق وہ چند تبدیلیاں ہی کر لیں جن کی طرف سطور بالا میں ان کی توجہ مبذول کروائی گئی ہے۔ ھذا ما عندنا والعلم عند اللہ۔

’تحفظ نسواں ایکٹ‘ کتاب و سنت کے تناظر میں

ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی

حال ہی میں حکومت پاکستان نے حدود آرڈیننس کے دو قوانین، حد زنا اور حد قذف میں ترمیم کرکے ’تحفظ نسواں بل‘ کے عنوان سے ایک نیا قانون متعارف کروایا۔ اس قانون کو کتاب وسنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایک خصوصی علماء کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ بعد میں یہ بل مختلف مراحل طے کرتا ہوا قانون ساز اداروں سے پاس ہوگیا، تاہم اس کے نتیجے میں ملک بھر میں ایک بہت بڑا انزاع پیدا ہوگیا کہ یہ قانون کتاب وسنت سے ہم آہنگ ہے یا نہیں؟ حدود آرڈیننس کی طرح اس قانون کے بارے میں اختلاف نے بھی سیاسی رنگ اختیار کرلیا ہے۔ زیر نظر تحریر میں ہم نے کوشش کی ہے کہ کتاب وسنت کی روشنی میں اس قانون کا جائزہ لیا جائے، تاہم ہمیں یقین ہے جس طرح پاکستان میں حدود آرڈیننس مکمل طور پر ناکام ہوگیا، زیر بحث قانون بھی اس طرح ناکام رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسلامائزیشن آف لا کا بہت چرچا رہا اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے کئی قوانین میں ترامیم کی گئیں اورکئی نئی دفعات متعارف کروائی گئیں، متعدد نئے ادارے وجود میں آئے جس سے یہ سمجھاجانے لگا کہ متعلقہ قوانین کتاب وسنت سے ہم آہنگ ہوگئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اسلامیان پاکستان اس انتظار میں رہے کہ اب معاشرہ اسلامی قوانین کے نفاذ کی برکات سے مستفید ہوگا اور ہر طر ف امن وعافیت، رفاہیت وخوش حالی اور عدل وانصاف کا دور دورہ ہوجائے گا، لیکن جب معاشرتی زوال کی رفتار میں کمی آنے کے بجائے اسلامی اور انسانی اقدار کی پامالی کی سرگرمیاں تیز تر ہوگئیں تو اسلامی قوانین کی اثر آفرینی کے بارے میں شکوک وشبہات پیداہونے شروع ہوئے جو آگے چل کر ایک تحریک کی شکل اختیار کرگئے۔ اس صورت حال کے حقیقی اسباب کا کھوج لگانے کے بجائے اسلام کے نام پر نافذ کیے گئے قوانین، بالخصوص حدود آرڈیننس اور قانون شہادت وغیرہ کے حامیوں اور مخالفوں کے متحارب کیمپ معرض وجو دمیں آگئے اور دو طرفہ زور آز مائی شروع ہوگئی۔
امر واقعہ یہ ہے کہ جس سیاق میں اسلامی قوانین کا نفاذ ہوا تھا، اس سے اسلام کی بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکتا تھا اور آئندہ بھی اس طرح اسلامی قوانین کے نفاذ کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی قوانین پورے اسلامی نظام کے وجود کا ایک حصہ ہیں اور اپنا الگ فلسفہ، اساسیات، اصول اور منہاج رکھتے ہیں۔ ان کی اثر آفرینی کے لیے ضروری ہے کہ انہیں پورے اسلامی نظام کی تمام اساسیات، مناہج اوراصول کے ساتھ نافذکیا جائے۔ دوسری طرف اینگلو سیکسن لا جو پاکستان کو وراثت میں ملا ہے، اپنا الگ فلسفہ، اصو ل اور مبادی رکھتاہے۔چونکہ دونوں قسم کے قوانین کا بلڈ گروپ الگ الگ ہے، اس لیے ان میں باہم پیوندکاری ممکن نہیں اور اگر زبردستی پیوند کاری کی کوشش کی جائے تو اس کا لازمی نتیجہ وہی ہوتاہے جو حدود آرڈیننس وغیرہ کے بارے میں نکلا۔ اسلا می قوانین کا شجرہ طیبہ اینگلو سیکسن لا کی سرزمین پر کبھی بار آور نہیں ہوسکتا۔ مثال کے طور پر اسلامی قوانین کی اساس عدل ہے، جبکہ اینگلو سیکسن لا کی ’’قانون کی بالادستی‘‘ ہے۔ اس کی وضاحت مرحوم جسٹس گل محمد، سابق چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ اس طرح کرتے تھے کہ اگر بالفرض یورپ کے کسی ملک کی پارلیمنٹ یہ قانون بنا دے کہ جس کسی کا قد چھ فٹ سے زائد ہو، اسے سزائے موت دے دی جائے تو اسلام ایسی قانون ساز ی کو تسلیم نہیں کرتا، جبکہ قانون کی بالاتری کا تقاضا یہ ہے کہ اسے بہرطور نافذ کر دیا جائے۔ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بے شمار ایسے قوانین ہیں جو عدل کے سراسر خلاف ہیں، لیکن دنیا بھر کی عدالتیں انہیں کے مطابق فیصلے کرتی ہیں ۔ویٹو کے اختیارات اس کی بدترین مثال ہے۔
پاکستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے یہ فرق بہت نمایاں ہوجاتاہے کہ اسلام مرد کو انتظامی برتری (النساء ۴:۳۴) اور عورت کو احترامی برتری (النور ۲۴:۴) کے اعزاز سے نوازتے ہوئے ہر ایک کو اپنے اپنے دائرہ کار میں دوسرے پر فوقیت دیتاہے، لیکن اینگلو سیکسن لا مرد وزن کی ہمہ وجوہ مساوات کا قائل ہے۔ اس لیے اینگلو سیکسن لا کے حوالے سے عورت کی گواہی اور دوسرے کئی قوانین پر خواتین کا اعتراض بجا ہے۔ اگر یہ قوانین مکمل اسلامی نظام کے تناظر میں نافذ کیے جاتے تو اسلام کا نقطہ نظر یہ سامنے آتا ہے کہ عورت نہ صرف ثقہ، سچی، امانت دار اورقابل اعتماد ہوتی ہے بلکہ اس قدر دانش مند اور سمجھ دار بھی کہ ان میں کسی کم فہم اور دینی اعتبار سے کمزور عورت میں بھی قدرت نے یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ دانش مندسے دانش مند مرد کو بآسانی متاثر کرلیتی ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر ۳۰۴، تشریح از حکیم الاسلام قاری محمد طیب، خطبہ ’’فضیلۃ النساء‘‘) البتہ اس کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ اسے عدالتوں اور کچہریوں میں خجل خوار ہونے سے بچایا جائے۔ (ہدایہ، کتاب الشہادۃ، ۳:۱۱۵) اس پس منظر میں کیا کسی مسلمان خاتون کو اس پر اعتراض ہوگا کہ اسے ناشائستہ مقدمات میں گواہی سے کیوں محروم رکھا جاتاہے؟ بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ہر مسلمان خاتون کا سر فخر سے بلند ہوگا کہ اسلامی معاشرے میں اس کی عزت واحترام مر دسے کہیں بڑھ کر ہے۔ لیکن جب ہم اینگلو سیکسن لا کے جسم میں اسلامی قانون کا کوئی عضو لگانا چاہتے ہیں تو وہ اسے قبول کرنے سے ابا کردیتاہے اوراس کا الزام اسلام کی نتیجہ خیزی پر آتاہے۔ طالبان کے افغانستان اور سعودی عرب میں اسلامی قوانین کی کامیابی اور اثر آفرینی کی وجہ صرف اور صرف یہ رہی کہ ان دونوں ممالک میں اسلامی قوانین کی پیوند کاری نہیں کی گئی بلکہ وہ اسلام جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور قرن بہ قرن اس میں اجتہاد کے ذریعے ارتقا جاری رہا، اسے بتمام وکمال نافذ کرنے کی سعی کی گئی جس کی بنا پر اس کی اثر آفرینی سے دشمن بھی انکار نہیں کرسکتے۔
تحفظ نسواں بل کا جائزہ لینے کے لیے علما کی جوخصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، اس کی رپورٹ کمیٹی کے ایک ممبر مولانا زاہد الراشدی نے ماہنامہ ’الشریعہ‘ اکتوبر ۲۰۰۶ء میں شائع کی جس سے معلوم ہوا کہ علماے کرام نے حد زنا اور حد قذف کی بیالیس دفعات کی مجوزہ چوالیس ترامیم میں سے صرف تین کے بارے اختلاف رائے کا اظہار کیا۔ * بعد کے ایک زیادہ منضبط جائزے میں جو کمیٹی کے ایک دوسرے رکن مولانا محمد تقی عثمانی کے قلم سے روزنامہ جنگ اور نوائے وقت میں قسط وار شائع ہو ا اور جسے بعد میں الشریعہ نے بھی شائع کیا، اس بل پر چھ اہم اعتراضات کیے گئے جن کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ ایک اسلامی ریاست میں قرآن وسنت کی بالادستی قرآن کی قطعی نصوص سے ثابت ہے۔ جب ایک مرتبہ زنا کی حد کا فیصلہ ہوجائے تو حکومت کو اس کی معافی یا تخفیف کا اختیار نہیں ہے۔ زیر نظر بل میں زنا آرڈیننس کی دفعہ ۲۰ شق (۵) کو حذف کرکے حکومت کو سز ا میں تخفیف کا جو اختیار دیاگیاہے، وہ قرآن وسنت کے خلاف ہے ۔
۲۔زنا بالجبر، زنا کی ایک قسم ہے، اسے حدود سے نکال کر تعزیرات میں شامل کرنا کتاب وسنت کے خلاف ہے۔
۳۔ زنا بالرضا موجب حد اور فحاشی کو ناقابل دست اندازی پولیس قرار دے کر ان جرائم کو تحفظ دیاگیاہے۔ اسلامی احکام کے تحت فحاشی کاجرم معاشرے اور ریاست کے خلاف جرم ہے۔ اس کا ثبوت اس قدر دشوار بنا دیاگیاہے کہ اس کے تحت کسی کو سزا نہیں ہو سکتی ۔
۴۔حدود آرڈیننس میں اگر حد زنا کے لیے مطلوبہ ثبوت موجود نہ ہو تا لیکن اغوا یا عصمت دری کا جرم ثابت ہوجاتا تو حد زنا دفعہ ۱۰ کے تحت تعزیری سزا دی جا سکتی تھی،اب کوئی سزا نہیں دی جاسکتی کیونکہ زیر نظر بل نے عدالت سے یہ اختیار واپس لے لیاہے ۔گویا فحاشی کو تحفظ دیاگیا ہے ۔
۵۔ قذ ف میں ترمیم کرکے مرد کو یہ چھوٹ دے دی گئی ہے کہ وہ چاہے تو عورت کے مطالبے کے باوجود لعان کی کارروائی میں شرکت سے انکار کردے۔ یہ ترمیم قرآن حکیم کے منافی ہے۔
۶۔ قذف آرڈیننس میں یہ ترمیم بھی کتاب وسنت کے منافی ہے کہ عورت کے رضا کا رانہ اقرار جرم کے باوجود اسے سزا نہیں دی جائے گی۔
علما کمیٹی کے ان چھ اختلافی نکات کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی پیش کردہ باقی ترامیم سے علماے کرام متفق ہیں جو بجائے خود ایک خوش آئند بات ہے، البتہ پچھلے سالہا سال سے بالعموم اور پچھلے کچھ عرصے سے بالخصوص پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں اور متعدد دینی شخصیات جس تسلسل سے حدود آرڈیننس کو خدائی قانون اور ناقابل ترمیم قرار دیتی رہیں اوراس کے بعد جب مکالمے کا موقع آیا تو اپنے سابقہ موقف سے دست کش ہوکر جس طرح ترامیم کے لیے آمادہ ہوگئیں، اس پر ’بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بو العجبی ست‘۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ علماے کرام کی طرف سے اس نوعیت کی Sweeping statements کی وجہ سے عوام اور دینی جذبات رکھنے والے نیک دل مسلمانوں کے حسن ظن کو، جو روایتی علما پر بے پناہ اعتماد کرتے ہیں، ٹھیس پہنچتی ہے۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور دیگر دینی شخصیات سے ہماری عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ دینی مسائل پر غور وفکر اور تبصرہ کرتے ہوئے آخرت کی جواب دہی کو ملحوظ رکھا کریں اور دینی مسائل پر گروہی، فرقی اورانتخابی سیاست کی آلودگیوں سے اپنا دامن بچا کررکھیں تو اس سے جہاں علما کے وقار پر آنچ نہیں آئے گی، وہاں ان پر اعتبار اور اعتماد کی روایت بھی متاثر نہیں ہوگی۔ ذاتی طورپر ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ علمائے کرام نے حدود آرڈیننس کو اس کے اصل تناظر میں دیکھنا شروع کردیاہے اور اب حدود آرڈیننس نہیں بلکہ حدود اللہ الہامی قوانین قرار پائی ہیں۔
علماے کرام کی خصوصی کمیٹی نے اپنی چھ اضافی سفارشات میں خواتین کو وراثت سے عملاً محروم رکھنے،زبردستی نکاح کر دینے، بیک وقت تین طلاقیں دینے، قرآن سے نکاح، وٹہ سٹہ اور عورتوں کی خریدوفروخت کے مذموم رسوم ورواج کے سدِباب کے لیے قانون سازی کی سفارش کی۔ اگر زیر نظر بل واقعتا ’’تحفظ نسواں بل‘‘ ہوتا ،حکومت اور ملک بھر میں پھیلی ہوئی این جی اوز واقعتا خواتین کے حقوق کے تحفظ میں مخلص ہوتیں تو ہمارے خیال میں ان تمام سفارشات کو بل کا حصہ بنا کر فوراً نافذ کردیاجاتا کیونکہ ان میں سے کوئی بھی سفارش ایسی نہیں جن کے بارے میں کسی اختلاف کی گنجائش ہو، لیکن اس سلسلے میں حکومتی حلقوں اور این جی اوز کی طر ف سے کسی سرگرمی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ NGOs کا معاملہ تو قابل فہم ہے کہ اگر خواتین کے نوے فیصد مسائل حل ہوجاتے ہیں تو این جی اوز چلانے کے لیے مسائل کہاں سے آئیں گے اورکس بناپر بیرونی فنڈز حاصل کرنے کی راہیں وا رکھی جائیں گی، لیکن اس سلسلے میں حکومت کی سردمہری ناقابل فہم ہے۔ اگر حکومت واقعتا بے حیائی اور فحاشی کو تحفظ دینے کے بجائے خواتین کے حقیقی مسائل حل کرنے میں مخلص ہوتی تو اسے اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے تھا ۔
علما کمیٹی نے اگر چہ دیدہ ریزی سے زیر نظر بل کا جائزہ لے کر ان دفعات کی نشاندہی کی ہے جو ان کے خیال میں کتاب وسنت کے متصادم ہیں، لیکن ہمارے خیال میں زیر بحث بل میں مزید کئی ایسی دفعات ہیں جو صراحتاً قرآن وسنت کے خلاف ہیں۔ ذیل میں ان کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔
۱۔حدود آرڈیننس میں حد زنا، دفعہ ۴ میں زنا کی تعریف یوں کی گئی تھی :
A man and a woman are said to commit Zina if they willfully have sexual intercourse without being validly married to each other.
’’کسی مرد اورعورت کو زنا کا مرتکب کہا جائے گا، اگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ نکاح صحیح میں ہوئے بغیر جماع کریں۔‘‘
اس تعریف کی وجہ سے خواتین کے لیے یہ دقت پید اہوگئی تھی کہ دیہی علاقوں میں نکاح اور طلاق کو رجسٹرڈ نہیں کروایا جاتا اور زبانی طلاق کے بعد نکاح کرنے والی خاتون کو اس کا سابقہ شوہر حدود آرڈیننس کی مذکورہ بالا دفعہ کی آڑ میں ظلم وستم کا نشانہ بناتا تھا۔ اس لیے مذکورہ بالا دفعہ سے validly (صحیح) کے الفاظ خارج کردیے گئے جس کا مطلب یہ ہے کہ مرد اور عورت کا نکاح صحیح ہو یا فاسد یا باطل، بہر طور ان کا جنسی تعلق زنا قرار نہیں پائے گا اور مذکورہ بالا قسم کی خاتون کو ظلم سے بچا یاجاسکے گا۔
یہ وجہ اگر چہ درست ہے، لیکن اس کے لیے تبدیلی مسلم فیملی لاز میں کرنے کی ضرورت تھی تاکہ زبانی طلاق کو بھی طلاق سمجھا جائے۔ حد زنا آرڈیننس میں مذکورہ تبدیلی کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ زنا کے الزام میں ماخوذ جوڑے کے مقدمے کی باگ ڈور اس عورت کے ہاتھ میں آجاتی ہے جو شریک جرم ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر چار چشم دید گواہوں کے باوجود عورت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ شریک مرد کے ساتھ اس نے نکاح کیا ہے تو خواہ وہ کسی دوسرے کی منکوحہ ہو، نئے نکاح کا کوئی گواہ ہو نہ کوئی ثبوت، محض نکاح کا دعویٰ ہی اسے سزا سے بچانے کے لیے کافی ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ یہ نکاح باطل قرارپائے گا جس کی بنا پر دونوں شریک مجرموں کو شک کا فائدہ ملے گا اور زیرنظر بل کی دفعہ ۵ (اے) کے تحت عدالت اس جوڑے کو فحاشی وغیرہ پر تعزیری سزا بھی نہیں دے سکے گی۔ اور اگر خاتون شریک جرم مرد کو سزا دلوانا چاہتی ہو تو وہ عصمت دری کا الزام عائد کرکے خود بچ سکتی ہے او ر مرد کو سزا دلوا سکتی ہے۔ خاتون کو صرف اس صورت میں سزا ملنے کا امکان ہے جب وہ اپنے دفاع میں کچھ نہ کہے اور گواہوں کی گواہی کو بے چون وچرا تسلیم کر لے جس کاامکان نہ ہونے کے برابر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ فقہاے اسلام میں سے کسی نے بھی زنا موجب حد کی وہ تعریف نہیں کی جو حدود آرڈیننس میں تھی یا جو زیر بحث بل میں ہے، بلکہ علامہ کاسانی نے تمام امکانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے زنا موجب حد کی ایک جامع ومانع تعریف کی ہے جویہ ہے:
’’زنا اس حرام جماع کو کہتے ہیں جو کسی زندہ، قابل شہوت عورت کی اگلی شرم گاہ میں اسلامی ریاست میں ایسے شخص سے اپنے قصد اور اختیار سے واقع ہوا ہو جس نے اسلام کے احکام اپنے ذمے لازم کر لیے ہوں۔ یہ جماع حقیقت ملک، حقیقت نکاح، شبہ ملک اور شبہ نکاح سے خالی ہواور جس موقع پر ملک یا نکاح کا شبہ ہوسکتاہو، وہ شبہ اشتباہ سے بھی خالی ہو۔‘‘ (بدائع الصنائع، ۷/۳۳)
۲۔عصمت دری سے متعلق دفعات کو حدود آرڈیننس سے نکال کر مجموعہ تعزیرات پاکستان میں دفعہ ۳۷۵، ۳۷۶ کے طورپر شامل کیا گیاہے ۔دفعہ ۳۷۵میں عصمت دری کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
’’کسی مرد کو عصمت دری کا مرتکب کہاجائے گا جب وہ کسی عورت کے ساتھ مندرجہ ذیل پانچ حالات میں سے کسی حالت میں جماع کرے:
۱۔ اس کی مرضی کے خلاف۔
۲۔ اس کی رضامندی کے بغیر۔
۳۔ اس کی رضامندی سے جب کہ رضامندی اس کو ہلاک یا ضرر کاخوف دلاکر حاصل کی گئی ہو۔
۴۔ اس کی مرضی سے جب کہ مرد جانتاہو کہ وہ اس کے نکاح میں نہیں ہے او ر عورت نے رضامندی کا ا ظہار اس وجہ سے کیا ہو کہ عورت یہ باورکرتی ہے کہ اس مرد کے ساتھ اس کا نکاح ہواہے۔
۵۔عورت کی رضامندی سے یا اس کی رضامندی کے بغیر جب کہ وہ سولہ سال سے کم عمر کی ہو۔‘‘
اس دفعہ کے بارے میں علما کمیٹی کا اعتراض یہ ہے کہ اسے حدود میں شامل کیاجانا چاہیے تاکہ اس میں حکومت کو سزا کا اختیار نہ رہے۔ گویا علما کمیٹی کے نزدیک یہ دفعہ درست ہے، البتہ اس کا مقام تبدیل کرکے اسے مجموعہ تعزیرات پاکستان کے بجائے حدود آرڈیننس میں رکھاجائے، جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ دفعہ اپنے متن اور نتائج کے اعتبار سے قرآن وسنت کے اساسی عائلی نظام سے متصادم ہے، مگر اس کا تذکرہ کہیں سننے میں نہیں آیا۔
یورپ اور امریکہ کے قوانین کی رو سے کوئی شوہر اپنی بیوی کی مرضی کے خلاف یا اس کی رضامندی کے بغیر اس سے اپنی جنسی خواہش پوری کرتاہے تو بیوی، شوہر کے خلاف عصمت دری کا مقدمہ کرکے اسے سزا دلوا سکتی ہے۔ اسلام میں میاں بیوی کے تعلقات میں عصمت دری کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اگر چہ قرآن کی رو سے میاں بیوی میں مودت ومحبت کا رشتہ ہوتاہے (الروم ۳۰:۲۱)، انہیں ایک دوسرے کے جذبات واحساسات کاخیال رکھنا چاہیے (النساء ۴:۴۹) لیکن قرآن کے حوالے سے میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ (البقرہ ۲:۱۸۷) مخصوص ایام کے علاوہ شوہر پر اپنی بیوی سے مقاربت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ (البقرہ ۲:۲۲۲) جن ایام میں پابندی ہے، اس کا تعلق بھی فوجداری قوانین سے نہیں ہے۔ جب کہ زیر بحث دفعہ میں مرد اور عورت کا اطلاق میاں بیوی پر بھی ہوتاہے اور اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کوئی شوہر اپنی بیوی کی رضامندی کے بغیر اپنی خواہش کی تکمیل نہیں کرسکے گا۔ اگر وہ ایسا کرتاہے یا بیوی کسی وجہ سے شوہر کو سزا دلوانا چاہتی ہے تو بہت آسانی سے شوہر کی خواہش کی تکمیل کے بعد اس کے خلاف عصمت دری کے ثبوت عدالت میں پیش کرکے اسے سزائے موت یا دس سے پچیس سال کی سزائے قید دلا سکتی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ مرد کے لیے فطری خواہش کی تکمیل کے جائز ذرائع پر پابندی عائد کردی گئی ہے، البتہ ناجائز ذرائع سے خواہش کی تکمیل کا کوئی گواہ نہ ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔اگر شوہرپر مقدمہ کرنے کے بعد بیوی اپنے کیے پر پشیمان ہوکر یہ اعتراف کرتی ہے کہ اس نے غلط مقدمہ قائم کیاتھا تو ا س کا کوئی مداوا زیر نظر بل میں دریافت نہیں ہوسکا، کیوں کہ عصمت دری کا مقدمہ ناقابل ضمانت اور ناقابل مصالحت ہے۔ نیز اس دفعہ کے مطابق سولہ سال سے کم عمر لڑکی کے ساتھ جنسی عمل بہر طور عصمت دری ہے، خواہ اس کی رضامندی سے ہو ،جس کامطلب یہ ہے کہ اگر کسی کی بیوی سولہ سال سے کم عمر کی ہے تو وہ جوڑا اپنی جائز خواہشات کی تکمیل بھی نہیں کرسکتا۔ اگر چہ نکاح کے مقاصد کے حوالے سے یہ ضروری ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد ان کا نکاح کیا جائے لیکن ایک تو یہ کہ بلوغ کا تعلق جسمانی تبدیلیوں اور تخلیقی صلاحیت کے آغاز سے ہے نہ کہ سولہ سال کی عمر سے۔ دوسرے یہ کہ بعض حالات میں والدین کی مجبوری بھی ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو سولہ سال پورے ہونے سے پہلے کسی کی حفاظت میں دے دیں۔ مثلاً ایک شخص کینسر کا مریض ہے اور اسے معلوم ہے کہ وہ سال بھر زندہ نہیں رہے گا، وہ اپنی پندرہ سالہ لڑکی کا واحد نگران ہے ،کیا یہ مناسب نہیں کہ وہ اپنی بچی کو معاشرے کے درندوں کے رحم وکرم پر چھوڑنے کے بجائے مرنے سے پہلے کسی مناسب مرد سے اس کا نکاح کردے؟ لیکن موجودہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔
اس دفعہ میں ایک پہلو ایسا ہے جس کے تذکرے بلکہ تصور سے ہی ایک مسلمان کے دل ودماغ کرچی کرچی ہوکربکھر جاتے ہیں۔ اکثر مولفین حدیث اور سیرت نگاروں کے مطابق سیدہ عائشہؓ کی رخصتی کے وقت ان کی عمر نوسال تھی۔کیا یہ قانون بنانے والوں نے غور نہیں کیا کہ اس دفعہ کی روسے انہو ں نے اپنے مرکز ایمانی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہاں لاکھڑا کیا ہے؟ کیا اس کے بعد میدان حشر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ خشمگین کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں یا آپؑ کی شفاعت کی امید کی جاسکتی ہے؟ کیا عرصہ محشر میں سیدہ عائشہؓ گریباں گیر نہیں ہوں گی؟ اتنی بڑی جسارت کے بعد اگر آسمان گر پڑے، زمین کا جگر شق ہوجائے اور فضا سے وہ آگ برسنا شروع ہو جائے جو پوری انسانی تاریخ میں انبیاے کرام کی توہین پر برسی ہے توکسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
حدود آرڈیننس، حد زنا کی دفعہ ۶ (۱) کا آغاز ان الفاظ سے ہوتاہے :
’’کسی شخص کو عصمت دری کا مرتکب کہا جائے گا اگر وہ مرد یا وہ عورت کسی ایسی عورت یا مرد سے، جیسی بھی صورت ہو، جس کے ساتھ وہ مرد یا وہ عورت نکاح صحیح میں نہ ہو، مندرجہ ذیل حالات میں سے کسی میں جماع کرے.....‘‘
اس دفعہ کی رو سے نکاح کی صورت میں عصمت دری کا مقدمہ قائم نہیں ہوسکتاتھا۔ اب اس میں سے نکاح کی قید یا شرط نکال دی گئی ہے جس کی وجہ سے یہ قرآن وسنت کی قطعی نصوص سے متصادم ہوگئی ہے۔
علما کمیٹی نے ا س دفعہ پر صرف یہ اعتراض کیاہے کہ عصمت دری زنا کی قسم ہے، اس لیے موجب حد جرم ہے،اسے تعزیر میں رکھنا درست نہیں، البتہ اس میں یہ دقت پیش آتی ہے کہ زنا کے ثبوت کے لیے کتاب وسنت کی رو سے چار مسلمان عادل چشم دید گواہ ہونے ضروری ہیں جن کی عدم موجودگی مظلوم خواتین کے لیے گوناگوں مشکلات کا باعث بنتی رہی ہے۔ اس کا جواب یہ دیاگیا کہ ’’کوئی ایک مقدمہ بھی ایسا نہیں جس میں زنا بالجبر کی کسی مظلومہ کو اس بنا پر سزا دی گئی ہو کہ وہ چار گواہ نہیں پیش کرسکی بلکہ اگر عورت کا کردار مشکوک ہو، تب بھی عورتوں کو سز ا نہیں ہوتی ۔عورت کو شک کا فائدہ دے کر چھوڑ دیاجاتاہے‘‘ لیکن کیا مظلومہ کو انصاف ملتاہے اور اس کی داد رسی ہوتی ہے ؟درحقیقت ججوں کے او رسول سوسائٹی کے معیار انصاف میں زمین وآسمان کافرق ہے۔ جب کوئی جج کسی ایسے ملزم کو جو آٹھ دس سال جیل میں گزار چکا ہو،باعزت بری کرتاہے تو وہ یہ سمجھتاہے کہ اس نے مظلوم کی داد رسی کردی اور حق وانصاف کا بول بالا ہوگیا، لیکن باعزت بری ہونے والے شخص اور سول سوسائٹی کانقطہ نظر بالکل مختلف ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ اس شخص کے زندگی کے آٹھ دس سال چھین لینے کا کون ذمہ دارہے؟ اس کی عزت اور نیک نامی کو جو دھبہ لگ گیاہے، وہ کیسے دھل سکتاہے ؟اس کی زندگی بھر کا اثاثہ مقدمات کی نذر ہوگیا، وہ اسے کیسے واپس مل سکتاہے؟ اس کا گھر، خاندان تباہ ہو گیا، بچے دربدرہوگئے اور وہ باعزت ہونے کے باوجود اپنے گھر، خاندان او رسماج میں ذلیل ہوگیا۔ اس انصاف کے بجائے اگر اسے بے گناہ ہونے کے باوجود سنگ سار کردیاجاتا تو وہ اس ذلت کی زندگی سے تو نجات پاسکتاتھا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیامیں جتنے ظلم عدالتوں کے کٹہروں میں انصاف کے نام پر ہوتے ہیں، اتنے عالمی جنگوں میں بھی نہیں ہوئے۔ انصاف فراہم کرنے والوں کو اگر کبھی خود حصول انصاف کے مراحل سے سابقہ پڑے توشاید انہیں محسوس ہوکہ بڑے بڑے ائمہ، قاضی بننے کے بجائے جیلوں میں مرنے کو کیوں ترجیح دیتے تھے۔
الغرض عصمت دری کو زنا کی قسم قراردینے کے لیے جو دلائل دیے گئے ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ :
۱۔ قرآن حکیم کی سورۂ نور کی آیت نمبر ۲ میں زنا کی حد بیان کی گئی۔ اس آیت میں زنا کا لفظ مطلق ہے جو ہر قسم کے زنا کو شامل ہے۔ اس میں زنا مندی سے کیا ہوازنا بھی داخل ہے اور زبردستی کیا ہوا زنا بھی۔
۲۔ ترمذی کی حدیث نمبر ۱۴۵۴ کے مطابق مدینہ منورہ میں نماز کو جانے والی ایک عورت کی عصمت دری کی گئی۔ عورت نے شور مچایا تو وہ شخص بھاگ گیا۔ بعد میں اس نے اعتراف کرلیا اور رسول اللہ ﷺ نے اسے رجم کروادیا۔
آئیے، اب ان دلائل کا جائزہ لیتے ہیں:
۱۔پہلی دلیل کا تعلق اصول فقہ سے ہے کہ زنا کا لفظ مطلق ہے اور اس میں رضامندی اورجبر دونوں قسم کے زنا شامل ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ زنا کا لفظ مطلق نہیں، بلکہ یہ ایک اصطلاح ہے اور اصطلاحات کبھی مطلق نہیں ہوتیں۔ یہ لفظ خاص ہے اور اس کا مفہوم متعین ہے جس میں دوطرفہ آزادانہ رضامندی کا عنصر ضروری ہے، جیساکہ الکاسانی نے البدائع ۷:۳۳ میں اور ابو عبداللہ قرطبی نے الجامع لاحکام القرآن ۱۲:۱۵۹ میں اس کی تصریح کی ہے۔ اس سے عصمت دری مراد لینا اس لیے بھی غلط ہے کہ بالعمو م مفسرین نے سورہ نور کی مذکورہ بالا آیت کے بارے میں کہاہے کہ اس میں سورۃ النساء کی آیت ۱۵ میں کیے گئے وعدے کی تکمیل ہے۔ گویا قانونی الفاظ میں سورۃ النور کی آیت ۲ کو سورہ النساء کی آیت ۱۵ کے ساتھ ملاکر پڑھیں گے جو یہ ہے:
وَاللاَّتِیْ یَأْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِن نِّسَآءِکُمْ فَاسْتَشْہِدُواْ عَلَیْْہِنَّ أَرْبَعۃً مِّنکُمْ فَإِن شَہِدُواْ فَأَمْسِکُوہُنَّ فِیْ الْبُیُوتِ حَتَّیَ یَتَوَفَّاہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللّہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً
’’تمہاری عورتو ں میں سے جو بے حیائی کا ارتکاب کرے تو اس پر اپنے میں سے چارگواہ لاؤ۔ اگر وہ گواہی دے دیں تو انہیں گھروں میں بند کردو تاآنکہ وہ فوت ہوجائیں یا اللہ ان کے لیے کوئی راہ نکالے۔‘‘ 
اس آیت میں ان عورتوں کا ذکر ہے جو بدکاری کا ارتکاب کرتی ہیں، نہ کہ ان خواتین کا جو بدکاری کا شکار ہوتی ہیں، لہٰذا سورہ نور میں وہی خواتین مراد ہوں گی جو اپنی رضامندی سے جرم زنا کا ارتکا ب کرتی ہیں۔
قرآن حکیم نے جہاں خواتین کے ساتھ جبر اور زبردستی کا ذکر کیاہے وہاں’’زنا‘‘ کالفظ استعمال نہیں کیا بلکہ وہاں ’بغاء‘ (بغی) پر ’اکراہ‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ سورہ النور میں ہے: وَلَا تُکْرِہُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَاء (۲۴:۳۳) (اپنی باندیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو) اگر مجبوری کی حالت میں کسی مرد کے سامنے بے بس ہوجانا اور اسے اپنے اوپر اختیار دے دینا ’’زنا‘‘ ہوتا تو آیت کے الفاظ یوں ہوتے: ’ولا تکرھوا فتیاتکم علی الزنا‘۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ عصمت دری قرآن کی اصطلاح میں زنا نہیں، بلکہ بغی ہے جس کی سزا سورہ المائدہ کی آیت ۳۳ میں مذکور ہے۔
۲۔ جس حدیث سے یہ استدلال کیاگیاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصمت دری کے مرتکب شخص کو بھی سنگساری کی سزا دی، اس لیے عصمت دری بھی زنا کی قسم ہے ،یہ استدلال بھی درست نہیں ہے۔ اب تک کی جستجو کے مطابق یہ حدیث، چار مستند کتابوں میں آئی ہے: مسند احمد بن حنبل (۶:۳۹۹)، نسائی، سنن کبریٰ (۴:۳۱۴)،ابو داؤد، حدیث نمبر ۴۳۷۹ اور ترمذی، حدیث نمبر ۱۴۵۴ ۔
اس حدیث کا سلسلہ سند یوں ہے: 
وائل بن حجر > علقمہ > سماک > اسرائیل > محمد بن عبداللہ بن الزبیر (امام احمد بن حنبل) 
وائل بن حجر > علقمہ > سماک > اسرائیل >  محمد بن یوسف الفریابی > محمد بن یحییٰ بن فارس نیشاپوری (ابو داؤد ۔ ترمذی)
وائل بن حجر > علقمہ > سماک > اسباط بن نصر >  عمر و بن حماد بن طلحہ > محمد بن یحییٰ الحرانی (نسائی)

پوری حدیث یوں ہے:
’’عہد نبوی میں ایک عورت نماز پڑھنے گھر سے نکلی، راستے میں ایک شخص نے زبردستی اس سے اپنی خواہش پوری کی۔ عورت چیخی چلائی، اتنے میں ایک شخص وہاں سے گزرا، اس نے عورت کا ماجرا سن کر مجرم کا تعاقب کیا۔ پھر مہاجرین کی ایک جماعت وہاں سے گزری تو وہ بھی واقعہ سن کر مجرم کے پیچھے بھاگے اور انہوں نے پہلے تعاقب کرنے والے شخص کو پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کردیا۔ عور ت نے بھی تصدیق کی کہ یہی مجرم ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ اتنے میں ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا، یہ نہیں بلکہ اصل مجرم میں ہوں۔ آپ نے عورت کو گھر بھیج دیا۔ پہلے پکڑے جانے والے شخص کی دل جوئی کی۔‘‘
اصل مجرم کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ؟ اس کے بارے میں ترمذی اور ابوداؤد میں ہے کہ اسے رجم کردیاگیا اور مسند احمد بن حنبل اور سنن کبریٰ میں ہے کہ آپ نے اسے چھوڑ دیا اور فرمایا کہ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر تمام اہل مدینہ ایسی توبہ کریں تو سب کے لیے کافی ہوجائے۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل فیصلہ کیا تھا؟ یہ جاننے کے لیے اس حدیث کی سند پر غور کیاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ ابتدائی تین درجوں میں اس حدیث کا ایک ایک راوی ہے اور وہ ہیں وائل بن حجر، علقمہ اور سماک۔ چوتھے درجے میں اس کے دو راوی ہیں، ایک اسرائیل اور دوسرے اسباط بن نصر۔ اسباط بن نصر کی روایت نسائی کی سنن کبریٰ میں ہے جس کے متن میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصمت دری کا اعتراف کرنے والے کو سزا نہیں دی، بلکہ اس کی توبہ قبول کرلی گئی۔ اسرائیل کی جو روایت مسند احمد بن حنبل میں ہے، وہ نسائی کے مطابق ہے اور جو ترمذی میں ہے، وہ یہ ہے کہ اعتراف جرم کرنے والے کو رجم کی سزا دی گئی۔ ابو داؤ دکا جو نسخہ ہمارے ہاں متداول ہے، اس کی روایت ترمذی سے ہم آہنگ ہے، لیکن اس کا جو نسخہ حافظ ابن القیم کے زیر استعمال تھا (دیکھئے الطرق الحکمیہ:۵۸)اس کی روایت مسند احمد اور سنن نسائی کے مطابق ہے ۔ اس لیے روایت کے داخلی مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ عصمت دری کے جرم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرابہ قرار دیتے ہوئے گرفتاری سے قبل توبہ کرنے والے کو سورہ المائدہ کی آیت ۳۴ کے تحت معافی دے دی تھی۔ درایت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس حدیث کے اس متن کو د رست تسلیم کیاجائے جس میں توبہ اور معافی کا ذکر ہے کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے جن افراد کو رجم کروایا، ان کے نام یاآثار واحوال بکثرت روایات میں موجود ہیں جب کہ مذکورہ بالا شخص اس فہرست میں شامل نہیں ہے۔ اگر اسے رجم کروایا گیاہوتا تو مسلمانوں کا ایک جم غفیر اس کارروائی میں شریک ہوا ہوتا اور دوسرے واقعات کی طرح اسے بھی روایت کرتا اوریہ حدیث اپنی سند اور متن دونوں حوالوں سے تواتر یا کم ازکم شہرت کے درجے کو پہنچ گئی ہوتی۔ 
مزید برآں عصمت دری پر رجم کی سز ا کو اس حدیث سے ثابت کرنا ممکن نہیں، کیونکہ یہ خبرواحد ہے اور عصمت دری کی حد کسی قطعی الثبوت وقطعی الدلالت نص سے ہی ثابت ہوسکتی ہے۔
روایات کے تعارض کے باوجود ان تمام روایات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نتائج اخذ ہوتے ہیں کہ:
۱۔جس شخص کو مظلوم خاتون نے بطور مجرم شناخت کیاتھا، وہ اگر چہ بے گناہ تھا لیکن اتفاقی شواہد کی بناپر اسے سزائے رجم کا حکم سنایاگیا اور یہ تحقیق نہیں کی گئی کہ وہ محصن ہے یا غیر محصن۔
۲۔جب اس مجلس میں اصل مجرم نے اعتراف جرم کیا تو اس کے بارے میں بھی تحقیق نہیں کی گئی کہ وہ محصن ہے یا غیر محصن۔ اگر یہ روایت درست ہے کہ اس کے بارے میں رجم کا فیصلہ کیاگیا تو اس کے محصن ہونے کی تحقیق کے بغیر کیاگیا اور اگر مسند احمد اور نسائی کی روایت، جسے حافظ ابن القیم نے ترجیح دی ہے، درست ہے تو اس سے واضح ہوتاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصمت دری کو حرابہ قرار دیا اور جب ایک شخص نے خود اعتراف کرکے اپنے آپ کو عدالت کے روبرو پیش کردیا تو آپ نے آیت حرابہ (المائدہ ۵:۳۴) کے تحت اس کی سزا معاف کردی۔
نیزعقل عام کا تقاضا یہ ہے کہ عصمت دری، زنا بالرضا سے زیادہ سنگین جرم ہے، اس لیے اس پر وہی سزا دینا جو زنا بالرضا پر ہے، قرین انصاف نہیں بلکہ جس طرح ڈاکے کی سزا چوری سے زیادہ سنگین ہے، عصمت دری کی سزا زنا بالرضا سے زیادہ سنگین ہونی چاہیے۔ قاضی ابوبکر ابن العربی (احکام القرآن ۲:۹۵) نے ان فقہا اور قاضیوں کی عقل کا ماتم کیاہے جو ڈاکے کو توحرابہ قراردیتے ہیں، لیکن عصمت دری کو حرابہ قرارنہیں دیتے ۔وہ لکھتے ہیں:
’’میرے ایام قضا میں ایک قافلے پر کچھ لوگوں نے حملہ کیا اور ایک عورت کو زبردستی اٹھا کرلے گئے۔جب وہ پکڑے گئے اور مقدمہ میری عدالت میں پیش ہوا تو اللہ تعالیٰ نے جن مفتیوں کی آزمائش میں مجھے مبتلا کردیاتھا، میں نے ان سے رائے لی تو وہ کہنے لگے، چو ں کہ مال نہیں لوٹاگیا، اس لیے یہ حرابہ نہیں ہے، عصمت دری میں حرابہ نہیں ہوتا۔ میں نے کہا، انا للہ وانا الیہ راجعون، کیا تمہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ عصمت دری کا حرابہ ڈاکے سے زیادہ سنگین ہے۔ لوگ اپنے سامنے اپنا مال تو لٹتا دیکھ سکتے ہیں، لیکن اپنی بیوی یا بیٹی کی عزت پامال ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔ اگر اللہ کی مقررکردہ سزا سے زیادہ سزا دی جاسکتی تو عصمت کے ان لٹیروں کو دی جاتی۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو جاہل مفتیوں اور قاضیوں سے بچا کر رکھے۔‘‘
حدود آرڈیننس کے مولفین نے عصمت دری کو اگر چہ زنا کی قسم قرار دیتے ہوئے اس کے لیے معیار ثبوت وہی مقرر کیاتھا جو زنا کا ہے، لیکن انہیں اس جرم کی سنگینی کا بھی احساس تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کنوارے مجرم کے لیے بھی سو کوڑوں سے زائد سزا، جو سزائے موت بھی ہوسکتی ہے، تجویز کرتے ہیں، البتہ عصمت دری کو زنا قرار دینے کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ تنہا عورت کو بے آبرو کرنے والے غنڈے بدمعاشوں کو قانونی تحفظ فراہم ہو جاتاہے کیوں کہ زنا کا معیار ثبوت ایساہے جو شاید دست یاب نہ ہوسکے اور اگر گواہ میسر آبھی جائیں تو تزکیۃ الشہود کی بھٹی میں ہی بھسم ہوجائیں گے اور عصمتوں کے لٹیرے معاشرے میں دندناتے پھریں گے۔ عصمت دری کو زنا قرار دینے سے کئی اور قانونی پیچیدگیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ مثلاً کیا جو عورت عصمت دری کا شکار ہوئی ہے، اسے زانیہ کہنا درست ہے ؟کیا کسی مرد ہ عورت یا کسی جانورسے بدفعلی کرنا بھی موجب حدہے؟ اس لیے کتاب وسنت کی تصریحات کی ر وشنی میں ہماری رائے یہ ہے کہ عصمت دری، زنا کی قسم نہیں بلکہ اس سے زیادہ گھناؤنا اور سنگین فعل ہے، یعنی حرابہ ۔عصمت دری کے زنانہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ جرم موحب حد نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا معیار ثبوت اور اس کی سزا وہ نہیں جو زنا کی ہے جس میں ثبوت کے لیے چار چشم دید مسلمان مرد گواہوں کی شرط ہے جو تزکیۃ الشہود کے معیار پر پورے اتریں اور سزا میں کنوارے اور شادی شدہ میں امتیاز ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جرم ان تمام ذرائع سے ثابت ہوجائے گا جن سے جرائم ثابت ہوتے ہیں۔
حرابہ کی سزا قرآن حکیم نے مقرر کر دی ہے اور وہ چار سزائیں ہیں جو سورہ المائدہ آیت ۳۳ میں مذکورہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ قاضی جرم کی نوعیت، شدت اور حالات کو جانچتے ہوئے ان میں سے کوئی ایک سزا دے دے اور ان میں سزائے موت بھی شامل ہے۔ اس لیے تحفظ نسواں بل میں عصمت دری کو تعزیر ی جرم قراردینا قرآن حکیم کی روسے غلط ہے۔ اسے جرائم حدود میں رکھاجائے اور حدود آرڈیننس میں اس کے ثبوت اور سزا کے حوالے سے تبدیلی کردی جائے۔
تحفظ نسواں بل میں عصمت دری کو تعزیری جرائم میں شامل کیاگیاہے۔ یہ جرم ناقابل ضمانت اور ناقابل مصالحت ہے۔ اس قانون کی تدوین کے دوران اس امر پر بھی غور نہیں کیا گیا کہ اگر کسی شخص پر عصمت دری کا جھوٹا الزام عائد کیا گیا ہو اور عدالت میں مدعیہ کا جھوٹ ثابت ہوجائے یا عصمت دری ثابت نہ ہو سکے تو جھوٹا الزام عائد کرنے پر کیا سزا دی جائے گی؟ جہاں تک قذف کی خود کار سزا کا تعلق ہے، وہ جرم زنا کے عدم ثبوت سے وابستہ ہے نہ کہ عصمت دری کے عدم ثبوت سے۔ موجودہ دفعہ سے اس امر کا اندیشہ بڑھ گیاہے کہ سیاسی اور دیگر نوعیت کے مخالفین کے خلاف بے بنیاد جنسی الزامات عائد کرکے ان کو سزائیں دلوانے یا ان کا مستقبل تاریک کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوجائے گا ۔اب صحت مند انتخابی مہم چلانے کے بجائے مخالف امیدوار کو عصمت دری کے مقدمے میں ملوث کرکے اس سے بآسانی اس طرح نجات حاصل کی جاسکے گی جس طرح ملائشیا کے ڈپٹی پرائم منسٹر انور ابراہیم کو ان کی اسلامی خدمات کا صلہ دیتے ہوئے نہ صرف منظر سے ہٹا دیاگیا بلکہ ہمیشہ کے لیے بے آبرو کر دیا گیا۔ کرایہ داروں سے مکان خالی کرانے اور سینئر افسران سے ان کی سیٹ خالی کرانے کے لیے مذکورہ دفعہ اکسیر کا حکم رکھتی ہے۔ اس امر کا بھی اندیشہ ہے کہ گھریلو خادمائیں اس دفعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر گھر کو یرغمال بنا لیں اور اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں گھر کے کسی مرد پر عصمت دری کا الزام عائد کرکے ہر گھر کاسکون غارت کر دیں۔ اسلام نے اس کا علاج بھی ساتھ ساتھ دیاہے اور وہ یہ ہے کہ ایسی صورت میں ثبوت جرم کے لیے قابل اعتماد ثبوت ہونا ضروری ہے، اور الزام غلط ثابت ہونے پر حد قذف کی خود کار سز ا موجود ہے۔
علما کمیٹی نے فحاشی کی روک تھام کے لیے یا دوسرے لفظوں میں حدود آرڈیننس میں زنا موجب تعزیر کی دفعہ کے متبادل کے طور پر مندرجہ ذیل دفعہ تجویز کی تھی:
A man and woman are said to commit lewdness if they willfully have sexual intercourse with one another and shall be punished with imprisonment which may extend to five years and shall also be liable to fine.
’’ایک مرد اور عورت اگر اپنی آزادانہ رضامندی سے باہمی جماع کرتے ہیں تو انہیں فحاشی کا مرتکب قرار دیا جائے گا اور انہیں پانچ سال تک سزائے قید دی جائے گی اور جرمانہ بھی کیا جاسکے گا۔‘‘
تحفظ نسواں بل میں اس تجویز کی زبان بہتر کرکے میاں بیوی کو اس جرم سے خارج کردیاگیاہے تاہم قانون سازی کی اس ساری سرگرمی میں اس اصل جرم کا کہیں ذکر نہیں ہے جس کے بارے میں موثر قانون سازی کی ضرورت تھی اور جو بنیادی خرابی ہے جسے اسلام بیخ وبن سے اکھاڑ دینا چاہتاہے، اور وہ ہے ’’فحاشی اور بے حیائی کی اشاعت ‘‘۔
اسلامی احکام کی رو سے معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی کی اشاعت ایک سنگین جرم ہے جس کے بارے میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس کی روک تھام کے لیے قانون سازی کرے اور اشاعت فاحشہ کے مجرموں کو سنگین سزا دے۔ اسلام جہاں چار دیواری کا تحفظ کرتاہے اورلوگوں کے گناہ تلاش کرنے کے لیے ان کے گھروں میں جھانکنے اور ان کی نجی زندگی کی ٹوہ لینے سے سختی سے منع کرتاہے، وہاں وہ معاشرے کو پاک صاف رکھنے کے لیے فحاشی کی اشاعت پر پابندی عائد کرتاہے۔ زنا کے ثبوت کے لیے چار چشم دید گواہوں کی شرط بھی درحقیقت کھلم کھلا فحاشی کے ارتکاب کو روکنے کے لیے ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اگر چار گواہ موجود نہیں ہیں تو زنا جرم نہیں یا اس کے جرم ہونے کی شد ت کم ہوجاتی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر چار گواہ موجود نہیں تو زنا گناہ ہونے کے باوجود ’’فحاشی کی اشاعت‘‘ کے زمرے میں نہیں آتا۔ قرآن حکیم نے سورہ النور میں عصمت وعفت کے تحفظ کے قوانین بیان کرتے ہوئے ان قوانین کا مقصد یہی بیان کیا کہ مسلم معاشرے میں فحاشی کی اشاعت نہ ہو ۔قرآن کہتاہے :
إِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ أَن تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِیْ الَّذِیْنَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ(النور۲۴:۱۹)
’’جو لوگ اہل ایمان میں فحاشی کی اشاعت کو پسند کرتے ہیں، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔‘‘
حیرت کی بات ہے کہ جن گونا گوں طریقوں سے سرکاری سرپرستی میں بے حیائی اور فحاشی کی اشاعت ہوتی ہے، اس کے سامنے بند باندھنے کے لیے کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہوتی بلکہ اسے میڈیا کی آزادی کے عنوان سے تحفظ دیا جاتا ہے۔ بے حیائی کی اشاعت جو قرآن کریم کی رو سے اصل برائی ہے، اس کے سدِ با ب کے لیے حدود آرڈیننس میں کوئی دفعہ تھی، نہ تحفظ نسواں ایکٹ میں ہے۔
حدود آرڈیننس اور حقوق نسواں ایکٹ کے گہرے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ جس طرح اسلامی قانون جرم وسزا کے نفاذ کے بے پایاں شوق کے نتیجے میں مناسب غوروفکر کے بغیر حدودآرڈیننس نافذ کردیاگیاتھا اور اس میں بہت سی دفعات کتا ب وسنت سے متصادم تھیں، اسی طرح اس کی ترمیم وتنسیخ کے جذبہ فراواں کے تحت جلد بازی اور افراتفری میں تحفظ نسواں بل پاس کردیاگیاہے جس کی کئی ایک دفعات کتا ب وسنت کے خلاف ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ قانون سازی دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ اسلامی حوالے سے اس کے لیے کتاب وسنت کے مکمل علم اور ائمہ مجتہدین کی کاوشوں سے آگاہی کے علاوہ معاشرتی روایات، تمدنی ارتقا، فلسفہ قانون، سابقہ قوانین کے اثرات ونتائج اور مجوزہ قوانین کے متوقع اثرات کے بارے میں گہری بصیرت درکار ہوتی ہے۔ حیرت ہے کہ تحفظ نسواں ایکٹ کی کئی ایک دفعات کے کھلم کھلا کتاب وسنت سے متصادم ہونے کے باوجود اسلامی نظریاتی کونسل نے اسے کیسے ’’مشرف باسلام‘‘ کرلیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بقول علامہ اقبال ؂
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
اگر اس ملک کی ہمہ مقتدر شخصیت اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف یہ بات غلط منسوب کر رہی ہے تو کونسل کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے کیونکہ 
نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے مستی میں 
فقیہ مصلحت بیں سے وہ رند بادہ خوار اچھا


* یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ اس رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ تین دفعات کے بارے میں علما کمیٹی اور چودھری شجاعت حسین صاحب اور ان کے رفقا کے درمیان اتفاق ہوا ہے، جبکہ دوسری بہت سی دفعات کے بارے میں بھی علماء کرام نے متعلقہ رپورٹ میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ان کے حوالے سے اپنی رائے الگ پیش کی ہے۔ (راشدی)

علامہ اقبال کا تصور اجتہاد اور علمائے کرام

یوسف خان جذاب

اقبال بیسو یں صد ی کے بہت بڑ ے مفکر، فلسفی، شاعر اور مجتہد تھے۔ بیسویں صدی کے ذکر سے یہ مقصد نہیں ہے کہ اُن کی فکر اسی ایک صدی میں مقید تھی۔ یہ بات اُ ن کی ذات کے متعلق تو کہی جا سکتی ہے، لیکن جہا ں تک اُ ن کی فکر کا تعلق ہے تو شا ید جمو د کے اس دور میں بھی اُ ن کی پرو از میں کو تا ہی نہیں آ ئی ہے۔ اجتہاد کے حو الے سے اقبا ل کی فکر کی حکمر انی ان کے دور تک محدود نہیں ہے، یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک ان کی فکر کو صحیح معنوں میں سمجھا نہیں گیا جو بلاشبہ مسلم امہ کے لیے ایک المیہ ہے ۔ 
ماہنامہ ’الشریعہ‘ نو مبر ۲۰۰۶کے شمار ے میں، اقبا ل کی فکر کے حو الے سے کئی مضا مین سا منے آ ئے ہیں۔ مذکور ہ شمارے کے نصف سے زیاد ہ صفحا ت میں فکر اقبا ل سے متعلق عمو ماً اور اُن کے اجتہاد ی نقطہ نظر سے متعلق خصو صاً لکھا گیا ۔ رئیس التحر یر جنا ب زا ہد الر اشد ی صا حب نے بھی ’کلمہ حق‘ کو اقبا ل کے تصور اجتہا د کے حوالے سے ’’چند ضروری گذارشات‘‘ کے لیے مختص کیا ہے اور نہا یت خو بصورتی سے علامہ اقبا ل کی فکر ی، فلسفیا نہ، دانشورانہ اور شا عرانہ حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انگریز ی استعمار کے دور میں اس فکر ی خلا کی نشا ند ہی کی ہے جو مسلما نو ں کے جمود کی وجہ سے پید ا ہو گیا تھا۔ یہ مو لا نا صا حب کی و سیع النظری ہے کہ وہ اس خلا کے وجود کے معتر ف ہیں، ور نہ ایسے لو گو ں کی کمی نہیں ہے جو کسی فکر ی خلا کے وجود کے ہی سر ے سے انکار ی ہیں۔ تا ہم مو لا نا صاحب کا کہنا ہے کہ چونکہ اقبال خود مجتہداور فقیہ نہ تھے اور نہ ہی اجتہاد اور فقہ سے ان کا عملی علاقہ رہا تھا، اس لیے وہ اجتہاد کے عملی پہلوؤں کے حوالے سے اقبال کی آرا پر اپنے تحفظا ت رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں مولانا صاحب نے چند امور کی نشان د ہی کی ہے جو بحث طلب ہیں۔ ذیل میں ہم جنا ب زاہد الراشد ی صا حب کے پیش کردہ ان نکا ت پر ایک نظر ڈالیں گے۔
۱۔ اجتہاد مطلق کا دروازہ بند کیے جانے سے متعلق اقبال کے اعتراض کے جواب میں مو لا نا صا حب کا ارشاد ہے کہ اس کا تعلق اہلیت و صلا حیت کے فقدان سے نہیں بلکہ ضرورت مکمل ہو جا نے سے ہے اور دیگر علو م و فنو ن کی طر ح اجتہاد کے اصول و ضو ابط بھی، جو اسا سی نو عیت کے ہو تے ہیں، طے ہو چکے ہیں اور غیر متبد ل ہیں۔ اس کے خلاف یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دین میں جو چیز بھی ابدی اور اٹل نو عیت کی ہو تی ہے، اس کے لیے قر آن پا ک یا سنت نبو ی سے صراحت پیش کر نا ہوگی۔ کیا مو لا نا صا حب اجتہاد مطلق کے متعلق ایسی کوئی تصریح پیش کر سکتے ہیں؟ ظاہر بات ہے کہ اجتہا دی فیصلے چونکہ قیاسی اور استنبا طی ہو تے ہیں، اس لیے ان کی حتمیت پر اصرار نہیں کیا جا سکتا ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک مسئلے کے حل کے با ر ے میں اربا ب علم متفق ہو جا ئیں، لیکن ہر حال میں یہ اتفا ق ضروری نہیں۔ دوسر ے لفظو ں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جن اصو ل و ضوابط کو مو لا نا صا حب نے ’’اساسی قوانین‘‘ کہا ہے، انہیں یہ بنیا دی حیثیت کس نے دی ہے ؟ اگر وہ فرمائیں کہ تا ریخ نے ثابت کر دیاہے تو اس ضمن میں یہ پو چھا جا ئے گا کہ ان پا نچ چھ فقہی مذاہب کے علا وہ دیگر بیسیوں فقہی مذ اہب کے پیر و کاروں کے سا تھ، جو اُ ن کے بقول تار یخ کی نذر ہو گئے، اللہ تعا لی کیا معا ملہ فر ما ئیں گے؟ انہوں نے بھی تو ان اجتہادات سے انحر اف کیا تھا۔ یہ سو ال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ ان اجتہا دات کا اقرار یا انکار صرف تا ریخ کا معاملہ نہیں کہ فلا ں فقہی مذہب عملی لحا ظ سے دوام حا صل کر گیا اور فلا ں نا کا م ہو گیا، بلکہ یہ ہمار ی اُ خروی زند گی سے بھی متعلق ہے۔ ممکن ہے مو لا نا صا حب اس دور کو فقہی قو انین کی تشکیل کا عبو ری دور قرار دے کر دیگر مذ اہب کے پیروکاروں کے لیے نجات کی راہ نکا ل لیں مگر میری ا لجھن یہ ہے کہ یہی دور حتمی کیو ں ہے؟ اسلا م میں اجتہاد کا وجود اسے ایک متحر ک (Dynamic) مذہب ثا بت کرتا ہے اور اس تحرک کی بنا پر ہی اسلام تمام زمانوں کے لیے ہے۔ اجتہا د کو فقط ایک دور تک محدود کرنا، اس کی حر کت کو جمود میں تبدیل کرنے کے مترادف ہے ۔ شا ید الطا ف احمد اعظمی صا حب نے اس لیے لکھا ہے کہ :
’’ قیا سی احکا م حا لات اور ظروف ز ما نہ کے تا بع ہیں اور ان کی تبدیلی سے وہ بھی تبدیل ہو جائیں گے یا یو ں کہہ لیں کہ اُن کی اطلا قی صور تیں بدل جا ئیں گی۔ اس سلسلے میں حنفی فقہا کا رویہ ما ضی کی طر ح آ ج بھی قابل اعترا ض ہے۔ انہو ں نے حنفی فقہ کو، جو زیا دہ تر قیا سی اور استد لا لی احکام پر مشتمل ہے، نا قابل تغیرسمجھ لیا ہے۔‘‘ (۱) 
اگر بقول مو لانا صا حب ان اسا سی قو انین کی حیثیت اب نا قا بل تغیرہے اور ان کی تشکیل کا فقط ایک ہی دور تھا تو خود حضور نبی کریم ؐ اور صحا بہ کرامؓ کے دور ہی میں ان اصو ل اور ضو ابط کو طے کیوں نہیں کر دیا گیا، کیو نکہ وہ بہر طور دین کو بہتر طر یقے سے سمجھ سکتے تھے۔ 
۲۔ رئیس التحر یر نے لکھا ہے کہ اقبا ل نے اجتہا د کا خطبہ دیتے وقت ترکی کی جد ید یت کو سامنے رکھا تھا۔ گزارش یہ ہے کہ کو ئی بڑے سے بڑا لکھا ری بھی اپنے ما حو ل سے اوپر اُ ٹھ کر نہیں لکھتا۔ بیسو یں صدی کے ربع اول میں تر کی اند ھی تقلید سے اپنے آ پ کو آ زاد کر نے کے لیے تگ ودو کر رہا تھا۔ اقبال نے تر کی کی اس کاو ش کو بنظر تحسین دیکھا کیو نکہ اقبا ل کے مطابق مرد مو من اپنی خود ی کو اسی وقت مستحکم کر سکتا ہے جب اس میں حر یت اور آ زادی کاجذبہ بد رجہ اتم مو جو د ہو اور وہ روایا ت کے شکنجوں کو توڑ سکتا ہو۔ ترکی اس وقت بلا شبہ اس اند ھی تقلید کے بت کدو ں کو پا ش پا ش کر رہا تھا۔ تر کو ں کے اس اقدام کو اقبال نے یو ں سر اہا ہے: 
’’دراصل یہ صر ف تر ک ہیں جو امم اسلا میہ میں قد امت پر ستی کے خو اب سے بیدار ہو کر شعور ذات کی نعمت حا صل کر چکے ہیں۔ یہ صرف ترک ہیں جنہو ں نے ذہنی آ زادی کا حق طلب کیاہے اور جو ایک خیالی دنیا سے نکل کر اب عا لم حقیقت میں آ گئے ہیں۔‘‘ (۲)
اقبا ل مسلما نو ں کی نشاۃ ثانیہ کے خواہاں تھے اور نشاۃ ثانیہ کے لیے اند ھی تقلید سے آزاد ہو نا نا گزیر ہے۔ تر کی اس وقت قدامت پسند ی کے خلاف لڑرہا تھا اور اقبال کے مطابق قدامت پسندی اور روایت پر ستی ہی مسلم امہ کے زوال کاسبب تھی، چنا نچہ تر کو ں کی، فر سو دہ ر وایات سے بغا وت اور ان کی عقلی پیش رفت ان کے خیا لی دنیا سے نکل کر عا لم حقیقت میں ٓآنے کے متر ادف تھی۔ اقبال کا خطبہ اجتہا د محض ترکی کی جد یدیت کی نقالی نہیں ہے۔ انہو ں نے تر کی کے مشہور شا عر ضیا سے، جس کا حو الہ بار بار خطبہ اجتہاد میں آیا ہے، جہا ں ضرو ری تھا اختلا ف بھی کیا ہے۔ اقبال ترکی کی جد ید یت کے کہاں کہاں خلا ف تھے، طوالت کے خو ف سے اس بحث سے صرف نظر کیا جا تا ہے۔ اقبال اس اجتہا د کے حق میں تھے جس میں اسلا می روح سر ایت کر چکی ہو۔ تر کی اس وقت لا کے صنم کدو ں کو تو ڑ چکا تھا، تا ہم الا کے معبد تعمیر نہیں کر سکا تھا ۔ اس لیے اقبال نے اس خد شے کا اظہار کیا :
’’آ زاد خیا لی کی یہی تحر یک اسلام کا نا ز ک تر ین لمحہ بھی ہے۔ آ زاد خیا لی کا رجحان با لعمو م تفر قہ اور انتشار کی طر ف ہو تا ہے، لہٰذا نسلیت اور قو میت کے یہی تصورات جو اس وقت دنیا ئے اسلام میں کارفرما ہیں، اس وسیع مطمح نظر کی نفی بھی کر سکتے ہیں جس کی اسلا م نے مسلما نو ں کو تلقین کی ہے ۔ ‘‘ (۳) 
تر کی کی جس لا د ینیت کو مو لا نا صا حب اور الطا ف احمد اعظمی صا حب (۴) اقبا لی فکر کے شجر ۂ طو بیٰ کے بر گ و بار قرار دیتے ہیں، اقبا ل نے پیشگی طور پر اس کی اطلاع دے کر ان کے اس خیا ل با طل کی بسا ط الٹ دی تھی ۔ چنا نچہ لکھتے ہیں :
’’پھر اس کے علا وہ یہ بھی خطر ہ ہے کہ تمہا ر ے مذ ہبی اور سیا سی رہنما حر یت اور آ زاد ی کے جو ش میں، بشر طیکہ اس پر کو ئی روک عا ید نہ کی گئی، اصلا ح کی جا ئز حدود سے تجاوز کر جا ئیں۔‘‘ (۵) 
اقبا ل تر کی کی ایسی کسی پیش رفت کو قبول کر نے کے حق میں نہ تھے جس سے وہ اسلا می روحانیت سے محروم ہو جائیں۔ جا وید نا مہ کے مند رجہ ذیل اشعار ملا حظہ ہو ں جن میں ترکی کی اس بے مہار آزادی کو ہد ف تنقید بنا یا گیا ہے : 
مصطفی کو از تجدد می سرود
گفت نقشِ کہنہ را باید زدود 
نو نگر دد کعبہ را رخت حیات 
گر زافر نگ آ یدش لات ومنات 
تُر ک را آہنگ نو در چنگ نیست
تازہ اش جز کہنہ افرنگ نیست 
سینہ او را دمے دیگر نبود
در ضمیرش عالمے دیگر نبود 
لاجرم باعالم موجود ساخت 
مثل مو م از سو ز ایں عا لم گداخت 
طرفگی ہا در نہاد کائنات
نیست از تقلید تقویم حیات 
زندہ دل خلاق اعصار ودہور 
جانش از تقلید گردد بے حضور
چوں مسلماناں اگر داری جگر 
در ضمیر خویش ودر قرآں نگر 
صد جہانِ تازہ در آیات او ست 
عصرہا پیچیدہ در آنات او ست 
یک جہانش عصر حاضر را بس است 
گیر اگر در سینہ دل معنی رس است 
بندۂ مومن زآیات خدا ست 
ہر جہاں اندر بر او چوں قبا ست 
چو ں کہن گردد جہانے در برش
می دہد قرآں جہانے دیگرش (۶)
یہ با ت ذہن میں رہنی چاہیے کہ کما ل اتا ترک کے نا م کے سا تھ اقبا ل نے ’’ایدہُ اللہ بنصرہ العز یز‘‘ لکھا تھا (۷) مگر جب اس کی جد ید یت دا ئرہ اسلا م سے متجا وز ہو نے لگی تو اسے آ ڑے ہا تھو ں لیا۔ چنا نچہ اگر اقبا ل تر کو ں کی آ ج کی لا دینیت کا مشا ہد ہ فر ما تے تو ان کو بھی ویسے ہی ہد ف تنقید بناتے جیسا کہ انہوں نے مصطفی کو بنا یا۔ اقبا ل کے سامنے اس وقت فقط ترکو ں کی قد امت پسند ی اور روایت پسند ی کے خلاف بغا وت تھی اور انہو ں نے اُ ن کے اسی پہلو کو خر اج تحسین پیش کیا ہے ۔ 
۳۔ مو لا نا صا حب نے تیسرا نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ اقبال کے خطبہ اجتہا د پر پو ن صدی گز ر چکی ہے اور اب دنیا نئے حالات سے گزر رہی ہے، اس لیے ہمیں اپنے مسائل کو نئے حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ 
اس ضمن میں ہماری گزارش یہ ہے کہ جو طبقہ ما ضی کے اجتہا دات کو حتمی تصور کر تا ہے، وہ جدید عا لمی تنا ظر اور بین الاقوامی ماحو ل میں اپنی ضر ور یا ت اور تر جیحات کا از سر نو جا ئز ہ کیسے لے سکتا ہے ؟ عباسی دور میں مر تب شدہ فقہی اصو لوں اور جزئیات میں محصور رہ کر جو ’’اجتہاد‘‘ بھی کیا جائے گا، اس کا حشر اس کا نفر نس سے مختلف نہیں ہو گا جو گز شتہ سال بھا رت میں ایک مذ ہبی ادارے نے منعقد کی تھی ۔ اس میں ٹیلی ویژن اور تصویر سے متعلق علما کی ’’اجتہا دی‘‘ آ را کی ایک جھلک ’الشریعہ‘ کے گز شتہ شما روں میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ 
ہم سمجھتے ہیں کہ علما ابھی تک اجتہاد کے متعلق اقبال کے مو قف کو نہیں سمجھ سکے۔ تا ریخ کو ئی سیلاب نہیں ہے جو ہنگا می طور پر غا ر ت گر ی کر کے گزر گیا اور بس۔ اس کی کڑ یا ں حا ل اور مستقبل میں پیو ست ہیں ۔ اس سلسلے میں ہم ما ضی سے چشم پوشی نہیں کر سکتے۔ خصو صاً اس صور ت میں جب کہ ہم نے حال تو در کنار، ما ضی کے مسا ئل کا حل بھی نہ ڈھو نڈا ہو ۔ اگر ہم حال کے مسا ئل پر واقعی غور و فکر کر نا چا ہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں اقبال کے اس خطبے کا از سر نو جا ئز ہ لینا ہو گا اور اس کے متعلق اپنے مو قف پر نظر ثا نی کر نا ہو گی۔ الطا ف احمدا عظمی صا حب نے اقبال کے دوسر ے خطبو ں کا بہت سخت تنقیدی جا ئز ہ لیا ہے ، تا ہم اس خطبے میں وہ ا قبا ل سے بڑ ی حد تک متفق دکھا ئی دیتے ہیں۔ میر ی نظر میں عصرحا ضر کا سب سے بڑا تقا ضا یہ ہے کہ علما اجتہاد کا بند دروازہ دوبارہ کھو لنے کے لیے تگ دود کر یں۔ اسی صورت میں وہ اس فکر ی خلا کو پُر کر نے میں کا میا ب ہو سکیں گے جو مسلسل بڑ ھتا جا رہا ہے۔ جب تک یہ قدم نہیں اُ ٹھا یا جاتا، ہم کولہو کے بیل کی طر ح اقبا ل کے خطبہ اجتہاد ہی کا طو اف کرتے رہیں گے ۔ 

حوالہ جا ت

۱۔ اعظمی ، الطا ف احمد، ’’خطبا ت اقبال ۔ایک مطا لعہ‘‘ ( دارالتذکیر لا ہور،۲۰۰۵ ؁ء ) ص:۲۳۸
۲ ۔ نذ یر نیا زی ، سید ( متر جم )، ’’تشکیل جد ید الٰہیات اسلا میہ‘‘ ، طبع دو م ( بزم اقبا ل ، لا ہور ، ۱۹۸۳) ص : ۲۵۰
۳۔ ایضاً ، ص ص :۲۵۱، ۲۵۲
۴۔ اعظمی ، الطا ف احمد، ’’خطبا ت اقبال۔ ایک مطا لعہ‘‘ ، ص :۲۱۷
۵ ۔ نذ یر نیا زی ، سید ( متر جم)، ’’تشکیل جد ید الٰہیا ت اسلا میہ‘‘ ، ص :۲۵۲
۶۔ محمد اقبال، ’’جا وید نا مہ‘‘ ، طبع ہفتم ، ( شیخ غلا م علی اینڈ سنز ، لا ہور، ۱۹۷۸ ء ) ص:۶۶
۷۔ سلیم چشتی ، پر و فیسر، ’’شر ح جا وید نا مہ‘‘، طبع اول ( عشرت پبلشنگ ہا وس ، لا ہور ،۱۹۵۶ ء ) ص ۶۰۱

حدیث نبوی میں ’اخوان‘ کا مصداق

ریحان احمد یوسفی

’’الشریعہ‘‘ کے اکتوبر ۲۰۰۶کے شمارے میں برادرم عمار ناصر صاحب کاایک مضمون شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے مولانا وحید الدین خان صاحب کی ایک تحریر کے حوالے سے ان پر گرفت کی، جس میں مولانا وحیدالدین خان صاحب نے اپنے تشکیل کردہ دعوتی فورم سی پی ایس انٹرنیشنل پر گفتگو کی ہے۔
عمار صاحب کی تنقید مولانا پر دو پہلووں سے ہے۔ ایک یہ کہ انھوں نے مسلم کی اس روایت کاغلط مطلب سمجھا ہے جو مولانا نے نقل کی ہے۔ زیر بحث اصل روایت، اس کے حوالہ جات اور ترجمہ درج ذیل ہے۔واضح رہے کہ محدثین کے نزدیک یہ روایات سنداً صحیح ہے۔
عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَی الْمَقْبَرَۃَ فَقَالَ:السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِیْنَ، وَاِنَّااِنْ شَاءَ اللّٰہُ بِکُمْ لاَحِقُوْنَ.وَدِدْتُ أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا اِخْوَانَنَا. قَالُوْا: أَوَلَسْنَا اِخْوَانَکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: أَنْتُمْ أَصْحَابِیْ، وَاِخْوَانُنَا الَّذِیْنَ لَمْ یَأْتُوْا بَعْدُ.  (مسلم ، رقم۲۴۹۔ابن خزیمہ،رقم ۶۔بیہقی،رقم۷۰۰۱۔احمد،رقم۹۲۸۱۔ابو یعلیٰ،رقم ۶۵۰۲) 
’’ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک موقع پر) قبرستان تشریف لائے اور آپ نے( مُردوں کے لیے دعا کرتے ہوئے) فرمایا:اے مومنین کی جماعت،تم پر سلامتی ہو،اوربے شک، اگر اللہ نے چاہا تو ہم بھی تمھارے پیچھے آنے ہی والے ہیں۔(پھر آپ نے فرمایا:)میری بڑی خواہش ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں۔ صحابہ (رضی اللہ عنہم)نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول،کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟آپ نے فرمایا:تم لوگ تو میرے ساتھی اور رفیق ہو،ہمارے بھائی تو وہ ہیں جو ابھی آئے ہی نہیں ہیں۔‘‘ 
مولانا نے اس روایت سے یہ سمجھا ہے کہ اس میں اصحاب رسول کے علاوہ بھی ایک خاص گروہ کا ذکر کیا گیا ہے جو بعد کے زمانے میں آئے گا۔عمار صاحب کی تنقید یہ ہے کہ اس روایت میں کسی خاص گروہ کی پیش گوئی نہیں کی گئی ہے، بلکہ اپنے بعد آنے والے اہل ایمان کو اپنے بھائی کہا گیا ہے۔
عمار صاحب کی دوسری تنقید یہ ہے کہ مولانا نے اس گروہ کا مصداق سی پی ایس انٹرنیشنل کو قرار دیا ہے ۔اس دوسری بات کا جواب تو خیر مولانا کے ذمہ ہے ۔ میرے علم کی حد تک عمار صاحب کی یہ تنقید مولانا تک پہنچ چکی ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے ’’الرسالہ‘‘ کے کسی شمارے میں وہ اپنا نقطۂ نظر بیان کردیں گے۔ البتہ، ان کی پہلی تنقید چونکہ فہم حدیث سے متعلق ہے ، اس لیے اس بارے میں ،میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرنا چاہتا ہوں۔
میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ اگر اس حدیث کے الفاظ کی نسبت حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست ہے تو اس کے متن کا بغور مطالعہ اسی نتیجے تک پہنچاتا ہے جس تک مولانا وحید الدین خان صاحب پہنچے ہیں۔یعنی اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد آنے والے عام مسلمانوں کی نہیں، بلکہ ان میں سے کچھ خاص لوگوں کی پیش گوئی کی ہے۔ میری بات کے دلائل حسب ذیل ہیں:
اس روایت میں حضور پاک نے بات کا آغاز یہاں سے کیا ہے کہ میری خواہش ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھ لیتے اور آخر میں حضور فرماتے ہیں کہ ہمارے بھائی تو وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان ’’اخوان‘ ‘کی خصوصیت صرف اتنی ہے کہ وہ حضور کے بعد ایمان لے کر آئیں گے تو حضور کی اس خواہش کی معنویت واضح نہیں ہوپاتی کہ آپ انھیں دیکھ سکیں۔ اس لیے کہ حضور پاک کو یہ بات بھی معلوم تھی کہ آپ کو ایک روز دنیا سے رخصت ہونا ہے اور یہ بھی معلوم تھا کہ بہرحال اس کے بعد بھی لوگ ایمان لائیں گے۔ اس لیے مجرد طور پر یہ بات کہ اپنے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ایمان لانے والوں کو حضوردیکھ لیں، اپنی معنویت پوری طرح واضح نہیں کرپاتی، سوائے اس کے کہ ان ’’اخوان‘‘ کی خصوصیت صاحب ایمان ہونے کے علاوہ مزید کچھ اور بھی ہو۔
پھر عقل عام کی بات یہ ہے کہ حضور کے بعد ایمان لے کر آنا کسی طورپر بھی کوئی اتنی بڑی بات نہیں کہ حضورایسے لوگوں کے دیدار کے مشتاق ہوں۔ معلوم بات ہے کہ حضور پاک کی زندگی ہی میں اسلام کو وہ عظمت حاصل ہو گئی تھی کہ لوگ جوق در جوق ایمان لارہے تھے۔ خلافت راشدہ اور بعد کے ادوار میں اسلام کو وہ عروج واقتدار حاصل ہوچکاتھا کہ مسلمان ہوجانا آخرت ہی نہیں، بلکہ دنیامیں بھی نفع کا باعث تھا۔ ایسے میں لوگوں کا اسلام قبول کرلینا یا مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوجانا ان میں کوئی ایسی خصوصیت پیدا نہیں کرتا ہے کہ حضوران کے دیدار کے مشتاق ہوں۔
دوسری بات یہ ہے کہ حضور نے اخوان کی تعیین یہ کہہ کر نہیں کی کہ یہ لوگ وہ ہیں جو میرے بعد ایمان لائیں گے، بلکہ یہ کہا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔ یہ اسلوب خود ایک نوعیت کے تخصص کو پیدا کردیتا ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ ان بعد میںآنے والوں کو حضور نے اپنے اور صحابۂ کرام کے ساتھ یہ کہہ کر منسلک کیا ہے کہ یہ ہمارے بھائی ہیں۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ حضور کے صحابہ ہر گز ہرگز عام لوگ نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے نصرت دین کی ایک انتہائی غیر معمولی خدمت لی ہے۔ جب یہ بات واضح ہے تو پھرآپ سے آپ یہ بات نکلتی ہے کہ ’’ہمارے بھائیوں‘‘ کے اس اعلیٰ ترین خطاب کے حق دار کوئی عام لوگ نہیں ہوں گے، بلکہ دین کی خدمت سرانجام دینے والا یہ کوئی خاص گروہ ہی ہوگا۔
رہا سوال یہ کہ اخوان سے مراد کون لوگ ہیں تو یہ ایک ایسی بحث ہے جس میں ایک سے زیادہ آرا ہوسکتی ہیں۔ تاہم میرے نزدیک بلاشک و شبہ مولانا وحید الدین خان صاحب کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ اخوان رسول، صحابۂ کرام کی طرح ایک خصوصی حیثیت کا گروہ ہے۔ تاہم میری طالب علمانہ رائے میں گروہ کا لفظ استعمال کرنے سے غلط فہمی پیدا ہونے کا امکان ہے۔ زیادہ درست الفاظ میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں میں سے وہ لوگ ہوں گے جو ہر طرح کے حالات میں صحیح دین پر قائم رہنے والے اور لوگوں کو اسی کی دعوت دینے والے ہوں گے۔ ان کا زمانہ ایک ساتھ ہونا ضروری نہیں اور یہ بھی لازمی نہیں کہ وہ دنیا میں بھی ایک ہی گروہ کی حیثیت سے متعارف ہوں۔ 
میری اس رائے کی تائیدروایت کا اگلا حصہ کرتا ہے۔میں اسے ذیل میں نقل کررہا ہوں:
فَقَالُوْا:کَیْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَمْ یَأْتِ بَعْدُ مِنْ أُمَّتِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ فَقَالَ: أَرَأَیْتَ لَوْأَنَّ رَجُلاً لَہٗ خَیْلٌ غُرٌّ مُحَجَّلَۃٌ بَیْنَ ظَہْرَیْ خَیْلٍ دُھْمٍ بُھْمٍ، أَلاَ یَعْرِفُ خَیْلَہٗ؟ قَالُوْا: بَلٰی یَارَسُوْلَ اللّٰہِ. قَالَ: فَاِنَّھُمْ یَأْتُوْنَ غُرًّا مُحَجَّلِیْنَ مِنَ الْوُضُوْءِ، وَأَنَا فَرَطُھُمْ عَلَی الْحَوْضِ. أَلاَ لَیُذَادَنَّ رِجَالٌ عَنْ حَوْضِیْ کَمَا یُذَادُ الْبَعِیْرُ الضَّالُّ، أُنَادِیْھِمْ: أَلاَ ھَلُمَّ! فَیُقَالُ: اِنَّھُمْ قَدْ بَدَّلُوْا بَعْدَکَ. فَأَقُوْلُ: سُحْقًا سُحْقًا.
’’پھر اُنھوں نے پوچھا:اے اللہ کے رسول، آپ کی امت کے جو لوگ ابھی آئے نہیں ہیں، آپ ان کو (قیامت میں)کیسے پہچانیں گے؟ آپ نے ارشاد فرمایا:اگر انتہائی سیاہ رنگ کے گھوڑوں کے درمیان کسی آدمی کے ایسے گھوڑے موجود ہوں جن کی پیشانیاں اور پاؤں سفید ہوں توآپ کا کیا خیال ہے ،کیا وہ اپنے گھوڑوں کو پہچان نہیں پائے گا؟ صحابہ(رضی اللہ عنہم) نے جواب دیا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول!آپ نے فرمایا: یہ لوگ اس حال میں آئیں گے کہ وضو کے سبب سے ان کی پیشانیاں اور پاؤں سفید اور روشن ہوں گے۔اور میں ان سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا۔ البتہ، یہ بات بھی جان لو کہ کچھ لوگوں کو میرے حوض سے اس طرح واپس دھکیل دیا جائے گا،جس طرح ایک بھٹکے ہوئے اونٹ کو دھکیل دیا جاتا ہے۔ میں ان کو پکار پکار کر بلا رہا ہوں گا۔پھر مجھ سے کہا جائے گاکہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے آپ کے بعد (دین میں) تبدیلی کردی تھی۔ (آپ فرماتے ہیں کہ) اس پر میں ان لوگوں سے کہوں گا: بربادی ہو تمھارے لیے،بربادی ہو۔‘‘
اس میں بتایاگیا ہے کہ قیامت کے دن ان لوگوں کے اعضا، وضو سے روشن ہوں گے اور اس موقع پر کچھ لوگ اور بھی ہوں گے جنھوں نے دین میں تبدیلی کردی تھی اور انھیں حوض سے دھکیل دیا جائے گا۔روایت کے یہ الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ ان لوگوں کا زمانہ حضورکے بعد کا وہ دورہوگا جب دین کے نام پر کھڑے ہوئے لوگ اصل دین میں تبدیلی کر چکے ہوں گے۔ یہ لوگ دین کی حقیقت اور اصل تعلیم پر پردے ڈال دیں گے۔ ایسے میں کہ جب دین کے نام پر دوسری چیزیں رائج ہوچکی ہوں، اصل دین کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا نصرت دین کا سب سے بڑا کام ہے۔دین کی تعلیمات بدلنے کی یہ کوشش مختلف زمانوں میں کی گئی ہے، اس لیے ہر دور کے ایسے لوگ اس خوش خبری میں شامل ہیں جو صحیح دین پر قائم رہے اور اسے ہی لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہے۔ اس آخری زمانے میں چونکہ یہ سانحہ بہت بڑے پیمانے پر پیش آیا ہے اور اب اصل دین لوگوں کے سامنے پیش کرنا انتہائی مشکل ہوچکا ہے، اس لیے اس زمانے کے صلحا اس خوش خبری کے سب سے بڑھ کر حق دار ہیں۔ یہ مضمون کم و بیش وہی ہے جو امام مسلم نے ’فطوبی للغرباء‘ والی روایت میں بیان کیا ہے ۔
یہ ناکارہ وحید الدین خان صاحب کی طرح صاحب نگاہ اور صاحب قلم ہے اور نہ عمار صاحب کی طرح صاحبعلم ہے، مگر امید ہے کہ اس عاجز کی بات واضح ہوگئی ہوگی۔

ذبیح حضرت اسماعیل یا حضرت اسحاق؟

برہان الدین ربانی

پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب کے پر تاثیر قلم سے وقتاً فوقتاً علمی وفکری تحریرات صفحہ قرطاس پر منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ اسی طرح کی ایک تحریر ’’قرآنی علمیات اور مسلم رویہ‘‘کے عنوان سے الشریعہ، جنوری ۲۰۰۶ء ؁میں پڑھنے کو ملی جس میں ذبیح کون کی بحث کے حوالے سے پروفیسر صاحب نے مسلم اہل علم پر تنقید کی ہے۔ پروفیسر صاحب کا موقف یہ ہے کہ اگر ذبیح کو قرآن نے مشّخص نہیں کیا تو ہم کیوں ایک اضافی چیز کو کھینچ تان کر یقین کے زمرے میں لانا چاہتے اور اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح کے طور پر متعین کرنا چاہتے ہیں۔ 
گویا بحث کا بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا ہمیں ’ذبیح کون‘ کی بحث میں پڑنا چاہیے یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ’ذبیح کون‘ کی بحث سے مقصود حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حضرت اسحاق علیہ السلام کے مقابلے میں برتر ثابت کرنا نہیں اور نہ ہی کوئی مسلمان اس بات کا تصور کرسکتاہے، بلکہ اس بحث سے مقصود حقائق کو واضح کرنا ہے۔ متعلقہ قرآنی آیات کے منشا کو درست طور پر سمجھنے کے لیے اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل ہیں یا حضرت اسحاق علیہما السلام۔ 
اب جب ہم قرآن مجید پر غور کرتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ قرآن نے ذبیح کانام نہیں لیا لیکن جو اسلوب اختیار کیاہے، اس سے حضرت اسماعیل ہی ذبیح قرار پاتے ہیں۔ قرآن مجید کی متعلقہ آیات حسب ذیل ہیں:
رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ ۔ فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ إِنِّیْ أَرَی فِیْ الْمَنَامِ أَنِّیْ أَذْبَحُکَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ إِن شَاء اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ ۔ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ ۔ وَنَادَیْْنَاہُ أَنْ یَا إِبْرَاہِیْمُ ۔ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلَاء الْمُبِیْنُ ۔ وَفَدَیْْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ ۔ وَتَرَکْنَا عَلَیْْہِ فِیْ الْآخِرِیْنَ ۔ سَلَامٌ عَلَی إِبْرَاہِیْمَ ۔ کَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ إِنَّہُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ وَبَشَّرْنَاہُ بِإِسْحَاقَ نَبِیّاً مِّنَ الصَّالِحِیْنَ ۔ وَبَارَکْنَا عَلَیْْہِ وَعَلَی إِسْحَاقَ وَمِن ذُرِّیَّتِہِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِّنَفْسِہِ مُبِیْنٌ (صافات آیات ۱۰۰ تا ۱۱۳)
’’اے پروردگار بخش دے مجھے نیکوں میں سے (کوئی بیٹا)۔ پس ہم نے بشارت دی اس کو ایک لڑکے کی جو نہایت بردبار تھا۔ پس جب پہنچا اس کے ساتھ تگ ودو کی عمر کو تو اس نے کہا اے بیٹے، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، پس تو دیکھ کہ تیری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا، اے ابا جان آپ کرڈالیں جس چیز کا آپ کو حکم دیاگیاہے۔ آپ مجھے پائیں گے، اگر اللہ نے چاہا، صبر کرنے والوں میں سے۔ پس جب وہ دونوں مطیع ہوگئے (اللہ کے حکم کے) اور گرادیا اس کو پیشانی کے بل ا ور ہم نے اس کو آواز دی، اے ابراہیم، تحقیق تو نے سچ کر دکھایا خواب۔ بے شک ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں نیکی کرنے والوں کو۔ بے شک یہ بات البتہ صریح آزمائش ہے۔ اور ہم نے اس کو ذبح عظیم عطا کیا۔ اور ہم نے چھوڑا اس پر پچھلوں میں۔ سلامتی ہوابراہیم پر۔ اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں نیکی کرنے والوں کو۔ بے شک وہ ہمارے ایماندار بندوں میں سے ہے۔ او ر ہم نے بشارت دی اس کو اسحاق کی جو کہ اللہ کا نبی اور نیکوں میں سے ہوگا اور برکت نازل کی ہم نے اس پر اور اسحاق پر۔ اور ان دونوں کی اولاد میں سے نیکی کرنے والے ہیں اور کچھ ظلم کرنے والے ہیں اپنے نفس پر صریح طورپر ۔‘‘
پروفیسر صاحب نے آیت ۱۰۵ تک لکھ کر یہ کہاہے کہ متاخرین کے ہاں وہ انتہا پسندی نظر آتی ہے جو یہودیوں کے نسلی رویے کے متوازی چلتے ہوئے قرآنی علمیاتی نہج کو تہس نہس کردیتی ہے۔ اگر پروفیسر صاحب آیت ۱۰۷ سے ۱۱۳ تک کا بھی مطالعہ کرتے تو انھیں مفسرین پر تنقید کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی کیونکہ ان آیات میں قرآن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مختصر سوانح پیش کررہاہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم کو بت پرستی سے روکا اور انہیں وحدانیت کی تبلیغ کی، پھر آپ نے اپنی بت پرست قوم کو چھوڑ کر ترک وطن کا راستہ اختیار کیا۔ اس سارے واقعے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ’رب ھب لی من الصالحین‘ کے الفاظ سے دعا کی جس کے بدلے میں پروردگار نے ’غلٰم حلیم‘ کی خوشخبری سنائی۔ پھر جب بچہ چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آزمائش آئی اور انھوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔ اس آزمایش میں کامیابی پر ذات خداوندی نے ذبح عظیم عطا فرمایا۔ بیٹے کی قربانی کی آزمایش اور اس پر انعام واکرام کے ذکر کے متصل بعد دوسری بشارت کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے کہ ’وبشرنہ باسحق نبیا من الصالحین‘۔ گویا ان آیات میں دو بیٹوں کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ پہلی خوشخبری ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے بعد بیٹے کا نام لیے بغیر دی گئی۔ اس کے بعد واقعہ قربانی کا ذکر کیاگیا جو کہ اسی غلامِ حلیم کے ساتھ پیش آیا۔ اس واقعے کے متصل بعد دوسری بشارت اسحاق علیہ السلام کے متعلق دی گئی ۔ یعنی قرآن نے بشارت اول کو ذبیح کے ساتھ منسلک کیا ہے جبکہ بشارت ثانی کا ذکر قربانی کے واقعے کے بعد کیا، جس سے واضح ہے کہ قربانی کا واقعہ حضرت اسحاق علیہ السلام کے ساتھ پیش نہیں آیا۔ 
مزید قابل غور امر یہ ہے کہ پہلی بشارت ’غلٰم حلیم ‘ کے جبکہ دوسری بشارت ’نبیا من الصالحین‘ کے الفاظ سے دی گئی۔ سورۃ ہود میں یہ دوسری بشارت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
وَامْرَأَتُہُ قَآءِمَۃٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنَاہَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاء إِسْحَاقَ یَعْقُوبَ (ہود، ۷۱) 
یعنی غلام حلیم کے ساتھ کسی قسم کا وعدہ نہیں، نہ نبی صالح ہونے کا اور نہ آگے نسل چلنے کا، جبکہ بشار ت ثانی (اسحاق ) کے ساتھ نبی صالح ہونے اور اگلی نسل، دونوں کا وعدہ کیاگیا۔ 
علاوہ ازیں پہلی بشارت حضرت ابراہیم کی دعاکے نتیجے میں دی گئی جبکہ دوسری بشارت دعا کا نتیجہ نہ تھی بلکہ اس پر ابراہیم علیہ السلام نے ان الفاظ میں تعجب ظاہر کیا:
أَبَشَّرْتُمُونِیْ عَلٰی أَن مَّسَّنِیَ الْکِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ (الحجر، ۵۴) 
اس طرح حضرت سارہ کے الفاظ تھے :
یَا وَیْْلَتٰی أَأَلِدُ وَأَنَاْ عَجُوزٌ وَہَذَا بَعْلِیْ شَیْْخاً إِنَّ ہَذَا لَشَیْْءٌ عَجِیْبٌ (ہود ۷۲)
اب اگر ان بشارتوں کو خدائی قانون ’لا تبدیل لکلمٰت اللہ‘ کے تحت سمجھا جائے تو ’ذبیح کون‘ کی بحث بڑی عمدگی سے حل ہوسکتی ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر ذبیح حضرت اسحاق کو مانا جائے تو یہ خدائی قانو ن کے خلاف ہے، کیونکہ اللہ رب العزت اس سے پہلے ان کی نسل آگے چلنے اور نبی صالح ہونے کا وعدہ فرما چکے ہیں، پس اسحاق علیہ السلام کو نبوت دینے اور نسل کے جاری کرنے سے پہلے ہی قربان کر دینے کا حکم دینا اس سے پہلے کیے گئے دونوں وعدہ کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کرنے کا حکم حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی سے متعلق تھا۔
پروفیسر صاحب سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا اسرائیلیات کو انہی حدود میں استعمال کیاگیاہے جو قرآن وسنت نے مقرر کی ہیں؟ تو گزارش ہے کہ واقعی اس معاملے میں مفسرین نے احتیاط برتی ہے اور اسرائیلیات کو انہی حدود میں استعمال کیاہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ’حدثو عن بنی اسرائیل ولا حرج‘ میں مقررفرمائی ہیں، یعنی ایسی روایات جو قرآن وسنت کی تائید کرتی ہیں اور عقل سلیم کے منافی بھی نہیں، ان کو مفسرین تائید کے طورپر استعمال کرتے ہیں۔ اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح قرار دینے میں بھی قرآنی اسلوب کو ہی مد نظر رکھا گیاہے، جبکہ اسرائیلیات کو صرف تائید کے طورپر استعمال کیاگیاہے۔
پروفیسر صاحب کا یہ اعتراض بھی ہے کہ اگر قربانی کے واقعے میں اسماعیل علیہ السلام کا نام شامل ہوتا تو معترضین کو پھبتیاں کسنے کا موقع ملتا کہ اسلام دعویٰ تو عالمگیریت کا کرتاہے لیکن اصلاً اسماعیلی ہے۔ اسی طرح اگر اسحاق علیہ السلام کا نام ہوتا تو یہودیوں کی نسل پرستی کو مزید شہ ملتی۔ لیکن اگر غور کریں تو قرآن نے حضرت اسماعیل کی بشارت صرف ’غلام حلیم ‘ کے الفاظ سے دی ہے جبکہ حضرت اسحاق کی بشارت ’نبیا من الصالحین ‘ کے الفاظ سے دی ہے۔ یعنی حضرت اسماعیل پہلے پیدا ہوئے اور نبوت کی بشارت بعد میں ملی، جبکہ اسحق علیہ السلام پیدا بعدمیں ہوئے اور نبوت کی بشارت پہلے ملی۔ ان میں سے ہر دو حضرات کی اپنی اپنی خصوصیت ہے۔ ذبیح ہونا حضرت اسماعیل کی خصوصیت ہے، جبکہ پیدائش سے پہلے نبوت کی بشارت مل جانا اسحاق علیہ السلام کی خصوصیت ہے۔ قرآن نے معترضین کو پھبتی کسنے کا موقع ہی نہیں دیا کیونکہ نبوت کی بشارت کا مل جانازیادہ اونچا مقام ہے، نہ کہ نبوت کے بغیر محض ذبیح ہونا۔ اس کے بعد بھی اگر معترضین پھبتیاں کسیں تو ہمیں ان کی پروا نہیں کرنی چاہیے کیونکہ پھبتیاں کسنے والوں نے تو انبیاے کرام کو بھی نہیں چھوڑا۔ 
الشریعہ، جولائی ۲۰۰۶ء میں پروفیسر صاحب نے لکھاہے کہ حضرت ابن عباسؓ سے اسحاق علیہ السلام کے ذبیح ہونے کا قول منقول ہے اور اکثر علما کا یہی قول ہے، اور کچھ لوگ اسماعیل علیہ السلام کے ذبیح ہونے کے قائل ہیں۔ گزارش ہے کہ ہم وہ روایتیں لینے کے مکلف نہیں جن میں اسحاق علیہ السلام کے ذبیح ہونے کا ذکر ہے کیونکہ یہ بات قرآنی منشا سے متصادم ہے۔ حضرت ابن عباسؓ اور ان لوگوں کی اکثریت جن سے اسحاق علیہ السلام کے ذبیح ہونے کی روایتیں مروی ہیں، ان سے اسماعیل کے ذبیح ہونے کی روایتیں بھی موجود ہیں، اور قرآنی منشا بھی یہی ہے اور اسی پر متقدمین ومتاخرین کا ایک جم غفیر متفق ہے۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
مکرمی مدیر ’الشریعہ‘
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
’الشریعہ‘ کے دسمبر ۲۰۰۶ء کے شمارے میں میاں انعام الرحمن صاحب کا مضمون ’’قدامت پسندوں کا تصور اجتہاد‘‘ دیکھنے کا موقع ملا۔ میاں صاحب کی تحریریں ندرت او ر تازگی کی وجہ سے ہمیشہ ہی لائق توجہ ہوتی ہیں، مگر ان کے موضوعات میرے لیے زیادہ دلچسپی کا باعث نہیں ہوتے، اس وجہ سے میں ان کو زیادہ توجہ نہیں دے سکا۔ اس مضمون کی کاٹ کے حوالے سے ایک دوست کے توجہ دلانے پر مضمون کو پڑھا تو ان کی جرات وجسارت کا اعتراف کرنا پڑا۔ الشریعہ کی مجلس ادارت کے رکن اول ہوتے ہوئے ادارہ کے رئیس التحریر کے انداز فکر اور اس حلقے کے انتہائی محترم بزرگوں پر موصوف نے جس طرح تنقید کی، اس سے موصوف کے والد مرحوم کی یاد تازہ ہو گئی۔ مرحوم کا دبنگ طرز عمل جانا پہچانا ہے۔ میاں صاحب نے سپوت ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اپنے حلقے اور ماحول میں تنقید کی جسارت کبھی خوشگوار نہیں رہی۔ یہ بہت مشکل کام ہے۔ یقیناًیہ انہی کا حصہ ہے۔ مضمون میں میاں انعام صاحب نے جتنا بے لاگ طرز اختیار کیا ہے، وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ان کے بعض جملوں کا اعادہ کیا جائے۔ اس کے بغیر ان کی تحریر کا بانک پن قاری پر واضح نہیں ہو سکتا۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ میرا منشا تحریر میں احترام کی حدود سے تجاوز کو کھلے لائسنس کے طور پر لینا نہیں، بلکہ تحریر کے پس منظر میں حریت فکر کو اجاگر کرنا ہے۔ اس میں بھی ادارہ ’الشریعہ‘ نے جس تحمل اور بر دباری سے اتنے جری مضمون کو پرچے میں جگہ دی ہے، وہ تحسین و داد کا جس قدر مستحق ہے، وہ اپنے مقام پر آئے گی۔ میاں انعام صاحب کے چند جملے ملاحظہ کیجیے:
’’جناب تقی صاحب ایک رسمی معاشرتی رویے کی نشان دہی کو اصولی و قانونی حوالے سے دیکھ رہے ہیں اور خرد کو جنوں اور جنوں کو خرد کہے جا رہے ہیں۔‘‘
’’زاہد الراشدی صاحب کی تحریر کا جو اقتباس ہم نے نقل کیا ہے، اس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ وہ ایک مخمصے میں گرفتار ہیں۔‘‘
’’دیکھنے کی ضرورت باقی ہے کہ قدامت پسند، اجتہاد مطلق سے اتنا کیوں بدکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی خاص نفسیاتی سرحدیں ہیں، جنہیں عبور کرنے سے وہ معذور ہیں۔‘‘
’’قدامت پسند اہل مدرسہ، جن کی نمائندگی زاہد صاحب کر رہے ہیں، ہمیشہ پورا سچ قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں اور تعامل امت میں کار فرما تاریخی عوامل کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘‘
’’زاہد صاحب کا یہ فقرہ ایک پوری مدرسی ذہنیت کی نمائندگی کر رہا ہے۔‘‘
یہ جملے نمونے کے طور پر ہیں۔ میاں انعام صاحب نے اپنے نقطہ نظر کو پورے زور سے پیش کیا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو یقیناً خیالات کی رو پیرایہ اظہار اختیار نہ کر پاتی۔ ان کا ذہن پورے طور پر سامنے نہ آتا۔ اس میں اصل قدر اور وزن کی چیز خیالات ہیں۔ ظاہری رکھ رکھاؤ اور سوچ و فکر میں سے کس کو ترجیح حاصل ہے، اس بارے میں دو آرا کی گنجائش نہیں۔ سوچ اور فکر کو ترجیح بھی حاصل ہے اور اسے راہ دینا ہی چاہیے۔ خاص طور پر آپس داری میں تو اس کی رعایت کوئی احسان والی بات بھی خیال نہیں کرنا چاہیے۔ اقبال نے شاید ایسے ہی مواقع پر کہا ہے: 
رمزیں ہیں محبت کی گستاخی و بیباکی
ہر رمز نہیں بیباک، ہر عشق نہیں گستاخ
ادارے نے اسی جذبے کے تحت انعام صاحب کو اظہار کا پورا موقع دیا ہے۔ ادارہ ان کے مضمون کو ایڈٹ کر کے ایسے جملوں کو نرم کر سکتا تھا۔ یہ ادارے کا فطری حق تھا۔ ہرپرچے کی تحریر کا ایک مزاج ہوتا ہے۔ اسے استوار رکھنے کا ادارہ مجاز ہوتا ہے، مگر ادارے نے ایسا کرنا مناسب خیال نہیں کیا۔ وجہ یہ ہے کہ اس سے زور بیان میں کمی کا اندیشہ ہو سکتا تھا۔ پھر سوچ اور فکر کے بیان میں لکھنے والے کے ذہن اور بیان میں بعد بھی پیدا ہو سکتا تھا۔ چنانچہ ادارے نے لکھنے والے کے منصب میں کسی طرح مداخلت نہیں کی۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ لکھنے والے کی ہمت افزائی ہوتی ہے۔ اس میں وہ اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کا داعیہ اپنے اندر خود ہی محسوس کرتا ہے۔ اسے ایسی چھوٹی موٹی کوتاہیوں کی جانب توجہ دلانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ خاص طور پر اس وجہ سے کہ انعام صاحب اپنی تحریروں میں اتنی جریت کے عادی نہیں۔ موضوع کے لحاظ سے وہ اپنی بات گرد و پیش کے ماحول میں سخت بیزاری کے تحت رد عمل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ایسے میں بات کو روایتی رکھ رکھاؤ سے پیش کرنے میں دعوت فکر کمزور پڑ جاتی ہے۔ بعض اوقات ذہنی جمود کو توڑنے کے لیے مخاطب کو ذہنی صدمہ سے دوچار کر کے ذہن کو بیدار کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اس طرح میں انعام صاحب کی جرات و جسارت کی کھل کر داد دیناچاہتا ہوں۔ میں ان کے لکھنے کی آزادی کا دفاع کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ مگر یہاں دفاع کی ضرورت کیسے ہوئی؟ ادارہ تو پہلے ہی اس کا اہتمام کر رہا ہے۔ 
اس سلسلے میں ادارے کی جانب سے جس مربیانہ شفقت کا مظاہرہ کیا گیا ہے، اس کی داد دینے کے ساتھ ساتھ افادیت کا ذکر کرنا بھی ضروری خیال کرتا ہوں۔ میں ۱۹۹۲ء سے الشریعہ کا قاری ہوں۔ اس عرصہ میں یہ پرچہ جن مراحل سے گزرا ہے، وہ میرے سامنے ہے۔ اسی آزادی کا ثمر ہے کہ اس میں لکھنے والوں کی بھرمار ہے۔ مجھ جیسا شخص بھی جسے لکھنے کے لیے یکسوئی میسر نہیں، ادارے کی جانب سے حوصلہ افزا محبت کی وجہ سے کبھی کبھی لکھنے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی پرچے میں خطوط کے صفحات لکھنے والوں کے لیے بہترین نرسری ہوتے ہیں۔ اس طرح قاری ادارے کے خیالات اور بیان میں حصہ دار ہو جاتا ہے۔ یہ شراکت اور حصہ داری ہی کام میں وسعت کا سبب بنتی ہے۔
میرے لیے ادارے کے ذمہ داران کی جانب سے ہمیشہ ہی بلند حوصلگی کا جو مظاہرہ ہوا ہے، وہ میرے لیے حیران کن ہے۔ میں اپنے ماحول سے بیزار اور ماحول مجھ سے بیزار رہا ہے، مگر یہاں مجھے جو محبت اور شفقت ملی، اس کا عشر عشیر بھی اپنے حلقے میں مل جاتا تو شاید اب تک میں پر سکون موت کی وادی میں ہوتا۔ ماحول کی ناسازی نے مجھے ماحول کا فسوں توڑنے کے لیے آمادہ کیا اور میں اس کے لیے ہمیشہ بر سرپیکار رہا۔ اقبال کے شعر کو ہمیشہ میں نے حرز جاں بنائے رکھا:
حدیث بے خبراں ہے زمانہ با تو بساز
زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز
ایسی شفقت (انعام صاحب کے کہنے کے مطابق) ’’مدرسی ذہنیت‘‘ والوں کی جانب سے کمال و جمال کی انتہا ہے۔ در اصل یہ کیفیت مدرسی کے بجائے مدرسانہ مزاج کا خاصہ ہے جو جدید پڑھے لکھے طبقے کے ہاں بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔ وجہ شاید یہ ہے کہ وہاں بالعموم دنیاوی کشش نسبتاً زیادہ زور آور ہوتی ہے۔ اس کا تلخ مظاہرہ حال ہی میں ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ کے رویے سے ہوا۔ بے شک اس کی مجلس ادارت میں بیٹھے ہوئے لوگ، جدید تعلیم کے اعلیٰ ترین مدارج طے کیے ہوئے ہیں، مگر تنگ بینی و تنگ نظری کا ایسا مظاہرہ ہوا کہ سیاسی لحاظ سے بھی یہ بہت بے جوڑ محسوس ہوا۔ 
’الشریعہ‘ اور ’ترجمان‘ کا موازنہ ایک مذاق معلوم ہوتا ہے، مگر بعض اوقات مذاق سچ ہو جاتا ہے۔ اس موازنے میں کچھ ایسے ہی آثار نظر آتے ہیں۔ دونوں کی عمر معلوم کرنے والی بات ہے۔ فرق کا اندازہ ایک اور اڑھائی کا ہے۔ سرکولیشن میں بھی بعد المشرقین معلوم ہوتا ہے۔ لکھاری بھی ایک جانب پرانے علما تھے اور دوسری جانب نہایت پڑھے لکھے اور جدید تعلیمی اداروں سے تعلیم کی ڈگریاں سجائے اور روشن خیال اور قلم و قرطاس کے دھنی۔ وسائل بھی بظاہر اسی تفاوت کے ساتھ۔ موسس کے لحاظ سے ترجمان، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی جیسے بین الاقوامی مفکر سے منسوب، جب کہ ادھر مولانا سرفراز خان صاحب صفدر کو دینی خدمات کے لیے پہاڑوں کی چوٹیوں سے اتر کر گوجرانوالہ میں بسیرا کیے ہوئے نصف صدی ہونے کو ہے۔ دونوں کی ضخامت میں بھی ایک اور تین کا تناسب ہے۔ بعض باتیں مشترک بھی ہیں۔ ’الشریعہ‘ میں تمام تر محنت مولانا زاہد الراشدی کی نظر آتی ہے۔ انہوں نے گھر کے افراد اور احباب کے ساتھ سفر شروع کیا، ان کی تربیت انہی کی ذمہ داری قرار پائی۔ دوسری طرف سید مرحوم کا خلوص و ایثار بنیادی اثاثہ تھا اور اپنے ساتھیوں کو تیار کرنا تھا۔ بہر حال میں تاریخ کے بجائے تازہ صورت حال پر بات کروں گا۔ 
ہوا یوں کہ جون ۲۰۰۶ء کے ’ترجمان‘ کے شمار ے میں ’’مجلس عمل کی پارلیمانی پارٹی کی جدوجہد‘‘ کے عنوان سے محترم جناب لیاقت بلوچ صاحب کا ایک مفصل مضمون شائع ہوا۔ ظاہر ہے کہ یہ موضوع کوئی علمی نوعیت کا نہیں، نہ اس میں عقیدے یا نظریے کو لمبا چوڑا دخل ہے۔ پارلیمانی جدوجہد کوئی ایسی بھی نہیں کہی جا سکتی کہ اس پر کلام نہ ہو سکتا ہو۔ چنانچہ میں نے اس کے حوالے سے ایک خط میں چند سوالات کی وضاحت چاہی۔ میرا خط ’ترجمان‘ میں جگہ نہ پا سکا۔ ارباب ’الشریعہ‘ کی مہربانی سے اسے جگہ مل گئی۔ ایک مہینے کے سکوت کے بعد نائب مدیر ترجمان القرآن جناب مسلم سجاد صاحب نے میرے سوالات کی اشاعت پر اعتراض کرتے ہوئے مدیر الشریعہ کو نصیحت فرمائی کہ ان کے ہاں چھپی ہوئی چیز کے بارے میں نقد چھاپنے سے پہلے لیاقت صاحب کا مضمون چھاپنا چاہیے تھا۔ مسلم صاحب کی نصیحت ’الشریعہ‘ میں شائع کر دی گئی۔ سوچنے کی بات ہے کہ ’ترجمان القرآن‘ جیسے پرچے کے ترجمان کس طرح دوہرے معیار کی بات کرتے ہیں۔ اپنے ہاں تو وہ چھاپی ہوئی چیز پر اپنے دیرینہ قاری کو کسی درجے میں جگہ دینے کو تیار نہیں، مگر دوسروں سے توقع رکھتے ہیں کہ ان کو جگہ دی جائے۔ اس سے زیادہ معقول بات تو یہ ہو سکتی تھی کہ ترجمان کی جانب سے میرے شائع شدہ مضمون کا جواب بھجوایا جاتا۔ بہر حال ارباب ترجمان عرش نشیں ہیں، مرضی کے مالک ہیں، مگر ان کی من مرضی اپنے نتائج پیدا کرنے سے تو رک نہیں جائے گی۔ ایک اور بات اس مرحلہ میں ذکر کردوں کہ میرے مضمون کو روزنامہ پاکستان نے ’الشریعہ‘ سے نقل کر دیا۔ کیا یہ مناسب نہیں ہو گا کہ مسلم سجاد صاحب اجازت دیں تو ان کا خط روزنامہ پاکستان کو بھی اشاعت کے لیے بھجوا دیا جائے؟ 
میں ذکر کر رہا تھا ارباب ’ترجمان‘ کے جامد رویے اور اس کے نتائج کا۔ مجھے دکھ ہے کہ اتنا بڑا پرچہ اشتہارات، اشارات، اور کتابوں پر تبصروں کے بعد چھپی ہوئی تحریروں سے اپنا پیٹ بھر کر گزارا کرتا ہے۔ ان کو لکھنے والے ہی نہیں ملتے۔ مسلم سجاد صاحب خرم مراد صاحب کے بھائی تو ہیں مگر خرم صاحب مرحوم کا نعم البدل اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا ہو جاتا تو شاید آج محترم جناب خورشید احمد صاحب کو اپنی ضعیفی کے باوجود بے شمار ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اشارات گھسیٹنے نہ پڑتے۔ معلوم نہیں، ان کے اشارات میں پاگل پن کے درجے کی جذباتیت کو کون داخل کرتا ہے۔ ترجمان کے تازہ شمارے میں مولانا محمد تقی عثمانی صاحب تو لکھتے ہیں کہ حقوق نسواں کے حوالے سے متنازعہ بل کے قانونی مضمرات کو قانونی باریکیوں کا فہم رکھنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ وہ سنجیدگی اور حقیقت پسندی سے غور کی دعوت دیتے ہیں، مگر محترم پروفیسر خورشید صاحب اشارات کا عنوان ہی ’’حدود اللہ کے خلاف اعلان جنگ‘‘ قائم کرتے ہیں۔ ان کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کے پہرے میں محصور چھوٹی سی ریلی میں کی گئی تقریر نقل کر دی گئی ہو۔ بہرحال یہاں اشارات پر گفتگو مقصود نہیں۔ یہ اندیشہ بھی ہے کہ مسلم صاحب اشارات پر دو چار جملے ہو جانے پر ناراض ہو کر یہ مطالبہ داغ دیں کہ ان سے پہلے اشارات نقل کیے جائیں۔
میرے مضمون کے حوالے سے میرے ایک عزیز خرم شہزاد صاحب نے اٹھائے ہوئے سوالات کے جوابات دیے ہیں۔ مجھے ان کے احساسات کی قدر ہے۔ میں ان کے خط پر یہاں بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ خیال تھا کہ ان کو خط لکھوں مگر معلوم ہوا کہ خط کے نیچے درج پتہ کامونکی کا ہے اور وہ کراچی منتقل ہو گئے ہیں۔ ان کا کراچی کا پتہ معلوم نہیں ہو سکا۔ در اصل میرے خط کا منشا مجلس عمل کی کار کردگی کو زیر بحث لانا نہیں تھا۔ میں نے بنیادی سوال یہ اٹھایا تھا کہ ترجمان القرآن ایک علمی، دینی، نظریاتی پرچہ ہے۔ اسے رہنما کی حیثیت حاصل ہے۔ اس میں پروپیگنڈے کی سطح کی چیزوں کی گنجائش نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ادارے نے اس کی ضرورت کسی مجبوری کے تحت محسوس کی ہے تو پھر اسے کھلے عام مباحثے کی دعوت کے ساتھ پیش کرنا چاہیے تھا۔ میں نے اپنے خط میں صاف لکھا تھا کہ ترجمان کو ایک ہفت روزے کی سطح پر نہیں آنا چاہیے۔ میرے عزیز خرم صاحب میرے مضمون کا دوسرا پیرا دیکھ لیں تو مہربانی ہو گی۔ باقی مجلس عمل کی پارلیمانی کارکردگی کے بارے میں خرم صاحب کے خیالات کو ’الشریعہ‘ میں جگہ دی گئی ، اس پر میں خرم صاحب اور ادارہ دونوں کا شکر گزار ہوں۔ 
’ترجمان‘ کو لکھ کر میں ان کے جامد رویے کی جانب توجہ دلانا چاہتا تھا۔ میرے خط کا مقصد ایک دیرینہ قاری کے طور پر خیرخواہی تھا۔ میرے لیے یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ ترجمان اپنے حلقے میں لکھنے والوں کی نرسری تیار کرنے میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ ’ترجمان‘ کی کثرت اشاعت تو ماشا ء اللہ روز افزوں ہے، مگر اس کا معیار محل نظر ہے۔ در اصل نقد اور تنقید کو جگہ نہ دی جائے تو حرکت اور زندگی کی علامات معدوم ہو جاتی ہیں۔ ’الشریعہ‘ میں ان کی پرورش کی جاتی ہے۔ نتیجہ سامنے ہے کہ پچھلے چند سالوں میں لکھنے والوں کی کھیپ تیار ہے۔ ان کے ساتھیوں میں نوجوانوں کی پوری ٹیم ہے۔ مجھے تو ان نوجوانوں کی نیاز مندی میں بھی لطف محسوس ہوتا ہے۔
بات ہو رہی تھی نقد و تنقید کی۔ بڑا عجیب رویہ ہے۔ صدر مملکت، وزیر اعظم ہر روز فرماتے ہیں کہ فوج اور عدلیہ پر تنقید نہیں ہو سکتی۔ یہ قومی ادارے ہیں۔ ان کا احترام لازم ہے۔ یہ مقدس گائے کے درجے میں ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بیانات پڑھ کر سلطان راہی یاد آ جاتے ہیں۔ معمولی نوعیت کے تھانے کی سطح کے کیسوں کا خیار بلوغ کی طرح نوٹس لیا جاتا ہے، مگر وہ مقدمات جن سے ہر شہری کا حق متاثر ہوتا ہے، ان میں کوئی قابل ذکر نکتہ بھی نہیں، عشروں سے محروم توجہ ہیں۔ ’’انصاف ہر ایک کے لیے‘‘ کی کانفرنس کے باوجود کورٹ فیس سے متعلقہ اپیل کے بارے میں کچھ پتہ نہیں کیا بنا ہے اور کیا بنے گا۔ اسمبلی کی مدت پوری ہو رہی ہے مگر قومی اسمبلی کے ارکان کے سند کیس کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ چار سال سے یہ لوگ قومی خزانے سے کروڑوں کے معاوضے اور مراعات لے رہے ہیں، مگر ان کی اہلیت کا مسئلہ سپریم کورٹ میں بدستور معرض التوا میں ہے۔ اردو کو ۱۹۸۸ء تک سرکاری سطح پر رواج دینے کا عمل مکمل ہو جانا لازم تھا مگر اس دستوری تقاضے کا کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ میری معلومات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں درخواستیں طویل مدت سے پڑی ہیں۔ کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ سود کی لعنت کے بارے میں مقدمات بھی دفن معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ادارے عام آدمی کو کچھ نہ دے سکیں تو اشتہاری مہم جیسی کارکردگی سے کیا فائدہ؟ پھر بات کی جائے تو تنقید سے بالا تر ہونے کا استحقاق جتلایا جائے۔
صدر اور ان سے نیچے کے لوگ کہتے ہیں کہ مثبت اور تعمیری تنقید ہونی چاہیے۔ منفی اور غیر تعمیری تنقید نہیں ہونی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ مثبت اور منفی قابل تقسیم کیسے ہو گئے؟ مثبت اور منفی پہلو مل کر ایک اکائی بنتے ہیں۔ ان کی تقسیم کس طرح ممکن ہے؟ تخریب کے بغیر تعمیر کیسے ہو گی؟ تخریب اور تعمیر تو لازم ملزوم ہیں۔ لگتا ہے کہ ارباب حل و عقد تنقید کا معنی ہی نہیں جانتے۔ اس سے مراد کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کرنا ہوتا ہے۔ اچھائیاں اور برائیاں دونوں بیان کی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ تعریف اور قصیدہ گوئی کے ماہر ہوتے ہیں اور کچھ کو تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی آزادی رہنی چاہیے۔
تنقید روکنے کے بارے میں ارباب اقتدار کا رویہ اوپر ذکر ہو چکا، جماعتوں کو دیکھا جائے تو وہاں بات دو ہاتھ اور بھی آگے ہے۔ وہ کہتے ہیں اطاعت کی جائے۔ کام کیا جائے۔ صم بکم عمی فہم لا یرجعون کا معیار اختیار کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کے ماحول میں کیا تنقید کے لیے قبرستان کا رخ کرنا چاہیے کہ شاید وہاں پر دفن مردے تنقید پر عذر نہ کریں؟
ادارہ ’الشریعہ‘ کو مبارک باد کرکے اپنی بات کو ختم کرنا چاہتا ہوں۔ یقیناًانہوں نے انعام صاحب ہی نہیں، ان جیسے کئی اور لکھنے والوں کے حوصلوں کا جلا بخشنے کا سامان کیا ہے۔ انہوں نے اپنے منصب کی شان کو بلند کیا ہے۔ ارباب ’ترجمان القرآن‘ عرش سے نیچے اتر کر معروضی حالات کو دیکھنا گوارا کریں تو ’الشریعہ‘ جیسے چھوٹے سے پرچے سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر یہ ان کی اپنی صوابدید ہے۔ کسی جبر کا کوئی سوال نہیں۔ 
چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ
عابد کالونی۔ کھوکھرکی۔ گوجرانوالہ
(۲)
محترم ومکرم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب ،
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اللہ پاک کی ذات عالی سے امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔
عرض ہے کہ آپ کے موقر جریدے ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے شمارہ اکتوبر ۲۰۰۶ء میں مشتاق احمد نام کے کسی صاحب کا خط شائع ہواہے جو مدرسہ الحسنین للبنات کا خادم ہونے کا مدعی ہے۔ صاحب موصوف نے بزعمِ خود حضرات علمائے کرام کو ان کی ذمہ داریاں سمجھائی ہیں اور دعوت وتبلیغ کے کام کو اپنے خیالات کے لیے بطور ہتھیار اور ڈھال کے استعمال کیا ہے ۔خط کے مندرجات بھی کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ کوئی خادم مدرسہ تو درکنار، ایک عام دینی سوجھ بوجھ رکھنے والا بھی ایسا نہ لکھے گا ۔اللہ پاک محفوظ رکھے ۔آمین! گزارش ہے کہ نہ تو اس نام کے کوئی صاحب مدرسۃ الحسنین للبنات میں کسی حیثیت میں کسی خدمت پر مامور ہیں اور نہ اس خط کے مندرجات کو دعوت اور تبلیغ کے کام سے کوئی تعلق ہے ۔یہ تحریر بظاہر لکھنے والے کے اپنے احساسات وخیالات کی ترجمانی ہے، نہ کہ دعوت وتبلیغ کے مبارک کام کی جو عام مسلمان کا بھی اکرام کرنے کا داعی ہے، چہ جائیکہ علماء کرام!
اللہ پاک آپ حضرات کی دینِ متین کی سربلندی کے لیے کی جانے والی کوششوں کوبہت ہی قبول فرمائے اور آپ کی توجہات سے ہمیں محروم نہ فرمائے ۔آمین!
(مولانا) طارق جمیل
۱۲۲؍بی، گلستان کالونی، فیصل آباد
(۳)
گرامی قدر جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
سلام مسنون مزاج گرامی؟
مجھے آپ سے دلی ہمدردی ہے کہ آپ ’’فکر اسلامی‘‘ کے ایک بحر ناپیدا کنار سے اتر کر فقہ کی تنگنائے میں شناوری کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اخبارات اور ’الشریعہ‘ سے علما کا موقف معلوم ہوا تو حیرت ہوئی کہ تحفظ نسواں ایکٹ کی اصل خرابیوں کا کہیں ذکر نہیں تھا۔ اس پر چند معروضات لکھ کر ’نوائے وقت‘ کو ارسال کیں تاکہ علما کی فوری توجہ حاصل کر سکیں، لیکن وہاں جس قطع وبرید اور اقساط سے طبع ہو رہی ہیں، اس سے ان کی افادیت کم ہو گئی ہے۔ مزید برآں ’الشریعہ‘ جن حلقوں میں اور جس سنجیدگی سے پڑھا جاتا ہے، وہ روزناموں کو کہاں نصیب! اس لیے سوچا کہ آپ کو ارسال کر دوں، اگر طبع ہو سکیں تو زہے نصیب۔ دعاؤں میں یاد رکھیں۔
(ڈاکٹر) محمد طفیل ہاشمی 
ہاؤس ۱۸۹، سٹریٹ ۱۹، گلشن خدادا د 
ای الیون ون ۔ اسلام آباد 
(۴)
مکرمی ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی صاحب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہمدردی کا شکریہ! مگر میرے سامنے فقہ کی تنگنائے سے کہیں زیادہ مغربی فلسفہ وثقافت کا وہ طوفان ہے جو اسلام کی تعبیر وتشریح کے روایتی فریم ورک کو توڑ کر مسلم معاشرہ میں اپنے اثر ونفوذ کو وسیع کرنے میں پوری قوت کے ساتھ مصروف ہے، اس لیے میں کسی ایسی وسعت اور روشن خیالی کا ساتھ دینے کے لیے خود کو تیار نہیں پاتا جو مغرب کے اس ایجنڈے میں کسی حوالے سے بھی پیش رفت کے لیے معاون بن سکتا ہو۔ باقی ’الشریعہ‘ آپ کا اپنا جریدہ ہے۔ جب چاہیں، آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہے۔ شکریہ!
ابو عمار زاہد الراشدی

مولانا صفی الرحمن مبارک پوریؒ

عاصم نعیم

عالم اسلام کے معروف عالم دین، نامور سیرت نگار، محدث، مدرس، مصنف، مورخ، مناظر اور ادیب مولانا صفی الرحمن مبارک پوریؒ یکم دسمبر ۲۰۰۶ کو اپنے آبائی قصبے حسین پور (مبارک پور، اعظم گڑھ، انڈیا) میں بعمر ۶۴ برس انتقال فرما گئے۔ جناب صفی الرحمن مبارک پوری کی پیدایش ۱۹۴۲ء کے وسط میں ہوئی۔ ان کی ابتدائی تعلیم مبارک پور کے مدرسہ دار التعلیم اور مدرسہ احیاء العلوم میں ہوئی۔ بعد ازاں مدرسہ فیض عام، میو (یو پی) میں عربی زبان وقواعد اور تفسیر، حدیث، اصول حدیث، فقہ، اصول فقہ وغیرہ شرعی علوم میں مہارت حاصل کی اور ان مضامین کے امتحانات میں امتیازی حیثیت میں کامیابی حاصل کی۔ ۱۹۶۱ء میں ضلع الٰہ آباد اور پھر ناگ پور میں درس وتدریس اور تقریر وخطابت کا مشغلہ اختیار کیا۔ ہندوستان کے مختلف شہروں کے مختلف مدارس میں درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ ۱۹۷۸ء میں سیرت پر ان کی مشہور کتاب ’’الرحیق المختوم‘‘ کو عالمی ایوارڈ ملا تو عرب کے علمی حلقوں میں متعارف ہوئے جس کی بنا پر جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ کے ذیلی شعبے مرکز السیرۃ النبویہ میں بطور محقق کام کرنے کا موقع ملا۔ بعد ازاں وہ مکتبہ دار السلام، ریاض سے وابستہ ہو گئے اور وہیں صحیح مسلم کی عربی شرح ’منۃ المنعم‘ تصنیف کی۔
مولانا مرحوم کی عالم گیر شہرت کی اصل وجہ ان کی مایہ ناز تصنیف ’’الرحیق المختوم‘‘ ہے جسے ۱۹۷۸ء میں رابطۃ العالم الاسلامی کے زیر اہتمام مقالات سیرت کے مقابلے میں پہلے انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔ یہ کتاب اصلاً انھوں نے عربی زبان میں لکھی اور بعد ازاں خود ہی ا س کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا۔ اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو عربی اور اردو، ہر دو زبانوں میں انشا وتحریر کا عمدہ ذوق اور سلیقہ عطا کیا تھا۔ قدیم وجدید مصادر سیرت سے اخذ وانتخاب اور تحقیقی وتنقیدی صلاحیتوں سے بھی مالامال تھے۔ بایں وجہ ’’الرحیق المختوم‘‘ نے اردو ادبِ سیرت میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ اس کتاب کا شمار اردو زبان کی محقق، مستند اور شاہکار کتب سیرت میں ہوتا ہے۔ مرحوم کی دیگر تصانیف میں ’صحف یہود ونصاریٰ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بشارتیں‘، ’تذکرہ شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب‘، ’تاریخ آل سعود‘، ’قادیانیت اپنے آئینے میں‘، ’فتنہ قادیانیت اور مولانا ثناء اللہ امرتسری‘، ’انکار حدیث کیوں؟‘ اور بلوغ المرام کی عربی واردو شرح ’اتحاف الکرام‘ اہم ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کو ان کی دینی ودعوتی خدمات کا اچھا صلہ عطا فرمائیں۔ آمین

الشریعہ اکادمی کی سرگرمیاں

ادارہ

  • الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام ۲۰۰۶۔۲۰۰۷ کے تعلیمی وتربیتی پروگرام کے تحت علما، اساتذہ اور طلبہ کے لیے اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کے ہفتہ وار تربیتی لیکچرز کے سلسلے کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس ضمن میں پہلا لیکچر ۱۶؍ دسمبر بروز ہفتہ کو ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کے تاریخی وفکری پس منظر کے حوالے سے دیا گیا۔ جس میں مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے علما اور طلبہ شریک ہوئے اور موضوع سے گہری دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے سوالات اٹھائے۔ تربیتی لیکچرز کے اس سلسلے کے لیے ہفتے کے دن مغرب کی نماز کے نصف گھنٹہ بعد کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ 
  • علما واساتذہ کی علمی وفکری تربیت اور پیش آمدہ مسائل پر سنجیدہ بحث ومباحثہ کو فروغ دینے کے لیے اکادمی کے زیر اہتمام ایک ہفتہ وار مذاکراتی نشست کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں تعلیم وتدریس اور دیگر سماجی ومعاشرتی شعبوں سے تعلق رکھنے والے اہل فکر متعین عنوانات پر تبادلہ خیال کریں گے۔ اس سلسلے میں ابتدائی مشاورتی اجلاس ۱۶؍ دسمبر کو اکادمی میں منعقد ہوا جس میں اس نشست کے لیے ہفتے کے دن بعد از نماز عشا کا وقت مقرر کرنے پر اتفاق رائے کیا گیا۔
  • الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام کوروٹانہ (عقب واپڈا ٹاؤن) گوجرانوالہ میں مدرسہ طیبہ تحفیظ القرآن میں قرآن کریم حفظ وناظرہ کی کلاس شروع کر دی گئی ہے جس میں قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مڈل تک اسکول کی تعلیم کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ قاری محمد آصف مہر صاحب کو کلاس کا انچارج مقرر کیا گیا ہے۔
  • میرپور، ڈھاکہ کے ’دار الرشاد‘ کے مہتمم مولانا سلمان ندوی ۲۴؍ نومبر ۲۰۰۶ کو الشریعہ اکادمی میں تشریف لائے اور ایک خصوصی نشست میں علما اور اساتذہ کے ساتھ تعلیمی امور پر تفصیلی بات چیت کی۔ احباب نے ان سے بنگلہ دیش کے دینی مدارس کے نصاب ونظام اور طریق کار کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ 

انا للہ وانا الیہ راجعون

  • الشریعہ اکادمی کے ناظم مولانا حافظ محمد یوسف کی والدہ محترمہ طویل علالت کے بعد ۲۱؍دسمبر بروز جمعرات انتقال فرما گئیں۔ مرحومہ بے حد نیک، شب زندہ دار اور صابر وشاکر خاتون تھیں۔ 
  • حافظ محمد عاطف صاحب کے نانا محترم محمد غلام رسول ولد محمد قطب دین مرحوم ۱۱ ؍دسمبر بروز پیر انتقال کر گئے۔ مرحوم صوم وصلوۃ کے پابند اور دین دار بزرگ تھے۔ 
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحومین کی مغفرت فرمائیں، درجات بلند فرمائیں اور ان کے سایہ شفقت سے محرومی پر پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائیں۔ آمین۔

فروری ۲۰۰۷ء

روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرقمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
پاکستان پیپلز پارٹی ۔ قیادت اور کارکردگی کا ایک جائزہپروفیسر شیخ عبد الرشید
تجدد پسندانہ رجحانات اور جدیدیت کا اسلامی فلسفہحافظ محمد سمیع اللہ فراز
اقبال کے حوالے سے کچھ منفی رویےمحمد عمران ہاشمی
سید حسین احمد مدنیؒ اور تجدد پسندیپروفیسر میاں انعام الرحمن
غامدی صاحب کے تصور ’فطرت‘ کا تنقیدی جائزہحافظ محمد زبیر
مکاتیبادارہ
تعارف و تبصرہمولانا مشتاق احمد

روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی نے ۲ جنوری سے ۱۰ جنوری ۲۰۰۷ تک بر طانیہ کے چند شہروں لندن، برمنگھم، نوٹنگھم، والسال، آکسفرڈ اور لیسٹر وغیرہ میں مختلف تعلیمی اداروں کا دورہ کیا اور متعدد اصحاب فکر ودانش سے دینی وتعلیمی مسائل پر گفتگو کی۔ ۸ جنوری کو بعد نماز عشا آکسفرڈ میں سٹینلے روڈ کی مدینہ مسجد میں احباب کی ایک نشست سے ان کے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

مغرب نے تاریک ادوار سے نکل کر انقلاب فرانس کے ساتھ اب سے کم وبیش تین سو برس پہلے جس نئے علمی، تہذیبی، سیاسی اور سماجی سفر کا آغاز کیا تھا، اسے تاریکی سے روشنی، ظلم سے انصاف اور جبر سے حقوق کی طرف سفر قرار دیا جا رہا ہے۔ مغرب نے اس عمل میں جن نئے افکار اورفکر وفلسفے کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، انھیں روشن خیالی کی علامت تصور کیا جاتا ہے اور ہم مسلمانوں سے بھی دنیا بھر میںیہ تقاضا کیا جا رہا ہے کہ ہم اس روشن خیالی کو قبول کریں اور مغرب کے اس سفر میں اس کے ساتھ شریک ہوں، مگر ہمار اروشن خیالی کا تصور مغرب کی روشن خیالی سے قطعی طور پر مختلف بلکہ متضاد ہے۔ ہماری روشن خیالی کا تاریخی پس منظر مغر ب سے الگ ہے اوراس کی تاریخ بھی مغرب سے الگ ہے۔
مغرب نے تاریکی سے روشنی کی طرف سفر انقلاب فرانس سے شروع کیا اور مغرب کے ہاں تاریک دور اورروشن دور میں فاصل انقلاب فرانس ہے۔ اس سے پہلے کا دور تاریکی، جہالت اور ظلم وجبر کا دور کہلاتاہے جبکہ اس کے بعد کے دور کو روشنی، علم اور انصاف وحقوق کا دورکہا جاتاہے، مگر ہمارے ہاں دور جاہلیت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کے دور کو سمجھا جاتاہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے زمانہ جاہلیت، ظلم وجبراور تاریکی کا دورکہلاتاہے، جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت سے شروع ہونے والا دور علم، روشنی اور عدل کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ہماری روشن خیالی کے تصور اور تاریخ کا مغرب کی روشنی خیالی کے تصور اور تاریخ سے کوئی جوڑ نہیں بنتا۔ ہم نے مغرب سے گیارہ سوبرس پہلے روشنی کے دور میں قدم رکھا تھا اورجاہلیت کو خیرباد کہہ کر علم اورعدل کے دورکی طرف پیش رفت کی تھی۔
یہ فرق تو تاریخی حوالے سے ہے،جبکہ ہماری روشن خیالی اور مغرب کی روشن خیالی میں ایک اور جوہری فرق بھی ہے جس کو ملحوظ نہ رکھنے والے بہت سے دانشور خود بھی کنفیوژن کا شکار ہو رہے ہیں اور مسلم امہ کو بھی کنفیوژن کاشکار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ جوہری فرق یہ ہے کہ مغرب جس سفر کو تاریک دور سے روشن دور کی طرف سفر قراردیتاہے، وہ دراصل آسمانی تعلیمات سے انحراف اور وحی الٰہی سے روگردانی کرکے انسانی سوسائٹی کی خواہشات کو ہرچیز کا معیار قراردینے کا سفر ہے۔ اس طرح مغرب کے نزدیک آسمانی تعلیمات تاریکی کے دور کی علامات قرارپاتی ہیں، جبکہ انسانی سوسائٹی کی خواہشات پر مبنی فکر وفلسفہ روشنی کا عنوان اختیار کر جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں صورت حال اس سے قطعی مختلف ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حجۃ الوداع کے خطبے میں یہ ارشاد فرمایاتھا کہ ’’جاہلیت کی تمام قدریں آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسانی سوسائٹی کی خواہشات کی بالاتری کو مسترد کرتے ہوئے آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی طرف واپسی کا اعلان کر رہے تھے۔ گویا ہمارے نزدیک سوسائٹی کی خواہشات کی بالادستی، جہالت اور تاریکی کی علامت ہے جبکہ آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی طرف واپسی روشن خیالی اور علم کی جانب سفر تصور ہوتا ہے۔ مغرب آسمانی تعلیمات کی معاشرے پر بالادستی کوجہالت اورتاریکی قراردیتاہے، مگر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوسائٹی کی خواہشات کی برتری کوجہالت اور تاریکی قراردیتے ہوئے آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی طرف رجوع کو روشنی اور علم کی علامت بتایا ہے۔ اس لیے ہمارا روشن خیالی اور دورِ علم کا تصور مغرب کی روشن خیالی اور دورِ علم کے تصور سے قطعی مختلف اور متضاد ہے، اور ہمارے لیے اس سفر میں مغرب کاساتھ دینا اسلامی عقیدے اورتعلیمات کی رو سے ممکن ہی نہیں ہے۔ ہم آج بھی قرآن وسنت کی حقانیت پر بے لچک ایمان رکھتے ہیں اور نسل انسانی کو آسمانی تعلیمات کی طرف واپس بلا رہے ہیں، جبکہ مغرب اسے جہالت اور تاریکی کے دور کی طرف واپسی سے تعبیر کر رہا ہے اور مسلم امہ کو اس عقیدے سے ہٹانے کے لیے اپنا پورا زور صرف کر رہا ہے۔ 
پھر روشن خیالی اور علم کی اس بحث کے حوالے سے ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ آج کی جدید معاشرت اور تمدن وثقافت کی جتنی علامات ہیں اورجن اقدار وروایات کو جدید تہذیب کی اساس تصور کیا جاتا ہے، ان میں ایک بھی ایسی نہیں ہے جو نئی ہو اور اس معاشرت وثقافت کا حصہ نہ ہو جسے ہم چودہ سو سال قبل ’’دور جاہلیت‘‘ قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں اور جس جاہلی دور کی اقدار کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے قدموں تلے روندنے کا تاریخی اعلان فرمایا تھا۔
مرد وعورت کا آزادانہ اختلاط، ہم جنس پرستی، زنا، فحاشی، عریانی، شراب، جوا، سود، کہانت، حلال وحرام کا عدم امتیاز اور ناچ گانا وغیرہ،یہ سب کی سب اقدار وہ ہیں جو ابوجہل او ر ابولہب کے دور جاہلیت کا خاصہ تھیں اور آج کی طرح اس دور میں بھی ترقی اور افتخار کی علامت تصورہوتی تھیں، مگر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام جاہلی اقدار کے خاتمے کا اعلان کیا اور ان اقدار کے خاتمے کو جاہلیت کے دور کے خاتمے سے تعبیر کیا،مگر آج مغرب انہی جاہلی اقدار کو پھر سے جھاڑ پھونک کر نئے میک اپ کے ساتھ دنیا کے سامنے جدید تہذیب وثقافت کی ترقی یافتہ اقدار کے طورپر پیش کررہاہے اور ہم مسلمانوں سے مسلسل مطالبہ کررہاہے کہ انسانی معاشرت کی جن جاہلی اقدار کو ہم چودہ سوسال پہلے پاؤں تلے روند کر آگے بڑھے تھے، انہی جاہلی روایات واقدار کو جدید تہذیب وتمدن اور ثقافت کے نام پر دوبارہ اختیار کرلیں۔
مغرب کو آج سے تین صدیاں قبل جن وجوہ کی بنا پر آسمانی تعلیمات سے دستبرداری اختیار کرنا پڑی تھی، اس میں مغرب کا اپنا ایک مخصوص پس منظر ہے اور اس نے جو کئی صدیاں ظلم وجبر کے دور میں بسر کیں، وہ بھی اس کا اپنا علاقائی تناظر ہے۔ ہمیں اس سے انکار نہیں ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان اسباب وعوامل کی موجودگی میں مغرب کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا جو اس نے کیا، مگر ہمار ا پس منظر یہ نہیں ہے اور ہمیں ان عوامل اور اسباب کا سامنا کبھی نہیں رہا جن کی وجہ سے مغرب کو انقلاب فرانس کے مرحلے سے گزرنا پڑا، مگر مغرب تاریخی اور زمینی حقائق سے آنکھیں بند کرتے ہوئے اپنا مخصوص پس منظر اور علاقائی بیک گراؤنڈ ہم مسلمانوں پر بھی زبردستی مسلط کرنا چاہتاہے اور ہمیں آسمانی تعلیمات سے انحراف اوروحی الٰہی سے روگردانی کے اس سفر میں ہر قیمت پر اپنے ساتھ رکھنے پر مصر ہے جو سراسر اناانصافی اور دھونس کے مترادف ہے، اس لیے مسلمان علما ے کرام اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس فکری وتہذیبی دھونس کو سمجھنے کی کوشش کریں اور تاریخی حقائق کو ان کے اصل پس منظر میں سامنے لاکر مغرب پر واضح کریں کہ وہ اپنا پس منظر اور اس پس منظر میں تشکیل پانے والے فکروفلسفہ کو مسلمانوں پر بزور طاقت مسلط کرنے کی جو کوشش کر رہاہے، وہ زیادتی اور ناانصافی ہے جسے مسلم امہ کبھی اور کسی قیمت پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگی۔
مغربی تہذیب وثقافت کے حوالے سے ہمارا موقف واضح ہے کہ ویسٹرن کلچر اور فکر وفلسفہ کی بہت سی مروجہ اقدار دراصل وہی جاہلی اقدار ہیں جنہیں اسلام نے چودہ سو سال قبل دور جاہلیت کی قدریں قراردے کر مسترد کردیاتھا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں یہ تاریخی اعلان فرما کر ان اقدار سے بیزاری کا اظہار فرمایاتھا کہ ’’آج جاہلیت کی تمام قدریں میرے پاؤں کے نیچے ہیں‘‘، بلکہ بعض حوالوں سے اس دور کی جاہلیت یعنی ابوجہل اور ابولہب کی جاہلیت آج کی جاہلیت جدیدہ سے بہتر معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً سیکس کے فری ہونے کا مسئلہ وہاں بھی تھا اور آج بھی اس کے فری ہونے پر سب سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے، مگر ڈیڑھ ہزار سال قبل کے دور جاہلیت میں سیکس کے کئی راستے کھلے رکھنے کے باوجود کسی بچے کی ولادت پر اس کے نسب اور اس کی کفالت کی ذ مہ داری کے تعین کا سسٹم موجود تھا اور کوئی بچہ بغیر باپ کے نہیں رہ پاتا تھا۔ 
اس دور میں مرد اور عورت کے جنسی تعلق کی ایک صورت تو یہی تھی جسے زندگی بھر کے نکاح کی صورت میں اسلام نے بھی باقی رکھا ہے۔ 
دوسری صورت موقت نکاح کی تھی جس میں کوئی مرد اور عورت مناسب معاوضے پر ایک مقررہ وقت کے لیے جنسی تعلق قائم کرتے تھے اور مدت گزر جانے کے بعد ان کا یہ نکاح متعہ ختم ہو جایا کرتا تھا۔ اسے اسلا نے ناجائز قرار دے دیا اور اب اس کی اجازت نہیں ہے۔
تیسری صورت یہ تھی جسے ’’استبضاع‘‘ کہا جاتا تھا کہ میاں بیوی اور خاندان کے باہمی مشورے سے کوئی عورت کسی تیسرے خاندان میں جاتی تھی اور کسی بہادر یا سخی شخص سے جنسی تعلق قائم کر کے ا سے حاملہ ہوتی تھی جس کے بارے میں تصور یہ تھا کہ اس طرح اچھی نسل حاصل ہوتی ہے۔ اس صورت میں اس بچے کا نسب اس عورت کے اصل خاوند سے ہی ثابت ہوتا تھا جس کی رضامندی اور مشورے سے وہ کسی اور شخص کے پاس گئی تھی۔
چوتھی صورت یہ تھی کہ کوئی عورت بیک وقت پانچ چھ افراد سے جنسی تعلق رکھتی ہے جس کا ایک دوسرے کو پتہ ہوتا تھا اور اگر بچہ پیدا ہو جاتا تو وہ ان سب کو اکٹھے بلا کر سب کی موجودگی میں اس بچے کو ان میں سے کسی سے منسوب کر دیتی تھی جسے قبول کرنے کا وہ پابند ہوتا تھا اور بچے کا نسب اور کفالت اس شخص کے حوالے سے ہوتا تھا۔
پانچویں صورت یہ تھی کہ بعض عورتوں اپنے مکانوں پر خاص قسم کا پرچم لہرائے رکھتی تھیں جو اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ یہاں معاوضہ دے کر کوئی بھی شخص آ سکتا ہے۔ ایسی کسی عورت کے ہاں بچہ ہوتا تو وہ اپنے اندازے کے مطابق متعلقہ افراد کو طلب کرتی جو سب اکٹھے ہونے کے پابند تھے۔ ایسی صورت میں قیافہ شناس بلائے جاتے تھے جو قیافے کے ذریعے سے ان افراد میں سے اس بچے کے باپ کا انتخاب کرتے تھے اور وہ اس کے نسب اور کفالت کا ذمہ دار قرار پاتا تھا۔
یہ اس دور جاہلیت میں سیکس کے فری ہونے کی صورت میں بچے کے نسب اورکفالت کے تعین کا سسٹم تھا جس کی موجودگی میں کوئی بچہ لاوارث یا سنگل پیرنٹ نہیں ہوتاتھا، لیکن آج کی جدید جاہلیت سیکس کو فری کرنے کے بعد اس کے نتائج سے نمٹنے کا کوئی نظام وضع نہیں کرسکی اور سنگل پیرنٹ کا قانون طے کرکے اس نے نسب اورکفالت کی ذمہ داری کا سرے سے پتہ ہی کاٹ دیاہے اورسیکس کے جس عمل میں مرد اور عورت دونوں برا بر کے شریک تھے، اس کے نتائج بھگتنے کے لیے عورت کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ مرد اپنا کام کر کے چلتا بنتا ہے اور اس کے نتائج سب کے سب عورت کو بھگتنا ہوتے ہیں جسے عورت کے حقوق اور اس کی آزادی اور مرد وعورت کی مساوات کا نام دے دیا گیا ہے۔
اس پر مجھے محترمہ ہیلری کلنٹن کی ایک بات یاد آگئی۔ جب وہ امریکہ کی خاتون اول تھیں تو اسلام آباد کے دورے پر تشریف لائیں اورایک گرلز کالج کے دورے کے موقع پر انہوں نے سیکنڈ ایئر کی ایک پاکستانی طالبہ سے پوچھا کہ یہاں کالج کی طالبات کو کیا مسائل درپیش ہوتے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ ہمیں معیاری لائبریریاں اور لیبارٹریاں میسر نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے ہم ریسرچ میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ اس لڑکی نے امریکہ کی خاتون اول سے سوال کیا کہ امریکہ میں کالج کی طالبات کو کیا مسائل درپیش ہوتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کالج تک پہنچتے پہنچتے بہت سی لڑکیوں کی گود میں بچہ ہوتاہے جس کاکوئی ذمہ دار نہیں ہوتا اور وہ مصیبت میں پڑی ہوتی ہے کہ اس بچے کی پرورش کرے یا تعلیم حاصل کرے۔ اس سے آپ اندازہ کر لیجیے کہ ڈیڑھ ہزار سال قبل کے دورجاہلیت کے فری سیکس اور آج کی دور جاہلیت کے فری سیکس میں کیا فرق ہے؟ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق مانع حمل ادویات اور اسقاط حمل کی تمام تر سہولتوں کے باوجود جو بچے پیدا ہو رہے ہیں، ان میں سے گزشتہ سال چالیس فیصد بچے بغیر شادی کے پیدا ہوئے۔
اسلام نے اسی وجہ سے نکاح کے سوا جنسی تعلق کی تمام صورتوں کو ناجائز قرار دیاہے اور زنا کے حوالے سے انتہائی سختی کی ہے کہ اس کے بغیر نسب، کفالت اور خاندان کا نظام ہی باقی نہیں رہتا۔ 

پاکستان پیپلز پارٹی ۔ قیادت اور کارکردگی کا ایک جائزہ

پروفیسر شیخ عبد الرشید

جمہوریت کو رائے عامہ کی حکومت کہا جاتاہے اور موجودہ دور میں رائے عامہ کی تشکیل اور اظہار میں سیاسی جماعتوں کا کردار نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ ’’ اکثریت کی حکومت‘‘ کے اصول پر عملدرآمد سیاسی جماعتوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جمہوری سیاسی نظام میں سیاسی جماعتوں کی تقریباً وہی حیثیت ہوتی ہے جو انسانی جسم میں دوڑتے ہوئے خون کی ہے۔ جس طرح جسدِ انسانی کی صحت کا دارومدار خون پر ہوتا ہے، بالکل اسی طرح جمہوری نظام کی کامیابی اور مستقبل کا انحصار سیاسی جماعتوں کی استعداد کار اور تنظیم و قیادت پر ہوتاہے۔ اسی لیے ماہرین سیاست جدید جمہوریت کی کامیابی کے لیے سیاسی جماعتوں کے وجود کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ منرو(Munro) کہتاہے: ’’آزاد سیاسی جماعتوں کے ذریعے حکومت دراصل جمہوری حکومت کا دوسرا نام ہے۔ سیاسی جماعت، یکساں خیالات، متفقہ منشور اور حصول اقتدار کے بعد ملک و قوم کی خدمت دراصل ایک ہی سلسلے کی کڑیا ں ہیں ۔‘‘
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی تعداد ایک سو سے زائد ہے، تاہم ان میں سے اکثر پر سیاسی جماعت ہونے کا ’’الزام‘‘ لگانا بھی مشکل ہے اور پھر قومی سطح کی شناخت اور ملکی سیاست پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت سے مالا مال سیاسی جماعتیں تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ موجودہ سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی ملک کی بڑی اور وفاقی سیاسی جماعت ہونے کی دعوے دار ہے۔ آئندہ سطور میں ہم پیپلز پارٹی کی مختصر تاریخ، اس کی قیادت، اس کے اثرات و کارکردگی اور ملکی سیاست و جمہوریت میں اس کے کردار کا جائزہ لیں گے ۔
ذوالفقار علی بھٹو اپنے عہد کی اہم، غیر معمولی صلاحیتوں کی مالک اور متنازعہ سیاسی شخصیت تھے۔ شروع میں وہ خود کو بھارتی شہر ی تصور کرتے تھے۔ وہ ۱۹۴۷ ؁ء میں بھارت کے پاسپورٹ پر امریکہ گئے۔ انہوں نے متروکہ املاک کے کسٹوڈین کی عدالت میں دائر مقدمے میں اقرار کیا کہ وہ بھارتی شہری ہیں۔ جولائی ۱۹۴۹ ؁ء تک بھٹو کو پاکستانی پاسپورٹ بھی جاری نہ ہوا تھا۔ اسکندر مرزا نے جب انہیں ایوب خاں کی کابینہ میں شامل کیا تو انہوں نے جائیداد کے بارے میں اپنا دعویٰ واپس لیا۔ وہ ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ میں ممبر اور جنرل سیکرٹری رہے۔ ابتدا میں ہی انہوں نے کنونشن مسلم لیگ میں فارورڈ بلاک بنا کر اس پر قبضہ کرنے کی کوشش بھی کی اور پھر کونسل مسلم لیگ کا ممبر بن کر وہ مسلم لیگ کے دھڑوں کو متحد کرنے کے امکانات پر بھی غور کرتے رہے۔ معاہدہ تاشقند پر اختلاف کے بعد اپنے سیاسی گارڈین ایوب خاں کی کابینہ سے ۱۹۶۶ ؁ء میں مستعفی ہوگئے اور انتقام کے جذبے سے مغلوب ہو کر ان پر تنقیدی حملے شروع کر دیے۔ یہاں تک کہ نومبر ۱۹۶۶ ؁ء میں بھٹو نے مجیب الرحمن کے چھ نکاتی پروگرام کی حمایت کے اظہار کے لیے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا، حالانکہ بطور وزیر خارجہ انہوں نے خود مختاری کی اسی اسکیم کو قوم دشمن قرار دیا تھا۔ لارنس زائرنگ کے مطابق ’’ بھٹو جانتے تھے کہ ایوب بالآخر اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے، چنانچہ وہ خم ٹھونک کر اس شخص کے مقابل آگئے جس کی وہ آٹھ برس تک ملازمت کرچکے تھے ۔‘‘ کچھ عرصہ تک حالات کا جائزہ لینے کے بعد انہوں نے ایک سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ وہ کسی دوسری سیاسی جماعت، اس کی قیادت اور منشور و کارکردگی سے مطمئن نہ تھے۔ وہ ایک ایسی سیاسی جماعت بنانا چاہتے تھے جوان کے ذاتی فلسفے کی تشہیر کا ذریعہ بن سکے اور جس کے ساتھ ماضی کے واقعات اور شخصیات کا کوئی سابقہ اور لاحقہ نہ ہو۔ انہوں نے اکتوبر ۱۹۶۷ ؁ء میں پیپلز پارٹی بنانے کا اعلان کیا۔ ۳۰ نومبر سے یکم دسمبر ۱۹۶۷ء تک لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر بھٹو کی قیادت میں قومی کنونشن منعقد ہوا۔ جے اے رحیم، عبد الحفیظ پیر زادہ، شیخ عبدالرشید، یحییٰ بختیار، معراج محمد خاں، تاج محمد لنگاہ ، ممتاز بھٹو، محمود علی قصوری، حنیف رامے، حیات محمد خان شیر پاؤ، غلام مصطفی کھر، مختار رانا، خورشید حسن میر، کامریڈ غلام محمد، حامد سرفراز، ملک نوید احمد، احمد خاں وغیرہ اس میں شامل ہوگئے۔ ۱۶ دسمبر ۱۹۶۷ء کو حیدر آباد میں حزب اختلاف کے راہنما میر رسول بخش تالپور کی رہائش گاہ پر پارٹی باقاعدہ تشکیل دی گئی۔ بلا 
شبہ پیپلز پارٹی کے قیام کے وقت بھٹو ملک کے سب سے مقبول اور مسلمہ سیاسی راہنما تھے۔ ایوب خاں کے زوال میں ان کا کردار کلیدی تھا۔ ’’اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور عوام قوت کا سرچشمہ‘‘ کے پارٹی نعرے سے عوامی سوچ کی عکاسی ہوئی۔ اس تصور نے عام آدمی سے لے کر دانشوروں تک کو اپنے سحر میں لے لیا اور ایوب حکومت سے مایوس لوگ بھی پیپلز پارٹی کی طرف دیکھنے لگے۔ نومبر ۱۹۶۸ء میں بھٹو کو حراست میں لے لیا گیا۔ تب سے مارچ ۱۹۶۹ء تک بھٹو کی کرشماتی لیڈر شپ نے اپنے سابق مربی کے خلاف عوامی شورش کو منظم اور پارٹی کو مزید مقبول بنا یا۔ ایوب نے بھٹو کی رہائی کا حکم دے دیا تاکہ سنجیدہ مذاکرات میں حصہ لے سکیں، مگر پی پی پی کے راہنما صدر سے بھٹو کی ملاقات کے بارے متذبذب تھے کہ اس طرح ایوب کے ہاتھ مضبوط ہوں گے اور اقتدار کو طول ملے گا۔ ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ء کو ایوب کے سبک دوش ہونے اور اقتدار جنرل یحییٰ خاں کے سپرد ہونے کا اعلان ہوا ۔ پھر جب یہ اعلان ہوا کہ عام انتخابات اکتوبر ۱۹۷۰ء میں کرائے جائیں گے تو ۲۵سیاسی جماعتوں نے قومی اسمبلی کے لیے پہلے عام انتخابات کی مہم کا بھرپور آغازکیا۔ تین سو منتخب نشستوں کے لیے ۱۵۷۰؍ امیدوار میدان میں آگئے۔ ان انتخابات کا درد ناک پہلو یہ ہے کہ یہ الیکشن نہ تو مسلمہ قانونی راہنما اصولوں کے تحت کرائے گئے اور نہ ہی ان میں حصہ لینے والی سیاسی تنظیموں کے درمیان کوئی افہام و تفہیم موجود تھی۔ یہ الیکشن ۱۹۶۲ء کا دستور منسوخ ہونے کے بعد سیاسی و فوجی ٹولے کے حکم پر کرائے گئے اور ان کا مقصد ایک نیا سیاسی نظام وضع کرنے کی بجائے ایوب خاں کے سیاسی نظام کے خاتمے کی توثیق کرنا تھا۔ سیلاب کی وجہ سے پولنگ کی تاریخیں قومی اسمبلی کے لیے ۷دسمبر اور صوبائی کے لیے ۱۷ دسمبر طے ہوئیں۔ پی پی پی نے قومی اسمبلی کے لیے مشرقی پاکستان سے کوئی امیدوار کھڑا نہ کیا جبکہ مغربی پاکستان میں ۱۱۹؍ امید وار کھڑے کیے۔ بھٹو نے انتخابی مہم کے دوران طلبہ، وکلا اور مخصوص شعبوں سے تعلق رکھنے والے گروہوں پر انحصار کیا جو ایوب حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک میں پیش پیش تھے۔ پیپلز پارٹی کو بشیر بختیار کی پاکستان لیبر پارٹی جیسی منظم مزدور تحریک کی پشت پناہی کے علاوہ پاکستان پریس ورکرز یونین، تانگہ اور ٹیکسی ڈرائیور یونینوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ پی پی پی کی انتخابی مہم میں مقبولیت کی وجہ اس کا دلکش نعرہ ’’ روٹی کپڑا اور مکان‘‘ تو تھا ہی، مہاجروں اور پنجابیوں کی دلچسپی کی وجہ بھارت کے خلاف بھٹو کا غیر مصالحانہ رومانوی رویہ تھا۔ انتخابی مہم میں بھٹو نے بھارت کے خلاف ہزار سال تک جنگ کرنے کی باتیں کی تھیں۔ نومولود پارٹی ہونے کی وجہ سے بھٹو کو موجود پاور سٹرکچر سے مصالحت بھی کرنا پڑی۔ سوشلسٹ نظریات کے باوجود پارٹی نے سندھ میں پیروں اور وڈیروں کو ساتھ ملایا۔ اسے پیر آف ہالہ شریف اور پیر رسول شاہ آف تھرپار کر جیسے گدی نشینوں کے ساتھ ساتھ تالپوروں، جتوئیوں اور جام صادق جیسے وڈیروں کی مدد بھی لی۔ پنجاب میں نون ، گیلانی اور قریشی خاندانوں پر مشتمل جاگیردار پارٹی میں شامل ہوگئے، اسی طرح جیسے یہ وڈیرے ماضی میں یونینسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہو ئے تھے۔ پنجاب اور سندھ کے پس ماندہ دیہی علاقوں میں جاگیرداروں کی حمایت حاصل کرنے او ر وسطی پنجاب اور نہری اضلاع میں چھوٹے کاشتکاروں، مزارعوں اور بے زمین کسانوں کی توجہ حاصل کرنے کی دوہری پالیسی نے پیپلز پارٹی کی انتخابی کامیابی کو یقینی بنایا۔ الیکشن نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی نے حکومتی حمایت یافتہ قیوم لیگ اور مذہبی جماعتوں کو پچھاڑ کر نمایاں کامیابی حاصل کی اور قومی اسمبلی میں دوسری بڑی اکثریتی جماعت بن کر ابھری اور مغربی پاکستان کی ۱۳۸ میں سے ۸۱سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں خواتین اور دوسری نشستیں ملا کر اس کی سیٹوں کی تعداد ۸۸ہوگئی ۔ زیادہ کامیابی پنجاب میں ملی جہاں سے ۶۲ نشستیں ملیں۔ ایک کے سوا باقی سیٹیں سندھ سے ملیں ۔ اگرچہ مغربی پاکستان میں وہ اکثریتی جماعت تھی، مگر اسے قومی اسمبلی کے لیے ڈالے جانے والے ووٹوں کا صرف ۵ء۱۹فیصدی یعنی ۵/۱ حصہ ووٹ ملے تھے۔ 
الیکشن کے بعد حالات نے ڈرامائی انداز اختیار کر لیا۔ زائرنگ کا خیال ہے کہ اگر بھٹو عاجزی و انکساری کا مظاہر ہ کرتے اور خود پر قابو رکھتے تو مجیب الرحمن ان کی ناگزیر جانشینی کے لیے راستہ ہموار کر دیتے۔ قواعد کے مطابق مجیب الرحمن حکومت کی ذمہ داریاں سنبھال لیتے تو پاکستان کے سیاسی عمل کی ابتر حالت کے پیش نظر وہ یقیناًزوال پذیر ہو جاتے اور بھٹو ان کے جانشین بن جاتے۔ اگر بھٹو صبر و تحمل کا مظاہر ہ کرتے تو وہ برسر اقتدار آ جاتے۔ اس طرح ملک ایک خوفناک خانہ جنگی اور اس قومی تذلیل سے بچ جاتا جس کا اسے ملک کے دو لخت ہونے کی صورت میں سامنا کرنا پڑا ۔ انوار ایچ سید کا خیال ہے کہ ’’وہ طویل عرصے سے فوج سے پینگیں بڑھا رہے تھے اور انہوں نے فوج کے ساتھ قربت کو پارٹی پر ترجیح دی۔ ‘‘ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے فوراً بعد ہی پی پی پی کی صفوں میں شگا ف پڑنا شروع ہو گئے۔ ممتاز قانون دان احمد رضا قصوری نے یحییٰ خان کی طرف سے قومی اسمبلی کا اجلاس ۳مارچ کو بلانے کا فیصلہ نظر انداز کرنے پر بھٹو کی مخالفت کی، اسی لیے بعد ازاں وہ بھٹو کے غضب کا نشانہ بھی بنے ۔
۱۶؍دسمبر ۱۹۷۱ء کوسقوط مشرقی پاکستان کے بعد بھٹو نے آرمی ہیڈ کواٹرز میں شکست خوردہ جرنیلوں سے ملاقات کی جس کے نتیجے میں ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے تقریباً ۲سال بعد اور جرنیلی جمہوریت کے تقریباً چودہ سال بعد جرنیل، اقتدار پیپلز پارٹی کے راہنما بھٹو کے سپرد کرنے پر تیار ہوگئے۔ ممتاز دانشور حمزہ علوی کے الفاظ میں ’’ستم تو یہ ہے کہ اگرچہ بھٹو (مغربی) پاکستان میں اکثریتی جماعت کا راہنما تھا، اس کے باوجود جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار پر فائز نہ ہوا ، بلکہ شکست خوردہ فوج نے اسے منصب حکمرانی سے سرفراز کیا۔ ۲۰ دسمبر ۱۹۷۱ء کو فوج نے بھٹو کا صدر کی حیثیت سے تقرر کیا۔ صدر کے ساتھ ساتھ بھٹو کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ بھی تفویض ہوا ۔ یہ دونوں عہدے اس سے قبل جنرل یحییٰ کے پاس تھے ۔ بھٹو کو انتقالِ اقتدار دراصل ایک فوجی انقلاب (coup-detat) تھا کیونکہ نو منتخب شدہ قومی اسمبلی کا اس انتقال اقتدار میں کوئی حصہ نہ تھا۔ دراصل بھٹو کو امریکہ کے حمایت یافتہ دو جرنیلوں کی پشت پناہی حاصل تھی جن کی مدد سے وہ اس رتبے تک پہنچے۔ ایک جنرل گل حسن اور دوسرا ایئر مارشل رحیم خاں تھا۔ صاف ظاہر ہے، بھٹو کو دو عہدے دیے گئے تھے لیکن تیسرا یعنی فوج کے کمانڈر انچیف کا عہدہ تو اسے کسی صورت نہیں دیا جاسکتا تھا، لہٰذا یہ جنرل گل حسن کے حصے میں آیا۔ اس تمام تر کارروائی کو امریکی حمایت حاصل تھی۔ جب یہ کارروائی ہو رہی تھی، اس وقت بھٹو اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش پر ہونے والے مباحثے میں شریک تھے۔ واشنگٹن میں بھٹو نے صدر نکسن اور سیکرٹری آف سٹیٹ راجرز سے بھی ملاقات کی اور وہاں سے کلیرنس مل جانے پر بھٹو کو فوج نے پاکستان کا سربراہ حکومت بننے کی دعوت دی۔‘‘ تاہم ایک خیال یہ بھی ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے افسوس ناک اور دشوار دنوں میں ایک شکست خوردہ اور شکستہ قوم کی حکومت کی سربراہی کے لیے قومی سطح کے وہی واحد سیاسی لیڈر باقی رہ گئے تھے، چنانچہ بھٹو نے خلفشار کو روکا اورممکنہ انتشار کا سدباب کیا۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں جو تبدیلیاں ہورہی تھیں، ان کو بھٹو نے بڑی تیزی سے بھانپ لیا اور ان ممالک میں پاکستان کی حیثیت میں اضافہ کیا جبکہ کچھ مورخ یوں بھی بیان کرتے ہیں کہ اگر کسی قوم کی ذلت اور کم حوصلگی سے کسی لیڈر نے کبھی فائدہ اٹھا یا ہے تو وہ بھٹو تھے۔ اقوام عالم کی جدید تاریخ میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالنے والے وہ پہلے سویلین تھے ۔ بھٹو نے یہ عہدہ حاصل کر کے پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح پر بھی سبقت حاصل کر لی۔ بھٹو نے اپنے مطلق اختیارات کو پاکستان کی تشکیل نو کے لیے کس طرح استعمال کیا، اس کا مکمل احاطہ یہاں ممکن نہیں ۔ 
نامور دانشور اقبال احمد کے الفاظ میں بھٹو کے کارنامے ، ملکی سیاست میں ان کی کوتاہ اندیشی کے بالکل برعکس تھے ۔ وہ صدر بن کر طاقت کے نشے میں بدمست ہو گئے اور ان کے اقتدار نے مطلق العنانی اورشخصی حکومت کا روپ دھار لیا۔ پیپلز پارٹی کی تنظیم کو محض ثانوی حیثیت حاصل ہو کر رہ گئی جس سے پارٹی تیزی سے ایک ایسا کمزور ادارہ بن گئی جس میں اختلاف رائے کو سختی سے دبا یا جاتاتھا ۔ اقتدار میں آنے کے بعد پی پی پی پاکستان کے سابقہ سیاسی نقشے کو ختم کرنے میں ناکام رہی ۔ پارٹی بنانے کا کام منتخب اداروں اور باقاعدہ ڈھانچوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی بجائے سر پرستی کے انداز میں آگے بڑھایا گیا۔ اس سے گروہ بندیاں شروع ہو گئیں۔ بائیں بازو کے عناصر اور بھٹو کے درمیان خلیج پیدا ہوگئی۔ بائیں بازو کے عناصر پارٹی تنظیم کی اہمیت پر زور دیتے تھے، لیکن بھٹو شخصیت پر ستی کے خواہاں تھے ۔ پیپلز پارٹی کے قائد بھٹو کی ذات کے تضادات بے وجہ نہیں تھے۔ وہ ایک عبوری طبقے کی پیداوار تھے۔ ہمہ جہت شخصیت، جاگیرداری کے پروردہ ، بورژ وا طبقے کی تعلیم کے حامل، سیاست میں فوجی آمر کی پیداوار، اور ایک خو د ساختہ سوشلسٹ۔ وہ اپنے آپ کو سو ئیکارنو اور نکرومہ، اتاترک اور جمال عبدالناصر کی طرح ہیرو کے قالب میں ڈھلا ہوا محسوس کرتے تھے، حالانکہ نہ وہ ان کی طرح نادار گھر میں پیدا ہوئے اور نہ قربانیاں دیں۔ ا قبال احمد کے خیال میں بے لگام نخوت ، نظریے کا وزن ، اقتدار کا سودا ،اور سیاسی عمل کے سلسلے میں بے بصیرتی کے حامل بھٹو نے ایسی پالیسیاں اختیار کیں جو ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئیں۔ رچرڈ نکسن کے ساتھ ان کا تقابل بالکل درست ہو گا۔ نکسن کی طرح بھٹو طاقت کے حصول کی طبعی خصوصیات رکھتے تھے اورموقع شناسی کی ایک پُر اسرار حِس بھی۔ نکسن کی طرح وہ بھی ہر قیمت پر کامیابی چاہتے تھے، لیکن اس جواری کی طرح جو داؤ پر کچھ بھی لگانا نہیں چاہتا ۔
پیپلز پارٹی بھی اپنے قائد کی طرح عبوری دور کی پیداوار تھی۔ نظریاتی موقع پرستی پر مبنی بظاہر جدید، اندروں جاگیردارانہ۔ بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ پارٹی کی یہ متضاد کیفیت ہی بھٹو کے مربیانہ انداز کے لیے موزوں تھی۔ اسی لیے تنظیمی حوالے سے پارٹی کے چیئر مین نے سستی دکھائی اور ۱۹۷۶ء تک صوبوں کے تنظیمی دورے نہ کیے جن کے بعد ڈویژنل سطح پر کنونشن منعقد ہوئے۔ مکمل تنظیم نو آخر کار دسمبر ۱۹۷۶ء میں ہوئی، لیکن اس میں بھی انحصار مؤثر ادارہ سازی کی بجائے ذاتی وفاداریوں پر کیا گیا۔ بھٹو نے خود تمام اعلیٰ عہدیدار منتخب کیے۔ سیکرٹریٹ سے لے کر ضلعی تنظیموں بلکہ ان سے بھی نچلی سطح تک کے عہدیداروں کا تقرر اپنی پسند سے کیا۔ اس سے فیصلہ سازی مکمل طور پر مرکز کے تابع ہو گئی اور بھٹو نے بھی پیپلز پارٹی کو اسی طرح ذاتی تنظیم بنا دیا جس طرح اندرا گاندھی نے بھارتی کانگرس کو بنا دیا تھا۔ آئن ٹالبوٹ کے خیال میں بھٹو کی ذاتی ہدایا ت کے مطابق پارٹی کی تشکیل نونے ایک ایک کر کے بانی ارکان کو کنارے لگا دیا۔ تخلیقی سوچوں کی جگہ چاپلوسی نے لے لی تاکہ پارٹی کی ہائی کمان کی خوشنودی حاصل رہے، یہاں تک جے اے رحیم جیسے بانی ارکان جنہوں نے پیپلز پارٹی کی اساسی دستاویز تحریر کی تھی، ۱۹۷۴ء میں خود کو الگ تھلگ محسوس کرنے لگے۔ انہوں نے پارٹی امور نمٹانے میں بھٹو کے انداز کی مخالفت کی اور ان کے انتقام کا نشانہ بنے۔ احمد رضا قصوری نے پارٹی کے فاشسٹ کردار پر نکتہ چینی کی اور گرفتار ہو کر پانچ سال سزا کے مستحق ٹھہرے۔ اسی طرح معراج محمدخاں نے تنقید کی اور جیل کی کوٹھڑی میں پہنچ گئے۔ بھٹو نے اسی طرح کے عمل کو روکنے کے لیے ۳۰ پارٹی ممبران کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا حکم دیا اور ان کے ساتھ ۲۰؍ اراکین اور شامل ہو گئے تو ایف ایس ایف کے ذریعے ان کا تعاقب کیاگیا۔ پی پی پی میں کچھ گروہی اختلافات ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم پر ہی ہوگئے تھے۔ پنجاب کے صدر شیخ رشید اور جنرل سیکرٹری غلام مصطفی کھر کے درمیان محاذ آرائی بعد میں بھی جاری رہی۔ ۱۹۷۳ء کے شروع میں ہی شیخ رشید کے حامیوں کو پارٹی سے نکال دیاگیا۔ جورہ گئے، ان کے خلاف انکم ٹیکس کے مقدمات درج کرا دیے گئے۔ پھر قدامت پسند وزیر اطلاعات کوثر نیازی اور ترقی پسند وزیر معراج محمد خاں کے درمیان نظریاتی اختلافات تھے۔ سندھ میں جام صادق اور رسول بخش تالپور تھے، جبکہ سرحد میں ہمایوں سیف اللہ اور حبیب اللہ خان کے درمیان بنوں میں اور مردان میں عبدالصمد خاں اور عبدالرزاق خاں کے درمیان گروہ بندی تھی ۔ اس طرح کی ذاتی دشمنیاں جلد ہی باقاعدہ تصادم میں بدل گئیں۔ انوار ایچ سید کے مطابق بھٹو نے ۱۶؍اگست ۱۹۷۳ء کو اپنے نوٹ میں لکھا کہ ’’ہمارے دائیں بائیں آگے پیچھے بندوقیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کا ماٹو ہی یہی ہے۔ انتہائی معمولی باتوں کے لیے پستول نکال لو اور بے دریغ استعمال کرو‘‘۔ مزدور لیڈروں کو ان کے دفاتر میں قتل کیاگیا۔ بلوچستان اسمبلی کے سپیکر اور اپوزیشن کے ایک رکن کو گولی مار دی گئی۔ NAPکے عبدالصمد اچکزئی کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ مولوی شمس الدین اورخواجہ رفیق کا قتل ہوا۔ جماعت اسلامی کے کئی عہدیداروں کو قتل کر دیا گیا۔ ولی خاں اور اصغر خاں متعدد قاتلانہ حملوں میں بال بال بچے۔ پیپلز پارٹی کی کمزوری کے باعث پورے ملک میں سیاسی تشدد کی وارداتیں شروع ہو گئیں۔ سیاسی قتل روز مرہ کا معمول بن گئے حتیٰ کہ پارٹی کارکنوں کے جھگڑے معمول بن گئے۔ فروری اور مئی ۱۹۷۲ء کے درمیان لاہور ، گوجر خاں ، وزیر آباد ، گوجرانوالہ اور وہاڑی میں سنگین گروہی تصادم ہوئے۔ کراچی پارٹی سیکرٹریٹ پر ناراض کارکنوں نے قبضہ کرلیا ۔ انوار سید نے پی پی پی سیکریٹریٹ کی فائلوں کی چھان بین کے بعد تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ ایسا ظاہر ہوتاہے کہ بھٹو پی پی پی کے ساتھ مخلص نہیں تھے۔ انہوں نے اس تنظیم کو محض حصول اقتدار کا ذریعہ بنایا تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بھٹو خود کو پارٹی سیاست سے برتر سمجھتے تھے اور اگرچہ خانہ جنگی کے بعدکے پاکستان میں پارٹی کارول جاری رکھنے کے لیے تیارتھے، لیکن انہوں نے پارٹی کو اپنے اجزائے ترکیبی کے محو کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ اس سے سماج میں بامعنی تبدیلی کے خواہاں نوجوان بھٹو سے بد دل ہونا شروع ہو گئے۔ بھٹو نے سماجی اور اقتصادی اصلاحات سیاسی بنیادیں تعمیر کیے بغیر نافذ کیں چنانچہ یہ پارٹی کے لیے حامیوں میں اضافہ کرنے کی بجائے دشمنوں میں اضافہ کرنے کا ذریعہ بن گئیں۔ فوج، جو المیہ مشرقی پاکستان کے بعد ابتری کی حالت میں تھی، بلوچستان میں سیاسی استعمال سے ایک بار پھر عوامی زندگی میں داخل ہو گئی۔ جس طرح تیز تر سماجی و اقتصادی تبدیلیوں نے ایوب خان کی کنٹرولڈ ڈیمو کریسی کے تجربے کو ناکام بنایا تھا، اسی طرح عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں نے بھٹو کے عوامی جمہوری تجربے کو بھی نقصان پہنچایا۔ ڈاکٹر محمد وسیم کے خیال میں ’’حکومت کی طرف سے قیمتوں میں اضافے پر قابو پانے میں ناکامی نے اس کی سیاسی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا کیونکہ مہنگائی کا سب سے زیادہ اثر پیپلز پارٹی کے حامی زیریں طبقات پر پڑا‘‘۔
پیپلز پارٹی نے تاریخ کے اس تصور کے ساتھ اقتدار سنبھالا تھا کہ مستقبل کا پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان ہو گا مگر اسے بدقسمتی کے سوا کیا کہیے کہ بھٹو پاکستان کی حالت بدلنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ اس کی کلیدی وجہ یہ تھی کہ وہ پیپلز پارٹی کی تشکیل نو کر کے اسے ایسا سیاسی ادارہ نہ بنا سکے جس میں وہ اپنی حاکمیت کو منتقل کرتے۔ مسلم لیگ کی طرح پیپلز پارٹی بھی خود کو ایک عوامی تحریک سے ایک جدید حکومتی سیاسی جماعت میں تبدیل نہ کر سکی۔ تنظیمی ڈھانچہ مضبوط کرنے کی بجائے شخصی اثرو رسوخ پر انحصار پارٹی کی مضبوطی کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا۔ حالانکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ ایک پارٹی اور اس کی قیادت کو نہ صر ف اقتدار ملا بلکہ اس کا جواز بھی حاصل ہوا جسے بنیاد بنا کر جمہوری روایات پر مبنی مستقبل کی تعمیر ماضی کی نسبت آسان تھی، مگر صد افسوس کہ پاکستان کے اس افسانوی جمہوری شہزادے کے کندھے اتنے چوڑے نہ تھے کہ وہ اس بوجھ کر سہار سکیں جو تاریخ نے ان پر ڈال دیا تھا۔ اس کے باوجود ۱۹۷۱ء کے سانحہ کے بعد شکست خورہ قوم میں خود اعتماد ی بحال کرنا، جنگی قیدیوں کی واپسی، ملک کو ایک جمہوری آئین دینا، کامیاب خارجہ پالیسی اور ایٹمی ری ایکٹروغیرہ پی پی پی کی حکومت کے حاصلات و نمایاں کارنامے ہیں ۔ 
۷ جنوری ۱۹۷۷ء کو ۲ ماہ میں الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا گیا۔ بھٹو نے رفیع رضا کو اپنی انتخابی مہم کا مینیجر بناتے ہوئے انتخابات کے جلد انعقاد کا فیصلہ تو جون ۱۹۷۶ء میں ہی کر لیا تھا۔ یہ عوام کے لیے غیر متوقع بات تھی لیکن الیکشن کی فضا بنتے ہی حیران ہونا بھٹو کے لیے مقدر ٹھہرا کہ وہ اپنی مخالف جماعتوں کے فوری اتحاد پر پریشان ہو گئے۔ ان انتخابات کا جامع تجزیہ ممتاز سکالر M.G.Weinbaum نے ’’ایشین سروے‘‘ کے جولائی ۱۹۷۷ء کے شمارے میں کیا ہے۔ قطع نظر انتخابی تجزیے کے، انتظامیہ نے بھٹو کوواضح کامیابی کا یقین دلایا تھا۔ اس کے باوجود یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ دھونس اور دھاندلی کے لیے گھٹیا اور غیر قانونی ہتھکنڈے کیوں استعمال کیے گئے؟ بھٹو نے خود ایک طرف ماؤزے تنگ جیسا لباس پہننا شروع کیا اور چیئر مین کہلانے لگے، دوسری طرف ملک کے روایتی زمیندار گھرانوں کی سیاسی حمایت حاصل کرنے پر اترآئے۔ وہ زیادہ سے زیادہ بلا مقابلہ کا میابیاں چاہتے تھے جو ان کی غیر جمہوری سوچ کی واضح نشان دہی کرتا ہے ۔ پیپلز پارٹی کو بھاری کامیابی ملی، لیکن قومی اتحاد دھاندلی کے الزامات کے ساتھ سڑکوں پر نکل آیا لیکن بھٹو نے تمام تر دباؤ کے باوجود اقتدار سے چمٹے رہنے کو ترجیح دی۔ لارنس زائرنگ کے مطابق بھٹو پر پاکستانی معاشرے میں ظلم و تشدد کرنے والی طاقتوں کو بے لگام چھوڑنے، ذاتی ہوس کے لیے قوم کو دو لخت کرنے، قومی معیشت کو تباہ کرنے ، اور ملک کے بہترین دماغوں اور جفاکش لوگوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے کے الزامات لگائے گئے۔ یہ تاثر عام تھا کہ اگر اس شخص کو اسی طرح کام کرنے کا موقع دیا گیا تو یہی شخص، جسے خوفناک خانہ جنگی کے زخم مندمل کرنے کا فریضہ سونپا گیا تھا، بچے کھچے پاکستان کو بھی برباد کردے گا۔ قسمت ایک مرتبہ پھر مصروف عمل ہو گئی اور اس نے بھٹو کی جگہ پر ضیاء الحق کو لا بٹھایا ۔ ‘‘
ضیا ء الحق نے ایک سپاہی کی حیثیت سے اس شخص کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی تھی جس نے اسے یہ عہدہ اور مرتبہ دیا تھا۔ بھٹو کے مقابلے میں ضیاء الحق نہایت پر خطر کھیل رہے تھے۔ ایک ایسا کھیل جس میں ان دونوں میں سے صرف ایک کھلاڑی ہی زندہ بچ سکتا تھا۔ ۴؍اپریل ۱۹۷۹ء میں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ جس طرح یہ ہوا، اس نے بھٹو کو مظلوم بنا دیا ، عوام کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہو گئیں کہ فوج اس لیے ان کو سزا دے رہی ہے کہ انہوں نے ملک کا سیاسی موسم بدل دیا۔ وہ کچلے ہوئے عوامی حقوق کی علامت بن گئے، چنانچہ بھٹو کے قتل کے معنی یہ لیے گئے کہ بھٹو کے سوشلسٹ پروگرام کی عدم تکمیل اور جمہوریت کے خاتمے کی ذمہ دار، فوج اور افسر شاہی ہے۔ بھٹو پاکستان کے پیرون (peron)بن گئے ۔ آئن ٹالبوٹ کا خیال ہے کہ ’’بھٹو کے حامی ان کو چلی کے سلواڈرو آلندے کا ہم پلہ جبکہ ناقدین انہیں ارجنٹائن کے جان پیرون کے مشابہ قرار دیتے ہیں ۔ ‘‘
ضیاء حکومت کا جبر و استبدار، جس میں سیاسی جماعتوں پر پابندی بھی شامل تھی، پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے حوصلے پست کرنے میں ناکام رہا۔ بھٹو کی وفات کے بعد پیپلز پارٹی کی سربراہی بیگم نصرت بھٹو نے سنبھال لی اور بے نظیر شریک چیئر پرسن بن گئیں۔ ضیاء حکومت سے ٹکر لی اور قیدو بند کی مصیبتیں برداشت کیں۔ ۲۴؍اگست ۱۹۸۵ء کو جب بے نظیر انگلینڈ سے اپنے بھائی شاہنواز کی تجہیزو تکفین کے لیے آئیں تو کارکنوں کے جوش و خروش نے ثابت کر دیا کہ پارٹی کی مقبولیت قائم ہے۔ نومبر میں وہ واپس چلی گئیں۔ ضیاء نے ۱۹۸۵ ء میں غیر جماعتی انتخابات کرانے کے لیے جو پالیسی وضع کی، وہ یہ تھی کہ ٹائم میگزین کے بقول ’’ نہ کوئی سیاسی مہم ہو، نہ موضوع، نہ موقف، نہ قومی مسائل پر بحث‘‘۔ اس کے باوجود بے نظیر میدان میں کود پڑنے کو تیار تھیں، لیکن ایم آر ڈی نے ضیا کے بنائے قاعدوں کے مطابق ہونے والے انتخابات میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ نئی حکومت کے بننے کے بعد بے نظیر نے دو سالہ ازخود اختیار کردہ جلا وطنی کے بعد واپس آنے کا فیصلہ کیا تو لندن سے لاہور پہنچنے پر فقید المثال استقبال ہوا۔ ہجوم دیکھ کر فرط و انبساط سے بے نظیر نے کہا تھا کہ ’’ اسی دن ہم اقتدار چھین کر لے سکتے تھے، مگر ہجوم پر تشدد نہیں پر مسرت موڈمیں تھا ‘‘۔ وطن آکر بے نظیر نے جونیجو حکومت سے پہلو بچا کر ضیا کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یوگو اسلاوی نیوز ایجنسی تانجگ کے نامہ نگار الیگزنڈر سٹانک نے تبصرہ کیا تھا کہ’’ جس طرح بے نظیر کے جلسوں اور جلوسوں کا انتظام کیا جارہا ہے اور جس سیاسی بالغ نظری کا اظہار ہو رہا ہے، اس سے نظر آتاہے کہ یہ تحریک محض جذباتیت پر منحصر نہیں۔ اقتدار میں طاقتور عناصر کی تسلی کے لیے بے نظیر نے اعلان کیا: ’’میں انتقام لینے کے لیے نہیں آئی ہوں ۔‘‘
بے نظیر کے وطن آتے ہی پارٹی میں تنازعات پھوٹ پڑے۔ سب سے پہلے غلام مصطفی جتوئی، جو بھٹو خواتین کی غیر موجودگی میں پارٹی کے سربراہ تھے، علیحدہ ہوئے۔ ان کے خیال میں بے نظیر تمام ’’چاچاؤں ‘‘ سے نجات حاصل کر کے خود قیادت سنبھالنا چاہتی تھیں۔ چھوڑ جانے والے چچاؤں میں حقیقی چچا ممتاز بھٹو بھی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی پنجاب کے ووٹوں پر اتنا زیادہ انحصارکرتی ہے کہ سندھ کے مفادات کی نگہبانی نہیں کر سکتی۔ بے نظیر کو بائیں بازو کے چیلنج کا بھی سامنا تھا۔ پرانے بالشویک ملک معراج خالد، راؤرشید اور شیخ رشید وغیرہ پارٹی کے نئے امریکہ نوازرحجان سے مایوس ہو رہے تھے۔ لندن میں لیبر پارٹی کے نیل کینک سے گفتگو میں بے نظیر نے کہا تھا کہ ’’ان کے لیے یہ بڑا مسئلہ تھا کہ اپنی پارٹی کو بائیں بازو کے بدلے میانہ روی تک لائیں اور ایسا سیاسی موقف اختیار کریں جو چل جائے۔‘‘ بے نظیر نے ملک بھر کا دورہ کیا ، کارکنوں کو متحرک کر کے تنظیم نوکی اور آسانی سے مذکورہ مشکلات پر قابو پا لیا۔ وہ بآسانی پارٹی کی راہنما بن گئیں۔ نظریاتی حوالے سے انہوں نے ہوا کے مخالف رخ پر چلنے کی بجائے حقیقت پسندانہ رویہ اپنا لیا۔ حمزہ علوی کے مطابق ۱۹۸۴ ؁ء میں امریکہ کے دورے کے دوران بے نظیر کو موثر حمایت کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ ۱۵نومبر ۱۹۸۸ء کو گارڈین نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ پی پی پی کی صفوں میں درآنے والی حقیقت پسندی کا نتیجہ مایوسی اور پارٹی نفاق تھا۔ اس کا پرانا انداز تخاطب نئی عملیت پسندی میں بدل گیا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر رضا مندی ، امریکہ کی علاقائی ترجیحات کی تائید اور سب سے بڑھ کر فوج سے مفاہمت اور اس کی بالادستی کو تسلیم کر لینا اس کے راہنما اصول قرار پائے ۔ ‘‘ بے نظیر نے فوج کو خوش رکھنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا، حتیٰ کہ اقبال اخوند کے الفاظ میں ’’وہ ضیا کی ماتحتی میں بھی وزیر اعظم بننے پر آمادہ تھیں۔ کیا یہ ان کی حقیقت پسندی کی انتہا تھی جس کی علامات جا بجا عیاں تھیں؟‘‘
۱۷؍اگست ۱۹۸۸ء کو ضیا ء الحق حادثے کا شکار ہوئے تو فوج نے انتقال اقتدار کے لیے انتخاب کی حمایت کر دی ۔ ان انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹوں کے اجرا میں آصف زرداری نے ہاتھ دکھایا۔ ممتاز صحافی حسن مجتبیٰ کا دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی کا انتخابی ٹکٹ حاصل کر نے کے لیے ایک ہی معیار تھا کہ امید وار زرداری سے وابستگی رکھتا ہو یا پھر پارٹی فنڈ کے لیے ۲۰ لاکھ سے ۵۰لاکھ روپے مہیا کرے۔ ویسے بھی سعید شفقت کے خیال میں بے نظیر نے اپنی پارٹی کو جمہوری مزاج دینے اور مضبوط بنانے میں بہت کم دلچسپی لی۔ ساز گار فضا کے باوجود نتائج نے سب کو حیران کر دیا۔ پیپلز پارٹی کو اتنے ووٹ نہیں ملے کہ حکومت چاندی کے طشت میں رکھ کر انہیں پیش کر دی جاتی۔ وہ سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کر پائی ۔ 
بے نظیر نے حقیقت پسندی سے انتخابی مہم کا اختتام کرتے وقت کہا کہ ’’ پاکستان کی موجودہ حالت میں فوج کی مکمل حمایت کے بغیر سویلین حکومت قائم کرنا بے حد مشکل ہے ۔‘‘ اب جبکہ بے نظیر نے فوج کی کھلے عام اور غیر مشروط اطاعت کی قبولیت کا اشارہ دے دیا اور امریکی مفادات کے تحفظ کا بیڑہ اٹھا لیا تو اسٹیبلشمنٹ کو اسے وزیر اعظم بنانے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ اکانومسٹ کی یکم دسمبر ۱۹۸۸ء کی اشاعت کے مطابق انتخابات کے دس روز بعد امریکی سفیر رابرٹ اوکلے سے بے نظیر کی ملاقات کے بعد اسے امریکی تائید حاصل ہوگئی۔ اس نے تمام قواعد و ضوابط کو قبول کر لیا جن کے تحت اسے کاروبار حکومت چلانا تھا۔ بے نظیر بھٹو کی کابینہ جس کا اعلان ۴دسمبر کو ہوا، فوج ، صدر اور امریکہ کی خواہش کے مطابق تشکیل پائی ۔ ان دنوں میں حد سے زیادہ فعال امریکی سفیر کے علاوہ دو سینئرامریکیوں یعنی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے دفاع رچرڈ آرمیٹج اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار رچرڈ مرفی بھی کابینہ سے متعلق انتظامات کو حتمی شکل دینے پاکستان آئے تھے ۔ لہٰذا صدر کی جانب سے بے نظیر یعنی پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے کی عوت پر کسی کو حیرت نہ ہوئی۔ بے نظیر نے جب پہلی مرتبہ ایوان اقتدار میں قدم رکھا تو وہ پاکستان کی ۳۶سالہ کم عمر ترین اور پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔ وہ کسی بھی اسلامی مملکت کی پہلی سربراہ حکومت اور دنیا کی کامیاب خاتون سیاستدان تھیں، کیونکہ اندرا گاندھی اور گولڈا میئر اپنی اہمیت کھو چکی تھیں۔ پاکستانی معاشرہ ابھی نئے عہد کے لیے مکمل طور پر تیار نہ تھا۔ پھر بھی بے نظیر سے قوم اور پارٹی کارکنوں نے بھاری بھر کم توقعات وابستہ کر لیں، مگر منقسم شخصیت کی مالک بے نظیر اپنے باپ سے کم نہ نکلیں۔ وہ ایک طرف آفاقی نظریات کی باتیں کرتیں تو دوسری طرف ان کا عمل ایک محدود نظر زندگی کی غمازی کرتا تھا۔ فوج اور بیورو کریسی کے گٹھ جوڑ اور امریکہ سے بے نظیر نے جو سودے بازی کی، اس سے انہیں اور پارٹی کو کچھ حاصل نہ ہوا۔ اقتدار فوج اور بیورو کریسی ہی کے پاس رہا جن کی نمائندگی صدر غلام اسحاق خاں کر رہے تھے، البتہ بے نظیر حکومت نے مقتدر عناصر کو ’’سیاسی جواز‘‘ ضرور فراہم کیا۔ انہوں نے فوج کو’’ تمغہ جمہوریت‘‘ بھی دیا۔ انہیں فائدہ تو حاصل نہ ہوا لیکن حقیقی مقتدر قوتوں کے کرتوتوں کا خمیازہ ضرور بھگتنا پڑا کیونکہ اس کھیل میں عوام کے مسائل جوں کے توں رہے۔ عوامی خوش فہمیوں کے غبارے سے جلد ہوا نکل گئی۔ بد عنوانی ، نااہلی ، اقربا پروری اور انتقامی کارروائیوں کے الزامات نے سپنے چکنا چور کر دیے۔ ان کے مختصر دور حکومت کی محدود کامیابیوں پر ان الزامات نے سیاہی پھیر دی جو ان کی مبینہ وڈیرہ ذہنیت اور متنازعہ شوہر مسٹرٹین پرسنٹ آصف علی زرداری کی سرگرمیوں کے حوالے سے لگائے گئے۔ اس دورمیں پارٹی کو مضبوط بنانے کی طرف توجہ نہ دے کر بے نظیر نے بھٹو کی بیٹی ہونے کا ثبوت دیا ۔ 
صدر نے ۱۶؍اگست ۱۹۹۰ء کو پیپلز پارٹی کی حکومت برطرف کر دی تو امریکہ کے کسی حلقے سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔ ذرا عمومی تجزیہ کیا جائے تو کہا جا سکتاہے کہ اس وقت مقتدر ری پبلکن پارٹی کو یہ بات نہ بھاتی ہو کہ بے نظیر کے بیشتر حامی اور مشیر ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلقات رکھتے تھے ۔ غلام اسحاق خاں نے پی پی پی کے سابق سر براہ اور نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ غلام مصطفی جتوئی کو نگران وزیر اعظم بنا دیا۔ بہرحال بے نظیر میدان سیاست میں موجود رہیں لیکن صدر نے انہیں اس لیے تو بر طرف نہیں کیا تھا کہ تین مہینے بعد ہونے والے انتخابات میں وہ دوبارہ جیت جائیں، چنانچہ انتخابات کے نتائج ظاہر ہوئے تو آئی جے آئی کو ۱۰۵نشستیں ملیں جبکہ پی پی پی کو پہلی ۹۳کی بجائے اب صرف ۴۵ نشستیں ملیں۔ تاہم غلام اسحاق خاں نے نواز شریف کو وزیر اعظم بنانے میں کوئی کردار ادا کیا تھا تو وہ جلد ہی اس پر پچھتائے۔ ۱۸؍ اپریل ۱۹۹۳ء کو انہیں رخصت کر دیا گیا۔ ۶اور ۷؍اکتوبر کو انتخابات ہوئے۔ پیپلز پارٹی کو ۸۶اور مسلم لیگ کو ۷۲سیٹیں ملیں۔ بے نظیر بھٹو ۳سال تک اپوزیشن میں رہنے کے بعد پھر وزیر اعظم بن گئیں اور ۱۹؍اکتوبر کو حلف اٹھا کر سیاسی کشمکش میں ملک کو لگنے والے زخموں کو مندمل کرنے اور مفاہمت کے دور کا آغاز کرنے کا اعلان کیا۔ عام طور پر ہر نئی حکومت کو اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد روایتی ہنی مون کا جو موقع ملتاہے، بے نظیر کو وہ بھی نہ ملا۔ سیاسی جنگوں، سماجی و اقتصادی مسئلوں ، محاذ آرائی کے علاوہ اس بار بے نظیر اور پیپلز پارٹی کو اپنے ہی گھر اور خاندان سے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جو ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کی صورت میں سامنے آیا۔ وہ خود کو اپنے والد کا حقیقی وارث سمجھتے تھے اور ان کی ماں نصرت بھٹو ان کے ساتھ تھیں ۔اس تنازعے کے پس منظر میں ان کے سیاسی مخالفین نے بھی حملے تیز کر دیے۔ بے نظیر نے سابق فوجیوں اور ضیاء الحق کے ساتھیوں کو نواز نے کا سلسلہ شروع کر دیا جس کی بڑی مثال جنرل (ر) سرو پ خاں کا گورنر پنجاب کی حیثیت سے تقرر تھا۔ پی پی پی اب مبینہ طور پر زرداری کے ہاتھوں میں آچکی تھی۔ پیپلز پارٹی نے سماجی انصاف کا جو وعدہ کیا تھا، اس سے انحراف کے بعد نہ صرف اس کے ارکان پارٹی چھوڑنے لگے بلکہ عوام کی ایک بڑی تعداد بھی اس سے الگ ہو گئی۔ مرتضیٰ بھٹو اور ان کی والدہ نصرت بھٹو نے ایک اور پی پی پی بنالی اور یاد دلایا کہ ان کے والد نے والدہ کو تا حیات چیئر پرسن بنایا تھا۔ سیاسی کھیل اب ہوس اقتدار سے ہوتا ہوا زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا۔ بھٹو کا دوسرا بیٹا بھی اقتدار پر قربان ہوا۔ ۱۹۹۵ء میں صرف کراچی میں تقریباً ۲ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ مختصر یہ کہ پیپلز پارٹی نے بے نظیر کے دوسرے دور میں بھی عوام کے لیے مایوسیوں کا اعادہ کیا۔ پارٹی کی تنظیم مسلسل کمزور ہوتی گئی ۔ حالات اس نہج پر پہنچے کہ ۲۱ستمبر ۱۹۹۶کو وزیر اعظم کے بھائی مرتضیٰ بھٹو ہلاک ہو گئے ۔ دگرگوں حالات کے پیش نظر پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکن و منتخب صدر فاروق لغاری نے ۵نومبر ۱۹۹۶ء کی شب بے نظیر حکومت اور اسمبلیاں توڑ کر نگران حکومت قائم کی اور پی پی پی کے بانی رکن ۸۰ سالہ ملک معراج خالد کو وزیر اعظم مقررکر دیا ۔ یہ نگران حکومت بلا امتیاز احتساب کا عمل پیش نہ کر سکی۔ نئے انتخابات کا عمل شروع ہوا تو پیپلز پارٹی نے عدالت سے رجوع کر رکھا تھا۔ سپریم کورٹ نے پولنگ سے صرف چار روز پہلے صدارتی حکم کی توثیق کا فیصلہ سنا کر پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کو زبردست نقصان پہنچایا۔ پارٹی کے کئی اہم لیڈر پی پی پی شہید بھٹو گرو پ یا مسلم لیگ (ن) میں چلے گئے ۔ وزیر آباد سے سابق وزیر دفاع کرنل غلام سرور چیمہ مسلم لیگ میں اور جیکب آباد سے تعلق رکھنے تمام اراکین اسمبلی غنویٰ بھٹو کے ساتھ مل گئے۔ الیکشن نتائج بہت بُرے رہے۔ پی پی پی کا ووٹر گھروں سے ہی نہ نکلا۔ اس جماعت کا اصل مسئلہ ووٹر ز کا ٹرن آؤٹ رہا، کیونکہ بار بار مایوسی سے جیالے ناراض ہو چکے تھے۔ ذلت آمیز شکست کے بعد پیپلز پارٹی کی قائد نے حیرت انگیز طور پر باوقار انداز اختیار کیا اور محاذ آرائی کے خاتمے کی پیش کش کر دی۔ انہوں نے پارٹی پر بھی توجہ دی۔ ۱۹۹۷ء کے انتخابات میں انہوں نے اس تصور کی تردید کی کہ صرف بھٹو خاندان ہی پیپلز پارٹی کو متحد رکھ سکتاہے۔ ۱۹۹۲ء میں پی پی پی کی سلور جوبلی پر خطاب کرتے ہوئے بے نظیر نے کہا کہ ۱۹۹۰ء میں، میں نے پارٹی کا نیا تنظیمی پروگرام منظور کیا۔ اس کا لب لباب یہ تھا کہ ممبر سازی کی مہم چلائی جائے اور وارڈ کی سطح تک عہدے دار منتخب کیے جائیں۔ ہم مہینوں کمیٹیاں بناتے رہے اور تاریخیں بڑھاتے رہے۔ کام پورا کرنے کے لیے نہیں، صرف شروع کرنے کے لیے ۔ ظاہر ہے ایک خلا پیدا ہوگیا۔ انجام کار تنظیم کا مطلب ہی بدل گیا۔ منتخب نمائندہ کی جگہ نامزد نمائندوں نے لے لی ۔ ایسا کیوں ہوا؟ بے نظیر نے اس کی وضاحت نہیں کی لیکن پھر مارچ ۱۹۹۹ء میں پارٹی نے انہیں تاحیات صدر منتخب کر لیا۔ ۲۰۰۲ء کے مخصوص حالات کے مخصوص انتخابات کے مخصوص نتائج میں بھی پیپلز پارٹی بغیر کپتان کے کوئی بڑا کردار ادا نہ کر سکی۔ جو کامیاب ہوئے، ان میں سے ابن الوقتوں نے فارورڈ بلاک بنا کر پیٹریاٹ نام رکھ لیا۔ وہ پارٹی ٹکٹ لے کر جیتے، پر کامیابی کے بعد قلا بازی لگالی۔ اس سے پارٹی اور اس کے امیج کو نقصان پہنچا۔ 
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں امید کی کرن بن کر ابھرنے والی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی مختصر تاریخ اس کی خود غرض قیادت اور تاریک کارکردگی کی وجہ سے رجائیت سے یا سیت تک کا سفر نظر آتی ہے ۔ جس طرح اس ملک کی ایک نسل مسلم لیگی ہے، اسی طرح پیپلز پارٹی ایک وسیع البنیاد مخالف تحریک اور اکلوتی غالب سیاسی جماعت بن کر ابھر ی مگر وہ بھی مسلم لیگ کی طرح اپنے تین ادوار حکومت میں خود کو عوامی تحریک سے منظم سیاسی جماعت بنانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ اس کی قیادت کوئی کارہائے نمایاں سرانجام نہ دے سکی ۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ رہا ہے کہ یہاں کمزور سیاسی جماعتوں نے ادارہ جاتی بحران میں بڑا عامل ہونے کا کردار ادا کیا ہے۔ اسی چیز نے یہاں پریٹورین ازم کا راستہ ہموار کیا۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں ایک بار پھر اہم موڑ پر ہیں۔ حالات بے نظیر کے لیے ۱۹۸۸سے زیادہ مختلف نہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیابے نظیر اس مرتبہ پھر ہوس اقتدار میں فوجی زعما کو سیاسی جواز فراہم کرنے کے لیے پرانی پالیسی اختیار کرتی ہیں یا نئی دانش سے نیا راستہ چننے کا جرات مندانہ قدم اٹھاتی ہیں۔ پاکستان کے عوام سب سے بڑی سیاسی جماعت سے کسی تاریخ ساز کردار اور بڑے کارنامے کی توقع کر رہے ہیں۔ بلاشبہ پاکستانی سیاست میں پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کا کردار ہنوزباقی ہے۔ پہلے دونوں ادوارمیں لاڑکانہ اور ریڈکلف کی بے نظیر میں کشمکش رہی۔ کچھ لوگوں نے بے نظیر کی سیاست میں آمد کو بھٹو کو دوسرا جنم سمجھا تھا۔ وہ بھی غلط ثابت ہوا۔ اب تک بے نظیر نے بہت کچھ غلط ثابت کیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اب کی بار وہ عوام کو کس طرح حیران کرتی ہیں۔

تجدد پسندانہ رجحانات اور جدیدیت کا اسلامی فلسفہ

حافظ محمد سمیع اللہ فراز

اس امر میں شبہ کی گنجایش نہیں کہ زمانہ ہمیشہ رنگ بدلتا رہا ہے۔ بہت کچھ پہلے بدل چکا ہے اورمزید بدلے گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمود کسی قوم کی تخلیقی صلاحیتوں کو یخ بستہ کر دیتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا زمانی ارتقا کی ہر تبدیلی اورہرجدید چیز صحت مند ہے؟ کیا ہر تغیر باعث خیر ہے؟ کیا تاریخ کا ہر قدم عروج ہی کی طرف اٹھتا ہے؟ اور کیا ہر حرکت بلندی ہی کی سمت لے جاتی ہے؟ ان سوالات پر جب تاریخ کی روشنی میں غور کیاجاتا ہے تو اس کا جواب نفی میں ملتا ہے کہ ہر حرکت ترقی کے لیے مثبت نہیں۔ ایک نوع کی حرکت اگر آپ کو ثریا کی بلندیوں تک لے جاسکتی ہے تو دوسری قسم کی حرکت تحت الثریٰ کی پستیوں تک لے اترتی ہے۔ مطلوب نفسِ حرکت نہیں بلکہ درست سمت میں حرکت ہے۔ ترقی ایک اضافی اصطلاح ہے، ورنہ ترقی اورتنزل کا فیصلہ منزل کے لحاظ سے ہی ہوسکتا ہے۔ ہم صرف اس حرکت کو ترقی کہہ سکتے ہیں جو صحیح راستے سے ہمیں منزل کی طرف لے جا رہی ہو اور جو حرکت منزل کے برعکس سمت میں لے جائے، وہ ترقی نہیں بلکہ تنزل ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ حرکت سے پہلے سمت حرکت اورمنزلِ مقصود کا تعین ہونا چاہیے، ورنہ محض جمود کو توڑنے کے شوق میں کوئی حرکت کسی قوم کو ترقی کی بجائے تنزل کا مسافر بنا سکتی ہے۔
موجودہ معروضی حالات کو اس فلسفہ کے تناظر میں دیکھاجائے تو ہر شخص ترقی کے مقصد کی خاطر متحرک نظرآتا ہے لیکن اسے سمتِ حرکت کا علم نہیں۔ خصوصاً امت مسلمہ اور اس کی منزل میں دوری پیداکرنے کا بنیادی سبب وہ طبقہ ہے جو ہر حالت میں ترقی کا متمنی ہے، قطع نظر اس سے کہ یہ سفر شاہراہِ اسلام پر طے ہو یا پھر اسلام مخالف ٹریک پر۔ زمانی تقاضوں سے مجبوری کے باعث کسی بھی فکری اساس سے محروم اور قرآن وسنت کی تعبیرنوکا خواہاں یہ تجددپسند طبقہ اسلامی قدامت پسندی، امتِ مسلمہ کی جمہوری روایات اور قدیم مسلم علمی روایت کو تجددپسندی، روشن خیالی اور اسلام کی جدید تعبیر نو سے بدلنا چاہتا ہے۔ وہ شعوری یا پھر غیر شعوری طور پر تقلید اغیار کی دعوت دے رہا ہے۔ تقلید اگر جدید کی، کی جائے تو وہ کوئی قابل فخر چیز نہیں بن جاتی، بلکہ اس کے نقصانات علی حالہٖ قائم رہتے ہیں جن کی بنا پر نہ صرف قوم کی اپنی تخلیقی صلاحیتیں دم توڑجاتی ہیں بلکہ وہ قوم اپنے افکار وروایات کی درستی اورخود کو بدلنے میں لگی رہتی ہے اور دوسروں کی شاگردی کے مقام سے آگے بڑھنا کبھی اسے نصیب نہیں ہوتا۔

تجددپسندی کا بنیادی اصول

اس طبقہ کی فکری تعمیر میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ وہ فکروفلسفہ بھی شامل ہے جو ہر نئی چیز کو خوب تراور قابل احترام ولائق اختیار سمجھتاہے۔ اس طبقہ کے ذہن کو مغربی ہومیونزم (Huminism) نے بہت حد تک متاثر کیا ہے جس کی اساس ’’ ناگزیر تاریخی ترقی‘‘ (Inevitability of Progress)کا اصول ہے جس کی رو سے ’’ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے بہتر ہے، انسان کا ورثہ روز بروز بڑھ رہا ہے، ماضی حال سے اچھا ہے اور مستقبل حال سے اچھا ہوگا، ہمارے قدم لازماً ترقی اور عروج کی طرف اٹھ رہے ہیں اور اب پیچھے ہٹنے کا کوئی امکان نہیں‘‘۔
اس اصول کو ہیگل کے فلسفۂ تاریخ، مارکس کی معاشی تعبیرتاریخ وغیرہ نے بڑی تقویت پہنچائی ہے۔ اسی اندازِ فکر کا نتیجہ ہے کہ ماضی کی ہر چیز کو کم مایہ وحقیر اور حال کی ہر شے کو قابل قدر سمجھا جارہاہے اور ترقی کا لازمی تقاضا یہ فرض کرلیاگیا ہے کہ جدیدیت کے نام پر ہر قدیم چیز کو بدل ڈالا جائے۔ یہ فلسفہ تجدد پسند طبقہ کے اذہان پر مسلط ہے اور وہ مختلف عنوانات سے اپنی ترقی پسندی اور روشن خیالی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے اپنی نظریاتی حدوں کو بھی بھول جاتے ہیں اور محض فیشن کے طور پر ہر قدیم چیز پر، خواہ وہ اپنے دین سے ہی متعلق کیوں نہ ہو، ناک بھوں چڑھاتے اور تنقیدی رجحان اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔
نظریاتی لحاظ سے تجددپسندی یا ماڈرن ازم کی فکری مثال معتزلہ کے ساتھ دی جاسکتی ہے۔ انہوں نے قرآن وسنت کو قبول کیا، لیکن اس کی تعبیر میں اپنی عقل وتاویل کو معیار مقررکیا۔ امت مسلمہ کے جمہوری افکار سے متصادم معتزلی طبقہ بظاہر تو ختم ہوگیا لیکن وہ فکر باقی رہی۔ ماڈرن ازم کی جدید تحریک کا آغاز یورپ میں اس وقت ہوا جب اسپین میں سائنسی طریقہ کار کو فروغ حاصل ہوا تو چرچ کی بعض تعلیمات اس کے متصادم نظر آنے لگیں اور اسی چیز نے مذہب سے بغاوت کا راستہ پیداکیا۔ چنانچہ تجدد پسندی کی ابتدا کا بنیادی محرک یہی نظریہ تھا کہ مذہب کو حالات کے مطابق بدلنا چاہیے۔ یورپ میں عیسائی اور یہودی تجدد پسندوں نے اس فکر کو فروغ دینے کی کوشش کی کہ مذہب میں لوگوں کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے اس کی تعبیر نو کی جائے اور نئی چیزیں لوگوں میں متعارف کروائی جائیں۔ اس کی ایک مثال چرچ میں گانا ہے جو کہ انیسویں صدی کی ایجاد ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خدا سے متعلق انسانی اور غیر انسانی دونوں قسم کے کلام بائبل میں شامل ہیں اور وقت کے موافق مذہب کی جدید تشکیل وتعبیرہی انجیل کوسچائی کے مقام پر باقی رکھ سکتی ہے۔ چنانچہ عیسائیت کی مذہبی تاریخ نے دیکھا کہ تعبیر نو کے نام سے شروع ہونے والے تجددپسندی کے سفر نے اہل کلیسا کو مذہب سے بیگانہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی منزل بھی گم کردی۔ 

اسلامی تجدد پسندی

مغربی تجدد پسندی نے نہ صرف اہل کلیسا سے ان کی مذہبی روایات چھینیں بلکہ اس کا دائرۂ کار وسیع ہوتا ہوا اسلامی دنیا تک بھی پہنچ گیا۔ قطع نظر اس سے کہ حالیہ مغربی تجدد پسندی اسلامی دنیا میں اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے مصروفِ عمل ہے، یہ بات قابلِ غور ہے کہ اسلامی دنیا کے تجدد پسند طبقہ نے مغربی ترقی کو، جو کہ دراصل روایتی تنزل ہے، دیکھتے ہوئے اسلام کی تعبیرنو کی تحریک شروع کررکھی ہے۔ قرآن ،جو کہ اسلام کا اساسی دستور ہے، اس کی اولین تعبیر خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وعمل ہے جسے حدیث کہاجاتا ہے۔ اسی دستور کی عملی شکل آپ کی سنت پیش کرتی ہے۔ تجددپسندی کی اس تحریک نے قرآن کی تعبیرِ اول (حدیث) کو ازکارِ رفتہ خیال کیا اور اسے قدامت پسندوں کی ’جذباتی وابستگی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مسلمہ اہمیت کا انکارکیا کیونکہ تعبیرِ اول(حدیث) کی عدم موجودگی میں ہی تعبیر نو ممکن ہے۔ بعدازاں اساسی دستور میں بدعات وخواہشات کے سدّباب کے لیے فقہا کے قائم کردہ اصولِ اجتہاد کو نشانۂ تنقید بنایا تاکہ اسلام کے اساسی دستور کی تعبیر نو میں وقتی خواہشات کے دخول میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ فقہ اور قدیم اصولِ اجتہاد کے مقام کو مشکوک ثابت کیاجاسکے۔ 

’تجدید ‘ اور ’تجدد‘

زمانی ارتقا اورجدیدیت کے متعلق دوقسم کے ردعمل مذہبی تاریخ میں نظرآتے ہیں: پہلا ’تجدید‘ اوردوسرا ’تجدد‘۔ تجدید یہ ہے کہ زمانی تغیرات کوملحوظ رکھتے ہوئے اصل دین کو اس کی اصل شکل میں زمانہ قریب وبعید کی زبان میں مکمل استدلال کے ساتھ پیش کیاجائے، نیز تدبر واجتہاد کے ذریعے سے دین کو اپنے دور کے حالات پر نافذ کرنے کی عملی جدوجہد کی جائے۔ ان تمام ذرائع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جائے جو قدرت نے انسان کو فراہم کیے ہیں اوراسلامی بصیرت کے ساتھ نئے پیش آمدہ مسائل کو قرآن وسنت کی روشنی میں طے کیا جائے۔ نتیجتاً ہرزمانے میں دین کی تعلیمات اورزندگی کے بہاؤ کے مابین تعلق اوررابطہ گہرا ہوتاجاتا ہے اورزندگی کا سفر اسلام کی شاہراہ سے ہٹنے نہیں پاتا۔ 
’تجدد‘ اس کے مقابلے میں وہ کوشش ہے جوزمانی تقاضوں کے نام پر خود دین کو بدل ڈالنے کے لیے کی جاتی ہے۔ زندگی اور زمانے کے درمیان ربط اس طریقے پر بھی قائم ہوجاتا ہے، لیکن یہ ربط اسلام کی سرزمین پر نہیں بلکہ لادینیت کی گودمیں پروان چڑھتا ہے۔ اس میں مذہب کی تعلیمات کو اصل قرار دے کر حالات کو اس کے مطابق ڈھالنے کی بجائے زمانے کی چلتی ہوئی تہذیب کو اصل اوربہترجان کر اس کے پیدا کیے ہوئے سوالات کے مطابق مذہب کو ڈھال لیاجاتا ہے۔ مؤخر الذکر طریقہ کار کو اگر مسلمان ہرزمانے میں اختیار کرتے چلے جائیں تو اسلام نام کی کوئی چیز اپنی جگہ پر اصل حالت میں باقی نہیں رہ سکتی، بلکہ اسلام سرے سے کسی متعین مذہب ومسلک اوردستورونظام کا نام ہی نہیں رہتا۔
دین اسلام میں تجدید وجدیدیت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہے ہیں اورمجتہدین نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں ایسے اصول متعین فرما دیے جن کے تناظر میں ہر جدید مسئلہ کا حل ممکن ہے، چنانچہ قدیم اصولِ اجتہاد کے ناقدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے مسائل کی نشاندہی توکریں جہاں متقدمین کے اصولِ اجتہاد ناکافی ہوگئے ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کا دین ثابت ومحکم ہے اورمحض زمانے کے انداز دیکھ کر اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی، لیکن یہ خیال کرنا بھی غلط ہوگا کہ زمانے کے تغیرات کو دین اسلام کلی طور پر نظرانداز کردیتا ہے۔ دین اسلام انفرادی واجتماعی زندگی کے لیے وہ حدود واضح کردیتاہے جو انسان کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھنے کے لیے درکار ہیں۔ رہے جزوی اوروقتی امور تو ان کو شریعت کے دیے ہوئے بنیادی اصولوں کی روشنی میں ہروقت اور ہرزمانے میں حل کرنے کی اجازت ہے۔ یہ کام اجتہاد کے ذریعے سے انجام پاتا ہے اور اسی کی بدولت نظامِ دین میں حرکت وارتقا کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ چنانچہ دین اسلام نے اجتہاد کو قیامت تک کے جدیدمسائل کے حل کا ذریعہ بنادیا، لیکن تجدد کی اس میں کوئی گنجائش نہیں کہ دین کی بنیادوں کو ہی بدلنے کی کوشش کی جائے۔ ماضی میں جب بھی تجدد نے سر اٹھایا تو علمائے حق نے سختی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا اور ہر ایسی تخریبی کوشش ملت کی رائے عامہ سے ٹکرا کر آخر کار ختم ہوگئی۔ آج بھی بنیادی کشمکش جدیدیت اور تجدد ہی کے درمیان ہے اورہماری تاریخ اس کی گواہ ہے کہ دین کو متجددین کی خاطر نہ کبھی ماضی میں بدلا گیا اورنہ آج بدلا جاسکتا ہے۔ کسی صاحب اثر شخصیت کی یہ طاقت نہیں کہ زمانے کے تقاضوں کا نام لے کر اسلام کو بدل سکے۔ اس معاملے میں جو انجام اکبر بادشاہ کی کوششوں کا ہوچکا ہے، وہی انجام ان نئے متجددین کے لیے بھی مقدر ہے۔ 

تجددپسندانہ افکار اورمحرکات

دورِ حاضرمیں تجدد پسندانہ افکار اورماضی کی ایسی کوششوں مثلاً دین اکبری وغیرہ کا موازنہ کیا جائے تو ان میں بہت حد تک مطابقت پائی جاتی ہے۔ تجددپسندانہ رجحانات کی عکاسی عرب محقق جمال الدین زرابوزو نے ان الفاظ میں کی ہے:
...they are also trying to remove the sunna and say the system of the old muhadditheen is insufficient. Most say (as do critics of the Bible) that we need a "higher criticism" of hadith and the earlier conclusions (Ijma) and Ijtihad are not sufficient. 
’’[تجددپسند] سنت کو بھی ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پرانے محدثین کا نظام ناکافی ہے۔ (انجیل کے نقادوں کی طرح) اکثر یہ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث کے لیے انتقادِ اعلیٰ کی ضرورت ہے اور سابقہ اخذ کردہ نتائج (اجماع) اور اجتہاد کافی نہیں‘‘۔ 
اس کے علاوہ پیغمبر کی شخصیت کو انسان اور رسول میں تقسیم کرنا، سنت کو دنیاوی حیثیت دینا، متقدمین کے اجتہاد کو قابل اصلاح قراردینا، کسی بھی چیز کی پیروی کے لیے ہر ایک کو اجتہاد کی اجازت دینا، مذہب کو وقت ،ماحول اور جگہ سے متعلق کرنا، ضعیف حدیثوں سے استدلال، مبہم اصطلاحات کا استعمال، مذہبی تعلیمات کے لیے عقل کو بنیاد بنانا، اہل السنۃ والجماعۃ کی تشریحات کی مخالفت کرنااور نادر ومتروک آرا کو جزوِ بحث بنانا تجدد پسندی کے واضح رجحانات ہیں۔ واضح ر ہے کہ دورِ حاضر کی تجدد پسندانہ تحریک کا مرکزومحور دین اسلام کی وہ تعبیر ہے جو ان کی اپنی عقل کے لیے قابل تسلیم ہو۔چنانچہ’’اسلامی شناخت کی حقیقی تعبیر نو‘‘ کی آڑ میں مذکورہ تمام افکار کو فروغ دیا جاتا ہے ۔
جدیدیت کی طرف میلان کے محرکات میں انسان کی فطری جدت پسندی قابل تنقید نہیں، بشرطیکہ وہ فطری حدود میں ہو کیونکہ دین اسلام بھی عین فطرت ہے، اسی لیے دین حنیف کو فطرۃ اللہ قرار دیا گیا، لیکن انسانی فکر ٹھوکر وہاں کھاتی ہے جہاں وہ فطرت کو اپنی عقل کے سانچے میں پرکھنے کی کوشش کرتی ہے اورجو چیز مافوق العقل محسوس ہوتی ہے، اس کو تحت العقل کرنے کی انسانی کوشش منزل کو گم کردیتی ہے۔ مثلاً دین کی بنیاد وحی ہے اوریہ بھی حقیقت ہے کہ وحی کا فلسفہ انسانی عقل کے گرد پھیلے حصولِ علم کے ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتا، چنانچہ انسان جب اس وحی کو ان ذرائع علم کے ساتھ ساتھ عقلی تناظر میں پرکھنے کی ناکام کوشش کرتا ہے تو یہ رجحان اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ وحی کی ایسی تعبیر کرے جو عقل کے لیے قابل قبول ہو۔ چنانچہ تہذیبی غلبہ واثر، فکرنو سے ہم آہنگی اور زمینی حقائق سے متاثر انسان کے ہاں فلسفۂ وحی کی عقلی توجیہات ضروری ٹھہرتی ہیں جو کہ تجدد کا غیرمعمولی عنصر ہے۔ نتیجے کے طور پر دین کی الٰہیاتی تعبیر اور انسانی تعبیرکے درمیان ایک بُعد واقع ہوجاتا ہے اور یہی بُعد انسانی تباہی کا سبب بنتا ہے۔

جدیدیت کا اسلامی فلسفہ

خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، اس کا علم ہر شے کو محیط ہے، زمان ومکان کی قیود اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ جو قانون ایسے خدا کی طرف سے ہو، اس کا کسی مخصوص زمانے کے ساتھ محدود ہوجانا کیسے ممکن ہے؟ خدا کی طرف سے دیے گئے قانون کو ازکار رفتہ کہنا جہالت ہے، کیونکہ وہ توہمیشہ اتنا ہی تازہ رہے گا جتنی صبحِ نو۔ خدا کا یہ قانون بنیادی طور پر ہدایت وضلالت کی حقیقت کو واضح کرتا اور اُن اصول واقدار کو بیان کرتا ہے جن پر وقت کے تغیرات، تہذیبوں کے عروج وزوال اورماہ وسال کی آمد ورفت کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اِن وجوہ کی بنا پر جدیدیت(زمانی ارتقا) کے مطابق الٰہیاتی تعلیمات کی تبدیلی کا قطعاً امکان نہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو انبیا وصلحا کی سنت سے معلوم ہوتی ہے۔ ہر نبی ایسے حالات میں مبعوث ہوا جب زمانے کا بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا اور زندگی کا دریا بالکل غلط رخ پر رواں دواں تھا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی نبی نے زمانے کے چلن کے مطابق مذہب کو ڈھالنے کی کوشش نہیں کی بلکہ زمانے کو اپنے رنگ میں رنگنے کی سعی میں مصروف ہوگئے اور بالآخر صبغۃ اللہ کو غالب کردیا۔ قرآن میں اس حقیقت کو یوں بیان کیاگیا : ’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ‘ (الصف:۹) 
انبیا نے زمانے کے تقاضوں سے سمجھوتا اور اس کے ساتھ مصالحت کرنے کی بجائے ہر ہر خرابی کے خلاف جنگ لڑی۔ زمانے کے آگے جھکنے والوں کو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف جواب یہ تھا کہ ’’خدا کی قسم اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اوربائیں ہاتھ پر چاند رکھ کر کہیں کہ مہروماہ کے عوض مَیں اس دعوت کو ترک کردوں تو میں ایسا نہیں کروں گا یہاں تک کہ اللہ اس دعوت کو کامیاب کردے یا میں اس راہ میں جان سے گزرجاؤں‘‘۔ اسلام عبارت ہی سنت نبوی کی پیروی سے ہے۔ اگرزمانے کی سنت، نبی کی سنت سے متعارض ہے تو وہ شخص اپنے دعواے ایمان میں جھوٹا ہے جو نبی کی سنت چھوڑ کر زمانے کی سنت کا اتباع کرے۔
انسانی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ عظیم کارنامے ہمیشہ انہی لوگوں نے انجام دیے ہیں جو حالات کی روپر بہنے کی بجائے ان کے مقابلے کے لیے اٹھے ہیں ۔ زندگی پر ان مٹ نقوش انہوں نے نہیں چھوڑے جو مرغ بادنما کی طرح ہوا کے رخ پر مڑتے اور دوسروں کی نقالی کرتے رہے بلکہ ان لوگوں نے چھوڑے جو ہوا کے رخ سے لڑے ہیں اور زندگی کے دھارے کو موڑ کر رکھ دیا۔ قابل تقلید وہ نہیں جو گرگٹ کی طرح صبح وشام بدلتا ہے، بلکہ وہ ہے جو خود اپنا کوئی رنگ رکھتا اور دنیا کو اپنے رنگ میں رنگتاہے۔ مسلمان دنیا میں زمانے کی پیروی کے لیے پیدا نہیں کیے گئے بلکہ وہ پوری انسانیت کی فلاح واصلاح کا ذریعہ بنائے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے اس سے بڑی ذلت اورکوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ خدا کانائب، سنت نبوی کا مدعی اور دینی روایات کا امین ہونے کے باوجود جدیدیت کو اپنے دین کے مطابق بدلنے کی بجائے اپنے ہی دین کو مسخ کرنا شروع کردے۔ یہ بزدل اورکم نظر لوگوں کا طریقہ ہے جنہیں ہوائیں خس وخاشاک کی طرح اڑائے پھرتی ہیں اورجن کی اپنی بنیاد نہیں کہ وہ اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہ سکیں۔ مسلمان کا یہ شیوہ ہے کہ ؂
زمانہ با تو نہ سازد
توبازمانہ ستیز

اقبال کے حوالے سے کچھ منفی رویے

محمد عمران ہاشمی

حکیم الامت سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ بھی ایسے لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے ایک دنیا کو اپنے سحر میں گرفتار کیا، انہیں قلبی تسکین مہیا کی، اور جن کے پیغام کے تنوع نے انہیں عالمگیر قبولیت بخشی۔ بغور دیکھا جائے تو حضرت علامہ کے کلام(نظم ونثر) میں بنیادی حیثیت فلسفہ کی جان، تجسس کو حاصل ہے ،اور تحقیق جس کادستِ راست ہے اور حقیقت کبریٰ تک رسائی اور اس کابرسرِعام ابلاغ ہوپانا اس ساری تحقیق وجستجو کا مدعا معلوم ہوتا ہے۔ اب اس مقصد عظیم میں حضرت علامہ ؒ کہاں تک کامیاب ہوسکے، یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر اب تک بہت کچھ لکھا جاچکاہے۔ بہت سے ناقدین اور بہت سے پیروان فکرِ اقبال نے ان خطبات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ کچھ نے مثبت رنگ اختیار کیا اور کچھ نے منفی۔ جہاں علامہ اقبالؒ کی شاعری اور نثر نے گفتگو کے کئی باب واکیے اور کئی عقدے کُشا کیے ،وہاں کئی ابواب میں تشنگی، تشکیک اور تضادات کو بھی جنم دیا۔
حضرت اقبالؒ چونکہ ایک بڑی شخصیت کے طورپر سامنے آئے ،لہٰذا انہیں فکری ،فنی ،ادبی اور نجی سطح پر بھی زیر بحث لایا گیا اور مختلف مفروضات ا ورخیالات نے جنم لیا۔حضرت اقبالؒ کے ایام جوانی اور ان میں ہونے والے مختلف واقعات کو کھنگالا گیا۔ (مے نوشی،رقص وسرود کی محافل میں شرکت، یہاں تک کہ ایک زنِ بازاری کا قتل ان سے منسوب کیاگیا)۔
ان کی نظموں ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ پر کہا گیاکہ’’شکوہ‘‘دراصل علامہؒ کی قلبی واردات اور اصل موقف ہے جب کہ ’’جواب شکوہ‘‘انہوں نے بیرونی دباؤ اور خوف کے باعث لکھی تھی اور یہ کہ ان کا پیشتر کلام دراصل مشاہیر کے کلام کی منظوم ترجمہ کردہ صورت ہے یا یہ کہ مغربی ودیگر کلاسیکی شعرا وفلاسفہ کے نظریات وخیالات سے ماخوذ ہے۔ مثال کے طور پر ’’خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے‘‘ اصل میں بھگت کبیر کے ایک دو ہے یا بیت کا صرف ترجمہ ہے ۔
یہ تو ایک سیدھی سی بات ہے کہ جب زبان غیر سے شرحِ آرزو ہوگی تو کچھ نہ کچھ اضافہ یا کمی لازم ہے۔ ایسا ہی کچھ حضرت اقبال ؒ کے ساتھ بھی ہواہے۔ چونکہ آپؒ کے خطبات انتہائی مشکل طرز کلام رکھتے ہیں، لہذا آپ کے شارحین کو یہاں چھوٹ مل جاتی ہے کہ وہ اپنی طرف سے تشریحات اور توجیہات پیش کرسکیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ اقبال کے ہاں مذہب کا تصور، خدا کا تصور اور دیگر کئی ایک تصورات رائج تصورات سے مختلف ہیں اور تقدیر کے متعلق یہ کہ انسان کسی بھی وقت اپنا ارادہ بدلنے پر قادر ہے۔ البتہ خدا وقت کی تمام حرکات سے واقف ہے اور نگران کے طور پر ہے ۔اب یہ ایسے تصورات ہیں جن پر ہمارے اعتقادات اور یقین وایمان کی بلندوبالا عمارت ایستادہ ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ بعض اصحاب (جن میں غلام احمد پرویز بھی شامل ہیں) اپنے اپنے مقاصد کی حصول کی خاطر علامہ کے نام کو استعمال کرتے رہے ہیں ،اور تا حال ایسا ہورہاہے (اگر چہ اس کے رد میں کئی ایک فاضل علما وضاحت کر چکے ہیں) اوربعض اصحاب حضرت اقبالؒ کو مذہب بیزاری اور جدت طرازی کی دوڑ میں شامل کرنے کی خاطر انہیں سرسید احمد خان کے مکتب فکر سے منسلک کرنے میں برابر لگے ہوئے ہیں اور ’’معراج‘‘جیسے اہم مذہبی اہمیت اور تقدس کے حامل واقعہ کے منکر قراردیتے ہوئے جلد بازی سے کام لیتے ہیں، اور علامہ کے کچھ رشتہ داروں کی قادیانی ہونے کے تناظر میں علامہ کے ڈانڈے بھی قادیانیت سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، حالانکہ یہ بات طے ہے کہ علامہ اقبالؒ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے، صوم وصلوٰۃ اورتلاوت قرآن ان کے محبوب معمولات میں شامل تھے۔
اور تو اور، ایسے معاملات میں علامہ کے فرزند ارجمند ڈاکٹر جاوید اقبال بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور وہ موقع بہ موقع اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں یوم اقبال پر ان کے ایک اخباری بیان میں شراب کشید کرنے کے ذریعے ریونیو اکٹھا کرنے کی ترغیب پائی جاتی ہے اور وہ ایسے خیالات کا اظہار یوم اقبال کی مناسبت سے کرتے ہیں جس میں ڈھکے چھپے انداز میں اقبال کی فکر کو غلط انداز میں پیش کرنے کی جسارت پائی جاتی ہے ۔ڈاکٹر جاوید اقبال کی خود نوشت تو ایسے بے شمار واقعات اور خیالات سے پُر ہے جو حضرت علامہ کے کردار کو مسخ کرنے اور انہیں سست ،کاہل ،بد معاملہ ثابت کرنے کی مذموم کوشش ہیں۔ معروف بزرگ شاعر وادیب شریف کنجا ہی نے جاوید اقبال کی گوشمالی کرتے ہوئے ایک تازہ مضمون میں ان خیالات کو ایڈی پس کمپلیکس سے تعبیر کیاہے جو کافی حد تک درست ہے ۔حضرت علامہ ؒ بہرحال ایک بشر ہی تھے اور بشری تقاضوں کے مطابق ان میں ذاتی حوالوں سے کمیاں اور کجیاں ہونا کوئی غیر معمولی واقعہ بھی نہیں ہے، البتہ ان کو اس طرح سے بڑھا چڑھا کر شائع کرنا کہ ان کے اصل پیغام سے لوگوں کی نظریں ہٹ جائیں یا ملت اسلامیہ کے نام انہوں نے جو پیغام چھوڑا ہے، ا س سے ملت اسلامیہ صرف نظر کرنا شروع کردے، کوئی کار خیر نہیں۔ جاوید اقبال فرماتے ہیں کہ وہ والد کی طرف سے محبت اور پیار کے جذبات کو ترستے ہی رہے۔ وہ اپنے والد کی طرف سے کسی بھی قسم کے احسان کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے آپ کو ایک سیلف میڈ شخصیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اسی تناظر میں جناب شریف کُنجا ہی لکھتے ہیں کہ ’’۱۹۳۸ ء میں( علامہ کے) جانہار ہوجانے کے بعد وہ کون سے وسائل تھے جن کے سہارے جاوید عازمِ انگلستان ہوئے تھے کہ بظاہر آمدنی وہی تھی جسے والد چھوڑ گئے تھے اور مذکورہ گوشوارہ کے مطابق مالی سال (۴۵۔۱۹۴۴ء) میں جاوید صاحب کو کتابوں کی مد سے ۲۳۱۷۴ روپے کی بازیافت ہوئی تھی جسے ڈاکٹر صفدر محمود نے ۱۹۷۳ ء کے حوالہ سے ایک لاکھ کے برابر بتاتا تھا اور غالباً یہی کتابوں کی آمدنی سفرِ انگلستان کو آسان کرگئی تھی۔ ‘‘جناب شریف کُنجاہی اس قضیے پر ذرا نفسیاتی اندا ز میں بات کرتے ہیں او رجاوید اقبال کے باطن میں موجود ایک ناراض بیٹے کو دراصل حضرت علامہ کی طبع کی بیٹے میں جزوی منتقلی قرارد ینے پر بھی تیار نظر آتے ہیں جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ’’جس طرح بعض بدنی کیفیات کے زیر اثر بیٹے میں باپ کا عکس موجودہوتاہے، اسی طرح بعض غیر مادی کیفیات بھی باپ سے بیٹے میں منتقل ہوجاتی ہیں۔‘‘ ’’علامہ اقبال کے والد نے بھی جب اپنے بیٹے کے اس اقدام (یعنی کثرت ازواج) کو نہیں سراہاتھا تو بیٹے (علامہ مرحومؒ ) نے اسے اپنی انا میں مداخلت جاناتھا اور یہ شگاف عمر اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلاگیاتھا جس سے ۱۹۳۸ ء میں والد کی وفات کسی مرثیہ کا باعث نہ بن سکی تھی، جب کہ اس کے بعد سرراس مسعود کی موت ایک اثر انگیز نظم کوتخلیق دے گئی تھی‘‘۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علامہ کے قریبی ساتھیوں (جو تحریک پاکستان میں پیش پیش تھے) کے ساتھ اختلافات اور محاذ آرائیاں منظر عام پر لائی جارہی ہیں۔ مثال کے طور پر ’’ماہنامہ نیاز مانہ ‘‘لاہورمیں مسلسل چھپنے والے مضمون ’’یادیں یاد گاریں‘‘میں مضمون نگار معروف تاریخ دان اور شاعر سید نصیر شاہ،ڈاکٹر جاوید اقبال اور دوسرے لوگوں کے توسط سے اس رائے کا اظہار کرچکے ہیں کہ لفظ ’’پاکستان‘‘ کی تخلیق کے سلسلے میں اقبال اور چودھری رحمت علی میں اچھی خاصی نوک جھونک بالواسطہ اور بلاواسطہ ہوتی رہی ہے اور جاوید اقبال اس لفظ ’’پاکستان ‘‘ کو جناب علامہ اقبال ؒ کی تخلیق قراردیتے ہیں جبکہ یہ چودھری رحمت علی نے تجویز کیا تھا، البتہ فاضل مضمون نگارنے اسے علامہ اقبال کا براہِ راست موقف کم اور حاشیہ برداروں، پیرووں اور عقیدت مندوں کا شاخسانہ زیادہ قراردیاہے جسے انہوں نے کافی تفصیل کے ساتھ لکھاہے۔
اپنے ایک حالیہ مضمون ’’غالب کا ہے انداز بیاں اور ‘‘ میں غالب کی مدحِ شاہ کا ذکر کرتے ہوئے معروف شاعر وادیب جناب ظفر اقبال لکھتے ہیں کہ ’’میر کے علاوہ بھی کئی ایسے اساتذہ کے نام گنوائے جاسکتے ہیں جو درباری اور چاپلوس نہیں تھے۔حتیٰ کہ یہ علت پچھلی صدی میں علامہ اقبال تک میں بھی موجود رہی جو والئ بھوپال وغیرہ کے وظیفہ خوار رہے جس کی چند اور دلچسپ مثالیں بھی موجود ہیں۔ مثلاً انہوں نے اپنا مجموعہ کلام’’پیام مشرق‘‘والئ افغانستان غازی امان اللہ خان کے نام معنون کیا ،اور جب نادر شاہ غازی نے امان اللہ کے تخت پر قبضہ کرلیا تو علامہ نے اپنی اگلی کتاب نادر شاہ کے حضور پیش کی، جبکہ ’’ضرب کلیم‘‘ نواب آف بھوپال سے منسوب ہوئی، حالانکہ وہ بے روز گار نہیں تھے اور پیشہ وکالت کو باقاعدہ اختیار کررکھا تھا‘‘۔
جیسا کہ آغاز میں کہا گیاہے کہ چونکہ حضرت علامہ برصغیر کے منظر نامے پر ایک واضح اور نمایاں شخصیت کے طور پر سامنے آئے، اس لیے ان کے بارے میں اختلاف رائے بھی ظاہر ہے، بڑی سطح پر ہی ہونا تھا۔ ویسے علامہ اقبال کوبڑی شخصیت کے طورپر ماننے سے بھی کچھ لوگ گریزاں ہیں، جیسا کہ معروف کلام نگار حسن نثار نے گوجرانوالہ میں اپنی ایک گفتگو میں علامہ کے بارے میں کہا کہ ’’ وہ کوئی بڑی شخصیت وغیرہ نہیں تھا، بس جیسے اندھوں میں کانا راجہ ہوتاہے، کچھ ایسا ضرور تھا، اور یہ جو شاہین کا تصور ہے، یہ انہوں نے معروف پشتو شاعر خوش حال خان خٹک سے مستعارلیا ہے ‘‘۔
علامہ محمد اقبال ایک عظیم مفکر تھے جن کی فکر کسی مخصوص علاقے یا قوم تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے خودی کا جو پیغام دیاہے، وہ ایک ابدی اور عالمگیر پیغام ہے۔ ضرورت ہے تو اسے سمجھنے اور مثبت انداز میں سمجھنے کی۔ یہاں ان کے عقیدت مندوں اور شارحین کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ ایسے خیالات اور رویوں کی جانچ پرکھ نہایت احتیاط اور دیانت داری سے کریں اور اصل حقائق کو مثبت انداز میں سامنے لائیں تاکہ اقبالؒ کا فلسفہ اور ان کی فکر اور شاعری منفی انداز میں کی گئی تنقید کانشانہ نہ بنے۔

سید حسین احمد مدنیؒ اور تجدد پسندی

پروفیسر میاں انعام الرحمن

برصغیر پاکستان و ہند کی مقتدر مسلم شخصیات میں سے سلطان محمود غزنوی( متوفیٰ اپریل ۱۰۳۰ ) اورمغل بادشاہ اکبر ( م اکتوبر ۱۶۰۵ )ایک عرصے سے متنازعہ چلے آ رہے ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر (م مارچ ۱۷۰۷ ) کو بھی بآسانی ایسی شخصیات میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک محمود غزنوی لٹیرا ہے اور بعض کی نظر میں بت شکن۔ اسی طرح اگر ایک طرف اورنگ زیب کی پارسائی کے گن گائے جاتے ہیں تو دوسری طرف اسے ظالم بیٹا تصور کیا جاتا ہے جس نے اپنے سگے باپ کو برسوں قلعے میں محصور کیے رکھا۔ مغل بادشاہ اکبر کا معاملہ قدرے جدا ہے۔ اگر مذہبی اصطلاح ’’ اجماع ‘‘ کو مستعار لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اکبر کی’’ تجدد پسندی‘‘ کے خلاف مسلمانوں کے قدامت پسند حلقے کا اجماع ہو چکا ہے اور ایسے اجماع کے بعد بظاہر مزید کسی تحقیق و رائے زنی کی گنجایش باقی نہیں رہی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری راسخ العقیدہ دینی روایت ، قدامت پسندوں کے اعتقادی و تقلیدی رویوں سے بہت زیادہ مختلف رہی ہے اور خالصتاً دینی معاملات میں بھی تحقیق و جستجو کو تج دے کر اجماع کو حرفِ آخر تسلیم کرنے کوکبھی آمادہ نہیں ہوئی، چہ جائیکہ ایسے امور میں جہاں حکمرانوں کی پالیسیوں اور اقدامات کا تحلیل و تجزیہ مقصود ہو۔ امام شافعی ؒ (م ۲۰۴ھ) اور امام احمد بن حنبل ؒ (م ۲۴۱ھ) نے واضح طور پر اجماع کے اضافی پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی مخالف قول کا علم نہ ہو تو اس سے اجماع واقع نہیں ہو جاتا۔ اگر خالصتاً دینی معاملات میں اجماع حرفِ آخر نہیں تو پھر سیاسی نما مذہبی معاملات ( جن میں عزیمت کے بجائے رخصت کو پیشِ نظر رکھنا زیادہ مفید ہوتا ہے) میں کسی نام نہاد اجماع کی بابت حساسیت کم سے کم ہونی چاہیے اور خلط مبحث سے حتی المقدور گریز کرنا چاہیے۔ اسی سلسلے میں ہم سید حسین احمد مدنی ؒ (م ۱۹۵۷ء) کے اس ’’تفرد‘‘ کو یہاں نقل کرنا چاہیں گے جو اکبر کی تجدد پسندی سے متعلق ’اجماع‘ کے خلاف ہے تاکہ تجدد پسندی کے حوالے سے تصویر کے دونوں رخ سامنے آ سکیں ۔ ملاحظہ کیجیے : 
’’ واقع میں ایک غیرت دار شخص کا یہ خیال بجا ہے، مگر اسی کے ساتھ چند امور قابلِ ملاحظہ ہیں۔ تاریخ بتلاتی ہے کہ ہند میں ابتداء اً جب مسلمان آئے، عام طور سے اہلِ ہند بودھ مذہب رکھتے تھے اور ترک چھوت چھات تو درکنار ، بیاہ شادی تک بخوشی کرتے تھے، جس طرح آج برہما، سیام، چین کھاسیا پہاڑوں وغیرہ میں رائج ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اختلاط نے نہایت قوی تاثیر کی، خاندان کے خاندان مسلمان ہو گئے، مغربی پنجاب خصوصاً سندھ میں مسلمانوں کی زیادتی کا راز یہی ہے۔ اس کے بعد جب محمود غزنوی مرحوم کا زمانہ آیا ہے تو ہندووں میں مختلف احوال کی وجہ سے اشتعال پیدا ہوتا ہے اور شنکر اچاریہ عام مذہب ہند کو بودھ سے نکال کر برہمنی بناتا ہے اور حکومت بودھ کی کمزوری کی بنا پر جو کہ افغانستان ، بلوچستان ، سندھ ، لاہور سے فنا کر دی گئی تھی اور وسط ہند کے بھی بودھ راجواڑے محمود مرحوم کے پے در پے حملوں سے یکسر کمزور ہوگئے تھے، شنکر اچاریہ کو عوام پر بڑی کامیابی حاصل ہو جاتی ہے ۔ چاروں طرف دبے ہوئے برہمن جن کو بودھوں نے تقریباً دفن کر دیا تھا، اٹھ پڑتے ہیں اور تھوڑی سی مدت میں پھر برہمنی مذہب اقطار ہند میں پھیل جاتا ہے، اسی کے دل دادہ ہو جاتے ہیں۔ برہمن چونکہ دیکھ رہے تھے کہ اسلام کا سیلاب اختلاط کی بنا پر ان کے اقتدار ہی کو نہیں بلکہ مذہب کو بھی مٹا رہا ہے ، جس کی بنا پر ان کی مذہبی اور دنیاوی سیادتوں کا خاتمہ ہو جائے گا، اس لیے انھوں نے عوام میں نفرت کا پروپیگنڈا پھیلایا اور مسلمانوں کو ملیچھ کا خطاب دیا۔ گاؤ کشی اور گوشت خوری کو اس کے لیے ذریعہ بنایا۔ عوام ہند کی ذہنیت ہمیشہ سے تارکینِ دنیا کی پرستش کرنے والی واقع ہوئی ہے، خصوصاً ہندو ذہنیت جس قدر سادھو اور فقیر کی پرستش کرتی ہے ، وہ اظہر من الشمس ہے۔ یہ ذہنیت بہت جلد شرق سے غرب اور شمال سے جنوب تک پھیل گئی اور وہ اس میں کامیاب ہو گئے۔ چونکہ اسلامی قوت کا قوت سے ان کو مقابلہ کرنے میں باوجود مساعی عظیمہ کامیابی نہیں ہوئی ، اس لیے اسی طریقے پر ان کی جدوجہد محصور ہو گئی اور اسی کو انھوں نے آلہ کار مدافعت بالقویٰ کا بھی بنانا چاہا ۔ پادشاہانِ اسلام نے اولاً اس طرف توجہ ہی نہیں کی ، بلکہ وہ تمام باتوں کا قوت سے مقابلہ کرتے رہے ، مگر شاہانِ مغلیہ کو ضرور اس طرف التفات ہوا ، خصوصاً اکبر نے اس خیال اور اس عقیدے کو جڑ سے اکھاڑنا چاہا اور اگر اس کے جیسے چند بادشاہ اور بھی ہو جاتے یا کم از کم اس کی جاری کردہ پالیسی جاری رہنے پاتی تو ضرور بالضرور برہمنوں کی یہ چال مدفون ہو جاتی اور اسلا م کے دل دادہ آج ہندوستان میں اکثریت میں ہوتے۔ اکبر نے نہ صرف اشخاص پر قبضہ کیا تھا بلکہ عام ہندو ذہنیت اور منافرت کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا تھا ، مگر ادھر تو اکبر نے نفس دین اسلام میں کچھ غلطیاں کیں جن سے مسلم طبقہ میں اس سے بد ظنی ہوئی ، اگرچہ بہت سے بد ظنی کرنے والے غافل اور کم سمجھ تھے، ادھر برہمنوں کے غیظ و غضب میں اپنی ناکامی دیکھ کر اشتعال پیدا ہوا۔ ادھر یورپین قومیں خصوصاً انگلستان کو اپنے مقاصد میں کامیابی کا ذریعہ تلاش کرنا پڑا اور سب سے بڑا ذریعہ اس کا منافرت بین الاقوام تھا اور ہے ۔ اب سیوا جی کی تاریخ اور سکھوں کی کارروائیوں اور صوبہ جات کے باغیانہ کارناموں لارڈ کلائیو کے بنگال وغیرہ میں بذریعہ ہندو قوم فتح مندیوں میں اس ہاتھ کو بہت زیادہ کھیلتے ہوئے پائیں گے ، آج ہماری مہربان گورنمنٹ اس کے ذریعے بہت زیادہ کامیاب ہو رہی ہے۔ اس بنا پر اگرچہ بڑے درجے تک برہمنوں نے مسلمانوں سے اپنی قوم کو بڑے درجے تک محفوظ رکھا مگر اس نے ان کی متحدہ قومیت کا بھی شیرازہ بکھیر دیا اور خود ان میں بھی چھوت چھات کا عقیدہ جہلا نے پیدا کر دیا حتیٰ کہ بعض بعض خاندان برہمنوں کے بھی دوسرے برہمن سے چھوت چھات کرنے لگے ۔ 
آپ کو معلوم ہے کہ صلح حدیبیہ ہی فتح مکہ اور فتح عرب کا پیش خیمہ ہے اور جس روز صلح حدیبیہ تمام و کمال کو پہنچی ہے ، اسی روز انا فتحنا الآےۃ نازل ہوتی ہے ، جس پر حضرت عمررضی اللہ عنہ تعجب کرتے ہوئے استفسار فرماتے ہیں ، او فتح ھو یا رسول اللہ۔ آپس میں اختلاط ہونا ، نفرت میں کمی آنا ، مسلمانوں کے اخلاق اور ان کی تعلیمات کا معائنہ کرنا ، دلوں سے ہٹ اور ضد کا اٹھ جانا ، یہی امور تھے جنھوں نے افلاذ اکباد قریش کو کھینچ کر صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان بناتے ہوئے مکہ سے مدینے کو پہنچا دیا۔ حضرت خالد بن ولید ، عمرو ابن العاص وغیرہ رضی اللہ عنہم اس طرح حلقہ بگوش اسلام بن گئے کہ قریش کی ہستی فنا ہو گئی ۔ 
الغرض اختلاط باعثِ عدم تنافر ہے اور وہ اقوام کو اسلام کی طرف لانے والا اور تنافر باعثِ ضد اور ہٹ اور عدم اطلاع علی المحاسن ہے اور وہ اسلامی ترقی میں سدِ راہ ہونے والا اور چونکہ اسلام تبلیغی مذہب ہے ، اس لیے اس کا فریضہ ہے کہ جس قدر ہو سکے، غیر کو اپنے میں ہضم کرے، نہ یہ کہ ان کو دور کرے ۔ اس لیے اگر ہمسایہ قومیں ہم سے نفرت کریں تو ہم کو ان کے ساتھ نفرت نہ کرنا چاہیے۔ اگر وہ ہم کو نجس اور ملیچھ کہیں تو ہم کو ان کو یہ نہ کہنا چاہیے ۔ اگر وہ ہم سے چھوت چھات کریں، ہم کو ان سے ایسا نہ کرنا چاہیے۔ وہ ہم سے ظالمانہ برتاؤ کریں، ہم کو ان کے ساتھ ظالمانہ، غیر منصفانہ برتاؤ نہ کرنا چاہیے ۔ اسلام پدرِ شفیق ہے، اسلام مادرِ مہربان ہے، اسلام ناصح خیر خواہ ہے۔ اسلام جالبِ اقوام ہے ، اسلام ہمدرد بنی نوع انسان ہے۔ اس کو غیروں سے جزاء سےئتہ سےئتہ مثلہا پر کاربند ہونا شایان نہیں بلکہ اس کی غرض کے لیے سدِ یاجوج ہے۔ کفر نے کبھی اسلام سے عدل و انصاف نہیں کیا، ان یظہروا علیکم لا یرقبوا فیکم الا ولا ذمۃ (الخ) وغیرہ شاہد عدل ہیں، مگر اسلام نے انصاف، عدل و احسان کو کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا اور نہ چھوڑنا مناسب تھا، اگرچہ انتقامیہ جذبات بہت کچھ چاہتے تھے۔ اگرچہ بعض دنیا دار بادشاہوں نے کوئی ظلم و ستم کیا ہے تو وہ اس کے ذمہ دار ہیں، اسلام ان کا روادار نہیں۔ اب تفصیلی باتیں عرض کرتا ہوں : 
(۱) مشرکین بے شک نجس ہیں، مگر علت حکم آیت حسب سلیقہ عربیہ کہ مشتق کو محکوم علیہ قرار دینا ماخذ اشتقاق کو علت قرار دینا ہے، لہٰذا علت نجاست شرک ہو گا جو کہ نجس معنوی ہے۔ اسی بنا پر اگر مشرک کو سات سمندر سے غسل دیا جائے ، تب بھی بوجہ شرک وہ نجس ہی رہے گا، حالانکہ تین مرتبہ غسل سے نجاستِ ظاہری زائل ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہور اسلام متفق ہیں کہ مشرک کا سور، عرق وغیرہ پاک ہے۔ آیت میں مسجدِ حرام سے صرف خانہ کعبہ یا مسجد مکہ معظمہ مراد نہیں، بلکہ تمام حدِ حرم مراد ہے۔ اس میں مشرکین داخل ہو کر یا قریب آکر تجارت کر سکتے ہیں۔ اسواقِ اربعہ میں سے کوئی بھی مجلس مکہ معظمہ بلکہ نفسِ مکہ معظمہ میں منعقد نہیں ہوتی تھی تو پھر وان خفتم عیلۃ سے کیا مناسبت ؟ متنبی کہتا ہے :
لا تشتروا العبد الا والعصا معہ ان العبید لانجاس مناکید
ترجمہ : غلام اگر خریدے تو ساتھ ہی اس کی تادیب و تعلیم کے لیے چھڑی بھی ضروری ہے، کیونکہ غلام طبیعت کے ناپاک اور بے خیر ہوتے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ یہاں بھی مراد وہ ہی نجاست معنوی ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو مسجد میں باندھا، دفود مشرکین کو مسجد میں داخل فرمایا وغیرہ ۔ 
(۲) کفر ہمیشہ سے ایسے ہی کرتا آیا ہے۔ آنحضرت علیہ السلام اور صحابہ کرامؓ اور اسلاف کے کارنامے یاد کیجیے ، انبیاء علیہم السلام کی تذلیل کفار نے اس سے بدرجہا زائد کی، پھر کیا وہ ذلیل ہوگئے ؟ 
(۳) احکامِ سیاسیہ ایک حالت نہیں رکھتے۔ کبھی زہر علانیہ دینے کا موقع ہو گا تو کبھی شکر کا شربت پیش کرنا ہو گا۔ آپ کو محض انتقام کبھی لینا ہو گا اور کبھی شفقت کے ساتھ درگزر کرتے ہوئے اپنی طرف کھینچنا۔ آج موقع ہے کہ بڑے دشمن سے ترکِ موالات کیجیے اور اس کو زک دینے کے لیے غیروں کو ساتھ لیجیے، جیسے یہود بنی حارثہ کو خیبر میں، صفوان بن امیہ اور دیگر طلقاء مکہ کو حنین میں، خزاعہ کو حدیبیہ وغیرہ میں ساتھ لیا گیا ۔ ایسی ان کی تذلیلات نے ہی اسلام کو بڑی مدد پہنچائی۔ ادھر مسلمانوں کو ان سے نفرت ہوئی، ادھر ان کی اقوام کو اسلام کی طرف رغبت ہوئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کروڑوں آدمی تھوڑی سی مدت میں مسلمان ہو گئے۔ ۱۸۵۷ء میں مسلمانوں کی مردم شماری موجودہ کی تقریباً نصف ہے۔ اگرچہ مساوات اور عدالت آپ کے خیال کی تائید کرتی ہے، مگر جذبہ اسلامیہ تنگ دلی کی اجازت نہیں دیتا۔ مداراۃ بالاعداء مع البغض الباطنی بالفعل زیادہ ضروری اور مفید ہے اور حتی الوسع موالاۃ ممنوعہ سے بچتے رہنا چاہیے۔ 
(۴) ضروریاتِ اسلامیہ اور وقتیہ کا لحاظ رکھتے ہوئے الانفع فالانفع پر عمل پیرا ہو نا چاہیے اور اھونھما کو اختیار کرنا چاہیے ۔ 
(۵) انگریزوں کے ساتھ معاملہ سیاسی غیر مذہبی نہیں ہے بلکہ مذہبی ہے، البتہ وہ اکبر الاعداء اور اقوی الاعداء اور اضرالاعداء ہیں اور ان کے اسلامیت سے نا امیدی ہے۔ مانحن فیہ ایسا نہیں، اگر وہ اسلامی دنیا پر مظالم گزشتہ سے تلافی اور آئندہ کے لیے دست بردار ہو جائیں تو ترکِ موالات وغیرہ میں تخفیف ضرور ہو گی، البتہ تا بقاء کفر مصالحت کی بنا پر نہ موالات تامہ ہو گی اور نہ معادات۔ 
(۶) اگرچہ انگریز وہ معاملہ چھوت چھات کا نہیں کرتے، مگر اسلام کے بدترین اور اعلیٰ ترین دشمن ہیں، بخلاف ہنود ، یہ ہمارے پڑوسی ہیں اور پڑوسی اگرچہ کافر ہو، پڑوسی پر حق رکھتا ہے ، کما ورد فی الحدیث۔ ان کے ساتھ ہمارا خون ملا ہوا ہے، رشتہ اور قرابت داری ہے یا آبا کے ساتھ یا جدات کے ذریعے سے، ان کے ساتھ ہندوستان میں ہم کو مجبوراً رہنا اور درگزر کرنا ہے۔ بغیر میل جول جس قدر بھی ممکن ہو ، ہندوستان میں گزرکرنا عادت مستحیل ہے ۔ اس لیے ضروریاتِ زندگیہ اس طرف تخفیف ضرور پیدا کریں گی۔ انگریزوں سے ہم کو نہ یہ تعلقات ہیں نہ مجبوریت ۔ 
(۷) جائز بلکہ مستحسن ہے ۔ 
(۸) یہ بھی جائز بلکہ باعثِ ثواب ہے ۔ 
نئے تعلیم یافتہ اس چھوت چھات میں نہ صرف قومیت متفقہ کا ضرر سمجھتے ہیں بلکہ اپنی مذہبیت کا بھی شیرازہ بکھرتا ہوا پاتے ہیں اور انسانی اخوت کے خلاف پاتے ہوئے ازالے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنی سیاسی زندگی کے لیے وبالِ جان جانتے ہیں۔ گاندھی جی خود اس کے ازالے کے لیے کوشاں ہیں، مگر جو مرض قرن ہا قرن سے آ رہا ہے ، وہ اس قدر جلد کس طرح دور ہو جائے۔ تجربہ اس پر دلالت کر رہا ہے کہ چھوت چھات ہندو قوم کو روزافزوں کمی کی طرف دھکیل رہا ہے اور اسلام باوجود ہر طرح کی کمزوریوں کے ترقی کر رہا ہے۔ پس مسئلہ پر ٹھنڈے دل سے غور کیجیے۔ قلتِ وقت ہونے کی بنا پر چند مرتبہ ریل میں مضمون کو پورا کیا ہے ، معاف فرمائیے گا۔ 
والسلام : ننگِ اکابر حسین احمد غفرلہ 
۱۸ ربیع الاول ۱۳۵۰ھ ‘‘ 
[ مکتوبات شیخ الاسلام، مکتوب ۶۳، ص ۱۷۰ تا ۱۷۸ ] 
سوال یہ ہے کہ’ ’ بد ظنی کرنے والے غافل اور کم سمجھ ‘‘ کے مصداق کون لوگ تھے اور کون لوگ ہیں؟ سید حسین احمد مدنی ؒ تو اکبر جیسے چند اور بادشاہوں کے خواہاں تھے یا کم از کم اس کی پالیسیوں کے تسلسل کے خواہش مند تھے ، تو کیا خود سید مدنی ؒ تجدد پسندی کی قدامت پسندانہ تعریف کے مصداق تھے؟ سوال یہ ہے کہ آج کی گلوبل دنیا میں پڑوسی کا مصداق کون ہے ؟ اور سید حسین احمد مدنی ؒ نے پڑوسی کے حوالے سے جس ’’ حق اور مجبوری ‘‘ کا ذکر کیا ہے، کیا اب اسے گلوبل تناظر میں دیکھنا تجدد پسندی کے زمرے میں آئے گا؟ سوال یہ ہے کہ آج کی گلوبل دنیا کے ’’ بودھ ‘‘ کون ہیں اور کون سا مسلم حکمران یا مسلم طبقہ ’’ محمود ‘‘ کا کردار ادا کر رہا ہے یا ادا کرنے کی کوششوں میں ہے اور برہنی موقع پرستوں کے لیے فضا ہموار کر رہا ہے؟ سوال یہ ہے کہ سید حسین احمد مدنی ؒ نے اکبر کی مذمت کرنے کے بجائے اس کے مخالفین کو غافل اور کم سمجھ کیوں قرار دیا؟ سوال یہ ہے کہ اکبر کی پالیسیوں پر تجدد پسندی کا لیبل لگا کر اس کی ’’اجماعی مخالفت‘‘ بہت بڑھ چڑھ کر کیوں کی گئی اور کیوں کی جا رہی ہے ؟ 
جواب یہ ہے کہ اکبر کے ’’ اجماعی مخالفین ‘‘ اس کے اقدامات کے مظہر phenomenon) ( پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں، ان کے ہاں اس مظہر کی تسلیمیت (confession) جس قدر بھر پور ہے، اس سے بہت زیادہ اس مظہر کی تفہیم (understanding) مفقود ہے۔ سید مدنی ؒ کے اس مکتوب میں اکبری اقدامات کی تفہیم بھر پور ہے اور ظاہر ہے کہ بطور مظہر کے انھوں نے ان اقدامات کو تسلیم بھی کیا ہے۔ سیدحسین احمد مدنی ؒ کے اسی مکتوب کے حاشیے میں درج، شہنشاہ بابر (م دسمبر ۱۵۳۰) کی اس وصیت سے جو اس نے شہزادہ ہمایوں (م جنوری ۱۵۵۶ ) کو کی، زیرِ بحث نکتہ واضح ہو جاتا ہے: 
’’اے پسر! ہندوستان مختلف مذاہب سے پر ہے۔ الحمد للہ اس نے بادشاہت تمہیں عطا فرمائی ہے ، تمہیں لازم ہے کہ تم تعصباتِ مذہبی کو لوحِ دل سے دھو ڈالو اور عدل و انصاف کرنے میں ہر مذہب و ملت کے طریق کا لحاظ رکھو ، جس کے بغیر تم ہندوستان کے لوگوں کے دلوں پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ اس ملک کی رعایا، مراحم خسروانہ اور الطاف شاہانہ ہی سے مرہون ہوتی ہے۔ جو قوم یا ملت قوانینِ حکومت کی مطیع اور فرماں بردار رہے، اس کے مندر اور مزار برباد نہ کیے جائیں ، عدل و انصاف ایسا کرو کہ رعایا بادشاہ سے خوش رہے، ظلم و ستم کی نسبت احسان اور لطف کی تلوار سے اسلام زیادہ ترقی پاتا ہے ، شیعہ سنی جھگڑوں سے چشم پوشی کرو ، ورنہ اسلام کمزور ہو جائے گا۔ جس طرح انسان کے جسم میں چار عناصر مل جل کر اتفاق و اتحاد سے کام کرتے ہیں، اسی طرح مختلف مذاہب رعایا کو ملا جلا کر رکھو، ان میں اتحادِ عمل پیدا کرو تاکہ جسمِ سلطنت مختلف امراض سے محفوظ و مامون رہے۔ سرگزشتِ تیمور کو جو کہ اتفاق و اتحاد کا مالک تھا ، ہر وقت اپنی نظر کے سامنے رکھو ، تاکہ نظم و نسق کے معاملات میں پورا تجربہ حاصل ہو ۔‘‘
اس وصیت کے تنقیدی مطالعے سے اکبر کی پالیسیوں کی تفہیم آسان ہو جاتی ہے کیونکہ اس سے وہ پس منظر نمایا ں ہو جاتا ہے جس میں ہمایوں کے بیٹے اکبر کو کاروبارِ حکومت سنبھالنا پڑا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ سید حسین احمد مدنی ؒ نے اکبر کی ’’ تجدد پسندی ‘‘ کی حمایت اتنے واضح انداز میں کیوں کی۔ جس دور میں یہ وصیت لکھی گئی ، اس وقت برصغیر پاکستان و ہند بہت وسیع خطہ تھا، لسانی، نسلی، مذہبی اور ثقافتی تنوع سے مالا مال تھا ، زرعی دور ہونے (اور تکنیکی ترقی نہ ہونے) کے باعث ایک مرکز کے تحت اتنے بڑے خطے پر کنٹرول کرنا اور امن و امان قائم کرنا آسان نہیں تھا ،بالخصوص اس صورتِ حال میں جبکہ مسلمان غالب اکثریت میں نہیں تھے ، اسی لیے بابر نے حقیقت پسندانہ پیراڈائم (paradigm) اختیار کیا ۔ آج کی گلوبل دنیا کو بابر کے ہندوستان کے مصداق سمجھا جا سکتا ہے، کیونکہ تکنیکی ترقی کے باعث دنیا سمٹ چکی ہے ۔اب پوری دنیا لسانی، نسلی، ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے تنوع کی حامل ہے اور مسلمان ( بابر کے ہندوستان کے مانند ) اکثریت میں نہیں ہیں۔ ذرا غور کیجیے کہ شہنشاہ بابر اسلام کی ترقی کن عناصر میں دیکھ رہا تھا؟ کیا انہی عناصر کی آبیاری کی ضرورت نہیں تھی اور کیا اب اس وقت بھی ضرورت نہیں ہے؟ دوبارہ غور کیجیے کہ بابر نے وصیت میں شیعہ سنی مسئلے کا خاص طور پر ذکر کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بابر کے زمانے کے ہندوستان میں اس مسئلے کی جو اہمیت تھی اور اس حوالے سے جس سنجیدگی کے ساتھ مصالحت و موافقت کی ضرورت تھی، اب اس مسئلے کی بالکل ویسی ہی اہمیت اور اسی سنجیدگی کی مصالحت و موافقت ، اسلام کی ترقی کے لیے گلوبل سطح پر درکار ہے۔ موجودہ عالمی حالات ہماری رائے کی ثقاہت پر شاہد ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مسئلے کو سمجھے بغیر (کہ شیعہ سنی مسئلہ ہمارے تہذیبی مسلمات میں سے ہے)، قدامت پسندوں کا ایک بہت بڑا حلقہ ہمیشہ کی طرح ایسی موافقت پر ناک بھوں چڑھائے گا اور ہر طرح کی مصالحتی کوشش کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ تجدد پسندی قرار دے کر اسلام کی ترقی میں رکاوٹ بنے گا۔ اسلامی تاریخ سے واقفیت رکھنے والا کوئی بھی غیر جانبدار شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کرے گا کہ مسلم ریاستوں اور حکومتوں کی شکست و ریخت میں غیر مسلموں نے شیعہ سنی جھگڑے کو ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ اس جھگڑے میں کون فاتح رہا تھا یا فاتح ہو گا، کسے شکست کی ہزیمت اٹھانی پڑی تھی یا شکست کھانی ہو گی، یہ ایک الگ مسئلہ ہے، لیکن اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں کہ دونوں کی فتح و شکست سے قطع نظر، نقصان اسلام کا ہوا تھا اور اب بھی نقصان اسلام کا ہی ہو گا۔ 
اکبر کی پالیسیوں کو تجدد پسندی کا نام دینے والے اس کے ’’اجماعی مخالفین‘‘ تفہیم سے دوری کے باعث یہ اہم نکتہ بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ریاستوں اور حکومتوں کے اقدامات کے اثرات دیرپا اور مطلق نہیں ہوتے، بلکہ معاشرتی عناصر زیادہ گہرے اور زیادہ دیرپا اثرات مرتب کرتے ہیں، کیونکہ ایک ریاست کے اندر حکومتیں بدلتی رہتی ہیں اور حکومتوں کے بدلنے کے ساتھ حکومتوں (یا مقتدر شخصیات) سے منسلک اقدامات بھی ترک کر دیے جاتے ہیں اور اس پر کوئی خاطر خواہ ردِ عمل بھی سامنے نہیں آتا۔ (اسی لیے اکبر کی تجدد پسندی کے خاتمے پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا، اور یہی نکتہ سید حسین احمد مدنیؒ کے پیش نظر بھی نہیں رہا۔ وہ حکومتی سطح پر ہی اکبر کی پالیسیوں کے تسلسل کے خواہاں نظر آتے ہیں، حالانکہ یہ عمل سماجی سطح پر زیادہ موثر اور پائیدار ہوتا ہے) حکومتیں تو ایک طرف رہیں، ریاستیں بھی ٹوٹتی بنتی رہتی ہیں اور نتیجے کے طور پر ریاستی قوت و اقتدار کے بل بوتے پر کیے گئے اقدامات بھی طفیلی ہونے کے باعث ڈانواں ڈول رہتے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی حکومت یا ریاست ’’تجدد پسندی‘‘ کی پالیسی اپناتے ہوئے ’’دینِ الہٰی‘‘ نافذ کرے یا روشن خیالی کے نام پر ’’حقوق نسواں بل‘‘ پاس کرے یا اسلامی نظام کے نفاذ کا لبادہ اوڑھ کر ’’حدود آرڈیننس‘‘ جاری کرے، اس کے کوئی خاص دیرپا اثرات مرتب نہیں ہوتے ۔ لیکن اگر کوئی کام سماجی سطح پر کیا جائے تو اس کے اثرات زیادہ مطلق، زیادہ اہم اور زیادہ دیرپا ہوتے ہیں، کیونکہ سماج کی عمر صدیوں پر محیط ہوتی ہے، اس لیے سماجی قوت کا اظہار بھی موثر اور صدیوں پر محیط ہوتا ہے۔ 
اس سلسلے میں ایک مثال دینی مدارس کی دی جاسکتی ہے کہ یہ مدارس، ریاستی و حکومتی سرپرستی سے بے نیاز ہو کر سماجی قوت کے بل بوتے پر پروان چڑھے ہیں اور مضبوطی سے قائم ہیں۔ ہمارے کہنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ قدامت پسندوں کو ایسی ’’ تجدد پسندی‘‘ سے زیادہ فکر مند نہیں ہونا چاہیے جو دینِ الہٰی یا حقوقِ نسواں کے نام سے ہو (کیونکہ ریاستی و حکومتی مظہر ہونے کے باعث ان کی عمر مختصر ہوتی ہے)، بلکہ قدامت پسندوں کو ان مظاہر پر گہری نظر رکھنی چاہیے جو سماجی ہونے کے باعث طویل العمر اور گہرے اثرات کے حامل ہیں۔ لیکن چونکہ قدامت پسندوں کے نزدیک تجدد پسندی کے ایک خاص معنی ہیں، اس لیے ان کی نظروں میں اکبری اقدامات جیسے مظاہرتو چبھ رہے ہیں، لیکن اعتقادی دھند میں انھیں تجدد پسندی کی وہ لہر دکھائی نہیں دے رہی جو پوری دنیا میں مذہب کا وہ ایڈیشن متعارف کروا رہی ہے جسے کمیونسٹوں نے عوام کے لیے افیون قرار دیا تھا۔ یہ لہر تبلیغ کے نام پر اٹھ رہی ہے اور فیملی سسٹم کو تباہ و برباد کر رہی ہے۔ اسلام /مغرب کشمکش کے موجودہ سنگین ماحول میں فیملی سسٹم ’’معیار اور پیمانہ ‘‘ بن چکا ہے، لیکن صلہ رحمی جیسی بنیادی اسلامی قدر جو فیملی سسٹم کے لیے درحقیقت ریڑھ کی ہڈی ہے، اس تجدد پسندی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ اگر سروے کر کے اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو خاندانوں کی تباہی کی داستان پر مشتمل ایک مبسوط دستاویز تیار کی جا سکتی ہے۔ اہلِ مغرب کو اب زیادہ پریشان ہو نے کی ضرورت نہیں، کیونکہ جو کام وہ کرنا چاہتے ہیں، ہمارے مہربان بغیر تنخواہ کے وہی کام بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔ اسلام میں فیملی سسٹم، صلہ رحمی اور اجتماعی رجحانات کو فروغ دینے کے دو بڑے مظاہر عید الفطر اور عید الاضحی ہیں۔ یہ تجدیدی لہر ان مظاہر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے ۔ اب عیدین کے مواقع پر ایسے ’’مقدس لوگ ‘‘ ملتے ہیں جو اپنے ماں باپ، بیوی بچوں، بہن بھائیوں، عزیزو اقارب وغیرہ کے ساتھ عید منانے کے بجائے گھروں سے دور تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ سید نا عمر فاروقؓ نے ایک خاص حکمت کے تحت چار ماہ کے بعد فوجیوں کی چھٹی کو لازم قرار دیا تھا، لیکن تجدد پسندی کی اس لہر نے اس حکمت کے بھی تارو پود بکھیر دیے ہیں اور ایک سال کے مٹر گشت کی طرح ڈالی ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ اگر کوئی مٹر گشت کے دوران میں کہیں آنا جانا چاہے تو ایسا کرنے کی صورت میں وہ ’’احساسِ گناہ‘‘ سے دوچار ہو جاتا ہے جیسے روزہ توڑ لیا ہو یا حج کو ادھورا چھوڑ آیا ہو ۔ سید حسین احمد مدنی ؒ نے اپنے مکتوب میں صلح حدیبیہ کا ذکر کیا ہے کہ اس عہد نامے کی دفعات بظاہر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تھیں، لیکن اس کا حتمی فائدہ اسلام اور مسلمانوں کو ہی پہنچا۔ تجدد پسندی کی مذکورہ لہر کو صلح حدیبیہ کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ لہراسلام اور مسلمانوں کے بظاہر مفاد میں ہے، لیکن اس کا حتمی نقصان اسلام اور مسلمانوں کو ہو گا ۔ اس سارے عمل میں سب سے زیادہ سنگین پہلو یہ ہے کہ تجدد پسندی کی یہ لہر سماج سے اٹھی ہے اور سماج کو ہی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ سماج سے اٹھنے کے باعث یہ بہت زور آور ہے اور سماج کو لپیٹ میں لینے کے باعث اس کے اثرات بھی لازماً بہت دیرپا ہوں گے۔ اب اگر کوئی اس لہر کے مقابل آئے تو اسے انتہائی شدید ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 
سوال پیدا ہوتا ہے کہ تجدد پسندی کی اس لہر کا بروقت محاسبہ کیوں نہ کیا گیا؟ جواب یہ ہے کہ مذہبی حلقے میں خود تنقیدی کے رویے کے نہ پنپنے سے تجدد پسندی کی یہ لہر رواج پا گئی۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی ایک یوتھ کنونشن میں ایک مذہبی نوجوان نے جنرل پرویز مشرف کی موجودگی میں جنرل موصوف کو خوب لتاڑا ۔ اس نوجوان کی تقریر مذہبی حلقے میں کافی مقبول ہو رہی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ کوئی ایسی قابلِ فخر بات نہیں ہے، کیونکہ ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں لاکھوں مذہبی نوجوان موقع ملنے پر ایسی تقریر کر سکتے ہیں بلکہ جمعے کے خطبات میں کرتے بھی ہیں ۔ وہی نوجوان اور دیگر مذہبی نوجوان، اپنے شیوخ و اکابر کے افکارواعمال کا بھی اگر اتنی ہی مستعدی سے پوسٹ مارٹم کریں جس بے باکی سے وہ حکومتی پالیسیوں اور شخصیات پر تنقید کرتے رہتے ہیں تو یہ بات یقیناًاہم اور دیرپا تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے، لیکن یہاں اکابر پرستی ، قصیدہ گوئی کی طرف مائل کرتی ہے، تنقید و تنقیح اور تحقیق کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حالانکہ اس حوالے سے اگر عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اپنے متعلقین اور اپنے ماحول میں موجود لوگوں کو مخاطب کیا جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ آپ کے مخالف ہو گئے ۔ ذرا غور کیجیے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متعلقین کے بجائے غیروں کو مخاطب کرتے اور اپنے ماحول سے باہر کے لوگوں کے خلاف بات کرتے تو کیا آپ کے متعلقین اور آپ کا ماحول آپ کا ہم نوا اور حلیف نہ بنتا؟ اسی بات کو دوسرے رخ سے دیکھیے کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسلام قبول کیا، کیا ان کے قبولیتِ اسلام میں خود تنقیدی کے عمل کا کوئی کردار نہیں تھا؟ یہ درحقیقت خود تنقیدی کا عمل تھا کہ اسلام قبول کرنے والے اپنے ہی ماں باپ، بہن بھائیوں، عزیز و اقارب، آبا و اجداد اور اپنے ہی قبائل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کے برعکس اسی زمانے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی موجودگی کے باوجود ، جو لوگ اسلام قبول نہ کر سکے، ان کے قبولیتِ اسلام میں مانع، خود تنقیدی کے رویے کا فقدان تھا ۔ ایسے لوگ صرف اس سچ کو مانتے تھے جو غیروں کے خلاف اور اپنے ماحول کے باہر کے لوگوں کو چیلنج کرنے سے عبارت تھا۔ اب فیصلہ قدامت پسندوں کو کرنا ہے کہ وہ تجدد پسندی کی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کرتے رہیں گے اور اپنے ماحول میں قصیدہ گوئی کو فروغ دیتے رہیں گے یا سید حسین احمد مدنی ؒ کے مانند صحابہ کرامؓ کے طرزِ عمل کی پیروی کرتے ہوئے خود تنقیدی کے رویے کی آبیاری کریں گے۔

غامدی صاحب کے تصور ’فطرت‘ کا تنقیدی جائزہ

حافظ محمد زبیر

’المورد اسلامک انسٹی ٹیوٹ ‘کے سرپرست ‘ماہنامہ ’اشراق ‘کے مدیر اور’ آج ‘ٹی وی کے نامور اسکالر جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے دو اہم اصولوں ’سنت ابراہیمی ‘ اور ’نبیوں کے صحائف ‘ کا تنقیدی اورتجزیاتی مطالعہ ماہنامہ ’الشریعہ ‘ کے صفحات میں پیش کیا جا چکا ہے۔ بعض علم دوست ساتھیوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ گزشتہ مضامین کی روشنی میں غامدی صاحب کے مآخذ دین اور اصولوں کا اجمالی تعارف بھی قارئین کو کروا دیا جائے تو بہت مفید ہوگا۔ زیر نظر مضمون میں ہم ان کے اصول ’دین فطرت کے بنیادی حقائق ‘ پرکچھ معروضات پیش کریں گے۔
غامدی صاحب کے مآخذ دین، علی الترتیب، درج ذیل ہیں :
۱) دین فطرت کے بنیادی حقائق 
۲) سنت ابراہیمی 
۳) نبیوں کے صحائف
۴) قرآن مجید 
غامدی صاحب کے اصل اصول یہی چار ہیں جبکہ ان چار کے علاوہ بھی غامدی صاحب کے کچھ اصول ہیں جن سے ضرورت پڑنے پر غامدی صاحب استدلال کرتے ہیں لیکن ان کو مستقل مآخذ دین نہیں سمجھتے۔یہ اصول درج ذیل ہیں :
۵) حدیث 
۶) اجماع
۷) امین احسن اصلاحی ‘جنہیں وہ امام کہتے ہیں ۔ 
غامدی صاحب کے نزدیک سب سے پہلا ماخذ جس سے دین حاصل ہوتا ہے، فطرت انسانی ہے اور یہی ماخذ ان کے نزدیک اصل الاصول یعنی باقی تمام مآخذ کی بنیاد بھی ہے، جیسا کہ ہم آگے چل کر اس کو ثابت کریں گے ۔ دین کا دوسرا ماخذ ان کے نزدیک نبیوں کی سنت ہے یعنی ایسے اعمال جن پر تمام انبیا عمل کرتے چلے آئے ہیں۔ چونکہ یہ اعمال حضرت ابراہیم کی زندگی میں آ کر ایک واضح شکل اختیار کر گئے تھے، اس لیے اب ان اعمال کی نسبت پچھلے انبیا کی بجائے حضرت ابراہیم کی طرف ہو گی۔ تیسرا ماخذ ان کے نزدیک نبیوں کے صحائف یعنی تورات ، انجیل اور زبور وغیرہ ہیں۔ اور دین کا چوتھا اور آخری ماخذ ان کے نزدیک قرآن مجید ہے، اسی لیے وہ قرآن کو دین کی آخری کتاب کہتے ہیں یعنی دین تو پہلے سے چلا آرہا ہے اور قرآن نے آ کر اس کی تکمیل کی ہے۔ باقی جہاں تک حدیث رسول یا اجماع امت کا معاملہ ہے‘ اس کو غامدی صاحب دین کا کوئی مستقل ماخذ نہیں مانتے۔ لہٰذا غامدی صاحب کے اصل اصول چار ہی ہیں جن پر ان کی پوری فکر استوار ہے۔ غامدی صاحب نے ان چار اصولوں کو اپنی کتاب میزان (فصل اصول و مبادی) میں ص ۴۷ سے ص ۵۲ تک تفصیلاً بیان کیا ہے۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام دین فطرت ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ فطرت انسانی اس قابل ہے کہ اس سے دین اسلام ‘احکام الہٰی‘ اوامرو نواہی یاحلال وحرام کا تعین ہو سکتا ہے۔ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے بندوں کو جس فعل کے بھی کرنے کا حکم دیا ہے، فطرت سلیمہ اس فعل کے کرنے کی طرف ایک فطری رجحان اپنے اندر محسوس کرتی ہے اور جس فعل کے کرنے سے اللہ تعالی نے بذریعہ وحی ہمیں روک دیا ہے، فطرت سلیمہ بھی اس فعل سے ابا کرتی ہے۔ احکام الہٰی فطرت انسانی کے مطابق تو ہیں لیکن فطرت انسانی سے ان کا تعین نہیں ہو سکتا۔ یہی غلط فہمی جس میں آج غامدی صاحب مبتلا ہیں، ایک دور میں معتزلہ کو ہوئی۔ معتزلہ کا کہنا یہ تھا کہ عقل سے شریعت کا تعین ہو سکتا ہے۔ عقل جس چیز کو اچھا سمجھے گی، شریعت کی نظر میں بھی وہ چیز مستحسن ہے اور عقل جس کو برا سمجھے گی، شریعت کی نظر میں بھی وہ چیز بری ہے۔ معتزلہ نے جومقام انسانی عقل کو دیا تھا، غامدی صاحب اسی درجے پر فطرت انسانی کو رکھتے ہیں۔ اس دور میں امام ابو الحسن الأشعری اور امام ابو منصور ماتریدی نے معتزلہ کے اس مؤقف کا کہ عقل سے بھی اللہ کے حکم کو معلوم کیا جا سکتا ہے، سختی سے رد کیا جس کی تفصیلات اصول کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ 
اس مختصر تمہید کے بعد اب ہم اپنی اصل بحث کی طرف آتے ہیں۔ 

غامدی صاحب کا تصور فطرت

غامدی صاحب اپنی کتاب ’میزان‘ ( اصول و مبادی) میں لکھتے ہیں :
’’اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جو جانور پیدا کیے ہیں، ان میں سے بعض کھانے کے ہیں اور بعض کھانے کے نہیں ہیں۔ یہ دوسری قسم کے جانور اگر کھائے جائیں تو اس کا اثر چونکہ انسان کے تزکیہ پر پڑتا ہے ، اس لیے ان سے ابا اس کی فطرت میں داخل ہے۔ انسان کی یہ فطرت بالعموم اس کی صحیح رہنمائی کرتی ہے اور وہ بغیر کسی تردد کے فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسے کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھاناچاہیے۔ اسے معلوم ہے کہ شیر، چیتے، ہاتھی، چیل، کوے، گدھ، عقاب ،سانپ ،بچھو، اور خود انسان کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔وہ جانتا ہے کہ گھوڑے ،گدھے ،دستر خوان کی لذت کے لیے نہیں، سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ان جانوروں کے بول و براز کی نجاست سے بھی وہ پوری طرح واقف ہے۔ اس میں شبہ نہیں اس کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں عموماً غلطی نہیں کرتی۔چنانچہ خدا کی شریعت نے بھی ان جانوروں کی حلت و حرمت کو اپنا موضوع نہیں بنایا، بلکہ انسان کو اس کی فطرت ہی کی رہنمائی پر چھوڑ دیا ہے۔ اس باب میں شریعت کا موضوع صرف وہ جانور اور ان کے متعلقات ہیں جن کی حلت و حرمت کا فیصلہ تنہاعقل وفطرت کی رہنمائی میں کر لینا ممکن نہ تھا۔ سؤر انعام کی قسم کے بہائم میں سے ہے ،لیکن درندوں کی طرح گوشت بھی کھاتا ہے، پھر اسے کیاکھانے کا جانور سمجھا جائے یا نہ کھانے کا؟وہ جانور جنھیں ہم ذبح کر کے کھاتے ہیں، اگر تذکیے کے بغیر مر جائیں تو ان کا کیا حکم ہونا چاہیے؟ انھی جانوروں کا خون کیا ان کے بول و براز کی طرح نجس ہے یا اسے حلال وطیب قرار دیا جائے گا؟ یہ اگر خدا کے سوا کسی اورکے نام پر ذبح کردیے جائیں تو کیا پھربھی حلال ہی رہیں گے؟ ان سوالوں کا کوئی واضح اور قطعی جواب چونکہ انسان کے لیے دینا مشکل تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعے اسے بتایاکہ سؤر ،خون،مردار اور خدا کے سواکسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور بھی کھانے کے لیے پاک نہیں ہیں اور انسان کو ان سے پرہیزکرنا چاہیے۔ جانوروں کی حلت و حرمت میں شریعت کا موضوع اصلاً یہ چار ہی چیزیں ہیں۔چنانچہ قرآن نے بعض جگہ ’قل لا أجد فی ما أوحی ‘اور بعض جگہ ’انما‘ کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی حلت وحرمت کے باب میں صرف یہی چار چیزیں حرام قرار دی ہیں ...بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں ،چنگال والے پرندوں اور پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ یہ اسی فطرت کا بیان ہے جس کا علم انسان کے اندر ودیعت کیا گیا ہے۔ ہم اگر چاہیں تو ممنوعات کی اس فہرست میں بہت سی دوسری چیزیں بھی اس علم کی روشنی میں شامل کر سکتے ہی۔ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اسے بیان فطرت کے بجائے بیان شریعت سمجھا، دراں حالیکہ شریعت کی ان حرمتوں سے جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں، اس کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر حدیث سے قرآن کے نسخ یا اس کے مدعا میں تبدیلی کا کوئی مسئلہ پیدا کیاجائے۔‘‘ (میزان:ص۳۷ تا۳۹)
اسی طرح ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’قرآن کی دعوت اس کے پیش نظرجن مقدمات سے شروع ہوتی ہے، وہ یہ ہیں:
۱۔دین فطرت کے حقائق،
۲۔سنت ابراہیمی ،
۳۔ نبیوں کے صحائف۔
پہلی چیز کو وہ اپنی اصطلاح میں معروف و منکر سے تعبیر کرتا ہے ۔یعنی وہ باتیں جو انسانی فطرت میں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں اور وہ جن سے فطرت ابا کرتی اور انھیں برا سمجھتی ہے ۔قرآن ان کی کوئی جامع مانع فہرست پیش نہیں کرتابلکہ اس حقیقت کو مان کرکہ انسان ابتدا ہی سے معروف و منکر،دونوں کو پورے شعور کے ساتھ بالکل الگ الگ پہچانتا ہے ،اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ معروف کو اپنائے اور منکر کو چھوڑ دے:
و المؤمنون والمؤمنات بعضھم أولیاء بعض یأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر
اور مؤمن مرداور مؤمن عورتیں ‘یہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔یہ باہم دگر معروف کی نصیحت کرتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں ۔ 
اس معاملے میں اگر کسی جگہ اختلاف ہو تو زمانہ رسالت کے اہل عرب کا رجحان فیصلہ کن ہوگا۔‘‘  (میزان:ص ۴۸‘۴۹)
المورد کے ریسرچ اسکالرجناب منظور الحسن صاحب، غامدی صاحب کے مآخذ دین کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’قرآن مجید دین کی آخری کتاب ہے۔ دین کی ابتدا اس کتاب سے نہیں، بلکہ ان بنیادی حقائق سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے روز اول سے انسانی فطرت میں ودیعت کر رکھے ہیں۔ اس کے بعد وہ شرعی احکام ہیں جو وقتاً فوقتاً انبیا کی سنت کی حیثیت سے جاری ہوئے اور بالآخر سنت ابراہیمی کے عنوان سے بالکل متعین ہو گئے ۔ پھر تورات، زبور اور انجیل کی سورت میںآسمانی کتابیں ہیں جن میں ضرورت کے لحاظ سے شریعت اور حکمت کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں کیا گیاہے۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے اور قرآن مجید نازل ہواہے۔ چنانچہ قرآن دین کی پہلی نہیں ، بلکہ آخری کتاب ہے اور دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں۔اس موضوع پر مفصل بحث استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تالیف ’’میزان‘‘کے صفحہ۴۷پر ’’دین کی آخری کتاب ‘‘کے زیر عنوان ملاحظہ کی جاسکتی ہے ‘‘۔ (ماہنامہ اشراق: مارچ ۲۰۰۴‘ ص ۱۱)
غامدی صاحب کامذکورہ بالا اصول فطرت غلط ہے اور اس کی غلطی کی درج ذیل وجوہات ہیں :
۱) کیاشریعت نے صرف چار چیزوں کو حرام قرار دیاہے؟غامدی صاحب کایہ دعویٰ ہے کہ شریعت نے کھانے کے جانوروں میں صرف چار چیزوں سؤر ‘خون ‘مرداراور خدا کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانورکو حرام قرار دیا ہے۔ یہ سارا فلسفہ غا مدی صاحب نے اپنے ایک غلط اصول (کہ حدیث کے ذریعے قرآن پر اضافہ یا اس کا نسخ نہیں ہو سکتا ) کوسیدھا کرنے کے لیے گھڑا ۔غامدی صاحب کے نزدیک گدھا حرام ہے، لیکن اس لیے نہیں کہ شریعت نے اسے حرام قرار دیا ہے بلکہ ان کی فطرت انھیں یہ بتلاتی ہے کہ گدھا سواری کرنے کا جانورہے نہ کہ کھانے کا‘ اس لیے یہ فطری محرمات میں سے ہے۔ غامدی صاحب کی فطرت کا اونٹ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وہ بھی تو سواری کا جانور ہے۔ امر واقعہ تو یہ ہے کہ آپؐ کے زمانے میں عرب میں سواری کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا جانور اونٹ تھا اور اس کے بعد گھوڑ ا‘ جبکہ گدھے کا استعمال سواری کے لیے نہ ہونے کے برابر تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ غامدی صاحب کی فطرت گدھے کو حرام اور اونٹ کو حلال قرار دیتی ہے؟ اگر غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ اونٹ کو قرآن نے حلال قرار دیا ہے تو پھر غامدی صاحب کے اس بیان کا کیا مطلب ہے کہ :
’’جانوروں کی حلت و حرمت میں شریعت کا موضوع اصلاً یہ چار ہی چیزیں ہیں‘‘۔(میزان:ص۳۸)
فطری محرمات کا اصول وضع کر کے غامدی صاحب نے دین میں ایک نئے فتنے کی بنیاد رکھ دی ہے، اوریہ فتنہ کس طرح آگے بڑھ رہا ہے، اس کا اندازہ المورد کے ایک ریسرچ اسکالر امیر عبد الباسط صاحب کے شراب سے متعلق ایک سوال کے جواب سے ہوتا ہے:
’’اپنے پچھلے جواب میں ہم نے (شراب کے لیے) ناپسندیدہ کا لفظ حرمت کے مقابلے میں اصطلاح کے طور پراستعمال نہیں کیا۔ اس سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ شراب پینا شرعی حرمتوں میں سے نہیں ہے بلکہ وہ تو اس سے بھی زیادہ بنیادی یعنی فطری حرمتوں میں سے ہے .. .آپ (سائل ) نے فرمایا کہ ہماری رائے نصوص شرعیہ کے خلاف ہے۔ اگر آپ قرآن کی کوئی ایسی آیت پیش کر دیں جس میں اللہ تعالیٰ نے شراب کو واضح لفظوں میں حرام قرار دیا ہے تو ہمیں اپنی رائے سے رجوع کرنے میں ہر گز کوئی تامل نہیں ہو گا۔‘‘
یہ فتاویٰ جات غامدی صاحب کی نگرانی میں قائم شدہ المورد کی سرکاری ویب سائٹ (urdu.understanding-islam.org) پر جاری کیے جا رہے ہیں۔ کیاشراب کی حرمت کے بارے میں قرآن کے چارمختلف انداز سے تاکیدی اور صریح بیانات ’رجس‘ اور ’من عمل الشیطان‘  اور  ’فاجتنبوہ‘ اور ’فھل أنتم منتھون‘ سے بھی اس کی شرعی حرمت ثابت نہیں ہوتی؟ واللہ المستعان علی ما تصفون۔
۲) غامدی صاحب کے نزدیک کھانے کے جانوروں میں حلال و حرام کے تعین میں فطرت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک شریعت نے کھانے کے جانوروں میں صرف چار چیزوں کو حرام کیا ہے، اس کے علاوہ حرام جانوروں کے بارے میں ہم اپنی فطری رہنمائی کی روشنی میں ایک جامع فہرست تیار کر سکتے ہیں۔ ذرا غور کریں تو معلوم ہو گا کہ غامد ی صاحب کی مذکورہ بالا عبارات کس قدر گمراہ کن افکار پر مشتمل ہیں۔ کسی چیز کو حلال وحرام ٹھہرانے کا اختیاراصلاً اللہ کے پاس اور تبعاً اس کے رسول کے پاس ہوتا ہے۔ غامدی صاحب کا عام انسانوں کو تحلیل و تحریم کا اختیار تفویض کرنا خدائی دعویٰ کرنے کے مترادف ہے۔ غامدی صاحب کو یہ اختیار کس نے دیاہے کہ وہ عام انسانوں کے بارے میں یہ کہیں کہ وہ اپنی فطرت سے جس کو چاہیں حلال بنا لیں اور جس کو چاہیں حرام ٹھہرا لیں؟ قرآن نے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ تحلیل و تحریم کا اختیار کسی انسان کے پاس نہیں ہے۔ مشرکین مکہ نے جب اپنی طرف سے بعض کھانے کی چیزوں کو حرام ٹھہرا لیا تو قرآن نے ان کے اس اقدام پر تنقید کی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : 
و حرمو ا ما رزقھم اللہ افتراء علی قد ضلوا و ماکانوا مھتدین (الأنعام:۱۴۰)
’’اور انھوں نے اللہ کے عطا کردہ رزق کو حرام ٹھہرا لیا اللہ پر جھوٹ بولتے ہوئے۔ تحقیق وہ گمراہ ہوئے اور وہ ہدایت پانے والوں میں سے نہ تھے۔‘‘
اگر شریعت نے بقول غامدی صاحب کھانے کے جانوروں میں صرف چار کو ہی حرام قرار دیا تھا اور باقی جانوروں کی حلت و حرمت کا فیصلہ انسانی فطرت پر چھوڑ دیا تھا تو اللہ تعالی نے مشرکین مکہ کے اس فعل پر تنقید کیوں کی کہ انھوں نے اپنی مرضی سے بعض جانوروں کو حرام ٹھہرا لیا؟ اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قل آالذکرین حرم أم الأنثیین أما اشتملت علیہ أرحام الأنثیین (الأنعام:۱۴۳)
’’اے نبی ﷺ ان سے کہہ دیں کیا اللہ تعالیٰ نے دونوں مذکر (نر) کو حرام کیا ہے یا دونوں مؤنث(مادہ )کویا اس کو جو دونوں مؤنث (مادہ) کے رحم میں ہو؟‘‘
یہ آیت بھی اس بات کی صریح دلیل ہے کہ تحلیل وتحریم کا اختیار اللہ کے پاس ہے نہ کہ انسانی فطرت کے پاس۔
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قل ھلم شھداء کم الذین یشھدون أن اللہ حرم ھذا (الأنعام: ۱۵۰)
’’اے نبی، آپ ان سے کہہ دیں کہ تم اپنے گواہوں کو لے آؤ دجو یہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حرام ٹھہرایاہے ۔‘‘
اگر صرف فطرت سے محرمات کا تعین جائز ہوتا تو اللہ تعالیٰ مشرکین سے یہ مطالبہ نہ کرتا کہ ان جانوروں کی حرمت پراللہ کی نازل کردہ شریعت سے کوئی دلیل پیش کرو۔ ایک اور جگہ مشرکین مکہ سے خطاب ہے :
ولا تقولوا لما تصف ألسنتکم الکذب ھذا حلال و ھذا حرام لتفتروا علی اللہ الکذب  (النحل :۱۶۶)
’’اور مت تم کہو جو کہ تمہاری زبانیں جھوٹ بکتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تا کہ تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ سکو۔‘‘
یہ آیت بھی اس مسئلے میں نص ہے کہ انسانی فطرت سے حلال و حرام کا تعین کرنا اللہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔ غامدی صاحب نے انسانی فطرت کو تحلیل و تحریم کا اختیار تفویض کر کے اس کو شارع بنا دیا ہے اور اللہ کے بالمقابل لا کھڑا کیا ہے۔ اگر انسان کی فطرت کے پاس کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہرانے کا اختیار ہے تو انسان بھی شارع ہے، اور انسان کو شارع بنانا اللہ کے ساتھ اس کو شریک کرنے کے مترادف ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ 
سیقول الذین أشرکوا لو شاء اللہ ما أشرکنا و لا أباؤنا و لا حرمنا من شیء (الأنعام:۱۴۸)
’’عنقریب وہ لوگ کہیں گے جنھوں نے شرک کیااگراللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا شرک نہ کرتے اور نہ ہی ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ۔‘‘
نفی کے سیاق میں اگرنکرہ آئے تو وہ عبارت اپنے عموم میں نص بن جاتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا آیت بھی اپنے عموم میں نص ہے یعنی کسی چیز کو بھی حرام قرار دینے کا اختیار انسان کے پاس نہیں ہے۔ ایک آیت میں اس سے بھی زیادہ صراحت سے ’من دونہ ‘کے الفاظ کے ساتھ اس مفہوم کو بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
و قال الذین أشرکوا لو شاء اللہ ما عبدنا من دونہ من شیء نحن و لا آباؤنا ولا حرمنا من دونہ من شیء (النحل :۳۵)
’’اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے شرک کیا، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ داداللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرتے اور ہم اس کے بغیر کسی چیز کو بھی حرام نہ ٹھہراتے۔‘‘
یہ آیات اس مسئلے میں صریح نص کا درجہ رکھتی ہیں کہ شارع صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور کوئی چیز اس وقت حلال ہو گی جبکہ اللہ تعالیٰ اس کو حلال قرار دے اور اس وقت حرام ہو گی جبکہ اللہ تعالیٰ اس کو حرام قرار دے اور انسان کے پاس کسی بھی چیز کو حرام قرار دینے کا اختیار نہیں ہے ۔
۳) غامدی صاحب کے نزدیک کھانے کے جانوروں میں انسانی فطرت سے حلال و حرام کا تعین ہو گا،لیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اختلاف فطرت کی صورت میں کس کی فطرت معتبر ہوگی؟مثلاً غامدی صاحب نے موسیقی کو مباحات فطرت میں شامل کیا ہے، جبکہ علما اس کو محرمات میں شمار کرتے ہیں۔ اب کس کی فطرت کو لیں گے اور کس کی فطرت کو چھوڑیں گے؟ غامدی صاحب اس مسئلے کا حل تجویز کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر کسی جانورکے بارے میں انسانی فطرت کی آرا مختلف ہو جائیں توجمہور کی رائے پر عمل کیا جائے گا۔ غامدی صاحب اصول و مبادی میں لکھتے ہیں :
’’اس میں شبہ نہیں کہ اس کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہو جاتی ہے ،لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں عموماً غلطی نہیں کرتی‘‘۔ (میزان:ص۳۷)
غامدی صاحب کے اس سنہری اصول کی روشنی میں دنیا کے انسانوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد نے سؤر تک کو اپنی فطرت سے حلال کر رکھا ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں المورد کا کوئی ریسرچ اسکالر یہ تحقیق پیش کر دے کہ قرآن نے جس سؤر کو حرام قرار دیا ہے، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا سؤر ہے۔ رہا آج کا سؤر جس کی مغرب میں باقاعدہ فارمنگ کی جاتی ہے ‘وہ فطرتاً حلا ل ہے۔ اہل مغرب کو تو چھوڑیے ‘مسلمانوں کو دیکھ لیں، ان کی اکثریت کے ہاں حلال و حرام کا کیا معیارہے جسے غامدی صاحب اپنے اصول فطرت میں اختلاف کی صورت میں بطور دلیل پیش کر رہے ہیں ۔ 
۴) غامدی صاحب نے ہر انسان کو تو یہ حق دے دیا کہ اپنی فطرت سے حلال وحرام کی فہرست تیار کرے لیکن وہ اللہ کے رسول کا یہ اختیار ماننے سے انکاری ہیں، چنانچہ غامدی صاحب اپنی فطرت کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ قرآنی محرمات (اربعہ) کی فہرست میں جتنا چاہے، اضافہ کر لے ،لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان کا یہ خیال ہے کہ آپ کے کسی فرمان سے قرآنی محرمات کی فہرست میں اضافہ نہیں ہو سکتاکیونکہ اس سے قرآن کا نسخ یا اس کے مدعا میں تبدیلی لازم آتی ہے جو کہ جائز نہیں ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ غامدی صاحب اپنی فطرت سے قرآنی محرمات میں جو اضافہ کر رہے ہیں تو اس سے کیا قرآن کا نسخ یا اس کے مدعا میں تبدیلی لازم نہیں آتی؟ غامدی صاحب اپنی فطرت سے قرآنی حکم کے نسخ‘ اس میں اضافے اور اس کے مدعا میں تبدیلی کے قائل ہیں لیکن احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ مقام دینے کے لیے تیار نہیں‘ کیوں؟ کیا انسانی فطرت کا رتبہ معاذ اللہ ‘نبوت و رسالت سے بڑھ کر ہے؟
۵) غامدی صاحب کے نزدیک انسانی ہدایت و رہنمائی کے دو بڑے ذریعے ہیں۔ ایک انسانی فطرت اور دوسرا وحی، لیکن ان میں بھی غامدی صاحب فطرت کی رہنمائی کو وحی کی رہنمائی پر مقدم رکھتے ہیں۔غامدی صاحب لکھتے ہیں : 
’’دین کی تاریخ یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھیجا تو اس (یعنی دین)کے بنیادی حقائق ابتدا ہی سے اس کی فطرت میں ودیعت کر دیے۔ پھر اس کے ابو الآبا حضرت آدم کی وساطت سے اسے بتا دیا گیاکہ ...اس کی ضرورتوں کے پیش نظر اس کا خالق وقتاً فوقتاً ا پنی ہدایت اسے بھیجتارہے گا... چنانچہ پروردگار نے اپنا یہ وعدہ پورا کیااور انسانوں ہی میں سے کچھ ہستیوں کو منتخب کر کے ان کے ذریعے سے اپنی یہ ہدایت بنی آدم کو پہنچائی۔ اس میں حکمت (یعنی ایمانیات اور اخلاقیات) بھی تھی اور شریعت بھی۔‘‘ (میزان:ص۴۷)
غامدی صاحب کا یہ نقطہ نظر قرآنی آیات کے مخالف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب سے آدم کو اس دنیا میں بھیجا ہے، اس دن سے ہی اس کی رہنمائی کے لیے وحی کا سلسلہ جاری فرما دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : 
قلنا اھبطوا منھا جمیعا فاما یأتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم و لا ھم یحزنون و الذین کفروا و کذبوا بآیتنا أولئک أصحب النار ھم فیھا خلدون (البقرۃ :۳۸‘۳۹)
’’ہم نے کہا تم سب (یعنی آدم اور ان کی ہونے والی ذریت) اس جنت سے اتر جاؤ، پس اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جس نے میری ہدایت کی پیروی کی تو اس پر نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جن لوگوں نے کفر کیا اور میری آیات کوجھٹلایا، وہ لوگ آگ والے ہیں اوروہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے ۔‘‘
ایک اور جگہ ارشاد ہے :
قلنا اھبطا منھا جمیعا فاما یأتینکم منی ھدی فمن اتبع ھدای فلا یضل ولا یشقی (طہ :۱۲۳)
’’ہم نے کہا تم(دونوں یعنی )سب اس جنت سے اترو، پس اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جس نے میری ہدایت کی پیروی کی تو وہ نہ تو وہ (دنیا میں )گمراہ ہو گا اور نہ ہی (آخرت میں ) بدبخت ہو گا۔‘‘ 
اس انتہائی اہم موقع پر جب کہ حضرت آدم کو اور ان کی آنے والی ذریت کوجنت سے اتار کر اس دنیامیں بھیجا جا رہا ہے، اس وقت انھیں صرف ایک ہی چیز کی پیروی کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے اور وہ اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت ہے اور دونوں جگہ قرآن کے الفاظ ’منی ھدی‘ اور اس کا سیاق وسباق بتلاتا ہے کہ اس ہدایت سے مراد کوئی فطری ہدایت نہیں بلکہ اللہ کی آیات اور اس کی طرف سے نازل کردہ وحی کی رہنمائی مراد ہے۔ اس سے یہ ثابت ہو ا کہ پہلے ہی دن سے اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے حضرت آدم اور ان کی آنے والی ذریت کو جو رہنمائی دی جا رہی ہے، وہ وحی کی رہنمائی ہے اور جس نے بھی اللہ کی دی ہو ئی ا س وحی کی رہنمائی سے استفادہ کرنے سے انکار کیا تو وہی لوگ اللہ کے عذاب کے مستحق ہیں ۔
۶) غامدی صاحب کے نزدیک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں ’معروف ‘ اور ’منکر ‘ کا تعین شریعت نہیں بلکہ فطرت انسانی کرے گی ۔ اگر معروف و منکر شریعت کا موضوع نہیں ہے تو اللہ کے رسول ﷺ کی اس حدیث کا کیا مطلب ہے:
من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ (صحیح مسلم ‘کتاب الایمان ‘باب کون النہی عن المنکر من الایمان)
’’جو بھی تم میں سے کسی منکر کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے تبدیل کر دے۔ اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنے دل سے ۔‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منکر کو ہاتھ سے روکنے کا حکم دے رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے منکرات کا تعین کر دیا ہے۔ اگرغامدی صاحب کا یہ نظریہ مان لیا جائے کہ معروف اور منکر کا تعین فطرت انسانی سے ہوگا تو شریعت اسلامیہ ایک کھیل تماشا بن جائے گی۔ ایک شخص کے نزدیک ایک فعل معروف ہو گا جبکہ دوسرے کے نزدیک وہی فعل منکر ہوگا۔ مثلاً غامدی صاحب کے نزدیک موسیقی معروف کے تحت آئے گی۔اب غامدی صاحب کوقرآ ن کا یہ حکم ہے کہ وہ امر بالمعرو ف کا فریضہ سر انجام دیں، یعنی لو گوں کوموسیقی سننے کا حکم دیں، جبکہ علما موسیقی کو منکرات میں شامل کرتے ہیں اور علما کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ وہ منکرات کو بزور بازو روکیں، یعنی غامدی صاحب کو موسیقی کے جواز کا فتویٰ دینے سے بزور بازو روکیں۔
امام رازی ‘امام جصاص ‘علامہ سید آلوسی ‘علامہ ابن حجر ہیثمی ‘علامہ مناوی ‘ملا علی القاری‘علامہ ابو حیان الاندلسی ‘امام طبری ‘امام ابن تیمیہ ‘امام شوکانی ‘علامہ ابن الاثیر الجزری‘علامہ صاوی اور علامہ عبد القادر عودہ نے واضح اور صریح الفاظ میں اپنے اس مؤقف کو بیان کیا ہے کہ معروف و منکر کا تعین شریعت سے ہو گا۔ ان علما وأئمہ کی آرا کی تفصیل کے لیے سید جلال الدین عمری کی کتاب ’معروف و منکر ص۹۸ تا ۱۱۳ کا مطالعہ فرمائیں۔ 
۷) غامدی صاحب عالم اسلام کے وہ پہلے نامور اسکالرہیں جنھوں نے فطرت انسانی کو مصادر شریعت میں شمار کیا اور اسے حلال و حرام کی تمیز میں میزان قرار دیا۔ امام شافعی سے لے کر امام شوکانی تک کسی بھی اصولی (اصول فقہ کے ماہر) نے اپنی کتاب میں مصادر شریعت کی بحث میں ’فطرت انسانی ‘کا تذکرہ نہیں کیا۔ علما اور فقہا نے ہر دور میں قرآن ‘ سنت‘ اجماع اور قیاس وغیرہ جیسے مآخذ شریعت کے ذریعے سے شرعی احکام تک پہنچنے کی کوشش کی ہے لیکن کسی بھی فقیہ یا عالم نے امت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ میں ’ فطرت انسانی‘ کو کبھی بھی استنباط احکام کے لیے بطور اصول یا مأخذشریعت بیان نہیں کیا۔ محسوس یہی ہوتا ہے کہ غامدی صاحب نئی فقہ کے ساتھ ساتھ نئی اصول فقہ بھی مرتب کرنے کا شوق پورا فرما رہے ہیں۔ غامدی صاحب اپنا یہ شوق ضرور پورا فرمائیں، لیکن علم وتحقیق کی روشنی میں۔
غامدی صاحب نے ’فطرت انسانی ‘ کو مصدر شریعت تو بنا دیا لیکن اس کی ان کے پاس دلیل کیا ہے کہ ’فطرت انسانی‘مصدر شریعت ہے؟ غامدی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی میں اپنے ایک لیکچر کے دوران اپنے تصور فطرت کے حق میں جو دلیل بیان کی ہے، وہ سورہ شمس کی درج ذیل آیات ہیں :
و نفس وما سواھا فألھمھا فجورھا وتقواھا قد أفلح من زکھا و قد خاب من دسھا (الشمس:۷ تا ۱۰) 
غامدی صاحب اس آیت کا یہ مفہوم بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انسانی فطرت میں نیکی اور بدی کا علم رکھ دیا ہے۔ یہ مفہوم بوجوہ غلط ہے ۔
۱) یہ مفہوم قرآن کی واضح نص کے خلاف ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
واللہ أخرجکم من بطون أمھتکم لا تعلمون شیئا (النحل :۷۸)
’’اللہ تعالی نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا، اس حال کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے۔‘‘
اسی لیے امام ابن قیم لکھتے ہیں:
لیس المراد بقولہ ’یولد علی الفطرۃ ‘أنہ خرج من بطن أمہ یعلم الدین لأن اللہ تعالی یقول واللہ أخرجکم من بطون أمھتکم لا تعلمون شیئا ولکن المراد أن فطرتہ مقتضیۃ لمعرفۃ دین الاسلام و محبتہ (صحیح بخاری مع فتح الباری‘کتاب اللباس ‘باب قص الشارب)
یولد علی الفطرۃ‘ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے دین کا علم لے کر آیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا، اس حال کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے ‘‘۔بلکہ حدیث سے مراد یہ ہے کہ انسان کی فطرت دین اسلام کی معرفت اور اس کی محبت کا تقاضا کرتی ہے۔
۲) یہ مفہوم حدیث کے خلاف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
اللھم آت نفسی تقواھا و زکھا أنت خیر من زکاھا (صحیح مسلم ‘کتاب الذکر و الدعاء‘باب التعوذ من شر ما عمل )
’’اے اللہ تعالیٰ تو میرے نفس کو اس کا تقویٰ (یعنی تقوی کی رہنمائی ) عنایت فرما دے اور اس کو پاک کر دے۔ بے شک تو پاک کرنے والوں میں بہترین پاک کرنے والاہے ۔ ‘‘
اگر ’فجور‘ اور’ تقویٰ ‘ انسانی فطرت میں داخل ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس تقویٰ کو مانگنے کی کیا ضرورت ہے ؟آپ کی یہ دعا اس آیت کے مفہوم کو واضح کر رہی ہے کہ اس آیت میں ’تقویٰ‘ سے مراد اس کی رہنمائی اور ’فجور‘ سے مراد اس کی پہچان ہے ۔
۳) یہ مفہوم صحابہ، جلیل القدر تابعین اور تبع تابعین کی تفسیر کے خلاف ہے۔ امام طبری اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :
قولہ: فألھمھا فجورھا و تقواھا یقول: بین الخیر و الشر
’’ابن عباس ’’فألھمھا فجورھا و تقواھا‘‘  کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے خیر اور شر کو واضح کر دیا ہے ۔‘‘
امام طبری نے اس آیت کی تفسیر میں یہی رائے حضرت مجاہد، حضرت قتادہ، حضرت ضحاک اور حضرت سفیان سے بھی نقل کی ہے۔ جلیل القدر مفسرین امام طبری ‘اما م قرطبی ‘امام بیضاوی ‘امام سیوطی ‘علامہ زمخشری ‘امام نسفی ‘امام شوکانی‘ امام ابن کثیراورعلامہ ابن عطیہ نے بھی اس آیت کا وہی مفہوم بیان کیا ہے جو صحابہ اور تابعین کے حوالے سے اوپر بیان ہوچکا ہے۔

غامدی صاحب کا اپنے اصولوں سے انحراف

جس طرح غامدی صاحب کا اصول فطرت غلط ہے، اسی طرح بعض مقامات پر اس اصول کی تطبیق میں انھوں نے اپنے ہی وضع کردہ اس اصول سے انحراف بھی کیا ہے ۔اس کی ایک مثال ہم یہاں پیش کرتے ہیں۔
مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر پیدا کیاہے، اس میں ڈاڑھی بھی شامل ہے ۔کسی چیز کی فطرت سے مراد اس کی وہ اصل تخلیق ہے جس پر اس کو پید اکیا گیا ہے۔ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جس حالت پر پید اکیا ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ ان کے چہرے پر ڈاڑھی کے بال ہوتے ہیں جبکہ عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر پیدا کیاہے، وہ یہ ہے کہ ان کے چہرے پر بال نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کی تخلیق میں یہ فطری فرق رکھا ہے۔ ڈاڑھی غامدی صاحب کے اصول فطرت سے ثابت ہے، لیکن غامدی صاحب نے اپنی ہی فطرت اور اپنے اصول فطرت دونوں کی مخالفت اختیار کرتے ہوئے ڈاڑھی کو دین سے خارج قرار دیا۔ ڈاڑھی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ا لمورد کے ایک اسکالر لکھتے ہیں :
’’ڈاڑھی انسانی فطرت ہے۔ آُ پؐ کا ارشاد ہے :
عشر من الفطرۃ قص الشارب و اعفاء اللحیۃ و السواک واستنشاق الماء و قص الأظفار وغسل البراجم ونتف الابط وحلق العانۃ وانتقاص الماء قال زکریا قال مصعب ونسیت العاشرۃ الا أن تکون المضمضۃ (صحیح مسلم ‘کتاب الطہارۃ ‘با ب خصال الفطرۃ ) 
’’دس چیزیں فطرت میں سے ہیں: مونچھوں کو کاٹنا ‘ ڈاڑھی کو چھوڑنا ‘مسواک کرنا‘ناک میں پانی چڑھانا‘ ناخنوں کو کاٹنا ‘انگلیوں کے جوڑوں کا خلال کرنا‘بغل کے بال اکھیڑنا ‘زیر ناف کے بال مونڈنا‘اور استنجا کرنا۔زکریا نے کہا کہ مصعب نے کہا کہ میں دسویں چیز بھول گیا اور میرا خیال ہے کہ وہ کلی کرنا ہے ۔‘‘
اس حدیث میں ڈاڑھی رکھنے کو فطرت قرار دیا گیا ہے ۔تمام انبیا کی ڈاڑھی تھی، اس لحاظ سے ڈاڑھی انسانی فطرت ہونے کے ساتھ ساتھ تمام انبیا کی سنت بھی ہے ۔ابن حجر ؒ ‘فطرت کی تشریح میں امام بیضاوی کا قول نقل کرتے ہیں :
قال ھی السنۃ القدیمۃ التی اختارھا الأنبیاء واتفقت علیھا الشرائع وکأنھا أمر جبلی فطروا علیھا (صحیح بخاری مع فتح الباری‘کتاب اللباس ‘باب قص الشارب)
’’امام بیضاوی کہتے ہیں کہ فطرت سے مراد وہ سنت قدیمہ ہے جسے تمام انبیا نے اختیار کیا ہے اور جس پر تمام شریعتوں کا اتفاق ہو۔ گویا کہ فطرت ایک ایسا جبلی معاملہ ہے کہ جس پر انسانوں کی پیدائش ہوئی ہے ۔‘‘
ڈاڑھی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ا لمورد کے ایک ریسرچ اسکالر لکھتے ہیں :
’’عام طور پر اہل علم ڈاڑھی رکھنا ضروری قرار دیتے ہیں ‘تا ہم ہمارے نزدیک ڈاڑھی رکھنے کا حکم دین میں کہیں بیان نہیں ہوا، لہٰذا دین کی رو سے ڈاڑھی رکھنا ضروری نہیں ہے ۔البتہ اس معاملے میں اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے برعکس مردوں کے چہرے پر بال اگائے ہیں اور یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ڈاڑھی رکھنا اپنے لیے پسند کیا۔‘‘
یہ عبارت اس لحاظ سے قابل غور ہے کہ ایک طرف تو اس میں کس ڈھٹائی کے ساتھ اس بات کا دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ڈاڑھی رکھنے کاحکم دین میں کہیں بھی بیان نہیں ہوا، حالانکہ بیسیوں احادیث ایسی ہیں جن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین ‘ یہود اور مجوسیوں کی مخالفت میں مسلمانوں کو ڈاڑھی چھوڑنے کا حکم دیا ہے ۔کیا حدیث ‘دین نہیں ہے ؟اگر غامدی صاحب ڈاڑھی کی احادیث کو اس بنا پر رد کر رہے ہیں کہ ان کے نزدیک حدیث سے دین ثابت نہیں ہوتا تو ڈاڑھی تو ان کے اصول سنت سے بھی ثابت ہے اورا صول فطرت سے بھی۔ دوسری طرف المورد کے مفتی صاحب اس بات کا بھی اقرار کر رہے ہیں کہ مردوں اور عورتوں میں ایک بنیادی فرق ڈاڑھی کا بھی ہے جو کہ پیدائشی اور فطری فرق ہے ۔تعجب ہے اس انداز فکر پر!جب چاہتے ہیں اپنے مزعومہ افکار کی تائید کے لیے اصول وضع کر لیتے ہیں اور اپنی خواہش نفس کی تکمیل کے لیے جب چاہتے ہیں ‘اپنے ہی وضع کردہ اصولوں کی بھی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ 

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم ومکرم مدیر ماہنامہ الشریعہ 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
’الشریعہ‘ کے مضامین پر آرا اور تبصروں کی کثرت ظاہر کرتی ہے کہ مجلہ کے قارئین کا ایک وسیع علمی حلقہ قائم ہو چکا ہے جو وطن عزیز کے دینی ودعوتی اور قانونی ومعاشرتی، غرض ہر طرح کے مسائل پر اپنی جاندار آرا کا اظہار کرتے ہیں اور کرنا جانتے ہیں۔ تاہم بعض اوقات جائزوں، تبصروں اور مراسلوں میں نقد وتنقید اور مراسلہ نگاری کی جائز حدود سے تجاوز ذہن وروح کو بہت تکلیف دیتا ہے۔
’الشریعہ‘ کے تازہ شمارہ (جنوری ۲۰۰۶) میں چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ نے عہد حاضر میں اردو زبان کے ایک موقر اور معیاری مجلہ کے نائب مدیر کے ساتھ اپنی ذاتی رنجش کو بنیاد بنا کر مجلہ کے معیار کے بارے میں ایسی باتیں لکھی ہیں جن سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ موصوف کے مراسلہ میں وکیلانہ جذباتیت کا اظہار علمی تنقید کے زمرے میں نہیں آتا۔ مراسلہ نگاری میں مضمون نگار، مبصر یا کسی ادارے سے اپنے علمی اختلافات کو سلیقے سے اور جذباتیت سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے تحریر کرنا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں باہمی جذبات کے احترام اور شخصی تکریم کو ہر حال میں ملحوظ رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
عاصم نعیم
لیکچرر شعبہ علوم اسلامیہ
یونیورسٹی آف سرگودھا
(۲)
محترم جناب مدیر ماہنامہ الشریعہ 
’’دینی مدارس اور جدید تعلیم‘‘ کے عنوان سے محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب کا مضمون نظر سے گزرا جس کے دل نشیں، پرخلوص اور ہمدردانہ اسلوب کے پیش نظر توقع کی جا سکتی ہے کہ مذکورہ کاوش عصر حاضر کے اس بنیادی اور نازک ترین قومی وملی اور دینی مسئلے کی طرف متعلقہ ذمہ داران کو توجہ دلانے میں کامیاب ہوگی۔ مذکورہ موضوع پر جس قدر تدبر، حوصلہ اور تفصیل کے ساتھ موصوف نے اظہار خیال فرمایا ہے، یہ انھی کے بہار آفریں قلم کا ثمر ہے۔
اس کے علاوہ مذکورہ مضمون اور ’’قدامت پسندوں کے تصور اجتہاد‘‘ کے درمیان اگر موازنہ کیا جائے تو تاثیر کے حوالے سے نمایاں فرق سامنے آتا ہے، حالانکہ دونوں کے مولفین اپنے ہی ہیں اور دونوں کی نیک نیتی اور مقاصد بھی یکساں ہیں۔ معلوم ہوا کہ کسی بھی مضمون کی اثر آفرینی میں اس کے اسلوب میں انس آفرینی کی قوت کا بہت بڑا دخل ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ’’قدامت پسندوں کے تصور اجتہاد‘‘ کو ’الشریعہ‘ کے مستقل قارئین تعصب کے بجائے بے تکلفی پر مبنی آپس کی بات قرار دیتے ہیں، لیکن کوئی نووارد قاری اس کے تند وتیز جملوں سے یقیناًکوئی مثبت تاثر نہیں لیتا اور اسے بھی ’’برتن سے وہی نکلتا ہے جو اس کے اندر ہے‘‘ کا مصداق سمجھ لیتا ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ مثبت انسانی کاوش کے برآور ہونے کے لیے بھی اسلامی تعلیمات وہدایات کے مطابق طرز عمل اختیار کرنا ہی مفید وموثر ہے۔
محمود خارانی
جامعہ دار العلوم، کراچی
(۳)
مخدوم گرامی حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب مدظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ مزاج گرامی؟
الشریعہ جنوری ۲۰۰۷ کا شمارہ پڑھا۔ محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب کا مضمون ’’دینی مدارس اور جدید تعلیم‘‘ ان کے سوز دروں کا آئینہ دار تھا۔ ان کے نقطہ نظر سے موافقت یا مخالفت بڑے حضرات کا کام ہے۔ ان کے مخاطب بھی وفاق المدارس پاکستان اور دینی مدارس کے مہتمم حضرات ہیں، احقر ایسے لوگ نہیں۔ لیکن ایک بات عرض کرنے کو بے ساختہ جی چاہ رہا ہے۔ وہ یہ کہ برصغیر پاک وہند میں ہر طبقہ فکر کے علما اور دانش ور تقریباً ایک سو سال سے جدید وقدیم علوم کو نصاب میں سمونے کی مقدار، طریق کار اور نتائج کی بحثوں میں مصروف ہیں، لیکن بدقسمتی سے برصغیر میں کوئی ایسا فورم نہیں جو اسلامی دنیا کے سرکاری، نیم سرکاری اور نجی اداروں کے تعلیمی تجربات سے ہمیں روشناس کرائے۔ یہ کام رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے بہترین طریقہ سے ہو سکتا ہے لیکن غالباً رابطہ کے ارباب اختیار کو کسی نے توجہ نہیں دلائی۔ میں ’الشریعہ‘ کی وساطت سے ایسے قارئین سے جو رابطہ عالم اسلامی تک بات پہنچا سکتے ہوں، گزارش کروں گا کہ وہ رابطہ کی انتظامیہ کو توجہ دلائیں کہ وہ فقہ اکیڈمی کی طرز پر ایک تعلیمی کمیٹی قائم کرے جس کا کام جدید وقدیم علوم کو اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور دینی مدارس کے نصاب میں شامل کرنے کی مقدار، طریق کار اور نتائج کے حوالے سے پاکستان سمیت مختلف اسلامی ملکوں میں سیمیناروں اور کانفرنسوں کا انعقاد ہو۔ ہر ملک کے اہم اداروں کے نمائندے اس تعلیمی کمیٹی کے رکن ہوں اور ایک ملک کے تعلیمی تجربات دوسروں تک پہنچائے جائیں۔ اس سے مزید ذہن کھلیں گے اور ممکن ہے کچھ اہداف حاصل ہو جائیں۔ موجودہ عالمی تناظر میں اس کی بہت ضرورت ہے۔ اس اقدام کے بغیر ہمارے مباحث پانی میں مدھانی کے سوا کچھ نہیں۔
(مولانا) مشتاق احمد
جامعہ اسلامیہ۔ کامونکی
(۴)
جناب مدیر ’الشریعہ‘!
السلام علیکم
آپ کا موقر جریدہ قریب دو سال سے مکتب زہرا میں جلوہ افروز ہو رہا ہے۔ رئیس التحریر اور دیگر بلند نظر فضلا کی دل کشا ایمان افزا تحقیقات سے ناچیز متعلمہ نے ہمیشہ استفادہ کیا۔ پرچہ فی الواقع بقامت کہتر بقیمت بہتر ہوتا ہے۔
کئی بار جی چاہا کہ بعض مشتملات پر تبصرہ کروں لیکن مشاغل خانہ داری اور مطالبات قلم کاری میں باہم ناسازگاری نے ہر دفعہ معاملہ آئندہ پر ملتوی کر دیا۔ اس مرتبہ ’الشریعہ‘ ۵؍ دسمبر کو مل گیا تھا مگر بچوں کی مسلسل بیماری اور سرمائی امتحان کی تیاری کے باعث آج ’’کرسمس ڈے‘‘ پر پڑھنے کی فرصت ملی۔ علامہ عتیق الرحمن سنبھلی، پروفیسر میاں انعام الرحمن، مولانا محمد عیسیٰ منصوری، جناب خورشید احمد ندیم اور جسٹس (ر) محمد تقی عثمانی کی فکر انگیز باتوں کی تحسین نہ کرنا کور ذوقی ہوگی۔ حافظ صفوان محمد چوہان اور محترم عبد الحفیظ قریشی کے خیالات تو دل کی آواز محسوس ہوئے۔ ع از دل خیزد بر دل ریزد۔
حدود آرڈی ننس ۱۹۷۹ اور ترمیمی بل ۲۰۰۶ کے حوالے سے ’الشریعہ‘ کے حالیہ شماروں میں بہت قیمتی مواد چھاپا گیا ہے۔ بالخصوص استاذ محمد مشتاق احمد صاحب، لیکچرر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا مقالہ بڑا وقیع اور پرمغز ہے۔ ابی واستاذی میر مفتی عبد الرحیم محدث کروڑی (تلمیذ ومسترشد حضرت مدنی) تغمدہما اللہ برحمتہ کہا کرتے تھے: ’’فقہ خوانی ہور شے ہے، فقہ مندی ہور شے۔‘‘ مولانا محمد مشتاق احمد اسلام آبادی بلاشبہ ’’فقیہ النفس‘‘ اور ’’فقہ مند‘‘ معلوم ہوتے ہیں۔ اللہ کریں علم وعمل اور زیادہ۔
ان شاء اللہ تعالیٰ راقمہ بھی پاکستان کے شوکانی، سائیں محمد تقی عثمانی کے ترمیمی بل ۲۰۰۶ کے دردمندانہ جائزہ پر ایک طالب علمانہ تبصرہ کرنا چاہتی ہے۔ اللہ بزرگ وبرتر حق کہنے اور غلطی کی صورت میں برملا اقبال خطا کی توفیق ارزاں فرمائیں۔
اس کے ہر پہلو پہ تنقید کی گنجایش ہے
میرا فتویٰ ہی تو ہے، قول پیمبر تو نہیں
المتعلمہ، شمیم فاطمہ تبسم
الزہرا ۔ چاہ عمر۔ کروڑ۔ لیہ
(۵)
جناب رئیس التحریر راشدی صاحب
ماہ دسمبر کا شمارہ میرے سامنے ہے جس میں ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کے بارے میں ایک جامع تحریر پڑھ کر نقطہ نظر سے آگاہی ہوئی، لیکن کنفیوژن دور نہیں ہو سکی اس لیے کہ اس بل کی حمایت میں لکھنے والا طبقہ بھی مدلل انداز سے اس کو بہتر ثابت کر رہا ہے۔ اس بل سے عورتوں کو تو کوئی فائدہ پہنچے نہ پہنچے، لیکن حکومتی پالیسی جو Divide and rule کے اصول پر چل رہی ہے، ضرور کامیاب ہوئی ہے اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو اس بے مقصد ایشو پر لگا دیا گیا ہے۔ مجھے آپ کے طبقہ فکر کے حامی افراد سے پوچھنا ہے کہ کیا اس ملک کے بگاڑ میں زنا اور شراب کا ہی رول ہے؟ آمرانہ حکومتوں کو سپورٹ کرنا ان مذہبی جماعتوں کا ہی خاصہ رہا ہے جس کی وجہ سے کسی بھی آمر کے لیے عوامی حقوق کو غصب کرنا آسان ترین ہو گیا۔ مولویوں نے کبھی بڑھتی ہوئی آبادی، ماحولیاتی آلودگی، انسانی حقوق کے لیے کیوں جنگ وجدل نہیں کی؟ کبھی شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کا اضافہ، کبھی جمعہ کی چھٹی اور کبھی نقاب جیسے بے مقصد موضوعات کو چھیڑ کر عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا دیتے ہیں۔ یہی حال ’حقوق نسواں بل‘ کا ہوا ہے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ہماری خواتین کی اکثریت کو اس ایشو سے کوئی دلچسپی نہیں ہے جبکہ مہنگائی اور امن وامان کی صورت حال سے انھیں دلچسپی بھی ہے اور اس پر تشویش بھی۔ 
آپ ازراہ کرم ایسے اچھے مضامین Dawn اور The News کو بھیجا کریں تاکہ آپ سے اختلاف کرنے والے مزید تحقیقاتی میٹریل اخبا ر کو بھیجیں اور یوں سچ ابھر آئے گا۔ ’الشریعہ‘ کو پڑھنے والے پہلے ہی آپ کے ہم خیال لوگ ہیں اور یوں ہم سچائی سے دور رہتے ہیں۔
اللہ آ پ کا حامی وناصر ہو۔
محمد سعید اعوان
اروپ۔ گوجرانوالہ

تعارف و تبصرہ

مولانا مشتاق احمد

’’ قرآن کریم کا اعجاز بیان‘‘

علوم القرآن پر صدیوں سے کتابوں کی تدوین کا سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔ زیر نظر کتاب محمد رضی الاسلام ندوی صاحب کے قلم سے معروف مصری عالمہ وفاضلہ ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمن بنت الشاطی کی کتا ب ’’الاعجاز البیانی للقرآن الکریم‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمن (۱۹۱۳۔۱۹۹۸ء) نہایت وسیع المطالعہ اور دانشور خاتون تھیں اور انہوں نے ایک سو سے زائد کتب اور بے شمارمضامین اپنی یادگار چھوڑے ہیں۔ موصوفہ علمی اعتبار سے بین الاقوامی شہرت یافتہ خاتون تھیں۔ وہ مصر ،مراکش اورعراق کی جامعات میں تدریسی فرائض سرانجام دیتی رہیں اور متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں میں اپنے مقالات پیش کیے۔ ان کی علمی خدمات کے صلے میں مصر، سعودی عرب اور کویت کی حکومتوں نے انھیں اعلیٰ سرکاری اعزازات سے نوازا۔
کتاب ایک مقدمہ اورتین مباحث پر مشتمل ہے۔ مقدمہ میں علوم قرآنی پر لکھی گئی عربی کتب کا تعارف کرایا گیا ہے۔ پہلی بحث میں قرآن مجید کے وجوہ اعجاز بیان کیے گئے ہیں۔ دوسری بحث میں، جو کہ کتاب کا خلاصہ ومحور ہے، مصنفہ نے تین فصلیں قائم کی گئی ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید کے حروف، الفاظ اور اسالیب میں نہ کوئی حرف زائد ہے، نہ کوئی حرف محذوف ہے اور نہ کسی لفظ کو دوسرے لفظ کی جگہ استعمال کیا ہے۔ قرآن نے عام اسلوب سے ہٹ کر جو اسلوب اختیار کیے ہیں، ان میں بڑی بلاغت موجود ہے اوریہی قرآن کا اعجاز ہے۔ اس بحث میں مصنفہ کی محنت قابل تحسین ہے۔ کتاب کی تیسری بحث کا مترجم نے ترجمہ نہیں کیا اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ بحث قرآن کی لفظی بحثوں پر مشتمل ہے جو اردو خواں طبقہ کے لیے مفید نہیں ہے۔ بہرحال یہ کتاب علوم قرآنیہ پر مشتمل کتب میں اہم اضافہ ہے ۔
دارالکتاب (کتاب مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار لاہور ) کے منتظمین نے اسے معیاری کاغذ اور جلد کے ساتھ شائع کیا ہے۔

’’ربوا،زکوٰۃ اور ٹیکس‘‘

صدر ایوب خان کے دور میں ڈاکٹر فضل الرحمن ادارۂ تحقیقات اسلامی کے سر براہ مقرر کیے گئے تھے۔انہوں نے بہت سے مسائل پر ایسی آرا ظاہر کیں جو کہ جمہور امت سے ہٹ کر تھیں۔ ڈاکٹر فضل الرحمن خود کو مجتہد گردانتے تھے۔ ان کے موجب گمراہی اجتہادات میں سے بعض یہ تھے:
۱۔اسلام میں تجارتی سود حرام نہیں ۔
۲۔زکوٰۃ عبادت نہیں، ٹیکس ہے ۔
۳۔دینی مسائل میں مغربی مفکرین کی آرا تلاش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
مولانا ابو الجلال ندوی مرحوم نے انہی دنوں مذکورہ نظریات کاجواب لکھا تھا جو بوجوہ شائع نہ ہوسکا۔ اب ان تحریروں کو ابو الجلال ندوی اکیڈمی کراچی نے شائع کیاہے ۔ مجموعی طورپر یہ ایک قابل قدر کاوش ہے، لیکن گہری نظر سے ناقدانہ جائزہ لیاجائے تو کئی مقامات پر مصنف کا ذہنی الجھاؤ محسوس ہوتاہے۔ مصنف کی بعض آرا بھی محل نظر ہیں۔ مثلاً صفحہ ۳۳ کے حاشیہ میں مصنف ہدایہ شیخ الاسلام علی بن ابی بکر المرغینانی پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے دار الحرب میں سود کو جائز قراردیاہے اور ان کی وجہ سے کابل وسرحد کے پٹھانوں کا اخلاق بگڑ گیاہے۔ پہلے وہ صرف حربی کافر سے سود لیتے تھے، اب پاکستانی مسلمانوں سے بھی لیتے ہیں ۔ اسی طرح آیات میراث کی جو تشریحات فقہائے امت نے کی ہیں، وہ ان کے نزدیک معتبر نہیں ہیں اورقرآن وحدیث سے متصادم ہیں۔ اپنے اس دعوے کے اثبات میں انہوں نے کافی زور لگایاہے۔ تقریباً ادھی کتاب اس بحث پر مشتمل ہے۔ مسئلہ عول کو تو وہ آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ فاضل مصنف ایک طرف تو فقہا کی آرا کو معتبر نہیں سمجھتے لیکن دوسری طرف ڈاکٹر فضل الرحمن کے رد میں ہدایہ سے ہی استدلال کرتے نظر آتے ہیں۔ (صفحہ ۱۳۷)
کتاب کے مضامین ڈاکٹر فضل الرحمن کے نظریات کا مکمل رد نہیں کرتے اور مزید بحث ونظر کی گنجایش موجود ہے۔
ملنے کا پتہ: فضلی سنز اردو بازار لاہورکراچی/کتاب سرائے فرسٹ فلو رالحمد مارکیٹ اردو بازار لاہور۔

’’اقبال اور قادیانیت: تحقیق کے نئے زاویے‘‘

علامہ اقبالؒ ان مجاہدین ختم نبوت میں سے ہیں جن کی ضرب کاری کی تاب قادیانی نہ لا سکے اور نہ آج تک قادیانیت پر ان کی تنقید کو بھلا سکے ہیں، اسی لیے وہ اقبال کی کردار کشی کرتے رہتے ہیں۔ قادیانیوں کی اس گھٹیا مہم کے جواب میں اقبال کی عظمت اور کردار کو اجاگر کرنے کے لیے بہت سی کتب لکھی گئی ہیں جن میں سے ایک کتاب اس وقت ہمارے پیش نظر ہے۔ محترم بشیر احمد صاحب اس سے پہلے قادیانیت، بہائیت اور فری میسنری پر گراں قدر کتب تحریر کر چکے ہیں۔ زیر نظر کتاب مصنف نے اگرچہ کسی قادیانی کتاب کے جواب کے طور پر نہیں لکھی، لیکن اس میں اقبال کی ذات وافکار پر لگائے جانے والے بہت سے قادیانی الزامات کا جواب آ گیا ہے جس پر مصنف بجا طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
۲۸۳ صفحات پر مشتمل اس کتاب کو مجلس علم ودانش، پوسٹ بکس ۶۳۰ راول پنڈی نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت ۲۰۰ روپے ہے۔

مارچ ۲۰۰۷ء

اسلام کی تشکیل نو کی تحریکات اور مارٹن لوتھرمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مسجد أقصیٰ کی تولیت ۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ایک تاریخی و تحقیقی جائزہحافظ محمد زبیر
مسجد اقصیٰ کی بحث اور حافظ محمد زبیر کے اعتراضاتمحمد عمار خان ناصر
جناب وحید الدین خان کا علمی تفاخرپروفیسر میاں انعام الرحمن
حضرت مدنیؒ اور تجدد پسندیمفتی رشید احمد علوی
در جواب آں غزلامجد علی شاکر
مکاتیبادارہ
دینی مدارس کے نظام ونصاب کے موضوع پر فکری نشستادارہ
اسلام کے نام پر انتہا پسندی کا افسوس ناک رجحانمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلام کی تشکیل نو کی تحریکات اور مارٹن لوتھر

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(’الشریعہ‘ کے جنوری ۲۰۰۷ء کے شمارے میں ہم نے گزارش کی تھی کہ اکبر بادشاہ اور اس کے بعد ہمارے ہاں دین کی تشکیل نو (Reconstruction) کی جتنی تحریکیں بھی اٹھی ہیں، ان پر مارٹن لوتھر کی اس تحریک کے اثرات ہیں جس کے تحت اس نے مسیحیت کے قدیم تعبیر ی وتشریحی نظام کو مسترد کرکے پروٹسٹنٹ مکتب فکر کی بنیاد رکھی تھی اور جو آگے چل کرمذہب سے انحراف اور انسانی سوسائٹی سے مذہب کی لاتعلقی کی شکل اختیار کرگئی۔ ہمارے بہت سے مسلم دانشوروں نے مارٹن لوتھر کی اس تحریک کے پس منظر اور نتائج کی طرف نظر ڈالے بغیر اس کے نقش قدم پر چلنے کو ضروری خیال کرلیا اور اب جب کہ مغرب اس کے تلخ نتائج کی تاب نہ لاتے ہوئے واپسی کے راستے تلاش کر رہا ہے، ہمارے یہ دانش ور اب بھی اسی کی پیروی میں اسلام کی تعبیر وتشریح کے روایتی فریم ورک کو توڑدینے کی مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح کا روایتی فریم ورک اس قدر مضبوط ومستحکم ہے کہ اس چٹان کے ساتھ سر ٹکرانے والوں کو ابھی تک اپنے زخموں کو سہلانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا اور نہ ہی مستقبل میں اس کی کوئی امید دکھائی دے رہی ہے، مگر مارٹن لوتھر بننے کا شوق ہمارے بعض دانش وروں کے حوصلہ کو پیہم مہمیز کرتا چلا آرہا ہے۔ خدا بخش اورینٹل لائبریری (انڈیا) کی شائع کردہ کتاب ’’اسلامی تہذیب وثقافت‘‘ کی جلد اول میں اس حوالے سے مولانا سید سلیمان ندویؒ کا ایک مکتوب گرامی ابھی چند روز قبل نظر سے گزرا ہے جس سے ہماری مذکورہ بالا گزارشات کی تائید ہوتی ہے۔ یہ خط ماہنامہ ’ندیم‘ کے ستمبر ۱۹۳۹ء ؁ کے شمارے سے نقل کیاگیاہے اور ’ندیم‘ کے مدیر کے ادارتی نوٹ سمیت یہ مکتوب قارئین کی خدمت میں اس ماہ کے ’کلمہ حق‘ کے طورپر پیش کیا جا رہا ہے۔ راشدی)


کیا اسلام میں تجدید کی ضرورت ہے؟

’’یورپ کی ’نشاۃ ثانیہ‘ یعنی اس کی ترقی کا موجودہ دور پوپوں کے استیصال اورعیسوی مذہب کی تجدید واصلاح کے بعد شروع ہواہے۔ اسی بنا پر نوجوان مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیاہے جو مسلمانوں کی ترقی کے لیے بھی اسی راستہ کو اختیار کرنا چاہتاہے، اور خیال پیدا ہوتا جاتاہے کہ علما کے استیصال اوراسلام کی تجدید کی ضرورت ہے۔ ’’علماے سو‘‘ کے فتنوں کو ہر زمانہ میں روکا گیا اور اس دور میں بھی ان کے مضر اثرات سے مسلمانوں کو بچانے کی ضرورت ہے، لیکن ’’تجدید اسلام‘‘ کے مسئلہ پر غور کرنے کے لیے اسلام اور عیسائیت کے فرق پر پہلے غور کرنا چاہیے۔ اسلام نے اپنی بنیاد ہمیشہ کے لیے استوار رکھی ہے۔ا س کے ساتھ اس میں ایسی لچک بھی رکھی گئی ہے کہ اس کی بنیاد کو ہلائے بغیر ہم اس سے اپنے زمانہ کی ضرورتیں پوری کر سکیں۔
ذیل کے مکتوب میں اسی موضوع پر خیالات ظاہر کیے گئے ہیں جو ہمارے نوجوان دوستوں کے پڑھنے کے لائق ہیں۔ حضرت الاستاذ نے یہ مکتوب ہندوستان کے ایک شہرۂ آفاق نامور مسلمان اہل علم کے خط کے جواب میں لکھا تھا۔میں نے اس کی نقل اپنے پاس رکھ لی تھی۔ آج پرانے مسودوں میں اس پر نظر پڑی۔ اب وہ نوجوان دوستوں کے استفادہ کے لیے ان کی خدمت میں پیش ہے‘‘۔ ’’ر‘‘
مخدوم محترم دام لطفہ
السلام علیکم! والا نامہ نے سرفرازی بخشی۔ میں دو ماہ سے خانگی پریشانیوں میں مبتلا ہوں، اس لیے جواب میں قدرے تاخیر ہوئی ہے۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی، جمعیۃ العلماء کا مستقل صدر نہیں، بلکہ اس کے اجلاس کلکتہ کا چند روزہ صدر تھا جس کا زمانہ، اجلاس کے اختتام کے ساتھ ختم ہوگیا۔
بہرحال آپ نے ایک مفید تحریک مستقبل کی طرف توجہ دلائی ہے، مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے میرا خطبہ صدارت جو ان دنوں اخبارات میں چھپ رہاہے، ملاحظہ فرمایاہے یا نہیں۔ میں نے اس فقہی انقلاب اور اس کے لیے علما کی تیاری پر بہت کچھ لکھا ہے۔ خطبہ کی ایک کاپی بھیجتا ہوں، کم از کم ابتدائی حصے ملاحظہ فرمالیجیے۔
تاریخ فقہ اسلامی پر معلوم نہیں، آپ نے کس کی کتاب دیکھی ہے؟ ’تاریخ التشریع الاسلامی‘ جو محمد الخضری کی تصنیف ہے، وہ تو اس قدر مختصر نہیں۔ اس کے تو شاید تین چار سو صفحے ہوں گے، البتہ تقطیع چھوٹی ہے۔ میں نے اس کتاب کا دار المصنفین کی طرف سے ترجمہ کرایاہے۔ ترجمہ مکمل ہوگیاہے، شاید ایک سال کے اندر شائع ہوجائے۔
یورپ کے اثرات نے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے دماغی توازن میں فرق ضرور پیدا کیاہے، مگر اس کی اصلاح وتدارک کے لیے آپ کیا چاہتے ہیں؟ ایک نسخہ تو نسخ اسلام کا ہے جو بابی تحریک ہے۔ دوسرا نسخہ تجدید نبوت کا ہے جو قادیانیوں نے اختیار کیاہے۔ تیسرا نسخہ ابطال شرعیت احادیث کا ہے جو اہل القرآن نے تجویز کیاہے۔ ’وکل یدعی وصلا للیلیٰ
مجھے آپ کے خیالات سے براہ راست واقفیت نہیں، گو آپ کے رسالہ اجتہاد کا فحوائے مضمون بھی اپنے دوست مولوی عبدالماجد صاحب سے سن چکاہوں۔ آپ نے خلیل خالد بے کے جواب میں سید سجاد حیدر صاحب کو جو کچھ لکھا ہے، وہ بھی دیکھ چکا ہوں۔ مسلم یونیورسٹی کے نصاب علوم مشرقی پر جو آپ نے تبصرہ کیاہے،اس کا بھی مطالعہ کیاہے، تاہم آپ کے کسی ایک واحد مرکزی خیال سے واقفیت نہیں جس سے یہ تمام مختلف شاخیں پھوٹتی ہیں۔
لیوتھر کی تجدید، مذہب سے زیادہ سیاست کے زیر سایہ کامیاب ہوئی، مگر مجھے نہیں معلوم کہ موجودہ یورپین اقوام میں پروٹسٹنٹ اور رومن کیتھولک کے درمیان کیا ارتقائی فرق ہے۔ انگلستان بیشتر پروٹسٹنٹ ہے، فرانس بیشتر کیتھولک ہے، اٹلی غالب تر کیتھولک ہے، اور سب شاہراہ ترقی پر ہیں۔ اب اسلام میں کس قسم کی تجدید کی ضرورت ہے، موازنہ کے ساتھ فرمائیے ۔
اسلام کا مذہب چار چیزوں سے مرکب ہے: عقائد، عبادت، معاملات، اخلاق۔ عقائد کو عجمیت سے، اخلاق کو صوفیت سے پاک کیا جا سکتا ہے، معاملات میں گزشتہ مسائل کی تنقیح یا کسی امام کی رائے کی بمصلحت زمانہ ترجیح ہوسکتی ہے، عبادات میں آپ کیا ترمیم چاہتے ہیں؟
اصل یہ ہے کہ ترمیم، تنسیخ کا خیال اسی وقت آسکتاہے جب اسماعیلیوں کے خیال کے مطابق مذہب کے محفل ’’دروغ مصلحت آمیز‘‘ یقین کیا جائے، اور میرا تو یہ اعتقاد نہیں۔ میں قرآن کے حرف حرف کو لفظی پابندی کے ساتھ قبول کرتاہوں۔ آیت میراث میں جو اصول مرعی ہے، اس کو تسلیم کیجیے تو پھر حصص کو کیوں تسلیم نہ کیجیے؟ اس قسم کی ترمیم وہی لوگ کرسکتے ہیں جو مذہب ووحی کی واقعیت کے قائل نہ ہوں، صرف ظاہری پردہ کے طورپر مذہب کو تسلیم کرنا چاہتے ہوں۔ اہل القرآن کی تاویلات ملاحظہ کیجیے اوراس کی فرقہ کی باطنیت پر ماتم کیجیے، علامہ مشرقی کا تذکرہ دیکھیے اور اس زہر میں ملے ہوئے قند کو ملاحظہ کیجیے۔ معاف کیجیے، ان تمام گمراہیوں کی جرات سید صاحب نے بے معنی تفسیر وتاویل کرکے دلائی ہے۔ مذہب کا بھرم اعتقاد میں ہے، جب اعتقاد گیا تو وہ تاویلات کی بنیاد پر قائم نہیں رہ سکتا۔ میں تو صر ف ایک چیز کی دعوت دے سکتا ہوں۔ اسلام کو ہر حیثیت سے اپنے عہد اول کی سادگی اور عملیت پر لوٹ آنا چاہیے اور اس عجمی تصوریت اور تصوفی تعطل کے عقیدہ کو پارہ پارہ کردیناچاہیے۔ اگر آپ نے میرا رسالہ ’اہل السنہ‘ ملاحظہ فرمایاہے تو میرا تخیل اقرب الی الفہم ہوگا۔
معاملات اور فقہ کے باب میں جو جمود ہے، وہ بے شک دو ر ہونا چاہیے۔ معاملات اور فقہ کی بہت سی چیزیں اسلام نے رائے امام پر محمول کردی ہیں۔ اب امامت کے فقدان اور سلاطین وحکام کے جہل نے اس سے ان کو مستفید ہونے نہ دیا۔ ٹرکی میں جو مدنی قوانین بن رہے ہیں، وہ تھوڑے تغیر سے اسلامی رنگ اختیار کرسکتے ہیں۔ مثلاً آپ تعدد ازدواج کو روکتے ہیں مگر یہ کہہ کر کہ یہ تمدن کے خلاف ہے۔ یہ فسق ہے۔ یوں کہیے کہ تعدد ازدواج کی اجازت بقید عدل ہے، اور چونکہ عدل مفقود ہے، اس لیے اب اس کی ممانعت کی جاتی۔ آپ غلامی کا ابطال کرتے ہیں کہ یہ انسانیت اور قانون یورپ کے خلاف ہے۔ آپ اس کو یوں کرسکتے ہیں کہ جنگ کے قیدیوں کے ساتھ تین برتاؤ کیے جاسکتے ہیں:قتل، غلامی، اور آزادی۔ امام وقت ان تینوں میں سے ایک اختیار کرسکتا ہے، اور برائے امام آزادی کا حکم عام جاری کرسکتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے بہت سی باتوں میں اپنی رائے سے یا معاصر اقوام کے قانون سے فائدہ اٹھایا، وہ اب تک ہماری فقہ میں موجود ہے۔ آپ ان کو نکال سکتے ہیں، جیسے ذمیوں کے احکام ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کثرت طلاق کو دیکھ کر ایک مجلس کی تین لفظی طلاق کو تین مستقل طلاق قرار دے لی اور جو اب تک فقہ حنفی میں معتبر ہے۔ شارب خمر کی حد مختلف خلفاے راشدین نے مختلف قرار دی۔ اور بھی مثالیں ہیں، مگر ان مثالوں کا یہ نتیجہ نہیں کہ ہم قانون وراثت نکال دیں، وضو چھوڑ دیں، نماز کم کر دیں، روزے رخصت کریں۔ یہ تو وہی اسماعیلیت ہے جو چل نہ سکی اور معلوم ہوگیا کہ یہ اتباع مذہب نہیں، ابطال مذہب ہے۔
طول نفس کو معاف کیجیے۔ آپ کے خیالات کی تہ کو پاؤں تو کچھ عرض کروں۔
والسلام 
۲۷؍رمضان المبارک ۱۳۴۴ھ 

مسجد أقصیٰ کی تولیت ۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ایک تاریخی و تحقیقی جائزہ

حافظ محمد زبیر

’المورد‘ کے اسسٹنٹ فیلواور ماہنامہ’ الشریعہ ‘کے مدیر جناب محمد عمار خان ناصرصاحب کی طرف سے ماہنامہ ’اشراق‘ جولائی و اگست ۲۰۰۳ میں ’’مسجد اقصیٰ، یہود اور امت مسلمہ‘‘ کے عنوان سے ایک طویل مضمون شائع ہوا۔ چونکہ محترم عمار صاحب نے اپنے اس مضمون میں امت مسلمہ کے عام مؤقف کے بالکل برعکس ایک نئی رائے کا اظہار کیا تھا، اس لیے مختلف علمی حلقوں کی طرف سے ان کو مختلف قسم کی علمی اورجذباتی تنقیدی آرا کا بھی سامنا کرناپڑا۔ عمار صاحب نے ماہنامہ ’اشراق‘ مئی وجولائی ۲۰۰۴ کے شماروں میں ان تمام تنقیدی آرا کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہمارے علم کی حد تک کسی ناقد نے بھی عمارصاحب کی اس اصولی غلطی کی نشاندہی نہیں کی جو کہ ان کے مضمون کی کل بنیاد ہے۔ عمار صاحب کے اس طویل مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ مسجد أقصیٰ کی تولیت کا شرعی حق یہود کو حاصل ہے، اگرچہ تکوینی طور پر یہ مسجد سینکڑوں سال سے مسلمانوں کی تولیت میں ہے۔ مسجد أقصیٰ کی تولیت پر یہود کے شرعی حق کی کل دلیل ‘عمار صاحب کے نزدیک وہ اسرائیلیات ہیں جن کو وہ کتاب مقدس کے بیانات کہتے ہیں۔ ان اسرائیلی روایات سے محترم عمار صاحب نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مسجد اقصیٰ یعنی ہیکل سلیمانی کو حضرت سلیمان نے اپنے زمانے میں جنات سے تعمیر کروایا تھا۔ یہ ہیکل یہودیوں کا قبلہ ہے۔ علاوہ ازیں یہ ان کا مقام حج ہے۔ یہی ان کی قربان گاہ اورمر کز عبادت ہے۔ اس کی طرف رخ کر کے وہ نماز ادا کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ نظریہ ہی غلط ہے کہ مسجد أقصیٰ یہودیوں کا قبلہ یا مقام حج یا نماز کے لیے ایک سمت ہے۔ قرآن و سنت تو کیا، کسی ایک اسرائیلی روایت سے بھی یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ بیت المقدس کو اللہ تعالیٰ نے یہود کا قبلہ مقرر کیا تھا۔ حق بات یہ ہے کہ حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا کاقبلہ ’مسجد حرام ‘ رہا ہے۔ تمام انبیا مسجد حرام کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے رہے ہیں اور یہیں آ کر فریضہ حج ادا کرتے رہے ہیں۔ مسجد أقصیٰ کواپنا قبلہ قرار دینا یہودیوں اور عیسائیوں کی اپنے دین میں اختراع ہے۔ مسجد أقصیٰ کی حیثیت مسلما نوں کے ایک بابرکت مقام اور مسجد کی سی ہے۔مسجد أقصیٰ یہودیوں کی نہیں، بلکہ مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے، اس لیے اس کی تولیت کا حق بھی مسلمانوں ہی کو حاصل ہے ۔ مسجد أقصیٰ کا مسئلہ چونکہ ایک اصولی مسئلہ ہے، اس لیے ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس پر اصولی انداز میں بحث ہونی چاہیے ۔عمار صاحب سے اس مسئلے کی تحقیق میں جو بنیادی غلطی ہوئی، وہ یہ کہ انھوں نے اسرائیلیات کی روشنی میں قرآن و سنت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ (۱) ا گر وہ قرآن و سنت کی روشنی میں اسرائیلی روایات کوسمجھنے کی کوشش کرتے تو ان کے نتائج اس سے بہت مختلف ہوتے جو کہ وہ بیان کر رہے ہیں ۔ 
(۱) محترم عمار صاحب نے تحقیق کا یہ انداز و اسلوب جناب غامدی صاحب سے سیکھا ہے غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’میزان‘ میں تفصیل سے اپنے اس اصول کو بیان کیا ہے کہ قرآن کو سابقہ صحف سماویہ کی روشنی میں سمجھنا چاہیے ۔

مسجد اقصیٰ کی فضیلت

مسجد أقصیٰ کے درج ذیل فضائل قرآن وسنت میں بیان ہوئے ہیں :
۱) مسجد أقصیٰ بابرکت زمین میں ہے:
قرآن میں چارمقامات پر سرزمین شام کو بابرکت زمین کہا گیا ہے۔ نزول قرآن کے وقت ملک شام‘ موجودہ شام سے بہت وسیع تھا۔موجودہ فلسطین بھی اس کا ایک حصہ تھا۔ مسجد أقصیٰ شام کی اسی بابرکت سرزمین میں واقع ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
و أورثناالقوم الذین کانوا یستضعفون مشارق الأرض و مغاربھا التی بارکنا فیھا (الأعراف:۱۳۷)
’’اور ہم نے اس قوم کو کہ جس کوکمزور بنایا گیا تھا‘ اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنایا کہ جس سرزمین میں ہم نے برکت رکھ دی ہے۔ ‘‘
اس آیت مبارکہ میں حضرت سلیمان کے دور میں موجود بنی اسرائیل کی اس عظیم سلطنت کی طرف اشارہ ہے جو کہ اس زمانے کے شام اور اس کے گردو نواح پر مشتمل تھی ۔
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
و نجیناہ و لوطا الی الأرض التی بارکنا فیھا للعالمین (الأنبیاء:۷۱)
’’اور ہم اس کو (یعنی حضرت ابراہیم) اور حضرت لوط کو نجات دی ایک ایسی سرزمین کی طرف کہ جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لیے برکت رکھ دی ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ کے الفاظ ’العالمین‘ سے واضح ہوتا ہے کہ سرزمین فلسطین و شام کی برکات کسی خاص جماعت، قوم یامذہب کے ماننے والوں کے لیے نہیں ہیں جیسا کہ یہودیوں کا یہ خیال ہے کہ اس سرزمین کی برکات ان کے لیے مخصوص ہیں بلکہ اس سرزمین کی برکت تمام اقوام ‘مذاہب اور جماعتوں کے لیے ہیں ۔
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
و لسلیمن الریح عاصفۃ تجری بأمرہ الی الأرض التی بارکنا فیھا (الأنبیاء:۸۱)
’’اور حضرت سلیمان کے لیے ہم نے تیز و تند ہوا کومسخر کر دیا تھا جوان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی کہ جس میں ہم نے برکت رکھ دی ہے ۔‘‘
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
و جعلنا بینھم و بین القری التی بارکنا فیھا قری ظاہرۃ (سبا:۱۸)
’’اور ہم نے ان (یعنی قوم سبا)کے درمیان اور ان بستیوں کے درمیان کہ جن میں ہم نے برکت رکھ دی ہے‘ کچھ نمایاں بستیاں بنائی تھیں ۔‘‘
اس آیت مبارکہ کے الفاظ ’القری‘ سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ برکت صرف فلسطین کی بستی میں نہیں رکھی گئی بلکہ ان تمام بستیوں میں رکھی گئی ہے جو کہ سرزمین شام پر واقع ہیں ۔
۲) مسجد أقصیٰ کے ارد گرد کی سرزمین بھی بابرکت ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
سبحن الذی أسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الأقصی الذی بارکنا حولہ (الاسراء:۱) 
’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو ایک رات میں مسجدحرام سے مسجد اقصی تک کہ جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھ دی ہے ۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد أقصی کے ساتھ ساتھ اس کے ارد گرد کی سرزمین یعنی فلسطین و شام کا علاقہ بھی بابرکت ہے۔ 
۳) مسجد أقصیٰ ارض مقدسہ میں ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
یا قوم ادخلوا الأرض المقدسۃ التی کتب اللہ لکم (المائدہ:۲۱)
’’اے میری قوم کے لوگو!داخل ہو جاؤاس مقدس سرزمین میں کہ جس کواللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے ۔‘‘
قتادہ کے نزدیک ارض مقدسہ سے مراد ’شام‘ ہے جبکہ مجاہد اور ابن عباس کے ایک قول کے مطابق ’کوہ طور اور اس کے ارد گرد کا علاقہ ‘مراد ہے ۔اسی طرح سدی اور ابن عباس کے دوسرے قول کے مطابق اس سے مراد ’أریحا‘ ہے ۔زجاج نے کہا اس سے مراد’دمشق اور فلسطین ‘ ہے ۔بعض مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ اس سے مراد ’اردن کا علاقہ‘ ہے۔امام قرطبی اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ان تمام اقوال کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ قتادہ کا قول سب کو شامل ہے ۔ امام قرطبی کے اس قول سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں شام میں فلسطین‘دمشق اور اردن کا علاقہ بھی شامل تھااسی طرح کوہ طور اور اس کے ارد گرد کا علاقہ حتی کہ أریحا کا شہر بھی شام کی بابرکت سرزمین کی حدود میں تھا ۔
۴) بیت اللہ کے بعد دوسری مسجد :
مسجد أقصیٰ روئے زمین پربیت اللہ کے بعد دوسری مسجد ہے کہ جس کو عبادت الہی کے لیے تعمیر کیا گیا۔حضرت ابو ذر غفاری سے روایت ہے :
سألت رسول اللہ ﷺ عن أول مسجد وضع فی الأرض قال المسجد الحرام قلت ثم أی قال المسجد الأقصی قلت کم بینھما قال أربعون عاما (۱)
’’میں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ اس روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی آپ نے جواب دیا مسجد حرام ‘میں نے پھر سوال کیا اس کے بعد کون سی مسجد تعمیر کی گئی تو آپ نے فرمایا مسجد اقصی ‘ میں نے کہا ان دونوں کی تعمیر کے دوران کل کتنا وقفہ ہے تو آپ نے کہا چالیس سال ۔‘‘
۵) مسجد أقصیٰ کی طرف شد رحال کی مشروعیت :
مسجد أقصیٰ ان تین مساجد میں شامل ہے کہ جن کا تبرک حاصل کرنے کے لیے یا ان میں نماز پڑھنے کے لیے یا ان کی زیارت کے لیے سفر کو مشروع قرار دیا گیا ہے ۔آپ کا رشاد ہے :
لا تشد الرحال الاالی ثلاثۃ مساجد مسجدی ھذا و مسجد الحرام و المسجد الأقصی (۲)
’’تین مساجد کے علاوہ کسی جگہ کا قصد کر کے سفر کرنا جائز نہیں ہے میری اس مسجد کا یعنی مسجد نبوی کا ‘مسجد حرام کا اور مسجد أقصیٰ کا۔‘‘
۶) مسجد أقصیٰ کو انبیاء نے تعمیر کیا :
مسجد اقصیٰ ان مساجد میں سے ہے کہ جس کو جلیل القدر انبیاء نے تعمیر کیا ۔طبرانی کی ایک روایت کے الفاظ ہیں :
أن داؤد ابتدأ ببناء البیت المقدس ثم أوحی اللہ الیہ انی لأقضی بناؤہ علی ید سلیمان (۳)
’’حضرت داؤد نے بیت المقدس کی تعمیر کے لیے بنیادیں رکھیں پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میں مسجد أقصیٰ کی تعمیر حضرت سلیمان کے ہاتھوں مکمل کرواؤں گا۔‘‘
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمروؓ اللہ کے رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں :
أن سلیمان بن داؤد لما بنی بیت المقدس سال اللہ عز وجل خلالا ثلاثۃ ... سأل اللہ عز وجل حین فرغ من بناء المسجد أن لا یاتیہ أحد لا ینھزہ الا الصلاۃ أن یخرجہ من خطیئتہ کیوم ولدتہ أمہ (۴)
’’حضرت سلیمان نے جب بیت المقدس کی تعمیر مکمل کر لی تو اللہ تعالی سے تین باتوں کی دعا کی ...‘‘
۷) مسجد أقصیٰ میں نماز پڑھنے کی فضیلت :
صحیح حدیث میں مسجد أقصیٰ میں نماز پرھنے کی بہت زیادہ فضلیت بیان ہوئی ہے ۔حضرت عبد اللہ بن عمروؓ اللہ کے رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں :
أن سلیمان بن داؤد لما بنی بیت المقدس سال اللہ عز وجل خلالا ثلاثۃ ... سأل اللہ عز وجل حین فرغ من بناء المسجد أن لا یاتیہ أحد لا ینھزہ الا الصلاۃ فیہ أن یخرجہ من خطیئتہ کیوم ولدتہ أمہ (۵)
’’حضرت سلیمان نے جب بیت المقدس کی تعمیر مکمل کر لی تو اللہ تعالی سے تین باتوں کی دعا کی ...جب وہ مسجد بنا کر فارغ ہو گئے تو اللہ تعالی سے سوال کیا کہ جب بھی کوئی شخص اس مسجد میں نماز پڑھنے کی غرض سے آئے تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو کرنکلے جیسے کہ اس کی ماں نے اس کو جنا ہو۔‘‘
۸) مسجد أقصیٰ سے احرام باندھ کر حج کرنے کی فضیلت :
مسجد أقصیٰ سے حج یا عمرہ کے لیے احرام باندھ کر مسجد حرام کی طرف نکلنے کی بہت زیادہ فضیلت حدیث میں آئی ہے۔أم المؤمنین حضرت أم سلمہؓ آپ ؐ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا:
من أھل بحجۃ أو عمرۃ من المسجد الأقصی الی المسجد الحرام غفر لہ ما تقدم من ذنبہ و ما تأخر أو وجبت لہ الجنۃ شک عبداللہ أیتھماقال (۶)
’’جس نے بھی مسجد اقصی سے مسجد حرام تک لیے حج یا عمرہ کی نیت سے احرام باندھا اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے یا اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔ عبد اللہ کو شک گزرا کہ آپؐ نے ان دونوں میں کون سے الفاظ فرمائے ہیں ۔‘‘
۹) مسجد أقصیٰ میں نماز پڑھنے کی نذر ماننا جائز ہے :
فتح مکہ کے موقع پر ایک شخص نے آپ ؐ سے آ کر سوال کیا :
یا رسول اللہ انی نذرت للہ ان فتح اللہ علیک مکۃ ان أصلی فی بیت المقدس رکعتین قال صل ھا ھنا ثم أعاد علیہ فقال صل ھا ھنا ثم أعاد علیہ فقال صل ھاھنا ثم أعاد علیہ فقال شانک (۷) 
’’اے اللہ کے رسول ﷺ میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کے ہاتھوں مکہ فتح کروا دیا تو میں بیت المقدس میں دورکعت نماز پڑھوں گا۔آپ ؐ نے فرمایا یہاں ہی پڑھ لے اس نے پھر آپؐ کے سامنے اپنی بات کو دھرایا آپ ؐ نے فرمایا یہاں نماز پڑھ لے اس نے پھر اپنی بات کو دھرایاآپ ؐ نے فرمایا یہاں نماز پڑھ لے اس نے پھر اپنی بات کودھرایاتو آپ ؐ نے فرمایا تمہارا معاملہ ہے (یعنی جہاں تو چاہے پڑھ لے میں نے تو تیری آسانی کی خاطر تجھے یہ مشورہ دیا تھا)۔ ‘‘
اس کے علاوہ بھی روایات ہیں کہ جن سے مسجد اقصیٰ کی برکت و فضیلت کا اظہار ہو تا ہے لیکن طوالت کے خوف سے ہم صرف انہی روایات پر اکتفا کرتے ہیں ۔

مسجد اقصیٰ کی تعمیر وتاریخ

محترم عمار صاحب نے اپنے مضمون میں مسجد أقصیٰ کی تاریخ بیان کرتے ہو ئے اپنی تحقیق کی کل بنیاد اسرائیلی روایات کو بنایا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث کہ جس میں مسجد اقصیٰ کی پہلی تعمیر کا تذکرہ ہے، اس کو حاشیہ میں بیان کیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عمار صاحب کی اس نادر تحقیق کے اصل اور فیصلہ کن مصادرکون سے ہیں ؟
قرآن و سنت کی روشنی میں مسجد أقصیٰ کی تعمیر و تاریخ کا تعین کرنے میں حضرت ابو ذر غفاریؓ کی درج ذیل روایت کو بنیادی مقام حاصل ہے۔ حضرت ابوذر سے روایت ہے :
سألت رسول اللہ ﷺ عن أول مسجد وضع فی الأرض، قال المسجدالحرام، قلت ثم أی؟ قال المسجد الأقصی، قلت کم بینھما قال أربعون عاما (۸)
’’میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی؟ آپ نے جواب دیا: مسجد حرام۔ میں نے پھر سوال کیا: اس کے بعد کون سی مسجد تعمیر کی گئی؟ آپ نے فرمایا: مسجد اقصیٰ۔ میں نے کہا: ان دونوں کی تعمیر کے دوران کل کتنا وقفہ ہے؟ آپ نے کہا: چالیس سال ۔‘‘
اس روایت سے درج ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں :
۱) اس زمین پر سب سے پہلی مسجد جو کہ اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کی گئی ‘مسجد حرام ہے ۔
۲) دوسری مسجد جو کہ اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کی گئی ‘مسجد أقصیٰ ہے ۔
۳) ان دونوں مساجد کی تعمیرکے درمیان چالیس سا ل کا وقفہ ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کس دور میں ہوئی؟اگر بیت اللہ کی تعمیر کا زمانہ متعین ہو جائے تو مسجد أقصیٰ کی تعمیر کازمانہ از خود متعین ہو جائے گا، کیونکہ صحیح حدیث کے مطابق مسجد أقصیٰ کی تعمیر بیت اللہ کی تعمیر کے چالیس سال بعد ہوئی۔ بیت اللہ کی تعمیر کے بارے میں آرا مختلف ہیں جن میں سے دو ہی آرا دلائل کی روشنی میں قوی ہیں : 
الف) ایک رائے یہ ہے کہ بیت اللہ کی سب سے پہلی تعمیرحضرت ابراہیم کے زمانے میں ہوئی تھی۔ قرآنی نص سے یہ بات ثابت ہے کہ بیت اللہ کو حضرت ابراہیم نے تعمیر کیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت وا سمعیل (البقرۃ:۱۲۷)
’’ اور جب حضرت ابراہیم بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور حضرت اسمٰعیل بھی ۔‘‘
اگر ہم حضرت ابراہیم کی تعمیر کو بیت اللہ کی پہلی تعمیر مانیں تو مسجد أقصیٰ کے پہلے مؤسس حضرت ابراہیم ہوں گے۔ 
ب) دوسری رائے یہ ہے کہ بیت اللہ کی پہلی تعمیر حضرت آدم کے زمانے میں ہوئی۔ اگر اس قول کو صحیح مانیں تو مسجد أقصیٰ کے مؤسس حضرت آدم قرار پائیں گے۔ ہمارے نزدیک صحیح قول یہی ہے کہ بیت اللہ کی پہلی تعمیر حضرت آدم نے کی۔ حضرت ابراہیم نے آکر اس کی تجدید کی ہے۔ ہماری اس رائے کی بنیاد درج ذیل دلائل پر ہے :
۱) اللہ تعالیٰ نے تمام انبیا کے لیے نماز کو مشروع قرار دیا تھا جس کے لیے ایک قبلہ کا ہونا ضروری تھا۔ لہٰذ ایہ ثابت ہوا کہ حضرت آدم کے دین میں نماز کا مشروع ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کے لیے حضرت آدم کوئی قبلہ بھی تعمیر کریں۔
۲) اگر اس بات کو مان لیا جائے کہ حضرت ابراہیم نے سب سے پہلے بیت اللہ کی تعمیر کی تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس بات کا بھی اقرار کیا جائے کہ حضرت ابراہیم سے ماقبل اسلامی شریعتوں میں حج کا کوئی تصور نہ تھا جو کہ غلط ہے ۔لہٰذا یہ ثابت ہو اکہ حضرت ابراہیم سے پہلے مختلف انبیا کے ہاں حج کا تصور اس بات کو ملتزم ہے کہ حضرت ابراہیم سے پہلے ایک قبلے کا وجود مانا جائے۔
۳) حضرت ابراہیم جب حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو سرزمین مکہ میں آباد کر نے کے لیے وہاں چھوڑنے گئے تو اس وقت انھوں نے دعا مانگی جس کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
ربنا انی أسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم (ابراہیم:۳۷)
’’اے میرے پروردگار! بے شک میں نے اپنی اولاد کو آباد کیا ایک ایسی سرزمین میں جو کہ کھیتی والی نہیں ہے، تیرے حرمت والے گھر کے پاس۔‘‘
اس دعا کے الفاظ ’عند بیتک المحرم‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم کی اس دعا کے وقت بیت اللہ کی بنیادیں موجود تھیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم سے پہلے تعمیر ہو چکا تھا۔
۴) اس قرآنی مؤقف کے شواہد بعض ضعیف روایات سے بھی ہمیں ملتے ہیں، مثلاً امام بیہقی حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے مرفوعاً نقل کرتے ہیں:
بعث اللہ جبرئیل الی آدم وحواء فأمرھما ببناء الکعبۃ فبناہ آدم ثم أمر بالطواف بہ و قیل لہ أنت أول الناس وھذا أول بیت وضع للناس (۹)
’’اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل کو حضرت آدم وحوا کی طرف بھیجا اور ان کو بیت اللہ کی تعمیر کا حکم دیا۔ حضرت آدم نے بیت اللہ کو تعمیر کیا، پھر حضرت آدم کو بیت اللہ کا طواف کرنے کا حکم دیا اور حضرت آدم سے کہا گیا کہ تو پہلا آدمی ہے اور یہ پہلا گھر ہے جو کہ لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے ۔‘‘
۵) علامہ ابن حجر نے بھی اسی رائے کو ایک روایت کی بنیاد پر ترجیح دی ہے ۔ابن حجر لکھتے ہیں :
و یؤید قول من قال: أن آدم ھو الذی أسس کلا من المسجدین فذکر ابن ھشام فی کتاب التیجان أن آدم لما بنی الکعبۃ أمرہ اللہ بالسیر الی بیت المقدس وأن یبنیہ فبناہ و نسک فیہ وبناء آدم للبیت مشھور وقد تقدم قریبا حدیث عبد اللہ بن عمرو أن البیت رفع زمن الطوفان حتی بواہ اللہ لابراہیم (۱۰)
’’اور ان لوگوں کے قول کی تائید جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت آدم نے مسجد حرام اور مسجد أقصیٰ دونوں کو تعمیر کیا‘ اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو ابن ہشام نے کتاب التیجان میں نقل کیا ہے کہ حضرت آدم نے جب بیت اللہ کو تعمیر کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ بیت المقدس کی طرف جائیں اور اس کی بنیاد رکھیں تو انھوں نے جاکر اس کو تعمیر کیا۔ اور بیت اللہ کی جو تعمیر حضرت آدم کے ہاتھوں ہوئی، وہ معروف ہے۔حضر ت عبد اللہ بن عمرو کی حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ بیت اللہ کو طوفان نوح کے دوران اٹھا لیا گیا تھا، بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس کو حضرت ابراہیم کاٹھکانہ بنایا ۔‘‘
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ کی طرح مسجد اقصیٰ کی بھی کئی دفعہ تعمیر ہوئی۔ طبرانی کی ایک روایت کے الفاظ ہیں :
أن داؤد ابتدأ ببناء البیت المقدس ثم أوحی اللہ الیہ انی لأقضی بناؤہ علی ید سلیمان (۱۱)
’’حضرت داؤد نے بیت المقدس کی تعمیر کے لیے بنیادیں رکھیں، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میں مسجد أقصیٰ کی تعمیر حضرت سلیمان کے ہاتھوں مکمل کرواؤں گا۔‘‘
اسی طرح نسائی کی ایک روایت ہے :
أن سلیمان بن داؤد لما بنی بیت المقدس سأل اللہ عزوجل خلالا ثلاثہ (۱۲)
’’جب حضرت سلیمان نے بیت المقدس کی تعمیرمکمل کر لی تو اللہ تعالیٰ سے تین باتوں کی دعا کی۔‘‘
ان روایات میں مسجد اقصیٰ کی پہلی تعمیر کے علاوہ‘جو کہ حضرت آدم نے کی تھی‘ ایک دوسری تعمیر کا بھی تذکرہ ہے، کیونکہ حضرت ابراہیم اور حضرت سلیمان کے درمیان زمانی وقفہ ایک تاریخی روایت کے مطابق تین ہزار سال جبکہ دوسری روایت کے مطابق ڈیڑھ ہزار سال ہے ۔ 
ج) ایک تیسری رائے جو کہ محترم عمار صاحب نے حدیث ابو ذر کے حوالے سے اپنے مضمون کے حاشیے میں بیان کی ہے۔ عما ر صاحب لکھتے ہیں :
’’اس روایت پر یہ اشکال ہے کہ تاریخ کے مسلمات کی رو سے مسجد اقصیٰ کی تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں ہوئی اور ان کے اور سیدنا ابراہیم علیہما السلام کے مابین‘ جو مسجد حرام کے معمار تھے‘ کئی صدیوں کا فاصلہ ہے جبکہ روایت میں دونوں مسجدوں کی تعمیر کے درمیان صرف چالیس کا فاصلہ بتایا گیا ہے۔ علمائے حدیث کے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کے مقام کی تعیین تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرما دی تھی اور مذکورہ روایت میں اسی کا ذکر ہے ‘جبکہ حضرت سلیمان نے صدیوں بعد اسی جگہ پر ہیکل سلیمانی کو تعمیر کیا۔ اس لحاظ سے ان کی حیثیت ہیکل کے اولین بانی اور مؤسس کی نہیں ‘بلکہ تجدید کنندہ کی ہے ۔(۱۳)
محترم عمار صاحب نے اس رائے کی نسبت علمائے حدیث کی طرف کی ہے، حالانکہ علمائے حدیث میں سے کسی ایک کی بھی یہ رائے نہیں ہے جو کہ عمارصاحب بیان کر رہے ہیں۔ یہ عمار صاحب کی اپنی رائے ہے کہ جس کی نسبت انھوں نے علمائے محدثین کی طرف کر دی ہے اور جن کتابوں کے وہ حوالے دے رہے ہیں، ان میں یہ بات اس طرح موجود نہیں ہے جس طرح کہ وہ اس کو بیان کر رہے ہیں ۔
عمار صاحب سے پہلی غلطی تو یہ ہوئی کہ انھوں نے اس رائے کی نسبت علمائے محدثین کی طرف کر دی حالانکہ یہ رائے صرف ابن قیم اور ابن کثیر کی ہے۔ کیا دو پر جمع کا اطلاق ہوتا ہے ؟
دوسری غلطی عمارصاحب نے یہ کی کہ جب دیکھا کہ مسئلہ حدیث کاہے تو ابن قیم اور ابن کثیر کو علمائے محدثین بنا کر پیش کر دیا، حالانکہ مقدم الذکر کا اصل میدان عقیدہ و فقہ ہے اور مؤخر الذکر کا تفسیر و تاریخ‘ ان میں سے کوئی ایک بھی علما میں بطور محدث اس طرح معروف نہیں ہے جس طرح مؤلفین صحاح ستہ یا ان کے اساتذہ وغیرہ ۔
عمار صاحب سے تیسری غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے ابن قیم اور ابن کثیر کی رائے کو بھی ان حضرات کے اپنے الفاظ میں پیش نہیں کیا۔ ابن قیم نے اپنی رائے بیان کرتے ہوئے جو الفاظ بیان کیے ہیں، وہ درج ذیل ہیں :
والذی أسسہ ھو یعقوب ابن اسحاق (۱۴)
جبکہ ابن کثیر نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں :
وان أول من جعلہ مسجدا اسرائیل علیہ السلام (۱۵)
جبکہ محترم عمار صاحب نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں، وہ یہ ہیں :
’’علمائے حدیث کے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کے مقام کی تعیین تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرما دی تھی‘‘۔ (۱۶)
محترم عمار صاحب نے امام ابن قیم کے الفاظ ’أسس‘ اور امام ابن کثیر کے الفاظ ’جعل‘ کا ترجمہ ’’تعین کرنا‘‘کیا ہے۔ اس کو ان جلیل القدر علما کی آرا میں تحریف نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟
چوتھی غلطی عمار صاحب سے یہ ہوئی کہ انھوں نے حدیث میں موجود الفاظ ’وضع‘ کو نظر انداز کر دیا جس کا معنی لغت میں ’’تعین کرنا‘‘ نہیں ہوتا۔ امام ابن قیم اور امام ابن کثیر جیسے علما کے یہ شایان شان نہیں ہے کہ ان کی طرف اس بات کی نسبت کی جائے کہ انھوں نے حدیث میں وارد شدہ الفاظ ’وضع‘سے مراد بیت المقدس کی ’’تعیین‘‘ لی ہے۔
عمارصاحب کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بیت المقدس کی تعمیر پہلی دفعہ حضرت سلیمان نے ہی کی اور وہ یہ عزم کیے ہوئے ہیں کہ کسی طرح بیت المقدس کی تعمیرکے بارے میں وارد شدہ اسرائیلی روایات ‘جن پر انھوں نے اپنے مؤقف کی بنیاد رکھی ہے ‘کو صحیح ثابت کر دیا جائے، چاہے انھیں اس کے لیے صحیح احادیث کی من گھڑت تأویل اور علماے سلف کی آرا میں تحریف ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ ہمارے’ تحریف ‘کے الفاظ شاید عمارصاحب کو ناگوار گزریں، لیکن انھوں نے اپنے مضمون میں مسجد اقصیٰ کے حوالے سے علما کے عمومی مؤقف کے بارے میں جس قدر سخت لب ولہجہ اور اسلوب اختیار کیا ہے، اس کی بھی ایک جھلک ذرا قارئین ملاحظہ فرما لیں۔ عمار صاحب لکھتے ہیں :
’’یہ نکتہ اب اہل علم کے لیے ایک کھلے سوال کی حیثیت رکھتا ہے کہ عالم عرب کا یہ کم و بیش اجماعی مؤقف‘جس کو متعدد اکابر علمائے دین و مفتیان شرع متین کی تائید و نصرت حاصل ہے اور جس کو مسلم اور عرب میڈیاتسلسل کے ساتھ دہرا رہا ہے ‘کتمان حق اور تکذیب آیات اللہ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟‘‘(۱۷)
عمار صاحب اپنے ایک اجتہادی مؤقف پر اس قدرمصر ہیں کہ علما کے کم و بیش اجماع کو کتمان حق اور تکذیب آیات اللہ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ عمار صاحب مذکورہ بالا عبارت میں جو سوال اہل علم سے کر رہے ہیں، وہی سوال اگر وہ اپنے آپ سے بھی کر لیتے تو ان کو اس کا جواب مل جاتا۔ عمار صاحب مولانا وحید الدین خان صاحب پر تنقید کرتے ہوئے ماہنامہ ’الشریعہ ‘ میں لکھتے ہیں:
’’مولانا کے زاویہ نگاہ سے اصولی طور پر اتفاق رکھنے والے اہل فکر کا ایک حلقہ یہ محسوس کرتا ہے کہ مخالف فکری زاویوں اور شخصیات پر تنقید کے لیے ان کا اختیار کردہ لب و لہجہ اور اسلوب ’رأیی صواب یحتمل الخطا و رأیھم خطا یحتمل الصواب‘ کے ذہنی رویے کے بجائے حتمیت کی عکاسی کرتا ہے اور وہ اپنے زاویہ نگاہ کو ایک نقطہ نظر سمجھنے کے بجائے ’واحد درست طرز فکر ‘قرار دینے میں حد اعتدال سے تجاوز کر جاتے ہیں‘‘۔ (۱۸) 
ایک اور جگہ ماہنامہ اشراق ‘جنوری ۲۰۰۷‘ ص۷۱ پر محترم عمار صاحب لکھتے ہیں :
’’اگر علمی مباحث میں طعن و تشنیع اور تفسیق و تضلیل کا رویہ در آئے تو تنقید فکر ونظر کی آبیاری کرنے کے بجائے محض ’بغیا بینھم ‘کا ایک نمونہ بن کر رہ جاتی ہے‘‘۔
ہم عمار صاحب سے سوال کرتے ہیں، کیا یہ اصول تنقید صرف ان کے لیے ہے جو آپ یا آپ کی طرح کے آزاد خیال مفکرین کی آرا پر تنقید کرنا چاہے یا آپ کو بھی علما کے بارے میں لکھتے ہوئے اپنے قلم کو لگام دینی چاہیے؟ 
بہر حال خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ بالا بحث سے درج ذیل نتائج ثابت ہوتے ہیں:
۱) مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ دونوں کے مؤسس حضرت آدم ہیں ۔
۲) ظاہر نصوص سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسجد حرام کی دوسری تعمیر حضرت ابراہیم کے ہاتھوں ہوئی جبکہ مسجدا قصیٰ کی دوسری تعمیر کی بنیاد حضرت داؤد نے رکھی اور مکمل حضرت سلیمان کے عہد میں ہوئی۔ اس عرصے کے درمیان میں کسی اور تعمیر کا تذکرہ صحیح نصوص میں نہیں ملتا۔ 
یہ تو مسجد أقصیٰ کے حوالے سے ہماری کچھ ضمناً گفتگو تھی جس کا مقصد عمار صاحب کے مضمون سے پیدا شدہ ایک غلط فہمی کا ازالہ تھا۔ اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ۔

مسجد اقصیٰ کی تولیت مسلمانوں کا حق ہے

مسجد أقصیٰ کی تولیت مسلمانوں کا شرعی حق ہے جس کے درج ذیل دلائل ہیں :
۱) مسجد أقصیٰ کی تعمیر مسلمان انبیا کے ہاتھوں ہوئی۔ سب سے پہلے اسے حضرت آدم نے تعمیر کیا جو کہ مسلمان تھے۔ اس کے بعد حضرت داؤد نے اس کی بنیاد رکھی۔ پھر حضرت سلیمان نے اس کو مکمل کیا ۔اس لیے اس مسجد پر اسی قوم کا حق ہے جو کہ مسلمان ہو۔ جب تک عیسائی اور یہودی مسلمان تھے، اس وقت تک اس عبادت گاہ پر ان کا حق قائم تھا، لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد جو بھی یہودی اور عیسائی آپ پر ایمان نہیں لاتا، وہ کافر ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ان الذین یکفرون باللہ و رسلہ ویریدون أن یفرقوا بین اللہ ورسلہ ویقولون نؤمن ببعض ونکفر ببعض ویریدون أن یتخذوا بین ذلک سبیلا أولئک ھم الکفرون حقا (النساء: ۱۵۰)
’’بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم بعض رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ اس کے درمیان کوئی راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں، یہی لوگ پکے کافر ہیں ۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو بھی یہودی اور عیسائی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لے کر آئے، وہ پکا کافر ہے، اور کافر مسلمانوں کی بنائی ہوئی عبادت گاہ کا کیسے وارث ہو سکتا ہے؟ یہ توایسے ہی ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی مسجد بنائی اور اس کی بعد میں آنے والی نسلوں میں سے کوئی یہودی ہو گیا تو کیا اب اس مسجد کو یہودیوں کی عبادت گاہ بنا کر اس یہودی کے کنٹرول میں دے دیا جائے گا؟ مسجد اقصیٰ پر اس وقت یہودیوں کا حق تھا جب تک وہ مسلمان تھے۔ آج بھی اگر وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آتے ہیں تو ہماراان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے، ہم مسجد اقصیٰ کی تولیت ان کے سپرد کر دیں گے۔ لیکن اگر وہ اپنے نبی حضرت موسیٰ اور اپنے باپ حضرت ابراہیم کے دین سے بھی پھر جائیں تو کس بنیاد پر ان کو مسجد اقصیٰ کا وارث قرار دیا جائے؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ما کان ابراہیم یھودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما وما کان من المشرکین ان أولی الناس بابراہیم للذین اتبعوہ وھذا النبی والذین آمنوا واللہ ولی المؤمنین  (آل عمران:۶۷) 
’’حضرت ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ عیسائی‘ لیکن وہ ایک یکسو مسلمان تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے۔ بے شک حضرت ابراہیم کے ساتھ سب سے زیادہ تعلق ولایت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس (کی قوم میں سے اس)کی پیروی کی اور یہ نبی ہیں اور وہ لوگ جو (اس نبی پر ) ایمان لائے۔ اللہ تعالی اہل ایمان کا والی ہے۔‘‘
حضرت ابراہیم کی طرح ‘حضرت موسیٰ اور حضرت سلیمان اور بنی اسرائیل کے تمام انبیا کے اصل ورثا اور جانشین مسلمان ہیں نہ کہ یہود و نصاریٰ۔ اگر حضرت سلیمان نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کی بھی تھی تو اس سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ اب یہ مسجد کافروں کی عبادت گاہ بن گئی ہے؟ حضرت سلیمان کے دور میں موجود بنی اسرائیل مسلمان تھے، لہٰذا اس بنیاد پر اس مسجد کے وارث بھی تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض اور کینہ رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ ؐپر ایمان نہ لانے کی وجہ سے آج کل کے یہودیوں کے کافر ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، بلکہ ان کے کفر پر امت کااجماع ہے ،لہٰذا مسجد اقصیٰ جو کہ مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے، اس پرایک کافر قوم کا حق کیسے جتایا جا سکتا ہے ؟
بفرض محال اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ مسجد اقصیٰ پر یہود کا حق ہے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اہل کتاب میں سے جو بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکاری ہو، وہ حضرت موسیٰ اور تورات کا بھی انکاری ہے کیونکہ دونوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آمداور ان کی علامات کی خبر دی ہے۔ لہٰذا ایسا یہودی جو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ ماننے کے ساتھ تورات اور حضرت موسیٰ کی بات بھی ماننے سے انکار کر دے، وہ تو اپنے دین‘ اپنے نبی اور اپنی کتاب کا بھی انکاری ہے اور ایسا یہودی مسجد اقصیٰ کاوارث کیسے ہو سکتا ہے ؟ 
۲) تمام انبیا ‘بشول انبیائے بنی اسرائیل ‘کا قبلہ بیت اللہ تھا۔ اس لیے یہودیوں کا قبلہ بھی ‘ازروئے دین اسلام‘ شروع سے ہی ‘بیت اللہ ہے۔ تمام انبیا بیت اللہ کی طرف ہی رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے اور اسی کا حج کرتے تھے۔ یہودیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ’ ’ہیکل سلیمانی‘‘ان کا قبلہ ہے ۔یہ ایک ایسا دعویٰ ہے کہ جس کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ایک ہی وقت میں دو متوازی قبلوں کاوجود خود مقصد قبلہ کے خلاف ہے۔ حضرت ابراہیم نے جب بیت اللہ کی تعمیر مکمل کر لی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حج کی آواز لگائی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وأذن فی الناس بالحج یأتوک رجالا وعلی کل ضامر یأتین من کل فج عمیق (الحج:۲۷)
’’اور (اے ابراہیم) لوگوں میں حج کا اعلان عام کر۔ وہ تیرے پاس آئیں گے پیدل اوردبلے اونٹوں پراور ہر دور کے راستے سے آئیں گے۔ ‘‘
اگر یہ مان لیا جائے کہ بیت اللہ کے بالمقابل فلسطین میں حضرت سلیمان نے ایک علیحدہ قبلہ بنایا تو درج ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں :
۱) کیا قرآن کی آیت میں موجود الفاط ’الناس‘ میں بنو اسرائیل داخل نہیں ہیں؟
۲) اگر بنو اسرائیل کے آبا و اجداد حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب کا قبلہ بیت اللہ ہی تھا تو ان کی بعد میں آنے والی نسلوں کا قبلہ تبدیل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اس کی کیا دلیل ہے کہ باپ (یعقوب) کا قبلہ بیت اللہ تھا اور بیٹوں (بنو اسرائیل) کا قبلہ بیت المقدس تھا؟ کیا بنو اسرائیل اپنے باپ حضرت یعقوب کے دین پر نہ تھے؟
۳) کیا تمام انبیا کا دین‘ دین اسلام نہیں ہے؟ کیا حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں کو یہ وصیت نہیں کی تھی ’ووصی بھا ابراہیم بنیہ ویعقوب یبنی ان اللہ اصطفی لکم الدین فلا تموتن الا وانتم مسلمون‘؟ اگر تمام انبیا کا دین ایک ہی ہے جیساکہ قرآن و حدیث سے واضح ہوتا ہے تو پھر یہ کہنے کی کیا گنجایش رہ جاتی ہے کہ حضرت سلیمان سے پہلے انبیا کی نماز اورحج کے لیے قبلہ کی حیثیت بیت اللہ کو تھی، جبکہ حضرت سلیمان کے بعد نماز اور حج کے لیے بیت المقدس کو بنیادی حیثیت حاصل تھی ؟
۴) تقریباً تمام مناسک حج مقامات کے ساتھ خاص ہیں، مثلاً طوا ف ‘صفا اور مرو ہ کی سعی ‘مقام ابراہیم پر نفل پڑھنا‘ منیٰ کا قیام ‘میدان عرفات اور مزدلفہ کا قیام وغیرہ۔ بیت المقدس کو اگر بنی اسرائیل کا قبلہ مان لیا جائے تو بیت المقدس کے حج کرنے کا کیا مطلب ہے۔ دوسرے الفاظ میں بنو اسرائیل کا حج کیا تھا ؟
۵) بنو اسماعیل کا حج تو زمانہ جاہلیت میں بھی کسی نہ کسی بگڑی ہوئی شکل میں موجود تھا، لیکن کیا یہودی بھی آپ کے زمانے میں بیت المقدس کاحج کرتے تھے یا آج کرتے ہیں؟ اگر نہیں ‘تو کیوں ؟
۶) اگربیت المقدس ہی قبلہ تھا تو یہود ونصاریٰ میں پھر قبلے کی تعیین میں اختلاف کیوں ہوا؟ یہود حق پرتھے یا نصاریٰ؟ اصل قبلہ قبۃ الصخرہ ہے یا بیت المقدس کا مشرقی حصہ ؟
۷) اگر عمار صاحب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہود کا قبلہ صحیح ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود یہود میں بھی تو اس قبلے کی تعیین میں اختلاف ہے کہ یہ صخرہ ہی ہے یاصخرہ کے قریب کوئی جگہ ہے۔ یہ کیسا قبلہ ہے کہ جس کے صحیح مقام کا آج تک تعین ہی نہ ہو سکا؟
۸) عمار صاحب کتاب مقدس کی کوئی ایک بھی واضح اور صریح نص پیش کر سکتے ہیں کہ جس میں یہ بیان ہوا ہو کہ اللہ تعالی نے بیت المقدس کو یہود کا قبلہ مقرر کیا تھا ؟
۹) اگر عمار صاحب یہ دلیل بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ’وما أنت بتابع قبلتھم‘ میں اس بات کا اثبات کیا ہے کہ وہ یہود کا قبلہ ہے تو ہم یہ کہتے ہیں پھر ’ما ولھم عن قبلتھم التی کانوا علیھا‘ میں کس کے لیے قبلے کا اثبات ہے ؟
۱۰) اللہ تعالیٰ نے صرف یہود کے قبلے کا اثبات نہیں کیا بلکہ نصاریٰ کے قبلے کا بھی اثبات کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’وما بعضھم بتابع قبلۃ بعض‘، تو کیا کل تین قبلے ہیں ؟
۱۱) حقیقت یہ ہے کہ قبلہ ایک ہی ہے جو کہ بیت اللہ ہے ‘باقی رہا قرآن کامسجد اقصیٰ یا اس کے مشرقی حصہ کو قبلہ کہناتو یہ اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے اعتبار سے کہا ہے نہ کہ خود اپنی طرف سے ان کے لیے کسی علیحدہ قبلے کو مقررکرنے کا اثبات کیا ہے، جیسا کہ ’لکم دینکم ولی دین‘ میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے لیے علیحدہ دین کا اثبات تو کیا ہے لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دین کو‘ ان کے لیے مقرر کیا ہے اور پسندبھی کیا ہے؟ 
واقعہ یہ ہے کہ عمارصاحب ہیکل سلیمانی کو یہود کا قبلہ قرار دینے پر مصر ہیں اور اس کے لیے انھوں نے دلیل حضرت سلیمان علیہ السلام کی اس دعا کو بنایا ہے جو کہ بیت المقدس کے فیوض وبرکات کے حوالے سے کتاب مقدس میں بیان ہوئی ہیں۔ بیت المقدس کی برکات و فضائل سے کس کو انکار ہو سکتا ہے، لیکن کیا کسی مقام کی برکات و فضائل کا بیان اس کے قبلہ ہونے کی ایک کافی دلیل ہے؟ یہ کیسا قبلہ ہے کہ جس کے قبلہ ہونے کے بارے میں کوئی ایک بھی واضح نص قرآن وسنت تو کیا، کتاب مقدس میں بھی موجود نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیت المقدس کی حیثیت نہ تو حرم کی ہے اور نہ ہی یہ یہودیوں کا قبلہ رہا ہے۔ بیت المقدس کواپنا قبلہ قرار دینا یہودیوں کی اختراع ہے۔ ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں کی آزمایش کے لیے ان کو وقتی طور پر بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا جس کا تذکرہ بہت ساری روایات میں ملتا ہے۔ اس حکم خداوندی کی رو سے بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ قرار پایا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا جو حکم آپ ؐ پر نازل ہوا تھا، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ پہلی مسلمان امتوں کا قبلہ بیت المقدس تھا بلکہ اس کی اصل وجہ مسلمانوں کی آزمایش تھی، جیسا کہ قرآن نے بیان کیا ہے:
وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیھا الا لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ (البقرۃ ۱۴۳)
اس کے بعداللہ تعالیٰ نے اس عارضی قبلے کو منسوخ قرار دے کر اصل قبلہ یعنی بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کاحکم جاری فرمایا۔
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وما أنت بتابع قبلتھم (البقرۃ:۱۴۵)
’’اور اے نبی! آپ ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے نہیں ہیں ۔‘‘
قرآن مجید کی یہ نص اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ کے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کی وجہ یہودیوں کی اتباع نہیں تھی بلکہ آپ کو اللہ کی طرف سے یہ ایک حکم تھا۔ امام ابن کثیراس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
وانہ لا یتبع أھواءھم فی جمیع أحوالہ ولا کونہ متوجھا الی بیت المقدس لکونھا قبلۃ الیھود وانما ذلک عن أمر اللہ۔
’’آپ کسی بھی معاملے میں یہودیوں کی اتباع نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح آپ کا بیت المقدس کی طرف رخ کرنا اس وجہ سے نہیں تھا کہ یہ یہود کا قبلہ ہے، بلکہ اس وجہ سے تھا کہ یہ اللہ کی طرف سے آپ کو حکم تھا۔ ‘‘
یہودیوں نے حضرت موسیٰ کی وفات کے بعدقبۃ الصخرہ کی طرف رخ کر نماز پڑھنے کا آغاز کیا جبکہ عیسائیوں میں قسطنطین دی گریٹ (۲۷۲ ؁ء تا۳۳۷ ؁ء) و ہ پہلا عیسائی بادشاہ گزرا ہے جس نے بیت المقدس کی مشرقی جانب نماز پڑھنے کی بدعت کا آغاز کیا۔
امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
’’ان کاکہنا ہے کہ مشرق کی طرف نماز پڑھنے کی بدعت کا آغاز قسطنطین دی گریٹ نے کیا جبکہ نصاریٰ کے انبیا اور ان کے متبعین میں سے کسی ایک نے بھی مشرق کی طرف رخ کر کے نماز نہیں پڑھی اور اللہ تعالیٰ نے کعبہ کے علاوہ کسی مقام کو بھی شریعت اسلامیہ میں نماز کے لیے جہت نہیں بنایا۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان سے ماقبل کے تمام انبیا کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے اور خود حضرت موسیٰ بھی بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز نہیں پڑھتے تھے بلکہ ان کاکہنا یہ ہے کہ حضرت موسیٰ خیمہ عہد کو عرب کی طرف رخ کر کے نصب کرتے تھے اور صحرا میں اس خیمہ کی طرف رخ کر نماز پڑھتے تھے۔ جب حضرت یوشع بن نون نے بیت المقدس کو فتح کر لیا تو خیمہ کو صخرہ پر نصب کیا۔ پس بنی اسرائیل خیمہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے لگے۔ جب بیت المقدس ویران ہوا اور خیمہ بھی چھن گیا تو یہود صخرہ کی طرف رخ کر نماز پڑھنے لگے کیونکہ یہ خیمہ کی جگہ تھی اور سامرۃ (یہودسے علیحدہ ہونے والا ایک فرقہ ) وہاں پر موجود ایک پہاڑ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے کیونکہ تابوت سکینہ اس پر موجود تھا۔‘‘ (۱۹)
امام ابن قیم لکھتے ہیں :
’’اہل کتاب کا اپنے قبلوں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا یہ وحی سے یا اللہ کی طرف سے نہیں ہے بلکہ انھوں نے اپنا قبلہ آپس کے مشورے اور اجتہاد سے مقرر کیا۔ جہاں تک نصاریٰ کامعاملہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انجیل یا اس کے علاوہ کسی کتاب میں ان کوکہیں بھی مشرق کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم کبھی نہیں دیااور وہ اس بات کا خود بھی قرار کرتے ہیں اور اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ حضرت مسیح کا قبلہ وہی ہے جو کہ بنو اسرائیل کا قبلہ ہے اور وہ صخرہ ہے اور ان کے شیوخ اور بڑوں نے مشرق کو قبلہ مقرر کیا اور وہ اپنے ان کبار شیوخ کی طرف سے یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ حضرت مسیح نے ان کو تحلیل و تحریم اور تشریع احکام کا اختیار تفویض کیا تھا اور جس چیز کو انھوں نے حلال یا حرام قرار دیا،ا س کو حضرت مسیح نے بھی آسمانوں پر سے حلال یا حرام قرار دے دیا۔ وہ یہود سے اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی رسول کی زبانی مشرق کو قبلہ نہیں بنایا اور مسلمان بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مشرق کو قبلہ نہیں بنایا۔ جہاں تک یہود کے قبلے کا تعلق ہے تو یہ بات تو واضح ہے کہ تورات میں کہیں بھی صخرہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم نہیں بیان ہوا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ وہ جہاں سے بھی نکلتے، تابوت کو نصب کرتے اور اس کی طرف رخ کر نماز پڑھتے تھے۔ جب وہ بیت المقدس میں آئے تو انھوں نے اس تابوت کو صخرہ پر نصب کیا اور اس کی طرف رخ کر نماز پڑھی۔ پس جب تابوت کو اٹھا لیا گیا تو وہ صخرہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے لگے کیونکہ یہ تابوت کی جگہ تھی۔ جہاں تک سامرہ (یہودیوں سے علیحدہ ہونے والا ایک گروہ) کا تعلق ہے تو وہ ارض شام میں موجود ایک پہاڑ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ وہ اس کی تعظیم کرتے تھے اور اس کا قصد بھی کرتے تھے اور میں نے اس پہاڑ کو دیکھا ہے، وہ شہر ’نابلس ‘ میں ہے اور میں(یعنی ابن قیم) نے جب اس فرقے کے علما سے بحث کی اور ان سے کہا کہ کہ تمہارا قبلہ باطل اور بدعت ہے تو انھوں نے کہاکہ ان کے دین میں اس قبلہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہی صحیح قبلہ ہے اور یہودیوں نے قبلہ کے تعین میں خطا کھائی ہے، اللہ تعالیٰ نے تورات میں اسی پہاڑ کے استقبال کا حکم دیا ہے۔ پھر ان میں سے ایک نے اس پہاڑ کے استقبال کے بارے میں ایک نص پیش کی جس کے بارے میں اس کا گمان یہ تھا کہ یہ تورات کی آیت ہے تو میں نے کہا، یہ کہنا تورات کے بارے میں قطعی خطا ہے، کیونکہ تورات بنو اسرائیل پر نازل ہوئی اور وہ اس کے اول مخاطبین ہیں اور تم ان کی ایک فرع ہواور تم نے تورات ان سے حاصل کی ہے اور یہ نص جو کہ تم پیش کر رہے ہو، اس تورات میں نہیں ہے جو کہ بنوا سرائیل کے پاس ہے ا ور میں نے اس تورات کو دیکھا ہے اور اس میں یہ نص موجود نہیں ہے تو وہ (سامری عالم)مجھ سے کہنے لگا، تم ٹھیک کہہ رہے ہو، یہ نص ہماری خاص تورات میں ہے۔‘‘ (۲۰) 
۳) امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم کی اس رائے کی تائید قرآنی نصوص ‘احادیث مبارکہ اور بعض تابعین وتبع تابعین کی آرا سے بھی ہوتی ہے۔
الف) اس رائے کی تائید میں چند ایک قرآنی دلائل درج ذیل ہیں :
بنی اسرائیل کی غلامی کے زمانے میں ‘جبکہ وہ ابھی تک قوم فرعون کے ظلم سے آزاد نہیں ہوئے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ حکم دیا تھا :
واجعلوا بیوتکم قبلۃ وأقیموا الصلوۃ (یونس:۸۷)
’’اور اپنے گھروں کو قبلہ رخ بناؤ اور نماز قائم کرو۔‘‘
یہاں بنی اسرائیل کو کس قبلے کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے؟ کیا بیت المقدس کی طرف کہ جس کی بنیاد بقول عمار صاحب سینکڑوں سال بعد حضرت سلیمان کے دور میں رکھی جانی تھی؟ یہ آیت مبارکہ اس مسئلے میں نص قطعی کا درجہ رکھتی ہے کہ بنی اسرائیل کو بھی اپنی نمازوں میں جس قبلہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا تھا، وہ بیت اللہ ہی ہے‘ کیونکہ اس آیت میں قبلہ کا لفظ مطلقاً استعمال کیا گیا ہے یعنی مراد وہ قبلہ ہے جو کہ اس وقت اور اس سے ماقبل کی اقوام میں بطور قبلہ معروف تھا اور وہ سب کے نزدیک بیت اللہ ہی ہے۔ امام طبری اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں صحابہ و تابعین کے اقوال نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
عن مجاھد قال قال ابن عباس فی قولہ تعالی واجعلوا بیوتکم قبلۃ یقول وجھوا بیوتکم مساجدکم نحو القبلۃ ألا تری أنہ یقول فی بیوت أذن اللہ أن ترفع۔
’’حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ابن عباسؓ نے ’واجعلوا بیوتکم قبلۃ‘ کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اپنے گھروں یعنی مساجد کو قبلہ رخ بناؤ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’فی بیوت أذن اللہ أن ترفع‘‘‘ (اس آیت مبارکہ میں مساجدکے لیے ’بیوت‘ کا لفظ استعمال ہواہے )
عن سعید ابن جبیر عن ابن عباس واجعلوا بیوتکم قبلۃ یعنی الکعبۃ۔
’’حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، وہ حضرت عبد اللہ بن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے ’واجعلوا بیوتکم قبلۃ ‘ کی تفسیر میں فرمایا کہ قبلہ سے مراد ’’کعبۃ‘‘ ہے ۔‘‘
عن مجاہد بیوتکم قبلۃ قال نحو الکعبۃ حین خاف موسی ومن معہ من فرعون أن یصلوا فی الکنائس الجامعۃ فأمروا أن یجعلوا فی بیوتھم مستقبلۃ الکعبۃ یصلون فیھا سرا
’’حضرت مجاہد سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ’واجعلوا بیوتکم‘ سے مراد ہے کہ اپنے گھروں کو کعبہ کے رخ بناؤ۔ جب موسیٰ اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں نے اپنی عبادت گاہوں میں اکٹھے ہو کر نماز پڑھنے میں فرعون سے خوف محسوس کیا تو انھیں یہ حکم دیا گیا کہ وہ اپنے گھروں کو کعبہ کے رخ بنا لیں اور ان میں چھپ کے نمازپڑھیں۔‘‘
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ولئن أتیت الذین أوتوا الکتب بکل آیۃ ما تبعوا قبلتک وما أنت بتابع قبلتھم وما بعضھم بتابع قبلۃ بعض ولئن اتبعت أھواءھم من بعد ما جاء ک من العلم انک اذا لمن الظالمین (البقرۃ ۱۴۵)
’’اور اگر آپ ان اہل کتاب کے پاس ہر قسم کی نشانی ہی کیو ں نہ لے آئیں، وہ آپ کے قبلے کی پیروی ہر گز نہ کریں گے اور نہ آپ ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے ہیں اور ان میں بعض ‘ان کے بعض کے قبلے کی پیروی کرنے والا نہیں ہے اور اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی اس کے بعد کہ آپ کے پاس علم آ گیا تو تب آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے ۔‘‘
اس آیت مبارکہ کے انداز خطاب سے معلوم ہو رہا ہے کہ اہل کتاب سے بھی اللہ تعالیٰ کا یہ مطالبہ ہے کہ وہ بیت اللہ کو اپنا قبلہ بنائیں جوکہ تمام انبیا کا قبلہ رہا ہے، لیکن اہل کتاب کی ضد اور اسلا م دشمنی کے بارے میں خبر دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ ان اہل کتاب کے پاس ہر قسم کی نشانی لے آئیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ بیت اللہ ہی اصل قبلہ ہے‘ اہل کتاب کا بھی اور مسلمانوں کا بھی‘ تو پھر بھی یہ آپ کے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔
وما أنت بتابع قبلتھم‘ میں ’قبلتھم‘ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو ان کا قبلہ بنایا ہے۔ اس کی دلیل آیت کایہ اگلا ٹکڑاہے: ’وما بعضھم بتابع قبلۃ بعض‘  کیونکہ اس بات پر تو اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین قبلے نہیں بنائے، جبکہ آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے تین قبلوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ایک مسلمانوں کا قبلہ جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے قبلہ مقرر کیا ہے جیسا کہ اسی آیت مبارکہ کے سیاق و سباق سے واضح ہوتا ہے۔ دوسرا عیسائیوں کا اور تیسرا یہودیوں کا قبلہ ہے جنھوں نے اپنی خواہش اور آزادمرضی سے بیت المقدس کی مشرقی جانب اور قبۃ الصخرہ کو قبلہ بنا لیا تھا۔ امام ابن جریر طبری اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
وما لک یا محمد سبیل اتباع قبلتھم وذلک أن الیھود تستقبل بیت المقدس لصلاتھا وأن النصاری تستقبل المشرق فأنی یکون لک السبیل الی اتباع قبلتھم مع اختلاف وجوھھا
’’اے محمد! آپ کے لیے ان کے قبلے کی پیروی کرنا جائز نہیں ہے اور یہ اس وجہ سے کہ یہوداپنی نماز میں بیت المقدس کی طرف جبکہ نصاریٰ اس کے مشرقی حصے کی طرف رخ کرتے ہیں ۔اے نبی! آپ کیسے ان کے قبلے کی پیروی کریں گے، جبکہ خود ان میں آپس میں قبلے کے تعین میں اختلاف ہے۔ ‘‘
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
الذین آتیناھم الکتب یعرفونہ کما یعرفون أبناءھم (البقرۃ :۱۴۶)
’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی (یعنی اہل کتاب) وہ اس (یعنی بیت اللہ کے قبلہ ہونے ) کو اس طرح پہچانتے ہیں جیسا کہ وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ۔‘‘
امام ابن جریر طبری اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
یعرف ھؤلاء الأحبار من الیھود والعلماء من النصاری أن البیت الحرام قبلتھم و قبلۃ ابراہیم وقبلۃ الأنبیاء قبلک کما یعرفون أبناءھم
’’ یہود و نصاریٰ کے علما یہ جانتے ہیں کہ مسجد حرام ان کا قبلہ ہے اور یہی حضرت ابراہیم اور آپ سے پہلے تمام انبیا کا قبلہ تھا، جیسا کہ وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں بعض مفسرین نے ’یعرفونہ‘ کی ’ہ‘ ضمیر کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹایاہے لیکن ’ہ‘ ضمیر کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانا قرآن کے سیاق وسباق کے خلاف ہے ۔
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وان فریقا منھم لیکتمون الحق وھم یعلمون (البقرۃ:۱۴۶)
’’اور ان میں سے ایک گروہ حق بات (یعنی بیت اللہ ہی کے اصل قبلہ ہونے) کو جانتے بوجھتے چھپا رہا ہے۔‘‘
امام ابن جریر طبری ’وان فریقا منھم لیکتمون الحق وھم یعلمون‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
وذلک الحق ھو القبلۃ التی وجہ اللہ عزوجل الیھا نبیہ محمدا ﷺ یقول فول وجھک شطر المسجد الحرام التی کانت الأنبیاء من قبل محمد یتوجھون الیھا فکتمھا الیھود والنصاری فتوجہ بعضھم شرقا وبعضھم نحو بیت المقدس ورفضوا ما أمرہم اللہ بہ
’الحق‘سے مراد قبلہ ہے جس کی طرف رخ کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ مسجد حرام کی طرف اپنا رخ پھیر لیں جس کی طرف آپ سے پہلے تمام انبیا رخ کرتے تھے۔ پس یہود و نصاریٰ نے اصل قبلے(یعنی بیت اللہ ) کو چھپا لیا اور کسی نے مشرق کی طرف رخ کیا اور کسی نے بیت المقدس کو اپنا قبلہ بنایااور انھوں نے اس کا انکار کیاجس کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا۔‘‘
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
الحق من ربک فلاتکونن من الممترین (البقرۃ:۱۴۷)
’’یہ (یعنی بیت اللہ کا قبلہ ہونا) حق ہے آپ کے رب کی طرف سے‘ پس آپ (بیت اللہ کے ہی قبلہ ہونے میں) شک کرنے والوں میں سے نہ ہو جائیں۔‘‘
امام ابن جریر طبری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
أی فلا تکونن من الشاکین فی أن القبلۃ التی وجھتک نحوھا قبلۃ ابراھیم خلیلی علیہ السلام وقبلۃ الأنبیاء غیرہ 
’’اے نبی! آپ اس بارے میں بالکل بھی شک میں مبتلا نہ ہوں کہ جس قبلہ کی طرف ہم نے آپ کا رخ کیا ہے، وہی حضرت ابراہیم اور ان کے علاوہ تمام انبیا کاقبلہ ہے ۔‘‘
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ولکل وجھۃ ھو مولیھا فاستبقوا الخیرات (البقرۃ:۱۴۸)
’’اور ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے وہ اس کی طرف اپنے آپ کو پھیرنے والا ہے پس تم (اے مسلمانو)نیکیوں میں سبقت لے جاؤ۔‘‘
امام طبری اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
أی قد بینت لکم أیھا المؤمنون الحق وھدیتکم القبلۃ التی ضلت عنھا الیھود و النصاری وسائر الملل غیرکم فبادروا بالأعمال الصالحۃ شکرا لربکم
’’اے اہل ایمان! میں نے تمہارے لیے حق بات کو واضح کر دیا تھا اور اس قبلے کی طرف تمہاری رہنمائی کی ہے جس سے یہود و نصاریٰ اور تمہارے علاوہ تمام مذاہب بھٹک گئے تھے، پس تم اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے نیکی کے کاموں میں جلدی کرو۔ ‘‘
ب) بعض ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ بیت المقدس یہود کا قبلہ نہیں ہے بلکہ ان کا قبلہ بھی بیت اللہ ہی تھا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں :
کنا عند ابن عباس فذکروا الدجال أنہ قال مکتوب بین عینیہ کافر فقال ابن عباس لم أسمعہ ولکنہ قال أما موسی کأنی أنظر الیہ اذا انحدر فی الوادی یلبی (۲۱)
’’ہم ابن عباس کے پاس تھے کہ لوگوں نے دجال کا تذکرہ کیا کہ آپ نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوگا تو ابن عباس نے کہا، میں نے یہ بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی، بلکہ میں نے آپ سے سنا، آپ کہہ رہے تھے کہ جہاں تک حضرت موسیٰ کا معاملہ ہے تو گویا کہ میں ان کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ وادی میں تلبیہ کہتے ہوئے اتر رہے ہیں ۔‘‘
یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انبیاے بنی اسرائیل بھی حج کرنے کے لیے بیت اللہ کا ہی قصد کرتے تھے۔ علامہ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
و فی الحدیث أن التلبیۃ فی بطون الأودیۃ من سنن المرسلین 
’’اور اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ وادیوں کے درمیان میں تلبیہ کہنا رسولوں کی سنت ہے ۔‘‘
ایک دوسری روایت میں حضرت یونس بن متی کا بھی تذکر ہ ہے۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے :
عن ابن عباس أن رسول اللہ مر بوادی الأزرق فقال أی واد ھذا قالوا ھذا وادی الأزرق فقال کأنی أنظر الی موسی وھو ھابط من الثنیۃ ولہ جؤار الی اللہ عزوجل بالتلبیۃ حتی أتی علی ثنیۃ ھرشاء فقال أی ثنیۃ ھذا قالوا ثنیۃ ھرشاء قال کأنی أنظر الی یونس بن متی علی ناقۃ حمراء جعدۃ علیہ جبۃ من صوف خطام ناقتہ خلبۃ قال ھشیم یعنی لیف وھو یلبی (۲۲)
’’حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر وادی أزرق سے ہوا تو آپ نے سوال کیا کہ یہ کون سی وادی ہے؟ صحابہ نے کہا، یہ وادی أزرق ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا گویا کہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو گھاٹی سے اترتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور وہ بلند آواز سے تلبیہ کہ رہے ہیں۔ پھرآ پ ہرشاء کی گھاٹی پر آئے اور آپ نے پوچھا، یہ کون سی گھاٹی ہے؟ صحابہ نے کہا، یہ ہرشاء کی گھاٹی ہے تو آپ نے فرمایا، گویا کہ میں یونس بن متیٰ کودیکھ رہا ہوں کہ وہ ایک سرخ موٹی تازی مضبوط گوشت والی اونٹنی پر سوار ہیں اور انھوں نے اون کا ایک جبہ پہن رکھا ہے‘ ان کی اونٹنی کی لگام کجھور کے درخت کی چھال کی ہے اور وہ تلبیہ کہہ رہے ہیں ۔‘‘
اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ تمام انبیا بیت اللہ کاحج کرتے تھے ۔ عمار صاحب بنو اسرائیل کے کسی ایک نبی کے بارے میں یہ ثابت کردیں کہ اس نے بیت المقدس کا حج کیا ہو۔
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسیٰ، جن پر تورات نازل ہوئی‘ ان کا قبلہ بیت اللہ تھا۔ اگرعمار صاحب یہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان کے دور میں بنو اسرائیل کا قبلہ تبدیل ہو گیا تھا توا س کی کیا دلیل ہے کہ پہلے ان کا قبلہ بھی وہی تھا جو کہ تمام انبیا کا تھا، پھر حضرت سلیمان کے دور میں ان کا قبلہ بیت المقدس قرار پایا؟ أمر واقعہ یہ ہے کہ یہود نے اپنے اصل قبلہ ‘جو کہ حضرت موسیٰ کے زمانہ سے چلا آ رہا تھا‘ سے انحراف کرتے ہوئے اپنے مشورے اور اجتہاد سے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کر لیا تھا جیسا کہ امام طبری ‘امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے ۔
اسی طرح بعض صحیح احادیث میں بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی فضیلت ایک عام مسجد میں نماز پڑھنے سے زیادہ بیان کی گئی ہے۔ اگربیت المقدس یہودیوں کا قبلہ اور عبادت گاہ ہے تو وہاں نماز پڑھنے کی کیا تک بنتی ہے؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری طرز عمل یہ تھاکہ آپ چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی یہودیوں کی مخالفت کرتے تھے، چہ جائیکہ آپ مسلمانوں کو ان کے قبلے اور عبادت گاہ میں جا کر نمازپڑھنے کی ترغیب دلائیں۔
ج) بعض تابعین اورتبع تابعین کی آرا سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرون ثلاثہ میں یہ رائے بہت عام تھی کہ تمام انبیا کا قبلہ بیت اللہ ہی رہا ہے اور بیت المقدس کو قبلہ قرار دینا یہودیوں کی ایک اختراع تھی اور یہودیوں کی اسی اختراع کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے آزمایش بناتے ہوئے بیت المقدس کو کچھ عرصہ کے لیے ان کاعارضی قبلہ قرار دیا ۔ان میں سے چند ایک اقوال یہ ہیں :
عن السدی: ’’ یعرفونہ کما یعرفون أبناءھم‘‘ یعرفون الکعبۃ أنھا ھی قبلۃ الأنبیاء کما یعرفون أبناءھم وروی عن قتادۃ والربیع بن أنس والضحاک نحو ذلک 
’’حضرت سدی سے روایت ہے کہ ’یعرفون کما یعرفون ابناءھم‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ یہ بات کہ کعبہ ہی تمام انبیا کا قبلہ ہے‘ اس طرح جانتے ہیں جس طرح کہ وہ اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں۔ قتادہ‘ ضحاک اورربیع بن أنس سے بھی اسی قسم کا مفہوم مروی ہے ۔‘‘
عن الربیع قولہ تعالی ’الذین آتیناھم الکتب یعرفونہ کما یعرفون أبناءھم‘ عرفوا قبلۃ البیت الحرام ھی قبلتھم التی أمروا بھا کما عرفوا أبناءھم
’’حضرت ربیع سے روایت ہے کہ آیت مبارکہ ’الذین آتیناھم الکتب یعرفونہ کما یعرفون أبناءھم‘سے مراد ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ مسجد حرام ہی وہ قبلہ ہے جس کے استقبال کا ان کو حکم دیا گیا ہے جیسا کہ وہ اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں ۔‘‘
عن الربیع ’الحق من ربک فلا تکونن من الممترین‘ یقول فلا تکونن فی شک من ذلک فانھا قبلتک وقبلۃ الأنبیاء قبلک 
’’حضرت ربیع سے مروی ہے، وہ ’الحق من ربک فلا تکونن من الممترین‘ کے بارے میں کہتے ہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ اے محمد! آپ اس بارے میں کسی قسم کے شک وشبہ میں مبتلا نہ ہوں کہ کعبہ ہی آپ کا بھی اور آپ سے پہلے انبیا کا بھی قبلہ تھا۔‘‘
عن أبی العالیۃ قال: قال اللہ لنبیہ ’الحق من ربک فلا تکونن من الممترین‘ فیقول لا تکونن فی شک یا محمد ان الکعبۃ ھی قبلتک وکانت قبلۃ الأنبیاء قبلک 
’’حضرت أبو العالیہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہا ہے ’ الحق من ربک فلا تکونن من الممترین‘، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد! آپ اس بارے میں کسی قسم کے شک میں مبتلا نہ ہوں کہ کعبہ ہی آپ کا بھی قبلہ ہے اور آپ سے پہلے تمام انبیا کا بھی قبلہ تھا۔‘‘
عن أبی العالیۃ ’ولکل وجھۃ ھو مولیھا‘ قال للیھود وجھۃ ھو مولیھا وللنصرانی وجھۃ ھو مولیھا وھداکم اللہ أنتم ایتھا الأمۃ القبلۃ التی ھی القبلۃ وروی عن مجاھد أحد قولیہ والضحاک وعطاء والسدی والربیع نحوذلک 
’’حضرت ابو العالیہ ’ولکل وجھۃ ھو مولیھا‘ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہود کے لیے ایک جہت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتے ہیں، اسی طرح عیسائیوں کے لیے ایک جہت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتے ہیں، اور اے امت مسلمہ! اللہ تعالیٰ نے تمہاری اس قبلے کی طرف رہنمائی کی ہے جو کہ اصل قبلہ ہے ۔اس آیت کی تفسیر میں امام مجاہد کے دو قوال میں سے ایک قول یہی ہے۔ اس کے علاوہ ضحاک ‘عطا‘ سدی اورربیع سے بھی اس قسم کا قول نقل کیا گیا ہے۔ ‘‘
د) دلیل استصحاب سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہود کااصل قبلہ بیت اللہ ہی ہے ۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی استصحاب کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وعند الأصولیین ھو الحکم بثبوت أمر أو نفیہ فی الزمان الحاضر أو المستقبل‘ بناء علی ثبوتہ أو عدمہ فی الزمان الماضی‘ لعدم قیام الدلیل علی تغییرہ (۲۳)
’’أصولیین کے نزدیک‘ زمانہ حال یا مستقبل میں ‘کسی حکم کے ثبوت یا عدم ثبوت کی بنیاد ‘ماضی میں اس حکم کے ثبوت یاعدم ثبوت پر رکھنا‘ جبکہ اس حکم کے تبدیل ہونے کی کوئی دلیل نہ ہو‘ استصحاب کہلاتا ہے ۔‘‘
قرآنی نصوص ‘احادیث صحیحہ اور اجماع امت سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد بنو اسرائیل اور بنو اسماعیل کا قبلہ بیت اللہ تھا۔ اب اگر کوئی شخص اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ حضرت سلیمان کے زمانے میں بیت اللہ کو منسوخ کر کے ‘بیت المقدس کو بنو اسرائیل کا قبلہ مقرر کیا گیاتو اس پر واجب ہے کہ وہ اس بات کی دلیل پیش کرے کہ بیت اللہ کو بنو اسرائیل کے لیے بطور قبلہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔ کیا اسرائیلیات(کتاب مقدس) میں اس نسخ کی کوئی دلیل ہے؟
خلاصہ کلام یہ ہے کہ بیت المقدس مسلمانوں کا تو عارضی طور پر قبلہ مقرر کیا گیا، لیکن یہ یہود کا قبلہ کبھی بھی نہیں رہا۔ قرآن و حدیث تو کیا، اسرائیلیات (کتاب مقدس) میں بھی کوئی ایک بھی ایسی نص نہیں ہے کہ جس سے یہ واضح ہو تا ہوکہ اللہ تعالیٰ نے یہود کے لیے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا تھا،بلکہ قرآنی آیات ‘بہت ساری روایت ‘تاریخی حقائق اور أئمہ سلف کی آرا اس مؤقف کی تائید کرتی نظر آتی ہیں کہ یہود کا قبلہ بیت اللہ ہی تھا۔ جب یہ ثابت ہوا کہ بیت المقدس نہ تو یہود کی عبادت گاہ ہے اور نہ ہی یہ ان کا قبلہ ہے تو یہ دعویٰ بھی باطل ہے کہ بیت المقدس پر یہودیوں کا حق ہے، بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ بیت المقدس ’وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیھا‘ کے مطابق مسلمانوں کی عبادت گاہ اور سابقہ قبلہ ہے، اس لیے وہی اس کی تولیت کا بھی شرعی حق رکھتے ہیں۔
دوسروں کے مؤقف میں شکوک و شبہات پیدا کرنا اور اپنے مؤقف کے اثبات کے لیے ایک دلیل بھی پیش نہ کر سکنا‘ اگر اہل فن کے ہاں تحقیق اسی کو کہتے ہیں تو واقعتا عمار صاحب کا مضمون ایک تحقیقی مقالہ ہے ‘کیونکہ عمار صاحب نے اپنے پورے مضمون میںیہی کام کیا ہے۔ میں نے عمار صاحب کے مضمون کا کئی دفعہ بغور مطالعہ کیا لیکن اس طویل مضمون میں مجھے سوائے حضرت سلیمان کی دعا کے کوئی اور عبارت ایسی نظر نہیں آئی کہ جسے عمار صاحب نے بیت المقدس کو یہود کا قبلہ ثابت کرنے کے لیے پیش کیا ہو۔ عمار صاحب سے گزارش ہے کہ انھوں نے علما کے مؤقف کا رد تو بہت اچھا کر دیا ہے، اب ذرا اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کے لیے بھی کوئی دلیل پیش کریں۔ دوسروں کے مؤقف کا رد کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کا مؤقف ثابت ہو گیا ہے۔ 

حوالہ جات 

۱) سنن نسائی‘کتاب المساجد‘باب ذکر أی مسجد وضع أولا
۲) صحیح بخاری‘کتاب الجمعۃ‘باب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ و المدینۃ 
۳) فتح الباری مع صحیح بخاری ‘کتاب أحادیث الأنبیاء ‘باب قول اللہ تعالی و اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا
۴) سنن نسائی‘کتاب المساجد‘باب فضل المسجد الأقصی والصلاۃ فیہ
۵) أیضا
۶) سنن أبی داؤد‘کتاب المناسک ‘باب فی المواقیت
۷) سنن أبی داؤد‘کتاب الأیمان والنذور‘باب من نذر أن یصلی فی بیت المقدس
۸) صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ
۹) دلائل النبوۃ ‘امام بیہقی‘جلد ۲‘ص۴۵ ورواہ ابن کثیر فی تفسیرہ و اللفظ لہ 
۱۰) صحیح بخاری مع فتح الباری ‘کتاب أحادیث الأنبیاء ‘باب قول اللہ تعالی و اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا
۱۱) فتح الباری مع صحیح بخاری ‘کتاب أحادیث الأنبیاء ‘باب قول اللہ تعالی و اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا
۱۲) سنن نسائی‘کتاب المساجد‘باب فضل المسجد الأقصی والصلاۃ فیہ
۱۳) ماہنامہ اشراق:جولائی ۲۰۰۳‘ص۳۶
۱۴) زاد المعاد‘امام ابن قیم‘ص۹
۱۵) قصص النبیین‘امام ابن کثیر‘جلد ۱‘ص۱۶۶
۱۶) ماہنامہ اشراق:جولائی ۲۰۰۳‘ص۳۶
۱۷) ماہنامہ اشراق:جولائی ۲۰۰۳‘ص۴۱
۱۸) ماہنامہ الشریعۃ:اکتوبر۲۰۰۶‘ص۲۵
۱۹) الرد علی المنطقیین‘امام ابن تیمیہ ‘ص ۲۸۹و۲۹۰
۲۰) بدائع الفوائد ‘امام ابن قیم ‘جلد ۴‘ص۱۷۱
۲۱) صحیح بخاری ‘ کتاب الحج‘باب التلبیۃ اذا انحدر فی الوادی
۲۲) صحیح مسلم ‘کتاب الایمان ‘باب الاسراء برسول اللہ الی السموات و رواہ الامام احمد فی مسندہ و اللفظ لہ 
۲۳) أصول الفقہ الاسلامی ‘الدکتور وہبہ الزحیلی ‘جلد ۱‘ص۸۵۹

مسجد اقصیٰ کی بحث اور حافظ محمد زبیر کے اعتراضات

محمد عمار خان ناصر

مسجد اقصیٰ کی تولیت کی شرعی حیثیت کے حوالے سے ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۴ء میں ’الشریعہ‘ اور ’اشراق‘ کے صفحات پر جو بحث چلتی رہی ہے، برادرم حافظ محمد زبیر صاحب نے کم وبیش تین سال کے وقفے کے بعد اس کو دوبارہ چھیڑا ہے اور بحث وتنقید کے بعض نئے پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ مسجد اقصیٰ سے بنی اسرائیل کے حق تولیت کی نفی اور امت مسلمہ کے حق تولیت کے اثبات کے حوالے سے مختلف اطراف سے جو شرعی، قانونی یا تاریخی استدلالات سامنے آئے تھے، ہم نے ’الشریعہ‘ کے اپریل/مئی ۲۰۰۴ کے شمارے میں ان کا مفصل تنقیدی جائزہ لیا تھا، تاہم فاضل ناقد کی رائے میں کسی بھی ناقد نے ہماری ’’اصولی غلطی‘‘ کی نشان دہی نہیں کی۔ ان کی رائے میں اس بحث کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آیا مسجد اقصیٰ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کا قبلہ مقرر کیا گیا تھا یا نہیں۔ فاضل ناقد نے اس نکتے کو ہمارے استدلال کا بنیادی ستون قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے مخالف نقطہ نظر کے استدلالات کا ’’رد تو بہت اچھا کر دیا ہے‘‘ لیکن خود اپنے موقف کے حق میں مثبت طور پر ایک بھی دلیل پیش نہیں کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایسے دلائل وشواہد جمع کیے ہیں جن سے ان کے خیال میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کو بنی اسرائیل کا قبلہ مقرر کیے جانے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوا تھا، بلکہ اس کو یہ حیثیت انھوں نے ازخود اپنے اجتہاد سے دے دی تھی۔
ہمیں افسوس ہے کہ فاضل ناقد سرے سے ہمارے موقف اور استدلال ہی کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ہم نے اپنی تحریر میں مسجد اقصیٰ کے بنی اسرائیل کی عبادت گاہ اور قربان گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا قبلہ ہونے کا بھی ذکر کیا ہے اور اسی بات کے درست ہونے پر اطمینان رکھتے ہیں، تاہم واقعہ یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق دار بنی اسرائیل کوقرار دینے میں اس کا ’قبلہ‘ ہونا محض ایک اضافی بات کی حیثیت رکھتا ہے، اس پر ہمارے موقف کی بنیاد یا اس کے حق میں ہمارے استدلال کا انحصار ہرگز نہیں ہے۔ یہ بات اگر فرضاً درست تسلیم کر لی جائے کہ یہ مسجد ان کا ’قبلہ‘ نہیں تھی تو بھی ہمارے موقف یا استدلال میں سرمو کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، اس لیے کہ اس مسجد کو بنی اسرائیل کی عبادت گاہ، قربانی اور دیگر عباداتی رسوم کی ادائیگی کے لیے مقدس مقام اور روحانی مرجع ومرکز مقرر کیے جانے سے، جہاں تک ہم سمجھ سکے ہیں، فاضل ناقد کو بھی اختلاف نہیں، اور اسی پر ہمارے استدلال کی بنیاد ہے۔ فاضل ناقد ہمارے استدلال کا بنیادی مقدمہ اپنے ذہن سے طے کر کے اس کی دلیل ہماری تحریروں میں ڈھونڈھتے رہے اور ان کے بقول اس کے لیے انھیں ان تحریروں کو ’’کئی دفعہ بغور‘‘ پڑھنے اور صرف پڑھنے کی زحمت اٹھانا پڑی۔ اگر وہ تھوڑی سی معروضیت سے کام لینا گوارا کرتے تو انھیں ہمارا مقدمہ استدلال بحث کے آغاز ہی میں بالکل واضح اور غیر مبہم الفاظ میں لکھا ہوا مل جاتا۔ ہم نے لکھا ہے:
’’قرآن وسنت کی رو سے کسی مذہب کے ماننے والوں کو ان کی کسی عبادت گاہ، بالخصوص قبلہ اور مرکز عبادت کے حق تولیت سے محروم کرنا ایک ایسا نازک معاملہ ہے جو شارع کی جانب سے ایک واضح نص کا متقاضی ہے۔ اس کے بغیر اس معاملے میں محض عقلی استدلال کی بنیاد پر کوئی اقدام کیا ہی نہیں جا سکتا۔‘‘ (الشریعہ، ستمبر/ اکتوبر ۲۰۰۳، ص ۴۱)
اس اقتباس میں ’’کسی عبادت گاہ، بالخصوص قبلہ اور مرکز عبادت‘‘ کے الفاظ سے واضح ہے کہ حق تولیت کے حوالے سے ہمارے موقف کی بنیاد کسی مخصوص مقام کے کسی خاص مذہبی گروہ کی ’’عبادت گاہ‘‘ ہونے پر ہے، جبکہ اس کا ’قبلہ‘ ہونا اضافی طور پر اس کو ایک خصوصی حیثیت دے دیتا ہے۔ اب جہاں تک کسی ’عبادت گاہ‘ کے حق تولیت کا تعلق ہے تو فاضل ناقد نے اس ضمن میں بحث کو سرمو آگے نہیں بڑھایا بلکہ ان کی سوئی بھی سابقہ ناقدین کی طرح ایک ہی نکتے پر اٹکی ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
’’حضرت ابراہیم کی طرح حضرت موسیٰ اور حضرت سلیمان اور بنی اسرائیل کے تمام انبیا کے اصل ورثا اور جانشین مسلمان ہیں نہ کہ یہود و نصاریٰ۔ اگر حضرت سلیمان نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کی بھی تھی تو اس سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ اب یہ مسجد کافروں کی عبادت گاہ بن گئی ہے۔ حضرت سلیمان کے دور میں موجود بنی اسرائیل مسلمان تھے لہٰذا اس بنیاد پر اس مسجد کے وارث بھی تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض اور کینہ رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ ؐپر ایمان نہ لانے کی وجہ سے آج کل کے یہودیوں کے کافر ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے بلکہ ان کے کفر پر امت کااجماع ہے، لہٰذا مسجد اقصیٰ جو کہ مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے، اس پرایک کافر قوم کا حق کیسے جتایا جا سکتا ہے ؟‘‘
واقعہ یہ ہے کہ اس پورے استدلال پر ہم اپنی تحریر میں تفصیلی تنقید کر کے اپنی بساط کی حد تک اس کی خامی کو مختلف پہلووں سے واضح کر چکے ہیں۔ یہ تنقید ’الشریعہ‘ کے اپریل؍مئی ۲۰۰۴ کے شمارے کے تیس صفحات (ص ۶ تا ۳۵) پر پھیلی ہوئی ہے۔ فاضل ناقد نے اپنے مضمون میں ازراہ عنایت یہ تسلیم فرمایا ہے کہ ہم نے ’’علما کے مؤقف کا رد بہت اچھا کر دیا ہے‘‘۔ ہم نہیں سمجھ سکے کہ اگر ان کے پیش کردہ اس استدلال کا بھی ہم ’’بہت اچھا رد‘‘ کر چکے ہیں تو انھوں نے اسے دوبارہ کیوں پیش فرما دیا؟ اور اگر ہم اس استدلال کا ’’بہت اچھا رد‘‘ نہیں کر سکے تو پھر انھوں نے ہمارے اٹھائے ہوئے تنقیدی نکات سے تعرض کیوں نہیں کیا اور تنقید کے نقص یا کمزوری کو واضح کرنے کے بجائے محض استدلال کو دہرا دینے پر اکتفا کیوں کی ہے؟ 
اس تناظر میں ہم مسجد اقصیٰ کے زمانہ تعمیر اور اس کے قبلہ مقرر کیے جانے یا نہ کیے جانے کے حوالے سے فاضل ناقد کی اٹھائی ہوئی بحثوں سے اختلاف کا حق محفوظ رکھتے ہوئے سردست ان سے کوئی تعرض نہیں کر رہے۔ فاضل ناقد اگر اصل نکتہ اختلاف کے تصفیے کے بعد، ان ضمنی نکات پر بحث کو آگے بڑھانا چاہیں گے تو ہم ان کے حوالے سے بھی اپنی گزارشات تفصیل کے ساتھ ان کی خدمت میں پیش کر دیں گے۔ البتہ ہم سمجھتے ہیں کہ حالیہ ’’تاریخی وتحقیقی جائزے‘‘ میں فہم واستنباط اور تحقیق وتنقید کے جو نادر نمونے پیش کیے گئے ہیں، ان کو داد سے بالکل محروم رکھنا یقیناًناانصافی ہوگی۔ چنانچہ چند معروضات محض اس احساس کے تحت پیش کی جا رہی ہیں کہ فاضل ناقد ہمارے گریز کو خدا نخواستہ اپنی محنت اور کاوش کی ناقدری پر محمول نہ کر لیں۔
(۱) صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کی تاسیس کے مابین زمانی فاصلے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ، مسجد حرام کے چالیس سال بعد بنائی گئی تھی۔ 
فاضل ناقد نے اس روایت کو مسجد اقصیٰ کا زمانہ تعمیر متعین کرنے میں بنیادی ماخذ قرار دیا ہے اور اس ضمن میں تین آرا نقل کی ہیں: 
۱۔ اگر مسجد حرام کا بانی حضرت ابراہیم کو تسلیم کر لیا جائے تو مسجد اقصیٰ کے بانی بھی حضرت ابراہیم قرار پائیں گے۔ 
۲۔ اگر مسجد حرام کا پہلا معمار حضرت آدم کو مانا جائے تو مسجد اقصیٰ کے موسس بھی وہی قرار پائیں گے۔ فاضل ناقد نے قرائن وشواہد کی روشنی میں اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔
۳۔ مسجد حرام کے بانی تو حضرت ابراہیم ہیں، جبکہ مسجد اقصیٰ کی تاسیس حضرت یعقوب نے کی۔
ہم نے اپنی تحریر میں ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ روایت سے پیدا ہونے والے ایک تاریخی اشکال کے تناظر میں اس تیسری رائے کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا:
’’اس روایت پر یہ اشکال ہے کہ تاریخ کے مسلمات کی رو سے مسجد اقصیٰ کی تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں ہوئی اور ان کے اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے مابین‘ جو مسجد حرام کے معمار تھے‘ کئی صدیوں کا فاصلہ ہے جبکہ روایت میں دونوں مسجدوں کی تعمیر کے درمیان صرف چالیس کا فاصلہ بتایا گیا ہے۔ علمائے حدیث کے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کے مقام کی تعیین تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرما دی تھی اور مذکورہ روایت میں اسی کا ذکر ہے ‘جبکہ حضرت سلیمان نے صدیوں بعد اسی جگہ پر ہیکل سلیمانی کو تعمیر کیا۔اس لحاظ سے ان کی حیثیت ہیکل کے اولین بانی اور مؤسس کی نہیں ‘بلکہ تجدید کنندہ کی ہے۔‘‘
اب فاضل ناقد نے مذکورہ تین آرا میں سے پہلی دونوں رایوں کو تو ’’دلائل کی روشنی میں قوی‘‘ قرار دیا ہے، لیکن آخری رائے کی درستی کا امکان تک تسلیم کرنے سے اس قدر نفور کا اظہار کیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ ’علماے حدیث‘ میں سے کسی ایک کو بھی اس کا قائل تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، بلکہ اس کی بے وقعتی واضح کرنے کے لیے اس کو اختیار کرنے والے دو جید صاحبان علم، ابن قیم اور ابن کثیر رحمہما اللہ کو بھی ’علماے حدیث‘ کی صف سے نکال باہر کیا ہے۔ اس دوسری بات کے حق میں انھوں نے جو استدلال فرمایا ہے، اس سے تو اہل علم کسی تبصرے کی آمیزش کے بغیر براہ راست زیادہ لطف اندوز ہو سکتے ہیں، البتہ پہلی بات کے بارے میں ہم، محض اپنی کند ذہنی کی وجہ سے، فاضل ناقد سے یہ استفسار کرنا چاہیں گے کہ ازراہ کرم اس بنیادی فرق کی وضاحت فرما دیجیے جو پہلی توجیہ کو تو ’’دلائل کی روشنی میں قوی‘‘ بنا دیتا ہے، جبکہ تیسری توجیہ کو سرے سے قابل التفات ہی نہیں رہنے دیتا۔ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ جب مسجد حرام کا بانی حضرت ابراہیم کو تسلیم کر لیا جائے تو اس کے چالیس سال بعد بننے والی مسجد اقصیٰ کے موسس کے طور پر حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام، تینوں کے نام امکان کے درجے میں بالکل یکساں قرار پاتے ہیں اور جب تک کوئی یقینی قرینہ ان میں سے کسی ایک کو متعین کرنے کے حق میں نہ پایا جائے، قیاس اور تخمین کی حد تک تینوں میں سے کسی بھی صورت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حضرت ابراہیم کے اس مسجد کا بانی ہونے کے حق میں یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ وہ بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل دونوں کے جد امجد تھے، اس لیے انھوں نے ان دونوں مقدس مقامات عبادت کی تاسیس خود ہی فرما دی ہوگی۔ دوسری طرف حضرت اسحاق یا حضرت یعقوب کے بانی ہونے کے حق میں یہ قرینہ پیش کیا جا سکتا ہے کہ مسجد اقصیٰ چونکہ خاص طور پر بنی اسرائیل ہی کی ایک قومی عبادت گاہ تھی، اس لیے اس کی تاسیس بھی آل ابراہیم کی اسی شاخ کے کسی بزرگ یعنی حضرت اسحاق یا حضرت یعقوب نے فرمائی ہوگی۔ ابن قیمؒ اور ابن کثیرؒ نے مذکورہ امکانات میں سے دوسرے امکان کو ترجیح دی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ جیسے پہلے قیاس کے حق میں کوئی نص موجود نہیں، اسی طرح ابن قیمؒ اور ابن کثیرؒ بھی اپنے پاس کوئی قطعی دلیل نہیں رکھتے۔ فاضل ناقد سے ہمارا سوال یہ ہے کہ مسجد حرا م کا بانی حضرت ابراہیم کو قرار دینے کی رائے کو ’’دلائل کی روشنی میں قوی‘‘ تسلیم کرنے کے بعد مسجد اقصیٰ کے بانی کے حوالے سے پیدا ہونے والے یکساں درجے کے مختلف احتمالات میں سے ایک احتمال کی نفی کے لیے اتنے پاپڑ بیلنے کی ضرورت انھیں آخر کیوں پیش آگئی؟ کیا اس نکتے کا زیر بحث مسئلے یعنی مسجد اقصیٰ کی تولیت سے کوئی خاص تعلق ہے؟ حضرت ابراہیم کے بجائے حضرت یعقوب کو مسجد اقصیٰ کا بانی تسلیم کر لینے سے صورت حال میں آخر کون سا جوہری فرق پیدا ہو جاتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ محض خامہ فرسائی اور تنقید برائے تنقید کا شوق فاضل ناقد کو اس لاطائل بحث میں الجھا دینے کا سبب بن گیا ہے؟
(۲) فاضل ناقد نے یہ اعتراض بھی اٹھایا ہے کہ ہم نے ابن قیمؒ اور ابن کثیرؒ کی مذکورہ رائے کی کی تعبیر اس درجہ غلط کی ہے کہ وہ اس کے لیے ’’تحریف‘‘ کا لفظ استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس ’تحریف‘ کی تفصیل کرتے ہوئے فاضل ناقد نے بتایا ہے کہ ابن قیمؒ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو مسجد اقصیٰ کا بانی قرار دیتے ہوئے ’اسسہ‘ (انھوں نے اس کی بنیاد رکھی) کے الفاظ استعمال کیے ہیں، اور ابن کثیرؒ نے اس بات کو ’جعلہ مسجدا‘ (انھوں نے اس کو مسجد قرار دیا) کے الفاظ سے بیان کیا ہے، جبکہ ہم نے اس مفہوم کی تعبیر ’’مسجد اقصیٰ کے مقام کی تعیین کرنے‘‘ سے کر دی ہے۔ فاضل ناقد نے قارئین کی ذہانت کو اپنی ذہانت پر قیاس کرتے ہوئے ’’کسی مسجد کی بنیاد رکھنے‘‘ یا ’’کسی جگہ کو مسجد قرار دینے‘‘ اور ’’مسجد کے مقام کی تعیین کرنے‘‘ کے مابین پائے جانے والے زمین وآسمان کے فرق پر روشنی ڈالنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بہرحال فاضل ناقد کی ’دقیقہ رسی‘ کو تسلیم کرنے سے کوئی چارہ نہ پاتے ہوئے ہم صرف اتنا اضافہ کرنا چاہیں گے کہ علماے سلف کی رائے میں اس ’’تحریف‘‘ کا ارتکاب علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے بھی کیا ہے، جنھیں علماے حدیث کی فہرست سے خارج کرنے کے لیے فاضل ناقد کے نزدیک غالباً ان کا ’حنفی‘ ہونا ہی کافی ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں:
والجواب علی ما اختارہ ابن القیم ان تعیین مکان المسجد الاقصی کان من ید اسحاق علیہ الصلاۃ والسلام فانہ کان غرز وتدا ہناک کما فی التوراۃ۔ (فیض الباری، ۴/۳۷۲)
’’ابن قیم کی اختیار کردہ توجیہ کی رو سے اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کی جگہ کی تعیین اسحاق علیہ الصلاۃ والسلام کے ہاتھوں کر دی گئی تھی، چنانچہ تورات کے مطابق انھوں نے اس جگہ پر ایک میخ گاڑ دی تھی۔‘‘
فاضل ناقد نے مزید فرمایا ہے کہ حدیث میں وارد ہونے والے لفظ ’وضع‘ کا معنی ازروے لغت ’تعین کرنا‘ نہیں ہو سکتا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ فاضل ناقد ’تعین کرنے‘ کا مفہوم کیا سمجھتے ہیں، البتہ ہم نے ’تعیین کرنے‘ کے الفاظ اس جگہ کو مسجد کے طور پر مقرر کر دینے کے مفہوم میں استعمال کیے ہیں اور اس کے لیے ’وضع‘ کا لفظ عربی زبان میں بالکل موزوں ہے۔ امام اللغہ زمخشری ’ان اول بیت وضع للناس‘ (آل عمران، ۹۶ ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ومعنی وضع اللہ بیتا للناس انہ جعلہ متعبدا لہم (الکشاف، ص ۱۸۳)
’’وضع اللہ بیتا للناس  کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کو لوگوں کے لیے عبادت گاہ قرار دیا۔‘‘
زیر بحث توجیہ کی رو سے حدیث میں وارد ہونے والے لفظ ’وضع‘ کا مطلب بھی یہی ہوگا کہ حضرت اسحاق یا حضرت یعقوب علیہما السلام نے اس مقام کو عبادت گاہ کے طور پر متعین کر دیا تھا۔ مسجد اقصیٰ کا بانی حضرت یعقوب علیہ السلام کو قرار دینے پر ابن قیمؒ اور ابن کثیر ؒ تو فاضل ناقد کے ہاتھوں ’علماے حدیث‘ میں شامل ہونے کے شرف سے محروم ہو ہی چکے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ زمخشری علماے لغت کے زمرے میں شامل رہتے ہیں یا نہیں۔
(۳) ابن قیمؒ اور ابن کثیرؒ کی رائے کی جو تعبیر ہم نے اپنے الفاظ میں کی ہے، فاضل ناقد نے اسے ’’تحریف‘‘ قرار دیتے ہوئے اپنی گرمئ گفتار کا باقاعدہ جواز بھی پیش فرمایا ہے اور کہا ہے کہ ہمیں ان کے سخت لہجے پر ناگواری محسوس نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ ہم نے بھی مسجد اقصیٰ کی تولیت کے بارے میں اپنے ایک اجتہادی موقف کے مقابلے میں ’’علما کے کم و بیش اجماع کو کتمان حق اور تکذیب آیات اللہ سے تعبیر ‘‘ کیا ہے۔ اس کے لیے انھوں نے ہماری تحریر میں سے جو اقتباس نقل کیا ہے، اس کا پورا پس منظر ہم یہاں واضح کیے دیتے ہیں۔
یہ پیرا گراف جس بحث کے سیاق وسباق میں آیا ہے، وہ ’الشریعہ کے ستمبر/ اکتوبر ۲۰۰۳ کے شمارے کے ص ۶۷ پر ’’عالم عرب کا موقف چند علمی واخلاقی سوالات‘‘ کے عنوان سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے آغاز میں ہم نے لکھا ہے:
’’مسجد اقصیٰ کی تولیت کے حوالے سے مذکورہ دونوں نقطہ ہائے نظر کی کمزوری ہم واضح کر چکے ہیں، تاہم اختلاف کے باوجود یہ ماننا چاہیے کہ ان کی غلطی اصلاً علمی ہے اور غلط فہمی کے اسباب بھی بڑی حد تک قابل فہم ہیں۔ لیکن بے حد افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس باب میں امت مسلمہ کے رویے کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جس کی مشکل ہی سے کوئی علمی یا اخلاقی توجیہ کی جا سکتی ہے۔‘‘
اس ناقابل توجیہ رویے کی تفصیل کرتے ہوئے ہم نے لکھا ہے:
’’اس وقت امت مسلمہ کی نمائندگی کرنے والے مذہبی وسیاسی رہنماؤں، صحافیوں اور ماہرین تاریخ کی اکثریت سرے سے ہیکل سلیمانی کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتی۔ اس کے نزدیک ہیکل کا وجود محض ایک افسانہ ہے جو یہود نے مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرنے کے لیے گھڑ لیا ہے۔‘‘
اس موقف کے ترجمان رہنماؤں کے بیانات نقل کرنے کے بعد اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ہم نے لکھا ہے:
’’قرآن وسنت کی تصریحات، مسلمہ تاریخی حقائق، یہود ونصاریٰ کی مذہبی روایات، مسلمانوں کے تاریخی لٹریچر اور مسلم محققین کی تصریحات کی روشنی میں نہ اس بات میں کسی شک وشبہ کی گنجایش ہے کہ مسجد اقصیٰ دراصل ہیکل سلیمانی ہی ہے، نہ اس دلیل میں کوئی وزن ہے کہ اثریاتی تحقیق کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کے کوئی آثار دریافت نہیں ہو سکے اور نہ ہی اس حسن ظن کے لیے کوئی قرینہ ہے کہ مذکورہ موقف کے وکلا شاید حقائق سے بے خبر ہیں یا کوئی غلط فہمی انھیں لاحق ہو گئی ہے۔ خود فلسطین کے مسلم رہنما اسرائیل کے وجود میں آنے اور بیت المقدس پر صہیونی قبضے سے قبل تک ان تاریخی حقائق کو تسلیم کرتے رہے ہیں اور انھیں جھٹلانے کی جسارت انھوں نے کبھی نہیں کی۔‘‘ (ص ۶۹)
یہ وہ بحث ہے جس کا اختتام ہم نے درج ذیل سوال پر کیا ہے:
’’یہ نکتہ اب اہل علم کے لیے ایک کھلے سوال کی حیثیت رکھتا ہے کہ عالم عرب کا یہ کم و بیش اجماعی موقف‘ جس کو متعدد اکابر علماے دین و مفتیان شرع متین کی تائید و نصرت حاصل ہے اور جس کو مسلم اور عرب میڈیاتسلسل کے ساتھ دہرا رہا ہے ‘کتمان حق اور تکذیب آیات اللہ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟‘‘ (ص ۷۰)
اس تفصیل سے واضح ہے کہ جہاں تک مسجد اقصیٰ پر بنی اسرائیل کے حق تولیت کے منسوخ ہو جانے کی رائے کا تعلق ہے، ہم نے اس رائے سے اختلاف کے باوجود اسے ایک ’’علمی غلطی‘‘ کہا ہے اور اس کے پیدا ہونے کے اسباب کو بھی قابل فہم قرار دیا ہے۔ البتہ عالم عرب کے موجودہ سیاسی ومذہبی راہ نماؤں نے پوری ’روشن ضمیری‘ کے ساتھ ہیکل سلیمانی کی تاریخی حیثیت یا اس کے محل وقوع کے بارے میں مذہبی وتاریخی مسلمات کا انکار کرنے کی جو روش اختیار کر رکھی ہے، اس کی سنگینی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا یہ موقف ’’کتمان حق اور تکذیب آیات اللہ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں‘‘۔ اب اسے چاہے فاضل ناقد کی ذہانت کا کمال سمجھ لیا جائے یا ان کی دیانت داری کا کہ انھوں نے ہمارے اس تبصرے کو مذکورہ پوری بحث اور بالخصوص اس کے پہلے پیرا گراف سے کاٹ کر اہل علم کے اس موقف کے ساتھ نتھی کر دیا ہے جسے ہم خود ایک ’’علمی غلطی‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ علماے سلف کی آرا میں ہمارے قلم سے صادر ہونے والی جس ’تحریف‘ کی انھوں نے نشان دہی کی ہے، اس پر وہ یقیناًداد کے مستحق ہیں، لیکن خود اپنے اس ’معصومانہ تسامح‘ کے بارے میں وہ کیا ارشاد فرمائیں گے؟
(۴) فاضل ناقد نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ صخرۂ بیت المقدس کو قبلہ مقرر کر لینا محض یہود کی اپنی ’اختراع ‘ ہے جسے اللہ تعالیٰ یا اس کے نبیوں کی طرف سے سند تصدیق حاصل نہیں۔ اس دعوے کی تائید میں انھوں نے امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم رحمہما اللہ کی عبارات پیش کی ہیں۔ بدقسمتی سے یہاں بھی موضوعیت ان پر اتنی غالب ہے کہ انھوں نے دونوں بزرگوں کی عبارات پر پوری طرح غور کیے اور ان کے مدعا اور منشا کو ٹھیک طرح سے سمجھے بغیر انھیں اس دعوے کا مدعی ظاہر کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ ان عبارات میں مسجد اقصیٰ کے بنی اسرائیل کا شرعی لحاظ سے مستند قبلہ ہونے کی نفی نہیں کر رہے، بلکہ ’کعبہ‘ کے تقابل میں، جسے اللہ تعالیٰ کے براہ راست حکم کے تحت روز اول سے قبلہ مقرر کر دیا گیا تھا، مسجد اقصیٰ کے ’قبلہ‘ قرار پانے کے تاریخی عمل اور اس کے مختلف مراحل کو بیان کر رہے ہیں۔ ان کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دراصل براہ راست صخرہ کو قبلہ بنانے کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ بنی اسرائیل کے لیے قبلہ کی حیثیت خیمہ اجتماع کو حاصل تھی جس میں مقدس اشیا اور تبرکات پر مشتمل تابوت کو رکھا جاتا تھا۔ مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے بعد اس تابوت کو صخرۂ بیت المقدس کے مقام پر رکھ دیا گیا اور بنی اسرائیل اسی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ بعد میں تاریخی حوادث کے نتیجے میں تابوت ضائع ہو گیا تو اس جگہ یعنی صخرہ کو، جس پر تابوت رکھا گیا تھا، قبلے کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ کی بات بس اتنی ہے اور اس سے مسجد اقصیٰ کے مستند شرعی قبلہ نہ ہونے کا جو نتیجہ فاضل ناقد نے اخذ کیا ہے، وہ دونوں بزرگوں کے کلام سے صریح تجاوز پر مبنی اور سراسر موضوعیت کا شاخسانہ ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ بنی اسرائیل میں انبیا کا سلسلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد رکے بغیر مسلسل جاری رہا ہے، اس لیے خیمہ اجتماع کو ان کا قبلہ مقرر کرنے، پھر مسجد اقصیٰ میں صخرہ کی جگہ پر اس کو رکھنے اور تابوت کے ضائع ہو جانے کے بعد صخرہ کو قبلے کی حیثیت دینے کا یہ سارا عمل انبیا کی رہنمائی میں اور ان کی تائید ہی سے مکمل ہوا۔ اس لحاظ سے اس عمل کو پورا شرعی استناد حاصل ہے اور ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ میں سے کوئی بزرگ بھی اس کی نفی نہیں فرما رہے۔ چنانچہ دیکھیے، ابن تیمیہؒ نے کعبہ کو حضرت ابراہیم اور ان سے پہلے کے انبیا کا قبلہ تو قرار دیا ہے، لیکن ان کے بعد کے انبیا کے لیے کعبہ ہی کے ’قبلہ‘ ہونے کی، جیسا کہ فاضل ناقد کا اصرار ہے، نہ کوئی تصریح کی ہے اور نہ اشارہ۔ جبکہ ابن قیمؒ نے تو اس بات کی باقاعدہ تصریح کی ہے کہ بنی اسرائیل اور انبیاے بنی اسرائیل کے ’قبلہ‘ کی حیثیت مسجد اقصیٰ ہی کو حاصل رہی ہے۔ ’ہدایۃ الحیاریٰ‘ میں لکھتے ہیں:
وما صلی المسیح الی الشرق قط وما صلی الی ان توفاہ اللہ الا الی بیت المقدس وہی قبلۃ داود والانبیاء قبلہ وقبلۃ بنی اسرائیل (ص ۱۶۷)
’’مسیح علیہ الصلاۃ والسلام نے کبھی مشرق کی طرف رخ کر کے نماز نہیں پڑھی۔ وہ اپنے قبض کیے جانے تک بیت المقدس ہی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے جو حضرت داؤد کا اور حضرت مسیح سے پہلے آنے والے انبیا اور بنی اسرائیل کا قبلہ تھا۔‘‘
(۵) فاضل ناقد نے بنی اسرائیل کے لیے مسجد حرام ہی کے قبلہ مقرر کیے جانے کے حق میں یہ استدلال کیا ہے کہ سورۂ بقرہ، آیت ۱۳۲ کے مطابق حضرت یعقوب نے اپنی اولاد یعنی بنی اسرائیل کو ’ملت ابراہیم‘ یعنی دین اسلام کی پیروی کی وصیت فرمائی تھی۔ گویا فاضل ناقد کے نزدیک دین اسلام یا ملت ابراہیم کی پیروی میں اس قبلے کی پیروی بھی لازمی طور پر شامل ہے جس کا حکم ان کے خیال میں حضرت ابراہیم اور ان سے پہلے تمام انبیا کو دیا گیا تھا۔
فاضل ناقد نے یہ استدلال پیش کرتے ہوئے کس قدر گہرے غور وفکر سے کام لیا ہے، اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرنے کے لیے ہمیں ان کے اس مضمون کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جس میں انھوں نے جناب جاوید احمد غامدی کے ’تصور سنت‘ کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ غامدی صاحب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ دین اسلام کے مآخذ میں ’سنت‘ سے مراد دین ابراہیمی میں مقرر کیے جانے والے اعمال ورسوم کی وہ روایت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدید واصلاح اور بعض اضافوں کے ساتھ دین کی حیثیت سے امت مسلمہ میں جاری فرمایا۔ ان کی رائے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اصلاً حضرت ابراہیم ہی کے دین وملت اور اس کے احکام ورسوم کی پابندی کا حکم دیا گیا تھا اور اس کے لیے انھوں نے سورہ نحل کی آیت ۱۲۳ : ’ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراہیم حنیفا‘ سے استدلال کیا ہے۔ (اصول ومبادی، ص ۱۰) فاضل ناقد نے اس استدلال پر تنقید کرتے ہوئے ’الشریعہ‘ کے ستمبر ۲۰۰۶ کے شمارے میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ’ملت ابراہیم‘ کی پیروی سے شرائع واحکام کی پیروی مراد نہیں ہو سکتی، کیونکہ سورۂ بقرہ کی آیت ۱۳۰ میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ ملت ابراہیم کی اتباع نہیں کرتے، وہ بے وقوف ہیں۔ فاضل ناقد لکھتے ہیں:
’’ومن یرغب عن ملۃ ابراہیم الا من سفہ نفسہ‘ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر ہم ملت ابراہیم کی اتباع سے جزئیات میں ان کی اتباع مراد لیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ جن انبیا نے جزئیات میں حضرت ابراہیم کی اتباع نہیں کی، معاذ اللہ وہ بے وقوف ہیں۔ حضرت ابراہیم کی ملت کی اتباع سے مراد یہاں بھی ان کے اس رویے کی پیروی ہے جو انھوں نے اللہ کی اطاعت کے معاملے میں پیش کیا، یعنی اللہ کے لیے انتہائی درجے میں فرمانبرداری اختیار کرنا۔‘‘ (الشریعہ، ستمبر ۲۰۰۶، ص ۱۸)
فاضل ناقد کی اس تنقید سے اتفاق ضروری نہیں، لیکن ان کی اس رائے کو سامنے رکھتے ہوئے مسجد حرام کو بنی اسرائیل کا قبلہ مقرر کرنے کے حق میں سورۂ بقرہ کی آیت ۱۳۲ سے ان کے استدلال کا جائزہ لیجیے تو یہ دلچسپ صورت حال سامنے آتی ہے کہ اس آیت میں حضرت یعقوب کی طرف سے اپنی اولاد کو جس چیز پر کاربند رہنے کی وصیت کا ذکر ہے، وہ اس سے پچھلی آیت میں مذکور وہی ’ملۃ ابراہیم‘ ہے جس کے مفہوم کو فاضل ناقد مذکورہ اقتباس میں صرف توحید اور اطاعت اور فرماں برداری کے رویے تک محدود قرار دے چکے ہیں، لیکن جب خود انھیں مسجد حرام کو بنی اسرائیل کا قبلہ قرار دینے کے حق میں استدلال کی ضرورت پیش آئی ہے تو اسی ’ملۃ ابراہیم‘ کا سکڑا ہوا دائرہ وسیع ہو گیا ہے اور نماز اور حج کے لیے قبلہ ومرکز مقرر کرنے جیسے شرعی احکام بھی اس کے اندر شامل ہو گئے ہیں۔ کیا فاضل ناقد اپنی ان ’محققانہ اداؤں‘ پر غور کرنا پسند کریں گے؟ 
فاضل ناقد کے ’’تاریخی وتحقیقی جائزے‘‘ میں نادر نکات اور اچھوتے استنباطات کا استقصا یہاں مقصود نہیں، ورنہ ان کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ ابھی داد طلب ہے۔ ہم اس امید پر گفتگو کو یہاں ختم کر رہے ہیں کہ آں محترم محض ہماری ضمنی طور پر پیش کردہ گزارشات کو موضوع سخن نہیں بنائیں گے بلکہ اصل نکتہ اختلاف یعنی مسجد اقصیٰ کی تولیت کی شرعی حیثیت کے حوالے سے بھی علما کے استدلال پر ہماری تنقید کو، جو ان کی نظر عنایت کی منتظر ہے، اپنی فاضلانہ توجہ سے نوازیں گے۔ 
اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔ 

جناب وحید الدین خان کا علمی تفاخر

پروفیسر میاں انعام الرحمن

بھارت کے مذہبی اسکالر جناب وحید الدین خان کا نام ہم نے سنا ہوا ہے، لیکن ان کی فکر سے استفادہ کرنے کا ہمیں کبھی موقع نہیں ملا۔ پچھلے دنوں ایک دوست نے ماہنامہ تذکیر لاہور کا شمارہ ۱، جلد ۲۰، جنوری ۲۰۰۷ عنایت کیا۔ اس شمارے میں ’’ ایک علمی برائی ۔۔ دعویٰ بلا دلیل‘‘ کے زیرِ عنوان مراسلت کی چند مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ اس مراسلت کے مطالعے سے ہمیں حیرت ہوئی کہ کوئی مذہبی اسکالر علمی برائی کے رد میں علمی بڑائی کا خود پسندانہ اظہار اس حد تک بھی کر سکتا ہے۔ وحید الدین صاحب کا متشددانہ اصرار ہے کہ ’دارالدعوۃ ‘ کی اصطلاح صرف ان کے’ مجتہدانہ ذہن‘ کی پیداوار ہے۔ نہ تو ان سے قبل اور نہ ہی ان کے بعد یہ اصطلاح کسی بھی ذی شعور کے ذہن میں آزادانہ طور پر آسکتی ہے۔ اب دنیا بھر میں جو شخص بھی یہ اصطلاح استعمال کرتا ہے، وہ درحقیقت وحیدالدین صاحب کا خوشہ چین ہوتا ہے۔ یہ مراسلت ۲۰۰۶ کی ہے۔ جناب وحید الدین کے علمی تفاخر وخود پسندی کے رد کی خاطر اور ریکارڈ کی درستی کے لیے ہم گزارش کریں گے کہ ’دارالدعوۃ‘ کی یہی اصطلاح ہم نے اپنی ایک تحریر مطبوعہ اپریل ۲۰۰۴ میں استعمال کی تھی، لیکن ہم یہ دعویٰ ہر گز نہیں کرتے کہ اس کے بعد جن لوگوں نے یہ اصطلاح اپنی تحریروں میں برتی ہے، انھوں نے اسے لازماً ہماری تحریر سے چرایا ہے۔ البتہ ہم یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ہماری تحریر میں اس اصطلاح کا در آنا عالمگیریت کی اٹھان اور موضوع کے خاص سیاق کے سبب سے تھا، اس لیے اس کا جناب وحیدالدین کی ’’فکر‘‘ سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے دوست پروفیسر محمد اکرم ورک کا ایم فل کا مقالہ ’’صحابہ کرامؓ کا اسلوبِ دعوت و تبلیغ‘‘ جب کتابی صورت میں آ رہا تھا تو انھوں اس پرکچھ لکھنے کا حکم صادر کیا۔ ہم نے ’’عہدِ زر میں عہدِ زریں کی دعوت‘‘ کے عنوان سے چند سطریں قلم بند کیں جو اسی کتاب کے صفحہ ۱۳ تا ۱۹ میں شائع ہو ئیں۔ اس تحریر میں ایک مقام پر ’دارالدعوۃ ‘ کی اصطلاح، خیالات کی رو کے ساتھ خودبخود سامنے آئی۔ ملاحظہ کیجیے :
’’ سرد جنگ کے خاتمے اور نائن الیون کے واقعہ کے بعددنیا میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ایک طرف اگر امریکہ یک قطبی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے تو دوسری طرف قومی ریاست جرمِ ضعیفی کی سزاوار ٹھہر کر مرگِ مفاجات کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اندریں صورت عالمی سطح پر نئی فکری صف بندی راہ پا رہی ہے ۔ تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ گھڑ کر تہذیبِ اسلامی پر دہشت گردوں کی تہذیب کا لیبل چسپاں کر کے ’ مارکیٹ اکانومی ‘ کے دیوتا کو گلوبل کردار سونپا جا رہا ہے۔ گلوبلائزیشن کے نام پر پوری دنیا کو ایسی فکر کے زیرِ نگیں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کا اخلاقیات، زندگی کی اعلیٰ قدروں اور انسانیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یوں سمجھیے کہ ایک عہدِ زر، بد ترین عہدِ زر کو جنم دینے والا ہے۔ اب یہ فیصلہ کن گھڑی ہے۔ نوعِ انسانی نے فیصلہ کرنا ہے کہ زندگی کے کسی اعلیٰ آدرش سے اپنی وابستگی ظاہر کرے یا پھر غلامی کے نئے ایڈیشن کو چپ چاپ قبول کر لے۔ 
مذکورہ بالا صورتِ حال یہ واضح کرنے کو کافی ہے کہ ریاست کا روایتی تصور آخری دموں پر ہے، عالمگیریت قدم بڑھا رہی ہے، لہٰذا موجودہ دور میں دارالحرب اور دارالاسلام کی روایتی بحثیں بھی اہمیت کھو چکی ہیں:
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں 
میں اپنی تسبیحِ روز وشب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ!
نئے حوادث ہمیں خبر دے رہے ہیں کہ اب پوری دنیا کو ’وحدت ‘ کی صورت میں دیکھنا ہوگا، اس لیے نہ تو اسے دارالحرب قرار دے سکتے ہیں اور نہ ہی دارالاسلام۔ بہتر یہی ہے کہ ہم دنیا کو ’دار الدعوۃ‘ قرار دیں کہ ہمارا دین عالمگیر ہے، ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم رحمت للعالمین ہے اور ہمارا رب، رب العالمین ہے۔ اس تناظر میں پروفیسر محمد اکرم ورک کی کتاب ’’ صحابہ کرامؓ کا اسلوبِ دعوت و تبلیغ‘‘ بہت بر وقت سامنے آئی ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ شاعری کی طرح نثر میں بھی ’ توارد ‘ واقع ہو سکتا ہے۔ اس لیے صحیح علمی رویہ یہ ہے کہ انسان تفاخر کے بجائے تواضع اپنائے اور کسی بھی دوسرے انسان کے ذہنی امکانات کا انکار کرنے سے پرہیز کرے۔ 

حضرت مدنیؒ اور تجدد پسندی

مفتی رشید احمد علوی

ویسے تو عنوان زدہ کلمات بذات خود ایک مزاح ہیں، لیکن کبھی قارئین کسی حقیقت تک رسائی کے لیے ایسے مزاح کی زحمت برداشت کرلیا کرتے ہیں۔ البتہ جب حضرت مدنی جیسی نابغۂ روزگار ہستیوں کے افکار سے من مرضی کے مفہوم ومعنی اخذ کیے جانے لگیں تو اس وقت اس قسم کے مزاح کو تحریر میں لانے کے لیے قارئین کرام سے بصد احترام معذرت ہے ۔
بات اصل میں یہ ہے کہ حضرت مدنی کا ہندوستان میں بسنے والوں کے لیے ایک قومی نظریہ تھا۔ آپ ہند میں دو قومی نظریہ کے علمبردار یا قائل نہ تھے، اور آپ کا فرمان یہ تھا کہ ہندوستان میں بسنے والے خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، وہ ایک ہی قوم کے افراد ہیں۔ اس نقطۂ نظر کی وجہ سے بہت سے لوگوں کوحضرت مدنی کے ایمان وعمل کے بارے میں دریدہ دہنی کا موقع ملا۔ یہ الگ بحث ہے کہ حضرت مدنی کا نقطہ نظر درست تھا یانہیں، لیکن پاکستان بننے کے بعدجب پہلا قومی شناختی کارڈ یا پہلا پاسپورٹ بنایا گیا توحضرت مدنی کے مخالفین کایہ عمل اپنے ہی منہ پر طمانچہ تھا، کیونکہ جو لوگ اب تک یہ دعویٰ کرتے چلے آ رہے تھے کہ قومیں مذہب سے بنتی ہیں، وہی اب پاکستان میں آکر لوگوں سے مخاطب تھے کہ ہم سب ایک قوم ہیں اور یہاں کوئی ہندویا سکھ یا عیسائی نہیں ہے۔ اس طرح اپنے افکار کی تغلیط خود اپنے ہی ہاتھوں کر دی گئی۔ اس کے باوجود آج تک ہم اس مخمصے میں بحیثیت قوم پھنسے ہوئے ہیں کہ قوم مذہب کی بنیاد پر ہوتی ہے یا وطن کی بنیاد پر؟ اور ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا مضمون ’’مطالعہ پاکستان‘‘ تضادبیانیوں کی وجہ سے ہمارے ذہنوں کو بھی متضاد افکار کا ملغوبہ بنا رہا ہے جس کا نمونہ کسی بھی یونیورسٹی یا کالج کے طلبا بلکہ اساتذہ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ سب اسی فکری تضاد کا شکار ہیں۔ اسی فکری تضاد کی ایک زندہ مثال ماہنامہ ’الشریعہ ‘کے لکھنے والوں میں بعض اہل علم ودانش، مفکرین اور گرامی قدرپروفیسر حضرات ہیں۔ 
معاملہ یوں ہے کہ مولانا عبد الباری ندوی نے، جن کا حضرت مدنی سے اصلاح باطن کا تعلق تھا، اپنے ساتھ پیش آنے والے کچھ حالات بیان کیے اور ان کے پیش نظر کچھ سوالات حضرت کی خدمت میں ارسال کیے جو اصلاح احوال کے لیے تھے۔ بقول مولانا عبد الباری ندوی حالات یوں تھے کہ: ’’اثنائے سفر میں ایک واقعہ پیش آیا کہ بھوپال اسٹیشن پرکچھ کھانا لینے کے خیال سے ڈبہ سے باہر آیا، سامنے ہی ایک خوانچہ دکھائی دیا جس میں تین بڑی بڑی المونیم کی پتیلیاں بند رکھی تھیں۔ بیچنے والاسامنے نہ تھا۔ قرینہ سے مسلمان سمجھا اور ایک پتیلی کے صرف ڈھکن کو ہاتھ لگادیا۔ اتنے میں وہ آگیا تو ہندو تھا۔ کہا کہ اب تو سب خراب ہوگیا، اور سب کے دام آپ کو دینا پڑیں گے ...... اور جو کچھ اس نے مانگا، دے دیا اور پوریاں وغیرہ جو کچھ تھیں، وہ اسی جگہ مسلمانوں کو تقسیم کردیں ۔‘‘ 
اس واقعہ کے بعد جو خیالات مولانا ندوی کے ذہن میں پیدا ہوئے، وہ یوں ہیں کہ آئندہ میں بھی ہر قسم کی اشیا کی خریدو فرخت صرف مسلمانوں سے ہی کیا کروں، اور غیر مسلموں سے، چاہے وہ ہندوہوں یا انگریز، مستقل بنیادوں پر قطع تعلق کر لینا چاہیے۔ اس پس منظر میں کچھ سوالات ذہن میں پیدا ہوئے جو اپنے شیخ ومربی کی خدمت میں یہ کہہ کر ارسال کردیے کہ’’جیساارشاد ہوگا، اسی کے مطابق ان شاء اللہ عمل کروں گا، لہٰذا نفس واقعہ اور حال عرض کردینے کے بعد جو خطرات و سوالات دل میں پیدا ہورہے ہیں، عرض کرتا ہوں‘‘۔ ان سوالات کا خلاصہ ذیل میں عرض کیا جاتا ہے ۔
۱۔ مشرکین کا نجس ہونا تو نص سے ثابت ہے، اس مفہوم کو صرف معنوی نجاست کہنے کی بجائے اس کو ظاہری نجاست بھی سمجھنا چاہئے، اور ہر قسم کے مشرکین سے، خواہ ہندو ہوںیا انگریز، ان سے ہر لحاظ سے اور ہر قسم کی قطع تعلقی کر لی جائے ۔
۲۔ کافروں کے ساتھ ترک موالات کے ساتھ ساتھ ترک معاملات بھی کیا جانا چاہیے ۔
۳۔ یہ قطع تعلقی بجائے چند ایام کے یا چند معامالات کے، ہمیشہ کے لیے ہونی چاہیے۔ 
پہلا سوال چونکہ خالص فقہی نوعیت کا ہے، لہٰذاحضرت مدنی نے اس کا جواب بھی خالص فقہی انداز میں نے عنایت فرمایا۔
دوسرے سوال میں چونکہ مولانا ندوی اسٹیشن پر پیش آمدہ واقعہ سے دل برداشتہ تھے، اس لیے انتقام کی اجازت پر مشتمل تھا، لہٰذا ایک مصلح کو اس کا جواب جیسا دینا چاہئے تھا، وہ جواب آپ نے بطریق احسن دیا۔
تیسرا، چوتھا، پانچواں اور چھٹا سوال اس زمانے میں چلنے والی تحریک ’ترک موالات‘ کی مناسبت سے تھا جس کا جواب ایک زیرک اور مدبر، دانشمندوحکیم سے جیسی امید کی جاسکتی تھی، اسی طرح دیا گیا۔
اس سوال میں تمام کفار، خواہ وہ ہندو ہوں یا انگریز، سب کے ساتھ ترک موالات کا مطالبہ کیا گیا تھا،جبکہ تحریک ترک موالات میں صرف انگریزوں کے ساتھ قطع تعلقی کی جارہی تھی، جس کے جواب میں حضرت مدنی نے فرمایا:
۱۔ ’’احکام سیاسیہ ایک حالت نہیں رکھتے۔ کبھی زہر علانیہ دینے کا موقعہ ہوگا، اور کبھی شکر کا شربت پیش کرنا ہوگا۔‘‘
۲۔ بجائے جذبات میں کوئی ایسا شدید فیصلہ کرنے کے جس سے وقتی مصالح اور دائمی فوائد سے محرومی ہوجائے، ’’ضروریات اسلامیہ اور وقتیہ کا لحاظ رکھتے ہوئے الانفع فالانفع پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ ‘‘
اور اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ’’انگریزوں کے ساتھ معاملہ سیاسی غیر مذہبی نہیں بلکہ مذہبی ہے، البتہ وہ اکبرالاعداء اور اقوی الاعداء اور اضرّ الاعداء ہیں، ان کی اسلامیت سے ناامیدی ہے ۔‘‘ جبکہ ہندوؤں کے بارے میں ایسی ناامیدی ہرگز نہیں ہے، کیوں کہ اکثر ہندوستان میں آباد اقوام میں سے لوگ مسلمان ہوئے ہیں، اگرچہ چند معروضی حالات کی وجہ سے اس میں رکاوٹ آگئی ہے۔ لہٰذا فرمایا’’مانحن فیہ ایسا نہیں ‘‘بلکہ مکتوب کے ابتدائی حصے میں حضرت مدنی نے تفصیل کے ساتھ ان معروضی حالات کا تجزیہ کیا ہے جن کی وجہ سے ہندو ؤں کے نزدیک مسلمان ہونا اتنا نفرت کا باعث بن گیا۔ اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: 
’’تاریخ بتلاتی ہے کہ ہند میں ابتداء اً جب مسلمان آئے، عام طور سے اہل ہند بدھ مذہب رکھتے تھے اور ترک چھوت چھات تو درکنار، بیاہ شادی تک بخوشی کرتے تھے ..... اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اختلاط نے نہایت قوی تاثیر کی۔ خاندان کے خاندان مسلمان ہوگئے۔ مغربی پنجاب خصوصاً سندھ میں مسلمانوں کی زیادتی کا بڑا راز یہی ہے۔ ‘‘
اور انگریزوں کے بارے میں چونکہ سائل کو یہ شبہ تھا کہ شاید ایک وقت آئے گا جب ہم ان سے ترک موالات کے مسئلہ میں نظر ثانی کرلیں گے اور ان کے ساتھ تمام معاملات میں تعلقات قائم کر لیے جائیں گے، تو اس کی وضاحت میں حضرت مدنی نے فرمایا: 
’’اگر وہ [انگریز] اسلامی دنیا پر مظالم گزشتہ سے تلافی اور آئندہ کے لیے دست بردار ہوجائیں تو ترک موالات وغیرہ میں تخفیف ضرور ہوگی، البتہ تابقاء کفر مصالحت کی بنا پرنہ موالات تامہ ہوگی اور نہ معادات‘‘ ۔
۴۔ مسئلہ چھوت چھات جس کی وجہ سے مولاناندوی کو ذاتی طور پر ایک تلخ تجربہ ہوچکا تھا اور اسی وجہ سے انہوں نے حضرت مدنی کویہ مکتوب لکھا اورجو کچھ مکتوب میں مندرج ہوا،وہ اس مکالمہ کا باعث بنا تھا جس کے جواب میں حضرت مدنی نے فرمایاکہ :
’’اگرچہ انگریز وہ معاملہ چھوت چھات کا نہیں کرتے، مگر اسلام کے بدترین اوراعلیٰ ترین دشمن ہیں ، بخلاف ہنود کے۔ یہ ہمارے پڑوسی ہیں اور پڑوسی اگرچہ کافر ہو، پڑوسی پر حق رکھتا ہے، کما وردفی الحدیث، ان کے ساتھ ہمارا خون ملا ہوا ہے، رشتہ اور قرابت داری ہے، یا آبا کے ساتھ یا جدّات کے ذریعے سے۔ ان کے ساتھ ہندوستان میں ہم کو مجبوراً رہنا اور درگزر کرنا ہے، بغیر میل جول جس قدر بھی ممکن ہو، ہندوستان میں گزرکرنا عادت مستحیل ہے ، اس لیے ضروریات زندگیہ اس طرف تخفیف ضرور پیدا کریں گی، انگریز سے ہم کو نہ یہ تعلقات ہیں، نہ مجبوریت ‘‘۔
اس بیان سے ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ایک مصلح یا ایک فقیہ کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرہ میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل اس انداز میں پیش کرے جس سے مسائل حل ہوں، اور لوگوں کا زندگی گزارنے کا عمل درست سمت میں احسن طریقہ سے چلتا رہے، اور حضرت مدنی نے اپنے اس جواب میں اس کا پوری طرح اظہار فرمایا۔
تحریر میں حضرت مدنی نے تاریخی مثالیں دیتے ہوئے اس سے پہلے کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’عوام ہند کی ذہنیت ہمیشہ سے تارکین دنیا کی پرستش کرنے والی واقع ہوئی ہے، خصوصاً ہندو ذہنیت جس قدر سادھواور فقیر کی پرستش کرتی ہے، وہ اظہر من الشمس ہے۔ یہ ذہنیت بہت جلد شرق سے غرب اور شمال سے جنوب تک پھیل گئی اور وہ اس میں کامیاب ہوگئے۔ چونکہ اسلامی قوت کا قوت سے ان کو مقابلہ کرنے میں باوجود مساعئ عظیمہ کا میابی نہیں ہوئی، اس لیے اسی طریقے پر ان کی جدجہد محصور ہوگئی، اسی کو انہوں نے آلۂ کار مدافعت بالقویٰ کا بھی بنانا چاہا‘‘۔
اور ہندؤں میں تہذیبی تبدیلی کے جوحالات سامنے آئے، اس کی نشان دہی اور اس کا حل بتاتے ہوئے حضرت مدنی نے فرمایا:
’’پادشاہان اسلام نے اولاً اس طرف توجہ ہی نہیں کی، بلکہ وہ تمام باتوں کا قوت سے مقابلہ کرتے رہے ،مگر شاہان مغلیہ کو ضرور اس طرف التفات ہوا، خصوصاً اکبر نے اس خیال اور اس عقیدے کو جڑ سے اکھاڑنا چاہااور اگر اس جیسے چند بادشاہ اور بھی ہوجاتے یا اس کی جاری کردہ پالیسی جاری رہنے پاتی تو ضرور بالضرور برہمنوں کی یہ چال مدفون ہوجاتی اور اسلام کے دلدادہ آج ہندوستان میں اکثریت میں ہوتے۔ اکبر نے نہ صرف اشخاص پر قبضہ کیا تھا بلکہ عام ہندو ذہنیت اور منافرت کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیاتھا۔‘‘ 
پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت مدنی کا یہ قول تفرد نہیں اور نہ ہی اس بات میں حضرت مدنی اکیلے اور تنہا ہیں ،بلکہ اگر ’الشریعہ‘ کی مجلس ادارت کے رکن رکین تاریخ کی کتب پر نظر ڈالتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ اکبر کو بدنام کرنے والے صرف ’’دوقومی نظریہ ‘‘کے علمبردار تھے، نہ کہ ہندوستانی قومیت کے علمبردار، اوراس مسئلے پرتاریخ میں بہت سے افراد ایسے مل جائیں گے جو اکبر کی پالیسیوں کو اس کے سیاسی منظر نامہ میں دیکھ کر درست قرار دیتے رہے ہیں، اور ہندوستان میں سیکولرازم کا اولین علمبردار جلال الدین اکبر کوقراردیتے رہے ہیں جو مسلمانوں میں پہلے حکمران ہیں جوتمام ادیان کو ساتھ لے کر ہندوستان پر حکمرانی کرنے کے قائل تھے۔ آج اس بات کوصدیاں بیت جانے کے بعد اور مسلمانوں کا بٹوارہ کیے جانے اور تاریخ کے سب سے بڑے قتل عام کے بعد بعض روشن خیال اور مغرب کے پروردہ مفکرین سیکولرازم کی طرف متوجہ ہونا اپنے لیے سعادت دارین سمجھتے ہیں، اور حضرت مدنی کے مکتوبات میں سے کچھ کلمات کو توڑ مروڑ کراپنی مصنوعی روشن خیالی کے چہرے پر سجانے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ اس مملکت کا حصول اس سوچ سے یکسرمختلف تھا۔ ا ور حقیقت حال تو یہ ہے کہ نہ اکبر کی تجدد پسندی پر کوئی اجماع ہے اور نہ حضرت مدنی نے کسی اجماع کی مخالفت کی۔ یہ صرف کور باطنی کی وجہ سے یا نگاہ حقیقت بین سے محرومی کی وجہ سے اور اجماع کے مفہوم سے نا آشنائی کی وجہ سے یا اس بات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے کہ تاریخ میں اجماع نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ ایک فقہی اصطلاح ہے، یا نظریۂ قومیت سے ناآشنائی کی وجہ سے، یا ہندوستان کی قدیم تاریخ کی وجہ سے، یا روشن خیالی وتجدد پسندی کے شوق میں بے بہرہ ہوجانے کی وجہ سے ہے کہ ’رکن رکین ‘کو حضرت مدنی کا اجماع کے خلاف ہونا اور اکبر کی پالیسیوں کا خلاف اجماع ہونا نظر آرہا ہے۔
جہاں تک اکبر کی مذہبی پالیسیوں کا تعلق تھا، اس پر حضرت مدنی نے واضح الفاظ میں لکھا کہ مسئلہ چھوت چھات پر اکبر جیسا زیرک ودانا حکمران کیوں قابو نہ پاسکا، کیونکہ ’’ادھر تو اکبر نے نفس دین اسلام میں بھی کچھ غلطیاں کیں جن سے مسلم طبقہ میں اس سے بد ظنی ہوئی‘‘ اس لیے کہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا جتنا اس کو بنا دیا گیا۔ اس کو دین الہٰی کہا گیا اور اس کے بارے میں مسلمانوں میں بداعتقادی کی وجہ سے یا مغلوں سے ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے یا سیاسی حالات سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کو خوب بدنام کیا گیا، اور اسی پس منظر میں حضرت مدنی فرماتے ہیں: ’’اگرچہ بدظنی کرنے والے غافل اور کم سمجھ تھے‘‘۔ یہ تو اپنوں کا حال تھا کہ مسلمان حکمرانوں کی پالیسیوں کو دیکھ کر درست رائے قائم کرنے کی بجائے الٹا اس کو مورد طعن وتشنیع بنایا جانے لگا، اور دوسری طرف ہندوؤں میں جو مسئلہ چھوت چھات کا تھا اور اس کو ختم کرنے کی کوشش اکبر نے کی، ’’ادھر برہمنوں کے غیظ وغضب میں اپنی ناکامی دیکھ کر اشتعال پیدا ہوا‘‘ اور اس کے ساتھ ہی انگریزوں کی منافرت بین الاقوام کی پالیسیوں، سیواجی کی تاریخی نفرت انگیزی، سکھوں کی مسلم دشمنی کی تاریخ، وہ عناصر ہیں جن کی وجہ سے ہندوؤں میں چھوت چھات کا مسئلہ اور زیادہ بڑھا اور ہند میں آباد اقوام میں نفرت بڑھتی چلی گئی ۔
اگر ’معزز رکن رکین‘ مولانا نجم الدین اصلاحی کا حاشیہ دیکھ لیتے تو شایدروشن خیالی کے من میں چھپے ہوئے تجدد پسندی کے بھوت کو وہ اس طرح رام نہ کرتے جیسے انہوں نے کیا ہے، مگر محترم کو تو گلوبل بننے کی فکر دامن گیر ہے ،اور اس شوق کوبھی پورا کرنابہت تھا کہ بازار سے گلوب کو لے کراپنے سامنے رکھتے اورایک نظر میں کئی ممالک کو دیکھتے رہتے اور یوں گلوبل بن جاتے۔ ا ورہاں جس گلوبل دنیا کے محترم دعوے دار ہیں، وہ کم ازکم اس تیسری دنیا میں تو بیسیوں برس دورتک کہیں نظر نہیں پڑتی ۔
البتہ یہ گلوبل ازم کا نعرہ صرف ہم جیسے ناہنجار لوگوں کا مقدر ہے، جہاں تعلیم کی بجائے جہالت ،روزگار کی بجائے فقر وفاقہ، صحت کی بجائے آئے دن نئی نئی بیماریاں، محبتوں کی بجائے نفرتوں کے انبار، ترقی کی بجائے تنزلی، سچ کی بجائے جھوٹ، قانون کی بجائے لا قانونیت، انصاف کی بجائے ظلم، روشنی کی بجائے اندھیرے، سائنس کی بجائے پتھر کا دور، جمہوریت کی بجائے فرد واحد کا مختار کل ہونا مقدر بن چکا ہے اور جہاں ہمارارونابھی U.N.O. کے بڑے بڑے بے روح ہالوں میں صدابصحرا ہونے کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کشمیر وفلسطین، اندلس وفلپائن، بوسنیا وفرانس، عراق و افغانستان کے حالات کو ایک نظر ہی دیکھ کر اندازہ کریں کہ جس سوچ کے وہ حامل ہیں، کیا وہ حقیقت کی دنیا یا زمینی حقائق سے بھی موافقت رکھتے ہیں یا گلوبلائزیشن کی سوچ سوائے ایک سہانے خواب کے کوئی معنی بھی رکھتی ہے؟ یہ نعرہ دنیا کی حاکم قوتوں نے ہم غریب لوگوں کو انتشار میں مبتلا رکھنے کے لیے تراشا ہے ۔
اسی لیے تو اکبر کی پالیسیوں کا معاشرتی اثر ہمیں نظر نہیں آتا، البتہ اس سے دور اور بہت ہی دور ’’اکبر کی پالیسیوں کو تجدد پسندی کا نام دینے والے اس کے’ ’اجماعی مخالفین‘‘تفہیم سے دوری کے باعث یہ اہم نقطہ بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ریاستوں اور حکومتوں کے اقدامات کے اثرات دیرپا اور مطلق نہیں ہوتے بلکہ معاشرتی عناصر زیادہ گہرے اور زیادہ دیرپا اثرات مرتب کرتے ہیں، کیونکہ ایک ریاست کے اندر حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، اورحکومتوں کے بدلنے کے ساتھ حکومتوں (یا مقتدرہ شخصیات) سے منسلک اقدامات بھی ترک کردیے جاتے ہیں اور اس پر کوئی خاطر خواہ رد عمل بھی سامنے نہیں آتا‘‘ لیکن گلوبلائزیشن کے علمبردار محترم اپنے اس کلام میں بھول گئے کہ جہاں معاشرت پنپتی ہے، وہاں معاشرتی اکائی افراد ہوتے ہیں جو کسی بھی معاشرے کی آبیاری کرتے ہیں، اور اسی میں چھوٹے چھوٹے گروہ اور جماعتیں اور محفلیں ہوتی ہیں جو معاشرت کی ایک اکائی کا درجہ رکھتی ہیں، جبکہ محترم نے اپنے مضمون کے آخر میں نہ جانے تبلیغی جماعت پر اپنے دانت کیوں تیز کیے ہیں۔ ہزار اختلاف کے باوجود جو شخص بھی معاشرتی اقدارپر نظررکھتاہے، وہ جانتاہے کہ یہ جماعت معاشرتی طورپر کیاکام سرانجام دے رہی ہے، اور ان کے اس عمل کے نتیجے میں معاشرے میں کیا کیا تبدیلیاں اور اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اگر موصوف کی اس پہلو پر نظر ہوتی تو ان کے خون کا دوران تبلیغی جماعت کے نام پر اتنا تیز نہ ہوتا ۔ اور آخری بات یہ ہے کہ حضرت مدنی کی تجددپسندی میں تبلیغی جماعت نے کیا رکاوٹ پیدا کردی ہے جو اس عنوان کے تحت اس کو ذکر کرنا پڑا؟ اگر موصوف اس پر کوئی خامہ فرسائی فرمائیں تو ’الشریعہ‘ کا باقاعدہ قاری ہونے کے ناتے سے مشکور ہوں گا۔

در جواب آں غزل

امجد علی شاکر

ضرورت سے زیادہ پڑھنا اپنے ساتھ ظلم وزیادتی ہے اورضرورت سے زیادہ لکھنا دوسروں سے، اس لیے راقم کا مطالعہ خاصا محدود ہے۔ سوئے اتفاق کہ جناب زاہد الراشدی خان صاحب کے رسالہ الشریعہ کا فروری ۲۰۰۷ء کا شمارہ دیکھنے کا اتفا ق ہوا۔ اس میں ’مباحثہ ومکالمہ‘ کے ذیل میں حضرت قبلہ پروفیسر میاں انعام الرحمن زیدہ مجدہ کا مضمون نظر پڑا۔ ایک پرانا واقعہ یاد آیا۔ مولانا احسن اصلاحی نے ڈاکٹر اسرار احمد سے پوچھا: ’’آپ محاضرات قرآنی کے نام پر مختلف الخیال لوگ بلا لیتے ہیں، اس کا مقصد ومنشا کیاہے؟‘‘ ڈاکٹر اسرار احمد نے کہا: ’’حضرت! میں مختلف الخیال لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا چاہتاہوں۔‘‘ مولانا امین احسنؒ نے فرمایا : ’’ڈاکٹر صاحب! یہ کام تو پاکستان ریلوے ایک مدت سے سرانجام دے رہاہے۔‘‘
پہلے تو راقم یہ سمجھتا تھا کہ ’الشریعہ‘ ریلوے پلیٹ فارم ہے جس پر ہر طرح کے لوگ آتے جاتے نظر آتے ہیں۔ اب مضمون دیکھ کر پتا چلا کہ یہ صرف ریلوے کا پلیٹ فارم ہی نہیں، ۱۹۴۶ء کے مشرقی پنجاب کا ریلوے پلیٹ فارم ہے۔ اس کی مجلس ادارت ومجلس مشاورت میں جس قسم کے عبقری اور نابغہ جمع ہیں، ان سے اسی رویے کی توقع تھی۔ ممکن ہے کہ قارئین ساٹھ سال پرانی تاریخ بھلا بیٹھے ہوں، وہ مولانا حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ کی سوانح کی کوئی کتاب پڑھ لیں۔ انہیں پتہ چل جائے گا کہ ۱۹۴۶ ء کے مشرقی پنجاب کے ریلوے پلیٹ فارم کی کیا تاریخ ہے۔ انہیں پروفیسر میاں انعام الرحمن کے تاریخی کردار کو جاننے میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔
۱۹۴۶ء کے مشرقی پنجاب کے ریلوے پلیٹ فارموں پر کچھ نوجوانوں نے عاقبت فراموش کرکے جس نیم فطری لباس میں ڈانس فرمایا تھا، میاں انعام الرحمن نے یہ مضمون لکھ کر خود کو ویسے ہی نیم فطری لباس میں دکھادیاہے۔ ایک با ر کی ملاقات میں ہم نے سمجھا تھا کہ یہ کچھ نہ کچھ پڑھتے بھی ہیں، یہ مضمون دیکھ کر پتا چلا کہ وہ صرف لکھتے ہیں۔ میاں انعام الرحمن کی ذات بابرکت کی عقیدت مندی اور ارادت مندی میں وہ ہم سے پیچھے نہیں۔ ہمیں ان کی یہ ادا بے حد پسند آئی ہے کہ انہوں نے بلوغت کے لیے وقت کا انتظار نہیں کیا۔ وہ ماشاء اللہ فقہ وکلام اور تاریخ وفلسفہ پر لکھتے ہیں اوران علوم کے ماہرین سے اختلاف کرتے ہیں اورکمال کی بات یہ کہ ان علوم میں مطالعہ کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ وہ شاید کسب کے زیادہ قائل ہی نہیں۔ شاعر تلامیذ الرحمن ہوسکتے ہیں تو پروفیسر میاں انعام الرحمن کیوں نہیں؟ وہ سیاسیات کے لیکچرر ہیں لیکن کمال یہ ہے کہ خود کو پروفیسر لکھتے ہیں، حالانکہ پروفیسر بننے کے لیے ابھی ایک مدت درکار ہے۔ ممکن ہے کہ انہیں تمام عمر پروفیسر بننے کا موقع نصیب نہ ہو، لیکن کیا ضروری ہے کہ وہ محکمے کے فیصلے کا انتظار کرتے رہیں۔ وہ فقہ وکلام پر بغیر علم کے مسند ہوسکتے ہیں، حالانکہ ان بیچاروں نے ان علوم پر ابتدائی کتب بھی نہیں پڑھی، تو کیا پروفیسر نہیں بن سکتے ۔وہ اپنی ذات کی عقیدت میں اس حد تک مبتلا ہیں کہ ہم جیسے عقیدت مندوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیاہے۔ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ پروفیسر (نہ ہونے کے باوجود) لکھ دیاہے، مگر حضرت مدنی قدس سرہ کے نام کے ساتھ شیخ الحدیث یا کوئی دوسرا سابقہ تو کجا، مولانا لکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
میاں انعام الرحمن علم سیاسیات کے استاذ ہیں، مگر ان دنوں فقہ وکلام پر ماہرانہ مضامین لکھ رہے ہیں۔ ہم انہیں پڑھتے نہیں کہ عقیدت میں کمی نہ ہو جائے۔ سوئے اتفاق کہ یہی مضمون پڑھا (وہ بھی پورا نہیں)، ابھی تک صدمے سے باہر نہیں آسکے۔ صدمہ یقیناًاپنی جہالت کے ادراک کا بھی نہیں، جملہ فقہائے مت کی کم علمی پر دکھ ہوا کہ کسی فقیہ کو اجماع اور تفرد کا مفہوم نہیں سوجھا جو میاں انعام الرحمن سمجھ پائے ہیں۔ ہم ان بزرگوں کے اتباع میں یہ سمجھ سکے تھے کہ اجماع، عقائد واحکام میں ہوتاہے، مگر اب پتا چلا کہ یہ اجماع خبروں میں بھی ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی سنا تھا کہ اجماع اہل علم کا معتبر ہوسکتاہے، مگر اب پتا چلا کہ اجماع میاں انعام الرحمن کی سطح کے لوگوں کا معتبر ہوسکتاہے۔ پھر ایک اور بات کا علم بھی ہواکہ اکبر کے بارے میں ایک خاص تعبیر پر ایمان لانا عقائد کا حصہ ہے نہ کہ تاریخ کا۔ ویسے تو ہمارے مسلم لیگی رضاکاروں نے عقائد کے سلسلے کو ہمیشہ آگے بڑھا کر اسلام کو خوب ترقی دی ہے۔ مثلاً ۱۹۴۶ء میں ایمان کی صفات میں ایک اور صفت کا اضافہ ہوا تھا:
مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آمرحوم 
پروفیسر منور مرزا زندہ تھے تو انہوں نے یوم اقبال پر ایک جلسہ میں برسرِجلسہ یہ تجویز پیش کی کہ ایمان کی صفات میں ’واقبالہ وجناحہِ‘ کا اضافہ کر دیا جائے۔ ہمارے ایمان کی کمزوری کہ یہ سن کر کانپ اٹھے۔ راوی ثقہ تھے۔ انکار کی ہمت نہ پڑی، مگر یقین بھی نہ آیا۔ پروفیسر صابر لودھی سے تصدیق چاہی کہ وہ جلسے میں شریک تھے اور منور مرزا کے سابقہ کولیگ بھی تھے۔ انہوں نے لفظ بلفظ تصدیق بھی فرما دی۔ پھر منور مرزا کے داماد صلاح الدین ایوبی سے تحقیق کی تو انہوں نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے اس کی تائید میں دلائل دینا شروع کر دیے۔ ہم ان کی عظمت پر ایمان لے آئے اوریہ بھی مانتے بنی کہ وہ واقعی شخصیت پرست نہیں۔ اگر وہ زیادہ اصرار کرتے تو ہم یہ بھی مان سکتے ہیں کہ شخصیت پرست ہم ہیں۔ جیسے ایک شاعر نے کہا تھا :
گرنازنیں کہے سے برامان گئے ہوتم
میری طرف تو دیکھیے، میں نازنیں سہی
میاں انعام الرحمن کے بارے میں سنا ہے کہ انہوں نے تقلید کے استرداد میں ایک مضمون رقم فرمایا ہے (وہ مضمون الشریعہ کے دسمبر کے شمارے میں شائع ہواہے) اب قول سعدی یہ برآمد ہواہے کہ ائمہ فقہ کی بجائے میاں انعام الرحمن کی تقلید موزوں رہے گی، اسی لیے انہوں نے اجماع اور تفرد کے فیصلے کرنا شروع کردیے ہیں۔ میاں انعام الرحمن کی تقلید میں ایک آسانی یہ بھی رہے گی کہ کوئی ان کی بات کا جواب نہ دے سکے گا، کیونکہ ایسے لوگوں کے جواب میں دانا ؤں نے خاموش رہنے کی نصیحت فرمائی ہے۔
ریلوے پلیٹ فارموں پر عموماً لکھا ہوا دکھائی دیتاہے کہ یہاں تھوکنا منع ہے، مگر الشریعہ کے پلیٹ فارم پر تو جو شخص جی چاہے اور جہاں جی چاہیے، تھوک سکتاہے حتیٰ کہ چاند پر تھوکنے کی ممانعت بھی نہیں، اسی لیے میاں انعام الرحمن کا مضمون بے تکلف چھاپ دیا گیا ہے۔ جناب زاہد الراشدی خان کو چاہیے کہ ایسے مضمون چھاپنے کے بعد مصنف کے چہرے کو دیکھ لیا کریں۔ اس عمل کے بعد لکھنے والوں کے چہرے یقیناًچمک اٹھتے ہیں۔
اکبر کی سیاسی پالیسی اوربدعات پر کسی نے بھر پور تحقیق نہیں کی۔ محمد حسین آزاد نے ’’دربار اکبری‘‘ لکھی تو وہ افسانہ وافسوں سے زیادہ نہیں۔ آزاد کی گپ بازی اردو تحقیق میں مسلمہ ہے۔ ملا عبدالقادر بدایونی کی ’’منتخب التواریخ‘‘ میں بہت سی روایات محلِ نظر ہیں۔ ’’رود کوثر‘‘ میں اکبر کی تائید ملتی ہے ۔دراصل اکبر کے بارے میں مستند ماخذ تین ہیں: ابو لفضل کی ’’آئین اکبری‘‘، حضرت مجدد الف ثانی کی تحریریں یعنی ان کے مکتوبات اورجہانگیر کی تزک۔ان تینوں مآخذ کی بنیاد پر مستند واقعات اور امور کو سامنے لایا جا سکتا ہے۔ بہرحال اب تک جو کچھ سامنے آیاہے، اس کے مطابق اکبر کے بارے میں دو باتیں بنیادی نوعیت کی ہیں:
۱۔منفی امور: اکبری بدعات اور ہر قسم کی مشرکانہ رسوم وعادات کی سرکاری سرپرستی۔ اس حوالے سے ہمارے تمام حاکم اکبر کے مقلد ہیں۔ کبھی کسی حاکم نے مزار کو غسل دیتے ہوئے شرک اوربدعت کے حوالے سے سوچنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ شیعہ کو خوش کرنے کے لیے بعض دانشور علما نہ صرف حضرت امیر معاویہؓ پر تنقید کرنا جائز سمجھتے ہیں بلکہ ان کی مجالس عزا میں شریک ہونا بھی عیب نہیں سمجھتے۔ اب تو خیر سے لیاقت بلوچ نے کرسمس کیک کاٹ کر اکبری بدعات کی تقلید میں ایک قدم اور آگے بڑھا دیاہے۔
۲۔مثبت امور: اکبر نے ہندوستان میں امن قائم کیا، مسلمانوں اورہندوؤں کے مابین موالات اورقرب پیدا کیا، اس طرح دونوں مذاہب میں مکالمے کی صورت پید ا ہوئی۔ ہمار ے ہاں بڑے بڑے باکمال لوگ پائے جاتے ہیں۔ وہ تلک لگواسکتے ہیں، مندر میں عبادت کے لیے گھنٹی بجانے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے جیسا کہ امیر المومنین ضیاء الحق صاحب نے کیا تھا۔ دیوی کے سامنے پرارتھنا کرسکتے ہیں جیسا کہ بشریٰ رحمن نے کیا تھا۔ کرسمس کا کیک کاٹ سکتے ہیں جیساکہ لیاقت بلوچ نے کیا تھا۔ مگر ایک بات سخت ناپسند کرتے ہیں۔ وہ ہے ہندو اور مسلم میں مکالمہ اور قرب۔ اس میں بہت خطرے ہیں۔ اب اگر لاکھوں ہندو مسلمان ہو گئے تو اسلام پر قبضہ ہوسکتاہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت مدنی کلکتہ میں مسجد ناخدا میں ہوتے تھے تو سینکڑوں لوگ مسلمان ہوتے۔ ماشاء اللہ مسلمانوں کو نسلی قوم بنایا گیا تو ہندوؤں میں یہ رویہ ختم ہوا اور اسلام محفوظ ہوا ۔
حضرت مدنی ؒ نے ایک خط میں لکھا تھا :
’’اکبر نے نہ صرف اشخاص پر قبضہ کیا تھا ،بلکہ عام ہندو ذہنیت اور منافرت کی جڑوں کو کھوکھلا کردیاتھا مگر ادھر تو اکبر نے نفس دین اسلام میں کچھ غلطیاں کیں جن سے مسلم طبقہ میں اس سے بدظنی ہوئی، اگر چہ بہت سے بدظنی کرنے والے غافل اور کم سمجھ تھے۔ ادھر برہموں کے غیظ وغضب میں اپنی ناکامی دیکھ کر اشتعال پیدا ہوا‘‘الخ۔
اس پیراگراف کا مفہوم بڑا سادہ ساہے کہ حضرت مدنی اکبر کی پالیسی کے منفی پہلو کی تردید اور مثبت پہلو کی تائید کررہے ہیں۔ یہی تفرد ہے جناب پروفیسر میاں انعام الرحمن کی نظر میں۔
آخر میں مجھے مولانا محمد مالک کاندھلوی ؒ کا ایک واقعہ یاد آرہاہے۔ واقعے کا تعلق بھی ریلوے سے ہے،اسی لیے اس کا ذکر بے جا نہ ہوگا۔ مولانا محمد مالک ؒ کراچی جانے کے لیے ریل میں سوار ہوئے۔ ایک ہم سفر نے آپ کو پہچان لیا اور بڑے تپاک سے ملا۔ تعارف کراکرکہا: ’’راستے میں آپ سے تبادلہ خیال رہے گا ۔‘‘ حضرت پریشان ہوگئے۔ بڑی عاجزی سے کہا : ’’میرے خیالات تو لے لیجئے گا، مگر اپنے خیالات سے مجھے محروم ہی رکھیے گا۔‘‘ پھر مخاطب کی آرزدگی کا سوچ کر فرمایا: ’’میاں بات یہ ہے کہ میرے خیالات تو قرآن وسنت سے مستنبط ہیں اور آپ کے خیالات مغرب سے آئے ہیں‘‘۔
میاں انعام الرحمن صاحب سے تو یہ بھی نہیں کہاجاسکتا کہ انہوں نے مغرب کو کہاں پڑھا ہوگا؟ وہ تو خود مفکر ہیں۔ دوسروں کی تحریریں اور افکار تھوڑا ہی پڑھتے ہیں۔ ان کے افکار دوسرے لوگ پڑھیں اور ان کا اتباع کریں۔
زاہد الراشدی خان سوچتے ہوں گے کہ ہم نے ان کے نام کے ساتھ مولانا نہیں لکھا۔ ہم یہ جرات کیسے کرسکتے ہیں؟ ان کے استاذ الاساتذہ شیخ مدنی ؒ تو ان کے رسالے میں مولانا ہیں نہیں، زاہد الراشدی خا ن مولانا کیسے ہوں گے؟ زاہد الراشدی خان کو دو روایات سنا نے کو جی چاہتاہے۔ ایک تو انہوں نے ضرور سنی ہوگی۔ مولانا عبیداللہ اکثر یہ واقعہ سناتے تھے۔ ہم نے متعدد دفعہ مولانا سے یہ واقعہ سنا تھا۔ فرماتے تھے کہ حضرت لاہوری ؒ فرماتے تھے:
’’لوگ کہتے ہیں بینا سارے، اندھا کوئی کوئی۔ میں کہتاہوں اندھے سارے، بیناا کوئی کوئی۔ میرے بزرگ حضرت مدنیؒ اور حضرت رائے پوری (قدس اللہ اسرارہما) بینا ہیں، باقی ساری دنیا اندھی۔ یہ بزرگ ایک بات کہہ دیں اور ساری دنیا اس کے مخالف ہوجائے ، میں ان بزرگوں کی بات مان لوں گا، ساری دنیا کی بات چھوڑ دوں گا۔‘‘
زاہد الراشدی خان! کیا یہ بات سچ یا جھوٹ! کیا آپ نے یہ قول نہیں سنا؟ کیا آپ اس بات کی تردید فرما سکتے ہیں؟ 
اب اردو کے ایک نقاد افسانہ نگار اور انگریزی کے استاذ کا قول بھی سن لیجئے۔ یہ شخص تھے پروفیسر محمد حسن عسکری اعلی اللہ عقائدہ۔ اس مرد درویش نے ایک اصول مقرر کیاتھا کہ دین کا علم صرف دین کے مستند نمائندوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ دین میں صرف مستند نمائندوں کی رائے معتبر ہے۔ پھر اس مرد درویش نے کہا کہ حضرت تھانوی ؒ اور حضرت مدنی قدس اللہ اسرارھم دین کے مستند نمائندے تھے،انہی کا فرمان معتبر اور مستند ہے۔ پروفیسر میاں انعام الرحمن تو یہ بات نہیں سمجھ سکتے، کیا زاہد الراشدی خان بھی نہیں سمجھ سکتے؟ اگر بھول گئے ہوں تو اپنے والد محترم اور چچا محترم سے پوچھ لیں کہ کیا دین میں غیر عالم کا قول معتبر ہو سکتا ہے؟ جناب !دین تو بڑی بات ہے، ہم تو شاعری میں بھی غیر عالم کا قول معتبر نہیں سمجھتے۔
میاں انعام الرحمن (پروفیسر نہ لکھ سکنے پر معذرت خواہ ہوں) نے اپنے مضمون میں سے پڑوسیوں کی تعبیر کرتے ہوئے اس پر تمام گلوب کو قیاس فرمایاہے۔ اس قیاس پر ہمیں توایک اصطلاح یاد آرہی ہے ’’قیاس مع الفارق‘‘۔ میاں انعام الرحمن ان قدیم اصطلاحوں کو سمجھنے کے لیے دماغ پر زور نہ ڈالیں کہ یہ ماضی کا قصہ ہیں اور ان جیسے ائمہ فکر کے لیے ماضی کے علوم کی کچھ ضرورت نہیں ہوتی۔ میاں صاحب اگر بضد ہوں تو زاہد الراشدی خان سے اس کامفہوم ومعنی پوچھ لیں۔
بقیہ مضمون ہم پڑھ نہیں سکے کہ ہم میں زیادہ صبر بھی نہیں۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں اوسط عمر کچھ زیادہ نہیں۔ بہرحال مضمون ان کی علوفکر کی دلیل ہوگا، یقیناًبہت علمی ہوگا، ہم جیسوں کو استفادہ کرنا چاہیے۔ ہماری کم نصیبی کہ استفادہ نہیں کرتے، وغیرہ وغیرہ۔ ہم ان کی عقیدت میں مبتلا ہیں اور ان کے عقیدت مند جیسے کہ وہ خود ہیں، اس طرح سوچ سکتے ہیں۔ بہرحال یہ چند سطریں محض ان کی عقیدت مندی میں لکھ دی ہیں، ورنہ من آنم کہ من دانم۔ امید ہے میرے لکھے کو وہ ناپسند نہیں کریں گے۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
واجب الاحترام جناب مدیر ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دین کا ایک طالب علم ہونے کے ناتے آپ کا عمدہ اور معیاری رسالہ زیر مطالعہ رہتا ہے۔ اس وقت میں فروری ۲۰۰۷ کے شمارے میں شائع ہونے والے حافظ محمد زبیر صاحب کے مضمون: ’’غامدی صاحب کے تصور ’فطرت‘ کا تنقیدی جائزہ‘‘ کے حوالے سے چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ ان پر غور فرمائیں گے۔ 
میری پہلی شکایت تو آپ سے ہے کہ آپ نے اپنے رسالے میں مذکورہ مضمون کو کیسے جگہ دے دی جبکہ مذکورہ مضمون،کم از کم میری ناقص رائے میں، نہ آپ کے رسالے کے معیار پر پورا اترتا ہے اور نہ ہی تنقید کے علمی، اخلاقی اور دینی تقاضے پورا کرتا ہے۔ ایسا مضمون آخر کیوں آپ کے رسالے میں جگہ پاگیا جس میں واشگاف الفاظ میں دوسروں کی نیتوں پر حملہ کیا گیا ہے، جبکہ آپ بھی یہ تسلیم کریں گے کہ نیتوں کا علم تو صرف اور صرف رب کائنات ہی کو ہو سکتا ہے؟ ذرا اس جملے کو دوبارہ پڑھیے جس پر صاحب مضمون نے اپنے مضمون کا اختتام کیا ہے:
’’تعجب ہے اس انداز فکر پر! جب چاہتے ہیں اپنے مزعومہ افکار کی تائید کے لیے اصول وضع کر لیتے ہیں اور اپنی خواہش نفس کی تکمیل کے لیے جب چاہتے ہیں، اپنے ہی وضع کر دہ اصولوں کی بھی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔‘‘ (ص۴۳)
مجھے دوسری شکایت خود صاحب مضمون سے ہے۔ غامدی صاحب پرحافظ صاحب ایک چھوڑ، دس تنقیدیں کریں، لیکن تنقید میں علمی، اخلاقی اور دینی اصولوں کو پیش نظر رکھنا ان کا دینی فریضہ بنتا ہے۔ ان کے مضمون میں دینی اصولوں کو پیش نظر نہ رکھنے کی مثال میں اوپر دے چکا ہوں، جبکہ علمی و تحقیقی تقاضوں کو پورا نہ کرنے کی مثالیں پیش خدمت ہیں:
حافظ صاحب نے غامدی صاحب کے مآخذ دین کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’غامدی صاحب کے مآخذ دین، علی الترتیب، درج ذیل ہیں:
۱۔ دین فطرت کے بنیادی حقائق
۲۔ سنت ابراہیمی
۳۔نبیوں کے صحائف
۴۔ قرآن مجید‘‘ (ص۳۳)
یہ بات بغیر کسی حوالے کے درج کر دی گئی ہے اور اس میں دو بنیادی علمی غلطیاں پائی جاتی ہیں:
صاحب مضمون نے پہلی غلطی تو غامدی صاحب کے مآخذ دین شمار کرنے میں کی ہے۔ محترم غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’’اصول و مبادی‘‘ کے ابتدائی تین صفحات (۹ تا ۱۱) میں اپنے مآخذ دین خود بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’یہی قانون و حکمت وہ دین حق ہے جسے ’’اسلام‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کے مآخذ کی تفصیل ہم اس طرح کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے منتقل ہوا ہے اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے:
۱۔ قرآن مجید
۲۔ سنت‘‘ (ص ۹)
ان کی دوسری غلطی ’’ترتیب‘‘ کی غلط بیانی ہے۔ غامدی صاحب کے ہاں تو قرآن مجید پہلے نمبر پر ہے اور اسے پہلے نمبر پر ہی ہونا چاہیے، جبکہ حافظ صاحب کی ترتیب میں بے چارہ قرآن چوتھے نمبر پر چلا گیا ہے اور اہل علم جانتے ہیں کہ محض ترتیب کی گڑ بڑ سے غلطی ہائے مضامین کا ایک پہاڑ کھڑا ہو سکتا ہے۔
حافظ صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’غامدی صاحب کے اصل اصول یہی چار ہیں، جبکہ ان چار کے علاوہ بھی غامدی صاحب کے کچھ اصول ہیں جن سے ضرورت پڑنے پر غامدی صاحب استدلال کرتے ہیں، لیکن ان کو مستقل ماخذ دین نہیں سمجھتے۔ یہ اصول درج ذیل ہیں:
۵۔ حدیث
۶۔ اجماع
۷۔ امین احسن اصلاحی جنھیں وہ امام کہتے ہیں۔‘‘ (ص ۳۳)
غامدی صاحب کے حوالے سے حافظ صاحب کے اس فہم پر صرف ’’انا للہ‘‘ ہی پڑھی جا سکتی ہے۔ ’اصول و مبادی‘ کا جو حوالہ میں نے اوپر نقل کیا ہے، اس سے یہ بات ایک عام قاری بھی اخذ کر سکتا ہے کہ غامدی صاحب کے مآخذ دین صرف اور صرف دو ہیں، چار یا سات نہیں، جبکہ اجماع ان کے ہاں دین کی منتقلی کا ایک بنیادی ذریعہ ہے۔ اسی طرح حدیث کے حوالے سے بھی غامدی صاحب کا موقف واشگاف الفاظ میں لکھا ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’دین لاریب، انھی دو صورتوں میں ہے۔ ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے، نہ اسے دین قرار دیا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کے اخبارِ آحاد جنھیں بالعموم ’’حدیث‘‘ کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ کبھی درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا، اس لیے دین میں ان سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا۔ دین سے متعلق جو چیزیں ان میں آتی ہیں، وہ درحقیقت، قرآن و سنت میں محصور اسی دین کی تفہیم و تبیین اور اس پرعمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کابیان ہیں۔ حدیث کا دائرہ یہی ہے۔ چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہو سکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔ 
اس دائرے کے اندر، البتہ اس کی حجت ہر اس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل یا تقریر و تصویب کی حیثیت سے اسے قبول کر لیتا ہے۔ اس سے انحراف پھر اس کے لیے جائز نہیں رہتا، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اس میں بیان کیا گیا ہے تو اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے ۔‘‘ (ص۱۱)
کیا غامدی صاحب کے مذکورہ بیان سے وہ نتیجہ نکلتا ہے یا کھینچ تان کر نکالا جا سکتا ہے جو حافظ صاحب نے بیان کیا ہے کہ ’’ان چار کے علاوہ بھی غامدی صاحب کے کچھ اصول ہیں جن سے ضرورت پڑنے پر غامدی صاحب استدلال کرتے ہیں‘‘ اور ان میں ایک ’بے چاری ‘ حدیث بھی ہے؟ حافظ صاحب، خدارا! کچھ تو خوفِ خدا کیجیے اور خدا کی بارگاہ میں جواب دہی کا کچھ تو احساس کیجیے۔ کسی کی واشگاف الفاظ میں لکھی ہوئی رائے کو اپنے الفاظ میں سموتے ہوئے آپ کو ذرا خیال نہ آیا؟ ان کی رائے آپ کے نزدیک درست ہے یا غلط، اس پر بحث کرتے رہیے، لیکن خدارا ! پہلے ان کی بات کو تو باحوالہ اور درست نقل کیجیے اور پھر اس پر جتنی چاہے، تنقید کیجیے۔ 
حافظ صاحب کی ایک بڑی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ ایسی آرا کی نسبت بھی بلاتحقیق غامدی صاحب کی طرف کر رہے ہیں جو انھوں نے خود بیا ن نہیں کیں۔ مثلاً ص ۳۷ پر انھوں نے بعض آرا کا ذمہ دار اس بنیاد پر غامدی صاحب کو ٹھہرایا ہے کہ یہ المورد کی سرکاری ویب سائٹ (www.urdu.understanding-islam.org) پر جاری کی گئی ہیں، جبکہ صحیح صورتحال یہ ہے کہ مذکورہ ویب سائٹ جناب معز امجد صاحب کی نگرانی میں کام کر رہی ہے اور اس میں درج آرا کے ذمہ دار بھی معز امجد صاحب ہیں۔ المورد سے وابستہ اہل علم نہ غامدی صاحب کی تمام آرا کے پابند ہیں اور نہ ان کی بیان کردہ آرا لازماً غامدی صاحب کے نقطہ نظر کی ترجمان ہوتی ہیں۔
مجھے قوی امید ہے کہ حافظ صاحب اپنی آئندہ تنقیدات میں محتاط رویہ اپنائیں گے۔
حافظ محمد ابراہیم شیخ
A3 -۱۷۳، PGECHS، لاہور
(۲)
مکرم ومحترم مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بلا استحقاق چند ماہ سے ’الشریعہ‘ باصرہ نواز ہو رہا ہے۔ عزیزم مولوی محمد عمار خان ناصر کی محنت دیکھ کر دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ ہمارے مذہبی حلقے میں غالباً آپ پہلے فرد ہیں جنھیں علمی وفکری مسائل پر بحث ومکالمہ کا ایک آزاد فورم قائم کرنے کی توفیق ہوئی ہے۔ بے شمار احباب کے تحفظات بلکہ اعتراضات کے باوجود ناچیز محسوس کرتا ہے کہ اس قسم کے فورم کی بہرحال ضرورت تھی۔ مخالفانہ نقطہ نظر کو یکسر رد کر دینا اور اپنے مبلغ علم ہی کو قطعیت کا درجہ دینا ان اہل نظر کو زیب نہیں دیتا جو فکر ولی اللٰہی کے وارث ہیں۔ دلیل کا جواب دلیل ہی سے دینا چاہیے، لٹھ ماری سے نہیں۔ آپ کو لکھنے والے بھی خوب میسر آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولوی ناصر صاحب کے شباب اور آپ کی شیخوخت کو نظر بد سے بچائے اور امت کو خوب مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ 
(مولانا) محمد اسلم شیخوپوری
جامع مسجد توابین، سیکٹر ۶
گلشن معمار، کراچی
(۳)
مکرمی مدیر ’الشریعہ‘ 
السلام علیکم
تازہ ترین پرچہ کل ۲ فروری کی دوپہر موصول ہوا اور دو نشاط بخش نشستوں میں حرف حرف دیکھنے کی سعادت میسر آئی۔ ساری تحریریں ہی پربہار اور عطر بیز ہیں۔
دامانِ نگہ تنگ وگل حسن تو بسیار
گل چینِ بہار تو ز داماں گلہ دارد
مگر فکری غذا ’’روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق‘‘ ، ’’سید حسین احمد مدنی اور تجدد پسندی‘‘ اور ’’غامدی صاحب کے تصور فطرت کا تنقیدی جائزہ‘‘ نے بہم پہنچائی۔ تنقیدی جائزہ پڑھ کر بے ساختہ کہہ اٹھی:
خامۂ آزادگاں جو کچھ لکھے، آزاد ہے
ملک ناپرساں میں کوئی پوچھنے والا نہیں
اخویم حافظ محمد زبیر صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کی ناقدانہ نگارشات گاہے بگاہے ’الشریعہ‘ کے اوراق میں باصرہ نواز ہوتی رہتی ہیں۔ آں محترم سے نیازمندانہ گزارش ہے کہ بلاغ مبین کے لیے تکمیل وتصحیح کے بعد ان ابحاث کو جلد از جلد نذر ناظرین کرنا چاہیے۔ مع ہذا ’المورد‘ کے کاتبین کرام سے بھی عاجزانہ عرض ہے کہ اتنے سنگین الزامات کے بعد ’’جواب ناقداں باشد خموشی‘‘ پر عمل مناسب نہیں۔ رہے سیدنا حسین احمد قرشی مدنی رحمہ اللہ اور علم دار حسین، شاہ انعام الرحمن لدھیانوی سلمہ کے افادات طیبات تو ’الشریعہ‘ کے ناشر ومدیر اور مجلس ادارت کے اعیان روشن ضمیر، سب کے لیے ایسا پرکار ومایہ دار تجزیہ پیش کرنے پر اعماق قلب سے دعاگو ہوں۔
بر آناں رب ما رحمت فشاند
شمیم از قعر وعمق دل بخواند
ایک ہندو زادہ سائیں حافظ محب رسول محدث کروڑی علیہ الرحمۃ والرضوان (فاضل دیوبند) کی تیسری پشت میں اس ’خدا کی بندی‘ کا وجود بھی ہندو مسلم میل جول کے حاصلات پر شاہد عدل ہے۔ یوم یک جہتئ کشمیر مناتے ہوئے یاد رکھیے، اس وقت قضیہ کشمیر کا پرامن تصفیہ برصغیر میں ’احیاے دعوت‘ کی شاہ کلید ہے۔
کلمہ حق میں مولانا حافظ محمد عبد المتین خان زاہد مدظلہم رقم طراز ہیں: ’’دوسری صورت نکاح موقت کی تھی جس میں کوئی مرد اور عورت مناسب معاوضے پر ایک مقررہ وقت کے لیے جنسی تعلق قائم کرتے تھے اور مدت گزر جانے کے بعد ان کا یہ نکاح متعہ ختم ہو جایا کرتا تھا۔ اسے اسلام نے ناجائز قرار دے دیا اور اب اس کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
اگر یہ بات صحیح ہے اور یقیناًصحیح ہے تو ورلڈ اسلامک فورم، تنظیم اسلامی، مجلس تحفظ حدود اللہ اور متحدہ مجلس عمل کے ایجنڈے پر سرزمین پاک میں ’متعہ اجازت ناموں‘ کی منسوخی سرفہرست ہونی چاہیے۔ گر یہ نہیں تو بابا ’باقی‘ کہانیاں ہیں۔
شمیم فاطمہ تبسم
الزہرا۔ چاہ عمر۔ کروڑ لعل عیسن
(۴)
محترم مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید، خواہش اور دعا ہے کہ ایمان وصحت کی بہترین حالت میں ہوں۔
روایتی مدارس کے حاملین کے ہاتھوں جب ’الشریعہ‘ جیسا آزادئ فکر کا حامل اور تعصب سے پاک رسالہ نکلتے دیکھتا ہوں تو بے حد تعجب ہوتا ہے۔ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو حق کو صرف اپنے مسلک، جماعت یا مدرسے میں منحصر سمجھتے ہیں اور کسی دوسرے کی بات یا دلیل کو ماننا تو دور، سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں، اور دوسری طرف آپ جو اپنے رسالے میں بلا تبصرہ چھاپنے کے لیے بھی تیار ہیں۔
میاں انعام الرحمن صاحب کے مضمون ’’قدامت پسندوں کا تصور اجتہاد‘‘ پر مثبت طور پر غور کرنا چاہیے۔ انداز اگرچہ جارحانہ ہے لیکن فکری جمود کو توڑنے کے لیے شاید جارحیت کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ محترم زاہد الراشدی کا جوابی مضمون ان کی دلیل توڑنے کے لیے کافی نہیں۔ سیکڑوں سال پرانی باتوں کو تنقید کا نشانہ بنانے سے بہتر تھا کہ آج کے تجدد پسندوں پر علمی انداز میں حملہ کیا جاتا۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب بھی اکبر کے دور کا تجدد چاہتے ہیں تو حوالہ دے کر ثابت کیا جاتا۔ اس میں شک نہیں کہ آج کے دور کے متجددین، دین میں تحریف کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس بہانے سے اجتہاد کا جائز دروازہ بھی بند نہ کرنا چاہیے، نہ ایسی کڑی شرائط لگانی چاہییں کہ اجتہاد کے دروازے کو تو کھلا سمجھا جائے، لیکن عملاً کسی کو مجتہد ماننے سے انکار کیا جائے۔
میرے خیال میں رئیس التحریر کے کالم کا نام ’’کلمہ حق‘‘ نہیں ہونا چاہیے۔ کلمہ حق سے تو کسی مسلمان کو اختلاف نہ ہونا چاہیے۔ ہر محقق اپنے خیال میں حق ہی لکھتا ہے، لیکن اس کو ایسا دعویٰ نہ کرنا چاہیے، کیونکہ یقینی طور پر حق تو صرف اللہ اور رسول کے اقوال ہیں۔ انسان تو غلطی بھی کر سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو استقامت نصیب فرمائے اور دیگر دینی اداروں کو بھی آپ کی تقلید کی توفیق عطا فرمائے تاکہ سب لوگ جو دین کی کسی بھی نوعیت کی خدمت سے وابستہ ہوں، ایک دوسرے کی مخالفت کے بجائے ایک دوسرے کی قدر کریں اور تعاون کریں۔ نیکی میں تعاون ہی دین داروں کا شیوہ ہے۔ مخالفت تو زرپرست دکاندار ایک دوسرے کی کرتے ہیں کیونکہ وہاں ایک کا منافع دوسرے کا نقصان شمار ہوتا ہے۔
نصیر خان
طالب علم پی ایچ ڈی
کلیہ معارف اسلامیہ، جامعہ کراچی

دینی مدارس کے نظام ونصاب کے موضوع پر فکری نشست

ادارہ

۳۔ ۴۔ ۵ فروری ۲۰۰۷ کو جامعہ سید احمد شہیدؒ لکھنو (انڈیا) میں برصغیر کے دینی نصاب ونظام کے حوالے سے منعقد ہونے والے بین الاقوامی سیمینار کے موقع پر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ (پاکستان) میں اس سمینار کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے ایک فکری نشست کا اہتمام کیا گیا۔ یہ نشست ممتا زماہر تعلیم پروفیسر غلام رسول عدیم کی زیر صدارت ۳؍ فروری ۲۰۰۷ بروز ہفتہ رات آٹھ بجے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں منعقد ہوئی جس میں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کے علاوہ اکادمی کے ناظم مولانا حافظ محمد یوسف، جامعہ عربیہ گوجرانوالہ کے ناظم مولانا ضیاء الرحمن، گورنمنٹ کالج قلعہ دیدار سنگھ کے پروفیسر محمد اکرم ورک، گوجرانوالہ بار ایسوسی ایشن کے سینئر رکن چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ، پروفیسر محمد زمان چیمہ اور دیگر حضرات نے خطاب کیا۔
مولانا زاہد الراشدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جنوبی ایشیا میں دینی مدارس کا موجودہ نظام ۱۸۵۷ء کے بعد وجود میں آیا تھا۔ اس سے قبل اس خطے میں دینی اور عصری علوم کی تقسیم موجود نہیں تھی اور سب لوگ ایک ہی طرز کا نصاب پڑھتے تھے جس میں فارسی زبان، عربی زبان، فقہ اسلامی اور دیگر ضروری علوم وفنون شامل تھے۔ دفتری اور عدالتی زبان فارسی تھی جبکہ عدالتوں میں فقہ حنفی نافذ تھی، اس لیے یہ نصاب قومی اور سرکاری ضرورت بھی تھا لیکن جب عدالتوں میں برطانوی قانون نافذ کر دیا گیا اور فارسی کے بجائے انگریزی، دفتری اور عدالتی زبان قرار دے دی گئی تو درس نظامی کا یہ نصاب قومی ضروریات کے دائرے سے نکل گیا۔ اس موقع پر کچھ ارباب دانش نے دینی علوم کی حفاظت اور اگلی نسل تک دین کو پہنچانے کے لیے درس نظامی کے اس نصاب کی پرائیویٹ سطح پر تعلیم وتدریس کا اہتمام کیا اور رضاکارانہ بنیادوں پر اس کا نظام قائم کیا جس کے تحت جنوبی ایشیا کے طول وعرض میں ہزاروں مدارس کام کر رہے ہیں۔
دینی مدارس کے اس نظام کی بنیاد تحفظات پر تھی اور اس کے اہداف میں اساسی طور پر یہ امور شامل تھے کہ: ۱۔ دینی علوم کی حفاظت ہو، ۲۔ عام مسلمان کا دین کے ساتھ تعلق قائم رہے اور ۳۔ اگلی نسلوں تک دینی علوم وروایات بحفاظت منتقل ہوتی رہیں۔ نو آبادیاتی دور میں ان دینی مدارس نے اپنے اہداف میں شاندار کامیابی حاصل کی اور اس خطہ کے ممالک کی آزادی کے بعد بھی دینی مدارس کی ان خدمات کا تسلسل کامیابی کے ساتھ جاری ہے، مگر آزادی کے بعد اور عالمی سطح پر میڈیا کا دائرہ وسیع تر ہوتے چلے جانے کے بعد دینی مدارس کے اس تحفظاتی ماحول اور طریق کار کو ناکافی سمجھا جا رہا ہے اور بہت سے نئے تقاضے ایسے سامنے آئے ہیں جن کو پورا کرنے کی انھی مدارس سے توقع کی جا رہی ہے۔ مثلاً پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں اسلامی نظام وقوانین کے نفاذ کے حوالے سے مطلوبہ رجال کار کی فراہمی اور عدالتی، دفتری اور انتظامی ضروریات کے لیے ضروری افراد کی تیاری ایک اہم اور ناگزیر تقاضا بن چکی ہے، لیکن چونکہ مسلم ممالک کے ریاستی تعلیمی نظام اس ضرورت کو پورا نہیں کر رہے، بلکہ بعض جگہ ریاستی نظام ہائے تعلیم اس کے برعکس دفتری، عدالتی اور انتظامی ماحول کو برقرار رکھنے کا باعث بن رہے ہیں، اس لیے مسلم امہ کا باشعور طبقہ اس ملی ضرورت کی تکمیل کے لیے دینی مدارس ہی کی طرف دیکھ رہا ہے اور عمومی طور پر دینی مدارس سے یہ توقع وابستہ کر لی گئی ہے۔
اسی طرح میڈیا کا دائرہ متنوع اور وسیع تر ہو جانے کے بعد مغرب اور عالم اسلام کے درمیان فکری جنگ، تہذیبی کشمکش اور ثقافتی تنازعات کے حوالے سے اسلام کے بنیادی احکام اور قرآن وسنت کی اساسی تعلیمات کے بارے میں شکوک وشبہات اور اعتراضات کا سلسلہ پھیلتا جا رہا ہے۔ اس کشمکش میں مغرب کی فکری وثقافتی یلغار کے مقابلہ، اسلامی تعلیمات کے بارے میں پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات کے ازالہ اور آج کے گلوبل ماحول میں اسلامی احکام وتعلیمات کو موثر طور پر پیش کرنے کے لیے رجال فکر اور رجال فن کی تیاری ایک ناگزیر ضرورت کا درجہ اختیار کر چکی ہے جو مسلمان ممالک کے کسی اور ادارے کی ذمہ داریوں میں ابھی تک شامل نہیں ہے۔ اس لیے یہ توقع بھی دینی مدارس سے وابستہ کر لی گئی ہے اور دینی مدارس سے تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے رجال فکر اور رجال فن کی تیاری کو اپنے پروگرام میں شامل کریں۔
اس کے ساتھ ہی آج کے عالمی اور گلوبل ماحول میں اسلام کی دعوت وتبلیغ اور پوری دنیا میں نسل انسانی تک اسلام کی دعوت اور قرآن وسنت کی تعلیمات کو خالصتاً دعوتی انداز میں پہنچانا بھی ہماری دینی وملی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ حضرات کی ہر سطح پر ضرورت ہے اور عام طور پر باشعور مسلمان دینی مدارس سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس ضرورت کا احساس کریں اور اس کی تکمیل کو اپنے اہداف اور پروگرام میں شامل کریں۔
اس لیے جہاں تک دینی مدارس کے اس نظام کے ان تحفظاتی اہداف کا تعلق ہے جن کے لیے یہ نظام ۱۸۵۷ء کے بعد وجود میں آیا تھا ، اس میں تویہ بعض خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود کامیابی کے ساتھ پیش رفت کر رہا ہے، لیکن آج کے حالات کی روشنی میں اس نظام سے جو نئی توقعات وابستہ ہو گئی ہیں، ان کے حوالے سے بہرحال ایک بہت بڑا خلا موجود ہے اور دینی مدارس کے ارباب حل وعقد کو یہ خلا پر کرنے کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔
پروفیسر غلام رسول عدیم نے اپنے تفصیلی خطاب میں دینی مدارس کے موجودہ نظام ونصاب کے مختلف پہلووں پر اظہار خیال کیا اوراس بات پر زور دیا کہ تعلیمی معیار اور طلبہ کی ذہنی وفکری تربیت کے حوالے سے موجودہ صورت حال تسلی بخش نہیں ہے اور متعدد اصلاحات کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ مدارس کے قیام کے سلسلے میں کوئی منظم پروگرام اور منصوبہ بندی موجود نہیں ہے اور مدارس قائم کرنے والے اپنا نصاب، تربیتی نظام اور معیار قائم کرنے میں کسی ڈسپلن کے پابند نہیں ہیں جس کا نقصان سب کو نظر آ رہا ہے۔ اس کے لیے دینی مدارس کے وفاقوں کو سنجیدگی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے مدارس کی فہرست بنائی جائے، ان کے کوائف جمع کیے جائیں اور دیکھا جائے کہ کون سا مدرسہ کس دائرے میں اور کس سطح پر کام کر رہا ہے۔ پھر ان مدارس کی درجہ بندی کی جائے، ہر طالب علم کو دورۂ حدیث تک پہنچانا ضروری نہیں۔ اس طرح درجہ بندی کی جائے کہ امامت وخطابت اور اس طرح کی دیگر ضروریات کے لیے الگ معیار قائم کیا جائے اور اس کو کافی سمجھا جائے جبکہ اس کے اوپر کی سطح کے لیے طلبہ کی ذہانت اور ذوق کے مطابق مختلف علوم وفنون کے لیے ان کا انتخاب کیا جائے اور جو ضروریات ملی طور پر محسوس کی جا رہی ہیں، ان کے مطابق مستقل طور پر ان کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا جائے۔
نصاب میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس طرح نہیں کہ اس میں زیادہ سے زیادہ مضامین گھسیڑ دیے جائیں، بلکہ اس طور پر کہ تخصص کے الگ الگ شعبے بنائے جائیں ا ور ہر شعبہ کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا نصاب مرتب کیا جائے اور یہ کام ماہر اساتذہ اور متعلقہ علوم کے متخصصین کے ذریعے انجام دیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے معیار کو سخت کیا جائے، ملی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اس امر کا اہتمام کیا جائے کہ اس سطح پر کام کرنے والے علما کو عالمی زبانوں، بالخصوص انگریزی پر عبور حاصل ہو اور وہ حالات زمانہ سے واقف ہوں۔
مولانا محمد یوسف نے اپنے خطاب میں کہا کہ مدارس کی درجہ بندی کی جائے اور الگ الگ تعلیمی مراحل قائم کیے جائیں تاکہ ایک مرحلہ تک تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم اس سطح پر خدمات انجام دینے کا اہل سمجھا جائے اور اس سے اگلے مرحلہ تک اسے زبردستی نہ لے جایا جائے۔ اسی طرح علماے کرام، ائمہ اور خطبا میں عوامی سطح پر کام کرنے کا ذوق پیدا کیا جائے اور اس کے لیے ان کی تربیت کی جائے، کیونکہ ہمارے ائمہ اور خطبا جہاں جاتے ہیں، ان کا وہاں کے عوام اور ان کی دینی ضروریات سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔ وہ پہلے سے ایک طے شدہ ذہن لے کر جاتے ہیں اور ارد گرد کے ماحول اور ضروریات کو سمجھے بغیر اپنا ایجنڈا چلانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے خرابیاں جنم لیتی ہیں۔
مولانا ضیاء الرحمن نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ ہمارے مدارس کے طلبہ میں انقیاد وتسلیم کا جذبہ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ وہ تخلیقی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں اور فکر ونظر میں وسعت وترقی کی طرف خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ دینی مدارس کے درمیان مشاورت اور رابطہ کا ایسا نظام موجود ہونا چاہیے کہ سب ایک دوسرے کے کام کی نوعیت سے واقف ہوں تاکہ کسی کام میں خواہ مخواہ تکرار نہ ہو اور کوئی ضروری کام رہ نہ جائے۔
چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ مدارس کے نظام ونصاب میں بہتری پیدا کرنے کے لیے عرصہ دراز سے بحث ومباحثہ کا سلسلہ جاری ہے، لیکن عملی طور پر اس سمت میں کوئی واضح پیش رفت نہیں ہو رہی۔ انھوں نے کہا کہ کوئی عملی قدم اٹھائے بغیر محض بحث ومباحثہ کا سلسلہ طویل سے طویل تر ہو تا چلا جائے گا، اس لیے اب اس بحث کو عملی طور پر نتیجہ خیز بنانے کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے۔
پروفیسر محمد زمان چیمہ نے کہا کہ مسلمانوں کے ز وال کی اصل وجہ جہالت اور لا علمی ہے اور ہم بحیثیت قوم نہ اپنے تاریخی وعلمی ورثے سے واقفیت کی ضرورت کا کوئی احساس رکھتے ہیں اور نہ زمانے کی نبض پر ہمارا ہاتھ ہے۔ اس لیے اس رویے میں تبدیلی پیدا کیے بغیر کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
مقررین اور شرکا نے جنوبی ایشیا میں دینی مدارس کے کردار کو سراہتے ہوئے فکری ونظری بیداری کے لیے ندوۃ العلماء لکھنو اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمات پر بطور خاص خراج تحسین پیش کیا اور جامعہ سید احمد شہید لکھنو کے سربراہ مولانا سید سلمان الحسینی کی دینی وتعلیمی مساعی کی تحسین کرتے ہوئے ۳۔۴۔۵ فروری کو منعقد ہونے والے بین الاقوامی تعلیمی سیمینار کے ساتھ ہم آہنگی کے اظہار کے ساتھ اس کی کامیابی کے لیے دعا کی۔

اسلام کے نام پر انتہا پسندی کا افسوس ناک رجحان

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

کم وبیش ایک ماہ قبل اسلام آباد ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے مسجد امیر حمزہؓ نامی ایک چھوٹی سی مسجد کو غیر قانونی قرار دے کر شہید کر دیا اور ایک دوسری مسجد کی شہادت کی کارروائی بھی شروع کی جبکہ بعض دیگر مساجد کو مسمار کرنے کے نوٹس بھی جاری کیے گئے۔ اس پر راولپنڈی اور اسلام آباد کے علماے کرام نے سخت رد عمل کا اظہار کیا۔ مسجد گرائے جانے کے دوسرے روز سیکڑوں علماے کرام مسجد امیر حمزہؓ کے ملبہ پرجمع ہو گئے، وہاں ملبے پر نماز باجماعت ادا کی اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے آپس میں چندہ کر کے اس کی تعمیر نو کا اعلان کر دیا۔ ان علماے کرام کا موقف یہ تھا کہ مسجد قدیم دور سے چلی آ رہی ہے اور اسے غیر قانونی قرار دینے کے بارے میں کیپٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا موقف درست نہیں ہے، اس لیے شرعاً اس مسجد کی اسی جگہ دوبارہ تعمیر ضروری ہے، چنانچہ انھوں نے سی ڈی اے کے اقدام کو مسترد کرتے ہوئے مسجد دوبارہ تعمیر کرنے کا اعلان کر دیا۔ 
اس پر سی ڈی اے اور علماے کرام کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا، مگر اس دوران میں حضرت مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ کے قائم کردہ جامعہ حفصہ کی طالبات نے مرکزی جامع مسجد اسلام آباد کے ساتھ واقع ایک سرکاری لائبریری پر، جو بچوں کے لیے ایک عرصہ سے قائم ہے، قبضہ کر لیا اور مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ کے فرزند اور جامعہ حفصہ کے مہتمم مولانا عبد العزیز کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ یہ قبضہ احتجاجی طور پر کیا گیا ہے اور جب تک گرائی جانے والی مسجد دوبارہ تعمیر نہیں کی جاتی اور جن دیگر مساجد کو گرانے کے نوٹس دیے گئے ہیں، وہ نوٹس واپس نہیں لیے جاتے، چلڈرن لائبریری کا قبضہ واگزار نہیں کیا جائے گا۔ نوجوان باپردہ طالبات کی ڈنڈا بردار فورس نے لائبریری کا کنٹرول سنبھال لیا اور اسے آمد ورفت کے لیے بند کر دیا۔ اس پر حکومتی حلقے اور اعلیٰ انتظامی افسران بھی حرکت میں آئے اور بظاہر یہ صورت نظر آنے لگی کہ حکومت بہرحال اس قبضہ کو ختم کرانے کے لیے اقدام کرے گی، جبکہ اس کی مزاحمت طالبات کی طرف سے ہوگی جو ہزاروں کی تعداد میں جامعہ حفصہؓ کے ہاسٹل میں موجود ہیں اور اس طرح تصادم کی ایک افسوس ناک صورت حال پیدا ہو جائے گی۔ طالبات کی طرف سے اپنے مطالبات میں اسلامی نظام کے مکمل اور فوری نفاذ کو شامل کرنے سے اس تحریک کو ملک گیر شکل مل گئی۔ مولانا عبد العزیز کی اپیل پر ملک کے مختلف حصوں سے دینی مدارس کے طلبہ اور دینی کارکنوں نے مرکزی جامع مسجد اسلام آباد کا رخ کرنا شروع کیا اور ہزاروں افراد وہاں جمع ہو گئے۔
جہاں تک اسلام آباد میں گرائی جانے والی مساجد کے بارے میں جامعہ حفصہ کی طالبات کے موقف کا تعلق ہے اور اسلامی نظام کے مطالبہ کی بات ہے، اس سے ملک بھر کے دینی حلقوں نے اصولی طور پر اتفاق کا اظہار کیا، لیکن وفاقی دار الحکومت میں سرکاری فورسز کے ساتھ دینی کارکنوں، طلبہ اور بالخصوص طالبات کے تصادم کے جو امکانات واضح نظر آنے لگے تھے، ان سے ملک بھر میں پریشانی اور اضطراب کا پیدا ہونا بھی ایک فطری امر تھا۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے علماے کرام نے حکومتی حلقوں سے مذاکرات کے ذریعے سے اس مسئلہ کو حل کرانے کی مقدور بھر کوشش کی اور مساجد کی حد تک حکومت سے اپنا موقف منوانے میں وہ کامیاب بھی ہو گئے۔ اس دوران میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی اعلیٰ قیادت اسلام آباد آئی اور مولانا سلیم اللہ خان، مولانا حسن جان، مولانا محمد تقی عثمانی، مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا قاری سعید الرحمن، مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ اور مولانا انوار الحق حقانی سمیت سرکردہ علماے کرام نے اس مسئلہ کو حل کرانے میں سرگرم کردار ادا کیا، لیکن اس سب کچھ کے باوجود مسئلہ کے حل میں یہ رکاوٹ موجود رہی جو تا دم تحریر موجود ہے کہ جامعہ حفصہ کی طالبات نے دوسرے مطالبات کی منظوری تک، جن میں اسلامی نظام کا مکمل اور فوری نفاذ سرفہرست ہے، سرکاری لائبریری کا قبضہ واگزار کرنے سے انکار کر دیا اور مولانا عبد العزیز اس بات پر مصر چلے آ رہے ہیں کہ ملک میں مکمل شرعی نظام کے نفاذ تک وہ اس ماحول کو ختم نہیں کریں گے جسے سنجیدہ حلقے سرکاری فورسز کے ساتھ دینی کارکنوں اور طالبات کے تصادم کے شدید خطرے کا باعث سمجھ رہے ہیں۔ یہ بات ظاہر ہے کہ باشعور دینی حلقوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ 
اسی دوران میں یہ واقعہ بھی رونما ہوا کہ گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی خاتون صوبائی وزیر محترمہ ظل ہما عثمان کو قتل کر دیا گیا۔ ان کو قتل کرنے والا شخص پکڑا گیا ہے اور اس نے برملا یہ کہا ہے کہ اس نے خاتون صوبائی وزیر کو اس لیے قتل کیا ہے کہ وہ عورت کی حکمرانی کو جائز نہیں سمجھتا اور اس طرح بے پردہ پھرنے کو پسند نہیں کرتا، اس لیے اس نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس سے اسلام آباد کے حالات سے ذہن میں پیدا ہونے والی تشویش دوچند ہو گئی ہے کہ اسلام کے نام پر اور اسلام کے لیے ملک کے اندر اس طرح تصادم کا ماحول پیدا کرنے اور قوت کے استعمال کا رجحان ہمارے ہاں کیا کیا گل کھلا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اس ملک اور قوم کی حفاظت کی دعا ہی کی جا سکتی ہے۔
یہ شخص اس سے قبل بدکاری کے الزام میں کئی عورتوں کو قتل کر چکا ہے اور اس کا اعلان ہے کہ وہ آئندہ بھی اسی طرح بے پردہ عورتوں کو قتل کرتا رہے گا۔ اس طرز عمل کو جنون اور نفسیاتی مرض کے سوا کسی اور عنوان سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے کسی طرح بھی اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ کوئی شخص شریعت کے خلاف ہونے والے کسی عمل پر خود فیصلہ کرنے بیٹھ جائے اور ہتھیار اٹھا کر لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو عین بدکاری کی حالت میں دیکھے تو کیا وہ اسے قتل نہیں کرے گا؟ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایسی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور قانون کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔
بہرحال اسلام آباد میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے سرکاری فورسز کے ساتھ تصادم کا ماحول ہو یا گوجرانوالہ میں بے پردگی کے عنوان سے خاتون صوبائی وزیر کے قتل کا افسوس ناک سانحہ ہو، اس انتہا پسندی پر افسوس کا اظہار ضروری ہے اور اسے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جب نفاذ اسلام کے تمام دستوری راستے بند کر دیے گئے ہوں اور پیش رفت کے بجائے ’’ریورس گیئر‘‘ کا ماحول قائم کر دیا گیا ہو اور مغربی ثقافت کے فروغ کے لیے تمام ریاستی وسائل استعمال ہو رہے ہوں، وہاں اس قسم کی افسوس ناک انتہا پسندی کو جنم لینے سے آخر روکا بھی کیسے جا سکتا ہے؟
(۲۲ فروری)

اپریل ۲۰۰۷ء

عدالتی بحران اور وکلا برادری کی جدوجہدمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
نجات کے لیے ایمان اور عمل صالح کی اہمیتمفتی ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی
جہاد اور معاصر بین الاقوامی قانونی نظام ۔ چند اہم مباحثمحمد مشتاق احمد
سید مدنی، تجدد پسندی اور قدامت پسند حلقےپروفیسر میاں انعام الرحمن
مکاتیبادارہ

عدالتی بحران اور وکلا برادری کی جدوجہد

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس محترم جناب جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہونے کے بعد سے ملک میں عدالتی بحران کی جو کیفیت پیدا ہو گئی ہے، اس سے ہر محب وطن شہری پریشان او رمضطرب ہے اور عالمی سطح پر بھی وطن عزیز کے لیے جگ ہنسائی کی افسوس ناک صورت حال سامنے آئی ہے۔ جسٹس افتخار محمدچودھری کے خلاف پیش کی جانے والی شکایات کو اگر نارمل طریقے سے سپریم جوڈیشل کونسل میں لایا جاتا اور اس کے ساتھ انھیں دستور کے مطابق جبری رخصت پر بھی بھیج دیا جاتا تو یہ ایک معمولی کی کارروائی سمجھی جاتی اور بعض حلقوں کے تحفظات کے باوجود بحران کا یہ منظر نمودار نہ ہوتا، لیکن اس کارروائی کا آغاز جس طریقے سے ہوا اور وہ جس قسم کے مراحل سے گزر کر آگے بڑھی، اس نے شکوک وشبہات اور اعتراضات وخدشات کا بازار گرم کر دیا جس سے ملک کے قانون دان طبقے کا مضطرب ہو کر سڑکوں پر آنا تو ایک فطری امر تھا ہی، دیگر قومی حلقوں نے بھی اس کی سنگینی کو محسوس کیا اور بہت سے سیاسی ودینی حلقے وکلا برادری کے ساتھ ہم آواز ہو گئے ہیں۔
جو کچھ ہوا اور جس طریقے سے ہوا، وہ سب کے سامنے ہے اور اس کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ یہ بہت ہی غلط انداز سے ہوا اور اس پر ملک بھر میں جس اضطراب اور بے چینی کا اظہار کیا جا رہا ہے، وہ نہ صرف جائز اور روا ہے بلکہ ہمارے خیال میں اصل ضرورت سے بہت کم ہے، اس لیے کہ عدلیہ، ریاست کا ایک ایسا محترم ستون ہے جس کا احترام ہر حال میں قائم رہنا ناگزیر ہے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قومی اداروں کو وہ مقام اور حیثیت حاصل نہیں ہے جو ان کا جائز حق ہے اور جو قومی زندگی میں اعتدال وتوازن، ملکی سا لمیت، قومی وحدت اور ملی تشخص کے لیے ضروری ہے۔ عدلیہ کا مقام ان سب میں بالا ہے، اس لیے کہ دیگر قومی شعبوں اور اداروں میں توازن قائم رکھنے کی ذمہ داری بھی بنیادی طور پر اسی کے پاس ہے، اس لیے اگر عدلیہ ہی خدانخواستہ بے وقار ہو جائے اور اس کی شخصیات کا احترام معروف حوالوں سے باقی نہ رہے تو دیگر قومی اداروں کے جائز مقام کے تحفظ کا اعتماد بھی قائم نہیں رہ سکتا۔
جہاں تک جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف شکایات اور الزامات کا تعلق ہے، یہ حکومت کا حق ہے کہ وہ ان الزامات کو سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے لائے اور جسٹس چودھری کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو ان الزامات سے بری ثابت کریں، ورنہ اس کے دستوری اور قانونی نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔ ہم ان الزامات اور ان کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ اس کے بارے میں کونسل ہی فیصلے کی مجاز ہے، لیکن اس سے ہٹ کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ حکومتی سطح پر جو سلوک روا رکھا گیا ہے، اس پر وکلا برادری اور قومی حلقوں کے احتجاج میں ہم پورے طور پر شریک ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عوامی جذبات اور قانون دان حلقوں کے احساسات کی پاسداری کرتے ہوئے عدلیہ اور اس سے متعلقہ شخصیات کے وقار کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات بروئے کار لائے اور وکلا کے مطالبات کو منظور کرے۔
اس کے ساتھ ہی ہم اس معاملے کے دو پہلووں کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک یہ کہ عدلیہ کے تمام تر احترام اور اس کی ہر ممکن پاسداری کو ناگزیر قرار دینے کے باوجود موجودہ افسوس ناک صورت حال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو اس کے اسباب وعوامل میں خود عدلیہ کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دستور کی بالادستی اور دستوری اداروں کے احترام کو اب تک جس اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے اور جس کا تسلسل بدستور موجود ہے، اس سب کچھ نے ہمارے خیال میں جسٹس محمد منیر مرحوم کے اس فیصلے کی کوکھ سے جنم لیا ہے جو صرف گورنر جنرل غلام محمد مرحوم کے کام نہیں آیا تھا، بلکہ اس کے بعد بھی ہر آمر اور طالع آزما کی مہم جوئی کو دستوری جواز فراہم کرنے کا باعث بنتا چلا آ رہا ہے۔ اگر جسٹس محمد منیر مرحوم یہ متنازعہ فیصلہ نہ دیتے اور ان کے بعد اسی فیصلے کے تسلسل کو ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے عنوان کے تحت ہر دور میں قائم نہ رکھا جاتا تو آج خود عدالت عظمیٰ کو اس افسوس ناک بحران سے دوچار نہ ہونا پڑتا اور جو کچھ ہوا ہے، اس کا تصور بھی کسی کے ذہن میں نہ آتا۔ اس لیے ہم بصد ادب واحترام قانون دان برادری کے دونوں حصوں یعنی جج صاحبان اور وکلا سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی موجودہ جدوجہد بالکل حق اور درست ہے، لیکن اس کے موثر اور نتیجہ خیز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ معروضی صورت حال اور مسائل کے ساتھ ساتھ اس کے حقیقی اسباب اور عوامل کو بھی پیش نظر رکھا جائے اور ان کے تدارک کے لیے بھی کوئی ٹھوس صورت اختیار کی جائے۔
دوسرے نمبر پر ہم اس امر کے بارے میں اپنے تحفظات کو ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ ملک کے نئے قائم مقام چیف جسٹس محترم رانا بھگوان داس بنے ہیں اور موجودہ عدالتی بحران کے حل میں ان کے کردار کو اساسی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ ہم ایک معروف قانون دان، اچھی شہرت رکھنے والے منصف اور صاحب کردار شخصیت کے طور پر ان کا احترام کرتے ہیں اور ان کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت انھیں اس بحران میں ملک وقوم کے مفاد میں بہتر فیصلہ کرنے اور کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین، لیکن ملک کے جو دینی اور قانونی حلقے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف جسٹس کے منصب پر ایک غیر مسلم جج کے فائز ہونے کے اصولی جواز کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، ہم ان کے شک وشبہ کو بھی بے جواز نہیں سمجھتے۔ یہ درست ہے کہ ملک کے دستور میں کسی غیر مسلم جج کے چیف جسٹس بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، یہ بات بھی بالکل بجا ہے کہ جسٹس رانا بھگوان داس دستوری اور قانونی طور پر سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بننے کا پورا استحقاق رکھتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ اس سے قبل جسٹس اے آر کارنیلیس غیر مسلم ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں، بلکہ ہم تو ان کے اس اعزاز وافتخار کے بھی پوری طرح معترف ہیں کہ انھوں نے ایک باکردار اور دیانت دار جج کے طور پر عدلیہ کے وقار میں اضافہ کیا اور غیر مسلم ہوتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی حلقوں میں اسلامی قانون اور اسلامی نظام عدالت کا مسلسل دفاع اور وکالت کر کے ملک کے دینی حلقوں کے دلوں میں بھی اپنے لیے جگہ بنائی، لیکن اس سب کچھ کے باوجود اصولی طور پر کسی غیر مسلم کا ملک کی عدالت عظمیٰ کا سربراہ بننا بہرحال محل نظر ہے اور معاملہ کے اس پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اصولی اعتراض اور بھی زیادہ قابل توجہ ہو جاتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا چیف جسٹس عدالت عظمیٰ کے اس شریعت اپیلٹ بنچ کا بھی سربراہ ہوتا ہے جو وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرتا ہے اور جسے اسلامی احکام وقوانین کی بنیاد پر فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ اس صورت میں جہاں قرآن وسنت کی تشریح وتعبیر کا اختیار ایک غیر مسلم جج کے ہاتھ میں دے دینا شرعی اصولوں کے مطابق درست نظر نہیں آتا، وہاں ہمارے خیال میں یہ اس جج کے ساتھ بھی زیادتی ہے کہ اسے اس کے ایمان وعقیدہ کے خلاف کسی دوسرے مذہب کے مطابق، جس پر وہ یقین نہیں رکھتا، فیصلے کرنے کا پابند بنایا جائے۔
ہماری معلومات کے مطابق برطانیہ کا بادشاہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کیتھولک عیسائی نہ ہو، کیونکہ وہ ملک کا بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ چرچ آف انگلینڈ کا بھی سربراہ ہوتا ہے اور چرچ آف انگلینڈ کیتھولک نہیں ہے، اس لیے اس کا سربراہ کیتھولک نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ بادشاہت کے قواعد وضوابط میں یہ بات باقاعدہ طور پر شامل ہے کہ چونکہ برطانیہ کا بادشاہ چرچ کا بھی سربراہ ہوتا ہے، اس لیے اس کا تعلق کیتھولک فرقہ سے نہیں ہوگا۔ اگر اس نزاکت کا برطانیہ کے نظام میں لحاظ رکھا گیا ہے اور وہاں اس پابندی کا اہتمام ضروری سمجھا گیا ہے تو ہمارے ہاں بھی اس اصولی موقف کے احترام میں کوئی حجاب محسوس نہیں کیا جانا چاہیے، اس لیے ہم ملک کی قانون دان برادری اور دستوری حلقوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اس مسئلے کو ابہام میں رہنے دینے کے بجائے اس کا کوئی حل ضرور نکالیں گے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کی عدالت عظمیٰ کے اسلامی تشخص کو اس حوالے سے شکوک وشبہات کے دائرے سے نکالیں گے۔
ان تحفظات کے اظہار کے ساتھ ہم عدلیہ کے وقار اور بالادستی کے تحفظ کے لیے وکلا برادری کی جدوجہد اور مطالبات کی حمایت کرتے ہیں، ان کے ساتھ بھرپور یک جہتی اور ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہیں اور دستور کی بالادستی، عدلیہ کے وقار واحترام اور اصول وقانون کی حکمرانی کی اس جدوجہد کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں، آمین یا رب العالمین۔

نجات کے لیے ایمان اور عمل صالح کی اہمیت

مفتی ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی

(حضرت مولانا مفتی محمد عبد اللہ لدھیانوی قدس اللہ سرہ العزیز کا تعلق علماے لدھیانہ کے معروف خاندان سے تھا جس نے تحریک آزادی اور تحریک ختم نبوت میں ہمیشہ ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ وہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی نور اللہ مرقدہ کے شاگرد تھے، جبکہ ان کے فرزند حضرت مولانا عبد الواسع لدھیانوی کا شمار مجلس احرار اسلام کے سرکردہ راہ نماؤں میں ہوتا تھا اور ان کے ایک فرزند حضرت مولانا علامہ محمد احمد لدھیانوی جمعیۃ علماے اسلام پاکستان کے سرگرم راہ نماؤں میں سے تھے۔ حضرت مولانا محمد عبد اللہ لدھیانوی تقسیم ہند کے بعد لدھیانہ سے ہجرت کر کے گوجرانوالہ تشریف لائے اور دار العلوم نعمانیہ کے نام سے دینی درس گاہ قائم کی، جبکہ مختلف عنوانات پر ان کی گراں قدر تحریرات بھی شائع ہوتی رہی ہیں اور حالات حاضرہ کے پیش نظر علماے کرام کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے رہنا ان کا خصوصی ذوق تھا۔ ان کے پوتے اور ’الشریعہ‘ کی مجلس ادارت کے رکن پروفیسر میاں انعام الرحمن نے ان کی مطبوعہ وغیر مطبوعہ تحریرات کو پرانے ریکارڈ سے نکال کر قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے جنھیں برکت واستفادہ کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔ رئیس التحریر)

ہمارے سامنے دو چیزیں پیش کی گئی ہیں: تقدیر اور تدبیر۔ تقدیر میں عوام کو غوروخوض کرنے سے روکا گیا ہے ، لیکن سمجھ دار لوگوں نے اس کو جس عمدہ طریقے سے بیان کیا ہے اور حل کیا ہے ، اس کو آگے چل کر اپنے موقع پر بیان کیا جائے گا ۔ دوسری چیز یعنی تدبیر ، اس کے اختیار کرنے کا بندے کو تاکید سے حکم دیا گیا ہے ۔ تدبیر کیا ہے؟ تدبیر ہے کسی مقصد کے حاصل کرنے کے لیے اس کے ذرائع اور اسباب کو کام میں لانا۔ یہ ثابت شدہ بات ہے کہ ذرائع اور اسباب میں اللہ تعالیٰ نے تاثیر رکھی ہے، مگر ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ ان کی تاثیر اللہ تعالیٰ کے حکم اور ارادہ سے ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور ایک صداقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ انسان جب شعور کے درجہ کو پہنچتا ہے، اس کے سامنے دو چیزیں پیش ہوتی ہیں: دین اور دنیا۔ ان دونوں سے خالقِ کائنات نے دنیا کو ذریعہ کا درجہ دیا ہے اور دین کو اصل اور مقصد قرار دیا ہے۔ اور یہ بھی ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ ہر علم کی فضیلت اور بلندی اس کے معلوم کے فائق اور افضل ہونے سے ہوتی ہے۔ پس جب کہ دین ( جو مقصودِ اصلی ہے) دنیا سے (جو محض ذریعہ ہے) افضل اور اعلیٰ ثابت ہوا تو علمِ دین بھی علمِ دنیا سے یقیناًافضل اور درجہ میں مقصودِ اصلی ثابت ہوا۔ یہ بھی یقین کر لینا ضروری ہے کہ بے شک علمِ دین علمِ دنیا کے اعتبار سے مقصودِ اصلی ہے، لیکن عمل کے لیے یہ بھی ذریعہ ہے، کیونکہ علم سے مقصود عمل ہے۔ اگر علم ہو اور اس کے مطابق عمل نہ ہو تو یہ ایسا ہے کہ جسم ہو مگر اس میں جان نہ ہو ۔ 
دینِ اسلام میں ایمان کے ساتھ اعمالِ صالح کو نجات اور دخول جنت کے اسباب کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے ۔ عملِ صالح کیا ہے؟ اس کی مختصر تشریح یہ ہے کہ جو عمل اللہ تعالیٰ کے حکم اور رضا مندی کے تحت ہو اور ساتھ ہی نبی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی اور متابعت سے کیا گیا ہو۔ اس میں شک نہیں کہ اعمالِ صالحہ کا کیا جانا علومِ دین حاصل کیے بغیر ممکن نہیں۔ پس ثابت ہوا کہ اعمالِ صالحہ کے حاصل ہونے کے لیے ہر مکلف کو علمِ دین بقدرِ ضرورت حاصل کرنا لازمی اور ضروری ہے۔ ایمان، اسلام، اعمالِ صالحہ اور معروفات و منکراتِ شرعیہ کا علم حاصل کرنا اور پھر علم کے مطابق زندگی کے تمام شعبوں میں عمل کرنا ہر ایک مرد و عورت مسلم پر لازمی اور ضروری ہے۔ اب مذکورہ بالا امور میں عام غورو فکر کرنے کے بعد ایک مسلمان مبصر کے لیے سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے کہ ان تمام مسلم مردوں اور عورتوں سے جن کے نام اسلامی ہیں اور سرکاری رجسٹروں و دیگر دفتروں میں بھی ان کو مسلمان درج کیا ہوا ہے، ان میں سے کس قدر مسلمان ہیں جو کہ عنداللہ و عند الرسول بھی واقعہ میں مسلمان ہیں؟ افسوس کہ مسلمان کس قدر اپنی اصلیت اور حقیقت سے جدا ہو چکے ہیں ۔
مسلماں گشتی و آگاہ نیستی
مسلمانی چیست و تو خود کیستی 
(’’تم مسلمان تو ہو گئے ہو لیکن اس سے آگاہ نہیں ہو کہ مسلمانی کیا چیز ہے اور تمھارے طور اطوار کیا ہیں۔‘‘)
ہمارا اسلام سے دور نکلتے جانا اور اسلامیات میں کمزور ہوتے جانا، یہ ایک ایسی کھلی ہوئی بات ہے جس کو سمجھنے کے لیے کسی گہرے تفکر کی ضرورت نہیں، محض عقلِ عام رکھنے والا ایک عامی بھی اس کو سمجھ سکتا ہے۔ مگر یہ نامساعد حالات کی طاقت کا کرشمہ ہے کہ ایسی واضح بات کو سمجھانے کے لیے بھی دلائل کی ضرورت پیش آ رہی ہے اور دلائل کے زور سے بھی اس کو دلوں میں اتارنا مشکل ہو رہا ہے۔ دین اور علومِ دین کی ضرورت کے متعلق آج گفتگو کرنا عام مسلمانوں کے تخیل اور مجالس سے خارج ہو چکا ہے۔ اب ہم مسلمانوں کی دنیا بھی غیر مسلموں کی طرح دین پر، اور غیر اسلامی و دنیاوی علوم، علومِ اسلام سے افضل اور مقدم ہو چکے ہیں۔ اب ہم اسی چیز کو اپنے لیے ضروری اور مفید سمجھتے ہیں جس میں دنیا کا کوئی فائدہ ہو ۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ مَا لَکُمْ إِذَا قِیْلَ لَکُمُ انفِرُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَی الأَرْضِ أَرَضِیْتُم بِالْحَیَاۃِ الدُّنْیَا مِنَ الآخِرَۃِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فِیْ الآخِرَۃِ إِلاَّ قَلِیْلٌ (التوبۃ۹، آیت ۳۸)
’’ اے ایمان والو! تم کو کیا ہوا، جب تم سے کہا جاتا ہے کہ کوچ کرو اللہ کی راہ میں تو گرے جاتے ہو زمین پر۔ کیا خوش ہوگئے دنیا کی زندگی پر آخرت کو چھوڑ کر؟ سو کچھ نہیں نفع اٹھانا دنیا کی زندگی کا آخرت کے مقابلہ میں مگر بہت تھوڑا۔‘‘ 
وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلاَّ لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَلَلدَّارُ الآخِرَۃُ خَیْْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُونَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ (الانعام۶، آیت ۳۲)
’’ اور نہیں ہے زندگانی دنیا کی مگر کھیل اور جی بہلانا، اور آخرت کا گھر بہتر ہے پرہیز گاروں کے لیے۔ کیا تم نہیں سمجھتے؟‘‘ 
ہم اس سبق کو جو اللہ تعالیٰ نے ہم کو دیا تھا، بھول بیٹھے ہیں بلکہ یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ علمِ دین پڑھ کر کریں گے کیا؟ اُف، ایک مسلمان کی زبان سے یہ بات کس قدر روح فرسا اور مضحکہ خیز ہے۔ مسلمان اپنے مقصدِ حیات سے کس قدر دور جا پڑے ہیں۔ غلط تربیت اور غیر اسلامی علوم کا حصول اور غیر جنس کی محبت کا یہی نتیجہ ہوا کرتا ہے ۔
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہبازی 
بے شک مسلمان کے لیے دین اور دنیا دونوں ضروری ہیں مگر ضرورت، ضرورت میں بین فرق ہے۔ دنیا اس لیے ضروری ہے کہ ذریعہ زندگی ہے اور دین اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان کا مقصد ہے اور اس کی زندگی اسی لیے صرف اسی لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو درحقیقت مومنوں کے ہی لیے پیدا کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے آخرت کے مالک بنیں ۔ غیر مسلموں کو تو ان کی وجہ سے روزی مل رہی ہے۔ قیامت جب ہی آئے گی جب ایک بھی مومن نہیں رہے گا ، یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔ (ارشاد باری تعالیٰ ہے):
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّہِ الَّتِیَ أَخْرَجَ لِعِبَادِہِ وَالْطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ ہِیْ لِلَّذِیْنَ آمَنُواْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَذَلِکَ نُفَصِّلُ الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ (الاعراف۷، آیت ۳۲)
’’ تو کہہ:کس نے حرام کیا اللہ کی زینت کو جو اس نے پیدا کی اپنے بندوں کے واسطے اور ستھری چیزیں کھانے کی؟ تو کہہ: یہ نعمتیں اصل میں ایمان والوں کے واسطے ہیں دنیا کی زندگی میں، خالص انہی کے واسطے ہیں قیامت کے دن۔ اسی طرح مفصل بیان کرتے ہیں ہم آیتیں ان کے لیے جو سمجھتے ہیں ۔‘‘ 
تشریح : ’’یعنی منع کام میں خرچ نہ کرے، باقی کھانا پینا سب روا ہے۔ جو نعمت ہے، سو مسلمان کے لیے پیدا ہوئی ہے۔ دنیا میں کافر بھی شریک ہو گئے، آخرت میں صرف انہی کو ہے۔‘‘ ( شاہ عبدالقادر ؒ ) 
کون کہتا ہے کہ مسلمان دنیا نہ کمائے؟ دنیا کا حاصل کرنا تو اس کو بھی ضروری ہے بلکہ اس لیے ضروری ہے کہ اسی کی اپنی چیز ہے اور اسی کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ مسلمان کو دنیا کے کمانے سے منع نہیں کیا گیا بلکہ اس کے کمانے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن مسلمان، صرف مسلمان کو اس بات کا سمجھنا ضروری ہے کہ اس کا اپنا وجود اور اس کی زندگی دنیا اور صرف دنیا کے لیے ہے یا کسی اور اعلیٰ و بلند مقصد کے لیے ہے؟ دنیا بری نہیں، دنیا کا نشہ برا ہے۔ مسلمان وہ ہے جس کی عبادت اور قربانی اور زندگی اور موت، اللہ رب العالمین کے لیے ہو اور جو مسلمان ہی زندہ رہنا چاہتا ہو اور مسلمان ہی مرنا چاہتا ہو اور جس کی یہ تمنا ہو کہ میں اور میری نسل محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی راہ راست پر قائم رہیں۔ اور جو مسلمان صرف دنیا کے لیے اور ملازمتوں اور عہدوں کے لیے مسلمان ہیں، پس نہ وہ واقعتا مسلمان ہیں اور نہ وہ ہمارے مخاطب ہیں۔ ایسے مسلمان خود اپنے اوراپنی نسل کے بد خواہ اور دشمن ہیں۔ یہ لوگ اسلامیات سے عاری ہیں اور اپنی نوخیز نسلوں کو خود اپنے ہاتھوں ہلاک و برباد کر رہے ہیں۔ 
برادرانِ اسلام! نفس و شیطان اور دنیا کے فریب میں نہیں آنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاتم الکتب کتاب قرآن مجید میں صاف صاف بیان فرمادیا ہے کہ میری جناب میں دنیا کی کوئی بھی چیز، جس کا حصول میری اجازت کے تحت نہیں ہو گا، اور مومن کا کوئی بھی عمل جو میرے دین کے خلاف ہو گا، اور کسی کی سفارش جبکہ اعمالِ مطلوبہ ساتھ نہیں ہوں گے ، ان میں سے کوئی چیز بھی قابلِ قبول نہیں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے کسی بندے پر بھی ظلم کو، فریب کو اور بے عزتی کو جائز نہیں کرتا، اور میں نے بے حیائی و بد کاری کو حرام قرار دے دیا ہے اور میں اپنے حق میں شرک کو ہر گز معاف نہیں کروں گا ۔ میرے نزدیک بندوں میں سے مسلم اور غیر مسلم، مسلموں میں سے فرماں بردار اور نافرمان، بدی اور نیکی، حلال اور حرام، پاک اور پلید، صدق اور کذب، علیٰ ہذا ہر دو متضاد چیزیں یکساں درجہ نہیں رکھتیں۔ میں ذرہ برابر بھی بے انصافی نہیں کروں گا اور نہ ذرہ برابر انصاف سے محروم کروں گا : 
فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْْراً یَرَہُ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَرَہُ (الزلزال۹۹، آیات ۷و ۸)
’’سو جس نے کی ذرہ بھر بھلائی، وہ دیکھ لے گا اسے اور جس نے کی ذرہ بھر برائی، وہ دیکھ لے گا اسے ۔‘‘
جو کہا جا چکا ہے بدلا نہیں جائے گا :
مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ (ق۵۰، آیت ۲۹)
’’ بدلتی نہیں بات میرے پاس اور میں ظلم نہیں کرتا بندوں پر۔‘‘ 
تمام کائنات پر میری حکومت ہے اور ایک ذرہ بھی میرے قبضہ سے باہر نہیں، مگر میں مجرم کو جلدی نہیں پکڑتا بلکہ ڈھیل دیتا ہوں اور توبہ کے لیے موقع دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نہ بدلنے والے فیصلہ جات کو عقلیت اور حکمت (فلسفہ) کے ساتھ بیان کر دیا ہے اور انسانیت عامہ پر حجت اور دلیل قائم کر دی ہے۔ فرماتے ہیں :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْْہَا مَلَاءِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا یَعْصُونَ اللَّہَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُونَ (التحریم۶۶، آیت ۶)
’’اے ایمان والو بچاؤ اپنی جان کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے جس کی چھپٹیاں ہیں آدمی اور پتھر، اس پر مقرر ہیں فرشتے تند خو زبردست، نافرمانی نہیں کرتے اللہ کی جو بات فرمائے ان کو، اور وہی کام کرتے ہیں جو ان کو حکم ہو ۔‘‘ 
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا ہَلْ أَدُلُّکُمْ عَلَی تِجَارَۃٍ تُنجِیْکُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِیْمٍ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَتُجَاہِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ وَمَسَاکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ وَأُخْرَی تُحِبُّونَہَا نَصْرٌ مِّنَ اللَّہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ (الصف۶۱، آیات ۱۰ تا ۱۳)
’’اے ایمان والو! میں بتلاؤ ں تم کو ایسی سوداگری جو بچائے تم کو ایک عذاب دردناک سے؟ ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور لڑو اللہ کی راہ میں اپنے مال سے اور اپنی جان سے۔ یہ بہتر ہے تمہارے حق میں اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔ بخشے گا وہ تمہارے گناہ اور داخل کرے گا تم کو باغوں میں جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں اور ستھرے گھروں میں بسنے کے باغوں کے اندر۔ یہ ہے بڑی مراد ملنی۔ اور ایک اور چیز دے گا جس کو چاہتے ہو، مدد اللہ کی طرف سے اور فتح جلدی، اور خوشی سنا دے ایمان والو ں کو۔‘‘ 
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَن ذِکْرِ اللَّہِ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاکُم مِّن قَبْلِ أَن یَأْتِیَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِیْ إِلَی أَجَلٍ قَرِیْبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَکُن مِّنَ الصَّالِحِیْنَ وَلَن یُؤَخِّرَ اللَّہُ نَفْساً إِذَا جَاء أَجَلُہَا وَاللَّہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (المنافقون۶۳، آیات ۹ تا ۱۱)
’’ اے ایمان والو! غافل نہ کر دیں تم کو تمہارے مال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے۔ اور جو کوئی یہ کام کرے تو وہی لوگ ہیں ٹوٹے میں۔ اور خرچ کرو کچھ ہمارا دیا ہوا اس سے پہلے کہ آ پہنچے تم میں کسی کو موت۔ تب کہے اے رب، کیوں نہ ڈھیل دی تو نے مجھ کو ایک تھوڑی سی مدت کہ میں خیرات کرتا اور ہو جاتا نیک لوگوں میں؟ اور ہر گز نہ ڈھیل دے گا اللہ کسی جی کو جب آ پہنچا اس کا وعدہ، اور اللہ کو خبر ہے جو تم کرتے ہو ۔‘‘ 
إِنَّ اللّٰہَ اشْتَریٰ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُم بِأَنَّ لَہُمُ الجَنَّۃَ یُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ وَعْداً عَلَیْْہِ حَقّاً فِیْ التَّوْرَاۃِ وَالإِنجِیْلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفیٰ بِعَہْدِہِ مِنَ اللّہِ فَاسْتَبْشِرُواْ بِبَیْْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُم بِہِ وَذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (التوبۃ ۹، آیت ۱۱۱)
’’ اللہ نے خرید لی مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔ لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں، پھر مارتے ہیں اور مرتے ہیں۔ وعدہ ہو چکا اس کے ذمہ پر سچا توریت اور انجیل اور قرآن میں، اور کون ہے قول کا پورا اللہ سے زیادہ؟ سو خوشیاں کرو اس معاملہ پر جو تم نے کیا ہے اس سے اور یہی ہے بڑی کامیابی ۔‘‘ 
لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّی تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَیْْءٍ فَإِنَّ اللّہَ بِہِ عَلِیْمٌ (آل عمران ۳، آیت ۹۲)
’’ہر گز نہ حاصل کر سکو گے نیکی میں کمال جب تک نہ خرچ کرو اپنی پیاری چیز سے کچھ، اور جو چیز خرچ کرو گے سو اللہ کو معلوم ہے۔‘‘
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ (البقرۃ ۲،آیت ۱۵۵)
’’اور البتہ ہم آزمائیں گے تم کو تھوڑے سے ڈر سے اور بھوک سے اور نقصان سے مالوں کے اور جانوں کے اور میووں کے، اور خوش خبری دے ان صبر کرنے والوں کو ۔‘‘ 
یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِیْہِ وَأُمِّہِ وَأَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہِ وَبَنِیْہِ لِکُلِّ امْرِءٍ مِّنْہُمْ یَوْمَءِذٍ شَأْنٌ یُغْنِیْہِ (سورۃعبس۸۰، آیات ۳۴ تا ۳۷)
’’جس دن کہ بھاگے مرد اپنے بھائی سے اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی ساتھ والی سے اور اپنے بیٹوں سے، ہر مرد کو ان میں سے اس دن ایک فکر لگا ہوا ہے جو اس کے لیے کافی ہے ۔‘‘ 
قرآن مجید اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی حجت انسان خصوصاً مسلمان کے لیے قوی اور مضبوط نہیں ہو سکتی۔ پس جو شخص نقلِ صادق اور عقلِ سلیم کے پیش کردہ دلائل سے ہدایت اور نصیحت حاصل نہیں کرتا ، وہ معاند اور دیدہ و دانستہ منکر ہے : 
فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعْدُ بِالدِّیْنِ أَلَیْْسَ اللَّہُ بِأَحْکَمِ الْحَاکِمِیْنَ (التین ۹۵، آیات ۷و۸)
’’پھر تو اس کے پیچھے کیوں جھٹلائے بدلہ ملنے کو؟ کیا نہیں ہے اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم ؟‘‘ 
فما یکذبک میں لفظ ’ما‘ کے حسنِ استعمال پر غور کرو ، اس نے انسانی ضلالت کی اصل حقیقت بے نقاب کر دی ہے۔ اس سے صاف کھل گیا کہ انسان نے انکار کی راہ ہمیشہ تقلید و عناد کی بنا پر اختیار کی ہے، دلائل و شہادات نے کبھی اس راہ میں اس کا ساتھ نہیں دیا، کیونکہ دلائل و شہادات کی اس پوری کائنات میں ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جو انکار پر آمادہ کرے ۔ پس انسانوں کو مخاطب کر کے یہ دعوت دی گئی ہے کہ وہ دلائل پر غور کریں۔ دلائل اور شہادتوں کے بعد اوہام اور تخمینے اور آرزوئیں ہی باقی رہتی ہیں جو اعتماد کے لائق نہیں ۔ 
اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت میں کوئی ساجھی نہیں ہے۔ اس نے ہر کام کے لیے ایک مدت معین فرما دی ہے ۔ قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کا ایک ایک لفظ خدا کا تکلم کردہ ہے، اس لیے اس سے بہتر انسان کی ہدایت کے لیے اس وقت کوئی اور کتاب نہیں ہے۔ انسان کے لیے اور انسان کے اوپر یہی کتاب حجت اور دلیل ہے۔ اس کتاب کے مختلف مقامات سے اوپر کی آیاتِ مبارکہ نقل کر دی ہیں، ان کے تراجم اور تشریحات کو خوب غور سے سمجھنا چاہیے۔ اس طرح غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ احکام مجھے مخاطب قرار دے کر سنائے جا رہے ہیں کہ میرا بندہ اور غلام ہونے کی حیثیت سے میرے احکام کو سن، اور ان پر عمل کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کر، اور تجھے اس بات کو ٹھنڈے دل سے یقین کر لینا چاہیے کہ میری عدالت گاہ میں قیامت کے دن کسی کی دنیاوی حیثیت اور پوزیشن کام نہیں آئے گی :
یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَلَا یَغُرَّنَّکُم بِاللَّہِ الْغَرُورُ (فاطر۳۵، آیت ۵)
’’ اے لوگو! بے شک اللہ کا وعدہ ٹھیک ہے، سو نہ بہکائے تم کو دنیا کی زندگانی اور نہ دغا دے تم کو اللہ کے نام سے وہ دغا باز۔‘‘
دنیا کی ساری نعمتیں حاصل کرلینے والا مسلمان جو میری نا فرمانی پر مرے گا، اس کے لیے دنیا کی کوئی چیز بھی میری درگاہ میں اپیل نہیں کر سکے گی۔ جو شخص فتح مند اور انعام یافتہ ہونا چاہتا ہو، اس کو دنیا میں آزمائشوں سے گزرنا پڑے گا اور بوقت مطالبہ ہر محبوب چیز کی قربانی کرنی پڑے گی :
لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّی تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَیْْءٍ فَإِنَّ اللّہَ بِہِ عَلِیْمٌ (آل عمران ۳، آیت ۹۲) 
’’ ہر گز نہ حاصل کر سکو گے نیکی میں کمال جب تک نہ خرچ کرو اپنی پیاری چیز سے کچھ۔ اور جو چیز خرچ کرو گے سو اللہ کو معلوم ہے۔‘‘ 
الم أَحَسِبَ النَّاسُ أَن یُتْرَکُوا أَن یَقُولُوا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُونَ ( العنکبوت ۲۹،آیات ۱و۲)
’’ کیا یہ سمجھتے ہیں لوگ کہ چھوٹ جائیں گے اتنا کہہ کر کہ ہم یقین لائے اور ان کو جانچ نہ لیں گے ؟‘‘ 
أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّہُ الَّذِیْنَ جَاہَدُواْ مِنکُمْ وَیَعْلَمَ الصَّابِرِیْنَ (آل عمران۳، آیت ۱۴۲)
’’ کیا تم کو خیال ہے کہ داخل ہو جاؤ گے جنت میں اور ابھی تک معلوم نہیں کیا اللہ نے جو لڑنے والے ہیں تم میں اور معلوم نہیں کیا ثابت قدم رہنے والوں کو؟ ‘‘
در رہِ منزلِ لیلیٰ خطرہاست بجان
شرط اول قدم آں است کہ مجنوں باشد
وَأَن لَّیْْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعٰی (النجم۵۳، آیت ۳۹)
’’ اور یہ کہ آدمی کو وہی ملتا ہے جو اس نے کمایا۔‘‘
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے 
بہت سے غافل دنیا کی زندگی کے لیے ہر ایک تدبیر اختیار کرتے ہیں لیکن زندگئ آخرت کے لیے خدا کے فضل یا تقدیر پر بھروسہ کیے بیٹھے ہیں، تدبیر کو آخرت کے لیے ضروری نہیں سمجھتے۔ ایسے لوگ عقل کے دشمن اور تاثیرات اسباب سے اندھے اور نقل کے منکر ہیں۔ ان بے انصافوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ جہان، دنیا اور آخرت کے لیے مقامِ عمل ہے ۔ خالقِ کائنات نے اسباب کو بھی پیدا کیا ہے اور ان میں تاثیرات کو بھی رکھ دیا ہے اور ہر ایک چیز کی تحصیل کے لیے ضوابط و قوانین مقرر فرمائے ہیں اور اپنی کتابوں اور برگزیدہ بندوں کے ذریعے سے اعمال و اسباب کے اختیار کرنے کی تاکید فرما دی ہے اور اعمال و اسباب کے ترک کرنے والوں کے بے نصیب اور بد انجام ہونے سے خبردار کردیا :
وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ إِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ( العصر ۱۰۳، آیات ۱ تا ۳)
’’ قسم ہے عصر کی، مقرر انسان ٹوٹے میں ہے مگر جو لوگ کہ یقین لائے اور کیے بھلے کام اور آپس میں تاکید کرتے رہے سچے دین کی اور آپس میں تاکید کرتے رہے تحمل کی ۔‘‘ 
بلکہ اپنے برگزیدہ بندوں اور انبیا و رسل علیہم الصلوات و التسلیمات کو تدابیر کے لیے تختہ مشق بنا کر انسانیتِ عامہ پر حجت قائم کر دی ہے کہ یہ برگزیدہ بندے بھی جب تدابیر کے اختیار کرنے سے بے نیاز اور لاپروا نہیں کیے گئے جو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و انعامات کے سب سے زیادہ حق دار ہیں تو عام انسانوں کے لیے کون سی دلیل اور حجت ہے کہ ان کو بغیر اکتساب اسباب و اعمال کے صرف فضل سے بخش دیا جائے گا۔ یہ ایک ایسا باطل تخیل ہے جو تمام شرائع و ادیان آسمانی کو بے معنی قرار دیتا ہے اور جزا اور ثواب کو بے حقیقت بنا دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تو یہ ہے کہ ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین۔
بعض لوگ تقدیر کو بہانہ بنا کر یہ حدیث پیش کیا کرتے ہیں کہ ماشاء اللہ کان و ما لم یشا لم یکن، یعنی خدا جو چاہتا ہے، وہ ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا، نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ بندہ مجبور ہے، خود کچھ نہیں کر سکتا۔ حالانکہ یہ حدیث بھی جدوجہد اور تدبیر کی ترغیب کے لیے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو خدا چاہتا ہے، وہ ہوتا ہے۔ بس بندے کو چاہیے، اپنی کوشش سے خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کی جدوجہد کرے ۔ مثلاً اگر ملازم شاہی کو یہ کہا جائے کہ جو کچھ وزیر چاہتا ہے، وہ ہوتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وزیر کو خوش رکھنے کے لیے جہاں تک ہو سکے، ہر طرح کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ کامیابی اور حصولِ مقصد تمہارے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس کا سرِ رشتہ وزیر کے ہاتھ میں ہے، اس لیے بغیر سعی اور کوشش کے کام نہیں چل سکتا۔ اسی طرح نفی تدبیر اور اختیار کے لیے یہ حدیث پیش کی جاتی ہے کہ جف القلم بما انت لاق یعنی جو کچھ ہونا ہے، وہ پہلے ہی دن لوح تقدیر میں لکھا جا چکا ہے۔ بے شک یہ سچ ہے مگر اس کے معنی وہ نہیں جو عوام سمجھتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ طے ہو چکا ہے کہ نیکی کا نتیجہ نیک ہو گا اور بدی کا بد۔ مولانا روم ؒ فرماتے ہیں : 
بلکہ آں معنی بود جف القلم
نیست یکساں نزد او عدل وستم
فرق بنہادم میان خیروشر
فرق بنہادم زبد واز بد بتر
معنئ جف القلم کے ایں بود
کہ جفاہا با وفا یکساں شود
بادشاہے کہ بہ پیش بخت او
فرق نبود از امین وظلم خو
فرق نکند ہر دو یک باشد برش
شاہ نبود خاک تیرہ بر سرش
(’’جف القلم کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک انصاف اور بے انصافی یکساں نہیں۔ (اللہ نے فرمایا ہے کہ) میں نے خیر اور شر اور بد اور بدتر کے مابین فرق رکھا ہے۔ جف القلم کے معنی یہ کیسے ہو سکتے ہیں کہ وفاداری اور بے وفائی یکساں ہو جائیں؟ ایسا بادشاہ جس کے ہاں امانت دار اور ظالم کے مابین کوئی فرق نہ کیا جائے اور دونوں برابر سمجھے جائیں، وہ بادشاہ کہلانے کا مستحق نہیں، بلکہ سر پر خاک ڈالے جانے کا مستحق ہے۔‘‘)
غرض کہ قرآن مجید اور احادیثِ رسول علیہ الصلوۃ اعمال کی تدابیر اور کسب کی ترغیب سے پر ہیں۔ ہمارے سامنے تدابیر سے قومیں ترقی کر کے کائنات ارضی پر حکومتیں کر رہی ہیں۔ عناصر اربعہ کو تصرف میں لا کر حیران کن نتائج پیدا کر رہے ہیں۔ پس جو شخص بھی اسباب و ذرائع کو عمل میں لائے گا، ان کے ثمرات سے فیض یاب ہو گا ۔ اس لیے حصولِ دنیا اور نجاتِ آخرت کے لیے تدابیر کے اختیار کرنے اور اسباب کے عمل میں لانے سے چارہ نہیں۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم سب برابر ہیں، صرف مسلم کی امتیازی شان یہ ہے کہ اس کا سامانِ دنیا، ذریعہ آخرت ہے اور غیر مسلم کی دنیا صرف دنیا کی عیش و راحت کے لیے ہے۔ اور مسلمان وہ ہے جس کا سب کچھ یہاں تک کہ اس کی جان و زندگی اسلام کے لیے ہو اور صحیح معنی میں وہ قرآنی مسلمان ہو اور اسلامی مسلمان ہو، اور اگر اس کی زندگی اور اس کا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے نہیں ہے، پس نہ وہ مسلمان ہے اور نہ اس کی ترقی مسلمان کی ترقی ہے اور نہ اسلام کی ترقی ہے، بلکہ یہ ایک بظاہر قومی اور حقوقی مسلمان کی ترقی ہو گی، اس کو مسلم ترقی ہرگز نہیں کہا جائے گا۔ موجودہ مسلمان ۹۵ فی صدی ایسے ہی حقوقی اور قومی مسلمان ہیں جو صرف اپنے اغراض و خواہشات کی خاطر مسلمان کہلاتے ہیں اور مسلمانوں میں شامل ہیں اور صرف زبان سے رسمی طور پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ لیتے ہیں، اختیار اور ارادے اور رضامندی سے ان کا اس کلمہ طیبہ پر اعتقاد نہیں ہے جو اس کے لیے ضروری اور رکن قرار دیا گیا ہے اور نہ ان کی زندگی اور زندگی کے کاروبار اس کلمہ کے تحت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کے مطابق ہیں۔ پس مسلمان وہی شخص ہے جو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مسلمان ہو اور عملِ صالح بھی وہی مقبول ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کے مطابق کیا گیا ہو۔ 

جہاد اور معاصر بین الاقوامی قانونی نظام ۔ چند اہم مباحث

محمد مشتاق احمد

جہاد اسلام کی چوٹی ہے ، جیسا کہ حدیث صحیح میں وارد ہوا ہے ۔(۱) بہت سی آیات و احادیث سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ایمان اور نفاق کے درمیان فرق کا علم جہاد ہی کے ذریعے ہوتا ہے ۔ (۲) جہاد ہی کی برکت ہے کہ اسلامی دنیا میں کبھی بھی غیروں کے تسلط کو ٹھنڈے پیٹوں قبول نہیں کیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاد ابتدا ہی سے استعماری قوتوں کا ہدف رہا ہے ۔ مسلمان اہل علم کی جانب سے ہر دور میں جہاد کی حقیقت اور اس کے صحیح تصور کو اجاگر کرنے کا فریضہ ادا کیا گیا ہے ۔ انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں اسلامی دنیا بالعموم غیروں کے تسلط میں آگئی تو اس تسلط کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ کہیں نہیں رکا ، اگرچہ استعماری قوتوں کے گماشتوں اور مغربی تہذیب کے مقابلے میں مرعوبیت کے شکار بہت سے لوگوں نے جہاد کا تصور مسخ کرکے اسے عملاً منسوخ قرار دینے کی بھی کوششیں کیں ۔ اس معذرت خواہانہ رویے کے جواب میں مسلمان اہل علم نے جو کچھ لکھا اس کی افادیت مسلم ہے لیکن ان تحریرات میں بھی بعض اوقات رد عمل کی نفسیات کارفرما دکھائی دیتی ہے ۔ بیسویں صدی کے آخر میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے جہاد پر کام کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ۔ الجزائر کی جنگ آزادی ، ایرانی انقلاب اور روس کے افغانستان پر حملے نے ایک بار پھر یہ حقیقت روز روشن کی طرح آشکارا کردی کہ جہادی جذبے سے سرشارمسلمان اب بھی طوفانوں کا رخ موڑ سکتے ہیں ۔ امریکہ میں گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ ء کو جو واقعات رونما ہوئے اس کے بعد اسلامی دنیا میں بھی اور مغرب میں بھی جہاد کے موضوع پر تحقیق اور بھی ضروری ہوگئی ہے بالخصوص جبکہ اس وقت عراق ، افغانستان اور دیگر کئی مقامات پر مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان تصادم کا ایک بظاہر نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔اس وقت مسلمان اہل علم کی ذمہ داری اور بھی بڑھ گئی ہے کہ وہ عصر حاضر میں جہاد سے متعلق امور کا تجزیہ کریں اور جہاد کے متعلق پیدا ہونے والے مختلف قانونی مسائل پر شریعت کا نقطۂ نظر واضح کریں ۔ ان تنظیموں اور افراد سے ہٹ کر جو مغرب کے ساتھ تصادم کو ناگزیر سمجھتے ہوئے معاصر بین الاقوامی قانونی نظام (Contemporary International Legal Order) کی جڑیں ہی اکھاڑنا چاہتے ہیں ، بالعموم اہل علم کی اکثریت اس نظام کے اندر رہتے ہوئے جہاد کے مسائل پر بحث کرتے ہیں ۔ اس سلسلے میں وہ جہاد کے متعلق مختلف جزئیات کا موجودہ بین الاقوامی قانون کے ساتھ موازنہ بھی کرتے ہیں اور ان میں مشترک اور مختلف امور سامنے لاتے ہیں ۔ لیکن اس وقت ضرورت اس سے آگے بڑھ کر اس امر کی ہے کہ فقہا کے وضع کردہ جہاد کے پورے نظریے کا موازنہ معاصر بین الاقوامی قانون کے پورے نظام کے ساتھ کیا جائے اور موجودہ نظام سے پیدا ہونے والے مسائل کا تجزیہ کیا جائے ۔ اس طرح کے ایک عمومی تفصیلی جائزے کے بغیر ان مسائل کا حقیقی ادراک ممکن نہیں جو موجودہ نظام میں جہاد کے نظریے کے انطباق کے وقت پیش آتے ہیں ۔ زیر نظر مقالے میں ایسے ہی چند اہم مسائل اہل علم کے غور و فکر اور تجزیے کے لیے سامنے لائے گئے ہیں ۔ 

دار الاسلام اور اسلامی ریاست 

یہ ایک حقیقت ہے کہ فقہا کے کام کو عصر حاضر کے بین الاقوامی نظام پر منطبق کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ موجودہ بین الاقوامی نظام کی بنیاد ’’قومی ریاست ‘‘(Nation-state) کے تصور پر ہے جس کے تحت ’’قوم ‘‘ اور ’’ریاست ‘‘ کو ایک ہی سمجھا جاتا ہے ۔ عملاً یہ فرض کیا گیا ہے کہ ریاست کے بغیر قوم نہیں پائی جاتی اور دو مختلف ریاستوں میں دو مختلف قومیں بستی ہیں ۔ گویا قومیت کی بنیاد ریاست پر ہوئی ۔ پھر ہر قوم کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور ہر ریاست ایک الگ اکائی ہوتی ہے ۔ (۳) مزید برآں موجودہ بین الاقوامی قانون کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ قانون کا سرچشمہ ریاست ہے ۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے دو بڑے مآخذ ہیں : معاہدات (Treaties) اور رواج (Custom) ۔ معاہدات کے ذریعے ریاست اپنی مرضی کا صریح اظہار کرتی ہے ، جبکہ رواج ریاستوں کے مسلسل عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اصول و ضوابط کو کہا جاتا ہے ۔ (۴) ایک اور اہم اصول یہ ہے کہ ریاست کو ’’شخص قانونی ‘‘ (Legal Person) متصور کیا جاتا ہے ، اور یوں ’’ریاست کی ملکیت ‘‘ ، ’’ریاست کے وسائل ‘‘ اور ’’ریاست کے حقوق و فرائض ‘‘ جیسی تراکیب محض تفہیم کی غرض سے استعمال نہیں کی جاتیں بلکہ ان کے باقاعدہ قانونی اثرات ہوتے ہیں ۔ (۵) 
اسلامی قانون میں ’’ریاست ‘‘کے برعکس ’’دار ‘‘ کا تصور تھا ۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ عصر حاضر میں ’’اسلامی ریاست ‘‘ کے موضوع پر کام کرنے والوں نے بالعموم ’’دارالاسلام‘‘ کے تصور کو درخور اعتنا نہیں سمجھا ہے ، حالانکہ ضروری تھا کہ وہ ان دونوں تصورات کا موازنہ کرکے قانونی نتائج کا تجزیہ کرتے اور پھر امت مسلمہ کے لیے کوئی لائحۂ عمل تجویز کرتے۔(۶) فقہا کے وضع کردہ نظام میں ’’دار الاسلام‘‘ کے لیے قانونی شخصیت نہیں مانی گئی تھی۔ اس لیے جن چیزوں کو اب ریاست کی ملکیت قرار دیا جاتا ہے انہیں دارالاسلام کی ملکیت نہیں قرار دیا جاتاتھا ۔ سرکاری خزانے کو ہی لیجیے ۔ اسے اب ریاست کی ملکیت مانا جاتا ہے مگر ’’بیت المال ‘‘ کا مالک دارالاسلام نہیں تھا ۔ (۷) اسی طرح مسلمان اہل علم نے بالعموم وطنی قومیت کے تصور کو مسترد کیا ہے لیکن عصر حاضر میں اس تصور سے پیدا ہونے والی گھمبیر صورتحال کا کوئی مناسب حل وہ پیش نہیں کرسکے ۔ چنانچہ ’’امت‘‘ کے تصور کو ’’قومی ریاست‘‘ کے تصور کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے چکر میں وہ مزید الجھنوں کا شکار ہوگئے ۔ (۸) یقینااس سلسلے میں اس بات سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے کہ فقہا نے ’’دار الاسلام ‘‘ اور ’’امت مسلمہ‘‘ کے تصورات میں ہم آہنگی کیسے یقینی بنائی ؟ 
اسلامی قانون کا سرچشمہ ریاست نہیں بلکہ وحی الٰہی ہے ۔ (۹) ریاست ہو یا ’’دار‘‘، فرد ہو یا معاشرہ ، کوئی بھی اس قانون سے بالاتر نہیں ہے ۔ اس لیے اس قانون کی بنیاد ’’تماثل‘‘ (Reciprocity) پر نہیں ہے ۔ فریق مخالف خواہ اس قانون کی پابندی نہ کرے ، مسلمان بہر حال اس کے پابند رہیں گے ۔ یہ قانون متعین کرتا ہے کہ مسلمان کس قسم کا معاہدہ کرسکتے ہیں اور کون سی شرط نہیں مان سکتے ۔ جہاں اس قانون نے تفصیل متعین نہیں کیں وہاں بھی لوگوں کو ’’آزاد‘‘ نہیں چھوڑا گیا ، بلکہ وہاں اس قانون کے ’’قواعد عامہ‘‘ کی روشنی میں اور ان کے حدود کے اندر ہی رہ کر قانون سازی کی جاسکے گی۔ (۱۰) 
اسی طرح فقہا کا’’شہریت‘‘ کا تصور بھی بہت مختلف تھا ۔ انہوں نے غیر مسلموں کو تین بڑی قسموں میں تقسیم کیا تھا ۔ وہ غیر مسلم جو ’’دار الاسلام‘‘ میں مستقل رہائش پذیر ہوں ان کو ’’ذمی‘‘ کہاجاتا تھا ۔ ان میں کچھ وہ تھے جو مسلمانوں کے مفتوحہ علاقوں سے تعلق رکھتے تھے اور کچھ نے مسلمانوں کے ساتھ باقاعدہ ’’عقد ذمہ‘‘ کیا تھا ۔ ان لوگوں پر اسلامی قانون کا وہ حصہ لاگو ہوتا تھا جس کو آجکل کی اصطلاح میں ’’پبلک لاء ‘‘ کہاجاتا ہے ۔ دارالاسلام کے اندر اور باہر ہر جگہ ان کے حقوق کی حفاظت دارالاسلام کے مسلمانوں کی ذمہ داری تھی ۔ (۱۱) دار الاسلام سے باہر مستقل اقامت اختیار کرنے والے غیرمسلموں کو ’’حربی‘‘ کہاجاتاتھا ۔ ان کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد نہیں ہوتی تھی ، نہ ہی ان پر اسلامی قانون لاگو ہوتا تھا ۔ (۱۲) البتہ اگر ان میں کچھ لوگ مسلمانوں کی اجازت (امان)سے دارالاسلام میں داخل ہوتے تھے تو ان پر اسلامی قانون کا کچھ حصہ لاگو ہوتا تھا اور ان کی حفاظت بھی مسلمانوں کی ذمہ داری ہوجاتی تھی ۔ ان کو ’’مستأمنین‘‘ کہا جاتا تھا۔ (۱۳) حربی اگر مسلمانوں کے خلاف جنگی کاروائی کرتے تو ان کو ’’محاربین‘‘ کہاجاتا تھا ۔ اس کے برعکس اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ امن کا معاہدہ کرتے اور اپنے علاقے میں اپنے قوانین کے تحت زندگی بسر کرتے تو ان کو ’’موادعین‘‘ یا ’’اہل موادعہ ‘‘ کہاجاتا تھا ۔ (۱۴) قانونی لحاظ سے موادع اور مستأمن سے یکساں سلوک کیاجاتا تھا ۔ دارالاسلام کے اندر دونوں کی حفاظت اہل اسلام کی ذمہ داری تھی اور دونوں پر اسلامی قانون کا کچھ حصہ لاگو ہوتا تھا ۔ دارالاسلام سے باہر ان کے حقوق کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہوتی تھی ۔ 
مسلمانوں کے لیے ایسی کوئی تقسیم نہیں تھی ۔ کوئی بھی مسلمان کسی بھی وقت دارالاسلام میں داخل ہوسکتا تھا اور اسے امان کی ضرورت نہیں تھی ۔ وہ دارالاسلام میں مستقل رہائش بھی اختیار کرسکتا تھا ، بلکہ نظری طور پر مسلمانوں کے حق میں مفروضہ یہی تھا کہ وہ دارالاسلام میں مقیم ہیں ۔ (۱۵) لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اسلامی قانون کے تحت پوری دنیا کے مسلمانوں کو دارالاسلام کے ’’شہری‘‘ تصور کیاجاتاتھا ۔ قانونی لحاظ سے دارالاسلام کے مستقل رہائش پذیر مسلمانوں اور دارالاسلام سے باہر مقیم مسلمانوں میں فرق کیاجاتا تھا۔ مثلاً دارالاسلام سے باہر اگر کسی مسلمان نے چوری کا ارتکاب کیا تو دارالاسلام کی عدالتیں اس کو سزا نہیں سناسکتی تھیں ۔ (۱۶) اسی طرح اگر دارالاسلام سے باہر کسی مسلمان کا کسی غیر مسلم کے ساتھ کوئی تنازعہ ہوتا تو دارالاسلام کی عدالتیں اس تنازعے کے حل کے لیے اختیار سماعت نہیں رکھتی تھیں ۔ (۱۷) اس بات کو حنفی فقہا اس طرح تعبیر کرتے ہیں کہ ’’عصمت دار کی وجہ سے ہے نہ کہ اسلام کی وجہ سے‘‘۔ (۱۸) پس دارالاسلام سے باہر مستقل اقامت اختیار کرنے والے مسلمانوں پر اگرظلم ہوتا تو دارالاسلام کے ملکی قانون کے تحت کوئی کاروائی نہیں ہوسکتی تھی ۔ البتہ اسلامی بین الاقوامی قانون کے تحت دارالاسلام کے مسلمانوں پر ان کی مدد لازم ہوجاتی تھی ۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان پر حملہ دارالاسلام کے شہریوں پر حملہ تصور کیاجاتاتھا ، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان پر حملہ امت مسلمہ پر حملہ تصور ہوتاتھا اور امت کے ایک حصے پر حملہ پوری امت پر حملہ سمجھاجاتاتھا ۔ 

فقہ اسلامی کے ابواب سیر ۔ متبدل اور غیر متبدل احکام 

جہاد کے متعلق شریعت کے احکام کی وضاحت اور عملی زندگی پر ان کی تطبیق کے نتیجے میں فقہاء نے جو قانونی نظام مرتب کیا اس کی تفصیلات فقہ اسلامی میں ’’کتاب السیر‘‘ یا ’’ کتاب الجہادد‘‘ کے عنوان کے تحت ملتا ہے ۔ جہاد پر لکھنے والے بہت سے لوگوں نے فقہاے کرام کے کام کو ان کے زمانے اور مخصوص حالات کا تجزیہ قرار دے کر اسے نظر انداز کیا اور براہ راست قرآن و حدیث سے استدلال کی راہ اختیار کی ۔ (۱۹) اس طریق کار کے اپنے کچھ فوائد ہوں گے لیکن فقہا کے کام کو نظر انداز کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں ہے ۔ ایک تو اس وجہ سے کہ فقہا، امت مسلمہ کے گل سرسبد تھے ۔ یہ امت کے بہترین دماغ تھے ۔ صدیوں کی محنت کے بعد فقہ اسلامی کا ذخیرہ وجود میں آیا ہے ۔ اس سارے علمی کام کو نظر انداز کرکے پہیہ دوبارہ ایجاد کرنے کی کوشش کیوں کی جائے ؟ فقہا کے کام کی اہمیت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کا کام صرف علمی دائرے تک محدود نہیں تھا بلکہ عملاً وہ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی کی بنیاد بنا ۔ ان ہی کے کام کو بنیاد پر اسلامی ریاست کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کا انحصار ہوتا تھا ۔ ان کا کام بین الاقوامی قانون کی حیثیت اختیار کرگیا تھا اور اسی لحاظ سے وہ صدیوں نافذ رہا ۔ 
یہ حقیقت اپنی جگہ صحیح ہے کہ وقت کے معروضی حالات کے مطابق فقہا نے بعض مسائل مرتب کیے جو شریعت کے ابدی احکام کی طرح ہر دور اور ہر زمانے کے لیے واجب العمل نہیں ہیں ۔ مثلاً اگر ابن عابدین نے یہ لکھا ہے کہ ’’سمندر دار الحرب میں شامل ہے۔‘‘ (۲۰) تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ مسلمان کبھی سمندر کو دار الاسلام کا حصہ نہیں بناسکتے ، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ ابن عابدین کے زمانے میں سمندر دارالاسلام کا حصہ نہیں تھا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس طرح کے احکام کو ان احکام سے کیسے الگ کیا جائے گا جو مستقل اور غیر متبدل ہیں ؟ مثلاً فقہاء اگر یہ کہتے ہیں کہ ’’غیر مسلم یا تو اہل حرب ہیں اور یا اہل عہد ۔‘‘ (۲۱) توکیا اسے ایک مستقل حکم قرار دے کر یہ قاعدہ بنایا جائے کہ جن غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ نہیں ہوا وہ سارے کے سارے اہل حرب ہیں ؟ یا اسے معروضی حالات کا تجزیہ قرار دے کر کہا جائے کہ اس وقت مسلمانوں کے آس پاس کے غیر مسلم یا تو مسلمانوں کے ساتھ برسرجنگ تھے یا انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا ؟ اسی طرح بہت سے اہل علم نے یہ موقف اپنایا ہے کہ دار الاسلام اور دارالحرب کی تقسیم ہی سرے سے مستقل نہیں ہے ، بلکہ یہ اس وقت کے حالات کا فقہی تجزیہ تھا جب فقہ کی تدوین ہورہی تھی ۔ (۲۲) کیا اس طرح پورے فقہ اسلامی کے علمی ذخیرے کو دریابرد کرنے کی راہ نہیں ہموار نہیں ہوجاتی ؟ 
جہاد کے موضوع پر کام کرنے والوں میں جن لوگوں نے فقہ اسلامی کے ذخیرے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور فقہا کی اصطلاحات بھی استعمال کیں، ان میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ اور ڈاکٹر وہبۃ الزحیلی کا کام خصوصا قابل ذکر ہے ۔ (۲۳) ڈاکٹر حمید اللہ اگرچہ عہد جدید میں اسلامی بین الاقوامی قانون پر کام کرنے والے ابتدائی افراد میں تھے لیکن ان کا کام کئی لحاظ سے بعد میں آنے والوں پر فوقیت رکھتا ہے ، خصوصا قانونی مسائل پر ان کی گہری نظر کی وجہ سے فقہا کے موقف کا فہم دیگر لوگوں کی بہ نسبت ان کے لیے زیادہ آسان ہوتا ہے ۔ دار الاسلام اور دارالحرب کے تصور کو ہی لیجئے ۔ بالعموم لوگوں نے اس تصور کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ’’مسلسل جنگ‘‘(Perpetual War) کے نظریے کی بنیاد کے طور پر پیش کیا ہے ۔ (۲۴) اس کے برعکس ڈاکٹر حمید اللہ ’’دار ‘‘ کے تصور سے عدالتوں کے ’’علاقائی اختیار سماعت ‘‘ (Territorial Jurisdiction) کے اصول اخذ کرتے ہیں ۔ (۲۵) ڈاکٹر وہبہ ایک جانب چند بنیادی امور میں فقہا کی آرا کو اس وقت کے حالات کی پیداوار قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف تفصیلی جزئیات میں فقہ اسلامی ہی کے ذخیرے سے استدلال کرتے ہیں ۔ یوں ان کے کام میں بعض مقامات پر اندرونی تضاد ات نظر آتے ہیں ۔ (۲۶) یہی مسئلہ دیگر بہت سے اہل علم کے ساتھ بھی ہے ۔ اس لیے عصر حاضر کے مسلمان اہل علم کے لیے کرنے کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ فقہ اسلامی کے ذخیرے سے مستقل اور عارضی احکام الگ کرنے کے لیے اصول وضع کرلیں ۔ اس کے بعد ہی عصر حاضر کے قانونی نظام پر اسلامی قانون کی تطبیق کے متعلق بات کی جاسکے گی ۔

رسول اللہ ﷺ کے اولین مخاطبین کے لیے خصوصی احکام؟

جہاد کے متعلق قرآن وسنت نے جو احکام ذکر کیے ہیں کیا ان میں کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص بھی ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جنگیں لڑی ہیں انہیں بھی محض دفاعی جنگیں نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ (۲۷) اگرچہ یقیناًان میں اکثر جنگیں یا تو دفاعی ضرورت کے تحت لڑی گئیں یا وہ دراصل پچھلی جنگوں کا تسلسل تھیں ، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حملے میں پہل کی ہے (مثلاً غزوۂ خیبر یا غزوۂ تبوک ) ۔ ان جنگوں کو تبھی دفاع کہا جاسکے گا جب دفاع کابہت ہی وسیع مفہوم لیا جائے اور اس میں پیش بندی کے اقدام ( Pre-emptive Strike) کا حق بھی شامل سمجھا جائے ۔ اب یہ بھی حقیقت ہے کہ پیش بندی کے اقدام کو ایک جانب سے دفاع اور دوسری جانب سے اقدام قرار دیا جائے گا ۔ مزید برآں مشرکین کے خلاف جس جنگ کا اعلان سورۃ التوبۃ میں کیا گیا ہے، اسے تو کسی صورت بھی دفاع نہیں قرار دیا جاسکتا کیونکہ اس میں بتایاگیا ہے کہ جنگ صرف اسی صورت میں ختم ہوگی جب تمام مشرکین اسلام قبول کرلیں : 
فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدتُّمُوہُمْ وَخُذُوہُمْ وَاحْصُرُوہُمْ وَاقْعُدُواْ لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَۃَ وَآتَوُاْ الزَّکَاۃَ فَخَلُّواْ سَبِیْلَہُمْ إِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (۲۸) 
’’پس جب حرام مہینے گزر جائیں تو ان مشرکین کو قتل کرو جہاں بھی انہیں پاؤ ، اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کے لیے بیٹھو ۔ پھر اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو ۔ یقیناًاللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے ۔‘‘
یہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمائی ہے :
امرت ان اقاتل الناس حتی یشھدوا ان لا الٰہ الا اللہ و ان محمدا رسول اللہ ، و یقیموا الصلوٰۃ و ےؤتوا الزکوٰۃ۔ فاذا فعلوھا عصموا منی دمآءھم و اموالھم الا بحقھا ، و حسابھم علی اللہ (۲۹) 
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ یہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، اور نماز قائم کریں ، اور زکاۃ دیں ۔ جب وہ ایسا کریں گے تو اپنی جانیں اور اپنے اموال مجھ سے بچا لیں گے ، سوائے اس حق کے جو اسلام کے اقرار سے ان پر عائد ہوتا ہو ، اور ان کے ساتھ محاسبہ اللہ کا کام ہوگا ۔ ‘‘
اس سورت میں اہل کتاب کے متعلق کہا گیا ہے کہ ان کے ساتھ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک وہ مسلمانوں کے ماتحت زندگی بسر کرنے اور جزیہ دینے پر آمادہ نہ ہوجائیں ۔ 
قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ یَدِیْنُونَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ حَتَّی یُعْطُواْ الْجِزْیَۃَ عَن یَدٍ وَہُمْ صَاغِرُونَ (۳۰) 
’’جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ، نہ روز آخرت پر ، اور نہ اسے حرام کرتے ہیں جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے ، اور نہ ہی وہ دین حق کو اپنا دین بناتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دینے اور ماتحت ہو کر زندگی بسر کرنے پر آمادہ ہوں ۔ ‘‘
اسی طرح اور بھی کئی آیات و احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مشن اس وقت تک جاری رہتا جب تک کہ آپ کو اپنے مخالفین پر مکمل غلبہ حاصل نہ ہوجاتا ۔ 
ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (۳۱) 
’’وہی اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے دین پر غالب کردے ، خواہ یہ ان مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو ۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرۃ العرب کو دین اسلام کے لیے مخصوص کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : 
لا یجتمع دینان فی جزیرۃ العرب ۔ (۳۲) 
’’جزیرۂ عرب میں دو دین جمع نہیں ہوسکتے۔ ‘‘
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد کا یہ مخصوص پہلو آپ ہی تک خاص تھا یا یہ اسلامی جہاد کا مستقل حصہ ہے ؟ بعض اہل علم کی رائے یہ ہوئی کہ اس قسم کی جنگیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے بعد نہیں لڑیں جاسکتیں اوریہ ایک مخصوص حکم تھا جو اب باقی نہیں رہا ۔ (۳۳) ان اہل علم کی رائے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد میں آپ کے مخالفین کے لیے عذاب الٰہی کا پہلو بھی شامل تھاکیونکہ رسول اپنی قوم پر اللہ کی حجت تمام کرنے کے لیے آتے ہیں۔ وہ قوم کے لیے حق اور باطل اس طرح واضح کر دیتے ہیں کہ کسی کے پاس نہ ماننے کے لیے کوئی بہانہ یا دلیل باقی نہیں رہ جاتی ۔ اس کے بعد بھی جو لوگ حق کے آگے سر جھکانے سے انکار کردیتے ہیں ان کے لیے اسی دنیا میں خدا کی عدالت قائم ہوجاتی ہے اور رسول کی زندگی میں ہی انہیں نیست ونابود کردیا جاتا ہے ۔ پچھلی اقوام کے لیے عذاب الٰہی قدرتی آفتوں کی صورت میں نمودار ہوا ، جبکہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کے لیے صحابہ کی تلواریں عذاب کا کوڑا بن گئیں:
قَاتِلُوہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّہُ بِأَیْْدِیْکُمْ (۳۴) 
’’ان سے لڑو تاکہ اللہ تمہارے ہاتھوں ان کو عذاب دے ۔‘‘
اس کے برعکس بہت سے دیگر اہل علم کی رائے یہ ہے کہ یہ جہاد کی ایک مستقل قسم ہے اور قیامت تک جہاد کا یہ سلسلہ بھی جاری رہے گا ۔ (۳۵) اس لیے ڈاکٹر حمید اللہ ’’جائز جنگوں‘‘ کی قسموں میں ایک قسم Idealistic War  (نظریاتی جنگ ) شامل کرتے ہیں جسے سید مودودی ’’مصلحانہ جہاد‘‘ کہتے ہیں ۔ (۳۶) 
اگر جہاد کے اس پہلو کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی جنگوں کے ساتھ خاص سمجھا جائے تو اس کا اثر بہت سے دیگر مسائل پر بھی پڑتا ہے ۔ مثلاً جمہور فقہا مشرکین عرب سے جزیہ لینا جائز سمجھتے تھے جبکہ احناف کی رائے یہ تھی کہ مشرکین عرب کے لیے صرف دو ہی راستے تھے ؛ اسلام یا تلوار ۔ (۳۷) اگر مذکورہ آیات اور احادیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگوں کے ساتھ خاص سمجھا جائے تو احناف کا موقف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے مشرکین کے حق میں صحیح ہوگا اور جمہور کا موقف بعد کے مشرکین عرب کے حق میں صحیح تسلیم کیا جائے گا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کو بتوں سے پاک کیا تو اس سے استدلال کرکے دیگر غیرمسلموں کے معابد اور اصنام کو نہیں ڈھایاجاسکے گا ۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر اہل کتاب کے ساتھ جنگ کی نوعیت پر بھی فرق پڑے گا ،کیونکہ اگر یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے اہل کتاب سے خاص ہو کہ ان سے جنگ جاری رہے گی یہاں تک کہ وہ یا تو اسلام قبول کرلیں یا جزیہ دینے پر آمادہ ہوں ، تو بعد کے اہل کتاب کے ساتھ مسلسل جنگ کا نظریہ بھی ختم ہوجاتا ہے ، اور اس کے ایک لازمی نتیجے کے طور پر ماننا ہوگا کہ جہاد کی علت ’’کفر‘‘ یا ’’شوکت کفر‘‘ نہیں بلکہ ’’محاربہ‘‘ ہے ۔ بہ الفاظ دیگر مسلمان صرف ان لوگوں سے لڑ سکیں گے جو اسلام یا مسلمانوں کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کریں ۔ 

نظریاتی کشمکش اور مسلح تصادم 

کئی آیات اور احادیث میں مسلمانوں کو غیرمسلموں کی دوستی سے منع کیاگیا ہے ۔ مثلاً سورۃ المآئدۃ میں ارشاد ہوتا ہے : 
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَوْلِیَاء بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ إِنَّ اللّہَ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ (۳۸) 
’’اے ایمان والو! یہود اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ ۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا دوست بناتا ہے تو اس کا شمار بھی انہیں میں ہے ۔ یقیناًاللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ ‘‘
بعض نصوص میں یہاں تک قراردیاگیا ہے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ غیر مسلموں کے ساتھ قلبی تعلق رکھ ہی نہیں سکتے۔ 
لَا تَجِدُ قَوْماً یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَلَوْ کَانُوا آبَاء ہُمْ أَوْ أَبْنَاء ہُمْ أَوْ إِخْوَانَہُمْ أَوْ عَشِیْرَتَہُمْ (۳۹) 
’’تم کبھی یہ نہ پاؤگے کہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے لوگ ان سے محبت کریں جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف محاذآرائی کرتے ہیں ، خواہ وہ ان کے باپ ہوں ، یا ان کے بیٹے ، یا ان کے بھائی ، یا ان کے اہل خاندان ۔ ‘‘
اسی طرح کئی آیات و احادیث میں بیان ہوا ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان کشمکش کا اختتام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ایک گروہ دوسرے کی پیروی نہ کرے ۔ 
وَلَن تَرْضَی عَنکَ الْیَہُودُ وَلاَ النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ قُلْ إِنَّ ہُدَی اللّہِ ہُوَ الْہُدَی وَلَءِنِ اتَّبَعْتَ أَہْوَاء ہُم بَعْدَ الَّذِیْ جَاءکَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَ اللّہِ مِن وَلِیٍّ وَلاَ نَصِیْر (۴۰) 
’’نہ یہودتم سے راضی ہونے والے ہیں اور نہ عیسائی جب تک کہ تم ان کی ملت کی اتباع نہ کرو ۔ ان سے کہو کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے ۔ اور اگر تم اس یقینی علم کے بعد ، جو تمہارے پاس آچکا، ان کی خواہشوں پر چلے تو اللہ کے مقابل میں نہ تمہارا کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگار ۔ ‘‘
إِنَّا بُرَء اؤا مِنکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاء أَبَداً حَتَّی تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ وَحْدَہُ (۴۱) 
’’ہم بیزار ہیں تم سے اور تمہارے ان خداؤں سے جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو ۔ ہم نے تم سے کفر کیا ، اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم واحد اللہ پر ایمان نہ لے آؤ۔ ‘‘
کیا یہ حکم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے یہود و نصاری اور مشرکین کے ساتھ خاص ہے ، جیسا کہ بعض اہل علم کی رائے ہے ؟ (۴۲) یا اس کا حکم عام ہے اور ہر زمانے کے لیے ہے ، جیسا کہ بعض دیگر اہل علم کا موقف ہے؟(۴۳) اگر اس کا حکم عام ہو تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ اس وقت تک جنگ جاری رہے گی جب تک وہ اسلام قبول نہ کرلیں ؟(۴۴) یا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام اور کفر کے درمیان نظریاتی سطح پر ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش ہے ؟ اگر یہ نظریاتی کشمکش ہے تو کیا اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان مسلسل جنگ ہو اور امن کا وقفہ بیچ میں عارضی طور پر آئے ، یا نظریاتی کشمکش مسلح تصادم کو مستلزم نہیں ہے ؟(۴۵) جو اہل علم مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان مسلسل اور ابدی جنگ کے قائل نہیں ان پر لازم ہے کہ وہ ان نصوص کی متبادل تعبیر پیش کریں ۔ اس متبادل تعبیر کے بغیر محض یہ کہنا کافی نہیں ہوگا کہ مسلسل اور ابدی جنگ کا نظریہ شریعت کا مستقل حکم نہیں ہے بلکہ فقہاء کے زمانے کے مخصوص حالات کی پیداوار تھا ۔ 

فرضیت جہاد کا سبب 

جہاد کی فرضیت کا سبب کیا ہے ؟ عصر حاضر میں جہاد پر کام کرنے والوں میں بہت سے اہل علم نے اس سوال سے صرف نظر کیا ہے اور اس کے بجائے اس امر پر بحث کی ہے کہ کیا اسلام صرف ’’دفاعی جہاد‘‘ کو ہی جائز سمجھتا ہے یا ’’اقدامی جہاد‘‘ بھی اس کے نزدیک جائز ہے ؟(۴۶) صحیح طریقہ یہی تھا کہ وہ فقہا کے عام طریقے کے مطابق جہاد کے حکم کی ’’علت‘‘ پر بحث کرتے کیونکہ علت کی موجودگی معلول کی موجودگی پر دلالت کرتی ہے اور علت کی عدم موجودگی میں معلول بھی نہیں پایا جاتا ۔ اگر جہاد کی علت ’’کفر‘‘ ہے ، جیسا کہ بعض فقہا کا موقف تھا (۴۷)، تو پھر تمام غیرمسلموں کے خلاف جہاد فرض ہوگا ، اور اگر جہاد کی علت ’’محاربہ‘‘ ہے ، جیسا کہ جمہور فقہاء کا مسلک تھا (۴۸)، تو صرف ان لوگوں سے ہی جنگ کی جاسکے گی جو محاربہ کا ارتکاب کرتے ہوں ۔ دونوں صورتوں میں بعض اوقات اقدام ضروری ہوجاتا ہے ۔ اس لیے دفاعی اور اقدامی کی تقسیم مناسب محسوس نہیں ہوتی ۔ 
پھر یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ اگر جہاد صرف دفاع تک ہی محدود ہو تو دفاع میں کون سی صورتیں آتی ہیں ؟ کیا دفاع سے مراد ریاست کا دفاع ہے یا امت اوردین کا دفاع بھی اس میں شامل ہے ؟ ‘ مسلمان اہل علم بالعموم اس کے قائل ہیں کہ دفاع کی صورت میں اعلان جنگ ضروری نہیں ہوتا جبکہ اقدام سے پہلے ’’اعلان جنگ‘‘ کو وہ ضروری سمجھتے ہیں ۔ (۴۹) اگر کسی غیر مسلم ملک میں مسلمانوں پر ظلم ہورہاہو تو قرآن کی نص صریح کے بموجب دار الاسلام کے مسلمانوں پر ان کی مدد واجب ہوجاتی ہے ۔ (۵۰) لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی مدد ’’دفاعی جہاد‘‘ میں شمار ہوگی یا اسے ’’اقدامی جہاد‘‘ سمجھا جائے گا ؟ جو لوگ جہاد کو صرف ’’دفاع‘‘ تک ہی محدود سمجھتے ہیں وہ اس مدد کو بھی دفاع کے تصور کے تحت سمونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یوں دفاع کا یہ تصور بہت زیادہ وسیع ہوجاتا ہے کیونکہ وہ کئی ایسے کاموں کو بھی دفاع قرار دے دیتے ہیں جن کو عام طور پر اقدام تصور کیا جاتا ہے ۔ سید ابو الاعلی مودودی اس قسم کی کاروائی کو ’’مدافعانہ جہاد‘‘ میں شمار کرتے ہیں (۵۱) لیکن جب وہ اعلان جنگ کے مسئلے پر آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس قسم کی کاروائی سے پہلے اعلان جنگ ضروری ہوگا۔ (۵۲) اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ جب وہ مدافعانہ جہاد پر بحث کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں ’’دفاع امت ‘‘ یا ’’دفاع دین ‘‘ کا تصور ہوتا ہے ، لیکن جب وہ دارالاسلام کی طرف سے عملی اقدام کی بحث پر آتے ہیں تووہ دیکھتے ہیں کہ دارالاسلام کے لوگوں کو اس صورت میں اپنی علاقائی حدود سے باہر جاکر اقدام کرنا پڑتا ہے ۔ اس لیے وہ اعلان جنگ کو ضروری قرار دے دیتے ہیں ۔ گویا اس وقت ان کے ذہن میں ’’دفاع ریاست ‘‘کا تصور ہوتا ہے ۔ 

فریضۂ جہاد کی نوعیت 

جہاد کا سبب متعین ہونے کے بعد ایک اہم مسئلہ اس فریضے کی نوعیت کا ہے ۔ اس پر بالعموم اتفاق پایا جاتا ہے کہ جہاد امت کے لیے فرض کفائی کی حیثیت رکھتا ہے (۵۳) لیکن چند باتیں اس سلسلے میں نہایت اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ فرض کفائی کا عام طور پر یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ اگر ’’کچھ لوگ ‘‘اس فریضے کو ادا کریں تو باقی کے ذمے سے یہ فرض ساقط ہوجاتا ہے ، حالانکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اگر ’’کافی لوگ ‘‘ اس فریضے کو ادا کرلیں تو باقی کے ذمے سے یہ فریضہ ساقط ہوجاتا ہے ۔ (۵۴) دوسری بات یہ کہ فرض کفائی صرف عام حالات میں ہی فرض کفائی ہوتا ہے ۔ بعض صورتوں میں یہ فرض عین میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ کیا اس کا لازمی تقاضا یہ نہیں ہے کہ ہر مسلمان لازمی طور پر بنیادی جنگی قواعد اورآداب سے واقف ہو اور نیز اسے بنیادی فوجی تربیت دی گئی ہو ؟ تیسری بات یہ ہے کہ امت اب پچاس سے زائد ریاستوں میں بٹ گئی ہے ۔ موجودہ حالات میں اس فرض کفائی کی ادائیگی کیسے ہوگی ؟ ایک مناسب حل یہ نظر آتا ہے کہ مسلمان ریاستیں آپس میں دفاعی معاہدات کرلیں اور یوں ان میں کسی ایک پر حملہ سب پر حملہ متصور ہو ۔ اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ ۵۱ کے تحت اس انتظام کی گنجائش ہے اور’’معاہدۂ شمالی اوقیانوس کی تنظیم‘‘ (NATO) اس انتظام کی کامیابی کی سب سے واضح دلیل ہے ۔ 
فقہا نے صراحت کی ہے کہ حملے کی زد میں آئے ہوئے علاقے کے لوگ اگر حملے کے خلاف دفاع نہ کرسکتے ہوں تو ان کے مجاور علاقوں پر یہ فریضہ عائد ہوگا ۔ پھر اگر وہ بھی دفاع کی اہلیت نہ رکھتے ہوں یا وہ فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی کریں تو ان کے بعد کے علاقوں پر فریضہ عائد ہوگا،یہاں تک کہ یہ فریضہ دنیا کے تمام مسلمانوں پر عائد ہوجائے گا ۔(۵۵) گویا اسلامی ملک پر حملے کو کوئی مسلمان پرایا جھگڑا نہیں سمجھے گا ، بلکہ دفاع کو اپنا فریضہ سمجھ کر ہوشیار اور بیدار رہے گا ، کیونکہ کسی بھی وقت یہ امکان ہوسکتا ہے کہ یہ فریضہ اس کے حق میں فرض عین ہوجائے ۔ اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اسلامی ملک پر حملے کی صورت میں پوری امت مسلمہ میں ایک ایمرجنسی کی سی کیفیت پیدا ہو ۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مجاورعلاقوں پر فریضہ عائد ہونے کا سبب یہ تھا کہ دور کے علاقوں کی بہ نسبت وہ حملے کے خلاف دفاع کے لیے زیادہ بہتر پوزیشن پر ہوتے تھے ؟ موجودہ دور میں جبکہ ذرائع مواصلات نے بہت ترقی کی ہے قرب و بعد کے پیمانے بہت تبدیل ہوچکے ہیں ۔ کیا اب زیادہ اہمیت اس بات کی نہیں ہے کہ کس مسلمان ملک کے پاس زیادہ بہتر ہتھیار پائے جاتے ہیں ؟ کس ملک کی معاشی پوزیشن زیادہ مستحکم ہے ؟ کون سا ملک سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے ہے ؟ ظاہر ہے کہ جو زیادہ اہلیت رکھے گا، اس پر فریضہ دوسرے کی بہ نسبت زیادہ جلدی عائد ہوگا ۔ اس لحاظ سے یہ عین ممکن ہے کہ مجاور ملک کی بہ نسبت، جو فوجی مہارت اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے پسماندہ ہو ، ایک دور دراز کے ملک ،جس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہوں اور وہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بھی آگے ہو ،پر دفاع کا فریضہ جلدی عائد ہو ۔

غیرمسلم ممالک میں مسلمانوں میں مدد 

اجتماعی حق دفاع کے طریق کار کا فائدہ صرف ’’ریاستیں‘‘ ہی اٹھاسکتی ہیں، جبکہ امت مسلمہ صرف مسلم ممالک تک ہی محدود نہیں، بلکہ کئی ممالک میں مسلمان بطور اقلیت رہ رہے ہیں ۔ ان ممالک میں اگر مسلمان ظلم کا شکار ہوں تو ان کی مدد کیسے کی جائے گی ؟ غیر ممالک میں ظلم کے شکار مسلمانوں کی مدد کے لیے جہادی کاروائی کو بہت سے مسلمان اہل علم نے ’’دفاعی جہاد ‘‘کے زمرے میں شمار کیا ہے ۔لیکن جدید بین الاقوامی قانونی نظام میں اسے دفاع نہیں متصور کیا جاسکتا ۔ اقوام متحدہ کے وجود میں آنے سے پہلے جو رواجی بین الاقوامی قانون (Customary International Law)تھا اس کے تحت دفاع کا تصور بہت وسیع تھا اور اس میں ریاست کے لیے یہ حق تسلیم کیا گیا تھا کہ اگر اس کے کچھ باشندے کسی غیر ملک میں خطرے میں ہوں اور وہ ملک ان کی حفاظت سے قاصر یا انکاری ہو تو ایسی صورت میں اس ملک کو اپنے باشندوں کی حفاظت کے لیے مناسب اقدام کا اختیار حاصل ہوجاتا تھا اور اسے دفاع میں شمار کیاجاتاتھا ۔ (۵۶) کیا یہ حق اب بھی ریاستوں کو حاصل ہے ؟ اس سوال کے جواب پر بین الاقوامی قانون کے ماہرین کا اختلاف ہے۔ کچھ اب بھی اس حق کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور کچھ کے نزدیک اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ ۲ ذیلی دفعہ ۴ نے طاقت کے استعمال کی تمام صورتوں پر پابندی عائد کردی ہے اور اب صرف انہی صورتوں میں طاقت کا استعمال جائز ہوگا جن کی منشور نے صراحتاً اجازت دی ہے ، یعنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اجازت سے مشترکہ فوجی کاروائی اور منشور کی دفعہ ۵۱ میں مذکور شرائط کے تحت دفاعی جنگ ۔ (۵۷) لیکن جو ماہرین غیر ممالک میں اس قسم کی کاروائی کو جائز سمجھتے ہیں ان کے نزدیک اس قسم کی کاروائی اسی ملک کے لیے جائز ہوتی ہے جس کے ’’شہری ‘‘ خطرے میں ہوں ۔ (۵۸) اب مسئلہ یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون میں اس وقت ’’شہریت‘‘ (Citizenship) اور ’’قومیت‘‘ (Nationality) کے جو تصورات رائج ہیں ان کے تحت سنکیانگ کے مسلمانوں کو پاکستان کے شہری نہیں قرار دیاجاسکتا ۔ اس لیے اگر ان پر ظلم ہورہا ہو تو پاکستان ان کی مدد کے لیے فوجی کاروائی نہیں کرسکتا۔ مسئلہ صرف بین الاقوامی قانون کے ساتھ نہیں ہے ، بلکہ اسلامی قانون کے لحاظ سے بھی یہاں چند سوال پیدا ہوتے ہیں ۔ ہم نے پیچھے واضح کیا ہے کہ دارالاسلام سے باہر مستقل طور پر مقیم مسلمانوں کو دار الاسلام کے ’’شہری‘‘ نہیں قرار دیاجاتا تھا ۔ اس لیے ان پر حملہ دارالاسلام پر حملہ نہیں متصور ہوتا تھا ۔ البتہ چونکہ وہ امت کا حصہ تھے اس لیے دفاع امت کے نظریے کے تحت دارالاسلام کے مسلمانوں پر ان کی مدد لازم ہوتی تھی ۔ کیا عصر حاضر میں غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلم اقلیت کی مدد کے لیے ’’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت‘‘ (Humanitarian Intervention) کے تصور کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے ؟ 
کسی دوسری ریاست میں ’’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت‘‘ اس وقت کی جاتی ہے جب وہ ریاست خود اپنے باشندوں یا اپنے ہاں مقیم غیرملکی لوگوں کو ظلم کا نشانہ بناتی ہے ۔ (۵۹) اس قسم کی کاروائی کو بعض ممالک جائز قرار دے دیتے ہیں ۔ ۱۹۷۱ء میں جب بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تھا تو اس کے لیے ایک جواز یہی پیش کیاگیا تھا کہ پاکستانی فوج بنگالیوں پر مظالم ڈھارہی تھی ۔ ماضی قریب میں سربیا پر نیٹو کی بمباری کے لیے بھی ایک جواز یہی فراہم کیاگیا تھا ۔ جو لوگ اسے جائز قرار دیتے ہیں ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ ۳۹ کے تحت جن صورتوں میں کسی ریاست کے خلاف کاروائی ضروری ہوجاتی ہے ان میں ایک صورت یہ ہے کہ اس ریاست کی طرف ’’امن عالم کو خطرہ‘‘ ہو ، اور یہ بھی قانونی طور پر مسلمہ ہے کہ ’’امن عالم کو خطرہ‘‘ کسی ریاست کے ’’اندرونی معاملات‘‘ سے بھی ہوسکتا ہے ۔ پس اصولاً کسی ریاست کے اندرونی معاملات میں مداخلت ناجائز ہے لیکن جب ان اندرونی معاملات سے امن عالم کو خطرہ ہو تو پھر مداخلت جائز ہوجاتی ہے ، جیسا کہ منشور کی دفعہ ۲ ذیلی دفعہ ۷ میں تصریح کی گئی ہے ۔ تاہم اس موقف پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ دفعہ ۳۹ کے تحت اس قسم کے معاملات میں کاروائی کا اختیار سلامتی کونسل کو حاصل ہوتا ہے نہ کہ انفرادی طور پر ریاستوں کو۔ پس اگر سلامتی کونسل انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کسی ریاست کے اپنے باشندوں پر ظلم کو روکنے کے لیے کاروائی کرے تو اس کے جواز میں کے متعلق کوئی اشکال نہیں پایاجاتا لیکن اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ یہ حق انفرادی طور پر ریاستوں کو بھی حاصل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ریاست نے بھی اس قسم کی کاروائی میں تنہا ’’انسانی ہمدردی‘‘ کو ہی بنیاد نہیں بنایا بلکہ دیگر جواز بھی ساتھ ساتھ فراہم کرنے کی کوشش کی ۔ مثلاً بھارت نے مشرقی پاکستان میں کاروائی کے لیے اپنے حق دفاع کو بھی جواز کے طور پر پیش کیا اور نیٹو نے سربیا پر بمباری کے ضمن میں سلامتی کونسل کی ’’قراردادوں پر عملدرآمد‘‘ کو بھی ایک بنیاد کے طور پر پیش کیا ۔ پس سلامتی کونسل کی منظوری کے بعد اگر کوئی ریاست یا ریاستوں کا مجموعہ اس قسم کی کاروائی کرے تو اسے قانونی طور پر جائز سمجھا جائے گا لیکن سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کسی دوسری ریاست میں فوجی کاروائی کا جواز کم از کم یقینی نہیں ہے ۔ 
لہٰذا اگر مسلمان ممالک دفاع کے اسلامی تصور کو عصر حاضر میں عملی شکل دینا چاہتے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ ایک طرف تمام اسلامی ممالک آپس میں دفاعی معاہدات کریں ، تاکہ ایک پر حملہ سب پر حملہ متصور ہو ۔ دوسری طرف ان پر لازم ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر مشترکہ موقف اپنا کر مؤثر انداز میں آواز بلند کریں ۔ مشترکہ دفاعی معاہدات کے بعد وہ سلامتی کونسل میں مستقل نشست بھی حاصل کرسکتے ہیں ،جس پر امت مسلمہ کی نمائندگی مختلف ممالک باری باری کریں ۔ اگر مسلم ممالک بدستور اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے تنہا کوشش کرتے رہیں گے تو امت مسلمہ کے دفاع کا فریضہ کبھی ادا نہیں ہوسکے گا ۔ 
انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کسی دوسری ریاست میں مظلوموں کی مدد کے حوالے سے چند اور سوال بھی مسلمان اہل علم کی توجہ اور غور وفکرکے متقاضی ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ کیا ’’مظلوموں کی مدد‘‘ صرف اس صورت میں کی جائے گی جب مظلوم مسلمان ہوں ؟ اگر مظلوم غیر مسلم ہوں تو کیا تب بھی مسلمانوں پر ان کی مدد کا فریضہ عائد ہوتا ہے ؟ بالخصوص اگر ظالم مسلمان ہوں؟ کیا ایسی صورت میں مسلمان اور غیر مسلم کی تمیز کیے بغیر ظالم کے خلاف کاروائی کی جائے گی اور مظلوم کی مدد کی جائے گی ؟ شریعت نے مظلوم کا ساتھ دینے اور ظالم کا ہاتھ روکنے کا حکم دیا ہے ۔ (۶۰) اسی طرح ’’بر اور تقوی ‘‘میں تعاون کاحکم دیا ہے اور ’’اثم اور عدوان‘‘ میں تعاون سے منع کیا ہے ۔ (۶۱) کیا ان احکام کو بنیاد بناکر ظالم مسلمانوں کے شکنجے سے مظلوم غیر مسلموں کو چھڑانے کے لیے دیگر غیر مسلموں کے ساتھ تعاون کیا جاسکتا ہے ؟ نیز کیا اس قسم کی کاروائی میں مسلمان غیر مسلم کمان کے تحت لڑ سکتے ہیں ؟ 

جہاد اور نظم حکومت 

عصر حاضر میں جہاد کے حوالے سے ایک اہم بحث یہ ہے کہ کیا جہاد کے فریضے کی ادائیگی کے لیے حکومتی نظم کا ہونا ضروری ہے یا افراد اور غیرسرکاری تنظیمیں بھی جہاد کا اعلان کرسکتی ہیں ۔ مسلمان اہل علم اس سلسلے میں تین گروہوں میں تقسیم نظر آتے ہیں ۔ بعض اہل علم سرے سے اس شرط کے قائل ہی نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک فریضۂ جہاد کی ادائیگی کے لیے حکومتی نظم ایک مناسب امر تو ہے مگر جہاد اس کے بغیر بھی کیاجاسکتا ہے ، بالخصوص جبکہ مسلمان حکمرانوں کے متعلق بالعموم یہ تاثر پایاجاتا ہے کہ وہ عوام کی خواہشات کے ترجمان نہیں ہیں اور جہاد سے جی چراتے ہیں ۔ (۶۲) کچھ اہل علم ایسے ہیں جن کی رائے اس کے بالکل برعکس ہے ۔ وہ فریضۂ جہاد کی صحیح ادائیگی کے لیے اسے ایک لازمی شرط قرار دیتے ہیں کہ اسے نظم حکومت کے تحت رہ کر کیا جائے ۔ (۶۳) ایک تیسرا گروہ ان اہل علم کا ہے جو دفاع کی صورت میں اس شرط کے قائل نہیں لیکن اسے اقدام کے لیے ضروی قرار دے دیتے ہیں ۔ (۶۴) اس اختلاف رائے کی وجہ سے دیگر کئی امور پر بھی اختلاف ہوا ۔ مثلاً آزادی کی مسلح تحریکوں کے جواز اور عدم جواز کے مسئلے کا بھی بہت حد تک انحصار اسی بنیادی امر پر ہے ۔ ظاہر ہے کہ اگر حکومتی نظم کے بغیر جہاد جائز نہ ہو تو پھر مسلح جدوجہد آزادی کو کیسے جہاد قرار دیاجاسکتاہے ؟ 

استطاعت اور مقدرت کی شرط 

اسی طرح جہاد کے حوالے سے استطاعت اور مقدرت کی شرط پر بھی عصر حاضر کے تناظر میں غور و فکر کی ضرورت ہے۔ سورۃ الانفال کی آیت ۶۶ سے بعض اہل علم نے یہ استدلال کیا ہے کہ جب تک مسلمان فوج کی تعداد دشمن کے مقابلے میں کم از کم دوگنا نہ ہو اس وقت تک ان پر جہاد فرض نہیں ہوتا ۔ (۶۵) اس کے برعکس بعض دیگر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ سورۃ الانفال کی آیت سے زیادہ سے زیادہ یہ استدلال ہو سکتا ہے کہ اگر دشمنوں کی تعداد دوگنی سے بھی زائد ہو تو پھر مومن قتال کی کاروائی موخر کرسکتے ہیں بشرطیکہ ایساکرنا ان کے بس میں ہو۔یعنی مومنوں کو ایسی صورت میں قتال کی کاروائی شروع نہیں کرنی چاہیے ۔ لیکن اگر حملہ دشمنوں کی جانب سے ہو تو پھر تعداد کا لحاظ کیے بغیر خون کے آخری قطرے تک دفاع کا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ ایسی صورت میں اگر ایک جگہ کے مسلمان کمزور ہوں اور دفاع کی اہلیت نہیں رکھتے تو دوسرے مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد ہوگا ، یہاں تک کہ شرقاً و غرباً پوری دنیا کے مسلمانوں پر یہ فریضہ فرض عین کی صورت اختیار کرلے گا لیکن دفاع کا حکم ساقط نہیں ہوگا ۔ (۶۶) مزید برآں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس عددی نسبت کا لحاظ تو اس زمانے میں رکھا جاسکتا تھا جب افرادی قوت ہی میدان جنگ میں اہم کردار ادا کرتی تھی ۔ موجودہ دور میں جبکہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے فرد کی اہمیت کو نسبتاً کم کردیا ہے کیا زیادہ اہم سوال یہ نہیں ہوگا کہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے دشمن کہاں کھڑا ہے؟ اگر مسلمان فوج کی تعداد دس ہزار ہے مگر اس کے پاس روایتی بندوق ہیں اور دشمن کی تعداد سو ہے مگر اس کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں تو مقدرت کا اندازہ تعداد سے لگایاجائے گا یا اسلحے کی نوعیت سے ؟ (۶۷) نیز یہ بات بھی قابل غور ہے کہ تعداد کا اندازہ لگاتے ہوئے کیا صرف باقاعدہ فوج کو دیکھا جائے گا یا مسلمان آبادی کی کل تعداد دیکھی جائے گی ؟کیونکہ بعض صورتوں میں قتال ہر مسلمان پر نماز اور روزے کی طرح فرض عینی کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔ کیا اس کا لازمی تقاضا یہ نہیں ہے کہ ہرمسلمان کم از کم بنیادی فنون سپہ گری اور اسلحے کے استعمال سے واقف ہو ، بنیادی فوجی ٹریننگ ہر شہری کو دی گئی ہو اور شہری دفاع کے اصولوں سے سبھی واقف ہوں ؟ 

جہاد اور امن معاہدات 

جہاد سے متعلق مباحث میں ایک اہم بحث معاہدات کے متعلق ہے ۔ اولاً تو اس پر بحث کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ کیا غیرمسلموں کے ساتھ امن کا معاہدہ کیاجاسکتا ہے ؟ ثانیاً اس معاہدے کی نوعیت اور ماہیت کیا ہوگی ؟ کیا اس کی حیثیت محض ایک عارضی جنگ بندی کی ہوگی یا مستقل بنیادوں پر بھی امن کا معاہدہ کیا جاسکتا ہے ؟ مسلمان اہل علم میں بالعموم اس امر پر اتفاق پایاجاتا ہے کہ غیرمسلموں کے ساتھ امن کا معاہدہ جائز ہے ، بشرطیکہ اس میں مسلمانوں کے مصالح کا لحاظ رکھا جائے ۔ تاہم امن معاہدات کی نوعیت اور ماہیت کے متعلق اختلاف پایاجاتا ہے ۔ بہت سے لوگوں کی رائے یہ ہوئی کہ فقہاء کے نزدیک امن معاہدات کی حیثیت صرف جنگ بندی کی تھی اور وہ غیر مسلموں کے ساتھ صرف ایک قسم کے مستقل معاہدۂ امن کے جواز کے قائل تھے ، یعنی عقد ذمہ جس کے بموجب غیرمسلموں کو دارالاسلام کے رعایا کی حیثیت حاصل ہوجاتی تھی ۔ (۶۸) گویا غیرملکی غیرمسلموں کے ساتھ مستقل بنیادوں پر امن کا معاہدہ نہیں کیاجاسکتا تھا ۔ جن لوگوں نے اس موقف کو قبول کیا انہوں نے اس سے ایک اور اصول کے لیے بھی استدلال کیا اور وہ یہ کہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان مستقل حالت جنگ ہے ، امن کا وقفہ اگر بیچ میں آئے گا تو وہ عارضی ہوگا ۔ (۶۹) چنانچہ اس موقف کے قائلین اقوام متحدہ کے منشور کے طرز پر معاہدات کو ناجائز سمجھتے ہیں کیونکہ اس کے تحت طاقت کے استعمال پر پابندی لگائی گئی ہے اور تمام تنازعات پرامن ذرائع سے حل کرنے کا کہاگیا ہے ۔ اس کے برعکس بعض دیگر اہل علم کی رائے یہ ہوئی کہ فقہاء نے اپنے وقت کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ رائے قائم کی تھی اور یہ اسلامی قانون کا کوئی مستقل قاعدہ نہیں ہے ۔ ان اہل علم کے نزدیک مسلمانوں اور غیرمسلموں کے علاقات میں اصل کی حیثیت امن کو حاصل ہے اور جنگ کی حیثیت ایک عارض کی ہے ۔ چنانچہ وہ غیرمسلموں کے ساتھ مستقل معاہدۂ امن میں کوئی قانونی قباحت نہیں محسوس کرتے۔ (۷۰) 
دراصل لوگوں نے ’ابدی معاہدۂ امن ‘‘(امان مؤبد) اور ’’وقت کی قید سے آزاد معاہدۂ امن‘‘ (امان مطلق) کو مترادف سمجھ لیا ہے ۔ ان کے خیال میں اگر معاہدۂ امن میں وقت کی قید نہ ہو تو اس کی حیثیت ابدی معاہدے کی ہوجاتی ہے اور یوں یہ جہاد کی معطلی کا باعث ہوجاتی ہے ۔ حالانکہ اولاً تو امان مؤبد اور امان مطلق میں قانونی لحاظ سے فرق پایاجاتا ہے ۔ اول الذکر میں فریقین طے کرلیتے ہیں کہ وہ کبھی ایک دوسرے کے ساتھ جنگ نہیں کریں گے، جبکہ آخر الذکر میں وہ صرف یہ اقرار کرلیتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ جنگ نہیں کریں گے اور اس میں یہ ذکر نہیں کرتے کہ یہ معاہدہ کب تک نافذ العمل رہے گا۔ ثانیاً اگر یہ دونوں مترادف بھی ہوں تو یہ جہاد کی معطلی کا باعث کیونکر بنتے ہیں ؟ اگر جہاد کی فرضیت کی علت ’’محاربہ‘‘ ہو اور اس کا سدباب جنگ کے بغیر ہوسکتا ہو تو جنگ کے لیے جواز کہاں سے فراہم کیاجائے گا؟ 
دونوں فریقوں نے اس بات کو ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر مان لیا ہے کہ فقہا نے بالعموم مستقل امن معاہدات کو ناجائز ٹھہرایا ہے ، حالانکہ فقہ اسلامی کے معتبر متون کا جائزہ لینے کے بعد صورتحال اس کے برعکس محسوس ہوتی ہے ۔ شافعی اور حنبلی مسلک میں اس موضوع پر دو رائیں پائی جاتی ہیں : ایک جواز کی اور ایک عدم جواز کی ۔ (۷۱) عدم جواز کی رائے زیادہ مشہور ہے ۔ اس رائے کے مطابق معاہدۂ امن میں وقت کی قید کا ہونا ضروری ہے اور یہ مدت عام حالات میں چار مہینوں سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے ۔ ضرورت کے وقت یہ مدت دس سال تک بڑھائی جاسکتی ہے ۔ مدت کے اختتام پر اگر ضروری ہو تو اسے مزید دس سال تک بڑھایاجاسکے گا لیکن کسی بھی صورت میں اس مدت کو ایک وقت میں دس سال سے زائد نہیں کیاجاسکتا ۔ (۷۲) اگر معاہدے میں مدت کا تعین نہیں کیاگیا لیکن یہ شرط رکھی گئی کہ مسلمان کسی بھی وقت اس معاہدے کو ختم کرسکیں گے تو تمام شافعی فقہا کے نزدیک یہ معاہدہ جائز ہوجاتا ہے (۷۳)، جبکہ حنبلی فقہا میں جو اس قسم کے معاہدات کے عدم جواز کے قائل ہیں، ان کے نزدیک اس صورت میں بھی معاہدہ ناجائز ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ اس شرط کو معاہدے کے مقتضیات سے متصادم سمجھتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاہدۂ امن ان کے نزدیک عقد لازم ہے اس لیے اس میں اس قسم کی شرط رکھنا صحیح نہیں ہوسکتا ۔ (۷۴) حنفی اور مالکی فقہا نے تصریح کی ہے کہ معاہدۂ امن میں وقت کی قید بیان کرنا ضروری نہیں ہے اور یہ مدت دس سال سے زائد بھی ہوسکتی ہے ۔ (۷۵) یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حنفی فقہا کے نزدیک معاہدۂ امن کی حیثیت عقد غیر لازم کی ہوتی ہے ، یعنی کوئی بھی فریق یکطرفہ طور پر اس کے خاتمے کا اعلان کرسکتا ہے ، بشرطیکہ وہ دوسرے فریق کو اس کے خاتمے کے متعلق باقاعدہ اطلاع دے اور جنگی کارروائی بغیر اعلان جنگ کے نہ کرے۔ (۷۶) حنابلہ میں ابن القیم کی رائے یہ ہوئی کہ اگر معاہدۂ امن وقت کی قید سے آزاد ہوتو وہ عقد غیر لازم ہوگا ،جبکہ موقت ہونے کی صورت میں وہ عقد غیر لازم ہوگا ۔ (۷۷) عصر حاضر میں اس حوالے سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کی رو سے معاہدۂ امن خواہ مطلق ہو یا موقت ، ہر دو صورتوں میں وہ عقد لازم کی حیثیت رکھتا ہے ۔ (۷۸) کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کا معاہدہ تمام فقہا کے نزدیک ناجائز ہوگا ؟ 
اس کے علاوہ ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر کوئی فریق معاہدے کی خلاف ورزی کرے تو کیا اس کے بعد بھی معاہدہ برقرار رہتا ہے ؟ رائج الوقت بین الاقوامی قانون کے تحت دوسرا فریق معاہدے سے تبھی آزاد ہوسکے گا جب وہ باقاعدہ طور پر معاہدے کے خاتمے کا اعلان کرے ۔ (۷۹) مسلمان اہل علم میں بھی بعض نے یہ رائے اختیار کی ہے (۸۰) لیکن اکثریت کا موقف یہ ہے کہ عملاً نقض واقع ہونے کی صورت میں دوسرے فریق کو معاہدہ ختم ہونے کے اعلان کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کے بغیر بھی اسے اقدام کا حق حاصل ہوجاتا ہے ۔ (۸۱) یہ مسئلہ اس وقت مزید اہمیت اختیار کرلیتا ہے جب اسے غیر ممالک میں مسلمانوں کی مدد کے معاملے سے متعلق کرکے دیکھا جائے ۔ اگر کسی غیر مسلم ملک کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ ہو اور وہ ملک اپنے مسلمان باشندوں پر مظالم ڈھارہاہو تو کیا ایسی صورت میں معاہدۂ امن کو ختم سمجھ کر مسلمان بغیر اعلان کے کاروائی کرسکیں گے یا کاروائی سے پہلے انہیں معاہدہ ختم ہونے کا اعلان کرنا ہوگا ؟ 
ایک سوال یہاں مسلمانوں کی جانب سے انفرادی کوششوں کے متعلق بھی پیدا ہوتا ہے ۔ اگر کسی مسلمان ملک نے غیرمسلموں کے ساتھ معاہدہ کیا تو اس کے تمام باشندے اس کے پابند ہوجاتے ہیں ۔ ایسے میں اگر بعض افراد کی رائے یہ ہو کہ اس غیرمسلم ملک کی مسلمان رعایا کی مدد لازم ہے تو معاہدہ ختم ہونے تک وہ انفرادی طور پر ان کی مدد کے لیے نہیں جاسکتے۔ ایسی صورت میں ان کے لیے کیا راستہ باقی بچتا ہے ؟ کیا یہی کہ وہ اپنے ملک کی شہریت ترک کردیں ؟ کیا حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ کے واقعے سے اس سلسلے میں استدلال کیاجاسکتا ہے؟ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کے باشندے معاہدۂ حدیبیہ کے پابند تھے اس لیے وہ اہل مکہ کے خلاف فوجی کاروائی نہیں کرسکتے تھے ۔ جبکہ حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی باقاعدہ اہل مکہ کے قافلوں پر حملے کیا کرتے تھے ۔ اہل مکہ نے اسے معاہدۂ حدیبیہ کی خلاف ورزی نہیں قرار دیا (۸۲) اور نہ ہی قانوناً وہ ایسا کرسکتے تھے ، کیونکہ یہ لوگ مدینہ کی ریاست کے دائرۂ عمل سے باہر مقیم تھے اور انہوں نے مدینہ کی ریاست کی شہریت اختیار نہیں کی تھی ، باوجود اس کے کہ وہ مسلمان تھے اور اس حیثیت سے ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کی اطاعت لازم تھی ۔ لیکن قانوناً چونکہ وہ ریاست کے باشندے نہیں تھے اس لیے ریاست کا معاہدہ ان پر لازم نہیں تھا اور اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو معاہدے کی پابندی کا حکم کبھی نہیں دیا۔ (۸۳) 

آداب القتال 

آداب القتال کے متعلق شریعت نے کچھ تفصیلی احکام دیے ہیں ؛ مثلاً عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے کی ممانعت ، معاہدات کی پابندی کا حکم ، مثلہ کی ممانعت وغیرہ ۔ (۸۴) اس سلسلے میں اسلامی قانون نے معاملہ بالمثل (Reciprocity) کا قاعدہ بھی مانا ہے ۔ تاہم محض معاملہ بالمثل کی بنیاد پر شریعت کے احکام کی خلاف ورزی جائز نہیں ہوسکتی ۔ مثلاً اگر دشمن مسلمانوں کے شہریوں کو نشانہ بنائیں گے تو جواباً مسلمان ایسی کاروائی نہیں کریں گے ۔ (۸۵) اس قسم کی کاروائی صرف اسی وقت جائز ہوسکتی ہے جب جنگی ضرورت کی وجہ سے حملہ ناگزیر ہو اور شہریوں کا بچانا ممکن نہ ہو ۔ (اسے بین الاقوامی قانون کی اصطلاح میں ’’ضمنی نقصان ‘‘ Collateral Damageکہتے ہیں ۔ ) پس معاملہ بالمثل کے ساتھ ایک متوازی قاعدہ اضطرار کا بھی ہے۔ 
یہاں ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان دیگر قوموں کے ساتھ آداب جنگ کے تعین کے لیے معاہدات کرسکتے ہیں ؟ (عصر حاضر میں جنیوا کنونشن اور ان کے ساتھ اضافی پروٹوکول اس قسم کے معاہدات کی مثالیں ہیں ۔ )شریعت نے مسلمانوں پر لازم کیا ہے کہ جنگ کے دوران بعض قواعد اور ضوابط کا لحاظ رکھیں گے قطع نظر اس سے کہ دوسرا فریق ان کا خیال رکھتا ہے یا نہیں ۔ ظاہر ہے کہ اگردوسرا فریق ان قواعد کو معاہدے کا حصہ بناکر ان کی پابندی پر آمادہ ہو تو مسلمانوں کے لیے اس قسم کے معاہدات میں شامل ہونا مستحسن ہی ہوگا ۔ اس قسم کے معاہدات کے تحت ممنوع کام اس وقت تک ممنوع رہیں گے جب تک وہ معاہدات مؤثر ہوں ، الا یہ کہ ان کاموں کو شریعت نے بھی ممنوع قرار دیا ہو ۔ ظاہر ہے کہ شریعت کے تحت ممنوع شدہ کام مسلمانوں کے لیے ممنوع رہیں گے خواہ دوسرے فریق کے ساتھ معاہدہ ختم ہوجائے ۔اس قسم کے معاہدات سے بعض مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ۔ مثلاً جنگی قیدیوں کے متعلق نص قرآنی کے بموجب مسلمان حکمران کو دو اختیار دیے گئے ہیں ؛ من اور فدا، یعنی بغیر معاضہ کے یا معاوضہ لے کر رہائی ۔ (۸۶) چوتھے جنیوا معاہدے کے ذریعے طے کیاگیا ہے کہ جنگ کے خاتمے پر قیدیوں کو بغیر معاوضہ کے رہاکیاجائے گا ۔ (۸۷) کیا یہ شق شریعت کے خلاف متصور ہوگی یا اسے حکمران کے اختیارات کا جائزاستعمال سمجھا جائے گا ؟ عصر حاضر میں آداب القتال کے حوالے سے تین امور نہایت اہمیت اختیار کرگئے ہیں : غیرمقاتلین کا تعین ، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کا حکم اور فدائی یا خودکش حملے۔ 

غیرمقاتلین کو نشانہ بنانے کی ممانعت 

مسلمان اہل علم کا اس بات پر اصولاً اتفاق ہے کہ غیر مقاتلین کو جنگ میں نشانہ نہیں بنایا جائے گا ۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ اگر غیر مقاتلین جنگ میں حصہ لیں تو ان کو نشانہ بنایاجاسکتا ہے ۔ (۸۸) لیکن چند امور ایسے ہیں جن پر اختلاف پایاجاتا ہے اور جو مزید غور و فکر کے متقاضی ہیں ۔ اولاً غیرمقاتلین میں کون لوگ شامل ہیں ؟ خواتین اور بچوں کو بالعموم غیرمقاتلین میں شامل کیاجاتا ہے لیکن وہ مرد جو فوج کا حصہ نہ ہوں کیا ان کو بھی غیر مقاتل کہاجائے گا ؟ پرانے زمانے میں جوان مرد کو بالفعل یا بالقوۃ جنگجو سمجھا جاتا تھا اور عورتوں کو اصولاً غیر مقاتل ہی سمجھا جاتاتھا لیکن کیا یہ بات عصر حاضر کے تناظر میں بھی صحیح ہے ؟ کیا موجودہ حالات میں ’’غیر فوجی ‘‘ کو ہی غیر مقاتل سمجھا جائے گا؟ بہت سے اہل علم نے شہری (Civilian) اور غیر مقاتل کو مترادف مانا ہے (۸۹) لیکن ایک رائے یہ بھی پیش کی گئی ہے کہ چونکہ شہریوں کے ٹیکسوں سے فوج کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں اس لیے بالواسطہ ہی سہی شہری بھی جنگ میں حصہ لیتے ہیں اس لیے ہر ٹیکس دینے والا (Tax-payer) مقاتل تصور ہوگا۔ (۹۰) اسی طرح اگر کسی ملک میں تمام شہریوں کے لیے فوجی تربیت لازمی ہو تو وہاں مقاتل اور غیرمقاتل میں تمیز کیسے کی جائے گی ؟ 

بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار 

غیرمقاتل کے تعین پر ہی باقی دو امور (بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال اور فدائی حملے ) کا بہت حد تک انحصار ہے ۔ اگر تمام غیر فوجیوں کو غیرمقاتل کہاجائے تو پھر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال بھی اصولاً ناجائز ہوگا کیونکہ ان کا اثر صرف فوجی تنصیبات تک ہی محدود نہیں ہوتا ۔ ان کا استعمال صرف معاملہ بالمثل اور اضطرار کی صورت میں ہی جائز ہوسکتا ہے ۔ لیکن کیا معاملہ بالمثل اور اضطرار کی بنیاد پر ایٹمی ہتھیار اور زہریلی اور کیمیاوی گیسوں کا استعمال جائز ہوسکتا ہے ؟ ان ہتھیاروں کے اثرات تو بہت ہی تباہ کن اور کئی نسلوں پر محیط ہوتے ہیں ۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے اپنے مشہور (لیکن متنازعہ !) فیصلے میں اصولاً ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو ناجائز قراردیا لیکن اس مسئلے پر ججوں کا ختلاف ہوا کہ کیا کوئی اضطرار کی حالت ایسی ہوسکتی ہے جس میں ریاست کی بقا ہی خطرے میں پڑ جائے اور اس کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہو کہ وہ ایٹمی ہتھیار استعمال کرے؟ بعض ججوں کی رائے یہ تھی کہ ایسی کوئی اضطراری حالت بھی ان ہتھیاروں کے استعمال کو جواز نہیں عطا کرسکتی لیکن بعض دیگر ججوں کی رائے یہ تھی کہ ایسی صورت میں ان ہتھیاروں کے استعمال کی ممانعت کے لیے بین الاقوامی قانون میں کوئی دلیل نہیں پائی جاتی ۔ (۹۱) 

فدائی حملے یا خود کش حملے ؟ 

جہاں تک ان حملوں کا تعلق ہے جن میں حملہ آور خود کوہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے اور اپنی جان دے کر دشمن کو نقصان پہنچاتا ہے تو اولاً تو یہی امر متنازعہ ہے کہ اس قسم کے حملوں کو کیا نام دیا جائے ؟ اگر ان کو ’’خود کش حملے‘‘ کہا جائے تو پہلا تاثر ان کے ناجائز ہونے کا بنتا ہے کیونکہ خودکشی اصولاً حرام ہے ۔ اس کے برعکس اگر ان کو ’’فدائی حملوں‘‘کانام دیا جائے تو پھر تاثر یہی بنتا ہے کہ یہ شہادت کی اعلی ترین قسم ہے کیونکہ اس قسم کے حملوں میں جان کا جانا یقینی ہوتا ہے ۔ اس لیے بہت سے لوگ ان کو ’’استشہادی کاروائیاں‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ ثانیاً کیا اس قسم کے حملوں کی شریعت نے اجازت دی ہے ؟ جو لوگ ان کو خودکش حملے کہتے ہیں وہ ان کو اصولاً ناجائز کہتے ہیں کیونکہ شریعت نے خودکشی کو ناجائز ٹھہرایا ہے ۔ اس کے برعکس جواز کے قائلین کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ اس قسم کی کاروائی سے کمزور فریق طاقتور دشمن کو سخت ترین نقصان پہنچاسکتا ہے ، اور باقی رہی جان جانے کی بات تو جہاد میں جان جانے کا امکان تو ہر وقت رہتا ہے ۔ اس پر یہ اعتراض کیاجاسکتا ہے کہ دشمن اگر مجاہد کی جان لے اور مجاہد خود اپنی جان لے تو ان دونوں میں فرق ہے ۔ اول الذکر شہادت ہے اور ثانی الذکر خودکشی ہے ۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ فدائی حملوں میں حملہ آور اذیت کے خوف سے خودکشی نہیں کرتا بلکہ ہنسی خوشی جان کی قربانی پیش کرکے دشمن کو بڑا نقصان پہنچاتا ہے اور فقہا نے صراحت کی ہے کہ عام حالات میں تنہا مجاہد کو دشمن کے صفوں میں نہیں گھسنا چاہیے لیکن اگر اس طرح دشمن کو خوفزدہ کیاجاسکتا ہو اور ان پر دھاک بٹھانا مقصود ہو تو یہ حملہ جائز ہوگا ۔ (۹۲) جو لوگ اس قسم کے حملوں کے عدم جواز کے قائل ہیں ان میں بھی بہت سے اس بات کو مانتے ہیں کہ بعض استثنائی حالات میں اس قسم کا حملہ نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہوجاتا ہے ۔ مثلاً چونڈہ کے محاذ پر جب ٹینکوں کا بڑا حملہ ہوا تو پاک فوج نے اس کی پسپائی اسی قسم کے حملوں سے یقینی بنائی ۔ اسی طرح راشد منہاس شہید نے جب جہاز کو زمین سے ٹکرادیاتھا تو وہ بھی حقیقت کے لحاظ سے خودکش یا فدائی حملہ ہی تھا اور اس حملے کی وجہ سے ان کو پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازاگیا ۔ 
اس قسم کے حملوں کے جواز اور عدم جواز کے تعین کے لیے ایک اور اہم عامل یہ امر ہے کہ ان کا نشانہ کون ہے ؟ اگر نشانہ وہ لوگ ہوں جن کو شریعت نے نشانہ بنانے سے روکا ہے (غیر مقاتلین) تو پھر حملہ بھی ناجائز ہوگا لیکن اگر حملے کانشانہ مقاتلین ہوں تو پھر عدم جواز کے قائلین کو اپنے موقف کے اثبات کے لیے مزید قوی دلائل جمع کرنے ہوں گے ۔ معاصر بین الاقوامی قانون کے تحت ایک اور عامل بھی اہمیت رکھتا ہے ۔ بین الاقوامی قانون نے ہر قسم کے حملوں کے جواز کے لیے لازم ٹھہرایا ہے کہ حملہ آور غیر مقاتلین کے بھیس میں نہ ہو ۔ (۹۳) کیا یہ شرط اسلامی قانون کے تحت بھی لازم ہے ؟ مقاتل اگر غیر مقاتل کے بھیس میں ہو تو کیا اسے شرعاً دھوکہ دہی اور غدر سمجھا جائے گا ؟ رسول اللہ ﷺ نے جنگ کو ’’خدعۃ‘‘ قرار دیا تھا ۔ (۹۴) جائز خدعۃ اور ناجائز دھوکہ دہی میں فرق کیسے کیا جائے گا ؟

جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک 

آداب القتال کے حوالے سے ایک اور اہم بحث جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک کا معاملہ ہے ۔ اس سلسلے میں پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا غیر مقاتلین کو جنگی قیدی بنایاجاسکتا ہے ؟ فقہا نے جنگی قیدیوں میں مقاتلین کو ’اسریٰ‘ اور غیرمقاتلین کو ’سبی‘ کانام دیاتھا ۔ (۹۵) کیا اس تقسیم کو اب بھی برقرار رکھاجاسکتا ہے ؟ (۹۶) دوسرا سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت مطالبات منوانے کے لیے جنگی قیدیوں کو یرغمال بنانے کی ممانعت ہے اور اسے دہشت گردی میں شمار کیاجاتا ہے ۔ (۹۷) کیا اسلامی قانون کے تحت جنگی قیدیوں کو یرغمال رکھنا جائزہے ؟ تیسرا سوال قیدیوں کی رہائی سے متعلق ہے ۔ قرآن کریم نے نص صریح کے ذریعے ان کے متعلق دو آپشن دیے ہیں ؛ من یا فداء ۔ پھر فقہاء نے کس بنیاد پر دیگر آپشن (غلام بنانا اور قتل کرنا) ذکر کیے ؟ اگر ان کا استدلال رسول اللہ ﷺ کے طرز عمل سے تھا تو رسول اللہ ﷺ کے طرز عمل کی بنیاد کیا تھی؟ ایک رائے یہ پیش کی گئی کہ قرآنی نص نے دو اختیارات ذکر کیے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حکمران کو دیگر اختیارات حاصل نہیں ہیں ۔ (۹۸) لیکن یہ رائے اس لیے قوی نہیں لگتی کہ آیت کریمہ میں ’اما منا بعد واما فداء‘ کی ترکیب استعمال ہوئی ہے جو بظاہر حصر کو مستلزم ہے ۔(۹۹) اس لیے کچھ بے باک لوگوں نے سرے سے اس کا ہی انکار کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی قیدیوں کو غلام بھی بنایاتھا یا قتل بھی کیا تھا ۔ انہوں نے اس قسم کی ساری روایات کو ’’عجمی سازش‘‘ کہہ کر مسترد کردیا ۔ (۱۰۰) ایک رائے یہ پیش کی گئی کہ سورۃ التوبۃ کی آیت ۵ میں مخالفین کو قتل کرنے اور گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، اس لیے اس آیت نے سورۃ محمد کی آیت کو منسوخ کردیا ۔ (۱۰۱) لیکن نسخ یہاں صریح نہیں بلکہ آیات کے درمیان ظاہری تعارض کی وجہ سے فرض کیا گیا ہے کہ ایک آیت نے دوسری آیت کو منسوخ کردیا ہے ۔ گویا یہ نسخ ضمنی ہے (Implied Abrogation) اور نسخ ضمنی کی طرف تبھی جایاجاتا ہے جب دو نصوص کے درمیان جمع و تطبیق ممکن نہ ہو ۔ (۱۰۲) یہاں تطبیق بلاتکلف ممکن ہے ۔ سورۃ التوبۃ کی آیت جنگ کے دوران حملے کے لیے حکم متعین کرتی ہے ، جبکہ سورۃ محمد کی آیت جنگ کے خاتمے پر جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک کے متعلق حکم دیتی ہے ۔ (۱۰۳) جناب جاوید احمد غامدی کی رائے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل سورۃ محمد کی آیت کے عین مطابق تھا ۔ چنانچہ عام طور پر آپ قیدیوں کو بلامعاوضہ رہا کرتے تھے اور اس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں ۔ کبھی آپ قیدیوں کا تبادلہ کرتے یا کسی اور عوض پر انہیں رہا کردیتے ۔ بنو مصطلق کے تمام قیدیوں کوصحابہ نے تقسیم کے بعد از خود آزاد کیا کیونکہ آپ نے اس قبیلے کی ایک خاتون (سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا) سے شادی کی ۔ کبھی ایسا ہوا کہ اگر کچھ صحابہ قیدیوں کو رہا کرنے پر آمادہ نہ تھے تو انہیں معاوضہ دے کر قیدیوں کو رہایا کروایا۔ (۱۰۴ ) یہ ساری باتیں صحیح ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جب آپ نے ایک بار قیدیوں کو تقسیم کیا تو کیا ان کو غلام نہیں بنایاگیا اور کیا صحابہ کو ان پر مالکانہ حقوق نہیں دیے گئے ؟ اگر وہ غلام نہیں بنائے گئے توبعض صحابہ کو معاوضہ کس چیز کا دیاگیا ؟ ڈاکٹر وہبۃ الزحیلی مانتے ہیں کہ بعض مواقع پر قیدیوں کو غلام بنایاگیا مگر وہ اسے معاملہ بالمثل قرار دیتے ہیں ۔ (۱۰۵) لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا معاملہ بالمثل کی بنیاد پر قرآنی نص پر اضافہ کیاجاسکتا ہے؟ اسی طرح بنو قریظہ کے مقاتلین کو آپ نے قتل کردیا اور غیر مقاتلین کو غلام بنایا ۔ عصر حاضر کے اکثر مسلمان اہل علم اسے اس بنیاد پر جواز عطا کرتے ہیں کہ ایک تو یہ ثالث کا فیصلہ تھا اور ثالث بھی یہود نے ہی مقرر کیا تھا ۔ دوسرے یہ تورات کا ہی فیصلہ تھا جو ان پر نافذ ہوا ۔ (۱۰۶) سوال پھر وہی ہے ۔ کیا ثالث کے فیصلے یا تورات کے حکم کی بنیاد پر قرآن کا حکم ترک کیاجاسکتا ہے ؟ (۱۰۷) کن حالات میں جنگی قیدی کو قتل کیا جاسکتا ہے ؟ مزید برآں کیا قتل کے جواز کے لیے عدالتی کاروائی کا ہونا ضروری ہے ؟ بین الاقوامی قانون نے جنگی جرائم کے ارتکاب پر سزاؤں کے لیے عدالتیں قائم کی ہیں ۔ شرعاً اس قسم کے طریق کار کی کیا حیثیت ہے ؟ (۱۰۸) 

جہاد اور مسلح جد جہد آزادی 

عصر حاضر میں جہاد اور مسلح جدو جہد آزادی کے تعلق نے بھی بہت اہمیت اختیار کی ہے ۔ کئی جگہوں پر غیرملکی تسلط کے خلاف مسلح مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے اور اسے جہاد ہی کے عنوان سے تعبیر کیاجاتا ہے ۔ اس سلسلے میں بعض اہل علم نے یہ رائے قائم کی ہے کہ اگر غیرملکی تسلط کے تحت مسلمانوں کے لیے دین پر عمل کرنا ناممکن ہوجائے تو ان کے پاس صرف یہی راستہ ہوگا کہ یا تو وہ وہاں سے ہجرت کریں اور یا کسی اسلامی ملک کی مدد طلب کریں ۔ گویا ان اہل علم کے نزدیک غیرملکی تسلط کے خلاف مسلح جدوجہد ناجائز ہوگی ۔ اس عدم جواز کے لیے ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس قسم کی مسلح مزاحمت نظم حکومت کے بغیر کی جاتی ہے جبکہ جہاد کے لیے نظم حکومت کا ہونا ضروری ہے ۔ (۱۰۹) 
یہاں اسلامی قانون کے لحاظ سے چند اہم سوال پیدا ہوتے ہیں ۔ اولاً کیا حکومت اور ریاست بذات خود مقصود ہیں، یا فریضۂ دفاع و اعلاء کلمۃ اللہ کے اچھے طریقے سے انجام دینے کے لیے ایک ذریعہ ہیں؟ اگر کبھی اسلامی ملک پر حملے کے نتیجے میں وہاں کی حکومت کا عملاً خاتمہ ہو جائے اور ابھی جنگ جاری ہو تو کیا پھر بھی دفاع کا فریضہ ادا کرنے کے لیے باقاعدہ نظم حکومت قائم کرنے کی ضرورت ہوگی ؟ یا مزاحمت کرنے والے آپس میں کسی کو امیر چن کر اس کی اطاعت کا اقرار کریں تو یہ حکومت کا بدل ہو جائے گا ؟ اسی طرح وہ لوگ جو کسی ظالمانہ نظام سے آزادی چاہتے ہوں تاکہ اپنے حقوق کا تحفظ کریں تو کیا ان پر بھی ریاست و حکومت کے تحت لڑنے کی شرط لاگو ہوتی ہے؟ وہ تو لڑیں گے ہی اس مقصد کے لیے کہ اپنی ریاست اور حکومت قائم کرسکیں ۔ 
شرعاً مسلمانوں پر اس سرزمین سے ہجرت واجب ہوجاتی ہے جہاں وہ اپنے دین پر عمل نہ کرسکتے ہوں ۔ (۱۱۰) تاہم عصر حاضر کے مخصوص معروضی حالات کی وجہ سے بعض اوقات مظالم کے باوجود ہجرت ناممکن یا نامناسب ہوتی ہے ، مثلاً: 
الف) جب مظلوموں کی تعداد لاکھوں میں ہو۔ 
ب) جب قریب ترین اسلامی ملک بہت دور ہو جہاں کثیر تعداد میں مسلمانوں کے لیے ہجرت کرکے جانا ناممکن ہو یا انتہائی حد تک مشکل ہو۔ 
ج) جب اسلامی ملک اتنی کثیر تعداد میں آنے والے مہاجرین کی آباد کاری کے وسائل نہ رکھتا ہو۔ 
د) جب وہ غیر مسلم ملک انہیں ہجرت بھی نہ کرنے دیتا ہو۔ 
کیا ان صورتوں میں لاکھوں لوگوں کو گھر بار چھوڑ کر نکل جانے کا حکم دیاجائے گا؟ کیا اس سرزمین کو اسلام کے دشمنوں کے لیے خالی چھوڑاجاسکتا ہے ؟ ایسی صورت میں اگرمظلوم دیگر مسلمانوں سے مدد طلب کرسکتے ہیں تو وہ خود اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے طاقت کیوں نہیں استعمال کرسکتے ؟ شریعت نے فردکو حق دفاع شخصی کے تحت طاقت کے استعمال کی اجازت دی ہے ۔(۱۱۱) اگر فرداً فرداً ایک ایک مظلوم کو یہ حق حاصل ہے ، تو کیا بہت سارے مظلوم مل کر ایک دوسرے کا تحفظ نہیں کرسکتے؟ (۱۱۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان ، مال اور عزت وآبرو کے تحفظ کی راہ میں قتل ہونے والوں کو بھی شہید قرار دیا ہے ۔ (۱۱۳) کیا اس بنیاد پر وطن کی آزادی کی تحریک کو جہاد کے مفہوم میں داخل سمجھا جاسکتاہے ؟ اگر آزادی کی تحریکیں غیر اسلامی نظام یا مقاصد کے حصول کے نعرے بلند کریں تو ان کی جدوجہد کی شرعی حیثیت کیا ہوگی ؟ اس کا جواب غالباً یہی ہوگا کہ اگر آزادی کی تحریک کے رہنما تو ایسی صورت میں اس تحریک کو جہاد نہیں کہاجاسکے گا، اگرچہ افراد کو حق دفاع شخصی پھر بھی حاصل رہے گا۔

جہاد اور دہشت گردی 

غیرملکی تسلط کے خلاف مسلح مزاحمت اور آزادی کی تحریکوں پر بحث کے ضمن میں ایک اہم بحث دہشت گردی کی تعریف اور نوعیت کی ہے۔ بین الاقوامی قانون میں دہشت گردی کی متفقہ تعریف ابھی تک وجود میں نہیں آسکی ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغربی ممالک ریاست کے خلاف مزاحمت کی ہر صورت کو دہشت گردی قرار دینا چاہتے ہیں ، جبکہ ترقی پذیر ممالک آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی کی تعریف سے مستثنی قرار دینا چاہتے ہیں ۔ (۱۱۴) حقیقت یہ ہے کہ آزادی کی تحریک اور دہشت گردی میں کوئی لازم و ملزوم کا تعلق نہیں ہے ۔ آزادی کی مسلح جدوجہد دہشت گردی کے ارتکاب کے بغیر بھی ہوسکتی ہے ۔ اسی طرح دہشت گردی مسلح جدوجہد آزادی تک ہی محدود نہیں ، ریاستیں بھی دہشت گردی کا ارتکاب کرتی ہیں اور آزادی کے بجائے کسی اور مقصد کی خاطر بھی دہشت گردی کی جاسکتی ہے ۔ پس دہشت گردی کی معروضی تعریف ممکن ہے اگر تعصب اور ذاتی پسند ناپسند سے بالاتر ہو ا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک کے ملکی قوانین میں دہشت گردی کی تعریف کے الفاظ خواہ مختلف ہوں مگر جرم کے عناصر تقریبا یکساں ہوتے ہیں ۔ ہم نے اس مقصد کی خاطر امریکہ ، برطانیہ ، اسرائیل ، بھارت اور پاکستان کے قوانین کا جائزہ لیا تو معلوم ہواکہ ان قوانین کے تحت دہشت گردی کے جرم کے لیے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل عناصر یکجا ہوں : (۱۱۵) 
(۱) طاقت کا استعمال یا اس کی دھمکی ؛ 
(۲) ارادہ معاشرے میں بالعموم یا اس کے کسی طبقے میں خوف پھیلانا ہو ؛ 
(۳) نتیجہ بڑی تباہی یا نقصان ہو ؛ 
(۴) مقصد کسی مطالبے کی منظوری ہو ۔ 
بین الاقوامی قانون کے ماہرین نے جو تعریفات تجویز کی ہیں ان کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی دہشت گردی کے عناصر ترکیبی یہی ہیں۔ ایک ماہر قانون دہشت گردی کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے : 
’’دہشت گردی کی تمام صورتیں اصلاً جرائم ہیں ۔ اس کی اکثرشکلیں جنگی آداب کی خلاف ورزی پر مبنی ہوتی ہیں ۔ تمام صورتوں میں طاقت کا استعمال یا اس کی دھمکی شامل ہوتی ہے اور اس کے ساتھ کوئی مطالبہ ہوتا ہے ۔ عموما اس کاروائی کا نشانہ غیر مسلح شہری ہوتے ہیں ۔ محرکات ہمیشہ سیاسی ہوتے ہیں ۔کاروائی اس طرح کی جاتی ہے کہ اسے بڑی شہرت حاصل ہو ۔ کاروائی کرنے والے عموما کسی منظم گروہ کے رکن ہوتے ہیں ، اور عام مجرموں کے برعکس کاروائی کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں ۔ اخیراً دہشت گردی کی کاروائی میں لازماً یہ عنصر موجود ہوتا ہے کہ کاروائی کے نفسیاتی اثرات اس کے فوری مادی نقصانات سے زیادہ ہوں۔‘‘ (۱۱۶) 
ہمیں اس تعریف سے بنیادی طور پر اتفاق ہے تاہم تین باتوں کی وضاحت ضروری ہے : 
اولاً یہ کہ دہشت گردی کی کاروائی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ کسی تنظیم کے ارکان کریں ۔ اس کا ارتکاب کوئی فرد بھی کرسکتا ہے اور ریاست بھی۔ 
ثانیاً یہ کہ دہشت گردی کا نشانہ وہ جنگجو بھی ہوسکتے ہیں جن کو قانوناً جنگی کاروائی سے تحفظ دیا گیا ہے مثلاً جنہوں نے ہتھیار ڈال دیے ہوں، یا جو زخمی ہوں ، یا جنہیں قید کیا گیا یا یرغمال بنایا گیا ہو ۔ اسی طرح اگر جنگجوؤں کے خلاف طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا جائے اور تناسب کے اصول کو نظر انداز کیا جائے تو بھی اس کاروائی کو دہشت گردی کہا جائے گا ۔ (۱۱۷) 
ثالثاً یہ کہ دہشت گردی کی کاروائی کی ذمہ داری قبول کرنے کی روایت اب دم توڑ رہی ہے ۔ ذمہ داری اس لیے قبول کی جاتی تھی کہ جس مقصد کے لیے وہ کاروائی کی جاتی تھی اس کی طرف لوگوں کی توجہ ہو ۔ تاہم اب ایسا نہیں کیا جا تا جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس قسم کی کاروائی کے نتیجے میں لوگوں کی ہمدردیاں دہشت گردوں کے مقصد کے بجائے دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے ساتھ ہوجاتی ہیں ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کا مقصد چند لوگوں کو دہشت زدہ کرنا ہوتا ہے اور یہ مقصد بسا اوقات یوں حاصل کیا جاتا ہے کہ کاروائی کرنے والے ’’نامعلوم حملہ آور‘‘ کی صورت میں پراسرار دشمن بن جائیں ۔ 
پس بین الاقوامی قانون کے اصول و قواعد کی روشنی میں دہشت گردی کی مناسب تعریف یہ ہوسکتی ہے : 
’’ایسے لوگوں کے خلاف جنہیں بین الاقوامی قانون نے معصوم قراردیا ہو ، خواہ وہ جنگجو ہوں یا شہری ، طاقت کا استعمال یا اسکی دھمکی اس طریقے سے ہو جو بین الاقوامی قانون کی رو سے ناجائز ہو، اور کاروائی کا مقصد یا لازمی نتیجہ یہ ہو کہ معاشرے یا اس کے کسی مخصوص طبقے میں خوف و دہشت پھیل جائے تو اسے دہشت گردی کہا جا ئے گا ،خواہ اس کا ارتکاب افراد کریں ، یا ان کی تنظیم ،یا کوئی حکومت۔‘‘
مسلح جدوجہد آزادی تین طرح سے ہوسکتی ہے ؛ باقاعدہ روایتی جنگ ، گوریلا کاروائی یعنی دشمن کے فوجوں اور فوجی ٹھکانوں کے خلاف چھاپہ مار کاروائی ، اور دہشت گردی۔ (۱۱۸) ان میں آخر الذکر دونوں (گوریلا جنگ اور دہشت گردی) کمزور فریق کے ہتھیار ہیں اور کامیابی کے حصول کے لیے جلد یا بدیر باقاعدہ روایتی جنگ کرنی پڑتی ہے ۔ بین الاقوامی قانون نے دہشت گردی کی متفقہ تعریف نہیں پیش کی مگر حملے کی چند صورتوں کو دہشت گردی میں شمار کیا ہے ، مثلاً : 
۱۔ شہری آبادی یا تنصیبات پر حملہ ؛
۲ ۔ شہری ہوابازی کے طیاروں کو اغوا کرنا ؛ 
۳ ۔ شہریوں یا جنگجوؤں کو یرغمال بنانا ؛ 
۴ ۔ جنگجوؤں پر ان لوگوں کا حملہ جو شہریوں کے بھیس میں ہوں ؛
۵۔ جنگجوؤں پر زہریلی گیسوں اور کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال وغیرہ ۔ (۱۱۹) 
مسلمان اہل علم پر لازم ہے کہ ایک طرف وہ شریعت کے قواعد کی روشنی میں دہشت گردی کی جامع تعریف پیش کریں اور اسے جہاد سے ممیز کریں اور دوسری طرف ان صورتوں کا جائزہ لیں جنہیں بین الاقوامی قانون نے دہشت گردی میں شمار کیا ہے اور ان کے جواز اور عدم جواز کا تعین کریں ۔ ھذا ما عندی ، و العلم عند الل ۔ 

حواشی 


۱۔ سنن الترمذی ، کتاب الایمان ، حدیث رقم ۲۵۴۱ ؛ سنن ابن ماجۃ ، کتاب الفتن ، حدیث رقم ۳۹۶۳ 
۲۔ مثلاً دیکھئے : سورۃ الحجرات ، آیت ۱۵ ؛ سورۃ الاحزاب ، آیات ۹ تا ۲۷ ۔ حدیث مبارک ہے : من مات و لم یغز و لم یحدث بہ نفسہ مات علی شعبۃ من نفاق ۔ [جو اس حالت میں مرا کہ اس نے جہاد میں حصہ لیا ، نہ اس کے دل میں کبھی جہاد میں حصہ لینے کا خیال آیا تو وہ نفاق کے ایک شعبے پر مرا ۔ ] صحیح مسلم ، کتاب الامارۃ ، حدیث رقم ۳۵۳۳ 
۳۔ قومیت کے اس تصور اور بین الاقوامی قانون پر اس کے اثرات کی وضاحت اور تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے : 
Martin Dixon, Textbook on International Law, (London: Blackstone, 2000), pp 8-17; 133-62; 233-254. 
۴۔ ایضاً ، ص ۲۱ ۔ ۴۹ 
۵۔ اسلامی قانون میں شخص قانونی کے اس تصور پر غالباً سب سے اچھی فقہی بحث استاد محترم جناب پروفیسر عمران احسن خان نیازی نے کی ہے ۔ ملاحظہ ہو:
Imran Ahsan Khan Nyazee, Islamic Law of Business Organisation: Corporations, (Islamabad: Islamic Research Institute, 1998).
بین الاقوامی قانون میں قانونی شخصیت کے تصور کی وضاحت کے لیے دیکھئے : 
Dixon, Textbook on International Law, pp 104-32. 
۶۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنی کتاب ’’سود‘‘ کے تیسرے ضمیمے میں میں دارالحرب میں سودی لین دین کے جواز اور عدم جواز پر بحث کے دوران دارالاسلام اور دار الحرب کے تصور پر بڑی معرکۃ الآرا بحث کی ہے ۔ (سود ، ص ۲۲۸ تا ۳۵۱) انہوں نے فقہی نصوص کا جائزہ لینے کے بعد اس تقسیم کی اصل حقیقت واضح کی ہے ۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : 
Muhammad Mushtaq Ahmad, The Doctrine of Dar in the Hanafi Law and the Perpetual war Theory, Islamabad, Islamic Reserach Institute, Islamic Studies, 45: 2) 
اسی طرح تقسیم ہندکے بعد پاکستان اور بھارت کے مسلمانوں کے آپس میں تعلقات کے ضمن میں ان کا مولانا ظفر احمد عثمانی کے ساتھ بڑا اہم مکالمہ ہوا ۔ (رسائل و مسائل (لاہور : اسلامک پبلی کیشنز ،۱۹۶۷ء) ، ج ۲ ، ص ۱۵۰۔۱۸۴) وطنی قومیت کے تصور پر انہوں نے اسلامی نقطۂ نظر سے بڑی اچھی گرفت کی ۔ (مسئلۂ قومیت ۔ لاہور : اسلامک پبلی کیشنز ) لیکن حیرت کی بات ہے کہ جہاد اور اسلامی ریاست پر انہوں نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں دارالاسلام کے تصور پر تفصیلی بحث نظر نہیں آتی ۔ ’’الجہاد فی الاسلام ‘‘کے متعلق تو یہ عذر پیش کیا جاسکتا ہے کہ وہ ’’سود ‘‘ سے پہلے لکھی گئی تھی (اگرچہ اس کا ایک باقاعدہ نیا ایڈیشن بعد میں بھی شائع ہوا ۔ ) لیکن ’’اسلامی ریاست ‘‘ پر تو بہت ہی اعلی درجے کا کام سید مودودی نے ’’سود‘‘ کے لکھنے کے بعد کیا۔ اگر وہ خود جہاد پر کام کے دوران اس تصور پر بحث کرتے یا اسلامی ریاست کے تصور کا موازنہ دارالاسلام کے تصور سے کرتے تو یقیناًوہ ایک شاہکار ہوتا ۔ تاہم اب بھی سید مودودی کے نام لیواؤں میں کوئی یہ کام کرسکتا ہے ۔ یا کم از کم یہ تو کیاجاسکتا ہے کہ ’’سود‘‘ کے تیسرے ضمیمے کو ’’الجہاد فی الاسلام ‘‘ یا ’’اسلامی ریاست‘‘ کے آخر میں ضمیمے کے طور پر لگایا جائے تاکہ قاری خود ہی ان تصورات پر غور کی ضرورت محسوس کرے ۔ 
۷۔ اسلامی قانون کی رو سے بیت المال پوری امت کی مشترکہ ملکیت سمجھا جاتا تھا ۔ چنانچہ بیت المال سے چوری کرنے والے پرحد سرقہ نافذ نہیں کی جاسکتی تھی کیونکہ اس مال میں اس کا (بہت تھوڑا ہی سہی) حصہ ہوتا تھا ۔ اسے اصطلاح میں ’’شبھۃ الملک‘‘ کہتے تھے ۔ اگر ریاست باقاعدہ قانونی شخصیت کا حامل ہو اور سرکاری خزانہ اس کی ملکیت ہو تو پھر فقہ کے اس جزئیے میں بھی ترمیم کرنی ہوگی کیونکہ اب اگر کوئی سرکاری خزانے سے چوری کرے گا تو اس کا اس مال میں کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔ اس لیے اسے ’’شبھۃ الملک‘‘ کا فائدہ نہیں مل سکے گا ! 
۸۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی فقہ اسلامی پر گہری نظر رکھتے ہیں اور وہ سیاسی مسائل کا فقہی تجزیہ کرنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ اسلامی بین الاقوامی قانون پر انہوں نے جو بارہ خطبات دیے (خطبات بہاولپور حصۂ دوم ، بہاولپور: جامعہ اسلامیہ ، ۱۹۹۷) ان میں دارالاسلام کے تصور پر بڑی اچھی علمی بحث موجود ہے ۔ فقہ اسلامی پر عمومی خطبات دیتے ہوئے انہوں نے ایک وقیع علمی خطبہ اسلام کے دستوری نظام پر بھی دیا ۔ (محاضرات فقہ ، (لاہور : الفیصل ناشران کتب ، ۲۰۰۵ء) ، ص ۳۴۸ تا ۳۸۷) لیکن یہ مقام باعث حیرت ہے کہ وہ بھی دارالاسلام کے تصور کا ریاست کے تصور کے ساتھ موازنہ نہیں کرتے ۔ اسی طرح فقہ اسلامی کی روشنی میں ریاست اور قانون سازی کے تصور پر انہوں نے باقاعدہ مستقل کتاب بھی لکھی ہے (State and Legislation in Islam: Islamabad: Shariah Academy, 2006) لیکن انہوں نے اس میں امت اور ریاست کے تصورات میں ہم آہنگی کی طرف کچھ خاص توجہ نہیں دی ، نہ ہی دارالاسلام کے تصور پر کوئی خاص بحث کی ہے۔ قومی ریاست کا تصور دیگر مذاہب بالخصوص عیسائیت اور یہودیت کے لیے بھی بہت سے مسائل پیدا کرتا ہے ۔ اس لیے اس سلسلے میں اس امر سے بھی رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے کہ ان مذاہب نے اس تصور کے کیسے قابل قبول بنایا ہے ۔ اس موضوع پر ایک یہودی عالم ، ایک عیسائی عالم اور ایک مسلمان عالم کے ایک دلچسپ علمی مباحثے کے لیے دیکھئے : 
Isma'il Raji al-Faruqi (ed.), Trialogue of the Abrahamic Faiths, (Virginia: International Institute of Islamic Thought, 1991), pp 29-59. 
۹۔ ڈاکٹر غازی نے بین الاقوامی قانون اور اسلامی قانون کے درمیان فروق پر بڑی دلچسپ بحث کی ہے ۔ اس ضمن میں ایک فرق وہ یہ ذکر کرتے ہیں کہ عصر حاضر کے قانونی نظام میں قانون کو ریاست کی تخلیق سمجھا جاتا ہے جبکہ اسلامی قانون کی روشنی میں ریاستی نظام بذات خود قانون کی تخلیق تھا ۔ 
(The Shorter Book on Muslim International Law, p 18) 
۱۰۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے: 
Imran Ahsan Khan Nyazee, Theories of Islamic Law, (Islamabad: Islamic Research Institute, 1994), pp 147-76, 189-230. 
۱۱۔ ذمیوں کے متعلق احکام کی تفصیل کے لیے دیکھئے : شمس الائمۃ ابو بکر محمد بن ابی سہل السرخسی ، المبسوط ، (حیدرآباد : دائرۃ المعارف النعمانیۃ، ۱۳۳۵ ھ ) ، ج ۱۰ ، ص ۷۹۔۸۶۔ حنبلی فقیہ ابن قیم الجوزیۃ نے خاص ذمیوں کے احکام پراحکام اھل الذمۃ (بیروت : دار العلم ، ۲۰۰۲ء) کے نام سے ایک جامع کتاب لکھی ہے ۔ 
۵۱۲۔ المبسوط ، ج ۱۰ ، ص ۸۲۔مشہور مستشرق پرفیسر برنارڈ لوئیس کا کہنا ہے کہ ’’حربی‘‘ اور ’’محارب‘‘ کو مترادف سمجھا جاتا تھا اور ہر غیر مسلم جس کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ نہیں تھا محارب تھا ۔ (Bernard Lewis, The Political Language of Islam, (Oxford: 2004), p 77) یہ فقہا کے موقف کی صحیح ترجمانی نہیں ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دار الاسلام اور دارالحرب کی تقسیم کا یہ مطلب نہیں تھا کہ یہ دو علاقے ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل جنگ میں مبتلا رہیں گے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جہاد کی علت کفر نہیں بلکہ محاربہ ہے ۔ اس لیے ہر غیر مسلم کے خلاف جہاد نہیں کیا جاسکتا ۔ جو محاربے کا ارتکاب کریں گے وہی محارب ہوں گے ۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے : 
Muhammad Mushtaq Ahmad, The Doctrine of Dar in the Hanafi Law and the Perpetual war Theory, Islamabad, Islamic Research Institute, Islamic Studies, 45: 2.
۱۳۔ المبسوط ، ج ۱۰ ، ص ۸۲۔۸۶
۱۴۔ ایضاً ، ۸۶۔۹۷
۱۵۔ ابن قدامہ نے لکھا ہے کہ اگر مسلمان کو باہر اقامت اختیار کرنی ہی پڑے تو وہ بیوی کے ساتھ مقاربت کے وقت عزل کیا کرے تاکہ وہاں اس کی اولاد پیدا نہ ہو ، کیونکہ پھر یہ امکان رہے گا کہ اس کی اولاد کفر کے ماحول سے متاثر ہوجائے ۔(موفق الدین ابن قدامۃ ، المغنی فی فقہ امام السنۃ احمد بن حنبل الشیبانی ، (بیروت : دار احیاء التراث العربی ، تاریخ ندارد ) ، ج ۸ ، ص ۳۳۲) امام ابو حنیفہ بھی دار الاسلام سے باہر مسلمانوں کی اپنی بیویوں کے ساتھ مقاربت کو ناپسند کرتے تھے ۔ اس کی وجہ سرخسی نے یہ بیان کی ہے کہ مسلمان کو دارالحرب میں توطن اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے اور اگر اس کے بچے پیدا ہوئے تو اس کاامکان ہوگا کہ وہ یا اس کے بچے وہاں اقامت اختیار کرلیں ۔ (المبسوط ، ج ۱۰ ، ص ۵۸) یہاں یہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگاکہ ڈاکٹروہبۃ الزحیلی نے ’’ضرورت‘‘ کی بنیاد مسلمان ممالک میں ویزے اور پاسپورٹ کی پابندیوں کو جائز کہا ہے اور یہ رائے قائم کی ہے کہ ایک مسلمان ملک کے مسلمان باشندے کو دوسرے مسلمان ملک میں مستأمن سمجھا جاسکتا ہے ! (آثار الحرب، ص ۲۸۲ ۔ ۲۸۵ ) 
۱۶۔ یہ رائے فقہاء احناف کی ہے ۔ (الہدایۃ، ج ۲، ص ۳۹۵ ) دیگر فقہا کی رائے اس کے برعکس ہے ۔ (المغنی، ج ۸، ص ۲۸۴) 
۱۷۔ یہ بھی فقہاء احناف کی رائے ہے ۔ (المبسوط ، ج ۱۰ ، ص ۹۵) 
۱۸۔ المبسوط ، ج ۱۰ ، ص ۵۴ 
۱۹ ۔ مثال کے طور پر دیکھئے : جاوید احمد غامدی ، ’’قانون جہاد ‘‘، میزان ، (لاہور : دار الاشراق ، ۲۰۰۱ء) ص ۲۴۱ ۔ ۲۷۹ 
۲۰۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے ہندوستان کو دار الحرب قرار دینے کے لیے جو دلائل دیے تھے ان میں ایک دلیل یہ بھی تھی کہ اس وقت ہندوستان کو چاروں طرف سے غیرمسلم طاقتوں نے گھیر رکھا تھا۔ اس ضمن میں وہ ابن عابدین کے قول سے استدلال کرتے ہیں کہ سمندر غیراسلامی مقبوضات کا حصہ سمجھا جائے گا ۔ اس رائے پر تفصیلی تنقید کے لیے دیکھئے : مولانا ابو الاعلی مودودی ، سود ۔ (لاہور: اسلامک پبلی کیشنز ، ۲۰۰۳) ، ص ۲۸ ۲ تا ۳۵۱) 
۲۱۔ ابن قیم الجوزیۃ ، احکام اھل الذمۃ ، ج ا ، ص ۳۳۵
۲۲۔ مثلاً ملاحظہ کیجیے : ڈاکٹر وھبۃ الزحیلی ، آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی ، (دمشق : دارلفکر ، ۱۹۸۱ء) ص ۱۹۲ ۔ ۱۹۶؛ 
Dr. Tariq Ramadan, To Be A European Muslim, (Leicester: Islamic Foundation, 1999), p 23. 
۲۳۔ ڈاکٹر حمید اللہ کی کتاب The Muslim Conduct of State بجا طور پراسلامی بین الاقوامی قانون پر بہترین کاموں میں شمار کی جاتی ہے ۔ اس کتاب کے علاوہ انہوں نے کئی مقالات میں اسلامی بین الاقوامی قانون کے مختلف پہلوؤں کو واضح کیا ۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے جب امام محمد بن الحسن الشیبانی کی ’’ کتاب السیر الصغیر‘‘ کے متن کی تحقیق کی ، اور اس کا انگریزی ترجمہ کیا تو اس کا انتساب ڈاکٹر حمید اللہ کے نام کیا اور انہیں ’’بیسویں صدی کے شیبانی‘‘ کا نام دیا ۔
(The Shorter Book on Muslim International Law, Islamabad: Islamic Research Institute, 1998) 
۲۴۔ مثال کے طور پر دیکھئے : عراقی مسیحی عالم مجید خدوری کا مقدمہ جو انہوں نے امام محمد بن الحسن الشیبانی کی ’’کتاب الاصل‘‘سے سیر کے متعلق ابواب پر لکھا ۔ کتاب السیر و الخراج و العشر من کتاب الاصل للشیبانی ، (کراچی: ادارۃ القرآن ، ۱۹۹۶ء) ، ص ۲۲۔ ۳۰ ؛ 
Bernard Lewis, The Political Language of Islam, p 73

۲۵۔

 The Muslim Conduct of State, (Lahore: Sheikh Muhammad Ashraf, 1945), pp 97-144.
۲۶۔ یہ تضاد وہاں بالخصوص واضح ہوجاتا ہے جب وہ معاہدات کے جواز و عدم جواز پر بحث کرتے ہیں ۔ ملاحظہ ہو : آثار الحرب ، ص ۶۷۵ ۔ ۶۸۰ 
۲۷۔ بہت سے اہل علم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگوں کو دفاعی قرار دیا ہے ۔ مثال کے طور پر دیکھئے : علامہ شبلی نعمانی ، سیرت النبی ﷺ ، (کراچی : دار الاشاعت ، ۱۹۸۵ء ) ، ج ۱، ص ۳۲۸ تا ۳۵۳؛ مولانا ابو الکلام آزاد ، ترجمان القرآن ، (لاہور: اسلامی اکادمی، ۱۹۷۶ء) ، ج ۲ ، ص ۵۲۔۵۳ اور ۱۲۱۔۱۲۲ 
۲۸۔ سورۃ التوبۃ، آیت ۵ 
۲۹۔ صحیح البخاری ، کتاب الایمان ، حدیث رقم ۲۴ ؛ صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، حدیث رقم ۳۱ 
۳۰۔ سورۃ التوبۃ، آیت ۲۹ 
۳۱۔ سورۃ التوبۃ، آیت ۳۳ 
۳۲۔ موطا امام مالک ، کتاب الجامع ، باب اجلاء الیھود من المدینۃ ، حدیث رقم ۱۳۸۸ ؛ مسند احمد، باقی مسند الانصار ، حدیث رقم ،۲۵۱۴۸
۳۳۔ غامدی ، قانون جہاد ، ص ۲۴۱۔۲۴۲ اور ۲۶۶۔۲۷۰ 
۳۴۔ سورۃ التوبۃ ، آیت ۱۴ ۔ اس رائے کی تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے : مولانا امین احسن اصلاحی ، تدبر قرآن، (لاہور : انجمن خدام القرآن ، ۱۹۷۸ ء) ، ج ۲، ص ۶۹۱۔۶۹۸ اور ۷۲۷ ۔ ۷۲۹ ۔ نیز دیکھئے ج ۳ ، ص ۵۵۸ ۔ ۵۶۴ ۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھے : جاوید احمد غامدی ، میزان ، (لاہور : دار الاشراق ، ۱۹۸۵ ء) ، حصۂ اول ،مقالہ ’’نبی اور رسول ‘‘ ، ص ۹ ۔ ۳۰ 
۳۵۔ مثال کے طور پر دیکھئے : مولانا فضل محمد ، دعوت جہاد ۔ فضائل ، مسائل ، واقعات ، (کراچی : بیت الجہاد ، ۱۹۹۹ء) ، ص۳۹۳۔۳۹۸؛ حافظ مبشر حسین لاہوری ، اسلام میں تصور جہاد اور دور حاضر میں عمل جہاد ، (لاہور: دعوت و اصلاح سنٹر ، ۲۰۰۳ء)، ص ۶۶ ۔۷۲ 
۳۶۔ The Muslim Conduct of State, p 156 ، الجہاد فی الاسلام ، ص ۱۰۴ تا ۱۷
۳۷ ۔ المبسوط ، ج ۱۰ ، ص ۱۰۲ ؛ محمد بن احمد بن عرفۃ الدسوقی ، حاشیۃ علی الشرح الکبیر ، ( القاہرۃ : دارلفکر ، ۱۹۳۴ء ) ، ج ۲ ، ص ۱۰۲ ؛ محمد بن علی بن محمد الشوکانی ، نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار ، (القاہرۃ : دار الکتب العربیۃ ، ۱۹۷۸ء) ، ج ۷ ، ص ۲۳۲ 
۳۸۔ سورۃ المآئدۃ : آیت ۵۱ 
۳۹۔ سورۃ المجادلۃ ، آیت ۲۲ 
۴۰۔ سورۃ البقرۃ ، آیت ۱۲۰ 
۴۱۔ سورۃ الممتحنۃ ، آیت ۴ 
۴۲۔ جناب جاوید احمد غامدی نے اس رائے کا اظہار اپنے ایک انٹرویو میں کیا (’’اشراق ‘‘، نومبر ۲۰۰۱ء)۔ نیز دیکھئے : مولانا ابو الکلام آزاد ، ترجمان القرآن ، ج ۲ ، ص ۱۴۵۔۱۴۶ 
۴۳۔ مولانا مقصود الحسن فیضی ، اہل کفر کے ساتھ تعلقات ؟ وفاداری یا بیزاری اور اسلامی تعلیمات ، (لاہور : نور اسلام اکیڈمی، ۲۰۰۳ء)، ص ۶۵ ۔۷۶ 
۴۴۔ ایضاً ، ص ۱۷ ۔ ۲۴ 
۴۵۔ سید مودودی کی رائے یہ ہے کہ اسلام اور کفر کے درمیان نظریاتی سطح پر کشمکش تو دائمی اور ابدی ہے لیکن یہ کشمکش مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان جنگ کو مستلزم نہیں ہے ۔ (سود ، ص ۲۹۶ ۔ ۲۹۹) 
۴۶۔ الزحیلی ، آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی ، ص ۱۳ اور ۱۲۴ ۔۱۲۸ ؛ مولانا فضل محمد ، دعوت جہاد ، ص ۳۹۳۔ ۳۹۸؛ مبشر لاہوری ، اسلام میں تصور جہاد ، ص ۶۶ ۔۷۲ 
۴۷۔ شمس الدین محمدبن محمد الخطیب الشربینی ، مغنی المحتاج الی شرح المنہاج ،(بیروت :مکتبۃ الحلبی ،۱۹۳۳ء) ، ج ۴ ، ص ۲۲۳؛ ابو الولید محمدبن احمد ابن رشد ، بداےۃ المجتہد و نہایۃ المقتصد ، (الریا ض: مکتبۃ مصطفی باز ، ۱۹۹۵ء ) ، ج ۱ ، ص ۳۷۱ 
۴۸۔ ابن رشد ، بداےۃ المجتہد ، ج ۱ ، ص ۳۷۱ ؛ کمال الدین محمد ابن الہمام الاسکندری ، فتح القدیرعلی الہدایۃ شرح بدایۃ المبتدی، (القاہرۃ : دارالکتب العربیۃ ، ۱۹۷۰ء ) ، ج ۴ ، ص ۲۹۱ ؛ سحنون عبد السلام بن سعید بن حبیب التنوخی ،المدونۃ الکبری، (القاہرۃ ، دارالباز ، ۱۳۲۳ ھ) ، ج ۳، ص ۶ ؛ تقی الدین ابن شہاب الدین ابن تیمیۃ ، رسالۃ القتال، (دمشق : مطبعۃ السنۃ المحمدیۃ ، ۱۹۴۹ء) ، ص۱۱۶ 
۴۹۔ The Muslim Conduct of State, p 181 ؛ الجہاد فی الاسلام ، ص ۲۴۷۔۲۴۶؛ آثار الحرب ، ص ۱۴۹ ۔ ۱۵۱ 
۵۰۔ سورۃ النسآء ، آیت ۷۵؛ سورۃ الانفال ، آیت ۷۲
۵۱۔ مودودی ، الجہاد فی الاسلام ، ص ۷۷ ۔۸۰ 
۵۲۔ ماہنامہ ’’ترجمان القرآن ‘‘لاہور ،جون ۱۹۴۸ء ، ص ۶۵ تا ۶۷ ۔ سید مودودی نے سورۃ الانفال آیت ۷۲ کی تفسیر میں اس سے کچھ مختلف رائے ظاہر کی ہے ۔ (تفہیم القرآن ، (لاہور : مکتبۂ تعمیر انسانیت ، ۱۹۷۸ء ) ، ج ۲ ، ص ۱۵۳ ۔۱۵۵ ) 
۵۳۔ سفیان ثوری کی طرف یہ قول منسوب کیا گیا ہے کہ وہ عام حالات میں جہاد کو مندوب (سنت) سمجھتے تھے ۔ ان کا استدلال ان آیات و احادیث سے تھا جن میں جہاد کے لیے نہ جانے والوں کے لیے بھی اجر کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ (مثلاً سورۃ النسآء ، آیت ۹۵ ) اس کے برعکس سعید بن المسیب کا موقف یہ تھا کہ جہاد فرض عینی ہے ۔ وہ ان آیات و احادیث سے استدلال کرتے تھے جن میں جہاد کے لیے نہ جانے والوں کو سخت وعید سنائی گئی ہے ۔ (مثلاً سورۃ التوبۃ ، آیت ۳۸ ۔ ۳۹ ) فقہائے امت کی اکثریت کا موقف یہ رہا ہے کہ جہاد عام حالات میں فرض کفائی ہے اور بعض اوقات یہ فرض عینی میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے : برہان الدین المرغینانی ، الہدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی ،کتاب السیر ، (بیروت : دار الفکر ، تاریخ ندارد) ، ج ۲ ، ص ۳۷۸ ؛ شربینی ، مغنی المحتاج ، ج ۴ ، ص ۲۰۹
۵۴۔ فرض کے مفہوم کی وضاحت کے لیے دیکھئے : ابو حامد الغزالی ، المستصفیٰ من علم الاصول ، (بیروت : دار احیاء التراث العربی ، تاریخ ندارد ) ، ج ا ، ص ۶۷ ۔۷۰
۵۵۔ محمد امین بن عبد العزیز ابن عابدین الشامی، رد المحتار علی الدر المختار ، (القاہرۃ :دار الفکر ، ۱۹۶۶ء) ، ج ۳ ، ص ۲۰۴ ؛ ابن الہمام ، فتح القدیر ، ج ۴ ، ص ۲۸
۵۶۔ تفصیل کے لیے دیکھئے : 
Michael Akehurst, The Use of Force to Protect Nationals Abroad, (1976/77) 5 International Relations 3; Dixon, International Law, pp 307-08. 
۵۷۔ مذکورہ دفعہ میں دفاع کی صورت میں طاقت کے استعمال پر دو شرائط عائد کی گئی ہیں ۔ اولاً : کسی ملک پر فوجی حملہ ہو ۔ گویا اقتصادی ناکہ بندی یا طاقت کے استعمال کی دھمکی کی صورت میں حق دفاع حاصل نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے لیے باقاعدہ فوجی حملہ ہونا ضروری ہے ۔ ثانیاً : حق دفاع کے تحت طاقت اس وقت تک استعمال کی جاسکے گی جب تک سلامتی کونسل اس معاملے پر کاروائی شروع نہ کرے کیونکہ اس کے بعد ہر قسم کی کاروائی کا اختیار سلامتی کونسل کو حاصل ہوجاتا ہے ۔ 

۵۸۔

 D. J. Harris, Cases and Materials on International Law, (London: Sweet & Maxwell, 1991) pp 861-68.

۵۹۔ تفصیل کے لیے دیکھئے : 
Thomas M. Franck, When, If Ever, States May Use Force without Prior Security Council Authorization?, SJICL (2000), 4, 371-76; N. W. White, The Legality of Bombing in the Name of Humanity, JSCL (2000), vol. 5, no. 1, 27-43; Ian Brownlie, Humanitarian Intervention, in J. N. Moore (ed.), Law and Civil War in the Modern World, (New York: John Hopkins, 1974); R. Lillich, Forcible Self-help by States to Protect Human Rights, (1984) 2, Michigan Law Review, 1620. 
۶۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بھائی کی مدد کرو ، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔ صحابہ نے پوچھا کہ ظالم کی مدد کیسے کریں گے ؟ آپ نے جواب دیا کہ اسے ظلم سے روک کر ۔ (بخاری ، کتاب المظالم و الغصب ، حدیث رقم ۲۲۶۴؛ مسلم ، کتاب البر و الصلۃ و الادب ، حدیث رقم ۴۶۸۱) 
۶۱۔ سورۃ المآئدۃ ، آیت ۲ 
۶۲۔ احسان الحق شہباز صاحب کا مقالہ زیر عنوان ’’جہاد اور اذن حکومت ‘‘ ، مقالات جہاد ، مرتبہ سیف اللہ خالد ، (لاہور: دارالاندلس ، ۲۰۰۳ء) ، ص ۸۱۔۹۷
۶۳۔ غامدی ، قانون جہاد ، ص ۲۴۳۔۲۴۵ 
۶۴۔ مبشر لاہوری ، اسلام میں تصور جہاد ، ص ۱۷۷ ۔ ۱۸۶ اور ۲۵۶۔۲۶۰
۶۵۔ غامدی، قانون جہاد ، ص ۲۷۰۔۲۷۲
۶۶۔ محمد مشتاق احمد ، عصر حاضر میں جہاد سے متعلق مسائل ، ماہنامہ ’’الحق‘‘ ، اکوڑہ خٹک ، جون تا اگست ۲۰۰۵ ء 
۶۷۔ امام سمرقندی نے کئی سو سال پہلے اس حقیقت کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے : و لا ینبغی للغزاۃ أن یفر واحد من اثنین منھم ۔ و الحاصل أن الأمر مبنی علی غالب الظن ۔ فان غلب فی ظن المقاتل أنہ یغلب و یقتل فلا بأس بأن یفر منھم۔ و لا عبرۃ بالعدد ، حتی ان الواحد اذا لم یکن معہ سلاح فلا بأس بأن یفر من اثنین معھما السلاح أو من الوحد الذی معہ السلاح ۔[مجاہدین کے لیے یہ مناسب نہیں کہ دو دشمنوں کے مقابلے سے ایک مجاہد فرارہو جائے ۔ بحث کا حاصل یہ ہے کہ معاملہ غالب گمان پر مبنی ہے ۔ پس اگر مجاہد کا غالب گمان یہ ہے کہ وہ مغلوب ہوجائے گا اور قتل کردیا جائے گا تو فرار ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ اور اس سلسلے میں عدد کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، یہاں تک کہ ایک نہتا مجاہد اگر دو مسلح دشمنوں یا ایک ہی مسلح دشمن سے فرار ہوجائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہوگی ۔] تحفۃ الفقہاء ، (القاہرۃ : دار الفکر ، ۱۹۳۳ء ) ، ج ۳، ص ۱۱۳ 
۶۸۔ مثال کے طور پر دیکھئے : وہبۃ الزحیلی ، آثار الحرب ، ص ۶۷۵
۶۹۔ خدوری ، مقدمۃ علی کتاب السیر من کتاب الاصل ، ص ۲۲۔ ۳۰ 
۷۰۔ الزحیلی نے یہ رائے اختیار کی ہے ۔ (آثار الحرب ، ص ۶۷۵ ۔ ۶۸۰ )
۷۱۔ ابن قیم الجوزیہ نے شافعی اور حنبلی مسالک میں یہ دونوں رائیں نقل کی ہیں اور خود جواز کے قول کو ترجیح دی ہے ۔ (احکام اہل الذمۃ ، ج ۱ ، ص ۳۳۶ ۔ ۳۴۴)
۷۲۔ امام محمد بن ادریس الشافعی ، الام ، (القاہرۃ : المطبعۃ الامیریۃ ، ۱۳۲۱ ھ ) ، ج ۴ ، ص ۱۱۰؛ شوکانی ، نیل الاوطار ، ج ۸، ص ۴۹ ؛ ابن قدامہ ، المغنی ، ج ۸ ، ص ۴۶۰
۷۳۔ الام ، ج ۴ ، ص ۱۱۱ ؛ ابوزکریا یحییٰ بن شرف النووی ، المجموع شرح المہذب ، (القاہرۃ : دار الفکر ، ۱۹۶۱ء )، ج ۲۱ ، ص ۲۰۰ 
۷۴۔ ابن قدامہ ، المغنی ، ج ۸ ، ص ۴۶۰
۷۵۔ ابو بکر بن مسعود الکاسانی ، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ، (کوئٹہ : مکتبۃ رشیدیۃ ، ۱۹۹۹ء ) ، ج ۶ ، ص ۷۷ ؛ ابن الہمام ، فتح القدیر ، ج ۴ ، ص ۲۹۳ ؛ حاشیۃ الدسوقی ، ج ۲ ، ص ۱۹۰ 
۷۶۔ بدائع الصنائع ، ج ۶ ، ص ۷۷
۷۷۔ احکام اہل الذمۃ ، ج ۱ ، ص ۳۳۶ ۔ ۳۴۴
۷۸۔ معاہدات کے متعلق میثاق ویانا ۱۹۶۰ ء دفعہ ۵۶ 
۷۹۔ میثاق ویانا ، دفعہ ۶۵ ۔ تاہم اب بھی ماہرین کی معتد بہ تعداد اس کی قائل ہے کہ امن کا معاہدہ غیرلازم ہوتا ہے اور ایک فریق کی جانب سے نقض کی صورت میں فریق مخالف کو اقدام سے پہلے اعلان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے :
Linos Alexander Sicilianos, The Relationship between Reprisals and Denunciation or Termination of a Treaty, EJIL (1993) 341-359; Benedetto and Angelo Labella, Invalidity and Termination of Treaties: The Role of National Courts, European Journal of International Law (http://ejil.org/journal/Voll/No1/art3.html). 
۸۰۔ سید مودودی ، ماہنامہ ’’ترجمان القرآن ‘‘لاہور ،جون ۱۹۴۸ء ، ص ۶۵ تا ۶۷ 
۸۱۔ مثال کے طور پر دیکھئے :مولانا مدرار اللہ مدرار ، قول فیصل ، (مردان : ادارۂ اشاعت مدرار العلوم ، ۱۹۶۳ء ) ، ص ۱۹ ۔ یہ کتابچہ سید مودودی کے موقف کی تردید میں لکھا گیا تھا اور اس میں بہت سے دیگر علماء کرام کے تائیدی بیانات بھی شامل کیے گئے ہیں ۔ 
۸۲۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ ابو بصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو روکیں یا اہل مکہ کے حوالے کردیں ۔ بلکہ انہوں نے معاہدۂ حدیبیہ سے وہ شق ہی ختم کرنے کی درخواست کی جس کے تحت مدینہ منورہ کے مسلمان پابند تھے کہ وہ مکہ سے آنے والوں کو واپس اہل مکہ کے حوالے کردیں ۔ اہل مکہ نے اس شق کو ختم کرنے کی درخواست اس لیے کی کہ مسلمان مدینہ منورہ میں رہیں گے تو اہل مکہ کے قافلوں پر حملے نہیں کرسکیں گے ۔ یوں ابو بصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں اور ان تمام مسلمانوں کے لیے ، جو اہل مکہ کے مظالم سہہ رہے تھے ، مدینہ منورہ آنے کی راہ کھل گئی اور معاہدۂ حدیبیہ کی جس شرط پر مسلمانوں کو سب سے زیادہ خلش محسوس ہورہی تھی اسے خود اہل مکہ نے ختم کردیا ۔ 
۸۳۔ ابن قیم الجوزیہ حنبلی فقیہ تھے لیکن وہ بھی یہاں حنفی فقہاء کی رائے کے ساتھ موافقت اختیار کرتے ہوئے ابو بصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے متعلق کہتے ہیں کہ ’’ ماکانوا تحت قھر‘‘۔ (مختصر زاد المعاد ، (لاہور : مطبعۃ السنۃ المحمدیۃ ، تاریخ ندارد ) ص ۲۱۵ ) 
۸۴۔ صحیح مسلم ، کتاب الجہاد و السیر ، حدیث رقم ۳۲۶۱ ؛ سنن الترمذی ، کتاب السیر ، حدیث رقم ۱۵۴۲ 
۸۵۔ مثال کے طور پر امام محمد بن الحسن الشیبانی نے امام ابوحنیفہ کا یہ اصول نقل کیا ہے کہ باغیوں کے سر کاٹ کر شہروں میں نہ پھرائے جائیں خواہ مخالفین ایسا کریں ۔ اس اصول کی ایک وجہ سرخسی نے یہی بیان کی ہے مسلمانوں کو مثلۃ کے ارتکاب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے ۔ لانہ مثلۃ ، و المثلۃ حرام ۔ وقد نھی رسول اللہ ﷺ عن المثلۃ و لو بالکلب العقور۔ و لانہ لم یبلغنا ان علیا رضی اللہ عنہ صنع ذلک فی شیء من حروبہ ، و ھو المتبع فی الباب ۔ و لما حمل رأس یباب البطریق الی ابی بکر رضی اللہ عنہ کرھہ ۔ فقیل لہ ان الفرس و الروم یفعلون ذلک ۔ فقال لسنا من الفرس و لا الروم ، یکفینا الکتاب و الخبر ۔ [کیونکہ یہ مثلہ ہے ، اور مثلہ حرام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باؤلے کتے کے مثلے سے بھی منع فرمایا ہے ۔ اور اس لیے بھی کہ ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایسی کوئی روایت نہیں ملی کہ انہوں نے اپنی جنگوں میں ایسا کبھی کیا ہو ، اور اس باب کے احکام کے لیے ماخذ انہی کا طرز عمل ہے ۔ اسی طرح جب یباب بطریق کا سر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا تو آپ نے اسے ناپسند فرمایا ۔ جب کہا گیا کہ اہل روم و فارس ایسا کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ہم نہ اہل روم ہیں اور نہ اہل فارس ، ہمارے لیے کتاب اور سنت ہی کافی ہے ۔ ] المبسوط ، ج ۱۰ ، ص ۱۳۸
۸۶۔ سورۃ محمد ، آیت ۴ 
۸۷۔ تیسرے جنیوا معاہدے کی دفعہ ۱۱۸میں قرار دیا گیا ہے کہ ’’جیسے ہی جنگ کا خاتمہ ہو‘‘ ہو دونوں فریق جنگی قیدیوں کو رہا کریں گے۔ اس معاہدے میں یہ نہیں بتایاگیا کہ ’’جنگ کا خاتمہ‘‘ کب ہوگا؟ مثلاً امریکہ نے اپریل ۲۰۰۳ء میں عراق پر قبضہ کیا ہے مگر ابھی تک وہ خود کو جنگی قیدیوں کے رہا کرنے کے پابند نہیں سمجھتے ۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ امریکی قانون کے تحت امریکی صدر ہی اس بات کا اختیار رکھتا ہے کہ وہ جنگ کے شروع ہونے اور اس کے ختم ہونے کا اعلان کرے ، اور ابھی امریکی صدر نے جنگ کے خاتمے کا اعلان نہیں کیا ! 
۸۸۔ المدونۃ ، ج ۳ ، ص ۶ ۔ ۷ ؛ المغنی ، ج ۸ ، ۴۷۷ ؛ الام ، ج ۴ ، ۱۵۷ 
۸۹۔ تفصیل کے لیے دیکھئے : محمد منیر ، احکام المدنیین فی الشریعۃ الاسلامیۃ و القانون الدولی الاسلامی۔ دراسۃ مقارنۃ ، (غیر مطبوعہ مقالہ برائے ایل ایل ایم شریعہ و قانون ، کلیۂ شریعہ و قانون ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ، ۱۹۹۶ء ) ، ص ۴۸ و مابعد 
۹۰۔ یہ رائے اسامہ بن لادن نے ایک انٹرویو میں پیش کی ۔ یہ انٹرویو مشہور صحافی حامد میر نے مبینہ طور پرافغانستان پر امریکی حملے کے دوران میں لیا تھا ۔ اور روزنامہ ’’اوصاف‘‘ اسلام آباد اور انگریزی روزنامہ ’’ڈان‘‘ اسلام آباد میں ایک ہی روز (نومبر ۲۰۰۱ء ) شائع ہواتھا ۔ 

۹۱۔

 Advisory Opinion on the Legality of the Use of Nuclear Weapons (WHO Case), ICJ 1996 Rep 66. 
۹۲۔ المبسوط ، ج ۱۰ ، ص ۷۸ 
۹۳۔ بین الاقوامی قانون کے تحت اگر کوئی شخص شہری یا غیر مقاتل کے بھیس میں آکر حملہ کرے تو اسے Perfidy (غدر) کہاجاتا ہے اور یہ جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے ۔ Perfidy کی دیگر شکلوں میں یہ شامل ہیں : صلح کا پرچم بلند کرکے مذاکرات کرنے کا دکھاوا اور پھر موقع پاکر حملہ ؛ ہتھیار ڈالنے کا دکھاوا ؛ زخم یا تکلیف کی وجہ سے معذوری کا دکھاوا ؛ اقوام متحدہ ، ہلال احمر یا کسی غیر جانبدار ملک کے پرچم یا نشانات استعمال کرنا وغیرہ ۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے : جنیوا معاہدات کا پہلا اضافی پروٹوکول ، دفعات ۳۷ ۔ ۳۹ اور ۴۴۔ ) 
۹۴۔ بخاری ، کتاب الجھاد ، حدیث رقم ۲۸۰۴ 
۹۵۔ المبسوط ، ج ۱۰ ، ص ۶۰ ۔ 
۹۶۔ بین الاقوامی قانون کے تحت شہریوں اور غیر مقاتلین کو Internees کے طور پر پابند کیاجاسکتا ہے ۔ (تفصیلات کے لیے دیکھئے : چوتھے جنیوا معاہدات کی دفعات ۴۱ ۔ ۴۳ اور ۶۸ و ۷۸ ۔۱۳۵ ) 
۹۷۔ چاروں جنیوا معاہدات کی مشترک دفعہ ۳ ؛ چوتھے جنیوا معاہدے کی دفعہ ۳۴ اور ۱۴۷ ؛ پہلے اضافی پروٹوکول کی دفعہ ۷۵ 
۹۸۔ مودودی ، تفہیم القرآن ، ج ۵ ، ص ۱۱۔۱۸
۹۹ ۔ فخر الدین الرازی ، مفاتیح الغیب ، (دمشق : المطبعۃ الخیریۃ ، ۱۹۶۷ء) ، ج ۷، ص ۳۶۳
۱۰۰ ۔ غلام احمد پرویز ، غلام اور لونڈیاں ، (لاہور : طلوع اسلام ٹرسٹ ، ۱۹۸۴ء) ۔ 
۱۰۱ ۔ سرخسی ، شرح السیر الکبیر ، (القاھرۃ : دار الکتب العربیۃ ، ۱۹۸۴ء) ، ج ۲ ، ص ۱۶۹ 
۱۰۲ْ ۔ جلال الدین السیوطی ، الاتقان فی علوم القرآن ، (کراچی : دار الاشاعت ، ۱۹۸۶ء) ، ج ۲ ، ص ۲۱۔۲۲
۱۰۳ ۔ ابو جعفر محمد بن جریر الطبری ، جامع البیان ، (القاھرۃ : دار الفکر، ۱۹۶۶ء ) ، ج ۲۶ ، ص ۲۴
۱۰۴ ۔ غامدی ، قانون جہاد ، ص ۲۷۲۔ ۲۷۶
۱۰۵ ۔ الزحیلی ، آثار الحرب ، ص ۴۴۲۔۴۴۵ 
۱۰۶ ۔ ایضاً ، ص ۴۳۶ ؛ الجہاد فی الاسلام ، ص ۳۰۶۔۳۱۰ 
۱۰۷ ۔ اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے دیکھئے : 
Muhammad Mushtaq Ahmad, Use of Force for the Right of Self-determination in Shari'ah and International Law - A Comparitive Study, Unpublished LLM Thesis, Faculty of Shariah and law, International Islamic University Islamabad, 2006, pp 218-226. 
۱۰۸۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی دفعہ دو عدالتیں اس مقصد کے لیے قائم کی گئیں ۔ ایک نورمبرگ میں جرمن نازی فوجیوں کے خلاف اور ایک ٹوکیو میں جاپانی فوجیوں کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے ۔ پچھلی صدی کی آخری دہائی میں دو مزید عارضی عدالتیں قائم کی گئیں ۔ ایک یوگوسلاویہ میں اور ایک روانڈا میں ۔ بالآخر ۱۹۹۸ء میں معاہدۂ روم پر دستخط کیے گئے اور ایک مستقل عالمی فوجداری عدالت (International Criminal Court)قائم کی گئی ۔ امریکہ نے اب تک معاہدۂ روم پر دستخط نہیں کیے ۔ 
۱۰۹۔ غامدی ، قانون جہاد ، ص ۲۴۳۔۲۴۵ 
۱۱۰۔ ابن قدامہ نے ہجرت کے وجوب کے سلسلے میں دو عوامل ذکر کیے ہیں : کیا مسلمانوں کو اپنے دین پر عمل کی اجازت ہے ؟ کیا مسلمان وہاں سے ہجرت کرسکتے ہیں ؟ پھر وہ تین صورتیں ذکر کرتے ہیں ۔ اولاً : اگر مسلمانوں کو دین پر عمل کرنے کی اجازت نہ ہو اور وہ ہجرت کرسکتے ہوں تو ان پر ہجرت واجب ہوجاتی ہے ۔ ثانیاً : اگر ان کو دین پر عمل کرنے کی اجازت نہ ہومگر وہ ہجرت نہ کرسکتے ہوں تو ان پر ہجرت نہ واجب ہوتی ہے اور نہ مندوب ۔ ثالثاً : اگر ان کو دین پر عمل کرنے کی اجازت ہو اور وہ ہجرت کرسکتے ہوں تو ان پر ہجرت واجب نہیں ہوتی مگر مندوب ہوتی ہے ۔ (المغنی ، ج ۸ ، ص ۳۳۶ ) ایک چوتھی صورت بھی ممکن ہے جو ابن قدامہ نے نہیں ذکر کی ۔ اگر ان کو دین پر عمل کرنے کی اجازت ہو اور وہ ہجرت نہ کرسکتے ہوں یا انہیں ہجرت کی اجازت نہ ہو تو ایسی صورت میں کیا حکم ہوگا ؟ 
۱۱۱۔ سورۃ النحل ، آیت ۱۲۶؛ سورۃ الشوری ، آیت ۳۹۔۴۱ 
۱۱۲۔ ڈاکٹر حمید اللہ کہتے ہیں کہ ریاستوں کی خودمختاری درحقیقت افراد کی آزادی کی وسیع تر شکل ہے ۔ (The Muslim Conduct of State, p 71) کیا اس بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ریاستوں کا حق دفاع بھی در اصل افراد کے حق دفاع کی وسیع شکل ہے ؟ جس طرح افراد کی آزادی ریاست کی خودمختاری میں تبدیل ہوجاتی ہے اسی طرح افراد کا حق دفاع بھی وقت کے ساتھ ساتھ ریاست کے حق دفاع میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ اس دوران میں مختلف مراحل آتے ہیں اور ان میں ایک اہم مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ افراد مل کر اپنے انفرادی حق دفاع کو مشترکہ حق دفاع کی شکل دے دیتے ہیں ۔ وہ منظم ہو کر ایک گروہ کی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور ایک پر حملے کو سب پر حملہ تصور کرتے ہیں ۔ غیر ملکی تسلط کے خلاف مزاحمت کرنے والی تنظیموں کا اصل کام یہی ہے۔ 
۱۱۳۔ سنن الترمذی ، کتاب الدیات ، حدیث رقم ۱۳۴۰ و ۱۳۴۱ ؛ سنن النسائی ، کتاب تحریم الدم ، حدیث رقم ۴۰۲۵ ؛ مسند احمد، باقی مسند المکثرین ، حدیث رقم ۸۰۰۹ ۔ 

۱۱۴۔

 Mushtaq Ahmad, Use of Force for the Right of Self-determination, pp 128-35
۱۱۵۔ اس مقصد کے لیے ہم نے امریکہ کے Federal Statutes ، برطانیہ کے Terrorist Act 2000 ، اسرائیل کےPrevention of Terrorism Ordinance no. 33 ، بھارت کے Prevention of Terrorism Act (POTA) 2002 اور پاکستان کے Anti-Terrorism Act 1997 کی دفعات کا موازنہ کیا۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے : 
Mushtaq Ahmad, Use of Force for the Right of Self-determination, pp 126-28. 
۱۱۶۔ یہ تعریف برائن جنکینز نے پیش کی ہے ۔ دیگر تعریفات کے دلچسپ موازنے کے لیے دیکھئے : 
Alex Obot-Odora, Defining International Terrorism, E - Law, Murdoch University Electronic Journal of Law, vol. 6, no. 1, March 1999. 
۱۱۷۔ اس موضوع پر راقم کا جناب جاوید احمد غامدی کے ساتھ ایک مکالمہ ہوا ۔ نومبر ۲۰۰۱ء میں جاوید صاحب کا ایک انٹرویو قومی اخبارات میں شائع ہوا جس میں انہوں نے افغانستان پر امریکی حملے کو دہشت گردی ماننے سے انکار کیا اور چند دیگر متعلقہ امور پر بھی اظہار خیال کیا ۔ جاوید صاحب کے ساتھ نیازمندانہ تعلق کی وجہ سے راقم نے انہیں ایک خط لکھا جو مضمون یا مقالے کی صورت میں نہیں تھا ، لیکن جاوید صاحب کے ایک ہونہار شاگرد منظور الحسن صاحب ، جو میرے قریبی دوست بھی ہیں ، نے اس خط کے بعض مندرجات کو ’’اہم تنقید‘‘ قرار دیتے ہوئے ماہنامہ ’’اشراق‘‘ (جنوری ۲۰۰۲ء) میں اس پر تبصرہ پیش کیا ۔ راقم کو اس پر تعجب بھی ہوا اور افسوس بھی کہ یہ خط چھاپے جانے کے لیے نہیں تھا ، اور اگر چھاپنا ہی تھا تو پھر پورا چھاپ دیتے ۔ ادھر ادھرسے چند اقتباسات پیش کرکے ان پر تبصرہ راقم کو نامناسب لگا ۔ اس کے بعد راقم نے ’’دہشت گردی کی تعریف‘‘ کے موضوع پر جاوید صاحب کی رائے پر تفصیلی تنقید پیش کی جو ’’اشراق‘‘ (مارچ ۲۰۰۲ء) میں چھپ گئی ۔ اس کے ساتھ ہی اس مضمون پر منظور الحسن صاحب کی تنقید بھی چھپی تھی ۔ راقم نے محسوس کیا کہ کئی اہم امور پر منظور صاحب نے بحث سے پہلو تہی کی ہے اس لیے اس پر ایک اور تنقیدی مضمون لکھ کر ان کو بھیج دیا لیکن یہ مضمون انہوں نے شائع نہیں کیا اور یوں یہ مکالمہ ادھورا ہی رہا ۔ اس مکالمے کا ایک اہم موضوع یہ تھا کہ جاوید صاحب کے نزدیک مقاتلین پر صرف غیر علانیہ حملوں کو ہی دہشت گردی کہا جاسکتاہے جبکہ راقم کے نزدیک بعض صورتوں میں مقاتلین پر علانیہ حملہ بھی دہشت گردی متصور ہوسکتا ہے ۔ 
۱۱۷ ۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے : 
Bard E. O'Neill, Insurgency and Terrorism - Inside Modern Revolutionary Warfare, (New York: Brassey's, 1990); Mao Tse-tung, On Guerrilla Warfare, Tr. Samuel B. Griffith, (New York: Fredrick A. Praeger, 1962); Edward E. Rice, Wars of the Third Kind, (Berkely: University of California Press, 1988). 
۱۱۹ ۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے : 
Mushtaq, Use of Force for the Right of Self-determination, pp 88-97 and 121-35.

سید مدنی، تجدد پسندی اور قدامت پسند حلقے

پروفیسر میاں انعام الرحمن

ماہنامہ ’الشریعہ‘ فروری ۲۰۰۷ کے شمارے میں ہمارے شائع ہونے والے مضمون ’’ سید حسین احمد مدنی ؒ اور تجدد پسندی ‘‘ پر قدامت پسند حلقے کی طرف سے شدید منفی ردِ عمل سامنے آیا ہے ۔ مضمون کی ابتدائی سطروں ہی میں ہم نے لکھا تھا کہ’’ اگر مذہبی اصطلاح ’’ اجماع ‘‘ کو مستعار لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اکبر کی ’’ تجدد پسندی‘‘ کے خلاف مسلمانوں کے قدامت پسند حلقے کا اجماع ہو چکا ہے ‘‘۔ہمیں یہ قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ قدامت پسند، علمی اعتبار سے اس حد تک زوال کا شکار ہو چکے ہیں کہ ان کے مفتی صاحبان بھی ’’ مستعار ‘‘ کے معنی جاننے سے قاصر ہیں ۔ مفتی رشید احمد صاحب علوی ’’ حضرت مدنی ؒ اور تجدد پسندی ‘‘ کے زیرِ عنوان رقم طراز ہیں :
’’ اور حقیقت حال تو یہ ہے کہ نہ اکبر کی تجدد پسندی پر کوئی اجماع ہے اور نہ حضرت مدنی نے کسی اجماع کی مخالفت کی۔ یہ صرف کور باطنی کی وجہ سے یا نگاہ حقیقت بین سے محروی کی وجہ سے اور اجماع کے مفہوم سے نا آشنائی کی وجہ سے یا اس بات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے کہ تاریخ میں اجماع نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ ایک فقہی اصطلاح ہے‘‘ (الشریعہ مارچ ۲۰۰۷ ، ص ۳۸)
مفتی رشید صاحب جیسے قدامت پسند یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم نے سید مدنی ؒ کو تجدد پسند وں میں شمار کیا ہے۔ انھیں یہ غلط فہمی ایک تو اجماع و تفر دکی اصطلاحات کے مدرسی معانی میں الجھنے کی وجہ سے ہوئی ہے اور اس پر مستزاد ایسے لوگ بحث کے پس منظر سے پوری طرح واقف نہیں ہیں ۔ الشریعہ دسمبر ۲۰۰۶ کے شمارے میں ’’ قدامت پسندوں کا تصورِ اجتہاد : ایک تنقیدی مطالعہ ‘‘ کے عنوان سے ہمارا مضمون شائع ہوا تھا ، جس کے جواب میں الشریعہ جنوری ۲۰۰۷ کے شمارے میں ابوعمار زاہدالراشدی صاحب نے ’’ تجدد پسندوں کا تصورِ اجتہاد ‘‘ کے زیرِ عنوان قلم اٹھایا۔ ( خیال رہے کہ ’قلم اٹھانے‘ کا مطلب تحریر کرنا ہوتا ہے۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری محسوس ہوئی کہ ’ مستعار ‘ کے معنی سے نا واقف احباب کہیں ’قلم اٹھانے‘ پر بھی اعتراض نہ کر بیٹھیں) اپنے مضمون میں زاہد صاحب نے زیرِ بحث نکات کے بجائے اکبر اور اس کے اقدامات کو تجدد پسندی کا نام دے کر ہدفِ تنقید بنایا ۔ کیونکہ اکبر کے اقدامات پر قدامت پسند حلقے اکثرو بیشتر تنقید کرتے رہتے ہیں اس لیے ہم نے حضرت مدنی ؒ کا وہ مکتوب منظرِ عام پر لانا مناسب سمجھا جس میں تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی گئی تھی ( لہٰذا ، اس کا ہمارے اصل موقف سے، جو بہت واضح انداز میں دسمبر کے شمارے میں موجود ہے، براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا) ۔ اب کوئی بھی غیر جانبدار شخص ( جو لازمی طور پر اکابر پرست نہ ہو ) ، الشریعہ کے دسمبر ۲۰۰۶ ، جنوری، فروری ۲۰۰۷ کے شماروں کا مطالعہ کرکے حقیقت تک پہنچ سکتا ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قدامت پسند ہم سے وہ بات منسوب کر ہے ہیں جس کا ہمارے موقف سے دور کا بھی تعلق نہیں۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے 
اگر مفتی رشید صاحب، افتا و افترا کی قافیہ پیمائی کے بجائے علمی اسلوب میں قدامت پسندوں کے تصورِ اجتہاد کا دفاع کریں تو ہمیں یقیناًبہت خوشی ہو گی اور بہت سے لوگ جنہیں’’ مسلمان‘‘ ہوتے ہوئے بھی غوروفکر اور تنقید و تحقیق سے خواہ مخواہ کا خاص لگاؤ ہے ، مفتی صاحب کی مساعی جمیلہ کے نتیجے میں ’’ گمراہ ‘‘ ہونے سے بچ جائیں گے ۔ 
مفتی صاحب نے اپنے جوابی مضمون میں گلوبلائزیشن کی منفیت کی طرف بھی توجہ دلائی ہے ۔ بات پھر وہی ہے کہ ہم سے وہ بات منسوب کی جارہی ہے جس کا ہمارے موقف سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہم نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ ہم گلوبلائزیشن کی منفیت کے حامی ہیں۔ کیونکہ یہ بحث ایک خاص پس منظر میں ہو رہی تھی اس لیے طوالت کے خوف سے ہمارے لیے ممکن نہیں تھا کہ گلوبلائزیشن کے تمام پہلووں پر سیر حاصل بحث کرتے ۔ گلوبلائزیشن پر ہمارے موقف کی ایک جھلک الشریعہ مارچ ۲۰۰۷ کے شمارے میں ص ۳۳، ۳۴ ، پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔ تفصیل کے لیے ماہنامہ الشریعہ فروری/جولائی ۲۰۰۳ کے شمارے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ مفتی رشید احمد صاحب ’’تبلیغی جماعت ‘‘ پر ہمارے دانت تیز کرنے پر خاصے سیخ پا ہوئے ہیں ، حالانکہ ہم نے دانت ’’ تجدد پسندی ‘‘ پر تیز کیے تھے ۔ملاحظہ کیجیے :
’’ چونکہ قدامت پسندوں کے نزدیک تجدد پسندی کے خاص معنی ہیں ، اس لیے ان کی نظروں میں اکبری اقدامات جیسے مظاہر تو چبھ رہے ہیں ، لیکن اعتقاد ی دھند میں انھیں تجدد پسندی کی وہ لہر دکھائی نہیں دے رہی جو پوری دنیا میں مذہب کا وہ ایڈیشن متعارف کروا رہی ہے جسے کمیونسٹوں نے عوام کے لیے افیون قرار دیا تھا ۔ یہ لہر تبلیغ کے نام پر اٹھ رہی ہے اور فیملی سسٹم کو تباہ و برباد کر رہی ہے ‘‘ ( الشریعہ فروری۲۰۰۷، ص۳۱) 
چور کی ڈاڑھی میں تنکا کے مصداق، مفتی صاحب نے اس لہر کو تبلیغی جماعت پر محمول کیا ہے ۔ ہمارے لیے شکر کا مقام ہے کہ مفتی صاحب نے ہم پر تبلیغ کے منکر ہونے کا شوشہ نہیں چھوڑا ۔ موصوف نے غالباً یہ فقرہ بغور پڑھا ہے ’’ یہ لہر تبلیغ کے نام پر اٹھ رہی ہے‘‘۔ بہر حال ، تجدد پسندی کی اس لہر پرہم دوبارہ دانت تیز کرنا چاہیں گے ، کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ فطرت ، افراد کی غلطیوں سے اغماض کر لیتی ہے لیکن گروہوں کی غلطیوں کو معاف نہیں کرتی ۔اس لیے جو کام بھی گروہی سطح پر ہو ، اس پر ہر وقت کڑی نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ جہاں تک کسی ’جماعت‘ کے مثبت پہلو اور فائدے کا تعلق ہے تو قرآن کے مطابق فائدہ ’ شراب ‘ میں بھی ہے ۔ مفتی صاحب کی برہمی خود اس امر پر شاہد ہے کہ موصوف تبلیغ کے بجائے تبلیغی جماعت سے خاص قلبی تعلق رکھتے ہیں۔ اگر ان کا قلبی تعلق افراط و تفریط کا شکار نہ ہوتا ، تو وہ بخوبی جان لیتے کہ ہم نے ’’جماعت‘‘ پر دانت کیوں تیز کیے ہیں اور اس کا حضرت مدنی ؒ کی ’’ تجدد پسندی ‘‘ سے کیا تعلق ہے ؟ ( خیال رہے قدامت پسند ہی حضرت مدنی ؒ کو تجدد پسند قرار دینے پر مصر ہیں ، ہم نے کبھی انھیں تجدد پسند نہیں سمجھا ) ۔
مفتی رشید صاحب علوی نے علویت کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاشرے کی اکائی ’’افراد‘‘ کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ ہمیں فرد کی اہمیت اور معاشرے میں اس کے مقام سے قطعاً انکار نہیں ہے ۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ ہمارا موضوع فرد نہیں تھا ، ہم ایک خاص پس منظر میں بات کر رہے تھے ۔ اگر فرد کو لے کر بیٹھ جاتے تو بیٹھے ہی رہتے ۔ اگر مفتی صاحب کو اس موضوع سے دلچسپی ہے تو وہ ہمارا مضمون ’’ ارضی نظام کی آسمانی رمز‘‘ ماہنامہ الشریعہ جنوری فروری ۲۰۰۴ میں ملاحظہ کرسکتے ہیں اور چاہیں تو بات بڑھا بھی سکتے ہیں ۔ 
مفتی رشید احمد صاحب نے اپنے جوابی مضمون کا آغاز دو قومی نظریے جیسی ابحاث اور ان میں موجود تضاد کو نمایاں کرنے سے کیا ہے ۔ ان کے ’’ ذہنِ رسا‘‘ میں یقیناًاقبال ؒ کے وہ اشعار گھوم رہے ہیں جو اقبال ؒ نے ’’ قومیں اوطان سے بنتی ہیں ‘‘ کے جواب میں کہے تھے ۔ سوال یہ ہے کہ دو قومی نظریے کی بحث کا زیرِ نظر نکات سے کیا تعلق تھا کہ مفتی صاحب کو باقاعدہ زور شور سے نہ صرف اس کا ذکر کرنا پڑا بلکہ مضمون کا آغاز بھی دو قومی نظریے سے کرنا پڑا ؟ کیا وہ اقبال ؒ کے مداحوں کو بحث میں گھسیڑ کر اصل موضوع سے کنی کترانا چاہتے ہیں؟ جہاں تک دو قومی نظریے میں موجود تضاد کا تعلق ہے جس کا ذکر کر کے مفتی صاحب نے ہم سمیت الشریعہ کے تمام قارئین کی معلومات میں ’’ گراں قدر‘‘ اضافہ کیا ہے تو عرض ہے کہ اکثر احباب اس تضاد سے بخوبی واقف ہیں ۔ مفتی صاحب کے نزدیک تو یہ محض ’’تضاد ‘‘ہے جبکہ ہم جیسوں کے نزدیک یہ ایک ’’تاریخی حقیقت‘‘ ہے جو فسانے کا منہ چڑا رہی ہے۔ 

مکاتیب

ادارہ

(۱)
بردارمحترم حافظ حسن مدنی صاحب ، مدیر ماہنامہ ’محدث‘ لاہور
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
’محدث‘ کے مارچ ۲۰۰۷ کے شمارے میں ’’مسجد اقصیٰ صہیونیوں کے نرغے میں‘‘ کے زیر عنوان آپ کا تفصیلی اور معلوماتی اداریہ پڑھنے کو ملا اور اس بات پر خوشگوار حیرت ہوئی کہ میں نے ’الشریعہ‘ کے ستمبر/ اکتوبر ۲۰۰۳ اور اپریل/مئی ۲۰۰۴ کے شماروں میں شائع ہونے والی اپنی تفصیلی تحریروں میں شرعی زاویہ نگاہ سے اس معاملے کے جس بنیادی پہلو کی طرف اہل علم کی توجہ مبذول کرائی تھی، آپ کی تازہ تحریر میں اس کو تسلیم کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے حوالے سے ایک ایسا موقف اختیار کیا گیا ہے جو امت مسلمہ کے مروجہ جذباتی، غیر اخلاقی اور غیر شرعی موقف سے بالکل مختلف ہے اور جس سے، صورت حال کے واقعی تجزیے اور حکمت عملی کے بعض پہلووں سے قطع نظر، کوئی اصولی اختلاف غالباً نہیں کیا جا سکتا۔ میری پوری بحث کا حاصل یہی تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے تعمیر کردہ ہیکل سے، جسے قرآن مجید نے ’مسجد اقصیٰ‘ کے نام سے یاد کیا ہے، بنی اسرائیل کے حق تولیت کو ازروے شریعت منسوخ قرار دینے کا تصور اور اس کی بنیاد پر تقریباً ۱۵۰۰ فٹ لمبے اور ۱۰۰۰ فٹ چوڑے موجودہ احاطہ ہیکل (Temple Mount) کے پورے رقبے اور بالخصوص اس کے وسط میں موجود صخرۂ بیت المقدس اور اس پر اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان کے تعمیر کردہ ’قبۃ الصخرہ‘ کو بلاشرکت غیرے مسلمانوں کی ملکیت قرار دینے کا دعویٰ شرعی واخلاقی لحاظ سے درست نہیں، اس لیے مسلمانوں کو اپنا دعواے استحقاق تاریخی وواقعاتی بنیاد پر اس احاطے کی جنوبی دیوار کے ساتھ قائم اس مسجد تک محدود رکھنا چاہیے جہاں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فتح بیت المقدس کے موقع پر نماز ادا کر کے اسے مسلمانوں کی عبادت کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ (یہ مسجد خود سیدنا عمرؓ نے تعمیر نہیں فرمائی تھی، بلکہ بعد کے دور میں مسلمانوں کی تعمیر کردہ ہے۔ ابتدا میں اسے ’مسجد عمر‘ کا نام دیا گیا تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ ’مسجد اقصیٰ‘ ہی کے نام سے معروف ہو گئی جو ظاہر ہے کہ قرآن مجید کی ذکر کردہ ’مسجد اقصیٰ‘ یعنی حضرت سلیمان کی تعمیر کردہ مسجد سے مختلف ایک اصطلاح ہے) آپ نے اپنی تحریر میں اس بنیادی نکتے کو تسلیم فرماتے ہوئے لکھا ہے:
’’اس مسجد پر مسلمانوں کے استحقاق کی وجہ تاریخی طور پر یہ ہے کہ جب مسلمانوں نے اس مقام پر مسجد کو تعمیر کیا تھا تو اس وقت یہ جگہ ویران تھی۔ حضرت عمرؓ نے خود یہاں سے کوڑا کرکٹ صاف کر کے اس مسجد کو قائم کیا تھا۔ خلیفہ راشد حضرت عمرؓ کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ آپ جیسا عادل حکمران کسی اور قوم کی عبادت گاہ پر اسلامی مرکز تعمیر کر کے کسی دوسری قوم کا مذہبی حق غصب کریں گے۔‘‘ (محدث، مارچ ۲۰۰۷، ص ۵)
’’اگر یہود اس علاقے میں کوئی ہیکل تعمیر کرنا بھی چاہتے ہیں جس سے ان کے مذہبی جذبات وابستہ ہیں تو ا س کے لیے مسجد اقصیٰ کا انہدام کیوں ضروری ہے اور وہ عین اس مقام پر ہی کیوں تعمیر ہوتا ہے جہاں یہ مقدس عمارت موجود ہے؟ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں شمال مغربی حصہ اور دیگر بہت سے حصے بالکل خالی ہیں، وہاں وہ قبہ بھی ہے جس کے بارے میں اکثر مسلم علما کا موقف یہ ہے کہ اس قبہ صخرہ کی کوئی شرعی فضیلت نہیں، حتیٰ کہ حضرت عمرؓ نے یہاں نماز پڑھنا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔ یوں بھی یہود کے ہاں قبلہ کی حیثیت اس کو حاصل رہی ہے کیونکہ انھوں نے خیمہ اجتماع کو اپنا قبلہ بنایا ہوا تھا جو قبہ صخرہ کے مقام سے اٹھا لیا گیا، چنانچہ قبہ صخرہ کو اس کا آخری مقام ہونے کے ناطے انھوں نے اسے ہی اپنا قبلہ قرار دے لیا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہود قبہ صخرہ پر کوئی تصرف کرنے کی بجائے سارا زور مسجد اقصیٰ پر ہی صرف کر رہے ہیں؟‘‘ (ص ۱۸)
ان اقتباسات کی روشنی میں میرے ناقص فہم کے مطابق آپ کے موقف اور میرے نقطہ نظر میں نتیجے کے اعتبار سے کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ البتہ اس کے ساتھ اپنی تحریر کے آخر میں آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:
’’امت مسلمہ کے فرزند آج ۴۰ برس گزرنے کے بعد بھی نہ صرف مطمئن وپرسکون ہیں بلکہ آہستہ آہستہ کوتاہی اور مداہنت یوں اپنا اثر دکھا رہی ہے کہ مسلمانوں میں بعض ایسے کرم فرما بھی پیدا ہو گئے ہیں جو مسجد اقصیٰ کو اسی طرح یہود کی تولیت میں دے دینے کے داعی ہیں جیسے مسلمانوں کے پاس بیت اللہ الحرام کی تولیت ہے۔‘‘ (ص ۲۰)
اگر یہ اشارہ جیسا کہ گمان غالب ہے میری تحریروں کی طرف ہے تو میں، فی الواقع، آپ کی اس تعریض کا مدعا نہیں سمجھ سکا۔ اگر تو مسجد اقصیٰ سے آپ کی مراد حضرت سلیمان کا تعمیر کردہ ہیکل ہے جس کا محل وقوع قبۃ الصخرہ کے قریب ہے تو اس پر تصرف اور تولیت کی اجازت بلکہ ترغیب تو آپ خود بھی یہود کو دے رہے ہیں، اور اگر اس سے مراد حضرت عمرؓ کے مخصوص کردہ مقام پر تعمیر کی جانے والی مسجد یعنی موجودہ ’مسجد اقصیٰ‘ ہے تو میری تحریر میں کہیں بھی اس کی تولیت یہود کے سپرد کر دینے کی بات نہیں کہی گئی، بلکہ ’الشریعہ‘ کے اپریل/مئی ۲۰۰۴ کے شمارے میں، میں نے اس بحث کا اختتام ہی اس نکتے پر کیا ہے کہ:
’’مسلمانوں کو پوری دیانت داری کے ساتھ اپنے موجودہ موقف پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان بے بنیاد مذہبی تصورات کو خیرباد کہنا ہوگا جو پوری عبادت گاہ سے یہود کے حق تولیت کی تنسیخ یا قبۃ الصخرہ کی اہمیت وتقدس کے حوالے سے وضع کر لیے گئے ہیں اور سیدنا عمرؓ کے طرز عمل کی اتباع میں اپنے حق کو اس جگہ تک محدود ماننا ہوگا جہاں روایات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کا تذکرہ ملتا ہے اور جسے سیدنا عمرؓ نے مسلمانوں کی عبادت کے لیے مخصوص فرما دیا تھا۔‘‘ (ص ۷۴)
آپ کے مضمون میں اٹھائے جانے والے بعض قانونی نکات اور واقعاتی تفصیلات پر بحث واختلاف کی گنجایش موجود ہے، لیکن ان سے قطع نظر کرتے ہوئے موجودہ مسجد اقصیٰ کے انہدام کے حوالے سے جن صہیونی عزائم کا آپ نے ذکر کیا ہے، وہ اگر درست ہیں تو یقیناًامت مسلمہ کو اپنے حق کا دفاع پوری جرات اور استقامت کے ساتھ کرنا چاہیے۔ خدا کرے کہ امت مسلمہ کے دل میں ’اپنے حق‘ کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ’نفس حق‘ کو پہچاننے اور اس کو تسلیم کرنے کا جذبہ بھی بیدار ہو جائے۔ 
محترم حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب اور ادارہ کے دیگر رفقا کی خدمت میں سلام اور آداب عرض ہے۔
محمد عمار خان ناصر
۱۷ ؍ مارچ ۲۰۰۷
(۲)
لاہور، ۲۵؍مارچ ۲۰۰۷ء
برادرِ گرامی محمد عمار خاں ناصر صاحب، مدیر ماہنامہ ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ کا مراسلہ ملا، شکرگزار ہوں کہ مسجد اقصیٰ کے حالات وواقعات پر مبنی میرے مضمون کا نہ صرف آپ نے مطالعہ کیا بلکہ اس کی افادیت اور واقعاتی استدلال سے بھی اتفاق فرمایا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اطمینان اس امرپر ہے کہ آپ نے اپنے مراسلے کے آخر میں مسجدِ اقصیٰ کے تحفظ کے بارے میں ان جذبات سے بھی اتفاق ظاہر کیا جو مسلم اُمہ میں بالعموم پائے جاتے ہیں۔ آپ کے الفاظ میں ’’موجودہ مسجد اقصیٰ کے انہدام کے حوالے سے جن صہیونی عزائم کا آپ نے ذکر کیا ہے، وہ اگر درست ہیں تو یقیناًاُمتِ مسلمہ کواپنے حق کا دفاع پوری جرات اور استقامت کے ساتھ کرنا چاہئے۔‘‘ مزید برآں میرے موقف پر یہ تبصرہ کہ’’ کوئی اُصولی اختلاف غالباً نہیں کیا جاسکتا‘‘ لکھ کر بھی آپ نے میرے استدلال کو تقویت بخشی۔
میرا یہ مضمون مسجد اقصیٰ کے بعض حالیہ واقعات کے حوالے سے تھا اور میں نے مضمون کے مقدمہ میں ہی اس امر کی صراحت کردی تھی کہ مسجد اقصیٰ پر دینی رسائل میں جاری شرعی بحث سے اس مضمون کا کوئی تعلق نہیں، اور اس حوالے سے مستقل مضمون درکار ہے۔ چنانچہ میرے اس مضمون میں شرعی موقف کو سرے سے پیش نہیں کیا گیا تھا، اس کے باوجود میرے لیے یہ امر چونکا دینے والا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی شرعی تولیت پرتین برس قبل شائع ہونے والے آپ کے طول طویل مباحث اور ان کے نتائج سے آپ نے مجھے بھی ازخود متفق قرار دے لیا ہے اور اس اتفاق کے اظہار کے لیے آپ نے میرے مضمون کے دو اقتباسات پیش کیے ہیں۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان اقتباسات کو سیاق سے کاٹ کر آپ نے اپنے من مانے مفہوم میں لیاہے جبکہ ان سے میرا مدعا ہرگز وہ نہیں جو آپ باور کرا رہے ہیں۔ آپ میرے مضمون کے مطالعے کی بجائے ان سے وہ شواہد تلاش کرتے رہے ہیں جن سے کسی طورآپ کے متنازعہ موقف کی ہم نوائی ہوتی ہو، وگرنہ ان اقتباسات کا یہ مفہوم میرے حاشیہ خیال میں بھی موجود نہیں۔آپ کو بخوبی یاد ہوگا کہ آپ کے مضامین کی اشاعت کے بعد علما کے حلقے میں سے غالباً کوئی ایک رائے بھی آپ کی تائید میں شائع نہیں ہوئی اور مسجد اقصیٰ پر آپ کے مضامین دینی صحافت کے متنازعہ ترین مقالات میں سے ہیں جس پر ’الشریعہ‘ کے متعدد مراسلے اور مستقل مضامین بھی شاہد ہیں، جبکہ میرے مضمون کا موضوع ہی اس سے مختلف ہے۔ بہرحال آپ نے یہ الفاظ ’’ میرے ناقص فہم کے مطابق نتیجے کے اعتبار سے آپ کے موقف اورمیرے نکتہ نظرمیں کوئی خاص فرق نہیں‘‘ لکھ کرجس طرح مجھے اپنا ہم نوا قرار دیا ہے، اس سے میں متفق نہیں ہوں کیونکہ جہاں تک میرے شرعی موقف کا تعلق ہے تو میں اس پر ایک مستقل مقالہ لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ آپ کے موقف کے بارے میں فی الحال چند تنقیحات پر اکتفا کرتا ہوں :
  •  کیا آپ صہیونیت کے نام نہاد دعوے ’ہیکل سلیمانی‘ کے قائل نہیں بلکہ اس کو دوبارہ تعمیر کرنے کے مؤید بھی ہیں؟
  • کیا آپ مسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کی بجائے یہود کو تولیت کا حق دینے کے داعی نہیں ؟
  • کیا آپ مسلمانوں کے موقف کو جذباتی، غیر اخلاقی اور غیرشرعی قرار نہیں دیتے؟
  • کیا آپ دیوارِ گریہ کے قائل نہیں اور اسے بھی یہود کا حق قرار دیتے ہیں؟
جبکہ دوسری طرف مسلم اُمہ کے زعما بالعموم ان میں سے کسی بات کو تسلیم نہیں کرتے۔
جہاں تک ’واقعاتی نتیجہ‘ میں بظاہر اتفاق کا مسئلہ ہے تو میری رائے میں اس کی حیثیت بھی چند الفاظ کے اشتراک سے زیادہ کچھ نہیں، حقیقت اور امر واقعہ اس کے عین برعکس ہے۔ ماضی قریب میں آپ کے پیش کردہ’ممکنہ حل ‘ اور موجودہ مراسلہ کے گہرے مطالعے کے بعد میں پوری بصیرت سے کہہ سکتا ہوں کہ میرے اور آپ کے پیش کردہ نتیجے میں عملاً کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی۔ آپ احاطہ قدس میں یہودیوں کی شراکت کے قائل ہیں جبکہ میں اس سے متفق نہیں۔ اس سلسلے میں مزید تفصیلات پرگفتگو کرنے سے قبل میری گذارش ہے کہ اس موضوع پر آپ کی سابقہ تحریروں کی غیرمعمولی طوالت کی وجہ سے بعض بنیادی باتوں کے بارے میں آپ کے موقف میں نکھار باقی نہیں رہا۔اشتراک کا شائبہ پیدا ہونے کی وجہ یہی ابہام اور احتمال ہے۔ اگر آپ حسبِ ذیل سوالات کی دو ٹوک وضاحت فرماسکیں توآپ کے مراسلہ میں ذکر کردہ دعوائے اتفاق پر میں اپنا بادلائل موقف پیش کرسکوں گا۔ اس دوٹوک نکھار کی ضرورت اس لیے زیادہ ہے کہ اس طرح کئی برس سے جاری یہ بحث بہت جلد کسی حتمی نتیجہ پر پہنچ جائے گی :
۱۔مسجد اقصیٰ اور ہیکل سلیمانی آپ کی نظر میں ایک ہی چیز کے دونام ہیں، آپ کے نزدیک اس [حقیقی]* مسجد اقصیٰ کا مصداق کون سی جگہ ہے؟ قبہ صخرہ، فوارۂ کاس، [حالیہ] مسجد اقصیٰ یا کوئی اور؟
۲۔ [حالیہ] مسجد اقصیٰ جہاں حضرت عمرؓ نے نمازپڑھی تھی، کیا [حقیقی] مسجدِ اقصیٰ یہی نہیں؟ اگر نہیں توآپ اس مسجد کو کیا حیثیت دیتے ہیں؟
۳۔ [حقیقی] مسجد اقصیٰ پر کیا مسلمانوں اور یہود ہر دو اقوام کا استحقاق ہے، اگر دونوں کاحق مشترک ہے تو اس حق کی نوعیت کیا ہے اور ان میں سے کس کا حق آپ برتر سمجھتے ہیں؟
۴۔ حق کی برتری کی صورت میں عملاً اس قوم کے لیے آپ کیا اقدام تجویز کرتے ہیں اور مرجوح حق والی قوم کے لیے کیا؟
۵۔ شدرحال والی متفق علیہ حدیث(مساجدِ ثلاثہ) اور مسجد اقصیٰ میں نماز کی فضیلت والے فرمانِ نبویؐ پر عمل کی آپ مسلمانوں کے لیے عملی صورت کیا تجویز کرتے ہیں؟
چونکہ اس بحث کو آپ نے ہی شروع کیا اور ا س کے ہر پہلو پر تفصیل سے تحقیق بھی فرمائی، اس لیے اس بحث کے ان اہم نکات کا دوٹوک جواب بھی اخلاقاً آپ کو دینا چاہئے کیونکہ حق کو واضح ہونا چاہئے اور اس میں کوئی ابہام نہیں رہنا چاہئے۔ بہتر ہوگا کہ آپ دوٹوک اور معروضی اُسلوب میں ان کے جواب دے کر تفصیلی دلائل کے لیے اپنے ۱۵۰ صد سے زائد صفحات کے متعین پیرا گرافوں کی نشاندہی کردیں۔مجھے اُمید ہے کہ آپ کے جوابات کے بعد پیش نظر مسئلہ کافی حد تک از خود ہی واضح ہوجائے گا۔ تاہم آپ کے جواب کے بعد میں بڑی وضاحت اور صراحت سے اپنا تفصیلی موقف تحریر کروں گا، تاکہ اس اہم شرعی مسئلہ پر ہمارے قارئین کسی واضح نتیجہ تک پہنچ سکیں۔ ان شاء اللہ 
اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔
حافظ حسن مدنی، لاہور
(۳)
برادرم حافظ حسن مدنی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ مزاج گرامی؟
میرے خط کے جواب میں آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا۔ بے حد شکریہ! میں اشتیاق کے ساتھ منتظر رہوں گا کہ مسجد اقصیٰ کی تولیت کے شرعی پہلو سے متعلق آپ کا مستقل مضمون کب معرض تحریر میں آتا ہے اور اس میں آپ کیا نقطہ نظر اختیار فرماتے اور اس کے حق میں کیا استدلالات پیش کرتے ہیں۔ سردست میں اپنی گزارشات کو آپ کے حالیہ مکتوب کے مندرجات تک محدود رکھوں گا۔
آپ نے فرمایا ہے کہ میں نے آپ کے مضمون سے اپنے اور آپ کے موقف میں جو اشتراک اخذ کیا ہے، وہ درست نہیں، بلکہ ایسا آپ کے اقتباس کو سیاق وسباق سے ہٹا کر من مانے معنی پہناتے ہوئے کیا گیا ہے۔ تاہم آپ نے اس اقتباس سے میرے اخذ کردہ نتیجے کی تردید تو فرمائی ہے لیکن اپنے مضمون کے سیاق وسباق کی روشنی میں اس کا صحیح مدعا اور مفہوم واضح کرنے کی زحمت نہیں کی۔ میں آپ کا اقتباس یہاں دوبارہ نقل کرنا چاہوں گا:
’’اگر یہود اس علاقے میں کوئی ہیکل تعمیر کرنا بھی چاہتے ہیں جس سے ان کے مذہبی جذبات وابستہ ہیں تو ا س کے لیے مسجد اقصیٰ کا انہدام کیوں ضروری ہے اور وہ عین اس مقام پر ہی کیوں تعمیر ہوتا ہے جہاں یہ مقدس عمارت موجود ہے؟ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں شمال مغربی حصہ اور دیگر بہت سے حصے بالکل خالی ہیں، وہاں وہ قبہ بھی ہے جس کے بارے میں اکثر مسلم علما کا موقف یہ ہے کہ اس قبہ صخرہ کی کوئی شرعی فضیلت نہیں، حتیٰ کہ حضرت عمرؓ نے یہاں نماز پڑھنا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔ ..... پھر کیا وجہ ہے کہ یہود قبہ صخرہ پر کوئی تصرف کرنے کی بجائے سارا زور مسجد اقصیٰ پر ہی صرف کر رہے ہیں؟‘‘ (محدث، مارچ ۲۰۰۷، ص ۱۸)
ازراہ کرم آپ واضح فرمائیں کہ جب آپ ہیکل کی تعمیر کے لیے یہود کو موجودہ مسجد اقصیٰ کے بجاے احاطہ ہیکل ہی میں واقع دیگر مقامات، مثلاً قبۃ الصخرہ وغیرہ کی راہ دکھا رہے ہیں اور یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ان مقامات کی آپ کے نزدیک کوئی شرعی فضیلت نہیں تو اس کا مطلب مذکورہ مقامات پر تصرف وتولیت میں عدم دلچسپی ظاہر کرنے کے سوا کیا نکلتا ہے؟ اگر یہود آپ کی دکھائی ہوئی راہ پر چلتے ہوئے قبۃ الصخرہ کی جگہ پر اپنا ہیکل تعمیر کرنا چاہیں تو وہ آخر زمین کے اوپر ہی بنے گا یا ’بغیر عمد ترونہا‘ فضا میں معلق ہوگا؟ اور اگر آپ یہود کا ہیکل تعمیر کرنے کا حق تو تسلیم کرتے ہیں، لیکن احاطے یا ہیکل کی تولیت میں انھیں کسی طرح بھی شریک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو یہ واضح فرمائیے کہ کیا ہیکل کی تعمیر کے بعد یہودی قوانین کے مطابق اس میں رسوم عبادت ادا کرنے اور کاہنوں سے متعلقہ مذہبی خدمات بجا لانے کا فریضہ بھی آپ خود ہی انجام دیں گے؟ اور اگر یہ حق بھی آپ یہود کے لیے تسلیم کرتے ہیں تو مذہبی معنوں میں کسی عبادت گاہ پر تصرف وتولیت اور کیا چیز ہوتی ہے؟
کوئی مصنف جب اپنی تحریر سے واضح طور پر نکلنے والے کسی نتیجے کو own کرنے سے انکار کرتا ہے تو اس کی وجہ یا تو یہ ہوتی ہے کہ اس نے وہ تحریر اچھی طرح سوچ سمجھ کر نہیں لکھی ہوتی اور یا یہ کہ وہ اپنی تحریر میں ملفوف نتیجے کا واضح اعتراف کرنے کے لیے درکار اخلاقی جرات سے محروم ہوتا ہے۔ میں حسن ظن رکھتا ہوں کہ آپ کے معاملے میں یہ دوسری صورت نہیں پائی جاتی۔
آپ نے اپنے مکتوب کے آخر میں میرے موقف کے حوالے سے جن نکات کی وضاحت طلب فرمائی ہے، ان سب کی تفصیل میں اپنی تحریروں میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں، تاہم آپ کی فرمایش پر انھیں دوبارہ دہرا دیتا ہوں:
۱۔ قرآن مجید نے ’مسجد اقصیٰ‘ کا لفظ ہیکل سلیمانی کے لیے استعمال کیا ہے۔ موجودہ احاطہ ہیکل کے اندر اس کا محل وقوع یقینی طور پر معلوم نہیں، تاہم غالب گمان کے مطابق اس کو صخرۂ بیت المقدس (جس کے اوپر اس وقت ’قبۃ الصخرہ‘ قائم ہے) کے قرب وجوار میں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ صخرہ بنی اسرائیل کے لیے قبلے کی حیثیت رکھتا تھا اور ہیکل کی عمارت کے اندر ہی واقع تھا۔ اس وقت مسلمان جس مسجد کو ’مسجد اقصیٰ‘ کہتے ہیں، وہ عین ہیکل سلیمانی کی جگہ پر واقع نہیں، بلکہ احاطہ ہیکل کی جنوبی دیوار کے قریب اس جگہ تعمیر کی گئی ہے جہاں فتح بیت المقدس کے موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نماز ادا فرمائی تھی۔ 
۲ و ۵۔ موجودہ مسجد اقصیٰ، ہیکل سلیمانی (یعنی قرآن مجید کی ذکر کردہ ’مسجد اقصیٰ‘) کی اصل عمارت کا حصہ نہ ہونے کے باوجود توسیعی طور پر مسجد ہی کے حکم میں ہے، اس لیے اس میں نماز ادا کرنے کی وہی فضیلت اور ثواب ہے جو صحیح احادیث میں مسجد اقصیٰ کے حوالے سے ثابت ہے۔
۳ و۴۔ بنی اسرائیل کی مرکزی عبادت گاہ، قربان گاہ اور قبلہ ہونے کے ناتے سے ہیکل سلیمانی یعنی اصل مسجد اقصیٰ کی تولیت شرعی واخلاقی طور پر انھی کا استحقاق ہے اور قرآن وسنت میں ان کے اس حق کی تنسیخ کی کوئی دلیل نہیں۔ مسلمانوں کا حق اس مسجد کے حوالے سے یہ ہے کہ انھیں یہاں عبادت کرنے کی پوری آزادی حاصل ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہیکل سلیمانی کی اصل عمارت کے بجائے اس سے بالکل ہٹ کر احاطہ ہیکل کے جنوب میں، جہاں اس وقت موجودہ مسجداقصیٰ واقع ہے، مسلمانوں کے لیے عبادت کی جگہ متعین کر کے دونوں اقوام کے مذہبی حق کے تحفظ اور پاس داری کی ایک واضح صورت متعین فرما دی تھی اور امت مسلمہ کو اسی کی پابندی کرنی چاہیے۔
اگر اس ضمن میں مزید کوئی نکتہ وضاحت طلب ہو تو میں اس کے لیے حاضر ہوں۔
محمد عمار خان ناصر
۲۵ مارچ ۲۰۰۷
(۴)
جناب زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم! امید ہے بخیریت ہوں گے۔
’الشریعہ‘ کا فروری کا شمارہ ملا۔ یقیناًبہت سے موضوعات دلچسپی اور علم میں اضافے کا موجب ہوتے ہیں، لیکن ایک ایسا جریدہ جو مذہبی خیالات کا حامل ہو، اس میں یکایک پیپلز پارٹی کے متعلق (بلکہ اس کے خلاف) مواد شامل کر دیا جائے تو کوئی بھی شخص یہ سمجھنے میں دیر نہیں کرے گا کہ ایجنسیاں گویا ’الشریعہ‘ میں بھی آ ٹپکی ہیں۔ آج کے دور میں کوئی بھی مسئلہ کلر بلائنڈ ہو کر نہیں دیکھا جا سکتا اور نہ اس پر لکھا جا سکتا ہے، اس لیے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تک عام آدمی کی بھی رسائی ہے۔ اس کے علاوہ بھٹو کی جاں نثار ٹیم ابھی باقی ہے جنھوں نے صرف مشاہدہ ہی نہیں، عملی کام بھی کیا ہے۔ یاد ہوگا کہ آپ نے ضیاء الحق کو ’شہید‘ لکھا تھا جس پر میں نے احتجاج کیا تھا۔ اب مجھے سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی کہ آپ بھی ضیا کی باقیات میں سے ہیں جس نے ایک عام مولوی کو بھی خاص بنا دیا اور ماشاء اللہ نام نہاد ملا دین کی ترویج کے نام پر سیاسی فوائد سے خوب بہرہ ور ہو رہے ہیں۔
ذو الفقار علی بھٹو بھی یقیناًایک انسان تھا جو خوبیوں اور خامیوں کاحامل تھا، لیکن یہ امر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس قوم کے لیے اس کی بے شمار خدمات ہیں جن میں چیدہ چیدہ یہ ہیں: ۱۹۷۳ء کا آئین، مزدوروں کے لیے سوشل سکیورٹی سسٹم، متعدد میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں کا قیام، کامرہ کمپلیکس، کرپشن سے پاک حکومت، ۹۰ ہزار جنگی قیدیوں کی واپسی، ایٹم بم کے حصول کے لیے کام کا آغاز، صوبائی ونسلی منافرت سے پاک معاشرہ، بلکہ حنیف رامے کے بقول زیڈ اے بھٹو کا یہی کارنامہ سب کارناموں پر بھاری ہے کہ اس نے عام آدمی کو شعور دیا۔ ’الشریعہ‘ کے مضمون نگار کا یہ کہنا کہ لوگ بھٹو کی موت کے بے حد tragic ہونے کے سبب سے اس کے گرویدہ ہو گئے، درست نہیں۔ موت تو ضیاء الحق کو بھی آئی، لیکن آج اس کا نام لیوا کوئی نہیں۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ’الشریعہ‘ جیسے خوبصورت میگزین کو سیاسی معاملات بالکل ڈسکس نہیں کرنے چاہییں، اس کے لیے متعدد دوسرے سیاسی میگزین موجود ہیں۔ اگر ایسا ضروری بھی ہو تو غیر جانبدارانہ رپورٹنگ ہونی چاہیے۔ موضوع کوئی بھی شخصیت ہو، اس کا خوب صورت تجزیہ کر کے نتیجہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے۔ بے نظیر بھٹو کا ذو الفقار علی بھٹو سے کوئی موازنہ نہیں۔ بے نظیر عہدے داران کی لیڈر ہے جبکہ بھٹو قائد عوام تھے۔
آپ نے اداریے میں یورپ کی روشن خیالی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو میر ے خیال میں جانبدارانہ ہے۔ یورپ کی روشن خیالی صرف فری سیکس تک محدود نہیں۔ تعلیمی، سماجی اور سیاسی حوالوں سے اس کی ترقی اور روشن خیالی قابل تعریف ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمیں اپنے کلچر اور اقدار کے مطابق روشن خیالی کو فروغ دینا چاہیے۔اللہ آپ کا حامی وناصر ہو۔
محمد سعید اعوان
اروپ۔ گوجرانوالہ

مئی ۲۰۰۷ء

امت مسلمہ اور مغرب کے علوم و افکارمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسلام کی آفاقیت اور عالمگیریتمفتی ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی
قائد اعظم اور فوج کا سیاسی کردارپروفیسر شیخ عبد الرشید
سنت کی دستوری اور آئینی حیثیتڈاکٹر محمد سعد صدیقی
غیر مسلم جج کی بحث اور مسلمان ججوں کا کردارچوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
مکاتیبادارہ
’دشتِ وصال‘ پر ایک نظرپروفیسر میاں انعام الرحمن
تعارف و تبصرہادارہ
الشریعہ اکادمی کی مطبوعات کی تقریب رونمائیادارہ

امت مسلمہ اور مغرب کے علوم و افکار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روزنامہ پاکستان لاہور نے ۲۳؍اپریل ۲۰۰۷ کو لاہور میں ’’اسلام اور مغرب کے درپیش چیلنجز اور مواقع‘‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک سیمینار کی رپورٹ خبر کے طور پر شائع کی ہے جس کا اہتمام پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز (پائنا) نے کیا ہے اور صدارت ملک کے معروف دانش ور اور قانون دان جناب ایس ایم ظفر نے فرمائی ہے۔ سیمینار سے خطاب کرنے والوں میں جسٹس (ر) خلیل الرحمن، پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری، سابق سیکرٹری خارجہ جناب شمشاد احمد اور دیگر ارباب دانش کے علاوہ اسپین سے تشریف لانے والے دو معروف دانش پروفیسر پری ویلانووہ اور پروفیسر راحیل بیونو بھی شامل ہیں۔
سیمینار میں ہونے والی گفتگو کے اہم نکات میں اسلام اور مغرب کے مابین مبینہ طور پر پائی جانے والی غلط فہمیاں، دہشت گردی، انتہا پسندی، مذہبی اختلافات، جنگ آزادی اور دہشت گردی میں فرق، صلیبی جنگوں کا تسلسل، فلسطین وکشمیر جیسے مسائل اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کا رویہ جیسے امو رخاص طور پر قابل ذکر ہیں اور ان میں سے ہر نکتہ سنجیدہ گفتگو کا متقاضی ہے، مگر ہم سردست اس تقریب کے صدر جناب ایس ایم ظفر کے بعض ارشادات کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کرنے کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں جو مذکورہ اخبار میں ان الفاظ کے ساتھ رپورٹ کیے گئے ہیں:
’’ایس ایم ظفر نے کہا کہ مغرب اور اسلام میں غلط فہمیاں دور ہو رہی ہیں۔ اگر دونوں ایک دوسرے کی اچھی باتیں اپنا لیں تو اسلام مغرب سے جمہوریت، شہریوں کے انسانی حقوق، علم اور ٹیکنالوجی کا سبق سیکھ سکتا ہے جبکہ مغرب اسلام کے خاندانی نظام کو اپنا کر اپنے بہت سے معاشرتی مسائل دور کر سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان جمہوری کلچر کی طرف آئیں۔ آج میڈیا کا دور ہے مگر اسلام اس سلسلے میں بہت پیچھے ہے۔ ہمیں میڈیا سنٹر بنانے ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ دنیا میں مسلمانوں کو درپیش مسائل حل کرنا ہوں گے جن میں فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ سرفہرست ہے۔‘‘
ہم محترم ایس ایم ظفر صاحب کی اس گفتگو میں سے دو نکات پر کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ ایک یہ کہ اسلام اور مغرب کے درمیان مبینہ طو رپر پائی جانے والی غلط فہمیوں کا دائرہ کیا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ مسلمانوں کو مغرب سے کون کون سی چیزیں سیکھنے کی ضرورت ہے؟
یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ مسلمانوں اور مغرب کے درمیان غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور ان کے مابین کشمکش کی موجودہ فضا زیادہ تر ان غلط فہمیوں کا نتیجہ ہے جنھیں اگر دور کر دیا جائے تو کشمکش کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے اور مسلمان اور مغرب آپس میں قریب آ سکتے ہیں۔ بظاہر یہ بات بہت قرین قیاس ا ور مستقبل کے حوالے سے امید افزا لگتی ہے، لیکن افسوس صد افسوس کہ یہ معروضی صورت حال اور زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی، اس لیے کہ مغرب کے بارے میں یہ تصور رکھنا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہے، خود مغرب کی ذہنی سطح، نفسیاتی ماحول اور تحلیل وتجزیہ کی استعداد وصلاحیت سے بے خبری یا اسے شک وشبہ کا شکار بنانے کے مترادف ہے کیونکہ مسلمانوں کے بارے میں تو یہ سوچا جا سکتا ہے کہ وہ علم وخبر کے ذرائع اور ذوق کی کمی کے باعث مغرب کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہیں اور تحلیل و تجزیہ، باریک بینی اور مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت کی کمزوری کی وجہ سے مغرب کے مقاصد اور عزائم کو پوری طرح نہیں سمجھ پا رہے ہیں، لیکن کیا مغرب بھی مسلمانوں کے حوالے سے اسی سطح پر ہے؟ ہمارے خیال میں اس سوال کا اثبات میں جواب دینا مشکل ہوگا۔ 
یہ بات ہم تسلیم کرتے ہیں کہ سارے مغرب کی ذہنی سطح ایک نہیں ہے اور ہمیں یہ بات قبول کرنے میں بھی کوئی حجاب نہیں ہے کہ مغرب کے سارے طبقات اور افراد اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ایک طرح سے نہیں سوچتے، لیکن یہ بات ہمارے نزدیک کسی بھی شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ مغرب میں دانش، سیاست اور اقتدار کے حوالے سے جو طبقہ ’’رولنگ کلاس‘‘ سے تعلق رکھتا ہے اور جو اس وقت عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں سے نبردآزما ہے، و ہ کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہیں ہے، بلکہ وہ سالہا سال کی نہیں بلکہ صدیوں کی علمی وفکری محنت کے ذریعے سے اس بات کا خوب اچھی طرح شعور رکھتے ہوئے کام کر رہا ہے کہ جس عالمی نظام اور گلوبل کلچر کو وہ دنیا میں مستقبل کے واحد نظام اور کلچر کے طور پر متعارف کرانے بلکہ اسے غلبہ دلانے کی کوشش کر رہا ہے، اس کی راہ میں اگر کوئی فلسفہ حیات اور ثقافتی نظام رکاوٹ بن سکتا ہے تو وہ صرف اسلام ہے جسے راہ سے ہٹانے کے لیے مغرب کی رولنگ کلاس اسلام اور مسلمانوں کے اہل دین کو کردار کشی کے ذریعے سے بدنام اور جبر وتشدد کے ذریعے سے بے بس بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔ اس لیے ہم اپنے ارباب دانش سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ محض ’’غلط فہمیوں‘‘ کے چکر میں اپنا وقت اور صلاحیتیں ضائع نہ کریں، بلکہ مغرب کی رولنگ کلاس کے اہداف، پروگرام، طریق کار اور مراحل کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کریں۔
دوسری بات جناب ایس ایم ظفر کے اس ارشاد کے حوالے سے ہے کہ مسلمانوں کو مغرب سے جمہوریت، انسانی حقوق، علم اور ٹیکنالوجی سیکھنی چاہیے۔ جہاں تک جدید علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی کا تعلق ہے، ہمیں محترم ظفر صاحب کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ہم اس میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور دراصل اسی اجتماعی جرم او رکوتاہی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، اس لیے ہمیں ان ضروریات کی تکمیل بہرحال مغرب کی مدد سے ہی کرنی ہے جس کے لیے ہم تو اب کسی درجہ میں تیار ہیں لیکن مغرب ایک خاص حد سے آگے ہمیں اس سلسلے میں کسی قسم کا تعاون یا سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور اس نے جدید علوم اور سائنس وٹیکنالوجی کے حوالے سے ہمارے گرد ایسی مضبوط ریڈ لائن کا گھیرا ڈال رکھا ہے کہ ہمارے لیے اس حصار کو توڑنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے قومی ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبد القدیر خان کا مقدمہ خود ایس ایم ظفر صاحب نے لڑا تھا، اس لیے ان سے بہتر اس معروضی حقیقت سے اور کون واقف ہو سکتا ہے کہ جدید علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی کا مغرب سے اس درجہ کا سبق سیکھنا جس کی ہمیں ملی سطح پر ضرورت ہے، اب ممکن نہیں رہا چنانچہ اب یہ بات بھی ہمارے دانش وروں کی ذمہ داری میں شامل ہو گئی ہے کہ وہ امت مسلمہ کو مغرب سے سائنس، ٹیکنالوجی اور جدید علوم سیکھنے کا مشورہ دیتے رہنے پر اکتفانہ کریں بلکہ کوئی متبادل راستہ بھی امت کو دکھائیں کہ مغرب نے علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے معروف راستے امت مسلمہ پرچاروں طرف سے بند کر رکھے ہیں اور کوئی متبادل صورت نکالے بغیر امت مسلمہ کے لیے اب اس راستے میں آگے بڑھنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔
باقی رہی بات مغرب سے جمہوریت اور انسانی حقوق کا سبق حاصل کرنے کی تو ہمیں اس باب میں محترم ظفر صاحب کے ارشاد سے اتفاق نہیں ہے، اس لیے کہ مغرب نے جمہوریت اور انسانی حقوق دونوں کا توازن جس بری طرح بگاڑ دیا ہے، اسے اسلام کے بنیادی معتقدات اور قرآن وسنت پر ایمان رکھتے ہوئے قبول کرنا ہمارے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ مغرب نے جمہوریت اور جمہور کو آسمانی تعلیمات اور وحی کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دے کر جس مادر پدر آزادی کو فروغ دیا ہے، اسلام اسے تسلیم نہیں کرتا اور اس کے ساتھ ہی مغرب نے حقوق اللہ کو نظر انداز کر کے اور انسانوں کے باہمی حقوق کو مذہبی اخلاقیات سے آزاد کر کے خالصتاً مادہ پرستی پر مبنی انسانی حقوق کا جو نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے، وہ بھی اسلام کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔
ہم جمہوریت اور انسانی حقوق، دونوں کو انسانی سوسائٹی کی ناگزیر ضرورت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور اس سلسلے میں مسلم معاشروں اور ممالک واقوام کی تمام تر کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان دونوں اصولوں کی طرف مسلم امہ کی واپسی کو امت مسلمہ کے لیے وقت کا سب سے بڑا تقاضا تصور کرتے ہیں، لیکن یہ مغرب کے فلسفہ وفکر اور نظام وثقافت کے حوالے سے نہیں بلکہ قرآن وسنت اور خلافت راشدہ کے سنہری اصولوں کی روشنی میں ہوگا، اس لیے ہمارے خیال میں بہت سے مسلم دانش وروں کا یہ طرز عمل درست نہیں کہ وہ مسلمانوں کو مغرب کے جمہوریت اور انسانی حقوق کے تصور کو اپنانے کا مشورہ دیتے رہیں، بلکہ ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قرآن وسنت اور خلافت راشدہ کی روشنی میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی وضاحت کریں اور مغرب کے ساتھ ان کے تضاد کی نشان دہی کرتے ہوئے امت مسلمہ کو قرآن وسنت اور خلافت راشدہ کے سنہری اصولوں کی پیروی کے لیے تیار کریں۔

اسلام کی آفاقیت اور عالمگیریت

مفتی ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی

یہ ایک حقیقت اور صداقت ہے کہ ایسا نظامِ حکومت جو تمام قوموں، ملکوں اور ساری دنیا کے لیے ہو، بڑے سے بڑے مفکر و فلاسفر انسان اور انسانوں کی کوئی بھی سوسائٹی مرتب نہیں کر سکتی۔ پس اس کے لیے لامحالہ حقیقت کے متلاشی اور صداقت شعار انسانوں کو مذہب کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ مذہب ہی وہ ضابطہ حیات ہے جو انسان کی اس کے ہر شعبہ زندگی، انفرادی اور اجتماعی میں رہنمائی کرتا ہے اور وہ ایسا ضابطہ حیات ہے جو ایسے انسان کامل پیدا کرتا ہے جن میں انصاف ہو، انسانیت ہو، مساوات و رواداری ہو، انسانی حقوق کا احترام ہو، نوع انسانی کی خدمت ہو، سب کے ساتھ بھلائی و ہمدردی ہو اوروہ ایسے انسان پیدا کرتا ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لیے امن و سلامتی کے خواہش مند ہوں۔ مذہب ہی انسان کا رشتہ خدا سے جوڑتا ہے اور ماورا ہستی کا تصور اس کے ذہن و دماغ میں پیدا کرتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جب تک ہر انسان اپنے سے بالاتر ہستی کے آگے اپنے آپ کو جواب دہ یقین نہیں کرتا، اس میں مذکورہ بالا صفات ہر گز پیدا نہیں ہو سکتیں۔ 
مذہب وہ ضابطہ حیات ہے جس کا واضع خود خدا ہے۔ اس کی بنیاد وحدتِ انسانیت پر ہے اور انسانیت کی وحدت، فطرت و فکرپر اور مساوات پر رکھی گئی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سارے ادیان و مذاہب اور فلسفوں کا اصل اصول یہی فکر ہے۔ اس کو ضمیرِ انسانی یا دین اور فطرت اللہ سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ خدا کو معلوم تھا کہ انسان خود ضابطہ حیات اپنے لیے نہیں بنا سکتا، لہٰذا خدا نے جیسا کہ موجوداتِ عالم کی بقا و نشوونما کے لیے ہر اس چیز کی فراہمی کا انتظام کیا جس کی ضرورت کا تصور کیا جا سکتا تھا، اسی خدا نے اس کی سب سے بڑی ضرورت کا بھی انتظام کیا جس کے بغیر پوری نوع انسانی کی زندگی کا غلط ہو جانا یقینی تھا۔ اس بڑی اور اہم ضرورت کے لیے خدا نے جو ضابطہ زندگی وضع کیا ہے، اسی کا نام مذہب اور دین ہے اور اسی کی ترجمانی انبیا و صلحا اور حکما کرتے آئے ہیں۔ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اصلی مذہب میں باہر سے کدورتیں شامل ہوتی گئیں اور بار بار نئے ڈرانے والوں اور خوش خبری دینے والوں کی ضرورت پڑتی رہی۔ چنانچہ تاریخِ عالم گواہ ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں نظامِ زندگی ان برگزیدہ انبیا کے بتائے ہوئے اصولوں پر قائم ہوا، یہ زمین جنت کا نمونہ اور امن و سلامتی کا گہوارہ بن گئی۔ اس کے متعلق ہر قوم اور ہر ملک کے لوگوں میں گزشتہ سنہری زمانوں کے قصے کہانیاں اب تک کم و بیش چلی آرہی ہیں۔ یہ ایک ثابت شدہ صداقت ہے کہ ہر زمانے اور ہر ملک و قوم میں خدا کے برگزیدہ انبیا مذہب کی تعلیم دیتے رہے ہیں اور ایک ایک چیز پر عمل کرکے بھی دکھاتے رہے ہیں۔ بے شک یہ سارے کے سارے مذاہب اپنے اپنے زمانے میں حق تھے اور درست تھے، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اس جہان میں گزشتہ برگزیدہ رسولوں کے اسوہ اعمال اور ان کی تعلیمات کا اس وقت صحیح صحیح موجود ہونا تو درکنار، ان کے دوچار سو سال بعد بھی ان کے ٹھیک ٹھیک دنیا میں موجود ہونے کا ثبوت نہیں ملتا۔ اور اس کا بھی کوئی صاحبِ علم و عقل انکار نہیں کرسکتا کہ آسمانی کتب میں سے صرف قرآن کریم اور خدا کے رسولوں میں سے صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و رہنمائی اس وقت دنیا میں بے کم و کاست محفوظ ہیں۔ گزشتہ تیرہ چودہ سو سال کے نشیب و فراز اور مسلمان قوم کی ساری نالائقیوں اور گمراہیوں کے باوجود محمد رسول اللہ علیہ الصلوۃ و السلام کی معرفت آئی ہوئی پوری کی پوری تعلیمات آج بھی اسی طرح موجود و محفوظ ہیں جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑا تھا۔ اور یہ کوئی اتفاقِ زمانہ کی بات نہیں، قرآن کریم نے بتلا دیا ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کا آخری نبی اور قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے، اور یہ دونوں آئندہ ہمیشہ کے لیے ہدایت کا واحد ذریعہ ہیں اور ہمیشہ کے لیے محفوظ ہیں۔ اس بات کا ثبوت کہیں باہر تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، کتاب و سنت کا ایک ایک پہلو آنکھوں کے سامنے موجود ہے ۔ 
پس ا ب طالبان حق و حقیقت کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ دوسرے تمام منبع ہائے ہدایت ( جنہیں لوگوں نے اپنی تحریف و تصرف سے گدلا کر دیا ہے) کو چھوڑ کر صرف قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کریں ااور انہی دونوں کی راہنمائی اختیار کریں۔ اس اختلافِ مذاہب ہی کو تو دور کرنے کے لیے خداے برتر و بزرگ نے سابقہ تعلیمات کو جو مختلف اقوام اور مختلف ممالک میں ابتدا سے وقتاً فوقتاً نازل کی جاتی تھیں، یکجا کر کے قرآن کریم اور النبی الخاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مقدسہ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا اور بتا دیا کہ اللہ کی طرف سے آنے والے سب ہادیوں کی یہی تعلیم تھی اور سب اللہ کے سچے پیغامبراور برگزیدہ بندے تھے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان سب کو سچا تسلیم کرنا اور ان پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لیے لازمی شرط ہے اور ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار انسان کو دائرہ حق پرستی سے خارج کر دیتا ہے۔ اس لیے قرآن جب سے نازل ہوا ہے، ساری دنیا کے لیے ہدایت نامہ ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے لیے رسول بنا کر مبعوث کیے گئے ہیں۔ 
قرآن مجید کے برحق ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ ایسی تعلیم دیتا ہے جو سب انسانوں کے فطری رجحانات کی آئینہ دار اور ساری نوع انسانی کے فائدہ کے لیے ہے اور قرآن کی عالم گیریت محض اس بنا پر ہے کہ وہ کل انسانیت کی کتاب ہے۔ قرآن کی تعلیمات انسانیت کی طرح عالم گیر، ہمہ گیر اور دائمی ہیں۔ وہ ہر ملک کے لیے ہیں، ہر قوم کے لیے ہیں اور ہر زمانہ کے لیے ہیں۔ یہ اس لیے کہ قرآن کریم دینِ اسلام کا ترجمان ہے اور دین اسلام کسی ایک ملک قوم یا زمانہ کے لیے مخصوص نہیں بلکہ اسلام تمام انسانیت کا دین ہے اور ہر زمانہ کے لیے ہے اور قرآن کریم ہی اس دین کا قانونِ اساسی ہے۔ قرآن مجید جیسا کہ اپنے نظریات میں بے نظیر ہے، ایسا ہی عملیات میں بھی اس کی نظیر نہیں پائی جاتی ۔ کسی کتاب کا اعلیٰ اور عمدہ ہونا صرف اس اعتبار سے نہیں دیکھا جاتا کہ یہ کتاب نظری حیثیت سے بلند اور بے مثل ہے بلکہ اس کتاب کو عمل و نتیجہ سے دیکھا جانا بھی ضروری ہے، یعنی اس اعتبار سے کہ وہ کتاب خارج میں معاشرہ پر کیا اثر ڈالتی ہے اور اس پر عمل کرنے سے کیسے نتائج مرتب ہوتے ہیں اور یہ کس قسم کی سوسائٹی پیدا کرتی ہے۔ پس قرآن مجیدکو جب اس اعتبار سے دیکھا جاتا ہے تو قرآن اپنے عملی نتائج کے اعتبار سے بھی بے نظیر کتاب ثابت ہوتی ہے۔ جیسی سوسائٹی قرآن نے بنائی، اس سوسائٹی سے بہتر سوسائٹی کوئی کتاب بھی پیدا نہیں کر سکی۔ اس سے قرآن کی عظمت کا صحیح اندازہ ہو سکتا ہے ( مثلاً جو لوگ زانی تھے ، قرآن کی تعلیم و تربیت سے عورتوں کی عصمت کے محافظ بن گئے۔ بعض لوگ اشتراکیت کی بڑی مبالغہ سے توصیف کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تحریک نامکمل ہے ۔ )
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام انسانیت کے لیے رسول و نبی ہونا ان شرائط سے ثابت ہوتا ہے کہ :
(۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص قوم یا نسل یا طبقہ کی بھلائی کے لیے نہیں، بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کی بھلائی کے لیے کام کیا ہے ۔ 
(۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے اصول پیش کیے جو تمام دنیا کے انسانوں کی رہنمائی کرتے ہیں اور جن میں انسانی زندگی کے تمام اہم مسائل کا حل موجود ہے ۔
(۳) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کسی خاص زمانہ کے لیے نہیں ہے بلکہ ہر زمانے اور ہر حال میں یکساں مفید ، یکساں صحیح اور یکساں قابلِ پیروی ہے ۔ 
(۴) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اصول پیش کرنے پر ہی کفایت نہیں کی بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کو زندگی میں عملاً جاری کر کے دکھایا ہے اور ان کی بنیا د پر ایک جیتی جاگتی سوسائٹی قائم کر کے دکھا دی ہے۔
پس جو شخص بھی سلامتئ فکر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرے گا، وہ ایک نظر میں یہ محسوس کر لے گا کہ یہ کسی قوم پرست یا محبِ وطن کی زندگی نہیں ہے بلکہ ایک محبِ انسانیت اور عالم گیر نظریہ رکھنے والے انسان کی زندگی ہے جن کی نگاہ میں تمام انسان یکساں تھے۔ کسی خاندان، کسی طبقے، کسی قوم، کسی نسل یا کسی ملک کے خاص مفاد سے انہیں دلچسپی نہیں تھی۔ امیر و غریب، اونچ اور نیچ، کالے اور گورے، عرب اور غیر عرب، مشرقی اور مغربی، سامی اور آرین، سب کو وہ ایک نظر سے دیکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی ہی میں حبشی، ایرانی، رومی، مصری، اسرائیلی اسی طرح رفیقِ کار بنے جس طرح عرب، اور ان کے بعد زمین کے ہر گوشے میں ہر نسل و قوم کے انسانوں نے ان کو اسی طرح اپنا رہنما تسلیم کیا جس طرح ان کی اپنی قوم نے۔ اسی کا کرشمہ ہے کہ آج ہندوستانی کی زبان سے بھی اس شخص علیہ الصلوۃ والسلام کی تعریف سنی جا رہی ہے جو صدیوں پہلے عرب میں پیدا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص قوموں اور مخصوص ملکوں کے وقتی اور مقامی مسائل سے بحث کرنے میں اپنا وقت ضائع نہیں کیا بلکہ اپنی پوری قوت انسانیت کے اسی بڑے مسئلے کو حل کرنے پر صرف کردی جس سے تمام انسانوں کے سارے چھوٹے چھوٹے مسائل خود حل ہو جاتے ہیں۔ وہ بڑا مسئلہ کیا تھا؟ انسان کی خدا سے بغاوت، یہ بغاوت تمام خرابیوں کی جڑ ہے، اس لیے کہ خدا سے باغی ہو کر انسان لازمی طور پر دو میں سے ایک صورت اختیار کرتا ہے۔ یا تو وہ اپنے آپ کو خود مختار اور غیر ذمہ دار سمجھ کر من مانی کارروائیاں کرنے لگتا ہے اور یہ رویہ اس کو ظالم بنا دیتا ہے، یا پھر وہ خدا کے سوا دوسروں کے آگے سر جھکانے لگتا ہے اور اس سے بے شمار فساد کی صورتیں دنیا میں پیدا ہوتی ہیں، اس لیے کہ ایسا کرنا حقیقت کے خلاف ہے اور جو کام حقیقت کے خلاف ہو، اس کے نتائج برے نکلتے ہیں ۔ 
اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف خیالی نقشہ ہی پیش نہیں کیا بلکہ اس نقشہ پر ایک زندہ سوسائٹی پیدا کر کے دکھا دی۔ انہوں نے ۲۳ سال کی مختصر مدت میں لاکھوں انسانوں کو خدا کی حکومت کے آگے سر اطاعت جھکانے پر آمادہ کر لیا اور ان کوجمع کر کے خالص ایک خدا کی بندگی پر ایک نظامِ اخلاق ، نظام تمدن ، نظامِ معیشت اور نیا نظامِ حکومت بنایا اور تمام دنیا کے سامنے اس کا عملی مظاہرہ کردیا کہ وہ جو اصول پیش کر رہے ہیں، اس پر کیسی زندگی بنتی ہے اور دوسرے اصولوں کی زندگی کے مقابلے میں وہ کتنی اچھی ، پاکیزہ اور کتنی صالح ہے ۔ 
یہ وہ کارنامہ ہے جس کی بنا پر ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سردارِ عالم اور پیغمبرِ عالم کہتے ہیں ۔ جب مذہب اسلام سب کے لیے ہے اور اس کی کتاب قرآن سب کے لیے ہے اور اس کا رسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے لیے ہے، یہ تینوں چیزیں بلا تفریق انسانیت کی مشترکہ میراث ہیں جن پر کسی کا حق دوسرے سے کم یا زیادہ نہیں ہے ، جو چاہے اس سے فائدہ اٹھائے، پھر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس کے خلاف کسی کو تعصب رکھنے یا نظر انداز کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
اس وقت ہر ملک و قوم کے عقل مند حلقوں کا رجحان اس طرف ہو رہا ہے کہ اپنے اپنے فکری نظاموں کو عالم گیر اور انسانیت کا ترجمان بنا کر پیش کررہے ہیں اور تمام دنیا میں امن و سلامتی قائم کرنے کے لیے متحدہ بین الاقوامی حکومت کی ضرورت پیش کی جا رہی ہے۔ ایسے وقت میں اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اسلام ( جس سے بہتر انسانیت کے لیے کوئی مذہب، کوئی فلسفہ، کوئی تمدن اور کوئی قانون میسر نہیں آ سکتا) جو سب کے لیے بلا تفریق، مذہب قرار دیے جانے کا مدعی ہو اور وہ بہترین نظامِ حکومت پیش کر سکتا ہو، پھر بھی اسلام جیسے عالم گیر اور بہترین نظامِ زندگی پیش کرنے والے مذہب سے حقیقت کے متلاشی اور صداقت کے خواست گار، عقل مند اور مفکر انسانوں کا پہلو تہی کرتے رہنا حیرت انگیز ہے اور بے انصافی ہے۔ 
غیر از خدا ہر چہ پرستند ہیچ نیست 
بے دولت است آں کہ بہ ہیچ اختیار کرد 
(خدا کے علاوہ لوگ جس کسی کو بھی پوجتے ہیں، اس کی کوئی حیثیت نہیں اور وہ شخص بڑا محروم القسمت ہے جو بے حیثیت چیز کا انتخاب کر لے۔)
مذہب اسلام کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا، ایک حقیقت اور نفس الامر بات کو بیان کیا گیا ہے ۔ یہ کوئی خوش فہی ، حسنِ عقیدت اور مبالغہ پر مبنی نہیں ہے۔ اگر دنیا والے امن اور سلامتی کی زندگی چاہتے ہیں توان کو چاہیے کہ ٹھنڈے دل سے بخوشی و رضامندی ابھی سے اسلام کو تسلیم کر لیں، ورنہ آئندہ چل کر ٹھوکریں کھانے کے بعد لامحالہ ان کو اسلام کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ اگر غیر مسلم عقیدتاًاور مذہباً تسلیم نہ کرنا چاہیں تو ان کو اختیار ہے، اسلام کی طرف سے جبراً مطالبہ نہیں، لیکن نظماً اور سیاسۃً بھی اسلام سے بہتر کوئی نظام نہیں۔ اگر کسی صاحب کو اس کے متعلق تردد ہو تو وہ اسلام کے اصول و فروع کا مطالعہ کرکے اپنی تسلی کر سکتا ہے، یہاں سب باتیں تفصیل سے بیان نہیں کی جا سکتیں۔ 

قائد اعظم اور فوج کا سیاسی کردار

پروفیسر شیخ عبد الرشید

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ایک آئین پسند، جمہوری فکر کے حامل راہنما تھے جنہوں نے جمہوری جدوجہد، آئینی سیاست اور عوامی حمایت سے پاکستان حاصل کیا اورحصول آزادی کے فیصلہ کن ایام میں ۹جون ۱۹۴۷ء کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ ’’میں نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔ جب فیلڈ مارشل آرمی کو فتح سے ہمکنار کرتاہے تو اس کے بعد سول اتھارٹی کنٹرول سنبھال لیتی ہے۔‘‘ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ قائداعظم نئی ریاست میں سویلین کنٹرول کے حامی اور خواہشمند تھے۔ وہ ملک میں جمہوری نظام اور جمہوریت کے فروغ کے لیے ہی کوشاں تھے۔ اس حوالے سے ان کی سوچ شروع ہی سے واضح تھی۔ ۱۹۴۶ء میں دہلی میں رائٹرز Reuters کے نامہ نگار ڈون کیمپبل(Doon Campbell) کو انٹر ویو دیتے ہوئے قائداعظم نے کھلے الفاظ میں اظہار کیا کہ ’’نئی ریاست جدیدجمہوری ریاست ہو گی جس میں اقتدار اعلیٰ عوام کے پاس ہو گا اور نئی قوم کے اراکین کو شہریت کے مساوی حقوق حاصل ہو ں گے۔‘‘
ایک مدبر راہنما کے طورپر معمار پاکستان کا وژن حقیقت پسندانہ اور لائق تقلید ہے۔ وہ سول اور ملٹری امور پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ تقسیم ہند سے پہلے بھی برطانوی حکمران سول و ملٹری معاملات میں ان کی رائے کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ انہوں نے لارڈ چیمسفورڈ کے دور میں بمبئی میں ہونے والی صوبائی کانفرنس میں شرکت کی اور مشورہ دیا کہ ہندوستان میں کرائے کی فوج کی بجائے ایک قومی فوج (Citizen Army) تشکیل د ی جائے۔ قائداعظم کے مطالبے پر ہی ڈیرہ دون (بھارت) میں انڈین ملٹری اکیڈمی قائم کی گئی اور فوج کے لیے کمیشنڈ آفیسر تیار کیے گئے، تاہم نو آبادیاتی حکمرانوں نے سامراجی تسلط کی مضبوطی کے لیے لارڈ میکالے کی فکر پر مبنی نئی حکمت عملی اپنائی کہ ہندوستان میں ایسا طبقہ پیدا کر دیا جائے جو سامراجی آقاؤں اور مقامی رعایا کے درمیان رابطے کا ذریعہ بن سکے۔ یہ طبقہ رنگ و نسل کے لحاظ سے ہندوستانی ہو مگر فکرو عمل، رسم و رواج اور اقتدار کے اعتبار سے برطانوی ہو۔ نو آبادیاتی ہندوستان میں سول اور ملٹری زعما پر میکالے کے فلسفے کا سب سے زیادہ اثر ہوا اور گندمی انگریزوں کا طبقہ پیدا ہو گیا۔ بریگیڈیئر شمس الحق نے لکھا ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان کو فتح نہیں کیا بلکہ ہندوستان سے ہی دیسی فوج بھرتی کر کے پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا اور لگ بھگ ڈیڑھ سوسال اسی دیسی فوج کے سہارے پورے برِصغیر پر قبضہ قائم رکھا۔ انگریزوں کی افواج میں بعد میں بھی گورا سپاہیوں کی تعداد ایک تہائی سے زیادہ نہ ہوئی، البتہ افسر ہندوستانی فوج میں بھی سب کے سب انگریز ہی پیدا ہوا کرتے تھے۔ ان انگریز افسروں کے سہارے ہی برصغیر میں انگریزوں کی سلطنت قائم تھی ۔‘‘ 
نو آبادیاتی دور میں سول ملٹری تعلقات کی نوعیت یہ تھی کہ فوج کا کنٹرول حکومت برطانیہ کے ہاتھ میں تھا جبکہ مقامی کنٹرول گورنمنٹ آف انڈیا کا تھا۔ یعنی بھارت کی فوج اور دفاعی امور پربرطانیہ کا کنٹرول تھا، بھارتی مجلس قانون ساز کو صرف دفاعی بجٹ پر نظر ثانی کرنے کا اختیار حاصل تھا ۔ بھارت کے راہنما مطالبہ کیا کرتے تھے کہ دفاعی اخراجات پر مکمل اختیار دیا جائے اور دفاع کا محکمہ وزیر کے حوالے کیا جائے جو مجلس قانون ساز کو جوابدہ ہو ۔ ۱۹۳۵ء کے ایکٹ میں بھی دفاع اور خارجہ امور کے اختیارات گورنر جنرل کو دیے گئے تھے جو اسمبلی کو جوابدہ نہیں تھا، چنانچہ برصغیر میں حکومت میں سول اور ملٹری دونوں شریک کار کے طور پر کام کرتے تھے۔ فوج کی یہ حیثیت استعماری تقاضوں کے مطابق تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب تقسیم ہند کے بعد اگست ۱۹۴۷ء میں برطانوی حاکموں نے ان تمام سول اور فوجی ملازمین و افسران کو جو نو آبادیاتی ہندوستان میں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے، انہیں جبری ریٹائر کر دیا اور متاثرین نے شکایت و احتجاج کی صدا بلند کی تو انہیں حکومت برطانیہ نے جواب دیا کہ وہ ایک غلام ملک میں ’’آقائی ذہنیت ‘‘ کے ساتھ اپنے فرائض سرا نجام دیتے رہے ہیں۔ اس آقائی ذہنیت کو ایک جمہوری ملک برطانیہ عظمیٰ کی سروسز میں شامل نہیں کیاجا سکتا۔ مگراسے تاریخ کے جبر کے علاوہ کیا کہیے کہ برطانیہ کے برعکس پاکستان اور بھارت نوآبادیاتی دور کے سامراجی تربیت یافتہ فوجی زعما کو بحال رکھنے پر مجبور تھے کہ یہاں کوئی متبادل کیڈر نہ تھا۔ نو آزاد مملکت کے راہنماؤں کا فرض تھا کہ وہ سامراجی فوج کی آقائی ذہنیت اور حکمرانہ طرز فکر و عمل کو تبدیل کرنے کے لیے مناسب قانون سازی کرتے لیکن پاکستان میں دستور ساز اسمبلی نے آرمی ایکٹ ۱۹۱۱ء کو بالکل اُسی طرح اپنا لیاجیسے وہ تھا، حالانکہ یہ ایکٹ برطانوی آقاؤں نے اپنے نو آبادیاتی مفادات کے تحفظ، رعایا کے حقوق کو سلب کرنے اور آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے بنایا تھا۔ مگر ہم نے اس استعماری و نو آبادیاتی آرمی ایکٹ کو کسی ترمیم کے بغیر قبول کر کے جمہوری پاکستان پر پہلی ضرب لگائی ۔ 
برصغیر پاک و ہند کی فوج کا جدوجہد آزادی ہند یا تحریک پاکستان میں کوئی کردار نہ تھا چنانچہ حصول آزادی کے دوران فوجیوں کے دل میں پاکستان سے محبت اور والہانہ وابستگی کے جذبات جنم نہ لے سکے۔ تقسیم ہند کے فیصلہ کن مرحلے پر بھی مسلمان فوجی دل ہی دل میں بھارتی فوج کا حصہ رہ کر اپنا مقام اور اسٹیٹس قائم رکھنا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ علیحدہ ہو کر ان کی عسکری حیثیت اور شناخت کم ہو جائے گی، چنانچہ وہ پاکستان آرمی کی بجائے انڈین آرمی کہلانا زیادہ پسند کرتے تھے۔ اس کا پہلا اظہار تب ہوا جب جنوبی ایشیا میں سلامتی سے وابستہ برطانوی جرنیلوں نے تقسیم ہندکی مخالفت کی، بلکہ ان کا خیال تھا کہ تقسیم کی صورت میں بھی دونوں ریاستیں فوجی کنفیڈریشن کے طور پر مشترکہ دفاعی نظام میں رہیں گی۔ انہوں نے بالخصوص فوج کی تقسیم کی شدید مخالفت کی، لیکن قائداعظم محمد علی جناح نے انہیں یہ کہہ کر دھمکا یا کہ اگر پاکستان کو اپنی فوج کا کنٹرول نہ دیا گیا تو وہ ۱۴؍اگست کو اقتدار قبول نہیں کریں گے۔ ۳۰جون ۱۹۴۷ء کو افواج کی تقسیم کے لیے قائم کونسل کا اجلاس ہوا جس میں بھارت اور پاکستان کے فوجی اثاثوں کا تناسب ۶۴اور ۳۶تھا جو کم و بیش ہندوؤں اور مسلمانوں کے تناسب کے برابر تھا۔ چار لاکھ فوج میں سے پاکستان کو تقریباً ۳۳فیصد یعنی ڈیڑھ لاکھ فوج ملی۔ پاکستان کو چار ہزار فوجی افسران کی ضرورت تھی، لیکن اس کے پاس صرف ڈیڑھ ہزار افسر تھے جن میں پانچ سو برطانوی تھے ایک میجر جنرل ، ۲بریگیڈیئر اور ۵۳کرنل تھے۔ گیارہ مسلم ملٹری افسر سول سروس میں شامل ہو گئے۔ عارضی کمیشن ، شارٹ سروس اور اہلیت و تجربے کے بغیر قبل از وقت ترقیاں دے کر اس کمی کو پورا کیا گیا۔ فوج اور اثاثوں کی تقسیم کے مسائل کو پیش نظر رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے حصے میں آنے والی مسلم فوج پیشہ وارانہ لحاظ سے ایک کمزور فوج تھی ۔ 
یہ فوجی افسران تقسیم کے وقت بھی آزادی کے بجائے نوکریوں ،اپنی ترقیوں اور مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے۔ سپریم کمانڈر سرکلا وڈآکن لیک کے پرائیویٹ سیکرٹری میجر جنرل شاہد حامد اپنی کتاب ’’DisastrousTwilight‘‘ میں آزادی سے چند روز پہلے فوجی افسران سے قائداعظم کی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ۳؍اگست ۱۹۴۷ء کو انہوں نے اپنے گھر پر جنرل آکن لیک، بحریہ و فضائیہ کے سربراہان، پرنسپل سٹاف آفیسرزوغیرہ کو مدعو کیا اور قائداعظم کو بھی خصوصی طور پر دعوت دی۔ تقریب میں قائداعظم خوشگوار باتیں کرنے کے موڈ میں تھے۔ وہ صرف اس وقت رنجیدہ و سنجیدہ ہوئے جب ایک فوجی افسر نے پاکستان میں ترقی کے بارے میں سوال کر دیا۔ قائداعظم نے جذباتی ہو کر سوال کرنے والے کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور کہا: ’’آپ مسلمان یا تو آسمانوں سے باتیں کرتے ہیں یا دھم سے نیچے گر پڑتے ہیں۔ آپ متوازن راستہ اختیار نہیں کرسکتے۔ تمام ترقیاں اپنے وقت پر ہوں گی اور پاگل پن سے یا جلد بازی میں نہیں کی جائیں گی۔‘‘ انہی افسران کے ایک اور سوال کا جواب دینے سے پہلے ہی قائداعظم ان فوجی افسران کے ارادے اور خیالات بھانپ گئے اور بڑے دو ٹوک انداز میں فرمایا: ’’ پاکستان کی منتخب حکومت سول افراد پر مشتمل ہو گی۔ جو بھی جمہوری اصولوں کے برعکس سوچتاہے، اُسے پاکستان کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ میجر جنرل شاہد حامد کے بیان سے ظاہر ہوتاہے کہ مسلمان فوجی افسران کو آزادی اور حصول پاکستان کی خوشی کم اوراپنی نوکریوں اور ترقیوں کی فکر زیادہ تھی ۔ ایک مدبر راہنما کی حیثیت سے قائداعظم کواس ملاقات میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ فوجی افسران پاکستان کو اپنی ذاتی جاگیر بنانے کی کوششیں کریں گے، چنانچہ انہوں نے بغیر کسی ابہام کے واضح کر دیا کہ یہاں منتخب سول حکومت ہو گی اور جو اس کے برعکس خواہش رکھتاہے، وہ پاکستان منتقل ہونے کا خیال دل سے نکال دے۔
پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے انحراف کے ارادے رکھنے والے فوجی افسران کو بابائے قوم کی جانب سے اس سے زیادہ واضح انتباہ اور کیا ہو سکتاتھا، مگر اس کے باوجود نو آبادیاتی عہد کے تربیت یا فتہ یہ افسران اپنی سوچ اور عمل میں تبدیلی نہ لا سکے اور پاکستان کی آزادی کے دن بھی ان آقائی ذہنیت کے حامل افسران نے آنے والے دنوں کی نحوست کا اظہار کردیا۔ ایئر مارشل (ر) محمد اصغر خاں فوجی افسران کے اس رویے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’۱۴؍اگست کا دن تھا۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کراچی میں ایک استقبالیہ دے رہے تھے جس میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو مدعو کیا گیا تھا۔ حاضرین میں د فاعی ملازمتوں کے چند عہدیدار بھی تھے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ قائد اعظم اپنے مہمانوں کے درمیان بے تکلفی سے گھوم پھر رہے ہیں، وہ فوجی افسر بھی قائداعظم کے قریب آگئے۔ انہیں وردی میں د یکھ کر قائدا عظم نے پوچھ لیا کہ آپ لوگ کیسے ہیں؟ اس بے تکلفی سے اس گروپ کے ایک افسر کرنل اکبر خاں (بعد میں راولپنڈی سازش کیس والے میجر جنرل اکبر خاں) کو حوصلہ ملا اور انہوں نے دفاعی حکمت عملی پر اپنے خیالات کی وضاحت شروع کر دی۔ جوشِ بیان میں انہوں نے ایسے معاملات پر جو ایک جمہوری نظام میں کسی سول حکومت کی ذمہ داری ہوتے ہیں، یہ مشورہ دینا شروع کر دیا کہ دفاعی ملازمتوں کا انتظام کس طرح چلانا چاہیے۔ ابھی کرنل اکبر نے بات پوری نہیں کی تھی کہ قائداعظم نے ان کی گفتگو درمیان سے ہی قطع کر دی۔ اپنی انگلی اٹھا کر انہوں نے اکبر خاں پر کڑی نظر ڈالی اور دھیمے لہجے میں ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا کہ’’ یہ نہ بھولیے کہ آپ لوگ جو مسلح افواج میں ہیں، عوام کے خادم ہیں۔ قومی پالیسی آپ لوگ نہیں بناتے۔ یہ ہم شہری لوگ ہیں جو ان معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں اور آپ کا فرض ہے کہ جو ذمہ داری آپ کو سونپی جائے، اسے پورا کریں۔‘‘ 
قائداعظم فوجی افسران کے رویے کا مسلسل مشاہدہ کر رہے تھے اور بھانپ گئے تھے، چنانچہ انہوں نے ہر موقع پر سول اداروں اور سول قیادت کی بالادستی کی پر زور تلقین کی۔ وہ سول و ملٹری ملازمین کو پیشہ وارانہ سرگرمیوں تک محدود رکھنے کے حامی تھے، مگر ابتدائی دنوں میں ہی مسلمان فوجی افسران کی بدمستی و من مانی کی شکایات ملنے لگیں۔ قائد اعظم کے خدشات کو تقویت اس وقت ملی جب ایوب خاں کو مہاجرین کی آبادکاری کے سلسلے میں سردار عبدالرب نشتر کی معاونت کی ذمہ داری دی گئی۔ سردار عبدالرب نشتر نے قائد اعظم کو رپورٹ پیش کی کہ ایوب خاں نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں اور اس کا رویہ پیشہ وارانہ نہیں ہے۔ قائداعظم نے رپورٹ کی فائل پر لکھا کہ ’’میں اس آرمی آفیسر کو جانتا ہوں۔ وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے۔ اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس مدت کے دوران بیج نہیں لگائے گا۔‘‘ ابتدائی مہینوں میں قائداعظم کو ملٹری افسران کی سول اتھارٹی کی تابعداری کے حوالے سے ایک اور تجربہ ہوا۔ میجر جنرل شاہد حامد کے مطابق ۲۷؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو قائداعظم نے کمانڈر انچیف سرڈگلس گریسی کو حکم دیا کہ افواج پاکستان کو جموں و کشمیر بھیجا جائے اور سری نگر اور درہ بانہیال پر قبضہ کر لیا جائے۔ جنرل گریسی نے گورنرجنرل کے احکامات کی تعمیل سے انکار کر دیا۔ جنرل گریسی کے پرائیویٹ سیکرٹری ولسن کے مطابق ماؤنٹ بیٹن نے گریسی کو فون کیا اور دھمکی دی کہ اگر اس نے فوج کو کشمیر کی جانب روانہ کیا تو وہ یقین کر لے کہ اسے’’ نائٹ ہُڈ‘‘ کا خطاب نہیں ملے گا۔ گریسی نے اس کی مشروط اطاعت کی ۔ ‘‘ جنرل گریسی کی حکم عدولی نے ملک میں فیصلہ سازی کے عمل پر سوالیہ نشان لگادیا۔ جنرل گریسی کے گورنر جنرل کے احکامات سے انکار نے فوج کے تابعداری نظام کا پول بھی کھول دیا۔ ایسی فوج جس کی روایت میں سول حکومت کی وفاداری شامل ہو، وہ سیاسی مداخلت نہیں کرتی کیونکہ فوجی تنظیم کی اساس تابعداری ہے۔ ہر رینک اپنے سے اوپر والے کی اطاعت کرتاہے۔ یہ سلسلہ اعلیٰ فوجی مناصب تک جا پہنچتا ہے جہاں military top brass سول اتھارٹی کی مطیع ہوتی ہے، یعنی فوج کا مطلب ہی حکم بجا لانا ہے ۔ ان معنوں میں جنرل گریسی نے سربراہ مملکت کے حکم کی تعمیل نہ کر کے فوج کے مستقبل کے ارادوں کو آشکارا کر دیا۔ 
فوج کی پیشہ وارانہ امور کے بجائے دیگر امور میں دلچسپی کے حوالے سے ایک اورواقعہ ایوب خاں نے خود نوشت سوانح عمری’’ فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ میں درج کیا ہے کہ وہ مشرقی پاکستان میں جی او سی تھے جب یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو وہاں کے طلبہ اپنے مطالبات کے لیے سخت احتجاج کر رہے تھے۔ انہوں نے اسمبلی کی عمارت پر حملہ کرنا چاہا۔ ایوب خاں نے فوجی یونٹ کی مددسے اسمبلی کو گھیرے میں لے لیا اور طلبہ کو اسمبلی کی عمارت میں داخل ہونے سے روکا ۔ اسی واقعہ کی وضاحت Brain Cloughleyنے اپنی کتاب میں یوں کی ہے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایوب خاں کو احساس ہوا کہ سیاستدان ہنگامی صورتحال میں فوج کی مدد کے بغیر اپنا تحفظ نہیں کر سکتے۔ ایوب خاں نے جی او سی کی حیثیت سے وہاں کے اپوزیشن لیڈر محمد علی بوگرہ سے یہ الفاظ کہے کہ Are you looking for a bullet?کیا تم گولی کا انتظار کر رہے ہو؟ اسی ایک جملے کے نفسیاتی تجزیے سے اندازہ ہو جاتاہے کہ فوج کے عام افسر ۱۹۴۸ء میں ہی سیاستدانوں پر غلبہ پا چکے تھے۔
باوجود یکہ پاکستان کی آزادی میں فوج کا کوئی کردار نہیں تھا، اس آزادی کے تحفظ کے لیے پاکستان کو ایک فوج کی ضرورت تھی، خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاک فوج کی ناکامی نے سکیورٹی کو پاکستان کی اولین ترجیح بنا دیا تھا ۔ میجر جنرل شیر خاں کی ہدایت پر قدرت اللہ شہاب نے ۴۸۔۱۹۴۷ کی کشمیر جنگ کے بارے میں تحقیق کی تو ظاہر ہوا کہ کشمیر کی جنگ کے دوران میجر یحییٰ خاں اور لیفٹیننٹ کرنل اعظم خاں محاذ سے بھاگ گئے تھے اور انہوں نے اپنی رجمنٹ کے جوانوں تک کو بھی اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ ایسی کمزور فوج کو مضبوط بنانے کا احساس ملک بھر میں پیدا ہوا چنانچہ سول حکمرانوں نے ابتدائی سالوں میں ملک کا ستر فیصد بجٹ دفاع پر خرچ کرنا شروع کر دیا۔
مذکورہ واقعات اور فوجی افسران کے رحجانات ہی تھے جنہوں نے بابائے قوم کو پریشان کر رکھا تھا۔ وہ ۲۵ مارچ ۱۹۴۸ کو مشرقی بنگال کے گزٹیڈ افسروں سے خطاب کرنے گئے تو انہوں نے اسی پس منظر میں سرکاری ملازمین کو ان کے فرائض سے آگاہ کیا اور فرمایا ’’دوسرانکتہ مختلف محکموں میں عوام الناس کے ساتھ آپ کے رویے اور برتاؤ کا ہے۔ آپ جہاں بھی ہوں، پرانے تاثر کو ذہن سے نکال دیجیے۔، آپ حاکم نہیں ہیں، آپ کا حکمران طبقے سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ کا تعلق خدمت گاروں کی جماعت سے ہے۔ عوام الناس میں یہ احساس پیدا کر دیجیے کہ آپ ان کے خادم اور ان کے دوست ہیں۔‘‘ قائداعظم کی یہ تقریرسول اور ملٹری افسران کے لیے ضابطہ اخلاق کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں ان کی حدود کا تعین ہے اور سیاست سے دور رہنے کی تلقین و پابندی بھی۔ 
جنرل گریسی سے ایوب خاں تک فوجی افسران کی اہلیت و کارکردگی، عزم اور عزائم دیکھنے کے بعد جب بانی پاکستان ۱۴؍جون ۱۹۴۸ء کو پہلی اور آخری دفعہ سٹاف کالج کوئٹہ گئے تو وہاں انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر افسران کو فراموش کردہ فرض شناسی یاد دلائی اور’’ایک دو بہت اعلیٰ عہدے کے افسران‘‘ کی لاپرواہی کے رویے پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس موقع پر خطاب میں انھوں نے ان افسران کو خبردار کیا کہ ان میں سے بعض افسران پاکستان سے کیے ہوئے اپنے حلف کے مضمرات سے آگاہ نہیں ہیں۔ پھر انہوں نے دوران تقریر ان فوجی افسران کو یاد دہانی کے لیے ان کا ’’حلف‘‘ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اسے سمجھیں۔ انہوں نے فوجی افسران کے حلف کی یادداشت کو تازہ کرنے کے فوری بعد فرمایا کہ ’’جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے کہ جذبہ ہی اصل اہمیت کا حامل ہے، میں چاہوں گا کہا کہ آپ اس آئین کا مطالعہ کریں جو اس وقت پاکستا ن میں نافذ ہے اور اس کے حقیقی آئینی اور قانونی تقاضوں کا ادراک کریں۔ جب آپ یہ عہد کرتے ہیں کہ آپ ڈومینین کے آئین کے وفادار رہیں گے، میں چاہتاہوں کہ آپ اسے یاد رکھیں اور وقت ملنے پر گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کا مطالعہ کریں جسے پاکستان میں نافذ کرنے کے لیے قبول کر کے، گورنر جنرل کی منظوری سے موافق بنایا گیا ہے۔ یہی قانونی پوزیشن ہے۔‘‘ قائداعظم کا فوجی افسران سے خطاب بڑا واضح اور غیر مبہم ہے جس میں تکرار کے ساتھ آئین اور حلف کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ چونکہ قائداعظم کی زندگی ہی میں فوج نے آئین اور حلف سے ماورا سرگرمیاں شروع کردی تھیں، اس لیے آئین پسند گورنر جنرل کو خود انہیں آئین اور حلف کی اطاعت کی یاد دہانی اور تاکید کرنا پڑی مگر سیاسی تاریخ شاہد ہے کہ مسلح افراد کا کردار قائداعظم کے ارشادات و فرمودات کے بالکل برعکس رہا۔
گورنر جنرل اور بابائے قوم سے وفاداری کاایک اور مظاہرہ ۱۱؍ستمبر ۱۹۴۸ کو بھی دیکھنے کو ملا۔ جب شدیدبیماری کے عالم میں بابائے قوم کو آرمی کی ایمبولینس میں ایئر پورٹ سے گورنر جنرل ہاؤس لے جایا رہا تھا تو انتہائی ڈسپلن اور مثالی کارکردگی والی فوج کی ایمبولینس مختصر راستے میں ہی خراب ہو گئی اور وفادار فوج کوئی متبادل انتظام نہ کر پائی اور قائداعظم کسمپرسی کے عالم میں برلب سڑک آرمی ایمبولینس میں ہی دم توڑ گئے۔ یہ المناک واقعہ قائداعظم کے ساتھیوں اور سول ملٹری ملازمین کی بے حسی اور بانی پاکستان سے محبت کے فقدان کا نمایاں مظہرہے۔ وہ قائداعظم جو بار بار زعما کو یہ یاد کراتے رہتے تھے کہ ’’مجھے یقین ہے کہ جمہوریت ہمارے خون میں شامل ہے۔ یقیناًیہ ہماری ہڈیوں کے گودے میں ہے۔ صدیوں کے ناموافق حالات نے ہمارے خون کی گردش کو سرد کر دیا ہے۔ خون منجمد ہو چکا ہے اور ہمارے جسم کی شریانیں کام نہیں کر رہیں۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ خون دوبارہ گردش کرنے لگا ہے۔ اب یہاں عوام کی حکومت ہو گی۔‘‘ قائداعظم آشنا تھے کہ فوج فکر، ذہن، مزاج اور فطرت کے لحاظ سے نوآبادیاتی فوجی روایات کی امین ہے۔ اسے مزاج ، فطرت اور سٹرکچر کے اعتبار سے آزاد پاکستان کی فوج بنانے کی ضرورت ہے۔ جو بانی پاکستان آقائی ذہنیت کو برا بھلا کہہ کر عوام کی حکمرانی کا درس دیتے تھے، انہیں آرمی ایمبولینس میں سڑک پر عوام کے سامنے تماشہ بنا کر رکھ دیا گیا اور پھر ان کی وفات کے بعد ان کے افکار کو بھی ان کی میت کے ہمراہ تابوت میں بند کر کے سپرد خاک کر دیا گیا۔ بعد ازاں ان کے افکار و نظریات نے ریاست میں ڈیکوریشن پیس کی حیثیت حاصل کر لی اور پھر سول ملٹری بیوروکریٹ یا طالع آزما جنرل نے جیسے چاہا، قائداعظم کے ویسے ہی سرکاری اقوال نشر ہونے لگے۔ قائداعظم کی زندگی میں ہی اور پھر ان کی وفات کے بعد بھی فوج نے قائد کے تصورات کی بجائے ان کے خد شات کو سچ کر دکھایا ۔ ۱۹۵۱ء کی راولپنڈی سازش سے لے کر اب تک فوج کی مداخلت، آئین اور حلف سے انحراف قائداعظم کی روح کو بے چین کیے ہوئے ہے۔ 
افکار قائداعظم کے برعکس حکمرانی کا عزم لے کر بیرکوں سے نکلے ہوئے فوجی افسران جب بنگلوں میں پہنچے تو واپسی کا راستہ ہی بھول گئے۔ گویا اپنے فرض کو بالائے طاق رکھ دیا۔ ورنہ کیا مشرقی پاکستان علیحدہ ہوتا؟ سیاچن اور کارگل کی ہزیمت ہمیں اٹھا نا پڑتی؟ قائداعظم کی آنکھیں بند ہونے کے بعد جرنیلوں اور ان کے بڑھائے ہوئے سیاسی مہروں نے قومی مفادات کے بجائے ذاتی مفادات کو اہمیت دی۔ اقتدار پر بالواسطہ اور بلاواسطہ قبضوں کا سلسلہ جاری ہو گیا اور پھر اپنے قبیلے کے دیگر ساتھیوں یعنی اعلیٰ افسران کی ہمدردیوں اور وفاداریوں کے لیے بے پناہ مراعات کا بازار گرم ہوا۔ قومی اداروں کی سربراہی سے لے کر غیر ملکی سفارتی عہدوں تک کو اپنے ساتھی جرنیلوں یادیگر فوجی عہدیداران کے حوالے کر دیاگیا۔ جرنیلوں اور وردی کی چھتری تلے سانس لینے والے عوامی حمایت سے محروم ابن الوقت ٹولے نے ملی مفادات کا سودا نہایت سستے داموں شروع کر دیا۔ اس روش اور تسلسل و دوام کے باعث ہر طرف مایوسیوں، ناامیدیوں اور غیر یقینی کے مہیب سائے پھیل گئے اور اب تو یہ صورتحال ہے کہ الامان و الحفیظ۔
گزشتہ چھ دہائیوں سے قائداعظم کے تصورات اور ان کا پاکستان نو آبادیاتی نظام کی باقیات کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ حکمران ٹولے کو تو اپنے مفادات سے فرصت نہیں مگر قائداعظم کی بے چین روح چودہ کروڑعوام کی حرکت کی منتظر ہے جن کی حکمرانی کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا۔ جب تک پاکستان میں جمہوریت حقیقی معنوں میں بحال نہیں ہو جاتی، فوج بیرکوں میں واپس جا کر اپنے حلف اور آئین کی حدود کی پابند نہیں ہو جاتی، سول اداروں اور سویلین قیادت کی بالادستی قائم نہیں ہو جاتی، قائداعظم کی روح کو قرار نہیں آسکتا۔ کیا ہم اتنے بے حس اور اتنے بے بس ہو گئے ہیں کہ بابائے قوم کے پاکستان کو آزاد کرانے کے لیے اٹھ کھڑے نہیں ہو سکتے؟ کیاکارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا ہے؟ 
قائداعظم نے ہمیں انگریز آقاؤں کی غلامی سے نجات دلائی لیکن قائداعظم کے پاکستان میں بسنے والے ۱۴کروڑ عوام میں کوئی ایسا نہیں جو ہمیں لارڈ میکالے کے فکری سانچے میں ڈھلنے والے آقائی ذہنیت کے حامل فوجی طالع آزماؤں سے نجات دلاسکے۔ جب تک وطن عزیزمیں فوج کی سیاست میں مداخلت اور حکمرانی جاری رہے گی، قائداعظم کا پاکستان معرضِ وجود میں نہیں آسکے گا۔ فوجی طالع آزماؤں نے بانی پاکستان اور شہدائے پاکستان کی جمہوری کاوشوں سے حاصل کردہ پاکستان کو اپنی ہوسِ اقتدار کی بھینٹ چڑھا دیا۔ کیا موجودہ پاکستان قائداعظم کا پاکستان ہو سکتا ہے؟ سادہ الفاظ میں کیا قائداعظم کے پاکستان میں فوج کا کوئی سیاسی کردار ہو سکتاہے؟ یہ سوال ہمارے تاریخی ارتقا کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہو گیا ہے۔ 

سنت کی دستوری اور آئینی حیثیت

ڈاکٹر محمد سعد صدیقی

(الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں فکری نشست سے خطاب۔)

الحمد للہ وکفیٰ وسلام علی ٰعبادہ الذین اصطفیٰ اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلو علیھم اٰیاتک ویعلمھم الکتب والحکمۃ ویزکیھم انک انت العزیز الحکیم۔ صدق اللہ العظیم
جناب صدر محترم! میرے بہت عزیز بھائی اور ساتھی ڈاکٹر عبد اللہ صاحب، برادر عزیز جناب اکرم ورک صاحب، اساتذہ کرام و معزز حاضرین!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرے لیے یہ بڑی خوش قسمتی اور سعادت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ پھر مجھے اس علمی ادارے میں حاضری کا شرف بخشااور آپ حضرات سے ملنے اور آپ حضرات کی زیارت کاموقع مرحمت فرمایا۔ لیکچراور گفتگو تو ایک بہانہ ہوتا ہے، اصل مقصد تو کسی علمی ادارے میں آنا، کسی علمی ادارے کو دیکھنا اور احباب سے ملاقات و گفتگو کرنا ہوتا ہے، اس لیے کہ احباب سے ملاقات اور علمی احباب سے ملاقات بجائے خود ایک علمی مجلس ہوتی ہے اور بجائے خود ایک ثواب کا اور ایک عبادت کا کام ہے۔ باقی یہ کہ میں کیا گفتگو کروں گا؟ میں جو گفتگو کروں گا، وہ یقیناًپہلے سے آپ حضرات کے علم میں ہوگی۔ شاید ہی کوئی ایسی بات ہو جو آپ حضرات کے لیے نئی ہو یا شاید ہی کوئی ایسی بات ہو جو آپ حضرات کے علم میں اضافے کا باعث ہو۔ جہاں تک موضوع کا تعلق ہے، تو سنت کی دستوری اور آئینی حیثیت پر گفتگو ہو گی، اس کے ضمن میں سنت سے استنباط اور استخراج مسائل کے فقہا کے جو اسالیب ہیں، اس پر بھی تھوڑی سی گفتگو ہو گی ۔
سنت کے حوالے سے اس طرح کی گفتگو اور اس طرح کا مواد آپ کو بے شمار کتابوں میں ملے گااور وہ یقیناًآپ حضرات نے پڑھ رکھا ہو گااور آپ کے علم میں ہوگا، لیکن اس وقت جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اور جن حالات کا ہمیں سامنا ہے، ایک علمی ادارے سے وابستگی اور دین سے وابستگی کی وجہ سے ان حالات میں ہماری ذمہ داریاں کچھ بڑھ گئی ہیں۔ تہذیبی، ثقافتی اور تمدنی اعتبار سے جس طریقے سے دین اسلام کو اور دین اسلام کی اقدار وروایات کو جس طرح تباہ وبرباد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور گلوبلائزیشن کی شکل میں پوری دنیا کی سطح پر ایک فتنہ جو ہمارے سامنے موجود ہے، ہمیں اس فتنے کا احساس، ادراک اور علم بھی ہونا چاہیے اور اس فتنے کے تدارک کے لیے بھی ہمیں کچھ سوچنا چاہیے۔ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اورمشکل یہی ہے ۔
ابھی پچھلے دنوں ریڈیو کے ایک سیمینار میں شریک تھا۔ اس میں، میں نے یہ بات کہی کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس وقت جاگتے ہیں جب کوئی فتنہ پوری امت مسلمہ کے اندر جڑ پکڑ چکاہو اور وہ فتنہ امت مسلمہ کو، اس کے ایک طبقے کویا ایک جگہ کے لوگوں کو ایسی جگہ پر پہنچا چکا ہو جہاں سے واپسی بڑی مشکل نظر آتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بروقت فتنے کا ادراک نہیں کر سکتے اور اس کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ اس کا احساس ہمیں تب ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ اس وقت جو سب سے بڑا فتنہ ہمارے سامنے ہے، اس فتنے کا ادراک ہمیں ہونا چاہیے اور اس کے ادراک کے ساتھ ساتھ اس کے تدارک کی جو تدابیر ہیں، ان سے بھی ہمیں آگاہ ہونا چاہیے ۔ وہ فتنہ کیا ہے ؟وہ فتنہ یہ ہے کہ مذہب پرستی اور مذہبی بنیادوں پر انسانوں کی شناخت اور ان کا امتیاز ختم ہو جائے۔ کسی کا کوئی مذہب نہ ہو۔ نہ کوئی مسلمان ہو ،نہ عیسائی ہو ،نہ سکھ ہو، نہ ہندو ہو۔ کسی کا کوئی مذہب نہ ہو اور کوئی انسان اس قسم کا ٹائیٹل اپنے اوپر چسپاں کر نے والا نہ ہو،بلکہ انسانیت کی بنیادوں پر سب ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے والے اور ایک دوسرے کے نظریات اور عقائدوافکار کا احترام کر نے والے اور رواداری کاسبق پڑھنے والے ہوں۔
میں ایک دفعہ ایک مجلس میں تھا تو وہاں یہ بات سامنے آئی، بعض لوگوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ اس وقت اتحاد امت کے حوالے سے جو فکر امت میں پیدا ہو رہی ہے، یہ بڑی مستحسن چیز ہے تو میں نے اس پر یہ عرض کیا کہ معاف کیجئے گا، جو چیز آپ کو مستحسن نظر آرہی ہے، مجھے تو اس میں سے فتنے کی بو آرہی ہے۔ ہمارے ایک دوست کہنے لگے !صاحب آپ کیا کسی فتنے کی بو میں پڑ گئے ہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ میں نے پھر وہی عرض کیا کہ جناب مجھے تو اس سے فتنے کی بو آرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کس فتنے کی بو آرہی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس فتنے کی بو آرہی ہے کہ جب ہم اتفاق و اتحادکا سبق پڑھ لیں گے تو اس کے معنی یہ ہو ں گے کہ کوئی بھی شخص آپ کے سامنے بیٹھ کر جیسے چاہے دین کا حلیہ بگاڑے، آپ نہیں بولیں گے، کیونکہ آپ نے اتحاد واتفا ق کا سبق سیکھا ہوا ہے۔آج وہ بات ہمارے سامنے موجود ہے۔ آج اگر آپ کے سامنے کوئی دین کا حلیہ بگاڑتاہے اور آپ بولتے ہیں تو فوراً آپ پر فرقہ پر ستی ، دہشت گردی ،انتہاپسندی اور فرقہ وارانہ فسادات کے پھیلانے کا الزام لگ جاتا ہے۔ یہ فتنہ آج ہمارے درمیان موجود ہے اور پنپ رہا ہے کہ مذہبی بنیادوں پر انسانوں کی جوشناخت ہے، مذہبی بنیادوں پرانسانوں کی جو تہذیب ہے اور مذہب کی بنیادوں پر انسانوں کی جو ثقافت تعمیر ہوتی ہے، اسے ختم کیا جائے اور انسان کی کوئی بھی ثقافت، کوئی بھی تمدن، کوئی بھی معاشرت مذہب کی بنیادوں پر قائم نہ ہو۔
یہ فتنہ ہے۔ اس فتنے کے ادراک اور تدارک کا معاملہ جب آتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کے تدارک میں سنت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔آپ اسلام کی بنیاد پر اپنے آپ کو دوسری قوموں سے ممتاز اور نمایاں کرنا چاہتے ہیں، آپ اگر اسلامی ثقافت وتہذیب کو رائج کرنا چاہتے ہیں، اسلام کے تمدن اور اسلامی معاشرت کو رائج کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو سنت کا سہارا لینا پڑے گا۔ سنت کا سہارا لیے بغیر نہ آپ اسلام کی شناخت پیدا کر سکتے ہیں نہ اسلامی تہذیب وتمدن پیدا کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسلامی معاشرت پیدا کر سکتے ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے ہمیں سنت کی عظمت اور سنت کی اہمیت کا ادراک ہونا چاہیے۔ اس وقت اس حوالے سے جو فتنہ ہمارے سامنے آرہا ہے، اس میںیہی بات ہمارے سامنے آرہی ہے کہ سنت کی حیثیت اور سنت کی عظمت کم کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ نعرہ لگایا جا رہا ہے کہ قرآن ایک مکمل کتاب ہے ، ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور حیات ہے۔ہمیں اس قرآن سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے اوراس قرآن کو دیکھنا چاہیے۔ اس حوالے سے سنت کے متعلق آپ کی معلومات کو تازہ کر نا ہے اور اس پر پڑی ہوئی گرد کو ہٹانا ہے تاکہ سنت کے حوالے سے ہمارے اندر صحیح فکر پیدا ہو۔ 
سنت کی جو تعریف علماے اصولیین، ماہرین اصول فقہ نے کی ہے، ان میں سے علامہ آامدی ’’الاحکام فی اصول الاحکام‘‘ میں سنت کی تعریف یہ بیا ن فرماتے ہیں کہ ’’سنت کا اطلاق ان تمام امور پر ہوتا ہے جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں یا وہ تمام دلائل جو آپ سے قولاًیا عملًا ثابت ہیں، لیکن وہ قرآن نہیں ہیں۔‘‘ یہ بات ذرا قابل غور ہے۔ تعریف کا آخری جز یہ بتلاتا ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً اورعملًا ثابت ہیں، لیکن وہ قرآ ن نہیں ہیں۔اس کا معنی یہ ہوئے کہ ہم اسے ا س واسطے چھوڑ نہیں سکتے کہ یہ آپ سے ثابت تو ہیں آپ کا قول اور عمل تو ہیں، لیکن چونکہ قرآن نہیں ہیں، اس لیے ہمیں اس کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ہمیں اس کی عظمت اور اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ علامہ آمدی کی تعریف کا یہ جز اسی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔
اسی بات کی طرف اشارہ ہمیں ایک اور تعریف میں ملتا ہے جو علامہ خضری بک نے کی ہے ۔وہ فرماتے ہیں کہ سنت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کا نام ہے اور اس کے آخر میں انہوں نے ایک بہت اچھی، نمایا ں اور ممتاز بات کہی: ’ویقابلہ البدعۃ‘ کہ اس کے مقابلہ میں جو لفظ آتاہے، وہ بدعت کا لفظ ہے ۔بعض اوقات ’تعرف الاشیاء باضدادھا‘ چیز کو اس کی ضد اور الٹ سے سمجھا جاتا ہے۔علامہ خضری بک کے ا س جملہ سے سنت کی اہمیت واضح ہو رہی ہے کہ دین کا حصہ وہ چیز بن سکتی ہے جو جنا ب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً، عملًا یا فعلاً ثابت ہو۔ اگر ان تینو ں میں سے کسی طرح سے بھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے تووہ دین کا حصہ نہیں بن سکتی۔ اگر بنے گی تو بدعت کہلائے گی۔ اس کے معنی یہ کہ دین کا حصہ بننے میں یا دین کی تدوین میں سنت کی کتنی اہمیت ہے ۔
یہاں میں ایک اور بات واضح کر دوں کہ آج کے دورکے جدید مفکرین اپنی ربع صدی کی تحقیقا ت کا جو نتیجہ بیان کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سنتیں ہیں، ان کی تین نوعیتیں ہیں ۔ایک آپ کے وہ اعمال و افعال اور اقوال ہیں جو آپ نے بحیثیت ایک انسان کے سر انجام دیے۔ آپ کی ذاتی عادتیں ہیں مثلاًآپ اس طرح چلتے تھے، اس طرح کھاتے تھے، اس طرح پیتے تھے، اس طرح مسکراتے تھے۔ اور کچھ چیزیں وہ ہیں جو ملت ابراہیمی کا تسلسل تھیں اوراس دور کی تہذیب وثقافت اور تمدن و معاشرت میں موجود تھیں یا ملت ابراہیمی کے تسلسل کے طور پر آپ کو القا کی گئیں اور وحی الٰہی کے ذریعے بتلائی گئیں۔ اور کچھ چیزیں وہ ہیں جو آپ نے بحیثیت ایک نبی ہو نے کے اپنی نبوی اور رسالت کی زندگی میں سر انجام دیں۔ بقول ان کے میری ربع صدی کی تحقیقات کے مطابق کل بیالیس (۴۲) سنتیں ہیں جن کو آپ نے بحیثیت نبی ہونے کے سرانجام دیا اور صرف ان سنتوں کی اقتدا اور پیروی ہمارے لیے ضروری ہے، باقی کسی چیز کی پیروی ہمارے لیے ضروری نہیں ہے۔ یہ ایک جدید فکرہے۔ اس فکر جدید کا اگر آپ کہیں سلسلہ ملانا چاہیں اور اس کی جڑتلاش کرنا چاہیں تو مجھے یوں محسوس ہوتاہے کہ علامہ اقبال ؒ نے اپنے چھٹے خطبے میں ایک بات کہی ہے کہ اصل میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سنت ہے، وہ بعض مخصوص تہذیبی روایا ت و اقدار کا مظاہرہ ہے۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خاص تہذیب اور خاص ثقافت کے اندر رہے، لہٰذا آپ نے وہ کام کیے۔ ہم چونکہ اس تہذیب سے باہر ہیں، لہٰذا ہمارے لیے ان چیزوں میںآپ کی اقتدا اور پیروی ضروری نہیں ہے۔ یہ کچھ اشارہ ہے جو ان کے چھٹے خطبے میں ہے ۔غالباً اسی اشارے سے یہ فکر پیدا ہوئی۔ بہرحال اس پر تحقیق کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے یہ بات سمجھیں کہ کیا وہ تہذیب وثقافت اور تمدن جس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر مبارک کے تریسٹھ برس گزارے ہیں، جس دن آپ اس دنیا میں تشریف لائے تھے، جیسی تہذیب اس دن تھی، ویسی ہی تہذیب تریسٹھ برس کے بعد اس دن بھی تھی جس دن آپ اس دنیا سے پردہ فرما گئے؟ ایسا ہر گز نہیں بلکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے نے جو انقلاب انسانیت کے اندر برپا کیا ہے، اس انقلاب کی مثال تاریخ انسانیت کے اندر ملناممکن نہیں، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی زمانے میں اور نہ ہی آپ کے بعد۔چودہ سو برس سے زائد توگزر چکے ہیں، آئندہ پتہ نہیں کتنے گزریں گے ۔
ہم تو بحیثیت مسلمان ہونے کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کے ان چیزوں کو مانتے ہی ہیں ۔ ایک ایسا شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی نہیں ہے، انسانی تہذیب وثقافت میں تبدیلی کرنے والی شخصیتوں کے تذکرے لکھتا ہے، وہ کہتا ہے کہ انسانی تاریخ میں سو آدمی ایسے ہیں جنہوں نے انسانی تہذیب وثقافت میں نمایاں تبدیلیاں کی ہیں اور ان سو آدمیوں میں پہلا نمبر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتا ہے، حالانکہ وہ خودعیسائی ہے لیکن اس نے حضرت عیسیٰ ؑ کو پانچویں نمبر پر رکھا ہے۔ ’’The Hundred‘‘ کے نام سے اس نے جو کتاب لکھی ہے، اس میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا نمبر ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ یہ بات تو بالکل خلاف واقعہ، جھوٹ اور غلط ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس تہذیب میں آنکھ کھولی تھی، وہ اس دن بھی ویسی ہی تھی جس دن آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔یہ بات سراسر بہتان ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تہذیب وثقافت میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔ وہ تبدیلیاں کیسے کی ہیں؟ وہ تبدیلیاں آپ نے اپنے قول وعمل سے کی ہیں۔ آپ کا وہی قول وعمل آج ہمارے لیے حجت ہے اور ہمارے لیے ایک آئینی اور دستوری حیثیت رکھتا ہے ۔
سیدنامعاذبن جبلؓ کا واقعہ تو مشہور ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجاتو پوچھاکہ تم فیصلہ کیسے کرو گے؟ حضرت معاذبن جبلؓ ؓنے کہا کہ کتاب اللہ سے کروں گا۔آپ نے پوچھا: ’فان لم تجد‘، اگر تم کتاب اللہ میں نہ پاؤ؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ پھر سنت سے کروں گا۔آپ ذرا غور فرمائیں کہ یہاں مسئلہ زیر بحث کیا ہے۔ کیا صرف معاذبن جبلؓ کی زندگی گزارنے کا معاملہ زیر بحث ہے کہ معاذ، تم زندگی کیسے گزاروگے؟ بات زندگی گزارنے کی نہیں ہو رہی تھی، بلکہ آئینی حیثیت کی ہو رہی تھی، بات قضا اور عدالت کی ہو رہی تھی، بات دستور وقانو ن کی تدوین کی ہو رہی تھی، بات قانونی نظائر بنانے اور مہیا کرنے کی ہو رہی تھی۔ ’بم تقضی‘ پوچھا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، ’بم تحیی‘ نہیں پوچھا تھا ۔ اس لیے معلوم ہوا کہ یہ معاملہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں طے ہو چکا تھا کہ قانون بنانے، اس کی تدوین کر نے، اس کے مطابق فیصلہ کرنے کے لیے کوئی قاضی، کوئی عدالت، کوئی قانون ساز ادارہ اگر کام کرے گا تو اس کا پہلا ماخذ کتاب اللہ ہو گا اور دوسرا ماخذ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہو گی ۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ نے ایسا کر کے دکھایا ۔
سنت کے حوالے سے جب ہم فقہا کی تعلیما ت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں امام ابوحنیفہ ؒ کے ہاں ایک بڑی خوب صورت تقسیم ملتی ہے۔ ایک کو وہ سنت ہدیٰ کہتے ہیں اور ایک کو سنت ز وائد۔اس سے ہمیں مسئلہ حل ہوتا ہوا ملتا ہے کہ دیکھیے، ایک معاملہ ہے سنت کی اتباع اور پیروی کا،اور ایک معاملہ ہے قانو ن سازی کا۔ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ معاملات ہیں ۔میری اور آپ کی انفرادی زندگی گزارنے کا طریقہ یا سنت کی اتباع اور پیروی، یہ علیحدہ معاملہ ہے اور قانون سازی علیحدہ معاملہ ہے۔ بعض حضرات فقہا نے جب سنت کی تعریف کی ہے تو اس میں آپ کی عادات واوصاف کو بھی شامل کیا ہے ۔ بلاشبہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اور عادتیں قانون سازی کے حوالے سے وہ درجہ اور حجت نہیں رکھتیں اور اس کی وجہ بھی یہ نہیں کہ خدانخواستہ اس کی عظمت کم ہوئی ہے بلکہ خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بنیادی اصول بتلایا اور وہ یہ ہے کہ لولا ان اشق علیٰ امتی لامرت بالسواک عند کل صلوٰۃ ’’اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں مبتلاہونے کا خوف نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دے دیتا۔‘‘ یہ ایک بنیادی اصول ہے جو ہمیں سنت سے مل رہا ہے اور قانون سازی میں استعمال ہوتا ہے۔اگر آپ ان چیزوں کو قانون سازی کے دائرے میں لے آئیں اور کہیں کہ صاحب، ہمارے ملک میں وہی لباس پہنا جائے گا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پہنا کرتے تھے، اگر کوئی اس کے علاوہ لباس پہنے گا تو ہم اسے سزا دیں گے،اور ہمارے ملک میں وہی چیز کھائی جائی گی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھاتے تھے، اگر کوئی شخص اس کے علاوہ کوئی چیز کھائے گا تو ہم اسے سزا دیں گے تو یہ قانون سازی انسانوں کو مشقت اور تکلیف میں مبتلا کر د ے گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو مشقت میں دیکھنا نہیں چاہتے۔ اس حوالے سے یہ قانون کے دائرے میں نہیں آتا۔ لیکن قانون کی تشکیل کے دائرہ میں نہ آنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔اس کی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے اور اس کی پیروی اور اتباع کی فضیلت بہرحال طے شدہ ہے۔ یہ ہمارے لیے زندگی گزارنے کا ایک طریقہ اورزندگی گزارنے کے لیے ایک ماخذاور مصدر کی حیثیت بہرحال رکھتا ہے۔ اس لیے یہ بات کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں سے کچھ چیزیں وہ ہیں جو تہذیبی روایات کے نتیجے میں ہمارے سامنے آئی ہیں، کچھ وہ ہیں جو آپ کی عادات مبارکہ ہیں، ان کو بھی نکال دو،ا ن کو بھی نکال دو۔ باقی رہ گئیں بیالیس سنتیں، ان کو لے کر بیٹھے رہو۔کیوں ؟اس لیے تاکہ ہمیں تہذیبی آزادی مل جائے، تاکہ ہمیں تمدنی آزادی مل جائے، تاکہ ہمیں معاشرتی آزادی مل جائے، ہم تہذیب وتمدن اور معاشرت کو جس انداز سے چاہیں، آگے لے کرچلنا شروع ہو جائیں۔
چنانچہ جب ہم سنت کے حوالے سے اس بات کو سنتے ہیں تو ہمیں ایک اور بحث سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ وہ یہ کہ جب ہم سنت کی آئینی اور دستوری حیثیت کو سمجھنا چاہیں گے تو ہمیں قرآن اور سنت کا باہمی تعلق بیان کرنا، سوچنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ سنت کتاب اللہ کے لیے مؤید ہے۔ جو قرآن بیا ن کرتا ہے، سنت اس کی تائید کر تی ہے۔ یہ عام اور سلیس سی بات ہے۔ دوسرایہ کہ سنت بیان قرآن ہے۔سنت کے بیا ن قرآن ہونے کے دو پہلو ہیں۔ایک یہ کہ سنت نے بعض اوقات ایسا حکم دیا جو سرے سے کتاب اللہ میں موجو د نہیں ہے۔ہمارے لیے اس حکم کی پابندی بھی لازمی اور ضروری ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ یہ بات قرآن میں موجو د نہیں ہے، لہٰذااس حکم کو ہم نہیں مانتے ۔
حضرت عمران بن حصینؓ کے پاس ایک آدمی آیا۔ کہنے لگا کہ جناب ہمارے سامنے صرف کتاب اللہ کی بات کریں، سنت کی بات نہ کریں۔ ہم صرف کتاب اللہ کو مانتے ہیں اور کتاب اللہ ہی سننا چاہتے ہیں۔ حضر ت عمران بن حصینؓ نے کہا کہ تم بڑے احمق شخص ہو۔ ہم تو ایسے آدمی کو بہت بڑا اسکالر سمجھتے ہیں جو اس طرح کی بات کرے۔ حضرت عمران بن حصینؓ نے اس کا صحیح علاج کیا۔ وہ ایک دم پریشان ہو گیا کہ میں نے تو بڑی علمی، تحقیقی اور اسکالروں والی بات کی ہے اور عمران بن حصینؓ مجھے احمق کہہ رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ میں احمق کیسے ہو ں؟ حضرت عمران بن حصینؓ نے کہا کہ فجر کے دو فرض پڑھتے ہو؟ اس نے کہا کہ پڑھتا ہوں۔ فرمایا، ظہر وعصر کے چار فرض پڑھتے ہو؟ اس نے کہا کہ جی پڑھتا ہوں۔ فرمایا دکھلاؤ کہاں آیاہے کتاب اللہ میں کہ فجر کے وقت دو فرض پڑھنا اور ظہر و عصر میں چار فرض پڑھنا۔ یہ یقیناًحماقت کی بات ہو گی کہ ہم یہ نعرہ لگائیں کہ ہم تو صرف کتاب اللہ کو پڑھیں گے اور کتاب اللہ پر عمل کریں گے، کیونکہ سنت کے بغیر کتاب اللہ کے کسی حکم پر تو درکنار، حکم کی کسی جزئی پر عمل نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ سنت بیا ن قرآن ہوتی ہے۔سنت اس اجمال کی تفصیل کرتی ہے جو کہ قرآن نے بیان کیا ہے۔مثلاًقرآن نے کہا کہ ’اقیموا الصلوٰۃ، نماز قائم کرو۔ کیسے کریں ؟سنت نے کر کے دکھلا دیا کہ ایسے۔ اس لیے ایک تابعی یا صحابی کہا کرتے تھے کہ قرآن کے تو کسی حکم پرتو ’لم‘ اور ’کیف‘ کا سوال ہو سکتا ہے، لیکن سنت کے کسی حکم پر یہ سوال نہیں ہو سکتا۔
یہاں پر ایک اور بات کا سمجھنا بھی ضروری ہے۔ وہ یہ کہ ایک جدید فکر ہمارے ہاں رائج ہو رہی ہے اور اس کا پرچار بھی کیا جارہا ہے کہ قرآن پاک کو اس پس منظرمیں سمجھا جائے جس پس منظر میں وہ نازل ہوا ہے۔ جس کو ہم شان نزول کہتے ہیں، وہ اس پر پس منظر کا اطلاق کرتے ہیں اس لیے کہ اگر وہ شان نزول کہیں تو پکڑے جاتے ہیں۔ مثال کے طوریہ کہ ایک مرد کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے اوردلیل اس کی یہ ہے کہ قرآن کریم نے کہا: ’فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنیٰ وثلٰث وربٰع‘ حالانکہ اگراس آیت کو اس کے پس منظر میں دیکھاجائے جس میں یہ نازل ہوئی ہے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ چار شادیوں کی اجازت ہر قسم کے حالات کے لیے نہیں ہے۔ او ر وہ مخصوص حالات کیا ہیں؟ جی یہ آیت تو غزوہ احد کے موقع پر نازل ہوئی تھی۔ غزوہ احد میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شہید ہو گئی تھی، اس لیے یہ حکم آیا تھا۔ عورتیں بیوہ ہو گئی تھیں، لہٰذایہ حکم آیا کہ ایک ایک مرد چار چارشادیاں کر لے۔ اگر اس وقت بھی وہ حالات پیدا ہو جاتے ہیں تو ٹھیک ہے، چار نکاح کی اجازت ہے اوراگر وہ حالات پیدا نہیں ہوتے تو پھر چار نکاح کی اجازت نہیں ہے۔
یہ بات یا د رکھیں کہ شان نزول کسی آیت مبارکہ کے حکم کو سمجھنے میں مددگار تو ہو سکتا ہے، لیکن وہ حکم کی علت نہیں ہوتا۔ اگر آپ شان نزول کے ساتھ حکم کو مقید کر دیں اور آپ کہیں کہ آیت کا یہ حکم اس پس منظر کے ساتھ مخصوص ہے جس میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو پھر یہ دعویٰ کہاں گیاکہ قرآن ایک عالمگیر کتاب ہے، قرآن قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے دستور حیا ت ہے؟ یہ دعویٰ تو ختم ہو گیا۔ اس لیے قرآن کا بیان شان نزو ل نہیں ہوا کر تابلکہ قرآن کا بیا ن سنت ہوا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم فقہا کے اسالیب اجتہاد کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ چارچیزیں ہیں جن پر سب فقہا کا اتفاق ہے۔ بعض حضرات اور تذکرہ نگار امام شافعی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ اجماع کے قائل نہیں تھے، لیکن یہ بات درست نہیں۔ وہ اجماع کے قائل تھے، یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اجماع کے لیے جو شرائط عائد کی ہیں، وہ بڑی کڑی اور سخت ہیں جیسا کہ اجتہاد کے لیے بڑی کڑی اور سخت شرائط ہیں۔ مثلاً علما یہ کہتے ہیں کہ اجتہاد کے لیے یہ بھی شرط ہے، یہ بھی شرط ہے۔ اس پر بعض پڑھے لکھے حضرات کہہ دیتے ہیں کہ مولویوں نے اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا ہے، حالانکہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ یہی بات امام شافعی ؒ کے ہاں نظر آتی ہے کہ وہ بھی اجماع کے قائل تھے، لیکن جیسی کڑی شرائط انہوں نے اجماع کے لیے عائد کی ہیں، ان شرائط کا سامنے آنا اور پید ا ہونا بڑا مشکل ہو گیا ہے۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ چار چیزیں تو بالکل متفق علیہ ہیں۔ کتاب اللہ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اجماع اور قیاس۔ کتاب اللہ سے بھی اخذ مسائل اور استنباط مسائل کے کچھ اصول ہیں۔ یوں نہیں کہ آپ کے سامنے کتاب اللہ کی کوئی بھی آیت آجائے اور آپ اس سے جو جی چاہیں، اخذ کر لیں۔ اسی طرح سنت سے بھی احکام کے استنباط کے کچھ اصول ہیں اور ان میں قرآن سے استنباط مسائل کی بہ نسبت زیادہ توسع اور زیادہ تحقیق ہے۔ 
سنت کے معاملے میں امام ابو حنیفہ ؒ اور امام مالک ؒ اس کے قائل ہیں کہ جب آپ کے سامنے سنت آئے تو پہلے آپ اس کا نص دیکھیں گے، پھر ظاہر دیکھیں گے، اور اگر ظاہر اور نص ایک دوسرے کے مقابل آرہے ہوں تو نص کو ترجیح ہو گی، ظاہر کو ترجیح نہیں ہو گی۔ ظاہر وہ ہے جو مراد کلام سے فوری طور پر ظاہر ہو جائے۔ ’ما ظھر المراد بہ للسامع بنفس السماع‘۔ یہ ظاہر ہے اور ’ما سیق الکلام لاجلہ‘، فحوائے کلام اور مقصود کلام کو نص کہتے ہیں ۔لیکن امام شافعیؒ اورامام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک ظاہر کلام کو نص کلام پر ترجیح ہو گی۔ ان کے نزدیک پہلا مرتبہ ظاہر کلام کاہے، پھر نص کلام کا۔ 
اسی طرح سنت سے استنباط مسائل کے حوالے سے ایک مسئلہ تطبیق بین الروایتین کا آتا ہے۔ یہ بھی ایک بہت بڑا موضوع ہے اور مستقل نشست کا مقتضی ہے، کہ ایک ہی مضمون کی دو روایتیں ہیں اور دونوں مختلف صورت حال بتلا رہی ہیں، اس کا حکم کیا ہو گا اور ان میں کیسے ترجیح دی جائے گی۔ امام شافعی ؒ نے اس کے لیے جو اصول بنایا ہے، وہ یہ ہے کہ جو روایت سند کے اعتبار سے اصح ہے، وہ راجح ہو گی اور جو روایت سند کے اعتبار سے کم تر ہے، وہ مرجوح ہو گی ۔امام مالک ؒ کا اصول یہ ہے کہ پہلے تو ان میں تطبیق کی کوشش کی جائے گی، اور اگر تطبیق ممکن نہ ہو تو اس روایت کو ترجیح ہو گی جس پر اہل مدینہ کا تعامل ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ کی رائے اس سے ذرا مختلف ہے۔ امام ابوحنیفہ تطبیق بین الروایتین کے قائل تو ہیں ہی، اور اگر تطبیق ممکن نہ ہو تو ان کے نزدیک ترجیح کا اصول یہ ہے کہ جس مضمون سے متعلق وہ روایت ہے، اس مضمون کو پہلے وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے گا۔ اگروسیع تر تناظر سے ہمیں کوئی ہدایت مل رہی ہے تو وسیع تر تناظر جس روایت کو ترجیح دے رہا ہو، اس کو ترجیح دی جائے گی۔ مثال کے طور پر نماز میں رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع یدین کرنا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع یدین کرنا بھی ثابت ہے اور نہ کرنا بھی ثابت ہے۔ امام شافعی ؒ نے اپنے اصول کے مطابق جو روایت سند کے اعتبار سے اصح ملی، اس کو انہوں نے ترجیح دے دی اور اس کے مطابق عمل کیا۔اب سوا ل یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ نے ایسا اصول کیوں نہ بنایاکہ وہ بھی سنداً اصح روایت کو راجح قرار دیتے؟ امام ابوحنیفہ ؒ نے یہ اصول اس لیے نہیں بنایا کہ ان کے اور امام شافعیؒ کے زمانے میں بڑا فرق ہے۔ امام ابو حنیفہ بعض حضرات کے نزدیک تابعی ہیں، لیکن ان کے تبع تابعی ہونے پر تو سب کا اتفاق ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جن اساتذہ سے انہوں نے استفادہ کیا، وہ تابعی تھے اور اس سے یہ بھی پتہ چلاکہ امام ابو حنیفہ ؒ اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف دو واسطے تھے، ایک تابعی کا اور ایک صحابی کا ۔لہٰذا صحت سند کا معاملہ وہا ں زیادہ زیر بحث نہیں آتا، کیونکہ واسطے ہی صرف دو ہیں۔ ظاہر ہے کہ ’الصحابۃ کلھم عدول‘ صحابہ پر تو آپ جرح وتعدیل چلا نہیں سکتے، یہ تو میری اور آپ کی مجال نہیں۔ جن کو اللہ اور  اس کے رسول نے عدول قرار دے دیا، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ’لقد رضی اللہ عن المؤمنین ‘ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم‘ فرمادیا، میں اور آپ کون ہوتے ہیں جرح و تعدیل کرنے والے؟ صرف تابعین ہی باقی رہ گئے، لہٰذا امام صاحب کے ہاں صحت سند کا معاملہ اتنانازک نہیں۔ اسی لیے جب وہ اس عبادت (نماز) کو وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہیں تو وہ نماز کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ نماز کا تدرج ہمیں بتلا رہا ہے کہ اس میں حرکات آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہیں۔ شروع میں نماز میں چلنا بھی جائز تھا، شروع میں گفتگو بھی جائز تھی، شروع میں نماز میں ہنسنا بھی جائز تھا، پھر یہ سب کچھ منع ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیاکہ جو نماز میں ہنسے ہیں، وہ جائیں، وضو بھی کریں اورنماز بھی دوبارہ پڑھیں۔ اس سے یہ محسوس ہوتاہے کہ رکوع میں جاتے ہوئے اور اٹھتے ہوئے رفع یدین کرنے کا معاملہ پہلے کا ہے اور نہ کرنے کا معاملہ بعد کا ہے، اس لیے کہ جوں جوں نماز میں وقت گزرتا گیا، احکام نازل ہوتے گئے، توں توں نماز میں سکون آتاگیا۔ یہ وہ وسیع تر تناظرہے۔ 
اسی طرح مثلاً اس مسئلے میں کہ امام کے پیچھے قراء ت فاتحہ کرنی چاہیے یا نہیں، امام صاحب نے کہا کہ نہیں کرنی چاہیے، اس لیے کہ یہ دین کے وسیع تر تناظر کے خلاف ہے۔ دین کا وسیع تر تناظر امام کی اتباع کا حکم دیتا ہے اور امام کی اتباع اس میں ہے کہ ’لا تحرک لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ وقراٰنہ فاذا قرانہ فاتبع قراٰنہ ثم ان علینا بیانہ‘ تو اتباع قرآن ’’تحریک لسان‘‘ کے ساتھ نہیں ہے، بلکہ اتباع قرآن ’لاتحرک بہ لسانک‘ کے ساتھ ہے۔ اس لیے دین کے وسیع تر تناظر میں اتباع امام سورۃ فاتحہ کے پڑھنے میں نہیں ہے بلکہ سورۃفاتحہ کے نہ پڑھنے میں ہے۔ 
لیکن ایک اصولی اوربنیادی بات طے شدہ ہے اور اس کو معاشرے میں پھیلاناہے کہ اسلام کی تہذیب وتمدن اور اسلام کی ثقافت کو زندہ کرنا اور زندہ رکھنا، یہ آج ہم سب کی بڑی اور اہم ذمہ داری ہے اور اگر آج ہم نے اس ذمہ داری کو ادا نہ کیا تو یقین جانیے، روزقیامت میں اور آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی جواب دینے کے قابل نہیں ہوں گے۔ اس ذمہ داری کو ہم بذریعہ سنت ادا کر سکتے ہیں۔سنت کی اہمیت ، سنت کی عظمت ،سنت کی دستوری اور آئینی حیثیت کو جتنا بھی آپ اجاگر کر سکتے ہیں، کریں ۔یہ نہ سوچیں کہ یہ باتیں تو بہت کہی گئی ہیں، بہت سنی گئی ہیں ،بہت پڑھی اور لکھی گئی ہیں۔ کوئی بات نہیں، قرآن پاک نے بھی تو ایک بات کو بار بار بیان کیا ہے۔ آپ بھی اس بات کو بار باربیان اور واضح کیجیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ہمیں اپنی زندگیوں کے اندر بھی زندہ کرنا ہے اوراپنی قانون سازیوں میں بھی زندہ کرنا ہے۔حق تعالیٰ شانہ سنت کی اہمیت اورسنت کی عظمت کو سمجھنے کی ہمت اور توفیق نصیب فرمادے۔ آمین

غیر مسلم جج کی بحث اور مسلمان ججوں کا کردار

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

اجتہاد کی عام فہم تعریف کریں تو اسے ’’ماہرین قانون و شرع کی، متعینہ اصولوں کی روشنی میں، مسائل اور احکام معلوم کرنے کی پر خلوص اور انتہائی کاوش کا نتیجہ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح یہ منصب یقینی طور پر علماے کبار اور ماہرین کا ہے۔ اس پر ہمیں ان کا منصب ہر لحاظ سے تسلیم ہے۔ وہ اس بارے میں کسی اجارہ داری کا دعویٰ کریں یا نہ کریں، ہم ان کی یہ حیثیت بلا شرکت غیرے مانتے ہیں۔ اس تسلیم و رضا کے ساتھ ساتھ سوال، بحث اور جائزے کا حق بھی اہل حق تسلیم کریں گے۔ اس طرح اجتہادی مسائل کی دو سطحیں ہیں: علمی اور طالبانہ۔ علمی سطح پر یہ حق اہل علم و فن آپس میں استعمال کر سکتے ہیں، لیکن طالب علمانہ سطح پر یہ حق ہر پڑھے لکھے شخص کو حاصل ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس میں طالب علمانہ جستجو کی حدوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ اس مضمون میں میرے پیش نظر طالب علمانہ جستجو کے سوا کچھ نہیں۔ 
’الشریعہ‘ کے اپریل ۲۰۰۷ء کا کلمہ حق دیکھا۔ چند سطور کا خلاصہ درج کرتا ہوں:
’’اصولی طور پر کسی غیر مسلم کا ملک کی عدالت عظمیٰ کا سربراہ بننا بہر حال محل نظر ہے۔ خاص طور پر اس پہلو سے کہ چیف کو شریعت کورٹ اپیلٹ بنچ کی سربراہی بھی کرنا ہوتی ہے۔ اس حیثیت سے قرآن و سنت کی تشریح و تعبیر کا اختیار ایک غیر مسلم جج کے ہاتھ میں دے دینا شرعی اصولوں کے مطابق درست نظر نہیں آتا۔‘‘
مولانا زاہد الراشدی صاحب کے اس کلمہ حق کی تائید سینیٹر مولانا سمیع الحق، ممبر قومی اسمبلی قاضی حسین احمد کے بیانات میں پائی جاتی ہے۔ ’’امیر شریعہ‘‘ کے یہ جملے میرے لیے خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ کلمہ حق پر میرے کلمات نا حق سہی کہ میرے پیش نظر تو صرف یہ ہے کہ انصاف کی روشنی دور دور تک پھیل جائے۔ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ یہ کار خیر مسلم جج کے ہاتھوں سے ہو یا غیر مسلم سے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جرات و استقامت کے پیش نظر حسبہ بل کا حشر کرنے اور وردی پوش کے گناہوں کی توثیق کے تمام گناہ معاف۔ ا ن کی جرات کو پوری وکلا برادری سلام و نیاز پیش کر رہی ہے۔ اس موقع پر ایک اصولی بحث کا حوالہ بے وقت کی راگنی معلوم ہوتا ہے۔
مسلمان ججوں نے جو کارنامے انجام دیے ہیں، وہ ہماری تاریخ میں ’’سنہری الفاظ ‘‘سے لکھے جاتے ہیں۔ پاکستان کو آئینی انحراف کے راستے پر ڈالنے کا تمام تر اعزاز جسٹس منیر کو ہی دینا پڑے گا۔ یہ ہلال پاکستان یا نشان حیدر سے کسی طرح کم نہیں ہو گا۔ مزید برآں یہ بھی واضح ہے کہ نظریاتی انحراف بلکہ (بقول ارشاد احمد قریشی، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، سابق صدر اسلامی جمعیت وکلا، پاکستان) ارتداد کی فرد جرم ڈاکٹر سید نسیم حسن شاہ پر عائد ہو گی۔ یہ ارتداد انہوں نے حاکم خان کیس کے فیصلہ میں پوری صراحت سے کیا ہے۔ اگر اس ارتداد کو دیکھنا ہو تو نسیم حسن شاہ کے فیصلہ کا سرسری طور پر پڑھ لینا ہی کافی ہے۔ یہ دونوں ما شاء اللہ مسلمان تھے۔ ان سے مسلمانی چھیننے کا کسی کو کوئی اختیار نہیں ہو سکتا۔ اگر کبھی دستور کے آرٹیکل ۶ کو پامال کرنے کا سوال اٹھا اور کوئی جرنیل اس کی زد میں آیا تو جرنیلوں کے ساتھ ساتھ اس کی وردی تلے کابینہ میں بیٹھنے والے پی این اے کے منسٹرز کو بھی کٹہرے میں لانا انصاف کا تقاضا ہو گا۔ ان میں سے بعض اب بھی زندہ ہیں۔ زندہ حضرات میں پروفیسر غفور احمد، پروفیسر خورشید احمد، چوہدری رحمت الہٰی جماعتی مناصب پر فائز ہیں۔ یہ تینوں حضرات نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ہیں۔ چوہدری رحمت الہٰی صاحب کا تو مجھے اچھی طرح علم ہے کہ وزارت سے باہر آ کر انہوں مرکزی شوریٰ کو درخواست دی کہ اب ان کے اخراجات میں اضافہ ہو چکا ہے، لہٰذا ان کی تنخواہ میں اضافہ کیا جائے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ وزیر کے طور پر ان کی کار کردگی قیم یا نائب امیر جتنی بھی نہیں تھی، اس لحاظ سے وزارت سے واپس آکر تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ بر حق تھا۔ وجہ یہ ہے کہ جماعت کے امیر اگر وردی پہن لیں تو پوری شوریٰ گھر بھیجی جا سکتی ہے۔ سید مودودی مرحوم و مغفور نے بھی تو انکوائری کمیٹی کو گھر بھجوانے کے لیے بلڈوزر چلایا تھا۔ اسی روایت کی پیروی میں قاضی حسین احمد نے بھی اپنے خلاف جماعت کے بزرگوں کی جانب سے لگائے گئے الزامات کا اسی طرح سامنا کیا تھا۔ الزامات میں دستور اور شوریٰ کے فیصلوں کی بار بار خلاف کا الزام شامل تھا۔ مرکزی مجلس شوری نے الزامات کی تحقیق کے لیے کمیٹی قائم کی مگر محترم قاضی حسین احمد امارت سے استعفا دے کر نئے انتخاب کروا کر دوبارہ منتخب ہو گئے۔ یہ بنیادی سوال ہے کہ الزامات پر فیصلہ انکوائری رپورٹ پر مرکزی شوریٰ نے کرنا ہے یا نئے انتخابات میں رائے دہندگان نے کرنا ہے؟ ایک اخباری رپورٹ ہے کہ ایک ڈیڑھ ماہ پہلے بھی قاضی حسین احمد کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک راجہ ظہیر نے پیش کی، مگر وہ ’’وردی اور سوٹے‘‘کی مدد سے واپس کروا دی گئی۔ 
بات ہو رہی تھی وردی تلے کابینہ میں بیٹھنے والوں میں سے جو اللہ کے حضور پہنچے ہوئے ہیں، ان کی تصویر یا لاشوں کو پھانسی دینے میں کچھ حرج نہیں ہوگا۔ کم از کم ان کی قبروں پر پھانسی کا نشان ہی نصب کر دیا جائے۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ انصاف نہ صرف کیا جائے بلکہ انصاف ہوتا نظر بھی آنا لازم ہے۔ اسی طرح ایسے سیاست دان جنہوں نے جرنیلوں کو آؤٹ آو ٹرن ترقیاں دے کر فوجی تسلط کی راہ ہموار کی، وہ بھی گردن زدنی ہیں۔ میرا منشا یہ ہے کہ آئین سے انحراف کی راہیں بنا کردینے کو بھی تعبیری انحراف اور وائیولیشن قرار دیے بغیر انصاف ہوتا نظر نہیں آئے گا۔اس طرح جسٹس منیر اور نسیم حسن شاہ پر آرٹیکل ۶ کی وائیولیشن کی فرد جرم عائد کرنا پڑے گی۔ جب تک اسی طرح کا دو ٹوک انصاف نہیں ہو گا، ہماری تاریخ کی سمت درست نہیں ہوگی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی صاحب کردار غیر مسلم، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چیف سیکریٹری ہوتا تو کیا ہمای تاریخ اسی رخ پر جاتی؟ اسی طرح جسٹس منیر کی جگہ کارنیلیس یا کوئی اور غیر مسلم جج ہوتا تو ہماری آئینی تاریخ مختلف نہ ہوتی؟ مسلم اور غیر مسلم کی بحث سے زیادہ اہمیت کردار کی ہے۔ فقہی اور اصولی مباحث کی کوئی حد اور موقع بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ بے موقع فقہی بحث عملی زندگی سے دوری اختیار کرنے والے علماے کرام کے لیے علمی تفریح تو ہو سکتی ہے مگر موقع کی نزاکت کا تقاضا کچھ اور ہی ہو گا۔ یہ کہنا بجا کہ اصولی طور پر اسلامی مملکت کا چیف جسٹس غیر مسلم نہیں ہو سکتا، مگر میری یہ آرزو ہے کہ ۱۹۵۵ء میں منیر کی جگہ، فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس کارنیلیس ہوتے۔ میرا منشا مسلمان کو گرانا نہیں۔ مسلمان کو گرانے کے لیے اس کے کرتوت ہی کافی ہیں، تاہم اچھے مسلمان ججوں کی مثالیں بھی ہماری عدلیہ میں ہمیشہ موجود رہی ہیں۔ مملکت خداد پاکستان کے پہلے چیف جسٹس سر عبدالرشید کے وقار کا حلف دیا جا سکتا ہے۔ جسٹس محمد رستم کیانی کا لاہور ہائیکورٹ کی سربراہی کا دور بھلایا نہیں جا سکتا۔ مگر اس طرح کے لوگ تو گنے چنے ہیں۔ غیر مسلموں میں جتنے بھی ہوں گے، وہ اقلیت سے متعلق ہونے کی وجہ سے اپنے تشخص اور وقار کا تحفظ کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ویسے بھی دور حاضر میں اعلیٰ منصبی روایات کا سرچشمہ تو بہر حال مغرب ہی ہے۔ کسی مسلم جج کے کم عیار ہونے کی مثال میرے علم میں نہیں، مگر بہت سے مسلمان ججوں کے کرتوت بھی دنیا جانتی ہے۔ ہماری تاریخ بھی بڑی عجیب ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے چیف جسٹس بننے سے انکار کر دیا اور حکمرانوں کے عتاب کا نشانہ بنے، مگر یہ ستم ظریفی بھی ہماری ہی تاریخ کا حصہ ہے کہ ان کے شاگرد اول امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے چیف جسٹس کا عہدہ قبول کر لیا۔ 
کردار کو چھوڑ کر ایمان اور عقیدے، مسلم اور غیر مسلم کی بحث، مجتہدین کا شغل بیکار اور تفریح بے لذت یا پر لذت تو ہو سکتی ہے، مگر یہ مباحث اپنی افادیت کے لحاظ سے قابل غور ہیں۔ ایمان و عمل جدا جدا نہیں ہو سکتے۔ یہ inseparable  ہیں۔ علما نے ان کو سخت اجتہادی کاوشوں سے الگ الگ کر کےseparable بنا یا ہے۔ مروان بن حکم کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک بدر فرمایا تھا۔ جب اہل علم سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ مروان بن حکم کے کردار کے محاسن و معائب واضح فرمائیں تو علماے کرام ان کو عزیمت و رخصت کے درمیان کھڑا کر دیتے ہیں۔ جب یہ سوال کیا جائے کہ رخصت و عزیمت کے مابین کوئی حد فاصل بھی تو قائم کی جائے تو جواب ارشاد ہوتا ہے کہ یہ ہمت کی بات ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ گدھے اور گھوڑے میں فرق نہ کیا جائے۔ 
کیا ہمارے مسلمان جرنیلوں اور ججوں نے سیناریٹی کے خلاف اپنی تقرری کو کبھی ٹھکرایا؟ اس کی بھی ہماری عدالتی تاریخ میں صرف ایک مثال ہے اور وہ ڈاکٹر جاوید اقبال کی ہے۔ ان کے بارے میں صرف ایک حوالے سے میری منفی رائے مثبت ہو گئی۔ اپنی خود نوشت’’اپنا گریباں چاک‘‘ میں انہوں نے اس کی پوری تفصیل درج کی ہے۔ آج تک کسی نے اس کی تردید نہیں کی۔ مگر یہ اکلوتی مثال ہے۔ وگرنہ جسٹس اسلم ریاض جیسے لوگ چیف بن گئے اور وکلا برادری ان کو مجسٹریٹ درجہ سوئم کے طور پر یاد کرتی رہی۔ ککے زئی برادری کے ججوں کی کرپشن کی وجہ سے بوبا کمپنی مشہور ہوئی۔ پلاٹ کیس میں جسٹس ٹوانہ نے تمام ججوں کے کردار کو عیاں کر دیا ہے۔ جسٹس ٹوانہ نے پلاٹ کیس کی سماعت کے دوران ، پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا ریکارڈ طلب کیا۔ ریکارڈ ملاحظہ کرتے ہوئے جب ریٹائرڈ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے پلاٹ والی فائل سامنے آئی تو اسے دیکھ کر ایک طرف رکھتے ہوئے طنز اور حسرت بھرے لہجے میں کہا، ’’یہ تو شاہ صاحب کی فائل ہے‘‘۔
جسٹس ٹوانہ کے ساتھ ان کے برادر ججوں نے کیا کیا؟ وہی جو پنجاب کے اعلیٰ ترین سیشن جج ملک کاظم علی کے ساتھ مجاہد ختم نبوت جناب نوید انور کی قیادت میں ، ہم نے کیا۔ ایک مرحلے پر ان سے سوال کیا گیا کہ اگر وہ کسی دیگر ضلع میں سیشن جج تعینات کیے جائیں تو ان کا طرز عمل اتنا ہی معیاری ہو گا جتنا کہ گوجرانوالہ میں تعیناتی کے دوران رہا، تو ان کا بر جستہ جواب تھا: کبھی نہیں۔ وہ دیانت داری کے معیار کو قائم رکھنے کی روش پر مایوس ہو گئے ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے نوید انور نوید اور اس کے ساتھیوں سے کوئی شکایت نہیں، مگر جماعت کے ارکان وکلا، جو بار کونسل تک میں موجود اور موثر ہیں، ان کے بارے میں مجھے ہمیشہ گلہ رہے گا کہ وہ مشنری ہونے کے دعوے دار ہیں، انہوں نے آزمائش کے اس دور میں نوید انور نوید کا ساتھ کیوں دیا۔
جسٹس کار نیلیس کا چند سالہ دور ایک طرف، پاکستان کی پوری عدالتی تاریخ دوسری طرف رکھ دی جائے تو کارنیلیس کا پلڑا بھاری رہے گا۔ مولانا تقی عثمانی اور پیر کرم شاہ کے شریعت کورٹ کے فیصلوں کو میں نے دیکھا ہے۔ وہ سب ایک طرف اور کار نیلیس کا کنٹری بیوشن دوسری طرف۔ ان دونوں میں معیار کے لحاظ سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ مسلمانوں کو اسلامی قانون و شریعت کی تعبیر و تشریح کی اجارہ داری کا استحقاق جتلانا بجا مگر محض اس کے لیے کسی صلاحیت کا بھی کوئی معیار لازم ہے یا نہیں؟ کلمہ حق میں کبھی علما ججوں کی تعبیری کجیوں پر بھی بات ہونی چاہیے۔ 
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں دو نام ایسے سیاہ ہوئے ہیں کہ ہماری برادری اورپروفیشن ان کو مرفوع الذکر خیال کرتے ہیں۔ پہلا نام تو اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ دوسرا نام سید جسٹس نسیم حسن شاہ کا ہے۔ انہوں نے حاکم خان کیس میں فیصلہ کر کے بقول دوسرے آئینی ارتداد کا ارتکاب کیا ہے۔ انہوں نے دستور پاکستان کے بنیادی اصولوں (قرار داد مقاصد، آرٹیکل 2-A ) کو زیرو کر دیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کو اس کا اختیار تھا، جیسے تخلیق آدم کے وقت سے آدم و ابلیس کو نیکی و فساد کا اختیار دیا گیا۔ اختیار کا بے جا اور غلط استعمال ہے جس سے عزت و ذلت، فرازی و رسوائی نصیب ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ عزت و ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مولوی تمیز الدیں کیس میں جسٹس منیر کے ایک فیصلے سے ہماری سیاسی تاریخ بر باد ہو کر رہ گئی ہے۔ کلمہ حق میں جسٹس منیر کے فیصلے کا ذکر ہے، مگر امیر شریعہ جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب کو علم ہونا چاہیے کہ مولوی تمیز الدین کیس میں فیصلہ دینے والا فل بنچ تھا۔ بنچ کے دیگر ارکان کی سیناریٹی کے لحاظ سے تشکیل اس طرح تھی: 
محمد منیر، چیف جسٹس
اے ایس ایم اکرم
اے آر کار نیلیس
محمد شریف 
ایس اے رحمان۔
اس بنچ میں چیف جسٹس سمیت تمام جج مسلمان تھے۔ ایک ہی جج، اے آر کار نیلیس غیر مسلم تھے۔ یہ اعزاز مسلم چیف جسٹس کو ہی حاصل ہوا کہ آئین کی عمارت منہدم کر دینے والا فیصلہ صادر کرے۔ تمام مسلمان ججوں نے چیف کے لکھے فیصلے کی تائید کی۔ اختلافی فیصلہ واحد غیر مسلم جج کو نصیب ہوا۔ کار نیلیس کے اختلافی فیصلے کی شروعات کو ایک غیر مسلم کے کلمہ ناحق کے طور پر ہی ملاحظہ فرما لیں۔فیصلہ کی رپورٹ پی ایل ڈی ۱۹۵۵ء فیڈرل کورٹ ۲۴۰ بر صفحہ نمبر ۳۱۹ پر موجود ہے۔
It is proper that, realizing the grave issues which are involved in this case, I should commence with an expression of my sincere regret at being unable to agree with the view on one part of the case, which has commended itself to my Lord the Chief Justice and my learned brothers, in consequence of which the appeal has been allowed. It will be my principle concern in this judgement to indicate with such clarity and brevity as may be possible to me, the reasons which compelled me to come to a different conclusion. The resolution of a question affecting the interpretation of important provisions of the interim constitution of Pakistan in relation to very high matters which are involved, entails a responsibility going directly to oath of office which the constitution requires of a Judge, namely to bear true faith and allegiance to the constitution of Pakistan of as by law established and faithfully to perform the duties of the office to the best of the incumbent's ability, knowledge and judgment."
چیف جسٹس منیر کا فیصلہ صفحہ نمبر ۲۴۰ سے شروع ہو کر ۹ا۳ کے نصف پر ختم ہو جاتا ہے۔ اس طرح یہ ۸۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ جسٹس کار نیلیس کا اختلاف صفحہ ۳۱۹ سے صفحہ ۳۷۲ تک پھیلا ہوا ہے۔ کار نیلیس کا اختلافی فیصلہ ۵۳ صفحات کا ہے، جب کہ دیگر مسلمان ججوں نے چیف سے اتفاق کیا ہے۔ سب سے زیادہ مختصر اتفاق جسٹس محمد شریف کا ہے ۔ اس تقدس مآب اتفاق کے الفاظ یہاں درج کر دینا چاہتا ہوں۔ یہ الفاظ بھی آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں:
Muhammad Sharif, J -- I agree with my Lord the Chief Justice.
اس طرح فل بنچ کا یہ فیصلہ چیف کا لکھا ہوا، چار اور ایک کی اکثریت سے کیس طے کیا گیا بلکہ تہ کر دیا گیا۔ جسٹس منیر کا نام پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ کے ماتھے کے سیاہ داغ کے طور پر ریکارڈ ہو چکا ہے۔ اس سے اتفاق کرنے والے کا ذکر میں نے کر دیا ہے۔ تاریخ سے بڑا منصف کون ہے؟ فیڈرل کورٹ کا یہ فیصلہ سندھ چیف کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل میں کیا گیا۔ سندھ چیف کورٹ میں مولوی تمیزالدین خان نے رٹ دائر کی تھی۔ مولوی تمیزالدین خان ۲۴ اکتوبر ۱۹۵۴ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے سپیکر تھے۔ گورنر جنرل نے اسمبلی توڑنے کا اعلان جاری فرمایا۔ اس اعلان کو مولوی صاحب نے سندھ چیف کورٹ میں کالعدم قرار دلوانے کے لیے رٹ درخواست پیش کی۔ رٹ دائر کرنے کے لیے مولوی تمیز الدین رکشے میں برقعہ پہن کر عدالت میں گئے۔ یہ رٹ درخواست فل بنچ نے سماعت کے بعد منظور کی۔ بنچ میں درج ذیل جج شامل تھے:
کونسٹینٹائن، چیف جسٹس
ویلانی،
محمد باچل 
محمد بخش جج ۔
شعبہ قانون سے متعلقین جانتے ہیں کہ کسی بھی بنچ میں عام طور پر چیف جسٹس کی موجودگی بڑی اہم ہوتی ہے۔ چیف کا ذہن ہی غالب آتا ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ چیف سے ہٹ کر باقی جج کوئی فیصلہ کریں۔ سندھ چیف کورٹ کے چیف جسٹس غیر مسلم تھے۔ ان کے ساتھ ایک اور سینئر جج بھی غیر مسلم تھے ۔ اس طرح سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ متفقہ تھا۔ کورٹ نے مولوی تمیزالدین کی درخواست منظور کرتے ہوئے گورنر جنرل کے دستور ساز اسمبلی کو توڑنے کا حکم غیر قانونی قرار دے کر منسوخ کر دیا۔ سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کے آخری الفاظ تبرک کے طور پر درج کرتا ہوں، البتہ یہ ایک فقہی مسئلہ ہو گا کہ ایک غیر مسلم چیف جسٹس کے الفاظ، خواہ وہ کتنے ہی صائب ہوں، تبرک قرار دیے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ بہر حال میں ان کے انگریزی الفاظ بطور تاریخ کی امانت کے یہاں نقل کرنا اپنے لیے اعزاز خیال کرتا ہوں:
''In view of all these reasons, I allow the petition. A writ of mandamus as prayed will be issued against all the respondents. The appointment of respondents 4-5-7-8 and 10 being illegal, a writ of quo warrant will be issued against them. I further direct that the respondents do bear the petitions costs.''
کارنیلیس کا چیف جسٹس منیر سے اختلافی نوٹ بھی تاریخ میں محفوظ ہے۔ کارنیلیس عیسائی ہوتے ہوئے پاکستان کی عدالتی تاریخ کے ہاں محبوب ومحمود ہیں۔ اہل مدرسہ اور ارباب شریعہ کچھ ہی کہتے رہیں، مجھے تو کارنیلیس کے لیے حدی خوانی بھی کرنا پڑے تو گریز نہیں کروں گا۔رہا کارنیلیس کے لیے مغفرت کی دعا کا سوال تو میرے دل سے دعا تو نکلتی رہے گی۔ اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں مجھے کچھ کہنے کا منصب حاصل نہیں۔ اس کے بر عکس جسٹس منیر کے مسلمان کے ہونے کے باوجود اس پر سہ حرف بھیجتا رہوں گا۔ منیر کے نام کے ساتھ لفظ جسٹس لکھنا میرے نزدیک اس لفظ کی توہین ہے۔ کارنیلیس کا یہ فیصلہ ’’افضل الجہاد کلمۃ حق‘‘ کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ مولانا زاہد الراشدی کی روایت کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کے صدر مشرف کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں ویمن پروٹیکشن ایکٹ کی حمایت پر مستعفی شدہ رکن جناب محترم جاوید غامدی صاحب نے صدر جناب سید مشرف کے سامنے سکوت اختیار کیا۔ یہ سکوت ’’تفقہ کی معراج ‘‘ہو سکتا ہے۔ تقی عثمانی اور پیر کرم شاہ کے فیصلوں کو میں دیکھا ہے۔ ان کے تمام فیصلوں پر کار نیلیس کی سڈنی کانفرنس کی ایک تقریر بھاری ہے۔ میں کار نیلیس کے فیصلوں کا ’’ڈائجسٹ ‘‘تیار کرنے کا عزم رکھتا ہوں۔
میں دوبارہ کہہ دوں تو کچھ مضائقہ نظر نہیں آتا کہ کیا ہم اپنی تاریخ کو خود اپنے ہاتھوں سے برباد کرنے پر اجارہ چاہتے ہیں؟ ویسے دیکھا جائے تو اسلامی مملکت میں اعلیٰ عدالتی منصب پر پہنچ کر کسی غیر مسلم نے شاید ہی کبھی تعبیر و تشریح کی ڈنڈی ماری ہو۔ یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ غیر مسلموں نے اسلامی مملکت کے بڑے مناصب پر زبر دست خدمات انجام دی ہیں۔ ایسے میں بات کردار، وفاداری، کنوکشن اور کنٹری بیوشن کی ہے۔ جسٹس کارنیلیس کے درجن سے زاید فیصلے اجتہادی درجے کے ہیں۔ تقی عثمانی اور پیر کرم شاہ کے فیصلوں میں اجتہادی روح بے جان سی نظر آتی ہے۔ اتنی بے جان کہ کار نیلیس کے سامنے طفل مکتب کی سی بات ہو۔ میرے نقطہ نظر سے اس پہلو سے فنی اہلیت کو اہمیت دینے میں ہماری جانب سے بخل اور تعصب ہو رہا ہے۔ یقینی طور پر میری یہ رائے طالب علمانہ درجے میں ہے۔ میں مانتا ہوں کہ کلمہ حق میں جو کچھ کہا گیا ہے، وہ کلمہ حق ہی ہو گا مگر صورت حال کے تناظر میں بے موقع اور بے جوڑ ہے۔
عملی دانش کی مثال کے طور پر ایک کیس کا حوالہ بر موقع ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس محمد افضل ظلہ رہے ہیں۔ ان کی قانونی مہارت، نظریاتی یکسوئی، دیانت و امانت، غرض کچھ بھی متنازعہ نہیں۔ شہرت بھی بہت اچھی رہی۔ نظام احمد کیس میں انہوں نے ایک صدی کے عدالتی فیصلوں کو ٹریس کرتے ہوئے، الہٰ آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محمود کے ایک دیرینہ فیصلے پر انحصار کیا اور ’’تکمیل خلا کا اصول‘‘ اختیار کیا۔ انہوں نے اس اصول کا اطلاق کرتے ہوئے یہ قرار دیا کہ جن امور میں قانون موجود نہیں، ان میں شریعت موثر و نافذ ہے۔ میرے نزدیک یہ بہت بڑا اجتہادی فیصلہ ہے۔ ہماری عدالتی تاریخ کا یہ سب سے پہلا بڑا اجتہادی فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر حاکم خان کیس میں، جناب ظلہ صاحب نے خود کو بنچ سے باہر رکھ کر کمزوری کا اظہار کیا اور ایک سید زادے کی سربراہی میں بنچ تشکیل دے کر آئینی ارتداد کی راہ ہموار کر دی، حالانکہ کیس کی آئینی اہمیت کے پیش نظر چیف جسٹس خود کو باہر رکھ کر بنچ تشکیل نہیں دے سکتے تھے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دستور پر قرار داد مقاصد میں درج اصولوں کی بالا دستی کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ قرار داد مقاصد کے دستور پر بالا دست دستاویز کی حیثیت کے خاتمے کے بعد پاکستان کو دار الاسلام تسلیم کرنے میں تحفظات کا جواز ہے، مگر کسی کو اس کی پروا نہیں۔
میرا منشا یہ ہے کہ اس صورت حال میں مسلم اور غیر مسلم کی بحث غلط ہے، موقع کی نزاکت کے خلاف ہے۔ یہاں شریعت کورٹ کے کیسوں پر اپیل کا سوال بھی نہیں۔ اصل میں عدلیہ کا وجود، آزادی اور خود مختاری خطرے میں ہے۔ اس موقعہ پر قائم مقامی کے حوالے سے اسلامی مملکت میں چیف کے تقرر کا سوال بے وقت کی راگنی ہے۔ آپ میرے نقطہ نظر کو کلمہ حق پر کلمہ نا حق کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ سوال بھی ہے کہ پارلیمنٹ میں عشروں سے بیٹھے ہوئے مجتہدین اسلام، آج یہ سوال اٹھا رہے ہیں۔ کیا اس پہلو سے انہوں نے کبھی دستور میں کوئی ترمیم پیش کی؟ تیسری بار وزیر اعظم بننے پر پابندی لگوانی بڑی اچھی بات ہے۔ میں اسے ایم ایم اے اور موجودہ حکومت کا کارنامہ خیال کروں گا۔ یہ اجتہادی بصیرت و بصارت کی معراج ہے، مگر فکر میں جامعیت، بے لاگ اصولیت اور تواتر لازم ہیں۔ کیا اس تکرار منصبی کا اطلاق ہر پہلو پر ہو گا؟ ۱۹۸۵ء اور اس سے بھی پہلے سے سینیٹ میں بیٹھے ہوئے مجتہدین کیا اس مسئلے پر کسی معاملے میں خود پر اطلاق کریں گے؟
اس مرحلے میں ڈاکٹر حمید اللہ کے ایک اور حوالے پر انحصار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خطبات بہاولپور کے صفحہ نمبر ۱۱۶ پر ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ اسلام میں کسی معین طرز حکومت کو لازم قرار نہیں دیا گیا بلکہ عدل و انصاف کو لازم قرار دیا گیا ہے، چاہے اس کو کوئی بھی انجام دے۔ اگر آج حضرت ابو بکر، حضرت عمر یا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہم زندہ ہوں تو میں بخوشی انہیں سارے آمرانہ اختیارات سونپنے کے لیے آمادہ ہوں، کیونکہ مجھے ان کی خدا ترسی پر پورا اعتماد ہے۔ اس کے برخلاف اگر آج یزید زندہ ہو تو میں اس کو انگلستان کے مہر لگانے والے بادشاہ کے برابر بھی اپنا حکمران بنانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ کیریکٹر کی اہمیت کو الگ رکھ کر محض فنی مباحث علمی تفریح تو ہو سکتی ہے مگر دین سے اس کا کوئی تعلق جوڑنا دور کی کوڑی لانے والی بات ہے۔ میں اسے نہیں جانتا، نہ ہی مانتاہوں۔ سر حقتل سے حبیب جالب مرحوم، 
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو 
میں نہیں جانتامیں نہیں مانتا
اوپر جسٹس کار نیلیس کا حوالہ آ گیا ہے تو ذکر کر تا چلوں کہ وہ پاکستان کے چیف جسٹس رہے مگر ان کی پورے ملک میں کوئی جائداد نہیں تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یحییٰ خان کے دور میں وفاقی وزیر قانون بھی رہے مگر پھر بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کے ایک کمرے میں زندگی گزاری۔ فروری ۱۹۶۸ء کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ کافی طویل العمر ہوئے۔ یکم مئی ۱۹۰۳ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ۲۱ دسمبر ۱۹۹۱ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ آخری ایام میں علالت کی خبریں باہر آئیں تو ان کے اونچے کردار کے حوالے سے وکلا برادری میں محض ان کی قدر دانی کے طور پر یہ مطالبہ ہونے لگا کہ کم از کم ایسے شخص کے بیماری کے اس مرحلہ میں علاج ہی حکومت کو کرانا چاہیے۔ چنانچہ حکومتی ذمہ داروں نے وکلا طبقے کے اس مطالبے کے پیش نظر جسٹس کارنیلیس کو سرکاری طور پر علاج کی پیش کش کی تو انہوں نے کہا کہ پنشن میں جس قدر علاج کرانا ممکن ہے، وہ کرا رہے ہیں۔ اس سے زاید کے وہ مکلف ہیں اور نہ ہی خواہش مند۔ قومی خزانے سے علاج پر خرچ کروانے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں۔ اس طرح کی عزیمت کوئی کہاں سے لائے گا؟ یہاں پلاٹ کیس میں کون سا جج ہے جس نے بہتی گنگا سے ہاتھ نہیں دھوئے؟ جسٹس عبد المجید ٹوانہ کا فیصلہ دیکھا جا سکتا ہے۔ یقینی طور پر جسٹس ٹوانہ جیسا جج کوئی دوسرا نہیں ہو گا۔ ہماری عدلیہ میں ذرا یہ بھی بتائیے کہ جسٹس ٹوانہ کے ساتھ اس کے ہم نشین ججوں نے کیا کیا؟
بات طویل ہو رہی ہے۔ میں نے اپنے چھتیس سالہ وکالت کے کیریر میں بیسیوں سیشن ججوں کو دیکھا ہے، مگر میں انتہائی دکھ کے ساتھ اعتراف کرتا ہوں کہ ان میں سے اچھی شہرت کے پانچ سات ہی جج دیکھے ہیں۔ وہ سب کے سب ہمارے ہاں کی دستوری اقلیت سے متعلق تھے۔ البتہ ایک مسلمان سیشن جج دیکھا ہے جو ایک استثنا ہے۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اس جیسا جامع الصفات سیشن جج پنجاب کی سر زمین نے نہیں دیکھا ہو گا۔ مگر اس کو بھی کبھی مرزائی قرار دیا گیا اور کبھی شیعہ۔ اس کو اپنے تئیں رسوا کرنے کا کارنامہ انجام دینے والے ہمارے دوست انٹی قادیانی تحریک اور تحریک مسجد نور کے ایک سرخیل تھے۔ وہ اب شہر کے بڑے قبرستان میں آسودۂ خواب ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو معاف کرے۔ ملک کاظم علی ان دنوں کہا کرتے تھے کہ مجھے نوید انور نوید سے کوئی گلہ نہیں، مگر اسلامی جمعیت وکلا کے ان دوستوں سے گلہ ہے جو حق و صداقت کا پرچم لہرائے رکھتے ہیں مگر اس موقعہ پر بار کے ساتھ یکجہتی کرتے نہیں تھکتے تھے۔ اس موقع پر ہماری بار کے جملہ راست ذہن سینئیرز، دل سے ملک کاظم علی سے اندرون کھاتہ ہمدردی کا اظہار کرتے تھے مگر حالات کے جبر کے سامنے بے بس تھے۔ میں ان کے نام ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں۔ ان میں جناب چوہدری محمود بشیر، ملک عبدالباسط شامل تھے۔
اس گفتگو سے میرا منشا یہ نہیں کہ جسٹس کارنیلیس کو میں مسلمان کہہ رہا ہوں یا مسلمان قرار دے رہا ہوں۔ میرے اختیار میں ہوتا تو میں مسلمان کو کافر بنانے کا فریضہ انجام دے کر اپنی نجات کو یقینی بنا لیتا۔ جسٹس کارنیلیس سے اکثر سوال کیا جاتا تھا کہ وہ اسلامی حدود اور اسلامی اقدار کو اس قدر مستحسن جانتے ہیں تو مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے؟ وہ جواب میں کہا کرتے تھے کہ وہ آئینی مسلمان ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں حلف اٹھانے کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے؟ یہ ایک الگ موضوع ہے۔
حدود اللہ کے تحفظ کا مسئلہ کھڑا کرنے والوں نے بھی دستور کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ کیا ان کا حلف کارنیلیس کے حلف کے برابر ہو سکتا ہے؟ جسٹس کا لفظ کارنیلیس کا سابقہ ہو گیا ہے۔ وہ جسٹس کی علامت بن گئے ہیں۔ وہ سرا پا جسٹس تھے۔ رہا اجر اور بخشش کا سوال تو یہ عقیدے کے مسائل ہیں۔ ان کے ساتھ کردار کی بلندی ہو تو کیا بات ہے۔ کردار کی بات ہو تو عقیدے اور مسلک کو بیچ میں لانے سے کمزور کرداروں کو تقویت دینا بھی اچھی تفریح ہو سکتی ہے۔ یہ علمی اشغال ہیں۔ اس درجے اور میدان کے لوگوں کی دانست کی بات ہے۔ میں ایسے پہلوؤں پر کچھ کہنے کا مجاز ہی نہیں ہوں۔ 

مکاتیب

ادارہ

(۱)
لندن، ۷ اپریل ۲۰۰۷ء 
محترم مولیٰنا راشدی دام لطفہ، 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
پچھلے چار مہینے ہندوستان میں گزرے۔ گزشتہ ہفتے واپسی ہوئی تو یہاں مارچ کا الشریعہ دیکھا۔ ’’اسلام کے نام پر انتہا پسندی‘‘کا جو قصہ ’’ کلمۂ حق ‘‘میں رقم کیا گیا ہے، اس سے بہ صد رنج تصدیق ہوئی کہ روزنامہ جنگ وغیرہ سے جو صورت اور نوعیت اس قصہ کی سامنے آر ہی ہے، وہ ٹھیک ہی ہے۔مگر معاملہ کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اور اس کے بارے میں آپ کا جو شدید احساس و اضطراب تحریر میں نمایاں ہے، اس کو دیکھتے ہوئے’’ کلمۂ حق‘‘ کا حق ادا ہوتا نظر نہیں آیا۔ یہ اگر واقعۃً ’’افسوسناک انتہا پسندی‘‘ ہے تو پھر صرف ’’افسوسناک‘‘ کہہ کے چھوڑ دینے سے تو ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے قلم انتہا پسندی کے دباؤ میں آیا ہواہے اور پورے اظہارِحق کا یارا نہیں ہورہا۔ کیا اسے مایوس کن علامت کہنے کی اجازت دیں گے؟ اگر ’الشریعہ‘ اور شریعہ کونسل کا سکریٹری جنرل بھی صاف یہ نہ کہے گا کہ یہ شریعت کے نام پراٹھائے جانے والا قدم شرعی ہے یاغیر شرعی، توپھر اور کون اپنے ذمہ اس اظہارِ حق کا حق سمجھے گا؟
آپ نے وفاق المدارس کی پوری قیادت کے اسلام آباد آنے اور بھر پور کوشش کے بعد ناکام لوٹ جانے کا بھی ذکر فرمایا ہے جس کا مطلب یہ کہ اس قیادتِ علیا نے اپنے لئے بے بسی کی حیثیت کو قبول کرلیا۔ یہ اور زیادہ اضطراب انگیز بات ہے۔ آخر یہ لا ل مسجد کے خطیب کون بزرگ ہیں جو شریعت کی بابت اپنے فہم کے مقابلہ میں کسی اور کی بات سننے کو تیار نہیں؟ مگر وہ شاید زیادہ قابلِ الزام نہ ہوں اس لئے کہ ان کا جومطالبہ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذکاہے، اس سے بقول آپ کے ’’ ملک بھر کے دینی حلقوں نے اصولی طور پر اتفاق کا اظہار کیا ہے۔‘‘ اس اصولی اتفاق کی سند ملنے کے بعد وہ اگر سمجھیں کہ وہ جو کر رہے ہیں، ٹھیک ہی کر رہے ہیں، تو کچھ ز یادہ دوش انھیں کیوں کر دیا جاسکتا ہے ؟ مولانا، کیا واقعی آپ بھی سمجھتے ہیں کہ جس سیاق و سباق میں یہ مطالبہ کیا جارہا تھا، اُس سیاق و سباق میں بھی اسے اصولی اتفاق کی سند مل جانی چاہئے تھی؟ سیاق و سباق سے میرا مطلب، حکومت کے خلاف غصہ میں بچوں کی ایک لائبریری پر قبضہ (جسے پتہ نہیں کون سی اسلامی شریعت جائز رکھتی ہے؟) اور اس قبضہ سے دستبرداری کے لئے مطالبہ کہ اسلامی نظامِ شریعت کا نافذ کیا جائے، جیساکہ آپ کی تحریر بتا رہی ہے۔ایک غیر اسلامی فعل سے باز آنے کے لئے رکھی گئی اسلامی نظام نافذ کئے جا نے کی شرط کو بھی اگر ملک بھر کے دینی حلقے ’’اصولی طورپر ‘‘اتفاق کی حقدار مان سکتے ہیں توپھر لال مسجد کے خطیب صاحب کا شکوہ عبث ہے۔ ’’اسلامی نظام‘‘ کے آوازہ کا ایسا ماحول لوگوں نے پاکستان میں بنادیا ہے کہ صحیح یا غلط جس اندازسے بھی یہ آواز کوئی اٹھادے نمائندگانِ دین کو صحیح اور بجا کہتے ہی بنتی ہے۔
من ازبیگانگاں ہر گز نہ نالم
کہ بامن آنچہ کرد آں آشنا کرد 
اس بے تکلفی اور گستاخی کی معافی۔ مارچ کے شمارے میں آپ کے یہاں کی تازہ مطبوعات میں ’’ایک علمی و فکری مکالمہ‘‘ کا اشتہار ہے۔کیا میں اس سے مستفید ہو سکتا ہوں؟ 
والسلام
(مولانا) عتیق الرحمن سنبھلی 
(۲)
لندن ۹ ۔اپریل ۲۰۰۷ء
بخدمتِ محترم مولیٰنا سمیع الحق صاحب زید مجدہم ۔جامعہ حقانیہ ۔اکوڑہ خٹک ۔پاکستان
مولانائے محترم،السلام علیکم ورحمۃ اللہ،
خداکرے مزاج بعافیت ہو۔میں گزشتہ ہفتہ تک کئی ماہ سے انڈیا میں تھا۔ یہاں آتے ہی لال مسجد کی کہانی جنگ سے معلوم ہونا شروع ہوئی ۔جس کی تصدیق کی ضرورت تھی تو وہ ،بصد رنج، مولانا زاہدالراشدی کے الشریعہ سے حاصل ہوگئی۔ کل اس پر ایک عریضہ مولانا راشدی کو ای میل کیاہے۔ الشریعہ میں وفاق المدارس کی اعلیٰ قیادت کے اسلام آباد جانے کا بھی ذکر تھا اور اسمائے گرامی میں حقانیہ کے دوبزرگوں کا بھی نام نظر آرہا تھا۔اس حوالہ سے خیال ہو رہا تھا کہ وہ ای میل کیوں نہ آپ کی سمت بھی بڑھادیا جائے۔ابھی فیصلہ نہ کرپایا تھا کہ آج کے جنگ میں مولاناسلیم اللہ خاں صاحب مد ظلہٗ کا بیان پڑھا جس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وفد کے شرکا میں مفتی محمد تقی صاحب عثمانی مولوی عبد العزیز صاحب کے شیخ بھی ہوتے تھے۔ پر وہ محترم اس رشتہ کا لحاظ و پاس دکھانے کو بھی تیار نہ ہوئے۔یہ پڑھ کر ضروری معلوم ہوا کہ اپناعریضہ بلا تأخیر آپ حضرات کی خدمت میں پیش کروں۔اس اضافہ کے ساتھ کہ امام لال مسجد کے اس رویہ کے بعد تومحض اتنا بیان بھی، جو مولانا سلیم اللہ خاں صاحب کے نام سے آیا ہے، کافی نہیں سمجھاجانا چاہئے ۔ اس کے بعد تو آپ حضرات کی پوری قیادت کی طرف سے ان صاحب کا بالکل واضح الفاظ میں ’’برادری باہر‘‘((Ex-communicate کیا جانا چاہئے۔ورنہ ان کے خودسرانہ رویّہ کے ان اثرات سے بچاؤ ممکن نہیں ہوگا جن اثرات کا اشارہ مولانا سلیم اللہ خاں صاحب نے دیا ہے۔ 
والسلام 
عتیق
(۳)
محترم ومکرم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عرض گزارش یہ کہ بندہ اپنے مقام پر بخیر عافیت ہے، اور امید ہے کہ حضرت والا بھی خیرو عافیت سے ہوں گے۔ میں تقریباً ڈیڑھ سال سے مجلہ ’’الشریعہ ‘‘ کا پابندی سے مطالعہ کررہاہوں۔ واقعتا آپ فارسی کی اس کہاوت کے مصداق ہیں جس میں کہاگیاہے :’’ پسر نمونہ پدراست‘‘۔ ......
ویسے تو میرے پاس ہندو پاک کے علاوہ سعودیہ ،کویت وغیرہ سے بھی بے شمار رسائل اردو ، عربی انگریزی وگجراتی میں موصول ہوتے ہیں، مگر ان تمام میں سب سے زیادہ دلچسپ ومعلومات افزا بندہ کو ’’الشریعہ ‘ ’لگا۔ ’’الشریعہ‘‘ کا ہر ماہ بڑی شدت سے انتظارہوتاہے، مگر مجھے بہت دیر سے ملتاہے۔ کبھی بے تاب ہوجاتاہوں تو وقت نکال پر انٹر نیٹ پر بیٹھ جاتاہوں او ر alsharia.org پر جاکر اہم مضامین کا مطالعہ کرلیتاہوں۔ .....
آج بتاریخ ۲۹؍ جمادی الاخریٰ ۴۴۷ا ھ بروز چہار شنبہ بعد صلوٰۃ ظہر کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا تاکہ باوجود اپنی کم علمی مائیگی کے اعتراف کہ’’الشریعہ‘‘ کے بارے میں اولاً کچھ گزارشات وآرا تحریر کروں اور ثانیاً برصغیر میں موجود امت مسلمہ علما وعوام کو درپیش فکری وفقہی وعلمی مسائل کے بارے میں چند تجاویز پیش کروں ۔......
(الف )’’الشریعہ ‘‘کے سلسلے میں چند تجاویز:
(۱) الشریعہ ایک علمی معیاری رسالہ ہے مگر ضروری نہیں کہ ا س کے قارئین علما ومحققین ہی ہوں بلکہ طلبا اور عوام بھی ضرور اس کو پڑھتے ہوں گے، لہٰذا ہر مضمون نگار کا مختصر تعارف او ر کس مکتبہ فکر سے اس کا تعلق ہے، مضمون کے شروع ہی میں دے دیا جائے تاکہ طلبا وعوام یا جدید تعلیم یافتہ کا وہ طبقہ جو ’’دینی اور اسلامی علوم‘‘ میں پختگی نہیں رکھتے، متاثر نہ ہونے پاوے، اس لیے کہ جس طرح لان یھدی اللہ بک رجلا خیر لک من حمر النعمجہاں ذکر کیاگیا، وہاں یہ بھی کہا ’’ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان ‘‘ ....
(۲) الشریعہ میں خطوط تو ماشاء اللہ آزاد انہ شائع ہوتے رہے ہیں، چاہے مرسلِ نے تنقید کی ہو یا تحسین ،مگر کچھ خطوط جواب طلب ہوتے ہیں، لہٰذا ان کے جوابات بھی شامل اشاعت ہونے چاہییں۔
(۳) علما نے محققانہ انداز میں انگریزی ماہ کے اسما کو شرکیہ قراردیاہے لہٰذا یا تو انگریزی مہینوں کے نام سرے سے نہ ہوں اور اگر ہوں تب بھی ضمناً سرِ ورق پر اسلامی مہینوں ہی کے نام ہونے چاہیے۔ ہم ایک مجلہ اپنے ادارے سے شائع کرتے ہیں، اس میں صرف اسلامی مہینوں کے نام پر اکتفا کرتے ہیں۔یہ چند تجاویز جو ذہن میں گردش کررہی تھی، اس کو ’’الدین النصیحۃ‘‘ کے پیش نظر صفحہ قرطاس پر بکھیر دی گئی امید ہے کہ توجہ فرمائیں گے ۔
(ب) برصغیر میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل :
(۱) مسلمان کے لیے اس کا دین سب سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا دور حاضر میں دشمنان اسلام نے اسلام کے مقابلہ میں ’’الغزو السلاحی‘‘ میں شکست کھانے کے بعد ’’الغزو الفکری ‘‘ کا آغاز کیا جس میں وہ بڑی حد تک اپنے آپ کو کامیاب سمجھ رہاہے۔ اس کے لیے اس نے اسلامی ممالک میں کہیں بعث پارٹی ،کہیں ’’القومیۃ العربیۃ‘‘ وغیرہ کوقائم کیا۔ برصغیر میں بھی جب اس نے دیکھا کہ شاہ عبد العزیز صاحب کے فتواے جہاد کی وجہ سے مسلمانوں میں جہاد کی روح بیدار ہوچکی ہے اور پھر ۱۸۵۷ء تک تو اس نے جہا دکی ایک منظم صورت اختیار کرلی ہے، تب ہی اس کو اپنی شکست کے آثار محسوس ہونے لگے تھے، لہٰذا اس نے کچھ مسلمانوں کو اپنے اعتماد میں لے کر اسلام متصادم عقائد کی دعوت کے لیے کھڑا کیا۔ کسی کو دولت کی لالچ دے کر، کسی کو بڑے بڑے القاب دے کر کھڑا کیا اور یوں بے شمار باطل فرقے کھڑے کرنے میں کامیاب ہوا، مثلاً نیچر یت، قادیانیت، بریلویت، غیر مقلدیت، پرویزیت۔ اس کے لیے اس نے برصغیر میں انگریز ی اور عصری علوم کے کالجز بنائے۔ مسلمان طلبا اس میں گئے جبکہ ان کے پاس دین کا ذرا برابر بھی شعور نہ تھا۔ نتیجتاً وہ انہی کے رنگ میں رنگ گئے اور الحاد اور زندقہ کا بازار گرم ہوگیا او ردیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کا کافی بڑا طبقہ صحیح اسلامی فکرو عقائد سے محروم ہوگیا۔ لہٰذا آپ کی نگرانی میں مرتب ومہذب سلسلہ وار ایک ایسا مضمون شائع ہو جس میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں عقائد اہل سنت والجماعت اعتدال کے ساتھ شامل ہوں اور انداز مثبت ہو۔
(۲) اسی طرح ایک ایسا مضمون شائع ہو جس میں عقائد سے متعلق مروجہ باطل نظریات کی تردید ہو،مثلاً نظریہ ارتقا کا بطال، نظریہ وحدۃ ادیان کا ابطال، نظریہ انکار حدیث کا ابطال ، نظریہ تجدد دین کا صحیح مفہوم اور اس کی حدود اور اس سے متعلق منفی پہلو وں کے نقصانا ت، الحاد کے اسباب ومضمرات اور اس کا ابطال، استعمار اور عالمگیریت کے منفی پہلو کا اثبات، مغربیت پسندی کا ابطال وغیرہ وغیرہ۔
(۳) برصغیر کے مدارس کے طلبا وعلما کے لیے ’’الغزو الفکری‘‘ کا مکمل تعارف، اس کا تاریخی پس منظر اور اس کی صحیح ترتیب مثلاً الغزو الفکری عہد نبوی صلی اللہ علیہ السلام میں، الغزو الفکری بصورت ارتداد عہد صدیقی میں، الغزو الفکری عہد فارقی میں، الغزو الفکری بصورت خوارج عہد عثمانی میں، الغزو الفکری بصورت روافض وخوارج عہد مرتضوی میں، الغزو الفکری عہد بنو امیہ میں بصورت قدریہ وجبریہ وغیرہ، الغزو الفکری عہد بنی عباس میں بصورت اعتزال، الغزو الفکری عہد عثمانیہ میں بصورت تنصیر (یعنی نصرانی بنانے کی سازش ) اور بصورت تغریب وقومیت عربیہ وترکیہ اور استشراق، الغزو الفکری دو ر حاضر میں بعد سقوط خلافت اسلامیہ بصورت الکٹرانک وپرنٹ میڈیا اور بصورت تجدد اور اباحیت پسندی اور قیام فرق باطلہ اور بصورت انٹر نیٹ وکثرت فلم سازی وغیرہ ۔
(۴) اسی طرح برصغیر کے مسلمانوں کے لیے اردو زبان میں ’’نوازل فقہیہ معاصرہ ‘‘ یعنی جدید مسائل کو ایک عمدہ ترتیب کے ساتھ یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو عوام الناس کے لیے جس میں صرف جائز وناجائز بغیر دلیل بتایا جائے۔ ایک علما کے لیے دلائل کے ساتھ۔ سرزمین عر ب پر اس سلسلہ میں کافی کام ہو چکاہے، مگر برصغیر میں ابھی کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا۔ اس کے لیے اولاً پیش آمدہ مسائل کو جمع کرکیاجائے، مثلاً طہارت ،صلوٰۃ، زکوٰۃ ،حج ،قربانی، نکاح، معاملات وغیرہ ابواب قائم کیے جائیں اور پھر پوری گہرائی سے اس کا مطالعہ کیاجائے یاپھر اس کے جوابات تیار کیے جائیں اورمعتبر فقہا کی طرف اس سلسلے میں رجوع کیاجائے ۔.....
(مولانا) محمد حذیفہ وستانوی
Madrasa Isha'atul Uloom, Akkalkuwa
Distt. Nandurbar (M.S) INDIA
(۴)
جناب زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم! امید ہے بخیریت ہوں گے۔
’الشریعہ‘ کا فروری کا شمارہ ملا۔ یقیناًبہت سے موضوعات دلچسپی اور علم میں اضافے کا موجب ہوتے ہیں، لیکن ایک ایسا جریدہ جو مذہبی خیالات کا حامل ہو، اس میں یکایک پیپلز پارٹی کے متعلق (بلکہ اس کے خلاف) مواد شامل کر دیا جائے تو کوئی بھی شخص یہ سمجھنے میں دیر نہیں کرے گا کہ ایجنسیاں گویا ’الشریعہ‘ میں بھی آ ٹپکی ہیں۔ آج کے دور میں کوئی بھی مسئلہ کلر بلائنڈ ہو کر نہیں دیکھا جا سکتا اور نہ اس پر لکھا جا سکتا ہے، اس لیے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تک عام آدمی کی بھی رسائی ہے۔ اس کے علاوہ بھٹو کی جاں نثار ٹیم ابھی باقی ہے جنھوں نے صرف مشاہدہ ہی نہیں، عملی کام بھی کیا ہے۔ یاد ہوگا کہ آپ نے ضیاء الحق کو ’شہید‘ لکھا تھا جس پر میں نے احتجاج کیا تھا۔ اب مجھے سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی کہ آپ بھی ضیا کی باقیات میں سے ہیں جس نے ایک عام مولوی کو بھی خاص بنا دیا اور ماشاء اللہ نام نہاد ملا دین کی ترویج کے نام پر سیاسی فوائد سے خوب بہرہ ور ہو رہے ہیں۔
ذو الفقار علی بھٹو بھی یقیناًایک انسان تھا جو خوبیوں اور خامیوں کاحامل تھا، لیکن یہ امر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس قوم کے لیے اس کی بے شمار خدمات ہیں جن میں چیدہ چیدہ یہ ہیں: ۱۹۷۳ء کا آئین، مزدوروں کے لیے سوشل سکیورٹی سسٹم، متعدد میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں کا قیام، کامرہ کمپلیکس، کرپشن سے پاک حکومت، ۹۰ ہزار جنگی قیدیوں کی واپسی، ایٹم بم کے حصول کے لیے کام کا آغاز، صوبائی ونسلی منافرت سے پاک معاشرہ، بلکہ حنیف رامے کے بقول زیڈ اے بھٹو کا یہی کارنامہ سب کارناموں پر بھاری ہے کہ اس نے عام آدمی کو شعور دیا۔ ’الشریعہ‘ کے مضمون نگار کا یہ کہنا کہ لوگ بھٹو کی موت کے بے حد tragic ہونے کے سبب سے اس کے گرویدہ ہو گئے، درست نہیں۔ موت تو ضیاء الحق کو بھی آئی، لیکن آج اس کا نام لیوا کوئی نہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ’الشریعہ‘ جیسے خوبصورت میگزین کو سیاسی معاملات بالکل ڈسکس نہیں کرنے چاہییں، اس کے لیے متعدد دوسرے سیاسی میگزین موجود ہیں۔ اگر ایسا ضروری بھی ہو تو غیر جانبدارانہ رپورٹنگ ہونی چاہیے۔ موضوع کوئی بھی شخصیت ہو، اس کا خوب صورت تجزیہ کر کے نتیجہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے۔ بے نظیر بھٹو کا ذو الفقار علی بھٹو سے کوئی موازنہ نہیں۔ بے نظیر عہدے داران کی لیڈر ہے جبکہ بھٹو قائد عوام تھے۔
آپ نے اداریے میں یورپ کی روشن خیالی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو میر ے خیال میں جانبدارانہ ہے۔ یورپ کی روشن خیالی صرف فری سیکس تک محدود نہیں۔ تعلیمی، سماجی اور سیاسی حوالوں سے اس کی ترقی اور روشن خیالی قابل تعریف ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمیں اپنے کلچر اور اقدار کے مطابق روشن خیالی کو فروغ دینا چاہیے۔اللہ آپ کا حامی وناصر ہو۔
محمد سعید اعوان
اروپ۔ گوجرانوالہ
(۵)
واجب الاحترام جناب مدیر ماہنامہ الشریعہ 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے موقر رسالہ میں رنگ رنگ کے آرا وافکار کے حامل مضامین سے محظوظ ہونے کا موقع ملتارہتاہے۔ مارچ ۲۰۰۷ ؁ ء میں حافظ محمد ابراہیم شیخ صاحب، حافظ محمد زبیر کے مضمون شائع شدہ ماہ فروری۰۷ ؁۲۰ء پر غیر مودبانہ ہونے کا لیبل لگا کر خود بھی بے اعتدالی کا شکار ہوئے ہیں۔ حافظ محمد زبیر صاحب نے محترم غامدی صاحب پر اپنے تنقیدی جائزہ میں کوئی خلاف حقیقت بات نہیں لکھی ہے، بلکہ جابجا اقتباسات وحوالہ جات دیے ہیں۔ اگر غامدی صاحب کے کرم فرماؤں کو ان تنقیدوں پر اعتراض ہے تو اپنے ممدوح سے ہاتھ جوڑ کر التجا کریں کہ براہ کرم دین اسلام مکمل ہوچکاہے، اس کے لیے مزید نئے اصول وقوانین وضع نہ کیجیے جس سے امت محمدیہ ؑ میں وحدت کے بجائے انتشار واضطراب کو فروغ ملے۔
یہودیوں ،عیسائیوں اور دیگر کفار کو قرآن کریم پر محض اس لیے ناراضگی اور شکایت ہے کہ اس میں ان کے اعمال اور کرتوتوں کی قلعی کھول دی گئی ہے ۔بھلا اس اظہار حقیقت پر ناراضگی کیوں؟ وہ خود ،قرآن کا شکریہ ادا کرکے اپنی اصلاح کریں۔ محمد زبیر صاحب نے بھی غامدی صاحب کی اپنی تحریروں اورکتابوں کا حوالہ دیا ہے ۔کیا حافظ ابراہیم صاحب یہ کہہ کر جھوٹ کا ارتکاب کریں گے کہ غامدی صاحب نے ایسا نہیں کہاہے ؟
قاری محترم، آپ خود انصاف کیجیے کہ حافظ محمد زبیر نے غامدی صاحب کی طرف صرف چار مآخذ دین کی نسبت کتاب ’میزان‘ کی فصل ’اصول ومبادی‘ صفحہ ۴۷ تاصفحہ ۵۲ کی روشنی میں کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بقول آپ کے علمائے اسلام کے بیان کردہ ماخذ دین سے اتفاق بھی صفحہ ۹ تا ص ۱۱ میں بیان ہواہے ۔یہ بات تو غامدی صاحب کی غیر مستقل مزاجی یا فکری انتشار واضطراب کی مظہر ہے۔ ماہنامہ الشریعہ ستمبر ۲۰۰۶ء ؁ میں بھی غامدی صاحب کے تصور سنت کے تنقیدی جائزہ میں ان کے، اپنے وضع کردہ اصولوں سے انحراف کی باحوالہ مثالیں دی گئی ہیں۔ اس پر حافظ محمد ابراہیم صاحب نے کسی برہمی کااظہار نہیں کیا۔گویا انہیں بھی حافظ محمد زبیر صاحب کی تنقیدوں سے اتفاق ہے، ورنہ اختلاف کا موقع ضائع نہ جانے دیتے۔
آخر میں حافظ محمد زبیر کو خداخوفی کی تلقین کی گئی ہے۔ بے شک یہ ایک اچھی نصیحت ہے جسے بصد شکریہ قبول کرنا چاہیے۔ قرآنی تعلیم بھی یہی ہے۔ ہم سب کو ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی شخص بھی اس سے بے نیاز نہیں۔ خصوصاً قرآن وحدیث کے ابدی وزریں اصولوں سے انحراف کرنا، جمہور علمائے اسلام سے ہٹ کر اور انہیں ناسمجھ وکم وفہم ٹھہرا کر آئے دن اسلامی تعلیمات کی حیرت انگیز تشریح کرنا کوئی ترنوالہ نہیں جسے نگلنا آسان ہو۔ سب کو خوف الٰہی دامن گیر رہناچاہیے ۔ فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنۃ اویصیبھم عذاب الیم۔
اللہ تعالیٰ ہمیں عجب اورتکبر سے محفوظ رکھے اورراہ حق پر گامزن رہنے کی توفیق دے۔
رحیم اللہ وارثی
غواڑی، بلتستان، پاکستان

’دشتِ وصال‘ پر ایک نظر

پروفیسر میاں انعام الرحمن

’ رگِ خواب‘، ’قربِ گریزاں‘ اور ’حریم حمد‘ کے بعد منیر الحق کعبی کا نیا مجموعہ کلام ’دشتِ وصال‘ کے نام سے منظرِ عام پر آ رہا ہے۔ اس شعری مجموعے میں اگرچہ تخیل اور اسلوب کی چند نئی جہتیں پر پرزے نکالتی محسوس ہوتی ہیں، لیکن اس کے باوجود کعبی کے شعری سبھاؤ کی روایتی پرچھائیاں دشت سے لے کر وصال تک پھیلتی چلی گئی ہیں۔ ملاحظہ کیجیے :
تازہ ہوائے صبح پھر دل کو خطاب کر گئی 
باغ کی ہر کلی کھلی ، کھل کے گلاب کر گئی
یاد کے شاخسار پر گل جو کھلے بکھر گئے 
خانہ خراب سوچ کا خانہ خراب کر گئی 
تھل کے ہر ایک ذرے میں پنوں کا عکس دیکھ کے 
سسی وصال کے لیے خود کو کباب کر گئی 
وصال کے لیے خود کو کباب کرنے کی ترکیب اچھوتی ضرور ہے، لیکن قدرے غیر سنجیدہ بھی معلوم ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس غیر سنجیدگی اور اچھوتے پن کے باوجود اس میں دلکشی اور واقعیت پسندی کا حسین امتزاج موجود ہے۔ کباب، مسلسل جھلسنے سے بنتا ہے۔ تھل اور کباب کے ذکر سے واقعیت پسندی کا اظہار ہو رہا ہے اور دلکشی اس طرح پیدا ہوئی ہے کہ کعبی نے ’ ہجر و فراق ‘ کی جاں گسل کیفیت کو مسلسل جھلسنے سے تعبیر کر کے کچھ ایسی رمزیت میں پیش کیا ہے کہ غور کرنے پر فقط ’ دشتِ وصال ‘ ہی سے پالا پڑتا ہے۔ مذکورہ بالا پہلا شعر اور دوسرے تیسرے شعر کے پہلے مصرعے، غزل کا روایتی سبھاؤ لیے ہوئے ہیں۔ ان میں تکلف، ٹھاٹھ، وضع داری اور شایستگی کے وہ تمام اسالیب جھلملا رہے ہیں جن کی مدارات ایک زمانے تک ہماری تہذیب کا خاصہ رہی ہے، لیکن دیگر مصرعے جہاں ایک طرف تکلف سے ہٹتے دکھائی دیتے ہیں، وہاں دوسری طرف ان میں ایسی برجستگی امڈتی چلی آئی ہے جو غزل سے وابستہ روایتی تہذیب سے متصاد م ہوتے ہوئے بھی شایستگی اور اظہار کے کلچرل اسالیب کا دامن تھامے ہوئے ہے۔ آخر ’’ خانہ خراب سوچ کا خانہ خراب کر گئی ‘‘ کو اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ 
اس مجموعہ کلام میں کعبی نے نہایت کامیابی سے بعض آفاقی سچائیوں کا برجستہ اظہار کیا ہے ۔ مثلاً:
اپنے اندر جو کھو گئے تنہا 
گھر کے باہر بھی ہو گئے تنہا
انسان کے تارک الدنیا ہونے کے کئی پہلو اور ان گنت کیفیات ہیں ۔ اس شعر میں کعبی نے ان تارک الدنیا لوگوں کی پھیکی اور بے رونق زندگیوں کی عکاسی کی ہے جو معاشرے سے بظاہر ربط و تعلق رکھتے ہیں لیکن حقیقتاً اتنے خود پسند یا دروں بیں (introvert) ہوتے ہیں کہ انتہائی ناگزیر سماجی تقاضوں کی بھی قطعاً پرواہ نہیں کرتے ۔ بقول کعبی، ایسے لوگ مجلسی ہونے کے باوجود تنہا ہوتے ہیں۔ اپنے من میں ڈوب کر زندگی کا سراغ پانے والے بھی کسرِ کعبہ کی اس عدالت میں مجرم کی حیثیت سے کھڑے ہیں، کیونکہ زندگی ’میں ‘ نہیں بلکہ ’تو‘ ہے۔ اس شعر کے دوسرے مصرعے میں ’’ بھی ‘‘ نے معنویت کو چار چاند لگا دیے ہیں ۔ ایک اور آفاقی سچ ملاحظہ فرمائیے:
پھول مہکا گئے چمن کعبی 
خار خود کو چبھو گئے تنہا 
جہاں یہ کڑوا سچ موجود ہے کہ پھول کے ساتھ خار بھی ہوتے ہیں، وہاں یہ سچائی بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ پھول کی خوشبو چہار سو پھیل کر ان گنت نفوس کو لبھاتی رہتی ہے جبکہ خار، پھول کی مہکار کے مانند مجلسی نہیں ہوتا، فقط تنہا ہوتا ہے۔ جی ہاں ! خار تنہا ہی کسی کو چبھتا ہے۔ کوئی خار بیک وقت ایک سے زیادہ لوگوں کو نہیں چبھ سکتا۔ کعبی نے نہایت بلیغ شعری پیرایے میں خیر ، نیکی اور اسی قبیل کی دیگر اقدار کو پھول اور پھول کی مہکار سے تشبیہ دی ہے کہ خیر، مجلسی ہوتا ہے، اس میں خارو شر کے مانند ’ میں ‘ نہیں ہوتی بلکہ یہ سر تا پا ’ تو ‘ ہی ہوتا ہے۔ ’ تو ‘ کے ایسے مطلق اثبات سے ہی ’’خیر ‘‘خود توسیعی کے ناتمام عمل سے مسلسل گزرتا رہتا ہے۔ اگر مذکورہ دونوں شعر بطور قطعہ لیے جائیں تو معنویت کی مزید پرتیں کھلتی چلی جاتی ہیں ۔ایک شعر ملاحظہ کیجیے، یہ چند نئے شیڈز کے ہمراہ مذکورہ مستور معنویت کا تشریحی نوٹ معلوم ہوتا ہے :
وہ اپنی ذات کے خفاش خانے میں ہی مرتا ہے 
کوئی جگنو چمکتا دیکھ لیتا ہے تو ڈرتا ہے 
پہلے مصرعے میں ’’ ہی ‘‘ نے تشریح کی تشریح کر دی ہے۔ ایک اور شعر میں کعبی نے ’’ میں ‘‘ پر زبردست چوٹ کی ہے:
بہت گمان تھا مجھ کو انا کی وحدت پر 
میں اپنی ذات کے ٹکڑوں میں بٹ گیا پھر بھی 
ایک غزل کے یہ اشعار بھی قابلِ غور ہیں:
وہ آسمان پہن کر نکل تو آیا تھا 
بھلا دیا کہ زمین اس کا اپنا سایا تھا
تمام عمر انا کے حصار میں گزری 
عذابِ ہجر کو خود ہی گلے لگایا تھا 
ہر ایک شخص گھٹن کا شکار تھا پھر بھی
عجیب شور مرے شہر نے مچایا تھا 
پہلے دو شعر اثباتِ ذات (Self Assertion) کی اسی منفیت کے غماز ہیں جس کا ذکر اوپر ہو چکا۔ تیسرے شعر کے پہلے مصرعے کا پہلا ٹکڑا ’’ ہر ایک شخص‘‘ عمومیت کا حامل ہے ، لیکن یہ کسی معنی کا اظہار کرنے کے بجائے قدرے سوالیہ دکھائی دیتا ہے۔ دوسرا ٹکڑا ’’ گھٹن کا شکار تھا‘‘ معنی کی ایک پرت کھولتا ہے۔ اس کے بعد تیسرا ٹکڑا ’’ پھر بھی ‘‘ معنوی اکائی کی تشکیل کرتے ہوئے معانی کی امکانی جہتوں کو سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ دوسرا مصرعہ جہاں پہلے مصرعے کی تکمیل کرتا ہے، وہاں ’’عجیب شور‘‘ گھٹن کے مقابل آ کر ایک نفسیاتی حقیقت کا اشاریہ بن جاتا ہے۔ شعر گوئی کے اس عمل کو ’’ گیسٹالٹ نفسیات ‘‘ (Gestalt Psychology) کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے جس کے مطابق ’’ کُل ، اپنے اجزا کے مجموعے کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے ۔‘‘ جس طرح غزل کے ہر شعر کی انفرادیت کے باوجود پوری غزل ایک خاص موڈ اور ایک خاص زاویے کو منعکس کرتے ہوئے ’’کل‘‘ کی حامل ہوتی ہے، اسی طرح غزل کا ہر شعر بھی ایسا کُل ہو تا ہے جو اپنے اجزا کے مجموعے کے مقابلے میں معنویت کی زیادہ پرتیں سامنے لاتا ہے۔ ایک اور شعر دیکھیے :
پتی پتی اس کے ہونٹوں کا سایا محسوس 
پھول اسی کا نقش اتاریں کس سے بات کریں
’’ پتی پتی ‘‘ پہلا ٹکڑا ہے جس کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ دوسرا ٹکڑا ’’ اس کے ہونٹوں کا ‘‘ نہ صرف تشبیہ اجاگر کرتا ہے بلکہ اس کے توسط سے معنویت کی ایک پرت کھل جاتی ہے۔ تیسرا ٹکڑا ’’ سایا محسوس ‘‘ جہاں دوسری پرت کھولتا ہے، وہاں پہلے مصرعے کی معنویت کو ایک لڑی میں پرو دیتا ہے۔ اسی طرح دوسرے مصرعے کا پہلا ٹکڑا ’’ پھول اسی کا ‘‘ کوئی نئے معنی پیدا نہیں کرتا۔ دوسرا ٹکڑا ’’نقش اتاریں ‘‘ دو سطحوں پر معانی دیتا ہے۔ ایک تو پہلے ٹکڑے کے ساتھ مل کر اور دوسرا اپنے سے قبل کے چاروں ٹکڑوں کے ساتھ مل کر۔ دوسرے مصرعے کا آخری ٹکڑا ’’کس سے بات کریں‘‘ اس مصرعے کو نئے معانی پہناتا ہے اور اپنے سے قبل کے پانچ ٹکڑوں کے ساتھ مل کر معنوی اعتبار سے قدرے مختلف ہو جاتا ہے۔ اب اگریہاں اجزا کے مجموعے کے بجائے کل کی معنویت سامنے لائی جائے تو وہ بلاشبہ زیادہ بلیغ اور گہری ہو گی ۔
بعض مقامات پر کعبی نے ان نفسیاتی عوارض کی طرف اشارہ کیا ہے جو کسی بھی ناہموار سماج میں ناسور کی طرح پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً :
ہم تو حیرت سے پتھر بنے رہ گئے 
حسرتوں نے بھی ارماں نکالے بہت 
اس شعر میں ایسا نہیں کہ دوسرے مصرعے نے پہلے مصرعے کی تکمیل کی ہے بلکہ حقیقت میں دونوں مصرعے ایک دوسرے کا تکملہ معلوم ہوتے ہیں۔ البتہ حیرت سے پتھر بننے کے عمل نے انتہائی شدت پیدا کی ہے جس سے مطلوب معنویت تک قاری کی رسائی آسان تر ہو جاتی ہے۔ جہاں تک حسرتوں کے ارمان نکالنے کا تعلق ہے، وہ اتنے ناگفتنی ہیں کہ حیرت سے فقط پتھر ہی بنا جا سکتا ہے۔ ’’ پتھر بنے رہ گئے ‘‘ سے ایک اور اہم نکتہ سامنے آتا ہے کہ جب حسرتیں ارمان نکالنے پر اتر آئیں تو ان کے تدارک کی خاطران کے مقابل کسی بھی قسم کی فعالیت کا مظاہرہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ حسرتیں دائرہ در دائرہ پھیلتی نہیں رہنی چاہییں تاکہ فرد اور سماج اپنے اپنے مقام سے ہٹنے نہ پائیں۔ 
کعبی کے کلام میں ’’ گلاب ‘‘ بکثرت موجود ہے، لیکن یہ مختلف اشعار میں اس طرح برتا گیا ہے کہ اس کو کوئی قطعی معنی نہیں دیے جا سکتے ۔ غور کیجیے: 
اسے دیکھا تو لوٹ آئیں بہاریں 
گلابوں کا ابھی موسم نہیں تھا 
گلاب اس کے لبوں سے مل کر شراب ٹھہرے 
اب اس کی ہر سانس انگبیں تھی ہم ایسے خوش تھے 
زیرِ لب ہی رہ گئے مرجھا کے حرفوں کے گلاب 
پھر سے تشنہ رہ گئی ہے داستان ِ اضطراب 
تم گلابوں کے ہم سفر کعبی 
زندگی وادئِ مغیلاں ہے 
اس شعر کو دیکھیے : 
گلاب اب بھی کھلے ہیں لیکن کوئی بتائے 
وہ اڑتی پھرتی سفید تتلی کدھر گئی ہے 
’’ کدھر گئی ہے ‘‘ کے بغیر بھی شعر کی معنویت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ گلاب کے مقابل سفید تتلی ، تلمیح معلوم ہوتی ہے، جس طرح نیلم بھی کلامِ کعبی کی ایک بڑی تلمیح ہے۔ اگر کعبی کی گلابوں کی ہم سفری کو پیشِ نظر رکھا جائے تو گلاب کا کھلنا ایک مخصوص ذہنی و دلی کیفیت کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ کیفیت ’’اڑتی پھرتی سفید تتلی‘‘ کی یاد دلا دیتی ہے۔یہ یاد کبھی تو خانہ خراب سوچ کا خانہ خراب کرتی ہے اور کبھی کعبی کی زندگی کی وادئ نیلم کو وادئ مغیلاں میں ڈھال دیتی ہے ۔ کوئی ہے جو غزالِ دشتِ غزل کو اس کی ذرا خبر کر دے؟ عام طور پر لوگ کسی پیارے کی یاد کے سہارے ساری زندگی بِتا دیتے ہیں ۔ کسی کے نزدیک یاد بیساکھی کی حیثیت رکھتی ہے تو کسی کے ہاں اس کا مقام ’’ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ‘‘ جیسا ہوتا ہے ، لیکن دشتِ وصال کے شاعر کو یہ کم بخت یاد صرف تنہا ہی نہیں کر گئی بلکہ اس نے کیا ستم ڈھادیا ہے ، ملاحظہ کیجیے: 
مرے اندر کی محفل مر گئی ہے 
تمھاری یاد تنہا کر گئی ہے 
اسی غزل کا یہ شعر بھی قابلِ غور ہے :
فریب ایسے دیے ہیں زندگی نے 
مری معصومیت اب ڈر گئی ہے 
پہلے مصرعے میں ’’ ایسے ‘‘ اور دوسرے مصرعے میں ’’ اب ‘‘ نے معنوی لحاظ سے کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہنے دی ۔ 
کعبی کے اس مجموعے کے یہ دو شعر غالب کے ایک مشہور شعر کی یاد تازہ کر دیتے ہیں ۔ ذرا یاد داشت پر دستک تو دیجیے :
اُگے ہیں نور کے اشجار ہر سو 
ستارے خاک میں ایسے ملے ہیں 
ملی ہیں دھڑکنیں مٹی میں شاید 
ہوا ایسے ہی دیوانی نہیں ہے 
انسان کی خلائی تسخیر پر تیکھا طنز ملاحظہ کیجیے :
ہر ستارہ بجھا بجھا کعبی 
کہکشاں کس نے اب سنبھالی ہے 
ثقہ ناقدین کی رائے ہے کہ معاملہ بندی لکھنو کے شاعروں پر ختم ہے۔ ایسے شعرا کے ہاں عموماً لمبی ردیف ملتی ہے جو ترنم، غنائیت اور موسیقیت کو مہمیز عطا کرتی ہے ۔ کعبی کے ہاں معاملہ بندی میں دشتِ وصال جلتا نظر آتا ہے :
دل رک گیا مرا بھی نظر وہ بھی جھک گئی 
خاموش حادثوں کی یہی تو اٹھان تھی 
ٹھہری تو ہر نگاہ بدن میں اتر چلی 
یہ بھی نہیں کہ چل پڑی تو بے دھیان تھی 
طویل ردیف کی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے: ’’ ہے اسے دیکھنا اسے سوچنا‘‘، ’’ہے چلو دیکھیں تو‘‘، ’’ہوتا جا رہا ہے ‘‘، ’’کبھی ہم ایسے خوش تھے‘‘۔ لمبی ردیف، غزل کی معنویت کو عام طور پر پابند کر دیتی ہے ، ذرا دیکھیے :
زمیں پاتال سے اٹھ کر مہ و مریخ پر پہنچی 
فرشتوں میں وہی بوڑھی کہانی رقص کرتی ہے 
کہیں کوئی محبت سے بھرا انساں نہیں ملتا 
دلوں کی دھڑکنوں میں بد گمانی رقص کرتی ہے 
ہرے پتے بھلا کب تک صبا کے ہاتھ میں رہتے 
پسِ ہر شاخ میں نقلِ مکانی رقص کرتی ہے 
اس قسم کی غزل میں معنوی تحدید کے باوجود کچھ ایسی کشش اور آرایش بہر حال جھلملاتی رہتی ہے جو قارئین ، بالخصو ص سامعین کو اپنی جانب مسلسل متوجہ رکھتی ہے۔ کعبی کا یہ شعر معاشرتی رویوں کی مدافعت میں جھنجھناہٹ کا آہنگ لیے ہوئے ہے:
ٹھیک ہے خود کشی حرام سہی 
عصمتِ نفس تو بچالی ہے
لیکن یہ جھنجھناہٹ اس شعر کے انتہائی سطحی فہم سے برآمد ہوتی ہے۔ تھوڑا غور کرنے پر عیاں ہوتا ہے کہ یہاں خود کشی سے مراد ان جائز خواہشات اور حسرتوں کو دبا کر رکھنا ہے جن کی تکمیل آج کے دور میں عصمتِ نفس کے عوض ہی ہو سکتی ہے ۔ ’دشتِ وصال ‘ کے کئی فنی و فکری پہلو طشت از بام آنے کے لیے پہلو پر پہلو بدل رہے ہیں، لیکن ہم طوالت کے خوف سے کعبی کے اس شعر پر بات ختم کرتے ہیں : 
ہَوا چاکِ گریباں سے ہے گزری
مرے اندر کا منظر بولتا ہے

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’پرویز صاحب کا فہم قرآن‘‘

غلام احمد پرویز صاحب کے فہم دین اور ان کے پیش کردہ افکار پر علمی حلقوں کی جانب سے مختلف نوع کی تنقیدیں سامنے آ چکی ہیں۔ جناب جاوید احمد غامدی نے اپنے ایک خطاب میں مدرسہ فراہی کے مخصوص ذوق کے تناظر میں پرویز صاحب کے اس طریق تفسیر کی خامیاں واضح کی تھیں جس کے تحت وہ قرآنی الفاظ کا مدعا ومفہوم طے کرتے ہیں۔ غامدی صاحب کے تنقیدی زاویہ کو خورشید احمد ندیم صاحب نے اپنے ایک مضمون میں مزید مثالوں سے واضح کیا۔ یہ تنقید اہل علم میں دلچسپی سے پڑھی گئی اور پرویز صاحب کے فکر سے متاثر بعض حضرات کے لیے بھی، جن میں زیر نظر کتابچہ کے مرتب جناب شکیل عثمانی بھی شامل ہیں، تنبہ کا باعث بنی۔ 
دار التذکیر، اردو بازار، لاہور نے غامدی صاحب کے مذکورہ خطاب اور خورشید ندیم صاحب کے مضمون کو ایک کتابچہ کی صورت میں شائع کیا ہے جس میں فکر پرویز کے حوالے سے شکیل عثمانی صاحب اور احسن تہامی صاحب کی تاثراتی تحریریں بھی شامل ہیں۔ خورشید احمد ندیم صاحب کے مضمون میں درج بعض مثالوں کے حوالے سے طلوع اسلام اور اشراق میں مزید بحثیں بھی شائع ہوئی تھیں۔ اگر ان سب تحریروں کو یکجا کر کے ایک مجموعے کی شکل دی جائے تو قارئین کے لیے طرفین کے موقف اور استدلال کو سمجھنے میں زیادہ مدد مل سکتی ہے۔
صفحات: ۴۸۔ قیمت: ۲۴ روپے۔
(عمار ناصر)

’’قیادت اورہلاکت اقوام ‘‘ / ’’توحید اورشرک‘‘

زیر نظر دونوں کتابیں الفوز اکیڈمی کی شائع کردہ ہیں۔ ’’قیادت اور ہلاکت اقوام‘‘ کے زیر عنوان خلیل الرحمن چشتی صاحب نے زلزلوں اوردیگر آفات سماوی سے قوموں کی ہلا کت کے متعلق الٰہی ضابطے قرآن مجید کی روشنی میں موثر اور عام فہم انداز میں پیش کیے ہیں۔ قوموں کی ہلاکت میں فاسق وفاجر قیادتوں کا کتنا عمل دخل ہوتاہے، یہ نکتہ بھی واضح اورمدلل انداز میں لکھاگیاہے۔ 
’’توحید اور شرک‘‘ کے زیر عنوان کتاب میں محمد خان منہاس اور خلیل الرحمن چشتی نے توحیداورشرک کی مختلف اقسام کو واضح، عام فہم اورمدلل انداز میں تحریرکیاہے۔ یہ کتاب کسی خاص فرقہ کے خلاف نہیں بلکہ عام فہم علمی انداز میں اپنا سوز دروں دوسروں تک عام کرنے کی عمدہ کوشش ہے۔ دونوں کتابیں اس قابل ہیں کہ درس قرآن کے حلقوں میں اور عوامی سطح پر انھیں عام کیا جائے۔ 
ناشر:الفوز اکیڈمی گلی نمبر ۱۵ ،پولیس فاونڈیشن ۴؍۱۱ Eگولڑہ ،اسلام آباد 
(مولانا مشتاق احمد)

’’تحقیق مسئلہ ایصال ثواب‘‘

’’ایصال ثواب‘‘ کے مسئلے میں ایک گروہ نے اگر افراط کا شکا ر ہوکر دین میں بدعات کو داخل کر دیا ہے تو دوسرے گروہ نے تفریط کا شکار ہو کر اس کا سرے سے انکار ہی کردیا ہے ۔ زیر نظر مجموعہ میں قاری جمیل الرحمن اختر صاحب نے مسئلہ ایصال ثواب کے متعلق شیخ الحدیث مولانامحمد سرفراز خان صفدر صاحب ،حضرت مولانا منظور احمد نعمانی ؒ اور مولانا امین صفدر اوکاڑوی کے علمی مقالات کو جمع کیا ہے جس سے موضوع سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کے لیے یہ ایک مفید مجموعہ بن گیا ہے۔
۱۲۸ صفحات پر مشتمل یہ کتاب انجمن خدام الاسلام رجسڑڈ حنفیہ قادریہ باغبانپورہ لاہور نے شائع کی ہے ۔ 
(محمد یاسر الدین)

’’دلائل وجود باری تعالیٰ ملاصدرا کی نظر میں‘‘

فلسفہ میں الٰہیات ایک مستقل موضوع ہے۔ برصغیر کے مدارس میں جن فلاسفہ کی کتب شامل نصاب رہی ہیں، ان میں ایک ملاصدرا بھی ہیں جو ایران کے رہنے والے تھے۔ ڈاکٹر ناصر زیدی صاحب فلسفہ میں تخصص رکھتے ہیں اور اس موضوع پر ان کے متعدد مقالہ جات شائع ہوچکے ہیں۔ زیر نظر مقالہ میں انہوں نے برہان حرکت، برہان حدوث، برہان امکان اوربرہان صدیقین کے عنوانات قائم کرکے الٰہیات کے متعلق ملاصدرا کے نظریات تحریر کیے ہیں۔ یہ کتاب فلسفہ کے طلبا کے لیے مفید کتاب ہوسکتی ہے، تاہم اس پر ناقدانہ رائے فلسفہ کا کوئی استاذ ہی دے سکتا ہے۔ 
ناشر: البصیرہ اسلام آباد 
(مولانا مشتاق احمد)

’’خطبات درخواستی ‘‘ /’’فیوضات درخواستی مع مجربات درخواستی ‘‘

زیر تبصرہ کتب مولانا شفیق الرحمن درخواستی کے علمی،تحقیقی اور اصلاحی افادات پر مشتمل ہیں جنھیں مولانا حماد اللہ درخواستی نے مرتب کیا ہے۔ ’’خطبات درخواستی‘‘ کے نام سے پہلے مجموعے میں ہر خطبہ آیات قرآنی واحادیث نبوی سے مزین ہے۔ علمی انداز کے ساتھ ساتھ عوامی انداز کی بھر پور جھلک بھی خطبات میں نمایاں ہے۔ اس کے صفحات ۴۵۰ اور قیمت ۲۸۰ روپے ہے۔ دوسرا مجموعہ ’’فیوضات درخواستی‘‘ کے نام سے مسائل تصوف وسلوک اور عملیات وتعویذات پر مبنی افادات پر مشتمل ہے۔ اس کے صفحات ۲۷۳ ہیں۔ 
ان مجموعوں کو مکتبہ درخواستی، جامعہ عبداللہ بن مسعودؓ خانپور ،رحیم یار خان نے شائع کیاہے ۔ 
(ادارہ)

’’مرزا غلام احمد قادیانی کا فقہی مذہب ،حنفیت یا غیر مقلدیت ‘‘

زیر نظر کتاب میں مولانا عبد الحق خان بشیر نے جامع اور مدلل انداز میں ترک تقلید کو گمراہی ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ مرزا صاحب کے گمراہ کن افکار واعمال کو بھی ترک تقلید کا نتیجہ ثابت کیاہے اور ان کی اپنی تحریروں سے ان کے ترک تقلید کے مسلک کو ثابت کیاہے ۔
صفحات :۲۰۸، قیمت ۸۰روپے۔ ناشر: حق چار یار اکیڈمی مدرسہ حیات النبی، گجرات ۔ 
(عبد العزیز)

’’تذکرۃ المفسرین ‘‘ 

زیر نظر کتاب مولانا قاضی زاہد الحسینی ؒ کی مرتب کردہ ہے جس میں پہلی صدی ہجری سے موجودہ دور تک عرب وعجم میں پھیلے ہوئے چھ سو سے زائد مفسرین کے مختصر حالات جمع کیے گئے ہیں۔ علوم القرآن اور علم تفسیر سے اشتغال رکھنے والے علما اور طلبا کے لیے مفید ہے۔ 
ناشر: دارالارشاد اٹک شہر ۔قیمت ۲۲۰ روپے 
(عبد العزیز)

’’نماز تراویح اور مذاہب اہل حدیث‘‘

زیر نظر کتاب میں مولانا عبد الحق خان بشیر نے نے تراویح کی حیثیت اور تعداد رکعات کے بارے میں جمہور اہل سنت والجماعت کے موقف کو دلائل سے واضح کیاہے اور فقہ حنفی کی روشنی میں تراویح کے احکام ومسائل بیان کیے ہیں۔ کتاب اپنے موضوع کے اعتبارسے جامع ہے اور اہل علم حضرات کے لیے مفید ہے، تاہم مناظرانہ انداز سے احترازکیا جاتا تو بہتر تھا۔ 
(محمد یاسرالدین)

’’سوانح شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ‘‘

زیر تبصرہ کتاب میں مولانا عبد القیوم حقانی نے حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی سوانح حیات کے ہر ہر پہلو کو مختلف ابواب اور عنوانات کے تحت نہایت دلچسپ انداز میں بیان کیاہے۔ کتاب کی نمایاں خصوصیت حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی ؒ کا طویل مقدمہ ہے۔ موقع محل کی مناسبت سے عمدہ اشعار اورحوالہ جات بھی درج کیے گئے ہیں۔
القاسم اکیڈمی نوشہرہ کی شائع کردہ اس کتاب کی قیمت ۱۲۰ روپے ہے۔ 
(ادارہ)

’’اظہار الغرور فی کتاب آئینہ تسکین الصدور‘‘

شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر مدظلہ نے مسئلہ حیات النبی پر ’تسکین الصدور‘کے نام سے مبسوط تصنیف لکھی جس پر اکابر علماے دیوبند کی تصدیقات موجود ہیں۔ اس کے جواب میں جمعیت اشاعۃ التوحید والسنۃ کے رہنما مولوی شیر محمد جھنگوی صاحب نے ’آئینہ تسکین الصدور‘ لکھ کر حضرت شیخ الحدیث کی مذکورہ تصنیف کو بے وقعت بنانا چاہا اوراس مہم کو کامیاب کرنے کے لیے بیسیوں مغالطے دیے۔ مولانا حافظ عبدالقدوس صاحب قارن نے ’اظہار الغرور‘ کے نام سے ان مغالطوں کاجواب دیاہے جو موضوع سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے لائق مطالعہ ہے۔ 
ناشر: عمر اکادمی نزد گھنٹہ گھر گوجرانوالہ 
(مولانا مشتاق احمد)

’’اسلاف کاخوف خدا اور فکر آخرت ‘‘

زیرنظر کتاب میں ڈاکٹر منور حسین چیمہ نے خوف خدا اور فکر آخرت جیسی نہایت اہمیت کی حامل صفات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ کتاب میں رسول کریم ﷺ ،صحابہ کرامؓ ،تابعین اور اولیا وصلحاے امت کے خوف خدا اور فکر آخرت پر مبنی سبق آموز واقعات درج کیے گئے ہیں۔ نامعلوم وجہ سے فہرست درج کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
ناشر: اسلامک اکیڈمی گکھڑ۔ ہدیہ: ۴۰ روپے۔ 
(ادارہ)

’’اسلامی آداب زندگی ‘‘

پیش نظر کتاب جناب محمد منصور الزمان صدیقی بانی وچیئرمین صدیقی ٹرسٹ کراچی کے تحریر فرمودہ ۵۵رسائل کا مجموعہ ہے جن میں انہوں نے حسن معاشرت، انابت الی اللہ، صراط مستقیم، کبائر سے اجتناب اور دیگر کئی موضوعات پر قرآنی آیات، احادیث نبویہ، سبق آموز واقعات، حکیمانہ اقوال اور فقہاے کرام کی آرا جمع کردی ہیں۔ کتاب کا اسلوب عام فہم اور سلیس ہے۔ زندگی کے ہر پہلو سے متعلق رہنمائی اور ہدایات سے معمور یہ کتاب تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔
ناشر: القاسم اکیڈمی جامعہ ابو ھریرہؓ خالق آباد نوشہر ہ 
(حافظ مطیع اللہ عثمانی )

’’کشکول معرفت‘‘

پیش نظر کتاب مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی کے ان علمی ودینی مکاتیب کا مجموعہ ہے جو انہوں نے مولانا عبد القیوم حقانی کے نام لکھے۔ مکتوبات کا مرکزی مضمون تزکیہ وتصوف اور احسان ہے ۔خطوط کی ہر ہر سطر سے دل سوزی ٹپکتی ہے۔ 
صفحات: ۴۵۰۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔ ناشر: القاسم اکیڈمی نوشہرہ ۔ 
(ادارہ)

’’ رہنمائے خوشخطی‘‘

زیر نظر کتاب خوشخطی سیکھنے کے خواہشمند طلباء وطالبات کے لیے بطور خاص تیار کی گئی ہے۔ خطاط مولانا محمد اسلم زاہد سید الخطاطین حضرت سید نفیس الحسینی مدظلہ العالی کے شاگر دخاص ہیں اور کتاب حضرت شاہ صاحب کی تقریظ سے مزین ہے۔ 
ناشر:مکہ کتاب گھر الکریم مارکیٹ حق سٹریٹ اردو بازار لاہور 
(مولانا مشتاق احمد)

’’انصاف فی حدود الاختلاف‘‘

مولانا سید خلیل حسین میاں صاحب نے ا س کتاب میں ان اسباب کی نشاندہی کی ہے جو کہ افتراق وانتشار کاباعث بنتے ہیں مثلاً عدم تحمل، دوسروں کی تحقیر وتذلیل، دوسروں کی پردہ دری، غیبت، الزام تراشی، خود پسندی، اور تکبروغیرہ۔ مصنف نے ان میں سے ہر ایک کی مذمت کے متعلق نصوص شرعیہ کو جمع کیا گیاہے۔ یہ کتاب خاص طورپر علما ے کرام کے لیے لکھی گئی ہے اوراس میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریاؒ کے افادات جابجا درج کیے گئے ہیں۔ کتاب اردو میں ہے جبکہ نام عربی میں اور وہ بھی نادرست۔ انصاف کی جگہ الانصاف لکھنا چاہیے تھا تاکہ نام عربی قواعد کے مطابق ہوتا۔ 
ناشر: القاسم اکیڈمی خالق آباد نوشہرہ 
(مولانا مشتاق احمد)

الشریعہ اکادمی کی مطبوعات کی تقریب رونمائی

ادارہ

۳۱ مارچ ۲۰۰۷ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں مولانا زاہد الراشدی کے مضامین کے دو مجموعوں کی اشاعت کے موقع پر ان کی تقریب رونمائی منعقد کی گئی۔ مضامین کے یہ دو مجموعے ’’جناب جاوید احمد غامدی کے حلقہ فکر کے ساتھ ایک علمی وفکری مکالمہ‘‘ اور ’’حدود آرڈیننس اور تحفظ نسواں بل‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے ہیں۔ تقریب رونمائی سے پروفیسر غلام رسول عدیم، مولانا زاہد الراشدی، پروفیسر محمد شریف چودھری، پروفیسر محمد اکرم ورک اور مولانا مشتاق احمد چنیوٹی کے علاوہ جناب جاوید احمد غامدی کے حلقہ فکر سے تعلق رکھنے والے دانش ور جناب نادر عقیل انصاری نے بھی خطاب کیا۔ 
پروفیسر غلام رسول عدیم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا زاہد الراشدی کی تحریر میں منفرد قسم کی شستگی اور شائستگی پائی جاتی ہے اور علماے کرام کو ان کے اسلوب نگارش کی پیروی کرنی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ان مضامین میں مناظرانہ اسلوب سے ہٹ کر افہام وتفہیم کا علمی انداز اختیار کیا گیا ہے جو مخاطب کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ 
جناب نادر عقیل انصاری نے مضامین کے ان مجموعوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان میں مولانا راشدی نے مخالف فریق کے احترام کے ساتھ خالص علمی انداز میں تنقید وتبصرہ کر کے اختلاف رکھنے والوں کو بھی بہت سے امور میں اپنے موقف پر نظر ثانی پر آمادہ کیا ہے اور آج اس نوعیت کے مکالموں کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اسی طریقہ سے ہم متنازعہ امور میں حق کا راستہ تلاش کر سکتے ہیں۔ 
پروفیسر محمد شریف چودھری نے کہا کہ مولانا راشدی نے ان مضامین میں مغربی فکر وفلسفہ کو ہدف تنقید بنایا ہے اور مسلم اصحاب فکر ودانش کو توجہ دلائی ہے کہ وہ مغرب کی فکری یلغار سے آگاہی حاصل کریں اور سنجیدگی کے ساتھ اس کا مقابلہ کرتے ہوئے نئی نسل کو فکری گمراہی سے بچانے کی کوشش کریں۔ 
پروفیسر محمد اکرم ورک نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ مولانا زاہد الراشدی نے جس متانت اور سنجیدگی کے ساتھ طعن وتشنیع اور تحقیر واستہزا سے ہٹ کر مخالف فریق سے افہام وتفہیم کے لہجے میں بات کی ہے، اس ر وایت کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ 
مولانا زاہد الراشدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں اپنے جدید دانش وروں کی اس مجبوری کو بخوبی سمجھتا ہوں کہ وہ مغرب سے متاثر پود سے مخاطب ہیں اور انھیں مغرب کے پیدا کردہ شکوک وشبہات کا جواب دینے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، لیکن میری ان سے ایک ہی گزارش ہے کہ وہ نئی نسل کو مغرب کی مرعوبیت سے بچانے کی فکر کریں اور مغرب کے فکری اور علمی اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے خود اپنے علمی ڈھانچے اور مسلمات کو سبوتاژ کرنے سے گریز کریں۔
تقریب میں بتایا گیا کہ مولانا زاہد الراشدی گزشتہ پینتالیس سال سے مسلسل مختلف اخبارات وجرائد میں لکھ رہے ہیں اور ان کے کم وبیش ایک ہزار مضامین کو جمع کیا جا چکا ہے جو آج کے دور کے اہم مسائل اور مشکلات کے حوالے سے ہیں اور ان مضامین کو مختلف عنوانات کے تحت کتابی شکل میں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی طرف سے شائع کرنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ تقریب میں علماے کرام، اساتذہ، پروفیسر صاحبان اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

مدرسہ طیبہ تحفیظ القرآن میں حفظ قرآن کی کلاس کا افتتاح

واپڈا ٹاؤن کینال ویو گوجرانوالہ کے عقب میں باقر کوٹ کے قریب الشریعہ اکادمی کے نئے تعمیر کردہ مدرسہ طیبہ تحفیظ القرآن میں حفظ قرآن کریم کی کلاس کا آغاز ہو گیا ہے جس میں قرآن کریم حفظ کے ساتھ مڈل تک اسکول کی تعلیم بھی دی جائے گی۔ کلاس کی افتتاحی تقریب میں پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے اور اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم کی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ اسکول کی تعلیم بھی ضروری ہے جس کی طرف دینی مدارس کو بطور خاص توجہ دینی چاہیے۔

دینی مدارس کے طلبہ کے لیے انگلش لینگویج کورس

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ نے شہر کے دینی مدارس کے طلبہ کے لیے جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں چالیس روزہ انگلش لینگویج کورس کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ کلاس روزانہ نماز عصر کے بعد ہوتی ہے جس میں اکادمی کے ناظم مولانا حافظ محمد یوسف دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کو انگریزی زبان کی بنیادی تعلیم دے رہے ہیں۔ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے جسے سیکھنا دعوت اور تعلیم کے دینی مقاصد کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

حضرت قاری محمد انور کے اعزاز میں استقبالیہ

حفظ قرآن کریم کے بزرگ استاذ حضرت قاری محمد انور صاحب، جو ایک عرصہ تک گکھڑ میں حفظ قرآن کریم کی تعلیم دیتے رہے ہیں اور گزشتہ اٹھائیس برس سے مدینہ منورہ میں تحفیظ القرآن کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں، ۲؍ مئی ۲۰۰۷ بروز بدھ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں تشریف لا رہے ہیں جہاں شام پانچ بجے ان کے شاگرد مولانا زاہد الراشدی کی طرف سے ان کے اعزاز میں استقبالیہ کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ مولانا راشدی نے ۱۹۶۰ء میں گکھڑ میں حضرت قاری محمد انور صاحب سے قرآن کریم حفظ مکمل کیا تھا۔

جون ۲۰۰۷ء

عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلکمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاحمحمد رفیع مفتی
مسلم تہذیب کی اسلامی شناخت میں قرآن و سنت کی اہمیتپروفیسر میاں انعام الرحمن
قراءات متواترہ کے بارے میں غامدی صاحب کے موقف کا تنقیدی جائزہحافظ محمد زبیر
مکاتیبادارہ

عالمی تہذیبی کشمکش کی ایک ہلکی سی جھلک

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مجھے ۵ مئی سے ۲۳ مئی ۲۰۰۷ء تک برطانیہ کے مختلف شہروں میں احباب سے ملاقاتوں، دینی اجتماعات میں شرکت اور مختلف اداروں میں حاضری کاموقع ملا اور متعدد نشستوں میں اظہار خیال بھی کیا۔ اس دوران میں اپنی دلچسپی کے خصوصی موضوع ’’مسلمانوں اورمغرب کے درمیان تہذیبی کشمکش‘‘ کے حوالہ سے بھی مطالعہ اورمشاہدات میں پیش رفت ہوئی اوراسی پہلو سے کچھ گزارشات قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہ رہاہوں۔
سفر کے آغاز میں ہی ۵؍مئی کو روزنامہ نوائے وقت لاہور میں برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا یہ بیان نظر سے گزرا کہ ’’مغرب کو اسلام سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اپنی اقدارپر ڈٹے رہناچاہیے اوریہ بات ثابت کرنی چاہیے کہ مغرب اپنی اقدار پر یقین رکھتاہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اسلامی دنیا کو دکھانا چاہیے کہ ہم اپنی اقدار ہر ایک پر لاگو کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم مسلمانوں کے اس نظریے پر دفاعی انداز اختیار کرلیتے ہیں جس کے مطابق وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی مغرب کے رویے کا رد عمل ہے۔‘‘ لیکن جب لندن پہنچا تو روزنا مہ جنگ لندن میں ۷؍مئی کو یہ رپورٹ پڑھنے کو ملی جس کے مطابق چرچ آف انگلینڈنے دعویٰ کیاہے کہ مشرق وسطیٰ کے لیے حکومت کی تباہ کن پالیسیوں نے برطانوی مسلمانوں کو انتہا پسند بنا دیا ہے۔ برطانوی اخبار آبزرور کے مطابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی خارجہ پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے والی رپورٹ میں چرچ نے عراق میں کی جانے والی غلطیوں کی مذمت کی اورکہا کہ دنیا بھر میں برطانیہ کا چہرہ مسخ ہو چکا ہے اور یورپ میں وہ تنہا کھڑاہے اوراس کی وجہ امریکہ کے ہر حکم کی بجاآوری ہے۔ رپورٹ میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ قیادت کی تبدیلی سے فکرونظر کی تبدیلی بھی واقع ہوگی۔ آرچ بشپ آف انگلینڈڈاکٹر روون ولیمزنے رپورٹ کی توثیق کی ہے جس میں کہاگیاہے کہ عراق پر ناجائز تسلط اورحکومت کی نامناسب اورناانصافی پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے برطانیہ دہشت گردوں کی بھرتی کا سرگرم حصہ بن گیا ہے۔ 
۱۰؍مئی کو روزنامہ جنگ لندن نے یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے ہاؤس آف کامنز میں لیبر لیڈر کی حیثیت سے آخری بار سوالوں کا جواب دیتے ہوئے عراق جنگ کے ضمن میں غلطیوں پر معافی مانگنے کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہر حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کے خلاف ڈٹ جائے جو عراق کو کمزور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ رکن پارلیمنٹ پیٹرلف نے ان سے سوال کیاتھا کہ عراق کی جنگ سے پیدا شدہ صورت حال سے نہ صرف آپ (بلیئر) پر بلکہ پورے سیاسی عمل پر بھر وسے کو ٹھیس پہنچ چکی ہے، اس لیے وزیر اعظم کو عراق کے معاملہ میں غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگنا چاہیے اور اقتدار چھوڑنے سے قبل معاملہ کی مکمل انکوائری کرانا چاہیے۔
اسی روزبرطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئرنے اعلان کیا کہ وہ ۲۷؍جون سے وزارت عظمیٰ چھوڑ رہے ہیں اور ان کے بارے میں ۱۰؍مئی کو روزنامہ جنگ لندن میں یہ خبر شائع ہوئی کہ وہ وزارت عظمیٰ سے سبک دوشی کے بعد بین المذاہب مکالمہ کے لیے کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خبر کے مطابق وہ ایک گلوبل فاؤنڈیشن قائم کرناچاہتے ہیں تاکہ تین مذاہب (عیسائیت، یہودیت اور اسلام) کے درمیان زیادہ مفاہمت پیدا کی جاسکے، کیونکہ ان کے نزدیک کوئی ادارہ متحرک طورپر انٹر فیتھ ڈائیلاگ کاکام نہیں کررہا۔ یہ فاؤنڈیشن لندن میں قائم ہوگی اورکلنٹن فاؤنڈیشن کی طرز پر کام کرے گی۔
دوسری طرف برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کے لیڈر اور مستقبل کے متوقع وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا ایک انٹرویو روزنامہ جنگ لندن نے ۱۲؍مئی کو شائع کیاہے جس میں انہوں نے بالسال ہیتھ میں ایک مسلمان فیملی کے ساتھ ۲۴گھنٹے گزارنے کے بعد اپنے تاثرات کا تفصیل کے ساتھ اظہار کیاہے جس کے اہم نکات یہ ہیں:
  • اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح مسلمانوں کو قومی دھارے سے دور کر رہی ہے۔
  • مسلمانوں کی فیملی اقدار بہت مضبوط ہیں۔ اس فیملی کے ساتھ ملنے کے لیے روزانہ توسیع شدہ فیملی کے جتنے لوگ آئے، اتنے رشتہ دار اُن (کیمرون) سے ملنے کے لیے سال بھر میں نہیں آئے۔
  • اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح مسلمانوں کو بہت ناگوار گزرتی ہے اورجب بھی میڈیا یا سیاست دان اس کے بارے میں بات کرتے ہیں، وہ بہت نقصان پہنچاتے ہیں۔
  • آئر لینڈ میں آئی آر اے دہشت گرد کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اگروہاں کیتھولک دہشت گرد یا پروٹسٹنٹ دہشت گرد کی اصطلاح استعمال کی جاتی تو بہت تباہی ہوتی اوراب ہم جو کررہے ہیں، وہ اسی کے مساوی ہے۔
  • حکومت نے اسلامی دہشت گردوں کی اصطلاح ختم کرنے کا اعلان کیاتھا، لیکن کوئی متبادل اصطلاح سامنے نہیں لائی گئی جسے میڈیا استعمال کرسکے۔
  • مسلمان اس بات پر بھی برہم ہیں کہ دہشت گردوں کے حوالہ سے جس قدر چھاپے مارے گئے، ان میں سے کئی کی اطلاع قبل از وقت میڈیا کو دی گئی۔
  • مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کا یہ خیال ہے کہ ۱۱/۹ اور ۷/۷ کے پیچھے یہودیوں کا ہاتھ ہے۔ اگر پانچ یا دس فیصد مسلمانوں کی بھی یہ سوچ ہے تو یہ ایک مسئلہ ہے جس سے نمٹنا پڑے گا۔
  • * بیرون ملک بالخصوص مصر، شام اور اردن سے آنے والے علما نوجوان نسل کو انتہا پسندی کی ترغیب دے رہے ہیں، لیکن ان سے نمٹنے کے لیے زیادہ کام نہیں ہوا۔
  • ان کے نزدیک معاشرہ میں ادغام ’’ٹو وے سٹریٹ‘‘ ہے۔ ہم اقلیتی طبقہ سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ مجموعی برطانوی معاشرہ میں مدغم ہونے کے لیے بہت محنت کریں، لیکن ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ایسا اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک انہیں مدغم کرنے کے لیے دل کشی نہیں ہوگی۔ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر معاشرہ کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا اور معاشرہ میں شراب نوشی، منشیات، سماج مخالف رویہ اورغیر مہذبانہ طرز زندگی زیادہ دل کشی کاباعث نہیں بن سکتے۔ اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ 
اس کے ساتھ برطانیہ میں پاکستان کی ہائی کمشنر محترمہ ملیحہ لودھی کے ان ریمارکس پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے جو روزنامہ جنگ لندن ۱۲؍مئی ۲۰۰۷ء کی ایک خبر کے مطابق انہوں نے برٹش مسلم فورم کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے دیے۔ انھوں نے کہا کہ برطانیہ میں جہاں تک تہذیبوں کے ملاپ کا تعلق ہے تویہ دو طرفہ عمل ہے جبکہ انگریز کمیونٹی اس سلسلہ میں کوئی کردار ادا نہیں کررہی۔ میں نے ایک برطانوی وزیر سے سوال کیا کہ ایک انگریز نے اوسطاً ایک سال میں کتنے مسلمانوں کو اپنے گھر کھانے پر بلایا ہوگا؟ ایک کو بھی نہیں، تو پھر انٹگریشن کیسے ہوگی؟ یک طرفہ سلسلہ کہیں نہیں چل سکتا۔ اگر برطانوی حکومت چاہتی ہے کہ برطانوی مسلمان برطانوی معاشرہ میں اپنی پہچان رکھتے ہوئے اس میں گھل مل جائیں تو اس کے لیے صرف مسلمانوں پر توجہ دینا ہی کافی نہیں ہوگا، اہل برطانیہ کو بھی اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔
یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے برطانیہ میں مسلمانوں کے غیر مسلم اکثریتی آبادی کے ساتھ تعلقات کی نوعیت، مغرب اور مسلمانوں کی تہذیبی اقدار کے درمیان کشمکش، برطانوی لیڈروں کے اس حوالہ سے خیالات وتاثرات میں تنوع اور مغربی ممالک بالخصوص برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں کے مستقبل کے حوالہ سے امکانات، خدشات اور توقعات کی جو صرف دویا اڑھائی ہفتے کے مطالعہ اورمشاہدہ کے دوران سامنے آئی ہے۔ اسی سے اندازہ کیاجا سکتا ہے کہ اس سلسلہ میں علماے کرام اوراہل دانش کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور ہم کن لائنوں پر چل کر اس صورت حال میں اسلام کی صحیح نمائندگی اور مسلمانوں کی بہتر خدمت کی موثر صورتیں اختیار کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ملّی ذمہ داریاں اوردینی فرائض بہتر طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح

محمد رفیع مفتی

کسی نبی کی سیرت، اس کے افعال و اعمال اور اس کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہوئے اگر اس بنیادی حقیقت ہی کو ملحوظ نہ رکھا جائے کہ وہ خدا کا نبی ہے اور اس کی ذمہ داریاں، عام آدمی کے مقابلے سے کہیں زیادہ ہیں تو وہ حکمت جو اس کے مختلف کاموں میں پائی جاتی ہے، وہ ہر گز سمجھی نہیں جا سکتی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازداجی زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے پہلے دو نکاحوں کے علاوہ جتنے نکاح بھی کیے، ان کی وجہ بشری تقاضے نہ تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بشری اور اپنی نبوت و رسالت کی ذمہ داریوں کے حوالے سے چار مختلف حیثیتوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا تھی۔ آپ کی پہلی حیثیت ایک بشر کی تھی، دوسری نبی کی، تیسری خاتم النبیین کی اور چوتھی حیثیت رسول کی تھی۔آپ پر ان سب حیثیتوں کے اعتبار سے ذمہ داریاں ڈالی گئی تھیں۔یہ ذمہ داریاں آپ کی ازدواجی زندگی سے بھی ایک خاص تعلق رکھتی تھیں اور آپ کی ان ذمہ داریوں میں آپ کی ازواج مطہرات کو ایک خاص کردار بھی ادا کرنا تھا۔ اس ساری صورت حال نے آپ کے ہاں ان وجوہ اور ان مقاصد کو جنم دیا جن کی بنا پر آپ نے مختلف نکاح کیے۔

بحیثیت بشر

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بشری ضروریات کے تحت دو نکاح کیے۔ پہلا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اور دوسرا، ان کی وفات کے بعد، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آپ نے پچیس سال کی عمر میں نکاح کیا۔ یہ ایک بیوہ خاتون تھیں اور عمر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی رفاقت کا زمانہ پچیس سال کا ہے۔ ان پچیس برسوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر شباب کا سارا زمانہ گزر گیا، لیکن اس میں آپ کے ہاں کسی دوسری شادی کا کوئی خیال بھی نہیں پایا جاتا۔ آپ نے اسی عرصے میں اعلان نبوت کیا اور مکہ کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔ آپ کی بھرپور مخالفت کی گئی۔ ستایا بھی گیا اور لالچ بھی دیا گیا۔ ایک موقع پر آپ کو یہ پیش کش بھی کی گئی کہ اگر آپ اپنی دعوت سے باز آجائیں یا کچھ مصالحانہ رویہ اختیار کرلیں، تو آپ کو عرب کی سب سے حسین خاتون جو آپ کو پسند ہو اس سے بیاہ دیتے ہیں۔ آپ اس طرح کی پیش کشوں سے، ایک بے نیاز آدمی کی طرح گزر جاتے تھے۔ نہ خدا کے انتخاب میں کوئی خامی تھی کہ آپ کے پاے ثبات میں لغزش آتی اور نہ آپ کی ازدواجی زندگی کسی تشنگی کا شکار تھی کہ اس طرح کی پیشکش کوئی اثر دکھاتی۔
پہلی شادی کے پچیس سال بعد، جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ پریشان کن مسئلہ پیدا ہوا کہ آپ کی صاحبزادیاں ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہما تنہا رہ گئیں۔ گھر میں ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی بھی نہ رہا۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سن رسیدہ خاتون سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بھی پچاس سال تھی اور سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کی عمر بھی پچاس سال تھی۔ یہ ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھیں۔ انھوں نے بھی اسلام کے راستے میں دوسرے مسلمانوں کی طرح تکالیف اٹھائی تھیں۔ مکہ کے حالات جب ان پر تنگ ہو گئے تو یہ اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ کو ہجرت کر گئیں۔ کچھ عرصے بعد ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا اور یہ بیوہ ہو گئیں، چنانچہ آپ نے ان سے نکاح کر لیا۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کے ساتھ نکاح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر ان کی تالیف قلب بھی تھی۔

بحیثیت نبی

جیسے کہ اوپر بیان ہوا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریوں میں آپ کی ازواج مطہرات کو بھی شریک کیا گیا تھا، تاکہ وہ نبوت کے کام میں آپ کی ممدومعاون بنیں۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ واقعتہً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و عمل کا ایک بڑا حصہ ان ازواج مطہرات ہی کے ذریعے سے پھیلا ہے۔ یوں آپ کی سب ازواج مطہرات اس ذمہ داری میں شامل تھیں، مگر خاص کار نبوت میں معاونت کے حوالے سے جو خاتون آپ کے نکاح میں آئیں، وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ ان کے ساتھ نکاح دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا انتخاب نہ تھا بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے کار نبوت میں اپنے رسول کی معیت و معاونت کے لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو منتخب فرمایا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: مجھے خواب میں تم دو دفعہ دکھائی گئیں اور کہا گیا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں۔ 
چنانچہ، یہ کہنا بالکل درست ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معاونت کے لیے اللہ تعالیٰ کا انتخاب تھیں۔ منصب نبوت میں ایک خاص معاونت کے لیے کون سی خاتون موزوں ہو سکتی ہے، ظاہر ہے کہ اس بات کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کر سکتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی پانے کے بعد، امت کی تعلیم و تربیت کے لیے اتنا زیادہ کام کیا، جتنا آپ کی تمام ازواج نے مل کر بھی نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ’واذکرن ما یتلی فی بیوتکن من ایت اللہ والحکمۃ‘ کا مجسم نمونہ بنا دیا۔ آپ سے ۲۲۱۰روایات مروی ہیں۔ آپ فقیہ بھی تھیں اور مفسر و مجتہد بھی ۔ اکابر صحابہ آپ سے مسائل پوچھا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما بھی آپ سے مسائل کے بارے میں استفسار کیا کرتے تھے۔
اس کے بعد ہم آپ کے ان نکاحوں کی طرف آتے ہیں، جو آپ نے معاشرتی ضرورت کے تحت کیے۔ آپ چونکہ نبی ہونے کے حوالے سے مسلمانوں کے لیے اسوہ یعنی نمونہ ہیں، لہٰذا ہم نے آپ کے ان نکاحوں کو جو آپ نے معاشرتی ضرورت کے تحت کیے آپ کے حیثیت نبوت میں کیے گئے نکاحوں میں شمار کیا ہے۔ ان نکاحوں کا پس منظر اس طرح سے ہے:
تین ہجری میں مسلمانوں کو جنگ احد لڑنا پڑی۔ اس جنگ میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے اور اپنے پیچھے کئی یتیم بچے اور بیوائیں چھوڑ گئے۔ یہ ان شہدا کے لواحقین تھے، جنھوں نے اپنے خون سے تاریخ اسلام کا ایک اہم باب رقم کیا تھا۔ اسلام نے مسلمانوں میں ایثار و قربانی کا بے پناہ جذبہ پیدا کر دیا تھا۔ ایثار و قربانی کے اسی جذبے کی بنا پر کئی لوگوں نے ان یتیم بچوں اور بیواؤں کو اپنی سرپرستی میں لے لیا اور ان کی کفالت کرنے لگے۔ اس موقع پر سورۂ نسا نازل ہوئی۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے ان سرپرستوں کو مخاطب کرکے، ان کی ذمہ داریاں بتائیں اور ان کے لیے وہ صورت تجویز کی، جس سے وہ عدل و انصاف کے دائرے میں رہتے ہوئے، یتیموں کی سرپرستی کی اس عظیم ذمہ داری سے، بخوبی عہدہ برآ ہو سکتے تھے۔ فرمایا:
’’اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کر سکو گے، تو ان عورتوں (یتیموں کی ماؤں) میں سے، جو تمھارے لیے جائز ہوں، ان سے دو دو، تین تین، چار چار تک نکاح کر لو۔ اگر ڈر ہو کہ ان کے مابین عدل نہ کر سکو گے ، تو ایک ہی پر بس کرو۔‘‘ (النساء، آیت ۳)
اسلام نے یتیموں اور بیواؤں کو معاشرے کا باقاعدہ حصہ بنا دینے کے لیے ایک بڑا حکیمانہ حل پیش کیا، لیکن کسی بیوہ سے نکاح کرنا اور اس کے یتیم بچوں کی ذمہ داری ، باقاعدہ اپنے سر لے لینا، کوئی آسان کام نہ تھا۔ خصوصاًاس صورت میں ، جبکہ دوسروں کے حقوق ، انصاف کے ساتھ ادا کرنا بھی لازم تھا۔ لہٰذا یہ ضروری ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اس معاملے میں اقدام کریں اور آپ یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کی اس معاشرتی ذمہ داری میں مسلمانوں کے لیے اسوہ بنیں۔ اور آپ کا یہ نکاح کرنا ان مسلمانوں کے لیے ترغیب کا باعث بنے، جو یتیموں کے معاملے میں بے انصافی کا خوف رکھتے ہیں لیکن کسی سبب سے اس اقدام سے گھبراتے ہیں۔ چنانچہ، اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بیوہ خواتین سے نکاح کیا۔ یہ خواتین حضرت حفصہ، حضرت زینب اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہن ہیں۔ ان سے نکاح کی تفصیل درج ذیل ہے:
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ جنگ احد میں ان کے خاوند شہید ہو گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے بارے میں فکر مند ہوئے اور انھوں نے چاہا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ یا عثمان رضی اللہ عنہ میں سے کوئی ایک، ان کو اپنے نکاح میں قبول کر لے، لیکن ان دونوں حضرات نے خاموشی اختیار کی۔ حضرت عمر ان کی خاموشی سے رنجیدہ خاطر ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایتاً، حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے رویے کا ذکر کیا۔ آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ بتایا کہ میں خود حضرت حفصہ کو اپنے نکاح میں لانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ ظاہر ہے سیدنا عمر اور بنت عمر رضی اللہ عنہما کے لیے اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی تھی۔ چنانچہ حضرت حفصہ آپ کے نکاح میں آ گئیں۔
حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے۔ ان کی شادی طفیل بن حارث رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد، کسی وجہ سے انھوں نے طلاق دے دی۔ پھر ان کا نکاح عبداللہ بن جحش سے ہوا۔ کچھ ہی عرصہ بعد جب جنگ احد ہوئی تو یہ اس میں شہید ہو گئے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا ایک بار پھر بیوہ ہو گئیں۔ چنانچہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا۔ زینب بنت خزیمہ کے آنے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں چار ازواج مطہرات ہو گئیں۔ تعدد ازواج کے بارے میں سورۂ نساء میں جو قانون نازل ہوا تھا اس کے مطابق اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مزید کوئی نکاح نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن چند ماہ کے بعد، جب حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا انتقال کر گئیں،تو آپ کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ آپ کسی اور بیوہ کو سہارا دے سکیں۔
چنانچہ ۴ ہجری میں آپ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے حبالۂ عقد میں لے آئے۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد تھیں اور اسلام لانے والے ابتدائی لوگوں میں سے تھیں۔ مکہ میں جب مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوا تو یہ بھی ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ حبشہ چلی گئیں۔ وہاں کچھ عرصہ رہ کر واپس مکہ آگئیں۔ پھر جب مدینہ کی طرف ہجرت شروع ہوئی، تو یہ اپنے خاوند ابو سلمہ کے ساتھ مدینہ چل پڑیں، لیکن ان کے خاندان نے انھیں ہجرت کرنے سے روک دیا۔ سسرال والوں نے ان کا بیٹا بھی چھین لیا۔ چاروناچار ان کے خاوند کو تنہا ہجرت کرنا پڑی۔ ام سلمہ نے ایک سال تک جدائی کی صعوبتیں برداشت کیں۔ پھر ان کے خاندان والوں نے ان پر رحم کیا اور ہجرت کی اجازت دے دی۔ سسرال والوں نے بھی ان کا بیٹا انھیں واپس کر دیا۔ چنانچہ ایک سال کے بعد ان کا گھرانا مدینہ میں پھر سے یکجا ہو گیا۔ ۳ ہجری میں جنگ احد ہوئی۔ ابو سلمہ اس میں زخمی ہو گئے اور کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد، زخموں کے بگڑ جانے کی وجہ سے، شہید ہو گئے۔ ام سلمہ بیوہ ہو گئیں اور ان کے چار بچے باپ کے سایۂ شفقت سے محروم ہو گئے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اسلام کی خاطر، ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ کے دوران میں جن سخت آزمایشوں سے گزری تھیں اور پھر جن حالات سے دوچار ہوگئی تھیں، ان سب کا خیال کرتے ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا، اور ان کی وہ اولاد، جو ابو سلمہ سے تھی، اب انسانیت کے مربی صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ پرورش پانے لگی۔

بحیثیت خاتم النبیین

آخری نبی ہونے کے حوالے سے آپ کی یہ ذمہ داری تھی کہ آپ دین و شریعت کو ہر طرح سے مکمل کر دیں۔ یہ تکمیل آپ کو علم کے اعتبار سے بھی کرنا تھی اور عمل کے اعتبار سے بھی۔ دین کے نام پر جو غلط تصورات عرب معاشرے میں رائج تھے، ان کی اصلاح بھی آپ کے ذمہ تھی اور وہ باطل رسوم و رواج، جو عربوں کے ہاں اخلاقی اقدار بن چکے تھے، ان کا قلع قمع کرنا بھی آپ ہی کا فرض تھا۔ عربوں کے ہاں دین کے نام پر جو غلط رسوم و رواج اور تصورات پائے جاتے تھے، ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ متبنی (منہ بولے بیٹے) کی بیوہ یا مطلقہ سے نکاح حرام سمجھتے تھے۔ کسی چیز کے بارے میں حلال و حرام کا تصور جب ایک دفعہ قائم ہو جائے تو پھر اس کے خلاف سوچنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس باطل تصور کو توڑنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اس نوعیت کا کوئی موقع میسر آئے اور آپ آگے بڑھ کر خود اس رسم کا عملاً قلع قمع کر دیں تاکہ اس باطل تصور کی ہمیشہ کے لیے اصلاح ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ نے اس رسم کو عملاً توڑنے کا موقع آپ کو، آپ کے متبنی حضرت زید رضی اللہ عنہ کی مطلقہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہما سے نکاح کی شکل میں مہیا کر دیا ، اور آپ کو یہ حکم دیا کہ آپ ان سے نکاح کریں۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ نکاح کرنے میں متردد تھے لیکن خدا کے پیش نظر یہ تھا کہ وہ اپنے آخری پیغمبر کے ذریعے سے ہدایت کو اس کی آخری شکل میں مکمل کر دے۔ 
اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو حکم ہوا کہ آپ یہ نکاح کریں، تاکہ آپ کے عمل سے عربوں کے ، متبنی کی بیوہ یا مطلقہ سے نکاح حرام سمجھنے کے تصور کا خاتمہ ہو جائے، اور جو دین فطرت آپ لوگوں کو دے رہے ہیں، اس میں کوئی غیر فطری بات شامل نہ ہونے پائے۔
ارشاد باری ہے:
فَلَمَّا قَضَی زَیْْدٌ مِّنْہَا وَطَراً زَوَّجْنَاکَہَا لِکَیْْ لَا یَکُونَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْ أَزْوَاجِ أَدْعِیَاءِہِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَراً. (الاحزاب۳۳:۳۷) 
’’پس جب زید نے اس سے اپنا رشتہ کاٹ لیا تو ہم نے اس کو تم سے بیاہ دیا، تاکہ تم مومنوں کے لیے، ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملے میں، جبکہ وہ ان سے اپنا تعلق کاٹ لیں، کوئی تنگی باقی نہ رہے۔‘‘
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کے حکم سے یہ بات ، ازخود، نکلتی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نکاحوں کی حد عام مسلمانوں کی طرح چار ازواج تک نہیں ہے۔ اور ظاہر ہے کہ آپ کی مختلف حیثیتوں کے حوالے سے جو ذمہ داریاں آپ پر ڈالی گئی تھیں، جو عظیم کام آپ کو انجام دینے تھے، جس ماحول میں آپ کو اپنا مشن پایۂ تکمیل کو پہنچانا تھا اور جس صورت حال سے آپ کو سابقہ پیش آنے والا تھا، وہ سب اس کے متقاضی تھے کہ آپ کے لیے چند دوسرے معاملات کی طرح، نکاح کے معاملے میں خصوصی قانون نازل ہو، تاکہ آپ اپنا مشن زیادہ خوبی سے انجام دے سکیں۔
چنانچہ جب نکاح کا وہ قانون جو سب مسلمانوں کے لیے نازل ہوا تھا، زینب بنت جحش کے ساتھ نکاح کے موقعے پر آپ کے لیے ناکافی ثابت ہوا تو اللہ تعالیٰ نے چار نکاحوں کی تحدید سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مستثنیٰ کرتے ہوئے آپ کو زینب بنت جحش سے نکاح کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی یہ بتا دیا کہ ہم تمھیں اس نکاح کا حکم اس لیے دے رہے ہیں تاکہ تمھارا یہ نکاح کرنا مسلمانوں کے لیے ایسے نکاح کے جوازکی مثال بنے اور ان کے لیے اس طرح کا نکاح کرنے میں کوئی (طبعی یا معاشرتی) رکاوٹ باقی نہ رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نکاح کی یہ وہ حکمت ہے جو خود پروردگار عالم نے بیان کی ہے۔ اس ایک نکاح کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو براہ راست حکم دیا، لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کے لیے نکاح کا خصوصی قانون بھی نازل کر دیا۔ یہ قانون سورۂ احزاب کی آیات ۵۰ تا ۵۲ میں بیان ہوا ہے۔ اس میں خود اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے وہ دائرہ متعین کر دیا، جس کے اندر آپ نکاح کر سکتے تھے، اور وہ حکمت بھی بیان کر دی، جس کی بنا پر آپ کے لیے یہ خصوصی قانون نازل کیا گیا تھا۔ ارشاد باری ہے:
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِیْ آتَیْْتَ أُجُورَہُنَّ وَمَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّا أَفَاء اللَّہُ عَلَیْْکَ وَبَنَاتِ عَمِّکَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِکَ وَبَنَاتِ خَالِکَ وَبَنَاتِ خَالَاتِکَ اللَّاتِیْ ہَاجَرْنَ مَعَکَ وَامْرَأَۃً مُّؤْمِنَۃً إِن وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِیُّ أَن یَسْتَنکِحَہَا خَالِصَۃً لَّکَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِیْنَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْْہِمْ فِیْ أَزْوَاجِہِمْ وَمَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُمْ لِکَیْْلَا یَکُونَ عَلَیْْکَ حَرَجٌ وَکَانَ اللَّہُ غَفُوراً رَّحِیْماً. تُرْجِیْ مَن تَشَاء مِنْہُنَّ وَتُؤْوِیْ إِلَیْْکَ مَن تَشَاء وَمَنِ ابْتَغَیْْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْْکَ ذَلِکَ أَدْنَی أَن تَقَرَّ أَعْیُنُہُنَّ وَلَا یَحْزَنَّ وَیَرْضَیْْنَ بِمَا آتَیْْتَہُنَّ کُلُّہُنَّ وَاللَّہُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوبِکُمْ وَکَانَ اللَّہُ عَلِیْماً حَلِیْماً. لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَاء مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْأَعْجَبَکَ حُسْنُہُنَّ إِلَّا مَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ وَکَانَ اللَّہُ عَلَی کُلِّ شَیْْءٍ رَّقِیْبا. (الاحزاب۳۳:۵۰۔۵۲) 
’’اے نبی، ہم نے تمھاری ان بیویوں کو تمھارے لیے جائز کیا جن کے مہر تم دے چکے ہو اور تمھاری ان مملوکات کو بھی تمھارے لیے حلال کیا جو اللہ نے بطورِ غنیمت عطا فرمائیں اور تمھارے چچا کی بیٹیوں اور تمھاری پھوپھیوں کی بیٹیوں اور تمھارے مامووں کی بیٹیوں اور تمھاری خالاؤں کی بیٹیوں میں سے بھی ان کو حلال ٹھہرایا جنھوں نے تمھارے ساتھ ہجرت کی اور اس مومنہ کو بھی جو اپنے تئیں نبی کو ہبہ کر دے، بشرطیکہ پیغمبر اس کو اپنے نکاح میں لانا چاہیں۔ یہ خاص تمھارے لیے ہے، مسلمانوں سے الگ۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے جو کچھ ہم نے ان پر، ان کی بیویوں پر اور لونڈیوں کے باب میں، فرض کیا ہے، (یہ اجازت تمھیں اس لیے دی گئی ہے )تاکہ تم پر کوئی تنگی نہ رہے اور اللہ غفور و رحیم ہے۔ تم ان میں سے جن کو چاہو دور رکھو اور اگر تم ان میں سے کسی کے طالب بنو جن کو تم نے دور کیا ہے، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ یہ اس بات کے زیادہ قرین ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں، اور وہ غمگین نہ ہوں، اور اس پر قناعت کریں، جو تم ان سب کو دو اور اللہ جانتا ہے، جو تمھارے دلوں میں ہے اور اللہ تعالیٰ علم رکھنے والا بردبار ہے۔ ان کے علاوہ جو عورتیں ہیں وہ تمھارے لیے جائز نہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کی جگہ دوسری بیویاں کر لو، اگرچہ ان کا حسن تمھارے لیے دل پسند ہو، بجز ان کے جو تمھاری ملکیت ہوں اور اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھنے والا ہے۔‘‘
ان تین آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نکاح کا جو قانون بیان کیا گیا ہے اس کے نمایاں پہلو یہ ہیں:
۱۔ آپ کی وہ ازواج ، جن کے مہر آپ ادا کر چکے ہیں، وہ بلااستثنا آپ کے لیے جائز ہیں۔
۲۔ وہ ملک یمین، جو بطور ’فے‘ آپ کو حاصل ہوں، اگر ان میں سے کسی سے آپ نکاح کرنا چاہیں، تو کر سکتے ہیں۔
۳۔ آپ کے لیے قریبی رشتے کی خواتین کے ساتھ، جنھوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ، نکاح کرنا جائز ہے۔
۴۔ اگر کوئی مومنہ، اپنے تئیں آپ کو ہبہ کر دے ، اور آپ اس کو نکاح میں لینا چاہیں، تو آپ کو اس کی اجازت ہے۔
۵۔ نکاح کا یہ قانون صرف آپ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس کی حکمت یہ ہے کہ آپ (اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے) کسی تنگی میں مبتلا نہ ہوں۔
۶۔ حقوق زوجیت کے معاملے میں آپ کو عام مسلمانوں کی بہ نسبت یہ رعایت ہے کہ آپ پر بیویوں کے درمیان عدل واجب نہیں۔
۷۔ اگر آپ کسی بیوی کو اپنے سے الگ رکھنے (یعنی ازدواجی تعلق سے معزول کرنے) کے بعد دوبارہ اسے اپنے پاس رکھنا چاہیں، توآپ ایسا کر سکتے ہیں۔ اس معاملے میں آپ پر کوئی پابندی نہیں۔
۸۔ آپ ان آیات میں بیان کردہ دائرے سے باہر کوئی نکاح نہیں کر سکتے، البتہ ملک یمین آپ کے لیے جائز ہے۔
۹۔ آپ کے لیے ان ازواج کو دوسری ازواج سے بدلنا جائز نہیں، خواہ وہ آپ کے لیے کتنی ہی دل پسند ہوں۔
ان آیات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دائرۂ نکاح کی یہ تحدید جس طرح سے کی گئی ہے، وہ اس بات کی طرف واضح اشارہ کر رہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں نکاح کے عمومی مقاصد، ہرگز پیش نظر نہیں، بلکہ کچھ دوسری مصلحتیں ہیں جن کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تعدد ازواج کا یہ خصوصی قانون نازل کیا گیا ہے۔ ان آیات سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عام مسلمانوں کی طرح یہ جائز نہیں کہ آپ محرمات کے علاوہ جس خاتون سے چاہیں نکاح کرلیں۔ آپ کے لیے حلت نکاح کا عام دائرہ دو شرائط لگا کر انتہائی محدود کر دیا گیا۔ پہلی شرط یہ کہ وہ خاتون آپ کی قریبی رشتہ دار ہو اور دوسری یہ کہ اس نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو۔ لیکن یہ دائرہ، چونکہ ان سب حکمتوں کو سمیٹنے کے لیے کافی نہ تھا جو رسول اللہ کے ان نکاحوں میں پیش نظر تھیں تو آپ کے لیے مال فے سے حاصل ہونے والی لونڈیوں کو آزاد کرکے ان سے نکاح کرنا بھی جائز قرار دیا گیا۔ لہٰذا آپ کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ اگر آپ کسی دینی یا سیاسی مصلحت کے پیش نظر مال فے میں سے حاصل ہونے والی لونڈی کو آزاد کرکے اس سے نکاح کرنا چاہیں تو کر لیں۔ اور اس عورت سے نکاح کرنا بھی آپ کے لیے جائز قرار دیا گیا، جو اپنے تئیں آپ کو ہبہ کر دے۔ ان آیات میں آپ کو، عام مسلمانوں سے ہٹ کر، حقوق زوجیت کے معاملے میں بہت سہولت دی گئی ہے۔
پھر مزید یہ کہ ’لا یحل لک النساء من بعد ولا ان تبدل بھن من ازواج ولو اعجبک حسنھن‘ کے الفاظ بھی اپنے سیاق و سباق میں اسی پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ کے نکاحوں سے، نکاح کے عام مقاصد پیش نظر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضح کر دی کہ اس بیان کردہ دائرے سے باہر جتنی عورتیں بھی ہیں، وہ آپ کے لیے سرے سے حلال ہی نہیں اور نہ ان بیویوں کو کچھ دوسری عورتوں سے بدلنا آپ کے لیے جائز ہے، خواہ وہ عورتیں آپ کو بہت دل پسند ہوں۔ یہ اس لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس قانون میں جس حکمت کو ، اصلاً ملحوظ رکھا ہے، وہ نہ اس دائرے سے باہر کسی عورت میں پائی جاتی ہے اور نہ ان بیویوں کو دوسری بیویوں سے بدلنے کے بعد باقی رہتی ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے پیش نظر یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے رسولوں کے لیے بہت سی عورتیں اکٹھی کر دے، اور نہ اس نے نکاح کے عمومی مقاصد ہی کی خاطر یہ قانون نازل فرمایا ہے۔
اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی واضح کر دی کہ رسول کا معاملہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ نسوانی حسن سے رغبت کے بجائے نفرت رکھتا ہے۔ وہ نخل فطرت کے بہترین ثمر ہوتا ہے۔ خدا اس کو مرد بناتا ہے تو عورت کی طرف طبعی رغبت بھی اس کی فطرت میں رکھتا ہے۔ البتہ نبی چونکہ روحانی اور اخلاقی بلندیوں پر فائز ہوتا ہے، لہٰذا یہ بات اس کی شان سے بہت فروتر ہے کہ کسی عورت کا فطری اور طبعی طور پر دل پسند ہونا اس کی زندگی میں ایسی اہمیت اختیار کر جائے جس کی بنا پر وہ اپنی ذمہ داریوں ہی سے غافل ہوجائے۔ یہ سب کچھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس ذات علیم و حکیم کی نگاہ میں آپ کے نکاح کے مقاصد، اس کے عمومی مقاصد سے بہت مختلف تھے۔
جہاں تک اس قانون کی حکمت کا تعلق ہے، تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ’لکیلا یکون علیک حرج‘ کے الفاظ سے یہ بتا دیا ہے کہ اس قانون سے اس کے پیش نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کی تنگی کو دور کرنا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے راستے میں وہ کون سی تنگی محسوس کر رہے تھے جسے دور کرنے کے لیے نکاح ہی کے قانون کو وسعت دینا ضروری تھا؟ اس سوال کا جواب بھی اسی آیت میں موجود ہے۔ اس میں ضمیر خطاب کا مصداق ’النبی‘ کا وہ لفظ ہے، جس سے ان آیات کی ابتدا ہوئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رسول بھی تھے اور نبی بھی۔ ان آیات میں چونکہ آپ کو ان دونوں حیثیتوں سے مخاطب بنانا مقصود تھا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ’النبی‘ کا لفظ، جو آپ کی بنیادی حیثیت کو واضح کرتا تھا، اس سے خطاب فرمایا اور یہ بتایا کہ اے نبی، یہ قانون ہم نے اس لیے نازل کیا ہے،تاکہ تمھیں اپنی (نبوت و رسالت کی) ذمہ داریاں ادا کرنے میں، کوئی دشواری نہ ہو۔ یہ تھی وہ حکمت جس کے پیش نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ خصوصی قانون نازل کیا گیا۔
اب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی کے مطالعے کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ اس قانون کے نازل ہونے کے بعد آپ نے جتنے نکاح بھی کیے، چونکہ وہ زیادہ تر رسالت کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں معاونت کا پہلو رکھتے تھے، لہٰذا ہم نے انھیں ان نکاحوں میں شمار کیا ہے جو آپ نے بحیثیت رسول اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے دعوتی یا سیاسی مصالح کے تحت کیے ہیں۔

بحیثیت رسول

رسول کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ مقدر کر دیا گیا تھا کہ آپ کو جزیرہ نماے عرب میں سیاسی غلبہ حاصل ہو۔ اس غلبے کے حصول کے لیے شرک کے علم برداروں سے جنگ ناگزیر تھی۔ لیکن جنگ، رسول کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا کر دیتی ہے۔ وہ یہ کہ اس سے پیدا ہونے والی نفسیات انسان کے لیے قبول اصلاح کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ناگزیر جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی انتقامی نفسیات کو محبت، خیر اور بھلائی کے جذبوں میں بدل دینے کی ہر ممکن کوشش کی اور اس سلسلے میں آپ نے عربوں کی معاشرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے، ہر وہ اقدام کیا جس سے آپ کو ذرا بھی اصلاح کی توقع ہوئی۔
آپ کی انھی کوششوں میں یہ تدبیر بھی شامل تھی کہ آپ مختلف قبائل میں نکاح کے ساتھ ان کے ساتھ رشتہ داری پیدا کرلیں۔ یہ تدبیر، دراصل، آپ نے عرب کی مخصوص معاشرت کو مدنظر رکھتے ہوئے اختیار کی۔ آپ جس ملک میں غلبۂ دین کی یہ جدوجہد کر رہے تھے، وہاں قبائلی طرز کی معاشرت اپنی خاص روایات کے ساتھ موجود تھی۔ ان روایات میں جہاں بہت کچھ غلط تھا، وہاں بعض ایسے پہلو بھی تھے جو اپنے اندر بہت خیر رکھتے تھے۔ انھی میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ عرب رشتۂ مصاہرت کا بہت احترام کرتے تھے۔ ان کے ہاں دامادی کا رشتہ مختلف قبائل کے مابین قربت و محبت کا ایک بڑا ذریعہ ہوتا تھا۔ داماد سے جنگ کرنا اور محاذ آرائی کرنا ان کے ہاں بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ان حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ تدبیر ممکن تھی کہ آپ مختلف خاندانوں میں نکاح کرکے عداوتوں کو ختم کر دیں اور ان سے پختہ تعلقات قائم کرلیں۔ ظاہر ہے کہ اس غرض کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نکاح کیے وہ محض سیاسی اور ملی مصالح کے تحت کیے تھے۔ ان سے نکاح کے عام مقاصد آپ کے پیش نظر ہی نہ تھے۔
آپ کی ازدواجی زندگی کے مطالعے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ سیاسی اور ملی مصالح کے پیش نظر آپ نے چار خواتین، حضرت جویریہ، حضرت ام حبیبہ، حضرت صفیہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہن سے نکاح کیا۔ ان خواتین کے ساتھ آپ کے نکاح کرنے کی تفصیل اس طرح سے ہے:
ان میں سے پہلی خاتون حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا ہیں، جو ۵ ہجری میں امہات المومنین میں شامل ہوئیں۔ یہ قبیلہ بنو مصطلق کے سردار کی بیٹی تھیں۔ اس قبیلے کا پیشہ راہ زنی تھا۔ انھوں نے وہ حق قبول کرنے سے انکار کر دیا جو خدا کا رسول لایا تھا۔ ۵ ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ قبیلہ بنو مصطلق کے لوگ مسلمانوں سے جنگ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ آپ ان سے مقابلے کے لیے صحابہ کو لے کر نکلے۔ جنگ ہوئی، اللہ اور اس کا رسول غالب رہے۔ بنو مصطلق کی ایک کثیر تعداد گرفتار ہوئی۔ ان اسیران جنگ میں جویریہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ یہ جس صحابی کے حصے میں آئیں، ان سے انھوں نے مکاتبت کر لی، لیکن آزادی کے لیے جورقم چاہیے تھی، وہ نایاب تھی۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اس رقم کے لیے آپ کے در سخاوت پر دستک دی۔ میدان جنگ میں غالب رہنے والا میدان سخاوت میں غالب تر تھا۔ آپ نے نہ صرف زرمکاتبت ادا کر دیا بلکہ انھیں اپنی طرف سے پیغام نکاح بھی دیا۔ جو یریہ رضی اللہ عنہا نے اسے قبول کر لیا اور آزاد ہونے کے بعد آپ کی زوجیت میں آگئیں۔
پیغمبر کی نگاہ بہت دور رس ہوتی ہے۔ جویریہ حریم رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہوئیں۔ مسلمانوں نے بنو مصطلق کے سب قیدی آزاد کر دیے اور یہ کہا کہ یہ اب رسول اللہ کے سسرالی رشتہ دارہیں۔انھیں کوئی قیدی بنائے تو کیسے، یہ لوگ تو قابل احترام ہیں۔ اور پھر چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ قبیلہ بنو مصطلق کے سبھی لوگ مسلمان ہو گئے۔ رسول اللہ کی تلوار نے جس سرکش مدمقابل کو مغلوب کر دیا تھا، آپ کے اخلاق نے اسے آپ کا ہم رکاب بنا دیا۔
۶ ہجری میں ام حبیبہ رضی اللہ عنہا آپ کی زوجیت میں آئیں۔ یہ رشتے میں آپ کے چچا کی پوتی تھیں اور اسلام لانے والے ابتدائی لوگوں میں سے تھیں۔ جب مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی ، تو اس وقت یہ بھی اپنے شوہر کے ہمراہ حبشہ ہجرت کر گئیں۔ وہاں ان کے شوہر نے عیسائیت اختیار کر لی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ میں پڑی ہوئی اس بے سہارا خاتون کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ حبشہ کے حکمران نجاشی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ام حبیبہ سے کر دیا۔ ان کا والد ابو سفیان ایک عرصے سے مسلمانوں کے ساتھ برسرپیکار تھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں اپنی زوجیت میں لے آئے تو عرب معاشرے کی اس اخلاقی خوبی نے اپنا کام دکھایا اور ابو سفیان کی دشمنی کا زور ٹوٹ گیا۔ اب وہ اپنے داماد کے مقابل میں آنے سے گریز کرنے لگا۔ کچھ ہی عرصہ بعد مسلمانوں کا یہ سب سے بڑا مدمقابل حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔ جہاں دلیل اور استدلال کارگر نہیں ہوا، وہاں نبی کی وہ سیاسی تدبیر جو ا س نے اخلاقی برتری کے ساتھ اختیار کی ، کامیاب رہی۔
۷ ہجری میں حضرت صفیہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما امہات المومنین میں شامل ہوئیں۔
مسلمانوں کے ساتھ کفار کی جتنی جنگیں بھی ہوئیں، ان سب میں یہود، خفیہ یا علانیہ شامل ہوتے رہے۔ حالانکہ قرآن مجید کے مطابق یہود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے پہچانتے تھے جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے۔ مگر کدورت اور حسد جب حد سے گزر جاتے ہیں تو پھر استدلال بے کار ہو جاتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ۷ ہجری میں ، یہود کی شرارتوں کا قلع قمع کرنے کی غرض سے خیبر کا رخ کیا۔ خدا کا رسول ، جس کے لیے غلبہ مقدر تھا، اس نے خیبر فتح کر لیا۔ یہودی مغلوب ہو گئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ تلوار جسم کو مغلوب کرتی ہے، دل کو نہیں۔
حضرت صفیہ خیبر کے اسیران جنگ میں شامل تھیں اور یہود کے ایک بڑے سردار کی بیٹی تھیں۔ جب قیدی تقسیم کیے گئے، تو یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں آئیں۔ آپ نے اس بات کو خلاف احسان و مروت سمجھا کہ سردار کی بیٹی کو لونڈی بنا کر رکھا جائے۔ چنانچہ آپ نے انھیں آزاد کر دیا اور ان کی مرضی سے ان کے ساتھ نکاح کر لیا۔ آپ چاہتے تو انھیں زندگی بھر لونڈی کی حیثیت سے رکھ سکتے تھے، لیکن آپ نے نہ صرف یہ کہ ایسا نہیں کیا، بلکہ انھیں نہایت عزت کا مقام دیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ صفیہ رضی اللہ عنہا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آ گئیں ، تو اس کے بعد یہود، مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شامل نہیں ہوئے۔
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا وہ خاتون ہیں، جنھوں نے اپنے تئیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا تھا۔ ان کی پہلی شادی حویطب بن عبدالعزیٰ سے ہوئی تھی۔انھوں نے انھیں طلاق دے دی۔ پھر ان کی شادی ابورہم بن عبدالعزی سے ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد ان کا انتقال ہو گیا اور یہ بیوہ ہو گئیں۔ ان کی ایک بہن ام الفضل لبابۃ الکبریٰ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں۔ حضرت میمونہ اپنی بہن ام الفضل کے پاس آ گئیں اور اپنے آیندہ نکاح کے بارے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اختیار دے دیا کہ جہاں مناسب سمجھیں، ان کا نکاح کر دیں۔ ۷ ہجری میں، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کے لیے مکہ تشریف لائے، تو حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے تئیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی سفارش کی۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی زوجیت میں قبول کر لیا۔
اس نکاح میں فریضۂ رسالت کے حوالے سے کیا حکمت مضمر تھی؟ اسے جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ۷ ہجری کے اس دور کو ذہن میں لایا جائے، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کی پیش کش کو قبول فرمایا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب قریش مکہ کا زور اصلاً ٹوٹ چکا تھا، لوگوں کے اسلام لانے میں اب ایک ہی رکاوٹ باقی رہ گئی تھی اور یہ رکاوٹ وہ بدگمانیاں تھیں جو قریش کے سرداروں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے بارے میں ایک عرصے سے لوگوں میں پھیلا رکھی تھیں۔ اب یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ اہل مکہ اور مسلمانوں کو باہم اختلاط اور میل جول کا کچھ بھی موقع مل گیا تو ان کی وہ بدگمانیاں ختم ہو جائیں گی۔ قریش ہر اعتبار سے اس بات کے خواہاں تھے کہ اہل مکہ اور مسلمانوں کے مابین کوئی ربط و ضبط پیدا نہ ہو۔ انھوں نے صلح حدیبیہ کی شرائط میں خاص طور پر یہ لکھوایا تھا کہ مکہ کا کوئی رہنے والا اگر بھاگ کر مدینہ چلا گیا تو مسلمان اسے لازماً واپس کر دیں گے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہرحال یہ چاہتے تھے کہ اہل مکہ اور مسلمانوں میں ربط و ضبط کی صورت پیدا ہو۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے خاندان والے مکہ کے با اثر لوگوں میں سے تھے۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ آپ کے بھانجے تھے۔ اہل نجد کا سردار زیاد بن مالک الہلالی آپ کا بہنوئی تھا۔ یہ وہ صورت حال تھی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب آپ ازواج مطہرات میں داخل ہوئیں، تو کچھ ہی عرصہ بعد خالد بن ولید بھی اسلام لے آئے اور اہل نجد جنھوں نے ایک زمانے میں اتنا سنگین جرم کیا تھا کہ ستر مسلمان مبلغین کو اپنے علاقے میں دعوت دین کے لیے بلا کر دھوکے سے قتل کر دیا تھا، ان کے لیے اب اپنی دشمنی اور مخالفت پر قائم رہنا مشکل ہو گیا۔ وہ اب رسول اللہ کے قرابت دار تھے۔ پھر زیادہ دیر نہ گزری کہ انھوں نے اپنی وفاداریاں اسلام اور اہل اسلام کے لیے خاص کر دیں۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا آپ کے نکاح میں آنے والی آخری خاتون تھیں۔

مسلم تہذیب کی اسلامی شناخت میں قرآن و سنت کی اہمیت

پروفیسر میاں انعام الرحمن

مسلم تاریخ کے بیشتر ادوار میں مسلم تہذیب، اسلامی شناخت سے بہرہ مند رہی ہے اور اسلامی شناخت کے عناصر ترکیبی ہمیشہ قرآن اور سنت رہے ہیں۔ پچھلی چند صدیوں سے اسلامی شناخت کے عناصر ترکیبی ( قرآن و سنت) اگرچہ مسلم تہذیب میں موجود ہیں، لیکن ان کی اہمیت کافی حد تک دھندلا سی گئی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس کے باوجود مسلم تہذیب کو اسلامی شناخت سے بہرہ مند قرار دیا جا رہا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلم تہذیب میں جب قرآن ا ور سنت کی اہمیت، عملی طور پر پہلے جیسی نہیں رہی تو پھر وہ کون سے عناصر ترکیبی ہیں جن پر مسلم تہذیب کی اسلامی شناخت کا ٹھپہ لگایا جا رہا ہے؟ دوسرے لفظوں میں وہ کون سے عناصر ہیں جنھوں نے قرآن ا ور سنت کی اہمیت کم کر کے ان کی جگہ لے لی ہے؟ یہاں منطقی طور پر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے عمل کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ درج ذیل سطور میں انہی دو سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے، گزارش یہ ہے کہ مسلم تہذیب، تاریخ کے کسی بھی دور میں غیر متغیر نہیں رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم تہذیب کی اسلامی شناخت اگر قرآن ا ور سنت کے ساتھ منسلک رہی ہے تو قرآن و سنت بہت واضح طور پر ’’زمانی و مکانی عُرف کے اثبات‘‘ کی طرف توجہ مبذول کراتے رہے ہیں اور زمانی و مکانی عرف کا یہی اثبات، مسلم تہذیب کے داخل کو ثقافتی اعتبار سے متغیر اور تنوع آشنا کرتا رہا ہے۔ 

قرآن اور سنت کے ساتھ مسلم تہذیب کے تعلق کی نوعیت 

مسلم تہذیب کی اسلامی شناخت سے منسوب جعلی ٹھپوں کو کھرچنے سے پہلے اس سوال کا جواب تلاش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آخر مسلم تہذیب میں قرآن اور سنت کی اہمیت دھندلا کیوں گئی ہے؟ اس سوال کا جواب ان عناصر ترکیبی کو بے نقاب کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہو گا جو عملی طور پر اسلامی شناخت کی مسند پر براجمان ہو چکے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم تہذیب میں قرآن اورسنت کی اہمیت کے دھندلانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کا قرآن اور سنت کے ساتھ کوئی تعلق موجود نہیں رہا، کیونکہ زوال پذیری کے باوجود امتِ مسلمہ میں یہ تعلق موجود اور قائم و دائم ہے۔ قرآن مجید پڑھا پڑھایا جاتاہے۔ لاکھوں کی تعداد میں حفاظ موجود ہیں اور سینکڑوں، ہزاروں اور لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں اربوں کی تعداد میں قرآن مجید کے نسخے شائع ہوتے ہیں۔ اسی طرح سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی حساسیت پائی جاتی ہے۔ اس بظاہر خوش نما منظر کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ حالات روز بروز خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ آخر کیوں؟ اس ’کیوں‘ کا جواب یہ ہے کہ قرآن اور سنت کے ساتھ محض ’’تعلق‘‘ کا موجود ہونا کافی نہیں ہے،بلکہ عملی اور نتائجی اعتبار سے اس تعلق کی ’’نوعیت‘‘ زیادہ اہم اور کلیدی ہو جاتی ہے کیونکہ قرآن او رسنت کبھی بھی خود (بنفسہٖ) کوئی تبدیلی یا انقلاب نہیں لا سکتے۔ یہ در حقیقت قرآن او رسنت کے ساتھ مسلم تہذیب کے تعلق کی’ نوعیت‘ ہے جو تبدیلی کا باعث بنتی ہے یا انقلاب برپا کرتی ہے اور مسلم تہذیب کو اسلامی شناخت سے بہرہ مند کرتی ہے ۔ اس لیے قرآن اور سنت کو ماننے والے اگر کسی دور میں زوال کا شکار ہو جائیں تو لا محالہ قرآن اور سنت کے ساتھ ان کے’ ’تعلق کی نوعیت‘‘ کو جانچا جانا چاہیے۔ قرآن اور سنت کو اپنی (نام نہاد فکری و عملی) زندگی میں اساس تسلیم کرنے والی امتِ مسلمہ پچھلی کئی صدیوں سے زوال کا شکار ہے، لہٰذا اس کے زوال کا کھوج لگانے کے لیے قرآن او رسنت کے ساتھ اس کے’’ تعلق کی نوعیت‘ ‘ کا سراغ لگانا انتہائی ناگزیر ہو جاتا ہے ۔ 
اگر ہم قرآن اور سنت کے ساتھ مسلم تہذیب کے موجودہ تعلق کی نوعیت کو گہری نظر سے دیکھیں تو یہ لاتعلقی سے عبارت نظر آتی ہے۔ جی ہاں ! لاتعلقی پر مبنی تعلق، یہی اس وقت قرآن او رسنت کے ساتھ تعلق کی نوعیت ہے۔یہ لا تعلقی اس طبقے میں سب سے زیادہ ہے جو خود کو دینِ اسلام کا ’’واحد نمائندہ‘‘ سمجھنے پر مصر ہے اور اسلامی نظام واسلامی انقلاب کے نعرے لگانا جس کا اوڑھنا بچھونا بن چکا ہے۔ اس طبقے کے ہاں رائج تعلیمی و تربیتی نظام، اس کے کارکنوں اور راہنماؤں کی نفسیات کچھ اس طرح تشکیل کرتا ہے کہ ان کے لیے فہمِ قرآن ایک ایسا خواب بن کر رہ جاتا ہے جس کی تعبیر کم از کم اس دنیا میں ممکن نہیں ہوتی۔ اول تو قرآن مجید اس خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھایاہی نہیں جاتا جس طرح فقہ کے اسباق کچے اذہان میں ٹھونس ٹھونس کر بھر دیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد اگر قرآن مجید کی تدریس کی نوبت آ ہی جاتی ہے تو فقہ کی ’’روشنی‘‘ میں قرآن سے فیض اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ سارا عمل انتہائی عجیب و غریب ہے اورلازمی طور پر قابلِ گرفت ہے۔
اپنی بات کی وضاحت ہم ایک مثال سے کریں گے۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ برطانیہ، پاکستان اور دولتِ مشترکہ کے اکثر ممالک میں پارلیمانی نظام نافذ ہے۔ اس نظام کی روح کے مطابق پارلیمنٹ اعلیٰ ترین ادارہ قرار پاتی ہے جس کے سامنے انتظامیہ(کابینہ) جواب دہ ہوتی ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں سیاسی جماعتوں کے استحکام کی وجہ سے انتظامیہ (کابینہ) مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی کیونکہ کابینہ (انتظامیہ) اس سیاسی جماعت کی بنتی ہے جس کی پارلیمنٹ میں اکثریت ہو اور کابینہ کے ممبران لا محالہ اپنی سیاسی جماعت کے بااثر افراد ہوتے ہیں، اس لیے وہی پارلیمنٹ کو بھی کنٹر ول کرتے ہیں۔ اس طرح اگرچہ نظری طور پر پارلیمنٹ کی بالادستی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے لیکن عملاً کابینہ کے پاس ہی انتظامی اور قانون سازی کے اختیارات آ جاتے ہیں۔ اسے اصطلاحاً کابینہ کی آمریت سے موسوم کیا جاتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی کہ مخلوق ( کابینہ )، خالق ( پارلیمنٹ ) کو کنٹرول کر لیتی ہے(خیال رہے کہ کابینہ ، پارلیمنٹ کے ممبران میں سے بنتی ہے) بلکہ اگر وزیرِ اعظم اپنی سیاسی جماعت کا بھی قائد ہو اور اسے جماعت پر پورا کنٹر ول حاصل ہو تو پھر فردِ واحد کی حکومت قائم ہو جاتی ہے اور پھر parliamentary کے بجائے prime ministerial نظام قائم ہو جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور میاں محمد نواز شریف کے ادوار کی مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔ مختصر یہ کہ مرورِ زمانہ سے، حالات کے دھارے میں بہہ کر ایک ایسا نظام جو پارلیمنٹ کی بالادستی سے شروع ہوتا ہے، فردِ واحد کی حاکمیت پر منتج ہوجاتا ہے، لیکن اگر باریک بین سیاسی پنڈت اپنے فرائض سے غفلت نہ برتیں تو نہ صرف پارلیمنٹ کی بالادستی کا’’ تصور‘‘ قائم رہتا ہے بلکہ اس کی عملاً صورت پذیری کے لیے بھی، مرورِ زمانہ سے تشکیل پانے والے بے قابو مظاہر کو حد کے اندر لایا جاسکتا ہے۔ اسی لیے برطانیہ میں یہ بحث موجود ہے کہ prime ministerial نظام کو parliamentary نظام میں ڈھالنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جانی چاہییں ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ مسلم تہذیب میں فقہ کی روایت، کابینہ کے کردار سے مشابہ ہے جو اصلاً مخلوق ہے لیکن اب خالق کو کنٹرول کر رہی ہے۔ اس بارے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ قرآن او رسنت ماخذ ہیں اور فقہ ان سے ماخوذ ہے ۔ اگر ماخوذ، اپنے ماخذ کو کنٹرول کرنا شروع کر دے تو کیا یہ عجیب معاملہ نہیں اور قابلِ گرفت نہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اب مسلم تہذیب میں قرآن او رسنت کا مطالعہ فقہ کی روشنی میں کیا جاتاہے؟ اگر نظری طور پرقرآن او رسنت کو اساس مانا بھی جاتا ہے تو کیا یہ جھوٹ ہے کہ عملی اعتبار سے فقہ کو ہی اساس تسلیم کر لیا گیا ہے؟ اسی لیے مسلم تہذیب کے خاص طور پر قدامت پسند حلقے قرآن اور سنت کا مطالعہ ایک خاص فقہی زاویے سے کرتے ہیں، یعنی پہلے ایک خاص فقہی ذہن بنا کر اس کے بعد قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ 
بحث کے اس مقام پر یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن او رسنت کے ساتھ ہمارے تعلق کی ایسی نوعیت کیونکر ہے؟ اور ہمارے نام نہاد دینی راہنما، تعلق کی ایسی نوعیت پر تنقید کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ دوسرے سوال کا بہت آسان اور سیدھا جواب یہ ہے کہ نام نہاد دینی راہنماؤں کے نزدیک، تعلق کی ایسی نوعیت ہی درست اور صحیح ہے، یعنی ان کے نزدیک فقہ کی ’’روشنی‘‘ میں ہی قرآن او رسنت سے استفادہ کیا جانادینی منشا کے عین مطابق ہے۔ نام نہاد دینی راہنماؤں کے ایسے موقف سے، پہلے سوال کا جواب تلاش کرنا ضروری ہو جاتا ہے کہ قرآن او رسنت کے ساتھ ہمارے تعلق کی ایسی نوعیت آخر کیونکر ہے؟ ہماری رائے میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجودہ مسلم تہذیب میں فکری سطح پر، اسلامی شریعت کے مآخذ کے طور پر قرآن ا ور سنت کے ساتھ قیاس، اجماع اور اجتہاد وغیرہ کو بھی شامل کر لیا گیا ہے حالانکہ غور کیا جائے تو ماخذ دو ہی بنتے ہیں جو ’’ بنیادی مواد‘‘ فراہم کرتے ہیں، یعنی قرآن ا ور سنت۔ جہاں تک اجماع، قیاس اور اجتہاد وغیرہ کا تعلق ہے، یہ اپنی نوعیت میں، قرآن اور سنت کے فراہم کردہ مواد کی تعبیر و تشریح اور اس سے اخذ واستنباط تک محدود ہیں ، یعنی یہ حقیقت میں مختلف ’’طریقے ‘‘ہیں جنھیں ضرورتاً اختیار کیا جاتا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ ان طریقوں کے علاوہ مزید نئے طریقوں کے ذریعے سے بھی قرآن او رسنت سے اخذ واستنباط اور تعبیر و تشریح وغیرہ ممکن ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ نئے طریقوں کی دریافت تو درکنار، موجودہ مسلم تہذیب صدیوں پہلے کی گئی تعبیر و تشریح اور استنباط پر اسلامی شناخت کا ٹھپہ لگا کر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہے، اس لیے قرآن اور سنت کے ساتھ اس تہذیب کے تعلق کی نوعیت،کم از کم عملی پہلو سے لاتعلقی پر استوار ہو چکی ہے۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ قیاس اور اجتہاد وغیرہ کے ذریعے سے جو نتائج اس تہذیب نے صدیوں پہلے حاصل کیے تھے، انہی نتائج کو حتمی اور نا قابلِ تغیر قرار دے دیا گیا ہے، حالانکہ زیادہ سے زیادہ ان ذرائع یعنی قیاس ا ور اجتہاد کو اصولی طریقے قرار دے کر مستقل اہمیت دی جا سکتی ہے۔ 

انسانی فہم کی محدودیت اور قرآن و سنت کی آفاقیت 

اہم بات یہ ہے کہ اصولی طریقوں کی تشکیل اور ان طریقوں کا اطلاق چاہے فرد کرے یا کوئی ادارہ، فہمِ انسانی پر موقوف ہے، اس لیے فہمِ انسانی کے اضافی ہونے کے ناطے، ان اصولوں اور ان کے اطلاقی نتائج کو حتمی تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔ یہاں منطقی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فہمِ انسانی کیونکر اضافی ہے اور کیسے تشکیل پاتا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ فہمِ انسانی کی تشکیلی ساخت، اس کے اضافی ہونے پر دال ہے۔ کسی بھی انسان کا فہم اپنے زمانے، علاقے، سماج، ثقافت و دیگر عوامل سے گہرا اثر لیتا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ فہمِ انسانی کی تشکیلی ساخت میں ان عناصر کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ چونکہ یہ تمام عناصر خود اضافی ہیں، اس لیے یہ کسی غیر اضافی چیز (حتمی فہم) کی تشکیل نہیں کر سکتے۔ دو مختلف زمانوں، علاقوں، معاشروں، ثقافتوں وغیرہ کے افراد کا فہم تو ایک دوسرے کی نسبت سے اضافی ہوتا ہی ہے، ایک فرد کا فہم بھی بنفسہٖ اضافی ہوتا ہے۔ذرا غور کرکے بتائیے کہ دنیامیں وہ کون سا نابغہ (genius) ہے جس کا فہم تمام عمر ایک ہی سطح پر رکا رہا ہو؟ اس سلسلے میں ایک مثال کی دریافت بھی ناممکن ہو گی۔ ( خیال رہے، روبوٹ اور روبوٹ نما انسان اس سے مستثنیٰ ہیں ) ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قیاس اور اجتہاد وغیرہ کے ذریعے سے اخذ واستنباط اور تعبیر و تشریح کرنے والے افراد اور ’نابغے‘، انسان نہیں تھے؟ کیا ان کا فہم (اور فکری ارتقا) ان کی اپنی زندگی میں ایک سطح پر رکا رہا؟ کیا ان کا فہم کسی دوسرے زمانے، علاقے، سماج اور ثقافت کی نسبت سے اضافی نہیں ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے افراد کو نابغہ روزگار تسلیم کرکے بھی، ان کے تشکیل کردہ اصول اور ان اصولوں سے حاصل کردہ اطلاقی نتائج کو، جو ان کے فہم پر موقوف ہیں، کسی طرح حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تو کیا کوئی ایسا ’’ انسان ‘‘ ہو سکتا ہے جو خالصتاً معروضی انداز میں قرآن و سنت کے فہم پر قادر ہو؟ ہماری رائے میں کوئی ’’انسان‘‘ اپنے مطالعے، مشاہدے، تجربے اور زمانے کے اثرات کے تحت ہی قرآن و سنت کا فہم حاصل کرتا ہے اور اس کا فہم لازماً ارتقائی منازل طے کرتا رہتا ہے۔ فہم کی تشکیل میں ارتقا کے در آنے سے فہم کی اضافیت مزید واضح ہو جاتی ہے۔ اس لیے قرآن و سنت کے فہم میں ( انسانی فہم کے اضافی ہونے کے ناطے) موضوعیت لازماً در آتی ہے۔ یہ موضوعیت قرآن و سنت کے متن اور دائمی منشا کو خلط ملط کر دیتی ہے، اس لیے یہ بنیادی ضرورت جنم لیتی ہے کہ فہمِ قرآن و سنت ( جو اصل متن اور دائمی منشا کا خلط شدہ روپ ہے) کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت سے براہ راست اور زندہ تعلق مستقل بنیادوں پر قائم رکھا جائے تاکہ حکمت کے ان بہتے دریاؤں سے مسلسل اور زیادہ سے زیادہ فیض حاصل کیا جاسکے۔ اگر قرآن و سنت سے براہ راست تعلق کو تج دے کر ان کے متن اور دائمی منشا کے خلط شدہ روپ کو ہی ’’اساس‘‘ سمجھ لیا جائے(یعنی فہمِ انسانی کی محدودیت کا انکار کر دیا جائے) تو بات بہت بگڑ جاتی ہے، کیونکہ قرآن و سنت کی خلط شدہ صورت کسی مخصوص صورتِ حال کے چیلنج کا جواب ضرور ہو تی ہے، لیکن قرآن و سنت کے مانند آفاقی ہرگز نہیں ہوتی ۔ 
مثال کے طور پر اس جملے کو لیجیے کہ ’’موجود کتب میں قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری کا مقام ہے‘‘ ۔ کہنے کو یہ محض ایک فقرہ ہے، لیکن یہی ایک فقرہ ہمارے ذہنی جمود اور فکری زوال کی غمازی کر رہا ہے۔ یہ فقرہ کسی فرد یا افراد کے فہم کا نتیجہ تھا اور نجانے کس صورتِ حال کا جواب تھا اور کس سیاق میں کہا گیا تھا، لیکن اسے مخصوص صورتِ حال و سیاق سے اٹھا کر( فہم کی محدودیت کے باوجود) مطلق صورت میں اپنا لیا گیا جس کے نتیجے میں مسلم تہذیب کے مشاہیر کی نظر، نفسِ حدیث کے بجائے صحیح بخاری میں الجھ کر رہ گئی اور تحقیق و تنقید کے دروازے بند ہو گئے۔ یہ بہت بڑی فروگزاشت ہے کہ نفسِ حدیث کے بجائے حدیث کے کسی مجموعے کو حجت قرار دیا جائے، چاہے وہ مجموعہ صحیح بخاری ہی کیوں نہ ہو۔ جس طرح اللہ رب العزت کی ذات کا مثل کوئی نہیں، ہو الاول ہولآخر، اسی طرح اس کا کلام بھی بے مثل ہے۔ اس لیے قرآن مجید کے بعد کسی بھی کتاب کو ایسا مقام دیا جانا، قرآن مجید کی بے مثل حیثیت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ وحی متلو اور وحی غیر متلو کی بحث کے تناظر میں، اگرچہ نفسِ حدیث میں کلامِ الہٰی کی سی صفت ضرور پیدا ہو جاتی ہے، لیکن یہ صفت حدیث کے کسی بھی’’مجموعے‘‘ کو بے مثل قرار دینے کی راہ ہرگز ہموار نہیں کرتی۔ ہماری رائے میں داخلی اعتبار سے حدیث کے مجموعوں کی تشکیل و ترتیب ایک مسلسل عمل کی صورت میں جاری رہنی چاہیے تاکہ نفسِ حدیث کی حجیت برقرار رہ سکے، جبکہ خارجی اعتبار سے ان مجموعوں کی تشکیل و ترتیب، صورتِ حال کے چیلنج کا جواب ہونی چاہیے۔ چونکہ صورتِ حال یکساں نہیں رہتی، اس لیے نفسِ حدیث کے مقام کے اثبات کے ساتھ ان مجموعوں کی تشکیل و ترتیب بدلتی رہنی چاہیے ۔ 

قرآ ن و سنت کے ساتھ زندہ تعلق کے بنیادی تقاضے 

مذکورہ نکات سے یہ بات کسی قدر واضح ہو جاتی ہے کہ موجودہ مسلم تہذیب کو اسلامی شناخت سے بہرہ مند کرنے کے لیے قرآن و سنت کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت پر نظر ثانی کی جانی چاہیے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن و سنت کے ساتھ موجودہ لاتعلقی کو ایک زندہ تعلق میں کیسے اور کیونکر بدلا جا سکتا ہے؟ ہماری رائے میں زندہ تعلق قائم کرنے کے لیے دو بنیادی تقاضے ہیں جنہیں پوراکیے بغیر زندہ تعلق کے قیام کی خواہش ایک خواب رہے گی۔ ان میں سے پہلا تقاضا منفی ہے اور دوسرا مثبت۔ پہلا منفی تقاضا یہ ہے کہ مسلم تہذیب سے منسوب اسلامی شناخت کے جعلی ٹھپوں کو کھرچ کھرچ کر الگ کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ان جعلی ٹھپوں کو کھرچنے سے پہلے ان کی شناخت اور ان کا تعین انتہائی ضروری ہے۔ یہ جعلی ٹھپے اپنے ظواہر میں دو ہیں، لیکن حقیقت میں ایک ہیں ۔ ان کی ظاہری صورت میں ایک تو وہ مقامی روایات و رواجات ہیں جن پر عملی طور پر اسلامیت کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے اور دوسرا وہ قدیم فقہی ذخیرہ ہے جو موجودہ مسلم تہذیب کی غالب اکثریت کے لیے ذ ہنی و فکری لحاظ سے سرمایہ حیات بن چکا ہے۔ اپنے ظواہر میں یہ دو مختلف مظاہر ہیں، لیکن یہ حقیقت میں ایک اس طرح سے ہیں کہ چونکہ قدیم فقہی ذخیرہ موجودہ صورتِ حال کے تقاضوں سے نبرد آزما ہونے کی پوزیشن میں نہیں رہا، اس لیے یہ ذہنی و فکری سطح پر تو موجود ہے لیکن زندگی کے معاصر تقاضوں کی تکمیل کے لیے، عملی سطح پرایسی مقامی روایات و رواجات پر اسلامیت کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے جن کا قرآن و سنت کی منشا سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ا ن مقامی روایات کی تشکیل میں سامراجی ادوار ، تاریخ کے جبر، سماجی ناہمواریوں اور مقامی آبادیوں کی بے وقعتی کا انتہائی کلیدی کردار ہے۔ یہ روایات عملی طور پر مسلم تہذیب میں رچ بس چکی ہیں اور صحیح اسلامی شناخت کا خلا انتہائی غلط انداز میں پُر کرکے، اسلام اور مسلم تہذیب دونوں کے لیے بہت بڑے بحران کا باعث بن رہی ہیں۔ مثال کے طور پر برِ صغیر اور مشرقِ وسطیٰ کے ثقافتی تناظر میں کی گئی اسلام کاری کو لیجیے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کاری پس منظر میں چلی گئی ہے اوروہ مخصوص تناظر ( اسلام کاری کی تجدید نہ ہونے اور سامراجی ادوار کی چیرہ دستیوں کے باعث) پورے منظر پر چھا گیا ہے۔ اس منافقانہ صورتِ حال نے موجودہ مسلم تہذیب کو اضطراب سے دوچار کیا ہے، کیونکہ یہ تہذیب ذہنی و فکری لحاظ سے قدیم فقہی ذخیرے سے وابستہ ہے لیکن عملی و نتائجی اعتبار سے مقامی روایات و رواجات کے ہتھے چڑھ چکی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس سارے عمل کو ’’ اسلامی شناخت ‘‘ قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ اس سارے عمل میں قرآن و سنت کا براہ راست عمل دخل اور اثرو نفوذ کہیں بھی نظر نہیں آتا ۔ 
قرآن و سنت کے ساتھ زندہ تعلق قائم کرنے کے منفی تقاضے سے عہدہ برآ ہونے کے بعد اس کے دوسرے یعنی مثبت تقاضے کو پورا کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ دوسرا تقاضا کیا ہے؟ یہ دوسرا تقاضا زمانی و مکانی عرف کا اثبات ہے جس کی طرف ہم نے اس مضمون کی ابتدائی سطروں میں اشارہ کیا تھا۔ زمانی و مکانی عرف کیا ہے؟ یہ اپنی حقیقت میں ’’صورتِ حال‘‘ ہے۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ صورتِ حال کے مختلف پہلوؤں پر گہری نظر تو درکنار، موجودہ مسلم تہذیب، نفسِ صورتِ حال کے فہم سے یکسر عاری ہے۔ اس لیے اس کا قرآن و سنت کے ساتھ تعلق ، لاتعلقی پر استوار ہو چکا ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ قرآن حکیم کے حروف اور الفاظ ( الہٰی کلام ہونے کے باوجود) سماج کو سدھار نہیں سکے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان حروف و الفاظ میں بنفسہٖ ایسی خاصیت نہیں رکھی گئی کہ وہ خود کار انداز میں انسانوں پر اثر انداز ہو سکیں ۔ انسانوں پر ان کی اثراندازی انسانوں کے اس فہم پر موقوف ہے جو صورتِ حال کے تناظر میں کیا گیا ہو۔ یعنی قرآنی حروف و الفاظ کی ، صورتِ حال کے ساتھ تعلق داری (relationship)، ان کو مجرد و مجہول حالت سے نکال کر موثر اور فعال صورت میں لے آتی ہے، جسے زندہ تعلق کا نام دیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ صورتِ حال کے ساتھ قرآن و سنت کی ایسی تعلق داری کیسے اور کیونکر ممکن ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ صورتِ حال کا فہم و ادراک ایسی تعلق داری کو ممکن بناتا ہے۔ ائمہ اربعہ کا یہی کارنامہ ہے کہ انہوں نے صورتِ حال کا فہم حاصل کر کے، قرآن و سنت کا اپنے سماج کے ساتھ زندہ تعلق قائم کر دیا۔ اس لیے ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ائمہ اربعہ اور جمہور فقہا کی عظمت ان کے اس فہم میں پوشیدہ نہیں ہے جس کا اظہار ان کے اصولوں اور ان اصولوں کے اطلاقی نتائج میں نظر آتا ہے، بلکہ حقیقت میں ان کا’’ عمل ‘‘ ان کی اصل عظمت کا آئینہ دار ہے کہ انھوں نے صورتِ حال سے چشم پوشی اختیار نہیں کی اور ثمر آور نتائج حاصل کر کے اپنے وقت کی مسلم تہذیب کو اسلامی شناخت سے بہرہ مند کر دیا۔ شریعت کی ابدیت اور آفاقیت خارج از بحث ہے، لیکن اگر تعبیر وتشریح کے فقہی دائرے میں ائمہ اربعہ اور جمہور فقہا کے فہمِ اسلام کو عین اسلام قرار دینے پر بے جا اصرار کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ائمہ اربعہ اور جمہور فقہا اپنے زمانے اور ماحول کے اثرات سے آزاد اور بلند تھے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا یہ مطلب ہو گا کہ وہ لوگ اپنے عہد کی ثقافت اور معاشرتی اقدار سے نا بلد تھے یعنی معاشرے سے کٹے ہوئے مجردِ محض تھے۔ اگر بات کچھ ایسی ہی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے افراد جو خود معاشرے سے الگ تھلگ رہتے ہوں، معاشرتی سدھار کی خاطر معاشرتی تقاضوں (صورتِ حال) کو کیونکر مدِ نظر رکھ سکتے ہیں؟ کیا ان کا فہم اور تفقہ صرف اور صرف لفظی، ذہنی اور کتابی دنیا کے لیے نہیں ہوگا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ائمہ اربعہ اور جمہور فقہا کی بابت ایسی رائے رکھنا بہتانِ عظیم ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی تارک الدنیا نہیں تھا۔ وہ سب معاشرے میں رہتے تھے اور معاشرے پر نظررکھے ہوئے تھے۔ آج کی مسلم تہذیب کو بھی ان کے ’’فہم‘‘ کے پیچھے دوڑنے کے بجائے ان کے ’’عمل‘‘ کی پیروی کرنی چاہیے۔ 
المیہ یہ ہے کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے موجودہ مسلم تہذیب، صورتِ حال سے کٹی ہوئی ہے، اس لیے اس کا فہم اور تفقہ صرف اور صرف لفظی، ذہنی اور کتابی ہے۔ یہ ان معنوں میں لفظی، ذہنی اور کتابی ہے کہ موجودہ صورتِ حال کے ادراک کے بجائے ماضی کی صورتِ حال اور اس صورتِ حال سے جنم لینے والے فہم سے خود کو وابستہ کیے ہوئے ہے۔ یہ تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں کہ خود قرآن، الہامی کلام ہونے کے باوجود انسانوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتا جب تک اسے ( معاصر ) صورتِ حال سے جوڑا نہ جائے۔ پھر اگر اسلامی شناخت کا معیار قرآن کے بجائے اس کے صورتِ حال سے کٹے ہوئے فہم کو قرار دیا جائے تو اس سے جنم لینے والی خرابیوں اور نتائج کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

قراءات متواترہ کے بارے میں غامدی صاحب کے موقف کا تنقیدی جائزہ

حافظ محمد زبیر

جاوید احمد غامدی صاحب کی کتاب ’’اصول ومبادی‘‘ میں پیش کردہ مختلف اصولی تصورات، مثلاً ’تصور کتاب‘،’تصور سنت‘ اور ’تصور فطرت‘ کا علمی وتنقیدی جائز ہ ہم اپنے سابقہ مضامین میں تفصیلاً لے چکے ہیں۔ اسی ضمن میں ہم ان کے’ تصور قرآن ‘کی کجی کو بھی واضح کرنا چاہیں گے۔ اس عنوان کے تحت ایک ایک کر کے درج ذیل ابحاث پر غامدی صاحب کے نقطہ نظر کا علمی جائزہ لینا ہمارے پیش نظرہے :
۱) قراآت متواترہ کی حیثیت
۲) کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے ؟
۳) نظم قرآن کا تصور
۴) تفسیر قرآن میں اسرائیلیات کا مقام
۵) سبع مثانی کا مفہوم ومصداق
۶) زبان کی ابانت 
۷) عربی معلی 
اس مضمون میں ہم قراء ات متواترہ کے بارے میں اہل سنت اور غامدی صاحب کے مؤقف کا ایک علمی ‘ تحقیقی اور تقابلی جائزہ پیش کریں گے۔

قراء ات متواترہ اور اہل سنت کا موقف

قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اور شریعت اسلامیہ میں اصل الأصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاریخ اسلامی کے ہر دورمیں فقہا و علما نے استنباط احکام کے لیے اسے اپنا مرجع و مصدر بنایا۔ اس کی بہت سی خصوصیات ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک سے زائد قراء ات کے ساتھ نازل ہوا اور پھر انھی قراء ات کے ساتھ امت میں نقل ہوتا چلا آ رہا ہے۔ ان میں سے بعض قراء ات ایسی ہیں جو آج بھی بعض ممالک اسلامیہ میں عوام الناس کی سطح پر رائج ہیں، مثلاً روایت حفص ‘روایت قالو ن‘ روایت ورش اور روایت دوری،جبکہ بعض قراء ات ایسی ہیں جو امت کے خواص میں نقل در نقل چلی آرہی ہیں اور امت کے فقہا‘ علما‘ مفسرین ‘ محدثین‘ مجتہدین اور قرا کا ان قراء ات کے قرآن ہونے پر اتفاق ہے۔
علماے امت نے قراء ات کی دو قسمیں بیان کی ہیں :
۱۔قراء ات متواترہ: یہ وہ قراء ات ہیں جن میں درج ذیل تین شرائط پائی جائیں :
الف ) جو آپ ؐ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو اور أئمہ قراء کے ہاں مشہور ہو۔
ب) جو مصاحف عثمانیہ کے رسم الخط کے مطابق ہو۔
ج) جولغات عرب میں سے کسی لغت کے مطابق ہو۔
۲۔ قراء ات شاذہ : اگر کسی قراء ت میں ان تین شرائط میں سے کوئی شرط مفقود ہو تو اسے قراء ت شاذہ کہتے ہیں ۔
قرآن سے احکام مستنبط کرتے ہوئے قرآن کی قراء ات متواترہ کو دلیل بنانے پر مذاہب اربعہ کے جمیع فقہا کا اتفاق ہے، لیکن قراء ات شاذۃ کے بارے میں اختلاف ہے۔ احناف اور حنابلہ کا مؤقف یہ ہے کہ قراء ات شاذۃ کی اگر سند صحیح ہو تو وہ بطور حدیث حجت ہیں‘ جبکہ مالکیہ اور شوافع کا نقطہ نظر یہ ہے کہ قراء ات شاذہ حدیث کی حیثیت سے بھی حجت نہیں ہیں ۔

غامدی صاحب کا نقطہ نظر

غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں قراء ات متواترہ پر مختلف اعتراضات وارد کرتے ہوئے ان کا انکار کیا ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک قرآن کی متواتر قراء ات فتنہ عجم سے متعلق ہیں۔ ان کے نزدیک قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت ہے جسے وہ ’قرأت عامہ‘ کہتے ہیں۔یہ وہ قراء ت ہے جو مشرق کے اکثرو بیشتر ممالک میں’روایت حفص‘کے نام سے رائج ہے۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قرأت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے۔اس کے علاوہ اس کی جو قرأتیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیںیا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں ‘ وہ سب اس فتنہ عجم کے باقیات ہیں جس کے اثرات سے ہمارے علوم کا کوئی شعبہ ‘افسوس ہے کہ محفوظ نہیں رہ سکا‘‘۔(میزان:ص۳۲)
غامدی صاحب مراکش ‘ تیونس ‘ لیبیا ‘ سوڈان ‘ یمن ‘ موریطانیہ ‘ الجزائر ‘ صومالیہ اور افریقہ کے اکثر و بیشر ممالک میں رائج قراء ات کو قرآن نہیں مانتے۔ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’قرآن وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے اور جسے مغرب کے چند علاقوں کو چھوڑ کر پوری دنیا میں امت مسلمہ کی عظیم اکثریت اس وقت تلاوت کر رہی ہے۔ یہ تلاوت جس قرأت کے مطابق کی جاتی ہے ‘اس کے سوا کوئی دوسری قرأت نہ قرآن ہے اور نہ اسے قرآن کی حیثیت سے پیش کیا جا سکتا ہے‘‘۔(میزان‘ ص۲۵، ۲۶)
غامدی صاحب نے قراء ات متواترہ کے بارے میں صحاح ستہ میں موجود ’’سبعۃ أحرف‘‘ کی متواتر روایات کا انکار کیا ہے۔ چنانچہ حضرت ہشام بن حکیمؓ اور حضرت عمرؓ کی روایت پر اعتراضات کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اول یہ کہ یہ روایت اگرچہ حدیث کی امہات کتب میں بیان ہوئی ہے ‘لیکن اس کا مفہوم ایک ایسا معما ہے جسے کوئی شخص اس امت کی پوری تاریخ میں کبھی حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔امام سیوطی نے اس کی تعیین میں چالیس کے قریب اقوال اپنی کتاب ’’الاتقان ‘‘ میں نقل کیے ہیں ‘پھر ان میں سے ہر ایک کی کمزوری کا احساس کر کے مؤطا کی شرح ’’تنویر الحوالک‘‘میں بالآخر یہ اعتراف کر لیا ہے کہ اسے من جملہ متشابہات ماننا چاہیے جن کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا... یہی معاملہ ان روایتوں کا بھی ہے جو سیدنا صدیق اور ان کے بعد سیدنا عثمان کے دور میں قرآن کی جمع و تدوین سے متعلق حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں ۔قرآن ‘جیسا کہ اس بحث کی ابتدا میں بیان ہوا‘ اس معاملے میں بالکل صریح ہے کہ وہ براہ راست اللہ کی ہدایت کے مطابق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات میں مرتب ہوا‘ لیکن یہ روایتیں اس کے بر خلاف ایک دوسری ہی داستان سناتی ہیں جسے نہ قرآن قبول کرتا ہے اور نہ عقل عام ہی کسی طرح ماننے کے لیے تیار ہو سکتی ہے۔‘‘ (میزان‘ ص۳۰، ۳۱)
ذیل میں ہم غامدی صاحب کے ان اعتراضات اور ان کے جوابات کا علی الترتیب ذکر کریں گے :
۱) غامدی صاحب قراء ات متواترہ پر تنقید کا شوق پورا فرما رہے ہیں اور کیفیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب ’میزان‘ میں ص ۲۵ سے لے کر ۳۳ تک ’’قرأت کے اختلاف‘‘ کے عنوان سے قراء ات متواترہ پر بحث کی ہے اور ’’قرأت‘‘ کا لفظ اپنی اس بحث میں تقریباً ۳۴ دفعہ لے کر آئے ہیں اور ہر دفعہ انھوں نے اس لفظ کو ’قرأت‘ ہی لکھا ہے۔ گویا انہیںیہ بھی معلوم نہیں کہ یہ لفظ ’قرأت‘ نہیں بلکہ ’قراء ت‘ہوتا ہے جس کی جمع ’قراء ات‘ہے۔
۲) غامدی صاحب تو حفاظت قرآن کے بھی قائل نہیں ہیں۔وہ لکھتے ہیں :
’’لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قرأت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے۔اس کے علاوہ اس کی جو قرأتیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیںیا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں ‘وہ سب اس فتنہ عجم کے باقیات ہیں‘‘۔(میزان:ص۳۲)
گویا غامدی صاحب قرآن کو محفوظ نہیں سمجھتے ۔اگر قرآن مجید محفوظ ہے تو پھر یہ ’قراء ات‘امت میں بطور قرآن کیسے رائج و معروف ہو گئیں؟
  • امام المفسرین ابن جریر طبری ؒ سے کر علامہ آلوسیؒ تک ہر مفسر نے اپنی تفسیر میں ان قراء ات کا تذکرہ کیا ہے اور ان سے آیات قرآنیہ کی تفسیر و تأویل میں مدد لی ہے ۔
  • یہ قراء ات مشرق سے لے کر مغرب تک تقریباً تمام اسلامی ممالک کی عالمی شہر ت کی حامل جامعات مثلاً جامعہ ازہر‘جامعہ کویت اور مدینہ یونیورسٹی وغیرہ کے نصاب میں شامل ہیں۔
  • بریلوی ہوں یا اہل حدیث ‘دیوبندی ہوں یااہل تشیع‘ کم وبیش تمام مکاتب فکر کے بڑے بڑے مدارس میں یہ قراء ات سبقاً سبقاً پڑھائی جاتی ہیں ۔
  • امت مسلمہ کی ایک بہت بڑی تعداد غامدی صاحب کی ’قرأت عامہ‘کے مطابق قرآن نہیں پڑھتی ۔مثلاً لیبیا‘ تیونس اور الجزائر کے بعض علاقوں میں روایت ’قالون‘پڑھی جاتی ہے۔ سوڈان ‘صومالیہ اور یمن( حضر موت) کے علاقے میں روایت’دوری‘ میں قرآن پڑھا جاتا ہے۔ اسی طرح موریطانیہ ‘الجزائر کے اکثر وبیشتر علاقوں ‘مراکش اوربر اعظم افریقہ کے اکثر ممالک میں روایت’ورش‘ رائج ہے۔ ہمارا غامدی صاحب سے ہمارا سوال ہے کہ
  • کیا ہمارے تمام مفسرین قرآن سے جاہل تھے ؟
  • کیا اللہ تعالی نے’ فتنہ عجم‘ کوامت مسلمہ میں اتنا عام کر دیا کہ کیا خواص اور کیا عوام ‘سب ہی اسے چودہ صدیوں سے قرآن سمجھ کر پڑھ رہے ہیں؟
  • کیا مذکورہ بالا تمام ممالک میں رہنے والے کروڑوں مسلمان اپنی نمازوں میں قرآن کی بجائے ’فتنہ عجم ‘ کی تلاوت کرتے ہیں؟ واضح رہے کہ اکیلی روایت ’ورش‘ دنیا کے تقریباً چالیس ممالک میں رائج ہے۔
  • کیا غامدی صاحب مراکش‘لیبیا‘تیونس ‘الجزائر ‘موریطانیہ ‘سوڈان ‘صومالیہ ‘یمن ‘مغربی ممالک اور براعظم افریقہ کے کروڑوں مسلمانوں کو امت مسلمہ میں شامل نہیں سمجھتے؟
  • کیا عالم عرب و عجم کے تمام معروف قرا کی مختلف’ قراء ات‘ میں آڈیو اور ویڈیوکیسٹس ’مشرق‘ میں عام نہیں ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امت مسلمہ میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی روایت‘روایت حفص ہے لیکن امت کی ایک معتد بہ تعداد میں روایت قالون ‘ورش اور دوری بھی رائج ہے اور ان’ قراء ات‘ کا امت مسلمہ میں رائج ہونا ہی ان کے قرآن ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے‘ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ (الحجر:۹)
’’بے شک ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔‘‘
جب اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے تو ایک ایسی چیز جو قرآن نہیں ہے، وہ امت مسلمہ میں بطور قرآن کیسے رائج ہو سکتی ہے؟
غامدی صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جس طرح وہ صرف اسی قراء ت کے قائل ہیں جو مشرق کے عوام الناس میں رائج ہے اور مغرب میں پڑھی جانے والی قراء ات کے انکاری ہیں، اسی طرح مغرب میں بھی بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو صرف اسی قراء ت کو حق سمجھتے ہیں جو ان کے علاقوں میں پڑھی جاتی ہے اور غامدی صاحب کی’قرأت عامہ‘ان کے نزدیک قرآن نہیں ہے‘ بلکہ وہ اپنے ہاں رائج قراء ت کو ہی ’قرأت عامہ ‘کہتے ہیں ۔ 
۳) غامدی صاحب کے نزدیک قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت ہے جو کہ مصاحف میں ثبت ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’’ہمارے مصاحف‘‘ سے غامدی صاحب کی کیا مراد ہے؟ ’المورد‘ کے تصدیق شدہ مصاحف یا امت مسلمہ کے مصاحف؟ اگر تو ان کی مراد ’المورد‘ کے مصاحف ہیں تو پھر بھی مانتے ہیں کہ قرآن کی ایک ہی قراء ت ہے ‘لیکن اگر ان کی مراد امت مسلمہ کے مصاحف ہیں تو وہ جس طرح روایت حفص میں ہمارے ممالک میں موجود ہیں، اسی طرح روایت قالون ‘روایت ورش ‘روایت دوری کے مطابق یہ مصاحف لاکھوں کی تعداد میں متعلقہ ممالک میں باقاعدہ ان ممالک کی حکومتوں کی زیر نگرانی ایسے ہی شائع کیے جاتے ہیں جیسے کہ غامدی صاحب کا ’قرأت عامہ ‘ کا مصحف ۔ اب تو’ مجمع الملک الفھد ‘ نے بھی لاکھوں کی تعداد میں روایت دوری ‘قالون اور ورش کے مطابق مصاحف کومتعلقہ ممالک کے مسلمانوں کے لیے شائع کیا ہے۔ مختلف قراء ات کے رسم الخط کے مطابق طبع شدہ یہ مصاحف ہمارے پاس بھی موجود ہیں۔ لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ جو مصاحف امت مسلمہ میں رائج ہیں، وہ ایک سے زائدقراء ات پر مشتمل ہیں او ر غامدی صاحب کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ ہمارے مصاحف میں ایک ہی قرا ء ت ثبت ہے ۔
۴) قراء ات قرآنیہ کے نقل کرنے میں دس امام ایسے ہیں جنہیں بہت شہرت حاصل ہوئی اور مابعد کے زمانوں میں یہ قراء ات‘ انہی أئمہ کے ناموں سے معروف ہو گئیں۔ان أئمہ کے نام درج ذیل ہیں :امام نافعؒ (متوفی۱۶۹ھ)‘ امام ابن کثیر مکیؒ (متوفی۱۲۰ھ)‘ امام ابو عمرو بصری ؒ (متوفی۱۵۴ھ)‘ امام ابن عامر شامیؒ (متوفی۱۱۸ھ)‘ امام عاصمؒ (متوفی ۱۲۷ھ)‘امام حمزہ ؒ (متوفی۱۸۸ھ)‘امام کسائیؒ (متوفی۱۸۹ھ)‘امام ابو جعفرؒ (متوفی ۱۳۰ھ)‘ امام یعقوبؒ (متوفی ۲۲۵ھ)‘ امام خلفؒ (متوفی۲۰۵ھ)۔ ان أئمہ کی قراء ات ’قراء ات عشرۃ‘کہلاتی ہیں اور ان سے ان قراء ات کو نقل کرنے والے ان کے سینکڑوں شاگرد ہیں، لیکن ہر اما م کی قرا ء ت بعدازاں اس کے دو شاگردوں سے معروف ہوئی۔ ان شاگردوں کی اپنے امام سے نقل، قراء تِ قرآن کی ’روایت‘کہلاتی ہے۔ پس ہر امام کے دو شاگردوں کے اعتبار سے قرآن کی کل بیس روایات ہوئیں۔ ان بیس روایات میں سے چار روایات ایسی ہیں جو کہ امت مسلمہ کے مختلف علاقوں میں عوامی سطح پررائج ہیں جن کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں، جبکہ باقی چودہ روایات قرا کی ایک بہت بڑی تعداد سے نقل در نقل چلی آ رہی ہیں اور ان تمام قراء ات کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک باقاعدہ اسناد موجودہیں۔ غامدی صاحب ان بیس کی بیس روایات قرآنیہ کے منکر ہیں اور انھیں فتنہ عجم قرار دیتے ہیں۔ انھی بیس روایات میں سے ایک روایت’روایت حفص‘ ہے اور حفص‘ اما م عاصم کے شاگرد ہیں۔ کیا ہی عجب حسن اتفاق ہے کہ’روایت حفص‘لفظ بلفظ وہی ہے جسے غامدی صاحب ’قرأت عامہ‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور اسے قرآن کہتے ہیں۔ اب غامدی صاحب اگر اس روایت کا انکار کریں تو اپنی ہی ’قرأت عامہ‘کے بھی انکاری ہو ں گے اور اگر وہ اس روایت حفص کو مان لیں تو باقی انیس روایات کو ماننے سے انکار کیوں؟ اگر ’قرأت عامہ‘سے غامدی صاحب کی مراد عوام الناس کی قراء ت ہے تو روایت حفص‘ روایت ورش ‘روایت قالون اور روایت دوری بھی تو عوام الناس ہی کی قراء ات ہیں‘ ان کو ماننے سے غامدی صاحب کیونکر انکار کر سکتے ہیں؟ غامدی صاحب کے نزدیک دین یا تو قولی تواتر سے ثابت ہوتا ہے یا عملی تواتر سے ‘جبکہ قرآن کی مندرجہ بالاروایات أربعہ قولی تواتر سے بھی ثابت ہیں اور عملی تواتر سے بھی ‘اس کے باوجود غامدی صاحب ان روایات کو قرآن ماننے سے انکاری ہیں۔ 
۵) غامدی صاحب کے نزدیک قراء ات متواترہ کے بارے میں مروی وہ تمام روایات جو صحاح ستہ میں موجود ہیں‘ سنداً اور معناًدونوں اعتبارات سے ناقابل قبو ل ہیں۔ سنداً اس لیے کہ ان تمام روایات کی سند میں ابن شہاب زہری ہیں جو أئمہ رجال کے نزدیک مدلس و مدرج ہیں، اور معناًا س لیے کہ ان احادیث کے معنی و مفہوم کا آج تک تعین نہیں ہو سکا۔
غامدی صاحب کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ قرآن کو حدیث کی دلیل سے ثابت کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ قرآن اپنے ثبوت کے لیے کسی حدیث کا محتاج نہیں ہے۔ غامدی صاحب جس کو ’قرأت عامہ‘کہتے ہیں، کیا وہ حدیث سے ثابت ہے؟ قرآن کا اجماع اور تواتر کے ساتھ امت میں نقل ہونا ہی اس کے ثبوت کی سب سے بڑی دلیل ہے‘اور’قراء ات عشرہ‘ تواتر اور اجماع کے ساتھ ثابت ہیں۔مشہور مفسر اور اندلسی عالم ابن عطیہ ؒ لکھتے ہیں :
و مضت الأعصار و الأمصار علی قراء ات الأئمۃ السبعۃ بل العشرۃ و بھا یصلی لأنھا تثبت بالاجماع ( المحرر الوجیز‘ابن عطیۃ‘جلد۱‘ص۹)
’’قراء ات سبعہ بلکہ عشرہ بھی ہر زمانے اور ہر شہر میں رائج رہی ہیں اور ان کی نماز میں تلاوت کی جاتی ہے کیونکہ یہ اجماع امت سے ثابت ہیں ۔‘‘
آج بھی مدارس و جامعات اسلامیہ کے ہزاروں طلبا ان قراء ات کو اپنے شیوخ سے نقل کر رہے ہیں ۔ان میں سے بعض قراء ات تو مغرب و افریقہ کے بلاد اسلامیہ میں اسی طرح رائج ہیں جس طرح ہمارے ہاں روایت حفص ‘ اور ان کا تواتر کے ساتھ امت میں پڑھا جانا ہی ان کے قرآن ہونے کے ثبوت کے لیے قطعی دلیل ہے۔
۶) غامدی صاحب نے ’’سبعۃ احرف‘‘ کی روایات پر اعتراض یہ کیا ہے کہ اس کے معنی و مفہوم کے تعین میں علما کے تقریباً چالیس اقوال نقل کیے گئے ہیں۔ اس کے لیے غامدی صاحب نے امام سیوطیؒ کا حوالہ نقل کیا ہے، لیکن کاش وہ امام سیوطیؒ کی کتاب ’الاتقان‘ کھول کر دیکھنے کی زحمت بھی گوارا کر لیتے ۔حقیقت یہ ہے کہ امام سیوطی ؒ نے چالیس نہیں بلکہ سولہ اقوال اپنی کتاب میں بیان کیے ہیں‘ البتہ ابن حبانؒ کے حوالے سے امام سیوطی ؒ نے پینتیس اقوال کا تذکرہ کیا ہے۔ ان پینتیس اقوال کو غامدی صاحب نے ایک صحیح متواتر روایت کے انکار کی دلیل بنایا ہے۔ اس ضمن میں ہم غامدی صاحب سے درج ذیل سوال کرنا چاہیں گے:
پہلی بات تو یہ ہے کہ کیابظاہر پینتیس نظر آنے والے یہ اقوال کیا واقعتاً پینتیس ہی ہیں؟ اگر ہم غور کریں تویہ درحقیقت سات اقوال ہیں: ایک قول تو یہ ہے کہ سبعۃ احرف سے مراد مضامین قرآن ہیں۔ پھر اس میں آگے اختلاف ہے کہ کون سے مضامین مراد ہیں۔ دوسراقول یہ ہے کہ سبعہ احرف سے مراد سات لغات ہیں۔ پھر آگے اس میں اختلاف ہے کہ کن قبائل کی لغات مراد ہیں۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد صحابہ کی سات قراء ات ہیں۔ چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سات حروف تہجی ہیں۔ پانچواں قول یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے سات نام ہیں ۔چھٹا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سات قسم کے اعراب ہیں۔ ساتواں قول یہ ہے کہ اس سے مراد حروف کی ادائیگی کی مختلف کیفیات ہیں۔ اسی لیے امام سیوطی ؒ نے ان اقوال کو نقل کرنے کے بعد ابن حبانؒ کا قول نقل کیا ہے ۔
و ھی أقاویل یشبہ بعضھا بعضا (الاتقان:جلد۱‘ص۴۹)
’’یہ اقوال ایک دوسر ے سے ملتے جلتے ہیں ۔‘‘
اس کے بعد امام سیوطیؒ نے امام مزنی المرسیؒ کے حوالے سے نقل کیا ہے :
وقال المرسی ھذہ الوجوہ أکثرھا متداخلۃ (الاتقان:جلد۱‘ص۴۹)
’’مرسی نے کہا ہے کہ یہ اقوال ایک دوسرے میں پیوستہ ہیں ۔ ‘‘
باہم متشابہ اور متداخل اقوال کو غامدی صاحب نے چالیس اقوال سمجھ لیا اور اس بنا پر سبعہ احرف کی متواتر روایت کا انکار کر دیا۔
دوسری بات یہ کہ بالفرض ہم مان لیں کہ یہ چالیس اقوال ہیں جیسا کہ غامدی صاحب کا کہنا ہے تو اگر قرآن کی کسی آیت کی تفسیر میں پینتیس یا چالیس اقوال نقل ہو جائیں تو کیا اس بنیاد پر غامدی صاحب قرآن کی اس آیت کا انکار کر دیں گے کہ اس آیت کے معنی و مفہوم کے تعین میں چالیس قوال نقل ہوئے ہیں؟ چالیس تو چھوڑیے، اگر ہم بدعتی فرقوں مثلاً باطنیہ‘ روافض اور صوفیا کی تفاسیر کا مطالعہ کریں تو ہمیں ایک ایک آیت کی تفسیر میں ستر ستر اقوال بھی ملتے ہیں تو کیا ہم صرف اس بنا پر قرآن کی اس آیت کو ماننے سے انکار کر دیں گے؟
سب سے اہم اور تیسری بات تو یہ ہے کہ یہ کیسے ثابت ہو گا کہ یہ پینتیس اقوال مختلف پینتیس علما کے ہیں۔ بعض افراد نے ان اقول کو اپنی کتابوں میں نقل تو کر ہی دیا ہے، لیکن ان کے قائلین کو کوئی آج تک نہ جان سکا، جیسا کہ امام سیوطی نے امام مزنی المرسی کے حوالے سے نقل کیا ہے :
وقال المرسی ھذہ الوجوہ أکثرھا متداخلۃ و لا أدری مستندھا ولا عمن نقلت (الاتقان:جلد۱‘ص۴۹)
’’’مرسی نے کہا ہے کہ یہ اقوال ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں اور میں نہیں جانتا کہ ان کی سند کیا ہے یا کس سے یہ منقول ہیں؟‘‘
ان اقوال کی باہمی مشابہت و مماثلت دیکھنے کے بعد اندازہ یہی ہوتاہے کہ دو چار نامعلوم اور گم نام افراد نے سبعہ احرف کی تشریح میں مختلف احتمالات پیش کیے تھے جنہیں بعد میں آنے والوں نے مستقل اقوال کی حیثیت سے نقل کر دیا۔
چوتھی بات یہ ہے کہ ان پینتیس اقوال میں سے اکثر و بیشتر کی تردید خود سبعہ احرف کی روایات سے ہو رہی ہے کیونکہ اکثرو بیشتر اقوال کا جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ ان اقوال کی رو سے’سبعۃ أحرف‘کا تعلق قرآن کے مضامین یا معانی سے ہے جبکہ’سبعۃ أحرف‘کی اکثرو بیشترروایات سے معلوم ہوتا ہے کہ’سبعۃ أحرف‘ کا تعلق الفاظ سے ہے۔ مثلاً حضرت ہشام بن حکیمؓ اور حضرت عمرؓ میں آپس میں قراء ت کا اختلاف ہوا توحضرت عمرؓ‘ حضرت ہشامؓ کو ان کی چادر سے کھینچتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اورآپ ؐ سے کہا کہ میں نے اس (یعنی ہشام بن حکیمؓ ) کو سورہ فرقان ان حروف کے ساتھ پڑھتے سنا ہے جن حروف کے ساتھ آپؐ نے مجھے یہ سورت نہیں پڑھائی ۔آپ ؐ نے حضرت عمر سے کہاکہؓ اسے چھوڑ دواور ہشامؓ سے کہا کہ تم پڑھو۔ حضرت ہشام نے اس قراء ت کے مطابق پڑھا جو حضرت عمر نے ان سے سنی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؐ نے کہا کہ یہ سورت اسی طرح نازل کی گئی ہے۔ پھر آپؐ نے کہا کہ اے عمر،ؓ اب تم پڑھو۔ حضرت عمر نے اس سورت کواس قراء ت کے مطابق پڑھا جس پر آپ ؐ نے انھیں پڑھایا تھاتو آپ ؐ نے کہا کہ یہ سورت اسی طرح نازل کی گئی ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے، پس ان میں سے جو بھی تمہیں آسان لگے، اس کے مطابق پڑھ لو۔ (صحیح بخاری ‘کتاب فضائل القرآن‘باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)
اسی لیے امام سیوطیؒ ‘امام مزنی ؒ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
و أکثرھا معارضۃ لحدیث عمر وہشام ابن حکیم الذی فی الصحیح فانھما لم یختلفا فی تفسیرہ و لا أحکامہ و انما اختلفا فی قراء ۃ حروفہ (الاتقان:جلد۱‘ص۴۹)
’’ان میں سے اکثر اقوال حضرت عمرؓاور ہشام بن حکیمؓ کی حدیث کے خلاف ہیں جوکہ صحاح میں ہے ۔ حضرت عمرؓ اور ہشام بن حکیمؓ کا اختلا ف قرآن کی تفسیریا اس کے احکام میں نہ تھا بلکہ ان دونوں حضرات نے قرآن کے حروف کے پڑھنے میں آپس میں اختلاف کیا تھا۔‘‘
جب خود روایت کے الفاظ سے ہی اس کے معنی کے تعین میں وارد اقوال کی تردید ہو رہی ہو تو ان اقوال کو اس روایت کی تشریح و توضیح کے ضمن میں پیش کرنا اور ان میں اختلاف کی بنیاد پر روایت ہی کورد کر دیناکون سی عقل مندی ہے؟
پانچویں بات یہ کہ جہاں تک سبعہ احرف کے معنی و مفہوم کے تعین کی بحث ہے تو اس بارے میں فقہا و علما کے بنیادی اقوال دو ہی ہیں :
پہلا قول وہ ہے جو علما میں امام رازی کے حوالے سے معروف ہوا کہ سبع احرف سے مراد سات وجوہ ہیں جو قراء ات کے تمام اختلافات کو محیط ہیں اور وہ وجوہ اختلاف درج ذیل ہیں: اسماء کا ختلاف (یعنی تذکیر و تأنیث اور جمع و افراد وغیرہ )، تصریف افعال کا اختلاف(ماضی ‘مضارع اورأمر وغیر ہ)‘ وجوہ اعراب کا اختلاف ‘نقص و زیادت کااختلاف‘تقدیم و تأخیر کا اختلاف ‘اختلاف ابدال ‘اختلاف لغات(یعنی لہجات کا اختلاف)۔ یہی قول امام مالکؒ ‘ قاضی ابو بکر باقلانیؒ ‘ابن قتیبہ دینوریؒ ‘ علامہ ابن الجزریؒ وغیرہ سے کچھ اختلاف کے ساتھ منقول ہے ۔
دوسرا قول علما میں ابن جریر طبری ؒ کے حوالے سے معروف ہوا، وہ یہ کہ سبع احرف سے مراد مختلف عرب قبائل کی سات لغات ہیں جن میں تھوڑا بہت اختلاف موجود تھا۔اسی قول کو امام ابو عبید قاسم بن سلامؒ ‘سفیان بن عیینہؒ ‘ابن وہبؒ ‘احمد بن یحییؒ ، امام طحاویؒ ‘امام ابو حاتم السجستانی ؒ ‘امام بیہقیؒ ‘علامہ ابن جوزیؒ ‘علامہ ابن لأثیر الجزریؒ ‘ابن عبد البرؒ اور شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ وغیرہ نے کچھ اختلاف کے ساتھ اختیار کیا ہے ‘بلکہ ابن عبد البرؒ نے تو اسے جمہور علما کا قول قرار دیا ہے۔
ان دونوں اقوال میں بھی قدر مشترک یہ ہے کہ ان کے قائلین اس بات پر متفق ہیں کہ ’سبعۃ أحرف‘ سے مراد قرآن کے الفاظ کو سات طرح سے پڑھنا ہے۔پہلے قول کے قائلین کا کہنا یہ ہے کہ اس سے مراد قرآن کو پڑھنے کے سات قسم کے اختلافات ہیں، جبکہ دوسرے گروہ کا مؤقف یہ ہے کہ اس سے مراد سات لغات میں قرآن کو پڑھنا ہے ۔
ہم ان دونوں اقوال میں موجود اختلاف کا انکار نہیں کرتے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ اختلاف‘ اختلاف تضاد نہیں ہے بلکہ اختلاف تنوع ہے کیونکہ دونوں گروہوں کے اقوال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن کی ایک سے زائدقراء ات ہیں جن کے مطابق قرآن کو پڑھنا صحیح ہے، جبکہ غامدی صاحب قرآن کی ایک سے زائد قراء ات کو نہیں مانتے ۔ ان دو کے علاوہ جتنے بھی اقوال ہیں، ان کی نہ تو کوئی سندہے‘ نہ ہی ان کے قائلین کی کسی کو خبر ہے اور نہ ہی وہ کسی قسم کا علمی وزن رکھتے ہیں۔ لہٰذا ایسے اقوال پر بحث کرنا صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہے۔ 
۷) غامدی صاحب نے سبعۃ احرف والی روایات کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ ا ن کا کہنا یہ ہے کہ ایسی تمام روایات کی سند میں ایک راوی ابن شہاب زہری ؒ ہے جسے وہ مدلس ا ور مدرج قرار دیتے ہیں۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں : 
’’ لیکن یہ روایتیں اس کے بر خلاف ایک دوسری ہی داستان سناتی ہیں جسے نہ قرآن قبول کرتا ہے اور نہ عقل عام ہی کسی طرح ماننے کے لیے تیار ہو سکتی ہے۔ صحاح میں یہ اصلاً ابن شہاب زہری کی وساطت سے آئی ہیں ۔أئمہ رجال انھیں تدلیس اور ادراج کا مرتکب تو قرار دیتے ہی ہیں‘ اس کے ساتھ اگر وہ خصائص بھی پیش نظر رہیں جو امام لیث بن سعد نے امام مالک کے نام اپنے ایک خط میں بیان فرمائے ہیں تو ان کی کوئی روایت بھی ‘بالخصوص اس طرح کے اہم معاملات میں قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ وہ لکھتے ہیں : ....اور ابن شہاب سے جب ہم ملتے تھے تو بہت سے مسائل میں اختلاف ہو جاتا تھا اور ہم میں سے کوئی جب ان سے لکھ کر دریافت کرتا تو علم و عقل میں فضیلت کے باوجود ایک ہی چیز کے متعلق ان کا جواب تین طرح کا ہوا کرتا تھا جن میں سے ہر ایک دوسرے کا نقیض ہوتا اور انھیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ اس سے پہلے کیا کہہ چکے ہیں۔میں نے ایسی ہی چیزوں کی وجہ سے ان کو چھوڑا تھا‘جسے تم نے پسند نہیں کیا‘‘۔ (میزان‘ ص۳۰، ۳۱)
اب ہم امام ابن شہاب زہری ؒ کے بارے میں أئمہ جرح و تعدیل‘أئمہ محدثین اور أئمہ فقہا اور معاصر علما کی آرا نقل کرتے ہیں:
امام ابن حجرؒ (متوفی ۸۵۲ھ) ؒ لکھتے ہیں: ابن شہاب فقیہ اور’الحافظ‘ہیں، ان کی بزرگی اور حافظے کی پختگی پر محدثین کا اتفاق ہے۔ (تقریب:جلد۲‘ص۲۰۷) امام ذہبی ؒ (متوفی ۷۴۸ھ) لکھتے ہیں: محمد بن مسلم ’الحافظ‘اور ’الحجۃ‘ہیں ۔ ( میزان الاعتدال:جلد۴‘ص۴۰) امام ابن حبانؒ (متوفی ۲۵۴ھ) لکھتے ہیں: انھوں نے دس صحابہ کی زیارت کی ہے اور اپنے زمانے کے سب سے بڑے حدیث کے حافظ تھے اور احادیث کے متون کو بیان کرنے میں سب سے اچھے تھے اور فقیہ اور فاضل تھے۔ (کتاب الثقات:جلد۳‘ص۴) امام احمد العجلیؒ فرماتے ہیں: تابعی اور ثقۃ تھے۔ (تاریخ الثقات:ص۴۱۲) حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے کہا کہ تم ابن شہابؒ کو لازم پکڑو کیونکہ گزری ہوئی سنن کے بارے میں ان سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں ہے۔ (کتاب الجرح و التعدیل:ص۱۲) ابن القاسمؒ نے کہا ہے: میں نے امام مالکؒ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ ابن شہابؒ باقی رہ گئے اور ان کی کوئی مثال اس دنیا میں نہیں ہے۔ (سیر أعلام النبلاء: جلد۴‘ ص ۱۴۰) امام احمدؒ کی رائے یہ ہے: لوگوں میں حدیث کے اعتبار سے سب سے بہتر اور سند کے اعتبار سے سب سے عمدہ ہیں۔ (أیضا:ص ۱۴۱) امام ابو حاتم الرازی ؒ کی رائے میں حضرت أنسؓ کے أصحاب میں سب سے زیادہ ’ثابت‘امام زہریؒ ہیں۔ (ایضاً) ْ قتادہ ؒ کی رائے یہ ہے کہ گزشتہ سنن کے بارے میں ابن شہابؒ سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی بھی باقی نہیں رہا۔ (ایضاً) یحییٰ بن سعیدؒ کی رائے میں کسی ایک کے پاس بھی وہ علم نہیں رہا جو ابن شہاب ؒ کے پاس ہے۔ (ایضاً) سعید بن عبد العزیزؒ کی رائے میں وہ تو علم کا ایک سمندر ہے۔ (أیضا:ص۱۴۲) سفیان ثوری ؒ کی رائے میں امام زہری ؒ اہل مدینہ میں سب سے بڑے عالم ہیں ۔ (أیضا:ص ۱۴۰) عمروبن دینار ؒ کی رائے یہ ہے کہ حدیث کی سند بیان کرنے میں‘ زہریؒ سے بڑھ کر میں نے کوئی عالم نہیں دیکھا۔ (أیضا:ص ۱۴۰) ابو ایوب سختیانی ؒ کی رائے میں نے ان سے بڑا عالم کوئی نہیں دیکھا۔ (تذکرۃ الحفاظ:جلد۱‘ص۱۰۹) امام لیثؒ بن سعد فرماتے ہیں کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے۔ (أیضا:ص۱۰۹) أبو صالح ‘امام لیث بن سعدؒ سے نقل کرتے ہیں کہ میں ابن شہاب زہریؒ سے زیادہ جامع العلوم کسی عالم کو نہیں دیکھا۔ (أیضا: ص۱۱۰) امام نسائی ؒ نے کہا کہ سب سے بہتر اسناد جو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں، وہ چار ہیں:زہریؒ ‘حضرت علی بن حسینؒؓ سے ‘وہ حسین بن علیؓ سے ‘وہ حضرت علیؓسے ‘وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ اور زہریؒ ‘عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود سے‘ وہ ابن عباسؓسے ‘وہ حضرت عمرؓسے، اور وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ (تہذیب الکمال: جلد۶‘ ص۵۱۲) سفیان بن عیینہؒ ‘عمرو بن دینار ؒ سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے حدیث کی سند بیان کرنے میں زہری ؒ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔(ایضاً) محمد بن سعد ؒ نے کہا :محدثین کا کہنا ہے کہ زہری ثقہ راوی ہے اور کثرت سے علم رکھنے والا ‘احادیث کو جاننے والا اور احادیث کو نقل کرنے والا ہے۔ (ایضاً) مکحولؒ نے کہاکہ زمین کی پشت پر گزری ہوئی سنت کے بارے میں زہری ؒ سے بڑھ کر کوئی عالم باقی نہیں رہا۔ (ایضاً) ابو بکر الھذلی ؒ کہتے ہیں کہ میں حسن بصریؒ اور ابن سیرینؒ کے ساتھ بیٹھا، لیکن میں نے زہری ؒ سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا۔ (ایضاً) امام دارمیؒ کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معینؒ سے کہا کہ زہری ؒ آپ کوسعید بن مسیب ؒ سے زیادہ محبوب ہے یا قتادہ؟ تو انھوں نے کہا دونوں۔ میں نے پھر کہا کہ وہ دونوں آپ کو زیادہ محبوب ہیں یا یحییٰ بن سعید تو یحییٰ بن معین ؒ نے کہا :یہ سب ثقہ راوی ہیں ۔ (ایضاً) علی بن مدینیؒ نے کہا کہ حدیث کا علم امت محمد میں چھ افراد نے محفوظ کیا۔ أہل مکہ میں سے عمرو بن دینار ؒ نے اور اہل مدینہ میں ابن شہاب الزہریؒ نے.... (تہذیب الکمال‘جلد۱۲‘ص۸۴) 
امام ابن شہاب زہریؒ کی تعدیل و توصیف سے اسماء الرجال کی کتب بھری پڑی ہیں۔ غامدی صاحب کو امام زہری ؒ کے بارے میں جلیل القدر معاصرو متأخرفقہا‘ تابعین اور محدثین کے یہ اقوال تو نظر نہ آئے اور اگرکچھ نظر آیا تو وہ امام لیث بن سعدؒ کا وہ قول ہے جو ابن قیم ؒ نے اپنی کتاب ’اعلام الموقعین‘میں نقل کیا ہے ۔اس قول کے بارے میں ہماری رائے درج ذیل نکات پر مشتمل ہے :
پہلی بات تو یہ ہے کہ’اعلام الموقعین‘اسماء الرجال کی کتاب نہیں ہے۔ ہم غامدی صاحب کو یہ مشورہ دیں گے کہ امام زہری ؒ کی شخصیت پر اگر بحث کرنی ہے تو اسماء الرجال کی کتب میں موجود أئمہ جرح و تعدیل کے اقوا ل کی روشنی میں کریں۔
دوسری بات یہ کہ امام لیث بن سعد ؒ کا وہ خط جس کا غامدی صاحب نے حوالہ دیا ہے، تقریباً تین صفحات پر مشتمل ہے۔ غامدی صاحب نے اس خط میں سے اپنے کام کی تین چار سطریں نکال لیں، حالانکہ اگر اس خط کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام لیث بن سعدؒ نے جو اتنا لمبا چوڑا خط امام مالک ؒ کو لکھا ہے، اس کا موضوع امام زہریؒ کی شخصیت نہیں ہے بلکہ اس کا موضوع امام لیث بن سعدؒ اور امام مالکؒ کے درمیان ایک مسئلے میں علمی اختلاف ہے اور وہ یہ کہ امام لیث بن سعدؒ کے نزدیک ’ عمل اہل مدینہ‘کے خلاف فتویٰ دینا جائز ہے ‘جبکہ امام مالکؒ اس کو ناجائز قرار دیتے تھے۔ اس پر امام لیث بن سعدؒ نے امام مالکؒ کو خط لکھا جس میں مدینہ کے علما کے باہمی اختلاف اور ان کی آرا کے کمزور پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ ان علماے مدینہ میں ایک ابن شہاب زہریؒ بھی تھے۔ یہ تو ایک فقہی اختلاف ہے جس کی کچھ عبارت کوجناب غامدی صاحب نے درمیان سے اٹھا لیا اور اسے امام لیث بن سعدؒ کی ‘ابن شہاب زہریؒ پر تنقید کے عنوان سے پیش کر دیا حالانکہ امام لیث بن سعدؒ نے امام زہریؒ کے علم حدیث میں مقام و مرتبے کو بیان کرتے وقت اسی مبالغے کاا ظہار کیا ہے جو کہ تمام علماے جرح و تعدیل سے منقول ہے۔امام لیث ؒ فرماتے ہیں :
وقال أبو صالح عن اللیث بن سعد ما رأیت عالما قط أجمع من ابن شھاب ولا أکثر علما منہ .۔۔۔ (تہذیب الکمال: جلد۶‘ ص۵۱۲)
’’أبو صالحؒ ‘ امام لیث بن سعد ؒ سے نقل کرتے ہیں کہ میں ابن شہاب زہری ؒ سے زیادہ جامع العلوم کسی عالم کو نہیں دیکھا اور نہ ہی ان سے بڑے کسی عالم کو دیکھا ہے ....‘
کتبت من علم محمد بن شہاب الزہری علما کثیرا (وفیات الأعیان:جلد۴‘ ص۱۲۷)
’’میں نے امام ابن شہاب الزہریؒ کے علم میں سے بہت سے کو لکھا ۔‘‘
تیسری بات یہ کہ غامدی صاحب کے بقول امام زہریؒ کے بارے میں امام لیث بن سعد ؒ نے یہ اعتراض کیا کہ ایک ہی مسئلے میں بعض اوقات ان کے فتاویٰ جات مختلف ہوتے ہیں ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک ہی مسئلے میں امام مالکؒ ‘امام ابو حنیفہؒ ‘ امام شافعیؒ اور امام احمدؒ جیسے جلیل القدر فقہا کی بھی ایک سے زائد آرا منقول ہوتی ہیں کیونکہ فتویٰ حالات کے مطابق ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک شخص کو دیکھ کر مفتی ایک مسئلے میں ایک فتویٰ دیتا ہے اور بعض اوقات دوسرے شخص کو اس کے حالات کے مطابق بالکل اس کے برعکس فتویٰ دیتا ہے، جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نوجوان کو روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لینے سے روک دیا، جبکہ ایک بوڑھے شخص کو اس کی اجازت دے دی ۔بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک عالم ایک مسئلے میں ایک فتویٰ دیتا ہے اور بعد میں اس کی رائے تبدیل ہو جاتی ہے اور وہ اس کے بالکل برعکس فتویٰ دیتا ہے، جیسا کہ امام شافعیؒ کے بارے میں معروف ہے کہ ان کی ایک قدیم رائے ہے اور ایک جدید رائے ہے۔ 
چوتھی بات یہ ہے کہ امام لیث بن سعد ؒ نے امام زہریؒ پر جو جرح کی ہے، وہ ان کے فتاویٰ جات کے اعتبار سے ہے نہ کہ ان کی حدیث بیان کرنے کے اعتبار سے۔ اگر وہ حدیث کے معاملے میں بھی ایسا ہی کرتے کہ کبھی ایک روایت کو کچھ الفاظ کے ساتھ اور کبھی اس کے بالکل برعکس الفاظ کے ساتھ نقل کرتے تو امام لیثؒ اس کا ضرور تذکرہ فرماتے۔ جتنی جرح نقل کر کے غامدی صاحب امام زہری ؒ کی شخصیت کو متنازعہ بنانا چاہتے ہیں، اتنی جرح تو أئمہ رجال کے ہاں حدیث کے مسئلے میں امام ابو حنیفہ ؒ پر بھی موجود ہے، لیکن اس جرح کے باوجود امام ابو حنیفہؒ کی ایک فقیہ کی حیثیت سب کے نزدیک متفق علیہ اور مسلم ہے، اس لیے امام زہری ؒ کے فتاویٰ پر جرح سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ وہ حدیث میں بھی مجروح ہوں۔ 
پانچویں بات یہ ہے کہ غامدی صاحب نے امام زہری ؒ کے بارے میں امام لیث بن سعدؒ کی جو ایک رائے نقل کی ہے، اگر کسی ایک شخص کی رائے پر ہی کسی کے علمی مقام و مرتبے کے تعین کا انحصار ہے تو ایسی آرا توہرفقیہ اور محدث کی ذات یا اس کی کتب کے بارے میں موجود ہیں، تو کیا اس وجہ سے ان کے تمام علمی کام اور مرتبے کا انکار کر دیا جائے گا؟
۸) جناب غامدی صاحب نے امام زہریؒ کی روایات قبول نہ کرنے کی جوتین وجوہات بیان کی ہیں، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ تدلیس کرتے ہیں۔ غامدی صاحب جن أئمہ رجال پر اعتماد کرتے ہوئے امام زہری ؒ کو تدلیس اور ادراج کا مرتکب قرار دے رہے ہیں، وہی أئمہ رجال امام زہریؒ کی روایات کو قبول کرتے ہیں۔ صحاح ستہ کے مؤلفین نے امام زہری ؒ سے روایات لی ہیں اور أئمہ جرح وتعدیل نے ان پر صحیح کا حکم بھی لگایا ہے جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ أئمہ محدثین ورجال کے نزدیک امام زہریؒ کی روایات مردود نہیں بلکہ مقبول ہیں۔امام زہریؒ کی ’سبعۃ أحرف‘کی جس روایت پر غامدی صاحب تنقید کرہے ہیں اور اس کو مردود قرار دے رہے ہیں، یہ صحیح بخاری کی روایت ہے جس کی صحت پر محدثین کا اتفاق ہے ۔
قابل غور بات یہ ہے کہ علم حدیث میں غامدی صاحب کا مقام و مرتبہ کیا ہے یا ان کی خدمات کیا ہیں جس کی بنیاد پر وہ صحیح بخاری کی روایات کو مرود د کہہ رہے ہیں؟ امام بخاری ؒ کہہ رہے ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے اور ان کی رائے کو قبول کیا جائے تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے کیونکہ وہ حدیث کے امام ہیں۔ اسی طرح اگر امام دار قطنیؒ ‘صحیح بخاری کی روایات پر تنقید کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ وہ اس کے اہل بھی ہیں اور فن حدیث اور اس کی اصطلاحات کی روشنی میں ہی روایات پر بحث کرتے ہیں، لیکن غامدی صاحب جیسے محقق اگر صحیح بخاری کی روایات کو مردود کہنے لگ جائیں توعلم دین کا اللہ ہی حافظ ہے، کیونکہ نہ تو وہ فن حدیث اور اس کی اصطلاحات سے ’کماحقہ‘ واقف ہیں اور نہ ہی وہ اس کے طے شدہ اصولوں کی روشنی میں احادیث کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند مزید پہلوؤں کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے :
پہلی بات تو یہ ہے کہ صرف تدلیس کوئی ایسا عیب نہیں ہے جس کی وجہ سے کسی راوی کی روایات کومردود قرار دیا جائے۔ امام ابن صلاحؒ فرماتے ہیں:
أن التدلیس لیس کذبا وانما ھو ضرب من الایھام بلفظ محتمل (مقدمہ ابن الصلاح:جلد۱‘ص۱۴)
’’تدلیس جھوٹ نہیں ہے۔ یہ تو محتمل الفاظ کے ساتھ ایہام کی ایک قسم ہے۔ ‘‘
دوسری بات یہ ہے کہ امام زہریؒ کی تدلیس وہ تدلیس نہیں ہے جس معنی میں متأخرین اس کو تدلیس کہتے ہیں بلکہ وہ ارسال ہی کی ایک قسم ہے کہ جس کو بعض متقدمین نے تدلیس کہہ دیا۔ شیخ ناصر بن احمدالفہد لکھتے ہیں :
لم أجد أحدا من المتقدمین وصفہ بالتدلیس غیر أن ابن حجر ذکر أن الشافعی و الدارقطنی وصفاہ بذلک والذی یظھر أنھما أرادا الارسال لا التدلیس بمعناہ الخاص عند المتأخرین أو أنھم أرادوا مطلق الوصف بالتدلیس غیر القادح .... و ھو من أھل المدینۃ و التدلیس لا یعرف فی المدینۃ (منہج المتقدمین فی التدلیس: ص۶۰ تا ۶۱) 
’’میں نے متقدمین میں سے کسی ایک کو بھی نہیں پایا جس نے امام زہریؒ کو تدلیس سے مو صوف کیا ہو‘صرف ابن حجر نے لکھاہے کہ امام شافعی ؒ اور امام دارقطنی ؒ نے ان کو تدلیس سے موصوف کیا ہے۔اور صحیح بات یہ ہے کہ ان دونوں حضرات کے کلام کا مفہوم یہ ہے کہ امام زہریؒ ارسال کے مرتکب تھے نہ کہ اس معنی میں تدلیس کے جس معنی میں یہ متأخرین میں معروف ہے، یا ان کا مقصد امام زہری ؒ کو مطلقاً ایسی تدلیس سے موصوف کرنا تھا جو کہ عیب دار نہ ہو ... امام زہریؒ اہل مدینہ میں سے ہیں اور اہل مدینہ میں تدلیس معروف نہ تھی ۔‘‘
تیسری بات یہ کہ امام زہری ؒ سے تدلیس شاذو نادر ہی ثابت ہے ‘امام ذہبی ؒ لکھتے ہیں :
کان یدلس فی النادر (میزان الاعتدال: جلد ۴‘ ص ۴۰)
’’وہ شاذ و نادر ہی تدلیس کرتے تھے ۔‘‘
باقی ابن حجرؒ کا یہ کہنا کہ امام زہریؒ تدلیس میں مشہور تھے ‘صحیح نہیں ہے کیونکہ متقدمین میں سے کسی نے بھی یہ بات نہیں کی۔ شیخ ناصر بن حمدالفہد لکھتے ہیں :
و یعسر اثبات تدلیس الزھری (التدلیس الخاص) فضلا عن أن یشتھر بہ (منہج المتقدمین فی التدلیس: ص۶۲) 
’’امام زہریؒ کے بارے میں تدلیس (تدلیس خاص ) کو ثابت کرنا ہی مشکل ہے چہ جائیکہ یہ دعویٰ کیاجائے کہ وہ تدلیس میں مشہور تھے ۔‘‘
امام صنعانیؒ نے بھی ابن حجر ؒ پر یہ اعتراض وارد کیا ہے کہ انھوں نے امام زہری ؒ کا شمار مدلسین کے تیسرے طبقے میں کیوں کیا ہے۔ امام صنعانیؒ لکھتے ہیں :
فما کان یحسن أن یعدہ الحافظ ابن حجر فی ھذہ الطبقۃ بعد قولہ أنہ اتفق علی جلالتہ و اتقانہ (توضیح الأفکار:جلد۱‘ص۳۶۵)
’’یہ بات اچھی نہیں ہے کہ ابن حجر ؒ نے اما م زہریؒ کو تیسرے طبقے میں شمار کیا، جبکہ خود ابن حجر کاامام زہری ؒ کے بارے میں یہ قول موجود ہے کہ ان کے علمی مقام اور حافظے کی پختگی پر محدثین کا اتفاق ہے ۔‘‘
چوتھی بات یہ کہ امام زہری ؒ کی وہ روایات جن میں سماع کی تصریح موجود ہے وہ تو قابل قبول ہیں ہی ‘اس کے علاوہ ان کی وہ روایات بھی مقبول ہیں جو کہ ’عنعنہ‘ کے ساتھ ہوں۔ابراہیم بن محمد العجمی فرماتے ہیں :
و قد قبل الأئمۃ قولہ عن (التبیین لأسماء المدلسین:ص۹)
’’اور أئمہ محدثین نے ان کے ’عن‘کے ساتھ روایات کو قبول کیا ہے ۔‘‘
امام بخاریؒ اور اما م مسلم ؒ نے ان کی ’عن‘کے صیغہ کے ساتھ روایات کو قبول کیا ہے۔ شیخ ناصر بن احمد الفہد لکھتے ہیں :
و أما رد حدیثہ الا عند ذکر السماع فلا أظنک تجد ذلک عند أحد من الأئمۃ المتقدمین (منہج المتقدمین فی التدلیس: ص۶۰تا۶۱) 
’’اور جہاں تک اس بات کا معاملہ ہے کہ صراحت کے ساتھ سماع کے علاوہ ان(یعنی امام زہریؒ ) کی روایت قبول نہ کی جائے تو میرا نہیں خیال کہ أئمہ متقدمین میں سے کسی کا یہ مؤقف رہا ہو۔ ‘‘
۹) غامدی صاحب نے امام زہریؒ پر ادراج کا الزام بھی لگایا ہے، لیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کس قسم کے ادراج کے مرتکب ہوئے ہیں۔ یہ بات تو صحیح ہے کہ کسی حدیث کے متن میں اپنی طرف سے جان بوجھ کر کچھ اضافہ کر دینا حرام ہے، لیکن ادراج کی ایک قسم وہ بھی ہے جو جائز ہے۔ وہ یہ کہ کوئی راوی احادیث کے غریب الفاظ کی تشریح میں کچھ الفاظ اس طرح بیان کرے کہ وہ حدیث کا حصہ معلوم ہوں۔ امام زہری ؒ کے ادراج کی نوعیت بھی یہی ہے، جیساکہ اما م سیوطیؒ کی درج ذیل عبارت سے واضح ہو رہا ہے ۔امام سیوطیؒ لکھتے ہیں :
و عندی ما أدرج لتفسیر غریب لا یمنع ولذلک فعلہ الزھری وغیر واحد من الأئمۃ (تدریب الراوی:جلد۱‘ص۲۳۱) 
’’اور میرے نزدیک جو کسی غریب الفاظ کی تشریح کے لیے ادراج کیا جائے تو وہ ممنوع نہیں ہے جیسا کہ امام زہری ؒ اور دوسرے أئمہ حدیث سے مروی ہے ۔‘‘
غامدی صاحب جس تدلیس اور ادراج کی بنیاد پر امام زہریؒ کو مجروح قرار دے رہے ہیں، وہ تدلیس اور ادراج تو بعض صحابہ سے بھی ثابت ہے، مثلاً حضر ت ابوہریرہؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ وغیرہ سے جیسا کہ اما م سیوطی ؒ نے ’تدریب الراوی‘میں اور امام صنعانیؒ نے’ توضیح الأفکار‘ میں اس کی مثالیں بیان کی ہیں ‘تو کیا اس بنیاد پر صحابہ کی روایات کو مردود کہیں گے؟ واقعہ یہ ہے کہ غامدی صاحب کی آرا کا علمی جائزہ لینے کے بعدیہ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے صرف ’تدلیس‘ اور’ ادراج‘ جیسی اصطلاحات کا نام سنا ہوا ہے۔ جہاں تک ان اصطلاحات کی مفصل اور عمیق ابحاث کا تعلق ہے ‘وہ اس کے لیے وقت نہیں نکال پائے‘ اسی لیے وہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایسی متفق علیہ روایت کو مردود کہنے کی جرات کر رہے ہیں جو جملہ محدثین اور أئمہ رجال کے نزدیک صحیح ہے۔ 
۱۰) غامدی صاحب نے ’سبعۃ احرف‘ کی روایات کا ا س بنا پر انکار کیا ہے کہ ان روایات کے مرکزی راوی امام زہری ؒ ہیں جن کی روایات ان کے نزدیک مردود ہیں۔ اگر ہم غامدی صاحب کویہی روایات امام زہری ؒ کے طریق کے علاوہ کسی اورثقہ راوی کے طریق سے پیش کر دیں تو کیا وہ ان راویات کو مان لیں گے؟ ذیل میں ہم امام زہری ؒ کے طریق کے علاوہ بعض دوسرے طرق سے چند صحیح روایات بطور مثا ل ایک سے زائد قراء ات کے اثبات کے لیے تحریر کر دیتے ہیں۔صحیح بخاری کی ایک روایت ہے :
حدثناأبو الولید حدثنا شعبۃ قال عبد الملک بن مسیرۃ أخبرنی قال سمعت نزال بن سبرۃ قال سمعت عبد اللہ یقول.... (صحیح بخاری‘کتاب الخصومات‘ باب ما یذکر فی الأشخاص والخصومۃ)
سنن نسائی کی ایک روایت ہے :
أخبرنی یعقوب بن ابراہیم قال حدثنا یحیی عن حمید عن أنس عن أبی بن کعب قال ..... (سنن نسائی‘کتاب الافتتاح‘باب جامع ما فی القرآن)
اسی طرح سنن نسائی کی ایک اور روایت ہے :
أخبرنی عمرو بن منصور قال حدثنا أبو جعفر بن نفیل قال قرأت علی معقل بن عبید اللہ عن عکرمۃ بن خالد عن سعید بن جبیر عن ابن عباس عن أبی بن کعب قال ..... (أیضاً)
اسی طرح کی بیسیوں روایات ایسی ہیں کہ جن سے قرآن کی ایک سے زائد قراء ات کا اثبات ہوتا ہے اور ان کی سند میں امام زہری ؒ موجود نہیں ہیں ‘غامدی صاحب نے اپنی کتاب میں ان روایات پر کوئی تبصرہ نہیں فرمایا‘کیا یہ روایات بھی ان کے نزدیک مردود ہیں ؟اگر ہیں تو کن اصولوں کی روشنی میں؟
اگر غامدی صاحب نے ’سبعۃ احرف‘ کی روایات پر بحث کرنی ہے تو پھر ایک سے زائد قراء ات کے اثبات میں مروی ان تمام روایات کا بھی جواب دیں جن کی سند میں امام زہریؒ موجود نہیں ہیں۔ 

غامدی صاحب کا اپنے اصولوں سے انحراف

غامدی صاحب نے اپنی تحقیقات میں بہت سی ایسی احادیث سے استدلال کیا ہے جن کے مرکزی راوی اما م زہری ؒ ہیں۔ ان احادیث میں سے دو کا بطور مثال ہم یہاں ذکر کریں گے:
۱) غامدی صاحب اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں اسلام کے شورائی نظام کا یہ اصول بیان کیا ہے کہ مسلمان اپنے معتمد لیڈروں کی وساطت سے شریک مشورہ ہوں گے۔ اس کے لیے انھوں نے صحیح بخاری کی اس روایت سے استدلال کیا ہے جس کے مطابق غزوہ حنین کے موقع پر جب مسلمانوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہوازن کے قیدی رہا کرنے کی اجازت دی تو آپ ؐ نے فرمایا کہ : ’انی لا ادری من اذن فیکم ممن لم یأذن فارجعوا حتی یرفع الینا عرفاء کم أمرکم‘ (رقم:۷۱۷۶) ’’میں نہیں جان سکا کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ۔پس تم جاؤ اور اپنے لیڈروں کو بھیجو تا کہ وہ تمہاری رائے سے ہمیں آگاہ کریں ۔‘‘(میزان:ص۱۱۸تا۱۱۹)
اس حدیث کی سند میں بھی وہی راوی یعنی ابن شہاب زہری موجود ہے جس کی روایات کو غامدی صاحب مردود قرار دے چکے ہیں۔ اس حدیث کے اور طرق بھی موجود ہیں لیکن ان میں بھی ابن شہاب ؒ موجود ہیں گویا کہ اس روایت کا انحصار ابن شہابؒ پر ہی ہے۔ غامدی صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کا رد کرنے کے لیے اصول تو بنا لیتے ہیں لیکن جب اپنی فکر واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو خود بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنے ہی اصولوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ 
۲) اسلام کے شورائی نظام کی مذکورہ بحث میں ہی غامدی صاحب نے یہ اصول واضح کرنے کے لیے کہ امامت و سیاست کا منصب ریاست میں موجود مسلمانوں کے مختلف گروہوں میں سے اس گروہ کا استحقاق قرار پائے گا جسے عام مسلمانوں کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہو، حضرت عمر کا یہ ارشاد نقل کیا ہے :
من بایع رجلا من غیر مشورۃ المسلمین فلا یبایع ھو ولا الذی بایعہ تغرۃ أن یقتلا (بخاری‘رقم۶۸۳۰)
’’جس شخص نے اہل ایمان کی رائے کے بغیر کسی کی بیعت کی ‘اس کی اور اس سے بیعت لینے والے ‘دونوں کی بیعت نہ کی جائے ۔اس لیے کہ اپنے اس اقدام سے وہ گویا اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کریں گے ۔‘‘ (میزان: ص۱۲۱‘ ۱۲۴‘ ۱۲۵)
اس روایت کے مرکزی راوی بھی امام زہریؒ ہیں جو کہ ’مدلس‘ او ر ’مدرج‘ ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ ’عنعنہ‘ سے روایت کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود غامدی صاحب ان کی روایت کو قبول کر رہے ہیں ‘آخر کس بنیاد پر ؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ غامدی صاحب کی کتاب’ میزان‘کا کوئی ایک باب بھی ایسا نہیں جس میں غامدی صاحب نے امام زہریؒ کی روایات سے استدلال نہ کیا ہو۔ غامدی صاحب کی کتاب میزان (مطبوعہ ۲۰۰۲) درج ذیل آٹھ ابواب پر مشتمل ہے:
۱) قانون سیاست : اسلام کے شورائی نظام کے اصول و مبادی بیان کرتے ہوئے اس باب میں غامدی صاحب نے امام زہریؒ کی روایات سے استدلال کیا ہے۔ میزان:ص۱۲۴‘بخاری : ۶۸۳۰اور ص۱۱۸‘بخاری :۲۱۷۶ ملاحظہ فرمائیں ۔
۲) قانون معیشت : اسلامی شریعت میں بیع کی ناجائزاقسام کا تعارف کرواتے ہوئے اس باب میں غامدی صاحب نے امام زہریؒ کی روایات سے استدلال کیا ہے۔ ملاحظہ ہو میزان: ص۱۴۷ ‘بخاری :۲۱۳۱اور بخاری :۲۱۴۰۔ علاوہ ازیں ص۱۷۱‘بخاری :۶۴۶۷بھی دیکھیں ۔
۳) قانون دعوت: اس باب میں غامدی صاحب نے چند دعوتی اصول بیان کرتے ہوئے امام زہری ؒ کی روایت سے استدلال کیا ہے۔ ملاحظہ ہو میزان :ص۲۲۴‘بخاری :۲۲۰۔
۴) قانون جہاد: غامدی صاحب نے اس باب میں قتال کا اجر وثواب بیان کرتے ہوئے امام زہری ؒ کی روایت سے استدلال کیا ہے۔ملاحظہ ہومیزان:ص۲۵۴‘بخاری :۲۷۸۷۔
۵) حدودو تعزیرات: حدود و تعزیرات کے بیان میں غامدی صاحب نے قتل خطا کے قانون کی وضاحت کرتے ہوئے امام زہری ؒ کی ایک روایت سے استدلال کیا ہے۔ ملاحظہ ہو میزان:ص۲۹۷‘بخاری: ۱۴۹۹ ۔
۶) خورونوش: اس باب میں غامدی صاحب نے مردار کی کھال وغیرہ سے نفع اٹھانے کو جائز قرار دیتے ہوئے امام زہریؒ کی روایت سے استدلال کیا ہے۔ ملاحظہ ہومیزان:ص۳۲۰‘مسلم:۳۶۳۔
۷) رسوم وآداب: دین اسلام میں رسوم وآدا ب کی تفصیل بیان کرتے ہوئے غامدی صاحب نے امام زہری کی روایت سے استدلال کیا ہے۔ ملاحظہ ہومیزان:ص۳۲۵‘مسلم:۲۵۷۔
۸) قسم اور کفارہ قسم: اس باب میں نذر کا کفارہ بیان کرتے ہوئے غامدی صاحب نے امام زہریؒ کی روایت سے استدلال کیاہے۔ملاحظہ ہومیزان؛ص۳۳۷‘ابوداؤد:۳۲۹۰۔
ثابت ہوا کہ غامدی صاحب کی کتاب کے ہر باب کی بنیاد امام زہریؒ کی روایات پر ہے جو ان کے بقول مدلس اور مدرج ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ اس اعتبار سے ہم غامدی صاحب سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ واضح کریں کہ ایسے ’مدلس‘اور ’مدرج‘راوی کی بیان کردہ روایات کی بنیاد پر قائم ان کے تصور دین کی اصل حقیقت کیا ہے؟ 
سچ تو یہ ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک کسی حدیث کو قبول کرنے یا رد کرنے کی اصل بنیاد اصول حدیث نہیں بلکہ ان کی اپنی فکر ہے۔ جس حدیث سے ان کے افکار و نظریات کی تائید ہوتی ہو، وہ ان کے نزدیک صحیح ہے اور جو حدیث ان کے مؤقف کے خلاف ہو، وہ مردودہے ۔ہماری گزارش تو صرف اتنی ہے کہ اگر غامدی صاحب اپنے ہی وضع کردہ اصولوں کی پاسداری کر لیں تو شاید اہل سنت کی شاہراہ کے بہت قریب آ جائیں۔ 

مکاتیب

ادارہ

(۱)
گرامی قدر جناب مولانا زاہدالراشدی صاحب زیدت معالیکم 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی!
ماہنامہ الشریعہ باقاعدگی سے اعزازی طور پر موصول ہوتا ہے جس کے لیے سراپاسپاس ہوں۔ گزشتہ چند شماروں میں دور حاضر میں اجتہاد کی ضرورت پر ایک انتہائی وقیع بحث کا آغاز ہوا تھا، لیکن یہ بحث بتد ریج جدلیاتی اور طنزیہ رخ اختیار کرتی ہوئی شخصیات کی آرا کی توضیح وتشریح پر ختم ہو گئی۔ مجھے قوی امید تھی کہ اس علمی موضوع پر گراں قدر، تحقیقی اور فکر ودانش سے بھرپور مقالات آئیں گے جن سے استفادہ کا موقع ملے گا لیکن ’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘۔
کبھی کبھی مجھے ایسا احساس ہونے لگتا ہے، جو ممکن ہے غلط ہو، کہ ماہنامہ الشریعہ جس قدر اہم، وقیع، علمی اور تحقیقی مجلہ ہے، اس کے معیار، مقام، اثرات، اور محبوبیت کا کار پردازانِ الشریعہ کو کماحقہ علم یا احساس نہیں جس کی وجہ سے اس میں بعض دفعہ متوقع معیار برقرار نہیں رہتا۔ ممکن ہے میری توقعات کی خامی ہو۔
دور حاضر میں اجتہاد کی ضرورت کے عنوان پر میرا خیال تھا کہ :
۱۔ یہ نقطہ نظر اب از کار رفتہ ہو چکا ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔غالباً عملی طور پر اسلامی تاریخ میں ایسا کبھی ہوا بھی نہیں بلکہ جس درجے کے اجتہاد کی جس وقت اور جن مسائل میں ضرورت پیش آئی، اسلامی قانون کے ماہرین نے امت مسلمہ کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ حیرت انگیزبات یہ ہے کہ ماضی قریب کے وہ علما جو بہت شدت سے تقلیدکی تلقین کرتے نظر آتے ہیں، اپنی علمی تالیفات میں کسی نہ کسی درجے میں اجتہاد کے ذریعے مسائل کا حل پیش کرتے رہے ہیں۔ غالباً ان اساطین امت کے پیش نظر امت کی بھلائی کا یہ پہلو تھا کہ عام مسلمانوں کے لیے ائمہ فقہ کی متعین کردہ شاہراہ کو اختیار کرنے پر اصرار کیا جائے تا کہ معاشرہ مذہبی بدنظمی کا شکار نہ ہو جائے اور نئے پیش آمدہ مسائل میں امت کی رہنمائی کی جائے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ، مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ اور مفتی محمدشفیع عثمانیؒ کی تالیفات سے اس کی بکثرت مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ارتداد کا دروازہ بند کرنے کے لیے علامہ محمد اقبال ؒ کی کاوش اور اس حوالے سے مولانا اشرف علی تھانویؒ کی ’’حیلہ ناجزہ‘‘ علمی حلقوں میں معروف ہے۔
۲۔ترجیح اقوال یا مختلف فقہی مذاہب میں سے ’’ایسر المذاہب‘‘ کے اختیار میں عرب علما نے بہت پیش رفت کی ہے بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر ایسے تمام مسائل میں جن میں نصوص سے متعین رہنمائی نہیں ملتی اور ان پر ائمہ مذاہب کی تحقیقات موجود نہیں ہیں، عرب ممالک میں موجود فقہی تحقیقات کے اداروں نے اجتہاد کے عام اصول مثلاً مصلحت عامہ، استحسان، مصالح مرسلہ اورمقاصد شریعہ کے تحت اجتہادات کیے ہیں۔ ان اجتہادات سے دوسرے متوازی اجتہادات کے ذریعے اختلافات بھی کیے گئے ہیں جن کی تفصیل مختلف فقہی مو ضوعات پر تحریر کی گئی عرب علما کی تالیفات میں دست یاب ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا درست نہیں کہ اجتہاد کا دروازہ بند کرنے کے نتیجے میں اسلامی ادبیات فقہ کی لائبریری میں تازہ ہوا کا جھونکا داخل نہیں ہو سکا، البتہ یہ بات درست ہے کہ مذکورہ اجتہادات اصول اور قواعد کے دائر ہ کا ر میں رہتے ہوئے کیے گئے ہیں۔
میرے خیال میں اجتہاد پر بحث کے آغاز میں بحث کی حدود اور دائرہ کا ر متعین کرنا ضروری تھا اور چند بنیادی سوالات طے کر لیے جانے چاہیے تھے، مثلاً:
۱۔ کیا اجتہاد کے ذریعے نص کے حکم شرعی کو منسوخ یا معطل کیا جا سکتا ہے؟
۲۔ اگر نہیں تو کیا غیر منصوص مسائل میں نصوص کی روشنی میں اجتہاد کی راہ تراشی جائے گی یا آزادانہ اجتہاد کا طرز عمل اختیار کیا جائے گا؟
۳۔ اس سلسلے میں حضرت معاذ بن جبلؓ کی مشہور حدیث میں ’ولا آلو جہداً‘ کا کیا مطلب ہے؟ کیا ا س سے قانونی دانش کا آزادانہ استعمال مراد ہے؟
۴۔ قواعد فقہیہ یا اصول کلیہ جو اجتہاد کے طے شدہ سانچے ہیں اور ریاضیاتی کلیات کی طرح ہیں، کیا وہ قواعد واصول غلط ہو گئے ہیں اور ان کی جگہ متبادل درست کلیات دریافت کیے جائیں گے یا انہیں سانچوں کو برقرار رکھا جائے گا؟
۵۔ اگرچہ دور حاضر میں وسائل اجتہاد کی فراہمی ماضی کی بہ نسبت آسان ہو گئی ہے تاہم کثیر الجہاتی مسائل کے حل میں متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی شرکت سے شورائی اجتہاد کی راہ اختیار کرنے کا طریق کا رکیا ہوگا؟ جب کہ معاشی مسائل پر کیے گئے اجتہادات کے بارے میں عرب علما کی رائے یہ ہے کہ پاکستان کے بینکر ز اور ماہرین معاشیات نے علما کو نامکمل معلومات فراہم کر کے سودی نظام کو مشرف باسلام کر والیا ہے۔
میری گزارشات کا ماحصل یہ ہے کہ :
۱۔ طے شدہ مسائل اگر کو ئی عملی مشکل پیدا نہیں کر رہے تو ان کی از سرنو سرجری کی ضرورت نہیں ہے۔
۲۔ اجتہادی کا وشوں کو نصوص اور قواعد کلیہ کے دائرہ کا ر میں رکھنا ضروری ہے۔ مکمل آزادانہ اجتہاد کو نہ تو قبولیت حاصل ہو سکتی ہے اور نہ اسے اسلامی قوانین کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
۳۔ شوق اجتہاد میں یہ امر ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ انسان کی علمی محدودیت اس سے کوئی ایسا فیصلہ نہ کر وا دے جو انسانیت کی تباہی پر منتج ہو اور دوسری طرف پہیا دوبارہ ایجاد کرنا ایک بے مصرف عمل ہے۔
۴۔ حقیقی مسائل کے حل کے لیے اجتہادی اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے جو سرکاری اثرات سے آزاد، گروہی، فرقی اور مسلکی تعصبات سے ماورا، امت مسلمہ کے علمی اور تحقیقی اثاثے کے قدردان اور عقیدت وتحقیق میں توازن قائم کرنے کے حامل ہوں۔
انڈیا میں مولانا مجاہد الاسلام قاسمی مرحوم کا ادارہ اس سلسلے میں خاصا متحرک رہا اور اس نے عرب اداروں میں ہونے والی تحقیقات سے بھی برصغیر کے اہل علم کو آگاہ کیا۔ کیا پاکستان میں الشریعہ کے مدیر اعلیٰ اور الشریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر اس طرف توجہ فرما کر ممنون فرمائیں گے ؟
(ڈاکٹر) محمد طفیل ہاشمی
مکان نمبر۱۰۴،سٹریٹ ۱۰،
گلشن خداداد، E-11/1، اسلام آباد 
(۲)
محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ 
مئی کے شمارے میں جناب چوہدری محمد یوسف صاحب کا فکر انگیز مضمون پڑھا۔ چوہدری صاحب نے یقیناًکئی اہم نکات اٹھائے ہیں اور پاکستانی اعلیٰ عدلیہ کے کئی مسلم اور غیر مسلم ججوں کے فیصلوں اور کردار کے متعلق اظہارِ رائے کیا ہے ۔ یہ موضوع اگرچہ حساس اور تفصیل طلب ہے ، تاہم میں مختصراً چند ہی نکات پیش کرنے پر اکتفا کروں گا ۔ 
۱ ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کئی غیر مسلم ججوں، اور بالخصوص جسٹس کارنیلیس نے قانون کی بالادستی یقینی بنانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کئی بحرانوں میں بعض مسلمان ججوں کا کردار قابل تعریف نہیں رہا۔ لیکن اس سے مسئلۂ زیر بحث پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کیا پاکستان میں مسلمان ججوں کا ریکارڈ اچھا رہا ہے یا غیر مسلم ججوں کا؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی قانون کی رو سے غیر مسلم جج، جو نہایت ہی اعلیٰ کردار کا حامل ہو ، عدلیہ کا سربراہ ہو سکتا ہے؟ قانونی فقہی اصطلاح میں، کیا غیر مسلم جج کو مسلمانوں کے مقدمات، بالخصوص قصاص، حدود اور قرآن و سنت کی تعبیر کے معاملات میں ولایت عامہ حاصل ہے؟ پاکستان کا دستور صریح الفاظ میں خواہ اس بات سے نہ روکتا ہو، لیکن آخر دفعہ ۲ (الف) بھی تو دستور کا حصہ ہے جس کے تحت قرار داد مقاصد کو دستور کا عملی حصہ بنادیا گیا ہے، اور قرارداد مقاصد میں طے کیا گیا ہے کہ اقتدار اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور حکومت کے پاس جو اختیار ہے، وہ ایک مقدس امانت ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چوہدری صاحب نے حاکم خان کیس کے فیصلے کی بنا پر جسٹس نسیم حسن شاہ کو ’’آئینی ارتداد‘‘ کا مرتکب قرار دیا ہے کیونکہ اس فیصلے میں قرداد مقاصد کی بالادستی، یا بہ الفاظ دیگر اسلامی شریعت کی بالادستی تسلیم کرنے سے انکار کیاگیا تھا۔ حاکم خان کیس کا فیصلہ میرے نزدیک بھی ایک نہایت غلط فیصلہ تھا، لیکن اس فیصلے میں کم از کم ایک حقیقت کا تو اعتراف کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ آئین کی دفعہ ۲ (الف) اور دفعہ ۴۵ میں تصادم ہے، البتہ کہا گیا کہ اس تصادم کو پارلیمنٹ ہی دور کرسکتی ہے ۔ 
۲ ۔ چوہدری صاحب نے، معلوم نہیں کیوں ، ’’فقہ‘‘ کو طنز و تشنیع کا ہدف بنادیا ہے، حالانکہ وہ خود قانون دان ہیں اور ایک قانونی اصول ہی کی بالادستی کے لیے دیگر وکلا کے ساتھ جدوجہد کررہے ہیں۔ اگر وہ خود اپنی ’’فقہِ قانون ‘‘ یا ’’فقہِ دستور‘‘ کے ایک جزئیے کے نفاذ کے لیے جدوجہد کررہے ہیں تو پھر ’’فقہِ شریعت ‘‘ کے ایک اہم جزئیے کے نفاذ کے لیے آواز بلند کرنے پر اعتراض چہ معنی دارد؟ 
۳ ۔ غیر مسلم ججوں، بالخصوص جسٹس کارنیلیس، نے اسلامی قانون کی تعبیر میں اہم کردار ادا کیا ہوگا، لیکن کیا اسے اصطلاحاً اجتہاد کہا جا سکتا ہے؟ قانونی اصطلاح کا یوں غیر محتاط استعمال ایک قانون دان کو زیب نہیں دیتا ۔ 
۴۔ چوہدری صاحب نے حسبہ بل کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی ضمناً تنقید کا نشانہ بنایا ہے، حالانکہ میری ناقص رائے میں اس بل کے متعلق سپریم کورٹ کے دونوں فیصلے درست تھے۔ محض اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے کوئی چیز اسلامی نہیں ہو جاتی، نہ ہی کسی قانون کے مطابقِ اسلام ہونے کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ اسے مذہبی جماعتوں کے اتحاد نے منظور کروایا ہے۔ 
تلخ نوائی کے لیے معافی کا خواستگار ہوں ۔ 
محمد مشتاق احمد 
لیکچرر ، شعبۂ قانون ، کلیۂ شریعہ و قانون 
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد 
(۳)
برادرم محترم حافظ عمار خان ناصر صاحب 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ماہنامہ ’الشریعہ‘ مئی ۲۰۰۷ میں جناب محمد سعد صدیقی صاحب کا مضمون بعنوان ’’سنت کی دستوری وآئینی حیثیت‘‘ پڑھا۔ اس سے متعلق چند باتیں جو دوران مطالعہ ذہن میں آئیں، قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ میں دین سیکھنے کا شوق رکھتاہوں او رقرآن مجید کا ادنیٰ سا طالب علم ہوں، امید ہے آپ راہ نمائی فرماتے رہیں گے۔
محترم ڈاکٹر صاحب نے پورے مضمون یا خطاب میں قرآن مجید سے استشہاد نہیں کیاجو بہت ہی حیرانی کی بات ہے اور سنت کی حیثیت کو متعین کرنے کے لیے علامہ آمدی کی رائے نقل کردی ہے۔میر ی نا چیز رائے میں یہ رائے کمزور ہے۔سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے کہ قرآن اس کی تائید نہیں کرتا۔ دوسرے، خود علما ہی ایسی تعریف کرگئے ہیں جو مطابق قرآن ہے۔اس معاملہ میں اما م اہل سنت عبدالشکو ر لکھنوی کی یازدہ نجوم اور تاریخی مضامین، مولا نا سید سلیما ن ندوی کا مقالہ ’سنت‘ ،حنیف ندوی کی کتاب ’عقلیات ابن تیمیہ‘ تو قابل ذکر ہیں ہی، خود امام شاطبی کی رائے اس قابل ہے کہ نقل کی جائے: ’’سنت اپنے مضمون میں کتا ب کی طرف راجع ہوتی ہے اور وہ قرآن مجید کے اجمال کی تفصیل (اس کی مثال میں نما زپیش کی ہے کہ ’اقیموا الصلوۃ‘ مجمل ہے اور سنت اس کی تفصیل بتاتی ہے)، اس کی مشکل کی وضاحت اور مختصرکی تفصیل ہے۔ یہ اس لیے کہ حدیث قرآن کا بیان ہے او راس پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے: ’وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم‘ (النحل، ۶۴) لہٰذا سنت میں کوئی ایسی چیز نہیں ملے گی جس کی اجمالی یا تفصیلی دلالت قرآن کریم میں نہ ہو۔ قرآن میں ہے: ’وانک لعلی خلق عظیم‘ او رسید ہ عائشہ ؒ نے اس کی تفسیر یہ فرمائی کہ آپ کا خلق قرآن ہے او ر آپ کے خلق کو اسی پر محدو دکیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کا قول، فعل ا ور تقریر سب کچھ قرآ ن کی طرف راجع ہے۔ (الموافقات ۴: ۲۴تا۲۷) آپ بہت ذی علم ہیں۔ یقیناً’’الموافقات ‘‘آپ نے پڑھ رکھی ہوگی۔ یہ ساری بحث پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ عصر حاضر کے نامورعالم دین ڈاکٹرالطاف احمد اعظمی نے اپنی کتا ب ’’خطبات اقبا ل پر ایک تبصرہ‘‘ میں یہی نقطہ نظر پیش کیا ہے۔
محترم ڈاکٹرصاحب نے ایک صحابی یا تابعی کے حوالے سے جو جملہ لکھا ہے، ہم جیسے محبین قرآن مجید کے لیے اسے ہضم کرنا سخت مشکل ہے کہ قرآن کے کسی حکم پر تو ’لم‘ اور ’کیف‘ کا سوال پید ا ہوسکتاہے، مگر سنت پر نہیں ۔اے کاش !ہم قرآن کریم کے مقام سے آگاہ ہوجا ئیں۔ الطارق:۱۳، آل عمر ان:۴، الانعام: ۱۱۴ و۱۵۵، الاعراف:۲، ہود:۱، وغیرہ بے شمار آیات صاف بتا رہی ہیں کہ یہ قول کسی صحابی یا تابعی کا نہیں بلکہ کسی دشمن قرآن نے گھڑ کر مشہور کیاہے۔ جب واضعین حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا کرنے سے نہ چوکے تو صحابہ کو کیسے معاف کر سکتے ہیں۔ یہ قول بھی اسی قبیل سے ہے جس میں حضرت علی پر افتر اکیا گیا ہے کہ ابن عباس کو حکم فرمایا کہ خوارج سے مناظرہ میں قرآن کی بجائے سنت سے استدلا ل کریں کیونکہ قرآن کے کئی پہلو ہوتے ہیں، حالانکہ قرآن میں ہے کہ ’انہ لقول فصل ‘۔
آخر میں عرض ہے کہ الشیخ الاستاذ السید محمد علی کاندھلوی نے اپنی بے نظیر اور منفر د تفسیر ’معالم القرآ ن‘ میں بھر پور طور پر دین کا ماخذ قرآ ن کو اور شارع صرف اللہ تعالیٰ کو بتایاہے۔ میری ناچیز رائے میں حق یہی ہے کہ قرآن سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔
محمد امتیاز عثمانی
امتیا ز پائپ سٹور، I-I 153,154
سردار عالم خان روڈ، راولپنڈی 
(۴)
محترم جناب مولانا زاہدالراشدی، حفظہ اللہ ورعاہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔
باعث تحریر آنکہ بندہ کا گزشتہ کئی سالوں سے الشریعہ کے ساتھ ایک قاری کی حیثیت سے تعلق ہے۔ شمارہ اپریل ۲۰۰۷ سے ہمیں اچھی طرح اس کی قیمت ادا کرنی پڑی ہے کہ دو ناقابل تسخیر اور بلند قامت شخصیات کے درمیان کچے کھانے کے لیے پیش کر دیا گیا ہے۔ اس موقع پر ہمارے بہت سے قس بن ساعدہ، زیاد بن ابی سفیان قسم کے خطبا گہری خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جو کہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، حالانکہ اجتہاد وتقلید، طلاق ثلاثہ اور تبلیغی جماعت وغیرہ کے موضوعات پر کوئی بھی اختلافی بیان برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور رگ مذہبیت پھڑک اٹھتی ہے۔ ان عظیم شخصیات میں سے مولانا عتیق الرحمن سنبھلی جیسے عمل کی حد تک حنفی بھی خاموش دکھائی دیتے ہیں جو سلفیت کو سفلیت کانام دینے میں بخل سے کام نہیں لیتے اور آداب تحریر بھی بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ پر حق تولیت کے موضوع پر حصہ لینے میں صرف جناب عطاء اللہ صدیقی، (محدث، نومبر، دسمبر ۲۰۰۳) حافظ محمد زبیر (الشریعہ، فروری ۲۰۰۷ ) اور جناب حسن مدنی ( محدث، مارچ، اپریل ۲۰۰۷) ہی میدان میں کیوں ؟ ہمارے خیال میں ان حضرات گرامی قدر نے عقلی و نقلی، معروضی حقائق، تاریخی واقعات وغیرہ دلائل سے ثابت کیا کہ مسجد اقصیٰ کا تمام احاطہ مسلمانوں کا ہے اور حق تولیت صرف انہیں کا ہے۔ یہود کو اللہ تعالیٰ نے اپنی شرارتوں اور نالائقی کی وجہ سے امامت و سیادت کے منصب سے تحویل قبلہ کے ذریعے معزول کر دیا۔
جناب عمار صاحب نے فرمایا ہے کہ :
۱۔ قرآن و سنت کی رو سے کسی مذہبی گروہ کو اس کے قبلہ اور مرکز عبادت کی تولیت سے محروم کرنے کا معاملہ ایک واضح نص کا متقاضی ہے۔ اس کے بغیر محض عقلی استدلال کی بنیاد پر کوئی اقدام نہیں کیا جاسکتا۔ (الشریعہ، ستمبر اکتوبر ۲۰۰۳)
۲۔ اثریاتی تحقیق کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کے کوئی آثار دریافت نہیں ہو سکے۔ خود فلسطین کے مسلم راہ نما، اسرائیل کے وجود میں آنے اور بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے سے قبل تک ان حقائق کو تسلیم کرتے رہے ہیں اور انہیں جھٹلانے کی جسارت کبھی نہیں کی ۔(الشریعہ، مارچ ۲۰۰۷)
۳۔ عالم عرب کا اجماعی موقف، متعدد اکابر علماے دین و مفتیان شرع متین کی تائید و نصرت، مسلم اور عرب میڈیا کا تسلسل کے ساتھ اسے دہرانا کتمان حق اور تکذیب آیات الٰہیہ کے زمرے میں آتا ہے۔ (ایضاً، ص۳۰)
۴۔ اصل مسجد اقصیٰ، ہیکل سلیمانی ہی ہے مگر اس کا محل وقوع معلوم نہیں۔ اس وقت مسلمان جس مسجد کو مسجد اقصیٰ کہتے ہیں، وہ اس جگہ پر ہے جہاں سیدنا عمر نے نماز پڑھی تھی۔ (الشریعہ، مارچ، اپریل ۲۰۰۷) اور موجودہ مسجد اقصیٰ، قرآن مجید کی ذکر کردہ مسجد اقصیٰ کی اصل عمارت کا حصہ نہ ہونے کے باوجود توسیعی طور پر مسجد ہی کے حکم میں ہے۔ اس میں نماز کی وہی فضیلت ہے جو صحیح احادیث سے مسجد اقصیٰ کے حوالے سے ثابت ہے۔ (الشریعہ، اپریل ۲۰۰۷) 
۵۔ مخالف کی ساری باتیں اور دلائل اصل ہدف پر صادق نہیں آتے۔
جناب والا! جہاں تک ہم نے دونوں فریقوں کے نقطہ ہائے نظر اور ایک دوسرے کی تردید میں دلائل پڑھے ہیں، ان کی روشنی میں ہمیں پہلے جو کچھ اشکال تھا، وہ بھی ختم ہو گیا اور یقین ہو گیا کہ مسجد اقصیٰ صرف اور صرف مسلمانوں کی ہے ۔ یہود کا اس میں کوئی حق نہیں۔ جمہور مقالہ نگاروں نے قرآن و حدیث اور ان دونوں سے ماخوذ اجتہادات، عقلی دلائل، تمام مسلمانوں کے اتفاق و دیگر حقائق کی روشنی میں اسی چیز کو ثابت کر دیا ہے۔ ان حضرات نے عمار صاحب کے ایک ایک نقطہ نظر اور شبہات کی تردید فرمائی ہے۔ کم از کم ہمارے لیے اس حقیقت کو سمجھنے میں کوئی دقت نہیں کہ محترم عمار صاحب کا موقف غلط ہے اور ان کے دلائل کمزور ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ موصوف کی خوبی ہے کہ وہ کسی بات کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور کبھی اپنی ہار نہیں مانتے۔ مثلاً دیکھیے کہ آپ اور آپ کے ہم نوا عقل اور فہم کا خوب ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود یہاں بڑے دھڑلے کے ساتھ فرماتے ہیں کہ محض عقلی استدلال کی بنیادپر کوئی اقدام نہیں کیا جاسکتا، حالانکہ عقل و قیاس تو ہمارے دین کے مآخذ اربعہ میں سے ایک ہے۔ البتہ شرط یہ ہے کہ کتاب و سنت سے متصادم نہ ہو۔ ہمیں تو خود عمار صاحب کے بیان کردہ دلائل سے مسلمانوں کے اجماعی موقف کی تائید ملی۔ آپ اندازہ کریں کہ اگر اثریاتی تحقیق کے نتیجہ میں مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کے آثار دریافت نہیں ہوئے تو عمار صاحب! آپ ناراض کیوں ہیں؟ یہود کا زور اسی پر ہے کہ اس کے نیچے آثار ثابت کریں اور مسجد کوگرائیں۔ مگر الحمد للہ وہ ناکام ہو چکے۔ یہ ناکامی خود مسلمانوں کی کامیابی ہے۔ یہودیوں کو کوئی شواہد نہ ملنے سے سبحان اللہ مسلمانوں کا کیا قصور ہے؟ فرض کریں اگر یہودیوں کو کوئی آثار ملے تو عمار صاحب آپ کا موقف کیا ہو گا؟ مجھے یقین ہے پھر تو یہودی جشن منائیں گے اور آپ کہیں گے کہ ہیکل کے نشانات مل گئے۔ میرے خیال میں اس امر کو کوئی بھی بندہ سمجھ سکتا ہے۔ آپ جیسے دانشوروں سے حقیقت مخفی نہیں ۔ 
نہلے پہ دہلا یہ کہ خود فلسطین کے مسلم راہنماؤں نے اسرائیل کے وجود میں آنے اور بیت المقدس پر قبضہ سے قبل تک ان حقائق کو جھٹلانے کی جسارت کبھی نہیں کی۔(الشریعہ، مارچ ۲۰۰۷) سوال یہ ہے کہ یہ تسلیم و اذعان کہاں ہے؟ نیز کوئی فریق یا مالک مکان اس وقت تک مکان کی ملکیت کے دلائل جمع نہیں کرتا جب تک کوئی منکر فریق سامنے نہ آئے۔ کیا آپ اپنے مکان پر کسی کے دعویٰ کرنے سے قبل عدالت میں وکیل کھڑا کرکے اپنی ملکیت کے دلائل و شواہد پیش کرتے ہیں؟ منحوس حکومت اسرائیل کے وجود سے قبل مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ پر اپنا حق تولیت ثابت کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ۔ اسی طرح جس طرح اگر آپ آب صافی میں پتھر پھینک کر ابال نہ لاتے تو پیشگی طور پر حسن مدنی وغیرہ کو اتنے دلائل لانے اور تردید کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ویسے انہوں نے یا کسی مقالہ نگار نے مسلمانوں کے حق تولیت میں دلائل دیے تھے تو یہودیوں کے خلاف دیے تھے، مگر ناراضگی آپ نے مول لی ۔ فیاللعجب العجاب۔
آپ جانتے اور تسلیم کرتے ہوں گے کہ لفظ ’مسجد‘ مسلمانوں کے لیے جبکہ بیعۃ، کنیسہ، معبد وغیرہ اصطلاحات یہود و نصاریٰ کے لیے ہیں۔ قرآن بھی ’المسجد الاقصٰی‘ اور حدیث بھی ’المسجد الاقصٰی‘  کہتی ہے۔ ساری امت بھی مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق دار مسلمانوں کو ہی سمجھتی ہے، تو آخر آپ کو اور کیا چاہیے؟ فماذا بعد الحق الا الضلال۔ آپ کو سارا اصرار اجماع و اتفاق کو توڑنے میں ہے اور شاذ و خلاف اجماع معمولی سی باتوں میں بڑا مزہ آتا ہے۔ آپ جیسی فہم و فراست سے اللہ تعالیٰ ہی ہمیں بچائے۔ ہمیں ہماری اپنی حالیہ ناسمجھی پر کفایت ہے۔ ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الہدیٰ ویتبع غیر سبیل المومنین نولہ ما تولیٰ ...
جہاں تک حسن مدنی صاحب کا تعلق ہے کہ انہوں نے لکھا کہ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں بہت سے حصے خالی ہیں، وہاں وہ قبہ بھی ہے جس کی کوئی شرعی فضیلت نہیں۔۔۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہود قبہ صخرہ پر کو ئی تصرف کرنے کی بجائے سارا زور مسجد اقصیٰ پر دے رہے ہیں (محدث، مارچ۲۰۰۷) تو واقعی بظاہر اس عبارت سے تسلیم واذعان کی تصویر دکھائی دیتی ہے، لیکن اس کے بعد مدنی صاحب نے کئی مضامین کے ذریعے اس کی وضاحت کر دی کہ میرا مدعا ہرگز وہ نہیں ہے جو عمار صاحب نے اخذ کیا ہے بلکہ یہ تو یہود کے لیے ایک الزامی اور علیٰ سبیل التنزل للخصم کے طور پر ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخاسرین‘ ۔ اسی طرح ’قل ان کان للرحمن ولد فانا اول العابدین‘ وغیرہ قرآنی ونبوی نصوص ہیں اور روز مرہ کے محاورے ہیں۔ یہ طریقہ غیر معروف نہیں ہے۔ بہرطور ہر صاحب متن اپنی بات کو دوسروں سے بہتر سمجھ سکتا ہے ۔اھل مکۃ ادریٰ بشعابھا یا اھل البیت ادریٰ بما فیہ۔
عمار صاحب بھی احاطہ ہیکل کے اندر کے کسی حصے کو یقینی طور پر اس کی بنیاد معلوم نہ ہونے کے باوجود مسجد اقصیٰ قرار دیتے ہیں، نیز حالیہ مسجد کو توسیعی طور پر مسجد اقصیٰ ہی کی فضیلت دے چکے ہیں تو ہمارے خیال میں آپ بھی امت کے اجماعی موقف میں لاشعوری طور پر شریک ہیں۔ اگر یہ مسجد ہماری نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں کیوں لے گئے؟ کیا یہودیوں کے مخصو ص مرکز عبادت میں مسلمانوں کے لیے نماز پڑھنے کو افضل قرار دینا اس صورت میں کچھ وزن رکھتا ہے کہ یہ مرکز عبادت خود مسلمانوں کی اپنی ملکیت نہ ہو؟ کیا اس بات کو تسلیم کرنے کے بعد یہودی مسلمانوں کو اس میں گھسنے دیں گے؟ اگر یہودی اپنے دعویٰ میں حق بجانب ہیں تو کہیں ہمیں بھی اقامت ہیکل کی فنڈنگ مہم میں تو حصہ نہیں لینا پڑے گا؟ 
اذا کنت لا تدری فتلک مصیبۃ
وان کنت تدری فالمصیبۃ اعظم
عمار وہم نوا کے اصول ونظریہ کے مطابق آج اگر وشوا ہندوپریشد ودیگر تنظیمیں بابری مسجد ودیگر مساجد کو اس بنیاد پر گرا دیں کہ یہاں ہمارے رام پیدا ہوئے تھے اور بفرض محال کوئی کافر کعبہ مکرمہ پر قبضہ کرنے کے لیے آئے کہ یہاں کسی زمانے میں ابوجہل، عتبہ، شیبہ وغیرہ کا راج تھا تو شاید مسلمانوں کے مزاحمت کرنے کو عمار صاحب تکذیب آیات اللہ قرار دیں گے۔
چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی
آخرکعبہ بھی تو جناب ابراہیم علیہ السلام نے بنایاہے۔ کیا ان کی اولاد صرف مسلمان ہی ہیں؟ کیا مسلمانوں ہی کے نزدیک وہ محترم شخصیت ہیں یا یہود ونصاریٰ کے ہاں بھی محترم شخصیت ہیں؟ اگر وہ بھی کعبہ پر دعویٰ کریں تو عمار صاحب کیا فرمائیں گے؟ کیا عمار صاحب یہ بتا سکتے ہیں کہ بیک وقت پوری امت گمراہی پر ہو اور صرف ایک شخص غیر نبی حق پر ہو؟ لاتجتمع امتی علی ضلالۃ۔
خطوط و مراسلات سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ جناب حسن مدنی صاحب ودیگر ہم نوا آداب اختلاف کو سمجھتے ہیں اور زبان سے کوئی وقار کے منافی بات نہیں نکالتے، مگر عمار صاحب ودیگر اشراقی اپنے مؤدب ہونے کے دعویٰ کے باوجود اختلافی بات یا رائے سننے پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور اپنے دعوے کو خود توڑ ڈالتے ہیں۔ الشریعہ کے شمارے خصوصاًشمارہ اپریل اس کے گواہ ہیں۔ یہ حضرات اور ان کا نمائندہ لٹریچر صرف اپنے آپ کو مہذب، فاضل، عالم اور مدبر جبکہ پوری امت کو جاہل، نادان اور ناسمجھ قرار دیتے ہیں اور ان پر طرح طرح کی پھبتیاں کستے ہیں۔ روایت پسند، قدامت پسند وغیرہ کے الفاظ زبان زد ہیں۔ احادیث نبویہ کے سرمایہ اور اقوال سلف کو خس وخاشاک کے ڈھیر، اختلاف وافتراق کا شاخسانہ اور من گھڑت قرار دینا کوئی نئی اور غیر معروف بات نہیں رہی۔ اس کی مثالیں ماہنامہ طلوع اسلام، اشراق اور ظفر اقبال خان کے ’اسلامائزیشن‘ میں مل جاتی ہیں۔ ہاں قرآن کریم کی آیات کا سہارا تحریف وتاویل کے بعد بھی نایاب ہو جائے تو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ احادیث کا سہار الیتے ہیں بلکہ فقہا وسلف کے غیر معروف اقوال اور ضعیف احادیث تک اپنے مطلب کے لیے پیش کردیتے ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ ہمیں راہ ہدایت پر استقامت دے اور امت کے ذہین وفطین حضرات کو شاذ آرا واقوال پر ڈٹ جانے کی بجائے صحیح فہم وفراست سے نوازے۔ انک لاتھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء۔
رحیم اللہ وارثی
غواڑی، بلتستان ،شمالی علاقہ جات 
(۵)
محترم حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب مدظلہ العالی 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
حضرت والا! راقم الحروف کا آپ کے ساتھ خاندانی تعلق حضرت والد صاحب ؒ اور حضرت امام اہل سنت مدظلہ العالی سے شروع ہوا اور الحمدﷲ آج تک ہے اور امید ہے کہ ان شاء اللہ العزیز میدان حشر میں بھی ہو گا۔ اس کے علاوہ راقم ذاتی طور پر ۱۹۷۲ء سے آپ کے مضامین کا قاری اور ارشادات کا سامع ہے اور آپ ہی کی جہد اور محنت سے ہم لوگ مذہبی، سیاسی اور نظریاتی طور پر راہ سعادت پر گامزن ہیں اور اللہ تعالیٰ سے حسن خاتمہ کی درخواست کرتے ہیں اور قبولیت کی امید بھی رکھتے ہیں ۔
جناب والا! میں اس خط کی وساطت سے ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘، جس کا میں روز اول سے قاری ہوں، اس کے متعلق کچھ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ پاک وہند میں الحمد ﷲ بہت سے دینی جرائد طبع ہو رہے ہیں۔ ان کا اپنا ایک حلقہ ہوتا ہے اور وہ اپنے حلقہ متعلقین کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ’’الشریعہ ‘‘کے اجرا کا مقصد بھی یہی ہے اور اس کے قارئین بھی اسی نظریے سے اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔آپ نے اس کو ایک فورم قرار دیا ہے اور آپ اس کے سر ورق پر تحریر فرماتے ہیں کہ مضمون نگار حضرات کی رائے سے اتفاق ضروری نہیں ہے۔ا س سلسلے میں میرا سوال یہ ہے کہ جس مضمون سے آپ کا اتفاق نہیں ہے، اس کی اشاعت کی کیا ضرورت ہے اور اپنے حلقہ احباب تک اس کو پہنچانے کا کیا داعیہ ہے؟ ’الشریعہ‘ نام، حضرت والا کی ذات، امام اہل سنت کا خاندان اور پھر ہر رطب ویابس کی اشاعت چہ معنی دارد؟ اگست۲۰۰۶ء سے مئی ۲۰۰۷ء تک کے شماروں کو اجمالی نظر سے دیکھیں تو نقشہ کچھ اس طرح ہے :
ان شماروں میں عالمی تبلیغی جماعت نشانہ بنی رہی اور دور تک بات گئی اور بالآخر متعدد بزرگوں نے ناکردہ گناہوں کی تحریری معافیاں مانگیں اور برادر محترم محمد صفوان صاحب کے مضمون نے ان کی مہم کو ختم کیا۔ پھر انہی شماروں میں سے ایک میں میرے اور آپ کے دادا استاد حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مد نی ؒ نشانہ بنے۔ پھر ان شماروں میں سے ایک میں موجودہ حکومت کو خوش اور مطمئن کرنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف ایک مضمون شائع کیا گیا۔ ایک ایسا شخص جس نے ساری گزری ہوئی زندگی ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ کے مطالعہ میں گزاری، جب اس نے ترجمان کے ایک مضمون کے جواب میں مضمو ن لکھا تو انہوں نے اس کو شائع نہیں کیا، اس کو بھی ’الشریعہ‘ میں جگہ ملی۔ صورت حال یہاں تک پہنچی کہ ایک قاری نے لکھا کہ ’’الشریعہ ‘‘ایک پلیٹ فارم ہے، مگرفرق یہ ہے کہ پلیٹ فارم پر لکھا ہوتا ہے کہ یہاں تھوکنا منع ہے، مگر اس پلیٹ فارم پر لکھا ہوا ہے کہ یہاں تھوکا جائے۔ بے شمار لوگ جناب کی ذات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایک لکھنے والے کو خوش کرنے کے لیے آپ اس کا لکھا ہوا شائع کر دیتے ہیں مگر یہ احساس نہیں کیا جاتا کہ ہم جیسے کتنے ہی لوگ جو آپ کے خوشہ چین ہیں اور آپ کے ساتھ اور آپ کے خاندان کے ساتھ گہری محبت اور عقیدت رکھتے ہیں، ہمارے جذبات کس قدر مجروح ہوتے ہیں۔ اس لیے اس سلسلے پر نظر ثانی کی جائے۔ 
مئی ۲۰۰۷ء کے شمارے میں چوہدری محمد یوسف صاحب کا مضمون انتہائی گھٹیا ہے جس میں انہوں نے آپ کو تنقید کا نشانہ اس طرح بنایا ہے کہ گویا ’’الشریعہ‘‘ ان کی ذاتی ملکیت ہے اور آپ ان کے ذاتی ملازم ہیں اور غالباً آپ نے ان کی مرضی کے خلاف لکھ دیا ہے۔ پھر انہوں نے مسلم پر غیر مسلم کو ترجیح دینے کی بھرپور محنت کی ہے۔ اسی مضمون میں انہوں نے فقہ حنفی کے ائمہ مجتہدین حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ؒ اور حضرت امام ابو یوسف قاضی ؒ پر بھی تنقید کی ہے۔ حضرت سیدنا عثما نؓ اور سیدنا مروان بن الحکمؓ پر بھی تنقید کے نشتر چلائے ہیں۔ میں تو مختصراً یہ کہتا ہوں کہ چوہدری محمد یوسف صاحب کے نزدیک ایک وہ خود اور انبیا علیہم السلام تنقید سے بالا ہیں، باقی سب نشانے پر ہیں۔ ’’ایک وہ خود‘‘ کا لفظ اس لیے میں نے پہلے لکھا ہے کہ ممکن ہے کہ ان کو کوئی حکم یا کوئی اد ا کسی نبی کی پسند نہ آئے اور ’الشریعہ‘ کا فورم ان کی (چوہدری صاحب کی)یہ خدمت بھی کر گزرے۔
اسی مضمون میں انہوں نے جناب نوید انور نوید مرحوم کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ کاش کہ وہ کسی انصاف کے آئینے میں نوید بھائی کا مقابلہ کر کے دیکھتے۔ جس شخص نے ایک مشکل ترین وقت میں علماے حق کے لیے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا اور آپ جیسے عظیم المرتبت لوگوں نے ان کی قیادت میں گرفتاریاں دیں، حضرت درخواستی ،ؒ حضرت انورؒ ،مفتی عبد الواحدؒ ،حضرت امام اہل سنت مدظلہ العالی، حضرت صوفی صاحب مدظلہ العالی اور پاکستان کے جمیع مشائخ، علما ،طلبا اور دین دار لوگوں کی دعائیں اور توجہات ان کی پشت پر تھیں، اس شخصیت کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ اور آپ سے کیا شکوہ! وہ نوید انور نوید مرحوم جس کی جوان اور نازک پیٹھ پر پولیس کے برسنے والے ڈنڈوں اور قید وبند کی صعوبتوں نے جامع مسجد نور اور مدرسہ نصرۃ العلوم کو حکومتی چنگل میں جانے سے بچایا اور مجھ جیسے کتنے ہی لوگوں نے حضرت امام اہل سنت سے استفادہ کیا اور آج آپ اسی مدرسے کے شیخ الحدیث ہیں اور اسی مسجد نور میں بیٹھ کر بخاری شریف پڑھا رہے ہیں، حضرت! آپ نے تو چوہدری یوسف کی خوشنودی کے لیے نوید بھائی کی روح کو قبر میں تڑپا دیا۔ (ہم تو وہ لوگ ہیں کہ تاریخ نے یہ بھی عجوبہ قلم بند کیا ہوا ہے کہ نوے سالہ قدیم قادیانی مسئلہ حل کرنے والے ذو الفقار علی بھٹو مرحوم جب دنیا سے گئے تو مسلمان بھی اپنے علما کی قیادت میں مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے اور قادیانی بھی۔ ہم اپنے محسنوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔زندہ مثال ڈاکٹر عبد القدیر حفظہ اللہ کی ہے )
انتہائی معذرت کے ساتھ امید ہے کہ آپ اس خط کے مندرجات سے ناراض نہیں ہوں گے اور اپنی توجہات اور دعاؤں سے محروم نہیں فرمائیں گے ۔
حسین احمد قریشی 
خطیب مرکزی جامع مسجد، بھوئی گاڑ
تحصیل حسن ابدال، براستہ فاروقیہ، ضلع اٹک 

جولائی ۲۰۰۷ء

منکرات و فواحش کا فروغ اور ارباب دانش کی ذمہ داریمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
قرآن کا معجز اسلوب اور تفکر و تعقل کی اہمیتمفتی ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی
پاکستان میں فوج کا سیاسی کردار ۔ وزیر اعظم لیاقت علی خاں سے جنرل ایوب خاں تکپروفیسر شیخ عبد الرشید
علماء ججوں کے ایک فیصلے کا تقابلی جائزہچوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
غامدی صاحب کے تصور ’فطرت‘ پر اعتراضات کا جائزہسید منظور الحسن
الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ائمہ و خطبا کے لیے تربیتی نشستادارہ
ملکہ برطانیہ کی طرف سے سلمان رشدی کے لیے اعزازمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

منکرات و فواحش کا فروغ اور ارباب دانش کی ذمہ داری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دور میں تمام لوگوں پر فضیلت عطا فرمائی تھی اور دنیا کی مذہبی قیادت وسیادت سے نوازا تھا، لیکن پھر انھی کو ملعون ومغضوب قرار دے دیا اور سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۷۸، ۷۹ کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی کہ ’کانوا لا یتناہون عن منکر فعلوہ‘، وہ ایک دوسرے کو اس برائی سے روکتے نہیں تھے جس کا وہ ارتکاب کرتے تھے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد احادیث میں یہ بات بیان فرمائی ہے کہ سوسائٹی میں منکرات کے ارتکاب پر باہمی روک ٹوک کا باقی رہنا ضروری ہے، ورنہ پوری سوسائٹی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت اور عذاب کی مستحق قرار پاتی ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے جس فریضہ کا قرآن مجید نے بار بار تذکرہ کیا ہے، وہ سوسائٹی میں نیکی کے فروغ اور برائی کی روک تھام کی یہی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحج کی آیت ۴۱ میں مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری کے طور پر بیان فرمایا ہے اور سورہ آل عمران کی آیت ۱۱۰ میں اسے امت کی عمومی ذمہ داریوں میں شمار کیا ہے، اس لیے معاشرہ میں نیکیوں کا فروغ اور برائیوں کی روک تھام جہاں حکومت کے فرائض کا حصہ ہے، وہاں عوام کے فرائض میں بھی شامل ہے اور سوسائٹی کے تمام طبقات درجہ بدرجہ اس بات کے لیے مسؤل ہیں۔
جس طرح ایک انسانی جسم کے اندر فطری طور پر جو قوت مدافعت موجود ہوتی ہے، وہ اگر قائم رہے تو جسم بڑی سے بڑی بیماری کا مقابلہ کر لیتا ہے، لیکن اگر وہ قوت مدافعت مضمحل یا ختم ہو جائے تو چھوٹی سی بیماری سے نمٹنا بھی جسم کے لیے مشکل ہو جاتا ہے، یہی مثال سوسائٹی میں برائیوں پر باہمی روک ٹوک کے نظام کی ہے۔ اگر معروفات کی باہمی تلقین اور منکرات پر باہمی روک ٹوک کا سسٹم موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سوسائٹی منکرات کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہے اور خود کو ان سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن اگر یہ سسٹم کمزور پڑ جائے تو سوسائٹی کی قوت مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے اور سوسائٹی خود کو کسی برائی سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہے، اور اگر کسی سوسائٹی میں نیکیوں کی باہمی تلقین اور برائیوں پر باہمی روک ٹوک کا سسٹم سرے سے ختم ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سوسائٹی نے برائیوں کو اجتماعی طور پر قبول کر لیا ہے اور یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب کوئی قوم قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق خدائی لعنت اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بقول عمومی عذاب کی مستحق بن جاتی ہے۔
گزشتہ دنوں لال مسجد اسلام آباد کی انتظامیہ کے رضاکاروں نے مبینہ طور پر ایک قحبہ خانے پر چھاپہ مار کر وہاں کی انچارج خاتون کو حراست میں لے لیا اور ابھی چند روز قبل ایک مساج پارلر کے کارندوں کو حراست میں لینے کے بعد اسلام آباد انتظامیہ کی اس یقین دہانی پر انھیں آزاد کیا کہ اسلام آباد میں مساج پارلروں کو بند کر دیا جائے گا۔ اس پر ملک بھر میں یہ سوال کھڑا ہو گیا کہ کیا اس طرح پرائیویٹ طور پر احتساب کا نظام قائم کرنا اور قانون کو ہاتھ میں لے کر برائی کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا درست عمل ہے؟ ملک بھر کے سنجیدہ حلقوں نے اس طرز عمل سے اختلاف کیا اور ہم نے بھی واضح طور پر عرض کیا کہ حکومت وقت کے ساتھ تصادم کا ماحول پیدا کرنا اور قانون کو ہاتھ میں لینا شرعاً، اخلاقاً اور قانوناً کسی بھی لحاظ سے درست طرز عمل نہیں ہے اور لال مسجد کی انتظامیہ کو زود یا بدیر اس طرز عمل پر نظر ثانی کرنا ہوگی، لیکن ہمارے خیال میں ابھی تک یہ بحث یک طرفہ طور پر چل رہی ہے اور معاملہ کے صرف ایک رخ پر مسلسل بات کی جا رہی ہے کہ برائیوں کی روک تھام کے لیے پرائیویٹ سطح پر کوئی کارروائی کرنا اور قانون کو ہاتھ میں لینا درست نہیں ہے، جبکہ اس معاملے کے دوسرے رخ پر توجہ دینے سے ہمارے دانش ور ابھی تک کترا رہے ہیں کہ معاشرہ میں منکرات کی روک تھام آخر کس کی ذمہ داری ہے؟ خصوصاً جب صورت حال یہ ہو گئی ہو کہ حکومتی ادارے فحاشی اور منکرات کی روک تھام کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے خود ان کے فروغ کا ذریعہ بن رہے ہوں، سیاسی اور دینی جماعتوں نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہو اور سماجی اداروں کے ایجنڈے میں بھی یہ بات شامل نہ ہو تو کیا عملاً یہی صورت نہیں بن جاتی کہ سوسائٹی نے برائی کو اجتماعی طور پر قبول کر لیا ہے اور اس کا کوئی طبقہ برائی کی روک تھام کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہے؟ ہمارا یہ سوال ان طبقات اور ارباب دانش سے ہے جو قرآن وسنت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالے سے موجود تعلیمات سے آگاہ ہیں کہ کیا منکرات وفواحش کے مسلسل فروغ پر سوسائٹی کی اجتماعی خاموشی کی صورت حال کو قبول کر لیا جائے اور ایسی صورت میں قرآن وسنت میں جو وعیدیں وارد ہوئی ہیں، انھیں یکسر نظر انداز کر دیا جائے؟ اور کیا ارشاد ربانی ’کالذین نسوا اللہ فانساہم انفسہم‘ کا عملی منظر اسی طرح کا نہیں ہوتا؟
مساج پارلروں کا معاملہ ہی سامنے رکھ لیا جائے جن میں نوجوان اور نوعمر لڑکیاں مردوں کو مساج کرتی ہیں اور مساج کے نام پر بدکاری کا ایک وسیع نیٹ ورک کام کر رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد میں اس قسم کے بدکاری کے اڈوں کی موجودگی، ان کا فروغ اور ان پر حکومتی اداروں، دینی وسیاسی جماعتوں کی خاموشی او ر سماجی اداروں کی لا تعلقی اور بے حسی کا ایک انتہائی افسوس ناک منظر سامنے ہے۔ اس صورت حال میں اگر ہمارے دانش ور صرف لال مسجد کی انتظامیہ کو ہی کوستے چلے جائیں کہ وہ غلط کر رہے ہیں، انھیں قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے اور ازخود کسی کارروائی سے گریز کرنا چاہیے تو ہمارے نزدیک یہ بات صحیح ہونے کے باوجود ادھوری اور یک طرفہ ہے۔
لال مسجد کی انتظامیہ کے طریق کار کو ہم بھی غلط سمجھتے ہیں جس کا ہم نے برملا اظہار کیا ہے، لیکن ہمارے نزدیک یہ رد عمل ہے منکرات وفواحش کے مسلسل فروغ پر حکومتی اداروں، دینی وسیاسی جماعتوں اور سماجی اداروں کی مجرمانہ خاموشی اور بے حسی کا جو منکرات وفواحش ہی کی طرح پیہم بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ہم ارباب فکر ودانش سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ لال مسجد کی انتظامیہ کو اس کے غلط طریق کار پر ضرور ٹوکیں اور انھیں سمجھائیں کہ برائی کو روکنے کا یہ طریقہ درست نہیں ہے، لیکن اس کے ساتھ ہمارے دانش وروں کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ قوم کو بتائیں کہ مسلم معاشرے کو منکرات وفواحش سے پاک رکھنا کس طرح ممکن ہے اور برائیوں کی روک تھام کے لیے حکومتی اداروں، دینی وسیاسی جماعتوں اور سماجی اداروں کی ذمہ داری کیا ہے؟ ورنہ اگر برائیوں پر باہمی روک ٹوک کا نظام ختم ہونے پر بنی اسرائیل خدا تعالیٰ کی طرف سے لعنت کے مستحق ہو گئے تھے تو اللہ تعالیٰ کے اس قانون سے ہمارے لیے کوئی استثنا موجود نہیں ہے کہ جس جرم پر اللہ رب العزت نے بنی اسرائیل پر لعنت نازل فرما دی تھی، اسی جرم کے ارتکاب پر ہمیں وہ سزا نہیں دی جائے گی۔ اور پھر بات ’’سزا دی جائے گی‘‘ کی بھی نہیں ہے، ہم افراد سے لے کر قوم اور پوری ملت تک جس صورت حال سے دوچار ہو چکے ہیں، کیا اس کے بعد کسی اور لعنت کا انتظار باقی رہ گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمیں صورت حال کے صحیح ادراک کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا الٰہ العالمین

قرآن کا معجز اسلوب اور تفکر و تعقل کی اہمیت

مفتی ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی

امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم اور علمائے عربیہ کا اجماع ہے کہ قرآن عزیز اپنے الفاظ و حروف، ترکیب و ترتیب، اغراض و مقاصد اور علوم و حقائق، ہر ایک امر میں معجز ہے۔ قرآن کی آیات اور آیات کے کلمات باہم مربوط ہیں ۔ ہر آیت اور کلمہ کو اسی جگہ رکھا گیا ہے جہاں کہ ان کا بے میل فطری مقام ہے۔ قرآن حکیم ایک دعویٰ ہے اور کائنات عالم اس کے لیے ایک عادل گواہ ہے جس کی شہادت سے یہ دعویٰ ثابت اور واجب التسلیم ہو جاتا ہے۔ یعنی قرآن کے مطالب و نظریات کو کائنات کے محسوسات سے تمثیل دے کر بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ کائنات انسانوں کی تفہیم کے لیے ایک فکر گاہ ہے جس میں غوروفکر کرنے سے قرآن کے نظریات حل ہوتے ہیں اور قرآنی دعاویٰ کے لیے ایسے تمثیلی و تشبیہی اور برہانی دلائل ہاتھ لگتے ہیں جن سے قرآنی مقاصد و مطالب بآسانی ذہن میں اتر جاتے ہیں ۔ 
قرآن عزیز اپنی وضع، اسلوب، اندازِ بیان، طریقِ خطاب اور اپنے طریقِ استدلال میں بلکہ اپنی ہر بات میں، انسانوں کے وضعی اور صناعی طریقوں کا پابند نہیں ہے اور ہونا بھی نہیں چاہیے، وہ اپنی ہر بات میں اپنا بے میل فطری طریقہ رکھتا ہے۔ یہی وہ بنیادی امتیاز ہے جو انبیاے کرام علیہم السلام کے طریقِ ہدایت کو علم و حکمت کے وضعی طریقوں سے ممتاز کر دیتا ہے۔ قرآن عزیز اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ دوسری کتب مقدسہ کی طرح صرف کتاب اللہ ہی نہیں، بلکہ درحقیقت وہ کلام اللہ بھی ہے ۔ اور کلام صفتِ الہٰی ہے اور صفات ، ذات کے ساتھ قائم ہوتی ہیں۔ جب کوئی کلام کسی سے صادر ہو تو یہ نہیں کہا جاتا کہ فلاں نے کلام کو پیدا کیا بلکہ کہا جاتا ہے کہ فلاں سے کلام صادر ہوا۔ قرآن کریم پردۂ عدم میں نہ تھا کہ اس کو مخلوق کہا جائے بلکہ حق تعالیٰ ہی کے وجود کے ساتھ قائم تھا، وہاں عدم کا نشان نہیں تھا ۔ اسی لیے قرآن کو مخلوق نہیں کہا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم تحریف، ترمیم اور تبدیلی سے محفوظ ہے اور معجز بھی ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ رب العزت کی مثل کوئی شے نہیں، ایسا ہی اس کے کلام کی مثل کوئی کلام نہیں ۔ اور ہر شخص کا کلام اپنے متکلم پر دلالت کرتا ہے ۔ زیب النساء مرحومہ نے اسی کی ترجمانی کیا ہی عمدہ شعر سے کی ہے :
درسخن مخفی منم چو بوئے گل در برگِ گل
ہر کہ دیدن میل دارد درسخن بیند مرا 
(میں اپنے کلام میں اسی طرح چھپی ہوئی ہوں جیسے پھول کی خوشبو اس کی پتی میں۔ جو بھی مجھے دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے، وہ مجھے میرے کلام میں دیکھ لے۔)
بہر حال، قرآن ایک غیر معمولی پر شکوہ کلام ہے۔ اس میں تدبر اور غور کرنے والے کو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کا متکلم ایسے بلند مقام سے بول رہا ہے جو کسی بھی انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس کے نظم کا شکوہ ، اس کی بے پناہ روانی اور اس کا فیصلہ کن اندازِ بیان اتنے حیرت انگیز طور پر انسانی کلام سے مختلف ہے کہ صاف طور معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک مالکِ کائنات کی آواز ہے، کسی انسان کی آواز نہیں ۔ اس کا پر یقین اور با عظمت کلام خود ہی بول رہا ہے کہ یہ خدا کی کتاب ہے جس میں خدا اپنے بندوں سے مخاطب ہوا ہے۔ قرآن میں کائنات کی حقیقت کا تعارف کرایا گیا ہے، انسان کے انجام کی خبر دی گئی ہے اور زندگی سے متعلق تمام کھلے اور چھپے حالات پر گفتگو کی گئی ہے۔ یہ سب کچھ اس قدر قطعی انداز میں بیان ہو اہے کہ واقعہ کا اظہار واقعہ کا مشاہدہ معلوم ہونے لگتا ہے۔ قرآن کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا آدمی کو حقیقت کا علم نہیں دیا جا رہا ہے بلکہ اس کو حقیقت کے سامنے لے جا کر کھڑا کر دیا گیا ہے ، وہ واقعہ کو کتاب کے صفحات میں نہیں پڑھ رہا ہے بلکہ اسکرین ( عالمِ کائنات) کے اوپر اس کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ کلام کی یہ قطعیت صاف ظاہر کر رہی ہے کہ یہ ایک ایسی ہستی کا کلام ہے جس کو حقیقتوں کا براہ راست علم ہے۔ کوئی انسان جو حقیقتوں کا ذاتی علم نہ رکھتا ہو، اپنے کلام میں ہر گز قطعیت پیدا نہیں کر سکتا ۔ 
قرآن حکیم کو اللہ تعالیٰ نے اس کی آیات میں تدبر اور غور کرنے کے لیے نازل کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اسلامی دعوت کی بنیاد ہی عقل پر رکھی گئی ہے۔ قرآن کے نزدیک عقل سے کام نہ لینا ، فکری قوتوں کو معطل کیے رکھنا ، اندھا دھند عقلیات میں ہر کسی کی پیروی کیے جانا اور خرافات و اوہام کے پیچھے چل کر بے سمجھے بوجھے رسوم و رواج سے چمٹے رہنا انسان کا بہت بڑا عیب ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ جو مذہب عقل کی کسوٹی پر پورا نہ اترے، وہ جھوٹا ہے ۔ نئی تحقیقات اور صحیح علوم سائنس و فلسفہ ، قرآنی تعلیمات پر مہرِ تصدیق لگا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ آج سائنس کے دور میں کوئی نہیں بتا سکتا کہ قرآن کی فلاں بات واقعات کے خلاف ہے اور قرآن کریم کا تصادم آج تک کسی بھی علمی حقیقت سے نہ ہو سکا۔ البتہ جن لوگوں نے اپنے فہم و عقل سے قرآنی فطرت کے خلاف معانی پیش کیے ہیں، وہ قرآن کے معانی قرار نہیں دیے جا سکتے اور نہ قرآن ایسے معانی و مطالب کی تصدیق کر تاہے ۔ قرآن مجید میں جو باتیں بطور دلائل اختیار کی گئی ہیں، اس میں سے ایک نمایاں استدلال واقعات کا استدلال ہے جس کی اصل حقیقت ان کے ماننے والوں کو بھی معلوم نہ تھی ۔ قرآن حکیم نے ان حقائق کو آج سے پونے چودہ سو سال پہلے ایک امی کے ذریعے واضح کر دیا اور اب جدید آثارِ قدیمہ کی تحقیقات کا سلسلہ ان کی تصدیق کرتا جا رہا ہے۔ 
بہر حال تفسیر بالرائے کی ممانعت سے مقصود یہ نہیں کہ قرآن کے مطالب میں عقل و بصیرت سے کام نہ لیا جائے ، جبکہ خود قرآن کا یہ حال ہے کہ اول سے لے کر آخر تک تعقل و تفکر کی دعوت دیتا ہے۔ تفسیر بالرائے کی ممانعت سے مراد ایسی تفسیر ہے جو اس لیے نہ کی جائے کہ خود قرآن کیا کہتا ہے بلکہ اس لیے کی جائے کہ ہماری کوئی ٹھہرائی ہوئی رائے کیا چاہتی ہے اور کیسے قرآن کو کھینچ تان کر اس کے مطابق کیا جا سکتا ہے۔ 

پاکستان میں فوج کا سیاسی کردار ۔ وزیر اعظم لیاقت علی خاں سے جنرل ایوب خاں تک

پروفیسر شیخ عبد الرشید

بیسویں صدی کے وسط میں بہت سے ممالک نے طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی مگر کچھ ریاستوں کی جھولی میں یہ آزادی پکے ہوئے پھل کی طرح آ گری جس کی وجہ سے ان ریاستوں میں سیاسی خلا پیدا ہوا۔ایسی ریاستوں میں کمزور ادارہ سازی کے ماحول میں شروع ہونے والے سیاسی عمل میں سول قیادتیں قومی ضرورتوں کو پورا کرنے میں نا کام رہیں اور سیاسی رہنماؤں کو status quo بدلنے کے لیے طاقت پر انحصار کرنا پڑا ۔مثال کے طور پر پاکستان میں سیاسی اداروں کے بر عکس فوج مربوط، منظم اور طاقتور ادارے کے طور پر طاقت کی علامت بن کر ابھری۔ قیامِ پاکستان کے فوری بعد کے عشرے میں ہی فوج نے یہاں اِقتدار اعلیٰ پر براہِ راست قبضہ کرنے کی کوشش کے بجائے سیاسی عمل کی راہنمائی کرنے والے ادارے کی حیثیت سے فعال کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔سٹیفن پی کوہن کے الفاظ میں ’’کچھ بری افواج اپنی قوم کی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں، کچھ معاشرے میں اپنے مقام کا تحفظ کرتی ہیں اور بعض کسی مقصد یا تصور کا دفاع کرتی ہیں۔ پاکستان کی بری فوج تینوں کام کرتی ہے۔ جس روز سے پاکستان وجود میں آیا ہے، یہ داخلی امن و امان کے قیام میں مدد دینے اور پاکستان کی قابل نفوذ اوراکثر غیر واضح سرحدوں کے تحفظ میں مصروف رہی ہے۔ اس عرصے میں اس نے پاکستان میں اپنی طاقت اور خاص مقام استعمال کر کے اپنے لیے کافی ہتھیاروں ،وسائل اور افرادی قوت کی فراہمی یقینی بنا لی ہے۔ مزید برآں اس نے خود کو ہمیشہ تصور پاکستان کا خاص اظہار تصور کیا ہے اور چند افسران اس نقطہ نظر کے بھی حامی ہیں کہ معاشرہ جہاں فوج کے مقررہ معیار سے نیچے گرے، اس کی اصلاح یا درستی میں بھی یہ فعال کردار ادا کرے۔،، 
مذکورہ بالاخیالات کی روشنی میں ہم آئندہ سطور میں پاکستان کے ابتدائی عشرے، ۱۹۴۷ سے ۱۹۵۸ تک کے دور میں فوج کے سیاسی کردار کا مختصراً جائزہ لیں گے۔
حصول پاکستان کی تحریک ایک سیاسی اور عوامی تحریک تھی، فوج کا جدوجہد پاکستان میں کو ئی کردار نہیں تھا، مگر حکومت برطانیہ کے ملازم ہندوستانی آرمی افسر اگست ۱۹۴۷ میں راتوں رات ایک قومی آرمی کے آزاد افسر بن گئے۔ پہلے دِن سے ہی ان فوجی افسران نے سیاسی اور سول معاملات میں مداخلت شروع کر دی۔ بانی پاکستان کی زندگی میں ہی فوج کے سیاسی عزائم نمایاں ہونے لگے جس پر انہوں نے بار بارتنبیہ بھی کی۔ قائداعظم کی بلند وبالا شخصیت کے پیش نظر کوئی جرنیل اور بیوروکریٹ خواہش کے باوجود انہیں چیلنج کرنے کی جرأت نہ کر سکا اور ان کی حیات مستعار کا ایک سال سیاست دانوں، فوج اور نوکر شاہی کے درمیان امن وامان کی کیفیت میں گزر گیا۔ آزادی کے فوراً بعد فوج کا کردار دفاع اور سلامتی کے پیشہ وارانہ میدان تک محدود رکھا گیا۔ سول حکام اگر مدد کے لیے بلاتے تو فوج ان کی مدد کرتی تھی مگر فوج کو نظم و نسق کی بحالی کے لیے استعمال کرنے سے کئی خرابیاں پیدا ہونے لگی تھیں۔ فوج کا مہاجرین کو فسادات کی آگ سے بچانے اور ان کی آباد کاری میں فعال کردار تھا۔ اس کردار کی وجہ سے فوجی زعما نے فوج کو ملک میں نجات دہندہ کے طور پر شناخت دینے کی کوششیں شروع کر دیں۔ ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۴۷ کو گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے فوج کے سربراہ کو جموں و کشمیر میں فوجیں بھیجنے کا حُکم دیا مگر فوجی سربراہ نے حکم نہ مانا اور ۲۸؍ اکتوبر کو سپریم کمانڈر آکن لیک نے لاہور پہنچ کر انھیں حکم واپس لینے پر آمادہ کر لیا۔ قائد اعظم کے سیاسی تدبر کے برعکس فوجی حکمت عملی سے کام لیا گیا تو ہندوستان نے کشمیر میں اپنی فوج اتار دی، پھر اچانک اسی چیف آف آرمی سٹاف نے اپنی رپورٹ میں تجویز کیا کہ اگر دستے کشمیر نہ بھیجے گئے تو پاکستان کا نقصان ہو گا۔ یہ وہی تدبرتھا جس کا اظہار فوجی قیادت سے بہت پہلے سیاسی مدبر نے کیا تھا، چنانچہ مئی ۱۹۴۸ء میں فوجی دستے کشمیر میں اتارے گئے۔ تاخیر کے باعث ہندوستان کو کامیابی ہوئی جس کی بنا پر فوج سول حکومت کے پاکستانی ہندوؤں اور برطانویوں کے اور پنجابی بنگالیوں کے خلاف ہو گئے۔ ان حالات میں مضبوط فوج کا تصور نمایاں ہوا۔ مسلم لیگ کے اخبار ’ڈان‘ نے اداریے لکھے اور روٹی کی بجائے بندوق پر زور دیا اور ایک بڑی اور مسلح فوج کا مطالبہ کیا تاکہ ارض مقدس کا دفاع کیا جاسکے۔ حالات دگرگوں تھے۔ قائداعظم کی وفات کے وقت فوج حیدرآباد میں مارچ کر رہی تھی۔ بھارت کو دشمن نمبر ایک قرار دے کر عوام کو ہیجان میں مبتلا کر دیا گیا۔ 
قائد اعظم کے بعد لیاقت علی خان کے نام پر عنان اقتداردر حقیقت سیکرٹری جنرل اور پلاننگ کمیٹی کے ہاتھ میں آ گئی۔ حمزہ علوی کے خیال میں یہ سب لیاقت علی خان کے لیے بھی موافق تھا کیونکہ وہ ذمہ داریاں نبھانے سے حتی المقدور کتراتے تھے۔ پلاننگ کمیٹی کے چوہدری محمد علی اپنی کتاب ’’ظہور پاکستان‘‘ میں اپنے وژن کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ پاکستان کی آزادی اور علاقائی سلامتی کے تحفظ کے لیے ضروری تھا کہ افواج پاکستان کو منظم کیا جائے اور اسے اسلحہ سے لیس کیا جائے۔ قومی وسائل، جن کی معاشی تعمیر نو اور ترقی کے لیے فوری ضرورت تھی، دفاع کی جانب منتقل کیے گئے جس پر نصف اور بعض اوقات قومی بجٹ سے بھی زیادہ صرف کرنا پڑا۔ عوام نے بڑی خوشی کے ساتھ ان اخراجات کو برداشت کیا۔ لیاقت علی خان نے کہا: ’’ ہم ایک دن بھوکے رہ سکتے ہیں، مگر ہم ایک منٹ کے لیے بھی غلام بننے کے متحمل نہیں ہو سکتے‘‘۔ انہوں نے ۸؍اکتوبر ۱۹۴۸ کو قوم سے خطاب میں کہا کہ ’’پاکستان کا دفاع ہماری پہلی ترجیح ہے جس نے حکومت کے تمام دوسرے امور پر برتری حاصل کر لی ہے ۔ ہم ملک کے دفاع پر کسی قسم کے اخراجات سے دریغ نہیں کریں گے۔‘‘ اسی وژن نے دفاع کے نام پر امریکی اسلحہ پر انحصار کی ضرورت کو جنم دیا اور پاکستان کے مستقبل اور فوج کو امریکہ سے وابستہ کر دیا۔ 
لیاقت علی خان نے ۱۹۴۹ میں کشمیر کے محاذ پر جنگ بندی کروا کے سیاسی قوت کو مضبوط کرنے کی طرف توجہ دی لیکن فوج کے سینئرافسران کی بڑی تعداد جنگ بندی کے حق میں نہ تھی۔ زرینہ سلامت کے الفاظ میں ’’سیاسی حکومت کی جانب سے کشمیر میں جنگ بندی قبول کرنے کو فوج نے میدان میں اسے فتح سے محروم کرنے کے مترادف سمجھا ۔‘‘ جنوری ۱۹۵۱ میں فوج کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی کی مدت ملازمت ختم ہو رہی تھی۔ مسلم لیگی راہنما چاہتے تھے کہ نیا کمانڈر انچیف پاکستانی ہونا چاہیے، چنانچہ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ۱۹۵۰ کے آخر میں جنرل ایوب خان کو کمانڈرانچیف مقرر کرنے کا فیصلہ کیا جو نہ تو سب سے سینئر تھے اور نہ ہی سب سے بہتر تھے۔ جنرل ایوب کی بطور کمانڈرانچیف نامزدگی کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ انہی دنوں میں ان سے سینئر دو جرنیل اچانک ایک فضائی حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ وہی ایوب خان تھے جن کے بارے میں سردار شوکت حیات خان نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ’’تقسیم ہند کے وقت باؤنڈری فورس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ بریگیڈیئر دگمبر سنگھ ہندوستان کی طرف سے اور کرنل محمد ایوب خان، ہر دو پنجاب میں اپنے اپنے ملک کے نمائندوں کی حیثیت سے جنرل ریس کے احکامات کے تحت کام کر رہے تھے۔ میں جنرل ریس کو فلسطین میں بریگیڈیئر کمانڈر کی حیثیت سے جانتا تھا۔ بعد میں وہ برما میں ڈویژن کی کمانڈ کرنے چلے گئے تھے۔ جنرل ریس نے مجھے ایک طرف بلا کر کہا: ’’ شوکت، تم لوگوں پر کیا چیز حاوی ہو گئی ہے کہ ایک طرف انڈیا نے اپنے نمائندے کے طور پر ایک بہترین سپاہی کا چناؤ کیا ہے جبکہ دوسری طرف تم لوگوں نے جس شخص کو چنا ہے، اسے تو میں نے برما سے واپس بھیج دیا تھا۔ برما میں جب اس کا کمانڈر مارا گیا تو اس نے بزدلی کا مظاہرہ کیا ۔ ایسے آدمی سے تم کیا توقع کر سکتے ہو؟ جو کچھ اس نے ماضی میں کیا، اس کے بعد میں اس کی فراست پر کیسے اعتماد کر سکتا ہوں؟‘‘ 
سعید شفقت کے مطابق ایوب خان کی کیرئیر ہسٹری فیلڈ کمانڈ کے بجائے سٹاف تقرری میں انتظامی تجربے کو ظاہر کرتی ہے۔ اپنی تقرری کے وقت وہ انتظامی مہارتوں کے علاوہ سول قیادت کی عزت کرنے پر یقین رکھتا تھا اور کسی بھی طرح سے کشمیر کی جنگ سے منسلک نہیں تھا۔ میجر جنرل شیر علی کو تقسیم ہند کے بعد جنرل فرینگ میسروی نے کہا تھا کہ افسران کو ترقی دیتے ہوئے اونچے عہدے کے لیے صحیح آدمی کو منتخب کیا جائے۔ جب برطانوی جائیں تو وہ لوگ آگے لائے جائیں جو سیاسی خواہشات سے آزاد ہوں، مگر جب وقت آیا تو جنرل ایوب خان جو صرف چار سال میں لیفٹیننٹ کرنل سے جنرل بنے تھے، کمانڈر انچیف بن گئے۔ جنرل شیر علی کے مطابق اگر لیفٹیننٹ جنرل افتخار خان کمانڈر انچیف بنتے تو آج پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی کیونکہ وہ فوج کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کرتے۔ تاہم ایوب خاں نے بھی کمانڈر انچیف بننے کے بعد فوج کو سیاست سے دور رہنے کی تلقین کی۔ 
کئی لوگ لیاقت علی خان کی پالیسیوں سے نا خوش تھے ۔ منیر احمد کے مطابق ممتاز دولتانہ نے لیاقت علی خان کے خلاف ایک گروپ بنایا جسے فوج کی حمایت حاصل تھی۔ اسی دور میں حکومت کی پالیسیوں اور کارکردگی سے ناراض فوجی افسران کے ایک گروہ نے لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش تیار کی جو راولپنڈی سازش کیس کے نام سے مشہور ہوئی۔ میجر جنرل اکبر خان اس کے کرتا دھرتا تھے۔ جنرل ایوب خان نے اس سازش کا بر وقت پتہ لگا کر حکومت کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار کیا۔ یہ سازش ہی واضح کر تی ہے کہ فوج سیاست میں ملوث تھی ۔میجر جنرل شیر علی خاں پٹوری لکھتے ہیں کہ ا یوب نے اس سازش کا سراغ اپنی پسند کے لوگوں کو آگے لانے کے لیے لگایا تھا اور وہ ایسے لوگوں کو آگے لانے میں کامیاب ہو گیا جو ایوب کی کمانڈ کے تحت تھے۔ اس سازش کو بے نقاب کرنے کے بعد ایوب خاں نے خود کو حکومت کا محافظ سمجھنا شروع کر دیا اور حکومتی امور ضرورت سے زیادہ مداخلت کرنے لگا۔ اسی سازش کی دریافت نے اسے موقع فراہم کیا کہ وہ بیوروکریٹک زعما اسکندر مرزا اور غلام محمد کے ساتھ قریبی تعلقات پیدا کرے۔ بعد میں یہ تعلق دوستی میں بدل گیا۔
۱۶؍ اکتوبر ۱۹۵۱ کو وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں جلسہ عام کے دوران میں قتل کر دیا گیا۔ اس پر اسرار قتل نے ایوب خان کو سیاستدانوں سے بر گشتہ کر دیا۔ وہ اپنی خودنوشت سوانح عمری ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ ’’میں کراچی میں کابینہ کے کئی اراکین سے ملا۔ کسی نے لیاقت علی خان کا ذِکر تک نہ کیا اور نہ ہی میں نے ان سے ہمدردی اور افسوس کا کوئی لفظ سنا ۔ میں حیران تھا کہ یہ لوگ اس قدر سنگ دل وبے حس اور خود غرض بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘
ایک منصوبے کے تحت لیاقت علی خان کے قتل کے بعد اس بہانے سے کہ اس قتل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان پاکستان پر حملہ نہ کر دے، مسلم لیگ کے ڈپٹی لیڈر سردار عبدالرب نشتر کو میت کے ہمراہ کراچی جانے سے روک دیاگیا اور کہا گیا کہ ان کا بطور گورنر، پنجاب میں مقیم رہنا پاکستان کے مفاد میں ہوگا۔ دوسری طرف گورنر سرحد خواجہ شہاب الدین کو ساتھ ملا کر خواجہ ناظم الدین کو قائل کر لیا گیا کہ وہ گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزیراعظم بن جائے ۔ عائشہ جلال کے الفاظ میں ’’پہلے فوجی اقتدار سے سات سال پہلے سیاسی طاقت پٹڑی سے اتر گئی اور غیر منتخب بیوروکریٹ جانشینوں نے سیاسی منصب سنبھال لیے۔‘‘ شیر باز مزاری کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ کا ملکی امور پر کنٹرول کمزور پڑ گیا۔ فوج اور بیورو کریسی منظم ادارے تھے، لہٰذا ان کا اثرورسوخ بڑھا۔ فوج کا ادارہ کسی کو جواب دہ نہ تھا۔ غلام محمد، اسکندر اور ایوب خان ریاستی طاقت کے مالک بن گئے ۔ لیاقت علی کی وفات پر افسوس کرنے والے اور ان کے سیاسی جانشینوں کی مذمت کرنے والے ایوب خان جلد ہی شراکت اقتدار کے مزے لوٹنے لگے۔ روایتی سیاستدانوں کے نمائندہ شریف النفس وزیراعظم خواجہ ناظم الدین بھی سول اور فوجی ٹیکنوکریٹس کے لیے زیادہ دیر قابل قبول نہ رہے تو انھیں منظر سے ہٹانے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے جن میں سے ایک ۱۹۵۳ میں احمد یوں کے خلاف تحریک بھی تھی۔ لاہور میں حالات انتہائی خراب ہو گئے تو وزیراعظم کی زیر صدارت حالات کے جائزہ کے لیے اہم اجلاس منعقد ہوا۔ سکندر مرزا اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ گورنر پنجاب آئی آئی چندریگر کا فون آیا۔ اس نے وزیر اعظم سے کہا کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ اس کے پاس موجود ہے۔ دولتانہ نے کہا، سر ہم تمام کنٹرول کھو چکے ہیں۔ ’’اس پر وزیر اعظم کچھ نہ کر پائے تو فوج اقدام کے لیے تیار تھی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ لاہور میں مارشل لا لگا دیا جائے۔‘‘ 
۱۱؍ فروری ۲۰۰۶ء کو ڈان میں کرامت اللہ غوری نے لکھا ہے کہ طاقت کی یہ ناپاک صف بندی کس طرح ظالمانہ طور پر کام کر رہی تھی، اس کا حا ل مجھے ٹوکیو میں ہمارے سفیر قمر الاسلام نے بتایا جو خود پرانے آئی سی ایس ہیں اور وہ اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں۔ ان کے بقول ۱۹۵۳ میں لائحہ عمل طے کرنے کے لیے کابینہ کا اجلاس جاری تھا اور گرما گرم بحث ہو رہی تھی کہ کیبنٹ سیکرٹری اسکندر مرزا جاری اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔ دس منٹ کے بعد وہ اجلاس میں واپس آئے اور بڑے سکون سے میٹنگ کے شرکا کو بتایا کہ وہ پریشان نہ ہوں کیونکہ انہوں نے کور کمانڈر لاہور لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان سے بات کی ہے جو اگلی صبح شہر میں مارشل لا لگانے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ اس کے بعد بحث ختم ہو گئی، نہ ہی وزیراعظم اور نہ ہی کسی دوسرے شخص نے اسکندر مرزا کے من مانے فیصلے اور گستاخانہ رویے کو چیلنج کیا۔ اسی واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے ڈاکٹر مبشر حسن لکھتے ہیں کہ اسکندر مرزا نے مزید بتایا کہ انڈین آرمی ایکٹ کے تحت، جسے پاکستانی حالات کے مطابق ڈھال لیا گیا تھا، فوج کے ہر کمیشنڈ آفیسر کا فرض ہے کہ جب سول انتظامیہ ناکام ہو جائے تو وہ خود اختیار سنبھال لے۔ اس واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ اسکندر مرزا کی طرح کے آفیسر اور جنرل اعظم کی طرح کے جرنیل سیاسی حکومت سے بالا جو چاہیں، کرسکتے ہیں اور اپنی کارروائی کو قانون کے مطابق سمجھتے ہیں۔
سیاستدان اور بیوروکریٹ باہم دست و گریباں تھے جس کا فائدہ اٹھا کر فوج نے سیاسی قیادت سے بالا بالا امریکہ سے تعلقات استوار کرنے شروع کر دیے۔ دھیر ے دھیرے امریکہ کا اثرورسوخ بڑھنے لگا اور اسی آڑ میں سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہونے لگی۔ انہی دنوں جب بریگیڈےئر میاں غلام جیلانی کو امریکہ میں ملٹری اتاشی مقرر کیا گیاتو امریکہ بھیجتے وقت کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے انہیں بلاکر ہدایات دیں۔ مشاہد حسین واکمل حسین نے اپنی کتاب Pakistan: Problems of Governance میں ان ہدایت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایوب خان نے بریگیڈےئر غلام جیلانی سے کہا کہ تمہاری بنیادی ذمہ داری پینٹاگون کے ساتھ فوجی امداد کے حوالے سے تعلقات استوار کرنا ہے۔ تم ان امریکیوں سے براہ راست ڈیل کرنا اور پاکستانی سفیر کو اعتماد میں نہ لینا۔ ہم اس قسم کے حساس معاملات میں سویلین پر اعتماد نہیں کرسکتے۔ سیاسی قیادت پر بداعتمادی کے اس ذہن کے ساتھ ۶مارچ ۱۹۵۳ کو لاہور میں مارشل لا لگ گیا۔ یوں فوج کو پہلی دفعہ براہ راست سول معاملات چلانے کا موقع ملا ۔ لاہور دو ماہ تک مارشل لا کے زیر سایہ رہا، مگر حیرت ہے کہ حالات معمول پر آنے کے باوجود فوج واپس بیرکوں میں نہیں گئی بلکہ اس نے لاہور میں صفائی مہم شروع کردی۔ عمارتوں کو رنگ و روغن کیا جانے لگا، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائیاں شروع کردی گئیں اور فوج نے، جس کا کام محض امن وامان کی بحالی تھا، اپنی حدود سے تجاوز کرکے عوام میں یہ تاثر پھیلایا کہ فوج ہی اچھا نظم ونسق قائم کرسکتی ہے۔ احمد یہ فسادات کے حوالے چیف جسٹس منیر کی انکوائری رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ ایجنسیوں نے مذہب اور مذہبی گروپوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جس سے ایسی جذباتی صورت حال نے جنم لیا جس پر قابو نہ پایا جا سکا۔ اس طرح فوج کو ریاستی امور میں مداخلت کا موقع مل گیا۔ حالات خراب ہونے پر گورنر جنرل غلام محمد کی صدارت میں ہنگامی اجلاس منعقد کیاگیا جس میں فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے وزیراعظم پر الزامات لگائے اور ان کی توہین کی ۔بالآخر ۱۶؍ اپریل ۱۹۵۳ کو فوج کے کمانڈر انچیف کی آشیر باد سے گورنر جنرل نے وزیراعظم کو اس وقت برطرف کر دیا جب چند دن قبل اسمبلی نے بجٹ منظور کرکے ان پر اعتماد کا اظہار کیا تھا ۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ ناظم الدین جنرل ایوب خان کو نوکری میں توسیع دینے پر راضی نہیں ہو رہے تھے۔ حسین شہید سہروردی اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین فوج کے سائز کو قومی وسائل سے زیادہ بڑھانے کے مخالف تھے اور انہوں نے بجٹ میں فوجی اخراجات میں تخفیف کی تھی، اسی لیے انہیں بجٹ کے چند دن بعد برطرف کردیاگیا۔ 
خواجہ ناظم الدین کے بعد گورنر جنرل نے امریکہ سے پاکستان آئے ہوئے محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم بنایا جو اس سے پہلے کینیڈا اور پھر امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے۔ ان کے دور میں پاک امریکہ تعلقات میں تیزی سے بہتری آئی۔ ماہرین سیاسیات کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی قوتوں کے عروج اور سول ملٹری بیوروکریسی کے غلبے کی بڑی وجہ امریکی عنصر تھا۔ اکتوبر ۱۹۵۳ میں پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف نے کیبنٹ گورنمنٹ کی رسمی منظوری کے بغیر امریکہ کا غیر رسمی دورہ کیا حالانکہ انہی دنوں وزیراعظم اور وزیر خارجہ امریکہ کے دورے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ امریکی اور پاکستانی فوج کے زعما میں طویل گفت وشنید ہوئی۔ شیریں طاہر خیلی کے مطابق جنرل ایوب خاں نے ’’مناسب قیمت‘‘ پر امریکہ سے ایسی ڈیل کی کوشش کی جس کے مطابق پاکستان مغرب کے اتحادی کا کردار ادا کر سکے۔ امریکی تعاون حاصل کرنے کے لیے ایوب خان اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے ایک امریکی اہلکار کو کہا کہ Our Army can be your Army if you want، یعنی اگر آپ چاہیں تو ہماری فوج آپ کی فوج بن سکتی ہے۔ اس بات کا حوالہ Dennis Kux نے بھی دیا ہے۔ معاملہ طے ہوگیا۔ ۲۵ فروری ۱۹۵۴ کو امریکی صدر آئزن ہاور نے پاکستان کے لیے امدادکا اعلان کیا۔ ۱۹؍مئی ۱۹۵۴ کو امریکہ اور پاکستان نے مشترکہ دفاعی معاہدے پر دستخط کیے جس سے پاکستانی فوج کو ہتھیار اور فوجی تربیت حاصل ہوئی۔ اس معاہدے سے فوجی زعما کو نیا اعتماد ملا اور وہ خود کو پاکستانی سیاست میں مستحکم قوت سمجھنے لگے۔ 
ستمبر ۱۹۵۴ء میں جب گورنر جنرل غلام محمد دارالحکومت سے باہر ایبٹ آباد گئے ہوئے تھے، ۲۰ ستمبر کو اسمبلی نے یکایک پر وڈا کا قانون منسوخ کر دیا اور ۱۹۳۵ کے ایکٹ کے تحت گورنر جنرل کے، کابینہ کو برطرف کرنے کے اختیارات ختم کردیے اور ترامیم اسی روز گزٹ میں شائع کر دیں۔ سٹیفن پی کوہن اپنی کتاب ’’پاکستان آرمی، تاریخ و تنظیم‘‘ میں ایک واقعہ اس حوالے سے لکھتا ہے کہ ایک انتہائی سینئر سابق جنرل نے جو ان واقعات میں کلیدی کردار ادا کر چکے تھے، سیاستدانوں کے ساتھ سابقہ پیش آنے کا اپنا قصہ سنایا جس کی بنا پرفوج براہ راست مداخلت کی طرف راغب ہوئی۔ وہ کہتا ہے ’’میں ان کے (وزیراعظم بوگرہ) کے دفتر گیا۔ اس زمانے میں، میں صرف میجر جنرل تھا۔ میں بیٹھ گیا، وہ نوجوان اور ناتجربہ کار تھے مگر بنگالی ہونے کی وجہ سے یہاں تک پہنچ گئے تھے۔ میری طرف مڑ کر بولے جنرل سر ، جنرل سر ، آپ کو پتا ہے کیا ہوا؟ نہیں پتا کیا ہوا؟ میں نے کہا نہیں۔ (انھوں نے کہا) میں بتاتا ہوں کیا ہوا۔ دستور ساز اسمبلی نے گورنر جنرل کو بیشتر اختیارات سے محروم کرنے کی قرارداد منظور کی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ جب وہ ایبٹ آباد سے آئیں گے تو ہنگامی حالت نافذ کردیں گے اور مداخلت کے لیے فوج کو استعمال کریں گے، کیا آپ ان کی بات مانیں گے؟ ذرا سوچیے، ملک کا وزیراعظم اور وزیر دفاع آرمی کے ایک معمولی میجر جنرل سے اتنے حساس سیاسی معاملات پر مشورہ کر رہا ہے۔ مجھے چیف کی طرف سے کوئی بریفنگ نہیں ملی تھی۔ میں نے کہا کہ جناب اگر یہ حکم محکمانہ توسط سے کمانڈر انچیف کو پہنچے گا تو وہ تعمیل کریں گے۔ اس صورت میں یہ قانونی حکم ہوگا۔ اگر حکم آپ سے پوچھے بغیر آیا تو غیر قانونی ہوگا اور وہ عمل نہ کر سکیں گے۔ اگر آپ ہم سے کہیں گے کہ آجاؤ تو ہم تعمیل کریں گے۔ اس پر اس نے فون اٹھایا اور میری موجودگی میں وزیر قانون سے بات کی۔ کہنے لگے، نہیں آپ ایسا نہیں کرسکتے۔ جنرل .....کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے انٹیلی جنس والوں سے بھی بات کی۔ میں نے اس شخص کی طرف دیکھا اور سوچا، یہ بچوں کی طرح ہے اور ہمارے ملک کا وزیراعظم ہے۔ مجھے اتنی ٹھیس لگی کہ میں باہر نکل آیا، اپنے دفتر گیا اور سیکیورٹی فون پر کمانڈر انچیف سے رابطہ کیا کہ سر، دیکھیں کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا، یہ اسی قسم کا آدمی ہے۔ مزہ چکھاتے ہیں اسے۔‘‘
محمد علی بوگرہ آئینی ترمیم کے بعد اگلے روز دورے پر امریکہ روانہ ہو گئے۔ گورنر جنرل غلام محمد نے وزیراعظم کی غیر حاضری کا فائدہ اٹھا کر اپنے قریبی فوجی افسروں کی مدد سے اپنے منصوبے کو آخری شکل دی اور وزیراعظم کو دورے سے واپس بلا لیا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق ہوائی اڈے پر فوجی دستے وزیراعظم کے منتظر تھے۔ جب بوگرہ کا طیارہ اےئر پورٹ پر پہنچا تو بظاہر ان کے استقبال کے لیے جنگی لباس میں فوجی کھڑے تھے۔ وہاں مختصر ہجوم سے انہوں نے خطاب کیا اور پھر اپنی نئی نویلی اہلیہ کے ہمراہ کیڈلک کار کی طرف بڑھے۔ وہ کار میں بیٹھ گئے مگر یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پاکستانی جرنیلوں نے ان کی بیگم کو کندھا مار کر پرے کردیا اور خود ان کے دائیں بائیں ہو گئے۔ بیگم سے کہا، تم دوسری کار میں گھر جاؤ، ہم اسے گورنر جنرل کے پاس لے جا رہے ہیں۔ چوہدری محمدعلی کی بیان کردہ روایت کے مطابق وزیراعظم کو غلام محمد کے سامنے لایاگیا تو گورنر جنرل نے تکیے کے نیچے سے پستول نکال لیا اور جب تک وزیر اعظم نے استعفا دینے اور اسمبلی توڑنے کی تجویز نہ مان لی، گورنر جنرل اسے قتل کی دھمکیاں اور گالیاں دیتا رہا جبکہ پردے کے پیچھے جنرل ایوب خان سٹین گن لیے کھڑا تھا۔ گویا غلام محمد کے اس اقدام میں بھی انہیں فوج کی مکمل حمایت حاصل تھی۔
۲۴؍ اکتوبر ۱۹۵۴ کو ایمرجنسی نافذ کرکے بوگرہ ہی کی قیادت میں نئی کیبنٹ آ ف ٹیلنٹ تشکیل دی گئی۔ سول اور ملٹری بیورو کریٹس نے باہمی گٹھ جوڑ سے کمزور اور منقسم سیاستدانوں پر بالادستی حاصل کرلی۔ فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان وردی سمیت وزیر دفاع اور میجرجنرل سکندر مرزا وزیر داخلہ بن گئے۔ سیاسی دانشوروں کا خیال ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا سول ملٹری انقلاب تھا جسے کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ یہ درحقیقت کمانڈر انچیف کا پس چلمن رہ کر سویلین مارشل لا تھا جس کی قیادت وہ خود ہی کر رہے تھے۔ یوں فوج نے بالواسطہ اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جنرل ایوب کے وزیردفاع بنتے ہی اونٹ کا سرخیمے میںآگیا اور انھیں بطور وزیردفاع فوجی افسروں کی تعیناتی، ٹرانسفر، پروموشن اور ریٹائرمنٹ کے اختیارات حاصل ہو گئے۔ ان کی حیثیت اتنی مضبوط ہو گئی تھی کہ وہ جنوری ۱۹۵۵ میں ریٹائر ہونے والے تھے مگر انہوں نے گورنر جنرل غلام محمد کی مدد کے بدلے ان سے مدت ملازمت میں چار سال کی توسیع حاصل کرلی۔ جب سول حکومتیں فوج ہی پر انحصار کرنے لگتی ہیں تو فوج اقتدار ایک فرد سے دوسرے فرد اور ایک گروپ سے دوسرے گروپ کو منتقل کرنا شروع کر دیتی ہے۔ 
غلام محمد کے فیصلے کو عدلیہ میں چیلنج کیاگیا تو وہاں چیف جسٹس محمد منیر کمانڈر انچیف سے کم نہ نکلے اور حکمران ٹولے کے حق میں فیصلہ کرکے من مانی کو جائز قرار دے دیا۔ امریکی محقق ایلن میگراتھ اپنی کتاب Destruction of Democracy میں لکھتا ہے کہ نہ تو پاکستان کے عوام تعلیم کی کمی کی بنا پر اور نہ ہی سیاستدان مبینہ بدنظمی اور کرپشن کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت کے خاتمے کے ذمہ دار تھے۔ اس کی ذمہ داری اسکندر مرزا، غلام محمد اور جسٹس منیر پر عائد ہوتی ہے جس نے آمرانہ سرگرمیوں کے لیے آئینی جواز فراہم کیا۔ فیڈرل کورٹ کے فیصلے کے بعد دوسری دستور ساز اسمبلی منتخب کی گئی۔ اسی دوران میں گورنر جنرل غلام محمد کی صحت بگڑ گئی تو اسکندر مرزا نے ایک سیاسی چال چل کر ان سے استعفا لے لیا اور خود گورنر جنرل بن کر چوہدری محمدعلی کو، جنہوں نے غلام محمد کو مستعفی ہونے پر راضی کیا تھا، بطور انعام وزیراعظم بنادیا۔ عائشہ جلال کہتی ہیں کہ برطانوی ہائی کمشنر نے چوہدری محمد علی کی نامزدگی کو Deplorable departure from the established parliamentary norms یعنی مسلمہ پارلیمانی روایات سے افسوسناک انحراف قرار دیا تھا۔ چوہدری محمد علی نے نئے آئین میں اسلام پر زور دینے کی کوششیں شروع کیں تو اسکندر مرزا نے ۱۹۵۵ء میں نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے فوجی فکر وفلسفہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا کھلا اظہار کیا اور کہاکہ We cannot run wild on Islam, it is Pakistan first and Pakistan last. (ہم اسلام کے بارے میں جنونی نہیں بن سکتے۔ اول وآخر پاکستان ہی کو اہمیت حاصل ہے) تاہم نیا آئین منظور ہونے کے بعد بھی گورنر جنرل اس پر دستخط کرنے کے لیے تیار نہ تھے اور اس وقت تک ٹال مٹول سے کام لیتے رہے جب تک انہیں یہ یقین دہانی نہ کرائی گئی کہ وہی پہلے صدر مملکت ہوں گے۔ دو جنرل مطلق اقتدار کی طرف ایک دوسرے کا سہارا لے کر بڑھ رہے تھے کہ میجر جنرل اسکندر مرزا نے گورنر جنرل سے صدارت تک کی ترقی میں نئے گُر سیکھ لیے۔ اسی تجربے کی روشنی میں انہوں نے وزراے اعظم کو اس تیزی سے بھگتانا شروع کیا کہ اگر وہ چند ماہ مزید یہ جنگی مشقیں جاری رکھتے تو ملک کا کوئی قابل ذکر سیاستدان نہ رہ جاتا جو پاکستان کا سابق وزیراعظم نہ رہ چکا ہوتا۔ ٹوٹتی بنتی حکومتوں سے عوام تنگ آ گئے اور نئے انتخابات کا مطالبہ شروع ہوگیا۔ وہ انتخابات جو ۱۹۵۷ء میں متوقع تھے، ان کو مارچ ۱۹۵۹ء تک ملتوی کیا جاتا رہا۔ خان عبدالقیوم خاں کے مطابق مرکزی حکومت نے محض ایمپلائمنٹ ایکسچینج کی شکل اختیار کرلی تھی جو بیروزگار سیاستدانوں کو روزگار فراہم کرتا تھا۔ انتخابات سے خائف اسکندر مرزا نے ایوب خان سے مل کر جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا منصوبہ تیار کیا۔ برطانوی ہائی کمشنر کراچی آر ڈبلیو ڈی فلاور نے ۲۱؍مئی ۱۹۵۸ کو لندن خط بھجوایا کہ اسکندر مرزا کچھ عرصہ تک اقتدار اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے او ریہ خیال اس کے ذہن میں اس وقت آیا جب دسمبر ۱۹۵۷ء میں چندریگر حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اس سازش میں شریک ہونے کے باوجود ایوب خان نے یہ کوشش کی کہ دیکھنے والوں کو یہی تاثر ملے کہ یہ اسکندر مرزا کا ذاتی فعل ہے۔ احتیاط پسند ایوب نہیں چاہتا تھا کہ اس پر آئین کی خلاف ورزی کا الزام عائد ہو۔ شاید وہ یہ گنجائش بھی باقی رکھنا چاہتا تھا کہ اگر منصوبہ ناکام ہو جائے تو اسکندر مرزا کے اقدام کو ناجائز قرار دے کر فوج کی مدد سے امن عامہ بحال کر دے۔ وہ اچھی طرح سمجھتا تھا کہ منصوبے کی کامیابی کی صورت میں اسکندر مرزا اپنی آئینی حیثیت کھو بیٹھیں گے، لہٰذا ان سے چھٹکارا مشکل نہیں ہوگا۔ 
ان دنوں یہ خیال بھی تھا کہ سیاسی و معاشی بدحالی فوج کے اجتماعی اداراتی مفاد کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ جون ۱۹۵۸ میں آرڈیننس کے ذریعے سے ایسے بیانات و اقدامات پر پابندی لگا دی گئی جو فوج کے لیے نقصان دہ ہوں۔ ایوب نے انہی دنوں ملک بھر کا دورہ کرکے مقامی کمانڈرز سے ملاقاتیں کیں۔ بدقسمتی سے ستمبر ۱۹۵۸ء میں مشرقی پاکستان اسمبلی میں اجلاس کے دوران میں ڈپٹی سپیکر شاہد علی خاں کرسی لگنے سے دم توڑ گئے۔ یہ اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ اس واقعہ کے بعد ایوب نے چیف آف جنرل سٹاف کو سول انتظامیہ سے اختیارات لینے کے لیے منصوبہ تیار کرنے کا حکم دیا۔ کئی اور عوامل بھی کارفرما تھے، تاہم ۳؍اکتوبر کو فوج کا اقتدارسنبھالنے کا منصوبہ تیار تھا۔ صرف ایوب، اسکندر مرزا اور امریکی سفیر James Langley اس منصوبے سے آگاہ تھے۔ اسی سفیر نے اسکندر مرزا کو کہا تھا کہ وہ تمام اختیارات حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بنائے، فوج اس کی حمایت کرے گی اور اگر اسکندر نے ایسا نہ کیا تو ایوب خان قدم اٹھائیں گے۔ اےئر فورس اور نیوی کے کمانڈرز انچیف کو تمام انتظامات مکمل کرنے کے بعد مطلع کیاگیا۔ وزیراعظم فیروز خاں نون کو اس منصوبے کے بارے میں تب پتہ چلا جب اسے صدر کی طرف سے ایک خط موصول ہوا۔ زیادہ تر سیاستدانوں کو صبح کے اخبارات سے تبدیلی کا علم ہوا۔ 
ایوب خان نے جب یہ دیکھا کہ اس کے کندھے پر بندوق رکھ کر نوکرشاہی حکومت کر رہی ہے اور یہ جان لیا کہ اقتدار تو بندوق کی نالی کے نیچے ہے تو اس نے اقتدار پر خود قبضہ کرلیا۔ درحقیقت پہلے عشرے میں سیاستدانوں نے بیوروکریٹس کے اشاروں پر ذاتی اقتدار کے لیے جمہوری اصولوں کو پامال کیا اور جنرل ایوب نے بیورو کریٹس کی حوصلہ افزائی کرکے جمہوریت کو جڑ پکڑنے کا موقع ہی نہ دیا۔ جب تک سول حکومت کی پشت پر عوام ہوں گے، فوج اپنے پورے جاہ و جلال اور اسلحہ کے ہوتے ہوئے بھی حکومت کے احکام بجا لاتی رہے گی مگر جب حکومتیں عوامی تائید سے محروم ہو جائیں تو پھر فوج اور اس کے اسلحے کی بن آتی ہے اور فوج آسانی سے غیر مقبول حکومتوں کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں پہلے عشرے میں عوامی حکومت قائم ہی نہ ہونے دی گئی۔ سیاسی انتشار کے باعث فوج سول معاملات میں الجھ گئی۔ مجبور حکومتوں کو سنگین فطری یا انسان کی پیداکردہ آفات کے مواقع پر جو پاکستان میں بڑھتے ہی چلے گئے، فوج کو باربار مدد کے لیے طلب کرنا پڑا حتیٰ کہ فوجی افسران نے سیاستدانوں کو امن وامان کی ذمہ داریاں سنبھالنے ہی نہ دیں کیونکہ انہیں سیاستدانوں پر قطعی اعتماد نہ تھا۔ تاریخ کا یہ اہم سبق ہے کہ اگر آپ ڈنڈا بار بار استعمال کریں گے تو ڈنڈا خود اقتدار سنبھال لے گا۔ یہ ہمیشہ سے ڈنڈے کی تاریخ رہی ہے۔ 
نامراد لوگ ڈنڈے اور ڈسپلن کو ہی کامیابی سمجھ کر اپنی آزادی اس کے پاس گروی رکھ دیتے ہیں۔ سیاسی راہنماؤں کی لغزشوں اور سول ملٹری بیوروکریٹس کی بداعمالیوں کے نتیجے میں جمہوریت کا بوریا بستر گول ہوا تو عوام نے بھی اسے جی آیاں نوں کہا۔ ممتاز ماہر عمرانیات ایرک فروم نے درست کہا ہے کہ آزادی کا حصول اور اس کے بعد اس کو قائم رکھنا ایک دشوار اور کشمکش سے بھرپور عمل ہے۔ بعض لوگ اور بعض گروہ یا قومیں اس سے گھبرا کر اپنی آزادی اپنی رضا سے ایک شخص یا ایک جماعت کے حوالے کر دیتے ہیں، اس طرح انہیں فیصلہ کرنے کی زحمت سے نجات مل جاتی ہے اور وہ حکم ماننے میں ایک گونہ سکون محسوس کرتے ہیں۔ اکتوبر ۱۹۵۸ میں پاکستانی قوم نے بھی اقتدار واختیار فرد واحد کو سونپ کر خود فریبی کی راہ اختیار کرلی تھی اور اسی خود فریبی کی سزا وہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ تاریخ کا سبق اور حالات کا تقاضا ہے کہ ہم قومی فلاح ، ملکی بقا اور سیاسی و معاشی استحکام کے لیے ملک کے سیاسی نظام کو اس جونک سے آزاد کرانے کے لیے اجتماعی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور ڈیل اور ڈھیل کی سیاست کرنے کے بجائے سیاسی اداروں اور عوامی قیادت کی بالادستی کے اصول کو مشعل راہ بناکر سیاست کریں۔ یہی بانی پاکستان کی جدوجہد کی حقیقی منزل ہے۔ فوج کے سیاسی کردار کا خاتمہ ہی قائد اعظم کے جمہوری اور فلاحی پاکستان کی بنیاد بنے گا۔ 

علماء ججوں کے ایک فیصلے کا تقابلی جائزہ

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

برا ہمسایہ کتنا بڑا عذاب ہوتا ہے، اس کا تجربہ محلوں اور آبادیوں میں رہنے والوں کو آئے دن ہوتا رہتا ہے۔ ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں بخاری اور مسلم میں حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ: 
قال ما زال جبرئیل یوصینی بالجار حتی ظننت انہ سیورثہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ جبریل، پڑوسی کے حق کے بارے میں مجھے برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں خیال کرنے لگا کہ وہ اس کو وارث قرار دے دیں گے۔‘‘
اسلام میں شفعہ کے حق کی بنیاد جائیداد کے ساتھ الحاق اور ہمسایگی پر رکھی گئی ہے۔ رواج کی بنیاد پر شفعہ کے حق کو بیع اور معاہدے کی آزادی پر ایک پابندی خیال کرتے ہوئے کمزور حق قرار دیا جاتا تھا۔ جب شفعہ کے قانون کو اسلامی احکامات کے مطابق بنانے کا سوال اٹھا تو یہاں بھی اسے کمزور حق کے طور پر ہی زیر بحث لایا گیا۔ لہٰذا اسے مسدود کرنے کے لیے ایسے قانونی شکنجے تیار کیے گئے جن سے یہ حق عملاً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ ہمسایگی کے حقوق میں سے ایک حق شفعہ بھی ہے۔ اسے کمزور حق گرداننا قرآن و سنت کی واضح تعلیمات کے خلاف ہے۔ قانون شفعہ کو اسلامائز کرتے ہوئے اس قریب الوراثت حق کو کمزور کرنے کے لیے علما ججوں (مولانا جسٹس محمد تقی عثمانی او جسٹس پیر کرم شاہ) نے جو ’’خدمت‘‘ انجام دی، وہ کوئی جج شاید انجام نہ دے سکتا۔ یہ سب کچھ اسلامائزیشن کے نام پر ہوا۔ قانون شفعہ کی ایک دفعہ کو موضوع گفتگو بناتے ہوئے ہم دیگر دفعات کی بحث کو سر دست الگ رکھتے ہیں۔ یہ دفعہ ۱۲ ہے۔ سب سے پہلے اس دفعہ کا انگریزی متن ملاحظہ فرمائیں:
Right to revoke sale:- Where the vendor has stipulated in the contract of sale that it is subject to revocation by him within a period, not exceeding sixty days, specified in such contract, the right of pre-emption shall not be exercised until such period has expired." 
''معاہدہ بیع کی تنسیخ کا حق-: جب کوئی بائع بیع کے معاہدہ کو، منسوخی بیع کے حق سے مشروط کردے تو اس حق کے استعمال کے لیے رکھی گئی میعاد کے اندر حق شفعہ بروئے کار نہیں لایا جا سکے گا۔ البتہ بیع منسوخ کرنے کی شرط کے لیے میعاد ساٹھ دن سے زیادہ نہیں ہو گی۔''
اس دفعہ میں بیع منسوخ کرنے کا حق اور اس کے لیے ساٹھ دن کی میعاد کی شرعی حیثیت کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا گیا۔ فقہ کی اصطلاع میں اس حق کو خیار شرط کہا جاتا ہے۔ عدالت میں اس شرط کی شرعی حیثیت پر سیر حاصل بحث نہیں ہوئی، البتہ شرط کے لیے دو ماہ کی میعاد پر مفصل بحث ہوئی۔ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس جناب تنزیل الرحمن نے بحث کو سمیٹتے ہوئے اپنی کتاب ’’مجموعہ قوانین اسلام‘‘ کی جلد ۶، صفحہ ۲۰۳۲ سے درج ذیل اقتباس نقل کیا ہے: 
’’خیار شرط میں تین دن کی تعیین نصاً ثابت ہے، جس کے سبب امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ اس کی تعیین تین یوم کرتے ہیں۔ عام فقہا کا بھی یہی مسلک بیان کیا جاتا ہے، البتہ صاحبین امام ابو یوسف و محمد رحمہما اللہ تعالیٰ کا اس سلسلے میں اختلاف ہے۔ ان کے نزدیک حبان ابن منقذ الانصاری سے مروی حدیث مرفوع میں تین یوم کا ذکر اتفاقاً آیا ہے۔ چنانچہ صاحبین اپنے قول کی بنیاد ابن عمر کے قول (حدیث موقوف) پر رکھتے ہیں جس میں ابن عمر نے مدت کی تعین دو ماہ تک فرمائی اور اس مدت کے انقضا پر خیار شرط کی اجازت دی۔ راقم الحروف کے نزدیک بیع کا خیار شرط کے تعلق سے زیادہ دنوں معلق رہنا تمدنی تقاضوں کے لحاظ سے بھی مناسب نہیں معلوم ہوتا، لہٰذا تین یوم کی مدت نصاً ثابت قرار دی جانی چاہیے۔‘‘
اس کے مطابق وفاقی شرعی عدالت نے اس دفعہ میں خیار شرط میں تین دن سے زائد میعاد کو خلاف شریعت قرار دیا۔ فیصلہ کی تفصیل کے لیے پی ایل ڈی ۱۹۹۱ ایف ایس سی ۸۰ بر صفحہ ۱۰۲ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل ہوئی۔ اپیل کا فیصلہ شریعت اپیلیٹ بنچ کے فل بنچ نے کیا۔ اس بنچ میں پانچ جج شامل تھے۔ یہ فیصلہ پی ایل جے ۱۹۹۴ سپریم کورٹ ۲۲۱پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی نے فیصلہ لکھتے ہوئے خیار شرط کے لیے میعاد کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے لیے ساٹھ دن کی میعاد کو شریعت کے مطابق قرار دیا اور اس بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو منسوخ کر دیا۔
وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے اپیلیٹ بنچ کے فیصلوں میں، زیر بحث مسئلے سے متعلق حدیث کا متن نقل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ یہ حدیث حبان بن منقذ انصاری کی ہے۔ ہمارے نزدیک مسئلے کی نوعیت واضح کرنے کے لیے حدیث کا متن سامنے رکھنا بے حد ضروری ہے۔ ہم اس کا متن درج کر کے کلام کریں گے۔
عن محمد بن یحیی بن حبان قال ھو جدی منقذ بن عمرو کان رجلا قد اصابتہ آمۃ فی راسہ فکسرت لسانہ وکان لا یدع علی ذالک التجارۃ وکان لا یزال یغبن فاتی النبی فذکر ذالک لہ فقال لہ اذا انت بایعت فقل لا خلا بۃ ثم انت فی کل سلعۃ ابتعتھا بالخیار ثلاث لیال فان رضیت فامسک وان سخطت فارددھا علی صاحبھا (سنن ابن ماجہ ج ۲،ص۷۸۹، حدیث نمبر ۲۳۵۵)
’’منقذ بن عمرو کے سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے زبان متاثر ہو گئی تھی لیکن وہ اس کے باوجود خرید و فروخت سے باز نہیں آتے تھے اور مسلسل دھوکہ کھاتے تھے۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو یہ بات بتائی۔ آپ نے ان سے کہا کہ جب تم سودا کیا کرو تو کہا کرو کہ دھوکہ نہیں چلے گا۔ پھر تمہیں ہر خریدے ہوئے سودے میں تین دن تک اختیار ہوگا۔ اگر تمہیں پسند آئے تو رکھ لو اور اگر پسند نہ ہو تو بائع کو واپس کر دو۔‘‘
حدیث کا متن بہت واضح ہے۔ ایک خاص شخص کو، اس کی معذوری کی بنا پر،خیار شرط کی اجازت دی گئی۔ یہ ایک استثنائی صورت تھی۔ اس کے لیے بھی تین دن کی میعاد رکھی گئی۔ اس اجازت کو عام اصول کے طور پر اختیار کر کے باقاعدہ قانون بنانے کی گنجائش کس طرح نکل سکتی ہے؟ پھر حدیث میں، مخصوص حالات میں سودے کو منسوخ کرنے کے لیے تین دن کی میعاد رکھی گئی ہے۔ امام ابو حنیفہ،امام شافعی اور دیگر فقہا بھی تین دن کی میعاد کے ہی قائل ہیں۔ اسے ساٹھ دن تک کھینچ لے جانے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا اس سے معاملات میں غیر یقینی پن کی راہ نہیں کھلتی؟ جسٹس تنزیل الرحمن صاحب کا یہ کہنا کہ نص سے ثابت شدہ میعاد سے زائد میعاد تمدنی تقاضوں کے مطابق معلوم نہیں ہوتی، اس دلیل کا کیا جواب ہے؟ سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ کے فیصلے میں مولانا تقی عثمانی صاحب نے جسٹس تنزیل الرحمن کے بیان کردہ دلائل پر قریب قریب سکوت ہی اختیار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں یہ لکھا ہے کہ قرآن کی کسی آیت اور حدیث میں تین دن سے زائد میعاد کی ممانعت نہیں، لہٰذا دو ماہ کی میعاد درست ہے۔ سوال یہ ہے کہ متعلقہ حدیث جو اس مسئلے کے ہر پہلو پر جامع ہے، اس کے متن سے باہر دو ماہ کی میعاد کی ممانعت کیسے تلاش کی جا سکتی ہے؟ متعلقہ حدیث میں درج میعاد کو نظر انداز کرنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے قول کا حوالہ دیا جاتا ہے مگر اس حوالے کے ساتھ کوئی استدلال موجود نہیں۔ اسلامی تعلیمات میں معاملہ طے کرنے کے ساتھ اسے لکھنے کا ترجیحی حکم قرآن مجید میں موجود ہے۔ معاہدوں کی پابندی پر زور تو اسلام کے ساتھ ہی مخصوص نہیں، انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ حدیث کے واضح الفاظ سے ہٹ کر قانون کی تعبیر و تشریح، ہمارے ہاں رائج اصول تعبیر سے بہر حال تجاوز ہے۔ اس سے محدود فقہی سوچ کو راہ مل سکتی ہے مگر مملکت کے دستور اور عدالتوں کی جانب سے اختیار کردہ اصول تعبیر و تشریح میں اس کی کوئی گنجائش مشکل ہی سے نظر آتی ہے۔
قانون شفعہ کی دفعہ نمبر ۳ کے الفاظ یہ ہیں: 
Interpretation:- In interpretation of the provisions of this Act, the court shall seek guidance from the Holy Qur'an and Sunnah. 
’’اس قانون کی تشریح اور اطلاق میں عدالت، قرآن اور سنت سے رہنمائی لے گی۔ ‘‘
در اصل ہمارے ہاں عدالتوں میں بالعموم موثر اور طاقت ور طبقات کی خدمت کے نقطہ نظر سے فیصلے دینے کا رجحان کافی مضبوط ہے۔ اس رجحان کے تحت ہی شفعہ جیسے مضبوط حق کو کمزور حق تعبیر کرتے ہوئے مسدود کرنے کے لیے کئی فیصلے کیے گئے ہیں۔ اس کی پوری ایک تاریخ ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھی کے مکتب کی رائے تو پورے فقہی ذخیرے کے بارے میں اسی قسم کی ہے۔ ایک حوالہ بطور نمونہ پیش خدمت ہے:
’’افسوس ہے کہ ہمارے علما اورمفسرین نے بھی عوام کے متعلق یہی رویہ اختیار کیا اور ساری مسلم تاریخ ملوکیت کے استبداد، جاگیر داروں کے استحصالِ محنت اور ان طبقوں کے مفاد کی حمایت کرنے والے اسلام پسند اور دوسرے دانشوروں کی کی آئینہ دار ہے۔ ‘‘ (اسلامی انقلاب کا عہد نامہ، از الطاف جاوید)
ہمارے ملک میں ہندو رواج اور شریعت کے ملے جلے رجحانات کی بنا پر شفعہ کا قانون، ۱۹۱۳ء سے رائج تھا۔ ۱۹۷۲ء میں بھٹو صاحب نے مارشل لا ریگو لیشن نمبر ۱۱۵ کے پیرا گراف نمبر ۲۵ کی رو سے مزارع کو فائق ترین حق شفعہ دیا۔ ظاہر ہے، یہ حق جاگیر داری اور زمینداری سے مغلوب ماحول میں کیسے ہضم ہو سکتا تھا۔ چنانچہ سید کمال کے کیس میں مزارع کے حق شفعہ کے ساتھ کم و بیش پورے قانون شفعہ کی شرعی حیثیت کو چیلنج کیا گیا۔ اس طرح مزارع اور رشتے داری کی بنیاد پر حاصل حق شفعہ کو خلاف شریعت قرار دیا گیا۔ 
ہم یہاں متعلقہ فیصلوں کے بارے میں اظہار خیال نہیں کرنا چاہتے، مگر صوبائی حکومتوں کے طرز عمل کا ذکر کر کے یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ موثر طبقات کس طرح اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس بارے میں حکومت پنجاب کا ذکر بطور خاص اہم ہے۔ میاں نواز شریف اس زمانے میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ لاہور کے نواح میں میاں نواز شریف اراضی کی بڑی بڑی خریداریاں کر رہے تھے۔ شفعہ کے حق سے ان کو تحفظ کی ضرورت تھی۔ چنانچہ انہوں نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے کس طرح فائدہ اٹھایا، اس کا اندازہ حالات کے سرسری تذکرے ہی سے ہو جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے مروجہ قانون شفعہ کو خلاف شریعت قرار دیتے ہوئے ۳۱ جولائی ۱۹۸۶ء تک اسے شریعت کے مطابق بنانے کی ہدایت کی۔ بصورت دیگر، رائج قانون غیر موثر ہو جانا تھا۔ حکومت پنجاب نے ۱۹۸۶ء سے ۱۹۹۱ء تک شفعہ کے بارے میں کوئی قانون نہ بنایا۔ میاں نواز شریف کی جانب سے اراضی کی خریداریوں کا سلسلہ تیزی سے جاری رہا۔ ان خریداریوں کو شفعہ سے تحفظ دینے کی یہ بہترین صورت تھی کہ قانون میں خلا رہنے دیا جائے۔ چنانچہ قانون سازی میں قریباً پانچ سال کا خلا قائم رکھا گیا۔ اس دوران میں قانون نہ بنانے کے مسئلے پر احتجاج ہوا، مگر پنجاب کی حکومت نے اس کی پروا نہ کی۔ 
حقوق کا خاتمہ اور اسے مسدود کرنے کی کوششوں میں اجتہادی کاوشوں کا ممد و معاون ہونا کچھ لوگوں کے نزدیک قابل تحسین ہو گا، مگر حکومت پنجاب کا طرز عمل کس قدر مفاد پرستانہ اور مجرمانہ رہا، وہ بالکل واضح ہے۔ ارباب عدالت و شریعت کو اس صورت حال کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں کا کچھ بھی شعور و احساس ہوتا تو لوگوں کی اس طرح حق تلفی نہ ہونے دیتے۔ قانون میں خلا کی کبھی گنجائش نہیں ہوتی۔ عدالتی نظائر اس کے سد باب کے لیے بہت واضح ہیں۔ اگر ہمارے علما جج اس اصول کو بروئے کار لاتے تو لوگ حقوق سے محروم نہ ہوتے۔ قانون کے خلا کی صورت میں قانون عامہ اسے پر کرتا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل ایسی صورت میں برطانوی قانون عامہ کو اختیار کیا جاتا تھا، مگر الٰہ آباد کے جسٹس محمود اس وقت بھی اسے اسلامی تعلیمات سے پر کرنے کے لیے واضح موقف رکھتے تھے، چنانچہ انہوں نے کوئین ایمپریس بنام پوہپی وغیرہ (۱۸۹۱، الٰہ آباد ۱۷۱) میں باقی ججوں سے اختلافی فیصلہ لکھا۔
تقسیم کے بعد تو ہمارے ہاں قانون کے خلا کو اسلامی تعلیمات سے پر کرنے میں کوئی رکاوٹ ہی نہیں تھی۔ چنانچہ جسٹس محمد افضل ظلہ نے نظام خان بنام سرکار کے کیس میں بڑی سیر حاصل بحث کر کے اس اصول کو واضح کیا ہے۔ موصوف اس وقت لاہور ہائیکورٹ کے جج تھے۔ ان کا یہ فیصلہ پی ایل جے ۱۹۷۶ء لاہور کے صفحہ نمبر ۵۹۰ پر دیکھا جا سکتا ہے۔
جناب جسٹس ظلہ صاحب نے اپنے فیصلے میں کم و بیش ایک سو سال کے کیسوں کے پورے سلسلے کو تسبیح کی طرح پرو کر بنیادی اصول اخذ کیا ہے۔ کاش ہمارے علما جج صاحبان نے جسٹس افضل ظلہ صاحب کے اس فیصلے سے استفادہ کیا ہوتا۔ اگر ایسا ہوتاتو شاید لوگوں کی محرومی دور کرنے کی کوئی صورت پیدا ہو سکتی۔ جسٹس ظلہ صاحب کا فیصلہ انتہائی فاضلانہ ہے ۔ معلوم نہیں، علما جج دوسرے ججوں کے فیصلے پڑھنا اپنی شان کے خلاف نہ سمجھتے ہوں۔ ویسے بھی کئی بار ایسا ہوا کہ ہمارے بعض علما نے پڑھے بغیر ہی بڑی بڑی دستاویزات کی تائید کر دی۔ اس میں سترھویں آئینی ترمیم اور حدود کے سلسلہ مذاکرات میں علما کمیٹی کا سمجھوتہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اس سمجھوتے کی تفصیلات جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب نے بیان فرمائی ہیں۔ ان کے مطابق علما و فقہاے اسلام جمع ہوئے مگر حضرت جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی صاحب بیرون ملک دورہ پر تھے۔ علماے کرام نے ان کے بغیر رائے دینے سے معذرت کر دی۔ عثمانی صاحب کا انتظار ہوا، وہ تشریف لائے تو سمجھوتے پر دستخط ہو گئے۔ سمجھوتے کی شق نمبر ۲ کی زبان اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ اسے پڑھے بغیر دستخط کیے گئے۔ یہ شق حسب ذیل ہے:
’’۲۔ حدود آرڈنینس میں زنا موجب تعزیر کی بجائے فحاشی کے عنوان سے ایک نئی دفعہ کا تعزیرات پاکستان (PPC) میں اضافہ کیا جائے گا، جس کا متن درج ذیل ہے:
A man and a woman are said to commit lewdness if they willfully have sexual intercourse with one another without being married, and shall be punished with imprisonment which may extend to five years, shall be liable to fine. 
متن کے بارے میں عجیب و غریب صورت حال ہے۔ مجوزہ دفعہ کا یہ متن ’الشریعہ‘ میں شائع شدہ رپورٹ، معارف اسلامی کے شائع کردہ کتابچے اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کی کتاب’’حدود آرڈیننس اور تحفظ نسواں بل‘‘ میں اسی طرح درج ہے۔ سمجھوتے کی فوٹو کاپی میرے سامنے ہے۔ اس میں بھی متن میں کوئی فرق نہیں۔ کاپی کے آخر پر علماے کرام کے دستخط بھی ہیں۔ اب دفعہ کے دو سطری مسودے میں زبان کی واضح غلطی ہے۔ لفظ being married اور shall be کے درمیان لفظ and زائد ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسودے پر پڑھے بغیر دستخط کیے گئے۔ اگر اسے پڑھا جاتا تو اس بدیہی غلطی کو درست کرا لیا جاتا۔ سمجھوتے کے مسودے کے اردو حصے کے بارے میں مولانا زاہد الراشدی صاحب کا کہنا ہے کہ وہ ان کا لکھا ہوا ہے۔ اس میں شامل انگریزی سطورکے بارے میں یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ چوہدری شجاعت یا جناب وصی ظفر صاحب کی لکھی ہوئی ہوں گی۔ بہرحال مسودے کی دوسری جگہ رپورٹس میں زبان کی یہ غلطی موجود نہیں۔ 
سمجھوتے کا موثر حصہ پانچ سطروں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے دو سطریں اردو اور دو انگریزی میں ہیں۔ انگریزی سطریں سادہ زبان میں ہیں۔ ان میں کوئی فنی اور مشکل زبان بھی نہیں۔ اب انتہائی فضیلت رکھنے والے علما نے جن انگریزی سطور والی شق کو سمجھوتے کے طور پر قبول کیا ہے، ان کے بارے میں یہ گمان تو نہیں کیا جا سکتا کہ وہ زنا بالرضا کو محض فحاشی قرار دے کر اسے پانچ سال کی تعزیر کے تحت لانے پر متفق ہو رہے تھے، مگر یہ گمان کرنا کہ وہ sexual intercourse کا مطلب نہیں سمجھ سکے، بڑا مشکل ہے۔ مگر ان کی یہ بہت بڑی پھسلن ہے۔ اتنے بڑے مرتبے کے لوگوں کی پھسلن ہی تھی کہ خورشید ندیم صاحب کو یہ لکھنے کی جسارت ہوئی کہ شادی کے بغیر رضامندی کے ساتھ جنسی عمل اگر زنا نہیں اور محض فحاشی ہے تو علماے کرام وضاحت کریں کہ زنا کیا ہوتا ہے۔ بہرحال اگر علما جج صاحبان اس خوش گمانی کی اجازت دیں کہ وہ دیگر ججوں کے فیصلوں کو پڑھنے کا ذوق رکھتے ہیں تو جسٹس محمد افضل ظلہ جیسے ججوں کے فیصلوں کو پڑھیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں ایسے فیصلوں کو لا جرنلز سے منتخب کر کے اردو میں منتقل کر کے دینی حلقوں کے لیے پیش کروں تاکہ ان کو اندازہ ہو سکے کہ اجتہادی ضروریات کیا ہوتی ہیں۔
مگر مشکل یہ ہے کہ علما عدالت میں جج ہوں یا ایوان اقتدار میں کسی درجہ میں شریک ہو جائیں تو وہ اسے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک انعام خیال کرتے ہیں۔ وہ اسے ایک بھاری ذمہ داری خیال کرنے پر آمادہ نہیں۔ اس میں حکومت کا منشا جس قدر پورا کرنا ممکن ہو، اس کے لیے کوشش کی جاتی ہے۔علما کمیٹی کے مذاکرات، سترہویں آئینی ترمیم کے موقع پر واضح طور پر ایسا ہی ہوا۔ اس کے علاوہ سود کے کیس میں حکومت کی جانب سے نظر ثانی کی درخواست پر جو کچھ ہوا، اس کا میں خود تذکرہ کرنے کے بجائے سود کے خلاف فیصلہ دینے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس وجیہ الدین کا بیان نقل کر دینا کافی خیال کرتا ہوں:
’’ربا کے فیصلہ میں حکم یہ تھا کہ آخر جون ۲۰۰۱ء تک سودی نظام ختم کر دیا جائے۔ اس کے باوجود کہ حکومت نے ڈیڑھ پونے دو سال بغیر کچھ کیے گزار دیے تھے، موجودہ جج صاحبان جن میں مولوی تقی عثمانی بھی شامل تھے، کے سامنے جب نظر ثانی کی درخواست لگی، تو انہوں نے ایک سال کا وقت اور دے دیا، یعنی ۳۰ جون ۲۰۰۲ء تک۔ اس وقت کے اخبارات میں ان کے جو آبزرویشن آئے، وہ یہ تھے کہ جی ہم مسلمان ہیں، ہم سود کے حق میں فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں، زیادہ سے زیادہ ہم آپ کو تھوڑا سا ٹائم دے سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ پھر انہوں نے اطمینان سے سال بھر کا وقت دے دیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ نظر ثانی کی درخواست کو خارج تک نہیں کیا۔ اس کو التوا میں رکھا۔‘‘ (میزان، صفحہ نمبر ۱۷۰)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈیڑھ سال کی دی ہوئی میعاد کے اندر عدالت کے حکم کی تعمیل میں کچھ بھی نہ کرنے کے بعد میعاد کس جواز پر مانگی جا سکتی تھی اور کس بنیاد پر یہ میعاد دی جا سکتی تھی؟ اس بارے میں مولانا تقی عثمانی صاحب کی عنایت خسروانہ کیا ایک نہایت فاضل عالم اور اسی علم و فضل کے ناتے سے سپریم کورٹ تک پہنچنے والے جج کے شایان شان ہے؟ گیارہ سال کی طویل عدالتی معرکہ آرائی کے بعد ایک فیصلہ آتا ہے۔ اس کے بعد بھی ڈیڑھ سال میعاد دی جاتی ہے۔ سماعت کے گیارہ سال کے عرصہ میں اگر حکومت چاہتی تو سودی نظام کے متبادل نظام لانے کے اقدامات کر سکتی تھی۔ نظریاتی کونسل اس بارے میں عدالت میں کیس آنے سے پہلے بھی اپنی سفارشات پیش کر چکی تھی۔ ضیا ء الحق کے دور میں پروفیسر خورشید احمد نے بطور چیئر مین اقتصادی پلاننگ کمیشن اچھا خاصا کام کیا تھا۔ اس کے بعد سال بھر کی نئی میعاد، درخواست نظر ثانی کو نمٹائے بغیر دے دینا کتنے بڑے اجر و ثواب کاباعث ہوا، اس کا حساب تو آخر کار ہو گا۔
ججوں کی ذمہ داری حکومتوں کو ان کی کوتاہیوں اور غیر ذمہ داریوں میں رعایت اور سہولت دینے کی نہیں، بلکہ کوتاہیوں اور غیر ذمہ دارانہ رویوں کو چیک کرنے کی ہے۔ وہ مملکت کے آئین اور نظریے کے محافظ ہیں۔ اس حیثیت سے ان کو اپنی صلاحیتوں اور بصیرتوں سے بھر پور کام لینا چاہیے۔ اس سلسلے میں جناب جسٹس ظلہ صاحب کے ایک دو فیصلوں کا کچھ تذکرہ موقع کی مناسبت سے کرنا چاہتاہوں۔ 
قانون کے خلا کی تکمیل میں قرآن و سنت کے احکام کو موثر کرنے کا کام قصاص و دیت کے حوالے سے ظلہ صاحب نے کمال طور پر انجام دیا۔ اس میں اس وقت کے حکمرانوں کی، اسلامی احکامات سے فرار کی تمام چال بازیاں ناکام ہو گئیں۔ اس کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ تعزیرات پاکستان میں قتل و جرح سے متعلقہ دفعات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ان کو قرآن و سنت کے خلاف قرار دیتے ہوئے قصاص و دیت کے احکامات کی پوری طرح وضاحت کر دی گئی۔ مثبت طور پر قانون سازی کے لیے حکومت کو ایک میعاد دی گئی۔ میعاد میں توسیع اور عدالتی حکم پر نظر ثانی کی کئی درخواستوں کے ذریعے سے حکومت نے قانون سازی کے بجائے وقت گزاری سے کام لیا۔ ایک مرحلہ پر حکومت نے قصاص و دیت آرڈیننس جاری کیا، مگر اسے پارلیمنٹ سے منظور نہ کرایا۔ اس طرح وہ ساقط ہو گیا۔ عدالت کو مطمئن کرنے کے لیے آرڈنینس کے بار بار کے اجرا کے بعد اسے غیر موثر ہونے دیا گیا۔ آخر کار ظلہ صاحب نے اپنے فیصلے میں قطعی طور پر یہ قرار دیا کہ مزید دی ہوئی میعاد میں اگر موثر قانون نہ بنایا گیا یا آرڈنینس جاری کیا گیا مگر اسے پارلیمنٹ سے عدم منظوری کی بنا پر غیر موثر ہونے دیا گیا تو قصاص و دیت کے بارے میں قرآن و سنت میں درج احکامات موثر ہو جائیں گے۔ آرڈنینس ان احکامات کے بارے میں معاون اور رہنما کے طور پر کام آئیں گے۔ ظلہ صاحب کے اس فیصلے سے وفاقی حکومت کی جانب سے مملکت کی اعلیٰ ترین عدالت کے ساتھ مذاق کا کھیل آخر کار انجام کو پہنچا اور قصاص و دیت کے قوانین کو کتاب قانون میں شامل کیا گیا۔
جناب ظلہ صاحب نے اس طرح کے احکامات کئی دوسرے کیسوں میں بھی صادر فرمائے۔ ان میں سے ایک کیس انکم ٹیکس کمشنر بنام سائمن اے جی تھا۔ اس کی رپورٹ پی ایل ڈی ۱۹۹۱، سپریم کورٹ ۳۶۸ پر ہے۔ اس کے صفحہ نمبر ۳۷۲ پر ظلہ صاحب نے لکھا:
’’اس کیس میں اٹھنے والے تمام سوالات قوانین کی تعبیر سے متعلق ہیں۔ نظام خان کے کیس میں لاہور ہائیکورٹ (اوپر حوالہ آ چکا ہے) یہ قرار دے چکی ہے کہ جب تک موجودہ قوانین کو اسلامی احکامات کے مطابق نہیں بنایا جاتا، اس وقت تک عدالتیں مروجہ قوانین کی تشریح، تعبیر اور اطلاق میں اپنی صوابدید کی حد تک اسلامی فلسفے اور اس کے قانون عامہ اور اصول فقہ کے مطابق فیصلہ کریں گی۔ اس فیصلے کو کئی دیگر فوجداری، مالیاتی قوانین سے متعلقہ معاملات میں کنفرم کیا گیا ہے۔ اس کے لیے دستور کا آرٹیکل ۲۲۷ عدالتوں کو مروجہ قوانین کی تعبیر، تشریح اور اطلاق میں قرآن و سنت سے رہنمائی لینے کا پابند بناتا ہے۔‘‘
بہر حال اس اصول کو ایک مسلمہ اصول کے طور پر وسیع پیمانے پر اختیار کیا جانا چاہیے کہ قانون میں خلا کی صورت میں عدالتیں قرآن و سنت کے احکامات کو موثر طور پر نافذ کریں گی۔ تکمیل خلا کا یہ ایک ایسا اصول ہے جس کے بغیر سوسائٹی اپنے تحفظ کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں پا سکتی۔ نظام خان کے کیس سے جسٹس ظلہ کی چند سطور مزید ملاحظہ فرمائیے:
Gaps remain and will always remain, since no one can foresee every way in which wickedness of man may disrupt the order of society,.. must we wait until Parliament finds time to deal with such conduct? I say my Lords that if the common law is powerless in such an event, then we should no longer do her reverence. But I say that her hand is still powerful and that it is for Her Majesty judges to play the part. (PLD 6791 Lah 631)
''خلا رہیں گے، اور ہمیشہ رہیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ آدمی کی بدمعاشانہ ذہنیت معاشرے کے سکون کو برباد کرنے کے لیے کیا کچھ کر سکتی ہے، کوئی بھی پیشگی طور پر اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ کیا ہمیں اس بات کا انتظار کرنا ہو گا کہ پارلیمنٹ فرصت حاصل کر کے صورت حال کے بارے میں قانون بنائے؟ میرا خیال ہے کہ اگر قانون عامہ اس بارے میں بے بس ہے تو ملکہ معظمہ کے جج کسی طرح بے بس نہیں، بلکہ پوری طرح با اختیار اور ذمہ دار ہیں۔‘‘
برطانوی قانون عامہ خلا کی صورت میں بے بس ہو تو جج بے بس نہیں ہوتے، ہمارے جج کیسے بے بس ہو سکتے ہیں؟ خلا کی تکمیل کے لیے قرآن و سنت کی پیروی کا اصول عدالتوں کی جانب سے قانون سازی کا راستہ، صراط مستقیم کی طرح ہے جس کے لیے اللہ تعالی کی مدد اور ہدایت کی دعا ہر مسلمان دن میں پینتیس بار طلب کرتا ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ اس میں فقہ کی روشنی میں قرآن و سنت تک پہنچنے کی کوشش نہ کی جائے۔ یہ یقینی طور پر گھوڑے کو چھکڑے کے پیچھے باندھنے والی بات ہے۔ اس میں ایسا ہو سکتا ہے کہ فقہ کی چکا چوند میں قرآن و سنت تک پہنچنے سے پہلے ہی آنکھیں چندھیا جائیں، جیسا کہ قانون شفعہ کی دفعہ نمبر ۱۲ کی بحث میں ہم واضح کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اصول قانون میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے کہ ضابطے اور قانون، ان کی تعبیر و اطلاق، حقوق دینے کے لیے ہیں، حقوق سے لوگوں کو محروم کرنے کے لیے نہیں۔ یہ دادرسی فراہم کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ دادرسی سے محروم کرنا مقصود ہو تو تمام تر عدالتی اور قانونی نظام لوگوں کے لیے بیکار اور محض ظلم بن جاتا ہے۔
دستور میں شریعت کورٹ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں کسی بھی قانون کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے تو ایک میعاد کے بعد اسے غیر موثر کر سکتی ہے، لیکن عدالتوں کو ظلہ صاحب کے نظائر کی روشنی میں اس امر کا بہر صورت لحاظ رکھنا چاہیے کہ اس طرح پیدا ہونے والا خلا قرآن و سنت کے احکام سے پر ہو۔ ایسا نہ ہو کہ حکومت خلا پر اصرار کرے اور معاشرے کو ظلم کا شکار بننے کے لیے چھوڑ دے۔

غامدی صاحب کے تصور ’فطرت‘ پر اعتراضات کا جائزہ

سید منظور الحسن

’’قرآن اکیڈمی‘‘ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ حافظ محمد زبیر صاحب کے قلم سے جناب جاوید احمد غامدی کی کتاب ’’اصول و مبادی‘‘ کے بعض اصولی تصورات پر تنقید کا سلسلہ گزشتہ کچھ عرصے سے ماہنامہ’ ’الشریعہ‘ ‘ میں جاری ہے۔ ان میں سے بعض مضامین ’’قرآن اکیڈمی‘‘ کی طرف سے ’’فکر غامدی‘‘ کے زیر عنوان ایک مجموعے کی صورت میں بھی شائع کیے گئے ہیں۔ علمی مباحث میں نقد وتنقید کی روایت کا زندہ رہنا بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے زیر بحث تصورات کی تنقیح اور مختلف اطراف کے نقطۂ نظر کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ لہٰذا ہم ’’الشریعہ‘‘ یا بعض دیگر جرائد میں غامدی صاحب کی آرا پر سامنے آنے والی علمی تنقید کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اس حسن ظن کے ساتھ اس ضمن میں اپنی معروضات پیش کر رہے ہیں کہ ناقدین نے خیر خواہی اور اصلاح کے جس جذبے کے ساتھ اپنی تنقیدات پیش کی ہیں، اسی طرح ہماری گزارشات پر بھی غور فرمائیں گے اور اگر ان میں کوئی کمزوری پائیں تو علمی اسلوب میں اس کی نشان دہی کریں گے۔

فطرت کا مفہوم اور اس کی رہنمائی کا دائرہ

حافظ محمد زبیر صاحب کے تنقیدی مضامین پر تبصرے کا آغاز ہم ان کے مضمون ’’غامدی صاحب کے تصور فطرت کا تنقیدی جائزہ‘‘ سے کر رہے ہیں جو’’ الشریعہ‘‘ کے فروری ۲۰۰۷ کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں فاضل ناقد نے جو نکات اٹھائے ہیں، ان کو ایک ترتیب سے زیر بحث لایا جائے تو پہلا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ کیا انسان کی فطرت میں نیکی اور بدی کے مابین فرق کو جاننے کے لیے کوئی اساس اور بنیاد موجود ہے؟ 
جناب جاوید احمد غامدی نے اس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر و شر کا شعور انسان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے اور یہ فطری شعور اس دین کے لیے اساس کی حیثیت رکھتا ہے جووحی کے ذریعے سے اسے ملا ہے۔ چنانچہ شریعت کے اوامر و نواہی دین فطرت کے عین مطابق اور اسی کی اساس پر مبنی ہیں۔ ’’اصول ومبادی میں لکھتے ہیں:
’’پورا دین خوب وناخوب کے شعور پر مبنی ان حقائق سے مل کر مکمل ہوتا ہے جو انسانی فطرت میں روز اول سے ودیعت ہیں اور جنھیں قرآن معروف اور منکر سے تعبیر کرتا ہے۔ شریعت کے جو اوامر ونواہی تعین کے ساتھ قرآن میں بیان ہوئے ہیں، وہ ان معروفات ومنکرات کے بعد اور ان کی اساس پر قائم ہیں۔ انھیں چھوڑ کر شریعت کا کوئی تصور اگر قائم کیا جائے گا تو وہ ہر لحاظ سے ناقص اور قرآن کے منشا کے بالکل خلاف ہوگا۔‘‘ ( ۵۱)
غامدی صاحب نے نفس انسانی میں ودیعت کیے جانے والے اس فطری شعور کے حق میں سورۂ شمس کی آیت ’ونفس وما سواہا فالہمہا فجورہا وتقواہا‘ سے استدلال کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: 
’’ قرآن نے(سورۂ شمس کی) ان آیتوں میں واضح کردیاہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسان کو دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سننے کے لیے کان دیے ہیں، بالکل اسی طرح نیکی اوربدی کو الگ الگ پہچاننے کے لیے ایک حاسۂ اخلاقی بھی عطا فرمایا ہے۔ وہ محض ایک حیوانی اورعقلی وجود ہی نہیں ہے، اس کے ساتھ ایک اخلاقی وجود بھی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ خیرو شر کا امتیاز اورخیر کے خیر اورشر کے شر ہونے کا احساس انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کے دل ودماغ میں الہام کردیا گیا ہے۔‘‘(اخلاقیات ۱۱)
علماے امت کا موقف بھی یہی ہے۔
’’معارف القرآن‘‘ کے مصنف مولانامفتی شفیع اس نکتے کی تشریح میں لکھتے ہیں :
’’ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر اور بھلے برے کی پہچان کے لیے ایک استعداد اور مادہ خود اس کے وجود میں رکھ دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ’فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا‘ یعنی نفس انسانی کے اندراللہ تعالیٰ نے فجور اور تقویٰ دونوں کے مادے رکھ دیے ہیں۔‘‘(معارف القرآن ۸؍۷۵۱)
مولانا مودودی مذکورہ آیت کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’الہام کا لفظ ’لہم‘ سے ہے جس کے معنی نگلنے کے ہیں۔ ’لَہَمَ الشَّيءَ وَالْتَہَمَہ‘ کے معنی ہیں فلاں شخص نے اس چیز کو نگل لیا۔ اور ’اَلْہَمْتُہُ الشَّيءَ‘ کے معنی ہیں میں نے اس کو فلاں چیز نگلوا دی یا اس کے حلق سے اتاردی۔ اسی بنیادی مفہوم کے لحاظ سے الہام کا لفظ اصطلاحاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی تصور یا کسی خیال کو غیرشعوری طور پر بندے کے دل ودماغ میں اتار دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نفس انسانی پر اس کی بدی اور اس کی نیکی وپرہیز گاری الہام کر دینے کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اس کے اندر خالق نے نیکی اور بدی دونوں کے رجحانات ومیلات رکھ دیے ہیں، اور یہ وہ چیز ہے جس کو ہر شخص اپنے اندر محسوس کر تا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کے لاشعور میں اللہ تعالیٰ نے یہ تصورات ودیعت کر دیے ہیں کہ اخلاق میں کوئی چیز بھلائی ہے اور کوئی چیز برائی، اچھے اخلاق واعمال اور برے اخلاق واعمال یکساں نہیں ہیں، فجور (بدکرداری) ایک قبیح چیز ہے اور تقویٰ (برائیوں سے اجتناب) ایک اچھی چیز ۔ ‘‘ (تفہیم القرآن ۶؍۳۵۲)
فاضل ناقد کی تمہیدی بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں نفس انسانی میں ایک ’فطری رجحان‘ کے پائے جانے کی حد تک اس بات سے اتفاق ہے۔ چنانچہ انھوں نے لکھا ہے :
’’اسلام کے دین فطرت ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے بندوں کو جس فعل کے بھی کرنے کا حکم دیا ہے، فطرت سلیمہ اس فعل کے کرنے کی طرف ایک فطری رجحان اپنے اندر محسوس کرتی ہے اور جس فعل کے کرنے سے اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی ہمیں روک دیا ہے، فطرت سلیمہ بھی اس فعل سے ابا کرتی ہے۔ احکام الٰہی فطرت انسانی کے مطابق تو ہیں لیکن فطرت انسانی سے ان کا تعین نہیں ہو سکتا۔‘‘ (فکر غامدی ۱۴)
اس تحریر میں فاضل ناقد نے اسلام کو دین فطرت قرار دیا ہے اور بیان کیا ہے کہ احکام الٰہی فطرت انسانی کے مطابق ہیں اور فطرت میں وحی کے احکامات اور ممنوعات کا شعور ودیعت ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ فطرت انسانی میں اوامر و نواہی کے شعور اور اوامر کی طرف اس کے میلان اور نواہی سے اس کے ابا کو وحی سے مقدم طور پر تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ کم از کم اس نکتے کی حد تک ان کی اور غامدی صاحب کی بات میں اساسی لحاظ سے کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ 
اس کے بعد اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا یہ شعور اور احساس عملاً خیر اور شر کے مابین امتیاز قائم کرنے میں کس حد تک انسان کے لیے کارآمد ہے؟ آیا انسان کی فطرت اس کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتی یا اس کے برعکس، وحی کی رہنمائی سے بے نیاز ہو کر ہر لحاظ سے مکمل رہنمائی کی اہلیت رکھتی ہے یا ان دونوں کے بین بین کوئی صورت حال ہے؟
غامدی صاحب کے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانی فطرت میں دو چیزوں کا شعور ازل ہی سے ودیعت کر دیا گیا ہے۔ ایک اللہ کی ربوبیت کا اقرار ہے اور دوسری خیر و شر یعنی نیکی اور بدی کا شعور ہے اور ان دونوں معاملوں میں انسان کا فطری علم اور شعور اس کی بنیادی رہنمائی کی خدمت بخوبی سر انجام دیتا ہے۔ چنانچہ وہ ’’میزان‘‘ کے باب ’’ایمانیات ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’دین کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ دنیا کا ایک خالق ہے۔ اس نے یہ دنیا امتحان کے لیے بنائی ہے۔ چنانچہ انسان کو یہاں اس نے ایک خاص مدت کے لیے بھیجا ہے۔ اس مدت کے پورا ہو جانے کے بعد یہ دنیا لازماً ختم کر دی جائے گی اور اس کے زمین وآسمان ایک نئے زمین وآسمان میں تبدیل ہو جائیں گے۔ پھر ایک نئی دنیا وجود میں آئے گی۔ تمام انسان وہاں دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور ان کے عقیدہ وعمل کے لحاظ سے انھیں جزا یا سزا دی جائے گی۔
دین اس حقیقت کو ماننے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کے لیے، ظاہر ہے کہ اس کا مبرہن ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ انسان کی تخلیق کے پہلے دن ہی سے اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام کر رکھاہے کہ کوئی شخص علم وعقل کی بنیاد پر اس کا انکار نہ کرے اور لوگوں کے لیے یہ حقیقت ایسی واضح رہے کہ اس کے منکرین قیامت کے دن اپنا کوئی عذر اللہ کے حضور میں پیش نہ کر سکیں۔
یہ اتمام حجت کس طرح ہوا ہے؟ قرآن بتاتا ہے کہ خدا کی ربوبیت کا اقرار ایک ایسی چیز ہے جو ازل ہی سے انسان کی فطرت میں ودیعت کردی گئی ہے۔ قرآن کا بیان ہے کہ یہ معاملہ ایک عہدومیثاق کی صورت میں ہوا ہے۔ اس عہد کا ذکر قرآن ایک امر واقعہ کی حیثیت سے کرتا ہے۔ انسان کو یہاں امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے، اس لیے یہ واقعہ تو اس کی یادداشت سے محو کر دیا گیا ہے، لیکن اس کی حقیقت اس کے صفحۂ قلب پر نقش اوراس کے نہاں خانۂ دماغ میں پیوست ہے، اسے کوئی چیز بھی محو نہیں کر سکتی۔ چنانچہ ماحول میں کوئی چیز مانع نہ ہو اور انسان کو اس کی یاددہانی کی جائے تو وہ اس کی طرف اس طرح لپکتا ہے، جس طرح بچہ ماں کی طرف لپکتا ہے، دراں حالیکہ اس نے کبھی اپنے آپ کو ماں کے پیٹ سے نکلتے ہوئے نہیں دیکھا، اور اس یقین کے ساتھ لپکتا ہے، جیسے کہ وہ پہلے ہی سے اس کو جانتا تھا۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ خدا کا یہ اقرار اس کی ایک فطری احتیاج کے تقاضے کا جواب تھا جو اس کے اندر ہی موجود تھا۔ اس نے اسے پالیا ہے تو اس کی نفسیات کے تمام تقاضوں نے بھی اس کے ساتھ ہی اپنی جگہ پالی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ انسان کے باطن کی یہ شہادت ایسی قطعی ہے کہ جہاں تک خدا کی ربوبیت کا تعلق ہے، ہر شخص مجرد اس شہادت کی بنا پر اللہ کے حضور میں جواب دہ ہے۔ فرمایا ہے:
وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ، وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ، اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ؟ قَالُوْا: بَلٰی، شَہِدْنَا، اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غٰفِلِیْنَ، اَوْ تَقُوْلُوْٓا: اِنَّمَآ اَشْرَکَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ، وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّنْ بَعْدِہِمْ، اَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ؟ وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ، وَلَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ. (الاعراف۷: ۱۷۲۔۱۷۴)
’’اور یاد کرو، جب تمھارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی اولاد کو نکالا اور انھیں خود اُن کے اوپر گواہ بنا کر پوچھا: کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ انھوں نے جواب دیا: ضرور، آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اِس پر گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس سے بے خبر ہی تھے یا اپنا عذر پیش کرو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے پہلے سے کر رکھی تھی اور ہم بعد کو اُن کی اولاد ہوئے ہیں، پھر آپ کیا ان غلط کاروں کے عمل کی پاداش میں ہمیں ہلاک کریں گے؟ (یہ ہم نے پوری وضاحت کر دی ہے) اور ہم اسی طرح اپنی آیتوں کی تفصیل کرتے ہیں، (اِس لیے کہ لوگوں پر حجت قائم ہو) اور اس لیے کہ وہ رجوع کریں۔‘‘
یہی معاملہ خیروشر کا ہے۔ اس کا شعوربھی اسی طرح انسان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے: ’ونفس وما سواھا، فالھمھا فجورھا وتقوھا‘ ( اور نفس گواہی دیتا ہے اور جیسا اُسے سنوارا، پھر اُس کی نیکی اور بدی اُسے سجھادی)۔ بعض دوسرے مقامات پر یہی حقیقت ’اِنَّا ھدینہ السبیل‘ (ہم نے اُسے خیروشر کی راہ سجھا دی) اور ’ھَدَیْنٰہُ النجدین‘ ( ہم نے کیا اُسے دونوں راستے نہیں سجھائے) کے الفاظ میں واضح کی گئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کے پروردگار نے ایک حاسۂ اخلاقی بھی اس کے اندر رکھ دیا ہے جو نیکی اور بدی کوبالکل اسی طرح الگ الگ پہچانتا ہے، جس طرح آنکھیں دیکھتی اور کان سنتے ہیں۔ ہمارے نفس کا یہ پہلو کہ وہ ایک نفس ملامت گر بھی ہے اور دل کے پردوں میں چھپی ہوئی اس کی زبان ایک واعظ وناصح کی طرح برائی کے ارتکاب پر ہم کو برابر ٹوکتی اور سرزنش کرتی رہتی ہے، اسی سے پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خیروشر کا امتیاز اور خیر کے خیر اور شر کے شر ہونے کا احساس ایک عالم گیر حقیقت ہے جس کو جھٹلانے کی جسارت کوئی شخص بھی نہیں کر سکتا۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ انسان کے باطن کی اس شہادت کے بعد جزاوسزا کو جھٹلانا بھی کسی شخص کے لیے ممکن نہیں رہتا۔ فرمایاہے:
لَآ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ، وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ، اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَہٗ؟ بَلٰی، قَادِرِیْنَ عَلٰٓی اَنْ نُّسَوِّیَ بَنَانَہٗ، بَلْ یُرِیْدُ الْاِنْسَانُ لِیَفْجُرَ اَمَامَہٗ، یَسْءَلُ اَیَّانَ یَوْمُ الْقِیٰمَۃِ، فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَخَسَفَ الْقَمَرُ، وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ، یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَوْمَءِذٍ اَیْْنَ الْمَفَرُّ؟ کَلَّا، لَا وَزَرَ، اِلٰی رَبِّکَ یَوْمَءِذِ الْمُسْتَقَرُّ، یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَءِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ، بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ، وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہٗ.(القیٰمہ۷۵:۱۔۱۵) 
’’نہیں،میں قیامت کے دن کو گواہی میں پیش کرتاہوں، اور نہیں، میں (تمھارے) اِس نفس لوامہ کو گواہی میں پیش کرتا ہوں۔ کیاانسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم اِس کی ہڈیوں کو جمع نہ کر سکیں گے؟ کیوں نہیں، ہم تو اس کی پورپور درست کر سکتے ہیں۔ (نہیں، یہ بات نہیں)، بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) انسان اپنے ضمیر کے روبرو شرارت کرنا چاہتا ہے۔ پوچھتا ہے: قیامت کب آئے گی؟ لیکن اُس وقت ، جب دیدے پتھرائیں گے اور چاند گہنائے گا اور سورج اور چاند، (یہ دونوں) اکٹھے کر دیے جائیں گے، تو یہی انسان کہے گا کہ اب کہاں بھاگ کر جاؤں ہر گز نہیں، اب کہیں پناہ نہیں! اُس دن تیرے رب ہی کے سامنے ٹھیرنا ہو گا۔ اُس دن انسان کو بتایا جائے گا کہ اُس نے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا ہے۔ (نہیں، وہ اِسے نہیں جھٹلا سکتا)، بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) انسان خود اپنے اوپر گواہ ہے، اگرچہ کتنے ہی بہانے بنائے۔ ‘‘‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری ۲۰۰۶، ۲۵۔۲۷)
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت میں ودیعت کیا جانے والا یہ فطری شعور کسی خارجی رہنمائی کے بغیر بھی ازخود اپنے اظہار کے لیے بے تاب ہوتا ہے۔ چنانچہ جب جنت میں ممنوعہ پھل کھانے کے نتیجے میںآدم و حوا کے ستر ان پر کھل گئے تو انھوں نے فوراً اپنے آپ کو پتوں سے ڈھانپنے کی کوشش کی۔ قرآن مجید سے واضح ہے کہ ایسا انھوں نے کسی باقاعدہ ’حکم‘ کی تعمیل میں نہیں، بلکہ شرم وحیا کے اس فطری احساس کی بنا پر کیا تھا جو اللہ نے ان کی فطرت میں ودیعت کر رکھا تھا۔ مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۲۲ کی تفسیر میں اسی بات کی وضاحت کی ہے۔ مولانا اصلاحی لکھتے ہیں:
’’’...وَطَفِقًا یَخْصِفٰنِ عَلَیْھِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّۃ‘ کے اسلوب بیان سے اس گھبراہٹ اور سراسیمگی کا اظہار ہورہا ہے جو اس اچانک حادثے سے آدم وحوا پر طاری ہوئی۔ جوں ہی انھوں نے محسوس کیا کہ وہ ننگے ہو کر رہ گئے ہیں، فوراً انھیں اپنی ستر کی فکر ہوئی اور جس چیز پر ہاتھ پڑ گیا اسی سے ڈھانکنے کی کوشش کی، چنانچہ کوئی چیز نہیں ملی توباغ کے پتے ہی اپنے اوپر گانٹھنے گوتھنے لگے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ستر کا احساس انسان کے اندر بالکل فطری ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ چیزیں محض عادت کی پیداوار ہیں، ان کا خیال بالکل غلط ہے۔ جس طرح توحید فطرت ہے، شرک انسان مصنوعی طورپر اختیار کرتا ہے، اسی طرح حیا فطرت ہے، بے حیائی انسان مصنوعی طور پر اختیار کرتاہے۔‘‘ (تدبرقرآن۳/۲۳۶)
مولانا مودودی نے بیان کیا ہے:
’’انسان کے اندر شرم وحیا کا جذبہ ایک فطری جذبہ ہے اور اس کا اولین مظہر وہ شرم ہے جو اپنے جسم کے مخصوص حصوں کو دوسروں کے سامنے کھولنے میں آدمی کو فطرتاً محسوس ہوتی ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ شرم انسان کے اندر تہذیب کے ارتقا سے مصنوعی طور پر پیدا نہیں ہوئی ہے اور نہ یہ اکتسابی چیز ہے، جیسا کہ شیطان کے بعض شاگردوں نے قیاس کیا ہے، بلکہ درحقیقت یہ وہ فطری چیز ہے جو اول روز سے انسان میں موجود تھی۔‘‘ (تفہیم القرآن۲/۱۵)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں متعدد مقامات پر مختلف زاویوں سے یہ بات بیان کی ہے کہ نیکی اور بدی کی اساسات فطرت انسانی میں راسخ ہیں اور انسان شریعت اور مذہب سے مقدم طور پر ان سے شناسا ہوتا ہے۔ ’باب اقتضاء التکلیف المجازاۃ‘ کے زیر عنوان انھوں نے اس مسئلے پر بحث کی ہے کہ انسانوں کو ان کے اعمال پر جزا وسزا ملنا کیوں ضروری ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے چار اسباب بیان کیے ہیں۔ ایک سبب وہ ساخت ہے جس پر انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ساخت بذات خود اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انسان اعمال صالحہ کو انجام دے۔ دوسرا سبب ملاء اعلیٰ کی جہت سے ہے، چنانچہ جب کوئی انسان اچھاکام کرتا ہے تو فرشتوں کی جانب سے اس کے لیے بہجت اور سرور کی شعاعیں نکلتی ہیں اور جب وہ برا کام کرتا ہے تو ان سے نفرت اور بغض کی شعاعیں نکلتی ہیں۔ مجازات عمل کا تیسرا سبب شریعت کا نزول ہے جس کی پسندیدگی کا جذبہ اللہ کی طرف سے انسانوں کے دلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ چوتھا سبب انبیا کی بعثت او ر ان کی طرف ہونے والی وحی کا مشخص اور ممثل ہو جاناہے ۔ یہ اسباب بیان کر کے انھوں نے لکھا ہے:
’’...پہلی دو جہتوں سے مجازات عمل تو عین وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا فرمایا ہے اور فطرت الٰہی میں تم کسی قسم کی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ لیکن یہ صرف بر واثم کے اصول وکلیات میں ہوتا ہے نہ کہ فروعات وحدود میں، اور یہ فطرت ہی وہ دین ہے جو زمانوں کی تبدیلی سے تبدیل نہیں ہوتا اور جس پر تمام انبیا ے کرام کا اجماع واتفاق ہے۔ ... (دین فطرت کی) اس مقدار پر مواخذہ اور داروگیر انبیا سے قبل بھی ثابت ہے اور ان کی بعثت کے بعد بھی۔‘‘  (حجۃ اللہ البالغہ، المبحث الاول، باب اقتضاء التکلیف المجازاۃ)
’’ اتفاق الناس علیٰ اصول الارتفاقات‘‘ کے زیر عنوان انھوں نے بیان کیا ہے کہ ارتفاقات یعنی انسانی سماج کی تشکیل اور اس کی بقا اور تہذیب کے اصول تمام بنی نوع انسان کے مابین ہمیشہ سے مسلم اور متفق علیہ رہے ہیں۔اس اتفاق کا سبب ان کے نزدیک فطرت سلیمہ ہے۔ لکھتے ہیں:
’’جاننا چاہیے کہ اقالیم معمورہ کا کوئی شہر یا دنیا کی کوئی قوم جو معتدل مزاج اور اخلاق فاضلہ کی حامل ہے، آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک ، ان ارتفاقات سے خالی نہیں ہو سکتی۔ ان ارتفاقات کے اصول سب کے نزدیک نسلاً بعد نسلٍ اور طبقہ در طبقہ مسلم چلے آ رہے ہیں اور ان کی خلاف ورزی پر لوگ ہمیشہ شدید انکار کرتے رہے ہیں۔ بنی نوع انسان ان ارتفاقات کی انتہائی شہرت کی بنا پر انھیں بدیہی امور خیال کرتے ہیں۔ ان ارتفاقات کی ظاہری صورتوں اور ان کی جزئیات کے معاملے میں لوگوں کا اختلاف تمھارے لیے ہماری بات کو تسلیم کرنے مانع نہ بنے۔ مثلاً مردوں کی بدبودار اور برہنہ لاشوں کو چھپانے پر ساری دنیا کا اتفاق ہے، گو اس کی صورتیں مختلف ہیں۔ کچھ لوگ مردوں کو زمین میں دفن کرنا پسند کرتے ہیں اور کچھ انھیں جلا دیتے ہیں۔ اسی طرح نکاح کی تشہیر اور لوگوں کے سامنے اس کا اعلان کر کے بدکاری سے اس کو ممتاز کرنے پر بھی انسانوں کا اتفاق ہے۔ پھر اس کی صورتوں میں اختلاف ہے، پس بعض نے گواہوں اور ایجاب وقبول اور ولیمہ کو پسند کیا اور بعض نے دف بجانے اور گانا گانے کو اور ایسے بڑھیا لباس پہننے کو جو صرف شادی بیاہ کی بڑی تقریبات ہی میں پہنے جاتے ہوں۔ زانیوں اور چوروں کو سزا دینے پر بھی اتفاق ہے، لیکن اس کے طریقے میں اختلاف ہے۔ بعض نے سنگسار کرنا اور ہاتھ کاٹ دینے کا طریقہ اختیار کیا اور بعض نے سخت پٹائی کرنے، تکلیف دہ قید اور کمر توڑ دینے والے جرمانے عائد کرنے کا۔ ... اور یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ سب لوگ ان چیزوں پر کسی سبب کے بغیر یوں متفق ہو گئے جیسے اہل مشرق ومغرب سب ایک ہی طرح کا کھانا کھانے پر متفق ہو جائیں۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی احمقانہ بات ہو سکتی ہے؟ بلکہ فطرت سلیمہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ لوگ اپنے مزاجوں کے اختلاف اور اوطان کے باہمی فاصلوں اور ادیان ومذاہب کے اختلاف وتنوع کے باجود ان امور پر کسی ایسی فطری مناسبت ہی کی وجہ سے متفق ہوئے ہیں جو ان کی صورت نوعیہ سے پھوٹتی ہے۔ اس اتفاق کا سبب وہ حاجات بھی ہیں جو بنی نوع انسان کو بکثرت پیش آتی ہیں اور وہ اخلاق بھی جن کو افراد کے مزاج میں پیدا کرنے کا تقاضا ان کی صورت نوعیہ کی صحت کرتی ہے۔‘‘  (حجۃ اللہ البالغہ، المبحث الثالث، باب اتفاق الناس علیٰ اصول الارتفاقات)
اسی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے ’’مبحث البر والاثم‘‘ کے عنوان کے تحت انھوں نے بیان کیا ہے کہ نیکی کے قوانین اللہ ہی کی طرف سے لوگوں کے دلوں میں الہام کیے گئے ہیں:
’’اور جس طرح ارتفاقات کو اہل بصیرت نے مستنبط کیا اور لوگوں نے اپنے دلوں کی گواہی کی بنا پر ان کی اقتدا کی اور روے زمین کے سب لوگوں نے یا ان لوگوں نے جن کا کوئی اعتبار ہے، ان پر اتفاق کر لیا، اسی طرح بر (نیکی) کے بھی قوانین ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دلوں میں الہام کیے ہیں جنھیں نور ملکی کی تائید حاصل ہے اور جن پر فطرت کا رنگ غالب ہے، ایسے ہی جیسے شہد کی مکھیوں کے دلوں میں وہ چیزیں الہام کی گئی ہیں جو ان کی صلاح معاش کے لیے ضروری ہیں۔ پس ان لوگوں نے ان طریقوں کو اختیار کیا، ان پر چلے ، دوسروں کی رہنمائی کی اور انھیں ان کے اپنانے کی ترغیب دی، پس لوگوں نے ان کی پیروی کی اور زمین کے تمام اطراف میں، علاقوں کے مابین دوری اور ادیان کے اختلاف کے باوجود، تمام اہل ملل ان پر متفق ہو گئے جس کی وجہ ایک فطری مناسبت اور انسانوں کی نوع کا تقاضا تھا۔ ان طریقوں کے اصولوں پر اتفاق کے بعد ان کی صورتوں میں اختلاف مضر نہیں، اسی طرح کسی ایسے ناقص (فطرت والے) گروہ کا گریز بھی مضر نہیں جن پر اگر اصحاب بصیرت غور کریں تو انھیں کوئی شبہ نہیں ہوگا کہ ان کا مادہ ہی انسانوں کی صورت نوعیہ کے منافی ہے اور اس کے احکام کے تابع نہیں۔ ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے انسان کے جسم میں کوئی زائد عضو ہو اور جس کو کاٹ دینا اس کے باقی رکھنے سے بہتر ہو۔‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ، المبحث الخامس، مبحث البر والاثم)
صاحب ’’تفہیم القرآن‘‘ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی یہی بات بیان کی ہے:
’’اس جگہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ فطری الہام اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق پر اس کی حیثیت اور نوعیت کے لحاظ سے کیا ہے، جیسا کہ سورۂ طٰہٰ میں ارشاد ہوا ہے کہ ’اَلَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَيءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی‘۔ ’’جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت عطا کی پھر راہ دکھائی‘‘ (آیت۵۰)۔مثلاً حیوانات کی ہر نوع کو اس کی ضروریات کے مطابق الہامی علم دیا گیا ہے جس کی بنا پر مچھلی کو آپ سے آپ تیرنا، پرندے کو اڑنا، شہد کی مکھی کو چھتہ بنانا اور بئے کو گھونسلا تیار کرنا آجاتا ہے۔ انسان کو بھی اس کی مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے الگ الگ قسم کے الہامی علوم دیے گئے ہیں۔ انسان کی ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک حیوانی وجود ہے اور اس حیثیت سے جو الہامی علم اس کو دیا گیا ہے، اس کی ایک نمایاں ترین مثال بچے کا پیدا ہوتے ہی ماں کا دودھ چوسنا ہے جس کی تعلیم اگر خدا نے فطری طور پر اسے نہ دی ہوتی تو کوئی اسے یہ فن نہ سکھا سکتاتھا۔ اس کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک عقلی وجود ہے۔ اس حیثیت سے خدا نے انسان کی آفرینش کے آغاز سے مسلسل اس کو الہامی رہنمائی دی ہے جس کی بدولت وہ پے درپے اکتشافات اور ایجادات کر کے تمدن میں ترقی کرتا رہا ہے۔ ان ایجادات واکتشافات کی تاریخ کا جو شخص بھی مطالعہ کرے گا، وہ محسوس کرے گا کہ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسی ہو جو محض انسانی فکروکاوش کا نتیجہ ہو، ورنہ ہر ایک کی ابتدا اسی طرح ہوئی ہے کہ یکایک کسی شخص کے ذہن میں ایک بات آگئی اور اس کی بدولت اس نے کسی چیز کا اکتشاف کیا یا کوئی چیز ایجاد کر لی۔ان دونوں حیثیتوں کے علاوہ انسان کی ایک اور حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک اخلاقی وجود ہے، اور اس حیثیت سے بھی اللہ تعالیٰ نے اسے خیروشر کا امتیاز، اور خیر کے خیر اور شر کے شر ہونے کا احساس الہامی طور پر عطا کیا ہے۔ یہ امتیاز و احساس ایک عالمگیر حقیقت ہے جس کی بنا پر دنیا میں کبھی کوئی انسانی معاشرہ خیروشر کے تصورات سے خالی نہیں رہا ہے، اور کوئی ایسا معاشرہ نہ تاریخ میں کبھی پایا گیا ہے نہ اب پایا جاتا ہے جس کے نظام میں بھلائی اور برائی پر جزا اور سزا کی کوئی نہ کوئی صورت اختیار نہ کی گئی ہو۔ اس چیز کا ہر زمانے، ہر جگہ اور ہر مرحلۂ تہذیب و تمدن میں پایا جانا اس کے فطری ہونے کا صریح ثبوت ہے اور مزید براں یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ایک خالق حکیم ودانا نے اسے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا ہے، کیونکہ جن اجزا سے انسان مرکب ہے اور جن قوانین کے تحت دنیا کا مادی نظام چل رہا ہے، ان کے اندر کہیں اخلاق کے ماخذ کی نشان دہی نہیں کی جاسکتی۔(تفہیم القرآن۶/۳۵۲)
اس تفصیل سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ وحی سے مقدم طور پر فطری رہنمائی کا وجود اکابر علماے امت کے نزدیک اسی طرح مسلم ہے، جیسا کہ جناب جاوید احمد غامدی نے اسے بیان کیا ہے۔ 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خالق کی معرفت اور خیر و شر کا شعور انسان کی فطرت میں مسلم ہے تو وہ کیا ضرورت تھی جسے پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے وحی کا سلسلہ شروع کیا؟ غامدی صاحب کے نزدیک اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خیر و شر کے مبادیات کا کامل شعور اللہ تعالیٰ نے انسان کو براہ راست ودیعت کر رکھا تھا،مگر ان کے لوازم و اطلاقات اور جزئیات و تفصیلات میں انسان کو مزید رہنمائی کی ضرورت تھی۔مزید براں اشخاص، زمانے اور حالات کے فرق کی وجہ سے ان لوازم و اطلاقات اور جزئیات و تفصیلات میں اختلافا ت کا پیدا ہو جانا قدرتی امر تھا۔ اس اختلاف کو رفع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دنیا میں بھیجنے کے بعد وحی کا سلسلہ جاری فرمایا اور اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے ان کی ہدایت کا سامان کیا۔ چنانچہ اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے باب ’’اخلاقیات‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’(فطرت میں ودیعت) خیر و شرکے اس الہام کی تعبیر میں، البتہ اشخاص، زمانے اورحالات کے لحاظ سے بہت کچھ اختلافات ہوسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے کہ اس کی گنجایش بھی اس نے باقی نہیں رہنے دی اورجہاں کسی بڑے اختلاف کا اندیشہ تھا، اپنے پیغمبرو ں کے ذریعے سے خیرو شرکو بالکل واضح کردیاہے۔ ان پیغمبروں کی ہدایت اب قیامت تک کے لیے قرآن مجید میں محفوظ ہے۔ انسان اپنے اندر جو کچھ پاتا ہے ، یہ ہدایت اس کی تصدیق کرتی ہے اورانسان کاوجدانی علم، بلکہ تجربی علم، قوانین حیات اور حالات وجو د سے استنباط کیا ہوا علم اورعقلی علم ، سب اس کی گواہی دیتے ہیں ۔ چنا نچہ اخلاق کے فضائل ورذائل اس کے نتیجے میں پوری قطعیت کے ساتھ متعین ہوجاتے ہیں۔ 
روایتوں میں ایک تمثیل کے ذریعے سے یہی بات اس طرح سمجھائی گئی ہے کہ تم جس منزل تک پہنچنا چاہتے ہو، اس کے لیے ایک سیدھا راستہ تمھارے سامنے ہے جس کے دو نوں طرف دو دیواریں کھنچی ہوئی ہیں۔ دونوں میں دروازے کھلے ہیں جن پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ راستے کے سرے پر ایک پکارنے والا پکار رہا ہے کہ اندر آجاؤ اورسیدھے چلتے رہو۔ اس کے باوجود کوئی شخص اگر دائیں بائیں کے دروازوں کا پردہ اٹھانا چاہے تو اوپرسے ایک منادی پکار کرکہتاہے : خبردار ، پردہ نہ اٹھانا۔ اٹھاؤ گے تو اندر چلے جاؤ گے۔ فرمایا ہے کہ یہ راستہ اسلام ہے ، دیواریں اللہ کے حدود ہیں، دروازے اس کی قائم کردہ حرمتیں ہیں، اوپر سے پکار نے والا منادی خدا کا وہ واعظ ہے جو ہر بندۂ مومن کے دل میں ہے اور راستے کے سرے پر پکارنے والا قرآن ہے : 
اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ، وَیُبَشِّرُ الْمُْؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا.(بنی اسرائیل ۱۷:۹)
’’بے شک ، یہ قرآن اُس راستے کی رہنمائی کرتاہے جو بالکل سیدھا ہے اور اپنے ماننے والوں کو جو اچھے عمل کرتے ہیں، اس بات کی بشارت دیتا ہے کہ اُن کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ ‘‘ (۱۲)
اس اقتباس سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک فطرت کو کیا مقام حاصل ہے اور اس کے تقابل میں وحی کی کیا حیثیت ہے۔ فطرت کی ہدایت اور وحی کی ہدایت میں یہی وہ باہمی تعلق ہے جسے امت کے جلیل القدر علما نے بھی بیان کیا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:
’’ انبیا کی بعثت اصلاً اور بالذات اگرچہ عبادات کے رسوم اور طریقے سکھانے کے لیے ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ بسا اوقات فاسد معاشرتی رسوم کا خاتمہ اور ارتفاقات کی بعض صورتوں پر لوگوں کو آمادہ کرنا بھی بطور مقصد کے شامل ہو جاتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا یہی مطلب ہے کہ مجھے گانے بجانے کے آلات کو ختم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے اور یہ کہ مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔ ... اس باب میں تمام کے تمام انبیا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو طریقہ لے کر آئے، وہ یہ تھا کہ اس قوم کے ہاں کھانے پینے، لباس، تعمیر، زیب و زینت، نکاح اور زوجین کے باہمی معاملات، بیع وشرا کی جو بھی صورتیں موجود ہوں اور گناہوں سے روکنے اور مقدمات کا فیصلہ کرنے کے جو بھی طریقے رائج ہوں، اگر وہ کلی رائے کے اعتبار سے عائد ہونے والی ذمہ داری کے موافق ہوں تو ان میں سے کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹانے یا اس کو چھوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں،بلکہ ضروری ہے کہ اس قوم کو ان کے ہاں رائج طریقوں ہی کی پابندی کی ترغیب دی جائے اور اس معاملے میں ان کی رائے کی تصویب کی جائے اور اس میں جو مصالح پائے جاتے ہیں، وہ ان پر واضح کیے جائیں۔ البتہ اگر کوئی چیز اس کے موافق نہ ہو اور اس کو بدلنے یا ختم کر دینے کی ضرورت ہو، یا تو اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کی باہمی اذیت کا سبب بنتی ہے یا دنیا کی لذتوں میں کھو جانے اور احسان کے طریقے سے اعراض کا باعث ہے یا ایسی غفلت پیدا کرتی ہے جس سے دنیا اور آخرت کے مصالح برباد ہو جاتے ہیں، تو پھر بھی اس قوم کے مانوس طریقوں سے بالکلیہ باہر نکل جانا درست نہیں، بلکہ اس کو تبدیل کر کے انھی کے ہاں موجود کسی نظیر کو اپنانا چاہیے۔‘‘  (حجۃ اللہ البالغہ، المبحث السادس، باب اقامۃ الارتفاقات واصلاح الرسوم) 
مولاناامین احسن اصلاحی نے بیان کیا ہے:
’’انسان انبیاے کرام کی ہدایت کا محتاج اس وجہ سے نہیں ہوا کہ وہ حق و باطل میں امتیاز یا ان کے شعور سے عاری تھا، بلکہ اس وجہ سے ہوا کہ اس راہ میں اس کو اس کی بعض کمزوریوں کے سبب سے بہت سے مغالطے پیش آ سکتے تھے، نیز مبادی فطرت کے تمام لوازم اور ان کے سارے مقتضیات کو سمجھنا بھی اس کے لیے ممکن نہیں تھا ، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کی رہنمائی کے لیے نبی و رسول بھیجے۔ ان نبیوں اور رسولوں کی تعلیمات چونکہ انھی مبادی پر مبنی ہیں جو انسان کے اندر ودیعت ہیں، اس وجہ سے جو سلیم الطبع تھے ، انھوں نے نبیوں کی ہر بات کو اپنے ہی دل کی آواز سمجھا۔ صرف ان لوگوں نے ان کی مخالفت کی جنھوں نے اپنی فطرت مسخ کر ڈالی تھی، اگرچہ اپنے دلوں کے اندر وہ بھی رسولوں کی صداقت و حقانیت کے معترف تھے۔‘‘ (تدبرقرآن۶/۹۴)
مولانا شبیر احمد عثمانی نے لکھا ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے آدمی کی ساخت اور تراش شروع سے ایسی رکھی ہے کہ اگر وہ حق کو سمجھنا اور قبول کرنا چاہے تو کر سکے اور بداء فطرت سے اپنی اجمالی معرفت کی ایک چمک اس کے دل میں بطور تخم ہدایت کے ڈال دی ہے کہ اگر گردوپیش کے احوال اور ماحول کے خراب اثرات سے متاثر نہ ہو اور اصلی طبیعت پر چھوڑ دیا جائے تو یقیناًدین حق کو اختیار کرے، کسی دوسری طرف متوجہ نہ ہو۔ ’’عہدالست‘‘ کے قصہ میں اسی کی طرف اشارہ ہے اور احادیث صحیحہ میں تصریح ہے کہ ہر بچہ فطرۃ (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے بعدہ، ماں باپ اسے یہودی، نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔ ایک حدیث قدسی میں ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو ’’حُنفاء‘‘ پیدا کیا۔ پھر شیاطین نے اغوا کر کے انھیں سیدھے راستہ سے بھٹکا دیا۔ بہرحال دین حق، دین حنیف اور دین قیم وہ ہے کہ اگر انسان کو اس کی فطرت پر مخلی بالطبع چھوڑ دیا جائے تو اپنی طبیعت سے اسی کی طرف جھکے۔ تمام انسانوں کی فطرۃ اللہ تعالیٰ نے ایسی ہی بنائی ہے جس میں کوئی تفاوت اور تبدیلی نہیں۔ فرض کرو اگر فرعون یا ابوجہل کی اصلی فطرت میں یہ استعداد اور صلاحیت نہ ہوتی تو ان کو قبول حق کا مکلف بنانا صحیح نہ ہوتا۔ جیسے اینٹ پتھر یا جانوروں کو شرائع کا مکلف نہیں بنایا۔ فطرت انسانی کی اسی یکسانیت کا یہ اثر ہے کہ دین کے بہت سے اصول مہمہ کو کسی نہ کسی رنگ میں تقریباً سب انسان تسلیم کرتے ہیں، گو ان پر ٹھیک ٹھیک قائم نہیں رہتے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ’’یعنی اللہ سب کا مالک حاکم، سب سے نرالا، کوئی اس کے برابر نہیں‘‘، کسی کا زور اس پر نہیں، یہ باتیں سب جانتے ہیں۔ اس پر چلنا چاہیے۔ ایسے ہی کسی کے جان ومال کو ستانا، ناموس میں عیب لگانا، ہر کوئی برا جانتا ہے۔ ایسے ہی اللہ کو یاد کرنا، غریب پر ترس کھانا، حق پورا دینا، دغا نہ کرنا، ہر کوئی اچھا جانتا ہے۔ اس (راستہ) پر چلنا وہ ہی دین سچا ہے۔ (یہ امور فطری تھے مگر) ان کا بندوبست پیغمبروں کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے سکھلا دیا۔‘‘ (تفسیر عثمانی۵۲۸)

اعتراضات کا جائزہ

غامدی صاحب کے موقف اور دلائل کی تفصیلی وضاحت کے بعد اب اس پر فاضل ناقد کے اعتراضات کا جائزہ لیجیے: 
فاضل ناقد کا موقف یہ ہے کہ فطرت، وحی کے ذریعے سے ملنے والی تعلیمات کو سمجھنے کی حد تک بنیاد کا کام تو دیتی ہے، لیکن بذات خود کسی بھی درجے میں کوئی ایسا ذریعۂ ہدایت نہیں ہے جسے من جانب اللہ تصور کیا جائے، بلکہ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے روز اول ہی سے انسان کی رہنمائی کے لیے وحی کا سلسلہ جاری فرمایا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے جب سے آدم کو اس دنیا میں بھیجا ہے، اس دن سے ہی اس کی رہنمائی کے لیے وحی کا سلسلہ جاری فرما دیا ہے۔ ... اس انتہائی اہم موقع پر جب کہ حضرت آدم کو اور ان کی آنے والی ذریت کوجنت سے اتار کر اس دنیامیں بھیجا جا رہا ہے، اس وقت انھیں صرف ایک ہی چیز کی پیروی کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے اور وہ اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت ہے اور دونوں جگہ قرآن کے الفاظ ’منی ھدی‘ اور اس کا سیاق وسباق بتلاتا ہے کہ اس ہدایت سے مراد کوئی فطری ہدایت نہیں بلکہ اللہ کی آیات اور اس کی طرف سے نازل کردہ وحی کی رہنمائی مراد ہے۔ اس سے یہ ثابت ہو ا کہ پہلے ہی دن سے اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے حضرت آدم اور ان کی آنے والی ذریت کو جو رہنمائی دی جا رہی ہے، وہ وحی کی رہنمائی ہے اور جس نے بھی اللہ کی دی ہو ئی ا س وحی کی رہنمائی سے استفادہ کرنے سے انکار کیا تو وہی لوگ اللہ کے عذاب کے مستحق ہیں ۔‘‘ (الشریعہ، فروری ۲۰۰۷، ۴۰)
فاضل ناقد نے انسان کے فطری علم کے کسی بھی درجے میں رہنما ہونے کی نفی پر دو مزید دلائل بھی پیش کیے ہیں:
ایک یہ کہ یہ بات سورۂ نحل (۱۶) کی آیت ۷۸ کے خلاف ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ اللہ نے انسانوں کو ان کی ماؤں کے پیٹوں میں سے اس حال میں نکالا کہ وہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔ آیت یہ ہے:
وَاللّٰہُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِکُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ شَیْْءًا.(النحل۱۶ :۷۸)
’’اللہ تعالیٰ نے تم کو تمھاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا، اس حال میں کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے ۔‘‘
دوسرے یہ کہ یہ مفہوم مسلم کی اس حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا نقل ہوئی کہ ’اللھم آت نفسی تقواھا‘۔ ’’پروردگار، میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا فرما ‘‘۔ اس پر انھوں نے لکھا ہے کہ اگر ’فجور‘ اور ’تقویٰ ‘ انسانی فطرت میں داخل تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے ا للہ سے مانگنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟
فاضل ناقد کے ان استدلالات کے جواب میں ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں:
۱۔ بنی آدم کے لیے روز اول سے سلسلۂ وحی جاری کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان کا فطری علم کسی بھی درجے میں اس کی رہنمائی نہیں کر سکتا اور یہ کہ انسان ہر معاملے میں ’وحی‘ ہی کی رہنمائی کا محتاج ہے۔ ہم اوپر کی سطور میں مختلف دلائل اور اکابر اہل علم کے اقتباسات کی روشنی میں اس نکتے کی تفصیلی وضاحت کر چکے ہیں۔ 
۲۔ سورۂ نحل کی جس آیت ’اخرجکم من بطون امہتکم لا تعلمون شیئا‘ سے فاضل ناقد نے فطری رہنمائی کی نفی پر استدلال کیا ہے، اس کے سیاق وسباق سے واضح ہے کہ یہاں انسان کے اندرون یعنی اس کے وجدان اور اس کے نفسی ، روحانی اور فطری وجود کا مسئلہ سرے سے زیر بحث ہی نہیں ہے۔یہاں اس کا بیرون زیر بحث ہے جس سے وہ اپنی عقل، اپنے حواس اور اپنی سماعت و بصارت کے ذریعے سے متعلق ہوتا ہے۔اس مقام پر مخاطبین کو اللہ کے ان انعامات کی یاددہانی کرائی گئی ہے جن سے وہ اللہ کی عطا کی ہوئی صلاحیتوں کے توسط ہی سے آگاہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلۂ بیان میں جو آیت ۶۵ سے شروع ہو کر آیت ۸۳ پر مکمل ہوتا ہے، اس بارش کا ذکر کیا ہے جو بنجر زمین میں روئیدگی پیدا کرتی اور اس کے ثمر آور ہونے کا باعث بنتی ہے، ان چوپایوں کا ذکر کیا ہے جن سے دودھ جیسی نعمت حاصل ہوتی ہے، کھجوروں اور انگوروں جیسے پھلوں کا ذکر کیا ہے جو لذت کام و دہن کا سامان کرتے ہیں،شہد کی مکھی کا ذکر کیا ہے جو اپنے رب کے حکم سے پھلوں کا رس چوستی اور صحت بخش مشروب پیدا کرتی ہے، بیویوں، بیٹوں اور پوتوں کا ذکر کیا ہے، رزق کا ذکر کیا ہے، فضا میں اڑتے ہوئے پرندوں کا ذکر کیا ہے، گھروں کا ذکر کیا ہے جو چین اور سکون حاصل کرنے کے لیے انسان کی آماج گاہ ہیں، جانوروں کی کھال اور اون کا ذکر کیا ہے جن سے اشیاے ضرورت تیار ہوتی ہیں۔انھی انعامات کی یاددہانی کراتے ہوئے یہ بھی واضح کیا ہے کہ جب اللہ نے تمھیں تمھاری ماؤں کے پیٹوں میں سے نکالا توتم اپنے گرد و پیش میں بکھرے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے بے پناہ انعامات سے ناواقف اور بے گانہ تھے۔ پھر اللہ نے تمھیں سننے ، دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں عطا فرمائیں اور ان کے ذریعے سے تم اس قابل ہوئے کہ گرد و پیش کے انعامات سے مستفید ہو سکو۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں ایسی کوئی چیز زیر بحث ہی نہیں ہے جس کا تعلق انسان کے نفسی و روحانی وجود سے ہو۔ نہ ایمان و عقیدے کا ذکر ہے، نہ فضائل اخلاق کا تذکرہ ہے، نہ اس کے رذائل کا بیان ہے،اور نہ حلال و حرام ، معروف ومنکر ، نیکی و بدی، فجور و تقویٰ اور خیر و شر کا حوالہ ہے۔ اس لیے اس سے خیر وشر کے اس فطری الہام کی نفی ثابت کرنا درست نہیں ہے جس کا ذکر سورۂ شمس کی آیت ’فالہمہا فجورہا وتقواہا‘ میں کیا گیا ہے اور جس کے وجود کو ایک ’فطری رجحان‘ کی حد تک خود فاضل ناقد بھی تسلیم کرتے ہیں۔
مولانا شبیر احمد عثمانی مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’یعنی پیدایش کے وقت تم کچھ جانتے اور سمجھتے نہ تھے، خدا تعالیٰ نے علم کے ذرائع اور سمجھنے والے دل تم کو دیے جو بذات خود بھی بڑی نعمتیں ہیں اور لاکھوں نعمتوں سے متمتع ہونے کے وسائل ہیں۔ اگر آنکھ، کان،عقل وغیرہ نہ ہو تو ساری ترقیات کا دروازہ ہی بند ہو جائے۔ جوں جوں آدمی کا بچہ بڑا ہوتا ہے، اس کی علمی و عملی قوتیں بتدریج بڑھتی جاتی ہیں۔ اس کی شکر گزاری یہ تھی کہ ان قوتوں کو مولیٰ کی طاعت میں خرچ کرتے، اور حق شناسی میں سمجھ بوجھ سے کام لیتے، نہ یہ کہ بجائے احسان ماننے کے الٹے بغاوت پر کمر بستہ ہو جائیں اور منعم حقیقی کو چھوڑ کر اینٹ پتھروں کی پرستش کرنے لگیں۔ یعنی جیسے آدمی کو اس کے مناسب قویٰ عنایت فرمائے، پرندوں میں ان کے حالات کے مناسب فطری قوتیں ودیعت کیں۔...حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ’’یعنی ایمان لانے میں بعضے اٹکتے ہیں، معاش کی فکر سے، سو فرمایا کہ ماں کے پیٹ سے کوئی کچھ نہیں لاتا۔ کمائی کے اسباب کہ آنکھ، کان، دل وغیرہ ہیں، اللہ ہی دیتا ہے اور اڑتے جانور ادھرمیں آخر کس کے بھروسا رہتے ہیں۔‘‘... اگر خدا تعالیٰ آنکھ، کان اور ترقی کرنے والا دل و دماغ نہ دیتا، کیا یہ سامان میسر آ سکتے تھے۔...یعنی دیکھو! کس طرح تمھاری ہر قسم کی ضروریات کا اپنے فضل سے انتظام فرمایا اور کیسی علمی و عملی قوتیں مرحمت فرمائیں جن سے کام لے کر انسان عجیب و غریب تصرفات کرتا رہتا ہے، پھر کیا ممکن ہے کہ جس نے مادی اور جسمانی دنیا میں اس قدر احسانات فرمائے، روحانی تربیت و تکمیل کے سلسلہ میں ہم پر اپنا احسان پورا نہ کرے گا۔‘‘ (تفسیر عثمانی ۳۵۷)
اس آیت کی تشریح میں علامہ ابن کثیر ، مولانا اصلاحی اور مولانا مودودی نے جو کچھ لکھا ہے، اس سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ یہاں انسان کو ملنے والی وہ صلاحیتیں مراد ہیں جو اس کے خارج کو اس پر آشکارا کرتی اور جن کے ذریعے سے وہ اپنے گرد وپیش میں بکھری ہوئی اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر۳/ ۱۳۲۔ تدبر قرآن ۴/ ۴۳۲۔ تفہیم القرآن۲/ ۵۹۹) چنانچہ یہاں انسان کی پیدایش کے وقت اس علم کی نفی ہوئی ہے جو انسان کو حواس اور مشاہدات کے ذریعے سے خارجی دنیا کے بارے میں حاصل ہوتا ہے، اس کے فطری علم کی یہاں ہر گز نفی نہیں کی گئی۔
فاضل ناقد نے دوسری بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ غامدی صاحب کی رائے صحیح مسلم کی ایک روایت کے خلاف ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے حسب ذیل روایت نقل کی ہے:
کان یقول ... اللھم آت نفسي تقواھا وزکھا أنت خیر من زکاھا.( مسلم، رقم ۲۷۲۲)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ، تو میرے نفس کو اس کا تقویٰ عنایت فرما دے اور اس کو پاک کر دے۔ بے شک، تو پاک کرنے والوں میں بہترین پاک کرنے والاہے ۔ ‘‘
روایت کے الفاظ سے واضح ہے کہ یہ دعا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نفس کے تقوے اور اس کی پاکیزگی کی طلب میں پروردگار کے حضور میں پیش کی ہے۔فاضل ناقد نے اس سے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ استدعا اس چیز کے لیے کی جاتی ہے جو میسر نہ ہو۔ اگر نفس کا تقویٰ انسان کو فطری طور پر ودیعت ہوتا تو آپ اسے اللہ تعالیٰ سے ہر گز طلب نہ کرتے۔ لکھتے ہیں:
’’اگر ’فجور‘ اور’ تقویٰ‘ انسانی فطرت میں داخل ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس تقویٰ کو مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ (فکر غامدی۲۹)
اس ضمن میں گزارش یہ ہے کہ یہ بات کسی طرح بھی درست نہیں ہے کہ دعا سے اس چیز کی عدم دستیابی لازم آتی ہے جس چیز کے لیے دعا مانگی جا رہی ہے۔ بلا شبہ ناحاصل کے لیے دعا مانگی جاتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم حاصلات کے لیے بھی پروردگار کے حضور میں دست دعا بلند کرتے ہیں۔ اس سے مقصود اس حاصل میں ازدیاد اور اس کا دوام و استمرار ہوتا ہے۔ چنانچہ ہر صالح مسلمان صراط مستقیم پر گا م زن رہنے کے باوجود دن میں پانچ مرتبہ ’اھدنا صراط المستقیم‘ کی دعا مانگتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ دعا انسان کی خود ساختہ نہیں ہے، بلکہ ا س کے پروردگار نے سکھائی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون صراط مستقیم پرگام زن ہو سکتا ہے، مگر اس کے باوجود ان کی زبان پر یہ دعا جاری رہتی تھی۔

کیا فطرت مستقل ماخذ دین ہے؟

فطرت اور وحی کے باہمی تعلق کے حوالے سے ان بنیادی مباحث کی وضاحت کے بعد اب آئیے اس سوال کی طرف کہ کیا فطرت کو ایک الگ اور مستقل بالذات ماخذ دین کی حیثیت حاصل ہے؟ اس سوال کا جواب اگر اثبات میں ہے تو پھر مزید سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فطرت کا تعین کیسے ہوگا اور اگر اس ضمن میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے تو اسے کیسے رفع کیا جائے گا؟ ہم نے اوپر کے صفحات میں جو بحث کی ہے، اس کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ سوال سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے معاملے کو محض فطرت کی رہنمائی پر منحصر نہیں رکھا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر انبیا علیہم السلام کا ایک سلسلہ جاری کیا ہے۔ان انبیاے کرام نے دین فطرت کی تصویب وتائیدکی ہے اور انسانوں کو اس کے حقائق کی جانب متوجہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ان اختلافات کو بھی رفع کیا ہے جو فطرت کے تقاضوں کے فہم میں پیدا ہو ئے تھے یا پیدا ہو سکتے تھے۔ چنانچہ انبیا کی رہنمائی کی موجودگی میں فطرت مستقل ماخذ دین کی حیثیت نہیں رکھتی۔ فطرت کی تعیین انبیا کی تائید وتصویب ہی سے ہوتی ہے اور اس کی تعیین کے لیے وحی کی رہنمائی سے آزاد کوئی الگ اور مستقل معیار موجود نہیں ہے۔ یہی موقف ہے جسے جناب جاوید احمد غامدی نے بیان کیا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’پہلی چیز (یعنی دین فطرت) کا تعلق ایمان و اخلاق کے بنیادی حقائق سے ہے اور اس کے ایک بڑے حصے کو وہ اپنی اصطلاح میں معروف و منکر سے تعبیر کرتا ہے، یعنی وہ باتیں جو انسانی فطرت میں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں اور وہ جن سے فطرت ابا کرتی اور انھیں برا سمجھتی ہے ۔قرآن ان کی کوئی جامع و مانع فہرست پیش نہیں کرتا ،بلکہ اس حقیقت کو مان کر کہ انسان ابتدا ہی سے معروف و منکر ،دونوں کو پورے شعور کے ساتھ بالکل الگ الگ پہچانتا ہے ، اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ معروف کو اپنائے اور منکر کو چھوڑدے ... اس معاملے میں اگر کسی جگہ اختلاف ہو تو ذریت ابراہیم کا رجحان فیصلہ کن ہو گا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ کئی صدیوں سے پیغمبر انھی میں آئے ہیں اور معروف و منکر سے متعلق ان کے رجحانات کو گویا انبیا علیہم السلام کی تصویب حاصل ہو گئی ہے ۔ ‘‘(اصول و مبادی ۴۸۔ ۴۹)
انبیا علیہم السلام کی طرف سے ذریت ابراہیم کے رجحانات کی تصویب کا عمل آخری مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہوا ہے۔ اس کے بعد فطرت کے تعین میں اصل معیار کی حیثیت اس ’تصویب‘ ہی کو حاصل ہے اور اس کو جاننے کے لیے قرآن مجید کو حتمی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔ چنانچہ غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’(دین فطرت کے)اس الہام کی تعبیر میں، البتہ اشخاص، زمانے اورحالات کے لحاظ سے بہت کچھ اختلافات ہوسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے کہ اس کی گنجایش بھی اس نے باقی نہیں رہنے دی اورجہاں کسی بڑے اختلاف کا اندیشہ تھا، اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے خیرو شرکو بالکل واضح کردیاہے۔ ان پیغمبروں کی ہدایت اب قیامت تک کے لیے قرآن مجید میں محفوظ ہے۔ انسان اپنے اندر جو کچھ پاتا ہے ، یہ ہدایت اس کی تصدیق کرتی ہے اورانسان کاوجدانی علم، بلکہ تجربی علم، قوانین حیات اور حالات وجو د سے استنباط کیا ہوا علم اورعقلی علم ، سب اس کی گواہی دیتے ہیں ۔ چنا نچہ اخلاق کے فضائل ورذائل اس کے نتیجے میں پوری قطعیت کے ساتھ متعین ہوجاتے ہیں۔‘‘ (اخلاقیات۱۲)
مذکورہ اقتباسات سے واضح ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک فطرت کے تعین کے سلسلے میں فیصلہ کن اتھارٹی کی حیثیت انبیا ہی کو حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غامدی صاحب نے ’’اصول ومبادی‘‘ میں فطرت کا ذکر قرآن مجید کی دعوت کو سمجھنے میں معاون ایک ذریعے کے طور پر تو کیا ہے، لیکن کہیں بھی اسے مستقل بالذات ماخذ دین کے طور پر پیش نہیں کیا، ورنہ وہ ’’مبادی تدبر قرآن‘‘، ’’مبادی تدبر سنت‘‘ اور ’’مبادی تدبر حدیث‘‘ کی طرح ’’مبادی تدبر فطرت‘‘ کا بھی باقاعدہ عنوان قائم کرتے اور فطرت اور اس کے تقاضوں کی تعیین کے اصول وضوابط بیان کرتے۔ 
تاہم فاضل ناقد کا خیال ہے کہ غامدی صاحب وحی کی تصویب سے بے نیاز ہو کر فطرت کو ایک الگ اور مستقل بالذات ماخذ دین قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے جو مفروضات قائم کیے ہیں، ان پر تبصرہ کرنے سے پہلے اس نکتے کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے جو فاضل ناقد کے لیے غلط فہمی کا باعث بنا ہے۔ 
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗٓ اِلَّا اَنْ یَکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ ، فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ.(الانعام۶:۱۴۵ )
’’ کہہ دو ،میں تو اس وحی میں جو میری طرف آئی ہے ،کسی کھانے والے پر کوئی چیز جسے وہ کھاتا ہے ،حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون یا سؤر کا گوشت ،اس لیے کہ یہ سب ناپاک ہیں یا اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کا ذبیحہ۔‘‘
قرآن مجید کی اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان چار چیزوں کے علاوہ کھانے کی کوئی بھی چیز حرام نہیں ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث میں کچلی والے درندوں ،چنگال والے پرندوں اور پالتو گدھے کا گوشت کھانے کی ممانعت بھی ثابت ہے۔ دونوں حکم بظاہر متعارض معلوم ہوتے ہیں اور علماے امت مختلف زاویوں سے ان کے مابین تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ کی رائے میں قرآن کی بیان کردہ چار چیزیں ہی حرام ہیں اور ان کے علاوہ باقی کسی چیز کو حرام نہیں کہا جا سکتا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے صحیح بخاری میں یوں منقول ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول گھریلو گدھے کے گوشت کی ممانعت کو حرمت پر محمول نہیں کرتے تھے، اس لیے کہ ان کے خیال میں یہ بات ’قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما‘ کے منافی تھی۔ (بخاری، رقم۵۲۰۹۔ المستدرک، رقم۳۲۳۶) 
اسی رائے کو بعد میں فقہاے مالکیہ نے اختیار کیا، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بیان ہونے والے جانوروں کو حرمت پر نہیں، بلکہ کراہت پر محمول کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جمہور فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ کھانے کی اشیا میں ممانعت صرف ان چار چیزوں میں منحصر نہیں، بلکہ بہت سی دیگر اشیا بھی حرام اور ممنوع ہیں۔ یہ بات ظاہر ہے کہ قرآن مجید کے بیان کردہ حصر کا صحیح محل واضح ہوئے بغیر تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ جناب جاوید احمد غامدی نے اسی اشکال کو حل کرتے ہوئے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ قرآن کی بیان کردہ حرمت کا دائرہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حرام قرار دیے جانے والے جانوروں کا دائرہ، دونوں بالکل الگ الگ ہیں اور قرآن مجید نے جس دائرے میں حرمت کو چار چیزوں میں منحصر قرار دیا ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حرمت کے دوسرے دائرے میں بھی کوئی چیز ممنوع قرار نہ پائے۔ ’’اصول ومبادی‘‘ میں اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جو جانور پیدا کیے ہیں، ان میں سے بعض کھانے کے ہیں اور بعض کھانے کے نہیں ہیں۔ یہ دوسری قسم کے جانور اگر کھائے جائیں تو اس کا اثر چونکہ انسان کے تزکیہ پر پڑتا ہے ، اس لیے ان سے ابا اس کی فطرت میں داخل ہے۔ انسان کی یہ فطرت بالعموم اس کی صحیح رہنمائی کرتی ہے اور وہ بغیر کسی تردد کے فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسے کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھاناچاہیے۔ اسے معلوم ہے کہ شیر، چیتے، ہاتھی، چیل، کوے، گدھ، عقاب، سانپ ،بچھو، اور خود انسان کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔وہ جانتا ہے کہ گھوڑے ،گدھے ،دستر خوان کی لذت کے لیے نہیں، سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ان جانوروں کے بول و براز کی نجاست سے بھی وہ پوری طرح واقف ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں عموماً غلطی نہیں کرتی۔چنانچہ خدا کی شریعت نے بھی ان جانوروں کی حلت و حرمت کو اپنا موضوع نہیں بنایا، بلکہ انسان کو اس کی فطرت ہی کی رہنمائی پر چھوڑ دیا ہے۔ اس باب میں شریعت کا موضوع صرف وہ جانور اور ان کے متعلقات ہیں جن کی حلت و حرمت کا فیصلہ تنہاعقل وفطرت کی رہنمائی میں کر لینا ممکن نہ تھا۔ سؤر انعام کی قسم کے بہائم میں سے ہے ،لیکن درندوں کی طرح گوشت بھی کھاتا ہے، پھر اسے کیاکھانے کا جانور سمجھا جائے یا نہ کھانے کا؟وہ جانور جنھیں ہم ذبح کر کے کھاتے ہیں، اگر تذکیے کے بغیر مر جائیں تو ان کا کیا حکم ہونا چاہیے؟ انھی جانوروں کا خون کیا ان کے بول و براز کی طرح نجس ہے یا اسے حلال وطیب قرار دیا جائے گا؟ یہ اگر خدا کے سوا کسی اورکے نام پر ذبح کردیے جائیں تو کیا پھربھی حلال ہی رہیں گے؟ ان سوالوں کا کوئی واضح اور قطعی جواب چونکہ انسان کے لیے دینا مشکل تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعے اسے بتایاکہ سؤر، خون،مردار اور خدا کے سواکسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور بھی کھانے کے لیے پاک نہیں ہیں اور انسان کو ان سے پرہیزکرنا چاہیے۔ جانوروں کی حلت و حرمت میں شریعت کا موضوع اصلاً یہ چار ہی چیزیں ہیں۔چنانچہ قرآن نے بعض جگہ ’قل لا أجد فی ما أوحی‘ اور بعض جگہ ’انما‘ کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی حلت وحرمت کے باب میں صرف یہی چار چیزیں حرام قرار دی ہیں ...بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں ،چنگال والے پرندوں اور پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ یہ اسی فطرت کا بیان ہے جس کا علم انسان کے اندر ودیعت کیا گیا ہے۔ ہم اگر چاہیں تو ممنوعات کی اس فہرست میں بہت سی دوسری چیزیں بھی اس علم کی روشنی میں شامل کر سکتے ہیں۔ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اسے بیان فطرت کے بجائے بیان شریعت سمجھا، دراں حالیکہ شریعت کی ان حرمتوں سے جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں، اس کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر حدیث سے قرآن کے نسخ یا اس کے مدعا میں تبدیلی کا کوئی مسئلہ پیدا کیاجائے۔‘‘ (۳۷۔۳۹)
مذکورہ اقتباس سے واضح ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک جانوروں کی حلت وحرمت کے باب میں اصل بنیاد کی حیثیت قرآن مجید کے بیان کردہ اصول ’احل لکم الطیبات‘ (تمھارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال ہیں) کے مطابق ان کے خبیث یا طیب ہونے کو حاصل ہے۔ ان طیبات اور خبائث سے انسان اپنی فطرت کی رو سے بالعموم واقف رہا ہے، البتہ ان میں سے ان چیزوں کی شریعت نے وضاحت کر دی ہے جن میں انسان کے لیے اپنی فطرت کی رہنمائی میں فیصلہ کرنا ممکن نہیں تھا، جبکہ باقی جانوروں کے بارے میں انسان کے فطری علم پر اعتماد کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ اس کی فطرت ہی کے سپرد کر دیا گیا۔
غامدی صاحب کا یہ نقطۂ نظر اپنے بنیادی نکات کے لحاظ سے جمہور اہل علم کے موقف سے کسی طرح مختلف نہیں:
سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ سورۂ مائدہ کی آیت ’اُحِلَّ لَکُمْ الطَّیِّبٰتُ‘ (تمھارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال ہیں) اور سورۂ اعراف کی آیت’ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبآئِثَ ‘ (یہ پیغمبر ان کے لیے طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام ٹھیراتا ہے) میں طیبات اور خبائث سے مراد کیا ہے۔ اس سوال کے ظاہر ہے کہ دو ہی جواب ہو سکتے ہیں:
۱۔ ان سے مراد صرف وہ چیزیں ہیں جو حلت و حرمت کے حوالے سے شریعت میں بیان ہوئی ہیں۔
۲۔ان سے مراد وہ چیزیں ہیں جنھیں انسان کی فطرت پسند کرتی یا جن سے وہ ابا کرتی ہے۔ 
امت کے جلیل القدر اہل علم نے اس سوال کے جواب میں بالعموم دوسری رائے کو اختیار کیا ہے اوریہ واضح کیا ہے کہ طیبات اور خبائث سے مراد وہ چیزیں ہیں جنھیں انسانی فطرت طیب اور خبیث سمجھتی ہے۔ امام رازی لکھتے ہیں: 
’’ویحل لہم الطیبات: بعض لوگوں نے کہا ہے کہ طیبات سے مراد وہ اشیا ہیں جن کے حلال ہونے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، مگر یہ بات دو پہلووں سے بعید ہے۔ ایک یہ کہ اگر اس کا معنی یہ ہوتا تو پھر الفاظ یہ ہوتے کہ ’ویحل لہم المحلات‘( اور پیغمبر ان کے لیے حلال چیزوں کو حلال ٹھہراتا ہے) اور یہ محض تکرار ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ معنی لینے سے آیت فائدے سے خالی ہوجاتی ہے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ جن اشیا کو اللہ نے حلال ٹھہرایا ہے، وہ کیا ہیں اور کتنی ہیں۔ لازم ہے کہ طیبات سے مراد وہ چیزیں ہوں جو طبیعت کو اچھی لگیں اور جن کو کھانے میں لذت کا فائدہ حاصل ہو۔ منافع میں اصل چیز حلت ہے۔ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو نفس کو پاکیزہ لگے اور طبیعت کو لذت دے ،وہ حلال ہے اور ہر وہ چیز جو نفس کو ناپاک لگے اور طبیعت اس کو ناپسند کرے تو وہ حرام ہے، سوائے اس کے کہ الگ سے کوئی دلیل ہو۔... میں کہتا ہوں کہ خبائث سے مراد ہر وہ چیز ہے جو طبیعت کو ناپاک کرے اور نفس کو آلودہ کرے اور اس کولینا تکلیف کا سبب بنے۔‘‘ (تفسیر کبیر۱۵/ ۲۴)
امام رازی نے یہی بات اپنی تفسیر میں ایک اور مقام پر قدرے مختلف الفاظ میں بیان کی ہے۔لکھتے ہیں: 
’’یہ ممکن نہیں ہے کہ یہاں طیبات سے مراد (اللہ تعالیٰ کی) حلال کردہ چیزیں ہوں۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ آیت اس طرح ہوتی :’قل احل لکم المحلات‘ ( کہہ دو تمھارے لیے حلال چیزیں حلال کی گئی ہیں) اور یہ معلوم ہے کہ یہ کمزور (جملہ) ہے۔ چنانچہ لازم ہے کہ طیبات کو لذیذ اور پسندیدہ چیزوں پر محمول کیا جائے۔ لہٰذا جملے کا مفہوم یہ ہو گا:’احل لکم ما یستلذ و یشتہی‘ ( تمھارے لیے ہر لذیذ اور پسندیدہ چیز حلال کی گئی ہے)۔پھر یہ جان لو کہ لذیذ ہونے اور پاکیزہ ہونے میں اچھے اخلاق والے لوگوں ہی کا اعتبار کیا جائے گا۔ کیونکہ اہل بادیہ تمام حیوانات کے کھانے کو پاکیزہ سمجھتے تھے اور اس کی تائید یہ آیت کرتی ہے کہ ’زمین میں جو کچھ ہے اس نے تمھارے لیے ہی پیدا کیا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر۱۱/ ۱۴۲)
علامہ آلوسی نے بیان کیا ہے:
’’ویحل لہم الطیبات ویحرم علیہم الخبائث: پہلی چیز یعنی طیبات کی تفسیر یہ کی گئی ہے کہ اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو طبیعت کو پاکیزہ لگیں جیسے چربی۔ اور دوسری چیز یعنی خبائث سے مراد وہ اشیا ہیں جو طبیعت کو ناپاک لگیں جیسے خون۔ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو نفس کو پاکیزہ لگے اور طبیعت کو لذت دے، وہ حلال ہے اور ہر وہ چیز جو نفس کو ناپاک لگے اور طبیعت اس کو ناپسند کرے ، وہ حرام ہے سوائے اس کے کہ الگ سے کوئی دلیل ہو۔‘‘ (روح المعانی۹/۸۱)
صاحب ’’معارف القرآن‘‘ مولانا مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں: 
’’لغت میں طیبات صاف ستھری اور مرغوب چیزوں کو کہا جاتا ہے۔ اور خبائث اس کے بالمقابل گندی اور قابل نفرت چیزوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس لیے آیت کے اس جملہ نے یہ بتلا دیا کہ جتنی چیزیں صاف ستھری، مفید اور پاکیزہ ہیں، وہ انسان کے لیے حلال کی گئیں، اور جو گندی قابل نفرت اور مضر ہیں وہ حرام کی گئی ہیں۔... اب یہ بات کہ کون سی چیزیں طیبات یعنی صاف ستھری، مفید اور مرغوب ہیں اور کون سی خبائث یعنی گندی، مضر اور قابل نفرت ہیں، اس کا اصل فیصلہ طبائع سلیمہ کی رغبت و نفرت پر ہے۔‘‘ (معارف القرآن ۳/۴۳)
صاحب ’’تفہیم القرآن‘‘ نے لکھا ہے کہ ہر چیز طیب ہے اور حلال ہے سوائے ان چیزوں کے جنھیں شریعت نے ناپاک اور حرام قرار دیا ہے اور جنھیں انسانی فطرت ناپاک تصور کرتی ہے:
’’حلال کے لیے ’’پاک‘‘ کی قید اس لیے لگائی کہ ناپاک چیزوں کو اس اباحت کی دلیل سے حلال ٹھیرانے کی کوشش نہ کی جائے۔ اب رہا یہ سوال کہ اشیا کے ’’پاک‘‘ ہونے کا تعین کس طرح ہو گا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو چیزیں اصول شرع میں سے کسی اصل کے ماتحت ناپاک قرار پائیں، یا جن چیزوں سے ذوق سلیم کراہت کرے ، یا جنھیں مہذب انسان نے بالعموم اپنے فطری احساس نظافت کے خلاف پایا ہو، ان کے ماسوا سب کچھ پاک ہے۔‘‘  (تفہیم القرآن ۱؍۴۴۴) 
حلت وحرمت کے باب میں شریعت کے اسی بنیادی اصول کے تحت قرآن مجید نے بھی خبائث کا مصداق قرار پانے والی بعض چیزوں کی وضاحت کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض چیزوں کو متعین کیا ہے۔ جہاں تک قرآن مجید کی بیان کردہ چار چیزوں کا تعلق ہے تو وہ ایک مخصوص دائرے میں حصر کے ساتھ بیان ہوئی ہیں اور ان پر اضافے کی کوئی گنجایش نہیں، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مختلف جس دوسرے دائرے میں بعض جانوروں کی حرمت کو واضح کیا ہے، وہ چونکہ خبائث کی حرمت کے اسی عمومی اصول پر مبنی ہے جو قرآن مجید میں بیان ہوا ہے، اس لیے اسی اصول پر اگر انسان اپنی فطری ناپسندیدگی کی بنا پر بعض ایسی چیزوں پر حرمت کا حکم لگائیں جن کے بارے میں قرآن مجید نے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی فیصلہ نہیں سنایا تو یہ کسی صورت میں دین کے خلاف متصور نہیں ہو گا، بلکہ بعینہٖ شارع کے بیان کردہ اصول پر عمل قرار پائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ علما و فقہا نے جانوروں کی حلت و حرمت کے معاملے میں طیبات و خبائث ہی کو اصل الاصول قرار دیا ہے اور اس باب میں انسانی طبائع کی پسندیدگی اور نا پسندیدگی ہی کو معیار مانتے ہوئے بہت سے ایسے جانوروں کو بھی حرمت کے دائرے میں شامل کیا ہے جن کی حرمت قرآن و حدیث میں مذکور نہیں ہے۔ اس ضمن میں اگر کوئی اختلاف واقع ہوتا ہے تو شارع کی طرف کوئی واضح صراحت میسر نہ ہونے کی بنا پر وہ اجتہادی اختلاف قرار پائے گا جس کی رخصت اور گنجایش خود صاحب شرع کی طرف سے رکھی گئی ہے۔ 
ذیل میں فقہ کے مختلف مکاتب فکر کے نمائندہ اصحاب علم کی آرا نقل کی جارہی ہیں۔ امید ہے کہ ان کے مطالعے سے ہماری بات پوری طرح واضح ہو جائے گی۔
امام شافعی لکھتے ہیں:
’’اہل عرب بہت سی چیزوں کو ان کے خبیث ہونے کی وجہ سے حرام اور بہت سی چیزوں کو ان کے طیب ہونے کی وجہ سے حلال سمجھتے تھے، چنانچہ جن چیزوں کو وہ طیب سمجھتے تھے، ان میں سے بعض کو مستثنیٰ کرتے ہوئے باقی کو ان کے لیے حلال قرار دیا گیا، اور جن چیزوں کو وہ خبیث سمجھتے تھے، وہ ان کے لیے حرام کر دی گئیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ رسول ان پر خبیث چیزوں کو حرام ٹھہراتا ہے۔ اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ بس وہی چیز حرام ہے جس کو نام لے کر حرام کہا گیا ہو اور جس کی حرمت پر کوئی نص نہ ہو، وہ حلال ہے تو اسے پاخانہ اور (زخم سے نکلنے والے) کیڑوں کے کھانے اور پیشاب پینے کو حلال کہنا ہوگا، کیونکہ ان کے حرام ہونے پر کوئی نص نہیں، بلکہ یہ چیزیں ’خبائث‘ کے اندر شامل ہیں جنھیں اہل عرب حرام سمجھتے تھے اور ان کے حرام سمجھنے ہی کی وجہ سے (شریعت میں بھی) انھیں ان کے لیے حرام کہا گیا۔ پس اہل عرب کتے، بھیڑیے، شیر اور چیتے کا گوشت نہیں کھاتے تھے جبکہ بجو کا گوشت کھا لیتے تھے، اس لیے بجو حلال ہے۔ اسی طرح وہ چوہے، بچھو، سانپ، چیل اور کوے کو نہیں کھاتے تھے ، پس سنت میں (جو بعض چیزوں کو حرام کہا گیا ہے) وہ قرآن کے اس حکم کے موافق ہے کہ اہل عرب جن چیزوں کو حلال سمجھتے ہیں وہ حلال، اور جن کو حرام سمجھتے ہیں، وہ حرام ہیں۔‘‘ (الام ۲/۲۶۳، ۲۶۴)
علامہ کاسانی حنفی نے بیان کیا ہے:
’’شریعت نے انھی چیزوں کو حلال کیا ہے جو انسانی طبع کے لیے خوش گوار ہیں، نہ کہ ان کو جن سے وہ گھن کھاتی ہے، اسی لیے فراوانی کی حالت میں اس چیز کو غذا نہیں بنایا گیا جو طبع کے لیے ناگوار ہو، بلکہ اس چیز کو غذا ٹھہرایا گیا ہے جو حددرجہ خوشگوار اور مرغوب ہے۔‘‘ (بدائع الصنائع ۵/۳۸)
پانی کے بعض جانوروں کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ رسول ان پر خبیث چیزوں کو حرام ٹھہراتا ہے، اور مینڈک، کیکڑا اور سانپ وغیرہ بھی خبائث میں سے ہیں۔‘‘ (بدائع الصنائع ۵/۳۵)
خشکی کے جانوروں کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’جو جانور خشکی پر رہتے ہیں، ان کی تین قسمیں ہیں۔ کچھ وہ ہیں جن میں سرے سے خون نہیں، کچھ وہ ہیں جن میں بہنے والا خون نہیں اور کچھ وہ ہیں جن میں بہنے والا خون ہے۔ (پس جن میں سرے سے خون نہیں) جیسا کہ ٹڈی، بھڑ، مکھی، مکڑی، بغاثہ، گبریلا، پسو اور بچھو وغیرہ تو ان میں سے ٹڈی کے علاوہ باقی چیزوں کا کھانا حلال نہیں کیونکہ یہ خبیث ہیں جس کی دلیل یہ ہے کہ سلیم طبیعتیں ان سے اجتناب کرتی ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ رسول ان پر خبیث چیزوں کو حرام ٹھہراتا ہے۔ اسی طرح وہ جانور بھی حرام ہیں جن میں بہنے والا خون نہیں، جیسے سانپ، چھپکلی کی مختلف قسمیں، کیڑے مکوڑے ، زمین کے جانور مثلاً چوہا، چیچڑی، سیہی، گوہ، یربوع اور نیولا وغیرہ۔‘‘ (بدائع الصنائع ۵/۳۶)
امام ابن قتیبہ نے لکھا ہے:
’’بعض حرام چیزیں ایسی ہیں جن کی حرمت پر نہ قرآن میں کوئی آیت اتری ہے اور نہ سنت میں کوئی نص ہے۔ ان میں لوگوں کو ان کی فطرت پر اور اس طبیعت پر چھوڑ دیا گیا ہے جن پر انھیں پیدا کیا گیا ہے، جیسے انسان کا گوشت، بندر کا گوشت، سانپ، چھپکلی کی مختلف قسمیں اور چوہا وغیرہ۔ ان میں سے ہر چیز سے نفوس گھن کھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی کتاب میں یہ اصول بتا دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر خبیث چیزوں کو حرام ٹھہراتے ہیں، اور یہ تمام چیزیں فطرت کی رو سے خبیث ہیں۔‘‘ (تاویل مختلف الحدیث ۱۸۱)
ابن قدامہ حنبلی نے بیان کیا ہے:
’’ان جانوروں کے علاوہ جن جانوروں کو اہل عرب حلال سمجھتے ہوں، وہ حلال ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ رسول ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال ٹھہراتا ہے، یعنی ان چیزوں کو جنھیں اہل عرب طیب سمجھتے ہیں۔ اور جن چیزوں کو اہل عرب خبیث سمجھتے ہوں، وہ حرام ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ رسول ان پر خبیث چیزوں کو حرام ٹھہراتا ہے۔ جب یہ ثابت ہو گیا تو خبیث سمجھی جانے والی چیزوں میں حشرات مثلاً کیڑے، گبریلے کی مختلف نسلیں، چھپکلی کی مختلف قسمیں، گرگٹ، مختلف قسم کے چوہے، بچھو اور سانپ وغیرہ شامل ہیں۔‘‘  (المغنی مع الشرح الکبیر ۱۱/۶۴) 
یہاں تک کہ ابن حزم، جنھوں نے کسی بھی چیز کو خبیث قرار دینے کے لیے شارع کی طرف سے نص کو ضروری قرار دیا ہے (المحلی ۸/۴۲) اور اپنی کتاب’ ’المحلیٰ‘‘ میں مختلف جانوروں کی خباثت کے بارے میں پوری محنت سے نصوص جمع کرنے کی کوشش کی ہے ، بعض جانوروں کے خبیث ہونے کے بارے میں انھیں بھی انسانی فطرت اور رجحان ہی پر انحصار کرنا پڑا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’’رہے بچھو اور سانپ تو کسی ذی فہم کو اس میں شبہ نہیں ہوسکتا کہ یہ خبیث ترین چیزیں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ رسول ان پر خبیث چیزوں کو حرام کرتے ہیں۔ جبکہ چوہوں کے شکار کے لیے تمام اہل اسلام بلیاں اور مہلک چوہے دان رکھتے رہے ہیں اور انھیں مارنے کے بعد انھیں کوڑا کرکٹ کی جگہوں پر پھینک دیتے ہیں۔ پس اگر ان کا کھانا حلال ہوتا تو مسلمانوں کا ایسا کرنا گناہ ہوتا اور مال کو ضائع کرنے کے زمرے میں آتا۔‘‘ (المحلی ۸/۴۷)
اس تفصیل سے واضح ہے کہ جناب جاوید احمد غامدی جانوروں کی حلت وحرمت کے باب میں طیبات اور خبائث کو بنیادی اصول قرار دیتے ہیں، البتہ ان کے مصداق کی تعیین کے ضمن میں، بعض فقہا کی رائے کے برعکس، منصوص جانوروں تک حرمت کو محدود رکھنے کے بجائے انسانوں کی فطرت سلیمہ اور ان کے ذوق اورمزاج کی روشنی میں ممانعت کے اس دائرے میں توسیع کے قائل ہیں اور ان کی یہ رائے جمہور فقہا کے مسلک کے عین مطابق ہے۔ یہ وہ بحث ہے جس سے فاضل ناقد نے محض اپنے سوء فہم کی بنیاد پر درج ذیل مفروضات قائم کیے ہیں:
۱۔ غامدی صاحب فطرت انسانی کو شریعت سے الگ اور اس کے متوازی مستقل ماخذ دین قرار دیتے ہیں۔ 
۲۔ انھوں نے انسانی فطرت کو حلال وحرام کا اختیار تفویض کر کے اسے شارع بنا دیا ہے اور اس طرح نعوذ باللہ اسے اللہ کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔
۳۔ انھوں نے ہر انسان کو تو حلال وحرام کا فیصلہ کرنے کا حق دیا ہے، مگر نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کا حق تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
اب اوپر کی سطور میں ہماری بحث کی روشنی میں ان الزامات اور مفروضات کا جائزہ لیجیے:
یہ بات درست ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک قرآن مجید نے ایک مخصوص دائرے میں جانوروں سے متعلق صرف چار چیزوں کو حرام ٹھہرایا ہے، جبکہ ان کے علاوہ باقی تمام چیزوں کی حلت و حرمت کا فیصلہ فطرت انسانی پر چھوڑ دیا گیا ہے، لیکن ا س سے یہ اخذ کرنا کہ فطرت کو حلت وحرمت کے باب میں مستقل بالذات ماخذ دین قرار دیا جا رہا ہے، کسی طرح درست نہیں۔ یہ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کے اختیار کا نہیں، بلکہ حلال وحرام کے باب میں شریعت کے بیان کردہ اصول یعنی طیبات اور خبائث کے مصداق کی تعیین کا مسئلہ ہے اور جمہور فقہا نے اس باب میں حلال اور حرام جانوروں کی فہرست تیار کرنے میں نصوص کے علاوہ انسانی فطرت سے بھی پوری پوری رہنمائی لی ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ فطری علم کی روشنی میں طیبات وخبائث کی تعیین، تحلیل وتحریم کے زمرے میں آتی ہے اور یہ بات انسان کو شارع کے منصب پر فائز کرنے کے مترداف ہے، بدیہی طور پر سوء فہم ہے۔ یہ چیز اگر فطرت کے مستقل ماخذ دین قرار پانے یا انسان کے تحلیل وتحریم کے منصب پر فائز ہونے کو مستلزم ہے تو اس جر م میں جمہور فقہا بھی غامدی صاحب کے ساتھ پوری طرح شریک ہیں۔ 
یہی کج فہمی اس الزام میں بھی کارفرما ہے کہ غامدی صاحب نے عام انسانوں کو تو حلال وحرام کا فیصلہ کرنے کا حق دے دیا ہے، مگر نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کا حق تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ جس دائرے میں قرآن نے چار چیزوں کی حرمت بیان کی ہے، اس پر اضافہ کوئی نہیں کر سکتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے ارشادات میں ان محرمات میں کوئی اضافہ نہیں کیا، بلکہ اس سے مختلف ایک دوسرے دائرے میں بعض جانوروں کی حرمت کو واضح کیا ہے۔اس ضمن میں آپ کے ارشادات اور ان کے علاوہ بہت سے دوسرے جانوروں کی حرمت کے بارے میں فقہا کے فیصلے، دونوں خبائث کی حرمت کے اس اصول پر مبنی ہیں جو قرآن مجید میں بیان ہوا ہے، لہٰذا قرآن کی بیان کردہ حرمتوں پر اضافے کا حق رسول اللہ کے لیے نہ ماننے اور عام انسانوں کے لیے تسلیم کرنے کا اعتراض بالکل بے معنی ہے۔
فاضل ناقد نے سب سے بڑھ کر دل چسپ نکتہ جو پیدا کیا ہے، وہ یہ ہے کہ انسانی فطرت کوطیب و خبیث کے تعین کا اختیار دینے کے نتیجے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسانوں کے مختلف گروہ اپنے اپنے فطری میلان کی بنا پر ایک دوسرے سے مختلف نتائج پر پہنچیں تو ان میں سے ترک و اختیار کا فیصلہ کس اصول کی بنا پر کیا جائے گا؟ فاضل ناقد نے اپنے کمال فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود ہی اس سوال کا ایک جواب وضع کیا ہے اور اسے جناب جاوید احمد غامدی کی نسبت سے بیان کر دیا ہے۔لکھتے ہیں:
’’غامدی صاحب کے نزدیک کھانے کے جانوروں میں انسانی فطرت سے حلال و حرام کا تعین ہو گا،لیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اختلاف فطرت کی صورت میں کس کی فطرت معتبر ہوگی؟ ...غامدی صاحب اس مسئلے کا حل تجویز کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر کسی جانورکے بارے میں انسانی فطرت کی آرا مختلف ہو جائیں توجمہور کی رائے پر عمل کیا جائے گا۔ غامدی صاحب اصول و مبادی میں لکھتے ہیں : 
’’اس میں شبہ نہیں کہ اس کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہو جاتی ہے ،لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں عموماً غلطی نہیں کرتی‘‘۔(میزان:ص۳۷)
غامدی صاحب کے اس سنہری اصول کی روشنی میں دنیا کے انسانوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد نے سؤر تک کو اپنی فطرت سے حلال کر رکھا ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں المورد کا کوئی ریسرچ اسکالر یہ تحقیق پیش کر دے کہ قرآن نے جس سؤر کو حرام قرار دیا ہے، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا سؤر ہے۔ رہا آج کا سؤر جس کی مغرب میں باقاعدہ فارمنگ کی جاتی ہے،وہ فطرتاً حلا ل ہے۔ اہل مغرب کو تو چھوڑیے،مسلمانوں کو دیکھ لیں، ان کی اکثریت کے ہاں حلال و حرام کا کیا معیارہے جسے غامدی صاحب اپنے اصول فطرت میں اختلاف کی صورت میں بطور دلیل پیش کر رہے ہیں ۔‘‘ (الشریعہ، فروری ۲۰۰۷، ۳۹)
اسلوب تنقید کا یہ نادر نمونہ ارباب ذوق نے کم ہی ملاحظہ کیا ہو گا کہ کسی مصنف کی تحریر پر تنقیدی نکتہ اٹھایا جائے اور از خود اس کا مفروضہ جواب وضع کرکے طنز و تعریض کی بوچھاڑ کر دی جائے۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ تنقید غامدی صاحب کی تحریر کو سمجھے بغیر لکھی گئی ہے، مگر اس مقام کو دیکھ کر یہ خیال ہوتا ہے کہ سمجھنا تو دور کی بات ہے، یہ تو اس کو پڑھے بغیر ہی لکھی گئی ہے۔ غامدی صاحب کا یہ جملہ کہ ’’دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں عموماً غلطی نہیں کرتی‘‘ ان کی جس بحث سے اٹھایا گیا ہے، وہ ایک طویل اقتباس کی صورت میں ہم سابقہ صفحات میں پیش کر چکے ہیں۔ اس اقتباس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکیزہ اور غیر پاکیزہ جانوروں کی تعیین کا فیصلہ جس دائرے میں انسانی فطرت پر چھوڑا گیا ہے، وہ بالکل الگ ہے جبکہ قرآن مجید نے جن چیزوں کی حرمت کو قطعی طور پر بیان کر دیا ہے، وہ ایک بالکل الگ دائرہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے دائرے میں تو کسی حد تک انسانوں کے مابین اختلاف کی گنجایش موجود ہے اور فقہی اختلافات میں اور دنیا کے مختلف علاقوں میں بسنے والے انسانوں کے ہاں اس کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں، لیکن قرآن مجید کی حرام کردہ چیزوں کے دائرے میں اختلاف کی قطعاً کوئی گنجایش نہیں۔ اس بحث میں سے سیاق وسباق کو کلی طور پر نظر انداز کر کے مذکورہ جملہ اٹھا لینا اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ قرآن مجید کی حرام کردہ چیزوں میں بھی انسانی فطرت اپنے تئیں فیصلہ کر سکتی ہے، علم وعقل ، دیانت اور انصاف کا خون کیے بغیر ممکن نہیں، لیکن فاضل ناقد کو داد دیجیے کہ وہ ضمیر کے پورے اطمینان کے ساتھ یہ سب کچھ کر گزرے ہیں۔
بحث کے آخر میں فاضل ناقد نے ’’غامدی صاحب کا اپنے اصولوں سے انحراف ‘‘کی سرخی قائم کی ہے اور اس کی مثال کے طور پر ڈاڑھی کے بارے میں جناب جاوید احمد غامدی کے موقف کا حوالہ دیا ہے اور یہ تضاد بیان کیا ہے کہ ایک جانب غامدی صاحب فطرت کو دین قرار دیتے ہیں اور دوسری جانب ڈاڑھی جیسی فطری چیز کو دائرۂ دین میں شامل ہی نہیں کرتے۔ چنانچہ انھوں نے لکھا ہے:
’’جس طرح غامدی صاحب کا اصول فطرت غلط ہے، اسی طرح بعض مقامات پر اس اصول کی تطبیق میں انھوں نے اپنے ہی وضع کردہ اس اصول سے انحراف بھی کیا ہے ۔اس کی ایک مثال ہم یہاں پیش کرتے ہیں۔ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر پیدا کیاہے، اس میں ڈاڑھی بھی شامل ہے ۔کسی چیز کی فطرت سے مراد اس کی وہ اصل تخلیق ہے جس پر اس کو پید اکیا گیا ہے۔ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جس حالت پر پید اکیا ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ ان کے چہرے پر ڈاڑھی کے بال ہوتے ہیں جبکہ عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر پیدا کیاہے، وہ یہ ہے کہ ان کے چہرے پر بال نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کی تخلیق میں یہ فطری فرق رکھا ہے۔ ڈاڑھی غامدی صاحب کے اصول فطرت سے ثابت ہے، لیکن غامدی صاحب نے اپنی ہی فطرت اور اپنے اصول فطرت دونوں کی مخالفت اختیار کرتے ہوئے ڈاڑھی کو دین سے خارج قرار دیا۔ ‘‘ (الشریعہ، فروری ۲۰۰۷، ۴۲۔ ۴۳)
اس مثال سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ فاضل ناقد ’فطرت‘ اور ’سنت‘ کے مفہوم اور ان کے الگ الگ دائروں کے بارے میں جناب جاوید احمد غامدی کے موقف کو سمجھنے سے بالکل قاصر رہے ہیں۔ وہ مقدمہ تو یہ قائم کر رہے ہیں کہ ’’ڈاڑھی غامدی صاحب کے اصول فطرت سے ثابت ہے‘‘ اور اس سے نتیجہ یہ اخذ کر رہے ہیں کہ ڈاڑھی دین کا ایک حکم ہے اور پھر غامدی صاحب پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ انھوں نے ’’اپنے اصول فطرت کی مخالفت اختیار کرتے ہوئے ڈاڑھی کو دین سے خارج قرار دیا ہے۔‘‘ ڈاڑھی کے ایک فطری چیز ہونے سے غامدی صاحب نے ہر گز انکار نہیں کیا۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس فطری چیز کو شریعت نے باقاعدہ دینی رسم کی حیثیت دی ہے؟ چونکہ یہ بحث حقیقت میں ڈاڑھی کو فطرت تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے نہیں،بلکہ اس کو ایک دینی مفہوم میں ایک ’سنت‘ قرار دینے سے متعلق ہے، اس لیے ہم اس حوالے سے اپنا موقف، ان شاء اللہ سنت کی بحث میں واضح کریں گے۔

الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ائمہ و خطبا کے لیے تربیتی نشست

ادارہ

۱۱ جون ۲۰۰۷ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ’’عامۃ الناس کی تعلیم وتربیت اور ائمہ وخطبا کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے ایک تربیتی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں شہر کے علما اور ائمہ وخطبا کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ تقریب کی صدارت اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کی جبکہ مولانا داؤد احمد، مولانا حافظ محمد یوسف اور مولانا عبد الواحد رسول نگری نے عوام الناس میں دعوتی وتبلیغی سرگرمیوں کے حوالے سے ائمہ وخطبا کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔
اس نشست کا اہتمام گزشتہ سال الشریعہ اکادمی کے تعاون سے شہر کی دو درجن سے زائد مساجد میں ۳۰ روزہ فہم دین کورس کے کامیاب سلسلے کے تناظر میں کیا گیا۔ اس سلسلے کو مربوط اور منظم انداز میں آگے بڑھانے کے لیے ایک ’’مجلس مشاورت برائے تعلیمی وتربیتی کورسز‘‘ قائم کی گئی ہے جس کا امیر مولانا داؤد احمد، استاذ حدیث مدرسہ مظاہر العلوم گوجرانوالہ کو منتخب کیا گیا ہے۔ 
تربیتی نشست سے خطاب کرتے ہوئے مولانا داؤد احمد نے کہا کہ ہر داعئ حق کو نتائج کی پروا کیے بغیر خلوص اور استقامت کے ساتھ دین حق کا پیغام عامۃ الناس تک پہنچانے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروے کار لانی چاہییں اور یہ خیال کبھی ذہن میں نہیں لانا چاہیے کہ استفادہ کرنے والوں کی تعداد تھوڑی ہے یا زیادہ۔ انھوں نے کہا کہ یقیناًائمہ اور خطبا کو بہت سے مسائل اور نامناسب رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن انھیں دین کی نصرت اور رضاے الٰہی کے حصول کے جذبے کے ساتھ پوری لگن سے دعوت واصلاح کا کام کرتے رہنا چاہیے۔
الشریعہ اکادمی کے ناظم مولانا حافظ محمد یوسف نے فہم دین کورس کے سلسلے کے آغاز اور اس کے ثمرات ونتائج پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ ۱۹۹۹ میں الشریعہ اکادمی میں ترجمہ قرآن مجید کی کلاس کے آغاز کے بعد یہ ضرورت سامنے آئی کہ عام لوگوں کے لیے مختصر دورانیے کے کورسز بھی ہونے چاہییں، چنانچہ ۲۰۰۳ میں فہم دین کورس کا سلسلہ شروع کیا جس کی اب تک چھ کلاسز منعقد کی جا چکی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس سلسلے کی افادیت کو دیکھتے ہوئے شہر کے دیگر علماے کرام کو بھی اس طرف توجہ دلائی گئی اور گزشتہ رمضان المبارک میں تقریباً ۲۵ مساجد میں اس کورس کا اہتمام کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اس سلسلے کو باہمی تعاون اور مشاورت کے ساتھ مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
مدرسہ اشرف العلوم کے مدرس مولانا عبد الواحد رسول نگری نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ہمارے معاشرے میں اس وقت دو قسم کے طبقات پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو دین سے دور ہیں اور دوسرے وہ جو دین سے بے زار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان دونو ں طبقوں کا ذہنی پس منظر اور نفسیات الگ الگ ہیں اور علما اور خطبا کو اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے معاشرے میں دعوت دین کی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی بے علمی اور بے فکری اور علما کی کوتاہی کی وجہ دین سے دور ہے اور ایسے لوگوں تک پہنچ کر انھیں دینی تعلیمات سے روشناس کرانا نسبتاً آسان ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں مختصر دورانیے کے کورسز کو ایک مفید اقدام قرار دیا اور کہا کہ ایسے کورسز سے دین سے دور اور دین سے بے زار، دونوں طبقوں کو مستفید ہونے کا موقع ملے گا۔
اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے اپنی اختتامی گفتگو میں مولانا عبد الواحد رسول نگری کی بات کی تائید کی اور اس کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں موجود دونوں طبقوں کے دین سے دور ہونے کی اصل وجہ بے خبری ہے، البتہ دین سے دور طبقے میں بے خبری کا قصور وار خود وہ طبقہ ہے جبکہ دین سے بے زار طبقے کے معاملے میں بے خبری کی ذمہ داری علما اور ائمہ وخطبا پر عائد ہوتی ہے۔ انھوں نے ائمہ وخطبا کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے عامۃ الناس کی تعلیم وتربیت اور اس کے تقاضوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ دین سے لوگوں کی دوری کو ختم کرنے کے لیے دونوں جانبوں سے بے خبری کا علاج کرنا ہوگا۔
تقریب میں شریک ہونے والے ائمہ وخطبا نے اپنے اپنے دائرۂ کار میں اس کار خیر کو پھیلانے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس سلسلے میں اب تک شہر کی تقریباً ۶۰ مساجد میں، جن میں خواتین کی تعلیم وتربیت کے ۱۵ مراکز بھی شامل ہیں، اس نوعیت کی کلاسز شروع ہو چکی ہیں۔ الشریعہ اکادمی میں اس وقت فہم دین کورس کی تین کلاسز جاری ہیں جس میں ۱۰۰ کے قریب نوجوان، بزرگ اور خواتین شریک ہیں۔

اکادمی کے زیر اہتمام لینگویج کورسز 

گزشتہ دنوں الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں دینی مدارس کے طلبہ کے لیے ۴۰ روزہ انگلش لینگویج کورس کا اہتمام کیا گیا جس میں تین درجن کے قریب طلبہ نے شرکت کی۔ یہ کورس کامیابی کے ساتھ مکمل ہو چکا ہے۔ 
۲۳ جون ۲۰۰۷ کو مرکزی جامع مسجد ہی میں عربی بول چال کورس کا آغاز کیا گیا جو ۲۶ جولائی تک جاری رہے گا۔ اس کورس میں بھی تین درجن کے قریب طلبہ شریک ہیں۔ اس کورس کے اختتام پر دونوں کورسز میں شریک ہونے والے طلبہ کو کامیابی کے سرٹیفکیٹ جاری کیے جائیں گے۔ اکادمی کے ناظم مولانا محمد یوسف ان کورسز میں معلم کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

ملکہ برطانیہ کی طرف سے سلمان رشدی کے لیے اعزاز

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوم نے سلمان رشدی کو ’’سر‘‘ کا خطاب دے کر مسلمانوں کے بہت سے پرانے زخموں کو ایک بار پھر تازہ کر دیا ہے اور اس پر عالم اسلام میں احتجاج کی ایک نئی لہر شروع ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ملکہ برطانیہ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے نزدیک ایک انتہائی قابل نفرت شخص کو اس اعزاز کے لیے کس بنیاد پر چنا ہے، اس کی باقاعدہ وضاحت تو وہی کر سکتی ہیں لیکن ایک عام مسلمان کا دنیا کے کسی بھی خطے میں تاثر یہی ہے کہ اس سے سلمان رشدی کی ان خرافات کی ملکہ برطانیہ کی طرف سے تائید جھلکتی ہے جن کے ذریعے سے اس نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس شخصیت کے خلاف خبث باطن کا اظہار کیا تھا اور جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں کا شدید احتجاج اور غیظ وغضب ریکارڈ پر ہے۔ 
جہاں تک آزادئ رائے کا تعلق ہے تو مسلمانوں نے اپنے اس موقف کی ہمیشہ وضاحت کی ہے کہ استدلال، منطق اور تحقیق کا میدان اور ہے اور طنز، استہزا، توہین اور تحقیر کا دائرہ اس سے بالکل مختلف ہے جسے کسی صورت میں بھی ’’آزادئ رائے‘‘ کے زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا، مگر مغرب ان دونوں میں فرق نہیں کر رہا اور ملکہ برطانیہ کے حالیہ اقدام سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ان کے نزدیک سر ولیم میور کی کتاب ’’لائف آف محمد‘‘ اور سلمان رشدی کی کتاب ’’شیطانی آیات‘‘ ایک ہی زمرہ کی کتابیں ہیں، ورنہ اگر یہ فرق ملکہ ایلزبتھ اور ان کے حواریوں کے ذہن میں ہوتا تو وہ ’’شیطانی آیات‘‘ جیسی بے ہودہ اور متنازعہ کتاب کے مصنف کو کسی اعزاز سے نوازنے کا تصور بھی نہ کرتے۔
اس کے ساتھ ایک او رخبر بھی شامل کر لیں جو روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۱۸؍ جون ۲۰۰۷ کو شائع کی ہے کہ امریکہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ توہین مذہب کو غیر مجرمانہ قرار دے۔ گویا کمیشن کے نزدیک مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین سرے سے جرائم میں ہی شامل نہیں ہے اور اسے اس بات پر تکلیف ہے کہ جو بات مغرب کے نزدیک جرم ہی نہیں، پاکستان نے اس کے لیے دفعہ ۲۹۵۔سی کے تحت موت تک کی سزا مقرر کر رکھی ہے۔
اس صورت حال میں ملکہ برطانیہ کے فیصلے کے خلاف ہمارے بیشتر سیاسی ومذہبی راہ نماؤں نے جس رد عمل کا اظہار کیا ہے، وہ ایمانی جذبات کے حوالے سے حوصلہ افزا ہے، البتہ اسے منظم اور مربوط انداز میں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جذبات کا اظہار اور غیرت وحمیت کا مظاہرہ بہت اچھی بات ہے۔ یہ ایمان اور غیرت وحمیت کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ ساتھ مسئلے کو قوت فراہم کرتا ہے اور اسے زندہ رکھتا ہے، لیکن اصل ضرورت اس ’’اسٹیم‘‘ کو صحیح طور پر استعمال کرنے کی ہے اور ہمارے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ ’’آزادئ رائے‘‘ کی حدود اور دائرے کے حوالے سے مغرب کے ساتھ سنجیدہ اور دوٹوک بات کی جائے اور آزادئ رائے کے نام پر اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور گستاخی کے اس مذموم عمل کے نقصانات سے مغرب کو آگاہ کرنے کے لیے علمی اور فکری جنگ لڑی جائے۔

اگست ۲۰۰۷ء

مذہبی شدت پسندی، حکومت اور دینی سیاسی جماعتیںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
عدالتی فیصلہ اور استاد منگوپروفیسر میاں انعام الرحمن
جماعتی زندگی کا مفہوم اور اس کی اہمیتمولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
اسلام اور دولت کی گردشمولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
پاکستان میں تاریخ نویسی کے ابتدائی رجحاناتپروفیسر شیخ عبد الرشید
لال مسجد کا سانحہ اور حنفی فقہمحمد مشتاق احمد
مباحثہ و مکالمہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دور جدید کی اجتہادی ضروریات اور تقاضےجسٹس (ر) تنزیل الرحمن
امہات المومنین کے لیے حجاب کے خصوصی احکامڈاکٹر سید رضوان علی ندوی
مکاتیبادارہ
عربی اور انگلش لینگویج کورسز کی تقریبِ تقسیم اسنادادارہ

مذہبی شدت پسندی، حکومت اور دینی سیاسی جماعتیں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جامعہ حفصہ اور لال مسجد اسلام آباد کے خلاف سرکاری فورسز کے مسلح آپریشن نے پورے ملک کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک عرصہ سے مختلف حلقوں کی طرف سے یہ کوشش جاری تھی کہ کسی طرح یہ تصادم رک جائے اور خونریزی کا وہ الم ناک منظر قوم کو نہ دیکھنا پڑے جس نے ملک کے ہر فرد کو رنج و صدمہ کی تصویر بنا دیا ہے، لیکن جو ہونا تھا وہ ہوا، بہت برا ہوا اور بہت برے طریقے سے ہوا۔ اس سے کچھ لوگوں کو ضرور تسکین حاصل ہوئی ہوگی جو حکومت کی رٹ بحال کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت اور رعب ودبدبہ مسلط کرنا بھی ضروری سمجھ بیٹھے تھے اور ان کا خیال تھا کہ طاقت اور اسلحہ کا بے دریغ استعمال کیے بغیر اور آگ اور خون کا کھیل کھیلے بغیر شاید حکومت کی رٹ کا وقار قائم نہیں رہے گا۔ چند افراد ضرور ایسے ہوں گے، لیکن بحیثیت مجموعی پوری قوم غم زدہ ہے، افسردہ ہے، مضطرب اور بے چین ہے کہ بہت سے بے گناہوں کے لاشے تڑپے ہیں، بچوں اور عورتوں کا خون بہا ہے اور یہ سب کچھ اللہ کے گھرمیں ہوا ہے اور ایک دینی درس گاہ میں ہوا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ایک سرکاری چلڈرن لائبریری پر جامعہ حفصہ کی طالبات کے قبضہ کے ساتھ جب اس تنازع کا آغاز ہوا تھا اور اس کے بعد ایک مبینہ قحبہ خانہ اور پھر مساج پارلر کے خلاف کارروائی نے اس معاملہ کو آگے بڑھایا تھا تو ہم نے اسی وقت یہ عرض کر دیا تھا کہ ایک مسلمان ملک کے اندر حکومت وقت کے خلاف اس قسم کے تصادم کے ماحول اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی حمایت نہیں کی جا سکتی اور مقاصد کتنے ہی نیک اور اچھے کیوں نہ ہوں، ان کے لیے اس طرز کی جدوجہد کو سند جواز فراہم نہیں کی جا سکتی۔ اس پر ملک بھر کے جمہور علماے کرام کا کم وبیش اجماع منعقد ہو گیا تھا، مگر اس کی پروا کیے بغیر معاملات کو اسی رخ پر آگے بڑھانے کا سلسلہ جاری رہا۔ دوسری طرف ملک کی سنجیدہ دینی قیادت نے حکومت پر مسلسل زور دیا کہ وہ طاقت کے استعمال سے گریز کرے، جائز مطالبات منظور کرنے کی طرف توجہ دے، ان اسباب وعوامل کو دور کرنے کی کوشش کرے جن کے رد عمل میں شدت کی یہ صورت سامنے آئی ہے اور مذاکرات کے ذریعے سے مسئلے کو حل کرنے کا راستہ نکالے، لیکن حکومت نے بھی اس کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اس کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اس نے ان جائز مطالبات میں سے کسی ایک کو بھی قابل اعتنا نہیں سمجھا جن کی بنیاد پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ شدت کی اس انتہا تک جا پہنچی تھی۔ 
ہمیں اس بات سے اتفاق ہے کہ اگر حکومت اسلامی نظام کے نفاذ، اسلام آباد میں گرائی جانے والی مساجد کو دوبارہ تعمیر کرنے، حدود شرعیہ میں کی گئی ترامیم پر نظر ثانی اور فحاشی کے مبینہ مراکز کو بند کرنے میں سے کسی ایک مسئلے کی طرف بھی سنجیدگی سے متوجہ ہو جاتی تو اس سلسلے میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ کے رویے میں پائی جانے والی شدت کو کم کیا جا سکتا تھا اور ہم لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز کی اس بات سے بھی متفق ہیں جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ہمارے طریق کار سے اختلاف کرنے والے ان جائز مطالبات کے لیے صحیح طریق کار سے جدوجہد کیوں نہیں کرتے؟ مولانا عبد العزیز اور غازی عبد الرشید شہید کے طریق کار سے ہم نے بھی اختلاف کیا تھا اور اب بھی ہم اسے غلط ہی سمجھتے ہیں کہ ایک مسلمان ملک میں حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانا، قانون کو ہاتھ میں لینا اور مسلح تصادم کا ماحول پیدا کرنا ہمارے نزدیک شرعاً اور اخلاقاً کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے، لیکن مولانا عبد العزیز کے اس سوال کا آخر کیا جواب ہے کہ ان کے طریق کار سے اختلاف کرنے والوں نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ اور فحاشی ومنکرات کے سدباب کے لیے صحیح طریق کار پر مبنی کون سی جدوجہد کا اہتمام کیا ہے؟ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ معاملات کو اس رخ تک پہنچانے میں جہاں اسلامی نظام کے معاملے میں حکومت کی سرد مہری کار فرما ہے، وہاں اسلامی نظام کے لیے جدوجہد کی داعی دینی سیاسی جماعتیں بھی اس کی ذمہ دار ہیں کہ ان کی بے عملی اور تغافل نے وہ خوف ناک خلا پیدا کر دیا ہے جس کو پر کرنے کے لیے تشدد اور بغاوت کی تحریکات آگے بڑھ رہی ہیں اور یہ قانون فطرت ہے کہ خلا جس قدر گہرا ہو، اس کی جگہ لینے والی قوتیں اسی قدر شدت اور تیزی کے ساتھ لپکتی ہیں اور بسا اوقات آندھی او رطوفان کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہیں۔
جہاد افغانستان کے بعد یہ بات حکومت اور دینی سیاسی جماعتوں، دونوں سے توجہ کی طالب تھی کہ جن ہزاروں افراد نے پاکستان سے جا کر افغانستان میں روسی استعمار کے خلاف عملی جنگ لڑی ہے، وہ صرف اسلحہ چلانے کا ہی عملی تجربہ نہیں رکھتے بلکہ اسلام کی بالادستی اور نفاذ اسلام کے مخلصانہ جذبے سے بھی سرشار ہیں۔ ان کی تعداد سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے اور وہ ملک کے ہر حصے میں موجود ہیں۔ انھیں ملک وقوم کا قیمتی اثاثہ سمجھتے ہوئے نہ حکومت نے ان کے جذبات و رجحانات کو اسلام اور پاکستان کے لیے مثبت رخ پر قائم رکھنے کی کوئی پالیسی اپنائی اور نہ ہی دینی سیاسی جماعتوں نے انھیں اپنانے اور اپنی جدوجہد میں شریک کرنے کی طرف توجہ دی بلکہ انھیں اپنا حریف اور اپنے لیے خطرہ تصور کیا گیا اور انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ان کے لیے جو نیا ماحول کھڑا کیا گیا، وہ ان کی کردار کشی، توہین، طنز واستہزا، اور تحقیر وحوصلہ شکنی سے عبارت تھا۔ پھر اس فضا میں ان کے سامنے افغانستان میں امریکی فوجیں اتریں، طالبان کی حکومت کو قوت کے ساتھ تہس نہس کر دیا گیا اور پاکستان میں دینی شعائر اور اسلامی روایات واقدار کو پامال کرنے کی پالیسیاں آگے بڑھنے لگیں تو ان کا غصہ اور نفرت اپنی انتہا کو پہنچ گئے اور وہی غصہ ونفرت مجتمع ہو کر لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں حکمرانوں کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ ہم نے حکومت وقت کے ساتھ مولانا عبد العزیز اور غازی عبد الرشید کے تصادم اور محاذ آرائی کے طرز عمل کو غلط قرار دیا ہے اور فی الواقع اسے غلط سمجھتے ہیں اور ہمیں اس بات کا بھی شدید دکھ ہے کہ ان بھائیوں نے حکومت کے ساتھ ساتھ خود اپنی دینی وعلمی قیادت سے بھی بغاوت کی اور ان کی مشاورت وہدایات کو قبول نہ کیا، لیکن اس کا یہ پس منظر بھی ہمارے سامنے ہے کہ اسلامی نظام اور دینی شعائر واقدار کے بارے میں حکومتی حلقوں اور اداروں کی منافقانہ پالیسی کا آخری جذباتی رد عمل یہی ہو سکتا تھا اور غازی برادران کے دل میں یہ بات یقین کے درجے میں بیٹھ چکی تھی کہ دینی سیاسی جماعتوں نے اپنے لیے معروضی سیاست اور اقتدار کی اکھاڑ پچھاڑ کو ہی آخری منزل سمجھ لیا ہے اور ان سے نفاذ اسلام کے لیے کسی موثر جدوجہد کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ 
ہمارے نزدیک یہ دو عوامل ہیں جنھوں نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کو حکومت کے خلاف ایک مسلح مورچہ بنا دیا اور بات لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف سرکاری آپریشن پر ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کے بعد ملک بھر میں ہونے والے ہنگاموں اور خود کش حملوں نے لال مسجد کی اس بغاوت کا دائرہ دور دور تک وسیع کر دیا ہے۔ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ صرف ایک واقعہ سے کر لیجیے کہ ۱۴؍ جولائی کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ سرگودھا میں ایک نوجوان نے بینک ڈکیتی کے دوران میں زخمی حالت میں گرفتار ہونے کے بعد یہ بتایا ہے کہ اس نے بینک پر ڈاکہ اس لیے ڈالا ہے تاکہ رقم حاصل کر کے لال مسجد کا بدلہ لینے اور ملک میں نفاذ شریعت کی جدوجہد منظم کرنے کے لیے کام کر سکے، یعنی اس نے ملک میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کے لیے بینک ڈکیتی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے، بہت بڑا المیہ ہے اور اس قسم کے المیے مایوسیوں سے جنم لیا کرتے ہیں۔ جب لوگوں کو ان کے جائز مطالبات اور جذبات کا صحیح جگہ سے جواب نہیں ملتا تو وہ اس کی تسکین کے لیے متبادل ذرائع اختیار کرتے ہیں اور یہ متبادل ذرائع ضروری نہیں کہ صحیح بھی ہوں۔
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جس کا وجود اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اور اس کے دستور میں اسلامی نظام کی عمل داری اور اسلامی معاشرے کے قیام کی ضمانت دی گئی تھی۔ جب ایک مسلم نوجوان اس سلسلے میں حکومت کی سرد مہری اور حکومتی اداروں کا منفی طرز عمل دیکھتا ہے تو اس کی نگاہیں بے ساختہ دینی جماعتوں کی طرف اٹھتی ہیں کہ وہ کیا کر رہی ہیں اور حکومتی طرز عمل کا رخ تبدیل کرانے کے لیے کس سنجیدگی کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ اگر اسے دینی سیاسی جماعتوں کی جدوجہد اور تحریک میں اپنے جذبات کی تسکین کا سامان مل جائے تو وہ وہاں رک جائے گا اور خود کو ان کے حوالے کر دے گا، لیکن اگر اسے وہاں بھی امید کا کوئی پہلو دکھائی نہ دے اور ہر طرف وقتی مفادات اور مصلحتوں کا ہی ماحول ملے تو پھر اس کے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ خاموش ہو کر بیٹھ جائے اور اسلام کی بالادستی اور فحاشی وبے حیائی سے معاشرہ کو پاک کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دے اور یا پھر اس کے لیے اپنا راستہ خود نکالے اور جو کچھ وہ اس کے لیے کر سکتا ہے، ا س کی منصوبہ بندی کرے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جہاد افغانستان میں حصہ لینے والے ہزاروں نوجوان جو نفاذ اسلام کے مخلصانہ جذبہ سے بہرہ ور ہیں اور اسلحہ کی ٹریننگ بھی رکھتے ہیں، گزشتہ ایک عشرے کے دوران میں اسی تجربے سے گزرے ہیں اور اب وہ اس تجربے کے آخری مرحلے میں ہیں جس کی ایک جھلک لال مسجدمیں پوری قوم نے دیکھ لی ہے اور اگر حکومت اور دینی جماعتوں نے اب بھی اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ نہ لیا اور ان مخلص او رپرجوش نوجوانوں کے جذبات کو مثبت رخ دینے کی کوئی معقول کوشش نہ کی تو لال مسجد اس قضیہ کی انتہا نہیں ہوگی بلکہ خدا نخواستہ ابتدا ثابت ہو سکتی ہے۔
لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے تنازع میں اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے شہدا کے لیے ہم دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت انھیں جوار رحمت میں جگہ دیں۔ ہمیں سرکاری فورسز کے ان نو جوانوں سے بھی گہری ہمدردی ہے جنھوں نے اپنی جانیں پیش کیں۔ وہ ڈیوٹی پر تھے اور فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت تمام شہدا کو جوار رحمت میں جگہ دیں، زخمیوں کو صحت عطا فرمائیں، پس ماندگان کو صبر جمیل سے نوازیں اور ہم سب کو بحیثیت قوم اس سانحہ سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی غلطیوں کی اصلاح کے ساتھ ملک وقوم کے مستقبل کی بہتر صورت گری کی توفیق دیں۔ آمین ۔

عدالتی فیصلہ اور استاد منگو

پروفیسر میاں انعام الرحمن

۲۰ جولائی ۲۰۰۷ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فل کورٹ ۱۳ رکنی بینچ نے اپنے مختصر فیصلے میں عدلیہ کا افتخار بحال کر دیا۔ پاکستان میں عدالتی افتخار کی زبوں حالی دوچار مہینوں کا قصہ نہیں بلکہ کم ازکم نصف صدی پر محیط داستان ہے ۔ پچاس کی دہائی میں سندھ ہائی کورٹ کے باعث افتخار فیصلے کو بے افتخار کرنے کا ’’کارنامہ‘‘ جسٹس منیر کی سربراہی میں فیڈرل کورٹ نے سرانجام دیا جس کے نتیجے میں عدلیہ نہ صرف انتظامیہ کی رکھیل بن کر رہ گئی بلکہ ابن الوقتی ایک قومی قدر کا روپ دھار گئی ۔مولوی تمیزالدین کے مذکورہ کیس سے لے کرسپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے تک کی طویل تاریخ ، جس میں اسٹیبلشمنٹ چھائی رہی اور ابن الوقتی کو فروغ دیتی رہی ، درحقیقت ایک فریب خوردہ قوم کی حسرت و یاس کی تاریخ ہے ۔ ایسی الم ناک تاریخ کی حامل قوم جب ۲۰ جولائی کے عدالتی فیصلے پر شکرانے کے نوافل ادا کرنے اور مٹھائیاں بانٹنے میں مگن ہے، اور سب سے بڑھ کر اس کا دل اس یقین سے معمور ہے کہ اب سر اٹھا کر چلنے کا وقت آ گیا ہے تو ہمیں بے اختیار’’ منگو‘‘ یاد آگیا ہے ۔
سعادت حسن منٹو (۱۹۱۲۔۱۹۵۵) نے ’’نیا قانون‘‘ میں ۱۹۳۵ کے انڈین ایکٹ کے حوالے سے ’’ منگو‘‘ کی فریب خوردگی کو بہت مہارت سے واضح کیا ہے۔ منگو ٹانگے والے کو ادھر ادھر سے سن گن ملی تھی کہ نیا دستور آنے والا ہے جس کے نتیجے میں حالات بدل جائیں گے اور وہ اپنی سرزمین پر سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہو جائے گا۔ نیا دستور آنے کے بعداستاد منگو نے جب سر اٹھا کر چلنے کی کوشش کی تو اس غریب کی خوب درگت بنائی گئی۔ سعادت حسن منٹو نے استاد منگو کی فریب خوردگی کی داستان کا انجام اس طرح کیا ہے : 
’’لوگ جمع ہو گئے اور پولیس کے دو سپاہیوں نے بڑی مشکل سے گورے کو استاد منگو کی گرفت سے چھڑایا۔ استاد منگو ان دو سپاہیوں کے درمیان کھڑا تھا۔ اس کی چوڑی چھاتی پھولی ہوئی سانس کی وجہ سے اوپر نیچے ہو رہی تھی۔ منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور اپنی مسکراتی ہوئی آنکھوں سے حیرت زدہ مجمع کی طرف دیکھ کر وہ ہانپتی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا:
’’وہ دن گزر گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے ...... اب نیا قانون ہے میاں ...... نیا قانون!‘‘
اور بے چارہ گورا اپنے بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ بے وقوفوں کے مانند کبھی استاد منگو کی طرف دیکھتا اور کبھی ہجوم کی طرف۔
استاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے میں لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر کمرے میں وہ نیا قانون، نیا قانون چلاتا رہا مگر کسی نے ایک نہ سنی۔
’’نیا قانون، نیا قانون، کیا بک رہے ہو ...... قانون وہی ہے پرانا .......‘‘
اور اس کو حوالات میں بند کر دیا گیا!‘‘
سوال یہ ہے کہ کیا عدلیہ کا حالیہ فیصلہ، جسے تاریخ ساز قرار دیا جا رہا ہے، ’’نیا قانون‘‘ ہے؟ اور کیا ہم سب استاد منگو ہیں؟ جواب آنے والا کل دے گا۔

جماعتی زندگی کا مفہوم اور اس کی اہمیت

مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

بلاشک وشبہ مذہب اسلام نے جماعتی زندگی پر بڑا زور دیاہے اور جماعتی زندگی کے ترک کو اسلامی زندگی کے ترک سے تعبیر کیاہے جس کا نتیجہ سوائے خسران اور عذاب جہنم کے اور کیا ہو سکتا ہے؟ (معاذ اللہ) اور حدیث ’من شذ شذ فی النار‘ (ترمذی، ۲/۲۹ ومشکوۃ ۱/۳۰) کا یہی مطلب ہے اوردوسری حدیث میں واشگاف الفاظ میں رسول برحق حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ :
فانہ لیس احد یفارق الجماعۃ شبرا فیموت الا مات میتۃ جاہلیۃ (متفق علیہ)
’’جو شخض بھی جماعت سے ایک بالشت بھر الگ ہوا اوراسی حالت میں اس کی وفات ہوگئی تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔‘‘
اورظاہر ہے کہ ایسی زندگی اسلامی زندگی کے سراسر مخالف ہے، کیونکہ اسلامی زندگی کی روح ہی یہ ہے کہ مومن کی حیات وموت، اس کی عبادت اورعمل صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا جوئی کے لیے ہو اور بس۔ اس کا جو قدم بھی اٹھتاہو، اپنے ذوالمنن کے شوق دیدار کے لیے اٹھے، اوراس کے لبوں سے جب بھی کوئی بات نکلے توصرف حق تعالیٰ کی فرمانبرداری کے لیے۔ اورکیوں نہ ہو، اس کو تو سبق ہی یہ ملاہے: ’قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العلمین‘۔
یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہے کہ اسلام کی نگاہ میں جماعتی زندگی کا معنی اور مطلب کیا ہے اور اسلام جماعتی زندگی کس زندگی کو کہتا ہے؟ اسلامی تعلیم کی رو سے جماعتی زندگی یہ نہیں کہ باہم مل کر تفریح طبع کے لیے کوئی کلب بنا لیا جائے اور فرصت کے اوقات میں وہاں جمع ہوکر خوش گپیاں ہانکی جائیں اوردل کی امنگیں نکالی جائیں یا اتفاق کرکے کوئی اکھاڑا اور ورزش گاہ تجویز کرلی جائے جہاں صبح وشا م اکٹھے ہوکر ورزش کی جائے یا کشتی لڑی جائے یا اصلاحی نام پر کوئی ادارہ یاانجمن بنالی جائے اور صلاح مشورہ سے اپنے مزعومہ اور مفروضہ دنیوی اغراض ومقاصد کو بروئے کار لایا جائے، یا کوئی کمیٹی ترتیب دی جائے جس کے ذریعے ووٹوں کی دنیا میں اپنے مقصد پنہاں کو عملی جامہ پہنایا جائے، یا قرآن وسنت اور فقہ اسلامی سے مستغنی ہوکر اپنے خود تراشیدہ اور خانہ ساز اصول کے تحت کوئی سوسائٹی وضع اور اختراع کرلی جائے جس میں ملکی، قومی،سیاسی، اقتصادی، معاشی، اور معاشرتی مفاد کو انجام دینے کی سعی اور کوشش کی جائے یا اسی قسم کی کوئی اوراجتماعی صورت اختیار کرلی جائے جس میں ز ندگی کے لائحہ عمل پر غور وخوض کیا جائے۔ اگرچہ ان تمام صورتوں میں نظر بہ ظاہر اجتماعی زندگی تو موجودہے لیکن اسلامی نقطہ ہائے نظر سے یہ اس اجتماعی زندگی کی مصداق ہرگز نہیں جو اسلام کو مقصود و مطلوب ہے بلکہ اسلام یہ چاہتاہے کہ امت مسلمہ کی یک جہتی واجتماع، اس کا اتفاق واتحاد، اوراس کانظم وضبط محض خداتعالیٰ کی رضاجوئی اوراس کی خوشنودی کے لیے ہو، اورجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کے لیے ہو، قرآن وحدیث کی سربلندی کے لیے ہو، خلافت راشدہ کے قیام اوراس کی بقا کے لیے ہو، سلف صالحین کے بہترین طرز زندگی کے احیا کے لیے ہو، اور ملت کے ایک ایک فردکی کوشش وکاوش، سعی وعمل، تپش وخلش اور سوز وگداز جو ان کے قلب عشق آمیز کی گہرائیوں سے ابھر کر لب آتش نوا تک آپہنچا ہو اورجس کی بدولت جذب واثر کی دنیا رقص کرتی دکھائی دے، صرف اور صرف اطاعت خدا اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہو، کتاب وسنت کے لیے ہو، اسلا م کی رفعت اور کامیابی کے لیے ہو۔ 
جس وقت اور جس قدر یہ آرزو بلند اور پاکیزہ تھی، اس وقت یہ ا مت مسلمہ اور اس کا ایک ایک فرد بہمہ تن رضائے خداوندی، پیروی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورتبلیغ اسلام میں منہمک تھا، مگر ان کی تبلیغ وسعی محض زبا ن کی شرینی اورقلم کی روشنائی ہی کی رہین منت نہ تھی بلکہ اس میں خون جگر کی سرخی اوردل کی سوز ش بھی شامل تھی۔ وہ باوجود اختلاف استعداد کے اسلام کے صاف وشفاف چشمہ سے مستفید ہوکر سب عالم کومنور کرنے کے درپے تھے۔ ایک بجلی تھی جو سب میں کوند رہی تھی، ایک بے قرار روح تھی جو سب میں تڑپ رہی تھی، سیماب کی طرح نہ ٹھہرنے والا دل تھاجس نے سب کو بے قرار کر دیا تھا۔ وہ بے سروسامان تھے مگر منظم حکومتیں ان سے لرزتی تھیں، تاج وتخت کے مالک ان سے تھراتے تھے۔ وہ تھوڑے تھے مگر غالب و منصورتھے۔ وہ پیدل تھے مگربرق رفتار تھے۔ وہ بعض دفعہ اکیلے ہوتے مگرہزاروں پر بھاری رہتے تھے۔ نور توحید کاجذبہ، مخلوق خدا کی ہدایت اوراصلاح کاولولہ اور کائنات کی رہنمائی کی فکر ہر ایک قلب میں پیوستہ تھی جس کے سبب خداتعالیٰ کے نام کی سربلندی، اطاعت رسول کاجذبہ، مخلوق کی صحیح ہمدردی اورہر کام میں خداتعالیٰ کی رضا طلبی کا جوش ان میں کام کر رہا تھا۔ وہ جو کچھ بھی تھے، جہاں بھی تھے اورجیسا کچھ بھی کیا کرتے تھے، ان کے ہر کام سے مقصود اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور دنیا کی درستی تھی اور بس۔ ان کی دوستی اور مودت بھی محض خداتعالیٰ کے لیے ہوتی تھی اور ان کی عداوت ود شمنی بھی صرف خداکے لیے ہوتی تھی۔ وہ الحب فی اللہ والبغض فی اللہ کا مجسم پیکر تھے۔ ان کی یہ صفت تھی کہ :
رہ حق میں تھی دوڑاوربھاگ ان کی
فقط حق پہ تھی جس سے تھی لاگ ان کی 
بھڑکتی نہ تھی خود بخودآگ ان کی
شریعت کے قبضے میں تھی باگ ان کی 
جہاں کردیا نرم نرما گئے وہ
جہاں کردیا گرم گرما گئے وہ 
کفایت جہاں چاہیے واں کفایت
سخاوت جہاں چاہیے واں سخاوت 
جچی اور تلی دشمنی اور محبت
نہ بے وجہ الفت، نہ بے وجہ نفرت 
جھکا حق سے جو جھک گئے اس سے وہ بھی 
رکا حق سے جو رک گئے اس سے وہ بھی 
اسلام میں جس اتفاق واتحاد اور جماعتی زندگی کو ملحوظ رکھا گیاہے، وہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیا ن فرمائی ہے:
واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا (آل عمران ؛۳،۱۰۳)
’’اورتم اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوط پکڑواور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ کی اس مضبوط اور متین رسی کو جو قرآن مجید اور دین قیم کے نام سے موسوم ہے، پوری قوت اور طاقت کے ساتھ پکڑو۔ یہ عروہ وثقیٰ اورمحکم رسی ٹوٹ تو سکتی نہیں، لا انفصام لھا، ہاں حرماں نصیبوں کے ہاتھوں سے چھوٹ سکتی ہے۔ اگر مسلمان سب مل کر اجتماعی قوت اور امکانی طاقت سے اس کو پکڑ لیں گے تو کبھی کسی باطل اور طاغوتی طاقت سے بفضلہ تعالیٰ ان کو کوئی گزند اور تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ کوئی شیطان صفت اپنی شیطنت اور شرانگیزی میں کبھی کامیاب ہوسکے گا اورانفرادی زندگی صالح ہونے کے علاوہ امت مسلمہ کی اجتماعی اور قومی قوت بھی بڑی مضبوط اور ناقابل اختلا ل ہوجائے گی اورقرآن وسنت سے تمسک کرنے کی برکت سے تمام بکھری ہوئی قوتیں جمع ہو جائیں گی اور مردہ قوموں کوابدی زندگی اور حیات تازہ حاصل ہوگی۔ آہستہ آہستہ جو اس کیف سے معمور اورشراب حق کے نشہ سے مخمور ہوگا، اس کے دل سے اسلام کی اجنبیت دور اوربے گانگی کافور ہو جائے گی۔ صدائے حق کی کشش اور نوائے صدق کی سریلی بانسری ضرور منیب دلوں پر اثر کرے گی۔ کان والے اسے سنیں گے اورجو سنیں گے سر دھنیں گے۔ اسلام کی رفعت اور سر بلندی کے لیے وہ اپنے ہاتھوں میں ہتھ کڑیاں پہن کر اور اپنے پاؤں میں زنجیروں کے بوجھل حلقے ڈال کر اوراپنے نرم ونازک جسم کو چور چور کروا کر بلکہ اکثر اوقات دار ورسن کے نیچے کھڑے ہوکر بھی وہ ایسی لذت محسوس کرتے ہیں جو شاہ ہفت اقلیم کو سلطنت کا سنہری تاج پہن کر بھی کبھی حاصل نہیں ہوسکتی، کیونکہ وہ اپنی بقاکا راز ہی اسی میں سمجھتے ہیں کہ :
فنافی اللہ کی تہہ میں بقا کا راز مضمر ہے 
جسے جینا نہیں آتا، اسے مرنا نہیں آتا
(تبلیغ الاسلام، حصہ اول، ص ۳۳ تا ۳۷)

اسلام اور دولت کی گردش

مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

فرمایا: اللہ نے تقسیم مال کا یہ حکم اس لیے دیا ہے ’کی لایکون دولۃ بین الاغنیاء منکم‘، تاکہ یہ دولت تمہارے آسودہ حال لوگوں تک ہی محدود نہ رہے بلکہ اس کی گردش معاشرے کے انتہائی طبقے تک ہونی چاہیے۔ ’دولۃ‘ کے لفظ سے یہ اصول بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی نظام معیشت میں کسی خاص طبقہ میں ارتکاز دولت ہر گز پسندیدہ نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اسلام (concentration of weath) کو کبھی پسند نہیں کرتا۔ وجہ ظاہر ہے کہ جب دولت کا دوران صرف ایک طبقہ تک محدود ہو جاتا ہے اورباقی طبقات محروم ہو جاتے ہیں توپھر اس کے نتیجے میں امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہو جاتے ہیں۔ جب کبھی ملک میں اس قسم کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں توپھر وہاں کمیونز م اور سوشلزم کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام بھی ملعون ہے، مگر سوشلزم اس سے بھی قبیح ہے۔ مطلق العنان ملوکیت بھی اسی قبیل سے ہے۔ کسی ملک کا بادشاہ یا ڈکٹیٹر اپنے آپ کوغیر مسؤل سمجھتاہے اوران کے ہاں آمد وخرچ کا حساب کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام میں شخصی ملکیت کی اجازت ہے، مگر یہ ملکیت عارضی اور بطورامانت ہوتی ہے۔ اللہ جس کو دولت دیتاہے، اس کو آمد وخرچ کے قوانین کا بھی پابند بناتا ہے۔

ارتکازِ زر کی ممانعت 

جس مالک الملک نے انسانوں کو ارتکازِ زر کی اجازت نہیں دی، اس نے اپنے براہ راست قبضہ قدرت کی چیزوں کو اس طرح تقسیم کر دیا ہے کہ کوئی ادنیٰ واعلیٰ ان سے محروم نہیں رہتا، مثلاً ہوا، فضا ، سورج ، چاند، ستارے، بارش، دریا، سمندر وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جن کو اس نے مخلوق میں کسی کے قبضے میں نہیں دیا۔ تمام انسان، جانور، پرندے اورکیڑے مکوڑے ان چیزوں سے براہ راست مستفید ہوتے ہیں۔ سانس لینے کے لیے ہوا کی ہر جاندار کو ضرورت ہے۔ سورج، چاند اور ستاروں کی روشنی سب کی ضرورت ہے، پانی بھی تمام جانداروں کی بنیادی ضرورت ہے، لہٰذا اللہ نے یہ چیزیں ہر ایک کے لیے فری مہیا کی ہیں۔ اسی طرح دولت بھی چند ہاتھوں میں محدود ہو کر نہیں رہنی چاہیے۔ جب تک دولت کا دوران (circulation) صحیح طریقے سے ہوتا رہے گاتو دنیا میں توازن قائم رہے گا، ورنہ یا تو نظام سرمایہ داری آ جائے گا یا پھر رد عمل کے طور پر سوشلزم آئے گا، حالانکہ یہ دونوں نظام ملعو ن ہیں۔

شخصی ملکیت کا احترام 

ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام ہر شخص کو دولت کمانے اور خرچ کرنے کی کھلی چھٹی دیتا ہے جس سے ارتکازِ زر پیدا ہوتا ہے تو دوسری طر ف سوشلزم شخصی ملکیت کابالکل ہی انکار کر دیتا ہے۔ اسلام کا نظام معیشت ان دونوں کے درمیان اعتدال کے ساتھ چلتاہے۔ اسلام کسی شخص کی ذاتی ملکیت کا اسی طرح احترام کرتا ہے جس طرح کسی کی جان کا احترام کرتا ہے۔ اسلام اگرقاتل کا سر قلم کر دیتا ہے تو مال چوری کرنے والے کا بھی ہاتھ کاٹ پھینکتاہے۔ ’لا یحل مال امرئ مسلم الا بطیب نفسہ‘، کسی مسلما ن کا مال دوسرے کے لیے حلال نہیں جب تک مالک اپنی مرضی سے کسی کو نہ دے۔ غرضیکہ مال کی شخصی ملکیت بھی انسا نی جان کی طرح محترم ہے۔ البتہ اسلام نے اکتسابِ زر پر ضرور پابندی عائد کی ہے تاکہ نہ کوئی مضر پیشہ اختیار کیا جائے اورنہ چوری، ڈکیتی، رشوت، قمار بازی، ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کے ذریعے مال حاصل کیا جائے۔ مخرب اخلاق کاروبار جیسے فوٹو گرافی، فلم سازی، موسیقی، سٹہ بازی کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔مطلب یہ کہ صرف حلال ذرائع سے ہی دولت کمانے کی اجازت ہے۔
اگراسلام نے جائز ذرائع سے دولت کما نے کی اجازت دی ہے توساتھ ساتھ ایسے مال کے حقوق ادا کرنے کا بھی پابند بنایا ہے۔ اگر مال نصاب کو پہنچ گیا ہے تو اس کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ دو، صدقہ فطر ادا کرو، قربانی دو، حج اور عمرہ کے لیے خرچ کرو، غربا ومساکین کو صدقہ خیرات دو۔ اگریہ حقوق اداکیے جائیں تو ارتکازِ زر کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مال خرچ کرنے سے دوفوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ایک طرف مستحقین کی حاجت برآری ہوتی ہے اوردوسری طرف خرچ کرنے والے سے بخل کا مادہ دور ہو کر اس میں اخلاق حسنہ پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ نے تقسیم مال کی ایک اور صورت بھی لازمی قرار دی ہے اور وہ ہے وراثت کی تقسیم۔ مال دارآدمی کے مرنے کے بعد جائیداد میں سے پہلے قریبی رشتہ داروں کو حصہ ملتاہے اوراگر وہ موجود نہ ہوں تو دور کے رشتہ دار حصہ داربن جاتے ہیں۔ اسلا م نے یہ تما م طریقے ارتکاز دولت کو روکنے کے لیے رکھے ہیں۔ الغرض اسلام کا نظام معیشت ہی بہترین نظا م ہے جو ارتکاز کو روک کر مال کو زیادہ سے زیادہ پھیلنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
(معالم العرفان فی دروس القرآن، سورۃ الحشر ۵۹: ۷)

پاکستان میں تاریخ نویسی کے ابتدائی رجحانات

پروفیسر شیخ عبد الرشید

علمِ تاریخ انسانی معاشرے کے انفرادی اور اجتماعی افعال کا آئینہ دار ہے۔ اس کا شمار دنیا کے قدیم ترین اور مفید علوم میں ہوتا ہے۔ یہ محض ماضی کے دلچسپ اور یادگار واقعات کی جستجو ہی کا نام نہیں جیسا کہ ہیروڈوٹس نے کہا تھا، بلکہ یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم انسانی تہذیب کے عہد بہ عہد ارتقا کی تصویر دیکھتے ہیں۔ یہ انسانی جدوجہد کی داستان پیش کرتی ہے۔ اگر تاریخ انسانی ز ندگی کے مختلف شعبوں میں گزشتہ نسلوں کے بیش بہا تجربات آئندہ نسلوں تک نہ پہنچاتی تو انسانی تمدن کا کارواں کبھی رواں دواں نہ ہو پاتا اور زمانہ قبل از تاریخ کی تاریک اور کٹھن منزل پر ہی ٹھہرا ہوا ہوتا۔ مرقوم تاریخ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے توسط سے مختلف اقوام و افراد ماضی کے دریچے سے اپنے کردہ ونا کردہ اعمال و افعال پر تنقیدی نظر ڈال کر حال و مستقبل کو اپنی مرضی و منشا کے مطابق ڈھال سکتے ہیں اور ماضی کی روشنی سے حال کو منور کرکے اپنے مستقبل کو تابناک بنا سکتے ہیں۔ 
تاریخ ماضی اور حال کے درمیان وہ زینہ ہے جس پر چڑھ کر انسان عہدِ رفتہ سے ناتا جوڑ سکتا ہے۔ یہ ماضی، حال اور مستقبل کی وحدت کا نام ہے۔ سپین کے دانشور ویویز (VIVES) نے کہا تھا کہ جو قوم تاریخ سے بے بہرہ ہے، اس کے بوڑھے بھی بچے ہیں۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ جو قوم اپنی تاریخ کو محفوظ کر لیتی ہے، وہ گو یا بقائے دوام کاسامان مہیا کرتی ہے۔
پاکستان جیسی نئی قائم ہونے والی ریاست میں قومی تاریخ لکھنے کا سوال خاصا پیچیدہ رہا ہے۔ ایک طرف تو یہاں ریاست ان لوگوں نے قائم کی جو ایک مختلف تاریخی و ثقافتی ورثے کے مالک تھے اور جن کے آباو اجداد نے جنوبی ایشیا میں ایک وسیع سلطنت قائم کی۔ دوسری طرف وہ ملک جس کو پاکستان کہا جاتاہے، اس نے مسلمانوں کے ایک نئے ثقافتی کردار کو اپنانے سے پہلے ایک ایسی تہذیب قائم کر لی جو بڑی اہمیت کی حامل تھی، اس لیے پاکستان میں تاریخ نویسی کے ابتدائی رحجانات کا جنوبی ایشیا میں تاریخ نویسی کی روایت کے بڑے کینوس سے الگ کر کے جائزہ لینا اسے سمجھنے میں دشواری پیدا کرے گا۔ چنانچہ ضروری ہے کہ مختصراً یہ دیکھ لیا جائے کہ انڈو مسلم تاریخ نویسی نے یہاں کیا ترقی کی اور آزادی کے بعدکے محققین پر کیا اثرات مرتب کیے تاکہ پاکستان میں تاریخ نویسی کے رحجانات کو سمجھا اور پرکھا جا سکے کیونکہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ نویسی کی پرانی روایت کا تسلسل بعد میں بھی جاری رہا ہے۔ اس سلسلے میں تقسیم ہند سے پہلے کی تاریخ نویسی کو تین ادوار میں تقسیم کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔ پہلا ابتدائی دور، پھر انڈو مسلم دور، اور پھر نو آبادیاتی دور۔
(i) ابتدائی دور: ابتدائی دور جو گیارھویں صدی تک پھیلا ہوا ہے، اس دور کے تاریخ نویس غیر ملکی تھے مثلاً یونانی، چینی سیاح اور عرب وفارس کے مسلم مورخین۔ ابتدائی دور کے تاریخ لکھنے والوں کی تحریریں حقائق پر مبنی بیانیہ تھیں۔ یونانی و چینی تحریریں محدود اور خاص واقعات و مواد سے متعلق نظر آتی ہیں، مثلاً یونانی تحریروں کا تعلق اسکندر اعظم کی مہمات سے ہے جبکہ چینی سیاحوں کی تحریروں کا تعلق ان علاقوں میں بُدھ ازم کی حالت سے ہے۔ ان تحریروں میں دی گئی دیگر معلومات مفید تو ہیں مگر ثانوی حیثیت کی حامل ہیں جبکہ اس دور کے بارے میں لکھنے والے مسلم مورخین کی تحریریں فنِ تاریخ نویسی کے حوالے سے زیادہ بہتر دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ہیئت و مواد کے اعتبار سے متنوع اور یہاں کی تاریخ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں۔ ان دنوں تاریخ نویسی کا طریقہ Descriptive reporting or narration free from any personal opinion یعنی مورخ کی ذاتی رائے اور تجزیے سے مجرد محض خبر اور حکایہ پر مبنی تھا۔
(ii) انڈو مسلم دور : برصغیر میں تاریخ نویسی کا آغاز و ارتقا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہی ہوا۔ سلطنت دہلی کے قیام کے بعد یہاں فن تاریخ نویسی کو فروغ ملا۔ خبر اور حکایہ کے ساتھ ساتھ عہد بہ عہد تاریخی حالات اور طبقاتی تقسیم، سیرت و انساب کے حوالے سے تاریخ نویسی ہوئی۔ یہ تمام طریقے تیرھویں صدی میں ہی استعمال ہونے لگے۔حسن نظامی نیشا پوری کی ’’تاج المآثر‘‘ اس کی ایک مثال ہے۔ تاریخ نویسی کے حوالے سے طبقات ناصری، فتح نامہ سندھ، چچ نامہ، تزک بابری، اور آئین اکبری انڈومسلم عہد کی تاریخ نویسی کے نمائندہ کام ہیں۔ درباری مورخین کے ذریعے عصری تاریخ لکھنے کا رواج یہاں مغلوں کے دور میں ہوا۔ میر علی شیرقانی کی ’’تحفۃ الکریم‘‘ اس دور کی تاریخ نویسی کا آخری نمونہ ہے۔ 
(iii) نوآبادیاتی دور : حقیقی استعماری قبضے سے بہت پہلے ہی غیر ملکی مصنفین جن میں زیادہ تر سیاح، عیسائی مبلغین اور وہ سرکاری عہدیدار تھے جنہوں نے مغلیہ عہد میں ہندوستان کا دورہ کیا، انہوں نے یہاں کے بارے میں لکھا، مگر لسانی مشکلات، قابل اعتبار افراد و دستاویزات تک رسائی میں مشکلات اور مذہبی تعصبات نے ان کی لکھی ہوئی تحریروں کی قدرو قیمت کو کم کیا۔ نو آبادیاتی دور میں جو تحریری مواد سامنے آیا، وہ زیادہ تر عیسائی مشنریوں یا نو آبادیاتی منتظمین اور پالیسی میکرز کا تحریر یا جمع کردہ تھا۔ اس دور میں تاریخ نویسی کا غالب رحجان یہ تھا کہ تاریخ کے ذریعے نو آبادیاتی حکمرانوں کو رعایا کے لیے مہربان حکمران ثابت کیا جائے۔ چونکہ انگریزوں کی آمد سے قبل مسلمان یہاں حکمران تھے، لہٰذا انہیں برا بھلا کہنے کا رحجان نمایاں نظر آتا ہے۔استعماری حاکموں نے اقتدار کے استحکام کے لیے ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کا جو فلسفہ اپنایا، اس دور میں تاریخ نویسی بھی اسی طرزِ فکر کی مظہر رہی۔ ہندو مسلم اختلافات، جن کو مغل عہد کی تاریخ نویسی نے بڑی حد تک ختم کر دیاتھا، ان کو پھر ہوا دی گئی۔ اس طرح انگریزوں نے تاریخ سے تعمیر کے بجائے تخریب کا، دلوں کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کا، اور مختلف فرقوں میں محبت و دوستی کے بجائے نفرت و دشمنی کے جذبات پیدا کرنے کا کام لیا۔ اس دور کی تاریخ نویسی کے مضر اثرات آج تک باقی ہیں۔ برطانوی مورخین نے، جن میں ایلیٹ کانام بھی آتاہے، ہندووں پر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ سفیدفام قوم نے انہیں ظالمانہ، پریشان کن اور ایذارساں غلامی سے، جو ان پر وحشی اور غیر متمدن مسلمانوں نے مسلط کر رکھی تھی، آزاد کرایا۔ قوم پرست مارکسی دانشوروں نے یہ ثابت کرنے کے لیے ایلیٹ کے پیش لفظ سے کافی اقتباسات لیے ہیں کہ فرقہ پرستانہ تاریخ نویسی کے بیج برطانیہ نے بوئے، اس میں فرقہ پرست مصنفین نے کھاد ڈالی اور دونوں فرقوں کے غریب عوام کی قسمت پر اس کی فصل کاٹی۔
نو آبادیاتی عہد میں تاریخ نویسی کا دوسرانمایاں رجحان غیر جانب داری اور معروضیت objectivity کے نام پر مقامی مورخین کی مذمت کرنے کا تھا، حالانکہ مقامی مورخین کا رویہ مقامی عوامل سے مشروط تھا اور یہی عوامل اصل میں مقامی تاریخ کا تانا بانا بننے والے تھے۔ اس کے برعکس غیر ملکی مورخین نے تاریخ کے عمل کو مخصوص زاویے اور اپنی ہی عینک سے دیکھا اور اپنی تربیت و تجربے کے پس منظر میں تشریحات ڈھونڈیں۔ ان کا مقامی سماجی تہذیبی صورت حال کا فہم ناکافی تھا لہٰذا ان کی تحریریں نتائج کے اعتبار سے خاص رنگ لیے ہوئی تھیں۔ 
انگریزوں کی، تاریخ کو نو آبادیاتی نظام کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی سے پیدا ہونے والے عدم توازن کو درست کرنے کے لیے کئی مقامی اور مسلمان مورخین نے پہلے معذرت خواہانہ انداز میں اور پھر زیادہ آزاد و مثبت تحریروں سے تاریخ نویسی شروع کی۔ اس عمل کا آغاز سر سید احمد خاں نے ابو الفضل کی ’’آئین اکبری‘‘ کا ایڈیشن ۱۸۵۵ء میں، ضیاء الدین برنی کی ’’تاریخ فیروز شاہی‘‘ ۱۸۶۲ء میں اور ’’تزک جہانگیر ی‘‘ ۶۴۔۱۸۶۳ء میں شائع کر کے کیا۔ پھر ۱۸۷۰ میں خطبات احمدیہ لکھی۔ عزیز احمد کے خیال میں یہ جدید مسلم تاریخ نویسی کا نقطہ آغاز تھا۔ (۱) انگریز عہد میں مسلمان حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کا ردعمل مسلمانوں میں پیدا ہوا تو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، رائل سوسائٹی آف بنگال، ندوۃ العلماء اعظم گڑھ، اور دائرۃ المعارف حید ر آباد دکن نے تاریخی مواد کے تنقیدی ایڈیشن شائع کر کے انڈو مسلم تاریخ نویسی کا احیا کیا اور نوآبادیاتی عہد کی تاریخ اور تاریخ نویسی کا مسلم نقطہ نظر سے جائزہ لینے کی طرح ڈالی۔ 
تاریخ نویسی کے مذکورہ رجحانات کے پس منظر میں ہی تقسیم ہند ممکن ہوئی۔ پاکستان میں تاریخ لکھنے والے تقسیم سے پہلے انڈو مسلم تاریخ نویسی کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک کے علمبردار تھے، لہٰذا تقسیم ہند کے ساتھ ہی تاریخ نویسی کی پرانی روایات کا ورثہ بھی تقسیم ہوا۔ نمایاں فرق یہ واقع ہوا کہ فرقہ پر ستانہ تاریخ نویسی نے قوم پرستانہ تاریخ نویسی کا روپ دھار لیا۔ تقسیم شدہ عوام کی تاریخ بھی برطانوی حکومت کی ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ پالیسی کا ثمر ہے جو تاریخ دانوں کے درمیان آج بھی ورثے کی حیثیت سے ثابت اور قائم ہے۔ جدوجہد آزادی کے دوران میں فرقہ پرست مورخ تاریخ کو مختلف طریقوں سے استعمال کرتے تھے، لیکن ان کا مرکزی خیال یہی ہوتا تھا کہ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ نہیں ر ہ سکتے او ر نہ کبھی رہے تھے اور اگر انہیں ایک ساتھ رکھا گیا تو وہ آگ اور پانی کی طرح رہیں گے۔ آگ پانی کو اڑا دیتی ہے یا پھر پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔ الفاظ کا ذخیرہ اورانتخاب مختلف تھا، لیکن ہندو اور مسلم فرقہ پرست ایک ہی زبان بولتے تھے۔ بپن چند نے فرقہ پر ستانہ تاریخ نویسی کے تاریخی متن کو بہترین انداز میں جانچا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد فرقہ پرستوں نے آسانی سے قوم پرست مورخین کا لبادہ اوڑھ لیا کیونکہ قوم پرست مورخ بھی حقائق کے انتخاب میں خاص احتیاط سے امتیاز برت کر مرضی کے نتائج اخذ کرنے کے وہی طریقے اور اصول استعمال کرتے ہیں جو فرقہ پرست مورخین کرتے تھے۔ 
پاکستان کے ابتدائی مورخین میں تقریباً سبھی اس گزری تحریک اور تاریخ کا حصہ تھے۔ کچھ نے اس تحریک میں سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔ اس کا مثبت پہلو یہ تھا کہ وہ تاریخ کے عینی شاہد تھے۔ اس طرح وہ خود مآخذ تاریخ تھے، مگر ساتھ ہی یہ بھی درست ہے کہ ان کے ہاں اس perspective کی کمی تھی جو تاریخ نویسی میں وقت اور فاصلہ فراہم کرتا ہے۔ شروع ہی سے پاکستانی مورخین کی یہ کوشش رہی کہ وہ برٹش انڈیا کی تقسیم کی وضاحت کریں، اس کو سمجھائیں اور اساس پاکستان کا جواز پیش کریں، اس لیے نظریے کو بے پناہ اہمیت دی گئی۔ احمد حسن دانی کے بقول:
Pakistan has been so much overwhelmed with ideological considerations that other aspects of life are left to take care of themselves. 
’’پاکستان میں نظریاتی پہلووں کا لحاظ اس قدر غلبہ اختیار کر گیا ہے کہ زندگی کے دوسرے پہلووں کا کوئی پرسان حال نہیں رہا۔‘‘
اسی لیے یہاں مورخ ایسی پوزیشن اختیار کرتے ہیں جو ایک مستقل اور منطقی کہانی بیان کرتی ہے ۔ 
قیام پاکستا ن کے ابتدائی تین سالوں میں تاریخی مواد اخبارات اور میگزینوں کے مضامین کی شکل میں سامنے آیایا پھر تقریری ادب، کمیٹی رپورٹس اور حکومتی اداروں کی شائع کردہ دستاویزات کے ذریعے ظاہر ہوا۔ اس سے سرکاری طور پر تصور پاکستان کی وضاحت ہوتی رہی۔ انگریز عہد میں سول و ملٹری افسران کی علم و تالیف سے انہماک کی جو روا یت شروع ہوئی تھی، اسی رجحان کی تقلید میں پاکستان میں وزارت خزانہ کے ممتاز حسن، آئی بی ڈویژن کے ایس ایم اکرام، ڈپٹی سیکرٹری قدرت اللہ شہاب اور ڈائریکٹر انفارمیشن مجید ملک متحرک رہے۔ ۱۹۴۹ء میں ڈائریکٹر آف فارن پبلسٹی کے ذریعے Pakistan: the struggle of a nation شائع ہوئی۔ سرکاری سرپرستی میں ہی ۱۹۵۰ء میں رچرڈ سائمنڈ کی The making of Pakistan سامنے آئی۔ اسی سال R.E.M Wheelerکی کتاب Five thousand years of Pakistan کو پذیرائی ملی۔ پھر The Cultural Heritage of Pakistan کامنصوبہ بنا جو بعد ازاں ۱۹۵۵ میں شائع ہوا۔ یہ تاریخ نویسی کے حوالے سے سرکاری کاوشیں تھیں۔ ان سالوں میں خالصتاً علمی وتحقیقی تاریخ نویسی کا فقدان نظر آتاہے۔ حکومتی حلقوں کی اشاعتوں کے ساتھ ساتھ قومی و صوبائی سطح پر تاریخ نویسی کے لیے ادارے قائم کیے گئے تاکہ سرکاری نقطہ نظر کے عین مطابق تاریخ لکھوائی جا سکے۔ سندھی ادبی بورڈ ، پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی، دی ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان وغیرہ کا قیام عمل میں آیا۔ 
ابتدائی دہائیوں پر نظر دوڑائیں تو ملکی و غیر ملکی مورخین نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو موضوع بنایا۔اس سے سماجی، تہذیبی، معاشی اور دیگر پہلو تشنہ رہ گئے۔ ڈاکٹرا یس اے رحیم نے A Social History of Bengal لکھ کر سماجی تاریخ نویسی کا آغاز کیا، لیکن یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ ثقافتی اور روحانی تاریخ کے حوالے سے ایس ایم اکرام نے قابل قدر کام کیا۔ ان کا ذہن دینی تھا اور انہیں تصوف سے دلچسپی بھی تھی، لہٰذا انہوں نے آبِ کوثر، موجِ کوثر، رودِ کوثرکے علاوہ History of Muslim civilization in India اور Muslim India and Birth of Modern Pakistan تحریر کی۔ چونکہ اس دور میں مسلم سوشل ہسٹری میں کوئی اور مورخ نہ تھا لہٰذا یہاں شیخ اکرام اس طرز کی تاریخ نویسی کے بانی قرار پائے۔ 
پاکستان میں تاریخ نویسی کے حوالے سے ایک اور رجحان صحافیانہ تاریخ نویسی کا ہے۔ سید حسن ریاض کی ’’پاکستان ناگزیر تھا‘‘ اس کی ایک مثال ہے۔ ایسی تحریروں میں تحقیق سے زیادہ اسلوب پر زور رہا۔ سلسلہ وار تاریخ نویسی کے حوالے سے اس دورمیں تین بڑے کام نظر آتے ہیں۔ ایک A History of the Freedom Movement ، دوسرا آٹھ جلدوں پر مشتمل تاریخِ سندھ اور پھر چار جلدوں پر مشتمل کراچی یونیورسٹی کی شائع کردہ A Short History of Pakistan ایک اچھا آغاز تھا مگر معاونین کے ذریعے مرتب کی جانے والی کتب کی ساری خامیاں ان میں موجود تھیں۔ طرز تحریر میں ہم آہنگی کا فقدان تو تھا ہی، فکری جرات کی بھی کمی تھی۔ یہ ریفرنس ورک ہونا چاہیے تھا مگر مورخین کے ہاں validity حاصل نہیں کر پایا۔ ان میں بار بار دہرائے جانے حوالہ جات کی بوریت بھی نمایاں ہے۔ یہ وقت کے تقاضوں کو بھی پورا نہ کر پائیں۔ تاہم اشتیاق حسین قریشی، عزیز احمد، عبد الحمید، خالدبن سعید، حفیظ ملک، معین الحق وغیرہ کی کتب بھی ساٹھ کی دہائی میں یکے بعد دیگرے شائع ہوئیں۔ ان محققین کے ہاں یہ رجحان نمایاں دکھائی دیتاہے کہ وہ گزشتہ جنوبی ایشیا کی ایک ہزار سال کی تاریخ کے بارے میں خیالات پیش کرتے ہیں، وحدت کو تلاش کرتے ہیں اور بڑی نرم گفتاری سے منظر کے تنوع کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ 
شروع میں پاکستان میں تاریخ نویسوں نے عصری تاریخ کی بجائے قدیم دور کی تاریخ کو موضوع بنایا۔ یہ برطانوی روایتِ تاریخ نویسی کا واضح اثر تھا۔ ہر لکھنے والا کا مقصد یہ تھا کہ ماضی کو پرشکوہ ثابت کیا جائے اور پھر اپنے سارے قومی تصورات اور کارناموں کو تاریخ کے ذریعے ثابت کیاجائے اور تاریخ کو اپنی موجودہ سیاسی اور قومی ضرورتوں کے قالب میں میں ڈھال کر اپنے over-emotionalاحساسِ ِ تفاخر کو تسکین فراہم کی جائے۔ اس طرح تاریخ نویسی ہمارے ہاں واقعہ کی ایسی تعبیر نو بن کر رہ گئی جو ان کے نظریات اور تصورات پر صادق آتی ہے۔ گویا مورخین نے تاریخ کو پراپیگنڈا کا ذریعہ بنا لیا۔ 
یہاں کے مورخین کے لیے ایک مشکل سوال انڈیا میں مسلمانوں کی حکمرانی کی نوعیت سے متعلق نظر آتاہے کہ آیا مسلمانوں نے ایسی اسلامی ریاست قائم کی جو شریعت کے مطابق تھی یا انہوں نے ایسی مسلم حکومتیں قائم کیں جن کے پیچھے سیاسی طورپر باشعور اور مربوط اقلیت تھی جو ایسی اکثریت پر حکمرانی کر رہی تھی جن کا مذہب ان کے مذہب سے مختلف تھا؟ یا وہ محض اقلیتوں کی حکومتیں تھیں جو اپنے مفادات کے لیے حکمرانی کر رہی تھیں، لیکن انڈیا میں مسلم معاشرے کے ساتھ ایک مذہبی الحاق رکھتی تھیں؟ غیر مسلم اکثریت کا مسلم حکمرانی کے خلاف ردعمل کیا رہا؟ ہندوستان کے مسلمان اپنا علیحدہ تشخص رکھتے تھے یا وہ ہندوستانی آبادی کا اٹوٹ انگ تھے؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے مورخین کو قدرتی طور پر انڈیا میں مسلمانوں کی موجودگی کی نوعیت کی وضاحت کرنا پڑتی تھی کہ وہ کون تھے؟ کیا انہوں نے ایک مربوط معاشرے کو تشکیل دیا؟ اگر ایسا تھا تو کس چیز نے انہیں مربوط رکھا؟ کیا یہ سیاسی مفادات تھے، معاشی محرکات تھے یا مذہبی وفاداریاں تھیں؟
مسلمان انڈیا میں فاتحین کے طور پر آئے اور مختلف مفادات نے ان کے اندر اس کام کی تحریک پیدا کی کہ وہ شہری مراکز میں ایک حکمران اشرافیہ کے طور پر آباد ہوئے۔ مسلم معاشرے کی قوت کا ایک بڑا ذریعہ ہجرت تھی یا صدیوں پر محیط تبدیلی مذہب کا عمل۔ یہ لوگ مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے تھے، مختلف زبانیں بولتے تھے مگر آہستہ آہستہ ایک مضبوط اور واضح شناخت کے رشتے میں بندھ گئے۔ پاکستانی تاریخ دانوں کے ڈین ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مسلم معاشرے کو Community of purpose قرار دیتے ہیں جو ایمان ، اقدار اور زندگی کے بارے طرز فکر کے حوالے سے واحد تشخص کی حامل تھی۔ وہ ان کے کارناموں، ترقی اور زوال اور جدوجہد کی تصویر کشی کرتے ہیں جس کی انتہائی منطقی شکل ایک علیحدہ مسلم ریاست یعنی پاکستان کے قیام پر منتج ہوئی۔ (۲) اسی دور کے بارے میں لکھتے ہوئے عزیز احمد سلطنت دہلی کو قانونی حوالے سے عالمی سطح پر عباسی خلافت کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں عباسی خلفا کی authority تسلیم کی جاتی تھی۔ اس حوالے سے استثنا خلجیوں میں قطب الدین مبارک (۲۰۔۱۳۱۶) ہے جس نے اپنے لیے امیر المومنین کا لقب اختیار کیا۔ ان کے خیال میں نظریاتی طورپر بھی اس عہد میں نظام کو چلانے کے لیے شریعت کا قانون نافذ تھا۔(۳) تاہم جامعہ ملیہ دہلی کے ڈاکٹر ایس عابد حسین جنوبی ایشیا کے سارے بر صغیر کو ایک کلچرل یونٹ قرار دیتے ہیں جس میں اسلام نے لائق تحسین اور مثبت کردار ادا کیا۔ وہ عزیز احمد کے تصور کے برعکس کہتے ہیں کہ سلطنتِ دہلی کو اسلامی ریاست کہنا ایک افسانے سے کم نہیں۔ (۴) جبکہ ڈاکٹر حفیظ ملک یوں رقم طراز ہیں کہ:
One might say that the Ghaznavide Punjab including the north western frontier areas and the Islamized Sindh was the first Pakistan established by Muslims of diverse racial strains in the border provinces of India. (5)
’’یہ کہا جا سکتا ہے کہ غزنویوں کے زیر نگیں پنجاب، اور اس کے ساتھ شمال مغربی سرحدی علاقے اور اسلام کے زیر اثر آ جانے والے سندھ پر مشتمل علاقہ پہلا پاکستان تھا جو متنوع نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے انڈیا کے سرحدی صوبوں میں قائم کیا۔‘‘
اس مکتبہ فکر کے مورخین کا خیال یہ ہے کہ پاکستان مسلم معاشرے کی تاریخ کا ایک منطقی نتیجہ تھا، چنانچہ ریاست کی ابتدا اور قوم پرستی کی علامات کو گیارھویں صدی میں ہی دیکھا جا سکتا ہے` لیکن بہت سے پاکستانی تاریخ نویس تاریخ کی اس توضیح و تشریح سے اتفاق نہیں کرتے، مثلاً ایس ایم اکرام کا خیال ہے کہ پاکستانی مورخین نئی ریاست کے آغاز و جواز کے تلاش میں زیادہ ہی قدیم دور میں چلے گئے۔ کچھ نے تو اساس پاکستان کے لیے البیرونی تک کا حوالہ دے دیا، مگر اکرام کے بقول بے شک مسلم علیحدگی کی بنیاد اسی وقت تیار ہو گئی تھی جب اسلام برصغیر میں داخل ہوا اور پھر ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک پل کی فراہمی کی کوششیں بھی ناکام ہو گئیں، تاہم عملی مقاصد کے لیے تصور پاکستان میں آہستہ آہستہ آنے والی شفافیت اور احساس انگریزوں کے عہد میں نمایاں ہوا۔ حفیظ ملک کے برعکس ایس ایم اکرام سندھ میں عربوں کی حکمرانی کو مقامیت سے ایک ساجھے داری قرار دیتے ہیں جس میں مسلم حکمرانوں نے سلطنت کے دفاع اور امن و امان کی طرف توجہ دی جبکہ سول انتظامیہ کا چارج ہندو عمال کے پاس ہی رہا جو علاقہ کے روایتی سول سرونٹ تھے ۔
اسی حوالے سے ایک اور پاکستانی مورخ ڈاکٹر عبدالحمید بیان کرتے ہیں کہ پاکستان، انڈیاپر برطانوی قبضے کے بعد کی قوتوں کی پیداوار ہے۔ (۶) کے کے عزیز کا خیال ہے کہ مسلم قومیت کا تصور اور علیحدہ قومیت کا تصور ۱۸۵۷ء کے بعد کے مظاہر ہیں جن کا آغاز لوگوں کی چھوٹی سی تعداد سے ہوا۔ آہستہ آہستہ مسلم ثقافت اور زندگی کے مختلف پہلو برصغیر میں مل گئے اور مسلم انڈیا کا تصور قائم ہوا، جبکہ وہ پاکستان کی ناگزیریت کو وہ حکومت خود اختیاری کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ مسلم قومیت کے تصور کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ مسلم نیشنلزم کا تصور علاقائی سے زیادہ معروضی، اور سیاسی سے زیادہ نفسیاتی تھا جبکہ ہندو نیشنلزم ثقافتی سے زیادہ علاقائی اور مذہبی سے زیادہ تاریخی تھا۔ (۷) اسی طرح سیاسی تجزیہ نگار خالد بن سعید تاریخ کے بہت سے ’’اگر مگر‘‘ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ پاکستان اولین طور پر مسلم اضطراب کی پیداوار تھا جس کا مقصد انڈین وفاق کے ڈھانچے میں رہ کر ایک ثقافتی و سیاسی خود مختاری قائم کرنا تھا۔ بعد ازاں پاکستان کا قیام ان کے اس جرات مندانہ دعوے کی پیداوار تھا کہ مسلمان چونکہ ایک علیحدہ قوم ہیں، اس لیے ان کی ایک خود مختار ریاست ہونی چاہیے۔ وہ اس خیال کو رد کرتے ہیں کہ یہ تاریخ میں ہندوؤں کی مخصوص مسلم دشمنی کا نتیجہ تھا۔ ہندوؤں کی مسلم دشمنی ان کے خیال میں جزوی طور پر Muslim Ethnocentricity اور کچھ حد تک ہندوؤں کی مذہبی رسومات کی پیداوار تھی۔ وہ ۱۸۵۷ سے پہلے کی تاریخ میں جائے بغیر بھی ان مورخین کے قریب پہنچ جاتے ہیں جو پاکستان کے قیام کی نشانیاں ہندومسلم اختلافات کی صدیوں پرانی تاریخ میں دیکھتے ہیں، لیکن خالد بن سعید کو اپنی مذکورہ بات کا بھی یقین نہیں ہے کیونکہ وہ مذکورہ بیان کو perhaps یعنی شاید کے لفظ سے مشروط کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ مسلم لیگ نے ۱۹۴۶ کے کابینہ مشن پلان کو قبول کیا جس میں پاکستان کی اسکیم کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ (۸)
پاکستانی مورخین میں سے کم از کم ایک مورخ ایسا بھی تھا جس نے ہندو مسلم عداوت کا ذمہ دار برطانوی تاریخ نویسوں کو ٹھہرایا۔ ۱۹۵۵ کی پاکستان ہسٹری کانفرنس میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے ڈاکٹر محمد ناظم نے کہا کہ ’’بلاشبہ تاریخ ایک ایسا ہتھیار ہے جو قوموں کی سوچ کو خراب کرنے اور تبدیل کرنے کے لیے کثرت سے استعمال کیا جاتاہے۔ تاریخ ہند کو ایک خاص نقطہ نظر سے لکھ کر انگریزوں نے مسلم حکمرانوں کے اعمال کو کچھ اس طرح پیش کیا کہ ہمیں اپنے ماضی پر شرمندگی ہونے لگی۔ ان کی لکھی تاریخ نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں، جو کہ صدیوں تک مسلم بادشاہوں کی حکمرانی میں گرم جوشی سے اکٹھے رہ رہے تھے، ان میں نفرت کے اتنے شدید احساسات پیدا کردیے کہ مختصر سے عرصے میں ہی انہیں دشمنوں میں بدل دیا گیا۔‘‘ (۹)
پاکستان کے ابتدائی مورخین تاریخ نویسی کے حوالے سے فکری جمود کا شکار رہے۔ مختلف مورخین نے مختلف مواد اور دلائل سے نتیجہ ایک جیسا ہی اخذ کیا، مثلاً عزیز احمد، اشتیاق حسین قریشی، خالد بن سعید اور حفیظ ملک نے ساٹھ کی دہائی کے شروع میں باہمی مشاورت کے بغیر تحقیقی کام کیا۔ انفرادی طورپر مختلف تحقیق کے باوجود وہ ایک ہی رجحان کے علمبردار رہے اور انہوں نے مسلم قوم پرستی اور قیام پاکستان کے حوالے سے اتفاق رائے قائم کیا۔ اسی طرح اکثر مصنفین کے نتائج ہی نہیں، دلائل بھی ایک جیسے تھے۔ بیشتر وہ کتابیں جو ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کے عرصہ کا احاطہ کرتی ہیں، ان میں اکثر پاکستانی محققین جو پہلے سے متعین شدہ مقدر کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں، وہ تمام ڈاکٹر امبید کر کی کتاب سے ایک ہی مخصوص پیرا گراف رقم کرتے ہیں کہ یہ جدید ہندوستانی تاریخ کی عجیب حقیقت ہے کہ مسلمان پراسرار احساسات کے اسیر ہو کر ہندو سیاسی لہر میں ضم ہونے کے بجائے ایک متوازی راستے پر چلے ۔ یہ پر اسرار اعزاز اور خفیہ ہاتھ کوئی اور نہیں بلکہ ان کا پہلے سے متعین شدہ مقدر تھا جس کی علامتی شکل پاکستان تھی۔ (۱۰) اس عہد کا تذکرہ کرنے والی کتب میں شیخ احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز، سید احمد شہیدکا خصوصی اور توصیفی ذکر ہوتاہے۔ اس کے فوری بعد کی تاریخ سرسید احمد خان کے گرد گھومتی ہے جنہیں ڈاکٹر محمود حسینThe early architect of Pakistanقرار دیتے ہیں (۱۱) جبکہ چوہدری خلیق الزماں انہیں مسلم نیشنل ازم کا بانی کہتے ہیں، لیکن ڈاکٹر ظفر الاسلام مختلف رائے دیتے ہیں کہ اگر علیحدگی پسندی سے مراد مسلمانوں کا حق خود ارادیت تھا یا اس کے معنی مسلم قوم کا خود کو ایک خود مختار ریاست کی صورت میں منظم کرنے کا بالواسطہ حق تھا تو ایسا کوئی تصور سر سید کے ذہن میں نہیں تھا۔ اس کے برعکس اگر علیحدگی پسندی سے مراد مذہب، ثقافت اور بنیادی اختلافات ہیں تو ان معنوں میں سر سید علیحدگی پسندی کے چیمپین تھے لیکن ان معنوں میں کوئی بھی مسلمان،قطع نظر اس سے کہ اس کا تعلق کس طبقے سے تھا، لازمی طور پر علیحدگی پسند تھا۔ (۱۲)
اس دور کے تاریخ نویسوں نے محمد علی جناح پر لکھتے ہوئے ان کی زندگی اور کارناموں کا معروضی تجزیہ کرنے کے بجائے عقیدت کے اظہار میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی کوشش کی۔ لہٰذا محمد علی جناح کے حوالے سے کئی سوال تشنہ رہ گئے۔ مثلاً جناح نے کب پاکستان کے حق میں فیصلہ کر لیا؟ ایس ایم اکرام کا خیال ہے کہ ۱۹۴۶ کے وسط میں کانگرس کے کابینہ مشن کے حوالے سے "bad faith" کے بعد انہوں نے پاکستان کے حق میں فیصلہ کیا۔ (۱۳) مگر آغا خان اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ As late as 1946 Jinnah had no clear idea of his goal. یعنی ۱۹۴۶ء تک بھی جناح کا ذہن اپنے ہدف کے حوالے سے واضح نہیں تھا۔ ڈاکٹر وحید الزماں کا خیال ہے کہ شروع میں علامہ اقبال، مولانا محمد علی، ابوالکلام آزاد اور محمد علی جناح سب قوم پرست تھے۔ بعد میں کانگرسی رویے کی وجہ سے آزاد کے علاوہ تینوں راہنماؤں نے رخ بدل لیا۔ بہر حال اس حوالے سے تاریخ تا حال ایک مستند تحقیق کی طلب گار ہے۔
پاکستانی محققین جب ریاست پاکستان کی اساس کی تلاش میں دور تک نکلے تو اس نے تاریخ پاکستان کی جہتوں کے حوالے سے کئی سوال اٹھائے۔ مثلاً کیا پاکستانی تاریخ، ہندوستانی تاریخ سے الگ ہے یا اس کے ساتھ منسلک؟ یہ تاریخ کتنی پرانی ہے اور اس کا آغاز کب ہوا؟ ان علاقوں کی تاریخ کا کیا کردار ہے جو پاکستان اور پاکستان کی قومی تاریخ کو تشکیل دیتے ہیں؟ پاکستان کی تاریخ صرف مقامی اہمیت رکھتی ہے یا قومی؟ اس کا ایک جواب اشتیاق حسین قریشی نے یوں دیا کہ کچھ ادوار کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ کو آزادانہ بھی بیان کیا جا سکتا ہے مگر دیگر ادوار میں یہ علاقائی تاریخ کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے۔ (۱۵) قریشی کے جواب نے تاریخ کے طلبہ کی تشفی کے بجائے انہیں مزید الجھا دیا۔ در حقیقت انڈومسلم تاریخ نویسی کی روایت کے علمبردار مورخین نے ساری توانائیاں سرکاری موقف کو سچ کر دکھانے میں صرف کر دیں اور اس سوال کی طرف توجہ نہ دی کہ مختلف سماجی و تہذیبی و لسانی اکائیوں کو ایک مشترکہ قومیت میں کیسے ضم کر دیا جائے۔ اس حوالے سے کیتھ کیلارڈ اور wyne wilcox جیسے غیر ملکی مصنفین کے کام اہمیت کے حامل ہیں۔ 
ابتدائی عشروں میں تاریخ نویسی کا ایک اور رجحان نمایاں رہا کہ کچھ مخصوص افراد کی بہت زیادہ تعریف و توصیف کی جائے اور کچھ luminaries کی حیثیت کم کی جائے ۔ سوانح نگاری میں ’’ہیرو ورشپ‘‘ کا تڑکہ لگایا گیا۔ اس سے تاریخ کی شکل بگڑی اور وہ غیر انسانی ہوگئی۔ جدوجہد آزادی میں کردار ادا کرنے والوں کو یہاں یا تو مداح ملے یا عیب گو، مگر ان کے کردار کی تاریخ لکھنے والا کوئی نظر نہیں آیا۔ شخصیات کے بارے میں لکھتے ہوئے پر جوش مبالغہ آرائی حاوی رہی۔ ایسی تاریخ نویسی سے نہ تو کوئی تحریک پیدا ہوئی نہ ہی تبدیلی کے عمل کو جاننے کے شوق کی تسکین ہو سکی۔ ایسی تاریخ نویسی میں توجہ معمولی کردار نگاری پر مرکوز رہی اور درپیش حقیقی مسائل نظر انداز ہو گئے۔ مورخ کی حیثیت ایک راہنما کی سی ہوتی ہے۔ قاری اس سے محض قصے سننے کا خواہش مند نہیں ہوتا۔ چنانچہ مورخ کو محض و قائع نگار نہیں ہونا چاہیے۔ قصہ گوئی اور داستان طرازی کے عنصر نے تاریخ نویسی کو منفی طور پر متاثر کیا۔ حقیقی تاریخ محنت، عرق ریزی اور تدبر کا تقاضا کرتی ہے۔ تاریخی بحث مباحثہ میں اس بات کا دھیان رہنا چاہیے کہ کوئی بھی آدمی، چاہے وہ جتنا ہی عظیم اور بزرگ کیوں نہ ہو، دیوتا نہیں بن سکتا۔ اس کی انسانی کمزوریاں اس کے ساتھ لگی رہیں گی اور وہ غلطیاں کرتا رہے گا۔ اگر اکبر اور اورنگزیب نے غلطیاں کی ہیں تو گاندھی اور جواہر لال نہرو، اور مولانا آزاد اور مولانا محمد علی نے بھی کی ہیں۔ اگر سوامی دیانند سرسوتی نے غلطیاں کی ہیں تو سرسید نے بھی کی ہیں اور جناح نے بھی کی ہوں گی۔ ہمیں ان کی اچھی باتوں کو یاد رکھنا ہے، لیکن ان کی غلطیوں کی کوئی تاویل کیے بغیر، غلطی مان کر نظر انداز کر دینا چاہیے۔ اپنے راہنماؤں کی غلطیوں کا خمیازہ ہم پہلے ہی بہت بھگت چکے ہیں۔ اب ان سے سبق لے کر سارے مسائل کو نئے انداز اور نئے حوصلے کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔ مگر افسوس! ہمارا مورخ لکیر کا فقیر رہا۔ ہماری تاریخ نویسی تاریخ کے فہم کے بجائے تاریخ کی من پسند تعبیر کی کوشش نظر آتی ہے۔سرکاری سطح پر درباری مورخین یا سرکاری اداروں کے ملازمین نے ریاستی و نظریاتی تاریخ کے ٹاسک کو پورا کرنا اپنا فریضہ سمجھا۔ 
ڈاکٹرمحمود حسین، معین الحق، ریاض الاسلام، احمد حسن دانی، شریف المجاہد، رفیق افضل، ڈاکٹر صفدر محمود سب روایتی مکتبہ فکر کے پیروکار رہے۔ عائشہ جلال نے نئے راستے کی تلاش میں پرانی فکر کو ترک کیا مگر وہ کیمبرج یونیورسٹی میں اپنے مقالے کے نگران Dr. Anil Seal کے روایتی انداز میں پھنس کر رہ گئیں۔ ان کی تحقیق بھی کوئی انقلابی تبدیلی ثابت نہ ہوئی۔ سرکاری سر پرستی اورریاستی جبر، دونوں ہی سچی تاریخ لکھنے کی راہ میں حائل رہے لہٰذا ہمارے ہاں آزاد اور غیر جانبدار تاریخ نویسی کا فقدان نظر آتا ہے۔ کسی نے بھی ریاستی نظریات کوچیلنج کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مکھی پر مکھی مارنے کو تاریخ نویسی قرار دے دیا گیا۔ جو تاریخ لکھ رہے تھے، وہ خود تحریک پاکستان سے وابستہ رہے یا سرکاری انتظامیہ کا حصہ تھے لہٰذا تحقیق میں جانبداری نمایاں رہی۔ ایک جانبدار شخص کی لکھی ہوئی تاریخ کو تاریخ کہنا ہی زیادتی ہے، بالخصوص جب تاریخ نویسی میں مذہبی تقاضے در آئیں تو مسئلہ مزید گھمبیر ہو جاتا ہے۔ مذہب کو مقدس جان کر لکھنے والا جذبات کی عینک لگا کر حقائق کو توڑتا مروڑتا ہے، چنانچہ جو مورخ ملک، قوم، عقیدے یا طبقے کی جانبداری کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ مواد کے انتخاب اورالفاظ کے استعمال میں غیر محسوس اونچ نیچ کے ذریعے ڈھکے چھپے انداز میں اپنی پسندیا نا پسند کا اظہار کر دیتے ہیں۔ 
پاکستان میں تاریخ نویسی بطور فن کے مسلسل اور باقاعدہ بحران کا شکار رہی ہے۔ یہاں تاریخ نویسی کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ ثابت ہوا کہ لکھنے والوں نے لکھتے وقت حکومت یا عوام کو خوش کرنے کو اولیت دی۔ تاریخ نویسی میں یہاںCommand performance یا Commanded conclusionsکی مشکل بھی پیش رہی۔ تاہم کلی طور پر نہ سہی، کئی مصنفین نے جزوی طور پر پاکستان کی جدید تاریخ لکھناشروع کی۔ اس حوالے سے ایک معتبر نام حمزہ علوی کا ہے۔ حسن گردیزی، فیروز احمد، اعجاز احمد، محمد وسیم، اسکندر حیات اور ڈاکٹر مبارک علی نے بھی اس کام کو آگے بڑھایا۔ ان محققین نے اپنے اپنے حصے کا چراغ جلایا ہے، تاہم پوری تاریخ یا پورے دور کو تا حال جدیدانداز سے نہیں دیکھا گیا۔ باوجود اس کے کہ کچھ نصابی تاریخ نویس دھڑا دھڑ لکھ رہے ہیں، مثلاً کے علی،ایس ایم شاہد، اصغر علی جعفری، فاروق ملک وغیرہ، مگر کچھ لوگ لکھنے کے لیے پڑھتے ہیں، یعنی پڑھتے کم ہیں اور لکھتے زیادہ ہیں۔ یوں کہہ لیں نگلتے کم ہیں اور اگلتے زیادہ ہیں۔ ہماری تاریخ کئی دہائیوں سے ایسے ہی بے رحم ہاتھوں میں سسکیاں لے رہی ہے۔ در حقیقت ہمارے یہاں تاریخ نویسی کا عمل معیار اور مقدار، دونوں حوالوں سے اطمینان بخش نہیں رہا۔ ایسی صورت حال میں تاریخ نویسی کا کوئی نمائندہ مثالی کارنامہ نظر نہیں آتا۔ یہاں کی صورت حال دیکھ کر ہملٹن گِب کی ۱۹۱۴ء میں کہی ہوئی بات یاد آتی ہے جو انہوں نے عربوں کی تاریخ نویسی کے بارے میں کہی تھی کہ:
I have not seen any book written in Arabia for Arabs themselves which has clearly analysed what Arab culture means to the Arabs.
’’مجھے عرب دنیا میں خود عربوں کے لیے لکھی گئی ایسی کوئی کتاب دکھائی نہیں دی جو واضح طور پر اس بات کا تجزیہ کرتی ہو کہ عربوں کے لیے عرب ثقافت کیا معنی رکھتی ہے۔‘‘
یہ ریمارکس ۲۰۰۷ء میں پاکستان کی تاریخ نویسی پر بھی صادق آتے ہیں، اس لیے ہمیں سچی تاریخ لکھنے کی جلد از جلد کوشش کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر Bernard Lewis نے ۱۹۶۳ء میں آل پاکستان ہسٹری کانفرنس کو پیغام میں کہا تھا کہ:
We live in a time when great energies are devoted to the falsification of history, to flatter, to deceive, or to serve a variety of sectional purposes. No good can come of such distortions even when they are inspired by unselfish motives. Men who are unwilling to confront the past will be unable to understand the present, and unfit to face the future. A great responsibility, therefore, falls on historians, whose moral and professional duty is to seek out the truth concerning the past and to to explain it as they see it. (16)
’’ہم ایک ایسے زمانے میں جی رہے ہیں جب تاریخ کو جھٹلانے، خوشامد، دھوکہ دہی یا مختلف قسم کے گروہی مقاصد کے فروغ کے لیے بے انتہا توانائیاں صرف کی جا رہی ہیں۔ اس طرح تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششوں سے، چاہے وہ کتنی ہی بے غرضی سے کیوں نہ کی جائیں، کوئی خیر برآمد نہیں ہو سکتی۔ جو لوگ ماضی کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے، وہ نہ تو حال کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ مستقبل ہی کا سامنا کرنے کے اہل ہیں۔ چنانچہ تاریخ نویسوں پرایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جن کی اخلاقی اور پیشہ ورانہ ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ماضی کے بارے میں سچ کو دریافت کریں اور جس طرح اس کو سمجھیں، اس کو بیان کریں۔‘‘
دراصل ایک قوم ویسی ہی تاریخ لکھتی ہے جس کی وہ اہل ہوتی یا خواہش کرتی ہے۔ اپنے احساسِ تفاخر کے لیے ماضی کی غلط تعبیر بد قسمتی کے سو ا کچھ نہیں کیونکہ اگر تاریخ مثالوں کے ذریعے سے سکھاتی ہے تو پھر لازم ہے کہ تاریخ پوری دیانت داری سے کسی قوم کی کامیابیوں اور ناکامیوں، اچھائیوں اور برائیوں، اور اس کے ہیروز اور باغیوں کا ذکر کرے۔ سچی تاریخ قوم کے لیے آب حیات کا درجہ رکھتی ہے۔ ایک مفکر نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ اگر کوئی نیم حکیم غلط نسخہ تجویز کر دے تو مریض کو جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ یہ ایک فرد کا نقصان ہوتاہے۔ لیکن اگر تاریخ کی کتب میں ایسا مواد شامل کردیا جائے جو نہ صرف ذہنوں کو بگاڑے بلکہ ’ہم چو مادیگرے نیست‘ کا احساس پیدا کرے، اپنے سوا دوسروں سے نفرت کی تعلیم دے، عدم رواداری سکھائے، انتقامی جذبات بھڑکائے، نسلی غرور میں مبتلا کر دے تو ایسی تاریخ عظیم تباہی لاتی ہے۔ یہ پوری نسل کی تباہی ہوتی ہے۔ امن و امان اورسماجی زندگی کا سکون درہم برہم ہو کر رہ جاتاہے۔ سموئیل بٹلر نے کہا تھا کہ خدا ماضی کو نہیں بدل سکتا، مورخ بدل سکتے ہیں۔

References

1. Aziz Ahmed, Islamic Modernism in India and Pakistan, (1857-1964) (karachi:1967) p.39
2. I. H. Qureshi, The Muslim Community of the Indo-Pakistan, (Hague:1962) p.304
3. Aziz Ahmed, Studies in Islamic Culture in the Indian Environment, (Oxford:1964) p.9
4. S. Abid Hussain, The National Culture of India, (Newyark:1961) p.208.
5. Hafeez Malik, Moslem Nationalism in India and Pakistan, (washington:1963) p.12
6. Abdul Hamid, Muslim separatism in India: A brief survey, (Lahore:1967) p.ix
7. K. K. Aziz, The making of Pakistan, (London:1967) p.209.
8. K. B. Sayeed, Pakistan, the formative phase 1857-1948 (London:1968) p.8.
9. The proceedings of the Pakistan History conference (Karachi:n.d) p.59.
10. B.R. Ambedkar, Pakistan or the partition of Inida, (Bombay:1946) p.333-4.
11. Mahmud Hussain (Ed) History of freedom movement, vol.1, p.10.
12. Zafar ul Islam, Proceeding of Pakistan History Conference, (Karachi:1956) p.171-72
13. S. M. Ikram, Modern Muslim India and birth of Pakistan, (Lahore:1965) p.2.
14. Agha Khan, Memoris, (London:1954) p.296.
15. I. H. Q. op.cit, (preface)
16. Ahmed Hasan Dani (Ed), Historical writings on Pakistan, vol.II (Islamabad:1973) p.4

لال مسجد کا سانحہ اور حنفی فقہ

محمد مشتاق احمد

لال مسجد کے سانحے کے مختلف پہلوؤں پر اہلِ علم کی بحث جاری ہے۔ اس سلسلے میں ایک موضوع یہ ہے کہ لال مسجد کے خطیب اور مہتمم اور دیگر متعلقہ افراد شریعت کی تعبیر کے معاملے حنفی فقہ کے پیروکار تھے، تو کیا ان کا طرز عمل فقہ حنفی کی رو سے درست تھا؟ اگر ہاں تو دیگر حنفی علما نے کیوں ان کی تائید نہیں کی؟ اور اگر نہیں تو حنفی ہوتے ہوئے انہوں نے حنفی فقہ کے قواعد سے روگردانی کیسے کی؟ یہ اور اس قسم کے دیگر کچھ سوالات روزنامہ ’’جناح‘‘ کے کالم نگار جناب آصف محمود ایڈووکیٹ صاحب نے اٹھائے ہیں۔ فاضل کالم نگار کے نزدیک حنفی فقہا کی رائے یہ رہی ہے کہ افراد کو نہی عن المنکر کے لیے طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں ہے اور اس ممانعت کی علت یہ ہے کہ اس طرح معاشرے میں انارکی اور انتشار پھیلتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حنفی فقہا، باوجود اس کے کہ موسیقی کے آلات کے استعمال کو ناجائز قرار دیتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کے موسیقی کے آلات توڑ ڈالے تو وہ اسے تاوان ادا کرنے کا پابند ہے۔ اسی طرح ’’قانون ہاتھ میں لینے‘‘ کو حنفی فقہا ناجائز قرار دیتے ہیں۔ ہم ان تینوں امور کے متعلق حنفی فقہ کی جزئیات کی کچھ وضاحت پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر لال مسجد والوں کے طرز عمل کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ نیز ان امور کے ساتھ کچھ اور امور بھی متعلق ہیں جن پر فاضل کالم نگار نے بحث نہیں کی ہے۔ جب تک وہ امور بھی زیر بحث نہ لائے جائیں، لال مسجد والوں کے طرز عمل یا زیادہ صحیح الفاظ میں ’’رد عمل‘‘ کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ 

نہی عن المنکر کے لیے طاقت کا استعمال 

حنفی فقہا جب عام افراد کو نہی عن المنکر کے معاملے میں طاقت کے استعمال سے روکتے ہیں تو وہ اس حکم کی علت یہ نہیں ذکر کرتے کہ اس طرح معاشرے میں انارکی پھیلتی ہے۔ یقیناًانارکی پھیلنا ایک بڑا شر ہے جس سے معاشرے کو بچانا چاہیے لیکن یہ ایسا وصف نہیں ہے جسے اصطلاحی مفہوم میں ’’علت‘‘ کہا جائے۔ اسے زیادہ سے زیادہ اس حکم کی ’’حکمت‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ حنفی فقہا اس حکم کی علت یہ ذکر کرتے ہیں کہ اگر آپ کسی شخص سے کوئی کام جبراً لینا چاہتے ہیں تو اس کے لیے قانونی طور پر ضروری ہے کہ آپ کو اس شخص پر ’’ولایت‘‘ (Authority) حاصل ہو۔ یہ ولایت دو طرح سے وجود میں آتی ہے۔ کبھی تو بعض افراد کو بعض دیگر افراد پر، مثلاً باپ کو نابالغ بیٹے پر، شریعت کے کسی حکم کی رو سے حاصل ہوتی ہے اور کبھی باہمی معاہدے کے نتیجے میں کسی کو ولایت حاصل ہوجاتی ہے، مثلاً عقد وکالت (Contract of Agency) کے نتیجے میں وکیل (Agent) کو اصیل (Principal) کی نمائندگی کے لیے ولایت حاصل ہو جاتی ہے، اس لیے وکیل کو اگر خرید و فروخت کے لیے ولایت دی گئی ہو تو وہ عقد وکالت کے حدود کے اندر رہتے ہوئے اصیل کے لیے خرید و فروخت کرسکتا ہے۔ قاضی اور مفتی کا کام اس لحاظ سے تو ایک ہی ہوتا ہے کہ دونوں کسی پیش آمدہ مسئلے میں شریعت کا حکم متعین کرتے ہیں، لیکن ان کے فیصلوں میں اصل جوہری فرق یہی ہے کہ مفتی کی رائے کے پیچھے الزامی قوت (Binding Force) نہیں ہوتی، جبکہ قاضی کی رائے ریاستی جبر کے ذریعے نافذ کی جاتی ہے کیونکہ قاضی کو ولایت عامہ حاصل ہے جو مفتی کو حاصل نہیں ہوتی۔ پس دین کا علم اور فہم رکھنے والا شخص کسی برے کام کو برا تو کہہ سکتا ہے اور اس برائی کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش بھی اس کا فرض ہے، لیکن اس برائی کی جبراً روک تھام کے لیے اگر اس کے پاس ولایت نہیں ہے تو وہ زبردستی اسے نہیں روک سکتا۔ وہ صرف انہی لوگوں کو جبراً اس برائی سے روک سکتا ہے جن پر اسے ولایت حاصل ہو۔ دیگر لوگ، جن پر اسے ولایت حاصل نہ ہو، اگر اس برائی کا ارتکاب کر رہے ہوں تو اسے صاحب ولایت کی طرف رجوع کرنا چاہیے تاکہ وہ انہیں جبراً روکے۔ میری ناقص رائے میں حنفی فقہا کی رائے کی یہی صحیح تعبیرہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو ولایت حاصل ہو، وہ اس برائی کو نہ روکنا چاہیں یا وہ اسے برائی ہی نہ کہیں تو کیا کیا جائے گا؟ یہی وہ اصل مسئلہ ہے جس سے دیگر سنگین نوعیت کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ جو لوگ برائی کی روک تھام چاہتے ہیں، انہیں ولایت حاصل نہیں ہے اور جنہیں ولایت حاصل ہے، وہ برائی کی روک تھام میں ناکام رہے ہیں۔ 

قانون ہاتھ میں لینے پر سزا اور جرمانہ 

جناب آصف محمود صاحب کے مطابق حنفی فقہ کا اصول یہ ہے کہ اگرچہ موسیقی کے آلات کا استعمال حرام ہے، لیکن اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کے آلات موسیقی توڑ ڈالے ہیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ ان کا تاوان ادا کرے۔ ہماری ناقص رائے میں فقہ حنفی کی یہ تعبیر درست نہیں ہے۔ آصف محمود صاحب جانتے ہیں کہ شریعت کی اصطلاح میں مال دو طرح کا ہے: مال متقوم اور غیر متقوم۔ مثلاً شراب لوگوں کے نزدیک خواہ مال ہو، لیکن شریعت کی اصطلاح میں مال نہیں ہے ، اس لیے اسے مال غیر متقوم کہا جاتا ہے، یعنی شریعت کے نزدیک اس مال کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ جس مال کی قیمت نہ ہو، اس کا ضمان (تاوان) بھی ادا نہیں کیا جاتا، اس لیے اگر کسی مسلمان کے پاس شراب ہو اور کوئی دوسرا مسلمان اسے بہادے تو حنفی فقہا کے نزدیک بھی اس شراب کا ضمان نہیں ادا کیا جائے گا۔ البتہ اگر اس نے شراب کا برتن بھی توڑ ڈالا اور وہ برتن محض شراب ہی کے لیے نہیں تھا، بلکہ دیگر جائز مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا تو اس برتن کی قیمت ادا کرنی لازم ہوگی۔ اسی طرح اگر موسیقی کے آلات توڑ ڈالے تو آلے کی کوئی قیمت نہیں ادا کی جائے گی، البتہ اگر مثال کے طور پر وہ آلہ لکڑی سے بنایا گیا ہو تو اس لکڑی کی قیمت ادا کر دی جائے گی۔ 
باقی رہا یہ سوال کہ ایسا کرکے اس شخص نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے یا بہ الفاظ دیگر ولایت نہ رکھنے کے باوجود اس نے جبراً ایک برے کام کی روک تھام کی ہے تو اس پر حاکم اس کی تادیب اور سرزنش کرسکتا ہے کیونکہ ایسا کرکے اس نے حاکم کے اختیارات میں مداخلت ( سرخسی کے الفاظ میں افتیات علی رأی الامام) کی ہے۔ اس قسم کی تادیبی کارروائی کے لیے حکمران کو جو اختیار حاصل ہے، اسے حنفی فقہ کی اصطلاح میں ’’سیاسۃ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ حنفی فقہ کا ایک نہایت اہم قاعدہ ہے جس کی وضاحت بہت ضروری ہے، اس لیے مناسب ہوگا کہ یہاں اس کی کچھ تفصیل کی جائے ۔ 

معاشرے سے فساد کے خاتمے کے لیے حکمران کا اختیار اور اس کی حدود 

حکمران کے فرائض میں ایک اہم فریضہ معاشرے کو فساد اور انتشار سے بچانے کا ہے۔ اس ضمن میں شریعت نے اسے اختیار دیا ہے کہ وہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کو مناسب تادیبی سزا سنائے۔ جرم کی مناسبت سے اس سزا میں کمی بیشی اور تخفیف یا معافی کا اختیار بھی حاکم کے پاس ہے اور ثبوت جرم کا طریق کار بھی وہی وضع کرے گا۔ بہت سے امور ایسے ہیں جنہیں شریعت نے ممنوع قرار دیا ہے، لیکن ان کے لیے کوئی دنیوی سزا قرآن یا سنت میں مقرر اور متعین نہیں کی گئی ہے ۔ ایسے امور میں قانون سازی کا اختیار سیاسۃ کے قاعدے کے تحت حکمران کو حاصل ہے۔ ابن عابدین نے سیاسۃ کی تعریف کچھ اس طرح کی ہے کہ اس سے مراد حکمران کو شریعت کا عطا کردہ وہ اختیار ہے جس کے تحت وہ معاشرے سے فساد کے خاتمے کے لیے ان امور میں مناسب سزا سنا سکتا ہے جن کو شریعت نے ممنوع قرار دیا ہو۔ چنانچہ اس قاعدے کے تحت حنفی فقہا نے قرار دیا ہے کہ لواطت یا ہم جنس پرستی پر زنا کی حد لاگو نہیں ہوتی، لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم کا اتفاق تھا کہ اس شنیع کام کے مرتکب کو عبرت ناک طریقے سے سزائے موت دی جائے۔ اس بنا پر حنفی فقہا نے قرار دیا ہے کہ اس طرح کے عادی مجرم کو سیاسۃً سزائے موت دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح جب عہد رسالت میں ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر بھاری پتھر سے کچل دیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی طرح کی سزا سنائی تھی تو حنفی فقہا اسے حد یا قصاص قرار دینے کے بجائے سیاسۃ قرار دیتے ہیں۔ 
یہاں یہ واضح کرنا نہایت ضروری ہے کہ سیاسۃ کا یہ اختیار مطلق نہیں ہے کہ فساد کے خاتمے کے نام پر حکمران اپنی مرضی سے اپنے مخالفین کو سزائیں سناتا رہے۔ حکمران کا یہ اختیار شریعت کے قواعد عامہ کے ذریعے مقید اور محدود کردیا گیا ہے، چنانچہ سزا سناتے وقت حاکم کو ان قواعد کا لازماً لحاظ رکھنا ہوگا۔ مثلاً جرم کی نوعیت کیا تھی؟ کیا ملزم کو صفائی کا موقع دیا گیا؟ کیا انصاف کے تقاضے پورے کیے گئے؟ نیز کہیں سزا جرم کی مناسبت سے زیادہ شدید تو نہیں ہے؟ موجودہ دور میں دستور اور فوجداری قانون کے جو مقتضیات ہیں، ان کو پورا کرنا بھی سیاسہ شرعیہ میں شامل ہے۔ ابن عابدین اور دیگر حنفی فقہا نے صراحت کی ہے کہ سیاسہ کی دو قسمیں ہیں : سیاسہ عادلہ جس کا شریعت حکم دیتی ہے، اور سیاسہ ظالمہ جس کو شریعت حرام ٹھہراتی ہے ۔ 
یہاں ہم ان چند مباحث کے متعلق بھی اپنی رائے واضح کرنا چاہتے ہیں جو موضوع زیر بحث سے براہ راست متعلق ہیں لیکن جن سے جناب آصف محمود صاحب نے تعرض نہیں کیا۔ ہماری ناقص رائے میں ان پر بحث کیے بغیر اس معاملے کی محض ادھوری تصویر ہی پیش کی جاسکتی ہے اور اس معاملے کی صحیح نوعیت کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ 

نہی عن المنکر اور حکومت کی ذمہ داری 

یہ ایک معلوم اور مسلم حقیقت ہے کہ اسلامی شریعت کی رو سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ریاست کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر ریاست اس فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی کا ارتکاب کرتی ہے تو وہ گویا اپنا مقصد وجود کھو بیٹھتی ہے ۔ جب اس فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی ہونے لگے تو کون سے مراحل سامنے آتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں اس کی بھی تفصیلی وضاحت کی گئی ہے۔ پہلے تو لوگ اس فریضے کی ادائیگی میں سستی کا اظہار کرنے لگتے ہیں، پھر بتدریج برائی کو برائی سمجھنے کا احساس ہی مرجھا جاتا ہے اور پھر بالآخر وہ مرحلہ آجاتا ہے جب برائی کی دعوت کھلے عام دی جاتی ہے اور اچھائی سے لوگوں کو زبردستی روکا جانے لگتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رشاد ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ اس طرح کے معاشرے پر ایسا فتنہ لے آتا ہے کہ اس معاشرے کے دانشور بھی اس کا حل تلاش نہیں کرپاتے ۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ چند لوگوں کے جرم کی وجہ سے معاشرے کو عمومی عذاب نہیں دیا کرتا ، یہاں تک کہ لوگ کھلے عام برائی کا ارتکاب دیکھیں اور اس کی روک تھام پر قادر ہوتے ہوئے بھی اس کو نہ روکیں ۔ جب ایسی حالت ہو تو پھر اللہ تعالیٰ ان مجرموں کے ساتھ ساتھ اس معاشرے کو بھی عمومی عذاب دیتا ہے۔ یہ عذاب ضروری نہیں کہ قدرتی آفت کی صورت میں ہی ہو۔ سورۃ الانعام آیت ۶۵ کے مطابق عذاب کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ لوگ آپس میں کٹ مرنے لگتے ہیں ۔ 
یہ تو اس معاملے کا اخلاقی اور معاشرتی پہلو ہوا۔ جہاں تک اس مسئلے کے قانونی پہلو کا تعلق ہے، اسے فقہا بغاوت اور خروج کے مباحث میں ذکر کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ معاشرے میں انتشار پھیلانے سے گریز کریں، اس لیے کہا گیا ہے کہ اگر انہیں حاکم کا کوئی حکم پسند نہ بھی ہو تو وہ اطاعت کی روش اختیار کریں، الا یہ کہ حاکم کوئی ایسا حکم دے جو شریعت سے متصادم ہو۔ مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ خلافِ شریعت حکم میں کسی کی اطاعت کرے ۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ لازماً بغاوت ہی کرے۔ خلافِ شریعت حکم کی اطاعت سے انکار اور ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنا مسلمان کے ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ اس وجہ سے اگر اسے مشکلات پیش آئیں تو انہیں خندہ پیشانی سے سہنا اور ثابت قدم رہنا بھی ایمان کے مقتضیات میں شامل ہیں ۔ 
البتہ بعض امور ایسے ہیں جن کے ارتکاب پر حاکم کا ہٹانا لازم ہو جاتا ہے۔ مثلاً اگر حاکم نے کفر کا ارتکاب کیا تو وہ حکومت کا حق کھو بیٹھتا ہے۔ اس کی قانونی وجہ بھی بالکل سیدھی سادھی ہے۔ اسلامی قانون کا مسلمہ اصول یہ ہے کہ غیر مسلم کو مسلمانوں پر ولایت عامہ حاصل نہیں ہے۔ نیز حدود اور قصاص کے معاملات میں غیر مسلم کی گواہی ناقابل قبول ہے، چنانچہ حدود اور قصاص کے مقدمات میں غیر مسلم قاضی نہیں بن سکتا۔ حاکم کے فرائض میں ایک اہم فریضہ حدود اللہ کا نفاذ ہے ۔ اس لیے غیر مسلم اسلامی ریاست کا حاکم نہیں ہوسکتا۔ فقہا نے اس امر پر تو اختلاف کیا ہے کہ اگر حاکم یا قاضی فاسق ہو جائے (مثلاً وہ کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرے) تو کیا اسے حکومت اور قضا سے ہٹانا واجب ہے اور کیا اس کے فیصلے نافذ ہوں گے ؟ تاہم اس امر پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ کفر کی صورت میں حاکم یا قاضی کی معزولی واجب ہو جاتی ہے۔ اب یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ کفر کا ارتکاب جیسے قول کے ذریعے کیا جاتا ہے، اسی طرح بعض افعال کے ارتکاب پر بھی کسی شخص پر کفر کا حکم لاگو ہو سکتا ہے۔ البتہ اگر مسلمان کے کسی قول یا فعل کی کئی تعبیرات ممکن ہوں تو اس تعبیر کو اختیار کیا جائے گا جس کے تحت اس کی طرف کفر کی نسبت نہ ہو۔ تاہم اگر کسی قول یا فعل کی ایسی تاویل ممکن نہ ہو اور وہ ہر لحاظ سے کفر کے زمرے میں آتا ہو تو اس قول کے قائل یا اس فعل کے مرتکب پر کفر کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے جن میں ایک اہم حکم یہ ہے کہ اگر وہ حاکم یا قاضی ہو تو اس کی معزولی واجب ہو جاتی ہے۔ 

فسق یا کفر کی صورت میں خروج اور بغاوت 

اگر حاکم کے فسق کی وجہ سے یا اپنے فرائض کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اس کی معزولی جائز ہو جاتی ہے تو دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے کیسے معزول کیاجائے؟ اگر تو اسے ہٹانے کے لیے پر امن راستے کھلے ہیں تو ظاہر ہے انہی میں سے کسی کا انتخاب کرنا ہوگا، لیکن اگر پر امن ذرائع سے ایسے حاکم کا ہٹانا ممکن نہ ہو تو کیا اسے جبراً ہٹایا جا سکتا ہے؟ دوسرے الفاظ میں کیا اس کے خلاف بغاوت کی جاسکتی ہے؟ اس سلسلے میں فیصلے کے لیے ایک اہم عامل یہ ہے کہ کیا بغاوت کرنے والے اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ وہ حکمران کی قوت سے ٹکرا سکیں؟ نیز حکمران کے ہٹانے میں جو خونریزی ہوگی، کیا وہ حکمران کے برقرار رہنے کے شر سے کم ہے یا زیادہ؟ ہر بغاوت کے موقع پر ان دونوں سوالات پر اہل علم کی آرا مختلف ہو سکتی ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی تاریخ میں جب بھی حکمران کے خلاف خروج ہوا ہے تو حکمران کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں کچھ نے بغاوت اور خروج کی راہ اختیار کی اور کچھ نے اس کے نتیجے میں ہونے والی خونریزی کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے یہ راہ اختیار کی کہ حاکم کے ظلم کو ظلم کہتے ہوئے اور اس کے غیر شرعی احکام کو نہ مانتے ہوئے اس کے ظلم و ستم کو سہتے رہے۔ تاہم اگر حاکم کے کفر کی وجہ سے اس کی معزولی شرعاً واجب ہو چکی ہو اور پر امن ذرائع سے اس کا ہٹانا ممکن نہ ہو تو اس کے خلاف خروج اور بغاوت لازم ہو جاتی ہے۔ 
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد دیگر ائمۂ اہل بیت کے خروج کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ یا تو ان کے نزدیک حاکم کی معزولی واجب ہو چکی تھی یا کم ازکم جائز ہوچکی تھی اور ان کے اجتہاد کے مطابق اس کے ہٹانے کے سلسلے میں جو خونریزی متوقع تھی، وہ اس شر کی بہ نسبت کم تھی جو اس حاکم کے حکمران رہنے کی صورت میں وقوع پذیر ہورہا تھا۔ دوسری طرف جن اہل علم نے خروج اور بغاوت کی راہ اختیار نہیں کی، ان کے نزدیک حاکم کی معزولی واجب نہیں ہوئی تھی۔ (اس نے کفر کا ارتکاب نہیں کیا تھا) اور ان کے اجتہاد کے مطابق یا تو پر امن ذرائع سے تبدیلی ممکن تھی یا خروج کی صورت میں ہونے والی خونریزی حاکم کے شر سے زیادہ تھی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہر جائز و ناجائز میں حاکم کی اطاعت کا درس دیتے رہے اور ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کی مدد کرتے رہے۔ یاد ہوگا کہ امام ابو حنیفہ نے بنو امیہ اور بنو عباس کے خلفا کے خلاف خروج میں عملی شرکت نہیں کی لیکن کئی مواقع پر ان کی ہمدردیاں باغیوں ہی کے ساتھ تھیں اور انہوں نے ان کی مالی مدد بھی کی۔ وہ ظالم حکمرانوں کے ظلم کے خلاف آواز بھی بلند کرتے رہے اور اس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں انہیں سزائیں بھی دی جاتی رہیں ۔ 
یہی اختلاف رائے آج کل کے اہل علم میں بھی پایا جاتا ہے۔ جو لوگ خروج اور بغاوت کی راہ اختیار کرتے ہیں، وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ حکومت اپنا جواز کھو بیٹھی ہے اور پر امن ذرائع سے اس کی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ پس اصل سوال یہ نہیں ہے کہ امام ابو حنیفہ کے پیروکاروں نے حنفی فقہ کے اصولوں سے کیسے روگردانی کی، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ حکومت کی تبدیلی اور اصلاحِ احوال کے پر امن ذرائع پر لوگوں کا اعتماد کیوں ختم ہوگیا ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ حکومت جمہوری اصولوں کے بجائے جبر اور طاقت سے قائم کی گئی ہے، اس لیے جو لوگ حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں، وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ جمہوری اصولوں کے بجائے طاقت اور جبر ہی کے ذریعے تبدیلی لائی جا سکتی ہے؟ 

باغیوں کے ساتھ سلوک 

سرخسی اور دیگر حنفی فقہا نے تصریح کی ہے کہ جب مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں اور معلوم نہ ہوپا رہا ہو کہ کون حق پر ہے تو اصلاحِ احوال کی کوشش تو لازم ہے مگر کسی متحارب گروہ کا ساتھ نہیں دینا چاہیے جب تک کہ یہ یقین نہ ہو کہ وہ گروہ حق پر ہے۔ چنانچہ اگر یہ معلوم ہو کہ حکمران ہی حق پر ہے اور اس کے خلاف خروج کرنے والے باطل پر ہیں تو حکمران کا ساتھ دینا چاہیے۔ واضح رہے کہ بغاوت کے احکام تبھی لاگو ہوں گے جب حکومت کے خلاف خروج کرنے والوں نے کسی خاص خطۂ زمین پر قبضہ کر لیا ہو اور وہاں اپنی حکومت اس طور پر قائم کرلی ہو کہ مرکزی حکمران کا وہاں کوئی عمل دخل نہ ہو ، باغیوں کی اپنی فوج ہو اور وہ مرکزی فوج کو باغیوں کی سرزمین (دارالبغی) میں داخل ہونے سے روکے رکھے۔ حکمران باغیوں کی بغاوت کچلنے کے لیے اور معاشرے میں امن کے قیام کے لیے باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی بھی کرسکتا ہے لیکن اس فوجی کارروائی میں اور اس میں جو دشمنوں کے خلاف کی جاتی ہے، کئی فروق ہیں ۔ 
حنفی فقہا نے بغاوت کے باب میں تقریباً تمام احکام سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سے اخذ کیے ہیں ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کے خلاف خواہ کوئی کتنی ہی تنقید کرے، لیکن جب تک اس نے مسلح جنگ شروع نہ کی ہو، اس کے خلاف فوجی کارروائی نہیں کی جاسکتی ۔ کوفہ کی جامع مسجد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ جمعے کا خطبہ دیتے تھے تو کئی لوگ ان کے سامنے ان کو برا بھلا کہتے تھے، لیکن آپ نے واضح کیا کہ آپ لوگوں کا نعرہ تو صحیح ہے لیکن اس سے آپ جو نتیجہ نکالتے ہیں وہ غلط ہے ۔ اس کے باوجود حکومت کی جانب سے دی گئی ساری مراعات آپ کو حاصل رہیں گی جب تک آپ لوگ ہم سے جنگ نہ کریں۔ اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سے حنفی فقہا نے یہ قاعدہ بھی اخذ کیا کہ باغی اگر میدان جنگ چھوڑ کر فرار ہونا چاہے تو اس کا تعاقب نہیں کرنا چاہیے، الا یہ کہ وہ کسی اور گروہ کی طرف جا کر دوبارہ جنگ کی آگ بھڑکانا چاہے۔ باغیوں میں اگر کوئی ہتھیار ڈالے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ محض بغاوت کی بنا پر سزائے موت نہیں دی جاسکتی، بلکہ جنگ میں کسی کو قتل کرنے پر بھی سزائے موت نہیں دی جاسکتی، الا یہ کہ اس نے جنگ سے پہلے یا جنگ کے دوران میں یا قید ہونے کے بعد کوئی ایسا جرم کیا ہو جس کی بنا پر وہ سزائے موت کا مستحق ہو چکا ہو۔ باغی عورتوں کو صرف ایک صورت میں قتل کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جنگ کے دوران میں کوئی باغی عورت کسی پر حملہ کرے اور حملے کی زد میں آنے والے شخص کے پاس اپنی جان بچانے کے لیے اور کوئی راستہ نہ ہو۔ اس کے علاوہ اور کسی صورت میں باغی عورتوں کو قتل نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ان کو زیادہ سے زیادہ جو سزا سنائی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ انہیں اس وقت تک قید میں رکھا جائے جب تک بغاوت مکمل طور پر ختم نہ ہو جائے۔ اس کے بعد ان کو رہا کرنا پڑے گا۔ باغیوں سے حاصل ہونے والا اسلحہ اور مال اس وقت تک سرکاری تحویل میں ہوگا جب تک بغاوت مکمل طور پر ختم نہ ہو۔ اس کے بعد ہر شخص کو اس کا مال واپس لوٹایا جائے گا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جنگ کے بعد سارا مال ایک بڑے میدان میں رکھ دیا تھا اور ہر شخص نے اپنا مال پہچان کر اور اس کا ثبوت دے کر واپس لے لیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سے فقہاے احناف نے یہ قاعدہ بھی اخذ کیا کہ باغیوں کے ساتھ توہین آمیز اور غیر انسانی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ 
اس ساری بحث کے بعد لال مسجد کے سانحے میں حکومت کے طرز عمل کے متعلق حنفی فقہ کی رو سے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کیا لال مسجد والوں کو باغی اور لال مسجد کے احاطے کو دارالبغی کہا جاسکتا تھا؟ اگر ہاں تو حکومت نے ان باغیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا، کیا وہ صحیح اور جائز تھا؟ اور اگر لال مسجد والوں کا جرم اتنا سنگین نہیں تھا کہ اسے بغاوت قرار دیا جاسکے، تب اس سے زیادہ اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ حکومت نے جو کچھ کیا، اسے سیاسہ عادلہ کہا جائے یا سیاسہ ظالمہ؟ 

مباحثہ و مکالمہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جدید افکار ونظریات اور آرا وتعبیرات کے حوالے سے اسلامی تعلیمات واحکام کے ضمن میں پیدا ہونے والے سوالات، شکوک وشبہات اور علمی وفکری اعتراضات کے بارے میں ہمارے دینی حلقوں کا عمومی رویہ نظر انداز کرنے اور مسترد کر دینے کا ہے جس سے ’الشریعہ‘ کو اختلاف ہے۔ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ دینی حلقوں کے ارباب فکر ودانش اس طرف توجہ دیں، مباحثہ میں شریک ہوں،اپنا نقطہ نظر دلائل کے ساتھ پیش کریں، جس موقف سے وہ اختلاف کر رہے ہیں، اس کی کمزوری کو علمی انداز سے واضح کریں اور قوت استدلال کے ساتھ اپنے موقف کی برتری کو واضح کریں، کیونکہ اب وہ دور نہیں رہا کہ کسی مسئلہ پر آپ اپنی رائے پیش کر کے اس کے حق میں چند دلائل کا تذکرہ کرنے کے بعد مطمئن ہو جائیں کہ رائے عامہ کے سامنے آپ کا موقف واضح ہو گیا ہے اور آپ کی بات کو قبول کر لیا جائے گا۔ آج کا دور تقابلی مطالعہ کا دور ہے، تجزیہ واستدلال کا دور ہے اور معروضی حقائق کی تفصیلات وجزئیات تک رسائی کا دور ہے۔ آپ کو یہ سارے پہلو سامنے رکھ کر اپنی بات کہنا ہوگی اور اگر آپ کی بات ان میں سے کسی بھی حوالے سے کمزور ہوگی تو وہ پذیرائی حاصل نہیں کر سکے گی۔ 
اسی مقصد کے تحت الشریعہ کے صفحات پر ’’مباحثہ ومکالمہ‘‘ کا یہ آزادانہ فورم قائم کیا گیا ہے جس کے تحت شائع ہونے والی تحریروں سے ’الشریعہ‘ کا اتفاق ضروری نہیں ہے اور اس میں کسی بھی علمی موضوع پر لکھی جانے والی کوئی بھی تحریر شائع کی جا سکتی ہے جو علمی اسلوب اور افہام وتفہیم کے لہجے میں مناظرانہ انداز اور طعن وتشنیع کے اسلوب سے ہٹ کر لکھی گئی ہو۔ اس ضمن میں روایتی مناظرانہ مسائل کے بجائے اسلام اور امت مسلمہ کو درپیش مسائل ومشکلات کے حوالے سے جدید عنوانات پر لکھی گئی تحریروں کو ترجیح دی جائے گی، بلا وجہ تکرار سے گریز کیا جائے گا اور کسی بھی موضوع پر ’الشریعہ‘ میں شائع ہونے والے کسی مضمون یا مواد کو دوبارہ کسی اور عنوان سے شائع نہیں کیا جائے گا۔
علمی مباحثہ ومکالمہ ہمیشہ سے ہماری ضرورت رہا ہے اور آج کے دور میں معلومات اور خیالات کی وسعت وتنوع کے ماحول میں اس کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے، اس لیے ہمیں امید ہے کہ اہل علم اس سلسلے میں سنجیدگی کے ساتھ ’الشریعہ‘ سے تعاون فرماتے رہیں گے۔

دور جدید کی اجتہادی ضروریات اور تقاضے

جسٹس (ر) تنزیل الرحمن

(زرعی یونیورسٹی پشاور میں ۹ دسمبر ۱۹۸۱ء کو پڑھا گیا۔)

اجتہاد کا لفظ جہد سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی ایسی کوشش کے ہیں جس میں مشقت شامل ہو۔ اجتہاد اپنے اصطلاحی معنی میں فکر واستنباط کے ذریعے حکم شرعی معلوم کرنے کا نام ہے۔ اجتہاد اپنے شرعی معنی میں اس مربوط اورمنظم طریقہ استنباط کا نام ہے کہ جس کسی مسئلے کے بارے میں قرآن وسنت کی نص موجود نہ ہو، اس میں قرآن وسنت کی تعلیمات میں مضمر اصولوں کو سامنے رکھ کر اصول قیاس کے تحت اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی خاطر حکم شرعی معلوم کیا جائے۔
یہ چیز ہمیں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں جسے حدیث معاذ کہاجاتاہے، زیادہ وضاحت اور قطعیت کے ساتھ ملتی ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل کویمن کا گورنر مقررفرمایا تو ان سے پوچھا کہ جب تمہارے سامنے کوئی معاملہ فیصلے کے لیے لایا جائے گا تو تم اس کا فیصلہ کیسے کروگے؟حضرت معاذ نے جواب دیا کہ میں مقدمات کا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا۔ ’’لیکن اگر تمہیں قرآن مجید میں کوئی ایسا حکم نہ ملے جس سے رہنمائی حاصل کرسکو تو اس صورت میں کیا کرو گے؟‘‘ ’’میں ایسی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کروں گا‘‘ ’’اگر سنت بھی اس مسئلے میں خاموش ہوتو؟‘‘ ’’میں اس مسئلے کا فیصلہ اپنے اجتہاد سے کروں گا‘‘، معاذ بن جبلؓ نے جواب دیا۔
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس مسئلہ میں قرآن کریم یاسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم موجود ہو، اس میں اجتہاد جائز نہیں بلکہ مردود ہے،البتہ جس کسی مسئلے کے حکم میں قرآن وسنت خاموش ہوں، ان میں اجتہاد نہ صرف جائز بلکہ محمود ہے۔
اجتہاد کی دو قسمیں ہیں: ایک اجتہاد مطلق (Absolute Ijthad) اور دوسری اجتہاد اضافی (Relative Ijtihad)۔ کسی ایسے مسئلے میں حکم شرعی معلوم کرنا جس کی کوئی نظیر یا صورت نہ تو قرآن وسنت میں موجود ہو اور نہ اجتہاد کے ذریعے پہلے کبھی معلوم کی گئی ہو، اجتہاد مطلق میں داخل ہے جبکہ اجتہاد اضافی سے کسی ایسے مسئلے میں اجتہاد کرنا مراد ہے جس کی نظیر یا صورت پہلے سے کسی مسئلہ میں قیاس کے ذریعے معلوم ہو اور پہلے مسئلہ کے حکم پر قیاس کرکے اس دوسرے مشابہ مسئلہ میں حکم لگا دیاجائے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں تین چار صدی تک ایسے فقہا موجود رہے ہیں جو اجتہاد مطلق کی صلاحیت وقابلیت سے آراستہ تھے، لیکن بعد کے ادوار میں، منظم مکاتب فقہ کے فکری تسلط کے باعث مطلق اجتہاد کی صلاحیت ختم ہوگئی اور اجتہاد مطلق کا دروازہ بند ہوگیا اور اس کی جگہ تقلید یعنی ائمہ فقہ کی قدیم آرا کی غیر مشروط اتباع نے لے لی۔
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ مطلق اجتہادکا دروازہ درحقیقت سیاسی اسباب کی بنا پر بند کیا گیا تھا تاکہ مطلق العنان بادشاہ اور حکمران اپنے مستبدانہ اقدامات کے لیے اسلام کے نام پر قانونی جواز حاصل کرکے مسلم معاشرے میں انتشار اور افراتفری کی فضا پید انہ کر سکیں۔ گویا اجتہاد کا دروازہ بند کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اللہ رب العزت کے دین کو بدعات وجدت پسندی اور ذاتی رجحانات وخواہشات کی آلائش سے پاک رکھاجائے، تاکہ اسلام کے قانونی نظام کی بقا اور دوام واستحکام کی ضمانت حاصل ہو سکے جسے اپنی تشکیل اور نشوونما کے ابتدائی دور میں تنازعات اور گہرے اختلافات کی وسیع خلیج سے گزرنا پڑا تھا۔
اسلام کی تاریخ میں جو اسباب دروازۂ اجتہاد کے بند ہونے اور تقلیدی رویے کے اپنائے جانے کا باعث بنے، وہ بڑی حد تک اسلام میں بے جا عقلیت پسندی کے رجحانات، اسلامی تصوف پر مسیحیت کے اثرات اور خاص طور پر بغداد کی تباہی کے سبب پیداہوئے تھے۔ ان اسباب نے اسلام کی فکری نشوونما کو تقریباً مفلوج بنا کر رکھ دیاتھا۔ البتہ بعد کے ادوار میں بھی کچھ ایسے افراد پیداہوئے جو اپنی ذاتی حیثیت میں اضافی اجتہاد کا فریضہ انجام دیتے رہے لیکن یہ عمل صرف ان کے اپنے اپنے مذاہب فقہ کی حدود کے اندر رہا،یعنی ان مسائل کی حد تک جو فقہی مذاہب کے بانیوں نے غیر حل شدہ چھوڑ دیے تھے۔ اس کے علاوہ بعض صورتوں میں اجتہاد کا عمل مختلف مذاہب کی قانونی آرا کے تقابلی مطالعے اور متفرق مسائل کے انتخاب وترجیح کی صورت میں بھی جاری رہا اور اس طرح معاملے کے کسی خاص پہلو پر غور وفکر کے ذریعے اسلامی فقہ کے دائرے میں جو وسعت پیدا ہوئی، اس سے اضافی اجتہاد کے لیے بھی مواقع پیدا ہوتے رہے۔
گزشتہ دس صدی کے دوران میں صرف ایک ممتاز فقیہ ایسا پیدا ہوا جو بجا طور پر یہ حق رکھتاتھا کہ مجتہد مطلق ہونے کا دعویٰ کرے اور اس نے یہ دعویٰ کیا یعنی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (متوفی ۷۲۸ھ)۔ براعظم پاکستان وہند کی حالیہ تاریخ میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کا نام نامی بھی بجا طور پر اس کا مستحق ہے کہ ابن تیمیہ کے بعد بحیثیت مجتہد ان کا تذکرہ کیا جائے۔ شاہ صاحب نے اس ضرورت پر زور دیا کہ نئے زمانے اور بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی فکر کے بنیادی سرچشموں کی از سر نو تعبیر وتشریح کی جانی چاہیے۔ پاکستان میں ڈاکٹر محمد اقبال (متوفی ۱۹۳۸ء ؁) اگر چہ خود مجتہد یا عالم دین نہ تھے، لیکن اپنے دور میں اجتہاد کے سب سے بڑے داعی تھے اور آج کل انہیں ان تمام لوگوں کا پیشرو سمجھاجاتاہے جو پاکستان میں اجتہاد کی تبلیغ اور وکالت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
ہمارا آج کا مسلم معاشرہ بے شمار سیاسی، معاشی اورمعاشرتی مسائل سے دوچار ہے جنہیں صرف اس صورت میں حل کیا جا سکتاہے جبکہ ہم اجتہاد سے کام لیں، خصوصاً ایسے معاملات میں جن کے متعلق قرآن مجید یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی براہ راست اور واضح نص موجود نہیں۔ ایسے مسائل کے ضمن میں ہم موجودہ تجارتی لین دین اور اس سے متعلقہ امور کا ذکر کرسکتے ہیں جن میں بیمہ، ذاتی ملکیت کا حق، قومی ملکیت میں لے لینے کا تصور، جدید مالی قوانین اورمحاصل، نظام حکومت، اسمبلیوں کے لیے عوامی نمائندوں اور سربراہ مملکت کے انتخاب کا طریقہ،مغرب کے جمہوری معمولات کے سیاق و سباق کے حوالے سے بالغ رائے دہی کا نظام، بین الاقوامی قانون سے متعلق مسائل جیسے بودو باش سے تعلق رکھنے والے معاملات اور اس طرح بہت سے دوسرے مسائل۔
اجتہاد کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اسے کسی صورت اور حالت میں قرآن وسنت کے احکام کے خلاف نہ ہونا چاہیے۔ اسے لازمی طور پر اسلامی مقاصد سے ہم آہنگ ہونا چاہیے ۔ جو افراد یا جماعتیں انفرادی طورپر یا اجتماعی صورت میں اجتہاد سے کام لیں، انہیں نہ صرف یہ کہ دینی علوم اور ان کے اصول وکلیات سے مکمل طورپر آگاہ ہونا چاہیے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ صاحبان تقویٰ اور اعلیٰ اخلاق وکردار کے حامل ہوں تاکہ وہ دینی مسائل میں استنباط واستخراج کا فریضہ اپنی ذاتی پسند و ناپسند اور نفسیاتی خواہشات واحساسات کے تقاضوں سے بالاتر رہ کرانجام دے سکیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اجتہاد کی وہ کون سی حدود ہیں جن کا اسلامی معاشرے میں بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق متعلقہ قوانین میں ترمیم واصلاح کے دوران ملحوظ رکھا جانا ضروری ہے؟بالفاظ دیگر وہ کون سا طریقہ ہے جس کے ذریعے اسلامی نظام اجتہاد کو ہمارے جدید معاشرے میں بروئے کار آنا چاہیے؟ جیسا کہ سب اہل علم جانتے ہیں ،اجتہاد کے ذریعے جو بات جاننے کی کوشش کی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ قانون کیا ہے؟گویا اجتہاد کے ذریعے قانون میں ترمیم نہیں کی جاتی بلکہ اس کے ذریعے قانون سے آگاہی حاصل ہوتی ہے ۔چنانچہ اصول اجتہاد کے تحت وہ تمام معاملات جن کے بارے میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور ہدایات واضح اور قطعی ہیں،ان میں کسی ترمیم اور تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ اسی طرح جن معاملات پر کتاب وسنت کی روشنی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع ہوچکا، ان سے انحراف ممکن نہیں کیونکہ صحابہ کرام شاہدین اول ہیں۔انہی کی روایت کے ذریعے ہم تک قرآن پہنچا۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے مستفیض تھے اور علوم نبوت کے براہ راست حامل اور شارح تھے اور جو علم صحابہ کرامؓنے براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیااور اس کی تعبیر وتشریح کی، وہ معلم کتاب کی منشا ومراد ہے۔ 
البتہ وہ مسائل ومعاملات جن کے بارے میں کتاب وسنت کی عبارات مختلف یا ایک سے زائد معنی کی محتمل ہیں اور ان کی تعبیر وتشریح میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے،ان کے متعلق امت کے فقہا وعابدین ماحول، مقتضیات اور مملکت کے مفاد کے پیش نظر کسی ایک تعبیر وتشریح کو ترجیح دے سکتے ہیں یا کوئی جدید تعبیر وتشریح اختیار کرسکتے ہیں اور جن مسائل کے بارے میں اصل ہدایات تو کتاب وسنت میں موجود ہیں، لیکن تفصیلات اور جزئیات موجود نہیں، ان کے بارے میں کتاب و سنت کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعے احکا م وضع کیے جا سکتے ہیں اور اس طرح وہ مسائل جن کا کتاب وسنت یا اسلامی فقہی ادب میں کوئی ذکر نہیں ہے، عہد حاضر کے جدید مسائل ہیں، ان کے متعلق اجتہاد کے ذریعے قوانین وضع کیے جاسکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ اجتہاد کے ذریعے وضع کیے جانے والے قوانین کتاب وسنت کی روح اور منشا کے خلاف یا منافی نہ ہوں۔
لہٰذا نہ صرف یہ کہ موجودہ دور میں اجتہاد کا جواز موجود ہے بلکہ اس سے کام لیا جانا ضروری ہے کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے ہم ترقی پذیر بنیادوں پر اسلامی معاشرے کی تجدید واحیا اور تنظیم نو کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔ جس چیز کی ہمیں آج کے دور میں ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ ہم صرف اسلامی تعلیمات اور ہدایات کی روشنی میں خارجی قوتوں اور مغرب کے ذہنی اور ثقافتی غلبے سے متاثر ہوئے بغیر اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ ان اچھائیوں اور برائیوں کا اپنے اندر ادراک اور شعور پیدا کریں۔ یہاں تما م متعلقہ لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جب ہم اجتہاد کے عمل اور طریقے کی پیروی کریں تو ہمیں نص کی جانب سے بے توجہی نہ برتنی چاہیے اور نہ قرآن وسنت کے باقاعدہ علم سے بے بہرہ ہونے اور اسلامی قانون اور فلسفہ قانون کے اصولوں سے لاعلم ہونے کی غلطی کرنی چاہیے۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام پاپائیت پر یقین نہیں رکھتا، لیکن وہ ہر عمومی علم رکھنے والے شخص کو نہ یہ حق دیتاہے اور نہ دے سکتاہے کہ وہ اجتہاد کا اہم اور محنت طلب فریضہ اپنے ہاتھ میں لے۔ اجتہاد کا دروازہ بلاشبہ کھلا ہے لیکن داخلے کا حق صرف ان لوگوں کو حاصل ہے جو اجتہاد کی تمام شرائط پوری کرتے ہوں، یعنی علم دین بھی رکھتے ہوں اور پارسائی کی زندگی بھی بسر کرتے ہوں۔
میں اس سے پہلے اجتہاد کی دو اقسام، ایک مطلق اور دوسری اضافی کا ذکر کرچکاہوں ۔اگر ہم گزشتہ صدی کے اسلامی ادب میں قانون سازی کے حالیہ مضمرات کا مطالعہ کریں جس کا آغاز اکثر اسلامی ممالک میں اس صدی کے ربع اول میں ہوا تو ہمیں بہت سی ایسی قانونی دفعات ملیں گی، خصوصاً عائلی قوانین جن میں اضافی اجتہاد سے کام لیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ترکی، پاکستان اور ایران کے قوانین ہیں جن کی رو سے ہر ملک کے اپنے اپنے قوانین نکاح میں بعض جزئی اختلافات کے ساتھ ضروری قرار دیا گیاہے کہ طلاق کا اندارج یا توثیق ریاست کی مقرر کردہ کسی ہیئت (اتھارٹی) سے کروائی جائے۔تعدد ازواج کے معاملے میں بھی عراق، شام، مراکش، اردن، پاکستان اور کچھ دیگر اسلامی ممالک میں مردوں کے اس بلاقید اختیار پر پابندیاں عائد کردی گئی ہیں کہ وہ بیک وقت ایک سے زیادہ بیویاں اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہیں،تاہم تیونس کے قانون میں تعدد ازواج پر مکمل پابندی لگا د ی گئی ہے۔ اس معاملے میں تیونس کا قانون دیگر مسلم ممالک کے مقابلہ میں منفرد ہے۔
مصر میں تمام طلاقیں، سوائے اس طلاق کے جو دخول سے پہلے دی گئی ہو یا وہ جس کا معاوضہ لے لیا گیاہو یا وہ تین طلاقیں جوتین طہر میں دی گئی ہو ں، ۱۹۲۹ء کے قانون کی رو سے رجعی قرار دے دی گئی ہیں۔ سوڈان میں ایکٹ ۱۹۳۵ء کے مطابق ایک وقت میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق قرار دے دیا گیا ہے۔ شام میں بھی ایکٹ ۱۹۵۳ء کی رو سے ایسا ہی قانون اپنا لیا گیاہے جیسامصر میں رائج ہے۔ عراق، مراکش اور اردن میں بھی انہی خطوط پر قانون بنائے گئے ہیں، تاہم لبنان اور انڈونیشیا میں ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں کو غیر رجعی سمجھا جاتاہے اور مرد کے لیے یہ جائز نہیں کہ حلالہ کے بغیر اس عورت سے دوبارہ نکاح کر لے۔ ہندوستان کے مسلمانوں میں بھی یہی صورت رائج ہے۔ پاکستان میں عائلی قوانین کے آرڈی نینس مجریہ ۱۹۶۱ء کے تحت طلاق سوائے اس صورت کے جبکہ اس سے رجوع کر لیا گیا ہو، یونین کمیٹی کے چیئرمین کو خاوند کی جانب سے جس نے طلاق دی ہے، قطع نظر اس امر کے کہ ایک طلاق دی ہے یا دو یا تین یا زیادہ طلاقیں اور یہ کہ ایک وقت میں دی ہیں یا مختلف اوقات میں،طلاق کا نوٹس ملنے کی تاریخ سے نوے دن گزر جانے کے بعد موثر ہوتی ہے۔
قانون وراثت میں روایتی قانون کے مطابق یتیم پوتے پوتیاں اپنے دادا کی وراثت سے محروم رہتے ہیں، لیکن مصر کے قانون انتظام و صیت مجریہ ۱۹۴۶ء کے تحت لازمی میراث کا طریقہ رائج کیا گیا ہے جس کے مطابق یتیم پوتوں اور پوتیوں کو اپنے دادا کی میراث میں اتنے حصے کا مستحق قرار دیا گیا ہے جتنا حصہ ان کے والدین کو زندہ ہونے کی صورت میں ملتا۔ تاہم یہ حصہ کل میراث کے ایک تہائی حصے سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ لاز می میراث کا یہ طریقہ شا م نے ۱۹۵۳ء میں، تیونس نے ۱۹۵۷ء میں، مراکش نے ۱۹۵۸ء میں اور عراق نے ۱۹۵۹ء میں اپنایا۔ تاہم شامی اور مراکشی قوانین کے مطابق لازمی میراث کا یہ طریقہ صرف فوت شدہ بیٹے کی اولاد تک محدود ہے۔ فوت شدہ بیٹی کی اولاد پر ا س قانون کا اطلاق نہیں ہوتا ۔اس کے برخلاف پاکستان میں عائلی قوانین کے آرڈیننس مجریہ ۱۹۶۱ء کی رو سے دادا کی میراث میں یتیم پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے حصے کے متعلق قرار دیاگیاہے کہ اگر جانشینی کا آغاز ہونے سے پہلے مورث کا کوئی بیٹا یا بیٹی وفات پاچکی ہو تو اس بیٹے یا بیٹی کی اولاد جو آغاز جانشینی کے وقت زندہ موجود ہو، حسب مراتب اس حصے کے مساوی حصہ وصول کرلے گی جتنا حصہ اس بیٹے یا بیٹی کو ملتا اگر وہ زندہ ہوتے۔ اس معاملے میں پاکستان کا قانون دیگر اسلامی ممالک کے قانون سے بالکل مختلف ہے ۔
اوقاف کے معاملے میں، جن میں وقف علی الاولاد بھی شامل ہے، مصر کے قانون وقف مجریہ ۱۹۴۶ء کی رو سے بنیادی تبدیلیاں بروئے کار لائی گئی ہیں، یہاں تک کہ اگروقف خیراتی ہو تو یہ عارضی اور مستقل دونوں صورتوں میں جائز ہے، لیکن اگر وقف خیراتی نہ ہو تو مستقل طور پر اسے وقف کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی،چنانچہ وقف علی الاولاد کی مدت، حیات واقف کو مستثنیٰ کرتے ہوئے صرف دونسلوں یا ساٹھ سال تک جو بھی پہلے ختم ہو، محدود کردی گئی ہے۔ تاہم کسی مسجد کے وقف یا مسجد کے حق میں وقف کو، اگر وہ محدود مدت کے لیے ہو تو اسے ناجائز قرار دے دیا گیاہے۔یہ ضروری ہے کہ ایسا وقف مستقل بنیادوں پر کیا جائے۔ لبنان میں بھی اوقاف کی قانونی حیثیت یہی ہے جبکہ بہت سے دوسرے ممالک میں جہاں مسلمان آباد ہیں، اوقاف کا روایتی قانون رائج ہے۔
آپ کی خدمت میں یہ مثالیں پیش کرنے سے میرا مقصد ان اختلافات کا اندازہ کرانا ہے جو مسلم ممالک کی قانون سازی میں نمایاں ہو رہے ہیں، اگر چہ ان میں سے کوئی بھی ملک نص یعنی قرآن وسنت کی ظاہری عبارت کو ترک کرنے کا دعوے دارنہیں ہے۔ اس صورت حال سے بخوبی عہدہ برآہو نے اور اجتہاد کے میدان میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے واحد حل یہ ہے کہ مسلم فقہا کا ایک عالمی ادارہ قائم کیا جانا چاہیے جس میں عالم اسلام کے نمایاں صلاحیت رکھنے والے محققین اور فقہا کو نمائندگی حاصل ہو۔
الحمد للہ کہ اس سلسلے میں اجتماعی کوششوں کا آغازہو چکاہے۔ سب سے پہلے اس حقیر نے موتمر عالم اسلامی کی عالمی کانفرنس منعقدہ ۱۹۶۷ء بمقام کراچی میں مسلم فیملی لاز پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے ایک مسلم ورلڈ جیورسٹس کمیشن کے قیام کی تجویز پیش کی تھی۔ (ملاحظہ ہو شمارہ مارننگ نیوز، کراچی ۵؍ جولائی ۱۹۶۷ء ) اس تجویز کی باز گشت بارہ سال بعد بمقام فیض (مراکش) میں ہونے والی اسلامی وزراے خارجہ کانفرنس منعقدہ مئی ۱۹۷۹ء میں سنائی دی جس میں مسلم ماہرین قانون کی ایک بین الاقوامی آرگنائزیشن کے قیام کی سفارش کی گئی۔ ۷؍اکتوبر ۱۹۷۹ء کو پاکستان میں منعقد ہونے والے شریعت سیمینار میں صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے اس تجویز کو پیش کیا کہ انٹر نیشنل اسلامک لا کمیشن قائم کیاجائے۔اس تجویز کو ’’اعلان اسلام آباد‘‘ میں شامل کیاگیا۔ بعد ازاں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقدہ ۲۵ تا ۲۹؍ جنوری میں اس تجویز کو منظور کیا گیا جوا ’’اعلان مکہ‘‘ میں موجودہے۔ اس کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل بھی کی گئی۔ اس کمیٹی نے اپنے متعدد اجلاسوں میں اس تجویز کو مفصل قانونی شکل دے دی ہے جو امید ہے کہ آئندہ منعقد ہونے والی اسلامی وزراے خارجہ کانفرنس میں منظور ہو جائے گی اوراس طرح بین الاقوامی اسلامی کمیشن کی تشکیل عمل میں آجائے گی۔ راقم الحروف کو بحیثیت چیئر مین اسلامی نظریاتی کونسل اس مسودہ کو دیکھنے اور رائے دینے کا موقع ملا ہے۔ امیدہے کہ مجوزہ اقدامات کے رد عمل آنے سے عالم اسلام کی ایک اہم ضرورت پوری ہو جائے گی اورہم مستقبل قریب میں ایک ایسے بین الاقوامی اسلامی معاشرہ کی تعمیر وتشکیل میں کامیاب ہو جائیں گے جس کا قیام اسلام کا حقیقی منشا ومقصود ہے۔
ایسا کمیشن جدید دور میں ادارہ اجماع کے اغراض ومقاصد پورے کرے گا اور فقہی ذکاوت کے ذریعے قبولیت عام کی ضمانت مہیا کرے گا اور امت کی اجتماعی خواہش کے لیے قابل قبول بھی ہوگا۔اس عمل میں قرآن وسنت کی تعلیمات کی حدود میں رہتے ہوئے اور وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اجتہاد کے طریقہ پر عمل پیرا ہوکر قوانین کو وسیع تر بنیادوں پر تمام مسلّمہ فقہی مذاہب کے اسلامی قانون کے ذخیرۂ کتب ومواد پر مبنی ہونا چاہیے اور ان قوانین کی تدوین کے لیے کسی ایک فقہی مسلک پر انحصار نہ کرنا چاہیے۔
ہمیں یقین ہے کہ اجتہاد کا عمل اپنا شاندار کردار ادا کرے گا اور جدید دور میں اسلام کی ذہنی وفکری نشاۃ ثانیہ میں براہ راست اور بھر پور حصہ لے گا۔ صرف اجتہاد ہی ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم جدید تہذیب کے چیلنج کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں اس وقت جو جمود پایا جاتا ہے، وہ ختم ہوجائے گا اور اس کی جگہ ایک نئی قوت حیات او ر بالقوہ نشوونما بروئے کا ر آجائے گی۔ اجتہاد امت مسلمہ کے جذباتی اتحاد کے احیا میں بھی مددگار ثابت ہوگا اور اس کے نتیجے میں بلاشبہ ساری دنیا کے مسلمان ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے اور یہ وہ چیز ہے جو ہمارا بنیادی مقصد ہے یعنی عالم اسلام کا اتحاد۔

امہات المومنین کے لیے حجاب کے خصوصی احکام

ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی

مسلمان معاشرے کا ایک اہم مسئلہ پردہ ہے۔ خواتین سے متعلق اس اہم مسئلے میں مسلمان (مرد اور عورتیں دونوں) افراط وتفریط کا شکار ہیں، یعنی ایک طرف انتہا پسندانہ (Extremist) نقطہ نظر ہے اور دوسری طرف مسئلے کی اہمیت کو گھٹانے یا اس سے صرف نظر کرنے کا رجحان ہے۔ یہ مسئلہ سارے مسلمان ممالک کا ہے اور ہر ملک کے مسلمانوں میں اس موضوع پر نقطہ ہائے نظر کا اختلاف ہے، لیکن برصغیر کا ایک اسلامی ملک پاکستان اور دوسرا غیر اسلامی ملک جہاں مسلمان کروڑوں کی تعداد میں آباد ہیں یعنی بھارت یا انڈیا، وہاں ا س بارے میں بڑے انتہا پسندانہ نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ برصغیر کا دوسرا مسلمان ملک یعنی بنگلہ دیش بڑی حد تک اس اختلاف سے محفوظ ہے۔ وہاں عام طور پر مسلمان عورتیں روایتی پردہ نہیں کرتی ہیں، اگرچہ وہ خاصی دین دار ہوتی ہیں۔ اس لیے ہماری یہ تحریر پردے کے قرآنی احکام، ان کی حقیقی یا غیر حقیقی تفسیر وتاویل اور پاکستانی معاشرے کی منظر کشی اور تجزیے پر مبنی ہے۔
یہ بات قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے والے ہر شخص پر آشکارا ہے کہ اس میں صرف عقیدۂ توحید وآخرت اور عبادات و اخلاقیات سے متعلق ہی احکام خداوندی نہیں، بلکہ اس میں ہماری زندگی کے ہر پہلو سے متعلق احکام ہیں اور انھی میں ہماری اجتماعی زندگی یعنی Social Life یا رہن سہن سے متعلق احکام بھی ہیں۔ خواتین کا پردہ اجتماعی زندگی ہی کا ایک پہلو ہے اور قرآن نے اس پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے، بلکہ اس پرخاصی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
پردے کے احکام قرآن کریم کی دو سورتوں، سورۂ احزاب اور سورۂ نور میں ہیں۔ یہ دونوں سورتیں محققین تفسیر کے اقوال کے مطابق علی الترتیب ۵ھ اور ۶ھ میں نازل ہوئیں، لیکن سورۂ احزاب کی بعض آیات جیسے آیات ۲۸، ۲۹ جنھیں آیات التخییر بھی کہا جاتا ہے، قدیم ترین مفسر امام طبری کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قصہ ایلاء (طلاق کی ایک قسم) کے بعد نازل ہوئیں ، اور یہی بات حافظ ابن حجر نے صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں کہی ہے اور انھوں نے قصہ ایلاء وتخییر سن ۹ھ میں بتایا ہے۔ علامہ شبلی نے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی یہی تاریخ لکھی ہے۔ اس سے قبل کہ ہم اس مسئلے پر گفتگو کریں، اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ عربوں میں اسلام سے قبل پردے کا وجود نہ تھا۔ عورتیں میلوں ٹھیلوں (سوق عکاظ، سوق ذو المجاز وغیرہ) میں آزادانہ شرکت کرتیں اور جنگ کے موقعوں پر مردوں کے ساتھ ہوتی تھیں۔ لڑائی میں تو حصہ نہ لیتی تھیں لیکن دف بجا بجا کر فوجی ترانے گاتیں اور مردوں کی ہمت بڑھاتی تھیں، جیسا کہ غزوۂ احد کے موقع پر ابوسفیان کی بیوی ہند اور دوسری عورتوں نے کیا او رجن کا گانا سیرت النبی کی کتابوں میں موجود ہے جس کے ذکر کا یہاں موقع نہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عربوں کی سوسائٹی ایک مخلوط (Mixed) سوسائٹی تھی اور اس میں عدم اختلاط (Segregation) کا وجود نہ تھا، بلکہ پوری طرح یہ ایک غیر مخلوط Segregated معاشرہ تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یثرب (مدینہ) ہجرت کرنے اور وہاں اسلامی ریاست کے قیام اور اسلامی سوسائٹی کے وجود میں آنے کے بعد رفتہ رفتہ زندگی کے مختلف معاملات، شادی، طلاق، عدت، میراث، وصیت یعنی خاندان سے متعلق احکامات، حرام وحلال کھانے (گوشت)، حرمت شراب وقمار، چوری اور قتل عمد (Pre-meditated murder) اور قتل خطا کی سزا ودیت (Blood Money) اور تجارت وغیرہ سے متعلق احکام کے بعد یکے بعد دیگرے پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں پردے کے احکام نازل ہوئے۔ پردے کے لیے عربی لفظ حجاب ہے جس کے معنی چھپنا، چھپانا، آڑ، اوٹ اور دیوار اور پردہ ہیں۔ قرآن مجید میں حجاب کا لفظ ان مختلف معانی میں آیا ہے، لیکن عام طور پر حجاب یا پردہ سے مراد خواتین کا غیر مردوں کے سامنے اپنے آپ کو چھپانا یا Cover کرنا ہے اور یہاں ہم اسی پر گفتگو کریں گے۔ 
اس ضمن میں یاد رکھنے کی پہلی بات یہ ہے کہ مرد اور عورت، دونوں ہی اللہ کی مخلوق ہیں، اس کے بندے ہیں، اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ وما ربک بظلام للعبید (سورۃ فصلت: آیت۴۶) اس لیے اللہ تعالیٰ نے پردے کے ضمن میں جو احکام قرآن پاک میں بیان کیے ہیں اور جن کی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض احادیث میں فرمائی ہے، ان میں عورتوں پر ظلم کاشائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ 
دوسری بات یہ کہ اسلام ’’دین وسط‘‘ ہے،یعنی معتدل دین جس میں نہ تو افراط Extremism)) کو پسند کیا گیا ہے اور نہ تفریط Laxity)) کو، بلکہ ہر معاملے میں میانہ روی کوبہتر سمجھا گیا ہے ،حتیٰ کہ صحیح احادیث کی رو سے نفلی عبادات میں بھی میانہ روی کاحکم دیا گیا ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ اسلام ایک پاکیزہ وعفیف chaste)) سوسائٹی قائم کرنا چاہتاہے جس میں مردوزن دونوں ہر قسم کی بری نظر اور بد کرداری بلکہ بدنامی سے محفوظ رہیں۔ پردے کے تمام احکام اس پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔
پردے پر گفتگو کرتے ہوئے ایک اہم بات یہ ہے کہ قرآن میں پردے کے کچھ احکام تو ایسے ہیں جن کا تعلق امہات المومنین یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے ہے اور دوسرے احکام وہ ہیں جو عام مسلمان خواتین سے متعلق ہیں اور بعض حکم ایسے ہیں جن میں دونوں مشترک ہیں۔ ازواجِ مطہرات کے پردے سے متعلق سورۃ احزاب کی ایک آیت نمبر ۳۲ ہے جس کاترجمہ یہ ہے:
وَقَرْنَ فِیْ بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُولَی وَأَقِمْنَ الصَّلَاۃَ وَآتِیْنَ الزَّکَاۃَ وَأَطِعْنَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ إِنَّمَا یُرِیْدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْراً 
’’اور اپنے گھروں میں رہو، اور جیسے عہد جاہلیت اولیٰ میں عورتیں زیب وزیب کے ساتھ باہر نکلتی تھیں، ایسے نہ نکلا کرو اور نماز پڑھا کرو اور زکوٰۃ دیاکرو، اور اللہ او ر اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اللہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ اے اہل بیت (النبی) تم سے آلودگی کو دور کردے اور تم کو بہت اچھی طرح پاک وصاف کر دے۔‘‘
اس سے قبل کی چار آیتوں یعنی آیات ۲۸ تا ۳۱ میں جو احکام ہیں، وہ خاص ازواجِ مطہرات سے متعلق ہیں اور کسی طرح بھی عام خواتین پر ان کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ اس آیت کے بعد جو آیت ۳۳ ہے، اس کاتعلق بھی خاص اہل بیت النبی یا ازواجِ مطہرا ت سے ہے، کیونکہ اس میں ہے:
وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلَی فِیْ بُیُوتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ اللَّہِ وَالْحِکْمَۃِ إِنَّ اللَّہَ کَانَ لَطِیْفاً خَبِیْراً 
’’اور یاد رکھو اللہ کی ان آیات اور حکمت ودانائی کی ان باتوں کو جو تمھارے گھر میں تلاوت کی جاتی اور بتائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہت باریک بیں اور خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
لیکن بعض مفسرین نے قدیم زمانے سے مذکورہ آیت نمبر ۳۲ کے پہلے جملے ’وقرن فی بیوتکن‘ (اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو) کا اطلاق عام مسلمان خواتین پر کر کے عورتوں کو گھر کی چار دیواری میں محبوس کر دیا، حالانکہ اسی آیت کے آخری ٹکڑے میں بہت وضاحت کے ساتھ مذکورہے کہ ’’اللہ تم اہل بیت سے آلودگی دور رکھنا اور تم کوپاکیزہ رکھنا چاہتا ہے۔‘‘ اور قدیم وجدید تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد امہات المومنین (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات) اور سیدۃ فاطمہؓ، حسنؓ وحسینؓ اور سیدنا علیؓ ہیں۔ 
یہاں اس بات کی توضیح بے محل نہ ہوگی کہ کوئی شک نہیں کہ یہ اور اس سے قبل کی دیگر آیات امہات المومنین کے بارے میں نازل ہوئیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کے اس آخری جملے کی وضاحت کرتے ہوئے اس میں اپنے مذکورہ بالا ’’اہل بیت‘‘ کوبھی شامل کیا تھا اور یہ اس صحیح حدیث سے ثابت ہے جسے دس صحابہؓنے روایت کیا ہے جن میں دو ازواج مطہرات، حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہؓ بھی شامل ہیں۔ 
عورتوں کو چار دیواری میں رکھنے کے دفاع میں جو کچھ بھی کہا جائے وہ اپنی جگہ، لیکن اس کا حکم قرآن میں نہیں ہے اور ازواج مطہرات پر قیاس کرتے ہوئے اس حکم کو تمام مسلمان خواتین کے لیے عام کرنا کسی طرح درست نہیں، کیونکہ سورۃ احزاب کی انہی آیتوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ ازواج مطہرات میں سے اگر کوئی بدکرداری کرے تو ان کو آخرت میں دگنی سزا دی جائے گی اور اگر وہ اطاعت شعاری اور نیکوکار ی کریں گی تو ان کو دگنا اجر دیا جائے گا (سورۃ احزاب ،آیت ۳۰،۳۱) جبکہ عام مسلمانوں کو کسی گناہ کی سزا دگنی دینے کا ذکرقرآن میں نہیں۔ یہاں یہ بات واضح ہو گئی کہ دگنی سزا وجزا کے پیش نظر سورۃ احزاب کی ان مذکورہ آیات کا تعلق عام خواتین سے نہیں، اس لیے ان آیا ت کا اطلاق ان پر کرنا درست نہیں۔
اسی سورۃ احزاب کی آیت نمبر ۵۹ کااطلاق بھی غلط طور پر عام مسلمان خواتین پر کیا گیا ہے۔ ہر چند کہ اس میں کچھ حکمتیں پوشیدہ ہوں، لیکن آیت قرآنی سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے متعلق ہے اور اس کی یہی تفسیر قدیم عرب مفسرین نے کی ہے، بلکہ اس آیت کا شان نزول بھی یہی بتایا گیا ہے کہ حضرت عمرکی تمنا تھی کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسی آیت نازل فرما دے جس میں لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے اندر جانے اور بیٹھنے کی ممانعت ہو۔ آٹھ سطروں کی اس طویل آیت کے ترجمہ سے قبل یہاں اتنا کہنا ضروری ہے کہ غزوۂ احزاب (یعنی غزوہ خندق) کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کانکاح حضرت زینب بنت جحش (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی زاد بہن) سے ہوا تو آپ نے اس موقع پر دعوت ولیمہ کی۔ بہت سے صحابہ بن بلائے آپ کے گھر میں داخل ہوگئے اور بعض کھانا (گوشت وروٹی) کھانے کے بعد اندر بیٹھے گپ شپ کرتے رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں جو فطری شرم وحیا اور لحاظ تھا، اس کی بنا پر آپ لوگوں کی طرف پشت کیے ایک کونے میں بیٹھے تھے۔ حضور اس طرز عمل سے ناخوش تھے، لیکن آپ نے کچھ کہنا پسند نہیں فرمایا اور اس وقت تک پردے کی آیت نہیں اتری تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مشکل کو آسان فرما دیا۔ سورۃ احزاب کی یہ آیت اتری جس کا ترجمہ ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلَّا أَن یُؤْذَنَ لَکُمْ إِلَی طَعَامٍ غَیْْرَ نَاظِرِیْنَ إِنَاہُ وَلَکِنْ إِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ إِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ یُؤْذِیْ النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیِیْ مِنکُمْ وَاللَّہُ لَا یَسْتَحْیِیْ مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوہُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوہُنَّ مِن وَرَاء حِجَابٍ ذَلِکُمْ أَطْہَرُ لِقُلُوبِکُمْ وَقُلُوبِہِنَّ
’’اے اہل ایمان! نبی کے گھروں میں بلا اجازت نہیں چلے جایا کرو، نہ کھانے کا وقت تکتے رہو، ہاں اگر تمھیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ مگر جب کھانا کھا لو تو چلے جاؤ، بیٹھ کر باتیں کرنے میں نہ لگے رہو۔ تمھارا یہ عمل نبی کو تکلیف دیتاہے مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے، اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتاہے۔ نبی کی بیویوں سے اگر تمھیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا وکرو۔ یہ تمھارے دلوں اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے مناسب طریقہ ہے۔‘‘ (سورۃ احزاب ،آیت ۵۳)
یہ آیت اپنے طرز خطاب اور اپنے سبب نزول کی روشنی میں واضح طورپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے متعلق ہے، لیکن اس کے آخری جملے ’’اورجب ان (ازواج مطہرات)سے کچھ مانگا کرو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو‘‘ کاحکم بعد کے مفسرین نے ساری خواتین کے لیے عام کر دیا۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
لندن ۲۴ جون ۲۰۰۷ء
بخدمت محترم مولانا راشدی زید مجدہم، السلام علیکم ورحمۃ اللہ،
مولانائے محترم، آج کے جنگ میں محترم مفتی محمد رفیع صاحب کا فتویٰ رشدی ملعون کے بارے میں جیو ٹی وی کے پروگرام ’’عالم آن لائن‘‘ کے حوالے سے چھپا ہے جو ہر مسلمان کو نہ صرف اس کے قتل کا اختیار دیتا ہے بلکہ اس کے اجر میں جنت کی بشارت کے ذریعہ ترغیب بھی۔ مفتی صاحب میرے علم کی حد تک کسی سیاسی محاذ سے وابستہ نہیں ہیں اس لیے ان کی بات کو سنجیدگی سے لینا پڑتا ہے۔ (ورنہ آج کل آپ کے یہاں کی تمام مذہبی بولیوں میں سیاست درآئی نظر آتی ہے اور اس لیے وہ سنجیدگی سے لیے جانے کی مستحق نہیں رہ جاتیں) محترم مفتی صاحب کے اس فتوے کے سلسلہ میں، جو بلاقیدِ زمان و مکان ہے، یعنی ساکنانِ برطانیہ بھی اس کے دائرۂ نفوذ میں آجاتے ہیں، مجھے یہ دریافت کرنے کی ضرورت ہے کہ برطانیہ میں اگر کوئی مجھ سے اس فتوے کے حوالہ سے مسئلہ پوچھتا ہے اور میں کمزوری یا خود رائی سے اس کی تائید میں جواب نہ دے سکوں تو میرا کیا حکم ہے؟ 
میرے پاس حضرت مفتی صاحب کا ای میل یا فون وغیرہ نہیں ہے۔ اس لیے آپ کو تکلیف دے رہا ہوں کہ براہِ کرم میرے لیے اس نہایت اہم اور عجلت طلب معاملہ میں مفتی صاحب سے جواب حاصل کرکے جلد از جلد بھجوانے کی کوشش سے ممنون فرمائیں۔ آپ کے رابطہ پر مفتی صاحب مجھے براہِ راست بھی جواب دے سکتے ہیں۔ الغرض عجلت کا طالب ہوں، آپ سے بھی اور حضرت مفتی صاحب سے بھی۔ والسلام
(مولانا) عتیق الرحمن سنبھلی 
(۲)

دار الافتاء، دار العلوم کراچی کی طرف سے جواب 

الجواب حامداً ومصلیاً
سائل جو کہ عالم دین ہیں اور غیر مسلم ملک میں رہتے ہیں، اگر وہ سلمان رشدی کے قضیہ میں فتویٰ دینے سے جان کا خطرہ محسوس کرے ہیں، یا ناقابل برداشت مضرت کا خطرہ محسوس کرتے ہیں، یا سائل مذکورہ قضیہ میں کوئی اختلاف رائے رکھتے ہیں، اور وہ رائے قرآن وحدیث کی صریح وصحیح نصوص کے خلاف نہ ہو تو اس صورت میں سائل کے لیے مذکورہ قضیہ میں سکوت اختیار کرنے کی گنجایش ہے۔
قال النووی فی شرح مسلم: ثم ان الامر بالمعروف والنہی عن المنکر فرض کفایۃ اذا قام بہ بعض الناس سقط الحرج عن الباقین واذا ترکہ الجمیع اثم کل من تمکن منہ بلا عذر ولا خوف الخ (عون المعبود ۱۱/۳۳۰)
وفی المرقاۃ للملا علی قاری: وشرطہما (الامر بالمعروف والنہی عن المنکر) ان لا یودی الی الفتنۃ کما علم من الحدیث (۸/۸۶۲)
وفی التعلیق الصبیح للشیخ مولانا محمد ادریس الکاندھلوی: فان لم یستطع ذلک بلسانہ لوجود مانع کخوف فتنۃ او خوف علی نفس او عضو او مال بقلبہ الخ (۵/۳۱۳)
فی التلویح علی التوضیح فی بحث الرخصۃ والعزیمۃ: کما فی الامر بالمعروف فانہ فرض بالدلائل الدالۃ علیہ فیکون ترکہ حراما ویستباح لہ الترک اذا خاف علی نفسہ (۲/۶۸۹)
وفی نور الانوار: وترک الخائف علی نفسہ الامر بالمعروف عطف علی المکرہ ای اذا ترک الخائف علی نفسہ الامر بالمعروف للسلطان الجائز جاز لہ ذلک الخ (۱۷۰)
وفی الحاشیۃ علیہ: ای بشرط ان یکون کارہا لذلک بقلبہ
وفی شرح القواعد الفقہیۃ: وتجویز السکوت علی المنکر اذا کان یترتب علی انکارہ ضرر عظیم کما تجوز طاعۃ الامیر الجائر اذا کان یترتب علی الخروج علیہ شر اعظم (بتقدیم الشیخ عبد الفتاح ابو غدۃ رحمہ اللہ ص ۱۴۷)
کذا فی المقالات الفقہیۃ للشیخ المفتی محمد رفیع العثمانی حفظہ اللہ تعالیٰ ص ۳۱۱) واللہ تعالیٰ اعلم
(۳)
لندن ۱۱؍جولائی ۲۰۰۷
مولانائے محترم، السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آج تازہ الشریعہ کا کلمۂ حق پڑھا۔ بالکل حق ہے۔ ضرورکچھ ہونا چاہیے،لیکن جن دانشوروں سے آپ کا خطاب ہے، میں نہیں جانتا انھیں کوئی دلچسپی آپ کے انکارِ مُنکَر کے تصور سے ہوگی۔ مگر آپ نے بات اُٹھائی ہے تو عمل درآمدکی کوئی راہ ضرور سوچیں اور قدم اُٹھائیں۔ شریعہ کاؤنسل کے حوالہ سے بھی یہ آپ کے کرنے کا کام بنتاہے۔ میرے ذہن میں ایک بات آئی ہے ،شاید قابلِ غور ہو۔ اور سوچتاہوں کاش یہ بات لال مسجد برادران کا قضیہ علم میں آنے پر ذہن میں آگئی ہوتی تو آپ سے عرض کرتا کہ ان کو اس راہِ عمل کی طرف متوجہ کیجیے۔ یہ راہِ ہے پکیٹنگ(Picketing) کی راہ، جو بالکل اس انداز پر ہو جیسے ہندوستان میں کبھی کانگریس کے والینٹیر شراب کی دوکانوں اور شراب خانوں وغیرہ پر اس سوچ کے ماتحت کرتے تھے کہ اس سے گھر برباد ہوتے ہیں۔ یہ پکیٹنگ مناسب وعظ و تذکیر کے ساتھ ہو، سو فی صد پرامن ہو، منظم ہو، جن جگھوں پر کی جائے، وہاں تشدد کا سامنا ہو تو ادنیٰ جوابی تشدد کے بغیر اُسے سہا جائے، گورنمنٹ کو اعتراض ہو تو بلا مزاحمت گرفتاری قبول کی جائے۔ موجودہ حالات میں کہ گورنمنٹ کو کوئی دلچسپی فواحش و منکرات کے روکنے سے نہیں ہے، معاشرہ کے اہلِ حس کی طرف سے کچھ کرنے کی یہی راہ شاید ہو سکتی ہے ۔مگر بڑی مختلف الجہات منصوبہ بندی کرنا پڑے گی، تب کہیں کوئی مؤثر صورت ابھر نے کی امید کی جاسکے گی۔ 
افسوس، لال مسجد کا قضیہ ایسی بری شکل میں تمام ہوا کہ کسی نے بھی غالباً نہ سوچاہو۔ اناّللہ و انّا الیہ راجعون۔ اور اس کے نتیجے میں مدارس کے حق میں بنائی گئی مخالف و معاند فضا کو کس قدر تقویت مل سکتی ہے؟ اسے تو آپ حضرات ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ کاش برادران نے یہ دیکھنے کے بعدکہ ان کے خلاف اقدام کی گھڑی سامنے آکر کھڑی ہو چکی ہے، مدارس پر اثرات کے خیال سے نہ سہی، مسجد ہی کے تقدّس اور طالبات و طلبا کی حفاظت ہی کے خیال سے گرفتاری دے دینے کو حصولِ شہادت کے مساوی سمجھ لیا ہوتا۔ بلکہ اس اقدام میں جو پاکستانی فوجی استعمال ہونے جارہے تھے، جو سب کے سب مسلمان تھے، اور کسی کے بھی متعلق غالباً نہ کہا جاسکتا ہو کہ وہ علما یا مدارس مخالف ذہن کا تھا، میں تو سمجھتاہوں ان کا بھی حق تھا کہ اس سنگین آزمائش سے انھیں بچانے کی خاطر اور ان کی جانیں بچانے کی خاطر ہی ترکِ مزاحمت کو ترجیح دے دی جاتی۔ (افسران کے بارے میں بدگمانی کی گنجائش ہو تو ہو لیکن جو محض سپاہی ہیں، ان کا معاملہ تو جدا ہے) کیسے افسوس کی بات ہے کہ ان میں سے دس بارہ کی جانیں بھی اس قضیے کی نذر ہوئیں جبکہ وہ ہرگزفریق نہ تھے۔ افسوس ہم لوگوں کی قسمت میں ’’اے کاش کہ، اے کاش کہ‘‘ ہی رہ گیا ہے۔ 
مجھے نہیں معلوم آپ حضرات ان فوجیوں کے مارے جانے کو بھی کوئی اہمیت دے رہے ہیں،مگر میرے نزدیک یہ آپ کے اورفوج کے درمیان ایک ایسا بَل ڈال دینے والا واقعہ ہے جس کی طرف سے فکر کی جانی چاہیے۔ جس دن کرنل ہارون الاسلام کے مسجد کی فائرنگ سے مار ے جانے کی خبر سنی، دل نے کہا تھا اب اللہ خیر ہی کرے۔ اور پھر تو ایک کی جگہ دس ہوگئے۔ اللہ ان سب کی مغفرت کرے اور اس کے برے اثرات سے اپنے دین کے خادموں کی حفاظت فرمائے۔ آپ شاید محسوس کریں کہ حکومت کے بارے میں ایک لفظ میں نے اس قصہ میں نہیں لکھا، تو مولانا اُس کے بارے میں کس امید پر لکھوں؟ آپ حضرات جو کہانی آخری رات میں اپنی کوششوں اور پراسرار ناکامی کی سنا رہے ہیں، اس کے بعد کسی کہنے سننے سے حکومت پر اثر کی کوئی کیا توقع کرسکتا ہے؟ اور کسی فائدہ و اثر کی توقع کے بغیر کہنا سننا ایک فعلِ عبث ۔ہاں آپ حضرات اہلِ پاکستان کی بات دوسری ہو سکتی ہے۔
اچھا مولانا مجھے اپنے استفتا کا جواب مل گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ آپ کو بھی بھیجا گیا ہے، کہ آپ نے بھی کاپی کی فرمائش کی تھی۔ مگر شاید میری کم فہمی کا نتیجہ ہو کہ جواب اور اس کی دلیل میں مجھے کوئی تعلق،ما نحن فیہ کو دیکھتے ہوئے، نظر نہ آیا۔ آپ کی نظر میں تعلق ہو تو براہ کرم مجھے ضرور بتائیں۔ بالکل تکلف نہ فرمائیں۔ والسلام 
(مولانا) عتیق الرحمن سنبھلی 
(۴)
محترم جناب مدیر الشریعہ 
السلا م علیکم !امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔
میں مدیر ’اشراق‘جناب سید منظور الحسن صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے غامدی صاحب پر میری تنقید کے تعاقب میں بحث کو آگے بڑھایا ہے ۔میں نے اپنے اصل مضمون میں یہ لکھا تھا کہ غامدی صاحب کے بنیادی مصادر شریعت چار ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
۱) دین فطرت کے بنیادی حقائق، ۲) سنت ابراہیمی، ۳) نبیوں کے صحائف، ۴) قرآن۔
جناب سید منظور الحسن صاحب نے میرے مضمون پر تعاقب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’ ’فطرت‘ ‘ غامدی صاحب کے نزدیک کوئی مستقل ماخذ دین نہیں ہے۔جناب منظور الحسن صاحب لکھتے ہیں:
’’غامدی صاحب نے ’’اصول مبادی ‘‘ میں فطرت کا ذکر قرآن مجید کی دعوت کو سمجھنے میں معاون ایک ذریعے کے طور پر تو کیاہے‘لیکن کہیں بھی اسے مستقل بالذات ماخذ دین کے طور پر پیش نہیں کیا۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ‘جولائی ۲۰۰۷‘ص۳۸)
اس بیان سے پہلے سید منظور الحسن صاحب کا دعوی تھا کہ غامدی صاحب نے ’اصول و مبادی‘ میں ’فطرت کے حقائق ‘ کو ایک مستقل ماخذ دین کے طور پر بیان کیا ہے ۔جناب سید منظور الحسن صاحب لکھتے ہیں:
’’ دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق ، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں۔ اس موضوع پر مفصل بحث استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تالیف ’’میزان‘‘کے صفحہ۴۷پر ’’دین کی آخری کتاب ‘‘کے زیر عنوان ملاحظہ کی جاسکتی ہے ‘‘۔(ماہنامہ اشراق:مارچ ۲۰۰۴‘ص۱۱)
۱) پہلی بات تو یہ ہے کہ سید منظور الحسن صاحب مجھ پر کج فہمی کا الزام لگا رہے ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو غامدی صاحب کے حوالے سے میں نے وہی بات بیان کی ہے جو کہ منظور الحسن صاحب نے بھی لکھی ہے کہ غامدی صاحب کے مآخذ دین چار ہیں ۔جب میں ’فطرت کے حقائق ‘ کو غامدی صاحب کا مأخذ دین لکھوں تو مجھے منظور الحسن صاحب کج فہم کہتے ہیں لیکن میں سید منظور الحسن صاحب یہ استفسار کرنے میں حق بجانب ہوں کہ ان کا اپنے اس فہم کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جس میں انہوں نے غامدی صاحب کے مآخذ دین چار بتلائے ہیں؟
۲) دوسری بات یہ ہے کہ سید منظور الحسن صاحب کی مذکورہ بالا عبارت کہ جس میں انہوں نے غامدی صاحب کے مآخذ دین چار بتلائے ہیں‘قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت ہے ۔قطعی الثبوت تو اس لیے کہ منظور الحسن صاحب کی یہ عبار ت‘ غامدی صاحب کے ماہنامہ اشراق میں کہ جس کے وہ خود مدیر بھی ہیں‘ ان کے ذاتی نام سے شائع ہوئی ہے۔اور قطعی الدلالت اس لیے کہ اس عبارت کا ایک ایک لفظ اپنے مفہوم کو بغیر کسی اشتباہ کے واضح کر رہا ہے۔منظور الحسن صاحب کی عبارت یہ ہے :
’’ دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق ، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں‘‘۔ (ماہنامہ اشراق:مارچ ۲۰۰۴‘ص۱۱)
اگر کسی اردو جاننے والے سے اس عبارت کا مفہوم پوچھا جائے تو وہ یہی بتائے گا کہ ’مصادر ‘ کا معنی ’مصادر ‘ ہے۔ ’قرآن‘ سے مراد’ قرآن ‘ہے۔’فطرت ‘ سے مراد ’فطرت‘ ہے ۔’سنت ابراہیمی ‘سے مراد ’سنت ابراہیمی‘ ہے۔’قدیم صحائف‘ سے مراد ’قدیم صحائف‘ہے‘لہذا منظور الحسن صاحب کی یہ عبارت اس مسئلے میں نص قطعی ہے کہ ان نزدیک غامدی صاحب کے مآخذ دین چار ہیں۔
۳) تیسری بات یہ ہے کہ جناب منظور الحسن صاحب نے اپنی اس عبارت کی نسبت جناب غامدی صاحب کی ہے۔ منظور الحسن صاحب لکھتے ہیں : 
’’ دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق ، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں۔ اس موضوع پر مفصل بحث استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تالیف ’’میزان‘‘کے صفحہ۴۷پر ’’دین کی آخری کتاب ‘‘کے زیر عنوان ملاحظہ کی جاسکتی ہے ‘‘۔(ماہنامہ اشراق:مارچ ۲۰۰۴‘ص۱۱)
جناب منظور الحسن صاحب نے واضح لکھا ہے کہ غامدی صاحب کی’ میزان‘ کی عبارت کو کوئی صاحب صرف ان کا فلسفہ نہ سمجھے بلکہ یہ ان کے مصادر شریعت ہیں۔جبکہ اسی رسالے کے شروع میں کہ جس میں منظور الحسن صاحب کی مذکورہ بالا عبارت شائع ہوئی ‘یہ عبارت بھی موجود ہے:
’’یہ مضمون استاذ گرامی کے افادات پر مبنی ہے اور انھی کی رہنمائی میں تحریر کیا گیا ہے‘‘۔ (ماہنامہ اشراق:مارچ ۲۰۰۴‘ص۱۱)
ماہنامہ ’اشراق‘ کی یہ عبارتیں وضاحت کرتی ہیں کہ منظور الحسن صاحب نے یہ عبارت لکھتے وقت اپنے استاد محترم سے نہ صرف بذریعہ ’میزان‘ تحریری رہنمائی لی بلکہ قولی رہنمائی بھی لی۔
۴) چوتھی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ’۲۰۰۴ء‘میں منظورا لحسن صاحب کی یہ عبارت ’اشراق‘ میں شائع ہوئی کہ غامدی صاحب کے مآخذ دین چار ہیں اور ان میں سے ایک ’فطرت‘ بھی ہے لیکن ابھی تک جناب غامدی صاحب کی طرف سے کوئی ا یسی تردید نہیںآئی کہ جس میں انہوں نے یہ لکھا ہو کہ میرے شاگرد رشید نے جومیرے چار مآخذ دین گنوائے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا شاگرد رشیدمیری کتاب ’میزان‘ کی عبار ت کو سمجھ نہیں سکا اور اس کوسمجھنے میں وہ کج فہمی کا شکار ہوا ہے۔
۵) پانچویں بات یہ کہ جناب منظور الحسن صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اپنی اس عبارت کا مفہوم اپنے استاد محترم کے درج ذیل اصول کی روشنی میں اگر متعین کریں تو نہ وہ خود کج فہم رہیں گے اور نہ مجھ پر کج فہمی کاالزام عائد کر سکیں گے۔ جناب غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’ہم جو کچھ بولتے اور لکھتے ہیں ‘اس اعتماد کے ساتھ بولتے اور لکھتے ہیں کہ دوسرے اس سے وہی کچھ سمجھیں گے جو ہم کہنا چاہتے ہیں،دنیا میں ہر روز جو دستاویزات لکھی جاتی ہیں ‘جو فیصلے سنائے جاتے ہیں‘جو احکام جاری کیے جاتے ہیں ‘جو اطلاعات بہم پہنچائی جاتی ہیں اور جن علوم کا ابلاغ کیا جاتا ہے‘ان کے بارے میں ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال اگر پیدا ہوجائے کہ ان ا لفاظ کی دلالت اپنے مفہوم پر قطعی نہیں ہے تو ان میں سے ہر چیز بالکل بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔ چناچہ یہ نقطہ نظر نری سو فسطائیت ہے جس کے لیے علم کی دنیا میں ہر گز کوئی گنجائش پیدا نہیں کی جا سکتی‘‘۔(میزان:ص۳۳)
غامدی صاحب کے اس اصول کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے جناب منظور الحسن صاحب کی یہ عبارت:
’’دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق ، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں۔ اس موضوع پر مفصل بحث استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تالیف ’’میزان‘‘کے صفحہ۴۷پر ’’دین کی آخری کتاب ‘‘کے زیر عنوان ملاحظہ کی جاسکتی ہے ‘‘۔
اس مسئلے میں نص قطعی ہے کہ غامدی صاحب کے مآخذ دین چار ہیں کہ جن میں سے ایک ’فطرت‘ بھی ہے۔
۶) جہاں تک آیت مبارکہ ’یحل لھم الطیبات و یحرم علیھم الخبائث‘ میں ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘کی تعیین کا مسئلہ ہے کہ ان کی تعیین کسی طرح ہو گی ؟ اس کو ان شاء اللہ غامدی صاحب کے ہی اصول و مبادی میں موجود مبادی تدبر قرآن کی روشنی میں ایک مستقل مضمون میں واضح کروں گا۔اصحاب المورد کا مسئلہ یہ ہے کہ جب چاہتے کسی مسئلے میں امت کی اتفاقی رائے کو نظر انداز کر کے اہل سنت کے بالمقابل ایکمنفرد رائے قائم کر لیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں فقہا کی شاذ آرا کو اپنے موقف کی تائید کے لیے بطور ڈھال استعمال کر لیتے ہیں۔جن فقہا کے جناب منظور الحسن صاحب نے ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کی تفسیر کرتے وقت حوالے دیے ہیں اگر ان فقہا کا فہم ان کے نزدیک حجت ہے تو مسئلہ رجم‘حضر ت عیسیٰ بن مریمؑ کی آمد ثانی‘عورت کے دوپٹے‘مجسمہ سازی‘ مرتد کی سزا اور قرا ء ات قرآنیہ کے بارے میں ان فقہاء کے فہم پر یہ لوگ اعتماد کیوں نہیں کرتے؟جہاں تک دلیل کی بات ہے تو جناب منظور الحسن صاحب نے کوئی ایسی بات بیان نہیں کی کہ جس یہ ثابت ہوتا ہو کہ ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کی تفسیرمیں انہوں نے جن فقہا کی آرا بیان کی ہیں، ان کے دلائل یہ ہے۔ میں ان شاء اللہ واضح کروں گا کہغامدی صاحب کی فکر اور ان فقہا کی آرا میں کیا فرق ہے کہ جن کے حوالے جناب منظور الحسن صاحب نے بیان کیے ہیں اور یہ بھی ثابت کروں گا کہ آپ نے ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کی جو تفسیر فقہا کے اقوال کی روشنی میں بیان کی ہے، وہ تفسیر اس تفسیرسے بالکل مختلف ہے جو کہ آپ کے مبادی تدبر قرآن کی روشنی میں سامنے آتی ہے۔ 
۷) آخر میں ‘ میں جناب منظور الحسن صاحب سے گزارش کروں گا کہ اگر آپ واقعتااس بحث کو کسی نتیجے پر پہنچانا چاہتے ہیں تو اس ادھر ادھر کی تأویلات میں پڑکر بحث کو طویل کرنے ا ور الجھانے کی بجائے درج ذیل تین آپشنز پر غور کریں:
الف) اگر تو غامدی صاحب ’الشریعہ‘ کے کسی شمارے میںیہ لکھ دیں کہ ماہنامہ’اشراق‘ مارچ۲۰۰۴ء میں جناب منظور الحسن صاحب نے میری نسبت سے جو چار مصادر دین بیان کیے ہیں‘اس میں وہ غلط فہمی کا شکار ہیں اور میں ان کی اس عبارت سے متفق نہیں ہوں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔
ب) یاجناب سیدمنظورا لحسن صاحب خود یہ لکھ دیں کہ میری ماہنامہ’اشراق‘ مارچ۲۰۰۴ء میں شائع شدہ عبارتمنسوخ ہے‘ پہلے میرا خیال یہ تھا کہ غامدی صاحب کے مصادر دین چار ہیں لیکن اب مجھ پرواضح ہوا ہے کہ’فطرت‘ ان کے مصادر دین میں سے نہیں ہے۔ 
ج) یا سید منظور الحسن صاحب مجھے کم از کم غامدی صاحب کے بارے میں اتنالکھنے کی اجازت دیں جتنا کہ خود انہوں نے لکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ 
’’دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق ، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں۔‘‘
اور چوتھی اور آخری صورت وہ ہے کہ جو جناب منظور الحسن صاحب عملا کر رہے ہیں کہ اس بحث کوا تنا طویل کر دو اور الجھا دو کہ قارئین کے ذہن منتشر ہو جائیں اور اصل نکتے تک کوئی نہ پہنچ سکے۔ اللہ تعالی ہم سب کی حق بات کی طرف رہنمائی فرمائے۔آمین
حافظ محمد زبیر 
ریسرچ ایسوسی ایٹ ‘قرآن اکیڈمی ‘لاہور
hmzubair2000@yahoo.com
(۵)
مکرمی مولوی محمد طارق صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ! امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
۱۷؍ مئی کو آپ نے جناب جاوید احمد غامدی کے نام جو خط لکھا، اس کی کاپی آپ کی طرف سے ای میل کے ذریعے سے مجھے بھی بھیجی گئی تھی۔ اس خط میں برادرم شبیر احمد میواتی صاحب کے حوالے سے میری طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ میں نے بذات خود غامدی صاحب سے ’’غامدی‘‘ نسبت کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے جواباً فرمایا کہ ’’مجھے اصلاحی نام بہت اچھا لگتا تھا اور میں امین احسن کے تتبع میں اسے اپنے نام کا حصہ بنانا چاہتا تھا لیکن مدرسۃ الاصلاح سے فارغ التحصیل نہ تھا اس لیے اس نام کو استعمال کرنے کا مجاز نہ تھا۔ لہٰذا اصلاحی کے مترادف کے طور پر میں نے غامدی لفظ کو اپنے نام کا حصہ بنا لیا‘‘، جبکہ یہ بات میں نے شبیر میواتی صاحب کے سامنے غامدی صاحب کی نسبت سے نہیں بلکہ ایک عام اندازے اور قیاس کے طور پر ذکر کی تھی۔ میرا گمان تھا کہ شاید میواتی صاحب کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی اور انھوں نے آپ کے سامنے اس بات کا ذکر اس انداز میں کر دیا ہوگا جیسا کہ آپ نے اپنے خط میں تحریر کیا ہے، لیکن کل وہ گوجرانوالہ تشریف لائے اور میں نے ان سے دریافت کیا تو انھوں نے قطعی طور پر اس بات کی تردید کی اور حلفاً کہا کہ انھوں نے میرے، غامدی صاحب سے براہ راست یہ بات دریافت کرنے اور ان کے جواب دینے کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ مجھے ’’غامدی‘‘ نسبت کی تحقیق کرنے سے نہ کبھی دلچسپی رہی ہے اور نہ اس موضوع پر غامدی صاحب سے میری کوئی گفتگو ہی ہوئی ہے، اس لیے اس روایت کو متصل بنانے کے لیے ازراہ کرم کوئی اور سند وضع فرمائی جائے۔
جناب خالد جامعی اور ’ساحل‘ کے دیگر رفقا کی خدمت میں سلام مسنون عرض ہے۔
محمد عمار خان ناصر 
۹ جون ۲۰۰۷ 

عربی اور انگلش لینگویج کورسز کی تقریبِ تقسیم اسناد

ادارہ

۲۱ جولائی ۲۰۰۷ بروز ہفتہ الشریعہ اکادمی میں اکادمی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے انگلش اور عربی لینگویج کورسز میں کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ کے مابین تقسیم اسناد کی ایک تقریب منعقد کی گئی۔ تقریب کی صدارت اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کی جبکہ مہمان خصوصی کے طور پر مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ کے استاذ الحدیث مولانا داؤداحمد شریک ہوئے۔ 
اکادمی کے تحت چالیس روز اور ایک ماہ کے دورانیے پر مشتمل ان کورسز کا اہتمام دینی مدارس کے طلبہ کے لیے کیا گیا تھا جس میں اکادمی کے ناظم مولانا حافظ محمد یوسف نے معلم کے فرائض سر انجام دیے جبکہ مدرسہ نصرۃ العلوم، مدرسہ اشرف العلوم ، مدرسہ انوار العلوم، مدرسہ مظاہر العلوم، مدرسہ نصر العلوم اور دیگر مدارس کے طلبہ ان کورسز سے مستفید ہوئے۔ 
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے لینگویج کورسز کے نگران اور استاذ مولانا حافظ محمد یوسف نے کہا کہ الشریعہ اکادمی کے تمام تعلیمی وتربیتی اور فکری پروگراموں کا مقصد علما کو دور جدید کے تقاضوں اور ضروریات سے روشناس کرانا ہے تاکہ وہ دین کے ابلاغ کا فریضہ بہتر سے بہتر انداز میں انجام دے سکیں، اور لینگویج کورسز کا اہتمام بھی اسی غرض سے کیا جاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اکادمی کے زیر اہتمام اب تک اس طرح کے مختصر دورانیے کے لینگویج کورسز کی ایک درجن کے قریب کلاسیں وقتاً فوقتاً منعقد کی جا چکی ہیں۔ انھوں نے اپنی تقریر میں حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث مولانا محمد سرفرا زخان صفدر کے ارشادات کے حوالے سے انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنے اور دین کی دعوت وتبلیغ میں آج کی اس بین الاقوامی زبان سے استفادہ کرنے کی ضرورت اور اہمیت کو واضح کیا۔
اس موقع پر ان کورسز میں شریک ہونے والے طلبہ میں سے مدرسہ نصرۃ العلوم کے حافظ نعیم نے عربی زبان میں جبکہ الشریعہ اکادمی کے حسن علی نے انگریزی زبان میں مختصر طور ان کورسز کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ کورس میں شرکت سے پہلے وہ ان زبانوں میں گفتگو کرنے کو بہت مشکل خیال کرتے تھے، لیکن اب انھیں اعتماد ہے کہ یہ کوئی زیادہ مشکل چیز نہیں اور تھوڑی سی محنت اور توجہ سے اس صلاحیت کو پیدا کیا جا سکتا ہے۔ مولانا حافظ محمد یوسف نے بتایا کہ ان طلبہ نے اگرچہ ابتدائی سطح پر ان زبانوں میں اظہار خیال کیا ہے، لیکن انھوں نے یہ صلاحیت اسی کورس کے دوران میں حاصل کی ہے اور ان شاء اللہ مزید محنت سے یہ طلبہ اپنی اس صلاحیت میں مزید نکھار پیدا کرتے چلے جائیں گے۔
مہمان خصوصی مولانا داؤد احمد نے اپنے خطاب میں الشریعہ اکادمی کی کوششوں اور مساعی کو سراہا اور کہا کہ انھیں اس تقریب میں طلبہ کی عربی اور انگریزی گفتگو سن کر بے حد خوشی ہوئی ہے۔ انھوں نے اکادمی کے پروگراموں اور سرگرمیوں میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کی دعا کی۔ مولانا داؤد احمد نے عربی اور انگریزی میں تقریر کرنے والے طلبہ کو اپنی طرف سے نقد رقم کی صورت میں انعام بھی دیا۔
تقریب کے آخر میں انگلش اور عربی لینگویج کورسز میں شریک ہونے والے طلبہ کو اسناد جبکہ اول اور دوم پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو انعامات دیے گئے۔ انگلش لینگویج کورس میں مدرسہ نصر العلوم، عالم چوک گوجرانوالہ کے طالب علم فاخر احسان نے اول جبکہ الشریعہ اکادمی کے طالب علم حسن علی نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ عربی لینگویج کورس میں مدرسہ انوار العلوم کے فداء الرحمن پہلے جبکہ اسی مدرسے کے محمد خالد آف کرک دوسرے انعام کے حق دار قرار پائے۔
تقریب کا اختتام اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کی مختصر گفتگو اور دعا پر ہوا۔ 

ستمبر ۲۰۰۷ء

سانحہ لال مسجد اور شریعت و حکمت کے تقاضےمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
کفارہ کا عقیدہ اور عمل کی اہمیتمولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
نماز تراویح سنت موکدہ ہےمولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
دنیا کی محبت اور علمائے اسلام کی ذمہ داریمفتی ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی
اسلام، جمہوریت اور ہماری اعلیٰ عدالتیںچوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
مثالی حکمران کے اوصاف اسوۂ فاروقی کی روشنی میںمولانا مشتاق احمد
فکر اسلامی کو درپیش عصری چیلنج ۔ تجمد اور تجدد کے درمیان راہ توسط کی تلاشڈاکٹر محمد امین
غامدی صاحب کا تصور فطرت چند توضیحاتسید منظور الحسن
دارالعلوم کراچی کا فتویٰمولانا عتیق الرحمن سنبھلی
الشریعہ اکادمی کی سالانہ کارکردگی رپورٹادارہ

سانحہ لال مسجد اور شریعت و حکمت کے تقاضے

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(لال مسجد کے سانحے کے سلسلے میں لکھے گئے مجموعہ مضامین ’’جامعہ حفصہ کا سانحہ‘‘ کے دیباچے کے طور پر تحریر کیا گیا۔)

نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔
جامعہ حفصہ اور لال مسجد اسلام آباد کے تنازع کا جب آغاز ہوا تو راقم الحروف نے اس کے مختلف پہلووں پر اسی وقت سے اپنے تاثرات واحساسات کو قلم بند کرنا شروع کر دیا تھا جو مختلف کالموں اور مضامین کی صورت میں ماہنامہ الشریعہ، روزنامہ اسلام اور روزنامہ پاکستان میں شائع ہوتے رہے اور ان کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اپنے مضامین اور کالموں میں متعلقہ مسئلہ کی معروضی صورت حال کی وضاحت کے ساتھ ساتھ اس کے بارے میں دینی نقطہ نظر کو بھی متوازن انداز میں پیش کر دیا جائے تاکہ قارئین کو کسی فیصلے تک پہنچنے میں آسانی رہے۔
دینی نقطہ نظر سے میری مراد کسی بھی مسئلے کے حوالے سے قرآن وسنت کے ارشادات وفرمودات کی وہ تعبیر وتشریح ہوتی ہے جو امت کے جمہور اہل علم اور خصوصاً اہل السنۃ والجماعۃ کے علمی اکابر نیز حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی تعبیرات وتشریحات کے ساتھ ساتھ عقل عام (Common Sense) کے ناگزیر تقاضوں سے بھی ممکنہ حد تک مطابقت رکھتی ہو۔ میں نے خود کو ہمیشہ حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ کے فکر اور شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی تحریک کا فرد سمجھا ہے، اسی دائرے میں رہتے ہوئے حتی الوسع دینی، علمی اور فکری جدوجہد میں کچھ نہ کچھ حصہ ڈالتا چلا آ رہا ہوں اور اسی کو اپنے لیے باعث سعادت ونجات تصور کرتا ہوں۔ بعض مسائل پر میری طالب علمانہ طور پر آزادانہ رائے بھی ہوتی ہے اور بسا اوقات اس کا اظہار بھی کرتا ہوں، مگر خود میرے نزدیک بھی اس کی حیثیت محض ایک رائے کی ہوتی ہے اور جمہور اہل علم کی اجتماعی رائے کے علی الرغم میں نے نہ کبھی اس پر اصرار کیا ہے اور نہ ہی اس پر عمل ضروری سمجھا ہے، البتہ رائے کا حق ضرور رکھتا ہوں اور بوقت ضرورت اسے استعمال بھی کرتا ہوں۔
لال مسجد کے تنازع اور سانحہ کے پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو ایک بنیادی سوال یہ سامنے آتا ہے کہ ملک میں نفاذ اسلام او رمنکرات وفواحش کے سد باب کے لیے جدوجہد کے روایتی اور معروف طریقے کافی ہیں یا افغانستان کی طرح اسے باقاعدہ جہاد کا عنوان دینا اور اسے مسلح احتجاج یا تصادم کی شکل دینا بھی ضروری ہے؟ اب سے پچیس برس قبل افغانستان کو روسی استعمار کی مسلح مداخلت اور معاشرہ میں لادینیت کے فروغ کے سنگین مسئلہ کا سامنا تھا جس کا حل افغان علما اور عوام نے مسلح جدوجہد کی صورت میں نکالا اور روس مخالف بین الاقوامی حلقوں کے تعاون سے اس میں کامیابی حاصل کر کے ایک مرحلے میں طالبان کی حکومت کے نام سے اسلامی امارت بھی قائم کر لی، لیکن اس مرحلے تک ان کے پہنچنے میں بھرپور تعاون کرنے والے بین الاقوامی حلقوں نے اس سے آگے ان کی کسی بھی پیش رفت کو خود اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے ہوئے ان کا راستہ بزور قوت روک دیا اور طاقت کے بل پر انھیں اقتدار سے ہٹا کر ربع صدی قبل کی صورت حال دوبارہ قائم کر دی، صرف اس فرق کے ساتھ کہ اس وقت افغانستان میں سوویت یونین کی مسلح افواج افغان عوام پر سنگین تانے ہوئے تھیں اور اب ان کی جگہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مسلح افواج نے لے لی ہے۔
پاکستان میں ملک کے اسلامی نظریاتی تشخص کے تحفظ، نفاذ اسلام اور منکرات وفواحش کے تیزی کے ساتھ بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لیے ہمارے بہت سے دوست اسی تجربے کو دہرانے کے خواہش مند ہیں اور ان نیک مقاصد کے لیے جہاد کا عنوان اور مسلح جدوجہد کا طریق کار اپنانے کے لیے بے چین ہیں۔ ہمارے نزدیک لال مسجد کا یہ معرکہ اسی بے چینی کے اظہار کی ایک ابتدائی شکل ہے۔ 
ہمیں ان دوستوں کے خلوص، جذبہ ایمانی اور ایثار وقربانی کے عزم میں کوئی شبہ نہیں ہے اور اس بات کو تسلیم کرنے میں بھی ہم کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے کہ پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت کے تحفظ، ملک میں مکمل اسلامی نظام کے نفاذ اور منکرات وفواحش سے پاکستانی معاشرہ کو محفوظ رکھنے کے لیے سیاسی عمل، دستوری جدوجہد اور جمہوری ذرائع اب تک پوری طرح کامیاب ثابت نہیں ہو پا رہے جس کے اسباب ایک مستقل بحث کے متقاضی ہیں، لیکن کیا اس کے بعد پرامن اور عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کا راستہ چھوڑ کر مسلح جدوجہد کا طریقہ اختیار کرنا ضروری ہو گیا ہے؟ یہ سوال اتنا آسان نہیں ہے کہ اس کا جواب فوری طو رپر ہاں میں دے دیا جائے، اس لیے کہ مسلح جدوجہد کے وجوب یا کم از کم جواز کے لیے صرف مذکورہ بالا اسبا ب وعوامل کافی نہیں ہیں بلکہ اور بھی بہت سے امور ہیں جن کا نہ صرف حکمت وتدبر بلکہ شرعی اصول وقواعد کے حوالے سے بھی لحاظ رکھنا ضروری ہے اور ہماری طالب علمانہ رائے میں عالمی حالات کا معروضی تناظر، شریعت اسلامیہ کے مسلمہ قواعد وضوابط اور حکمت ودانش کے ناگزیر تقاضے موجودہ حالات میں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم پاکستان میں کسی دینی جدوجہد کے لیے ہتھیار اٹھائیں، دستور وقانون کو چیلنج کریں یا معروف تصور کے مطابق جہاد کا عنوان اختیار کر کے مسلح جدوجہد کی کوئی صورت پیدا کریں۔
برطانوی استعمار کے خلاف جنوبی ایشیا کی آزادی کی جدوجہد میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ مسلح جدوجہد کے آخری اور پرامن جدوجہد کے پہلے علمبردار تھے۔ ان کی جوانی آزادئ وطن کے لیے مسلح جدوجہد کا تانا بانا بنتے ہوئے بسر ہوئی جو تحریک ریشمی رومال کے نام سے تحریک آزادی کا ایک نمایاں باب ہے، لیکن انھی شیخ الہند کا بڑھاپا عدم تشدد پر مبنی اور پرامن جدوجہد کی تلقین سے عبارت ہے۔ اس کے بعد سے آزادئ وطن اور دیگر ملی ودینی مقاصد کے لیے عدم تشدد پر مبنی پر امن تحریکات کا نقطہ آغاز وہی ہیں اور شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی، شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری اور دیگر اکابر کے متعین کردہ اسی راستے اور انھی خطوط پر دینی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہمارے نزدیک شریعت اور حکمت دونوں کا تقاضا ہے۔ 
لال مسجد کی جدوجہد کے بارے میں راقم الحروف نے جو کچھ لکھا ہے، اسی پس منظر میں لکھا ہے اور ہم پورے شرح صدر کے ساتھ علیٰ وجہ البصیرت اس موقف پر اب بھی قائم ہیں۔
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ نے لال مسجد کی جدوجہد اور پھر اس کے الم ناک سانحہ کے بارے میں میرے مختلف اوقات میں لکھے گئے مضامین اور کالموں کو کتابی شکل میں شائع کیا ہے جس کا پہلا ایڈیشن نکل چکا ہے اور اس کے بعد لکھے جانے والے مزید مضامین کو شامل کر کے اس کا دوسرا ایڈیشن قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ چونکہ یہ مضامین مختلف اوقات میں لکھے گئے ہیں، اس لیے حالات کے اتار چڑھاؤ کے اثرات ان میں بعض مقامات پر قارئین کو محسوس ہوں گے، تاہم مجموعی تاثرات واحساسات اور جذبات وخیالات کا دائرہ چونکہ ایک ہی ہے، اس لیے قارئین کو اس سلسلے میں زیادہ الجھن پیش نہیں آئے گی۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں دین وملت کے لیے صحیح رخ پر سوچنے اور پھر اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
(۱۴؍ اگست ۲۰۰۷)

کفارہ کا عقیدہ اور عمل کی اہمیت

مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم بائیبل، کتاب مقدس اور انجیل مقدس کے حوالے سے یہ ثابت کر دیں کہ ہر ایک کو عمل کرنا پڑے گا اور تب جا کر کہیں نجات نصیب ہو سکتی ہے۔ جب ہر ایک کے لیے عمل ضروری ٹھہرا تو پھر کفارے کا سوال کہاں سے؟ اور اس نامنصفانہ عقیدہ اور نظریہ کو بھلا سنتا بھی کون ہے؟
استثنا باب ۲۷ آیت ۲۶ میں ہے: ’’لعنت اس پر جو شریعت کی باتوں پر عمل کرنے کے لیے ان پر قائم نہ رہے اور سب لوگ کہیں: آمین۔‘‘
اگر شریعت کی باتوں کو ترک کر کے محض کفارہ ہی کا عقیدہ موجب نجات ہے تو پھر یہ لعنت کیسی اور کیوں؟ 
انجیل لوقا باب ۶ آیت ۴۶ تا ۴۹ میں ہے: ’’جب تم میرے کہنے پر عمل نہیں کرتے تو کیوں مجھے خداوند خداوند کہتے ہو؟ جو کوئی میرے پاس آتا اور میری باتیں سن کر ان پر عمل کرتا ہے، میں تمھیں بتاتا ہوں کہ وہ کس کی مانند ہے۔ وہ اس آدمی کی مانند ہے جس نے گھر بناتے وقت زمین گہری کھود کر چٹان پر بنیاد رکھی۔ جب طوفان آیا اور سیلاب اس گھر سے ٹکرایا تو اسے ہلا نہ سکا کیونکہ وہ بہت مضبوط بنا ہوا تھا۔ لیکن جو سن کر عمل میں نہیں لاتا، وہ اس آدمی کی مانند ہے جس نے زمین پر گھر کو بے بنیاد بنایا۔ جب سیلاب اس پر زور سے آیا تو وہ فی الفور گر پڑا اور وہ گھر بالکل برباد ہوا۔‘‘
غور کیجیے کہ حضرت یسوع مسیح نے کس طرح مثال دے کر عمل کرنے پر زور دیا ہے اور بے عمل انسان کے برائے نام ایمان کو کس طرح بے قدر وبے وقعت قرار دیا ہے۔
کرنتھیوں باب ۷ آیت ۱۹ میں ہے: ’’نہ ختنہ کوئی چیز ہے نہ نا مختونی، بلکہ خدا کے حکموں پر چلنا ہی سب کچھ ہے۔‘‘
اور یعقوب باب ۲ آیت ۱۰ تا ۱۲ میں ہے: ’’کیونکہ جس نے ساری شریعت پر عمل کیا اور ایک ہی بات میں خطا کی، وہ سب باتوں میں قصوروار ٹھہرا۔ اس لیے کہ جس نے یہ فرمایا کہ زنا نہ کر، اسی نے یہ بھی فرمایا کہ خون نہ کر۔ اس پر اگر تو نے زنا تو نہ کیا مگر خون کیا تو بھی تو شریعت کا عدول کرنے والا ٹھہرا۔ تم ان لوگوں کی طرح کلام کرو اور کام بھی کرو جن کا آزاد کی شریعت کے موافق انصاف ہوگا۔‘‘
جبکہ آیت ۱۴ میں ہے: ’’اے میرے بھائیو! اگر کوئی کہے کہ میں ایماندار ہوں مگر عمل نہ کرتا ہو تو کیا فائدہ؟ کیا ایسا ایمان اسے نجات دے سکتا ہے؟‘‘

نماز تراویح سنت موکدہ ہے

مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

نماز تراویح سنت موکدہ ہے۔ (ہدایہ ۱/۹۹۔ شرح نقایہ ۱/۱۰۴۔ کبیری، ۴۰۰) تراویح کے سنت ہونے کا انکار سوائے روافض کے کسی اسلامی فرقے نے نہیں کیا۔ اس کے سنت موکدہ ہونے کے بارے میں بہت سے اہل علم کے اقوال موجود ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’وسننت لکم قیامہ‘ (نسائی ۱/۳۰۸۔ ابن ماجہ، ۹۴۔ مسند احمد ۱/۱۹۱) ’’اور میں نے اس میں قیام (تراویح) کو سنت قرار دیا ہے۔‘‘
امام ابو حنیفہؒ سے روایت ہے کہ تراویح سنت ہیں، ان کا ترک کرنا جائز نہیں۔ (شرح نقایہ ۱/۱۰۴۔ کبیری، ۴۰۰) امام نوویؒ شارح مسلم لکھتے ہیں: خوب جان لو کہ صلاۃ تراویح کے سنت ہونے پر علما کا اتفاق ہے اور وہ بیس ہیں۔ (کتاب الاذکار، ۸۳) امام غزالیؒ اپنی شہرۂ آفاق اور بے نظیر کتاب احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ تراویح سنت موکدہ ہے اور وہ بیس رکعت ہیں۔ ان کی کیفیت مشہور ہے، اگرچہ ان کا موکد ہونا عیدین سے کم درجہ کا ہے۔ امام ابن قدامہؒ جو ’مغنی‘ کے مصنف ہیں، لکھتے ہیں کہ تراویح سنت موکدہ ہیں، سب سے پہلے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت مقرر کیا ہے۔ (مغنی ابن قدامہ، ۲/۱۶۶) امام حاکمؒ نے مستدرک میں ایک حدیث بیان کرنے کے بعد لکھا ہے: اس میں واضح دلیل ہے کہ یہ صلوٰۃ تراویح مسلمانوں کی مساجد میں ادا کرنا سنت مسنونہ (موکدہ) ہے اور حضرت علیؓ نے حضرت عمر کو اس سنت کے قائم کرنے پر ابھارا تھا یہاں تک کہ حضرت عمر نے اس کو قائم کر دیا۔ (مستدرک حاکم ۱/۴۴۰)
مسئلہ: تراویح میں ایک بار قرآن کریم کا ترتیب کے ساتھ پڑھنا سنت موکدہ ہے۔ لوگوں کی سستی اور کاہلی کی وجہ سے اس کو ترک نہ کیا جائے گا۔ (ہدایہ ۱/۱۰۰۔ شرح نقایہ ۱/۱۰۴)
مسئلہ: اگر قرآن کریم ۱۵، ۲۰، ۲۱، ۲۵ تاریخوں میں ختم ہو جائے تو تراویح کو ترک نہ کیا جائے۔ سارے رمضان میں آخری تاریخ تک تراویح پڑھتے رہیں۔
مسئلہ: وتروں کو تراویح کے بعد پڑھنا افضل ہے، لیکن اگر وتروں کو تراویح سے پہلے پڑھے تو یہ بھی جائز ہے۔ (کبیری، ۴۰۳)
(بحوالہ نماز مسنون کلاں، ص ۵۹۶ و ۶۱۰)

دنیا کی محبت اور علمائے اسلام کی ذمہ داری

مفتی ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی

اس وقت غیر اسلامی مغربی تہذیب و تمدن نے تمام دنیا کو گھیرے میں لیا ہوا ہے جس کو ممالکِ اسلامیہ بھی اپنائے جا رہے ہیں، لیکن اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ زندگی کی کشتی کو وقت کے دھارے پر چھوڑ دیا جائے اور وہ اس کو جس طرف لے جانا چاہے، لے جانے دیا جائے، کیونکہ اسلام ہر زمانہ میں اپنے غالب رہنے کے اصول دیتا ہے اور ایسی تدبیریں بتلاتا ہے جن کے ذریعہ سے ہر زمانہ میں اصلاح کی جا سکتی ہے اور انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ ارشاد ہے: 
ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَکَفیٰ بِاللَّہِ شَہِیْداً (الفتح، ۲۸) 
’’ اللہ وہ ہے جس نے بھیجا اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ اس کو غالب کر دے تمام دینوں پر اور کافی ہے اللہ گواہی کے لیے۔‘‘
حدیث میں ارشاد ہے : 
الاسلام یعلو ولا یعلیٰ (سنن دارقطنی، ۳/۲۵۲)
’’اسلام اونچا رہتا ہے، پست نہیں ہوتا۔‘‘
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : 
وَاللَّہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ (الصف، ۸) 
’’ اور اللہ اپنے نور کو پور ا کر کے رہے گا، چاہے یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘
ارشاد ہے : 
وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ (العنکبوت، ۶۹)
’’ جو لوگ ہمارے کاروبار میں مشقت برداشت کرتے ہیں، ہم ان کو ضرور اپنے راستے بتلا دیتے ہیں اور بے شک اللہ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔‘‘ 
یہ آیات اور ان کے علاوہ اور بہت سی آیات اور احادیث دلالت کر رہی ہیں کہ دینِ اسلام کو عالم گیر اصلاح کے لیے پیش کیا گیا ہے :
إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّہِ الإِسْلاَمُ ...... وَمَن یَبْتَغِِ غَیْْرَ الإِسْلاَمِ دِیْناً فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (آل عمران، ۱۹ و ۸۵)
’’ دین حق اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہی ہے ..... جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کو تلاش و اختیار کرے گا، اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خائب و خاسر ہو گا ۔‘‘
اس قسم کی آیات اور احادیث ہر مسلک کے علماے ’’ خیر امت‘‘ سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں اور باتوں پر اپنے یقین اور اعتقاد کا عملی ثبوت پیش کریں اور اس غیر اسلامی مغربی تہذیب و تمدن کے بے پناہ سیلاب سے امتِ مسلمہ کو نجات دلانے اور پاک کرنے کا پورا بندوبست کریں۔ آپ ہی اس وقت اس امت کے قائد ہیں اور سب سے پہلے عنداللہ جواب دہ ہیں اور حسبِ فیصلہ و وعدہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت آپ کے لیے وقف ہے ۔ پہلے اس بات پر جزم و یقین ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سوال ہو گا کہ دنیا میں جب تمہاری موجودگی میں یہ حالات پیش آرہے تھے تو تم نے ان حالات کے درست کرنے کے لیے حسبِ استطاعت کیا کچھ کیا تھا؟ اس کے جواب میں اعذار اور حیلے مسموع نہیں ہوں گے۔ 
وقت کے دھارے میں بہہ کر علم دین سے ناواقف دنیا دار اگر متاع دنیا کے ساتھ ملوث ہو جائیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں کہ وہ لوگ دنیا کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ لیکن افسوس علمائے دین پر ہے کہ جب وہ عنداللہ و عندالرسول دنیا اور متاع دنیا کی ناپسندیدگی اور مضرت معلوم کر چکے ہیں تو اس کی طرف کیونکر راغب ہو سکتے ہیں؟ قرآن مجید کی بہت سی آیات اور احادیثِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں دنیا کی محبت اور اس کی طرف رغبت کرنے سے روکا گیا ہے۔ کہیں پوری دنیا کو ’’متاع قلیل‘‘ کہہ کر اس کی تحقیر کی گئی ہے : ’قل متاع الدنیا قلیل والآخرۃ خیر لمن اتقی‘ ( اے نبی کہہ دوکہ دنیا کا سامان قلیل ہے اور آخرت متقی لوگوں کے لیے بہترین سامان ہے )۔ کہیں اس کو لہو ولعب بتایا گیا ہے: ’انما الحیوۃ الدنیا لھو ولعب‘ ( یاد رکھو دنیا کی زندگی کھیل کود ہے)۔ اور کہیں اسے دھوکہ کی ٹٹی فرمایا گیا: و ما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور (دنیا کی زندگی دھوکہ کی ٹٹی ہے )۔ 
کہیں آفتوں کی ماری ہوئی کھیتی کہا :
إِنَّمَا مَثَلُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا کَمَاءٍ أَنزَلْنَاہُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِہِ نَبَاتُ الأَرْضِ مِمَّا یَأْکُلُ النَّاسُ وَالأَنْعَامُ حَتَّی إِذَا أَخَذَتِ الأَرْضُ زُخْرُفَہَا وَازَّیَّنَتْ وَظَنَّ أَہْلُہَا أَ نَّہُمْ قَادِرُونَ عَلَیْْہَا أَتَاہَا أَمْرُنَا لَیْْلاً أَوْ نَہَاراً فَجَعَلْنَاہَا حَصِیْداً کَأَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالأَمْسِ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُوْنَ (یونس، ۲۴)
’’ دنیا کی زندگی کی مثال اس پانی جیسی ہے جو آسمانوں سے برس کر زمین کی پیداوار میں شامل ہو گیا جس کو انسان اور حیوان کھاتے ہیں، حتیٰ کہ جب زمین کی پیداوار پورے آب و تاب کو پہنچ گئی اور آراستہ پیراستہ ہو گئی اور لوگ یہ سمجھنے لگے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھانے پر قادر ہیں ، تو ہمارا حکم ( عذاب) رات یا دن کے وقت آ پہنچا، پس وہ تمام پیداوار نیست و نابود ہو گئی، گویا اگلے دن کے لیے ان کے پاس کچھ باقی نہ رہا۔‘‘ 
کہیں اس کی حاصل صورت ( زن ، زر ، زمین ) کو بے حقیقت نمایش، بے روح نمود، بے بود ظاہری ٹیپ ٹاپ اور شہوت پرستوں کا محبوب بتایا: 
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَالِکَ مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَاللّہُ عِنْدَہُ حُسْنُ الْمَآبِ۔ قُلْ أَؤُنَبِّءُکُمْ بِخَیْْرٍ مِّنْ ذَالِکُمْ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّہِ وَاللّہُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ (آل عمران، ۱۴، ۱۵)
’’لوگوں کو محبوب چیزوں کی محبت نے فریفتہ کیا ہو اہے، جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی۔ یہ دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے اور اللہ ہی کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے ۔ کہہ دے کیا میں تمہیں اس سے بہتر بتاؤں؟ پرہیز گاروں کے لیے اپنے رب کے ہاں باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہیں گے اور پاک عورتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی۔ اور اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔ ‘‘ 
اور کہیں اس کی لذتوں میں منہمک ہونے والوں کے جاہل احمق ہونے کا اشارہ کیا ہے : 
إِنَّ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُوْنَ لِقَاءَ نَا وَرَضُوْا بِالْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَاطْمَأَنُّواْ بِہَا وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ آیَاتِنَا غَافِلُونَ۔ أُوْلَءِکَ مَأْوَاہُمُ النَّارُ بِمَا کَانُواْ یَکْسِبُونَ (یونس، ۷، ۸)
’’جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پر راضی اور مطمئن ہو گئے اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ دوزخ ہے، ان اعمال کی پاداش میں جن کے مرتکب ہوئے ۔‘‘
ذَرْہُمْ یَأْکُلُواْ وَیَتَمَتَّعُواْ وَیُلْہِہِمُ الأَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ (الحجر، ۳)
’’ ان کو چھوڑ دو ، کھانے پینے دو ، مزے اڑانے دو، باطل آرزوئیں ان کو خدا سے غافل بنائے رکھیں ، مگر وہ ضرور جان جائیں گے۔ ‘‘ 
کہیں دنیا کی فراوانی کو گرفتار لہو ولعب یا بد انجام مشاغل میں پھنس جانا بتلایا : 
أَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ حَتَّی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ (التکاثر، ۱ و ۲)
’’ غفلت میں رکھا تم کو بہتات کی حرص نے، یہاں تک کہ جا دیکھیں قبریں ۔‘‘
تو کہیں سرمایہ داری پر عذاب الیم کی دھمکی دی : 
وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَ یُنْفِقُونَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُم بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ (توبہ، ۳۴)
’’ جو لوگ سونے چاندی کو جمع کر کے رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ، اے نبی ! ان لوگوں کو دردناک عذاب کی بشارت سنا دو۔‘‘ 
کہیں بے تحاشا کھانے اور عیش میں غرق ہونے کو بہائم سے تشبیہ دے کر انجام جہنم بتایا:
وَیَأْکُلُونَ کَمَا تَأْکُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًی لَّہُمْ (محمد، ۱۲)
’’یہ لوگ اس طرح کھاتے پیتے ہیں جس طرح جانور کھایا پیا کرتے ہیں ، ان لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔‘‘ 
اور کہیں اپنے پیغمبر کو ہدایت فرمائی کہ اس دنیا کی چند روزہ ٹیپ ٹاپ کی طرف کوئی ادنیٰ التفات نہ کریں کہ یہ فتنہ اور بلا ہے، بلکہ صرف طلب اور فکرِ عاقبت میں منہمک رہیں :
وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْْنَیْْکَ إِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہِ أَزْوَاجاً مِّنْہُمْ زَہْرَۃَ الْحَیَاۃِ الدُّنیَا لِنَفْتِنَہُمْ فِیْہِ وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْْرٌ وَّأَبْقیٰ (طہ، ۱۳۱)
’’ مت چلاؤ اپنی دونوں آنکھوں کو ان چیزوں کی طرف جو ہم نے ان لوگوں کو دنیاوی زندگی میں عطا کی ہیں، اس لیے کہ یہ سب کچھ ان کی آزمایش کے لیے ہے ، تیرے رب کا رزق بہتر اور ہمیشہ رہنے والا ہے ۔‘‘ 
اسی طرح دنیا کے اس حصہ کی بھی قرآن نے مذمت کی ہے جس کا تعلق جاہ و نخوت سے ہے ۔ ایسی آیات کو خوفِ طوالت سے نقل نہیں کیا گیا ۔ احادیث میں بھی دنیا کو ملعون اور جیفہ کہا گیا ہے اور اس کے طالبوں کو کلاب کا لقب دیا گیا ہے۔ اللھم لا تجعل الدنیا اکبر ھمنا ولا مبلغ علمنا ولا غاےۃ رغبتنا۔
علمائے اسلام ! دنیا کے راحت و سرور کے نشہ اور اس کے خوش کن منظروں کی دل فریب رغبتوں کے اتمام سے باخبر ہو کر آپ حضرات اپنی آخرت کی کامیابی کے لیے کوشش کریں ۔
ہمی گویم و باز ہمی گویم ہمی! 
کار ایں است غیر ایں ہمہ ہیچ 
(یہی کہتا ہوں اور پھر یہی کہتا ہوں کہ یہی اصل کام ہے، اس کے علاوہ سب کام ہیچ ہیں)
آپ کا کام تعلیم و تبلیغ ہے جو عالمِ دین ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آپ کے سپرد کیا گیا ہے اور دنیا کے دیگر کاروبار سے آپ کو سبکدوش کیا گیا ہے۔
اندریں راہ مے تراش ومے خراش 
یک دمے غافل دمے فارغ مباش 
(اسی راہ میں اپنی تگ ودو جاری رکھو اور ایک لمحے کے لیے بھی غافل یا فارغ نہ ہونا)
ان باتوں میں سے جو پیش کی جارہی ہیں، کوئی بات بھی ایسی نہیں جو آپ حضرات کے علم سے باہر ہو ۔ صرف جذبہ خیر خواہی سے تاکیداً خامہ فرسائی کی جا رہی ہے، اپنے کو بڑا یا ناصح سمجھ کر نہیں، بلکہ آپ حضرات کو عالم دین اور وارث نبی عالمی صلی اللہ علیہ وسلم ظن غالب سے قرار دے کر مخاطب کیا جا رہا ہے۔ تخاطب امت کے اخیار سے ہے نہ کہ علمائے اشرار سے۔ آپ علمائے اخیار ہی صحیح معنی میں وارث النبی الخاتم ہیں۔ علمائے اشرار نے متاع دنیا کی وراثت کو پسند کر لیا ہے اور وراثت النبی الخاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر نہ کرنے پر ان کو دنیا میں پہلی سزا یہ دی گئی کہ علمائے اخیار کی جماعت سے ان کو نکال باہر کر دیا گیا ۔ ارشادِ باری ہے : 
وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاءَ تْ مَصِیْراً (النساء، ۱۱۵)
’’ جو شخص اللہ کے رسول کی مخالفت کرے گا بعد اس کے کہ راستہ سیدھا اس کے سامنے واضح ہو چکا اور وہ ایمان والوں کے طریقے کے خلاف کوئی اور راستہ اختیار کرے گا تو ہم اس کو وہی راہ سونپ دیں گے جس طرف وہ خود متوجہ ہوا اور اس کو دوزخ میں داخل کریں گے اور دوزخ برا ٹھکانہ ہے ۔‘‘ 
کیا اس آیت محکمہ کے فیصلہ سے کوئی شخص بحیثیت عالمِ دین ہونے کے مستثنیٰ ہو سکتا ہے؟ اس آیت شریفہ کے متعلق زیادہ تشریح اور تفصیل کی ضرورت نہیں ، البتہ بعد ما تبین لہ الھدیٰ، ویتبع غیر سبیل المومنین، نولہ ما تولیٰ کے جملات مبارکہ قابلِ غور و فکر ہیں۔ المومنین سے مراد ما انا علیہ و اصحابی ہیں۔ جو علما باقاعدہ مدارس عربیہ اسلامیہ میں علوم دین کی سند حاصل کر چکے ہیں، ہدایت و ضلالت، رشد و غی ان حضرات پر پورے طور سے واضح ہونے کے بعد پھر ان کا اس قدر بلند مقام و وراثت الانبیاء ’’ العلم‘‘ کو چھوڑ کر وراثت فرعون و نمرود، متاع دنیا کو اختیاراً اختیار کرنا عبرت انگیز ہے۔ 

اسلام، جمہوریت اور ہماری اعلیٰ عدالتیں

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

حاکم خان کیس میں اکثریتی نقطہ نظر یہ ہے کہ قرار داد مقاصد دستور کے دیباچے میں تھی تو اس کی کوئی موثر حیثیت نہیں تھی، دیباچے سے اٹھا کر اس کے متن میں موثر (substantive) طور پر شامل کر دی گئی ہے تو کوئی فرق نہیں پڑا۔ ( ۱) یہ پہلے بھی فضائل ومواعظ کی طرح تھی اور اب بھی اس کی حیثیت نمائشی سے زیادہ نہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ جنرل ضیا ء الحق کا دستور میں ترمیمی حکم اور پھر قومی اسمبلی کی جانب سے آٹھواں آئینی ترمیمی حکم ۱۹۸۵ء محض بیکار مشق ہے۔ ایک باقاعدہ دستوری ترمیم کے بارے میں اس طرح کا فیصلہ صادر فرماناکتنا تعجب خیز ہے، لیکن ہمارے ہاں سپریم کورٹ بیچاری فوجی بوٹوں، خاکی وردی، پی کیپ اور چھڑی کی خدمت کرتے کرتے اس مرحلے تک پہنچ چکی تھی۔
جب ایک فیصلہ ذہن میں پہلے سے ہو تو اس کے لیے دلائل کا انبار لگا دینا کچھ مشکل نہیں ہوتا۔ اس کے لیے علمائے مناظرین سے ہمارے روشن خیال اور جدید تعلیم یافتہ، تجربہ کار اور اونچے منصب پر فائز جج زیادہ پیچھے نہیں رہ سکتے۔ ایسے میں نظریاتی شیفتگی، اعلیٰ اساسی اصولوں اور منصبی حلف کی پاسداری کا کسے خیال رہ سکتا ہے؟
فیصلے کے لیے جن دلائل پر انحصار کیا گیا ہے، ان کا تفصیلی تذکرہ سردار شیر عالم خان کے تنقیدی مقالے میں موجود ہے۔ ان میں سے اہم باتوں کا ذکر ہم اس اختتامی باب میں کرنا چاہتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک کی اعلیٰ عدالتیں اپنے اختیار سماعت کے بارے میں بہت حساس واقع ہوئی ہیں۔ انہوں نے اس بارے میں کبھی کمزور پوزیشن اختیار نہیں کی۔ مارشل لا کے نفاذ کا حکم ہو یا دستور کو معطل کرنے کا فرمان، عدالتوں نے ان کے جواز وعدم جواز کے بارے میں سماعت اور فیصلے کے اختیار پر ہمیشہ اصرار کیا ہے۔ اس بارے میں عدالت کواختیار سماعت سے محروم کرنے کے لیے بعض اوقات قوانین یا غیر معمولی احکام میں یہ شق شامل کی جاتی رہی کہ حکم، فرمان یا قانون سے متعلقہ معاملات کے بارے میں کسی عدالت میں سوال نہیں اٹھایا جائے گا۔ ایسی شق کو clause ouster کہتے ہیں۔ عدالتوں نے ہمیشہ یہی قرار دیا کہ کوئی clause ouster ان کے اختیار سماعت کو چھین نہیں سکتی۔ یہ فیصلہ کرنا عدالتوں ہی کا کام ہے کہ ان کو اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ اس بارے میں کوئی دوسرا کچھ نہیں کر سکتا۔ اس بارے میں عدالتی فیصلوں میں تسلسل اور تواتر پایا جاتا ہے۔ پاکستانی ججوں کا اس نکتے پرمتواتر اجماع ہے۔ یہ واقعی ایک عظیم اجماع ہے۔ اس کی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے۔ سر دست ہمارے پیش نظر اس کا تاریخی پہلو نہیں۔ اعلیٰ عدالتوں نے اپنے اختیار سماعت کے بارے میں اس حریصانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔ یہ مغرب کی روایت ہے۔ اصول قانون بن چکا ہے۔ ہماری عدالتوں نے اسی کی پیروی کی ہے۔ اس کی ابتدا امریکہ کے چیف جسٹس مارشل نے کی۔
جنرل مارشل، پینتیس سال تک امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ امریکہ میں ججوں کا تقرر عمر بھر کے لیے ہوتا ہے۔ وہاں جج ریٹائر نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں تو ایک وردی پوش جرنیل، ایک فرمان کے ذریعے سپریم کورٹ کے سات سات ججوں کو گھر بھیج دیتا ہے۔ پھر بھی عدلیہ کی آزادی کا نعرہ لگاتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے، سپریم کورٹ میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ اس طرح عدالتوں میں وسیع ’’چھانٹی‘‘ کیسے مناسب ہو سکتی ہے تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ارشاد حسن خان صاحب نے دو لفظوں میں فیصلہ فرما دیا کہ یہ قصہ ماضی ہو چکا ہے۔ جو ہو چکا سو ہو چکا۔ اندازے کے لیے تفصیل اس طرح ہے کہ سید ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ کی تیرہ رکنی فل کورٹ، جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے جواز کے سوال پر سماعت شروع کر چکی تھی۔ ابھی تیسری پیشی میں چھ دن باقی تھے کہ پی سی او کے تحت حکم جاری ہوا۔ حلف میں کہا گیا کہ بعض زیر سماعت امور کے تحفظ کا حلف اٹھایا جائے۔ تیرہ میں سے سات ججوں نے حلف اٹھانے سے انکار کیا اور گھر چلے گئے۔ اس طرح تھوک کے حساب سے ججوں کو گھر بھیج کر اس ادارے میں کیا بچتا ہے۔ پی سی او کا حکم مورخہ ۲۵ جنوری ۲۰۰۰ء کو جاری ہوا۔ ۲۶ جنوری کو ججوں کا حلف ہوا۔ ۱۲ مئی ۲۰۰۰ء کو کیس کا فیصلہ ہوا اور اس چھانٹی کو قصہ ماضی matter of past قرار دے دیا گیا۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے صادر فرمایا۔ (۲) 
عدالتوں کے اپنے اختیار سماعت پر اصرار کی روایت کیسے قائم ہوئی؟ امریکہ میں بھی عدالتی جریت پر ناک منہ چڑھانے والے لوگ موجود ہیں، مگر وہاں عدالتیں جرا ت سے کام لیتی ہیں تو رائے عامہ ان کی پشت پر ہوتی ہے۔ عدالتیں لوگوں کو انصاف دیتی ہیں تو لوگ ان فیصلوں کو منوانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اسی حوالے سے چیف جسٹس کی بحالی کے حالیہ فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کے ایک سابق جج جناب جسٹس آفتاب فرخ نے کہا تھا کہ اگر لوگوں میں طاقت ہوئی تو وہ بحالی کے اس فیصلے کو اپنی طاقت سے منوا لیں گے۔
بہر صورت ستم یہ ہوا ہے کہ ہمارے ہاں اعلیٰ عدالتوں نے اختیار سماعت پر ہمیشہ اصرار کیا۔ اس سے عدالتوں کی انا کی تسکین تو ہوئی ہو گی مگر اختیار جتلاتے ہوئے اعلیٰ عدالتوں نے کبھی دادرسی فراہم نہیں کی۔ پبلک کو ہمیشہ غیر معمولی اور ماوراے آئین اقدامات کے خلاف دادرسی سے محروم ہی رکھا گیا۔ دادرسی سے انکار کے لیے عدالتوں نے مختلف عذر اختیار کیے۔ مارشل لا کے احکامات کے خلاف دادرسی سے انکار کے لیے نظریہ ضرورت اور کامیاب انقلاب کے اصول اختیار کیے گئے۔ حاکم خان کیس میں یہ نقطہ نظر اختیار کیا کہ دستور کی دو دفعات میں باہم تضاد کو دور کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ لہٰذا آرٹیکل ۴۵ کے تحت تھوک کے حساب سے سزا یافتگان کی سزاؤں کی معافی کے احکامات کے بارے میں آرٹیکل ۴۵کو غیر موثر قرار دے کر دادرسی نہیں ہو سکتی۔
ایک بہت چھوٹی عدالت کا لطیفہ بڑا معروف ہے۔ تحصیلدار کی عدالت میں ایک وکیل صاحب یہ عذر کر رہے تھے کہ تنازعہ مالی کے بجائے دیوانی نوعیت کے ہے، اس لیے عدالت سن نہیں سکتی۔ دوسرے فریق کے وکیل کہہ رہے تھے کہ عدالت سن سکتی ہے۔ بحث تکرار کے قریب پہنچنے لگی تو تحصیل دار صاحب ناراض ہو کر فرمانے لگے: 
’’یہ کیا فضول بات ہے کہ آپ دو گھنٹے سے بحث کر رہے ہیں کہ میں سن نہیں سکتا۔ حالانکہ میں سن رہا ہوں۔ کیا میں اپنی سماعت کے بارے میں کسی ای این ٹی سپیشلسٹ سے سرٹیفکیٹ لا کر دکھاؤں؟ بکواس بند کرو۔ میں سن رہا ہوں۔ بہرا نہیں ہوں۔‘‘
حاکم خان کیس میں بڑی دلیل یہ دی گئی کہ اعلیٰ عدالتیں دستور کی تخلیق ہیں لہٰذا وہ دستور کی کسی دفعہ کو غیر موثر یا منسوخ نہیں کر سکتیں۔
قانون و انصاف کا یہ بنیادی اصول ہے کہ ibi jus ibi remedium’’ہر ظلم و زیادتی پر دادرسی لازم ہے۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ قانونی اور عدالتی نظام کا بنیادی منشا ہر ظلم اور زیادتی پر دادرسی فراہم کرنا ہے۔ یہ تصور ہی محال ہے کہ زیادتی ہو اور اس کی دادرسی ممکن نہ ہو۔ قانون میں سقم اور کوتاہی، انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ قانون نہ ہو تو کامن لا کی روشنی میں انصاف کیا جائے گا۔ کامن لا بھی خاموش ہو تو روایت کی پیروی ہو گی۔ ایسا جج جو قانون میں کمی کی بنا پر انصاف فراہم کرنے سے گریز کرے، اسے قابل تعزیر گردانا جاتا ہے۔ اس سب کچھ کو ذہن میں رکھ کر سوال یہ ہے کہ اختیار سماعت بھی ہو اور پھر دادرسی نہ ہو، یہ ایک ایسی صورت ہے جس کو معمول بنا کر ہمارے ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے اپنی نفی خود کی ہے۔ اس روش کا نتیجہ یہ ہے کہ عدالتیں ظلم و عدوان کی محافظ بن گئیں۔ بالکل جس طرح پولیس کا پیشہ اپنی تشکیل کے لحاظ سے مقدس ترین پیشہ ہے۔ پولیس واقعتا محافظ ہو تو اس سے زیادہ عزت و احترام کے لائق کون ہو گا۔ مگر وہ اپنے طرز عمل کی وجہ سے نفرت اور حقارت کی علامت بن گئی ہے۔
ہماری عدالتیں انصاف و دادرسی کی فراہمی میں گریز کے متواتر عمل سے پبلک کا اعتماد کھو چکی ہیں۔ ۹ مارچ ۲۰۰۷ء سے پہلے کے جسٹس افتخار کے دور میں یہ صورت حال اپنی انتہا کو پہنچی۔ وکلا برادری نے سیاسی تنازعات میں اعلیٰ عدالتوں کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ قانون اور آئین کا سقم انصاف میں رکاوٹ ہو، مملکت خداد داد پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت انصاف، پارلیمنٹ سے سقم دور کرنے کی درخواست کرے تو انصاف ہو لیا۔ انتظامیہ پاکستان کے شہریوں کو گرفتار کر کے غائب کر دے، ڈاکٹر خواجہ احمد جاوید جیسے لوگوں کو نشانہ بنائے، ڈاکٹر قدیر احمد کی خدمات کا حشر کر دے تو عدالت پردہ فرما جائے، انتظامیہ کو کھلا چھوڑ دے۔ مسجد و مکتب پر ساری دفاعی طاقت لے کر چڑھ دوڑے تو عدالت عظمیٰ از خود نوٹس کی سماعت کرتی رہے اور سینکڑوں معصوموں کو خون کا غسل دے کر، بارود میں راکھ کر دیا جائے۔ مملکت کی سرحدوں کو پائمال کرنے اور اپنے وفادار قبائلیوں کو نیٹو فورسز اور ہماری بہادر اور مسلح افواج باری باری نشانہ بناتی رہیں، عدالت عظمیٰ فوج کو کوئی حکم دینے سے گریز کا فیصلہ صادر فرما دے۔ مملکت کی دینی اور نظریاتی حیثیت، لوگوں کے حقوق، جان، مال، عزت، آزادی ، حکومت اور شوریٰ کی نمائندہ حیثیت اور وفاق کے علاقوں کی سا لمیت خطرے میں ہو، اعلیٰ عدالتیں اس سب کچھ سے چشم پوشی کر کے انصاف کے چوغے اور ٹوپیاں پہنے، اپنے پروٹو کول میں مسحور رہیں تو ایسی عدالتوں کا لوگ کیا کریں گے۔
یہ گھمبیر صورت حال کیسے برقرار رہ سکتی ہے۔ چیف جسٹس کو اس کو بدلنے کی ضرورت کا احساس تھا۔ چنانچہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس سمت میں سفر شروع کیا۔ چند اہم کیسوں میں حکومت پر گرفت کر کے پبلک بد اعتمادی کی صورت کو بہتر بنایا، مگر یہ صورت حال وردی پوش حکومت پر سخت گراں گزری۔ پھر جو صورت حال پیدا ہوئی وہ سامنے ہے۔
یہ واضح رہے کہ داد رسی کی فراہمی میں کوئی امر مانع نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ قانون میں سقم بھی موجود ہو، قانون دادرسی فراہم کرنے کے لیے کوئی راستہ تجویز نہ کرتا ہو، تب بھی دادرسی کی فراہمی سے عدالتیں انکار نہیں کر سکتیں۔ عدالتیں انصاف کے لیے ہیں، قانون کے لیے نہیں۔ عدالت، عدالت ہے۔ عدالت اور انصاف مترادف ہیں۔ انصاف نہیں تو عدالت، عدالت نہیں، سوسائٹی کے ساتھ مذاق ہے۔ خاص طور پر یہ اصول سامنے رہنا چاہیے کہ ماتحت عدالتیں عدالت ہائے قانون ہیں مگر اعلیٰ عدالتیں، عدالت ہائے انصاف ہیں۔ قانون کو قانون ماننا اور کس طرح ماننا مقننہ کا کام نہیں۔ قانون کی تشریح اور تعبیر عدالت ہی کا منصب ہے۔ قانون کیا ہے کیا نہیں، یہ بھی عدالت ہی طے کرتی ہے۔ اسی وجہ سے اعلیٰ عدالتوں کو عدالت ہائے قانون کے بجائے عدالت انصاف کہا جاتا ہے۔ اور سپریم کورٹ تو انصاف کی اعلیٰ ترین عدالت ہے۔ سپریم کورٹ میں انصاف نہ ہو تو مطلب یہ ہوا کہ انصاف حشر کے لیے اٹھا رکھا گیا۔ حشر کے روز تو انصاف ہو گا مگر یہاں انصاف سے انکار کر کے اعلیٰ عدالتیں حشر میں جواب دہی کا موقع باقی رکھ سکتی ہیں؟ یہ امر کتنا خوف ناک ہے۔ کوئی مسلم جج خواہ وہ کتنا ہی گناہ گار اور کمزور ہو، یہ قرار دے سکتا ہے کہ میں یہاں انصاف نہیں کر سکتا، حشر کے دن انصاف ہو گا اور میں وہاں انصاف نہ کرنے پر جواب دہی کر لوں گا؟
اعلیٰ عدالتیں قانونی اور آئینی سقموں کے باوجود اپنی اجتہادی بصیرت کی مدد سے تعبیر و تشریح اور آخری چارہ کار کے طور پر تکمیل خلا کے اصول کو بروئے کار لا کر کامل انصاف کرنے کی ذمہ دار و پابند ہیں۔ انصاف کی فراہمی میں تحریری قانون کی عدم موجودگی یا اس میں سقم کورکاوٹ بنانا، تحریری قانون کی محتامی اور غلامی ہے۔ دور جدید کے قانونی نظام کی ماں، برطانیہ میں تو مملکت کا آئین بھی غیر تحریری ہے۔ روایات پر مملکت چل رہی ہے۔ ہماری روایات تو ان سے بھی اعلیٰ ہیں۔ یہاں میں اسلامی تاریخ کی ایک ہزار سالہ روایت کا تذکرہ کروں گا۔
’’اسلام میں ایک روایت (tradition) عجیب و غریب رہی ہے جو کسی اور قوم میں ہمیں نظر نہیں آتی۔ یعنی اور ممالک میں قانون سازی حکومت کا اجارہ ہوتی ہے، جب کہ اسلام میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے بعد یہ چیز کبھی یوں نہیں رہی۔ اسلامی قانون کا یہ اصول ہے کہ عدالت کو حکومت سے آزاد رہنا چاہیے۔ یہ اصول مغرب میں بھی قبول کر لیا گیا ہے اور ہمارے ہاں بھی برقرار اور جاری ہے۔ اسی طرح عہد نبوی کے بعد سے لے کر آج تک اسلام میں قانون سازی ایک پرائیویٹ چیز رہی ہے۔ اس پر کبھی حکومت کا اجارہ monopoly نہیں رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان فقہا پوری آزادی کے ساتھ قانون کی ترقی میں مشغول رہے۔ قانون سازی صرف حکومت کی پارلیمنٹ تک محدود نہیں رہی، ورنہ اسلامی قانون کی ترقی اس طرح نہیں ہو سکتی تھی جس طرح عمل میں آئی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اسلام کا یہ اصول، قانون اور حکم ہے مگر یہ اسلامی روایت (tradition) ہے۔ .... ورنہ حکومت کی سیاسی ضرورتوں کی وجہ سے قانون متاثر ہوگا۔اگر میں وزیر قانون ہوں تو صدر مملکت کی ضرورت اور بعض وقت اس کی منشا کا لحاظ کر کے مسودہ قانون پارلیمنٹ میں پیش کروں گا اور اپنے اثرات ڈال کر، کہ میں اکثریتی پارٹی یا حکومتی پارٹی کا لیڈر ہوں، اپنے ارکان کو حکم دوں گا کہ وہ مسودہ قانون کے خلاف رائے نہ دیں۔ اس صورت میں اکثریت کی رائے سے جو قانون بنے گا، وہ سیاسی ضروریات سے متاثر ہو گا۔ ‘‘ (۳)
استدلال کی حاکمیت sovereignty  اصل الاصول ہے۔ سنجیدہ مسائل پر اہل رائے کے ما بین بحث و تمحیص ہوگی۔ سڑکوں اور گلیوں پر سنجیدہ مسائل لا کر نظم عامہ میں خلل نہیں ڈالا جا سکتا۔ اہل علم او راہل رائے ہر سطح پر بحث کریں گے۔ اس کی کوئی حد نہیں۔ استدلال گروہی اور دوسرے جملہ تعصبات سے بالا تر ہو کر پیش کیا جائے گا اور سنا جائے گا۔ کہنے کا موقعہ ہر ایک کو حاصل ہو گا۔ اس کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ فیصلہ کثرت رائے پر نہیں بلکہ استدلال پر ہو گا۔ بحث میڈیا پر بھی ہو سکتی ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی خوب کھل کر بحث ہو گی۔ مگر فیصلہ رائے شماری کے بجائے استدلال کے وزن پر ہو گا۔ اسپیکر فیصلے میں طاقت ور استدلال کو قبول کرے گا اور کمزور استدلال کو رد کر دے گا۔ سپیکر کا کردار مکمل طور پر عدالتی نوعیت کا ہو گا۔ اسے شمار کنندہ کا کردار ادا کرنے کے بجائے ذہن کو بروئے کار لا کر پیش کردہ دلائل پر کھلی اور سیر حاصل بحث کے بعد استدلال کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوگا۔
استدلال ہی کی بنا پر عدالتوں کے اختیار پر کوئی پابندی نہیں ہو گی۔ وہ مکمل انصاف کے لیے آزاد ہوں گی۔ ججوں کے ہاں بھی کثرت و قلت کے لحاظ سے فیصلے نہیں ہوں گے۔ کھلی اور مکمل عدالتی بحث کے دوران ہی باہم مشاورت اور بحث کے بعد استدلال کی بنا پر فیصلے سناتے رہیں گے۔ پھر فیصلے پر نظر ثانی کے لیے ذہنوں کو ہمیشہ کھلا رکھا جائے گا۔ غلط فیصلے کو بدلنے میں کسی ہچکچاہٹ کا کوئی سوال ہی نہیں۔ استدلال کی حاکمیت قانون اور ضابطے کی بنیاد ہو گی تو بات بنے گی۔ سید امیر علی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خراج تحسین و عقیدت پیش کرتے ہوئے ایسی بات کہہ دی ہے کہ اس پر پور ایک نظام فکر مرتب ہونا چاہیے۔ 
He (the Prophet Muhammed (PBUH) upheld the sovereignty of reason.
’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے استدلال کی حاکمیت قائم کی۔‘‘
اجتہاد کی بنیاد نص کی حدود میں استدلال ہے۔ اس پر کسی کی اجارہ داری نہیں۔ کسی فرد، طبقے، ادارے، یہاں تک کہ پارلیمنٹ کی بھی نہیں۔ علماے دین کا بھی ہمارے ہاں اس پہلو سے کوئی اجارہ نہیں مانا جا سکتا۔ میں یہاں تک کہوں گا کہ استدلال ایک غیر مسلم کا بھی ہو تو اسے اسلامی احکام و قانون کے تعین میں سنا جائے گا۔ اسے اس کا حقیقی وزن دیا جائے گا۔ استدلال کو تسلیم کرنے کا اصول وہ گم گشتہ متاع ہے جسے ہاتھ میں لیے بغیر ہمارے دن نہیں بدلیں گے۔
برطانیہ میں غیر تحریری دستور پر مملکت کا پورا نظام چل سکتا ہے۔ قانون کے خلا کو کامن لا سے پر کر کے اپنی سوسائٹی کو بے انصافی سے بچایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اسلامی روایت کو اختیار کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری سوسائٹی زیادہ مظلوم ہے۔ اس طرح انصاف کی زیادہ محتاج ہے۔ ہماری عدالتوں کو تو انصاف کے لیے زیادہ جری ہونا چاہیے۔ عدل و انصاف کی ساری قدریں تو ہم سے اہل مغرب لے گئے ہیں۔ عدل و انصاف کی اصل، استدلال ہے۔ کسی بنچ میں ایک سے زائد جج ہوں تو ہماری روایت کی رو سے وہ کثرت رائے کے بجائے استدلال کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتیں استدلال کی بنیاد پر اپنے فیصلوں کو بدل لیتی ہیں۔ آج ہم اپنی اصل روایت کی جانب رجوع کرنے کے بجائے، بلا سوچے سمجھے مغرب کی پیروی کریں۔ کثرت و قلت فیصلے کی بنیاد کیسے ہو سکتی ہے؟
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے
استدلال کی قوت سے آج پورے عالم اسلام میں امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کا مسلک غالب ہے۔ استدلال کی قوت خوشبو کی طرح پھیلتی ہے۔ کوئی رکاوٹ اس کے پھیلنے میں حائل نہیں ہوتی۔ جبر کی تمام طاقتیں اپنے تمام تر جبر و قہر کے ساتھ تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتی ہیں۔ آج عدالتیں استدلال کی قوت کو اختیار کر کے پبلک کو انصاف فراہم کریں تو لوگوں میں اتنی قوت پیدا ہو جائے گی کہ وہ عدالتوں کے مبنی بر انصاف فیصلوں کو منوا سکیں۔ کسی جابر و قاہر کو عدالت کا فیصلہ تسلیم کرنے کی ضمانت اور اعلان کی ضرورت نہیں ہو گی۔ شرط انصاف ہے۔
آج ہماری عدالتیں انصاف کے لیے بے خوف اور جری کیوں نہ ہوں؟ ہماری سوسائٹی ساٹھ سال سے ظلم و تعدی سے چور چور ہو چکی ہے۔ خود چیف جسٹس نے انصاف کے لیے سوا چار ماہ گلیوں اور سڑکوں کی خاک چھانی ہے۔ اس مملکت خدا داد پاکستان میں کون سا دن ظلم و عدوان سے خالی آیا ہے؟ کوئی دن تو ایسا بتائیں جب یہاں فر د واحد نے ظلم، بدعنوانی، لوٹ مار، بیرونی آقاؤں کی خوشنودی اور آمرانہ روش سے ہٹ کر حکمرانی کی ہو۔ کون سی جماعت ہے جہاں جمہوریت، انصاف اور نظریے کی اقدار کا سکہ رواں ہو؟ فوجی حکمرانی کی طویل رات نے پوری سوسائٹی کو تار تار کر رکھا ہے۔ ہر آنے والا حاکم پہلے سے زیادہ ظالم ہے۔ ہماری مختصر تاریخ میں حکمرانوں کا مقابلہ فرعونیت میں آگے بڑھ جانے میں ہوا ہے جہاں ہر کوئی نظریے کو دفن کرنے کے درپے ہے۔ ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے والے نوے ہزار فوجیوں کی وردیاں اور اعزازات آج بھی بھارت کے عجائب گھر میں سجے ہوئے ہیں۔ وہ منظر کیسے بھلایا جا سکتا ہے جب بھارتی فوج کے سربراہ جنرل اروڑہ سنگھ نے جنرل نیازی کے سینے پر سجے ہوئے تمغے اپنے ہاتھوں سے نوچے۔ کارگل کی کی چوٹیوں پر لاشیں چھوڑ بھاگنے والے، ایک مسجد اور مدرسے میں بے گناہوں اور نہتے بچوں، بچیوں اور معصوموں پر سینکڑوں کی نفری ، ۱۶۴ تربیت یافتہ کمانڈوز کی مدد سے حملہ کریں۔ ہمارے یہ بہادر کسی ایک کو بھی زندہ نہ پکڑ سکیں۔ مسجد و مدرسہ فتح کر لینے کے بعد پھر لاشوں اور ملبے تک کو غائب کر دیاجائے۔ آپریشن کے دوران فوج کے ترجمان میجر جنرل وحید ارشد مسجد سے فرار ہونے والوں کے حوالے سے بار بار یہ کہیں کہ فرار ہونے والوں کو مارا جاتا ہے، پکڑا نہیں جاتا۔
آپریشن کے دوران میڈیا کو باہر کہیں دور پابند کر دیا جائے۔ آپریشن مکمل کرنے کے چار دن بعد اسلحے کی دکان خود سجا کر اہل مدرسہ کو دہشت گرد ثابت کیا جائے۔ اس خونچکاں آپریشن کے دوران کسی کو محصورین سے ملنے، ان کے پاس جانے کی اجازت نہ دی جائے، تاکہ معاملہ سلجھنے کی صورت میں دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد، بش کی تولیت سے محروم نہ ہونا پڑے۔ ان جملوں کا یہ مطلب نہیں کہ پوری فوج کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے، حقیقت میں ذمہ دار تو قیادت ہو گی۔ بہرحال ایسے میں عدالتیں فنی رکاوٹوں کی آڑ میں انصاف فراہم کرنے سے گریز و حجاب کی راہیں اختیار کریں تو حشر ہونے میں کتنی دیر ہے۔
وہ ملک جہاں ایک شخص کا فرمان چلنے کی روایت جڑ پکڑ چکی ہو، ایک شخص کے اقتدار کی خاطر معصوم لوگوں کا قتل عام تک سے گریز نہیں کیا جاتا۔ ایسا ایک بار نہیں ہوا۔ ہماری ساٹھ سال کی تاریخ میں ایسے حادثات کئی بار ہوئے ہیں۔ شخصی اور فوجی حکمرانی کی طویل شب ظلمت جائز ہے تو قانون سازی پر اجارہ توڑنے میں کیا حرج ہے؟ کتنی بے شرمی سے صدر مملکت فرماتے ہیں کہ وہ وردی میں ہی انتخاب لڑیں گے اور کئی سیاسی رہنما کہتے ہیں، صدر کو سو بار وردی میں منتخب کیا جا سکتا ہے۔ جہاں ہر حکمران، اپنے آپ کو مملکت کے لیے ناگزیر سمجھے، وہاں قانون پر پارلیمنٹ کا اجارہ بے حکمتی کی انتہا سے کم نہیں ہوگی۔ 
آج تک اعلیٰ عدالتوں نے اپنے اختیار سماعت پر اصرار کیا ہے مگر حاکم خان کیس میں، جب مسئلہ مملکت کے اساسی نظریے اور اصولوں کو موثر کرنے کا آیا تو سپریم کورٹ اپنے اختیار سماعت سے پارلیمنٹ کے حق میں دست بردار ہو گئی۔
سب مانتے ہیں کہ قانون کی تشریح عدلیہ کا کام ہے۔ سوال یہ ہے کہ دستور کی تشریح کون کرے گا؟ یہ عدالت ہی نے کرنا ہے۔ اس غرض کے لیے کوئی دوسرا ادارہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ قانونی اور آئینی سقموں پر قانون ساز اداروں سے ان سقموں کو دور کرنے کی فدویانہ درخواستیں کرنا عدالت کے منصب سے فرو تر ہے۔ عدالت کسی فیصلے میں ایسی سفارش نہیں کر سکتی۔ اعلیٰ عدالتوں نے اس کی روایت قائم کی ہے مگر دستور میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ عدالت کا منصب ایڈوائزری نوعیت کا ہو ہی نہیں سکتا۔ عدالت اپنے منصبی تقاضوں کی رو سے مکمل انصاف کرنے کی اہل ہے۔ حاکم خان کیس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ دستور کی تخلیق ہیں۔ اس بنا پر اگر دستور کی کوئی دفعہ مملکت کے اساسی نظریے یا احکام الٰہی سے متصادم ہو تو وہ اس کو چھیڑ نہیں سکتیں۔ یہ بات بالکل بے معنی اور لغو ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ ہمارے ہاں اعلیٰ عدالتوں کو دستور کی تخلیق کیسے کہا جا سکتا ہے۔
اہم تر بات تو یہ ہے کہ ہماری مملکت، حقیقت میں ابھی تک مملکت بے آئین ہے۔ اس بے آئینی کے باوجود عدالتیں قائم و دائم ہیں۔ اعلیٰ عدالتیں ہر دستور اور آئین سے پہلے سے قائم ہوئیں۔ آئین ٹوٹتے رہے، منسوخ ہوتے رہے، ان کی معطلی آئے دن کا کھیل بنا رہا۔ ہر آرمی چیف آئین کی بساط لپیٹ دینے کو تیار رہا۔ عدالتوں نے آئین کے تحفظ کے حلف کے باوجود ان کا تحفظ نہ کیا۔ فوج کے سربراہوں نے تو آئین توڑنے کے لیے اتنا تکلف بھی نہ کیا جتنا ان کو اپنی وردی بدلنے میں کرنا پڑتا ہے۔ جنرل ضیا ء الحق نے تو صاف لفظوں میں کہا تھا کہ آئین کیا ہے، چند صفحات کی کتاب ہی تو ہے، اسے لپیٹ دینے میں کیا دیر لگتی ہے۔ وہ اسے آسمانی صحیفہ ماننے کو تیار نہ تھے۔ آج کے حکمران دستور اور آئین کا کتنا احترام کرتے ہیں؟ مملکت وفاقی ہے۔ صدر مملکت سربراہ مملکت ہیں۔ وزیر اعظم چیف ایگزیکٹو ہیں۔ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ صدر کے سوا کوئی دوسرا کٹھ پتلی جتنی حیثیت بھی نہیں رکھتا۔ صدر نے پوری مملکت کو یرغمال بنا یا ہوا ہے۔ پھر بھی دستور کی باتیں کی جاتی ہیں۔ کیا اعلیٰ عدالتوں کو یہ حقائق جن سے پوری دنیا آگاہ ہے، دکھائی نہیں دیتے؟
بے آئینی اور لا دستوری پن کی اس کیفیت کے باوجود عدالتیں قائم رہیں۔ عدالتیں قائم رہیں گی۔ اب تک ان پر کوئی حرف آیا اور نہ آئے گا۔ ان کی جگہ کوئی دوسرا نظام آیا ہے اور نہ ہی آ سکتا ہے۔ اعلیٰ عدالتیں آئین کی تخلیق نہیں بلکہ عدالت معنوی طور پر عدالت ہے۔ انصاف کے لیے ہے۔ عدالتوں کی وجہ سے قانون یا آئین کا وجود ہے۔ ساٹھ سال سے غاصبانہ احکام کو قانون کے درجہ عدالتوں کی وجہ سے ہی تو حاصل ہے۔ یہ کہنا بالکل فضول بات ہے کہ آئین اور قانون کی وجہ سے عدالتیں قائم ہیں۔ اگر اس بات کو مان لیا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ دستور میں ترمیم کر کے عدلیہ کو ختم abolish کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ قرار دینا مذاق والی بات ہے۔ کبھی کوئی عدالت یہ نہیں کہہ سکتی۔
عدالتوں کو اس بات پر یکسو ہو جانا ہو گا۔ اس یکسوئی کے بغیر عدل و انصاف کی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ عدل و انصاف کے بغیر معاشرے نہیں رہ سکتے۔ ہمارے لیے یہی راہ نجات ہے۔
عدل و انصاف کی بربادی کی تمام تر ذمہ دار انتظامیہ اور حکومت ہے۔ انہوں نے آئین اور قانون کو کبھی احترام ہی نہ دیا۔ تاریخ کو آواز تو دیں۔ ۴۷ سے ۵۸ تک اکھاڑ پچھاڑ رہی۔ اس اکھاڑ پچھاڑ کے پیچھے کون رہا؟ صرف اور صرف ایک شخص۔ وہی شخص فوجی اقتدار کا پودے لگانے والا تھا۔ قائد اعظم اس شخص کو اس کی کار کردگی اور کردار کی وجہ سے سخت نا پسند کرتے تھے۔ اسے بطور سزا مرکز سے دور مشرقی پاکستان میں تعینات کیا گیا، مگر لیاقت علی خان نے اس کے خوشامدانہ طرز عمل سے متاثر ہو کر میرٹ کے خلاف فوج کا سربراہ بنایا۔ واضح ہے کہ یہ شخص ایوب خان تھا۔ آرمی چیف بن کر وہ ہر طرح کی محلاتی سازشوں میں شریک ہوا۔ 
ایوب خان ہر سازش میں بڑے کردار کے طور پر سامنے آئے۔ اس کے لیے اس کی خودنوشت Friends Not Masters میں کافی شواہد موجود ہیں۔ آخر کار وہ پس پردہ سازشوں سے نکل کر میدان عمل میں آئے اور ۱۹۵۸ء کا مارشل لالگوا کر مملکت خدا داد پاکستان پر قابض ہو گئے۔ چوکیدار نے گھر کا انتظام و انصرام سنبھال لیا۔ وہ دستور دہندہ بھی بن گیا۔ ۱۹۶۲ء کا دستور اسی کا عطیہ تھا۔ ۱۹۶۲ء کے دستور کو کس اصول کے تحت دستور مانا جا سکتا ہے؟ ایوب خان کو کیا حق تھا کہ وہ مارشل لا لگاتا اور دستور عطا فرماتا؟ کیا ایوب خان نے فوج کی مدد سے پاکستان فتح کر کے ہمیں عطا فرمایا تھا کہ ان کو دستور دہندہ مان لیا جائے؟ یہ حیثیت تو بابائے قوم، قائد اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمہ نے بھی claim نہیں کی تھی۔ ۱۹۶۲ء کے دستور کو جائز تسلیم کرنے کے لیے کسی قانون، دلیل، اصول کا حوالہ نہیں دیا جا سکتا۔
ایوب کے پورے دور میں ایمر جنسی نافذ رہی۔ دوسرے لفظوں میں حکمرانوں نے اپنے تئیں بنیادی حقوق معطل کیے رکھے۔ مزید برآں ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ء کو ایوب خان نے خود اپنے ہی دستور کی نفی کرتے ہوئے اقتدار مسلح افواج کے سربراہ آغا جنرل محمد یحییٰ خان کے سپرد کر دیا۔ قوم نے تو ایک دن بھی ۱۹۶۲ء کے دستور کو تسلیم نہ کیا۔ صرف اور صرف عدالتوں نے نظریہ ضرورت کی آڑ میں اسے جواز عطا فرمایا۔ ہماری قوم نظم عامہ کو خراب کرنے کا کوئی رجحان نہیں رکھتی۔ صرف اس وجہ سے بے آئینی کی کیفیت کے خلاف کبھی بغاوت نہیں کی۔
یحییٰ خان کے مارشل لا کے بعد بھٹو صاحب کا سول مارشل لا، عبوری دستور جو مارشل لا کی دوسری صورت تھی، نافذ رہا۔ اپوزیشن نے اسے تسلیم کیا۔ ہمارے قومی نمائندوں نے کبھی اصولی کردار ادا کرنے کے بجائے اصولوں پر سمجھوتے کو ہی شعار بنایا۔ ۱۹۷۳ء کا دستور متفقہ طور پر بنایا گیا۔ اس میں بھی بہت سے سمجھوتے کیے گئے۔ کچھ وعدوں پر بعض باتیں مان لی گئیں۔ پھر بھٹو صاحب نے دستور میں یک طرفہ ترامیم کے ذریعے دستور کا حلیہ بدل دیا۔ ساتھ ہی اپنے دور حکومت کے اختتام تک ایمر جنسی لگائے رکھی۔ اس پورے دور میں ایک دن بھی ایمرجنسی کے بغیر نہ گزرا۔ بعد کے ادوار تازہ ہیں۔ مارشل لا یا نیم مارشل لا جیسی صورت حال اب تک چل رہی ہے۔ اس سارے عرصے میں ایوب خان کو کسی موقعے پر روکنے کا فرض عدالتوں پر تھا یا نہیں؟
اس طویل پس منظر کو ایک جانب رکھ کر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اعلیٰ عدالتیں دستور کی پیدا وار ہیں۔ وہ ہمیشہ سے قائم ہیں اور قائم رہیں گی۔ قانونی نظام میں تبدیلی کے ساتھ ان کی توثیق اور آشیر باد حاصل کی جاتی رہی۔ قانونی نظام کا سرچشمہ عدالتیں رہی ہیں۔ جواز انہوں نے دیا۔ سادہ بات ہے کہ دستور منسوخ ہو یا ٹوٹے، عدالتیں قائم رہیں۔
فوجی حاکمیت کو جواز فراہم کرنے میں ہماری عدلیہ نے جس فراخ دلی سے کام لیا ہے، اس کے بعد اب بدلے ہوئے حالات میں ہمیں اپنی اصل، اسلامی روایت کی جانب لوٹنا چاہیے۔ قانون سازی پر پارلیمنٹ کی اجارہ داری بھی ختم ہو جانی چاہیے۔ استدلال کی حاکمیت ہماری حقیقی متاع ہے ۔ حالات کی چارہ گری اس کی جانب رجوع میں ہے۔ سپریم کورٹ کا حاکم خان کیس میں یہ کہنا کہ پارلیمنٹ دستور کی درستی جیسے سنجیدہ کام کے لیے بہتر کردار ادا کر سکتی ہے، پارلیمنٹ کی ساٹھ سالہ قانون سازی کی کار کردگی سے آنکھیں بند کر لینے کا نتیجہ ہے۔ قانون سازی میں ہماری عدالتوں اور مجالس قانون نے فوجی قدامات کی توثیق و اتباع کے سوا کیا کیا ہے؟ در اصل فوج نے ہر ادارے کو اپنے تابع کر کے بالکل بیکار کیے رکھا۔ اب فوج بھی مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔ فوج کا دور ختم ہو گیا ہے۔ عدلیہ کا دور شروع ہو چکا ہے۔ عدالتی رہنمائی میں تمام اداروں کی ترتیب نو پیش نظر ہے۔
قرار داد مقاصد میںیہ مقاصد واضح ہیں۔ مملکت کا نظریاتی اور دینی تشخص، نمائندہ حکومت اور شوریٰ، ملکی سا لمیت کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری قرار پا چکاہے۔ عدلیہ ان امور کے لیے مکمل طور پر آزاد ہے۔ انصاف کے لیے معاملات پارلیمنٹ پر چھوڑ دیے جائیں، ملکی سرحدوں اور سالمیت کے لیے صدر اور فوج پر انحصار کر لیا جائے، اگر یہی کچھ کرنا ہے تو ہمیں رضاکارانہ طور پر مملکت کے وجود سے ہی دستبردار ہو جانا چاہیے۔ یہ عافیت، روشن خیالی اور ترقی کی راہ ہوگی۔ رہی حمیت، غیرت، آزادی، دین، یہ کاغذی باتیں ہیں۔ اس زبانی جمع خرچ سے قومیں باقی رہتی ہیں؟
۲۰ جولائی ۲۰۰۷ء کے بعد جو دور شروع ہو رہا ہے، وہ ایک نئی صبح کی نوید بن سکتا ہے۔ عدالتیں اپنے چیف جسٹس کے ساتھ یک جان ہو کر کھڑی ہیں۔ وکلا برادری ان کے ساتھ ہے۔ عدلیہ کی آزادی کا خواب پورا ہوتا نظر آتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ستم رسیدہ قوم کی سن لی ہے۔ سیاستدان حالات کے تقاضوں کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ ان کے انداز پرانے ہی ہیں۔ حکمرانوں میں طاقت کا بھوت ناچ رہا ہے۔ ایسے میں قانون اور دستور میں پائے جانے والے سقم، جو انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں، ان کو دور کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے کردار کا انتظار بلا جواز اور معقولیت سے عاری ہو گا۔ انصاف کے مسلمہ اصولوں کی نفی ہو گی۔ محض اختیار سماعت جتلانے پر اطمینان کافی نہیں ہوگا۔ ہم اوپر کہہ چکے ہیں کہ قرار داد مقاصد کے نفاذ میں تو عدالتوں نے اپنے اختیار سے بھی پیچھے ہٹ کر ایک متواتر اجماع کو چھوڑ دیا ہے۔ یہ بات عدالتی منصب کے سرا سر منافی ہے۔ نئے حالات میں اعلیٰ عدالتیں ایسا نہیں کر سکتیں۔ ان کو اپنی ذمہ داری بہرصورت پورا کرنا ہوگی۔
ہم اوپر کہہ چکے ہیں کہ ہر ظلم و زیادتی پر داد رسی لازم ہے۔ یہ عدالت کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے عدالتیں معرض وجود میں آئیں اور قائم ہیں۔ نمائندہ حکومت اور نظریاتی اساس کا تحفظ، یہ دو بنیادی انحراف ہیں جو قرار داد مقاصد سے کیے گئے ہیں۔ جنرل پرویز کے دور نا مشرف میں ملکی سا لمیت کو بھی خطرات درپیش ہیں۔ خیبر پار سے آئے دن ہماری آبادیوں اور علاقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کے کمانڈرز قبائلی علاقوں میں دور دور تک معائنے کے لیے جاتے ہیں۔ امریکی ذمہ داران آئے دن دھمکیوں سے نواز رہے ہیں۔ مسجد و مدارس کا تقدس، ان میں محصور بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور طلبہ کو فاسفورس بموں سے جس طرح بھسم کیا گیا ہے، اس سے ظلم کی حدیں ختم ہو گئی ہیں۔نئے دور کے تقاضے یہ ہیں کہ ظلم کو حدوں کے اندر ہی نہ لایا جائے بلکہ مکمل انصاف کیا جائے۔ اس عمل تعدیل میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہونے دی جائے۔ سب سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ فوج کی وردی میں بر سر اقتدار غاصبان اقتدار کو لگام دی جائے۔ اس کی ایک ہی صورت ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس یعقوب علی خان کے الفاظ یہاں درج کرنا چاہوں گا: 
''let it be laid down firmly that the order which the usurper imposes will remain illegal and Courts will not recognize its rule and act upon them as dejure. As soon as the first opportunity arises, when the coercive apparatus falls from the hands of the usurper, he should be tried for high treason and suitably punished. This alone will serve as a deterrent to would be adventurers.''
’’میرے نزدیک جو شخص ہمارے قومی اور قانونی نظام کو ناجائز طور پر توڑتا ہے، وہ قانون بنانے کا جائز ذریعہ نہیں بن سکتا۔ اس کے جابرانہ نظام کی وجہ سے عوام اور عدالتیں عارضی طور پر خاموشی اختیار کر سکتی ہیں مگر یہ واضح ہو جانے دیں کہ وہ غاصب جو نظم قائم کرے گا، ہر لحاظ سے غیر قانونی رہے گا۔ عدالتیں اس کے حکم اور طرز عمل کو کبھی جائز تسلیم نہیں کریں گی۔اس کے جابرانہ کنٹرول کے ہٹتے ہی اس پر بغاوت کا مقدمہ چلا کر مناسب سزا دی جانی چاہیے۔ آئندہ غاصبانہ مہم جوئی کا راستہ روکنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔‘‘ (۴)
قرار داد مقاصد کے قابل نفاذ ہونے کی بحث کے سلسلے میں حاکم خان کیس کے فیصلے سے جسٹس عبد الشکور السلام کی یہ سطور نقل کر کے بات کو ختم کرنا چاہتا ہوں:
’’کسی آرٹیکل کا آرٹیکل ۲۔الف سے تصادم ہو تو اس کا مناسب طریقہ قاعدے کے مطابق دستوری ترمیم ہے۔ لیکن اس کے باوجود عدالتوں کو آرٹیکل ۲۔الف کے دستور کے موثر جزو بنانے کے بعد اس کو نافذ کرنے کی ذمہ ختم نہیں ہو جاتی۔ دستور ایک نامیاتی کل ہے۔ اس کے تمام تر آرٹیکلز کی اس طرح تعبیر کرنا ہو گی کہ اس کی روح موثر ہو اور تمام دفعات میں توازن ہو۔‘‘ (۵)

حوالہ جات

(۱) پی ایل ڈی ۲۰۰۰ سپریم کورٹ ۸۶۹
(۲) ڈاکٹر حمید اللہ خان، خطبات بہاولپورصفحہ ۱۴۲،۱۴۳
(۳) پی ایل ڈی ۱۹۷۲ء سپریم کورٹ ۱۳۹ صفحہ ۲۴۳ 
(۴) حاکم خان کیس پی ایل ڈی ۱۹۹۲سپریم کورٹ ۵۹۵ صفحہ ۶۳۶
(۵) حاکم خان کیس پی ایل ڈی ۱۹۹۲سپریم کورٹ ۵۹۵ صفحہ ۶۲۰

مثالی حکمران کے اوصاف اسوۂ فاروقی کی روشنی میں

مولانا مشتاق احمد

آزادئ فکر، آزادئ اظہار، قانون کی بالادستی، خود احتسابی، عدل وانصاف، قومی خزانہ کی حفاظت، خوشامدیوں سے دوری، ہدیہ قبول کرنے سے انکار، سادگی، خوف خدا، اچھے رفقا کی عہدوں پر تقرری، اصول مساوات، عوام کی تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ایک اچھے مسلمان حکمران کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ اسلامی تاریخ کے نامور حکمران خلیفہ راشد حضرت سیدنا عمربن خطابؓ ان تمام مذکورہ اوصاف سے متصف تھے۔ ذیل میں ان کے زمانہ خلافت کی چند جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ واقعات سید عمر تلسانی کی کتاب’’عمر بن الخطاب‘‘ کے اردو ترجمہ اور علامہ شبلی نعمانی کی ’’الفاروق‘‘ سے منتخب کیے گئے ہیں۔

خود احتسابی

آپ کے دل میں اگر کبھی کوئی غیر پسندیدہ خیال آتا تو اسے سختی سے جھٹک دیتے، اپنے آپ کو ڈانٹ پلاتے اور اپنا محاسبہ خود کرتے تھے۔ ایک مرتبہ سورہ عبس کی آیت ’فاکہۃً وابّا‘ پڑھی تو دل نے کہا یہ ’ابا‘ کیاہے؟ فوراً سنبھلے۔ دل سے کہا یہ تکلیف کیوں؟ تجھے اگر یہ معلوم نہ ہو کہ ’ابا‘ کیاہے تو اس سے تیرا کون سا عمل ناقص رہ جائے گا۔ یعنی قیامت کو جن باتوں کے بارے میں پوچھ ہوگی، وہ معلوم ہیں تو اپنا عمل درست کر لو اور اس باز پرس کی فکر کرو۔

قانون کی بالادستی

آپ نے فرمایا کہ جس کسی پر کوئی امیر یا گورنر کوئی زیادتی کرے، وہ مجھے اس کی اطلاع دے، میں اس سے بدلہ دلواؤں گا، چنانچہ جب امرا کسی شخص پر زیادتی کرتے تو ضرور ان سے بدلہ دلوایا جاتاتھا۔ آپ نے بطور حاکم اپنی ذمہ داری ور رعایا کے بنیادی حقوق کا اعلان فرماتے ہوئے کہا: ’’اگر میرے کسی عامل نے کسی شخص پر ظلم کیا اور مجھے اس کی اطلاع مل گئی اور ا س کے باوجود میں نے مظلوم کی داد رسی نہ کی تو سمجھو میں اس ظلم میں نہ صرف شریک ہوں بلکہ حقیقت میں ظلم کا مرتکب ہوں۔‘‘
اس احساس فرض اور پاکیزہ تصور کا یہ نتیجہ تھا کہ آپ لوگوں کو تاکید فرمایا کرتے تھے کہ ظلم وزیادتی پر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے وہ اس پر احتجاج کیا کریں تاکہ ظلم کا خاتمہ کیاجاسکے۔ یہ حاکم وقت کے فہم سلیم اور احساس ذمہ داری کی قابل رشک مثال ہے۔

قومی خزانے کی حفاظت

قومی خزانہ ایک امانت کی حیثیت رکھتا ہے۔ حاکم وقت اور ذمہ داران اس کے امین ہوتے ہیں اور اس کے بارے میں ان سے باز پرس بھی سخت ہوگی۔ حضرت عمر فرمایا کرتے تھے: ’’بیت المال کے ساتھ میرا معاملہ ایساہی ہے جیسا یتیم کے مال کے ساتھ اس کے سرپرست کا ہوتا ہے۔ اگر میں محتاج ہوا تو حسب ضرورت بیت المال سے لوں گا، حالات درست ہوگئے تو واپس کردوں گا اور اگر مال دار ہوگیاتو بیت المال سے کچھ نہ لوں گا ۔‘‘
اس اہم اور نازک معاملہ کی مزید وضاحت یوں فرمائی: ’’اس بیت المال سے میں اسی قدر وصول کروں گاجس قدر میں اپنے کمائے ہوئے مال سے خرچ کیاکرتاتھا۔‘‘ حضرت عمر مسلمانوں کے بیت المال کے بارے میں اللہ سے بہت ڈرتے تھے۔ ایک مرتبہ حج کے لیے گئے اور مدینہ سے مکہ اور وہاں سے واپسی کا سفر حضر تک ۸۰ دراہم میں مکمل کرلیا۔ اس کے باوجود اپنا محاسبہ کرنے لگے اور کف افسوس ملتے ہوئے کہا: ’’ہم کتنے بے خوف ہوگئے ہیں کہ بیت المال میں اسراف کرنے لگے ہیں۔‘‘

خوشامد سے نفرت

حضرت عمر لوگوں کو اجاز ت نہیں دیتے تھے کہ وہ ان کی ذات کی تعریف میں رطب اللسان ہوجائیں۔ فرماتے تھے : ممکن ہے میں تمہیں ایسے کاموں سے منع کروں جس میں تمہارا فائدہ اور مصلحت ہو اورتمہیں ایسے کاموں کا حکم دے دوں جس سے تمہیں نقصان ہونے کا احتمال ہو، اس لیے تم میری اصلاح کرتے رہا کرو۔

قحط سالی میں حضرت عمرکا طرز عمل

آپ جب رعایا کو کسی بات کا حکم دیتے تو خود اس پر پہلے کاربند ہوجاتے تاکہ عامۃ الناس کے لیے اچھا نمونہ پیش کریں۔ آپ نے لوگوں سے سادگی اور قناعت اختیار کرنے کا مطالبہ کیا تو خود اس کی بہتر ین عملی مثال بن گئے۔ قحط سالی میں اپنے لیے ہر وہ چیز ممنوع سمجھ لی تھی جس تک عام لوگوں کی رسائی ممکن نہ تھی۔ قحط کے زمانے میں رعایا کی بھوک اور تنگی کا اس قدر احساس تھا کہ یوں معلوم ہونے لگا کہ اس فکر سے ہلکان ہو جائیں گے۔ یہ زمانہ پانچ چھ سال کے عرصہ پر محیط تھا۔ اس پورے دور میں آپ نے زندگی کی ہر پرلطف چیز کو خیر باد کہہ دیاتھا۔

ہدیہ قبول کرنے سے انکار

ہدیے لینا اور دینا اسلامی نقطہ نظر سے جائزبلکہ مستحسن ہے، مگر حکمرانوں کو عموماً ہدیے غلط انداز میں دیے جاتے ہیں۔ صاف ستھرے نظام حکومت میں، جہاں قانون کی حکمرانی ہو، حکمرانوں کا ہدیوں سے کیا واسطہ؟ عام حکمران اگر بہت قابل رشک مثال بھی پیش کریں تو ان کا حال یہ ہوتاہے کہ اپنی ذات کے لیے تو ہدیہ قبول نہیں کرتے مگر اپنے اہل وعیال کے لیے بخوشی وصول کرلیتے ہیں۔ مگر سیدنا عمر کا معاملہ یہ تھا کہ نہ تو اپنے لیے کوئی تحفہ قبول کرتے تھے اور نہ اپنے اہل وعیال کے لیے اور اگر کوئی عزیز ایسا ہدیہ قبول کر لیتاتھا تو اس پر مناسب انداز میں سرزنش فرماتے تھے۔

سادگی اور زہد

آپ اتنے ساد ہ مزاج اور دنیا داری سے دور تھے کہ اپنی خلافت کے دور میں آپ حج کے لیے نکلے اور کوئی خیمہ نہیں لگایا۔ دھوپ سے بچنے کے لیے کسی جھاڑی کی اوٹ میں بیٹھ جاتے تھے۔ چمڑے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ساتھ تھا۔ کبھی اس سے سایہ کرلیتے تھے۔ تپتے ہوئے ریگستان میں وہ سایہ کیا حیثیت رکھتاتھا۔ آپ اس بات سے خائف تھے کہ اپنے لیے کوئی ایسا سایہ فراہم کریں جس کا مہیا کرنا رعایا کے ہر فرد کے لیے ممکن نہ ہو۔

اچھے رفقا کی تلاش

حضرت عمر نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق ذمہ داریاں سونپ دیاکرتے تھے۔ اس سے ان میں خود اعتمادی بھی پیدا ہوتی تھی اور ان کی صلاحیتیں بھی مزید پروان چڑھتی تھیں۔ مثلاً آپ حضرت عبداللہ بن عباس کو اپنی مجلس میں بٹھایا کرتے اور مشکل مسائل میں ان سے مشورہ لیا کرتے تھے اور کئی مرتبہ ان کی رائے کو قبول کر لیا کرتے تھے۔ آپ ہر میدان کے لیے مردانِ کار کی تلاش میں رہتے تھے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت فوراً مناسب آدمی کو ڈھونڈ لیتے تھے۔

اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دینا

ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں کہیں سے مال غنیمت آیا جس میں بہت سے قیمتی پارچہ جات تھے۔ آپ نے سب صحابہ کرام کو لباس دیا۔ ایک قیمتی جوڑا بچ گیا تو آپ نے صحابہؓ سے کہا: ’’کسی ایسے نوجوان کی نشان دہی کرو جس نے ہجرت کی ہو اور ا س کے باپ نے بھی ہجرت کی ہو تاکہ میں یہ جوڑا اسے دے دوں۔ ‘‘لوگوں نے بلاتوقف کہا: عبداللہ بن عمرؓ۔ آپ نے فرمایا: نہیں، وہ تو اس کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ پھر آپ نے سلیط بن سلیط کو حلہ عطا کر دیا۔

مقدمات کے فیصلے اور انصاف کے تقاضے

ارضی وسماوی ہر قانون میں ایک بنیادی اصول مسلم ہے کہ کوئی بھی فیصلہ اس وقت تک صادر نہ کیا جائے جب تک طرفین کی بات پوری طرح نہ سن لی جائے۔ شریعت اسلامیہ میں جب معاملہ مشتبہ ہوجائے تو حد جاری نہیں کی جا سکتی۔ ایک حدیث کی تاویل میں فقہا اور مسلم ماہرین قانون نے یہ موقف اختیا ر کیا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمان ممالک کے حکمرانوں نے دور انحطاط میں ان اصولوں کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ کیا بلندی تھی اور اب کیا پستی ہے! شکوک وشبہات کو بنیاد بنا کر اپنے مخالفین کو فوری اور ناقابل برداشت سزائیں سنا دینے کی ایسی روایت چلی ہے کہ خدا کی پناہ! استغاثہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ الزام کا ثبوت پیش کرے مگر ہمارے ممالک میں اس اصول کو الٹ دیاگیا کہ ملزم اپنی بے گناہی ثابت کرے۔ اگر ملزم اس سکھا شاہی نظام میں اپنی بے گناہی ثابت کربھی دے تو ضروری نہیں کہ عقوبت سے بچ نکلے کیونکہ انصاف کا گلا گھونٹنے والوں سے انصاف کی توقع عبث ہے۔ 
حضرت عمر کا دور حکومت انصاف کے مذکورہ تقاضوں پر عمل درآمد کا آئینہ دار تھا۔ اصول مساوات کی بنا پر وہ کسی شخص کے لیے کسی قسم کا امتیاز پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک فعہ ابی بن کعب سے کچھ نزاع ہوئی۔ زیدبن ثابت کے ہاں مقدمہ پیش ہوا۔ حضرت عمرؓ ا ن کے پاس گئے تو انہوں نے تعظیم کے لیے جگہ خالی کر دی۔ حضرت عمرؓ نے کہا: یہ پہلی ناانصافی ہے جو تم نے اس مقدمہ میں کی۔ یہ کہہ کر اپنے فریق کے برابر بیٹھ گئے۔
یہی بھید تھا کہ طرز معاشرت نہایت سادہ اور غریبانہ رکھی تھی۔ سفر وحضر میں، جلوت وخلوت میں، مکان اور بازار میں کوئی شخص ان کو کسی علامت سے پہچان نہیں سکتاتھا کہ یہ خلیفہ وقت ہیں۔

آزادی اور حق گوئی کا قائم رکھنا

اخلاق کی پختگی اور استواری کا اصل سرچشمہ آزادی اورخود داری ہے۔ حضرت عمرؓ نے ا س پر بہت توجہ کی۔ آپ نے مختلف موقعوں پر تحریر وتقریر سے جتا دیا کہ ہر شخص ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوا ہے اور ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی بھی کسی کے آگے ذلیل ہو کر نہیں رہ سکتا۔ حضرت عمروبن العاصؓ کے معزز فرزند نے جب ایک قبطی کو بے وجہ مارا تو خود اسی قبطی کے ہاتھ سے مجمع عام میں سزادلوائی اور ’مذ کم تعبدتم الناس وقد ولدتھم امھاتھم احرارا‘ کا تاریخی جملہ ارشاد فرمایا، یعنی تم لوگوں نے آدمیوں کو غلام کب سے بنا لیا ہے؟ ان کی ماؤں نے تو ان کوآزاد جنا تھا۔
ایک دفعہ انہوں نے منبر پر چڑھ کر کہا: صاحبو! اگر میں دنیا کی طرف جھک جاؤں تو تم لوگ کیاکروگے؟ ایک شخص وہیں کھڑا ہوگیا اور تلوار میان سے کھینچ کر بولا کہ تمہارا سر اڑا دیں گے۔ حضرت عمرؓ نے اس کے آزمانے کو ڈانٹ کر کہا: کیا میری شان میں تویہ لفظ کہتاہے! اس نے کہا: ہاں، تمہاری شان میں۔ حضرت عمرؓ نے کہا: الحمد للہ قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ میں کج ہوں گا تو مجھ کو سیدھا کر دیں گے۔
تقسیم ہند کے بعد بھارتی کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر گاندھی نے (غیر مسلم ہونے کے باوجود) حضرت ابوبکر وعمر کو خراج تحسین پیش کیاتھا اور وزرا سے کہاتھا کہ اگر تم ابوبکر وعمرکی پیروی کروگے تو ایک کامیاب حکمران ثابت ہوگے۔
آج وطن عزیز میں ہر طرف لاقانونیت کا راج ہے، اقربا پروری، ناقدین سے بے مروتی اور مظالم، روزافزوں مہنگائی، قتل وغارت، چوری وڈکیتی، رشوت واستحصال کا دور دورہ ہے۔ سیاسی، معاشی اور معاشرتی سکون عنقا ہے۔ کیا ہمارے سیاستدان بالخصوص حکمران ایک آئیڈیل مسلم حکمران کی خصوصیات سے بہرہ ور ہیں؟ ان کو اپنے گریبانوں میں جھانکنے اور اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تاریخ میں ان کو اچھے الفاظ سے یاد کیا جائے اور عوام الناس سکھ کا سانس لے سکیں۔

فکر اسلامی کو درپیش عصری چیلنج ۔ تجمد اور تجدد کے درمیان راہ توسط کی تلاش

ڈاکٹر محمد امین

شارع مشفق ومہربان نے ختم نبوت کااعلان کرتے ہوئے دین حق کو تاقیامت قابل عمل رکھنے کے لیے جس حکمت عملی کااعلان فرمایا، اس کے اہم اجزا یہ تھے:سارے عالم کوہمیشہ کے لیے امت دعوت قراردینا، نصوص قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری خود لینا، مسلمانوں کو کار دعوت کی ذمہ داری سونپنا اور انہیں اجتہاد کی اجازت دینا۔ عقیدے سے قطع نظر عقل ومنطق کی رو سے بھی یہ انتظامات اس امر کی قطعی بنیاد مہیا کر دیتے ہیں کہ فکر اسلامی دنیا کے ہرخطے میں اور ہر عہد میں قابل عمل رہ سکتی ہے، لیکن ان اصولوں سے فائدہ اٹھانے اور ان پرعمل کرنے کا انحصار بہرحال انسانی کاوشوں پر ہے۔ اگر مسلم اہل علم ان اصولوں کونہ اپنائیں اور ان پر عمل درآمد نہ کریں تو کوئی ان کو مجبور نہیں کرسکتا اورنہ اس سے شریعت کے کمال وشمول پر حرف آتا ہے۔
اجتہاد کی ضرورت اور سپرٹ یہ تھی کہ نصوص قرآن وسنت بہرحال محدود تھیں جبکہ قیامت تک آنے والی انسانی نسلوں کے مسائل محدود نہ ہو سکتے تھے کہ زمان ومکان کے تغیر کے ساتھ فکری اور تمدنی ارتقا بھی ناگزیر تھا۔ لہٰذا اس کے علاوہ کوئی چارہ کارنہ تھا کہ نئے دعوتی، قانونی، سماجی، معاشی مسائل میں نصوص کی تعبیر نو، قیاس، مقاصد شریعت، مصالح مرسلہ وغیرہ جیسے ذرائع استعمال کرکے اجتہاد کی مستقل اجازت دے دی جائے۔ اس سلسلے میں صدر اول میں دو طرح کے رجحانات دیکھنے میں آئے۔ ایک نصوص کی تعبیر الفاظ نص کے قریب تر رہتے ہوئے کرنا (جسے Literal Interpretation کہا جا سکتا ہے) اور دوسرے الفاظ نص کی سپرٹ اور علت وغایت کو سامنے رکھتے ہوئے تشریح کرنا (یعنی Liberal Interpretaion کرنا)۔ انہی دو نوں رجحانات نے بعد میں اہل الرائے اور اہل الحدیث اور عصرتدوین میں مذاہب ائمہ اربعہ کی تدوین اور مسلک اہل الظاہر کی ترسیم کا روپ دھارا۔ اس دوران مسلمانوں میں تعلیم وتعلم اور تحقیق وتفتیش کے رویے پختہ ہو کر سامنے آئے۔ یونانی افکار کے تعارف نے علمی حلقوں میں تموج پیدا کیا اور اگرچہ کچھ عرصہ تک بعض مسلم حلقے اس سے مرعوب بھی ہوئے، لیکن مسلم فکر اس وقت تک بہرحال اتنی توانا تھی کہ اسے یونانی فکر کے حملے کو پسپا کردینے میں زیادہ دقت نہ ہوئی اور اعتزال کافتنہ بتدریج اشعریت اور ماتریدیت کی صورت میں مسلم فکر کے مرکزی دھارے میں جذب ہوتا چلا گیا اور بعد میں امام غزالی، امام رازی اور ابن تیمیہ وغیرہ نے تابڑ توڑ حملے کرکے اس کی کمر ہی توڑ دی۔ لیکن متعدد عوامل کی بناپر (جن میں سیاسی عدم استحکام، منگولوں کاحملہ، تدوین فقہ کی کوششوں کی جامعیت وعبقریت، مذہبی انتشار، اخلاقی اضمحلال وغیرہ شامل ہیں) تحقیق وتفتیش اور فکری حریت کا یہ سفر اسی آب وتاب سے جاری نہ رہ سکا اورعلماے کرام کواجتہاد کی بجائے تقلید میں عافیت نظر آنے لگی۔
مسلم زوال کی ایک اور بنیادی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے نظام تعلیم وتزکیہ میں دراڑیں پڑ گئیں اور وہ فرد تیار ہونا بند ہوگیا جیسا کہ عہد نبوی اور عہد صحابہ میں ہوتاتھا۔ تاہم یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ بتدریج ہوا اور نورنبوت کی روشنی اتنی توانا تھی کہ منگولوں کے بڑے جھٹکے اور دیگر چھوٹے موٹے بے شمار دھچکوں کے باوجود تقریباً ایک ہزار سال تک مسلم دنیا کے دل و دماغ کو منور کرتی اور انہیں قوت عمل مہیا کرتی رہی، تاآنکہ مسلمانوں کے قلوب زنگ آلود ہونے اور عقلیں کند ہونے کی وجہ سے ان کی بے علمی وبے عملی اس حد کو جا پہنچی کہ نور نبوت سے اکتساب کے قابل نہ رہی اور مسلمان محض ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے نعرے تک محدود ہو کر رہ گئے۔
اسے کوئی سوئے اتفاق کہے، مسلمانوں کی کمزور منصوبہ بندی یا اللہ کی مشیت کہ مسلمان افریقہ، شرق اوسط، وسط ایشیا اور مشرق بعید تک کے علاقوں پر تواسلام کا جھنڈا گاڑنے میں کامیاب ہوگئے، لیکن یورپ کے قلب تک نہ پہنچ سکے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائی یورپ ہمیشہ مسلمانوں کا حریف اور مدمقابل رہا اور صلیبی جنگوں میں کبھی جیتا اور کبھی ہارتا رہا۔ وہاں کے مذہبی اور سیاسی طبقے نے اپنے مفادات کے لیے مسلمانوں کے خلاف عوام میں نفرت کے گہرے بیج بو دیے اور جب مسلم ریاستیں اپنی داخلی کمزوریوں کی وجہ سے مضبوط نہ رہیں اور اہل مغرب خواب غفلت سے بیدار ہو کر توانا ہو گئے توانہوں نے سازشوں سے مسلمانوں کوباہم لڑایا، کمزور کیا، پھر مل کر ان پر حملہ کیا اور انہیں غلام بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ مسلمانوں، خصوصاًعلماے کرام نے ان کی حتی المقدور مزاحمت کی لیکن ان کا راستہ نہ روک سکے۔ بالآخر بیسویں صدی میں غالباً ’تلک الایام نداولھا بین الناس‘ کے الہٰی اصول پر یورپی اقوام آپس میں لڑ کر کمزور ہوئیں اور مسلمانوں کو غلامی کی زنجیریں توڑنے کا موقع مل گیا۔
بیسویں صدی میں مغرب کی غالب الحادی فکر وتہذیب کے ساتھ تعامل کے تناظر میں مسلم معاشرے میں اسلامی فکر کے تین پہلو ابھر کر سا منے آئے ہیں۔ ایک تجمد کا پہلو جس کی طرف میلان ہمارے روایتی علماے کرام رکھتے ہیں جن کے ہاتھ میں مسلمانوں کے مدارس ومساجد کی آبادی اور معاشرے کے مذہبی رسوم ورواج کی ادائیگی ہے اوروہی مسلم معاشرے میں اسلام کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی حالت بقول اقبال یہ ہے کہ :
آئین نوسے ڈرنا،طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں 
وہ اپنے قدیم ائمہ فقہا کی آرا کو بھی تقدیس کادرجہ دینا گو اصولاً نہ تسلیم کرتے ہوں لیکن عملاً تودیتے ہی ہیں اور اسی طرح گو اجتہاد کا اصولاً انکار نہ کریں لیکن عصر حاضر میں کسی فرد میں عملاً مجتہد ہونے کی صلاحیت تسلیم کرنا یا اسے حق اجتہاد دینا انہیں ممکن نظر نہیں آتا۔ اسی طرح جدید عصری مسائل کے وجود کے بھی وہ منکر نہیں، لیکن اپنے مدارس میں وہ ایسے فقہا تیارکرنے کے لیے آج بھی آمادہ نہیں جو اہل مغرب کی زبان سمجھتے ہوں، ان کی تہذیب کی فکری اساسات وفلسفے اور تہذیبی اداروں اور مظاہر سے واقف ہوں اور مغربی فکر وتہذیب سے تعامل کے نتیجے میں مسلم معاشرے جن مسائل سے دوچار ہیں، ان مسائل کے حل کی تربیت ان کے دینی مدارس میں انہیں دی جاتی ہو اور اس حوالے سے وہ امت کی رہنمائی کرسکتے ہوں۔
دوسرا رویہ تجدد کا ہے۔ اس رویے کے حامل وہ لوگ ہیں جو خود کو روشن خیال سمجھتے ہیں، تجمد کی مذمت کرتے ہیں اور بزعم خویش وہ اس کارخیر میں مصروف ہیں کہ اسلامی تعلیمات کو عصر حاضر کی عقلیت کے مطابق ثابت کرسکیں جب کہ ان کے بارے میں دوسرے سب لوگوں کی رائے یہ ہے کہ وہ مغرب کی الحادی فکر وتہذیب سے مرعوب ہیں اور اسلام کی کتربیونت کر کے اور مغربی تقاضوں کے مطابق اسلامی احکام کی تشریح کرکے مغربی لباس کو اسلام کے جسم پر فٹ کرناچاہتے ہیں۔ گویابقول اقبال :
خود بدلتے نہیں قرآں کوبدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
ان کو اسلام کی ہر وہ چیز قابل مدح لگتی ہے جو مغربی فکروتہذیب کے مطابق ہو اور اسلام کی ہر اس فکر، رائے اور ادارے کو وہ قابل تغیر اور قابل تاویل سمجھتے ہیں جو مغربی فکر وتہذیب کے مطابق نہ ہو، اوران کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ عقلی استدلال اور تاویل کے ہنر سے کسی نہ کسی طرح نصوص شرعیہ کی ایسی تشریح کر سکیں جس سے وہ مغربی فکرو تہذیب کے قریب نظر آئیں یا اس کے مطابق دکھائی دینے لگیں۔ برصغیر میں مغربی فکر وتہذیب سے مرعوب ومتاثر ان متجددین کی کاوشوں کی بھی ایک پوری تاریخ ہے جس کے سالار اول سرسید احمد خان تھے اور جن کی آج کے پاکستان میں نمائندگی جناب جاوید احمد غامدی صاحب کرتے ہیں۔
صحیح اور متوازن نقطہ نظر یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں فکری رویے افراط وتفریط پر مبنی ہیں۔ نہ تجمد صحیح ہے اورنہ ہی تجدد، اعتدال اور توسط کی راہ ہی درست ہے اوراسی میں خیر ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں آیاہے کہ ’خیر الامور اوسطھا‘ اور نماز وسطیٰ کوآپ نے بہترین نماز قرار دیا۔ اسی طرح قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ ہم نے تمہیں امت وسط بناکر بھیجا ہے۔ لہٰذا ضرورت ا س امرکی ہے کہ اسلام جس فکری حریت کا علم بردار ہے اورجس کا مظاہرہ ہمارے اسلاف کرتے رہے ہیں، آج بھی اسی کو اپنایا جائے۔ ہر نئی چیز بدعت اور مضر نہیں ہوتی سوائے اس کے جوخلاف اسلام ہو، لہٰذا قرآن وسنت کی روسے ہر اس جدید کو قبول کرنے میں کوئی مانع نہیں جو خیر اور معروف پر مبنی ہو، جوقرآن وسنت اور مقاصد شرعیہ کے خلاف نہ ہو اورجس میں مسلمانوں کی مصلحت ہو۔ تاہم اس امر کا شعوری ادراک بہت ضروری ہے کہ مغربی فکر وتہذیب (جو اس وقت دنیا کی غالب فکرو تہذیب ہے) وہ اپنی اصل میں غیر اسلامی ہے۔ سیکولر ازم، ہیومنزم، لبرل ازم وغیرہ (جن کے پیش نظر یہ دنیا اور اس میں انسان کی خدائی ہے) اسلامی تصور انسان، تصور کائنات اور تصورالٰہ کی ضد ہیں۔ لہٰذا اس فکر وتہذیب اور مسلم معاشرے کے تعامل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے ہمیں ذہنی بیداری کی ضرورت ہے کہ ہم شعوری یا غیر شعوری طور پر اس غیر اسلامی (بلکہ اسلام دشمن) فکر وتہذیب سے مرعوب و متاثر نہ ہو جائیں اور ان کا ناخوب بھی ہمیں خوب نظر نہ آنے لگے۔ ہمیں اجتہاد کی ضرورت ہے، ہم حریت فکرکے علم بردار ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم جدیدیت اور تجدید کے نام پر مغربی فکر کا ہر رطب ویابس قبول کرلیں۔ نہیں! ہمارے ردوقبول کے اپنے پیمانے ہیں اورہمیں انہیں پیمانوں کو استعمال کرنا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ آج فکر اسلامی کو درپیش چیلنج یہ ہے کہ تجمد اور تجدد کے افراط وتفریط پر مبنی رویوں سے بچتے ہوئے اعتدال وتوسط کی راہ پر چلا جائے اور ایسی تجدید کو قبول کیا جائے جو اسلامی معاییر کے مطابق ہو لیکن اس کے ساتھ ہی نہ صرف مغرب کی الحادی فکر وتہذیب کے مفاسد سے بچنے کی شعوری کوشش کی جائے بلکہ دوکام اوربھی کیے جائیں:
ایک تو یہ کہ مغربی فکر وتہذیب کا شعوری منصوبہ بندی سے علمی، فکری، تہذیبی اور عملی کوششوں سے رد کیا جائے اور اس کے مقابلے میں فکر اسلامی کی ہر لحاظ سے برتری اور بہتری کا عقل واستدلال سے اثبات کیا جائے۔
دوسرے فکر اسلامی کو مسلم فرد کے اذہان وقلوب میں راسخ کرنے اور مسلم معاشرے میں اس کے عملی غلبے واستحکام کے لیے تعلیم وابلاغ وتزکیہ پر مبنی درست سمت میں کوششوں کو فزوں تر کیا جائے تاکہ اس سے مطلوبہ نتائج عملاً نکلتے نظر آئیں۔

غامدی صاحب کا تصور فطرت چند توضیحات

سید منظور الحسن

’’قرآن اکیڈمی‘‘ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ حافظ محمد زبیر صاحب نے جناب جاوید احمد غامدی کی تصنیف ’’اصول و مبادی‘‘ کے بعض اصولی تصورات پر تنقیدی مضامین تحریر کیے تھے ۔ یہ مضامین پہلے ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ میں شائع ہوئے اور بعد ازاں ’’فکر غامدی، ایک تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے زیر عنوان کتابی صورت میں طبع ہوئے۔یہ کل تین مضامین تھے جن میں سے پہلے کا عنوان ’’جاوید احمد غامدی کا تصور فطرت‘‘ تھا اور اس میں خیر و شر کے فطری الہام کے بارے میں غامدی صاحب کے موقف پر تنقید کی گئی تھی۔اس مضمون کے جواب میں ہم نے ایک مفصل مضمون تحریر کیا تھا جس میں عقل و نقل کے دلائل کی بنا پر جملہ تنقیدی نکات کے سقم کو واضح کیا تھا۔ ہمارا یہ مضمون ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے جولائی ۲۰۰۷ کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اس کے جواب میں ہمیں یہ توقع تھی کہ زبیر صاحب کو اگر ہمارے تجزیے سے اتفاق ہوا تو وہ کسی تعصب کے بغیر اس کا اظہار کریں گے اور اگر اختلاف ہوا تو ہمارے دلائل کی تردید میں اپنا استدلال پیش کریں گے۔ ہمارے لیے یہ بات باعث تعجب ہے کہ اس کے جواب میں جو تحریر لکھی گئی ہے، اس میں ہمارے دلائل اور ہماری توضیحات کے بارے میں کامل خاموشی کا رویہ اختیار کیا گیاہے ۔
قارئین کی یاددہانی کے لیے اس علمی مکالمے کے جملہ نکات حسب ذیل ہیں جو فاضل ناقد کی نظر عنایت سے محروم رہے ہیں: 
۱۔ فاضل ناقد کی بنیادی تنقید یہ تھی کہ سورۂ شمس کی آیت ’فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا‘ سے غامدی صاحب نے یہ غلط مفہوم اخذ کیا ہے کہ اللہ کی طرف سے خیر و شر کا احساس اور شعور انسان کی فطرت میں ودیعت ہے جس کی بدولت وہ نیکی اور بدی سے پوری طرح شناسا ہے۔
اس کے جواب میں ہم نے گزارش کی تھی کہ نیکی و بدی کے شعور کا انسانی فطرت میں ودیعت ہونا سورۂ شمس کی مذکورہ آیات کے علاوہ سورۂ اعراف کی آیت ۲۲، سورۂ دہر کی آیت ۳، سورۂ بلد کی آیت ۱۰ اور سورۂ قیامہ کی آیات ۱۴۔۱۵ سے بھی واضح ہے۔ اس ضمن میں ہم نے حضرت شاہ ولی اللہ، مولانا شبیر احمد عثمانی، مفتی محمد شفیع، مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی جیسے جلیل القدر علماے امت کے اقتباسات نقل کیے تھے۔
فاضل ناقد کی تحریر میں ہمارے اس جواب پرکوئی تبصرہ نہیں ہے ۔
۲۔فاضل تنقید نگار نے انسان کی فطرت میں نیکی و بدی کے شعور کی نفی کے لیے نصوص کی بنا پر تین دلائل پیش کیے تھے: ان کی پہلی دلیل یہ تھی کہ سورۂ بقرہ کی آیت۳۸ اور سورۂ طٰہٰ کی آیت ۱۲۳ میں ’مِّنِّیْ ہُدًی‘ کے الفاظ سے واضح ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت کو دنیا میں بھیجنے کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت کے ذریعے سے انسان کو نیکی اور بدی سے روشناس کرایا۔ 
اس کے جواب میں ہم نے لکھا تھا کہ بنی آدم کے لیے روز اول سے سلسلۂ وحی جاری کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان کا فطری علم کسی بھی درجے میں اس کی رہنمائی نہیں کر سکتا اور یہ کہ انسان ہر معاملے میں ’وحی‘ ہی کی رہنمائی کا محتاج ہے۔ اس موقف کی تائید میں ہم نے علماے امت کی تحریریں بھی نقل کی تھیں۔
ہمارے اس جواب پربھی مذکورہ تحریر میں کوئی تبصرہ نہیں ہے ۔
۳۔انسان کی فطرت میں نیکی و بدی کے شعور کی نفی کے لیے فاضل تنقید نگار کی دوسری دلیل یہ تھی کہ سورۂ نحل (۱۶) کی آیت ۷۸ میں بیان ہوا ہے کہ ’اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ان کی ماؤں کے پیٹوں سے اس حال میں نکالا کہ وہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے‘۔ اس بنا پر انھوں نے یہ استدلال کیا تھا کہ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو وہ نیکی و بدی کے شعور سے بے بہرہ ہوتا ہے۔
اس پر ہم نے ’’تفسیر ابن کثیر‘‘،’’ تفسیر عثمانی‘‘، ’’تدبر قرآن‘‘ اور ’’تفہیم القرآن‘‘ کے اقتباسات نقل کر کے یہ بات واضح کی تھی کہ مذکورہ آیت میں انسان کی پیدایش کے وقت اس علم کی نفی ہوئی ہے جو اسے حواس اور مشاہدات کے ذریعے سے خارجی دنیا کے بارے میں حاصل ہوتا ہے، اس کے فطری علم کی یہاں ہر گز نفی نہیں کی گئی۔
اس جواب پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیاگیا۔
۴۔انسان کی فطرت میں نیکی و بدی کے شعور کی نفی کے لیے تیسری دلیل کے طور پر فاضل تنقید نگار نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا نقل کی تھی کہ ’اللّٰھم آت نفسی تقواھا‘، ’’پروردگار، میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا فرما۔‘‘ اس پر انھوں نے لکھاتھا کہ اگر ’فجور‘ اور ’تقویٰ ‘ انسانی فطرت میں داخل تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے ا للہ سے مانگنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟گویااگر نفس کا تقویٰ انسان کو فطری طور پر ودیعت ہوتا تو آپ اسے اللہ تعالیٰ سے ہر گز طلب نہ کرتے۔ 
اس ضمن میں ہم نے گزارش کی تھی کہ یہ بات کسی طرح بھی درست نہیں ہے کہ دعا سے اس چیز کی عدم دستیابی لازم آتی ہے جس چیز کے لیے دعا مانگی جا رہی ہے۔ بلا شبہ ناحاصل کے لیے دعا مانگی جاتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم حاصلات کے لیے بھی پروردگار کے حضور میں دست دعا بلند کرتے ہیں۔ اس سے مقصود اس حاصل میں ازدیاد اور اس کا دوام و استمرار ہوتا ہے۔ چنانچہ ہر صالح مسلمان صراط مستقیم پر گا م زن رہنے کے باوجود دن میں کم سے کم پانچ مرتبہ ’اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘ کی دعا مانگتا ہے۔
ہمارا یہ جواب بھی فاضل ناقد کے تبصرے سے محروم ہے۔
۵۔ فاضل ناقد نے اپنے مضمون میں یہ الزام لگایا تھا کہ غامدی صاحب نے انسانی فطرت کو حلال وحرام کا اختیار تفویض کر کے اسے شارع بنا دیا ہے اور اس طرح نعوذ باللہ اسے اللہ کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔
اس کے جواب میں ہم نے کہا تھا کہ یہ بات بدیہی طور پر سوء فہم پر مبنی ہے کہ فطری علم کی روشنی میں طیبات و خبائث کی تعیین تحلیل وتحریم کے زمرے میں آتی ہے اور یہ بات انسان کو شارع کے منصب پر فائز کرنے کے مترادف ہے۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ یہ چیز اگر فطرت کے مستقل ماخذ دین قرار پانے یا انسان کے تحلیل وتحریم کے منصب پر فائز ہونے کو مستلزم ہے تو اس ’جر م‘ میں جمہور فقہا بھی غامدی صاحب کے ساتھ پوری طرح شریک ہیں۔ 
اس جواب پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیاگیا۔
۶۔فاضل تنقید نگار نے ایک الزام یہ بھی لگایا تھاکہ غامدی صاحب ہر انسان کو تو حلال وحرام کا فیصلہ کرنے کا حق دیتے ہیں، مگر نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کا حق تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
اس کے جواب میں ہم نے واضح کیا تھا کہ جس دائرے میں قرآن نے چار چیزوں کی حرمت بیان کی ہے، اس پر اضافے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے ارشادات میں ان محرمات میں کوئی اضافہ نہیں کیا، بلکہ اس سے مختلف ایک دوسرے دائرے میں بعض جانوروں کی حرمت کو واضح کیا ہے۔ اس ضمن میں آپ کے ارشادات اور ان کے علاوہ بہت سے دوسرے جانوروں کی حرمت کے بارے میں فقہا کے فیصلے، دونوں خبائث کی حرمت کے اس اصول پر مبنی ہیں جو قرآن مجید میں بیان ہوا ہے، لہٰذا قرآن کی بیان کردہ حرمتوں پر اضافے کا حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نہ ماننے اور عام انسانوں کے لیے تسلیم کرنے کا اعتراض بالکل بے معنی ہے۔ ہم نے امام شافعی کی کتاب ’’الام‘‘، فقہ حنفی کی شہرۂ آفاق کتاب ’’بدائع الصنائع‘‘، ابن قتیبہ کی ’’تاویل مختلف الحدیث‘‘،فقہ حنبلی کی نمائندہ کتاب ’’المغنی‘‘ اور ابن حزم کی ’’المحلیٰ‘‘ کے اقتباسات نقل کر کے یہ واضح کیا تھا کہ جانوروں کی حلت و حرمت کے معاملے میں طیبات اور خبائث کو بنیادی اصول قرار دینا غامدی صاحب کی کوئی منفرد رائے نہیں ہے، بلکہ جمہور فقہا بھی اسی رائے کے قائل ہیں۔
اس جواب پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیاگیا۔
۷۔فاضل ناقدنے یہ نکتہ بھی پیدا کیا تھا کہ انسانی فطرت کو خبیث و طیب کے تعین کا اختیار دینے کے نتیجے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسانوں کے مختلف گروہ اپنے اپنے فطری میلان کی بنا پر ایک دوسرے سے مختلف نتائج پر پہنچیں تو ان میں سے ترک و اختیار کا فیصلہ کس اصول کی بنا پر کیا جائے گا؟ انھوں نے اس سوال کا از خود یہ جواب وضع کر کے کہ اس کا فیصلہ انسانی فطرت سے ہو گا،اسے جناب جاوید احمد غامدی کی نسبت سے بیان کیا تھا۔
اس پر ہم نے یہ توجہ دلائی تھی کہ غامدی صاحب سے اس بات کی نسبت صریح طور پر غلط ہے اور یہ واضح کیا تھا کہ غامدی صاحب نے نہایت صراحت سے اپنی تصنیف ’’اصول و مبادی‘‘ میں یہ بات بیان کی ہے کہ اختلاف کی صورت میں ذریت ابراہیم کا رجحان فیصلہ کن ہو گا، کیونکہ معروف و منکر سے متعلق ان کے رجحانات کو گویا انبیا کی تصویب حاصل ہے۔
اس جواب پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیاگیا۔
۸۔زبیر صاحب نے اپنی بحث کے آخر میں ’’غامدی صاحب کا اپنے اصولوں سے انحراف‘‘کی سرخی قائم کی تھی اور اس کی مثال کے طور پر ڈاڑھی کے بارے میں جناب جاوید احمد غامدی کے موقف کا حوالہ دیتے ہوئے یہ تضاد بیان کیا تھا کہ ایک جانب غامدی صاحب فطرت کو دین قرار دیتے ہیں اور دوسری جانب ڈاڑھی جیسی فطری چیز کو دائرۂ دین میں شامل ہی نہیں کرتے۔
اس پر ہم نے گزارش کی تھی کہ ڈاڑھی کے ایک فطری چیز ہونے سے غامدی صاحب نے ہر گز انکار نہیں کیا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس فطری چیز کو شریعت نے باقاعدہ دینی رسم کی حیثیت دی ہے یا نہیں؟
اس جواب پر بھی مذکورہ مضمون میں کوئی تبصرہ نہیں کیاگیا۔
یہ فاضل ناقد کی تنقیدات اور ان پر ہمارے جوابات کا خلاصہ ہے۔ فاضل ناقد نے اپنی تازہ تحریر میں ان میں سے کسی نکتے پر کلام کرنا تو پسند نہیں کیا، البتہ ان کے بارے میں ایک جامع کلمہ ارشاد فرما کر بحث کو سمیٹ دینے کی ہدایت کی ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:
’’... میں جناب منظور الحسن صاحب سے گزارش کروں گا کہ اگر آپ واقعۃً اس بحث کو کسی نتیجے پر پہنچانا چاہتے ہیں تو اس ادھر ادھر کی تاویلات میں پڑکر بحث کو طویل کرنے ا ور الجھانے کی بجائے درج ذیل تین آپشنز پر غور کریں:
الف) اگر تو غامدی صاحب ’الشریعہ‘ کے کسی شمارے میںیہ لکھ دیں کہ ماہنامہ’اشراق‘ مارچ۲۰۰۴ء میں جناب منظور الحسن صاحب نے میری نسبت سے جو چار مصادر دین بیان کیے ہیں، اس میں وہ غلط فہمی کا شکار ہیں اور میں ان کی اس عبارت سے متفق نہیں ہوں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔
ب)یاجناب سیدمنظورا لحسن صاحب خود یہ لکھ دیں کہ میری ماہنامہ’اشراق‘ مارچ۲۰۰۴ء میں شائع شدہ عبارت منسوخ ہے، پہلے میرا خیال یہ تھا کہ غامدی صاحب کے مصادر دین چار ہیں لیکن اب مجھ پرواضح ہوا ہے کہ’فطرت‘ ان کے مصادر دین میں سے نہیں ہے۔ 
ج)یا سید منظور الحسن صاحب مجھے کم از کم غامدی صاحب کے بارے میں اتنالکھنے کی اجازت دیں جتنا کہ خود انھوں نے لکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ 
’’دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق ، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں۔ ‘‘
اور چوتھی اور آخری صورت وہ ہے کہ جو جناب منظور الحسن صاحب عملاً کر رہے ہیں کہ اس بحث کو اتنا طویل کر دو اور الجھا دو کہ قارئین کے ذہن منتشر ہو جائیں اور اصل نکتے تک کوئی نہ پہنچ سکے۔‘‘  (ماہنامہ الشریعہ اگست ۲۰۰۷،۴۵)
’’ادھر ادھر کی تاویلات‘‘ اور ’’تین آپشنز‘‘ یہ اس بحث کا انجام ہے جو ’’فکر غامدی ایک تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے نام سے شروع ہوئی تھی۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ’’ادھر ادھر کی تاویلات‘‘ کے نام سے موسوم ہونے والی اور ’’تین آپشنز‘‘ تک محدود رہ جانے والی اس بحث کا آغاز بھی فاضل ناقد نے کیا تھا اور اس کے تمام تنقیدی نکات کا انتخاب بھی ان کی اپنی صواب دید پر مبنی تھا۔ سوال یہ ہے کہ ’’ادھر ادھر کی تاویلات‘‘ کا حکم لگا کر اور ’’تین آپشنز‘‘ کی راہ دکھلا کر مذکورہ علمی مباحث سے جو گریز کیا گیا ہے، اس سے کیا مراد ہے؟ کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ فاضل ناقد نے غامدی صاحب کے تصور فطرت پر اپنی تنقیدات سے رجوع کر لیا ہے؟ اگر اس کے یہی معنی ہیں تو فاضل ناقد کی جانب سے اس کا برملا اظہار ہی حق پرستی کا تقاضا ہے۔ کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ فاضل ناقد کو ہمارے پیش کردہ دلائل سے اتفاق نہیں ہے؟ اگر یہ بات ہے تو انھیں ’’ادھر ادھر کی تاویلات‘‘ میں پڑنے کے بجائے ہمارے دلائل کی تردید میں اپنا استدلال پیش کرنا چاہیے۔ یہی علم ہے، یہی اخلاق ہے اور یہی دین ہے۔ لیکن اگر صورت یہ ہے کہ میرے پاس آپ کے استدلال کا جواب بھی نہیں ہے اوراپنے موقف کی مدافعت میں کوئی دلیل بھی نہیں ہے اور اس کے باوجود میں آپ کی بات کو غلط کہنے اور اپنی بات کو صحیح کہنے پر اصرار کرتا ہوں اور مستزاد یہ کہ میرا یہ رویہ کسی دنیوی معاملے میں نہیں، بلکہ اللہ کے دین کے معاملے میں ہے تو پھر مجھے اس دن کے بارے میں متنبہ رہنا چاہیے جس دن ہمارے ہر قول و فعل کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
فاضل ناقد نے اپنی جوابی تحریر میں اس بحث پر ہمارے دلائل سے تو کوئی تعرض نہیں کیا، البتہ اس بحث کے حوالے سے بعض اضافی باتوں پر مبنی ایک تقریر ارشاد فرمائی ہے۔ یہ تقریرفاضل ناقد کے چند تبصروں کا مجموعہ ہے۔ایک تبصرہ یہ ہے کہ اہل ’’المورد‘‘ جب چاہتے ہیں امت کی متفقہ رائے کو نظر انداز کر کے اس کے مقابل میں منفرد رائے قائم کر لیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں فقہا کی شاذ آرا کو اپنے موقف کی تائید کے لیے بطور ڈھال استعمال کر لیتے ہیں۔ (الشریعہ ، اگست ۲۰۰۷،۴۵)
اس تبصرے پر بصد ادب ہمارے دو سوال ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ ’’جب چاہتے ہیں‘‘کے الفاظ سے کیا مراد ہے؟اہل ’’المورد‘‘کی جو آرا فاضل ناقد نے تنقید کے لیے منتخب کی ہیں، کیا اہل ’’المورد‘‘ نے انھیں عقل و نقل کے دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے اور یقیناً ایسا ہی ہے تو پھر علم و اخلاق کی رو سے ’’جب چاہتے ہیں‘‘کا فتویٰ صادر کرنے کی کیا گنجایش ہے؟ اس صورت میں کیا واحد راستہ یہ نہیں ہے کہ زیر تنقید رائے کے دلائل کو چیلنج کر کے ان کی غلطی کوواضح کیا جائے؟
دوسراسوال یہ ہے کہ ’’فقہاء کی شاذ آراء کو اپنے موقف کی تائید کے لیے بطور ڈھال استعمال کر لینے‘‘ کے کیا معنی ہیں؟ ’’شاذ آراء‘‘ کی اس تعبیر کا مصداق اگر امام رازی، علامہ آلوسی، مفتی محمد شفیع اور مولانا مودودی جیسے مفسرین اور امام شافعی، علامہ کاسانی حنفی، امام ابن قتیبہ،ابن قدامہ حنبلی اور ابن حزم جیسے فقہا کے وہ حوالے ہیں جنھیں ہم نے اپنے موقف کی تائید میں نقل کیا ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ فاضل ناقد لغت میں سے’’شاذ‘‘ کے معنی و مفہوم کو تبدیل کر دیں۔ بصورت دیگر، انھیں یہ بتانا ہو گا کہ وہ کون کون سے علما و فقہا ہیں کہ جن کے حوالے اگر پیش کر دیے جائیں تو مذکورہ رائے ’’ شاذ‘‘ کے دائرے سے نکل کر معروف ، متداول اورمتفق علیہ قرار پا سکتی ہے۔
فاضل ناقد نے اپنی اس تقریر میں دوسری بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کی شرح و تفسیر میں جن علما و فقہا کے حوالے دیے گئے ہیں، اگر ان کا فہم ہمارے لیے حجت ہے تو ر جم کی سزا، ارتداد کی سزا، نزول مسیح، تصویر کاجواز اور قراء توں کے اختلاف جیسے مسائل پر بھی ہمیں ان علما و فقہا کے فہم پر اعتماد کرنا چاہیے۔
فاضل ناقد کی اس بات کے معنی یہ ہیں کسی صاحب علم کی اگر ایک رائے قبول کی ہے تو لازم ہے کہ اس کی باقی آرا کو بھی قبول کیا جائے۔ ہمیں افسوس ہے کہ علم و استدلال کی دنیا میں اس مطالبے کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔جن اصحاب علم کے لیے یہ استحقاق طلب کیا گیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے خود بھی کبھی اس کا مطالبہ نہیں کیا۔ انھوں نے ہمیشہ فرد کے بجائے اس کے موقف اور اس موقف کے استدلال کو موضوع بنایا۔ سلف صالحین کا یہی منہج ہے جسے بعد میں آنے والوں نے بھی پوری ذمہ داری کے ساتھ اختیار کیا اور اس میں کبھی تامل نہیں کیا کہ اگر ایک معاملے میں طبری اور ابن کثیر کی رائے قبول کی ہے تو دوسرے معاملے میں رازی اور زمخشری کی رائے کو اختیار کیا جائے۔ اہل علم کی یہی روایت ہے جسے دور جدید میں علامہ شبلی نعمانی، مولانا حمید الدین فراہی ،سید سلیمان ندوی، مولانا ابوالکلام آزاد، سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی نے پوری شان کے ساتھ آگے بڑھایا ہے۔ 
فاضل ناقد نے اپنی تقریر میں تیسری بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کی تفسیرمیں جن علما و فقہا کے حوالے نقل کیے گئے ہیں، ہم نے ان کی آرا تو نقل کر دی ہیں، مگر ان کا استدلال بیان نہیں کیا۔ 
اس بات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ فاضل ناقد مذکورہ بحث میں ہمارے پیش کردہ حوالوں کا توجہ سے مطالعہ نہیں کر سکے ۔ ہم نے جو حوالے نقل کیے تھے، ان میں علما و فقہا کا استدلال نہایت واضح طور پر بیان ہوا ہے۔ فاضل ناقد اگر ایک مرتبہ پھر ان کا مطالعہ کریں تو انھیں معلوم ہو گا کہ ان میں طیبات کی حلت اور خبائث کی حرمت کے لیے سورۂ اعراف کی آیت ’وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبآءِثَ ‘ (یہ پیغمبر ان کے لیے طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام ٹھیراتا ہے) کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس کی شرح و تفسیر کے ضمن میں ہم نے امام رازی کا اقتباس نقل کیا تھا جس میں انھوں نے فرمایا:
’’’ویحل لہم الطیبات‘: بعض لوگوں نے کہا ہے کہ طیبات سے مراد وہ اشیا ہیں جن کے حلال ہونے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، مگر یہ بات دو پہلووں سے بعید ہے۔ ایک یہ کہ اگر اس کا معنی یہ ہوتا تو پھر الفاظ یہ ہوتے کہ ’ویحل لہم المحلات‘ (اور پیغمبر ان کے لیے حلال چیزوں کو حلال ٹھہراتا ہے) اور یہ محض تکرار ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ معنی لینے سے آیت فائدے سے خالی ہوجاتی ہے، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ جن اشیا کو اللہ نے حلال ٹھہرایا ہے، وہ کیا ہیں اور کتنی ہیں۔ لازم ہے کہ طیبات سے مراد وہ چیزیں ہوں جو طبیعت کو اچھی لگیں اور جن کو کھانے میں لذت کا فائدہ حاصل ہو۔‘ ‘ (تفسیر کبیر۱۵/ ۲۴)
فاضل ناقد نے حالیہ تحریر میں اپنی تمام علمی تنقیدات اور ان پر ہمارے جوابی دلائل سے تو پوری طرح قطع نظر کیا ہے، البتہ راقم کے ایک گزشتہ مضمون کا یہ جملہ نقل کر کے کہ ’’ دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق ، سنت ابراہیمی کی روایت اورقدیم صحائف بھی ہیں‘‘،سارا زور قلم اس بات پر صرف کیا ہے کہ غامدی صاحب کے مآخذ دین چار ہیں اور ان میں سے ایک فطرت بھی ہے۔فاضل ناقد نے یہ مقدمہ ’’ جاوید احمد غامدی کا تصور فطرت‘‘ کے زیر عنوان اپنے گزشتہ مضمون میں بھی پیش کیا تھا، مگر ہم نے اسے موضوع بحث نہیں بنایا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ یہ مقدمہ غامدی صاحب کی تحریر پر مبنی نہیں تھا اور اس پر گفتگو ’’فکر غامدی، ایک تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے اس دائرے سے باہر نکلتی تھی جسے خود فاضل ناقد نے قائم کیا تھا۔ لیکن اب جبکہ فاضل ناقد نے اپنی مختصر سی تحریر میں ہمارے اس جملے کو پانچ مرتبہ نقل کر کے اپنے ’’تحقیقی اور تجزیاتی مطالعے‘‘ میں اس کی غیر معمولی اہمیت کا تاثر دیا ہے تو اس سے صرف نظر کرنا ان تحقیقات کی قدر ناشناسی پر محمول ہو سکتا ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اس کے بارے میں بھی اپنی معروضات پیش کر دی جائیں۔
مذکورہ جملہ راقم کے ایک مضمون ’’اسلام اور موسیقی‘‘سے منتخب کیاگیا ہے جو مارچ ۲۰۰۴ کے ماہنامہ’’ اشراق‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ یہ اس کی ایک بحث ’’قرآن اور موسیقی‘‘ کے تمہیدی نوٹ کا جز ہے۔ قارئین کے ملاحظے کے لیے یہ نوٹ حسب ذیل ہے: 
’’قرآن مجید دین کی آخری کتاب ہے ۔ دین کی ابتدا اس کتاب سے نہیں ، بلکہ ان بنیادی حقائق سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے روز اول سے انسان کی فطرت میں ودیعت کر رکھے ہیں ۔ اس کے بعد وہ شرعی احکام ہیں جو وقتاً فوقتاً انبیا کی سنت کی حیثیت سے جاری ہوئے اور بالآخر سنت ابراہیمی کے عنوان سے بالکل متعین ہو گئے ۔ پھر تورات، زبور اور انجیل کی صورت میں آسمانی کتابیں ہیں جن میں ضرورت کے لحاظ سے شریعت اور حکمت کے مختلف پہلووں کو نمایاں کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے اور قرآن مجید نازل ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن دین کی پہلی نہیں ، بلکہ آخری کتاب ہے اور دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن بالعموم ان مسلمات کی تفصیل نہیں کرتا جو دین فطرت کے حقائق کی حیثیت سے انسانی فطرت میں ثبت ہیں یا سنت ابراہیمی کی روایت کے طور پر معلوم و معروف ہیں ۔ (۱۱)
اس عبارت میں ’’دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں‘‘ کے تحت فٹ نوٹ میں ہم نے لکھا ہے کہ ’’اس موضوع پر مفصل بحث استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تالیف ’’میزان‘‘ کے صفحہ ۴۷ پر ’’دین کی آخری کتاب ‘‘ کے زیر عنوان ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔‘‘ 
ہمارے اس نوٹ سے فاضل ناقد نے جو معنی اخذ کیے ہیں اور ہماری تحریر کو اپنے مفہوم کا جامہ پہنانے کے لیے جس جاں فشانی سے کام لیا ہے، اس کی تفصیل یہ ہے:
  • لکھا گیاہے:’’منظور الحسن صاحب کا دعویٰ تھا کہ غامدی صاحب نے ’اصول و مبادی‘ میں ’فطرت کے حقائق ‘ کو ایک مستقل ماخذ دین کے طور پر بیان کیا ہے ‘‘۔ (ماہنامہ الشریعہ اگست ۲۰۰۷، ۴۳)
  • حالانکہ اس طرح کا کوئی دعویٰ زیر بحث اقتباس میں مذکور نہیں ہے۔
  • لکھا گیا ہے کہ منظور الحسن صاحب نے غامدی صاحب کے مآخذ دین چار بتلائے ہیں۔
  • ’’مآخذ دین‘‘، ’’چار مآخذ دین‘‘ اور ’’غامدی صاحب کے چار مآخذ دین‘‘، ان میں سے کوئی الفاظ ہماری تحریر میں موجود نہیں ہیں۔
  • لکھا گیا ہے کہ منظور الحسن نے اپنی اس عبارت کی نسبت غامدی صاحب سے کی ہے۔
  • یہ بات بھی درست نہیں ہے ۔ ہم نے یہ نہیں لکھا کہ ’’یہ غامدی صاحب کی بات ہے‘‘، بلکہ یہ لکھا ہے کہ’’ اس موضوع پر مفصل بحث غامدی صاحب کی تالیف ’’میزان‘‘ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے‘‘ ۔ یہ دونوں جملے ظاہر ہے کہ بالکل الگ الگ مفہوم کے حامل ہیں۔پہلا جملہ مصنف کی نسبت سے ہے، جبکہ دوسرا جملہ موضوع کی نسبت سے ہے۔
  • لکھا گیا ہے: ’’منظور الحسن صاحب نے واضح لکھا ہے کہ غامدی صاحب کی’’میزان‘‘ کی عبارت کو کوئی صاحب صرف ان کا فلسفہ نہ سمجھے، بلکہ یہ ان کے مصادر شریعت ہیں۔‘‘
ہمارے اقتباس میںیہ کہیں بیان نہیں ہوا کہ غامدی صاحب کی بات کو ان کا فلسفہ نہ سمجھا جائے۔ ’’مصادر شریعت‘‘ کے الفاظ بھی استعمال نہیں ہوئے۔ اس کے بجائے ’’دین کے مصادر‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔فاضل ناقد اس بات سے واقف ہوں گے کہ شریعت دین کا ایک حصہ ہے، کل دین نہیں ہے۔ شریعت کے علاوہ دین کا ایک بہت بڑا جز ایمانیات اور اخلاقیات پر مبنی ہے۔چنانچہ ’’مصادر شریعت‘‘ اور’’ دین کے مصادر‘‘ کے الفاظ کو ہم معنی تصور نہیں کیا جا سکتا۔
اس تقابل اور تجزیے سے یہ بات اگر چہ پوری طرح واضح ہو گئی ہے کہ ہمارے مذکورہ اقتباس کو الفاظ و معانی کا جو جامہ پہنایا گیا ہے، وہ قرین حقیقت نہیں ہے، تاہم اگربرسبیل تنزل یہ مان بھی لیا جائے کہ فاضل ناقد کا اخذ و استنباط حرف بہ حرف درست ہے ، تب بھی اس تحقیق انیق پر حسب ذیل بعض ایسے سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کے کم سے کم ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہیں۔ 
فاضل ناقد نے اپنی تنقید ’’فکر المورد ایک تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے نہیں لکھی ۔ اگر عنوان یہ ہوتا تو انھیں اس کا حق حاصل تھا کہ ’’المورد‘‘ کے کسی بھی مصنف کی تحریر کو منتخب کرکے اس کا تجزیہ اور تحلیل کرتے۔ ظاہر ہے کہ اس پر کسی صاحب فہم کو اعتراض نہ ہوتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے جو عنوان قائم کیا ہے، وہ ہے: ’’فکر غامدی ایک تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ ‘‘۔فکر غامدی کے’’تحقیقی وتجزیاتی مطالعے‘‘کے لیے غامدی صاحب کی تحریر کے بجائے کسی اور کی تحریر کا انتخاب علم و اخلاق کے کن مسلمات کی رو سے روا سمجھا گیا ہے؟
اس سوال کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
’’اصول و مبادی‘‘ میں مآخذدین کے موضوع پر غامدی صاحب کی مفصل تحریر موجود ہے جس میں انھوں نے بیان کیا ہے :
’’دین کا تنہا ماخذ اس زمین پر اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔ یہ صرف انھی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کو ان کے پروردگار کی ہدایت میسر ہو سکتی اور یہ صرف انھی کا مقام ہے کہ اپنے قول و فعل اور تقریر و تصویب سے وہ جس چیز کو دین قرار دیں، وہی اب رہتی دنیا تک دین حق قرار پائے:
ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ.(الجمعہ ۶۲: ۲ )
’’وہی ذات ہے جس نے اِن امیوں میں ایک رسول اِنھی میں سے اٹھایا ہے جو اُس کی آیتیں اِن پر تلاوت کرتا ہے اور اِن کا تزکیہ کرتا ہے اور (اِس کے لیے ) اِنھیں قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘ ‘ 
یہی قانون و حکمت وہ دین حق ہے جسے ’’اسلام‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اس کے ماخذ کی تفصیل ہم اس طرح کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے : 
۱۔ قرآن مجید 
۲ ۔سنت۔ ‘‘ (اصول ومبادی، ۹)
’’اصول و مبادی‘‘ وہ کتاب ہے جسے فاضل ناقد نے اپنی تنقیدات کے لیے منتخب کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا آغاز ہی مآخذ دین کی درج بالابحث سے ہوتا ہے۔کیا وجہ ہے کہ فاضل ناقد نے غامدی صاحب کے مآخذ دین پر تنقید کے لیے قلم اٹھایا ہے اور انھیں غامدی صاحب کی اس واضح تحریر کو چھوڑ کر راقم کی ایک ایسی تحریر کا انتخاب کرنا پڑا ہے جس میں مآخذ کا لفظ بھی استعمال نہیں ہوا؟
اس سوال کا بھی ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
فاضل ناقد کے منظور نظر مذکورہ اقتباس کے تحت حاشیے میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ ’’اس موضوع پر مفصل بحث استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تالیف ’’میزان‘‘ کے صفحہ ۴۷ پر ’’دین کی آخری کتاب ‘‘ کے زیر عنوان ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔‘‘ فاضل ناقد کو اگر غامدی صاحب پر اسی موضوع کے حوالے سے تنقید کرنی تھی تو وہ بآسانی ’’میزان‘‘ کے صفحہ ۴۷سے ’’دین کی آخری کتاب ‘‘ کے مندرجات کونقل کر کے ان پر اپنا زور قلم صرف کر سکتے تھے۔ انھیں اس کو چھوڑ کر ہمارا اقتباس منتخب کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟
اس سوال کا بھی ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
’’اسلام اور موسیقی‘‘ کے زیر عنوان ہمارے جس مضمون میں سے فاضل ناقد نے مذکورہ اقتباس اٹھا کر درج بالا مضمون آفرینی کی ہے ، اسی مضمون کی تمہید میں ہم نے نہایت صراحت کے ساتھ حکم شریعت اخذ کرنے کے ذرائع بیان کیے تھے۔ ہم نے لکھا تھا:
’’... دین میں کسی چیز کے جواز یا عدم جواز کے لیے فیصلہ کن حیثیت قرآن و سنت کو حاصل ہے ۔ ان کی سند کے بغیر شریعت کی فہرست حلت و حرمت میں کوئی ترمیم و اضافہ نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ایمان کا تقاضا ہے کہ جن امور کو یہ جائز قرار دیں،انھیں پورے شرح صدر کے ساتھ جائز تصور کیا جائے اور جنھیں ناجائز قرار دیں ، فکر و عمل کے میدان میں ان کے جواز کی کوئی راہ ہر گز نہ ڈھونڈی جائے۔
کسی معاملے میں دین کا نقطۂ نظر جاننے کے لیے اہل علم کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے شریعت کے یقینی ذرائع یعنی قرآن و سنت سے رجوع کیا جاتا ہے۔ پھرحدیث کی کتابوں میں درج نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب روایات کی تحقیق کی جاتی ہے۔اگر موضوع سے متعلق روایات موجود ہوں تو عقل و نقل کے مسلمات کی روشنی میں ان سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ضرورت ہو تو قدیم الہامی صحائف کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے اور صحابۂ کرام کے آثار کی روایتیں بھی دیکھی جاتی ہیں ۔انجام کار قرآن ، حدیث اور فقہ کے علماے سلف و خلف کی شروح اور توضیحات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔‘‘  (اشراق، مارچ ۲۰۰۴، ۸)
فاضل ناقد کو اگرراقم کے مضمون ’’اسلام اور موسیقی‘‘ ہی سے مآخذ دین کی بحث برآمد کرنی تھی تو اس کے لیے واحد جگہ یہی تھی۔ کیا وجہ ہے کہ اس سے صرف نظر کر کے ایک ایسے مقام کا انتخاب کیا گیا ہے جہاں یہ موضوع اصلاً زیر بحث ہی نہیں ہے؟
اس سوال کا بھی ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
مذکورہ اقتباس میں ہم نے اپنی بات کی تفہیم کے لیے ’’دین کے مآخذ‘‘ کے نہیں، بلکہ ’’دین کے مصادر‘‘ کے الفاظ استعمال کیے تھے ۔ یہ تعبیر اختیار کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ کوئی شخص اس بحث کو مآخذ دین کی بحث پر محمول نہ کر لے۔
ہمیں اگر مآخذ دین ہی کی بحث کرنی ہوتی تو اس کے لیے نہ ’’قرآن اور موسیقی‘‘ کایہ مقام موزوں تھا اور نہ ’’مصادر‘‘ کا لفظ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اسلامی علوم میں دین اخذ کرنے کے ذرائع کے لیے ’’مصادر‘‘ کا نہیں، بلکہ ’’مآخذ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ یہ لفظ ایک اصطلاح ہے جس کا ایک متعین مفہوم اور مصداق ہے۔ ’’مآخذ‘‘ کا یہ لفظ اس مفہوم میں اس قدر صریح اور اس قدر متداول ہے کہ فاضل ناقد کو مذکورہ اقتباس پر تنقید کرنے کے لیے جابجا’’مصادر‘‘ کے لفظ کو ’’مآخذ‘‘ کی اصطلاح سے تبدیل کرنا پڑا ہے۔چند جملے ملاحظہ کیجیے:
’’غامدی صاحب کے حوالے سے میں نے وہی بات بیان کی ہے جو کہ منظور الحسن صاحب نے بھی لکھی ہے کہ غامدی صاحب کے مآخذ دین چار ہیں ۔...میں سید منظور الحسن صاحب سے یہ استفسار کرنے میں حق بجانب ہوں کہ ان کا اپنے اس فہم کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جس میں انھوں نے غامدی صاحب کے مآخذ دین چار بتلائے ہیں؟...سب سے اہم بات یہ ہے کہ ۲۰۰۴ء میں منظورا لحسن صاحب کی یہ عبارت ’اشراق‘ میں شائع ہوئی کہ غامدی صاحب کے مآخذ دین چار ہیں اور ان میں سے ایک ’فطرت‘ بھی ہے۔‘‘ (الشریعہ، اگست ۲۰۰۷، ۴۳)
بہرحال،مذکورہ جملے میں’’دین کے مصادر‘‘ کے الفاظ کے بارے میں فاضل ناقد اگریہ کہتے کہ مضمون کی تمہید میں شریعت اخذ کرنے کے ذرائع کا بیان، جملے کا سیاق و سباق اورغامدی صاحب کی محولہ عبارت جیسے واضح قرائن اگرچہ اس میں مانع ہیں کہ’’دین کے مصادر‘‘ کے الفاظ سے ’’مآخذ دین‘‘ کی اصطلاح مراد لی جائے، لیکن ’’مصادر‘‘ کا لفظ چونکہ لغوی مفہوم کے اعتبار سے ’’مآخذ‘‘ کے لفظ کے قریب ہے، اس لیے اس کا استعمال خلط مبحث کا باعث بن سکتا ہے اور کوئی شخص اسے ’’مآخذ‘‘کی اصطلاح پر بھی محمول کر سکتا ہے۔ وہ اگر یہ تنقید کرتے تو ہم اسے ہر لحاظ سے صائب قرار دیتے اور اظہار تشکر کے ساتھ قبول کرتے۔ ہم اب بھی ان کے شکر گزار ہیں کہ ان کی تنقید کے نتیجے میں ہمیں اپنی تحریر کے ایک ناموزوں لفظ کو تبدیل کرنے کا موقع ملا ہے۔ تاہم،فاضل ناقد نے یہ تنقید نہیں کی۔ اس کے بجائے انھوں نے ’’مصادر‘‘ کے لفظ کونہایت بے تکلفی سے ’’مآخذ‘‘ کی اصطلاح اور اس کے جملہ اطلاقات سے تبدیل کیا اور اسی زاویے سے اس پر نقد و جرح کی۔ کیا وجہ ہے کہ یہ تبدیلی کرتے ہوئے ان کے ذہن میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ مصنف نے ’’مآخذ‘‘ کی معروف اصطلاح چھوڑ کر ’’مصادر‘‘ کا لفظ کیوں اختیار کیا ہے؟
اس سوال کا بھی ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
فاضل ناقد کی تنقید کے جواب میں ہم نے نہایت تفصیل کے ساتھ اس بات کی وضاحت کر دی تھی کہ غامدی صاحب فطرت کو ہرگز ’’مآخذ دین‘‘ میں شامل نہیں کرتے۔ ہم نے لکھا تھا کہ غامدی صاحبنے ’’اصول ومبادی‘‘ میں فطرت کا ذکر قرآن مجید کی دعوت کو سمجھنے میں معاون ایک ذریعے کے طور پر تو کیا ہے، لیکن کہیں بھی اسے مستقل بالذات ماخذ دین کے طور پر پیش نہیں کیا، ورنہ وہ ’’مبادی تدبر قرآن‘‘، ’’مبادی تدبر سنت‘‘ اور ’’مبادی تدبر حدیث‘‘ کی طرح ’’مبادی تدبر فطرت‘‘ کا بھی باقاعدہ عنوان قائم کرتے اور اس کے تحت فطرت اور اس کے تقاضوں کی تعیین کے اصول وضوابط بیان کرتے۔ ۲۰۰۷ء کی ہماری اس وضاحت کے بعد فاضل ناقد ۲۰۰۴ء کے اقتباس کو زیر بحث لانے پر کیوں اصرار کر رہے ہیں؟
اس سوال کا بھی ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
ہمارے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ فاضل ناقد کے پاس بھی ان سوالوں کا جواب ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کیا وہ اس کو اگلے مضمون میں زیر بحث لائیں گے یا انھیں بھی ’’ادھر ادھر کی تاویلات‘‘ کا عنوان دے کر کچھ مزید ’’آپشنز‘‘ پر غور کرنے کا حکم صادر کریں گے۔
خاتمۂ کلام کے طور پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مذکورہ اقتباس کے مدعاکی وضاحت کر دی جائے جو فاضل ناقد کے لیے خلط مبحث کا باعث بنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کر دیا جائے کہ غامدی صاحب کی جس بحث کا حوالہ ہم نے اپنے اقتباس میں دیا تھا، اس کی نوعیت اور اس کا مفہوم ہمارے فہم کے لحاظ سے کیا ہے۔
مذکورہ اقتباس میں ہم نے نہایت اختصار کے ساتھ قرآن مجید کا پس منظر بیان کیا تھا اور یہ واضح کیا تھا کہ دین قرآن مجید سے شروع نہیں ہوتا، بلکہ اس پر مکمل ہوتا ہے اور قرآن کے پس منظر میں دین کی جو تاریخ ہے، اس کا آغاز فطرت کے حقائق سے ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ ہماری یہ تحریر اپنے مدعا کے کامل ابلاغ سے قاصر ہو، لیکن جہاں تک غامدی صاحب کی ’’میزان ‘‘کے صفحہ ۴۷ کی بحث کا تعلق ہے، جس کا حوالہ ہم نے اس اقتباس کے ساتھ درج کیا تھا، وہ اپنے مدعا میں اس قدر واضح ہے کہ اس سے کم سے کم فطرت کے ماخذ دین ہونے کا مفہوم ہرگز اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ ’’دین کی آخری کتاب‘‘ کے زیر عنوان انھوں نے یہ بات بیان کی ہے کہ قرآن جس دین کو پیش کرتا ہے ،تاریخی طور پر اس کی وہ پہلی نہیں،بلکہ آخری کتاب ہے۔ دین فطرت، سنت ابراہیمی اور نبیوں کے صحائف تاریخی لحاظ سے اس سے مقدم ہیں۔چنانچہ قرآن کی شرح و تفسیر میں پس منظر کے ان مقدمات کو لازماً ملحوظ رکھا جائے گا۔ انھوں نے لکھا ہے :
’’(قرآن پر غور و تدبر کے اصولوں میں سے )چھٹی چیز یہ ہے کہ قرآن جس دین کو پیش کرتا ہے ،اس کی وہ پہلی نہیں،بلکہ آخری کتاب ہے۔اس دین کی تاریخ یہ ہے کہ انسان کو جب اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھیجا تو اس کے بنیادی حقائق ابتدا ہی سے اس کی فطرت میں ودیعت کر دیے۔ ..... ان کتابوں کے متن جب اپنی اصل زبان میں باقی نہیں رہے تو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے آخری پیغمبر کی حیثیت سے مبعوث کیا اور انھیں یہ قرآن دیا ۔ ...یہ دین کی تاریخ ہے ۔‘‘ (اصول و مبادی ۴۷)
بات کا آغاز بھی اس جملے سے ہوا ہے کہ ’’اس دین کی تاریخ یہ ہے ‘‘ اور اختتام بھی اس جملے پر ہوا ہے کہ ’’یہ دین کی تاریخ ہے۔‘‘ دین کی تاریخ کی بحث کو دین کے مآخذ کی بحث تصور کرنا کیسے ممکن ہوا ہے، اس کا جواب ظاہر ہے کہ فاضل ناقد ہی دے سکتے ہیں۔ 

دارالعلوم کراچی کا فتویٰ

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

لندن،۱۶ اگست ۲۰۰۷ء
حضرت مولانا !
اگست کے شمارے میں اپنا استفتاء اور اس کا جواب دیکھ کر حیران ہوا ہوں۔ اور ایسا لگا جیسے 
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
آپ برطانوی مسلمانوں کے موجودہ حالات و گھمبیر مسائل سے بالکل ہم لوگوں ہی کی طرح واقف ہیں۔پھر بھی کیاآپ نے یہ چاہا ہے کہ دارالعلوم کراچی کے دارالافتاء کا وہ جواب جو صرف مجھ تک اور آپ ہی تک تھا ،ایک معنیٰ میں آپ کی توثیق کے ساتھ، اسلامیانِ برطانیہ تک عام ہو، اور ان کے حالات کی نزاکت جلد سے جلد اپنے بقیہ مراحل ،خد ا نہ کردہ،طے کرلے ! 
آپ نے یقیناً یہ نہیں چاہا ہوگا۔ لیکن ذرا غور تو فرمائیے۔جب ہمارے ایک بڑے دارالافتاء کا یہ فتویٰ، ادارہ الشریعہ کی سند سے ،لوگوں تک پہنچے کہ برطانوی مسلمانوں کیلئے بھی ملعون رشدی کے قتل کا فتویٰ اصلاً اسی طرح واجب العمل ہے جس طرح پاکستان جیسے کسی مسلم ملک کے مسلمانوں پر،اِلّا یہ کہ وہ راہِ عزیمت چھوڑ کر رخصت کی آسان راہ پہ قناعت کریں، تویہ ہمارے یہاں کے روز بروز شکنجہ کستے ہوئے حالات میں بہتری کی کوئی تدبیر ہوگی یا بد تری کی طرف ایک قدم اور بڑھانے کا ہمت افزا اشارہ؟ 
اور ،کسی اور کو نہیں تو آپ کو تو آپ کی کتاب’’ حدود آرڈیننس ‘‘کا وہ مقام اس موقع پر یاد دلایا ہی جا سکتا ہے جہاں پاکستان میں اسلامی حدود و تعزیرات کے نفاذ کے مسئلہ کی مشکلات میںآپ نے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق چارٹر کا عمل دخل بتا تے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ہمارے یہاں سپریم کورٹ میں ایک کیس کے حوالے سے اس پر بحث ہو چکی ہے اور عدالتِ عظمیٰ نے اسی اصول پر(کہ ہم نے اس پر دستخط کر رکھے ہیں،اس لئے ہمیں اس معاہدہ کی پابندی کرنی چاہئے)فیصلہ کیا تھاکہ انسانی حقوق کا یہ منشور بین الاقوامی معاہدہ ہے اور اس معاہدہ کی پابندی ہم پر لازم ہے۔۔۔ ۔‘‘(صفحہ ۱۶)۔نہ آپ کا مقصد اس فیصلہ کی تائید تھا جس میں حالات کے آگے بالکل سر نگوں ہونے کا سبق ہے نہ میرا اس کو دوہرانے سے مقصد یہ ہے۔البتہ حالات سے آنکھیں بند کرکے باتیں کرنا تو زندگی کی راہ نہیں ہے۔ اللٰھُمَّّ اَلْھِمْنا مَراشِدَ اُمورِنا ۔ 
والسلام 
نیازمند 
عتیق سنبھلی 

الشریعہ اکادمی کی سالانہ کارکردگی رپورٹ

ادارہ

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ ۱۹۸۹ء سے اسلام کی دعوت وتبلیغ، اسلام مخالف لابیوں کی نشان دہی اور ان کی سرگرمیوں کے تعاقب، اسلامی احکام وقوانین پر کیے جانے والے اعتراضات وشبہات کے ازالہ، دینی حلقوں میں باہمی رابطہ ومشاورت کے فروغ اور نوجوان نسل کی فکری وعلمی تربیت وراہ نمائی کے لیے مصروف کار ہے۔ مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے خطیب اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے صدر مدرس مولانا زاہد الراشدی اکادمی کے ڈائریکٹر ہیں جبکہ حافظ محمد عمار خان ناصر (ایم اے انگلش پنجاب یونیورسٹی، فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ) ڈپٹی ڈائریکٹر اور مولانا حافظ محمد یوسف (فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ) ناظم کے طور پر ان کی معاونت کرتے ہیں۔ 
اکادمی کی سال رواں کی رپورٹ احباب ومعاونین کی خدمت میں پیش ہے:

اکادمی کے زیر اہتمام دینی مراکز 

  • ۱۹۹۹ سے جی ٹی روڈ گوجرانوالہ پر کنگنی والا بائی پاس کے قریب سرتاج فین کے عقب میں ہاشمی کالونی میں ایک کنال زمین پر اکادمی کی تین منزلہ عمارت زیر تعمیر ہے جو اس وقت اکادمی کی بیشتر تعلیمی اور علمی وفکری سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ اس سال مسجد کے ہال کا تعمیری کام جزوی طور پر مکمل کیا گیا ہے جس پر ڈیڑھ لاکھ روپے سے زائد رقم خرچ ہوئی ہے جبکہ مسجد کے بقیہ تعمیری کام کی تکمیل کے لیے سات لاکھ روپے کی لاگت کا اندازہ ہے۔
  • کینال ویو واپڈا ٹاؤن کے عقب میں کوروٹانہ کے مقام پر کھیالی کے مخیر دوست حاجی ثناء اللہ طیب نے الشریعہ اکادمی کے لیے ایک ایکڑ (آٹھ کنال) زمین وقف کی ہے جہاں تقریباً دس لاکھ روپے کی لاگت سے، چار دیواری کی بنیادیں بھرنے کے علاوہ مدرسہ طیبہ تحفیظ القرآن کا ایک بلاک بھی تعمیر کیا جا چکا ہے۔ اس مرکز میں پرائمری پاس طلبہ کے لیے حفظ قرآن کریم مع مڈل کی کلاس جاری ہے۔
  •  کھوکھرکی گوجرانوالہ کے مخیر بزرگ حاجی مہر عبد العزیز صاحب نے جہانگیر کالونی میں ایک کنال رقبہ پر دو منزلہ جامع مسجد ابو ذر غفاریؓ تعمیر کر کے اس کا انتظام الشریعہ اکادمی کے سپرد کر دیا ہے اور اب اس کا انتظام اکادمی چلا رہی ہے۔ مولانا مجاہد اختر (فاضل درس نظامی) کو مسجد ابوذرؓ کا خطیب اور امام مقرر کیا گیا ہے۔ وہ خطابت وامامت کے ساتھ محلہ کے بچوں اور بچیوں کو قرآن کریم کی تعلیم دے رہے ہیں اور علاقہ کے نوجوانوں کے لیے فہم دین کورس بھی جاری ہے۔

تعلیمی سرگرمیاں 

  • عوام الناس کی دینی واخلاقی تربیت کے حوالے سے ’’فہم دین کورس‘‘ کے عنوان سے اکادمی نے جو سلسلہ شروع کیا تھا، اس کے فوائد وثمرات کے پیش نظر اس سلسلے کو وسیع تر کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی اور رمضان المبارک ۱۴۲۷ھ کے دوران میں شہر کی مختلف مساجد کے ائمہ اور خطبا کے ساتھ مشاورت کی روشنی میں اور ان کے تعاون سے ۲۳ مساجد میں ’’فہم دین کورس‘‘ کی کلاسز کا انعقاد کیا گیا۔ 
  • جولائی ؍ اگست ۲۰۷ میں چالیس روز کے دورانیے پر مشتمل فہم دین کورس کی تین کلاسز منعقد کی گئیں جن سے ۱۰۰ کے قریب نوجوان اور بزرگ طلبہ اور خواتین نے استفادہ کیا۔ ان کورسز کی تکمیل پر اکادمی میں نوجوان طلبہ اور خواتین میں تقسیم اسناد وانعامات کی الگ الگ تقریبات منعقد کی گئیں جن میں عوام الناس اور خواتین کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس کے علاوہ الشریعہ اکادمی کے تعاون سے موسم گرما کی تعطیلات کے دوران میں شہر کی مختلف مساجد ومدارس میں ’’فہم دین کورس‘‘ کی پچاس سے زائد کلاسز منعقد کی گئیں۔
  • موسم گرما کی تعطیلات میں میٹرک پاس طلبہ کو درس نظامی کے درجہ اولیٰ کے مضامین پر مشتمل کورس مکمل کروایا گیا۔ اس سے قبل اس نوعیت کی پانچ کلاسز مکمل ہو چکی ہیں۔
  • اسکول وکالج کے طلبہ اور طالبات کے لیے عربی گریمر کے ساتھ ترجمہ قرآن مجید کی کلاسز کا سلسلہ بحمد اللہ گزشتہ چھ سال سے جاری ہے۔ اب تک طلبہ کی چار کلاسز ترجمہ قرآن مجید مکمل کر چکی ہیں جبکہ طالبات کی دوسری کلاس اس وقت چھبیس پاروں کا ترجمہ پڑھ چکی ہے۔
  • مئی ؍جون ۲۰۰۷ میں اکادمی کے زیر اہتمام شہر کے دینی مدارس کے طلبہ کے لیے جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں چالیس روزہ انگلش لینگویج کورس کا جبکہ جون؍ جولائی ۲۰۰۷ میں مرکزی جامع مسجد ہی میں عربی بول چال کورس کا انعقاد کیا گیا۔ ان کلاسز کے لیے روزانہ نماز عصر کے بعد کا وقت مقرر کیا گیا اور اکادمی کے ناظم مولانا حافظ محمد یوسف دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کو انگریزی زبان اور عربی بول چال کی تعلیم دی۔ کورس میں مجموعی طور پر چالیس سے زائد طلبہ نے شرکت کی۔ دونوں کورسز میں کامیاب ہونے والے طلبہ میں تقسیم اسناد وانعامات کے لیے ۲۱؍ جولائی ۲۰۰۷ کو الشریعہ اکادمی میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں طلبہ نے انگریزی اور عربی میں اظہار خیال کے علاوہ ان کورسز کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کیے۔ مہمان خصوصی کے طور پر مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ کے استاذ الحدیث مولانا داؤد احمد شریک ہوئے۔ 

دعوت وابلاغ 

  • علمی وفکری جریدہ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ پابندی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے جس میں ملت اسلامیہ کو درپیش مسائل ومشکلات اور جدید علمی وفکری چیلنجز کے حوالہ سے ممتاز اصحاب قلم کی نگارشات شائع ہوتی ہیں۔
  • اردو زبان میں اسلامی ویب سائٹ www.alsharia.org کام کر رہی ہے جس پر ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے علاوہ مختلف عنوانات پر منتخب مقالات ومضامین ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • حالات حاضرہ کے حوالے سے اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کے معلوماتی اور فکر انگیز ہفتہ وار کالم روزنامہ اسلام کراچی میں ’’نوائے حق‘‘ کے عنوان سے اور روزنامہ پاکستان لاہور میں ’’نوائے قلم‘‘ کے عنوان سے شائع ہوتے ہیں۔ 
  •  اکادمی کے شعبہ نشر واشاعت کے زیر اہتمام اس سال حسب ذیل کتابیں اور کتابچے شائع کیے گئے:
    • ’’جناب جاوید احمد غامدی کے حلقہ فکر کے ساتھ (ابو عمار زاہدالراشدی/ معز امجد/ ایک علمی وفکری مکالمہ‘‘ خورشید ندیم/ ڈاکٹر فاروق خان)
      صفحات : ۲۰۰  
    • ’’حدود آرڈیننس اور تحفظ نسواں بل ‘‘ (ابو عمار زاہد الراشدی)
      صفحات: ۱۵۲
    • ’’دینی مدارس کا نصاب ونظام نقد ونظر کے آئینے میں‘‘ (ابو عمار زاہد الراشدی)
      صفحات: ۴۱۶
    • ’’دینی مدارس اور عصر حاضر ‘‘ (الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام تعلیم کے موضوع پر فکری نشستوں اور تربیتی ورکشاپس کی روداد) 
      صفحات: ۲۳۶
    • ’’جامعہ حفصہ کا سانحہ :حالات وواقعات اور اثرات ونتائج‘‘ (ابو عمار زاہد الراشدی)
      صفحات: ۸۰
    • ’’ہمارے دینی مدارس: چند اہم سوالات کا جائزہ ‘‘ (ابو عمار زاہد الراشدی)
      صفحات: ۸۸
    • ’’حدود آرڈیننس اور تحفظ نسواں بل : پس منظر اور پیش منظر‘‘ (ابو عمار زاہد الراشدی)
      صفحات: ۲۴
    •  ’’مغرب کی فکری وتہذیبی یلغار اور علما کی ذمہ داریاں‘‘ (ڈاکٹر محمود احمد غازی)
      صفحات: ۳۶

تربیتی ورکشاپس 

  • ۱۴؍نومبر ۲۰۰۶ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ’’دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے تربیتی نظام کی ضرورت اور تقاضے‘‘ کے عنوان پر ایک روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیاگیا جس میں مختلف دینی مدارس کے اساتذہ اور منتظمین نے شرکت کی۔ ورکشاپ سے مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی، مولانا زاہد الراشدی، مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی، مولانا عبدالرؤف فاروقی، مولانا عبدالحق خان بشیر، مولانا مشتاق احمد، پروفیسر حافظ منیر احمد، پروفیسر محمد اکرم ورک، پروفیسر انعام الرحمن اور دیگر حضرات کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو دائرۂ معارف اسلامیہ کے صدر ڈاکٹر محمود الحسن عارف نے بطور مہمان خصوصی خطاب کیا، جبکہ الشریعہ اکادمی کے ناظم مولانا حافظ محمد یوسف نے گزشتہ سال کی رپورٹ اور آئندہ سال کے پروگرام کی تفصیل پیش کی۔ تیسری نشست دینی مدارس کے اساتذہ کے درمیان باہمی مشاورت کے لیے مخصوص تھی جس میں اساتذہ نے ورکشاپ میں مختلف حضرات کی طرف سے کی جانے والی گفتگو کی روشنی میں تبادلہ خیالات کیا اور متعدد سفارشات پیش کیں۔
  • ۱۱؍ جون ۲۰۰۷ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ’’عامۃ الناس کی تعلیم وتربیت اور ائمہ وخطبا کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے ایک تربیتی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں شہر کے علما اور ائمہ وخطبا کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ تقریب کی صدارت اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کی جبکہ مولانا داؤد احمد، مولانا حافظ محمد یوسف اور مولانا عبدالواحد رسول نگری نے عوام الناس میں دعوتی وتبلیغی سرگرمیوں کے حوالے سے ائمہ وخطبا کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ اس نشست کا اہتمام گزشتہ سال الشریعہ اکادمی کے تعاون سے شہر کی دو درجن سے زائد مساجد میں ۳۰ روزہ فہم دین کورس کے کامیاب سلسلے کے تناظر میں کیا گیا۔ تقریب میں شریک ہونے والے ائمہ وخطبا نے اپنے اپنے دائرۂ کار میں اس کار خیر کو پھیلانے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس سلسلے میں اب تک شہر کی تقریباً ۶۰ مساجد میں، جن میں خواتین کی تعلیم وتربیت کے ۱۵ مراکز بھی شامل ہیں، اس نوعیت کی کلاسز شروع ہو چکی ہیں۔ 

علمی وفکری نشستیں 

  • گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی عالم اسلام کی موجودہ صورت حال، اسلامائزیشن اور دیگر علمی وفکری مسائل پر مولانا زاہد الراشدی کے ہفتہ وار خصوصی لیکچرز کا اہتمام کیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت مولانا راشدی نے مختلف موضوعات پر لیکچر دیے جن میں سے نمایاں عنوانات یہ ہیں: حدود آرڈیننس اور تحفظ نسواں بل کا پس منظر، انسانی حقوق کا مغربی تصور اور اسلام، جدید جمہوری تصورات اور اسلامی احکام وتعلیمات، پاکستان میں اسلامائزیشن کے مختلف مراحل، لال مسجد کا سانحہ اور اس کے اسباب وعوامل۔ 
  • میرپور، ڈھاکہ کے ’دار الرشاد‘ کے مہتمم مولانا سلمان ندوی ۲۴؍ نومبر ۲۰۰۶ کو الشریعہ اکادمی میں تشریف لائے اور ایک خصوصی نشست میں علما اور اساتذہ کے ساتھ تعلیمی امور پر تفصیلی بات چیت کی۔ احباب نے ان سے بنگلہ دیش کے دینی مدارس کے نصاب ونظام اور طریق کار کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ 
  • ۳، ۴، ۵ فروری ۲۰۰۷  کو جامعہ سید احمد شہید لکھنو (انڈیا) میں برصغیر کے دینی نصاب ونظام کے حوالے سے منعقد ہونے والے بین الاقوامی سیمینار کے موقع پر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ (پاکستان) میں اس سمینار کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے ایک فکری نشست کا اہتمام کیا گیا۔ یہ نشست ممتا زماہر تعلیم پروفیسر غلام رسول عدیم کی زیر صدارت ۳؍ فروری ۲۰۰۷ بروز ہفتہ رات آٹھ بجے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں منعقد ہوئی جس میں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کے علاوہ اکادمی کے ناظم مولانا حافظ محمد یوسف، جامعہ عربیہ گوجرانوالہ کے ناظم مولانا ضیاء الرحمن، گورنمنٹ کالج قلعہ دیدار سنگھ کے پروفیسر محمد اکرم ورک، گوجرانوالہ بار ایسوسی ایشن کے سینئر رکن چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ، پروفیسر محمد زمان چیمہ اور دیگر حضرات نے خطاب کیا۔
  • مارچ ۲۰۰۷  میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے استاذ ڈاکٹر محمد سعد صدیقی نے الشریعہ اکادمی میں ’’سنت نبوی کی دستوری اور آئینی حیثیت‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیا جس میں دینی مدارس اور اسکول وکالجز کے اساتذہ نے شرکت کی۔ لیکچر کے بعد سوال وجواب کی نشست میں فاضل مقرر نے حاضرین کے مختلف سوالا ت کے جواب بھی دیے۔
  • ۳۱؍ مارچ ۲۰۰۷ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں مولانا زاہد الراشدی کے مضامین کے دو مجموعوں کی اشاعت کے موقع پر ان کی تقریب رونمائی منعقد کی گئی۔ مضامین کے یہ دو مجموعے ’’جناب جاوید احمد غامدی کے حلقہ فکر کے ساتھ ایک علمی وفکری مکالمہ‘‘ اور ’’حدود آرڈیننس اور تحفظ نسواں بل‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے ہیں۔ تقریب رونمائی سے پروفیسر غلام رسول عدیم، مولانا زاہد الراشدی، پروفیسر محمد شریف چودھری، پروفیسر محمد اکرم ورک اور مولانا مشتاق احمد چنیوٹی کے علاوہ جناب جاوید احمد غامدی کے حلقہ فکر سے تعلق رکھنے والے دانش ور جناب نادر عقیل انصاری نے بھی خطاب کیا جبکہ علماے کرام، اساتذہ، پروفیسر صاحبان اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
  • حفظ قرآن کریم کے بزرگ استاذ حضرت قاری محمد انور صاحب، جو ایک عرصہ تک گکھڑ میں حفظ قرآن کریم کی تعلیم دیتے رہے ہیں اور گزشتہ اٹھائیس برس سے مدینہ منورہ میں تحفیظ القرآن کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں، ۲؍ مئی ۲۰۰۷ بروز بدھ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں تشریف لائے جہاں ان کے شاگرد اور الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کی طرف سے ان کے اعزاز میں استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا۔ مولانا راشدی نے ۱۹۶۰ء میں گکھڑ میں حضرت قاری محمد انور صاحب سے قرآن کریم حفظ مکمل کیا تھا۔ تقریب میں شہر بھر سے قاری محمد انور صاحب کے تلامذہ کے علاوہ علما اور اساتذہ کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ 
  • مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے استاذ الحدیث مولانا عبد القدوس خان قارن جولائی ۲۰۰۷ میں اکادمی میں تشریف لائے اور فہم دین کورس میں شریک خواتین سے ’’خواتین کی دینی ذمہ داریاں‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا۔ انھوں نے مجلس مشاورت برائے تعلیمی وتربیتی کورسز کے زیر اہتمام شہر کی تقریباً ۶۰ مساجد میں خواتین وحضرات کے لیے فہم دین کورس کی کلاسز کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کیا اور ان کی کامیابی کے لیے دعا کی۔

رفاہ عامہ 

  • الشریعہ اکادمی کے زیر انتظام ہاشمی کالونی میں فری ڈسپنسری روزانہ عصر تا عشا کام کرتی ہے اور روزانہ اوسطاً ۶۰ تا ۸۰ مریض اس سے استفادہ کرتے ہیں۔

اکتوبر ۲۰۰۷ء

مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانشورمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
قرآن مجید کا موثر اور معجز طرز بیانمولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
ماہ رمضان اور قرآن مجیدمولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
سورۃ الانعام اور سورۃ النحل کے زمانۂ نزول کے تعین کا مسئلہمحمد مشتاق احمد
دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے تربیتی نظام کی ضرورت اور تقاضےڈاکٹر محمود الحسن عارف
ہماری درس گاہوں میں عربی زبان و ادب کی پس ماندگیمولانا محمد بشیر سیالکوٹی
امہات المومنین اور آیت حجاب کا حکممحمد رفیق چودھری
لال مسجدکا سانحہ، علماءِ عظام اور صدر مشرفمولانا عتیق الرحمن سنبھلی
مکتوب بنام صدر وفاق المدارسقاضی محمد رویس خان ایوبی
’’ملی مجلس شرعی‘‘ کا قیامادارہ
حضرت مولانا حسن جانؒ کی شہادت اور مولانا شفیق الرحمن درخواستی کی وفاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانشور

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نیو یارک سے شائع ہونے والے اردو جریدہ ہفت روزہ ’’نیو یارک عوام‘‘ نے ۳۱؍ اگست تا ۶؍ ستمبر ۲۰۰۷ کی اشاعت میں بتایا ہے کہ اقوام متحدہ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سفیر زلمے خلیل زاد نے آسٹریا کے ایک اخبار ’’آئی پریس‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں تیزی سے ابتر ہوتی ہوئی صورت حال تیسری عالمی جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورت حال ابتری کے حوالے سے ایسے نقطے پر پہنچ چکی ہے جس نقطے پر بیسویں صدی کے پہلے نصف حصے میں یورپ کی صورت حال تھی اور یہ صورت حال دو عالمی جنگوں کا باعث بنی تھی۔ انھوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں سیاسی اتار چڑھاؤ جو اس وقت انتہائی بلندیوں کو چھو رہا ہے اور اسلامی تہذیب تیسری عالمی جنگ کی وجہ بن سکتی ہے۔ زلمے خلیل زاد نے یہ بھی کہا کہ اسلامی تہذیب بالآخر عالمی دھارے میں شامل ہو جائے گی تاہم اس عمل میں کچھ وقت لگے گا۔
’’نیو یارک عوام‘‘ کے اسی شمارے میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل ارج کیسی کے ایک خطاب کی رپورٹ بھی شائع ہوئی ہے جو انھوں نے سان جوآن میں نیشنل گارڈ ایسوسی ایشن کی ۱۲۹ویں سالگرہ میں کیا ہے اور جس میں انھوں نے کہا ہے کہ انتہا پسند مسلمانوں کے خلاف شروع کی گئی نظریاتی جنگ کئی عشروں تک جاری رہ سکتی ہے اور یہ جنگ اس وقت تک نہیں جیتی جا سکتی جب تک اعتدال پسند مسلمان انتہا پسند مسلمانوں پر بالادستی نہ حاصل کر لیں، اس لیے سرد جنگ کے دور کی طرح یہ نظریاتی جنگ بھی کئی عشروں تک جاری رہ سکتی ہے۔
اس کے ساتھ ’’نیو یارک پولیس ڈیپارٹمنٹ‘‘ کی اس رپورٹ پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے جس کا ان دنوں امریکی حلقوں میں بہت چرچا ہے۔ یہ رپورٹ ۹۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا اعلان نیو یارک کے پولیس کمشنر ریمون کیلی نے پریس کانفرنس میں کیا ہے اور اس میں امریکہ کے اندر دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کی نشان دہی کی گئی ہے۔ ہفت روزہ ’’پاکستان نیوز‘‘ نے، جو نیو یارک سے شائع ہوتا ہے، ۲۳-۲۹ ؍اگست ۲۰۰۷ کے شمارے میں اس کے کچھ حصے شائع کیے ہیں۔ پولیس کمشنر ریمون کیلی نے اخباری کانفرنس میں بتایا کہ اس رپورٹ کو تیار کرنے کے لیے نیو یارک پولیس افسروں نے دنیا بھر کا دورہ کیا ہے اور ۱۰۰ دہشت گردوں اور دہشت گردی کے گیارہ منصوبوں کے مطالعہ کے بعد یہ رپورٹ تیار کی گئی ہے۔ اس میں دہشت گردی کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا گیا ہے کہ کن مراحل سے گزر کر کوئی دہشت گرد مکمل دہشت گرد کا روپ دھار لیتا ہے اور بتایا گیا ہے کہ خطرہ کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص زیادہ مذہبی ہو جائے، ڈاڑھی بڑھا لے، لڑکیوں اور نشے سے دوری اختیار کر لے، امریکن پاپ کلچر سے بیزاری ظاہر کرے اور وار گیم کھیلنے شروع کر دے۔ ایسے نوجوان اپنے خاندان سے تعلقات کم کر لیتے ہیں اور ایسی مساجد میں جانا بند کر دیتے ہیں جو کہ شدت پسند نہیں ہوتیں۔ اس کے بجائے وہ شدت پسند مساجد میں جاتے ہیں۔
تحقیقاتی افسر کا کہنا ہے کہ اگر ’’کوئی مسجد جانا چھوڑ دے تو بظاہر لگتا ہے کہ اچھی بات ہے‘‘ مگر یہ ہو سکتا ہے کہ اس نے مسجد آنا اس لیے چھوڑا ہو کہ وہ اتنی شدت پسند نظریات والے نہیں ہیں۔ رپورٹ میں نوجوانوں کے دہشت گردی کی طرف مائل ہونے کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کسی کی نوکری چھوٹ جائے، نوکری پر تعصب کا شکار ہو جائے، کوئی جانی نقصان ہو جائے، والدین کا انتقال ہو جائے یا پھر کوئی ایسا شخص جو مسلم دنیا پر ہونے والی زیادتی سے ناراض ہو۔
یہ تین رپورٹیں مغرب اور عالم اسلام کے درمیان جاری کشمکش کے بارے میں خود مغربی راہ نماؤں کی طرف سے ظاہر کیے جانے والے خیالات کی ایک جھلک کی حیثیت رکھتی ہیں، ورنہ اگر مغرب میں شائع ہونے والے اخبارات اور جرائد کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے تو اس جیسے بیسیوں بیانات، مضامین اور رپورٹوں کی نشان دہی کی جا سکتی ہے جن کی رو سے مغرب کے ذمہ دار دانش وروں، حکمرانوں اور تجزیہ نگاروں کے نزدیک اس کشمکش اور تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے اسباب کی جڑیں عقیدہ، ثقافت اور کلچر میں پیوست ہیں اور اپنے اسباب، معروضی صورت حال اور نتائج کے حوالے سے یہ واضح طور پر ایک کلچرل اور عقیدہ وثقافت کی جنگ دکھائی دیتی ہے، مگر مسلم دنیا کے ان حکمرانوں اور دانش وروں کے حوصلہ کی داد دینا پڑتی ہے جو ابھی تک مسلسل یہ واویلا کیے جا رہے ہیں کہ مغرب اور مسلم دنیا کے درمیان اس کشمکش کا عقیدہ وثقافت اور کلچر سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جن کے ہر تجزیہ کی تان اس نکتہ پر آ کر ٹوٹتی ہے کہ مسلمانوں کو اور خصوصاً ان کے دینی حلقوں اور مذہبی راہ نماؤں کو مغرب کے بارے میں اپنی رائے پر نظر ثانی کر نی چاہیے، مغرب کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کی طرف پیش رفت کرنی چاہیے۔
ہم ان صفحات میں کئی بار یہ عرض کر چکے ہیں کہ مغرب نے آسمانی تعلیمات سے انحراف اور ریاست وسوسائٹی کے معاملات سے مذہب کی بے دخلی پر مبنی جس سولائزیشن کو گزشتہ دو صدیوں میں پروان چڑھایا ہے، وہ اسے دنیا پر اپنے سیاسی، عسکری اور معاشی غلبے کی وجہ سے ’’واحد عالمی سولائزیشن‘‘ قرار دے کر اسے میڈیا، لابنگ، عسکری بالادستی اور معاشی تسلط کے ذریعے دنیا بھر سے منوانے کے درپے ہے اور مسلم دنیا چونکہ اپنے عقیدہ وثقافت اور قرآن وسنت کی تعلیمات سے بے لچک وابستگی کے باعث سوسائٹی اور ریاست کے معاملات میں ان کے راہ نمائی کے کردار سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے، اس لیے وہ اس کی مزاحمت کر رہی ہے اور جیسا کہ مظلوم، مقہور اور بے بس شخص مزاحمت پر اتر آنے کے بعد جو چیز اس کے ہاتھ میں آ جائے، اسی کو ہتھیار بنا لیتا ہے، اسی طرح ہر طرف سے جکڑی ہوئی مسلم دنیا کا ایک حصہ اس حصار کی رسیوں کو کاٹنے کے لیے جو اس کے بس میں ہے، وہ کیے جا رہا ہے۔
آپ ایک لمحہ کے لیے تصور کیجیے کہ ایک شخص رسیوں سے جکڑا ہوا دشمن کے سامنے پڑا ہے اور دشمن خنجر ہاتھ میں لیے اس کے سر پر کھڑا ہے، وہ شخص خود کو اس صورت حال سے نجات دلانے کے لیے کیا کچھ نہیں کرے گا؟ وہ تڑپے گا، بھاگنے کی کوشش کرے گا، رسیوں کو توڑنے کے لیے دانتوں اور ناخنوں کا استعمال کرے گا، اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو پتھروں پر رگڑے گا اور جسم کے جس حصے کو حرکت دینے کی پوزیشن میں ہوگا، اسے وہ دشمن کے خلاف استعمال کرے گا۔ اس وقت اگر آپ ریفری بن کر سامنے کھڑے ہوں اور اسے سمجھانا شروع کر دیں کہ اس طرح تمھارے دانت ٹوٹ جائیں گے، ناخن اکھڑ جائیں گے، جسم چھلنی ہو جائے گا اور ہاتھ پاؤ ں کی ہڈیاں ٹوٹ جائیں گی تو آپ خود اپنے ضمیر سے پوچھ لیجیے کہ آپ کے اس طرز عمل کو کس عنوان سے تعبیر کیا جانا چاہیے؟
ہم کبھی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حق میں نہیں رہے۔ ہم نے ہمیشہ اعتدال وتوازن او رپرامن جدوجہد کی بات کی ہے اور اس کی حمایت کی ہے۔ اب بھی ہم دنیا کے کسی بھی حصے میں عام شہریوں اور غیر متعلق اور بے گناہ لوگوں کی جان ومال کو خطرے میں ڈالنے کے عمل کو قابل نفریں سمجھتے ہیں اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم مسلم ممالک میں مسلم حکومتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کو بھی درست نہیں سمجھتے اور مسلم معاشروں کی اصلاح اور مسلم ممالک میں اسلامی اقدار وروایات کے نفاذ وتحفظ کے لیے پرامن جدوجہد کو ہی صحیح اور معقول راستہ تصور کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم ان زمینی حقائق کو بھی نظر انداز کرنے کے لیے تیار نہیں کہ:
o --- مغرب اس وقت مسلم دنیا میں سیاسی، معاشی اور عسکری غلبہ کے زور سے جو کچھ کر رہا ہے، اس کا ایک بڑا مقصد مسلمانوں کو اسی طرح آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کے معاشرتی اور ریاستی کردار سے دست بردار ہونے پر مجبور کرنا ہے جس طرح مغرب خود یہ دست برداری اختیار کر چکا ہے۔
o --- مغرب نے ’’دہشت گردی‘‘ کا کوئی مفہوم عالمی سطح پر طے کیے بغیر دہشت گردی کے خلاف جو جنگ شروع کر رکھی ہے، اس نے دہشت گردی اور تحریک آزادی کے معاملات کو آپس میں گڈمڈ کر دیا ہے جس سے مظلوم اور غلام قوموں کا خود ارادیت اور آزادی کا حق مجروح ہو رہا ہے۔
o --- مختلف ممالک میں غیر ملکی فوجی تسلط کے خلاف مزاحمت کرنے والے ’‘فریڈم فائٹرز‘‘ کو دہشت گرد قرار دے کر قوموں کی آزادی اور خود مختاری کا کھلم کھلا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔
البتہ صورت حال میں ایک مثبت تبدیلی کے آثار بھی نمودار ہونا شروع ہوئے ہیں جو ہمارے لیے کسی حد تک اطمینان کا باعث ہے۔ وہ یہ کہ سوسائٹی اور ریاست کے معاملات میں مذہب کے کردار کا خلا اب مغرب میں بھی محسوس کیا جانے لگا ہے اور امریکی دانش وروں کے ایک فکری فورم کے ساتھ ہمیں اس سلسلے میں ابتدائی گفتگو کا موقع ملا ہے۔ راقم الحروف نے اس سال شعبان المعظم کا بیشتر حصہ واشنگٹن کے ایک دینی ادارے ’’دار الہدیٰ‘‘ میں گزارا ہے اور اسی دوران میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ بہت سے امریکی دانش ور اس پہلو پر کام کر رہے ہیں کہ ریاست کے ساتھ مذہب کا تعلق ختم ہونے سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اسے پر کرنے کے لیے کوئی راستہ نکالا جائے۔ اس سلسلے میں دو امریکی دانش وروں ڈگلس جانسٹن اور سینتھیا سمپسن کی مشترکہ طور پر لکھی ہوئی ضخیم کتاب: "Religion: The Missing Dimension of State Craft" اسی حلقہ کے ایک دوست نے مجھے فراہم کی۔ اس کا پیش لفظ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے تحریر کیا ہے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ اس کتاب میں مذہب کے ریاستی کردار کی اہمیت پر بات کی گئی ہے۔ اس کتاب کی دیگر تفصیلات اس وقت میرے سامنے نہیں ہیں، مگر اس کا یہی پہلو میرے لیے کسی حد تک اطمینان بخش ہے کہ مغرب میں ریاست کے ساتھ مذہب کے تعلق کی اہمیت پر دانش وروں میں بحث ہو رہی ہے۔ یہی نکتہ ہمارے دانش وروں کی توجہ کا سب سے زیادہ مستحق ہے اور مسلم دانش وروں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اپنی صلاحیتیں مسلمانوں کو مذہب کے ریاستی کردار سے دست برداری کی تلقین کرنے کے بجائے مغرب کو مذہب کے ریاستی کردار کی بحالی کی اہمیت کا احساس دلانے میں صرف کریں کہ وقت کا سب سے اہم تقاضا یہی ہے۔

قرآن مجید کا موثر اور معجز طرز بیان

مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو فرائض بیان کیے ہیں، ان میں ایک فریضہ تلاوت کتاب اللہ بھی ہے۔ چونکہ آپ کے اولین مخاطب اہل عرب تھے جن کی مادری زبان عربی تھی، جو اپنے وقت میں فصاحت وبلاغت اور نطق وبیان کے امام سمجھے جاتے تھے، اس لیے وہ محض قرآن پاک کی تلاوت ہی سے اس کا مطلب ومفہوم سمجھ لیتے تھے اور اس کی شیرینی اور ٹھوس دلائل سے لطف اندوز اور متاثر ہوتے تھے۔ قرآن کریم کا طرز ادا، اسلوب بیان اور ترغیب وترہیب کا انداز اس قدر سادہ اور موثر ہے کہ اس سے جس طرح ایک بڑے سے بڑا فلسفی محظوظ ہوتا ہے، اسی طرح اس کے دل کش بیان سے اونٹوں اوربکریوں کا چرواہا بھی اثر لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اور جیسے ایک ماہر فلسفی اور عالم اس کے انداز بیان پر داد تحسین دینے پر مجبور ہے، اسی طرح ایک سادہ بدو بھی اس کے پند وموعظت اور رشد وہدایت کے ہمہ گیر اصول پر صد آفرین کہنے پر مجبور ہے۔ یہ قرآن کریم ہی تھا جس نے پہاڑ جیسے مضبوط دلوں کو اپنی جگہ سے ہٹا کر ان میں ایمان واصلاح کا تخم بویا جس سے اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ کے شیریں ثمرات نمودار ہوئے۔ قرآن کریم وہ اعلیٰ واکمل کتاب ہے جس میں کوئی ٹیڑھی ترچھی بات نہیں۔ عبارت انتہائی سلیس وفصیح، اسلوب بیان نہایت موثر وشگفتہ اور تعلیم بے حد متوسط ومعتدل ہے جو ہر زمانہ اور ہر طبیعت کے مناسب اور عقل سلیم کے بالکل مطابق ہے۔ اس میں افراط وتفریط کا ادنیٰ شائبہ بھی نہیں ہے۔ اس کا ہر مضمون جچاتلا ہے۔
قرآن کریم کے ذریعے سے جب وحی الٰہی کی بارش ہوتی ہے تو تسلیم کرنے والوں کے دلوں میں ایمان کا پودا اگتا، بڑھتا، پھولتا اور پھلتا ہے اور اس کی بدولت رضاے الٰہی کے ثمرۂ شیریں سے لذت اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔ قرآن پاک کی اس شیریں مقالی سے گھبرا کر کفار قریش یہ منصوبہ باندھنے پر کمر بستہ ہو گئے اور بالآخر اس پر عمل کر ہی دکھایا کہ ’’نہ سنو اس قرآن کو اور اس کے سننے میں شور وغل مچا دو تاکہ تم غالب آ جاؤ‘‘۔ (حم السجدۃ آیت ۲۶) اس سے بڑھ کر شکست کا اور کیا مظاہرہ ہو سکتا ہے؟ اور اس سے یہ بھی بخوبی آشکارا ہو گیا کہ وہ لوگ بھی جو اپنی فصاحت وبلاغت میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے، قرآن کریم کے دلائل قاہرہ اور براہین ساطعہ سے کس قدر بدحواس ہو جاتے تھے اور قرآن کریم کی آیات کی معجزانہ ادا نے ان کے لیے کس قدر مشکلات پیدا کر دی تھیں۔

ماہ رمضان اور قرآن مجید

مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

قرآن پاک کے رمضان المبارک میں نزول کے متعلق حضرات عبد اللہ بن عباسؓ، سعید بن جبیرؒ ، امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قران پاک کو ماہ رمضان کی ایک رات، لیلۃ القدر میں لو ح محفوظ سے بیت العزت میں اتارا اور پھر وہاں سے پورے تئیس برس میں تھوڑا تھوڑا کر کے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا۔ نزول قرآن کی اس رات کے متعلق خود رب العزت نے فرمایا: ’لیلۃ القدر خیر من الف شہر‘، یہ تو ایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اگر یہ میسر آ جائے تو اس ایک رات کی عبادت ۸۳ سال کی عبادت سے زیادہ افضل ہے۔ یہ بڑی فضیلت والی رات ہے۔
دیگر آسمانی کتابوں کی فضیلت کے متعلق بھی بہت سی روایات آتی ہیں۔ مثلاً طبرانی شریف کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو نازل ہوئے، تورات ۶ رمضان کو اور انجیل ۱۳ رمضان کو نازل ہوئی جبکہ قرآن کریم ۲۴ رمضان کو نازل ہوا۔ یہ تفسیری روایات سے معلوم ہوا ہے۔ بہرحال رمضان المبارک کا قرآن پاک کے ساتھ خصوصی تعلق ہے۔ یہ وہ ماہ مبارک ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت بڑی نعمت عطا فرمائی۔
اس ماہ مبارک کو قرآن پاک کے ساتھ بطور یادگار خصوصی لگاؤ ہے، اسی لیے حکم ہے کہ اس مہینے میں قرآن پاک کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کی جائے۔ اگرچہ محض تلاوت منتہائے مقصود نہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس سے نصیحت پکڑی جائے، اس کے بتلائے ہوئے اصولوں کی پیروی کی جائے اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔ اسی لیے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ ’’مقصد از نزول قرآن محض تلفظ نیست‘‘۔ اگرچہ اس زمانے میں محض تلاوت بھی غنیمت ہے، کیونکہ حضور علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے کہ قرآن پاک کا ایک ایک حرف پڑھنے سے دس دس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔ جب کوئی شخص خلوص دل کے ساتھ تین حرف ’الم‘ پڑھتا ہے تو تیس نیکیوں کا مستحق ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کی اس قدر برکت ہے کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نے مکتوبات میں لکھا ہے کہ قرآن پاک کے علاوہ جو بھی کلام یا اوراد ہیں، انھیں بغیر سمجھے پڑھنے سے کوئی فائدہ نہیں، صرف کلام پاک ہی ایک ایسا کلام ہے جسے سمجھ کر یا بے سمجھے ہر حالت میں پڑھنے سے فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اس کے لیے صرف ایمان اور نیت صالحہ کی ضرورت ہے۔

سورۃ الانعام اور سورۃ النحل کے زمانۂ نزول کے تعین کا مسئلہ

محمد مشتاق احمد

شان نزول کی روایات اور سورتوں کی اندرونی شہادتیں 

کتب تفاسیر میں بعض اوقات ایک ہی سورت کے متعلق شان نزول کی بہت سی روایات مل جاتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی آیت کے کئی اسباب نزول ذکر کیے جاتے ہیں۔ کبھی آیات کے مضامین کی اندرونی شہادت یہ ہوتی ہے کہ ان کا نزول مکہ میں ہوا تھا، لیکن شان نزول کی روایت میں مدنی دور کا واقعہ ذکر ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات سورت کے نظم کی گواہی یہ ہوتی ہے کہ پوری سورت بیک وقت نازل ہوئی مگر روایات میں بعض آیات کا الگ الگ شان نزول ذکر ہوتا ہے۔ اس قسم کی الجھنوں کے حل کے لیے امام الہند شاہ ولی اللہ نے جو تحقیق اپنے رسالے ’’الفوز الکبیر فی علوم التفسیر‘‘ میں پیش کی ہے، اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
صحابہ کرام اور دیگر متقدمین علما جب نزلت فی کذا  اور اس قسم کی دیگر تراکیب استعمال کرتے تھے تو ان کا یہ مطلب نہیں ہوتا تھا کہ بعینہ وہی واقعہ اس آیت کے نزول کا سبب بنا جو اس روایت میں بیان ہوا، بلکہ بعض اوقات ان کی مراد یہ ہوتی تھی کہ عہد نبوی یا اس کے بعد کا یہ واقعہ بھی اس آیت کا مصداق ہے۔ کبھی صحابہ کوئی سوال کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہی سے نازل شدہ کسی آیت سے اس کا حکم مستنبط کرکے بیان فرما دیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استنباط بھی دراصل وحی، القا اور نفث فی الروع کی قسم ہوتی، اس لیے اس طرح کے موقع پر فانزل اللہ تعالی قولہ کے الفاظ کا استعمال جائز ہوتا۔ کبھی صحابۂ کرام کے باہمی مباحثوں میں آیات سے استشہاد ہوتا یا بطور تمثیل ان کا ذکر ہوتا۔ اس قسم کی روایات کو بھی مفسرین اسباب نزول میں ذکر کرتے ہیں۔ اسی طرح صحابۂ کرام یہود ، نصاریٰ، مشرکین اور دوسرے فرق ضالہ کی اعتقادی اور عملی برائیاں بیان کر کے کسی آیت کی تلاوت کرتے اور کہتے کہ نزلت فی کذا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا تھا کہ بعینہ یہی اعمال و عقائد ان آیات کے نزول کا سبب بنے، بلکہ ان کی مراد یہ ہوتی تھی کہ اسی قسم کے عقائد اور اعمال کے متعلق یہ آیات نازل ہوئی ہیں۔ بہ الفاظ دیگر یہ آیات ان عقائد اور اعمال پر بھی منطبق ہوتی ہیں۔ اسی طرح کبھی قرآن مجید میں اچھے اور برے لوگوں کی صفات بیان کی جاتی ہیں۔ ان صفات کا کسی خاص شخص یا اشخاص سے مخصوص کرنا ضروری نہیں ہوتا، بلکہ عام طور پر جن میں بھی وہ صفات ہوں، وہ ان آیات کے مصداق شمار ہوں گے۔ 
شاہ ولی اللہ کہتے ہیں کہ فی الجملہ مفسر کے لیے دو چیزوں کی معرفت ضروری ہے : ایک وہ واقعات جن کی طرف آیات میں اشارہ ہو کیونکہ ان کے علم کے بغیر آیات کے ایما کو سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔ دوسرے وہ واقعات جن سے عام کی تخصیص ہوتی ہو یا اور کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہو۔ اس مؤخر الذکر اصول کو شاہ ولی اللہ علم توجیہ اور تاویل سے متعلق کر دیتے ہیں۔ (۱) 
شاہ صاحب کی رائے کوئی انوکھی یا منفرد رائے نہیں ہے۔ یہی رائے دیگر محققین علما نے بھی اختیار کی ہے۔ (۲) اس اصولی تحقیق کو ماننے کے باوجود مفسرین بالعموم شان نزول کی روایات کو ان کے ظاہری مفہوم کے ساتھ قبول کرکے انہیں سورت کی اندرونی شہادتوں پر فوقیت دیتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بعض سورتوں کا نزول ٹکڑوں میں ہوا۔ یہ بھی مسلم ہے کہ بعض سورتوں کے چند ٹکڑے ہجرت سے قبل اور چند ٹکڑے ہجرت کے بعد نازل ہوئے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان ٹکڑوں کی پہچان کے لیے سورت کے اندر کوئی نشانی نہیں پائی جاتی۔ نیز ان دونوں حقائق کے ساتھ ساتھ ایک تیسری حقیقت بھی مسلم ہے کہ بہت سی سورتوں کا نزول یک بارگی ہوا ہے۔ پس کسی سورت کی مختلف آیات کے متعلق محض یہ کہنا کافی نہیں ہوگا کہ چونکہ بعض سورتیں ٹکڑوں میں نازل ہوئی ہیں، اس لیے یہ بھی ٹکڑوں میں نازل ہوئی ہوگی، کیونکہ اس کے جواب میں بالکل برابر کی سطح پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ بعض سورتیں پوری کی پوری بیک وقت نازل ہوئی ہیں، اس لیے یہ سورت بھی یک بارگی ہی نازل ہوئی ہوگی۔ گویا ہر سورت کے متعلق الگ سے تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ پوری کی پوری یک بارگی نازل ہوئی یا اس کا نزول ٹکڑوں میں ہوا، اور اگر ٹکڑوں میں ہوا تو وہ ٹکڑے کب نازل ہوئے؟ اس سلسلے میں شان نزول کی روایات سے یقیناًمدد لی جاسکتی ہے، لیکن کیا سورت کی اندرونی شہادتوں مثلاً سورت کے نظم اور آیات کے سلسلۂ بیان کی بھی اس ضمن میں کچھ اہمیت ہے؟ اگر شان نزول کی روایت اور سورت کی اندرونی شہادت متصادم ہوں تو پھر ترجیح کسے دی جائے گی؟ کیا سورت کی اندرونی شہادت پر اعتماد کرتے ہوئے شان نزول کی روایت کی اسی طرح تاویل کی جائے گی جس طرح شاہ ولی اللہ اور دیگر محققین نے کی ہے یا شان نزول کی روایت کو قبول کرتے ہوئے سورت کی اندرونی شہادت نظر انداز کی جائے گی، یا اس کی تاویل کی جائے گی ؟ 
مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ سورت کے زمانۂ نزول کے تعین کے لیے شان نزول کی روایات کے علاوہ سورت کی اندرونی شہادتوں کا بھی بعض مقامات پر تجزیہ کرتے ہیں۔ سورۃ ابراہیم کے زمانۂ نزول کا تعین کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں : 
’’عام انداز بیان مکہ کے آخری دور کی سورتوں کا سا ہے۔ سورۂ رعد سے قریب زمانہ ہی کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہے۔ خصوصاً آیت ۱۳ کے الفاظ: و قال الذین کفروا لرسلھم لنخرجنکم من ارضنا او لتعودن فی ملتنا (انکار کرنے والوں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ یا تو تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے ) کا صاف اشارہ اس طرف ہے کہ اس وقت مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم انتہا کو پہنچ چکا تھا اور اہل مکہ پچھلی کافر قوموں کی طرح اپنے ہاں کے اہل ایمان کو خارج البلد کردینے پر تل گئے تھے۔ اسی بنا پر ان کو وہ دھمکی سنا ئی گئی جو ان کے سے رویہ پر چلنے والی پچھلی قوموں کو دی گئی تھی کہ لنھلکن الظٰلمین (ہم ظالموں کو ہلاک کرکے رہیں گے ) اور اہل ایمان کو وہی تسلی دی گئی جو ان کے پیش روؤں کو دی جاتی رہی ہے کہ لنسکننکم الارض من بعدھم (ہم ان ظالموں کو ختم کرنے کے بعد تم ہی کو اس سرزمین میں آباد کریں گے) اسی طرح آخری رکوع کے تیور بھی یہی بتاتے ہیں کہ یہ سورہ مکہ کے آخری دور سے تعلق رکھتی ہے۔ ‘‘ (۳) 
بسا اوقات وہ شان نزول کے متعلق مفسرین کے اقوال پر سورت کی اندرونی شہادتوں کو فوقیت دیتے ہیں۔ مثلاً سورۃ العنکبوت کے زمانۂ نزول کے متعلق وہ کہتے ہیں: 
’’آیات ۵۶ تا ۶۰ سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ یہ سورۃ ہجرت حبشہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی۔ باقی مضامین کی اندرونی شہادت بھی اسی کی تائید کرتی ہے، کیونکہ پس منظر میں اسی زمانہ کے حالات جھلکتے نظر آتے ہیں۔ بعض مفسرین نے صرف اس دلیل کی بنا پر کہ اس میں منافقین کا ذکر آیا ہے اور نفاق کا عملی ظہور مدینہ میں ہوا ہے، یہ قیاس قائم کر لیا کہ اس سورہ کی ابتدائی دس آیات مدنی ہیں اور باقی سورہ مکی ہے۔ حالانکہ یہاں جن لوگوں کے نفاق کا ذکر ہے، وہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے ظلم و ستم اور شدید جسمانی اذیتوں کے ڈر سے منافقانہ روش اختیار کررہے تھے، اور ظاہر ہے کہ اس نوعیت کا نفاق مکہ ہی میں ہوسکتا تھا نہ کہ مدینہ میں۔ اسی طرح بعض دوسرے مفسرین نے یہ دیکھ کر کہ اس سورہ میں مسلمانوں کو ہجرت کی تلقین کی گئی ہے، اسے مکہ کی آخری نازل شدہ سورت قرار دے دیا ہے۔ حالانکہ مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے مسلمان حبشہ کی طرف بھی ہجرت کرچکے تھے۔ یہ تمام قیاسات دراصل کسی روایت پر مبنی نہیں ہیں بلکہ صرف مضامین کی اندرونی شہادتوں پر ان کی بنا رکھی گئی ہے اور یہ اندرونی شہادت ، اگر پوری سورت کے مضامین پر بحیثیت مجموعی نگاہ ڈالی جائے، مکہ کے آخری دور کی نہیں بلکہ اس دور کے حالات کی نشاندہی کرتی ہے جس میں ہجرت حبشہ واقع ہوئی تھی۔‘‘ (۴) 
بعض سورتوں کے زمانۂ نزول کی تحقیق میں مولانا مودودی روایات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک روایت کو دوسری پر فوقیت بھی دے دیتے ہیں۔ (۵ ) سورۃ الانعام کی تفسیر کے دیباچے میں انہوں نے مکی سورتوں کے مضامین پر بڑی معرکہ آرا تحقیق کی ہے اور مکی دور کے مختلف ادوار متعین کیے ہیں۔ (۶) تاہم انہوں نے تمام سورتوں میں تحقیق کا یہ معیار برقرار نہیں رکھا۔ مثلاً سورۃ البینۃ کے زمانۂ نزول کے متعلق وہ پہلے مختلف اقوال نقل کرتے ہیں : 
’’اس کے بھی مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک یہ مکی ہے اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک مدنی ہے۔ ابن الزبیر اور عطاء بن یسار کا قول ہے کہ یہ مدنی ہے۔ ابن عباسؓ اور قتادہ کے دو قول منقول ہیں۔ ایک یہ کہ یہ مکی ہے ، دوسرا یہ کہ مدنی ہے۔ حضرت عائشہؓ اسے مکی قرار دیتی ہیں۔ ابو حیان صاحب بحر المحیط اور عبد المنعم ابن الفرس صاحب احکام القرآن اس کے مکی ہونے کو ہی ترجیح دیتے ہیں ۔ ‘‘ (۷) 
اس کے بعد سورت کی اندرونی شہادتوں کے متعلق اتنا کہہ دینے پر اکتفا کرتے ہیں : 
’’جہاں تک اس کے مضمون کا تعلق ہے، اس میں کوئی ایسی علامت نہیں پائی جاتی جو اس کے مکی یا مدنی ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہو۔‘‘ (۸) 
مولانا امین احسن اصلاحیؒ سورت کے زمانۂ نزول کے تعین کے لیے سورت کی اندرونی شہادتوں اور نظم کی طرف بھرپور توجہ دیتے ہیں اور انہوں نے اپنے استاد حمید الدین فراہیؒ سے ایک قدم آگے بڑھا کر یہ طے کیا ہے کہ قرآن مجید کی سورتیں سات گروپوں میں تقسیم ہیں جن میں ہر گروپ کا اپنا ایک الگ مضمون ہوتا ہے۔ ہر گروپ کا آغاز ایک یا زائد مکی سورتوں سے ہوتا ہے اور ہر گروپ کا اختتام ایک یا زائد مدنی سورتوں پر ہوتا ہے۔ مولانا اصلاحی نے گروپوں کی جو تقسیم کی ہے اور ان میں مدنی اور مکی سورتوں کی جس طرح تقسیم کی ہے، وہ حسب ذیل ہے : 
پہلا گروپ : الفاتحۃ تا المآئدۃ ۔ اس گروپ میں صرف الفاتحۃ مکی ہے ۔ باقی چار سورتیں مدنی ہیں ۔ 
دوسرا گروپ : الانعام تا التوبۃ ۔ اس گروپ میں دو سورتیں الانعام اور الاعراف مکی ہیں جبکہ دو سورتیں الانفال اور التوبۃ مدنی ہیں ۔ 
تیسرا گروپ : یونس تا النور ۔ اس گروپ میں مولانا اصلاحی کی تحقیق کے مطابق آخری سورت النور کے ماسوا باقی تمام سورتیں مکی ہیں ۔ سورۃ الحج کی صرف چار آیات کو مدنی مانتے ہیں اور مجموعی لحاظ سے وہ اسے مکی دور کے آخر کی سورت قرار دیتے ہیں ۔ 
چوتھا گروپ : الفرقان تا الاحزاب۔ اس میں بھی آخری سورت کے ماسوا باقی تمام سورتیں مکی ہیں ۔ 
پانچواں گروپ : سبا تا الحجرات ۔ اس میں سبا سے الاحقاف تک سورتیں مکی ہیں ، جبکہ آخری تین سورتیں: محمد ، الفتح اور الحجرات مدنی ہیں ۔ 
چھٹا گروپ : ق تا التحریم ۔ اس گروپ میں ق تا الواقعۃ سات مکی سورتیں ہیں ، جبکہ الحدید تا التحریم دس مدنی سورتیں ہیں ۔ 
ساتواں گروپ : الملک تا الناس ۔ اس گروپ میں مولانا اصلاحی کی تحقیق کے مطابق الملک تا الکافرون مکی سورتیں ہیں ، جبکہ آخری پانچ سورتیں: النصر ، لہب ، الاخلاص ، الفلق اور الناس مدنی ہیں ۔ (۹) 
مولانا اصلاحی قرار دیتے ہیں کہ ان میں ہر گروپ کا اپنا الگ موضوع اور مضمون ہوتا ہے اور گروپ کی ہر سورت اس مرکزی مضمون کے کسی خاص پہلو کی وضاحت کرتی ہے۔ وہ یہ بھی قرار دیتے ہیں کہ ہر گروپ کے اندر گروپ کے مضمون کا بتدریج ارتقا ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک گروپ کے اندر سورتوں کی ترتیبِ نزولی کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ مثلاً سورۃ النسآء اور سورۃ المآئدۃ ایک ہی گروپ میں یکے بعد دیگرے رکھی گئی ہیں ، اس لیے سورۃ النسآء سورۃ المآئدۃ سے قبل نازل ہوئی۔ 
مولانا اصلاحی سورتوں کے باہمی ربط ، گروپ کے مضمون ، سورت کی اندرونی شہادتوں ، نظم اور آیات کے سلسلۂ بیان پر تدبر کرکے سورت کا زمانۂ نزول متعین کرتے ہیں اور اس سلسلے میں یقیناًانہوں نے بڑا قابل قدر کام کیا ہے۔ تاہم زمانۂ نزول کے تعین میں وہ بالعموم روایات کا تجزیہ نہیں کرتے۔ 
سورتوں کے زمانۂ نزول کے تعین میں نظمِ قرآن سے استدلال کے طریقِ کار کو مولانا اصلاحی کے شاگرد جناب جاوید احمد غامدی نے مزید آگے بڑھایا ہے۔ مثلاً سورتوں کے آخری گروپ (سورۃ الملک تا سورۃ الناس) کے زمانۂ نزول کو انہوں نے پانچ مراحل میں تقسیم کیا ہے اور طے کیا ہے کہ سورۃ الملک تا سورۃ الجن ’’مرحلۂ انذار‘‘ میں نازل ہوئیں۔ سورۃ المزمل تا سورۃ الم نشرح ’’مرحلۂ انذار عام‘‘ سے تعلق رکھتی ہیں۔ سورۃ التین تا سورۃ الکوثر ’’اتمام حجت‘‘ کے دور کی ہیں۔ سورۃ الکافرون تا سورۃ الاخلاص ’’براء ت وہجرت ‘‘ کے مرحلے کی سورتیں ہیں۔ یہ تمام مراحل مکی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ آخری دو سورتیں، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس، مدنی دور کی ابتدا میں نازل ہوئیں۔ (۱۰) 

سورۃ الانعام اور سورۃ النحل کازمانۂ نزول 

سورۃ النحل کی آیت ۱۱۸ میں بظاہر اشارہ سورۃ الانعام کی آیت ۱۴۶ کی طرف ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ الانعام کا نزول پہلے ہوا۔
وَعَلَی الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَیْْکَ مِنْ قَبْلُ وَمَا ظَلَمْنَاہُمْ وَلَکِنْ کَانُوْا أَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُونَ (النحل ، آیت ۱۱۸)
’’اور جو یہودی ہوئے، ان پر بھی ہم نے وہی چیزیں حرام کیں جو ہم نے پہلے تم کو بتائیں۔ اور ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھاتے رہے۔‘‘
وَعَلَی الَّذِیْنَ ہَادُواْ حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْْہِمْ شُحُوْمَہُمَا إِلاَّ مَا حَمَلَتْ ظُہُورُہُمَا أَوِ الْحَوَایَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ذَالِکَ جَزَیْْنَاہُم بِبَغْیِہِمْ وِإِنَّا لَصَادِقُونَ (الانعام، آیت ۱۴۶) 
’’اور جو یہودی ہوئے، ان پر ہم نے سارے ناخن والے جانور حرام کیے اور گائے اور بکری کی چربی حرام کی بجز اس کے جو ان کی پیٹھ یا انتڑیوں سے وابستہ ہو یا کسی ہڈی سے لگی ہوئی ہو۔ یہ ہم نے ان کو ان کی سرکشی کی سزا دی اور ہم بالکل سچے ہیں۔‘‘
لیکن دوسری طرف سورۃ الانعام کی آیت ۱۱۹ میں بظاہر اشارہ سورۃ النحل کی آیت ۱۱۵ کی طرف ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ النحل کا نزول پہلے ہوا۔
وَمَا لَکُمْ أَلاَّ تَأْکُلُواْ مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْْہِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْْکُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَیْْہِ (سورۃ الانعام ، آیت ۱۱۹)
’’اور تم کیوں نہ کھاؤ ان چیزوں میں سے جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہو جب کہ اس نے تفصیل سے بیان کردی ہیں وہ چیزیں جو اس نے تم پر حرام ٹھہرائی ہیں اس استثنا کے ساتھ جس کے لیے تم مجبور ہوجاؤ ۔ ‘‘
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْْکُمُ الْمَیْْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَا أُہِلَّ لِغَیْْرِ اللّٰہِ بِہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (النحل ، آیت ۱۱۵)
’’اس نے تو تم پر بس مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو، حرام ٹھہرایا ہے ۔ پس جو کوئی مجبور ہوجائے ، نہ طالب ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا ، تو اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے ۔ ‘‘
اس مسئلے کے حل کے لیے ہم نے مختلف قدیم اور جدید تفاسیر کا مطالعہ کیا اور مفسرین کرام کی کاوشوں کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ شان نزول کی روایات اور آیات کی اندرونی شہادتوں کے درمیان توافق و ترجیح کے مسئلے کی شاید سب سے اچھی مثال یہی ہے۔ نیز اس اشکال کے حل سے تورات کے نزول کے متعلق بھی ایک اہم حقیقت ثابت ہوتی ہے۔ 
امام آلوسی نے سورۃ الانعام کے شان نزول کے متعلق عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ یہ سورت پوری کی پوری ایک ہی رات کو مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ اس کے بعد آلوسی نے بعض دیگر اقوال بھی نقل کیے ہیں جن کے مطابق اس سورت کی چند آیات مدنی ہیں۔ کسی روایت میں آیات ۱۹ ۔ ۲۰ کو، کسی میں صرف آیت ۱۱۱ کو، کسی میں آیات ۱۵۱ تا ۱۵۳ کو اور کسی میں آیات ۱۹ تا ۲۱ اور آیات ۱۵۱ تا ۱۵۳ کو مدنی قرار دیا گیا ہے ۔ (۱۱) تاہم سورت کے نظم اور آیات کے مضامین اور سلسلۂ بیان کو مدنظر رکھا جائے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے ہی صحیح معلوم ہوتی ہے کہ یہ پوری کی پوری سورت ایک ہی موقع پر نازل ہوئی۔ جہاں تک بعض آیات کے مدنی ہونے کے متعلق روایات کا تعلق ہے، اگر شان نزول کی روایات کے متعلق علمائے محققین کے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں ان کا جائزہ لیا جائے تو ان کی توجیہ بہت آسانی سے کی جاسکتی ہے۔ یہی بات ان روایات کے متعلق کہی جاسکتی ہے جن میں سورۃ الانعام کی بعض آیات کا الگ الگ شان نزول بیان ہوا ہے۔ 
سورۃ النحل کی آیت ۱۱۸ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کا اشارہ سورۃ الانعام کی طرف ہے ۔ یہاں ہم سورۃ النحل کی آیت ۱۱۵ سے ۱۱۸ تک نقل کردیتے ہیں تاکہ آیت ۱۱۸ کا سیاق بھی معلوم ہو : 
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْْکُمُ الْمَیْْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِیْرِ وَمَا أُہِلَّ لِغَیْْرِ اللّٰہِ بِہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ ۔ وَلاَ تَقُولُواْ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلاَلٌ وَہٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ إِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لاَ یُفْلِحُونَ ۔ مَتَاعٌ قَلِیْلٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ ۔ وَعَلَی الَّذِیْنَ ہَادُواْ حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَیْْکَ مِنْ قَبْلُ وَمَا ظَلَمْنَاہُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْا أَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُون (النحل ، آیت ۱۱۵ ۔۱۱۸)
’’اس نے تو تم پر بس مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو، حرام ٹھہرایا ہے ۔ پس جو کوئی مجبور ہوجائے، نہ طالب ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا، تو اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے ۔ اور اپنی زبانوں کے گھڑے ہوئے جھوٹ کی بنا پر یہ نہ کہو کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ چیز حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھو ۔ جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں، وہ ہر گز فلاح نہیں پائیں گے ۔ ان کے لیے چند روزہ عیش اور پھر دردناک عذاب ہے ۔ اور جو یہودی ہوئے، ان پر بھی ہم نے وہی چیزیں حرام کیں جو ہم نے پہلے تم کو بتائیں ۔ اور ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھاتے رہے ۔ ‘‘
آیت ۱۱۸ کے الفاظ کی سورۃ الانعام کی آیت ۱۴۶ کے الفاظ کے ساتھ ظاہری مشابہت کی بنا پر عام طور پر مفسرین نے یہ رائے قائم کی ہے کہ سورۃ النحل کا اشارہ سورۃ الانعام ہی کی طرف ہے۔ مثال کے طور پر امام ابن الجوزی کہتے ہیں : 
’’یعنی بہ ما ذکر فی الانعام و ھو قولہ تعالی : و علی الذین ھادوا حرمنا کل ذی ظفر۔‘‘ (۱۲) 
امام قرطبی بھی اسی کے قائل ہیں ۔ (۱۳) یہی رائے امام بیضاوی نے قائم کی ہے۔ (۱۴) امام آلوسی بھی اسی کے قائل ہیں ۔ (۱۵) امام طبری نے اس قول کو عکرمہ اور قتادہ جیسے ائمہ تفسیر سے نقل کیا ہے ۔ (۱۶) 
اگر یہ بات تسلیم کی جائے تو ماننا پڑتا ہے کہ سورۃ الانعام کا نزول سورۃ النحل سے پہلے ہوا تھا۔ اب سورۃ الانعام کی آیت ۱۱۹ پربھی نظر ڈالیں : 
وَمَا لَکُمْ أَلاَّ تَأْکُلُواْ مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْْہِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْْکُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَیْْہِ (سورۃ الانعام ، آیت ۱۱۹)
’’اور تم کیوں نہ کھاؤ ان چیزوں میں سے جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہو جب کہ اس نے تفصیل سے بیان کردی ہیں وہ چیزیں جو اس نے تم پر حرام ٹھہرائی ہیں اس استثنا کے ساتھ جس کے لیے تم مجبور ہوجاؤ ۔ ‘‘
یہ تفصیل قرآن مجید میں چار مقامات پر ذکر ہوئی ہے: سورۃ الانعام ، آیت۱۴۵؛ سورۃ النحل، آیت ۱۱۵؛ سورۃ البقرۃ آیت ۱۷۳ ، اور سورۃ المآئدۃ ، آیت ۳۔
اب یہاں چار امکانات ہیں : 
(۱) سورۃ الانعام کے اس اشارے کو سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۷۳ کی طرف مانا جائے ؛ 
(۲) اسے سورۃ المآئدۃ کی آیت ۳ کی طرف مانا جائے ؛ 
(۳) اسے سورۃ الانعام ہی کی آیت ۱۴۵ کی طرف مانا جائے ؛ یا 
(۴) اسے سورۃ النحل کی آیت ۱۱۵ کی طرف مانا جائے ۔ 
پہلی دو صورتوں میں ماننا پڑے گا کہ سورۃ البقرۃ یا سورۃ المآئدۃ کی مذکورہ آیت مکی ہے، لیکن دونوں سورتوں میں آیات کا سیاق و سباق اور نظم اس مفروضے کی تردید کرتے ہیں ۔ تیسری صورت مانی جائے تو ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگرچہ سورۃ الانعام کی آیت ۱۴۶ تلاوت میں آیت ۱۱۹ سے مؤخر ہے مگر یہ نزول میں اس سے مقدم ہے۔ گویا نہ صرف یہ کہ ایک ہی سورت کی آیات کی ترتیب تلاوت اور ترتیب نزول میں فرق کو تسلیم کرنا ہوگا بلکہ یہ بھی ماننا ہوگا کہ سورۃ الانعام کی آیات کئی ٹکڑوں میں نازل ہوئیں۔ یہ بات نہ صرف یہ کہ سورت کے نظم کے خلاف ہے بلکہ شان نزول کی روایات سے بھی اس کی تائید نہیں ہوتی ۔ چوتھی صورت مانی جائے تو ماننا پڑے گا کہ سورۃ النحل کا نزول سورۃ الانعام سے قبل ہوا تھا۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر سورۃ النحل کی آیت ۱۱۸ کا اشارہ سورۃ الانعام کی آیت ۱۴۶ کی طرف کیسے ہوسکتا ہے؟ اس کا صرف ایک ہی امکان ہے اور وہ یہ کہ یہ مانا جائے کہ پہلے سورۃ النحل کی آیت ۱۱۵ نازل ہوئی، پھر سورۃ الانعام نازل ہوئی، اس کے بعد سورۃ النحل کی آیت ۱۱۸ نازل ہوئی۔ لیکن کیا سورۃ النحل کی آیات کا نظم اس بخیہ گری کی اجازت دیتا ہے؟ 
مولانا مودودی نے اس اشکال کا ذکر کیا ہے اور یہی حل پیش کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : 
’’ ہمارے نزدیک اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ پہلے سورۂ نحل نازل ہوئی تھی جس کا حوالہ سورۂ انعام کی مذکورۂ بالا آیت [۱۱۹] میں دیا گیا ہے۔ بعد میں کسی موقع پر کفارِ مکہ نے سورۂ نحل کی ان آیتوں پر وہ اعتراضات عائد کیے جو ابھی ہم بیان کرچکے ہیں۔ اس وقت سورۂ انعام نازل ہوچکی تھی، اس لیے ان کو جواب دیا گیا کہ ہم پہلے ، یعنی سورۂ انعام میں بتا چکے ہیں کہ یہودیوں پر چند چیزیں خاص طور پر حرام کی گئی تھیں۔ اور چونکہ یہ اعتراض سورۂ نحل پر کیا گیا تھا، اس لیے اس کا جواب بھی سورۂ نحل ہی میں جملۂ معترضہ کے طور پر درج کیا گیا۔‘‘ (۱۷) 
یہی رائے مولانا اشرف علی تھانوی نے قائم کی ہے۔ وہ اس اشارے کا سورۃ الانعام کی آیت ۱۴۵ کی طرف ہونا بعید اور سورۃ المآئدہ آیت ۳ کی طرف ہونا مستحیل قرار دیتے ہیں ۔ (۱۸) لیکن چونکہ وہ بھی یہی قرار دیتے ہیں کہ سورۃ النحل آیت ۱۱۸ کا اشارہ سورۃ الانعام آیت ۱۴۶ کی طرف ہے، اس لیے وہ اس پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ یہ قرار دیں کہ یہ آیات مختلف ٹکڑوں میں نازل ہوئیں ۔
یمکن ان یکون تقدم النحل علی الانعام باعتبار اکثر الاجزاء لا کلھا، و یکون قولہ تعالی: و علی الذین ھادوا حرمنا ما قصصنا الخ متأخراً عن سورۃ الانعام، لاسیما عن قولہ تعالی: و علی الذین ھادوا حرمنا کل ذی ظفر ، فافھم۔(۱۹) 
لیکن جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ، سورۃ النحل کی آیات ۱۱۵ تا ۱۱۸ کے سلسلۂ بیان اور نظم کی قطعی شہادت یہ ہے کہ یہ آیات ایک ہی موقع پر نازل ہوئی ہیں۔ پھر اس اشکال کا حل کیا ہوسکتا ہے ؟ 
بعض مفسرین نے یہ رائے اختیار کی کہ سورۃ الانعام کی آیت ۱۱۹ کا اشارہ سورۃ المآئدۃ آیت ۳ کی طرف ہے لیکن اس پر یہ اعتراض ہوا کہ سورۃ المائدۃ تو مدنی ہے۔ (۲۰) امام قرطبی نے بھی اس اعتراض کا ذکر کیا ہے اور پھر کہا ہے کہ فصّل کو یفصّل سمجھا جائے تو پھر یہ اشارہ سورۃ المائدۃ کی طرف ہوسکتا ہے۔ (۲۱) لیکن اس تاویل کا ضعف نہایت واضح ہے کیونکہ آیت میں لوگوں کو توبیخ کی جارہی ہے کہ تمہارے لیے حرام ذبائح کا حکم پہلے ہی سے واضح کیا جاچکا ہے، پھر بھی تم اس حلال ذبیحے کے کھانے میں ہچکچاہٹ محسوس کررہے ہو جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ! اگر فعل ماضی کو فعل مضارع میں تبدیل کیا جائے تو یہ توبیخ بالکل ہی بے معنی ہوجاتی ہے۔ 
امام آلوسی نے خود یہ رائے اختیار کی کہ یہ اشارہ سورۃ الانعام ہی کی آیت ۱۴۵ کی طرف ہے ۔ اس پر یہ اعتراض ہوا کہ آیت ۱۴۵ تو آیت ۱۱۹ کے بعد ہے۔ آلوسی اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ تلاوت میں مؤخر ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ نزول میں بھی مؤخر ہے ۔ (۲۲) لیکن بصد ادب و احترام گزارش ہے کہ یہ بات نہایت ضعیف ہے کیونکہ اولاً تو تلاوت میں مؤخر ہونے کی وجہ سے اصولاً یہ احتمال پیدا ہوگیا ہے کہ وہ نزول میں بھی مؤخر ہے، اس لیے جو اسے نزول میں مقدم کہتے ہیں ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے دعوے کے حق میں قوی دلیل پیش کریں۔ ثانیاً ہم نے پیچھے ذکر کیا ہے کہ سورۃ الانعام کا نظم اور آیات کا سلسلۂ بیان قطعی شہادت دیتے ہیں کہ یہ پوری کی پوری سورت بیک وقت نازل ہوئی ہے ، اور یہی بات ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہوئی ہے۔ خود امام آلوسی نے سورۃ الانعام کے نزول کے متعلق جو روایات نقل کی ہیں، ان سب سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت ۱۱۹ اور آیت ۱۴۵ کا نزول ایک ہی موقع پر ہوا ہے ۔ جن بعض آیات کے مدنی ہونے کے متعلق انہوں نے روایات نقل کی ہیں، ان میں آیت ۱۴۵ نہیں ہے ۔ 
ان چاروں اقوال کی بنا یہ امر ہے کہ سورۃ النحل کی آیت ۱۱۸ کا اشارہ سورۃ الانعام کی آیت ۱۴۶ کی طرف ہے کیونکہ ان کے الفاظ میں بھی ظاہری مشابہت ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی قول مانا جائے تو سورت کی آیات کے سلسلۂ بیان اور نظم کو توڑنا پڑتا ہے۔ بعض مفسرین نے ایک پانچواں امکان بھی ذکر کیا ہے اور وہ یہ کہ سورۃ الانعام آیت ۱۱۹ میں اشارہ وحی غیر متلو میں بیان شدہ احکام کی طرف ہے۔ (۲۳) لیکن ظاہر ہے کہ یہ محض بات بنانا ہی ہے۔ یہ قول محض اس وجہ سے وجود میں آیا ہے کہ چاروں اقوال کی غلطی واضح تھی اور کوئی اور حل نظر نہیں آیا۔ لیکن کیا کوئی اور حل نہیں ہے؟ کیا سورۃ النحل کی آیت ۱۱۸ کے اشارے کو سورۃ الانعام کی آیت ۱۴۶ کے بجائے سورۃ النحل ہی کی آیت ۱۱۵ کی طرف سمجھا جا سکتا ہے؟ یہاں ہم یہ آیات پھر نقل کردیتے ہیں : 
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْْکُمُ الْمَیْْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِیْرِ وَمَا أُہِلَّ لِغَیْْرِ اللّٰہِ بِہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ ۔ وَلاَ تَقُولُواْ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلاَلٌ وَہٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ إِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لاَ یُفْلِحُونَ ۔ مَتَاعٌ قَلِیْلٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ ۔ وَعَلَی الَّذِیْنَ ہَادُواْ حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَیْْکَ مِنْ قَبْلُ وَمَا ظَلَمْنَاہُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْا أَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُون (النحل ، آیت ۱۱۵ ۔۱۱۸)
’’اس نے تو تم پر بس مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو، حرام ٹھہرایا ہے ۔ پس جو کوئی مجبور ہوجائے، نہ طالب ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا، تو اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔ اور اپنی زبانوں کے گھڑے ہوئے جھوٹ کی بنا پر یہ نہ کہو کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ چیز حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھو ۔ جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں، وہ ہر گز فلاح نہیں پائیں گے ۔ ان کے لیے چند روزہ عیش اور پھر دردناک عذاب ہے ۔ اور جو یہودی ہوئے، ان پر بھی ہم نے وہی چیزیں حرام کیں جو ہم نے پہلے تم کو بتائیں۔ اور ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھاتے رہے ۔ ‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی سورۃ النحل کی آیت ۱۱۸ کی تفسیر میں کہتے ہیں : 
’’یعنی اصلاً یہود پر بھی وہ چیزیں حرام ٹھہرائی گئی تھیں جو اوپر آیات ۱۱۵ میں مذکور ہوئیں لیکن پھر انہوں نے خود اپنے جی سے کچھ چیزیں اپنے اوپر حرام کرلیں جو ان کی سرکشی کی سزا کے طور پر ان پر حرام کردی گئیں۔ خدا نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنے۔‘‘ (۲۴) 
مفسرین نے چونکہ بالعموم سورۃ النحل آیت ۱۱۸ کے اشارے کو سورۃ الانعام آیت ۱۴۶ کی طرف سمجھا ہے، اس لیے وہ اس بحث میں پڑ گئے کہ سورۃ الانعام آیت ۱۱۹میں اشارہ کس طرف ہے؟اگر یہ بات تسلیم کی جائے کہ سورۃ النحل کی آیت ۱۱۸ کا اشارہ سورۃ النحل ہی کی آیت ۱۱۵ کی طرف ہے تو سارا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ پھر سورۃ الانعام کی آیت ۱۱۹ کے اشارے کو سورۃ النحل کی آیت ۱۱۵ کی طرف ماننے میں کوئی اشکال پیش نہیں آتا، نہ ہی ان میں سے کسی بھی سورت کے نظم کو توڑنے کی ضرورت پڑتی ہے ، اور نہ ہی وحی غیر متلو میں مذکور احکام فرض کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ گویا پہلے سورۃ النحل کا نزول ہوا جس میں بتایا گیا کہ شریعت ابراہیمی میں انعام(مویشیوں) میں اصلاً حرام چار چیزیں تھیں۔ یہی شریعت موسوی کا بھی حکم تھا۔ بعد میں ان پر مزید چیزیں ان کے اپنے ظلم کی وجہ سے حرام کی گئیں۔ یہ چیزیں جو اصل میں حلال تھیں لیکن یہود کے ظلم کی وجہ سے حرام کردی گئیں، ان کی تفصیل سورۃ الانعام میں دے دی گئی جو بعد میں نازل ہوئی۔ سورۃ الانعام میں بعض مسلمانوں کو بھی توبیخ کی گئی جو مشرکین کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر بعض ان چیزوں کے کھانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے جنہیں شریعت نے حلال قرار دیا تھا۔ ان کو کہا گیا کہ تمہارے لیے حرام چیزوں کی وضاحت اور اضطرار کی حالت کا حکم پہلے ہی سے سورۃ النحل میں واضح کیا جاچکا ہے، پھر تم کیوں ہچکچاہٹ محسوس کررہے ہو ؟ 
اس طرح دونوں سورتوں کے زمانۂ نزول کے تعین کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ تاہم اس قول کے ماننے کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ پھر ماننا پڑے گا کہ تورات کا نزول بھی قرآن ہی کی طرح تدریجی ہوا تھا نہ کہ یک بارگی۔ اس بات کی تھوڑی سی وضاحت یہاں پیش کی جاتی ہے۔ 

تورات کے احکام کا تدریجی نزول

قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے بعض طبی وجوہات کی بنا پر اونٹ کا گوشت کھانا چھوڑ دیا تھا، تاہم یہ شریعت ابراہیمی میں حرام نہیں تھا ۔ 
کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلاًّ لِّبَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ إِلاَّ مَا حَرَّمَ إِسْرَاءِیْلُ عَلٰی نَفْسِہِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاۃُ قُلْ فَأْتُوْا بِالتَّوْرَاۃِ فَاتْلُوْہَا إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ (آل عمران ، آیت ۹۳) 
’’کھانے کی ساری چیزیں بنی اسرائیل کے لیے حلال تھیں، مگر وہ جو اسرائیل نے تورات کے نازل کیے جانے سے پہلے اپنے اوپر حرام ٹھہرالی تھیں۔ کہہ دو کہ لاؤ تورات اور پڑھو اس کو، اگر تم سچے ہو۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ تورات کے نزول سے پہلے بنی اسرائیل کے لیے وہ سبھی چیزیں حلال تھیں جو شریعت ابراہیمی میں حلال سمجھی جاتی تھیں اور جو سلیم انسانی فطرت کے مطابق کھانے کی چیزیں (الطعام) سمجھی جاتی تھیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تورات میں یہ تصریح بھی تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل پر جو مزید بعض چیزیں حرام کی گئیں، وہ حضرت ابراہیم ، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام کے زمانے میں حرام نہیں تھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہود کو چیلنج کیاگیا کہ اگر تم اس بات کو غلط سمجھتے ہو تو تورات لے آؤ اور اسے پڑھو ۔ 
بائبل کے سِفر پیدائش میں حضرت نوح علیہ السلام کی طرف وحی کیے گئے بعض احکام بھی موجود ہیں ۔ ان میں وہ بھی ہیں جن کے متعلق کہا گیا کہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد کو دیے گئے۔ ان کو ’’حضرت نوح علیہ السلام کا عہد نامہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہود کے بہت سے علما کی رائے یہ ہے کہ ’’غیر قوموں‘‘ کے لیے تورات کے تمام احکام پر عمل کرنا واجب نہیں بلکہ ان کی نجات کا دارومدار حضرت نوح علیہ السلام کے عہد نامے پر عمل ہے۔ (۲۵) اس عہد نامے میں جو احکام دیے گئے ہیں، وہ یہ ہیں : 
’’سب جیتے چلتے جانور تمہارے کھانے کے واسطے ہیں۔ میں نے ان سب کو نباتات کی طرح تمہیں دیا ۔ مگر تم گوشت کو اس کے خون کے ساتھ مت کھانا، کیونکہ میں تمہارا خون ہر ایک جنگلی جانور سے اور ہر ایک آدمی کے ہاتھ سے طلب کروں گا۔ اس آدمی سے بھی جو اپنے بھائی کو مار ڈالے، میں آدمی کی جان طلب کروں گا۔‘‘ (۲۶) 
یہاں نباتات کی طرف اشارے اور جنگلی جانوروں کے ساتھ تقابل سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’کھانے کے واسطے ‘‘ (الطعام) حلال جانوروں سے مراد مویشی (انعام) ہیں۔ یہی کچھ قرآن مجید سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شریعت ابراہیمی میں مویشیوں میں اصلاً چار ہی چیزیں حرام تھیں : مردار ، خون، خنزیر کا گوشت اور وہ جانور جسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیاگیا : 
قُلْ لاَّ أَجِدُ فِیْ مَا أُوْحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّماً عَلیٰ طَاعِمٍ یَطْعَمُہُ إِلاَّ أَنْ یَکُونَ مَیْْتَۃً أَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِیْرٍ فَإِنَّہُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقاً أُہِلَّ لِغَیْْرِ اللّٰہِ بِہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ رَبَّکَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (الانعام، آیت ۱۴۵) 
’’کہہ دو میں تو اس وحی میں جو مجھ پر آئی ہے کسی کھانے والے پر کوئی چیز جس کووہ کھائے حرام نہیں پاتا ، بجز اس کے کہ وہ مردار ہو، یا بہایا ہوا خون ، یا سؤر کا گوشت، کہ ان میں ہر چیز ناپاک ہے، یا فسق کرکے اس کو غیر اللہ کے لیے نامزد کردیا گیا ہو۔ پھر جو مجبور ہوجائے ، نہ چاہنے والا بنے اور نہ حد سے بڑھنے والا ، تو تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں بھی ابتدا میں یہی چار چیزیں حرام تھیں، جیسا کہ سورۃ النحل کی آیت ۱۱۸ میں ذکر ہوا ہے۔ بعد میں ان کے ظلم کی بنا پر ان پر مزید کئی چیزیں حرام کردی گئیں ۔ آیت ۱۱۸ کا اشارہ ، جیسا کہ پیچھے تفصیل سے واضح کیا گیا، سورۃ النحل ہی میں اس سے قبل آنے والی آیت ۱۱۵ کی طرف ہے۔ گویا آیات کا مجموعی پیغام یہ ہوا کہ یہود پر اصلاً یہی چار چیزیں حرام تھیں، لیکن بعد میں ان کے اپنے ظلم کی وجہ سے ان پر مزید کئی چیزیں حرام کردی گئیں جن کی تفصیل سورۃ الانعام کی آیت ۱۴۶ میں بیان کی گئی ہے ۔ یہی بات سورۃ النسآء میں یوں کہی گئی ہے: 
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْْہِمْ طَیِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَہُمْ (النساء ، آیت۱۶۰) 
’’پس جو یہودی ہوئے، ان کے ظلم ہی کے سبب سے ہم نے بعض پاکیزہ چیزیں ان پر حرام کردیں جو ان کے لیے پہلے حلال کی گئی تھیں۔‘‘
اس کی وجہ یہود کا رویہ تھا۔ وہ طرح طرح کے سوالات کرکے خود ہی اپنے لیے مشکلات کھڑی کرتے تھے ۔ اسی لیے مسلمانوں کو اس قسم کے سوالات سے روکا گیا :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَسْأَلُواْ عَنْ أَشْیَاء إِن تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ وَإِن تَسْأَلُواْ عَنْہَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَکُمْ عَفَا اللّہُ عَنْہَا وَاللّہُ غَفُورٌ حَلِیْمٌ ۔ قَدْ سَأَلَہَا قَوْمٌ مِّن قَبْلِکُمْ ثُمَّ أَصْبَحُواْ بِہَا کَافِرِیْنَ (المآئدۃ ، آیت ۱۰۱ ۔ ۱۰۲) 
’’اے ایمان والوا! ایسی چیزوں کے متعلق سوال نہ کرو جو اگر ظاہر کی گئیں تو تمہیں گراں گزریں گی ۔ اور اگر تم ان کی بابت ایسے زمانے میں سوال کروگے جب قرآن اتررہا ہو تم پر ظاہر کردی جائیں گی ۔ اللہ نے ان سے درگزر کیا ، اور اللہ بخشنے والا بردبار ہے ۔ اسی طرح کی باتیں تم سے پہلے ایک قوم نے پوچھیں پھر انہی کے سبب سے کافر ہوگئے ۔ ‘‘
اس کی ایک اور مثال گائے کے ذبح کا واقعہ ہے ۔ ابتدا میں انہیں کوئی سی گائے ذبح کرنے کا حکم تھا ۔ (۲۷) پھر انہوں نے طرح طرح کے سوالات کرکے اس حکم کو ایک مخصوص گائے کے ساتھ خاص کرلیا ۔ 
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ چربی کی حرمت کے حکم کو یہود کے احبار کے تشدد نے اور بھی سخت کردیا تھا ۔ چنانچہ اسفار خمسہ میں جہاں چربی کی حرمت کا ذکر ملتا ہے وہاں نہ صرف یہ حکم انتہائی تعمیم کے ساتھ دیا گیا ہے ، بلکہ قرآن مجید کی مذکورہ استثناء ات بھی صراحتاً ختم کردی گئی ہیں۔ سِفر احبار میں یہ حکم یوں بیان کیا گیا ہے : 
’’اور خداوند نے موسیٰ سے کہا: بنی اسرائیل سے کہہ کہ تم لوگ نہ تو بیل کی، نہ بھیڑ کی اور نہ بکری کی کچھ چربی کھانا۔ جو جانور خود بخود مرگیا ہو اور جس کو درندوں نے پھاڑا ہو، ان کی چربی اور کام میں لاؤ تو لاؤ، پر تم کسی حال میں نہ کھانا کیونکہ جو کوئی ایسے چوپائے کی چربی کھائے جسے لوگ آتشین قربانی کے طور پر خداوند کے حضور چڑھاتے ہیں، وہ کھانے والا آدمی اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے۔‘‘ (۲۸) 
ایک اور جگہ اس حکم کی مزید وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے: 
’’جس چربی سے انتڑیاں ڈھکی رہتی ہیں اور وہ سب چربی جو انتڑیوں پر لپٹی رہتی ہے اور دونوں گردے اور ان کے اوپر کی چربی جو کمر کے پاس رہتی ہے اور جگر پر کی جھلی گردوں سمیت، ان سبھوں کو وہ الگ کرے اور کاہن مذبح پر جلائے۔ یہ اس آتشیں قربانی کی غذا ہے جو راحت انگیز خوشبو کے لیے ہوتی ہے۔ ساری چربی خداوند کی ہے۔ یہ تمہاری سب سکونت گاہوں میں نسل در نسل ایک دائمی قانون رہے گا کہ تم چربی یا خون مطلق نہ کھاؤ۔‘‘(۲۹) 
اس سے بخوبی معلوم ہوا کہ سورۃ النحل میں حلت و حرمت کے ضابطے کے بیان کے بعد یہ کیوں کہا گیا کہ اللہ پر جھوٹ نہ باندھو۔ یہ گویا اصر اور اغلال کی ایک مثال ہوئی جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو آزاد کرانے کے لیے آئے۔ (سورۃ الاعراف ، آیات ۱۵۶۔۱۵۷) مگر یہود نے اس نعمت کبریٰ کی قدر نہ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے سے انکار کے لیے دلیل یہ پیش کی کہ وہ تورات کے حکم کو منسوخ کررہے ہیں۔ 

حواشی 

(۱) مزید تفصیل کے لیے دیکھئے : الفوز الکبیر فی علوم التفسیر ، اردو ترجمہ مولانا رشید احمد انصاری ، (مکتبہ برہان ، اردو بازار ، دہلی ، ۱۹۶۳ء)، ص ۳۸ تا ۴۳۔
(۲) تفصیل کے لیے دیکھئے : بدر الدین الزرکشی ، البرہان فی علوم القرآن، (دار الفکر ، بیروت ، ۱۹۸۸ء) ، ج ۱، ص ۴۵۔۶۰۔ 
(۳) تفہیم القرآن ، (ادارۂ ترجمان القرآن، لاہور ، ۱۹۷۴ء)، ج ۲ ، ص ۴۶۸ 
(۴) تفہیم القرآن ، ج ۳ ، ص ۶۷۲ 
(۵) مثال کے طور پر ملاحظہ ہو : سورۃ النور کے زمانۂ نزول پر ان کی تحقیق ، تفہیم القرآن ج ۳ ، ص ۳۰۶۔۱۸ ۳ ۔ 
(۶) تفہیم القرآن ، ج ۱ ، ص۵۲۰ ۔۵۲۳ 
(۷) تفہیم القرآن ، ج ۶ ، ص ۴۱۰ 
(۸) ایضاً
(۹) تدبر قرآن ، (فاران فاؤنڈیشن ، لاہور ، ۲۰۰۱ء ) ، ج ۱ ، ص ۲۴۔۲۷ ؛ ج ۸ ، ص ۴۷۹ 
(۱۰) البیان ، دار الاشراق لاہور ، ۲۰۰۱ ء 
(۱۱) روح المعانی ، (دار احیاء التراث العربی ، بیروت ، ۱۹۸۵ء )، ج ۷، ص ۷۷ 
(۱۲) زاد المسیر ، (مکتبۃ حقانیۃ ، پشاور ) ، ج۴ ، ص۳۸۳ 
(۱۳) الجامع لاحکام القرآن ، (مکتبۃ رشیدیۃ ، کوئٹہ ) ج ۱۰ ، ص ۱۹۷ 
(۱۴) تفسیر البیضاوی ، (مکتبۃ مدنیۃ ، لاہور ) ج۳ ، ص۲۲۴ 
(۱۵) روح المعانی ، ج ۱۴ ، ص ۲۵۷ 
(۱۶) جامع البیان ، (دار الفکر ، دمشق ، ۱۹۷۸ ء ) ، ج ۱۴ ، ص ۱۲۷ 
(۱۷) تفہیم القرآن ، ج ۲ ، ص ۵۷۹ 
(۱۸) بیان القرآن ، (ادارۂ تالیفات اشرفیہ ، ملتان ، ۱۴۲۷ھ ) ، ج ۱ ، ص ۵۸۷ 
(۱۹) ایضاً 
(۲۰) روح المعانی ، ج ۸ ، ص ۱۴ 
(۲۱) الجامع لاحکام القرآن ، ج ۷ ، ص ۷۳ 
(۲۲) روح المعانی ، ج ۸ ، ص ۱۴ 
(۲۳) آلوسی نے اس قول کا ذکر ضعیف صیغے قیل کے ساتھ کیا ہے ۔ (ایضاً ) 
(۲۴) تدبر قرآن ، ج ۴ ، ص ۴۶۰ 
(۲۵) ملاحظہ کیجئے یہودی ربی مائیکل ویشوگروڈ (Michael Wyschogrod) کا مقالہ زیر عنوان Islam and Christianity in the Perspective of Judaism (اسلام اور مسیحیت ، یہودیت کے تناظر میں ) ۔ 
Al-Faruqi, Isma'il Raji, Trialogue of the Abrahamic Faiths, (Virginia: International Institute of Islamic Thought, 1991), pp 13-18 
(۲۶) پیدائش : باب ۹ ، آیات ۳۔۵ 
(۲۷) سورۃ البقرۃ آیت ۶۷ میں گائے کے ذبح کے متعلق پہلا حکم ذکر ہوا ہے ۔ اس میں بقرۃً لفظ آیا ہے جو اسم نکرہ ہے ۔ 
(۲۸) احبار : باب ۷ ، آیات ۲۲۔۲۵ 
(۲۹) ایضاً : باب ۳ ، آیات ۱۵۔۱۷ 

دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے تربیتی نظام کی ضرورت اور تقاضے

ڈاکٹر محمود الحسن عارف

(۱۴ نومبر ۲۰۰۶ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ’’دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے تربیتی نظام کی ضرورت اور تقاضے‘‘ کے عنوان پر ایک روزہ تربیتی ورکشاپ میں پڑھا گیا۔)

مولانا ابو عمار زاہدا لراشدی و دیگر معزز علماے کرام و شرکائے سیمینار!
میں سب سے پہلے تو آج کی تقریب کے میزبانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے مجھ جیسے ایک طالب علم کو علما کی اس مجلس میں مدارس سے تعلق رکھنے والے ایک خصوصی مسئلے پر اظہار خیال کی دعوت دی۔ میں سمجھتاہوں کہ اس مسئلے پر زیادہ بہتر تھا کہ دینی مدارس کے کسی استاذ محترم کو اظہار خیال کی دعوت دی جاتی جو اس موضوع پر یقیناًمجھ سے بہتر آپ کی رہنمائی کرتے۔ غالباً میزبانوں کا خیال ہے کہ اس عنوان پر کسی غیر جانب دار مبصر کو اظہار خیال کے لیے کہا جائے، اس لیے ان کی نظر انتخاب مجھ جیسے شخص پر پڑی ہے۔ بایں ہمہ میں کوشش کروں گا کہ مجھے جو ذمہ داری تفویض ہوئی ہے، اس پر ایک غیر جانب دار مبصر کے طورپر روشنی ڈالوں۔
اس سے قبل کہ میں اپنے موضوع پر گفتگو کروں، مناسب خیال کرتاہوں کہ میں ابتدا ہی میں اپنے اس تجربے کا تذکرہ کروں جو مجھے اپنی ابتدائی زندگی میں دینی مدارس کے ایک طالب علم کے طورپر حاصل ہوا۔ مجھے اس پر فخرہے کہ میں نے دینی تعلیم دینی مدارس کے ایک باقاعدہ طالب علم کے طورپر حاصل کی ہے۔ میری طالب علمی کا دور ۱۹۶۶ء سے ۱۹۷۳ء تک پھیلاہواہے اوران آٹھ برسوں میں، میں نے پانچ شہروں میں واقع چھ مدارس سے دینی تعلیم حاصل کی۔ اس وقت وفاق المدارس کا موجودہ سیٹ اب موجود نہ تھا اورطالب علم تعلیمی درجات اور مراحل کے انتخاب میں کافی حد تک آزاد ہوتا تھا اور آٹھ سال کا کورس چھ یا سات برسوں میں مکمل کر لیا جاتا تھا۔ چنانچہ میں نے ایک سال تو فارسی پڑھی اور باقی سالوں میں مدرسہ کاشف العلوم شیخوپورہ، مدرسہ حسینیہ شہداد پور سندھ، مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ، دار العلوم کبیر والا اور جامعہ مدنیہ وجامعہ اشرفیہ لاہور میں درس نظامی کی تکمیل کی اور دورۂ حدیث میں مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ اورمولانا محمد موسیٰ خان صاحبؒ جیسے اساتذہ کرام سے شرف تلمذ حاصل ہوا۔ تحدیث نعمت کے طورپرعرض ہے کہ اس وقت کے سالانہ امتحان میں مدارس میں اول پوزیشن حاصل کرنے کی سعادت تک حاصل ہوتی رہی اور راقم الحروف کا شمار ہمیشہ اچھے طلبہ میں ہوتا رہا۔
اس تفصیل سے اس امر کا اظہار مقصود ہے کہ آج کے اس سیمینار میں دینی مداس کی تعلیم کے حوالے سے جو کچھ عرض کیاجائے گا، وہ محض سنائی سنائی باتوں پر مبنی نہیں، بلکہ اس میں سے بہت کچھ ’’آپ بیتی‘‘ اور ذاتی مشاہدے کا نتیجہ ہے۔

دینی مدارس میں تربیتی نظام کی اہمیت وضرورت

جہاں تک آج کے موضوع کا تعلق ہے تو یہ میرے خیال میں بہت اہم بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی، اور اگریہ کہاجائے تو بے جانہ ہوگا کہ تربیت نام کی شے ابھی تک دینی مدارس کی حدود میں داخل نہیں ہوئی۔ دینی مدارس میں تربیتی نظام نہ ہونے کی بنا پر انداز تدریس اور اسلوب تدریس میں عجیب بو العجبیاں دیکھنے میں آتی ہیں اور دینی مدارس سے جو طلبہ فارغ ہوتے ہیں، دینی مدارس کے ذ مہ دار حضرات انہی میں سے کسی ایک کا، ذاتی تعلق یاکسی سفارش کی بنیاد پر اپنے مدرسہ میں استاذ کی آسامی پر تقرر کر دیتے ہیں اور یہ دیکھنے اور جاننے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کرتے کہ مذکورہ فرد میں پڑھانے کی صلاحیت بھی ہے یا نہیں، اور چونکہ مدارس سے طالب علموں کی جو کھیپ تیار ہو رہی ہے، وہ زیادہ تر ایسے ہی اساتذہ کے ’’فیضان علمی‘‘ کا نتیجہ ہے، یہی وجہ ہے کہ دن بدن طالب علموں کا علمی اور فکری معیار گرتا جا رہا ہے اور درس نظامی سے فراغت حاصل کرنے والے طلبہ کی اکثریت کسی بھی عربی کتاب کو سمجھنا تو درکنار، اس کی عبارت تک پڑھنے سے ناواقف رہتی ہے اور مقابلے کے امتحانات میں معلومات کے فقدان اور نصاب پر گرفت نہ ہونے کی بنا پر اکثرناکام رہتی ہیں اور اکثر وبیشتر نشانہ تضحیک بنتی ہے۔

دینی تعلیم وتربیت کا پس منظر

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دینی تعلیم وتربیت کا یہ سلسلہ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے تسلسل کے ساتھ کابراً عن کابر چلا آ رہا ہے اور اس میں کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی انقطاع واقع نہیں ہوا اور اس میں مسلمانوں کی محنت سے زیادہ قرآن حکیم اور اس کے سایے تلے نشوونما پانے والے علوم وفنون کے اعجازی پہلو کا زیادہ تعلق ہے، اس لیے یقیناًوہ لوگ خوش قسمت اور خوش نصیب ہیں جنہیں ان علوم وفنون کو پڑھنے اور پڑھانے کا موقع ملتا رہا اور جن کے سینے ’’یاد یار مہرباں‘‘ سے اور ہونٹ ’’ذکر یار‘‘ سے معطر اور منور رہے ہیں اور انہوں نے دشمنوں کی ہزاروں کوششوں اور ہزار کاوشوں کے باوجود اس تعلیم کاپرچم سربلند رکھا۔ اللہ تعالیٰ علوم اسلامیہ کے ان جاں بازوں پر اپنی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔
تاہم دینی مدارس کے موجودہ نصاب اور موجودہ نظام تعلیم کا تعلق متاخرمغلیہ دو رسے تعلق رکھنے والی ایک قد آور اور بالغ نظر ہستی ملا نظام الدین سہالویؒ (۱۰۸۸۔۱۰۸۹ھ مطابق ۱۱۶۱ھ؍۱۷۴۸ء) کی ذات سے ہے جنہوں نے ایک ایسا جامع اور عمدہ نصاب تعلیم متعارف کروایا جو صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی اسی آب وتاب اور اسی جوش وخروش اور دینی جذبے سے پڑھایا جا رہا ہے۔ اسے دارالعلوم دیوبند کی علمی تحریک نے نئے ’’بال وپر‘‘ عطاکیے جو انگریز کے مکمل تسلط، ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی اور ۱۹۳۵ء میں لارڈ میکالے کی طرف سے آنے والی تعلیمی پالیسی کے عملی نفاذ کے بعد سامنے آئی۔ ملانظام الدین سہالویؒ کا تیار کردہ نصاب تعلیم کا اگر دارالعلوم دیوبند کی علمی اور فکری تحریک کے ذریعے احیا اور اجرا نہ ہوا ہوتا تو شاید یہ نصاب تعلیم ہندوستان کے دوسرے کئی نصا ب ہائے تعلیم کی طرح کبھی کا ختم ہو چکا ہوتا۔ یقیناًاسے دوسری زندگی دارالعلوم دیوبند کی علمی تحریک نے عطا کی ہے۔
نصاب تعلیم کی طرح انداز تدریس بھی صدیوں کی روایت اور قدامت رکھتاہے اور آج بھی درس نظامی کی کتب کو پڑھانے کا طریقہ اورانداز وہی ہے جو صدیوں پہلے ہندوستان بھر میں خصوصاً اور باقی دنیائے اسلام میں عموماً رائج اور نافذ تھا۔ ابتدائی دور میں چونکہ پڑھانے والے اساتذہ تدریس میں خصوصی مہارت رکھتے تھے اور پڑھنے والے بھی محض ذاتی شوق اور محنت سے پڑھایا کرتے تھے، اس لیے اس وقت اساتذہ کی تربیت نہ ہونے کے باوجود بہت عمدہ طریقے سے کام چل رہا تھا۔ اس وقت استاد اور شاگرد کے مابین تعلق کا جو لازوال رشتہ قائم ہوتا تھا، وہ انہیں ایک دوسرے کے قریب کرتا تھا اور چونکہ طلبہ اپنے اساتذہ کے ساتھ جو وقت گزارتے تھے، اس کے دوران وہ اپنے اساتذہ سے سیکھنے کا عمل جاری رکھتے تھے، اس لیے جب وہ مسند تدریس پر فائز ہوتے تو انہیں کوئی دقت اور دشواری پیش نہیں آتی تھی۔
دوسرا اہم اور امتیازی فرق یہ تھا کہ اس دورمیں علوم آلیہ (صرف ونحو اور منطق) پر شروع میں خوب محنت کرائی جاتی تھی جس کی بنا پر طالب علم کی عربی عبارت اور گریمر پر گرفت مضبوط ہو جاتی تھی۔ اس کے لیے اپنے استاد سے سیکھنے کا عمل بہت بہتر ہوتا تھا۔ مگر اب صورت حال تبدیل ہوچکی ہے اور طالب علم اور استاد میں فاصلے بڑھ گئے ہیں اور اساتذہ کے دروس محض حاشیوں اور شروح تک محدود ہو گئے ہیں۔ جس استاد محترم سے میں نے کافیہ پڑھا، انہوں نے سات دن اس کے پہلے جملے ’الکلمۃ لفظ وضع لمعنی مفردٌ مفرداً مفردٍ‘ کی تشریح پر لگائے جس کے دوران انہوں نے کافیہ کی ایک شرح کی پوری باتیں اپنے طالب علموں کے گوش گزار کیں، لیکن ان سات دنوں کی اس تقریر میں شایدہی کوئی ایسی بات ہو جو اس وقت کے میرے طالب علمانہ ذہن میں بیٹھی ہو۔ اس طرح مختلف کتابوں کے اساتذہ کرام کی کاپیاں کافی مشہور تھیں۔ میرے ایک استاد محترم نے اس وقت (۱۹۷۳ء میں) ہمیں حدیث کی ایک کتاب کے جو نوٹس لکھوائے تھے، برسہا برس گزرنے کے باوجود نہ تو ان کے ان نوٹس کے الفاظ بدلے ہیں اور نہ ہی ان کے معانی ومضامین میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔
یہ میرے اساتذہ کرام کی محنت کا ثمر تھاکہ حدیث کی تعلیم کے دوران بھی ہم پر حدیث کا کوئی رنگ نہیں چڑھا اور ہم بخاری، مسلم اور ترمذی کے درسوں میں بھی قدوری، ہدایہ اور نور الانوار کا مزہ لیتے رہے اورمجھے یہ بھی یاد نہیں کہ چند ایک اساتذہ کرام کے سوا کسی ایک استاد نے کتاب کے مصنف کا یا ان کے حالات کا ذکر کیا ہو اور یہ بتایا ہو کہ یہ کتاب کس دور میں لکھی یا تصنیف کی گئی۔ بعض اساتذہ گھنٹہ بھر کی تدریس کے بعد جب درس گاہ سے رخصت ہوتے تو ہمارا ذہن کورے کاغذ کی طرح خالی اور صاف ہوتا اور ہمیں ان کی لچھے دار تقریروں میں سوائے دوچار جملوں کے کچھ بھی یاد نہ رہتا تھا۔ پھر علا مہ تفتازانی اور جرجانی کے حاشیہ در حاشیوں کا مسئلہ اس پر مستزاد ہے جن کی اٹھائی ہوئی منطقی موشگافیوں سے ذہن تو یقیناًتیز ہوتا ہے، مگر طالب علم کے پلے کچھ نہیں پڑتا اور مجبوراً امتحان کے وقت دوسرے لوگوں کی تیار کردہ کاپیوں یا نوٹس کا سہارا لینا پڑتا ہے اور جب سے وفاق المدارس کا نظام قائم ہوا ہے، اس وقت سے تو یہ کاپیاں اور یہ نوٹس ایک بین الملکی شے بن گئے ہیں اور طالب علموں کے لیے Guess paper کا سا درجہ رکھتے ہیں۔
دراصل ہر مضمون کو اس کے اپنے ماحول میں مطالعہ کرنے اور پڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر دینیات کو منطق کے رنگ میں یا حدیث کوفقہ کے انداز میں پڑھایا جائے تو اس سے اس مضمون کی افادیت ختم ہو جاتی ہے اور پڑھنے والا آدھا تیتر اور آدھا بٹیر ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے ان رویوں پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ یہ حالات اورہمارے دینی مدارس سے تیار ہونے والی علما کی کھیپ اور ان کا معیارِ علمی اور معیارِ تعلیمی، دینی مدارس کے زعما کے لیے بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے جس کی بنا پر مذہب کی دنیا میں بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دے رہی ہیں اور ہمیں شاید ابھی تک اس مسئلے کی نزاکت اور اہمیت کا احساس نہیں ہے۔ یہ محض تصویرکا وہ رخ ہے جو شاید ہمارے سامنے نہیں ہے یا جس کی طرف سے ہم نے اپنی آنکھیں عملاً بند کر رکھی ہیں اور ہم کسی بھلے وقت کا انتظار کر رہے ہیں جو شاید کبھی نہیں آئے گا اور ہمیں وہی کچھ ملے گا جو اہم اپنی ان نسلوں کے ذہنوں میں بو رہے ہیں۔

پس چہ باید کرد

اب سوال یہ ہے کہ دینی مدارس کے معیار تعلیم، وہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طالب علموں کی بالغ نظری اور انہیں وقت اور زمانے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنا سکھانے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے اب یہ بات ناگزیر ہوگئی ہے کہ دینی مدارس کے اساتذہ کرام کی مناسب وموزوں تربیت کا بھی انتظام اور اہتمام ہونا چاہیے۔ وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں یہ بات عملاً تسلیم کر لی گئی ہے کہ دوسروں کو پڑھانا یا تعلیم دینا یہ ایک الگ اور مستقل فن ہے اوریہ بات ضروری نہیں ہے کہ ایک اچھا عالم ایک اچھا استاد بھی ہو اور یہ فن بھی تعلیم وتعلم کا محتاج ہے۔ خود لفظ تعلیم میں اس عملی پہلو کی طرف رہنمائی پائی جاتی ہے۔ نامورماہر لغات علامہ راغب الاصفہانی نے لفظ تعلیم کی توضیح کرتے ہوئے لکھاہے:
والتعلیم اختص بما یکون بتکریر وتکثیر حتی یحصل منہ اثر فی نفس المتعلم وقال بعضہم التعلیم تنبیہ النفس لتصور ذالک (الراغب الاصفہانی،مفردات فی غریب القرآن،ص۳،بذیل مادہ علم)
’’تعلیم کسی شے کو دہرانے اور کثرت کے ساتھ اس کے تکرار کا نام ہے، تاآنکہ اس کا اثر طالب علم کے نفس پر ظاہر ہو جائے۔ بعض علما نے کہاہے کہ تعلیم اس کے تصور کے لیے نفس کو متنبہ اور آگاہ کرنے کا نام ہے۔‘‘
تعلیم کی اس لغوی تشریح سے واضح ہو جاتا ہے کہ تعلیم بذات خود ایک الگ اور مستقل فن ہے جو سیکھنے سکھانے کا محتاج ہے۔ جبکہ تربیت کا مادہ’’رب‘‘ہے جو کہ مصدر ہے۔ علامہ راغب اس کے متعلق لکھتے ہیں:
الرب فی الاصل التربیۃ ھو انشاء الشئ حالا فحالا الی التمام یقال ربہ ورباہ ورببہ فالرب مصدر مستعار للفاعل (ایضاً، ص۱۸۹، بذیل مادہ رب)
’’الرب کے لغوی معنی ’’تربیت‘‘ کے ہیں، یعنی کسی شے کو درجہ بدرجہ کمال تک پہنچانا۔ اسی مفہوم کے اعتبار سے کہاجاتاہے: ’ربہ ورباہ ورببہ‘۔ اس طرح ’الرب‘ لغوی لحاظ سے مصدر ہے جو فاعل (تربیت کرنے والے) کے مفہوم میں مستعار لیا گیا ہے۔‘‘
اور اگر جدید علم التعلیم کے حوالے سے بات کی جائے تو فن تعلیم یا فن تدریس سے مراد نصاب کو موثر انداز میں طلبہ تک پہنچانے کے لیے موثر حکمت عملی کو اپنانے کا نام ہے۔ اس کے لیے اصول نفسیات اور طرق تدریس کاصحیح فہم ہونا بھی ضروری ہے۔ نظام تعلیم کا یہ پہلو اطلاقی وعملی حیثیت رکھتا ہے۔
مزید برآں آج کل تعلیم وتدریس کو کسی ایک طریقے تک محدود نہیں سمجھا جاتا، بلکہ دور حاضر میں تعلیم اور تدریس کے بیسیوں طریقے ہیں جو طالب علم اور طالب علموں کے رویے اور ان کی ذہنی سطح اور ان کے فکری افق کو سامنے رکھ کر اختیار کیے جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے خود استاد یا معلم کی تربیت کا ہونا ضروری ہے۔ پھر جس طرح علم کی تحصیل‘ محنت کے علاوہ اساتذہ کی طرف سے مناسب رہنمائی کی محتاج ہے، اس طرح ’’تربیت معلم‘‘ کے لیے طالب علم میں مناسب وموزوں اہلیت کا ہونا اور اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی طرف سے مناسب رہنمائی کا ملنا بھی ضروری ہے۔
اب آئیے، ہم دیکھیں کہ دینی مدارس کے اساتذہ کی کن کن پہلوؤں پر رہنمائی یا تربیت ضروری ہے۔

۱۔ مقاصد 

دنیا میں جس طرح علوم وفنون میں تنوع اور رنگا رنگی ہے، اسی طرح تدریسی مناہج اور تعلیمی طریقوں میں بھی بڑا تنوع پایا جاتا ہے اور مقاصدتعلیم کو سامنے رکھ کر تعلیم کا منہج اور تدریس کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اسی بنا پر مختلف قومیں اور مختلف ممالک اپنی تعلیمی پالیسیاں جاری کرتے ہیں، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ہمارے دینی مدارس میں تعلیمی مقاصد پر کوئی توجہ اور کوئی دھیان نہیں دیا جا رہا۔ اس میں شک نہیں کہ دینی مدارس میں تعلیم کاسب سے بڑا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہے اوریہ مقصد بذات خود بڑا مقصد ہے، لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے ضمنی اور جزوی مقاصد کا تعین بہرحال ضروری ہے۔
تعلیمی مقاصد کا تعین اوران کے مطابق تعلیمی انداز اور منہج کا اختیار کرنا اس لیے بھی ضروری ہو گیا ہے کہ اب دنیا کا ماحول بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اورایک استاد کو اس با ت کا احساس اور ادراک ہونا ضروری ہے کہ اسے کس ماحول میں اورکس انداز سے اپنی بات کہنی ہے۔

۲۔ تعلیم کے جدید طریقے

پھر جیساکہ اوپر ذکر ہوا، ہمارے دینی مدارس میں زیادہ تر، تدریس کا ایک ہی طریقہ رائج اور نافذ ہے جسے درسی کتب کا طریقہ کہا جا سکتا ہے۔ اس طریقے میں استاد خود درسی کتاب سے کچھ حصہ پڑھتاہے یا کسی طالب علم سے پڑھواتاہے اورپھر استاد عبارت کے مشکل مقامات کی تشریح کرتا جاتا ہے اور حسب ضرورت طلبہ سوالات کے ذریعے بھی اپنی مشکلات حل کرتے ہیں۔ تعلیم اور تدریس کا یہ طریقہ اتنا فرسودہ ہو چکا ہے کہ اس سے نہ تو طالب علم میں کوئی علمی مہارت پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی استاد کی علمی اور فکری صلاحیتوں میں کوئی اضافہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس انداز تعلیم سے کلاس کے صرف ذہین طلبہ ہی مستفید ہو سکتے ہیں اور ایسے طلبہ جن کا ذہنی اور فکری مستویٰ مختلف ہو، یہ طریقہ تدریس ان کے لیے چنداں فائدہ مند نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس عصر حاضر میں تعلیم ایک ’’فن‘‘ اور ایک ’’سائنس‘‘ بن گیاہے اورطالب علموں کو مضمون پڑھانے کے لیے بیسیوں طریقے ایجاد کیے جاچکے ہیں جن میں سمعی اور بصری ذرائع اور وسائل کو اختیار کرکے طالب علموں کے لیے حصول علم میں آسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ ہر مضمون اور ہر ایک Subject))کو پڑھانے کا مستقل طریقہ یا طریقے ایجاد کرلیے گئے ہیں، اور جو مضمون جتنا اہم ہوتا ہے، اتنا ہی اسے آسان اور سہل طریقے سے پڑھانے کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے عربی صرف ونحو، حدیث ، فقہ اور قرآن مجید کی تدریس کے آسان اور سہل طریقے اختیار کرنا وقت کی سب سے اہم اور سب سے بڑی ضرورت ہے۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ طریقہ ہائے تدریس میں وسعت اور تنوع سب سے پہلے مسلمان علما کے ہاں پیدا ہوا جس کے لیے صحیح بخاری کی کتاب العلم کو دیکھا جا سکتاہے جس میں مسلمانوں کے ہاں اس بارے میں پائی جانے والی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔

۳۔ طلبہ میں نظم ونسق کا مسئلہ

اس سلسلے میں سب سے خراب صورت حال طلبہ کے ساتھ معاملات کی ہے۔ دینی مدارس میں طلبہ کے ساتھ اساتذہ کا رویہ اور ان کا معاملہ بے حد افسوس ناک حیثیت رکھتا ہے۔ عام طورپر دینی مدارس میں طلبہ کی وہی حیثیت ہے جو جاگیرداروں اور وڈیروں کے ہاں ان کے مزارعوں اور نوکروں کی ہے اوراگر یہ کہاجائے تو بجا ہوگا کہ دینی مدارس میں طلبہ کے کوئی آئینی حقوق نہیں ہیں۔ اسباق کے دوران طلبہ کو زیادہ سوالات پوچھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے قدوری کے سبق میں اپنے استاد سے یہ پوچھا تھا کہ اگر نماز کے دوران میں نمازی کو ایک سے زیادہ مرتبہ سہو ہو جائے تو اس کا کیاحکم ہے؟ تو میرے استاد محترم نے جواب دیا تھا کہ ’’تم مودودی کی طرح خواہ مخواہ کے سوال نہ اٹھایا کرو۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے اس کا مزید جواب دینے سے انکار کر دیا تھا۔ بعض اساتذہ سوال پوچھنے پر اپنی درس گاہ سے طالب علم کو نکال دیتے ہیں جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے ہاں دینی مدارس میں طلبہ کی ذہنی استعداد بڑھانے اور اس بارے میں ان کی رہنمائی کرنے کے بجائے ان کے اندر موجود علمی اورفکری صلاحیتوں کو کچلنے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ 
علاوہ ازیں مدارس میں طالب علموں کا گلا گھونٹنے کا قدم قدم پر بندوبست ہوتا ہے تاکہ ان کے اند ر سے ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کی کوئی آواز بلند نہ ہو سکے۔ یہ طالب علم انتہائی خوف کے عالم میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مدارس کی انتظامیہ ہر ممکن طریقے سے طالب علموں کی تذلیل گوار ااور روا رکھتی ہے۔ سب سے زیادہ دکھ ذہنی اورفکری تذلیل کا ہے جس کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔ ان رویوں اور طریقوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے زیادہ ترطلبہ کا تعلق پس ماندہ علاقوں اور پس ماندہ خاندانوں سے ہوتاہے، اس لیے وہ اس گھٹے ہوئے اور تذلیل وتحقیر کے ماحول کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں، لیکن ان کے ساتھ روارکھا جانے والا یہ رویہ ان کے اندر موجود ان کی ذہنی اور فکری صلاحیتوں کے خاتمے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ایسے لوگوں سے یہ توقع رکھناکہ وہ احیا و اشاعت دین کا کام کریں گے، احمقانہ سی بات ہے۔ موجودہ زمانے میں طلبہ سے ڈیلنگ بھی ایک مستقل فن اور ایک مستقل علم بن چکا ہے اور اس کے لیے بھی اساتذہ کی بھر پور توجہ کی ضرورت ہے۔ 
مختصراً یہ کہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے دینی مدارس میں اساتذ ہ کی تربیت کا کوئی معقول نظام اپنایا جائے۔ یہ کام وفاق المدارس کی سطح پر بھی کیا جا سکتا ہے اورمختلف مدارس کی سطح پر بھی۔ جن مضامین اور موضوعات میں انہیں تربیت کی ضرورت ہے اورجن جن طریقوں سے انہیں تربیت مہیا کی جا سکتی ہے، ان کا تعین باہم مشاورت سے کیا جا سکتا ہے۔ آئندہ کے لیے ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ دینی مدارس میں بطور استاد ہونے والی نئی بھرتی میں انہی تربیت یافتہ اساتذہ کو موقع دیاجائے۔ ا س سے دینی مدارس کی تعلیم میں بہتری آئے گی اور طالب علم کے ذہنی افق میں اضافہ ہوگا۔

ہماری درس گاہوں میں عربی زبان و ادب کی پس ماندگی

مولانا محمد بشیر سیالکوٹی

میں آج کی نشست میں وطن عزیز کی سرکاری اور غیرسرکاری درسگاہوں میں، جن میں ہمارے قابل قدر دینی مدارس یا عربی مدارس سرفہرست ہیں، عربی زبان و ادب کی تعلیم و تدریس کی پسماندگی اور اس کے اسباب اور اس سے پیدا ہونے والے متنوع نتائج پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔

تدریس عربی میں پس ماندگی سے کیا مراد ہے؟

اولاً میں اس امر کا اعتراف کرتا ہوں کہ خصوصا ہماری دینی درسگاہوں میں عربی زبان وادب کی نہایت وقیع اور معیاری کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، نیز عربی گرامر کے دونوں شعبوں یعنی علم صرف اور علم نحو میں مستند اور مفصل کتابوں کی تدریس ہوتی ہے اور ان کی تعلیم وتدریس کئی سال جاری رہتی ہے، جو بڑی محنت اور جانفشانی سے کی جاتی ہے۔ اور پھر ان تینوں علوم (عربی زبان، علم صرف اور علم نحو) کی تدریس کی ذمہ داری صرف کہنہ مشق اور محنتی اساتذہ کو ہی دی جاتی ہے۔ چنانچہ طلبہ وطالبات علم صرف کی گردانوں اور قواعد کو بڑی توجہ سے پڑھتے ہیں بلکہ حفظ کرتے اور فرفر سناتے ہیں اور نحو کے قواعد کو بھی نہایت محنت اور توجہ سے پڑھایا جاتا ہے، پھر بڑی جماعتوں میں عربی زبان کی بلاغت اور معانی کی مستند کتابوں کی تدریس بھی ہوتی ہے۔ تو ان علوم پر اتنی توجہ اور اہتمام کے باوجود ہمارے طلبہ وطالبات ان میں پسماندہ کیوں رہتے ہیں؟ اور اس پسماندگی کا کیا مفہوم ہے؟
اسلامی درسگاہوں کی ان مفید خدمات اور روشن پہلوؤں کے باوجود ہم ان کے فضلا کو دیکھتے ہیں کہ وہ عربی زبان اور عربی ادب دونوں میں پس ماندہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ ان علوم کی پچیس تیس کتابیں پڑھنے کے باوجود عربی زبان کے عملی استعمال یعنی اس میں گفتگو اور تحریر کی قدرت نہیں رکھتے اور سخت ضرورت کے وقت معمولی عربی بول چال اور تحریر سے بے بس نظر آتے ہیں، نیز اہل زبان سے ملاقات کے وقت ان کی باتوں کو سمجھ نہیں پاتے، اور عصر حاضر کے عربی اخبارات اور مجلات سے استفادہ نہیں کرسکتے۔ وہ صرف قدیم کتابوں کی عبارتوں کو سمجھتے ہیں لیکن جدید عربی لٹریچر کا مطالعہ نہیں کر پاتے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے طویل تعلیمی عرصے میں ان کی کتابوں کا اردو ترجمہ یاد کرتے ہیں، اور ان کے قواعد اور اصولوں کو صرف نظری اور زبانی حد تک رٹنے میں صرف کرتے ہیں اور عربی الفاظ اور تراکیب کے ان روزمرہ استعمالات اور محاوروں سے ناواقف رہتے ہیں جو اہل زبان کے معاشرے میں لکھے بولے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ یہ فاضل حضرات صرف عربی زبان کے مفرد اسماء اور افعال کو کسی حد تک جانتے ہیں اور ان کے عملی استعمال کی شکلوں اور تراکیب سے ناواقف رہتے ہیں۔
اس لیے مدارس کے طلبہ اور اساتذہ اولاً تو عربی بولنے یا لکھنے سے بچتے ہیں۔ اگر ان میں سے کچھ اسے بولنے یا لکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے جملوں میں لغت، صرف، نحو اور محاوروں کی غلطیاں اتنی کثرت سے ہوتی ہیں کہ ان کی اصلاح کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ کیونکہ انہوں نے اگرچہ زبان کے ان چاروں اجزا کو سالہا سال تک پڑھا بلکہ رٹا ہوتا ہے لیکن انہیں ان کے عملی استعمال کی مشق اورتربیت سے محروم رکھا گیا ہے، لہٰذا اسے لکھنے یا بولنے کی استعداد حاصل نہیں کرسکے، حالانکہ ان کیلئے عربی ایک نہایت آسان زبان ہے۔ اگر انہیں کچھ ہی عملی تربیت کرادی جاتی تو وہ اسے خوب لکھ بول سکتے۔
اب میں محترم علماے کرام، تعلیمی ماہرین، عربی زبان و ادب کے معلمین اورمعلمات نیز اپنے عزیز طلبہ وطالبات کے سامنے اس مسئلے کو آسانی سے پیش کرنے کے لئے عربی زبان کی تعلیم وتدریس کی چند مثالیں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ 

پہلا طریقہ تدریس

یہ ہمارے فاضل دوست جامعہ ..... میں عربی زبان کے مدرس ہیں۔ اس وقت ان کے سامنے اٹھارہ بیس طلبہ بیٹھے ہیں۔ وہ انہیں وفاق المدارس العربیۃ کے نصاب میں مقرر نصابی کتاب قصص النبیین، الجزء الاول پڑھا رہے ہیں جو حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے۔ معلم اور طلبہ کے ہاتھوں میں کتاب کا ایک ایک نسخہ موجود ہے۔ ان کی تدریس کا طریقہ یہ ہے کہ معلم خود سبق کی عبارت پڑھ رہا ہے اور طلبہ کو اس کے الفاظ اور جملوں کا لفظی اردو ترجمہ بتا رہا ہے جسے وہ سنتے ہیں اور ذہن نشیں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ طلبہ اپنے معلم سے سبق کی عبارت کا لفظی اردو ترجمہ پڑھتے اور اسے یاد کرتے ہیں۔ معلم کے پاس اپنی تیاری کیلئے اس کتاب کا چھپا ہوا اردو ترجمہ موجود ہے جسے وہ حسب ضرورت دیکھ لیتے ہیں۔
نتیجہ : طلبہ سبق کی عبارت کا لفظی اردو ترجمہ سمجھنے اور یاد کرنے لگتے ہیں۔

دوسرا طریقہ تدریس

یہ ہمارے ایک فاضل دوست موقر دار العلوم ...... میں عربی زبان وادب کے مدرس ہیں۔ یہ ابتدائی اور متوسط جماعتوں کو پڑھانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ بھی اس پیریڈ میں حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کتاب قصص النبیین، الجزء الاول کی تدریس کر رہے ہیں۔ تاہم ان کی تدریس کا طریقہ پہلے مدرس کے طریقہ تدریس سے کچھ مختلف ہے۔ ان کی جماعت میں تختہ سیاہ موجود ہے اور ہر طالب علم کے پاس نصابی کتاب کے علاوہ اپنی کاپی اور قلم موجود ہے۔ معلم سبق کے آغاز میں تختہ سیاہ پر مناسب اور خوبصورت خط میں سبق کے منتخب الفاظ کی تشریح لکھ رہا ہے جس میں عربی افعال کے معنی اور ان کا ماضی، مضارع اور مصدر، نیز اسم مفرد کا معنی اور جمع، اور جمع اسم کا معنی اور مفرد وغیرہ۔ طلبہ الفاظ کی اس تشریح کو اپنی کاپیوں میں نقل کرکے اسے یاد کر رہے ہیں۔ بعد ازاں معلم سبق کی تدریس اس طریقے پر کرتا ہے کہ ایک طالب علم سبق کی عبارت پڑھتا ہے اور معلم اس کا اردو ترجمہ کرتا جاتاہے۔ یوں پہلے سبق کی تکمیل ہوتی ہے اور طلبہ سبق کی عبارت کے اردو معنی کوآسانی سے سمجھنے لگتے ہیں اور مختلف عربی الفاظ کی تشریح سے واقف ہوتے ہیں۔
نتیجہ : طلبہ سبق کی عبارت کے اردو ترجمہ اورالفاظ کی تشریح کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔

تیسرا طریقہ تدریس

یہ تیسرے معلم معہد اللغۃ العربیۃ اسلام آباد میں اپنے طلبہ کو یہی کتاب قصص النبیین، الجزء الاول پڑھا رہے ہیں۔ بچوں کے سامنے ایک وائٹ بورڈ آویزاں ہے اور ہر بچے کے پاس نصابی کتاب کے علاوہ ایک کاپی اور قلم موجود ہے۔ نیز معلم اور ہر طالب علم کے پاس اس کتاب کی تدریسی گائیڈ (ورک بک) موسومہ دلیل قصص النبیین، الجزء الاول موجود ہے۔ وہ اس گائیڈ کے مطابق سبق کے آغاز میں وائٹ بورڈ پر سبز مارکر سے منتخب الفاظ کے معنی اور تشریح لکھتے ہیں، جسے ہر طالب علم بلند آواز سے پڑھتا ہے، اور اس کے صحیح تلفظ کی مشق کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ اسے اپنی کاپی میں درج کرتا ہے۔ اس کے بعد معلم عربی میں کہتے ہیں: الآن بدأ الدرس، الآن نبدأ الدرس۔ اور سبق کی تدریس شروع ہوتی ہے، تو سبق کو معلم خود نہیں پڑھتا بلکہ اسے باری باری مختلف طلبہ پڑھتے ہیں اور معلم اس کا بامحاورہ اردو ترجمہ بولتا ہے۔ پھر معلم گاہے گاہے طلبہ کو مناسب ہدایات دیتے ہوئے عربی بولتا ہے۔ مثلاً الآن اقرأ أنت یاخالد، الآن اقرأ أنت یا حمزۃ، اور کسی طالب علم کے اچھے نطق پر أحسنت! بارک اﷲ فیک اور کسی سے غلطی سرزد ہونے پر لا، یا عبد الرحمن اور سبق کے اختتام یر الآن انتہی الدرس، الآن انتہت الحصۃ وغیرہ۔ نیز معلم طلبہ کو جملوں کے لفظی ترجمہ سکھانے کے بجائے ان کا بامحاورہ ترجمہ بتاتا ہے۔ اس طرح معلم پہلے پیریڈ میں پہلے سبق کی تدریس مکمل کرتا ہے۔
پھر دوسرے دن وہ طلبہ کو دلیل قصص النبیین، الجزء الاول کے مطابق اس سبق پر عربی میں بول چال کی مشق کراتا ہے، جو دو مشقوں پر مشتمل ہے۔ پہلی مشق میں سبق کے مضمون کے بارے میں عربی زبان میں چھوٹے چھوٹے سوال دئیے گئے ہیں۔ معلم ایک سوال بولتا ہے، تو طلبہ اس کا جواب دیتے ہیں۔ اگر طلبہ کا جواب غلط یا ناقص ہو تو معلم اسے درست کراتا ہے۔ دوسری مشق میں سبق کے بارے میں لکھے ہوئے جملوں میں خالی جگہوں کو مناسب الفاظ سے پر کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔
عربی بول چال کی ان دونوں مشقوں کو طلبہ دو بار زبانی اور تحریری دونوں طرح حل کرتے ہیں؛ پہلے کلاس میں اپنے معلم کی نگرانی میں زبانی حل کرتے ہیں اور پھر انہیں اپنی کاپیوں میں تحریری طور پر حل کرکے لاتے ہیں اور معلم اسے چیک کرتا اور حسب ضرورت تصحیح کرکے اس پر اپنے دستخط کرتا ہے۔
نتیجہ : طلبہ سبق کی عبارت کا با محاورہ اردو ترجمہ سیکھتے ہیں اور مختلف عربی الفاظ کی لغوی تشریح کے ساتھ ان کے تلفظ کی صحت سیکھتے ہوئے روزمرہ کی ابتدائی عربی زبان کو سمجھنے، لکھنے اور بولنے لگتے ہیں کیونکہ انہیں عربی لکھنے اور بولنے کا اچھا ماحول میسر آیا ہے۔

چوتھاطریقہ تدریس

یہ معہد اللغۃ العربیۃ میں عربی زبان وادب کے ایک دوسرے معلم ہیں۔ آئیے ان کی کلاس کو دیکھتے ہیں۔ یہ آج راقم الحروف کی کتاب اقرأ، الجزء الاول کا پہلا سبق پڑھا رہے ہیں۔ اس سبق میں چونکہ ہر چیز کی تصویر کے ساتھ اس کا عربی نام لکھا ہے، اسلئے وہ الفاظ کا اردو ترجمہ نہیں کرتے، بلکہ ہر چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کا عربی نام پڑھنے کی مشق کراتے ہیں اور اگر طالب علم سے کسی اسم کی خواندگی میں تلفظ کی غلطی واقع ہو تو اسے درست کراتے ہیں۔ کلاس کے شرکاء بالکل نئے ہیں اور آج پہلے دن عربی زبان پڑھنے لگے ہیں اس کے باوجود وہ انہیں براہ راست عربی پڑھنے اور بولنے کی مشق کرا رہے ہیں۔ وہ تمام طلبہ کو ضروری ہدایات بھی عربی میں ہی دے رہے ہیں، اور جہاں دقت پیش آتی ہے، اشارے سے کام لیتے ہیں۔ اب کلاس پہلا سبق ختم کر رہی ہے تو معلم نے انہیں کسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ما ہذا؟ سے سوال کرنا سکھا دیا ہے اور اس کا جواب بھی ہذا قلم وغیرہ سمجھا دیا ہے۔اس کے علاوہ ایک اہم اضافی مشق یعنی کسی شخص کے بارے میں سوال کرتے ہوئے من ہذا؟ اور اس کا جواب بھی سکھا دیا ہے، اور اس کے لیے جماعت کے شرکا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے من ہذا؟ ہذا أکرم، من ہذا؟ ہذا جمیل الرحمن وغیرہ کی مشق کرادی ہے۔ اور اس نہج کو جاری رکھتے ہوئے سبق کی تینوں مشقیں بھی حل کر ا دی ہیں۔
یوں ان نووارد طلبہ نے آج اٹھارہ بیس چیزوں کے عربی نام سیکھ لئے ہیں اوران کے بارے میں سوال وجواب کی مشق کرلی ہے، اور اس طرح پندرہ بیس اشخاص کے بارے میں من ہذا؟ کی مشق بھی کرلی ہے اور مجموعی طور پر پہلے ہی دن ہذا ......، ہذا ...... کی طرح کے تیس سے زیادہ عربی جملے فرفر بولنے لگے ہیں۔ اب معلم نے طلبہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ کل ان مشقوں کو اپنی کاپیوں میں تحریر کرکے لائیں۔
نتیجہ : طلبہ سبق کے جملوں کو براہ راست سمجھنے کے علاوہ انہیں باربار پڑھنے بولنے اور لکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں اور ان کے تلفظ کی تصحیح بھی کرچکے ہیں۔ کیونکہ انہیں خالص عربی ماحول میں بول چال کی مشق کرنے کا موقع میسر آیا ہے۔

ہمارے ہاں مروجہ طریقہ تدریس

اب آئیے دیکھیں کہ ہم اپنی درسگاہوں میں اپنے بچوں کو بنیادی عربی زبان کی تعلیم ان چار طریقوں میں کس طریقے پر دے رہے ہیں؟ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ہماری درسگاہوں میں عرصہ دراز سے عربی زبان وادب کی تعلیم کا پہلا طریقہ تدریس ہی رائج ہے اور ہمارے اساتذہ سبق کے لفظوں یا عبارت کو خود پڑھتے ہیں یا کبھی کبھی کسی طالب علم سے پڑھوا کر اس کا اپنی مقامی زبان اردو وغیرہ میں ترجمہ کرتے ہیں، جسے طلبہ وطالبات سنتے اور یاد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری اکثر درسگاہوں میں تفہیم وتعلیم کا بنیادی ذریعہ تختہ سیاہ یا وائٹ بورڈ موجود نہیں ہوتا، اگر موجود ہوتا ہے تو اسے بہت کم استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے بچوں کو عربی الفاظ کی تشریح لکھوانے کا اہتمام بہت ہی کم کیا جاتا ہے۔ یوں ہمارے مروجہ نظام تعلیم میں عربی زبان وادب، قرآن کریم اور حدیث شریف نیز صرف ونحو اور فقہ کی تدریس کا یہی منہج جاری ہے کہ سال اول سے لیکر سال ہشتم (دورہ شہادۃ عالمیۃ) تک اور مڈل سے لے کر ایم اے عربی، ایم اے اسلامیات تک، بلکہ پی ایچ ڈی تک عربی عبارتوں کا اردو ترجمہ ہی سکھاتے ہیں، اور ان کا اردو ترجمہ کرلینے اور اپنی زبان میں ان کے مفہوم کی تشریح کرنے کو کامیابی کی منزل قرار دیتے ہیں۔ اس کے سوا وہ اس پورے عرصے میں عربی زبان کے الفاظ اور محاوروں کو لکھنے یا بولنے اور ان کے متنوع استعمالات کی کوئی مشق نہیں کرتے، اور نہ ہی انہیں عربی زبان میں زبانی یا تحریری بول چال کی مشقیں کرائی جاتی ہیں۔ مثلاً ملک کے عربی مدارس کے تمام وفاقوں کے نصاب تعلیم کو دیکھ لیجیے، اس میں ایسی درسی کتابیں بہت کم ملیں گی جن میں متعلقہ مضمون پر سوال وجواب، عربی بول چال اور تحریر وانشاء کی مشقیں موجود ہوں، اور جہاں ایسی بہت ہی کم کتابوں میں ایسی مشقیں موجود ہوتی ہیں ان کی تدریس کرنے والے اساتذہ انہیں نظرانداز کردیتے ہیں اور وہ انہیں زبانی یا تحریری طور پر حل کرانے کا اہتمام نہیں کرتے الا قلیل منہم۔

ہمارے نظام تعلیم میں عربی زبان عملاً متروک ہے

اگر آپ اپنے ملک کے قرآن وحدیث اور عربی ادب کوپڑھنے والے نہایت ذہین اور محنتی طلبہ بلکہ نہایت وسیع اور طویل تدریسی تجربات کے مالک اساتذہ کرام کو دیکھتے ہیں کہ وہ بوقت ضرورت عربی زبان میں گفتگو اور تحریر میں بے بس ہوتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ عربی زبان اس قدر مشکل یا پیچیدہ ہے کہ اسے طویل عرصہ تک پڑھنے اور پڑھانے کے باوجود اس میں مناسب صلاحیت پیدا نہیں ہوتی، بلکہ اس کی اصل وجہ یہی ہوتی ہے کہ انہیں ان کی طویل تعلیمی مدت کے دوران ایسی تربیت نہیں دی گئی۔ بلکہ انہیں عربی زبان اور ادب کے زبانی اور تحریری استعمال سے مکمل محروم رکھا گیا۔ اس لئے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام میں عربی زبان کو، غیر شعوری طور پر ہی سہی، عملی طور پر اور مسلسل ترک کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہمارے فضلا اس فن میں ترقی نہیں کرسکتے۔
ہماری درسگاہوں میں عربی زبان کی تعلیم وتدریس کے دوران کئی صورتوں میں اس کے عملی استعمال کی راہ نکل سکتی ہے لیکن ہم ایسا نہیں کرسکے۔ چنانچہ عربی کو ترک کرنے اور نظرانداز کرنے کی کئی صورتیں بالکل واضح ہیں:
۱۔ ہماری نصابی کتابوں میں تمرین وتربیت کی مشقیں موجود نہیں ہیں۔
۲۔ ہمارے اساتذہ بول چال اور تحریر کی مشقیں نہیں کراتے۔
۳۔ ہمارے اداروں میں تشریح وتعلیم کیلئے تختہ سیاہ استعمال نہیں کیا جاتا۔
۴۔ ہمارے اداروں کے داخلی ماحول میں عربی بول چال کا ماحول پیدا نہیں کیا جاتا۔
۵۔ ہمارے معلمین بھی اپنے اسباق کے دوران کلاس میں ایسا عربی ماحول پیدا نہیں کرتے جس سے معلم اور طلبہ کے درمیان باہمی گفتگو میں عربی زبان کے روزمرہ محاورے استعمال ہوتے ہوں۔
اس طرح ہمارے طلبہ اور مدرسین دونوں کو عربی الفاظ یا عبارتوں کا مقامی زبان اردو یا پشتو وغیرہ میں ترجمہ تو یاد رہتا ہے لیکن عربی الفاظ کی سرسری قرأت کے بعد اس کے عملی استعمال کا کوئی موقع نہیں ملتا۔ یوں ہم اپنے تمام اسباق میں اور تمام تعلیمی مراحل میں عربی زبان کو عملاً اور مسلسل ترک کرتے رہتے ہیں۔
اسلئے ہمارے طلبہ وطالبات بلکہ اساتذہ بھی عربی ایسی آسان زبان کو بھی لکھنے اور بولنے کی معمولی صلاحیت سے قاصر رہتے ہیں۔ اس فرسودہ طریقہ تدریس سے عربی زبان مسلسل ’’متروک‘‘ رہتی ہے۔ اس لئے ہمارے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور اسلامی درسگاہوں میں عربی زبان عملاً ’’متروک‘‘ ہے۔ اور یہ ایک بدیہی بات ہے کہ جس چیز سے آپ زندگی بھر گریزاں رہیں بلکہ اسے آپ عمداً ترک کریں، وہ آسان ہونے کے باوجود آپ کو نہیں آئے گی۔

معلم کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے

محترم حضرات! میں نے بنیادی عربی زبان کی تعلیم وتدریس کے جن چار مختلف طریقوں کا ذکر کیا ہے، ان سب میں ایسی نصابی کتابوں کی مثالیں دی ہیں جو ہمارے اپنے ملک یا علاقے میں لکھی گئی ہیں اور ان میں ہمارے اداروں اور ہمارے طلبہ وطالبات کی ضروریات اور معیار کو ملحوظ رکھا گیاہے اور وہ یہاں زیر تعلیم ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہر معلم کی مہارت، تجربے اور محنت کی بدولت اس کا طریقہ تدریس دوسرے سے یکسر مختلف ہے اور اس کے مقاصد اور نتائج بھی مختلف ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ
  • تدریس کا پہلا طریقہ بالکل سادہ اور سطحی ہے، اور اس میں عربی عبارت کا صرف لفظی اردو ترجمہ سکھایا جاتا ہے۔
  • دوسرے طریقے میں اردو ترجمہ کے ساتھ منتخب الفاظ کی تشریح سکھائی جا رہی ہے۔
  • جبکہ تیسرا طریقہ تدریس کئی طرح کی محنت اور منصوبہ بندی سے تیار کیا گیا ہے اور اس سے پانچ فوائد کی تکمیل ہورہی ہے۔ (۱) بامحاورہ اردو ترجمہ، (۲) الفاظ کی تشریح، (۳) نطق کی تصحیح، (۴) عبارت کا مکمل فہم اور (۵)عربی لکھنے بولنے کی استعداد۔
  • اسی طرح چوتھا طریقہ تدریس بھی بڑی مہارت اور توجہ سے تیار کیا گیا ہے۔ یہ کسی زبان کی تدریس کا سب سے زیادہ مؤثر اور نہایت کامیاب طریقہ تدریس ہے، اور تمام مقاصد اور فوائد کی تکمیل کرتا ہے۔ اس سے قارئین اردو ترجمہ کے بجائے براہ راست عربی زبان میں غور وفکر کرتے ہوئے اسے پڑھنے لکھنے اور بولنے کی مہارت حاصل کرتے ہیں۔
فرمان باری تعالیٰ ہے: و اَن لیس للانسان الا ما سعٰی  (اور اس حقیقت کو یاد رکھو کہ انسان کو اس کی محنت کے مطابق ہی نتیجہ ملتا ہے)، بہرحال یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت اور تدریس میں معیاری اور اچھی تدریسی کتاب کے ساتھ معلم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس نکتے پر مزید گفتگو کسی دوسرے موقع پر کروں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

امہات المومنین اور آیت حجاب کا حکم

محمد رفیق چودھری

اگست ۲۰۰۷ء کے ’’الشریعہ‘‘میں جناب ڈاکٹرسید رضوان علی ندوی صاحب کامضمون ’’امہات المومنین کے لیے حجاب کے خصوصی احکام‘‘نظر سے گزرا۔جنا ب ندوی صاحب کے مذکورہ مضمون کی گئی باتوں سے مجھے اختلاف ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے :
۱۔ندوی صاحب فرماتے ہیں کہ :
’’قرآن میں پر دہ کے کچھ احکام توایسے توہیں جن کاتعلق امہات المومنین یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے ہے اوردوسرے احکام وہ ہیں جوعام مسلمان خواتین سے متعلق ہیں اوربعض حکم ایسے ہیں جن میں دو نوں مشترک ہیں۔‘‘ (ص:۳۷)
مگر آگے چل کر ندوی صاحب نے اپنے عجیب وغریب نظریے کی وضاحت نہیں فرمائی کہ ان تین اقسام کے پردوں کے لیے قرآن وحدیث سے کیادلیل ملتی ہے انہوں نے صرف ایک قسم کے پردے کی وضاحت کرتے ہوئے سورۃ الاحزاب آیت ۳۳کاحوالہ دیاہے باقی دوقسموں کے پردوں کے بارے میں نہ کوئی دلیل دی ہے اورنہ کوئی حوالہ بلکہ اس معاملے سے اعراض کرکے انہوں نے اس بحث میں اچھاخاصاالجھاؤ اورمغالطہ پیدا کردیاہے ،کہ اسلام میں ستر وحجاب کے احکام ازواج مطہرات کے لیے اورہیں اورعام مسلمان خواتین کے لیے اور۔
۲۔جناب ندوی صاحب کے مضمون کادوسرانکتہ جس سے مجھے اختلاف ہے یہ ہے کہ انہوں نے سورۃ الاحزاب کی آیت ۳۳کے الفاظ : ’وقرن فی بیوتکن‘(اوراپنے گھروں میں ٹک کر رہو ...) کے حکم کو صر ف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے ساتھ خاص کردیاہے اوروہ اس حکم میں عام مسلمان عورتوں کوشامل نہیں سمجھتے ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ :
’’بعض مفسرین نے قدیم زمانے سے مذکورہ آیت ۳۳ کے پہلے جملے ’وقرن فی بیوتکن‘ (اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو) کا اطلاق عام مسلمان خواتین پر کرکے عورتوں کوگھر کی چار دیواری میں محبوس کردیا‘‘۔ (ص ۳۸)
وہ مزید لکھتے ہیں کہ :
’’عورتوں کوچار دیواری میں رکھنے کے دفاع میں جوکچھ بھی کہا جائے وہ اپنی جگہ لیکن اس کا حکم قرآن میں نہیں ہے۔ اورازواج مطہرات پر قیاس کرتے ہوئے اس حکم کوتمام مسلمان خواتین کے لیے عام کرنا کسی طرح درست نہیں، کیونکہ سورۃ الاحزاب کی انہی آیتوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ ازواج مطہرات میں سے اگرکوئی بدکرداری کرے توان کوآخرت میں دگنی دی جائے گی ،اوراگروہ اطاعت شعاری اورنیکوکاری کریں گی توان کودگنا اجر دیاجائے گا (سورۃ الاحزاب آیت ۳۰۔۳۱)جب کہ عام مسلمانو ں کو کسی گناہ کی سزادینے کاذکر قرآن میں نہیں‘‘۔ (ص۳۸)
اصل نکتے پر بحث کرنے سے پہلے میں عرض کروں گا کہ ندوی صاحب کای دعوی کہ عام مسلمانوں کو کسی گناہ کی دگنی سزا دینے کا ذکر قرآن میں نہیں ہے ،ہرگز صحیح نہیں ہے ۔سورۃ الفرقان آیت ۶۸۔۶۹میں عام مسلمانوں کوبھی تین قسم کے گناہوں (شرک ،قتل اورزنا)پر آخرت کی دگنی سزاسنائی گئی ہے ۔قرآن کہتاہے کہ:
وَمَنْ یَّفْعَلْ ذَالِکَ یَلْقَ أَثَاماً یُّضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہِ مُہَاناً  (الفرقان آیت ۶۸۔۶۹)
’’اورجوشخص ایسے کام کرے گا وہ اپنے کیے کی سزابھگتے گا، قیامت کے دن اسکو دگنا عذاب دیاجائے گا اوروہ اس میں ہمیشہ ذلیل ہوکر رہے گا ۔‘‘
اب اصل نکتے کی طرف آتے ہیں ،یہ بجا ہے کہ سورۃ الاحزاب آیت ۳۳میں ’وقرن فی بیوتکن‘ (اوراپنے گھروں میں ٹک کررہو) کا خطاب اگرچہ ازواج مطہرات سے ہے مگر اس حکم میں عام مسلمان خواتین بھی داخل ہیں کیوں کہ اسی آیت میں نماز، زکوٰۃ، اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت جیسے احکام بھی موجود ہیں جو ظاہر ہے صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص نہیں ہوسکتے۔ پوری آیت یوں ہے :
وَقَرْنَ فِیْ بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُولَی وَأَقِمْنَ الصَّلَاۃَ وَآتِیْنَ الزَّکَاۃَ وَأَطِعْنَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ إِنَّمَا یُرِیْدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْراً (الاحزاب آیت ۳۳)
’’اوراپنے گھروں میں ٹک کررہو،دورجاہلیت کی عورتوں کی طرح اپنی زینت کی نمائش کرتی نہ پھرو،نمازقائم کرو، زکوٰۃ اداکرو ،اوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرو،اللہ چاہتاہے یہ کہ تم اہل بیت سے آلودگی کو دوررکھے اورتمہیں اچھی طرح پاک کردے ۔‘‘
کیا اس آیت کا یہ مطلب لیا جائے کہ صرف ازواج مطہرات ہی گندگی سے پاک ہوں اوراللہ تعالیٰ باقی مسلمان عورتوں کو گندگی سے پاک نہیں کرنا چاہتا ؟ مذکورہ آیت کے حوالے سے اگر ندوی صاحب کے موقف کوتسلیم کیا جائے تو مانناپڑے گا کہ صر ف امہات المومنین ہی کواپنے گھروں میں ٹک کر رہنے کا حکم دیا گیا تھا ،اورعام مسلمان خواتین کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ گھروں میں ٹک کر نہ رہاکریں بلکہ گلیوں اوربازاروں میں پھرتی رہا کریں ۔صرف امہات المومنین کے لیے حکم تھاکہ وہ تبرج جاہلیت سے پرہیز کریں اورعام مسلمان خواتین کو باہر ٹھن کرنکلنے کی اجازت ہے ۔صر ف امہات المومنین کے حکم تھا کہ وہ امہات المومنین کو زکوٰۃ اداکرنے کاحکم دیا گیا تھا اورعا م مسلمان خواتین کے لیے زکوٰۃ کاحکم نہیں ہے۔ صرف امہات المومنین کے لیے یہ حکم تھاکہ وہ اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کریں اورعام مسلمان خواتین کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ اللہ ورسول کی نافرمانی کیاکریں۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔
تمام مفسرین مانتے ہیں کہ اس آیت میں گھر میں ٹکے رہنے کاجوحکم ہے، وہ اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو مخاطب کرکے دیاگیا ہے، مگرا س کے مفہو م میں عا م مسلمان خواتین بھی شا مل ہیں، مثال طورکے پر امام قرطبی ؒ نے اپنی شہر ہ آفاق تفسیر قرطبی (الجامع لاحکام القرآن) میں اسی آیت کے تحت یہی لکھا ہے کہ ’’معنی ہذہ الایۃ الامر بلزو م البیت، وان کان الخطاب لنساء النبی ﷺ فقد دخل غیر ھن فیہ بالمعنی‘‘۔
اسی طرح مذکورہ آیت کے تمام(چھ)احکام کا اطلاق ازواج مطہرات کے علاوہ عام مسلمان خواتین پربھی کیا گیا ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمان گھروں میں جو اصلاح فرمائی تھی، اس کا آغاز سب سے پہلے ازواج مطہرات سے کہا گیا تاکہ وہ دوسروں کے لیے نمونہ عمل بن جائیں۔
۳۔ تیسری بات اس مضمون میں ندوی صاحب کا وہ طرزکلام ہے جوان جیسے بزرگ اورعربیت کے ماہر شخص کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ : ’’عورتوں کو چار دیواری میں رکھنے کے دفاع میں جو بھی کہا جائے وہ اپنی جگہ، لیکن اس کاحکم قرآن میں نہیں ہے۔‘‘ (ص۳۸)
دوسری جگہ فرماتے ہیں :
’’بعض مفسرین نے قدیم زمانے سے مذکورہ آیت کے پہلے جملے ’وقرن فی بیوتکن‘ (اوراپنے گھروں میں بیٹھی رہو )کا اطلاق عام مسلمان خواتین پر کرکے عورتوں کو گھر کی چاردیواری میں محبوس کردیا .....‘‘(۳۸)
ان عبارات میں ’’عورتوں کوچار دیواری میں رکھنے‘‘ اور آیت کا اطلاق عا م مسلمان خواتین پرکرکے ’’عورتوں کو گھرمیں محبوس کردیا‘‘ جیسی پھبتیاں کسنا ندوی صاحب کے شایان شا ن نہیں ہے۔ یہ تومغربی تہذیب کے دلدادگا ن کا شیوہ ہے۔ آخرندویوں کے لیے کیوں لازم ہوگیاہے کہ وہ بھی مغرب کی ہم نوائی میں پردہ جیسے اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے لگیں؟ شریعت نے پردے کاحکم عورت کو محبوس کرنے کے لیے نہیں دیا، اس کی عفت وعصمت کی حفاظت کے لیے دیاہے ۔
ندوی صاحب کو یہ بھی معلوم ہوناچاہیے کہ اب کی اس پھبتی اورطعن وتمسخر کی زد کہاں تک پہنچی ہے۔ ان کی ان عبارات سے یہ تو نکلتاہے کہ اصل میں اللہ تعالیٰ نے تواپنے قرآن میں صرف رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو گھر کی چاردیواری میں ’’محبوس کرنے‘‘ کا حکم دیاتھا، مگر کم فہم مفسرین نے اس خاص حکم کو عام قراردے کرعا م مسلمان خواتین کو بھی گھروں میں محبوس کردیا۔ یاللعجب! کیا ایسی بات کہنے کے بعد کسی مسلمان کا ایمان محفوظ رہ سکتاہے!محترم ندوی صاحب کو اس سے توبہ کرنی چاہیے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ عربی ادب اور چیز ہے، اور دین کی سمجھ اور چیز!
۴۔ جناب ندوی صاحب کے مضمون کے آخری نکتہ جس سے مجھے اختلاف ہے، وہ یہ ہے کہ وہ سورۃ الاحزاب کی آیت ۵۳ جسے آیت حجاب کہاجاتاہے، کے حکم کو بھی ازواج مطہرات کے ساتھ خاص مانتے ہیں اور ان کویہ شکایت ہے کہ مفسرین کرام نے اس خاص حکم کوبھی غلطی سے ساری خواتین کے لیے عام کر دیا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
’’یہ آیت اپنے طرز خطاب اوراپنے سبب نزول کی روشنی میں واضح طورپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے متعلق ہے لیکن اس کے آخری جملے ’’اورجب ان (ازواج مطہرات )سے کچھ کہامانگا کرو تویہ پردے کے پیچھے سے مانگا کرو‘‘ کا حکم بعد کے مفسرین نے ساری خواتین کے لیے عام کردیا۔‘‘ (ص ؟؟)
قارئین کی آسانی کے لیے یہاں پر متعلقہ آیت حجاب بھی لکھ دی جاتی ہے :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلَّا أَن یُؤْذَنَ لَکُمْ إِلَی طَعَامٍ غَیْْرَ نَاظِرِیْنَ إِنَاہُ وَلَکِنْ إِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ إِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ یُؤْذِیْ النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیِیْ مِنکُمْ وَاللَّہُ لَا یَسْتَحْیِیْ مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوہُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوہُنَّ مِن وَرَاء حِجَابٍ ذَلِکُمْ أَطْہَرُ لِقُلُوبِکُمْ وَقُلُوبِہِنَّ...
’’اے ایمان والو !نبی کے گھروں میں بلااجازت نہیں چلا جائے کرو ،نہ کھانے کاوقت تکتے رہو ،ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایاجائے توضرور آؤ ،مگر جب کھانا کھالو توچلے جاؤ ،بیٹھ کر باتیں کرنے میں نہ لگے رہو ،تمہار ایہ عمل نبی کوتکلیف دیتاہے ،مگروہ شرم ک وجہ سے کچھ نہیں کہتے ،اوراللہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا ہے ،نبی کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگناہوتو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے دلوں اوران کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے مناسب طریقہ ہے ‘‘۔
اس سلسلے میں پہلی گزارش یہ ہے کہ جہاں تک طرزخطاب اورسبب نزول ،کا معاملہ ہے ،تواہل علم جانتے ہیں کہ تفسیر کایہ مسئلہ قاعدہ ہے کہ ’’العبرۃ بعموم اللفظ لابخصوص السبب‘‘ جس کا مفہوم یہ ہے کہ جن آیات کا کوئی خاص شان نزول ہوتاہے، ان کاحکم بھی صرف مخصوص موقع ہی کے لیے ضروری نہیں سمجھاجاتابلکہ اس کے حکم کوعام قرار دیا جاتا ہے۔ گویایہ نہیں کہاجائے گا کہ چو نکہ فلاں آیت شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے، لہٰذا اس کے بارے میں جوحکم آیا ہے، وہ بھی اسی شخص کے ساتھ خاص ہے بلکہ وہ حکم عا م بھی ہوسکتاہے ،اورسبب کے لیے ہوسکتاہے۔ یہی معاملہ اس آیت حجاب کاہے۔ یہ اگرچہ اپنے طرز خطاب اورسبب نزول کے اعتبار سے خاص حکم رکھتی ہے مگر اس کے معنی ومفہوم میں عموم پایا جاتا ہے۔ روایات میں ہے کہ اس آیت حجاب کے نازل ہونے کے بعد ازواج مطہرات کے گھروں میں دروازوں پر پردے لٹکادیے گئے تھے۔ پھر چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاگھر تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا، اس لیے سب مسلمانوں نے بھی اپنے گھروں پر پردے لٹکا دیے۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ صحابہ کرام نے بھی اس آیت کے حکم کوخاص نہیں سمجھا بلکہ عام سمجھ کراس پر عمل کیا اورصحابہ کرام کی قرآن فہمی بعدوالوں کی قرآن فہمی سے بہر حال مقدم ہے ۔
دوسرے اس آیت کے آخری فقر ے میں بھی اس بات کا واضح اشارہ موجود ہے کہ جو لوگ اپنے مردوں اوراپنی عورتوں کے دلوں کو پاک رکھنا چاہتے ہیں، وہ یہی طریقہ اختیا رکریں جس کا یہ آیت میں حکم دیا گیاہے۔ پھر جہاں تک ذَلِکُمْ أَطْہَرُ لِقُلُوبِکُمْ وَقُلُوبِہِن کی قرآنی حکمت کاتقاضاہے توکیا اسلام میں بھی صرف صحابہ کرام اور ازواج مطہرات کے دلوں کی پاکیزگی مطلوب ہے ،اوربعد میں آنے والے مسلمان مردوں اورعورتوں کے دلوں کی پاکیزگی اسلام کومطلوب نہیں ہے؟ جس طریقے کے بغیر صحابہ کرام اورازواج مطہرات کے دلوں کی پاکیزگی میں کمی آسکتی تھی، کیا اس طریقے کے بغیر جدوجہد میں آنے والے مسلمان مردوں اورمسلمان عورتوں کے دلوں کی پاکیزگی میں کمی نہیں آسکتی؟

لال مسجدکا سانحہ، علماءِ عظام اور صدر مشرف

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

اسلام آباد کی لال مسجد کا نام مہینوں سے ہر اُس آدمی کو ذہنی پریشانی میں ڈالے ہوئے تھا جو اسلام اور اسلامی شعائر سے نام کا بھی جذباتی تعلق رکھتا ہو۔ دعائیں تھیں کہ اللہ کوئی بہتر حل کی صورت نکال دے۔مگردعاؤں پر تو مدت سے ہماری بد اعمالیوں نے درِ اجابت بند سا کر رکھا ہے۔سو، ۱۱ ؍جولائی کو ساری دعاؤں کے علیٰ الرغم یہ پریشانی ایک اتھاہ رنج و الم میں جابدلی ۔ افہام و تفہیم کی کوششیں نہ صرف حکومت کی طرف سے ہوا کیں، پاکستان کے مؤقّرترین علماء کی طرف سے بھی مسجد اور اس سے وابستہ جامعۂ حفصہؓ کے ذ مہ دار برادران(عبدالعزیز صاحب اور عبدا لرشید صاحب) سے پیہم کہا جاتا رہا کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیکر اسلام نافذ کرنے کی راہ سے واپس آجائیں۔ ورنہ اس کے نتائج تنہا ان کو نہیں،کم و بیش سب ہی اہلِ مدارس و مساجد کو خدا نہ کردہ بھگتنا پڑیں گے۔مگر نہ دعاؤں سے کچھ ہونا تھا نہ کوششوں سے۔
اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا 
حکومت ایکشن میں آئی ،اور وہ ہوا کہ اپنے تو اپنے وہ غیر بھی رو ئے جو حکومت پر لعنت برسارہے تھے کہ لال مسجد والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا ،جبکہ انھوں نے حکومت اندرونِ حکومت قائم کر رکھی ہے اور سرِ عام لوگوں کے انسانی حقوق پامال کر رہے ہیں۔اور تو اور ،حقوقِ انسانی کی ایک عالمی شہرت یافتہ چیمپین خاتون عاصمہ جہانگیرجو وہاں ہوتی ہیں، اور بھر پور تنقید کرنے والوں میں شامل تھیں وہ بھی کہہ اُٹھیں ہیں کہ لوگ بیشک غلط تھے مگر مارے بھی غلط طریقے سے گئے ۔ الغرض، مشکل ہی سے کوئی ا س روشن خیال قبیلے میں نکل رہا ہے جو ایکشن کے بعد کہہ رہا ہو کہ ہاں ٹھیک ہوا۔حد یہ ہے کہ پاکستان کی عدالتِ عالیہ (سپریم کورٹ) ازخود اس معاملہ کا نوٹس لیکر حکام کو پے بہ پے ہدایات جاری کر نا اپنی ذمہ داری سمجھ رہی ہے کہ اس سلسلہ کے معامالات میں کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے۔

لال مسجد برادران حکومتی ایکشن(یا آپریشن) سے پہلے تک پوری سوسائٹی میں بالکل یکہ و تنہا(Isolate (تھے۔ کوئی قابلِ ذکر آدمی ان کی حمایت کو تیار نہ تھا۔اور علماءِ دیوبند، جن سے ان برادران کا مسلکی رشتہ تھا ا ن کے اکابر نے تو اپنا سمجھانا کارگر نہ ہوتا پاکر ان سے بالکل قطع تعلق و براء ت کا اظہار اس حد تک کیا کہ اپنے مدارس کی تنظیم ’’وفاق المدارس‘‘ سے ان کے مدرسوں(جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ) کا الحاق بالاعلان ختم کردیا ۔اس سے زیادہ کسی دلیل کی ضرورت اس بات کے لیے نہ تھی کہ یہ دونوں برادران جو کچھ کر رہے اور اپنے طلباء و طالبات سے کرا رہے ہیں یہ ان کی ایک ایسی سوچ ہے جس کی تائید کی کوئی گنجائش ان کے اپنے علما بھی اپنے علم میں نہیں پاتے۔اور ان مؤقّر علماء کرام کے اس موقف کی روشنی میں بجا طور پر سمجھا جا سکتا تھا کہ بالفرض حکومت اُن کے ہاتھ میں ہوتی توحکومت کی طاقت سے بھی وہ سب کچھ کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے جس سے ان برادران کے خلافِ قانون اقدامات پر روک لگائی جا سکے۔ اور کوئی جائز استغاثہ ان کے اقدامات کے سلسلہ میں پیش ہوتا تو اس کو بھی قابلِ شنوائی جانا جاتا۔
یہ ایک ایسی صورتِ حال رونما ہورہی تھی جسے کہا جا سکتا تھا کہ ایک شر سے خیر کا ظہور ہوا چاہتا ہے۔مدارس اور علماءِ مدارس جو تقریباً چھ سال سے اس شک و شبہے اورالزام کا نشانہ بنے ہوئے تھے ( اور یہ زیادہ تر دیوبندی مدارس کے بارے میں تھا) کہ ان میں دہشت گردی کی بھی تربیت ہوتی یا اسکے جراثیم پیداکئے جاتے ہیں،اس صورتِ حال سے بہت کچھ مدد یہ ثابت ہونے میں مل سکتی تھی کہ اس شک وشبہے کو عمومی نوعیت میں مدارس پر پھیلانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ مدارس اور علماء کے حوالہ سے اسلامی حکومت کے’’ طالبانی تصور‘‘ کا بنا ہوا تھا،وہ تصور جس کی ایک عملی نمائندگی لال مسجد برادران کرنے لگ گئے تھے، سواس پرعلماء عظام کی متفقہ اور بالاعلان نکیر نے کوئی گنجائش کسی کے لیے نہیں رہنے دی تھی کہ آئندہ اس کو علماءِ پاکستان کے حوالے سے زبان پر لایا جائے ۔ مگر صدر مشرف صاحب کی حکومت، جو چھ ماہ سے یہ تأثر دینے میں لگی ہوئی تھی کہ وہ طاقت کا استعمال نہیں کرنا چاہتی ،اس نے ایک دم سے طاقت کا وہ استعمال کر کے کہ جیسے ساری تأخیر و احتیاط کی تلافی کردینا چاہتی ہو، اس( شر سے خیر نکلتی ہوئی) صورتِ حال کا قصہ آناً فاناً تمام کردیا اور بھرپور توپ و تفنگ سے چڑھائی کرکے یکسروہ ایک نئی فضا اس کے برعکس پیدا کرڈالی کہ ’’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز۔‘‘ ٹھیک ہے کہ ان برادران کا دستِ اصلاح وانکار اپنے لوگوں سے بڑھ کر غیر ملکی لوگوں (اور وہ بھی چینیوں) تک جا پہنچا تھا اور چینی حکومت اس پر فوراً اپنے سفیر کے ذریعہ حرکت میں آئی تھی، مگر پاکستان میں تو اب تک کتنے ہی چینی انجینئر قتل ہو چکے ہیں۔ یہاں تو قتل جیسا کوئی کیس بھی نہ تھا کہ ایک دم سے فوج کو حکمِ بزن دے دیا جائے، حتیٰ کہ اپنے بندے مرجانے کی بھی پروا نہ کی جائے! 
حکومت کے اس بے ہنگم وغیر متناسب (Inappropriate) اقدام نے خود اس کو تو ملزمین کے کٹہرے میں کھڑا کرہی دیا ہے ،اور اس کو وہی بھگتے گی، مگر یہاں سے علماء کرام کا جو یو ٹرن سامنے آیا ہے کہ وہ سانحہ کے سلسلہ میں مسجد برادران کا حصہ بھلا کر ساری ذمہ داری حکومت پر ڈال رہے ہیں، وہ ہم جیسوں کے لیے تو لال مسجد قصہ کے انجام سے کم المیہ نہیں ہے، اس لیے کہ وہ تمام بہتر صورتِ حال جو گزشتہ چھ ماہ میں اِن حضرات کے ،یعنی دین کے مستند نمائندوں اور اداروں کے حق میں، ان کے ایک قدرے جرأت مندانہ موقف کی بنا پر پیدا ہونا شروع ہوئی تھی، ا س کا قصہ بھی ان کی پوزیشن کی اس تبدیلی کے ساتھ یقیناًختم ہوگیا۔ اور جتنی اطلاعات اب تک سامنے ہیں،جن میں کوئی تضاد بھی نہیں ہے،ان کے مطابق کوئی معقول وجہ بھی نہیں بنتی کہ ۱۰؍۱۱جولائی کی رات میں جو کچھ ہوا، اس کی ذمہ داری میں لال مسجد برادران کا حصہ پسِ پشت ڈال کر محض حکومت کی مذمت کی جائے۔ پہلے دن (۱۱جولائی) سے آج دمِ تحریر(۲۳جولائی) تک کی اطلاعات کے مطابق اس یو ٹرن کی وجہ فقط یہ سامنے آرہی ہے کہ اس رات میں سمجھوتے کا ایک ڈرافٹ (مسودہ) حکومت کے نمائندوں اور علماء کے نمائندوں کے اشتراک سے،بہ منظوری عبدالرشید غازی صاحب، تحریر ہوا۔ پھر وہ ڈرافٹ صدر مملکت کے پاس منظوری کے لیے گیا تو وہاں سے ترمیم کے ساتھ واپس آیا جس پر ’’ہاں یا ناں‘‘ کے لیے آدھا گھنٹہ یا (ایک روایت کے مطابق) بس پندرہ منٹ دیے گئے،کیونکہ فوج نے فائنل آپریشن کے آغاز کے لیے جو گھڑی مقرر کر رکھی تھی، اس کا وقت نکل رہا تھا۔ علماء کے نزدیک ترمیم پر فیصلہ کے لیے یہ وقت ناکافی تھا، اس لیے انھیں سمجھوتے کا کردار چھوڑ کر اُٹھ آنا پڑا، اور پھر ہوا جو ہوا۔

پاکستان کے علماء کرام اپنے معاملات کو سمجھنے میں یقیناًہم سے بہتر پوزیشن میں ہیں، اور یوں بھی یہ معاملہ ایسی جذباتی نوعیت کا ہے کہ اس نوعیت کے معاملات میں باہر سے کوئی رائے زنی ناخوشگواری کا باعث ہو سکتی ہے۔ مگر حالات کے اس جبرکو کیا کہیے کہ پاکستانی مدارسِ عربیہ کے خلاف پروپیگنڈہ مہم نے وہاں سے لے کرافغانستان ہی نہیں، ہندوستان اور برطانیہ تک کے واقعات کو ان مدارس سے جوڑ دیا ہے۔ اس لیے پاکستانی مدارس کا مسئلہ اب سب کا مسئلہ بن گیا ہے۔ اس لیے ہم نے ایک اطمینان کا سانس لیا تھا کہ لال مسجد اورجامعہ حفصہ کے معاملے میں پاکستان کے اکابر اہلِ مدارس نے جو موقف اختیارفرمایا ہے، وہ ان شاء اللہ مخالف پروپیگنڈے کی طاقت توڑے گا اور مطلع کچھ صاف ہوگا۔ مگراب ۱۱جولائی کے بعد موقف میں جو تبدیلی یکایک آئی ہے، ہمارا خیال ہے وہ بجائے خود ہی اس پروپیگنڈے کو بے حد تقویت نہ دے گی جس کا سحر ٹوٹنے کی امید ہم کر رہے تھے، بلکہ حکومتی آپریشن کے بے ہنگم پن نے جو حکومت مخالف انتقامی تشدُّد کی ایک اندھی لہر پاکستان میں دوڑائی ہے، اسے بھی اخلاقی تائیدعلما کے اس موقف سے ملے گی۔ اور مولانا عبد العزیز صاحب جنھوں نے برقع میں نکل بھاگنے کا ننگ مجاہد علما کے نام کو لگایا (اور پھر وہی برقع پہن کر انٹر ویو دینے کا دباؤ بھی قبول کر لیا) وہ جس طرح کی ’’مجاہدانہ‘‘ تقریر اپنے بھائی کی تدفین کے موقع پر کرتے سنے گئے، اس کا حوصلہ انھیں کہاں سے دستیاب ہوا مانا جائے گا؟ اور اس سب سے بڑھ کر وہ ہزاروں طلبہ و طالبات جن کے ذہن میں اسلام، جہاد اور شہادت کا ایک سفیہانہ اور گمراہانہ تصور ان برادران نے بٹھا دیا تھا اور اس کے المناک و یاس انگیز انجام سے امیدہو سکتی تھی کہ سمجھائے جانے پر یہ نوعمر سمجھ کی راہ پالیں اور پاکستان اور اسلامیانِ عالم کے لیے مزید مسئلہ نہ بنیں، یہ امیدکیسے قائم رکھنا ممکن ہوگی اگر ان کے کان میں وہی آوازیں جائیں گی جو یہ سننا چاہ رہے ہوں گے؟
لال مسجد اور حکومت کے درمیان سمجھوتہ ڈرافٹ کی وہ آخری شکل جو صدر مشرف کی ترمیمات سے بنی اور جس کے نتیجہ میں علماے کرام سمجھوتے کی کوشش سے باہر آگئے، وہ حسنِ اتفاق سے آج (۲۳ جولائی) کے اخبار جنگ کے ایک کالم کے ذریعہ ہمارے سامنے آگئی ہے۔ اسے دیکھ کر تو صرف اپنی بد قسمتی ہی اس کی ذمہ دار نظر آتی ہے کہ سمجھوتہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ جنگ کے اس کالم کے مطابق، جو پاکستان کے معروف صحافی حامد میر صاحب کا ہے، صدر کے منظور کردہ سمجھوتہ ڈرافٹ کی آخری اور حتمی شکل یہ بن گئی تھی کہ (۱) عبدالرشید غازی کو ان کے گھر میں رکھا جائے گا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی، (۲) لال مسجد سے باہر آنے والے تمام لوگوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی، (۳) جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کا مستقبل محکمۂ اوقاف، وفاق المدارس اور دیگر حکومتی اداروں کے مشورہ سے طے کیا جائے گا۔ حامد میر صاحب نے ڈرافٹ کی یہ آخری شکل اپنے نام جناب مفتی محمد رفیع صاحب عثمانی کے ایک خط کے حوالہ سے، جو سمجھوتے کی اس کوشش میں علماے کرام کے سربراہ تھے، درج کی ہے۔ ہمارے سامنے سمجھوتے کا ابتدائی مسودہ نہیں ہے، تاہم یہ سمجھنے سے ہم خود کو بالکل قاصر پاتے ہیں کہ مسوّدے کی یہ آخری شکل سابق سے کتنی بھی بدلی ہوئی رہی ہو، پھر بھی اس میں کا کون سا نکتہ ایسا تھا کہ اس کی بنیاد پر سمجھوتے کے کردار سے دستبرداری دے دی جائے؟ 
چھ مہینے جو کچھ لال مسجد سے ہوتا رہا اور خود حضراتِ علما اسے ناقابلِ قبول قرار دیتے رہے، اس کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سمجھوتے کی یہ دفعات کسی طرح بھی غیر منصفانہ اور کسی زیادتی پر مبنی کہے جانے کے قابل نظر نہیں آتیں۔ اس ڈرافٹ کے رد کیے جانے سے اندازہ ہوتا ہے، اور یاد آتا ہے کہ خبریں بھی اس طرح کی آئیں تھیں، کہ عبدالرشید غازی نے سیف پیسیج (Safe Passage) دیے جانے(یعنی جہاں اورجس طرح چاہیں، چلے جانے دیے جائیں) کی شرط پر ہتھیار ڈالنے کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی۔ پہلے مسودہ کی سب سے اہم بات غالباً یہی رہی ہوگی مگر ایسی حالت میں کہ فوج کے کئی آدمی کام آ چکے تھے جس میں لیفٹیننٹ کرنل کے رتبہ کا افسر بھی تھا، کیا سربراہِ فوج صدر سے امید کی جانی چاہیے تھی کہ وہ اس سے زیادہ رعایت غازی صاحب کو دے دے کہ وہ (جیل میں نہیں) اپنے گھر میں نظر بند کیے جائیں گے؟ ہر چند کہ یہ تأثر و تبصرہ صدر مشرف صاحب کے حق میں جا رہا ہے، جبکہ ہم خود بھی ان کے طرزِ حکومت کے سلسلہ میں، بالخصوص دین کے حوالے سے، کلمۂ خیر کہنے کی گنجائش نہیں پاتے ،مگردین ہی کا کہنا ہے کہ:
یٰآ اَیُّھا الّذِینَ اٰمَنوا کُونُوا قَوّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآءَ بِالْقِسْط وَلا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنئانُ قَوْمِِ عَلیٰ اَلّا تَعْدِلُوا (المائدہ:۸)
’’اے ایمان والو کھڑے ہو اللہ کے لیے، گواہی دینے والے بن کر انصاف کی۔اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس پر نہ آمادہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔‘‘
اور اس حکمِ الٰہی سے اگر اس راقم کے جیسے لوگ بھی اعراض کرنے لگ جائیں جن کو سال بھر تک آیۃُٗ مِن آیاتِ اللہ حضرت مدنی علیہ الرحمہ(م۱۹۵۷) کے حضور قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردان کی عزت ملی ہے، پھر کس کی شکایت کی جاسکے گی کہ وہ اس فرمان سے آنکھ چرارہا ہے؟ (اللہ جانتا ہے، میں اپنے اس شرف کا اظہاربالکل مجبوراً کر رہا ہوں)
کیسے کہا جائے اور کیسے نہ کہا جائے کہ حکومتی آپریشن کے آثار سامنے آتے ہی غازی صاحب اور ان کے برادر بزرگ کو اوّلاً تو مسجد کے تقدّس اورطلباء و طالبات کے تحفظ کی خاطر خود کو حکومت کے حوالے کردینا تھا کہ پھر جو کچھ بِیتے ان پر بِیتے، مسجد اور طلباء و طالبات پرگولہ بارود کا عذاب نہ آئے۔ دوسرے، وہ جب لڑنے اور جان دینے کو تیار ہو سکتے تھے تو جیل جانا اور عدالت کا سامنا کرنا کیا اس سے بھی کوئی مشکل بات تھی؟ وہ خود کو جب اس قدر برسرِ حق سمجھتے تھے کہ اپنے شیوخ واکابر کی بھی نہ سنیں، تب تو اس حق کے اظہاراور اثبات کے لیے سب سے بہتر ممکن جگہ عدالت کا کٹہرا ہی تھا۔ اور ہمارے بزرگوں نے تواظہارِ حق کے اس پلیٹ فارم کی آواز کو ہمیشہ لبیک کہا اور بھر پور استعمال کیاہے ، اس سے گریز کرکے سیف پیسیج مانگنا یہ تو کسی بھی طرح قابلِ حمایت کردار نہیں بنتا۔

افسوس ،جو نہ ہونا تھا وہ ہوا، اور اس میں صدر مشرف صاحب کے کردار کو بھی یقیناًنظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مسٹر محمد علی جناح سوٹ بوٹ کے آدمی تھے، مگر جب وہ قائدِ اعظم اور گورجنرل پاکستان بنے تو اس خطے کی روایات کا پاس کرتے ہوئے کوٹ پتلون کو شلوار اور شیروانی سے بدلا اور سرپہ ٹوپی لگائی۔ مشرف صاحب نے ا س خطے کی روایات کا احساس وپاس رکھنے والوں کے اور اپنے بیچ میں پہلے ہی دن نفرت کی دیوار کھینچ دینے کو دو کتّے بغل میں سنبھالنا اس وقت ضروری سمجھا جب وہ بیرونی صحافیوں کو انٹرویو دے رہے تھے، اور اپنے لیے آئیڈیل بھی علی الاعلان ٹرکی کے روایت شکن مصطفی کمال کو ٹھیرایا۔ یہ پاکستان کی جڑوں میں پلائی ہوئی دینی روایا ت کے خلاف اعلانِ جنگ کی زبان تھی، اور پھر زیادہ دیر نہیں لگی کہ وہ جو قرآن نے کہہ رکھا تھا کہ:
’’ جس کسی نے’’ سبیلَ الْمؤمنین‘‘ چھوڑ کرکوئی دوسرا راستہ اپنایا تو ہم اس کو اسی راستے پہ چلائیں گے جس پر وہ چل دیا۔ ‘‘(النسآء :۱۱۵) 
موصوف کے اسی راہ پر چلتے چلے جانے کا سامان ستمبر ۲۰۰۱ کی ۱۱ کے بعد امریکہ کے دھمکی لپٹے اس سوال سے ہوگیا کہ ’’ہمارے ساتھ یا ہمارے خلاف‘‘؟ مشرف صاحب کا جواب تھا کہ ’’آپ کے ساتھ!‘‘ اور اس امریکہ کے ساتھ میں انھیں پیہم اپنوں سے نبرد آزمائی کی راہ پہ چلنا پڑا۔ لیکن اب یکایک یہ صورت رونما ہو ئی ہے کہ چھ برس سرد و گرم کا ساتھ نبھانے کے باوجود امریکہ خود مشرف صاحب ہی کی سلطنت میں ان کی مرضی کے خلاف کارروائی کو پر تول رہا ہے۔ وہ اس سے جس قدر بھی پریشانی کے عالم میں نہ ہوں، کم ہے۔ان کے ارد گرد کے لوگوں کے بیانات اس صورتِ حال کی صاف تصدیق کر رہے ہیں۔ وقت ہے کہ مشرف صاحب اپنی اپنائی ہوئی راہ (غیرَ سبیلِ المؤمنین) سے تائب ہوکر راہِ مؤمنین کی طرف واپس آئیں اور اللہ سے مدد کے طالب ہوں، کہ اس کی مدد کے سامنے امریکہ یا غیرِ امریکہ کی طاقت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ہماری تاریخ میں اس کی نظیریں موجود ہیں کہ حکمراں نے تائب ہوکر اللہ کے سامنے قوم کی حفاظت و عزت کے لئے زمین پہ ماتھا رگڑا تومعرکہ کے نتائج بڑی طاقت کے حق میں نہیں اس کے حق میں نکلے۔ مشرف صاحب ماشاء اللہ حج سے بھی مشرف ہو چکے ہیں،عمرے بھی شاید کئی کر لیے ہیں اورکعبۂ مقدسہ میں قدم رکھ پانے کی سعادت سے بھی بہرہ ور ہوئے ہیں۔ان کے لیے رجوع اِلیٰ اللہ مشکل نہ ہونا چاہیے۔ اور یہ ان کا وہ قدم ہوگا کہ قوم سے ان کی بگڑی ہوئی بھی بن جائے ۔
مشرف صاحب ابھی کچھ دن پہلے اسی لندن میں، جہاں یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کے ’’ہاں یا ناں‘‘ والے سوال کے جواب میں ان کی’’ ہاں‘‘ محض قوم کی خاطر ڈر سے تھی، ورنہ ان کی تربیت ڈرنے کی نہیں لڑنے کی ہے۔ یہ بات موصوف نے اس سوال کے جواب میں کہی تھی کہ لال مسجد کے خلاف ایکشن لینے سے وہ کیوں ڈر رہے ہیں اور ان الفاظ میں کہی تھی کہ ’’ہاں، صرف ایک دفعہ ڈرا ہوں، اور یقین جانو صرف قوم کی خاطر‘‘۔ اور اس ایک دفعہ کا مطلب صاف ظاہر تھا۔ تو بسم اللہ، اب وہ اس نئی آزمائش کو ’’ڈرجانے‘‘ کی عار سے دامن صاف کرنے کا موقع سمجھیں اور رجوع الیٰ اللہ کی طاقت پہ ایمان لائیں۔ اللہ ان کے لیے آسان کرے۔ 

مکتوب بنام صدر وفاق المدارس

قاضی محمد رویس خان ایوبی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جناب مولانا سلیم اللہ خان صاحب ،مدظلہ العالی (صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان )
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
یکم جولائی سے شروع ہوکر ۱۰؍ جولائی کی صبح پانچ بجے تک کربلائے اسلام آباد میں آتش وآہن کی بارش برساکر قوم کی معصوم، عفت مآب بیٹیوں، حفاظ قرآ ن اور غازی عبدالرشید شہید کے خاندا ن کے ۱۹؍ افراد سمیت سیکڑوں طلبہ وطالبات کو جس بے دردی اور سفاکی سے شہید کیاگیا، اس کی نظیر چنگیز، ہلاکو، ہٹلر اور بوسنیا ہرز گوینا اور چیچنیا، عراق، ویت نام، کشمیر، فلسطین میں بھی نہیں ملتی۔ ظلم واستبداد کی اس داستان کو رقم کرنے میں جہاں موجودہ حکومت کا کردار اظہرمن الشمس ہے، وہاں اس ظلم کوروکنے کے لیے جمعیت علماے اسلام کی قیادت، خطباے اسلام آباد اور دینی طبقات کی مجموعی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔
جناب صدر وفاق! فقیر کے آپ کی خدمت عالیہ میں بصد ادب واحترام چند سوالات پیش خدمت ہیں۔ ان پرغور کر لیجیے۔ مجنو ں کی بڑسمجھ لیجیے، مگر شایدکوئی ایک کام کی بات بزرجمہرانِ جمعیت اور وفاق کے پلے پڑ جائے:
۱۔ غازی برادران نے فحاشی کے خلاف جس جرات کا مظاہر ہ کیا اور غاصب حکمران کی بے دین پالیسیوں کے خلاف جس طرح انہوں نے حق کا بول بولا کرنے کی خاطراستقامت کا مظاہر ہ کیا، کیا یہ ایسے جرائم تھے کہ ان کی پاداش میں جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کا وفاق سے الحاق ختم کر دیا جاتا؟
۲۔ وفاق کے ضوابط کار کی کون سی دفعہ کی خلاف ورزی کی گئی تھی جس کی یہ سزا دی گئی؟
۳۔ کیا سب سے پہلا وار وفاق نے نہیں کیا کہ دونوں مدرسوں کو اچھوت بنا کر حکومت کو اشارہ دے دیا گیا کہ ہمارا ان کے مطالبات اور اعمال سے کوئی تعلق نہیں؟
۴۔ وفاق کے بقراطوں کے پاس سوائے اخراج کے کوئی ہتھیار نہ تھا، ورنہ شایدوفاق المدارس خود وہی کردار ادا کرتا جو حکومت نے کیا۔
۵۔ ایک بجے تک وفاق نے اس ٹیم سے کیوں مذاکرات کیے جس کے پاس کوئی اختیار نہ تھا؟ کیامفتی رفیع عثمانی صاحب، عبدالرزاق اسکندر صاحب، زاہدالراشدی صاحب، فضل الرحمن خلیل صاحب اور دیگر حضرات نے اس امر کی کوئی یقین دہانی حکومت سے حاصل کی تھی کہ جو شرائط مصالحتی مذاکراتی ٹیم طے کرے گی، وہ حکومتی ٹیم صدر کے بغیر خود منظور کرے گی اور اس پر عمل درآمد کرائے گی؟ جناب رفیع عثمانی صاحب نے خود ٹی وی پر یہ بیان دیا کہ سی این سی ہاؤس سے مسودہ تبدیل کر دیا گیا اور حکومتی مذاکراتی ٹیم نے اس مسودے میں کسی بھی قسم کی لچک کا مظاہرہ کرنے سے معذوری ظاہر کر دی، تب ہم اٹھ کرچلے آئے ۔
۶۔ علامہ زاہد الراشدی صاحب نے خود اپنے تحریرکردہ مقالات میں فرمایاکہ ہم نے فون بند کر دیے اور سو گئے۔ کیا آگ اور خون کے اس طوفان میں سونے والے مخلص کہلا سکتے ہیں؟
۷۔ حادثہ کے اختتام سے آج تک وفاق کے علما کاکوئی وفد فقط تعزیت کی غرض سے بھی مولانا عبد العزیز سے ملاقات کے لیے نہیں گیا۔ کیایہ سنگ دلی کی ا نتہا نہیں؟ کیا یہ اس بات کا بین ثبوت نہیں کہ مذاکراتی ٹیم کے علماے کرام، جمعیت علماے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن صاحب سمیت دیگر علما نے مولانا سے تعزیت نہ کر کے اور ان کی بے گناہ معصوم خواتین کے ساتھ عملاً اظہار ہمدردی نہ کرکے اس ظالمانہ آپریشن کو سند توثیق عطا فرما دی؟
۸۔ کیا اس طرح علماے دیوبند کی روایتی جرات اور جذبہ حق پرستی کی نفی نہیں کی گئی؟ آج تک قائد حز ب اختلاف اور ذمہ دارانِ وفاق صدر سے ملاقات کرکے مقدمات کی واپسی، مولانا کی بحالی، جامعہ حفصہ کی تعمیر نو کے حوالے سے گفتگو کرتے۔ کیا ان کی ملاقات پر پابندی تھی؟
۹۔ لاپتہ طالبات اور طلبہ کے بارے میں وفاق اور قائد جمعیت نے کیا کردار ادا کیا؟
۱۰۔ ۱۸؍اگست کو راقم الحروف پندرہ علما کے ساتھ مولانا عبدالعزیز سے وزیرداخلہ کے توسط سے سملی ڈیم ریسٹ ہاؤس میں ملا۔ مولانا عبدالعزیز کا یہ کہنا تھا کہ اخراج کے باوجود ہم وفاق کے علما کااحترام کرتے ہیں اور میں صرف یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ جس مقصد کے لیے دینی ادارے قائم کیے گئے ہیں، ان مقاصد کو بروئے کار لایا جائے اور منکرات کے سدباب کے لیے علما اٹھ کھڑے ہوں۔
۱۱۔ میں آپ پر یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حافظ حسین احمد آف مردان اور زاہد قاسمی صاحب نے جب وزیر داخلہ کے سامنے وفاق کے ذمہ داران کے کردار کا ذکر کیا تو فقیر نے فوری مداخلت کی اور وزیر داخلہ سے مندرجہ ذیل گفتگوکی:
جناب وزیر داخلہ! وفاق ہمارا گھر ہے، ہم اپنے شکوے اپنوں سے اپنے گھر میں بیٹھ کر کریں گے، نہ ہم آپ کوقائد سمجھتے ہیں نہ تھانیدار۔ ہم صرف اس لیے آئے ہیں کہ اس وقت پورے ملک میں حکومت اور فوج جیسے عظیم اور ملک کے دفاعی ادارے کے خلاف عوام الناس، علما اور طلبا کے دلوں میں نفرت کا جو طوفان ہے، اسے کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے؟ آفتاب شیر پاؤ نے کہا کہ آپ ہی بتائیے۔ میں نے عرض کیا کہ اس عظیم حادثے کاواحد مرہم یہ ہے کہ :
۱۔ صدر مملکت مولانا عبدالعزیز، ان کے اہل خانہ اور شہید طلبا وطالبات کو اہل خانہ سمیت سی این سی ہاؤس میں بلائیں، اظہار افسوس کریں، تعزیت کریں، ان کے سر پر دست شفقت رکھیں۔
۲۔ مولانا کو مسجد کی خطابت پر بحال کریں، جامعہ حفصہ کی تعمیر نو کریں۔
۳۔ دینی مدارس کی خدمات کے حوالے سے ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کریں۔
۴۔ اس آپریشن میں شہید ہونے والوں کے لیے تعزیت کریں اور فاتحہ خوانی کریں۔
۵۔ ملک سے بے حیائی اور مغربی کلچر کے خاتمے اور اسلامی طرز حیات کے لیے دستور پاکستان میں موجود دفعات پر عمل درآمد کرائیں۔
۶۔ علما کی تذلیل وتحقیر اور مدارس کے خلاف خفیہ اداروں کی سرگرمیوں کو بند کریں۔
۷۔ علماے کرام کا کنونشن بلائیں اور انہیں یقین دلائیں کہ آئندہ مدارس کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوگی۔
۸۔ شہید مساجد کو تعمیر کریں اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو فوج، حکومت، عوام اور مذہبی طبقات کے تصادم کا ایسا سلسلہ چل نکلے گا جسے نہ فوج روک سکتی ہے نہ سیاست دان۔
اس گفتگو کے بعد ہمیں سرکاری گاڑی میں مولانا کی ملاقات کے لیے سملی ڈیم ریسٹ ہاؤس لے جایا گیا جہاں مولانا تمام علما سے گلے ملے، شہدا کے لیے دعا مانگی گئی۔ مولانا کے ساتھ حافظ حسین احمد صاحب نے وفاق کے گلے شکوے شروع کیے جس پر انہوں نے فرمایا کہ یہ سب ہمارے بزرگ ہیں، بس آپ سب لوگ میری بحالی، جامعہ حفصہ کی تعمیر نو اور اسلامی نظام کے نفاذ کی کوشش کریں، یہی ہماری قربانیوں کا صلہ ہے۔ انہوں نے آئی جی، کمشنر اور کمانڈوز کے سامنے علما سے فرمایا کہ یہ پہلا وفد ہے جو مجھ سے ملنے آیا ہے۔ وفاق نے یا قائد جمعیت نے اور علماے اسلام آباد نے حادثے کے بعد ہمیں اچھوت سمجھ کر ملاقات تک نہیں کی۔ ان حضرات نے اتنی اخلاقی جرات کا مظاہرہ نہیں کیا کہ اظہارتعزیت کے لیے آجاتے۔ اب توآپریشن نہیں ہو رہا۔
جناب صدر وفا ق! کیا وفاق، چیف جسٹس کی حمایت میں اٹھنے والے وکلا کی جدوجہد کے دسویں حصے جتنی جدوجہد کے قابل بھی نہ تھا؟ کسی کو حکومتی ایجنٹ کہنے سے وفاق اپنی کاہلی اور نااہلی پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔ اگراس طرح کے طعنے اپنوں کو دیے جانے لگے تو پھر وہ تحریر اخبارات کی زینت بن سکتی ہے جو وزارت داخلہ میں آپ کے، مولانا حنیف جالندھری، حسن جان صاحب، قاضی عبد الرشید صاحب اور انوارالحق صاحب کے دستخطوں کے ساتھ موجود ہے، جس میں لکھ کر دیا گیا ہے کہ ہمارا ان دونوں بھائیوں سے کوئی تعلق نہیں اور ہم ان کے اعمال کی مذمت کرتے ہیں۔
جناب شیخ! راقم نہ پہلے کسی ایکشن کمیٹی کا ممبر تھا، نہ اب ہے۔ نہ کبھی حکومت کی ایجنٹی کی ہے، نہ ایسا سوچ سکتا ہے، لیکن آپ تک اپنے اور اپنے عوام کے جذبات پہنچانا میرا اخلاقی، مذہبی، منصبی فریضہ ہے۔
حضرت الشیخ! ’ربما صرع الاسود الثعلب‘، کبھی لومڑیاں شیروں کو شکست دے دیتی ہیں۔ حیا اور اخلاق اگرہمارے علما کے دلوں سے رخصت نہیں ہو گیا تومولاناکی رہائی، مقدمات کے اخراجات، ا ن کی رہائش، گمشدہ طالبات کی بازیابی، ان کی والدہ کی لاش کی سپردگی جیسے معاملات پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تلخ نوائی معاف۔
خاک پائے اکابر
قاضی محمد رویس خان ایوبی 
سابق ضلع مفتی میرپور 
خطیب مسجد اقصیٰ میر پور، آزادکشمیر

’’ملی مجلس شرعی‘‘ کا قیام

ادارہ

تحریک اصلاح تعلیم ٹرسٹ لاہور ایک اسلامی انجمن ہے جو جدیدتعلیم کی اصلاح کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کو مزید موثر اور مفید بنا نے کے لیے علماے کرام کے تعاون سے مختلف سطح پر کوششیں کرتی رہتی ہے۔ ۳؍اگست ۲۰۰۷ء کو تحریک نے لاہور میں دینی مدارس کے مہتمم حضرات کا ایک اجلاس منعقد کیا جس کی صدارت ماہنامہ ’الشریعۃ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی نے کی۔ اس اجلاس میں مغربی فکروتہذیب کے حوالے سے بعض نئی کتابیں لکھوانے اور دینی مدارس میں داخل نصاب کرنے کا معاملہ زیر بحث آیا۔ اس نشست میں، جس میں سارے مکاتب فکر کے علماے کرام اور بعض دینی اسکالرز بھی موجود تھے، اس ضرورت کا احساس سامنے آیا کہ ایک قومی بلکہ ملی سطح کی علمی وفکری مجلس ایسی ہونی چاہیے جس میں ہر مکتب فکر کے جید علماے کرام اور معتدل مزاج اسلامی اسکالرز شامل ہوں اور جو مسلم معاشرے کو درپیش فقہی وفکری مسائل میں عوام کی راہنمائی کرے۔ چنانچہ یہ طے پایا کہ اس طرح کی ایک علمی مجلس تشکیل دینے کے لیے تاسیسی اجلاس جامعہ نعیمیہ ،گڑھی شاہو لاہور میں بلایا جائے جس میں مندرجہ ذیل علماے کرام کو شرکت کی دعوت دی گئی:
۱۔ مولانا زاہد الراشدی، ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ 
۲۔ مولانا حافظ فضل الرحیم، نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ، لاہور
۳۔ مولاناعبدالرؤ ف فاروقی، مہتمم جامعہ اسلامیہ، کامونکی 
۴۔ مولاناڈاکٹر سرفراز نعیمی، مہتمم جامعہ نعیمیہ، لاہور
۵۔ مولانامفتی محمد خاں قادری، مہتمم جامعہ اسلامیہ، لاہور
۶۔ مولانامحمد صدیق ہزاروی، شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور
۷۔ مولاناحافظ عبدالرحمن مدنی، جامعہ لاہور اسلامیہ، لاہور
۸۔ مولانا ارشاد الحق اثری، ادارۂ علوم اثریہ، فیصل آباد
۹۔ مولاناصلاح الدین یوسف، دار السلام، لاہور
۱۰۔ مولاناعبدالمالک، شیخ الحدیث مرکز علوم اسلامیہ منصورہ، لاہور
۱۱۔ ڈاکٹر محمد امین، تحریک اصلاح تعلیم ٹرسٹ، لاہور
۱۲۔ محمد رفیق چودھری، مکتبہ قرآنیات، لاہور
۱۳۔ احمد جاوید، اقبال اکیڈمی، لاہور
۹؍اگست ۲۰۰۷ ء کو حسب پروگرام جامعہ نعیمیہ لاہور میں علماے کرام کا اجلاس ہوا جس میں ’’ملی مجلس شرعی‘‘ کے نام سے ایک علمی وفکری مجلس کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ متفقہ طورپر مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب کو ا س مجلس کاکنوینر اور راقم کو اس کا رابطہ سیکرٹری مقررکیا گیا۔ مفتی محمد خان قادری صاحب اور مولانا عبدالمالک صاحب بیرون شہرہونے کی وجہ سے اور مولانا فضل الرحیم صاحب اور احمد جاوید صاحب دیگر ناگزیر مصروفیات کی وجہ سے حاضر نہ ہو سکے۔ (مولانافضل الرحیم صاحب نے اپنی طرف سے گفتگو کے لیے مولانا فہیم الحسن تھانوی صاحب کو بھجوایا) علماے کرام نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ دینی مدارس کے امتحانات اور رمضان المبارک کی وجہ سے مجلس کا پہلا ورکنگ اجلاس عید الفطر کے بعد ہوگا جس میں میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک) سے متعلق مسائل پر غوروخوض کیا جائے گا۔
یادرہے کہ اس مجلس کے قیام سے مقصود یہ ہے کہ مسلم معاشرے کو جن جدید مسائل کا سامنا ہے، ان کے حوالے سے سب مکاتب فکر کے علما کاایک متفقہ اجتماعی موقف سامنے لایا جائے تاکہ علماے کرام کے بارے میں فرقہ وارانہ اختلافات کا تاثر دور ہو سکے، مغربی فکر وتہذیب کے خلاف بند باندھا جا سکے، امت کو روشن خیال اور مغرب سے مرعوب متجددین کی مخدوش فکر سے بچایا جا سکے اور عامۃ الناس خصوصاً جدید تعلیم یافتہ لوگوں کا اس بات پر اعتماد بحال کیا جائے کہ اسلام آج بھی ان کے سارے مسائل کا حل پیش کرتا ہے اور علماے کرام آج بھی امت کی راہنمائی کر سکتے ہیں۔ توقع ہے کہ یہ مجلس مستقبل میں اسلامی مباحث کے حوالے سے وقیع کردار اداکرے گی ،ان شاء اللہ۔
(ڈاکٹر محمد امین ،رابطہ سیکرٹری ملی مجلس شرعی 
۱۳۶۔نیلم بلاک ،علامہ اقبال ٹاؤن ، لاہور )

مولانا زاہد الراشدی کی بیرونی سفر سے واپسی

الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر اور ’’الشریعہ‘‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی چالیس روزہ بیرونی دورہ مکمل کر کے گوجرانوالہ واپس پہنچ گئے ہیں۔ وہ ۱۳؍ اگست سے ۲۳؍ اگست تک سعودی عرب میں رہے اور عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے علاوہ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور جدہ میں مختلف دینی اجتماعات میں شریک ہوئے جبکہ ۲۳؍ اگست سے ۲۳؍ ستمبر تک انھوں نے امریکہ میں قیام کیا اور واشنگٹن، بالٹی مور، نیو یارک، باسٹن، ہیوسٹن، پراوی ڈنس اور دیگر مقامات میں درجنوں اجتماعات میں شرکت کی اور خاص طور پر دار الہدیٰ، اسپرنگ فیلڈ واشنگٹن میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ حجۃالوداع پر مسلسل پانچ روز لیکچر دیے اور مکی مسجد بروک لین نیو یارک میں ’’قرآن کریم کے حقوق اور فہم قرآن کریم کے تقاضے‘‘ پر چھ لیکچر دیے۔

حضرت مولانا حسن جانؒ کی شہادت اور مولانا شفیق الرحمن درخواستی کی وفات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت مولانا حسن جانؒ صاحب کی شہادت اور حضر ت مولانا شفیق الرحمن درخواستی کی اچانک وفات کی خبر میں نے دارالہدیٰ واشنگٹن میں سنی۔ دونوں بزرگ ہمارے ملک میں حدیث نبوی کے بڑے اساتذہ میں سے تھے اور دونوں کی وفات دینی وعلمی حلقوں کے لیے صدمہ کے ساتھ ساتھ ناقابل تلافی نقصان کا بھی باعث ہے۔
حضرت مولانا حسن جان شہیدؒ دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی معذوی اور وفات کے بعد ان کی مسند تدریس پر رونق افروز ہوئے اور پھر پشاور صدر کی درویش مسجد میں دینی درس گاہ قائم کر کے علوم حدیث کی ترویج و اشاعت کو زندگی بھر مشن بنائے رکھا۔ وہ سیاست میں بھی آئے اور خان عبد الولی خان مرحوم جیسی قدر آور شخصیت کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، لیکن سیاست انھیں راس نہیں آئی۔ وہ تو سیاست میں آئے لیکن سیاست ان میں آنے کا راستہ نہ پا سکی، بالآخر انھوں نے اسے طلاق بائن دے دی۔ وہ اس میدان کے بزرگ ہی نہیں تھے۔ ان کی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کی واحد جولان گاہ علم اور صرف علم تھا۔ اپنے مزاج کے حوالے سے وہ مرنجاں مرنج قسم کی شخصیت تھے۔ خدا جانے ان کے سفاک قاتلوں کو ان کی جان لینے میں کس پہلو سے دلچسپی تھی۔ بہرحال ہم ان کے قتل کی مذمت کرتے ہیں، ان کے قاتلوں کی گرفتاری اور انھیں کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور ان کے لیے جنت الفردوس میں اعلیٰ درجات کی دعا کرتے ہوئے اہل خاندان، تلامذہ اور عقیدت مندوں کے ساتھ اس غم میں شریک ہیں۔
حضرت مولانا شفیق الرحمن درخواستی ہمارے مخدوم ومحبوب امیر حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کے نواسے اور ان کی علمی وتدریسی روایات کے امین تھے۔ انھوں نے حضرت درخواستی کے زیر سایہ تعلیم وتربیت حاصل کی اور پھر جامعہ مخزن العلوم والفیوض خان پور اور پھر ان کی موجودگی میں ان کی مسند تدریس پر بیٹھ کر ان کے تعلیمی وتدریسی سلسلہ کو جاری رکھا۔ بعد میں خان پور میں ہی جامعہ عبد اللہ بن مسعودؓ قائم کر کے تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ مسلکی حمیت سے مالامال تھے اور دینی تحریکات کی ہمیشہ سرپرستی فرماتے تھے۔ ان کی اچانک وفات صرف درخواستی خاندان کے لیے نہیں بلکہ ملک بھر کے دینی وعلمی حلقوں کے لیے صدمہ کا باعث ہے، حضرت درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق وعقیدت کے حوالے سے بھی اور اس حوالے سے بھی کہ ہم قحط الرجال کے اس دور میں ایک باعمل عالم دین، باصلاحیت استاذ حدیث اور جذبہ حق گوئی سے بہرہ ور دینی راہ نما سے محروم ہو گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ درجات سے نوازیں، ان کے اہل خاندان، تلامذہ اور عقیدت مندوں کو صبر جمیل کی توفیق دیں اور ان کے برادران وفرزندان کو ان کا علمی صدقہ جاریہ تادیر جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا الٰہ العالمین

نومبر ۲۰۰۷ء

پاکستانی حکمرانوں اور دانشوروں کے لیے لمحہ فکریہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دنیا کا مال و متاع اور اللہ کے ہاں کامیابی کا معیارمفتی ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی
استشراق کا تازہ رخ اور اہل علم کی ذمہ داریمحمد شاہد عالم
’’دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے تربیتی نظام کی ضرورت اور تقاضے‘‘ادارہ
کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ (۱)حافظ محمد زبیر
غامدی صاحب کے تصور ’کتاب‘ پر اعتراضات کا جائزہسید منظور الحسن
’’تحریک طالبان وطالبات اسلام‘‘مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مکاتیبادارہ
مولانا مفتی برکت اللہ کا دورۂ پاکستانادارہ

پاکستانی حکمرانوں اور دانشوروں کے لیے لمحہ فکریہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ٹیکساس (امریکہ) سے شائع ہونے والے اردو ہفت روزہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ نے ۶؍ستمبر ۲۰۰۷ کی اشاعت میں یہ خبر شائع کی ہے کہ جمہوریہ ترکی کے نومنتخب صدر عبد اللہ گل نے ۵۵۰ رکنی ترک پارلیمنٹ میں ۳۳۹ ووٹ لے کر منتخب ہونے کے بعد اپنے اسلامی ایجنڈے سے دست برداری کا اعلان کر دیا ہے۔ خبر کے مطابق انھوں نے کہا ہے کہ:
’’ان کا کوئی اسلامی ایجنڈا نہیں ہے۔ وہ کمال اتاترک کی تعلیمات کے مطابق سیکولر روایات سے مخلص رہیں گے۔ بی بی سی کے مطابق عبد اللہ گل نے کہا کہ انھوں نے سیاسی اسلام سے اپنے تمام رشتے توڑ لیے ہیں۔‘‘
’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے اسی شمارے میں شائع ہونے والی ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ اس کے باوجود:
’’ترکی کے نومنتخب صدر عبد اللہ گل کو فوج کی طرف سے سرد مہری کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ روز جب فوج کی گریجویشن کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے عبد اللہ گل گئے تو فوج کے چیف آف اسٹاف اور دیگر اعلیٰ جرنیلوں نے انھیں سلیوٹ نہیں کیا حالانکہ وہ صدر ہونے کے ناطے سے ترک افواج کے کمانڈر انچیف بھی ہیں۔‘‘
ترکی کے موجودہ صدر عبد اللہ گل اور وزیر اعظم طیب اردگان کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ترکی کی قومی سیاست میں اسلامی رجحانات کی نمائندگی کرتے ہیں اور عام انتخابات میں سیکولر عناصر کے ساتھ شدید معرکہ آرائی کے بعد ان کی جماعت نے قومی اسمبلی میں فیصلہ کن حیثیت حاصل کی ہے جس کے نتیجے میں طیب اردگان کو وزیر اعظم اور عبد اللہ گل کو صدارت کے منصب کے لیے منتخب کیا گیا ہے لیکن انتخابات میں ترک عوام کی زبردست حمایت اور اکثریتی ووٹ حاصل ہونے کے باوجود وہ ترکی کے سیکولر دستور اور روایات کے سامنے اس قدر بے بس نظر آتے ہیں کہ انھیں اپنے اقتدار کو تسلیم کرانے کے لیے اسلامی ایجنڈے سے دست برداری اور سیاسی اسلام سے اپنے تمام رشتے توڑ لینے کا اعلان کرنا پڑا ہے۔
سیاسی اسلام سے ظاہر ہے کہ ان کی مراد یہی ہو سکتی ہے کہ اسلام کے جن احکام کا ریاست اور حکومت کے ساتھ تعلق ہے، وہ ان کے عملی پروگرام کا حصہ نہیں ہوں گے اور وہ ملک میں ان کی عمل داری کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کریں گے۔
یہ سیاسی اسلام کی اصطلاح بھی عجیب ہے اور اس اصطلاح کے پردے میں جس طرح اسلام کے معاشرتی، قانونی، حکومتی اور ریاستی احکام کی نفی کی جا رہی ہے، وہ بھی حالات کے جبر کی پیدا کردہ ایک افسوس ناک ستم ظریفی ہے کیونکہ یہ بات درست ہے کہ اسلام محض سیاست نہیں ہے مگر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ سیاست اسلام کا ایک اہم شعبہ ہے جس کو اسلام سے الگ کر دیا جائے تو بقول اقبالؒ :
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
مگر آج کا عالمی نظام اس بات پر بضد ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اسلام کے سیاسی اور ریاستی احکام سے دست بردار ہو کر مغرب کی مسیحیت کی طرح صرف عقیدہ وعبادت اور شخصی اخلاقیات تک اپنے اسلام کو محدود رکھیں حتیٰ کہ اگر کسی مسلمان ملک کے عوام جمہوری ذریعہ سے اکثریتی فیصلہ کے ساتھ اسلام کے اجتماعی، عدالتی اور ریاستی احکام کو اپنے ہی ملک میں نافذ کرنا چاہیں تو انھیں اس کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس سے قبل الجزائر میں بھی ایسا ہو چکا ہے کہ اسلام کے ریاستی کردار کے داعی سیاسی حلقوں نے جمہوری عمل کے ذریعے اکثریتی ووٹ حاصل کر لیے اور ان کے برسر اقتدار آنے کا امکان پیدا ہو گیا تو نہ صرف یہ کہ فوجی جبر کے ذریعے ان کے تمام راستے مسدود کر دیے گئے بلکہ شب وروز جمہوریت، آزادئ رائے اور انسانی حقوق کا راگ الاپنے والے عالمی نظام کے سائے تلے الجزائر کو خوفناک خانہ جنگی سے دوچار کر دیا گیا۔
ہمارے خیال میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی یہی تجربہ دہرایا جانے والا ہے اور اس کے لیے تمام ابتدائی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں، یہ فرق ملحوظ رکھے بغیر کہ ترکی اور الجزائر کے دستور سیکولر ہیں جن کو بہانہ بنا کر اسلامی قوتوں کا زبردستی راستہ روکا گیا ہے جبکہ پاکستان کادستور اسلام کو اپنی بنیاد تسلیم کرتا ہے اور فوج سمیت تمام اداروں نے پاکستان میں اس کی نظریاتی بنیادوں کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے، مگر اس کے باوجود عالمی نظام کے بزرجمہروں نے پاکستان کی قومی سیاست میں دینی عناصر کو کارنر کرنے اور پاکستان کو زبردستی سیکولر ملک بنانے کے لیے جو منصوبہ بندی کی ہے، ملک میں خانہ جنگی کے حالات پیدا کرنے کی جو سازش کی جا رہی ہے اور دینی سیاست کے نمائندوں کی جس بے دردی کے ساتھ کردار کشی کی جا رہی ہے، وہ عالمی نظام کی منافقت اور دوغلے پن کی بدترین مثال ہے۔ اس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ مغرب کو نہ تو کسی ملک کے دستور سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی اسے کسی ملک کے عوام کے ووٹوں اور اکثریتی رائے سے کوئی دلچسپی ہے۔ اس کا ایجنڈا صرف او رصرف یہ ہے کہ جس طرح مغرب اپنے مذہب کے ریاستی، عدالتی اور حکومتی کردار سے دست بردار ہو گیا ہے، اسی طرح عالم اسلام کو بھی قرآن وسنت کے ان احکام سے زبردستی دست بردار کرا دیا جائے جن کا تعلق سیاست، حکومت، ریاست، قانون اور معیشت سے ہے تاکہ کوئی مسلم لک اسلامی بنیادوں پر اپنا نظام تشکیل نہ دے سکے۔
سوال یہ ہے کہ ترک حکومت کی آخر کیا مجبوری ہے کہ صدر اور وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے والے حضرات کو عوامی مینڈیٹ اور توقعات سے ہٹ کر اور اپنی سابقہ روایات سے دست بردار ہو کر ’’سیاسی اسلام‘‘ سے رشتے توڑنا پڑے ہیں؟ وہ مجبوری یورپی یونین اور یورپی برادری میں شامل ہونے کی خواہش ہے جس کے لیے ترک حکمرانوں کو گزشتہ پون صدی سے طرح طرح کے پاپڑ بیلنا پڑ رہے ہیں، لیکن یورپی یونین کی قیادت کی ہر شرط اور خواہش کی نت نئی چوٹی عبور کرنے کے بعد ترک حکمرانوں کے سامنے اس سے بھی بلند چوٹی ان کے صبر وحوصلہ کو آزمانے کے لیے موجود ہوتی ہے۔ اس کھیل کو شرو ع ہوئے آٹھ عشرے گزرنے کو ہیں مگر ’’ہنوز دلی دور است‘‘ والا معاملہ ہے اور یورپی یونین میں ترکی کو شامل کیے جانے کے دور دور تک کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
یہ صورت حال ہمارے ان حکمران طبقوں اور دانش وروں کے لیے یقیناًلمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتی ہے جو ہر حال میں مغرب کے ساتھ دوستی اور عالمی برادری کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کو ہی پاکستان اور مسلمانوں کے بہتر مستقبل کے لیے ناگزیر قرار دے رہے ہیں اور اس کے لیے مسلمانوں کو ذہنی طور پر تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ مغرب کے ساتھ ہر معاملے میں محاذ آرائی کا راستہ اختیار کیا جائے اور بہرصورت تصادم ہی کا بگل بجا دیا جائے، لیکن خودسپردگی کی یہ کیفیت بھی عقل ودانش اور حمیت وغیرت سے مطابقت نہیں رکھتی کہ اپنے نظریاتی تشخص، تہذیبی امتیاز اور دینی پہچان سے دست برداری تک سے گریز نہ کیا جائے۔ 
ہمیں طیب اردگان اور عبد اللہ گل کی قیادت میں سامنے آنے والی نئی عوامی ترک قیادت سے ہمدردی ہے۔ ہم ان کی مجبوریوں کو سمجھتے ہیں اور ہمیں اس دلدل کی گہرائی کا پوری طرح اندازہ ہے جس میں وہ بری طرح پھنسے ہوئے ہیں، اس لیے ہم ان کو کوئی الزام دینے کی بجائے ان کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں ترک قوم کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے ہمت وحوصلہ اور جرات وتدبر عطا فرمائے، البتہ اس ساری صورت حال کو کھلی آنکھوں دیکھتے ہوئے اسی دلدل کی طرف بگٹٹ دوڑے چلے جانے والے پاکستان کے حکمران طبقات اور ارباب دانش سے ہم یہ ضرور گزارش کرنا چاہیں گے کہ وہ ایک بار پھر حالات کا ازسرنو جائزہ لے لیں اور مغرب کے ہر مطالبہ اور خواہش کے سامنے خاموشی کے ساتھ سرجھکا دینے کی بجائے اعتدال اور توازن کا باوقار راستہ اختیار کریں، ورنہ دینی حلقے تو جنوبی ایشیا میں برطانوی استعمار اور وسطی ایشیا میں روسی استعمار کے ہاتھوں جبر واستبداد کے سخت سے سخت وار سہہ کر بھی زندہ وموجود ہیں، وہ موجودہ عالمی استعمار کے جبر کا بھی ان شاء اللہ تعالیٰ صبر وحوصلہ اور توفیق خداوندی کے ساتھ سامنا کر لیں گے، مگر قوم کو اس طرح لے جانے والے مقتدر طبقات اور دانش ور اپنا مستقبل سوچ لیں کہ تاریخ ان کے نام کون سے خانے میں محفوظ کرے گی اور آنے والی نسلیں انھیں کس عنوان سے یاد کریں گی۔

دنیا کا مال و متاع اور اللہ کے ہاں کامیابی کا معیار

مفتی ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی

شور برپا ہے کہ مسلمان دنیا میں پست ہو رہے ہیں اور غیر مسلم خصوصاً مغربی قومیں بلند اور ترقی یافتہ ہو رہی ہیں ۔ گویا کہ دنیا میں کامیابی ، عزت اور کمالیت کا معیار دنیا اور متاع دنیا ہی کو سمجھا جا رہا ہے ۔ ظاہر بین نگاہیں ، دنیا اور متاع دنیا کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی ہیں ، حالانکہ کسی چیز کا اچھا یا برا ہونا اس کے انجام کے ساتھ وابستہ ہے ۔ یعنی جو چیز اپنے انجام اور نتیجہ کے اعتبار سے مہلک اور باعثِ فساد ہو ، ایسی چیز کو محبوب اور پسندیدہ قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ اس کے حاصل ہونے پر خوشی کا اظہار ہوتا ہے اور نہ ایسی چیز کے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی جاتی ہے ۔ عقل مند ، نیک اور انجام پر نظر رکھنے والے انسان ایسی چیزوں کو قدر اور وقعت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ۔ ایسے رفیع النظر عقل مند اشخاص دنیا کی ہر قوم میں پائے جاتے رہے ہیں ۔ 
قرآن مجید میں تدبر اور غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجودیکہ دنیا اور متاع دنیا کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے پیدا کیا ہے لیکن اس کی نعمتوں سے حد سے زیادہ لذت حاصل کرنے اور اس میں ضرورت سے زیادہ ترقی حاصل کرنے کو انجام کے اعتبار سے ناپسند قرار دیا ہے اور مسلمانوں کو خاص طور سے اس میں انہماک سے منع کیا ہے ۔ دنیا میں ترقی کرنا اور اس کی متاع سے لذت حاصل کرنا غیر مسلموں کا شیوہ اور ان کا مقصدِ اصلی ہے ۔ حدیث میں آیا ہے: الدنیا سجن للمومن و جنۃ للکافر، یعنی دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے ۔ قرآن میں تو یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ : 
وَلَوْلَا أَن یَکُونَ النَّاسُ أُمَّۃً وَاحِدَۃً لَجَعَلْنَا لِمَن یَکْفُرُ بِالرَّحْمَنِ لِبُیُوتِہِمْ سُقُفاً مِّن فَضَّۃٍ وَمَعَارِجَ عَلَیْْہَا یَظْہَرُونَ وَلِبُیُوتِہِمْ أَبْوَاباً وَسُرُراً عَلَیْْہَا یَتَّکِؤُونَ وَزُخْرُفاً وَإِن کُلُّ ذَلِکَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃُ عِندَ رَبِّکَ لِلْمُتَّقِیْنَ (الزخرف ۴۳: ۳۳ تا ۳۵)
’’ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سب لوگ ایک طریقہ کے ہو جائیں گے ( کافر) تو جو اللہ کے منکر ہیں ان کے گھروں کی چھت اور ان پر چڑھنے کی سیڑھیاں چاندی کی کردیتے اور ان کے گھروں کے دروازے اور وہ تخت بھی چاندی کے کر دیتے جن پر تکیہ لگا کر بیٹھتے ہیں اور سونے کے بھی اور یہ کہ سب کچھ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور دارِ آخرت آپ کے رب کے ہاں پرہیزگاروں کے لیے ہے ‘‘ 
یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں اس دنیوی مال و دولت کی کوئی قدر نہیں ، نہ اس کا دیا جانا کچھ قرب و وجاہت عنداللہ کی دلیل ہے ۔ یہ تو ایسی بے قدر اور حقیر چیز ہے کہ اگر ایک خاص مصلحت مانع نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کافروں کے مکانوں کی چھتیں ، زینے، دروازے ، چوکھٹ ، قفل اور تخت چوکیاں سب چاندی اور سونے کی بنا دیتا مگر اس صورت میں لوگ یہ دیکھ کر کہ کافروں ہی کو ایسا سامان ملتا ہے عموماً کفر کا راستہ اختیار کر لیتے ( الا ماشاء اللہ ) اور یہ چیز مصلحتِ خداوندی کے خلاف ہوتی ، اس لیے ایسا نہیں کیا گیا ۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی قدر مچھر کے بازو کے برابر ہوتی تو کافر کو ایک گھونٹ پانی کا نہ دیتا ۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں : کافر کو اللہ نے پیدا کیا ہے ، کہیں تو اس کو آرام دے ، آخرت میں تو دائمی عذاب ہے ، کہیں تو آرام ( کامل ) ملتا ، مگر ایسا ہو تو سب ہی کفر کا راستہ پکڑ لیں ۔
یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ متاع دنیا سے غیر مسلموں کو بہت کچھ دیا گیا ہے لیکن مسلمانوں کو ان کے مقابلہ میں کیا کچھ دیا گیا ہے؟ اس اہم سوال کا جواب قرآن حکیم کی مندرجہ ذیل نظم سے حاصل ہو رہا ہے:
وَلَقَدْ آتَیْْنَاکَ سَبْعاً مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْآنَ الْعَظِیْمَ لاَ تَمُدَّنَّ عَیْْنَیْْکَ إِلَی مَا مَتَّعْنَا بِہِ أَزْوَاجاً مِّنْہُمْ وَلاَ تَحْزَنْ عَلَیْْہِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَقُلْ إِنِّیْ أَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُ (الحجر ۱۵: ۸۷ تا ۸۹)
’’ اور ہم نے دی ہیں تجھ کو سات آیتیں وظیفہ اور قرآن بڑے درجہ کا ، تو اپنی آنکھ اٹھا کر بھی ان چیزوں کو نہ دیکھ ، جو ہم نے مختلف قسم کے کافروں کو استعمال کرنے کے لیے دے رکھی ہیں اور ان پر غم نہ کر اور جھکا اپنے بازو ایمان والوں کے واسطے اور کہہ کہ میں وہی ہوں ڈرانے والا کھول کر ‘‘ 
یہ سورت مکی ہے اور حالات یہ تھے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی سب کے سب دنیوی حالات کے اعتبار سے خستہ حالی میں مبتلا تھے اور کافر ومشرک دولت مند ، دنیا کی عیش و عشرت میں سرشار تھے ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام مسلمان مکے اور اطراف و نواح کی بستیوں میں مظلومی کی زندگی بسر کر رہے تھے ، ہر طرف سے مطعون تھے ، ہر جگہ تذلیل و تحقیر اور تضحیک کا نشانہ بنے ہوئے تھے اور قلبی و روحانی تکلیفوں کے ساتھ جسمانی اذیتوں سے بھی کوئی بچا ہوا نہ تھا۔ دوسری طرف سردارانِ قریش دنیا کی نعمتوں سے مالا مال اور ہر طرح خوش حالیوں میں مگن تھے ۔ ان حالات میں فرمایا جا رہا ہے کہ تم شکستہ خاطر کیوں ہوتے ہو؟ تم کو ہم نے وہ دولت عطا کی ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کی ساری نعمتیں اور دولتیں ہیچ ہیں۔ رشک کے لائق تمہاری یہ دولت ہے جو دنیا کی ہر دولت سے فائق تر اور مسلمانوں کے لیے ہر شعبہ زندگی کے لیے سازو سامان اور بے پناہ قوت و طاقت ہے ۔ دنیا کی کوئی بھی دولت و ثروت اور حکومت اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی ۔ لہٰذا تم صبر و استقلال سے ان موجودہ حالات کو نبھاؤ ۔ اپنی آنکھ اٹھا کر بھی ان چیزوں کو نہ دیکھو جو ہم نے مختلف قسم کے غیر مسلموں کو دے رکھی ہیں ۔ تم کو اللہ تعالیٰ نے وہ دولت سبعاََ من المثانی و القرآن العظیم عنایت کی ہے جس کے آگے تمام دولتیں گرد و غبار ہیں ۔ اس تمہاری دولت میں اللہ تعالیٰ کے پختہ وعدے اور اٹل فیصلے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو غیر مسلموں پر غالب کرے گا اور اس کی مدد و نصرت مسلمانوں کو پہنچتی رہے گی ۔ سورۃ حج میں ارشاد ہے: 
إِنَّ اللَّہَ یُدَافِعُ عَنِ الَّذِیْنَ آمَنُوا إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُورٍ أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّہُ (الحج ۲۲: ۳۸ تا ۴۰)
’’ اللہ دشمنوں کو ہٹا دے گا ایمان والوں سے اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی دغاباز ناشکرا ، حکم ہوا ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں ان سے لڑنے کا ، اس واسطے کہ ان پر ظلم ہوا اور اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے ، وہ لوگ جن کو نکالا گیا ان کے گھروں سے اور دعوی کچھ نہیں سوائے اس کے وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے ‘‘ 
حضرت الاستاذ مولانا شبیر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہ نے ان آیات کی جو تشریح فرمائی ہے ، قابل دید ہے ۔ فرماتے ہیں:
’’یعنی اپنی قلت اور بے سروسامانی سے نہ گھبرائیں۔ اللہ تعالیٰ مٹھی بھر فاقہ مستوں کو دنیا کی فوجوں اور سلطنتوں پر غالب کر سکتا ہے۔ فی الحقیقت یہ ایک شہنشاہانہ طرزمیں مسلمانوں کی نصرت امداد کا وعدہ تھا، جیسے دنیا میں بادشاہ اور بڑے لوگ وعدہ کے موقع پر اپنی شان وقار اور استغنا دکھلانے کے لیے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہاں تمھارا فلاں کام ہم کر سکتے ہیں۔ شاید یہ عنوان اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ مخاطب سمجھ لے کہ ہم ایسا کرنے میں کسی سے مجبور نہیں ہیں۔ جو کچھ کریں گے، اپنی قدرت واختیار سے کریں گے۔‘‘ 

استشراق کا تازہ رخ اور اہل علم کی ذمہ داری

محمد شاہد عالم

مغرب کے لیے اسلامی معاشروں کو گوارا کرنا کبھی بھی آسان کام نہیں رہا۔ ہزار سال سے بھی زیادہ عرصے کو محیط ایک طویل دور وہ تھا جب مغرب اور اسلام، دونوں ایک دوسرے کے وجود کے لیے خطرہ سمجھے جاتے تھے۔ اسلامی خطرے کو روکنے اور اسے پہلے ارض مقدسہ اور جنوب مغربی یورپ اور بعد ازاں جنوب مشرقی یورپ سے پسپا کرنے کے لیے عوامی طاقت وحمایت کو تحریک دینے کی غرض سے یورپی مصنفین اسلام کی تصویر کشی مسیحیت کی ایک بگڑی ہوئی شکل، شیطان کے پجاری مذہب، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دھوکہ اور فریب اور عرب بدووں کی فتوحات کے لیے قائم کیے جانے والے ایک دہشت پسند اور عسکری مذہبی گروہ کی حیثیت سے کرتے رہے۔ ان تاریک اوصاف کی فہرست میں نشاۃ ثانیہ (Renaissance) اور تحریک تنویر (Enlightenment) کے مفکرین نے مزید اضافہ کیا اور اب اس تصور کو بھی فروغ حاصل ہوا کہ اسلامی معاشرے آمریت، تقدیر پر اندھے اعتبار، جنونیت، بے عقلی اور جستجو کے فقدان سے عبارت ہیں اور سائنس کے مخالف اور ترقی کے دشمن ہیں۔ جب یورپ کو انیسویں صدی میں عسکری بالاتری حاصل ہوئی تو مذکورہ استشراقی خیالات کو اسلامی ممالک پر قبضہ کر کے انھیں یورپی نو آبادیاں بنانے کے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا۔
تاہم مغربی مفکرین کی ایک محدود تعداد نے، جس کی ابتدا انیسویں صدی میں ہوئی، اسلام اور اسلامی معاشروں کے حوالے سے استشراق کے معیاری تصورات کو مسترد کرنا اور معاملات کو ویسے دیکھنا شروع کیا جیسا کہ انھیں مسلم مآخذ میں بیان کیا جاتا ہے۔ انھوں نے فلسفہ، سائنسی علوم، آرٹ اور فن تعمیر میں مسلمانوں کے کارناموں سے متعلق معلومات بہم پہنچائیں اور اسلام کی مساوات پسند روح، نسلی تعصبات کی غیر موجودگی، اور دوسرے مذہبی گروہوں کے حوالے سے روادارانہ رویے کو اجاگر کیا۔ اسلام کو اس کا جائز مقام دینے کا طریقہ اختیار کرنے والے ان یورپی مصنفین میں سے بیشتر یہودی تھے جنھیں حال ہی میں اپنی الگ تھلگ آبادیوں (ghettos) سے آزاد ہو کر مغرب کے علمی اداروں میں داخل ہونے کا موقع ملا تھا۔ ماضی میں یہ یہودی ایک دوسری سامی قوم (یعنی عربوں) کی کامیابیوں کو اپنے کھاتے میں ڈالتے رہے۔ اسلامی معاشروں کی رواداری کی طرف توجہ مبذول کرا کر وہ بڑے مہذب طریقے سے اہل یورپ کو اس امر کی یاد دہانی کرا رہے تھے کہ انھیں انسانی اقدار پر مبنی ایک بورژوا تہذیب کی تشکیل کے لیے ابھی بہت سا سفر طے کرنا ہے۔ ذرا سخت الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ یہودی ناقدین مغرب کے حریف مسلم مشرق کو بلند تر مقام دے کر مسیحی مغرب کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
استشراق کے مزاج میں دوسری تبدیلی ۱۹۵۰ء کی دہائی میں رونما ہوئی اور اس کو زیادہ فروغ حاصل ہوا۔ اس کے بعد اسلام اور اسلامی معاشروں کے مطالعہ وتحقیق کے مرکزی دھارے سے تعلق رکھنے والے محققین کی بڑھتی ہوئی تعداد نے سابقہ مستشرقین کے بعض مسلمات کو لازمی قرار دینے والے ذہنی رویوں سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش شروع کی۔ یہ تبدیلی کم از کم تین عوامل کا نتیجہ تھی جن میں سے سب سے زیادہ طاقت ور عامل جنگ عظیم دوم کے بعد مغربی نوآبادیوں کے عوام کی مغربی طاقتوں کے چنگل سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد تھی۔ سرد جنگ کے تناظر میں مغربی طاقتوں کے سیاسی اور اقتصادی مفادات اس بات کا تقاضا کرتے تھے کہ پچھلی چار صدیوں سے اہل مغرب جن اقوام کو حقیر سمجھتے رہے، اب ان کی ثقافت، مذہب اور تاریخ کے بارے میں نسبتاً محتاط طرز عمل اختیار کیا جائے۔ چنانچہ ان موضوعات کے حوالے سے احترام اور توقیر کا اظہار مستشرقین کی تحریروں میں ایک خوبی کی چیز سمجھا جانے لگا۔
مغربی علمی اداروں میں مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے اہل علم کی شمولیت نے بھی مستشرقین کے محتاط رویہ اختیار کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ ان میں فلپ کے ہٹی، البرٹ حورانی، جارج مقدسی، محسن مہدی، سید حسین نصر اور فضل الرحمن شامل ہیں، جنھوں نے اسلامی معاشروں سے متعلق اپنی تحقیقات میں خیالات اور احساسات کے اشتراک اور تفہیم وافہام کے عناصر کو شامل کیا۔ ایڈورڈ سعید کا تعلق بھی اسی گروہ تھا جس نے استشراق کے مناہج پر عالمانہ اور مسلسل تنقید کر کے منفرد طور پر اس رجحان کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالا۔ ایڈورڈ سعید کی تنقید کا تعلق ایک وسیع تر علمی وفکری تحریک سے بھی تھا جس کے پس پشت، جزوی طور پر، غیر مغربی دنیا سے تعلق رکھنے والے محققین تھے۔ اس تحریک نے نہ صرف مستشرقین کے مسخ شدہ تصورات کا پردہ چاک کیابلکہ ایشیائی اور افریقی معاشروں کی تاریخ نسبتاً ہمدردانہ زاویہ نگاہ سے لکھ کر ان کی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی بھی کوشش کی۔ دوسرے لفظوں میں اس دور میں مغرب کے بعض حلقوں نے ذرا مایوسی کے ساتھ یہ تسلیم کرنا شروع کر دیا کہ مغرب کے سماجی علوم اور مطالعہ انسان سے متعلق شعبوں میں نسل پرستی اور عدم رواداری کا رویہ سرایت کیے ہوئے ہے۔
۵۰ء کی دہائی میں ہی اسلام نے مغرب کے روحانی جستجو رکھنے والے بعض مفکرین کی توجہ بھی حاصل کی۔ یہ مفکرین اپنے معاشروں میں رائج روحانی روایت کی کم مائیگی سے مایوس ہو کر اس طرف متوجہ ہوئے تھے۔ انھوں نے مستند صوفیوں (یعنی ایسے مسلمان جو شریعت کے احکام کی مکمل پابندی کے ساتھ ساتھ اسلام کے داخلی پہلووں کو بھی تربیت حاصل کرتے ہیں) کے ساتھ روابط کے ذریعے سے اسلام کا جو گہرا فہم حاصل کیا، اس نے انھیں اسلام کے مابعد الطبیعیاتی اور روحانی زاویہ نگاہ سے متعلق، خواہ اس کی عکاسی اسلام کے پیروکاروں کے عمل کی صورت میں ہو رہی ہو یا اسلامی دنیا کے فن خطاطی، فن تعمیر اور اب تک چلے آنے والے روایتی ہنروں میں اس کا اظہار ہو رہا ہو، متعدد غیر معمولی کتابیں تصنیف کرنے کا موقع فراہم کیا۔ رینے گینوں، ٹائٹس برک ہارڈ، Frithjof Schuon، مارٹن لنگز، Charles Le Gai Eaton اور دیگر مفکرین نے اس بات کے قطعی شواہد پیش کیے کہ اسلام ایک بالکل منفرد روحانی زاویہ نگاہ پیش کرتا ہے جو ایک گہری مذہبی زندگی کے لیے سہارا بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔
تاہم مذکورہ تبدیلی کے بالکل مخالف سمت میں استشراق کا ایک بالکل نیا رجحان بھی جنگ عظیم کے بعد کے دور میں تشکیل پا رہا تھا۔ اس رجحان کی بنیاد اسلام کے کسی نئے تصور پر نہیں، بلکہ زیادہ تر پرانے استشراقی خیالات کی ترتیب نو پر تھی اور اس کا مقصد مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور اسرائیل کے عمل دخل میں اضافہ اور ان کے تسلط کو قائم کرنا تھا۔ برنارڈ لیوس کی قیادت میں اس نئی استشراقی مکتب فکر نے یہ دعویٰ کیا کہ مسلم دنیا ایک ناکام تہذیب ہے۔ بعض دوسرے شواہد کے علاوہ اس مکتب فکر کا استدلال یہ ہے کہ اسلامی معاشرے جدیدیت کو اپنانے میں ناکام ہو گئے ہیں کیونکہ اسلام میں سیاست اور مذہب کا امتزاج اس کے لیے جمہوریت کو ناقابل قبول ٹھہراتا ہے، اسلام خواتین اور اقلیتوں کے لیے مساوی حقوق کا قائل نہیں، اور اسلام مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ جب تک ساری دنیا پر اسلامی قانون کی بالادستی قائم نہ ہو جائے، وہ مسلسل جنگ جاری رکھیں۔مختصراً یہ کہ جدیدیت کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے میں ناکامی اور اپنے بے لچک رویے کے باعث اسلام موجودہ تہذیب یعنی مغربی مفادات کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ 
نئے روپ میں سامنے آنے والی اس استشراقی فکر میں جدت کا پہلو بس یہ ہے کہ اس کے عزائم، اس کے علم بردار اور وہ دشمن جس کی تباہی کو وہ اپنا ہدف قرار دیتی ہے، نئے ہیں۔ اس کے عزائم یہ ہیں کہ مشرق وسطیٰ کو نسلی، فرقہ وارانہ اور مذہبی بنیادوں پر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے کے لیے امریکا کی پشت پناہی حاصل کی جائے، یعنی مغرب کی دست نگر ریاستوں کا ایک نیا نظام وجود میں لایا جائے جو علاقے پر اسرائیل کے طویل مدتی تسلط کو قائم رکھنے کے لیے مددگار ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قدیم استشراقی فکر کی اس ترتیب نو میں جن محققین کا حصہ سب سے زیادہ ہے، وہ زیادہ تر یہودی ہیں جو اب ماضی کے بالکل برعکس کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کی براہ راست وجہ مشرق وسطیٰ کے قلب میں نوآبادیاتی طریقے پر آباد کاری کرنے والی ایک یہودی ریاست کا قیام ہے۔ صہیونی جانتے تھے کہ اسرائیل کے قیام میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اس کی طویل المدت بقا اسلام اور مغرب کے مابین جنگ کے شعلے بھڑکانے پر منحصر ہوگی۔ صہیونیت نے اس مقصد کے حصول کے لیے خود بھی عربوں کے خلاف جنگیں لڑی ہیں اور ۱۹۶۷ کے بعد سے مغربی کنارے اور غزہ پر اپنا ظالمانہ قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے اسرائیل کے ہاتھوں عربوں کی بربادی کے لیے امریکی پشت پناہی حاصل کرنے کی کوششوں میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
نئے استشراقی مفکرین جو جنگ برپا کرنا چاہتے ہیں، اس کا ہدف وہ مختلف تعبیرات کی صورت میں اسلامی بنیاد پرستی، اسلامی دہشت پسندوں، اسلامی فاشسٹوں یا اسلامی دہشت گردوں کو قرار دیتے ہیں۔ اصطلاح جو بھی استعمال کی جائے، اس کے دائرے میں وہ تمام اسلامی تحریکیں آ جاتی ہیں، خواہ تشدد کے سیاسی استعمال کے حوالے سے ان کا موقف کچھ بھی ہو، جو ۱۹۴۵ء سے مشرق وسطیٰ کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ مہم کے مقابلے کے لیے مقامی، قومی اور عالم اسلام کی سطح پر مزاحمت کو مہمیز دینے کے لیے اسلامی علامات اور حوالوں کو استعمال کرتی ہیں۔یہ اسلامی مزاحمتی تحریکیں جو قومی سطحوں پر بھی سرگرم عمل ہیں اور قومی سرحدوں سے بالاتر ہو کر بھی، ان سیکولر قوم پرستوں کی جگہ لے چکی ہیں جنھیں ان کے مقاصد کے حصول میں ناکامی کے بعد امریکہ اور اسرائیل نے اسلامی مزاحمت کو کچلنے کے لیے اپنی صفوں میں شامل کر لیا۔
گزشتہ چند دہائیوں میں رونما ہونے والے واقعات ، مثلاً مسلم مزاحمت کا ظہور، امریکہ اور اسرائیل کا باہمی مفادات پر مبنی گٹھ جوڑ، اور اسلامی دنیا کے خلاف چھیڑی جانے والی حالیہ جنگ، ان سب کی پیش بینی کی جا سکتی تھی، بلکہ جب برطانیہ نے فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی ذمہ داری اٹھائی تو فی الحقیقت ان حالات کی پیش بینی کر لی گئی تھی۔ بین الاقوامی امور پر لکھنے والے ایک امریکی قلم نگار ہربرٹ ایڈمز گبنز نے برطانوی اور صہیونی منصوبوں کے طویل المدت نتائج کے بارے میں اس وقت کے صف اول کے مغربی مدبرین کے مقابلے میں زیادہ بصیرت کا ثبوت دیا۔ جنوری ۱۹۱۹ء میں اس نے لکھا: ’’اگر امن کانفرنس یہودیوں کوفلسطین میں دوبارہ آباد کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس علاقے میں یہودیوں کی نقل مکانی اور علاقے کی ترقی کی ضمانت صرف اس صورت میں دی جا سکتی ہے جب ایک اچھی خاصی فوج غیر معینہ مدت کے لیے علاقے میں موجود رہے۔ نہ صرف فلسطین میں آباد نصف ملین مسلمانوں کو بلکہ قرب وجوار کے ممالک کے کروڑوں مسلمانوں کو طاقت کی مسلسل نمایش اور بعض اوقات اس کے استعمال کے ذریعے سے تابعداری پر مجبور رکھنا پڑے گا۔‘‘
اس سے بھی زیادہ درست پیش گوئی کرتے ہوئے Anstruther MacKay نے، جو جنگ عظیم اول میں فلسطین کے ایک علاقے میں فوجی گورنر تھا، لکھا کہ صہیونی منصوبہ ’’ان مغربی طاقتوں کے خلاف جنھوں نے اس کی اجازت دی، مسلمانوں میں خوف ناک نفرت اور جنونیت پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ اس مخاصمت کے اثرات پورے مشرق وسطیٰ میں محسوس کیے جائیں گے اور اس سے شام، عراق، مصر اور انڈیا میں مسائل پیدا ہوں گے۔ مستقبل کے مورخین سفید اور براؤن نسلوں کے مابین چھڑنے والی عظیم جنگ کا سبب بھی اسی کو قرار دیں گے ، اور اس جنگ میں امریکہ کو بلاشبہ گھسٹنا پڑے گا۔‘‘
اس وقت ہم اسی مستقبل میں جی رہے ہیں جس کی پیش گوئی گبنز اور میک کے نے کی تھی۔ مسلم مزاحمت کو منصہ شہود پر آنے میں کچھ وقت لگا لیکن اب یہ ایک یا دوسری شکل میں شام، عراق، مصر اور انڈیا سے لے کر مسلم دنیا کے دور دراز کونوں تک بلکہ مغرب میں مقیم مسلم تارکین وطن میں بھی پھیل چکی ہے۔ اہل علم کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ وہ اس نئے استشراقی محاذ کو ٹھیک ٹھیک سمجھیں، اس کے اثرات وعواقب کو متعین کریں، اس کا تناظر طے کریں اور اس کی تردید کریں۔ ہمیں دنیا کو اور بالخصوص مغربی دنیا کو، جو ٹی وی اسکرین پر دکھائے جانے والے (پرتشدد) مناظر کے سحر میں گرفتار ہے، یہ بات مسلسل یاد دلاتے رہنے کی ضرورت ہے کہ ان کی امن کی امیدوں کو پریشان کرنے والے ان مناظر کے پیچھے مغرب کی پھیلائی ہوئی تباہ کاریوں، جنگوں، نوآبادیاتی نظام، غلامی، نسلوں کے خاتمے، استحصال، فریب اور منافقت کی ایک طویل تاریخ ہے اور ان کی جڑیں سنگین نا انصافیوں میں پیوست ہیں۔
تاریخ مظلوموں کی ساتھی ہے۔ وہی اس کو درست طور پر بیان کر سکتے ہیں۔ تاریخی حقائق کی نفی کرنے کی ضرورت ظالموں کو پیش آتی ہے جواپنے مظالم کو چھپانے کے لیے من گھڑت تاریخ بنانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ بغاوتوں، دہشت گرد حملوں، عالمی امن کو لاحق خطرات اور مہذب نظام کے خلاف تشدد کو کچلنے کی ضرورت پر مسلسل اور بے تکان زور دیتے رہیں۔ ہمیں بھی گزشتہ چار صدیوں میں مغربی تباہ کاریوں کی تاریخ کو بار بار سامنے لانا ہوگاتاکہ ہم دنیا کی موجودہ بدحالی کے اسباب مغرب کی شرم ناک تاریخ میں دکھا سکیں۔
(بشکریہ ڈان۔ ترجمہ: ابو طلال)

’’دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے تربیتی نظام کی ضرورت اور تقاضے‘‘

ادارہ

شرکاء کے مابین مجلس مذاکرہ کی روداد

۱۴ نومبر ۲۰۰۶ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ’’دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے تربیتی نظام کی ضرورت اور تقاضے‘‘ کے عنوان پر ایک روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیاگیا جس میں مختلف دینی مدارس اور کالجوں کے اساتذہ نے شرکت کی۔ پہلی نشست کی صدارت بزرگ عالم دین حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی نے کی، دوسری نشست مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے مہتمم مولانا حاجی محمد فیاض سواتی کی زیر صدارت منعقد ہوئی جبکہ تیسری نشست کی صدارت کے فرائض اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے انجام دیے۔ 
ورکشاپ سے خطاب کرنے والوں میں مذکورہ بالا حضرات کے علاوہ جامعہ اسلامیہ کامونکی کے مہتمم مولانا عبدالرؤف فاروقی، پاکستان شریعت کونسل صوبہ پنجاب کے امیر مولانا عبدالحق خان بشیر، پروفیسر حافظ منیر احمد، پروفیسر محمد اکرم ورک، پروفیسر میاں انعام الرحمن اور دیگر حضرات کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو دائرۂ معارف اسلامیہ کے صدر پروفیسر ڈاکٹر محمود الحسن عارف نے بطور مہمان خصوصی خطاب کیا، جبکہ الشریعہ اکادمی کے ناظم مولانا حافظ محمد یوسف نے گزشتہ سال کی رپورٹ اور آئندہ سال کے پروگرام کی تفصیل پیش کی۔ 
ورکشاپ کی ایک نشست دینی مدارس کے اساتذہ کے درمیان باہمی مشاورت کے لیے مخصوص تھی جس میں اساتذہ نے ورکشاپ میں مختلف حضرات کی طرف سے کی جانے والی گفتگو کی روشنی میں تبادلہ خیالات کیا اور متعدد سفارشات پیش کیں۔ ان نشست کی روداد درج ذیل ہے:

مولانا زاہدالرشدی (ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ)

نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم! 
میں نے اپنی بات اصولی طور پر صبح کی نشست میں کہہ دی تھی۔ اس وقت میں شام کے مذاکرے کا ایجنڈا عرض کروں گا۔ یہی آخری اور اصلی نشست ہو گی اور اسی کی روشنی میں سیمینار کی رپورٹ مرتب کی جائے گی۔
ایجنڈا استاد کی تربیت کے حوالے سے ہو گا۔ اس کو ہم اس طرح سے تقسیم کریں گے:
۱۔فکری تربیت، اس سے مراد یہ ہے کہ ہم جو تعلیم وتعلم کا کام کرتے ہیں، اس کا مقصد کیا ہے اور ہدف کیاہے؟ یہ ساری کھیپ ہم کیوں تیار کر رہے ہیں اور سوسائٹی میں اس کا رول کیا ہوگا؟ وہ مقصد اگر استاد کے ذہن میں ہوگا تو جو کلاس اس کے سامنے بیٹھی ہے، وہ اس مقصد کے مطابق اس کی تمام ضروریات کو پورا کرے گا کہ ان طلبہ کو اس مقصد کے لیے تیار کرنا ہے اور وہ ویسی ہی تربیت کرے گا۔ اس سلسلے میں استاد کی ذہن سازی ہونی چاہیے۔
۲۔علمی تربیت، اس سے میری مراد یہ ہے کہ جب ہم ایک سند لے کر ایک مسند پر بیٹھ جاتے ہیں تووہ سند ہمارے لیے اسٹاپ بن جاتی ہے کہ اب آگے ہم نے کچھ نہیں پڑھنا ہے۔ جو کچھ پڑھ لیا، وہ کافی ہے تو وہ سند ہمارے لیے بریک بن جاتی ہے۔ اگر استاد کے علم میں ترقی وارتقا نہیں ہوگا اور وہ یہی سوچے گاکہ جو کاپی میں نے پہلے سال پڑھائی تھی، وہی اب بھی پڑھانی ہے تو طلبہ کو اس زیادہ فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر استاد کے علم میں ترقی نہیں ہو گی تو شاگرد کے علم میں بھی ترقی نہیں ہو گی اور وہ جمود کا شکار رہے گا۔ علمی تربیت سے مراد یہ ہے کہ اساتذہ میں مطالعہ کا ذوق پیدا کیا جائے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں اور ان کے علم میں گہرائی اور گیرائی دونوں ہوں۔ میرے ایک دوست پروفیسر ہیں۔ انہوں نے بڑی دلچسپ بات سنائی کہ ایک جگہ مذاکرہ ہو رہا تھا تو میں نے ایک مولوی صاحب سے کہاکہ عربی ادب آپ پڑھاتے ہیں‘ لیکن عربی ادب کے بارے میں معلومات ہمیں زیادہ ہیں۔ مثلاً شعرا کے نام‘ اشعار کا پس منظر اور تاریخ ادب وغیرہ، تو انہوں نے جواباً کہا کہ عربی ادب کے بارے میں اگرچہ آپ زیادہ جانتے ہیں، لیکن عربی ادب (زبان) ہم زیادہ جانتے ہیں۔ تو یہ دونوں چیزیں ہونی چاہییں۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی علم کبھی ایک جگہ پر نہیں رکا۔ اس میں ارتقا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر نور الانوار میں نے دس مرتبہ پڑھا ئی ہے۔ نور الانوار ملا جیون ؒ نے آج سے تین سو سال قبل لکھی ہے اور ان تین سو سالوں میں حنفی اصول فقہ نے بہت ترقی کی ہے اور بہت آگے بڑھا ہے۔ اب طالب علم کا کیا قصور ہے کہ اسے گیارھویں صدی کے علم اصول فقہ تک روک دیا جائے اور بعد میں ہونے والی ترقی کے بارے میں اس کو معلومات فراہم نہ کی جائیں؟ مثلاً جو اضافات ہوئے ہیں‘ جو نئی اصطلاحات آئی ہیں، وہ کیوں اس کو نہ بتائی جائیں؟ اس کے دو حل ہیں۔ ایک تو یہ کہ نصاب میں نئی کتابیں شامل کی جائیں۔ دوسرا یہ کہ استاد کچھ محنت کر کے وہ جدید مواد اپنے مطالعہ میں لے آئے تو وہ نور الانوار کو سامنے رکھ کر بھی ساری بات کر سکتا ہے۔
۳۔ اخلاقی اور دینی تربیت، آج کی جدید تعلیم اور دینی تعلیم میں بڑافرق ہے کہ جدید تعلیم میں استادصرف استاد ہے اور اس کا کام صرف پڑھاناہے‘ جبکہ دینی تعلیم میں استاد صرف استاد نہیں بلکہ اپنے طلبہ کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت بھی ر کھتا ہے۔ طالب علم نے استاد کے رنگ میں رنگا جانا ہے۔ استاد کو دیکھ کر طالب علم کی عادتیں بنیں گی‘ عقیدہ بنے گا۔ ہمارے ہاں تو عقیدہ استاد کو دیکھ کر بنتا ہے کہ فلاں عقیدہ کی تشریح جو میرے استاد کی ہے، وہی میری ہے۔ فلاں مسلک کے بارے میں میرے استاد کی رائے یہ ہے اور میری بھی یہ ہے۔ تو استاد کوتمام باتوں میں ماڈل بننا چاہیے۔ آج کل کے دور میں دینی استاد بننا بڑا مشکل ہے۔ استاد اگر رخصتوں پر آجائے گاتو طالب علم مباحات ومکروہات میں چلا جائے گا۔ اگر طالب علم کورخصتوں پر رکھنا ہے تو استاد کو عزیمت پر رہنا ہو گا‘ اپنی عبادات میں‘اخلاق میں‘ میل جول میں اور اس طرح کے بہت سے معاملات میں۔
۴۔فنی تربیت، اب تعلیم کے بہت سے جدید ذرائع آگئے ہیں۔ ان میں سے جو جائز ہیں اور جن سے آپ مطمئن ہیں‘ ان کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگرفن کے حوالے سے ہم یونانی فلاسفہ سے استفادہ کر سکتے ہیں تو آج کے فلاسفہ سے بھی ہمیں استفادہ کرنا چاہیے۔

پروفیسر میاں انعام الرحمن 

(گورنمنٹ ڈگری کالج، قلعہ دیدار سنگھ)
صبح کی پہلی نشست میں تو میں شریک نہیں ہو سکا۔ دوسری نشست سے جو باتیں میں نے سنی ہیں، ان میں ایک بات جو بار بار دہرائی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ شاید کالج سائیڈ میں اساتذہ کی تربیت کا خاطر خواہ انتظام ہے اور مدارس میں ایسا نہیں، حالانکہ بعینہ یہی صورت کالج سائیڈ میں ہے۔ ٹیسٹ، انٹرویو دیا اور آکر پڑھانا شروع کردیا۔ سوچتے ہی نہیں کہ کیسے پڑھانا ہے اور کیا پڑھانا ہے،کیا لیکچر وغیرہ دینا ہے۔ البتہ اسکول کی سطح پر تھوڑا بہت تربیت کا نظام موجود ہے۔ گورنمنٹ سی ٹی، بی ایڈ وغیرہ کچھ کورسز کرواتی ہے۔ لیکن کالج کی سطح پر اب بھی ایسا نہیں ہے۔ آپ سادہ ایم اے ہوں، آپ نے ٹیسٹ دیا ہے، بغیر کسی ٹریننگ کے آپ کالج میں جاتے ہیں اور لیکچر دینا شروع کر دیتے ہیں۔ میں نہ مدارس میں پڑھا ہوں، نہ مجھے زیادہ تجربہ ہے، لیکن میرا مشاہدہ اس کے بارے میں یہ ہے کہ کالج سائیڈ میں جو ٹیچر ہے اور مدرسہ میں جو ٹیچر ہے، دونوں میں بنیادی فرق طالب علم کے ساتھ ڈیلنگ کے حوالے سے پایا جاتا ہے ۔ جو مدرسے کا استاد ہے، وہ اپنے آپ کو زیادہ ترجیح دیتا ہے، زیادہ تقدس کا درجہ دیتا ہے جبکہ کالج سائیڈ میں یہ بات نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اب طالب علم کو ڈیل کیسے کرنا ہے، اس کی ٹریننگ وہاں بھی نہیں ہوتی اور یہاں بھی نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ٹریننگ پہلے لے کر آئے ہیں، یہ اسی کا اثر ہے۔ تو مجھے جو بنیادی فرق نظر آتا ہے، وہ یہی ہے کہ دینی مدارس کے جو طلبہ ہیں، وہ استاد کی اتنی زیادہ تعظیم کرتے ہیں، اتنا زیادہ تقدس کا درجہ دیتے ہیں کہ شاید اس کے بعد اس کو وہ ٹوک نہیں سکتے اور نہ اس کی ہمت کر سکتے ہیں کہ سوال کریں اور استاد سے سیکھنے کی کوشش کریں ۔ علم تو ہوتا ہی سوال وجواب ہے، تو جب آپ اس کو زیادہ تقدس کا درجہ دیتے ہیں تو پھر آپ اس سے سیکھ نہیں سکتے۔ پھر تو ہاں ناں ہوگا جیسے کمنٹری میں ہوتا ہے ۔

حافظ محمد سمیع اللہ فراز 

(فاسٹ نیشنل یونیورسٹی، لاہور)
سب سے پہلے تو یہ بے حد خوشی کا مقام ہے کہ اس طرح کی تربیتی ورکشاپ منعقد کرنے میں الشریعہ اکادمی نے پہل کی ہے ۔ ہمارے ضلع گوجرانوالہ میں اتنا بڑاحلقہ ہے دینی مدارس کا، شاید ہی کسی اور شہر میں اتنا زیادہ ہو۔ اس اعتبار سے یہاں ضرورت بھی زیادہ تھی۔ اس پر اللہ کا شکر ہے کہ الشریعہ اکادمی نے اس کا اہتمام کیا ہے ۔ 
استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی صاحب نے جو چار نکات ایجنڈے کے لیے رکھے ہیں، ان میں سے اساتذہ کی فکری اور اخلاقی تربیت یقیناًایک اہم ضرورت ہے اور انھیں اس حوالے سے راہنمائی ملنی چاہیے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک معلم کی سطح پر پہنچ جانے والے کسی شخص کو اخلاق سکھانا یا اس کی فکر کو درست کرنا نفسیاتی طور پر ایک نازک مسئلہ ہے، اور بنیادی طور معلم کو خود اس پر توجہ دینی چاہیے کہ وہ مطالعے کے ذریعے سے اپنی فکرکو کس طرح درست کرتا ہے یا اپنے اخلاق کو کس طرح سنوارتا ہے ۔ 
جہاں تک علمی اور فنی تربیت کا تعلق ہے تو اس حوالے سے میری چار گزارشات ہیں: 
پہلی بات یہ کہ چونکہ میں دینی مدارس میں بھی پڑھا ہوں اور اس کے بعد یونیورسٹی میں بھی پڑھانے کا تجربہ ہے تو جب ہم یونیوسٹی کا اور مدرسے کا ایک موازنہ کرتے ہیں تو اس میں سب سے بڑا فرق ہمیں نظر آتا ہے، وہ ہے کسی فن میں اسپیشلائزیشن یا مہارت کا۔ کیونکہ یہ ایک فطری بات ہے کہ ایک ہی وقت میں صرف اور فقہ اور نحو اور منطق،چاروں میرے پسندیدہ مضمون ہوں اور میں ان کو پڑھاؤں بھی، یہ نہیں ہو سکتا بلکہ ہر طالب علم ان میں سے کسی ایک کا انتخاب زمانہ طالب علمی میں ہی کر لیتا ہے ۔ میں نے جب مدرسے میں پڑھانا شروع کیا تو استاد محترم نے پوچھا کہ ایک سبق ایسا لیں جس میں آپ کو زیادہ رغبت ہو، تو میں نے کہا کہ فقہ سے مجھے زیادہ رغبت ہے۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک استاد ہر فن میں ماہر ہو ، یہ ایک فطری رجحان ہوتا ہے ۔ 
ہمارے مدارس میں اس کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ مثلاً ایک استاد نے ہدایۃ النحو یا کافیہ ایک سال پڑھایا تو اگلے سال اس سے چھین لیا جاتاہے۔ طالب علم ہدایۃ النحو ایک استاد سے پڑھ کر اس استاد کا انداز سمجھتا ہے تو اگلے سال کافیہ پڑھانے والا استاد بالکل اور طریقے سے پڑھاتا ہے تو طالب علم کا جو ایک رجحان بنا تھا اور وہ ہدایۃ النحو جو ذہن میں لے کر آیا تھا، وہ یکسر آکر دوسرے استادکے انداز نے بدل دیا۔ تو یہ جو وقفے آجاتے ہیں، اس سے بڑا نقصان ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے میں گزارش کروں گا کہ ایک استاد اگر نحو پڑھا رہا ہے تو اسے مسلسل اس کا موقع دیا جائے تاکہ وہ نحو میں ماہر ہو اور ا س کی شہرت ہو جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک استاد تمام فنون میں یکساں مہارت حاصل کر لے۔ یونیورسٹی میں یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک استاد تقابل ادیان پڑھا رہا ہے تو وہ وہی پڑھائے گا کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ تقابل ادیان کا مالہ وماعلیہ کیاہے۔ 
دوسری بات ہے طریقہ تدریس کی۔ ہمارا طریقہ تدریس یہ ہے کہ جو ہم دیکھتے چلے آرہے ہوتے ہیں اور جس طرح ہم نے استاد کو پڑھاتے ہوئے دیکھا ہے، اسی طرح ہم کوشش کریں گے کہ آگے پڑھائیں، کیونکہ ہمیں بتایا ہی نہیں گیا اور نہ ہم نے ا پنے استاد کے علاوہ کسی اور کو پڑھاتے ہوئے دیکھا ہے ۔اب جدید طریقہ تدریس میں ملٹی میڈیا آگیا ہے ،بلیک بورڈ آگیا ہے، لیکن یہ تمام چیزیں ابھی تک ہمارے مدارس میں مفقود ہیں۔ ہمارے مدارس میں طریقہ یہ ہے کہ استاد بیٹھا ہوا ہے اور تلقی اور بالمشافہہ تدریس کا جو سلسلہ ہے، وہی چلتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ طریقہ اس وقت مفید تھا جب لوگوں کے حافظے بہت اچھے ہوتے تھے ۔استاد نے ایک بات کہی اور طالب علم نے اس کو محفوظ کر لیا۔ لیکن اب نہ وہ مزاج رہے ہیں، نہ وہ حافظے رہے ہیں اور نہ ہمارے مدارس میں اس قسم کے طلبہ آتے ہیں۔ اس بات کو ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے۔ یہ ہم جانتے ہیں کہ جو بچہ گھر میں سب سے نکما ہو گا، اس کو مدرسے میں داخل کر ا دیں گے۔ تو جب طلبا کی ذہنی سطح یہ ہو تو اس میں پھر ہمیں ان تمام چیزوں کا سہارا لینا چاہیے جو تدریس میں اضافی معاونت کا ذریعہ بن سکتی ہوں۔ ایک استاد اگر زبان سے کچھ کہتا ہے اور طالب علم اس کو سنتا ہے، پھر اس کا تکرار ہو گیا، مطالعہ ہو گیا تو اس طرح ایک محدود وقت کے لیے وہ بات طالب علم کے ذہن میں رہتی ہے، لیکن اس میں اس کے سمجھنے کی ایک ہی حس استعمال ہوئی ہے‘ اس نے صرف سماعت کی ہے۔ لیکن اس کے بجائے اگر بلیک بورڈاستعمال کیا جائے‘ ملٹی میڈیا استعمال کیا جائے تو اس سے طالب علم کے دیگر حواس بھی کام کرتے ہیں۔ استاد نے ایک چیز لکھ کرطالب علم کو سمجھائی ہے تو اس نے سنی بھی ہے، دیکھی بھی ہے اور سمجھی بھی ہے۔ کتنے حواس سے وہ چیزوں کو اخذ کر رہا ہے۔ تو میرا خیا ل ہے کہ ہمارے طریقہ تدریس میں تبدیلی ضرور آنی چاہیے۔ کم از کم بلیک بورڈ کا استعمال تو ضرور کیا جائے‘ حتیٰ کہ اگر وہ کوئی ایسا فن پڑھا رہا ہے جس میں اس کی ضرورت نہیں پڑتی تو بھی وہ اس میں ایسی چیزیں لے کر آئے کہ اس کا استعمال ہو سکے۔ طالب علم کے حواس کو جتنا آپ مصروف رکھ سکتے ہیں، رکھیں۔
تیسری بات یہ کہ ہمارا تدریس کا مواد بھی بالکل روایتی ہے کہ جس طرح پہلے پڑھایا جاتا تھا، ویسے ہی آج بھی پڑھایا جا رہا ہے۔ نصاب کی بحث اپنی جگہ لیکن اتنا تو ہم کر سکتے ہیں کہ جو کچھ ہم پڑھا رہے، مثلاً فقہ پڑھا رہے ہیں یاجدید معیشت وتجارت پڑھا رہے ہیں تو اس کے بارے میں ہمارے معاشرے کے اندر جو عملی مثالیں ہیں، ان کا استعمال زیادہ کیا جائے۔ اس سے میں سمجھتا ہوں کہ طالب علم کے ذہن میں کتاب اور شرح سے ہٹ کر ایسی چیزیںآئیں گی جو استاد کے ذہن میں بھی نہیں آسکتیں اوروہ چیزیں طالب علم کبھی بھلا نہیں سکتا، کیونکہ وہ عملی طور پر اس کو اپنے ذہن میں لے رہا ہوتا ہے۔ تو تیسری چیز یہ ہے کہ عملی مثالیں اپنے تدریسی مواد میں شامل کریں۔
چوتھی بات زبان کا استعمال ہے۔ بدقسمتی سے میرے سمیت جو نئے معلمین ہیں‘ عربی زبان تو دور کی بات ہے، اردو زبان جس میں ہم پڑھا رہے ہوتے ہیں، وہ بھی ہماری گرفت میں نہیں ہوتی۔ اس میں ہمیں اعتماد پیدا کرنا چاہیے۔ اگر ایک استاد کی زبان عمدہ اور موثر ہے تو اس کے اپنے اثرات ہوں گے۔ اگر معلم اس میں فرق نہیں کر سکتا کہ نہر بہتا ہے یا بہتی ہے تو طالب علم بھی ساری زندگی اس پر توجہ نہیں دے گا۔ یہ چار باتیں فنی اور عملی تربیت کے حوالے سے تھیں۔
پانچویں بات جو ضمنی ہے، وہ ہمارا رہن سہن کا طریقہ ہے۔ اس کو بھی بہتر کر نے کی ضرورت ہے۔ اگرایک استاد صاف ستھرے اور اچھے کپڑے پہنتا ہے تو طلبا اس کو دیکھ کر اپنا رہن سہن بہتر کر لیں گے، اس کو کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی کیونکہ ایک حقیقی معلم کی حیثیت اپنے طلبا کے لیے ایک نمونہ کی سی ہوتی ہے۔ ایک معلم کا رہن سہن‘ اس کا کلاس میں آنا ‘ کلاس سے اٹھ کر جانا‘ اپنے طلبہ کے ساتھ ملنا جلنااگر بہتر ہے تو اس سے طلبہ کے اخلاق وکردار پر اثر پڑے گا۔ 
سب سے بڑی ضرورت جو میں محسوس کرتا ہوں، وہ یہ کہ طلبہ کو سوال کرنے اور اظہار خیال کرنے کا موقع دیا جائے اور اس میں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ میں مدرسے سے یونیورسٹی میں گیا۔ مدرسے میں ‘میں یہ سمجھتا تھاکہ اپنی کلاس میں اور اردگردکے ساتھیوں میں زیادہ باتونی ہوں۔ مدرسے میں ہم تقریریں بھی کیا کرتے تھے، زمانہ طالب علمی سے جمعہ بھی پڑھایا کرتے تھے۔ یونیورسٹی میں ایک پروگرام ہوتا ہے کہ جس چیز پر آپ نے لکھا ہے، اس کو آکر بیان کریں۔ جب وہاں ڈیسک پر کھڑے ہوئے تو آپ یقین کریں کہ جو کچھ وہ بول رہے تھے، وہ نہ ہماری سمجھ میں آرہا تھانہ ہم وہ بول سکتے تھے۔ یہ مطلب نہیں کہ ہمارے پاس مواد نہیں تھایا الفاظ نہیں تھے، کمی صرف اعتماد کی تھی۔ تو استاد کو چاہیے کہ اپنے طلبہ کا اعتماد بڑھائے۔ ان کو اتنا اعتماد دلائے کہ اگر ان کو صدر کے سامنے بھی کھڑا کر دیا جائے تو وہ اپنی بات کہہ سکیں۔
اپنے طلبہ میں اعتماد کیسے پیدا کیا جائے؟ اس کے بہت سے طریقے ہیں۔ مثلاً جب آپ اس کو پڑھا رہے ہوں تو آپ خود اس کو اعتماد سے پڑھائیں اور جب آپ سبق سنیں یا ٹسٹ لیں تو اس کا اعتماد چیک کریں۔ وہ اگر غلط لکھتا ہے تو اس کو اعتماد سے بتائیں۔ آپ نے اگر اس کو دس نمبروں میں سے صفر دیا ہے کہ بس وہ جائے اور اگلے دن کے ٹسٹ کی تیاری کر کے آئے تو اس طرح نہ طالب علم کو اس ٹسٹ کا فائدہ ہو گا نہ آپ کو۔
یہ میری کچھ گزارشات تھیں ۔اﷲتعالی عمل کی توفیق دے ۔ آمین۔

مولانا محمد طارق بلالی 

(مدرسہ اشرف العلوم، گوجرانوالہ)
میری ایک گزارش ہے کہ ہمارے ہاں مدرسین بھی اور متعلمین بھی احساس کمتری کا شکا ر ہیں۔ اگر ابتدا ہی سے اس علم کی عظمت اور اس کی اہمیت طلبہ کے ذہنوں میں بٹھا دی جائے تو یہ کافی حد تک کم ہو سکتی ہے۔ ہمارے طلبہ جب اسکول وکالج کے طلبا کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو وہ خود کو ان سے کم تر سمجھتے ہیں اور ان میں اتنی استعداد نہیں ہوتی کہ وہ اپنے علم کی اہمیت وعظمت کو ان کے سامنے بیان کر سکیں۔ تو طلبا میں خود اعتمادی پیدا کرنی چاہیے۔ دوسرا یہ کہ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ جیسے ہم نے خود پڑھا ہوتا ہے، ویسے ہی آگے پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طریقہ میں کوئی بہتری بھی آسکتی ہے، اس بارے میں ہم بالکل نہیں سوچتے۔اللہ رب العزت توفیق نصیب فرمائے ۔

مولانا حافظ محمد یوسف 

(الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ)
محترم سامعین ! آپ مختلف اصحاب فکر ودانش کی گفتگو سن رہے ہیں۔ ان کی گفتگو کی روشنی میں ایک بات تو یہ سامنے آئی کہ عصری علوم کی طرف ہمارے مدارس کو قدم بڑھاناچاہیے ۔ البتہ میرا چھ سات سال کا تجربہ یہ ہے کہ عصری علوم کے ساتھ اگرتربیت نہ ہو تو عصری علوم کے ساتھ دین ایک فتنہ بن جاتاہے۔ میں پی ایف اے میں وارنٹ آفیسر بھرتی ہو گیا۔ ایک دفعہ ایجوکیشن کا اجلاس ہو رہا تھا، میں بھی موجود تھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ آئندہ جو خطبا ہم بھرتی کریں تو دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبا کو بھرتی نہ کریں۔ میں نے ایجوکیشن آفیسر سے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہاکہ وہ ایک مخصوص زاویہ فکر کے ساتھ یہاں آتے ہیں۔ ہمارا ٹارگٹ یہ ہے کہ ہم ان کی جگہ یونیورسٹی سے ایم ۔اے پاس طلبہ کو خطیب کی حیثیت سے بھرتی کریں۔ میں نے عرض کیاکہ ٹھیک ہے، آپ انہیں بھرتی کریں لیکن میں علیٰ وجہ البصیرۃعرض کرتا ہوں کہ سو فیصد نہیں تو ستر فیصد ایسے طلبہ ہوں گے جو مصلاے امامت پر کھڑے ہونے کے اہل نہیں۔ یہ بات میں پوری دیانت داری سے عرض کرتاہوں اورمیرااپنا تجربہ بھی ہے کہ ایم اے پاس طلبہ کی جب تک دینی تربیت نہ ہو گی، وہ اس کے اہل نہ ہوں گے کیونکہ اس میں سے اکثر تو امامت کو اپنے اسٹیٹس کے خلاف سمجھتے ہیں۔ تو بغیر تربیت کے عصری علوم کی طرف کوئی بھی قدم ایک بہت بڑے فتنے کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہو گا۔
انگلش لینگویج کی بھی بات ہوئی۔ میں انگلش زبان کا ماہرتو نہیں ہوں، لیکن انگلش پڑھاتے ہوئے کچھ عرصہ ہوگیا ہے۔ جب زبان بغیر تربیت کے آتی ہے تو لامحالہ اپنا ماحول ضرور لے کر آتی ہے۔ بڑی معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ ہمارے طلبہ مدارس سے فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں‘ یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں،سب کی بات نہیں کر رہا کیونکہ سب کا احاطہ کرنا تو ممکن نہیں، مدرسے سے نکلتے ہیں تو چہرے پر ڈاڑھی اور سر پر پگڑی بھی ہوتی ہے ‘ لیکن دکتورہ کی ڈگری ملنے تک ستر فیصد شیو کروا چکے ہوتے ہیں۔ یہ میرا اپنا مشاہدہ ہے۔ میں نے بہت سے ساتھیوں کو دیکھا۔ میں نے اپنے ایک طالب علم کو اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں بھیجا۔ جب وہ ملنے کے لیے آیاتو میں نے محسوس کیا کہ اس کی ڈاڑھی کٹی ہوئی ہے۔ میں نے افسوس کرتے ہوئے کہاکہ بھئی، تمہیں اس کام کے لیے تو وہاں نہیں بھیجا تھا۔ تو وہ کہنے لگا کہ استاد جی، یہ سنت ہی تو ہے، فرض تو نہیں ہے۔ میں نے کہاکہ ٹھیک ہے، فرض نہیں ہے لیکن سنت تو تم خود اسے تسلیم کر رہے ہو اور یہ کہ تمھارا یہ جواب مسلمانوں والا نہیں ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک چھوٹی سی بات ہے‘ لیکن میں اسے ضروری خیا ل کرتا ہوں کہ انگلش ضرور سیکھیں‘ کمپیوٹر ضرور سیکھیں، لیکن اکابر کے مزاج اور راہ کو کبھی نہ چھوڑیں۔ یہ ہمارے پاس بہت بڑا سرمایہ ہے۔
حضرت امداداﷲ مہاجر مکیؒ کے بارے میں، میں نے کہیں پڑھا کہ انہوں نے کافیہ تک کتابیں پڑھی تھیں، لیکن حضرت کا فیضان اﷲ تعالیٰ نے کتنا پھیلایا! اس وجہ سے کہ پوری امت کے علما کے ساتھ جب تعلق ہو گاتو اﷲ تعالیٰ فیض کو آگے پھیلا دیں گے۔ چودہ سو سال کے امت کے اجتماعی تعامل کو چھوڑ کر دین کو سمجھنے کی کوئی بھی کوشش ایک بہت بڑے فتنے کا باعث ہو گی اور کئی ایسے فتنے کھڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے بڑے بھائی ہیں۔ انہو ں نے مدرسے میں تعلیم حاصل کی، پھر ایم اے کیااور نیوی میں خطیب بھرتی ہو گئے۔ بعد میں سول جج بھرتی ہو گئے۔ اب چند دن پہلے انہیں قطر کے سفارت خانے سے آفر آئی کہ آپ ہمارے پاس آئیں اور یہاں آکر خدمات سرانجام دیں تو انہوں نے کہاکہ میں اٹھارہ بیس سال ملک کے جدید تعلیمی اداروں میں پڑھا چکا ہوں، نمل اسلام آباد میں ‘میں نے پڑھایا ہے‘ الدعوۃ اکیڈمی میں بھی پڑھایا ہے‘ اب میں اس نتیجے پر پہنچ چکا ہوں کہ جو فائدہ میں مدارس میں اٹھا سکتا تھا، وہ میں وہاں نہیں اٹھا سکا۔ اب میں شعبہ حفظ کی ایک کلاس پڑھا رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اسی کو پڑھاتا رہوں۔ یہ بات میں نے ضمناً عرض کردی ہے۔ اﷲتعالیٰ ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ آمین ۔

مولانا مشتاق احمد 

(جامعہ اسلامیہ، کامونکی)
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ امابعد !
سب سے پہلے تو میں مخدوم گرامی حضرات مولانا زاہد الراشدی مدظلہ اور ان کے رفقا کا شکر گزار ہوں کہ وہ ہمیشہ شفقت فرماتے ہیں، اور آج کی نشست میں بھی انہوں نے مجھے اظہار خیال کا موقع فراہم کیا۔ فی البدیہہ جو باتیں میرے ذہن آئی ہیں، میں وہی بیان کر رہا ہوں۔ میری آج کی جو گزارشات ہیں، ان کے کئی پہلو ہیں۔ ایک تو دینی مدارس کا نصاب ، دوسرا اساتذہ کرام کے انتخاب کا معیا ر، تیسرا طلبا کی تعلیم و تربیت کا طریق کار، چوتھاجدید علوم کی سرگرمیاں اور اس طرح کی چند ایک باتیں۔ میں شق وار ہر جانب اشارہ کرتا ہوں۔
پہلی بات دینی مدارس کے نصاب کے حوالے سے کہ دینی مدارس کا نصاب بدلنا چاہیے یا نہیں بدلنا چاہیے؟ کس حد تک ترمیمات ہونی چاہییں؟ بیسیوں سال گزر گئے، یہ بحث چل رہی ہے اور چلتی رہے گی لیکن میں اس میں صرف اتنی بات عرض کروں گا کہ اگر ہمارے بہت سے علماے کرام، اساتذہ کرام، وفاق کے ذمہ دار حضرات موجودہ نصاب کو ہی تر جیح دیتے ہیں اور اس پر قائم ہیں کہ اس میں تبد یلی نہیں ہونی چاہیے یاجزوی طور پر کوئی تبدیلی ہو تو ہو، میں اس حوالے سے عر ض کروں گا کہ فنون میں پختگی حاصل کر نا اور چیز ہے اور ان درس نظامی کی کتابوں کو پڑھنا، ان کے قیل وقال میں مہارت پیدا کرنا، یہ اور چیز ہے۔ مثلاً ایک ہے شرح جامی کو سمجھنا اور ایک ہے علم نحو کو سمجھنا۔ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ اس لیے جدید طرز کی جو کتا بیں لکھی جا رہی ہیں، ان سے اساتذہ کو بھی استفادہ کرنا چاہیے اور طلبا کے لیے بھی بطور مطالعہ ایسی کتب تجویز ہونی چاہییں کیونکہ نصاب تبدیل کرنا تو ہمارے بس کی بات نہیں ہے، لیکن ایسی جدید طرز کی لکھی ہوئی کتابیں اساتذہ اپنے زیر مطالعہ رکھ سکتے ہیں، طلبا کو مطالعہ کروا سکتے ہیں۔ اس کا اہتمام ضرور ہونا چاہیے ۔
دوسری بات اساتذہ کے انتخاب کے معیار سے متعلق ہے۔ سرکاری طور پر ایک ٹیچر یا پروفیسر بھرتی ہونا ہو تو اس کی تقرری سے پہلے اس کے لیے تربیتی کورس کا اہتمام ہوتا ہے، اس کے بعد اس کو بطور ٹیچر یا بطور پرو فیسر کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ دینی مدارس میں افسوس یہ ہے کہ ایسا کوئی نظام نہیں ہے۔ دینی مدارس میں ذاتی تعلقات اور سفارشیں بھی کام کرتی ہیں۔ ہم نے یہ بات چار پانچ سال قبل وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ قاری محمد حنیف جالند ھری سے بھی عرض کی تھی کہ اس طرز کے کسی پروگرام کا انعقاد وفاق کے تحت ہونا چاہیے۔ انھوں نے اس سے اتفاق کیا اور فرمایا کہ یہ معاملہ زیر غور ہے، لیکن چار پانچ سال گزر گئے، اس کا کوئی پتہ نہیں چلا کہ معاملہ کہاں تک پہنچا ہے۔اس حوالے سے میں اپنے مادر علمی جامعہ اسلا میہ امدادیہ فیصل آباد کا حوالہ دوں گا کہ استاذمحترم حضرت مولانا نذیر احمد اس بات کا اہتمام کیا کرتے تھے کہ دورۂ حد یث کے طلبا کو بالخصوص اور باقی طلبا کو بالعموم تدریس کا طریقہ بتلایا کرتے تھے۔ شعبان یا رمضان میں دو تین ہفتے کا خصوصی پروگرام ہواکرتا تھا۔ اس قسم کے پرو گرام ملک کے جتنے بھی بڑے بڑے مراکز ہیں، ان کو منعقد کرنے چاہییں۔ اگر وفاق کی مجبوریاں ہیں یا وفاق والے اس کا انتظام نہیں کرسکتے تو ہر ڈویژن میں ایک بڑے مدرسے والے اس کا انتظام کر لیں تو میں سمجھتا ہوں کہ کافی حد تک اس کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ اب تعلقات کی بنیاد پر یا بعض دوسری وجوہا ت سے جو اساتذہ بھرتی ہو جاتے ہیں، وہ کیسے کیسے لطیفے پیدا کرتے ہیں۔ میں صرف ایک بات مثال کے طور پر عرض کر نا چاہوں گا کہ ایک مدرس کو جسے فارسی پڑھانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا، حکم دیا گیا کہ فارسی پڑھانی ہے۔ اس نے طلبا کو فارسی پڑھائی۔ پڑھاتے ہوئے ایک لفظ آیا ’’ترش رو‘‘، تو اس نے اس کا معنی بیان کیا ’’کھٹے منہ والا‘‘۔
ڈاکٹر محمود الحسن عارف صا حب بھی اس حوالے سے بات کر رہے تھے کہ اساتذہ کو اپنے ماحول کو، اپنے موضوع کو، منطق و فلسفہ جو بھی ہے اور مجموعی طور پر جو بھی ساری صورت حال ہے، اس کو اور طلبا کی نفسیات کو سامنے رکھ کر، طلبا کی تربیت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ تعلیمی نفسیات کے اصولوں کو ملحوظ رکھنا ایک استاذکے لیے بہت ضروری ہے۔ 
استاذمحترم حضرت مولانا نذیر احمد کا ایک مقولہ میں نقل کرتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ وہی آدمی استاد کہلانے کا مستحق ہے جو فن تدریس میں مجتہد ہونے کا ملکہ رکھتا ہے۔ جو استا د مجتہد فی التدریس نہیں ہے، وہ استاد کہلانے کے قابل نہیں۔ انہوں نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا اور اس میں سمجھنے والے کے لیے بہت کچھ ہے۔
ایک بات میںیہ عرض کروں گا کہ جدید علوم کس حد تک دینی مدارس میں ہونے چاہییں، اس حوالے سے تو دو آرا ہوسکتی ہیں، لیکن آیا اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بحث اب ختم ہو چکی ہے۔ ضرورت کو ہر کوئی مانتا ہے۔ دور حاضر میں انگلش ایک بین الاقوامی زبان ہے اور اس میں ہمارے علماے کرام کو مہارت ہونی چاہیے، لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے جید علماے کرام کو اس میں مہارت نہیں ہے۔ میں نے ایک دفعہ اپنے مخدوم ومحترم حضرت مولانا راشدی صاحب سے عرض کیا تھا کہ حضرت، آپ انگلش سیکھ لیں، آپ کی کاکردگی اور جتنی تبلیغ آپ کر رہے ہیں، اس سے کئی گنا آپ زیادہ کام کر سکیں گے، لیکن حضرت نے اپنے روایتی انداز میں ہنس کر ٹال دیا۔ اسی طرح کمپیوٹر کے ذریعے سے بھی علماے کرام کے لیے تبلیغ کا ایک بڑا میدان ہے۔ انٹر نیٹ میں جہا ں خرافات بہت ہیں، اسی طرح کمپیوٹرمیں بھی ہیں لیکن انٹر نیٹ میں تو اب بڑی بڑی لائبریریاں منتقل ہوگئی ہیں اور بڑے بڑے دینی مدارس بھی اپنی لائبریریاں انٹرنیٹ پر منتقل کر رہے ہیں۔ کراچی کے بعض مدارس کا کام اس حوالے سے شروع ہے۔ تو انٹرنیٹ کے ذریعے سے جہاں قادیانی تبلیغ کرتے ہیں، عیسائی تبلیغ کرتے ہیں، ہمیں بھی اس میدان میںآنا چاہیے اور انٹرنیٹ کے ذریعے سے ہمیں بھی دین کا کام کرنا چاہیے۔
موضوع کے حوالے سے تو میری گزارشات یہی تھیں۔ آخر میں حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی کا ایک ملفوظ سنانا چاہتا ہوں۔ اس ملفوظ میں میرے لیے بھی بڑا فائدہ ہوگا اور آپ کے لیے بھی ہوگا۔ حضرت نے فرمایا کہ علماے کرام اکثر شکوہ کرتے ہیں کہ زمانہ ہماری قدر نہیں کرتا، لوگ قدر نہیں کرتے۔ فرمایا کہ یہ شکوہ اکثر وہ لوگ کرتے ہیں جن میں یا خلوص کی کمی ہوتی ہے یا صلاحیت کی۔ یا تو کام کرنے کی پوری صلاحیت نہیں ہوتی یا پورا اخلاص نہیں ہوتا۔ فرمایا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایک شخص میں اخلاص بھی کامل ہو اور کام کرنے کی صلاحیت بھی پوری ہو اور لوگ اس کی قدر نہ کریں۔ جو لوگ یہ شکوہ کرتے ہیں، ان کو اپنا جائزہ لینا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ (۱)

حافظ محمد زبیر

ہر دور میں انسان اپنے’ ما فی الضمیر ‘ کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے زبان کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ انسان اپنے خیالات ‘افکار ‘نظریات‘جذبات اور احساسات کو اپنے ہی جیسے دوسرے افراد تک پہنچانے کے لیے الفاظ کو وضع کرتے ہیں۔ کسی بھی زبان میں کسی مفہوم کی ادائیگی کے لیے جو الفاظ وضع کیے جاتے ہیں، وہ دوطرح کے ہوتے ہیں۔ یا تو کسی لفظ کو اہل زبان کسی ایک متعین معنی یا مفہوم کو ادا کرنے کے لیے وضع کرتے ہیں، اس کو اصولیین کی اصطلاح میں ’خاص‘ کہتے ہیں۔ مثلاً اردو زبان میں اس کی سادہ سی مثال کسی کا نام ہے۔ جب والدین کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اس بچے کو پکارنے ‘بلانے‘ اس سے متعلق کسی کو خبر دینے وغیرہ کے لیے اس کا ایک نام رکھ لیتے ہیں۔ کسی مفہوم یا تصور کا کسی لفظ کے ساتھ یہ الزام ’وضع‘ کہلاتا ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ اصل مفہوم ہوتا ہے نہ کہ الفاظ ‘کیونکہ الفاظ تو مفہوم کی ادائیگی کے لیے وضع کیے جاتے ہیں لیکن اس لحاظ سے الفاظ کی اہمیت بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ انسان کے مافی الضمیر کی ادائیگی کا ایک اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔ الفاظ و معانی کا یہ تعلق لازم و ملزوم کا ہے۔ مثلاً لفظِ ’زید‘ ہے جو کہ ایک معین ذات پر دلالت کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے، اس لیے یہ لفظ خاص ہے ۔اگر استاذکلاس روم میں بیٹھے طلبہ سے کہتا ہے :’ زید کی ڈیوٹی ہے کہ وہ روزانہ بلیک بورڈ صاف کرے گا‘ تو اس عبارت میں لفظِ زید خاص ہے اور اس سے ایک ہی متعین مفہوم اور ذات مراد ہے۔ بعض اوقات اہل زبان جب کوئی لفظ وضع کرتے ہیں تو وہ بہت سے غیر متعین افراد کو یکبارگی شامل ہوتا ہے جسے اصولیین کی اصطلاح میں ’عام‘کہتے ہیں۔ اس کی سادہ سی مثال اردو زبان میں لفظِ ’جو‘ ہے۔ اگر کوئی استاذ اپنی کلاس کے طلبہ سے کہتا ہے کہ ’جو بھی کلاس روم میں ہے کھڑا ہو جائے‘ تو اس جملے میں لفظِ ’جو‘ عام ہے اور کلاس کے تمام افراد کو شامل ہے اس لیے کلاس کے ایک ایک طالب علم کو یہ حکم شامل ہو گا۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک لفظ ایک اعتبار سے خاص ہوتا اور ایک اعتبار سے عام ہو تا ہے۔ مثلاً اردو زبان میں اس کی سادہ سی مثال لفظِ ’شیر‘ ہے۔ یہ لفظ باقی حیوانات چیتا‘ ہاتھی‘ بندر‘ لومڑی وغیرہ کے اعتبار سے خاص ہے، لیکن اپنے افراد کے اعتبار سے عام ہے کیونکہ اس لفظ کا اطلاق کسی بھی شیر پر ہو سکتا ہے۔

لفظ خاص وعام کی اپنے معنی پر دلالت

قرآن جو کہ عربی زبان میں ہے اس کا ہر لفظ اپنی وضع کے اعتبار سے یا توخاص ہو گا یا عام ہو گا۔قرآن کے خاص الفاظ کے بارے میں فقہا اور اصولیین کا اتفاق ہے کہ وہ قطعی الدالۃ ہوتے ہیں یعنی ان الفاظ کا معنی ایک ہی ہو تا ہے اور اس معنی میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں:
’’احناف اور باقی مذاہب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ لفظِ خاص اپنے اس معنی پر کہ جس کے لیے اس کو وضع کیا گیا ہے ‘قطعیت اور یقین کے ساتھ دلالت کرتا ہے جب تک کہ کوئی ایسی دلیل موجود نہ ہوجو اس کو اس کے موضوع لہ معنی سے پھیر دے اور کسی دوسرے معنی کی طرف لے جائے۔قطعیت سے یہاں مراد یہ ہے کہ لفظِ خاص میں کسی دلیل کی وجہ سے کسی اور معنی کا احتمال نہیں ہوتا‘ نہ کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اس میں اصلاً کسی دوسرے معنی کا احتمال نہیں ہوتا۔‘‘ (أصول الفقہ الاسلامی‘جلد۱‘ص۲۰۵‘مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
مثلاً قرآن میں ہے: تبت یدا أبی لھب و تب (لہب:۱) (ہلاک ہو ں أبو لہب کے دونوں ہاتھ‘اور وہ خود بھی ہلاک ہو) اس آیت مبارکہ میں لفظ ’أبولہب‘خاص ہے اور اس سے مراد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ہے جو کہ آپؐ پر ایمان نہیں لایا تھا اور آپؐ کو اذیت پہنچاتاتھا۔یہ لفظ اپنے مفہوم میں قطعی الدلالۃ ہے یعنی اس میں کسی اور مفہوم کی گنجائش نہیں ہے۔ 
اسی طرح قرآن میں ہے: الزانیۃ و الزانی فاجلدوا کل واحد منھما ماءۃ جلدۃ (النور:۲) (زنا کرنے والا مرد اور زنا کرنے والی عورت‘پس تم ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔) اس آیت مبارکہ میں ’ماءۃ‘ لفظِ خاص ہے کہ جس کا معنی سو ہے‘ کیونکہ اس سے مراد ’ننانوے‘ یا ’ایک سو ایک‘ نہیں ہوتے‘ اس لیے یہ لفظ اپنے معنی میں قطعی الدلالۃ ہے۔ لیکن اگر کوئی قرینہِ صارفہ یا دلیل موجود ہو تو خاص کو اس معنی سے پھیرا جا سکتا ہے کہ جس کے لیے یہ وضع ہوا ہے۔ مثلاً قرآن میں ہے : یذبح أبناءھم و یستحی نساءھم (القصص:۴) (وہ (یعنی فرعون) ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔) 
اس آیت میں ’یذبح‘ کا لفظ خاص ہے جو کہ واحد مذکر غائب کے فعل کے لیے اہل زبان نے وضع کیا تھا اور جب اس لفظ کو ایک ہی فرد کے فعل کے لیے استعمال کیا جائے گا تو یہ اس کا قطعی الدلالۃ مفہوم ہو گا اور اس لفظ کا اپنے موضوع لہ معنی میں استعمال حقیقی استعمال کہلائے گا۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں یہ لفظِ خاص اپنے موضوع لہ معنی یعنی واحد مذکرغائب کے لیے استعمال نہیں ہوا بلکہ یہاں یہ جمع مذکر غائب یعنی فرعون کے لشکر کے سپاہیو ں کے لیے استعمال ہوا ۔کیونکہ بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کرنے والے تو اصلاً فرعون کے لشکر کے سپاہی تھے نہ کہ اکیلا فرعون‘جیسا کہ قرآن نے کئی دوسرے مقامات پر اس چیز کی طرف اشارہ کیا ہے :
یذبحون أبنائکم و یستحیون نسائکم (البقرۃ: ۴۹ و ابراہیم: ۶)
’’وہ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے۔‘‘
دوسری بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا آیت میں ’یذبح‘ سے صرف فرعون کو مراد لینا عقلاً بھی محال ہے اس لیے اس آیت میں یہ لفظ اپنے موضوع لہ معنی میں استعمال نہ ہوگااور واحد مذکر غائب کے صیغے کا جمع مذکر غائب کے لیے یہ استعمال‘ مجازی استعما ل کہلائے گا۔
مذکورہ بالا مثال صرف یہ سمجھانے کے لیے دی گئی ہے کہ قرآن میں خاص کے قطعی الدلالۃ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے صرف ایک ہی معنی مراد ہو سکتا ہے کوئی اور معنی مراد ہی نہیں ہوسکتا بلکہ خاص کے قطعی الدلالۃ ہونے کا معنی یہ ہے کہ جب تک کوئی قرینہ صارفہ نہ ہو تو اس وقت تک لفظِ خاص اپنے معنی میں قطعی اور یقینی ہوتا ہے اور اس سے مراد صرف وہی معنی ہوتا ہے کہ جس کے لیے اسے اہل زبان نے وضع کیا ہے‘ اسی نکتے کی طرف ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے :
’’قطعیت سے یہاں مراد یہ ہے کہ لفظِ خاص میں کسی دلیل کی وجہ سے کسی اور معنی کا احتمال نہیں ہوتا ‘نہ کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اس میں اصلاً کسی دوسرے معنی کا احتمال نہیں ہوتا۔ (أصول الفقہ الاسلامی‘ جلد۱‘ ص۲۰۵)
لفظِ عام کی اپنے معنی پر دلالت کے بارے میں فقہا و اصولیین کا اختلاف ہے۔ جمہور فقہا مالکیہ ‘شوافع اور حنابلہ کا کہنا ہے کہ ایساعام کہ جس کی تخصیص نہ ہوئی ہواس کی دلالت اپنے معنی پر ظنی ہوتی ہے جبکہ احناف اور معتزلہ کا موقف یہ ہے کہ عام کی تخصیص سے پہلے اپنے معنی پر دلالت قطعی ہوتی ہے ۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں:
’’اکثر فقہائے مالکیہ‘شافعیہ اور حنابلہ کا کہنا یہ ہے کہ عام کی اپنے جمیع افراد پر دلالت ظنی ہوتی ہے جبکہ احناف او ر معتزلہ کامختار مذہب یہ ہے کہ عام کی تخصیص سے قبل اس کی اپنے افراد پر دلالت قطعی ہوتی ہے اور ایک ایسا قول امام شافعیؒ کی طرف بھی منسوب ہے ‘اور اگر عام کی تخصیص ہو جائے تو باقی پر اس کی دلالت ظنی ہوتی ہے اورقطعیت سے یہاں مراد یہ ہے کہ لفظ عام میں کسی دلیل کی وجہ سے کسی اور معنی کا احتمال نہیں ہوتا ‘نہ کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اس میں اصلاً کسی دوسرے معنی کا احتمال نہیں ہوتا۔‘‘ (أصول الفقہ الاسلامی‘جلد۱‘ص۲۵۰‘ ۲۵۱)
أحناف کا کہنا یہ ہے کہ لفظِ عام کو اہل زبان نے عمومی معنی کے لیے وضع کیا ہے لہذا اس سے مراد قطعی طور پر اس کا عمومی معنی ہی ہو گا جبکہ جمہور کی دلیل یہ ہے کہ قرآن کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی عام ایسا نہیں ہے کہ جس کی تخصیص موجود نہ ہو، یہاں تک کہ بعض علما کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کے عام میں صرف ایک آیت ایسی ہے کہ جس کی تخصیص نہیں ہے ورنہ ہر عام کی کوئی نہ کوئی تخصیص ضرور موجود ہے ۔اسی وجہ سے أصولیین اور فقہاء میں یہ قول بہت معروف ہے کہ ’ما من عام الا و قد خص منہ البعض‘ یعنی کوئی عام ایسانہیں ہے کہ جس سے کسی چیز کو خاص نہ کیا گیا ہو۔علامہ آمدیؒ لکھتے ہیں:
’’یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی عام ایسا نہیں ہے کہ جس کا کوئی مخصص نہ ہو سوائے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے کہ :اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘ (الاحکام فی أصول الأحکام‘جلد۲‘ ص۴۱۰)
جبکہ امام شوکانی ؒ نے ’ارشاد الفحول ‘ میں بعض علما کے حوالے سے قرآن کی صرف چارآیات ایسی بیان کی ہیں کہ جو کہ اپنے عموم پر باقی ہیں۔ تمام فقہائے مالکیہ ‘شافعیہ ‘حنابلہ اور احناف کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عام کی تخصیص کے بعد باقی افراد پر عام کی دلالت ظنی ہوتی ہے لہذاجمہور اور احناف کے مسلک میں فرق بالکل نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ استقرا سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ہر عام کا کوئی نہ کوئی مخصص ہے لہذا تخصیص کے بعد اس عام کی دلالت اپنے باقی افراد پر فقہائے أربعہ کے نزدیک ظنی ہوگی ۔اورعام کی تخصیص بعض اوقات عقل سے ہوتی ہے ‘بعض اوقات عرف و عادت سے ‘بعض ا وقات خودقرآن سے اور بعض اوقات سنت سے ہوتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اہل سنت میں سے کسی کا بھی یہ موقف نہیں ہے کہ قرآن کاہر ہر لفظ قطعی الدلالۃ ہے ۔ہاں اہل سنت میں اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ قرآن کے کتنے مقامات قطعی الدلالۃ ہیں اور کتنے ظنی الدلالۃ ہیں؟
ہمیں قطعی الدلالۃکا لغوی معنی آسان الفاظ میں سمجھ لیناچاہیے ۔ لفظ ’قطعی‘ کا مادہ ’قطع‘ ہے کہ جس کا معنی عربی زبان میں کاٹنا ‘جدا کرنا یا علیحدہ کرنا ہیں اور دلالت سے مراد کسی لفظ کا معنی یا مفہوم ہے لہذا کسی لفظ کے قطعی الدلالۃ ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس لفظ کا صرف ایک ہی معنی ہے اور اس لفظ کے دوسرے معانی لینے کے احتمالات ختم ہوچکے ہیں۔جیسا کہ ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ فقہائے اہل سنت کے نزدیک قرآن کا بعض حصہ قطعی الدلالۃ ہے اور بعض ظنی الدلالۃ ہے اور قرآن کے بعض الفاظ کو قطعی الدلالۃ کہنے سے ان کی مرادیہ ہوتی ہے کہ کوئی ایسی دلیل نہیں کہ جو ان الفاظ کے اپنے وضعی معنی پر دلالت میں مانع ہو۔اگر قرینہ صارفہ یا دلیل ہو تو سب علمائے اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن کے الفاظ قطعی الدلالۃ ہوں یا ظنی الدلالۃ‘ ان کو ان کے لغوی و وضعی معنی و مفہوم سے پھیرا جا سکتا ہے ‘ اور ان کے نزدیک وہ دلیل جو کہ قرآن کو اس کے قطعی الدلالۃمفہوم سے پھیر دے ‘عقل بھی ہوسکتی ہے اورحس و مشاہدہ بھی ‘عرف و عادت *بھی ہو سکتی ہے اوراجماع امت بھی ‘ حدیث نبوی بھی ہو سکتی ہے اور قول صحابی* بھی ‘اور خود نص قرآنی بھی ہو سکتی ہے ۔مثلا قرآن میں ملکہ سبا کے بارے میں ہے: ’وأوتیت من کل شیء‘ یعنی ملکہ سبا کو ہر چیز دی گئی تھی ‘اس آیت کا یہ مفہوم مشاہدے اور حس کے خلاف ہے لہذا اس آیت میں ’من کل شیء‘ سے مراد ہر چیز نہیں بلکہ وہ چیزیں مراد ہوں گی جو کہ عام طور پر بادشاہوں کے پاس ہوتی ہیں‘لہذا س آیت کی تخصیص بھی ہوگئی کیونکہ یہ اپنے عموم پر باقی نہ رہی اور اس کے مفہوم میں تبدیلی بھی ہو گئی کیونکہ ’من کل شیء‘ اپنے لغوی معنی پر برقرار نہ رہا‘اس طرح کی قرآن میں بیسیوں مثالیں ہیں جن کو طوالت کے خوف سے ہم بیان نہیں کر رہے۔ اہل سنت کا موقف بیان کرنے کے بعد اب ہم غامدی صاحب کا اس مسئلے میں نقطہ نظر بیان کر رہے ہیں۔
* قول صحابیؓ اور عادت سے قرآن کے عام کی تخصیص کے بارے میں اختلاف ہے‘احناف اور حنابلہ کے نزدیک قول صحابیؓ جبکہ احناف اور جمہورمالکیہ کے ہاں عادت سے قرآن کے عام کی تخصیص ہو سکتی ہے ۔

قرآن کی قطعیت کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف

غامدی صاحب کے نزدیک قرآن کا ہر ہر لفظ قطعی الدلالۃ ہے اور قرآن کو اس کے قطعی مفہوم سے پھیرنے کے لیے صرف خود قرآن ہی دلیل بن سکتا ہے ۔جناب غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یاجلی‘یہاں تک کہ خدا کا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے ‘اس کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص یا اس میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا۔دین میں ہر چیز کے ردو قبول کا فیصلہ اس کی آیاتِ بینات ہی کی روشنی میں ہو گا ۔ایمان وعقیدہ کی ہر بحث اس سے شروع ہو گی اور اسی پر ختم کر دی جائے گی۔ہر وحی ‘ہر الہام‘ہر القاء‘ہر تحقیق اور ہر رائے کو اس کے تابع قرار دیا جائے گااور اس کے بارے میں یہ حقیقت تسلیم کی جائے گی کہ بوحنیفہ و شافعی ‘بخاری و مسلم‘أشعری و ماتریدی اور جنید و شبلی ‘سب پر اس کی حکومت قائم ہے اور اس کے خلاف ان میں سے کسی کی کوئی بھی چیز قبول نہیں کی جاسکتی۔دوسری یہ کہ اس کے الفاظ کی دلالت اس کے مفہوم پر بالکل قطعی ہے ۔یہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے‘پوری قطعیت کے ساتھ کہتا ہے اور کسی معاملے میں بھی اپنا مدعا بیان کرنے سے ہر گز قاصر نہیں رہتا ۔اس کا مفہوم وہی ہے جو اس کے الفاظ قبول کرتے ہیں‘وہ نہ اس سے مختلف ہے نہ متبائن۔اس کے شہرستانِ معانی تک پہنچنے کا ایک ہی دروازہ ہے اور وہ اس کے الفاظ ہیں۔وہ اپنا مفہوم پوری قطعیت کے ساتھ واضح کرتے ہیں۔اس میں کسی ریب و گمان کے لیے ہر گز کوئی گنجائش نہیں ہوتی‘‘۔ (میزان:ص۲۳‘۲۴)
ایک اور جگہ جناب غامدی لکھتے ہیں :
’’حدیث سے قرآن کے نسخ اور اس کی تحدید و تخصیص کا یہ مسئلہ محض سوئے فہم اور قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے۔اس طرح کا کوئی نسخ یا تحدیدو تخصیص سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی کہ اس سے قرآن کی یہ حیثیت کہ وہ میزان وفرقان ہے ‘کسی لحاظ سے مشتبہ قرار پائے۔قرآن کے بعض اسالیب اور بعض آیات کا موقع و محل جب لوگ نہیں سمجھ پائے تو ان سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی صحیح نوعیت بھی ان پر واضح نہیں ہو سکی‘‘۔(میزان:ص۳۶)
غامدی صاحب کے نزدیک قرآنی الفاظ کے علاوہ اس کا عرف اور اس کا سیاق و سباق بھی اس کے کسی عام کی تخصیص یا تحدید کر سکتا ہے ۔غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’سوم یہ کہ اس کے عام و خاص میں امتیاز کیا جائے۔قرآن میں یہ اسلوب جگہ جگہ اختیار کیا گیا ہے کہ بظاہرا لفاظ عام ہیں‘لیکن سیاق سباق کی دلالت پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر دیتی ہے کہ ان سے مرادعام نہیں ہے۔ قرآن ’الناس‘ کہتا ہے لیکن ساری دنیا کا تو کیا ذکر ‘بارہا اس سے عرب کے سب لوگ بھی اس کے پیش نظر نہیں ہوتے۔و ہ ’علی الدین کلہ‘ کی تعبیر اختیار کرتا ہے ‘لیکن اس سے دنیا کے سب ادیان مراد نہیں لیتا۔ وہ ’المشرکون‘ کے الفاظ استعمال کرتا ہے ‘لیکن انھیں سب شرک کرنے والوں کے معنی میں استعمال نہیں کرتا۔ وہ ’و ان من أھل الکتاب‘ کے الفاظ لاتا ہے ‘لیکن اس سے پورے عالم کے اہل کتاب مراد نہیں ہوتے۔ وہ ’الانسان‘ کے لفظ سے اپنا مدعا بیان کرتا ہے ‘لیکن اس سے ساری اولاد آدم کا ذکر مقصود نہیں پوتا ۔یہ قرآن کا عام اسلوب ہے جس کی رعایت اگر ملحوظ نہ رہے تو قرآن کی شرح و وضاحت میں متکلم کامنشا بالکل باطل ہو کر رہ جاتا ہے اور بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے ‘لہذ اناگزیر ہے کہ اس معاملے میں قرآن کے عرف اور اس کے سیاق و سباق کی حکومت اس کے الفاظ پر ہر حال میں قائم رکھی جائے‘‘۔(میزان:ص۲۱‘۲۲)
جاوید احمد غامدی صاحب اس بات کو مانتے ہیں کہ سنت ان احکامات میں ایک مستقل مأخذ کی حیثیت رکھتی ہے جو کہ قرآن میں بیان نہیں ہوئے اور قرآن ان کے بارے میں خاموش ہے لیکن جو احکامات قرآن میں بیان ہو گئے ہیں ان کے بارے میں غامدی صاحب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ سنت ‘قرآن میں بیان شدہ احکامات کی صرف تبیین کر سکتی ہے نہ تو ان کی تخصیص کر سکتی ہے نہ ان پر اضافہ کر سکتی ہے اور نہ ان میں سے کسی حکم کو منسوخ یا تبدیل کر سکتی ہے۔ جناب غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’سنت قرآن مجید کے بعد دین کا دوسرا قطعی مأخذ ہے ۔ہمارے نزدیک یہ اصول ایک ناقابل انکار علمی حقیقت کی حیثیت رکھتا ہے ۔قرآن اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات و ہدایات قیامت تک کے لیے اسی طرح واجب الاطاعت ہیں ‘جس طرح خود قرآن واجب الاطاعت ہے۔آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے محض نامہ بر نہیں تھے کہ اس کی کتاب پہنچا دینے کے بعد آپ ؐ کا کام ختم ہو گیا ۔رسول کی حیثیت سے آپؐ کا ہر قول و فعل بجائے خود قانونی سند و حجت کی حیثیت رکھتا ہے ۔آپؐ کو یہ مرتبہ کسی ا مام و فقیہ نے نہیں دیا ہے ‘خود قرآن نے آپؐ کایہی مقام بیان کیا ہے ۔کوئی شخص جب تک صاف صاف قرآن کا انکار نہ کر دے ‘اس کے لیے سنت کی اس قانونی حیثیت کو چیلنج کرنا ممکن نہیں ہے ۔قرآن نے غیر مبہم الفاظ میں فرمایا ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں رسول کے ہر امر و نہی کی بہر حال بے چون و چرا تعمیل کی جانی چاہیے:
و ما ارسلنا من رسول الالیطاع باذن اللہ (النساء:۶۴)
’’اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘
سنت کے یہ اوامر و نواہی دو قسم کے معاملات سے متعلق ہو سکتے ہیں ۔ایک وہ جن میں قرآن مجید بالکل خاموش ہے اور اس نے صراحۃً یا کنایۃً کوئی بات نہیں فرمائی ہے ‘اور دوسرے وہ جن میں قرآن مجید نے نفیاً یا اثبا تاًکوئی حکم دیا ہویا کوئی اصول بیان فرما دیا ہے ۔پہلی قسم کے معاملات میں اگر سنت کے ذریعے کوئی حکم یا قاعدہ ہمیں پہنچے تو اس کے بارے میں کسی بحث و نزاع کا کوئی سوال نہیں ہے ۔اس طرح کے معاملات میں سنت بجائے خود مرجع و مأخذ کی حیثیت رکھتی ہے ‘ان معاملات میں ہمارا دائرہ عمل بس یہ ہے کہ ہم ان ذرائع کی تحقیق کریں ‘جن سے یہ احکام و قواعد ہمیں پہنچے ہیں ‘پھر ان کا مفہوم و منشا متعین کریں اور اس کے بعد بغیر کسی تردد کے ان پر عمل پیرا ہوں ۔رہے دوسری قسم کے معاملات ‘یعنی وہ جن میں قرآن مجید نے کوئی حکم یا قاعدہ بیان فرمایا ہے ‘تو ان کے بارے میں یہ بات بالکل قطعی ہے کہ سنت نہ قرآن مجید کے کسی حکم اور قاعدے کو منسوخ کر سکتی ہے ‘اور نہ اس میں کسی نوعیت کا تغیر و تبدل کر سکتی ہے۔سنت کو یہا ختیار قرآن مجیدنے نہیں دیا ہے اب کسی امام و فقیہ کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ بطور خودسنت کے لیے یہ اختیار ثابت کرنے کی کوشش کرے۔‘‘ (برہان:ص ۳۶‘ ۳۷)

غامدی صاحب کے نقطہ نظر کی غلطی

ہمارے نزدیک غامدی صاحب کا یہ موقف عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں غلط ہے اور اس کے غلط ہونے کی درج ذیل وجوہات ہیں:
۱) غامدی صاحب کا یہ موقف اجماع امت کے خلاف ہے‘ فقہائے محدثین‘ مالکیہ‘ حنابلہ‘ شافعیہ‘ا حناف‘ ظاہریہ اور اہل الحدیث کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سنت‘ قرآن کے کسی حکم کی تحدید وتخصیص یا اس میں کوئی ترمیم و تغیرکر سکتی ہے ۔ علامہ آمدی ؒ لکھتے ہیں:
یجوز تخصیص عموم القرآن بالسنۃ أما اذا کانت السنۃ متواترۃ‘ فلم أعرف فیہ خلافا...و أما اذا کانت السنۃ من أخبار الآحاد ‘ فمذھب الأئمۃ الأربعۃ جوازہ۔ (الاحکام فی أصول الأحکام‘ جلد۲‘ ص۴۷۲)
’’قرآن کے عموم کی سنت سے تخصیص جائز ہے ‘جہاں تک سنت متواترہ کا معاملہ ہے تو میرے علم کی حد تک اس بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے...جہاں تک اخبار آحاد کا معاملہ ہے تو أئمہ أربعہ کا موقف ہے کہ ان سے قرآن کی تخصیص جائز ہے ۔‘‘
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ احناف ‘خبر واحد سے قرآن کی تخصیص کے قائل نہیں ہیں‘یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ہم یہ بات پہلے بیان کر چکے ہیں کہ قرآن کا ایسا عام کہ جس کی تخصیص ہو چکی ہو وہ احناف کے نزدیک ظنی الدلالۃ ہوتاہے اور اس کی تخصیص ان کے ہاں خبر واحد سے جائز ہے۔اسی طرح ایسا عام کہ جس کی ابھی تک تخصیص نہ ہوئی ہو اس کی تخصیص بھی احناف کے ہاں خبر متواتر اور خبر مشہور سے جائز ہے او راحناف کی خبر مشہورجملہ أئمہ محدثین کے نزدیک خبر واحد ہی کی ایک قسم ہے لہذا علامہ آمدی ؒ کا یہ قول درست ہوا کہ أئمہ أربعہ‘اخبار آحاد سے قرآن کی تخصیص کے قائل ہیں۔علاوہ ازیں احناف جس خبر مشہور سے قرآن کی تخصیص کے قائل ہیں اس کی تعریف وہ یہ کرتے ہیں کہ وہ خیر القرون میں مشہور ہو۔امام ابن قیم ؒ نے ’اعلام الموقعین‘ میں ایسی بہت سی مثالیں جمع کر دی ہیں جو کہ احناف کی خبر مشہور کی تعریف پر پوری نہیں اترتی لیکن احناف پھر بھی ان کے ذریعے قرآن کے عام کی تخصیص کرتے ہیں۔لہذا عملاًیہی ہوا ہے کہ احناف نے اخبار آحاد سے قرآن کے عام کی تخصیص کی ہے لیکن انہوں نے اس کو خبر مشہور کا نام دے دیا‘حالانکہ جن اخبار آحاد سے وہ قرآن کے عام کی تخصیص کر رہے ہوتے ہیں وہ خیر القرون میں مشہور تو کیا‘بعض اوقات ضعیف اور موضوع درجے کی ہوتی ہیں۔اس لیے بات وہی صحیح ہے جو کہ علامہ آمدی ؒ نے کہی ہے کہ اخبار آحاد سے أئمہ اربعہ کے نزدیک قرآن کے عمومات کی تخصیص جائز ہے۔جبکہ اس کے برعکس غامدی صاحب‘خبر متواتر ہو یا احناف کی خبر مشہور‘خبر واحد ہو یا اجماع أمت ‘کسی سے بھی قرآن کے کسی حکم کی تخصیص کے قائل نہیں ہیں۔غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یاجلی‘یہاں تک کہ خدا کا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے ‘اس کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص یا اس میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا۔دین میں ہر چیز کے ردو قبول کا فیصلہ اس کی آیاتِ بینات ہی کی روشنی میں ہو گا‘‘۔(میزان:ص۲۳)
۲) غامدی صاحب کے نزدیک قرآن کے عام کی تخصیص اس کے سیاق و سباق سے جائز ہے۔ لکھتے ہیں:
’’سوم یہ کہ اس کے عام و خاص میں امتیاز کیا جائے۔قرآن میں یہ اسلوب جگہ جگہ اختیار کیا گیا ہے کہ بظاہرا لفاظ عام ہیں‘لیکن سیاق سباق کی دلالت پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر دیتی ہے کہ ان سے مرادعام نہیں ہے۔قرآن ’الناس‘ کہتا ہے لیکن ساری دنیا کا تو کیا ذکر ‘بارہا اس سے عرب کے سب لوگ بھی اس کے پیش نظر نہیں ہوتے۔و ہ ’علی الدین کلہ‘ کی تعبیر اختیار کرتا ہے ‘لیکن اس سے دنیا کے سب ادیان مراد نہیں لیتا ۔وہ’المشرکون‘ کے الفاظ استعمال کرتا ہے ‘لیکن انھیں سب شرک کرنے والوں کے معنی میں استعمال نہیں کرتا ‘... لہذاناگزیر ہے کہ اس معاملے میں قرآن کے عرف اور اس کے سیاق و سباق کی حکومت اس کے الفاظ پر ہر حال میں قائم رکھی جائے‘‘۔(میزان:ص۲۱‘۲۲)
غامدی صاحب جس کو قرآن کا عرف اور اس کا سیاق و سباق کہہ رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اس کی حیثیت ان کے ذاتی فہم سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔اس بات کو ہم ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔جناب غامدی صاحب سورۃ احزاب کی آیت ’یأیھا النبی قل لأزواجک وبناتک و نساء المؤمنین یدنین علیھن من جلابیبھن‘کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس آیت کا سیاق و سباق اس بات کی دلیل ہے کہ اس آیت میں چہرے کے پردے کاحکم ایک عارضی حکم تھا جو کہ صرف آپؐ کے زمانے کی عورتوں کے لیے تھا۔جناب غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’ان آیتوں میں ’أن یعرفن فلا یؤذین‘کے الفاظ اور ان کے سیاق و سباق سے بالکل واضح ہے کہ یہ کوئی مستقل حکم نہ تھا‘بلکہ ایک وقتی تدبیر تھی جو أوباشوں کے شر سے مسلمان عورتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اختیار کی گئی‘‘۔(قانون معاشرت )
جبکہ غامدی صاحب کے استاذ امام ‘امین احسن اصلاحی ؒ صاحب اسی آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’(ذٰلِکَ اَدْنٰی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ط)اس ٹکڑے سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ایک وقتی تدبیر تھی جو اشرار کے شر سے مسلمان خواتین کو محفوظ رکھنے کے لیے اختیار کی گئی اور اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔اوّل تو احکام جتنے بھی نازل ہوئے ہیں سب محرکات کے تحت ہی نازل ہوئے ہیں‘ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ محرکات نہ ہوں تو وہ احکام کالعدم ہو جائیں۔‘‘ (تدبر قرآن‘ امین احسن اصلاحی‘ جلد۶‘ ص ۲۷۰‘ فاران فاؤنڈیشن‘ لاہور)
مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کہ جنہوں نے ‘بقول غامدی صاحب‘ اُن کو قرآن کے سیاق و سباق اور نظمِ قرآن کی تعلیم دی ‘وہ ’ذٰلِکَ اَدْنٰی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ‘ یعنی قرآن کے سیاق و سباق کو بنیاد بنا کر یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کو عارضی اور تدبیری حکم سمجھنا غلط ہے۔اور اس کے لیے دلیل کے طور پر انہوں نے ایک اصول بیان کیا جس اصول کو نہ سمجھنے کی وجہ سے غامدی صاحب نے اپنے ایک درس کے دوران استاد امام کی شان میںیہ کلمات ارشاد فرمائے کہ ان سے بھی اس مسئلے میں غلطی ہوئی ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی ؒ نے یہ اُصول بیان کیا کہ ’’احکام جتنے بھی نازل ہوئے ہیں وہ محرکات کے تحت ہی نازل ہوئے ہیں ‘لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ محرکات نہ ہوں تو وہ احکام کالعدم ہو جائیں گے‘‘۔ یہاں استاذ امام اپنے تلمیذ رشید جاوید احمد غامدی صاحب کو جو اصول سمجھانا چاہتے ہیں اسے اصولیّین ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’العبرۃ لعموم اللفظ لا لخصوص السبب‘  کہ قرآن و سنت کی تشریح و تفسیر کرتے وقت اصل اعتبار الفاظ کے عموم کا ہو گا نہ کہ سببِ نزول کا۔
اسی طرح غامدی صاحب کے امام کے امام ‘مولاناحمید الدین فراہیؒ صاحب نے بھی یہ لکھا ہے کہ قرآن کے سیاق و سباق اور نظم سے چہرے کا پردہ ثابت ہوتا ہے۔جناب فراہیؒ صاحب لکھتے ہیں:
’’حجاب کے مسئلہ میں تفاسیر اور فقہ میں پوری توضیح موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہاتھ اور چہرہ کھلا رکھنا جائز ہے۔ میری رائے میں نظمِ قرآن پر توجہ نہ کرنے سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی ہے ۔ایسی قدیم غلطیوں کا کیا علاج کیا جائے۔ کون سنتا ہے کہانی میری‘ اور پھر وہ بھی زبانی میری۔ فقہاء اور مفسرین کا گروہ ہم زبان ہے مگر صحابہؓ اور تابعین زیادہ واقف تھے۔ انہوں نے ٹھیک سمجھا ہے مگر متأخرین حضرات نے ان کا کلام بھی نہیں سمجھا۔ بہرحال الحق أحق اَنْ یُتَّبع ۔ میں اس مسئلے پر مطمئن ہوں اور میرے نزدیک اجنبی سے پورا پردہ کرنا واجب ہے اور قرآن نے یہی حجاب واجب کیا ہے جو شرفاء میں مروّج ہے ‘بلکہ اس سے قدرے زائد۔ ذرا مجھے طاقت آئے تو مفصل مضمون آپ کی خدمت میں بھیجوں‘‘۔ (اشراق ‘ مئی ۱۹۹۲ء‘ ص ۶۰)
غامدی صاحب کے ہر دو استاذ امام صاحبان کے بقول عصر حاضر کی خواتین کے لیے بھی چہرے کا پردہ نص قرآنی اور نظم قرآنی سے ثابت ہے اور یہ کوئی عارضی یا تدبیری حکم نہ تھا جبکہ غامدی صاحب کے بقول قرآن کے سیاق و سباق کے مطابق چہرے کا پردے ایک عارضی و تدبیری حکم تھا۔اب یہ دو متضاد بیانات ہیں۔اگر قرآن و اقعی قطعی الدلالۃ ہے یا قرآن کا سیاق و سباق اس کے قطعی مفہوم کو متعین کرتا ہے تو ایک ہی جیسے اصول تفسیر کو ایک ہی نص پر منطبق کرنے کے نتیجے میں دو متضاد آراء کیسے حاصل ہو گئیں؟اگر تو غامدی صاحب کہیں کہ دونوں استاذ امام غلطی پر ہیں تو پھر قرآن قطعی تو ہوگا لیکن صرف غامدی صاحب کے لیے ‘نہ کہ اپنے جمیع مخاطبین کے لیے‘کیونکہ جو قرآن عصر حاضر کے دو اماموں کے لیے قطعی الدلالۃ نہ ہو سکا وہ عامۃ الناس کے لیے کیسے قطعی ہو سکتا ہے؟واقعہ یہ ہے کہ نظم قرآنی ہو یا قرآن کاسیاق و سباق ‘عرف قرآنی ہو یا عربی معلی‘یہ سب قرآن کی قرآن کے ذریعے تفسیر کے اصول نہیں ہیں بلکہ یہ قرآن کی غیر قرآن کے ذریعے تفسیرکے اصول ہے۔قرآن کا سیاق وسباق ‘اس کا عرف ‘اس کا نظم اور عربی معلی‘ یہ سب غیر قرآن ہیں اور ان میں سے پہلے تین تو مفسر کا ذاتی فہم ہوتے ہیں۔قرآن کے کتنے ہی مقامات ایسے ہیں کہ جن کی تفسیر میں غامدی صاحب نے اپنے استاذ امام سے اختلاف کیا تو اس اختلاف کے باوجود قرآن قطعی الدلالۃ کیسے ہو گیا؟ مثال کے طور پر میں غامدی صاحب کو کہتا ہوں کہ سورۃ نور کی آیت کا سیاق و سباق اور نظم اس بات کی دلیل ہے کہ یہ آیت گھر کے پردے کے پارے میں ہے جیسا کہ استاذ امام کی بھی یہی رائے ہے تو کیا غامدی صاحب میری اس رائے کو مان لیں گے ؟۔ہر گز نہیں‘تو کیا اس پر مجھے یہ کہنا چاہیے کہ غامدی صاحب نے قرآن کا انکار کر دیا ‘ہر گز نہیں ‘میں نے قرآن کے عرف یا اس کے سیاق و سباق یا نظم سے جو کچھ سمجھا ہے وہ صرف میری ایک رائے ہے وہ قرآن نہیں ہے ‘اس لیے مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں اپنی رائے کو قرآن کا نام دے کر اس کو دوسروں پر مسلط کروں۔لہذاغامدی صاحب قرآن کے سیاق و سباق اور عرف کا نام لے کر اپنے ذاتی فہم سے قرآن کے عام کی تخصیص کر رہے ہوتے ہیں۔جب غامدی صاحب کے فہم سے قرآن کے کسی حکم کی تخصیص و تحدید جائز ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فہم سے کیوں نہیں ہو سکتی؟ ’ما لکم کیف تحکمون؟' 
۳) غامدی صاحب کے موقف’قرآن قطعی الدلالۃ ہے‘ کا بدیہی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن کی تفسیر میں اختلاف نہیں ہونا چاہیے ۔جب قرآن قطعی الدلالۃ ہے تو اس کی تفسیر میں اختلاف کیوں؟ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ ہو ں یا تابعین عظامؒ ‘جلیل القدر مفسرین ہوں یا أئمہ مجتہدین ‘یہ سب حضرات قرآن کی تفسیر میں اختلاف کرتے ہیں ‘اگرچہ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ متأخرین کی نسبت متقدمین میں تفسیر کا یہ اختلاف بہت کم ہوا ہے اور جو کچھ ہوا بھی ہے اس میں اکثر و بیشتر اختلاف تنوع کاہے ‘لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ متقدمین اور سلف صالحین میں بھی قرآن کی تفسیر میں اختلاف تضاد بھی واقع ہوا ہے اس کی سادہ سی مثال قرآن کی آیت ’و المطلقت یتربصن بأنفسھن ثلثۃ قروء‘ ہے۔امام شافعیؒ کے نزدیک اس آیت میں ’قروء‘ سے مراد ’طھر‘ ہے جبکہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اس آیت میں ’قروء‘ سے مراد ’حیض‘ ہے ۔اور ہر دوفقہ کے حاملین کی طرف سے فقہ و اصول فقہ کی کتب اپنے موقف کے اثبات کے لیے دلائل کے انبار سے بھری پڑی ہیں۔ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہر بعد میں آنے والا مفسر اپنے پہلے مفسر سے اختلاف کرتا ہے‘اگر قرآن قطعی الدلالۃ ہے تو صحابہؓ و تابعینؒ ‘امام ابو حنیفہؒ وامام شافعیؒ ‘ امام رازی ؒ و علامہ زمخشریؒ ‘امام طبری ؒ و امام قرطبیؒ ‘مولاناامین احسن اصلاحی ؒ اور جاوید احمد غامدی کاقرآن کی تفسیر میںآپس میں اختلاف کیوں ہوا ؟ صحابہ کرا مؓ ‘تابعین عظامؒ ‘أئمہ أربعہ ؒ ‘طبری ؒ و زمخشریؒ ‘قرطبیؒ و رازیؒ وغیرہ کے بارے میں شاید غامدی صاحب یہ کہیں کہ وہ عربی معلی سے واقف نہیں تھے یا ان پر نظم قرآنی کے ذریعے تفسیر کے وہ نادر اصول ابھی تک منکشف نہیں ہوئے تھے کہ جن کی دریافت پرغامدی صاحب نے نولانافراہی ؒ و اصلاحیؒ کو امام کے لقب سے نواز الیکن خود مولانا فراہیؒ اور مولانا اصلاحی ؒ کے ساتھ غامدی صاحب کے تفسیر کے جو اختلافات ہوئے ان کے بارے میں وہ کیا کہیں گے؟
قرآن قطعی الدلالۃ کا اگر یہ مفہوم لیا جائے کہ قرآن اللہ کے نزدیک قطعی الدلالۃ ہے تو ہمیں اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ ہر کلام اپنے متکلم کے نزدیک قطعی الدلالۃ ہوتا ہے لیکن مسئلہ تو جمیع مخاطبین کا ہے ‘اپنے جمیع مخاطبین کے اعتبار سے قرآن کے بعض مقامات قطعی الدلالۃ ہیں اور بعض مقامات ظنی الدلالۃ ہیں۔ہم یہ بات پہلے کر چکے ہیں کہ قرآن میں لفظِ خاص قطعی الدلالۃ ہے اسی طرح قرآن کے وہ مقامات بھی قطعی الدلالۃ ہیں کہ جن کی تفسیر پر علماء کا اتفاق ہوسوائے اس شخص کے اختلاف کے کہ جس کا اختلاف معتبر نہ ہو۔اس حد تک تو کہا جا سکتا ہے کہ ایک ‘دو ‘تین یا چار مفسرین کو غلطی لگی ہے اور قرآن قطعی الدلالۃ ہے لیکن یہ کہنا کہ چودہ صدیوں میں کسی صحابیؓ‘تابعیؒ ‘ امام‘ مجتہد‘ فقیہ ‘ مفسر ‘محدث‘ یاعالم کو قرآن سمجھ ہی نہیں آیا اور پہلی دفعہ غامدی صاحب کو سمجھ میں آیا ہے کہ ’کلالۃ‘ کا معنی کیا ہے؟اگر قرآن قطعی الدلالۃ ہے تو اس کو سمجھنے میں ایک فرد تو غلطی کر سکتا ہے لیکن ہزاروں صحابہؓ‘تابعینؒ ‘علمااورفقہا غلطی نہیں کر سکتے۔ یا تو غامدی صاحب قرآن کو قطعی الدلالۃ نہ کہیںیا پھر فرد واحد(یعنی اپنی) کی غلطی مانیں اور علما و فقہا کے موقف کی تائید کریں۔ غامدی صاحب قانون وراثت بیان کرتے ہوئے ’کلالۃ‘ کے بارے میں عربی زبان و اسلوب کے مطابق تین مفاہیم بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’جہاں تک پہلے معنی کا تعلق ہے ‘فقہا نے اگرچہ یہاں بالاتفاق وہی مراد لیے ہیں ‘لیکن آیت ہی میں دلیل موجود ہے کہ یہ معنی یہاں مراد لینا کسی طرح ممکن نہیں ہے‘‘(میزان:ص۱۷۶)
غامدی صاحب کے بقول ایک فقہا نے بالاتفاق قرآن کے لفظ ’کلالۃ‘ کا جو معنی سمجھا ہے وہ غلط ہے اور جو غامدی صاحب کو سمجھ آیا ہے وہ درست ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا صحابہؓ ‘ تابعین ؒ اور فقہا قرآن کی تفسیر کرتے وقت آنکھیں بند کرلیتے تھے کہ وہ کسی آیت کی ایسی تفسیر‘ جو کہ قرآن کی اسی آیت ہی کے خلاف ہو نہ صرف بیان کر دیتے تھے بلکہ اس پر سب اتفاق بھی کر لیتے تھے۔اگر سب کو غلط سمجھ آیاتو قرآن کے قطعی الدلالۃہونے کا کیا معنی ہے؟کیا صرف غامدی صاحب کے لیے قرآن قطعی ہے؟
(جاری)

غامدی صاحب کے تصور ’کتاب‘ پر اعتراضات کا جائزہ

سید منظور الحسن

ماہنامہ ’’ الشریعہ‘‘ کے مئی ۲۰۰۶ کے شمارے میں جناب حافظ محمد زبیرکا مضمون ’’علامہ جاوید احمد غامدی کا تصور کتاب ‘‘شائع ہواتھاجو اب ان کی کتاب ’’فکر غامدی ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ‘‘ کا حصہ ہے۔ اس مضمون میں فاضل ناقد نے یہ مقدمہ قائم کیا ہے کہ جناب جاوید احمد غامدی قدیم آسمانی صحائف کودین وشریعت کا ماخذ قرار دیتے ہیں۔ہمارے نزدیک یہ مقدمہ صریح طور پر غلط ہے۔ غامدی صاحب کی تصانیف میں اس کے اثبات کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے اور اس ضمن میں فاضل ناقد کے جملہ اعتراضات سر تا سر سوے فہم پر مبنی ہیں۔ذیل میں غامدی صاحب کے تصور کتاب کے حوالے سے بعض اصولی مباحث کی تقدیم کے ساتھ فاضل ناقد کے ان اعتراضات کا جائزہ لیا گیاہے۔

قدیم صحائف کی صحت، استناد اور استفادہ کا دائرہ کار

دین میں قدیم آسمانی صحائف کا جو بھی مقام متعین کیا جائے، پہلا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ کیا ان صحائف کے متن محفوظ ہیں اور لائق استناد ہیںیا تحریف شدہ ہیں اور اس بنا پر اس قابل نہیں ہیں کہ ان سے رجوع کیا جائے؟اس مسئلے کے بارے میں علما کے ہاں تین مختلف آرا پائی جاتی ہیں ۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ اصلاً محفوظ ہیں اور جہاں تک تحریف کا تعلق ہے تووہ ان کے متن میں نہیں ، بلکہ ان کی تعبیر و تشریح میں ہوئی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اپنے متن کے لحاظ سے یہ وہ کتابیں ہی نہیں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے ان کے حامل پیغمبروں پر نازل کیا تھا۔ان کا بیش تر حصہ یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ تیسری رائے ان کے بین بین یہ ہے کہ ان میں کچھ ترمیم و اضافہ تو ضرور ہوا ہے، مگر ان کا زیادہ تر حصہ اپنی اصل صورت ہی پر قائم ہے۔ 
متعدد علماے امت بعض جزوی اختلافات کے ساتھ اسی تیسری رائے کے قائل ہیں اور امام ابن قیم نے اپنے اور اپنے استاذ امام ابن تیمیہ کے حوالے سے تورات کے بارے میں یہی رائے نقل کی ہے۔ ’اغاثۃ اللہفان‘ میں لکھتے ہیں:
’’اس (تیسرے) قول کو اختیار کرنے والوں میں ہمارے استاذ (امام ابن تیمیہ)بھی شامل ہیں جنھوں نے ’الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح‘ میں یہ بات کہی ہے۔ ... اور حق بات یہ ہے کہ یہی رائے سب سے بڑھ کر پیروی کرنے کے لائق ہے، اس لیے نہ ہم ان غلو کرنے والوں کے پیچھے چلتے ہیں جو تورات کا مذاق اڑاتے ہیں، بلکہ ہم اس طرز عمل سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ، او رنہ ہم یہ کہتے ہیں کہ تورات، قرآن مجید کی طرح حرف بحرف اسی طرح موجود ہے جیسا کہ اس کو نازل کیا گیا تھا۔‘‘ 
مولانا مودودی بیان کرتے ہیں:
’’تورات ان منتشر اجزاکا نام ہے ، جو سیرت موسیٰ علیہ السلام کے اندر بکھرے ہوئے ہیں۔...قرآن انھیں منتشر اجزا کو ’’تورات‘‘ کہتا ہے، اور انھیں کی وہ تصدیق کرتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان اجزا کو جمع کرکے جب قرآن سے ان کا مقابلہ کیا جاتا ہے، تو بجز اس کے کہ بعض بعض مقامات پر جزوی احکام میں اختلاف ہے، اصولی تعلیمات میں دونوں کتابوں کے درمیان یک سرموفوق نہیں پایا جاتا۔ آج بھی ایک ناظر صریح طور پر محسوس کر سکتا ہے کہ یہ دونوں چشمے ایک ہی مبلغ سے نکلے ہوئے ہیں۔
اسی طرح انجیل دراصل نام ہے ان الہامی خطبات اور اقوال کا، جو مسیح علیہ السلام نے اپنی زندگی کے آخری ڈھائی تین برس میں بحیثیت نبی ارشاد فرمائے۔ ... قرآن انھیں اجزا کے مجموعے کو ’’انجیل‘‘ کہتا ہے اور انھیں کی وہ تصدیق کرتا ہے۔ آج کوئی شخص ان بکھرے ہوئے اجزا کو مرتب کرکے قرآن سے ان کا مقابلہ کرکے دیکھے، تو وہ دونوں میں بہت ہی کم فرق پائے گا اور جو تھوڑا بہت فرق محسوس ہو گا، وہ بھی غیر متعصبانہ غوروتامل کے بعد بآسانی حل کیا جا سکے گا۔‘‘ (تفہیم القرآن ۱/۲۳۲)
کم و بیش یہی موقف ہے جو اس ضمن میں جناب جاوید احمد غامدی نے اختیار کیا ہے۔ ان کے نزددیک قدیم آسمانی کتابیں اللہ کی کتابیں ہیں جواپنے اپنے زمانوں میں انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کی گئی تھیں۔ ان کا سرچشمہ وہی ہے جو قرآن مجید کا ہے ۔چنانچہ قرآن مجید ان پر بالاجمال ایمان لانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ان کے مختلف حاملین نے مذہبی تعصبات کی بنا پراگرچہ ان کے بعض اجزا ضائع کر دیے ہیں اور بعض میں تحریف کر دی ہے، اس کے باوجود ان میں الہامی شان نمایاں طور پر نظر آتی ہے اور الہامی لٹریچر کے اسالیب کو جاننے والے اس سے بخوبی آگاہ ہو سکتے ہیں۔جناب جاوید احمد غامدی نے ان صحائف کے بارے میں یہ موقف اپنی تصنیف ’’ایمانیات‘‘ میں ’’کتابوں پر ایمان‘‘ کے زیر عنوان بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں: 
’’اس وقت جو مجموعۂ صحائف بائیبل کے نام سے موجود ہے، اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتابیں کسی نہ کسی صورت میں تمام پیغمبروں کو دی گئیں۔ قرآن جس طرح تورات و انجیل کا ذکر کرتا ہے، اسی طرح صحف ابراہیم کا ذکر بھی کرتا ہے۔اس کی تائید بقرہ و حدید کی ان آیتوں سے بھی ہوتی ہے جو اوپر نقل ہوئی ہیں۔ یہ سب کتابیں خدا کی کتابیں ہیں۔ چنانچہ بغیر کسی تفریق کے قرآن بالاجمال ان پر ایمان کا مطالبہ کرتا ہے۔... 
... (تورات) موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ ..... اپنی موجودہ صورت میں غالباً یہ پانچویں صدی قبل مسیح میں کسی وقت مرتب کی گئی۔ تاہم سیدنا مسیح علیہ السلام نے جس طرح اس کا ذکر کیا ہے، اس کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ ان کی تصویب بھی اس کو کسی حد تک حاصل ہے۔ 
انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی جو ہدایت بنی آدم کو ملی ہے، اس کے دو حصے ہیں: ایک قانون، دوسرے حکمت۔ تورات میں زیادہ تر قانون بیان ہوا ہے اور اس کا نام بھی اسی رعایت سے رکھا گیا ہے۔ قرآن اسے ’ھُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ‘ (بنی اسرائیل کے لیے ہدایت) اور ’تَفْصِیْلًا لِّکُلِّ شَیْءٍ‘ (ہر چیز کی تفصیل) کہتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ اس میں اللہ کا حکم ہے، ہدایت اور روشنی ہے، لوگوں کے لیے رحمت ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ وہ اس میں یہود کی تحریفات کا ذکر کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی جو روایت (version) زمانۂ رسالت کے یہود و نصاریٰ کے پاس تھی، قرآن فی الجملہ اس کی تصدیق کرتا ہے۔
(زبور) اس کتاب کا نام ہے جو داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ اپنے مضمون کے لحاظ سے یہ نغمات الٰہی کا مجموعہ ہے جنھیں مزامیر کہا جاتا ہے۔ بائیبل کے مجموعۂ صحائف میں زبور کے نام سے جو کتاب اس وقت شامل ہے، اس میں ۵ دیوان اور ۱۵۰ مزامیر ہیں۔ دوسرے لوگوں کے مزامیر بھی اگرچہ اس میں خلط ملط ہو گئے ہیں، مگر جن مزامیر پر صراحت کی گئی ہے کہ داؤد علیہ السلام کے ہیں، ان میں الہامی کلام کی شان ہر صاحب ذوق محسوس کر سکتا ہے۔ انجیل کی طرح یہ بھی ایک صحیفۂ حکمت ہے اور خدا کی نازل کردہ ایک کتاب کی حیثیت سے قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے۔
(انجیل) مسیح علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ ....یہ کوئی مرتب کتاب نہیں، بلکہ منتشر خطبات تھے جو زبانی روایتوں اور تحریری یاد داشتوں کے ذریعے سے لوگوں تک پہنچے۔ مسیح علیہ السلام کی سیرت پر ایک مدت کے بعد بعض لوگوں نے رسائل لکھنا شروع کیے تو ان میں یہ خطبات حسب موقع درج کر دیے گئے۔ یہی رسائل ہیں جنھیں اب انجیل کہا جاتا ہے۔ ..... سیدنا مسیح کے جو خطبات، ارشادات اور تمثیلیں ان میں درج ہیں، ان کی الہامی شان ایسی نمایاں ہے کہ الہامی لٹریچر کے اسالیب سے واقف کوئی شخص ان کا انکار نہیں کر سکتا۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن جس انجیل پر ایمان لانے کامطالبہ کرتا ہے، اس کا ایک بڑا حصہ سیرت کی ان کتابوں میں محفوظ ہے۔‘‘ (اشراق، جون ۲۰۰۷،۱۸)
قدیم صحائف کے بارے میں دوسری بحث اس سوال پر مبنی ہے کہ یہ صحف سماوی جن پر قرآن نے ایمان لانے کا مطالبہ کیاہے، کیا انھیں دین کے مآخذ کی حیثیت بھی حاصل ہے ؟علماے امت نے اس کا جواب نفی میں دیا ہے۔ جناب جاوید احمد غامدی کا موقف بھی یہی ہے۔ان کے نزدیک ان صحائف کو دین کے مآخذ کی حیثیت ہر گزحاصل نہیں ہے۔ ان کا موقف یہ ہے یہ حیثیت فقط نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو حاصل ہے اور ان سے امت کو یہ دین دو صورتوں میں ملا ہے: ایک قرآن اور دوسرے سنت۔چنانچہ کرۂ ارض پر یہی دو چیزیں ہیں جن سے دین اخذ کیا جا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ کسی اور چیز کو دین کا ماخذ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ انھوں نے بیان کیا ہے:
’’دین کا تنہا ماخذ اس زمین پر اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔ یہ صرف انھی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کو ان کے پروردگار کی ہدایت میسر ہو سکتی اور یہ صرف انھی کا مقام ہے کہ اپنے قول و فعل اور تقریر و تصویب سے وہ جس چیز کو دین قرار دیں، وہی اب رہتی دنیا تک دین حق قرار پائے۔ ......
یہی قانون و حکمت وہ دین حق ہے جسے ’’اسلام‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اس کے ماخذ کی تفصیل ہم اس طرح کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے : 
۱۔ قرآن مجید 
۲ ۔سنت ‘‘ (اصول و مبادی ۹)
قدیم صحائف کے بارے میں تیسری بحث یہ ہے کہ اگر ان صحائف کو مآخذ دین کی حیثیت حاصل نہیں ہے تو پھر علوم اسلامی کے حوالے سے کیا ان کی کوئی ضرورت اور اہمیت موجود ہے اور اگر ہے تو ان سے اخذ و استفادے کا کیا دائرہ ہے؟ اس باب میں جناب جاوید احمد غامدی کا موقف یہ ہے کہ فہم قرآن کے ایک ذریعے کی حیثیت سے قدیم آسمانی کتابوں کی اہمیت غیرمعمولی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک قرآن مجید دین کی پہلی نہیں ، بلکہ آخری کتاب ہے اور تاریخی اعتبار سے دین کا آغاز ان بنیادی حقائق سے ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے روز اول سے انسان کی فطرت میں ودیعت کر رکھے ہیں ۔ اس کے بعد وہ شرعی احکام ہیں جو وقتاً فوقتاً انبیا کی سنت کی حیثیت سے جاری ہوئے اور بالآخر سنت ابراہیمی کے عنوان سے بالکل متعین ہو گئے۔ پھر تورات ، زبور اور انجیل کی صورت میں آسمانی کتابیں ہیں جن میں ضرورت کے لحاظ سے شریعت اور حکمت کے مختلف پہلووں کو نمایاں کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے اور قرآن مجید نازل ہوا ہے۔ چنانچہ اس تناظر میں فہم قرآن کے ایک معاون ذریعے کی حیثیت سے سابقہ کتب سماوی کی اہمیت مسلم ہے۔ اس سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے لکھا ہے:
’’ ان (صحائف) کے بدقسمت حاملین نے ان کا ایک حصہ اگرچہ ضائع کر دیا ہے اور ان میں بہت کچھ تحریفات بھی کر دی ہیں ،لیکن اس کے باوجود اللہ کی نازل کردہ حکمت اور شریعت کا ایک بڑا خزانہ اللہ تعالیٰ کے خاص اسالیب بیان میں اب بھی ان میں دیکھ لیا جا سکتا ہے۔ قرآن کے طالب علم جانتے ہیں کہ اس نے جگہ جگہ ان کے حوالے دیے ہیں ،نبیوں کی جو سرگزشتیں ان میں بیان ہوئی ہیں، ان کی طرف بالاجمال اشارے کیے ہیں اوران میں یہودونصاریٰ کی تحریفات کی تردید اور ان کی پیش کردہ تاریخ پر تنقید کی ہے، اہل کتاب پر قرآن کا سارا اتمام حجت انھی صحائف پر مبنی ہے اور وہ صاف اعلان کرتا ہے کہ اس کا سرچشمہ وہی ہے جو ان صحیفوں کا ہے۔‘‘ (اصول و مبادی ۵۶)
تاہم، غامدی صاحب کے نزدیک فہم قرآن کے ایک معاون ذریعے کی حیثیت سے بھی ان صحائف سے اخذ و استفادے کا دائرہ یہود و نصاریٰ کی تاریخ، انبیاے بنی اسرائیل کی سرگزشتوں اور اس طرح کے دوسرے موضوعات تک محدود ہے۔چنانچہ ان کا اصرار ہے کہ قرآن مجید کے ان مقامات کی شرح و تفسیر کے لیے جن میں بنی اسرائیل کے انبیا کی سرگزشتیں بیان ہوئی ہیں یا یہود و نصاریٰ کی تاریخ کے بعض واقعات کی طرف اشارہ کیا گیاہے، ان روایتوں کو بنیاد نہیں بنانا چاہیے جو اسرائیلیات کے عنوان سے تفسیر کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔ ان کے بجائے قدیم صحائف ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو بہرحال اسرائیلیات سے زیادہ مستند ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’الہامی لٹریچر کے خاص اسالیب ،یہود و نصاریٰ کی تاریخ ،انبیاے بنی اسرائیل کی سرگزشتوں اور اس طرح کے دوسرے موضوعات سے متعلق قرآن کے اسالیب و اشارات کو سمجھنے اور اس کے اجمال کی تفصیل کے لیے قدیم صحیفے ہی اصل ماخذ ہوں گے ۔بحث و تنقید کی ساری بنیاد انھی پر رکھی جائے گی ۔ اس باب میں جو روایتیں تفسیر کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں اور زیادہ تر سنی سنائی باتوں پر مبنی ہیں ، انھیں ہرگز قابل التفات نہ سمجھا جائے گا ۔ ان موضوعات پر جو روشنی قدیم صحیفوں سے حاصل ہوتی ہے اور قرآن کے الفاظ جس طرح ان کی تفصیلات کو قبول کرتے یا ان میں بیان کردہ کسی چیز سے متعلق اصل حقائق کو واضح کرتے ہیں، اس کا بدل یہ روایتیں ہرگز نہیں ہو سکتیں جن سے نہ قرآن کے کسی طالب علم کے دل میں کوئی اطمینان پیدا ہوتا ہے اور نہ اہل کتاب ہی پر وہ کسی پہلو سے حجت قرار پا سکتی ہیں۔‘‘  (اصول و مبادی، ۵۰)
درج بالا مباحث سے واضح ہے کہ غامدی صاحب قدیم صحائف کو من جانب اللہ تصور کرتے ہیں۔ وہ ان میں جزوی طور پر تحریف اور ترمیم و اضافہ کے قائل ہیں،تاہم ان کے نزدیک قرآن کے ان مقامات کی شرح و تفسیر میں ، جن میں بنی اسرائیل کی تاریخ کا کوئی پہلو بیان ہوا ہے، اصل ماخذ کی حیثیت اسرائیلیات کو نہیں، بلکہ انھی صحائف کو حاصل ہے۔ چنانچہ ان کی رائے کے مطابق خاص اس ضمن میں اگر قرآن کے کسی اجمال کی تفصیل ان صحائف سے معلوم ہو تی ہے تو اس سے پوری طرح استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ اخذ استفادہ کیا مجرد ہو گایا قرآن مجید کی روشنی میں ہو گا۔ جناب جاوید احمد غامدی اس کاجواب یہ دیتے ہیں کہ لازماً قرآن مجید کی روشنی میں ہوگا۔ قرآن کی کوئی آیت یا اس کا عرف اگر قدیم صحائف کے کسی جز کو قبول کرنے سے انکار کرے گا تو اس سے ہر گز اعتنا نہیں برتا جائے گا۔ان کے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن مجید حق و باطل کے لیے میزان اور فرقان ہے اور تمام آسمانی صحیفوں پر اسے ’مہیمن‘ یعنی محافظ اورر نگران کی حیثیت حاصل ہے۔ انھوں نے لکھا ہے:
’’ قرآن مجید اس زمین پر حق و باطل کے لیے ’میزان ‘اور ’فرقان ‘اور تمام سلسلۂ وحی پر ایک ’مہیمن‘ کی حیثیت سے نازل ہوا ہے:....
...اسی مفہوم کے لیے لفظ ’مھیمن ‘ استعمال ہوا ہے ۔یہ ’ھیمن فلان علی کذا‘ سے بنا ہوا اسم صفت ہے جو محافظ اور نگران کے معنی میں آتا ہے ۔ آیت میں قرآن مجید کو پچھلے صحیفوں پر ’مھیمن‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کتاب الٰہی کا اصل قابل اعتماد نسخہ یہ قرآن مجید ہی ہے۔ چنانچہ دوسرے صحیفوں کے متن جب گم کر دیے گئے اور ان کے تراجم میں بھی بہت کچھ تحریفات کر دی گئی ہیں تو ان کے حق و باطل میں امتیاز کے لیے یہی کسوٹی اور معیار ہے ۔جو بات اس پر کھری ثابت ہو گی ، وہ کھری ہے اور جو اس پر کھری ثابت نہ ہو سکے ، وہ یقیناًکھوٹی ہے جسے لازماً رد ہو جانا چاہیے۔‘‘ (اصول و مبادی ۲۵)
غامدی صاحب کے نزدیک قرآن مجید کی یہ حاکمیت صرف قدیم صحائف ہی پرنہیں، بلکہ ہر قسم کے دینی لٹریچر اور ہر سطح کی دینی شخصیت پر قائم ہے اور اس کے خلاف ان میں سے کسی کی بھی کوئی بات قبول نہیں کی جا سکتی۔ لکھتے ہیں:
’’...قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی ، یہاں تک کہ خدا کا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے، اس کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص یا اس میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا ۔ دین میں ہر چیز کے ردو قبول کا فیصلہ اس کی آیات بینات ہی کی روشنی میں ہو گا۔ ایمان و عقیدہ کی ہر بحث اس سے شروع ہو گی اور اسی پر ختم کر دی جائے گی۔ ہر وحی ، ہر الہام ، ہر القا، ہر تحقیق اور ہر رائے کو اس کے تابع قرار دیا جائے گا اور اس کے بارے میں یہ حقیقت تسلیم کی جائے گی کہ بو حنیفہ و شافعی ،بخاری و مسلم، اشعری و ماتریدی اور جنید و شبلی، سب پر اس کی حکومت قائم ہے اور اس کے خلاف ان میں سے کسی کی کوئی چیز بھی قبول نہیں کی جا سکتی ۔ ‘‘(اصول و مبادی)
اس تفصیل سے یہ بات پوری طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک قدیم صحائف کو ماخذ دین کی حیثیت ہرگزحاصل نہیں ہے ۔ البتہ، فہم قرآن کی شرح و ضاحت کے لیے ایک معاون ذریعے کے طور پروہ ان کی اہمیت کو بہرحال تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم اس اہمیت کے باوجود وہ ان سے اخذ و استفادہ کرتے ہوئے دو چیزوں کے ملحوظ رکھنے کو لازم قرار دیتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا دائرہ اصلاً یہود و نصاریٰ کی تاریخ اور اس کے متعلقات تک محدود رہے اور دوسری یہ کہ ان کی ہر بات کو قرآن کی میزان میں تولا جائے اور صرف اسی بات کو قبول کیا جائے جسے قرآن قبول کرنے کی اجازت دے ۔جہاں تک ایمانیات اور شریعت کے مباحث کا تعلق ہے تو ان کی رائے یہ ہے کہ اس ضمن میں اخذ و استنباط کا تمام تر انحصار قرآن وسنت پر کرنا چاہیے۔ 

اعتراضات کا جائزہ

فاضل ناقد نے اپنے مضمون میں ’’اصول و مبادی‘‘ کا اقتباس نقل کر کے یہ تسلیم کیا ہے کہ غامدی صاحب احکام و عقائد کے لیے قدیم صحائف کو مآخذ قرار نہیں دیتے۔ انھوں نے لکھا ہے:
’’غامدی صاحب ’میزان‘ میں ایک جگہ تدبر قرآن کے اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’سوم یہ کہ الہامی لٹریچر کے خاص اسالیب ،یہود و نصاریٰ کی تاریخ ،انبیاے بنی اسرائیل کی سرگزشتوں اور اس طرح کے دوسرے موضوعات سے متعلق قرآن کے اسالیب و اشارات کو سمجھنے اور اس کے اجمال کی تفصیل کے لیے قدیم صحیفے ہی اصل ماخذ ہوں گے۔‘‘
اس عبارت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک قدیم صحائف کویہود و نصاریٰ کے اخبار و واقعات اور قصص وتاریخ سے متعلقہ قرآنی آیات کو سمجھنے کے لیے مآخذ بنایا جائے گا نہ کہ احکام و عقائد کے لیے۔‘‘  (فکر غامدی۶۹)
فاضل ناقد نے یہ بات تسلیم کرنے کے باوجوداس کے بالکل برعکس یہ نقطۂ نظر قائم کیا ہے کہ غامدی صاحب کتب سماویہ کو دین اور شریعت کا ماخذ قرار دیتے ہیں۔لکھتے ہیں:
’’ان کے مآخذ دین میں منسوخ شدہ آسمانی کتابیں تورات و انجیل وغیرہ بھی شامل ہیں۔...ان کے نزدیک سابقہ شرائع کے اکثر و بیشتر احکامات اب بھی دین اسلام میں قانون سازی کا ایک بہت بڑا ماخذ ہیں۔ ‘‘ (فکر غامدی۶۰) 
زیر نظر مضمون میں فاضل ناقد کے اعتراضات بنیادی طور پراس مقدمے پر مشتمل ہیں کہ غامدی صاحب بائیبل کو مآخذ دین میں شمار کرتے اور قرآن وسنت کی طرح اس سے بھی دین و شریعت کے احکام اخذ کرتے ہیں۔اس مقدمے کے حوالے سے فاضل ناقد نے بعض دلائل پیش کیے ہیں۔ اگرچہ تمہیدی مباحث میں یہ بات ہر لحاظ سے فیصل ہو گئی ہے کہ غامدی صاحب پر اس الزام کی کوئی حقیقت نہیں ہے کہ وہ بائیبل کو دین کا ماخذ قرار دیتے ہیں، لیکن فاضل ناقد کے پیش کردہ نکات چونکہ بعض پہلووں سے خلط مبحث کا باعث ہو سکتے ہیں، اس لیے ان کے بارے میں ضروری توضیحات ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں۔ 
۱۔ فاضل ناقد نے ایک دلیل یہ پیش کی ہے کہ غامدی صاحب اور ان کے استاذ مولانا امین احسن اصلاحی کے نزدیک ’ذٰلک الکتاب لا ریب فیہ‘ میں ’کتاب‘ سے مرادصرف قرآن نہیں، بلکہ تمام الہامی صحائف ہیں اور یہ کہ ان کے نزدیک قرآن مجید کتاب الٰہی کا ایک حصہ ہے،مکمل کتاب نہیں ہے۔ اس کے لیے انھوں نے مولانا اصلاحی کی تفسیر’ ’ تدبر قرآن‘‘ اور غامدی صاحب کی تفسیر ’’ البیان‘‘ میں’ذٰلک الکتٰب لا ریب فیہ‘ کے تحت تفسیری حواشی کا حوالہ دیا ہے۔ (فکر غامدی۵۹)
فاضل ناقد کی یہ بات بالکل غلط ہے۔ ’ذٰلک الکتٰب لا ریب فیہ‘ میں ’الکتاب‘ کا مصداق مولانا امین احسن اصلاحی اور جناب جاوید احمد غامدی، دونوں کے نزدیک قرآن مجید ہے ۔ یہی مفہوم انھوں نے اپنی کتب ’’تدبر قرآن‘‘ اور ’’البیان ‘‘ میں بیان کیا ہے۔مولانا اصلاحی نے’ ذٰلک الکتٰب لا ریب فیہ‘ کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ’’یہ کتاب الٰہی ہے۔ اس کے کتاب الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں‘‘ ۔اس ترجمے ہی سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ یہاں ’الکتاب ‘سے مراد قرآن مجید ہے۔’یہ‘ اور ’اس‘ کی ضمیریں اس مفہوم کے لیے صریح ہیں۔ البتہ صاحب ’’تدبر قرآن‘‘ نے یہاں لفظ ’کتاب‘ کے مختلف معانی بھی اس ممکنہ سوال کے پیش نظر بیان کیے ہیں کہ اس لفظ کے دیگر معانی کے تقابل میں’کلام الٰہی‘ کے معنی کو ترجیح دینے کا کیا سبب ہے۔ چنانچہ انھوں نے بتایا ہے کہ قرآن مجید میں کتاب کا لفظ پانچ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے: ۱۔ نوشتہ تقدیر، ۲۔ اللہ تعالیٰ کا وہ رجسٹر جس میں ہر چیز کا ریکارڈ ہے، ۳۔ خط اورپیغام ، ۴۔ احکام و قوانین، ۵۔ اللہ تعالیٰ کا اتارا ہوا کلام۔ اس کے بعد انھوں نے لکھا ہے:
’’جس طرح کوئی لفظ اپنے مختلف معنی میں سے کسی ایک اعلیٰ اور برتر معنی کے لیے خاص ہو جایا کرتا ہے، اسی طرح یہ کتاب کا لفظ بھی خاص طور پر کتاب الٰہی کے لیے بولا جانے لگا۔ چنانچہ یہ استعمال قدیم زمانہ سے معروف ہے۔ یہود انبیا کے صحیفوں میں سے ہر صحیفہ کو سفر کہتے تھے جس کے معنی کتاب کے ہیں۔ عیسائی مترجموں نے ان کتابوں کو بائیبل کا نام دیا، اس کے معنی بھی یونانی میں کتاب ہی کے ہیں۔ اسی طرح ان صحیفوں کے لیے (scripture) کا لفظ استعمال ہوا جس کے معنی لاطینی میں کتاب کے ہیں۔ الغرض کتاب کا لفظ کتاب اللہ کے لیے کوئی نیا استعمال نہیں ہے۔ یہ استعمال جیسا کہ واضح ہوا، بہت قدیم ہے۔ قرآن نے بھی اس معنی میں اس لفظ کو استعمال کیا اور اپنے استعمالات سے اس کے اس معنی کو اس قدر واضح کر دیا کہ اس کے مخاطب اس استعمال کو بے تکلف سمجھنے لگ گئے‘‘ ۔ (تدبرقرآن۱/۸۷)
مولانا اصلاحی نے اس مقام پر بلا شبہ، بائیبل کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے انھوں نے فقط یہ بات سمجھائی ہے کہ لفظ ’کتاب‘ کا اللہ کے کلام کے معنی میں استعمال ہونا اس کا کوئی نیا استعمال نہیں ہے جسے قرآن نے ابتداءً اختیار کیا ہو۔ قدیم زمانے میں بھی اللہ کے کلام کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ یہود صحیفۂ آسمانی کے لیے’ سفر‘ کا لفظ استعمال کرتے تھے جس کے معنی ’کتاب‘ کے ہیں۔ اسی طرح عیسائی مترجمین نے بھی صحف سماوی کے مجموعے کے لیے ’بائیبل ‘کا لفظ اختیار کیا جو ’کتاب‘ ہی کے ہم معنی ہے ۔اس سے واضح ہے کہ مولانا اصلاحی کی یہ بحث لفظ ’کتاب‘ کے معنی کے بارے میں ہے، ’ذٰلک الکتٰب لا ریب فیہ‘ میں اس کے مصداق کے بارے میں ہر گز نہیں ہے۔ 
لفظ ’الکتاب‘ کے بعینہٖ یہ معنی جناب جاوید احمد غامدی نے بھی اختیار کیے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’اصل الفاظ ہیں: ’ذٰلک الکتٰب‘۔ اس میں ’ذٰلک‘ کا اسم اشارہ سورہ کے لیے آیا ہے اور ’الکتٰب‘ کے معنی کتاب الٰہی کے ہیں۔ قرآن میں یہ لفظ جگہ جگہ اس معنی کے لیے استعمال ہوا ہے او راسی طریقے پر استعمال ہوا ہے، جس پر کوئی لفظ اپنے مختلف مفاہیم میں سے کسی ایک اعلیٰ اور برتر مفہوم کے لیے خاص ہو جایا کرتا ہے۔
یعنی اس بات میں(کوئی شبہ نہیں) کہ یہ کتاب الٰہی ہے یہی اس جملے کا سیدھا اور صاف مفہوم ہے اور قرآن کے نظائر سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔‘‘( اشراق ، اکتوبر۱۹۹۸، ۸)
۲۔ غامدی صاحب سے یہ بات منسوب کرنے کے لیے کہ بائیبل بھی مآخذ دین میں شامل ہے ،فاضل ناقد نے دوسری دلیل کے طور پر راقم کا ایک اقتباس نقل کیا ہے جس میں یہ جملہ درج ہے کہ’’دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں‘‘۔ فاضل ناقد کی اس دلیل کا ہم ’’غامدی صاحب کا تصور فطرت چند توضیحات ‘‘ کے زیر عنوان اپنے گزشتہ مضمون (الشریعہ، ستمبر ۲۰۰۷) میں تفصیل سے جائزہ لے چکے ہیں۔ 
۳۔ فاضل ناقد نے اس مقدمے کے اثبات کے لیے کہ غامدی صاحب بائیبل کو ماخذ دین قرار دیتے ہیں جن تحریروں کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے، ان میں ماہنامہ ’’اشراق‘‘ میں شائع ہونے والے دو مضامین بھی شامل ہیں۔ ایک مضمون کا عنوان ’ ’اسلام اور موسیقی‘‘ اور دوسرے کا ’’اسلام اور مصوری ‘‘ ہے۔ ان کی بنا پر فاضل ناقد نے یہ بیان کیا ہے کہ غامدی صاحب دین کے کسی مسئلے میں قرآن کے اشارات کو بنیاد بنا کر قدیم صحائف کی تفصیلات کی تصدیق کرتے ہیں اور قرآن کے مجمل الفاظ کی تفصیلات جاننے کے لیے کتاب مقدس کی آیات سے رجوع کرتے ہیں۔ ’’فکر غامدی‘‘ کے ص ۶۲ و ۶۳ پر ان مضامین کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل ناقد نے ’’غامدی صاحب کے بقول‘‘، ’’ایک جگہ...موسیقی کے حوالے سے لکھتے ہیں‘‘، ’’ایک دوسری جگہ کتاب مقدس کے حوالے سے لکھتے ہیں‘‘، ’’جب ہم غامدی صاحب سے سوال کرتے ہیں... تو غامدی صاحب یہ جواب دیتے ہیں‘‘، ’’ایک جگہ لکھتے ہیں‘‘، ’’گویا کہ غامدی صاحب کے نزدیک‘‘، ’’ان کے بقول‘‘، ’’غامدی صاحب نے تفصیل کی ہے‘‘، ’’تورات کی آیات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں‘‘ ، ’’جب ہم غامدی صاحب سے سوال کرتے ہیں تو وہ جواب میں فرماتے ہیں‘‘ جیسے جملے غامدی صاحب کی نسبت سے بار بار لکھے ہیں۔ قارئین یہ جان کر ششدر رہ جائیں گے کہ ان میں سے کوئی ایک لفظ بھی غامدی صاحب کے قلم سے نہیں نکلا۔ خامہ انگشت بدنداں ہے، اسے کیا لکھیے!
یہ ساری تقریرغامدی صاحب کی تحریر کو نہیں،بلکہ راقم کے مضامین ’’اسلام اور موسیقی‘‘ اور ’’اسلام اور مصوری‘‘ کو بنیاد بنا کر کی گئی ہے۔ ’’اشراق‘‘ کے صفحات میں ان کے مصنف کے طور پر غامدی صاحب کا نہیں، بلکہ راقم کا نام درج ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’’ فکر غامدی ایک تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے زیر عنوان لکھی جانے والی تنقید میں اس کی کیا گنجایش ہے کہ غامدی صاحب کے قلم سے نکلے ہوئے سیکڑوں صفحوں سے قطع نظر کر کے ان کے رفقا و تلامذہ کی تحریروں کو منتخب کیا جائے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فاضل ناقد نے فقط یہی نہیں کیا کہ غامدی صاحب پر تنقید کے لیے ان کی اپنی تحریر کے بجاے ان کے شاگرد وں کی تحریر کوبنیاد بنایا ہے، بلکہ اس سے بہت آگے بڑھ کرشاگردوں کی تحریر کو غامدی صاحب کے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ قرار دے ڈالا ہے۔ یہ اسلوب تنقید ہے جو فاضل ناقد نے اپنے مضمون میں جابجا اختیار کیا ہے۔ فاضل ناقد صاحب علم بھی ہیں اور صاحب ایمان بھی۔ توقع ہے کہ وہ اس سوال پر ضرور غور فرمائیں گے کہ علم و عقل اور دین و اخلاق کی رو سے اس طرز استدلال کی کیا گنجایش ہے؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ راقم کے مضامین ’’اسلام اور موسیقی‘‘ اور ’’اسلام اور مصوری ‘‘ غامدی صاحب ہی سے بالاجمال اخذ و استفادے پر مشتمل ہیں اور اسی بنا پر ان کے عنوانات کے ساتھ ’’جناب جاوید احمد غامدی کے افادات پر مبنی‘‘ اور ’’جناب جاوید احمد غامدی کا نقطۂ نظر‘‘کی تصریح کی گئی ہے، لیکن ان کے اوپر مصنف کے طور پر راقم کا نام درج ہے۔ یہ علم و ادب کا مسلمہ ہے اور اس کی مثالوں سے کتب خانے بھرے پڑے ہیں کہ مصنفین اپنے اساتذہ اور دیگر اہل علم کے افکار سے اخذ و استفادہ کرتے ، ان کی بنا پر تصانیف رقم کرتے اور پھر انھی کی نسبت سے کوئی عنوان قائم کر کے انھیں شائع کرتے ہیں ۔ تحریر و تصنیف کی دنیا میں اس کے معنی صرف اور صرف یہ ہوتے ہیں کہ مصنف نے اپنے استاذ یا کسی اور صاحب علم کے تصور، موقف، نقطۂ نظر یا تحقیق کو اپنے فہم کے مطابق، اپنے زاویۂ نظر سے، اپنے دلائل کی بنا پر اور اپنے پیرایۂ بیان میں تصنیف کیا ہے۔اس کے یہ معنی ہر گز نہیں ہوتے کہ یہ عین بہ عین اس استاذ یا صاحب علم کی نگارش ہے اور اس کے افکار کے تجزیے کے لیے اسے بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ ان تحریروں کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ ان کے لکھنے والوں نے ان میں اپنے فہم کے لحاظ سے غامدی صاحب ہی کا نقطۂ نظر بیان کیا ہے تو یہ بالکل بجا ہو گا،لیکن اگر کوئی شخص ان کے بارے میں یہ حکم لگاتا ہے کہ ان کا لفظ لفظ غامدی صاحب کے موقف کا ترجمان ہے تو اسے کوئی بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر فاضل ناقد کی طرح اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ غامدی صاحب ہی کی تصنیف ہیں اور ان کے مندرجات کی بنا پرغامدی صاحب پر تنقید کے لیے قلم اٹھاتا اور ’’فکر غامدی ایک تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ‘‘ جیسی کتاب تصنیف کر دیتا ہے تو اس کی خدمت میںیہی گزارش کی جائے گی کہ یہ چیز تنقید ادب کے مسلمات کے منافی ہے کہ کسی صاحب علم پر تنقید کے لیے اس کی اپنی تصنیفات کو چھوڑ کر اس کے موقف پر مبنی کسی اور مصنف کی تحریر کو بنیاد بنایا جائے۔ علم و ادب کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں پیش کی جا سکتی۔ یہ اسی طرح کی بات ہے کہ اقبال کے فکر پر تنقید کے لیے قلم اٹھایا جائے اور ’’بانگ درا‘‘ اور ’’بال جبریل‘‘ کے بجائے ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی تصنیف ’’فکر اقبال‘‘ کو بناے تنقید بنایا جائے۔
یہاں جملۂ معترضہ کے طور پر یہ واضح رہے کہ راقم کے مضامین’’اسلام اور موسیقی‘‘ اور ’’اسلام اور مصوری‘‘ میں بائیبل کے مندرجات کو اباحت کی دلیل کے طور پر ہر گز پیش نہیں کیا گیا۔یہ بیانات ان فنون لطیفہ کے فی نفسہٖ مباح ہونے کی تائید میں استشہاداً پیش کیے گئے ہیں۔ چنانچہ ا ن میں بائیبل کے وہ مقامات بھی نقل کیے ہیں جن میں ان فنون لطیفہ کا ذکر مثبت طور پر ہوا ہے اور وہ بھی نقل کیے ہیں جن میں ان کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار ہوا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کتب احادیث سے بھی حلت وحرمت، دونوں طرح کی روایتیں اسی اصول کو واضح کرنے کے لیے نقل کی گئی ہیں۔ان فنون لطیفہ کی اباحت کے بارے میں ہماری یہ رائے اصلاً بائیبل کی بنیاد پر نہیں، بلکہ ا س اصول پر مبنی ہے کہ جس چیز میں فی نفسہٖ عقیدہ و اخلاق کی قباحت موجود نہ ہو، اسے علی الاطلاق حرام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم کسی اضافی سبب کی بنا پراسے ممنوع قرار دینا بالکل بجا ہے۔لیکن اس صورت میں ظاہر ہے کہ ممانعت کا باعث وہ اضافی سبب ہی قرار پائے گانہ کہ بذات خود وہ چیز۔ چنانچہ کسی ایسی چیز کے بارے میں جسے دین نے فی نفسہٖ حرام قرار نہ دیا ہو، حرمت کا فتویٰ صادر کرنا شریعت سے تجاوز ہے ۔ مذکورہ مضمون میں ہم نے اپنے استدلال کو نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ فاضل ناقد اگر اس کو موضوع بنا کر اس پر بحث کریں تو ان شااللہ ہم اپنے استدلال کی مزید وضاحت کر دیں گے۔
’’اسلام اور موسیقی‘‘ اور ’’اسلام اور مصوری‘‘ کے حوالے سے اطلاقی مثالوں کے علاوہ فاضل ناقد نے ’’یاجوج و ماجوج‘‘ کی مثال بھی پیش کی ہے۔ اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ غامدی صاحب نے قرآن کے الفاظ’ یاجوج و ماجوج‘ کے مصداق کے تعین کے لیے بائیبل سے رجوع کیا ہے۔
اس ضمن میں ہماری گزارش یہ ہے کہ ہمارے نزدیک یاجوج وماجوج کے مصداق کا تعین کسی طرح بھی ’دین‘ کا مسئلہ نہیں ہے۔یہ ایک تاریخی بحث ہے جس کے لیے دیگر تاریخی مآخذ کے ساتھ ساتھ بائیبل سے بھی استشہاد کیا جا سکتا ہے۔یہ اور اس نوعیت کے دیگر موضوعات پر بائیبل سے استشہاد تاریخ، سیرت اور تفسیر کے علما کا معمول بہ عمل ہے۔ اس سے بائیبل کو ماخذ دین سمجھنے کا تصور ہر گز قائم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اسی طرح کی بات ہے کہ اگر کوئی مفسر بدر، احد، خندق، فتح مکہ اوراس طرح کے دوسرے واقعات سے متعلق قرآنی آیات کی شرح و وضاحت کے لیے ’’سیرت ابن ہشام‘‘ اور ’’طبقات ابن سعد‘‘ سے واقعات کی تفصیلات حاصل کرے تو اس پر یہ الزام عائد کر دیا جائے کہ اس نے ’’سیرت ابن ہشام‘‘ اور ’’طبقات ابن سعد‘‘ کو دین کا ماخذ قرار دے ڈالا ہے۔اس الزام کی علم و عقل کی دنیا میں کیا حیثیت ہو گی ، قارئین اس کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔
۴۔ فاضل ناقد نے مضمون کے آخر میں ’’غامدی صاحب کا اپنے اصولوں سے انحراف‘‘ کا عنوان قائم کر کے یہ حکم لگایا ہے کہ غامدی صاحب ان مسائل میں تو بائیبل کو بناے استدلال بناتے ہیں جو ان کے نظریات کے موافق ہیں، لیکن جن مسائل میں بائیبل ان کے نظریات کی مخالف ہے ، ان میں وہ اس سے رجوع کرنے سے گریز کرتے ہیں اورنتیجۃً بائیبل کو ماخذ دین قرار دینے والے اپنے ہی اصول سے منحرف ہوتے ہوئے ان عقائد و احکام کا انکار کر دیتے ہیں جن کی تائید بائیبل بھی کرتی ہے۔اس تقریرکے اثبات کے لیے انھوں نے تین مثالیں پیش کی ہیں۔ پہلی مثال یہ پیش کی ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کااثبات قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ بائیبل سے بھی ہوتا ہے، مگر غامدی صاحب اس سلسلے میں بائیبل سے رہنمائی نہیں لیتے اور عملاً اس تصور کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ دوسری مثال یہ بیان کی ہے کہ بائیبل سے احادیث کی اس خبر کی تصدیق ہوتی ہے کہ قرب قیامت میں ایک شخص دجال ظاہر ہو گا۔ بائیبل کی اس تصدیق کے باوجود غامدی صاحب دجال کو شخص ماننے سے انکار کرتے اور اسے اسم صفت قرار دے کر تہذیب مغرب کو اس سے موسوم کرتے ہیں۔تیسری مثال رجم کی سزا کے بارے میں غامدی صاحب کے نقطۂ نظر کے حوالے سے ہے۔فاضل ناقد کے نزدیک غامدی صاحب شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کو تسلیم نہیں کرتے، جبکہ یہ سزا بائیبل سے بھی پوری طرح ثابت ہے۔ گویا غامدی صاحب ایک جانب بائیبل کو ماخذ دین قرار دیتے ہیں اور دوسری جانب اس کے شادی شدہ زانی پر رجم کی سزا نافذ کرنے کے حکم کو تسلیم نہیں کرتے۔
’’انحراف‘‘ کی یہ تینوں مثالیں فاضل ناقد نے اس مزعومہ مقدمے کو مان کر پیش کی ہیں کہ غامدی صاحب بائیبل کو ما خذ دین قرار دیتے ہیں۔ تمہید میں یہ بات ہر لحاظ سے ثابت ہو گئی ہے کہ فاضل ناقد کا مزعومہ مقدمہ سرتاسر غلط اور بے بنیاد ہے ۔جب مقدمہ ہی غلط ہے تو اس سے انحراف کی تقریر بالکل بے معنی اور غیر متعلق ہے، لہٰذااس کے بارے میں بحث و تمحیص سرتاسر اضافی ہے۔چنانچہ اس مضمون میں ہم ان مثالوں سے صرف نظر کر رہے ہیں۔ البتہ فاضل ناقد کی اصولی تنقیدات پر اپنا تبصرہ مکمل کرنے کے بعد ہم ان شاء اللہ انھیں ان کی انفرادی حیثیت میں ضرور زیربحث لائیں گے اور اس سوء فہم اور خلط مبحث کو واضح کریں گے جو ان مثالوں کے حوالے سے فاضل ناقد کی تحریر میں مضمر ہے۔

’’تحریک طالبان وطالبات اسلام‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے افسوس ناک سانحہ کے پس منظر میں پشاور میں ایک اجلاس کے دوران ’’تحریک طالبان وطالبات اسلام‘‘ کے نام سے ایک فورم کی تشکیل عمل میں لائی گئی ہے جس کا سربراہ حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ دامت برکاتہم کو منتخب کیا گیا ہے اور ان کی امارت میں صوبائی امرا اور دیگر ذمہ داروں کا تعین کر کے اسی رخ پر تحریک کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف آپریشن سے قبل موجود تھا۔ ’’تحریک طالبان وطالبات اسلام‘‘ کا مقصد اسی تحریک کو آگے بڑھانا بیان کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے مختلف سطحوں پر رابطوں کا سلسلہ بھی تازہ معلومات کے مطابق شروع ہو گیا ہے۔ 
ہم ان صفحات میں مسلسل یہ عرض کرتے چلے آ رہے ہیں کہ جہاں تک پاکستان میں نفاذ اسلام اور انسداد منکرات کے لیے جدوجہد کرنے، مطالبات کرنے، رائے عامہ کو منظم کرنے، عوامی دباؤ کو بڑھانے اور پرامن جدوجہد کا ہر ممکن راستہ اختیار کرنے کا تعلق ہے تو ایسا کرنا نہ صرف ہمارا حق ہے بلکہ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے، لیکن ان مقاصد کے لیے قانون کو ہاتھ میں لینا، حکومت کے ساتھ تصادم کی صورت اختیار کرنا، ہتھیار اٹھانا اور کوئی بھی ایسی صورت اختیار کرنا جسے فقہاے کرام نے ’’خروج‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے، ہمارے نزدیک درست نہیں ہے اور ہم اس کی تائید کے لیے تیار نہیں ہیں، البتہ ہمارے جو بزرگ اسے درست سمجھتے ہیں، اس کے شرعی اور جائز ہونے پر مطمئن ہیں اور اسے اختیار کرنا چاہتے ہیں، ان کا یہ حق ہم تسلیم کرتے ہیں مگر اس درخواست کے ساتھ کہ اس تحریک کا مورچہ ’’دینی مدارس‘‘ سے الگ رکھا جائے اور کسی دینی مدرسہ کو اس تحریک کا مورچہ نہ بنایا جائے۔ ہماری ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں مدرسہ کبھی کسی مسلح تحریک کا مورچہ نہیں رہا۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز نے بھی اس دور میں جب وہ برصغیر کی آزادی کے لیے برطانوی استعمار کے خلاف مسلح تحریک کا تانا بانا بن رہے تھے جسے تاریخ میں تحریک ریشمی رومال کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس تحریک کا مورچہ دار العلوم دیوبند کو نہیں بنایا تھا بلکہ اس سے علیحدگی اختیار کر کے اپنا نظام الگ تشکیل دیا تھا تاکہ دار العلوم دیوبند اور اس سے متعلقہ دینی اداروں کا تعلیمی کردار کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے اور ان کے لیے خواہ مخواہ مشکلات اور رکاوٹیں کھڑی نہ ہوں۔
ہمارے نزدیک دینی مدارس کا تعلیمی کردار، ان کا آزادانہ وجود اور دینی تعلیمات کے فروغ کے لیے ان کی جدوجہد اور عام مسلمان کا دین کے ساتھ تعلق برقرار رکھنے کے لیے ان کی مساعی دیگر تمام امور سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ کسی بھی تحریک کے لیے ا س کو خطرے میں ڈالنا اور کسی بھی حوالے سے دینی مدارس کے لیے مشکلات پید اکرنا نہ شریعت وحکمت کے لحاظ سے درست ہے اور نہ ہی ہمارے اکابر واسلاف بالخصوص شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور ان کے رفقاے کار کی روایات اور مزاج سے مطابقت رکھتا ہے۔ 

مکاتیب

ادارہ

محترم ومکرم جناب مدیر الشریعہ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج بخیر؟
ماہنامہ الشریعہ اکتوبر کے پرچے میں مولانا عتیق الرحمن سنبھلی صاحب کا سانحہ لال مسجد کے حوالے سے مضمون پڑھ کر دل کو جو صدمہ پہنچا، وہ بیان سے باہر ہے۔ پرانے زخم پھر سے تازہ ہو گئے۔ یہ مضمون میری طرح پتہ نہیں کتنے مسلمانوں، ماؤں اور بہنوں کی دل آزادی کا سبب بنا ہوگا۔ آخر جو مضمون ۲۳ جولائی کو تحریر کیا گیا تھا، کم وبیش دو ڈھائی مہینوں کے بعد پتہ نہیں کس مقصد اور افادیت کے پیش نظر الشریعہ میں شائع کیا گیا ہے۔ یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ مدارس کے ترجمان دینی ومذہبی نسبتاً معیاری رسائل میں اس سانحہ کو جس طرح نظر انداز کیا گیا ہے، اس سے تو وہ غیر مذہبی رسائل ہی صحیح رہے جنھوں نے غیر جانب دارانہ اصل صورت حال بیان کی اور کھل کر مظلوموں کا ساتھ دیا۔ کاش مرنے کے بعد تو مرنے والے کو معاف کر دیا جاتا کہ اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے۔
مولانا سنبھلی صاحب غالباً پاکستان کے حالات اور یہاں کے حکمرانوں کے طرز عمل سے پورے طور پر واقف نیں، جیسا کہ انھوں نے اپنے مضمون میں اس بات کا خود بھی اعتراف کیا ہے۔ ان کی معلومات غالباً اخباری رپورٹوں تک محدود ہیں، اس لیے پہلے بھی ایک خط میں اور اب اس مضمون میں انھوں نے فرمایا کہ ’’کاش (غازی) برادران نے مسجد ہی کے تقدس اور طالبات وطلبا کی حفاظت ہی کے خیال سے گرفتاری دے دینے کو حصول شہادت کے مساوی سمجھ لیا ہوتا۔‘‘
جناب والا! حقیقت بھی یہی ہے۔ اسی خیال سے غازی صاحب آخری مذاکرات میں گرفتاری دینے کے لیے بالکل تیار ہو گئے تھے۔ اس کے گواہ مولانا فضل الرحمن خلیل صاحب موجود ہیں اور یہی بات قاری محمد حنیف جالندھری صاحب نے ’’الخیر‘‘ میں اپنے مضمون میں بیان فرمائی ہے۔
دوسری بات یہ کہ ڈرافٹ کی آخری اور حتمی شکل جو صحافی کے حوالے سے مضمون میں دی گئی ہے، وہ یہ تھی کہ عبد الرشید غازی کو ان کے گھرمیں رکھا جائے گا۔ یہ بات بھی مذاکرات میں شریک تمام علما کے بقول غلط ہے۔ صرف گھر کا لکھا گیا تھا نہ کہ ’’ان کے گھر میں۔‘‘ آخر مولانا صاحب کو جید علما کے بجائے ایک صحافی کے بیان پراعتماد کیسے ہو گیا جبکہ اسی صحافی نے علما کی طرف اور بھی کئی باتیں منسوب کی ہیں جن کی وضاحت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے کر دی ہے۔
باقی مولانا صاحب کو کرنل ہارون اسلام اور دیگر فوجیوں کے جاں بحق ہونے پر افسوس ہے اور یقیناًاس کا افسوس ہمیں بھی ہے، لیکن اس کا ذمہ دار کون ہے؟ مولانا صاحب! کرنل صاحب کس کی گولی سے جاں بحق ہوئے، اس کی صحیح حقیقت تو اس ذات علیم کو ہے جو دلوں کے رازوں سے بھی خوب واقف ہے۔ یہاں تو اس کے برعکس باتیں گردش کر رہی ہیں۔ دنیا میں اس کی حقیقت اگر واضح نہ بھی ہو سکی تو ان شاء اللہ قیامت کے دن کرنل صاحب خود اور غازی صاحب بتائیں گے کہ وہ کس کی گولی سے جاں بحق ہوئے۔ 
فوجی حکومت تو ہے ہی امریکی ایجنڈا پورا کرنے کے لیے۔ وہ بلا جھجھک اپنا کام پورا کر رہی ہے اور ہم آپس میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہم سب کو اپنے اپنے مفادات عزیز ہیں اور اپنے اپنے مزاج کے مطابق اسلام کی تعبیر وتشریح کر رہے ہیں اور باری باری قربانی کے بکرے بن رہے ہیں۔ عیار ومکار دشمن نے ہمیں کیسے مختلف ٹکڑیوں میں تقسیم کر دیا ہے کہ ہم اپنوں کے دکھ درد کو سمجھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہیں۔ چند سال قبل مولانا مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ نے اپنی شہادت سے پہلے ایک مضمون میں بڑی دل سوزی کے ساتھ اس طرف توجہ دلائی تھی۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’علماے کرام، مشائخ عظام، اہل دین اور مجاہدین سمیت اہل حق دشمنان اسلام سے اتنے مرعوب ہو چکے ہیں یا بہ الفاظ دیگر اتنے تن آسان ہو چکے ہیں کہ وہ دفاع اور مقابلہ کی کیفیت سے عاری ہو چکے ہیں۔ پے درپے واقعات کے بعد انھوں نے دفاعی حکمت عملی اختیار کرلی ہے اور وہ دین کی حفاظت کا کام چھوڑ کر اپنی جان اور اپنے اداروں کے تحفظ میں لگ چکے ہیں۔ ان کی کیفیت بغداد کے زمانہ کے مسلمانوں کی ہو چکی ہے جب ایک تاتاری سپاہی سینکڑوں مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کر کے کہتا تھا کہ کھڑے ہو جاؤ، میں بندوق لے کر آ رہا ہوں جس سے تم کو قتل کروں گا۔ بزدلی کی اس کیفیت میں وہ جان بچانے کی حس سے عاری ہو چکے تھے اور سر جھکا کر مرنے کے لیے اپنے گردن آگے کر دیتے تھے۔
آج ہمارے مدارس پر پورے پاکستان میں افتاد پڑی ہوئی ہے اور ہم صفائیاں دیتے پھر رہے ہیں کہ ہمیں کیوں قتل کیا جا رہا ہے؟ ہمارے ادارے تو جہادی سلسلے سے متعلق نہیں، ہمارے یہاں تفرقہ کی تعلیم نہیں دی جاتی، ہم تو کسی ایسے کام میں ملوث نہیں جس کی وجہ سے ہمارے اداروں کو نشانہ بنایا جائے۔ آج ہم میں سے ہر شخص اپنے تحفظ کی فکر میں ہے، اجتماعیت کا فقدان ہو چکا ہے۔ ایک ایک کر کے ہم دشمنوں کا نشانہ بن رہے ہیں، لیکن ہماری زبانیں اور قلم اپنوں کے خلاف چلنے سے نہیں رکتے۔اب تو ہماری بے حسی کی انتہا ہو چکی ہے کہ ہم ان واقعات پر احتجاج کی بھی سکت نہیں رکھتے۔ حکومت کی طرف ہماری نگاہیں لگی رہتی ہیں جو خود اہل دین کو ملیامیٹ کرنے کے چکر میں ہے۔
اس وقت ضرورت ہے کہ اہل مدارس اجتماعیت اختیار کریں۔ سیاسی، مسلکی، شخصی، تنظیمی اور روحانی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر آپس کی مقابلہ آرائی سے کنارہ کشی اختیار کر کے ہر دین دار فرد کو اپنا عزیز سمجھیں، ہر مدرسہ کو اپنا مدرسہ، ہر ادارے، ہر جماعت، ہر مذہبی تنظیم کو اپنی جماعت تصور کریں، ہر غم زدہ کی امداد کے لیے فوراً پہنچ جائیں۔ اگر ہم نے اپنے اداروں اور اہل دین کو اس طرح لا وارث چھوڑ دیا تو دنیا میں تو ہم خوار ہوں گے ہی اور ہمارے ادارے ختم ہو جائیں گے، اور قیامت کے دن بھی ہم مواخذۂ خداوندی سے بچ نہیں سکیں گے۔‘‘
محمد اصغر غفرلہ
جامعہ اسلامیہ امدادیہ، فیصل آباد

مولانا مفتی برکت اللہ کا دورۂ پاکستان

ادارہ

برطانیہ کے معروف عالم دین اور ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا مفتی برکت اللہ پاکستان میں کم وبیش تین ہفتے کے قیام کے بعد گزشتہ روز لندن واپس چلے گئے۔ انھوں نے رمضان المبارک کے دو عشرے لاہور میں حضرت سید نفیس شاہ صاحب الحسینی کی خانقاہ سید احمد شہیدؒ میں گزارے، اسلام آباد کے نامور دینی مرکز ادارۂ علوم اسلامی بھارہ کہو اور گوجرانوالہ کے مدرسہ نصرۃ العلوم کا دورہ کیا، بزرگ علماے کرام حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی سے ملاقات کی اور الشریعہ اکادمی میں اپنے اعزاز میں دی جانے والی ’’عید ملن پارٹی‘‘ میں شرکت کی۔
مولانا مفتی برکت اللہ کا تعلق انڈیا میں ممبئی کے علاقہ بھیونڈی سے ہے، دار العلوم دیوبند کے فضلامیں سے ہیں، ایک عرصہ سے لندن میں مقیم ہیں، ابراہیم کمیونٹی کالج وائٹ چیپل لندن میں فقہ اسلامی پڑھاتے ہیں اور اسی سال مئی میں انھیں مولانا زاہد الراشدی کی جگہ ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا ہے۔ 
ورلڈ اسلامک فورم کے سرپرست اور الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے عید ملن پارٹی میں مولانا مفتی برکت اللہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کی علمی ودینی خدمات کو سراہا اور کہا کہ مفتی صاحب مغرب کے تہذیبی مرکز لندن میں بیٹھ کر اسلامی علوم کی ترویج اور اسلامی اقدار وروایات کے تحفظ ودفاع کے لیے موثر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ 
مولانا مفتی برکت اللہ نے عید ملن پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کی عالی صورت حال گزشتہ صدی سے بالکل مختلف ہے اور دنیا بھر کی اقدار وروایات تیزی سے تبدیل اور ایک دوسرے میں مدغم ہو رہی ہیں، اس لیے ہمیں اسلام کی دعوت اور نفاذ کے لیے روایتی طریق کار پر قناعت کرنے کی بجائے جدید ضروریات اور تقاضوں کا ادراک کرنا ہوگا اور جذباتیت اور سطحیت کے دائرہ سے نکل کر زمینی حقائق اور معروضی حالات کی روشنی میں اپنی حکمت عملی اور ترجیحات طے کرنا ہوں گی۔ انھوں نے کہا کہ مغرب میں مسلمانوں کے مسائل، کمزوریوں، خوبیوں، ضروریا اور نفسیات کا جائزہ لینے کے لیے سینکڑوں ادارے کام کر رہے ہیں جو معروضی حالات وحقائق کا انتہائی گہرائی میں جا کر تفصیلی تجزیہ کرتے ہیں اور عالم اسلام کے بارے میں پالیسیاں طے کرنے میں اپنی اپنی حکومتوں کی راہ نمائی کرتے ہیں، مگر ہمارے ہاں خاص طور پر دینی حلقوں میں مغرب کے ایجنڈے، اہداف اور طریق کار کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی اور نہ ہی ہمارے دینی ماحول میں اس مقصد کے لیے کوئی ڈھنگ کا ادارہ موجود ہے، بلکہ ہم میں سے بیشتر حضرات کی مغربی اداروں کی ان رپورٹوں تک رسائی نہیں ہے جو وہ عالم اسلام کے دینی حلقوں، اداروں اور مسائل کے بارے میں تیار کرتے ہیں اور میڈیا کے ذریعے بین الاقوامی حلقوں تک پھیلاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے علمی مراکز اور دینی اداروں کو اس صورت حال کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے اور آج کی دنیا کو اسلام کا پیغام دینے کے لیے آج کی دنیا کی ضروریات، نفسیات اور ماحول کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے، ورنہ ہم آج کے عالمی ماحول میں اپنی ذمہ داریوں سے صحیح طور پر عہدہ برآ نہیں ہو سکیں گے۔

اکادمی کے فکری وتربیتی اور تعلیمی پروگرام

  • الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں نئے تعلیمی سال سے میٹرک پاس طالبات کے لیے وفاق المدارس کے مقرر کردہ نصاب کے مطابق درجہ ثانویہ عامہ اور ثانویہ خاصہ پر مشتمل دو سالہ کورس کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس کورس میں شریک طالبات کو وفاق کے نصاب کے علاوہ تجوید کی ضروری تعلیم کے علاوہ ایف اے کی مکمل تیاری کرائی جائے گی اور ا س کے ساتھ ساتھ عربی ادب وانشا میں مہارت پیداکرنے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ سردست یہ کلاس مقامی طالبات کے لیے شروع کی گئی ہے جو صبح سات سے سہ پہر تین بجے تک اکادمی میں تعلیم حاصل کریں گی۔ تعلیم کے فرائض اکادمی کے رفیق مولانا حافظ محمد یوسف اور ان کی اہلیہ انجام دیں گے۔ اس سلسلے میں معلومات اور داخلے کے لیے مولانا محمد یوسف سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
  • گزشتہ سالوں کی طرح اس سال کے لیے بھی الشریعہ اکادمی میں فکری وتربیتی نشستوں کا اہتمام کیا جائے گا۔ اس ضمن میں طے شدہ پروگرام کے مطابق ہر ہفتے کے روز مغرب کی نماز کے بعد اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی حاضرین سے گفتگو کریں گے۔ اس سال کے لیے گفتگو کا موضوع ’’مولانا زاہد الراشدی کی یادداشتیں‘‘ طے کیا گیا ہے اور ا س سلسلے کا آغاز عید الاضحی کے فوراً بعد کر دیا جائے گا۔ ان یادداشتوں کو کیسٹ پر محفوظ کر کے بعد میں تحریری صورت میں شائع بھی کیا جائے گا۔
  • یہ بھی طے پایا ہے کہ ہر ماہ ایک خصوصی فکری نشست منعقد کی جائے گی جس میں متعین موضوع پر اظہار خیال کے لیے مختلف اصحاب فکر کو دعوت دی جائے گی اور حاضرین کو سوال وجواب اور تنقید وتبصرہ کا موقع بھی دیا جائے گا۔ 
  • اکادمی کے زیر اہتمام ۲۵؍ نومبر بروز اتوار دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے ’’مغربی دنیا کے فکری وتعلیمی تناظر میں دینی مدارس کا کردار‘‘ کے موضوع پر ایک تربیتی ورک شاپ منعقد کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے جس میں مغربی تعلیمی اداروں سے وابستہ اور ان میں تعلیم پانے اہل دانش کو گفتگو کے لیے مدعو کیا جائے گا۔
  • گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی دینی مدارس کے طلبہ کے لیے ایک کے دورانیے پر مشتمل عربی وانگریزی لینگویج کورسز کروائے جائیں گے جن کا آغاز عید الاضحی کے بعد کیا جائے گا۔

دسمبر ۲۰۰۷ء

جامعہ حفصہ کا سانحہ ۔ کچھ پس پردہ حقائقمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
فقہ و اجتہاد کے چند اہم پہلومولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
شریعت، مقاصد شریعت اور اجتہادمحمد عمار خان ناصر
کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ (۲ )حافظ محمد زبیر
امہات المومنینؓ کے لیے حجاب کے خصوصی احکامڈاکٹر عبد الباری عتیقی
مکاتیبادارہ
الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام علمی و فکری نشستیںادارہ
’’شریعت، مقاصد شریعت اور اجتہاد‘‘مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مغربی بنگال کے دینی مدارس اور غیر مسلم طلبہادارہ

جامعہ حفصہ کا سانحہ ۔ کچھ پس پردہ حقائق

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اس دفعہ ادارتی صفحات میں ہم ایک خاتون کا خط شائع کر رہے ہیں جو حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ کے نام ہے۔ اس میں جامعہ حفصہ کے الم ناک سانحہ کے بارے میں جامعہ کی طالبات ہی کے حوالے سے کچھ پس پردہ حقائق کا انکشاف کیا گیا ہے اور بہت سے توجہ طلب امور کی نشان دہی کی گئی ہے جن پر علمی ودینی حلقوں کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔
ہماری رائے میں افغانستان سے روسی استعمار کے انخلا کے بعد سے ہی پاکستان کے ان ہزاروں نوجوانوں کی فہرستوں کی تیاری اور ان کی درجہ بندی شروع ہو گئی تھی جنھوں نے افغانستان کی جنگ میں حصہ لیا تھا اور ٹریننگ حاصل کی تھی۔ اسی وقت سے یہ حکمت عملی بھی طے کر لی گئی تھی کہ مرحلہ وار مختلف علاقوں میں ان مجاہدین کو کسی نہ کسی طرح اشتعال دلا کر سامنے لایا جائے اور ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ یہ ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو جائیں اور پھر فوجی آپریشن کے ذریعے ان کی قوت کو ختم کر دیا جائے۔ وزیرستان، اسلام آباد اور سوات کے آپریشن اسی حکمت عملی کاحصہ ہیں اور ملک کے بہت سے دیگر حصوں میں بھی اس قسم کی کارروائیوں کی راہ ہموار کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
غزوۂ موتہ میں حضرت زید بن حارثہ، حضرت عبد اللہ بن رواحہ اور حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہم کی شہادت کے بعد حضرت خالد بن ولید نے ازخود آگے بڑھ کر مسلمان فوج کی کمان سنبھال لی تھی اور بڑی حکمت عملی کے ساتھ اسے دشمن کے نرغے سے بحفاظت نکال کر واپس لانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ انھیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی موقع پر ’’سیف من سیوف اللہ‘‘ کاخطاب دیا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خواہ مخواہ دشمن سے بھڑ جانے اور اپنی قوت کو ضائع کرتے چلے جانے کی بجائے اپنی قوت کو مشکل وقت میں بچا لینے کی حکمت عملی اختیار کرنا بھی بہادری اورشجاعت کہلاتا ہے۔ اے کاش ہمارے عسکری حلقے اس پہلو پر غور کر سکیں اور جوش وجذبہ کے ساتھ ساتھ حکمت وتدبر کے تقاضوں کا بھی احساس کر لیں۔
بہرحال ایک محترم خاتون کا یہ فکر انگیز خط ملاحظہ فرمائیے اور اس بات کا جائزہ لیجیے کہ ہم اس خط میں اٹھائے گئے نکات کے حوالے سے ہم اپنے اپنے دائرے میں عملی طور پر کیا کر سکتے ہیں۔ 
رئیس التحریر

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
بخدمت اقدس گرامی قدر حضرت مفتی صاحب ،دامت برکاتکم العالیہ 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
اس ماہ البلاغ میں جامعہ حفصہ سے متعلق آپ کا مضمون پڑھا ،اس سلسلہ میں چند مزید باتیں آپ کے علم میں لاناچاہتی ہوں۔ یہ باتیں میر اعینی مشاہدہ تونہیں مگرجامعہ حفصہ سے آنی والی طالبات کی بیان کردہ ہیں۔
  • جامعہ حفصہ گزشتہ کئی سال سے انٹرنیشنل شہر میں دینی تہذیب کا داعی تھا اورہزاروں کی تعداد میں باپردہ طالبات کا آناجانا اوراسلام آباد کے ماڈرن گھرانوں کی عورتوں اورلڑکیوں کااس کی طرف میلان ،روشن خیال طبقہ اورامریکہ کو برداشت نہ تھا ۔ اس لیے گزشتہ دوسال سے جامعہ کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی ہورہی تھی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دین کاکام کرنے کے لیے دینی احکام کوپامال کرنا یامشورہ اورصحیح حکمت عملی ،نیز طویل منصوبہ بندی نہ کرناسخت نقصان کا باعث ہے ۔دینی تاریخ میں اس کی مثالیں موجودہیں ،مگر ہم ان سے سبق حاصل نہیں کرتے اورنہ تاریخ کامضمون اس نقطہ نظر سے درس نظامی میں شامل ہے جس کی وجہ سے اس کی طرف توجہ بہت کم ہوتی ہے۔
    مولانا عبداللہ صاحب کے طالبا ن کے ساتھ براہ راست مراسم تھے اوروہ انقلابی ذہن کے حامل تھے ،ان کی شہادت کے بعد برادران میں شدت آنا فطری عمل تھا ،خصوصاًجب مظلوم کو عدالت سے انصاف نہ ملے اورنہ اس کی بات سنی جائے۔ چنانچہ جامعہ حفصہ کو ختم کرنے کے لیے ان کی سوچ میں باقاعدہ منصوبہ بندی سے مزید شدت پید اکی گئی تاکہ وہ ایسا اقدام کریں جس سے قانونی گرفت میں آسکیں اورآپریشن کاجواز پیداکیاجاسکے ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سات اعلیٰ تعلیم یافتہ جن میں بعض اعلیٰ افسران کی بیویاں بھی تھیں ان کو تربیت دی گئی ،جہاد کی آیات واحادیث ،طاغوتی نظام کے خلاف جان دے دینے کے جذبات پر مشتمل اشعار، تاریخ میں اصحاب عزیمت کے واقعات ،پرجوش تقاریر ،اورذہن سازی کی تربیت دی گئی۔ پھر ان خواتین نے جامعہ حفصہ میں آ ناشروع کیا۔ ام حسان اورغازی برادران سے تعلقات مضبوط کیے۔ جامعہ میں تعلیم لینا شروع کی اورطالبات میں جواعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں، ان کی ذہن سازی شروع کی، فحاشی اور عریانی کے خلاف طاقت کا استعمال ،اسلامی نظام کے لیے عملی جہاد کا ذہن بنایا۔ اس محنت کے نتیجے میں۷۰طالبات جن میں لیڈر شپ کی کوالٹی تھی تیارہوگئیں۔ان طالبات میں بھی بعض طالبات کے متعلق یہ گمان تھا کہ وہ خفیہ ایجنسی کی تربیت یافتہ ہیں۔ ان کی پرجوش تقاریر سے ا نقلابی سوچ اورجہادی جذبہ اس قدر عروج پرتھا کہ معاملہ ا ب غازی برادران کے بس میں بھی نہ تھا ،اورخلاف قانون اقدام ہوناشروع ہوئے اورآپریشن لمباکرنے کے حکمتوں میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ آخری لمحات تک یہ نمائندہ خواتین جامعہ میں رہیں تاکہ جذبا ت میں کمی نہ آنے پائے ،چنانچہ آہستہ آہستہ ان خواتین کوبحفاظت باہر لایا گیا اورمنظر سے غائب کردیاگیا۔ ان خواتین کے صحیح ایڈریس شاید اب ام حسان کو بھی معلوم نہ ہوں کیوں کہ اپنے تعارف کے متعلق جومعلومات دیں، وہ سب غلط تھیں۔
  • بعض وزرا جو علماسے دوستی کے رنگ میں منافقت کررہے تھے اورعلما سے ذاتی گہرے مراسم رکھتے تھے وہ بھی غازی برادران کوملاقاتوں میں کہتے تھے کہ تم اپنے مطالبات میں حق پر ہو اپنے مقصد پر ڈٹ جاؤ ،ان کا اصل مقصد بھی آپریشن کاجواز پید اکرناتھا جبکہ میڈیا پر ان کے بیان اورتھے۔
  • مولانا صاحب!ایک ملنے والے اسلام آباد خفیہ سرکاری ایجنسی کے ملازم ہیں۔ ان کے مطا بق یہ منصوبہ بندی ہوچکی ہے کہ بڑے بڑے دینی مدارس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طلبا وطالبات کوداخل کیاجائے گاجس کا اہم مقصد طلبا اوراساتذہ میں نفرتیں پید اکرکے مقابلہ میں لانا ہوگا تاکہ اساتذہ پر اعتماد کی فضا ختم ہو۔ یہ طلبا دین پر عمل کرنے میں اساتذہ کی نظر میں دوسروں سے ممتاز ہوں گے ۔ اساتذہ کاخصوصی قرب حاصل کریں گے، عربی ،انگریزی دینی علوم میں ممتاز اورقوت بیان کی خصوصی تربیت یافتہ ہوں گے۔
  • طالبات مذکورہ بالامقصد کے علاوہ مزید یہ کام انجام دیں گی کہ مدرسہ سے اچانک غائب ہوں گی ،ان کے سرپرست جامعہ کی انتظامیہ سے رابطہ کریں گے۔ آخر معا ملہ متعلقہ تھا نہ تک جائے گا ،اورمیڈیا کے ذریعہ بنات کے مدارس کو بدنام کیاجائے گا۔
  • یہ طلبا اورطالبات منتظمین کے سرکاری انتظامیہ سے خفیہ تعلقات استوار کرائیں گے اور ڈالروں کے ذریعہ ان کو خرید کر اپنے وفاقوں سے بدگمان کیا جائے گا ،اورمزید دوسرے مقاصد میں استعمال کیاجائے گا۔
  • پبلک مقامات پر تربیت یافتہ لوگ عوام سے مدارس اورعلما کے کردار پر بحث ومباحثہ کریں گے اورعوام میں مدارس اورعلما کی نفرت پیدا کریں گے اورجوچینل مدارس ،علما اوراختلافی مسائل پر زیادہ مذاکرے کرائے گا، اسے مراعات دی جائیں گی۔
  • اسکولوں سے یونیورسٹی کی سطح تک تفریح گاہوں اورپبلک مقامات پر تربیت یافتہ تنخواہ دار مردوخواتین مغربی تہذیب وتمدن پھیلانے کے لیے اپنے لباس اورحرکتوں سے ایسے امور انجام دیں گے کہ آہستہ آہستہ ان کی برائی ختم ہواوریہ ذہن بنے کہ ہر آدمی آزاد ہے، کسی کو روک ٹوک کرناگویا ایک عظیم جرم ہے ۔ یہ نوجوان اس مقصد کے لیے ملازم ہوں گے۔ یومیہ آٹھ گھنٹے مختلف پبلک مقامات پر اپنے لباس اورحرکتوں سے یہ امورانجام دیں گے۔
  • یونیورسٹی اورکالج کی سطح پر مخلوط محافل موسیقی اورناچ ہوگا جس کا خرچ غیر ملکی تنظیمیں برداشت کریں گی ،یونیورسٹی کے طلبا وطالبات کویہ تنظیمیں اپنے خرچ پر پہاڑی مقامات کی سیر کرائیں گی جہاں ان کاقیام وطعام اکٹھا ہوگا،گانااورناچ کے مقابلے ہوں گے اورغیر ملکی سفر کے ٹکٹ دے کر لڑکے اورلڑکی کوباہر بھیجا جائے گا اورباہر بریفنگ کے ذریعے ان کی ذہن سازی کی جائے گی اوراپنا نمائندہ بنایاجائے گا۔
  • بعض فوجی افسران کو درس نظامی کا مختصر نصا ب پڑھا یاجارہاہے۔ وہ علما کے رنگ اپنا کرمدارس کے منتظم بنیں گے اور ان کے کردارپر طویل منصوبہ بندی ہورہی ہے۔
  • تبلیغی مرکز رائے ونڈ میں خفیہ اداروں کے اعلیٰ افسران باقاعدہ مقیم ہیں، جماعتوں میں جاتے ہیں ،بعض ا ب منبر سے ہدایات بھی دیتے ہیں ،مشوروں میں باقاعدہ شامل ہوتے ہیں اوربزرگوں کی صف میں شامل کرمکمل کنٹرول کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
حضرت مفتی صاحب!آپ غور فرمائیں کتنی طویل منصوبہ بندی مذہبی طبقہ کے لیے ہورہی ہے۔ اس کے مقابلے میں کیادینی طبقہ اپنی پوری ذمہ داری کا احساس کررہاہے؟اس سلسلہ میں چند تجاویز ارسا ل خدمت ہیں۔ شاید علما ان پر غور فرمالیں:
  • مدارس میں عرصہ سے تربیت کا نظام نہایت کمزور ہو چکاہے۔ استاداور شاگرد کاتعلق صرف کتاب تک اوردرسگاہ تک محدود ہے جس کی وجہ سے دینی مزاج نہیں بن رہا لہٰذاتربیتی نظام کو مضبوط ترین کرنے کی ضرورت ہے۔
  • حضرت امام احمد ؒ کاقول ہے: علم سے قبل حکمت سیکھو۔ لہٰذاسیرت کامضمون باقاعدہ سبقاًپڑھایاجائے اور واقعات کے نتائج پر خصوصی توجہ دی جائے، خصوصاًوہ واقعات جن میں حالات کے پیش نظر حکمت سے کام لیا گیا، جذبات میں جوش پیداکرنے والے واقعات کے باوجود تحمل وبرداشت سے امور انجام دیے ۔ان واقعات پر خصوصی توجہ دی جائے۔
  • ملکی آئین ودستور اورقوانین کا مختصرتعارف ،جدید معیشت وتجارت ،تاریخ اسلام مکمل ضرور پڑھائے جائیں۔
  • آپ اکثر سفر پر رہتے ہیں۔حکومتی نمائندوں سے مذاکرات کرتے ہیں۔آپ کو تجربہ ہے کہ ان کے موقف کو سمجھنے اوران کے دجل وفریب سے بچنے کے لیے انگریزی کی اعلیٰ مہارت کتنی ضروری ہے جب کہ یہ دوسری قومی زبان کا درجہ حاصل کرچکی ہے اورپہلی جماعت سے سرکاری اسکولوں میں اردو کے علاوہ تمام مضامین کے لیے ضروری قراردی گئی ہے ۔ لہٰذا مدارس دینیہ کے اصل مقصد کو سامنے ر کھتے ہوئے اس کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
  • بنات کا نصاب میں پڑھ چکی ہوں۔ اس نصاب سے حضرات کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اس کی ترتیب سے میرے اساتذہ بھی مطمئن نہ تھے۔ اس نصا ب پر غور کی ضرورت ہے۔
  • دینی مدارس کا مقصد اخلاقی تربیت کے ساتھ دینی علوم میں اعلیٰ مہارت اوردینی راہنمائی کرنے والے اہل علم تیارکرناہے ،کیا یہ نصاب پڑھ کر فارغ ہونے والے معاشرہ کی دینی ضروریات کوسمجھ کر دینی راہنمائی کافریضہ انجام دے سکیں گے؟ لہٰذا گزارش ہے کہ موجود ہ صدی میں معاشرتی ضرورتوں کومد نظررکھتے ہوئے بنات اوراعدادیہ کے نصاب پر خصوصی توجہ دی جائے اورمرحلہ وار بنین میں ترامیم اس طرح کی جائیں کہ اصل مقصد فوت نہ ہواورمعاشرہ کے بدلتے حالات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی پید اہو۔
  • تمام مدارس کے اساتذہ اورفاضلات پردہ کے اہتما م کے ساتھ درس قرآن وحدیث کے ذریعہ عوامی رابطہ مہم شروع کریں۔
  • بنات کے نصاب میں گھرداری ،بچوں کی نگہداشت، سسرالی رشتوں سے نباہ ،عورتیں دین کاکام کیسے کریں جیسے مضامین ضرورپڑھائے جائیں ،دینی کام کرنے کا جو رخ جامعہ حفصہ کی طالبات سے سامنے آیا، اس سے بہت سے سوالات پیدا ہوئے۔ گھرداری اوربچوں کی نگہداشت کے لیے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے اختیاری مضامین میں کافی مواد آچکاہے ،اس سے استفادہ کیاجاسکتاہے۔
  • معلمین اورمعلمات نے تدریسی کام کیسے کرناہے؟یہ مستقل سائنس ہے مگر مدارس کے اساتذہ کی تربیت کاکوئی انتظام نہیں حالانکہ تدریسی میدان میں طلبا کی نفسیات اورتعلیم کے قدیم وجدید طریقوں اورمہارتوں کاعلم بہت ضروری ہے۔
  • مساجد کے موذنین اورخدام علاقہ میں دینی ماحول بنانے میں بڑاکردار اداکرسکتے ہیں مگراکثر بنیادی تعلیم سے بھی محرو م ہیں۔ ان کے لیے شارٹ کورسز ،اورتربیت کاکوئی ادارہ نہیں ۔ علما کی ایک جماعت کو اس کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
  • علاقہ کے سنجیدہ علما اپنے شہر کے ارکان اسمبلی اور ناظمین سے دینی معاملات میں باربارملاقاتیں کریں اورکبھی کبھی مدارس کے ماحول میں بلاکرمانوس کریں ،ان کے ذریعہ دینی آواز قانون ساز اداروں تک جائیں گی۔ حضرت مجددالف ثانی ؒ نے امرا اورحکام سے تعلقات استوار کئے ،خط وکتابت کی اس طرزسے کتنے فتنوں سے حفاظت ہوئی۔
  • اہل مدارس جس طرح تدریس کے لیے علما کا انتخا ب کرتے ہیں اسی طرح ہر مدرسہ ایک سنجیدہ واعظ تعینات کرے اوراپنے شہر کواورقریبی دیہات کوتیس (۳۰)یونٹ میں تقسیم کرلیں۔ ہریونٹ میں مہینہ میں ایک مرتبہ مردوں اورعورتوں میں ان کی ضروریات کے اعتبار سے وعظ ہو ،اس طرح ایک ماہ میں ایک دورمکمل ہوگا اوردینی فضا بنے گی اورعلما اور عوام کا رابطہ ہوگا ۔یہ واعظ صاحب درجہ ذیل امورکااہتمام کریں:
    (۱) کسی قسم کا چندہ نہ کریں
    (۲) ہدیہ نہ لیں
    (۳) جن مسائل میں دورائے ہوسکتی ہیں بیان نہ کریں
    (۴) حالات حاضرہ پر تبصرہ نہ کریں
    (۵) ضروریات دین ،اعمال صالحہ اورمعاشرت واخلاق ،اصلاح معاملات پر گفتگوکریں جس کے لیے آپ کے خطبات ،حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کے خطبات اصلاحی مجالس ،حضرت قاری محمد طیب صاحب کے خطبات کافی ہیں ۔
حضرت مفتی صاحب! بعض وجوہات کی بناپر مکمل تعارف کرانے سے معذورہوں جس پر معذرت خواہ ہوں ۔ 
فقط والسلام 
آپ کی ایک بیٹی

فقہ و اجتہاد کے چند اہم پہلو

مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

اس مقام پر اصولی طور پر یہ بحث بھلی معلوم ہوتی ہے کہ مخالفت حدیث کا مفہوم کیا ہوتا ہے؟ کیا ہر مقام پر مخالفت سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کی مخالفت مراد ہوتی ہے یا ان الفاظ کے اندر جو معنی اور مدلول پنہاں ہوتا ہے، اس کی مخالفت بھی مراد ہوتی ہے؟ اور اگر کوئی شخص آپ کے ظاہری الفاظ کی تو مخالفت کرتا ہے لیکن ان کے اندر جو معنی مستنبط ہوتا ہے، ا س کی اطاعت کرتا ہے جو بظاہر لفظوں سے متبادر نہیں ہوتا تو کیا اس شخص کو مخالفت حدیث کاملزم قرار دیا جا سکتا ہے؟ اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز سے منع فرمایا ہے تو کیا ہر مقام پر اس منع اور نہی سے حرمت اور کراہت تحریمی ہی مراد ہوگی یا یا ا س سے ترک اولیٰ اور کراہت تنزیہی بھی مراد ہو سکتی ہے؟ اور اگر آپ نے کوئی حکم ارشاد فرمایا ہے تو کیا ہر مقام پر وہ امر وجوب ہی کے لیے ہوگا یا کہیں محض ارشاد اور مشورہ کے لیے بھی ہو سکتا ہے جس کا نہ ماننے والا عاصی اور نافرمان نہیں کہلایا جا سکتا؟ 
ہم نہایت اختصار کے ساتھ ان امور پر روشنی ڈالتے ہیں۔ غور فرمائیں:
  • حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ احزاب کے موقع پر (جب کہ یہود بنی قریظہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف انتہائی ریشہ دوانی کرنے کے بعد مدینہ طیبہ سے چند میل دور قلعہ بند ہو گئے تھے) یہ ارشاد فرمایا کہ فوراً بنو قریظہ کے پاس پہنچو اور تم میں سے کوئی شخص بھی عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنو قریظہ میں جا کر۔ چنانچہ راستے میں ان میں سے بعض پر عصر کی نماز کا وقت آ گیا۔ ان میں سے کچھ حضرات نے کہا کہ ہم تو بنو قریظہ ہی میں جا کر نماز پڑھیں گے اور بعض دیگر نے کہا کہ ہم تو نماز یہاں ہی پڑھیں گے، کیونکہ ہم سے یہ تو طلب نہیں کیا گیا کہ ہم نماز نہ پڑھیں۔ انھوں نے نماز پڑھ لی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا ذکر ہوا تو آپ نے کسی کو ملامت نہ کی۔ (بخاری۲/۵۹۱)
    ان میں سے ایک گروہ نے معنی مراد کو ملحوظ رکھ کر عصر کے وقت نماز پڑھ لی اور دوسرے گروہ نے ظاہری الفاظ کو دیکھا اور نماز عصر، عشا کے بعد بنو قریظہ پہنچ کر پڑھی۔ حافظ ابن القیمؒ لکھتے ہیں کہ پہلا گروہ فقیہ تھا اور وہ دوہرے اجر کا مستحق ہوا اور دوسرا گروہ معذور بلکہ ماجور تھا مگر ایک اجر کا وہ بھی مستحق ہوا۔ (زاد المعاد ۲/۷۲)
    تعجب ہے کہ حضرات صحابہ کرام کا ایک گروہ ظاہری الفاظ کے خلاف عمل کرتا ہے اور وہ پھر بھی قابل ملامت نہیں ٹھہرتا بلکہ ماجور ہوتا ہے اور اجر بھی دوہرا۔ اور مفہوم کو وہ لفظوں کے اندر چھپا ہوا پاتا ہے، ظاہری الفاظ میں تو اس کی کہیں بو تک محسوس نہیں ہوتی۔ اگر مخالفت حدیث کا یہ مطلب ہوتا کہ ظاہری الفاظ کی مخالفت ہو اور معنی مستنبط کو نظر انداز کر دیا جائے تو یہ ضرور مخالفت ہوگی، ورنہ یہ عمل بالحدیث ہی ہوگا جو کسی طرح قابل ملامت نہیں ہے۔
  • آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی حضرت ماریہؓ کو منافقین کے ایک گروہ نے ان کے چچازاد بھائی حضرت مابور سے متہم کر دیا۔ یہ خبر اس انداز سے پھیلی کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس خبر کا یقین آ گیا اور کچھ قرائن اور شواہد بھی ایسے تھے جن کی وجہ سے آپ کا یہ یقین بے جا نہ تھا۔ آپ نے غیرت میں آکر حضرت علی سے فرمایا کہ مابور کو جہاں ملے، جا کر قتل کر دو۔ آپ کے الفاظ یہ ہیں: ’اذہب فاضرب عنقہ‘ (مسلم ۲/۳۶۸) ’’جا اور جا کر اس کی گردن اڑا دے۔‘‘
    حضرت علی گئے تو دیکھا کہ وہ ایک کنویں میں پاؤں لٹکائے ہوئے بیٹھا ہے اور اس کو جو وہاں سے کھینچا تو اس کشمکش میں ا س کا تہ بند کھل گیا۔ حضرت علی نے جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ مجبوب ونامرد تھا اور اس کا سرے سے آلہ تناسل ہی نہ تھا۔ (مسلم) حضرت علی نے جب یہ محسوس کیا کہ اس شخص میں قتل کرنے کی وہ علت ہی نہیں پائی جاتی جس کی بنا پر مجھے دربار رسالت سے حکم ملا تھا تو انھوں نے آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اس ظاہری حکم کی تعمیل نہ کی اور واپس جا کر آپ سے یہ ماجرا بیان کیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’الشاہد یری ما لا یری الغائب‘ (مسند احمد) ’’حاضر وہ کچھ دیکھ سکتا ہے جو غائب نہیں دیکھ سکتا۔‘‘
    آپ جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح اور بالمشافہہ حکم اور وہ بھی تعزیر وحد کی مد کا جس میں بحکم خداوندی کسی نرم اور رافت کی کوئی گنجایش ہی نہیں، کیا درجہ رکھتا ہے! مگر حضرت علی اس حکم کی تعمیل کرنے سے اپنے آپ کو قاصر پاتے ہیں اور دربار نبوت سے بجائے ملامت اور سرزنش کے وہ اس ترک حکم پر داد تحسین حاصل رتے ہیں۔ اب کیا کہا جائے کہ حضرت علی آپ کے اس حکم اور حدیث کی مخالفت کی وجہ سے منکر اور مخالف حدیث ہیں؟ حاشا وکلا کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
  • o حضرت علی ہی کی ایک روایت میں ہے، وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نوکرانی نے زنا کیا۔ مجھے آپ نے فرمایا کہ جا کر اس کو کوڑے لگا دو۔ میں گیا تو دیکھا کہ اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے۔ مجھے خوف ہوا کہ اگر میں نے اس کو سزا دی تو کہیں وہ مر ہی نہ جائے۔ میں بغیر سزا دیے واپس آپ کی خدمت میں پہنچا اور سارا قصہ سنا دیا۔ آپ نے فرمایا : تو نے اچھا کیا ہے۔ (مسلم ۲/۷۱)
    غور فرمائیے کہ آپ کا ظاہری حکم مقید اور مشروط نہ تھا، لیکن حضرت علی نے جو فقہاے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں، اپنے تفقہ واجتہاد سے یہ سمجھا کہ آپ کا حکم درحقیقت مشروط ومقید ہے بایں شرط کہ وہ لونڈی ہلاک نہ ہو جائے، اور زچگی کی حالت میں سزا دینا ہو سکتا ہے کہ اس کی موت پر منتج ہو، اس لیے انھوں نے کوئی سزا نہ دی اور واپس چلے آئے۔ آپ نے یہ سن کر بجائے اس کے کہ ان کو عصیاں اور رو گردانی کے داغ سے داغدار کرتے، الٹا ان کی تائید وتصویب اور تحسین فرمائی: احسنت، کہ تو نے اچھا کیا۔ برعکس اس کے اگر اس حالت میں حضرت علی اس کو کوڑے لگا دیتے تو آپ کے ظاہری حکم کی تعمیل کی وجہ سے بہت ممکن ہے کہ وہ معتوب ٹھہرتے۔ اس ایک ہی واقعہ سے بہت سے اجتہادی، قیاسی اور فروعی مسائل جو بظاہر بعض احادیث کے ظاہری الفاظ کے مخالف نظر آتے ہیں، خود بخود حل ہو جاتے ہیں۔ ہاں، مگر مجتہد میں تفقہ واجتہاد کا ملکہ ہونا ضروری ہے۔
  • آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خصال فطرت بیان فرماتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’ونتف الابط‘ (بخاری ۲/۸۷۵۔ مسلم ۱/۱۲۸۔ ابو عوانہ ۱/۱۹۰) ’’زیر بغل بال اکھاڑے جائیں۔‘‘ لغت عربی میں نتف کے معنی موچنے کے ساتھ بالوں کے اکھاڑنے کے آتے ہیں۔ کسی صحیح اور مرفوع روایت میں حلق الابط (استرے کے ساتھ زیر بغل بالوں کا منڈانا) نہیں آتا، مگر جمہور امت نتف پر عمل نہیں کرتے۔ امام نووی اور قاضی شوکانی نتف الابط کی شرح میں لکھتے یں کہ زیر بغل بالوں کا اکھاڑنا بالاتفاق سنت ہے اور افضل اس میں جو ا س پر قوی ہو، اکھاڑنا ہی ہے اور منڈوانے اور چونہ سے زائل کرنے سے بھی یہ مقصود حاصل ہو جاتا ہے۔ یونس بن عبد الاعلیٰ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں امام شافعی کے پاس گیا تو ان کے پاس حجام تھا جو ان کی بغلوں کے بال استرے سے صاف کر رہا تھا۔ حضرت امام شافعی نے ازخود ہی یہ فرمایا کہ میں اس کو جانتا ہوں کہ سنت بالوں کا اکھاڑنا ہی ہے مگر میں اس تکلیف کو برداشت نہیں کرسکتا۔ (شرح مسلم ۱/۱۲۹۔ نیل الاوطار ۲/۱۲۴)
    جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث میں بصراحت کوئی ایسی قید ثابت نہیں کہ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو اکھاڑنے پر قوی ہو مگر شراح حدیث اس کو اس قید سے مقید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ استرے اور چونے سے بھی یہ مقصود حاصل ہو جاتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امام اہل سنت حضرت امام شافعیؒ بھی فرماتے ہیں کہ نتف الابط کی حدیث پر باوجود اس کو سنت کہنے کے عمل نہیں کر سکے اور معذرت کر گئے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو حضرات روح شریعت سے واقف ہیں اور صرف پوست پر ہی اکتفا نہیں کرتے، وہ ازروے تفقہ یہ سمجھتے ہیں کہ مقصود بالذات تو بالوں کا دور کرنا ہے، خواہ وہ کسی بھی صورت سے حاصل ہو جائے۔
  • حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’لا یتمنین احدکم الموت من ضر اصابہ فان کان لابد فاعلا فلیقل اللہم احینی ما کانت الحیوۃ خیرا لی وتوفنی اذا کانت الوفاۃ خیرا لی‘ (بخاری ۲/۸۴۷) ’’تم میں سے کوئی شخص بھی ہرگز کسی دکھ کی وجہ سے جو اسے پہنچا ہو، موت کی تمنا مت کرے۔ سو اگر خواہ مخواہ یہ تمنا کرنی ہی ہے تو یوں کہے: اے اللہ، تو مجھے زندہ رکھ اگر میرے لیے زندگی بہتر ہے اور تو مجھے وفات دے دے اگر میرے حق میں وفات بہتر ہے۔‘‘
    اس حدیث میں لفظ ’ضر‘ مطلق ہے، عام اس سے کہ یہ ضرر دینی ہو یا دنیوی، مگر شراح حدیث اس مقام میں اسے دنیوی ضرر سے مقید کرتے ہیں چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے موت کی آرزو کی تھی جب کہ معاملات بہت پیچیدہ ہو گئے اور فتنے بڑھ گئے اور قتل وقتال کا بازار گرم ہو گیا ور قیل وقال بہت کثرت سے شروع ہو گئی تھی۔ اسی طرح جب امام بخاری کی حالت سخت ہو گئی اور اپنے مخالفین سے پریشانیوں کا سامنا ہوا تو انھوں نے بھی موت کی آرزو کی تھی۔ ابن کثیرؒ نہی عن الموت کی حدیث کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ’ضر‘ سے مراد اس حدیث میں ایسا ضرر جو آدمی کو بدنی طور پر پیش ائے مثلاً بیماری وغیرہ۔ اس سے دینی ضرر مراد نہیں ہے۔ (البدایہ والنہایہ ۱/۲۱۹)
    غور فرمائیے کہ جو شخص ضرر کی دینی اور دنیوی تقسیم نہیں کرے گا اور حدیث میں نہی کو عام سمجھے گا تو اس کے خیال میں حضرت علی اور حضرت امام بخاری وغیرہ اس صحیح حدیث کے مخالف نظر آئیں گے۔ اور اگر وہ اس حدیث کے اندر یہ تقسیم تلاش کرے گا تو اس کو ناکامی ہوگی، مگر شراح حدیث اور فقہاے امت کے تفقہ سے یہ گتھی سلجھے گی اور ان اکابر کے خلاف مخالف حدیث ہونے کا ادنیٰ وہم بھی نہیں ہو سکے گا۔
  • کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے نہی فرماتے ہیں، لیکن الفاظ اس تفصیل اور تشریح سے خاموش ہوتے ہیں کہ اس میں نہی کا درجہ کیا ہے؟ حرام ہے یا خلاف اولیٰ؟ مگر تاڑنے والی نگاہیں اپنی خدادا فراست وبصیرت اور تفقہ سے اس کا مقام متعین کر لیتی ہیں۔ مثلاً حضرت ام عطیہ کی حدیث میں آتا ہے کہ ’نہینا عن اتباع الجنائز ولم یعزم علینا‘ (بخاری ۱/۱۷۰) ’’ہم عورتوں کو جنازوں میں شریک ہونے سے منع کیا گیا ہے لیکن ہم پر اس کی تاکید نہیں کی گئی۔‘‘
    امام نووی اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازوں میں شریک ہونے سے منع کیا ہے، لیکن یہ نہی تنزیہی کے درجہ کی ہے، نہی تاکیدی اور تحریمی کے مرتبہ کی نہیں ہے۔
    اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ام عطیہ نے اپنی بصیرت اور تفقہ سے آپ کی اس نہی کا درجہ قائم کیا ہے، حالانکہ حدیث میں صرف نہی کے الفاظ ہیں اور اس میں یہ تقسیم مذکور وموجود نہیں ہے مگر ا س کے اندر کی حقیقت اور تہہ کو سمجھنا بڑا اہم اور ضروری کام ہے اور اسی کو پا لینے کا نام تفقہ ہے۔
  • بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی حکم صادر فرماتے ہیں مگر وہ حکم صرف مشورہ کی حد تک ہوتا ہے اور اس کا ماننا نہ ماننا دونوں جائز ہوتے ہیں اور آپ کے ایسے حکم کا انکار (معاذ اللہ) آپ کی نافرمانی تصور نہیں ہوتی۔ مثلاً جب حضرت بریرہ کو آزادی حاصل ہوئی تو شرعی مسئلے کے تحت ان کو اپنے خاوند حضرت مغیث کے پاس رہنے یانکاح فسخ کرانے کی اجازت ملی۔ انھوں نے حضرت مغیث سے رستگاری کو ترجیح دی اور وہ بے چارے گلیوں میں حضرت بریرہ کے پیچھے رو رو کر یہ التجا کرتے رہے کہ تو مجھ سے الگ نہ ہو، مگر وہ نہ مانیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بریرہ، تو مغیث کے پاس ہی رہے تو کیا اچھا ہے۔ وہ کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ! کیا آپ مجھ کو اس کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ حکم تو نہیں دیتا، صر ف سفارش کرتا ہوں۔ بریرہ نے کہا تو پھر مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ (بخاری ۲/۷۹۵۔ مشکوٰۃ ۲/۲۷۶)
    دیکھیے کہ حضرت بریرہ اپنے تفقہ فی الدین کی وجہ سے آپ کے حکم وارشاد کا درجہ خود آپ ہی سے متعین کرانا چاہتی ہیں کہ اگر یہ حکم اور امر ہے تو مجھے اس کے تسلیم کرنے سے کیا چارہ ہے! اور اگر صرف مشورہ ہے تو مجھے قبول کرنے یا نہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ چنانچہ آپ کے ارشاد کے بعد حضرت بریرہ نے وہی کچھ کیا جو ان کو پسند تھا اور حضرت مغیث سے رہائی حاصل کر لی۔
  • کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ خداوند عزیز کے حکم کی حقیقت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے مجتہد کو حکم خداوندی سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے اجتہادی حکم پر عمل کرنا پڑے گا اور اس طریق سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل ہوگی۔ چنانچہ ایک طویل حدیث میں یہ آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب لشکر کو جہاد کے لیے روانہ فرماتے تو امراے لشکر کو نہایت ضروری اور مفید وصایا اور نصائح فرماتے اور ان میں یہ بھی مذکور ہے کہ جب تم اہل قلعہ کا محاصرہ کر لو اور وہ تم سے مصالحت کرتے ہوئے یہ ارادہ کریں کہ تم ان کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر اتارو تو تم ان کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر پناہ نہ دو، بلکہ ان کو اپنے حکم پر پناہ دو کیونکہ تم یہ نہیں جانتے کہ کیا تم ان کے حق میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو پا سکو گے یا نہیں۔ (مسلم ۲/۸۲۔ ابو داؤد ۱/۳۵۲۔ ترمذی ۱/۱۹۷۔ ابن ماجہ ص ۲۱۰)
    اندازہ فرمائیے کہ ایک مقام وہ بھی نکل آیا جہاں مجتہد بحکم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے حکم سے بایں وجہ صرف نظر کرتے ہوئے کہ وہ شاید اس تک نہ پہنچ سکے، اپنے حکم پر فیصلہ پر مامور ہے۔ علاوہ ازیں آپ کی اس ممانعت اور نہی میں تحریم وتنزیہ کی کوئی قید موجود نہیں، مگر امام نووی وغیرہ اس کو نہی تنزیہی پر حمل کرتے ہیں۔ غور فرمائیے کہ ان دقیق اور عمیق علمی باریکیوں کو بھلا درایت وفراست کی بصیرت وفہم اور فقہ واجتہاد کے بغیر کس طرح حل کیا جا سکتا ہے؟
  • آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ہدی‘ یعنی حج کے موقع پر قربانی کے لیے مکہ مکرمہ لے جائے جانے والے جانور کا ’اشعار‘ کرنے یعنی ان کے جسم پر ایک زخم لگا دینے کا حکم دیا ہے، مگر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی دیگر صحیح اور صریح روایات جانوروں پر تعدی سے منع کرتی ہیں۔ اہل عرب کے پاس اونٹ بھی فراواں تھے اور وہ سنت کے مطابق اشعار کا طریقہ بھی بخوبی جانتے تھے، بخلاف اکثر اہل عجم کے جو ایسے طریقے پر اشعار کرتے جس سے زخم جسم میں سرایت کر جاتا اور اس سے قربانی کے جانوروں کے ہلاک ہونے کا خطرہ ہوتا تھا۔ چنانچہ امام ابو حنیفہ نے سد ذرائع کے طور پر اس سے منع کر دیا کیونکہ عوام اس کی رعایت نہیں رکھ سکتے تھے۔ (فتح الملہم ۳/۳۱۰)
    یہ ایسے ہی ہے جیسے حضرت عبد اللہ بن عمر سے لوگوں کے مسجد میں صلوٰۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) پڑھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ بدعت ہے۔ (بخاری ۱/۲۳۸۔ مسلم ۱/۴۰۹) امام نووی اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کی مراد یہ ہے کہ چاشت کی نماز کو مسجد میں ظاہر کر کے پڑھنا اور اس کے لیے اجتماع کرنا یہ بدعت ہے، نہ یہ کہ نفس صلوٰۃ الضحیٰ ہی بدعت ہے۔ (شرح مسلم ۱/۴۰۹) اور اہل علم پر یہ بات مخفی نہیں کہ بعض چیزیں باوجود سنت ہونے کے جب ان کے ساتھ مزید غیر شرعی قیود شامل ہو جائیں تو وہ بدعت ہو جاتی ہیں۔
    ان مثالوں سے ہر منصف مزاج بآسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ حدیث کے ظاہری الفاظ کے علاوہ اس کے اندر اور اس کی تہہ میں کہیں شرط خفتہ ہوتی ہے اور کہیں قید پوشیدہ ہوتی ہے، کہیں کوئی علت اور لم پنہاں ہوتی ہے اور کہیں برعکس ظاہری الفاظ کے ادب مستحب مضمر ہوتا ہے، کہیں امر میں استحباب واباحت کے مراتب مخفی ہوتے ہیں اور کہیں نہی میں احتیاط وتنزیہ کارفرما ہوتے ہیں، کہیں ترفق وترحم سبب قرار پاتے ہیں اور کہیں مشورہ وسہولت کا مقام ہویدا ہوتا ہے، اور کہیں صاف الفاظ تو کچھ کہتے ہیں مگر ان کے اندر معنئ مستنبط کچھ اور ہی جھلکتا ہے جس کو صرف فقیہ اور مجتہد کی نظربصیرت اور فراست علمی ہی تاڑ سکتی ہے، اور باقی پوست کے دل دادہ مغز کی لطف اندوزی سے یکسر محروم اور حرماں نصیب ہی رہتے ہیں۔
(ماخوذ از ’’مقام ابی حنیفہ‘‘۔ ترتیب وتدوین: عمار ناصر)

شریعت، مقاصد شریعت اور اجتہاد

محمد عمار خان ناصر

(یہ مقالہ ۲۸ تا ۳۰ ؍ اکتوبر ۲۰۰۷ کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد کے شعبۂ اقبالیات کے زیر اہتمام ’’اقبال کا تصور اجتہاد‘‘ کے زیر عنوان منعقد ہونے والے قومی سیمینار کے لیے لکھا گیا۔)

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم. الحمد للّٰہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی خاتم المرسلین وعلٰی آلہ واصحابہ اجمعین. اما بعد.
اجتہاد کا بنیادی مقصد زندگی اور اس کے معاملات کو قرآن وسنت کے مقرر کردہ حدود میں اور ان کی منشا کے مطابق استوار کرنا ہے۔ اس ضمن میں شارع کی منشا کو عملی حالات پر منطبق کرنے اور بدلتے ہوئے حالات اور ارتقا پذیر انسانی سماج کا رشتہ قرآن وسنت کی ہدایت کے ساتھ قائم رکھنے کا وظیفہ بنیادی طور پر انسانی فہم ہی انجام دیتا ہے اور ایک طرف قرآن وسنت کی منشا اور دوسری طرف پیش آمدہ مخصوص صورت حال یا مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے اور ان دونوں کے باہمی تعلق کو متعین کر کے ایک مخصوص قانونی حکم لاگو کرنے کی اسی علمی وفکری کاوش کو اصطلاح میں ’اجتہاد‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
معاصر مسلم فکر اسلام میں اجتہاد کی اہمیت، اس کے دائرۂ کار، اس کو بروے کار لانے کے عملی طریقہ اور پیش آمدہ اجتہاد طلب مسائل اور مشکلات کے حوالے سے چند در چند فکری اور عملی سوالات سے نبرد آزما ہے جن میں سے ایک اہم اور بنیادی بحث یہ ہے کہ قرآن وسنت میں قانون ساز ی کے لیے عمومی نوعیت کے رہنما اصولوں کے علاوہ جو متعین احکام اور قوانین بیان ہوئے ہیں، ان کی قدر وقیمت کیا ہے، ان کے ساتھ کس نوعیت کی وابستگی شارع کو مطلوب ہے اور ثبات وتغیر کے پہلو سے ان قوانین کے ظاہری ڈھانچے کی پابندی کس حد تک ضروری ہے؟ اس ضمن میں جو احکام خصوصیت سے زیر بحث ہیں، ان میں نکاح وطلاق کے معاملات میں شوہر اور بیوی کے حقوق میں امتیاز، وراثت کے حصوں کی متعین تقسیم اور معاشرتی جرائم کے حوالے سے قرآن کریم کی بیان کردہ سزائیں شامل ہیں۔ ایک مکتب فکر یہ رائے رکھتا ہے کہ یہ قوانین اپنے ظاہر کے لحاظ سے ابدی حیثیت کے حامل نہیں، بلکہ محض قانونی نظائر کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے یہ تو سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک مخصوص معاشرتی تناظر میں شریعت کے ان ابدی مقاصد و مصالح کو عملی طور پر کیسے متشکل کیا گیا جو ان قوانین کے پس منظرمیں کارفرما ہیں، لیکن بذات خود ان قوانین کو ہر دور میں بعینہٖ برقرار رکھنا ضروری نہیں اور اصل مقصد یعنی عدل وانصاف پر مبنی معاشرہ کے قیام اور جرائم کی روک تھام کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی معاشرے کی نفسیات اور تمدنی حالات وضروریات کے لحاظ سے میاں بیوی کے حقوق و فرائض کے مابین کوئی نئی تقسیم وجود میں لائی جا سکتی، ترکے میں ورثہ کے حصوں کے تناسب کو بدلا جا سکتا اور قتل، زنا، چوری اور دیگر معاشرتی جرائم پر قرآن کی بیان کردہ سزاؤں سے مختلف سزائیں تجویز کی جا سکتی ہیں۔ زیر نظر مقالے میں اسی زاویۂ نگاہ کے استدلال اور اس کے ساتھ موضوع سے متعلق چند دیگر پہلووں کا ایک طالب علمانہ جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
کسی بھی نقطۂ نظر کی صحت وصداقت کو جانچنے کا طریقہ ظاہر ہے کہ یہی ہو سکتا ہے کہ اس علمی استدلال کا تنقیدی جائزہ لیا جائے جو اس کے حق میں پیش کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات تمہیداً واضح رہنی چاہیے کہ زیر بحث نقطۂ نظر کی ترجمانی مختلف اہل فکر نے مختلف زاویوں سے کی ہے اور ا س کے حق میں پیش کیے جانے والے استدلال کے shades بھی مختلف ہیں۔ یہاں ان سب کا فرداً فرداً جائزہ لینا ممکن نہیں، چنانچہ میں نے اپنے فہم کی حد تک اس بحث کے بنیادی نکتے کومتعین کر کے اسی کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ اگر میرا فہم غلط ہے یا اس میں استدلال کا کوئی قابل لحاظ پہلو اپنی صحیح جگہ نہیں پا سکا تو اسے ایک طالب علم کے علم اور مطالعہ کی کمی پر محمول کرتے ہوئے، جس کے لیے میں پیشگی معذرت خواہ ہوں، صرف نظر کر لیا جائے۔ 
جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، زیر بحث نقطۂ نظر کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ شارع کے بیان کردہ کسی بھی حکم کے بارے میں اس کی اصل منشا کو جاننے کے لیے نصوص کے الفاظ اور کلام کے داخلی سیاق وسباق کے علاوہ حکم کے تاریخی سیاق کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ تاریخی سیاق میں وہ سماجی اور تمدنی احوال وظروف بھی شامل ہیں جن میں کوئی حکم دیا گیا، مخاطب کے وہ ذہنی سوالات واشکالات بھی جو دراصل متکلم کو دعوت کلام دیتے ہیں اور وہ محرکات وعوامل اور پیش نظر مصالح ومقاصد بھی جو قانون کو ایک مخصوص شکل دینے کا سبب اور داعی بنے۔ گویا کسی بھی حکم کی نوعیت، قدر وقیمت اور اہمیت کے بارے میں شارع کی منشا جاننے کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ نصوص کے الفاظ اور سیاق کلام میں موجود داخلی دلالتوں پر غور کر لیا جائے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس ماحول اور سماجی تناظر کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے جو ان نصوص کے فہم کے لیے خارجی سیاق کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کے بیان کردہ احکام کو ان کے تاریخی سیاق میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوانین اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی نئے اور اچھوتے حکم کے طور پر نہیں دیے گئے تھے، بلکہ ان کے لیے عرب معاشرت میں پہلے سے رائج قوانین اور عادات کو خام مواد کے طور پر استعمال کیا گیا تھا اور انھیں افراط وتفریط سے پاک کر کے اس وقت کے حالات کے لحاظ سے ممکن حد تک ایک متوازن صورت دے دی گئی تھی۔ چونکہ یہ قوانین نزول قرآن کے زمانے میں اہل عرب کے مخصوص سماجی وتمدنی پس منظر میں تشکیل پائے تھے اور ان کی اصلاح وترمیم میں معاشرتی ارتقا کے اس مخصوص مرحلے کو ملحوظ رکھا گیا تھا جس سے عرب معاشرہ اس وقت گزر رہا تھا، اس لیے ان قوانین کی relevance اور عملی افادیت کو اصلاً اس مخصوص سماجی تناظر میں دیکھنا چاہیے، جبکہ اس سے مختلف تہذیبی وسماجی پس منظر اور معاشرتی ارتقا کے اگلے مراحل میں ان قوانین کی ظاہری شکل وصورت پر اصرار کرنے کے بجائے شریعت کے عمومی رہنما اصولوں کی روشنی میں، جنھیں عام طور پر ’’مقاصد شریعت‘‘ کا عنوان دیا جاتا ہے، قوانین کی ظاہری شکل وصورت ازسرنو وضع کی جانی چاہیے جو ہم عصر سماجی تناظرمیں اصل مقصد کے لحاظ سے زیادہ مفید اور کارآمد ہو۔ 
یہ استدلال ذرا باریک بینی سے تجزیے کا تقاضا کرتا ہے۔ خارجی سیاق کے کسی کلام کے فہم میں معاون اور مددگار ہونے کے تین الگ الگ پہلو ہو سکتے ہیں: 
ایک یہ کہ وہ اس سوال یا اس تقاضے کو واضح کرتا ہے جس کے جواب میں کلام صادر ہوا ہے اور جس کو سمجھے بغیر کلام کا صحیح محل اور اس کا Stress واضح نہیں ہو سکتا۔ یہ چیز بعض اوقات کلام کے اندر صراحتاً یا اشارتاً بیان ہوئی ہوتی ہے اور بعض اوقات اس کے لیے خارجی سیاق سے مدد لینا پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید نے ان عورتوں کے بیان میں جن سے نکاح حرام کیا گیا ہے، فرمایا ہے کہ ’وَحَلَآءِلُ اَبْنَآءِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلاَبِکُمْ‘، ۱ ؂ یعنی تمھارے صلبی بیٹوں کی بیویاں تمھارے لیے حرام ہیں۔ یہاں صلبی بیٹوں کی تصریح کا محل سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اہل عرب کے ہاں متبنیٰ کی بیوی سے نکاح کو بھی حرام سمجھا جاتا تھا اور قرآن اس تصریح سے یہ واضح کرنا چاہ رہا ہے کہ اس کے نزدیک صرف حقیقی بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے۔ 
دوسرا پہلو یہ ہے کہ قرآن نے عرب معاشرت کے رسوم اور قوانین کی اصلاح کرکے ان کو جو نئی شکل دی، ان کی معنویت کو سمجھنے اور یہ جاننے کے لیے کہ جاہلی معاشرے کی کون سی قدروں اور رسموں کو قرآن نے الٰہی منشا کے مطابق پا کر انھیں برقرار رکھا اور ان میں کہاں کہاں اور کس حد تک اصلاح وترمیم کی، تاریخی تناظر میں اس دور کی عرب معاشرت کو سامنے رکھا جائے۔ اس تقابلی مطالعے کے لیے ظاہر ہے کہ خود قرآن میں موجود تصریحات اور اشارات کے علاوہ خارجی سیاق کو واضح کرنے والے دیگر تاریخی مآخذ سے بھی مدد لی جائے گی۔
تیسرا پہلو یہ ہے کہ خارجی سیاق کی روشنی میں یہ طے کیا جائے کہ جو حکم دیا گیا ہے، اس کی اہمیت اور قدر وقیمت آیا ابدی اور دائمی ہے یا وقتی اور عارضی۔
ان میں سے پہلے دو پہلووں سے خارجی سیاق کا کلام کی تفہیم میں معاون ہونا واضح ہے، البتہ اس کا تیسرا پہلو جو زیر بحث استدلال میں بیان ہوا ہے، بحث طلب ہے، اس لیے کہ یہاں حکم کے تاریخی وسماجی تناظر سے نفس حکم کی تفہیم میں نہیں، بلکہ اس امر کے ضمن میں استدلال کیا جا رہا ہے کہ صاحب حکم کے نزدیک اس حکم کی نوعیت کیا ہے اور آیا وہ اسے ایک ابدی حکم کی حیثیت سے بیان کر رہا ہے یا وقتی اور عارضی حکم کی حیثیت سے۔ یہ نکتہ اس لیے بحث طلب ہے کہ استدلال میں حکم کے الفاظ اور داخلی قرائن اور دلالتوں کے بجائے اس کے خارجی سیاق کو حکم کی نوعیت واہمیت کے بارے میں شارع کی منشا جاننے کا بنیادی وسیلہ قرار دیا گیا ہے، جبکہ عقلی طور پر خارجی سیاق اس امر پر دلالت کرنے کی فی نفسہٖ صلاحیت ہی نہیں رکھتا، اس لیے کہ محض اس بات سے کہ شارع نے کوئی حکم ایک مخصوص دور میں دیا تھا اور اس کے اولین مخاطب ایک مخصوص معاشرے کے لوگ تھے، یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ اس حکم میں لازماً اس مخصوص سماج ہی کی ضروریات اور تقاضوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور ابدی طور پر اس کی پابندی مطلوب نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقلی طور پر جہاں یہ امکان موجود ہے کہ شارع نے اس حکم میں اپنے اولین مخاطبین ہی کے حالات کی رعایت ملحوظ رکھی ہو اور بعد میں آنے والوں کے لیے اس کی پابندی کو لازم نہ ٹھہرایا ہو، وہاں یہ امکان بھی پایا جاتا ہے کہ اس نے اپنے ہمہ گیر اور کامل علم کی بنا پر حکم کی شکل متعین کرتے ہوئے مستقبل کے جملہ امکانات اور احوال و ضروریات کو بھی پیش نظر رکھا ہو اور حکم کو آنے والی تمام نسلوں کے لیے بھی واجب الاطاعت قرار دیا ہو۔ ان دو ممکنہ طریقوں میں سے شارع نے کون سا طریقہ اختیار کیا ہے، خارجی سیاق بذات خود اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے اور زیر بحث استدلال میں احکام شرعیہ کے تاریخی سیاق سے جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے، وہ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ایک اور مقدمہ استدلال میں شامل کیا جائے، یعنی یہ کہ قانون، خواہ وہ محض انسانی فہم اور بصیرت کو بروے کار لانے کا نتیجہ ہو یا اس کو خدا کے علم اور فیصلے پر مبنی ہونے کی سند بھی حاصل ہو، ہر حال میں مخصوص سماجی وتمدنی احوال سے پیدا ہوتا اور انھی کے تابع ہوتا ہے، اور یہ کہ قانون کی اخلاقی اور افادی بنیاد ہی وہ قدر ہے جو ابدی اور غیر متغیر رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جبکہ قوانین کی صورت میں انسانوں پر واجبات اور پابندیاں عائد کرنے کا عمل قانون کے مقصد کو عملی صورت میں متشکل کرنے کے لیے محض ایک عارضی ذریعے اور وسیلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ 
اگر میرا یہ طالب علمانہ تجزیہ درست ہے تو اس سے زیر بحث استدلال کی نوعیت میں ایک جوہری فرق واقع ہو جاتا ہے، اس لیے کہ استدلال کااصل ہدف کسی حکم کے ابدی یا وقتی ہونے کے بارے میں شارع کی منشا کو متعین کرنا ہے، جبکہ اس مقصد کے لیے نصوص کے الفاظ اور سیاق وسباق سے ہٹ کر تاریخی سیاق کے نام سے جس چیز کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے، وہ حقیقت میں منشاے کلام کے زیر بحث پہلو یعنی حکم کی ابدیت یا غیر ابدیت کو متعین کرنے کا کوئی ایسا قرینہ ہی نہیں جس سے فی نفسہٖ کوئی ایک یا دوسرا نتیجہ اخذ کیا جا سکے۔ اس طرح زیر بحث موقف اپنی حقیقت کے اعتبار سے کلام کے غیر منفک قرائن سے اخذ ہونے والا کوئی نتیجہ نہیں، بلکہ یہ حقیقتاً پیشگی فرض کیے جانے والے ایک مستقل بالذات عقلی مقدمے پر منحصر قرار پاتا ہے۔ 
اس ضمن میں بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ خود اس مقدمے کا ماخذ کیا ہے؟ آیا یہ کتاب وسنت کے نصوص پر مبنی ہے یا ان سے مجرد ہو کر خالص عقلی قیاسات کی بنیاد پر فرض کیا گیا ہے؟ اگر دوسری صورت ہے تو اگلا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ شارع کی منشا متعین کرنے کے لیے کتاب وسنت کے نصوص کی طرف رجوع کرنے کے بجائے ایک خالص عقلی مقدمہ قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ آیا نصوص اس معاملے میں خاموش ہیں اور ان سے اس ضمن میں کوئی رہنمائی نہیں ملتی؟ اگر مفروضہ یہ ہے تو اسے قرآن مجیدکے واضح اور صریح بیانات کو نظر انداز کیے بغیر قبول کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ دیکھیے:
قرآن مجید میں یہ بات مختلف پہلووں سے واضح کی گئی ہے کہ کسی معاملے میں خدا کی طرف سے کوئی متعین حکم آجانے کے بعد انسانوں کے لیے اس کی پابندی لازم ہو جاتی ہے اور وہ اس سے گریز کا اختیار نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر تورات میں قاتل سے خون بہا لے کر اسے معاف کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی، تاہم قرآن نے اس کی اجازت دی ہے۔ اس موقع پر کیا جانے والا تبصرہ قابل توجہ ہے۔ فرمایا ہے کہ ’ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ‘۔۲؂ اس کا مطلب یہ ہے کہ قتل کی صورت میں قاتل کو قتل کرنا یا اس سے دیت لے کر معاف کر دینا انسانوں کی صواب دید پر مبنی نہیں، بلکہ یہ اجازت خدا کی طرف سے رحمت کی وجہ سے ملی ہے اور اگر وہ اس کی اجازت نہ دیتا تو قاتل کو قصاص میں قتل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔ 
ایک دوسرے موقع پر قرآن نے یتیموں کے سرپرستوں کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ یتیموں کے مال کا الگ حساب کتاب رکھنے میں دقت محسوس کریں تو اسے اپنے مال میں ملا سکتے ہیں، البتہ بد نیتی سے اس کا مال ہڑپ کرنے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔ یہاں فرمایا ہے کہ ’وَلَوْ شَآءَ اللّٰہُ لَاَعْنَتَکُمْ‘ ۳؂ یعنی اگر اللہ چاہتا تو تم پر لازم کر دیتا کہ یتیموں کے مال کو الگ ہی رکھو اور اس سے تم مشقت میں پڑ جاتے۔ یہ جملہ بھی یہ واضح کرتا ہے کہ خدا کی طرف سے آنے والا حکم واجب الاطاعت ہے اور اگر اللہ نے نرمی اور سہولت پر مبنی کوئی حکم دیا ہے تو اسے خدا کی عنایت سمجھنا چاہیے۔
خدا کے ’حکم‘ کی یہ حیثیت تورات کے احکام کے حوالے سے بھی قرآن مجید کے نصوص سے واضح ہوتی ہے اور خود قرآن کے اپنے بیان کردہ احکام کے حوالے سے بھی۔ چنانچہ تورات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس میں بنی اسرائیل کو جو شریعت دی گئی، وہ اس کے پابند ٹھہرائے گئے تھے۔ حضرت موسیٰ سے کہا گیا تھاکہ ’فَخُذْہَا بِقُوَّۃٍ وَّاْمُرْ قَوْمَکَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِہَا‘۔ ۴؂ بنی اسرائیل کی پوری تاریخ میں ان کے انبیا اور قاضی اسی کے قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے کے پابند تھے: ’یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالرَّبَّانِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ وَکَانُوْا عَلَیْْہِ شُہَدَآءَ‘۔ ۵؂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب ایک موقع پر یہود نے زنا کے ایک مقدمے کے فیصلے کے لیے تورات میں موجود حکم پر عمل کرنے کے بجائے منافقانہ غرض سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا تو قرآن نے ان کی اس منافقت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ ’وَکَیْْفَ یُحَکِّمُوْنَکَ وَعِنْدَہُمُ التَّوْرَاۃُ فِیْہَا حُکْمُ اللّٰہِ‘ ۔۶؂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقدمے میں یہود کی منشا کو بالکل الٹتے ہوئے مجرموں پر تورات ہی کی سزا نافذ فرمائی اور پھر کہا: ’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَوَّلُ مَنْ اَحْیَا اَمْرَکَ اِذْ اَمَاتُوْہُ‘۷؂ ۔
بنی اسرائیل پر ان کی سرکشی کی پاداش میں بہت سی حلال چیزیں بھی حرام کر دی گئی تھیں اور زیادہ سخت قوانین کی پابندی لازم قرار دے دی گئی تھی۔ قرآن مجید نے واضح کیا ہے کہ ان احکام اور پابندیوں کے بارے میں یہ واضح ہونے کے باوجود کہ یہ ایک مخصوص دور میں بنی اسرائیل کی طرف سے ظاہر کیے جانے والے سرکشی کے رویے پر مبنی تھیں، بنی اسرائیل کو وقت گزرنے کے ساتھ ان احکام میں ازخود کوئی تبدیلی یا لچک پیدا کرنے کا اختیار حاصل نہیں تھا، تا آنکہ اللہ کا کوئی پیغمبر ہی اللہ کی طرف سے حکم میں تبدیلی کی خبر دے۔ چنانچہ یہ حضرت عیسیٰ ہی کا اختیار تھا کہ وہ خدا کی اجازت سے ’وَلِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْْکُمْ‘۸؂ کا اعلان کریں۔ اسی طرح یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا منصب تھا کہ آپ ’وَیَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْْہِمْْ‘۹؂ کی ذمہ داری انجام دیں۔ 
قرآن مجید نے خود اپنے احکام کے بارے میں بھی یہی بات واضح کی ہے، چنانچہ قرآن مجید میں بہت سے احکام کے بارے میں یہ تصریح موجود ہے کہ وہ معاشرے کے معروف یعنی دستور اور رواج پر مبنی ہیں۔ مثلاً بیویوں کے مہر، ۱۰؂ نان ونفقہ،۱۱؂ بچے کو دودھ پلانے کی اجرت،۱۲؂ طلاق کی صورت میں بیوی کو دیے جانے والے تحائف،۱۳؂ خواتین کے اپنے حق نکاح کو استعمال کرنے۱۴؂ اور یتیم کے مال میں اس کے سرپرست کے حق ۱۵؂ کے بارے میں یہی فرمایا گیا ہے کہ ان کا فیصلہ معروف کے مطابق کیا جائے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے احکام کے بارے میں متعین قانون سازی کا طریقہ بھی اختیار کیا گیا ہے اور ان قوانین کی پابندی کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں دیت اور وراثت کے احکام بطور خاص قابل توجہ ہیں:
قرآن مجید نے سورۂ نساء میں قتل خطا کے احکام بیان کرتے ہوئے مقتول کے ورثہ کو دیت دینے اور کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔۱۶؂ یہاں دیت کی مقدار کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی، بلکہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے ’فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْف‘۱۷؂ کہہ کر اس معاملے کو دستور اور رواج کے سپرد کر دیا ہے، لیکن اس بات کی وضاحت کو یہاں موضوع بنایا گیا ہے کہ دیت کی ادائیگی کس صورت میں ضروری ہے اور کس صورت میں نہیں، چنانچہ کہا گیا ہے کہ مقتول مسلمان کا تعلق اگر دار الاسلام سے یا کسی معاہد قوم سے ہو تو دیت کی ادائیگی لازم ہے، لیکن اگر وہ کسی دشمن گروہ کا فرد تھا تو دیت کے بجائے صرف کفارہ ادا کرنا کافی ہوگا۔ اسی طرح کفارے کی مختلف صورتوں کی بھی باقاعدہ وضاحت کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ کفارے کے طور پر ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا ہوگا اور اگر یہ میسر نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ہوں گے۔ 
ابتدا میں مرنے والے پر یہ لازم کیا گیا تھا کہ وہ اپنے مال میں والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے وصیت کر دے،۱۸؂ لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے والدین، اولاد، میاں بیوی اور بہن بھائیوں کے حصے خود مقرر فرما دیے۔۱۹؂ ان دونوں احکام کے بیان کا اسلوب ایک دوسرے سے قطعی طور پر مختلف ہے۔ چنانچہ پہلے حکم میں ورثہ کے حصص متعین نہیں کیے گئے اور صرف یہ تلقین کی گئی ہے کہ دستور اور رواج کے مطابق انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے وصیت کی جائے، بلکہ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اگر مرنے والے کی وصیت میں کسی جانب داری یا حق تلفی کا پہلو دکھائی دے تو اس میں تبدیلی بھی کی جا سکتی ہے۔ اس کے برعکس جہاں اللہ تعالیٰ نے ورثہ کے حصص خود بیان فرمائے ہیں، وہاں اس کو اللہ تعالیٰ کی وصیت قرار دیا ہے جس میں کسی زیادتی یا جانب داری کا خدشہ نہیں ہو سکتا۔ مزید یہ کہ ان کی حیثیت ’فریضۃ من اللّٰہ‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ایک فرض کی ہے جس سے انحراف یا تجاوز کرنے پر دوزخ کے عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔ 
اب اگر شارع کو شریعت کے ظاہری احکام کی پیروی مطلوب نہیں اور ان کی حیثیت محض وقتی ہدایات یا نظائر کی ہے تو قرآن مجید کے بعض احکام کو معاشرے کے معروف اور دستور پر مبنی قرار دینے جبکہ بعض کو متعین صورت میں بیان کرنے اور پھر ان کی پابندی کی پرزور تاکید کرنے کی وجہ آخر کیا ہو سکتی ہے؟
قرآن کے احکام کی ابدی حیثیت تورات کے احکام اور قرآن مجید میں دی جانے والی شریعت کے مابین پائے جانے والے ایک بنیادی فرق سے بھی واضح ہوتی ہے۔ تورات کے ساتھ قرآن مجید کے تقابل سے واضح ہوتا ہے کہ تورات کے برعکس قرآن مجید میں شریعت کو قصداً بہت مختصر اور محدود رکھا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہ تعلیم بھی دی گئی ہے کہ جن معاملات کی تفصیل کو اللہ تعالیٰ نے ازخود بیان نہیں کیا، ان میں سوالات اور استفسارات کے ذریعے سے خدا کی منشا کو متعین طور پر معلوم کرنے سے گریز کیا جائے۔ سورۂ مائدہ میں ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِن تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ وَاِن تَسْئَلُوْا عَنْہَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَکُمْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہَا وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ.(۵: ۱۰۱)
’’اے ایمان والو، ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو اگر تم پر واضح کر دی گئیں تو تمھیں مصیبت میں ڈال دیں گی۔ اور جب تک قرآن نازل ہو رہا ہے، اگر تم ان کے بارے میں پوچھو گے تو وہ تمھارے لیے واضح کر دی جائیں گی۔ اللہ نے خود ہی ان کو بیان نہیں کیا اور اللہ بہت بخشنے والا اور بڑے تحمل والا ہے۔‘‘
یہ آیت اس معاملے میں صریح نص کی حیثیت رکھتی ہے کہ قرآن مجید میں بیان کردہ احکام کی فی نفسہٖ پابندی لازم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس میں شریعت کو محض اس حد تک محدود رکھنے کا اہتمام کیا ہے جو اس کے پیش نظر مقاصد کے لحاظ سے ہر دور کے لیے موزوں، مناسب اور مطلوب ہے۔ ورنہ اگر قرآن کے بیان کردہ قوانین محض وقتی نظائر کی حیثیت رکھتے ہیں تو ان کو مختصر اور محدود رکھنے اور مسکوت عنہ امور کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی منشا معلوم کرنے کے لیے سوال کرنے کی ممانعت بالکل بے محل اور ناقابل فہم ہو جاتی ہے۔
شرعی قوانین واحکام کی اصولی حیثیت کے حوالے سے مذکورہ نصوص کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھیے کہ خاندانی قوانین میں مرد اور عورت کے مابین امتیاز اور معاشرتی جرائم پر شریعت کی مقرر کردہ جن سزاؤں کو محض ایک مخصوص سماجی صورت حال کا تقاضا قرار دیا جاتا ہے، خود قرآن وسنت کے نصوص ان احکام کو ایک بالکل مختلف زاویے سے پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن مجید نے ’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ‘ اور ’لِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ‘ کے الفاظ میں خاندانی رشتے میں بیوی کے مقابلے میں شوہر کی جو بالاتر حیثیت بیان کی ہے، زیر بحث زاویۂ نگاہ کی رو سے تاریخی سیاق کی روشنی میں اس کی وجہ محض یہ تھی کہ خواتین اس وقت کسب معاش کے میدان میں مردوں سے مسابقت کی پوزیشن میں نہیں تھیں اور ان کی کفالت کی ذمہ داری شوہروں پر ہی عائد ہوتی تھی، اس لیے اگر جدید تمدن میں خواتین کے لیے اپنی معاشی کفالت خود کرنے کے مواقع پیدا ہو گئے ہیں تو اس کے نتیجے میں حق طلاق، وراثت کے حصوں اور دیگر امور میں بھی میاں بیوی کے مابین مساوات پیدا کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ تاہم قرآن کا زاویۂ نگاہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ 
اولاً، قرآن مجید نے ’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ‘  کی اصل وجہ معاشی کفالت نہیں، بلکہ یہ بیان کی ہے کہ ’بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘، یعنی مردوں کو اللہ تعالیٰ نے بعض خلقی صفات کے لحاظ سے عورتوں پر برتری عطا کی ہے اور اس برتری کی بنا پر خواتین کے تحفظ اور کسب معاش کی ذمہ داری بھی فطری طور پر انھی پر عائد ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں شوہر کا بیوی کی کفالت کرنا محض ایک واقعے کا بیان نہیں، بلکہ ایک ذمہ داری کا بیان ہے اور سماجی وتمدنی تبدیلی خواتین کے لیے معاشی میدان میں مسابقت کے دروازے کتنے ہی کھول دے، کفالت کی یہ ذمہ داری مرد پر ہی عائد رہے گی۔ عقل وانصاف کے زاویے سے بھی اس امر پر زیادہ استدلال کی ضرورت نہیں کہ طبعی و خلقی نزاکتوں اور بچوں کی ولادت اور پرورش کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنی معاشی کفالت کی ذمہ داری بھی خواتین پر ڈال دینا ان کے ساتھ صریح بے انصافی ہے اور قرآن دراصل انھیں اسی سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ گویا معاشی کفالت میاں بیوی کے مابین فرق مراتب کی اصل وجہ نہیں، بلکہ اصل وجہ پر متفرع ہونے والا ایک نتیجہ ہے اور اپنی اساس کے ابدی ہونے کی بنا پر اس کو نظر انداز کرکے حقوق وفرائض کی کوئی نئی تقسیم قائم کرنا علم وعقل اور انصاف کے تقاضوں کو پامال کیے بغیر ممکن نہیں۔
ثانیاً، قرآن مجید نے اس سے آگے بڑھ کر فرق مراتب کی بنیاد پر ہی خاوند کو یہ حق دیا ہے کہ اگر بیوی شوہر کی اس بالاتر حیثیت کو چیلنج کرے اور سرکشی کر کے خاندان کے نظم کو بربادی کے گڑھے میں دھکیلنا چاہے تو وعظ ونصیحت کے بعد شوہر اپنی بیوی کو مناسب جسمانی تادیب کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ اگر شوہر کو حاصل برتری محض ایک مخصوص سماجی صورت حال کی پیداوار تھی تو قرآن کو اس کے خاتمے کی ترغیب دینے کے بجائے اس کو برقرار رکھنے کے لیے ازخود اس طرح کے اقدامات تجویز کرنے کی آخر کیا ضرورت تھی؟ یہ بات اس تناظر میں بالخصوص قابل توجہ ہے کہ غلاموں اور لونڈیوں کے معاملے میں اس سے مختلف رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے، چنانچہ ایک شخص نے اپنے غلام کو اس کی کسی غلطی پر تھپڑ مار دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اسے تنبیہ فرمائی اور پھر جب اس شخص نے اس پر نادم ہو کر غلام کو آزاد کر دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم ایسا نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمھیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔۲۰؂ 
ثالثاً، مرد کے لیے تسلیم کی جانے والی برتری کو ایک وقتی سماجی ضرورت کی پیداوار قرار دینا اس لیے بھی ناقابل فہم ہے کہ قرآن براہ راست طلاق دینے کے حق کو صرف شوہر کے لیے بیان کرتا ہے جس کی توجیہ معاشی کفالت کے اصول پر نہیں کی جا سکتی، اس لیے کہ شادی سے پہلے لڑکی کی کفالت کے ذمہ دار اس کے اہل خاندان ہوتے تھے اور شادی کے بعد شوہر، لیکن اس کے باوجود ان میں سے کسی کو بالغ عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر کرنے کا حق نہیں دیا گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ معاشی انحصار فی نفسہٖ عورت کو اپنی ذات کے بارے میں فیصلہ کرنے کے حق سے محروم نہیں کرتا۔ پس اگر معاشی انحصار رشتۂ نکاح کو وجود میں لانے کے معاملے میں عورت سے اس کے اختیار کو سلب کرنے کی وجہ نہیں بن سکتا تو اسے اس رشتے کو ختم کرنے کے حق کی نفی کی بنیاد بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ نکتہ بھی اس امر کو واضح کرتا ہے کہ شوہر کو بیوی پر ایک درجہ زیادہ دینے کی توجیہ، جس کا ایک اظہار حق طلاق کی صورت میں بھی ہوتا ہے، محض معاشی کفالت کے اصول پر نہیں کی جا سکتی۔
رابعاً، خاندانی رشتے میں شوہر کی بالادستی کے کم از کم ایک اور نہایت بنیادی پہلو کی غالباً زیر بحث نقطۂ نظر کے ترجمان اہل فکر بھی نفی نہیں کرتے۔ میری مراد بچے کے نسب سے ہے۔ اگر شوہر کو حاصل ایک درجے کی بالادستی مخصوص سماجی صورت حال پر مبنی تھی اور قرآن دراصل معاشرتی ارتقا کو اس رخ پر آگے بڑھانا چاہتا ہے جس کا نتیجہ میاں بیوی کے یکساں اور مساوی حقوق کی صورت میں نکلے تو ظاہر ہے کہ اس بالادستی کے تمام مظاہر اور نتائج کو اس صورت حال میں تبدیلی کے ساتھ ختم ہو جانا چاہیے۔ چنانچہ یہ ماننا پڑے گا کہ جیسے ہی میاں بیوی کے مابین مساوات کے موانع ختم ہو جائیں اور اس مساوات کو عملاً قائم کرنا ممکن ہو، اس کے بعد بچے کے نسب کو باپ کے ساتھ وابستہ رکھنا ضروری نہیں رہے گا۔ جب میاں اور بیوی، دونوں خاندانی رشتے میں مساوی حیثیت کے حامل ہیں تو بچے کے نسب اور اس کی شناخت میں بنیادی حوالہ باپ کا کیوں ہو اور اس نسب کی حفاظت کے لیے شریعت میں جو بعض دیگر احکام دیے گئے تھے، مثلاً عدت گزارنا اور بیوی کے لیے بیک وقت ایک سے زائد شادی کا حق تسلیم نہ کرنا وغیرہ، وہ بھی قانون کی بنیاد ختم ہو جانے کے بعد کیوں باقی رہیں؟ اور اگر یہ نتیجہ قابل قبول نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشی کفالت کے جس اصول کو شوہر کی بالادستی کی واحد بنیاد قرار دیا گیا تھا، وہ بجائے خود ناقص اور محل نظر ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میاں بیوی کے رشتے اور اس سے قائم ہونے والے حقوق وفرائض اور فرق مراتب کو سماجی ومعاشی صورت حال سے پیدا ہونے والی ایک ضرورت کے طور پر بیان نہیں کرتا، بلکہ اسے مخصوص مذہبی مفہوم میں ’تقدس‘ کا درجہ عطا کرتا ہے۔ قرآن کے نزدیک دنیوی زندگی کے معاملات کو دیکھنے کا صحیح زاویۂ نگاہ مابعد الطبیعیاتی، اخلاقی اور روحانی ہے اور وہ انسانی تعلقات کے دوسرے دائروں کی طرح خاندان کے دائرے میں بھی اس پہلو کو خاص طور پر اجاگر کرتا ہے، چنانچہ وہ خاوند کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی جانے والی فضیلت اور اس سے پیدا ہونے والی حقوق وفرائض کی تقسیم کو تسلیم کرنے اور عملاً اس کی پابندی قبول کرنے کو نیکی، تقویٰ اور اطاعت کی لازمی شرط قرار دیتا ہے۔ سورۂ نساء کی آیت ’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ‘ ۲۱؂ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس حکم کی تمہید کے طور پر میاں اور بیوی کے مابین فرق مراتب کو دنیا میں خدا کی اسکیم کا حصہ قرار دیتے ہوئے یہ تلقین کی ہے کہ ’وَلاَ تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘ ۲۲؂ یعنی جو فضیلت اللہ نے اپنی حکمت کے تحت تم میں سے بعض کو بعض پر دی ہے، اس کے خواہش مند نہ بنو۔ آگے چل کر نیک بیویوں کی علامت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی فرماں بردار اور مطیع ہوتی ہیں اور پھر شوہروں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر بیویاں اس سے مختلف رویہ اختیار کریں تو وہ آخری چارۂ کار کے طور پر ان کی جسمانی تادیب بھی کر سکتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات اسی حقیقت کو واضح کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ عورت اگر پانچ وقت کی نماز ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو جنت میں داخل ہونے کی مستحق بن جاتی ہے۔۲۳؂ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں خدا کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔۲۴؂ 
شوہر اور بیوی کے رشتے کی یہ نوعیت اگر جدید مغربی فکر کے لیے قابل قبول نہیں تو یہ تاریخی سیاق اور سماجی ضروریات کے بدلنے کا مسئلہ نہیں، بلکہ مابعد الطبیعیات کا سوال ہے۔ انسانی حقوق اور مساوات کے جدید مغربی تصور کے لیے یہ بات اس لیے ناقابل فہم ہے کہ یہ تصور انسان کی عظمت ومرکزیت اور انفرادیت پسندی کے اس گمراہ کن فلسفے سے پھوٹا ہے جو انسان کو اس کے گرد وپیش میں پھیلی ہوئی کائنات اور اس کے خالق سے بے نیاز کر کے اس کے اندر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ فرد کی شخصی انا، احساسات، خواہشات اور مفادات اصل اور اساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور تمام اخلاقی ومعاشرتی ضابطے دراصل سماج میں رہنے والے افراد کے انفرادی حقوق اور خواہشات کے تحفظ اور تکمیل کی خدمت انجام دینے کے علاوہ اپنے اندر کوئی معنویت نہیں رکھتے۔ حب ذات کا یہ بے لگام جذبہ ہی ان تمام مذہبی، روحانی اور اخلاقی قدروں کی تباہی کا سبب ہے جو نہ صرف انسان کی شخصیت، بلکہ خاندان اور سماج کی پاکیزہ نشوو نما کے لیے بھی ضروری ہیں۔ یہ فکر وفلسفہ انسانوں میں پائے جانے والے بعض نفسیاتی احساسات کو نامعقول حد تک انگیخت کر کے انھیں اعلیٰ روحانی ، اخلاقی اور سماجی قدروں سے بغاوت پر آمادہ کرتا ہے اور اس طرح رشتوں، ناتوں اور تعلقات میں تناؤ اور کشاکش کی ایسی فضا پیدا کر دیتا ہے کہ پورا سماج، مختلف طبقات کے مابین شدید بداعتمادی اور بد گمانی کے ماحول میں ’انسانی حقوق‘ کے میدان جنگ کی تصویر پیش کرنے لگتا ہے جس میں خدا کے حکم کی اطاعت میں اس کی قائم کردہ تقسیم کو قبول کرنا اور حیات انسانی کو ایک اخلاقی آزمایش سمجھتے ہوئے اپنے اپنے دائرے میں اللہ کی مقرر کردہ حدود کی پاس داری کرنے اور فرائض کو بجا لانے کا تصور ایک بالکل اجنبی تصور قرار پاتا ہے۔ 
یہی معاملہ مختلف معاشرتی جرائم کے حوالے سے قرآن مجید کی مقرر کردہ سزاؤں کا بھی ہے۔ ان سزاؤں میں کوڑے لگانے، ہاتھ کاٹنے، سولی دینے اور عبرت ناک طریقے سے قتل کر دینے جیسی سزائیں شامل ہیں۔ قرآن مجید ان سخت سزاؤں کو محض ایک سماجی ضرورت کے طور پر بیان نہیں کرتا، بلکہ اس میں خود خدا کو بھی ایک فریق قرار دیتا ہے۔ 
چنانچہ وہ چوری کرنے پر ہاتھ کاٹنے کو ’نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ‘ ۲۵؂ یعنی اللہ کی طرف سے عبرت کا نمونہ۔ اور محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرموں کے لیے عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے، سولی دینے یا ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے کو ’ذٰلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا‘ ۲۶؂ یعنی دنیا میں ان کے لیے رسوائی قرار دیتا ہے۔ زنا کی سزا کے بارے میں اس نے فرمایا ہے کہ یہ خدا کے دین پر عمل درآمد کا معاملہ ہے، اس لیے نہ صرف مجرم پر ترس کھانے یا نرم دلی کا کوئی جذبہ سزا کے نفاذ کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس سزا کو کھلے بندوں مجرم پر نافذ کرنے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ ۲۷؂ اب دور جدید میں ان سزاؤں سے مختلف سزائیں تجویز کرنے کی وجہ محض کوئی سماجی مصلحت نہیں، بلکہ فکر ونظر کے زاویے میں واقع ہونے والا ایک نہایت بنیادی اختلاف ہے۔ جدید ذہن کو یہ سزائیں سنگین،متشددانہ اور قدیم وحشیانہ دور کی یادگار دکھائی دیتی ہیں اور وہ انھیں انسانی عزت اور وقار کے منافی تصور کرتا ہے اور زاویۂ نگاہ کی یہ تبدیلی محض قانون کی سماجی مصلحت کے دائرے تک محدود نہیں، بلکہ یہ سوال قانون کی مابعد الطبیعیاتی اور اعتقادی بنیادوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اسلام خدا کے سامنے مکمل تسلیم اور سپردگی کا نام ہے۔ یہ سپردگی مجرد قسم کے ایمان واعتقاد اور بعض ظاہری پابندیوں کو بجا لانے تک محدود نہیں، بلکہ انسانی جذبات واحساسات بھی اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ محبت، نفرت، ہمدردی اور غصے جیسے جذبات اور حب ذات، آزادی اور احترام انسانیت جیسے احساسات وتصورات نفس انسانی میں خدا ہی کے ودیعت کردہ اور اس اعتبار سے بجائے خود خدا کی امانت ہیں، چنانچہ اسلام کے نزدیک ان کا اظہار اسی دائرۂ عمل میں اور اسی حد تک قابل قبول ہے جب تک وہ خدا کے مقرر کردہ حدود کے پابند رہیں۔ اس سے تجاوز کرتے ہوئے اگر ان کو کوئی مقام دیا جائے گا تو یہ خدا کی امانت کا صحیح استعمال نہیں، بلکہ اس میں خیانت کے مترادف ہوگا۔ شیطان اسی لیے راندۂ درگاہ ٹھہرا تھا کہ اس نے ’خودی‘ کو حکم خداوندی سے بھی بلند کر لیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ قرآن نے مجرموں کے لیے اپنی بیان کردہ سزاؤں کے نفاذ کے معاملے میں مجرم پر کوئی ترس نہ کھانے کو ’اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ‘  کہہ کر براہ راست ایمان کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ پس جدید انسانی نفسیات اگر جرم وسزا سے متعلق قرآنی احکام سے نفور محسوس کرتی ہے تو یہ محض قانون کی مصلحت یا اس کے سماجی تناظر کے بدل جانے کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کی جڑیں قانون کی مابعد الطبیعیاتی اساسات میں پیوست ہیں اور اس معاملے میں جدید فکر کے ساتھ کمپرومائز کا جواز فراہم کرنے کے لیے معاشرتی مصالح کے تناظر میں قانون میں تبدیلی کرنے کا اصول کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے ’اجتہاد‘ کے دائرے کو ایمان واعتقاد تک وسیع کرنا پڑے گا۔
مذکورہ بحث سے واضح ہے کہ قرآن مجید نہ صرف اپنے بیان کردہ احکام کی فی نفسہٖ پابندی کو اصولی طور پر لازم قرار دیتا ہے، بلکہ اپنے احکام کی بنیادیں بھی اس سے مختلف بیان کرتا ہے جو زیر بحث نقطۂ نظر میں ان کے لیے فرض کر کے ان کی روشنی میں احکام کی شکل وصورت کو ازسرنو وضع کرنے کا حق مانگا جا رہا ہے۔ چنانچہ یہ مفروضہ کہ دین کے نصوص اپنے بیان کردہ احکام کی نوعیت وحیثیت کے بارے میں خاموش ہیں، اس لیے اس نکتے کا فیصلہ تاریخی سیاق کی روشنی میں کیا جائے گا، ایک بدیہی اور واضح حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ اب اگر ان نصوص کو نظر انداز کر کے احکام شریعت کی نوعیت وحیثیت کو طے کرنے کی بحث کا مدار خالصتاً کسی عقلی مقدمے پر رکھا جائے تو یہ بنیادی طور پر ایک فلسفیانہ طریق استدلال ہوگا جو دائرۂ ایمان کے اندر نہیں، بلکہ اس سے باہر کھڑے ہو کر ہی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان اگرچہ بذات خود عقلی اساسات پر استوار ہوتا ہے، لیکن ایمان لے آنے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ اب عقل آزادانہ فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی اور اس کی ساری تگ وتاز کا دائرہ خدا اور اس کے پیغمبر کی منشا اور مراد کا فہم حاصل کرنے تک محدود ہو گیا ہے، اس لیے ایمان کے دائرے کے اندر اس بات کا کوئی جواز نہیں کہ مذہبی سرچشموں کو خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مشمولات کا علم حاصل کرنے کے لیے تو ماخذ تسلیم کیا جائے لیکن ان مشمولات کی نوعیت وحیثیت اور قدر وقیمت متعین کرنے کے لیے عقل بجائے خود فیصلہ کرنے کے لیے آزاد ہو۔ 
تاہم یہاں بحث کا ہر ممکن زاویے سے جائزہ لینے کی خاطر ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اس طریقۂ استدلال کی گنجایش موجود ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایک مخصوص دور میں اپنے بندوں کے لیے جو ہدایت نازل کی، اس کے مشمولات کا علم حاصل کرنے کی حد تک تو نصوص سے استفادہ کیا جائے گا، لیکن جہاں تک ان کے مختلف اجزا کی نوعیت یا قدر و قیمت کا تعلق ہے تو اس کی تعیین کے لیے نصوص سے ہٹ کر آزادانہ عقلی استدلال کو بروے کار لایا جائے گا۔ عقلی استدلال ظاہر ہے کہ انسانی نفسیات ومحسوسات کے مطالعہ اور تجربہ ومشاہدہ پر مبنی سماجی علوم سے ترتیب پانے والے عقلی مقدمات پر مبنی ہوگا اور انھی کی روشنی میں یہ طے کیا جائے گا کہ ہدایت کے مشمولات میں سے کون سا جزو کیا قدر و قیمت رکھتا ہے اور اس سے کس نوعیت کی وابستگی ضروری یا غیر ضروری ہے۔ اس صورت میں ایک نہایت بنیادی سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اگر بحث کا مدا ر اصلاً عقلی استدلال پر ہے تو پھر ابدی طور پر مطلوب مقاصد اور ان کے حصول کے وقتی، عارضی اور قابل تبدیل ذرائع اور وسائل میں فرق کا معیار کیا ہوگا؟ جہاں تک میں غور کر سکا ہوں، عقلی استدلال کی بنیاد پر اس طرح کا کوئی امتیاز قائم کرنا ممکن نہیں اور اگر اس طریقۂ استدلال کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے تو بطور ایک دین کے خود اسلام کے امتیازی تشخص ہی کو محفوظ رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس نکتے کو چند مثالوں سے واضح کرنا شاید زیادہ مناسب ہوگا۔
عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ شریعت کے جملہ احکام کے پس منظر میں بنیادی طور پر دین، جان، مال، عقل اور نسل کی حفاظت کے مقاصد کارفرما ہیں۔ ان میں سے دین کو لیجیے: یہاں جان، مال، آبرو اور نسل کے تقابل میں دین سے مراد وہ مذہبی آداب ورسوم، شعائر اور پرستش کے مختلف طریقے ہیں جو انسان کے جذبۂ عبودیت کے اظہار اور اس کے مذہبی جذبات کو ’symbolize‘ کر کے انھیں ایک حسی صورت عطا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا شارع کا مقصد اس اصل جذبۂ عبودیت کا تحفظ ہے جو عبادت کی ان ظاہری صورتوں کا محرک بنتا اور ان میں سرایت کیے ہوئے ہے یا یہ بات بھی مقصد کا حصہ ہے کہ ان جذبات واحساسات کا اظہار انھی مخصوص صورتوں کے ذریعے سے کیا جائے؟ منطقی طور پر یہ کلیہ کہ مخصوص سماجی اور تاریخی تناظر میں دیے جانے والے قانون کی ظاہری صورت کے بجائے اس کے مقاصد مطلوب ہوتے ہیں، صرف سماجی نوعیت کے قوانین پر نہیں، بلکہ مذہبی رسوم وشعائر اور عبادات سے متعلق قوانین پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر سماج اور معاشرے سے متعلق احکام وقوانین کی ظاہری صورت کی پابندی لازم نہیں تو عبادات کی ظاہری صورتوں کو لازم قرار دینے کی بھی کوئی وجہ نہیں بالخصوص اس تناظر میں کہ معاشرتی و سماجی احکام کی طرح عبادات سے متعلق اسلامی شریعت کے قوانین میں بھی اہل عرب ہی کی مذہبی روایت کو بنیاد بنایا گیا ہے اور ان پر ان کے مخصوص مذہبی مزاج، ذوقی مناسبت اور تہذیبی وسماجی رجحانات کی چھاپ پوری طرح موجود ہے۔ اگر اصول یہ ہے کہ شارع کو حکم کی ظاہری شکل نہیں، بلکہ اس کی روح مطلوب ہے اور اس کے لیے کوئی بھی شکل اختیار کر لینا ہر معاشرے کے اپنے مخصوص مزاج اور رجحانات پر منحصر ہے تو پھر عبادات کے دائرے میں بھی یہ کہنے میں منطقی طور پر کوئی مانع موجود نہیں کہ خدا کی یاد کے لیے نماز سے ہٹ کر کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جا سکتا، تقویٰ اور ضبط نفس پیدا کرنے کے لیے روزے کے علاوہ بدنی ریاضت کی کوئی بھی صورت اپنائی جا سکتی،اور مذہبی احساسات کو پیکر محسوس میں ڈھالنے کے لیے مختلف اذواق، تہذیبی رجحانات اور تمدنی حالات کے لحاظ سے پیغمبر سے ثابت رسوم و شعائر کے علاوہ متبادل طریقے بھی اپنائے جا سکتے ہیں۔ آخر اہل عرب کے ذوق ورجحان اور تمدنی حالات کی عکاسی کرنے والے طریقہ ہاے عبادت کی پابندی چین، ہندوستان اور افریقہ کے باشندوں پر کیوں لازم کی جائے اور ان کے ہاں ان کے اپنے اپنے تہذیبی تناظرمیں تشکیل پانے والے عبادات ورسوم کے جو الگ اور مخصوص ڈھانچے موجود ہیں، ان کی ضروری تہذیب وترمیم کے بعد انھیں انھی ڈھانچوں کو اختیار کیے رکھنے کی آزادی کیوں نہ دی جائے؟ بلکہ خود عرب معاشرت نے تاریخی اور تمدنی ارتقا کے جو اگلے مراحل طے کیے ہیں، وہ اگر ان طریقہ ہاے عبادت میں کسی جزوی یا کلی تبدیلی کا تقاضا کریں تو اس پر کس بنیاد پر کوئی قدغن لگائی جائے؟
ان طریقوں کو لازم قرار دینے کے لیے پیغمبر کی سند پیش کرنا بے کار ہوگا، کیونکہ بحث اس مفروضے پر ہو رہی ہے کہ الٰہی ہدایت کے مشمولات جاننے کے لیے تو پیغمبر سے رہنمائی لی جائے گی، لیکن ان کی حیثیت واہمیت نصوص کے بجائے مقاصد اور مصالح کی روشنی میں محض عقلی اصولوں پر طے کی جائے گی، چنانچہ عبادات کی ظاہری صورتوں کو لازم قرار دینے کے لیے نصوص کا حوالہ اس تناظر میں استدلال کے بنیادی مقدمے کے خلاف ہوگا۔ دونوں قسم کے قوانین میں امتیاز کے لیے یہ استدلال بھی یہاں نہیں چل سکتا کہ انسانی سماج چونکہ تغیر اور ارتقا کے مراحل سے گزرتا رہتا ہے، اس لیے اس دائرے میں قانون میں بھی ارتقا اور تبدیلی کی ضرورت سامنے آتی رہتی ہے، جبکہ مراسم عبادت میں ایسی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ استدلال اول تو اس لیے نتیجہ خیز نہیں کہ یہاں اصل سوال یہ نہیں کہ قانون میں تبدیلی کسی ضرورت کے تحت کی جائے گی یا بغیر ضرورت کے، بلکہ یہ ہے کہ خالص عقلی بنیاد پر کسی مخصوص طریقۂ عبادت کی پابندی لازم ہونے کی کیا دلیل ہے؟ تبدیلی کی ضرورت نہ بھی ہو، تب بھی اگر کوئی فرد یا گروہ اصل مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ذوق ورجحان اور مخصوص تہذیبی پس منظر کے لحاظ سے کوئی متبادل طریقہ عبادت اختیار کرتا ہے تو آخر کس عقلی بنیاد پر اس کو غلط کہا جا سکتا ہے؟ دوسرے یہ کہ خالص انسانی زاویۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو مراسم عبادت میں تبدیلی کی ضرورت پیش نہ آنے کی بات واقعاتی اعتبار سے بھی درست نہیں۔ مثال کے طور پر فجر کی نماز کے لیے فجر کا وقت مقرر کرنے کی حکمت تاریخی سیاق کے اعتبار سے یہ تھی کہ قدیم تمدن میں یہی وقت لوگوں کے نیند سے بیدار ہونے کا وقت تھا اور ان سے یہ مطالبہ کرنا موزوں تھا کہ وہ اٹھتے ہی بارگاہ الٰہی میں حاضری دیں اور اس کے بعد اپنے معمولات زندگی کی طرف متوجہ ہوں۔ اگر جدید تمدن نے لوگوں کے سونے اور بیدار ہونے کے معمولات میں تبدیلی پیدا کر دی ہے تو یہ تغیر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ فجر کی نماز کا وقت بھی اس کے لحاظ سے تبدیل کر دیا جائے۔ اسی طرح حج کی عبادت کو سال کے چند مخصوص ایام میں محدود کرنا بہرحال مشکلات ومسائل کا باعث بن رہا ہے اور ذرائع مواصلات کی ترقی اور حاجیوں کی سال بہ سال بڑھتی ہوئی تعداد یہ تقاضا کرتی ہے کہ اگر کوئی دوسرا مرکز حج مقرر کرنا وحدت کے منافی ہو تو کم از کم اس عبادت کے لیے سال میں ایک سے زیادہ مواقع تو ضرور فراہم کرنے چاہییں۔
اب تک کی بحث سے ہم اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ خالص عقلی بنیاد پر پیغمبروں کی لائی ہوئی ہدایت کے زیادہ سے زیادہ اعتقادی اور اخلاقی حصے ہی کو ابدی مانا جا سکتا ہے، جبکہ مخصوص قوانین کی پابندی پر اصرار کی، چاہے وہ سماجی قوانین ہوں یا عبادات سے متعلق، کوئی قطعی بنیاد موجود نہیں۔ اب اس سے اگلے مرحلے کی طرف آئیے: اگر مابعد الطبیعیاتی تصورات پر ایمان اور اخلاقی طرز زندگی کو اپنانا ہی الٰہی ہدایت کا اصل مطلوب ہے، جبکہ مراسم عبودیت یا سماجی قوانین کا کوئی بھی ڈھانچہ عمومی، اخلاقی یا مذہبی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے وضع کیا جا سکتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کے لیے کسی شخص کا مسلمان ہونا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ کر آپ کی امت میں شامل ہونا کیوں ضروری ہے؟ خدا کا پیغمبر اور الٰہی ہدایت کا حامل ہونے کے اعتبار سے تمام پیغمبر یکساں احترام کے مستحق ہیں اور سب کے سچا ہونے پر بیک وقت ایمان رکھا جا سکتا ہے۔ پھر کسی شخص کے لیے حضرت موسیٰ پر ایمان لانے اور حضرت محمد پر ایمان لانے میں عملی اعتبار سے کیا فرق ہے، جبکہ عقائد واخلاق میں دونوں کی تعلیم یکساں ہے اور ظاہری قوانین و احکام کے دائرے میں نہ شریعت موسوی کی پابندی ضروری ہے اور نہ شریعت محمدی کی؟ اگر ایک شخص توحید اور آخرت کو مانتا ہے، سب رسولوں کو یکساں قابل احترام اور سچا تسلیم کرتا ہے، اخلاقی طرز زندگی کا پابند ہے، اور جذبۂ عبودیت کا اظہار بھی کسی نہ کسی طریقے سے کر لیتا ہے تو اسے ’قبول اسلام‘ کی دعوت کیوں اور کس مقصد کے لیے دی جائے اور دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے بعد آخر اسے مزید کیا کرنا ہوگا، جبکہ الٰہی ہدایت کے سارے مطلوبات تو وہ اس کے بغیر بھی پورے کر سکتا ہے اور کر رہا ہے؟ 
حفاظت دین کے بعد اب مقاصد شریعت میں سے ایک دوسرے مقصد یعنی نسل کی حفاظت کو لیجیے: اس سے مراد خاندان کے ادارے کی صورت میں نسل انسانی کی حفاظت اور بقا کا انتظام کرنا ہے جس کے لیے نکاح وطلاق، عدت اور نسب سے متعلق قوانین مقرر کیے گئے اور زنا کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ جہاں تک میرے علم میں ہے، زیر بحث نقطۂ نظر فی نفسہٖ خاندان کے ادارے کو مطلوب اور مقصود سمجھتا ہے اور اس کی بقا کے لیے نکاح، عدت اور نسب وغیرہ سے متعلق شرعی قوانین کو بھی ابدی تسلیم کرتا ہے، جبکہ واقعہ یہ ہے کہ منطقی طور پر خود اس طریقۂ استدلال کے تحت یہ سوال اٹھانا بھی پوری طرح ممکن ہے کہ خود نکاح اور عدت ونسب وغیرہ احکام سے شارع کا اصل مقصد نسل انسانی کی حفاظت اور بقا ہے یا اس کے لیے خاندان کا ادارہ قائم کرنے کا یہ مخصوص طریقہ اور ذریعہ بھی بجائے خود مقصود ہے؟ خالص عقلی بنیاد پر اس استدلال میں کوئی مانع نہیں کہ انسانی تمدن کے ارتقا کے ابتدائی مراحل میں عورت اور بچے کی کفالت کا بندوبست کرنے کے لیے تو یہ ضروری تھا کہ عورت کسی مخصوص مرد کے ساتھ نکاح کا رشتہ باندھے اور اس رشتے کی ساری پابندیوں اور بالخصوص مرد کی بالادستی کو بھی قبول کرے، لیکن تمدن کے ارتقا کے ساتھ اگر عورت اور بچے کی کفالت کا متبادل بندوبست ممکن ہے اور اس سے نسل کی بقا اور حفاظت کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے تو نکاح کی اس قدیم رسم کا التزام بھی ضروری نہیں رہا۔ اسی طرح عقلی بنیاد پر یہ طے کرنا بھی ممکن نہیں کہ بچے کے نسب کو باپ سے وابستہ کرنا بجائے خود مقصود ہے یا یہ بھی نسل کی حفاظت ہی کا ایک ذریعہ تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ قدیم انسانی تمدن میں مرد کو بیوی اور بچے کی حفاظت اور کفالت کی ذمہ داری اٹھانے پر آمادہ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اس کے دل میں بیوی اور بچے، دونوں کا مالک ہونے کا ایک قوی نفسیاتی محرک زندہ رکھا جائے، چنانچہ تاریخی سیاق کے لحاظ سے اولاد کو باپ کی طرف منسوب کرنے کی حکمت اور ضرورت یہی تھی، لیکن اب بچے کی کفالت کے متبادل امکانات سامنے آنے کے بعد نسب کا تعلق ماں کے ساتھ جوڑ دینا چاہیے، اس لیے کہ ا س کی ولادت اور پرورش کی ساری مصیبتیں تو وہی برداشت کرتی ہے۔ گویا نکاح وطلاق، عدت اور نسب وغیرہ سے متعلق جن احکام کو مقاصد شریعت میں سے ایک اہم مقصد یعنی نسل کی حفاظت کے ذریعے کے طور پر زیر بحث نقطۂ نظر کے حامل اہل فکر بھی شریعت کے ابدی احکام مانتے ہیں، خود ان کے طریقۂ استدلال کی رو سے وہ بھی اپنی جگہ برقرار نہیں رہ جاتے اور ان کو بھی معاشرتی ارتقا کے ایک مخصوص مرحلے کی ضرورت قرار دے کر بآسانی وقتی ذرائع اور وسائل کی فہرست میں گنا جا سکتا ہے۔
دین اور نسل کی حفاظت سے متعلق مذکورہ دو مثالوں سے زیر بحث طریقۂ استدلال کا بنیادی نقص غالباً واضح ہو چکا ہوگا، یعنی یہ کہ ا س میں مقاصد ومصالح کے جس تصور کو قانون سازی کی اصل اساس قرار دیا گیا اور اس کی بنیاد پر احکام شرعیہ کی ابدیت یا غیر ابدیت کو نصوص سے ہٹ کر مقاصد ومصالح کی روشنی میں عقلی بنیادوں پر طے کرنے کا طریقہ تجویز کیا گیا ہے، خود اس کے لیے کوئی حتمی معیار طے کرنا انسانی عقل کے لیے ممکن نہیں اور احکام شریعت کو اپنی ذات میں لازم نہ مان کر جب ہم ان سے مقاصد اخذ کرنے اور مقاصد اور ذرائع میں فرق قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے لیے سرے سے کوئی معیار ہی میسر نہیں ہے۔ مقاصد کو اگر روح سے اور شریعت کو قالب سے تشبیہ دی جائے تو یہ دراصل شریعت کا قالب ہی ہے جو اس کی روح کو اپنے اندر روکے ہوئے ہے، اس لیے جیسے ہی ڈھانچے سے اس کی روح کو الگ کر کے کسی نئے جسم میں ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو روح ایک مرتبہ آزاد ہونے کے بعد کسی بھی نئے قالب کی پابندی کو قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔ چنانچہ شریعت کی روح کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے قالب کو بھی محفوظ رکھا جائے اور قالب کو محفوظ رکھنا اس کے بغیر ممکن نہیں کہ احکام شریعت میں سے ہر حکم کی نوعیت واہمیت اور محل کو طے کرنے کے لیے خود نصوص کو بنیاد تسلیم کیا جائے، اس لیے کہ انسانی عقل کسی مخصوص ڈھانچے کی پابندی خالص عقلی استدلال سے نہیں، بلکہ صرف اور صرف خدائی حکم کی بنیاد پر قبول کرتی ہے۔

احکام کا عموم وخصوص اور اطلاق وتقیید

مذکورہ سطور میں جو گزارشات پیش کی گئی ہیں، ان سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ قرآن وسنت میں بیان ہونے والے تمام احکام ہر اعتبار سے عام اور مطلق ہیں اور ان میں علمی وعقلی تخصیص وتقیید کا کوئی امکان یا عملی حالات کے لحاظ سے لچک کی کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی۔ نصوص کے فہم کا یہ پہلو بجائے خود بڑا اہم اور بنیادی ہے اور مذکورہ گزارشات کا حاصل صرف یہ ہے کہ اس ضمن میں نصوص سے باہر کھڑے ہو کر کوئی عقلی مقدمہ قائم کرنا یا کسی ایک معاملے سے متعلق نصوص سے کوئی کلی اور عمومی ضابطہ اخذ کر کے تمام احکام پر اس کا یکساں اطلاق کرنا علمی اور منطقی اعتبار سے درست نہیں۔ کسی بھی حکم کے عام یا خاص اور ابدی یا وقتی ہونے اور اسی طرح بالذات مقصود ہونے یا مصلحت اور سد ذریعہ کے اصول پر مبنی ہونے کا فیصلہ کرنے کا درست علمی طریقہ یہ ہے کہ ہر معاملے سے متعلق نصوص پر الگ الگ غور کر کے داخلی قرائن وشواہد کی بنیاد پر حکم کی نوعیت اور حیثیت کو طے کیا جائے۔ اس ضمن میں توضیح مدعا کے لیے چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:
۱۔ قرآن مجید نے یہ بات خود واضح فرمائی ہے کہ اس کا بیان کردہ کوئی حکم اگر کسی علت پر مبنی ہے تو حکم کا وجود و عدم علت کے وجود وعدم پر منحصر ہوگا۔ اس کی ایک واضح مثال عدت کے احکام میں پائی جاتی ہے۔ قرآن نے طلاق یافتہ عورتوں کو عدت کے طور پر تین ماہواریاں گزارنے کا حکم دیا ہے اور اس کی علت استبراء رحم کو قرار دیا ہے۔ ۲۸؂ پھر خود ہی واضح فرمایا ہے کہ اگر میاں بیوی کی ملاقات نہ ہوئی ہو تو عدت گزارنے کی ضرورت نہیں۔۲۹؂ اسی طرح اگر طلاق یا وفات کے وقت عورت حاملہ ہو تو عدت بچے کی پیدایش پر ہی ختم ہوگی۔ ۳۰؂ 
اس ضمن کی ایک اہم مثال وراثت میں ورثہ کے حصے متعین کرتے ہوئے ان کے حق میں وصیت کے اختیار کو سلب کرنے کا حکم ہے۔ قرآن نے یہ واضح فرمایا ہے کہ مرنے والے کے مال میں ماں باپ، اولاد، زوجین اور بہن بھائی کے حصوں کی تعیین اور پھر ان کے حق میں وصیت کے عدم جواز کی اصل بنیاد اور اس کا صحیح محل کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ ’لاَ تَدْرُوْنَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا‘۳۱؂ یعنی چونکہ رشتے داروں کے ساتھ قرابت اور منفعت کے تناسب کو ٹھیک ٹھیک متعین کر کے اس کے مطابق حصے تقسیم کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے، اس لیے یہ حصے اللہ تعالیٰ نے خود متعین کر دیے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ورثہ کے حق میں وصیت کرنے کی جو پابندی عائد کی گئی ہے، اس کا تعلق بھی اسی قرابت اور منفعت کے دائرے سے ہے اور اگر اس کے علاوہ کسی دوسری بنیاد مثلاً کسی مخصوص وارث کی ضرورت اور احتیاج کے پیش نظر اس کے لیے مقررہ حصے کے علاوہ کوئی وصیت کی جائے تو یہ شرعی ممانعت کے خلاف نہیں ہوگا۔ چنانچہ قرآن مجید نے خود اس کی تاکید کی ہے کہ مرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے بارے میں یہ وصیت کر کے جائے کہ اس کے مرنے کے بعد ایک سال تک اسے اسی گھر میں رہنے دیا جائے گا اور اسے سامان زندگی بھی فراہم کیا جائے گا۔۳۲؂ ظاہر ہے کہ یہ سامان زندگی مرنے والے کے ترکے میں سے بیوہ کے متعین حصے کے علاوہ اس کی ضرورت و احتیاج ہی کے پیش نظر دیا جائے گا۔ 
۲۔ حکم کی علت کی طرح اس کے صحیح محل کا طے کرنا بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید نے کسی پاک دامن عورت پر زنا کا الزام ثابت کرنے کے لیے چار گواہ طلب کیے ہیں اور اگر الزام لگانے والا گواہ پیش نہ کر سکے تو اسے قذف کی پاداش میں ۸۰ کوڑے لگانے کا حکم دیا ہے، البتہ شوہر کے لیے یہ قانون بیان کیا گیا ہے کہ اگر اس کے پاس چار گواہ نہ ہوں تو میاں بیوی کے مابین لعان کرایا جائے گا۔ ۳۳؂ شوہر کے لیے یہ گنجایش پیدا کرنے کی وجہ بالکل واضح ہے کہ اگر وہ اپنے الزام میں سچا ہے، لیکن چار گواہ پیش نہیں کر سکا تو اسے جھوٹا قرار دے کر قذف کی سزا دینے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ عورت جس بچے کو جنم دے گی، اس کا نسب اس کے شوہر ہی سے ثابت مانا جائے گا، جبکہ یہ امکان موجود ہے کہ بچہ درحقیقت اس کا نہ ہو۔ اگر بچے کے نسب کا مسئلہ نہ ہو تو لعان کے اس طریقے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی اور خاوند سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس کی بیوی بدکاری کی مرتکب ہوئی ہے تو وہ طلاق دے کر اسے فارغ کر دے، لیکن چونکہ یہاں اصل مسئلہ بچے کے نسب کے ثبوت کا ہے اور شوہر کا یہ حق ہے کہ کسی ناجائز بچے کی نسبت اس کی طرف نہ کی جائے، اس لیے بچے کا نسبی تعلق اس سے ختم کرنے کے لیے لعان کی مذکورہ صورت نکالی گئی۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ امکان بھی پوری طرح موجود ہے کہ شوہر اپنے الزام میں جھوٹا ہو اور اپنی بیوی کو بدنام کرنے اور خود اپنی ہی اولاد کو نسبی شناخت کے جائز حق سے محروم کرنے کے دوہرے جرم کا مرتکب ہوا ہو۔ قدیم دور میں بچے کے نسب کی تحقیق کا کوئی یقینی ذریعہ موجود نہیں تھا، چنانچہ لعان کے سوا اس معاملے کا کوئی حل ممکن نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیوی پر الزام لگانے کی صورت میں لعان کا یہ طریقہ اختیار کر کے بچے کے نسب کو عورت کے شوہر سے منقطع کرنا بجائے خود مقصود نہیں، بلکہ ایک عملی مجبوری کا نتیجہ تھا۔ اب اگر دور جدید میں طبی ذرائع کی مدد سے بچے کے نسب کی تحقیق یقینی طور پر ممکن ہے اور اپنے نسب کا تحفظ بجائے خود بچے کا ایک جائز حق بھی ہے تو بیوی کے کہنے پر یا بڑا ہونے کے بعد خود بچے کے مطالبے پر ان ذرائع سے مدد لینا اور اگر ان کی رو سے بچے کا نسب اپنے باپ سے ثابت قرار پائے تو اسے قانونی لحاظ سے اس کا جائز بیٹا تسلیم کرنا ہر لحاظ سے شریعت کی منشا کے مطابق ہوگا۔
۳۔ بعض احکام اپنی علت کے لحاظ سے اصلاً واساساً خاص ہوتے ہیں اور ان میں دلیل کی ضرورت تخصیص کے لیے نہیں، بلکہ تعمیم کے لیے درکار ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال پیغمبر کا براہ راست مخاطب بننے والے گروہوں اور قوموں کا معاملہ ہے۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایمان کے معاملے میں جبر واکراہ کا طریقہ اختیار نہیں کیا، بلکہ انسانوں کو ایمان یا کفر کا راستہ اختیار کرنے کی آزادی دی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد کسی انسان کو بھی دین وایمان کے معاملے میں کسی دوسرے انسان پر جبر کا حق حاصل نہیں، چنانچہ قرآن میں خود انبیا کی ذمہ داری کا دائرہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان کے ذمے بس حق بات کو واضح طریقے سے پہنچا دینا ہے اور اس سے آگے وہ کوئی اختیار نہیں رکھتے: ’فَذَکِّرْ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ لَّسْتَ عَلَیْْہِمْ بِمُصَیْْطِرٍ‘۔۳۴؂ البتہ قرآن نے اس کے ساتھ یہ بھی واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے رسولوں کے ذریعے سے کسی قوم پر حق کو پوری طرح واضح کر دیتے ہیں اور اس کے باوجود وہ قوم ایمان نہیں لاتی تو اللہ تعالیٰ اس پر عذاب نازل کر کے اسے عبرت کا نمونہ بنا دیتے ہیں۔ یہ کسی انسان کا نہیں، بلکہ خدا کا فیصلہ ہوتا ہے جس میں کسی انسان، حتیٰ کہ خود پیغمبر کو بھی کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ حضرت یونس علیہ السلام کو اسی بنا پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت پکڑ کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ محض اپنے اجتہاد کی بنیاد پر قوم کے ایمان سے مایوس ہو کر اسے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔۳۵؂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب جزیرۂ عرب میں مبعوث کیا گیا تو خدائی قانون کے یہ دونوں پہلو پوری طرح واضح کر دیے گئے، چنانچہ فرمایا گیا کہ ’اِنَّمَا عَلَیْْکَ الْبَلاَغُ وَعَلَیْْنَا الْحِسَابُ‘۳۶؂ یعنی خدا کا پیغام پہنچانا تو پیغمبر کی ذمہ داری ہے، جبکہ منکرین سے حساب لینا خدا کاکام ہے۔ البتہ سابقہ قوموں کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین کے لیے عذاب کی صورت یہ تجویز کی گئی کہ اگر وہ ایمان نہ لائیں تو انھیں کسی آسمانی آفت کا نشانہ بنانے کے بجائے خود اہل ایمان کی تلواروں کے ذریعے سے جہنم رسید کیا جائے۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ اہل کفر کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی یہ جنگ دراصل خدا کا عذاب تھا، چنانچہ فرمایا: ’وَلَوْ یَشَآءُ اللّٰہُ لَانْتَصَرَ مِنْہُمْ وَلٰکِنْ لِّیَبْلُوَ بَعْضَکُمْ بِبَعْضٍ‘ ۳۷؂ یعنی اللہ چاہتا تو اپنے دین کا انکار کرنے پر ان کفار سے خود انتقام لے لیتا، لیکن اس نے اپنی خاص حکمت کے تحت اہل ایمان کو جانچنے کے لیے انھیں اہل کفر کے مقابلے میں معرکہ آرا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہی بات ’قَاتِلُوْہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّٰہُ بِاَیْْدِیْکُمْ ‘۳۸؂ کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے، یعنی تم ان کے خلاف قتال کرو، اس طرح اللہ تعالیٰ تمھارے ہاتھوں سے انھیں عذاب دینا چاہتے ہیں۔ اس جنگ کے آخری مرحلے میں مشرکین عرب کے لیے قتل کی سزا تجویز کی گئی،۳۹؂ جبکہ اہل کتاب کے بارے میں کہا گیا کہ انھیں محکوم بنا کر ان پر جزیہ عائد کر دیا جائے۴۰؂ جو اس دورمیں محکومی اور تحقیر وتذلیل کی ایک علامت تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی اہل کفر کے بارے میں فرمایا کہ ان میں سے جو ایمان لانے کے بعد دوبارہ اسلام کی طرف پلٹ جائے، اسے قتل کر دیا جائے۔۴۱؂ آپ نے اسی پہلو سے ان کی جان کی حرمت کو مسلمانوں کے مساوی تسلیم نہیں کیا اور فرمایا کہ کسی مسلمان کو کافر کے قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا۴۲؂ اور یہ کہ کافر کی دیت بھی مسلمان سے نصف ہوگی۔ ۴۳؂ 
دین کے معاملے میں جبر واکراہ کو جائز تسلیم نہ کرنے اور منکرین حق کو دنیا میں سزا دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص قرار دینے کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اہل کفر کو قتل کرنے یا جزیہ عائد کر کے توہین وتحقیر کی سزا دینے کے اس معاملے کو انھی کفار سے متعلق مانا جائے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول کی طرف سے اجازت موجود ہے۔ اس تناظر میں، جو قرآن سے باہر کسی تاریخی سیاق سے نہیں، بلکہ خود قرآن کے نصوص سے معلوم ہوتا ہے، ان احکام کے نفاذ اور اطلاق کے معاملے میں تحقیق طلب چیز یہ نہیں تھی کہ ان میں تخصیص یا استثنا کس دلیل کی بنیاد پر کی جائے، بلکہ یہ تھی کہ علت کی رو سے یہ تعمیم کے کس حد تک متحمل ہیں۔ چنانچہ سیدنا عمر نے اہل کتاب کے علاوہ مجوس پر جزیہ عائد کرنے کا فیصلہ اس وقت تک نہیں کیا جب تک ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں آ گیا۔ ۴۴؂ سیدنا عمر نے ہی اپنے دورمیں مرتد ہونے والے بعض افراد کو قتل کرنے کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا اور ان کے لیے قید کی متبادل سزا تجویز کی۔۴۵؂ فقہاے احناف نے اسی بنیاد پر یہ رائے قائم کی کہ مشرکین کو قتل کرنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست مخاطب بننے والے مشرکین عرب کے ساتھ خاص ہے اور اس کا اطلاق دنیا کے دوسرے مشرک گروہوں پر نہیں کیا جا سکتا۔ احناف نے ہی جب انسانی جان کی حرمت کے حوالے سے قرآن مجید کے عمومی بیانات کو سامنے رکھا تو انھیں قصاص ودیت کے معاملے میں مسلم اور غیر مسلم کے مابین امتیاز کا قانون ان نصوص کے منافی محسوس ہوا اور انھوں نے نہ صرف معاہد غیر مسلموں کی دیت کو مسلمانوں کے برابر قرار دیا، بلکہ یہ رائے بھی قائم کی کہ ایسے کسی غیر مسلم کو قتل کرنے والے مسلمان سے اسی طرح قصاص لیا جائے گا جس طرح کسی مسلمان کے قاتل سے لیا جاتا ہے۔ برصغیر میں ایک ہزار سال سے زائد عرصے پر محیط مسلم سلطنت کے مختلف ادوار میں، چند استثنائی واقعات کے علاوہ، عمومی طور پر غیر مسلموں پر جزیہ عائد نہیں کیا گیا، جبکہ خلافت عثمانیہ نے اپنے آخری دور میں غیر مسلموں سے جزیہ لینے کے دستور کو باقاعدہ قانونی سطح پر ختم کر دیا۔ چنانچہ جدید مسلم ریاستوں میں اگر غیر مسلموں سے جزیہ وصول کرنے، مرتد کو مستوجب قتل قرار دینے یا قصاص ودیت کے معاملات میں مسلم اور غیر مسلم میں فرق روا رکھنے کا طریقہ عمومی طور پر اختیار نہیں کیا گیا تو حکم کی علت کی رو سے بالکل درست کیا گیا ہے۔۴۶؂ 
۴۔ نصوص کے فہم کا ایک بے حد اہم پہلو یہ ہوتا ہے کہ اس دائرۂ اطلاق کو متعین کیا جائے جس میں نص قطعی طور پر موثر ہے اور جس سے باہر ایک مجتہد اپنی مجتہدانہ بصیرت کو بروے کار لانے کے لیے پوری طرح آزاد ہے۔ اس فہم میں ظاہر ہے کہ اختلاف بھی واقع ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید کی رو سے ایک مسلمان خاتون کو کسی غیرمسلم مرد سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ حکم کوئی نیا رشتۂ نکاح قائم کرنے کی حد تک تو بالکل واضح ہے، لیکن میاں بیوی اگر پہلے سے غیر مسلم ہوں اور بیوی اسلام قبول کر لے تو کیا ان کے مابین تفریق بھی لازم ہوگی؟ حکم کا اس صورت کو شامل ہونا قطعی نہیں۔ عقلی اعتبار سے حالت اسلام میں کسی غیر مسلم شوہر کا ارادی انتخاب کرنے اور پہلے سے چلے آنے والے رشتۂ نکاح کو نبھانے میں ایک نوعیت کا فرق پایا جاتا ہے اور سیدنا عمر کی رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ اس صورت میں تفریق کو ضروری نہیں سمجھتے تھے، چنانچہ بعض مقدمات میں انھوں نے میاں بیوی کے مابین تفریق کر دی جبکہ بعض مقدمات میں بیوی کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہے تو خاوند سے الگ ہو جائے اور چاہے تو اسی کے نکاح میں رہے۔۴۷؂ یقیناًاس فیصلے میں انھوں نے بیوی کو درپیش عملی مسائل ومشکلات کا لحاظ رکھا ہوگا اور آج کے دور میں بالخصوص غیر مسلم ممالک میں پیش آنے والے اس طرح کے واقعات میں سیدنا عمر کا یہ اجتہاد رہنمائی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
اسی ضمن کی ایک بحث یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مختلف حیثیتوں میں جو فیصلے کیے، ان کے مابین فرق کو ملحوظ رکھا جائے۔ جن معاملات سے متعلق قرآن میں کوئی متعین حکم نہیں دیا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سنت کی حیثیت سے کسی عمل یا طریقے کو جاری نہیں فرمایا ، وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے یا نافذ کردہ فیصلے کو مختلف امکانی طریقوں میں سے ایک طریقہ سمجھنے اور ان کے علاوہ دیگر مختلف امکانات کا راستہ کھلا رکھنے کی علم وعقل کے اعتبار سے پوری گنجایش موجود ہوتی ہے۔ سیدنا عمر نے اسی پہلو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصول کردہ جزیے کی مقدار سے مختلف مقداریں نافذ کیں،۴۸؂ ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقوں کو ایک کے بجائے تین شمار کرنے کا فیصلہ کیا۴۹؂ اور ایسی لونڈی کو بیچنے پر پابندی عائد کر دی جو اپنے مالک کے بچے کی ماں بن چکی ہو۔۵۰؂ اسی طرح انھوں نے عراق کی مفتوحہ اراضی کو مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بجائے انھیں بیت المال کی ملکیت قرار دے کر ان کے مالکوں پر خراج عائد کرنے کا طریقہ اختیار کیا جو خیبر وغیرہ کی اراضی کے معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے سے مختلف تھا۔۵۱؂ قرآن مجید نے دیت کی کوئی خاص مقدار بیان نہیں کی، بلکہ ’فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ‘ ۵۲؂ کہہ کر اس معاملے کو معروف یعنی رواج کے سپرد کر دیا ہے اور بعض اہل علم یہ رائے رکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے اونٹوں کی صورت میں دیت کی جو مقدار ثابت ہے، وہ دراصل اہل عرب ہی کے پہلے سے چلے آنے والے رواج پر مبنی تھی جسے قرآن کی ہدایت کے مطابق اس دور کے عرف کی حیثیت سے قبول کر لیا گیا تھا اور دنیا کے دوسرے معاشرے بھی اسی اصول کے مطابق اپنے اپنے عرف کے لحاظ سے دیت کی صورت اور مقدار کا تعین کر سکتے ہیں۔

شرعی احکام کے عملی نفاذ میں مصالح کی رعایت

نصوص کا مدعا ومنشا اور ان کا محل طے کرنے کے حوالے سے ان گزارشات کے بعد ابمیں اس بحث کی طرف آتا ہوں کہ احکام شرعیہ کے مقاصد ومصالح کا فہم وادراک حاصل کرنے اور اس فہم کو اجتہادی اطلاقات میں برتنے کی اہمیت کیا ہے۔ منصوص شرعی احکام کو ابدی قرار دینے سے اس بات کی نفی لازم نہیں آتی کہ ان کے پس منظر میں مخصوص مقاصد اور مصالح کارفرما ہوں اور انسان کو ان سے رہنمائی لینے کی ضرورت پیش آئے۔ تاہم ان دونوں باتوں کا اپنا اپنا محل ہے اور اپنے اپنے محل میں یہ بالکل درست ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی نسبت سے تو یہ بات کہنا بالکل درست ہے کہ وہ شریعت کے احکام اپنے پیش نظر مخصوص مقاصد ہی کے تحت دیتے ہیں، لیکن جہاں تک انسان سے مطلوب اتباع اور اطاعت کا تعلق ہے تو اس دائرے میں درست ترتیب یہ نہیں کہ مقاصد کی روشنی میں منصوص احکام و قوانین کا تعین بھی ازسر نو کیا جائے گا، بلکہ یہ ہے کہ ان احکام وقوانین کو فی نفسہٖ معیار مانتے ہوئے ان سے مقاصد و مصالح سمجھے جائیں گے اور نہ صرف ان احکام کے عملی اطلاق میں ان کی رعایت بے حد ضروری ہوگی، بلکہ یہ حیات انسانی کے وسیع اور متنوع اطراف وجوانب میں شارع کی منشا تک رسائی میں بھی انسانی فہم کی رہنمائی کریں گے۔ 
یہ ایک بے حد اہم نکتہ ہے اور اسی کو ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے وہ بہت سی پیچیدگیاں اور الجھنیں پیدا ہوتی ہیں جن کا کوئی حل بعض اہل فکر کو اس کے سوا کچھ نہیں دکھائی دیتا کہ وہ شرعی احکام کو ان کی ذات ہی میں غیر ابدی قرار دے دیں۔ قرآن مجید کے ہر طالب علم پر یہ بات واضح ہے کہ وہ بالعموم کسی بھی معاملے کی جزوی اور اطلاقی تفصیلات سے تعرض کرنے کے بجائے محض اصولی نوعیت کا ایک حکم دینے پر اکتفا کرتا ہے، جبکہ اس حکم کے اطلاق اور نفاذ یا دوسرے لفظوں میں اس کی بنیاد پر عملی قانون سازی کے لیے دیگر عقلی واخلاقی اصولوں اور عملی مصالح کی روشنی میں بہت سی قیود و شرائط کا اضافہ اور مختلف صورتوں میں حکم کے اطلاق ونفاذ کی نوعیت میں فرق کرنا پڑتا ہے۔ فقہ واجتہاد کی ضرورت دراصل اسی زاویے سے پیش آتی ہے۔ اس نکتے کی وضاحت کے لیے یہاں چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:
۱۔ قرآن مجید نے حکم کے اطلاق کا یہ اصول خود واضح کیا ہے کہ ایک حکم کی تخصیص دین ہی کے کسی دوسرے حکم یا شرعی و اخلاقی اصول کی روشنی میں کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ جو مسلمان غیر مسلموں کے علاقے میں ان کے ظلم وجبر کا شکار ہوں، ان کی مدد کو مسلمانوں کا فرض قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر کسی قوم کے ساتھ مسلمانوں کا صلح کا معاہدہ ہو تو پھر اس قوم کے خلاف مظلوم مسلمانوں کی مدد نہیں کی جا سکتی۔ ۵۳؂ اسی طرح جب مشرکین عرب کو ایمان نہ لانے کی صورت میں قتل کرنے کا حکم دیا گیا تو یہ واضح کیا گیا کہ جن مشرک قبائل کے ساتھ مخصوص مدت تک صلح کے معاہدے کیے گئے ہیں، ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جا سکتا۔۵۴؂ 
اس اصول کی روشنی میں دیکھیے تو شریعت میں مختلف معاشرتی جرائم پر جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں، ان کے نفاذ میں ان تمام شروط وقیود اور مصالح کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو جرم وسزا کے باب میں عقل عام پر مبنی اخلاقیات قانون اور خود شریعت کی ہدایات سے ثابت ہیں۔ مثال کے طور پر سزا نافذ کرتے وقت یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا مجرم کو سزا دینے سے کسی بے گناہ کو تو کوئی ضرر لاحق نہیں ہوگا اور یہ کہ مجرم اپنی جسمانی حالت کے لحاظ سے سزا کا تحمل بھی کر سکتا ہے یا نہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدکاری کی مرتکب ایک حاملہ عورت کو اس وقت تک رجم نہیں کیا جب تک وہ بچے کی ولادت سے فارغ نہیں ہو گئی۔۵۵؂ اسی طرح جب سیدنا علی نے ایک لونڈی پر زنا کی سزا نافذ کرنے سے اس لیے گریز کیا کہ وہ بچے کی ولادت کے بعد ابھی حالت نفاس میں تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس عمل کی تحسین کی۔۵۶؂ آپ نے ایک بوڑھے کو، جو کوڑوں کی سزا کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا، حقیقی طور پر سو کوڑے لگوانے کے بجائے یہ حکم دیا کہ کھجور کے درخت کی ایک ٹہنی لے کر جس میں سو پتلی شاخیں ہوں، ایک ہی دفعہ اس کے جسم پر مار دی جائے۔۵۷؂ کسی مخصوص صورت حال میں سزا کے نفاذ سے کوئی مفسدہ پیدا ہونے کا خدشہ ہو تو بھی شار ع کی منشا یہی ہوگی کہ سزا نافذ نہ کی جائے، چنانچہ جنگ کے لیے نکلنے والے لشکر میں سے کوئی شخص اگر چوری کرے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے سے منع فرمایا۔ ۵۸؂ 
اسی طرح سزا کے نفاذ میں مجرم کے حالات اور اس کے معاشرتی پس منظر کا لحاظ رکھنا اور اگر وہ کسی پہلو سے رعایت کا مستحق ہو تو اسے رعایت دینا خود شارع کی منشا ہے، چنانچہ قرآن مجید نے خاندان کی حفاظت اور مناسب اخلاقی تربیت سے محروم لونڈیوں کو زنا کے ارتکاب پر آزاد عورتوں سے نصف سزا دینے کی ہدایت کی ہے۔۵۹؂ صحابہ اور تابعین کے فیصلوں میں زنا کی حرمت یا کسی مخصوص خاتون کے حرام ہونے سے ناواقف افراد پر ’حد‘ کے بجائے تعزیر نافذ کرنے کی بنیاد یہی اصول ہے۔۶۰؂ سیدنا عمر نے اسی اصول کے تحت مجبوری اور احتیاج کی وجہ سے بدکاری یا چوری کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا سے مستثنیٰ قرار دینے یا اس میں تخفیف کرنے کا طریقہ اختیار کیا، ۶۱؂ جبکہ قحط سالی کے زمانے میں عمومی طور پر قطع ید کی سزا پر عمل درآمد کو روک دیا۔۶۲؂ 
۲۔ شریعت نے میاں بیوی کے مابین نباہ نہ ہونے کی صورت میں رشتۂ نکاح کو توڑنے کی اجازت دی ہے۔ شریعت کی نظر میں اس رشتے کی جو اہمیت ہے، وہ یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کو ختم کرنے کا معاملہ پورے غور وخوض کے بعد اور تمام ممکنہ پہلووں اور نتائج کو سامنے رکھ کر ہی انجام دیا جائے، چنانچہ اگر کوئی شخص نادانی، جذباتی کیفیت، مجبوری یا کسی بد نیتی کی بنیاد پر طلاق دے دے تو رشتۂ نکاح کے تقدس کے پیش نظر یہ مناسب، بلکہ بعض صورتوں میں ضروری ہوگا کہ اسے غیر موثر قرار دیا جائے یا اس پر عدالتی نظر ثانی کی گنجایش باقی رکھی جائے۔ فقہا کے ایک گروہ کے ہاں یہ تصور کہ نکاح یا طلاق کے نافذ ہونے کے لیے کوئی شعوری اور سوچا سمجھا فیصلہ ضروری نہیں، بلکہ کسی بھی کیفیت یا حالت میں اگر طلاق کے الفاظ منہ سے نکل جائیں تو کسی دوسری معاشرتی یا قانونی مصلحت کا لحاظ کیے بغیر وہ لازماً موثر ہو جائیں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم او ربعض صحابہ کی طرف منسوب ایک قول یعنی ’ثَلَاثٌ جِدُّہُنَّ جِدٌّ وَہَزْلُہُنَّ جِدٌّ‘۶۳؂ کے صحیح محل کو نظر انداز کرنے سے پیدا ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نکاح، طلاق اور طلاق سے رجوع کرنے کا معاملہ سنجیدگی سے کیا جائے یا مذاق میں، وہ بہرحال نافذ ہو جائے گا۔ بعض روایات میں غلام کو آزاد کرنے کو بھی اسی ضمن میں شمار کیا گیا ہے۔ ۶۴؂ حنفی فقہا نے اس کو ایک عام اصول کی حیثیت دے دی ہے اور ان کے ہاں اس کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ کوئی شخص اگر جبر واکراہ کے تحت طلاق دے دے تو وہ اسے بھی موثر قرار دیتے ہیں، حالانکہ عقل وقیاس کے اعتبار سے اس کا صحیح محل یا تو یہ ہو سکتا ہے کہ اسے سد ذریعہ کی نوعیت کا ایک حکم سمجھا جائے جس کا مقصد لوگوں کو متنبہ اور خبردار کرنا ہے تاکہ وہ ان معاملات کے بارے میں ذہنی طور پر حساس رہیں اور انھیں معمولی اور غیر اہم سمجھتے ہوئے بے احتیاطی کا رویہ اختیار نہ کریں اور اگر وہ ایسا کریں گے تو انھیں اس کے نتائج سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جائے گا، اور یا یہ کہ اسے ایسے لوگوں سے متعلق مانا جائے جو پورے شعور اور ارادے کے ساتھ نکاح یا طلاق کا فیصلہ کرتے ہیں لیکن بعد میں بدنیتی سے کام لیتے ہوئے یہ کہہ دیتے ہیں کہ انھوں نے ایسا محض مذاق میں کیا تھا۔ اس حد تک یہ بات پوری طرح قابل فہم ہے، لیکن اس کو وسعت دیتے ہوئے یہ اصول قائم کر لینا کسی طرح درست نہیں کہ طلاق کے معاملے میں سوچ سمجھ کر اور پورے شعور کے ساتھ فیصلہ کرنا سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا اور شوہر جس کیفیت اور حالت میں بھی طلاق کے الفاظ منہ سے نکال دے، وہ نافذ ہو جائے گی اور اس کی کسی مجبوری یا عذر کو کوئی وزن نہیں دیا جائے گا۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف شوہر سے جبراً لی گئی طلاق کو کوئی حیثیت نہیں دی،۶۵؂ بلکہ ’اغلاق‘ یعنی دباؤ کی حالت میں دی گئی طلاق کو بھی غیر نافذ قرار دیا۔ ۶۶؂ شارحین نے ’اغلاق‘ کا مصداق جبر واکراہ کو بھی قرار دیا ہے اور شدید غصے کی کیفیت کو بھی، اور میری رائے میں دونوں باتیں درست ہیں، اس لیے کہ نہ جبر واکراہ کی صورت میں خاوند کا حقیقی ارادہ اور عزم کارفرما ہوتا ہے اور نہ شدید غصے کی کیفیت میں۔ اسی طرح آپ نے غلام کو آزاد کرنے کے فیصلے کو سنجیدگی اور مذاق میں یکساں موثر قرار دینے کے باوجود بعض مقدمات میں مالک کے پورے شعور اور سنجیدگی کے ساتھ اپنے غلاموں کو آزاد کرنے کے فیصلے کو شرعی مصلحت کے منافی سمجھتے ہوئے اسے کالعدم قرار دیا۔۶۷؂ 
پھر یہ کہ کسی بھی صورت حال میں دی گئی طلاق کو خاوند کے دائرۂ اختیار کی حد تک موثر مان لیا جائے تو بھی اس سے عدالت کے نظر ثانی کے حق کی نفی لازم نہیں آتی۔ قاضی کو ’ولایت عامہ‘ کے تحت جس طرح تمام دوسرے معاملات میں فریقین کے مابین طے پانے والے کسی معاہدے یا کسی صاحب حق کے اپنے حق کو استعمال کرنے پر نظر ثانی کا اختیار حاصل ہے، اسی طرح طلاق کے معاملے میں بھی حاصل ہونا چاہیے اور اگر وہ قانون وانصاف اور مصلحت کے زاویے سے کسی طلاق کو کالعدم قرار دینا چاہے تو نصوص یا عقل وقیاس میں کوئی چیز اس کے خلاف نہیں پائی جاتی۔ ایک مقدمے میں خاوند نے بیوی کے مطالبے پر اسے کہا کہ طلاق کے معاملے میں جو اختیار مجھے حاصل ہے، وہ میں تمھیں تفویض کرتا ہوں۔ بیوی نے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو تین طلاقیں دے دیں، لیکن سیدنا عمر اور عبد اللہ بن مسعود نے یہ سارا معاملہ واقع ہو جانے کے بعد یہ قرار دیا کہ خاوند کا تفویض کردہ حق صرف ایک طلاق کی حد تک موثر ہے۔ ۶۸؂ 
ان مثالوں سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ حق طلاق کے غلط اور غیر حکیمانہ استعمال کی روک تھام اور قانون کے اطلاق کو موثر اور منصفانہ بنانے کے لیے اس نوع کی قانونی تحدیدات عائد کرنے کی نہ صرف پوری گنجایش موجود ہے، بلکہ یہ قانون کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ معاصر تناظر میں دیکھا جائے تو کئی پہلووں سے اس نوعیت کی قانون سازی ضروری معلوم ہوتی ہے۔ شوہر کسی وقتی جذباتی کیفیت میں طلاق دے بیٹھے یا شعوری طور پر طلاق دینے کا فیصلہ کر لے، عمومی طور پر اس کے مضر نتائج واثرات عورت اور بچوں ہی کو بھگتنا پڑتے ہیں، چنانچہ عورت اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے یہ ضروری ہے کہ خاوند کے حق طلاق کے نافذ اور موثر ہونے کو بعض قانونی پابندیوں کے ساتھ مقید کیا جائے۔ اسی طرح بعض صورتوں میں عورت بالکل جائز بنیادوں پر طلاق لینے کی خواہش مند ہوتی ہے، لیکن خاوند اس کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، جبکہ عورت کسی جائز وجہ سے خاوند سے علیحدگی چاہتی ہو تو یہ اس کا حق ہے اور خاوند شرعاً اس کے اس مطالبے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اسی وجہ سے جب ایک ایسا مقدمہ سامنے آیا جس میں بیوی نے شوہر کی رضامندی سے طلاق لینے میں ناکامی کے بعد اس کی جان کو خطرے میں ڈال کر اس سے طلاق لے لی تھی تو سیدنا عمر نے، جو اصولی طور پر جبری طلاق کے غیر موثر ہونے کے قائل ہیں،۶۹؂ عورت سے اس کا موقف سننے کے بعد اکراہ کے تحت لی گئی اس طلاق کو بھی نافذ قرار دے دیا۔ ۷۰؂ معاصر تناظر میں اس الجھن کا حل یہ ہو سکتا ہے کہ نکاح کے وقت طلاق کے حق کو مناسب شرائط کے ساتھ کسی ثالث یا خود عورت کو تفویض کر دینے کو قانونی طو رپر لازم کر دیا جائے یا یہ قرار دیا جائے کہ اگر عورت خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے تو ایک مخصوص مدت کے اندر شوہر بیوی کو مطمئن کرنے یا اسے طلاق دینے کا پابند ہوگا، ورنہ طلاق ازخود واقع ہو جائے گی۔ 
۳۔ خواتین کے حقوق کے تناظر میں شوہر کا تعدد ازواج کا حق بھی خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کہ قرآن نے ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ایک مخصوص سماجی ضرورت کے تحت دی تھی، جبکہ عمومی طور پر وہ اس کو ممنوع قرار دینا چاہتا ہے۔ یہ بات اس صورت میں درست ہو سکتی تھی اگر اصولاً تعدد ازواج کی ممانعت قرآن میں بیان ہوئی ہوتی یا عرب معاشرت میں اس کا تصور موجود ہوتا اور قرآن نے اس ممانعت میں استثنا پیدا کرتے ہوئے اس کی اجازت دی ہوتی۔ صورت واقعہ یہ ہے کہ تعدد ازواج کا طریقہ نزول قرآن سے پہلے عرب معاشرت میں رائج تھا اور بالکل جائز سمجھا جاتا تھا اور قرآن نے اس کو ممنوع قرار نہیں دیا، بلکہ ایک خاص صورت حال میں اس سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی ہے۔ البتہ اس نے اس پر دو قدغنیں عائد کر دی ہیں: ایک یہ کہ بیویوں کی تعداد چار سے زیادہ نہیں ہو سکتی اور دوسری یہ کہ ایک سے زیادہ شادیوں کی صورت میں خاوند کو عدل و انصاف کا دامن ہر حال میں تھامے رکھنا ہوگا اور تمام بیویوں کے جملہ حقوق کی ادائیگی بالکل برابری کے ساتھ کرنا ہوگی۔ تاہم اس کے ساتھ یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ اسلام میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا ’حکم‘ نہیں، بلکہ محض اجازت دی گئی ہے۔ اس پر قرآن کی بیان کردہ شرائط تو عائد ہوتی ہی ہیں، اس کے ساتھ اگر پہلی بیوی نے شادی کے لیے یہ شرط لگا دی ہو کہ خاوند اس کے بعد دوسری شادی نہیں کرے گا تو خاوند اس طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی بھی نہیں کر سکتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شرطیں پورا کیے جانے کا سب سے زیادہ حق رکھتی ہیں، وہ ایسی شرطیں ہیں جو شوہروں نے نکاح کرتے وقت بیویوں کے لیے تسلیم کی ہوں۔۷۱؂ چنانچہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے والے مرد اگر عدل وانصاف کی اس بنیادی شرط کوپورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو ایسی صورت حال میں بیویوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے دوسری شادی کے حق کو بعض قانونی حدود وقیود کا پابند بنانا یا پہلی بیوی کی رضامندی اور عدالت کی اجازت اور توثیق سے مشروط کر دینا شریعت کے منافی نہیں، بلکہ اس کے پیش نظر مقاصد اور مصالح کے عین مطابق ہوگا۔ سیدنا عمر نے اسی نوعیت کا اجتہاد کرتے ہوئے قحط سالی کے زمانے میں اہل بادیہ کے لیے نکاح کرنے کو ممنوع ٹھہرایا تھا۷۲؂ جس کی وجہ ظاہر ہے کہ یہی ہو سکتی ہے کہ اس حالت میں شوہر کے لیے بیوی کے نان و نفقہ کی ذمہ داری اٹھانا بہت مشکل تھا۔ اسی طرح انھوں نے حضرت حذیفہ اور طلحہ بن عبید اللہ کو مجبور کیا تھا کہ وہ اپنی غیر مسلم بیویوں کو طلاق دے دیں۔۷۳؂ اس کی وجہ انھوں نے بعض روایات کے مطابق یہ بیان کی کہ اگرچہ قرآن نے اہل کتاب کی خواتین سے نکاح کی اجازت دی ہے، لیکن مسلمانوں کے ممتاز اور سربرآوردہ افراد کے لیے ایسا کرنا مناسب نہیں، کیونکہ یہ اجازت صرف اہل کتاب کی خواتین تک محدود ہے جبکہ عام لوگ جو شرعی احکام سے واقف نہیں، انھیں دیکھ کر یہ سمجھیں گے کہ مجوس کی خواتین سے بھی نکاح کرنا درست ہے۔۷۴؂ بعض دوسری روایات کے مطابق انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اس طرح لوگ اہل کتاب کی پاک دامن خواتین کے علاوہ ان کی بدکار عورتوں سے بھی نکاح کرنے لگیں گے۔۷۵؂ 
۴۔ مرنے والے کے مال میں یتیم پوتے کے حق کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ اگر کسی شخص کا پوتا یتیم اور ضرورت مند ہے تو اخلاقی طور پر دادا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے مال میں اس کے لیے وصیت کر دے۔ اگر اس نے وصیت نہیں کی تو قرآن نے خود ورثہ کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ تقسیم وراثت کے موقع پر دیگر اقربا اور یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھیں اور انھیں اس مال میں شریک کریں،۷۶؂ تاہم ہمارے معاشرے میں اس دوسری صورت کا امکان کم ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ دادا پر یتیم پوتے کے حق میں وصیت کرنے کی جو اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کیا اسے قانونی طور پر لازم قرار دیا جا سکتا ہے یا عدالت دادا کے مرنے کے بعد اپنا صواب دیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے پوتے کو ترکے میں سے کچھ حصہ دے سکتی ہے؟ میری طالب علمانہ رائے میں یہ نہ صرف مصلحت کے عمومی اصول کے تحت درست ہے، بلکہ قرآن مجید میں اس کی منصوص نظیر بھی موجود ہے۔ چنانچہ جب وراثت تقسیم کرنے کا اختیار ابھی معروف کے مطابق مورث کی صواب دید پر منحصر تھا تو قرآن نے اجازت دی تھی کہ اگر وہ اپنی وصیت میں جانب داری یا حق تلفی کا مرتکب ہو تو اس کے مرنے کے بعد انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے وصیت میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔۷۷؂ یہ حکم ظاہر ہے کہ اس دائرے میں اب بھی موثر ہے جس میں مرنے والے کو وصیت کا اختیار دیا گیا ہے۔ دوسری جگہ قرآن نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر مرنے والا اپنے قریبی رشتہ داروں کی غیر موجودگی میں کسی دور کے رشتے دار کو وارث قرار دے تو سارا مال تنہا اسی کو دینے کے بجائے اس کے بہن بھائیوں کو بھی چھٹے یا ایک تہائی حصے میں شریک کیا جائے۔ ۷۸؂ ان دو آیتوں کی روشنی میں یہ کہنا غالباً غلط نہیں ہوگا کہ اگر دادا یتیم پوتے کی احتیاج وضرورت پیش نظر ہوتے ہوئے بھی اس کے لیے وصیت نہیں کرتا تو وہ اس کی حق تلفی کا مرتکب ہوتا ہے جس کی تلافی کے لیے عدالت کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ مرنے والے کے حق وصیت کو خود استعمال کرتے ہوئے یتیم پوتے کو بھی ترکے میں سے مناسب حصے کا حق دار قرار دے۔
۵۔ ملکیت زمین کی تحدید کا مسئلہ بھی میری رائے میں یہی نوعیت رکھتا ہے۔ جاگیرداری نظام کے مفاسد اور سیاسی وسماجی ترقی کی راہ میں اس کا ایک بڑی رکاوٹ ہونا کسی استدلال کا محتاج نہیں، تاہم اس کے خاتمے کے جواز و عدم جواز کی بحث میں بالعموم خلط مبحث غالب رہا ہے اور بحث واستدلال کا سارا زور ملکیت زمین اور مزارعت کے فی نفسہٖ جائز یا ناجائز ہونے یا برصغیر کی زمینوں کے عشری یا خراجی ہونے پر صرف ہوتا رہا ہے جو مسئلے کی حقیقی نوعیت کے تناظر میں سراسرغیر ضروری ہے۔ ملکیت زمین اور مزارعت کا فی نفسہٖ جائز ہونا ایک الگ بحث ہے، جبکہ اس نے جاگیرداری اور غیر حاضر زمین داری کی صورت میں طاقت اور دولت کے ارتکاز، ظلم وجبر اور استحصال کے جس منظم نظام کی شکل اختیار کر لی ہے، وہ ایک بالکل دوسری چیز ہے۔ کوئی ایسا کام جو فی نفسہٖ مباح ہو، اگر دیگر عوامل کے تحت کسی مفسدے اور ضرر کا باعث بن جائے تو مفاد عامہ کی خاطر اسے ممنوع قرار دیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ غیر محدود ملکیت زمین کے مفاسد سے بچنے کے لیے سد ذریعہ کے اصول پر ملکیت زمین کی قانونی تحدید اور پھر مقررہ حد سے زائد زمینوں کے مالکوں سے ان کی اراضی کو جبراً خرید لینا یا زمینوں کے مالکوں کو قانونی طور پر ان زمینوں کو کاشت کرنے کا پابند بنانا یا ان کی ملکیت کے حقوق کو برقرار رکھتے ہوئے ان زمینوں کے انتظام وانصرام کو سرکاری کنٹرول میں لے لینا بالکل درست ہوگا۔ ان میں سے کوئی بات بھی اصلاً شریعت اور فقہی اصولوں کے منافی نہیں اور پیش نظر مقصد کے لحاظ سے ان میں سے جو طریقہ بھی نتیجہ خیز ہو، اسے اختیار کیا جا سکتا ہے۔ 
اختصار کے پہلو سے یہاں صرف چند مثالیں بیان کرنے پر اکتفا کی گئی ہے، ورنہ قانون کا عملی اطلاق کرتے ہوئے دین کے کسی حکم یا اصول کے تحت کسی دوسرے حکم کی تخصیص کرنے، استثنائی صورتوں پر عمومی حکم کا اطلاق نہ کرنے، مقاصد ومصالح اور عملی حالات کی رعایت سے کسی مباح کو واجب یا سد ذریعہ کے طور پر ممنوع قرار دینے، کسی اخلاقی ذمہ داری کو قانونی پابندی میں تبدیل کرنے، کسی اختیار کے سوء استعمال کو روکنے کے لیے اس پر قدغن لگانے اور اس نوعیت کی دیگر تحدیدات وتصرفات کی مثالیں احادیث، آثار صحابہ اور ائمۂ مجتہدین کی فقہی آرا میں کثرت سے موجود ہیں۔ بدقسمتی سے مخصوص عملی صورتوں کو سامنے رکھ کر کیے جانے والے ان اطلاقی اجتہادات اور پھر ان سے تخریج در تخریج اور تفریع در تفریع کے ذریعے سے وجود میں آنے والی فقہی جزئیات نے مدون فقہی ذخیرے میں بجائے خود بے لچک شرعی احکام اور پابندیوں کی حیثیت اختیار کر لی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ صدر اول کے کسی مجتہد کی جو رائے اپنے اصل محل میں اجتہادی بصیر ت کا شاہکار دکھائی دیتی ہے، آج کا مفتی جب اسے فقہ کی کتاب سے اٹھا کر کسی استفتا کے جواب میں درج کرتا ہے تو وہی رائے ایک تعبدی حکم کی صورت اختیار کر چکی ہوتی ہے۔ اس تناظر میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ آج اگر صحابہ وتابعین اور ائمۂ مجتہدین کی آرا میں موجود جزئیات و نظائر سے ہٹ کر موجودہ معاشرتی مصالح کے تناظر میں قانون سازی اور اجتہاد کے عمومی اصولوں کا نیا اطلاق کیا جاتا ہے تو علما کے روایتی طبقے کو یہ عمل مداخلت فی الدین دکھائی دیتا ہے۔ بہرحال روایتی طبقے کے جو بھی تحفظات ہوں، قرآن وسنت کی منشا اور مقاصد ومصالح کے تناظر میں جدید مسائل ومشکلات کا اجتہادی حل پیش کرنا زیادہ اہم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر مدون فقہی ذخیرے کا تجزیاتی مطالعہ کر کے دین کے اصل اور بنیادی احکام اور ان پر فقہی اجتہادات کے ذریعے سے کیے جانے والے اضافوں کے فرق کو واضح کیا جا سکے اور فقہا نے جن اصولوں کے تحت فقہی جزئیات ونظائر فراہم کیے ہیں، معاصر تناظر میں انھی اصولوں کا ازسرنو اطلاق کرتے ہوئے فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کی ضرورت کا احساس اجاگر کیا جا سکے تو روایتی طبقے کے تحفظات اور حساسیت کو کم کرنے میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے۔
گفتگو کے آخر میں، میں ساری بحث کا حاصل پیش کرتے ہوئے یہ کہوں گا کہ فقہ واجتہاد کے میدان میں شرعی احکام کے پس منظر میں کار فرما مقاصد اور مصالح کا کردار بے حد اہم اور بنیادی ہے، تاہم ان کی عمل داری کا دائرہ منصوص احکام کی ابدیت یا وقتیت کو طے کرنا نہیں، کیونکہ یہ احکام بذات خود ان مقاصد کی تعیین کے لیے معیار کی حیثیت رکھتے اور ان کی حفاظت اور نگہبانی کے ضامن ہیں اور ان کو چھوڑ کر مقاصد اور ذرائع میں فرق کرنے کا کوئی قطعی معیار ہمارے پاس باقی نہیں رہتا۔ شریعت کے احکام میں مرعی اور ان سے ماخوذ ان مقاصد او رمصالح کا اصل کردار مسائل واحکام کی بے شمار عملی صورتوں میں شارع کی منشا متعین کرنے میں انسانی عقل کو مدد فراہم کرنا اور قانون کو بے روح اور جامد بننے سے محفوظ رکھتے ہوئے زندگی کے گوناگوں مظاہر اور احوال کے ساتھ اس کا زندہ تعلق قائم رکھنا ہے۔ ہذا ما عندی والعلم عند اللّٰہ۔

حوالہ جات

(۱) النساء ۴:۲۳۔
(۲) البقرہ ۲:۱۷۸۔ ’’یہ تمھارے رب کی طرف سے ایک قسم کی تخفیف اور مہربانی ہے۔‘‘
(۳) البقرہ ۲:۲۲۰۔
(۴) الاعراف ۷:۱۴۵۔’’پس اس کو مضبوطی سے پکڑو اور اپنی قوم کو ہدایت کرو کہ اس کے بہتر طریقہ کو اپنائیں۔‘‘
(۵) المائدہ ۵:۴۴۔’’اس کے مطابق خدا کے فرماں بردار انبیا، ربانی علما اور فقہا یہود کے معاملات کے فیصلے کرتے تھے، بوجہ اس کے کہ وہ کتاب الٰہی کے امین اور اس کے گواہ ٹھہرائے گئے تھے۔‘‘
(۶) المائدہ ۵:۴۳۔ ’’اور یہ تمھیں حَکم کس طرح بناتے ہیں جبکہ تورات ان کے پاس موجود ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے۔‘‘
(۷) مسلم، رقم ۳۲۱۲۔ ’’اے اللہ، میں پہلا ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا، جبکہ ان لوگوں نے اس کو مردہ کر رکھا تھا۔‘‘
(۸) آل عمران ۳:۵۰۔’’اور اس لیے آیا ہوں کہ بعض ان چیزوں کو تمھارے لیے حلال ٹھہراؤں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں۔‘‘
(۹) الاعراف ۷:۱۵۷۔’’اور ان پر سے وہ بوجھ اور پابندیاں اتارتا جو ان پر اب تک رہی ہیں۔‘‘
(۱۰) النساء ۴:۲۵۔
(۱۱) البقرہ ۲:۲۳۳۔
(۱۲) البقرہ ۲:۲۳۳۔
(۱۳) البقرہ ۲:۲۴۱۔
(۱۴) البقرہ ۲:۲۳۲، ۲۳۴۔
(۱۵) النساء ۴:۶۔
(۱۶) النساء ۴:۹۲۔
(۱۷) البقرہ ۲:۱۷۸۔
(۱۸) البقرہ ۲:۱۸۰۔۱۸۲۔
(۱۹) النساء ۴: ۱۱، ۱۲، ۱۷۶۔
(۲۰) مسلم، رقم ۳۱۳۵۔
(۲۱) ۴:۳۴۔’’مرد عورتوں کے سرپرست ہیں۔‘‘
(۲۲) ۴:۳۲۔
(۲۳) مسند احمد، رقم ۱۵۷۳۔
(۲۴) ترمذی، رقم ۱۰۷۹۔
(۲۵) المائدہ ۵:۳۸۔’’اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا کے طور پر‘‘۔
(۲۶) المائدہ ۵:۳۳۔ ’’یہ ان کے لیے اس دنیا میں رسوائی ہے۔‘‘
(۲۷) النور ۲۴:۲۔
(۲۸) البقرہ ۲:۲۲۸۔
(۲۹) الاحزاب ۳۳:۴۹۔
(۳۰) الطلاق ۶۵:۴۔
(۳۱) النساء ۴:۱۱۔ ’’تم نہیں جان سکتے کہ تمھارے لیے سب سے زیادہ نافع کون ہوگا۔‘‘
(۳۲) البقرہ ۲:۲۴۰۔
(۳۳) النور ۲۴:۴۔۹۔
(۳۴) الغاشیہ ۸۸:۲۱۔ ۲۲۔ ’’تم یاددہانی کردو، تم بس ایک یاددہانی کر دینے والے ہو۔ تم ان پر داروغہ نہیں مقرر ہو۔‘‘
(۳۵) الصافات ۳۷: ۱۳۹۔۱۴۸۔ القلم ۶۸:۴۸۔ ۴۹۔
(۳۶) الرعد ۱۳:۴۰۔
(۳۷) محمد ۴۷:۴۔
(۳۸) التوبہ ۹:۱۴۔ ’’تم ان سے لڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں ان کو سزا دے گا۔‘‘
(۳۹) التوبہ ۹:۵۔
(۴۰) التوبہ ۹:۲۸۔
(۴۱) بخاری، رقم ۲۷۹۴۔
(۴۲) بخاری، رقم ۱۰۸۔
(۴۳) نسائی، رقم ۴۷۲۵۔
(۴۴) مسند احمد، رقم ۱۵۹۳۔ مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۸۷۴۸، ۱۹۲۵۳۔
(۴۵) بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۶۶۶۵۔
(۴۶) اس نقطۂ نظر کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: جاوید احمد غامدی، ’’قانون جہاد‘‘ ۳۲۔۳۸۔ ’’برہان‘‘ ۱۳۹۔۱۴۳۔ محمد عمار خان ناصر، 
(۴۷) مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۰۰۸۱، ۱۰۰۸۳۔
(۴۸) بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۸۴۶۲۔
(۴۹) مسلم، رقم ۲۶۸۹۔
(۵۰) ابو داؤد، رقم ۳۴۴۴۔
(۵۱) بخاری، رقم ۳۹۰۹۔
(۵۲) البقرہ ۲:۱۷۸۔
(۵۳) الانفال ۸:۷۲۔
(۵۴) التوبہ ۹:۴۔
(۵۵) مسلم، رقم ۳۲۰۷۔
(۵۶) مسلم، رقم ۳۲۱۷۔
(۵۷) ابو داؤد، رقم ۳۸۷۸۔ ابن ماجہ، رقم ۲۵۶۴۔
(۵۸) ترمذی، رقم ۱۳۷۰۔
(۵۹) النساء ۴:۲۵۔
(۶۰) مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۳۷۱۴، ۱۳۵۲۶، ۱۳۵۲۸، ۱۳۵۳۳، ۱۳۵۳۶، ۱۳۴۹۱۔
(۶۱) بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۶۸۲۷۔ مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۳۶۴۹، ۱۳۶۵۰۔ موطا امام مالک، رقم ۲۳۳۰۔
(۶۲) مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۸۹۹۰، ۱۸۹۹۱۔ ابن القیم، اعلام الموقعین ۶۰۵۔
(۶۳) ترمذی، رقم ۱۱۰۴۔
(۶۴) نیل الاوطار ۷/۲۰۔ ۲۱۔
(۶۵) سنن سعید بن منصور، رقم ۱۱۳۰، ۱۱۳۱۔
(۶۶) ابن ماجہ، رقم ۲۰۳۶۔
(۶۷) مسلم، رقم ۳۱۵۴۔
(۶۸) طبرانی، المعجم الکبیر، رقم ۹۶۴۹، ۹۶۵۰۔
(۶۹) سنن سعید بن منصور، رقم ۱۱۲۸۔
(۷۰) سنن سعید بن منصور، رقم ۱۱۲۹۔
(۷۱) بخاری، رقم ۲۵۲۰۔
(۷۲) مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۰۳۲۳۔
(۷۳) مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۰۰۵۹، ۱۲۶۷۶۔
(۷۴) مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۲۶۷۶۔
(۷۵) سنن سعید بن منصور، رقم ۷۱۶۔
(۷۶) النساء ۴:۸۔
(۷۷) البقرہ ۲:۱۸۲۔
(۷۸) النساء ۴:۱۲۔

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ (۲ )

حافظ محمد زبیر

قرآن وسنت کا باہمی تعلق

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے مُبَیّن(وضاحت اورتشریح کرنے والے) ہیں اور جناب غامدی صاحب بھی اس بات کو مانتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب ’برہان‘ میں قرآن و سنت کے باہمی تعلق کے عنوان سے اس موضوع پر مفصل گفتگو کی ہے ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن میں ذکر ہے:
وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ (النحل:۴۴)
’’اور ہم نے آپؐ کی طرف قرآن نازل کیا تا کہ آپؐ اس کی تبیین کریں جو ان کی طرف نازل کیاگیا ہے اور تا کہ وہ غور و فکر کریں۔‘‘
اسی طرح قرآن میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بیان کی خود ذمہ داری لی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ عَلَیْْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہُ فَإِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ ثُمَّ إِنَّ عَلَیْْنَا بَیَانَہُ (القیامۃ:۱۷ تا ۱۹)
’’بے شک ہمارے ذمے قرآن کا جمع کرنا اور اس کا پڑھوا دینا ہے ‘پس جب ہم اس کو پڑھ دیں تو آپ ؐ اس کے پڑھے ہوئے کی پیروی کریں‘ پھر ہمارے ذمے اس کا بیان ہے۔‘‘
اس تبیین یا بیان میں کیا قرآن کے کسی حکم کی تخصیص یا تحدید بھی داخل ہے ؟اگر ہم فقہائے اہل سنت سے یہ سوال کریں تو سب کے نزدیک تخصیص ‘تبیین میں شامل ہے لیکن اگر ہم غامدی صاحب سے یہی سوال کریں تو ان کے نزدیک تخصیص ‘قرآنی حکم میں تغیر و تبدل ہے لہٰذا یہ تبیین میں شامل نہیں ہے۔ جب ہم قرآن سے یہ سوال کرتے ہیں تو اس کا جواب بھی اثبات میں ہے ۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ بقرۃ میں جب بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو وہ حکم ان الفاظ کے ساتھ تھا:
وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تَذْبَحُواْ بَقَرَۃً (البقرۃ:۶۷)
اور جب موسی ؑ نے اپنی قوم سے کہا :یقیناًاللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرو۔
اس آیت مبارکہ میں لفظ ’بقرۃ‘ نکرہ مطلق ہے۔اس کو بعض اصولیین عام مطلق یا عموم بدلی بھی کہہ دیتے ہیں۔ علی سبیل البدل ’بقرۃ‘ کا ہر فرد( ہر گائے) اس لفظ میں شامل ہے ۔ بنی اسرائیل کسی بھی قسم کی گائے پکڑ کر ذبح کر دیتے تو اس حکم پر عمل ہو جاتا‘لیکن جب بنی اسرائیل نے لفظ’بقرۃ‘کی تبیین چاہی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّن لّنَا مَا ہِیَ قَالَ إِنَّہُ یَقُولُ إِنَّہَا بَقَرَۃٌ لاَّ فَارِضٌ وَلاَ بِکْرٌ عَوَانٌ بَیْْنَ ذَلِکَ فَافْعَلُواْ مَا تُؤْمَرونَ (البقرۃ:۶۸)
’’انہوں نے کہا:آپ اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لیے واضح کرے کہ وہ گائے کیا ہے ؟حضرت موسیٰ نے کہا:بے شک اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ایک گائے ہے جو نہ بوڑھی عمر کی ہو اور نہ چھوٹی عمر کی ‘بلکہ درمیانی عمر کی ہو ۔پس تم کرو جس کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے لفظ تبیین کے ذریعے ’بقرۃ‘ کی تخصیص و تحدید کر دی ہے‘اب ’بقرۃ‘ سے علیٰ سبیل البدل اس کا ہر فرد مراد نہیں ہے بلکہ اب اس ’بقرۃ‘ سے مراد علیٰ سبیل البدل اس کا ایک فردہے ۔لہٰذا تبیین کے ذریعے علیٰ سبیل البدل ’بقرۃ‘ کے بعض افراد کے لیے یہ حکم ثابت ہوا نہ کہتمام گائیوں کے لیے ‘اسی طرح اب تک بنی اسرائیل کے لیے حکم یہ تھا کہ درمیانی عمر کی کسی وصف کی گائے ذبح کر دیں تو اس حکم پر عمل ہو جائے گا۔ یہ ذہن میں رہے کہ اول حکم میں لفظ ’بقرۃ‘ میں درمیانی عمر کی گائے کی تحدید شامل نہ تھی یہ تحدید‘تبیین کے ذریعے لگائی گئی ۔ جب بنی اسرائیل نے اس گائے کی مزید تبیین چاہی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّن لَّنَا مَا لَوْنُہَا قَالَ إِنَّہُ یَقُولُ إِنّہَا بَقَرَۃٌ صَفْرَاء فَاقِعٌ لَّوْنُہَا تَسُرُّ النَّاظِرِیْنَ (البقرۃ:۶۹)
’’انہوں نے کہا:آپ اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لیے واضح کرے کہ اس گائے کا رنگ کیسا ہو؟تو حضرت موسی ؑ نے کہا:بے شک وہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :وہ ایک زرد رنگ کی گائے ہے اس کا رنگ گہرا ہے۔ وہ دیکھنے والوں کو بھلی معلوم ہوتی ہے ۔‘‘
جب بنی اسرائیل نے لفظ تبیین کے ذریعے ’بقرۃ‘ کی مزید وضاحت چاہی تو اللہ تعالیٰ نے لفظ ’بقرۃ‘ کے عمومی مفہوم کی مزید تحدید وتخصیص کردی کہ اب صرف درمیانی عمر کی گائے مطلوب نہیں ہے بلکہ درمیانی عمر کے ساتھ ساتھ اس کا رنگ گہرا زرد بھی ہواجودیکھنے والوں کو بھلی معلوم ہو۔ اس آیت میں لفظ تبیین کے ذریعے درمیانی عمر کی گائے کی مزید تحدید و تخصیص کر دی گئی ۔اس وقت تک اگر بنی اسرائیل مذکورہ بالا صفات کی حامل کوئی سی بھی گائے ذبح کر دیتے تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل ہو جاتا لیکن جب بنی اسرائیل نے اس گائے کی مزید تبیین چاہی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّن لَّنَا مَا ہِیَ إِنَّ البَقَرَ تَشَابَہَ عَلَیْْنَا وَإِنَّا إِن شَاء اللَّہُ لَمُہْتَدُونَ قَالَ إِنَّہُ یَقُولُ إِنَّہَا بَقَرَۃٌ لاَّ ذَلُولٌ تُثِیْرُ الأَرْضَ وَلاَ تَسْقِیْ الْحَرْثَ مُسَلَّمَۃٌ لاَّ شِیَۃَ فِیْہَا قَالُواْ الآنَ جِءْتَ بِالْحَقِّ فَذَبَحُوہَا وَمَا کَادُواْ یَفْعَلُون (البقرۃ: ۷۰، ۷۱)
’’انہوں نے کہا:آپ اپنے رب سے دعا کریں وہ ہمارے لیے واضح کرے کہ وہ گائے کیا ہے؟بے شک گائے ہم پر مشتبہ ہوگئی ہے اور اگر اللہ نے چاہا توہم رہنمائی پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔حضرت موسی ؑ نے کہا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :کہ وہ ایک گائے ہے جو نہ تو سدھائی گئی ہے کہ زمین میں ہل چلائے اور نہ کھیتی کو پانی پلاتی ہے وہ یک رنگ ہے کہ اس میں کوئی داغ نہیں ہے۔انہوں نے کہا تو اب توحق بات لے کر آیا ‘پس انہوں نے اس گائے کو ذبح کیا جبکہ وہ ایسا کرنے والے نہیں تھے۔‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے لفظ تبیین کے ذریعے ’بقرۃ‘ کے مزید افراد کو اس کے لغوی مفہوم سے نکال دیا اور اس کے معنی و مفہوم کی مزید تحدید و تخصیص کر دی۔ان آیات پر غور کرنے والے کو معلوم ہو گا کہ شروع میں جب گائے ذبح کرنے کے لیے لفظ ’بقرۃ‘ استعمال کیا گیا تھا تو اس ’بقرۃ‘ کی تمام قسموں پرعلی سبیل البدل اس لفظ کا اطلاق ہو سکتا تھا لیکن تبیین کے ذریعے ’بقرۃ‘ کے افراد کی اس قدر تحدید کر دی گئی کہ شاید بنی اسرائیل میں کوئی ایک ہی ایسی گائے پائی جاتی ہو کہ جس پر اس کا اطلاق ہو سکتا ہو۔
قرآن کے عام و مطلق کی تخصیص و تحدید اس کے علاوہ اور کیا ہے ؟عام کی تخصیص کا یہ معنی بالکل نہیں ہے کہ باہر سے کوئی مفہوم نص کے معنی میں شامل کیا گیا ہے بلکہ تخصیص کا معنی و مفہوم تو شروع سے ہی نص کے عمومی معنی میں شامل ہوتا ہے۔ اس کو ہم قرآن کی ایک اورمثال سے سمجھتے ہیں کہ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِاءَۃَ جَلْدَۃٍ (النور:۲)
’’زنا کرنے والا مرد اور زنا کرنے والی عورت ‘ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں ’الزانی‘ اور ’الزانیۃ‘ لفظ عام ہیں اور ان کا اطلاق لغت میں ہر زنا کرنے والے مردپر ہوتا ہے‘چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ‘آزاد ہوں یا غلام‘عورت کی رضامندی سے زنا کرنے والا ہو یا اس پر جبر کرتے ہوئے‘چوری چھپے زنا کرنے والا ہو یا برسرعام مجمع میں‘ایک دفعہ زنا کرنے والا ہو یا زنا کا عادی مجرم ہووغیرہ یہ سب اس لفظ ’الزانی‘ اور ’الزانیۃ‘ کے متنوع افراد ہیں اور یہ سب اس کے عمومی معنی میں داخل ہیں۔اس لیے لفظ ’الزانی‘ اور ’الزانیۃ‘ اپنے تحت آنے والے تمام افراد کو شامل ہیں لہٰذا یہ لفظ ’عام‘ کہلائے گا۔ اگر اس لفظ ’الزانی‘ اور ’الزانیۃ‘ کے بعض افراد کو اس سے نکال لیا جائے اور اس کے مفہوم کو اس کے بعض افراد تک محدود کر دیا جائے تو یہ اس عام کی تخصیص کہلائے گی‘خود قرآن نے ایک اور جگہ وضاحت کر دی کہ لفظ ’الزانی‘ اپنے عموم پر باقی نہیں ہے یعنی غلام اس میں شامل نہیں ہیں‘ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَإِنْ أَتَیْْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ (النساء:۲۵)
’’پس اگر وہ (لونڈیاں)زنا کا ارتکاب کریں تو ان پر نصف سزا ہے اس کی جو کہ آزاد عورتوں پر ہے۔‘‘
اسی طرح جمہور علما کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تبیین کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے یہ واضح کر دیا کہ ’الزانی‘ سے مراد شادی شدہ نہیں ہے ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نے قرآن کے الفاظ کے مفہوم میں کوئی نئی بات داخل نہیں کی بلکہ اس کے الفاظ کے ان بعض مصداقات کا تعین کیا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی مراد تھے۔
جس طرح تخصیص کا معنی کسی نص میں باہر سے کسی مفہوم کو شامل کرنا نہیں ہے اسی طرح تخصیص کا معنی کسی نص کے مفہوم کو تبدیل کرنا بھی نہیں ہے ۔مثلاایک بحث تو یہ ہے کہ اہل زبان نے فلاں لفظ کو کس معنی کے لیے وضع کیا ہے؟ اور ایک دوسری بحث یہ ہے کہ متکلم کی اس لفظ سے منشاکیا ہے ؟مثلا اہل زبان نے لفظ ’رجل‘ کسی مذکر فرد واحد پر دلالت کے لیے وضع کیا ہے ۔اگر کوئی شخص کہتا ہے ’جاء نی رجل‘ تو اس سے مراد کوئی بھی ایساآدمی ہو سکتا ہے کہ جس پر لفظ ’رجل‘ صادق آ ئے۔اب اگر کوئی شخص یہ جملہ ’جاء نی رجل‘ بول کر مراد’زید‘ لیتا ہے تو یہ لغت کے منافی نہیں ہے ۔اگر کوئی شخص ہم سے یہ کہے کہ لغت کی کسی کتاب سے دکھاؤکہ ’رجل‘ کے معنی ’زید‘ ہوتے ہیں تو ہم اس کو یہ کہیں گے کہ ’جا ء نی رجل أی زید‘ لغت عربی کے قواعد و ضوابط کے مطابق جائز ہے اور اہل زبان اس کو استعما ل کرتے ہیں۔اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ آپ نے ’رجل‘ سے ’زید‘ مراد لے کر ’رجل‘ کے لغوی وضعی معنی کو تبدیل کر دیا ہے تو ہم اس کو کہیں گے کہ ’رجل‘ کا لغوی معنی تبدیل نہیں ہوا بلکہ متکلم نے اپنی مراد کو واضح کیا کہ ’رجل‘ سے اس کی مراد ایک خاص فرد ہے نہ کہ علیٰ سبیل البدل ہر فرد ۔لہٰذا ’تحریر رقبۃ‘ بول کر ’تحریر رقبۃ مؤمنۃ‘ مراد لینا عربی زبان کے اسلوب کے مطابق ہر متکلم کے لیے جائز ہے۔پس ثابت ہوا کہ تقیید بھی تبیین کی ہی ایک قسم ہے اور تقیید کلام کے وقت متکلم کے ذہن میں ہوتی ہے اس کو کلام میں ظاہر کرنا ضروری نہیں ہے۔جیسے کوئی شخص ’جاء نی رجل‘ بول کر کر اس سے مراد ’زید‘لے رہا ہو۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے جس مطلق کو بھی مقید کیاہے وہ دراصل متکلم کی منشا کی وضاحت کی ہے۔ ’جاء نی رجل أی زید‘ اہل نحو کے نزدیک نہ تو نسخ ہے اور نہ ہی یہ تغیر ہے بلکہ یہ تفسیر کہلاتا ہے او ر لفظ ’أی‘ حروف تفسیر میں سے ایک حرف ہے اور تفسیر ‘تبیین ہی کی ایک قسم ہے۔اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کام کیا ہے یعنی قرآن کے مطلق سے اللہ کی مراد کو واضح کیا ہے نہ کہ اس کے کسی حکم میں تبدیلی ‘ تحدید یا اس کو منسوخ کیا ہے جیسا کہ امام شافعی ؒ اور امام شاطبیؒ نے اس پر ’الرسالۃ‘ اور ’الموافقات‘ میں مفصل بحث کی ہے ۔
تخصیص وتقیید کی بحث کے بعد اب ہم اضافے کی طرف آتے ہیں‘ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن کے کسی حکم پر اضافہ تبیین میں شامل ہے؟یا کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ قرآن کے کسی حکم میں اضافہ کریں ؟پہلے سوال کا جواب اگر ہم غامدی صاحب سے پوچھیں تو ان کا جواب نفی میں ہے ‘غامدی صاحب قرآن کے کسی حکم پر اضافے کو تبیین نہیں مانتے ‘جبکہ اہل سنت اس کو تبیین کی ایک قسم قرار دیتے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اضافہ کسی طرح تبیین کی ایک قسم ہے ؟۔ ’بقرۃ‘ کی جس مثال پر ہم بحث کر چکے ہیں وہ تحدیدو تخصیص کے علاوہ اضافے کی بھی مثال ہے ۔اللہ نے جب ’أن تذبحوا بقرۃ‘ کا حکم جاری کیا تھا تو اللہ کی مراد واضح تھی کہ کوئی بھی گائے ذبح کر لی جائے ۔اب متکلم (اللہ)نے اپنے ایک جاری کردہ ایسے حکم پر ‘جو کے کلام کے وقت ایک مکمل‘ قابل فہم اور قابل عمل حکم تھا‘لفظ تبیین کے ذریعے اضافے کیے ہیں لہٰذا اضافہ بھی تبیین ہی کی ایک شکل ہے۔ 

امام شافعی کا موقف

امام شافعی ؒ کا کہنا یہ ہے کہ سنت‘ قرآن کے کسی حکم کو نہ تو منسوخ کرتی ہے اور نہ اس میں کسی قسم کا تغیر و تبدل کرتی ہے۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے واضح کر دیا ہے کہ جو بھی اس کی کتاب سے منسوخ ہوا ہے وہ اس کی کتاب ہی کے ذریعے منسوخ ہوا ہے اور سنت ‘کتاب کی ناسخ نہیں ہے بلکہ سنت توتمام احکامات میں کتاب کے تابع ہے۔وہ کتاب اللہ کے منصوص کی وضاحت کرتی ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ نے مجمل نازل کیاہے اس کی تفسیر بیان کرتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :اور جب ان پر ہماری واضح آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملاقات کی امید نہیں رکھتے‘کہتے ہیں:اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے آ ‘یا اس کو تبدیل کر دے۔آپؐ ان سے کہہ دیں : میرے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ میں اس کو اپنی طرف سے بدل دوں‘میں تو بس اسی کا اتباع کروں گا جو کہ میری طرف نازل ہوتا ہے ۔اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بہت بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے ۔پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی اتباع فرض کی ہے اور ان کو یہ اختیار نہیں دیاہے کہ وہ اپنی طرف سے اس کو تبدیل کر دیں۔‘‘ (الرسالۃ:ابتداء الناسخ و المنسوخ)
امام شافعیؒ کا کہنا یہ ہے کہ اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں ہمیں جوبھی احکامات ملتے ہیں وہ یا تووہ احکامات ہیں جو کتاب اللہ میں بھی موجود ہیں ‘تو اس صورت میں سنت کے احکامات قرآن کے احکامات کی تاکید ہوں گے یا پھروہ قرآن کے مجمل کا بیان ہوں گے ۔سنت میں موجودتیسری قسم کے احکامات وہ ہیں کہ جن کے بارے میں قرآن بالکل خاموش ہے تو ایسے احکامات بالاجماع حجت ہیں‘ لیکن سنت کے ایسے احکامات حجت کیوں ہیں؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے ۔امام شافعیؒ کہتے ہیں :
’’مجھے اس مسئلے میں اہل علم میں سے کسی کا اختلاف معلوم نہیں ہو سکا کہ سنت تین قسم کی ہے جن میں سے دوقسموں پر ان کا اتفاق ہے۔ یہ دونوں صورتیں ایک دوسرے سے ملتی بھی ہیں اور جدا جدا بھی ہیں۔ ان میں سے ایک قسم تو وہ ہے کہ جس کے بارے میں صراحت کتاب اللہ میں موجود ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی سنت کے ذریعے تاکید فرما دی۔ جبکہ دوسری قسم کہ جسے اللہ تعالیٰ نے کتاب میں اجمالاًبیان کر دیا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی طرف سے اس کے منشا کی وضاحت کر دی ہے۔یہ سنت کی وہ دو قسمیں ہیں کہ جن کے بارے میں کوئی اختلاف مروی نہیں ہے ۔سنت کی تیسری قسم وہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا حکم جاری فرمایا کہ جس کے بارے میں قرآن میں کوئی نص موجود نہیں ہے ‘تو اس قسم کے بارے میں بعض علما کا کہنا یہ ہے کہ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی اطاعت فرض کی ہے اور اس کے علم سابق میں یہ بات موجود ہے کہ وہ آپؐ کی سنت کو رضامندی کی توفیق بخشے گا‘آپؐ کو اللہ کی طرف سے اس بات کی اجازت ہے کہ آپ جس مسئلے میں قرآن کاکوئی منصوص حکم نہ ہو اس کے متعلق اپنی سنت جاری فرما دیں۔بعض کا کہنا یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بھی ایسی سنت جاری نہیں فرمائی کہ جس کی اصل کتاب اللہ میں موجود نہ ہو جیسا نمازوں کی تعداد اور اس کی عملی صورت بیان کرنے میں آپؐ کی سنت کا دارومدار قرآن کا وہ اجمالی حکم ہے کہ جس میں نماز فرض قرار دی گئی ہے ۔اسی طرح خرید و فروخت کے بارے میں آپؐ نے جو احکامات بیان فرمائے ان کی بنا بھی قرآنی احکامات پر ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا اورربا کو حرام قرار دیا ہے ۔پس جن چیزوں کوآپؐ نے حلال یا حرام ٹھہرایا ہے ان کو اللہ کی طرف سے واضح فرمایا ہے جیسا کہ آپؐ نے نمازوں کی تبیین فرمائی ہے ۔بعض اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ سنت اللہ کے پیغام کے طور پر آپؐ کے پاس آئی تھی لہٰذا( اللہ کے فرض کرنے سے) سنت فرض ہوئی۔بعض علما کا کہنا یہ ہے کہ ہر وہ سنت جس کو آپؐ نے جاری کیاہے وہ آپؐ کے دل پر القا ہوئی تھی اور آپؐکی سنت ہی وہ حکمت ہے جو اللہ کی طرف سے آپؐ کے دل پر القا کی گئی ‘پس جو آپؐ کے دل پر القا کیا گیا وہی آپؐ کی سنت ہے۔‘‘ (الرسالۃ: باب ما أبان اللہ لخلقہ من فرضہ علی رسولہ اتباع ما أوحی الیہ)
امام شافعیؒ کی مذکورہ بالا عبارت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے تخصیص ‘ تقیید اور اضافے وغیرہ کو سنت کی دوسری قسم میں رکھا ہے اور اسے قرآن کے اجمال کا بیان کہا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سنت کے وہ احکامات جو کہ بظاہر قرآن پر اضافہ معلوم ہوتے ہیں ان کو امام شافعی ؒ کیسے بیان میں شمار کرتے ہیں ؟امام شافعی ؒ نے ایسی احادیث جو کہ بظاہر قرآن پر اضافہ معلوم ہوتی ہیں ان کو مختلف طریقوں سے حل کیا ہے:
۱) بعض اوقات امام شافعی ؒ ایسی احادیث کو جو کسی آیت پر اضافہ معلوم ہو رہی ہوں ‘کسی اور آیت کی تشریح و توضیح کے طور پر بیان کرتے ہیں۔مثلاً امام شافعی ؒ کے نزدیک غیر شادی شدہ زانی کے لیے تغریب عام کی سزا قرآن کی آیت ’الزانیۃ و الزانی‘ پر اضافہ نہیں ہے بلکہ یہ سورۃ نساء کی آیت ’أو یجعل اللہ لھن سبیلا‘ کا بیان ہے۔امام شافعیؒ لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے زنا کی جو ابتدائی حد سورہ نساء میں بیان ہوئی ہے وہ ’حبس‘ اور ’ایذا‘ تھی علاوہ ازیں ان آیات میں ’أو یجعل اللہ لھن سبیلا‘ کے الفاظ میں اللہ کی طرف سے یہ وعدہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ عنقریب اس سلسلے میں کوئی رہنمائی دیں گے۔لہٰذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی طرف سے ’أو یجعل اللہ لھن سبیلا‘ کی تبیین فرماتے ہوئے غیر شادی شدہ زانی کے لیے سو کوڑے اور تغریب عام کی حد مقررکی اور شادی شدہ زانی کے لیے سو کوڑے اور رجم کی حدبیان کی‘کیونکہ آپ ؐ نے اس آیت کے نزول کے بعد فرمایا:
خذواعنی خذوا عنی قد جعل اللہ لھن سبیلا البکر بالبکر جلد ماءۃ و تغریب عام و الثیب بالثیب جلد ماءۃ و الرجم۔
’’مجھ سے لے لو مجھ سے لے لو‘اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے رستہ نکال دیا ہے ۔غیر شادی شدہ کو غیر شادی شدہ کے ساتھ زنا پر سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لیے جلا وطن کیا جائے اور شادی شدہ کو شادی شدہ سے زنا میں سو کوڑے مارے جائیں اور رجم کیا جائے۔‘‘
امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نے اس رستے کو واضح کر دیا جو اللہ نے ان عورتوں کے لیے مقرر کرنے کا وعدہ کیا تھااور یہ پہلی حد ہے جو کہ زانیوں پر جاری ہوئی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں :کہ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان عورتوں کو اٹھا لے یا ان کے لیے کوئی رستہ مقرر کر دے۔ (الرسالۃ:باب وجہ آخر)
غامدی صاحب نے ’البکر بالبکر‘ والی روایت پر یہ اعتراض وارد کیا ہے کہ اس حدیث سے تو صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ غیر شادی اگر غیر شادی سے زنا کرے تو سوکوڑے اور تغریب عام کی سزا ہے اور شادی شدہ ‘شادی شدہ سے زناکرے تو سو کوڑے اور رجم کی سزاہے ۔اگر شادی شدہ ‘ غیر شادی شدہ سے زنا کرے تو ان کی سزا تو حدیث میں بیان نہیں ہوئی ۔ہمارا جواب غامدی صاحب کو یہ ہے کہ و ہ حدیث پر اعتراض کرنے کی بجائے اگر اپنی عربی معلی کی روشنی میں قرآن کی آیت ’الحر بالحر و العبد بالعبد و الأنثی بالأنثی‘ کے اسلوب کلام پر غور فرما لیتے تو انہیں آپ ؐ کی اس روایت کے اسلوب کلام سے پیدا ہونے والے اشکالات رفع ہو جاتے۔بہر حال امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ اس کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر شادی شدہ کے لیے توسوکوڑوں اور تغریب عام کی سزا کو برقرار رکھالیکن آپؐ نے اپنے عمل کے ذریعے شادی شدہ زانی سے سو کوڑوں کی سزا منسوخ کر دی اور آپؐ نے حضرت ماعزأسلمیؓاورغامدیہ عورت کو صرف رجم کیا۔ امام شافعی ؒ کہتے ہیں :
’’ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ماعزؓ کورجم کیا اور ان کو کوڑے نہ مارے اسی طرح آپؐ نے أسلمی عورت کو بھی رجم کیا اورا س کو کوڑے نہیں لگوائے ۔پس سنت نے اس بات کی وضاحت کر دی کہ شادی شدہ زانیوں سے کوڑے منسوخ ہو چکے ہیں۔‘‘ (الرسالۃ:باب وجہ آخر)
امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ ایک طرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی آیت ’أو یجعل اللہ لھن سبیلا‘ کی تبیین میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کے لیے اللہ کے حکم سے حدود مقرر کیں تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے آیت مبارکہ ’الزانیۃ و الزانی‘ نازل کی تاکہ امت کو اس بات کی خبر دی جائے کہ سورۃ نساء کی ’حبس‘اور ’ایذا‘ کی سزا منسوخ ہے ۔امام شافعی ؒ کہتے ہیں:
’’پھر اللہ تعالیٰ نے ’حبس‘ اور ’ایذا‘ کو اپنی کتاب کے ذریعے منسوخ کر دیا اور یہ حکم جاری فرمایا کہ زانی مرد اور عورت میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔‘‘ (کتاب الرسالۃ:باب فرض الصلاۃ الذی دل لکتاب ثم السنۃ)
امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ آیت جَلدکے نزول کے بعد بھی آپ ؐ نے شادی شدہ کو سنگسار کیا جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس آیت نے آپ ؐ کے حکم کو منسوخ نہیں کیا ۔امام شافعیؒ کے نزدیک آیت جلد کے نزول کا اصل مقصد ’ایذا‘ اور ’حبس‘ کی قرآن میں بیان شدہ سزا کو منسوخ قرار دیناہے نہ کہ زنا کی کسی حد کو بیان کرنا‘کیونکہ زنا کی حد تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ’أو یجعل اللہ لھن سبیلا‘ کے بیان میں آیت جلد کے نزول سے پہلے ہی واضح کر چکے ہیں۔ لیکن آیت جلد ’ایذا‘ اور ’حبس‘ کی سزا کو منسوخ قرار دینے کے ساتھ ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ’أو یجعل اللہ لھن سبیلا‘ کے بیان میں بذریعہ سنت جاری کردہ زنا کی حدود کی بھی تاکید فرما رہی ہے۔*۔امام شافعی ؒ کہتے ہیں:
’’اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑوں کی آیت کے نزول کے بعد بھی رجم کیا ہے ۔‘‘ (الرسالۃ:باب وجہ آخر)
یہ تو رجم کے بارے میں امام شافعیؒ کاموقف ہے۔ بعض علما کا کہنا یہ ہے کہ ’أو یجعل اللہ لھن سبیلا‘ کے بعد جب آیت مبارکہ ’انما جزاؤ الذین یحاربون اللہ و رسولہ و یسعون فی الأرض فسادا أن یقتلوا أو یصلبوا أو تقطع أیدیھم و أرجلھم من خلاف أو ینفو من الأرض‘ نازل ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے ’زنا‘ کو ’فساد فی الأرض‘ کا ایک مصداق قرار دیاکیونکہ جس طرح ’اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محاربت‘ کے الفاظ عام ہیں اور اس کے مصداقات کئی ہو سکتے ہیں جیسا کہ خود قرآن نے ’أکل ربا‘ کو اللہ کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے اسی طرح ’فساد فی الأرض‘ بھی ایک عام لفظ ہے کہ جس کے مصداقات سینکڑوں ہو سکتے ہیں ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ کے زنا کو ’فساد فی الأرض‘ کا مصداق قرار دیتے ہوئے اس کے لیے ’أو یقتلوا‘ کے الفاظ سے استدلال کرتے ہوئے رجم کی سزا تجویز کی اور اس کے ساتھ ’الزانیۃ والزانی‘ کی آیت پر عمل کرتے ہوئے سو کوڑوں کی سزا کو بھی جمع فرما دیا۔اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر شادی شدہ زانی کے لیے ’الزانیۃ و الزانی‘ کے تحت سو کوڑوں کی حدبیان کی اورغیر شادی شدہ کے زنا کو بھی ’فساد فی الأرض‘ کا ایک مصداق قرار دیتے ہوئے ’أو ینفوا من الأرض‘ سے استدلال کرتے ہوئے ’تغریب عام‘ کی سزا کو بھی سو کوڑوں کی سزا کے ساتھ جمع کر دیا۔چونکہ ’الزانیۃ و الزانی‘ کا لفظ عام تھا لہٰذااللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے شادی شدہ زانی اور غیر شادی شدہ زانی دونوں کے لیے اس سزا کو بیان کیا‘ اور سورۃ المائدۃ کی آیت سے شادی شدہ کے لیے رجم کی سزا اور غیر شادی شدہ کے لیے تغریب عام کی سزا مقرر کی ۔سورۃ المائدۃ کی آیت سے رجم و تغریب عام کی سزا کا اخذ کرنااگرچہ یہ آپؐ کا استدلال و استنباط تھا لیکن اللہ کی تقریر و تائید نے اسے وحی بنا دیا۔علاوہ ازیں قرآنی آیات سے جو آپؐ استدلال کرتے ہیں وہ اللہ کی طرف سے آپؐ کے لیے الہام ہوتا ہے جس کو امام شافعی ؒ نے قرآن کی اصطلاح میں’حکمت‘ کا نام دیا ۔لہٰذاہر ایک سزا جو کہ شا دی شدہ یا غیر شادی شدہ کے لیے سنت سے ثابت ہے وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن ہی سے اخذ کی ہے۔ زنا کا ’فساد فی الأرض‘ کا ایک فرد ہونا عقلاً و شرعاً واضح ہے ۔مثلازنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کی اپنے غیر شرعی والدین سے نفرت‘شادی مرد و عور ت کے زنا کی صورت میں خاندانوں کا ٹوٹنا ‘باہمی قتل و غارت تک نوبت آ جانا وغیرہ۔ 
۲) بعض اوقات امام شافعی ؒ ان احادیث کے احکامات‘ جو کہ بظاہرہمیں قرآن پر اضافہ معلوم ہوتے ہیں‘کی قرآنی آیات سے اس طرح تطبیق فرماتے ہیں کہ وہ متعلقہ آیت پر اضافہ نہیں بنتے۔ مثلا امام شافعیؒ کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ذی مخلب‘ اور ’ذی ناب‘ کو جو حرام کہا ہے وہ قرآن کی آیت ’قل لا أجد فیما أوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ الا أن یکون میتۃ أو دما مسفوحا أو لحم خنزیر فانہ رجس أو فسقا أھل لغیر اللہ بہ‘ پر اضافہ نہیں ہے ‘کیونکہ یہ آیت ایک خاص سیاق میں ہے ۔امام شافعیؒ کے نزدیک اس آیت سے مراد وہ اشیاء ہیں کہ جن کو مشرکین مکہ نے اپنی طرف سے حرام ٹھہرا لیا تھا لہٰذا مشرکین مکہ سے کہا گیاکہ جسے تم حرام سمجھتے ہو اس میں سے صرف چار چیزیں اللہ نے حرام کی ہیں۔امام شافعی ؒ کہتے ہیں :
’’ہم یہ کہتے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ آپؐ کہہ دیں: میں اس میں جو میری طرف وحی کیا گیا ہے کسی چیز کو حرام نہیں پاتا اس میں سے کہ جس کو تم کھاتے ہوسوائے مرداراور جن کا بعد میں ذکر ہے۔پس جن اشیاء کو تم نے ناپاک سمجھ کر چھوڑ رکھاہے وہ ان اشیا کے مقابلے میں کہ جن کو تم حلال سمجھتے ہو ‘حرام نہیں ہیں سوائے ان کے کہ جن کا اللہ تعالیٰ نے نام لیا ہے ۔‘‘ (الرسالۃ:باب العلل فی الأحادیث)
امام شافعیؒ کی بات کی تائید قرآن کے سیاق وسباق سے بھی ہوتی ہے کیونکہ ’قل لا أجد فیما أوحی‘ سورۃ انعام کی آیت ’۱۴۵‘ہے جبکہ سورۃ انعام کی آیت ’۱۳۶‘ تا ’ ۱۵۳‘ کا مضمون ایک ہی ہے ان آیات میں اللہ تعالیٰ بار بار مشرکین مکہ کو جھنجوڑرہے ہیں کہ تم نے اپنی طرف سے حلال و حرام کے معیارات قائم کر رکھے ہیں ۔جیسا کہ اللہ کا فرمان ’و قالوا ھذہ أنعام و حرث حجرلا یطعمھا الا من نشاء‘ (الاأعام:۱۳۸) اور ’وقالوا ما فی بطون ھذہ الأنعام خالصۃ لذکورناو محرم علی أزواجنا‘ (الأنعام:۱۳۹)اور ’قل آالذکرین حرم أم الأنثیین أما اشتملت علیہ ارحام الأنثیین‘ (لأنعام:۱۴۳ و ۱۴۴) وغیرہ اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ اس آیت میں خاص مشرکین مکہ سے خطاب ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بتا دیں کہ جن ’طیبات‘ کو تم نے حرام ٹھہرا لیاہے وہ حرام نہیں ہیں بلکہ یہ چار چیزیں حرام ہیں ۔
علاوہ ازیں اس آیت میں جو حصر بیان ہوا ہے وہ حصر حقیقی نہیں ہے بلکہ یہ حصر مجازی یا حصر اضافی ہے جیسا کہ امام سیوطیؒ نے ’الاتقان‘ میں آیت کے حصر کو مجازی لیا ہے ‘حصر مجازی یا اضافی قرآن میں بہت استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت مبارکہ میں ہے ’قل انما یوحی الی أنما الھکم الہ واحد‘۔اگر ہم اس آیت میں حصر کو حقیقی معنی میں لیں تو اس کا معنی بنے گا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صرف توحیدألوہیت کی ہی وحی ہوئی ہے جو کہ خود قرآن کے بھی خلاف ہے کیونکہ قرآن میں صرف توحید ألوہیت کا بیان نہیں ہے ۔اسی طرح ’انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء‘ اور ’و ما محمد الا رسول‘ بھی حصر مجازی و اضافی کی مثالیں ہیں۔
لہٰذا قرآن کا بیان ’قل لا أجد فیما أوحی..‘ بھی شریعت ہے اور سنت کا بیان ’حرم رسول اللہ یعنی یوم خیبر لحوم الحمر الأھلیۃ و لحوم البغال و کل ذی ناب من السباع و کل ذی مخلب من الطیر‘ بھی بیانِ شریعت ہے جیساکہ امام ابن تیمیہؒ نے ’مجموع الفتاوی‘ میں لکھاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول آیت مبارکہ ’یحل لھم الطیبات و یحرم علیھم الخبائث‘ کا بیان ہے ۔جبکہ غامدی صاحب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو بیانِ شریعت نہیں مانتے بلکہ وہ اسے بیانِ فطرت قرار دیتے ہیں۔ 
۳) بعض اوقات امام شافعیؒ سنت کے احکامات کو قرآن کی اس آیت پر اضافہ کی بجائے اسی آیت کے اجمال کابیان قرار دیتے ہیں ۔امام شافعی ؒ اس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پھوپھی اور بھتیجی اور خالہ اور بھانجی کے جمع کرنے کو حرام ٹھہرایا ہے ‘ یہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم آیت مبارکہ ’حرمت علیکم أمھتکم و بنتکم وأخوتکم وعمتکم و خلتکم و بنتکم ...‘ پر اضافہ نہیں ہے بلکہ یہ ’و أحل لکم ما وراء ذلکم‘ کا بیان ہے۔امام شافعیؒ کہتے ہیں:
’’پس یہ آیت مبارکہ دو معانی کا احتمال رکھتی ہے ایک یہ کہ جن عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے متعین طور پرحرام ٹھہرا دیا ‘وہ حرام ہوں اور جن سے سکوت فرمایا ہے وہ حلال ہوں اور یہ معنی اللہ تعالے کے قول’جوبھی اس کے علاوہ ہے وہ ان کے لیے حلال کیا گیاہے‘ سے بھی ثابت ہے اور یہ اس آیت کا ظاہر ی معنی ہے...اللہ تعالیٰ نے جودو بہنوں کو جمع کرنے سے منع فرمایا ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اصل حرمت جمع کرنے کی ہے ورنہ دونوں میں سے ہر ایک بہن علیحدہ علیحدہ اس کے لیے حلال ہو گی ۔جبکہ دوبہنوں کے علاوہ ماؤں‘بیٹیوں ‘پھوپھیوں اور خالاؤں کا حرام ہونا اصلاً ہے ۔اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کہ’جوبھی اس کے علاوہ ہے وہ ان کے لیے حلال کیا گیاہے‘ کا معنی یہ ہے کہ وہ عورتیں جو أصلاً حرام ہیں یا بذریعہ رضاعت أصل کا مثل ہونے کی وجہ سے حرام ہیں‘ ان کے علاوہ تمام عورتیں اس طریقے کے ساتھ حلال ہیں کہ جس طریقے سے ان کی حلت ثابت کی گئی ہے( مثلا دوبہنوں ‘ پھوپھی بھتیجی ‘ بھانجی خالہ کوایک ساتھ نکاح میں جمع نہ کرنا)...بات یہ ہے کہ جو عورتیں مباح ہیں ان میں سے بھی چار سے زائد سے نکاح حلال نہیں ہے اور گر کوئی شخص(چار کے ہوتے ہوئے) پانچویں سے نکاح کرے گا تو نکاح فسخ کر دیا جائے گا ‘پس یہ معلوم ہوا کہ مباح عورتوں میں سے کسی ایک سے نکاح اس وقت جائز ہو گا جبکہ نکاح کا صحیح طریقہ اختیار کیا جائے گا۔لہٰذا پانچویں عورت اور ایک عورت سے بھی ’و أحل لکم ما وراء ذلکم‘ کے مطابق اس وقت نکاح درست ہو گا جبکہ اس سے اس طریقے سے نکاح کیاجائے گا جو کہ نکاح کا صحیح طریقہ ہے اور ان شرائط کے ساتھ نکاح کیاجائے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس عورت کو حلال کیا ہے اور ’و أحل لکم ماوراء ذلکم‘ سے مطلقاً حلت مراد نہیں ہے (بلکہ اس آیت کی حلت بعض صورتوں میں مقید ہے یعنی اللہ تعالیٰ پھوپھی کو اس شرط کے ساتھ حلال کیا ہے کہ اس کے ساتھ بھتیجی کو جمع نہ کیا جائے اور بھتیجی کو اس شرط کے ساتھ حلال کیا ہے کہ اس کے ساتھ پھوپھی کو جمع نہ کیا جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پانچویں عورت کو اس شرط کے ساتھ حلال کیا ہے کہ پہلی چار میں سے ایک کو طلاق دی جائے) ۔چناچہ کسی شخص کا کسی عورت سے نکاح کرنا اس کی پھوپھی یا بھتیجی کو ہر حال میں حرام قرار نہیں دیتا‘جبکہ اللہ تعالیٰ نے بیویوں کی ماؤں کوہر حال میں حرام قرار دیا ہے‘لہٰذا پھوپھی اور خالہ ان عورتوں میں شامل ہیں کہ جن کو حلال کیا گیا ہے مگر اس طریقے سے کہ جو اللہ تعالیٰ نے ان کی حلت کے لیے مقرر کیا ہے جس طرح ایک آدمی کے لیے پانچویں عورت سے نکاح اس شرط کے ساتھ حلال ہے کہ وہ اپنی ایک بیوی کو طلاق دے کر جدا کردے‘تو بیوی کی پھوپھی سے نکاح اس وقت جائز ہو گا جبکہ بیوی کو اپنے سے علیحدہ کر دیا جائے۔‘‘ (الرسالۃ: باب محرمات النساء)
امام شافعی ؒ نے ’یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من الولادۃ‘ کو قرآن کی آیت کا بیان اس طرح بنایا ہے کہ قرآن کے لفظ عام ہیں مثلا قرآن نے ’امھاتکم‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اب ماں چاہے جننے والی ہو یا رضاعی ہو دونوں صورتوں میں ماں ہے اور ان الفاظ میں داخل ہے۔ اسی طرح قرآن کے الفاظ ’أخواتکم‘ بھی عام ہیں کہ اس لفظ کے مصداقات میں حقیقی بہن ‘باب شریک ‘ماں شریک اور دودھ شریک تمام بہنیں شامل ہیں۔اسی طرح کا معاملہ باقی ان رشتوں کا بھی ہے کہ جن کو قرآن نے بیان کیا ہے کہ ان میں بھی نسبی کے ساتھ ساتھ رضاعی رشتے بھی مراد ہوں گے ۔دوسری طرف اللہ کے رسول کے قول ’لا یجمع بین المرأۃ و عمتھا و بین المرأۃ و خالتھا‘ کو امام شافعی ؒ نے قرآن کا بیان یوں ثابت کیاہے کہ پھوپھی اور بھتیجی ‘بھانجی اور خالہ ان عورتوں میں شامل ہیں کہ جن کو حلال کیا گیا ہے مگر اس طریقے کے ساتھ جو کہ ان کی حلت کا طریقہ مقرر کیا گیا ہے‘ لہٰذا کسی عورت کی پھوپھی سے نکاح اس وقت حلال ہو گا جب اس عورت کو طلاق دی جائے جیسا کہ پانچویں عورت سے نکاح اس وقت حلال ہو گا جبکہ پہلی چار میں سے ایک کو طلاق دی ہو۔ آیت مبارکہ ’أحل لکم ما وراء ذلکم‘ میں مطلقا حلت کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس طریقے کے ساتھ حلت کا ذکر ہے جو کہ شریعت نے کسی عورت کو حلال کرنے کے لیے مقرر کیا ہے (یعنی نکاحِ صحیح ہو ‘ایک ساتھ چار سے زائد کو جمع نہ کیا جائے‘پھوپھی و بھتیجی کو جمع نہ کیا جائے وغیرہ)۔ 
ہم نے یہاں ’الرسالۃ‘سے چند ایک مثالوں کو بیان کیا ہے جبکہ امام شافعی ؒ نے اپنے اس اصول کو ثابت کرنے کے لیے کہ سنت ہر صورت میں قرآن کا بیان ہوتی ہے ‘اپنی کتاب میں بیسیوں ایسی روایات کو قرآن کا بیان ثابت کیا ہے جو کہ بظاہر دیکھنے والوں کو قرآن پر اضافہ یا اس کا نسخ معلوم ہوتی ہیں۔
(باقی)
* امام شافعیؒ کے نزدیک نہ تو قرآن سنت کو منسوخ کرتا ہے اورنہ سنت قرآن کو منسوخ کرتی ہے بلکہ ان دونوں کا آپس کا تعلق شرح و بیان کا ہے نہ کہ ناسخ و منسوخ کا‘ لہٰذا جس طرح سنت قرآن کے احکامات کی تاکیدبھی کرتی ہے اور تفسیر بھی ‘ اسی طرح قرآن بھی سنت کے احکامات کی تائید بھی کرتا ہے اور وضاحت بھی۔

امہات المومنینؓ کے لیے حجاب کے خصوصی احکام

ڈاکٹر عبد الباری عتیقی

’’الشریعہ ‘‘کے اگست ۲۰۰۷ء کے شمارے میں جناب ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی کا مضمون ’’امہات المومنینؓ کے لیے حجاب کے خصوصی احکام ‘‘اورستمبر ۲۰۰۷ء کے شمارے میں اس مضمون پر محمد رفیق چودھری صاحب کی تنقید بعنوان ’’امہات المومنین اورآیت حجاب کاحکم ‘‘نظر سے گزرے۔اس سلسلے میں سورۃ احزاب کی آیت ۳۳کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش خدمت ہیں ،اس آیت کا ترجمہ حسب ذیل ہے :
’’اوراپنے گھروں میں ٹک کر رہو،دور جاہلیت کی عورتوں کی طرح اپنی زینت کی نمائش کرتی نہ پھرو،نماز قائم کرو، زکوٰۃ اداکرو ،اوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرو،اللہ چاہتاہے یہ کہ تم اہل بیت سے آلودگی کو دوررکھے اورتمہیں اچھی طرح پاک کردے ۔‘‘(احزاب :۳۳)
اس آیت کے حوالے سے سب سے پہلے یہ سوال پید اہوتاہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے عام عورتوں کے لیے بے شمار احکامات دیے ہیں اوران میں سے بہت سے احکامات توخالص نسوانی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں، پھر کسی ایک جگہ بھی اللہ تعالیٰ نے یہ اسلوب کیوں اختیار نہیں کیا جومذکورہ آیت میں اختیار کیا ہے کہ مخاطب تو امہات المومنین کوکیا جائے مگر حکم میں شامل ہو ں تما م خواتین؟آخرصرف اس آیت میں یہ منفرد اسلوب اختیار کرنے میں کیا حکمت ہے ؟خاص طورپر ایک سورت کے اندر جس میں کئی احکامات تو انتہائی واضح اور غیر مبہم انداز میں رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم اورامہات المومنینؓ کے لیے خاص ہیں ۔مثلاًرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خصوصی ازدواجی قوانین، تخییرکے بعد آپ پر اپنی ازواج کو طلاق دینے پر پابندی، ازواج رسول کے لیے امت کی مائیں ہونے کاشرف اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد ان کے کسی اورسے نکاح پر پابندی وغیرہ ۔اپنے سیا ق وسباق میں ایسا منفرد ا نداز بیان اختیار کرنے میں کوئی مضبوط حکمت اوررعلت ہونی چاہیے ۔صرف یہ وجہ کہ چونکہ امہات المومنینؓ عام عورتوں کے لیے ،خاص طورپر نسوانی معاملات میں اسوہ حسنہ اورنمونہ عمل ہیں ،اس لیے ان کومخاطب کرکے دیے جانے والے احکامات خواتین کے لیے عام ہیں ،کوئی مضبوط وجہ نظر نہیں آتی کیوں کہ پھردوسرے مقامات پر بھی ،یاکم ازکم کسی ایک دومقامات پر تو ،یہی اسلوب اختیار کیا جاناچاہیے تھا ۔
جہاں تک اس دلیل کاتعلق ہے کہ چونکہ اس آیت میں مثلاًنماز ،زکوٰۃ اوراللہ اوررسول کی اطاعت کے احکامات بھی دیے گئے ہیں اوروہ بالبداہت تمام عورتوں کے لیے ہیں اس لیے’’وقرن فی بیوتکن‘‘ کا حکم بھی تمام عورتوں کے لیے ہوناچاہیے ،توا س سلسلے میں گزارش ہے کہ نماز ،زکوٰۃ اوراللہ اوررسول کی اطاعت عام عورتوں پر محض اس آیت میں بیان ہونے کے نتیجے میں لازم نہیں ہوئے بلکہ ان پر یہ احکامات قرآن میں دوسرے بے شمار مقامات پر ان ہی کو مخاطب کر کے دیے جانے کی وجہ سے لازم ہوئے ہیں ۔ یعنی اگر نماز ،زکوٰۃ اوراللہ ورسول کی اطاعت کا ذکر صرف اس آیت میں ہوتاتو ہم پورے اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے تھے کہ یہ احکامات بھی صرف امہات المومنین کے لیے ہیں لیکن چونکہ ایسانہیں ہے اس وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ احکامات دوسری جگہوں پر بیان ہونے کی وجہ سے تمام عورتوں کے لیے خاص ہیں اور ’’وقرن فی بیوتکن‘‘ کاحکم صرف اس آیت میں بیان ہونے کی وجہ سے امہات المومنینؓ کے لیے خاص ہے ۔
اس بات کو بلاتشبیہ اس طرح سمجھیں کہ مثلاًایک فٹ بال ٹیم کاکوچ اپنے کھلاڑیوں کو مخاطب کرکے یہ ہدایات دے کہ : ’’تم عام نوجوانوں کی طرح نہیں ہو، تمہیں چاہیے کہ را ت میں جلد ی سو،صبح جلد ی اٹھو ،پانچ وقت نماز اداکرو،اچھی خوراک لواورکم از کم پانچ گھنٹے کھیل کی پریکٹس کرو۔‘‘ تواگرچہ کہ پہلی چار ہدایات تو عام نوجوانوں کے لیے بھی اسی طرح ہیں لیکن کیاآخری ہدایت کوبھی ان عام ہدایات کے ساتھ بیان ہونے کی وجہ سے تمام نوجوانوں کے لیے لازمی سمجھنا چاہیے؟ظاہر ہے کہ جواب نفی میں ہوگا کیوں کہ آخری ہدایت انتہائی غیر مبہم طورپر صرف کھلاڑیوں کے ساتھ خاص ہے ۔
پھر ایک سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر’’وقرن فی بیوتکن‘‘ کے حکم کو نماز ،زکوٰۃ اوراللہ ورسول کی اطاعت کے احکامات کے ساتھ بیان ہونے کی وجہ سے تمام عورتوں کے لیے عام مانا جائے کیونکہ موخرالذکر احکامات تمام عورتوں کے لیے عام ہیں تویہ موخرالذکر احکامات تومردوں کے لیے بھی عام ہیں ،توتمام مردوں کو ’’وقرن فی بیوتکن ‘‘کے حکم میں بھی داخل کیوں نہ سمجھا جائے؟ جب نماز ،زکوٰۃ اوراللہ ورسول کی اطاعت کے احکامات مردوں کے لیے بھی ہیں تو ’’وقرن فی بیوتکن‘‘ کاحکم ان کے لیے کیوں نہ ہو؟کیا اس آیت کا مطلب یہ لیاجائے گا کہ صرف عورتیں ہی گندگی سے پاک ہوں اوراللہ تعالیٰ مردوں کوگندگی سے پاک نہیں کرناچاہتا؟کیا صرف عورتوں کے لیے حکم ہے کہ وہ جاہلیت کے طورطریقوں سے پرہیز کریں اور مردوں کواس بات کی اجازت ہے؟کیا صرف عورتوں کے لیے نماز اور زکوٰۃ کاحکم ہے اورمرد اس سے مستثنیٰ ہیں؟کیا صرف عورتوں کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کریں اورمردوں کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ اللہ اوررسول کی نافرمانی کیا کریں؟ ’’وقرن فی بیوتکن ‘‘کے حکم سے مرد وں کے استثنا کی آخر کیا دلیل ہے؟ اگر اس کے جواب میںیہ کہاجائے کہ اس میں مخاطب ہی عورتوں کو کیاگیا ہے اس لیے یہ حکم عورتوں تک محدود ہوگا تویہی توبات ہو رہی ہے کہ جب مخاطب عورتوں کے بھی ایک خاص طبقے ’’امہات المومنین‘‘ کو کیاجارہاہے،توحکم بھی انہی تک خاص رہنا چاہیے۔
جہاں تک بات عام مردو ں اورعورتوں کے تعلقات کے موقع پر ان کے دلوں کی پاکیزگی کی ہے تواس کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نور کی آیات ۳۰ ۔۳۱ میں انتہائی واضح طورپر بتادیاہے، اس لیے یہ طریقہ بھی امہات المومنین کے لیے مخصوص احکامات کی آیات سے اخذکرنے کے بجائے سورۃ نور کی مذکورہ آیات سے اخذکرناچاہیے ۔ ہم یہ بات سمجھنے سے قاصرہیں کہ آخر اس میں پریشان ہونے یانہ سمجھ میں آنے والی کون سی بات ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی فرد، گروہ یاطبقہ کوکوئی مخصوص ذمہ داری اورمنصب عطاکرے تواس ذمہ داری کی مناسبت سے کچھ مخصوص احکامات، کچھ اضافی پابندیاں اورکچھ حدود وقیود کا اضافہ بھی کردے۔ عقل تو اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایسا ہوناچاہیے اورسورۃ احزاب میں ایسا ہی ہوا ہے۔

مکاتیب

ادارہ

بسم اللہ
لندن۔ ۹ نومبر ۲۰۰۷
محترم مولانا راشدی صاحب زید لطفہٗ السلام علیکم ورحمۃ اللہ، 
نومبر کا الشریعہ ابھی ملا ہے۔ کل میں وطن کے لیے نکلنے کا ارادہ کیے ہوں۔ ایسے میں کچھ لکھنے لکھانا تو مولانامحمد علی جوہر جیسے خدا مستوں ہی کا کام تھا(رحمۃ اللہ علیہ)، مگر ایک ایسا مراسلہ آپ نے اس شمارے میں مجھ سے متعلق دے دیا ہے کہ سب کام چھوڑ کے چندسطریں اس پر ضروری معلوم ہوئیں۔ 
مجھے از حد افسوس ہے کہ لال مسجد پر میرا مضمون محترم مراسلہ نگار کے لیے دلی صدمے کاباعث بنا۔ اللہ کی پناہ میں اس بات سے چاہتا ہوں کہ میری کسی بات سے کسی بندۂ مؤمن کی دل آزاری ہو۔ اس لیے میں موصوف سے اور ایسے ان تمام لوگوں سے معافی چاہوں گا جنھیں اس مضمون سے تکلیف پہنچی ہو، یہ الگ بات ہے کہ مضمون کے بارے میں میں مراسلہ نگارسے اتفاق نہیں کر سکتا۔ معذرت خواہی کے ساتھ ساتھ مجھے مراسلہ کے اس پہلو کی داد بھی دینی ہے کہ ایسی دل آزاری کے شکوے کے باوجود کوئی سخت لفظ اس کے اظہار و بیان میں نہیں ہے۔ ابھی گزشتہ شمارے میں ایک مراسلہ قاضی محمد رویس خاں ایوبی صاحب کا نکلا تھا، اس کاخیال کرتا ہوں تو جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے محترم مولانا محمد اصغر کے اس ظرف اور ضبطِ نفس کی داد کے لیے الفاظ سوچنے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ اللہ کرے ان کا یہ طرز و نمونہ ہمارے یہاں عام ہو۔
مراسلے میں متعین طور پر میری ایک غلطی پر گرفت بھی ہے، کہ عبدالرشید غازی صاحب سے مذاکرات کے ڈرافٹ کا حوالہ دیتے ہوئے میں نے ایک صحافی کی بات کوعلما کے بیان پر ترجیح دے لی اور ’’گھر میں رکھاجائے گا‘‘ والے نکتے کو’’ ان کے گھر میں رکھا جائے گا‘‘ بتا دیا۔ اس میں اتنی بات توصحیح ہے کہ میرے مضمون میں ’’گھر‘‘ کے بجائے ’’ان کے گھر‘‘ کے الفاظ ہیں، مگر یہ صحافی کے الفاظ نہیں تھے۔ صحافی نے مفتی رفیع صاحب کے حوالے سے صرف ’’گھر‘‘ ہی لکھا تھا۔ یہ میرے فہم کی غلطی تھی کہ میں نے ’’گھر‘‘ کو غازی صاحب کا اپنا گھر سمجھ لیا، اور اس غلطی پر مجھے تنبّہ اس وقت ہوا جب بعد میں مفتی صاحب کاتفصیلی مضمون اس قصہ پر آیا۔ الغرض واقعہ یہ نہیں تھا کہ میں نے علما کے بیان پر کسی دوسرے کے بیان کو ترجیح دے دی تھی۔ 
والسلام 
عتیق الرحمن سنبھلی 

الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام علمی و فکری نشستیں

ادارہ

  • ورلڈ اسلامک فورم کے راہ نما اور آسٹریلیا میں گولڈ کوسٹ اسلامک سنٹر کے خطیب مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی نے کہا ہے کہ مغرب کے ساتھ تہذیبی جنگ اور فکری کشمکش میں مسلمانوں کے جو تعلیمی اور فکری ادارے کام کر رہے ہیں، ان کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی اور بالآخر وہ اپنے مشن میں کامیابی حاصل کریں گے۔ وہ گزشتہ شام الشریعہ اکامی ہاشمی کالونی گوجرانوالہ میں ایک نشست سے خطاب کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ مغرب کے دانش ور اور حکمران اس بات کو خود تسلیم کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نظریاتی، فکری اور تہذیبی جنگ میں مصروف ہیں، مگر ہمارے بہت سے مسلمان حکمران اور دانش ور ابھی تک اس پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان کا پردہ ڈال کر خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس تہذیبی اور نظریاتی جنگ میں مسلمان حکومتوں کا کردار افسوس ناک حد تک منفی ہے اور وہ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کے بجائے مغربی ثقافت وفلسفہ کی راہ ہموار کرنے میں مصروف ہیں، مگر دنیا میں الشریعہ اکادمی جیسے علمی وفکری ادارے سینکڑوں کی تعداد میں اپنے اپنے دائرہ میں مصروف کار ہیں اور ان کی محنت اور جدوجہد کی وجہ سے ہی آج دنیا کے ہر خطہ کے مسلم معاشرہ میں دینی بیداری اور اسلامی تشخص کے تحفظ کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس قسم کے ادارے ہمارا قیمتی اثاثہ ہے اور ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ان کو سپورٹ کریں۔
    الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے معزز مہمان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ مولانا طارق گیلانی کا تعلق سلانوالی کے ایک علمی خاندان سے ہے اور ان کے والد محترم مولانا سید فضل الرحمن احرار امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے ساتھیوں میں سے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ مولانا طارق گیلانی ورلڈ اسلامک فورم کے بانی ارکان مں سے ہیں جو ایک عرصہ تک لندن میں دینی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں اور اب آسٹریلیا میں مسلمانوں کی راہ نمائی کر رہے ہیں۔
  • ۲ نومبر ۲۰۰۷ کو الشریعہ اکادمی میں نئے تعلیمی سال کے افتتاح کے موقع پر ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں جمعیت علماے اسلام پنجاب کے امیر مولانا قاضی حمید اللہ خان نے شرکت کی۔ قاضی حمید اللہ خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علم اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور علم حاصل کرنے اور اس کی خدمت کرنے والوں کی راہ میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے پر بچھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات ان کے لیے دعا کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ علم انسان کیلیے راہنمائی کا ذریعہ اور اس کی زینت ووقار کا باعث ہے اور معاشرہ میں علمی اداروں کا وجود اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور اس سے قوم کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے، اس لیے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ علمی اداروں سے بھرپور استفادہ کریں اور ان کے ساتھ تعاون کریں۔
    الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اس سال اکیڈمی میں خواتین وحضرات کے لیے عربی گریمر کے ساتھ ترجمہ قرآن کریم کی الگ الگ کلاسوں کے علاوہ درس نظامی کے کورسز کا بھی اہتمام کیا گیا ہے اور فہم دین کورس کی کلاسیں بھی اس کے ساتھ ساتھ جاری رہیں گی۔ انھوں نے بتایا کہ اکادمی میں حسب سابق اس سال بھی ہفتہ وار اور ماہوار علمی وفکری نشستوں کا اہتمام کیا جائے گا جن میں ملک کے نامور اصحاب علم ودانش شریک ہوں گے۔
    الشریعہ اکادمی کے رفیق مولانا حافظ محمد یوسف نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ہمارا بنیادی مقصد معاشرہ میں دینی تعلیمات کا فروغ اور مسلمانوں کے عقائد واقدار کا تحفظ ہے اور اس غرض کے لیے ہماری کوششیں ان شاء اللہ جاری رہیں گی۔
  • ۱۵؍ نومبر ۲۰۰۷ کو الشریعہ اکادمی میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس کے ساتھ ایک فکری نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں اکادمی کے ناظم پروفیسر محمد اکرم ورک، پروفیسر میاں انعام الرحمن، پروفیسر ریاض محمود، پروفیسر محمد شریف چودھری، معروف صحافی جناب فاروق عالم انصاری اور دیگر اصحاب دانش نے شرکت کی۔ ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس نے، جو حال ہی میں اسکاٹ لینڈ سے پوسٹ ڈاکٹرل ریسرچ کی تکمیل کے بعد واپس آئے ہیں، اسکاٹ لینڈ اور پاکستان کے تعلیمی نظاموں کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ اسکاٹ لینڈ میں تعلیمی نظام کی بہتری کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں اساتذہ کا رویہ طلبہ کے ساتھ شفقت ومحبت اور محنت کا ہے اور تدریسی اوقات کا زیادہ تر دورانیہ سوال وجواب اور تنقید وتبصرہ پر صرف کیا جاتا ہے اور اساتذہ کا ہدف طلبہ میں علمی کمی کو دور کرنا اور ان کے تصورات میں نکھار پیدا کرنا ہوتا ہے۔

’’شریعت، مقاصد شریعت اور اجتہاد‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے مقدمہ میں اس مسئلے پر تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے کہ شریعت کے اوامر ونواہی اور قرآن وسنت کے بیان کردہ احکام وفرائض کا عقل ومصلحت کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں ایک گروہ کا موقف یہ بیان کیا ہے کہ یہ محض تعبدی امور ہیں کہ آقا نے غلام کو اور مالک نے بندے کو حکم دے دیا ہے او ربس! اس سے زیادہ ان میں غور وخوض کرنا اور ان میں مصلحت ومعقولیت تلاش کرنا کار لاحاصل ہے، جبکہ دوسرے گروہ کا موقف یہ ذکر کیا ہے کہ شریعت کے تمام احکام کا مدار عقل ومصلحت پر ہے اور عقل ومصلحت ہی کے حوالے سے یہ واجب العمل ہیں۔ شریعت ان میں سے کسی کام کی اصل حاکم نہیں ہے بلکہ اس کا وظیفہ صرف یہ ہے کہ وہ اعمال کے حسن وقبح سے انسانوں کو آگاہ کر دے، اس لیے کسی عمل کے حسن وقبح تک رسائی ہوگی تو وہ وجوب، جواز یا حرمت کا درجہ اختیار کرے گا، اور حسن وقبح تک رسائی نہیں ہوگی تو اسے حکم کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکے گی۔

حضرت شاہ صاحب نے ان دونوں گروہوں کے موقف کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اصل بات ان دونوں کے درمیان ہے کہ شریعت کا کوئی حکم عقل ومصلحت کے خلاف نہیں ہے لیکن چونکہ تمام انسانوں کی عقل یکساں نہیں ہے اور ہر شخص کا عقل وفہم کی ہر بات تک رسائی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے قرآن وسنت کے احکام وقوانین کا مدار انسانی عقل وفہم اور اس کی سمجھ کے دائرے میں آنے والی حکمت ومصلحت پر نہیں ہے بلکہ صر ف امر الٰہی پر ہے اور وہ اسی لیے واجب العمل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حکم دیا ہے۔

ہمارے خیال میں اسے اگر ایک اور زاویہ سے دیکھ لیا جائے تو بات زیادہ واضح ہو جائے گی کہ کسی چیز یا عمل کے حسن وقبح کے ادراک اور اس تک رسائی کا ایک ذریعہ انسانی عقل وفہم ہے۔ اس کا دائرہ الگ ہے۔ جبکہ کسی چیز یا عمل کے حسن وقبح کے تعین کا اصل ذریعہ اللہ تعالیٰ کا علم اور حکمت ہے۔ اس کا دائرہ یقیناًپہلے دائرے سے مختلف ہے۔ اگر ہم ان دونوں دائروں کے درمیان فرق کو سامنے رکھ لیں تو یہ بات سمجھنا مشکل نہیں رہے گا کہ انسانی عقل وفہم کا دائرہ بہت ہی محدود بلکہ محدود تر ہے اور یہ دعویٰ کرنا اس کے بس کی بات ہی نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی حکمت اور اس میں موجود ہر مصلحت کو سمجھ سکتا ہے اور اس تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، اس لیے یہ بات تو قطعی طور پر درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم مصلحت اور حکمت سے خالی نہیں ہے، کیونکہ وہ حکیم مطلق ہے اور حکیم کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا، البتہ یہ بات ہمیشہ سے محل نظر چلی آ رہی ہے اور ہمیشہ محل نظر رہے گی کہ انسانی عقل ودانش اللہ تعالیٰ کے ہر حکم اور فیصلے کی حکمت ومصلحت کا ادراک کر سکتی ہے اور جب یہ بات انسانی عقل وفہم کے لیے ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے اور حکم کی ہر مصلحت وحکمت تک رسائی حاصل کر سکتی ہے تو احکام خداوندی کو انسانی عقل ودانش کے دائرے میں محدود کرنا اور محدود عقل وفہم کو احکام شرعیہ کا مدار قرار دینا کسی طرح بھی قرین قیاس نہیں قرار پا سکتا۔
اس مسئلہ کو ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے اس پہلو سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ چلو انسانوں کے عقل وفہم کا دائرہ اور سطح مختلف ہونے کے باعث شخصی عقل کو تو مدار قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن عقل عام اوراجتماعی عقل چونکہ انسانی عقل کے تمام دائروں اور تمام سطحوں کو اپنے اندر سمو لیتی ہے اور ان سب کی جامع ہوتی ہے، اس لیے عقل عام (Common Sense) کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اشیا واعمال کے حسن وقبح اور مقصد ومصلحت کا تعین کرے اور اس کے فیصلے کو حتمی مان لیا جائے، لیکن یہ بات بھی قابل قبول نہیں ہے، اس لیے کہ عقل عام کا دائرہ زمان ومکان دونوں حوالوں سے ہمیشہ مختلف رہا ہے اور ہمیشہ مختلف رہے گا، کیونکہ عقل عام مشاہدات، محسوسات، تجربات، مفادات، ضروریات اور معقولات کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہے جبکہ ان میں سے کوئی چیز بھی کبھی ایک حالت میں نہیں رہتی اور اگر ان امور کے زمانی ومکانی تغیرات کو احکام شریعت کے تعین میں دخیل اور معیار قرار دے دیا جائے تو پوری نسل انسانی کے لیے ایک عالمگیر اور ابدی دین کا تصور ہی عنقا ہو جائے گا اور بات پھر علاقائی اور محدود وقتی مذاہب کی طرف واپس چلی جائے گی۔
اس عقل عام کی کارستانیوں کا مشاہدہ ہم گزشتہ دو صدیوں کے دوران مغرب میں کر چکے ہیں جہاں انسانی خواہشات کی سان پر چڑھ کر اس عقل عام نے زنا، عریانی، سود اور ہم جنس پرستی جیسی لعنتوں کو بھی جواز کا درجہ دے دیا ہے بلکہ انھیں انسانی حقوق کے زمرے میں شمار کر لیا ہے۔ ہمارے خیال میں احکام شرعیہ کا مدار مقاصد ومصالح کو قرار دے کر مقاصد ومصالح کے بدلتے ہوئے معیارات کی بنیاد پر قرآن وسنت کے منصوص احکام میں تغیر وتبدل کے راستے تلاش کرنے کی موجودہ کوششوں کو مغرب کے اس فکری وتہذیبی انقلاب سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ اگرچہ اس کے لیے اصطلاح ’’اجتہاد‘‘ ہی کی استعمال کی جاتی ہے لیکن اس کے اہداف ومقاصد کا رشتہ ’’اجتہاد‘‘ کے بجائے تشکیل نو (Reconstruction) سے جا ملتا ہے جو اسلام کی بجائے مغرب کی اصطلاح ہے اور مارٹن لوتھر کے فکری اور تہذیبی انقلاب کا کرشمہ ہے جس کے خوف ناک نتائج سے آج خود مغرب بھی حیران وپریشان ہو رہا ہے، اس لیے قرآن وسنت کے صریح احکام میں تغیر وتبدل کے لیے مقاصد ومصالح، عقل عام اور انسانی فہم ودانش کو واحد معیار اور مدار قرار دے کر ان کی تشکیل نو کے تصور کو نہ عقلی طور پرقبول کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسلام کا چودہ سو سالہ اجماعی تعامل اور قرآن وسنت کے طے شدہ اصول اس کی اجازت دیتے ہیں۔
البتہ قرآن وسنت کے بیان کردہ صریح احکام وقوانین کو ابدی اور غیر متبدل تسلیم کر لینے اور ان کی قطعیت وابدیت پرمکمل ایمان کے بعد ان کے اطلاق ونفاذ اور تطبیق کے حوالے سے زمانے کے تغیرات، ضروریات کے تنوع اور احوال کے اختلاف کا لحاظ رکھنا اس سے مختلف امر ہے اور اس کی گنجایش ہر زمانے میں موجود رہی ہے۔ ہماری رائے میں پہلی بات کا تعلق تشکیل نو سے ہے جبکہ دوسری بات کا تعلق اجتہاد سے ہے اور اسلام اجتہاد اور تجدید کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ مسلمہ اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کی ترغیب دیتا ہے اور اس پراجر وثواب بھی بیان کرتا ہے، مگر وہ اسلام کی تشکیل نو کے تصور کو مسترد کرتا ہے اور اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ہماری رائے میں اجتہاد کے ضروری تقاضوں کی طرف پیش رفت کے حوالے سے مسلمانوں کے روایتی دینی حلقوں کی حد درجہ بلکہ ضرورت سے زیادہ احتیاط کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اجتہاد اور تشکیل نو کو خلط ملط کر دیا گیا ہے اور اجتہاد کے نام پر پورے اسلام کی تشکیل نو کا حق مانگا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات اجتہاد کے دائرے کے امور کو بھی تشکیل نو کا تقاضا سمجھ کر مسترد کر دیا جاتا ہے اور ان معاملات میں عجیب نوعیت کا کنفیوژن پیدا ہو گیا ہے۔
عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے ایک سیمینار میں پڑھے جانے والے زیر نظر مقالہ ’’شریعت، مقاصد شریعت اور اجتہاد‘‘ میں مسئلہ کے ان دونوں پہلووں کا جائزہ لیا ہے اور انتہائی عرق ریزی اور نکتہ رسی کے ساتھ اس کے مختلف زاویوں کو اہل علم کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ مجھے مقالہ کے دونوں پہلووں سے اصولی طور پر اتفاق ہے کہ: 
۱۔ مقاصد ومصالح کے معیارات تبدیل ہو جانے کی بنیاد پر قرآن وسنت کے صریح احکام میں تغیر وتبدل کا کوئی جواز نہیں ہے، اور 
۲۔ جو امور اجتہاد کے دائرے میں آتے ہیں اور جن مسائل ومعاملات میں احوال وزمانہ کے تغیرات کا مجتہدین کے ہاں ہمیشہ لحاظ رکھا جاتا رہا ہے، ان میں قطعی جمود کی موجودہ صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے بلکہ اجتہادی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت آج بھی موجود ہے جو زمانے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ 
البتہ اس مقالہ کی تمام جزئیات اور ترجیحات سے اتفاق ضروری نہیں ہے اور ہر علمی بحث ومباحثہ کی طرح اس کے مختلف پہلووں پر بھی مزید بحث، اختلاف اور نقد کی گنجایش موجود ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ مقالہ اس موضوع پر علمی بحث کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بنے گا اور ارباب علم ودانش کی سنجیدہ توجہ عزیز مقالہ نگار کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ثابت ہوگی۔ 

مغربی بنگال کے دینی مدارس اور غیر مسلم طلبہ

ادارہ

کلکتہ۔ حالیہ سالوں میں بھارت میں مذہبی مدارس کو عام طور پر شک وشبہے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ طلبہ کو فرسودہ مذہبی تعلیم دیتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان مذہبی اداروں میں دہشت گردی کے نظریہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ تاہم ان تمام الزامات کے باوجود مغربی بنگال کے مدارس نہ صرف ترقی کر رہے ہیں بلکہ ان میں تعلیم پانے والے ہندو طلبہ اور طالبات کی تعداد بھی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ 
عالیہ مدارس (جو ہائی اسکول کے مساوی ہیں) کے ایک حالیہ سروے کے مطابق ان میں ہر چوتھا طالب علم غیر مسلم ہے۔ مجموعی طور پر تقریباً طلبہ کی کل تعداد کا بیس فی صد حصہ غیر مسلموں کا ہے۔ ۲۰۰۷ میں ختم ہونے والے تعلیمی سال میں عالیہ مدارس کے امتحانات میں غیر مسلم طلبہ کا تناسب ۲۸ فی صد تھا۔ ضلع نارتا ناجا پور کے قصبہ موہاسو کے عالیہ مدرسہ میں مسلمان طلبہ اقلیت میں ہیں کیونکہ اس مدرسے کے تقریباً ساٹھ فی صد طلبہ غیر مسلم ہیں۔ 
بورڈ کے امتحانات میں مدارس کے طلبہ کی اچھی کارکردگی اور طب، انجینئرنگ اور ایم بی اے کے داخلہ امتحانات میں ان طلبہ کی کامیابی بھی مدارس کے بارے میں غیر مسلم طلبہ کے بدلتے ہوئے خیالات کا ایک سبب بنی ہے کیونکہ ان مدارس میں اسلامی علوم اور عربی کی بنیادی تعلیم کے علاوہ تمام جدید مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ امتحانات مغربی بنگال مدرسہ بورڈ کے تحت دلوائے جاتے ہیں اور ان مدارس میں دی جانے والی سندیں منظور شدہ ہیں اور مغربی بنگال کے ثانوی بورڈ کی سندوں کے مساوی تسلیم کی جاتی ہیں۔ 
مغربی بنگال کے وزیر مملکت برائے مدرسہ تعلیم عبد الستار کا کہنا ہے کہ ہمارے طلبہ اپنے آپ کو ہر میدان میں کسی بھی مین اسٹریم اسکول کے طلبہ کے برابر ثابت کر رہے ہیں۔ وہ ہر سال نئی کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ عبد الستار نے مزید کہا کہ مدارس کا جدید نصاب بڑی تعداد میں غیر مسلم طلبہ کو ان اداروں میں کھینچ کر لانے کا سبب ہے اور برہمن، پس ماندہ طبقات اور دلیت اور مسیحی اور قبائلی طلبہ ان مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں تعلیم بالکل مفت ہے۔ مزید برآں دلیت اور قبائلی طلبہ کو مالی امداد بھی فراہم کی جاتی ہے۔
مدارس کے ہندو طلبہ کو مسلم طلبہ کے ساتھ قریبی ربط کی وجہ سے مسلمانوں اور اسلام کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے جس سے دونوں کمیونیٹیوں کے مابین خلیج کو پاٹنے میں بہت مدد ملی ہے۔ عزیزہ مدرسہ عالیہ کے سناندا کھویا کا کہنا ہے کہ اس کے ذہن میں اسلام کی سابقہ تصویر یہ تھی کہ یہ ایک جنونی اور شدت پسند مذہب ہے، لیکن ا س مدرسے میں آنے کے بعد اسے معلوم ہوا ہے کہ اسلام کا شدت پسندی اور دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں اور اسلامی تعلیمات میں تعصب اور نفرت کی کوئی جگہ نہیں۔ اسی طرح سنجے موہاپترا، جس نے امتیازی حیثیت سے عالیہ مدرسہ کا امتحان پاس کیا ہے، کا کہنا ہے کہ ’’میری برادری کے کچھ لوگ مجھ پر سخت تنقید اور لعن طعن کرتے رہتے تھے لیکن اس امتحان میں میری کامیابی کے بعد مدارس کے بارے میں ان کے خیالات میں تبدیلی آ گئی ہے۔‘‘ ہندو طالبات جیسے موہانا مکھرجی، مینا کشی منڈل، شیاملی وغیرہ کہتی ہیں کہ انھیں ان مدارس میں کبھی کسی قسم کے تعصب یا امتیازی رویے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مکھرجی کا کہنا ہے کہ مدرسے اور کلاس میں اس کی برادری سے تعلق رکھنے والے تمام ساتھیوں کے خیالات میں مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں بہت مثبت تبدیلی آئی ہے اور انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ قریبی رابطے میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 
(ملی گزٹ دہلی، ۱۶ تا ۳۰ نومبر ۲۰۰۷)