2007

جنوری ۲۰۰۷ء

تجدد پسندوں کا تصور اجتہادمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی مدارس اور جدید تعلیمڈاکٹر محمد امین
’تحفظ نسواں ایکٹ‘ کتاب و سنت کے تناظر میںڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی
علامہ اقبال کا تصور اجتہاد اور علمائے کرامیوسف خان جذاب
حدیث نبوی میں ’اخوان‘ کا مصداقریحان احمد یوسفی
ذبیح حضرت اسماعیل یا حضرت اسحاق؟برہان الدین ربانی
مکاتیبادارہ
مولانا صفی الرحمن مبارک پوریؒعاصم نعیم
الشریعہ اکادمی کی سرگرمیاںادارہ

تجدد پسندوں کا تصور اجتہاد

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بخاری شریف میں ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم پہلی امتوں کے نقش قدم پر چلوگے، حتیٰ کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ (صحرائی جانور) کے بِل میں گُھسا ہے تو تم بھی ضرور گھسو گے۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ! کیا پہلی امتوں سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ’تو اور کون ہے‘؟
اس حدیث مبارک کی تشریح میں محدثین کرام نے مختلف پہلو ذکر کیے ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ یہود ونصاریٰ نے جس طرح توراۃ، انجیل اور زبور میں تحریفات کا راستہ اختیار کیا اوراللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں میں معنوی تبدیلیوں اور خدائی احکام کو اپنی خواہش کے سانچے میں ڈھالنے کے ساتھ ساتھ ان کے الفاظ تک بدل ڈالے اور آسمانی تعلیمات سے انحراف کی جو صورتیں انہوں نے اختیار کیں، مسلمانوں میں بھی ایسے گروہ ہوں گے جو اس ڈگر پر چلیں گے اور قرآن وسنت کی تعلیمات کو اپنی خواہش یا فہم ودانش کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اسی طرح کی صورتیں اختیار کریں گے۔ چودہ سو سال کی تاریخ گواہ ہے کہ اس کے لیے بیسیوں گروہ آئے جنہوں نے قرآن کریم کی آیات اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو نت نئے معانی پہنانے کی کوشش کی اور یہود ونصاری ٰ کی یاد تازہ کردی۔ البتہ قرآن وسنت کے الفاظ میں ردوبدل کی سہولت انہیں کبھی حاصل نہیں رہی، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت اپنے ذمہ لے کر اس کے ساتھ اس کی عملی تشریح کے طورپر جناب نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث وسنت کو بھی قیامت تک محفوظ رکھنے کا اہتمام کر دیا۔ اس لیے مسلمانوں میں ایسے گروہوں کا سارا زور معنوی تحریف پر صرف ہوتاچلا آرہاہے اور علامہ اقبالؒ کے بقول ’’خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں‘‘ کے مصداق قرآنی تعلیمات ایسے گروہوں کی تحریفی تلبیسات کا مسلسل شکار ہوتی چلی آرہی ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام کا حصہ ہے کہ امت مسلمہ کی غالب اکثریت اوراجتماعی دھارے نے اپنے لیے ’’اہل السنۃ والجماعۃ‘‘ کا ٹائٹل اختیار کرکے اس تحریف وتلبیس کے راستے میں بھی مضبوط اور ناقابل شکست دیوار کھڑی کررکھی ہے کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورجماعت صحابہ کو دین کی تعبیر وتشریح کا حتمی معیار تسلیم کرلینے کے بعد کسی ایسی تحریف وتلبیس کا راستہ کھلا نہیں رہ جاتاجس پر چل کر یہود ونصاریٰ کی طرح قرآن وسنت کو من مانے معانی اور خود ساختہ تعبیرو تشریح کا جامہ پہنایا جاسکے۔ البتہ یہ کشمکش مسلسل جاری ہے اور قیامت تک اسی طرح چلتی رہے گی۔ 
اس پس منظر میں ہمارے’’ تجدد پسند‘‘ دانش وروں کی فکری وعلمی کاوشوں پر نظر ڈالی جائے تو اس کا ایک اور دلچسپ پہلو سامنے آتاہے جس کا ہم آج کی محفل میں مختصر تذکرہ کرنا چاہ رہے ہیں اوروہ یہ کہ پندرہویں صدی عیسوی میں مغرب میں نصاریٰ کے بعض علما نے، جن میں جرمن مسیحی راہ نما مارٹن لوتھر سرفہرست ہیں، پاپائے روم کے خلاف بغاوت کی اور پاپائیت کے نظام کو چیلنج کرتے ہوئے بائبل کی تعبیرو تشریح کا ایک نیا سسٹم قائم کیا جس کی بنیاد پر پروٹسٹنٹ فرقہ وجود میں آیا اور پاپائے روم کے کیتھولک فرقہ کے ساتھ مارٹن لوتھر کے پروٹسٹنٹ فرقہ کی یہ کشمکش بائبل کی تعبیرو تشریح اور مسیحی تعلیمات کے سوسائٹی پر عملی اطلاق کے حوالہ سے مسلسل چلی آرہی ہے۔
ہمارے بعض دانش ور دوستوں کے دل میں بھی یہ خیال آیا کہ ہم آخر کیوں ایسا نہیں کرسکتے کہ دین کی تعبیرو تشریح کے اب تک صدیوں سے چلے آنے والے فریم ورک کو چیلنج کرکے اس کی نفی کریں اورمارٹن لوتھر کی طرح قرآن وسنت کی نئی تعبیرو تشریح کی بنیاد رکھیں چنانچہ انہوں نے بھی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کے جذبہ کے ساتھ مارٹن لوتھر کی’’ قدم بہ قدم ‘‘پیروی کا راستہ اختیار کیا اور قرآن وسنت کی تعبیر نو کے کام کا آغاز کر دیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا کام مارٹن لوتھر کی وفات کے فوراً بعد اکبر بادشاہ کے دور میں شروع ہوگیا۔ لوتھر کی وفات ۱۵۴۶ عیسوی میں ہوئی، جبکہ اکبر بادشاہ کی ولادت کاسن ۱۵۴۲ عیسوی ہے۔ گویا عالم اسلام میں لوتھر کے نقش قدم پر چلنے کے لیے جلال الدین اکبر، لوتھر کی زندگی میں ہی جنم لے چکاتھا۔
اکبر بادشاہ کی ابتدائی زندگی ٹھیٹھ مذہبی تھی، مگر درباری قسم کے علما اور دانش وروں کی مذبوحی حرکات نے اس کے دل میں یہ خیال پیداکیا کہ دین اسلام کو ایک ہزار سال ہوچکے ہیں اور اس کی تعبیرو تشریح پرانی ہوگئی ہے جس کی تجدید ضروری ہے اور اب کوئی ایسا ’’مجتہد مطلق‘‘ سامنے آنا چاہیے جو دین کی نئی تعبیرو تشریح کے لیے اتھارٹی کی حیثیت اختیار کرے اور اس کی بات کو دین کے معاملے میں فیصلہ کن تصور کیاجائے، چنانچہ اس نے اس مقصد کے لیے سب سے پہلے علما ے امت کے اس اجتہادی نظام کو چیلنج کیا جس نے دین کی تعبیرو تشریح کو ایک مربوط نظام سے وابستہ کیا ہوا تھا اور جس کی موجود گی میں دین کے کسی حکم کی کوئی ایسی تشریح ممکن نہ تھی جسے مارٹن لوتھر کی تعبیرات وتشریحات کی طرح ’’ری کنسٹرکشن‘‘ قراردیاجاسکے، چنانچہ اس نے اپنے لیے اجتہاد مطلق کا منصب ضروری خیال کیا اور خود اس کے ایک درباری عالم ملا عبدالقادر بدایونی نے ’’منتخب التوریخ ‘‘میں اس محضر نامے کا یہ متن نقل کیا ہے جس پر ملک بھر کے علماے کرام سے جبراً دستخط کرائے گئے، اور جنہوں نے دستخط کرنے سے گریز کیا، وہ ملا عبداللہ سلطان پوری ؒ اورملا عبد النبی گنگوہی ؒ کی طرح جلاوطنی اور شہادت کے مقام سے سرفراز ہوئے۔ اکبر بادشاہ کو ’’مجتہد مطلق ‘‘قراردینے کا محضر نامہ ملا عبدالقادر بدایونی کے بقول یہ ہے کہ :
’’خدا کے نزدیک سلطان عادل کا مرتبہ مجتہد کے مرتبہ سے زیادہ ہے اورحضرت سلطان کہف الانام امیر المومنین ظل اللہ علی العالمین ابو الفتح جلال الدین محمد اکبر بادشاہ سب سے زیادہ عدل والے، عقل والے اورعلم والے ہیں۔ اس بنیادپر ایسے دینی مسائل میں جن میں مجتہدین باہم اختلاف رکھتے ہیں، اگر وہ اپنے ثاقب ذہن اور رائے صائب کی روشنی میں بنی آدم کی آسانیوں کے پیش نظر کسی ایک پہلو کو ترجیح دے کر اس کو معین کر دیں اور اس کا فیصلہ کریں تو ایسی صورت میں بادشاہ کا فیصلہ قطعی اوراجماعی قرارپائے گا اوررعایا اور برایا کے لیے اس کی پابندی حتمی وناگزیر ہوگی۔‘‘
اس کے بعد جلال الدین اکبر نے ملا مبارک، ابوالفضل اور فیضی جیسے ارباب علم ودانش کی معاونت ومشارکت سے اسلام کی جو ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کی، وہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ اس تعبیر نو کی بنیاد اسلام کو محدود ماحول سے نکال کر مختلف مذاہب کے لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے، مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے اوراسلامی احکام وقوانین کو تقلید وجمود کے دائرے سے نکالنے کے تصور پر تھی اور خود اکبر بادشاہ کے درباری عالم ملا عبدالقادر بدایونی کی تصریحات کے مطابق اس کا عملی نقشہ کچھ یوں تھا کہ:
  • سورج کی پوجا دن میں چار وقت کی جاتی تھی ۔ 
  • بادشاہ کو سجدہ کیاجاتاتھا ۔ 
  • کلمہ طیبہ میں لاالٰہ الا اللہ کے ساتھ ’’اکبر خلیفۃ اللہ‘‘ کہنا لازمی کردیاگیاتھا۔ 
  • بادشاہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں سے درج ذیل عہد لیاجاتا تھا کہ ’’میں اپنی خواہش، رغبت اوردلی شوق سے دین اسلام مجازی اور تقلیدی سے علیحدگی اورجدائی اختیار کرتاہوں اور اکبر شاہی دین الٰہی میں داخل ہوتاہوں اور اس دین کے اخلاص کے چاروں مرتبوں یعنی ترک مال، ترک جان، ترک ناموس وعزت اور ترک دین کو قبول کرتاہوں۔‘‘
  • بادشاہ کے مرید آپس میں ملتے تو ایک ’’اللہ اکبر‘‘کہتا اور دوسرا جواب میں ’’جل جلالہ‘‘ کہتا۔ یہی ان کا سلام وجواب ہوتاتھا ۔
  • خط کے آغاز میں ’’اللہ اکبر‘‘ لکھنے کا رواج ڈالا گیا۔ 
  • سود اور جوئے کو حلا ل قرار دیاگیا، شاہی دربار میں جواگھر بنایا گیا اور شاہی خزانہ سے جواریوں کو سودی قرضے دیے جاتے تھے۔
  • شراب کی محفلوں میں فقہاے کرام کا مذاق اڑایاجاتا اور اکبر بادشاہ کا درباری ملا فیضی اکثر شراب پیتے وقت کہتاکہ یہ پیالہ میں فقہا کے ’’اندھے پن‘‘ کے نام پر پیتا ہوں ۔
  • ڈاڑھی منڈوانے کا حکم دیاگیا اور ڈاڑھی کا مذاق اڑانے کا رواج عام ہوا۔
  • غسل جنابت کو منسوخ کردیاگیا۔
  • ایک سے زیادہ شادی کو ممنوع قرار دیاگیا۔
  • سولہ سال سے کم عمر لڑکے اورچودہ سال سے کم عمر لڑکی کانکاح ممنوع قراردیاگیا۔
  • حکم صادر ہوا کہ جوان عورتیں جو کوچہ وبازار میں نکلتی ہیں، باہر نکلتے وقت چاہیے کہ چہرہ یا کھلا رکھیںیا چہرے کو اس وقت کھول دیاکریں۔
  • زنا کو قانوناً جائز قراردیاگیا اور اس کے لیے باقاعدہ قحبہ خانے بنائے گئے ۔
  • بارہ سال کی عمر تک لڑکے کا ختنہ کرانے کو ممنوع قراردیاگیا۔
  • مردہ کو دفن کرنے کے بجائے یہ حکم تھا کہ خام غلہ اور پکی اینٹیں مردہ کی گردن میں باندھ کر اس کو پانی میں ڈال دیاجائے اور جس جگہ پانی نہ ہو، جلا دیاجائے یا چینیوں کی طرح کسی درخت سے مردہ کو باندھ دیاجائے۔
  • سور اور کتے کے ناپاک ہونے کا مسئلہ منسوخ قراردیاگیا۔ شاہی محل کے اندر اور باہر یہ دونوں جانور رکھے جاتے تھے اور صبح سویرے ان کے دیکھنے کو بادشاہ عبادت خیال کرتا تھا۔
  • شیر اور بھیڑیے کا گوشت حلال کردیاگیا جبکہ گائے، بھینس، گھوڑے، بھیڑ اور اونٹ کا گوشت حرام قراردیاگیا۔
  • حکم صادر ہوا کہ کوئی ہندو عورت اگر کسی مسلمان مرد پر فریفتہ ہوکر مسلمانوں کا مذہب اختیار کر لے تو اس عورت کو جبراً وقہراً اس کے گھر والوں کے سپرد کیاجائے ۔
  • یہ حکم صادر ہوا کہ علوم عربیہ کی تعلیم ختم کردی جائے اور نجوم، طب، حساب اورفلسفہ کی تعلیم کو عام کیا جائے۔ عربی پڑھنا عیب سمجھا جانے لگا اور فقہ، تفسیر اورحدیث پڑھنے والے مردود ومطعون ٹھہرائے گئے۔ ملا عبدالقادر بدایونی کے بقول ان اقدامات کے نتیجے میں مدرسے اور مسجدیں سب ویران ہوئے، اکثر اہل علم جلا وطن ہوئے اور ان کی اولاد ناقابل جو اس ملک میں رہ گئی ہے، پاجی گیری میں نام پیدا کررہی ہے۔
  • ایسے حروف جو عربی زبان کے ساتھ مخصوص ہیں، مثلاً ث، خ، ع، ص، ض، ط، ظ، ان کو بول چال سے بادشاہ نے خارج کردیا ۔
  • ملا عبد القادر بدایونی نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے بارے میں اکبر بادشاہ کے ایک خطاب کا یہ حصہ نقل کیا ہے کہ آخر اس بات کو عقل کس طرح مان سکتی ہے کہ ایک شخص بھاری جسم رکھنے کے باوجود یکایک نیند سے آسمان پر چلا جاتاہے اور راز ونیاز کی نوے ہزار باتیں خدا سے کرتاہے، لیکن اس کا بستر اس وقت تک گرم ہی رہتاہے۔ تعجب ہے لوگ اس دعویٰ کو مان لیتے ہیں اور اسی طرح شق القمر وغیرہ جیسی باتوں کو بھی مان لیتے ہیں۔
  • احمد، محمد، مصطفی وغیرہ نام بیرونی کافروں اور اندرونی خواتین کی وجہ سے بادشاہ پر گراں گزرنے لگے۔ اپنے خاص لوگوں کے نام اس نے بدل ڈالے، مثلاً یار محمد خان اور محمد خان کو وہ ’رحمت‘ ہی کے نام سے پکارتاتھا ۔
  • علماے سو اپنی تصنیفات میں خطبہ سے بچنے لگے۔ صرف توحید اور بادشاہی القاب کے ذکر پر قناعت کرتے تھے۔ ان کی مجال نہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک زبان قلم پر لاتے۔
  • نماز، روزہ اور حج ساقط ہوچکے تھے اور دیوان خانہ میں کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ علانیہ نماز اداکرسکے۔
  • نماز، روزہ اور وہ ساری چیزیں جن کا تعلق نبوت سے ہے، ان کا نام’’تقلیدات ‘‘رکھا گیا یعنی یہ سب حماقت کی باتیں ٹھہرائی گئیں اور مذہب کی بنیاد عقل پر رکھی گئی۔
  • اسلام کی ضد اور اس کے توڑ پر ہر وہ حکم جو کسی دوسرے مذہب کا ہوتا، اس کو بادشاہ نص قاطع اور دلیل قطعی خیال کرتے۔ بخلاف اسلامی ملت کے کہ اس کی ساری باتیں مہمل، نامعقول، نوپیدا اور عرب مفلسوں کی گھڑی ہوئی خیال کی جاتیں۔
  • جس کسی کو اپنے اعتقاد کے موافق نہ پاتے، وہ بادشاہ کے نزدیک کشتنی، مردوداور پھٹکارا ہوا شمار ہوتا تھا اور اس کا نام ’’فقیہ ‘‘رکھ دیا جاتا تھا۔
مارٹن لوتھر نے پاپائیت اور ملوکیت کے خلاف بغاوت کی تھی اور اس کے کچھ واضح اسبا ب بھی تھے۔ پاپائے روم کو بائبل کی تعبیرو تشریح میں فیصلہ کن اتھارٹی کا درجہ حاصل تھا اور بات دلیل کی بجائے شخصیت کی بنیاد پر ہوتی تھی۔ پوپ کو خدا کا نمائندہ تصورکیا جاتاتھا اور اب بھی تصور کیا جاتا ہے۔ مغرب میں اندلس کی اسلامی معاشرت اوتعلیم کے نتیجے میں فکری بیداری پیدا ہوئی اور سائنسی علوم نے آگے بڑھنا شروع کیا تو کلیسا اس کی راہ میں مزاحم ہوا ۔پاپائیت نے بادشاہ اور جاگیردار کے ساتھ مل کر ظلم وجبر کی تکون قائم کردی اور سائنس کی ترقی کو کفر کے مترادف قراردیا۔ بادشاہ اور جاگیر دار کے مظالم کے خلاف عوام کا ساتھ دینے کے بجائے پوپ نے ظلم وجبر کا ساتھی بننے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے بغاوت پیدا ہوئی۔ پوپ کی طرف سے بائبل کی شخصی اور جانبدارانہ تعبیرو تشریح کی مزاحمت کے لیے مارٹن لوتھر آگے بڑھا اور جب دیکھا کہ پاپائیت اپنے عوام دشمن اورعلم دشمن طرز عمل میں کوئی تبدیلی پید اکرنے کے لیے تیار نہیں تو اس نے علم بغاوت بلند کرکے پاپائیت کی نفی کردی اور پروٹسٹنٹ فرقہ کی بنیاد رکھی جو مسیحیت کی تشکیل جدید اور بائبل کی نئی تعبیرو تشریح کی اساس بنی۔ مغرب کی معروضی صورت حال ایسی ہی تھی اور مغر ب کی یہ ضرورت تھی کہ وہاں یہ تبدیلی آئے، لیکن ہمارے مہربانوں نے یہ دیکھے بغیر کہ مغرب کے اس عمل کے لیے پائے جانے والے اسباب ہمارے پاس موجود ہیں یانہیں اورہماری معروضی صورتحال اس کی متقاضی ہے یا نہیں، صرف اس شوق میں کہ چونکہ مغرب نے اپنے مذہب کی تشکیل نو کی ہے اورمسیحیت کی تعبیروتشریح کے قدیمی فریم ورک کو مسترد کردیاہے، اس لیے ہمیں بھی یہ کام ضرور کرنا ہے اورجیساکہ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ پڑوسی کا منہ سرخ ہو تو اپنا منہ تھپڑ مار مار کر سرخ کرلیا جائے، ہم نے اپنے ہی منہ پر تھپڑ برسانا شروع کر دیے جو اب تک مسلسل برستے چلے جا رہے ہیں۔
ہمار ے جدت پسندوں نے دو مفروضوں پر اپنی فکری کاوشوں کی بنیاد رکھی۔ ایک یہ کہ انہوں نے مسیحیت کے پاپائی سسٹم کی طرح اسلام کی تعبیرو تشریح میں فقہا کے قائم کردہ فریم ورک کو بھی پاپائیت قرار دے دیا، حالانکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ پاپائیت میں فائنل اتھارٹی شخصیت کو حاصل ہے اور اسے خدا کا نمائندہ تصورکیاجاتاہے جبکہ اسلام میں خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ نے اپنے پہلے خطبہ میں اس بات کی یہ کہہ کر نفی کر دی تھی کہ میں قرآن وسنت کے مطابق چلوں گا تو میرا ساتھ دو اور اگر ٹیڑھا چلنے لگوں تو مجھے سیدھا کردو۔ یہ فرما کر حضرت صدیق اکبرؓنے شخصیت کے بجائے دلیل کی بالادستی کا اعلان کیا اور جب حضرت ابو بکر صدیق کو کسی نے خلیفۃ اللہ کہہ کرپکارا تو انہوں نے فوراً ٹوک دیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہوں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں۔ اس ارشاد کا مطلب بھی پاپائیت کے اس تصور کی نفی تھا کہ کوئی شخص خود کو خدا کا نمائندہ کہہ کر دین کی تعبیرو تشریح میں حتمی اتھارٹی قرار دینے لگے۔
پھر جن ائمہ کرام کے فقہی اصولوں پر سب سے زیادہ تنقید کی جاتی ہے، ان میں سے کسی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ان کی بات کو صرف اس لیے قبول کیا جائے کہ وہ بات امام ابو حنیفہ ؒ نے کہی ہے یا امام شافعیؒ نے کہی ہے یا امام مالکؒ نے کہی ہے یا امام احمد بن حنبل ؒ کا یہ قول ہے۔ اگر کوئی شخص تقلید کا یہ معنی سمجھتاہے تو وہ سرے سے اجتہاد اور تقلید کے مفہوم سے واقف نہیں ہے، اس لیے کہ امام ابوحنیفہ ؒ کی بات کو قبول کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی دلیل، قبول کرنے والے کے نزدیک زیادہ وزن رکھتی ہے اور امام شافعی ؒ کی بات کو ان کے پیروکار ترجیح دیتے ہیں تو اس کے پیچھے یہی ذہن کار فرما ہوتاہے کہ ا ن کی دلیل دوسروں سے زیادہ وزنی ہے۔
جب ہر امام کے پیروکار یہ کہہ کر ان کی بات کو قبول کرتے ہیں کہ ان کی بات صحیح ہے مگر اس میں خطا کا احتمال بھی موجود ہے اور جب یہ منظر سب کے سامنے ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ کے سامنے بیٹھ کر ان کے شاگرد ان سے اختلاف کررہے ہیں اور دلیل کی بنیاد پر ان کے قول کے بجائے اپنے استدلال کو ترجیح دے رہے ہیں تو اس سارے عمل کو پاپائیت کے مترادف قراردینے والے دوست یا تو پاپائیت کے مفہوم سے آگاہ نہیں ہیں اور یا پھر اجتہاد اور تقلید کے مسلمہ فریم ورک کے ادراک سے محروم ہیں، اس لیے کہ پاپائے روم کی بات کو قبول کرنے کی بنیاد ان کی شخصیت ہے اور ائمہ مجتہدین کے ا رشادات کو قبول کرنے کی اساس ان کی دلیل اور استدلال ہے۔ اتنی واضح سی بات اگر کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تو اس میں اجتہاد اور تقلید کے فریم ورک کا کیا قصور ہے؟
اس حوالے سے ہمارے جدت پسندوں کا دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ دین کی تعبیرو تشریح کے لیے اس کی تعبیر وتشریح کے پرانے فریم ورک کو چیلنج کرنا اور اس کی نفی کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ مارٹن لوتھر نے ایسا ہی کیاتھا جبکہ دین کی تعبیرو تشریح کے پرانے فریم ورک نے جسے اجتہاد اور تقلید کے نظام سے تعبیر کیا جاتا ہے، کبھی پاپائیت کی طرح وقت کی ضروریات کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرنے سے انکار نہیں کیا اور جب بھی ضرورت پیش آئی ہے، اجتہاد اور تقلید کے نظام میں ایسی لچک اورگنجائش موجود رہی ہے کہ وقت کے تقاضوں کو اس میں سمویا جا سکے اور چودہ سو سال کے طویل دور میں کسی ایسے مرحلے کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی کہ اجتہاد اور تقلید کے روایتی نظام نے قرون مظلمہ کی پاپائیت کی طرح علم کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہو، سائنس کے ارتقا کی مخالفت کی ہو، جاگیردار اور بادشاہ کی طرفداری اس طرح کی ہو کہ پورے کا پورا سسٹم ظلم وجبر کا پشت پناہ بن گیا ہو۔ افراد کی بات الگ ہے، ظالم حکمرانوں کو افراد ضرور ایسے ملتے رہے ہیں جو دین کے نام پر ان کے ظلم وجبر کو سند جواز فراہم کرتے رہے ہیں، لیکن پاپائیت کی طرح دین کی تعبیرو تشریح کا پورا نظام ظلم و جبر کا ساتھی بن گیا ہو، اس کی ایک مثال بھی پوری تاریخ اسلام میں پیش نہیں کی جاسکتی، جبکہ اس کے برعکس اسلام کے مجتہدین نے حق کی خاطر ،عوام کے حقوق کی خاطر، اور ظلم وجبر کے خلاف ہر دو ر میں جیلیں آباد کی ہیں، پھانسی کے تختے کو چوما ہے اور ظلم وجبر کا حوصلہ واستقامت کے ساتھ مقابلہ کیاہے۔ اس لیے دین کی تعبیر وتشریح اور اجتہاد وتقلید کے روایتی نظام کو کسی بھی حوالہ سے پاپائیت سے تشبیہ دینا درست نہیں ہے اور ایسا کرنا صریحاً ظلم اور ناانصافی کے زمرے میں آتاہے مگر ہمارے جدت پسند مہربان پورے زور کے ساتھ اسے پاپائیت قراردینے پر مصرہیں، صرف اس لیے کہ دین کی تعبیرو تشریح کے روایتی نظام اورفریم ورک پر پاپائیت کی پھبتی کسے بغیر اسے چیلنج کرنے اور اسے مسترد کرکے دین کی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کا نعرہ لگانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔
اس حوالے سے ابھی بہت کچھ کہنے کی گنجائش بلکہ ضرورت ہے، اور ان شاء اللہ وقتاً فوقتاً ہم اس پر اظہار خیال کرتے رہیں گے۔ سرِدست جناب نبی اکرم ﷺ کے اس ارشاد گرامی کی روشنی میں کہ’’تم یہود ونصاریٰ کی قدم بہ قدم پیرو ی کروگے ‘‘ اس کے صرف ایک پہلو کی طرف ہم قارئین کو توجہ دلا رہے ہیں کہ مارٹن لوتھر نے جو کچھ مسیحیت کی تعبیر نو کے لیے ضروری سمجھا، اس سے قطع نظر کہ ہمارے ہاں اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں اورہمارے ہاں وہ اسباب جنہوں نے مارٹن لوتھر کو اس کام کے لیے مجبور کیاتھا، پائے بھی جاتے ہیں یا نہیں، اس کی پیروی کو ہر حال میں ضروری تصورکیا جارہاہے۔ کیا’’قدم بہ قدم پیروی‘‘ کی ا س سے بہتر کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے؟

دینی مدارس اور جدید تعلیم

ڈاکٹر محمد امین

حیدر آباد سے شائع ہونے والے ماہنامہ بیداری کے مدیر شہیرجناب محمد موسیٰ بھٹو صاحب نے اپنے جریدے کے ستمبر کے شمارے میں مدیر الشریعہ جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب کی شخصیت پر قلم اٹھایا ہے اور اپنے مخصوص اسلوب میں (جس میں وہ شخصیات کو اہم مسائل پر ان کے موقف کے حوالے سے زیربحث لاتے ہیں) دینی مدارس میں اصلاح اور بہتری کے ضمن میں مولانا زاہد الراشدی (اور بعض دیگر اہل علم) کے اس موقف سے اختلاف کیا ہے جس کی رو سے وہ دینی مدارس میں جدید تعلیم کے شمول کے حامی ہیں۔ چونکہ ہم بھی کئی برسوں سے (تحریک اصلاح تعلیم ٹرسٹ کے تحت) پاکستان کے نظام تعلیم و تربیت میں جدید تعلیم میں اصلاح کے علاوہ) دینی مدارس کے نظام میں عصری تقاضوں کے حوالے سے اصلاح و بہتری کے لیے نہ صرف سوچ رہے ہیں بلکہ جو کچھ ہم سے ہوسکے عملاً کر بھی رہے ہیں، اس لیے جو موضوع موسیٰ بھٹو صاحب نے چھیڑا ہے، اسے آگے بڑھاتے ہوئے ہم بھی اپنی کچھ معروضات اہل فکر و نظر کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں۔
دینی مدارس میں جدید علوم کی تعلیم دی جائے یا نہ دی جائے؟ اس سے فائدہ ہوگا یا نقصان؟ اور اگر دی جائے تو کس سطح پر ، کتنی اور کیسے دی جائے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا آج دینی مدارس چلانے والے علماء کرام اور دینی موضوعات و مسائل پر سوچنے والے دینی اسکالرز کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مغرب کا دباؤ

ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اس بحث یا مسئلے کا فوری محرک مغرب کا دباؤ ہے جو بظاہر مطالبہ یہ کر رہا ہے کہ دینی مدارس میں جدید تعلیم دی جائے کیونکہ اس کی رائے میں دینی مدارس میں جو دینی تعلیم اس وقت دی جاتی ہے اور جس طرح دی جاتی ہے اس سے انتہا پسندی اور دہشت گردی جنم لیتی ہے۔ اس لیے مدارس کے ماحول میں روا داری اور کھلاپن پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ معاشرے کے مرکزی دھارے میں کھپ سکیں۔ یہ مغرب کا ظاہری موقف ہے لیکن متعدد عوامل سے اندازہ ہوتا ہے کہ بباطن اس کی خواہش یہ ہے کہ دینی مدارس کو غیر موثر کر دیا جائے اور ہوسکے تو ختم ہی کر دیا جائے کیونکہ وہ ایسی شخصیت پیدا کرتے ہیں جو مغربی تہذیب کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کرتی۔ ہمارے ناعاقبت اندیش حکمران مغرب کا یہ دباؤ بلاسوچے سمجھے آگے دینی مدارس تک منتقل کر دیتے ہیں اور جیسا کہ ہم سب کے علم میں ہے کہ حکومت پاکستان نے دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ان کے نصابات کی تبدیلی کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں اور مزید کیے جا رہے ہیں اور دینی تعلیم کے وفاقوں کے سربراہوں کے ساتھ ان کے مذاکرات اور مباحثات ہوتے رہتے ہیں۔ ان مذاکرات کا عمومی رخ یہی ہوتا ہے کہ حکومت اپنے مطالبات منوانے پر زور دیتی ہے اور اہل مدارس کا رویہ مزاحمت کا ہوتا ہے۔ تاہم پچھلے دنوں، ہماری معلومات کی حد تک، مدارس کی اعلی رابطہ کمیٹی نے حکومت کے سامنے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ دینی مدارس ان طلبہ کو جو میٹرک پاس نہیں ہیں، میٹرک پاس کروانے کا اہتمام کریں گے۔ لیکن ہمارا مشاہدہ یہ ہے اور بڑے مدارس کی اکثریت نے اپنے طلبہ کے لیے شام کے وقت میٹرک کے علاوہ ایف اے اور بی ا ے کے مضامین کی تدریس اور امتحانات کی تیاری کا اہتمام بھی شروع کر دیا ہے۔

مخلصانہ مساعی

اب ذرا دوسری طرف آئیے۔ کئی علماء کرام اور دینی اسکالرز جو موجودہ حالات میں دینی مدارس کے کردار کو زیادہ موثر بنانے کے خواہاں ہیں۔ ماضی میں یہ سوچتے رہتے ہیں اور اب بھی سوچتے ہیں کہ مدارس کے نظام تعلیم و نصاب میں عصری حوالے سے اصلاح و تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور کم از کم یہ تو ہونا ہی چاہیے کہ علماء کرام جدید مغربی افکارو علوم کی کنہ و ہیئت سے واقف ہوں کیونکہ جب تک وہ ان کی حقیقت کو نہیں سمجھیں گے ان کا رد بھی نہیں کر سکیں گے۔
دوسروں کو چھوڑیے خود ہم نے ۲۰۰۰ء میں لاہور میں دینی وفاقوں کے ذمہ داران کے ساتھ مل کر ۱۸ ماہ کی محنت سے دینی مدارس کے نظام تعلیم کے حوالے سے ایک اصلاحی پیکج بنا کر ان سے منظور کروایا اور متبادل نصاب بھی بنا کر پیش کیا۔ اس کے بعد ہم نے ۲۰۰۴ء سے دینی مدارس کے اساتذہ کی تربیت کا پروگرام بھی شروع کر رکھا ہے جس میں طرق تدریس کے علاوہ انگریزی زبان اور مغربی فکرو تہذیب اور علوم کا تعارفی مطالعہ بھی شامل ہے۔ اندریں حالات جب ہم نے مدارس میں جدید تعلیم کی قبولیت اور مدارس کے اپنے زیر اہتمام میٹرک، ایف اے، بی اے کے امتحانات دلوانے کا رحجان دیکھا تو ہمیں تشویش ہوئی۔ چنانچہ ہم نے پچھلے سال مولانا زاہد الراشدی صاحب کو تجویز دی کہ آیئے مل کر لاہور میں دینی مدارس کا ایک کنونشن منعقد کرتے ہیں اور یہ مسئلہ وہاں زیر بحث لاتے ہیں کہ دینی مدارس کے جدید علوم کو اسی صورت میں جیسے کہ وہ اس وقت پاکستان کے جدید تعلیمی اداروں میں پڑھائے جا رہے ہیں، اپنا لینے کے نتائج کیا نکلیں گے؟ کیونکہ ہمارے نزدیک دینی مدارس کی اس جدید روش میں بہت سے خطرے پنہاں ہیں اس لیے کہ ہمارے ہاں جدید تعلیم مغربی فکرو تہذیب کا محض چربہ ہے او رمغرب کی فکر اپنی اصل میں ملحدانہ ہے لہٰذا مغرب میں سارے علوم کی اٹھان اور ان کا مواد و ہیئت الحادی اور غیر اسلامی ہے۔ ملحدانہ فکر پر مبنی ان علوم نے جدید تعلیم کے راستے مسلم فکر اور مسلم معاشرے کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور مسلمانوں کی دین سے دوری اور ان کے بے کرداری کا سب سے بڑا سبب یہی جدید تعلیم ہے لہٰذا ہمارے نزدیک یہ بہت خطرناک امر ہے کہ دینی مدارس نے انہی جدید علوم کو اپنے مدارس میں پڑھانے اور ان کا امتحان دلوانے کا اہتمام شروع کر دیا ہے۔ مولانا زاہدالراشدی صاحب نے، جن کی ان معاملات پر خوب نظر ہے، بلکہ وہ خود بھی فارغ التحصیل علماء کرام کے لیے ایک سالہ کورس منعقد کرتے ہیں، جس میں جدید علوم کا تعارفی مطالعہ انہیں کرواتے ہیں، ہماری اس تجویز کو قبول کر لیا لیکن عملاً کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ پھر ہم نے چند ماہ پیشتر دینی مدارس کے سارے وفاقوں کے سربراہوں اور ناظمین اعلیٰ کو ایک خط لکھا اور اس صورت حال میں مضمر خطرناک پہلوؤں کی طرف ان کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے انہیں اس موضوع پر مل بیٹھنے اور اس کاحل سوچنے کی دعوت دی اور یہ پیشکش بھی کی کہ اگر اصحاب وفاق چاہیں تو ہم تحریک اصلاح تعلیم ٹرسٹ کی طرف سے جدید علوم کی ایسی کتب مدون کر کے دے سکتے ہیں جن میں مغرب کی ملحدانہ فکر کا زہر نہ ہو اور وہ ٹھیٹھ اسلامی نقطۂ نظر پر مبنی ہوں۔ اس کے جواب میں وفاق المدارس العربیۃ کے ناظم اعلیٰ جناب مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب نے ہمیں ایک مدافعانہ قسم کا جواب دیا اور اس کی کاپیاں سارے وفاقوں کے صدور و ناظمین کو بھجوائیں، جس سے ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ معاملے کی خطرناکی اور گہرائی تک ان کی نظر نہیں پہنچی۔ دریں اثناء ہمارے بعض شرکاء کار نے ہمیں ڈرایا کہ اگر و فاقوں نے سچ مچ ہمیں یہ کام کرنے کا کہہ دیا تو اس کام کے لیے جو وسیع مادی وسائل درکار ہیں وہ ہمیں میسر نہیں ہیں (اور شاید وفاق بھی وہ مہیا نہ کر سکیں) مزید یہ کہ ہم خود ایک دوسرے بڑے دینی پراجیکٹ میں مصروف تھے،چنانچہ ان حالات میں ہم نے خاموش رہنا مناسب سمجھا۔ اب موسیٰ بھٹو صاحب نے یہ موضوع چھیڑا ہے تو ہم نے مناسب سمجھا کہ اس معاملے کو دوبارہ اٹھائیں تاکہ اس کے فکری اور عملی پہلو زیادہ واضح ہو کر سامنے آسکیں۔

عصری تقاضے

ہمارے نقطۂ نظر سے مغرب کے دباؤ سے قطع نظر دینی مدارس کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ عصری تقاضوں کے حوالے سے موثر علماء کیسے تیار کیے جائیں؟ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس چیز کا تعین کر لیا جائے کہ یہ ’’عصری تقاضے‘‘ کیا بلا ہیں اور ان کی کیا اہمیت ہے؟ کیونکہ بہت سے علماء کرام یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے تو قرآن و حدیث پڑھانا ہے، ہمیں عصری تقاضوں سے کیا لینا؟ دیکھیے ! دین نام ہے اس ہدایت کا ہے جو اللہ تعالیٰ بندوں کو اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے عطا فرماتا ہے تو گویا دین کا ہماری دنیوی زندگی سے گہرا ربط اور تعلق ہے بلکہ دین ہے ہی زندگی گزارنے کا لائحہ عمل تاکہ انسان دنیا کی یہ زندگی اللہ کے احکام کے مطابق اس کی عبادت و اطاعت میں گزارے تاکہ آخرت میں اس کی خوشنودی سے بہرہ ور ہوسکے۔
پیغمبر کتاب کی جو تبیین کرتا ہے وہ بھی اس ہدایت کو معاشرے کے زندہ حقائق سے مربوط کرنے کاہی ایک ذریعہ ہوتی ہے۔ لہٰذا دین کس مجرد ہدایت کا نام نہیں جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہ ہو بلکہ زندہ مسلم معاشرہ ہی دین کا ہدف اور نمائندہ ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم کردہ مدنی معاشرہ اسلام کے استحکام اور اشاعت کا سبب بنا کیونکہ وہ صحیح اسلام کا نمائندہ تھا اور آج چونکہ صحیح اسلامی فرد اور معاشرہ موجود نہیں اس لیے غیر مسلم اسلام سے متاثر نہیں ہوتے حالانکہ ہمارے پاس وہی قرآن و سنت موجود ہیں جو صحابہ کرامؓ کے پاس تھے۔ خلاصہ یہ کہ دین کو عصری حوالے کے بغیر پیش کیا ہی نہیں جاسکتا۔
یہاں ہمیں دینی مدارس چلانے والے علماء کرام کی فطانت سے توقع ہے کہ وہ دو چیزوں میں فرق کریں گے ، ایک ہے تقدس اور دوسرے ہے قدامت۔ قرآن و سنت میں تقدس قدامت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ وہ ہمارے دین کا مآخذ ہیں اور ان کی نصوص ناقابل تغیر ہیں۔ ان کے علاوہ جتنے علوم ہیں وہ محض اپنی قدامت کی وجہ سے ’مقدس‘ نہیں ہوسکتے بلکہ ان کی اہمیت کی وجہ ان کی افادیت ہی ہوسکتی ہے اور اس افادیت میں زبان و مکان کے تغیر سے کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ ہم چند مثالوں سے اپنی بات کی وضاحت کریں گے:
۱۔ دینی مدارس میں جو فلسفہ پڑھایا جاتا ہے وہ یونانی فلسفہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ یونانی فلسفہ مسلمانوں کے لیے چیلنج تھا۔ آج یونانی فلسفے کی بجائے مغربی فلسفہ ہمارے لیے چیلنج ہے تو ہم یونانی فلسفے کی بجائے مغربی (یورپی و امریکی) فلسفہ کیوں نہ پڑھیں پڑھائیں؟
۲۔ برصغیر میں مسلم نظام تعلیم کے انگریزوں کے ہاتھوں خاتمے کے وقت ذریعۂ تعلیم فارسی زبان تھی اور اس وقت صرف و نحو اور دوسرے علوم فارسی میں پڑھائے جاتے تھے۔ آج فارسی زبان ہمارے ہاں غیر متداول ہوگئی ہے تو ہم کیوں اصرار کریں کہ اسے ہی ذریعۂ تعلیم ہونا چاہیے اور یہ ضروری ہے کہ صرف و نحو کی کتابیں فارسی ہی میں رہیں۔ پہلے ہم اپنے بچوں کو فارسی پڑھائیں اور پھر فارسی میں لکھی گئی صرف و نحو کی کتابیں!
یہ دو مثالیں ہم نے محض بطور نمونہ مشتے از خروارے دی ہیں ورنہ ایسی چیزوں کی فہرست کافی طویل ہے جو مدارس میں عصری حوالے سے تبدیل کیے جانے کے لائق ہیں اور قرآن و سنت کی طرح مقدس اور ناقابل مس (Untouchable) نہیں ہیں کہ ہم ان کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے۔ بلکہ ہم تو عرض کرتے ہیں کہ مدارس میں علوم القرآن و علوم السنہ کے نصابات میں بھی تغیر کی ضرورت ہے اور ان کے طریق تدریس میں بھی اور ہم کوئی نئی بات نہیں کر رہے۔ اہل علم ہمیشہ ان باتوں پر غور کرتے رہے ہیں ، مثلاً علامہ ابن خلدون نے اپنے مشہور عالم ’مقدمہ‘ میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ مبحث بھی چھیڑا ہے کہ قرآن حکیم کی تعلیم بچے کو کس عمر میں دینی چاہیے؟ عربی زبان کی باقاعدہ تعلیم سے پہلے یا بعد؟ پھر دونوں صورتوں کے بارے میں تفصیل دی ہے کہ اسلامی دنیا کے کن ممالک میں پہلی صورت پر ، عمل ہوتا ہے اور کن ممالک میں دوسری صورت پر، اور دونوں کے فائدے اور نقصانات کیا ہیں؟
تو بات عصری تقاضوں کی ہورہی تھی کہ کبھی عصری تقاضا یہ تھا کہ مدارس میں یونانی فلسفہ اور اس کا رد پڑھایا جائے، آج عصری تقاضا یہ ہے کہ یونانی فلسفے کی بجائے (یا اس کے ساتھ) مغربی فلسفہ اور اس کا رد پڑھایا جائے۔ کبھی عصری تقاضا یہ تھا کہ فارسی ذریعۂ تعلیم ہو، آج عصری تقاضا یہ ہے کہ فارسی ذریعۂ تعلیم نہ ہو بلکہ پاکستان میں اردو ہو، برطانیہ میں انگریزی ہو اور ایران میں فارسی ہو وغیرہ۔ آج عصری تقاضے کیا ہیں ہم چند اہم امور کی طرف اشارات پر اکتفا کرتے ہیں:
۱۔ مسلمان پہلے غالب تھے، آج مغلوب ہوگئے۔ (ایک ضمنی بات۔ ہمارے بس میں ہو تو دینی مدارس کے آخری سالوں میں ایک نئے مضمون کا اضافہ کریں جس میں یہ مسئلہ تفصیل سے زیربحث آئے کہ مسلمان امت کو زوال کیوں آیا اور وہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ کیسے حاصل کر سکتی ہے؟ اور یہ کہ ہمارا تعلیمی نظام اس کا کس حد تک ذمہ دار ہے؟)
۲۔ مغربی فکر اور تہذیب اور اس کے علوم جو لادینیت اور الحاد پر مبنی ہیں آج دنیا پر غالب آگئے ہیں۔
۳۔ مسلم معاشرہ مغربی فکر و تہذیب کے اثرات قبول کر رہا ہے۔ اس کا نظام تعلیم، نظام قانون، نظام معیشت ، طرز معاشرت غرض سب کچھ تغیر کی زد میں ہے۔
۴۔ مغرب کا تصور دین ہم سے مختلف سے لیکن مغرب کے تہذیبی اور سیاسی غلبے کی وجہ سے وہ ہمارے تصورِ دین کو بھی متاثر کر رہا ہے۔
مندرجہ بالا صرف چند کلیات ہیں۔ ان کے تقاضے کیا ہیں مثلاً علماء کرام اگر مغرب کی ملحدانہ فکر و فلسفے کا رد کرنا چاہتے ہیں اور مسلم معاشرے کو اس کے اثرات بد سے بچانا چاہتے ہیں تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے ان کا مطالعہ کیا جائے اور انہیں سمجھا جائے۔ یہ علوم انگریزی میں ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ انگریزی زبان سیکھی جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا علماء کرام اس نصابی تغیر کے لیے تیار ہیں؟
فقہ کی مثال لیجیے۔ ائمہ اربعہ نے جب فقہی احکام مرتب کیے تھے تو اس وقت کے حالات اور اس وقت کے مسائل ان کے پیش نظر تھے۔ آج نہ وہ حالات ہیں اور نہ وہ مسائل۔ آج عصری تقاضا یہ ہے کہ آج کے حالات اور آج کے مسائل پر غور کیا جائے اور ان کا فقہی حل دریافت کیا جائے۔ کیا دینی مدارس نے اس تغیر کو قبول کیا ہے اور جدید مسائل پر غور وفکر کو اپنے نصاب میں شامل کیا ہے؟

جدید تعلیم کے نصاب کی اہمیت

یہ باتیں ہم نے صرف اس لیے کی ہیں کہ علماء کرام اس بات پر غور فرمائیں کہ عصری تقاضوں کی وجہ سے دینی مدارس کے نظام و نصاب تعلیم میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس اصولی اور عمومی بحث کے بعد اب آئیے دینی مدارس میں جدید علوم کی تدریس کے معین سوال کی طرف۔
  • کیا دینی مدارس کے طلبہ کو مغربی فکرو علوم کا تعارفی مطالعہ اور انگریزی زبان پڑھانی چاہیے؟ ہمارا جواب ہے ، ’’ہاں‘‘۔ 
  • کیا دینی مدارس کو اس غرض سے وہ کتابیں پڑھائی جائیں جو جدید تعلیمی اداروں میں میٹرک، ایف اے ، بی اے ، ایم اے میں مروج ہیں۔ ہمارا جواب ہے ’’بالکل نہیں‘‘۔
ممکن ہے آپ کہیں کہ ہمارے جواب میں تضاد ہے۔ ہم کہتے ہیں با لکل نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ مسئلے کو پوری طرح سمجھا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مغرب کی ملحدانہ اور غیر اسلامی فکر و تہذیب اس وقت دنیا پر غالب ہے۔بدقسمتی سے مسلم معاشرے خصوصاً مسلم حکمرانوں کی کمزوری سے آج کے مسلم معاشرے میں مروج جدید تعلیم اسی مغربی ملحدانہ اور غیر اسلامی فکر پر مبنی ہے۔ اب اگر دینی مدارس نے بھی اسی الحادی مغربی فکر و فلسفے کے تحت مرتب کی گئی کتب کو اپنے ہاں پڑھانا شروع کر دیا تو لامحالہ جلد یا بدیر وہ بھی انہی ساری خرابیوں کا شکار ہوجائیں گے جنہوں نے ہماری جدید تعلیم بلکہ ہمارے معاشرے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے اور اس کے اسلامی افکار و اقدار کو متزلزل اور مضمحل کر کے رکھ دیا ہے۔
یہ بات جو ہم کہہ رہے ہیں کہ غلط اور غیر اسلامی نصاب تعلیم انسانی شخصیت کو مسخ کر دیتا اور معاشرے کو تباہ کر دیتا ہے، ممکن ہے عام لوگ نہ سمجھیں لیکن دینی مدارس کے اہل حل و عقد کو ضرور یہ بات سمجھ میں آجانی چاہیے کیونکہ وہ خود معلم ہیں اور جانتے ہیں کہ جیسی تعلیم ہوتی ہے ویسی ہی ذہنیت اور شخصیت اور ویسے ہی افراد بنتے ہیں اور یہ کہ قوموں کے عروج و زوال اور ان کے بناؤ اور بگاڑ میں تعلیم اور نصاب بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ لہٰذا انہیں خدا کے لیے معاملے کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے۔ 
خلاصہ یہ کہ دینی مدارس کو میٹرک، ایف اے ، بی اے کی مروجہ کتب نہیں پڑھانی چاہئیں بلکہ ان کی جگہ انہیں خود ایسی کتب مرتب کرنی اور کروانی چاہئیں جو مغربی فکر و تہذیب کے زہر سے آلودہ نہ ہوں۔ اگر وہ اس کا ارادہ اور ہمت کر لیں تو یہ مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔ عملاً اس کی دو صورتیں ممکن ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ جدید علوم اپنے طلبہ کو اپنے نظام کے اندر رہ کر پڑھائیں اور اسے حکومتی ڈگری سے متعلق نہ کریں تو وہ پھر بالکل آزاد ہیں کہ جو کتب چاہیں وہ اپنے ہاں لگائیں اور پڑھائیں، حکومت پاکستان کو اس سے سروکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے توخوش ہونا چاہیے کہ دینی مدارس جدید علوم پڑھائیں گے۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مدارس اپنی خصوصی حیثیت کے پیش نظر میٹرک، ایف اے، بی اے کی اپنی مرتب کردہ کتب حکومت پاکستان سے منظور کروا لیں۔ ان کتب کو اس طریقے سے مرتب کیا جاسکتا ہے کہ وہ حکومتی نصاب کے خلاف بھی نہ ہوں لیکن ان میں مغربی تہذیب کا زہر بھی نہ ہو اور وہ اسلامی تقاضوں کے بھی مطابق ہوں (یہ ایک فنی کام ہے اور پیشہ ورانہ مہارت کا تقاضا کرتا ہے اور ہم اپنی اس پیشکش پر قائم ہیں کہ ہم مدارس کے لیے یہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔

مقاصد تعلیم میں وسعت کا مسئلہ

دینی مدارس میں جدید تعلیم کے حوالے سے یہاں ایک اور اہم سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کیا دینی مدارس اپنے مقاصد تعلیم میں وسعت پیدا کرنے کے لیے تیار ہیں؟ دوسرے لفظوں میں کیا اب بھی وہ صرف مساجد اور مدارس کے لیے علماء تیار کرنا چاہتے ہیں یا معاشرے کو اسلامی خطوط پر چلانے کے لیے اہم شعبوں کے ماہرین پیدا کرنا بھی ان کے پیش نظر ہے؟ اس سوال کی نوعیت اور اہمیت کو سمجھنے کے لیے اس کا پس منظر ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
دیکھیے! انگریزوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کر لیا تو بتدریج مسلمانوں کا نظام تعلیم ختم کر دیا اور اپنا نظام تعلیم نافذ کر دیا۔ اس پر اہل فکر و نظر پریشان ہوگئے کہ ہندوستان کا حشر کہیں اندلس جیسا نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے سوچا کہ جیسے تیسے ہو بنیادی دینی علم کو زندہ رکھا جائے تاکہ مسجدیں آباد رہیں اور مسلمان نکاح و طلاق اور غم و خوشی کے روزمرہ کے امور میں دین سے جڑے رہیں۔ چنانچہ علماء کرام نے درختوں کے نیچے بیٹھ کر اور کچی مٹی کے بنے حجروں میں بیٹھ کر قرآن و سنت اور فقہ کی تعلیم دینی شروع کی اور چونکہ قوم اس وقت ہزیمت خوردہ، منتشر اور مفلس تھی اس لیے اس کام سے دنیا وابستہ نہ تھی بلکہ علماء کرام کو ایثار سے کام لیتے ہوئے پیٹ پر پتھر باندھ کر یہ کام کرنا پڑا (جس کے لیے قوم کے سرہمیشہ علماء کے اس احسان کے سامنے جھکے رہیں گے)۔ یہ اس وقت کے حالات کے دباؤ کا نتیجہ تھا کہ علماء کرام نے یہ تعلیمی پروگرام شروع کیا اور بعد میں جب مسلمانوں نے ’جدید تعلیم‘ کے اپنے ادارے کھولنے شروع کیے تو دیوبند کے بانیوں خصوصاً مولانا رشید احمد گنگوہی کا خیال ابتداءً یہ تھا کہ وہ اپنے تعلیمی پروگرام کو کچھ مختصر کر کے اپنے طلبہ کو یہ موقع دیں گے کہ دینی تعلیم سے فراغت کے بعد وہ جدید تعلیم کے لیے چند سال فارغ کر سکیں لیکن غاصب انگریز کے خلاف جذبات اس وقت اتنے شدید تھے اور دونوں طرف کی تعلیم کے علمبرداروں کے درمیان سیاسی، سماجی، دینی اور معاشرتی حوالوں سے خلا اتنا زیادہ تھا کہ تعلیمی تبادلے کے اس پروگرام پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ چنانچہ دینی تعلیم دنیوی علوم سے کٹ کر اور جدید تعلیم مغربی فکر وتہذیب کے سانچے میں ڈھل کر آگے بڑھتی رہی۔ ندوہ اور جامعہ ملیہ کی صورت میں باہم انجذاب کی کچھ کوشش ہوئی جو کامیاب نہ ہوسکی اور بدقسمتی سے یہ دونوں تعلیمی دھارے آج تک متوازی انداز میں کام کرتے چلے آرہے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کا فرض تھا کہ وہ نظام تعلیم کی وحدت کا انتظام کرتے اور اسلامی تعلیم اور جدید علوم کی مناسب انداز میں یکجائی کا اہتمام کرتے لیکن انہوں نے اس ضمن میں کچھ نہ کیا۔ عوام اور اسلامی قوتوں کے دباؤ پر انہوں نے صرف اتنا کیا کہ جدید نظام تعلیم میں جومغربی فکر و تہذیب پر مبنی تھا، کچھ سطحی قسم کی پیوند کاری ’دینیات‘ کی تعلیم کے اضافے سے کی جو حسب توقع غیر موثر ثابت ہوئی۔ دینی مدارس اور دینی تعلیم ان کا درد سر نہ تھی، چنانچہ نہ کبھی حکومت نے دینی مدارس کی سرپرستی کی ، نہ ان کے لیے بجٹ مختص کیا، نہ کبھی ان کے نصابات کی اصلاح کے لیے کچھ کیا اور یوں نہ صرف مدارس سے سرد مہری اور لاتعلقی کا رویہ رکھا بلکہ الٹا مغربی حکومتوں کے زیر اثر اوراپنی سیاسی مصلحتوں کی خاطر انہوں نے دینی مدارس کی مخالفت کی۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ارباب دینی مدارس نے بھی اس امر پر غور نہ کیا کہ عہد غلامی میں انہوں نے دینی تعلیم کو صرف مساجد و مدارس تک محدود رکھنے کی جو روش اپنائی تھی اب ایک آزاد مسلم معاشرے میں اس میں تبدیلی کی ضرورت تھی۔ علماء کرام اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے نظام تعلیم میں ہمیشہ وحدت رہی ہے۔ دین و دنیا کی الگ الگ تعلیم کا تصور اسلامی دور حکومت میں کبھی بھی نہیں رہا۔ ماضی میں مسلمان معاشرے میں ’دینی مدارس‘ نہیں محض ’مدارس‘ ہوتے تھے جو دینی تعلیم بھی دیتے تھے اور ان علوم کی تعلیم بھی دیتے تھے جن کی مسلمانوں کو دنیا میں ضرورت تھی۔ چنانچہ مسلمانوں کے مدارس میں دینی تعلیم میں تخصص کے علاوہ سائنسی کی تعلیم بھی دی جاتی تھی (جیسے طب (میڈیکل) ، ہندسہ (انجینئرنگ) ، ہیئت (اسٹرانومی اور سپیس سائنس)، کیمیا (کیمسٹری)، حساب (ریاضی و الجبرا وغیرہ) ۔ اسی طرح ان مدارس میں سماجی و عمرانی علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی (جیسے فلسفہ، منطق، تاریخ، جغرافیہ، ادب وغیرہ)۔ زبانیں بھی یہاں سکھائی جاتی تھیں چنانچہ عربی کے علاوہ مقامی زبانیں جیسے فارسی، ترکی وغیرہ کی تعلیم بھی عام تھی بلکہ فارسی تو برصغیر میں ذریعۂ تعلیم بن گئی تھی۔ غرض یہ کہ مسلمانوں کے مدارس سے نہ صرف دین کے متخصص علماء تیار ہو کر دینی شعبے کی خدمت کرتے تھے بلکہ زندگی کے سارے شعبوں کو چلانے کے لیے مردان کار یہیں سے تیار ہو کر نکلتے تھے۔ حکومت چلانے والے منتظم، انصاف کرنے والے جج (قاضی)، مالی شعبے کے ٹیکس کلیکٹر، شعبۂ تعمیرات کے لیے انجینئر، دھاتوں کو سونے میں بدلنے والے کیمیا گر اور علم الافلاک کے ماہر منجم سب انہی مدارس سے نکلتے تھے۔ بلکہ ان مدارس کی ایک بڑی اور بنیادی خوبی یہ تھی کہ مذکورہ بالا شعبوں کے یہ سارے متخصصین دینی علوم کے ماہر اور آج کی زبان میں عالم دین بھی ہوتے تھے۔ گویا یوں کہیے کہ ابتدائی اورعمومی تعلیم کی بنیاد سب کے لیے دینی تھی اور تخصص کے لیے حسب ذوق و ضرورت کچھ لوگ دینی علوم میں سند لیتے تھے، کچھ سائنسی علوم میں اور کچھ عمرانی علوم میں۔ 
اور آج پھر دینی مدارس کے سامنے سوال یہ ہے کہ ان کا مقصد تعلیم کیا ہونا چاہیے؟ کیا صرف مسجد و مدرسے کے امام و معلم پید اکرنا یا معاشرے کے لیے درکار دوسرے شعبوں کے ماہرین بھی پیدا کرنا۔ موسیٰ بھٹو صاحب اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ دینی مدارس کو مسجد و مدرسے تک محدود رہنا چاہے جیسا کہ ہمارے دینی مدارس کی موجودہ پالیسی ہے۔ ہم اس رائے کو صحیح نہیں سمجھتے اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں:

دین و دنیا کی تعلیم کی علیحدگی کے نقصانات 

۱۔ اس پالیسی نے مسلم معاشرے میں دین و دنیا کی تفریق کے تصور کو مستحکم کیا ہے۔ معاف کیجیے گا اسی کو سیکولرزم کہتے ہیں اور یہ سیکولرازم بالبداہت خلاف اسلام ہے۔ ہم مغربی تہذیب کو الزام دیتے ہیں کہ وہ سیکولزم کی علمبردار ہے اور اس نے بے دینی پھیلائی ہے اور ہم اس امر پر غور نہیں کرتے کہ ہم خود دین کے نام پر جو سیکولرزم پھیلا رہے ہیں کیا اس کا اس کا نتیجہ بے دینی نہیں نکلا؟ اور کیا مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب یہ نہیں کہ ہمارے علماء و صلحاء نے مساجد و مدارس اور خانقاہوں میں ڈیرہ لگا کر سیاست اور اجتماعی زندگی کو بے دینوں کے حوالے کر دیا اور یوں صدیوں سے ہمارا سیاسی نظام برائے نام خلافت کا لبادہ اوڑھ کر منہاج نبوت اور منہاج خلافت راشدہ سے دور رہا اورآج بھی ہے۔
۲۔ اس پالیسی نے مسلم معاشرے کو مسٹر اور ملا میں تقسیم کر دیا ہے۔ اس تقسیم کے منفی اثرات بہت دوررس اور گہرے ہیں۔ اس سے مسلم معاشرہ ہی تقسیم نہیں ہوا بلکہ اس کا بنیادی نقصان یہ ہوا ہے کہ اس کی وجہ سے مسلم شخصیت میں وحدت نہیں پیدا ہو پاتی اور یہ علمی و فکری انتشار کو جنم دیتی ہے جو ہماری بے کرداری کا بنیادی سبب ہے۔ موجودہ نفسیات نے یہ ثابت کیا ہے (اور اسلامی علم النفس بھی یہی کہتا ہے) کہ انسانی اعمال کا منبع اس کی فکر ہوتی ہے۔ فکر منظم ہو کر نیت ، ارادے اور عزم کے ذریعے عمل کو جنم دیتی ہے، عمل کا دوام عادات بناتا ہے اور جیسی عادات ہوتی ہیں ویسی ہی شخصیت وجود میں آتی ہے۔ لہٰذا فکر میں یکسوئی اور وحدت شخصیت کی جان ہوتے ہیں۔ آپ دین و دنیا میں تفریق کو قبول کر کے اورمسلمانوں کو جدید تعلیم کے لیے مغربی فکر کے حوالے کر کے ( جس کا تصورِ دین و دنیا اسلام کے بالکل الٹ ہے) مسلم شخصیت کو تباہ کرنے کی بنیاد رکھ دیتے ہیں، لہٰذا ہم اس معاملے میں بالکل یکسو ہیں کہ ہماری بے کرداری کا بنیادی سبب فکری عدم یکسوئی ہے اور ہماری فکری عدم یکسوئی کا سبب ہمارے نظام تعلیم کی ثنویت اور دوئی ہے جس کے کچھ ذمہ دار ہمارے دینی مدارس بھی ہیں، فھل من مدکر؟ 
۳۔ اس پالیسی نے مسلم معاشرے میں مغرب پرست سیکولر حکمرانوں کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا ہے اور وہ معاشرے کو بڑی آسانی سے بگٹٹ اپنی مرضی کے مطابق سیکرلر بنیادوں پر چلائے بلکہ بھگائے جا رہے ہیں کیونکہ دینی عناصر اسلامی ریاست چلانے کے لیے رجال کا ر پیداہی نہیں کر رہے۔ سوال یہ ہے کہ آج کے میڈیا کو اسلامی انداز میں چلانے کے لیے جو آدمی درکار ہیں کیا دینی مدارس وہ آدمی پیدا کر رہے ہیں؟ آج کے معاشرے میں اسلامی انداز میں نظام معیشت چلانے کے لیے جو ماہرین درکار ہیں کیا دینی مدارس وہ اشخاص پیدا کر ہے ہیں؟ اور یہی حال زندگی کے دوسرے شعبوں کا ہے خصوصاً نظام تعلیم، نظام قانون، قضا، انتظامیہ وغیرہ کا، کہ آپ ان شعبوں کے ماہرین پیدا ہی نہیں کر رہے۔ اس قحط الرجال کا نقصان یہ ہے کہ آج اگر دینی عناصر کو پاکستان میں اقتدار مل بھی جائے تو وہ صحیح اور موثر نظام حکومت چلا کر نہیں دکھا سکتے (جس کا مظاہرہ حال ہی میں دو صوبوں میں دینی عناصر کو اقتدار ملنے کی صورت میں ہوا ہے اور جس کے نتائج سے مایوسی پیدا ہوئی ہے)۔
۴۔ اگر علماء کرام معاف فرمائیں تو ہم عرض کریں گے کہ ثنویت پر مبنی اس نظام تعلیم سے معاشرے میں علماء کرام کی بے توقیری ہوئی ہے۔ جاگیر دار اپنی مسجد کے مولوی صاحب کو کمیں سمجھتے ہیں اور دیگر اہل حرفہ موچی، ترکھان، لوہار کی طرح مولوی صاحب کو بھی سالانہ ایک دو من گندم دے کر فارغ کر دیتے ہیں اور بعض دیہات میں تو ابھی تک مولوی صاحب شام کے وقت گھر گھر جا کر روٹی مانگ کر لاتے ہیں اور یوں بچوں کا پیٹ پالتے ہیں اور سرمایہ دار مولوی صاحب کو معمولی ملازم سمجھتے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں مسجد کے مولوی اور خطیب زیادہ سے زیادہ دس گیارہ گریڈ کے ملازم ہوتے ہیں جب کہ افسر کا گریڈ ۱۷ سے شروع ہوتا ہے۔ اس لیے افسر مولوی صاحب کو ادنی درجے کا ملازم سمجھنے میں حق بجانب ہیں اور یہ تاثر لینے میں بھی حق بجانب ہیں کہ مولوی بننا اسی سطح کے لوگوں کا کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ہمارے مدارس اندھوں، لنجوں، ناداروں (جو غریب والدین اپنے بچوں کو پال نہیں سکتے یا سکولوں میں تعلیم نہیں دلوا سکتے، وہ انہیں مدرسہ بھجوا دیتے ہیں) اور نالائقوں (جو سکولوں میں کسی وجہ سے چل نہیں سکتے ) کی آماجگاہ رہے ہیں اور قوم کے کھاتے پیتے لوگ اپنے ذہین بچوں کو یہاں بھجوانا پسند نہیں کرتے کیونکہ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ اہل دین کی دنیاوی شوکت سے یہ محرومی معاف کیجئے گا، خود دین کے استخفاف کا سبب بنی ہے اور معاشرے پر اس کے برے اثرات انتہائی گہرے ہیں۔
اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ مولوی صاحب مانگنے والے بن گئے ہیں۔ کوئی بھی سرمایہ دار یا مرفہ الحال شخص جب مولوی صاحب کو آتے دیکھتا ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ مولوی صاحب چندہ مانگنے کے لیے آئے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ علماء مسجد اور مدرسے کے لیے مانگنے جانتے ہیں اپنی ذات کے لیے نہیں لیکن بقول اقبال ۔۔۔مانگنے والا گدا ہے صدقہ مانگے یا خراج۔ اورلینے والے ہاتھ کا نیچے ہونا اور دینے والے ہاتھ کا اوپر ہونے کا فلسفہ بہر حال ایک خاص نوع کی ذہنیت اور رویے کو جنم دیتا ہے اور بعض لوگ تو اس امر کو بھی مدارس کی بے برکتی کی ایک وجہ گردانتے ہیں کہ مولوی صاحب کو سرمایہ دار سے مانگتے ہوئے اس سے صرف نظر کرنا پڑتا ہے کہ اس کی کمائی حلال کی بھی ہے یا نہیں، ان کو توبہر حال مسجد اور مدرسے کو چلانے کے لیے فنڈز درکار ہوتے ہیں۔
دینی تعلیم کو مسجد اور مدرسے تک محدود رکھنے کے یہ چند بڑے نقصانات جو ہم نے گنوائے ہیں (امید ہے کوئی صاحب ہمارے نیک نیتی پر مبنی اس نا گزیر تجزیے کی بناء پر ہمیں علماء کرام اور دینی مدارس کے استخفاف کا مرتکب قرار نہیں دیں گے) وہ اس قابل ہیں کہ ہمارے دینی مدارس کے اہل حل و عقد ان پر غور فرمائیں اور ان کی بنیاد پر جس استدلال کی عمارت کھڑی ہوتی ہے اس کا وزن کو محسوس کریں۔

علماء کرام کے خدشات

ہمارے علم میں ہے کہ علماء کرام کی ایک خاصی بڑی تعداد خصوصاً پرانے اور بزرگ علماء ہماری اس تجویز کو کوئی اہمیت نہیں دیں گے۔ اس کی وجہ ان کے بعض خدشات ہیں اور وہ اپنے موقف کو صحیح سمجھنے کے لیے بعض دلائل بھی رکھتے ہیں۔ ہم خواہ مخواہ بحث کو طول دینا نہیں چاہتے لیکن جو نقطۂ نظر ہم پیش کر رہے ہیں، اس کے اثبات کے لیے ان خدشات و دلائل کا ذکر اور رد ناگزیر ہے۔ اپنے نقطۂ نظر کے حق میں علماء کرام جو دلائل اور خدشات رکھتے ہیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱۔ اگر ہم نے اپنے طلبہ کو انگریزی اور جدید علوم پڑھانے شروع کر دیے تو مسجدیں اور مدرسے ویران ہو جائیں گے اور علماء کی اکثریت دفتروں اور اسکولوں میں ملازمت کرلے گی۔
۲۔ ہم پہلے ہی مانگ تانگ کر اور رو پیٹ کر گزارہ کر رہے ہیں، اگر ہم نے جدید علوم بھی پڑھانے شروع کر دیے تو لا محالہ اخراجات بڑھیں گے اور ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ 
۳۔ یہ حکومتوں کا کام ہے کہ وہ اس سطح کے آدمی تیار کرے۔ ہم اگر اس کام میں لگ گئے تو جو کام ہم کر رہے ہیں وہ بھی متاثر ہو گا اور کمزور ہو جائے گا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دلائل نہیں محض خدشات ہیں اور خدشات بھی ٹھوس نہیں محض خوف پر مبنی ہیں۔وجہ اس کی یہ ہے کہ:
۱۔ اس بات میں کوئی وزن نہیں کہ دینی مدارس کے طلبہ کے انگریزی اور جدید علوم پڑھنے سے مدرسے اور مسجدیں ویران ہو جائیں گی کیونکہ جتنے طلبہ اس وقت سالانہ دینی مدارس سے فارغ ہوتے ہیں ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ سب مساجدو مدارس میں کھپ نہیں سکتے لہٰذا ان میں سے بعض دیگر شعبوں میں چلے جاتے ہیں، بعض بے روزگار رہ جاتے ہیں اور بعض جدید تعلیم حاصل کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں لہٰذا دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کی ایک تعداد اگر مساجد و مدارس کا رخ نہ بھی کرے تو ان شاء اللہ مسجدیں و مدارس پھر بھی آباد رہیں گے۔
۲۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے مسلم معاشرے میں مغرب کی مادہ پرستی نے خاصا غلبہ حاصل کر لیا ہے اور اعلیٰ معیار زندگی کی دوڑ، راتوں رات امیر بن جانے کا جنون، بیرون ملک جانے کا خبط، تعلیم میں کمرشل ازم کا غلبہ وغیرہ ان سارے رحجانات سے دینی مدارس کے فارغ التحصیل علماء کا متاثر ہونا بہت اچنبھے کی بات نہیں کہ وہ بھی بالآخر اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ اس کے باوجود ان قباحتوں سے بچنے کی کوشش کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔ تاہم تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے اور وہ یہ کہ جائز ذرائع سے اپنی مالی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا کوئی جرم نہیں۔ لہٰذا دینی مدارس سے فارغ ہونے والے علماء کرام کے لیے اگر مدارس و مساجد سے ہٹ کر اچھی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہونے کی کوئی صورت بنے تو اسے بالآخر مذموم کیوں سمجھا جائے؟ دین کے لیے ایثار و قربانی بوقت ضرورت بلا شبہ محمود ہے۔ ہمارے علماء کرام یہ ایثار ماضی میں کرتے آئے ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ بھی کرتے رہیں گے لیکن علماء کرام کے اعلی تعلیم یافتہ ہونے سے اگر موجودہ مساجد کمیٹیاں اس امر پر مجبور ہوتی ہیں کہ وہ مساجد کے ائمہ و خطباء کی تنخواہیں بڑھائیں تو یہ بھی وقت کی ضرورت ہے اور علماء کرام اس کے مستحق ہیں۔ پھر جیسا کہ ہم نے سعودی عرب میں دیکھا کہ یونیورسٹیوں کے علوم اسلامیہ کے سارے پروفیسر مسجدوں کے خطیب ہیں۔ اسی طرح کا کلچر ہمیں پاکستان میں بھی پروان چڑھانا چاہیے کہ اعلی تعلیم یافتہ علماء کرام خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہوں، مساجد کی خطابت (بلکہ امامت بھی) انہی کے پاس ہونی چاہیے۔ اس سے علماء کا وقار بھی بڑھے گا، ان کی آمدنی بھی بڑھے گی اور مساجد کا کردار بھی پہلے سے زیادہ موثر ہو جائے گا جو ہماری فوری دینی اور معاشرتی ضرورت ہے۔ 
۲۔ مقاصد تعلیم میں توسیع سے بلاشبہ مدارس کے اخراجات بڑھیں گے لیکن جو قوم اس وقت بھی دینی مدارس کو کروڑوں نہیں بلکہ کئی ارب روپے سالانہ امداد دیتی ہے، جب وہ دیکھے گی کہ دینی مدارس کا کردار معاشرے کے لیے زیادہ موثر اور وسیع ہوگیا ہے تو وہ یقیناًمدارس کی اضافی ضروریات بھی پوری کرے گی۔ الحمدللہ! کہ مدارس کی اکثریت معاشرے کے اعتماد کی حامل ہے اور لوگ محض ثواب کی خاطر مدارس کی امداد کرتے ہیں۔ قوم کھلی آنکھوں سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ اس لیے ہم نہیں سمجھتے کہ اگر دینی مدارس اپنے مقاصد تعلیم میں توسیع کا فیصلہ کریں تو قوم انہیں مایوس کرے گی۔
دوسری بات یہ کہ پچھلی دو تین دہائیوں میں معاشرے کے رجحان میں یہ تبدیلی محسوس کی گئی ہے کہ اب نادار لوگوں کے علاوہ (جو اپنے بچے مجبوراً دینی مدارس میں بھجواتے تھے) ، اب بعض متوسط طبقے کے اور بعض کھاتے پیتے گھروں کے بچے بھی دینی مدارس میں آنے لگے ہیں جو کسی مجبوری سے نہیں بلکہ اپنی خوشی و مرضی سے مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ لہٰذا اس امر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ مدارس میں ’مفت تعلیم‘ کے تصور پر بھی نظرثانی کی جائے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کے لیے باقاعدہ فیس مقرر کی جائے بلکہ درمیان کے راستے بھی سوچے جاسکتے ہیں مثلاً ایسے کھاتے پیتے والدین کو مدرسے کے وقف کی رکنیت دے دی جائے (اور ایسی رکنیت کو عام کر دیا جائے) والدین مدرسے کے آمد و خرچ سے آگاہ ہوں اور ہر ماہ یا ہر سال اپنی مالی حیثیت کے مطابق مدرسہ کے وقف کی مدد کرتے رہیں تاکہ مدرسہ کے اخراجات پورے ہوتے رہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے لہٰذا جب مدارس اپنے منہاج میں تبدیلی کریں گے تو سب متعلقہ لوگ اس پر سوچیں گے اور ذرائع آمدنی کے حصول کے لیے بھی کئی دوسرے راستے ان شاء اللہ سامنے آئیں گے اور خدانخواستہ یہ صورت نہیں بنے گی کہ دینی مدارس مالیات نہ ہونے کی وجہ سے کام بند کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں اس ضمن میں کامیاب تجربے ہوئے ہیں۔
۳۔ تعلیم خواہ دینی ہو یا دنیوی اور خواہ ابتدائی سطح کی ہو یا اعلیٰ سطح کی بلاشبہ حکومت کی، ذمہ داری ہے لیکن ہماری تیرہ سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ علماء نے کبھی بھی اس کے لیے حکومتوں پر انحصار نہیں کیا اور وہ معاشرے کی مدد سے کمیونٹی کو متحرک کر کے ہمیشہ مسلم عوام کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرتے رہے ہیں اور مسلمان علماء و صلحا نے پرائیویٹ سیکٹر میں ہزاروں مدارس اور خانقاہیں قائم کر کے تعلیمی و تربیتی نظام کو قائم و دائم رکھا ہے۔ خود برصغیر کی تعلیمی روایت بھی یہی ہے کہ یہاں حکومتی سرپرستی سے محروم ہونے کے باوجود مسلم ملت نے دیوبند، ندوہ، علی گڑھ، جامعہ ملیہ، انجمن حمایت اسلام، اسلامیہ کالج پشاور غرض ایک پورا تعلیمی نظام اور نیٹ ورک قائم کیا اورچلایا۔ اب بھی اگر حکومت یہ کام نہیں کرتی تو علماء کرام کو حکومت کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہیے اور اس کے لیے حکومت پر انحصار کرنا ہی نہیں چاہیے۔ جس طرح وہ مساجد و مدارس کے لیے حکومتی مدد کے بغیر آج تک افراد کار مہیا کرتے آئے ہیں اگر وہ ہمت کر کے اپنا دائرہ کار امت کے مفاد میں وسیع کر لیں تو وہ ان شاء اللہ اس کو بھی کامیابی سے چلالیں گے جیسے کہ ہمارے اسلاف ماضی میں کرتے آئے ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی نیا کام نہیں بلکہ اسلاف کی پیروی میں سابقہ کامل و شامل تعلیمی منہج کا احیا ہی ہے۔
یہ بھی محض خدشہ ہے کہ منہج کی توسیع سے دینی مدارس کا موجودہ نظام کمزور ہوجائے گا۔ ہم دینی مدارس کے موجودہ نظام میں، جس سے مقصود دین کے متخصص عالم پیدا کرنا ہے، کسی بنیادی تبدیلی کی تجویز نہیں دے رہے بلکہ اس میں ایک خاص نوع کی توسیع کی بات کر رہے ہیں مثلاً یوں سمجھیے کہ اگر اس وقت دینی مدارس مڈل پاس طلبہ کو داخلہ دیتے ہیں جو آٹھ سال میں شہادۃ عالمیہ (علوم اسلامیہ و عربیہ میں ایم اے) کرتے ہیں تو اس سسٹم کو علی حالہ باقی رکھا جائے البتہ طلبہ کا ایک اور گروپ ہو جو ثانویہ خاصہ میں دوسرے طلبہ کے ساتھ سارے اسلامی مضامین پڑھنے کے ساتھ ایک اضافی مضمون مثلاً معاشیات کا پڑھے۔ اسی طرح عالیہ میں دوسرے اسلامی مضامین کے ساتھ وہ اسلامی معاشیات کا مضمون بھی پڑھے۔ پھر عالمیہ میں دو سال لگا کر وہ اسلامی معاشیات پڑھے (مغربی معاشیات کا تقابلی مطالعہ بھی اس کا جزو ہوگا) اور اسلامی معاشیات میں وہ شہادۃ عالمیہ حاصل کرے۔ اسی طرح انگریزی، اردو، قانون، تربیت اساتذہ، ابلاغ عامہ، فلسفہ وغیرہ میں دینی مدارس شہادہ عالمیہ کروا سکتے ہیں اور حکومت سے اپنی سند منظور کروا سکتے ہیں۔ اور حکومت کو یہ سند اصولاً خوشی سے منظور کرنی چاہیے کیونکہ اس کی تو خواہش اور مطالبہ ہی یہ ہے کہ دینی مدارس جدید تعلیم دیں۔
ہم ارباب دینی مدارس کی خدمت میں مزید عرض کرتے ہیں کہ علوم کے تین بڑے شعبے ہیں: ۱۔ دینی علوم ۲۔سماجی یا عمرانی علوم اور ۳۔ سائنسی علوم ۔علماء کرام اس وقت پہلے شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ وہ دوسرے شعبے یعنی سماجی علوم میں سے بھی بعض اہم تخصصات ہاتھ میں لے لیں کیونکہ یہ علوم بھی درحقیقت اسلامی ہی ہیں کیونکہ یہ مسلم شخصیت کی تکوین میں اہم حصہ لیتے ہیں اور مسلم معاشرے کو اسلام کے مطابق چلانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں مثلاً اگر علماء کرام اچھے ذہن کے اساتذہ تیار کر یں تو وہ سارے پاکستان کی کایا پلٹ سکتے ہیں۔ اگر وہ اسلامی ذہن رکھنے والے میڈیا کے افراد تیار کر دیں تو عوام کے ذہنوں کو اسلام پر عمل کے لیے آسانی سے تیار کیا جاسکتا ہے۔ اگر وہ قانون کے شعبے کو ہاتھ میں لیں تو ایسے جج اور وکلاء تیار کر سکتے ہیں جو اسلامی فقہ اور جدید قانون میں بیک وقت ماہر ہوں گے۔ وقس علی ذلک۔ اور یہ کوئی نیا کام نہیں بلکہ یہ کام وہ پہلے ہی جزوًا کر رہے ہیں مثلاً سماجی علوم میں سے لغت، ادب، فلسفہ، منطق، قانون (فقہ) وہ پہلے ہی پڑھا رہے ہیں ہم ان میں چند ایک مضامین کے محض اضافے کی بات کر رہے ہیں اور ان میں تخصص کروانے کی بات کر رہے ہیں۔

صحیح نظام تعلیم کی اہمیت

اس بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم علماء کرام کی خدمت میں عرض کریں گے کہ اگر وہ غور فرمائیں تو وہ بھی ہماری طرح اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ امت زوال کے موجودہ گرداب سے اس وقت تک نہیں کل سکتی جب تک وہ اپنے نظام تعلیم کو صحیح نہیں کر لیتی اور اس کا نظام تعلیم اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے سارے نظام تعلیم کو اسلامی بنیادوں پر استوار نہیں کر لیتی اور مغرب کی ذہنی غلامی سے نجات نہیں حاصل کر لیتی۔ صحیح اسلامی نظام تعلیم سے ہماری مراد دینی مدارس کا نظام نہیں بلکہ ایک موحد نظام تعلیم ہے جس میں دینی علوم (عصری تقاضوں کے مطابق ۔۔۔ جن کا کچھ ذکر پہلے ہوچکا ) کے علاوہ دنیوی علوم کی تعلیم بھی اسلامی تناظر میں اور مغربی فکر کو رد کر تے ہوئے ، شامل ہو۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ:
۱۔ دینی علوم کی موجودہ تعلیم میں عصری ضرورتوں کے مطابق ضروری تبدیلیاں لائی جائیں۔
۲۔ سماجی علوم (معاشیات، سیاسیات، قانون، ابلاغ عامہ، فلسفہ، تاریخ وغیرہ) از سرنو اسلامی بنیادوں پر مرتب کیے جائیں۔
۳۔ سائنسی علوم (کیمیا، طبیعیات، حیاتیات، علم الافلاک وغیرہ) اور ٹیکنالوجی کو اسلامی ذہن کے ساتھ فروغ دیا جائے۔
اس کے ساتھ ہی اسلامی تناظر میں اساتذہ کی تدریب اور طلبہ کی تربیت کا انتظام کیا جائے اور تعلیمی اداروں کے ماحول کو بدلا جائے۔
مندرجہ بالا کام انتہائی مشکل اور وسیع کام ہے اور اس کے لیے وسیع مادی وسائل اور اسلامی ذہن کی بہترین افرادی قوت درکار ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہماری مغرب کی گماشتہ حکومتوں کو یہ کام کرنے کا احساس نہیں تو کیا پرائیویٹ سیکٹر خصوصاً علماء کرام بھی اس کے لیے متحرک نہ ہوں اور وہ ٹھنڈ سے پیٹوں برداشت کرتے رہیں کہ قوم جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتی اور زوال کے گڑھے میں ڈبکیاں کھاتی رہے؟
ہم سمجھتے ہیں کہ بہرحال دینی مدارس کے اہل حل و عقد کو اس کام کے کرنے کا دوسروں سے بڑھ کر احساس ہونا چاہیے اور اگر وہ اس کی اہمیت کا ادراک کر لیں تو یقیناًقوم اس کام کے کرنے میں ان کا ساتھ دے گی۔ ہم کہتے ہیں کہ چلیے وہ اس سارے پراجیکٹ میں ہاتھ نہیں ڈال سکتے تو کم از کم ان چند مضامین کی کتب ہی نئے سرے سے مدون کر لیں جنہیں وہ اپنے طلبہ کو میٹرک، ایف اے اور بی اے میں پڑھانا چاہتے ہیں اور اپنے نظام میں عصری ضرورتوں کے مطابق وہ چند تبدیلیاں ہی کر لیں جن کی طرف سطور بالا میں ان کی توجہ مبذول کروائی گئی ہے۔ ھذا ما عندنا والعلم عند اللہ۔

’تحفظ نسواں ایکٹ‘ کتاب و سنت کے تناظر میں

ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی

حال ہی میں حکومت پاکستان نے حدود آرڈیننس کے دو قوانین، حد زنا اور حد قذف میں ترمیم کرکے ’تحفظ نسواں بل‘ کے عنوان سے ایک نیا قانون متعارف کروایا۔ اس قانون کو کتاب وسنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایک خصوصی علماء کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ بعد میں یہ بل مختلف مراحل طے کرتا ہوا قانون ساز اداروں سے پاس ہوگیا، تاہم اس کے نتیجے میں ملک بھر میں ایک بہت بڑا انزاع پیدا ہوگیا کہ یہ قانون کتاب وسنت سے ہم آہنگ ہے یا نہیں؟ حدود آرڈیننس کی طرح اس قانون کے بارے میں اختلاف نے بھی سیاسی رنگ اختیار کرلیا ہے۔ زیر نظر تحریر میں ہم نے کوشش کی ہے کہ کتاب وسنت کی روشنی میں اس قانون کا جائزہ لیا جائے، تاہم ہمیں یقین ہے جس طرح پاکستان میں حدود آرڈیننس مکمل طور پر ناکام ہوگیا، زیر بحث قانون بھی اس طرح ناکام رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسلامائزیشن آف لا کا بہت چرچا رہا اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے کئی قوانین میں ترامیم کی گئیں اورکئی نئی دفعات متعارف کروائی گئیں، متعدد نئے ادارے وجود میں آئے جس سے یہ سمجھاجانے لگا کہ متعلقہ قوانین کتاب وسنت سے ہم آہنگ ہوگئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اسلامیان پاکستان اس انتظار میں رہے کہ اب معاشرہ اسلامی قوانین کے نفاذ کی برکات سے مستفید ہوگا اور ہر طر ف امن وعافیت، رفاہیت وخوش حالی اور عدل وانصاف کا دور دورہ ہوجائے گا، لیکن جب معاشرتی زوال کی رفتار میں کمی آنے کے بجائے اسلامی اور انسانی اقدار کی پامالی کی سرگرمیاں تیز تر ہوگئیں تو اسلامی قوانین کی اثر آفرینی کے بارے میں شکوک وشبہات پیداہونے شروع ہوئے جو آگے چل کر ایک تحریک کی شکل اختیار کرگئے۔ اس صورت حال کے حقیقی اسباب کا کھوج لگانے کے بجائے اسلام کے نام پر نافذ کیے گئے قوانین، بالخصوص حدود آرڈیننس اور قانون شہادت وغیرہ کے حامیوں اور مخالفوں کے متحارب کیمپ معرض وجو دمیں آگئے اور دو طرفہ زور آز مائی شروع ہوگئی۔
امر واقعہ یہ ہے کہ جس سیاق میں اسلامی قوانین کا نفاذ ہوا تھا، اس سے اسلام کی بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکتا تھا اور آئندہ بھی اس طرح اسلامی قوانین کے نفاذ کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی قوانین پورے اسلامی نظام کے وجود کا ایک حصہ ہیں اور اپنا الگ فلسفہ، اساسیات، اصول اور منہاج رکھتے ہیں۔ ان کی اثر آفرینی کے لیے ضروری ہے کہ انہیں پورے اسلامی نظام کی تمام اساسیات، مناہج اوراصول کے ساتھ نافذکیا جائے۔ دوسری طرف اینگلو سیکسن لا جو پاکستان کو وراثت میں ملا ہے، اپنا الگ فلسفہ، اصو ل اور مبادی رکھتاہے۔چونکہ دونوں قسم کے قوانین کا بلڈ گروپ الگ الگ ہے، اس لیے ان میں باہم پیوندکاری ممکن نہیں اور اگر زبردستی پیوند کاری کی کوشش کی جائے تو اس کا لازمی نتیجہ وہی ہوتاہے جو حدود آرڈیننس وغیرہ کے بارے میں نکلا۔ اسلا می قوانین کا شجرہ طیبہ اینگلو سیکسن لا کی سرزمین پر کبھی بار آور نہیں ہوسکتا۔ مثال کے طور پر اسلامی قوانین کی اساس عدل ہے، جبکہ اینگلو سیکسن لا کی ’’قانون کی بالادستی‘‘ ہے۔ اس کی وضاحت مرحوم جسٹس گل محمد، سابق چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ اس طرح کرتے تھے کہ اگر بالفرض یورپ کے کسی ملک کی پارلیمنٹ یہ قانون بنا دے کہ جس کسی کا قد چھ فٹ سے زائد ہو، اسے سزائے موت دے دی جائے تو اسلام ایسی قانون ساز ی کو تسلیم نہیں کرتا، جبکہ قانون کی بالاتری کا تقاضا یہ ہے کہ اسے بہرطور نافذ کر دیا جائے۔ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بے شمار ایسے قوانین ہیں جو عدل کے سراسر خلاف ہیں، لیکن دنیا بھر کی عدالتیں انہیں کے مطابق فیصلے کرتی ہیں ۔ویٹو کے اختیارات اس کی بدترین مثال ہے۔
پاکستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے یہ فرق بہت نمایاں ہوجاتاہے کہ اسلام مرد کو انتظامی برتری (النساء ۴:۳۴) اور عورت کو احترامی برتری (النور ۲۴:۴) کے اعزاز سے نوازتے ہوئے ہر ایک کو اپنے اپنے دائرہ کار میں دوسرے پر فوقیت دیتاہے، لیکن اینگلو سیکسن لا مرد وزن کی ہمہ وجوہ مساوات کا قائل ہے۔ اس لیے اینگلو سیکسن لا کے حوالے سے عورت کی گواہی اور دوسرے کئی قوانین پر خواتین کا اعتراض بجا ہے۔ اگر یہ قوانین مکمل اسلامی نظام کے تناظر میں نافذ کیے جاتے تو اسلام کا نقطہ نظر یہ سامنے آتا ہے کہ عورت نہ صرف ثقہ، سچی، امانت دار اورقابل اعتماد ہوتی ہے بلکہ اس قدر دانش مند اور سمجھ دار بھی کہ ان میں کسی کم فہم اور دینی اعتبار سے کمزور عورت میں بھی قدرت نے یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ دانش مندسے دانش مند مرد کو بآسانی متاثر کرلیتی ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر ۳۰۴، تشریح از حکیم الاسلام قاری محمد طیب، خطبہ ’’فضیلۃ النساء‘‘) البتہ اس کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ اسے عدالتوں اور کچہریوں میں خجل خوار ہونے سے بچایا جائے۔ (ہدایہ، کتاب الشہادۃ، ۳:۱۱۵) اس پس منظر میں کیا کسی مسلمان خاتون کو اس پر اعتراض ہوگا کہ اسے ناشائستہ مقدمات میں گواہی سے کیوں محروم رکھا جاتاہے؟ بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ہر مسلمان خاتون کا سر فخر سے بلند ہوگا کہ اسلامی معاشرے میں اس کی عزت واحترام مر دسے کہیں بڑھ کر ہے۔ لیکن جب ہم اینگلو سیکسن لا کے جسم میں اسلامی قانون کا کوئی عضو لگانا چاہتے ہیں تو وہ اسے قبول کرنے سے ابا کردیتاہے اوراس کا الزام اسلام کی نتیجہ خیزی پر آتاہے۔ طالبان کے افغانستان اور سعودی عرب میں اسلامی قوانین کی کامیابی اور اثر آفرینی کی وجہ صرف اور صرف یہ رہی کہ ان دونوں ممالک میں اسلامی قوانین کی پیوند کاری نہیں کی گئی بلکہ وہ اسلام جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور قرن بہ قرن اس میں اجتہاد کے ذریعے ارتقا جاری رہا، اسے بتمام وکمال نافذ کرنے کی سعی کی گئی جس کی بنا پر اس کی اثر آفرینی سے دشمن بھی انکار نہیں کرسکتے۔
تحفظ نسواں بل کا جائزہ لینے کے لیے علما کی جوخصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، اس کی رپورٹ کمیٹی کے ایک ممبر مولانا زاہد الراشدی نے ماہنامہ ’الشریعہ‘ اکتوبر ۲۰۰۶ء میں شائع کی جس سے معلوم ہوا کہ علماے کرام نے حد زنا اور حد قذف کی بیالیس دفعات کی مجوزہ چوالیس ترامیم میں سے صرف تین کے بارے اختلاف رائے کا اظہار کیا۔ * بعد کے ایک زیادہ منضبط جائزے میں جو کمیٹی کے ایک دوسرے رکن مولانا محمد تقی عثمانی کے قلم سے روزنامہ جنگ اور نوائے وقت میں قسط وار شائع ہو ا اور جسے بعد میں الشریعہ نے بھی شائع کیا، اس بل پر چھ اہم اعتراضات کیے گئے جن کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ ایک اسلامی ریاست میں قرآن وسنت کی بالادستی قرآن کی قطعی نصوص سے ثابت ہے۔ جب ایک مرتبہ زنا کی حد کا فیصلہ ہوجائے تو حکومت کو اس کی معافی یا تخفیف کا اختیار نہیں ہے۔ زیر نظر بل میں زنا آرڈیننس کی دفعہ ۲۰ شق (۵) کو حذف کرکے حکومت کو سز ا میں تخفیف کا جو اختیار دیاگیاہے، وہ قرآن وسنت کے خلاف ہے ۔
۲۔زنا بالجبر، زنا کی ایک قسم ہے، اسے حدود سے نکال کر تعزیرات میں شامل کرنا کتاب وسنت کے خلاف ہے۔
۳۔ زنا بالرضا موجب حد اور فحاشی کو ناقابل دست اندازی پولیس قرار دے کر ان جرائم کو تحفظ دیاگیاہے۔ اسلامی احکام کے تحت فحاشی کاجرم معاشرے اور ریاست کے خلاف جرم ہے۔ اس کا ثبوت اس قدر دشوار بنا دیاگیاہے کہ اس کے تحت کسی کو سزا نہیں ہو سکتی ۔
۴۔حدود آرڈیننس میں اگر حد زنا کے لیے مطلوبہ ثبوت موجود نہ ہو تا لیکن اغوا یا عصمت دری کا جرم ثابت ہوجاتا تو حد زنا دفعہ ۱۰ کے تحت تعزیری سزا دی جا سکتی تھی،اب کوئی سزا نہیں دی جاسکتی کیونکہ زیر نظر بل نے عدالت سے یہ اختیار واپس لے لیاہے ۔گویا فحاشی کو تحفظ دیاگیا ہے ۔
۵۔ قذ ف میں ترمیم کرکے مرد کو یہ چھوٹ دے دی گئی ہے کہ وہ چاہے تو عورت کے مطالبے کے باوجود لعان کی کارروائی میں شرکت سے انکار کردے۔ یہ ترمیم قرآن حکیم کے منافی ہے۔
۶۔ قذف آرڈیننس میں یہ ترمیم بھی کتاب وسنت کے منافی ہے کہ عورت کے رضا کا رانہ اقرار جرم کے باوجود اسے سزا نہیں دی جائے گی۔
علما کمیٹی کے ان چھ اختلافی نکات کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی پیش کردہ باقی ترامیم سے علماے کرام متفق ہیں جو بجائے خود ایک خوش آئند بات ہے، البتہ پچھلے سالہا سال سے بالعموم اور پچھلے کچھ عرصے سے بالخصوص پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں اور متعدد دینی شخصیات جس تسلسل سے حدود آرڈیننس کو خدائی قانون اور ناقابل ترمیم قرار دیتی رہیں اوراس کے بعد جب مکالمے کا موقع آیا تو اپنے سابقہ موقف سے دست کش ہوکر جس طرح ترامیم کے لیے آمادہ ہوگئیں، اس پر ’بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بو العجبی ست‘۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ علماے کرام کی طرف سے اس نوعیت کی Sweeping statements کی وجہ سے عوام اور دینی جذبات رکھنے والے نیک دل مسلمانوں کے حسن ظن کو، جو روایتی علما پر بے پناہ اعتماد کرتے ہیں، ٹھیس پہنچتی ہے۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور دیگر دینی شخصیات سے ہماری عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ دینی مسائل پر غور وفکر اور تبصرہ کرتے ہوئے آخرت کی جواب دہی کو ملحوظ رکھا کریں اور دینی مسائل پر گروہی، فرقی اورانتخابی سیاست کی آلودگیوں سے اپنا دامن بچا کررکھیں تو اس سے جہاں علما کے وقار پر آنچ نہیں آئے گی، وہاں ان پر اعتبار اور اعتماد کی روایت بھی متاثر نہیں ہوگی۔ ذاتی طورپر ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ علمائے کرام نے حدود آرڈیننس کو اس کے اصل تناظر میں دیکھنا شروع کردیاہے اور اب حدود آرڈیننس نہیں بلکہ حدود اللہ الہامی قوانین قرار پائی ہیں۔
علماے کرام کی خصوصی کمیٹی نے اپنی چھ اضافی سفارشات میں خواتین کو وراثت سے عملاً محروم رکھنے،زبردستی نکاح کر دینے، بیک وقت تین طلاقیں دینے، قرآن سے نکاح، وٹہ سٹہ اور عورتوں کی خریدوفروخت کے مذموم رسوم ورواج کے سدِباب کے لیے قانون سازی کی سفارش کی۔ اگر زیر نظر بل واقعتا ’’تحفظ نسواں بل‘‘ ہوتا ،حکومت اور ملک بھر میں پھیلی ہوئی این جی اوز واقعتا خواتین کے حقوق کے تحفظ میں مخلص ہوتیں تو ہمارے خیال میں ان تمام سفارشات کو بل کا حصہ بنا کر فوراً نافذ کردیاجاتا کیونکہ ان میں سے کوئی بھی سفارش ایسی نہیں جن کے بارے میں کسی اختلاف کی گنجائش ہو، لیکن اس سلسلے میں حکومتی حلقوں اور این جی اوز کی طر ف سے کسی سرگرمی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ NGOs کا معاملہ تو قابل فہم ہے کہ اگر خواتین کے نوے فیصد مسائل حل ہوجاتے ہیں تو این جی اوز چلانے کے لیے مسائل کہاں سے آئیں گے اورکس بناپر بیرونی فنڈز حاصل کرنے کی راہیں وا رکھی جائیں گی، لیکن اس سلسلے میں حکومت کی سردمہری ناقابل فہم ہے۔ اگر حکومت واقعتا بے حیائی اور فحاشی کو تحفظ دینے کے بجائے خواتین کے حقیقی مسائل حل کرنے میں مخلص ہوتی تو اسے اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے تھا ۔
علما کمیٹی نے اگر چہ دیدہ ریزی سے زیر نظر بل کا جائزہ لے کر ان دفعات کی نشاندہی کی ہے جو ان کے خیال میں کتاب وسنت کے متصادم ہیں، لیکن ہمارے خیال میں زیر بحث بل میں مزید کئی ایسی دفعات ہیں جو صراحتاً قرآن وسنت کے خلاف ہیں۔ ذیل میں ان کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔
۱۔حدود آرڈیننس میں حد زنا، دفعہ ۴ میں زنا کی تعریف یوں کی گئی تھی :
A man and a woman are said to commit Zina if they willfully have sexual intercourse without being validly married to each other.
’’کسی مرد اورعورت کو زنا کا مرتکب کہا جائے گا، اگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ نکاح صحیح میں ہوئے بغیر جماع کریں۔‘‘
اس تعریف کی وجہ سے خواتین کے لیے یہ دقت پید اہوگئی تھی کہ دیہی علاقوں میں نکاح اور طلاق کو رجسٹرڈ نہیں کروایا جاتا اور زبانی طلاق کے بعد نکاح کرنے والی خاتون کو اس کا سابقہ شوہر حدود آرڈیننس کی مذکورہ بالا دفعہ کی آڑ میں ظلم وستم کا نشانہ بناتا تھا۔ اس لیے مذکورہ بالا دفعہ سے validly (صحیح) کے الفاظ خارج کردیے گئے جس کا مطلب یہ ہے کہ مرد اور عورت کا نکاح صحیح ہو یا فاسد یا باطل، بہر طور ان کا جنسی تعلق زنا قرار نہیں پائے گا اور مذکورہ بالا قسم کی خاتون کو ظلم سے بچا یاجاسکے گا۔
یہ وجہ اگر چہ درست ہے، لیکن اس کے لیے تبدیلی مسلم فیملی لاز میں کرنے کی ضرورت تھی تاکہ زبانی طلاق کو بھی طلاق سمجھا جائے۔ حد زنا آرڈیننس میں مذکورہ تبدیلی کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ زنا کے الزام میں ماخوذ جوڑے کے مقدمے کی باگ ڈور اس عورت کے ہاتھ میں آجاتی ہے جو شریک جرم ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر چار چشم دید گواہوں کے باوجود عورت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ شریک مرد کے ساتھ اس نے نکاح کیا ہے تو خواہ وہ کسی دوسرے کی منکوحہ ہو، نئے نکاح کا کوئی گواہ ہو نہ کوئی ثبوت، محض نکاح کا دعویٰ ہی اسے سزا سے بچانے کے لیے کافی ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ یہ نکاح باطل قرارپائے گا جس کی بنا پر دونوں شریک مجرموں کو شک کا فائدہ ملے گا اور زیرنظر بل کی دفعہ ۵ (اے) کے تحت عدالت اس جوڑے کو فحاشی وغیرہ پر تعزیری سزا بھی نہیں دے سکے گی۔ اور اگر خاتون شریک جرم مرد کو سزا دلوانا چاہتی ہو تو وہ عصمت دری کا الزام عائد کرکے خود بچ سکتی ہے او ر مرد کو سزا دلوا سکتی ہے۔ خاتون کو صرف اس صورت میں سزا ملنے کا امکان ہے جب وہ اپنے دفاع میں کچھ نہ کہے اور گواہوں کی گواہی کو بے چون وچرا تسلیم کر لے جس کاامکان نہ ہونے کے برابر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ فقہاے اسلام میں سے کسی نے بھی زنا موجب حد کی وہ تعریف نہیں کی جو حدود آرڈیننس میں تھی یا جو زیر بحث بل میں ہے، بلکہ علامہ کاسانی نے تمام امکانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے زنا موجب حد کی ایک جامع ومانع تعریف کی ہے جویہ ہے:
’’زنا اس حرام جماع کو کہتے ہیں جو کسی زندہ، قابل شہوت عورت کی اگلی شرم گاہ میں اسلامی ریاست میں ایسے شخص سے اپنے قصد اور اختیار سے واقع ہوا ہو جس نے اسلام کے احکام اپنے ذمے لازم کر لیے ہوں۔ یہ جماع حقیقت ملک، حقیقت نکاح، شبہ ملک اور شبہ نکاح سے خالی ہواور جس موقع پر ملک یا نکاح کا شبہ ہوسکتاہو، وہ شبہ اشتباہ سے بھی خالی ہو۔‘‘ (بدائع الصنائع، ۷/۳۳)
۲۔عصمت دری سے متعلق دفعات کو حدود آرڈیننس سے نکال کر مجموعہ تعزیرات پاکستان میں دفعہ ۳۷۵، ۳۷۶ کے طورپر شامل کیا گیاہے ۔دفعہ ۳۷۵میں عصمت دری کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
’’کسی مرد کو عصمت دری کا مرتکب کہاجائے گا جب وہ کسی عورت کے ساتھ مندرجہ ذیل پانچ حالات میں سے کسی حالت میں جماع کرے:
۱۔ اس کی مرضی کے خلاف۔
۲۔ اس کی رضامندی کے بغیر۔
۳۔ اس کی رضامندی سے جب کہ رضامندی اس کو ہلاک یا ضرر کاخوف دلاکر حاصل کی گئی ہو۔
۴۔ اس کی مرضی سے جب کہ مرد جانتاہو کہ وہ اس کے نکاح میں نہیں ہے او ر عورت نے رضامندی کا ا ظہار اس وجہ سے کیا ہو کہ عورت یہ باورکرتی ہے کہ اس مرد کے ساتھ اس کا نکاح ہواہے۔
۵۔عورت کی رضامندی سے یا اس کی رضامندی کے بغیر جب کہ وہ سولہ سال سے کم عمر کی ہو۔‘‘
اس دفعہ کے بارے میں علما کمیٹی کا اعتراض یہ ہے کہ اسے حدود میں شامل کیاجانا چاہیے تاکہ اس میں حکومت کو سزا کا اختیار نہ رہے۔ گویا علما کمیٹی کے نزدیک یہ دفعہ درست ہے، البتہ اس کا مقام تبدیل کرکے اسے مجموعہ تعزیرات پاکستان کے بجائے حدود آرڈیننس میں رکھاجائے، جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ دفعہ اپنے متن اور نتائج کے اعتبار سے قرآن وسنت کے اساسی عائلی نظام سے متصادم ہے، مگر اس کا تذکرہ کہیں سننے میں نہیں آیا۔
یورپ اور امریکہ کے قوانین کی رو سے کوئی شوہر اپنی بیوی کی مرضی کے خلاف یا اس کی رضامندی کے بغیر اس سے اپنی جنسی خواہش پوری کرتاہے تو بیوی، شوہر کے خلاف عصمت دری کا مقدمہ کرکے اسے سزا دلوا سکتی ہے۔ اسلام میں میاں بیوی کے تعلقات میں عصمت دری کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اگر چہ قرآن کی رو سے میاں بیوی میں مودت ومحبت کا رشتہ ہوتاہے (الروم ۳۰:۲۱)، انہیں ایک دوسرے کے جذبات واحساسات کاخیال رکھنا چاہیے (النساء ۴:۴۹) لیکن قرآن کے حوالے سے میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ (البقرہ ۲:۱۸۷) مخصوص ایام کے علاوہ شوہر پر اپنی بیوی سے مقاربت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ (البقرہ ۲:۲۲۲) جن ایام میں پابندی ہے، اس کا تعلق بھی فوجداری قوانین سے نہیں ہے۔ جب کہ زیر بحث دفعہ میں مرد اور عورت کا اطلاق میاں بیوی پر بھی ہوتاہے اور اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کوئی شوہر اپنی بیوی کی رضامندی کے بغیر اپنی خواہش کی تکمیل نہیں کرسکے گا۔ اگر وہ ایسا کرتاہے یا بیوی کسی وجہ سے شوہر کو سزا دلوانا چاہتی ہے تو بہت آسانی سے شوہر کی خواہش کی تکمیل کے بعد اس کے خلاف عصمت دری کے ثبوت عدالت میں پیش کرکے اسے سزائے موت یا دس سے پچیس سال کی سزائے قید دلا سکتی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ مرد کے لیے فطری خواہش کی تکمیل کے جائز ذرائع پر پابندی عائد کردی گئی ہے، البتہ ناجائز ذرائع سے خواہش کی تکمیل کا کوئی گواہ نہ ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔اگر شوہرپر مقدمہ کرنے کے بعد بیوی اپنے کیے پر پشیمان ہوکر یہ اعتراف کرتی ہے کہ اس نے غلط مقدمہ قائم کیاتھا تو ا س کا کوئی مداوا زیر نظر بل میں دریافت نہیں ہوسکا، کیوں کہ عصمت دری کا مقدمہ ناقابل ضمانت اور ناقابل مصالحت ہے۔ نیز اس دفعہ کے مطابق سولہ سال سے کم عمر لڑکی کے ساتھ جنسی عمل بہر طور عصمت دری ہے، خواہ اس کی رضامندی سے ہو ،جس کامطلب یہ ہے کہ اگر کسی کی بیوی سولہ سال سے کم عمر کی ہے تو وہ جوڑا اپنی جائز خواہشات کی تکمیل بھی نہیں کرسکتا۔ اگر چہ نکاح کے مقاصد کے حوالے سے یہ ضروری ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد ان کا نکاح کیا جائے لیکن ایک تو یہ کہ بلوغ کا تعلق جسمانی تبدیلیوں اور تخلیقی صلاحیت کے آغاز سے ہے نہ کہ سولہ سال کی عمر سے۔ دوسرے یہ کہ بعض حالات میں والدین کی مجبوری بھی ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو سولہ سال پورے ہونے سے پہلے کسی کی حفاظت میں دے دیں۔ مثلاً ایک شخص کینسر کا مریض ہے اور اسے معلوم ہے کہ وہ سال بھر زندہ نہیں رہے گا، وہ اپنی پندرہ سالہ لڑکی کا واحد نگران ہے ،کیا یہ مناسب نہیں کہ وہ اپنی بچی کو معاشرے کے درندوں کے رحم وکرم پر چھوڑنے کے بجائے مرنے سے پہلے کسی مناسب مرد سے اس کا نکاح کردے؟ لیکن موجودہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔
اس دفعہ میں ایک پہلو ایسا ہے جس کے تذکرے بلکہ تصور سے ہی ایک مسلمان کے دل ودماغ کرچی کرچی ہوکربکھر جاتے ہیں۔ اکثر مولفین حدیث اور سیرت نگاروں کے مطابق سیدہ عائشہؓ کی رخصتی کے وقت ان کی عمر نوسال تھی۔کیا یہ قانون بنانے والوں نے غور نہیں کیا کہ اس دفعہ کی روسے انہو ں نے اپنے مرکز ایمانی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہاں لاکھڑا کیا ہے؟ کیا اس کے بعد میدان حشر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ خشمگین کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں یا آپؑ کی شفاعت کی امید کی جاسکتی ہے؟ کیا عرصہ محشر میں سیدہ عائشہؓ گریباں گیر نہیں ہوں گی؟ اتنی بڑی جسارت کے بعد اگر آسمان گر پڑے، زمین کا جگر شق ہوجائے اور فضا سے وہ آگ برسنا شروع ہو جائے جو پوری انسانی تاریخ میں انبیاے کرام کی توہین پر برسی ہے توکسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
حدود آرڈیننس، حد زنا کی دفعہ ۶ (۱) کا آغاز ان الفاظ سے ہوتاہے :
’’کسی شخص کو عصمت دری کا مرتکب کہا جائے گا اگر وہ مرد یا وہ عورت کسی ایسی عورت یا مرد سے، جیسی بھی صورت ہو، جس کے ساتھ وہ مرد یا وہ عورت نکاح صحیح میں نہ ہو، مندرجہ ذیل حالات میں سے کسی میں جماع کرے.....‘‘
اس دفعہ کی رو سے نکاح کی صورت میں عصمت دری کا مقدمہ قائم نہیں ہوسکتاتھا۔ اب اس میں سے نکاح کی قید یا شرط نکال دی گئی ہے جس کی وجہ سے یہ قرآن وسنت کی قطعی نصوص سے متصادم ہوگئی ہے۔
علما کمیٹی نے ا س دفعہ پر صرف یہ اعتراض کیاہے کہ عصمت دری زنا کی قسم ہے، اس لیے موجب حد جرم ہے،اسے تعزیر میں رکھنا درست نہیں، البتہ اس میں یہ دقت پیش آتی ہے کہ زنا کے ثبوت کے لیے کتاب وسنت کی رو سے چار مسلمان عادل چشم دید گواہ ہونے ضروری ہیں جن کی عدم موجودگی مظلوم خواتین کے لیے گوناگوں مشکلات کا باعث بنتی رہی ہے۔ اس کا جواب یہ دیاگیا کہ ’’کوئی ایک مقدمہ بھی ایسا نہیں جس میں زنا بالجبر کی کسی مظلومہ کو اس بنا پر سزا دی گئی ہو کہ وہ چار گواہ نہیں پیش کرسکی بلکہ اگر عورت کا کردار مشکوک ہو، تب بھی عورتوں کو سز ا نہیں ہوتی ۔عورت کو شک کا فائدہ دے کر چھوڑ دیاجاتاہے‘‘ لیکن کیا مظلومہ کو انصاف ملتاہے اور اس کی داد رسی ہوتی ہے ؟درحقیقت ججوں کے او رسول سوسائٹی کے معیار انصاف میں زمین وآسمان کافرق ہے۔ جب کوئی جج کسی ایسے ملزم کو جو آٹھ دس سال جیل میں گزار چکا ہو،باعزت بری کرتاہے تو وہ یہ سمجھتاہے کہ اس نے مظلوم کی داد رسی کردی اور حق وانصاف کا بول بالا ہوگیا، لیکن باعزت بری ہونے والے شخص اور سول سوسائٹی کانقطہ نظر بالکل مختلف ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ اس شخص کے زندگی کے آٹھ دس سال چھین لینے کا کون ذمہ دارہے؟ اس کی عزت اور نیک نامی کو جو دھبہ لگ گیاہے، وہ کیسے دھل سکتاہے ؟اس کی زندگی بھر کا اثاثہ مقدمات کی نذر ہوگیا، وہ اسے کیسے واپس مل سکتاہے؟ اس کا گھر، خاندان تباہ ہو گیا، بچے دربدرہوگئے اور وہ باعزت ہونے کے باوجود اپنے گھر، خاندان او رسماج میں ذلیل ہوگیا۔ اس انصاف کے بجائے اگر اسے بے گناہ ہونے کے باوجود سنگ سار کردیاجاتا تو وہ اس ذلت کی زندگی سے تو نجات پاسکتاتھا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیامیں جتنے ظلم عدالتوں کے کٹہروں میں انصاف کے نام پر ہوتے ہیں، اتنے عالمی جنگوں میں بھی نہیں ہوئے۔ انصاف فراہم کرنے والوں کو اگر کبھی خود حصول انصاف کے مراحل سے سابقہ پڑے توشاید انہیں محسوس ہوکہ بڑے بڑے ائمہ، قاضی بننے کے بجائے جیلوں میں مرنے کو کیوں ترجیح دیتے تھے۔
الغرض عصمت دری کو زنا کی قسم قراردینے کے لیے جو دلائل دیے گئے ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ :
۱۔ قرآن حکیم کی سورۂ نور کی آیت نمبر ۲ میں زنا کی حد بیان کی گئی۔ اس آیت میں زنا کا لفظ مطلق ہے جو ہر قسم کے زنا کو شامل ہے۔ اس میں زنا مندی سے کیا ہوازنا بھی داخل ہے اور زبردستی کیا ہوا زنا بھی۔
۲۔ ترمذی کی حدیث نمبر ۱۴۵۴ کے مطابق مدینہ منورہ میں نماز کو جانے والی ایک عورت کی عصمت دری کی گئی۔ عورت نے شور مچایا تو وہ شخص بھاگ گیا۔ بعد میں اس نے اعتراف کرلیا اور رسول اللہ ﷺ نے اسے رجم کروادیا۔
آئیے، اب ان دلائل کا جائزہ لیتے ہیں:
۱۔پہلی دلیل کا تعلق اصول فقہ سے ہے کہ زنا کا لفظ مطلق ہے اور اس میں رضامندی اورجبر دونوں قسم کے زنا شامل ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ زنا کا لفظ مطلق نہیں، بلکہ یہ ایک اصطلاح ہے اور اصطلاحات کبھی مطلق نہیں ہوتیں۔ یہ لفظ خاص ہے اور اس کا مفہوم متعین ہے جس میں دوطرفہ آزادانہ رضامندی کا عنصر ضروری ہے، جیساکہ الکاسانی نے البدائع ۷:۳۳ میں اور ابو عبداللہ قرطبی نے الجامع لاحکام القرآن ۱۲:۱۵۹ میں اس کی تصریح کی ہے۔ اس سے عصمت دری مراد لینا اس لیے بھی غلط ہے کہ بالعمو م مفسرین نے سورہ نور کی مذکورہ بالا آیت کے بارے میں کہاہے کہ اس میں سورۃ النساء کی آیت ۱۵ میں کیے گئے وعدے کی تکمیل ہے۔ گویا قانونی الفاظ میں سورۃ النور کی آیت ۲ کو سورہ النساء کی آیت ۱۵ کے ساتھ ملاکر پڑھیں گے جو یہ ہے:
وَاللاَّتِیْ یَأْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِن نِّسَآءِکُمْ فَاسْتَشْہِدُواْ عَلَیْْہِنَّ أَرْبَعۃً مِّنکُمْ فَإِن شَہِدُواْ فَأَمْسِکُوہُنَّ فِیْ الْبُیُوتِ حَتَّیَ یَتَوَفَّاہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللّہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً
’’تمہاری عورتو ں میں سے جو بے حیائی کا ارتکاب کرے تو اس پر اپنے میں سے چارگواہ لاؤ۔ اگر وہ گواہی دے دیں تو انہیں گھروں میں بند کردو تاآنکہ وہ فوت ہوجائیں یا اللہ ان کے لیے کوئی راہ نکالے۔‘‘ 
اس آیت میں ان عورتوں کا ذکر ہے جو بدکاری کا ارتکاب کرتی ہیں، نہ کہ ان خواتین کا جو بدکاری کا شکار ہوتی ہیں، لہٰذا سورہ نور میں وہی خواتین مراد ہوں گی جو اپنی رضامندی سے جرم زنا کا ارتکا ب کرتی ہیں۔
قرآن حکیم نے جہاں خواتین کے ساتھ جبر اور زبردستی کا ذکر کیاہے وہاں’’زنا‘‘ کالفظ استعمال نہیں کیا بلکہ وہاں ’بغاء‘ (بغی) پر ’اکراہ‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ سورہ النور میں ہے: وَلَا تُکْرِہُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَاء (۲۴:۳۳) (اپنی باندیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو) اگر مجبوری کی حالت میں کسی مرد کے سامنے بے بس ہوجانا اور اسے اپنے اوپر اختیار دے دینا ’’زنا‘‘ ہوتا تو آیت کے الفاظ یوں ہوتے: ’ولا تکرھوا فتیاتکم علی الزنا‘۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ عصمت دری قرآن کی اصطلاح میں زنا نہیں، بلکہ بغی ہے جس کی سزا سورہ المائدہ کی آیت ۳۳ میں مذکور ہے۔
۲۔ جس حدیث سے یہ استدلال کیاگیاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصمت دری کے مرتکب شخص کو بھی سنگساری کی سزا دی، اس لیے عصمت دری بھی زنا کی قسم ہے ،یہ استدلال بھی درست نہیں ہے۔ اب تک کی جستجو کے مطابق یہ حدیث، چار مستند کتابوں میں آئی ہے: مسند احمد بن حنبل (۶:۳۹۹)، نسائی، سنن کبریٰ (۴:۳۱۴)،ابو داؤد، حدیث نمبر ۴۳۷۹ اور ترمذی، حدیث نمبر ۱۴۵۴ ۔
اس حدیث کا سلسلہ سند یوں ہے: 
وائل بن حجر > علقمہ > سماک > اسرائیل > محمد بن عبداللہ بن الزبیر (امام احمد بن حنبل) 
وائل بن حجر > علقمہ > سماک > اسرائیل >  محمد بن یوسف الفریابی > محمد بن یحییٰ بن فارس نیشاپوری (ابو داؤد ۔ ترمذی)
وائل بن حجر > علقمہ > سماک > اسباط بن نصر >  عمر و بن حماد بن طلحہ > محمد بن یحییٰ الحرانی (نسائی)

پوری حدیث یوں ہے:
’’عہد نبوی میں ایک عورت نماز پڑھنے گھر سے نکلی، راستے میں ایک شخص نے زبردستی اس سے اپنی خواہش پوری کی۔ عورت چیخی چلائی، اتنے میں ایک شخص وہاں سے گزرا، اس نے عورت کا ماجرا سن کر مجرم کا تعاقب کیا۔ پھر مہاجرین کی ایک جماعت وہاں سے گزری تو وہ بھی واقعہ سن کر مجرم کے پیچھے بھاگے اور انہوں نے پہلے تعاقب کرنے والے شخص کو پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کردیا۔ عور ت نے بھی تصدیق کی کہ یہی مجرم ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ اتنے میں ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا، یہ نہیں بلکہ اصل مجرم میں ہوں۔ آپ نے عورت کو گھر بھیج دیا۔ پہلے پکڑے جانے والے شخص کی دل جوئی کی۔‘‘
اصل مجرم کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ؟ اس کے بارے میں ترمذی اور ابوداؤد میں ہے کہ اسے رجم کردیاگیا اور مسند احمد بن حنبل اور سنن کبریٰ میں ہے کہ آپ نے اسے چھوڑ دیا اور فرمایا کہ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر تمام اہل مدینہ ایسی توبہ کریں تو سب کے لیے کافی ہوجائے۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل فیصلہ کیا تھا؟ یہ جاننے کے لیے اس حدیث کی سند پر غور کیاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ ابتدائی تین درجوں میں اس حدیث کا ایک ایک راوی ہے اور وہ ہیں وائل بن حجر، علقمہ اور سماک۔ چوتھے درجے میں اس کے دو راوی ہیں، ایک اسرائیل اور دوسرے اسباط بن نصر۔ اسباط بن نصر کی روایت نسائی کی سنن کبریٰ میں ہے جس کے متن میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصمت دری کا اعتراف کرنے والے کو سزا نہیں دی، بلکہ اس کی توبہ قبول کرلی گئی۔ اسرائیل کی جو روایت مسند احمد بن حنبل میں ہے، وہ نسائی کے مطابق ہے اور جو ترمذی میں ہے، وہ یہ ہے کہ اعتراف جرم کرنے والے کو رجم کی سزا دی گئی۔ ابو داؤ دکا جو نسخہ ہمارے ہاں متداول ہے، اس کی روایت ترمذی سے ہم آہنگ ہے، لیکن اس کا جو نسخہ حافظ ابن القیم کے زیر استعمال تھا (دیکھئے الطرق الحکمیہ:۵۸)اس کی روایت مسند احمد اور سنن نسائی کے مطابق ہے ۔ اس لیے روایت کے داخلی مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ عصمت دری کے جرم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرابہ قرار دیتے ہوئے گرفتاری سے قبل توبہ کرنے والے کو سورہ المائدہ کی آیت ۳۴ کے تحت معافی دے دی تھی۔ درایت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس حدیث کے اس متن کو د رست تسلیم کیاجائے جس میں توبہ اور معافی کا ذکر ہے کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے جن افراد کو رجم کروایا، ان کے نام یاآثار واحوال بکثرت روایات میں موجود ہیں جب کہ مذکورہ بالا شخص اس فہرست میں شامل نہیں ہے۔ اگر اسے رجم کروایا گیاہوتا تو مسلمانوں کا ایک جم غفیر اس کارروائی میں شریک ہوا ہوتا اور دوسرے واقعات کی طرح اسے بھی روایت کرتا اوریہ حدیث اپنی سند اور متن دونوں حوالوں سے تواتر یا کم ازکم شہرت کے درجے کو پہنچ گئی ہوتی۔ 
مزید برآں عصمت دری پر رجم کی سز ا کو اس حدیث سے ثابت کرنا ممکن نہیں، کیونکہ یہ خبرواحد ہے اور عصمت دری کی حد کسی قطعی الثبوت وقطعی الدلالت نص سے ہی ثابت ہوسکتی ہے۔
روایات کے تعارض کے باوجود ان تمام روایات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نتائج اخذ ہوتے ہیں کہ:
۱۔جس شخص کو مظلوم خاتون نے بطور مجرم شناخت کیاتھا، وہ اگر چہ بے گناہ تھا لیکن اتفاقی شواہد کی بناپر اسے سزائے رجم کا حکم سنایاگیا اور یہ تحقیق نہیں کی گئی کہ وہ محصن ہے یا غیر محصن۔
۲۔جب اس مجلس میں اصل مجرم نے اعتراف جرم کیا تو اس کے بارے میں بھی تحقیق نہیں کی گئی کہ وہ محصن ہے یا غیر محصن۔ اگر یہ روایت درست ہے کہ اس کے بارے میں رجم کا فیصلہ کیاگیا تو اس کے محصن ہونے کی تحقیق کے بغیر کیاگیا اور اگر مسند احمد اور نسائی کی روایت، جسے حافظ ابن القیم نے ترجیح دی ہے، درست ہے تو اس سے واضح ہوتاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصمت دری کو حرابہ قرار دیا اور جب ایک شخص نے خود اعتراف کرکے اپنے آپ کو عدالت کے روبرو پیش کردیا تو آپ نے آیت حرابہ (المائدہ ۵:۳۴) کے تحت اس کی سزا معاف کردی۔
نیزعقل عام کا تقاضا یہ ہے کہ عصمت دری، زنا بالرضا سے زیادہ سنگین جرم ہے، اس لیے اس پر وہی سزا دینا جو زنا بالرضا پر ہے، قرین انصاف نہیں بلکہ جس طرح ڈاکے کی سزا چوری سے زیادہ سنگین ہے، عصمت دری کی سزا زنا بالرضا سے زیادہ سنگین ہونی چاہیے۔ قاضی ابوبکر ابن العربی (احکام القرآن ۲:۹۵) نے ان فقہا اور قاضیوں کی عقل کا ماتم کیاہے جو ڈاکے کو توحرابہ قراردیتے ہیں، لیکن عصمت دری کو حرابہ قرارنہیں دیتے ۔وہ لکھتے ہیں:
’’میرے ایام قضا میں ایک قافلے پر کچھ لوگوں نے حملہ کیا اور ایک عورت کو زبردستی اٹھا کرلے گئے۔جب وہ پکڑے گئے اور مقدمہ میری عدالت میں پیش ہوا تو اللہ تعالیٰ نے جن مفتیوں کی آزمائش میں مجھے مبتلا کردیاتھا، میں نے ان سے رائے لی تو وہ کہنے لگے، چو ں کہ مال نہیں لوٹاگیا، اس لیے یہ حرابہ نہیں ہے، عصمت دری میں حرابہ نہیں ہوتا۔ میں نے کہا، انا للہ وانا الیہ راجعون، کیا تمہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ عصمت دری کا حرابہ ڈاکے سے زیادہ سنگین ہے۔ لوگ اپنے سامنے اپنا مال تو لٹتا دیکھ سکتے ہیں، لیکن اپنی بیوی یا بیٹی کی عزت پامال ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔ اگر اللہ کی مقررکردہ سزا سے زیادہ سزا دی جاسکتی تو عصمت کے ان لٹیروں کو دی جاتی۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو جاہل مفتیوں اور قاضیوں سے بچا کر رکھے۔‘‘
حدود آرڈیننس کے مولفین نے عصمت دری کو اگر چہ زنا کی قسم قرار دیتے ہوئے اس کے لیے معیار ثبوت وہی مقرر کیاتھا جو زنا کا ہے، لیکن انہیں اس جرم کی سنگینی کا بھی احساس تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کنوارے مجرم کے لیے بھی سو کوڑوں سے زائد سزا، جو سزائے موت بھی ہوسکتی ہے، تجویز کرتے ہیں، البتہ عصمت دری کو زنا قرار دینے کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ تنہا عورت کو بے آبرو کرنے والے غنڈے بدمعاشوں کو قانونی تحفظ فراہم ہو جاتاہے کیوں کہ زنا کا معیار ثبوت ایساہے جو شاید دست یاب نہ ہوسکے اور اگر گواہ میسر آبھی جائیں تو تزکیۃ الشہود کی بھٹی میں ہی بھسم ہوجائیں گے اور عصمتوں کے لٹیرے معاشرے میں دندناتے پھریں گے۔ عصمت دری کو زنا قرار دینے سے کئی اور قانونی پیچیدگیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ مثلاً کیا جو عورت عصمت دری کا شکار ہوئی ہے، اسے زانیہ کہنا درست ہے ؟کیا کسی مرد ہ عورت یا کسی جانورسے بدفعلی کرنا بھی موجب حدہے؟ اس لیے کتاب وسنت کی تصریحات کی ر وشنی میں ہماری رائے یہ ہے کہ عصمت دری، زنا کی قسم نہیں بلکہ اس سے زیادہ گھناؤنا اور سنگین فعل ہے، یعنی حرابہ ۔عصمت دری کے زنانہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ جرم موحب حد نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا معیار ثبوت اور اس کی سزا وہ نہیں جو زنا کی ہے جس میں ثبوت کے لیے چار چشم دید مسلمان مرد گواہوں کی شرط ہے جو تزکیۃ الشہود کے معیار پر پورے اتریں اور سزا میں کنوارے اور شادی شدہ میں امتیاز ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جرم ان تمام ذرائع سے ثابت ہوجائے گا جن سے جرائم ثابت ہوتے ہیں۔
حرابہ کی سزا قرآن حکیم نے مقرر کر دی ہے اور وہ چار سزائیں ہیں جو سورہ المائدہ آیت ۳۳ میں مذکورہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ قاضی جرم کی نوعیت، شدت اور حالات کو جانچتے ہوئے ان میں سے کوئی ایک سزا دے دے اور ان میں سزائے موت بھی شامل ہے۔ اس لیے تحفظ نسواں بل میں عصمت دری کو تعزیر ی جرم قراردینا قرآن حکیم کی روسے غلط ہے۔ اسے جرائم حدود میں رکھاجائے اور حدود آرڈیننس میں اس کے ثبوت اور سزا کے حوالے سے تبدیلی کردی جائے۔
تحفظ نسواں بل میں عصمت دری کو تعزیری جرائم میں شامل کیاگیاہے۔ یہ جرم ناقابل ضمانت اور ناقابل مصالحت ہے۔ اس قانون کی تدوین کے دوران اس امر پر بھی غور نہیں کیا گیا کہ اگر کسی شخص پر عصمت دری کا جھوٹا الزام عائد کیا گیا ہو اور عدالت میں مدعیہ کا جھوٹ ثابت ہوجائے یا عصمت دری ثابت نہ ہو سکے تو جھوٹا الزام عائد کرنے پر کیا سزا دی جائے گی؟ جہاں تک قذف کی خود کار سزا کا تعلق ہے، وہ جرم زنا کے عدم ثبوت سے وابستہ ہے نہ کہ عصمت دری کے عدم ثبوت سے۔ موجودہ دفعہ سے اس امر کا اندیشہ بڑھ گیاہے کہ سیاسی اور دیگر نوعیت کے مخالفین کے خلاف بے بنیاد جنسی الزامات عائد کرکے ان کو سزائیں دلوانے یا ان کا مستقبل تاریک کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوجائے گا ۔اب صحت مند انتخابی مہم چلانے کے بجائے مخالف امیدوار کو عصمت دری کے مقدمے میں ملوث کرکے اس سے بآسانی اس طرح نجات حاصل کی جاسکے گی جس طرح ملائشیا کے ڈپٹی پرائم منسٹر انور ابراہیم کو ان کی اسلامی خدمات کا صلہ دیتے ہوئے نہ صرف منظر سے ہٹا دیاگیا بلکہ ہمیشہ کے لیے بے آبرو کر دیا گیا۔ کرایہ داروں سے مکان خالی کرانے اور سینئر افسران سے ان کی سیٹ خالی کرانے کے لیے مذکورہ دفعہ اکسیر کا حکم رکھتی ہے۔ اس امر کا بھی اندیشہ ہے کہ گھریلو خادمائیں اس دفعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر گھر کو یرغمال بنا لیں اور اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں گھر کے کسی مرد پر عصمت دری کا الزام عائد کرکے ہر گھر کاسکون غارت کر دیں۔ اسلام نے اس کا علاج بھی ساتھ ساتھ دیاہے اور وہ یہ ہے کہ ایسی صورت میں ثبوت جرم کے لیے قابل اعتماد ثبوت ہونا ضروری ہے، اور الزام غلط ثابت ہونے پر حد قذف کی خود کار سز ا موجود ہے۔
علما کمیٹی نے فحاشی کی روک تھام کے لیے یا دوسرے لفظوں میں حدود آرڈیننس میں زنا موجب تعزیر کی دفعہ کے متبادل کے طور پر مندرجہ ذیل دفعہ تجویز کی تھی:
A man and woman are said to commit lewdness if they willfully have sexual intercourse with one another and shall be punished with imprisonment which may extend to five years and shall also be liable to fine.
’’ایک مرد اور عورت اگر اپنی آزادانہ رضامندی سے باہمی جماع کرتے ہیں تو انہیں فحاشی کا مرتکب قرار دیا جائے گا اور انہیں پانچ سال تک سزائے قید دی جائے گی اور جرمانہ بھی کیا جاسکے گا۔‘‘
تحفظ نسواں بل میں اس تجویز کی زبان بہتر کرکے میاں بیوی کو اس جرم سے خارج کردیاگیاہے تاہم قانون سازی کی اس ساری سرگرمی میں اس اصل جرم کا کہیں ذکر نہیں ہے جس کے بارے میں موثر قانون سازی کی ضرورت تھی اور جو بنیادی خرابی ہے جسے اسلام بیخ وبن سے اکھاڑ دینا چاہتاہے، اور وہ ہے ’’فحاشی اور بے حیائی کی اشاعت ‘‘۔
اسلامی احکام کی رو سے معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی کی اشاعت ایک سنگین جرم ہے جس کے بارے میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس کی روک تھام کے لیے قانون سازی کرے اور اشاعت فاحشہ کے مجرموں کو سنگین سزا دے۔ اسلام جہاں چار دیواری کا تحفظ کرتاہے اورلوگوں کے گناہ تلاش کرنے کے لیے ان کے گھروں میں جھانکنے اور ان کی نجی زندگی کی ٹوہ لینے سے سختی سے منع کرتاہے، وہاں وہ معاشرے کو پاک صاف رکھنے کے لیے فحاشی کی اشاعت پر پابندی عائد کرتاہے۔ زنا کے ثبوت کے لیے چار چشم دید گواہوں کی شرط بھی درحقیقت کھلم کھلا فحاشی کے ارتکاب کو روکنے کے لیے ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اگر چار گواہ موجود نہیں ہیں تو زنا جرم نہیں یا اس کے جرم ہونے کی شد ت کم ہوجاتی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر چار گواہ موجود نہیں تو زنا گناہ ہونے کے باوجود ’’فحاشی کی اشاعت‘‘ کے زمرے میں نہیں آتا۔ قرآن حکیم نے سورہ النور میں عصمت وعفت کے تحفظ کے قوانین بیان کرتے ہوئے ان قوانین کا مقصد یہی بیان کیا کہ مسلم معاشرے میں فحاشی کی اشاعت نہ ہو ۔قرآن کہتاہے :
إِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ أَن تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِیْ الَّذِیْنَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ(النور۲۴:۱۹)
’’جو لوگ اہل ایمان میں فحاشی کی اشاعت کو پسند کرتے ہیں، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔‘‘
حیرت کی بات ہے کہ جن گونا گوں طریقوں سے سرکاری سرپرستی میں بے حیائی اور فحاشی کی اشاعت ہوتی ہے، اس کے سامنے بند باندھنے کے لیے کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہوتی بلکہ اسے میڈیا کی آزادی کے عنوان سے تحفظ دیا جاتا ہے۔ بے حیائی کی اشاعت جو قرآن کریم کی رو سے اصل برائی ہے، اس کے سدِ با ب کے لیے حدود آرڈیننس میں کوئی دفعہ تھی، نہ تحفظ نسواں ایکٹ میں ہے۔
حدود آرڈیننس اور حقوق نسواں ایکٹ کے گہرے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ جس طرح اسلامی قانون جرم وسزا کے نفاذ کے بے پایاں شوق کے نتیجے میں مناسب غوروفکر کے بغیر حدودآرڈیننس نافذ کردیاگیاتھا اور اس میں بہت سی دفعات کتا ب وسنت سے متصادم تھیں، اسی طرح اس کی ترمیم وتنسیخ کے جذبہ فراواں کے تحت جلد بازی اور افراتفری میں تحفظ نسواں بل پاس کردیاگیاہے جس کی کئی ایک دفعات کتا ب وسنت کے خلاف ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ قانون سازی دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ اسلامی حوالے سے اس کے لیے کتاب وسنت کے مکمل علم اور ائمہ مجتہدین کی کاوشوں سے آگاہی کے علاوہ معاشرتی روایات، تمدنی ارتقا، فلسفہ قانون، سابقہ قوانین کے اثرات ونتائج اور مجوزہ قوانین کے متوقع اثرات کے بارے میں گہری بصیرت درکار ہوتی ہے۔ حیرت ہے کہ تحفظ نسواں ایکٹ کی کئی ایک دفعات کے کھلم کھلا کتاب وسنت سے متصادم ہونے کے باوجود اسلامی نظریاتی کونسل نے اسے کیسے ’’مشرف باسلام‘‘ کرلیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بقول علامہ اقبال ؂
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
اگر اس ملک کی ہمہ مقتدر شخصیت اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف یہ بات غلط منسوب کر رہی ہے تو کونسل کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے کیونکہ 
نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے مستی میں 
فقیہ مصلحت بیں سے وہ رند بادہ خوار اچھا


* یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ اس رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ تین دفعات کے بارے میں علما کمیٹی اور چودھری شجاعت حسین صاحب اور ان کے رفقا کے درمیان اتفاق ہوا ہے، جبکہ دوسری بہت سی دفعات کے بارے میں بھی علماء کرام نے متعلقہ رپورٹ میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ان کے حوالے سے اپنی رائے الگ پیش کی ہے۔ (راشدی)

علامہ اقبال کا تصور اجتہاد اور علمائے کرام

یوسف خان جذاب

اقبال بیسو یں صد ی کے بہت بڑ ے مفکر، فلسفی، شاعر اور مجتہد تھے۔ بیسویں صدی کے ذکر سے یہ مقصد نہیں ہے کہ اُن کی فکر اسی ایک صدی میں مقید تھی۔ یہ بات اُ ن کی ذات کے متعلق تو کہی جا سکتی ہے، لیکن جہا ں تک اُ ن کی فکر کا تعلق ہے تو شا ید جمو د کے اس دور میں بھی اُ ن کی پرو از میں کو تا ہی نہیں آ ئی ہے۔ اجتہاد کے حو الے سے اقبا ل کی فکر کی حکمر انی ان کے دور تک محدود نہیں ہے، یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک ان کی فکر کو صحیح معنوں میں سمجھا نہیں گیا جو بلاشبہ مسلم امہ کے لیے ایک المیہ ہے ۔ 
ماہنامہ ’الشریعہ‘ نو مبر ۲۰۰۶کے شمار ے میں، اقبا ل کی فکر کے حو الے سے کئی مضا مین سا منے آ ئے ہیں۔ مذکور ہ شمارے کے نصف سے زیاد ہ صفحا ت میں فکر اقبا ل سے متعلق عمو ماً اور اُن کے اجتہاد ی نقطہ نظر سے متعلق خصو صاً لکھا گیا ۔ رئیس التحر یر جنا ب زا ہد الر اشد ی صا حب نے بھی ’کلمہ حق‘ کو اقبا ل کے تصور اجتہا د کے حوالے سے ’’چند ضروری گذارشات‘‘ کے لیے مختص کیا ہے اور نہا یت خو بصورتی سے علامہ اقبا ل کی فکر ی، فلسفیا نہ، دانشورانہ اور شا عرانہ حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انگریز ی استعمار کے دور میں اس فکر ی خلا کی نشا ند ہی کی ہے جو مسلما نو ں کے جمود کی وجہ سے پید ا ہو گیا تھا۔ یہ مو لا نا صا حب کی و سیع النظری ہے کہ وہ اس خلا کے وجود کے معتر ف ہیں، ور نہ ایسے لو گو ں کی کمی نہیں ہے جو کسی فکر ی خلا کے وجود کے ہی سر ے سے انکار ی ہیں۔ تا ہم مو لا نا صاحب کا کہنا ہے کہ چونکہ اقبال خود مجتہداور فقیہ نہ تھے اور نہ ہی اجتہاد اور فقہ سے ان کا عملی علاقہ رہا تھا، اس لیے وہ اجتہاد کے عملی پہلوؤں کے حوالے سے اقبال کی آرا پر اپنے تحفظا ت رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں مولانا صاحب نے چند امور کی نشان د ہی کی ہے جو بحث طلب ہیں۔ ذیل میں ہم جنا ب زاہد الراشد ی صا حب کے پیش کردہ ان نکا ت پر ایک نظر ڈالیں گے۔
۱۔ اجتہاد مطلق کا دروازہ بند کیے جانے سے متعلق اقبال کے اعتراض کے جواب میں مو لا نا صا حب کا ارشاد ہے کہ اس کا تعلق اہلیت و صلا حیت کے فقدان سے نہیں بلکہ ضرورت مکمل ہو جا نے سے ہے اور دیگر علو م و فنو ن کی طر ح اجتہاد کے اصول و ضو ابط بھی، جو اسا سی نو عیت کے ہو تے ہیں، طے ہو چکے ہیں اور غیر متبد ل ہیں۔ اس کے خلاف یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دین میں جو چیز بھی ابدی اور اٹل نو عیت کی ہو تی ہے، اس کے لیے قر آن پا ک یا سنت نبو ی سے صراحت پیش کر نا ہوگی۔ کیا مو لا نا صا حب اجتہاد مطلق کے متعلق ایسی کوئی تصریح پیش کر سکتے ہیں؟ ظاہر بات ہے کہ اجتہا دی فیصلے چونکہ قیاسی اور استنبا طی ہو تے ہیں، اس لیے ان کی حتمیت پر اصرار نہیں کیا جا سکتا ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک مسئلے کے حل کے با ر ے میں اربا ب علم متفق ہو جا ئیں، لیکن ہر حال میں یہ اتفا ق ضروری نہیں۔ دوسر ے لفظو ں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جن اصو ل و ضوابط کو مو لا نا صا حب نے ’’اساسی قوانین‘‘ کہا ہے، انہیں یہ بنیا دی حیثیت کس نے دی ہے ؟ اگر وہ فرمائیں کہ تا ریخ نے ثابت کر دیاہے تو اس ضمن میں یہ پو چھا جا ئے گا کہ ان پا نچ چھ فقہی مذاہب کے علا وہ دیگر بیسیوں فقہی مذ اہب کے پیر و کاروں کے سا تھ، جو اُ ن کے بقول تار یخ کی نذر ہو گئے، اللہ تعا لی کیا معا ملہ فر ما ئیں گے؟ انہوں نے بھی تو ان اجتہادات سے انحر اف کیا تھا۔ یہ سو ال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ ان اجتہا دات کا اقرار یا انکار صرف تا ریخ کا معاملہ نہیں کہ فلا ں فقہی مذہب عملی لحا ظ سے دوام حا صل کر گیا اور فلا ں نا کا م ہو گیا، بلکہ یہ ہمار ی اُ خروی زند گی سے بھی متعلق ہے۔ ممکن ہے مو لا نا صا حب اس دور کو فقہی قو انین کی تشکیل کا عبو ری دور قرار دے کر دیگر مذ اہب کے پیروکاروں کے لیے نجات کی راہ نکا ل لیں مگر میری ا لجھن یہ ہے کہ یہی دور حتمی کیو ں ہے؟ اسلا م میں اجتہاد کا وجود اسے ایک متحر ک (Dynamic) مذہب ثا بت کرتا ہے اور اس تحرک کی بنا پر ہی اسلام تمام زمانوں کے لیے ہے۔ اجتہا د کو فقط ایک دور تک محدود کرنا، اس کی حر کت کو جمود میں تبدیل کرنے کے مترادف ہے ۔ شا ید الطا ف احمد اعظمی صا حب نے اس لیے لکھا ہے کہ :
’’ قیا سی احکا م حا لات اور ظروف ز ما نہ کے تا بع ہیں اور ان کی تبدیلی سے وہ بھی تبدیل ہو جائیں گے یا یو ں کہہ لیں کہ اُن کی اطلا قی صور تیں بدل جا ئیں گی۔ اس سلسلے میں حنفی فقہا کا رویہ ما ضی کی طر ح آ ج بھی قابل اعترا ض ہے۔ انہو ں نے حنفی فقہ کو، جو زیا دہ تر قیا سی اور استد لا لی احکام پر مشتمل ہے، نا قابل تغیرسمجھ لیا ہے۔‘‘ (۱) 
اگر بقول مو لانا صا حب ان اسا سی قو انین کی حیثیت اب نا قا بل تغیرہے اور ان کی تشکیل کا فقط ایک ہی دور تھا تو خود حضور نبی کریم ؐ اور صحا بہ کرامؓ کے دور ہی میں ان اصو ل اور ضو ابط کو طے کیوں نہیں کر دیا گیا، کیو نکہ وہ بہر طور دین کو بہتر طر یقے سے سمجھ سکتے تھے۔ 
۲۔ رئیس التحر یر نے لکھا ہے کہ اقبا ل نے اجتہا د کا خطبہ دیتے وقت ترکی کی جد ید یت کو سامنے رکھا تھا۔ گزارش یہ ہے کہ کو ئی بڑے سے بڑا لکھا ری بھی اپنے ما حو ل سے اوپر اُ ٹھ کر نہیں لکھتا۔ بیسو یں صدی کے ربع اول میں تر کی اند ھی تقلید سے اپنے آ پ کو آ زاد کر نے کے لیے تگ ودو کر رہا تھا۔ اقبال نے تر کی کی اس کاو ش کو بنظر تحسین دیکھا کیو نکہ اقبا ل کے مطابق مرد مو من اپنی خود ی کو اسی وقت مستحکم کر سکتا ہے جب اس میں حر یت اور آ زادی کاجذبہ بد رجہ اتم مو جو د ہو اور وہ روایا ت کے شکنجوں کو توڑ سکتا ہو۔ ترکی اس وقت بلا شبہ اس اند ھی تقلید کے بت کدو ں کو پا ش پا ش کر رہا تھا۔ تر کو ں کے اس اقدام کو اقبال نے یو ں سر اہا ہے: 
’’دراصل یہ صر ف تر ک ہیں جو امم اسلا میہ میں قد امت پر ستی کے خو اب سے بیدار ہو کر شعور ذات کی نعمت حا صل کر چکے ہیں۔ یہ صرف ترک ہیں جنہو ں نے ذہنی آ زادی کا حق طلب کیاہے اور جو ایک خیالی دنیا سے نکل کر اب عا لم حقیقت میں آ گئے ہیں۔‘‘ (۲)
اقبا ل مسلما نو ں کی نشاۃ ثانیہ کے خواہاں تھے اور نشاۃ ثانیہ کے لیے اند ھی تقلید سے آزاد ہو نا نا گزیر ہے۔ تر کی اس وقت قدامت پسند ی کے خلاف لڑرہا تھا اور اقبال کے مطابق قدامت پسندی اور روایت پر ستی ہی مسلم امہ کے زوال کاسبب تھی، چنا نچہ تر کو ں کی، فر سو دہ ر وایات سے بغا وت اور ان کی عقلی پیش رفت ان کے خیا لی دنیا سے نکل کر عا لم حقیقت میں ٓآنے کے متر ادف تھی۔ اقبال کا خطبہ اجتہا د محض ترکی کی جد یدیت کی نقالی نہیں ہے۔ انہو ں نے تر کی کے مشہور شا عر ضیا سے، جس کا حو الہ بار بار خطبہ اجتہاد میں آیا ہے، جہا ں ضرو ری تھا اختلا ف بھی کیا ہے۔ اقبال ترکی کی جد ید یت کے کہاں کہاں خلا ف تھے، طوالت کے خو ف سے اس بحث سے صرف نظر کیا جا تا ہے۔ اقبال اس اجتہا د کے حق میں تھے جس میں اسلا می روح سر ایت کر چکی ہو۔ تر کی اس وقت لا کے صنم کدو ں کو تو ڑ چکا تھا، تا ہم الا کے معبد تعمیر نہیں کر سکا تھا ۔ اس لیے اقبال نے اس خد شے کا اظہار کیا :
’’آ زاد خیا لی کی یہی تحر یک اسلام کا نا ز ک تر ین لمحہ بھی ہے۔ آ زاد خیا لی کا رجحان با لعمو م تفر قہ اور انتشار کی طر ف ہو تا ہے، لہٰذا نسلیت اور قو میت کے یہی تصورات جو اس وقت دنیا ئے اسلام میں کارفرما ہیں، اس وسیع مطمح نظر کی نفی بھی کر سکتے ہیں جس کی اسلا م نے مسلما نو ں کو تلقین کی ہے ۔ ‘‘ (۳) 
تر کی کی جس لا د ینیت کو مو لا نا صا حب اور الطا ف احمد اعظمی صا حب (۴) اقبا لی فکر کے شجر ۂ طو بیٰ کے بر گ و بار قرار دیتے ہیں، اقبا ل نے پیشگی طور پر اس کی اطلاع دے کر ان کے اس خیا ل با طل کی بسا ط الٹ دی تھی ۔ چنا نچہ لکھتے ہیں :
’’پھر اس کے علا وہ یہ بھی خطر ہ ہے کہ تمہا ر ے مذ ہبی اور سیا سی رہنما حر یت اور آ زاد ی کے جو ش میں، بشر طیکہ اس پر کو ئی روک عا ید نہ کی گئی، اصلا ح کی جا ئز حدود سے تجاوز کر جا ئیں۔‘‘ (۵) 
اقبا ل تر کی کی ایسی کسی پیش رفت کو قبول کر نے کے حق میں نہ تھے جس سے وہ اسلا می روحانیت سے محروم ہو جائیں۔ جا وید نا مہ کے مند رجہ ذیل اشعار ملا حظہ ہو ں جن میں ترکی کی اس بے مہار آزادی کو ہد ف تنقید بنا یا گیا ہے : 
مصطفی کو از تجدد می سرود
گفت نقشِ کہنہ را باید زدود 
نو نگر دد کعبہ را رخت حیات 
گر زافر نگ آ یدش لات ومنات 
تُر ک را آہنگ نو در چنگ نیست
تازہ اش جز کہنہ افرنگ نیست 
سینہ او را دمے دیگر نبود
در ضمیرش عالمے دیگر نبود 
لاجرم باعالم موجود ساخت 
مثل مو م از سو ز ایں عا لم گداخت 
طرفگی ہا در نہاد کائنات
نیست از تقلید تقویم حیات 
زندہ دل خلاق اعصار ودہور 
جانش از تقلید گردد بے حضور
چوں مسلماناں اگر داری جگر 
در ضمیر خویش ودر قرآں نگر 
صد جہانِ تازہ در آیات او ست 
عصرہا پیچیدہ در آنات او ست 
یک جہانش عصر حاضر را بس است 
گیر اگر در سینہ دل معنی رس است 
بندۂ مومن زآیات خدا ست 
ہر جہاں اندر بر او چوں قبا ست 
چو ں کہن گردد جہانے در برش
می دہد قرآں جہانے دیگرش (۶)
یہ با ت ذہن میں رہنی چاہیے کہ کما ل اتا ترک کے نا م کے سا تھ اقبا ل نے ’’ایدہُ اللہ بنصرہ العز یز‘‘ لکھا تھا (۷) مگر جب اس کی جد ید یت دا ئرہ اسلا م سے متجا وز ہو نے لگی تو اسے آ ڑے ہا تھو ں لیا۔ چنا نچہ اگر اقبا ل تر کو ں کی آ ج کی لا دینیت کا مشا ہد ہ فر ما تے تو ان کو بھی ویسے ہی ہد ف تنقید بناتے جیسا کہ انہوں نے مصطفی کو بنا یا۔ اقبا ل کے سامنے اس وقت فقط ترکو ں کی قد امت پسند ی اور روایت پسند ی کے خلاف بغا وت تھی اور انہو ں نے اُ ن کے اسی پہلو کو خر اج تحسین پیش کیا ہے ۔ 
۳۔ مو لا نا صا حب نے تیسرا نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ اقبال کے خطبہ اجتہا د پر پو ن صدی گز ر چکی ہے اور اب دنیا نئے حالات سے گزر رہی ہے، اس لیے ہمیں اپنے مسائل کو نئے حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ 
اس ضمن میں ہماری گزارش یہ ہے کہ جو طبقہ ما ضی کے اجتہا دات کو حتمی تصور کر تا ہے، وہ جدید عا لمی تنا ظر اور بین الاقوامی ماحو ل میں اپنی ضر ور یا ت اور تر جیحات کا از سر نو جا ئز ہ کیسے لے سکتا ہے ؟ عباسی دور میں مر تب شدہ فقہی اصو لوں اور جزئیات میں محصور رہ کر جو ’’اجتہاد‘‘ بھی کیا جائے گا، اس کا حشر اس کا نفر نس سے مختلف نہیں ہو گا جو گز شتہ سال بھا رت میں ایک مذ ہبی ادارے نے منعقد کی تھی ۔ اس میں ٹیلی ویژن اور تصویر سے متعلق علما کی ’’اجتہا دی‘‘ آ را کی ایک جھلک ’الشریعہ‘ کے گز شتہ شما روں میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ 
ہم سمجھتے ہیں کہ علما ابھی تک اجتہاد کے متعلق اقبال کے مو قف کو نہیں سمجھ سکے۔ تا ریخ کو ئی سیلاب نہیں ہے جو ہنگا می طور پر غا ر ت گر ی کر کے گزر گیا اور بس۔ اس کی کڑ یا ں حا ل اور مستقبل میں پیو ست ہیں ۔ اس سلسلے میں ہم ما ضی سے چشم پوشی نہیں کر سکتے۔ خصو صاً اس صور ت میں جب کہ ہم نے حال تو در کنار، ما ضی کے مسا ئل کا حل بھی نہ ڈھو نڈا ہو ۔ اگر ہم حال کے مسا ئل پر واقعی غور و فکر کر نا چا ہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں اقبال کے اس خطبے کا از سر نو جا ئز ہ لینا ہو گا اور اس کے متعلق اپنے مو قف پر نظر ثا نی کر نا ہو گی۔ الطا ف احمدا عظمی صا حب نے اقبال کے دوسر ے خطبو ں کا بہت سخت تنقیدی جا ئز ہ لیا ہے ، تا ہم اس خطبے میں وہ ا قبا ل سے بڑ ی حد تک متفق دکھا ئی دیتے ہیں۔ میر ی نظر میں عصرحا ضر کا سب سے بڑا تقا ضا یہ ہے کہ علما اجتہاد کا بند دروازہ دوبارہ کھو لنے کے لیے تگ دود کر یں۔ اسی صورت میں وہ اس فکر ی خلا کو پُر کر نے میں کا میا ب ہو سکیں گے جو مسلسل بڑ ھتا جا رہا ہے۔ جب تک یہ قدم نہیں اُ ٹھا یا جاتا، ہم کولہو کے بیل کی طر ح اقبا ل کے خطبہ اجتہاد ہی کا طو اف کرتے رہیں گے ۔ 

حوالہ جا ت

۱۔ اعظمی ، الطا ف احمد، ’’خطبا ت اقبال ۔ایک مطا لعہ‘‘ ( دارالتذکیر لا ہور،۲۰۰۵ ؁ء ) ص:۲۳۸
۲ ۔ نذ یر نیا زی ، سید ( متر جم )، ’’تشکیل جد ید الٰہیات اسلا میہ‘‘ ، طبع دو م ( بزم اقبا ل ، لا ہور ، ۱۹۸۳) ص : ۲۵۰
۳۔ ایضاً ، ص ص :۲۵۱، ۲۵۲
۴۔ اعظمی ، الطا ف احمد، ’’خطبا ت اقبال۔ ایک مطا لعہ‘‘ ، ص :۲۱۷
۵ ۔ نذ یر نیا زی ، سید ( متر جم)، ’’تشکیل جد ید الٰہیا ت اسلا میہ‘‘ ، ص :۲۵۲
۶۔ محمد اقبال، ’’جا وید نا مہ‘‘ ، طبع ہفتم ، ( شیخ غلا م علی اینڈ سنز ، لا ہور، ۱۹۷۸ ء ) ص:۶۶
۷۔ سلیم چشتی ، پر و فیسر، ’’شر ح جا وید نا مہ‘‘، طبع اول ( عشرت پبلشنگ ہا وس ، لا ہور ،۱۹۵۶ ء ) ص ۶۰۱

حدیث نبوی میں ’اخوان‘ کا مصداق

ریحان احمد یوسفی

’’الشریعہ‘‘ کے اکتوبر ۲۰۰۶کے شمارے میں برادرم عمار ناصر صاحب کاایک مضمون شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے مولانا وحید الدین خان صاحب کی ایک تحریر کے حوالے سے ان پر گرفت کی، جس میں مولانا وحیدالدین خان صاحب نے اپنے تشکیل کردہ دعوتی فورم سی پی ایس انٹرنیشنل پر گفتگو کی ہے۔
عمار صاحب کی تنقید مولانا پر دو پہلووں سے ہے۔ ایک یہ کہ انھوں نے مسلم کی اس روایت کاغلط مطلب سمجھا ہے جو مولانا نے نقل کی ہے۔ زیر بحث اصل روایت، اس کے حوالہ جات اور ترجمہ درج ذیل ہے۔واضح رہے کہ محدثین کے نزدیک یہ روایات سنداً صحیح ہے۔
عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَی الْمَقْبَرَۃَ فَقَالَ:السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِیْنَ، وَاِنَّااِنْ شَاءَ اللّٰہُ بِکُمْ لاَحِقُوْنَ.وَدِدْتُ أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا اِخْوَانَنَا. قَالُوْا: أَوَلَسْنَا اِخْوَانَکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: أَنْتُمْ أَصْحَابِیْ، وَاِخْوَانُنَا الَّذِیْنَ لَمْ یَأْتُوْا بَعْدُ.  (مسلم ، رقم۲۴۹۔ابن خزیمہ،رقم ۶۔بیہقی،رقم۷۰۰۱۔احمد،رقم۹۲۸۱۔ابو یعلیٰ،رقم ۶۵۰۲) 
’’ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک موقع پر) قبرستان تشریف لائے اور آپ نے( مُردوں کے لیے دعا کرتے ہوئے) فرمایا:اے مومنین کی جماعت،تم پر سلامتی ہو،اوربے شک، اگر اللہ نے چاہا تو ہم بھی تمھارے پیچھے آنے ہی والے ہیں۔(پھر آپ نے فرمایا:)میری بڑی خواہش ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں۔ صحابہ (رضی اللہ عنہم)نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول،کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟آپ نے فرمایا:تم لوگ تو میرے ساتھی اور رفیق ہو،ہمارے بھائی تو وہ ہیں جو ابھی آئے ہی نہیں ہیں۔‘‘ 
مولانا نے اس روایت سے یہ سمجھا ہے کہ اس میں اصحاب رسول کے علاوہ بھی ایک خاص گروہ کا ذکر کیا گیا ہے جو بعد کے زمانے میں آئے گا۔عمار صاحب کی تنقید یہ ہے کہ اس روایت میں کسی خاص گروہ کی پیش گوئی نہیں کی گئی ہے، بلکہ اپنے بعد آنے والے اہل ایمان کو اپنے بھائی کہا گیا ہے۔
عمار صاحب کی دوسری تنقید یہ ہے کہ مولانا نے اس گروہ کا مصداق سی پی ایس انٹرنیشنل کو قرار دیا ہے ۔اس دوسری بات کا جواب تو خیر مولانا کے ذمہ ہے ۔ میرے علم کی حد تک عمار صاحب کی یہ تنقید مولانا تک پہنچ چکی ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے ’’الرسالہ‘‘ کے کسی شمارے میں وہ اپنا نقطۂ نظر بیان کردیں گے۔ البتہ، ان کی پہلی تنقید چونکہ فہم حدیث سے متعلق ہے ، اس لیے اس بارے میں ،میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرنا چاہتا ہوں۔
میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ اگر اس حدیث کے الفاظ کی نسبت حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست ہے تو اس کے متن کا بغور مطالعہ اسی نتیجے تک پہنچاتا ہے جس تک مولانا وحید الدین خان صاحب پہنچے ہیں۔یعنی اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد آنے والے عام مسلمانوں کی نہیں، بلکہ ان میں سے کچھ خاص لوگوں کی پیش گوئی کی ہے۔ میری بات کے دلائل حسب ذیل ہیں:
اس روایت میں حضور پاک نے بات کا آغاز یہاں سے کیا ہے کہ میری خواہش ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھ لیتے اور آخر میں حضور فرماتے ہیں کہ ہمارے بھائی تو وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان ’’اخوان‘ ‘کی خصوصیت صرف اتنی ہے کہ وہ حضور کے بعد ایمان لے کر آئیں گے تو حضور کی اس خواہش کی معنویت واضح نہیں ہوپاتی کہ آپ انھیں دیکھ سکیں۔ اس لیے کہ حضور پاک کو یہ بات بھی معلوم تھی کہ آپ کو ایک روز دنیا سے رخصت ہونا ہے اور یہ بھی معلوم تھا کہ بہرحال اس کے بعد بھی لوگ ایمان لائیں گے۔ اس لیے مجرد طور پر یہ بات کہ اپنے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ایمان لانے والوں کو حضوردیکھ لیں، اپنی معنویت پوری طرح واضح نہیں کرپاتی، سوائے اس کے کہ ان ’’اخوان‘‘ کی خصوصیت صاحب ایمان ہونے کے علاوہ مزید کچھ اور بھی ہو۔
پھر عقل عام کی بات یہ ہے کہ حضور کے بعد ایمان لے کر آنا کسی طورپر بھی کوئی اتنی بڑی بات نہیں کہ حضورایسے لوگوں کے دیدار کے مشتاق ہوں۔ معلوم بات ہے کہ حضور پاک کی زندگی ہی میں اسلام کو وہ عظمت حاصل ہو گئی تھی کہ لوگ جوق در جوق ایمان لارہے تھے۔ خلافت راشدہ اور بعد کے ادوار میں اسلام کو وہ عروج واقتدار حاصل ہوچکاتھا کہ مسلمان ہوجانا آخرت ہی نہیں، بلکہ دنیامیں بھی نفع کا باعث تھا۔ ایسے میں لوگوں کا اسلام قبول کرلینا یا مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوجانا ان میں کوئی ایسی خصوصیت پیدا نہیں کرتا ہے کہ حضوران کے دیدار کے مشتاق ہوں۔
دوسری بات یہ ہے کہ حضور نے اخوان کی تعیین یہ کہہ کر نہیں کی کہ یہ لوگ وہ ہیں جو میرے بعد ایمان لائیں گے، بلکہ یہ کہا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔ یہ اسلوب خود ایک نوعیت کے تخصص کو پیدا کردیتا ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ ان بعد میںآنے والوں کو حضور نے اپنے اور صحابۂ کرام کے ساتھ یہ کہہ کر منسلک کیا ہے کہ یہ ہمارے بھائی ہیں۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ حضور کے صحابہ ہر گز ہرگز عام لوگ نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے نصرت دین کی ایک انتہائی غیر معمولی خدمت لی ہے۔ جب یہ بات واضح ہے تو پھرآپ سے آپ یہ بات نکلتی ہے کہ ’’ہمارے بھائیوں‘‘ کے اس اعلیٰ ترین خطاب کے حق دار کوئی عام لوگ نہیں ہوں گے، بلکہ دین کی خدمت سرانجام دینے والا یہ کوئی خاص گروہ ہی ہوگا۔
رہا سوال یہ کہ اخوان سے مراد کون لوگ ہیں تو یہ ایک ایسی بحث ہے جس میں ایک سے زیادہ آرا ہوسکتی ہیں۔ تاہم میرے نزدیک بلاشک و شبہ مولانا وحید الدین خان صاحب کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ اخوان رسول، صحابۂ کرام کی طرح ایک خصوصی حیثیت کا گروہ ہے۔ تاہم میری طالب علمانہ رائے میں گروہ کا لفظ استعمال کرنے سے غلط فہمی پیدا ہونے کا امکان ہے۔ زیادہ درست الفاظ میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں میں سے وہ لوگ ہوں گے جو ہر طرح کے حالات میں صحیح دین پر قائم رہنے والے اور لوگوں کو اسی کی دعوت دینے والے ہوں گے۔ ان کا زمانہ ایک ساتھ ہونا ضروری نہیں اور یہ بھی لازمی نہیں کہ وہ دنیا میں بھی ایک ہی گروہ کی حیثیت سے متعارف ہوں۔ 
میری اس رائے کی تائیدروایت کا اگلا حصہ کرتا ہے۔میں اسے ذیل میں نقل کررہا ہوں:
فَقَالُوْا:کَیْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَمْ یَأْتِ بَعْدُ مِنْ أُمَّتِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ فَقَالَ: أَرَأَیْتَ لَوْأَنَّ رَجُلاً لَہٗ خَیْلٌ غُرٌّ مُحَجَّلَۃٌ بَیْنَ ظَہْرَیْ خَیْلٍ دُھْمٍ بُھْمٍ، أَلاَ یَعْرِفُ خَیْلَہٗ؟ قَالُوْا: بَلٰی یَارَسُوْلَ اللّٰہِ. قَالَ: فَاِنَّھُمْ یَأْتُوْنَ غُرًّا مُحَجَّلِیْنَ مِنَ الْوُضُوْءِ، وَأَنَا فَرَطُھُمْ عَلَی الْحَوْضِ. أَلاَ لَیُذَادَنَّ رِجَالٌ عَنْ حَوْضِیْ کَمَا یُذَادُ الْبَعِیْرُ الضَّالُّ، أُنَادِیْھِمْ: أَلاَ ھَلُمَّ! فَیُقَالُ: اِنَّھُمْ قَدْ بَدَّلُوْا بَعْدَکَ. فَأَقُوْلُ: سُحْقًا سُحْقًا.
’’پھر اُنھوں نے پوچھا:اے اللہ کے رسول، آپ کی امت کے جو لوگ ابھی آئے نہیں ہیں، آپ ان کو (قیامت میں)کیسے پہچانیں گے؟ آپ نے ارشاد فرمایا:اگر انتہائی سیاہ رنگ کے گھوڑوں کے درمیان کسی آدمی کے ایسے گھوڑے موجود ہوں جن کی پیشانیاں اور پاؤں سفید ہوں توآپ کا کیا خیال ہے ،کیا وہ اپنے گھوڑوں کو پہچان نہیں پائے گا؟ صحابہ(رضی اللہ عنہم) نے جواب دیا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول!آپ نے فرمایا: یہ لوگ اس حال میں آئیں گے کہ وضو کے سبب سے ان کی پیشانیاں اور پاؤں سفید اور روشن ہوں گے۔اور میں ان سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا۔ البتہ، یہ بات بھی جان لو کہ کچھ لوگوں کو میرے حوض سے اس طرح واپس دھکیل دیا جائے گا،جس طرح ایک بھٹکے ہوئے اونٹ کو دھکیل دیا جاتا ہے۔ میں ان کو پکار پکار کر بلا رہا ہوں گا۔پھر مجھ سے کہا جائے گاکہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے آپ کے بعد (دین میں) تبدیلی کردی تھی۔ (آپ فرماتے ہیں کہ) اس پر میں ان لوگوں سے کہوں گا: بربادی ہو تمھارے لیے،بربادی ہو۔‘‘
اس میں بتایاگیا ہے کہ قیامت کے دن ان لوگوں کے اعضا، وضو سے روشن ہوں گے اور اس موقع پر کچھ لوگ اور بھی ہوں گے جنھوں نے دین میں تبدیلی کردی تھی اور انھیں حوض سے دھکیل دیا جائے گا۔روایت کے یہ الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ ان لوگوں کا زمانہ حضورکے بعد کا وہ دورہوگا جب دین کے نام پر کھڑے ہوئے لوگ اصل دین میں تبدیلی کر چکے ہوں گے۔ یہ لوگ دین کی حقیقت اور اصل تعلیم پر پردے ڈال دیں گے۔ ایسے میں کہ جب دین کے نام پر دوسری چیزیں رائج ہوچکی ہوں، اصل دین کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا نصرت دین کا سب سے بڑا کام ہے۔دین کی تعلیمات بدلنے کی یہ کوشش مختلف زمانوں میں کی گئی ہے، اس لیے ہر دور کے ایسے لوگ اس خوش خبری میں شامل ہیں جو صحیح دین پر قائم رہے اور اسے ہی لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہے۔ اس آخری زمانے میں چونکہ یہ سانحہ بہت بڑے پیمانے پر پیش آیا ہے اور اب اصل دین لوگوں کے سامنے پیش کرنا انتہائی مشکل ہوچکا ہے، اس لیے اس زمانے کے صلحا اس خوش خبری کے سب سے بڑھ کر حق دار ہیں۔ یہ مضمون کم و بیش وہی ہے جو امام مسلم نے ’فطوبی للغرباء‘ والی روایت میں بیان کیا ہے ۔
یہ ناکارہ وحید الدین خان صاحب کی طرح صاحب نگاہ اور صاحب قلم ہے اور نہ عمار صاحب کی طرح صاحبعلم ہے، مگر امید ہے کہ اس عاجز کی بات واضح ہوگئی ہوگی۔

ذبیح حضرت اسماعیل یا حضرت اسحاق؟

برہان الدین ربانی

پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب کے پر تاثیر قلم سے وقتاً فوقتاً علمی وفکری تحریرات صفحہ قرطاس پر منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ اسی طرح کی ایک تحریر ’’قرآنی علمیات اور مسلم رویہ‘‘کے عنوان سے الشریعہ، جنوری ۲۰۰۶ء ؁میں پڑھنے کو ملی جس میں ذبیح کون کی بحث کے حوالے سے پروفیسر صاحب نے مسلم اہل علم پر تنقید کی ہے۔ پروفیسر صاحب کا موقف یہ ہے کہ اگر ذبیح کو قرآن نے مشّخص نہیں کیا تو ہم کیوں ایک اضافی چیز کو کھینچ تان کر یقین کے زمرے میں لانا چاہتے اور اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح کے طور پر متعین کرنا چاہتے ہیں۔ 
گویا بحث کا بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا ہمیں ’ذبیح کون‘ کی بحث میں پڑنا چاہیے یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ’ذبیح کون‘ کی بحث سے مقصود حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حضرت اسحاق علیہ السلام کے مقابلے میں برتر ثابت کرنا نہیں اور نہ ہی کوئی مسلمان اس بات کا تصور کرسکتاہے، بلکہ اس بحث سے مقصود حقائق کو واضح کرنا ہے۔ متعلقہ قرآنی آیات کے منشا کو درست طور پر سمجھنے کے لیے اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل ہیں یا حضرت اسحاق علیہما السلام۔ 
اب جب ہم قرآن مجید پر غور کرتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ قرآن نے ذبیح کانام نہیں لیا لیکن جو اسلوب اختیار کیاہے، اس سے حضرت اسماعیل ہی ذبیح قرار پاتے ہیں۔ قرآن مجید کی متعلقہ آیات حسب ذیل ہیں:
رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ ۔ فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ إِنِّیْ أَرَی فِیْ الْمَنَامِ أَنِّیْ أَذْبَحُکَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ إِن شَاء اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ ۔ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ ۔ وَنَادَیْْنَاہُ أَنْ یَا إِبْرَاہِیْمُ ۔ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلَاء الْمُبِیْنُ ۔ وَفَدَیْْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ ۔ وَتَرَکْنَا عَلَیْْہِ فِیْ الْآخِرِیْنَ ۔ سَلَامٌ عَلَی إِبْرَاہِیْمَ ۔ کَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ إِنَّہُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ وَبَشَّرْنَاہُ بِإِسْحَاقَ نَبِیّاً مِّنَ الصَّالِحِیْنَ ۔ وَبَارَکْنَا عَلَیْْہِ وَعَلَی إِسْحَاقَ وَمِن ذُرِّیَّتِہِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِّنَفْسِہِ مُبِیْنٌ (صافات آیات ۱۰۰ تا ۱۱۳)
’’اے پروردگار بخش دے مجھے نیکوں میں سے (کوئی بیٹا)۔ پس ہم نے بشارت دی اس کو ایک لڑکے کی جو نہایت بردبار تھا۔ پس جب پہنچا اس کے ساتھ تگ ودو کی عمر کو تو اس نے کہا اے بیٹے، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، پس تو دیکھ کہ تیری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا، اے ابا جان آپ کرڈالیں جس چیز کا آپ کو حکم دیاگیاہے۔ آپ مجھے پائیں گے، اگر اللہ نے چاہا، صبر کرنے والوں میں سے۔ پس جب وہ دونوں مطیع ہوگئے (اللہ کے حکم کے) اور گرادیا اس کو پیشانی کے بل ا ور ہم نے اس کو آواز دی، اے ابراہیم، تحقیق تو نے سچ کر دکھایا خواب۔ بے شک ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں نیکی کرنے والوں کو۔ بے شک یہ بات البتہ صریح آزمائش ہے۔ اور ہم نے اس کو ذبح عظیم عطا کیا۔ اور ہم نے چھوڑا اس پر پچھلوں میں۔ سلامتی ہوابراہیم پر۔ اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں نیکی کرنے والوں کو۔ بے شک وہ ہمارے ایماندار بندوں میں سے ہے۔ او ر ہم نے بشارت دی اس کو اسحاق کی جو کہ اللہ کا نبی اور نیکوں میں سے ہوگا اور برکت نازل کی ہم نے اس پر اور اسحاق پر۔ اور ان دونوں کی اولاد میں سے نیکی کرنے والے ہیں اور کچھ ظلم کرنے والے ہیں اپنے نفس پر صریح طورپر ۔‘‘
پروفیسر صاحب نے آیت ۱۰۵ تک لکھ کر یہ کہاہے کہ متاخرین کے ہاں وہ انتہا پسندی نظر آتی ہے جو یہودیوں کے نسلی رویے کے متوازی چلتے ہوئے قرآنی علمیاتی نہج کو تہس نہس کردیتی ہے۔ اگر پروفیسر صاحب آیت ۱۰۷ سے ۱۱۳ تک کا بھی مطالعہ کرتے تو انھیں مفسرین پر تنقید کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی کیونکہ ان آیات میں قرآن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مختصر سوانح پیش کررہاہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم کو بت پرستی سے روکا اور انہیں وحدانیت کی تبلیغ کی، پھر آپ نے اپنی بت پرست قوم کو چھوڑ کر ترک وطن کا راستہ اختیار کیا۔ اس سارے واقعے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ’رب ھب لی من الصالحین‘ کے الفاظ سے دعا کی جس کے بدلے میں پروردگار نے ’غلٰم حلیم‘ کی خوشخبری سنائی۔ پھر جب بچہ چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آزمائش آئی اور انھوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔ اس آزمایش میں کامیابی پر ذات خداوندی نے ذبح عظیم عطا فرمایا۔ بیٹے کی قربانی کی آزمایش اور اس پر انعام واکرام کے ذکر کے متصل بعد دوسری بشارت کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے کہ ’وبشرنہ باسحق نبیا من الصالحین‘۔ گویا ان آیات میں دو بیٹوں کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ پہلی خوشخبری ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے بعد بیٹے کا نام لیے بغیر دی گئی۔ اس کے بعد واقعہ قربانی کا ذکر کیاگیا جو کہ اسی غلامِ حلیم کے ساتھ پیش آیا۔ اس واقعے کے متصل بعد دوسری بشارت اسحاق علیہ السلام کے متعلق دی گئی ۔ یعنی قرآن نے بشارت اول کو ذبیح کے ساتھ منسلک کیا ہے جبکہ بشارت ثانی کا ذکر قربانی کے واقعے کے بعد کیا، جس سے واضح ہے کہ قربانی کا واقعہ حضرت اسحاق علیہ السلام کے ساتھ پیش نہیں آیا۔ 
مزید قابل غور امر یہ ہے کہ پہلی بشارت ’غلٰم حلیم ‘ کے جبکہ دوسری بشارت ’نبیا من الصالحین‘ کے الفاظ سے دی گئی۔ سورۃ ہود میں یہ دوسری بشارت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
وَامْرَأَتُہُ قَآءِمَۃٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنَاہَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاء إِسْحَاقَ یَعْقُوبَ (ہود، ۷۱) 
یعنی غلام حلیم کے ساتھ کسی قسم کا وعدہ نہیں، نہ نبی صالح ہونے کا اور نہ آگے نسل چلنے کا، جبکہ بشار ت ثانی (اسحاق ) کے ساتھ نبی صالح ہونے اور اگلی نسل، دونوں کا وعدہ کیاگیا۔ 
علاوہ ازیں پہلی بشارت حضرت ابراہیم کی دعاکے نتیجے میں دی گئی جبکہ دوسری بشارت دعا کا نتیجہ نہ تھی بلکہ اس پر ابراہیم علیہ السلام نے ان الفاظ میں تعجب ظاہر کیا:
أَبَشَّرْتُمُونِیْ عَلٰی أَن مَّسَّنِیَ الْکِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ (الحجر، ۵۴) 
اس طرح حضرت سارہ کے الفاظ تھے :
یَا وَیْْلَتٰی أَأَلِدُ وَأَنَاْ عَجُوزٌ وَہَذَا بَعْلِیْ شَیْْخاً إِنَّ ہَذَا لَشَیْْءٌ عَجِیْبٌ (ہود ۷۲)
اب اگر ان بشارتوں کو خدائی قانون ’لا تبدیل لکلمٰت اللہ‘ کے تحت سمجھا جائے تو ’ذبیح کون‘ کی بحث بڑی عمدگی سے حل ہوسکتی ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر ذبیح حضرت اسحاق کو مانا جائے تو یہ خدائی قانو ن کے خلاف ہے، کیونکہ اللہ رب العزت اس سے پہلے ان کی نسل آگے چلنے اور نبی صالح ہونے کا وعدہ فرما چکے ہیں، پس اسحاق علیہ السلام کو نبوت دینے اور نسل کے جاری کرنے سے پہلے ہی قربان کر دینے کا حکم دینا اس سے پہلے کیے گئے دونوں وعدہ کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کرنے کا حکم حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی سے متعلق تھا۔
پروفیسر صاحب سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا اسرائیلیات کو انہی حدود میں استعمال کیاگیاہے جو قرآن وسنت نے مقرر کی ہیں؟ تو گزارش ہے کہ واقعی اس معاملے میں مفسرین نے احتیاط برتی ہے اور اسرائیلیات کو انہی حدود میں استعمال کیاہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ’حدثو عن بنی اسرائیل ولا حرج‘ میں مقررفرمائی ہیں، یعنی ایسی روایات جو قرآن وسنت کی تائید کرتی ہیں اور عقل سلیم کے منافی بھی نہیں، ان کو مفسرین تائید کے طورپر استعمال کرتے ہیں۔ اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح قرار دینے میں بھی قرآنی اسلوب کو ہی مد نظر رکھا گیاہے، جبکہ اسرائیلیات کو صرف تائید کے طورپر استعمال کیاگیاہے۔
پروفیسر صاحب کا یہ اعتراض بھی ہے کہ اگر قربانی کے واقعے میں اسماعیل علیہ السلام کا نام شامل ہوتا تو معترضین کو پھبتیاں کسنے کا موقع ملتا کہ اسلام دعویٰ تو عالمگیریت کا کرتاہے لیکن اصلاً اسماعیلی ہے۔ اسی طرح اگر اسحاق علیہ السلام کا نام ہوتا تو یہودیوں کی نسل پرستی کو مزید شہ ملتی۔ لیکن اگر غور کریں تو قرآن نے حضرت اسماعیل کی بشارت صرف ’غلام حلیم ‘ کے الفاظ سے دی ہے جبکہ حضرت اسحاق کی بشارت ’نبیا من الصالحین ‘ کے الفاظ سے دی ہے۔ یعنی حضرت اسماعیل پہلے پیدا ہوئے اور نبوت کی بشارت بعد میں ملی، جبکہ اسحق علیہ السلام پیدا بعدمیں ہوئے اور نبوت کی بشارت پہلے ملی۔ ان میں سے ہر دو حضرات کی اپنی اپنی خصوصیت ہے۔ ذبیح ہونا حضرت اسماعیل کی خصوصیت ہے، جبکہ پیدائش سے پہلے نبوت کی بشارت مل جانا اسحاق علیہ السلام کی خصوصیت ہے۔ قرآن نے معترضین کو پھبتی کسنے کا موقع ہی نہیں دیا کیونکہ نبوت کی بشارت کا مل جانازیادہ اونچا مقام ہے، نہ کہ نبوت کے بغیر محض ذبیح ہونا۔ اس کے بعد بھی اگر معترضین پھبتیاں کسیں تو ہمیں ان کی پروا نہیں کرنی چاہیے کیونکہ پھبتیاں کسنے والوں نے تو انبیاے کرام کو بھی نہیں چھوڑا۔ 
الشریعہ، جولائی ۲۰۰۶ء میں پروفیسر صاحب نے لکھاہے کہ حضرت ابن عباسؓ سے اسحاق علیہ السلام کے ذبیح ہونے کا قول منقول ہے اور اکثر علما کا یہی قول ہے، اور کچھ لوگ اسماعیل علیہ السلام کے ذبیح ہونے کے قائل ہیں۔ گزارش ہے کہ ہم وہ روایتیں لینے کے مکلف نہیں جن میں اسحاق علیہ السلام کے ذبیح ہونے کا ذکر ہے کیونکہ یہ بات قرآنی منشا سے متصادم ہے۔ حضرت ابن عباسؓ اور ان لوگوں کی اکثریت جن سے اسحاق علیہ السلام کے ذبیح ہونے کی روایتیں مروی ہیں، ان سے اسماعیل کے ذبیح ہونے کی روایتیں بھی موجود ہیں، اور قرآنی منشا بھی یہی ہے اور اسی پر متقدمین ومتاخرین کا ایک جم غفیر متفق ہے۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
مکرمی مدیر ’الشریعہ‘
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
’الشریعہ‘ کے دسمبر ۲۰۰۶ء کے شمارے میں میاں انعام الرحمن صاحب کا مضمون ’’قدامت پسندوں کا تصور اجتہاد‘‘ دیکھنے کا موقع ملا۔ میاں صاحب کی تحریریں ندرت او ر تازگی کی وجہ سے ہمیشہ ہی لائق توجہ ہوتی ہیں، مگر ان کے موضوعات میرے لیے زیادہ دلچسپی کا باعث نہیں ہوتے، اس وجہ سے میں ان کو زیادہ توجہ نہیں دے سکا۔ اس مضمون کی کاٹ کے حوالے سے ایک دوست کے توجہ دلانے پر مضمون کو پڑھا تو ان کی جرات وجسارت کا اعتراف کرنا پڑا۔ الشریعہ کی مجلس ادارت کے رکن اول ہوتے ہوئے ادارہ کے رئیس التحریر کے انداز فکر اور اس حلقے کے انتہائی محترم بزرگوں پر موصوف نے جس طرح تنقید کی، اس سے موصوف کے والد مرحوم کی یاد تازہ ہو گئی۔ مرحوم کا دبنگ طرز عمل جانا پہچانا ہے۔ میاں صاحب نے سپوت ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اپنے حلقے اور ماحول میں تنقید کی جسارت کبھی خوشگوار نہیں رہی۔ یہ بہت مشکل کام ہے۔ یقیناًیہ انہی کا حصہ ہے۔ مضمون میں میاں انعام صاحب نے جتنا بے لاگ طرز اختیار کیا ہے، وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ان کے بعض جملوں کا اعادہ کیا جائے۔ اس کے بغیر ان کی تحریر کا بانک پن قاری پر واضح نہیں ہو سکتا۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ میرا منشا تحریر میں احترام کی حدود سے تجاوز کو کھلے لائسنس کے طور پر لینا نہیں، بلکہ تحریر کے پس منظر میں حریت فکر کو اجاگر کرنا ہے۔ اس میں بھی ادارہ ’الشریعہ‘ نے جس تحمل اور بر دباری سے اتنے جری مضمون کو پرچے میں جگہ دی ہے، وہ تحسین و داد کا جس قدر مستحق ہے، وہ اپنے مقام پر آئے گی۔ میاں انعام صاحب کے چند جملے ملاحظہ کیجیے:
’’جناب تقی صاحب ایک رسمی معاشرتی رویے کی نشان دہی کو اصولی و قانونی حوالے سے دیکھ رہے ہیں اور خرد کو جنوں اور جنوں کو خرد کہے جا رہے ہیں۔‘‘
’’زاہد الراشدی صاحب کی تحریر کا جو اقتباس ہم نے نقل کیا ہے، اس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ وہ ایک مخمصے میں گرفتار ہیں۔‘‘
’’دیکھنے کی ضرورت باقی ہے کہ قدامت پسند، اجتہاد مطلق سے اتنا کیوں بدکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی خاص نفسیاتی سرحدیں ہیں، جنہیں عبور کرنے سے وہ معذور ہیں۔‘‘
’’قدامت پسند اہل مدرسہ، جن کی نمائندگی زاہد صاحب کر رہے ہیں، ہمیشہ پورا سچ قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں اور تعامل امت میں کار فرما تاریخی عوامل کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘‘
’’زاہد صاحب کا یہ فقرہ ایک پوری مدرسی ذہنیت کی نمائندگی کر رہا ہے۔‘‘
یہ جملے نمونے کے طور پر ہیں۔ میاں انعام صاحب نے اپنے نقطہ نظر کو پورے زور سے پیش کیا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو یقیناً خیالات کی رو پیرایہ اظہار اختیار نہ کر پاتی۔ ان کا ذہن پورے طور پر سامنے نہ آتا۔ اس میں اصل قدر اور وزن کی چیز خیالات ہیں۔ ظاہری رکھ رکھاؤ اور سوچ و فکر میں سے کس کو ترجیح حاصل ہے، اس بارے میں دو آرا کی گنجائش نہیں۔ سوچ اور فکر کو ترجیح بھی حاصل ہے اور اسے راہ دینا ہی چاہیے۔ خاص طور پر آپس داری میں تو اس کی رعایت کوئی احسان والی بات بھی خیال نہیں کرنا چاہیے۔ اقبال نے شاید ایسے ہی مواقع پر کہا ہے: 
رمزیں ہیں محبت کی گستاخی و بیباکی
ہر رمز نہیں بیباک، ہر عشق نہیں گستاخ
ادارے نے اسی جذبے کے تحت انعام صاحب کو اظہار کا پورا موقع دیا ہے۔ ادارہ ان کے مضمون کو ایڈٹ کر کے ایسے جملوں کو نرم کر سکتا تھا۔ یہ ادارے کا فطری حق تھا۔ ہرپرچے کی تحریر کا ایک مزاج ہوتا ہے۔ اسے استوار رکھنے کا ادارہ مجاز ہوتا ہے، مگر ادارے نے ایسا کرنا مناسب خیال نہیں کیا۔ وجہ یہ ہے کہ اس سے زور بیان میں کمی کا اندیشہ ہو سکتا تھا۔ پھر سوچ اور فکر کے بیان میں لکھنے والے کے ذہن اور بیان میں بعد بھی پیدا ہو سکتا تھا۔ چنانچہ ادارے نے لکھنے والے کے منصب میں کسی طرح مداخلت نہیں کی۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ لکھنے والے کی ہمت افزائی ہوتی ہے۔ اس میں وہ اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کا داعیہ اپنے اندر خود ہی محسوس کرتا ہے۔ اسے ایسی چھوٹی موٹی کوتاہیوں کی جانب توجہ دلانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ خاص طور پر اس وجہ سے کہ انعام صاحب اپنی تحریروں میں اتنی جریت کے عادی نہیں۔ موضوع کے لحاظ سے وہ اپنی بات گرد و پیش کے ماحول میں سخت بیزاری کے تحت رد عمل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ایسے میں بات کو روایتی رکھ رکھاؤ سے پیش کرنے میں دعوت فکر کمزور پڑ جاتی ہے۔ بعض اوقات ذہنی جمود کو توڑنے کے لیے مخاطب کو ذہنی صدمہ سے دوچار کر کے ذہن کو بیدار کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اس طرح میں انعام صاحب کی جرات و جسارت کی کھل کر داد دیناچاہتا ہوں۔ میں ان کے لکھنے کی آزادی کا دفاع کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ مگر یہاں دفاع کی ضرورت کیسے ہوئی؟ ادارہ تو پہلے ہی اس کا اہتمام کر رہا ہے۔ 
اس سلسلے میں ادارے کی جانب سے جس مربیانہ شفقت کا مظاہرہ کیا گیا ہے، اس کی داد دینے کے ساتھ ساتھ افادیت کا ذکر کرنا بھی ضروری خیال کرتا ہوں۔ میں ۱۹۹۲ء سے الشریعہ کا قاری ہوں۔ اس عرصہ میں یہ پرچہ جن مراحل سے گزرا ہے، وہ میرے سامنے ہے۔ اسی آزادی کا ثمر ہے کہ اس میں لکھنے والوں کی بھرمار ہے۔ مجھ جیسا شخص بھی جسے لکھنے کے لیے یکسوئی میسر نہیں، ادارے کی جانب سے حوصلہ افزا محبت کی وجہ سے کبھی کبھی لکھنے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی پرچے میں خطوط کے صفحات لکھنے والوں کے لیے بہترین نرسری ہوتے ہیں۔ اس طرح قاری ادارے کے خیالات اور بیان میں حصہ دار ہو جاتا ہے۔ یہ شراکت اور حصہ داری ہی کام میں وسعت کا سبب بنتی ہے۔
میرے لیے ادارے کے ذمہ داران کی جانب سے ہمیشہ ہی بلند حوصلگی کا جو مظاہرہ ہوا ہے، وہ میرے لیے حیران کن ہے۔ میں اپنے ماحول سے بیزار اور ماحول مجھ سے بیزار رہا ہے، مگر یہاں مجھے جو محبت اور شفقت ملی، اس کا عشر عشیر بھی اپنے حلقے میں مل جاتا تو شاید اب تک میں پر سکون موت کی وادی میں ہوتا۔ ماحول کی ناسازی نے مجھے ماحول کا فسوں توڑنے کے لیے آمادہ کیا اور میں اس کے لیے ہمیشہ بر سرپیکار رہا۔ اقبال کے شعر کو ہمیشہ میں نے حرز جاں بنائے رکھا:
حدیث بے خبراں ہے زمانہ با تو بساز
زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز
ایسی شفقت (انعام صاحب کے کہنے کے مطابق) ’’مدرسی ذہنیت‘‘ والوں کی جانب سے کمال و جمال کی انتہا ہے۔ در اصل یہ کیفیت مدرسی کے بجائے مدرسانہ مزاج کا خاصہ ہے جو جدید پڑھے لکھے طبقے کے ہاں بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔ وجہ شاید یہ ہے کہ وہاں بالعموم دنیاوی کشش نسبتاً زیادہ زور آور ہوتی ہے۔ اس کا تلخ مظاہرہ حال ہی میں ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ کے رویے سے ہوا۔ بے شک اس کی مجلس ادارت میں بیٹھے ہوئے لوگ، جدید تعلیم کے اعلیٰ ترین مدارج طے کیے ہوئے ہیں، مگر تنگ بینی و تنگ نظری کا ایسا مظاہرہ ہوا کہ سیاسی لحاظ سے بھی یہ بہت بے جوڑ محسوس ہوا۔ 
’الشریعہ‘ اور ’ترجمان‘ کا موازنہ ایک مذاق معلوم ہوتا ہے، مگر بعض اوقات مذاق سچ ہو جاتا ہے۔ اس موازنے میں کچھ ایسے ہی آثار نظر آتے ہیں۔ دونوں کی عمر معلوم کرنے والی بات ہے۔ فرق کا اندازہ ایک اور اڑھائی کا ہے۔ سرکولیشن میں بھی بعد المشرقین معلوم ہوتا ہے۔ لکھاری بھی ایک جانب پرانے علما تھے اور دوسری جانب نہایت پڑھے لکھے اور جدید تعلیمی اداروں سے تعلیم کی ڈگریاں سجائے اور روشن خیال اور قلم و قرطاس کے دھنی۔ وسائل بھی بظاہر اسی تفاوت کے ساتھ۔ موسس کے لحاظ سے ترجمان، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی جیسے بین الاقوامی مفکر سے منسوب، جب کہ ادھر مولانا سرفراز خان صاحب صفدر کو دینی خدمات کے لیے پہاڑوں کی چوٹیوں سے اتر کر گوجرانوالہ میں بسیرا کیے ہوئے نصف صدی ہونے کو ہے۔ دونوں کی ضخامت میں بھی ایک اور تین کا تناسب ہے۔ بعض باتیں مشترک بھی ہیں۔ ’الشریعہ‘ میں تمام تر محنت مولانا زاہد الراشدی کی نظر آتی ہے۔ انہوں نے گھر کے افراد اور احباب کے ساتھ سفر شروع کیا، ان کی تربیت انہی کی ذمہ داری قرار پائی۔ دوسری طرف سید مرحوم کا خلوص و ایثار بنیادی اثاثہ تھا اور اپنے ساتھیوں کو تیار کرنا تھا۔ بہر حال میں تاریخ کے بجائے تازہ صورت حال پر بات کروں گا۔ 
ہوا یوں کہ جون ۲۰۰۶ء کے ’ترجمان‘ کے شمار ے میں ’’مجلس عمل کی پارلیمانی پارٹی کی جدوجہد‘‘ کے عنوان سے محترم جناب لیاقت بلوچ صاحب کا ایک مفصل مضمون شائع ہوا۔ ظاہر ہے کہ یہ موضوع کوئی علمی نوعیت کا نہیں، نہ اس میں عقیدے یا نظریے کو لمبا چوڑا دخل ہے۔ پارلیمانی جدوجہد کوئی ایسی بھی نہیں کہی جا سکتی کہ اس پر کلام نہ ہو سکتا ہو۔ چنانچہ میں نے اس کے حوالے سے ایک خط میں چند سوالات کی وضاحت چاہی۔ میرا خط ’ترجمان‘ میں جگہ نہ پا سکا۔ ارباب ’الشریعہ‘ کی مہربانی سے اسے جگہ مل گئی۔ ایک مہینے کے سکوت کے بعد نائب مدیر ترجمان القرآن جناب مسلم سجاد صاحب نے میرے سوالات کی اشاعت پر اعتراض کرتے ہوئے مدیر الشریعہ کو نصیحت فرمائی کہ ان کے ہاں چھپی ہوئی چیز کے بارے میں نقد چھاپنے سے پہلے لیاقت صاحب کا مضمون چھاپنا چاہیے تھا۔ مسلم صاحب کی نصیحت ’الشریعہ‘ میں شائع کر دی گئی۔ سوچنے کی بات ہے کہ ’ترجمان القرآن‘ جیسے پرچے کے ترجمان کس طرح دوہرے معیار کی بات کرتے ہیں۔ اپنے ہاں تو وہ چھاپی ہوئی چیز پر اپنے دیرینہ قاری کو کسی درجے میں جگہ دینے کو تیار نہیں، مگر دوسروں سے توقع رکھتے ہیں کہ ان کو جگہ دی جائے۔ اس سے زیادہ معقول بات تو یہ ہو سکتی تھی کہ ترجمان کی جانب سے میرے شائع شدہ مضمون کا جواب بھجوایا جاتا۔ بہر حال ارباب ترجمان عرش نشیں ہیں، مرضی کے مالک ہیں، مگر ان کی من مرضی اپنے نتائج پیدا کرنے سے تو رک نہیں جائے گی۔ ایک اور بات اس مرحلہ میں ذکر کردوں کہ میرے مضمون کو روزنامہ پاکستان نے ’الشریعہ‘ سے نقل کر دیا۔ کیا یہ مناسب نہیں ہو گا کہ مسلم سجاد صاحب اجازت دیں تو ان کا خط روزنامہ پاکستان کو بھی اشاعت کے لیے بھجوا دیا جائے؟ 
میں ذکر کر رہا تھا ارباب ’ترجمان‘ کے جامد رویے اور اس کے نتائج کا۔ مجھے دکھ ہے کہ اتنا بڑا پرچہ اشتہارات، اشارات، اور کتابوں پر تبصروں کے بعد چھپی ہوئی تحریروں سے اپنا پیٹ بھر کر گزارا کرتا ہے۔ ان کو لکھنے والے ہی نہیں ملتے۔ مسلم سجاد صاحب خرم مراد صاحب کے بھائی تو ہیں مگر خرم صاحب مرحوم کا نعم البدل اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا ہو جاتا تو شاید آج محترم جناب خورشید احمد صاحب کو اپنی ضعیفی کے باوجود بے شمار ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اشارات گھسیٹنے نہ پڑتے۔ معلوم نہیں، ان کے اشارات میں پاگل پن کے درجے کی جذباتیت کو کون داخل کرتا ہے۔ ترجمان کے تازہ شمارے میں مولانا محمد تقی عثمانی صاحب تو لکھتے ہیں کہ حقوق نسواں کے حوالے سے متنازعہ بل کے قانونی مضمرات کو قانونی باریکیوں کا فہم رکھنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ وہ سنجیدگی اور حقیقت پسندی سے غور کی دعوت دیتے ہیں، مگر محترم پروفیسر خورشید صاحب اشارات کا عنوان ہی ’’حدود اللہ کے خلاف اعلان جنگ‘‘ قائم کرتے ہیں۔ ان کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کے پہرے میں محصور چھوٹی سی ریلی میں کی گئی تقریر نقل کر دی گئی ہو۔ بہرحال یہاں اشارات پر گفتگو مقصود نہیں۔ یہ اندیشہ بھی ہے کہ مسلم صاحب اشارات پر دو چار جملے ہو جانے پر ناراض ہو کر یہ مطالبہ داغ دیں کہ ان سے پہلے اشارات نقل کیے جائیں۔
میرے مضمون کے حوالے سے میرے ایک عزیز خرم شہزاد صاحب نے اٹھائے ہوئے سوالات کے جوابات دیے ہیں۔ مجھے ان کے احساسات کی قدر ہے۔ میں ان کے خط پر یہاں بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ خیال تھا کہ ان کو خط لکھوں مگر معلوم ہوا کہ خط کے نیچے درج پتہ کامونکی کا ہے اور وہ کراچی منتقل ہو گئے ہیں۔ ان کا کراچی کا پتہ معلوم نہیں ہو سکا۔ در اصل میرے خط کا منشا مجلس عمل کی کار کردگی کو زیر بحث لانا نہیں تھا۔ میں نے بنیادی سوال یہ اٹھایا تھا کہ ترجمان القرآن ایک علمی، دینی، نظریاتی پرچہ ہے۔ اسے رہنما کی حیثیت حاصل ہے۔ اس میں پروپیگنڈے کی سطح کی چیزوں کی گنجائش نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ادارے نے اس کی ضرورت کسی مجبوری کے تحت محسوس کی ہے تو پھر اسے کھلے عام مباحثے کی دعوت کے ساتھ پیش کرنا چاہیے تھا۔ میں نے اپنے خط میں صاف لکھا تھا کہ ترجمان کو ایک ہفت روزے کی سطح پر نہیں آنا چاہیے۔ میرے عزیز خرم صاحب میرے مضمون کا دوسرا پیرا دیکھ لیں تو مہربانی ہو گی۔ باقی مجلس عمل کی پارلیمانی کارکردگی کے بارے میں خرم صاحب کے خیالات کو ’الشریعہ‘ میں جگہ دی گئی ، اس پر میں خرم صاحب اور ادارہ دونوں کا شکر گزار ہوں۔ 
’ترجمان‘ کو لکھ کر میں ان کے جامد رویے کی جانب توجہ دلانا چاہتا تھا۔ میرے خط کا مقصد ایک دیرینہ قاری کے طور پر خیرخواہی تھا۔ میرے لیے یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ ترجمان اپنے حلقے میں لکھنے والوں کی نرسری تیار کرنے میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ ’ترجمان‘ کی کثرت اشاعت تو ماشا ء اللہ روز افزوں ہے، مگر اس کا معیار محل نظر ہے۔ در اصل نقد اور تنقید کو جگہ نہ دی جائے تو حرکت اور زندگی کی علامات معدوم ہو جاتی ہیں۔ ’الشریعہ‘ میں ان کی پرورش کی جاتی ہے۔ نتیجہ سامنے ہے کہ پچھلے چند سالوں میں لکھنے والوں کی کھیپ تیار ہے۔ ان کے ساتھیوں میں نوجوانوں کی پوری ٹیم ہے۔ مجھے تو ان نوجوانوں کی نیاز مندی میں بھی لطف محسوس ہوتا ہے۔
بات ہو رہی تھی نقد و تنقید کی۔ بڑا عجیب رویہ ہے۔ صدر مملکت، وزیر اعظم ہر روز فرماتے ہیں کہ فوج اور عدلیہ پر تنقید نہیں ہو سکتی۔ یہ قومی ادارے ہیں۔ ان کا احترام لازم ہے۔ یہ مقدس گائے کے درجے میں ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بیانات پڑھ کر سلطان راہی یاد آ جاتے ہیں۔ معمولی نوعیت کے تھانے کی سطح کے کیسوں کا خیار بلوغ کی طرح نوٹس لیا جاتا ہے، مگر وہ مقدمات جن سے ہر شہری کا حق متاثر ہوتا ہے، ان میں کوئی قابل ذکر نکتہ بھی نہیں، عشروں سے محروم توجہ ہیں۔ ’’انصاف ہر ایک کے لیے‘‘ کی کانفرنس کے باوجود کورٹ فیس سے متعلقہ اپیل کے بارے میں کچھ پتہ نہیں کیا بنا ہے اور کیا بنے گا۔ اسمبلی کی مدت پوری ہو رہی ہے مگر قومی اسمبلی کے ارکان کے سند کیس کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ چار سال سے یہ لوگ قومی خزانے سے کروڑوں کے معاوضے اور مراعات لے رہے ہیں، مگر ان کی اہلیت کا مسئلہ سپریم کورٹ میں بدستور معرض التوا میں ہے۔ اردو کو ۱۹۸۸ء تک سرکاری سطح پر رواج دینے کا عمل مکمل ہو جانا لازم تھا مگر اس دستوری تقاضے کا کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ میری معلومات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں درخواستیں طویل مدت سے پڑی ہیں۔ کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ سود کی لعنت کے بارے میں مقدمات بھی دفن معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ادارے عام آدمی کو کچھ نہ دے سکیں تو اشتہاری مہم جیسی کارکردگی سے کیا فائدہ؟ پھر بات کی جائے تو تنقید سے بالا تر ہونے کا استحقاق جتلایا جائے۔
صدر اور ان سے نیچے کے لوگ کہتے ہیں کہ مثبت اور تعمیری تنقید ہونی چاہیے۔ منفی اور غیر تعمیری تنقید نہیں ہونی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ مثبت اور منفی قابل تقسیم کیسے ہو گئے؟ مثبت اور منفی پہلو مل کر ایک اکائی بنتے ہیں۔ ان کی تقسیم کس طرح ممکن ہے؟ تخریب کے بغیر تعمیر کیسے ہو گی؟ تخریب اور تعمیر تو لازم ملزوم ہیں۔ لگتا ہے کہ ارباب حل و عقد تنقید کا معنی ہی نہیں جانتے۔ اس سے مراد کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کرنا ہوتا ہے۔ اچھائیاں اور برائیاں دونوں بیان کی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ تعریف اور قصیدہ گوئی کے ماہر ہوتے ہیں اور کچھ کو تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی آزادی رہنی چاہیے۔
تنقید روکنے کے بارے میں ارباب اقتدار کا رویہ اوپر ذکر ہو چکا، جماعتوں کو دیکھا جائے تو وہاں بات دو ہاتھ اور بھی آگے ہے۔ وہ کہتے ہیں اطاعت کی جائے۔ کام کیا جائے۔ صم بکم عمی فہم لا یرجعون کا معیار اختیار کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کے ماحول میں کیا تنقید کے لیے قبرستان کا رخ کرنا چاہیے کہ شاید وہاں پر دفن مردے تنقید پر عذر نہ کریں؟
ادارہ ’الشریعہ‘ کو مبارک باد کرکے اپنی بات کو ختم کرنا چاہتا ہوں۔ یقیناًانہوں نے انعام صاحب ہی نہیں، ان جیسے کئی اور لکھنے والوں کے حوصلوں کا جلا بخشنے کا سامان کیا ہے۔ انہوں نے اپنے منصب کی شان کو بلند کیا ہے۔ ارباب ’ترجمان القرآن‘ عرش سے نیچے اتر کر معروضی حالات کو دیکھنا گوارا کریں تو ’الشریعہ‘ جیسے چھوٹے سے پرچے سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر یہ ان کی اپنی صوابدید ہے۔ کسی جبر کا کوئی سوال نہیں۔ 
چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ
عابد کالونی۔ کھوکھرکی۔ گوجرانوالہ
(۲)
محترم ومکرم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب ،
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اللہ پاک کی ذات عالی سے امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔
عرض ہے کہ آپ کے موقر جریدے ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے شمارہ اکتوبر ۲۰۰۶ء میں مشتاق احمد نام کے کسی صاحب کا خط شائع ہواہے جو مدرسہ الحسنین للبنات کا خادم ہونے کا مدعی ہے۔ صاحب موصوف نے بزعمِ خود حضرات علمائے کرام کو ان کی ذمہ داریاں سمجھائی ہیں اور دعوت وتبلیغ کے کام کو اپنے خیالات کے لیے بطور ہتھیار اور ڈھال کے استعمال کیا ہے ۔خط کے مندرجات بھی کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ کوئی خادم مدرسہ تو درکنار، ایک عام دینی سوجھ بوجھ رکھنے والا بھی ایسا نہ لکھے گا ۔اللہ پاک محفوظ رکھے ۔آمین! گزارش ہے کہ نہ تو اس نام کے کوئی صاحب مدرسۃ الحسنین للبنات میں کسی حیثیت میں کسی خدمت پر مامور ہیں اور نہ اس خط کے مندرجات کو دعوت اور تبلیغ کے کام سے کوئی تعلق ہے ۔یہ تحریر بظاہر لکھنے والے کے اپنے احساسات وخیالات کی ترجمانی ہے، نہ کہ دعوت وتبلیغ کے مبارک کام کی جو عام مسلمان کا بھی اکرام کرنے کا داعی ہے، چہ جائیکہ علماء کرام!
اللہ پاک آپ حضرات کی دینِ متین کی سربلندی کے لیے کی جانے والی کوششوں کوبہت ہی قبول فرمائے اور آپ کی توجہات سے ہمیں محروم نہ فرمائے ۔آمین!
(مولانا) طارق جمیل
۱۲۲؍بی، گلستان کالونی، فیصل آباد
(۳)
گرامی قدر جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
سلام مسنون مزاج گرامی؟
مجھے آپ سے دلی ہمدردی ہے کہ آپ ’’فکر اسلامی‘‘ کے ایک بحر ناپیدا کنار سے اتر کر فقہ کی تنگنائے میں شناوری کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اخبارات اور ’الشریعہ‘ سے علما کا موقف معلوم ہوا تو حیرت ہوئی کہ تحفظ نسواں ایکٹ کی اصل خرابیوں کا کہیں ذکر نہیں تھا۔ اس پر چند معروضات لکھ کر ’نوائے وقت‘ کو ارسال کیں تاکہ علما کی فوری توجہ حاصل کر سکیں، لیکن وہاں جس قطع وبرید اور اقساط سے طبع ہو رہی ہیں، اس سے ان کی افادیت کم ہو گئی ہے۔ مزید برآں ’الشریعہ‘ جن حلقوں میں اور جس سنجیدگی سے پڑھا جاتا ہے، وہ روزناموں کو کہاں نصیب! اس لیے سوچا کہ آپ کو ارسال کر دوں، اگر طبع ہو سکیں تو زہے نصیب۔ دعاؤں میں یاد رکھیں۔
(ڈاکٹر) محمد طفیل ہاشمی 
ہاؤس ۱۸۹، سٹریٹ ۱۹، گلشن خدادا د 
ای الیون ون ۔ اسلام آباد 
(۴)
مکرمی ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی صاحب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہمدردی کا شکریہ! مگر میرے سامنے فقہ کی تنگنائے سے کہیں زیادہ مغربی فلسفہ وثقافت کا وہ طوفان ہے جو اسلام کی تعبیر وتشریح کے روایتی فریم ورک کو توڑ کر مسلم معاشرہ میں اپنے اثر ونفوذ کو وسیع کرنے میں پوری قوت کے ساتھ مصروف ہے، اس لیے میں کسی ایسی وسعت اور روشن خیالی کا ساتھ دینے کے لیے خود کو تیار نہیں پاتا جو مغرب کے اس ایجنڈے میں کسی حوالے سے بھی پیش رفت کے لیے معاون بن سکتا ہو۔ باقی ’الشریعہ‘ آپ کا اپنا جریدہ ہے۔ جب چاہیں، آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہے۔ شکریہ!
ابو عمار زاہد الراشدی

مولانا صفی الرحمن مبارک پوریؒ

عاصم نعیم

عالم اسلام کے معروف عالم دین، نامور سیرت نگار، محدث، مدرس، مصنف، مورخ، مناظر اور ادیب مولانا صفی الرحمن مبارک پوریؒ یکم دسمبر ۲۰۰۶ کو اپنے آبائی قصبے حسین پور (مبارک پور، اعظم گڑھ، انڈیا) میں بعمر ۶۴ برس انتقال فرما گئے۔ جناب صفی الرحمن مبارک پوری کی پیدایش ۱۹۴۲ء کے وسط میں ہوئی۔ ان کی ابتدائی تعلیم مبارک پور کے مدرسہ دار التعلیم اور مدرسہ احیاء العلوم میں ہوئی۔ بعد ازاں مدرسہ فیض عام، میو (یو پی) میں عربی زبان وقواعد اور تفسیر، حدیث، اصول حدیث، فقہ، اصول فقہ وغیرہ شرعی علوم میں مہارت حاصل کی اور ان مضامین کے امتحانات میں امتیازی حیثیت میں کامیابی حاصل کی۔ ۱۹۶۱ء میں ضلع الٰہ آباد اور پھر ناگ پور میں درس وتدریس اور تقریر وخطابت کا مشغلہ اختیار کیا۔ ہندوستان کے مختلف شہروں کے مختلف مدارس میں درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ ۱۹۷۸ء میں سیرت پر ان کی مشہور کتاب ’’الرحیق المختوم‘‘ کو عالمی ایوارڈ ملا تو عرب کے علمی حلقوں میں متعارف ہوئے جس کی بنا پر جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ کے ذیلی شعبے مرکز السیرۃ النبویہ میں بطور محقق کام کرنے کا موقع ملا۔ بعد ازاں وہ مکتبہ دار السلام، ریاض سے وابستہ ہو گئے اور وہیں صحیح مسلم کی عربی شرح ’منۃ المنعم‘ تصنیف کی۔
مولانا مرحوم کی عالم گیر شہرت کی اصل وجہ ان کی مایہ ناز تصنیف ’’الرحیق المختوم‘‘ ہے جسے ۱۹۷۸ء میں رابطۃ العالم الاسلامی کے زیر اہتمام مقالات سیرت کے مقابلے میں پہلے انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔ یہ کتاب اصلاً انھوں نے عربی زبان میں لکھی اور بعد ازاں خود ہی ا س کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا۔ اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو عربی اور اردو، ہر دو زبانوں میں انشا وتحریر کا عمدہ ذوق اور سلیقہ عطا کیا تھا۔ قدیم وجدید مصادر سیرت سے اخذ وانتخاب اور تحقیقی وتنقیدی صلاحیتوں سے بھی مالامال تھے۔ بایں وجہ ’’الرحیق المختوم‘‘ نے اردو ادبِ سیرت میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ اس کتاب کا شمار اردو زبان کی محقق، مستند اور شاہکار کتب سیرت میں ہوتا ہے۔ مرحوم کی دیگر تصانیف میں ’صحف یہود ونصاریٰ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بشارتیں‘، ’تذکرہ شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب‘، ’تاریخ آل سعود‘، ’قادیانیت اپنے آئینے میں‘، ’فتنہ قادیانیت اور مولانا ثناء اللہ امرتسری‘، ’انکار حدیث کیوں؟‘ اور بلوغ المرام کی عربی واردو شرح ’اتحاف الکرام‘ اہم ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کو ان کی دینی ودعوتی خدمات کا اچھا صلہ عطا فرمائیں۔ آمین

الشریعہ اکادمی کی سرگرمیاں

ادارہ

  • الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام ۲۰۰۶۔۲۰۰۷ کے تعلیمی وتربیتی پروگرام کے تحت علما، اساتذہ اور طلبہ کے لیے اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کے ہفتہ وار تربیتی لیکچرز کے سلسلے کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس ضمن میں پہلا لیکچر ۱۶؍ دسمبر بروز ہفتہ کو ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کے تاریخی وفکری پس منظر کے حوالے سے دیا گیا۔ جس میں مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے علما اور طلبہ شریک ہوئے اور موضوع سے گہری دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے سوالات اٹھائے۔ تربیتی لیکچرز کے اس سلسلے کے لیے ہفتے کے دن مغرب کی نماز کے نصف گھنٹہ بعد کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ 
  • علما واساتذہ کی علمی وفکری تربیت اور پیش آمدہ مسائل پر سنجیدہ بحث ومباحثہ کو فروغ دینے کے لیے اکادمی کے زیر اہتمام ایک ہفتہ وار مذاکراتی نشست کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں تعلیم وتدریس اور دیگر سماجی ومعاشرتی شعبوں سے تعلق رکھنے والے اہل فکر متعین عنوانات پر تبادلہ خیال کریں گے۔ اس سلسلے میں ابتدائی مشاورتی اجلاس ۱۶؍ دسمبر کو اکادمی میں منعقد ہوا جس میں اس نشست کے لیے ہفتے کے دن بعد از نماز عشا کا وقت مقرر کرنے پر اتفاق رائے کیا گیا۔
  • الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام کوروٹانہ (عقب واپڈا ٹاؤن) گوجرانوالہ میں مدرسہ طیبہ تحفیظ القرآن میں قرآن کریم حفظ وناظرہ کی کلاس شروع کر دی گئی ہے جس میں قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مڈل تک اسکول کی تعلیم کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ قاری محمد آصف مہر صاحب کو کلاس کا انچارج مقرر کیا گیا ہے۔
  • میرپور، ڈھاکہ کے ’دار الرشاد‘ کے مہتمم مولانا سلمان ندوی ۲۴؍ نومبر ۲۰۰۶ کو الشریعہ اکادمی میں تشریف لائے اور ایک خصوصی نشست میں علما اور اساتذہ کے ساتھ تعلیمی امور پر تفصیلی بات چیت کی۔ احباب نے ان سے بنگلہ دیش کے دینی مدارس کے نصاب ونظام اور طریق کار کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ 

انا للہ وانا الیہ راجعون

  • الشریعہ اکادمی کے ناظم مولانا حافظ محمد یوسف کی والدہ محترمہ طویل علالت کے بعد ۲۱؍دسمبر بروز جمعرات انتقال فرما گئیں۔ مرحومہ بے حد نیک، شب زندہ دار اور صابر وشاکر خاتون تھیں۔ 
  • حافظ محمد عاطف صاحب کے نانا محترم محمد غلام رسول ولد محمد قطب دین مرحوم ۱۱ ؍دسمبر بروز پیر انتقال کر گئے۔ مرحوم صوم وصلوۃ کے پابند اور دین دار بزرگ تھے۔ 
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحومین کی مغفرت فرمائیں، درجات بلند فرمائیں اور ان کے سایہ شفقت سے محرومی پر پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائیں۔ آمین۔

فروری ۲۰۰۷ء

روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرقمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
پاکستان پیپلز پارٹی ۔ قیادت اور کارکردگی کا ایک جائزہپروفیسر شیخ عبد الرشید
تجدد پسندانہ رجحانات اور جدیدیت کا اسلامی فلسفہحافظ محمد سمیع اللہ فراز
اقبال کے حوالے سے کچھ منفی رویےمحمد عمران ہاشمی
سید حسین احمد مدنیؒ اور تجدد پسندیپروفیسر میاں انعام الرحمن
غامدی صاحب کے تصور ’فطرت‘ کا تنقیدی جائزہحافظ محمد زبیر
مکاتیبادارہ
تعارف و تبصرہمولانا مشتاق احمد

روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی نے ۲ جنوری سے ۱۰ جنوری ۲۰۰۷ تک بر طانیہ کے چند شہروں لندن، برمنگھم، نوٹنگھم، والسال، آکسفرڈ اور لیسٹر وغیرہ میں مختلف تعلیمی اداروں کا دورہ کیا اور متعدد اصحاب فکر ودانش سے دینی وتعلیمی مسائل پر گفتگو کی۔ ۸ جنوری کو بعد نماز عشا آکسفرڈ میں سٹینلے روڈ کی مدینہ مسجد میں احباب کی ایک نشست سے ان کے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

مغرب نے تاریک ادوار سے نکل کر انقلاب فرانس کے ساتھ اب سے کم وبیش تین سو برس پہلے جس نئے علمی، تہذیبی، سیاسی اور سماجی سفر کا آغاز کیا تھا، اسے تاریکی سے روشنی، ظلم سے انصاف اور جبر سے حقوق کی طرف سفر قرار دیا جا رہا ہے۔ مغرب نے اس عمل میں جن نئے افکار اورفکر وفلسفے کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، انھیں روشن خیالی کی علامت تصور کیا جاتا ہے اور ہم مسلمانوں سے بھی دنیا بھر میںیہ تقاضا کیا جا رہا ہے کہ ہم اس روشن خیالی کو قبول کریں اور مغرب کے اس سفر میں اس کے ساتھ شریک ہوں، مگر ہمار اروشن خیالی کا تصور مغرب کی روشن خیالی سے قطعی طور پر مختلف بلکہ متضاد ہے۔ ہماری روشن خیالی کا تاریخی پس منظر مغر ب سے الگ ہے اوراس کی تاریخ بھی مغرب سے الگ ہے۔
مغرب نے تاریکی سے روشنی کی طرف سفر انقلاب فرانس سے شروع کیا اور مغرب کے ہاں تاریک دور اورروشن دور میں فاصل انقلاب فرانس ہے۔ اس سے پہلے کا دور تاریکی، جہالت اور ظلم وجبر کا دور کہلاتاہے جبکہ اس کے بعد کے دور کو روشنی، علم اور انصاف وحقوق کا دورکہا جاتاہے، مگر ہمارے ہاں دور جاہلیت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کے دور کو سمجھا جاتاہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے زمانہ جاہلیت، ظلم وجبراور تاریکی کا دورکہلاتاہے، جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت سے شروع ہونے والا دور علم، روشنی اور عدل کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ہماری روشن خیالی کے تصور اور تاریخ کا مغرب کی روشنی خیالی کے تصور اور تاریخ سے کوئی جوڑ نہیں بنتا۔ ہم نے مغرب سے گیارہ سوبرس پہلے روشنی کے دور میں قدم رکھا تھا اورجاہلیت کو خیرباد کہہ کر علم اورعدل کے دورکی طرف پیش رفت کی تھی۔
یہ فرق تو تاریخی حوالے سے ہے،جبکہ ہماری روشن خیالی اور مغرب کی روشن خیالی میں ایک اور جوہری فرق بھی ہے جس کو ملحوظ نہ رکھنے والے بہت سے دانشور خود بھی کنفیوژن کا شکار ہو رہے ہیں اور مسلم امہ کو بھی کنفیوژن کاشکار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ جوہری فرق یہ ہے کہ مغرب جس سفر کو تاریک دور سے روشن دور کی طرف سفر قراردیتاہے، وہ دراصل آسمانی تعلیمات سے انحراف اور وحی الٰہی سے روگردانی کرکے انسانی سوسائٹی کی خواہشات کو ہرچیز کا معیار قراردینے کا سفر ہے۔ اس طرح مغرب کے نزدیک آسمانی تعلیمات تاریکی کے دور کی علامات قرارپاتی ہیں، جبکہ انسانی سوسائٹی کی خواہشات پر مبنی فکر وفلسفہ روشنی کا عنوان اختیار کر جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں صورت حال اس سے قطعی مختلف ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حجۃ الوداع کے خطبے میں یہ ارشاد فرمایاتھا کہ ’’جاہلیت کی تمام قدریں آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسانی سوسائٹی کی خواہشات کی بالاتری کو مسترد کرتے ہوئے آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی طرف واپسی کا اعلان کر رہے تھے۔ گویا ہمارے نزدیک سوسائٹی کی خواہشات کی بالادستی، جہالت اور تاریکی کی علامت ہے جبکہ آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی طرف واپسی روشن خیالی اور علم کی جانب سفر تصور ہوتا ہے۔ مغرب آسمانی تعلیمات کی معاشرے پر بالادستی کوجہالت اورتاریکی قراردیتاہے، مگر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوسائٹی کی خواہشات کی برتری کوجہالت اور تاریکی قراردیتے ہوئے آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی طرف رجوع کو روشنی اور علم کی علامت بتایا ہے۔ اس لیے ہمارا روشن خیالی اور دورِ علم کا تصور مغرب کی روشن خیالی اور دورِ علم کے تصور سے قطعی مختلف اور متضاد ہے، اور ہمارے لیے اس سفر میں مغرب کاساتھ دینا اسلامی عقیدے اورتعلیمات کی رو سے ممکن ہی نہیں ہے۔ ہم آج بھی قرآن وسنت کی حقانیت پر بے لچک ایمان رکھتے ہیں اور نسل انسانی کو آسمانی تعلیمات کی طرف واپس بلا رہے ہیں، جبکہ مغرب اسے جہالت اور تاریکی کے دور کی طرف واپسی سے تعبیر کر رہا ہے اور مسلم امہ کو اس عقیدے سے ہٹانے کے لیے اپنا پورا زور صرف کر رہا ہے۔ 
پھر روشن خیالی اور علم کی اس بحث کے حوالے سے ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ آج کی جدید معاشرت اور تمدن وثقافت کی جتنی علامات ہیں اورجن اقدار وروایات کو جدید تہذیب کی اساس تصور کیا جاتا ہے، ان میں ایک بھی ایسی نہیں ہے جو نئی ہو اور اس معاشرت وثقافت کا حصہ نہ ہو جسے ہم چودہ سو سال قبل ’’دور جاہلیت‘‘ قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں اور جس جاہلی دور کی اقدار کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے قدموں تلے روندنے کا تاریخی اعلان فرمایا تھا۔
مرد وعورت کا آزادانہ اختلاط، ہم جنس پرستی، زنا، فحاشی، عریانی، شراب، جوا، سود، کہانت، حلال وحرام کا عدم امتیاز اور ناچ گانا وغیرہ،یہ سب کی سب اقدار وہ ہیں جو ابوجہل او ر ابولہب کے دور جاہلیت کا خاصہ تھیں اور آج کی طرح اس دور میں بھی ترقی اور افتخار کی علامت تصورہوتی تھیں، مگر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام جاہلی اقدار کے خاتمے کا اعلان کیا اور ان اقدار کے خاتمے کو جاہلیت کے دور کے خاتمے سے تعبیر کیا،مگر آج مغرب انہی جاہلی اقدار کو پھر سے جھاڑ پھونک کر نئے میک اپ کے ساتھ دنیا کے سامنے جدید تہذیب وثقافت کی ترقی یافتہ اقدار کے طورپر پیش کررہاہے اور ہم مسلمانوں سے مسلسل مطالبہ کررہاہے کہ انسانی معاشرت کی جن جاہلی اقدار کو ہم چودہ سوسال پہلے پاؤں تلے روند کر آگے بڑھے تھے، انہی جاہلی روایات واقدار کو جدید تہذیب وتمدن اور ثقافت کے نام پر دوبارہ اختیار کرلیں۔
مغرب کو آج سے تین صدیاں قبل جن وجوہ کی بنا پر آسمانی تعلیمات سے دستبرداری اختیار کرنا پڑی تھی، اس میں مغرب کا اپنا ایک مخصوص پس منظر ہے اور اس نے جو کئی صدیاں ظلم وجبر کے دور میں بسر کیں، وہ بھی اس کا اپنا علاقائی تناظر ہے۔ ہمیں اس سے انکار نہیں ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان اسباب وعوامل کی موجودگی میں مغرب کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا جو اس نے کیا، مگر ہمار ا پس منظر یہ نہیں ہے اور ہمیں ان عوامل اور اسباب کا سامنا کبھی نہیں رہا جن کی وجہ سے مغرب کو انقلاب فرانس کے مرحلے سے گزرنا پڑا، مگر مغرب تاریخی اور زمینی حقائق سے آنکھیں بند کرتے ہوئے اپنا مخصوص پس منظر اور علاقائی بیک گراؤنڈ ہم مسلمانوں پر بھی زبردستی مسلط کرنا چاہتاہے اور ہمیں آسمانی تعلیمات سے انحراف اوروحی الٰہی سے روگردانی کے اس سفر میں ہر قیمت پر اپنے ساتھ رکھنے پر مصر ہے جو سراسر اناانصافی اور دھونس کے مترادف ہے، اس لیے مسلمان علما ے کرام اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس فکری وتہذیبی دھونس کو سمجھنے کی کوشش کریں اور تاریخی حقائق کو ان کے اصل پس منظر میں سامنے لاکر مغرب پر واضح کریں کہ وہ اپنا پس منظر اور اس پس منظر میں تشکیل پانے والے فکروفلسفہ کو مسلمانوں پر بزور طاقت مسلط کرنے کی جو کوشش کر رہاہے، وہ زیادتی اور ناانصافی ہے جسے مسلم امہ کبھی اور کسی قیمت پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگی۔
مغربی تہذیب وثقافت کے حوالے سے ہمارا موقف واضح ہے کہ ویسٹرن کلچر اور فکر وفلسفہ کی بہت سی مروجہ اقدار دراصل وہی جاہلی اقدار ہیں جنہیں اسلام نے چودہ سو سال قبل دور جاہلیت کی قدریں قراردے کر مسترد کردیاتھا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں یہ تاریخی اعلان فرما کر ان اقدار سے بیزاری کا اظہار فرمایاتھا کہ ’’آج جاہلیت کی تمام قدریں میرے پاؤں کے نیچے ہیں‘‘، بلکہ بعض حوالوں سے اس دور کی جاہلیت یعنی ابوجہل اور ابولہب کی جاہلیت آج کی جاہلیت جدیدہ سے بہتر معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً سیکس کے فری ہونے کا مسئلہ وہاں بھی تھا اور آج بھی اس کے فری ہونے پر سب سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے، مگر ڈیڑھ ہزار سال قبل کے دور جاہلیت میں سیکس کے کئی راستے کھلے رکھنے کے باوجود کسی بچے کی ولادت پر اس کے نسب اور اس کی کفالت کی ذ مہ داری کے تعین کا سسٹم موجود تھا اور کوئی بچہ بغیر باپ کے نہیں رہ پاتا تھا۔ 
اس دور میں مرد اور عورت کے جنسی تعلق کی ایک صورت تو یہی تھی جسے زندگی بھر کے نکاح کی صورت میں اسلام نے بھی باقی رکھا ہے۔ 
دوسری صورت موقت نکاح کی تھی جس میں کوئی مرد اور عورت مناسب معاوضے پر ایک مقررہ وقت کے لیے جنسی تعلق قائم کرتے تھے اور مدت گزر جانے کے بعد ان کا یہ نکاح متعہ ختم ہو جایا کرتا تھا۔ اسے اسلا نے ناجائز قرار دے دیا اور اب اس کی اجازت نہیں ہے۔
تیسری صورت یہ تھی جسے ’’استبضاع‘‘ کہا جاتا تھا کہ میاں بیوی اور خاندان کے باہمی مشورے سے کوئی عورت کسی تیسرے خاندان میں جاتی تھی اور کسی بہادر یا سخی شخص سے جنسی تعلق قائم کر کے ا سے حاملہ ہوتی تھی جس کے بارے میں تصور یہ تھا کہ اس طرح اچھی نسل حاصل ہوتی ہے۔ اس صورت میں اس بچے کا نسب اس عورت کے اصل خاوند سے ہی ثابت ہوتا تھا جس کی رضامندی اور مشورے سے وہ کسی اور شخص کے پاس گئی تھی۔
چوتھی صورت یہ تھی کہ کوئی عورت بیک وقت پانچ چھ افراد سے جنسی تعلق رکھتی ہے جس کا ایک دوسرے کو پتہ ہوتا تھا اور اگر بچہ پیدا ہو جاتا تو وہ ان سب کو اکٹھے بلا کر سب کی موجودگی میں اس بچے کو ان میں سے کسی سے منسوب کر دیتی تھی جسے قبول کرنے کا وہ پابند ہوتا تھا اور بچے کا نسب اور کفالت اس شخص کے حوالے سے ہوتا تھا۔
پانچویں صورت یہ تھی کہ بعض عورتوں اپنے مکانوں پر خاص قسم کا پرچم لہرائے رکھتی تھیں جو اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ یہاں معاوضہ دے کر کوئی بھی شخص آ سکتا ہے۔ ایسی کسی عورت کے ہاں بچہ ہوتا تو وہ اپنے اندازے کے مطابق متعلقہ افراد کو طلب کرتی جو سب اکٹھے ہونے کے پابند تھے۔ ایسی صورت میں قیافہ شناس بلائے جاتے تھے جو قیافے کے ذریعے سے ان افراد میں سے اس بچے کے باپ کا انتخاب کرتے تھے اور وہ اس کے نسب اور کفالت کا ذمہ دار قرار پاتا تھا۔
یہ اس دور جاہلیت میں سیکس کے فری ہونے کی صورت میں بچے کے نسب اورکفالت کے تعین کا سسٹم تھا جس کی موجودگی میں کوئی بچہ لاوارث یا سنگل پیرنٹ نہیں ہوتاتھا، لیکن آج کی جدید جاہلیت سیکس کو فری کرنے کے بعد اس کے نتائج سے نمٹنے کا کوئی نظام وضع نہیں کرسکی اور سنگل پیرنٹ کا قانون طے کرکے اس نے نسب اورکفالت کی ذمہ داری کا سرے سے پتہ ہی کاٹ دیاہے اورسیکس کے جس عمل میں مرد اور عورت دونوں برا بر کے شریک تھے، اس کے نتائج بھگتنے کے لیے عورت کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ مرد اپنا کام کر کے چلتا بنتا ہے اور اس کے نتائج سب کے سب عورت کو بھگتنا ہوتے ہیں جسے عورت کے حقوق اور اس کی آزادی اور مرد وعورت کی مساوات کا نام دے دیا گیا ہے۔
اس پر مجھے محترمہ ہیلری کلنٹن کی ایک بات یاد آگئی۔ جب وہ امریکہ کی خاتون اول تھیں تو اسلام آباد کے دورے پر تشریف لائیں اورایک گرلز کالج کے دورے کے موقع پر انہوں نے سیکنڈ ایئر کی ایک پاکستانی طالبہ سے پوچھا کہ یہاں کالج کی طالبات کو کیا مسائل درپیش ہوتے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ ہمیں معیاری لائبریریاں اور لیبارٹریاں میسر نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے ہم ریسرچ میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ اس لڑکی نے امریکہ کی خاتون اول سے سوال کیا کہ امریکہ میں کالج کی طالبات کو کیا مسائل درپیش ہوتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کالج تک پہنچتے پہنچتے بہت سی لڑکیوں کی گود میں بچہ ہوتاہے جس کاکوئی ذمہ دار نہیں ہوتا اور وہ مصیبت میں پڑی ہوتی ہے کہ اس بچے کی پرورش کرے یا تعلیم حاصل کرے۔ اس سے آپ اندازہ کر لیجیے کہ ڈیڑھ ہزار سال قبل کے دورجاہلیت کے فری سیکس اور آج کی دور جاہلیت کے فری سیکس میں کیا فرق ہے؟ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق مانع حمل ادویات اور اسقاط حمل کی تمام تر سہولتوں کے باوجود جو بچے پیدا ہو رہے ہیں، ان میں سے گزشتہ سال چالیس فیصد بچے بغیر شادی کے پیدا ہوئے۔
اسلام نے اسی وجہ سے نکاح کے سوا جنسی تعلق کی تمام صورتوں کو ناجائز قرار دیاہے اور زنا کے حوالے سے انتہائی سختی کی ہے کہ اس کے بغیر نسب، کفالت اور خاندان کا نظام ہی باقی نہیں رہتا۔ 

پاکستان پیپلز پارٹی ۔ قیادت اور کارکردگی کا ایک جائزہ

پروفیسر شیخ عبد الرشید

جمہوریت کو رائے عامہ کی حکومت کہا جاتاہے اور موجودہ دور میں رائے عامہ کی تشکیل اور اظہار میں سیاسی جماعتوں کا کردار نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ ’’ اکثریت کی حکومت‘‘ کے اصول پر عملدرآمد سیاسی جماعتوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جمہوری سیاسی نظام میں سیاسی جماعتوں کی تقریباً وہی حیثیت ہوتی ہے جو انسانی جسم میں دوڑتے ہوئے خون کی ہے۔ جس طرح جسدِ انسانی کی صحت کا دارومدار خون پر ہوتا ہے، بالکل اسی طرح جمہوری نظام کی کامیابی اور مستقبل کا انحصار سیاسی جماعتوں کی استعداد کار اور تنظیم و قیادت پر ہوتاہے۔ اسی لیے ماہرین سیاست جدید جمہوریت کی کامیابی کے لیے سیاسی جماعتوں کے وجود کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ منرو(Munro) کہتاہے: ’’آزاد سیاسی جماعتوں کے ذریعے حکومت دراصل جمہوری حکومت کا دوسرا نام ہے۔ سیاسی جماعت، یکساں خیالات، متفقہ منشور اور حصول اقتدار کے بعد ملک و قوم کی خدمت دراصل ایک ہی سلسلے کی کڑیا ں ہیں ۔‘‘
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی تعداد ایک سو سے زائد ہے، تاہم ان میں سے اکثر پر سیاسی جماعت ہونے کا ’’الزام‘‘ لگانا بھی مشکل ہے اور پھر قومی سطح کی شناخت اور ملکی سیاست پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت سے مالا مال سیاسی جماعتیں تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ موجودہ سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی ملک کی بڑی اور وفاقی سیاسی جماعت ہونے کی دعوے دار ہے۔ آئندہ سطور میں ہم پیپلز پارٹی کی مختصر تاریخ، اس کی قیادت، اس کے اثرات و کارکردگی اور ملکی سیاست و جمہوریت میں اس کے کردار کا جائزہ لیں گے ۔
ذوالفقار علی بھٹو اپنے عہد کی اہم، غیر معمولی صلاحیتوں کی مالک اور متنازعہ سیاسی شخصیت تھے۔ شروع میں وہ خود کو بھارتی شہر ی تصور کرتے تھے۔ وہ ۱۹۴۷ ؁ء میں بھارت کے پاسپورٹ پر امریکہ گئے۔ انہوں نے متروکہ املاک کے کسٹوڈین کی عدالت میں دائر مقدمے میں اقرار کیا کہ وہ بھارتی شہری ہیں۔ جولائی ۱۹۴۹ ؁ء تک بھٹو کو پاکستانی پاسپورٹ بھی جاری نہ ہوا تھا۔ اسکندر مرزا نے جب انہیں ایوب خاں کی کابینہ میں شامل کیا تو انہوں نے جائیداد کے بارے میں اپنا دعویٰ واپس لیا۔ وہ ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ میں ممبر اور جنرل سیکرٹری رہے۔ ابتدا میں ہی انہوں نے کنونشن مسلم لیگ میں فارورڈ بلاک بنا کر اس پر قبضہ کرنے کی کوشش بھی کی اور پھر کونسل مسلم لیگ کا ممبر بن کر وہ مسلم لیگ کے دھڑوں کو متحد کرنے کے امکانات پر بھی غور کرتے رہے۔ معاہدہ تاشقند پر اختلاف کے بعد اپنے سیاسی گارڈین ایوب خاں کی کابینہ سے ۱۹۶۶ ؁ء میں مستعفی ہوگئے اور انتقام کے جذبے سے مغلوب ہو کر ان پر تنقیدی حملے شروع کر دیے۔ یہاں تک کہ نومبر ۱۹۶۶ ؁ء میں بھٹو نے مجیب الرحمن کے چھ نکاتی پروگرام کی حمایت کے اظہار کے لیے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا، حالانکہ بطور وزیر خارجہ انہوں نے خود مختاری کی اسی اسکیم کو قوم دشمن قرار دیا تھا۔ لارنس زائرنگ کے مطابق ’’ بھٹو جانتے تھے کہ ایوب بالآخر اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے، چنانچہ وہ خم ٹھونک کر اس شخص کے مقابل آگئے جس کی وہ آٹھ برس تک ملازمت کرچکے تھے ۔‘‘ کچھ عرصہ تک حالات کا جائزہ لینے کے بعد انہوں نے ایک سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ وہ کسی دوسری سیاسی جماعت، اس کی قیادت اور منشور و کارکردگی سے مطمئن نہ تھے۔ وہ ایک ایسی سیاسی جماعت بنانا چاہتے تھے جوان کے ذاتی فلسفے کی تشہیر کا ذریعہ بن سکے اور جس کے ساتھ ماضی کے واقعات اور شخصیات کا کوئی سابقہ اور لاحقہ نہ ہو۔ انہوں نے اکتوبر ۱۹۶۷ ؁ء میں پیپلز پارٹی بنانے کا اعلان کیا۔ ۳۰ نومبر سے یکم دسمبر ۱۹۶۷ء تک لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر بھٹو کی قیادت میں قومی کنونشن منعقد ہوا۔ جے اے رحیم، عبد الحفیظ پیر زادہ، شیخ عبدالرشید، یحییٰ بختیار، معراج محمد خاں، تاج محمد لنگاہ ، ممتاز بھٹو، محمود علی قصوری، حنیف رامے، حیات محمد خان شیر پاؤ، غلام مصطفی کھر، مختار رانا، خورشید حسن میر، کامریڈ غلام محمد، حامد سرفراز، ملک نوید احمد، احمد خاں وغیرہ اس میں شامل ہوگئے۔ ۱۶ دسمبر ۱۹۶۷ء کو حیدر آباد میں حزب اختلاف کے راہنما میر رسول بخش تالپور کی رہائش گاہ پر پارٹی باقاعدہ تشکیل دی گئی۔ بلا 
شبہ پیپلز پارٹی کے قیام کے وقت بھٹو ملک کے سب سے مقبول اور مسلمہ سیاسی راہنما تھے۔ ایوب خاں کے زوال میں ان کا کردار کلیدی تھا۔ ’’اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور عوام قوت کا سرچشمہ‘‘ کے پارٹی نعرے سے عوامی سوچ کی عکاسی ہوئی۔ اس تصور نے عام آدمی سے لے کر دانشوروں تک کو اپنے سحر میں لے لیا اور ایوب حکومت سے مایوس لوگ بھی پیپلز پارٹی کی طرف دیکھنے لگے۔ نومبر ۱۹۶۸ء میں بھٹو کو حراست میں لے لیا گیا۔ تب سے مارچ ۱۹۶۹ء تک بھٹو کی کرشماتی لیڈر شپ نے اپنے سابق مربی کے خلاف عوامی شورش کو منظم اور پارٹی کو مزید مقبول بنا یا۔ ایوب نے بھٹو کی رہائی کا حکم دے دیا تاکہ سنجیدہ مذاکرات میں حصہ لے سکیں، مگر پی پی پی کے راہنما صدر سے بھٹو کی ملاقات کے بارے متذبذب تھے کہ اس طرح ایوب کے ہاتھ مضبوط ہوں گے اور اقتدار کو طول ملے گا۔ ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ء کو ایوب کے سبک دوش ہونے اور اقتدار جنرل یحییٰ خاں کے سپرد ہونے کا اعلان ہوا ۔ پھر جب یہ اعلان ہوا کہ عام انتخابات اکتوبر ۱۹۷۰ء میں کرائے جائیں گے تو ۲۵سیاسی جماعتوں نے قومی اسمبلی کے لیے پہلے عام انتخابات کی مہم کا بھرپور آغازکیا۔ تین سو منتخب نشستوں کے لیے ۱۵۷۰؍ امیدوار میدان میں آگئے۔ ان انتخابات کا درد ناک پہلو یہ ہے کہ یہ الیکشن نہ تو مسلمہ قانونی راہنما اصولوں کے تحت کرائے گئے اور نہ ہی ان میں حصہ لینے والی سیاسی تنظیموں کے درمیان کوئی افہام و تفہیم موجود تھی۔ یہ الیکشن ۱۹۶۲ء کا دستور منسوخ ہونے کے بعد سیاسی و فوجی ٹولے کے حکم پر کرائے گئے اور ان کا مقصد ایک نیا سیاسی نظام وضع کرنے کی بجائے ایوب خاں کے سیاسی نظام کے خاتمے کی توثیق کرنا تھا۔ سیلاب کی وجہ سے پولنگ کی تاریخیں قومی اسمبلی کے لیے ۷دسمبر اور صوبائی کے لیے ۱۷ دسمبر طے ہوئیں۔ پی پی پی نے قومی اسمبلی کے لیے مشرقی پاکستان سے کوئی امیدوار کھڑا نہ کیا جبکہ مغربی پاکستان میں ۱۱۹؍ امید وار کھڑے کیے۔ بھٹو نے انتخابی مہم کے دوران طلبہ، وکلا اور مخصوص شعبوں سے تعلق رکھنے والے گروہوں پر انحصار کیا جو ایوب حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک میں پیش پیش تھے۔ پیپلز پارٹی کو بشیر بختیار کی پاکستان لیبر پارٹی جیسی منظم مزدور تحریک کی پشت پناہی کے علاوہ پاکستان پریس ورکرز یونین، تانگہ اور ٹیکسی ڈرائیور یونینوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ پی پی پی کی انتخابی مہم میں مقبولیت کی وجہ اس کا دلکش نعرہ ’’ روٹی کپڑا اور مکان‘‘ تو تھا ہی، مہاجروں اور پنجابیوں کی دلچسپی کی وجہ بھارت کے خلاف بھٹو کا غیر مصالحانہ رومانوی رویہ تھا۔ انتخابی مہم میں بھٹو نے بھارت کے خلاف ہزار سال تک جنگ کرنے کی باتیں کی تھیں۔ نومولود پارٹی ہونے کی وجہ سے بھٹو کو موجود پاور سٹرکچر سے مصالحت بھی کرنا پڑی۔ سوشلسٹ نظریات کے باوجود پارٹی نے سندھ میں پیروں اور وڈیروں کو ساتھ ملایا۔ اسے پیر آف ہالہ شریف اور پیر رسول شاہ آف تھرپار کر جیسے گدی نشینوں کے ساتھ ساتھ تالپوروں، جتوئیوں اور جام صادق جیسے وڈیروں کی مدد بھی لی۔ پنجاب میں نون ، گیلانی اور قریشی خاندانوں پر مشتمل جاگیردار پارٹی میں شامل ہوگئے، اسی طرح جیسے یہ وڈیرے ماضی میں یونینسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہو ئے تھے۔ پنجاب اور سندھ کے پس ماندہ دیہی علاقوں میں جاگیرداروں کی حمایت حاصل کرنے او ر وسطی پنجاب اور نہری اضلاع میں چھوٹے کاشتکاروں، مزارعوں اور بے زمین کسانوں کی توجہ حاصل کرنے کی دوہری پالیسی نے پیپلز پارٹی کی انتخابی کامیابی کو یقینی بنایا۔ الیکشن نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی نے حکومتی حمایت یافتہ قیوم لیگ اور مذہبی جماعتوں کو پچھاڑ کر نمایاں کامیابی حاصل کی اور قومی اسمبلی میں دوسری بڑی اکثریتی جماعت بن کر ابھری اور مغربی پاکستان کی ۱۳۸ میں سے ۸۱سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں خواتین اور دوسری نشستیں ملا کر اس کی سیٹوں کی تعداد ۸۸ہوگئی ۔ زیادہ کامیابی پنجاب میں ملی جہاں سے ۶۲ نشستیں ملیں۔ ایک کے سوا باقی سیٹیں سندھ سے ملیں ۔ اگرچہ مغربی پاکستان میں وہ اکثریتی جماعت تھی، مگر اسے قومی اسمبلی کے لیے ڈالے جانے والے ووٹوں کا صرف ۵ء۱۹فیصدی یعنی ۵/۱ حصہ ووٹ ملے تھے۔ 
الیکشن کے بعد حالات نے ڈرامائی انداز اختیار کر لیا۔ زائرنگ کا خیال ہے کہ اگر بھٹو عاجزی و انکساری کا مظاہر ہ کرتے اور خود پر قابو رکھتے تو مجیب الرحمن ان کی ناگزیر جانشینی کے لیے راستہ ہموار کر دیتے۔ قواعد کے مطابق مجیب الرحمن حکومت کی ذمہ داریاں سنبھال لیتے تو پاکستان کے سیاسی عمل کی ابتر حالت کے پیش نظر وہ یقیناًزوال پذیر ہو جاتے اور بھٹو ان کے جانشین بن جاتے۔ اگر بھٹو صبر و تحمل کا مظاہر ہ کرتے تو وہ برسر اقتدار آ جاتے۔ اس طرح ملک ایک خوفناک خانہ جنگی اور اس قومی تذلیل سے بچ جاتا جس کا اسے ملک کے دو لخت ہونے کی صورت میں سامنا کرنا پڑا ۔ انوار ایچ سید کا خیال ہے کہ ’’وہ طویل عرصے سے فوج سے پینگیں بڑھا رہے تھے اور انہوں نے فوج کے ساتھ قربت کو پارٹی پر ترجیح دی۔ ‘‘ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے فوراً بعد ہی پی پی پی کی صفوں میں شگا ف پڑنا شروع ہو گئے۔ ممتاز قانون دان احمد رضا قصوری نے یحییٰ خان کی طرف سے قومی اسمبلی کا اجلاس ۳مارچ کو بلانے کا فیصلہ نظر انداز کرنے پر بھٹو کی مخالفت کی، اسی لیے بعد ازاں وہ بھٹو کے غضب کا نشانہ بھی بنے ۔
۱۶؍دسمبر ۱۹۷۱ء کوسقوط مشرقی پاکستان کے بعد بھٹو نے آرمی ہیڈ کواٹرز میں شکست خوردہ جرنیلوں سے ملاقات کی جس کے نتیجے میں ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے تقریباً ۲سال بعد اور جرنیلی جمہوریت کے تقریباً چودہ سال بعد جرنیل، اقتدار پیپلز پارٹی کے راہنما بھٹو کے سپرد کرنے پر تیار ہوگئے۔ ممتاز دانشور حمزہ علوی کے الفاظ میں ’’ستم تو یہ ہے کہ اگرچہ بھٹو (مغربی) پاکستان میں اکثریتی جماعت کا راہنما تھا، اس کے باوجود جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار پر فائز نہ ہوا ، بلکہ شکست خوردہ فوج نے اسے منصب حکمرانی سے سرفراز کیا۔ ۲۰ دسمبر ۱۹۷۱ء کو فوج نے بھٹو کا صدر کی حیثیت سے تقرر کیا۔ صدر کے ساتھ ساتھ بھٹو کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ بھی تفویض ہوا ۔ یہ دونوں عہدے اس سے قبل جنرل یحییٰ کے پاس تھے ۔ بھٹو کو انتقالِ اقتدار دراصل ایک فوجی انقلاب (coup-detat) تھا کیونکہ نو منتخب شدہ قومی اسمبلی کا اس انتقال اقتدار میں کوئی حصہ نہ تھا۔ دراصل بھٹو کو امریکہ کے حمایت یافتہ دو جرنیلوں کی پشت پناہی حاصل تھی جن کی مدد سے وہ اس رتبے تک پہنچے۔ ایک جنرل گل حسن اور دوسرا ایئر مارشل رحیم خاں تھا۔ صاف ظاہر ہے، بھٹو کو دو عہدے دیے گئے تھے لیکن تیسرا یعنی فوج کے کمانڈر انچیف کا عہدہ تو اسے کسی صورت نہیں دیا جاسکتا تھا، لہٰذا یہ جنرل گل حسن کے حصے میں آیا۔ اس تمام تر کارروائی کو امریکی حمایت حاصل تھی۔ جب یہ کارروائی ہو رہی تھی، اس وقت بھٹو اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش پر ہونے والے مباحثے میں شریک تھے۔ واشنگٹن میں بھٹو نے صدر نکسن اور سیکرٹری آف سٹیٹ راجرز سے بھی ملاقات کی اور وہاں سے کلیرنس مل جانے پر بھٹو کو فوج نے پاکستان کا سربراہ حکومت بننے کی دعوت دی۔‘‘ تاہم ایک خیال یہ بھی ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے افسوس ناک اور دشوار دنوں میں ایک شکست خوردہ اور شکستہ قوم کی حکومت کی سربراہی کے لیے قومی سطح کے وہی واحد سیاسی لیڈر باقی رہ گئے تھے، چنانچہ بھٹو نے خلفشار کو روکا اورممکنہ انتشار کا سدباب کیا۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں جو تبدیلیاں ہورہی تھیں، ان کو بھٹو نے بڑی تیزی سے بھانپ لیا اور ان ممالک میں پاکستان کی حیثیت میں اضافہ کیا جبکہ کچھ مورخ یوں بھی بیان کرتے ہیں کہ اگر کسی قوم کی ذلت اور کم حوصلگی سے کسی لیڈر نے کبھی فائدہ اٹھا یا ہے تو وہ بھٹو تھے۔ اقوام عالم کی جدید تاریخ میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالنے والے وہ پہلے سویلین تھے ۔ بھٹو نے یہ عہدہ حاصل کر کے پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح پر بھی سبقت حاصل کر لی۔ بھٹو نے اپنے مطلق اختیارات کو پاکستان کی تشکیل نو کے لیے کس طرح استعمال کیا، اس کا مکمل احاطہ یہاں ممکن نہیں ۔ 
نامور دانشور اقبال احمد کے الفاظ میں بھٹو کے کارنامے ، ملکی سیاست میں ان کی کوتاہ اندیشی کے بالکل برعکس تھے ۔ وہ صدر بن کر طاقت کے نشے میں بدمست ہو گئے اور ان کے اقتدار نے مطلق العنانی اورشخصی حکومت کا روپ دھار لیا۔ پیپلز پارٹی کی تنظیم کو محض ثانوی حیثیت حاصل ہو کر رہ گئی جس سے پارٹی تیزی سے ایک ایسا کمزور ادارہ بن گئی جس میں اختلاف رائے کو سختی سے دبا یا جاتاتھا ۔ اقتدار میں آنے کے بعد پی پی پی پاکستان کے سابقہ سیاسی نقشے کو ختم کرنے میں ناکام رہی ۔ پارٹی بنانے کا کام منتخب اداروں اور باقاعدہ ڈھانچوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی بجائے سر پرستی کے انداز میں آگے بڑھایا گیا۔ اس سے گروہ بندیاں شروع ہو گئیں۔ بائیں بازو کے عناصر اور بھٹو کے درمیان خلیج پیدا ہوگئی۔ بائیں بازو کے عناصر پارٹی تنظیم کی اہمیت پر زور دیتے تھے، لیکن بھٹو شخصیت پر ستی کے خواہاں تھے ۔ پیپلز پارٹی کے قائد بھٹو کی ذات کے تضادات بے وجہ نہیں تھے۔ وہ ایک عبوری طبقے کی پیداوار تھے۔ ہمہ جہت شخصیت، جاگیرداری کے پروردہ ، بورژ وا طبقے کی تعلیم کے حامل، سیاست میں فوجی آمر کی پیداوار، اور ایک خو د ساختہ سوشلسٹ۔ وہ اپنے آپ کو سو ئیکارنو اور نکرومہ، اتاترک اور جمال عبدالناصر کی طرح ہیرو کے قالب میں ڈھلا ہوا محسوس کرتے تھے، حالانکہ نہ وہ ان کی طرح نادار گھر میں پیدا ہوئے اور نہ قربانیاں دیں۔ ا قبال احمد کے خیال میں بے لگام نخوت ، نظریے کا وزن ، اقتدار کا سودا ،اور سیاسی عمل کے سلسلے میں بے بصیرتی کے حامل بھٹو نے ایسی پالیسیاں اختیار کیں جو ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئیں۔ رچرڈ نکسن کے ساتھ ان کا تقابل بالکل درست ہو گا۔ نکسن کی طرح بھٹو طاقت کے حصول کی طبعی خصوصیات رکھتے تھے اورموقع شناسی کی ایک پُر اسرار حِس بھی۔ نکسن کی طرح وہ بھی ہر قیمت پر کامیابی چاہتے تھے، لیکن اس جواری کی طرح جو داؤ پر کچھ بھی لگانا نہیں چاہتا ۔
پیپلز پارٹی بھی اپنے قائد کی طرح عبوری دور کی پیداوار تھی۔ نظریاتی موقع پرستی پر مبنی بظاہر جدید، اندروں جاگیردارانہ۔ بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ پارٹی کی یہ متضاد کیفیت ہی بھٹو کے مربیانہ انداز کے لیے موزوں تھی۔ اسی لیے تنظیمی حوالے سے پارٹی کے چیئر مین نے سستی دکھائی اور ۱۹۷۶ء تک صوبوں کے تنظیمی دورے نہ کیے جن کے بعد ڈویژنل سطح پر کنونشن منعقد ہوئے۔ مکمل تنظیم نو آخر کار دسمبر ۱۹۷۶ء میں ہوئی، لیکن اس میں بھی انحصار مؤثر ادارہ سازی کی بجائے ذاتی وفاداریوں پر کیا گیا۔ بھٹو نے خود تمام اعلیٰ عہدیدار منتخب کیے۔ سیکرٹریٹ سے لے کر ضلعی تنظیموں بلکہ ان سے بھی نچلی سطح تک کے عہدیداروں کا تقرر اپنی پسند سے کیا۔ اس سے فیصلہ سازی مکمل طور پر مرکز کے تابع ہو گئی اور بھٹو نے بھی پیپلز پارٹی کو اسی طرح ذاتی تنظیم بنا دیا جس طرح اندرا گاندھی نے بھارتی کانگرس کو بنا دیا تھا۔ آئن ٹالبوٹ کے خیال میں بھٹو کی ذاتی ہدایا ت کے مطابق پارٹی کی تشکیل نونے ایک ایک کر کے بانی ارکان کو کنارے لگا دیا۔ تخلیقی سوچوں کی جگہ چاپلوسی نے لے لی تاکہ پارٹی کی ہائی کمان کی خوشنودی حاصل رہے، یہاں تک جے اے رحیم جیسے بانی ارکان جنہوں نے پیپلز پارٹی کی اساسی دستاویز تحریر کی تھی، ۱۹۷۴ء میں خود کو الگ تھلگ محسوس کرنے لگے۔ انہوں نے پارٹی امور نمٹانے میں بھٹو کے انداز کی مخالفت کی اور ان کے انتقام کا نشانہ بنے۔ احمد رضا قصوری نے پارٹی کے فاشسٹ کردار پر نکتہ چینی کی اور گرفتار ہو کر پانچ سال سزا کے مستحق ٹھہرے۔ اسی طرح معراج محمدخاں نے تنقید کی اور جیل کی کوٹھڑی میں پہنچ گئے۔ بھٹو نے اسی طرح کے عمل کو روکنے کے لیے ۳۰ پارٹی ممبران کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا حکم دیا اور ان کے ساتھ ۲۰؍ اراکین اور شامل ہو گئے تو ایف ایس ایف کے ذریعے ان کا تعاقب کیاگیا۔ پی پی پی میں کچھ گروہی اختلافات ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم پر ہی ہوگئے تھے۔ پنجاب کے صدر شیخ رشید اور جنرل سیکرٹری غلام مصطفی کھر کے درمیان محاذ آرائی بعد میں بھی جاری رہی۔ ۱۹۷۳ء کے شروع میں ہی شیخ رشید کے حامیوں کو پارٹی سے نکال دیاگیا۔ جورہ گئے، ان کے خلاف انکم ٹیکس کے مقدمات درج کرا دیے گئے۔ پھر قدامت پسند وزیر اطلاعات کوثر نیازی اور ترقی پسند وزیر معراج محمد خاں کے درمیان نظریاتی اختلافات تھے۔ سندھ میں جام صادق اور رسول بخش تالپور تھے، جبکہ سرحد میں ہمایوں سیف اللہ اور حبیب اللہ خان کے درمیان بنوں میں اور مردان میں عبدالصمد خاں اور عبدالرزاق خاں کے درمیان گروہ بندی تھی ۔ اس طرح کی ذاتی دشمنیاں جلد ہی باقاعدہ تصادم میں بدل گئیں۔ انوار ایچ سید کے مطابق بھٹو نے ۱۶؍اگست ۱۹۷۳ء کو اپنے نوٹ میں لکھا کہ ’’ہمارے دائیں بائیں آگے پیچھے بندوقیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کا ماٹو ہی یہی ہے۔ انتہائی معمولی باتوں کے لیے پستول نکال لو اور بے دریغ استعمال کرو‘‘۔ مزدور لیڈروں کو ان کے دفاتر میں قتل کیاگیا۔ بلوچستان اسمبلی کے سپیکر اور اپوزیشن کے ایک رکن کو گولی مار دی گئی۔ NAPکے عبدالصمد اچکزئی کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ مولوی شمس الدین اورخواجہ رفیق کا قتل ہوا۔ جماعت اسلامی کے کئی عہدیداروں کو قتل کر دیا گیا۔ ولی خاں اور اصغر خاں متعدد قاتلانہ حملوں میں بال بال بچے۔ پیپلز پارٹی کی کمزوری کے باعث پورے ملک میں سیاسی تشدد کی وارداتیں شروع ہو گئیں۔ سیاسی قتل روز مرہ کا معمول بن گئے حتیٰ کہ پارٹی کارکنوں کے جھگڑے معمول بن گئے۔ فروری اور مئی ۱۹۷۲ء کے درمیان لاہور ، گوجر خاں ، وزیر آباد ، گوجرانوالہ اور وہاڑی میں سنگین گروہی تصادم ہوئے۔ کراچی پارٹی سیکرٹریٹ پر ناراض کارکنوں نے قبضہ کرلیا ۔ انوار سید نے پی پی پی سیکریٹریٹ کی فائلوں کی چھان بین کے بعد تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ ایسا ظاہر ہوتاہے کہ بھٹو پی پی پی کے ساتھ مخلص نہیں تھے۔ انہوں نے اس تنظیم کو محض حصول اقتدار کا ذریعہ بنایا تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بھٹو خود کو پارٹی سیاست سے برتر سمجھتے تھے اور اگرچہ خانہ جنگی کے بعدکے پاکستان میں پارٹی کارول جاری رکھنے کے لیے تیارتھے، لیکن انہوں نے پارٹی کو اپنے اجزائے ترکیبی کے محو کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ اس سے سماج میں بامعنی تبدیلی کے خواہاں نوجوان بھٹو سے بد دل ہونا شروع ہو گئے۔ بھٹو نے سماجی اور اقتصادی اصلاحات سیاسی بنیادیں تعمیر کیے بغیر نافذ کیں چنانچہ یہ پارٹی کے لیے حامیوں میں اضافہ کرنے کی بجائے دشمنوں میں اضافہ کرنے کا ذریعہ بن گئیں۔ فوج، جو المیہ مشرقی پاکستان کے بعد ابتری کی حالت میں تھی، بلوچستان میں سیاسی استعمال سے ایک بار پھر عوامی زندگی میں داخل ہو گئی۔ جس طرح تیز تر سماجی و اقتصادی تبدیلیوں نے ایوب خان کی کنٹرولڈ ڈیمو کریسی کے تجربے کو ناکام بنایا تھا، اسی طرح عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں نے بھٹو کے عوامی جمہوری تجربے کو بھی نقصان پہنچایا۔ ڈاکٹر محمد وسیم کے خیال میں ’’حکومت کی طرف سے قیمتوں میں اضافے پر قابو پانے میں ناکامی نے اس کی سیاسی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا کیونکہ مہنگائی کا سب سے زیادہ اثر پیپلز پارٹی کے حامی زیریں طبقات پر پڑا‘‘۔
پیپلز پارٹی نے تاریخ کے اس تصور کے ساتھ اقتدار سنبھالا تھا کہ مستقبل کا پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان ہو گا مگر اسے بدقسمتی کے سوا کیا کہیے کہ بھٹو پاکستان کی حالت بدلنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ اس کی کلیدی وجہ یہ تھی کہ وہ پیپلز پارٹی کی تشکیل نو کر کے اسے ایسا سیاسی ادارہ نہ بنا سکے جس میں وہ اپنی حاکمیت کو منتقل کرتے۔ مسلم لیگ کی طرح پیپلز پارٹی بھی خود کو ایک عوامی تحریک سے ایک جدید حکومتی سیاسی جماعت میں تبدیل نہ کر سکی۔ تنظیمی ڈھانچہ مضبوط کرنے کی بجائے شخصی اثرو رسوخ پر انحصار پارٹی کی مضبوطی کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا۔ حالانکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ ایک پارٹی اور اس کی قیادت کو نہ صر ف اقتدار ملا بلکہ اس کا جواز بھی حاصل ہوا جسے بنیاد بنا کر جمہوری روایات پر مبنی مستقبل کی تعمیر ماضی کی نسبت آسان تھی، مگر صد افسوس کہ پاکستان کے اس افسانوی جمہوری شہزادے کے کندھے اتنے چوڑے نہ تھے کہ وہ اس بوجھ کر سہار سکیں جو تاریخ نے ان پر ڈال دیا تھا۔ اس کے باوجود ۱۹۷۱ء کے سانحہ کے بعد شکست خورہ قوم میں خود اعتماد ی بحال کرنا، جنگی قیدیوں کی واپسی، ملک کو ایک جمہوری آئین دینا، کامیاب خارجہ پالیسی اور ایٹمی ری ایکٹروغیرہ پی پی پی کی حکومت کے حاصلات و نمایاں کارنامے ہیں ۔ 
۷ جنوری ۱۹۷۷ء کو ۲ ماہ میں الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا گیا۔ بھٹو نے رفیع رضا کو اپنی انتخابی مہم کا مینیجر بناتے ہوئے انتخابات کے جلد انعقاد کا فیصلہ تو جون ۱۹۷۶ء میں ہی کر لیا تھا۔ یہ عوام کے لیے غیر متوقع بات تھی لیکن الیکشن کی فضا بنتے ہی حیران ہونا بھٹو کے لیے مقدر ٹھہرا کہ وہ اپنی مخالف جماعتوں کے فوری اتحاد پر پریشان ہو گئے۔ ان انتخابات کا جامع تجزیہ ممتاز سکالر M.G.Weinbaum نے ’’ایشین سروے‘‘ کے جولائی ۱۹۷۷ء کے شمارے میں کیا ہے۔ قطع نظر انتخابی تجزیے کے، انتظامیہ نے بھٹو کوواضح کامیابی کا یقین دلایا تھا۔ اس کے باوجود یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ دھونس اور دھاندلی کے لیے گھٹیا اور غیر قانونی ہتھکنڈے کیوں استعمال کیے گئے؟ بھٹو نے خود ایک طرف ماؤزے تنگ جیسا لباس پہننا شروع کیا اور چیئر مین کہلانے لگے، دوسری طرف ملک کے روایتی زمیندار گھرانوں کی سیاسی حمایت حاصل کرنے پر اترآئے۔ وہ زیادہ سے زیادہ بلا مقابلہ کا میابیاں چاہتے تھے جو ان کی غیر جمہوری سوچ کی واضح نشان دہی کرتا ہے ۔ پیپلز پارٹی کو بھاری کامیابی ملی، لیکن قومی اتحاد دھاندلی کے الزامات کے ساتھ سڑکوں پر نکل آیا لیکن بھٹو نے تمام تر دباؤ کے باوجود اقتدار سے چمٹے رہنے کو ترجیح دی۔ لارنس زائرنگ کے مطابق بھٹو پر پاکستانی معاشرے میں ظلم و تشدد کرنے والی طاقتوں کو بے لگام چھوڑنے، ذاتی ہوس کے لیے قوم کو دو لخت کرنے، قومی معیشت کو تباہ کرنے ، اور ملک کے بہترین دماغوں اور جفاکش لوگوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے کے الزامات لگائے گئے۔ یہ تاثر عام تھا کہ اگر اس شخص کو اسی طرح کام کرنے کا موقع دیا گیا تو یہی شخص، جسے خوفناک خانہ جنگی کے زخم مندمل کرنے کا فریضہ سونپا گیا تھا، بچے کھچے پاکستان کو بھی برباد کردے گا۔ قسمت ایک مرتبہ پھر مصروف عمل ہو گئی اور اس نے بھٹو کی جگہ پر ضیاء الحق کو لا بٹھایا ۔ ‘‘
ضیا ء الحق نے ایک سپاہی کی حیثیت سے اس شخص کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی تھی جس نے اسے یہ عہدہ اور مرتبہ دیا تھا۔ بھٹو کے مقابلے میں ضیاء الحق نہایت پر خطر کھیل رہے تھے۔ ایک ایسا کھیل جس میں ان دونوں میں سے صرف ایک کھلاڑی ہی زندہ بچ سکتا تھا۔ ۴؍اپریل ۱۹۷۹ء میں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ جس طرح یہ ہوا، اس نے بھٹو کو مظلوم بنا دیا ، عوام کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہو گئیں کہ فوج اس لیے ان کو سزا دے رہی ہے کہ انہوں نے ملک کا سیاسی موسم بدل دیا۔ وہ کچلے ہوئے عوامی حقوق کی علامت بن گئے، چنانچہ بھٹو کے قتل کے معنی یہ لیے گئے کہ بھٹو کے سوشلسٹ پروگرام کی عدم تکمیل اور جمہوریت کے خاتمے کی ذمہ دار، فوج اور افسر شاہی ہے۔ بھٹو پاکستان کے پیرون (peron)بن گئے ۔ آئن ٹالبوٹ کا خیال ہے کہ ’’بھٹو کے حامی ان کو چلی کے سلواڈرو آلندے کا ہم پلہ جبکہ ناقدین انہیں ارجنٹائن کے جان پیرون کے مشابہ قرار دیتے ہیں ۔ ‘‘
ضیاء حکومت کا جبر و استبدار، جس میں سیاسی جماعتوں پر پابندی بھی شامل تھی، پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے حوصلے پست کرنے میں ناکام رہا۔ بھٹو کی وفات کے بعد پیپلز پارٹی کی سربراہی بیگم نصرت بھٹو نے سنبھال لی اور بے نظیر شریک چیئر پرسن بن گئیں۔ ضیاء حکومت سے ٹکر لی اور قیدو بند کی مصیبتیں برداشت کیں۔ ۲۴؍اگست ۱۹۸۵ء کو جب بے نظیر انگلینڈ سے اپنے بھائی شاہنواز کی تجہیزو تکفین کے لیے آئیں تو کارکنوں کے جوش و خروش نے ثابت کر دیا کہ پارٹی کی مقبولیت قائم ہے۔ نومبر میں وہ واپس چلی گئیں۔ ضیاء نے ۱۹۸۵ ء میں غیر جماعتی انتخابات کرانے کے لیے جو پالیسی وضع کی، وہ یہ تھی کہ ٹائم میگزین کے بقول ’’ نہ کوئی سیاسی مہم ہو، نہ موضوع، نہ موقف، نہ قومی مسائل پر بحث‘‘۔ اس کے باوجود بے نظیر میدان میں کود پڑنے کو تیار تھیں، لیکن ایم آر ڈی نے ضیا کے بنائے قاعدوں کے مطابق ہونے والے انتخابات میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ نئی حکومت کے بننے کے بعد بے نظیر نے دو سالہ ازخود اختیار کردہ جلا وطنی کے بعد واپس آنے کا فیصلہ کیا تو لندن سے لاہور پہنچنے پر فقید المثال استقبال ہوا۔ ہجوم دیکھ کر فرط و انبساط سے بے نظیر نے کہا تھا کہ ’’ اسی دن ہم اقتدار چھین کر لے سکتے تھے، مگر ہجوم پر تشدد نہیں پر مسرت موڈمیں تھا ‘‘۔ وطن آکر بے نظیر نے جونیجو حکومت سے پہلو بچا کر ضیا کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یوگو اسلاوی نیوز ایجنسی تانجگ کے نامہ نگار الیگزنڈر سٹانک نے تبصرہ کیا تھا کہ’’ جس طرح بے نظیر کے جلسوں اور جلوسوں کا انتظام کیا جارہا ہے اور جس سیاسی بالغ نظری کا اظہار ہو رہا ہے، اس سے نظر آتاہے کہ یہ تحریک محض جذباتیت پر منحصر نہیں۔ اقتدار میں طاقتور عناصر کی تسلی کے لیے بے نظیر نے اعلان کیا: ’’میں انتقام لینے کے لیے نہیں آئی ہوں ۔‘‘
بے نظیر کے وطن آتے ہی پارٹی میں تنازعات پھوٹ پڑے۔ سب سے پہلے غلام مصطفی جتوئی، جو بھٹو خواتین کی غیر موجودگی میں پارٹی کے سربراہ تھے، علیحدہ ہوئے۔ ان کے خیال میں بے نظیر تمام ’’چاچاؤں ‘‘ سے نجات حاصل کر کے خود قیادت سنبھالنا چاہتی تھیں۔ چھوڑ جانے والے چچاؤں میں حقیقی چچا ممتاز بھٹو بھی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی پنجاب کے ووٹوں پر اتنا زیادہ انحصارکرتی ہے کہ سندھ کے مفادات کی نگہبانی نہیں کر سکتی۔ بے نظیر کو بائیں بازو کے چیلنج کا بھی سامنا تھا۔ پرانے بالشویک ملک معراج خالد، راؤرشید اور شیخ رشید وغیرہ پارٹی کے نئے امریکہ نوازرحجان سے مایوس ہو رہے تھے۔ لندن میں لیبر پارٹی کے نیل کینک سے گفتگو میں بے نظیر نے کہا تھا کہ ’’ان کے لیے یہ بڑا مسئلہ تھا کہ اپنی پارٹی کو بائیں بازو کے بدلے میانہ روی تک لائیں اور ایسا سیاسی موقف اختیار کریں جو چل جائے۔‘‘ بے نظیر نے ملک بھر کا دورہ کیا ، کارکنوں کو متحرک کر کے تنظیم نوکی اور آسانی سے مذکورہ مشکلات پر قابو پا لیا۔ وہ بآسانی پارٹی کی راہنما بن گئیں۔ نظریاتی حوالے سے انہوں نے ہوا کے مخالف رخ پر چلنے کی بجائے حقیقت پسندانہ رویہ اپنا لیا۔ حمزہ علوی کے مطابق ۱۹۸۴ ؁ء میں امریکہ کے دورے کے دوران بے نظیر کو موثر حمایت کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ ۱۵نومبر ۱۹۸۸ء کو گارڈین نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ پی پی پی کی صفوں میں درآنے والی حقیقت پسندی کا نتیجہ مایوسی اور پارٹی نفاق تھا۔ اس کا پرانا انداز تخاطب نئی عملیت پسندی میں بدل گیا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر رضا مندی ، امریکہ کی علاقائی ترجیحات کی تائید اور سب سے بڑھ کر فوج سے مفاہمت اور اس کی بالادستی کو تسلیم کر لینا اس کے راہنما اصول قرار پائے ۔ ‘‘ بے نظیر نے فوج کو خوش رکھنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا، حتیٰ کہ اقبال اخوند کے الفاظ میں ’’وہ ضیا کی ماتحتی میں بھی وزیر اعظم بننے پر آمادہ تھیں۔ کیا یہ ان کی حقیقت پسندی کی انتہا تھی جس کی علامات جا بجا عیاں تھیں؟‘‘
۱۷؍اگست ۱۹۸۸ء کو ضیا ء الحق حادثے کا شکار ہوئے تو فوج نے انتقال اقتدار کے لیے انتخاب کی حمایت کر دی ۔ ان انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹوں کے اجرا میں آصف زرداری نے ہاتھ دکھایا۔ ممتاز صحافی حسن مجتبیٰ کا دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی کا انتخابی ٹکٹ حاصل کر نے کے لیے ایک ہی معیار تھا کہ امید وار زرداری سے وابستگی رکھتا ہو یا پھر پارٹی فنڈ کے لیے ۲۰ لاکھ سے ۵۰لاکھ روپے مہیا کرے۔ ویسے بھی سعید شفقت کے خیال میں بے نظیر نے اپنی پارٹی کو جمہوری مزاج دینے اور مضبوط بنانے میں بہت کم دلچسپی لی۔ ساز گار فضا کے باوجود نتائج نے سب کو حیران کر دیا۔ پیپلز پارٹی کو اتنے ووٹ نہیں ملے کہ حکومت چاندی کے طشت میں رکھ کر انہیں پیش کر دی جاتی۔ وہ سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کر پائی ۔ 
بے نظیر نے حقیقت پسندی سے انتخابی مہم کا اختتام کرتے وقت کہا کہ ’’ پاکستان کی موجودہ حالت میں فوج کی مکمل حمایت کے بغیر سویلین حکومت قائم کرنا بے حد مشکل ہے ۔‘‘ اب جبکہ بے نظیر نے فوج کی کھلے عام اور غیر مشروط اطاعت کی قبولیت کا اشارہ دے دیا اور امریکی مفادات کے تحفظ کا بیڑہ اٹھا لیا تو اسٹیبلشمنٹ کو اسے وزیر اعظم بنانے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ اکانومسٹ کی یکم دسمبر ۱۹۸۸ء کی اشاعت کے مطابق انتخابات کے دس روز بعد امریکی سفیر رابرٹ اوکلے سے بے نظیر کی ملاقات کے بعد اسے امریکی تائید حاصل ہوگئی۔ اس نے تمام قواعد و ضوابط کو قبول کر لیا جن کے تحت اسے کاروبار حکومت چلانا تھا۔ بے نظیر بھٹو کی کابینہ جس کا اعلان ۴دسمبر کو ہوا، فوج ، صدر اور امریکہ کی خواہش کے مطابق تشکیل پائی ۔ ان دنوں میں حد سے زیادہ فعال امریکی سفیر کے علاوہ دو سینئرامریکیوں یعنی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے دفاع رچرڈ آرمیٹج اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار رچرڈ مرفی بھی کابینہ سے متعلق انتظامات کو حتمی شکل دینے پاکستان آئے تھے ۔ لہٰذا صدر کی جانب سے بے نظیر یعنی پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے کی عوت پر کسی کو حیرت نہ ہوئی۔ بے نظیر نے جب پہلی مرتبہ ایوان اقتدار میں قدم رکھا تو وہ پاکستان کی ۳۶سالہ کم عمر ترین اور پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔ وہ کسی بھی اسلامی مملکت کی پہلی سربراہ حکومت اور دنیا کی کامیاب خاتون سیاستدان تھیں، کیونکہ اندرا گاندھی اور گولڈا میئر اپنی اہمیت کھو چکی تھیں۔ پاکستانی معاشرہ ابھی نئے عہد کے لیے مکمل طور پر تیار نہ تھا۔ پھر بھی بے نظیر سے قوم اور پارٹی کارکنوں نے بھاری بھر کم توقعات وابستہ کر لیں، مگر منقسم شخصیت کی مالک بے نظیر اپنے باپ سے کم نہ نکلیں۔ وہ ایک طرف آفاقی نظریات کی باتیں کرتیں تو دوسری طرف ان کا عمل ایک محدود نظر زندگی کی غمازی کرتا تھا۔ فوج اور بیورو کریسی کے گٹھ جوڑ اور امریکہ سے بے نظیر نے جو سودے بازی کی، اس سے انہیں اور پارٹی کو کچھ حاصل نہ ہوا۔ اقتدار فوج اور بیورو کریسی ہی کے پاس رہا جن کی نمائندگی صدر غلام اسحاق خاں کر رہے تھے، البتہ بے نظیر حکومت نے مقتدر عناصر کو ’’سیاسی جواز‘‘ ضرور فراہم کیا۔ انہوں نے فوج کو’’ تمغہ جمہوریت‘‘ بھی دیا۔ انہیں فائدہ تو حاصل نہ ہوا لیکن حقیقی مقتدر قوتوں کے کرتوتوں کا خمیازہ ضرور بھگتنا پڑا کیونکہ اس کھیل میں عوام کے مسائل جوں کے توں رہے۔ عوامی خوش فہمیوں کے غبارے سے جلد ہوا نکل گئی۔ بد عنوانی ، نااہلی ، اقربا پروری اور انتقامی کارروائیوں کے الزامات نے سپنے چکنا چور کر دیے۔ ان کے مختصر دور حکومت کی محدود کامیابیوں پر ان الزامات نے سیاہی پھیر دی جو ان کی مبینہ وڈیرہ ذہنیت اور متنازعہ شوہر مسٹرٹین پرسنٹ آصف علی زرداری کی سرگرمیوں کے حوالے سے لگائے گئے۔ اس دورمیں پارٹی کو مضبوط بنانے کی طرف توجہ نہ دے کر بے نظیر نے بھٹو کی بیٹی ہونے کا ثبوت دیا ۔ 
صدر نے ۱۶؍اگست ۱۹۹۰ء کو پیپلز پارٹی کی حکومت برطرف کر دی تو امریکہ کے کسی حلقے سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔ ذرا عمومی تجزیہ کیا جائے تو کہا جا سکتاہے کہ اس وقت مقتدر ری پبلکن پارٹی کو یہ بات نہ بھاتی ہو کہ بے نظیر کے بیشتر حامی اور مشیر ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلقات رکھتے تھے ۔ غلام اسحاق خاں نے پی پی پی کے سابق سر براہ اور نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ غلام مصطفی جتوئی کو نگران وزیر اعظم بنا دیا۔ بہرحال بے نظیر میدان سیاست میں موجود رہیں لیکن صدر نے انہیں اس لیے تو بر طرف نہیں کیا تھا کہ تین مہینے بعد ہونے والے انتخابات میں وہ دوبارہ جیت جائیں، چنانچہ انتخابات کے نتائج ظاہر ہوئے تو آئی جے آئی کو ۱۰۵نشستیں ملیں جبکہ پی پی پی کو پہلی ۹۳کی بجائے اب صرف ۴۵ نشستیں ملیں۔ تاہم غلام اسحاق خاں نے نواز شریف کو وزیر اعظم بنانے میں کوئی کردار ادا کیا تھا تو وہ جلد ہی اس پر پچھتائے۔ ۱۸؍ اپریل ۱۹۹۳ء کو انہیں رخصت کر دیا گیا۔ ۶اور ۷؍اکتوبر کو انتخابات ہوئے۔ پیپلز پارٹی کو ۸۶اور مسلم لیگ کو ۷۲سیٹیں ملیں۔ بے نظیر بھٹو ۳سال تک اپوزیشن میں رہنے کے بعد پھر وزیر اعظم بن گئیں اور ۱۹؍اکتوبر کو حلف اٹھا کر سیاسی کشمکش میں ملک کو لگنے والے زخموں کو مندمل کرنے اور مفاہمت کے دور کا آغاز کرنے کا اعلان کیا۔ عام طور پر ہر نئی حکومت کو اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد روایتی ہنی مون کا جو موقع ملتاہے، بے نظیر کو وہ بھی نہ ملا۔ سیاسی جنگوں، سماجی و اقتصادی مسئلوں ، محاذ آرائی کے علاوہ اس بار بے نظیر اور پیپلز پارٹی کو اپنے ہی گھر اور خاندان سے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جو ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کی صورت میں سامنے آیا۔ وہ خود کو اپنے والد کا حقیقی وارث سمجھتے تھے اور ان کی ماں نصرت بھٹو ان کے ساتھ تھیں ۔اس تنازعے کے پس منظر میں ان کے سیاسی مخالفین نے بھی حملے تیز کر دیے۔ بے نظیر نے سابق فوجیوں اور ضیاء الحق کے ساتھیوں کو نواز نے کا سلسلہ شروع کر دیا جس کی بڑی مثال جنرل (ر) سرو پ خاں کا گورنر پنجاب کی حیثیت سے تقرر تھا۔ پی پی پی اب مبینہ طور پر زرداری کے ہاتھوں میں آچکی تھی۔ پیپلز پارٹی نے سماجی انصاف کا جو وعدہ کیا تھا، اس سے انحراف کے بعد نہ صرف اس کے ارکان پارٹی چھوڑنے لگے بلکہ عوام کی ایک بڑی تعداد بھی اس سے الگ ہو گئی۔ مرتضیٰ بھٹو اور ان کی والدہ نصرت بھٹو نے ایک اور پی پی پی بنالی اور یاد دلایا کہ ان کے والد نے والدہ کو تا حیات چیئر پرسن بنایا تھا۔ سیاسی کھیل اب ہوس اقتدار سے ہوتا ہوا زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا۔ بھٹو کا دوسرا بیٹا بھی اقتدار پر قربان ہوا۔ ۱۹۹۵ء میں صرف کراچی میں تقریباً ۲ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ مختصر یہ کہ پیپلز پارٹی نے بے نظیر کے دوسرے دور میں بھی عوام کے لیے مایوسیوں کا اعادہ کیا۔ پارٹی کی تنظیم مسلسل کمزور ہوتی گئی ۔ حالات اس نہج پر پہنچے کہ ۲۱ستمبر ۱۹۹۶کو وزیر اعظم کے بھائی مرتضیٰ بھٹو ہلاک ہو گئے ۔ دگرگوں حالات کے پیش نظر پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکن و منتخب صدر فاروق لغاری نے ۵نومبر ۱۹۹۶ء کی شب بے نظیر حکومت اور اسمبلیاں توڑ کر نگران حکومت قائم کی اور پی پی پی کے بانی رکن ۸۰ سالہ ملک معراج خالد کو وزیر اعظم مقررکر دیا ۔ یہ نگران حکومت بلا امتیاز احتساب کا عمل پیش نہ کر سکی۔ نئے انتخابات کا عمل شروع ہوا تو پیپلز پارٹی نے عدالت سے رجوع کر رکھا تھا۔ سپریم کورٹ نے پولنگ سے صرف چار روز پہلے صدارتی حکم کی توثیق کا فیصلہ سنا کر پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کو زبردست نقصان پہنچایا۔ پارٹی کے کئی اہم لیڈر پی پی پی شہید بھٹو گرو پ یا مسلم لیگ (ن) میں چلے گئے ۔ وزیر آباد سے سابق وزیر دفاع کرنل غلام سرور چیمہ مسلم لیگ میں اور جیکب آباد سے تعلق رکھنے تمام اراکین اسمبلی غنویٰ بھٹو کے ساتھ مل گئے۔ الیکشن نتائج بہت بُرے رہے۔ پی پی پی کا ووٹر گھروں سے ہی نہ نکلا۔ اس جماعت کا اصل مسئلہ ووٹر ز کا ٹرن آؤٹ رہا، کیونکہ بار بار مایوسی سے جیالے ناراض ہو چکے تھے۔ ذلت آمیز شکست کے بعد پیپلز پارٹی کی قائد نے حیرت انگیز طور پر باوقار انداز اختیار کیا اور محاذ آرائی کے خاتمے کی پیش کش کر دی۔ انہوں نے پارٹی پر بھی توجہ دی۔ ۱۹۹۷ء کے انتخابات میں انہوں نے اس تصور کی تردید کی کہ صرف بھٹو خاندان ہی پیپلز پارٹی کو متحد رکھ سکتاہے۔ ۱۹۹۲ء میں پی پی پی کی سلور جوبلی پر خطاب کرتے ہوئے بے نظیر نے کہا کہ ۱۹۹۰ء میں، میں نے پارٹی کا نیا تنظیمی پروگرام منظور کیا۔ اس کا لب لباب یہ تھا کہ ممبر سازی کی مہم چلائی جائے اور وارڈ کی سطح تک عہدے دار منتخب کیے جائیں۔ ہم مہینوں کمیٹیاں بناتے رہے اور تاریخیں بڑھاتے رہے۔ کام پورا کرنے کے لیے نہیں، صرف شروع کرنے کے لیے ۔ ظاہر ہے ایک خلا پیدا ہوگیا۔ انجام کار تنظیم کا مطلب ہی بدل گیا۔ منتخب نمائندہ کی جگہ نامزد نمائندوں نے لے لی ۔ ایسا کیوں ہوا؟ بے نظیر نے اس کی وضاحت نہیں کی لیکن پھر مارچ ۱۹۹۹ء میں پارٹی نے انہیں تاحیات صدر منتخب کر لیا۔ ۲۰۰۲ء کے مخصوص حالات کے مخصوص انتخابات کے مخصوص نتائج میں بھی پیپلز پارٹی بغیر کپتان کے کوئی بڑا کردار ادا نہ کر سکی۔ جو کامیاب ہوئے، ان میں سے ابن الوقتوں نے فارورڈ بلاک بنا کر پیٹریاٹ نام رکھ لیا۔ وہ پارٹی ٹکٹ لے کر جیتے، پر کامیابی کے بعد قلا بازی لگالی۔ اس سے پارٹی اور اس کے امیج کو نقصان پہنچا۔ 
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں امید کی کرن بن کر ابھرنے والی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی مختصر تاریخ اس کی خود غرض قیادت اور تاریک کارکردگی کی وجہ سے رجائیت سے یا سیت تک کا سفر نظر آتی ہے ۔ جس طرح اس ملک کی ایک نسل مسلم لیگی ہے، اسی طرح پیپلز پارٹی ایک وسیع البنیاد مخالف تحریک اور اکلوتی غالب سیاسی جماعت بن کر ابھر ی مگر وہ بھی مسلم لیگ کی طرح اپنے تین ادوار حکومت میں خود کو عوامی تحریک سے منظم سیاسی جماعت بنانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ اس کی قیادت کوئی کارہائے نمایاں سرانجام نہ دے سکی ۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ رہا ہے کہ یہاں کمزور سیاسی جماعتوں نے ادارہ جاتی بحران میں بڑا عامل ہونے کا کردار ادا کیا ہے۔ اسی چیز نے یہاں پریٹورین ازم کا راستہ ہموار کیا۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں ایک بار پھر اہم موڑ پر ہیں۔ حالات بے نظیر کے لیے ۱۹۸۸سے زیادہ مختلف نہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیابے نظیر اس مرتبہ پھر ہوس اقتدار میں فوجی زعما کو سیاسی جواز فراہم کرنے کے لیے پرانی پالیسی اختیار کرتی ہیں یا نئی دانش سے نیا راستہ چننے کا جرات مندانہ قدم اٹھاتی ہیں۔ پاکستان کے عوام سب سے بڑی سیاسی جماعت سے کسی تاریخ ساز کردار اور بڑے کارنامے کی توقع کر رہے ہیں۔ بلاشبہ پاکستانی سیاست میں پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کا کردار ہنوزباقی ہے۔ پہلے دونوں ادوارمیں لاڑکانہ اور ریڈکلف کی بے نظیر میں کشمکش رہی۔ کچھ لوگوں نے بے نظیر کی سیاست میں آمد کو بھٹو کو دوسرا جنم سمجھا تھا۔ وہ بھی غلط ثابت ہوا۔ اب تک بے نظیر نے بہت کچھ غلط ثابت کیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اب کی بار وہ عوام کو کس طرح حیران کرتی ہیں۔

تجدد پسندانہ رجحانات اور جدیدیت کا اسلامی فلسفہ

حافظ محمد سمیع اللہ فراز

اس امر میں شبہ کی گنجایش نہیں کہ زمانہ ہمیشہ رنگ بدلتا رہا ہے۔ بہت کچھ پہلے بدل چکا ہے اورمزید بدلے گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمود کسی قوم کی تخلیقی صلاحیتوں کو یخ بستہ کر دیتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا زمانی ارتقا کی ہر تبدیلی اورہرجدید چیز صحت مند ہے؟ کیا ہر تغیر باعث خیر ہے؟ کیا تاریخ کا ہر قدم عروج ہی کی طرف اٹھتا ہے؟ اور کیا ہر حرکت بلندی ہی کی سمت لے جاتی ہے؟ ان سوالات پر جب تاریخ کی روشنی میں غور کیاجاتا ہے تو اس کا جواب نفی میں ملتا ہے کہ ہر حرکت ترقی کے لیے مثبت نہیں۔ ایک نوع کی حرکت اگر آپ کو ثریا کی بلندیوں تک لے جاسکتی ہے تو دوسری قسم کی حرکت تحت الثریٰ کی پستیوں تک لے اترتی ہے۔ مطلوب نفسِ حرکت نہیں بلکہ درست سمت میں حرکت ہے۔ ترقی ایک اضافی اصطلاح ہے، ورنہ ترقی اورتنزل کا فیصلہ منزل کے لحاظ سے ہی ہوسکتا ہے۔ ہم صرف اس حرکت کو ترقی کہہ سکتے ہیں جو صحیح راستے سے ہمیں منزل کی طرف لے جا رہی ہو اور جو حرکت منزل کے برعکس سمت میں لے جائے، وہ ترقی نہیں بلکہ تنزل ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ حرکت سے پہلے سمت حرکت اورمنزلِ مقصود کا تعین ہونا چاہیے، ورنہ محض جمود کو توڑنے کے شوق میں کوئی حرکت کسی قوم کو ترقی کی بجائے تنزل کا مسافر بنا سکتی ہے۔
موجودہ معروضی حالات کو اس فلسفہ کے تناظر میں دیکھاجائے تو ہر شخص ترقی کے مقصد کی خاطر متحرک نظرآتا ہے لیکن اسے سمتِ حرکت کا علم نہیں۔ خصوصاً امت مسلمہ اور اس کی منزل میں دوری پیداکرنے کا بنیادی سبب وہ طبقہ ہے جو ہر حالت میں ترقی کا متمنی ہے، قطع نظر اس سے کہ یہ سفر شاہراہِ اسلام پر طے ہو یا پھر اسلام مخالف ٹریک پر۔ زمانی تقاضوں سے مجبوری کے باعث کسی بھی فکری اساس سے محروم اور قرآن وسنت کی تعبیرنوکا خواہاں یہ تجددپسند طبقہ اسلامی قدامت پسندی، امتِ مسلمہ کی جمہوری روایات اور قدیم مسلم علمی روایت کو تجددپسندی، روشن خیالی اور اسلام کی جدید تعبیر نو سے بدلنا چاہتا ہے۔ وہ شعوری یا پھر غیر شعوری طور پر تقلید اغیار کی دعوت دے رہا ہے۔ تقلید اگر جدید کی، کی جائے تو وہ کوئی قابل فخر چیز نہیں بن جاتی، بلکہ اس کے نقصانات علی حالہٖ قائم رہتے ہیں جن کی بنا پر نہ صرف قوم کی اپنی تخلیقی صلاحیتیں دم توڑجاتی ہیں بلکہ وہ قوم اپنے افکار وروایات کی درستی اورخود کو بدلنے میں لگی رہتی ہے اور دوسروں کی شاگردی کے مقام سے آگے بڑھنا کبھی اسے نصیب نہیں ہوتا۔

تجددپسندی کا بنیادی اصول

اس طبقہ کی فکری تعمیر میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ وہ فکروفلسفہ بھی شامل ہے جو ہر نئی چیز کو خوب تراور قابل احترام ولائق اختیار سمجھتاہے۔ اس طبقہ کے ذہن کو مغربی ہومیونزم (Huminism) نے بہت حد تک متاثر کیا ہے جس کی اساس ’’ ناگزیر تاریخی ترقی‘‘ (Inevitability of Progress)کا اصول ہے جس کی رو سے ’’ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے بہتر ہے، انسان کا ورثہ روز بروز بڑھ رہا ہے، ماضی حال سے اچھا ہے اور مستقبل حال سے اچھا ہوگا، ہمارے قدم لازماً ترقی اور عروج کی طرف اٹھ رہے ہیں اور اب پیچھے ہٹنے کا کوئی امکان نہیں‘‘۔
اس اصول کو ہیگل کے فلسفۂ تاریخ، مارکس کی معاشی تعبیرتاریخ وغیرہ نے بڑی تقویت پہنچائی ہے۔ اسی اندازِ فکر کا نتیجہ ہے کہ ماضی کی ہر چیز کو کم مایہ وحقیر اور حال کی ہر شے کو قابل قدر سمجھا جارہاہے اور ترقی کا لازمی تقاضا یہ فرض کرلیاگیا ہے کہ جدیدیت کے نام پر ہر قدیم چیز کو بدل ڈالا جائے۔ یہ فلسفہ تجدد پسند طبقہ کے اذہان پر مسلط ہے اور وہ مختلف عنوانات سے اپنی ترقی پسندی اور روشن خیالی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے اپنی نظریاتی حدوں کو بھی بھول جاتے ہیں اور محض فیشن کے طور پر ہر قدیم چیز پر، خواہ وہ اپنے دین سے ہی متعلق کیوں نہ ہو، ناک بھوں چڑھاتے اور تنقیدی رجحان اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔
نظریاتی لحاظ سے تجددپسندی یا ماڈرن ازم کی فکری مثال معتزلہ کے ساتھ دی جاسکتی ہے۔ انہوں نے قرآن وسنت کو قبول کیا، لیکن اس کی تعبیر میں اپنی عقل وتاویل کو معیار مقررکیا۔ امت مسلمہ کے جمہوری افکار سے متصادم معتزلی طبقہ بظاہر تو ختم ہوگیا لیکن وہ فکر باقی رہی۔ ماڈرن ازم کی جدید تحریک کا آغاز یورپ میں اس وقت ہوا جب اسپین میں سائنسی طریقہ کار کو فروغ حاصل ہوا تو چرچ کی بعض تعلیمات اس کے متصادم نظر آنے لگیں اور اسی چیز نے مذہب سے بغاوت کا راستہ پیداکیا۔ چنانچہ تجدد پسندی کی ابتدا کا بنیادی محرک یہی نظریہ تھا کہ مذہب کو حالات کے مطابق بدلنا چاہیے۔ یورپ میں عیسائی اور یہودی تجدد پسندوں نے اس فکر کو فروغ دینے کی کوشش کی کہ مذہب میں لوگوں کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے اس کی تعبیر نو کی جائے اور نئی چیزیں لوگوں میں متعارف کروائی جائیں۔ اس کی ایک مثال چرچ میں گانا ہے جو کہ انیسویں صدی کی ایجاد ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خدا سے متعلق انسانی اور غیر انسانی دونوں قسم کے کلام بائبل میں شامل ہیں اور وقت کے موافق مذہب کی جدید تشکیل وتعبیرہی انجیل کوسچائی کے مقام پر باقی رکھ سکتی ہے۔ چنانچہ عیسائیت کی مذہبی تاریخ نے دیکھا کہ تعبیر نو کے نام سے شروع ہونے والے تجددپسندی کے سفر نے اہل کلیسا کو مذہب سے بیگانہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی منزل بھی گم کردی۔ 

اسلامی تجدد پسندی

مغربی تجدد پسندی نے نہ صرف اہل کلیسا سے ان کی مذہبی روایات چھینیں بلکہ اس کا دائرۂ کار وسیع ہوتا ہوا اسلامی دنیا تک بھی پہنچ گیا۔ قطع نظر اس سے کہ حالیہ مغربی تجدد پسندی اسلامی دنیا میں اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے مصروفِ عمل ہے، یہ بات قابلِ غور ہے کہ اسلامی دنیا کے تجدد پسند طبقہ نے مغربی ترقی کو، جو کہ دراصل روایتی تنزل ہے، دیکھتے ہوئے اسلام کی تعبیرنو کی تحریک شروع کررکھی ہے۔ قرآن ،جو کہ اسلام کا اساسی دستور ہے، اس کی اولین تعبیر خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وعمل ہے جسے حدیث کہاجاتا ہے۔ اسی دستور کی عملی شکل آپ کی سنت پیش کرتی ہے۔ تجددپسندی کی اس تحریک نے قرآن کی تعبیرِ اول (حدیث) کو ازکارِ رفتہ خیال کیا اور اسے قدامت پسندوں کی ’جذباتی وابستگی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مسلمہ اہمیت کا انکارکیا کیونکہ تعبیرِ اول(حدیث) کی عدم موجودگی میں ہی تعبیر نو ممکن ہے۔ بعدازاں اساسی دستور میں بدعات وخواہشات کے سدّباب کے لیے فقہا کے قائم کردہ اصولِ اجتہاد کو نشانۂ تنقید بنایا تاکہ اسلام کے اساسی دستور کی تعبیر نو میں وقتی خواہشات کے دخول میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ فقہ اور قدیم اصولِ اجتہاد کے مقام کو مشکوک ثابت کیاجاسکے۔ 

’تجدید ‘ اور ’تجدد‘

زمانی ارتقا اورجدیدیت کے متعلق دوقسم کے ردعمل مذہبی تاریخ میں نظرآتے ہیں: پہلا ’تجدید‘ اوردوسرا ’تجدد‘۔ تجدید یہ ہے کہ زمانی تغیرات کوملحوظ رکھتے ہوئے اصل دین کو اس کی اصل شکل میں زمانہ قریب وبعید کی زبان میں مکمل استدلال کے ساتھ پیش کیاجائے، نیز تدبر واجتہاد کے ذریعے سے دین کو اپنے دور کے حالات پر نافذ کرنے کی عملی جدوجہد کی جائے۔ ان تمام ذرائع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جائے جو قدرت نے انسان کو فراہم کیے ہیں اوراسلامی بصیرت کے ساتھ نئے پیش آمدہ مسائل کو قرآن وسنت کی روشنی میں طے کیا جائے۔ نتیجتاً ہرزمانے میں دین کی تعلیمات اورزندگی کے بہاؤ کے مابین تعلق اوررابطہ گہرا ہوتاجاتا ہے اورزندگی کا سفر اسلام کی شاہراہ سے ہٹنے نہیں پاتا۔ 
’تجدد‘ اس کے مقابلے میں وہ کوشش ہے جوزمانی تقاضوں کے نام پر خود دین کو بدل ڈالنے کے لیے کی جاتی ہے۔ زندگی اور زمانے کے درمیان ربط اس طریقے پر بھی قائم ہوجاتا ہے، لیکن یہ ربط اسلام کی سرزمین پر نہیں بلکہ لادینیت کی گودمیں پروان چڑھتا ہے۔ اس میں مذہب کی تعلیمات کو اصل قرار دے کر حالات کو اس کے مطابق ڈھالنے کی بجائے زمانے کی چلتی ہوئی تہذیب کو اصل اوربہترجان کر اس کے پیدا کیے ہوئے سوالات کے مطابق مذہب کو ڈھال لیاجاتا ہے۔ مؤخر الذکر طریقہ کار کو اگر مسلمان ہرزمانے میں اختیار کرتے چلے جائیں تو اسلام نام کی کوئی چیز اپنی جگہ پر اصل حالت میں باقی نہیں رہ سکتی، بلکہ اسلام سرے سے کسی متعین مذہب ومسلک اوردستورونظام کا نام ہی نہیں رہتا۔
دین اسلام میں تجدید وجدیدیت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہے ہیں اورمجتہدین نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں ایسے اصول متعین فرما دیے جن کے تناظر میں ہر جدید مسئلہ کا حل ممکن ہے، چنانچہ قدیم اصولِ اجتہاد کے ناقدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے مسائل کی نشاندہی توکریں جہاں متقدمین کے اصولِ اجتہاد ناکافی ہوگئے ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کا دین ثابت ومحکم ہے اورمحض زمانے کے انداز دیکھ کر اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی، لیکن یہ خیال کرنا بھی غلط ہوگا کہ زمانے کے تغیرات کو دین اسلام کلی طور پر نظرانداز کردیتا ہے۔ دین اسلام انفرادی واجتماعی زندگی کے لیے وہ حدود واضح کردیتاہے جو انسان کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھنے کے لیے درکار ہیں۔ رہے جزوی اوروقتی امور تو ان کو شریعت کے دیے ہوئے بنیادی اصولوں کی روشنی میں ہروقت اور ہرزمانے میں حل کرنے کی اجازت ہے۔ یہ کام اجتہاد کے ذریعے سے انجام پاتا ہے اور اسی کی بدولت نظامِ دین میں حرکت وارتقا کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ چنانچہ دین اسلام نے اجتہاد کو قیامت تک کے جدیدمسائل کے حل کا ذریعہ بنادیا، لیکن تجدد کی اس میں کوئی گنجائش نہیں کہ دین کی بنیادوں کو ہی بدلنے کی کوشش کی جائے۔ ماضی میں جب بھی تجدد نے سر اٹھایا تو علمائے حق نے سختی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا اور ہر ایسی تخریبی کوشش ملت کی رائے عامہ سے ٹکرا کر آخر کار ختم ہوگئی۔ آج بھی بنیادی کشمکش جدیدیت اور تجدد ہی کے درمیان ہے اورہماری تاریخ اس کی گواہ ہے کہ دین کو متجددین کی خاطر نہ کبھی ماضی میں بدلا گیا اورنہ آج بدلا جاسکتا ہے۔ کسی صاحب اثر شخصیت کی یہ طاقت نہیں کہ زمانے کے تقاضوں کا نام لے کر اسلام کو بدل سکے۔ اس معاملے میں جو انجام اکبر بادشاہ کی کوششوں کا ہوچکا ہے، وہی انجام ان نئے متجددین کے لیے بھی مقدر ہے۔ 

تجددپسندانہ افکار اورمحرکات

دورِ حاضرمیں تجدد پسندانہ افکار اورماضی کی ایسی کوششوں مثلاً دین اکبری وغیرہ کا موازنہ کیا جائے تو ان میں بہت حد تک مطابقت پائی جاتی ہے۔ تجددپسندانہ رجحانات کی عکاسی عرب محقق جمال الدین زرابوزو نے ان الفاظ میں کی ہے:
...they are also trying to remove the sunna and say the system of the old muhadditheen is insufficient. Most say (as do critics of the Bible) that we need a "higher criticism" of hadith and the earlier conclusions (Ijma) and Ijtihad are not sufficient. 
’’[تجددپسند] سنت کو بھی ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پرانے محدثین کا نظام ناکافی ہے۔ (انجیل کے نقادوں کی طرح) اکثر یہ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث کے لیے انتقادِ اعلیٰ کی ضرورت ہے اور سابقہ اخذ کردہ نتائج (اجماع) اور اجتہاد کافی نہیں‘‘۔ 
اس کے علاوہ پیغمبر کی شخصیت کو انسان اور رسول میں تقسیم کرنا، سنت کو دنیاوی حیثیت دینا، متقدمین کے اجتہاد کو قابل اصلاح قراردینا، کسی بھی چیز کی پیروی کے لیے ہر ایک کو اجتہاد کی اجازت دینا، مذہب کو وقت ،ماحول اور جگہ سے متعلق کرنا، ضعیف حدیثوں سے استدلال، مبہم اصطلاحات کا استعمال، مذہبی تعلیمات کے لیے عقل کو بنیاد بنانا، اہل السنۃ والجماعۃ کی تشریحات کی مخالفت کرنااور نادر ومتروک آرا کو جزوِ بحث بنانا تجدد پسندی کے واضح رجحانات ہیں۔ واضح ر ہے کہ دورِ حاضر کی تجدد پسندانہ تحریک کا مرکزومحور دین اسلام کی وہ تعبیر ہے جو ان کی اپنی عقل کے لیے قابل تسلیم ہو۔چنانچہ’’اسلامی شناخت کی حقیقی تعبیر نو‘‘ کی آڑ میں مذکورہ تمام افکار کو فروغ دیا جاتا ہے ۔
جدیدیت کی طرف میلان کے محرکات میں انسان کی فطری جدت پسندی قابل تنقید نہیں، بشرطیکہ وہ فطری حدود میں ہو کیونکہ دین اسلام بھی عین فطرت ہے، اسی لیے دین حنیف کو فطرۃ اللہ قرار دیا گیا، لیکن انسانی فکر ٹھوکر وہاں کھاتی ہے جہاں وہ فطرت کو اپنی عقل کے سانچے میں پرکھنے کی کوشش کرتی ہے اورجو چیز مافوق العقل محسوس ہوتی ہے، اس کو تحت العقل کرنے کی انسانی کوشش منزل کو گم کردیتی ہے۔ مثلاً دین کی بنیاد وحی ہے اوریہ بھی حقیقت ہے کہ وحی کا فلسفہ انسانی عقل کے گرد پھیلے حصولِ علم کے ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتا، چنانچہ انسان جب اس وحی کو ان ذرائع علم کے ساتھ ساتھ عقلی تناظر میں پرکھنے کی ناکام کوشش کرتا ہے تو یہ رجحان اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ وحی کی ایسی تعبیر کرے جو عقل کے لیے قابل قبول ہو۔ چنانچہ تہذیبی غلبہ واثر، فکرنو سے ہم آہنگی اور زمینی حقائق سے متاثر انسان کے ہاں فلسفۂ وحی کی عقلی توجیہات ضروری ٹھہرتی ہیں جو کہ تجدد کا غیرمعمولی عنصر ہے۔ نتیجے کے طور پر دین کی الٰہیاتی تعبیر اور انسانی تعبیرکے درمیان ایک بُعد واقع ہوجاتا ہے اور یہی بُعد انسانی تباہی کا سبب بنتا ہے۔

جدیدیت کا اسلامی فلسفہ

خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، اس کا علم ہر شے کو محیط ہے، زمان ومکان کی قیود اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ جو قانون ایسے خدا کی طرف سے ہو، اس کا کسی مخصوص زمانے کے ساتھ محدود ہوجانا کیسے ممکن ہے؟ خدا کی طرف سے دیے گئے قانون کو ازکار رفتہ کہنا جہالت ہے، کیونکہ وہ توہمیشہ اتنا ہی تازہ رہے گا جتنی صبحِ نو۔ خدا کا یہ قانون بنیادی طور پر ہدایت وضلالت کی حقیقت کو واضح کرتا اور اُن اصول واقدار کو بیان کرتا ہے جن پر وقت کے تغیرات، تہذیبوں کے عروج وزوال اورماہ وسال کی آمد ورفت کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اِن وجوہ کی بنا پر جدیدیت(زمانی ارتقا) کے مطابق الٰہیاتی تعلیمات کی تبدیلی کا قطعاً امکان نہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو انبیا وصلحا کی سنت سے معلوم ہوتی ہے۔ ہر نبی ایسے حالات میں مبعوث ہوا جب زمانے کا بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا اور زندگی کا دریا بالکل غلط رخ پر رواں دواں تھا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی نبی نے زمانے کے چلن کے مطابق مذہب کو ڈھالنے کی کوشش نہیں کی بلکہ زمانے کو اپنے رنگ میں رنگنے کی سعی میں مصروف ہوگئے اور بالآخر صبغۃ اللہ کو غالب کردیا۔ قرآن میں اس حقیقت کو یوں بیان کیاگیا : ’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ‘ (الصف:۹) 
انبیا نے زمانے کے تقاضوں سے سمجھوتا اور اس کے ساتھ مصالحت کرنے کی بجائے ہر ہر خرابی کے خلاف جنگ لڑی۔ زمانے کے آگے جھکنے والوں کو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف جواب یہ تھا کہ ’’خدا کی قسم اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اوربائیں ہاتھ پر چاند رکھ کر کہیں کہ مہروماہ کے عوض مَیں اس دعوت کو ترک کردوں تو میں ایسا نہیں کروں گا یہاں تک کہ اللہ اس دعوت کو کامیاب کردے یا میں اس راہ میں جان سے گزرجاؤں‘‘۔ اسلام عبارت ہی سنت نبوی کی پیروی سے ہے۔ اگرزمانے کی سنت، نبی کی سنت سے متعارض ہے تو وہ شخص اپنے دعواے ایمان میں جھوٹا ہے جو نبی کی سنت چھوڑ کر زمانے کی سنت کا اتباع کرے۔
انسانی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ عظیم کارنامے ہمیشہ انہی لوگوں نے انجام دیے ہیں جو حالات کی روپر بہنے کی بجائے ان کے مقابلے کے لیے اٹھے ہیں ۔ زندگی پر ان مٹ نقوش انہوں نے نہیں چھوڑے جو مرغ بادنما کی طرح ہوا کے رخ پر مڑتے اور دوسروں کی نقالی کرتے رہے بلکہ ان لوگوں نے چھوڑے جو ہوا کے رخ سے لڑے ہیں اور زندگی کے دھارے کو موڑ کر رکھ دیا۔ قابل تقلید وہ نہیں جو گرگٹ کی طرح صبح وشام بدلتا ہے، بلکہ وہ ہے جو خود اپنا کوئی رنگ رکھتا اور دنیا کو اپنے رنگ میں رنگتاہے۔ مسلمان دنیا میں زمانے کی پیروی کے لیے پیدا نہیں کیے گئے بلکہ وہ پوری انسانیت کی فلاح واصلاح کا ذریعہ بنائے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے اس سے بڑی ذلت اورکوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ خدا کانائب، سنت نبوی کا مدعی اور دینی روایات کا امین ہونے کے باوجود جدیدیت کو اپنے دین کے مطابق بدلنے کی بجائے اپنے ہی دین کو مسخ کرنا شروع کردے۔ یہ بزدل اورکم نظر لوگوں کا طریقہ ہے جنہیں ہوائیں خس وخاشاک کی طرح اڑائے پھرتی ہیں اورجن کی اپنی بنیاد نہیں کہ وہ اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہ سکیں۔ مسلمان کا یہ شیوہ ہے کہ ؂
زمانہ با تو نہ سازد
توبازمانہ ستیز

اقبال کے حوالے سے کچھ منفی رویے

محمد عمران ہاشمی

حکیم الامت سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ بھی ایسے لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے ایک دنیا کو اپنے سحر میں گرفتار کیا، انہیں قلبی تسکین مہیا کی، اور جن کے پیغام کے تنوع نے انہیں عالمگیر قبولیت بخشی۔ بغور دیکھا جائے تو حضرت علامہ کے کلام(نظم ونثر) میں بنیادی حیثیت فلسفہ کی جان، تجسس کو حاصل ہے ،اور تحقیق جس کادستِ راست ہے اور حقیقت کبریٰ تک رسائی اور اس کابرسرِعام ابلاغ ہوپانا اس ساری تحقیق وجستجو کا مدعا معلوم ہوتا ہے۔ اب اس مقصد عظیم میں حضرت علامہ ؒ کہاں تک کامیاب ہوسکے، یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر اب تک بہت کچھ لکھا جاچکاہے۔ بہت سے ناقدین اور بہت سے پیروان فکرِ اقبال نے ان خطبات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ کچھ نے مثبت رنگ اختیار کیا اور کچھ نے منفی۔ جہاں علامہ اقبالؒ کی شاعری اور نثر نے گفتگو کے کئی باب واکیے اور کئی عقدے کُشا کیے ،وہاں کئی ابواب میں تشنگی، تشکیک اور تضادات کو بھی جنم دیا۔
حضرت اقبالؒ چونکہ ایک بڑی شخصیت کے طورپر سامنے آئے ،لہٰذا انہیں فکری ،فنی ،ادبی اور نجی سطح پر بھی زیر بحث لایا گیا اور مختلف مفروضات ا ورخیالات نے جنم لیا۔حضرت اقبالؒ کے ایام جوانی اور ان میں ہونے والے مختلف واقعات کو کھنگالا گیا۔ (مے نوشی،رقص وسرود کی محافل میں شرکت، یہاں تک کہ ایک زنِ بازاری کا قتل ان سے منسوب کیاگیا)۔
ان کی نظموں ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ پر کہا گیاکہ’’شکوہ‘‘دراصل علامہؒ کی قلبی واردات اور اصل موقف ہے جب کہ ’’جواب شکوہ‘‘انہوں نے بیرونی دباؤ اور خوف کے باعث لکھی تھی اور یہ کہ ان کا پیشتر کلام دراصل مشاہیر کے کلام کی منظوم ترجمہ کردہ صورت ہے یا یہ کہ مغربی ودیگر کلاسیکی شعرا وفلاسفہ کے نظریات وخیالات سے ماخوذ ہے۔ مثال کے طور پر ’’خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے‘‘ اصل میں بھگت کبیر کے ایک دو ہے یا بیت کا صرف ترجمہ ہے ۔
یہ تو ایک سیدھی سی بات ہے کہ جب زبان غیر سے شرحِ آرزو ہوگی تو کچھ نہ کچھ اضافہ یا کمی لازم ہے۔ ایسا ہی کچھ حضرت اقبال ؒ کے ساتھ بھی ہواہے۔ چونکہ آپؒ کے خطبات انتہائی مشکل طرز کلام رکھتے ہیں، لہذا آپ کے شارحین کو یہاں چھوٹ مل جاتی ہے کہ وہ اپنی طرف سے تشریحات اور توجیہات پیش کرسکیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ اقبال کے ہاں مذہب کا تصور، خدا کا تصور اور دیگر کئی ایک تصورات رائج تصورات سے مختلف ہیں اور تقدیر کے متعلق یہ کہ انسان کسی بھی وقت اپنا ارادہ بدلنے پر قادر ہے۔ البتہ خدا وقت کی تمام حرکات سے واقف ہے اور نگران کے طور پر ہے ۔اب یہ ایسے تصورات ہیں جن پر ہمارے اعتقادات اور یقین وایمان کی بلندوبالا عمارت ایستادہ ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ بعض اصحاب (جن میں غلام احمد پرویز بھی شامل ہیں) اپنے اپنے مقاصد کی حصول کی خاطر علامہ کے نام کو استعمال کرتے رہے ہیں ،اور تا حال ایسا ہورہاہے (اگر چہ اس کے رد میں کئی ایک فاضل علما وضاحت کر چکے ہیں) اوربعض اصحاب حضرت اقبالؒ کو مذہب بیزاری اور جدت طرازی کی دوڑ میں شامل کرنے کی خاطر انہیں سرسید احمد خان کے مکتب فکر سے منسلک کرنے میں برابر لگے ہوئے ہیں اور ’’معراج‘‘جیسے اہم مذہبی اہمیت اور تقدس کے حامل واقعہ کے منکر قراردیتے ہوئے جلد بازی سے کام لیتے ہیں، اور علامہ کے کچھ رشتہ داروں کی قادیانی ہونے کے تناظر میں علامہ کے ڈانڈے بھی قادیانیت سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، حالانکہ یہ بات طے ہے کہ علامہ اقبالؒ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے، صوم وصلوٰۃ اورتلاوت قرآن ان کے محبوب معمولات میں شامل تھے۔
اور تو اور، ایسے معاملات میں علامہ کے فرزند ارجمند ڈاکٹر جاوید اقبال بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور وہ موقع بہ موقع اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں یوم اقبال پر ان کے ایک اخباری بیان میں شراب کشید کرنے کے ذریعے ریونیو اکٹھا کرنے کی ترغیب پائی جاتی ہے اور وہ ایسے خیالات کا اظہار یوم اقبال کی مناسبت سے کرتے ہیں جس میں ڈھکے چھپے انداز میں اقبال کی فکر کو غلط انداز میں پیش کرنے کی جسارت پائی جاتی ہے ۔ڈاکٹر جاوید اقبال کی خود نوشت تو ایسے بے شمار واقعات اور خیالات سے پُر ہے جو حضرت علامہ کے کردار کو مسخ کرنے اور انہیں سست ،کاہل ،بد معاملہ ثابت کرنے کی مذموم کوشش ہیں۔ معروف بزرگ شاعر وادیب شریف کنجا ہی نے جاوید اقبال کی گوشمالی کرتے ہوئے ایک تازہ مضمون میں ان خیالات کو ایڈی پس کمپلیکس سے تعبیر کیاہے جو کافی حد تک درست ہے ۔حضرت علامہ ؒ بہرحال ایک بشر ہی تھے اور بشری تقاضوں کے مطابق ان میں ذاتی حوالوں سے کمیاں اور کجیاں ہونا کوئی غیر معمولی واقعہ بھی نہیں ہے، البتہ ان کو اس طرح سے بڑھا چڑھا کر شائع کرنا کہ ان کے اصل پیغام سے لوگوں کی نظریں ہٹ جائیں یا ملت اسلامیہ کے نام انہوں نے جو پیغام چھوڑا ہے، ا س سے ملت اسلامیہ صرف نظر کرنا شروع کردے، کوئی کار خیر نہیں۔ جاوید اقبال فرماتے ہیں کہ وہ والد کی طرف سے محبت اور پیار کے جذبات کو ترستے ہی رہے۔ وہ اپنے والد کی طرف سے کسی بھی قسم کے احسان کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے آپ کو ایک سیلف میڈ شخصیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اسی تناظر میں جناب شریف کُنجا ہی لکھتے ہیں کہ ’’۱۹۳۸ ء میں( علامہ کے) جانہار ہوجانے کے بعد وہ کون سے وسائل تھے جن کے سہارے جاوید عازمِ انگلستان ہوئے تھے کہ بظاہر آمدنی وہی تھی جسے والد چھوڑ گئے تھے اور مذکورہ گوشوارہ کے مطابق مالی سال (۴۵۔۱۹۴۴ء) میں جاوید صاحب کو کتابوں کی مد سے ۲۳۱۷۴ روپے کی بازیافت ہوئی تھی جسے ڈاکٹر صفدر محمود نے ۱۹۷۳ ء کے حوالہ سے ایک لاکھ کے برابر بتاتا تھا اور غالباً یہی کتابوں کی آمدنی سفرِ انگلستان کو آسان کرگئی تھی۔ ‘‘جناب شریف کُنجاہی اس قضیے پر ذرا نفسیاتی اندا ز میں بات کرتے ہیں او رجاوید اقبال کے باطن میں موجود ایک ناراض بیٹے کو دراصل حضرت علامہ کی طبع کی بیٹے میں جزوی منتقلی قرارد ینے پر بھی تیار نظر آتے ہیں جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ’’جس طرح بعض بدنی کیفیات کے زیر اثر بیٹے میں باپ کا عکس موجودہوتاہے، اسی طرح بعض غیر مادی کیفیات بھی باپ سے بیٹے میں منتقل ہوجاتی ہیں۔‘‘ ’’علامہ اقبال کے والد نے بھی جب اپنے بیٹے کے اس اقدام (یعنی کثرت ازواج) کو نہیں سراہاتھا تو بیٹے (علامہ مرحومؒ ) نے اسے اپنی انا میں مداخلت جاناتھا اور یہ شگاف عمر اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلاگیاتھا جس سے ۱۹۳۸ ء میں والد کی وفات کسی مرثیہ کا باعث نہ بن سکی تھی، جب کہ اس کے بعد سرراس مسعود کی موت ایک اثر انگیز نظم کوتخلیق دے گئی تھی‘‘۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علامہ کے قریبی ساتھیوں (جو تحریک پاکستان میں پیش پیش تھے) کے ساتھ اختلافات اور محاذ آرائیاں منظر عام پر لائی جارہی ہیں۔ مثال کے طور پر ’’ماہنامہ نیاز مانہ ‘‘لاہورمیں مسلسل چھپنے والے مضمون ’’یادیں یاد گاریں‘‘میں مضمون نگار معروف تاریخ دان اور شاعر سید نصیر شاہ،ڈاکٹر جاوید اقبال اور دوسرے لوگوں کے توسط سے اس رائے کا اظہار کرچکے ہیں کہ لفظ ’’پاکستان‘‘ کی تخلیق کے سلسلے میں اقبال اور چودھری رحمت علی میں اچھی خاصی نوک جھونک بالواسطہ اور بلاواسطہ ہوتی رہی ہے اور جاوید اقبال اس لفظ ’’پاکستان ‘‘ کو جناب علامہ اقبال ؒ کی تخلیق قراردیتے ہیں جبکہ یہ چودھری رحمت علی نے تجویز کیا تھا، البتہ فاضل مضمون نگارنے اسے علامہ اقبال کا براہِ راست موقف کم اور حاشیہ برداروں، پیرووں اور عقیدت مندوں کا شاخسانہ زیادہ قراردیاہے جسے انہوں نے کافی تفصیل کے ساتھ لکھاہے۔
اپنے ایک حالیہ مضمون ’’غالب کا ہے انداز بیاں اور ‘‘ میں غالب کی مدحِ شاہ کا ذکر کرتے ہوئے معروف شاعر وادیب جناب ظفر اقبال لکھتے ہیں کہ ’’میر کے علاوہ بھی کئی ایسے اساتذہ کے نام گنوائے جاسکتے ہیں جو درباری اور چاپلوس نہیں تھے۔حتیٰ کہ یہ علت پچھلی صدی میں علامہ اقبال تک میں بھی موجود رہی جو والئ بھوپال وغیرہ کے وظیفہ خوار رہے جس کی چند اور دلچسپ مثالیں بھی موجود ہیں۔ مثلاً انہوں نے اپنا مجموعہ کلام’’پیام مشرق‘‘والئ افغانستان غازی امان اللہ خان کے نام معنون کیا ،اور جب نادر شاہ غازی نے امان اللہ کے تخت پر قبضہ کرلیا تو علامہ نے اپنی اگلی کتاب نادر شاہ کے حضور پیش کی، جبکہ ’’ضرب کلیم‘‘ نواب آف بھوپال سے منسوب ہوئی، حالانکہ وہ بے روز گار نہیں تھے اور پیشہ وکالت کو باقاعدہ اختیار کررکھا تھا‘‘۔
جیسا کہ آغاز میں کہا گیاہے کہ چونکہ حضرت علامہ برصغیر کے منظر نامے پر ایک واضح اور نمایاں شخصیت کے طور پر سامنے آئے، اس لیے ان کے بارے میں اختلاف رائے بھی ظاہر ہے، بڑی سطح پر ہی ہونا تھا۔ ویسے علامہ اقبال کوبڑی شخصیت کے طورپر ماننے سے بھی کچھ لوگ گریزاں ہیں، جیسا کہ معروف کلام نگار حسن نثار نے گوجرانوالہ میں اپنی ایک گفتگو میں علامہ کے بارے میں کہا کہ ’’ وہ کوئی بڑی شخصیت وغیرہ نہیں تھا، بس جیسے اندھوں میں کانا راجہ ہوتاہے، کچھ ایسا ضرور تھا، اور یہ جو شاہین کا تصور ہے، یہ انہوں نے معروف پشتو شاعر خوش حال خان خٹک سے مستعارلیا ہے ‘‘۔
علامہ محمد اقبال ایک عظیم مفکر تھے جن کی فکر کسی مخصوص علاقے یا قوم تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے خودی کا جو پیغام دیاہے، وہ ایک ابدی اور عالمگیر پیغام ہے۔ ضرورت ہے تو اسے سمجھنے اور مثبت انداز میں سمجھنے کی۔ یہاں ان کے عقیدت مندوں اور شارحین کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ ایسے خیالات اور رویوں کی جانچ پرکھ نہایت احتیاط اور دیانت داری سے کریں اور اصل حقائق کو مثبت انداز میں سامنے لائیں تاکہ اقبالؒ کا فلسفہ اور ان کی فکر اور شاعری منفی انداز میں کی گئی تنقید کانشانہ نہ بنے۔

سید حسین احمد مدنیؒ اور تجدد پسندی

پروفیسر میاں انعام الرحمن

برصغیر پاکستان و ہند کی مقتدر مسلم شخصیات میں سے سلطان محمود غزنوی( متوفیٰ اپریل ۱۰۳۰ ) اورمغل بادشاہ اکبر ( م اکتوبر ۱۶۰۵ )ایک عرصے سے متنازعہ چلے آ رہے ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر (م مارچ ۱۷۰۷ ) کو بھی بآسانی ایسی شخصیات میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک محمود غزنوی لٹیرا ہے اور بعض کی نظر میں بت شکن۔ اسی طرح اگر ایک طرف اورنگ زیب کی پارسائی کے گن گائے جاتے ہیں تو دوسری طرف اسے ظالم بیٹا تصور کیا جاتا ہے جس نے اپنے سگے باپ کو برسوں قلعے میں محصور کیے رکھا۔ مغل بادشاہ اکبر کا معاملہ قدرے جدا ہے۔ اگر مذہبی اصطلاح ’’ اجماع ‘‘ کو مستعار لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اکبر کی’’ تجدد پسندی‘‘ کے خلاف مسلمانوں کے قدامت پسند حلقے کا اجماع ہو چکا ہے اور ایسے اجماع کے بعد بظاہر مزید کسی تحقیق و رائے زنی کی گنجایش باقی نہیں رہی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری راسخ العقیدہ دینی روایت ، قدامت پسندوں کے اعتقادی و تقلیدی رویوں سے بہت زیادہ مختلف رہی ہے اور خالصتاً دینی معاملات میں بھی تحقیق و جستجو کو تج دے کر اجماع کو حرفِ آخر تسلیم کرنے کوکبھی آمادہ نہیں ہوئی، چہ جائیکہ ایسے امور میں جہاں حکمرانوں کی پالیسیوں اور اقدامات کا تحلیل و تجزیہ مقصود ہو۔ امام شافعی ؒ (م ۲۰۴ھ) اور امام احمد بن حنبل ؒ (م ۲۴۱ھ) نے واضح طور پر اجماع کے اضافی پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی مخالف قول کا علم نہ ہو تو اس سے اجماع واقع نہیں ہو جاتا۔ اگر خالصتاً دینی معاملات میں اجماع حرفِ آخر نہیں تو پھر سیاسی نما مذہبی معاملات ( جن میں عزیمت کے بجائے رخصت کو پیشِ نظر رکھنا زیادہ مفید ہوتا ہے) میں کسی نام نہاد اجماع کی بابت حساسیت کم سے کم ہونی چاہیے اور خلط مبحث سے حتی المقدور گریز کرنا چاہیے۔ اسی سلسلے میں ہم سید حسین احمد مدنی ؒ (م ۱۹۵۷ء) کے اس ’’تفرد‘‘ کو یہاں نقل کرنا چاہیں گے جو اکبر کی تجدد پسندی سے متعلق ’اجماع‘ کے خلاف ہے تاکہ تجدد پسندی کے حوالے سے تصویر کے دونوں رخ سامنے آ سکیں ۔ ملاحظہ کیجیے : 
’’ واقع میں ایک غیرت دار شخص کا یہ خیال بجا ہے، مگر اسی کے ساتھ چند امور قابلِ ملاحظہ ہیں۔ تاریخ بتلاتی ہے کہ ہند میں ابتداء اً جب مسلمان آئے، عام طور سے اہلِ ہند بودھ مذہب رکھتے تھے اور ترک چھوت چھات تو درکنار ، بیاہ شادی تک بخوشی کرتے تھے، جس طرح آج برہما، سیام، چین کھاسیا پہاڑوں وغیرہ میں رائج ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اختلاط نے نہایت قوی تاثیر کی، خاندان کے خاندان مسلمان ہو گئے، مغربی پنجاب خصوصاً سندھ میں مسلمانوں کی زیادتی کا راز یہی ہے۔ اس کے بعد جب محمود غزنوی مرحوم کا زمانہ آیا ہے تو ہندووں میں مختلف احوال کی وجہ سے اشتعال پیدا ہوتا ہے اور شنکر اچاریہ عام مذہب ہند کو بودھ سے نکال کر برہمنی بناتا ہے اور حکومت بودھ کی کمزوری کی بنا پر جو کہ افغانستان ، بلوچستان ، سندھ ، لاہور سے فنا کر دی گئی تھی اور وسط ہند کے بھی بودھ راجواڑے محمود مرحوم کے پے در پے حملوں سے یکسر کمزور ہوگئے تھے، شنکر اچاریہ کو عوام پر بڑی کامیابی حاصل ہو جاتی ہے ۔ چاروں طرف دبے ہوئے برہمن جن کو بودھوں نے تقریباً دفن کر دیا تھا، اٹھ پڑتے ہیں اور تھوڑی سی مدت میں پھر برہمنی مذہب اقطار ہند میں پھیل جاتا ہے، اسی کے دل دادہ ہو جاتے ہیں۔ برہمن چونکہ دیکھ رہے تھے کہ اسلام کا سیلاب اختلاط کی بنا پر ان کے اقتدار ہی کو نہیں بلکہ مذہب کو بھی مٹا رہا ہے ، جس کی بنا پر ان کی مذہبی اور دنیاوی سیادتوں کا خاتمہ ہو جائے گا، اس لیے انھوں نے عوام میں نفرت کا پروپیگنڈا پھیلایا اور مسلمانوں کو ملیچھ کا خطاب دیا۔ گاؤ کشی اور گوشت خوری کو اس کے لیے ذریعہ بنایا۔ عوام ہند کی ذہنیت ہمیشہ سے تارکینِ دنیا کی پرستش کرنے والی واقع ہوئی ہے، خصوصاً ہندو ذہنیت جس قدر سادھو اور فقیر کی پرستش کرتی ہے ، وہ اظہر من الشمس ہے۔ یہ ذہنیت بہت جلد شرق سے غرب اور شمال سے جنوب تک پھیل گئی اور وہ اس میں کامیاب ہو گئے۔ چونکہ اسلامی قوت کا قوت سے ان کو مقابلہ کرنے میں باوجود مساعی عظیمہ کامیابی نہیں ہوئی ، اس لیے اسی طریقے پر ان کی جدوجہد محصور ہو گئی اور اسی کو انھوں نے آلہ کار مدافعت بالقویٰ کا بھی بنانا چاہا ۔ پادشاہانِ اسلام نے اولاً اس طرف توجہ ہی نہیں کی ، بلکہ وہ تمام باتوں کا قوت سے مقابلہ کرتے رہے ، مگر شاہانِ مغلیہ کو ضرور اس طرف التفات ہوا ، خصوصاً اکبر نے اس خیال اور اس عقیدے کو جڑ سے اکھاڑنا چاہا اور اگر اس کے جیسے چند بادشاہ اور بھی ہو جاتے یا کم از کم اس کی جاری کردہ پالیسی جاری رہنے پاتی تو ضرور بالضرور برہمنوں کی یہ چال مدفون ہو جاتی اور اسلا م کے دل دادہ آج ہندوستان میں اکثریت میں ہوتے۔ اکبر نے نہ صرف اشخاص پر قبضہ کیا تھا بلکہ عام ہندو ذہنیت اور منافرت کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا تھا ، مگر ادھر تو اکبر نے نفس دین اسلام میں کچھ غلطیاں کیں جن سے مسلم طبقہ میں اس سے بد ظنی ہوئی ، اگرچہ بہت سے بد ظنی کرنے والے غافل اور کم سمجھ تھے، ادھر برہمنوں کے غیظ و غضب میں اپنی ناکامی دیکھ کر اشتعال پیدا ہوا۔ ادھر یورپین قومیں خصوصاً انگلستان کو اپنے مقاصد میں کامیابی کا ذریعہ تلاش کرنا پڑا اور سب سے بڑا ذریعہ اس کا منافرت بین الاقوام تھا اور ہے ۔ اب سیوا جی کی تاریخ اور سکھوں کی کارروائیوں اور صوبہ جات کے باغیانہ کارناموں لارڈ کلائیو کے بنگال وغیرہ میں بذریعہ ہندو قوم فتح مندیوں میں اس ہاتھ کو بہت زیادہ کھیلتے ہوئے پائیں گے ، آج ہماری مہربان گورنمنٹ اس کے ذریعے بہت زیادہ کامیاب ہو رہی ہے۔ اس بنا پر اگرچہ بڑے درجے تک برہمنوں نے مسلمانوں سے اپنی قوم کو بڑے درجے تک محفوظ رکھا مگر اس نے ان کی متحدہ قومیت کا بھی شیرازہ بکھیر دیا اور خود ان میں بھی چھوت چھات کا عقیدہ جہلا نے پیدا کر دیا حتیٰ کہ بعض بعض خاندان برہمنوں کے بھی دوسرے برہمن سے چھوت چھات کرنے لگے ۔ 
آپ کو معلوم ہے کہ صلح حدیبیہ ہی فتح مکہ اور فتح عرب کا پیش خیمہ ہے اور جس روز صلح حدیبیہ تمام و کمال کو پہنچی ہے ، اسی روز انا فتحنا الآےۃ نازل ہوتی ہے ، جس پر حضرت عمررضی اللہ عنہ تعجب کرتے ہوئے استفسار فرماتے ہیں ، او فتح ھو یا رسول اللہ۔ آپس میں اختلاط ہونا ، نفرت میں کمی آنا ، مسلمانوں کے اخلاق اور ان کی تعلیمات کا معائنہ کرنا ، دلوں سے ہٹ اور ضد کا اٹھ جانا ، یہی امور تھے جنھوں نے افلاذ اکباد قریش کو کھینچ کر صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان بناتے ہوئے مکہ سے مدینے کو پہنچا دیا۔ حضرت خالد بن ولید ، عمرو ابن العاص وغیرہ رضی اللہ عنہم اس طرح حلقہ بگوش اسلام بن گئے کہ قریش کی ہستی فنا ہو گئی ۔ 
الغرض اختلاط باعثِ عدم تنافر ہے اور وہ اقوام کو اسلام کی طرف لانے والا اور تنافر باعثِ ضد اور ہٹ اور عدم اطلاع علی المحاسن ہے اور وہ اسلامی ترقی میں سدِ راہ ہونے والا اور چونکہ اسلام تبلیغی مذہب ہے ، اس لیے اس کا فریضہ ہے کہ جس قدر ہو سکے، غیر کو اپنے میں ہضم کرے، نہ یہ کہ ان کو دور کرے ۔ اس لیے اگر ہمسایہ قومیں ہم سے نفرت کریں تو ہم کو ان کے ساتھ نفرت نہ کرنا چاہیے۔ اگر وہ ہم کو نجس اور ملیچھ کہیں تو ہم کو ان کو یہ نہ کہنا چاہیے ۔ اگر وہ ہم سے چھوت چھات کریں، ہم کو ان سے ایسا نہ کرنا چاہیے۔ وہ ہم سے ظالمانہ برتاؤ کریں، ہم کو ان کے ساتھ ظالمانہ، غیر منصفانہ برتاؤ نہ کرنا چاہیے ۔ اسلام پدرِ شفیق ہے، اسلام مادرِ مہربان ہے، اسلام ناصح خیر خواہ ہے۔ اسلام جالبِ اقوام ہے ، اسلام ہمدرد بنی نوع انسان ہے۔ اس کو غیروں سے جزاء سےئتہ سےئتہ مثلہا پر کاربند ہونا شایان نہیں بلکہ اس کی غرض کے لیے سدِ یاجوج ہے۔ کفر نے کبھی اسلام سے عدل و انصاف نہیں کیا، ان یظہروا علیکم لا یرقبوا فیکم الا ولا ذمۃ (الخ) وغیرہ شاہد عدل ہیں، مگر اسلام نے انصاف، عدل و احسان کو کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا اور نہ چھوڑنا مناسب تھا، اگرچہ انتقامیہ جذبات بہت کچھ چاہتے تھے۔ اگرچہ بعض دنیا دار بادشاہوں نے کوئی ظلم و ستم کیا ہے تو وہ اس کے ذمہ دار ہیں، اسلام ان کا روادار نہیں۔ اب تفصیلی باتیں عرض کرتا ہوں : 
(۱) مشرکین بے شک نجس ہیں، مگر علت حکم آیت حسب سلیقہ عربیہ کہ مشتق کو محکوم علیہ قرار دینا ماخذ اشتقاق کو علت قرار دینا ہے، لہٰذا علت نجاست شرک ہو گا جو کہ نجس معنوی ہے۔ اسی بنا پر اگر مشرک کو سات سمندر سے غسل دیا جائے ، تب بھی بوجہ شرک وہ نجس ہی رہے گا، حالانکہ تین مرتبہ غسل سے نجاستِ ظاہری زائل ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہور اسلام متفق ہیں کہ مشرک کا سور، عرق وغیرہ پاک ہے۔ آیت میں مسجدِ حرام سے صرف خانہ کعبہ یا مسجد مکہ معظمہ مراد نہیں، بلکہ تمام حدِ حرم مراد ہے۔ اس میں مشرکین داخل ہو کر یا قریب آکر تجارت کر سکتے ہیں۔ اسواقِ اربعہ میں سے کوئی بھی مجلس مکہ معظمہ بلکہ نفسِ مکہ معظمہ میں منعقد نہیں ہوتی تھی تو پھر وان خفتم عیلۃ سے کیا مناسبت ؟ متنبی کہتا ہے :
لا تشتروا العبد الا والعصا معہ ان العبید لانجاس مناکید
ترجمہ : غلام اگر خریدے تو ساتھ ہی اس کی تادیب و تعلیم کے لیے چھڑی بھی ضروری ہے، کیونکہ غلام طبیعت کے ناپاک اور بے خیر ہوتے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ یہاں بھی مراد وہ ہی نجاست معنوی ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو مسجد میں باندھا، دفود مشرکین کو مسجد میں داخل فرمایا وغیرہ ۔ 
(۲) کفر ہمیشہ سے ایسے ہی کرتا آیا ہے۔ آنحضرت علیہ السلام اور صحابہ کرامؓ اور اسلاف کے کارنامے یاد کیجیے ، انبیاء علیہم السلام کی تذلیل کفار نے اس سے بدرجہا زائد کی، پھر کیا وہ ذلیل ہوگئے ؟ 
(۳) احکامِ سیاسیہ ایک حالت نہیں رکھتے۔ کبھی زہر علانیہ دینے کا موقع ہو گا تو کبھی شکر کا شربت پیش کرنا ہو گا۔ آپ کو محض انتقام کبھی لینا ہو گا اور کبھی شفقت کے ساتھ درگزر کرتے ہوئے اپنی طرف کھینچنا۔ آج موقع ہے کہ بڑے دشمن سے ترکِ موالات کیجیے اور اس کو زک دینے کے لیے غیروں کو ساتھ لیجیے، جیسے یہود بنی حارثہ کو خیبر میں، صفوان بن امیہ اور دیگر طلقاء مکہ کو حنین میں، خزاعہ کو حدیبیہ وغیرہ میں ساتھ لیا گیا ۔ ایسی ان کی تذلیلات نے ہی اسلام کو بڑی مدد پہنچائی۔ ادھر مسلمانوں کو ان سے نفرت ہوئی، ادھر ان کی اقوام کو اسلام کی طرف رغبت ہوئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کروڑوں آدمی تھوڑی سی مدت میں مسلمان ہو گئے۔ ۱۸۵۷ء میں مسلمانوں کی مردم شماری موجودہ کی تقریباً نصف ہے۔ اگرچہ مساوات اور عدالت آپ کے خیال کی تائید کرتی ہے، مگر جذبہ اسلامیہ تنگ دلی کی اجازت نہیں دیتا۔ مداراۃ بالاعداء مع البغض الباطنی بالفعل زیادہ ضروری اور مفید ہے اور حتی الوسع موالاۃ ممنوعہ سے بچتے رہنا چاہیے۔ 
(۴) ضروریاتِ اسلامیہ اور وقتیہ کا لحاظ رکھتے ہوئے الانفع فالانفع پر عمل پیرا ہو نا چاہیے اور اھونھما کو اختیار کرنا چاہیے ۔ 
(۵) انگریزوں کے ساتھ معاملہ سیاسی غیر مذہبی نہیں ہے بلکہ مذہبی ہے، البتہ وہ اکبر الاعداء اور اقوی الاعداء اور اضرالاعداء ہیں اور ان کے اسلامیت سے نا امیدی ہے۔ مانحن فیہ ایسا نہیں، اگر وہ اسلامی دنیا پر مظالم گزشتہ سے تلافی اور آئندہ کے لیے دست بردار ہو جائیں تو ترکِ موالات وغیرہ میں تخفیف ضرور ہو گی، البتہ تا بقاء کفر مصالحت کی بنا پر نہ موالات تامہ ہو گی اور نہ معادات۔ 
(۶) اگرچہ انگریز وہ معاملہ چھوت چھات کا نہیں کرتے، مگر اسلام کے بدترین اور اعلیٰ ترین دشمن ہیں، بخلاف ہنود ، یہ ہمارے پڑوسی ہیں اور پڑوسی اگرچہ کافر ہو، پڑوسی پر حق رکھتا ہے ، کما ورد فی الحدیث۔ ان کے ساتھ ہمارا خون ملا ہوا ہے، رشتہ اور قرابت داری ہے یا آبا کے ساتھ یا جدات کے ذریعے سے، ان کے ساتھ ہندوستان میں ہم کو مجبوراً رہنا اور درگزر کرنا ہے۔ بغیر میل جول جس قدر بھی ممکن ہو ، ہندوستان میں گزرکرنا عادت مستحیل ہے ۔ اس لیے ضروریاتِ زندگیہ اس طرف تخفیف ضرور پیدا کریں گی۔ انگریزوں سے ہم کو نہ یہ تعلقات ہیں نہ مجبوریت ۔ 
(۷) جائز بلکہ مستحسن ہے ۔ 
(۸) یہ بھی جائز بلکہ باعثِ ثواب ہے ۔ 
نئے تعلیم یافتہ اس چھوت چھات میں نہ صرف قومیت متفقہ کا ضرر سمجھتے ہیں بلکہ اپنی مذہبیت کا بھی شیرازہ بکھرتا ہوا پاتے ہیں اور انسانی اخوت کے خلاف پاتے ہوئے ازالے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنی سیاسی زندگی کے لیے وبالِ جان جانتے ہیں۔ گاندھی جی خود اس کے ازالے کے لیے کوشاں ہیں، مگر جو مرض قرن ہا قرن سے آ رہا ہے ، وہ اس قدر جلد کس طرح دور ہو جائے۔ تجربہ اس پر دلالت کر رہا ہے کہ چھوت چھات ہندو قوم کو روزافزوں کمی کی طرف دھکیل رہا ہے اور اسلام باوجود ہر طرح کی کمزوریوں کے ترقی کر رہا ہے۔ پس مسئلہ پر ٹھنڈے دل سے غور کیجیے۔ قلتِ وقت ہونے کی بنا پر چند مرتبہ ریل میں مضمون کو پورا کیا ہے ، معاف فرمائیے گا۔ 
والسلام : ننگِ اکابر حسین احمد غفرلہ 
۱۸ ربیع الاول ۱۳۵۰ھ ‘‘ 
[ مکتوبات شیخ الاسلام، مکتوب ۶۳، ص ۱۷۰ تا ۱۷۸ ] 
سوال یہ ہے کہ’ ’ بد ظنی کرنے والے غافل اور کم سمجھ ‘‘ کے مصداق کون لوگ تھے اور کون لوگ ہیں؟ سید حسین احمد مدنی ؒ تو اکبر جیسے چند اور بادشاہوں کے خواہاں تھے یا کم از کم اس کی پالیسیوں کے تسلسل کے خواہش مند تھے ، تو کیا خود سید مدنی ؒ تجدد پسندی کی قدامت پسندانہ تعریف کے مصداق تھے؟ سوال یہ ہے کہ آج کی گلوبل دنیا میں پڑوسی کا مصداق کون ہے ؟ اور سید حسین احمد مدنی ؒ نے پڑوسی کے حوالے سے جس ’’ حق اور مجبوری ‘‘ کا ذکر کیا ہے، کیا اب اسے گلوبل تناظر میں دیکھنا تجدد پسندی کے زمرے میں آئے گا؟ سوال یہ ہے کہ آج کی گلوبل دنیا کے ’’ بودھ ‘‘ کون ہیں اور کون سا مسلم حکمران یا مسلم طبقہ ’’ محمود ‘‘ کا کردار ادا کر رہا ہے یا ادا کرنے کی کوششوں میں ہے اور برہنی موقع پرستوں کے لیے فضا ہموار کر رہا ہے؟ سوال یہ ہے کہ سید حسین احمد مدنی ؒ نے اکبر کی مذمت کرنے کے بجائے اس کے مخالفین کو غافل اور کم سمجھ کیوں قرار دیا؟ سوال یہ ہے کہ اکبر کی پالیسیوں پر تجدد پسندی کا لیبل لگا کر اس کی ’’اجماعی مخالفت‘‘ بہت بڑھ چڑھ کر کیوں کی گئی اور کیوں کی جا رہی ہے ؟ 
جواب یہ ہے کہ اکبر کے ’’ اجماعی مخالفین ‘‘ اس کے اقدامات کے مظہر phenomenon) ( پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں، ان کے ہاں اس مظہر کی تسلیمیت (confession) جس قدر بھر پور ہے، اس سے بہت زیادہ اس مظہر کی تفہیم (understanding) مفقود ہے۔ سید مدنی ؒ کے اس مکتوب میں اکبری اقدامات کی تفہیم بھر پور ہے اور ظاہر ہے کہ بطور مظہر کے انھوں نے ان اقدامات کو تسلیم بھی کیا ہے۔ سیدحسین احمد مدنی ؒ کے اسی مکتوب کے حاشیے میں درج، شہنشاہ بابر (م دسمبر ۱۵۳۰) کی اس وصیت سے جو اس نے شہزادہ ہمایوں (م جنوری ۱۵۵۶ ) کو کی، زیرِ بحث نکتہ واضح ہو جاتا ہے: 
’’اے پسر! ہندوستان مختلف مذاہب سے پر ہے۔ الحمد للہ اس نے بادشاہت تمہیں عطا فرمائی ہے ، تمہیں لازم ہے کہ تم تعصباتِ مذہبی کو لوحِ دل سے دھو ڈالو اور عدل و انصاف کرنے میں ہر مذہب و ملت کے طریق کا لحاظ رکھو ، جس کے بغیر تم ہندوستان کے لوگوں کے دلوں پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ اس ملک کی رعایا، مراحم خسروانہ اور الطاف شاہانہ ہی سے مرہون ہوتی ہے۔ جو قوم یا ملت قوانینِ حکومت کی مطیع اور فرماں بردار رہے، اس کے مندر اور مزار برباد نہ کیے جائیں ، عدل و انصاف ایسا کرو کہ رعایا بادشاہ سے خوش رہے، ظلم و ستم کی نسبت احسان اور لطف کی تلوار سے اسلام زیادہ ترقی پاتا ہے ، شیعہ سنی جھگڑوں سے چشم پوشی کرو ، ورنہ اسلام کمزور ہو جائے گا۔ جس طرح انسان کے جسم میں چار عناصر مل جل کر اتفاق و اتحاد سے کام کرتے ہیں، اسی طرح مختلف مذاہب رعایا کو ملا جلا کر رکھو، ان میں اتحادِ عمل پیدا کرو تاکہ جسمِ سلطنت مختلف امراض سے محفوظ و مامون رہے۔ سرگزشتِ تیمور کو جو کہ اتفاق و اتحاد کا مالک تھا ، ہر وقت اپنی نظر کے سامنے رکھو ، تاکہ نظم و نسق کے معاملات میں پورا تجربہ حاصل ہو ۔‘‘
اس وصیت کے تنقیدی مطالعے سے اکبر کی پالیسیوں کی تفہیم آسان ہو جاتی ہے کیونکہ اس سے وہ پس منظر نمایا ں ہو جاتا ہے جس میں ہمایوں کے بیٹے اکبر کو کاروبارِ حکومت سنبھالنا پڑا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ سید حسین احمد مدنی ؒ نے اکبر کی ’’ تجدد پسندی ‘‘ کی حمایت اتنے واضح انداز میں کیوں کی۔ جس دور میں یہ وصیت لکھی گئی ، اس وقت برصغیر پاکستان و ہند بہت وسیع خطہ تھا، لسانی، نسلی، مذہبی اور ثقافتی تنوع سے مالا مال تھا ، زرعی دور ہونے (اور تکنیکی ترقی نہ ہونے) کے باعث ایک مرکز کے تحت اتنے بڑے خطے پر کنٹرول کرنا اور امن و امان قائم کرنا آسان نہیں تھا ،بالخصوص اس صورتِ حال میں جبکہ مسلمان غالب اکثریت میں نہیں تھے ، اسی لیے بابر نے حقیقت پسندانہ پیراڈائم (paradigm) اختیار کیا ۔ آج کی گلوبل دنیا کو بابر کے ہندوستان کے مصداق سمجھا جا سکتا ہے، کیونکہ تکنیکی ترقی کے باعث دنیا سمٹ چکی ہے ۔اب پوری دنیا لسانی، نسلی، ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے تنوع کی حامل ہے اور مسلمان ( بابر کے ہندوستان کے مانند ) اکثریت میں نہیں ہیں۔ ذرا غور کیجیے کہ شہنشاہ بابر اسلام کی ترقی کن عناصر میں دیکھ رہا تھا؟ کیا انہی عناصر کی آبیاری کی ضرورت نہیں تھی اور کیا اب اس وقت بھی ضرورت نہیں ہے؟ دوبارہ غور کیجیے کہ بابر نے وصیت میں شیعہ سنی مسئلے کا خاص طور پر ذکر کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بابر کے زمانے کے ہندوستان میں اس مسئلے کی جو اہمیت تھی اور اس حوالے سے جس سنجیدگی کے ساتھ مصالحت و موافقت کی ضرورت تھی، اب اس مسئلے کی بالکل ویسی ہی اہمیت اور اسی سنجیدگی کی مصالحت و موافقت ، اسلام کی ترقی کے لیے گلوبل سطح پر درکار ہے۔ موجودہ عالمی حالات ہماری رائے کی ثقاہت پر شاہد ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مسئلے کو سمجھے بغیر (کہ شیعہ سنی مسئلہ ہمارے تہذیبی مسلمات میں سے ہے)، قدامت پسندوں کا ایک بہت بڑا حلقہ ہمیشہ کی طرح ایسی موافقت پر ناک بھوں چڑھائے گا اور ہر طرح کی مصالحتی کوشش کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ تجدد پسندی قرار دے کر اسلام کی ترقی میں رکاوٹ بنے گا۔ اسلامی تاریخ سے واقفیت رکھنے والا کوئی بھی غیر جانبدار شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کرے گا کہ مسلم ریاستوں اور حکومتوں کی شکست و ریخت میں غیر مسلموں نے شیعہ سنی جھگڑے کو ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ اس جھگڑے میں کون فاتح رہا تھا یا فاتح ہو گا، کسے شکست کی ہزیمت اٹھانی پڑی تھی یا شکست کھانی ہو گی، یہ ایک الگ مسئلہ ہے، لیکن اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں کہ دونوں کی فتح و شکست سے قطع نظر، نقصان اسلام کا ہوا تھا اور اب بھی نقصان اسلام کا ہی ہو گا۔ 
اکبر کی پالیسیوں کو تجدد پسندی کا نام دینے والے اس کے ’’اجماعی مخالفین‘‘ تفہیم سے دوری کے باعث یہ اہم نکتہ بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ریاستوں اور حکومتوں کے اقدامات کے اثرات دیرپا اور مطلق نہیں ہوتے، بلکہ معاشرتی عناصر زیادہ گہرے اور زیادہ دیرپا اثرات مرتب کرتے ہیں، کیونکہ ایک ریاست کے اندر حکومتیں بدلتی رہتی ہیں اور حکومتوں کے بدلنے کے ساتھ حکومتوں (یا مقتدر شخصیات) سے منسلک اقدامات بھی ترک کر دیے جاتے ہیں اور اس پر کوئی خاطر خواہ ردِ عمل بھی سامنے نہیں آتا۔ (اسی لیے اکبر کی تجدد پسندی کے خاتمے پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا، اور یہی نکتہ سید حسین احمد مدنیؒ کے پیش نظر بھی نہیں رہا۔ وہ حکومتی سطح پر ہی اکبر کی پالیسیوں کے تسلسل کے خواہاں نظر آتے ہیں، حالانکہ یہ عمل سماجی سطح پر زیادہ موثر اور پائیدار ہوتا ہے) حکومتیں تو ایک طرف رہیں، ریاستیں بھی ٹوٹتی بنتی رہتی ہیں اور نتیجے کے طور پر ریاستی قوت و اقتدار کے بل بوتے پر کیے گئے اقدامات بھی طفیلی ہونے کے باعث ڈانواں ڈول رہتے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی حکومت یا ریاست ’’تجدد پسندی‘‘ کی پالیسی اپناتے ہوئے ’’دینِ الہٰی‘‘ نافذ کرے یا روشن خیالی کے نام پر ’’حقوق نسواں بل‘‘ پاس کرے یا اسلامی نظام کے نفاذ کا لبادہ اوڑھ کر ’’حدود آرڈیننس‘‘ جاری کرے، اس کے کوئی خاص دیرپا اثرات مرتب نہیں ہوتے ۔ لیکن اگر کوئی کام سماجی سطح پر کیا جائے تو اس کے اثرات زیادہ مطلق، زیادہ اہم اور زیادہ دیرپا ہوتے ہیں، کیونکہ سماج کی عمر صدیوں پر محیط ہوتی ہے، اس لیے سماجی قوت کا اظہار بھی موثر اور صدیوں پر محیط ہوتا ہے۔ 
اس سلسلے میں ایک مثال دینی مدارس کی دی جاسکتی ہے کہ یہ مدارس، ریاستی و حکومتی سرپرستی سے بے نیاز ہو کر سماجی قوت کے بل بوتے پر پروان چڑھے ہیں اور مضبوطی سے قائم ہیں۔ ہمارے کہنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ قدامت پسندوں کو ایسی ’’ تجدد پسندی‘‘ سے زیادہ فکر مند نہیں ہونا چاہیے جو دینِ الہٰی یا حقوقِ نسواں کے نام سے ہو (کیونکہ ریاستی و حکومتی مظہر ہونے کے باعث ان کی عمر مختصر ہوتی ہے)، بلکہ قدامت پسندوں کو ان مظاہر پر گہری نظر رکھنی چاہیے جو سماجی ہونے کے باعث طویل العمر اور گہرے اثرات کے حامل ہیں۔ لیکن چونکہ قدامت پسندوں کے نزدیک تجدد پسندی کے ایک خاص معنی ہیں، اس لیے ان کی نظروں میں اکبری اقدامات جیسے مظاہرتو چبھ رہے ہیں، لیکن اعتقادی دھند میں انھیں تجدد پسندی کی وہ لہر دکھائی نہیں دے رہی جو پوری دنیا میں مذہب کا وہ ایڈیشن متعارف کروا رہی ہے جسے کمیونسٹوں نے عوام کے لیے افیون قرار دیا تھا۔ یہ لہر تبلیغ کے نام پر اٹھ رہی ہے اور فیملی سسٹم کو تباہ و برباد کر رہی ہے۔ اسلام /مغرب کشمکش کے موجودہ سنگین ماحول میں فیملی سسٹم ’’معیار اور پیمانہ ‘‘ بن چکا ہے، لیکن صلہ رحمی جیسی بنیادی اسلامی قدر جو فیملی سسٹم کے لیے درحقیقت ریڑھ کی ہڈی ہے، اس تجدد پسندی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ اگر سروے کر کے اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو خاندانوں کی تباہی کی داستان پر مشتمل ایک مبسوط دستاویز تیار کی جا سکتی ہے۔ اہلِ مغرب کو اب زیادہ پریشان ہو نے کی ضرورت نہیں، کیونکہ جو کام وہ کرنا چاہتے ہیں، ہمارے مہربان بغیر تنخواہ کے وہی کام بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔ اسلام میں فیملی سسٹم، صلہ رحمی اور اجتماعی رجحانات کو فروغ دینے کے دو بڑے مظاہر عید الفطر اور عید الاضحی ہیں۔ یہ تجدیدی لہر ان مظاہر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے ۔ اب عیدین کے مواقع پر ایسے ’’مقدس لوگ ‘‘ ملتے ہیں جو اپنے ماں باپ، بیوی بچوں، بہن بھائیوں، عزیزو اقارب وغیرہ کے ساتھ عید منانے کے بجائے گھروں سے دور تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ سید نا عمر فاروقؓ نے ایک خاص حکمت کے تحت چار ماہ کے بعد فوجیوں کی چھٹی کو لازم قرار دیا تھا، لیکن تجدد پسندی کی اس لہر نے اس حکمت کے بھی تارو پود بکھیر دیے ہیں اور ایک سال کے مٹر گشت کی طرح ڈالی ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ اگر کوئی مٹر گشت کے دوران میں کہیں آنا جانا چاہے تو ایسا کرنے کی صورت میں وہ ’’احساسِ گناہ‘‘ سے دوچار ہو جاتا ہے جیسے روزہ توڑ لیا ہو یا حج کو ادھورا چھوڑ آیا ہو ۔ سید حسین احمد مدنی ؒ نے اپنے مکتوب میں صلح حدیبیہ کا ذکر کیا ہے کہ اس عہد نامے کی دفعات بظاہر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تھیں، لیکن اس کا حتمی فائدہ اسلام اور مسلمانوں کو ہی پہنچا۔ تجدد پسندی کی مذکورہ لہر کو صلح حدیبیہ کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ لہراسلام اور مسلمانوں کے بظاہر مفاد میں ہے، لیکن اس کا حتمی نقصان اسلام اور مسلمانوں کو ہو گا ۔ اس سارے عمل میں سب سے زیادہ سنگین پہلو یہ ہے کہ تجدد پسندی کی یہ لہر سماج سے اٹھی ہے اور سماج کو ہی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ سماج سے اٹھنے کے باعث یہ بہت زور آور ہے اور سماج کو لپیٹ میں لینے کے باعث اس کے اثرات بھی لازماً بہت دیرپا ہوں گے۔ اب اگر کوئی اس لہر کے مقابل آئے تو اسے انتہائی شدید ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 
سوال پیدا ہوتا ہے کہ تجدد پسندی کی اس لہر کا بروقت محاسبہ کیوں نہ کیا گیا؟ جواب یہ ہے کہ مذہبی حلقے میں خود تنقیدی کے رویے کے نہ پنپنے سے تجدد پسندی کی یہ لہر رواج پا گئی۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی ایک یوتھ کنونشن میں ایک مذہبی نوجوان نے جنرل پرویز مشرف کی موجودگی میں جنرل موصوف کو خوب لتاڑا ۔ اس نوجوان کی تقریر مذہبی حلقے میں کافی مقبول ہو رہی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ کوئی ایسی قابلِ فخر بات نہیں ہے، کیونکہ ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں لاکھوں مذہبی نوجوان موقع ملنے پر ایسی تقریر کر سکتے ہیں بلکہ جمعے کے خطبات میں کرتے بھی ہیں ۔ وہی نوجوان اور دیگر مذہبی نوجوان، اپنے شیوخ و اکابر کے افکارواعمال کا بھی اگر اتنی ہی مستعدی سے پوسٹ مارٹم کریں جس بے باکی سے وہ حکومتی پالیسیوں اور شخصیات پر تنقید کرتے رہتے ہیں تو یہ بات یقیناًاہم اور دیرپا تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے، لیکن یہاں اکابر پرستی ، قصیدہ گوئی کی طرف مائل کرتی ہے، تنقید و تنقیح اور تحقیق کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حالانکہ اس حوالے سے اگر عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اپنے متعلقین اور اپنے ماحول میں موجود لوگوں کو مخاطب کیا جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ آپ کے مخالف ہو گئے ۔ ذرا غور کیجیے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متعلقین کے بجائے غیروں کو مخاطب کرتے اور اپنے ماحول سے باہر کے لوگوں کے خلاف بات کرتے تو کیا آپ کے متعلقین اور آپ کا ماحول آپ کا ہم نوا اور حلیف نہ بنتا؟ اسی بات کو دوسرے رخ سے دیکھیے کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسلام قبول کیا، کیا ان کے قبولیتِ اسلام میں خود تنقیدی کے عمل کا کوئی کردار نہیں تھا؟ یہ درحقیقت خود تنقیدی کا عمل تھا کہ اسلام قبول کرنے والے اپنے ہی ماں باپ، بہن بھائیوں، عزیز و اقارب، آبا و اجداد اور اپنے ہی قبائل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کے برعکس اسی زمانے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی موجودگی کے باوجود ، جو لوگ اسلام قبول نہ کر سکے، ان کے قبولیتِ اسلام میں مانع، خود تنقیدی کے رویے کا فقدان تھا ۔ ایسے لوگ صرف اس سچ کو مانتے تھے جو غیروں کے خلاف اور اپنے ماحول کے باہر کے لوگوں کو چیلنج کرنے سے عبارت تھا۔ اب فیصلہ قدامت پسندوں کو کرنا ہے کہ وہ تجدد پسندی کی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کرتے رہیں گے اور اپنے ماحول میں قصیدہ گوئی کو فروغ دیتے رہیں گے یا سید حسین احمد مدنی ؒ کے مانند صحابہ کرامؓ کے طرزِ عمل کی پیروی کرتے ہوئے خود تنقیدی کے رویے کی آبیاری کریں گے۔

غامدی صاحب کے تصور ’فطرت‘ کا تنقیدی جائزہ

حافظ محمد زبیر

’المورد اسلامک انسٹی ٹیوٹ ‘کے سرپرست ‘ماہنامہ ’اشراق ‘کے مدیر اور’ آج ‘ٹی وی کے نامور اسکالر جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے دو اہم اصولوں ’سنت ابراہیمی ‘ اور ’نبیوں کے صحائف ‘ کا تنقیدی اورتجزیاتی مطالعہ ماہنامہ ’الشریعہ ‘ کے صفحات میں پیش کیا جا چکا ہے۔ بعض علم دوست ساتھیوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ گزشتہ مضامین کی روشنی میں غامدی صاحب کے مآخذ دین اور اصولوں کا اجمالی تعارف بھی قارئین کو کروا دیا جائے تو بہت مفید ہوگا۔ زیر نظر مضمون میں ہم ان کے اصول ’دین فطرت کے بنیادی حقائق ‘ پرکچھ معروضات پیش کریں گے۔
غامدی صاحب کے مآخذ دین، علی الترتیب، درج ذیل ہیں :
۱) دین فطرت کے بنیادی حقائق 
۲) سنت ابراہیمی 
۳) نبیوں کے صحائف
۴) قرآن مجید 
غامدی صاحب کے اصل اصول یہی چار ہیں جبکہ ان چار کے علاوہ بھی غامدی صاحب کے کچھ اصول ہیں جن سے ضرورت پڑنے پر غامدی صاحب استدلال کرتے ہیں لیکن ان کو مستقل مآخذ دین نہیں سمجھتے۔یہ اصول درج ذیل ہیں :
۵) حدیث 
۶) اجماع
۷) امین احسن اصلاحی ‘جنہیں وہ امام کہتے ہیں ۔ 
غامدی صاحب کے نزدیک سب سے پہلا ماخذ جس سے دین حاصل ہوتا ہے، فطرت انسانی ہے اور یہی ماخذ ان کے نزدیک اصل الاصول یعنی باقی تمام مآخذ کی بنیاد بھی ہے، جیسا کہ ہم آگے چل کر اس کو ثابت کریں گے ۔ دین کا دوسرا ماخذ ان کے نزدیک نبیوں کی سنت ہے یعنی ایسے اعمال جن پر تمام انبیا عمل کرتے چلے آئے ہیں۔ چونکہ یہ اعمال حضرت ابراہیم کی زندگی میں آ کر ایک واضح شکل اختیار کر گئے تھے، اس لیے اب ان اعمال کی نسبت پچھلے انبیا کی بجائے حضرت ابراہیم کی طرف ہو گی۔ تیسرا ماخذ ان کے نزدیک نبیوں کے صحائف یعنی تورات ، انجیل اور زبور وغیرہ ہیں۔ اور دین کا چوتھا اور آخری ماخذ ان کے نزدیک قرآن مجید ہے، اسی لیے وہ قرآن کو دین کی آخری کتاب کہتے ہیں یعنی دین تو پہلے سے چلا آرہا ہے اور قرآن نے آ کر اس کی تکمیل کی ہے۔ باقی جہاں تک حدیث رسول یا اجماع امت کا معاملہ ہے‘ اس کو غامدی صاحب دین کا کوئی مستقل ماخذ نہیں مانتے۔ لہٰذا غامدی صاحب کے اصل اصول چار ہی ہیں جن پر ان کی پوری فکر استوار ہے۔ غامدی صاحب نے ان چار اصولوں کو اپنی کتاب میزان (فصل اصول و مبادی) میں ص ۴۷ سے ص ۵۲ تک تفصیلاً بیان کیا ہے۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام دین فطرت ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ فطرت انسانی اس قابل ہے کہ اس سے دین اسلام ‘احکام الہٰی‘ اوامرو نواہی یاحلال وحرام کا تعین ہو سکتا ہے۔ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے بندوں کو جس فعل کے بھی کرنے کا حکم دیا ہے، فطرت سلیمہ اس فعل کے کرنے کی طرف ایک فطری رجحان اپنے اندر محسوس کرتی ہے اور جس فعل کے کرنے سے اللہ تعالی نے بذریعہ وحی ہمیں روک دیا ہے، فطرت سلیمہ بھی اس فعل سے ابا کرتی ہے۔ احکام الہٰی فطرت انسانی کے مطابق تو ہیں لیکن فطرت انسانی سے ان کا تعین نہیں ہو سکتا۔ یہی غلط فہمی جس میں آج غامدی صاحب مبتلا ہیں، ایک دور میں معتزلہ کو ہوئی۔ معتزلہ کا کہنا یہ تھا کہ عقل سے شریعت کا تعین ہو سکتا ہے۔ عقل جس چیز کو اچھا سمجھے گی، شریعت کی نظر میں بھی وہ چیز مستحسن ہے اور عقل جس کو برا سمجھے گی، شریعت کی نظر میں بھی وہ چیز بری ہے۔ معتزلہ نے جومقام انسانی عقل کو دیا تھا، غامدی صاحب اسی درجے پر فطرت انسانی کو رکھتے ہیں۔ اس دور میں امام ابو الحسن الأشعری اور امام ابو منصور ماتریدی نے معتزلہ کے اس مؤقف کا کہ عقل سے بھی اللہ کے حکم کو معلوم کیا جا سکتا ہے، سختی سے رد کیا جس کی تفصیلات اصول کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ 
اس مختصر تمہید کے بعد اب ہم اپنی اصل بحث کی طرف آتے ہیں۔ 

غامدی صاحب کا تصور فطرت

غامدی صاحب اپنی کتاب ’میزان‘ ( اصول و مبادی) میں لکھتے ہیں :
’’اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جو جانور پیدا کیے ہیں، ان میں سے بعض کھانے کے ہیں اور بعض کھانے کے نہیں ہیں۔ یہ دوسری قسم کے جانور اگر کھائے جائیں تو اس کا اثر چونکہ انسان کے تزکیہ پر پڑتا ہے ، اس لیے ان سے ابا اس کی فطرت میں داخل ہے۔ انسان کی یہ فطرت بالعموم اس کی صحیح رہنمائی کرتی ہے اور وہ بغیر کسی تردد کے فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسے کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھاناچاہیے۔ اسے معلوم ہے کہ شیر، چیتے، ہاتھی، چیل، کوے، گدھ، عقاب ،سانپ ،بچھو، اور خود انسان کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔وہ جانتا ہے کہ گھوڑے ،گدھے ،دستر خوان کی لذت کے لیے نہیں، سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ان جانوروں کے بول و براز کی نجاست سے بھی وہ پوری طرح واقف ہے۔ اس میں شبہ نہیں اس کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں عموماً غلطی نہیں کرتی۔چنانچہ خدا کی شریعت نے بھی ان جانوروں کی حلت و حرمت کو اپنا موضوع نہیں بنایا، بلکہ انسان کو اس کی فطرت ہی کی رہنمائی پر چھوڑ دیا ہے۔ اس باب میں شریعت کا موضوع صرف وہ جانور اور ان کے متعلقات ہیں جن کی حلت و حرمت کا فیصلہ تنہاعقل وفطرت کی رہنمائی میں کر لینا ممکن نہ تھا۔ سؤر انعام کی قسم کے بہائم میں سے ہے ،لیکن درندوں کی طرح گوشت بھی کھاتا ہے، پھر اسے کیاکھانے کا جانور سمجھا جائے یا نہ کھانے کا؟وہ جانور جنھیں ہم ذبح کر کے کھاتے ہیں، اگر تذکیے کے بغیر مر جائیں تو ان کا کیا حکم ہونا چاہیے؟ انھی جانوروں کا خون کیا ان کے بول و براز کی طرح نجس ہے یا اسے حلال وطیب قرار دیا جائے گا؟ یہ اگر خدا کے سوا کسی اورکے نام پر ذبح کردیے جائیں تو کیا پھربھی حلال ہی رہیں گے؟ ان سوالوں کا کوئی واضح اور قطعی جواب چونکہ انسان کے لیے دینا مشکل تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعے اسے بتایاکہ سؤر ،خون،مردار اور خدا کے سواکسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور بھی کھانے کے لیے پاک نہیں ہیں اور انسان کو ان سے پرہیزکرنا چاہیے۔ جانوروں کی حلت و حرمت میں شریعت کا موضوع اصلاً یہ چار ہی چیزیں ہیں۔چنانچہ قرآن نے بعض جگہ ’قل لا أجد فی ما أوحی ‘اور بعض جگہ ’انما‘ کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی حلت وحرمت کے باب میں صرف یہی چار چیزیں حرام قرار دی ہیں ...بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں ،چنگال والے پرندوں اور پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ یہ اسی فطرت کا بیان ہے جس کا علم انسان کے اندر ودیعت کیا گیا ہے۔ ہم اگر چاہیں تو ممنوعات کی اس فہرست میں بہت سی دوسری چیزیں بھی اس علم کی روشنی میں شامل کر سکتے ہی۔ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اسے بیان فطرت کے بجائے بیان شریعت سمجھا، دراں حالیکہ شریعت کی ان حرمتوں سے جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں، اس کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر حدیث سے قرآن کے نسخ یا اس کے مدعا میں تبدیلی کا کوئی مسئلہ پیدا کیاجائے۔‘‘ (میزان:ص۳۷ تا۳۹)
اسی طرح ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’قرآن کی دعوت اس کے پیش نظرجن مقدمات سے شروع ہوتی ہے، وہ یہ ہیں:
۱۔دین فطرت کے حقائق،
۲۔سنت ابراہیمی ،
۳۔ نبیوں کے صحائف۔
پہلی چیز کو وہ اپنی اصطلاح میں معروف و منکر سے تعبیر کرتا ہے ۔یعنی وہ باتیں جو انسانی فطرت میں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں اور وہ جن سے فطرت ابا کرتی اور انھیں برا سمجھتی ہے ۔قرآن ان کی کوئی جامع مانع فہرست پیش نہیں کرتابلکہ اس حقیقت کو مان کرکہ انسان ابتدا ہی سے معروف و منکر،دونوں کو پورے شعور کے ساتھ بالکل الگ الگ پہچانتا ہے ،اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ معروف کو اپنائے اور منکر کو چھوڑ دے:
و المؤمنون والمؤمنات بعضھم أولیاء بعض یأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر
اور مؤمن مرداور مؤمن عورتیں ‘یہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔یہ باہم دگر معروف کی نصیحت کرتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں ۔ 
اس معاملے میں اگر کسی جگہ اختلاف ہو تو زمانہ رسالت کے اہل عرب کا رجحان فیصلہ کن ہوگا۔‘‘  (میزان:ص ۴۸‘۴۹)
المورد کے ریسرچ اسکالرجناب منظور الحسن صاحب، غامدی صاحب کے مآخذ دین کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’قرآن مجید دین کی آخری کتاب ہے۔ دین کی ابتدا اس کتاب سے نہیں، بلکہ ان بنیادی حقائق سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے روز اول سے انسانی فطرت میں ودیعت کر رکھے ہیں۔ اس کے بعد وہ شرعی احکام ہیں جو وقتاً فوقتاً انبیا کی سنت کی حیثیت سے جاری ہوئے اور بالآخر سنت ابراہیمی کے عنوان سے بالکل متعین ہو گئے ۔ پھر تورات، زبور اور انجیل کی سورت میںآسمانی کتابیں ہیں جن میں ضرورت کے لحاظ سے شریعت اور حکمت کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں کیا گیاہے۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے اور قرآن مجید نازل ہواہے۔ چنانچہ قرآن دین کی پہلی نہیں ، بلکہ آخری کتاب ہے اور دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں۔اس موضوع پر مفصل بحث استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تالیف ’’میزان‘‘کے صفحہ۴۷پر ’’دین کی آخری کتاب ‘‘کے زیر عنوان ملاحظہ کی جاسکتی ہے ‘‘۔ (ماہنامہ اشراق: مارچ ۲۰۰۴‘ ص ۱۱)
غامدی صاحب کامذکورہ بالا اصول فطرت غلط ہے اور اس کی غلطی کی درج ذیل وجوہات ہیں :
۱) کیاشریعت نے صرف چار چیزوں کو حرام قرار دیاہے؟غامدی صاحب کایہ دعویٰ ہے کہ شریعت نے کھانے کے جانوروں میں صرف چار چیزوں سؤر ‘خون ‘مرداراور خدا کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانورکو حرام قرار دیا ہے۔ یہ سارا فلسفہ غا مدی صاحب نے اپنے ایک غلط اصول (کہ حدیث کے ذریعے قرآن پر اضافہ یا اس کا نسخ نہیں ہو سکتا ) کوسیدھا کرنے کے لیے گھڑا ۔غامدی صاحب کے نزدیک گدھا حرام ہے، لیکن اس لیے نہیں کہ شریعت نے اسے حرام قرار دیا ہے بلکہ ان کی فطرت انھیں یہ بتلاتی ہے کہ گدھا سواری کرنے کا جانورہے نہ کہ کھانے کا‘ اس لیے یہ فطری محرمات میں سے ہے۔ غامدی صاحب کی فطرت کا اونٹ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وہ بھی تو سواری کا جانور ہے۔ امر واقعہ تو یہ ہے کہ آپؐ کے زمانے میں عرب میں سواری کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا جانور اونٹ تھا اور اس کے بعد گھوڑ ا‘ جبکہ گدھے کا استعمال سواری کے لیے نہ ہونے کے برابر تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ غامدی صاحب کی فطرت گدھے کو حرام اور اونٹ کو حلال قرار دیتی ہے؟ اگر غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ اونٹ کو قرآن نے حلال قرار دیا ہے تو پھر غامدی صاحب کے اس بیان کا کیا مطلب ہے کہ :
’’جانوروں کی حلت و حرمت میں شریعت کا موضوع اصلاً یہ چار ہی چیزیں ہیں‘‘۔(میزان:ص۳۸)
فطری محرمات کا اصول وضع کر کے غامدی صاحب نے دین میں ایک نئے فتنے کی بنیاد رکھ دی ہے، اوریہ فتنہ کس طرح آگے بڑھ رہا ہے، اس کا اندازہ المورد کے ایک ریسرچ اسکالر امیر عبد الباسط صاحب کے شراب سے متعلق ایک سوال کے جواب سے ہوتا ہے:
’’اپنے پچھلے جواب میں ہم نے (شراب کے لیے) ناپسندیدہ کا لفظ حرمت کے مقابلے میں اصطلاح کے طور پراستعمال نہیں کیا۔ اس سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ شراب پینا شرعی حرمتوں میں سے نہیں ہے بلکہ وہ تو اس سے بھی زیادہ بنیادی یعنی فطری حرمتوں میں سے ہے .. .آپ (سائل ) نے فرمایا کہ ہماری رائے نصوص شرعیہ کے خلاف ہے۔ اگر آپ قرآن کی کوئی ایسی آیت پیش کر دیں جس میں اللہ تعالیٰ نے شراب کو واضح لفظوں میں حرام قرار دیا ہے تو ہمیں اپنی رائے سے رجوع کرنے میں ہر گز کوئی تامل نہیں ہو گا۔‘‘
یہ فتاویٰ جات غامدی صاحب کی نگرانی میں قائم شدہ المورد کی سرکاری ویب سائٹ (urdu.understanding-islam.org) پر جاری کیے جا رہے ہیں۔ کیاشراب کی حرمت کے بارے میں قرآن کے چارمختلف انداز سے تاکیدی اور صریح بیانات ’رجس‘ اور ’من عمل الشیطان‘  اور  ’فاجتنبوہ‘ اور ’فھل أنتم منتھون‘ سے بھی اس کی شرعی حرمت ثابت نہیں ہوتی؟ واللہ المستعان علی ما تصفون۔
۲) غامدی صاحب کے نزدیک کھانے کے جانوروں میں حلال و حرام کے تعین میں فطرت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک شریعت نے کھانے کے جانوروں میں صرف چار چیزوں کو حرام کیا ہے، اس کے علاوہ حرام جانوروں کے بارے میں ہم اپنی فطری رہنمائی کی روشنی میں ایک جامع فہرست تیار کر سکتے ہیں۔ ذرا غور کریں تو معلوم ہو گا کہ غامد ی صاحب کی مذکورہ بالا عبارات کس قدر گمراہ کن افکار پر مشتمل ہیں۔ کسی چیز کو حلال وحرام ٹھہرانے کا اختیاراصلاً اللہ کے پاس اور تبعاً اس کے رسول کے پاس ہوتا ہے۔ غامدی صاحب کا عام انسانوں کو تحلیل و تحریم کا اختیار تفویض کرنا خدائی دعویٰ کرنے کے مترادف ہے۔ غامدی صاحب کو یہ اختیار کس نے دیاہے کہ وہ عام انسانوں کے بارے میں یہ کہیں کہ وہ اپنی فطرت سے جس کو چاہیں حلال بنا لیں اور جس کو چاہیں حرام ٹھہرا لیں؟ قرآن نے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ تحلیل و تحریم کا اختیار کسی انسان کے پاس نہیں ہے۔ مشرکین مکہ نے جب اپنی طرف سے بعض کھانے کی چیزوں کو حرام ٹھہرا لیا تو قرآن نے ان کے اس اقدام پر تنقید کی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : 
و حرمو ا ما رزقھم اللہ افتراء علی قد ضلوا و ماکانوا مھتدین (الأنعام:۱۴۰)
’’اور انھوں نے اللہ کے عطا کردہ رزق کو حرام ٹھہرا لیا اللہ پر جھوٹ بولتے ہوئے۔ تحقیق وہ گمراہ ہوئے اور وہ ہدایت پانے والوں میں سے نہ تھے۔‘‘
اگر شریعت نے بقول غامدی صاحب کھانے کے جانوروں میں صرف چار کو ہی حرام قرار دیا تھا اور باقی جانوروں کی حلت و حرمت کا فیصلہ انسانی فطرت پر چھوڑ دیا تھا تو اللہ تعالی نے مشرکین مکہ کے اس فعل پر تنقید کیوں کی کہ انھوں نے اپنی مرضی سے بعض جانوروں کو حرام ٹھہرا لیا؟ اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قل آالذکرین حرم أم الأنثیین أما اشتملت علیہ أرحام الأنثیین (الأنعام:۱۴۳)
’’اے نبی ﷺ ان سے کہہ دیں کیا اللہ تعالیٰ نے دونوں مذکر (نر) کو حرام کیا ہے یا دونوں مؤنث(مادہ )کویا اس کو جو دونوں مؤنث (مادہ) کے رحم میں ہو؟‘‘
یہ آیت بھی اس بات کی صریح دلیل ہے کہ تحلیل وتحریم کا اختیار اللہ کے پاس ہے نہ کہ انسانی فطرت کے پاس۔
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قل ھلم شھداء کم الذین یشھدون أن اللہ حرم ھذا (الأنعام: ۱۵۰)
’’اے نبی، آپ ان سے کہہ دیں کہ تم اپنے گواہوں کو لے آؤ دجو یہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حرام ٹھہرایاہے ۔‘‘
اگر صرف فطرت سے محرمات کا تعین جائز ہوتا تو اللہ تعالیٰ مشرکین سے یہ مطالبہ نہ کرتا کہ ان جانوروں کی حرمت پراللہ کی نازل کردہ شریعت سے کوئی دلیل پیش کرو۔ ایک اور جگہ مشرکین مکہ سے خطاب ہے :
ولا تقولوا لما تصف ألسنتکم الکذب ھذا حلال و ھذا حرام لتفتروا علی اللہ الکذب  (النحل :۱۶۶)
’’اور مت تم کہو جو کہ تمہاری زبانیں جھوٹ بکتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تا کہ تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ سکو۔‘‘
یہ آیت بھی اس مسئلے میں نص ہے کہ انسانی فطرت سے حلال و حرام کا تعین کرنا اللہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔ غامدی صاحب نے انسانی فطرت کو تحلیل و تحریم کا اختیار تفویض کر کے اس کو شارع بنا دیا ہے اور اللہ کے بالمقابل لا کھڑا کیا ہے۔ اگر انسان کی فطرت کے پاس کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہرانے کا اختیار ہے تو انسان بھی شارع ہے، اور انسان کو شارع بنانا اللہ کے ساتھ اس کو شریک کرنے کے مترادف ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ 
سیقول الذین أشرکوا لو شاء اللہ ما أشرکنا و لا أباؤنا و لا حرمنا من شیء (الأنعام:۱۴۸)
’’عنقریب وہ لوگ کہیں گے جنھوں نے شرک کیااگراللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا شرک نہ کرتے اور نہ ہی ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ۔‘‘
نفی کے سیاق میں اگرنکرہ آئے تو وہ عبارت اپنے عموم میں نص بن جاتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا آیت بھی اپنے عموم میں نص ہے یعنی کسی چیز کو بھی حرام قرار دینے کا اختیار انسان کے پاس نہیں ہے۔ ایک آیت میں اس سے بھی زیادہ صراحت سے ’من دونہ ‘کے الفاظ کے ساتھ اس مفہوم کو بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
و قال الذین أشرکوا لو شاء اللہ ما عبدنا من دونہ من شیء نحن و لا آباؤنا ولا حرمنا من دونہ من شیء (النحل :۳۵)
’’اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے شرک کیا، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ داداللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرتے اور ہم اس کے بغیر کسی چیز کو بھی حرام نہ ٹھہراتے۔‘‘
یہ آیات اس مسئلے میں صریح نص کا درجہ رکھتی ہیں کہ شارع صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور کوئی چیز اس وقت حلال ہو گی جبکہ اللہ تعالیٰ اس کو حلال قرار دے اور اس وقت حرام ہو گی جبکہ اللہ تعالیٰ اس کو حرام قرار دے اور انسان کے پاس کسی بھی چیز کو حرام قرار دینے کا اختیار نہیں ہے ۔
۳) غامدی صاحب کے نزدیک کھانے کے جانوروں میں انسانی فطرت سے حلال و حرام کا تعین ہو گا،لیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اختلاف فطرت کی صورت میں کس کی فطرت معتبر ہوگی؟مثلاً غامدی صاحب نے موسیقی کو مباحات فطرت میں شامل کیا ہے، جبکہ علما اس کو محرمات میں شمار کرتے ہیں۔ اب کس کی فطرت کو لیں گے اور کس کی فطرت کو چھوڑیں گے؟ غامدی صاحب اس مسئلے کا حل تجویز کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر کسی جانورکے بارے میں انسانی فطرت کی آرا مختلف ہو جائیں توجمہور کی رائے پر عمل کیا جائے گا۔ غامدی صاحب اصول و مبادی میں لکھتے ہیں :
’’اس میں شبہ نہیں کہ اس کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہو جاتی ہے ،لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں عموماً غلطی نہیں کرتی‘‘۔ (میزان:ص۳۷)
غامدی صاحب کے اس سنہری اصول کی روشنی میں دنیا کے انسانوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد نے سؤر تک کو اپنی فطرت سے حلال کر رکھا ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں المورد کا کوئی ریسرچ اسکالر یہ تحقیق پیش کر دے کہ قرآن نے جس سؤر کو حرام قرار دیا ہے، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا سؤر ہے۔ رہا آج کا سؤر جس کی مغرب میں باقاعدہ فارمنگ کی جاتی ہے ‘وہ فطرتاً حلا ل ہے۔ اہل مغرب کو تو چھوڑیے ‘مسلمانوں کو دیکھ لیں، ان کی اکثریت کے ہاں حلال و حرام کا کیا معیارہے جسے غامدی صاحب اپنے اصول فطرت میں اختلاف کی صورت میں بطور دلیل پیش کر رہے ہیں ۔ 
۴) غامدی صاحب نے ہر انسان کو تو یہ حق دے دیا کہ اپنی فطرت سے حلال وحرام کی فہرست تیار کرے لیکن وہ اللہ کے رسول کا یہ اختیار ماننے سے انکاری ہیں، چنانچہ غامدی صاحب اپنی فطرت کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ قرآنی محرمات (اربعہ) کی فہرست میں جتنا چاہے، اضافہ کر لے ،لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان کا یہ خیال ہے کہ آپ کے کسی فرمان سے قرآنی محرمات کی فہرست میں اضافہ نہیں ہو سکتاکیونکہ اس سے قرآن کا نسخ یا اس کے مدعا میں تبدیلی لازم آتی ہے جو کہ جائز نہیں ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ غامدی صاحب اپنی فطرت سے قرآنی محرمات میں جو اضافہ کر رہے ہیں تو اس سے کیا قرآن کا نسخ یا اس کے مدعا میں تبدیلی لازم نہیں آتی؟ غامدی صاحب اپنی فطرت سے قرآنی حکم کے نسخ‘ اس میں اضافے اور اس کے مدعا میں تبدیلی کے قائل ہیں لیکن احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ مقام دینے کے لیے تیار نہیں‘ کیوں؟ کیا انسانی فطرت کا رتبہ معاذ اللہ ‘نبوت و رسالت سے بڑھ کر ہے؟
۵) غامدی صاحب کے نزدیک انسانی ہدایت و رہنمائی کے دو بڑے ذریعے ہیں۔ ایک انسانی فطرت اور دوسرا وحی، لیکن ان میں بھی غامدی صاحب فطرت کی رہنمائی کو وحی کی رہنمائی پر مقدم رکھتے ہیں۔غامدی صاحب لکھتے ہیں : 
’’دین کی تاریخ یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھیجا تو اس (یعنی دین)کے بنیادی حقائق ابتدا ہی سے اس کی فطرت میں ودیعت کر دیے۔ پھر اس کے ابو الآبا حضرت آدم کی وساطت سے اسے بتا دیا گیاکہ ...اس کی ضرورتوں کے پیش نظر اس کا خالق وقتاً فوقتاً ا پنی ہدایت اسے بھیجتارہے گا... چنانچہ پروردگار نے اپنا یہ وعدہ پورا کیااور انسانوں ہی میں سے کچھ ہستیوں کو منتخب کر کے ان کے ذریعے سے اپنی یہ ہدایت بنی آدم کو پہنچائی۔ اس میں حکمت (یعنی ایمانیات اور اخلاقیات) بھی تھی اور شریعت بھی۔‘‘ (میزان:ص۴۷)
غامدی صاحب کا یہ نقطہ نظر قرآنی آیات کے مخالف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب سے آدم کو اس دنیا میں بھیجا ہے، اس دن سے ہی اس کی رہنمائی کے لیے وحی کا سلسلہ جاری فرما دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : 
قلنا اھبطوا منھا جمیعا فاما یأتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم و لا ھم یحزنون و الذین کفروا و کذبوا بآیتنا أولئک أصحب النار ھم فیھا خلدون (البقرۃ :۳۸‘۳۹)
’’ہم نے کہا تم سب (یعنی آدم اور ان کی ہونے والی ذریت) اس جنت سے اتر جاؤ، پس اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جس نے میری ہدایت کی پیروی کی تو اس پر نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جن لوگوں نے کفر کیا اور میری آیات کوجھٹلایا، وہ لوگ آگ والے ہیں اوروہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے ۔‘‘
ایک اور جگہ ارشاد ہے :
قلنا اھبطا منھا جمیعا فاما یأتینکم منی ھدی فمن اتبع ھدای فلا یضل ولا یشقی (طہ :۱۲۳)
’’ہم نے کہا تم(دونوں یعنی )سب اس جنت سے اترو، پس اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جس نے میری ہدایت کی پیروی کی تو وہ نہ تو وہ (دنیا میں )گمراہ ہو گا اور نہ ہی (آخرت میں ) بدبخت ہو گا۔‘‘ 
اس انتہائی اہم موقع پر جب کہ حضرت آدم کو اور ان کی آنے والی ذریت کوجنت سے اتار کر اس دنیامیں بھیجا جا رہا ہے، اس وقت انھیں صرف ایک ہی چیز کی پیروی کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے اور وہ اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت ہے اور دونوں جگہ قرآن کے الفاظ ’منی ھدی‘ اور اس کا سیاق وسباق بتلاتا ہے کہ اس ہدایت سے مراد کوئی فطری ہدایت نہیں بلکہ اللہ کی آیات اور اس کی طرف سے نازل کردہ وحی کی رہنمائی مراد ہے۔ اس سے یہ ثابت ہو ا کہ پہلے ہی دن سے اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے حضرت آدم اور ان کی آنے والی ذریت کو جو رہنمائی دی جا رہی ہے، وہ وحی کی رہنمائی ہے اور جس نے بھی اللہ کی دی ہو ئی ا س وحی کی رہنمائی سے استفادہ کرنے سے انکار کیا تو وہی لوگ اللہ کے عذاب کے مستحق ہیں ۔
۶) غامدی صاحب کے نزدیک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں ’معروف ‘ اور ’منکر ‘ کا تعین شریعت نہیں بلکہ فطرت انسانی کرے گی ۔ اگر معروف و منکر شریعت کا موضوع نہیں ہے تو اللہ کے رسول ﷺ کی اس حدیث کا کیا مطلب ہے:
من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ (صحیح مسلم ‘کتاب الایمان ‘باب کون النہی عن المنکر من الایمان)
’’جو بھی تم میں سے کسی منکر کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے تبدیل کر دے۔ اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنے دل سے ۔‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منکر کو ہاتھ سے روکنے کا حکم دے رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے منکرات کا تعین کر دیا ہے۔ اگرغامدی صاحب کا یہ نظریہ مان لیا جائے کہ معروف اور منکر کا تعین فطرت انسانی سے ہوگا تو شریعت اسلامیہ ایک کھیل تماشا بن جائے گی۔ ایک شخص کے نزدیک ایک فعل معروف ہو گا جبکہ دوسرے کے نزدیک وہی فعل منکر ہوگا۔ مثلاً غامدی صاحب کے نزدیک موسیقی معروف کے تحت آئے گی۔اب غامدی صاحب کوقرآ ن کا یہ حکم ہے کہ وہ امر بالمعرو ف کا فریضہ سر انجام دیں، یعنی لو گوں کوموسیقی سننے کا حکم دیں، جبکہ علما موسیقی کو منکرات میں شامل کرتے ہیں اور علما کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ وہ منکرات کو بزور بازو روکیں، یعنی غامدی صاحب کو موسیقی کے جواز کا فتویٰ دینے سے بزور بازو روکیں۔
امام رازی ‘امام جصاص ‘علامہ سید آلوسی ‘علامہ ابن حجر ہیثمی ‘علامہ مناوی ‘ملا علی القاری‘علامہ ابو حیان الاندلسی ‘امام طبری ‘امام ابن تیمیہ ‘امام شوکانی ‘علامہ ابن الاثیر الجزری‘علامہ صاوی اور علامہ عبد القادر عودہ نے واضح اور صریح الفاظ میں اپنے اس مؤقف کو بیان کیا ہے کہ معروف و منکر کا تعین شریعت سے ہو گا۔ ان علما وأئمہ کی آرا کی تفصیل کے لیے سید جلال الدین عمری کی کتاب ’معروف و منکر ص۹۸ تا ۱۱۳ کا مطالعہ فرمائیں۔ 
۷) غامدی صاحب عالم اسلام کے وہ پہلے نامور اسکالرہیں جنھوں نے فطرت انسانی کو مصادر شریعت میں شمار کیا اور اسے حلال و حرام کی تمیز میں میزان قرار دیا۔ امام شافعی سے لے کر امام شوکانی تک کسی بھی اصولی (اصول فقہ کے ماہر) نے اپنی کتاب میں مصادر شریعت کی بحث میں ’فطرت انسانی ‘کا تذکرہ نہیں کیا۔ علما اور فقہا نے ہر دور میں قرآن ‘ سنت‘ اجماع اور قیاس وغیرہ جیسے مآخذ شریعت کے ذریعے سے شرعی احکام تک پہنچنے کی کوشش کی ہے لیکن کسی بھی فقیہ یا عالم نے امت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ میں ’ فطرت انسانی‘ کو کبھی بھی استنباط احکام کے لیے بطور اصول یا مأخذشریعت بیان نہیں کیا۔ محسوس یہی ہوتا ہے کہ غامدی صاحب نئی فقہ کے ساتھ ساتھ نئی اصول فقہ بھی مرتب کرنے کا شوق پورا فرما رہے ہیں۔ غامدی صاحب اپنا یہ شوق ضرور پورا فرمائیں، لیکن علم وتحقیق کی روشنی میں۔
غامدی صاحب نے ’فطرت انسانی ‘ کو مصدر شریعت تو بنا دیا لیکن اس کی ان کے پاس دلیل کیا ہے کہ ’فطرت انسانی‘مصدر شریعت ہے؟ غامدی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی میں اپنے ایک لیکچر کے دوران اپنے تصور فطرت کے حق میں جو دلیل بیان کی ہے، وہ سورہ شمس کی درج ذیل آیات ہیں :
و نفس وما سواھا فألھمھا فجورھا وتقواھا قد أفلح من زکھا و قد خاب من دسھا (الشمس:۷ تا ۱۰) 
غامدی صاحب اس آیت کا یہ مفہوم بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انسانی فطرت میں نیکی اور بدی کا علم رکھ دیا ہے۔ یہ مفہوم بوجوہ غلط ہے ۔
۱) یہ مفہوم قرآن کی واضح نص کے خلاف ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
واللہ أخرجکم من بطون أمھتکم لا تعلمون شیئا (النحل :۷۸)
’’اللہ تعالی نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا، اس حال کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے۔‘‘
اسی لیے امام ابن قیم لکھتے ہیں:
لیس المراد بقولہ ’یولد علی الفطرۃ ‘أنہ خرج من بطن أمہ یعلم الدین لأن اللہ تعالی یقول واللہ أخرجکم من بطون أمھتکم لا تعلمون شیئا ولکن المراد أن فطرتہ مقتضیۃ لمعرفۃ دین الاسلام و محبتہ (صحیح بخاری مع فتح الباری‘کتاب اللباس ‘باب قص الشارب)
یولد علی الفطرۃ‘ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے دین کا علم لے کر آیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا، اس حال کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے ‘‘۔بلکہ حدیث سے مراد یہ ہے کہ انسان کی فطرت دین اسلام کی معرفت اور اس کی محبت کا تقاضا کرتی ہے۔
۲) یہ مفہوم حدیث کے خلاف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
اللھم آت نفسی تقواھا و زکھا أنت خیر من زکاھا (صحیح مسلم ‘کتاب الذکر و الدعاء‘باب التعوذ من شر ما عمل )
’’اے اللہ تعالیٰ تو میرے نفس کو اس کا تقویٰ (یعنی تقوی کی رہنمائی ) عنایت فرما دے اور اس کو پاک کر دے۔ بے شک تو پاک کرنے والوں میں بہترین پاک کرنے والاہے ۔ ‘‘
اگر ’فجور‘ اور’ تقویٰ ‘ انسانی فطرت میں داخل ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس تقویٰ کو مانگنے کی کیا ضرورت ہے ؟آپ کی یہ دعا اس آیت کے مفہوم کو واضح کر رہی ہے کہ اس آیت میں ’تقویٰ‘ سے مراد اس کی رہنمائی اور ’فجور‘ سے مراد اس کی پہچان ہے ۔
۳) یہ مفہوم صحابہ، جلیل القدر تابعین اور تبع تابعین کی تفسیر کے خلاف ہے۔ امام طبری اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :
قولہ: فألھمھا فجورھا و تقواھا یقول: بین الخیر و الشر
’’ابن عباس ’’فألھمھا فجورھا و تقواھا‘‘  کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے خیر اور شر کو واضح کر دیا ہے ۔‘‘
امام طبری نے اس آیت کی تفسیر میں یہی رائے حضرت مجاہد، حضرت قتادہ، حضرت ضحاک اور حضرت سفیان سے بھی نقل کی ہے۔ جلیل القدر مفسرین امام طبری ‘اما م قرطبی ‘امام بیضاوی ‘امام سیوطی ‘علامہ زمخشری ‘امام نسفی ‘امام شوکانی‘ امام ابن کثیراورعلامہ ابن عطیہ نے بھی اس آیت کا وہی مفہوم بیان کیا ہے جو صحابہ اور تابعین کے حوالے سے اوپر بیان ہوچکا ہے۔

غامدی صاحب کا اپنے اصولوں سے انحراف

جس طرح غامدی صاحب کا اصول فطرت غلط ہے، اسی طرح بعض مقامات پر اس اصول کی تطبیق میں انھوں نے اپنے ہی وضع کردہ اس اصول سے انحراف بھی کیا ہے ۔اس کی ایک مثال ہم یہاں پیش کرتے ہیں۔
مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر پیدا کیاہے، اس میں ڈاڑھی بھی شامل ہے ۔کسی چیز کی فطرت سے مراد اس کی وہ اصل تخلیق ہے جس پر اس کو پید اکیا گیا ہے۔ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جس حالت پر پید اکیا ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ ان کے چہرے پر ڈاڑھی کے بال ہوتے ہیں جبکہ عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر پیدا کیاہے، وہ یہ ہے کہ ان کے چہرے پر بال نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کی تخلیق میں یہ فطری فرق رکھا ہے۔ ڈاڑھی غامدی صاحب کے اصول فطرت سے ثابت ہے، لیکن غامدی صاحب نے اپنی ہی فطرت اور اپنے اصول فطرت دونوں کی مخالفت اختیار کرتے ہوئے ڈاڑھی کو دین سے خارج قرار دیا۔ ڈاڑھی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ا لمورد کے ایک اسکالر لکھتے ہیں :
’’ڈاڑھی انسانی فطرت ہے۔ آُ پؐ کا ارشاد ہے :
عشر من الفطرۃ قص الشارب و اعفاء اللحیۃ و السواک واستنشاق الماء و قص الأظفار وغسل البراجم ونتف الابط وحلق العانۃ وانتقاص الماء قال زکریا قال مصعب ونسیت العاشرۃ الا أن تکون المضمضۃ (صحیح مسلم ‘کتاب الطہارۃ ‘با ب خصال الفطرۃ ) 
’’دس چیزیں فطرت میں سے ہیں: مونچھوں کو کاٹنا ‘ ڈاڑھی کو چھوڑنا ‘مسواک کرنا‘ناک میں پانی چڑھانا‘ ناخنوں کو کاٹنا ‘انگلیوں کے جوڑوں کا خلال کرنا‘بغل کے بال اکھیڑنا ‘زیر ناف کے بال مونڈنا‘اور استنجا کرنا۔زکریا نے کہا کہ مصعب نے کہا کہ میں دسویں چیز بھول گیا اور میرا خیال ہے کہ وہ کلی کرنا ہے ۔‘‘
اس حدیث میں ڈاڑھی رکھنے کو فطرت قرار دیا گیا ہے ۔تمام انبیا کی ڈاڑھی تھی، اس لحاظ سے ڈاڑھی انسانی فطرت ہونے کے ساتھ ساتھ تمام انبیا کی سنت بھی ہے ۔ابن حجر ؒ ‘فطرت کی تشریح میں امام بیضاوی کا قول نقل کرتے ہیں :
قال ھی السنۃ القدیمۃ التی اختارھا الأنبیاء واتفقت علیھا الشرائع وکأنھا أمر جبلی فطروا علیھا (صحیح بخاری مع فتح الباری‘کتاب اللباس ‘باب قص الشارب)
’’امام بیضاوی کہتے ہیں کہ فطرت سے مراد وہ سنت قدیمہ ہے جسے تمام انبیا نے اختیار کیا ہے اور جس پر تمام شریعتوں کا اتفاق ہو۔ گویا کہ فطرت ایک ایسا جبلی معاملہ ہے کہ جس پر انسانوں کی پیدائش ہوئی ہے ۔‘‘
ڈاڑھی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ا لمورد کے ایک ریسرچ اسکالر لکھتے ہیں :
’’عام طور پر اہل علم ڈاڑھی رکھنا ضروری قرار دیتے ہیں ‘تا ہم ہمارے نزدیک ڈاڑھی رکھنے کا حکم دین میں کہیں بیان نہیں ہوا، لہٰذا دین کی رو سے ڈاڑھی رکھنا ضروری نہیں ہے ۔البتہ اس معاملے میں اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے برعکس مردوں کے چہرے پر بال اگائے ہیں اور یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ڈاڑھی رکھنا اپنے لیے پسند کیا۔‘‘
یہ عبارت اس لحاظ سے قابل غور ہے کہ ایک طرف تو اس میں کس ڈھٹائی کے ساتھ اس بات کا دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ڈاڑھی رکھنے کاحکم دین میں کہیں بھی بیان نہیں ہوا، حالانکہ بیسیوں احادیث ایسی ہیں جن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین ‘ یہود اور مجوسیوں کی مخالفت میں مسلمانوں کو ڈاڑھی چھوڑنے کا حکم دیا ہے ۔کیا حدیث ‘دین نہیں ہے ؟اگر غامدی صاحب ڈاڑھی کی احادیث کو اس بنا پر رد کر رہے ہیں کہ ان کے نزدیک حدیث سے دین ثابت نہیں ہوتا تو ڈاڑھی تو ان کے اصول سنت سے بھی ثابت ہے اورا صول فطرت سے بھی۔ دوسری طرف المورد کے مفتی صاحب اس بات کا بھی اقرار کر رہے ہیں کہ مردوں اور عورتوں میں ایک بنیادی فرق ڈاڑھی کا بھی ہے جو کہ پیدائشی اور فطری فرق ہے ۔تعجب ہے اس انداز فکر پر!جب چاہتے ہیں اپنے مزعومہ افکار کی تائید کے لیے اصول وضع کر لیتے ہیں اور اپنی خواہش نفس کی تکمیل کے لیے جب چاہتے ہیں ‘اپنے ہی وضع کردہ اصولوں کی بھی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ 

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم ومکرم مدیر ماہنامہ الشریعہ 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
’الشریعہ‘ کے مضامین پر آرا اور تبصروں کی کثرت ظاہر کرتی ہے کہ مجلہ کے قارئین کا ایک وسیع علمی حلقہ قائم ہو چکا ہے جو وطن عزیز کے دینی ودعوتی اور قانونی ومعاشرتی، غرض ہر طرح کے مسائل پر اپنی جاندار آرا کا اظہار کرتے ہیں اور کرنا جانتے ہیں۔ تاہم بعض اوقات جائزوں، تبصروں اور مراسلوں میں نقد وتنقید اور مراسلہ نگاری کی جائز حدود سے تجاوز ذہن وروح کو بہت تکلیف دیتا ہے۔
’الشریعہ‘ کے تازہ شمارہ (جنوری ۲۰۰۶) میں چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ نے عہد حاضر میں اردو زبان کے ایک موقر اور معیاری مجلہ کے نائب مدیر کے ساتھ اپنی ذاتی رنجش کو بنیاد بنا کر مجلہ کے معیار کے بارے میں ایسی باتیں لکھی ہیں جن سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ موصوف کے مراسلہ میں وکیلانہ جذباتیت کا اظہار علمی تنقید کے زمرے میں نہیں آتا۔ مراسلہ نگاری میں مضمون نگار، مبصر یا کسی ادارے سے اپنے علمی اختلافات کو سلیقے سے اور جذباتیت سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے تحریر کرنا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں باہمی جذبات کے احترام اور شخصی تکریم کو ہر حال میں ملحوظ رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
عاصم نعیم
لیکچرر شعبہ علوم اسلامیہ
یونیورسٹی آف سرگودھا
(۲)
محترم جناب مدیر ماہنامہ الشریعہ 
’’دینی مدارس اور جدید تعلیم‘‘ کے عنوان سے محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب کا مضمون نظر سے گزرا جس کے دل نشیں، پرخلوص اور ہمدردانہ اسلوب کے پیش نظر توقع کی جا سکتی ہے کہ مذکورہ کاوش عصر حاضر کے اس بنیادی اور نازک ترین قومی وملی اور دینی مسئلے کی طرف متعلقہ ذمہ داران کو توجہ دلانے میں کامیاب ہوگی۔ مذکورہ موضوع پر جس قدر تدبر، حوصلہ اور تفصیل کے ساتھ موصوف نے اظہار خیال فرمایا ہے، یہ انھی کے بہار آفریں قلم کا ثمر ہے۔
اس کے علاوہ مذکورہ مضمون اور ’’قدامت پسندوں کے تصور اجتہاد‘‘ کے درمیان اگر موازنہ کیا جائے تو تاثیر کے حوالے سے نمایاں فرق سامنے آتا ہے، حالانکہ دونوں کے مولفین اپنے ہی ہیں اور دونوں کی نیک نیتی اور مقاصد بھی یکساں ہیں۔ معلوم ہوا کہ کسی بھی مضمون کی اثر آفرینی میں اس کے اسلوب میں انس آفرینی کی قوت کا بہت بڑا دخل ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ’’قدامت پسندوں کے تصور اجتہاد‘‘ کو ’الشریعہ‘ کے مستقل قارئین تعصب کے بجائے بے تکلفی پر مبنی آپس کی بات قرار دیتے ہیں، لیکن کوئی نووارد قاری اس کے تند وتیز جملوں سے یقیناًکوئی مثبت تاثر نہیں لیتا اور اسے بھی ’’برتن سے وہی نکلتا ہے جو اس کے اندر ہے‘‘ کا مصداق سمجھ لیتا ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ مثبت انسانی کاوش کے برآور ہونے کے لیے بھی اسلامی تعلیمات وہدایات کے مطابق طرز عمل اختیار کرنا ہی مفید وموثر ہے۔
محمود خارانی
جامعہ دار العلوم، کراچی
(۳)
مخدوم گرامی حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب مدظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ مزاج گرامی؟
الشریعہ جنوری ۲۰۰۷ کا شمارہ پڑھا۔ محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب کا مضمون ’’دینی مدارس اور جدید تعلیم‘‘ ان کے سوز دروں کا آئینہ دار تھا۔ ان کے نقطہ نظر سے موافقت یا مخالفت بڑے حضرات کا کام ہے۔ ان کے مخاطب بھی وفاق المدارس پاکستان اور دینی مدارس کے مہتمم حضرات ہیں، احقر ایسے لوگ نہیں۔ لیکن ایک بات عرض کرنے کو بے ساختہ جی چاہ رہا ہے۔ وہ یہ کہ برصغیر پاک وہند میں ہر طبقہ فکر کے علما اور دانش ور تقریباً ایک سو سال سے جدید وقدیم علوم کو نصاب میں سمونے کی مقدار، طریق کار اور نتائج کی بحثوں میں مصروف ہیں، لیکن بدقسمتی سے برصغیر میں کوئی ایسا فورم نہیں جو اسلامی دنیا کے سرکاری، نیم سرکاری اور نجی اداروں کے تعلیمی تجربات سے ہمیں روشناس کرائے۔ یہ کام رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے بہترین طریقہ سے ہو سکتا ہے لیکن غالباً رابطہ کے ارباب اختیار کو کسی نے توجہ نہیں دلائی۔ میں ’الشریعہ‘ کی وساطت سے ایسے قارئین سے جو رابطہ عالم اسلامی تک بات پہنچا سکتے ہوں، گزارش کروں گا کہ وہ رابطہ کی انتظامیہ کو توجہ دلائیں کہ وہ فقہ اکیڈمی کی طرز پر ایک تعلیمی کمیٹی قائم کرے جس کا کام جدید وقدیم علوم کو اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور دینی مدارس کے نصاب میں شامل کرنے کی مقدار، طریق کار اور نتائج کے حوالے سے پاکستان سمیت مختلف اسلامی ملکوں میں سیمیناروں اور کانفرنسوں کا انعقاد ہو۔ ہر ملک کے اہم اداروں کے نمائندے اس تعلیمی کمیٹی کے رکن ہوں اور ایک ملک کے تعلیمی تجربات دوسروں تک پہنچائے جائیں۔ اس سے مزید ذہن کھلیں گے اور ممکن ہے کچھ اہداف حاصل ہو جائیں۔ موجودہ عالمی تناظر میں اس کی بہت ضرورت ہے۔ اس اقدام کے بغیر ہمارے مباحث پانی میں مدھانی کے سوا کچھ نہیں۔
(مولانا) مشتاق احمد
جامعہ اسلامیہ۔ کامونکی
(۴)
جناب مدیر ’الشریعہ‘!
السلام علیکم
آپ کا موقر جریدہ قریب دو سال سے مکتب زہرا میں جلوہ افروز ہو رہا ہے۔ رئیس التحریر اور دیگر بلند نظر فضلا کی دل کشا ایمان افزا تحقیقات سے ناچیز متعلمہ نے ہمیشہ استفادہ کیا۔ پرچہ فی الواقع بقامت کہتر بقیمت بہتر ہوتا ہے۔
کئی بار جی چاہا کہ بعض مشتملات پر تبصرہ کروں لیکن مشاغل خانہ داری اور مطالبات قلم کاری میں باہم ناسازگاری نے ہر دفعہ معاملہ آئندہ پر ملتوی کر دیا۔ اس مرتبہ ’الشریعہ‘ ۵؍ دسمبر کو مل گیا تھا مگر بچوں کی مسلسل بیماری اور سرمائی امتحان کی تیاری کے باعث آج ’’کرسمس ڈے‘‘ پر پڑھنے کی فرصت ملی۔ علامہ عتیق الرحمن سنبھلی، پروفیسر میاں انعام الرحمن، مولانا محمد عیسیٰ منصوری، جناب خورشید احمد ندیم اور جسٹس (ر) محمد تقی عثمانی کی فکر انگیز باتوں کی تحسین نہ کرنا کور ذوقی ہوگی۔ حافظ صفوان محمد چوہان اور محترم عبد الحفیظ قریشی کے خیالات تو دل کی آواز محسوس ہوئے۔ ع از دل خیزد بر دل ریزد۔
حدود آرڈی ننس ۱۹۷۹ اور ترمیمی بل ۲۰۰۶ کے حوالے سے ’الشریعہ‘ کے حالیہ شماروں میں بہت قیمتی مواد چھاپا گیا ہے۔ بالخصوص استاذ محمد مشتاق احمد صاحب، لیکچرر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا مقالہ بڑا وقیع اور پرمغز ہے۔ ابی واستاذی میر مفتی عبد الرحیم محدث کروڑی (تلمیذ ومسترشد حضرت مدنی) تغمدہما اللہ برحمتہ کہا کرتے تھے: ’’فقہ خوانی ہور شے ہے، فقہ مندی ہور شے۔‘‘ مولانا محمد مشتاق احمد اسلام آبادی بلاشبہ ’’فقیہ النفس‘‘ اور ’’فقہ مند‘‘ معلوم ہوتے ہیں۔ اللہ کریں علم وعمل اور زیادہ۔
ان شاء اللہ تعالیٰ راقمہ بھی پاکستان کے شوکانی، سائیں محمد تقی عثمانی کے ترمیمی بل ۲۰۰۶ کے دردمندانہ جائزہ پر ایک طالب علمانہ تبصرہ کرنا چاہتی ہے۔ اللہ بزرگ وبرتر حق کہنے اور غلطی کی صورت میں برملا اقبال خطا کی توفیق ارزاں فرمائیں۔
اس کے ہر پہلو پہ تنقید کی گنجایش ہے
میرا فتویٰ ہی تو ہے، قول پیمبر تو نہیں
المتعلمہ، شمیم فاطمہ تبسم
الزہرا ۔ چاہ عمر۔ کروڑ۔ لیہ
(۵)
جناب رئیس التحریر راشدی صاحب
ماہ دسمبر کا شمارہ میرے سامنے ہے جس میں ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کے بارے میں ایک جامع تحریر پڑھ کر نقطہ نظر سے آگاہی ہوئی، لیکن کنفیوژن دور نہیں ہو سکی اس لیے کہ اس بل کی حمایت میں لکھنے والا طبقہ بھی مدلل انداز سے اس کو بہتر ثابت کر رہا ہے۔ اس بل سے عورتوں کو تو کوئی فائدہ پہنچے نہ پہنچے، لیکن حکومتی پالیسی جو Divide and rule کے اصول پر چل رہی ہے، ضرور کامیاب ہوئی ہے اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو اس بے مقصد ایشو پر لگا دیا گیا ہے۔ مجھے آپ کے طبقہ فکر کے حامی افراد سے پوچھنا ہے کہ کیا اس ملک کے بگاڑ میں زنا اور شراب کا ہی رول ہے؟ آمرانہ حکومتوں کو سپورٹ کرنا ان مذہبی جماعتوں کا ہی خاصہ رہا ہے جس کی وجہ سے کسی بھی آمر کے لیے عوامی حقوق کو غصب کرنا آسان ترین ہو گیا۔ مولویوں نے کبھی بڑھتی ہوئی آبادی، ماحولیاتی آلودگی، انسانی حقوق کے لیے کیوں جنگ وجدل نہیں کی؟ کبھی شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کا اضافہ، کبھی جمعہ کی چھٹی اور کبھی نقاب جیسے بے مقصد موضوعات کو چھیڑ کر عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا دیتے ہیں۔ یہی حال ’حقوق نسواں بل‘ کا ہوا ہے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ہماری خواتین کی اکثریت کو اس ایشو سے کوئی دلچسپی نہیں ہے جبکہ مہنگائی اور امن وامان کی صورت حال سے انھیں دلچسپی بھی ہے اور اس پر تشویش بھی۔ 
آپ ازراہ کرم ایسے اچھے مضامین Dawn اور The News کو بھیجا کریں تاکہ آپ سے اختلاف کرنے والے مزید تحقیقاتی میٹریل اخبا ر کو بھیجیں اور یوں سچ ابھر آئے گا۔ ’الشریعہ‘ کو پڑھنے والے پہلے ہی آپ کے ہم خیال لوگ ہیں اور یوں ہم سچائی سے دور رہتے ہیں۔
اللہ آ پ کا حامی وناصر ہو۔
محمد سعید اعوان
اروپ۔ گوجرانوالہ

تعارف و تبصرہ

مولانا مشتاق احمد

’’ قرآن کریم کا اعجاز بیان‘‘

علوم القرآن پر صدیوں سے کتابوں کی تدوین کا سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔ زیر نظر کتاب محمد رضی الاسلام ندوی صاحب کے قلم سے معروف مصری عالمہ وفاضلہ ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمن بنت الشاطی کی کتا ب ’’الاعجاز البیانی للقرآن الکریم‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمن (۱۹۱۳۔۱۹۹۸ء) نہایت وسیع المطالعہ اور دانشور خاتون تھیں اور انہوں نے ایک سو سے زائد کتب اور بے شمارمضامین اپنی یادگار چھوڑے ہیں۔ موصوفہ علمی اعتبار سے بین الاقوامی شہرت یافتہ خاتون تھیں۔ وہ مصر ،مراکش اورعراق کی جامعات میں تدریسی فرائض سرانجام دیتی رہیں اور متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں میں اپنے مقالات پیش کیے۔ ان کی علمی خدمات کے صلے میں مصر، سعودی عرب اور کویت کی حکومتوں نے انھیں اعلیٰ سرکاری اعزازات سے نوازا۔
کتاب ایک مقدمہ اورتین مباحث پر مشتمل ہے۔ مقدمہ میں علوم قرآنی پر لکھی گئی عربی کتب کا تعارف کرایا گیا ہے۔ پہلی بحث میں قرآن مجید کے وجوہ اعجاز بیان کیے گئے ہیں۔ دوسری بحث میں، جو کہ کتاب کا خلاصہ ومحور ہے، مصنفہ نے تین فصلیں قائم کی گئی ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید کے حروف، الفاظ اور اسالیب میں نہ کوئی حرف زائد ہے، نہ کوئی حرف محذوف ہے اور نہ کسی لفظ کو دوسرے لفظ کی جگہ استعمال کیا ہے۔ قرآن نے عام اسلوب سے ہٹ کر جو اسلوب اختیار کیے ہیں، ان میں بڑی بلاغت موجود ہے اوریہی قرآن کا اعجاز ہے۔ اس بحث میں مصنفہ کی محنت قابل تحسین ہے۔ کتاب کی تیسری بحث کا مترجم نے ترجمہ نہیں کیا اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ بحث قرآن کی لفظی بحثوں پر مشتمل ہے جو اردو خواں طبقہ کے لیے مفید نہیں ہے۔ بہرحال یہ کتاب علوم قرآنیہ پر مشتمل کتب میں اہم اضافہ ہے ۔
دارالکتاب (کتاب مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار لاہور ) کے منتظمین نے اسے معیاری کاغذ اور جلد کے ساتھ شائع کیا ہے۔

’’ربوا،زکوٰۃ اور ٹیکس‘‘

صدر ایوب خان کے دور میں ڈاکٹر فضل الرحمن ادارۂ تحقیقات اسلامی کے سر براہ مقرر کیے گئے تھے۔انہوں نے بہت سے مسائل پر ایسی آرا ظاہر کیں جو کہ جمہور امت سے ہٹ کر تھیں۔ ڈاکٹر فضل الرحمن خود کو مجتہد گردانتے تھے۔ ان کے موجب گمراہی اجتہادات میں سے بعض یہ تھے:
۱۔اسلام میں تجارتی سود حرام نہیں ۔
۲۔زکوٰۃ عبادت نہیں، ٹیکس ہے ۔
۳۔دینی مسائل میں مغربی مفکرین کی آرا تلاش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
مولانا ابو الجلال ندوی مرحوم نے انہی دنوں مذکورہ نظریات کاجواب لکھا تھا جو بوجوہ شائع نہ ہوسکا۔ اب ان تحریروں کو ابو الجلال ندوی اکیڈمی کراچی نے شائع کیاہے ۔ مجموعی طورپر یہ ایک قابل قدر کاوش ہے، لیکن گہری نظر سے ناقدانہ جائزہ لیاجائے تو کئی مقامات پر مصنف کا ذہنی الجھاؤ محسوس ہوتاہے۔ مصنف کی بعض آرا بھی محل نظر ہیں۔ مثلاً صفحہ ۳۳ کے حاشیہ میں مصنف ہدایہ شیخ الاسلام علی بن ابی بکر المرغینانی پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے دار الحرب میں سود کو جائز قراردیاہے اور ان کی وجہ سے کابل وسرحد کے پٹھانوں کا اخلاق بگڑ گیاہے۔ پہلے وہ صرف حربی کافر سے سود لیتے تھے، اب پاکستانی مسلمانوں سے بھی لیتے ہیں ۔ اسی طرح آیات میراث کی جو تشریحات فقہائے امت نے کی ہیں، وہ ان کے نزدیک معتبر نہیں ہیں اورقرآن وحدیث سے متصادم ہیں۔ اپنے اس دعوے کے اثبات میں انہوں نے کافی زور لگایاہے۔ تقریباً ادھی کتاب اس بحث پر مشتمل ہے۔ مسئلہ عول کو تو وہ آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ فاضل مصنف ایک طرف تو فقہا کی آرا کو معتبر نہیں سمجھتے لیکن دوسری طرف ڈاکٹر فضل الرحمن کے رد میں ہدایہ سے ہی استدلال کرتے نظر آتے ہیں۔ (صفحہ ۱۳۷)
کتاب کے مضامین ڈاکٹر فضل الرحمن کے نظریات کا مکمل رد نہیں کرتے اور مزید بحث ونظر کی گنجایش موجود ہے۔
ملنے کا پتہ: فضلی سنز اردو بازار لاہورکراچی/کتاب سرائے فرسٹ فلو رالحمد مارکیٹ اردو بازار لاہور۔

’’اقبال اور قادیانیت: تحقیق کے نئے زاویے‘‘

علامہ اقبالؒ ان مجاہدین ختم نبوت میں سے ہیں جن کی ضرب کاری کی تاب قادیانی نہ لا سکے اور نہ آج تک قادیانیت پر ان کی تنقید کو بھلا سکے ہیں، اسی لیے وہ اقبال کی کردار کشی کرتے رہتے ہیں۔ قادیانیوں کی اس گھٹیا مہم کے جواب میں اقبال کی عظمت اور کردار کو اجاگر کرنے کے لیے بہت سی کتب لکھی گئی ہیں جن میں سے ایک کتاب اس وقت ہمارے پیش نظر ہے۔ محترم بشیر احمد صاحب اس سے پہلے قادیانیت، بہائیت اور فری میسنری پر گراں قدر کتب تحریر کر چکے ہیں۔ زیر نظر کتاب مصنف نے اگرچہ کسی قادیانی کتاب کے جواب کے طور پر نہیں لکھی، لیکن اس میں اقبال کی ذات وافکار پر لگائے جانے والے بہت سے قادیانی الزامات کا جواب آ گیا ہے جس پر مصنف بجا طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
۲۸۳ صفحات پر مشتمل اس کتاب کو مجلس علم ودانش، پوسٹ بکس ۶۳۰ راول پنڈی نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت ۲۰۰ روپے ہے۔

مارچ ۲۰۰۷ء

اسلام کی تشکیل نو کی تحریکات اور مارٹن لوتھرمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مسجد أقصیٰ کی تولیت ۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ایک تاریخی و تحقیقی جائزہحافظ محمد زبیر
مسجد اقصیٰ کی بحث اور حافظ محمد زبیر کے اعتراضاتمحمد عمار خان ناصر
جناب وحید الدین خان کا علمی تفاخرپروفیسر میاں انعام الرحمن
حضرت مدنیؒ اور تجدد پسندیمفتی رشید احمد علوی
در جواب آں غزلامجد علی شاکر
مکاتیبادارہ
دینی مدارس کے نظام ونصاب کے موضوع پر فکری نشستادارہ
اسلام کے نام پر انتہا پسندی کا افسوس ناک رجحانمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلام کی تشکیل نو کی تحریکات اور مارٹن لوتھر

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(’الشریعہ‘ کے جنوری ۲۰۰۷ء کے شمارے میں ہم نے گزارش کی تھی کہ اکبر بادشاہ اور اس کے بعد ہمارے ہاں دین کی تشکیل نو (Reconstruction) کی جتنی تحریکیں بھی اٹھی ہیں، ان پر مارٹن لوتھر کی اس تحریک کے اثرات ہیں جس کے تحت اس نے مسیحیت کے قدیم تعبیر ی وتشریحی نظام کو مسترد کرکے پروٹسٹنٹ مکتب فکر کی بنیاد رکھی تھی اور جو آگے چل کرمذہب سے انحراف اور انسانی سوسائٹی سے مذہب کی لاتعلقی کی شکل اختیار کرگئی۔ ہمارے بہت سے مسلم دانشوروں نے مارٹن لوتھر کی اس تحریک کے پس منظر اور نتائج کی طرف نظر ڈالے بغیر اس کے نقش قدم پر چلنے کو ضروری خیال کرلیا اور اب جب کہ مغرب اس کے تلخ نتائج کی تاب نہ لاتے ہوئے واپسی کے راستے تلاش کر رہا ہے، ہمارے یہ دانش ور اب بھی اسی کی پیروی میں اسلام کی تعبیر وتشریح کے روایتی فریم ورک کو توڑدینے کی مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح کا روایتی فریم ورک اس قدر مضبوط ومستحکم ہے کہ اس چٹان کے ساتھ سر ٹکرانے والوں کو ابھی تک اپنے زخموں کو سہلانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا اور نہ ہی مستقبل میں اس کی کوئی امید دکھائی دے رہی ہے، مگر مارٹن لوتھر بننے کا شوق ہمارے بعض دانش وروں کے حوصلہ کو پیہم مہمیز کرتا چلا آرہا ہے۔ خدا بخش اورینٹل لائبریری (انڈیا) کی شائع کردہ کتاب ’’اسلامی تہذیب وثقافت‘‘ کی جلد اول میں اس حوالے سے مولانا سید سلیمان ندویؒ کا ایک مکتوب گرامی ابھی چند روز قبل نظر سے گزرا ہے جس سے ہماری مذکورہ بالا گزارشات کی تائید ہوتی ہے۔ یہ خط ماہنامہ ’ندیم‘ کے ستمبر ۱۹۳۹ء ؁ کے شمارے سے نقل کیاگیاہے اور ’ندیم‘ کے مدیر کے ادارتی نوٹ سمیت یہ مکتوب قارئین کی خدمت میں اس ماہ کے ’کلمہ حق‘ کے طورپر پیش کیا جا رہا ہے۔ راشدی)


کیا اسلام میں تجدید کی ضرورت ہے؟

’’یورپ کی ’نشاۃ ثانیہ‘ یعنی اس کی ترقی کا موجودہ دور پوپوں کے استیصال اورعیسوی مذہب کی تجدید واصلاح کے بعد شروع ہواہے۔ اسی بنا پر نوجوان مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیاہے جو مسلمانوں کی ترقی کے لیے بھی اسی راستہ کو اختیار کرنا چاہتاہے، اور خیال پیدا ہوتا جاتاہے کہ علما کے استیصال اوراسلام کی تجدید کی ضرورت ہے۔ ’’علماے سو‘‘ کے فتنوں کو ہر زمانہ میں روکا گیا اور اس دور میں بھی ان کے مضر اثرات سے مسلمانوں کو بچانے کی ضرورت ہے، لیکن ’’تجدید اسلام‘‘ کے مسئلہ پر غور کرنے کے لیے اسلام اور عیسائیت کے فرق پر پہلے غور کرنا چاہیے۔ اسلام نے اپنی بنیاد ہمیشہ کے لیے استوار رکھی ہے۔ا س کے ساتھ اس میں ایسی لچک بھی رکھی گئی ہے کہ اس کی بنیاد کو ہلائے بغیر ہم اس سے اپنے زمانہ کی ضرورتیں پوری کر سکیں۔
ذیل کے مکتوب میں اسی موضوع پر خیالات ظاہر کیے گئے ہیں جو ہمارے نوجوان دوستوں کے پڑھنے کے لائق ہیں۔ حضرت الاستاذ نے یہ مکتوب ہندوستان کے ایک شہرۂ آفاق نامور مسلمان اہل علم کے خط کے جواب میں لکھا تھا۔میں نے اس کی نقل اپنے پاس رکھ لی تھی۔ آج پرانے مسودوں میں اس پر نظر پڑی۔ اب وہ نوجوان دوستوں کے استفادہ کے لیے ان کی خدمت میں پیش ہے‘‘۔ ’’ر‘‘
مخدوم محترم دام لطفہ
السلام علیکم! والا نامہ نے سرفرازی بخشی۔ میں دو ماہ سے خانگی پریشانیوں میں مبتلا ہوں، اس لیے جواب میں قدرے تاخیر ہوئی ہے۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی، جمعیۃ العلماء کا مستقل صدر نہیں، بلکہ اس کے اجلاس کلکتہ کا چند روزہ صدر تھا جس کا زمانہ، اجلاس کے اختتام کے ساتھ ختم ہوگیا۔
بہرحال آپ نے ایک مفید تحریک مستقبل کی طرف توجہ دلائی ہے، مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے میرا خطبہ صدارت جو ان دنوں اخبارات میں چھپ رہاہے، ملاحظہ فرمایاہے یا نہیں۔ میں نے اس فقہی انقلاب اور اس کے لیے علما کی تیاری پر بہت کچھ لکھا ہے۔ خطبہ کی ایک کاپی بھیجتا ہوں، کم از کم ابتدائی حصے ملاحظہ فرمالیجیے۔
تاریخ فقہ اسلامی پر معلوم نہیں، آپ نے کس کی کتاب دیکھی ہے؟ ’تاریخ التشریع الاسلامی‘ جو محمد الخضری کی تصنیف ہے، وہ تو اس قدر مختصر نہیں۔ اس کے تو شاید تین چار سو صفحے ہوں گے، البتہ تقطیع چھوٹی ہے۔ میں نے اس کتاب کا دار المصنفین کی طرف سے ترجمہ کرایاہے۔ ترجمہ مکمل ہوگیاہے، شاید ایک سال کے اندر شائع ہوجائے۔
یورپ کے اثرات نے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے دماغی توازن میں فرق ضرور پیدا کیاہے، مگر اس کی اصلاح وتدارک کے لیے آپ کیا چاہتے ہیں؟ ایک نسخہ تو نسخ اسلام کا ہے جو بابی تحریک ہے۔ دوسرا نسخہ تجدید نبوت کا ہے جو قادیانیوں نے اختیار کیاہے۔ تیسرا نسخہ ابطال شرعیت احادیث کا ہے جو اہل القرآن نے تجویز کیاہے۔ ’وکل یدعی وصلا للیلیٰ
مجھے آپ کے خیالات سے براہ راست واقفیت نہیں، گو آپ کے رسالہ اجتہاد کا فحوائے مضمون بھی اپنے دوست مولوی عبدالماجد صاحب سے سن چکاہوں۔ آپ نے خلیل خالد بے کے جواب میں سید سجاد حیدر صاحب کو جو کچھ لکھا ہے، وہ بھی دیکھ چکا ہوں۔ مسلم یونیورسٹی کے نصاب علوم مشرقی پر جو آپ نے تبصرہ کیاہے،اس کا بھی مطالعہ کیاہے، تاہم آپ کے کسی ایک واحد مرکزی خیال سے واقفیت نہیں جس سے یہ تمام مختلف شاخیں پھوٹتی ہیں۔
لیوتھر کی تجدید، مذہب سے زیادہ سیاست کے زیر سایہ کامیاب ہوئی، مگر مجھے نہیں معلوم کہ موجودہ یورپین اقوام میں پروٹسٹنٹ اور رومن کیتھولک کے درمیان کیا ارتقائی فرق ہے۔ انگلستان بیشتر پروٹسٹنٹ ہے، فرانس بیشتر کیتھولک ہے، اٹلی غالب تر کیتھولک ہے، اور سب شاہراہ ترقی پر ہیں۔ اب اسلام میں کس قسم کی تجدید کی ضرورت ہے، موازنہ کے ساتھ فرمائیے ۔
اسلام کا مذہب چار چیزوں سے مرکب ہے: عقائد، عبادت، معاملات، اخلاق۔ عقائد کو عجمیت سے، اخلاق کو صوفیت سے پاک کیا جا سکتا ہے، معاملات میں گزشتہ مسائل کی تنقیح یا کسی امام کی رائے کی بمصلحت زمانہ ترجیح ہوسکتی ہے، عبادات میں آپ کیا ترمیم چاہتے ہیں؟
اصل یہ ہے کہ ترمیم، تنسیخ کا خیال اسی وقت آسکتاہے جب اسماعیلیوں کے خیال کے مطابق مذہب کے محفل ’’دروغ مصلحت آمیز‘‘ یقین کیا جائے، اور میرا تو یہ اعتقاد نہیں۔ میں قرآن کے حرف حرف کو لفظی پابندی کے ساتھ قبول کرتاہوں۔ آیت میراث میں جو اصول مرعی ہے، اس کو تسلیم کیجیے تو پھر حصص کو کیوں تسلیم نہ کیجیے؟ اس قسم کی ترمیم وہی لوگ کرسکتے ہیں جو مذہب ووحی کی واقعیت کے قائل نہ ہوں، صرف ظاہری پردہ کے طورپر مذہب کو تسلیم کرنا چاہتے ہوں۔ اہل القرآن کی تاویلات ملاحظہ کیجیے اوراس کی فرقہ کی باطنیت پر ماتم کیجیے، علامہ مشرقی کا تذکرہ دیکھیے اور اس زہر میں ملے ہوئے قند کو ملاحظہ کیجیے۔ معاف کیجیے، ان تمام گمراہیوں کی جرات سید صاحب نے بے معنی تفسیر وتاویل کرکے دلائی ہے۔ مذہب کا بھرم اعتقاد میں ہے، جب اعتقاد گیا تو وہ تاویلات کی بنیاد پر قائم نہیں رہ سکتا۔ میں تو صر ف ایک چیز کی دعوت دے سکتا ہوں۔ اسلام کو ہر حیثیت سے اپنے عہد اول کی سادگی اور عملیت پر لوٹ آنا چاہیے اور اس عجمی تصوریت اور تصوفی تعطل کے عقیدہ کو پارہ پارہ کردیناچاہیے۔ اگر آپ نے میرا رسالہ ’اہل السنہ‘ ملاحظہ فرمایاہے تو میرا تخیل اقرب الی الفہم ہوگا۔
معاملات اور فقہ کے باب میں جو جمود ہے، وہ بے شک دو ر ہونا چاہیے۔ معاملات اور فقہ کی بہت سی چیزیں اسلام نے رائے امام پر محمول کردی ہیں۔ اب امامت کے فقدان اور سلاطین وحکام کے جہل نے اس سے ان کو مستفید ہونے نہ دیا۔ ٹرکی میں جو مدنی قوانین بن رہے ہیں، وہ تھوڑے تغیر سے اسلامی رنگ اختیار کرسکتے ہیں۔ مثلاً آپ تعدد ازدواج کو روکتے ہیں مگر یہ کہہ کر کہ یہ تمدن کے خلاف ہے۔ یہ فسق ہے۔ یوں کہیے کہ تعدد ازدواج کی اجازت بقید عدل ہے، اور چونکہ عدل مفقود ہے، اس لیے اب اس کی ممانعت کی جاتی۔ آپ غلامی کا ابطال کرتے ہیں کہ یہ انسانیت اور قانون یورپ کے خلاف ہے۔ آپ اس کو یوں کرسکتے ہیں کہ جنگ کے قیدیوں کے ساتھ تین برتاؤ کیے جاسکتے ہیں:قتل، غلامی، اور آزادی۔ امام وقت ان تینوں میں سے ایک اختیار کرسکتا ہے، اور برائے امام آزادی کا حکم عام جاری کرسکتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے بہت سی باتوں میں اپنی رائے سے یا معاصر اقوام کے قانون سے فائدہ اٹھایا، وہ اب تک ہماری فقہ میں موجود ہے۔ آپ ان کو نکال سکتے ہیں، جیسے ذمیوں کے احکام ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کثرت طلاق کو دیکھ کر ایک مجلس کی تین لفظی طلاق کو تین مستقل طلاق قرار دے لی اور جو اب تک فقہ حنفی میں معتبر ہے۔ شارب خمر کی حد مختلف خلفاے راشدین نے مختلف قرار دی۔ اور بھی مثالیں ہیں، مگر ان مثالوں کا یہ نتیجہ نہیں کہ ہم قانون وراثت نکال دیں، وضو چھوڑ دیں، نماز کم کر دیں، روزے رخصت کریں۔ یہ تو وہی اسماعیلیت ہے جو چل نہ سکی اور معلوم ہوگیا کہ یہ اتباع مذہب نہیں، ابطال مذہب ہے۔
طول نفس کو معاف کیجیے۔ آپ کے خیالات کی تہ کو پاؤں تو کچھ عرض کروں۔
والسلام 
۲۷؍رمضان المبارک ۱۳۴۴ھ 

مسجد أقصیٰ کی تولیت ۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ایک تاریخی و تحقیقی جائزہ

حافظ محمد زبیر

’المورد‘ کے اسسٹنٹ فیلواور ماہنامہ’ الشریعہ ‘کے مدیر جناب محمد عمار خان ناصرصاحب کی طرف سے ماہنامہ ’اشراق‘ جولائی و اگست ۲۰۰۳ میں ’’مسجد اقصیٰ، یہود اور امت مسلمہ‘‘ کے عنوان سے ایک طویل مضمون شائع ہوا۔ چونکہ محترم عمار صاحب نے اپنے اس مضمون میں امت مسلمہ کے عام مؤقف کے بالکل برعکس ایک نئی رائے کا اظہار کیا تھا، اس لیے مختلف علمی حلقوں کی طرف سے ان کو مختلف قسم کی علمی اورجذباتی تنقیدی آرا کا بھی سامنا کرناپڑا۔ عمار صاحب نے ماہنامہ ’اشراق‘ مئی وجولائی ۲۰۰۴ کے شماروں میں ان تمام تنقیدی آرا کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہمارے علم کی حد تک کسی ناقد نے بھی عمارصاحب کی اس اصولی غلطی کی نشاندہی نہیں کی جو کہ ان کے مضمون کی کل بنیاد ہے۔ عمار صاحب کے اس طویل مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ مسجد أقصیٰ کی تولیت کا شرعی حق یہود کو حاصل ہے، اگرچہ تکوینی طور پر یہ مسجد سینکڑوں سال سے مسلمانوں کی تولیت میں ہے۔ مسجد أقصیٰ کی تولیت پر یہود کے شرعی حق کی کل دلیل ‘عمار صاحب کے نزدیک وہ اسرائیلیات ہیں جن کو وہ کتاب مقدس کے بیانات کہتے ہیں۔ ان اسرائیلی روایات سے محترم عمار صاحب نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مسجد اقصیٰ یعنی ہیکل سلیمانی کو حضرت سلیمان نے اپنے زمانے میں جنات سے تعمیر کروایا تھا۔ یہ ہیکل یہودیوں کا قبلہ ہے۔ علاوہ ازیں یہ ان کا مقام حج ہے۔ یہی ان کی قربان گاہ اورمر کز عبادت ہے۔ اس کی طرف رخ کر کے وہ نماز ادا کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ نظریہ ہی غلط ہے کہ مسجد أقصیٰ یہودیوں کا قبلہ یا مقام حج یا نماز کے لیے ایک سمت ہے۔ قرآن و سنت تو کیا، کسی ایک اسرائیلی روایت سے بھی یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ بیت المقدس کو اللہ تعالیٰ نے یہود کا قبلہ مقرر کیا تھا۔ حق بات یہ ہے کہ حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا کاقبلہ ’مسجد حرام ‘ رہا ہے۔ تمام انبیا مسجد حرام کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے رہے ہیں اور یہیں آ کر فریضہ حج ادا کرتے رہے ہیں۔ مسجد أقصیٰ کواپنا قبلہ قرار دینا یہودیوں اور عیسائیوں کی اپنے دین میں اختراع ہے۔ مسجد أقصیٰ کی حیثیت مسلما نوں کے ایک بابرکت مقام اور مسجد کی سی ہے۔مسجد أقصیٰ یہودیوں کی نہیں، بلکہ مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے، اس لیے اس کی تولیت کا حق بھی مسلمانوں ہی کو حاصل ہے ۔ مسجد أقصیٰ کا مسئلہ چونکہ ایک اصولی مسئلہ ہے، اس لیے ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس پر اصولی انداز میں بحث ہونی چاہیے ۔عمار صاحب سے اس مسئلے کی تحقیق میں جو بنیادی غلطی ہوئی، وہ یہ کہ انھوں نے اسرائیلیات کی روشنی میں قرآن و سنت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ (۱) ا گر وہ قرآن و سنت کی روشنی میں اسرائیلی روایات کوسمجھنے کی کوشش کرتے تو ان کے نتائج اس سے بہت مختلف ہوتے جو کہ وہ بیان کر رہے ہیں ۔ 
(۱) محترم عمار صاحب نے تحقیق کا یہ انداز و اسلوب جناب غامدی صاحب سے سیکھا ہے غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’میزان‘ میں تفصیل سے اپنے اس اصول کو بیان کیا ہے کہ قرآن کو سابقہ صحف سماویہ کی روشنی میں سمجھنا چاہیے ۔

مسجد اقصیٰ کی فضیلت

مسجد أقصیٰ کے درج ذیل فضائل قرآن وسنت میں بیان ہوئے ہیں :
۱) مسجد أقصیٰ بابرکت زمین میں ہے:
قرآن میں چارمقامات پر سرزمین شام کو بابرکت زمین کہا گیا ہے۔ نزول قرآن کے وقت ملک شام‘ موجودہ شام سے بہت وسیع تھا۔موجودہ فلسطین بھی اس کا ایک حصہ تھا۔ مسجد أقصیٰ شام کی اسی بابرکت سرزمین میں واقع ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
و أورثناالقوم الذین کانوا یستضعفون مشارق الأرض و مغاربھا التی بارکنا فیھا (الأعراف:۱۳۷)
’’اور ہم نے اس قوم کو کہ جس کوکمزور بنایا گیا تھا‘ اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنایا کہ جس سرزمین میں ہم نے برکت رکھ دی ہے۔ ‘‘
اس آیت مبارکہ میں حضرت سلیمان کے دور میں موجود بنی اسرائیل کی اس عظیم سلطنت کی طرف اشارہ ہے جو کہ اس زمانے کے شام اور اس کے گردو نواح پر مشتمل تھی ۔
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
و نجیناہ و لوطا الی الأرض التی بارکنا فیھا للعالمین (الأنبیاء:۷۱)
’’اور ہم اس کو (یعنی حضرت ابراہیم) اور حضرت لوط کو نجات دی ایک ایسی سرزمین کی طرف کہ جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لیے برکت رکھ دی ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ کے الفاظ ’العالمین‘ سے واضح ہوتا ہے کہ سرزمین فلسطین و شام کی برکات کسی خاص جماعت، قوم یامذہب کے ماننے والوں کے لیے نہیں ہیں جیسا کہ یہودیوں کا یہ خیال ہے کہ اس سرزمین کی برکات ان کے لیے مخصوص ہیں بلکہ اس سرزمین کی برکت تمام اقوام ‘مذاہب اور جماعتوں کے لیے ہیں ۔
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
و لسلیمن الریح عاصفۃ تجری بأمرہ الی الأرض التی بارکنا فیھا (الأنبیاء:۸۱)
’’اور حضرت سلیمان کے لیے ہم نے تیز و تند ہوا کومسخر کر دیا تھا جوان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی کہ جس میں ہم نے برکت رکھ دی ہے ۔‘‘
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
و جعلنا بینھم و بین القری التی بارکنا فیھا قری ظاہرۃ (سبا:۱۸)
’’اور ہم نے ان (یعنی قوم سبا)کے درمیان اور ان بستیوں کے درمیان کہ جن میں ہم نے برکت رکھ دی ہے‘ کچھ نمایاں بستیاں بنائی تھیں ۔‘‘
اس آیت مبارکہ کے الفاظ ’القری‘ سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ برکت صرف فلسطین کی بستی میں نہیں رکھی گئی بلکہ ان تمام بستیوں میں رکھی گئی ہے جو کہ سرزمین شام پر واقع ہیں ۔
۲) مسجد أقصیٰ کے ارد گرد کی سرزمین بھی بابرکت ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
سبحن الذی أسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الأقصی الذی بارکنا حولہ (الاسراء:۱) 
’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو ایک رات میں مسجدحرام سے مسجد اقصی تک کہ جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھ دی ہے ۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد أقصی کے ساتھ ساتھ اس کے ارد گرد کی سرزمین یعنی فلسطین و شام کا علاقہ بھی بابرکت ہے۔ 
۳) مسجد أقصیٰ ارض مقدسہ میں ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
یا قوم ادخلوا الأرض المقدسۃ التی کتب اللہ لکم (المائدہ:۲۱)
’’اے میری قوم کے لوگو!داخل ہو جاؤاس مقدس سرزمین میں کہ جس کواللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے ۔‘‘
قتادہ کے نزدیک ارض مقدسہ سے مراد ’شام‘ ہے جبکہ مجاہد اور ابن عباس کے ایک قول کے مطابق ’کوہ طور اور اس کے ارد گرد کا علاقہ ‘مراد ہے ۔اسی طرح سدی اور ابن عباس کے دوسرے قول کے مطابق اس سے مراد ’أریحا‘ ہے ۔زجاج نے کہا اس سے مراد’دمشق اور فلسطین ‘ ہے ۔بعض مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ اس سے مراد ’اردن کا علاقہ‘ ہے۔امام قرطبی اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ان تمام اقوال کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ قتادہ کا قول سب کو شامل ہے ۔ امام قرطبی کے اس قول سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں شام میں فلسطین‘دمشق اور اردن کا علاقہ بھی شامل تھااسی طرح کوہ طور اور اس کے ارد گرد کا علاقہ حتی کہ أریحا کا شہر بھی شام کی بابرکت سرزمین کی حدود میں تھا ۔
۴) بیت اللہ کے بعد دوسری مسجد :
مسجد أقصیٰ روئے زمین پربیت اللہ کے بعد دوسری مسجد ہے کہ جس کو عبادت الہی کے لیے تعمیر کیا گیا۔حضرت ابو ذر غفاری سے روایت ہے :
سألت رسول اللہ ﷺ عن أول مسجد وضع فی الأرض قال المسجد الحرام قلت ثم أی قال المسجد الأقصی قلت کم بینھما قال أربعون عاما (۱)
’’میں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ اس روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی آپ نے جواب دیا مسجد حرام ‘میں نے پھر سوال کیا اس کے بعد کون سی مسجد تعمیر کی گئی تو آپ نے فرمایا مسجد اقصی ‘ میں نے کہا ان دونوں کی تعمیر کے دوران کل کتنا وقفہ ہے تو آپ نے کہا چالیس سال ۔‘‘
۵) مسجد أقصیٰ کی طرف شد رحال کی مشروعیت :
مسجد أقصیٰ ان تین مساجد میں شامل ہے کہ جن کا تبرک حاصل کرنے کے لیے یا ان میں نماز پڑھنے کے لیے یا ان کی زیارت کے لیے سفر کو مشروع قرار دیا گیا ہے ۔آپ کا رشاد ہے :
لا تشد الرحال الاالی ثلاثۃ مساجد مسجدی ھذا و مسجد الحرام و المسجد الأقصی (۲)
’’تین مساجد کے علاوہ کسی جگہ کا قصد کر کے سفر کرنا جائز نہیں ہے میری اس مسجد کا یعنی مسجد نبوی کا ‘مسجد حرام کا اور مسجد أقصیٰ کا۔‘‘
۶) مسجد أقصیٰ کو انبیاء نے تعمیر کیا :
مسجد اقصیٰ ان مساجد میں سے ہے کہ جس کو جلیل القدر انبیاء نے تعمیر کیا ۔طبرانی کی ایک روایت کے الفاظ ہیں :
أن داؤد ابتدأ ببناء البیت المقدس ثم أوحی اللہ الیہ انی لأقضی بناؤہ علی ید سلیمان (۳)
’’حضرت داؤد نے بیت المقدس کی تعمیر کے لیے بنیادیں رکھیں پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میں مسجد أقصیٰ کی تعمیر حضرت سلیمان کے ہاتھوں مکمل کرواؤں گا۔‘‘
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمروؓ اللہ کے رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں :
أن سلیمان بن داؤد لما بنی بیت المقدس سال اللہ عز وجل خلالا ثلاثۃ ... سأل اللہ عز وجل حین فرغ من بناء المسجد أن لا یاتیہ أحد لا ینھزہ الا الصلاۃ أن یخرجہ من خطیئتہ کیوم ولدتہ أمہ (۴)
’’حضرت سلیمان نے جب بیت المقدس کی تعمیر مکمل کر لی تو اللہ تعالی سے تین باتوں کی دعا کی ...‘‘
۷) مسجد أقصیٰ میں نماز پڑھنے کی فضیلت :
صحیح حدیث میں مسجد أقصیٰ میں نماز پرھنے کی بہت زیادہ فضلیت بیان ہوئی ہے ۔حضرت عبد اللہ بن عمروؓ اللہ کے رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں :
أن سلیمان بن داؤد لما بنی بیت المقدس سال اللہ عز وجل خلالا ثلاثۃ ... سأل اللہ عز وجل حین فرغ من بناء المسجد أن لا یاتیہ أحد لا ینھزہ الا الصلاۃ فیہ أن یخرجہ من خطیئتہ کیوم ولدتہ أمہ (۵)
’’حضرت سلیمان نے جب بیت المقدس کی تعمیر مکمل کر لی تو اللہ تعالی سے تین باتوں کی دعا کی ...جب وہ مسجد بنا کر فارغ ہو گئے تو اللہ تعالی سے سوال کیا کہ جب بھی کوئی شخص اس مسجد میں نماز پڑھنے کی غرض سے آئے تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو کرنکلے جیسے کہ اس کی ماں نے اس کو جنا ہو۔‘‘
۸) مسجد أقصیٰ سے احرام باندھ کر حج کرنے کی فضیلت :
مسجد أقصیٰ سے حج یا عمرہ کے لیے احرام باندھ کر مسجد حرام کی طرف نکلنے کی بہت زیادہ فضیلت حدیث میں آئی ہے۔أم المؤمنین حضرت أم سلمہؓ آپ ؐ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا:
من أھل بحجۃ أو عمرۃ من المسجد الأقصی الی المسجد الحرام غفر لہ ما تقدم من ذنبہ و ما تأخر أو وجبت لہ الجنۃ شک عبداللہ أیتھماقال (۶)
’’جس نے بھی مسجد اقصی سے مسجد حرام تک لیے حج یا عمرہ کی نیت سے احرام باندھا اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے یا اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔ عبد اللہ کو شک گزرا کہ آپؐ نے ان دونوں میں کون سے الفاظ فرمائے ہیں ۔‘‘
۹) مسجد أقصیٰ میں نماز پڑھنے کی نذر ماننا جائز ہے :
فتح مکہ کے موقع پر ایک شخص نے آپ ؐ سے آ کر سوال کیا :
یا رسول اللہ انی نذرت للہ ان فتح اللہ علیک مکۃ ان أصلی فی بیت المقدس رکعتین قال صل ھا ھنا ثم أعاد علیہ فقال صل ھا ھنا ثم أعاد علیہ فقال صل ھاھنا ثم أعاد علیہ فقال شانک (۷) 
’’اے اللہ کے رسول ﷺ میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کے ہاتھوں مکہ فتح کروا دیا تو میں بیت المقدس میں دورکعت نماز پڑھوں گا۔آپ ؐ نے فرمایا یہاں ہی پڑھ لے اس نے پھر آپؐ کے سامنے اپنی بات کو دھرایا آپ ؐ نے فرمایا یہاں نماز پڑھ لے اس نے پھر اپنی بات کو دھرایاآپ ؐ نے فرمایا یہاں نماز پڑھ لے اس نے پھر اپنی بات کودھرایاتو آپ ؐ نے فرمایا تمہارا معاملہ ہے (یعنی جہاں تو چاہے پڑھ لے میں نے تو تیری آسانی کی خاطر تجھے یہ مشورہ دیا تھا)۔ ‘‘
اس کے علاوہ بھی روایات ہیں کہ جن سے مسجد اقصیٰ کی برکت و فضیلت کا اظہار ہو تا ہے لیکن طوالت کے خوف سے ہم صرف انہی روایات پر اکتفا کرتے ہیں ۔

مسجد اقصیٰ کی تعمیر وتاریخ

محترم عمار صاحب نے اپنے مضمون میں مسجد أقصیٰ کی تاریخ بیان کرتے ہو ئے اپنی تحقیق کی کل بنیاد اسرائیلی روایات کو بنایا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث کہ جس میں مسجد اقصیٰ کی پہلی تعمیر کا تذکرہ ہے، اس کو حاشیہ میں بیان کیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عمار صاحب کی اس نادر تحقیق کے اصل اور فیصلہ کن مصادرکون سے ہیں ؟
قرآن و سنت کی روشنی میں مسجد أقصیٰ کی تعمیر و تاریخ کا تعین کرنے میں حضرت ابو ذر غفاریؓ کی درج ذیل روایت کو بنیادی مقام حاصل ہے۔ حضرت ابوذر سے روایت ہے :
سألت رسول اللہ ﷺ عن أول مسجد وضع فی الأرض، قال المسجدالحرام، قلت ثم أی؟ قال المسجد الأقصی، قلت کم بینھما قال أربعون عاما (۸)
’’میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی؟ آپ نے جواب دیا: مسجد حرام۔ میں نے پھر سوال کیا: اس کے بعد کون سی مسجد تعمیر کی گئی؟ آپ نے فرمایا: مسجد اقصیٰ۔ میں نے کہا: ان دونوں کی تعمیر کے دوران کل کتنا وقفہ ہے؟ آپ نے کہا: چالیس سال ۔‘‘
اس روایت سے درج ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں :
۱) اس زمین پر سب سے پہلی مسجد جو کہ اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کی گئی ‘مسجد حرام ہے ۔
۲) دوسری مسجد جو کہ اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کی گئی ‘مسجد أقصیٰ ہے ۔
۳) ان دونوں مساجد کی تعمیرکے درمیان چالیس سا ل کا وقفہ ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کس دور میں ہوئی؟اگر بیت اللہ کی تعمیر کا زمانہ متعین ہو جائے تو مسجد أقصیٰ کی تعمیر کازمانہ از خود متعین ہو جائے گا، کیونکہ صحیح حدیث کے مطابق مسجد أقصیٰ کی تعمیر بیت اللہ کی تعمیر کے چالیس سال بعد ہوئی۔ بیت اللہ کی تعمیر کے بارے میں آرا مختلف ہیں جن میں سے دو ہی آرا دلائل کی روشنی میں قوی ہیں : 
الف) ایک رائے یہ ہے کہ بیت اللہ کی سب سے پہلی تعمیرحضرت ابراہیم کے زمانے میں ہوئی تھی۔ قرآنی نص سے یہ بات ثابت ہے کہ بیت اللہ کو حضرت ابراہیم نے تعمیر کیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت وا سمعیل (البقرۃ:۱۲۷)
’’ اور جب حضرت ابراہیم بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور حضرت اسمٰعیل بھی ۔‘‘
اگر ہم حضرت ابراہیم کی تعمیر کو بیت اللہ کی پہلی تعمیر مانیں تو مسجد أقصیٰ کے پہلے مؤسس حضرت ابراہیم ہوں گے۔ 
ب) دوسری رائے یہ ہے کہ بیت اللہ کی پہلی تعمیر حضرت آدم کے زمانے میں ہوئی۔ اگر اس قول کو صحیح مانیں تو مسجد أقصیٰ کے مؤسس حضرت آدم قرار پائیں گے۔ ہمارے نزدیک صحیح قول یہی ہے کہ بیت اللہ کی پہلی تعمیر حضرت آدم نے کی۔ حضرت ابراہیم نے آکر اس کی تجدید کی ہے۔ ہماری اس رائے کی بنیاد درج ذیل دلائل پر ہے :
۱) اللہ تعالیٰ نے تمام انبیا کے لیے نماز کو مشروع قرار دیا تھا جس کے لیے ایک قبلہ کا ہونا ضروری تھا۔ لہٰذ ایہ ثابت ہوا کہ حضرت آدم کے دین میں نماز کا مشروع ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کے لیے حضرت آدم کوئی قبلہ بھی تعمیر کریں۔
۲) اگر اس بات کو مان لیا جائے کہ حضرت ابراہیم نے سب سے پہلے بیت اللہ کی تعمیر کی تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس بات کا بھی اقرار کیا جائے کہ حضرت ابراہیم سے ماقبل اسلامی شریعتوں میں حج کا کوئی تصور نہ تھا جو کہ غلط ہے ۔لہٰذا یہ ثابت ہو اکہ حضرت ابراہیم سے پہلے مختلف انبیا کے ہاں حج کا تصور اس بات کو ملتزم ہے کہ حضرت ابراہیم سے پہلے ایک قبلے کا وجود مانا جائے۔
۳) حضرت ابراہیم جب حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو سرزمین مکہ میں آباد کر نے کے لیے وہاں چھوڑنے گئے تو اس وقت انھوں نے دعا مانگی جس کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
ربنا انی أسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم (ابراہیم:۳۷)
’’اے میرے پروردگار! بے شک میں نے اپنی اولاد کو آباد کیا ایک ایسی سرزمین میں جو کہ کھیتی والی نہیں ہے، تیرے حرمت والے گھر کے پاس۔‘‘
اس دعا کے الفاظ ’عند بیتک المحرم‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم کی اس دعا کے وقت بیت اللہ کی بنیادیں موجود تھیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم سے پہلے تعمیر ہو چکا تھا۔
۴) اس قرآنی مؤقف کے شواہد بعض ضعیف روایات سے بھی ہمیں ملتے ہیں، مثلاً امام بیہقی حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے مرفوعاً نقل کرتے ہیں:
بعث اللہ جبرئیل الی آدم وحواء فأمرھما ببناء الکعبۃ فبناہ آدم ثم أمر بالطواف بہ و قیل لہ أنت أول الناس وھذا أول بیت وضع للناس (۹)
’’اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل کو حضرت آدم وحوا کی طرف بھیجا اور ان کو بیت اللہ کی تعمیر کا حکم دیا۔ حضرت آدم نے بیت اللہ کو تعمیر کیا، پھر حضرت آدم کو بیت اللہ کا طواف کرنے کا حکم دیا اور حضرت آدم سے کہا گیا کہ تو پہلا آدمی ہے اور یہ پہلا گھر ہے جو کہ لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے ۔‘‘
۵) علامہ ابن حجر نے بھی اسی رائے کو ایک روایت کی بنیاد پر ترجیح دی ہے ۔ابن حجر لکھتے ہیں :
و یؤید قول من قال: أن آدم ھو الذی أسس کلا من المسجدین فذکر ابن ھشام فی کتاب التیجان أن آدم لما بنی الکعبۃ أمرہ اللہ بالسیر الی بیت المقدس وأن یبنیہ فبناہ و نسک فیہ وبناء آدم للبیت مشھور وقد تقدم قریبا حدیث عبد اللہ بن عمرو أن البیت رفع زمن الطوفان حتی بواہ اللہ لابراہیم (۱۰)
’’اور ان لوگوں کے قول کی تائید جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت آدم نے مسجد حرام اور مسجد أقصیٰ دونوں کو تعمیر کیا‘ اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو ابن ہشام نے کتاب التیجان میں نقل کیا ہے کہ حضرت آدم نے جب بیت اللہ کو تعمیر کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ بیت المقدس کی طرف جائیں اور اس کی بنیاد رکھیں تو انھوں نے جاکر اس کو تعمیر کیا۔ اور بیت اللہ کی جو تعمیر حضرت آدم کے ہاتھوں ہوئی، وہ معروف ہے۔حضر ت عبد اللہ بن عمرو کی حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ بیت اللہ کو طوفان نوح کے دوران اٹھا لیا گیا تھا، بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس کو حضرت ابراہیم کاٹھکانہ بنایا ۔‘‘
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ کی طرح مسجد اقصیٰ کی بھی کئی دفعہ تعمیر ہوئی۔ طبرانی کی ایک روایت کے الفاظ ہیں :
أن داؤد ابتدأ ببناء البیت المقدس ثم أوحی اللہ الیہ انی لأقضی بناؤہ علی ید سلیمان (۱۱)
’’حضرت داؤد نے بیت المقدس کی تعمیر کے لیے بنیادیں رکھیں، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میں مسجد أقصیٰ کی تعمیر حضرت سلیمان کے ہاتھوں مکمل کرواؤں گا۔‘‘
اسی طرح نسائی کی ایک روایت ہے :
أن سلیمان بن داؤد لما بنی بیت المقدس سأل اللہ عزوجل خلالا ثلاثہ (۱۲)
’’جب حضرت سلیمان نے بیت المقدس کی تعمیرمکمل کر لی تو اللہ تعالیٰ سے تین باتوں کی دعا کی۔‘‘
ان روایات میں مسجد اقصیٰ کی پہلی تعمیر کے علاوہ‘جو کہ حضرت آدم نے کی تھی‘ ایک دوسری تعمیر کا بھی تذکرہ ہے، کیونکہ حضرت ابراہیم اور حضرت سلیمان کے درمیان زمانی وقفہ ایک تاریخی روایت کے مطابق تین ہزار سال جبکہ دوسری روایت کے مطابق ڈیڑھ ہزار سال ہے ۔ 
ج) ایک تیسری رائے جو کہ محترم عمار صاحب نے حدیث ابو ذر کے حوالے سے اپنے مضمون کے حاشیے میں بیان کی ہے۔ عما ر صاحب لکھتے ہیں :
’’اس روایت پر یہ اشکال ہے کہ تاریخ کے مسلمات کی رو سے مسجد اقصیٰ کی تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں ہوئی اور ان کے اور سیدنا ابراہیم علیہما السلام کے مابین‘ جو مسجد حرام کے معمار تھے‘ کئی صدیوں کا فاصلہ ہے جبکہ روایت میں دونوں مسجدوں کی تعمیر کے درمیان صرف چالیس کا فاصلہ بتایا گیا ہے۔ علمائے حدیث کے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کے مقام کی تعیین تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرما دی تھی اور مذکورہ روایت میں اسی کا ذکر ہے ‘جبکہ حضرت سلیمان نے صدیوں بعد اسی جگہ پر ہیکل سلیمانی کو تعمیر کیا۔ اس لحاظ سے ان کی حیثیت ہیکل کے اولین بانی اور مؤسس کی نہیں ‘بلکہ تجدید کنندہ کی ہے ۔(۱۳)
محترم عمار صاحب نے اس رائے کی نسبت علمائے حدیث کی طرف کی ہے، حالانکہ علمائے حدیث میں سے کسی ایک کی بھی یہ رائے نہیں ہے جو کہ عمارصاحب بیان کر رہے ہیں۔ یہ عمار صاحب کی اپنی رائے ہے کہ جس کی نسبت انھوں نے علمائے محدثین کی طرف کر دی ہے اور جن کتابوں کے وہ حوالے دے رہے ہیں، ان میں یہ بات اس طرح موجود نہیں ہے جس طرح کہ وہ اس کو بیان کر رہے ہیں ۔
عمار صاحب سے پہلی غلطی تو یہ ہوئی کہ انھوں نے اس رائے کی نسبت علمائے محدثین کی طرف کر دی حالانکہ یہ رائے صرف ابن قیم اور ابن کثیر کی ہے۔ کیا دو پر جمع کا اطلاق ہوتا ہے ؟
دوسری غلطی عمارصاحب نے یہ کی کہ جب دیکھا کہ مسئلہ حدیث کاہے تو ابن قیم اور ابن کثیر کو علمائے محدثین بنا کر پیش کر دیا، حالانکہ مقدم الذکر کا اصل میدان عقیدہ و فقہ ہے اور مؤخر الذکر کا تفسیر و تاریخ‘ ان میں سے کوئی ایک بھی علما میں بطور محدث اس طرح معروف نہیں ہے جس طرح مؤلفین صحاح ستہ یا ان کے اساتذہ وغیرہ ۔
عمار صاحب سے تیسری غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے ابن قیم اور ابن کثیر کی رائے کو بھی ان حضرات کے اپنے الفاظ میں پیش نہیں کیا۔ ابن قیم نے اپنی رائے بیان کرتے ہوئے جو الفاظ بیان کیے ہیں، وہ درج ذیل ہیں :
والذی أسسہ ھو یعقوب ابن اسحاق (۱۴)
جبکہ ابن کثیر نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں :
وان أول من جعلہ مسجدا اسرائیل علیہ السلام (۱۵)
جبکہ محترم عمار صاحب نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں، وہ یہ ہیں :
’’علمائے حدیث کے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کے مقام کی تعیین تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرما دی تھی‘‘۔ (۱۶)
محترم عمار صاحب نے امام ابن قیم کے الفاظ ’أسس‘ اور امام ابن کثیر کے الفاظ ’جعل‘ کا ترجمہ ’’تعین کرنا‘‘کیا ہے۔ اس کو ان جلیل القدر علما کی آرا میں تحریف نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟
چوتھی غلطی عمار صاحب سے یہ ہوئی کہ انھوں نے حدیث میں موجود الفاظ ’وضع‘ کو نظر انداز کر دیا جس کا معنی لغت میں ’’تعین کرنا‘‘ نہیں ہوتا۔ امام ابن قیم اور امام ابن کثیر جیسے علما کے یہ شایان شان نہیں ہے کہ ان کی طرف اس بات کی نسبت کی جائے کہ انھوں نے حدیث میں وارد شدہ الفاظ ’وضع‘سے مراد بیت المقدس کی ’’تعیین‘‘ لی ہے۔
عمارصاحب کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بیت المقدس کی تعمیر پہلی دفعہ حضرت سلیمان نے ہی کی اور وہ یہ عزم کیے ہوئے ہیں کہ کسی طرح بیت المقدس کی تعمیرکے بارے میں وارد شدہ اسرائیلی روایات ‘جن پر انھوں نے اپنے مؤقف کی بنیاد رکھی ہے ‘کو صحیح ثابت کر دیا جائے، چاہے انھیں اس کے لیے صحیح احادیث کی من گھڑت تأویل اور علماے سلف کی آرا میں تحریف ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ ہمارے’ تحریف ‘کے الفاظ شاید عمارصاحب کو ناگوار گزریں، لیکن انھوں نے اپنے مضمون میں مسجد اقصیٰ کے حوالے سے علما کے عمومی مؤقف کے بارے میں جس قدر سخت لب ولہجہ اور اسلوب اختیار کیا ہے، اس کی بھی ایک جھلک ذرا قارئین ملاحظہ فرما لیں۔ عمار صاحب لکھتے ہیں :
’’یہ نکتہ اب اہل علم کے لیے ایک کھلے سوال کی حیثیت رکھتا ہے کہ عالم عرب کا یہ کم و بیش اجماعی مؤقف‘جس کو متعدد اکابر علمائے دین و مفتیان شرع متین کی تائید و نصرت حاصل ہے اور جس کو مسلم اور عرب میڈیاتسلسل کے ساتھ دہرا رہا ہے ‘کتمان حق اور تکذیب آیات اللہ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟‘‘(۱۷)
عمار صاحب اپنے ایک اجتہادی مؤقف پر اس قدرمصر ہیں کہ علما کے کم و بیش اجماع کو کتمان حق اور تکذیب آیات اللہ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ عمار صاحب مذکورہ بالا عبارت میں جو سوال اہل علم سے کر رہے ہیں، وہی سوال اگر وہ اپنے آپ سے بھی کر لیتے تو ان کو اس کا جواب مل جاتا۔ عمار صاحب مولانا وحید الدین خان صاحب پر تنقید کرتے ہوئے ماہنامہ ’الشریعہ ‘ میں لکھتے ہیں:
’’مولانا کے زاویہ نگاہ سے اصولی طور پر اتفاق رکھنے والے اہل فکر کا ایک حلقہ یہ محسوس کرتا ہے کہ مخالف فکری زاویوں اور شخصیات پر تنقید کے لیے ان کا اختیار کردہ لب و لہجہ اور اسلوب ’رأیی صواب یحتمل الخطا و رأیھم خطا یحتمل الصواب‘ کے ذہنی رویے کے بجائے حتمیت کی عکاسی کرتا ہے اور وہ اپنے زاویہ نگاہ کو ایک نقطہ نظر سمجھنے کے بجائے ’واحد درست طرز فکر ‘قرار دینے میں حد اعتدال سے تجاوز کر جاتے ہیں‘‘۔ (۱۸) 
ایک اور جگہ ماہنامہ اشراق ‘جنوری ۲۰۰۷‘ ص۷۱ پر محترم عمار صاحب لکھتے ہیں :
’’اگر علمی مباحث میں طعن و تشنیع اور تفسیق و تضلیل کا رویہ در آئے تو تنقید فکر ونظر کی آبیاری کرنے کے بجائے محض ’بغیا بینھم ‘کا ایک نمونہ بن کر رہ جاتی ہے‘‘۔
ہم عمار صاحب سے سوال کرتے ہیں، کیا یہ اصول تنقید صرف ان کے لیے ہے جو آپ یا آپ کی طرح کے آزاد خیال مفکرین کی آرا پر تنقید کرنا چاہے یا آپ کو بھی علما کے بارے میں لکھتے ہوئے اپنے قلم کو لگام دینی چاہیے؟ 
بہر حال خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ بالا بحث سے درج ذیل نتائج ثابت ہوتے ہیں:
۱) مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ دونوں کے مؤسس حضرت آدم ہیں ۔
۲) ظاہر نصوص سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسجد حرام کی دوسری تعمیر حضرت ابراہیم کے ہاتھوں ہوئی جبکہ مسجدا قصیٰ کی دوسری تعمیر کی بنیاد حضرت داؤد نے رکھی اور مکمل حضرت سلیمان کے عہد میں ہوئی۔ اس عرصے کے درمیان میں کسی اور تعمیر کا تذکرہ صحیح نصوص میں نہیں ملتا۔ 
یہ تو مسجد أقصیٰ کے حوالے سے ہماری کچھ ضمناً گفتگو تھی جس کا مقصد عمار صاحب کے مضمون سے پیدا شدہ ایک غلط فہمی کا ازالہ تھا۔ اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ۔

مسجد اقصیٰ کی تولیت مسلمانوں کا حق ہے

مسجد أقصیٰ کی تولیت مسلمانوں کا شرعی حق ہے جس کے درج ذیل دلائل ہیں :
۱) مسجد أقصیٰ کی تعمیر مسلمان انبیا کے ہاتھوں ہوئی۔ سب سے پہلے اسے حضرت آدم نے تعمیر کیا جو کہ مسلمان تھے۔ اس کے بعد حضرت داؤد نے اس کی بنیاد رکھی۔ پھر حضرت سلیمان نے اس کو مکمل کیا ۔اس لیے اس مسجد پر اسی قوم کا حق ہے جو کہ مسلمان ہو۔ جب تک عیسائی اور یہودی مسلمان تھے، اس وقت تک اس عبادت گاہ پر ان کا حق قائم تھا، لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد جو بھی یہودی اور عیسائی آپ پر ایمان نہیں لاتا، وہ کافر ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ان الذین یکفرون باللہ و رسلہ ویریدون أن یفرقوا بین اللہ ورسلہ ویقولون نؤمن ببعض ونکفر ببعض ویریدون أن یتخذوا بین ذلک سبیلا أولئک ھم الکفرون حقا (النساء: ۱۵۰)
’’بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم بعض رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ اس کے درمیان کوئی راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں، یہی لوگ پکے کافر ہیں ۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو بھی یہودی اور عیسائی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لے کر آئے، وہ پکا کافر ہے، اور کافر مسلمانوں کی بنائی ہوئی عبادت گاہ کا کیسے وارث ہو سکتا ہے؟ یہ توایسے ہی ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی مسجد بنائی اور اس کی بعد میں آنے والی نسلوں میں سے کوئی یہودی ہو گیا تو کیا اب اس مسجد کو یہودیوں کی عبادت گاہ بنا کر اس یہودی کے کنٹرول میں دے دیا جائے گا؟ مسجد اقصیٰ پر اس وقت یہودیوں کا حق تھا جب تک وہ مسلمان تھے۔ آج بھی اگر وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آتے ہیں تو ہماراان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے، ہم مسجد اقصیٰ کی تولیت ان کے سپرد کر دیں گے۔ لیکن اگر وہ اپنے نبی حضرت موسیٰ اور اپنے باپ حضرت ابراہیم کے دین سے بھی پھر جائیں تو کس بنیاد پر ان کو مسجد اقصیٰ کا وارث قرار دیا جائے؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ما کان ابراہیم یھودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما وما کان من المشرکین ان أولی الناس بابراہیم للذین اتبعوہ وھذا النبی والذین آمنوا واللہ ولی المؤمنین  (آل عمران:۶۷) 
’’حضرت ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ عیسائی‘ لیکن وہ ایک یکسو مسلمان تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے۔ بے شک حضرت ابراہیم کے ساتھ سب سے زیادہ تعلق ولایت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس (کی قوم میں سے اس)کی پیروی کی اور یہ نبی ہیں اور وہ لوگ جو (اس نبی پر ) ایمان لائے۔ اللہ تعالی اہل ایمان کا والی ہے۔‘‘
حضرت ابراہیم کی طرح ‘حضرت موسیٰ اور حضرت سلیمان اور بنی اسرائیل کے تمام انبیا کے اصل ورثا اور جانشین مسلمان ہیں نہ کہ یہود و نصاریٰ۔ اگر حضرت سلیمان نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کی بھی تھی تو اس سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ اب یہ مسجد کافروں کی عبادت گاہ بن گئی ہے؟ حضرت سلیمان کے دور میں موجود بنی اسرائیل مسلمان تھے، لہٰذا اس بنیاد پر اس مسجد کے وارث بھی تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض اور کینہ رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ ؐپر ایمان نہ لانے کی وجہ سے آج کل کے یہودیوں کے کافر ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، بلکہ ان کے کفر پر امت کااجماع ہے ،لہٰذا مسجد اقصیٰ جو کہ مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے، اس پرایک کافر قوم کا حق کیسے جتایا جا سکتا ہے ؟
بفرض محال اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ مسجد اقصیٰ پر یہود کا حق ہے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اہل کتاب میں سے جو بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکاری ہو، وہ حضرت موسیٰ اور تورات کا بھی انکاری ہے کیونکہ دونوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آمداور ان کی علامات کی خبر دی ہے۔ لہٰذا ایسا یہودی جو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ ماننے کے ساتھ تورات اور حضرت موسیٰ کی بات بھی ماننے سے انکار کر دے، وہ تو اپنے دین‘ اپنے نبی اور اپنی کتاب کا بھی انکاری ہے اور ایسا یہودی مسجد اقصیٰ کاوارث کیسے ہو سکتا ہے ؟ 
۲) تمام انبیا ‘بشول انبیائے بنی اسرائیل ‘کا قبلہ بیت اللہ تھا۔ اس لیے یہودیوں کا قبلہ بھی ‘ازروئے دین اسلام‘ شروع سے ہی ‘بیت اللہ ہے۔ تمام انبیا بیت اللہ کی طرف ہی رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے اور اسی کا حج کرتے تھے۔ یہودیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ’ ’ہیکل سلیمانی‘‘ان کا قبلہ ہے ۔یہ ایک ایسا دعویٰ ہے کہ جس کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ایک ہی وقت میں دو متوازی قبلوں کاوجود خود مقصد قبلہ کے خلاف ہے۔ حضرت ابراہیم نے جب بیت اللہ کی تعمیر مکمل کر لی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حج کی آواز لگائی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وأذن فی الناس بالحج یأتوک رجالا وعلی کل ضامر یأتین من کل فج عمیق (الحج:۲۷)
’’اور (اے ابراہیم) لوگوں میں حج کا اعلان عام کر۔ وہ تیرے پاس آئیں گے پیدل اوردبلے اونٹوں پراور ہر دور کے راستے سے آئیں گے۔ ‘‘
اگر یہ مان لیا جائے کہ بیت اللہ کے بالمقابل فلسطین میں حضرت سلیمان نے ایک علیحدہ قبلہ بنایا تو درج ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں :
۱) کیا قرآن کی آیت میں موجود الفاط ’الناس‘ میں بنو اسرائیل داخل نہیں ہیں؟
۲) اگر بنو اسرائیل کے آبا و اجداد حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب کا قبلہ بیت اللہ ہی تھا تو ان کی بعد میں آنے والی نسلوں کا قبلہ تبدیل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اس کی کیا دلیل ہے کہ باپ (یعقوب) کا قبلہ بیت اللہ تھا اور بیٹوں (بنو اسرائیل) کا قبلہ بیت المقدس تھا؟ کیا بنو اسرائیل اپنے باپ حضرت یعقوب کے دین پر نہ تھے؟
۳) کیا تمام انبیا کا دین‘ دین اسلام نہیں ہے؟ کیا حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں کو یہ وصیت نہیں کی تھی ’ووصی بھا ابراہیم بنیہ ویعقوب یبنی ان اللہ اصطفی لکم الدین فلا تموتن الا وانتم مسلمون‘؟ اگر تمام انبیا کا دین ایک ہی ہے جیساکہ قرآن و حدیث سے واضح ہوتا ہے تو پھر یہ کہنے کی کیا گنجایش رہ جاتی ہے کہ حضرت سلیمان سے پہلے انبیا کی نماز اورحج کے لیے قبلہ کی حیثیت بیت اللہ کو تھی، جبکہ حضرت سلیمان کے بعد نماز اور حج کے لیے بیت المقدس کو بنیادی حیثیت حاصل تھی ؟
۴) تقریباً تمام مناسک حج مقامات کے ساتھ خاص ہیں، مثلاً طوا ف ‘صفا اور مرو ہ کی سعی ‘مقام ابراہیم پر نفل پڑھنا‘ منیٰ کا قیام ‘میدان عرفات اور مزدلفہ کا قیام وغیرہ۔ بیت المقدس کو اگر بنی اسرائیل کا قبلہ مان لیا جائے تو بیت المقدس کے حج کرنے کا کیا مطلب ہے۔ دوسرے الفاظ میں بنو اسرائیل کا حج کیا تھا ؟
۵) بنو اسماعیل کا حج تو زمانہ جاہلیت میں بھی کسی نہ کسی بگڑی ہوئی شکل میں موجود تھا، لیکن کیا یہودی بھی آپ کے زمانے میں بیت المقدس کاحج کرتے تھے یا آج کرتے ہیں؟ اگر نہیں ‘تو کیوں ؟
۶) اگربیت المقدس ہی قبلہ تھا تو یہود ونصاریٰ میں پھر قبلے کی تعیین میں اختلاف کیوں ہوا؟ یہود حق پرتھے یا نصاریٰ؟ اصل قبلہ قبۃ الصخرہ ہے یا بیت المقدس کا مشرقی حصہ ؟
۷) اگر عمار صاحب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہود کا قبلہ صحیح ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود یہود میں بھی تو اس قبلے کی تعیین میں اختلاف ہے کہ یہ صخرہ ہی ہے یاصخرہ کے قریب کوئی جگہ ہے۔ یہ کیسا قبلہ ہے کہ جس کے صحیح مقام کا آج تک تعین ہی نہ ہو سکا؟
۸) عمار صاحب کتاب مقدس کی کوئی ایک بھی واضح اور صریح نص پیش کر سکتے ہیں کہ جس میں یہ بیان ہوا ہو کہ اللہ تعالی نے بیت المقدس کو یہود کا قبلہ مقرر کیا تھا ؟
۹) اگر عمار صاحب یہ دلیل بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ’وما أنت بتابع قبلتھم‘ میں اس بات کا اثبات کیا ہے کہ وہ یہود کا قبلہ ہے تو ہم یہ کہتے ہیں پھر ’ما ولھم عن قبلتھم التی کانوا علیھا‘ میں کس کے لیے قبلے کا اثبات ہے ؟
۱۰) اللہ تعالیٰ نے صرف یہود کے قبلے کا اثبات نہیں کیا بلکہ نصاریٰ کے قبلے کا بھی اثبات کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’وما بعضھم بتابع قبلۃ بعض‘، تو کیا کل تین قبلے ہیں ؟
۱۱) حقیقت یہ ہے کہ قبلہ ایک ہی ہے جو کہ بیت اللہ ہے ‘باقی رہا قرآن کامسجد اقصیٰ یا اس کے مشرقی حصہ کو قبلہ کہناتو یہ اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے اعتبار سے کہا ہے نہ کہ خود اپنی طرف سے ان کے لیے کسی علیحدہ قبلے کو مقررکرنے کا اثبات کیا ہے، جیسا کہ ’لکم دینکم ولی دین‘ میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے لیے علیحدہ دین کا اثبات تو کیا ہے لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دین کو‘ ان کے لیے مقرر کیا ہے اور پسندبھی کیا ہے؟ 
واقعہ یہ ہے کہ عمارصاحب ہیکل سلیمانی کو یہود کا قبلہ قرار دینے پر مصر ہیں اور اس کے لیے انھوں نے دلیل حضرت سلیمان علیہ السلام کی اس دعا کو بنایا ہے جو کہ بیت المقدس کے فیوض وبرکات کے حوالے سے کتاب مقدس میں بیان ہوئی ہیں۔ بیت المقدس کی برکات و فضائل سے کس کو انکار ہو سکتا ہے، لیکن کیا کسی مقام کی برکات و فضائل کا بیان اس کے قبلہ ہونے کی ایک کافی دلیل ہے؟ یہ کیسا قبلہ ہے کہ جس کے قبلہ ہونے کے بارے میں کوئی ایک بھی واضح نص قرآن وسنت تو کیا، کتاب مقدس میں بھی موجود نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیت المقدس کی حیثیت نہ تو حرم کی ہے اور نہ ہی یہ یہودیوں کا قبلہ رہا ہے۔ بیت المقدس کواپنا قبلہ قرار دینا یہودیوں کی اختراع ہے۔ ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں کی آزمایش کے لیے ان کو وقتی طور پر بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا جس کا تذکرہ بہت ساری روایات میں ملتا ہے۔ اس حکم خداوندی کی رو سے بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ قرار پایا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا جو حکم آپ ؐ پر نازل ہوا تھا، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ پہلی مسلمان امتوں کا قبلہ بیت المقدس تھا بلکہ اس کی اصل وجہ مسلمانوں کی آزمایش تھی، جیسا کہ قرآن نے بیان کیا ہے:
وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیھا الا لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ (البقرۃ ۱۴۳)
اس کے بعداللہ تعالیٰ نے اس عارضی قبلے کو منسوخ قرار دے کر اصل قبلہ یعنی بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کاحکم جاری فرمایا۔
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وما أنت بتابع قبلتھم (البقرۃ:۱۴۵)
’’اور اے نبی! آپ ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے نہیں ہیں ۔‘‘
قرآن مجید کی یہ نص اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ کے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کی وجہ یہودیوں کی اتباع نہیں تھی بلکہ آپ کو اللہ کی طرف سے یہ ایک حکم تھا۔ امام ابن کثیراس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
وانہ لا یتبع أھواءھم فی جمیع أحوالہ ولا کونہ متوجھا الی بیت المقدس لکونھا قبلۃ الیھود وانما ذلک عن أمر اللہ۔
’’آپ کسی بھی معاملے میں یہودیوں کی اتباع نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح آپ کا بیت المقدس کی طرف رخ کرنا اس وجہ سے نہیں تھا کہ یہ یہود کا قبلہ ہے، بلکہ اس وجہ سے تھا کہ یہ اللہ کی طرف سے آپ کو حکم تھا۔ ‘‘
یہودیوں نے حضرت موسیٰ کی وفات کے بعدقبۃ الصخرہ کی طرف رخ کر نماز پڑھنے کا آغاز کیا جبکہ عیسائیوں میں قسطنطین دی گریٹ (۲۷۲ ؁ء تا۳۳۷ ؁ء) و ہ پہلا عیسائی بادشاہ گزرا ہے جس نے بیت المقدس کی مشرقی جانب نماز پڑھنے کی بدعت کا آغاز کیا۔
امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
’’ان کاکہنا ہے کہ مشرق کی طرف نماز پڑھنے کی بدعت کا آغاز قسطنطین دی گریٹ نے کیا جبکہ نصاریٰ کے انبیا اور ان کے متبعین میں سے کسی ایک نے بھی مشرق کی طرف رخ کر کے نماز نہیں پڑھی اور اللہ تعالیٰ نے کعبہ کے علاوہ کسی مقام کو بھی شریعت اسلامیہ میں نماز کے لیے جہت نہیں بنایا۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان سے ماقبل کے تمام انبیا کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے اور خود حضرت موسیٰ بھی بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز نہیں پڑھتے تھے بلکہ ان کاکہنا یہ ہے کہ حضرت موسیٰ خیمہ عہد کو عرب کی طرف رخ کر کے نصب کرتے تھے اور صحرا میں اس خیمہ کی طرف رخ کر نماز پڑھتے تھے۔ جب حضرت یوشع بن نون نے بیت المقدس کو فتح کر لیا تو خیمہ کو صخرہ پر نصب کیا۔ پس بنی اسرائیل خیمہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے لگے۔ جب بیت المقدس ویران ہوا اور خیمہ بھی چھن گیا تو یہود صخرہ کی طرف رخ کر نماز پڑھنے لگے کیونکہ یہ خیمہ کی جگہ تھی اور سامرۃ (یہودسے علیحدہ ہونے والا ایک فرقہ ) وہاں پر موجود ایک پہاڑ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے کیونکہ تابوت سکینہ اس پر موجود تھا۔‘‘ (۱۹)
امام ابن قیم لکھتے ہیں :
’’اہل کتاب کا اپنے قبلوں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا یہ وحی سے یا اللہ کی طرف سے نہیں ہے بلکہ انھوں نے اپنا قبلہ آپس کے مشورے اور اجتہاد سے مقرر کیا۔ جہاں تک نصاریٰ کامعاملہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انجیل یا اس کے علاوہ کسی کتاب میں ان کوکہیں بھی مشرق کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم کبھی نہیں دیااور وہ اس بات کا خود بھی قرار کرتے ہیں اور اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ حضرت مسیح کا قبلہ وہی ہے جو کہ بنو اسرائیل کا قبلہ ہے اور وہ صخرہ ہے اور ان کے شیوخ اور بڑوں نے مشرق کو قبلہ مقرر کیا اور وہ اپنے ان کبار شیوخ کی طرف سے یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ حضرت مسیح نے ان کو تحلیل و تحریم اور تشریع احکام کا اختیار تفویض کیا تھا اور جس چیز کو انھوں نے حلال یا حرام قرار دیا،ا س کو حضرت مسیح نے بھی آسمانوں پر سے حلال یا حرام قرار دے دیا۔ وہ یہود سے اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی رسول کی زبانی مشرق کو قبلہ نہیں بنایا اور مسلمان بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مشرق کو قبلہ نہیں بنایا۔ جہاں تک یہود کے قبلے کا تعلق ہے تو یہ بات تو واضح ہے کہ تورات میں کہیں بھی صخرہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم نہیں بیان ہوا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ وہ جہاں سے بھی نکلتے، تابوت کو نصب کرتے اور اس کی طرف رخ کر نماز پڑھتے تھے۔ جب وہ بیت المقدس میں آئے تو انھوں نے اس تابوت کو صخرہ پر نصب کیا اور اس کی طرف رخ کر نماز پڑھی۔ پس جب تابوت کو اٹھا لیا گیا تو وہ صخرہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے لگے کیونکہ یہ تابوت کی جگہ تھی۔ جہاں تک سامرہ (یہودیوں سے علیحدہ ہونے والا ایک گروہ) کا تعلق ہے تو وہ ارض شام میں موجود ایک پہاڑ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ وہ اس کی تعظیم کرتے تھے اور اس کا قصد بھی کرتے تھے اور میں نے اس پہاڑ کو دیکھا ہے، وہ شہر ’نابلس ‘ میں ہے اور میں(یعنی ابن قیم) نے جب اس فرقے کے علما سے بحث کی اور ان سے کہا کہ کہ تمہارا قبلہ باطل اور بدعت ہے تو انھوں نے کہاکہ ان کے دین میں اس قبلہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہی صحیح قبلہ ہے اور یہودیوں نے قبلہ کے تعین میں خطا کھائی ہے، اللہ تعالیٰ نے تورات میں اسی پہاڑ کے استقبال کا حکم دیا ہے۔ پھر ان میں سے ایک نے اس پہاڑ کے استقبال کے بارے میں ایک نص پیش کی جس کے بارے میں اس کا گمان یہ تھا کہ یہ تورات کی آیت ہے تو میں نے کہا، یہ کہنا تورات کے بارے میں قطعی خطا ہے، کیونکہ تورات بنو اسرائیل پر نازل ہوئی اور وہ اس کے اول مخاطبین ہیں اور تم ان کی ایک فرع ہواور تم نے تورات ان سے حاصل کی ہے اور یہ نص جو کہ تم پیش کر رہے ہو، اس تورات میں نہیں ہے جو کہ بنوا سرائیل کے پاس ہے ا ور میں نے اس تورات کو دیکھا ہے اور اس میں یہ نص موجود نہیں ہے تو وہ (سامری عالم)مجھ سے کہنے لگا، تم ٹھیک کہہ رہے ہو، یہ نص ہماری خاص تورات میں ہے۔‘‘ (۲۰) 
۳) امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم کی اس رائے کی تائید قرآنی نصوص ‘احادیث مبارکہ اور بعض تابعین وتبع تابعین کی آرا سے بھی ہوتی ہے۔
الف) اس رائے کی تائید میں چند ایک قرآنی دلائل درج ذیل ہیں :
بنی اسرائیل کی غلامی کے زمانے میں ‘جبکہ وہ ابھی تک قوم فرعون کے ظلم سے آزاد نہیں ہوئے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ حکم دیا تھا :
واجعلوا بیوتکم قبلۃ وأقیموا الصلوۃ (یونس:۸۷)
’’اور اپنے گھروں کو قبلہ رخ بناؤ اور نماز قائم کرو۔‘‘
یہاں بنی اسرائیل کو کس قبلے کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے؟ کیا بیت المقدس کی طرف کہ جس کی بنیاد بقول عمار صاحب سینکڑوں سال بعد حضرت سلیمان کے دور میں رکھی جانی تھی؟ یہ آیت مبارکہ اس مسئلے میں نص قطعی کا درجہ رکھتی ہے کہ بنی اسرائیل کو بھی اپنی نمازوں میں جس قبلہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا تھا، وہ بیت اللہ ہی ہے‘ کیونکہ اس آیت میں قبلہ کا لفظ مطلقاً استعمال کیا گیا ہے یعنی مراد وہ قبلہ ہے جو کہ اس وقت اور اس سے ماقبل کی اقوام میں بطور قبلہ معروف تھا اور وہ سب کے نزدیک بیت اللہ ہی ہے۔ امام طبری اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں صحابہ و تابعین کے اقوال نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
عن مجاھد قال قال ابن عباس فی قولہ تعالی واجعلوا بیوتکم قبلۃ یقول وجھوا بیوتکم مساجدکم نحو القبلۃ ألا تری أنہ یقول فی بیوت أذن اللہ أن ترفع۔
’’حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ابن عباسؓ نے ’واجعلوا بیوتکم قبلۃ‘ کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اپنے گھروں یعنی مساجد کو قبلہ رخ بناؤ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’فی بیوت أذن اللہ أن ترفع‘‘‘ (اس آیت مبارکہ میں مساجدکے لیے ’بیوت‘ کا لفظ استعمال ہواہے )
عن سعید ابن جبیر عن ابن عباس واجعلوا بیوتکم قبلۃ یعنی الکعبۃ۔
’’حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، وہ حضرت عبد اللہ بن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے ’واجعلوا بیوتکم قبلۃ ‘ کی تفسیر میں فرمایا کہ قبلہ سے مراد ’’کعبۃ‘‘ ہے ۔‘‘
عن مجاہد بیوتکم قبلۃ قال نحو الکعبۃ حین خاف موسی ومن معہ من فرعون أن یصلوا فی الکنائس الجامعۃ فأمروا أن یجعلوا فی بیوتھم مستقبلۃ الکعبۃ یصلون فیھا سرا
’’حضرت مجاہد سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ’واجعلوا بیوتکم‘ سے مراد ہے کہ اپنے گھروں کو کعبہ کے رخ بناؤ۔ جب موسیٰ اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں نے اپنی عبادت گاہوں میں اکٹھے ہو کر نماز پڑھنے میں فرعون سے خوف محسوس کیا تو انھیں یہ حکم دیا گیا کہ وہ اپنے گھروں کو کعبہ کے رخ بنا لیں اور ان میں چھپ کے نمازپڑھیں۔‘‘
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ولئن أتیت الذین أوتوا الکتب بکل آیۃ ما تبعوا قبلتک وما أنت بتابع قبلتھم وما بعضھم بتابع قبلۃ بعض ولئن اتبعت أھواءھم من بعد ما جاء ک من العلم انک اذا لمن الظالمین (البقرۃ ۱۴۵)
’’اور اگر آپ ان اہل کتاب کے پاس ہر قسم کی نشانی ہی کیو ں نہ لے آئیں، وہ آپ کے قبلے کی پیروی ہر گز نہ کریں گے اور نہ آپ ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے ہیں اور ان میں بعض ‘ان کے بعض کے قبلے کی پیروی کرنے والا نہیں ہے اور اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی اس کے بعد کہ آپ کے پاس علم آ گیا تو تب آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے ۔‘‘
اس آیت مبارکہ کے انداز خطاب سے معلوم ہو رہا ہے کہ اہل کتاب سے بھی اللہ تعالیٰ کا یہ مطالبہ ہے کہ وہ بیت اللہ کو اپنا قبلہ بنائیں جوکہ تمام انبیا کا قبلہ رہا ہے، لیکن اہل کتاب کی ضد اور اسلا م دشمنی کے بارے میں خبر دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ ان اہل کتاب کے پاس ہر قسم کی نشانی لے آئیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ بیت اللہ ہی اصل قبلہ ہے‘ اہل کتاب کا بھی اور مسلمانوں کا بھی‘ تو پھر بھی یہ آپ کے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔
وما أنت بتابع قبلتھم‘ میں ’قبلتھم‘ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو ان کا قبلہ بنایا ہے۔ اس کی دلیل آیت کایہ اگلا ٹکڑاہے: ’وما بعضھم بتابع قبلۃ بعض‘  کیونکہ اس بات پر تو اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین قبلے نہیں بنائے، جبکہ آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے تین قبلوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ایک مسلمانوں کا قبلہ جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے قبلہ مقرر کیا ہے جیسا کہ اسی آیت مبارکہ کے سیاق و سباق سے واضح ہوتا ہے۔ دوسرا عیسائیوں کا اور تیسرا یہودیوں کا قبلہ ہے جنھوں نے اپنی خواہش اور آزادمرضی سے بیت المقدس کی مشرقی جانب اور قبۃ الصخرہ کو قبلہ بنا لیا تھا۔ امام ابن جریر طبری اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
وما لک یا محمد سبیل اتباع قبلتھم وذلک أن الیھود تستقبل بیت المقدس لصلاتھا وأن النصاری تستقبل المشرق فأنی یکون لک السبیل الی اتباع قبلتھم مع اختلاف وجوھھا
’’اے محمد! آپ کے لیے ان کے قبلے کی پیروی کرنا جائز نہیں ہے اور یہ اس وجہ سے کہ یہوداپنی نماز میں بیت المقدس کی طرف جبکہ نصاریٰ اس کے مشرقی حصے کی طرف رخ کرتے ہیں ۔اے نبی! آپ کیسے ان کے قبلے کی پیروی کریں گے، جبکہ خود ان میں آپس میں قبلے کے تعین میں اختلاف ہے۔ ‘‘
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
الذین آتیناھم الکتب یعرفونہ کما یعرفون أبناءھم (البقرۃ :۱۴۶)
’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی (یعنی اہل کتاب) وہ اس (یعنی بیت اللہ کے قبلہ ہونے ) کو اس طرح پہچانتے ہیں جیسا کہ وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ۔‘‘
امام ابن جریر طبری اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
یعرف ھؤلاء الأحبار من الیھود والعلماء من النصاری أن البیت الحرام قبلتھم و قبلۃ ابراہیم وقبلۃ الأنبیاء قبلک کما یعرفون أبناءھم
’’ یہود و نصاریٰ کے علما یہ جانتے ہیں کہ مسجد حرام ان کا قبلہ ہے اور یہی حضرت ابراہیم اور آپ سے پہلے تمام انبیا کا قبلہ تھا، جیسا کہ وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں بعض مفسرین نے ’یعرفونہ‘ کی ’ہ‘ ضمیر کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹایاہے لیکن ’ہ‘ ضمیر کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانا قرآن کے سیاق وسباق کے خلاف ہے ۔
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وان فریقا منھم لیکتمون الحق وھم یعلمون (البقرۃ:۱۴۶)
’’اور ان میں سے ایک گروہ حق بات (یعنی بیت اللہ ہی کے اصل قبلہ ہونے) کو جانتے بوجھتے چھپا رہا ہے۔‘‘
امام ابن جریر طبری ’وان فریقا منھم لیکتمون الحق وھم یعلمون‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
وذلک الحق ھو القبلۃ التی وجہ اللہ عزوجل الیھا نبیہ محمدا ﷺ یقول فول وجھک شطر المسجد الحرام التی کانت الأنبیاء من قبل محمد یتوجھون الیھا فکتمھا الیھود والنصاری فتوجہ بعضھم شرقا وبعضھم نحو بیت المقدس ورفضوا ما أمرہم اللہ بہ
’الحق‘سے مراد قبلہ ہے جس کی طرف رخ کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ مسجد حرام کی طرف اپنا رخ پھیر لیں جس کی طرف آپ سے پہلے تمام انبیا رخ کرتے تھے۔ پس یہود و نصاریٰ نے اصل قبلے(یعنی بیت اللہ ) کو چھپا لیا اور کسی نے مشرق کی طرف رخ کیا اور کسی نے بیت المقدس کو اپنا قبلہ بنایااور انھوں نے اس کا انکار کیاجس کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا۔‘‘
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
الحق من ربک فلاتکونن من الممترین (البقرۃ:۱۴۷)
’’یہ (یعنی بیت اللہ کا قبلہ ہونا) حق ہے آپ کے رب کی طرف سے‘ پس آپ (بیت اللہ کے ہی قبلہ ہونے میں) شک کرنے والوں میں سے نہ ہو جائیں۔‘‘
امام ابن جریر طبری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
أی فلا تکونن من الشاکین فی أن القبلۃ التی وجھتک نحوھا قبلۃ ابراھیم خلیلی علیہ السلام وقبلۃ الأنبیاء غیرہ 
’’اے نبی! آپ اس بارے میں بالکل بھی شک میں مبتلا نہ ہوں کہ جس قبلہ کی طرف ہم نے آپ کا رخ کیا ہے، وہی حضرت ابراہیم اور ان کے علاوہ تمام انبیا کاقبلہ ہے ۔‘‘
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ولکل وجھۃ ھو مولیھا فاستبقوا الخیرات (البقرۃ:۱۴۸)
’’اور ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے وہ اس کی طرف اپنے آپ کو پھیرنے والا ہے پس تم (اے مسلمانو)نیکیوں میں سبقت لے جاؤ۔‘‘
امام طبری اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
أی قد بینت لکم أیھا المؤمنون الحق وھدیتکم القبلۃ التی ضلت عنھا الیھود و النصاری وسائر الملل غیرکم فبادروا بالأعمال الصالحۃ شکرا لربکم
’’اے اہل ایمان! میں نے تمہارے لیے حق بات کو واضح کر دیا تھا اور اس قبلے کی طرف تمہاری رہنمائی کی ہے جس سے یہود و نصاریٰ اور تمہارے علاوہ تمام مذاہب بھٹک گئے تھے، پس تم اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے نیکی کے کاموں میں جلدی کرو۔ ‘‘
ب) بعض ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ بیت المقدس یہود کا قبلہ نہیں ہے بلکہ ان کا قبلہ بھی بیت اللہ ہی تھا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں :
کنا عند ابن عباس فذکروا الدجال أنہ قال مکتوب بین عینیہ کافر فقال ابن عباس لم أسمعہ ولکنہ قال أما موسی کأنی أنظر الیہ اذا انحدر فی الوادی یلبی (۲۱)
’’ہم ابن عباس کے پاس تھے کہ لوگوں نے دجال کا تذکرہ کیا کہ آپ نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوگا تو ابن عباس نے کہا، میں نے یہ بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی، بلکہ میں نے آپ سے سنا، آپ کہہ رہے تھے کہ جہاں تک حضرت موسیٰ کا معاملہ ہے تو گویا کہ میں ان کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ وادی میں تلبیہ کہتے ہوئے اتر رہے ہیں ۔‘‘
یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انبیاے بنی اسرائیل بھی حج کرنے کے لیے بیت اللہ کا ہی قصد کرتے تھے۔ علامہ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
و فی الحدیث أن التلبیۃ فی بطون الأودیۃ من سنن المرسلین 
’’اور اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ وادیوں کے درمیان میں تلبیہ کہنا رسولوں کی سنت ہے ۔‘‘
ایک دوسری روایت میں حضرت یونس بن متی کا بھی تذکر ہ ہے۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے :
عن ابن عباس أن رسول اللہ مر بوادی الأزرق فقال أی واد ھذا قالوا ھذا وادی الأزرق فقال کأنی أنظر الی موسی وھو ھابط من الثنیۃ ولہ جؤار الی اللہ عزوجل بالتلبیۃ حتی أتی علی ثنیۃ ھرشاء فقال أی ثنیۃ ھذا قالوا ثنیۃ ھرشاء قال کأنی أنظر الی یونس بن متی علی ناقۃ حمراء جعدۃ علیہ جبۃ من صوف خطام ناقتہ خلبۃ قال ھشیم یعنی لیف وھو یلبی (۲۲)
’’حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر وادی أزرق سے ہوا تو آپ نے سوال کیا کہ یہ کون سی وادی ہے؟ صحابہ نے کہا، یہ وادی أزرق ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا گویا کہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو گھاٹی سے اترتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور وہ بلند آواز سے تلبیہ کہ رہے ہیں۔ پھرآ پ ہرشاء کی گھاٹی پر آئے اور آپ نے پوچھا، یہ کون سی گھاٹی ہے؟ صحابہ نے کہا، یہ ہرشاء کی گھاٹی ہے تو آپ نے فرمایا، گویا کہ میں یونس بن متیٰ کودیکھ رہا ہوں کہ وہ ایک سرخ موٹی تازی مضبوط گوشت والی اونٹنی پر سوار ہیں اور انھوں نے اون کا ایک جبہ پہن رکھا ہے‘ ان کی اونٹنی کی لگام کجھور کے درخت کی چھال کی ہے اور وہ تلبیہ کہہ رہے ہیں ۔‘‘
اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ تمام انبیا بیت اللہ کاحج کرتے تھے ۔ عمار صاحب بنو اسرائیل کے کسی ایک نبی کے بارے میں یہ ثابت کردیں کہ اس نے بیت المقدس کا حج کیا ہو۔
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسیٰ، جن پر تورات نازل ہوئی‘ ان کا قبلہ بیت اللہ تھا۔ اگرعمار صاحب یہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان کے دور میں بنو اسرائیل کا قبلہ تبدیل ہو گیا تھا توا س کی کیا دلیل ہے کہ پہلے ان کا قبلہ بھی وہی تھا جو کہ تمام انبیا کا تھا، پھر حضرت سلیمان کے دور میں ان کا قبلہ بیت المقدس قرار پایا؟ أمر واقعہ یہ ہے کہ یہود نے اپنے اصل قبلہ ‘جو کہ حضرت موسیٰ کے زمانہ سے چلا آ رہا تھا‘ سے انحراف کرتے ہوئے اپنے مشورے اور اجتہاد سے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کر لیا تھا جیسا کہ امام طبری ‘امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے ۔
اسی طرح بعض صحیح احادیث میں بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی فضیلت ایک عام مسجد میں نماز پڑھنے سے زیادہ بیان کی گئی ہے۔ اگربیت المقدس یہودیوں کا قبلہ اور عبادت گاہ ہے تو وہاں نماز پڑھنے کی کیا تک بنتی ہے؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری طرز عمل یہ تھاکہ آپ چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی یہودیوں کی مخالفت کرتے تھے، چہ جائیکہ آپ مسلمانوں کو ان کے قبلے اور عبادت گاہ میں جا کر نمازپڑھنے کی ترغیب دلائیں۔
ج) بعض تابعین اورتبع تابعین کی آرا سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرون ثلاثہ میں یہ رائے بہت عام تھی کہ تمام انبیا کا قبلہ بیت اللہ ہی رہا ہے اور بیت المقدس کو قبلہ قرار دینا یہودیوں کی ایک اختراع تھی اور یہودیوں کی اسی اختراع کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے آزمایش بناتے ہوئے بیت المقدس کو کچھ عرصہ کے لیے ان کاعارضی قبلہ قرار دیا ۔ان میں سے چند ایک اقوال یہ ہیں :
عن السدی: ’’ یعرفونہ کما یعرفون أبناءھم‘‘ یعرفون الکعبۃ أنھا ھی قبلۃ الأنبیاء کما یعرفون أبناءھم وروی عن قتادۃ والربیع بن أنس والضحاک نحو ذلک 
’’حضرت سدی سے روایت ہے کہ ’یعرفون کما یعرفون ابناءھم‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ یہ بات کہ کعبہ ہی تمام انبیا کا قبلہ ہے‘ اس طرح جانتے ہیں جس طرح کہ وہ اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں۔ قتادہ‘ ضحاک اورربیع بن أنس سے بھی اسی قسم کا مفہوم مروی ہے ۔‘‘
عن الربیع قولہ تعالی ’الذین آتیناھم الکتب یعرفونہ کما یعرفون أبناءھم‘ عرفوا قبلۃ البیت الحرام ھی قبلتھم التی أمروا بھا کما عرفوا أبناءھم
’’حضرت ربیع سے روایت ہے کہ آیت مبارکہ ’الذین آتیناھم الکتب یعرفونہ کما یعرفون أبناءھم‘سے مراد ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ مسجد حرام ہی وہ قبلہ ہے جس کے استقبال کا ان کو حکم دیا گیا ہے جیسا کہ وہ اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں ۔‘‘
عن الربیع ’الحق من ربک فلا تکونن من الممترین‘ یقول فلا تکونن فی شک من ذلک فانھا قبلتک وقبلۃ الأنبیاء قبلک 
’’حضرت ربیع سے مروی ہے، وہ ’الحق من ربک فلا تکونن من الممترین‘ کے بارے میں کہتے ہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ اے محمد! آپ اس بارے میں کسی قسم کے شک وشبہ میں مبتلا نہ ہوں کہ کعبہ ہی آپ کا بھی اور آپ سے پہلے انبیا کا بھی قبلہ تھا۔‘‘
عن أبی العالیۃ قال: قال اللہ لنبیہ ’الحق من ربک فلا تکونن من الممترین‘ فیقول لا تکونن فی شک یا محمد ان الکعبۃ ھی قبلتک وکانت قبلۃ الأنبیاء قبلک 
’’حضرت أبو العالیہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہا ہے ’ الحق من ربک فلا تکونن من الممترین‘، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد! آپ اس بارے میں کسی قسم کے شک میں مبتلا نہ ہوں کہ کعبہ ہی آپ کا بھی قبلہ ہے اور آپ سے پہلے تمام انبیا کا بھی قبلہ تھا۔‘‘
عن أبی العالیۃ ’ولکل وجھۃ ھو مولیھا‘ قال للیھود وجھۃ ھو مولیھا وللنصرانی وجھۃ ھو مولیھا وھداکم اللہ أنتم ایتھا الأمۃ القبلۃ التی ھی القبلۃ وروی عن مجاھد أحد قولیہ والضحاک وعطاء والسدی والربیع نحوذلک 
’’حضرت ابو العالیہ ’ولکل وجھۃ ھو مولیھا‘ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہود کے لیے ایک جہت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتے ہیں، اسی طرح عیسائیوں کے لیے ایک جہت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتے ہیں، اور اے امت مسلمہ! اللہ تعالیٰ نے تمہاری اس قبلے کی طرف رہنمائی کی ہے جو کہ اصل قبلہ ہے ۔اس آیت کی تفسیر میں امام مجاہد کے دو قوال میں سے ایک قول یہی ہے۔ اس کے علاوہ ضحاک ‘عطا‘ سدی اورربیع سے بھی اس قسم کا قول نقل کیا گیا ہے۔ ‘‘
د) دلیل استصحاب سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہود کااصل قبلہ بیت اللہ ہی ہے ۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی استصحاب کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وعند الأصولیین ھو الحکم بثبوت أمر أو نفیہ فی الزمان الحاضر أو المستقبل‘ بناء علی ثبوتہ أو عدمہ فی الزمان الماضی‘ لعدم قیام الدلیل علی تغییرہ (۲۳)
’’أصولیین کے نزدیک‘ زمانہ حال یا مستقبل میں ‘کسی حکم کے ثبوت یا عدم ثبوت کی بنیاد ‘ماضی میں اس حکم کے ثبوت یاعدم ثبوت پر رکھنا‘ جبکہ اس حکم کے تبدیل ہونے کی کوئی دلیل نہ ہو‘ استصحاب کہلاتا ہے ۔‘‘
قرآنی نصوص ‘احادیث صحیحہ اور اجماع امت سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد بنو اسرائیل اور بنو اسماعیل کا قبلہ بیت اللہ تھا۔ اب اگر کوئی شخص اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ حضرت سلیمان کے زمانے میں بیت اللہ کو منسوخ کر کے ‘بیت المقدس کو بنو اسرائیل کا قبلہ مقرر کیا گیاتو اس پر واجب ہے کہ وہ اس بات کی دلیل پیش کرے کہ بیت اللہ کو بنو اسرائیل کے لیے بطور قبلہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔ کیا اسرائیلیات(کتاب مقدس) میں اس نسخ کی کوئی دلیل ہے؟
خلاصہ کلام یہ ہے کہ بیت المقدس مسلمانوں کا تو عارضی طور پر قبلہ مقرر کیا گیا، لیکن یہ یہود کا قبلہ کبھی بھی نہیں رہا۔ قرآن و حدیث تو کیا، اسرائیلیات (کتاب مقدس) میں بھی کوئی ایک بھی ایسی نص نہیں ہے کہ جس سے یہ واضح ہو تا ہوکہ اللہ تعالیٰ نے یہود کے لیے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا تھا،بلکہ قرآنی آیات ‘بہت ساری روایت ‘تاریخی حقائق اور أئمہ سلف کی آرا اس مؤقف کی تائید کرتی نظر آتی ہیں کہ یہود کا قبلہ بیت اللہ ہی تھا۔ جب یہ ثابت ہوا کہ بیت المقدس نہ تو یہود کی عبادت گاہ ہے اور نہ ہی یہ ان کا قبلہ ہے تو یہ دعویٰ بھی باطل ہے کہ بیت المقدس پر یہودیوں کا حق ہے، بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ بیت المقدس ’وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیھا‘ کے مطابق مسلمانوں کی عبادت گاہ اور سابقہ قبلہ ہے، اس لیے وہی اس کی تولیت کا بھی شرعی حق رکھتے ہیں۔
دوسروں کے مؤقف میں شکوک و شبہات پیدا کرنا اور اپنے مؤقف کے اثبات کے لیے ایک دلیل بھی پیش نہ کر سکنا‘ اگر اہل فن کے ہاں تحقیق اسی کو کہتے ہیں تو واقعتا عمار صاحب کا مضمون ایک تحقیقی مقالہ ہے ‘کیونکہ عمار صاحب نے اپنے پورے مضمون میںیہی کام کیا ہے۔ میں نے عمار صاحب کے مضمون کا کئی دفعہ بغور مطالعہ کیا لیکن اس طویل مضمون میں مجھے سوائے حضرت سلیمان کی دعا کے کوئی اور عبارت ایسی نظر نہیں آئی کہ جسے عمار صاحب نے بیت المقدس کو یہود کا قبلہ ثابت کرنے کے لیے پیش کیا ہو۔ عمار صاحب سے گزارش ہے کہ انھوں نے علما کے مؤقف کا رد تو بہت اچھا کر دیا ہے، اب ذرا اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کے لیے بھی کوئی دلیل پیش کریں۔ دوسروں کے مؤقف کا رد کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کا مؤقف ثابت ہو گیا ہے۔ 

حوالہ جات 

۱) سنن نسائی‘کتاب المساجد‘باب ذکر أی مسجد وضع أولا
۲) صحیح بخاری‘کتاب الجمعۃ‘باب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ و المدینۃ 
۳) فتح الباری مع صحیح بخاری ‘کتاب أحادیث الأنبیاء ‘باب قول اللہ تعالی و اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا
۴) سنن نسائی‘کتاب المساجد‘باب فضل المسجد الأقصی والصلاۃ فیہ
۵) أیضا
۶) سنن أبی داؤد‘کتاب المناسک ‘باب فی المواقیت
۷) سنن أبی داؤد‘کتاب الأیمان والنذور‘باب من نذر أن یصلی فی بیت المقدس
۸) صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ
۹) دلائل النبوۃ ‘امام بیہقی‘جلد ۲‘ص۴۵ ورواہ ابن کثیر فی تفسیرہ و اللفظ لہ 
۱۰) صحیح بخاری مع فتح الباری ‘کتاب أحادیث الأنبیاء ‘باب قول اللہ تعالی و اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا
۱۱) فتح الباری مع صحیح بخاری ‘کتاب أحادیث الأنبیاء ‘باب قول اللہ تعالی و اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا
۱۲) سنن نسائی‘کتاب المساجد‘باب فضل المسجد الأقصی والصلاۃ فیہ
۱۳) ماہنامہ اشراق:جولائی ۲۰۰۳‘ص۳۶
۱۴) زاد المعاد‘امام ابن قیم‘ص۹
۱۵) قصص النبیین‘امام ابن کثیر‘جلد ۱‘ص۱۶۶
۱۶) ماہنامہ اشراق:جولائی ۲۰۰۳‘ص۳۶
۱۷) ماہنامہ اشراق:جولائی ۲۰۰۳‘ص۴۱
۱۸) ماہنامہ الشریعۃ:اکتوبر۲۰۰۶‘ص۲۵
۱۹) الرد علی المنطقیین‘امام ابن تیمیہ ‘ص ۲۸۹و۲۹۰
۲۰) بدائع الفوائد ‘امام ابن قیم ‘جلد ۴‘ص۱۷۱
۲۱) صحیح بخاری ‘ کتاب الحج‘باب التلبیۃ اذا انحدر فی الوادی
۲۲) صحیح مسلم ‘کتاب الایمان ‘باب الاسراء برسول اللہ الی السموات و رواہ الامام احمد فی مسندہ و اللفظ لہ 
۲۳) أصول الفقہ الاسلامی ‘الدکتور وہبہ الزحیلی ‘جلد ۱‘ص۸۵۹

مسجد اقصیٰ کی بحث اور حافظ محمد زبیر کے اعتراضات

محمد عمار خان ناصر

مسجد اقصیٰ کی تولیت کی شرعی حیثیت کے حوالے سے ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۴ء میں ’الشریعہ‘ اور ’اشراق‘ کے صفحات پر جو بحث چلتی رہی ہے، برادرم حافظ محمد زبیر صاحب نے کم وبیش تین سال کے وقفے کے بعد اس کو دوبارہ چھیڑا ہے اور بحث وتنقید کے بعض نئے پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ مسجد اقصیٰ سے بنی اسرائیل کے حق تولیت کی نفی اور امت مسلمہ کے حق تولیت کے اثبات کے حوالے سے مختلف اطراف سے جو شرعی، قانونی یا تاریخی استدلالات سامنے آئے تھے، ہم نے ’الشریعہ‘ کے اپریل/مئی ۲۰۰۴ کے شمارے میں ان کا مفصل تنقیدی جائزہ لیا تھا، تاہم فاضل ناقد کی رائے میں کسی بھی ناقد نے ہماری ’’اصولی غلطی‘‘ کی نشان دہی نہیں کی۔ ان کی رائے میں اس بحث کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آیا مسجد اقصیٰ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کا قبلہ مقرر کیا گیا تھا یا نہیں۔ فاضل ناقد نے اس نکتے کو ہمارے استدلال کا بنیادی ستون قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے مخالف نقطہ نظر کے استدلالات کا ’’رد تو بہت اچھا کر دیا ہے‘‘ لیکن خود اپنے موقف کے حق میں مثبت طور پر ایک بھی دلیل پیش نہیں کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایسے دلائل وشواہد جمع کیے ہیں جن سے ان کے خیال میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کو بنی اسرائیل کا قبلہ مقرر کیے جانے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوا تھا، بلکہ اس کو یہ حیثیت انھوں نے ازخود اپنے اجتہاد سے دے دی تھی۔
ہمیں افسوس ہے کہ فاضل ناقد سرے سے ہمارے موقف اور استدلال ہی کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ہم نے اپنی تحریر میں مسجد اقصیٰ کے بنی اسرائیل کی عبادت گاہ اور قربان گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا قبلہ ہونے کا بھی ذکر کیا ہے اور اسی بات کے درست ہونے پر اطمینان رکھتے ہیں، تاہم واقعہ یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق دار بنی اسرائیل کوقرار دینے میں اس کا ’قبلہ‘ ہونا محض ایک اضافی بات کی حیثیت رکھتا ہے، اس پر ہمارے موقف کی بنیاد یا اس کے حق میں ہمارے استدلال کا انحصار ہرگز نہیں ہے۔ یہ بات اگر فرضاً درست تسلیم کر لی جائے کہ یہ مسجد ان کا ’قبلہ‘ نہیں تھی تو بھی ہمارے موقف یا استدلال میں سرمو کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، اس لیے کہ اس مسجد کو بنی اسرائیل کی عبادت گاہ، قربانی اور دیگر عباداتی رسوم کی ادائیگی کے لیے مقدس مقام اور روحانی مرجع ومرکز مقرر کیے جانے سے، جہاں تک ہم سمجھ سکے ہیں، فاضل ناقد کو بھی اختلاف نہیں، اور اسی پر ہمارے استدلال کی بنیاد ہے۔ فاضل ناقد ہمارے استدلال کا بنیادی مقدمہ اپنے ذہن سے طے کر کے اس کی دلیل ہماری تحریروں میں ڈھونڈھتے رہے اور ان کے بقول اس کے لیے انھیں ان تحریروں کو ’’کئی دفعہ بغور‘‘ پڑھنے اور صرف پڑھنے کی زحمت اٹھانا پڑی۔ اگر وہ تھوڑی سی معروضیت سے کام لینا گوارا کرتے تو انھیں ہمارا مقدمہ استدلال بحث کے آغاز ہی میں بالکل واضح اور غیر مبہم الفاظ میں لکھا ہوا مل جاتا۔ ہم نے لکھا ہے:
’’قرآن وسنت کی رو سے کسی مذہب کے ماننے والوں کو ان کی کسی عبادت گاہ، بالخصوص قبلہ اور مرکز عبادت کے حق تولیت سے محروم کرنا ایک ایسا نازک معاملہ ہے جو شارع کی جانب سے ایک واضح نص کا متقاضی ہے۔ اس کے بغیر اس معاملے میں محض عقلی استدلال کی بنیاد پر کوئی اقدام کیا ہی نہیں جا سکتا۔‘‘ (الشریعہ، ستمبر/ اکتوبر ۲۰۰۳، ص ۴۱)
اس اقتباس میں ’’کسی عبادت گاہ، بالخصوص قبلہ اور مرکز عبادت‘‘ کے الفاظ سے واضح ہے کہ حق تولیت کے حوالے سے ہمارے موقف کی بنیاد کسی مخصوص مقام کے کسی خاص مذہبی گروہ کی ’’عبادت گاہ‘‘ ہونے پر ہے، جبکہ اس کا ’قبلہ‘ ہونا اضافی طور پر اس کو ایک خصوصی حیثیت دے دیتا ہے۔ اب جہاں تک کسی ’عبادت گاہ‘ کے حق تولیت کا تعلق ہے تو فاضل ناقد نے اس ضمن میں بحث کو سرمو آگے نہیں بڑھایا بلکہ ان کی سوئی بھی سابقہ ناقدین کی طرح ایک ہی نکتے پر اٹکی ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
’’حضرت ابراہیم کی طرح حضرت موسیٰ اور حضرت سلیمان اور بنی اسرائیل کے تمام انبیا کے اصل ورثا اور جانشین مسلمان ہیں نہ کہ یہود و نصاریٰ۔ اگر حضرت سلیمان نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کی بھی تھی تو اس سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ اب یہ مسجد کافروں کی عبادت گاہ بن گئی ہے۔ حضرت سلیمان کے دور میں موجود بنی اسرائیل مسلمان تھے لہٰذا اس بنیاد پر اس مسجد کے وارث بھی تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض اور کینہ رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ ؐپر ایمان نہ لانے کی وجہ سے آج کل کے یہودیوں کے کافر ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے بلکہ ان کے کفر پر امت کااجماع ہے، لہٰذا مسجد اقصیٰ جو کہ مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے، اس پرایک کافر قوم کا حق کیسے جتایا جا سکتا ہے ؟‘‘
واقعہ یہ ہے کہ اس پورے استدلال پر ہم اپنی تحریر میں تفصیلی تنقید کر کے اپنی بساط کی حد تک اس کی خامی کو مختلف پہلووں سے واضح کر چکے ہیں۔ یہ تنقید ’الشریعہ‘ کے اپریل؍مئی ۲۰۰۴ کے شمارے کے تیس صفحات (ص ۶ تا ۳۵) پر پھیلی ہوئی ہے۔ فاضل ناقد نے اپنے مضمون میں ازراہ عنایت یہ تسلیم فرمایا ہے کہ ہم نے ’’علما کے مؤقف کا رد بہت اچھا کر دیا ہے‘‘۔ ہم نہیں سمجھ سکے کہ اگر ان کے پیش کردہ اس استدلال کا بھی ہم ’’بہت اچھا رد‘‘ کر چکے ہیں تو انھوں نے اسے دوبارہ کیوں پیش فرما دیا؟ اور اگر ہم اس استدلال کا ’’بہت اچھا رد‘‘ نہیں کر سکے تو پھر انھوں نے ہمارے اٹھائے ہوئے تنقیدی نکات سے تعرض کیوں نہیں کیا اور تنقید کے نقص یا کمزوری کو واضح کرنے کے بجائے محض استدلال کو دہرا دینے پر اکتفا کیوں کی ہے؟ 
اس تناظر میں ہم مسجد اقصیٰ کے زمانہ تعمیر اور اس کے قبلہ مقرر کیے جانے یا نہ کیے جانے کے حوالے سے فاضل ناقد کی اٹھائی ہوئی بحثوں سے اختلاف کا حق محفوظ رکھتے ہوئے سردست ان سے کوئی تعرض نہیں کر رہے۔ فاضل ناقد اگر اصل نکتہ اختلاف کے تصفیے کے بعد، ان ضمنی نکات پر بحث کو آگے بڑھانا چاہیں گے تو ہم ان کے حوالے سے بھی اپنی گزارشات تفصیل کے ساتھ ان کی خدمت میں پیش کر دیں گے۔ البتہ ہم سمجھتے ہیں کہ حالیہ ’’تاریخی وتحقیقی جائزے‘‘ میں فہم واستنباط اور تحقیق وتنقید کے جو نادر نمونے پیش کیے گئے ہیں، ان کو داد سے بالکل محروم رکھنا یقیناًناانصافی ہوگی۔ چنانچہ چند معروضات محض اس احساس کے تحت پیش کی جا رہی ہیں کہ فاضل ناقد ہمارے گریز کو خدا نخواستہ اپنی محنت اور کاوش کی ناقدری پر محمول نہ کر لیں۔
(۱) صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کی تاسیس کے مابین زمانی فاصلے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ، مسجد حرام کے چالیس سال بعد بنائی گئی تھی۔ 
فاضل ناقد نے اس روایت کو مسجد اقصیٰ کا زمانہ تعمیر متعین کرنے میں بنیادی ماخذ قرار دیا ہے اور اس ضمن میں تین آرا نقل کی ہیں: 
۱۔ اگر مسجد حرام کا بانی حضرت ابراہیم کو تسلیم کر لیا جائے تو مسجد اقصیٰ کے بانی بھی حضرت ابراہیم قرار پائیں گے۔ 
۲۔ اگر مسجد حرام کا پہلا معمار حضرت آدم کو مانا جائے تو مسجد اقصیٰ کے موسس بھی وہی قرار پائیں گے۔ فاضل ناقد نے قرائن وشواہد کی روشنی میں اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔
۳۔ مسجد حرام کے بانی تو حضرت ابراہیم ہیں، جبکہ مسجد اقصیٰ کی تاسیس حضرت یعقوب نے کی۔
ہم نے اپنی تحریر میں ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ روایت سے پیدا ہونے والے ایک تاریخی اشکال کے تناظر میں اس تیسری رائے کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا:
’’اس روایت پر یہ اشکال ہے کہ تاریخ کے مسلمات کی رو سے مسجد اقصیٰ کی تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں ہوئی اور ان کے اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے مابین‘ جو مسجد حرام کے معمار تھے‘ کئی صدیوں کا فاصلہ ہے جبکہ روایت میں دونوں مسجدوں کی تعمیر کے درمیان صرف چالیس کا فاصلہ بتایا گیا ہے۔ علمائے حدیث کے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کے مقام کی تعیین تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرما دی تھی اور مذکورہ روایت میں اسی کا ذکر ہے ‘جبکہ حضرت سلیمان نے صدیوں بعد اسی جگہ پر ہیکل سلیمانی کو تعمیر کیا۔اس لحاظ سے ان کی حیثیت ہیکل کے اولین بانی اور مؤسس کی نہیں ‘بلکہ تجدید کنندہ کی ہے۔‘‘
اب فاضل ناقد نے مذکورہ تین آرا میں سے پہلی دونوں رایوں کو تو ’’دلائل کی روشنی میں قوی‘‘ قرار دیا ہے، لیکن آخری رائے کی درستی کا امکان تک تسلیم کرنے سے اس قدر نفور کا اظہار کیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ ’علماے حدیث‘ میں سے کسی ایک کو بھی اس کا قائل تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، بلکہ اس کی بے وقعتی واضح کرنے کے لیے اس کو اختیار کرنے والے دو جید صاحبان علم، ابن قیم اور ابن کثیر رحمہما اللہ کو بھی ’علماے حدیث‘ کی صف سے نکال باہر کیا ہے۔ اس دوسری بات کے حق میں انھوں نے جو استدلال فرمایا ہے، اس سے تو اہل علم کسی تبصرے کی آمیزش کے بغیر براہ راست زیادہ لطف اندوز ہو سکتے ہیں، البتہ پہلی بات کے بارے میں ہم، محض اپنی کند ذہنی کی وجہ سے، فاضل ناقد سے یہ استفسار کرنا چاہیں گے کہ ازراہ کرم اس بنیادی فرق کی وضاحت فرما دیجیے جو پہلی توجیہ کو تو ’’دلائل کی روشنی میں قوی‘‘ بنا دیتا ہے، جبکہ تیسری توجیہ کو سرے سے قابل التفات ہی نہیں رہنے دیتا۔ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ جب مسجد حرام کا بانی حضرت ابراہیم کو تسلیم کر لیا جائے تو اس کے چالیس سال بعد بننے والی مسجد اقصیٰ کے موسس کے طور پر حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام، تینوں کے نام امکان کے درجے میں بالکل یکساں قرار پاتے ہیں اور جب تک کوئی یقینی قرینہ ان میں سے کسی ایک کو متعین کرنے کے حق میں نہ پایا جائے، قیاس اور تخمین کی حد تک تینوں میں سے کسی بھی صورت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حضرت ابراہیم کے اس مسجد کا بانی ہونے کے حق میں یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ وہ بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل دونوں کے جد امجد تھے، اس لیے انھوں نے ان دونوں مقدس مقامات عبادت کی تاسیس خود ہی فرما دی ہوگی۔ دوسری طرف حضرت اسحاق یا حضرت یعقوب کے بانی ہونے کے حق میں یہ قرینہ پیش کیا جا سکتا ہے کہ مسجد اقصیٰ چونکہ خاص طور پر بنی اسرائیل ہی کی ایک قومی عبادت گاہ تھی، اس لیے اس کی تاسیس بھی آل ابراہیم کی اسی شاخ کے کسی بزرگ یعنی حضرت اسحاق یا حضرت یعقوب نے فرمائی ہوگی۔ ابن قیمؒ اور ابن کثیرؒ نے مذکورہ امکانات میں سے دوسرے امکان کو ترجیح دی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ جیسے پہلے قیاس کے حق میں کوئی نص موجود نہیں، اسی طرح ابن قیمؒ اور ابن کثیرؒ بھی اپنے پاس کوئی قطعی دلیل نہیں رکھتے۔ فاضل ناقد سے ہمارا سوال یہ ہے کہ مسجد حرا م کا بانی حضرت ابراہیم کو قرار دینے کی رائے کو ’’دلائل کی روشنی میں قوی‘‘ تسلیم کرنے کے بعد مسجد اقصیٰ کے بانی کے حوالے سے پیدا ہونے والے یکساں درجے کے مختلف احتمالات میں سے ایک احتمال کی نفی کے لیے اتنے پاپڑ بیلنے کی ضرورت انھیں آخر کیوں پیش آگئی؟ کیا اس نکتے کا زیر بحث مسئلے یعنی مسجد اقصیٰ کی تولیت سے کوئی خاص تعلق ہے؟ حضرت ابراہیم کے بجائے حضرت یعقوب کو مسجد اقصیٰ کا بانی تسلیم کر لینے سے صورت حال میں آخر کون سا جوہری فرق پیدا ہو جاتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ محض خامہ فرسائی اور تنقید برائے تنقید کا شوق فاضل ناقد کو اس لاطائل بحث میں الجھا دینے کا سبب بن گیا ہے؟
(۲) فاضل ناقد نے یہ اعتراض بھی اٹھایا ہے کہ ہم نے ابن قیمؒ اور ابن کثیرؒ کی مذکورہ رائے کی کی تعبیر اس درجہ غلط کی ہے کہ وہ اس کے لیے ’’تحریف‘‘ کا لفظ استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس ’تحریف‘ کی تفصیل کرتے ہوئے فاضل ناقد نے بتایا ہے کہ ابن قیمؒ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو مسجد اقصیٰ کا بانی قرار دیتے ہوئے ’اسسہ‘ (انھوں نے اس کی بنیاد رکھی) کے الفاظ استعمال کیے ہیں، اور ابن کثیرؒ نے اس بات کو ’جعلہ مسجدا‘ (انھوں نے اس کو مسجد قرار دیا) کے الفاظ سے بیان کیا ہے، جبکہ ہم نے اس مفہوم کی تعبیر ’’مسجد اقصیٰ کے مقام کی تعیین کرنے‘‘ سے کر دی ہے۔ فاضل ناقد نے قارئین کی ذہانت کو اپنی ذہانت پر قیاس کرتے ہوئے ’’کسی مسجد کی بنیاد رکھنے‘‘ یا ’’کسی جگہ کو مسجد قرار دینے‘‘ اور ’’مسجد کے مقام کی تعیین کرنے‘‘ کے مابین پائے جانے والے زمین وآسمان کے فرق پر روشنی ڈالنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بہرحال فاضل ناقد کی ’دقیقہ رسی‘ کو تسلیم کرنے سے کوئی چارہ نہ پاتے ہوئے ہم صرف اتنا اضافہ کرنا چاہیں گے کہ علماے سلف کی رائے میں اس ’’تحریف‘‘ کا ارتکاب علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے بھی کیا ہے، جنھیں علماے حدیث کی فہرست سے خارج کرنے کے لیے فاضل ناقد کے نزدیک غالباً ان کا ’حنفی‘ ہونا ہی کافی ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں:
والجواب علی ما اختارہ ابن القیم ان تعیین مکان المسجد الاقصی کان من ید اسحاق علیہ الصلاۃ والسلام فانہ کان غرز وتدا ہناک کما فی التوراۃ۔ (فیض الباری، ۴/۳۷۲)
’’ابن قیم کی اختیار کردہ توجیہ کی رو سے اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کی جگہ کی تعیین اسحاق علیہ الصلاۃ والسلام کے ہاتھوں کر دی گئی تھی، چنانچہ تورات کے مطابق انھوں نے اس جگہ پر ایک میخ گاڑ دی تھی۔‘‘
فاضل ناقد نے مزید فرمایا ہے کہ حدیث میں وارد ہونے والے لفظ ’وضع‘ کا معنی ازروے لغت ’تعین کرنا‘ نہیں ہو سکتا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ فاضل ناقد ’تعین کرنے‘ کا مفہوم کیا سمجھتے ہیں، البتہ ہم نے ’تعیین کرنے‘ کے الفاظ اس جگہ کو مسجد کے طور پر مقرر کر دینے کے مفہوم میں استعمال کیے ہیں اور اس کے لیے ’وضع‘ کا لفظ عربی زبان میں بالکل موزوں ہے۔ امام اللغہ زمخشری ’ان اول بیت وضع للناس‘ (آل عمران، ۹۶ ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ومعنی وضع اللہ بیتا للناس انہ جعلہ متعبدا لہم (الکشاف، ص ۱۸۳)
’’وضع اللہ بیتا للناس  کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کو لوگوں کے لیے عبادت گاہ قرار دیا۔‘‘
زیر بحث توجیہ کی رو سے حدیث میں وارد ہونے والے لفظ ’وضع‘ کا مطلب بھی یہی ہوگا کہ حضرت اسحاق یا حضرت یعقوب علیہما السلام نے اس مقام کو عبادت گاہ کے طور پر متعین کر دیا تھا۔ مسجد اقصیٰ کا بانی حضرت یعقوب علیہ السلام کو قرار دینے پر ابن قیمؒ اور ابن کثیر ؒ تو فاضل ناقد کے ہاتھوں ’علماے حدیث‘ میں شامل ہونے کے شرف سے محروم ہو ہی چکے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ زمخشری علماے لغت کے زمرے میں شامل رہتے ہیں یا نہیں۔
(۳) ابن قیمؒ اور ابن کثیرؒ کی رائے کی جو تعبیر ہم نے اپنے الفاظ میں کی ہے، فاضل ناقد نے اسے ’’تحریف‘‘ قرار دیتے ہوئے اپنی گرمئ گفتار کا باقاعدہ جواز بھی پیش فرمایا ہے اور کہا ہے کہ ہمیں ان کے سخت لہجے پر ناگواری محسوس نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ ہم نے بھی مسجد اقصیٰ کی تولیت کے بارے میں اپنے ایک اجتہادی موقف کے مقابلے میں ’’علما کے کم و بیش اجماع کو کتمان حق اور تکذیب آیات اللہ سے تعبیر ‘‘ کیا ہے۔ اس کے لیے انھوں نے ہماری تحریر میں سے جو اقتباس نقل کیا ہے، اس کا پورا پس منظر ہم یہاں واضح کیے دیتے ہیں۔
یہ پیرا گراف جس بحث کے سیاق وسباق میں آیا ہے، وہ ’الشریعہ کے ستمبر/ اکتوبر ۲۰۰۳ کے شمارے کے ص ۶۷ پر ’’عالم عرب کا موقف چند علمی واخلاقی سوالات‘‘ کے عنوان سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے آغاز میں ہم نے لکھا ہے:
’’مسجد اقصیٰ کی تولیت کے حوالے سے مذکورہ دونوں نقطہ ہائے نظر کی کمزوری ہم واضح کر چکے ہیں، تاہم اختلاف کے باوجود یہ ماننا چاہیے کہ ان کی غلطی اصلاً علمی ہے اور غلط فہمی کے اسباب بھی بڑی حد تک قابل فہم ہیں۔ لیکن بے حد افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس باب میں امت مسلمہ کے رویے کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جس کی مشکل ہی سے کوئی علمی یا اخلاقی توجیہ کی جا سکتی ہے۔‘‘
اس ناقابل توجیہ رویے کی تفصیل کرتے ہوئے ہم نے لکھا ہے:
’’اس وقت امت مسلمہ کی نمائندگی کرنے والے مذہبی وسیاسی رہنماؤں، صحافیوں اور ماہرین تاریخ کی اکثریت سرے سے ہیکل سلیمانی کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتی۔ اس کے نزدیک ہیکل کا وجود محض ایک افسانہ ہے جو یہود نے مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرنے کے لیے گھڑ لیا ہے۔‘‘
اس موقف کے ترجمان رہنماؤں کے بیانات نقل کرنے کے بعد اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ہم نے لکھا ہے:
’’قرآن وسنت کی تصریحات، مسلمہ تاریخی حقائق، یہود ونصاریٰ کی مذہبی روایات، مسلمانوں کے تاریخی لٹریچر اور مسلم محققین کی تصریحات کی روشنی میں نہ اس بات میں کسی شک وشبہ کی گنجایش ہے کہ مسجد اقصیٰ دراصل ہیکل سلیمانی ہی ہے، نہ اس دلیل میں کوئی وزن ہے کہ اثریاتی تحقیق کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کے کوئی آثار دریافت نہیں ہو سکے اور نہ ہی اس حسن ظن کے لیے کوئی قرینہ ہے کہ مذکورہ موقف کے وکلا شاید حقائق سے بے خبر ہیں یا کوئی غلط فہمی انھیں لاحق ہو گئی ہے۔ خود فلسطین کے مسلم رہنما اسرائیل کے وجود میں آنے اور بیت المقدس پر صہیونی قبضے سے قبل تک ان تاریخی حقائق کو تسلیم کرتے رہے ہیں اور انھیں جھٹلانے کی جسارت انھوں نے کبھی نہیں کی۔‘‘ (ص ۶۹)
یہ وہ بحث ہے جس کا اختتام ہم نے درج ذیل سوال پر کیا ہے:
’’یہ نکتہ اب اہل علم کے لیے ایک کھلے سوال کی حیثیت رکھتا ہے کہ عالم عرب کا یہ کم و بیش اجماعی موقف‘ جس کو متعدد اکابر علماے دین و مفتیان شرع متین کی تائید و نصرت حاصل ہے اور جس کو مسلم اور عرب میڈیاتسلسل کے ساتھ دہرا رہا ہے ‘کتمان حق اور تکذیب آیات اللہ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟‘‘ (ص ۷۰)
اس تفصیل سے واضح ہے کہ جہاں تک مسجد اقصیٰ پر بنی اسرائیل کے حق تولیت کے منسوخ ہو جانے کی رائے کا تعلق ہے، ہم نے اس رائے سے اختلاف کے باوجود اسے ایک ’’علمی غلطی‘‘ کہا ہے اور اس کے پیدا ہونے کے اسباب کو بھی قابل فہم قرار دیا ہے۔ البتہ عالم عرب کے موجودہ سیاسی ومذہبی راہ نماؤں نے پوری ’روشن ضمیری‘ کے ساتھ ہیکل سلیمانی کی تاریخی حیثیت یا اس کے محل وقوع کے بارے میں مذہبی وتاریخی مسلمات کا انکار کرنے کی جو روش اختیار کر رکھی ہے، اس کی سنگینی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا یہ موقف ’’کتمان حق اور تکذیب آیات اللہ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں‘‘۔ اب اسے چاہے فاضل ناقد کی ذہانت کا کمال سمجھ لیا جائے یا ان کی دیانت داری کا کہ انھوں نے ہمارے اس تبصرے کو مذکورہ پوری بحث اور بالخصوص اس کے پہلے پیرا گراف سے کاٹ کر اہل علم کے اس موقف کے ساتھ نتھی کر دیا ہے جسے ہم خود ایک ’’علمی غلطی‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ علماے سلف کی آرا میں ہمارے قلم سے صادر ہونے والی جس ’تحریف‘ کی انھوں نے نشان دہی کی ہے، اس پر وہ یقیناًداد کے مستحق ہیں، لیکن خود اپنے اس ’معصومانہ تسامح‘ کے بارے میں وہ کیا ارشاد فرمائیں گے؟
(۴) فاضل ناقد نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ صخرۂ بیت المقدس کو قبلہ مقرر کر لینا محض یہود کی اپنی ’اختراع ‘ ہے جسے اللہ تعالیٰ یا اس کے نبیوں کی طرف سے سند تصدیق حاصل نہیں۔ اس دعوے کی تائید میں انھوں نے امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم رحمہما اللہ کی عبارات پیش کی ہیں۔ بدقسمتی سے یہاں بھی موضوعیت ان پر اتنی غالب ہے کہ انھوں نے دونوں بزرگوں کی عبارات پر پوری طرح غور کیے اور ان کے مدعا اور منشا کو ٹھیک طرح سے سمجھے بغیر انھیں اس دعوے کا مدعی ظاہر کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ ان عبارات میں مسجد اقصیٰ کے بنی اسرائیل کا شرعی لحاظ سے مستند قبلہ ہونے کی نفی نہیں کر رہے، بلکہ ’کعبہ‘ کے تقابل میں، جسے اللہ تعالیٰ کے براہ راست حکم کے تحت روز اول سے قبلہ مقرر کر دیا گیا تھا، مسجد اقصیٰ کے ’قبلہ‘ قرار پانے کے تاریخی عمل اور اس کے مختلف مراحل کو بیان کر رہے ہیں۔ ان کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دراصل براہ راست صخرہ کو قبلہ بنانے کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ بنی اسرائیل کے لیے قبلہ کی حیثیت خیمہ اجتماع کو حاصل تھی جس میں مقدس اشیا اور تبرکات پر مشتمل تابوت کو رکھا جاتا تھا۔ مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے بعد اس تابوت کو صخرۂ بیت المقدس کے مقام پر رکھ دیا گیا اور بنی اسرائیل اسی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ بعد میں تاریخی حوادث کے نتیجے میں تابوت ضائع ہو گیا تو اس جگہ یعنی صخرہ کو، جس پر تابوت رکھا گیا تھا، قبلے کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ کی بات بس اتنی ہے اور اس سے مسجد اقصیٰ کے مستند شرعی قبلہ نہ ہونے کا جو نتیجہ فاضل ناقد نے اخذ کیا ہے، وہ دونوں بزرگوں کے کلام سے صریح تجاوز پر مبنی اور سراسر موضوعیت کا شاخسانہ ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ بنی اسرائیل میں انبیا کا سلسلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد رکے بغیر مسلسل جاری رہا ہے، اس لیے خیمہ اجتماع کو ان کا قبلہ مقرر کرنے، پھر مسجد اقصیٰ میں صخرہ کی جگہ پر اس کو رکھنے اور تابوت کے ضائع ہو جانے کے بعد صخرہ کو قبلے کی حیثیت دینے کا یہ سارا عمل انبیا کی رہنمائی میں اور ان کی تائید ہی سے مکمل ہوا۔ اس لحاظ سے اس عمل کو پورا شرعی استناد حاصل ہے اور ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ میں سے کوئی بزرگ بھی اس کی نفی نہیں فرما رہے۔ چنانچہ دیکھیے، ابن تیمیہؒ نے کعبہ کو حضرت ابراہیم اور ان سے پہلے کے انبیا کا قبلہ تو قرار دیا ہے، لیکن ان کے بعد کے انبیا کے لیے کعبہ ہی کے ’قبلہ‘ ہونے کی، جیسا کہ فاضل ناقد کا اصرار ہے، نہ کوئی تصریح کی ہے اور نہ اشارہ۔ جبکہ ابن قیمؒ نے تو اس بات کی باقاعدہ تصریح کی ہے کہ بنی اسرائیل اور انبیاے بنی اسرائیل کے ’قبلہ‘ کی حیثیت مسجد اقصیٰ ہی کو حاصل رہی ہے۔ ’ہدایۃ الحیاریٰ‘ میں لکھتے ہیں:
وما صلی المسیح الی الشرق قط وما صلی الی ان توفاہ اللہ الا الی بیت المقدس وہی قبلۃ داود والانبیاء قبلہ وقبلۃ بنی اسرائیل (ص ۱۶۷)
’’مسیح علیہ الصلاۃ والسلام نے کبھی مشرق کی طرف رخ کر کے نماز نہیں پڑھی۔ وہ اپنے قبض کیے جانے تک بیت المقدس ہی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے جو حضرت داؤد کا اور حضرت مسیح سے پہلے آنے والے انبیا اور بنی اسرائیل کا قبلہ تھا۔‘‘
(۵) فاضل ناقد نے بنی اسرائیل کے لیے مسجد حرام ہی کے قبلہ مقرر کیے جانے کے حق میں یہ استدلال کیا ہے کہ سورۂ بقرہ، آیت ۱۳۲ کے مطابق حضرت یعقوب نے اپنی اولاد یعنی بنی اسرائیل کو ’ملت ابراہیم‘ یعنی دین اسلام کی پیروی کی وصیت فرمائی تھی۔ گویا فاضل ناقد کے نزدیک دین اسلام یا ملت ابراہیم کی پیروی میں اس قبلے کی پیروی بھی لازمی طور پر شامل ہے جس کا حکم ان کے خیال میں حضرت ابراہیم اور ان سے پہلے تمام انبیا کو دیا گیا تھا۔
فاضل ناقد نے یہ استدلال پیش کرتے ہوئے کس قدر گہرے غور وفکر سے کام لیا ہے، اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرنے کے لیے ہمیں ان کے اس مضمون کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جس میں انھوں نے جناب جاوید احمد غامدی کے ’تصور سنت‘ کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ غامدی صاحب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ دین اسلام کے مآخذ میں ’سنت‘ سے مراد دین ابراہیمی میں مقرر کیے جانے والے اعمال ورسوم کی وہ روایت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدید واصلاح اور بعض اضافوں کے ساتھ دین کی حیثیت سے امت مسلمہ میں جاری فرمایا۔ ان کی رائے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اصلاً حضرت ابراہیم ہی کے دین وملت اور اس کے احکام ورسوم کی پابندی کا حکم دیا گیا تھا اور اس کے لیے انھوں نے سورہ نحل کی آیت ۱۲۳ : ’ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراہیم حنیفا‘ سے استدلال کیا ہے۔ (اصول ومبادی، ص ۱۰) فاضل ناقد نے اس استدلال پر تنقید کرتے ہوئے ’الشریعہ‘ کے ستمبر ۲۰۰۶ کے شمارے میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ’ملت ابراہیم‘ کی پیروی سے شرائع واحکام کی پیروی مراد نہیں ہو سکتی، کیونکہ سورۂ بقرہ کی آیت ۱۳۰ میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ ملت ابراہیم کی اتباع نہیں کرتے، وہ بے وقوف ہیں۔ فاضل ناقد لکھتے ہیں:
’’ومن یرغب عن ملۃ ابراہیم الا من سفہ نفسہ‘ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر ہم ملت ابراہیم کی اتباع سے جزئیات میں ان کی اتباع مراد لیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ جن انبیا نے جزئیات میں حضرت ابراہیم کی اتباع نہیں کی، معاذ اللہ وہ بے وقوف ہیں۔ حضرت ابراہیم کی ملت کی اتباع سے مراد یہاں بھی ان کے اس رویے کی پیروی ہے جو انھوں نے اللہ کی اطاعت کے معاملے میں پیش کیا، یعنی اللہ کے لیے انتہائی درجے میں فرمانبرداری اختیار کرنا۔‘‘ (الشریعہ، ستمبر ۲۰۰۶، ص ۱۸)
فاضل ناقد کی اس تنقید سے اتفاق ضروری نہیں، لیکن ان کی اس رائے کو سامنے رکھتے ہوئے مسجد حرام کو بنی اسرائیل کا قبلہ مقرر کرنے کے حق میں سورۂ بقرہ کی آیت ۱۳۲ سے ان کے استدلال کا جائزہ لیجیے تو یہ دلچسپ صورت حال سامنے آتی ہے کہ اس آیت میں حضرت یعقوب کی طرف سے اپنی اولاد کو جس چیز پر کاربند رہنے کی وصیت کا ذکر ہے، وہ اس سے پچھلی آیت میں مذکور وہی ’ملۃ ابراہیم‘ ہے جس کے مفہوم کو فاضل ناقد مذکورہ اقتباس میں صرف توحید اور اطاعت اور فرماں برداری کے رویے تک محدود قرار دے چکے ہیں، لیکن جب خود انھیں مسجد حرام کو بنی اسرائیل کا قبلہ قرار دینے کے حق میں استدلال کی ضرورت پیش آئی ہے تو اسی ’ملۃ ابراہیم‘ کا سکڑا ہوا دائرہ وسیع ہو گیا ہے اور نماز اور حج کے لیے قبلہ ومرکز مقرر کرنے جیسے شرعی احکام بھی اس کے اندر شامل ہو گئے ہیں۔ کیا فاضل ناقد اپنی ان ’محققانہ اداؤں‘ پر غور کرنا پسند کریں گے؟ 
فاضل ناقد کے ’’تاریخی وتحقیقی جائزے‘‘ میں نادر نکات اور اچھوتے استنباطات کا استقصا یہاں مقصود نہیں، ورنہ ان کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ ابھی داد طلب ہے۔ ہم اس امید پر گفتگو کو یہاں ختم کر رہے ہیں کہ آں محترم محض ہماری ضمنی طور پر پیش کردہ گزارشات کو موضوع سخن نہیں بنائیں گے بلکہ اصل نکتہ اختلاف یعنی مسجد اقصیٰ کی تولیت کی شرعی حیثیت کے حوالے سے بھی علما کے استدلال پر ہماری تنقید کو، جو ان کی نظر عنایت کی منتظر ہے، اپنی فاضلانہ توجہ سے نوازیں گے۔ 
اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔ 

جناب وحید الدین خان کا علمی تفاخر

پروفیسر میاں انعام الرحمن

بھارت کے مذہبی اسکالر جناب وحید الدین خان کا نام ہم نے سنا ہوا ہے، لیکن ان کی فکر سے استفادہ کرنے کا ہمیں کبھی موقع نہیں ملا۔ پچھلے دنوں ایک دوست نے ماہنامہ تذکیر لاہور کا شمارہ ۱، جلد ۲۰، جنوری ۲۰۰۷ عنایت کیا۔ اس شمارے میں ’’ ایک علمی برائی ۔۔ دعویٰ بلا دلیل‘‘ کے زیرِ عنوان مراسلت کی چند مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ اس مراسلت کے مطالعے سے ہمیں حیرت ہوئی کہ کوئی مذہبی اسکالر علمی برائی کے رد میں علمی بڑائی کا خود پسندانہ اظہار اس حد تک بھی کر سکتا ہے۔ وحید الدین صاحب کا متشددانہ اصرار ہے کہ ’دارالدعوۃ ‘ کی اصطلاح صرف ان کے’ مجتہدانہ ذہن‘ کی پیداوار ہے۔ نہ تو ان سے قبل اور نہ ہی ان کے بعد یہ اصطلاح کسی بھی ذی شعور کے ذہن میں آزادانہ طور پر آسکتی ہے۔ اب دنیا بھر میں جو شخص بھی یہ اصطلاح استعمال کرتا ہے، وہ درحقیقت وحیدالدین صاحب کا خوشہ چین ہوتا ہے۔ یہ مراسلت ۲۰۰۶ کی ہے۔ جناب وحید الدین کے علمی تفاخر وخود پسندی کے رد کی خاطر اور ریکارڈ کی درستی کے لیے ہم گزارش کریں گے کہ ’دارالدعوۃ‘ کی یہی اصطلاح ہم نے اپنی ایک تحریر مطبوعہ اپریل ۲۰۰۴ میں استعمال کی تھی، لیکن ہم یہ دعویٰ ہر گز نہیں کرتے کہ اس کے بعد جن لوگوں نے یہ اصطلاح اپنی تحریروں میں برتی ہے، انھوں نے اسے لازماً ہماری تحریر سے چرایا ہے۔ البتہ ہم یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ہماری تحریر میں اس اصطلاح کا در آنا عالمگیریت کی اٹھان اور موضوع کے خاص سیاق کے سبب سے تھا، اس لیے اس کا جناب وحیدالدین کی ’’فکر‘‘ سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے دوست پروفیسر محمد اکرم ورک کا ایم فل کا مقالہ ’’صحابہ کرامؓ کا اسلوبِ دعوت و تبلیغ‘‘ جب کتابی صورت میں آ رہا تھا تو انھوں اس پرکچھ لکھنے کا حکم صادر کیا۔ ہم نے ’’عہدِ زر میں عہدِ زریں کی دعوت‘‘ کے عنوان سے چند سطریں قلم بند کیں جو اسی کتاب کے صفحہ ۱۳ تا ۱۹ میں شائع ہو ئیں۔ اس تحریر میں ایک مقام پر ’دارالدعوۃ ‘ کی اصطلاح، خیالات کی رو کے ساتھ خودبخود سامنے آئی۔ ملاحظہ کیجیے :
’’ سرد جنگ کے خاتمے اور نائن الیون کے واقعہ کے بعددنیا میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ایک طرف اگر امریکہ یک قطبی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے تو دوسری طرف قومی ریاست جرمِ ضعیفی کی سزاوار ٹھہر کر مرگِ مفاجات کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اندریں صورت عالمی سطح پر نئی فکری صف بندی راہ پا رہی ہے ۔ تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ گھڑ کر تہذیبِ اسلامی پر دہشت گردوں کی تہذیب کا لیبل چسپاں کر کے ’ مارکیٹ اکانومی ‘ کے دیوتا کو گلوبل کردار سونپا جا رہا ہے۔ گلوبلائزیشن کے نام پر پوری دنیا کو ایسی فکر کے زیرِ نگیں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کا اخلاقیات، زندگی کی اعلیٰ قدروں اور انسانیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یوں سمجھیے کہ ایک عہدِ زر، بد ترین عہدِ زر کو جنم دینے والا ہے۔ اب یہ فیصلہ کن گھڑی ہے۔ نوعِ انسانی نے فیصلہ کرنا ہے کہ زندگی کے کسی اعلیٰ آدرش سے اپنی وابستگی ظاہر کرے یا پھر غلامی کے نئے ایڈیشن کو چپ چاپ قبول کر لے۔ 
مذکورہ بالا صورتِ حال یہ واضح کرنے کو کافی ہے کہ ریاست کا روایتی تصور آخری دموں پر ہے، عالمگیریت قدم بڑھا رہی ہے، لہٰذا موجودہ دور میں دارالحرب اور دارالاسلام کی روایتی بحثیں بھی اہمیت کھو چکی ہیں:
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں 
میں اپنی تسبیحِ روز وشب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ!
نئے حوادث ہمیں خبر دے رہے ہیں کہ اب پوری دنیا کو ’وحدت ‘ کی صورت میں دیکھنا ہوگا، اس لیے نہ تو اسے دارالحرب قرار دے سکتے ہیں اور نہ ہی دارالاسلام۔ بہتر یہی ہے کہ ہم دنیا کو ’دار الدعوۃ‘ قرار دیں کہ ہمارا دین عالمگیر ہے، ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم رحمت للعالمین ہے اور ہمارا رب، رب العالمین ہے۔ اس تناظر میں پروفیسر محمد اکرم ورک کی کتاب ’’ صحابہ کرامؓ کا اسلوبِ دعوت و تبلیغ‘‘ بہت بر وقت سامنے آئی ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ شاعری کی طرح نثر میں بھی ’ توارد ‘ واقع ہو سکتا ہے۔ اس لیے صحیح علمی رویہ یہ ہے کہ انسان تفاخر کے بجائے تواضع اپنائے اور کسی بھی دوسرے انسان کے ذہنی امکانات کا انکار کرنے سے پرہیز کرے۔ 

حضرت مدنیؒ اور تجدد پسندی

مفتی رشید احمد علوی

ویسے تو عنوان زدہ کلمات بذات خود ایک مزاح ہیں، لیکن کبھی قارئین کسی حقیقت تک رسائی کے لیے ایسے مزاح کی زحمت برداشت کرلیا کرتے ہیں۔ البتہ جب حضرت مدنی جیسی نابغۂ روزگار ہستیوں کے افکار سے من مرضی کے مفہوم ومعنی اخذ کیے جانے لگیں تو اس وقت اس قسم کے مزاح کو تحریر میں لانے کے لیے قارئین کرام سے بصد احترام معذرت ہے ۔
بات اصل میں یہ ہے کہ حضرت مدنی کا ہندوستان میں بسنے والوں کے لیے ایک قومی نظریہ تھا۔ آپ ہند میں دو قومی نظریہ کے علمبردار یا قائل نہ تھے، اور آپ کا فرمان یہ تھا کہ ہندوستان میں بسنے والے خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، وہ ایک ہی قوم کے افراد ہیں۔ اس نقطۂ نظر کی وجہ سے بہت سے لوگوں کوحضرت مدنی کے ایمان وعمل کے بارے میں دریدہ دہنی کا موقع ملا۔ یہ الگ بحث ہے کہ حضرت مدنی کا نقطہ نظر درست تھا یانہیں، لیکن پاکستان بننے کے بعدجب پہلا قومی شناختی کارڈ یا پہلا پاسپورٹ بنایا گیا توحضرت مدنی کے مخالفین کایہ عمل اپنے ہی منہ پر طمانچہ تھا، کیونکہ جو لوگ اب تک یہ دعویٰ کرتے چلے آ رہے تھے کہ قومیں مذہب سے بنتی ہیں، وہی اب پاکستان میں آکر لوگوں سے مخاطب تھے کہ ہم سب ایک قوم ہیں اور یہاں کوئی ہندویا سکھ یا عیسائی نہیں ہے۔ اس طرح اپنے افکار کی تغلیط خود اپنے ہی ہاتھوں کر دی گئی۔ اس کے باوجود آج تک ہم اس مخمصے میں بحیثیت قوم پھنسے ہوئے ہیں کہ قوم مذہب کی بنیاد پر ہوتی ہے یا وطن کی بنیاد پر؟ اور ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا مضمون ’’مطالعہ پاکستان‘‘ تضادبیانیوں کی وجہ سے ہمارے ذہنوں کو بھی متضاد افکار کا ملغوبہ بنا رہا ہے جس کا نمونہ کسی بھی یونیورسٹی یا کالج کے طلبا بلکہ اساتذہ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ سب اسی فکری تضاد کا شکار ہیں۔ اسی فکری تضاد کی ایک زندہ مثال ماہنامہ ’الشریعہ ‘کے لکھنے والوں میں بعض اہل علم ودانش، مفکرین اور گرامی قدرپروفیسر حضرات ہیں۔ 
معاملہ یوں ہے کہ مولانا عبد الباری ندوی نے، جن کا حضرت مدنی سے اصلاح باطن کا تعلق تھا، اپنے ساتھ پیش آنے والے کچھ حالات بیان کیے اور ان کے پیش نظر کچھ سوالات حضرت کی خدمت میں ارسال کیے جو اصلاح احوال کے لیے تھے۔ بقول مولانا عبد الباری ندوی حالات یوں تھے کہ: ’’اثنائے سفر میں ایک واقعہ پیش آیا کہ بھوپال اسٹیشن پرکچھ کھانا لینے کے خیال سے ڈبہ سے باہر آیا، سامنے ہی ایک خوانچہ دکھائی دیا جس میں تین بڑی بڑی المونیم کی پتیلیاں بند رکھی تھیں۔ بیچنے والاسامنے نہ تھا۔ قرینہ سے مسلمان سمجھا اور ایک پتیلی کے صرف ڈھکن کو ہاتھ لگادیا۔ اتنے میں وہ آگیا تو ہندو تھا۔ کہا کہ اب تو سب خراب ہوگیا، اور سب کے دام آپ کو دینا پڑیں گے ...... اور جو کچھ اس نے مانگا، دے دیا اور پوریاں وغیرہ جو کچھ تھیں، وہ اسی جگہ مسلمانوں کو تقسیم کردیں ۔‘‘ 
اس واقعہ کے بعد جو خیالات مولانا ندوی کے ذہن میں پیدا ہوئے، وہ یوں ہیں کہ آئندہ میں بھی ہر قسم کی اشیا کی خریدو فرخت صرف مسلمانوں سے ہی کیا کروں، اور غیر مسلموں سے، چاہے وہ ہندوہوں یا انگریز، مستقل بنیادوں پر قطع تعلق کر لینا چاہیے۔ اس پس منظر میں کچھ سوالات ذہن میں پیدا ہوئے جو اپنے شیخ ومربی کی خدمت میں یہ کہہ کر ارسال کردیے کہ’’جیساارشاد ہوگا، اسی کے مطابق ان شاء اللہ عمل کروں گا، لہٰذا نفس واقعہ اور حال عرض کردینے کے بعد جو خطرات و سوالات دل میں پیدا ہورہے ہیں، عرض کرتا ہوں‘‘۔ ان سوالات کا خلاصہ ذیل میں عرض کیا جاتا ہے ۔
۱۔ مشرکین کا نجس ہونا تو نص سے ثابت ہے، اس مفہوم کو صرف معنوی نجاست کہنے کی بجائے اس کو ظاہری نجاست بھی سمجھنا چاہئے، اور ہر قسم کے مشرکین سے، خواہ ہندو ہوںیا انگریز، ان سے ہر لحاظ سے اور ہر قسم کی قطع تعلقی کر لی جائے ۔
۲۔ کافروں کے ساتھ ترک موالات کے ساتھ ساتھ ترک معاملات بھی کیا جانا چاہیے ۔
۳۔ یہ قطع تعلقی بجائے چند ایام کے یا چند معامالات کے، ہمیشہ کے لیے ہونی چاہیے۔ 
پہلا سوال چونکہ خالص فقہی نوعیت کا ہے، لہٰذاحضرت مدنی نے اس کا جواب بھی خالص فقہی انداز میں نے عنایت فرمایا۔
دوسرے سوال میں چونکہ مولانا ندوی اسٹیشن پر پیش آمدہ واقعہ سے دل برداشتہ تھے، اس لیے انتقام کی اجازت پر مشتمل تھا، لہٰذا ایک مصلح کو اس کا جواب جیسا دینا چاہئے تھا، وہ جواب آپ نے بطریق احسن دیا۔
تیسرا، چوتھا، پانچواں اور چھٹا سوال اس زمانے میں چلنے والی تحریک ’ترک موالات‘ کی مناسبت سے تھا جس کا جواب ایک زیرک اور مدبر، دانشمندوحکیم سے جیسی امید کی جاسکتی تھی، اسی طرح دیا گیا۔
اس سوال میں تمام کفار، خواہ وہ ہندو ہوں یا انگریز، سب کے ساتھ ترک موالات کا مطالبہ کیا گیا تھا،جبکہ تحریک ترک موالات میں صرف انگریزوں کے ساتھ قطع تعلقی کی جارہی تھی، جس کے جواب میں حضرت مدنی نے فرمایا:
۱۔ ’’احکام سیاسیہ ایک حالت نہیں رکھتے۔ کبھی زہر علانیہ دینے کا موقعہ ہوگا، اور کبھی شکر کا شربت پیش کرنا ہوگا۔‘‘
۲۔ بجائے جذبات میں کوئی ایسا شدید فیصلہ کرنے کے جس سے وقتی مصالح اور دائمی فوائد سے محرومی ہوجائے، ’’ضروریات اسلامیہ اور وقتیہ کا لحاظ رکھتے ہوئے الانفع فالانفع پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ ‘‘
اور اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ’’انگریزوں کے ساتھ معاملہ سیاسی غیر مذہبی نہیں بلکہ مذہبی ہے، البتہ وہ اکبرالاعداء اور اقوی الاعداء اور اضرّ الاعداء ہیں، ان کی اسلامیت سے ناامیدی ہے ۔‘‘ جبکہ ہندوؤں کے بارے میں ایسی ناامیدی ہرگز نہیں ہے، کیوں کہ اکثر ہندوستان میں آباد اقوام میں سے لوگ مسلمان ہوئے ہیں، اگرچہ چند معروضی حالات کی وجہ سے اس میں رکاوٹ آگئی ہے۔ لہٰذا فرمایا’’مانحن فیہ ایسا نہیں ‘‘بلکہ مکتوب کے ابتدائی حصے میں حضرت مدنی نے تفصیل کے ساتھ ان معروضی حالات کا تجزیہ کیا ہے جن کی وجہ سے ہندو ؤں کے نزدیک مسلمان ہونا اتنا نفرت کا باعث بن گیا۔ اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: 
’’تاریخ بتلاتی ہے کہ ہند میں ابتداء اً جب مسلمان آئے، عام طور سے اہل ہند بدھ مذہب رکھتے تھے اور ترک چھوت چھات تو درکنار، بیاہ شادی تک بخوشی کرتے تھے ..... اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اختلاط نے نہایت قوی تاثیر کی۔ خاندان کے خاندان مسلمان ہوگئے۔ مغربی پنجاب خصوصاً سندھ میں مسلمانوں کی زیادتی کا بڑا راز یہی ہے۔ ‘‘
اور انگریزوں کے بارے میں چونکہ سائل کو یہ شبہ تھا کہ شاید ایک وقت آئے گا جب ہم ان سے ترک موالات کے مسئلہ میں نظر ثانی کرلیں گے اور ان کے ساتھ تمام معاملات میں تعلقات قائم کر لیے جائیں گے، تو اس کی وضاحت میں حضرت مدنی نے فرمایا: 
’’اگر وہ [انگریز] اسلامی دنیا پر مظالم گزشتہ سے تلافی اور آئندہ کے لیے دست بردار ہوجائیں تو ترک موالات وغیرہ میں تخفیف ضرور ہوگی، البتہ تابقاء کفر مصالحت کی بنا پرنہ موالات تامہ ہوگی اور نہ معادات‘‘ ۔
۴۔ مسئلہ چھوت چھات جس کی وجہ سے مولاناندوی کو ذاتی طور پر ایک تلخ تجربہ ہوچکا تھا اور اسی وجہ سے انہوں نے حضرت مدنی کویہ مکتوب لکھا اورجو کچھ مکتوب میں مندرج ہوا،وہ اس مکالمہ کا باعث بنا تھا جس کے جواب میں حضرت مدنی نے فرمایاکہ :
’’اگرچہ انگریز وہ معاملہ چھوت چھات کا نہیں کرتے، مگر اسلام کے بدترین اوراعلیٰ ترین دشمن ہیں ، بخلاف ہنود کے۔ یہ ہمارے پڑوسی ہیں اور پڑوسی اگرچہ کافر ہو، پڑوسی پر حق رکھتا ہے، کما وردفی الحدیث، ان کے ساتھ ہمارا خون ملا ہوا ہے، رشتہ اور قرابت داری ہے، یا آبا کے ساتھ یا جدّات کے ذریعے سے۔ ان کے ساتھ ہندوستان میں ہم کو مجبوراً رہنا اور درگزر کرنا ہے، بغیر میل جول جس قدر بھی ممکن ہو، ہندوستان میں گزرکرنا عادت مستحیل ہے ، اس لیے ضروریات زندگیہ اس طرف تخفیف ضرور پیدا کریں گی، انگریز سے ہم کو نہ یہ تعلقات ہیں، نہ مجبوریت ‘‘۔
اس بیان سے ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ایک مصلح یا ایک فقیہ کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرہ میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل اس انداز میں پیش کرے جس سے مسائل حل ہوں، اور لوگوں کا زندگی گزارنے کا عمل درست سمت میں احسن طریقہ سے چلتا رہے، اور حضرت مدنی نے اپنے اس جواب میں اس کا پوری طرح اظہار فرمایا۔
تحریر میں حضرت مدنی نے تاریخی مثالیں دیتے ہوئے اس سے پہلے کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’عوام ہند کی ذہنیت ہمیشہ سے تارکین دنیا کی پرستش کرنے والی واقع ہوئی ہے، خصوصاً ہندو ذہنیت جس قدر سادھواور فقیر کی پرستش کرتی ہے، وہ اظہر من الشمس ہے۔ یہ ذہنیت بہت جلد شرق سے غرب اور شمال سے جنوب تک پھیل گئی اور وہ اس میں کامیاب ہوگئے۔ چونکہ اسلامی قوت کا قوت سے ان کو مقابلہ کرنے میں باوجود مساعئ عظیمہ کا میابی نہیں ہوئی، اس لیے اسی طریقے پر ان کی جدجہد محصور ہوگئی، اسی کو انہوں نے آلۂ کار مدافعت بالقویٰ کا بھی بنانا چاہا‘‘۔
اور ہندؤں میں تہذیبی تبدیلی کے جوحالات سامنے آئے، اس کی نشان دہی اور اس کا حل بتاتے ہوئے حضرت مدنی نے فرمایا:
’’پادشاہان اسلام نے اولاً اس طرف توجہ ہی نہیں کی، بلکہ وہ تمام باتوں کا قوت سے مقابلہ کرتے رہے ،مگر شاہان مغلیہ کو ضرور اس طرف التفات ہوا، خصوصاً اکبر نے اس خیال اور اس عقیدے کو جڑ سے اکھاڑنا چاہااور اگر اس جیسے چند بادشاہ اور بھی ہوجاتے یا اس کی جاری کردہ پالیسی جاری رہنے پاتی تو ضرور بالضرور برہمنوں کی یہ چال مدفون ہوجاتی اور اسلام کے دلدادہ آج ہندوستان میں اکثریت میں ہوتے۔ اکبر نے نہ صرف اشخاص پر قبضہ کیا تھا بلکہ عام ہندو ذہنیت اور منافرت کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیاتھا۔‘‘ 
پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت مدنی کا یہ قول تفرد نہیں اور نہ ہی اس بات میں حضرت مدنی اکیلے اور تنہا ہیں ،بلکہ اگر ’الشریعہ‘ کی مجلس ادارت کے رکن رکین تاریخ کی کتب پر نظر ڈالتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ اکبر کو بدنام کرنے والے صرف ’’دوقومی نظریہ ‘‘کے علمبردار تھے، نہ کہ ہندوستانی قومیت کے علمبردار، اوراس مسئلے پرتاریخ میں بہت سے افراد ایسے مل جائیں گے جو اکبر کی پالیسیوں کو اس کے سیاسی منظر نامہ میں دیکھ کر درست قرار دیتے رہے ہیں، اور ہندوستان میں سیکولرازم کا اولین علمبردار جلال الدین اکبر کوقراردیتے رہے ہیں جو مسلمانوں میں پہلے حکمران ہیں جوتمام ادیان کو ساتھ لے کر ہندوستان پر حکمرانی کرنے کے قائل تھے۔ آج اس بات کوصدیاں بیت جانے کے بعد اور مسلمانوں کا بٹوارہ کیے جانے اور تاریخ کے سب سے بڑے قتل عام کے بعد بعض روشن خیال اور مغرب کے پروردہ مفکرین سیکولرازم کی طرف متوجہ ہونا اپنے لیے سعادت دارین سمجھتے ہیں، اور حضرت مدنی کے مکتوبات میں سے کچھ کلمات کو توڑ مروڑ کراپنی مصنوعی روشن خیالی کے چہرے پر سجانے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ اس مملکت کا حصول اس سوچ سے یکسرمختلف تھا۔ ا ور حقیقت حال تو یہ ہے کہ نہ اکبر کی تجدد پسندی پر کوئی اجماع ہے اور نہ حضرت مدنی نے کسی اجماع کی مخالفت کی۔ یہ صرف کور باطنی کی وجہ سے یا نگاہ حقیقت بین سے محرومی کی وجہ سے اور اجماع کے مفہوم سے نا آشنائی کی وجہ سے یا اس بات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے کہ تاریخ میں اجماع نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ ایک فقہی اصطلاح ہے، یا نظریۂ قومیت سے ناآشنائی کی وجہ سے، یا ہندوستان کی قدیم تاریخ کی وجہ سے، یا روشن خیالی وتجدد پسندی کے شوق میں بے بہرہ ہوجانے کی وجہ سے ہے کہ ’رکن رکین ‘کو حضرت مدنی کا اجماع کے خلاف ہونا اور اکبر کی پالیسیوں کا خلاف اجماع ہونا نظر آرہا ہے۔
جہاں تک اکبر کی مذہبی پالیسیوں کا تعلق تھا، اس پر حضرت مدنی نے واضح الفاظ میں لکھا کہ مسئلہ چھوت چھات پر اکبر جیسا زیرک ودانا حکمران کیوں قابو نہ پاسکا، کیونکہ ’’ادھر تو اکبر نے نفس دین اسلام میں بھی کچھ غلطیاں کیں جن سے مسلم طبقہ میں اس سے بد ظنی ہوئی‘‘ اس لیے کہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا جتنا اس کو بنا دیا گیا۔ اس کو دین الہٰی کہا گیا اور اس کے بارے میں مسلمانوں میں بداعتقادی کی وجہ سے یا مغلوں سے ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے یا سیاسی حالات سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کو خوب بدنام کیا گیا، اور اسی پس منظر میں حضرت مدنی فرماتے ہیں: ’’اگرچہ بدظنی کرنے والے غافل اور کم سمجھ تھے‘‘۔ یہ تو اپنوں کا حال تھا کہ مسلمان حکمرانوں کی پالیسیوں کو دیکھ کر درست رائے قائم کرنے کی بجائے الٹا اس کو مورد طعن وتشنیع بنایا جانے لگا، اور دوسری طرف ہندوؤں میں جو مسئلہ چھوت چھات کا تھا اور اس کو ختم کرنے کی کوشش اکبر نے کی، ’’ادھر برہمنوں کے غیظ وغضب میں اپنی ناکامی دیکھ کر اشتعال پیدا ہوا‘‘ اور اس کے ساتھ ہی انگریزوں کی منافرت بین الاقوام کی پالیسیوں، سیواجی کی تاریخی نفرت انگیزی، سکھوں کی مسلم دشمنی کی تاریخ، وہ عناصر ہیں جن کی وجہ سے ہندوؤں میں چھوت چھات کا مسئلہ اور زیادہ بڑھا اور ہند میں آباد اقوام میں نفرت بڑھتی چلی گئی ۔
اگر ’معزز رکن رکین‘ مولانا نجم الدین اصلاحی کا حاشیہ دیکھ لیتے تو شایدروشن خیالی کے من میں چھپے ہوئے تجدد پسندی کے بھوت کو وہ اس طرح رام نہ کرتے جیسے انہوں نے کیا ہے، مگر محترم کو تو گلوبل بننے کی فکر دامن گیر ہے ،اور اس شوق کوبھی پورا کرنابہت تھا کہ بازار سے گلوب کو لے کراپنے سامنے رکھتے اورایک نظر میں کئی ممالک کو دیکھتے رہتے اور یوں گلوبل بن جاتے۔ ا ورہاں جس گلوبل دنیا کے محترم دعوے دار ہیں، وہ کم ازکم اس تیسری دنیا میں تو بیسیوں برس دورتک کہیں نظر نہیں پڑتی ۔
البتہ یہ گلوبل ازم کا نعرہ صرف ہم جیسے ناہنجار لوگوں کا مقدر ہے، جہاں تعلیم کی بجائے جہالت ،روزگار کی بجائے فقر وفاقہ، صحت کی بجائے آئے دن نئی نئی بیماریاں، محبتوں کی بجائے نفرتوں کے انبار، ترقی کی بجائے تنزلی، سچ کی بجائے جھوٹ، قانون کی بجائے لا قانونیت، انصاف کی بجائے ظلم، روشنی کی بجائے اندھیرے، سائنس کی بجائے پتھر کا دور، جمہوریت کی بجائے فرد واحد کا مختار کل ہونا مقدر بن چکا ہے اور جہاں ہمارارونابھی U.N.O. کے بڑے بڑے بے روح ہالوں میں صدابصحرا ہونے کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کشمیر وفلسطین، اندلس وفلپائن، بوسنیا وفرانس، عراق و افغانستان کے حالات کو ایک نظر ہی دیکھ کر اندازہ کریں کہ جس سوچ کے وہ حامل ہیں، کیا وہ حقیقت کی دنیا یا زمینی حقائق سے بھی موافقت رکھتے ہیں یا گلوبلائزیشن کی سوچ سوائے ایک سہانے خواب کے کوئی معنی بھی رکھتی ہے؟ یہ نعرہ دنیا کی حاکم قوتوں نے ہم غریب لوگوں کو انتشار میں مبتلا رکھنے کے لیے تراشا ہے ۔
اسی لیے تو اکبر کی پالیسیوں کا معاشرتی اثر ہمیں نظر نہیں آتا، البتہ اس سے دور اور بہت ہی دور ’’اکبر کی پالیسیوں کو تجدد پسندی کا نام دینے والے اس کے’ ’اجماعی مخالفین‘‘تفہیم سے دوری کے باعث یہ اہم نقطہ بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ریاستوں اور حکومتوں کے اقدامات کے اثرات دیرپا اور مطلق نہیں ہوتے بلکہ معاشرتی عناصر زیادہ گہرے اور زیادہ دیرپا اثرات مرتب کرتے ہیں، کیونکہ ایک ریاست کے اندر حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، اورحکومتوں کے بدلنے کے ساتھ حکومتوں (یا مقتدرہ شخصیات) سے منسلک اقدامات بھی ترک کردیے جاتے ہیں اور اس پر کوئی خاطر خواہ رد عمل بھی سامنے نہیں آتا‘‘ لیکن گلوبلائزیشن کے علمبردار محترم اپنے اس کلام میں بھول گئے کہ جہاں معاشرت پنپتی ہے، وہاں معاشرتی اکائی افراد ہوتے ہیں جو کسی بھی معاشرے کی آبیاری کرتے ہیں، اور اسی میں چھوٹے چھوٹے گروہ اور جماعتیں اور محفلیں ہوتی ہیں جو معاشرت کی ایک اکائی کا درجہ رکھتی ہیں، جبکہ محترم نے اپنے مضمون کے آخر میں نہ جانے تبلیغی جماعت پر اپنے دانت کیوں تیز کیے ہیں۔ ہزار اختلاف کے باوجود جو شخص بھی معاشرتی اقدارپر نظررکھتاہے، وہ جانتاہے کہ یہ جماعت معاشرتی طورپر کیاکام سرانجام دے رہی ہے، اور ان کے اس عمل کے نتیجے میں معاشرے میں کیا کیا تبدیلیاں اور اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اگر موصوف کی اس پہلو پر نظر ہوتی تو ان کے خون کا دوران تبلیغی جماعت کے نام پر اتنا تیز نہ ہوتا ۔ اور آخری بات یہ ہے کہ حضرت مدنی کی تجددپسندی میں تبلیغی جماعت نے کیا رکاوٹ پیدا کردی ہے جو اس عنوان کے تحت اس کو ذکر کرنا پڑا؟ اگر موصوف اس پر کوئی خامہ فرسائی فرمائیں تو ’الشریعہ‘ کا باقاعدہ قاری ہونے کے ناتے سے مشکور ہوں گا۔

در جواب آں غزل

امجد علی شاکر

ضرورت سے زیادہ پڑھنا اپنے ساتھ ظلم وزیادتی ہے اورضرورت سے زیادہ لکھنا دوسروں سے، اس لیے راقم کا مطالعہ خاصا محدود ہے۔ سوئے اتفاق کہ جناب زاہد الراشدی خان صاحب کے رسالہ الشریعہ کا فروری ۲۰۰۷ء کا شمارہ دیکھنے کا اتفا ق ہوا۔ اس میں ’مباحثہ ومکالمہ‘ کے ذیل میں حضرت قبلہ پروفیسر میاں انعام الرحمن زیدہ مجدہ کا مضمون نظر پڑا۔ ایک پرانا واقعہ یاد آیا۔ مولانا احسن اصلاحی نے ڈاکٹر اسرار احمد سے پوچھا: ’’آپ محاضرات قرآنی کے نام پر مختلف الخیال لوگ بلا لیتے ہیں، اس کا مقصد ومنشا کیاہے؟‘‘ ڈاکٹر اسرار احمد نے کہا: ’’حضرت! میں مختلف الخیال لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا چاہتاہوں۔‘‘ مولانا امین احسنؒ نے فرمایا : ’’ڈاکٹر صاحب! یہ کام تو پاکستان ریلوے ایک مدت سے سرانجام دے رہاہے۔‘‘
پہلے تو راقم یہ سمجھتا تھا کہ ’الشریعہ‘ ریلوے پلیٹ فارم ہے جس پر ہر طرح کے لوگ آتے جاتے نظر آتے ہیں۔ اب مضمون دیکھ کر پتا چلا کہ یہ صرف ریلوے کا پلیٹ فارم ہی نہیں، ۱۹۴۶ء کے مشرقی پنجاب کا ریلوے پلیٹ فارم ہے۔ اس کی مجلس ادارت ومجلس مشاورت میں جس قسم کے عبقری اور نابغہ جمع ہیں، ان سے اسی رویے کی توقع تھی۔ ممکن ہے کہ قارئین ساٹھ سال پرانی تاریخ بھلا بیٹھے ہوں، وہ مولانا حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ کی سوانح کی کوئی کتاب پڑھ لیں۔ انہیں پتہ چل جائے گا کہ ۱۹۴۶ ء کے مشرقی پنجاب کے ریلوے پلیٹ فارم کی کیا تاریخ ہے۔ انہیں پروفیسر میاں انعام الرحمن کے تاریخی کردار کو جاننے میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔
۱۹۴۶ء کے مشرقی پنجاب کے ریلوے پلیٹ فارموں پر کچھ نوجوانوں نے عاقبت فراموش کرکے جس نیم فطری لباس میں ڈانس فرمایا تھا، میاں انعام الرحمن نے یہ مضمون لکھ کر خود کو ویسے ہی نیم فطری لباس میں دکھادیاہے۔ ایک با ر کی ملاقات میں ہم نے سمجھا تھا کہ یہ کچھ نہ کچھ پڑھتے بھی ہیں، یہ مضمون دیکھ کر پتا چلا کہ وہ صرف لکھتے ہیں۔ میاں انعام الرحمن کی ذات بابرکت کی عقیدت مندی اور ارادت مندی میں وہ ہم سے پیچھے نہیں۔ ہمیں ان کی یہ ادا بے حد پسند آئی ہے کہ انہوں نے بلوغت کے لیے وقت کا انتظار نہیں کیا۔ وہ ماشاء اللہ فقہ وکلام اور تاریخ وفلسفہ پر لکھتے ہیں اوران علوم کے ماہرین سے اختلاف کرتے ہیں اورکمال کی بات یہ کہ ان علوم میں مطالعہ کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ وہ شاید کسب کے زیادہ قائل ہی نہیں۔ شاعر تلامیذ الرحمن ہوسکتے ہیں تو پروفیسر میاں انعام الرحمن کیوں نہیں؟ وہ سیاسیات کے لیکچرر ہیں لیکن کمال یہ ہے کہ خود کو پروفیسر لکھتے ہیں، حالانکہ پروفیسر بننے کے لیے ابھی ایک مدت درکار ہے۔ ممکن ہے کہ انہیں تمام عمر پروفیسر بننے کا موقع نصیب نہ ہو، لیکن کیا ضروری ہے کہ وہ محکمے کے فیصلے کا انتظار کرتے رہیں۔ وہ فقہ وکلام پر بغیر علم کے مسند ہوسکتے ہیں، حالانکہ ان بیچاروں نے ان علوم پر ابتدائی کتب بھی نہیں پڑھی، تو کیا پروفیسر نہیں بن سکتے ۔وہ اپنی ذات کی عقیدت میں اس حد تک مبتلا ہیں کہ ہم جیسے عقیدت مندوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیاہے۔ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ پروفیسر (نہ ہونے کے باوجود) لکھ دیاہے، مگر حضرت مدنی قدس سرہ کے نام کے ساتھ شیخ الحدیث یا کوئی دوسرا سابقہ تو کجا، مولانا لکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
میاں انعام الرحمن علم سیاسیات کے استاذ ہیں، مگر ان دنوں فقہ وکلام پر ماہرانہ مضامین لکھ رہے ہیں۔ ہم انہیں پڑھتے نہیں کہ عقیدت میں کمی نہ ہو جائے۔ سوئے اتفاق کہ یہی مضمون پڑھا (وہ بھی پورا نہیں)، ابھی تک صدمے سے باہر نہیں آسکے۔ صدمہ یقیناًاپنی جہالت کے ادراک کا بھی نہیں، جملہ فقہائے مت کی کم علمی پر دکھ ہوا کہ کسی فقیہ کو اجماع اور تفرد کا مفہوم نہیں سوجھا جو میاں انعام الرحمن سمجھ پائے ہیں۔ ہم ان بزرگوں کے اتباع میں یہ سمجھ سکے تھے کہ اجماع، عقائد واحکام میں ہوتاہے، مگر اب پتا چلا کہ یہ اجماع خبروں میں بھی ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی سنا تھا کہ اجماع اہل علم کا معتبر ہوسکتاہے، مگر اب پتا چلا کہ اجماع میاں انعام الرحمن کی سطح کے لوگوں کا معتبر ہوسکتاہے۔ پھر ایک اور بات کا علم بھی ہواکہ اکبر کے بارے میں ایک خاص تعبیر پر ایمان لانا عقائد کا حصہ ہے نہ کہ تاریخ کا۔ ویسے تو ہمارے مسلم لیگی رضاکاروں نے عقائد کے سلسلے کو ہمیشہ آگے بڑھا کر اسلام کو خوب ترقی دی ہے۔ مثلاً ۱۹۴۶ء میں ایمان کی صفات میں ایک اور صفت کا اضافہ ہوا تھا:
مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آمرحوم 
پروفیسر منور مرزا زندہ تھے تو انہوں نے یوم اقبال پر ایک جلسہ میں برسرِجلسہ یہ تجویز پیش کی کہ ایمان کی صفات میں ’واقبالہ وجناحہِ‘ کا اضافہ کر دیا جائے۔ ہمارے ایمان کی کمزوری کہ یہ سن کر کانپ اٹھے۔ راوی ثقہ تھے۔ انکار کی ہمت نہ پڑی، مگر یقین بھی نہ آیا۔ پروفیسر صابر لودھی سے تصدیق چاہی کہ وہ جلسے میں شریک تھے اور منور مرزا کے سابقہ کولیگ بھی تھے۔ انہوں نے لفظ بلفظ تصدیق بھی فرما دی۔ پھر منور مرزا کے داماد صلاح الدین ایوبی سے تحقیق کی تو انہوں نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے اس کی تائید میں دلائل دینا شروع کر دیے۔ ہم ان کی عظمت پر ایمان لے آئے اوریہ بھی مانتے بنی کہ وہ واقعی شخصیت پرست نہیں۔ اگر وہ زیادہ اصرار کرتے تو ہم یہ بھی مان سکتے ہیں کہ شخصیت پرست ہم ہیں۔ جیسے ایک شاعر نے کہا تھا :
گرنازنیں کہے سے برامان گئے ہوتم
میری طرف تو دیکھیے، میں نازنیں سہی
میاں انعام الرحمن کے بارے میں سنا ہے کہ انہوں نے تقلید کے استرداد میں ایک مضمون رقم فرمایا ہے (وہ مضمون الشریعہ کے دسمبر کے شمارے میں شائع ہواہے) اب قول سعدی یہ برآمد ہواہے کہ ائمہ فقہ کی بجائے میاں انعام الرحمن کی تقلید موزوں رہے گی، اسی لیے انہوں نے اجماع اور تفرد کے فیصلے کرنا شروع کردیے ہیں۔ میاں انعام الرحمن کی تقلید میں ایک آسانی یہ بھی رہے گی کہ کوئی ان کی بات کا جواب نہ دے سکے گا، کیونکہ ایسے لوگوں کے جواب میں دانا ؤں نے خاموش رہنے کی نصیحت فرمائی ہے۔
ریلوے پلیٹ فارموں پر عموماً لکھا ہوا دکھائی دیتاہے کہ یہاں تھوکنا منع ہے، مگر الشریعہ کے پلیٹ فارم پر تو جو شخص جی چاہے اور جہاں جی چاہیے، تھوک سکتاہے حتیٰ کہ چاند پر تھوکنے کی ممانعت بھی نہیں، اسی لیے میاں انعام الرحمن کا مضمون بے تکلف چھاپ دیا گیا ہے۔ جناب زاہد الراشدی خان کو چاہیے کہ ایسے مضمون چھاپنے کے بعد مصنف کے چہرے کو دیکھ لیا کریں۔ اس عمل کے بعد لکھنے والوں کے چہرے یقیناًچمک اٹھتے ہیں۔
اکبر کی سیاسی پالیسی اوربدعات پر کسی نے بھر پور تحقیق نہیں کی۔ محمد حسین آزاد نے ’’دربار اکبری‘‘ لکھی تو وہ افسانہ وافسوں سے زیادہ نہیں۔ آزاد کی گپ بازی اردو تحقیق میں مسلمہ ہے۔ ملا عبدالقادر بدایونی کی ’’منتخب التواریخ‘‘ میں بہت سی روایات محلِ نظر ہیں۔ ’’رود کوثر‘‘ میں اکبر کی تائید ملتی ہے ۔دراصل اکبر کے بارے میں مستند ماخذ تین ہیں: ابو لفضل کی ’’آئین اکبری‘‘، حضرت مجدد الف ثانی کی تحریریں یعنی ان کے مکتوبات اورجہانگیر کی تزک۔ان تینوں مآخذ کی بنیاد پر مستند واقعات اور امور کو سامنے لایا جا سکتا ہے۔ بہرحال اب تک جو کچھ سامنے آیاہے، اس کے مطابق اکبر کے بارے میں دو باتیں بنیادی نوعیت کی ہیں:
۱۔منفی امور: اکبری بدعات اور ہر قسم کی مشرکانہ رسوم وعادات کی سرکاری سرپرستی۔ اس حوالے سے ہمارے تمام حاکم اکبر کے مقلد ہیں۔ کبھی کسی حاکم نے مزار کو غسل دیتے ہوئے شرک اوربدعت کے حوالے سے سوچنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ شیعہ کو خوش کرنے کے لیے بعض دانشور علما نہ صرف حضرت امیر معاویہؓ پر تنقید کرنا جائز سمجھتے ہیں بلکہ ان کی مجالس عزا میں شریک ہونا بھی عیب نہیں سمجھتے۔ اب تو خیر سے لیاقت بلوچ نے کرسمس کیک کاٹ کر اکبری بدعات کی تقلید میں ایک قدم اور آگے بڑھا دیاہے۔
۲۔مثبت امور: اکبر نے ہندوستان میں امن قائم کیا، مسلمانوں اورہندوؤں کے مابین موالات اورقرب پیدا کیا، اس طرح دونوں مذاہب میں مکالمے کی صورت پید ا ہوئی۔ ہمار ے ہاں بڑے بڑے باکمال لوگ پائے جاتے ہیں۔ وہ تلک لگواسکتے ہیں، مندر میں عبادت کے لیے گھنٹی بجانے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے جیسا کہ امیر المومنین ضیاء الحق صاحب نے کیا تھا۔ دیوی کے سامنے پرارتھنا کرسکتے ہیں جیسا کہ بشریٰ رحمن نے کیا تھا۔ کرسمس کا کیک کاٹ سکتے ہیں جیساکہ لیاقت بلوچ نے کیا تھا۔ مگر ایک بات سخت ناپسند کرتے ہیں۔ وہ ہے ہندو اور مسلم میں مکالمہ اور قرب۔ اس میں بہت خطرے ہیں۔ اب اگر لاکھوں ہندو مسلمان ہو گئے تو اسلام پر قبضہ ہوسکتاہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت مدنی کلکتہ میں مسجد ناخدا میں ہوتے تھے تو سینکڑوں لوگ مسلمان ہوتے۔ ماشاء اللہ مسلمانوں کو نسلی قوم بنایا گیا تو ہندوؤں میں یہ رویہ ختم ہوا اور اسلام محفوظ ہوا ۔
حضرت مدنی ؒ نے ایک خط میں لکھا تھا :
’’اکبر نے نہ صرف اشخاص پر قبضہ کیا تھا ،بلکہ عام ہندو ذہنیت اور منافرت کی جڑوں کو کھوکھلا کردیاتھا مگر ادھر تو اکبر نے نفس دین اسلام میں کچھ غلطیاں کیں جن سے مسلم طبقہ میں اس سے بدظنی ہوئی، اگر چہ بہت سے بدظنی کرنے والے غافل اور کم سمجھ تھے۔ ادھر برہموں کے غیظ وغضب میں اپنی ناکامی دیکھ کر اشتعال پیدا ہوا‘‘الخ۔
اس پیراگراف کا مفہوم بڑا سادہ ساہے کہ حضرت مدنی اکبر کی پالیسی کے منفی پہلو کی تردید اور مثبت پہلو کی تائید کررہے ہیں۔ یہی تفرد ہے جناب پروفیسر میاں انعام الرحمن کی نظر میں۔
آخر میں مجھے مولانا محمد مالک کاندھلوی ؒ کا ایک واقعہ یاد آرہاہے۔ واقعے کا تعلق بھی ریلوے سے ہے،اسی لیے اس کا ذکر بے جا نہ ہوگا۔ مولانا محمد مالک ؒ کراچی جانے کے لیے ریل میں سوار ہوئے۔ ایک ہم سفر نے آپ کو پہچان لیا اور بڑے تپاک سے ملا۔ تعارف کراکرکہا: ’’راستے میں آپ سے تبادلہ خیال رہے گا ۔‘‘ حضرت پریشان ہوگئے۔ بڑی عاجزی سے کہا : ’’میرے خیالات تو لے لیجئے گا، مگر اپنے خیالات سے مجھے محروم ہی رکھیے گا۔‘‘ پھر مخاطب کی آرزدگی کا سوچ کر فرمایا: ’’میاں بات یہ ہے کہ میرے خیالات تو قرآن وسنت سے مستنبط ہیں اور آپ کے خیالات مغرب سے آئے ہیں‘‘۔
میاں انعام الرحمن صاحب سے تو یہ بھی نہیں کہاجاسکتا کہ انہوں نے مغرب کو کہاں پڑھا ہوگا؟ وہ تو خود مفکر ہیں۔ دوسروں کی تحریریں اور افکار تھوڑا ہی پڑھتے ہیں۔ ان کے افکار دوسرے لوگ پڑھیں اور ان کا اتباع کریں۔
زاہد الراشدی خان سوچتے ہوں گے کہ ہم نے ان کے نام کے ساتھ مولانا نہیں لکھا۔ ہم یہ جرات کیسے کرسکتے ہیں؟ ان کے استاذ الاساتذہ شیخ مدنی ؒ تو ان کے رسالے میں مولانا ہیں نہیں، زاہد الراشدی خا ن مولانا کیسے ہوں گے؟ زاہد الراشدی خان کو دو روایات سنا نے کو جی چاہتاہے۔ ایک تو انہوں نے ضرور سنی ہوگی۔ مولانا عبیداللہ اکثر یہ واقعہ سناتے تھے۔ ہم نے متعدد دفعہ مولانا سے یہ واقعہ سنا تھا۔ فرماتے تھے کہ حضرت لاہوری ؒ فرماتے تھے:
’’لوگ کہتے ہیں بینا سارے، اندھا کوئی کوئی۔ میں کہتاہوں اندھے سارے، بیناا کوئی کوئی۔ میرے بزرگ حضرت مدنیؒ اور حضرت رائے پوری (قدس اللہ اسرارہما) بینا ہیں، باقی ساری دنیا اندھی۔ یہ بزرگ ایک بات کہہ دیں اور ساری دنیا اس کے مخالف ہوجائے ، میں ان بزرگوں کی بات مان لوں گا، ساری دنیا کی بات چھوڑ دوں گا۔‘‘
زاہد الراشدی خان! کیا یہ بات سچ یا جھوٹ! کیا آپ نے یہ قول نہیں سنا؟ کیا آپ اس بات کی تردید فرما سکتے ہیں؟ 
اب اردو کے ایک نقاد افسانہ نگار اور انگریزی کے استاذ کا قول بھی سن لیجئے۔ یہ شخص تھے پروفیسر محمد حسن عسکری اعلی اللہ عقائدہ۔ اس مرد درویش نے ایک اصول مقرر کیاتھا کہ دین کا علم صرف دین کے مستند نمائندوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ دین میں صرف مستند نمائندوں کی رائے معتبر ہے۔ پھر اس مرد درویش نے کہا کہ حضرت تھانوی ؒ اور حضرت مدنی قدس اللہ اسرارھم دین کے مستند نمائندے تھے،انہی کا فرمان معتبر اور مستند ہے۔ پروفیسر میاں انعام الرحمن تو یہ بات نہیں سمجھ سکتے، کیا زاہد الراشدی خان بھی نہیں سمجھ سکتے؟ اگر بھول گئے ہوں تو اپنے والد محترم اور چچا محترم سے پوچھ لیں کہ کیا دین میں غیر عالم کا قول معتبر ہو سکتا ہے؟ جناب !دین تو بڑی بات ہے، ہم تو شاعری میں بھی غیر عالم کا قول معتبر نہیں سمجھتے۔
میاں انعام الرحمن (پروفیسر نہ لکھ سکنے پر معذرت خواہ ہوں) نے اپنے مضمون میں سے پڑوسیوں کی تعبیر کرتے ہوئے اس پر تمام گلوب کو قیاس فرمایاہے۔ اس قیاس پر ہمیں توایک اصطلاح یاد آرہی ہے ’’قیاس مع الفارق‘‘۔ میاں انعام الرحمن ان قدیم اصطلاحوں کو سمجھنے کے لیے دماغ پر زور نہ ڈالیں کہ یہ ماضی کا قصہ ہیں اور ان جیسے ائمہ فکر کے لیے ماضی کے علوم کی کچھ ضرورت نہیں ہوتی۔ میاں صاحب اگر بضد ہوں تو زاہد الراشدی خان سے اس کامفہوم ومعنی پوچھ لیں۔
بقیہ مضمون ہم پڑھ نہیں سکے کہ ہم میں زیادہ صبر بھی نہیں۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں اوسط عمر کچھ زیادہ نہیں۔ بہرحال مضمون ان کی علوفکر کی دلیل ہوگا، یقیناًبہت علمی ہوگا، ہم جیسوں کو استفادہ کرنا چاہیے۔ ہماری کم نصیبی کہ استفادہ نہیں کرتے، وغیرہ وغیرہ۔ ہم ان کی عقیدت میں مبتلا ہیں اور ان کے عقیدت مند جیسے کہ وہ خود ہیں، اس طرح سوچ سکتے ہیں۔ بہرحال یہ چند سطریں محض ان کی عقیدت مندی میں لکھ دی ہیں، ورنہ من آنم کہ من دانم۔ امید ہے میرے لکھے کو وہ ناپسند نہیں کریں گے۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
واجب الاحترام جناب مدیر ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دین کا ایک طالب علم ہونے کے ناتے آپ کا عمدہ اور معیاری رسالہ زیر مطالعہ رہتا ہے۔ اس وقت میں فروری ۲۰۰۷ کے شمارے میں شائع ہونے والے حافظ محمد زبیر صاحب کے مضمون: ’’غامدی صاحب کے تصور ’فطرت‘ کا تنقیدی جائزہ‘‘ کے حوالے سے چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ ان پر غور فرمائیں گے۔ 
میری پہلی شکایت تو آپ سے ہے کہ آپ نے اپنے رسالے میں مذکورہ مضمون کو کیسے جگہ دے دی جبکہ مذکورہ مضمون،کم از کم میری ناقص رائے میں، نہ آپ کے رسالے کے معیار پر پورا اترتا ہے اور نہ ہی تنقید کے علمی، اخلاقی اور دینی تقاضے پورا کرتا ہے۔ ایسا مضمون آخر کیوں آپ کے رسالے میں جگہ پاگیا جس میں واشگاف الفاظ میں دوسروں کی نیتوں پر حملہ کیا گیا ہے، جبکہ آپ بھی یہ تسلیم کریں گے کہ نیتوں کا علم تو صرف اور صرف رب کائنات ہی کو ہو سکتا ہے؟ ذرا اس جملے کو دوبارہ پڑھیے جس پر صاحب مضمون نے اپنے مضمون کا اختتام کیا ہے:
’’تعجب ہے اس انداز فکر پر! جب چاہتے ہیں اپنے مزعومہ افکار کی تائید کے لیے اصول وضع کر لیتے ہیں اور اپنی خواہش نفس کی تکمیل کے لیے جب چاہتے ہیں، اپنے ہی وضع کر دہ اصولوں کی بھی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔‘‘ (ص۴۳)
مجھے دوسری شکایت خود صاحب مضمون سے ہے۔ غامدی صاحب پرحافظ صاحب ایک چھوڑ، دس تنقیدیں کریں، لیکن تنقید میں علمی، اخلاقی اور دینی اصولوں کو پیش نظر رکھنا ان کا دینی فریضہ بنتا ہے۔ ان کے مضمون میں دینی اصولوں کو پیش نظر نہ رکھنے کی مثال میں اوپر دے چکا ہوں، جبکہ علمی و تحقیقی تقاضوں کو پورا نہ کرنے کی مثالیں پیش خدمت ہیں:
حافظ صاحب نے غامدی صاحب کے مآخذ دین کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’غامدی صاحب کے مآخذ دین، علی الترتیب، درج ذیل ہیں:
۱۔ دین فطرت کے بنیادی حقائق
۲۔ سنت ابراہیمی
۳۔نبیوں کے صحائف
۴۔ قرآن مجید‘‘ (ص۳۳)
یہ بات بغیر کسی حوالے کے درج کر دی گئی ہے اور اس میں دو بنیادی علمی غلطیاں پائی جاتی ہیں:
صاحب مضمون نے پہلی غلطی تو غامدی صاحب کے مآخذ دین شمار کرنے میں کی ہے۔ محترم غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’’اصول و مبادی‘‘ کے ابتدائی تین صفحات (۹ تا ۱۱) میں اپنے مآخذ دین خود بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’یہی قانون و حکمت وہ دین حق ہے جسے ’’اسلام‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کے مآخذ کی تفصیل ہم اس طرح کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے منتقل ہوا ہے اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے:
۱۔ قرآن مجید
۲۔ سنت‘‘ (ص ۹)
ان کی دوسری غلطی ’’ترتیب‘‘ کی غلط بیانی ہے۔ غامدی صاحب کے ہاں تو قرآن مجید پہلے نمبر پر ہے اور اسے پہلے نمبر پر ہی ہونا چاہیے، جبکہ حافظ صاحب کی ترتیب میں بے چارہ قرآن چوتھے نمبر پر چلا گیا ہے اور اہل علم جانتے ہیں کہ محض ترتیب کی گڑ بڑ سے غلطی ہائے مضامین کا ایک پہاڑ کھڑا ہو سکتا ہے۔
حافظ صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’غامدی صاحب کے اصل اصول یہی چار ہیں، جبکہ ان چار کے علاوہ بھی غامدی صاحب کے کچھ اصول ہیں جن سے ضرورت پڑنے پر غامدی صاحب استدلال کرتے ہیں، لیکن ان کو مستقل ماخذ دین نہیں سمجھتے۔ یہ اصول درج ذیل ہیں:
۵۔ حدیث
۶۔ اجماع
۷۔ امین احسن اصلاحی جنھیں وہ امام کہتے ہیں۔‘‘ (ص ۳۳)
غامدی صاحب کے حوالے سے حافظ صاحب کے اس فہم پر صرف ’’انا للہ‘‘ ہی پڑھی جا سکتی ہے۔ ’اصول و مبادی‘ کا جو حوالہ میں نے اوپر نقل کیا ہے، اس سے یہ بات ایک عام قاری بھی اخذ کر سکتا ہے کہ غامدی صاحب کے مآخذ دین صرف اور صرف دو ہیں، چار یا سات نہیں، جبکہ اجماع ان کے ہاں دین کی منتقلی کا ایک بنیادی ذریعہ ہے۔ اسی طرح حدیث کے حوالے سے بھی غامدی صاحب کا موقف واشگاف الفاظ میں لکھا ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’دین لاریب، انھی دو صورتوں میں ہے۔ ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے، نہ اسے دین قرار دیا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کے اخبارِ آحاد جنھیں بالعموم ’’حدیث‘‘ کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ کبھی درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا، اس لیے دین میں ان سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا۔ دین سے متعلق جو چیزیں ان میں آتی ہیں، وہ درحقیقت، قرآن و سنت میں محصور اسی دین کی تفہیم و تبیین اور اس پرعمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کابیان ہیں۔ حدیث کا دائرہ یہی ہے۔ چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہو سکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔ 
اس دائرے کے اندر، البتہ اس کی حجت ہر اس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل یا تقریر و تصویب کی حیثیت سے اسے قبول کر لیتا ہے۔ اس سے انحراف پھر اس کے لیے جائز نہیں رہتا، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اس میں بیان کیا گیا ہے تو اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے ۔‘‘ (ص۱۱)
کیا غامدی صاحب کے مذکورہ بیان سے وہ نتیجہ نکلتا ہے یا کھینچ تان کر نکالا جا سکتا ہے جو حافظ صاحب نے بیان کیا ہے کہ ’’ان چار کے علاوہ بھی غامدی صاحب کے کچھ اصول ہیں جن سے ضرورت پڑنے پر غامدی صاحب استدلال کرتے ہیں‘‘ اور ان میں ایک ’بے چاری ‘ حدیث بھی ہے؟ حافظ صاحب، خدارا! کچھ تو خوفِ خدا کیجیے اور خدا کی بارگاہ میں جواب دہی کا کچھ تو احساس کیجیے۔ کسی کی واشگاف الفاظ میں لکھی ہوئی رائے کو اپنے الفاظ میں سموتے ہوئے آپ کو ذرا خیال نہ آیا؟ ان کی رائے آپ کے نزدیک درست ہے یا غلط، اس پر بحث کرتے رہیے، لیکن خدارا ! پہلے ان کی بات کو تو باحوالہ اور درست نقل کیجیے اور پھر اس پر جتنی چاہے، تنقید کیجیے۔ 
حافظ صاحب کی ایک بڑی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ ایسی آرا کی نسبت بھی بلاتحقیق غامدی صاحب کی طرف کر رہے ہیں جو انھوں نے خود بیا ن نہیں کیں۔ مثلاً ص ۳۷ پر انھوں نے بعض آرا کا ذمہ دار اس بنیاد پر غامدی صاحب کو ٹھہرایا ہے کہ یہ المورد کی سرکاری ویب سائٹ (www.urdu.understanding-islam.org) پر جاری کی گئی ہیں، جبکہ صحیح صورتحال یہ ہے کہ مذکورہ ویب سائٹ جناب معز امجد صاحب کی نگرانی میں کام کر رہی ہے اور اس میں درج آرا کے ذمہ دار بھی معز امجد صاحب ہیں۔ المورد سے وابستہ اہل علم نہ غامدی صاحب کی تمام آرا کے پابند ہیں اور نہ ان کی بیان کردہ آرا لازماً غامدی صاحب کے نقطہ نظر کی ترجمان ہوتی ہیں۔
مجھے قوی امید ہے کہ حافظ صاحب اپنی آئندہ تنقیدات میں محتاط رویہ اپنائیں گے۔
حافظ محمد ابراہیم شیخ
A3 -۱۷۳، PGECHS، لاہور
(۲)
مکرم ومحترم مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بلا استحقاق چند ماہ سے ’الشریعہ‘ باصرہ نواز ہو رہا ہے۔ عزیزم مولوی محمد عمار خان ناصر کی محنت دیکھ کر دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ ہمارے مذہبی حلقے میں غالباً آپ پہلے فرد ہیں جنھیں علمی وفکری مسائل پر بحث ومکالمہ کا ایک آزاد فورم قائم کرنے کی توفیق ہوئی ہے۔ بے شمار احباب کے تحفظات بلکہ اعتراضات کے باوجود ناچیز محسوس کرتا ہے کہ اس قسم کے فورم کی بہرحال ضرورت تھی۔ مخالفانہ نقطہ نظر کو یکسر رد کر دینا اور اپنے مبلغ علم ہی کو قطعیت کا درجہ دینا ان اہل نظر کو زیب نہیں دیتا جو فکر ولی اللٰہی کے وارث ہیں۔ دلیل کا جواب دلیل ہی سے دینا چاہیے، لٹھ ماری سے نہیں۔ آپ کو لکھنے والے بھی خوب میسر آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولوی ناصر صاحب کے شباب اور آپ کی شیخوخت کو نظر بد سے بچائے اور امت کو خوب مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ 
(مولانا) محمد اسلم شیخوپوری
جامع مسجد توابین، سیکٹر ۶
گلشن معمار، کراچی
(۳)
مکرمی مدیر ’الشریعہ‘ 
السلام علیکم
تازہ ترین پرچہ کل ۲ فروری کی دوپہر موصول ہوا اور دو نشاط بخش نشستوں میں حرف حرف دیکھنے کی سعادت میسر آئی۔ ساری تحریریں ہی پربہار اور عطر بیز ہیں۔
دامانِ نگہ تنگ وگل حسن تو بسیار
گل چینِ بہار تو ز داماں گلہ دارد
مگر فکری غذا ’’روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں جوہری فرق‘‘ ، ’’سید حسین احمد مدنی اور تجدد پسندی‘‘ اور ’’غامدی صاحب کے تصور فطرت کا تنقیدی جائزہ‘‘ نے بہم پہنچائی۔ تنقیدی جائزہ پڑھ کر بے ساختہ کہہ اٹھی:
خامۂ آزادگاں جو کچھ لکھے، آزاد ہے
ملک ناپرساں میں کوئی پوچھنے والا نہیں
اخویم حافظ محمد زبیر صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کی ناقدانہ نگارشات گاہے بگاہے ’الشریعہ‘ کے اوراق میں باصرہ نواز ہوتی رہتی ہیں۔ آں محترم سے نیازمندانہ گزارش ہے کہ بلاغ مبین کے لیے تکمیل وتصحیح کے بعد ان ابحاث کو جلد از جلد نذر ناظرین کرنا چاہیے۔ مع ہذا ’المورد‘ کے کاتبین کرام سے بھی عاجزانہ عرض ہے کہ اتنے سنگین الزامات کے بعد ’’جواب ناقداں باشد خموشی‘‘ پر عمل مناسب نہیں۔ رہے سیدنا حسین احمد قرشی مدنی رحمہ اللہ اور علم دار حسین، شاہ انعام الرحمن لدھیانوی سلمہ کے افادات طیبات تو ’الشریعہ‘ کے ناشر ومدیر اور مجلس ادارت کے اعیان روشن ضمیر، سب کے لیے ایسا پرکار ومایہ دار تجزیہ پیش کرنے پر اعماق قلب سے دعاگو ہوں۔
بر آناں رب ما رحمت فشاند
شمیم از قعر وعمق دل بخواند
ایک ہندو زادہ سائیں حافظ محب رسول محدث کروڑی علیہ الرحمۃ والرضوان (فاضل دیوبند) کی تیسری پشت میں اس ’خدا کی بندی‘ کا وجود بھی ہندو مسلم میل جول کے حاصلات پر شاہد عدل ہے۔ یوم یک جہتئ کشمیر مناتے ہوئے یاد رکھیے، اس وقت قضیہ کشمیر کا پرامن تصفیہ برصغیر میں ’احیاے دعوت‘ کی شاہ کلید ہے۔
کلمہ حق میں مولانا حافظ محمد عبد المتین خان زاہد مدظلہم رقم طراز ہیں: ’’دوسری صورت نکاح موقت کی تھی جس میں کوئی مرد اور عورت مناسب معاوضے پر ایک مقررہ وقت کے لیے جنسی تعلق قائم کرتے تھے اور مدت گزر جانے کے بعد ان کا یہ نکاح متعہ ختم ہو جایا کرتا تھا۔ اسے اسلام نے ناجائز قرار دے دیا اور اب اس کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
اگر یہ بات صحیح ہے اور یقیناًصحیح ہے تو ورلڈ اسلامک فورم، تنظیم اسلامی، مجلس تحفظ حدود اللہ اور متحدہ مجلس عمل کے ایجنڈے پر سرزمین پاک میں ’متعہ اجازت ناموں‘ کی منسوخی سرفہرست ہونی چاہیے۔ گر یہ نہیں تو بابا ’باقی‘ کہانیاں ہیں۔
شمیم فاطمہ تبسم
الزہرا۔ چاہ عمر۔ کروڑ لعل عیسن
(۴)
محترم مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید، خواہش اور دعا ہے کہ ایمان وصحت کی بہترین حالت میں ہوں۔
روایتی مدارس کے حاملین کے ہاتھوں جب ’الشریعہ‘ جیسا آزادئ فکر کا حامل اور تعصب سے پاک رسالہ نکلتے دیکھتا ہوں تو بے حد تعجب ہوتا ہے۔ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو حق کو صرف اپنے مسلک، جماعت یا مدرسے میں منحصر سمجھتے ہیں اور کسی دوسرے کی بات یا دلیل کو ماننا تو دور، سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں، اور دوسری طرف آپ جو اپنے رسالے میں بلا تبصرہ چھاپنے کے لیے بھی تیار ہیں۔
میاں انعام الرحمن صاحب کے مضمون ’’قدامت پسندوں کا تصور اجتہاد‘‘ پر مثبت طور پر غور کرنا چاہیے۔ انداز اگرچہ جارحانہ ہے لیکن فکری جمود کو توڑنے کے لیے شاید جارحیت کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ محترم زاہد الراشدی کا جوابی مضمون ان کی دلیل توڑنے کے لیے کافی نہیں۔ سیکڑوں سال پرانی باتوں کو تنقید کا نشانہ بنانے سے بہتر تھا کہ آج کے تجدد پسندوں پر علمی انداز میں حملہ کیا جاتا۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب بھی اکبر کے دور کا تجدد چاہتے ہیں تو حوالہ دے کر ثابت کیا جاتا۔ اس میں شک نہیں کہ آج کے دور کے متجددین، دین میں تحریف کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس بہانے سے اجتہاد کا جائز دروازہ بھی بند نہ کرنا چاہیے، نہ ایسی کڑی شرائط لگانی چاہییں کہ اجتہاد کے دروازے کو تو کھلا سمجھا جائے، لیکن عملاً کسی کو مجتہد ماننے سے انکار کیا جائے۔
میرے خیال میں رئیس التحریر کے کالم کا نام ’’کلمہ حق‘‘ نہیں ہونا چاہیے۔ کلمہ حق سے تو کسی مسلمان کو اختلاف نہ ہونا چاہیے۔ ہر محقق اپنے خیال میں حق ہی لکھتا ہے، لیکن اس کو ایسا دعویٰ نہ کرنا چاہیے، کیونکہ یقینی طور پر حق تو صرف اللہ اور رسول کے اقوال ہیں۔ انسان تو غلطی بھی کر سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو استقامت نصیب فرمائے اور دیگر دینی اداروں کو بھی آپ کی تقلید کی توفیق عطا فرمائے تاکہ سب لوگ جو دین کی کسی بھی نوعیت کی خدمت سے وابستہ ہوں، ایک دوسرے کی مخالفت کے بجائے ایک دوسرے کی قدر کریں اور تعاون کریں۔ نیکی میں تعاون ہی دین داروں کا شیوہ ہے۔ مخالفت تو زرپرست دکاندار ایک دوسرے کی کرتے ہیں کیونکہ وہاں ایک کا منافع دوسرے کا نقصان شمار ہوتا ہے۔
نصیر خان
طالب علم پی ایچ ڈی
کلیہ معارف اسلامیہ، جامعہ کراچی

دینی مدارس کے نظام ونصاب کے موضوع پر فکری نشست

ادارہ

۳۔ ۴۔ ۵ فروری ۲۰۰۷ کو جامعہ سید احمد شہیدؒ لکھنو (انڈیا) میں برصغیر کے دینی نصاب ونظام کے حوالے سے منعقد ہونے والے بین الاقوامی سیمینار کے موقع پر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ (پاکستان) میں اس سمینار کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے ایک فکری نشست کا اہتمام کیا گیا۔ یہ نشست ممتا زماہر تعلیم پروفیسر غلام رسول عدیم کی زیر صدارت ۳؍ فروری ۲۰۰۷ بروز ہفتہ رات آٹھ بجے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں منعقد ہوئی جس میں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کے علاوہ اکادمی کے ناظم مولانا حافظ محمد یوسف، جامعہ عربیہ گوجرانوالہ کے ناظم مولانا ضیاء الرحمن، گورنمنٹ کالج قلعہ دیدار سنگھ کے پروفیسر محمد اکرم ورک، گوجرانوالہ بار ایسوسی ایشن کے سینئر رکن چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ، پروفیسر محمد زمان چیمہ اور دیگر حضرات نے خطاب کیا۔
مولانا زاہد الراشدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جنوبی ایشیا میں دینی مدارس کا موجودہ نظام ۱۸۵۷ء کے بعد وجود میں آیا تھا۔ اس سے قبل اس خطے میں دینی اور عصری علوم کی تقسیم موجود نہیں تھی اور سب لوگ ایک ہی طرز کا نصاب پڑھتے تھے جس میں فارسی زبان، عربی زبان، فقہ اسلامی اور دیگر ضروری علوم وفنون شامل تھے۔ دفتری اور عدالتی زبان فارسی تھی جبکہ عدالتوں میں فقہ حنفی نافذ تھی، اس لیے یہ نصاب قومی اور سرکاری ضرورت بھی تھا لیکن جب عدالتوں میں برطانوی قانون نافذ کر دیا گیا اور فارسی کے بجائے انگریزی، دفتری اور عدالتی زبان قرار دے دی گئی تو درس نظامی کا یہ نصاب قومی ضروریات کے دائرے سے نکل گیا۔ اس موقع پر کچھ ارباب دانش نے دینی علوم کی حفاظت اور اگلی نسل تک دین کو پہنچانے کے لیے درس نظامی کے اس نصاب کی پرائیویٹ سطح پر تعلیم وتدریس کا اہتمام کیا اور رضاکارانہ بنیادوں پر اس کا نظام قائم کیا جس کے تحت جنوبی ایشیا کے طول وعرض میں ہزاروں مدارس کام کر رہے ہیں۔
دینی مدارس کے اس نظام کی بنیاد تحفظات پر تھی اور اس کے اہداف میں اساسی طور پر یہ امور شامل تھے کہ: ۱۔ دینی علوم کی حفاظت ہو، ۲۔ عام مسلمان کا دین کے ساتھ تعلق قائم رہے اور ۳۔ اگلی نسلوں تک دینی علوم وروایات بحفاظت منتقل ہوتی رہیں۔ نو آبادیاتی دور میں ان دینی مدارس نے اپنے اہداف میں شاندار کامیابی حاصل کی اور اس خطہ کے ممالک کی آزادی کے بعد بھی دینی مدارس کی ان خدمات کا تسلسل کامیابی کے ساتھ جاری ہے، مگر آزادی کے بعد اور عالمی سطح پر میڈیا کا دائرہ وسیع تر ہوتے چلے جانے کے بعد دینی مدارس کے اس تحفظاتی ماحول اور طریق کار کو ناکافی سمجھا جا رہا ہے اور بہت سے نئے تقاضے ایسے سامنے آئے ہیں جن کو پورا کرنے کی انھی مدارس سے توقع کی جا رہی ہے۔ مثلاً پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں اسلامی نظام وقوانین کے نفاذ کے حوالے سے مطلوبہ رجال کار کی فراہمی اور عدالتی، دفتری اور انتظامی ضروریات کے لیے ضروری افراد کی تیاری ایک اہم اور ناگزیر تقاضا بن چکی ہے، لیکن چونکہ مسلم ممالک کے ریاستی تعلیمی نظام اس ضرورت کو پورا نہیں کر رہے، بلکہ بعض جگہ ریاستی نظام ہائے تعلیم اس کے برعکس دفتری، عدالتی اور انتظامی ماحول کو برقرار رکھنے کا باعث بن رہے ہیں، اس لیے مسلم امہ کا باشعور طبقہ اس ملی ضرورت کی تکمیل کے لیے دینی مدارس ہی کی طرف دیکھ رہا ہے اور عمومی طور پر دینی مدارس سے یہ توقع وابستہ کر لی گئی ہے۔
اسی طرح میڈیا کا دائرہ متنوع اور وسیع تر ہو جانے کے بعد مغرب اور عالم اسلام کے درمیان فکری جنگ، تہذیبی کشمکش اور ثقافتی تنازعات کے حوالے سے اسلام کے بنیادی احکام اور قرآن وسنت کی اساسی تعلیمات کے بارے میں شکوک وشبہات اور اعتراضات کا سلسلہ پھیلتا جا رہا ہے۔ اس کشمکش میں مغرب کی فکری وثقافتی یلغار کے مقابلہ، اسلامی تعلیمات کے بارے میں پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات کے ازالہ اور آج کے گلوبل ماحول میں اسلامی احکام وتعلیمات کو موثر طور پر پیش کرنے کے لیے رجال فکر اور رجال فن کی تیاری ایک ناگزیر ضرورت کا درجہ اختیار کر چکی ہے جو مسلمان ممالک کے کسی اور ادارے کی ذمہ داریوں میں ابھی تک شامل نہیں ہے۔ اس لیے یہ توقع بھی دینی مدارس سے وابستہ کر لی گئی ہے اور دینی مدارس سے تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے رجال فکر اور رجال فن کی تیاری کو اپنے پروگرام میں شامل کریں۔
اس کے ساتھ ہی آج کے عالمی اور گلوبل ماحول میں اسلام کی دعوت وتبلیغ اور پوری دنیا میں نسل انسانی تک اسلام کی دعوت اور قرآن وسنت کی تعلیمات کو خالصتاً دعوتی انداز میں پہنچانا بھی ہماری دینی وملی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ حضرات کی ہر سطح پر ضرورت ہے اور عام طور پر باشعور مسلمان دینی مدارس سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس ضرورت کا احساس کریں اور اس کی تکمیل کو اپنے اہداف اور پروگرام میں شامل کریں۔
اس لیے جہاں تک دینی مدارس کے اس نظام کے ان تحفظاتی اہداف کا تعلق ہے جن کے لیے یہ نظام ۱۸۵۷ء کے بعد وجود میں آیا تھا ، اس میں تویہ بعض خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود کامیابی کے ساتھ پیش رفت کر رہا ہے، لیکن آج کے حالات کی روشنی میں اس نظام سے جو نئی توقعات وابستہ ہو گئی ہیں، ان کے حوالے سے بہرحال ایک بہت بڑا خلا موجود ہے اور دینی مدارس کے ارباب حل وعقد کو یہ خلا پر کرنے کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔
پروفیسر غلام رسول عدیم نے اپنے تفصیلی خطاب میں دینی مدارس کے موجودہ نظام ونصاب کے مختلف پہلووں پر اظہار خیال کیا اوراس بات پر زور دیا کہ تعلیمی معیار اور طلبہ کی ذہنی وفکری تربیت کے حوالے سے موجودہ صورت حال تسلی بخش نہیں ہے اور متعدد اصلاحات کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ مدارس کے قیام کے سلسلے میں کوئی منظم پروگرام اور منصوبہ بندی موجود نہیں ہے اور مدارس قائم کرنے والے اپنا نصاب، تربیتی نظام اور معیار قائم کرنے میں کسی ڈسپلن کے پابند نہیں ہیں جس کا نقصان سب کو نظر آ رہا ہے۔ اس کے لیے دینی مدارس کے وفاقوں کو سنجیدگی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے مدارس کی فہرست بنائی جائے، ان کے کوائف جمع کیے جائیں اور دیکھا جائے کہ کون سا مدرسہ کس دائرے میں اور کس سطح پر کام کر رہا ہے۔ پھر ان مدارس کی درجہ بندی کی جائے، ہر طالب علم کو دورۂ حدیث تک پہنچانا ضروری نہیں۔ اس طرح درجہ بندی کی جائے کہ امامت وخطابت اور اس طرح کی دیگر ضروریات کے لیے الگ معیار قائم کیا جائے اور اس کو کافی سمجھا جائے جبکہ اس کے اوپر کی سطح کے لیے طلبہ کی ذہانت اور ذوق کے مطابق مختلف علوم وفنون کے لیے ان کا انتخاب کیا جائے اور جو ضروریات ملی طور پر محسوس کی جا رہی ہیں، ان کے مطابق مستقل طور پر ان کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا جائے۔
نصاب میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس طرح نہیں کہ اس میں زیادہ سے زیادہ مضامین گھسیڑ دیے جائیں، بلکہ اس طور پر کہ تخصص کے الگ الگ شعبے بنائے جائیں ا ور ہر شعبہ کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا نصاب مرتب کیا جائے اور یہ کام ماہر اساتذہ اور متعلقہ علوم کے متخصصین کے ذریعے انجام دیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے معیار کو سخت کیا جائے، ملی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اس امر کا اہتمام کیا جائے کہ اس سطح پر کام کرنے والے علما کو عالمی زبانوں، بالخصوص انگریزی پر عبور حاصل ہو اور وہ حالات زمانہ سے واقف ہوں۔
مولانا محمد یوسف نے اپنے خطاب میں کہا کہ مدارس کی درجہ بندی کی جائے اور الگ الگ تعلیمی مراحل قائم کیے جائیں تاکہ ایک مرحلہ تک تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم اس سطح پر خدمات انجام دینے کا اہل سمجھا جائے اور اس سے اگلے مرحلہ تک اسے زبردستی نہ لے جایا جائے۔ اسی طرح علماے کرام، ائمہ اور خطبا میں عوامی سطح پر کام کرنے کا ذوق پیدا کیا جائے اور اس کے لیے ان کی تربیت کی جائے، کیونکہ ہمارے ائمہ اور خطبا جہاں جاتے ہیں، ان کا وہاں کے عوام اور ان کی دینی ضروریات سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔ وہ پہلے سے ایک طے شدہ ذہن لے کر جاتے ہیں اور ارد گرد کے ماحول اور ضروریات کو سمجھے بغیر اپنا ایجنڈا چلانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے خرابیاں جنم لیتی ہیں۔
مولانا ضیاء الرحمن نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ ہمارے مدارس کے طلبہ میں انقیاد وتسلیم کا جذبہ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ وہ تخلیقی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں اور فکر ونظر میں وسعت وترقی کی طرف خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ دینی مدارس کے درمیان مشاورت اور رابطہ کا ایسا نظام موجود ہونا چاہیے کہ سب ایک دوسرے کے کام کی نوعیت سے واقف ہوں تاکہ کسی کام میں خواہ مخواہ تکرار نہ ہو اور کوئی ضروری کام رہ نہ جائے۔
چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ مدارس کے نظام ونصاب میں بہتری پیدا کرنے کے لیے عرصہ دراز سے بحث ومباحثہ کا سلسلہ جاری ہے، لیکن عملی طور پر اس سمت میں کوئی واضح پیش رفت نہیں ہو رہی۔ انھوں نے کہا کہ کوئی عملی قدم اٹھائے بغیر محض بحث ومباحثہ کا سلسلہ طویل سے طویل تر ہو تا چلا جائے گا، اس لیے اب اس بحث کو عملی طور پر نتیجہ خیز بنانے کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے۔
پروفیسر محمد زمان چیمہ نے کہا کہ مسلمانوں کے ز وال کی اصل وجہ جہالت اور لا علمی ہے اور ہم بحیثیت قوم نہ اپنے تاریخی وعلمی ورثے سے واقفیت کی ضرورت کا کوئی احساس رکھتے ہیں اور نہ زمانے کی نبض پر ہمارا ہاتھ ہے۔ اس لیے اس رویے میں تبدیلی پیدا کیے بغیر کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
مقررین اور شرکا نے جنوبی ایشیا میں دینی مدارس کے کردار کو سراہتے ہوئے فکری ونظری بیداری کے لیے ندوۃ العلماء لکھنو اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمات پر بطور خاص خراج تحسین پیش کیا اور جامعہ سید احمد شہید لکھنو کے سربراہ مولانا سید سلمان الحسینی کی دینی وتعلیمی مساعی کی تحسین کرتے ہوئے ۳۔۴۔۵ فروری کو منعقد ہونے والے بین الاقوامی تعلیمی سیمینار کے ساتھ ہم آہنگی کے اظہار کے ساتھ اس کی کامیابی کے لیے دعا کی۔

اسلام کے نام پر انتہا پسندی کا افسوس ناک رجحان

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

کم وبیش ایک ماہ قبل اسلام آباد ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے مسجد امیر حمزہؓ نامی ایک چھوٹی سی مسجد کو غیر قانونی قرار دے کر شہید کر دیا اور ایک دوسری مسجد کی شہادت کی کارروائی بھی شروع کی جبکہ بعض دیگر مساجد کو مسمار کرنے کے نوٹس بھی جاری کیے گئے۔ اس پر راولپنڈی اور اسلام آباد کے علماے کرام نے سخت رد عمل کا اظہار کیا۔ مسجد گرائے جانے کے دوسرے روز سیکڑوں علماے کرام مسجد امیر حمزہؓ کے ملبہ پرجمع ہو گئے، وہاں ملبے پر نماز باجماعت ادا کی اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے آپس میں چندہ کر کے اس کی تعمیر نو کا اعلان کر دیا۔ ان علماے کرام کا موقف یہ تھا کہ مسجد قدیم دور سے چلی آ رہی ہے اور اسے غیر قانونی قرار دینے کے بارے میں کیپٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا موقف درست نہیں ہے، اس لیے شرعاً اس مسجد کی اسی جگہ دوبارہ تعمیر ضروری ہے، چنانچہ انھوں نے سی ڈی اے کے اقدام کو مسترد کرتے ہوئے مسجد دوبارہ تعمیر کرنے کا اعلان کر دیا۔ 
اس پر سی ڈی اے اور علماے کرام کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا، مگر اس دوران میں حضرت مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ کے قائم کردہ جامعہ حفصہ کی طالبات نے مرکزی جامع مسجد اسلام آباد کے ساتھ واقع ایک سرکاری لائبریری پر، جو بچوں کے لیے ایک عرصہ سے قائم ہے، قبضہ کر لیا اور مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ کے فرزند اور جامعہ حفصہ کے مہتمم مولانا عبد العزیز کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ یہ قبضہ احتجاجی طور پر کیا گیا ہے اور جب تک گرائی جانے والی مسجد دوبارہ تعمیر نہیں کی جاتی اور جن دیگر مساجد کو گرانے کے نوٹس دیے گئے ہیں، وہ نوٹس واپس نہیں لیے جاتے، چلڈرن لائبریری کا قبضہ واگزار نہیں کیا جائے گا۔ نوجوان باپردہ طالبات کی ڈنڈا بردار فورس نے لائبریری کا کنٹرول سنبھال لیا اور اسے آمد ورفت کے لیے بند کر دیا۔ اس پر حکومتی حلقے اور اعلیٰ انتظامی افسران بھی حرکت میں آئے اور بظاہر یہ صورت نظر آنے لگی کہ حکومت بہرحال اس قبضہ کو ختم کرانے کے لیے اقدام کرے گی، جبکہ اس کی مزاحمت طالبات کی طرف سے ہوگی جو ہزاروں کی تعداد میں جامعہ حفصہؓ کے ہاسٹل میں موجود ہیں اور اس طرح تصادم کی ایک افسوس ناک صورت حال پیدا ہو جائے گی۔ طالبات کی طرف سے اپنے مطالبات میں اسلامی نظام کے مکمل اور فوری نفاذ کو شامل کرنے سے اس تحریک کو ملک گیر شکل مل گئی۔ مولانا عبد العزیز کی اپیل پر ملک کے مختلف حصوں سے دینی مدارس کے طلبہ اور دینی کارکنوں نے مرکزی جامع مسجد اسلام آباد کا رخ کرنا شروع کیا اور ہزاروں افراد وہاں جمع ہو گئے۔
جہاں تک اسلام آباد میں گرائی جانے والی مساجد کے بارے میں جامعہ حفصہ کی طالبات کے موقف کا تعلق ہے اور اسلامی نظام کے مطالبہ کی بات ہے، اس سے ملک بھر کے دینی حلقوں نے اصولی طور پر اتفاق کا اظہار کیا، لیکن وفاقی دار الحکومت میں سرکاری فورسز کے ساتھ دینی کارکنوں، طلبہ اور بالخصوص طالبات کے تصادم کے جو امکانات واضح نظر آنے لگے تھے، ان سے ملک بھر میں پریشانی اور اضطراب کا پیدا ہونا بھی ایک فطری امر تھا۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے علماے کرام نے حکومتی حلقوں سے مذاکرات کے ذریعے سے اس مسئلہ کو حل کرانے کی مقدور بھر کوشش کی اور مساجد کی حد تک حکومت سے اپنا موقف منوانے میں وہ کامیاب بھی ہو گئے۔ اس دوران میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی اعلیٰ قیادت اسلام آباد آئی اور مولانا سلیم اللہ خان، مولانا حسن جان، مولانا محمد تقی عثمانی، مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا قاری سعید الرحمن، مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ اور مولانا انوار الحق حقانی سمیت سرکردہ علماے کرام نے اس مسئلہ کو حل کرانے میں سرگرم کردار ادا کیا، لیکن اس سب کچھ کے باوجود مسئلہ کے حل میں یہ رکاوٹ موجود رہی جو تا دم تحریر موجود ہے کہ جامعہ حفصہ کی طالبات نے دوسرے مطالبات کی منظوری تک، جن میں اسلامی نظام کا مکمل اور فوری نفاذ سرفہرست ہے، سرکاری لائبریری کا قبضہ واگزار کرنے سے انکار کر دیا اور مولانا عبد العزیز اس بات پر مصر چلے آ رہے ہیں کہ ملک میں مکمل شرعی نظام کے نفاذ تک وہ اس ماحول کو ختم نہیں کریں گے جسے سنجیدہ حلقے سرکاری فورسز کے ساتھ دینی کارکنوں اور طالبات کے تصادم کے شدید خطرے کا باعث سمجھ رہے ہیں۔ یہ بات ظاہر ہے کہ باشعور دینی حلقوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ 
اسی دوران میں یہ واقعہ بھی رونما ہوا کہ گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی خاتون صوبائی وزیر محترمہ ظل ہما عثمان کو قتل کر دیا گیا۔ ان کو قتل کرنے والا شخص پکڑا گیا ہے اور اس نے برملا یہ کہا ہے کہ اس نے خاتون صوبائی وزیر کو اس لیے قتل کیا ہے کہ وہ عورت کی حکمرانی کو جائز نہیں سمجھتا اور اس طرح بے پردہ پھرنے کو پسند نہیں کرتا، اس لیے اس نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس سے اسلام آباد کے حالات سے ذہن میں پیدا ہونے والی تشویش دوچند ہو گئی ہے کہ اسلام کے نام پر اور اسلام کے لیے ملک کے اندر اس طرح تصادم کا ماحول پیدا کرنے اور قوت کے استعمال کا رجحان ہمارے ہاں کیا کیا گل کھلا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اس ملک اور قوم کی حفاظت کی دعا ہی کی جا سکتی ہے۔
یہ شخص اس سے قبل بدکاری کے الزام میں کئی عورتوں کو قتل کر چکا ہے اور اس کا اعلان ہے کہ وہ آئندہ بھی اسی طرح بے پردہ عورتوں کو قتل کرتا رہے گا۔ اس طرز عمل کو جنون اور نفسیاتی مرض کے سوا کسی اور عنوان سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے کسی طرح بھی اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ کوئی شخص شریعت کے خلاف ہونے والے کسی عمل پر خود فیصلہ کرنے بیٹھ جائے اور ہتھیار اٹھا کر لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو عین بدکاری کی حالت میں دیکھے تو کیا وہ اسے قتل نہیں کرے گا؟ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایسی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور قانون کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔
بہرحال اسلام آباد میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے سرکاری فورسز کے ساتھ تصادم کا ماحول ہو یا گوجرانوالہ میں بے پردگی کے عنوان سے خاتون صوبائی وزیر کے قتل کا افسوس ناک سانحہ ہو، اس انتہا پسندی پر افسوس کا اظہار ضروری ہے اور اسے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جب نفاذ اسلام کے تمام دستوری راستے بند کر دیے گئے ہوں اور پیش رفت کے بجائے ’’ریورس گیئر‘‘ کا ماحول قائم کر دیا گیا ہو اور مغربی ثقافت کے فروغ کے لیے تمام ریاستی وسائل استعمال ہو رہے ہوں، وہاں اس قسم کی افسوس ناک انتہا پسندی کو جنم لینے سے آخر روکا بھی کیسے جا سکتا ہے؟
(۲۲ فروری)

اپریل ۲۰۰۷ء

عدالتی بحران اور وکلا برادری کی جدوجہدمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
نجات کے لیے ایمان اور عمل صالح کی اہمیتمفتی ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی
جہاد اور معاصر بین الاقوامی قانونی نظام ۔ چند اہم مباحثمحمد مشتاق احمد
سید مدنی، تجدد پسندی اور قدامت پسند حلقےپروفیسر میاں انعام الرحمن
مکاتیبادارہ

عدالتی بحران اور وکلا برادری کی جدوجہد

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس محترم جناب جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہونے کے بعد سے ملک میں عدالتی بحران کی جو کیفیت پیدا ہو گئی ہے، اس سے ہر محب وطن شہری پریشان او رمضطرب ہے اور عالمی سطح پر بھی وطن عزیز کے لیے جگ ہنسائی کی افسوس ناک صورت حال سامنے آئی ہے۔ جسٹس افتخار محمدچودھری کے خلاف پیش کی جانے والی شکایات کو اگر نارمل طریقے سے سپریم جوڈیشل کونسل میں لایا جاتا اور اس کے ساتھ انھیں دستور کے مطابق جبری رخصت پر بھی بھیج دیا جاتا تو یہ ایک معمولی کی کارروائی سمجھی جاتی اور بعض حلقوں کے تحفظات کے باوجود بحران کا یہ منظر نمودار نہ ہوتا، لیکن اس کارروائی کا آغاز جس طریقے سے ہوا اور وہ جس قسم کے مراحل سے گزر کر آگے بڑھی، اس نے شکوک وشبہات اور اعتراضات وخدشات کا بازار گرم کر دیا جس سے ملک کے قانون دان طبقے کا مضطرب ہو کر سڑکوں پر آنا تو ایک فطری امر تھا ہی، دیگر قومی حلقوں نے بھی اس کی سنگینی کو محسوس کیا اور بہت سے سیاسی ودینی حلقے وکلا برادری کے ساتھ ہم آواز ہو گئے ہیں۔
جو کچھ ہوا اور جس طریقے سے ہوا، وہ سب کے سامنے ہے اور اس کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ یہ بہت ہی غلط انداز سے ہوا اور اس پر ملک بھر میں جس اضطراب اور بے چینی کا اظہار کیا جا رہا ہے، وہ نہ صرف جائز اور روا ہے بلکہ ہمارے خیال میں اصل ضرورت سے بہت کم ہے، اس لیے کہ عدلیہ، ریاست کا ایک ایسا محترم ستون ہے جس کا احترام ہر حال میں قائم رہنا ناگزیر ہے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قومی اداروں کو وہ مقام اور حیثیت حاصل نہیں ہے جو ان کا جائز حق ہے اور جو قومی زندگی میں اعتدال وتوازن، ملکی سا لمیت، قومی وحدت اور ملی تشخص کے لیے ضروری ہے۔ عدلیہ کا مقام ان سب میں بالا ہے، اس لیے کہ دیگر قومی شعبوں اور اداروں میں توازن قائم رکھنے کی ذمہ داری بھی بنیادی طور پر اسی کے پاس ہے، اس لیے اگر عدلیہ ہی خدانخواستہ بے وقار ہو جائے اور اس کی شخصیات کا احترام معروف حوالوں سے باقی نہ رہے تو دیگر قومی اداروں کے جائز مقام کے تحفظ کا اعتماد بھی قائم نہیں رہ سکتا۔
جہاں تک جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف شکایات اور الزامات کا تعلق ہے، یہ حکومت کا حق ہے کہ وہ ان الزامات کو سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے لائے اور جسٹس چودھری کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو ان الزامات سے بری ثابت کریں، ورنہ اس کے دستوری اور قانونی نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔ ہم ان الزامات اور ان کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ اس کے بارے میں کونسل ہی فیصلے کی مجاز ہے، لیکن اس سے ہٹ کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ حکومتی سطح پر جو سلوک روا رکھا گیا ہے، اس پر وکلا برادری اور قومی حلقوں کے احتجاج میں ہم پورے طور پر شریک ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عوامی جذبات اور قانون دان حلقوں کے احساسات کی پاسداری کرتے ہوئے عدلیہ اور اس سے متعلقہ شخصیات کے وقار کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات بروئے کار لائے اور وکلا کے مطالبات کو منظور کرے۔
اس کے ساتھ ہی ہم اس معاملے کے دو پہلووں کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک یہ کہ عدلیہ کے تمام تر احترام اور اس کی ہر ممکن پاسداری کو ناگزیر قرار دینے کے باوجود موجودہ افسوس ناک صورت حال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو اس کے اسباب وعوامل میں خود عدلیہ کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دستور کی بالادستی اور دستوری اداروں کے احترام کو اب تک جس اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے اور جس کا تسلسل بدستور موجود ہے، اس سب کچھ نے ہمارے خیال میں جسٹس محمد منیر مرحوم کے اس فیصلے کی کوکھ سے جنم لیا ہے جو صرف گورنر جنرل غلام محمد مرحوم کے کام نہیں آیا تھا، بلکہ اس کے بعد بھی ہر آمر اور طالع آزما کی مہم جوئی کو دستوری جواز فراہم کرنے کا باعث بنتا چلا آ رہا ہے۔ اگر جسٹس محمد منیر مرحوم یہ متنازعہ فیصلہ نہ دیتے اور ان کے بعد اسی فیصلے کے تسلسل کو ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے عنوان کے تحت ہر دور میں قائم نہ رکھا جاتا تو آج خود عدالت عظمیٰ کو اس افسوس ناک بحران سے دوچار نہ ہونا پڑتا اور جو کچھ ہوا ہے، اس کا تصور بھی کسی کے ذہن میں نہ آتا۔ اس لیے ہم بصد ادب واحترام قانون دان برادری کے دونوں حصوں یعنی جج صاحبان اور وکلا سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی موجودہ جدوجہد بالکل حق اور درست ہے، لیکن اس کے موثر اور نتیجہ خیز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ معروضی صورت حال اور مسائل کے ساتھ ساتھ اس کے حقیقی اسباب اور عوامل کو بھی پیش نظر رکھا جائے اور ان کے تدارک کے لیے بھی کوئی ٹھوس صورت اختیار کی جائے۔
دوسرے نمبر پر ہم اس امر کے بارے میں اپنے تحفظات کو ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ ملک کے نئے قائم مقام چیف جسٹس محترم رانا بھگوان داس بنے ہیں اور موجودہ عدالتی بحران کے حل میں ان کے کردار کو اساسی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ ہم ایک معروف قانون دان، اچھی شہرت رکھنے والے منصف اور صاحب کردار شخصیت کے طور پر ان کا احترام کرتے ہیں اور ان کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت انھیں اس بحران میں ملک وقوم کے مفاد میں بہتر فیصلہ کرنے اور کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین، لیکن ملک کے جو دینی اور قانونی حلقے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف جسٹس کے منصب پر ایک غیر مسلم جج کے فائز ہونے کے اصولی جواز کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، ہم ان کے شک وشبہ کو بھی بے جواز نہیں سمجھتے۔ یہ درست ہے کہ ملک کے دستور میں کسی غیر مسلم جج کے چیف جسٹس بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، یہ بات بھی بالکل بجا ہے کہ جسٹس رانا بھگوان داس دستوری اور قانونی طور پر سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بننے کا پورا استحقاق رکھتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ اس سے قبل جسٹس اے آر کارنیلیس غیر مسلم ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں، بلکہ ہم تو ان کے اس اعزاز وافتخار کے بھی پوری طرح معترف ہیں کہ انھوں نے ایک باکردار اور دیانت دار جج کے طور پر عدلیہ کے وقار میں اضافہ کیا اور غیر مسلم ہوتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی حلقوں میں اسلامی قانون اور اسلامی نظام عدالت کا مسلسل دفاع اور وکالت کر کے ملک کے دینی حلقوں کے دلوں میں بھی اپنے لیے جگہ بنائی، لیکن اس سب کچھ کے باوجود اصولی طور پر کسی غیر مسلم کا ملک کی عدالت عظمیٰ کا سربراہ بننا بہرحال محل نظر ہے اور معاملہ کے اس پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اصولی اعتراض اور بھی زیادہ قابل توجہ ہو جاتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا چیف جسٹس عدالت عظمیٰ کے اس شریعت اپیلٹ بنچ کا بھی سربراہ ہوتا ہے جو وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرتا ہے اور جسے اسلامی احکام وقوانین کی بنیاد پر فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ اس صورت میں جہاں قرآن وسنت کی تشریح وتعبیر کا اختیار ایک غیر مسلم جج کے ہاتھ میں دے دینا شرعی اصولوں کے مطابق درست نظر نہیں آتا، وہاں ہمارے خیال میں یہ اس جج کے ساتھ بھی زیادتی ہے کہ اسے اس کے ایمان وعقیدہ کے خلاف کسی دوسرے مذہب کے مطابق، جس پر وہ یقین نہیں رکھتا، فیصلے کرنے کا پابند بنایا جائے۔
ہماری معلومات کے مطابق برطانیہ کا بادشاہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کیتھولک عیسائی نہ ہو، کیونکہ وہ ملک کا بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ چرچ آف انگلینڈ کا بھی سربراہ ہوتا ہے اور چرچ آف انگلینڈ کیتھولک نہیں ہے، اس لیے اس کا سربراہ کیتھولک نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ بادشاہت کے قواعد وضوابط میں یہ بات باقاعدہ طور پر شامل ہے کہ چونکہ برطانیہ کا بادشاہ چرچ کا بھی سربراہ ہوتا ہے، اس لیے اس کا تعلق کیتھولک فرقہ سے نہیں ہوگا۔ اگر اس نزاکت کا برطانیہ کے نظام میں لحاظ رکھا گیا ہے اور وہاں اس پابندی کا اہتمام ضروری سمجھا گیا ہے تو ہمارے ہاں بھی اس اصولی موقف کے احترام میں کوئی حجاب محسوس نہیں کیا جانا چاہیے، اس لیے ہم ملک کی قانون دان برادری اور دستوری حلقوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اس مسئلے کو ابہام میں رہنے دینے کے بجائے اس کا کوئی حل ضرور نکالیں گے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کی عدالت عظمیٰ کے اسلامی تشخص کو اس حوالے سے شکوک وشبہات کے دائرے سے نکالیں گے۔
ان تحفظات کے اظہار کے ساتھ ہم عدلیہ کے وقار اور بالادستی کے تحفظ کے لیے وکلا برادری کی جدوجہد اور مطالبات کی حمایت کرتے ہیں، ان کے ساتھ بھرپور یک جہتی اور ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہیں اور دستور کی بالادستی، عدلیہ کے وقار واحترام اور اصول وقانون کی حکمرانی کی اس جدوجہد کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں، آمین یا رب العالمین۔

نجات کے لیے ایمان اور عمل صالح کی اہمیت

مفتی ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی

(حضرت مولانا مفتی محمد عبد اللہ لدھیانوی قدس اللہ سرہ العزیز کا تعلق علماے لدھیانہ کے معروف خاندان سے تھا جس نے تحریک آزادی اور تحریک ختم نبوت میں ہمیشہ ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ وہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی نور اللہ مرقدہ کے شاگرد تھے، جبکہ ان کے فرزند حضرت مولانا عبد الواسع لدھیانوی کا شمار مجلس احرار اسلام کے سرکردہ راہ نماؤں میں ہوتا تھا اور ان کے ایک فرزند حضرت مولانا علامہ محمد احمد لدھیانوی جمعیۃ علماے اسلام پاکستان کے سرگرم راہ نماؤں میں سے تھے۔ حضرت مولانا محمد عبد اللہ لدھیانوی تقسیم ہند کے بعد لدھیانہ سے ہجرت کر کے گوجرانوالہ تشریف لائے اور دار العلوم نعمانیہ کے نام سے دینی درس گاہ قائم کی، جبکہ مختلف عنوانات پر ان کی گراں قدر تحریرات بھی شائع ہوتی رہی ہیں اور حالات حاضرہ کے پیش نظر علماے کرام کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے رہنا ان کا خصوصی ذوق تھا۔ ان کے پوتے اور ’الشریعہ‘ کی مجلس ادارت کے رکن پروفیسر میاں انعام الرحمن نے ان کی مطبوعہ وغیر مطبوعہ تحریرات کو پرانے ریکارڈ سے نکال کر قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے جنھیں برکت واستفادہ کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔ رئیس التحریر)

ہمارے سامنے دو چیزیں پیش کی گئی ہیں: تقدیر اور تدبیر۔ تقدیر میں عوام کو غوروخوض کرنے سے روکا گیا ہے ، لیکن سمجھ دار لوگوں نے اس کو جس عمدہ طریقے سے بیان کیا ہے اور حل کیا ہے ، اس کو آگے چل کر اپنے موقع پر بیان کیا جائے گا ۔ دوسری چیز یعنی تدبیر ، اس کے اختیار کرنے کا بندے کو تاکید سے حکم دیا گیا ہے ۔ تدبیر کیا ہے؟ تدبیر ہے کسی مقصد کے حاصل کرنے کے لیے اس کے ذرائع اور اسباب کو کام میں لانا۔ یہ ثابت شدہ بات ہے کہ ذرائع اور اسباب میں اللہ تعالیٰ نے تاثیر رکھی ہے، مگر ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ ان کی تاثیر اللہ تعالیٰ کے حکم اور ارادہ سے ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور ایک صداقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ انسان جب شعور کے درجہ کو پہنچتا ہے، اس کے سامنے دو چیزیں پیش ہوتی ہیں: دین اور دنیا۔ ان دونوں سے خالقِ کائنات نے دنیا کو ذریعہ کا درجہ دیا ہے اور دین کو اصل اور مقصد قرار دیا ہے۔ اور یہ بھی ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ ہر علم کی فضیلت اور بلندی اس کے معلوم کے فائق اور افضل ہونے سے ہوتی ہے۔ پس جب کہ دین ( جو مقصودِ اصلی ہے) دنیا سے (جو محض ذریعہ ہے) افضل اور اعلیٰ ثابت ہوا تو علمِ دین بھی علمِ دنیا سے یقیناًافضل اور درجہ میں مقصودِ اصلی ثابت ہوا۔ یہ بھی یقین کر لینا ضروری ہے کہ بے شک علمِ دین علمِ دنیا کے اعتبار سے مقصودِ اصلی ہے، لیکن عمل کے لیے یہ بھی ذریعہ ہے، کیونکہ علم سے مقصود عمل ہے۔ اگر علم ہو اور اس کے مطابق عمل نہ ہو تو یہ ایسا ہے کہ جسم ہو مگر اس میں جان نہ ہو ۔ 
دینِ اسلام میں ایمان کے ساتھ اعمالِ صالح کو نجات اور دخول جنت کے اسباب کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے ۔ عملِ صالح کیا ہے؟ اس کی مختصر تشریح یہ ہے کہ جو عمل اللہ تعالیٰ کے حکم اور رضا مندی کے تحت ہو اور ساتھ ہی نبی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی اور متابعت سے کیا گیا ہو۔ اس میں شک نہیں کہ اعمالِ صالحہ کا کیا جانا علومِ دین حاصل کیے بغیر ممکن نہیں۔ پس ثابت ہوا کہ اعمالِ صالحہ کے حاصل ہونے کے لیے ہر مکلف کو علمِ دین بقدرِ ضرورت حاصل کرنا لازمی اور ضروری ہے۔ ایمان، اسلام، اعمالِ صالحہ اور معروفات و منکراتِ شرعیہ کا علم حاصل کرنا اور پھر علم کے مطابق زندگی کے تمام شعبوں میں عمل کرنا ہر ایک مرد و عورت مسلم پر لازمی اور ضروری ہے۔ اب مذکورہ بالا امور میں عام غورو فکر کرنے کے بعد ایک مسلمان مبصر کے لیے سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے کہ ان تمام مسلم مردوں اور عورتوں سے جن کے نام اسلامی ہیں اور سرکاری رجسٹروں و دیگر دفتروں میں بھی ان کو مسلمان درج کیا ہوا ہے، ان میں سے کس قدر مسلمان ہیں جو کہ عنداللہ و عند الرسول بھی واقعہ میں مسلمان ہیں؟ افسوس کہ مسلمان کس قدر اپنی اصلیت اور حقیقت سے جدا ہو چکے ہیں ۔
مسلماں گشتی و آگاہ نیستی
مسلمانی چیست و تو خود کیستی 
(’’تم مسلمان تو ہو گئے ہو لیکن اس سے آگاہ نہیں ہو کہ مسلمانی کیا چیز ہے اور تمھارے طور اطوار کیا ہیں۔‘‘)
ہمارا اسلام سے دور نکلتے جانا اور اسلامیات میں کمزور ہوتے جانا، یہ ایک ایسی کھلی ہوئی بات ہے جس کو سمجھنے کے لیے کسی گہرے تفکر کی ضرورت نہیں، محض عقلِ عام رکھنے والا ایک عامی بھی اس کو سمجھ سکتا ہے۔ مگر یہ نامساعد حالات کی طاقت کا کرشمہ ہے کہ ایسی واضح بات کو سمجھانے کے لیے بھی دلائل کی ضرورت پیش آ رہی ہے اور دلائل کے زور سے بھی اس کو دلوں میں اتارنا مشکل ہو رہا ہے۔ دین اور علومِ دین کی ضرورت کے متعلق آج گفتگو کرنا عام مسلمانوں کے تخیل اور مجالس سے خارج ہو چکا ہے۔ اب ہم مسلمانوں کی دنیا بھی غیر مسلموں کی طرح دین پر، اور غیر اسلامی و دنیاوی علوم، علومِ اسلام سے افضل اور مقدم ہو چکے ہیں۔ اب ہم اسی چیز کو اپنے لیے ضروری اور مفید سمجھتے ہیں جس میں دنیا کا کوئی فائدہ ہو ۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ مَا لَکُمْ إِذَا قِیْلَ لَکُمُ انفِرُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَی الأَرْضِ أَرَضِیْتُم بِالْحَیَاۃِ الدُّنْیَا مِنَ الآخِرَۃِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فِیْ الآخِرَۃِ إِلاَّ قَلِیْلٌ (التوبۃ۹، آیت ۳۸)
’’ اے ایمان والو! تم کو کیا ہوا، جب تم سے کہا جاتا ہے کہ کوچ کرو اللہ کی راہ میں تو گرے جاتے ہو زمین پر۔ کیا خوش ہوگئے دنیا کی زندگی پر آخرت کو چھوڑ کر؟ سو کچھ نہیں نفع اٹھانا دنیا کی زندگی کا آخرت کے مقابلہ میں مگر بہت تھوڑا۔‘‘ 
وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلاَّ لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَلَلدَّارُ الآخِرَۃُ خَیْْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُونَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ (الانعام۶، آیت ۳۲)
’’ اور نہیں ہے زندگانی دنیا کی مگر کھیل اور جی بہلانا، اور آخرت کا گھر بہتر ہے پرہیز گاروں کے لیے۔ کیا تم نہیں سمجھتے؟‘‘ 
ہم اس سبق کو جو اللہ تعالیٰ نے ہم کو دیا تھا، بھول بیٹھے ہیں بلکہ یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ علمِ دین پڑھ کر کریں گے کیا؟ اُف، ایک مسلمان کی زبان سے یہ بات کس قدر روح فرسا اور مضحکہ خیز ہے۔ مسلمان اپنے مقصدِ حیات سے کس قدر دور جا پڑے ہیں۔ غلط تربیت اور غیر اسلامی علوم کا حصول اور غیر جنس کی محبت کا یہی نتیجہ ہوا کرتا ہے ۔
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہبازی 
بے شک مسلمان کے لیے دین اور دنیا دونوں ضروری ہیں مگر ضرورت، ضرورت میں بین فرق ہے۔ دنیا اس لیے ضروری ہے کہ ذریعہ زندگی ہے اور دین اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان کا مقصد ہے اور اس کی زندگی اسی لیے صرف اسی لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو درحقیقت مومنوں کے ہی لیے پیدا کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے آخرت کے مالک بنیں ۔ غیر مسلموں کو تو ان کی وجہ سے روزی مل رہی ہے۔ قیامت جب ہی آئے گی جب ایک بھی مومن نہیں رہے گا ، یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔ (ارشاد باری تعالیٰ ہے):
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّہِ الَّتِیَ أَخْرَجَ لِعِبَادِہِ وَالْطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ ہِیْ لِلَّذِیْنَ آمَنُواْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَذَلِکَ نُفَصِّلُ الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ (الاعراف۷، آیت ۳۲)
’’ تو کہہ:کس نے حرام کیا اللہ کی زینت کو جو اس نے پیدا کی اپنے بندوں کے واسطے اور ستھری چیزیں کھانے کی؟ تو کہہ: یہ نعمتیں اصل میں ایمان والوں کے واسطے ہیں دنیا کی زندگی میں، خالص انہی کے واسطے ہیں قیامت کے دن۔ اسی طرح مفصل بیان کرتے ہیں ہم آیتیں ان کے لیے جو سمجھتے ہیں ۔‘‘ 
تشریح : ’’یعنی منع کام میں خرچ نہ کرے، باقی کھانا پینا سب روا ہے۔ جو نعمت ہے، سو مسلمان کے لیے پیدا ہوئی ہے۔ دنیا میں کافر بھی شریک ہو گئے، آخرت میں صرف انہی کو ہے۔‘‘ ( شاہ عبدالقادر ؒ ) 
کون کہتا ہے کہ مسلمان دنیا نہ کمائے؟ دنیا کا حاصل کرنا تو اس کو بھی ضروری ہے بلکہ اس لیے ضروری ہے کہ اسی کی اپنی چیز ہے اور اسی کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ مسلمان کو دنیا کے کمانے سے منع نہیں کیا گیا بلکہ اس کے کمانے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن مسلمان، صرف مسلمان کو اس بات کا سمجھنا ضروری ہے کہ اس کا اپنا وجود اور اس کی زندگی دنیا اور صرف دنیا کے لیے ہے یا کسی اور اعلیٰ و بلند مقصد کے لیے ہے؟ دنیا بری نہیں، دنیا کا نشہ برا ہے۔ مسلمان وہ ہے جس کی عبادت اور قربانی اور زندگی اور موت، اللہ رب العالمین کے لیے ہو اور جو مسلمان ہی زندہ رہنا چاہتا ہو اور مسلمان ہی مرنا چاہتا ہو اور جس کی یہ تمنا ہو کہ میں اور میری نسل محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی راہ راست پر قائم رہیں۔ اور جو مسلمان صرف دنیا کے لیے اور ملازمتوں اور عہدوں کے لیے مسلمان ہیں، پس نہ وہ واقعتا مسلمان ہیں اور نہ وہ ہمارے مخاطب ہیں۔ ایسے مسلمان خود اپنے اوراپنی نسل کے بد خواہ اور دشمن ہیں۔ یہ لوگ اسلامیات سے عاری ہیں اور اپنی نوخیز نسلوں کو خود اپنے ہاتھوں ہلاک و برباد کر رہے ہیں۔ 
برادرانِ اسلام! نفس و شیطان اور دنیا کے فریب میں نہیں آنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاتم الکتب کتاب قرآن مجید میں صاف صاف بیان فرمادیا ہے کہ میری جناب میں دنیا کی کوئی بھی چیز، جس کا حصول میری اجازت کے تحت نہیں ہو گا، اور مومن کا کوئی بھی عمل جو میرے دین کے خلاف ہو گا، اور کسی کی سفارش جبکہ اعمالِ مطلوبہ ساتھ نہیں ہوں گے ، ان میں سے کوئی چیز بھی قابلِ قبول نہیں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے کسی بندے پر بھی ظلم کو، فریب کو اور بے عزتی کو جائز نہیں کرتا، اور میں نے بے حیائی و بد کاری کو حرام قرار دے دیا ہے اور میں اپنے حق میں شرک کو ہر گز معاف نہیں کروں گا ۔ میرے نزدیک بندوں میں سے مسلم اور غیر مسلم، مسلموں میں سے فرماں بردار اور نافرمان، بدی اور نیکی، حلال اور حرام، پاک اور پلید، صدق اور کذب، علیٰ ہذا ہر دو متضاد چیزیں یکساں درجہ نہیں رکھتیں۔ میں ذرہ برابر بھی بے انصافی نہیں کروں گا اور نہ ذرہ برابر انصاف سے محروم کروں گا : 
فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْْراً یَرَہُ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَرَہُ (الزلزال۹۹، آیات ۷و ۸)
’’سو جس نے کی ذرہ بھر بھلائی، وہ دیکھ لے گا اسے اور جس نے کی ذرہ بھر برائی، وہ دیکھ لے گا اسے ۔‘‘
جو کہا جا چکا ہے بدلا نہیں جائے گا :
مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ (ق۵۰، آیت ۲۹)
’’ بدلتی نہیں بات میرے پاس اور میں ظلم نہیں کرتا بندوں پر۔‘‘ 
تمام کائنات پر میری حکومت ہے اور ایک ذرہ بھی میرے قبضہ سے باہر نہیں، مگر میں مجرم کو جلدی نہیں پکڑتا بلکہ ڈھیل دیتا ہوں اور توبہ کے لیے موقع دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نہ بدلنے والے فیصلہ جات کو عقلیت اور حکمت (فلسفہ) کے ساتھ بیان کر دیا ہے اور انسانیت عامہ پر حجت اور دلیل قائم کر دی ہے۔ فرماتے ہیں :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْْہَا مَلَاءِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا یَعْصُونَ اللَّہَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُونَ (التحریم۶۶، آیت ۶)
’’اے ایمان والو بچاؤ اپنی جان کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے جس کی چھپٹیاں ہیں آدمی اور پتھر، اس پر مقرر ہیں فرشتے تند خو زبردست، نافرمانی نہیں کرتے اللہ کی جو بات فرمائے ان کو، اور وہی کام کرتے ہیں جو ان کو حکم ہو ۔‘‘ 
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا ہَلْ أَدُلُّکُمْ عَلَی تِجَارَۃٍ تُنجِیْکُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِیْمٍ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَتُجَاہِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ وَمَسَاکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ وَأُخْرَی تُحِبُّونَہَا نَصْرٌ مِّنَ اللَّہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ (الصف۶۱، آیات ۱۰ تا ۱۳)
’’اے ایمان والو! میں بتلاؤ ں تم کو ایسی سوداگری جو بچائے تم کو ایک عذاب دردناک سے؟ ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور لڑو اللہ کی راہ میں اپنے مال سے اور اپنی جان سے۔ یہ بہتر ہے تمہارے حق میں اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔ بخشے گا وہ تمہارے گناہ اور داخل کرے گا تم کو باغوں میں جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں اور ستھرے گھروں میں بسنے کے باغوں کے اندر۔ یہ ہے بڑی مراد ملنی۔ اور ایک اور چیز دے گا جس کو چاہتے ہو، مدد اللہ کی طرف سے اور فتح جلدی، اور خوشی سنا دے ایمان والو ں کو۔‘‘ 
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَن ذِکْرِ اللَّہِ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاکُم مِّن قَبْلِ أَن یَأْتِیَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِیْ إِلَی أَجَلٍ قَرِیْبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَکُن مِّنَ الصَّالِحِیْنَ وَلَن یُؤَخِّرَ اللَّہُ نَفْساً إِذَا جَاء أَجَلُہَا وَاللَّہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (المنافقون۶۳، آیات ۹ تا ۱۱)
’’ اے ایمان والو! غافل نہ کر دیں تم کو تمہارے مال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے۔ اور جو کوئی یہ کام کرے تو وہی لوگ ہیں ٹوٹے میں۔ اور خرچ کرو کچھ ہمارا دیا ہوا اس سے پہلے کہ آ پہنچے تم میں کسی کو موت۔ تب کہے اے رب، کیوں نہ ڈھیل دی تو نے مجھ کو ایک تھوڑی سی مدت کہ میں خیرات کرتا اور ہو جاتا نیک لوگوں میں؟ اور ہر گز نہ ڈھیل دے گا اللہ کسی جی کو جب آ پہنچا اس کا وعدہ، اور اللہ کو خبر ہے جو تم کرتے ہو ۔‘‘ 
إِنَّ اللّٰہَ اشْتَریٰ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُم بِأَنَّ لَہُمُ الجَنَّۃَ یُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ وَعْداً عَلَیْْہِ حَقّاً فِیْ التَّوْرَاۃِ وَالإِنجِیْلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفیٰ بِعَہْدِہِ مِنَ اللّہِ فَاسْتَبْشِرُواْ بِبَیْْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُم بِہِ وَذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (التوبۃ ۹، آیت ۱۱۱)
’’ اللہ نے خرید لی مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔ لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں، پھر مارتے ہیں اور مرتے ہیں۔ وعدہ ہو چکا اس کے ذمہ پر سچا توریت اور انجیل اور قرآن میں، اور کون ہے قول کا پورا اللہ سے زیادہ؟ سو خوشیاں کرو اس معاملہ پر جو تم نے کیا ہے اس سے اور یہی ہے بڑی کامیابی ۔‘‘ 
لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّی تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَیْْءٍ فَإِنَّ اللّہَ بِہِ عَلِیْمٌ (آل عمران ۳، آیت ۹۲)
’’ہر گز نہ حاصل کر سکو گے نیکی میں کمال جب تک نہ خرچ کرو اپنی پیاری چیز سے کچھ، اور جو چیز خرچ کرو گے سو اللہ کو معلوم ہے۔‘‘
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ (البقرۃ ۲،آیت ۱۵۵)
’’اور البتہ ہم آزمائیں گے تم کو تھوڑے سے ڈر سے اور بھوک سے اور نقصان سے مالوں کے اور جانوں کے اور میووں کے، اور خوش خبری دے ان صبر کرنے والوں کو ۔‘‘ 
یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِیْہِ وَأُمِّہِ وَأَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہِ وَبَنِیْہِ لِکُلِّ امْرِءٍ مِّنْہُمْ یَوْمَءِذٍ شَأْنٌ یُغْنِیْہِ (سورۃعبس۸۰، آیات ۳۴ تا ۳۷)
’’جس دن کہ بھاگے مرد اپنے بھائی سے اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی ساتھ والی سے اور اپنے بیٹوں سے، ہر مرد کو ان میں سے اس دن ایک فکر لگا ہوا ہے جو اس کے لیے کافی ہے ۔‘‘ 
قرآن مجید اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی حجت انسان خصوصاً مسلمان کے لیے قوی اور مضبوط نہیں ہو سکتی۔ پس جو شخص نقلِ صادق اور عقلِ سلیم کے پیش کردہ دلائل سے ہدایت اور نصیحت حاصل نہیں کرتا ، وہ معاند اور دیدہ و دانستہ منکر ہے : 
فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعْدُ بِالدِّیْنِ أَلَیْْسَ اللَّہُ بِأَحْکَمِ الْحَاکِمِیْنَ (التین ۹۵، آیات ۷و۸)
’’پھر تو اس کے پیچھے کیوں جھٹلائے بدلہ ملنے کو؟ کیا نہیں ہے اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم ؟‘‘ 
فما یکذبک میں لفظ ’ما‘ کے حسنِ استعمال پر غور کرو ، اس نے انسانی ضلالت کی اصل حقیقت بے نقاب کر دی ہے۔ اس سے صاف کھل گیا کہ انسان نے انکار کی راہ ہمیشہ تقلید و عناد کی بنا پر اختیار کی ہے، دلائل و شہادات نے کبھی اس راہ میں اس کا ساتھ نہیں دیا، کیونکہ دلائل و شہادات کی اس پوری کائنات میں ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جو انکار پر آمادہ کرے ۔ پس انسانوں کو مخاطب کر کے یہ دعوت دی گئی ہے کہ وہ دلائل پر غور کریں۔ دلائل اور شہادتوں کے بعد اوہام اور تخمینے اور آرزوئیں ہی باقی رہتی ہیں جو اعتماد کے لائق نہیں ۔ 
اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت میں کوئی ساجھی نہیں ہے۔ اس نے ہر کام کے لیے ایک مدت معین فرما دی ہے ۔ قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کا ایک ایک لفظ خدا کا تکلم کردہ ہے، اس لیے اس سے بہتر انسان کی ہدایت کے لیے اس وقت کوئی اور کتاب نہیں ہے۔ انسان کے لیے اور انسان کے اوپر یہی کتاب حجت اور دلیل ہے۔ اس کتاب کے مختلف مقامات سے اوپر کی آیاتِ مبارکہ نقل کر دی ہیں، ان کے تراجم اور تشریحات کو خوب غور سے سمجھنا چاہیے۔ اس طرح غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ احکام مجھے مخاطب قرار دے کر سنائے جا رہے ہیں کہ میرا بندہ اور غلام ہونے کی حیثیت سے میرے احکام کو سن، اور ان پر عمل کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کر، اور تجھے اس بات کو ٹھنڈے دل سے یقین کر لینا چاہیے کہ میری عدالت گاہ میں قیامت کے دن کسی کی دنیاوی حیثیت اور پوزیشن کام نہیں آئے گی :
یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَلَا یَغُرَّنَّکُم بِاللَّہِ الْغَرُورُ (فاطر۳۵، آیت ۵)
’’ اے لوگو! بے شک اللہ کا وعدہ ٹھیک ہے، سو نہ بہکائے تم کو دنیا کی زندگانی اور نہ دغا دے تم کو اللہ کے نام سے وہ دغا باز۔‘‘
دنیا کی ساری نعمتیں حاصل کرلینے والا مسلمان جو میری نا فرمانی پر مرے گا، اس کے لیے دنیا کی کوئی چیز بھی میری درگاہ میں اپیل نہیں کر سکے گی۔ جو شخص فتح مند اور انعام یافتہ ہونا چاہتا ہو، اس کو دنیا میں آزمائشوں سے گزرنا پڑے گا اور بوقت مطالبہ ہر محبوب چیز کی قربانی کرنی پڑے گی :
لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّی تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَیْْءٍ فَإِنَّ اللّہَ بِہِ عَلِیْمٌ (آل عمران ۳، آیت ۹۲) 
’’ ہر گز نہ حاصل کر سکو گے نیکی میں کمال جب تک نہ خرچ کرو اپنی پیاری چیز سے کچھ۔ اور جو چیز خرچ کرو گے سو اللہ کو معلوم ہے۔‘‘ 
الم أَحَسِبَ النَّاسُ أَن یُتْرَکُوا أَن یَقُولُوا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُونَ ( العنکبوت ۲۹،آیات ۱و۲)
’’ کیا یہ سمجھتے ہیں لوگ کہ چھوٹ جائیں گے اتنا کہہ کر کہ ہم یقین لائے اور ان کو جانچ نہ لیں گے ؟‘‘ 
أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّہُ الَّذِیْنَ جَاہَدُواْ مِنکُمْ وَیَعْلَمَ الصَّابِرِیْنَ (آل عمران۳، آیت ۱۴۲)
’’ کیا تم کو خیال ہے کہ داخل ہو جاؤ گے جنت میں اور ابھی تک معلوم نہیں کیا اللہ نے جو لڑنے والے ہیں تم میں اور معلوم نہیں کیا ثابت قدم رہنے والوں کو؟ ‘‘
در رہِ منزلِ لیلیٰ خطرہاست بجان
شرط اول قدم آں است کہ مجنوں باشد
وَأَن لَّیْْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعٰی (النجم۵۳، آیت ۳۹)
’’ اور یہ کہ آدمی کو وہی ملتا ہے جو اس نے کمایا۔‘‘
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے 
بہت سے غافل دنیا کی زندگی کے لیے ہر ایک تدبیر اختیار کرتے ہیں لیکن زندگئ آخرت کے لیے خدا کے فضل یا تقدیر پر بھروسہ کیے بیٹھے ہیں، تدبیر کو آخرت کے لیے ضروری نہیں سمجھتے۔ ایسے لوگ عقل کے دشمن اور تاثیرات اسباب سے اندھے اور نقل کے منکر ہیں۔ ان بے انصافوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ جہان، دنیا اور آخرت کے لیے مقامِ عمل ہے ۔ خالقِ کائنات نے اسباب کو بھی پیدا کیا ہے اور ان میں تاثیرات کو بھی رکھ دیا ہے اور ہر ایک چیز کی تحصیل کے لیے ضوابط و قوانین مقرر فرمائے ہیں اور اپنی کتابوں اور برگزیدہ بندوں کے ذریعے سے اعمال و اسباب کے اختیار کرنے کی تاکید فرما دی ہے اور اعمال و اسباب کے ترک کرنے والوں کے بے نصیب اور بد انجام ہونے سے خبردار کردیا :
وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ إِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ( العصر ۱۰۳، آیات ۱ تا ۳)
’’ قسم ہے عصر کی، مقرر انسان ٹوٹے میں ہے مگر جو لوگ کہ یقین لائے اور کیے بھلے کام اور آپس میں تاکید کرتے رہے سچے دین کی اور آپس میں تاکید کرتے رہے تحمل کی ۔‘‘ 
بلکہ اپنے برگزیدہ بندوں اور انبیا و رسل علیہم الصلوات و التسلیمات کو تدابیر کے لیے تختہ مشق بنا کر انسانیتِ عامہ پر حجت قائم کر دی ہے کہ یہ برگزیدہ بندے بھی جب تدابیر کے اختیار کرنے سے بے نیاز اور لاپروا نہیں کیے گئے جو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و انعامات کے سب سے زیادہ حق دار ہیں تو عام انسانوں کے لیے کون سی دلیل اور حجت ہے کہ ان کو بغیر اکتساب اسباب و اعمال کے صرف فضل سے بخش دیا جائے گا۔ یہ ایک ایسا باطل تخیل ہے جو تمام شرائع و ادیان آسمانی کو بے معنی قرار دیتا ہے اور جزا اور ثواب کو بے حقیقت بنا دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تو یہ ہے کہ ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین۔
بعض لوگ تقدیر کو بہانہ بنا کر یہ حدیث پیش کیا کرتے ہیں کہ ماشاء اللہ کان و ما لم یشا لم یکن، یعنی خدا جو چاہتا ہے، وہ ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا، نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ بندہ مجبور ہے، خود کچھ نہیں کر سکتا۔ حالانکہ یہ حدیث بھی جدوجہد اور تدبیر کی ترغیب کے لیے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو خدا چاہتا ہے، وہ ہوتا ہے۔ بس بندے کو چاہیے، اپنی کوشش سے خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کی جدوجہد کرے ۔ مثلاً اگر ملازم شاہی کو یہ کہا جائے کہ جو کچھ وزیر چاہتا ہے، وہ ہوتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وزیر کو خوش رکھنے کے لیے جہاں تک ہو سکے، ہر طرح کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ کامیابی اور حصولِ مقصد تمہارے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس کا سرِ رشتہ وزیر کے ہاتھ میں ہے، اس لیے بغیر سعی اور کوشش کے کام نہیں چل سکتا۔ اسی طرح نفی تدبیر اور اختیار کے لیے یہ حدیث پیش کی جاتی ہے کہ جف القلم بما انت لاق یعنی جو کچھ ہونا ہے، وہ پہلے ہی دن لوح تقدیر میں لکھا جا چکا ہے۔ بے شک یہ سچ ہے مگر اس کے معنی وہ نہیں جو عوام سمجھتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ طے ہو چکا ہے کہ نیکی کا نتیجہ نیک ہو گا اور بدی کا بد۔ مولانا روم ؒ فرماتے ہیں : 
بلکہ آں معنی بود جف القلم
نیست یکساں نزد او عدل وستم
فرق بنہادم میان خیروشر
فرق بنہادم زبد واز بد بتر
معنئ جف القلم کے ایں بود
کہ جفاہا با وفا یکساں شود
بادشاہے کہ بہ پیش بخت او
فرق نبود از امین وظلم خو
فرق نکند ہر دو یک باشد برش
شاہ نبود خاک تیرہ بر سرش
(’’جف القلم کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک انصاف اور بے انصافی یکساں نہیں۔ (اللہ نے فرمایا ہے کہ) میں نے خیر اور شر اور بد اور بدتر کے مابین فرق رکھا ہے۔ جف القلم کے معنی یہ کیسے ہو سکتے ہیں کہ وفاداری اور بے وفائی یکساں ہو جائیں؟ ایسا بادشاہ جس کے ہاں امانت دار اور ظالم کے مابین کوئی فرق نہ کیا جائے اور دونوں برابر سمجھے جائیں، وہ بادشاہ کہلانے کا مستحق نہیں، بلکہ سر پر خاک ڈالے جانے کا مستحق ہے۔‘‘)
غرض کہ قرآن مجید اور احادیثِ رسول علیہ الصلوۃ اعمال کی تدابیر اور کسب کی ترغیب سے پر ہیں۔ ہمارے سامنے تدابیر سے قومیں ترقی کر کے کائنات ارضی پر حکومتیں کر رہی ہیں۔ عناصر اربعہ کو تصرف میں لا کر حیران کن نتائج پیدا کر رہے ہیں۔ پس جو شخص بھی اسباب و ذرائع کو عمل میں لائے گا، ان کے ثمرات سے فیض یاب ہو گا ۔ اس لیے حصولِ دنیا اور نجاتِ آخرت کے لیے تدابیر کے اختیار کرنے اور اسباب کے عمل میں لانے سے چارہ نہیں۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم سب برابر ہیں، صرف مسلم کی امتیازی شان یہ ہے کہ اس کا سامانِ دنیا، ذریعہ آخرت ہے اور غیر مسلم کی دنیا صرف دنیا کی عیش و راحت کے لیے ہے۔ اور مسلمان وہ ہے جس کا سب کچھ یہاں تک کہ اس کی جان و زندگی اسلام کے لیے ہو اور صحیح معنی میں وہ قرآنی مسلمان ہو اور اسلامی مسلمان ہو، اور اگر اس کی زندگی اور اس کا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے نہیں ہے، پس نہ وہ مسلمان ہے اور نہ اس کی ترقی مسلمان کی ترقی ہے اور نہ اسلام کی ترقی ہے، بلکہ یہ ایک بظاہر قومی اور حقوقی مسلمان کی ترقی ہو گی، اس کو مسلم ترقی ہرگز نہیں کہا جائے گا۔ موجودہ مسلمان ۹۵ فی صدی ایسے ہی حقوقی اور قومی مسلمان ہیں جو صرف اپنے اغراض و خواہشات کی خاطر مسلمان کہلاتے ہیں اور مسلمانوں میں شامل ہیں اور صرف زبان سے رسمی طور پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ لیتے ہیں، اختیار اور ارادے اور رضامندی سے ان کا اس کلمہ طیبہ پر اعتقاد نہیں ہے جو اس کے لیے ضروری اور رکن قرار دیا گیا ہے اور نہ ان کی زندگی اور زندگی کے کاروبار اس کلمہ کے تحت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کے مطابق ہیں۔ پس مسلمان وہی شخص ہے جو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مسلمان ہو اور عملِ صالح بھی وہی مقبول ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کے مطابق کیا گیا ہو۔ 

جہاد اور معاصر بین الاقوامی قانونی نظام ۔ چند اہم مباحث

محمد مشتاق احمد

جہاد اسلام کی چوٹی ہے ، جیسا کہ حدیث صحیح میں وارد ہوا ہے ۔(۱) بہت سی آیات و احادیث سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ایمان اور نفاق کے درمیان فرق کا علم جہاد ہی کے ذریعے ہوتا ہے ۔ (۲) جہاد ہی کی برکت ہے کہ اسلامی دنیا میں کبھی بھی غیروں کے تسلط کو ٹھنڈے پیٹوں قبول نہیں کیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاد ابتدا ہی سے استعماری قوتوں کا ہدف رہا ہے ۔ مسلمان اہل علم کی جانب سے ہر دور میں جہاد کی حقیقت اور اس کے صحیح تصور کو اجاگر کرنے کا فریضہ ادا کیا گیا ہے ۔ انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں اسلامی دنیا بالعموم غیروں کے تسلط میں آگئی تو اس تسلط کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ کہیں نہیں رکا ، اگرچہ استعماری قوتوں کے گماشتوں اور مغربی تہذیب کے مقابلے میں مرعوبیت کے شکار بہت سے لوگوں نے جہاد کا تصور مسخ کرکے اسے عملاً منسوخ قرار دینے کی بھی کوششیں کیں ۔ اس معذرت خواہانہ رویے کے جواب میں مسلمان اہل علم نے جو کچھ لکھا اس کی افادیت مسلم ہے لیکن ان تحریرات میں بھی بعض اوقات رد عمل کی نفسیات کارفرما دکھائی دیتی ہے ۔ بیسویں صدی کے آخر میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے جہاد پر کام کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ۔ الجزائر کی جنگ آزادی ، ایرانی انقلاب اور روس کے افغانستان پر حملے نے ایک بار پھر یہ حقیقت روز روشن کی طرح آشکارا کردی کہ جہادی جذبے سے سرشارمسلمان اب بھی طوفانوں کا رخ موڑ سکتے ہیں ۔ امریکہ میں گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ ء کو جو واقعات رونما ہوئے اس کے بعد اسلامی دنیا میں بھی اور مغرب میں بھی جہاد کے موضوع پر تحقیق اور بھی ضروری ہوگئی ہے بالخصوص جبکہ اس وقت عراق ، افغانستان اور دیگر کئی مقامات پر مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان تصادم کا ایک بظاہر نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔اس وقت مسلمان اہل علم کی ذمہ داری اور بھی بڑھ گئی ہے کہ وہ عصر حاضر میں جہاد سے متعلق امور کا تجزیہ کریں اور جہاد کے متعلق پیدا ہونے والے مختلف قانونی مسائل پر شریعت کا نقطۂ نظر واضح کریں ۔ ان تنظیموں اور افراد سے ہٹ کر جو مغرب کے ساتھ تصادم کو ناگزیر سمجھتے ہوئے معاصر بین الاقوامی قانونی نظام (Contemporary International Legal Order) کی جڑیں ہی اکھاڑنا چاہتے ہیں ، بالعموم اہل علم کی اکثریت اس نظام کے اندر رہتے ہوئے جہاد کے مسائل پر بحث کرتے ہیں ۔ اس سلسلے میں وہ جہاد کے متعلق مختلف جزئیات کا موجودہ بین الاقوامی قانون کے ساتھ موازنہ بھی کرتے ہیں اور ان میں مشترک اور مختلف امور سامنے لاتے ہیں ۔ لیکن اس وقت ضرورت اس سے آگے بڑھ کر اس امر کی ہے کہ فقہا کے وضع کردہ جہاد کے پورے نظریے کا موازنہ معاصر بین الاقوامی قانون کے پورے نظام کے ساتھ کیا جائے اور موجودہ نظام سے پیدا ہونے والے مسائل کا تجزیہ کیا جائے ۔ اس طرح کے ایک عمومی تفصیلی جائزے کے بغیر ان مسائل کا حقیقی ادراک ممکن نہیں جو موجودہ نظام میں جہاد کے نظریے کے انطباق کے وقت پیش آتے ہیں ۔ زیر نظر مقالے میں ایسے ہی چند اہم مسائل اہل علم کے غور و فکر اور تجزیے کے لیے سامنے لائے گئے ہیں ۔ 

دار الاسلام اور اسلامی ریاست 

یہ ایک حقیقت ہے کہ فقہا کے کام کو عصر حاضر کے بین الاقوامی نظام پر منطبق کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ موجودہ بین الاقوامی نظام کی بنیاد ’’قومی ریاست ‘‘(Nation-state) کے تصور پر ہے جس کے تحت ’’قوم ‘‘ اور ’’ریاست ‘‘ کو ایک ہی سمجھا جاتا ہے ۔ عملاً یہ فرض کیا گیا ہے کہ ریاست کے بغیر قوم نہیں پائی جاتی اور دو مختلف ریاستوں میں دو مختلف قومیں بستی ہیں ۔ گویا قومیت کی بنیاد ریاست پر ہوئی ۔ پھر ہر قوم کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور ہر ریاست ایک الگ اکائی ہوتی ہے ۔ (۳) مزید برآں موجودہ بین الاقوامی قانون کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ قانون کا سرچشمہ ریاست ہے ۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے دو بڑے مآخذ ہیں : معاہدات (Treaties) اور رواج (Custom) ۔ معاہدات کے ذریعے ریاست اپنی مرضی کا صریح اظہار کرتی ہے ، جبکہ رواج ریاستوں کے مسلسل عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اصول و ضوابط کو کہا جاتا ہے ۔ (۴) ایک اور اہم اصول یہ ہے کہ ریاست کو ’’شخص قانونی ‘‘ (Legal Person) متصور کیا جاتا ہے ، اور یوں ’’ریاست کی ملکیت ‘‘ ، ’’ریاست کے وسائل ‘‘ اور ’’ریاست کے حقوق و فرائض ‘‘ جیسی تراکیب محض تفہیم کی غرض سے استعمال نہیں کی جاتیں بلکہ ان کے باقاعدہ قانونی اثرات ہوتے ہیں ۔ (۵) 
اسلامی قانون میں ’’ریاست ‘‘کے برعکس ’’دار ‘‘ کا تصور تھا ۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ عصر حاضر میں ’’اسلامی ریاست ‘‘ کے موضوع پر کام کرنے والوں نے بالعموم ’’دارالاسلام‘‘ کے تصور کو درخور اعتنا نہیں سمجھا ہے ، حالانکہ ضروری تھا کہ وہ ان دونوں تصورات کا موازنہ کرکے قانونی نتائج کا تجزیہ کرتے اور پھر امت مسلمہ کے لیے کوئی لائحۂ عمل تجویز کرتے۔(۶) فقہا کے وضع کردہ نظام میں ’’دار الاسلام‘‘ کے لیے قانونی شخصیت نہیں مانی گئی تھی۔ اس لیے جن چیزوں کو اب ریاست کی ملکیت قرار دیا جاتا ہے انہیں دارالاسلام کی ملکیت نہیں قرار دیا جاتاتھا ۔ سرکاری خزانے کو ہی لیجیے ۔ اسے اب ریاست کی ملکیت مانا جاتا ہے مگر ’’بیت المال ‘‘ کا مالک دارالاسلام نہیں تھا ۔ (۷) اسی طرح مسلمان اہل علم نے بالعموم وطنی قومیت کے تصور کو مسترد کیا ہے لیکن عصر حاضر میں اس تصور سے پیدا ہونے والی گھمبیر صورتحال کا کوئی مناسب حل وہ پیش نہیں کرسکے ۔ چنانچہ ’’امت‘‘ کے تصور کو ’’قومی ریاست‘‘ کے تصور کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے چکر میں وہ مزید الجھنوں کا شکار ہوگئے ۔ (۸) یقینااس سلسلے میں اس بات سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے کہ فقہا نے ’’دار الاسلام ‘‘ اور ’’امت مسلمہ‘‘ کے تصورات میں ہم آہنگی کیسے یقینی بنائی ؟ 
اسلامی قانون کا سرچشمہ ریاست نہیں بلکہ وحی الٰہی ہے ۔ (۹) ریاست ہو یا ’’دار‘‘، فرد ہو یا معاشرہ ، کوئی بھی اس قانون سے بالاتر نہیں ہے ۔ اس لیے اس قانون کی بنیاد ’’تماثل‘‘ (Reciprocity) پر نہیں ہے ۔ فریق مخالف خواہ اس قانون کی پابندی نہ کرے ، مسلمان بہر حال اس کے پابند رہیں گے ۔ یہ قانون متعین کرتا ہے کہ مسلمان کس قسم کا معاہدہ کرسکتے ہیں اور کون سی شرط نہیں مان سکتے ۔ جہاں اس قانون نے تفصیل متعین نہیں کیں وہاں بھی لوگوں کو ’’آزاد‘‘ نہیں چھوڑا گیا ، بلکہ وہاں اس قانون کے ’’قواعد عامہ‘‘ کی روشنی میں اور ان کے حدود کے اندر ہی رہ کر قانون سازی کی جاسکے گی۔ (۱۰) 
اسی طرح فقہا کا’’شہریت‘‘ کا تصور بھی بہت مختلف تھا ۔ انہوں نے غیر مسلموں کو تین بڑی قسموں میں تقسیم کیا تھا ۔ وہ غیر مسلم جو ’’دار الاسلام‘‘ میں مستقل رہائش پذیر ہوں ان کو ’’ذمی‘‘ کہاجاتا تھا ۔ ان میں کچھ وہ تھے جو مسلمانوں کے مفتوحہ علاقوں سے تعلق رکھتے تھے اور کچھ نے مسلمانوں کے ساتھ باقاعدہ ’’عقد ذمہ‘‘ کیا تھا ۔ ان لوگوں پر اسلامی قانون کا وہ حصہ لاگو ہوتا تھا جس کو آجکل کی اصطلاح میں ’’پبلک لاء ‘‘ کہاجاتا ہے ۔ دارالاسلام کے اندر اور باہر ہر جگہ ان کے حقوق کی حفاظت دارالاسلام کے مسلمانوں کی ذمہ داری تھی ۔ (۱۱) دار الاسلام سے باہر مستقل اقامت اختیار کرنے والے غیرمسلموں کو ’’حربی‘‘ کہاجاتاتھا ۔ ان کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد نہیں ہوتی تھی ، نہ ہی ان پر اسلامی قانون لاگو ہوتا تھا ۔ (۱۲) البتہ اگر ان میں کچھ لوگ مسلمانوں کی اجازت (امان)سے دارالاسلام میں داخل ہوتے تھے تو ان پر اسلامی قانون کا کچھ حصہ لاگو ہوتا تھا اور ان کی حفاظت بھی مسلمانوں کی ذمہ داری ہوجاتی تھی ۔ ان کو ’’مستأمنین‘‘ کہا جاتا تھا۔ (۱۳) حربی اگر مسلمانوں کے خلاف جنگی کاروائی کرتے تو ان کو ’’محاربین‘‘ کہاجاتا تھا ۔ اس کے برعکس اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ امن کا معاہدہ کرتے اور اپنے علاقے میں اپنے قوانین کے تحت زندگی بسر کرتے تو ان کو ’’موادعین‘‘ یا ’’اہل موادعہ ‘‘ کہاجاتا تھا ۔ (۱۴) قانونی لحاظ سے موادع اور مستأمن سے یکساں سلوک کیاجاتا تھا ۔ دارالاسلام کے اندر دونوں کی حفاظت اہل اسلام کی ذمہ داری تھی اور دونوں پر اسلامی قانون کا کچھ حصہ لاگو ہوتا تھا ۔ دارالاسلام سے باہر ان کے حقوق کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہوتی تھی ۔ 
مسلمانوں کے لیے ایسی کوئی تقسیم نہیں تھی ۔ کوئی بھی مسلمان کسی بھی وقت دارالاسلام میں داخل ہوسکتا تھا اور اسے امان کی ضرورت نہیں تھی ۔ وہ دارالاسلام میں مستقل رہائش بھی اختیار کرسکتا تھا ، بلکہ نظری طور پر مسلمانوں کے حق میں مفروضہ یہی تھا کہ وہ دارالاسلام میں مقیم ہیں ۔ (۱۵) لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اسلامی قانون کے تحت پوری دنیا کے مسلمانوں کو دارالاسلام کے ’’شہری‘‘ تصور کیاجاتاتھا ۔ قانونی لحاظ سے دارالاسلام کے مستقل رہائش پذیر مسلمانوں اور دارالاسلام سے باہر مقیم مسلمانوں میں فرق کیاجاتا تھا۔ مثلاً دارالاسلام سے باہر اگر کسی مسلمان نے چوری کا ارتکاب کیا تو دارالاسلام کی عدالتیں اس کو سزا نہیں سناسکتی تھیں ۔ (۱۶) اسی طرح اگر دارالاسلام سے باہر کسی مسلمان کا کسی غیر مسلم کے ساتھ کوئی تنازعہ ہوتا تو دارالاسلام کی عدالتیں اس تنازعے کے حل کے لیے اختیار سماعت نہیں رکھتی تھیں ۔ (۱۷) اس بات کو حنفی فقہا اس طرح تعبیر کرتے ہیں کہ ’’عصمت دار کی وجہ سے ہے نہ کہ اسلام کی وجہ سے‘‘۔ (۱۸) پس دارالاسلام سے باہر مستقل اقامت اختیار کرنے والے مسلمانوں پر اگرظلم ہوتا تو دارالاسلام کے ملکی قانون کے تحت کوئی کاروائی نہیں ہوسکتی تھی ۔ البتہ اسلامی بین الاقوامی قانون کے تحت دارالاسلام کے مسلمانوں پر ان کی مدد لازم ہوجاتی تھی ۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان پر حملہ دارالاسلام کے شہریوں پر حملہ تصور کیاجاتاتھا ، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان پر حملہ امت مسلمہ پر حملہ تصور ہوتاتھا اور امت کے ایک حصے پر حملہ پوری امت پر حملہ سمجھاجاتاتھا ۔ 

فقہ اسلامی کے ابواب سیر ۔ متبدل اور غیر متبدل احکام 

جہاد کے متعلق شریعت کے احکام کی وضاحت اور عملی زندگی پر ان کی تطبیق کے نتیجے میں فقہاء نے جو قانونی نظام مرتب کیا اس کی تفصیلات فقہ اسلامی میں ’’کتاب السیر‘‘ یا ’’ کتاب الجہادد‘‘ کے عنوان کے تحت ملتا ہے ۔ جہاد پر لکھنے والے بہت سے لوگوں نے فقہاے کرام کے کام کو ان کے زمانے اور مخصوص حالات کا تجزیہ قرار دے کر اسے نظر انداز کیا اور براہ راست قرآن و حدیث سے استدلال کی راہ اختیار کی ۔ (۱۹) اس طریق کار کے اپنے کچھ فوائد ہوں گے لیکن فقہا کے کام کو نظر انداز کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں ہے ۔ ایک تو اس وجہ سے کہ فقہا، امت مسلمہ کے گل سرسبد تھے ۔ یہ امت کے بہترین دماغ تھے ۔ صدیوں کی محنت کے بعد فقہ اسلامی کا ذخیرہ وجود میں آیا ہے ۔ اس سارے علمی کام کو نظر انداز کرکے پہیہ دوبارہ ایجاد کرنے کی کوشش کیوں کی جائے ؟ فقہا کے کام کی اہمیت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کا کام صرف علمی دائرے تک محدود نہیں تھا بلکہ عملاً وہ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی کی بنیاد بنا ۔ ان ہی کے کام کو بنیاد پر اسلامی ریاست کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کا انحصار ہوتا تھا ۔ ان کا کام بین الاقوامی قانون کی حیثیت اختیار کرگیا تھا اور اسی لحاظ سے وہ صدیوں نافذ رہا ۔ 
یہ حقیقت اپنی جگہ صحیح ہے کہ وقت کے معروضی حالات کے مطابق فقہا نے بعض مسائل مرتب کیے جو شریعت کے ابدی احکام کی طرح ہر دور اور ہر زمانے کے لیے واجب العمل نہیں ہیں ۔ مثلاً اگر ابن عابدین نے یہ لکھا ہے کہ ’’سمندر دار الحرب میں شامل ہے۔‘‘ (۲۰) تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ مسلمان کبھی سمندر کو دار الاسلام کا حصہ نہیں بناسکتے ، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ ابن عابدین کے زمانے میں سمندر دارالاسلام کا حصہ نہیں تھا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس طرح کے احکام کو ان احکام سے کیسے الگ کیا جائے گا جو مستقل اور غیر متبدل ہیں ؟ مثلاً فقہاء اگر یہ کہتے ہیں کہ ’’غیر مسلم یا تو اہل حرب ہیں اور یا اہل عہد ۔‘‘ (۲۱) توکیا اسے ایک مستقل حکم قرار دے کر یہ قاعدہ بنایا جائے کہ جن غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ نہیں ہوا وہ سارے کے سارے اہل حرب ہیں ؟ یا اسے معروضی حالات کا تجزیہ قرار دے کر کہا جائے کہ اس وقت مسلمانوں کے آس پاس کے غیر مسلم یا تو مسلمانوں کے ساتھ برسرجنگ تھے یا انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا ؟ اسی طرح بہت سے اہل علم نے یہ موقف اپنایا ہے کہ دار الاسلام اور دارالحرب کی تقسیم ہی سرے سے مستقل نہیں ہے ، بلکہ یہ اس وقت کے حالات کا فقہی تجزیہ تھا جب فقہ کی تدوین ہورہی تھی ۔ (۲۲) کیا اس طرح پورے فقہ اسلامی کے علمی ذخیرے کو دریابرد کرنے کی راہ نہیں ہموار نہیں ہوجاتی ؟ 
جہاد کے موضوع پر کام کرنے والوں میں جن لوگوں نے فقہ اسلامی کے ذخیرے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور فقہا کی اصطلاحات بھی استعمال کیں، ان میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ اور ڈاکٹر وہبۃ الزحیلی کا کام خصوصا قابل ذکر ہے ۔ (۲۳) ڈاکٹر حمید اللہ اگرچہ عہد جدید میں اسلامی بین الاقوامی قانون پر کام کرنے والے ابتدائی افراد میں تھے لیکن ان کا کام کئی لحاظ سے بعد میں آنے والوں پر فوقیت رکھتا ہے ، خصوصا قانونی مسائل پر ان کی گہری نظر کی وجہ سے فقہا کے موقف کا فہم دیگر لوگوں کی بہ نسبت ان کے لیے زیادہ آسان ہوتا ہے ۔ دار الاسلام اور دارالحرب کے تصور کو ہی لیجئے ۔ بالعموم لوگوں نے اس تصور کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ’’مسلسل جنگ‘‘(Perpetual War) کے نظریے کی بنیاد کے طور پر پیش کیا ہے ۔ (۲۴) اس کے برعکس ڈاکٹر حمید اللہ ’’دار ‘‘ کے تصور سے عدالتوں کے ’’علاقائی اختیار سماعت ‘‘ (Territorial Jurisdiction) کے اصول اخذ کرتے ہیں ۔ (۲۵) ڈاکٹر وہبہ ایک جانب چند بنیادی امور میں فقہا کی آرا کو اس وقت کے حالات کی پیداوار قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف تفصیلی جزئیات میں فقہ اسلامی ہی کے ذخیرے سے استدلال کرتے ہیں ۔ یوں ان کے کام میں بعض مقامات پر اندرونی تضاد ات نظر آتے ہیں ۔ (۲۶) یہی مسئلہ دیگر بہت سے اہل علم کے ساتھ بھی ہے ۔ اس لیے عصر حاضر کے مسلمان اہل علم کے لیے کرنے کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ فقہ اسلامی کے ذخیرے سے مستقل اور عارضی احکام الگ کرنے کے لیے اصول وضع کرلیں ۔ اس کے بعد ہی عصر حاضر کے قانونی نظام پر اسلامی قانون کی تطبیق کے متعلق بات کی جاسکے گی ۔

رسول اللہ ﷺ کے اولین مخاطبین کے لیے خصوصی احکام؟

جہاد کے متعلق قرآن وسنت نے جو احکام ذکر کیے ہیں کیا ان میں کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص بھی ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جنگیں لڑی ہیں انہیں بھی محض دفاعی جنگیں نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ (۲۷) اگرچہ یقیناًان میں اکثر جنگیں یا تو دفاعی ضرورت کے تحت لڑی گئیں یا وہ دراصل پچھلی جنگوں کا تسلسل تھیں ، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حملے میں پہل کی ہے (مثلاً غزوۂ خیبر یا غزوۂ تبوک ) ۔ ان جنگوں کو تبھی دفاع کہا جاسکے گا جب دفاع کابہت ہی وسیع مفہوم لیا جائے اور اس میں پیش بندی کے اقدام ( Pre-emptive Strike) کا حق بھی شامل سمجھا جائے ۔ اب یہ بھی حقیقت ہے کہ پیش بندی کے اقدام کو ایک جانب سے دفاع اور دوسری جانب سے اقدام قرار دیا جائے گا ۔ مزید برآں مشرکین کے خلاف جس جنگ کا اعلان سورۃ التوبۃ میں کیا گیا ہے، اسے تو کسی صورت بھی دفاع نہیں قرار دیا جاسکتا کیونکہ اس میں بتایاگیا ہے کہ جنگ صرف اسی صورت میں ختم ہوگی جب تمام مشرکین اسلام قبول کرلیں : 
فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدتُّمُوہُمْ وَخُذُوہُمْ وَاحْصُرُوہُمْ وَاقْعُدُواْ لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَۃَ وَآتَوُاْ الزَّکَاۃَ فَخَلُّواْ سَبِیْلَہُمْ إِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (۲۸) 
’’پس جب حرام مہینے گزر جائیں تو ان مشرکین کو قتل کرو جہاں بھی انہیں پاؤ ، اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کے لیے بیٹھو ۔ پھر اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو ۔ یقیناًاللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے ۔‘‘
یہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمائی ہے :
امرت ان اقاتل الناس حتی یشھدوا ان لا الٰہ الا اللہ و ان محمدا رسول اللہ ، و یقیموا الصلوٰۃ و ےؤتوا الزکوٰۃ۔ فاذا فعلوھا عصموا منی دمآءھم و اموالھم الا بحقھا ، و حسابھم علی اللہ (۲۹) 
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ یہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، اور نماز قائم کریں ، اور زکاۃ دیں ۔ جب وہ ایسا کریں گے تو اپنی جانیں اور اپنے اموال مجھ سے بچا لیں گے ، سوائے اس حق کے جو اسلام کے اقرار سے ان پر عائد ہوتا ہو ، اور ان کے ساتھ محاسبہ اللہ کا کام ہوگا ۔ ‘‘
اس سورت میں اہل کتاب کے متعلق کہا گیا ہے کہ ان کے ساتھ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک وہ مسلمانوں کے ماتحت زندگی بسر کرنے اور جزیہ دینے پر آمادہ نہ ہوجائیں ۔ 
قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ یَدِیْنُونَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ حَتَّی یُعْطُواْ الْجِزْیَۃَ عَن یَدٍ وَہُمْ صَاغِرُونَ (۳۰) 
’’جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ، نہ روز آخرت پر ، اور نہ اسے حرام کرتے ہیں جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے ، اور نہ ہی وہ دین حق کو اپنا دین بناتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دینے اور ماتحت ہو کر زندگی بسر کرنے پر آمادہ ہوں ۔ ‘‘
اسی طرح اور بھی کئی آیات و احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مشن اس وقت تک جاری رہتا جب تک کہ آپ کو اپنے مخالفین پر مکمل غلبہ حاصل نہ ہوجاتا ۔ 
ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (۳۱) 
’’وہی اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے دین پر غالب کردے ، خواہ یہ ان مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو ۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرۃ العرب کو دین اسلام کے لیے مخصوص کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : 
لا یجتمع دینان فی جزیرۃ العرب ۔ (۳۲) 
’’جزیرۂ عرب میں دو دین جمع نہیں ہوسکتے۔ ‘‘
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد کا یہ مخصوص پہلو آپ ہی تک خاص تھا یا یہ اسلامی جہاد کا مستقل حصہ ہے ؟ بعض اہل علم کی رائے یہ ہوئی کہ اس قسم کی جنگیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے بعد نہیں لڑیں جاسکتیں اوریہ ایک مخصوص حکم تھا جو اب باقی نہیں رہا ۔ (۳۳) ان اہل علم کی رائے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد میں آپ کے مخالفین کے لیے عذاب الٰہی کا پہلو بھی شامل تھاکیونکہ رسول اپنی قوم پر اللہ کی حجت تمام کرنے کے لیے آتے ہیں۔ وہ قوم کے لیے حق اور باطل اس طرح واضح کر دیتے ہیں کہ کسی کے پاس نہ ماننے کے لیے کوئی بہانہ یا دلیل باقی نہیں رہ جاتی ۔ اس کے بعد بھی جو لوگ حق کے آگے سر جھکانے سے انکار کردیتے ہیں ان کے لیے اسی دنیا میں خدا کی عدالت قائم ہوجاتی ہے اور رسول کی زندگی میں ہی انہیں نیست ونابود کردیا جاتا ہے ۔ پچھلی اقوام کے لیے عذاب الٰہی قدرتی آفتوں کی صورت میں نمودار ہوا ، جبکہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کے لیے صحابہ کی تلواریں عذاب کا کوڑا بن گئیں:
قَاتِلُوہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّہُ بِأَیْْدِیْکُمْ (۳۴) 
’’ان سے لڑو تاکہ اللہ تمہارے ہاتھوں ان کو عذاب دے ۔‘‘
اس کے برعکس بہت سے دیگر اہل علم کی رائے یہ ہے کہ یہ جہاد کی ایک مستقل قسم ہے اور قیامت تک جہاد کا یہ سلسلہ بھی جاری رہے گا ۔ (۳۵) اس لیے ڈاکٹر حمید اللہ ’’جائز جنگوں‘‘ کی قسموں میں ایک قسم Idealistic War  (نظریاتی جنگ ) شامل کرتے ہیں جسے سید مودودی ’’مصلحانہ جہاد‘‘ کہتے ہیں ۔ (۳۶) 
اگر جہاد کے اس پہلو کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی جنگوں کے ساتھ خاص سمجھا جائے تو اس کا اثر بہت سے دیگر مسائل پر بھی پڑتا ہے ۔ مثلاً جمہور فقہا مشرکین عرب سے جزیہ لینا جائز سمجھتے تھے جبکہ احناف کی رائے یہ تھی کہ مشرکین عرب کے لیے صرف دو ہی راستے تھے ؛ اسلام یا تلوار ۔ (۳۷) اگر مذکورہ آیات اور احادیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگوں کے ساتھ خاص سمجھا جائے تو احناف کا موقف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے مشرکین کے حق میں صحیح ہوگا اور جمہور کا موقف بعد کے مشرکین عرب کے حق میں صحیح تسلیم کیا جائے گا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کو بتوں سے پاک کیا تو اس سے استدلال کرکے دیگر غیرمسلموں کے معابد اور اصنام کو نہیں ڈھایاجاسکے گا ۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر اہل کتاب کے ساتھ جنگ کی نوعیت پر بھی فرق پڑے گا ،کیونکہ اگر یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے اہل کتاب سے خاص ہو کہ ان سے جنگ جاری رہے گی یہاں تک کہ وہ یا تو اسلام قبول کرلیں یا جزیہ دینے پر آمادہ ہوں ، تو بعد کے اہل کتاب کے ساتھ مسلسل جنگ کا نظریہ بھی ختم ہوجاتا ہے ، اور اس کے ایک لازمی نتیجے کے طور پر ماننا ہوگا کہ جہاد کی علت ’’کفر‘‘ یا ’’شوکت کفر‘‘ نہیں بلکہ ’’محاربہ‘‘ ہے ۔ بہ الفاظ دیگر مسلمان صرف ان لوگوں سے لڑ سکیں گے جو اسلام یا مسلمانوں کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کریں ۔ 

نظریاتی کشمکش اور مسلح تصادم 

کئی آیات اور احادیث میں مسلمانوں کو غیرمسلموں کی دوستی سے منع کیاگیا ہے ۔ مثلاً سورۃ المآئدۃ میں ارشاد ہوتا ہے : 
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَوْلِیَاء بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ إِنَّ اللّہَ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ (۳۸) 
’’اے ایمان والو! یہود اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ ۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا دوست بناتا ہے تو اس کا شمار بھی انہیں میں ہے ۔ یقیناًاللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ ‘‘
بعض نصوص میں یہاں تک قراردیاگیا ہے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ غیر مسلموں کے ساتھ قلبی تعلق رکھ ہی نہیں سکتے۔ 
لَا تَجِدُ قَوْماً یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَلَوْ کَانُوا آبَاء ہُمْ أَوْ أَبْنَاء ہُمْ أَوْ إِخْوَانَہُمْ أَوْ عَشِیْرَتَہُمْ (۳۹) 
’’تم کبھی یہ نہ پاؤگے کہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے لوگ ان سے محبت کریں جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف محاذآرائی کرتے ہیں ، خواہ وہ ان کے باپ ہوں ، یا ان کے بیٹے ، یا ان کے بھائی ، یا ان کے اہل خاندان ۔ ‘‘
اسی طرح کئی آیات و احادیث میں بیان ہوا ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان کشمکش کا اختتام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ایک گروہ دوسرے کی پیروی نہ کرے ۔ 
وَلَن تَرْضَی عَنکَ الْیَہُودُ وَلاَ النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ قُلْ إِنَّ ہُدَی اللّہِ ہُوَ الْہُدَی وَلَءِنِ اتَّبَعْتَ أَہْوَاء ہُم بَعْدَ الَّذِیْ جَاءکَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَ اللّہِ مِن وَلِیٍّ وَلاَ نَصِیْر (۴۰) 
’’نہ یہودتم سے راضی ہونے والے ہیں اور نہ عیسائی جب تک کہ تم ان کی ملت کی اتباع نہ کرو ۔ ان سے کہو کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے ۔ اور اگر تم اس یقینی علم کے بعد ، جو تمہارے پاس آچکا، ان کی خواہشوں پر چلے تو اللہ کے مقابل میں نہ تمہارا کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگار ۔ ‘‘
إِنَّا بُرَء اؤا مِنکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاء أَبَداً حَتَّی تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ وَحْدَہُ (۴۱) 
’’ہم بیزار ہیں تم سے اور تمہارے ان خداؤں سے جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو ۔ ہم نے تم سے کفر کیا ، اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم واحد اللہ پر ایمان نہ لے آؤ۔ ‘‘
کیا یہ حکم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے یہود و نصاری اور مشرکین کے ساتھ خاص ہے ، جیسا کہ بعض اہل علم کی رائے ہے ؟ (۴۲) یا اس کا حکم عام ہے اور ہر زمانے کے لیے ہے ، جیسا کہ بعض دیگر اہل علم کا موقف ہے؟(۴۳) اگر اس کا حکم عام ہو تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ اس وقت تک جنگ جاری رہے گی جب تک وہ اسلام قبول نہ کرلیں ؟(۴۴) یا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام اور کفر کے درمیان نظریاتی سطح پر ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش ہے ؟ اگر یہ نظریاتی کشمکش ہے تو کیا اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان مسلسل جنگ ہو اور امن کا وقفہ بیچ میں عارضی طور پر آئے ، یا نظریاتی کشمکش مسلح تصادم کو مستلزم نہیں ہے ؟(۴۵) جو اہل علم مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان مسلسل اور ابدی جنگ کے قائل نہیں ان پر لازم ہے کہ وہ ان نصوص کی متبادل تعبیر پیش کریں ۔ اس متبادل تعبیر کے بغیر محض یہ کہنا کافی نہیں ہوگا کہ مسلسل اور ابدی جنگ کا نظریہ شریعت کا مستقل حکم نہیں ہے بلکہ فقہاء کے زمانے کے مخصوص حالات کی پیداوار تھا ۔ 

فرضیت جہاد کا سبب 

جہاد کی فرضیت کا سبب کیا ہے ؟ عصر حاضر میں جہاد پر کام کرنے والوں میں بہت سے اہل علم نے اس سوال سے صرف نظر کیا ہے اور اس کے بجائے اس امر پر بحث کی ہے کہ کیا اسلام صرف ’’دفاعی جہاد‘‘ کو ہی جائز سمجھتا ہے یا ’’اقدامی جہاد‘‘ بھی اس کے نزدیک جائز ہے ؟(۴۶) صحیح طریقہ یہی تھا کہ وہ فقہا کے عام طریقے کے مطابق جہاد کے حکم کی ’’علت‘‘ پر بحث کرتے کیونکہ علت کی موجودگی معلول کی موجودگی پر دلالت کرتی ہے اور علت کی عدم موجودگی میں معلول بھی نہیں پایا جاتا ۔ اگر جہاد کی علت ’’کفر‘‘ ہے ، جیسا کہ بعض فقہا کا موقف تھا (۴۷)، تو پھر تمام غیرمسلموں کے خلاف جہاد فرض ہوگا ، اور اگر جہاد کی علت ’’محاربہ‘‘ ہے ، جیسا کہ جمہور فقہاء کا مسلک تھا (۴۸)، تو صرف ان لوگوں سے ہی جنگ کی جاسکے گی جو محاربہ کا ارتکاب کرتے ہوں ۔ دونوں صورتوں میں بعض اوقات اقدام ضروری ہوجاتا ہے ۔ اس لیے دفاعی اور اقدامی کی تقسیم مناسب محسوس نہیں ہوتی ۔ 
پھر یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ اگر جہاد صرف دفاع تک ہی محدود ہو تو دفاع میں کون سی صورتیں آتی ہیں ؟ کیا دفاع سے مراد ریاست کا دفاع ہے یا امت اوردین کا دفاع بھی اس میں شامل ہے ؟ ‘ مسلمان اہل علم بالعموم اس کے قائل ہیں کہ دفاع کی صورت میں اعلان جنگ ضروری نہیں ہوتا جبکہ اقدام سے پہلے ’’اعلان جنگ‘‘ کو وہ ضروری سمجھتے ہیں ۔ (۴۹) اگر کسی غیر مسلم ملک میں مسلمانوں پر ظلم ہورہاہو تو قرآن کی نص صریح کے بموجب دار الاسلام کے مسلمانوں پر ان کی مدد واجب ہوجاتی ہے ۔ (۵۰) لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی مدد ’’دفاعی جہاد‘‘ میں شمار ہوگی یا اسے ’’اقدامی جہاد‘‘ سمجھا جائے گا ؟ جو لوگ جہاد کو صرف ’’دفاع‘‘ تک ہی محدود سمجھتے ہیں وہ اس مدد کو بھی دفاع کے تصور کے تحت سمونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یوں دفاع کا یہ تصور بہت زیادہ وسیع ہوجاتا ہے کیونکہ وہ کئی ایسے کاموں کو بھی دفاع قرار دے دیتے ہیں جن کو عام طور پر اقدام تصور کیا جاتا ہے ۔ سید ابو الاعلی مودودی اس قسم کی کاروائی کو ’’مدافعانہ جہاد‘‘ میں شمار کرتے ہیں (۵۱) لیکن جب وہ اعلان جنگ کے مسئلے پر آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس قسم کی کاروائی سے پہلے اعلان جنگ ضروری ہوگا۔ (۵۲) اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ جب وہ مدافعانہ جہاد پر بحث کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں ’’دفاع امت ‘‘ یا ’’دفاع دین ‘‘ کا تصور ہوتا ہے ، لیکن جب وہ دارالاسلام کی طرف سے عملی اقدام کی بحث پر آتے ہیں تووہ دیکھتے ہیں کہ دارالاسلام کے لوگوں کو اس صورت میں اپنی علاقائی حدود سے باہر جاکر اقدام کرنا پڑتا ہے ۔ اس لیے وہ اعلان جنگ کو ضروری قرار دے دیتے ہیں ۔ گویا اس وقت ان کے ذہن میں ’’دفاع ریاست ‘‘کا تصور ہوتا ہے ۔ 

فریضۂ جہاد کی نوعیت 

جہاد کا سبب متعین ہونے کے بعد ایک اہم مسئلہ اس فریضے کی نوعیت کا ہے ۔ اس پر بالعموم اتفاق پایا جاتا ہے کہ جہاد امت کے لیے فرض کفائی کی حیثیت رکھتا ہے (۵۳) لیکن چند باتیں اس سلسلے میں نہایت اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ فرض کفائی کا عام طور پر یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ اگر ’’کچھ لوگ ‘‘اس فریضے کو ادا کریں تو باقی کے ذمے سے یہ فرض ساقط ہوجاتا ہے ، حالانکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اگر ’’کافی لوگ ‘‘ اس فریضے کو ادا کرلیں تو باقی کے ذمے سے یہ فریضہ ساقط ہوجاتا ہے ۔ (۵۴) دوسری بات یہ کہ فرض کفائی صرف عام حالات میں ہی فرض کفائی ہوتا ہے ۔ بعض صورتوں میں یہ فرض عین میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ کیا اس کا لازمی تقاضا یہ نہیں ہے کہ ہر مسلمان لازمی طور پر بنیادی جنگی قواعد اورآداب سے واقف ہو اور نیز اسے بنیادی فوجی تربیت دی گئی ہو ؟ تیسری بات یہ ہے کہ امت اب پچاس سے زائد ریاستوں میں بٹ گئی ہے ۔ موجودہ حالات میں اس فرض کفائی کی ادائیگی کیسے ہوگی ؟ ایک مناسب حل یہ نظر آتا ہے کہ مسلمان ریاستیں آپس میں دفاعی معاہدات کرلیں اور یوں ان میں کسی ایک پر حملہ سب پر حملہ متصور ہو ۔ اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ ۵۱ کے تحت اس انتظام کی گنجائش ہے اور’’معاہدۂ شمالی اوقیانوس کی تنظیم‘‘ (NATO) اس انتظام کی کامیابی کی سب سے واضح دلیل ہے ۔ 
فقہا نے صراحت کی ہے کہ حملے کی زد میں آئے ہوئے علاقے کے لوگ اگر حملے کے خلاف دفاع نہ کرسکتے ہوں تو ان کے مجاور علاقوں پر یہ فریضہ عائد ہوگا ۔ پھر اگر وہ بھی دفاع کی اہلیت نہ رکھتے ہوں یا وہ فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی کریں تو ان کے بعد کے علاقوں پر فریضہ عائد ہوگا،یہاں تک کہ یہ فریضہ دنیا کے تمام مسلمانوں پر عائد ہوجائے گا ۔(۵۵) گویا اسلامی ملک پر حملے کو کوئی مسلمان پرایا جھگڑا نہیں سمجھے گا ، بلکہ دفاع کو اپنا فریضہ سمجھ کر ہوشیار اور بیدار رہے گا ، کیونکہ کسی بھی وقت یہ امکان ہوسکتا ہے کہ یہ فریضہ اس کے حق میں فرض عین ہوجائے ۔ اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اسلامی ملک پر حملے کی صورت میں پوری امت مسلمہ میں ایک ایمرجنسی کی سی کیفیت پیدا ہو ۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مجاورعلاقوں پر فریضہ عائد ہونے کا سبب یہ تھا کہ دور کے علاقوں کی بہ نسبت وہ حملے کے خلاف دفاع کے لیے زیادہ بہتر پوزیشن پر ہوتے تھے ؟ موجودہ دور میں جبکہ ذرائع مواصلات نے بہت ترقی کی ہے قرب و بعد کے پیمانے بہت تبدیل ہوچکے ہیں ۔ کیا اب زیادہ اہمیت اس بات کی نہیں ہے کہ کس مسلمان ملک کے پاس زیادہ بہتر ہتھیار پائے جاتے ہیں ؟ کس ملک کی معاشی پوزیشن زیادہ مستحکم ہے ؟ کون سا ملک سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے ہے ؟ ظاہر ہے کہ جو زیادہ اہلیت رکھے گا، اس پر فریضہ دوسرے کی بہ نسبت زیادہ جلدی عائد ہوگا ۔ اس لحاظ سے یہ عین ممکن ہے کہ مجاور ملک کی بہ نسبت، جو فوجی مہارت اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے پسماندہ ہو ، ایک دور دراز کے ملک ،جس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہوں اور وہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بھی آگے ہو ،پر دفاع کا فریضہ جلدی عائد ہو ۔

غیرمسلم ممالک میں مسلمانوں میں مدد 

اجتماعی حق دفاع کے طریق کار کا فائدہ صرف ’’ریاستیں‘‘ ہی اٹھاسکتی ہیں، جبکہ امت مسلمہ صرف مسلم ممالک تک ہی محدود نہیں، بلکہ کئی ممالک میں مسلمان بطور اقلیت رہ رہے ہیں ۔ ان ممالک میں اگر مسلمان ظلم کا شکار ہوں تو ان کی مدد کیسے کی جائے گی ؟ غیر ممالک میں ظلم کے شکار مسلمانوں کی مدد کے لیے جہادی کاروائی کو بہت سے مسلمان اہل علم نے ’’دفاعی جہاد ‘‘کے زمرے میں شمار کیا ہے ۔لیکن جدید بین الاقوامی قانونی نظام میں اسے دفاع نہیں متصور کیا جاسکتا ۔ اقوام متحدہ کے وجود میں آنے سے پہلے جو رواجی بین الاقوامی قانون (Customary International Law)تھا اس کے تحت دفاع کا تصور بہت وسیع تھا اور اس میں ریاست کے لیے یہ حق تسلیم کیا گیا تھا کہ اگر اس کے کچھ باشندے کسی غیر ملک میں خطرے میں ہوں اور وہ ملک ان کی حفاظت سے قاصر یا انکاری ہو تو ایسی صورت میں اس ملک کو اپنے باشندوں کی حفاظت کے لیے مناسب اقدام کا اختیار حاصل ہوجاتا تھا اور اسے دفاع میں شمار کیاجاتاتھا ۔ (۵۶) کیا یہ حق اب بھی ریاستوں کو حاصل ہے ؟ اس سوال کے جواب پر بین الاقوامی قانون کے ماہرین کا اختلاف ہے۔ کچھ اب بھی اس حق کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور کچھ کے نزدیک اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ ۲ ذیلی دفعہ ۴ نے طاقت کے استعمال کی تمام صورتوں پر پابندی عائد کردی ہے اور اب صرف انہی صورتوں میں طاقت کا استعمال جائز ہوگا جن کی منشور نے صراحتاً اجازت دی ہے ، یعنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اجازت سے مشترکہ فوجی کاروائی اور منشور کی دفعہ ۵۱ میں مذکور شرائط کے تحت دفاعی جنگ ۔ (۵۷) لیکن جو ماہرین غیر ممالک میں اس قسم کی کاروائی کو جائز سمجھتے ہیں ان کے نزدیک اس قسم کی کاروائی اسی ملک کے لیے جائز ہوتی ہے جس کے ’’شہری ‘‘ خطرے میں ہوں ۔ (۵۸) اب مسئلہ یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون میں اس وقت ’’شہریت‘‘ (Citizenship) اور ’’قومیت‘‘ (Nationality) کے جو تصورات رائج ہیں ان کے تحت سنکیانگ کے مسلمانوں کو پاکستان کے شہری نہیں قرار دیاجاسکتا ۔ اس لیے اگر ان پر ظلم ہورہا ہو تو پاکستان ان کی مدد کے لیے فوجی کاروائی نہیں کرسکتا۔ مسئلہ صرف بین الاقوامی قانون کے ساتھ نہیں ہے ، بلکہ اسلامی قانون کے لحاظ سے بھی یہاں چند سوال پیدا ہوتے ہیں ۔ ہم نے پیچھے واضح کیا ہے کہ دارالاسلام سے باہر مستقل طور پر مقیم مسلمانوں کو دار الاسلام کے ’’شہری‘‘ نہیں قرار دیاجاتا تھا ۔ اس لیے ان پر حملہ دارالاسلام پر حملہ نہیں متصور ہوتا تھا ۔ البتہ چونکہ وہ امت کا حصہ تھے اس لیے دفاع امت کے نظریے کے تحت دارالاسلام کے مسلمانوں پر ان کی مدد لازم ہوتی تھی ۔ کیا عصر حاضر میں غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلم اقلیت کی مدد کے لیے ’’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت‘‘ (Humanitarian Intervention) کے تصور کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے ؟ 
کسی دوسری ریاست میں ’’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت‘‘ اس وقت کی جاتی ہے جب وہ ریاست خود اپنے باشندوں یا اپنے ہاں مقیم غیرملکی لوگوں کو ظلم کا نشانہ بناتی ہے ۔ (۵۹) اس قسم کی کاروائی کو بعض ممالک جائز قرار دے دیتے ہیں ۔ ۱۹۷۱ء میں جب بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تھا تو اس کے لیے ایک جواز یہی پیش کیاگیا تھا کہ پاکستانی فوج بنگالیوں پر مظالم ڈھارہی تھی ۔ ماضی قریب میں سربیا پر نیٹو کی بمباری کے لیے بھی ایک جواز یہی فراہم کیاگیا تھا ۔ جو لوگ اسے جائز قرار دیتے ہیں ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ ۳۹ کے تحت جن صورتوں میں کسی ریاست کے خلاف کاروائی ضروری ہوجاتی ہے ان میں ایک صورت یہ ہے کہ اس ریاست کی طرف ’’امن عالم کو خطرہ‘‘ ہو ، اور یہ بھی قانونی طور پر مسلمہ ہے کہ ’’امن عالم کو خطرہ‘‘ کسی ریاست کے ’’اندرونی معاملات‘‘ سے بھی ہوسکتا ہے ۔ پس اصولاً کسی ریاست کے اندرونی معاملات میں مداخلت ناجائز ہے لیکن جب ان اندرونی معاملات سے امن عالم کو خطرہ ہو تو پھر مداخلت جائز ہوجاتی ہے ، جیسا کہ منشور کی دفعہ ۲ ذیلی دفعہ ۷ میں تصریح کی گئی ہے ۔ تاہم اس موقف پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ دفعہ ۳۹ کے تحت اس قسم کے معاملات میں کاروائی کا اختیار سلامتی کونسل کو حاصل ہوتا ہے نہ کہ انفرادی طور پر ریاستوں کو۔ پس اگر سلامتی کونسل انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کسی ریاست کے اپنے باشندوں پر ظلم کو روکنے کے لیے کاروائی کرے تو اس کے جواز میں کے متعلق کوئی اشکال نہیں پایاجاتا لیکن اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ یہ حق انفرادی طور پر ریاستوں کو بھی حاصل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ریاست نے بھی اس قسم کی کاروائی میں تنہا ’’انسانی ہمدردی‘‘ کو ہی بنیاد نہیں بنایا بلکہ دیگر جواز بھی ساتھ ساتھ فراہم کرنے کی کوشش کی ۔ مثلاً بھارت نے مشرقی پاکستان میں کاروائی کے لیے اپنے حق دفاع کو بھی جواز کے طور پر پیش کیا اور نیٹو نے سربیا پر بمباری کے ضمن میں سلامتی کونسل کی ’’قراردادوں پر عملدرآمد‘‘ کو بھی ایک بنیاد کے طور پر پیش کیا ۔ پس سلامتی کونسل کی منظوری کے بعد اگر کوئی ریاست یا ریاستوں کا مجموعہ اس قسم کی کاروائی کرے تو اسے قانونی طور پر جائز سمجھا جائے گا لیکن سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کسی دوسری ریاست میں فوجی کاروائی کا جواز کم از کم یقینی نہیں ہے ۔ 
لہٰذا اگر مسلمان ممالک دفاع کے اسلامی تصور کو عصر حاضر میں عملی شکل دینا چاہتے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ ایک طرف تمام اسلامی ممالک آپس میں دفاعی معاہدات کریں ، تاکہ ایک پر حملہ سب پر حملہ متصور ہو ۔ دوسری طرف ان پر لازم ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر مشترکہ موقف اپنا کر مؤثر انداز میں آواز بلند کریں ۔ مشترکہ دفاعی معاہدات کے بعد وہ سلامتی کونسل میں مستقل نشست بھی حاصل کرسکتے ہیں ،جس پر امت مسلمہ کی نمائندگی مختلف ممالک باری باری کریں ۔ اگر مسلم ممالک بدستور اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے تنہا کوشش کرتے رہیں گے تو امت مسلمہ کے دفاع کا فریضہ کبھی ادا نہیں ہوسکے گا ۔ 
انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کسی دوسری ریاست میں مظلوموں کی مدد کے حوالے سے چند اور سوال بھی مسلمان اہل علم کی توجہ اور غور وفکرکے متقاضی ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ کیا ’’مظلوموں کی مدد‘‘ صرف اس صورت میں کی جائے گی جب مظلوم مسلمان ہوں ؟ اگر مظلوم غیر مسلم ہوں تو کیا تب بھی مسلمانوں پر ان کی مدد کا فریضہ عائد ہوتا ہے ؟ بالخصوص اگر ظالم مسلمان ہوں؟ کیا ایسی صورت میں مسلمان اور غیر مسلم کی تمیز کیے بغیر ظالم کے خلاف کاروائی کی جائے گی اور مظلوم کی مدد کی جائے گی ؟ شریعت نے مظلوم کا ساتھ دینے اور ظالم کا ہاتھ روکنے کا حکم دیا ہے ۔ (۶۰) اسی طرح ’’بر اور تقوی ‘‘میں تعاون کاحکم دیا ہے اور ’’اثم اور عدوان‘‘ میں تعاون سے منع کیا ہے ۔ (۶۱) کیا ان احکام کو بنیاد بناکر ظالم مسلمانوں کے شکنجے سے مظلوم غیر مسلموں کو چھڑانے کے لیے دیگر غیر مسلموں کے ساتھ تعاون کیا جاسکتا ہے ؟ نیز کیا اس قسم کی کاروائی میں مسلمان غیر مسلم کمان کے تحت لڑ سکتے ہیں ؟ 

جہاد اور نظم حکومت 

عصر حاضر میں جہاد کے حوالے سے ایک اہم بحث یہ ہے کہ کیا جہاد کے فریضے کی ادائیگی کے لیے حکومتی نظم کا ہونا ضروری ہے یا افراد اور غیرسرکاری تنظیمیں بھی جہاد کا اعلان کرسکتی ہیں ۔ مسلمان اہل علم اس سلسلے میں تین گروہوں میں تقسیم نظر آتے ہیں ۔ بعض اہل علم سرے سے اس شرط کے قائل ہی نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک فریضۂ جہاد کی ادائیگی کے لیے حکومتی نظم ایک مناسب امر تو ہے مگر جہاد اس کے بغیر بھی کیاجاسکتا ہے ، بالخصوص جبکہ مسلمان حکمرانوں کے متعلق بالعموم یہ تاثر پایاجاتا ہے کہ وہ عوام کی خواہشات کے ترجمان نہیں ہیں اور جہاد سے جی چراتے ہیں ۔ (۶۲) کچھ اہل علم ایسے ہیں جن کی رائے اس کے بالکل برعکس ہے ۔ وہ فریضۂ جہاد کی صحیح ادائیگی کے لیے اسے ایک لازمی شرط قرار دیتے ہیں کہ اسے نظم حکومت کے تحت رہ کر کیا جائے ۔ (۶۳) ایک تیسرا گروہ ان اہل علم کا ہے جو دفاع کی صورت میں اس شرط کے قائل نہیں لیکن اسے اقدام کے لیے ضروی قرار دے دیتے ہیں ۔ (۶۴) اس اختلاف رائے کی وجہ سے دیگر کئی امور پر بھی اختلاف ہوا ۔ مثلاً آزادی کی مسلح تحریکوں کے جواز اور عدم جواز کے مسئلے کا بھی بہت حد تک انحصار اسی بنیادی امر پر ہے ۔ ظاہر ہے کہ اگر حکومتی نظم کے بغیر جہاد جائز نہ ہو تو پھر مسلح جدوجہد آزادی کو کیسے جہاد قرار دیاجاسکتاہے ؟ 

استطاعت اور مقدرت کی شرط 

اسی طرح جہاد کے حوالے سے استطاعت اور مقدرت کی شرط پر بھی عصر حاضر کے تناظر میں غور و فکر کی ضرورت ہے۔ سورۃ الانفال کی آیت ۶۶ سے بعض اہل علم نے یہ استدلال کیا ہے کہ جب تک مسلمان فوج کی تعداد دشمن کے مقابلے میں کم از کم دوگنا نہ ہو اس وقت تک ان پر جہاد فرض نہیں ہوتا ۔ (۶۵) اس کے برعکس بعض دیگر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ سورۃ الانفال کی آیت سے زیادہ سے زیادہ یہ استدلال ہو سکتا ہے کہ اگر دشمنوں کی تعداد دوگنی سے بھی زائد ہو تو پھر مومن قتال کی کاروائی موخر کرسکتے ہیں بشرطیکہ ایساکرنا ان کے بس میں ہو۔یعنی مومنوں کو ایسی صورت میں قتال کی کاروائی شروع نہیں کرنی چاہیے ۔ لیکن اگر حملہ دشمنوں کی جانب سے ہو تو پھر تعداد کا لحاظ کیے بغیر خون کے آخری قطرے تک دفاع کا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ ایسی صورت میں اگر ایک جگہ کے مسلمان کمزور ہوں اور دفاع کی اہلیت نہیں رکھتے تو دوسرے مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد ہوگا ، یہاں تک کہ شرقاً و غرباً پوری دنیا کے مسلمانوں پر یہ فریضہ فرض عین کی صورت اختیار کرلے گا لیکن دفاع کا حکم ساقط نہیں ہوگا ۔ (۶۶) مزید برآں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس عددی نسبت کا لحاظ تو اس زمانے میں رکھا جاسکتا تھا جب افرادی قوت ہی میدان جنگ میں اہم کردار ادا کرتی تھی ۔ موجودہ دور میں جبکہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے فرد کی اہمیت کو نسبتاً کم کردیا ہے کیا زیادہ اہم سوال یہ نہیں ہوگا کہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے دشمن کہاں کھڑا ہے؟ اگر مسلمان فوج کی تعداد دس ہزار ہے مگر اس کے پاس روایتی بندوق ہیں اور دشمن کی تعداد سو ہے مگر اس کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں تو مقدرت کا اندازہ تعداد سے لگایاجائے گا یا اسلحے کی نوعیت سے ؟ (۶۷) نیز یہ بات بھی قابل غور ہے کہ تعداد کا اندازہ لگاتے ہوئے کیا صرف باقاعدہ فوج کو دیکھا جائے گا یا مسلمان آبادی کی کل تعداد دیکھی جائے گی ؟کیونکہ بعض صورتوں میں قتال ہر مسلمان پر نماز اور روزے کی طرح فرض عینی کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔ کیا اس کا لازمی تقاضا یہ نہیں ہے کہ ہرمسلمان کم از کم بنیادی فنون سپہ گری اور اسلحے کے استعمال سے واقف ہو ، بنیادی فوجی ٹریننگ ہر شہری کو دی گئی ہو اور شہری دفاع کے اصولوں سے سبھی واقف ہوں ؟ 

جہاد اور امن معاہدات 

جہاد سے متعلق مباحث میں ایک اہم بحث معاہدات کے متعلق ہے ۔ اولاً تو اس پر بحث کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ کیا غیرمسلموں کے ساتھ امن کا معاہدہ کیاجاسکتا ہے ؟ ثانیاً اس معاہدے کی نوعیت اور ماہیت کیا ہوگی ؟ کیا اس کی حیثیت محض ایک عارضی جنگ بندی کی ہوگی یا مستقل بنیادوں پر بھی امن کا معاہدہ کیا جاسکتا ہے ؟ مسلمان اہل علم میں بالعموم اس امر پر اتفاق پایاجاتا ہے کہ غیرمسلموں کے ساتھ امن کا معاہدہ جائز ہے ، بشرطیکہ اس میں مسلمانوں کے مصالح کا لحاظ رکھا جائے ۔ تاہم امن معاہدات کی نوعیت اور ماہیت کے متعلق اختلاف پایاجاتا ہے ۔ بہت سے لوگوں کی رائے یہ ہوئی کہ فقہاء کے نزدیک امن معاہدات کی حیثیت صرف جنگ بندی کی تھی اور وہ غیر مسلموں کے ساتھ صرف ایک قسم کے مستقل معاہدۂ امن کے جواز کے قائل تھے ، یعنی عقد ذمہ جس کے بموجب غیرمسلموں کو دارالاسلام کے رعایا کی حیثیت حاصل ہوجاتی تھی ۔ (۶۸) گویا غیرملکی غیرمسلموں کے ساتھ مستقل بنیادوں پر امن کا معاہدہ نہیں کیاجاسکتا تھا ۔ جن لوگوں نے اس موقف کو قبول کیا انہوں نے اس سے ایک اور اصول کے لیے بھی استدلال کیا اور وہ یہ کہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان مستقل حالت جنگ ہے ، امن کا وقفہ اگر بیچ میں آئے گا تو وہ عارضی ہوگا ۔ (۶۹) چنانچہ اس موقف کے قائلین اقوام متحدہ کے منشور کے طرز پر معاہدات کو ناجائز سمجھتے ہیں کیونکہ اس کے تحت طاقت کے استعمال پر پابندی لگائی گئی ہے اور تمام تنازعات پرامن ذرائع سے حل کرنے کا کہاگیا ہے ۔ اس کے برعکس بعض دیگر اہل علم کی رائے یہ ہوئی کہ فقہاء نے اپنے وقت کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ رائے قائم کی تھی اور یہ اسلامی قانون کا کوئی مستقل قاعدہ نہیں ہے ۔ ان اہل علم کے نزدیک مسلمانوں اور غیرمسلموں کے علاقات میں اصل کی حیثیت امن کو حاصل ہے اور جنگ کی حیثیت ایک عارض کی ہے ۔ چنانچہ وہ غیرمسلموں کے ساتھ مستقل معاہدۂ امن میں کوئی قانونی قباحت نہیں محسوس کرتے۔ (۷۰) 
دراصل لوگوں نے ’ابدی معاہدۂ امن ‘‘(امان مؤبد) اور ’’وقت کی قید سے آزاد معاہدۂ امن‘‘ (امان مطلق) کو مترادف سمجھ لیا ہے ۔ ان کے خیال میں اگر معاہدۂ امن میں وقت کی قید نہ ہو تو اس کی حیثیت ابدی معاہدے کی ہوجاتی ہے اور یوں یہ جہاد کی معطلی کا باعث ہوجاتی ہے ۔ حالانکہ اولاً تو امان مؤبد اور امان مطلق میں قانونی لحاظ سے فرق پایاجاتا ہے ۔ اول الذکر میں فریقین طے کرلیتے ہیں کہ وہ کبھی ایک دوسرے کے ساتھ جنگ نہیں کریں گے، جبکہ آخر الذکر میں وہ صرف یہ اقرار کرلیتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ جنگ نہیں کریں گے اور اس میں یہ ذکر نہیں کرتے کہ یہ معاہدہ کب تک نافذ العمل رہے گا۔ ثانیاً اگر یہ دونوں مترادف بھی ہوں تو یہ جہاد کی معطلی کا باعث کیونکر بنتے ہیں ؟ اگر جہاد کی فرضیت کی علت ’’محاربہ‘‘ ہو اور اس کا سدباب جنگ کے بغیر ہوسکتا ہو تو جنگ کے لیے جواز کہاں سے فراہم کیاجائے گا؟ 
دونوں فریقوں نے اس بات کو ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر مان لیا ہے کہ فقہا نے بالعموم مستقل امن معاہدات کو ناجائز ٹھہرایا ہے ، حالانکہ فقہ اسلامی کے معتبر متون کا جائزہ لینے کے بعد صورتحال اس کے برعکس محسوس ہوتی ہے ۔ شافعی اور حنبلی مسلک میں اس موضوع پر دو رائیں پائی جاتی ہیں : ایک جواز کی اور ایک عدم جواز کی ۔ (۷۱) عدم جواز کی رائے زیادہ مشہور ہے ۔ اس رائے کے مطابق معاہدۂ امن میں وقت کی قید کا ہونا ضروری ہے اور یہ مدت عام حالات میں چار مہینوں سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے ۔ ضرورت کے وقت یہ مدت دس سال تک بڑھائی جاسکتی ہے ۔ مدت کے اختتام پر اگر ضروری ہو تو اسے مزید دس سال تک بڑھایاجاسکے گا لیکن کسی بھی صورت میں اس مدت کو ایک وقت میں دس سال سے زائد نہیں کیاجاسکتا ۔ (۷۲) اگر معاہدے میں مدت کا تعین نہیں کیاگیا لیکن یہ شرط رکھی گئی کہ مسلمان کسی بھی وقت اس معاہدے کو ختم کرسکیں گے تو تمام شافعی فقہا کے نزدیک یہ معاہدہ جائز ہوجاتا ہے (۷۳)، جبکہ حنبلی فقہا میں جو اس قسم کے معاہدات کے عدم جواز کے قائل ہیں، ان کے نزدیک اس صورت میں بھی معاہدہ ناجائز ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ اس شرط کو معاہدے کے مقتضیات سے متصادم سمجھتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاہدۂ امن ان کے نزدیک عقد لازم ہے اس لیے اس میں اس قسم کی شرط رکھنا صحیح نہیں ہوسکتا ۔ (۷۴) حنفی اور مالکی فقہا نے تصریح کی ہے کہ معاہدۂ امن میں وقت کی قید بیان کرنا ضروری نہیں ہے اور یہ مدت دس سال سے زائد بھی ہوسکتی ہے ۔ (۷۵) یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حنفی فقہا کے نزدیک معاہدۂ امن کی حیثیت عقد غیر لازم کی ہوتی ہے ، یعنی کوئی بھی فریق یکطرفہ طور پر اس کے خاتمے کا اعلان کرسکتا ہے ، بشرطیکہ وہ دوسرے فریق کو اس کے خاتمے کے متعلق باقاعدہ اطلاع دے اور جنگی کارروائی بغیر اعلان جنگ کے نہ کرے۔ (۷۶) حنابلہ میں ابن القیم کی رائے یہ ہوئی کہ اگر معاہدۂ امن وقت کی قید سے آزاد ہوتو وہ عقد غیر لازم ہوگا ،جبکہ موقت ہونے کی صورت میں وہ عقد غیر لازم ہوگا ۔ (۷۷) عصر حاضر میں اس حوالے سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کی رو سے معاہدۂ امن خواہ مطلق ہو یا موقت ، ہر دو صورتوں میں وہ عقد لازم کی حیثیت رکھتا ہے ۔ (۷۸) کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کا معاہدہ تمام فقہا کے نزدیک ناجائز ہوگا ؟ 
اس کے علاوہ ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر کوئی فریق معاہدے کی خلاف ورزی کرے تو کیا اس کے بعد بھی معاہدہ برقرار رہتا ہے ؟ رائج الوقت بین الاقوامی قانون کے تحت دوسرا فریق معاہدے سے تبھی آزاد ہوسکے گا جب وہ باقاعدہ طور پر معاہدے کے خاتمے کا اعلان کرے ۔ (۷۹) مسلمان اہل علم میں بھی بعض نے یہ رائے اختیار کی ہے (۸۰) لیکن اکثریت کا موقف یہ ہے کہ عملاً نقض واقع ہونے کی صورت میں دوسرے فریق کو معاہدہ ختم ہونے کے اعلان کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کے بغیر بھی اسے اقدام کا حق حاصل ہوجاتا ہے ۔ (۸۱) یہ مسئلہ اس وقت مزید اہمیت اختیار کرلیتا ہے جب اسے غیر ممالک میں مسلمانوں کی مدد کے معاملے سے متعلق کرکے دیکھا جائے ۔ اگر کسی غیر مسلم ملک کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ ہو اور وہ ملک اپنے مسلمان باشندوں پر مظالم ڈھارہاہو تو کیا ایسی صورت میں معاہدۂ امن کو ختم سمجھ کر مسلمان بغیر اعلان کے کاروائی کرسکیں گے یا کاروائی سے پہلے انہیں معاہدہ ختم ہونے کا اعلان کرنا ہوگا ؟ 
ایک سوال یہاں مسلمانوں کی جانب سے انفرادی کوششوں کے متعلق بھی پیدا ہوتا ہے ۔ اگر کسی مسلمان ملک نے غیرمسلموں کے ساتھ معاہدہ کیا تو اس کے تمام باشندے اس کے پابند ہوجاتے ہیں ۔ ایسے میں اگر بعض افراد کی رائے یہ ہو کہ اس غیرمسلم ملک کی مسلمان رعایا کی مدد لازم ہے تو معاہدہ ختم ہونے تک وہ انفرادی طور پر ان کی مدد کے لیے نہیں جاسکتے۔ ایسی صورت میں ان کے لیے کیا راستہ باقی بچتا ہے ؟ کیا یہی کہ وہ اپنے ملک کی شہریت ترک کردیں ؟ کیا حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ کے واقعے سے اس سلسلے میں استدلال کیاجاسکتا ہے؟ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کے باشندے معاہدۂ حدیبیہ کے پابند تھے اس لیے وہ اہل مکہ کے خلاف فوجی کاروائی نہیں کرسکتے تھے ۔ جبکہ حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی باقاعدہ اہل مکہ کے قافلوں پر حملے کیا کرتے تھے ۔ اہل مکہ نے اسے معاہدۂ حدیبیہ کی خلاف ورزی نہیں قرار دیا (۸۲) اور نہ ہی قانوناً وہ ایسا کرسکتے تھے ، کیونکہ یہ لوگ مدینہ کی ریاست کے دائرۂ عمل سے باہر مقیم تھے اور انہوں نے مدینہ کی ریاست کی شہریت اختیار نہیں کی تھی ، باوجود اس کے کہ وہ مسلمان تھے اور اس حیثیت سے ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کی اطاعت لازم تھی ۔ لیکن قانوناً چونکہ وہ ریاست کے باشندے نہیں تھے اس لیے ریاست کا معاہدہ ان پر لازم نہیں تھا اور اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو معاہدے کی پابندی کا حکم کبھی نہیں دیا۔ (۸۳) 

آداب القتال 

آداب القتال کے متعلق شریعت نے کچھ تفصیلی احکام دیے ہیں ؛ مثلاً عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے کی ممانعت ، معاہدات کی پابندی کا حکم ، مثلہ کی ممانعت وغیرہ ۔ (۸۴) اس سلسلے میں اسلامی قانون نے معاملہ بالمثل (Reciprocity) کا قاعدہ بھی مانا ہے ۔ تاہم محض معاملہ بالمثل کی بنیاد پر شریعت کے احکام کی خلاف ورزی جائز نہیں ہوسکتی ۔ مثلاً اگر دشمن مسلمانوں کے شہریوں کو نشانہ بنائیں گے تو جواباً مسلمان ایسی کاروائی نہیں کریں گے ۔ (۸۵) اس قسم کی کاروائی صرف اسی وقت جائز ہوسکتی ہے جب جنگی ضرورت کی وجہ سے حملہ ناگزیر ہو اور شہریوں کا بچانا ممکن نہ ہو ۔ (اسے بین الاقوامی قانون کی اصطلاح میں ’’ضمنی نقصان ‘‘ Collateral Damageکہتے ہیں ۔ ) پس معاملہ بالمثل کے ساتھ ایک متوازی قاعدہ اضطرار کا بھی ہے۔ 
یہاں ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان دیگر قوموں کے ساتھ آداب جنگ کے تعین کے لیے معاہدات کرسکتے ہیں ؟ (عصر حاضر میں جنیوا کنونشن اور ان کے ساتھ اضافی پروٹوکول اس قسم کے معاہدات کی مثالیں ہیں ۔ )شریعت نے مسلمانوں پر لازم کیا ہے کہ جنگ کے دوران بعض قواعد اور ضوابط کا لحاظ رکھیں گے قطع نظر اس سے کہ دوسرا فریق ان کا خیال رکھتا ہے یا نہیں ۔ ظاہر ہے کہ اگردوسرا فریق ان قواعد کو معاہدے کا حصہ بناکر ان کی پابندی پر آمادہ ہو تو مسلمانوں کے لیے اس قسم کے معاہدات میں شامل ہونا مستحسن ہی ہوگا ۔ اس قسم کے معاہدات کے تحت ممنوع کام اس وقت تک ممنوع رہیں گے جب تک وہ معاہدات مؤثر ہوں ، الا یہ کہ ان کاموں کو شریعت نے بھی ممنوع قرار دیا ہو ۔ ظاہر ہے کہ شریعت کے تحت ممنوع شدہ کام مسلمانوں کے لیے ممنوع رہیں گے خواہ دوسرے فریق کے ساتھ معاہدہ ختم ہوجائے ۔اس قسم کے معاہدات سے بعض مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ۔ مثلاً جنگی قیدیوں کے متعلق نص قرآنی کے بموجب مسلمان حکمران کو دو اختیار دیے گئے ہیں ؛ من اور فدا، یعنی بغیر معاضہ کے یا معاوضہ لے کر رہائی ۔ (۸۶) چوتھے جنیوا معاہدے کے ذریعے طے کیاگیا ہے کہ جنگ کے خاتمے پر قیدیوں کو بغیر معاوضہ کے رہاکیاجائے گا ۔ (۸۷) کیا یہ شق شریعت کے خلاف متصور ہوگی یا اسے حکمران کے اختیارات کا جائزاستعمال سمجھا جائے گا ؟ عصر حاضر میں آداب القتال کے حوالے سے تین امور نہایت اہمیت اختیار کرگئے ہیں : غیرمقاتلین کا تعین ، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کا حکم اور فدائی یا خودکش حملے۔ 

غیرمقاتلین کو نشانہ بنانے کی ممانعت 

مسلمان اہل علم کا اس بات پر اصولاً اتفاق ہے کہ غیر مقاتلین کو جنگ میں نشانہ نہیں بنایا جائے گا ۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ اگر غیر مقاتلین جنگ میں حصہ لیں تو ان کو نشانہ بنایاجاسکتا ہے ۔ (۸۸) لیکن چند امور ایسے ہیں جن پر اختلاف پایاجاتا ہے اور جو مزید غور و فکر کے متقاضی ہیں ۔ اولاً غیرمقاتلین میں کون لوگ شامل ہیں ؟ خواتین اور بچوں کو بالعموم غیرمقاتلین میں شامل کیاجاتا ہے لیکن وہ مرد جو فوج کا حصہ نہ ہوں کیا ان کو بھی غیر مقاتل کہاجائے گا ؟ پرانے زمانے میں جوان مرد کو بالفعل یا بالقوۃ جنگجو سمجھا جاتا تھا اور عورتوں کو اصولاً غیر مقاتل ہی سمجھا جاتاتھا لیکن کیا یہ بات عصر حاضر کے تناظر میں بھی صحیح ہے ؟ کیا موجودہ حالات میں ’’غیر فوجی ‘‘ کو ہی غیر مقاتل سمجھا جائے گا؟ بہت سے اہل علم نے شہری (Civilian) اور غیر مقاتل کو مترادف مانا ہے (۸۹) لیکن ایک رائے یہ بھی پیش کی گئی ہے کہ چونکہ شہریوں کے ٹیکسوں سے فوج کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں اس لیے بالواسطہ ہی سہی شہری بھی جنگ میں حصہ لیتے ہیں اس لیے ہر ٹیکس دینے والا (Tax-payer) مقاتل تصور ہوگا۔ (۹۰) اسی طرح اگر کسی ملک میں تمام شہریوں کے لیے فوجی تربیت لازمی ہو تو وہاں مقاتل اور غیرمقاتل میں تمیز کیسے کی جائے گی ؟ 

بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار 

غیرمقاتل کے تعین پر ہی باقی دو امور (بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال اور فدائی حملے ) کا بہت حد تک انحصار ہے ۔ اگر تمام غیر فوجیوں کو غیرمقاتل کہاجائے تو پھر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال بھی اصولاً ناجائز ہوگا کیونکہ ان کا اثر صرف فوجی تنصیبات تک ہی محدود نہیں ہوتا ۔ ان کا استعمال صرف معاملہ بالمثل اور اضطرار کی صورت میں ہی جائز ہوسکتا ہے ۔ لیکن کیا معاملہ بالمثل اور اضطرار کی بنیاد پر ایٹمی ہتھیار اور زہریلی اور کیمیاوی گیسوں کا استعمال جائز ہوسکتا ہے ؟ ان ہتھیاروں کے اثرات تو بہت ہی تباہ کن اور کئی نسلوں پر محیط ہوتے ہیں ۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے اپنے مشہور (لیکن متنازعہ !) فیصلے میں اصولاً ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو ناجائز قراردیا لیکن اس مسئلے پر ججوں کا ختلاف ہوا کہ کیا کوئی اضطرار کی حالت ایسی ہوسکتی ہے جس میں ریاست کی بقا ہی خطرے میں پڑ جائے اور اس کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہو کہ وہ ایٹمی ہتھیار استعمال کرے؟ بعض ججوں کی رائے یہ تھی کہ ایسی کوئی اضطراری حالت بھی ان ہتھیاروں کے استعمال کو جواز نہیں عطا کرسکتی لیکن بعض دیگر ججوں کی رائے یہ تھی کہ ایسی صورت میں ان ہتھیاروں کے استعمال کی ممانعت کے لیے بین الاقوامی قانون میں کوئی دلیل نہیں پائی جاتی ۔ (۹۱) 

فدائی حملے یا خود کش حملے ؟ 

جہاں تک ان حملوں کا تعلق ہے جن میں حملہ آور خود کوہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے اور اپنی جان دے کر دشمن کو نقصان پہنچاتا ہے تو اولاً تو یہی امر متنازعہ ہے کہ اس قسم کے حملوں کو کیا نام دیا جائے ؟ اگر ان کو ’’خود کش حملے‘‘ کہا جائے تو پہلا تاثر ان کے ناجائز ہونے کا بنتا ہے کیونکہ خودکشی اصولاً حرام ہے ۔ اس کے برعکس اگر ان کو ’’فدائی حملوں‘‘کانام دیا جائے تو پھر تاثر یہی بنتا ہے کہ یہ شہادت کی اعلی ترین قسم ہے کیونکہ اس قسم کے حملوں میں جان کا جانا یقینی ہوتا ہے ۔ اس لیے بہت سے لوگ ان کو ’’استشہادی کاروائیاں‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ ثانیاً کیا اس قسم کے حملوں کی شریعت نے اجازت دی ہے ؟ جو لوگ ان کو خودکش حملے کہتے ہیں وہ ان کو اصولاً ناجائز کہتے ہیں کیونکہ شریعت نے خودکشی کو ناجائز ٹھہرایا ہے ۔ اس کے برعکس جواز کے قائلین کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ اس قسم کی کاروائی سے کمزور فریق طاقتور دشمن کو سخت ترین نقصان پہنچاسکتا ہے ، اور باقی رہی جان جانے کی بات تو جہاد میں جان جانے کا امکان تو ہر وقت رہتا ہے ۔ اس پر یہ اعتراض کیاجاسکتا ہے کہ دشمن اگر مجاہد کی جان لے اور مجاہد خود اپنی جان لے تو ان دونوں میں فرق ہے ۔ اول الذکر شہادت ہے اور ثانی الذکر خودکشی ہے ۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ فدائی حملوں میں حملہ آور اذیت کے خوف سے خودکشی نہیں کرتا بلکہ ہنسی خوشی جان کی قربانی پیش کرکے دشمن کو بڑا نقصان پہنچاتا ہے اور فقہا نے صراحت کی ہے کہ عام حالات میں تنہا مجاہد کو دشمن کے صفوں میں نہیں گھسنا چاہیے لیکن اگر اس طرح دشمن کو خوفزدہ کیاجاسکتا ہو اور ان پر دھاک بٹھانا مقصود ہو تو یہ حملہ جائز ہوگا ۔ (۹۲) جو لوگ اس قسم کے حملوں کے عدم جواز کے قائل ہیں ان میں بھی بہت سے اس بات کو مانتے ہیں کہ بعض استثنائی حالات میں اس قسم کا حملہ نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہوجاتا ہے ۔ مثلاً چونڈہ کے محاذ پر جب ٹینکوں کا بڑا حملہ ہوا تو پاک فوج نے اس کی پسپائی اسی قسم کے حملوں سے یقینی بنائی ۔ اسی طرح راشد منہاس شہید نے جب جہاز کو زمین سے ٹکرادیاتھا تو وہ بھی حقیقت کے لحاظ سے خودکش یا فدائی حملہ ہی تھا اور اس حملے کی وجہ سے ان کو پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازاگیا ۔ 
اس قسم کے حملوں کے جواز اور عدم جواز کے تعین کے لیے ایک اور اہم عامل یہ امر ہے کہ ان کا نشانہ کون ہے ؟ اگر نشانہ وہ لوگ ہوں جن کو شریعت نے نشانہ بنانے سے روکا ہے (غیر مقاتلین) تو پھر حملہ بھی ناجائز ہوگا لیکن اگر حملے کانشانہ مقاتلین ہوں تو پھر عدم جواز کے قائلین کو اپنے موقف کے اثبات کے لیے مزید قوی دلائل جمع کرنے ہوں گے ۔ معاصر بین الاقوامی قانون کے تحت ایک اور عامل بھی اہمیت رکھتا ہے ۔ بین الاقوامی قانون نے ہر قسم کے حملوں کے جواز کے لیے لازم ٹھہرایا ہے کہ حملہ آور غیر مقاتلین کے بھیس میں نہ ہو ۔ (۹۳) کیا یہ شرط اسلامی قانون کے تحت بھی لازم ہے ؟ مقاتل اگر غیر مقاتل کے بھیس میں ہو تو کیا اسے شرعاً دھوکہ دہی اور غدر سمجھا جائے گا ؟ رسول اللہ ﷺ نے جنگ کو ’’خدعۃ‘‘ قرار دیا تھا ۔ (۹۴) جائز خدعۃ اور ناجائز دھوکہ دہی میں فرق کیسے کیا جائے گا ؟

جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک 

آداب القتال کے حوالے سے ایک اور اہم بحث جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک کا معاملہ ہے ۔ اس سلسلے میں پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا غیر مقاتلین کو جنگی قیدی بنایاجاسکتا ہے ؟ فقہا نے جنگی قیدیوں میں مقاتلین کو ’اسریٰ‘ اور غیرمقاتلین کو ’سبی‘ کانام دیاتھا ۔ (۹۵) کیا اس تقسیم کو اب بھی برقرار رکھاجاسکتا ہے ؟ (۹۶) دوسرا سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت مطالبات منوانے کے لیے جنگی قیدیوں کو یرغمال بنانے کی ممانعت ہے اور اسے دہشت گردی میں شمار کیاجاتا ہے ۔ (۹۷) کیا اسلامی قانون کے تحت جنگی قیدیوں کو یرغمال رکھنا جائزہے ؟ تیسرا سوال قیدیوں کی رہائی سے متعلق ہے ۔ قرآن کریم نے نص صریح کے ذریعے ان کے متعلق دو آپشن دیے ہیں ؛ من یا فداء ۔ پھر فقہاء نے کس بنیاد پر دیگر آپشن (غلام بنانا اور قتل کرنا) ذکر کیے ؟ اگر ان کا استدلال رسول اللہ ﷺ کے طرز عمل سے تھا تو رسول اللہ ﷺ کے طرز عمل کی بنیاد کیا تھی؟ ایک رائے یہ پیش کی گئی کہ قرآنی نص نے دو اختیارات ذکر کیے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حکمران کو دیگر اختیارات حاصل نہیں ہیں ۔ (۹۸) لیکن یہ رائے اس لیے قوی نہیں لگتی کہ آیت کریمہ میں ’اما منا بعد واما فداء‘ کی ترکیب استعمال ہوئی ہے جو بظاہر حصر کو مستلزم ہے ۔(۹۹) اس لیے کچھ بے باک لوگوں نے سرے سے اس کا ہی انکار کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی قیدیوں کو غلام بھی بنایاتھا یا قتل بھی کیا تھا ۔ انہوں نے اس قسم کی ساری روایات کو ’’عجمی سازش‘‘ کہہ کر مسترد کردیا ۔ (۱۰۰) ایک رائے یہ پیش کی گئی کہ سورۃ التوبۃ کی آیت ۵ میں مخالفین کو قتل کرنے اور گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، اس لیے اس آیت نے سورۃ محمد کی آیت کو منسوخ کردیا ۔ (۱۰۱) لیکن نسخ یہاں صریح نہیں بلکہ آیات کے درمیان ظاہری تعارض کی وجہ سے فرض کیا گیا ہے کہ ایک آیت نے دوسری آیت کو منسوخ کردیا ہے ۔ گویا یہ نسخ ضمنی ہے (Implied Abrogation) اور نسخ ضمنی کی طرف تبھی جایاجاتا ہے جب دو نصوص کے درمیان جمع و تطبیق ممکن نہ ہو ۔ (۱۰۲) یہاں تطبیق بلاتکلف ممکن ہے ۔ سورۃ التوبۃ کی آیت جنگ کے دوران حملے کے لیے حکم متعین کرتی ہے ، جبکہ سورۃ محمد کی آیت جنگ کے خاتمے پر جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک کے متعلق حکم دیتی ہے ۔ (۱۰۳) جناب جاوید احمد غامدی کی رائے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل سورۃ محمد کی آیت کے عین مطابق تھا ۔ چنانچہ عام طور پر آپ قیدیوں کو بلامعاوضہ رہا کرتے تھے اور اس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں ۔ کبھی آپ قیدیوں کا تبادلہ کرتے یا کسی اور عوض پر انہیں رہا کردیتے ۔ بنو مصطلق کے تمام قیدیوں کوصحابہ نے تقسیم کے بعد از خود آزاد کیا کیونکہ آپ نے اس قبیلے کی ایک خاتون (سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا) سے شادی کی ۔ کبھی ایسا ہوا کہ اگر کچھ صحابہ قیدیوں کو رہا کرنے پر آمادہ نہ تھے تو انہیں معاوضہ دے کر قیدیوں کو رہایا کروایا۔ (۱۰۴ ) یہ ساری باتیں صحیح ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جب آپ نے ایک بار قیدیوں کو تقسیم کیا تو کیا ان کو غلام نہیں بنایاگیا اور کیا صحابہ کو ان پر مالکانہ حقوق نہیں دیے گئے ؟ اگر وہ غلام نہیں بنائے گئے توبعض صحابہ کو معاوضہ کس چیز کا دیاگیا ؟ ڈاکٹر وہبۃ الزحیلی مانتے ہیں کہ بعض مواقع پر قیدیوں کو غلام بنایاگیا مگر وہ اسے معاملہ بالمثل قرار دیتے ہیں ۔ (۱۰۵) لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا معاملہ بالمثل کی بنیاد پر قرآنی نص پر اضافہ کیاجاسکتا ہے؟ اسی طرح بنو قریظہ کے مقاتلین کو آپ نے قتل کردیا اور غیر مقاتلین کو غلام بنایا ۔ عصر حاضر کے اکثر مسلمان اہل علم اسے اس بنیاد پر جواز عطا کرتے ہیں کہ ایک تو یہ ثالث کا فیصلہ تھا اور ثالث بھی یہود نے ہی مقرر کیا تھا ۔ دوسرے یہ تورات کا ہی فیصلہ تھا جو ان پر نافذ ہوا ۔ (۱۰۶) سوال پھر وہی ہے ۔ کیا ثالث کے فیصلے یا تورات کے حکم کی بنیاد پر قرآن کا حکم ترک کیاجاسکتا ہے ؟ (۱۰۷) کن حالات میں جنگی قیدی کو قتل کیا جاسکتا ہے ؟ مزید برآں کیا قتل کے جواز کے لیے عدالتی کاروائی کا ہونا ضروری ہے ؟ بین الاقوامی قانون نے جنگی جرائم کے ارتکاب پر سزاؤں کے لیے عدالتیں قائم کی ہیں ۔ شرعاً اس قسم کے طریق کار کی کیا حیثیت ہے ؟ (۱۰۸) 

جہاد اور مسلح جد جہد آزادی 

عصر حاضر میں جہاد اور مسلح جدو جہد آزادی کے تعلق نے بھی بہت اہمیت اختیار کی ہے ۔ کئی جگہوں پر غیرملکی تسلط کے خلاف مسلح مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے اور اسے جہاد ہی کے عنوان سے تعبیر کیاجاتا ہے ۔ اس سلسلے میں بعض اہل علم نے یہ رائے قائم کی ہے کہ اگر غیرملکی تسلط کے تحت مسلمانوں کے لیے دین پر عمل کرنا ناممکن ہوجائے تو ان کے پاس صرف یہی راستہ ہوگا کہ یا تو وہ وہاں سے ہجرت کریں اور یا کسی اسلامی ملک کی مدد طلب کریں ۔ گویا ان اہل علم کے نزدیک غیرملکی تسلط کے خلاف مسلح جدوجہد ناجائز ہوگی ۔ اس عدم جواز کے لیے ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس قسم کی مسلح مزاحمت نظم حکومت کے بغیر کی جاتی ہے جبکہ جہاد کے لیے نظم حکومت کا ہونا ضروری ہے ۔ (۱۰۹) 
یہاں اسلامی قانون کے لحاظ سے چند اہم سوال پیدا ہوتے ہیں ۔ اولاً کیا حکومت اور ریاست بذات خود مقصود ہیں، یا فریضۂ دفاع و اعلاء کلمۃ اللہ کے اچھے طریقے سے انجام دینے کے لیے ایک ذریعہ ہیں؟ اگر کبھی اسلامی ملک پر حملے کے نتیجے میں وہاں کی حکومت کا عملاً خاتمہ ہو جائے اور ابھی جنگ جاری ہو تو کیا پھر بھی دفاع کا فریضہ ادا کرنے کے لیے باقاعدہ نظم حکومت قائم کرنے کی ضرورت ہوگی ؟ یا مزاحمت کرنے والے آپس میں کسی کو امیر چن کر اس کی اطاعت کا اقرار کریں تو یہ حکومت کا بدل ہو جائے گا ؟ اسی طرح وہ لوگ جو کسی ظالمانہ نظام سے آزادی چاہتے ہوں تاکہ اپنے حقوق کا تحفظ کریں تو کیا ان پر بھی ریاست و حکومت کے تحت لڑنے کی شرط لاگو ہوتی ہے؟ وہ تو لڑیں گے ہی اس مقصد کے لیے کہ اپنی ریاست اور حکومت قائم کرسکیں ۔ 
شرعاً مسلمانوں پر اس سرزمین سے ہجرت واجب ہوجاتی ہے جہاں وہ اپنے دین پر عمل نہ کرسکتے ہوں ۔ (۱۱۰) تاہم عصر حاضر کے مخصوص معروضی حالات کی وجہ سے بعض اوقات مظالم کے باوجود ہجرت ناممکن یا نامناسب ہوتی ہے ، مثلاً: 
الف) جب مظلوموں کی تعداد لاکھوں میں ہو۔ 
ب) جب قریب ترین اسلامی ملک بہت دور ہو جہاں کثیر تعداد میں مسلمانوں کے لیے ہجرت کرکے جانا ناممکن ہو یا انتہائی حد تک مشکل ہو۔ 
ج) جب اسلامی ملک اتنی کثیر تعداد میں آنے والے مہاجرین کی آباد کاری کے وسائل نہ رکھتا ہو۔ 
د) جب وہ غیر مسلم ملک انہیں ہجرت بھی نہ کرنے دیتا ہو۔ 
کیا ان صورتوں میں لاکھوں لوگوں کو گھر بار چھوڑ کر نکل جانے کا حکم دیاجائے گا؟ کیا اس سرزمین کو اسلام کے دشمنوں کے لیے خالی چھوڑاجاسکتا ہے ؟ ایسی صورت میں اگرمظلوم دیگر مسلمانوں سے مدد طلب کرسکتے ہیں تو وہ خود اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے طاقت کیوں نہیں استعمال کرسکتے ؟ شریعت نے فردکو حق دفاع شخصی کے تحت طاقت کے استعمال کی اجازت دی ہے ۔(۱۱۱) اگر فرداً فرداً ایک ایک مظلوم کو یہ حق حاصل ہے ، تو کیا بہت سارے مظلوم مل کر ایک دوسرے کا تحفظ نہیں کرسکتے؟ (۱۱۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان ، مال اور عزت وآبرو کے تحفظ کی راہ میں قتل ہونے والوں کو بھی شہید قرار دیا ہے ۔ (۱۱۳) کیا اس بنیاد پر وطن کی آزادی کی تحریک کو جہاد کے مفہوم میں داخل سمجھا جاسکتاہے ؟ اگر آزادی کی تحریکیں غیر اسلامی نظام یا مقاصد کے حصول کے نعرے بلند کریں تو ان کی جدوجہد کی شرعی حیثیت کیا ہوگی ؟ اس کا جواب غالباً یہی ہوگا کہ اگر آزادی کی تحریک کے رہنما تو ایسی صورت میں اس تحریک کو جہاد نہیں کہاجاسکے گا، اگرچہ افراد کو حق دفاع شخصی پھر بھی حاصل رہے گا۔

جہاد اور دہشت گردی 

غیرملکی تسلط کے خلاف مسلح مزاحمت اور آزادی کی تحریکوں پر بحث کے ضمن میں ایک اہم بحث دہشت گردی کی تعریف اور نوعیت کی ہے۔ بین الاقوامی قانون میں دہشت گردی کی متفقہ تعریف ابھی تک وجود میں نہیں آسکی ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغربی ممالک ریاست کے خلاف مزاحمت کی ہر صورت کو دہشت گردی قرار دینا چاہتے ہیں ، جبکہ ترقی پذیر ممالک آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی کی تعریف سے مستثنی قرار دینا چاہتے ہیں ۔ (۱۱۴) حقیقت یہ ہے کہ آزادی کی تحریک اور دہشت گردی میں کوئی لازم و ملزوم کا تعلق نہیں ہے ۔ آزادی کی مسلح جدوجہد دہشت گردی کے ارتکاب کے بغیر بھی ہوسکتی ہے ۔ اسی طرح دہشت گردی مسلح جدوجہد آزادی تک ہی محدود نہیں ، ریاستیں بھی دہشت گردی کا ارتکاب کرتی ہیں اور آزادی کے بجائے کسی اور مقصد کی خاطر بھی دہشت گردی کی جاسکتی ہے ۔ پس دہشت گردی کی معروضی تعریف ممکن ہے اگر تعصب اور ذاتی پسند ناپسند سے بالاتر ہو ا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک کے ملکی قوانین میں دہشت گردی کی تعریف کے الفاظ خواہ مختلف ہوں مگر جرم کے عناصر تقریبا یکساں ہوتے ہیں ۔ ہم نے اس مقصد کی خاطر امریکہ ، برطانیہ ، اسرائیل ، بھارت اور پاکستان کے قوانین کا جائزہ لیا تو معلوم ہواکہ ان قوانین کے تحت دہشت گردی کے جرم کے لیے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل عناصر یکجا ہوں : (۱۱۵) 
(۱) طاقت کا استعمال یا اس کی دھمکی ؛ 
(۲) ارادہ معاشرے میں بالعموم یا اس کے کسی طبقے میں خوف پھیلانا ہو ؛ 
(۳) نتیجہ بڑی تباہی یا نقصان ہو ؛ 
(۴) مقصد کسی مطالبے کی منظوری ہو ۔ 
بین الاقوامی قانون کے ماہرین نے جو تعریفات تجویز کی ہیں ان کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی دہشت گردی کے عناصر ترکیبی یہی ہیں۔ ایک ماہر قانون دہشت گردی کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے : 
’’دہشت گردی کی تمام صورتیں اصلاً جرائم ہیں ۔ اس کی اکثرشکلیں جنگی آداب کی خلاف ورزی پر مبنی ہوتی ہیں ۔ تمام صورتوں میں طاقت کا استعمال یا اس کی دھمکی شامل ہوتی ہے اور اس کے ساتھ کوئی مطالبہ ہوتا ہے ۔ عموما اس کاروائی کا نشانہ غیر مسلح شہری ہوتے ہیں ۔ محرکات ہمیشہ سیاسی ہوتے ہیں ۔کاروائی اس طرح کی جاتی ہے کہ اسے بڑی شہرت حاصل ہو ۔ کاروائی کرنے والے عموما کسی منظم گروہ کے رکن ہوتے ہیں ، اور عام مجرموں کے برعکس کاروائی کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں ۔ اخیراً دہشت گردی کی کاروائی میں لازماً یہ عنصر موجود ہوتا ہے کہ کاروائی کے نفسیاتی اثرات اس کے فوری مادی نقصانات سے زیادہ ہوں۔‘‘ (۱۱۶) 
ہمیں اس تعریف سے بنیادی طور پر اتفاق ہے تاہم تین باتوں کی وضاحت ضروری ہے : 
اولاً یہ کہ دہشت گردی کی کاروائی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ کسی تنظیم کے ارکان کریں ۔ اس کا ارتکاب کوئی فرد بھی کرسکتا ہے اور ریاست بھی۔ 
ثانیاً یہ کہ دہشت گردی کا نشانہ وہ جنگجو بھی ہوسکتے ہیں جن کو قانوناً جنگی کاروائی سے تحفظ دیا گیا ہے مثلاً جنہوں نے ہتھیار ڈال دیے ہوں، یا جو زخمی ہوں ، یا جنہیں قید کیا گیا یا یرغمال بنایا گیا ہو ۔ اسی طرح اگر جنگجوؤں کے خلاف طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا جائے اور تناسب کے اصول کو نظر انداز کیا جائے تو بھی اس کاروائی کو دہشت گردی کہا جائے گا ۔ (۱۱۷) 
ثالثاً یہ کہ دہشت گردی کی کاروائی کی ذمہ داری قبول کرنے کی روایت اب دم توڑ رہی ہے ۔ ذمہ داری اس لیے قبول کی جاتی تھی کہ جس مقصد کے لیے وہ کاروائی کی جاتی تھی اس کی طرف لوگوں کی توجہ ہو ۔ تاہم اب ایسا نہیں کیا جا تا جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس قسم کی کاروائی کے نتیجے میں لوگوں کی ہمدردیاں دہشت گردوں کے مقصد کے بجائے دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے ساتھ ہوجاتی ہیں ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کا مقصد چند لوگوں کو دہشت زدہ کرنا ہوتا ہے اور یہ مقصد بسا اوقات یوں حاصل کیا جاتا ہے کہ کاروائی کرنے والے ’’نامعلوم حملہ آور‘‘ کی صورت میں پراسرار دشمن بن جائیں ۔ 
پس بین الاقوامی قانون کے اصول و قواعد کی روشنی میں دہشت گردی کی مناسب تعریف یہ ہوسکتی ہے : 
’’ایسے لوگوں کے خلاف جنہیں بین الاقوامی قانون نے معصوم قراردیا ہو ، خواہ وہ جنگجو ہوں یا شہری ، طاقت کا استعمال یا اسکی دھمکی اس طریقے سے ہو جو بین الاقوامی قانون کی رو سے ناجائز ہو، اور کاروائی کا مقصد یا لازمی نتیجہ یہ ہو کہ معاشرے یا اس کے کسی مخصوص طبقے میں خوف و دہشت پھیل جائے تو اسے دہشت گردی کہا جا ئے گا ،خواہ اس کا ارتکاب افراد کریں ، یا ان کی تنظیم ،یا کوئی حکومت۔‘‘
مسلح جدوجہد آزادی تین طرح سے ہوسکتی ہے ؛ باقاعدہ روایتی جنگ ، گوریلا کاروائی یعنی دشمن کے فوجوں اور فوجی ٹھکانوں کے خلاف چھاپہ مار کاروائی ، اور دہشت گردی۔ (۱۱۸) ان میں آخر الذکر دونوں (گوریلا جنگ اور دہشت گردی) کمزور فریق کے ہتھیار ہیں اور کامیابی کے حصول کے لیے جلد یا بدیر باقاعدہ روایتی جنگ کرنی پڑتی ہے ۔ بین الاقوامی قانون نے دہشت گردی کی متفقہ تعریف نہیں پیش کی مگر حملے کی چند صورتوں کو دہشت گردی میں شمار کیا ہے ، مثلاً : 
۱۔ شہری آبادی یا تنصیبات پر حملہ ؛
۲ ۔ شہری ہوابازی کے طیاروں کو اغوا کرنا ؛ 
۳ ۔ شہریوں یا جنگجوؤں کو یرغمال بنانا ؛ 
۴ ۔ جنگجوؤں پر ان لوگوں کا حملہ جو شہریوں کے بھیس میں ہوں ؛
۵۔ جنگجوؤں پر زہریلی گیسوں اور کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال وغیرہ ۔ (۱۱۹) 
مسلمان اہل علم پر لازم ہے کہ ایک طرف وہ شریعت کے قواعد کی روشنی میں دہشت گردی کی جامع تعریف پیش کریں اور اسے جہاد سے ممیز کریں اور دوسری طرف ان صورتوں کا جائزہ لیں جنہیں بین الاقوامی قانون نے دہشت گردی میں شمار کیا ہے اور ان کے جواز اور عدم جواز کا تعین کریں ۔ ھذا ما عندی ، و العلم عند الل ۔ 

حواشی 


۱۔ سنن الترمذی ، کتاب الایمان ، حدیث رقم ۲۵۴۱ ؛ سنن ابن ماجۃ ، کتاب الفتن ، حدیث رقم ۳۹۶۳ 
۲۔ مثلاً دیکھئے : سورۃ الحجرات ، آیت ۱۵ ؛ سورۃ الاحزاب ، آیات ۹ تا ۲۷ ۔ حدیث مبارک ہے : من مات و لم یغز و لم یحدث بہ نفسہ مات علی شعبۃ من نفاق ۔ [جو اس حالت میں مرا کہ اس نے جہاد میں حصہ لیا ، نہ اس کے دل میں کبھی جہاد میں حصہ لینے کا خیال آیا تو وہ نفاق کے ایک شعبے پر مرا ۔ ] صحیح مسلم ، کتاب الامارۃ ، حدیث رقم ۳۵۳۳ 
۳۔ قومیت کے اس تصور اور بین الاقوامی قانون پر اس کے اثرات کی وضاحت اور تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے : 
Martin Dixon, Textbook on International Law, (London: Blackstone, 2000), pp 8-17; 133-62; 233-254. 
۴۔ ایضاً ، ص ۲۱ ۔ ۴۹ 
۵۔ اسلامی قانون میں شخص قانونی کے اس تصور پر غالباً سب سے اچھی فقہی بحث استاد محترم جناب پروفیسر عمران احسن خان نیازی نے کی ہے ۔ ملاحظہ ہو:
Imran Ahsan Khan Nyazee, Islamic Law of Business Organisation: Corporations, (Islamabad: Islamic Research Institute, 1998).
بین الاقوامی قانون میں قانونی شخصیت کے تصور کی وضاحت کے لیے دیکھئے : 
Dixon, Textbook on International Law, pp 104-32. 
۶۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنی کتاب ’’سود‘‘ کے تیسرے ضمیمے میں میں دارالحرب میں سودی لین دین کے جواز اور عدم جواز پر بحث کے دوران دارالاسلام اور دار الحرب کے تصور پر بڑی معرکۃ الآرا بحث کی ہے ۔ (سود ، ص ۲۲۸ تا ۳۵۱) انہوں نے فقہی نصوص کا جائزہ لینے کے بعد اس تقسیم کی اصل حقیقت واضح کی ہے ۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : 
Muhammad Mushtaq Ahmad, The Doctrine of Dar in the Hanafi Law and the Perpetual war Theory, Islamabad, Islamic Reserach Institute, Islamic Studies, 45: 2) 
اسی طرح تقسیم ہندکے بعد پاکستان اور بھارت کے مسلمانوں کے آپس میں تعلقات کے ضمن میں ان کا مولانا ظفر احمد عثمانی کے ساتھ بڑا اہم مکالمہ ہوا ۔ (رسائل و مسائل (لاہور : اسلامک پبلی کیشنز ،۱۹۶۷ء) ، ج ۲ ، ص ۱۵۰۔۱۸۴) وطنی قومیت کے تصور پر انہوں نے اسلامی نقطۂ نظر سے بڑی اچھی گرفت کی ۔ (مسئلۂ قومیت ۔ لاہور : اسلامک پبلی کیشنز ) لیکن حیرت کی بات ہے کہ جہاد اور اسلامی ریاست پر انہوں نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں دارالاسلام کے تصور پر تفصیلی بحث نظر نہیں آتی ۔ ’’الجہاد فی الاسلام ‘‘کے متعلق تو یہ عذر پیش کیا جاسکتا ہے کہ وہ ’’سود ‘‘ سے پہلے لکھی گئی تھی (اگرچہ اس کا ایک باقاعدہ نیا ایڈیشن بعد میں بھی شائع ہوا ۔ ) لیکن ’’اسلامی ریاست ‘‘ پر تو بہت ہی اعلی درجے کا کام سید مودودی نے ’’سود‘‘ کے لکھنے کے بعد کیا۔ اگر وہ خود جہاد پر کام کے دوران اس تصور پر بحث کرتے یا اسلامی ریاست کے تصور کا موازنہ دارالاسلام کے تصور سے کرتے تو یقیناًوہ ایک شاہکار ہوتا ۔ تاہم اب بھی سید مودودی کے نام لیواؤں میں کوئی یہ کام کرسکتا ہے ۔ یا کم از کم یہ تو کیاجاسکتا ہے کہ ’’سود‘‘ کے تیسرے ضمیمے کو ’’الجہاد فی الاسلام ‘‘ یا ’’اسلامی ریاست‘‘ کے آخر میں ضمیمے کے طور پر لگایا جائے تاکہ قاری خود ہی ان تصورات پر غور کی ضرورت محسوس کرے ۔ 
۷۔ اسلامی قانون کی رو سے بیت المال پوری امت کی مشترکہ ملکیت سمجھا جاتا تھا ۔ چنانچہ بیت المال سے چوری کرنے والے پرحد سرقہ نافذ نہیں کی جاسکتی تھی کیونکہ اس مال میں اس کا (بہت تھوڑا ہی سہی) حصہ ہوتا تھا ۔ اسے اصطلاح میں ’’شبھۃ الملک‘‘ کہتے تھے ۔ اگر ریاست باقاعدہ قانونی شخصیت کا حامل ہو اور سرکاری خزانہ اس کی ملکیت ہو تو پھر فقہ کے اس جزئیے میں بھی ترمیم کرنی ہوگی کیونکہ اب اگر کوئی سرکاری خزانے سے چوری کرے گا تو اس کا اس مال میں کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔ اس لیے اسے ’’شبھۃ الملک‘‘ کا فائدہ نہیں مل سکے گا ! 
۸۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی فقہ اسلامی پر گہری نظر رکھتے ہیں اور وہ سیاسی مسائل کا فقہی تجزیہ کرنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ اسلامی بین الاقوامی قانون پر انہوں نے جو بارہ خطبات دیے (خطبات بہاولپور حصۂ دوم ، بہاولپور: جامعہ اسلامیہ ، ۱۹۹۷) ان میں دارالاسلام کے تصور پر بڑی اچھی علمی بحث موجود ہے ۔ فقہ اسلامی پر عمومی خطبات دیتے ہوئے انہوں نے ایک وقیع علمی خطبہ اسلام کے دستوری نظام پر بھی دیا ۔ (محاضرات فقہ ، (لاہور : الفیصل ناشران کتب ، ۲۰۰۵ء) ، ص ۳۴۸ تا ۳۸۷) لیکن یہ مقام باعث حیرت ہے کہ وہ بھی دارالاسلام کے تصور کا ریاست کے تصور کے ساتھ موازنہ نہیں کرتے ۔ اسی طرح فقہ اسلامی کی روشنی میں ریاست اور قانون سازی کے تصور پر انہوں نے باقاعدہ مستقل کتاب بھی لکھی ہے (State and Legislation in Islam: Islamabad: Shariah Academy, 2006) لیکن انہوں نے اس میں امت اور ریاست کے تصورات میں ہم آہنگی کی طرف کچھ خاص توجہ نہیں دی ، نہ ہی دارالاسلام کے تصور پر کوئی خاص بحث کی ہے۔ قومی ریاست کا تصور دیگر مذاہب بالخصوص عیسائیت اور یہودیت کے لیے بھی بہت سے مسائل پیدا کرتا ہے ۔ اس لیے اس سلسلے میں اس امر سے بھی رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے کہ ان مذاہب نے اس تصور کے کیسے قابل قبول بنایا ہے ۔ اس موضوع پر ایک یہودی عالم ، ایک عیسائی عالم اور ایک مسلمان عالم کے ایک دلچسپ علمی مباحثے کے لیے دیکھئے : 
Isma'il Raji al-Faruqi (ed.), Trialogue of the Abrahamic Faiths, (Virginia: International Institute of Islamic Thought, 1991), pp 29-59. 
۹۔ ڈاکٹر غازی نے بین الاقوامی قانون اور اسلامی قانون کے درمیان فروق پر بڑی دلچسپ بحث کی ہے ۔ اس ضمن میں ایک فرق وہ یہ ذکر کرتے ہیں کہ عصر حاضر کے قانونی نظام میں قانون کو ریاست کی تخلیق سمجھا جاتا ہے جبکہ اسلامی قانون کی روشنی میں ریاستی نظام بذات خود قانون کی تخلیق تھا ۔ 
(The Shorter Book on Muslim International Law, p 18) 
۱۰۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے: 
Imran Ahsan Khan Nyazee, Theories of Islamic Law, (Islamabad: Islamic Research Institute, 1994), pp 147-76, 189-230. 
۱۱۔ ذمیوں کے متعلق احکام کی تفصیل کے لیے دیکھئے : شمس الائمۃ ابو بکر محمد بن ابی سہل السرخسی ، المبسوط ، (حیدرآباد : دائرۃ المعارف النعمانیۃ، ۱۳۳۵ ھ ) ، ج ۱۰ ، ص ۷۹۔۸۶۔ حنبلی فقیہ ابن قیم الجوزیۃ نے خاص ذمیوں کے احکام پراحکام اھل الذمۃ (بیروت : دار العلم ، ۲۰۰۲ء) کے نام سے ایک جامع کتاب لکھی ہے ۔ 
۵۱۲۔ المبسوط ، ج ۱۰ ، ص ۸۲۔مشہور مستشرق پرفیسر برنارڈ لوئیس کا کہنا ہے کہ ’’حربی‘‘ اور ’’محارب‘‘ کو مترادف سمجھا جاتا تھا اور ہر غیر مسلم جس کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ نہیں تھا محارب تھا ۔ (Bernard Lewis, The Political Language of Islam, (Oxford: 2004), p 77) یہ فقہا کے موقف کی صحیح ترجمانی نہیں ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دار الاسلام اور دارالحرب کی تقسیم کا یہ مطلب نہیں تھا کہ یہ دو علاقے ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل جنگ میں مبتلا رہیں گے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جہاد کی علت کفر نہیں بلکہ محاربہ ہے ۔ اس لیے ہر غیر مسلم کے خلاف جہاد نہیں کیا جاسکتا ۔ جو محاربے کا ارتکاب کریں گے وہی محارب ہوں گے ۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے : 
Muhammad Mushtaq Ahmad, The Doctrine of Dar in the Hanafi Law and the Perpetual war Theory, Islamabad, Islamic Research Institute, Islamic Studies, 45: 2.
۱۳۔ المبسوط ، ج ۱۰ ، ص ۸۲۔۸۶
۱۴۔ ایضاً ، ۸۶۔۹۷
۱۵۔ ابن قدامہ نے لکھا ہے کہ اگر مسلمان کو باہر اقامت اختیار کرنی ہی پڑے تو وہ بیوی کے ساتھ مقاربت کے وقت عزل کیا کرے تاکہ وہاں اس کی اولاد پیدا نہ ہو ، کیونکہ پھر یہ امکان رہے گا کہ اس کی اولاد کفر کے ماحول سے متاثر ہوجائے ۔(موفق الدین ابن قدامۃ ، المغنی فی فقہ امام السنۃ احمد بن حنبل الشیبانی ، (بیروت : دار احیاء التراث العربی ، تاریخ ندارد ) ، ج ۸ ، ص ۳۳۲) امام ابو حنیفہ بھی دار الاسلام سے باہر مسلمانوں کی اپنی بیویوں کے ساتھ مقاربت کو ناپسند کرتے تھے ۔ اس کی وجہ سرخسی نے یہ بیان کی ہے کہ مسلمان کو دارالحرب میں توطن اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے اور اگر اس کے بچے پیدا ہوئے تو اس کاامکان ہوگا کہ وہ یا اس کے بچے وہاں اقامت اختیار کرلیں ۔ (المبسوط ، ج ۱۰ ، ص ۵۸) یہاں یہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگاکہ ڈاکٹروہبۃ الزحیلی نے ’’ضرورت‘‘ کی بنیاد مسلمان ممالک میں ویزے اور پاسپورٹ کی پابندیوں کو جائز کہا ہے اور یہ رائے قائم کی ہے کہ ایک مسلمان ملک کے مسلمان باشندے کو دوسرے مسلمان ملک میں مستأمن سمجھا جاسکتا ہے ! (آثار الحرب، ص ۲۸۲ ۔ ۲۸۵ ) 
۱۶۔ یہ رائے فقہاء احناف کی ہے ۔ (الہدایۃ، ج ۲، ص ۳۹۵ ) دیگر فقہا کی رائے اس کے برعکس ہے ۔ (المغنی، ج ۸، ص ۲۸۴) 
۱۷۔ یہ بھی فقہاء احناف کی رائے ہے ۔ (المبسوط ، ج ۱۰ ، ص ۹۵) 
۱۸۔ المبسوط ، ج ۱۰ ، ص ۵۴ 
۱۹ ۔ مثال کے طور پر دیکھئے : جاوید احمد غامدی ، ’’قانون جہاد ‘‘، میزان ، (لاہور : دار الاشراق ، ۲۰۰۱ء) ص ۲۴۱ ۔ ۲۷۹ 
۲۰۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے ہندوستان کو دار الحرب قرار دینے کے لیے جو دلائل دیے تھے ان میں ایک دلیل یہ بھی تھی کہ اس وقت ہندوستان کو چاروں طرف سے غیرمسلم طاقتوں نے گھیر رکھا تھا۔ اس ضمن میں وہ ابن عابدین کے قول سے استدلال کرتے ہیں کہ سمندر غیراسلامی مقبوضات کا حصہ سمجھا جائے گا ۔ اس رائے پر تفصیلی تنقید کے لیے دیکھئے : مولانا ابو الاعلی مودودی ، سود ۔ (لاہور: اسلامک پبلی کیشنز ، ۲۰۰۳) ، ص ۲۸ ۲ تا ۳۵۱) 
۲۱۔ ابن قیم الجوزیۃ ، احکام اھل الذمۃ ، ج ا ، ص ۳۳۵
۲۲۔ مثلاً ملاحظہ کیجیے : ڈاکٹر وھبۃ الزحیلی ، آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی ، (دمشق : دارلفکر ، ۱۹۸۱ء) ص ۱۹۲ ۔ ۱۹۶؛ 
Dr. Tariq Ramadan, To Be A European Muslim, (Leicester: Islamic Foundation, 1999), p 23. 
۲۳۔ ڈاکٹر حمید اللہ کی کتاب The Muslim Conduct of State بجا طور پراسلامی بین الاقوامی قانون پر بہترین کاموں میں شمار کی جاتی ہے ۔ اس کتاب کے علاوہ انہوں نے کئی مقالات میں اسلامی بین الاقوامی قانون کے مختلف پہلوؤں کو واضح کیا ۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے جب امام محمد بن الحسن الشیبانی کی ’’ کتاب السیر الصغیر‘‘ کے متن کی تحقیق کی ، اور اس کا انگریزی ترجمہ کیا تو اس کا انتساب ڈاکٹر حمید اللہ کے نام کیا اور انہیں ’’بیسویں صدی کے شیبانی‘‘ کا نام دیا ۔
(The Shorter Book on Muslim International Law, Islamabad: Islamic Research Institute, 1998) 
۲۴۔ مثال کے طور پر دیکھئے : عراقی مسیحی عالم مجید خدوری کا مقدمہ جو انہوں نے امام محمد بن الحسن الشیبانی کی ’’کتاب الاصل‘‘سے سیر کے متعلق ابواب پر لکھا ۔ کتاب السیر و الخراج و العشر من کتاب الاصل للشیبانی ، (کراچی: ادارۃ القرآن ، ۱۹۹۶ء) ، ص ۲۲۔ ۳۰ ؛ 
Bernard Lewis, The Political Language of Islam, p 73

۲۵۔

 The Muslim Conduct of State, (Lahore: Sheikh Muhammad Ashraf, 1945), pp 97-144.
۲۶۔ یہ تضاد وہاں بالخصوص واضح ہوجاتا ہے جب وہ معاہدات کے جواز و عدم جواز پر بحث کرتے ہیں ۔ ملاحظہ ہو : آثار الحرب ، ص ۶۷۵ ۔ ۶۸۰ 
۲۷۔ بہت سے اہل علم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگوں کو دفاعی قرار دیا ہے ۔ مثال کے طور پر دیکھئے : علامہ شبلی نعمانی ، سیرت النبی ﷺ ، (کراچی : دار الاشاعت ، ۱۹۸۵ء ) ، ج ۱، ص ۳۲۸ تا ۳۵۳؛ مولانا ابو الکلام آزاد ، ترجمان القرآن ، (لاہور: اسلامی اکادمی، ۱۹۷۶ء) ، ج ۲ ، ص ۵۲۔۵۳ اور ۱۲۱۔۱۲۲ 
۲۸۔ سورۃ التوبۃ، آیت ۵ 
۲۹۔ صحیح البخاری ، کتاب الایمان ، حدیث رقم ۲۴ ؛ صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، حدیث رقم ۳۱ 
۳۰۔ سورۃ التوبۃ، آیت ۲۹ 
۳۱۔ سورۃ التوبۃ، آیت ۳۳ 
۳۲۔ موطا امام مالک ، کتاب الجامع ، باب اجلاء الیھود من المدینۃ ، حدیث رقم ۱۳۸۸ ؛ مسند احمد، باقی مسند الانصار ، حدیث رقم ،۲۵۱۴۸
۳۳۔ غامدی ، قانون جہاد ، ص ۲۴۱۔۲۴۲ اور ۲۶۶۔۲۷۰ 
۳۴۔ سورۃ التوبۃ ، آیت ۱۴ ۔ اس رائے کی تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے : مولانا امین احسن اصلاحی ، تدبر قرآن، (لاہور : انجمن خدام القرآن ، ۱۹۷۸ ء) ، ج ۲، ص ۶۹۱۔۶۹۸ اور ۷۲۷ ۔ ۷۲۹ ۔ نیز دیکھئے ج ۳ ، ص ۵۵۸ ۔ ۵۶۴ ۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھے : جاوید احمد غامدی ، میزان ، (لاہور : دار الاشراق ، ۱۹۸۵ ء) ، حصۂ اول ،مقالہ ’’نبی اور رسول ‘‘ ، ص ۹ ۔ ۳۰ 
۳۵۔ مثال کے طور پر دیکھئے : مولانا فضل محمد ، دعوت جہاد ۔ فضائل ، مسائل ، واقعات ، (کراچی : بیت الجہاد ، ۱۹۹۹ء) ، ص۳۹۳۔۳۹۸؛ حافظ مبشر حسین لاہوری ، اسلام میں تصور جہاد اور دور حاضر میں عمل جہاد ، (لاہور: دعوت و اصلاح سنٹر ، ۲۰۰۳ء)، ص ۶۶ ۔۷۲ 
۳۶۔ The Muslim Conduct of State, p 156 ، الجہاد فی الاسلام ، ص ۱۰۴ تا ۱۷
۳۷ ۔ المبسوط ، ج ۱۰ ، ص ۱۰۲ ؛ محمد بن احمد بن عرفۃ الدسوقی ، حاشیۃ علی الشرح الکبیر ، ( القاہرۃ : دارلفکر ، ۱۹۳۴ء ) ، ج ۲ ، ص ۱۰۲ ؛ محمد بن علی بن محمد الشوکانی ، نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار ، (القاہرۃ : دار الکتب العربیۃ ، ۱۹۷۸ء) ، ج ۷ ، ص ۲۳۲ 
۳۸۔ سورۃ المآئدۃ : آیت ۵۱ 
۳۹۔ سورۃ المجادلۃ ، آیت ۲۲ 
۴۰۔ سورۃ البقرۃ ، آیت ۱۲۰ 
۴۱۔ سورۃ الممتحنۃ ، آیت ۴ 
۴۲۔ جناب جاوید احمد غامدی نے اس رائے کا اظہار اپنے ایک انٹرویو میں کیا (’’اشراق ‘‘، نومبر ۲۰۰۱ء)۔ نیز دیکھئے : مولانا ابو الکلام آزاد ، ترجمان القرآن ، ج ۲ ، ص ۱۴۵۔۱۴۶ 
۴۳۔ مولانا مقصود الحسن فیضی ، اہل کفر کے ساتھ تعلقات ؟ وفاداری یا بیزاری اور اسلامی تعلیمات ، (لاہور : نور اسلام اکیڈمی، ۲۰۰۳ء)، ص ۶۵ ۔۷۶ 
۴۴۔ ایضاً ، ص ۱۷ ۔ ۲۴ 
۴۵۔ سید مودودی کی رائے یہ ہے کہ اسلام اور کفر کے درمیان نظریاتی سطح پر کشمکش تو دائمی اور ابدی ہے لیکن یہ کشمکش مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان جنگ کو مستلزم نہیں ہے ۔ (سود ، ص ۲۹۶ ۔ ۲۹۹) 
۴۶۔ الزحیلی ، آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی ، ص ۱۳ اور ۱۲۴ ۔۱۲۸ ؛ مولانا فضل محمد ، دعوت جہاد ، ص ۳۹۳۔ ۳۹۸؛ مبشر لاہوری ، اسلام میں تصور جہاد ، ص ۶۶ ۔۷۲ 
۴۷۔ شمس الدین محمدبن محمد الخطیب الشربینی ، مغنی المحتاج الی شرح المنہاج ،(بیروت :مکتبۃ الحلبی ،۱۹۳۳ء) ، ج ۴ ، ص ۲۲۳؛ ابو الولید محمدبن احمد ابن رشد ، بداےۃ المجتہد و نہایۃ المقتصد ، (الریا ض: مکتبۃ مصطفی باز ، ۱۹۹۵ء ) ، ج ۱ ، ص ۳۷۱ 
۴۸۔ ابن رشد ، بداےۃ المجتہد ، ج ۱ ، ص ۳۷۱ ؛ کمال الدین محمد ابن الہمام الاسکندری ، فتح القدیرعلی الہدایۃ شرح بدایۃ المبتدی، (القاہرۃ : دارالکتب العربیۃ ، ۱۹۷۰ء ) ، ج ۴ ، ص ۲۹۱ ؛ سحنون عبد السلام بن سعید بن حبیب التنوخی ،المدونۃ الکبری، (القاہرۃ ، دارالباز ، ۱۳۲۳ ھ) ، ج ۳، ص ۶ ؛ تقی الدین ابن شہاب الدین ابن تیمیۃ ، رسالۃ القتال، (دمشق : مطبعۃ السنۃ المحمدیۃ ، ۱۹۴۹ء) ، ص۱۱۶ 
۴۹۔ The Muslim Conduct of State, p 181 ؛ الجہاد فی الاسلام ، ص ۲۴۷۔۲۴۶؛ آثار الحرب ، ص ۱۴۹ ۔ ۱۵۱ 
۵۰۔ سورۃ النسآء ، آیت ۷۵؛ سورۃ الانفال ، آیت ۷۲
۵۱۔ مودودی ، الجہاد فی الاسلام ، ص ۷۷ ۔۸۰ 
۵۲۔ ماہنامہ ’’ترجمان القرآن ‘‘لاہور ،جون ۱۹۴۸ء ، ص ۶۵ تا ۶۷ ۔ سید مودودی نے سورۃ الانفال آیت ۷۲ کی تفسیر میں اس سے کچھ مختلف رائے ظاہر کی ہے ۔ (تفہیم القرآن ، (لاہور : مکتبۂ تعمیر انسانیت ، ۱۹۷۸ء ) ، ج ۲ ، ص ۱۵۳ ۔۱۵۵ ) 
۵۳۔ سفیان ثوری کی طرف یہ قول منسوب کیا گیا ہے کہ وہ عام حالات میں جہاد کو مندوب (سنت) سمجھتے تھے ۔ ان کا استدلال ان آیات و احادیث سے تھا جن میں جہاد کے لیے نہ جانے والوں کے لیے بھی اجر کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ (مثلاً سورۃ النسآء ، آیت ۹۵ ) اس کے برعکس سعید بن المسیب کا موقف یہ تھا کہ جہاد فرض عینی ہے ۔ وہ ان آیات و احادیث سے استدلال کرتے تھے جن میں جہاد کے لیے نہ جانے والوں کو سخت وعید سنائی گئی ہے ۔ (مثلاً سورۃ التوبۃ ، آیت ۳۸ ۔ ۳۹ ) فقہائے امت کی اکثریت کا موقف یہ رہا ہے کہ جہاد عام حالات میں فرض کفائی ہے اور بعض اوقات یہ فرض عینی میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے : برہان الدین المرغینانی ، الہدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی ،کتاب السیر ، (بیروت : دار الفکر ، تاریخ ندارد) ، ج ۲ ، ص ۳۷۸ ؛ شربینی ، مغنی المحتاج ، ج ۴ ، ص ۲۰۹
۵۴۔ فرض کے مفہوم کی وضاحت کے لیے دیکھئے : ابو حامد الغزالی ، المستصفیٰ من علم الاصول ، (بیروت : دار احیاء التراث العربی ، تاریخ ندارد ) ، ج ا ، ص ۶۷ ۔۷۰
۵۵۔ محمد امین بن عبد العزیز ابن عابدین الشامی، رد المحتار علی الدر المختار ، (القاہرۃ :دار الفکر ، ۱۹۶۶ء) ، ج ۳ ، ص ۲۰۴ ؛ ابن الہمام ، فتح القدیر ، ج ۴ ، ص ۲۸
۵۶۔ تفصیل کے لیے دیکھئے : 
Michael Akehurst, The Use of Force to Protect Nationals Abroad, (1976/77) 5 International Relations 3; Dixon, International Law, pp 307-08. 
۵۷۔ مذکورہ دفعہ میں دفاع کی صورت میں طاقت کے استعمال پر دو شرائط عائد کی گئی ہیں ۔ اولاً : کسی ملک پر فوجی حملہ ہو ۔ گویا اقتصادی ناکہ بندی یا طاقت کے استعمال کی دھمکی کی صورت میں حق دفاع حاصل نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے لیے باقاعدہ فوجی حملہ ہونا ضروری ہے ۔ ثانیاً : حق دفاع کے تحت طاقت اس وقت تک استعمال کی جاسکے گی جب تک سلامتی کونسل اس معاملے پر کاروائی شروع نہ کرے کیونکہ اس کے بعد ہر قسم کی کاروائی کا اختیار سلامتی کونسل کو حاصل ہوجاتا ہے ۔ 

۵۸۔

 D. J. Harris, Cases and Materials on International Law, (London: Sweet & Maxwell, 1991) pp 861-68.

۵۹۔ تفصیل کے لیے دیکھئے : 
Thomas M. Franck, When, If Ever, States May Use Force without Prior Security Council Authorization?, SJICL (2000), 4, 371-76; N. W. White, The Legality of Bombing in the Name of Humanity, JSCL (2000), vol. 5, no. 1, 27-43; Ian Brownlie, Humanitarian Intervention, in J. N. Moore (ed.), Law and Civil War in the Modern World, (New York: John Hopkins, 1974); R. Lillich, Forcible Self-help by States to Protect Human Rights, (1984) 2, Michigan Law Review, 1620. 
۶۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بھائی کی مدد کرو ، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔ صحابہ نے پوچھا کہ ظالم کی مدد کیسے کریں گے ؟ آپ نے جواب دیا کہ اسے ظلم سے روک کر ۔ (بخاری ، کتاب المظالم و الغصب ، حدیث رقم ۲۲۶۴؛ مسلم ، کتاب البر و الصلۃ و الادب ، حدیث رقم ۴۶۸۱) 
۶۱۔ سورۃ المآئدۃ ، آیت ۲ 
۶۲۔ احسان الحق شہباز صاحب کا مقالہ زیر عنوان ’’جہاد اور اذن حکومت ‘‘ ، مقالات جہاد ، مرتبہ سیف اللہ خالد ، (لاہور: دارالاندلس ، ۲۰۰۳ء) ، ص ۸۱۔۹۷
۶۳۔ غامدی ، قانون جہاد ، ص ۲۴۳۔۲۴۵ 
۶۴۔ مبشر لاہوری ، اسلام میں تصور جہاد ، ص ۱۷۷ ۔ ۱۸۶ اور ۲۵۶۔۲۶۰
۶۵۔ غامدی، قانون جہاد ، ص ۲۷۰۔۲۷۲
۶۶۔ محمد مشتاق احمد ، عصر حاضر میں جہاد سے متعلق مسائل ، ماہنامہ ’’الحق‘‘ ، اکوڑہ خٹک ، جون تا اگست ۲۰۰۵ ء 
۶۷۔ امام سمرقندی نے کئی سو سال پہلے اس حقیقت کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے : و لا ینبغی للغزاۃ أن یفر واحد من اثنین منھم ۔ و الحاصل أن الأمر مبنی علی غالب الظن ۔ فان غلب فی ظن المقاتل أنہ یغلب و یقتل فلا بأس بأن یفر منھم۔ و لا عبرۃ بالعدد ، حتی ان الواحد اذا لم یکن معہ سلاح فلا بأس بأن یفر من اثنین معھما السلاح أو من الوحد الذی معہ السلاح ۔[مجاہدین کے لیے یہ مناسب نہیں کہ دو دشمنوں کے مقابلے سے ایک مجاہد فرارہو جائے ۔ بحث کا حاصل یہ ہے کہ معاملہ غالب گمان پر مبنی ہے ۔ پس اگر مجاہد کا غالب گمان یہ ہے کہ وہ مغلوب ہوجائے گا اور قتل کردیا جائے گا تو فرار ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ اور اس سلسلے میں عدد کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، یہاں تک کہ ایک نہتا مجاہد اگر دو مسلح دشمنوں یا ایک ہی مسلح دشمن سے فرار ہوجائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہوگی ۔] تحفۃ الفقہاء ، (القاہرۃ : دار الفکر ، ۱۹۳۳ء ) ، ج ۳، ص ۱۱۳ 
۶۸۔ مثال کے طور پر دیکھئے : وہبۃ الزحیلی ، آثار الحرب ، ص ۶۷۵
۶۹۔ خدوری ، مقدمۃ علی کتاب السیر من کتاب الاصل ، ص ۲۲۔ ۳۰ 
۷۰۔ الزحیلی نے یہ رائے اختیار کی ہے ۔ (آثار الحرب ، ص ۶۷۵ ۔ ۶۸۰ )
۷۱۔ ابن قیم الجوزیہ نے شافعی اور حنبلی مسالک میں یہ دونوں رائیں نقل کی ہیں اور خود جواز کے قول کو ترجیح دی ہے ۔ (احکام اہل الذمۃ ، ج ۱ ، ص ۳۳۶ ۔ ۳۴۴)
۷۲۔ امام محمد بن ادریس الشافعی ، الام ، (القاہرۃ : المطبعۃ الامیریۃ ، ۱۳۲۱ ھ ) ، ج ۴ ، ص ۱۱۰؛ شوکانی ، نیل الاوطار ، ج ۸، ص ۴۹ ؛ ابن قدامہ ، المغنی ، ج ۸ ، ص ۴۶۰
۷۳۔ الام ، ج ۴ ، ص ۱۱۱ ؛ ابوزکریا یحییٰ بن شرف النووی ، المجموع شرح المہذب ، (القاہرۃ : دار الفکر ، ۱۹۶۱ء )، ج ۲۱ ، ص ۲۰۰ 
۷۴۔ ابن قدامہ ، المغنی ، ج ۸ ، ص ۴۶۰
۷۵۔ ابو بکر بن مسعود الکاسانی ، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ، (کوئٹہ : مکتبۃ رشیدیۃ ، ۱۹۹۹ء ) ، ج ۶ ، ص ۷۷ ؛ ابن الہمام ، فتح القدیر ، ج ۴ ، ص ۲۹۳ ؛ حاشیۃ الدسوقی ، ج ۲ ، ص ۱۹۰ 
۷۶۔ بدائع الصنائع ، ج ۶ ، ص ۷۷
۷۷۔ احکام اہل الذمۃ ، ج ۱ ، ص ۳۳۶ ۔ ۳۴۴
۷۸۔ معاہدات کے متعلق میثاق ویانا ۱۹۶۰ ء دفعہ ۵۶ 
۷۹۔ میثاق ویانا ، دفعہ ۶۵ ۔ تاہم اب بھی ماہرین کی معتد بہ تعداد اس کی قائل ہے کہ امن کا معاہدہ غیرلازم ہوتا ہے اور ایک فریق کی جانب سے نقض کی صورت میں فریق مخالف کو اقدام سے پہلے اعلان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے :
Linos Alexander Sicilianos, The Relationship between Reprisals and Denunciation or Termination of a Treaty, EJIL (1993) 341-359; Benedetto and Angelo Labella, Invalidity and Termination of Treaties: The Role of National Courts, European Journal of International Law (http://ejil.org/journal/Voll/No1/art3.html). 
۸۰۔ سید مودودی ، ماہنامہ ’’ترجمان القرآن ‘‘لاہور ،جون ۱۹۴۸ء ، ص ۶۵ تا ۶۷ 
۸۱۔ مثال کے طور پر دیکھئے :مولانا مدرار اللہ مدرار ، قول فیصل ، (مردان : ادارۂ اشاعت مدرار العلوم ، ۱۹۶۳ء ) ، ص ۱۹ ۔ یہ کتابچہ سید مودودی کے موقف کی تردید میں لکھا گیا تھا اور اس میں بہت سے دیگر علماء کرام کے تائیدی بیانات بھی شامل کیے گئے ہیں ۔ 
۸۲۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ ابو بصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو روکیں یا اہل مکہ کے حوالے کردیں ۔ بلکہ انہوں نے معاہدۂ حدیبیہ سے وہ شق ہی ختم کرنے کی درخواست کی جس کے تحت مدینہ منورہ کے مسلمان پابند تھے کہ وہ مکہ سے آنے والوں کو واپس اہل مکہ کے حوالے کردیں ۔ اہل مکہ نے اس شق کو ختم کرنے کی درخواست اس لیے کی کہ مسلمان مدینہ منورہ میں رہیں گے تو اہل مکہ کے قافلوں پر حملے نہیں کرسکیں گے ۔ یوں ابو بصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں اور ان تمام مسلمانوں کے لیے ، جو اہل مکہ کے مظالم سہہ رہے تھے ، مدینہ منورہ آنے کی راہ کھل گئی اور معاہدۂ حدیبیہ کی جس شرط پر مسلمانوں کو سب سے زیادہ خلش محسوس ہورہی تھی اسے خود اہل مکہ نے ختم کردیا ۔ 
۸۳۔ ابن قیم الجوزیہ حنبلی فقیہ تھے لیکن وہ بھی یہاں حنفی فقہاء کی رائے کے ساتھ موافقت اختیار کرتے ہوئے ابو بصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے متعلق کہتے ہیں کہ ’’ ماکانوا تحت قھر‘‘۔ (مختصر زاد المعاد ، (لاہور : مطبعۃ السنۃ المحمدیۃ ، تاریخ ندارد ) ص ۲۱۵ ) 
۸۴۔ صحیح مسلم ، کتاب الجہاد و السیر ، حدیث رقم ۳۲۶۱ ؛ سنن الترمذی ، کتاب السیر ، حدیث رقم ۱۵۴۲ 
۸۵۔ مثال کے طور پر امام محمد بن الحسن الشیبانی نے امام ابوحنیفہ کا یہ اصول نقل کیا ہے کہ باغیوں کے سر کاٹ کر شہروں میں نہ پھرائے جائیں خواہ مخالفین ایسا کریں ۔ اس اصول کی ایک وجہ سرخسی نے یہی بیان کی ہے مسلمانوں کو مثلۃ کے ارتکاب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے ۔ لانہ مثلۃ ، و المثلۃ حرام ۔ وقد نھی رسول اللہ ﷺ عن المثلۃ و لو بالکلب العقور۔ و لانہ لم یبلغنا ان علیا رضی اللہ عنہ صنع ذلک فی شیء من حروبہ ، و ھو المتبع فی الباب ۔ و لما حمل رأس یباب البطریق الی ابی بکر رضی اللہ عنہ کرھہ ۔ فقیل لہ ان الفرس و الروم یفعلون ذلک ۔ فقال لسنا من الفرس و لا الروم ، یکفینا الکتاب و الخبر ۔ [کیونکہ یہ مثلہ ہے ، اور مثلہ حرام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باؤلے کتے کے مثلے سے بھی منع فرمایا ہے ۔ اور اس لیے بھی کہ ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایسی کوئی روایت نہیں ملی کہ انہوں نے اپنی جنگوں میں ایسا کبھی کیا ہو ، اور اس باب کے احکام کے لیے ماخذ انہی کا طرز عمل ہے ۔ اسی طرح جب یباب بطریق کا سر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا تو آپ نے اسے ناپسند فرمایا ۔ جب کہا گیا کہ اہل روم و فارس ایسا کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ہم نہ اہل روم ہیں اور نہ اہل فارس ، ہمارے لیے کتاب اور سنت ہی کافی ہے ۔ ] المبسوط ، ج ۱۰ ، ص ۱۳۸
۸۶۔ سورۃ محمد ، آیت ۴ 
۸۷۔ تیسرے جنیوا معاہدے کی دفعہ ۱۱۸میں قرار دیا گیا ہے کہ ’’جیسے ہی جنگ کا خاتمہ ہو‘‘ ہو دونوں فریق جنگی قیدیوں کو رہا کریں گے۔ اس معاہدے میں یہ نہیں بتایاگیا کہ ’’جنگ کا خاتمہ‘‘ کب ہوگا؟ مثلاً امریکہ نے اپریل ۲۰۰۳ء میں عراق پر قبضہ کیا ہے مگر ابھی تک وہ خود کو جنگی قیدیوں کے رہا کرنے کے پابند نہیں سمجھتے ۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ امریکی قانون کے تحت امریکی صدر ہی اس بات کا اختیار رکھتا ہے کہ وہ جنگ کے شروع ہونے اور اس کے ختم ہونے کا اعلان کرے ، اور ابھی امریکی صدر نے جنگ کے خاتمے کا اعلان نہیں کیا ! 
۸۸۔ المدونۃ ، ج ۳ ، ص ۶ ۔ ۷ ؛ المغنی ، ج ۸ ، ۴۷۷ ؛ الام ، ج ۴ ، ۱۵۷ 
۸۹۔ تفصیل کے لیے دیکھئے : محمد منیر ، احکام المدنیین فی الشریعۃ الاسلامیۃ و القانون الدولی الاسلامی۔ دراسۃ مقارنۃ ، (غیر مطبوعہ مقالہ برائے ایل ایل ایم شریعہ و قانون ، کلیۂ شریعہ و قانون ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ، ۱۹۹۶ء ) ، ص ۴۸ و مابعد 
۹۰۔ یہ رائے اسامہ بن لادن نے ایک انٹرویو میں پیش کی ۔ یہ انٹرویو مشہور صحافی حامد میر نے مبینہ طور پرافغانستان پر امریکی حملے کے دوران میں لیا تھا ۔ اور روزنامہ ’’اوصاف‘‘ اسلام آباد اور انگریزی روزنامہ ’’ڈان‘‘ اسلام آباد میں ایک ہی روز (نومبر ۲۰۰۱ء ) شائع ہواتھا ۔ 

۹۱۔

 Advisory Opinion on the Legality of the Use of Nuclear Weapons (WHO Case), ICJ 1996 Rep 66. 
۹۲۔ المبسوط ، ج ۱۰ ، ص ۷۸ 
۹۳۔ بین الاقوامی قانون کے تحت اگر کوئی شخص شہری یا غیر مقاتل کے بھیس میں آکر حملہ کرے تو اسے Perfidy (غدر) کہاجاتا ہے اور یہ جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے ۔ Perfidy کی دیگر شکلوں میں یہ شامل ہیں : صلح کا پرچم بلند کرکے مذاکرات کرنے کا دکھاوا اور پھر موقع پاکر حملہ ؛ ہتھیار ڈالنے کا دکھاوا ؛ زخم یا تکلیف کی وجہ سے معذوری کا دکھاوا ؛ اقوام متحدہ ، ہلال احمر یا کسی غیر جانبدار ملک کے پرچم یا نشانات استعمال کرنا وغیرہ ۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے : جنیوا معاہدات کا پہلا اضافی پروٹوکول ، دفعات ۳۷ ۔ ۳۹ اور ۴۴۔ ) 
۹۴۔ بخاری ، کتاب الجھاد ، حدیث رقم ۲۸۰۴ 
۹۵۔ المبسوط ، ج ۱۰ ، ص ۶۰ ۔ 
۹۶۔ بین الاقوامی قانون کے تحت شہریوں اور غیر مقاتلین کو Internees کے طور پر پابند کیاجاسکتا ہے ۔ (تفصیلات کے لیے دیکھئے : چوتھے جنیوا معاہدات کی دفعات ۴۱ ۔ ۴۳ اور ۶۸ و ۷۸ ۔۱۳۵ ) 
۹۷۔ چاروں جنیوا معاہدات کی مشترک دفعہ ۳ ؛ چوتھے جنیوا معاہدے کی دفعہ ۳۴ اور ۱۴۷ ؛ پہلے اضافی پروٹوکول کی دفعہ ۷۵ 
۹۸۔ مودودی ، تفہیم القرآن ، ج ۵ ، ص ۱۱۔۱۸
۹۹ ۔ فخر الدین الرازی ، مفاتیح الغیب ، (دمشق : المطبعۃ الخیریۃ ، ۱۹۶۷ء) ، ج ۷، ص ۳۶۳
۱۰۰ ۔ غلام احمد پرویز ، غلام اور لونڈیاں ، (لاہور : طلوع اسلام ٹرسٹ ، ۱۹۸۴ء) ۔ 
۱۰۱ ۔ سرخسی ، شرح السیر الکبیر ، (القاھرۃ : دار الکتب العربیۃ ، ۱۹۸۴ء) ، ج ۲ ، ص ۱۶۹ 
۱۰۲ْ ۔ جلال الدین السیوطی ، الاتقان فی علوم القرآن ، (کراچی : دار الاشاعت ، ۱۹۸۶ء) ، ج ۲ ، ص ۲۱۔۲۲
۱۰۳ ۔ ابو جعفر محمد بن جریر الطبری ، جامع البیان ، (القاھرۃ : دار الفکر، ۱۹۶۶ء ) ، ج ۲۶ ، ص ۲۴
۱۰۴ ۔ غامدی ، قانون جہاد ، ص ۲۷۲۔ ۲۷۶
۱۰۵ ۔ الزحیلی ، آثار الحرب ، ص ۴۴۲۔۴۴۵ 
۱۰۶ ۔ ایضاً ، ص ۴۳۶ ؛ الجہاد فی الاسلام ، ص ۳۰۶۔۳۱۰ 
۱۰۷ ۔ اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے دیکھئے : 
Muhammad Mushtaq Ahmad, Use of Force for the Right of Self-determination in Shari'ah and International Law - A Comparitive Study, Unpublished LLM Thesis, Faculty of Shariah and law, International Islamic University Islamabad, 2006, pp 218-226. 
۱۰۸۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی دفعہ دو عدالتیں اس مقصد کے لیے قائم کی گئیں ۔ ایک نورمبرگ میں جرمن نازی فوجیوں کے خلاف اور ایک ٹوکیو میں جاپانی فوجیوں کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے ۔ پچھلی صدی کی آخری دہائی میں دو مزید عارضی عدالتیں قائم کی گئیں ۔ ایک یوگوسلاویہ میں اور ایک روانڈا میں ۔ بالآخر ۱۹۹۸ء میں معاہدۂ روم پر دستخط کیے گئے اور ایک مستقل عالمی فوجداری عدالت (International Criminal Court)قائم کی گئی ۔ امریکہ نے اب تک معاہدۂ روم پر دستخط نہیں کیے ۔ 
۱۰۹۔ غامدی ، قانون جہاد ، ص ۲۴۳۔۲۴۵ 
۱۱۰۔ ابن قدامہ نے ہجرت کے وجوب کے سلسلے میں دو عوامل ذکر کیے ہیں : کیا مسلمانوں کو اپنے دین پر عمل کی اجازت ہے ؟ کیا مسلمان وہاں سے ہجرت کرسکتے ہیں ؟ پھر وہ تین صورتیں ذکر کرتے ہیں ۔ اولاً : اگر مسلمانوں کو دین پر عمل کرنے کی اجازت نہ ہو اور وہ ہجرت کرسکتے ہوں تو ان پر ہجرت واجب ہوجاتی ہے ۔ ثانیاً : اگر ان کو دین پر عمل کرنے کی اجازت نہ ہومگر وہ ہجرت نہ کرسکتے ہوں تو ان پر ہجرت نہ واجب ہوتی ہے اور نہ مندوب ۔ ثالثاً : اگر ان کو دین پر عمل کرنے کی اجازت ہو اور وہ ہجرت کرسکتے ہوں تو ان پر ہجرت واجب نہیں ہوتی مگر مندوب ہوتی ہے ۔ (المغنی ، ج ۸ ، ص ۳۳۶ ) ایک چوتھی صورت بھی ممکن ہے جو ابن قدامہ نے نہیں ذکر کی ۔ اگر ان کو دین پر عمل کرنے کی اجازت ہو اور وہ ہجرت نہ کرسکتے ہوں یا انہیں ہجرت کی اجازت نہ ہو تو ایسی صورت میں کیا حکم ہوگا ؟ 
۱۱۱۔ سورۃ النحل ، آیت ۱۲۶؛ سورۃ الشوری ، آیت ۳۹۔۴۱ 
۱۱۲۔ ڈاکٹر حمید اللہ کہتے ہیں کہ ریاستوں کی خودمختاری درحقیقت افراد کی آزادی کی وسیع تر شکل ہے ۔ (The Muslim Conduct of State, p 71) کیا اس بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ریاستوں کا حق دفاع بھی در اصل افراد کے حق دفاع کی وسیع شکل ہے ؟ جس طرح افراد کی آزادی ریاست کی خودمختاری میں تبدیل ہوجاتی ہے اسی طرح افراد کا حق دفاع بھی وقت کے ساتھ ساتھ ریاست کے حق دفاع میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ اس دوران میں مختلف مراحل آتے ہیں اور ان میں ایک اہم مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ افراد مل کر اپنے انفرادی حق دفاع کو مشترکہ حق دفاع کی شکل دے دیتے ہیں ۔ وہ منظم ہو کر ایک گروہ کی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور ایک پر حملے کو سب پر حملہ تصور کرتے ہیں ۔ غیر ملکی تسلط کے خلاف مزاحمت کرنے والی تنظیموں کا اصل کام یہی ہے۔ 
۱۱۳۔ سنن الترمذی ، کتاب الدیات ، حدیث رقم ۱۳۴۰ و ۱۳۴۱ ؛ سنن النسائی ، کتاب تحریم الدم ، حدیث رقم ۴۰۲۵ ؛ مسند احمد، باقی مسند المکثرین ، حدیث رقم ۸۰۰۹ ۔ 

۱۱۴۔

 Mushtaq Ahmad, Use of Force for the Right of Self-determination, pp 128-35
۱۱۵۔ اس مقصد کے لیے ہم نے امریکہ کے Federal Statutes ، برطانیہ کے Terrorist Act 2000 ، اسرائیل کےPrevention of Terrorism Ordinance no. 33 ، بھارت کے Prevention of Terrorism Act (POTA) 2002 اور پاکستان کے Anti-Terrorism Act 1997 کی دفعات کا موازنہ کیا۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے : 
Mushtaq Ahmad, Use of Force for the Right of Self-determination, pp 126-28. 
۱۱۶۔ یہ تعریف برائن جنکینز نے پیش کی ہے ۔ دیگر تعریفات کے دلچسپ موازنے کے لیے دیکھئے : 
Alex Obot-Odora, Defining International Terrorism, E - Law, Murdoch University Electronic Journal of Law, vol. 6, no. 1, March 1999. 
۱۱۷۔ اس موضوع پر راقم کا جناب جاوید احمد غامدی کے ساتھ ایک مکالمہ ہوا ۔ نومبر ۲۰۰۱ء میں جاوید صاحب کا ایک انٹرویو قومی اخبارات میں شائع ہوا جس میں انہوں نے افغانستان پر امریکی حملے کو دہشت گردی ماننے سے انکار کیا اور چند دیگر متعلقہ امور پر بھی اظہار خیال کیا ۔ جاوید صاحب کے ساتھ نیازمندانہ تعلق کی وجہ سے راقم نے انہیں ایک خط لکھا جو مضمون یا مقالے کی صورت میں نہیں تھا ، لیکن جاوید صاحب کے ایک ہونہار شاگرد منظور الحسن صاحب ، جو میرے قریبی دوست بھی ہیں ، نے اس خط کے بعض مندرجات کو ’’اہم تنقید‘‘ قرار دیتے ہوئے ماہنامہ ’’اشراق‘‘ (جنوری ۲۰۰۲ء) میں اس پر تبصرہ پیش کیا ۔ راقم کو اس پر تعجب بھی ہوا اور افسوس بھی کہ یہ خط چھاپے جانے کے لیے نہیں تھا ، اور اگر چھاپنا ہی تھا تو پھر پورا چھاپ دیتے ۔ ادھر ادھرسے چند اقتباسات پیش کرکے ان پر تبصرہ راقم کو نامناسب لگا ۔ اس کے بعد راقم نے ’’دہشت گردی کی تعریف‘‘ کے موضوع پر جاوید صاحب کی رائے پر تفصیلی تنقید پیش کی جو ’’اشراق‘‘ (مارچ ۲۰۰۲ء) میں چھپ گئی ۔ اس کے ساتھ ہی اس مضمون پر منظور الحسن صاحب کی تنقید بھی چھپی تھی ۔ راقم نے محسوس کیا کہ کئی اہم امور پر منظور صاحب نے بحث سے پہلو تہی کی ہے اس لیے اس پر ایک اور تنقیدی مضمون لکھ کر ان کو بھیج دیا لیکن یہ مضمون انہوں نے شائع نہیں کیا اور یوں یہ مکالمہ ادھورا ہی رہا ۔ اس مکالمے کا ایک اہم موضوع یہ تھا کہ جاوید صاحب کے نزدیک مقاتلین پر صرف غیر علانیہ حملوں کو ہی دہشت گردی کہا جاسکتاہے جبکہ راقم کے نزدیک بعض صورتوں میں مقاتلین پر علانیہ حملہ بھی دہشت گردی متصور ہوسکتا ہے ۔ 
۱۱۷ ۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے : 
Bard E. O'Neill, Insurgency and Terrorism - Inside Modern Revolutionary Warfare, (New York: Brassey's, 1990); Mao Tse-tung, On Guerrilla Warfare, Tr. Samuel B. Griffith, (New York: Fredrick A. Praeger, 1962); Edward E. Rice, Wars of the Third Kind, (Berkely: University of California Press, 1988). 
۱۱۹ ۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے : 
Mushtaq, Use of Force for the Right of Self-determination, pp 88-97 and 121-35.

سید مدنی، تجدد پسندی اور قدامت پسند حلقے

پروفیسر میاں انعام الرحمن

ماہنامہ ’الشریعہ‘ فروری ۲۰۰۷ کے شمارے میں ہمارے شائع ہونے والے مضمون ’’ سید حسین احمد مدنی ؒ اور تجدد پسندی ‘‘ پر قدامت پسند حلقے کی طرف سے شدید منفی ردِ عمل سامنے آیا ہے ۔ مضمون کی ابتدائی سطروں ہی میں ہم نے لکھا تھا کہ’’ اگر مذہبی اصطلاح ’’ اجماع ‘‘ کو مستعار لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اکبر کی ’’ تجدد پسندی‘‘ کے خلاف مسلمانوں کے قدامت پسند حلقے کا اجماع ہو چکا ہے ‘‘۔ہمیں یہ قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ قدامت پسند، علمی اعتبار سے اس حد تک زوال کا شکار ہو چکے ہیں کہ ان کے مفتی صاحبان بھی ’’ مستعار ‘‘ کے معنی جاننے سے قاصر ہیں ۔ مفتی رشید احمد صاحب علوی ’’ حضرت مدنی ؒ اور تجدد پسندی ‘‘ کے زیرِ عنوان رقم طراز ہیں :
’’ اور حقیقت حال تو یہ ہے کہ نہ اکبر کی تجدد پسندی پر کوئی اجماع ہے اور نہ حضرت مدنی نے کسی اجماع کی مخالفت کی۔ یہ صرف کور باطنی کی وجہ سے یا نگاہ حقیقت بین سے محروی کی وجہ سے اور اجماع کے مفہوم سے نا آشنائی کی وجہ سے یا اس بات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے کہ تاریخ میں اجماع نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ ایک فقہی اصطلاح ہے‘‘ (الشریعہ مارچ ۲۰۰۷ ، ص ۳۸)
مفتی رشید صاحب جیسے قدامت پسند یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم نے سید مدنی ؒ کو تجدد پسند وں میں شمار کیا ہے۔ انھیں یہ غلط فہمی ایک تو اجماع و تفر دکی اصطلاحات کے مدرسی معانی میں الجھنے کی وجہ سے ہوئی ہے اور اس پر مستزاد ایسے لوگ بحث کے پس منظر سے پوری طرح واقف نہیں ہیں ۔ الشریعہ دسمبر ۲۰۰۶ کے شمارے میں ’’ قدامت پسندوں کا تصورِ اجتہاد : ایک تنقیدی مطالعہ ‘‘ کے عنوان سے ہمارا مضمون شائع ہوا تھا ، جس کے جواب میں الشریعہ جنوری ۲۰۰۷ کے شمارے میں ابوعمار زاہدالراشدی صاحب نے ’’ تجدد پسندوں کا تصورِ اجتہاد ‘‘ کے زیرِ عنوان قلم اٹھایا۔ ( خیال رہے کہ ’قلم اٹھانے‘ کا مطلب تحریر کرنا ہوتا ہے۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری محسوس ہوئی کہ ’ مستعار ‘ کے معنی سے نا واقف احباب کہیں ’قلم اٹھانے‘ پر بھی اعتراض نہ کر بیٹھیں) اپنے مضمون میں زاہد صاحب نے زیرِ بحث نکات کے بجائے اکبر اور اس کے اقدامات کو تجدد پسندی کا نام دے کر ہدفِ تنقید بنایا ۔ کیونکہ اکبر کے اقدامات پر قدامت پسند حلقے اکثرو بیشتر تنقید کرتے رہتے ہیں اس لیے ہم نے حضرت مدنی ؒ کا وہ مکتوب منظرِ عام پر لانا مناسب سمجھا جس میں تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی گئی تھی ( لہٰذا ، اس کا ہمارے اصل موقف سے، جو بہت واضح انداز میں دسمبر کے شمارے میں موجود ہے، براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا) ۔ اب کوئی بھی غیر جانبدار شخص ( جو لازمی طور پر اکابر پرست نہ ہو ) ، الشریعہ کے دسمبر ۲۰۰۶ ، جنوری، فروری ۲۰۰۷ کے شماروں کا مطالعہ کرکے حقیقت تک پہنچ سکتا ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قدامت پسند ہم سے وہ بات منسوب کر ہے ہیں جس کا ہمارے موقف سے دور کا بھی تعلق نہیں۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے 
اگر مفتی رشید صاحب، افتا و افترا کی قافیہ پیمائی کے بجائے علمی اسلوب میں قدامت پسندوں کے تصورِ اجتہاد کا دفاع کریں تو ہمیں یقیناًبہت خوشی ہو گی اور بہت سے لوگ جنہیں’’ مسلمان‘‘ ہوتے ہوئے بھی غوروفکر اور تنقید و تحقیق سے خواہ مخواہ کا خاص لگاؤ ہے ، مفتی صاحب کی مساعی جمیلہ کے نتیجے میں ’’ گمراہ ‘‘ ہونے سے بچ جائیں گے ۔ 
مفتی صاحب نے اپنے جوابی مضمون میں گلوبلائزیشن کی منفیت کی طرف بھی توجہ دلائی ہے ۔ بات پھر وہی ہے کہ ہم سے وہ بات منسوب کی جارہی ہے جس کا ہمارے موقف سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہم نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ ہم گلوبلائزیشن کی منفیت کے حامی ہیں۔ کیونکہ یہ بحث ایک خاص پس منظر میں ہو رہی تھی اس لیے طوالت کے خوف سے ہمارے لیے ممکن نہیں تھا کہ گلوبلائزیشن کے تمام پہلووں پر سیر حاصل بحث کرتے ۔ گلوبلائزیشن پر ہمارے موقف کی ایک جھلک الشریعہ مارچ ۲۰۰۷ کے شمارے میں ص ۳۳، ۳۴ ، پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔ تفصیل کے لیے ماہنامہ الشریعہ فروری/جولائی ۲۰۰۳ کے شمارے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ مفتی رشید احمد صاحب ’’تبلیغی جماعت ‘‘ پر ہمارے دانت تیز کرنے پر خاصے سیخ پا ہوئے ہیں ، حالانکہ ہم نے دانت ’’ تجدد پسندی ‘‘ پر تیز کیے تھے ۔ملاحظہ کیجیے :
’’ چونکہ قدامت پسندوں کے نزدیک تجدد پسندی کے خاص معنی ہیں ، اس لیے ان کی نظروں میں اکبری اقدامات جیسے مظاہر تو چبھ رہے ہیں ، لیکن اعتقاد ی دھند میں انھیں تجدد پسندی کی وہ لہر دکھائی نہیں دے رہی جو پوری دنیا میں مذہب کا وہ ایڈیشن متعارف کروا رہی ہے جسے کمیونسٹوں نے عوام کے لیے افیون قرار دیا تھا ۔ یہ لہر تبلیغ کے نام پر اٹھ رہی ہے اور فیملی سسٹم کو تباہ و برباد کر رہی ہے ‘‘ ( الشریعہ فروری۲۰۰۷، ص۳۱) 
چور کی ڈاڑھی میں تنکا کے مصداق، مفتی صاحب نے اس لہر کو تبلیغی جماعت پر محمول کیا ہے ۔ ہمارے لیے شکر کا مقام ہے کہ مفتی صاحب نے ہم پر تبلیغ کے منکر ہونے کا شوشہ نہیں چھوڑا ۔ موصوف نے غالباً یہ فقرہ بغور پڑھا ہے ’’ یہ لہر تبلیغ کے نام پر اٹھ رہی ہے‘‘۔ بہر حال ، تجدد پسندی کی اس لہر پرہم دوبارہ دانت تیز کرنا چاہیں گے ، کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ فطرت ، افراد کی غلطیوں سے اغماض کر لیتی ہے لیکن گروہوں کی غلطیوں کو معاف نہیں کرتی ۔اس لیے جو کام بھی گروہی سطح پر ہو ، اس پر ہر وقت کڑی نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ جہاں تک کسی ’جماعت‘ کے مثبت پہلو اور فائدے کا تعلق ہے تو قرآن کے مطابق فائدہ ’ شراب ‘ میں بھی ہے ۔ مفتی صاحب کی برہمی خود اس امر پر شاہد ہے کہ موصوف تبلیغ کے بجائے تبلیغی جماعت سے خاص قلبی تعلق رکھتے ہیں۔ اگر ان کا قلبی تعلق افراط و تفریط کا شکار نہ ہوتا ، تو وہ بخوبی جان لیتے کہ ہم نے ’’جماعت‘‘ پر دانت کیوں تیز کیے ہیں اور اس کا حضرت مدنی ؒ کی ’’ تجدد پسندی ‘‘ سے کیا تعلق ہے ؟ ( خیال رہے قدامت پسند ہی حضرت مدنی ؒ کو تجدد پسند قرار دینے پر مصر ہیں ، ہم نے کبھی انھیں تجدد پسند نہیں سمجھا ) ۔
مفتی رشید صاحب علوی نے علویت کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاشرے کی اکائی ’’افراد‘‘ کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ ہمیں فرد کی اہمیت اور معاشرے میں اس کے مقام سے قطعاً انکار نہیں ہے ۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ ہمارا موضوع فرد نہیں تھا ، ہم ایک خاص پس منظر میں بات کر رہے تھے ۔ اگر فرد کو لے کر بیٹھ جاتے تو بیٹھے ہی رہتے ۔ اگر مفتی صاحب کو اس موضوع سے دلچسپی ہے تو وہ ہمارا مضمون ’’ ارضی نظام کی آسمانی رمز‘‘ ماہنامہ الشریعہ جنوری فروری ۲۰۰۴ میں ملاحظہ کرسکتے ہیں اور چاہیں تو بات بڑھا بھی سکتے ہیں ۔ 
مفتی رشید احمد صاحب نے اپنے جوابی مضمون کا آغاز دو قومی نظریے جیسی ابحاث اور ان میں موجود تضاد کو نمایاں کرنے سے کیا ہے ۔ ان کے ’’ ذہنِ رسا‘‘ میں یقیناًاقبال ؒ کے وہ اشعار گھوم رہے ہیں جو اقبال ؒ نے ’’ قومیں اوطان سے بنتی ہیں ‘‘ کے جواب میں کہے تھے ۔ سوال یہ ہے کہ دو قومی نظریے کی بحث کا زیرِ نظر نکات سے کیا تعلق تھا کہ مفتی صاحب کو باقاعدہ زور شور سے نہ صرف اس کا ذکر کرنا پڑا بلکہ مضمون کا آغاز بھی دو قومی نظریے سے کرنا پڑا ؟ کیا وہ اقبال ؒ کے مداحوں کو بحث میں گھسیڑ کر اصل موضوع سے کنی کترانا چاہتے ہیں؟ جہاں تک دو قومی نظریے میں موجود تضاد کا تعلق ہے جس کا ذکر کر کے مفتی صاحب نے ہم سمیت الشریعہ کے تمام قارئین کی معلومات میں ’’ گراں قدر‘‘ اضافہ کیا ہے تو عرض ہے کہ اکثر احباب اس تضاد سے بخوبی واقف ہیں ۔ مفتی صاحب کے نزدیک تو یہ محض ’’تضاد ‘‘ہے جبکہ ہم جیسوں کے نزدیک یہ ایک ’’تاریخی حقیقت‘‘ ہے جو فسانے کا منہ چڑا رہی ہے۔ 

مکاتیب

ادارہ

(۱)
بردارمحترم حافظ حسن مدنی صاحب ، مدیر ماہنامہ ’محدث‘ لاہور
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
’محدث‘ کے مارچ ۲۰۰۷ کے شمارے میں ’’مسجد اقصیٰ صہیونیوں کے نرغے میں‘‘ کے زیر عنوان آپ کا تفصیلی اور معلوماتی اداریہ پڑھنے کو ملا اور اس بات پر خوشگوار حیرت ہوئی کہ میں نے ’الشریعہ‘ کے ستمبر/ اکتوبر ۲۰۰۳ اور اپریل/مئی ۲۰۰۴ کے شماروں میں شائع ہونے والی اپنی تفصیلی تحریروں میں شرعی زاویہ نگاہ سے اس معاملے کے جس بنیادی پہلو کی طرف اہل علم کی توجہ مبذول کرائی تھی، آپ کی تازہ تحریر میں اس کو تسلیم کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے حوالے سے ایک ایسا موقف اختیار کیا گیا ہے جو امت مسلمہ کے مروجہ جذباتی، غیر اخلاقی اور غیر شرعی موقف سے بالکل مختلف ہے اور جس سے، صورت حال کے واقعی تجزیے اور حکمت عملی کے بعض پہلووں سے قطع نظر، کوئی اصولی اختلاف غالباً نہیں کیا جا سکتا۔ میری پوری بحث کا حاصل یہی تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے تعمیر کردہ ہیکل سے، جسے قرآن مجید نے ’مسجد اقصیٰ‘ کے نام سے یاد کیا ہے، بنی اسرائیل کے حق تولیت کو ازروے شریعت منسوخ قرار دینے کا تصور اور اس کی بنیاد پر تقریباً ۱۵۰۰ فٹ لمبے اور ۱۰۰۰ فٹ چوڑے موجودہ احاطہ ہیکل (Temple Mount) کے پورے رقبے اور بالخصوص اس کے وسط میں موجود صخرۂ بیت المقدس اور اس پر اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان کے تعمیر کردہ ’قبۃ الصخرہ‘ کو بلاشرکت غیرے مسلمانوں کی ملکیت قرار دینے کا دعویٰ شرعی واخلاقی لحاظ سے درست نہیں، اس لیے مسلمانوں کو اپنا دعواے استحقاق تاریخی وواقعاتی بنیاد پر اس احاطے کی جنوبی دیوار کے ساتھ قائم اس مسجد تک محدود رکھنا چاہیے جہاں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فتح بیت المقدس کے موقع پر نماز ادا کر کے اسے مسلمانوں کی عبادت کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ (یہ مسجد خود سیدنا عمرؓ نے تعمیر نہیں فرمائی تھی، بلکہ بعد کے دور میں مسلمانوں کی تعمیر کردہ ہے۔ ابتدا میں اسے ’مسجد عمر‘ کا نام دیا گیا تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ ’مسجد اقصیٰ‘ ہی کے نام سے معروف ہو گئی جو ظاہر ہے کہ قرآن مجید کی ذکر کردہ ’مسجد اقصیٰ‘ یعنی حضرت سلیمان کی تعمیر کردہ مسجد سے مختلف ایک اصطلاح ہے) آپ نے اپنی تحریر میں اس بنیادی نکتے کو تسلیم فرماتے ہوئے لکھا ہے:
’’اس مسجد پر مسلمانوں کے استحقاق کی وجہ تاریخی طور پر یہ ہے کہ جب مسلمانوں نے اس مقام پر مسجد کو تعمیر کیا تھا تو اس وقت یہ جگہ ویران تھی۔ حضرت عمرؓ نے خود یہاں سے کوڑا کرکٹ صاف کر کے اس مسجد کو قائم کیا تھا۔ خلیفہ راشد حضرت عمرؓ کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ آپ جیسا عادل حکمران کسی اور قوم کی عبادت گاہ پر اسلامی مرکز تعمیر کر کے کسی دوسری قوم کا مذہبی حق غصب کریں گے۔‘‘ (محدث، مارچ ۲۰۰۷، ص ۵)
’’اگر یہود اس علاقے میں کوئی ہیکل تعمیر کرنا بھی چاہتے ہیں جس سے ان کے مذہبی جذبات وابستہ ہیں تو ا س کے لیے مسجد اقصیٰ کا انہدام کیوں ضروری ہے اور وہ عین اس مقام پر ہی کیوں تعمیر ہوتا ہے جہاں یہ مقدس عمارت موجود ہے؟ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں شمال مغربی حصہ اور دیگر بہت سے حصے بالکل خالی ہیں، وہاں وہ قبہ بھی ہے جس کے بارے میں اکثر مسلم علما کا موقف یہ ہے کہ اس قبہ صخرہ کی کوئی شرعی فضیلت نہیں، حتیٰ کہ حضرت عمرؓ نے یہاں نماز پڑھنا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔ یوں بھی یہود کے ہاں قبلہ کی حیثیت اس کو حاصل رہی ہے کیونکہ انھوں نے خیمہ اجتماع کو اپنا قبلہ بنایا ہوا تھا جو قبہ صخرہ کے مقام سے اٹھا لیا گیا، چنانچہ قبہ صخرہ کو اس کا آخری مقام ہونے کے ناطے انھوں نے اسے ہی اپنا قبلہ قرار دے لیا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہود قبہ صخرہ پر کوئی تصرف کرنے کی بجائے سارا زور مسجد اقصیٰ پر ہی صرف کر رہے ہیں؟‘‘ (ص ۱۸)
ان اقتباسات کی روشنی میں میرے ناقص فہم کے مطابق آپ کے موقف اور میرے نقطہ نظر میں نتیجے کے اعتبار سے کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ البتہ اس کے ساتھ اپنی تحریر کے آخر میں آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:
’’امت مسلمہ کے فرزند آج ۴۰ برس گزرنے کے بعد بھی نہ صرف مطمئن وپرسکون ہیں بلکہ آہستہ آہستہ کوتاہی اور مداہنت یوں اپنا اثر دکھا رہی ہے کہ مسلمانوں میں بعض ایسے کرم فرما بھی پیدا ہو گئے ہیں جو مسجد اقصیٰ کو اسی طرح یہود کی تولیت میں دے دینے کے داعی ہیں جیسے مسلمانوں کے پاس بیت اللہ الحرام کی تولیت ہے۔‘‘ (ص ۲۰)
اگر یہ اشارہ جیسا کہ گمان غالب ہے میری تحریروں کی طرف ہے تو میں، فی الواقع، آپ کی اس تعریض کا مدعا نہیں سمجھ سکا۔ اگر تو مسجد اقصیٰ سے آپ کی مراد حضرت سلیمان کا تعمیر کردہ ہیکل ہے جس کا محل وقوع قبۃ الصخرہ کے قریب ہے تو اس پر تصرف اور تولیت کی اجازت بلکہ ترغیب تو آپ خود بھی یہود کو دے رہے ہیں، اور اگر اس سے مراد حضرت عمرؓ کے مخصوص کردہ مقام پر تعمیر کی جانے والی مسجد یعنی موجودہ ’مسجد اقصیٰ‘ ہے تو میری تحریر میں کہیں بھی اس کی تولیت یہود کے سپرد کر دینے کی بات نہیں کہی گئی، بلکہ ’الشریعہ‘ کے اپریل/مئی ۲۰۰۴ کے شمارے میں، میں نے اس بحث کا اختتام ہی اس نکتے پر کیا ہے کہ:
’’مسلمانوں کو پوری دیانت داری کے ساتھ اپنے موجودہ موقف پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان بے بنیاد مذہبی تصورات کو خیرباد کہنا ہوگا جو پوری عبادت گاہ سے یہود کے حق تولیت کی تنسیخ یا قبۃ الصخرہ کی اہمیت وتقدس کے حوالے سے وضع کر لیے گئے ہیں اور سیدنا عمرؓ کے طرز عمل کی اتباع میں اپنے حق کو اس جگہ تک محدود ماننا ہوگا جہاں روایات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کا تذکرہ ملتا ہے اور جسے سیدنا عمرؓ نے مسلمانوں کی عبادت کے لیے مخصوص فرما دیا تھا۔‘‘ (ص ۷۴)
آپ کے مضمون میں اٹھائے جانے والے بعض قانونی نکات اور واقعاتی تفصیلات پر بحث واختلاف کی گنجایش موجود ہے، لیکن ان سے قطع نظر کرتے ہوئے موجودہ مسجد اقصیٰ کے انہدام کے حوالے سے جن صہیونی عزائم کا آپ نے ذکر کیا ہے، وہ اگر درست ہیں تو یقیناًامت مسلمہ کو اپنے حق کا دفاع پوری جرات اور استقامت کے ساتھ کرنا چاہیے۔ خدا کرے کہ امت مسلمہ کے دل میں ’اپنے حق‘ کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ’نفس حق‘ کو پہچاننے اور اس کو تسلیم کرنے کا جذبہ بھی بیدار ہو جائے۔ 
محترم حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب اور ادارہ کے دیگر رفقا کی خدمت میں سلام اور آداب عرض ہے۔
محمد عمار خان ناصر
۱۷ ؍ مارچ ۲۰۰۷
(۲)
لاہور، ۲۵؍مارچ ۲۰۰۷ء
برادرِ گرامی محمد عمار خاں ناصر صاحب، مدیر ماہنامہ ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ کا مراسلہ ملا، شکرگزار ہوں کہ مسجد اقصیٰ کے حالات وواقعات پر مبنی میرے مضمون کا نہ صرف آپ نے مطالعہ کیا بلکہ اس کی افادیت اور واقعاتی استدلال سے بھی اتفاق فرمایا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اطمینان اس امرپر ہے کہ آپ نے اپنے مراسلے کے آخر میں مسجدِ اقصیٰ کے تحفظ کے بارے میں ان جذبات سے بھی اتفاق ظاہر کیا جو مسلم اُمہ میں بالعموم پائے جاتے ہیں۔ آپ کے الفاظ میں ’’موجودہ مسجد اقصیٰ کے انہدام کے حوالے سے جن صہیونی عزائم کا آپ نے ذکر کیا ہے، وہ اگر درست ہیں تو یقیناًاُمتِ مسلمہ کواپنے حق کا دفاع پوری جرات اور استقامت کے ساتھ کرنا چاہئے۔‘‘ مزید برآں میرے موقف پر یہ تبصرہ کہ’’ کوئی اُصولی اختلاف غالباً نہیں کیا جاسکتا‘‘ لکھ کر بھی آپ نے میرے استدلال کو تقویت بخشی۔
میرا یہ مضمون مسجد اقصیٰ کے بعض حالیہ واقعات کے حوالے سے تھا اور میں نے مضمون کے مقدمہ میں ہی اس امر کی صراحت کردی تھی کہ مسجد اقصیٰ پر دینی رسائل میں جاری شرعی بحث سے اس مضمون کا کوئی تعلق نہیں، اور اس حوالے سے مستقل مضمون درکار ہے۔ چنانچہ میرے اس مضمون میں شرعی موقف کو سرے سے پیش نہیں کیا گیا تھا، اس کے باوجود میرے لیے یہ امر چونکا دینے والا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی شرعی تولیت پرتین برس قبل شائع ہونے والے آپ کے طول طویل مباحث اور ان کے نتائج سے آپ نے مجھے بھی ازخود متفق قرار دے لیا ہے اور اس اتفاق کے اظہار کے لیے آپ نے میرے مضمون کے دو اقتباسات پیش کیے ہیں۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان اقتباسات کو سیاق سے کاٹ کر آپ نے اپنے من مانے مفہوم میں لیاہے جبکہ ان سے میرا مدعا ہرگز وہ نہیں جو آپ باور کرا رہے ہیں۔ آپ میرے مضمون کے مطالعے کی بجائے ان سے وہ شواہد تلاش کرتے رہے ہیں جن سے کسی طورآپ کے متنازعہ موقف کی ہم نوائی ہوتی ہو، وگرنہ ان اقتباسات کا یہ مفہوم میرے حاشیہ خیال میں بھی موجود نہیں۔آپ کو بخوبی یاد ہوگا کہ آپ کے مضامین کی اشاعت کے بعد علما کے حلقے میں سے غالباً کوئی ایک رائے بھی آپ کی تائید میں شائع نہیں ہوئی اور مسجد اقصیٰ پر آپ کے مضامین دینی صحافت کے متنازعہ ترین مقالات میں سے ہیں جس پر ’الشریعہ‘ کے متعدد مراسلے اور مستقل مضامین بھی شاہد ہیں، جبکہ میرے مضمون کا موضوع ہی اس سے مختلف ہے۔ بہرحال آپ نے یہ الفاظ ’’ میرے ناقص فہم کے مطابق نتیجے کے اعتبار سے آپ کے موقف اورمیرے نکتہ نظرمیں کوئی خاص فرق نہیں‘‘ لکھ کرجس طرح مجھے اپنا ہم نوا قرار دیا ہے، اس سے میں متفق نہیں ہوں کیونکہ جہاں تک میرے شرعی موقف کا تعلق ہے تو میں اس پر ایک مستقل مقالہ لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ آپ کے موقف کے بارے میں فی الحال چند تنقیحات پر اکتفا کرتا ہوں :
  •  کیا آپ صہیونیت کے نام نہاد دعوے ’ہیکل سلیمانی‘ کے قائل نہیں بلکہ اس کو دوبارہ تعمیر کرنے کے مؤید بھی ہیں؟
  • کیا آپ مسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کی بجائے یہود کو تولیت کا حق دینے کے داعی نہیں ؟
  • کیا آپ مسلمانوں کے موقف کو جذباتی، غیر اخلاقی اور غیرشرعی قرار نہیں دیتے؟
  • کیا آپ دیوارِ گریہ کے قائل نہیں اور اسے بھی یہود کا حق قرار دیتے ہیں؟
جبکہ دوسری طرف مسلم اُمہ کے زعما بالعموم ان میں سے کسی بات کو تسلیم نہیں کرتے۔
جہاں تک ’واقعاتی نتیجہ‘ میں بظاہر اتفاق کا مسئلہ ہے تو میری رائے میں اس کی حیثیت بھی چند الفاظ کے اشتراک سے زیادہ کچھ نہیں، حقیقت اور امر واقعہ اس کے عین برعکس ہے۔ ماضی قریب میں آپ کے پیش کردہ’ممکنہ حل ‘ اور موجودہ مراسلہ کے گہرے مطالعے کے بعد میں پوری بصیرت سے کہہ سکتا ہوں کہ میرے اور آپ کے پیش کردہ نتیجے میں عملاً کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی۔ آپ احاطہ قدس میں یہودیوں کی شراکت کے قائل ہیں جبکہ میں اس سے متفق نہیں۔ اس سلسلے میں مزید تفصیلات پرگفتگو کرنے سے قبل میری گذارش ہے کہ اس موضوع پر آپ کی سابقہ تحریروں کی غیرمعمولی طوالت کی وجہ سے بعض بنیادی باتوں کے بارے میں آپ کے موقف میں نکھار باقی نہیں رہا۔اشتراک کا شائبہ پیدا ہونے کی وجہ یہی ابہام اور احتمال ہے۔ اگر آپ حسبِ ذیل سوالات کی دو ٹوک وضاحت فرماسکیں توآپ کے مراسلہ میں ذکر کردہ دعوائے اتفاق پر میں اپنا بادلائل موقف پیش کرسکوں گا۔ اس دوٹوک نکھار کی ضرورت اس لیے زیادہ ہے کہ اس طرح کئی برس سے جاری یہ بحث بہت جلد کسی حتمی نتیجہ پر پہنچ جائے گی :
۱۔مسجد اقصیٰ اور ہیکل سلیمانی آپ کی نظر میں ایک ہی چیز کے دونام ہیں، آپ کے نزدیک اس [حقیقی]* مسجد اقصیٰ کا مصداق کون سی جگہ ہے؟ قبہ صخرہ، فوارۂ کاس، [حالیہ] مسجد اقصیٰ یا کوئی اور؟
۲۔ [حالیہ] مسجد اقصیٰ جہاں حضرت عمرؓ نے نمازپڑھی تھی، کیا [حقیقی] مسجدِ اقصیٰ یہی نہیں؟ اگر نہیں توآپ اس مسجد کو کیا حیثیت دیتے ہیں؟
۳۔ [حقیقی] مسجد اقصیٰ پر کیا مسلمانوں اور یہود ہر دو اقوام کا استحقاق ہے، اگر دونوں کاحق مشترک ہے تو اس حق کی نوعیت کیا ہے اور ان میں سے کس کا حق آپ برتر سمجھتے ہیں؟
۴۔ حق کی برتری کی صورت میں عملاً اس قوم کے لیے آپ کیا اقدام تجویز کرتے ہیں اور مرجوح حق والی قوم کے لیے کیا؟
۵۔ شدرحال والی متفق علیہ حدیث(مساجدِ ثلاثہ) اور مسجد اقصیٰ میں نماز کی فضیلت والے فرمانِ نبویؐ پر عمل کی آپ مسلمانوں کے لیے عملی صورت کیا تجویز کرتے ہیں؟
چونکہ اس بحث کو آپ نے ہی شروع کیا اور ا س کے ہر پہلو پر تفصیل سے تحقیق بھی فرمائی، اس لیے اس بحث کے ان اہم نکات کا دوٹوک جواب بھی اخلاقاً آپ کو دینا چاہئے کیونکہ حق کو واضح ہونا چاہئے اور اس میں کوئی ابہام نہیں رہنا چاہئے۔ بہتر ہوگا کہ آپ دوٹوک اور معروضی اُسلوب میں ان کے جواب دے کر تفصیلی دلائل کے لیے اپنے ۱۵۰ صد سے زائد صفحات کے متعین پیرا گرافوں کی نشاندہی کردیں۔مجھے اُمید ہے کہ آپ کے جوابات کے بعد پیش نظر مسئلہ کافی حد تک از خود ہی واضح ہوجائے گا۔ تاہم آپ کے جواب کے بعد میں بڑی وضاحت اور صراحت سے اپنا تفصیلی موقف تحریر کروں گا، تاکہ اس اہم شرعی مسئلہ پر ہمارے قارئین کسی واضح نتیجہ تک پہنچ سکیں۔ ان شاء اللہ 
اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔
حافظ حسن مدنی، لاہور
(۳)
برادرم حافظ حسن مدنی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ مزاج گرامی؟
میرے خط کے جواب میں آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا۔ بے حد شکریہ! میں اشتیاق کے ساتھ منتظر رہوں گا کہ مسجد اقصیٰ کی تولیت کے شرعی پہلو سے متعلق آپ کا مستقل مضمون کب معرض تحریر میں آتا ہے اور اس میں آپ کیا نقطہ نظر اختیار فرماتے اور اس کے حق میں کیا استدلالات پیش کرتے ہیں۔ سردست میں اپنی گزارشات کو آپ کے حالیہ مکتوب کے مندرجات تک محدود رکھوں گا۔
آپ نے فرمایا ہے کہ میں نے آپ کے مضمون سے اپنے اور آپ کے موقف میں جو اشتراک اخذ کیا ہے، وہ درست نہیں، بلکہ ایسا آپ کے اقتباس کو سیاق وسباق سے ہٹا کر من مانے معنی پہناتے ہوئے کیا گیا ہے۔ تاہم آپ نے اس اقتباس سے میرے اخذ کردہ نتیجے کی تردید تو فرمائی ہے لیکن اپنے مضمون کے سیاق وسباق کی روشنی میں اس کا صحیح مدعا اور مفہوم واضح کرنے کی زحمت نہیں کی۔ میں آپ کا اقتباس یہاں دوبارہ نقل کرنا چاہوں گا:
’’اگر یہود اس علاقے میں کوئی ہیکل تعمیر کرنا بھی چاہتے ہیں جس سے ان کے مذہبی جذبات وابستہ ہیں تو ا س کے لیے مسجد اقصیٰ کا انہدام کیوں ضروری ہے اور وہ عین اس مقام پر ہی کیوں تعمیر ہوتا ہے جہاں یہ مقدس عمارت موجود ہے؟ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں شمال مغربی حصہ اور دیگر بہت سے حصے بالکل خالی ہیں، وہاں وہ قبہ بھی ہے جس کے بارے میں اکثر مسلم علما کا موقف یہ ہے کہ اس قبہ صخرہ کی کوئی شرعی فضیلت نہیں، حتیٰ کہ حضرت عمرؓ نے یہاں نماز پڑھنا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔ ..... پھر کیا وجہ ہے کہ یہود قبہ صخرہ پر کوئی تصرف کرنے کی بجائے سارا زور مسجد اقصیٰ پر ہی صرف کر رہے ہیں؟‘‘ (محدث، مارچ ۲۰۰۷، ص ۱۸)
ازراہ کرم آپ واضح فرمائیں کہ جب آپ ہیکل کی تعمیر کے لیے یہود کو موجودہ مسجد اقصیٰ کے بجاے احاطہ ہیکل ہی میں واقع دیگر مقامات، مثلاً قبۃ الصخرہ وغیرہ کی راہ دکھا رہے ہیں اور یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ان مقامات کی آپ کے نزدیک کوئی شرعی فضیلت نہیں تو اس کا مطلب مذکورہ مقامات پر تصرف وتولیت میں عدم دلچسپی ظاہر کرنے کے سوا کیا نکلتا ہے؟ اگر یہود آپ کی دکھائی ہوئی راہ پر چلتے ہوئے قبۃ الصخرہ کی جگہ پر اپنا ہیکل تعمیر کرنا چاہیں تو وہ آخر زمین کے اوپر ہی بنے گا یا ’بغیر عمد ترونہا‘ فضا میں معلق ہوگا؟ اور اگر آپ یہود کا ہیکل تعمیر کرنے کا حق تو تسلیم کرتے ہیں، لیکن احاطے یا ہیکل کی تولیت میں انھیں کسی طرح بھی شریک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو یہ واضح فرمائیے کہ کیا ہیکل کی تعمیر کے بعد یہودی قوانین کے مطابق اس میں رسوم عبادت ادا کرنے اور کاہنوں سے متعلقہ مذہبی خدمات بجا لانے کا فریضہ بھی آپ خود ہی انجام دیں گے؟ اور اگر یہ حق بھی آپ یہود کے لیے تسلیم کرتے ہیں تو مذہبی معنوں میں کسی عبادت گاہ پر تصرف وتولیت اور کیا چیز ہوتی ہے؟
کوئی مصنف جب اپنی تحریر سے واضح طور پر نکلنے والے کسی نتیجے کو own کرنے سے انکار کرتا ہے تو اس کی وجہ یا تو یہ ہوتی ہے کہ اس نے وہ تحریر اچھی طرح سوچ سمجھ کر نہیں لکھی ہوتی اور یا یہ کہ وہ اپنی تحریر میں ملفوف نتیجے کا واضح اعتراف کرنے کے لیے درکار اخلاقی جرات سے محروم ہوتا ہے۔ میں حسن ظن رکھتا ہوں کہ آپ کے معاملے میں یہ دوسری صورت نہیں پائی جاتی۔
آپ نے اپنے مکتوب کے آخر میں میرے موقف کے حوالے سے جن نکات کی وضاحت طلب فرمائی ہے، ان سب کی تفصیل میں اپنی تحریروں میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں، تاہم آپ کی فرمایش پر انھیں دوبارہ دہرا دیتا ہوں:
۱۔ قرآن مجید نے ’مسجد اقصیٰ‘ کا لفظ ہیکل سلیمانی کے لیے استعمال کیا ہے۔ موجودہ احاطہ ہیکل کے اندر اس کا محل وقوع یقینی طور پر معلوم نہیں، تاہم غالب گمان کے مطابق اس کو صخرۂ بیت المقدس (جس کے اوپر اس وقت ’قبۃ الصخرہ‘ قائم ہے) کے قرب وجوار میں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ صخرہ بنی اسرائیل کے لیے قبلے کی حیثیت رکھتا تھا اور ہیکل کی عمارت کے اندر ہی واقع تھا۔ اس وقت مسلمان جس مسجد کو ’مسجد اقصیٰ‘ کہتے ہیں، وہ عین ہیکل سلیمانی کی جگہ پر واقع نہیں، بلکہ احاطہ ہیکل کی جنوبی دیوار کے قریب اس جگہ تعمیر کی گئی ہے جہاں فتح بیت المقدس کے موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نماز ادا فرمائی تھی۔ 
۲ و ۵۔ موجودہ مسجد اقصیٰ، ہیکل سلیمانی (یعنی قرآن مجید کی ذکر کردہ ’مسجد اقصیٰ‘) کی اصل عمارت کا حصہ نہ ہونے کے باوجود توسیعی طور پر مسجد ہی کے حکم میں ہے، اس لیے اس میں نماز ادا کرنے کی وہی فضیلت اور ثواب ہے جو صحیح احادیث میں مسجد اقصیٰ کے حوالے سے ثابت ہے۔
۳ و۴۔ بنی اسرائیل کی مرکزی عبادت گاہ، قربان گاہ اور قبلہ ہونے کے ناتے سے ہیکل سلیمانی یعنی اصل مسجد اقصیٰ کی تولیت شرعی واخلاقی طور پر انھی کا استحقاق ہے اور قرآن وسنت میں ان کے اس حق کی تنسیخ کی کوئی دلیل نہیں۔ مسلمانوں کا حق اس مسجد کے حوالے سے یہ ہے کہ انھیں یہاں عبادت کرنے کی پوری آزادی حاصل ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہیکل سلیمانی کی اصل عمارت کے بجائے اس سے بالکل ہٹ کر احاطہ ہیکل کے جنوب میں، جہاں اس وقت موجودہ مسجداقصیٰ واقع ہے، مسلمانوں کے لیے عبادت کی جگہ متعین کر کے دونوں اقوام کے مذہبی حق کے تحفظ اور پاس داری کی ایک واضح صورت متعین فرما دی تھی اور امت مسلمہ کو اسی کی پابندی کرنی چاہیے۔
اگر اس ضمن میں مزید کوئی نکتہ وضاحت طلب ہو تو میں اس کے لیے حاضر ہوں۔
محمد عمار خان ناصر
۲۵ مارچ ۲۰۰۷
(۴)
جناب زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم! امید ہے بخیریت ہوں گے۔
’الشریعہ‘ کا فروری کا شمارہ ملا۔ یقیناًبہت سے موضوعات دلچسپی اور علم میں اضافے کا موجب ہوتے ہیں، لیکن ایک ایسا جریدہ جو مذہبی خیالات کا حامل ہو، اس میں یکایک پیپلز پارٹی کے متعلق (بلکہ اس کے خلاف) مواد شامل کر دیا جائے تو کوئی بھی شخص یہ سمجھنے میں دیر نہیں کرے گا کہ ایجنسیاں گویا ’الشریعہ‘ میں بھی آ ٹپکی ہیں۔ آج کے دور میں کوئی بھی مسئلہ کلر بلائنڈ ہو کر نہیں دیکھا جا سکتا اور نہ اس پر لکھا جا سکتا ہے، اس لیے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تک عام آدمی کی بھی رسائی ہے۔ اس کے علاوہ بھٹو کی جاں نثار ٹیم ابھی باقی ہے جنھوں نے صرف مشاہدہ ہی نہیں، عملی کام بھی کیا ہے۔ یاد ہوگا کہ آپ نے ضیاء الحق کو ’شہید‘ لکھا تھا جس پر میں نے احتجاج کیا تھا۔ اب مجھے سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی کہ آپ بھی ضیا کی باقیات میں سے ہیں جس نے ایک عام مولوی کو بھی خاص بنا دیا اور ماشاء اللہ نام نہاد ملا دین کی ترویج کے نام پر سیاسی فوائد سے خوب بہرہ ور ہو رہے ہیں۔
ذو الفقار علی بھٹو بھی یقیناًایک انسان تھا جو خوبیوں اور خامیوں کاحامل تھا، لیکن یہ امر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس قوم کے لیے اس کی بے شمار خدمات ہیں جن میں چیدہ چیدہ یہ ہیں: ۱۹۷۳ء کا آئین، مزدوروں کے لیے سوشل سکیورٹی سسٹم، متعدد میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں کا قیام، کامرہ کمپلیکس، کرپشن سے پاک حکومت، ۹۰ ہزار جنگی قیدیوں کی واپسی، ایٹم بم کے حصول کے لیے کام کا آغاز، صوبائی ونسلی منافرت سے پاک معاشرہ، بلکہ حنیف رامے کے بقول زیڈ اے بھٹو کا یہی کارنامہ سب کارناموں پر بھاری ہے کہ اس نے عام آدمی کو شعور دیا۔ ’الشریعہ‘ کے مضمون نگار کا یہ کہنا کہ لوگ بھٹو کی موت کے بے حد tragic ہونے کے سبب سے اس کے گرویدہ ہو گئے، درست نہیں۔ موت تو ضیاء الحق کو بھی آئی، لیکن آج اس کا نام لیوا کوئی نہیں۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ’الشریعہ‘ جیسے خوبصورت میگزین کو سیاسی معاملات بالکل ڈسکس نہیں کرنے چاہییں، اس کے لیے متعدد دوسرے سیاسی میگزین موجود ہیں۔ اگر ایسا ضروری بھی ہو تو غیر جانبدارانہ رپورٹنگ ہونی چاہیے۔ موضوع کوئی بھی شخصیت ہو، اس کا خوب صورت تجزیہ کر کے نتیجہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے۔ بے نظیر بھٹو کا ذو الفقار علی بھٹو سے کوئی موازنہ نہیں۔ بے نظیر عہدے داران کی لیڈر ہے جبکہ بھٹو قائد عوام تھے۔
آپ نے اداریے میں یورپ کی روشن خیالی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو میر ے خیال میں جانبدارانہ ہے۔ یورپ کی روشن خیالی صرف فری سیکس تک محدود نہیں۔ تعلیمی، سماجی اور سیاسی حوالوں سے اس کی ترقی اور روشن خیالی قابل تعریف ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمیں اپنے کلچر اور اقدار کے مطابق روشن خیالی کو فروغ دینا چاہیے۔اللہ آپ کا حامی وناصر ہو۔
محمد سعید اعوان
اروپ۔ گوجرانوالہ

مئی ۲۰۰۷ء

امت مسلمہ اور مغرب کے علوم و افکارمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسلام کی آفاقیت اور عالمگیریتمفتی ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی
قائد اعظم اور فوج کا سیاسی کردارپروفیسر شیخ عبد الرشید
سنت کی دستوری اور آئینی حیثیتڈاکٹر محمد سعد صدیقی
غیر مسلم جج کی بحث اور مسلمان ججوں کا کردارچوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
مکاتیبادارہ
’دشتِ وصال‘ پر ایک نظرپروفیسر میاں انعام الرحمن
تعارف و تبصرہادارہ
الشریعہ اکادمی کی مطبوعات کی تقریب رونمائیادارہ

امت مسلمہ اور مغرب کے علوم و افکار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روزنامہ پاکستان لاہور نے ۲۳؍اپریل ۲۰۰۷ کو لاہور میں ’’اسلام اور مغرب کے درپیش چیلنجز اور مواقع‘‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک سیمینار کی رپورٹ خبر کے طور پر شائع کی ہے جس کا اہتمام پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز (پائنا) نے کیا ہے اور صدارت ملک کے معروف دانش ور اور قانون دان جناب ایس ایم ظفر نے فرمائی ہے۔ سیمینار سے خطاب کرنے والوں میں جسٹس (ر) خلیل الرحمن، پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری، سابق سیکرٹری خارجہ جناب شمشاد احمد اور دیگر ارباب دانش کے علاوہ اسپین سے تشریف لانے والے دو معروف دانش پروفیسر پری ویلانووہ اور پروفیسر راحیل بیونو بھی شامل ہیں۔
سیمینار میں ہونے والی گفتگو کے اہم نکات میں اسلام اور مغرب کے مابین مبینہ طور پر پائی جانے والی غلط فہمیاں، دہشت گردی، انتہا پسندی، مذہبی اختلافات، جنگ آزادی اور دہشت گردی میں فرق، صلیبی جنگوں کا تسلسل، فلسطین وکشمیر جیسے مسائل اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کا رویہ جیسے امو رخاص طور پر قابل ذکر ہیں اور ان میں سے ہر نکتہ سنجیدہ گفتگو کا متقاضی ہے، مگر ہم سردست اس تقریب کے صدر جناب ایس ایم ظفر کے بعض ارشادات کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کرنے کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں جو مذکورہ اخبار میں ان الفاظ کے ساتھ رپورٹ کیے گئے ہیں:
’’ایس ایم ظفر نے کہا کہ مغرب اور اسلام میں غلط فہمیاں دور ہو رہی ہیں۔ اگر دونوں ایک دوسرے کی اچھی باتیں اپنا لیں تو اسلام مغرب سے جمہوریت، شہریوں کے انسانی حقوق، علم اور ٹیکنالوجی کا سبق سیکھ سکتا ہے جبکہ مغرب اسلام کے خاندانی نظام کو اپنا کر اپنے بہت سے معاشرتی مسائل دور کر سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان جمہوری کلچر کی طرف آئیں۔ آج میڈیا کا دور ہے مگر اسلام اس سلسلے میں بہت پیچھے ہے۔ ہمیں میڈیا سنٹر بنانے ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ دنیا میں مسلمانوں کو درپیش مسائل حل کرنا ہوں گے جن میں فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ سرفہرست ہے۔‘‘
ہم محترم ایس ایم ظفر صاحب کی اس گفتگو میں سے دو نکات پر کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ ایک یہ کہ اسلام اور مغرب کے درمیان مبینہ طو رپر پائی جانے والی غلط فہمیوں کا دائرہ کیا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ مسلمانوں کو مغرب سے کون کون سی چیزیں سیکھنے کی ضرورت ہے؟
یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ مسلمانوں اور مغرب کے درمیان غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور ان کے مابین کشمکش کی موجودہ فضا زیادہ تر ان غلط فہمیوں کا نتیجہ ہے جنھیں اگر دور کر دیا جائے تو کشمکش کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے اور مسلمان اور مغرب آپس میں قریب آ سکتے ہیں۔ بظاہر یہ بات بہت قرین قیاس ا ور مستقبل کے حوالے سے امید افزا لگتی ہے، لیکن افسوس صد افسوس کہ یہ معروضی صورت حال اور زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی، اس لیے کہ مغرب کے بارے میں یہ تصور رکھنا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہے، خود مغرب کی ذہنی سطح، نفسیاتی ماحول اور تحلیل وتجزیہ کی استعداد وصلاحیت سے بے خبری یا اسے شک وشبہ کا شکار بنانے کے مترادف ہے کیونکہ مسلمانوں کے بارے میں تو یہ سوچا جا سکتا ہے کہ وہ علم وخبر کے ذرائع اور ذوق کی کمی کے باعث مغرب کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہیں اور تحلیل و تجزیہ، باریک بینی اور مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت کی کمزوری کی وجہ سے مغرب کے مقاصد اور عزائم کو پوری طرح نہیں سمجھ پا رہے ہیں، لیکن کیا مغرب بھی مسلمانوں کے حوالے سے اسی سطح پر ہے؟ ہمارے خیال میں اس سوال کا اثبات میں جواب دینا مشکل ہوگا۔ 
یہ بات ہم تسلیم کرتے ہیں کہ سارے مغرب کی ذہنی سطح ایک نہیں ہے اور ہمیں یہ بات قبول کرنے میں بھی کوئی حجاب نہیں ہے کہ مغرب کے سارے طبقات اور افراد اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ایک طرح سے نہیں سوچتے، لیکن یہ بات ہمارے نزدیک کسی بھی شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ مغرب میں دانش، سیاست اور اقتدار کے حوالے سے جو طبقہ ’’رولنگ کلاس‘‘ سے تعلق رکھتا ہے اور جو اس وقت عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں سے نبردآزما ہے، و ہ کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہیں ہے، بلکہ وہ سالہا سال کی نہیں بلکہ صدیوں کی علمی وفکری محنت کے ذریعے سے اس بات کا خوب اچھی طرح شعور رکھتے ہوئے کام کر رہا ہے کہ جس عالمی نظام اور گلوبل کلچر کو وہ دنیا میں مستقبل کے واحد نظام اور کلچر کے طور پر متعارف کرانے بلکہ اسے غلبہ دلانے کی کوشش کر رہا ہے، اس کی راہ میں اگر کوئی فلسفہ حیات اور ثقافتی نظام رکاوٹ بن سکتا ہے تو وہ صرف اسلام ہے جسے راہ سے ہٹانے کے لیے مغرب کی رولنگ کلاس اسلام اور مسلمانوں کے اہل دین کو کردار کشی کے ذریعے سے بدنام اور جبر وتشدد کے ذریعے سے بے بس بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔ اس لیے ہم اپنے ارباب دانش سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ محض ’’غلط فہمیوں‘‘ کے چکر میں اپنا وقت اور صلاحیتیں ضائع نہ کریں، بلکہ مغرب کی رولنگ کلاس کے اہداف، پروگرام، طریق کار اور مراحل کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کریں۔
دوسری بات جناب ایس ایم ظفر کے اس ارشاد کے حوالے سے ہے کہ مسلمانوں کو مغرب سے جمہوریت، انسانی حقوق، علم اور ٹیکنالوجی سیکھنی چاہیے۔ جہاں تک جدید علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی کا تعلق ہے، ہمیں محترم ظفر صاحب کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ہم اس میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور دراصل اسی اجتماعی جرم او رکوتاہی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، اس لیے ہمیں ان ضروریات کی تکمیل بہرحال مغرب کی مدد سے ہی کرنی ہے جس کے لیے ہم تو اب کسی درجہ میں تیار ہیں لیکن مغرب ایک خاص حد سے آگے ہمیں اس سلسلے میں کسی قسم کا تعاون یا سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور اس نے جدید علوم اور سائنس وٹیکنالوجی کے حوالے سے ہمارے گرد ایسی مضبوط ریڈ لائن کا گھیرا ڈال رکھا ہے کہ ہمارے لیے اس حصار کو توڑنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے قومی ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبد القدیر خان کا مقدمہ خود ایس ایم ظفر صاحب نے لڑا تھا، اس لیے ان سے بہتر اس معروضی حقیقت سے اور کون واقف ہو سکتا ہے کہ جدید علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی کا مغرب سے اس درجہ کا سبق سیکھنا جس کی ہمیں ملی سطح پر ضرورت ہے، اب ممکن نہیں رہا چنانچہ اب یہ بات بھی ہمارے دانش وروں کی ذمہ داری میں شامل ہو گئی ہے کہ وہ امت مسلمہ کو مغرب سے سائنس، ٹیکنالوجی اور جدید علوم سیکھنے کا مشورہ دیتے رہنے پر اکتفانہ کریں بلکہ کوئی متبادل راستہ بھی امت کو دکھائیں کہ مغرب نے علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے معروف راستے امت مسلمہ پرچاروں طرف سے بند کر رکھے ہیں اور کوئی متبادل صورت نکالے بغیر امت مسلمہ کے لیے اب اس راستے میں آگے بڑھنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔
باقی رہی بات مغرب سے جمہوریت اور انسانی حقوق کا سبق حاصل کرنے کی تو ہمیں اس باب میں محترم ظفر صاحب کے ارشاد سے اتفاق نہیں ہے، اس لیے کہ مغرب نے جمہوریت اور انسانی حقوق دونوں کا توازن جس بری طرح بگاڑ دیا ہے، اسے اسلام کے بنیادی معتقدات اور قرآن وسنت پر ایمان رکھتے ہوئے قبول کرنا ہمارے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ مغرب نے جمہوریت اور جمہور کو آسمانی تعلیمات اور وحی کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دے کر جس مادر پدر آزادی کو فروغ دیا ہے، اسلام اسے تسلیم نہیں کرتا اور اس کے ساتھ ہی مغرب نے حقوق اللہ کو نظر انداز کر کے اور انسانوں کے باہمی حقوق کو مذہبی اخلاقیات سے آزاد کر کے خالصتاً مادہ پرستی پر مبنی انسانی حقوق کا جو نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے، وہ بھی اسلام کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔
ہم جمہوریت اور انسانی حقوق، دونوں کو انسانی سوسائٹی کی ناگزیر ضرورت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور اس سلسلے میں مسلم معاشروں اور ممالک واقوام کی تمام تر کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان دونوں اصولوں کی طرف مسلم امہ کی واپسی کو امت مسلمہ کے لیے وقت کا سب سے بڑا تقاضا تصور کرتے ہیں، لیکن یہ مغرب کے فلسفہ وفکر اور نظام وثقافت کے حوالے سے نہیں بلکہ قرآن وسنت اور خلافت راشدہ کے سنہری اصولوں کی روشنی میں ہوگا، اس لیے ہمارے خیال میں بہت سے مسلم دانش وروں کا یہ طرز عمل درست نہیں کہ وہ مسلمانوں کو مغرب کے جمہوریت اور انسانی حقوق کے تصور کو اپنانے کا مشورہ دیتے رہیں، بلکہ ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قرآن وسنت اور خلافت راشدہ کی روشنی میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی وضاحت کریں اور مغرب کے ساتھ ان کے تضاد کی نشان دہی کرتے ہوئے امت مسلمہ کو قرآن وسنت اور خلافت راشدہ کے سنہری اصولوں کی پیروی کے لیے تیار کریں۔

اسلام کی آفاقیت اور عالمگیریت

مفتی ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی

یہ ایک حقیقت اور صداقت ہے کہ ایسا نظامِ حکومت جو تمام قوموں، ملکوں اور ساری دنیا کے لیے ہو، بڑے سے بڑے مفکر و فلاسفر انسان اور انسانوں کی کوئی بھی سوسائٹی مرتب نہیں کر سکتی۔ پس اس کے لیے لامحالہ حقیقت کے متلاشی اور صداقت شعار انسانوں کو مذہب کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ مذہب ہی وہ ضابطہ حیات ہے جو انسان کی اس کے ہر شعبہ زندگی، انفرادی اور اجتماعی میں رہنمائی کرتا ہے اور وہ ایسا ضابطہ حیات ہے جو ایسے انسان کامل پیدا کرتا ہے جن میں انصاف ہو، انسانیت ہو، مساوات و رواداری ہو، انسانی حقوق کا احترام ہو، نوع انسانی کی خدمت ہو، سب کے ساتھ بھلائی و ہمدردی ہو اوروہ ایسے انسان پیدا کرتا ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لیے امن و سلامتی کے خواہش مند ہوں۔ مذہب ہی انسان کا رشتہ خدا سے جوڑتا ہے اور ماورا ہستی کا تصور اس کے ذہن و دماغ میں پیدا کرتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جب تک ہر انسان اپنے سے بالاتر ہستی کے آگے اپنے آپ کو جواب دہ یقین نہیں کرتا، اس میں مذکورہ بالا صفات ہر گز پیدا نہیں ہو سکتیں۔ 
مذہب وہ ضابطہ حیات ہے جس کا واضع خود خدا ہے۔ اس کی بنیاد وحدتِ انسانیت پر ہے اور انسانیت کی وحدت، فطرت و فکرپر اور مساوات پر رکھی گئی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سارے ادیان و مذاہب اور فلسفوں کا اصل اصول یہی فکر ہے۔ اس کو ضمیرِ انسانی یا دین اور فطرت اللہ سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ خدا کو معلوم تھا کہ انسان خود ضابطہ حیات اپنے لیے نہیں بنا سکتا، لہٰذا خدا نے جیسا کہ موجوداتِ عالم کی بقا و نشوونما کے لیے ہر اس چیز کی فراہمی کا انتظام کیا جس کی ضرورت کا تصور کیا جا سکتا تھا، اسی خدا نے اس کی سب سے بڑی ضرورت کا بھی انتظام کیا جس کے بغیر پوری نوع انسانی کی زندگی کا غلط ہو جانا یقینی تھا۔ اس بڑی اور اہم ضرورت کے لیے خدا نے جو ضابطہ زندگی وضع کیا ہے، اسی کا نام مذہب اور دین ہے اور اسی کی ترجمانی انبیا و صلحا اور حکما کرتے آئے ہیں۔ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اصلی مذہب میں باہر سے کدورتیں شامل ہوتی گئیں اور بار بار نئے ڈرانے والوں اور خوش خبری دینے والوں کی ضرورت پڑتی رہی۔ چنانچہ تاریخِ عالم گواہ ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں نظامِ زندگی ان برگزیدہ انبیا کے بتائے ہوئے اصولوں پر قائم ہوا، یہ زمین جنت کا نمونہ اور امن و سلامتی کا گہوارہ بن گئی۔ اس کے متعلق ہر قوم اور ہر ملک کے لوگوں میں گزشتہ سنہری زمانوں کے قصے کہانیاں اب تک کم و بیش چلی آرہی ہیں۔ یہ ایک ثابت شدہ صداقت ہے کہ ہر زمانے اور ہر ملک و قوم میں خدا کے برگزیدہ انبیا مذہب کی تعلیم دیتے رہے ہیں اور ایک ایک چیز پر عمل کرکے بھی دکھاتے رہے ہیں۔ بے شک یہ سارے کے سارے مذاہب اپنے اپنے زمانے میں حق تھے اور درست تھے، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اس جہان میں گزشتہ برگزیدہ رسولوں کے اسوہ اعمال اور ان کی تعلیمات کا اس وقت صحیح صحیح موجود ہونا تو درکنار، ان کے دوچار سو سال بعد بھی ان کے ٹھیک ٹھیک دنیا میں موجود ہونے کا ثبوت نہیں ملتا۔ اور اس کا بھی کوئی صاحبِ علم و عقل انکار نہیں کرسکتا کہ آسمانی کتب میں سے صرف قرآن کریم اور خدا کے رسولوں میں سے صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و رہنمائی اس وقت دنیا میں بے کم و کاست محفوظ ہیں۔ گزشتہ تیرہ چودہ سو سال کے نشیب و فراز اور مسلمان قوم کی ساری نالائقیوں اور گمراہیوں کے باوجود محمد رسول اللہ علیہ الصلوۃ و السلام کی معرفت آئی ہوئی پوری کی پوری تعلیمات آج بھی اسی طرح موجود و محفوظ ہیں جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑا تھا۔ اور یہ کوئی اتفاقِ زمانہ کی بات نہیں، قرآن کریم نے بتلا دیا ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کا آخری نبی اور قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے، اور یہ دونوں آئندہ ہمیشہ کے لیے ہدایت کا واحد ذریعہ ہیں اور ہمیشہ کے لیے محفوظ ہیں۔ اس بات کا ثبوت کہیں باہر تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، کتاب و سنت کا ایک ایک پہلو آنکھوں کے سامنے موجود ہے ۔ 
پس ا ب طالبان حق و حقیقت کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ دوسرے تمام منبع ہائے ہدایت ( جنہیں لوگوں نے اپنی تحریف و تصرف سے گدلا کر دیا ہے) کو چھوڑ کر صرف قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کریں ااور انہی دونوں کی راہنمائی اختیار کریں۔ اس اختلافِ مذاہب ہی کو تو دور کرنے کے لیے خداے برتر و بزرگ نے سابقہ تعلیمات کو جو مختلف اقوام اور مختلف ممالک میں ابتدا سے وقتاً فوقتاً نازل کی جاتی تھیں، یکجا کر کے قرآن کریم اور النبی الخاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مقدسہ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا اور بتا دیا کہ اللہ کی طرف سے آنے والے سب ہادیوں کی یہی تعلیم تھی اور سب اللہ کے سچے پیغامبراور برگزیدہ بندے تھے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان سب کو سچا تسلیم کرنا اور ان پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لیے لازمی شرط ہے اور ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار انسان کو دائرہ حق پرستی سے خارج کر دیتا ہے۔ اس لیے قرآن جب سے نازل ہوا ہے، ساری دنیا کے لیے ہدایت نامہ ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے لیے رسول بنا کر مبعوث کیے گئے ہیں۔ 
قرآن مجید کے برحق ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ ایسی تعلیم دیتا ہے جو سب انسانوں کے فطری رجحانات کی آئینہ دار اور ساری نوع انسانی کے فائدہ کے لیے ہے اور قرآن کی عالم گیریت محض اس بنا پر ہے کہ وہ کل انسانیت کی کتاب ہے۔ قرآن کی تعلیمات انسانیت کی طرح عالم گیر، ہمہ گیر اور دائمی ہیں۔ وہ ہر ملک کے لیے ہیں، ہر قوم کے لیے ہیں اور ہر زمانہ کے لیے ہیں۔ یہ اس لیے کہ قرآن کریم دینِ اسلام کا ترجمان ہے اور دین اسلام کسی ایک ملک قوم یا زمانہ کے لیے مخصوص نہیں بلکہ اسلام تمام انسانیت کا دین ہے اور ہر زمانہ کے لیے ہے اور قرآن کریم ہی اس دین کا قانونِ اساسی ہے۔ قرآن مجید جیسا کہ اپنے نظریات میں بے نظیر ہے، ایسا ہی عملیات میں بھی اس کی نظیر نہیں پائی جاتی ۔ کسی کتاب کا اعلیٰ اور عمدہ ہونا صرف اس اعتبار سے نہیں دیکھا جاتا کہ یہ کتاب نظری حیثیت سے بلند اور بے مثل ہے بلکہ اس کتاب کو عمل و نتیجہ سے دیکھا جانا بھی ضروری ہے، یعنی اس اعتبار سے کہ وہ کتاب خارج میں معاشرہ پر کیا اثر ڈالتی ہے اور اس پر عمل کرنے سے کیسے نتائج مرتب ہوتے ہیں اور یہ کس قسم کی سوسائٹی پیدا کرتی ہے۔ پس قرآن مجیدکو جب اس اعتبار سے دیکھا جاتا ہے تو قرآن اپنے عملی نتائج کے اعتبار سے بھی بے نظیر کتاب ثابت ہوتی ہے۔ جیسی سوسائٹی قرآن نے بنائی، اس سوسائٹی سے بہتر سوسائٹی کوئی کتاب بھی پیدا نہیں کر سکی۔ اس سے قرآن کی عظمت کا صحیح اندازہ ہو سکتا ہے ( مثلاً جو لوگ زانی تھے ، قرآن کی تعلیم و تربیت سے عورتوں کی عصمت کے محافظ بن گئے۔ بعض لوگ اشتراکیت کی بڑی مبالغہ سے توصیف کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تحریک نامکمل ہے ۔ )
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام انسانیت کے لیے رسول و نبی ہونا ان شرائط سے ثابت ہوتا ہے کہ :
(۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص قوم یا نسل یا طبقہ کی بھلائی کے لیے نہیں، بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کی بھلائی کے لیے کام کیا ہے ۔ 
(۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے اصول پیش کیے جو تمام دنیا کے انسانوں کی رہنمائی کرتے ہیں اور جن میں انسانی زندگی کے تمام اہم مسائل کا حل موجود ہے ۔
(۳) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کسی خاص زمانہ کے لیے نہیں ہے بلکہ ہر زمانے اور ہر حال میں یکساں مفید ، یکساں صحیح اور یکساں قابلِ پیروی ہے ۔ 
(۴) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اصول پیش کرنے پر ہی کفایت نہیں کی بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کو زندگی میں عملاً جاری کر کے دکھایا ہے اور ان کی بنیا د پر ایک جیتی جاگتی سوسائٹی قائم کر کے دکھا دی ہے۔
پس جو شخص بھی سلامتئ فکر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرے گا، وہ ایک نظر میں یہ محسوس کر لے گا کہ یہ کسی قوم پرست یا محبِ وطن کی زندگی نہیں ہے بلکہ ایک محبِ انسانیت اور عالم گیر نظریہ رکھنے والے انسان کی زندگی ہے جن کی نگاہ میں تمام انسان یکساں تھے۔ کسی خاندان، کسی طبقے، کسی قوم، کسی نسل یا کسی ملک کے خاص مفاد سے انہیں دلچسپی نہیں تھی۔ امیر و غریب، اونچ اور نیچ، کالے اور گورے، عرب اور غیر عرب، مشرقی اور مغربی، سامی اور آرین، سب کو وہ ایک نظر سے دیکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی ہی میں حبشی، ایرانی، رومی، مصری، اسرائیلی اسی طرح رفیقِ کار بنے جس طرح عرب، اور ان کے بعد زمین کے ہر گوشے میں ہر نسل و قوم کے انسانوں نے ان کو اسی طرح اپنا رہنما تسلیم کیا جس طرح ان کی اپنی قوم نے۔ اسی کا کرشمہ ہے کہ آج ہندوستانی کی زبان سے بھی اس شخص علیہ الصلوۃ والسلام کی تعریف سنی جا رہی ہے جو صدیوں پہلے عرب میں پیدا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص قوموں اور مخصوص ملکوں کے وقتی اور مقامی مسائل سے بحث کرنے میں اپنا وقت ضائع نہیں کیا بلکہ اپنی پوری قوت انسانیت کے اسی بڑے مسئلے کو حل کرنے پر صرف کردی جس سے تمام انسانوں کے سارے چھوٹے چھوٹے مسائل خود حل ہو جاتے ہیں۔ وہ بڑا مسئلہ کیا تھا؟ انسان کی خدا سے بغاوت، یہ بغاوت تمام خرابیوں کی جڑ ہے، اس لیے کہ خدا سے باغی ہو کر انسان لازمی طور پر دو میں سے ایک صورت اختیار کرتا ہے۔ یا تو وہ اپنے آپ کو خود مختار اور غیر ذمہ دار سمجھ کر من مانی کارروائیاں کرنے لگتا ہے اور یہ رویہ اس کو ظالم بنا دیتا ہے، یا پھر وہ خدا کے سوا دوسروں کے آگے سر جھکانے لگتا ہے اور اس سے بے شمار فساد کی صورتیں دنیا میں پیدا ہوتی ہیں، اس لیے کہ ایسا کرنا حقیقت کے خلاف ہے اور جو کام حقیقت کے خلاف ہو، اس کے نتائج برے نکلتے ہیں ۔ 
اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف خیالی نقشہ ہی پیش نہیں کیا بلکہ اس نقشہ پر ایک زندہ سوسائٹی پیدا کر کے دکھا دی۔ انہوں نے ۲۳ سال کی مختصر مدت میں لاکھوں انسانوں کو خدا کی حکومت کے آگے سر اطاعت جھکانے پر آمادہ کر لیا اور ان کوجمع کر کے خالص ایک خدا کی بندگی پر ایک نظامِ اخلاق ، نظام تمدن ، نظامِ معیشت اور نیا نظامِ حکومت بنایا اور تمام دنیا کے سامنے اس کا عملی مظاہرہ کردیا کہ وہ جو اصول پیش کر رہے ہیں، اس پر کیسی زندگی بنتی ہے اور دوسرے اصولوں کی زندگی کے مقابلے میں وہ کتنی اچھی ، پاکیزہ اور کتنی صالح ہے ۔ 
یہ وہ کارنامہ ہے جس کی بنا پر ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سردارِ عالم اور پیغمبرِ عالم کہتے ہیں ۔ جب مذہب اسلام سب کے لیے ہے اور اس کی کتاب قرآن سب کے لیے ہے اور اس کا رسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے لیے ہے، یہ تینوں چیزیں بلا تفریق انسانیت کی مشترکہ میراث ہیں جن پر کسی کا حق دوسرے سے کم یا زیادہ نہیں ہے ، جو چاہے اس سے فائدہ اٹھائے، پھر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس کے خلاف کسی کو تعصب رکھنے یا نظر انداز کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
اس وقت ہر ملک و قوم کے عقل مند حلقوں کا رجحان اس طرف ہو رہا ہے کہ اپنے اپنے فکری نظاموں کو عالم گیر اور انسانیت کا ترجمان بنا کر پیش کررہے ہیں اور تمام دنیا میں امن و سلامتی قائم کرنے کے لیے متحدہ بین الاقوامی حکومت کی ضرورت پیش کی جا رہی ہے۔ ایسے وقت میں اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اسلام ( جس سے بہتر انسانیت کے لیے کوئی مذہب، کوئی فلسفہ، کوئی تمدن اور کوئی قانون میسر نہیں آ سکتا) جو سب کے لیے بلا تفریق، مذہب قرار دیے جانے کا مدعی ہو اور وہ بہترین نظامِ حکومت پیش کر سکتا ہو، پھر بھی اسلام جیسے عالم گیر اور بہترین نظامِ زندگی پیش کرنے والے مذہب سے حقیقت کے متلاشی اور صداقت کے خواست گار، عقل مند اور مفکر انسانوں کا پہلو تہی کرتے رہنا حیرت انگیز ہے اور بے انصافی ہے۔ 
غیر از خدا ہر چہ پرستند ہیچ نیست 
بے دولت است آں کہ بہ ہیچ اختیار کرد 
(خدا کے علاوہ لوگ جس کسی کو بھی پوجتے ہیں، اس کی کوئی حیثیت نہیں اور وہ شخص بڑا محروم القسمت ہے جو بے حیثیت چیز کا انتخاب کر لے۔)
مذہب اسلام کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا، ایک حقیقت اور نفس الامر بات کو بیان کیا گیا ہے ۔ یہ کوئی خوش فہی ، حسنِ عقیدت اور مبالغہ پر مبنی نہیں ہے۔ اگر دنیا والے امن اور سلامتی کی زندگی چاہتے ہیں توان کو چاہیے کہ ٹھنڈے دل سے بخوشی و رضامندی ابھی سے اسلام کو تسلیم کر لیں، ورنہ آئندہ چل کر ٹھوکریں کھانے کے بعد لامحالہ ان کو اسلام کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ اگر غیر مسلم عقیدتاًاور مذہباً تسلیم نہ کرنا چاہیں تو ان کو اختیار ہے، اسلام کی طرف سے جبراً مطالبہ نہیں، لیکن نظماً اور سیاسۃً بھی اسلام سے بہتر کوئی نظام نہیں۔ اگر کسی صاحب کو اس کے متعلق تردد ہو تو وہ اسلام کے اصول و فروع کا مطالعہ کرکے اپنی تسلی کر سکتا ہے، یہاں سب باتیں تفصیل سے بیان نہیں کی جا سکتیں۔ 

قائد اعظم اور فوج کا سیاسی کردار

پروفیسر شیخ عبد الرشید

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ایک آئین پسند، جمہوری فکر کے حامل راہنما تھے جنہوں نے جمہوری جدوجہد، آئینی سیاست اور عوامی حمایت سے پاکستان حاصل کیا اورحصول آزادی کے فیصلہ کن ایام میں ۹جون ۱۹۴۷ء کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ ’’میں نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔ جب فیلڈ مارشل آرمی کو فتح سے ہمکنار کرتاہے تو اس کے بعد سول اتھارٹی کنٹرول سنبھال لیتی ہے۔‘‘ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ قائداعظم نئی ریاست میں سویلین کنٹرول کے حامی اور خواہشمند تھے۔ وہ ملک میں جمہوری نظام اور جمہوریت کے فروغ کے لیے ہی کوشاں تھے۔ اس حوالے سے ان کی سوچ شروع ہی سے واضح تھی۔ ۱۹۴۶ء میں دہلی میں رائٹرز Reuters کے نامہ نگار ڈون کیمپبل(Doon Campbell) کو انٹر ویو دیتے ہوئے قائداعظم نے کھلے الفاظ میں اظہار کیا کہ ’’نئی ریاست جدیدجمہوری ریاست ہو گی جس میں اقتدار اعلیٰ عوام کے پاس ہو گا اور نئی قوم کے اراکین کو شہریت کے مساوی حقوق حاصل ہو ں گے۔‘‘
ایک مدبر راہنما کے طورپر معمار پاکستان کا وژن حقیقت پسندانہ اور لائق تقلید ہے۔ وہ سول اور ملٹری امور پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ تقسیم ہند سے پہلے بھی برطانوی حکمران سول و ملٹری معاملات میں ان کی رائے کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ انہوں نے لارڈ چیمسفورڈ کے دور میں بمبئی میں ہونے والی صوبائی کانفرنس میں شرکت کی اور مشورہ دیا کہ ہندوستان میں کرائے کی فوج کی بجائے ایک قومی فوج (Citizen Army) تشکیل د ی جائے۔ قائداعظم کے مطالبے پر ہی ڈیرہ دون (بھارت) میں انڈین ملٹری اکیڈمی قائم کی گئی اور فوج کے لیے کمیشنڈ آفیسر تیار کیے گئے، تاہم نو آبادیاتی حکمرانوں نے سامراجی تسلط کی مضبوطی کے لیے لارڈ میکالے کی فکر پر مبنی نئی حکمت عملی اپنائی کہ ہندوستان میں ایسا طبقہ پیدا کر دیا جائے جو سامراجی آقاؤں اور مقامی رعایا کے درمیان رابطے کا ذریعہ بن سکے۔ یہ طبقہ رنگ و نسل کے لحاظ سے ہندوستانی ہو مگر فکرو عمل، رسم و رواج اور اقتدار کے اعتبار سے برطانوی ہو۔ نو آبادیاتی ہندوستان میں سول اور ملٹری زعما پر میکالے کے فلسفے کا سب سے زیادہ اثر ہوا اور گندمی انگریزوں کا طبقہ پیدا ہو گیا۔ بریگیڈیئر شمس الحق نے لکھا ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان کو فتح نہیں کیا بلکہ ہندوستان سے ہی دیسی فوج بھرتی کر کے پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا اور لگ بھگ ڈیڑھ سوسال اسی دیسی فوج کے سہارے پورے برِصغیر پر قبضہ قائم رکھا۔ انگریزوں کی افواج میں بعد میں بھی گورا سپاہیوں کی تعداد ایک تہائی سے زیادہ نہ ہوئی، البتہ افسر ہندوستانی فوج میں بھی سب کے سب انگریز ہی پیدا ہوا کرتے تھے۔ ان انگریز افسروں کے سہارے ہی برصغیر میں انگریزوں کی سلطنت قائم تھی ۔‘‘ 
نو آبادیاتی دور میں سول ملٹری تعلقات کی نوعیت یہ تھی کہ فوج کا کنٹرول حکومت برطانیہ کے ہاتھ میں تھا جبکہ مقامی کنٹرول گورنمنٹ آف انڈیا کا تھا۔ یعنی بھارت کی فوج اور دفاعی امور پربرطانیہ کا کنٹرول تھا، بھارتی مجلس قانون ساز کو صرف دفاعی بجٹ پر نظر ثانی کرنے کا اختیار حاصل تھا ۔ بھارت کے راہنما مطالبہ کیا کرتے تھے کہ دفاعی اخراجات پر مکمل اختیار دیا جائے اور دفاع کا محکمہ وزیر کے حوالے کیا جائے جو مجلس قانون ساز کو جوابدہ ہو ۔ ۱۹۳۵ء کے ایکٹ میں بھی دفاع اور خارجہ امور کے اختیارات گورنر جنرل کو دیے گئے تھے جو اسمبلی کو جوابدہ نہیں تھا، چنانچہ برصغیر میں حکومت میں سول اور ملٹری دونوں شریک کار کے طور پر کام کرتے تھے۔ فوج کی یہ حیثیت استعماری تقاضوں کے مطابق تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب تقسیم ہند کے بعد اگست ۱۹۴۷ء میں برطانوی حاکموں نے ان تمام سول اور فوجی ملازمین و افسران کو جو نو آبادیاتی ہندوستان میں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے، انہیں جبری ریٹائر کر دیا اور متاثرین نے شکایت و احتجاج کی صدا بلند کی تو انہیں حکومت برطانیہ نے جواب دیا کہ وہ ایک غلام ملک میں ’’آقائی ذہنیت ‘‘ کے ساتھ اپنے فرائض سرا نجام دیتے رہے ہیں۔ اس آقائی ذہنیت کو ایک جمہوری ملک برطانیہ عظمیٰ کی سروسز میں شامل نہیں کیاجا سکتا۔ مگراسے تاریخ کے جبر کے علاوہ کیا کہیے کہ برطانیہ کے برعکس پاکستان اور بھارت نوآبادیاتی دور کے سامراجی تربیت یافتہ فوجی زعما کو بحال رکھنے پر مجبور تھے کہ یہاں کوئی متبادل کیڈر نہ تھا۔ نو آزاد مملکت کے راہنماؤں کا فرض تھا کہ وہ سامراجی فوج کی آقائی ذہنیت اور حکمرانہ طرز فکر و عمل کو تبدیل کرنے کے لیے مناسب قانون سازی کرتے لیکن پاکستان میں دستور ساز اسمبلی نے آرمی ایکٹ ۱۹۱۱ء کو بالکل اُسی طرح اپنا لیاجیسے وہ تھا، حالانکہ یہ ایکٹ برطانوی آقاؤں نے اپنے نو آبادیاتی مفادات کے تحفظ، رعایا کے حقوق کو سلب کرنے اور آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے بنایا تھا۔ مگر ہم نے اس استعماری و نو آبادیاتی آرمی ایکٹ کو کسی ترمیم کے بغیر قبول کر کے جمہوری پاکستان پر پہلی ضرب لگائی ۔ 
برصغیر پاک و ہند کی فوج کا جدوجہد آزادی ہند یا تحریک پاکستان میں کوئی کردار نہ تھا چنانچہ حصول آزادی کے دوران فوجیوں کے دل میں پاکستان سے محبت اور والہانہ وابستگی کے جذبات جنم نہ لے سکے۔ تقسیم ہند کے فیصلہ کن مرحلے پر بھی مسلمان فوجی دل ہی دل میں بھارتی فوج کا حصہ رہ کر اپنا مقام اور اسٹیٹس قائم رکھنا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ علیحدہ ہو کر ان کی عسکری حیثیت اور شناخت کم ہو جائے گی، چنانچہ وہ پاکستان آرمی کی بجائے انڈین آرمی کہلانا زیادہ پسند کرتے تھے۔ اس کا پہلا اظہار تب ہوا جب جنوبی ایشیا میں سلامتی سے وابستہ برطانوی جرنیلوں نے تقسیم ہندکی مخالفت کی، بلکہ ان کا خیال تھا کہ تقسیم کی صورت میں بھی دونوں ریاستیں فوجی کنفیڈریشن کے طور پر مشترکہ دفاعی نظام میں رہیں گی۔ انہوں نے بالخصوص فوج کی تقسیم کی شدید مخالفت کی، لیکن قائداعظم محمد علی جناح نے انہیں یہ کہہ کر دھمکا یا کہ اگر پاکستان کو اپنی فوج کا کنٹرول نہ دیا گیا تو وہ ۱۴؍اگست کو اقتدار قبول نہیں کریں گے۔ ۳۰جون ۱۹۴۷ء کو افواج کی تقسیم کے لیے قائم کونسل کا اجلاس ہوا جس میں بھارت اور پاکستان کے فوجی اثاثوں کا تناسب ۶۴اور ۳۶تھا جو کم و بیش ہندوؤں اور مسلمانوں کے تناسب کے برابر تھا۔ چار لاکھ فوج میں سے پاکستان کو تقریباً ۳۳فیصد یعنی ڈیڑھ لاکھ فوج ملی۔ پاکستان کو چار ہزار فوجی افسران کی ضرورت تھی، لیکن اس کے پاس صرف ڈیڑھ ہزار افسر تھے جن میں پانچ سو برطانوی تھے ایک میجر جنرل ، ۲بریگیڈیئر اور ۵۳کرنل تھے۔ گیارہ مسلم ملٹری افسر سول سروس میں شامل ہو گئے۔ عارضی کمیشن ، شارٹ سروس اور اہلیت و تجربے کے بغیر قبل از وقت ترقیاں دے کر اس کمی کو پورا کیا گیا۔ فوج اور اثاثوں کی تقسیم کے مسائل کو پیش نظر رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے حصے میں آنے والی مسلم فوج پیشہ وارانہ لحاظ سے ایک کمزور فوج تھی ۔ 
یہ فوجی افسران تقسیم کے وقت بھی آزادی کے بجائے نوکریوں ،اپنی ترقیوں اور مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے۔ سپریم کمانڈر سرکلا وڈآکن لیک کے پرائیویٹ سیکرٹری میجر جنرل شاہد حامد اپنی کتاب ’’DisastrousTwilight‘‘ میں آزادی سے چند روز پہلے فوجی افسران سے قائداعظم کی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ۳؍اگست ۱۹۴۷ء کو انہوں نے اپنے گھر پر جنرل آکن لیک، بحریہ و فضائیہ کے سربراہان، پرنسپل سٹاف آفیسرزوغیرہ کو مدعو کیا اور قائداعظم کو بھی خصوصی طور پر دعوت دی۔ تقریب میں قائداعظم خوشگوار باتیں کرنے کے موڈ میں تھے۔ وہ صرف اس وقت رنجیدہ و سنجیدہ ہوئے جب ایک فوجی افسر نے پاکستان میں ترقی کے بارے میں سوال کر دیا۔ قائداعظم نے جذباتی ہو کر سوال کرنے والے کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور کہا: ’’آپ مسلمان یا تو آسمانوں سے باتیں کرتے ہیں یا دھم سے نیچے گر پڑتے ہیں۔ آپ متوازن راستہ اختیار نہیں کرسکتے۔ تمام ترقیاں اپنے وقت پر ہوں گی اور پاگل پن سے یا جلد بازی میں نہیں کی جائیں گی۔‘‘ انہی افسران کے ایک اور سوال کا جواب دینے سے پہلے ہی قائداعظم ان فوجی افسران کے ارادے اور خیالات بھانپ گئے اور بڑے دو ٹوک انداز میں فرمایا: ’’ پاکستان کی منتخب حکومت سول افراد پر مشتمل ہو گی۔ جو بھی جمہوری اصولوں کے برعکس سوچتاہے، اُسے پاکستان کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ میجر جنرل شاہد حامد کے بیان سے ظاہر ہوتاہے کہ مسلمان فوجی افسران کو آزادی اور حصول پاکستان کی خوشی کم اوراپنی نوکریوں اور ترقیوں کی فکر زیادہ تھی ۔ ایک مدبر راہنما کی حیثیت سے قائداعظم کواس ملاقات میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ فوجی افسران پاکستان کو اپنی ذاتی جاگیر بنانے کی کوششیں کریں گے، چنانچہ انہوں نے بغیر کسی ابہام کے واضح کر دیا کہ یہاں منتخب سول حکومت ہو گی اور جو اس کے برعکس خواہش رکھتاہے، وہ پاکستان منتقل ہونے کا خیال دل سے نکال دے۔
پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے انحراف کے ارادے رکھنے والے فوجی افسران کو بابائے قوم کی جانب سے اس سے زیادہ واضح انتباہ اور کیا ہو سکتاتھا، مگر اس کے باوجود نو آبادیاتی عہد کے تربیت یا فتہ یہ افسران اپنی سوچ اور عمل میں تبدیلی نہ لا سکے اور پاکستان کی آزادی کے دن بھی ان آقائی ذہنیت کے حامل افسران نے آنے والے دنوں کی نحوست کا اظہار کردیا۔ ایئر مارشل (ر) محمد اصغر خاں فوجی افسران کے اس رویے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’۱۴؍اگست کا دن تھا۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کراچی میں ایک استقبالیہ دے رہے تھے جس میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو مدعو کیا گیا تھا۔ حاضرین میں د فاعی ملازمتوں کے چند عہدیدار بھی تھے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ قائد اعظم اپنے مہمانوں کے درمیان بے تکلفی سے گھوم پھر رہے ہیں، وہ فوجی افسر بھی قائداعظم کے قریب آگئے۔ انہیں وردی میں د یکھ کر قائدا عظم نے پوچھ لیا کہ آپ لوگ کیسے ہیں؟ اس بے تکلفی سے اس گروپ کے ایک افسر کرنل اکبر خاں (بعد میں راولپنڈی سازش کیس والے میجر جنرل اکبر خاں) کو حوصلہ ملا اور انہوں نے دفاعی حکمت عملی پر اپنے خیالات کی وضاحت شروع کر دی۔ جوشِ بیان میں انہوں نے ایسے معاملات پر جو ایک جمہوری نظام میں کسی سول حکومت کی ذمہ داری ہوتے ہیں، یہ مشورہ دینا شروع کر دیا کہ دفاعی ملازمتوں کا انتظام کس طرح چلانا چاہیے۔ ابھی کرنل اکبر نے بات پوری نہیں کی تھی کہ قائداعظم نے ان کی گفتگو درمیان سے ہی قطع کر دی۔ اپنی انگلی اٹھا کر انہوں نے اکبر خاں پر کڑی نظر ڈالی اور دھیمے لہجے میں ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا کہ’’ یہ نہ بھولیے کہ آپ لوگ جو مسلح افواج میں ہیں، عوام کے خادم ہیں۔ قومی پالیسی آپ لوگ نہیں بناتے۔ یہ ہم شہری لوگ ہیں جو ان معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں اور آپ کا فرض ہے کہ جو ذمہ داری آپ کو سونپی جائے، اسے پورا کریں۔‘‘ 
قائداعظم فوجی افسران کے رویے کا مسلسل مشاہدہ کر رہے تھے اور بھانپ گئے تھے، چنانچہ انہوں نے ہر موقع پر سول اداروں اور سول قیادت کی بالادستی کی پر زور تلقین کی۔ وہ سول و ملٹری ملازمین کو پیشہ وارانہ سرگرمیوں تک محدود رکھنے کے حامی تھے، مگر ابتدائی دنوں میں ہی مسلمان فوجی افسران کی بدمستی و من مانی کی شکایات ملنے لگیں۔ قائد اعظم کے خدشات کو تقویت اس وقت ملی جب ایوب خاں کو مہاجرین کی آبادکاری کے سلسلے میں سردار عبدالرب نشتر کی معاونت کی ذمہ داری دی گئی۔ سردار عبدالرب نشتر نے قائد اعظم کو رپورٹ پیش کی کہ ایوب خاں نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں اور اس کا رویہ پیشہ وارانہ نہیں ہے۔ قائداعظم نے رپورٹ کی فائل پر لکھا کہ ’’میں اس آرمی آفیسر کو جانتا ہوں۔ وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے۔ اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس مدت کے دوران بیج نہیں لگائے گا۔‘‘ ابتدائی مہینوں میں قائداعظم کو ملٹری افسران کی سول اتھارٹی کی تابعداری کے حوالے سے ایک اور تجربہ ہوا۔ میجر جنرل شاہد حامد کے مطابق ۲۷؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو قائداعظم نے کمانڈر انچیف سرڈگلس گریسی کو حکم دیا کہ افواج پاکستان کو جموں و کشمیر بھیجا جائے اور سری نگر اور درہ بانہیال پر قبضہ کر لیا جائے۔ جنرل گریسی نے گورنرجنرل کے احکامات کی تعمیل سے انکار کر دیا۔ جنرل گریسی کے پرائیویٹ سیکرٹری ولسن کے مطابق ماؤنٹ بیٹن نے گریسی کو فون کیا اور دھمکی دی کہ اگر اس نے فوج کو کشمیر کی جانب روانہ کیا تو وہ یقین کر لے کہ اسے’’ نائٹ ہُڈ‘‘ کا خطاب نہیں ملے گا۔ گریسی نے اس کی مشروط اطاعت کی ۔ ‘‘ جنرل گریسی کی حکم عدولی نے ملک میں فیصلہ سازی کے عمل پر سوالیہ نشان لگادیا۔ جنرل گریسی کے گورنر جنرل کے احکامات سے انکار نے فوج کے تابعداری نظام کا پول بھی کھول دیا۔ ایسی فوج جس کی روایت میں سول حکومت کی وفاداری شامل ہو، وہ سیاسی مداخلت نہیں کرتی کیونکہ فوجی تنظیم کی اساس تابعداری ہے۔ ہر رینک اپنے سے اوپر والے کی اطاعت کرتاہے۔ یہ سلسلہ اعلیٰ فوجی مناصب تک جا پہنچتا ہے جہاں military top brass سول اتھارٹی کی مطیع ہوتی ہے، یعنی فوج کا مطلب ہی حکم بجا لانا ہے ۔ ان معنوں میں جنرل گریسی نے سربراہ مملکت کے حکم کی تعمیل نہ کر کے فوج کے مستقبل کے ارادوں کو آشکارا کر دیا۔ 
فوج کی پیشہ وارانہ امور کے بجائے دیگر امور میں دلچسپی کے حوالے سے ایک اورواقعہ ایوب خاں نے خود نوشت سوانح عمری’’ فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ میں درج کیا ہے کہ وہ مشرقی پاکستان میں جی او سی تھے جب یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو وہاں کے طلبہ اپنے مطالبات کے لیے سخت احتجاج کر رہے تھے۔ انہوں نے اسمبلی کی عمارت پر حملہ کرنا چاہا۔ ایوب خاں نے فوجی یونٹ کی مددسے اسمبلی کو گھیرے میں لے لیا اور طلبہ کو اسمبلی کی عمارت میں داخل ہونے سے روکا ۔ اسی واقعہ کی وضاحت Brain Cloughleyنے اپنی کتاب میں یوں کی ہے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایوب خاں کو احساس ہوا کہ سیاستدان ہنگامی صورتحال میں فوج کی مدد کے بغیر اپنا تحفظ نہیں کر سکتے۔ ایوب خاں نے جی او سی کی حیثیت سے وہاں کے اپوزیشن لیڈر محمد علی بوگرہ سے یہ الفاظ کہے کہ Are you looking for a bullet?کیا تم گولی کا انتظار کر رہے ہو؟ اسی ایک جملے کے نفسیاتی تجزیے سے اندازہ ہو جاتاہے کہ فوج کے عام افسر ۱۹۴۸ء میں ہی سیاستدانوں پر غلبہ پا چکے تھے۔
باوجود یکہ پاکستان کی آزادی میں فوج کا کوئی کردار نہیں تھا، اس آزادی کے تحفظ کے لیے پاکستان کو ایک فوج کی ضرورت تھی، خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاک فوج کی ناکامی نے سکیورٹی کو پاکستان کی اولین ترجیح بنا دیا تھا ۔ میجر جنرل شیر خاں کی ہدایت پر قدرت اللہ شہاب نے ۴۸۔۱۹۴۷ کی کشمیر جنگ کے بارے میں تحقیق کی تو ظاہر ہوا کہ کشمیر کی جنگ کے دوران میجر یحییٰ خاں اور لیفٹیننٹ کرنل اعظم خاں محاذ سے بھاگ گئے تھے اور انہوں نے اپنی رجمنٹ کے جوانوں تک کو بھی اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ ایسی کمزور فوج کو مضبوط بنانے کا احساس ملک بھر میں پیدا ہوا چنانچہ سول حکمرانوں نے ابتدائی سالوں میں ملک کا ستر فیصد بجٹ دفاع پر خرچ کرنا شروع کر دیا۔
مذکورہ واقعات اور فوجی افسران کے رحجانات ہی تھے جنہوں نے بابائے قوم کو پریشان کر رکھا تھا۔ وہ ۲۵ مارچ ۱۹۴۸ کو مشرقی بنگال کے گزٹیڈ افسروں سے خطاب کرنے گئے تو انہوں نے اسی پس منظر میں سرکاری ملازمین کو ان کے فرائض سے آگاہ کیا اور فرمایا ’’دوسرانکتہ مختلف محکموں میں عوام الناس کے ساتھ آپ کے رویے اور برتاؤ کا ہے۔ آپ جہاں بھی ہوں، پرانے تاثر کو ذہن سے نکال دیجیے۔، آپ حاکم نہیں ہیں، آپ کا حکمران طبقے سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ کا تعلق خدمت گاروں کی جماعت سے ہے۔ عوام الناس میں یہ احساس پیدا کر دیجیے کہ آپ ان کے خادم اور ان کے دوست ہیں۔‘‘ قائداعظم کی یہ تقریرسول اور ملٹری افسران کے لیے ضابطہ اخلاق کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں ان کی حدود کا تعین ہے اور سیاست سے دور رہنے کی تلقین و پابندی بھی۔ 
جنرل گریسی سے ایوب خاں تک فوجی افسران کی اہلیت و کارکردگی، عزم اور عزائم دیکھنے کے بعد جب بانی پاکستان ۱۴؍جون ۱۹۴۸ء کو پہلی اور آخری دفعہ سٹاف کالج کوئٹہ گئے تو وہاں انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر افسران کو فراموش کردہ فرض شناسی یاد دلائی اور’’ایک دو بہت اعلیٰ عہدے کے افسران‘‘ کی لاپرواہی کے رویے پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس موقع پر خطاب میں انھوں نے ان افسران کو خبردار کیا کہ ان میں سے بعض افسران پاکستان سے کیے ہوئے اپنے حلف کے مضمرات سے آگاہ نہیں ہیں۔ پھر انہوں نے دوران تقریر ان فوجی افسران کو یاد دہانی کے لیے ان کا ’’حلف‘‘ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اسے سمجھیں۔ انہوں نے فوجی افسران کے حلف کی یادداشت کو تازہ کرنے کے فوری بعد فرمایا کہ ’’جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے کہ جذبہ ہی اصل اہمیت کا حامل ہے، میں چاہوں گا کہا کہ آپ اس آئین کا مطالعہ کریں جو اس وقت پاکستا ن میں نافذ ہے اور اس کے حقیقی آئینی اور قانونی تقاضوں کا ادراک کریں۔ جب آپ یہ عہد کرتے ہیں کہ آپ ڈومینین کے آئین کے وفادار رہیں گے، میں چاہتاہوں کہ آپ اسے یاد رکھیں اور وقت ملنے پر گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کا مطالعہ کریں جسے پاکستان میں نافذ کرنے کے لیے قبول کر کے، گورنر جنرل کی منظوری سے موافق بنایا گیا ہے۔ یہی قانونی پوزیشن ہے۔‘‘ قائداعظم کا فوجی افسران سے خطاب بڑا واضح اور غیر مبہم ہے جس میں تکرار کے ساتھ آئین اور حلف کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ چونکہ قائداعظم کی زندگی ہی میں فوج نے آئین اور حلف سے ماورا سرگرمیاں شروع کردی تھیں، اس لیے آئین پسند گورنر جنرل کو خود انہیں آئین اور حلف کی اطاعت کی یاد دہانی اور تاکید کرنا پڑی مگر سیاسی تاریخ شاہد ہے کہ مسلح افراد کا کردار قائداعظم کے ارشادات و فرمودات کے بالکل برعکس رہا۔
گورنر جنرل اور بابائے قوم سے وفاداری کاایک اور مظاہرہ ۱۱؍ستمبر ۱۹۴۸ کو بھی دیکھنے کو ملا۔ جب شدیدبیماری کے عالم میں بابائے قوم کو آرمی کی ایمبولینس میں ایئر پورٹ سے گورنر جنرل ہاؤس لے جایا رہا تھا تو انتہائی ڈسپلن اور مثالی کارکردگی والی فوج کی ایمبولینس مختصر راستے میں ہی خراب ہو گئی اور وفادار فوج کوئی متبادل انتظام نہ کر پائی اور قائداعظم کسمپرسی کے عالم میں برلب سڑک آرمی ایمبولینس میں ہی دم توڑ گئے۔ یہ المناک واقعہ قائداعظم کے ساتھیوں اور سول ملٹری ملازمین کی بے حسی اور بانی پاکستان سے محبت کے فقدان کا نمایاں مظہرہے۔ وہ قائداعظم جو بار بار زعما کو یہ یاد کراتے رہتے تھے کہ ’’مجھے یقین ہے کہ جمہوریت ہمارے خون میں شامل ہے۔ یقیناًیہ ہماری ہڈیوں کے گودے میں ہے۔ صدیوں کے ناموافق حالات نے ہمارے خون کی گردش کو سرد کر دیا ہے۔ خون منجمد ہو چکا ہے اور ہمارے جسم کی شریانیں کام نہیں کر رہیں۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ خون دوبارہ گردش کرنے لگا ہے۔ اب یہاں عوام کی حکومت ہو گی۔‘‘ قائداعظم آشنا تھے کہ فوج فکر، ذہن، مزاج اور فطرت کے لحاظ سے نوآبادیاتی فوجی روایات کی امین ہے۔ اسے مزاج ، فطرت اور سٹرکچر کے اعتبار سے آزاد پاکستان کی فوج بنانے کی ضرورت ہے۔ جو بانی پاکستان آقائی ذہنیت کو برا بھلا کہہ کر عوام کی حکمرانی کا درس دیتے تھے، انہیں آرمی ایمبولینس میں سڑک پر عوام کے سامنے تماشہ بنا کر رکھ دیا گیا اور پھر ان کی وفات کے بعد ان کے افکار کو بھی ان کی میت کے ہمراہ تابوت میں بند کر کے سپرد خاک کر دیا گیا۔ بعد ازاں ان کے افکار و نظریات نے ریاست میں ڈیکوریشن پیس کی حیثیت حاصل کر لی اور پھر سول ملٹری بیوروکریٹ یا طالع آزما جنرل نے جیسے چاہا، قائداعظم کے ویسے ہی سرکاری اقوال نشر ہونے لگے۔ قائداعظم کی زندگی میں ہی اور پھر ان کی وفات کے بعد بھی فوج نے قائد کے تصورات کی بجائے ان کے خد شات کو سچ کر دکھایا ۔ ۱۹۵۱ء کی راولپنڈی سازش سے لے کر اب تک فوج کی مداخلت، آئین اور حلف سے انحراف قائداعظم کی روح کو بے چین کیے ہوئے ہے۔ 
افکار قائداعظم کے برعکس حکمرانی کا عزم لے کر بیرکوں سے نکلے ہوئے فوجی افسران جب بنگلوں میں پہنچے تو واپسی کا راستہ ہی بھول گئے۔ گویا اپنے فرض کو بالائے طاق رکھ دیا۔ ورنہ کیا مشرقی پاکستان علیحدہ ہوتا؟ سیاچن اور کارگل کی ہزیمت ہمیں اٹھا نا پڑتی؟ قائداعظم کی آنکھیں بند ہونے کے بعد جرنیلوں اور ان کے بڑھائے ہوئے سیاسی مہروں نے قومی مفادات کے بجائے ذاتی مفادات کو اہمیت دی۔ اقتدار پر بالواسطہ اور بلاواسطہ قبضوں کا سلسلہ جاری ہو گیا اور پھر اپنے قبیلے کے دیگر ساتھیوں یعنی اعلیٰ افسران کی ہمدردیوں اور وفاداریوں کے لیے بے پناہ مراعات کا بازار گرم ہوا۔ قومی اداروں کی سربراہی سے لے کر غیر ملکی سفارتی عہدوں تک کو اپنے ساتھی جرنیلوں یادیگر فوجی عہدیداران کے حوالے کر دیاگیا۔ جرنیلوں اور وردی کی چھتری تلے سانس لینے والے عوامی حمایت سے محروم ابن الوقت ٹولے نے ملی مفادات کا سودا نہایت سستے داموں شروع کر دیا۔ اس روش اور تسلسل و دوام کے باعث ہر طرف مایوسیوں، ناامیدیوں اور غیر یقینی کے مہیب سائے پھیل گئے اور اب تو یہ صورتحال ہے کہ الامان و الحفیظ۔
گزشتہ چھ دہائیوں سے قائداعظم کے تصورات اور ان کا پاکستان نو آبادیاتی نظام کی باقیات کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ حکمران ٹولے کو تو اپنے مفادات سے فرصت نہیں مگر قائداعظم کی بے چین روح چودہ کروڑعوام کی حرکت کی منتظر ہے جن کی حکمرانی کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا۔ جب تک پاکستان میں جمہوریت حقیقی معنوں میں بحال نہیں ہو جاتی، فوج بیرکوں میں واپس جا کر اپنے حلف اور آئین کی حدود کی پابند نہیں ہو جاتی، سول اداروں اور سویلین قیادت کی بالادستی قائم نہیں ہو جاتی، قائداعظم کی روح کو قرار نہیں آسکتا۔ کیا ہم اتنے بے حس اور اتنے بے بس ہو گئے ہیں کہ بابائے قوم کے پاکستان کو آزاد کرانے کے لیے اٹھ کھڑے نہیں ہو سکتے؟ کیاکارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا ہے؟ 
قائداعظم نے ہمیں انگریز آقاؤں کی غلامی سے نجات دلائی لیکن قائداعظم کے پاکستان میں بسنے والے ۱۴کروڑ عوام میں کوئی ایسا نہیں جو ہمیں لارڈ میکالے کے فکری سانچے میں ڈھلنے والے آقائی ذہنیت کے حامل فوجی طالع آزماؤں سے نجات دلاسکے۔ جب تک وطن عزیزمیں فوج کی سیاست میں مداخلت اور حکمرانی جاری رہے گی، قائداعظم کا پاکستان معرضِ وجود میں نہیں آسکے گا۔ فوجی طالع آزماؤں نے بانی پاکستان اور شہدائے پاکستان کی جمہوری کاوشوں سے حاصل کردہ پاکستان کو اپنی ہوسِ اقتدار کی بھینٹ چڑھا دیا۔ کیا موجودہ پاکستان قائداعظم کا پاکستان ہو سکتا ہے؟ سادہ الفاظ میں کیا قائداعظم کے پاکستان میں فوج کا کوئی سیاسی کردار ہو سکتاہے؟ یہ سوال ہمارے تاریخی ارتقا کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہو گیا ہے۔ 

سنت کی دستوری اور آئینی حیثیت

ڈاکٹر محمد سعد صدیقی

(الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں فکری نشست سے خطاب۔)

الحمد للہ وکفیٰ وسلام علی ٰعبادہ الذین اصطفیٰ اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلو علیھم اٰیاتک ویعلمھم الکتب والحکمۃ ویزکیھم انک انت العزیز الحکیم۔ صدق اللہ العظیم
جناب صدر محترم! میرے بہت عزیز بھائی اور ساتھی ڈاکٹر عبد اللہ صاحب، برادر عزیز جناب اکرم ورک صاحب، اساتذہ کرام و معزز حاضرین!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرے لیے یہ بڑی خوش قسمتی اور سعادت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ پھر مجھے اس علمی ادارے میں حاضری کا شرف بخشااور آپ حضرات سے ملنے اور آپ حضرات کی زیارت کاموقع مرحمت فرمایا۔ لیکچراور گفتگو تو ایک بہانہ ہوتا ہے، اصل مقصد تو کسی علمی ادارے میں آنا، کسی علمی ادارے کو دیکھنا اور احباب سے ملاقات و گفتگو کرنا ہوتا ہے، اس لیے کہ احباب سے ملاقات اور علمی احباب سے ملاقات بجائے خود ایک علمی مجلس ہوتی ہے اور بجائے خود ایک ثواب کا اور ایک عبادت کا کام ہے۔ باقی یہ کہ میں کیا گفتگو کروں گا؟ میں جو گفتگو کروں گا، وہ یقیناًپہلے سے آپ حضرات کے علم میں ہوگی۔ شاید ہی کوئی ایسی بات ہو جو آپ حضرات کے لیے نئی ہو یا شاید ہی کوئی ایسی بات ہو جو آپ حضرات کے علم میں اضافے کا باعث ہو۔ جہاں تک موضوع کا تعلق ہے، تو سنت کی دستوری اور آئینی حیثیت پر گفتگو ہو گی، اس کے ضمن میں سنت سے استنباط اور استخراج مسائل کے فقہا کے جو اسالیب ہیں، اس پر بھی تھوڑی سی گفتگو ہو گی ۔
سنت کے حوالے سے اس طرح کی گفتگو اور اس طرح کا مواد آپ کو بے شمار کتابوں میں ملے گااور وہ یقیناًآپ حضرات نے پڑھ رکھا ہو گااور آپ کے علم میں ہوگا، لیکن اس وقت جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اور جن حالات کا ہمیں سامنا ہے، ایک علمی ادارے سے وابستگی اور دین سے وابستگی کی وجہ سے ان حالات میں ہماری ذمہ داریاں کچھ بڑھ گئی ہیں۔ تہذیبی، ثقافتی اور تمدنی اعتبار سے جس طریقے سے دین اسلام کو اور دین اسلام کی اقدار وروایات کو جس طرح تباہ وبرباد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور گلوبلائزیشن کی شکل میں پوری دنیا کی سطح پر ایک فتنہ جو ہمارے سامنے موجود ہے، ہمیں اس فتنے کا احساس، ادراک اور علم بھی ہونا چاہیے اور اس فتنے کے تدارک کے لیے بھی ہمیں کچھ سوچنا چاہیے۔ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اورمشکل یہی ہے ۔
ابھی پچھلے دنوں ریڈیو کے ایک سیمینار میں شریک تھا۔ اس میں، میں نے یہ بات کہی کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس وقت جاگتے ہیں جب کوئی فتنہ پوری امت مسلمہ کے اندر جڑ پکڑ چکاہو اور وہ فتنہ امت مسلمہ کو، اس کے ایک طبقے کویا ایک جگہ کے لوگوں کو ایسی جگہ پر پہنچا چکا ہو جہاں سے واپسی بڑی مشکل نظر آتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بروقت فتنے کا ادراک نہیں کر سکتے اور اس کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ اس کا احساس ہمیں تب ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ اس وقت جو سب سے بڑا فتنہ ہمارے سامنے ہے، اس فتنے کا ادراک ہمیں ہونا چاہیے اور اس کے ادراک کے ساتھ ساتھ اس کے تدارک کی جو تدابیر ہیں، ان سے بھی ہمیں آگاہ ہونا چاہیے ۔ وہ فتنہ کیا ہے ؟وہ فتنہ یہ ہے کہ مذہب پرستی اور مذہبی بنیادوں پر انسانوں کی شناخت اور ان کا امتیاز ختم ہو جائے۔ کسی کا کوئی مذہب نہ ہو۔ نہ کوئی مسلمان ہو ،نہ عیسائی ہو ،نہ سکھ ہو، نہ ہندو ہو۔ کسی کا کوئی مذہب نہ ہو اور کوئی انسان اس قسم کا ٹائیٹل اپنے اوپر چسپاں کر نے والا نہ ہو،بلکہ انسانیت کی بنیادوں پر سب ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے والے اور ایک دوسرے کے نظریات اور عقائدوافکار کا احترام کر نے والے اور رواداری کاسبق پڑھنے والے ہوں۔
میں ایک دفعہ ایک مجلس میں تھا تو وہاں یہ بات سامنے آئی، بعض لوگوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ اس وقت اتحاد امت کے حوالے سے جو فکر امت میں پیدا ہو رہی ہے، یہ بڑی مستحسن چیز ہے تو میں نے اس پر یہ عرض کیا کہ معاف کیجئے گا، جو چیز آپ کو مستحسن نظر آرہی ہے، مجھے تو اس میں سے فتنے کی بو آرہی ہے۔ ہمارے ایک دوست کہنے لگے !صاحب آپ کیا کسی فتنے کی بو میں پڑ گئے ہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ میں نے پھر وہی عرض کیا کہ جناب مجھے تو اس سے فتنے کی بو آرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کس فتنے کی بو آرہی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس فتنے کی بو آرہی ہے کہ جب ہم اتفاق و اتحادکا سبق پڑھ لیں گے تو اس کے معنی یہ ہو ں گے کہ کوئی بھی شخص آپ کے سامنے بیٹھ کر جیسے چاہے دین کا حلیہ بگاڑے، آپ نہیں بولیں گے، کیونکہ آپ نے اتحاد واتفا ق کا سبق سیکھا ہوا ہے۔آج وہ بات ہمارے سامنے موجود ہے۔ آج اگر آپ کے سامنے کوئی دین کا حلیہ بگاڑتاہے اور آپ بولتے ہیں تو فوراً آپ پر فرقہ پر ستی ، دہشت گردی ،انتہاپسندی اور فرقہ وارانہ فسادات کے پھیلانے کا الزام لگ جاتا ہے۔ یہ فتنہ آج ہمارے درمیان موجود ہے اور پنپ رہا ہے کہ مذہبی بنیادوں پر انسانوں کی جوشناخت ہے، مذہبی بنیادوں پرانسانوں کی جو تہذیب ہے اور مذہب کی بنیادوں پر انسانوں کی جو ثقافت تعمیر ہوتی ہے، اسے ختم کیا جائے اور انسان کی کوئی بھی ثقافت، کوئی بھی تمدن، کوئی بھی معاشرت مذہب کی بنیادوں پر قائم نہ ہو۔
یہ فتنہ ہے۔ اس فتنے کے ادراک اور تدارک کا معاملہ جب آتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کے تدارک میں سنت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔آپ اسلام کی بنیاد پر اپنے آپ کو دوسری قوموں سے ممتاز اور نمایاں کرنا چاہتے ہیں، آپ اگر اسلامی ثقافت وتہذیب کو رائج کرنا چاہتے ہیں، اسلام کے تمدن اور اسلامی معاشرت کو رائج کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو سنت کا سہارا لینا پڑے گا۔ سنت کا سہارا لیے بغیر نہ آپ اسلام کی شناخت پیدا کر سکتے ہیں نہ اسلامی تہذیب وتمدن پیدا کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسلامی معاشرت پیدا کر سکتے ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے ہمیں سنت کی عظمت اور سنت کی اہمیت کا ادراک ہونا چاہیے۔ اس وقت اس حوالے سے جو فتنہ ہمارے سامنے آرہا ہے، اس میںیہی بات ہمارے سامنے آرہی ہے کہ سنت کی حیثیت اور سنت کی عظمت کم کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ نعرہ لگایا جا رہا ہے کہ قرآن ایک مکمل کتاب ہے ، ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور حیات ہے۔ہمیں اس قرآن سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے اوراس قرآن کو دیکھنا چاہیے۔ اس حوالے سے سنت کے متعلق آپ کی معلومات کو تازہ کر نا ہے اور اس پر پڑی ہوئی گرد کو ہٹانا ہے تاکہ سنت کے حوالے سے ہمارے اندر صحیح فکر پیدا ہو۔ 
سنت کی جو تعریف علماے اصولیین، ماہرین اصول فقہ نے کی ہے، ان میں سے علامہ آامدی ’’الاحکام فی اصول الاحکام‘‘ میں سنت کی تعریف یہ بیا ن فرماتے ہیں کہ ’’سنت کا اطلاق ان تمام امور پر ہوتا ہے جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں یا وہ تمام دلائل جو آپ سے قولاًیا عملًا ثابت ہیں، لیکن وہ قرآن نہیں ہیں۔‘‘ یہ بات ذرا قابل غور ہے۔ تعریف کا آخری جز یہ بتلاتا ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً اورعملًا ثابت ہیں، لیکن وہ قرآ ن نہیں ہیں۔اس کا معنی یہ ہوئے کہ ہم اسے ا س واسطے چھوڑ نہیں سکتے کہ یہ آپ سے ثابت تو ہیں آپ کا قول اور عمل تو ہیں، لیکن چونکہ قرآن نہیں ہیں، اس لیے ہمیں اس کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ہمیں اس کی عظمت اور اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ علامہ آمدی کی تعریف کا یہ جز اسی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔
اسی بات کی طرف اشارہ ہمیں ایک اور تعریف میں ملتا ہے جو علامہ خضری بک نے کی ہے ۔وہ فرماتے ہیں کہ سنت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کا نام ہے اور اس کے آخر میں انہوں نے ایک بہت اچھی، نمایا ں اور ممتاز بات کہی: ’ویقابلہ البدعۃ‘ کہ اس کے مقابلہ میں جو لفظ آتاہے، وہ بدعت کا لفظ ہے ۔بعض اوقات ’تعرف الاشیاء باضدادھا‘ چیز کو اس کی ضد اور الٹ سے سمجھا جاتا ہے۔علامہ خضری بک کے ا س جملہ سے سنت کی اہمیت واضح ہو رہی ہے کہ دین کا حصہ وہ چیز بن سکتی ہے جو جنا ب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً، عملًا یا فعلاً ثابت ہو۔ اگر ان تینو ں میں سے کسی طرح سے بھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے تووہ دین کا حصہ نہیں بن سکتی۔ اگر بنے گی تو بدعت کہلائے گی۔ اس کے معنی یہ کہ دین کا حصہ بننے میں یا دین کی تدوین میں سنت کی کتنی اہمیت ہے ۔
یہاں میں ایک اور بات واضح کر دوں کہ آج کے دورکے جدید مفکرین اپنی ربع صدی کی تحقیقا ت کا جو نتیجہ بیان کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سنتیں ہیں، ان کی تین نوعیتیں ہیں ۔ایک آپ کے وہ اعمال و افعال اور اقوال ہیں جو آپ نے بحیثیت ایک انسان کے سر انجام دیے۔ آپ کی ذاتی عادتیں ہیں مثلاًآپ اس طرح چلتے تھے، اس طرح کھاتے تھے، اس طرح پیتے تھے، اس طرح مسکراتے تھے۔ اور کچھ چیزیں وہ ہیں جو ملت ابراہیمی کا تسلسل تھیں اوراس دور کی تہذیب وثقافت اور تمدن و معاشرت میں موجود تھیں یا ملت ابراہیمی کے تسلسل کے طور پر آپ کو القا کی گئیں اور وحی الٰہی کے ذریعے بتلائی گئیں۔ اور کچھ چیزیں وہ ہیں جو آپ نے بحیثیت ایک نبی ہو نے کے اپنی نبوی اور رسالت کی زندگی میں سر انجام دیں۔ بقول ان کے میری ربع صدی کی تحقیقات کے مطابق کل بیالیس (۴۲) سنتیں ہیں جن کو آپ نے بحیثیت نبی ہونے کے سرانجام دیا اور صرف ان سنتوں کی اقتدا اور پیروی ہمارے لیے ضروری ہے، باقی کسی چیز کی پیروی ہمارے لیے ضروری نہیں ہے۔ یہ ایک جدید فکرہے۔ اس فکر جدید کا اگر آپ کہیں سلسلہ ملانا چاہیں اور اس کی جڑتلاش کرنا چاہیں تو مجھے یوں محسوس ہوتاہے کہ علامہ اقبال ؒ نے اپنے چھٹے خطبے میں ایک بات کہی ہے کہ اصل میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سنت ہے، وہ بعض مخصوص تہذیبی روایا ت و اقدار کا مظاہرہ ہے۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خاص تہذیب اور خاص ثقافت کے اندر رہے، لہٰذا آپ نے وہ کام کیے۔ ہم چونکہ اس تہذیب سے باہر ہیں، لہٰذا ہمارے لیے ان چیزوں میںآپ کی اقتدا اور پیروی ضروری نہیں ہے۔ یہ کچھ اشارہ ہے جو ان کے چھٹے خطبے میں ہے ۔غالباً اسی اشارے سے یہ فکر پیدا ہوئی۔ بہرحال اس پر تحقیق کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے یہ بات سمجھیں کہ کیا وہ تہذیب وثقافت اور تمدن جس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر مبارک کے تریسٹھ برس گزارے ہیں، جس دن آپ اس دنیا میں تشریف لائے تھے، جیسی تہذیب اس دن تھی، ویسی ہی تہذیب تریسٹھ برس کے بعد اس دن بھی تھی جس دن آپ اس دنیا سے پردہ فرما گئے؟ ایسا ہر گز نہیں بلکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے نے جو انقلاب انسانیت کے اندر برپا کیا ہے، اس انقلاب کی مثال تاریخ انسانیت کے اندر ملناممکن نہیں، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی زمانے میں اور نہ ہی آپ کے بعد۔چودہ سو برس سے زائد توگزر چکے ہیں، آئندہ پتہ نہیں کتنے گزریں گے ۔
ہم تو بحیثیت مسلمان ہونے کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کے ان چیزوں کو مانتے ہی ہیں ۔ ایک ایسا شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی نہیں ہے، انسانی تہذیب وثقافت میں تبدیلی کرنے والی شخصیتوں کے تذکرے لکھتا ہے، وہ کہتا ہے کہ انسانی تاریخ میں سو آدمی ایسے ہیں جنہوں نے انسانی تہذیب وثقافت میں نمایاں تبدیلیاں کی ہیں اور ان سو آدمیوں میں پہلا نمبر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتا ہے، حالانکہ وہ خودعیسائی ہے لیکن اس نے حضرت عیسیٰ ؑ کو پانچویں نمبر پر رکھا ہے۔ ’’The Hundred‘‘ کے نام سے اس نے جو کتاب لکھی ہے، اس میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا نمبر ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ یہ بات تو بالکل خلاف واقعہ، جھوٹ اور غلط ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس تہذیب میں آنکھ کھولی تھی، وہ اس دن بھی ویسی ہی تھی جس دن آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔یہ بات سراسر بہتان ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تہذیب وثقافت میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔ وہ تبدیلیاں کیسے کی ہیں؟ وہ تبدیلیاں آپ نے اپنے قول وعمل سے کی ہیں۔ آپ کا وہی قول وعمل آج ہمارے لیے حجت ہے اور ہمارے لیے ایک آئینی اور دستوری حیثیت رکھتا ہے ۔
سیدنامعاذبن جبلؓ کا واقعہ تو مشہور ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجاتو پوچھاکہ تم فیصلہ کیسے کرو گے؟ حضرت معاذبن جبلؓ ؓنے کہا کہ کتاب اللہ سے کروں گا۔آپ نے پوچھا: ’فان لم تجد‘، اگر تم کتاب اللہ میں نہ پاؤ؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ پھر سنت سے کروں گا۔آپ ذرا غور فرمائیں کہ یہاں مسئلہ زیر بحث کیا ہے۔ کیا صرف معاذبن جبلؓ کی زندگی گزارنے کا معاملہ زیر بحث ہے کہ معاذ، تم زندگی کیسے گزاروگے؟ بات زندگی گزارنے کی نہیں ہو رہی تھی، بلکہ آئینی حیثیت کی ہو رہی تھی، بات قضا اور عدالت کی ہو رہی تھی، بات دستور وقانو ن کی تدوین کی ہو رہی تھی، بات قانونی نظائر بنانے اور مہیا کرنے کی ہو رہی تھی۔ ’بم تقضی‘ پوچھا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، ’بم تحیی‘ نہیں پوچھا تھا ۔ اس لیے معلوم ہوا کہ یہ معاملہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں طے ہو چکا تھا کہ قانون بنانے، اس کی تدوین کر نے، اس کے مطابق فیصلہ کرنے کے لیے کوئی قاضی، کوئی عدالت، کوئی قانون ساز ادارہ اگر کام کرے گا تو اس کا پہلا ماخذ کتاب اللہ ہو گا اور دوسرا ماخذ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہو گی ۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ نے ایسا کر کے دکھایا ۔
سنت کے حوالے سے جب ہم فقہا کی تعلیما ت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں امام ابوحنیفہ ؒ کے ہاں ایک بڑی خوب صورت تقسیم ملتی ہے۔ ایک کو وہ سنت ہدیٰ کہتے ہیں اور ایک کو سنت ز وائد۔اس سے ہمیں مسئلہ حل ہوتا ہوا ملتا ہے کہ دیکھیے، ایک معاملہ ہے سنت کی اتباع اور پیروی کا،اور ایک معاملہ ہے قانو ن سازی کا۔ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ معاملات ہیں ۔میری اور آپ کی انفرادی زندگی گزارنے کا طریقہ یا سنت کی اتباع اور پیروی، یہ علیحدہ معاملہ ہے اور قانون سازی علیحدہ معاملہ ہے۔ بعض حضرات فقہا نے جب سنت کی تعریف کی ہے تو اس میں آپ کی عادات واوصاف کو بھی شامل کیا ہے ۔ بلاشبہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اور عادتیں قانون سازی کے حوالے سے وہ درجہ اور حجت نہیں رکھتیں اور اس کی وجہ بھی یہ نہیں کہ خدانخواستہ اس کی عظمت کم ہوئی ہے بلکہ خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بنیادی اصول بتلایا اور وہ یہ ہے کہ لولا ان اشق علیٰ امتی لامرت بالسواک عند کل صلوٰۃ ’’اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں مبتلاہونے کا خوف نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دے دیتا۔‘‘ یہ ایک بنیادی اصول ہے جو ہمیں سنت سے مل رہا ہے اور قانون سازی میں استعمال ہوتا ہے۔اگر آپ ان چیزوں کو قانون سازی کے دائرے میں لے آئیں اور کہیں کہ صاحب، ہمارے ملک میں وہی لباس پہنا جائے گا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پہنا کرتے تھے، اگر کوئی اس کے علاوہ لباس پہنے گا تو ہم اسے سزا دیں گے،اور ہمارے ملک میں وہی چیز کھائی جائی گی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھاتے تھے، اگر کوئی شخص اس کے علاوہ کوئی چیز کھائے گا تو ہم اسے سزا دیں گے تو یہ قانون سازی انسانوں کو مشقت اور تکلیف میں مبتلا کر د ے گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو مشقت میں دیکھنا نہیں چاہتے۔ اس حوالے سے یہ قانون کے دائرے میں نہیں آتا۔ لیکن قانون کی تشکیل کے دائرہ میں نہ آنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔اس کی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے اور اس کی پیروی اور اتباع کی فضیلت بہرحال طے شدہ ہے۔ یہ ہمارے لیے زندگی گزارنے کا ایک طریقہ اورزندگی گزارنے کے لیے ایک ماخذاور مصدر کی حیثیت بہرحال رکھتا ہے۔ اس لیے یہ بات کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں سے کچھ چیزیں وہ ہیں جو تہذیبی روایات کے نتیجے میں ہمارے سامنے آئی ہیں، کچھ وہ ہیں جو آپ کی عادات مبارکہ ہیں، ان کو بھی نکال دو،ا ن کو بھی نکال دو۔ باقی رہ گئیں بیالیس سنتیں، ان کو لے کر بیٹھے رہو۔کیوں ؟اس لیے تاکہ ہمیں تہذیبی آزادی مل جائے، تاکہ ہمیں تمدنی آزادی مل جائے، تاکہ ہمیں معاشرتی آزادی مل جائے، ہم تہذیب وتمدن اور معاشرت کو جس انداز سے چاہیں، آگے لے کرچلنا شروع ہو جائیں۔
چنانچہ جب ہم سنت کے حوالے سے اس بات کو سنتے ہیں تو ہمیں ایک اور بحث سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ وہ یہ کہ جب ہم سنت کی آئینی اور دستوری حیثیت کو سمجھنا چاہیں گے تو ہمیں قرآن اور سنت کا باہمی تعلق بیان کرنا، سوچنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ سنت کتاب اللہ کے لیے مؤید ہے۔ جو قرآن بیا ن کرتا ہے، سنت اس کی تائید کر تی ہے۔ یہ عام اور سلیس سی بات ہے۔ دوسرایہ کہ سنت بیان قرآن ہے۔سنت کے بیا ن قرآن ہونے کے دو پہلو ہیں۔ایک یہ کہ سنت نے بعض اوقات ایسا حکم دیا جو سرے سے کتاب اللہ میں موجو د نہیں ہے۔ہمارے لیے اس حکم کی پابندی بھی لازمی اور ضروری ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ یہ بات قرآن میں موجو د نہیں ہے، لہٰذااس حکم کو ہم نہیں مانتے ۔
حضرت عمران بن حصینؓ کے پاس ایک آدمی آیا۔ کہنے لگا کہ جناب ہمارے سامنے صرف کتاب اللہ کی بات کریں، سنت کی بات نہ کریں۔ ہم صرف کتاب اللہ کو مانتے ہیں اور کتاب اللہ ہی سننا چاہتے ہیں۔ حضر ت عمران بن حصینؓ نے کہا کہ تم بڑے احمق شخص ہو۔ ہم تو ایسے آدمی کو بہت بڑا اسکالر سمجھتے ہیں جو اس طرح کی بات کرے۔ حضرت عمران بن حصینؓ نے اس کا صحیح علاج کیا۔ وہ ایک دم پریشان ہو گیا کہ میں نے تو بڑی علمی، تحقیقی اور اسکالروں والی بات کی ہے اور عمران بن حصینؓ مجھے احمق کہہ رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ میں احمق کیسے ہو ں؟ حضرت عمران بن حصینؓ نے کہا کہ فجر کے دو فرض پڑھتے ہو؟ اس نے کہا کہ پڑھتا ہوں۔ فرمایا، ظہر وعصر کے چار فرض پڑھتے ہو؟ اس نے کہا کہ جی پڑھتا ہوں۔ فرمایا دکھلاؤ کہاں آیاہے کتاب اللہ میں کہ فجر کے وقت دو فرض پڑھنا اور ظہر و عصر میں چار فرض پڑھنا۔ یہ یقیناًحماقت کی بات ہو گی کہ ہم یہ نعرہ لگائیں کہ ہم تو صرف کتاب اللہ کو پڑھیں گے اور کتاب اللہ پر عمل کریں گے، کیونکہ سنت کے بغیر کتاب اللہ کے کسی حکم پر تو درکنار، حکم کی کسی جزئی پر عمل نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ سنت بیا ن قرآن ہوتی ہے۔سنت اس اجمال کی تفصیل کرتی ہے جو کہ قرآن نے بیان کیا ہے۔مثلاًقرآن نے کہا کہ ’اقیموا الصلوٰۃ، نماز قائم کرو۔ کیسے کریں ؟سنت نے کر کے دکھلا دیا کہ ایسے۔ اس لیے ایک تابعی یا صحابی کہا کرتے تھے کہ قرآن کے تو کسی حکم پرتو ’لم‘ اور ’کیف‘ کا سوال ہو سکتا ہے، لیکن سنت کے کسی حکم پر یہ سوال نہیں ہو سکتا۔
یہاں پر ایک اور بات کا سمجھنا بھی ضروری ہے۔ وہ یہ کہ ایک جدید فکر ہمارے ہاں رائج ہو رہی ہے اور اس کا پرچار بھی کیا جارہا ہے کہ قرآن پاک کو اس پس منظرمیں سمجھا جائے جس پس منظر میں وہ نازل ہوا ہے۔ جس کو ہم شان نزول کہتے ہیں، وہ اس پر پس منظر کا اطلاق کرتے ہیں اس لیے کہ اگر وہ شان نزول کہیں تو پکڑے جاتے ہیں۔ مثال کے طوریہ کہ ایک مرد کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے اوردلیل اس کی یہ ہے کہ قرآن کریم نے کہا: ’فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنیٰ وثلٰث وربٰع‘ حالانکہ اگراس آیت کو اس کے پس منظر میں دیکھاجائے جس میں یہ نازل ہوئی ہے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ چار شادیوں کی اجازت ہر قسم کے حالات کے لیے نہیں ہے۔ او ر وہ مخصوص حالات کیا ہیں؟ جی یہ آیت تو غزوہ احد کے موقع پر نازل ہوئی تھی۔ غزوہ احد میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شہید ہو گئی تھی، اس لیے یہ حکم آیا تھا۔ عورتیں بیوہ ہو گئی تھیں، لہٰذایہ حکم آیا کہ ایک ایک مرد چار چارشادیاں کر لے۔ اگر اس وقت بھی وہ حالات پیدا ہو جاتے ہیں تو ٹھیک ہے، چار نکاح کی اجازت ہے اوراگر وہ حالات پیدا نہیں ہوتے تو پھر چار نکاح کی اجازت نہیں ہے۔
یہ بات یا د رکھیں کہ شان نزول کسی آیت مبارکہ کے حکم کو سمجھنے میں مددگار تو ہو سکتا ہے، لیکن وہ حکم کی علت نہیں ہوتا۔ اگر آپ شان نزول کے ساتھ حکم کو مقید کر دیں اور آپ کہیں کہ آیت کا یہ حکم اس پس منظر کے ساتھ مخصوص ہے جس میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو پھر یہ دعویٰ کہاں گیاکہ قرآن ایک عالمگیر کتاب ہے، قرآن قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے دستور حیا ت ہے؟ یہ دعویٰ تو ختم ہو گیا۔ اس لیے قرآن کا بیان شان نزو ل نہیں ہوا کر تابلکہ قرآن کا بیا ن سنت ہوا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم فقہا کے اسالیب اجتہاد کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ چارچیزیں ہیں جن پر سب فقہا کا اتفاق ہے۔ بعض حضرات اور تذکرہ نگار امام شافعی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ اجماع کے قائل نہیں تھے، لیکن یہ بات درست نہیں۔ وہ اجماع کے قائل تھے، یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اجماع کے لیے جو شرائط عائد کی ہیں، وہ بڑی کڑی اور سخت ہیں جیسا کہ اجتہاد کے لیے بڑی کڑی اور سخت شرائط ہیں۔ مثلاً علما یہ کہتے ہیں کہ اجتہاد کے لیے یہ بھی شرط ہے، یہ بھی شرط ہے۔ اس پر بعض پڑھے لکھے حضرات کہہ دیتے ہیں کہ مولویوں نے اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا ہے، حالانکہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ یہی بات امام شافعی ؒ کے ہاں نظر آتی ہے کہ وہ بھی اجماع کے قائل تھے، لیکن جیسی کڑی شرائط انہوں نے اجماع کے لیے عائد کی ہیں، ان شرائط کا سامنے آنا اور پید ا ہونا بڑا مشکل ہو گیا ہے۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ چار چیزیں تو بالکل متفق علیہ ہیں۔ کتاب اللہ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اجماع اور قیاس۔ کتاب اللہ سے بھی اخذ مسائل اور استنباط مسائل کے کچھ اصول ہیں۔ یوں نہیں کہ آپ کے سامنے کتاب اللہ کی کوئی بھی آیت آجائے اور آپ اس سے جو جی چاہیں، اخذ کر لیں۔ اسی طرح سنت سے بھی احکام کے استنباط کے کچھ اصول ہیں اور ان میں قرآن سے استنباط مسائل کی بہ نسبت زیادہ توسع اور زیادہ تحقیق ہے۔ 
سنت کے معاملے میں امام ابو حنیفہ ؒ اور امام مالک ؒ اس کے قائل ہیں کہ جب آپ کے سامنے سنت آئے تو پہلے آپ اس کا نص دیکھیں گے، پھر ظاہر دیکھیں گے، اور اگر ظاہر اور نص ایک دوسرے کے مقابل آرہے ہوں تو نص کو ترجیح ہو گی، ظاہر کو ترجیح نہیں ہو گی۔ ظاہر وہ ہے جو مراد کلام سے فوری طور پر ظاہر ہو جائے۔ ’ما ظھر المراد بہ للسامع بنفس السماع‘۔ یہ ظاہر ہے اور ’ما سیق الکلام لاجلہ‘، فحوائے کلام اور مقصود کلام کو نص کہتے ہیں ۔لیکن امام شافعیؒ اورامام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک ظاہر کلام کو نص کلام پر ترجیح ہو گی۔ ان کے نزدیک پہلا مرتبہ ظاہر کلام کاہے، پھر نص کلام کا۔ 
اسی طرح سنت سے استنباط مسائل کے حوالے سے ایک مسئلہ تطبیق بین الروایتین کا آتا ہے۔ یہ بھی ایک بہت بڑا موضوع ہے اور مستقل نشست کا مقتضی ہے، کہ ایک ہی مضمون کی دو روایتیں ہیں اور دونوں مختلف صورت حال بتلا رہی ہیں، اس کا حکم کیا ہو گا اور ان میں کیسے ترجیح دی جائے گی۔ امام شافعی ؒ نے اس کے لیے جو اصول بنایا ہے، وہ یہ ہے کہ جو روایت سند کے اعتبار سے اصح ہے، وہ راجح ہو گی اور جو روایت سند کے اعتبار سے کم تر ہے، وہ مرجوح ہو گی ۔امام مالک ؒ کا اصول یہ ہے کہ پہلے تو ان میں تطبیق کی کوشش کی جائے گی، اور اگر تطبیق ممکن نہ ہو تو اس روایت کو ترجیح ہو