2006

جنوری ۲۰۰۶ء

’الشریعہ‘ کی سترہویں جلد کا آغازمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
رینڈ کارپوریشن کی حالیہ رپورٹڈاکٹر یوگندر سکند
تدوین فقہ اور امام ابو حنیفہؒ کی خدماتعاصم نعیم
قرآنی علمیات اور معاصر مسلم رویہپروفیسر میاں انعام الرحمن
آفتاب عروج صاحب کے خیالات پر ایک نظرمحمد شکیل عثمانی
ناقدین کی خدمت میں (۱)طالب محسن
ناقدین کی خدمت میں (۲)حافظ محمد عثمان
مکاتیبادارہ
تعارف و تبصرہادارہ
کوروٹانہ (عقب واپڈا ٹاؤن، گوجرانوالہ) میں عظیم دینی تعلیمی مرکز کا قیامادارہ

’الشریعہ‘ کی سترہویں جلد کا آغاز

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بحمد اللہ تعالیٰ زیر نظر شمارے کے ساتھ ہم ’الشریعہ‘ کی سترہویں جلد کا آغاز کر رہے ہیں۔ آج سے کم وبیش سولہ سال قبل اکتوبر ۱۹۸۹ء میں ’الشریعہ‘ نے ماہوار جریدے کے طور پر اپنا سفر شروع کیا تھا اور اتار چڑھاؤ کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے یہ دینی وفکری ماہنامہ اپنی موجودہ شکل میں قارئین کے سامنے ہے۔
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے اس ترجمان کی ابتدا اس عزم کے ساتھ ہوئی تھی کہ دور حاضر کے مسائل اور چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات واحکام کو جدید اسلوب اور تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی، عالم اسلام کے علمی ودینی حلقوں کے درمیان رابطہ ومفاہمت کے فروغ کی راہ ہموار کی جائے گی، اسلام دشمن لابیوں اور حلقوں کے تعاقب اور نشان دہی کا فریضہ انجام دیا جائے گا اور دینی حلقوں میں فکری بیداری کے ذریعے سے جدید دور کے علمی وفکری چیلنجز کا ادراک واحساس اجاگر کیا جائے گا۔ ان مقاصد کی طرف ہم کس حد تک پیش رفت کر پائے ہیں، اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ ہمارے لیے یہ بات بہرحال اطمینان بخش ہے کہ یہ اہداف ومقاصد بدستور ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں اور ہم اپنی بساط اور استطاعت کی حد تک ان کے لیے مسلسل مصروف عمل ہیں۔
اس دوران میں ہماری بھرپور کوشش رہی ہے کہ پیش آمدہ مسائل پر دینی حلقوں میں بحث ومباحثہ کاماحول پیدا ہو اور کسی بھی مسئلہ پر اپنا موقف پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے فریق کا موقف اور دلائل بھی حوصلہ اور اطمینان کے ساتھ سننے اور پڑھنے کا مزاج بنے، کیونکہ اس کے بغیر کسی مسئلہ پر صحیح رائے اور نتیجہ تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں تحقیق، مطالعہ، مباحثہ اور مکالمہ کی روایت ابھی تک جڑ نہیں پکڑ سکی اور چند شخصیات کے استثنا کے ساتھ عمومی ماحول یہی ہے کہ دلائل کی روشنی میں رائے قائم کرنے کے بجائے رائے قائم کر کے اس کے لیے دلائل تلاش کیے جاتے ہیں۔ ہماری کوشش رہی ہے اور آئندہ بھی ان شاء اللہ تعالیٰ رہے گی کہ دینی حلقوں، بالخصوص علماء کرام اور طلبہ کو دنیا کے معروضی حالات اور حقائق سے آگاہی حاصل کرنے اور آج کے معاصر علمی وفکری حلقوں کے موقف، دلائل اور طرز استدلال سے شناسا ہونے کے لیے آمادہ کیا جائے اور انھیں اس ضرورت کا احساس دلایا جائے کہ آج کی دنیا سے بات کرنے کے لیے آج کی زبان اور اسلوب پر دسترس ناگزیر ہے اور ہم ماضی کے اسلوب اور طرز استدلال کے ذریعے سے آج کی دنیا تک اسلام کا پیغام اور تعلیمات پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
یہ بات بھی ہمارے ایجنڈے کا حصہ چلی آ رہی ہے کہ جدید اسلوب اور طرز استدلال کی طرح ابلاغ کے جدید ذرائع اور تکنیک تک دینی حلقوں اور علماء کرام کی رسائی بھی انتہائی ضروری ہے اور ہم اس ضرورت کی طرف دینی حلقوں کو مسلسل توجہ دلا رہے ہیں۔
ہم وہی بات کہہ رہے ہیں جو تین صدیاں قبل حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے فرمائی تھی کہ آنے والے دور میں دین کو صحیح طور پر پیش کرنے کے لیے عقلی استدلال کے ہتھیار سے کام لینا ہوگا اور فکری جمود کے دائرے سے نکل کر کھلے دل ودماغ کے ساتھ مسائل کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب نے یہ بات تین سو سال قبل کے ماحول میں فرمائی تھی اور ہم اسی بات کو تین سو سال کے بعد آج کے حالات اور تناظر میں دینی حلقوں اور ارباب علم ودانش کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ممکن ہے بعض دوستوں کو ہمارا کہنے کا انداز حضرت شاہ صاحب سے مختلف دکھائی دے، مگر مقصد اور ہدف کے اعتبار سے ہم وہی کچھ عرض کر رہے ہیں جو تین صدیاں قبل امام ولی اللہ دہلویؒ پورے شرح وبسط کے ساتھ تحریر فرما چکے ہیں۔
ہمارا طریق کار یہ رہا ہے کہ بعض مسائل کو ہم از خود چھیڑتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہمارا موقف بھی وہی ہو جو کسی مسئلہ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے ’الشریعہ‘ کے صفحات میں پیش کیا گیا ہے، مگر ہماری خواہش ہوتی ہے کہ دینی حلقوں کے ارباب فکر ودانش اس طرف توجہ دیں، مباحثہ میں شریک ہوں،اپنا نقطہ نظر دلائل کے ساتھ پیش کریں، جس موقف سے وہ اختلاف کر رہے ہیں، اس کی کمزوری کو علمی انداز سے واضح کریں اور قوت استدلال کے ساتھ اپنے موقف کی برتری کو واضح کریں، کیونکہ اب وہ دور نہیں رہا کہ کسی مسئلہ پر آپ اپنی رائے پیش کر کے اس کے حق میں چند دلائل کا تذکرہ کرنے کے بعد مطمئن ہو جائیں کہ رائے عامہ کے سامنے آپ کا موقف واضح ہو گیا ہے اور آپ کی بات کو قبول کر لیا جائے گا۔ آج کا دور تقابلی مطالعہ کا دور ہے، تجزیہ واستدلال کا دور ہے اور معروضی حقائق کی تفصیلات وجزئیات تک رسائی کا دور ہے۔ آپ کو یہ سارے پہلو سامنے رکھ کر اپنی بات کہنا ہوگی اور اگر آپ کی بات ان میں سے کسی بھی حوالے سے کمزور ہوگی تو وہ پذیرائی حاصل نہیں کر سکے گی۔ ہم جب کسی مسئلے پر بحث چھیڑتے ہیں تو امکانی حد تک اس کے بارے میں تمام ضروری پہلووں کو اجاگر کرنا ہمارا مقصد ہوتا ہے اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ’الشریعہ‘ میں شائع ہونے والے کسی موقف کے حق میں یا اس کے خلاف موصول ہونے والا کوئی مضمون یا مراسلہ اشاعت سے رہ نہ جائے اور اس بحث کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہے۔
اس صورت حال سے بعض دوستوں کو الجھن ہوتی ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں، مگر ہمارے خیال میں یہ الجھن عام طور پر دو وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک اس وجہ سے کہ بہت سے دوست ہمارے اس طریق کار اور مقصد کو سمجھ نہیں پاتے جس کا سطور بالا میں تذکرہ ہو چکا ہے اور دوسرا اس وجہ سے کہ ہمارے خاندانی پس منظر کے باعث بہت سے دوست ’الشریعہ‘ کو ایک مسلکی جریدہ کے طور پر دیکھنے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ جہاں تک ہمارے مسلک ومشرب کا تعلق ہے، ہم نے سولہ برس قبل ’الشریعہ‘ کے پہلے شمارے میں ہی یہ بات دوٹوک طور پر واضح کر دی تھی کہ ہم اہل السنۃ والجماعۃ میں سے ہیں اور اہل سنت کے مسلمات کی پابندی کو اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم فقہی مذہب کے لحاظ سے حنفی ہیں اور فروع واحکام میں حنفی مذہب کے اصول اور تعبیرات کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ مسلک ومشرب کے حوالے سے دیوبندی ہیں اور اکابر علماء دیوبند کثر اللہ جماعتہم کی جدوجہد اور افکار سے راہ نمائی حاصل کرنا اپنے لیے باعث سعادت تصور کرتے ہیں، لیکن ’الشریعہ‘ کو مسلکی ترجمان کے طور پر ہم نے کبھی پیش نہیں کیا۔ مسلک کی ترجمانی کے لیے ملک میں درجنوں جرائد موجود ہیں اور ہم بھی اس مقصد کے لیے ان سے حتی الوسع تعاون کرتے ہیں، مگر ہمارا عملی میدان اس سے بالکل مختلف ہے۔ ہماری تگ وتاز کا دائرہ فقہی اور مسلکی کشمکش نہیں، بلکہ مغرب کے فکر وفلسفہ اور تہذیب وثقافت کی وسیع تر یلغار کے تناظر میں اسلامی تعلیمات واحکام کو جدید زبان اور اسلوب میں پیش کرنا ہے۔ اس کا مطلب فقہی اور مسلکی جدوجہد کی ضرورت سے انکار نہیں بلکہ یہ ایک تقسیم کار ہے کہ دینی جدوجہد کا یہ شعبہ ہم نے اپنی جدوجہد کے لیے مختص کر لیا ہے اور اسی میں اپنی صلاحیتیں صرف کرنا چاہتے ہیں۔
بعض دوستوں نے یہ شکوہ کیا ہے کہ ’الشریعہ‘ میں بسا اوقات ایک ہی مسئلہ پر متضاد مضامین شائع ہوتے ہیں اور بعض مضامین اہل سنت، حنفیت اور دیوبندیت کے حوالوں سے روایتی موقف سے متصادم ہوتے ہیں۔ ہمیں اس سے انکار نہیں ہے، مگر اس کی وجہ وہی ہے جس کا سطور بالا میں ہم تذکرہ کر چکے ہیں کہ ہم علمی وفکری مسائل میں ارباب علم ودانش کو بحث ومباحثہ کے لیے کھلا ماحول اور فورم مہیا کرنا چاہتے ہیں اور دینی حلقوں میں باہمی مکالمہ کا ذوق بیدار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ طریق کار ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی جاری رہے گا، تاہم اب اسے قدرے محدود اور معین ومشخص کیا جا رہا ہے، اس طور پر کہ ’الشریعہ‘ کے ہر شمارے کے ایک تہائی صفحات اس طرح کے کھلے مباحثے کے لیے مخصوص کیے جا رہے ہیں جن میں کسی بھی اہم مسئلہ پر مختلف نقطہ ہائے نظر پیش کیے جائیں گے اور کسی بھی نقطہ نظر کی حمایت یا مخالفت میں موصول ہونے والا ہر وہ مضمون شامل اشاعت ہوگا جو طعن وتشنیع اور مناظرانہ موشگافیوں سے گریز کرتے ہوئے افہام وتفہیم کے سنجیدہ اور علمی اسلوب میں تحریر کیا گیا ہو۔ زیر نظر شمارے سے اس سلسلے کو ’’مباحثہ ومکالمہ‘‘ کا مستقل عنوان دیا جا رہا ہے اور یہ بات اصولاً واضح رہنی چاہیے کہ اس عنوان کے تحت شائع ہونے والے کسی مضمون سے ادارہ کامتفق ہونا ضروری نہیں۔
ان گزارشات کے ساتھ ’الشریعہ‘ کی اشاعت کے سولہ سال مکمل ہونے اور سترہویں جلد کے آغاز پر میں ان رفقا کا تذکرہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں جن کی کاوش اور محنت کا ’الشریعہ‘ کو موجودہ مقام تک پہنچانے میں بہت بڑا حصہ ہے۔
’الشریعہ‘ کی ادارت اور ترتیب وغیرہ کی تمام تر ذمہ داری عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے سنبھال رکھی ہے اور وہ بحمد اللہ تعالیٰ پوری محنت اور ذوق کے ساتھ اسے نباہ رہے ہیں۔ عزیز موصوف کو اس سلسلے میں پروفیسر محمد اکرم ورک، مولانا حافظ محمد یوسف اور پروفیسر میاں انعام الرحمن کی پرخلوص رفاقت اور پروفیسر محمد یونس میو، پروفیسر حافظ منیر احمد، جناب شبیر احمد میواتی اور پروفیسر حافظ سمیع اللہ فراز کی مسلسل مشاورت حاصل ہے، جبکہ الشریعہ کی کمپوزنگ، طباعت اور اسے انٹرنیٹ اور ڈاک کے ذریعے سے قارئین تک پہنچانے میں عزیزم ناصر الدین خان سلمہ، عبد الرزاق خان، مولانا فضل حمید اور حافظ محمد آصف مہر کی محنت قابل ذکر اور قابل داد ہے۔
میں ان سب حضرات کی محنت اور قارئین کی طرف سے حوصلہ افزائی کا معترف ہوں اور سب کا شکریہ ادا کرتے ہوے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ اور ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے ذریعے سے اسلام اور ملت اسلامیہ کی علمی وفکری خدمات جاری رکھنے کی توفیق دیں اور اپنے اہداف ومقاصد میں کامیابی سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

رینڈ کارپوریشن کی حالیہ رپورٹ

ڈاکٹر یوگندر سکند

"Three Years After: Next Steps in the war on Terror" (تین سال بعد: دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آئندہ مراحل)، یہ رینڈ کارپوریشن کی تازہ ترین دستاویز کا عنوان ہے جس میں مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں سے بحث کی گئی ہے اور اس میں مناسب تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ رینڈ کارپوریشن دائیں بازو کا ایک تحقیقی ادارہ ہے جس کے امریکی حکومت اور امریکی محکمہ دفاع اور انٹیلی جنس کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ یہ ادارہ دنیا پر امریکی غلبے کے حوالے سے مشہور ہے اور، جیسا کہ اس دستاویز سے بھی نمایاں طور پر اس بات کا اظہار ہوتا ہے، اس کی تحقیقی کاوشوں کا ہدف بھی اسی مقصد کو آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ یہ امریکا کے موثر ترین نو قدامت پسند اور صہیونیت کے حامی تھنک ٹینکس میں سے ہے اور اس کی مطبوعات دہشت گردی کے خلاف جنگ سمیت، جو اس دستاویز کا موضوع ہے، بنیادی ایشوز پر امریکی حکومت کی پالیسیوں کی عکاس بھی ہوتی ہیں اور ان کی تشکیل میں بھی مددگار ہوتی ہیں۔
اگر کوئی شخص دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے امریکی انتظامیہ کا زاویہ نظر سمجھنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اس دستاویز کا مطالعہ ناگزیر ہے، جو اپنے آپ کو ’’متعدد اعلیٰ ترین اور تازہ مطالعات کا حاصل‘‘ قرار دیتی ہے۔ سرسری نظر ڈالنے سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ رپورٹ دہشت گردی کے اسباب کے ایک نہایت غلط اور ناقص فہم پر مبنی ہے۔ چنانچہ اصل اسباب کو قصداً نظر انداز کرتے ہوئے اس میں جو حل تجویز کیے گئے ہیں، ان سے صورت حال کے مزید الجھنے اور زیادہ پیچیدہ ہو جانے کا خطرہ ہے۔
دستاویز کے مصنفین رینڈ کے خود ساختہ ماہرین ہیں جو امریکی حکومت کے محکموں سے قریبی طور پرمتعلق ہیں اور ان میں سے بعض یہودی پس منظر کے حامل ہیں۔ ان کے نقطہ نظر کے مطابق دہشت گردی کی واحد قسم جو غور وفکر اور توجہ کی مستحق ہے، صرف وہ ہے جسے ذرائع ابلاغ میں عام طور پر ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ چنانچہ امریکی ریاستی دہشت گردی کا تو ذکر ہی کیا جس کا وحشیانہ اظہار آج عراق میں ہو رہا ہے، اس دستاویز میں لگے بندھے خیالات کا اظہار کرنے والے ماہرین دہشت گردی کی دوسری مختلف شکلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اسلامی دہشت گردی کو دہشت گردی کی واحد شکل سمجھتے ہیں اور اسے امریکی مفادات کے لیے ایک بنیادی چیلنج بھی قرار دیتے ہیں۔
اسلامی دہشت گردی کی تشخیص میں بھی رینڈ کے خود ساختہ ماہرین ایک ناقابل معافی جہالت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ بھی نرم الفاظ ہیں، ورنہ اس کے لیے دھوکے کا لفظ زیادہ بہتر ہے۔ متعدد مسلم ممالک میں بے اطمینانی کے اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی اسباب کو نظر انداز کرتے ہوئے، جن میں امریکی حمایت کے بل بوتے پر فلسطین پر اسرائیلی قبضہ اور مسلم ممالک میں جابر پٹھو حکمرانوں کی امریکی حمایت بھی شامل ہیں، یہ ماہرین اسلامی تشدد پسندی کو محض ایک نظریاتی مظہر سمجھتے ہیں۔ دستاویز کے ایڈیٹر داؤد ہارون ، جو امریکی حکومت کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار ہیں اور اس وقت رینڈ کارپوریشن کے ساتھ سینئر فیلو کی حیثیت سے منسلک ہیں، کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ ایک نظریاتی جنگ ہے جس میں اسلامی تشدد پسندی کا کردار وہی ہے جو کسی زمانے میں امریکی تصورات کے مطابق کمیونزم ادا کر رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی تشدد پسندی کا نظریہ عملی حالات واثرات سے بالکل مجرد ہے اور اس کا کوئی تعلق ان سماجی حقائق سے نہیں ہے جو اس کو پیدا کرنے اور اسے تسلسل دینے کے ذمہ دار ہیں۔ مسلم بے اطمینانی کے تمام اسباب اسلام کے ایک غلط اور گمراہ کن فہم کا نتیجہ ہیں اور امریکی پالیسیوں کا نہ اس سے کوئی تعلق نہیں اور نہ وہ رد عمل میں پیدا ہونے والی اسلامی انتہا پسندی کی ذمہ دار ہیں۔ اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ سرد جنگ کے زمانے میں امریکی بالادستی کی مخالف اور بائیں بازو کی قوتوں کے خلاف لڑنے کے لیے امریکہ نے اسلامی گروپوں کی امداد اور حمایت کی جو پالیسی اختیار کی تھی، وہ اب طاق نسیاں کی نذر ہو گئی ہے کیونکہ سابقہ دوست اب دشمن بن گئے ہیں۔
مسلم بے اطمینانی کے اصل وجوہ پر بحث کرنے کے بجائے، جس کے نتائج میں ایک حد تک اسلامی تشدد پسندی بھی شامل ہے، اس دستاویز کے مصنفین کے تجویز کردہ حل امریکی غلبے اور صہیونی مفادات کے تحفظ کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔ وہ اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ امریکی پالیسی بنیادی طور پر درست ہے اور امریکا کے لیے خود احتسابی یا مسلم دنیا اور اسرائیل کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چنانچہ یہ بات باعث حیرت نہیں کہ دستاویز میں مسلم بے چینی کے ممکنہ اسباب کے تحت درج ذیل حقائق کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا: اسرائیلی مظالم، عراق پر امریکہ کی عائد کردہ پابندیاں جن کی وجہ سے لاکھوں بچے موت کی وادی میں جا پہنچے، سالہا سال تک اسلامی گروپوں کی حمایت کے بعد افغانستان پر امریکی بمباری ، عراق پر امریکی اور برطانوی فوجوں پر حملہ اور اس پر کا قبضہ۔ اس طرح کی کسی چیز کا کوئی ذکر نہیں اور مسلم رد عمل کو محض ایک نظریاتی انحراف اور بے راہ روی قرار دیا گیا ہے۔ اسلامی تشدد پسندی کی توجیہ اس خلاف حقیقت تناظر میں کرنے کے باعث مصنفین نے مسئلے کے صرف دو حل پیش کیے ہیں۔ ایک، اسلام مخالف بحث ومباحثہ کے فروغ کے ذریعے انتہا پسند اسلام کا نظریاتی سطح پر مقابلہ اور دوسرا ہر طرح کی میسر طاقت کا بھرپور استعمال کر کے انتہا پسند مسلمانوں کا خاتمہ۔
پہلا حل رینڈ کارپوریشن کے ایک ماہر چیری بنارڈ نے، جو بش کے اعلیٰ سطحی معاون اور عراق میں امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کی اہلیہ ہیں، اپنے مقالے ’’اسلام میں جمہوریت: اسلامی دنیا میں جدوجہد۔ امریکہ کے لیے حکمت عملی‘‘ میں پیش کیا ہے۔ یہ مقالہ بھی اسی بنیادی مفروضے پر مبنی ہے کہ امریکی پالیسیاں مسلم بے اطمینانی یا مخالفانہ رد عمل کو جنم دینے کی ذمہ دار نہیں ہیں اور اس کے بجائے انتہا پسند اسلام کی اصل وجوہ اسلام کی چند مخصوص تعبیرات میں پائی جاتی ہیں ، جسے انھوں نے ’’اسلام کی داخلی کشمکش‘‘ کا نام دیا ہے۔ بینارڈ نے مضمون کے آغاز میں جارج بش کے اس قول کا مثبت انداز میں حوالہ دیا ہے کہ ’’فی الحقیقت ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عنوان ہی غلط رکھا ہے۔ اس کو نظریاتی انتہا پسندوں کے خلاف جدوجہد کہنا چاہیے جو آزاد معاشروں کے قیام پر یقین نہیں رکھتے اور دہشت گردی کو اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔‘‘
بینارڈ نے ایک بہت بڑا اور پرتخیل منصوبہ پیش کیا ہے جس کی امریکا کو پیروی کرنی چاہیے تاکہ اسلام کے ایک ایسے ورژن کو فروغ دیا جا سکے جو امریکی ہدایات کا فرماں بردار ہو۔ وہ اس قسم کے اسلام کو ’ماڈرنسٹ’ یعنی جدیدیت پسند اسلام کہتی ہیں اور اس سے ان کی مراد ایسا اسلام ہے جو مغربی پروٹسٹنٹ ازم سے معمولی طور پر ہی مختلف ہے اور سرمایہ دارارانہ نظام میں مطمئن رہ سکتا ہے۔ یہ نکتہ ان کے اس جملے سے، جو زیادہ گہرے تجزیے پر مبنی نہیں، واضح ہے کہ ’’جدیدیت ہی وہ چیز ہے جس نے مغرب کے لیے مفید کردار ادا کیا۔‘‘ یہ محسوس کرتے ہوئے کہ جن جدیدیت پسندوں کی حمایت کا وہ مشورہ دے رہی ہیں، ان کا اثر ورسوخ صرف اشرافیہ میں ہے اور عوامی سطح پر انھیں کوئی مقبولیت یا پیروی حاصل نہیں، بینارڈ تجویز کرتی ہیں کہ امریکہ کو جدیدیت پسندوں کے کاموں کی مختلف شکلوں میں طباعت کے لیے امداد دینی چاہیے مثلاً ویب سائٹس، نصابی کتب، پمفلٹس اور کانفرنسز وغیرہ۔ ان کی رائے میں ’’امریکہ کو جدیدیت پسندوں کو مثالی نمونے اور راہنما کے طور پر مقبول بنانا چاہیے اور ان کے پیغام کے ابلاغ کے لیے مواقع اور پلیٹ فارم مہیا کرنے چاہییں۔‘‘ ظاہر ہے کہ بینارڈ امریکہ کو جن جدیدیت پسندوں سے تعاون کا مشورہ دے رہی ہیں، انھیں امریکی تعاون اس وقت تک ہی حاصل رہے گا جب تک کہ ان کے غیظ وغضب کا رخ اسلام پسندوں کی طرف رہے گا، لیکن اگر وہ امریکی مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا چاہیں گے تو انھیں اس کی اجازت نہیں دی جائے گی، جیسا کہ تیسری دنیا کی بائیں بازو کی قوتوں کی مثال سے ظاہر ہے جنھیں کچل دینے میں امریکی تعاون اور سازباز بھی حصہ دار ہے۔
دستاویز میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے دوسرا حل عسکری قوت کا استعمال تجویز کیا گیا ہے۔ یہ بھی اس مفروضے پر مبنی ہے کہ امریکی پالیسیوں میں تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں، امریکہ بالکل معصوم ہے اور اسلامی تشدد پسندی محض مذہب کے ساتھ جنونی لگاؤ کا نتیجہ ہے۔ بش حکومت کا معیاری موقف بھی یہی ہے۔ دستاویز میں اس موقف کو سابق امریکی ڈپٹی سیکرٹری آف ڈیفنس اور ورلڈ بینک کے حالیہ صدر پال ولفووٹز نے پوری قوت سے پیش کیا ہے، جو عراق پر امریکی حملے کے بنیادی منصوبہ سازوں میں سے ایک ہیں۔ امریکہ کے ظالمانہ امپریلسٹ ماضی، افریقی غلامی کے داغ، مقامی باشندوں کی امریکی نوآباد کاروں کے ہاتھوں تباہی، اور نام نہاد تیسری دنیا میں بلامبالغہ لاکھوں انسانوں کی ہلاکت جس کا امریکہ بنیادی طور پر ذمہ دار ہے، ان تمام حقائق سے آنکھیں چراتے ہوئے ولفووٹز یہ معصومانہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور عراق پر حملہ نہ قبضے کی غرض سے ہے اور نہ امریکہ کی شہنشاہیت قائم کرنے کے لیے ، اس کے بجائے یہ ایک اصولی جنگ ہے اور اس کا محرک آزادی اور جمہوریت کے ساتھ وابستگی کا وہ تصور ہے جس نے امریکی تاریخ کے آغاز ہی سے امریکہ کو متحرک کیے رکھا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’’امریکی قوم شر کے مقابلے کے لیے ہمیشہ میدان میں رہی ہے۔‘‘ اسے ناواقفیت کہہ لیجیے یا صریح دھوکہ، لیکن اگر ولفووٹز کو یہ توقع ہے کہ ان کا یہ دعویٰ امریکہ کے دامن سے سنگین جرائم کا داغ دھو سکتا ہے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ امریکی پالیسیاں بہت بڑی حد تک مسلم بے اطمینانی کی ذمہ دار ہیں، لیکن ولفو وٹز اس کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ اس کا سبب ’’دہشت گردانہ جنونیت‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ نتیجتاً وہ عراق پر امریکی حملے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نمایاں طور پر اسی طرح جائز اور برحق قرار دیتے ہیں جس طرح سفید فام مغربی آباد کار امریکہ کی سیاہ فام آبادی پر حملہ کرنے اور ان کو محکوم وغلام بنانے کو قرار دیتے تھے۔ ان آباد کاروں کے نزدیک بھی یہ ایک مہذب مشن تھا اور پال وولفووٹز کے الفاظ میں امریکہ بھی ’’ایک منصفانہ اور پر امن دنیا‘‘ کی تشکیل کے لیے دہشت گردوں کے جبر، موت اور مایوسی کے مقابلے میں زندگی، امید اور آزادی کا وژن پیش کر رہا ہے ۔ وہ بش کی عراق پالیسی کا ذکر ’آزادی کی طاقت کی کہانی‘ کے الفاظ میں کرتے ہیں اور عراق میں امریکی فوجیوں کو ’’غیر معمولی بہادر جوان امریکی‘‘ قرار دیتے ہیں ’’جو اپنی زندگیوں کو اس لیے خطرے میں ڈال رہے ہیں تاکہ دوسرے لوگ آزادی سے مستفید ہو سکیں اور تاکہ خود ہمارے اپنے لوگ زیادہ حفاظت سے زندگی بسر کر سکیں‘‘ ۔
ولفووٹز کو اصرار ہے کہ جمہوریت عراقیوں پر نافذ کرنی چاہیے اور اگر وہ مزاحمت کریں تو انھیں موت کی دھمکی دے کر اسے قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ گویا عراق پر امریکی حملہ ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبے کے تحت کیا گیا ہے اور اس کا کوئی واسطہ سستے تیل کے حصول یا وسیع تر مسیحی بنیاد پرست صہیونی ایجنڈے سے نہیں۔ کم از کم ولفووٹز ہمیں یہی باور کرانا چاہتے ہیں۔ وہ امریکی حملے کو یوں پیش کرتے ہیں جیسے اس کا محرک جمہوریت کے فروغ کا ایک بے پایاں جذبہ ہے۔ تاہم اس نکتے پر ان کی خاموشی ہرگز باعث حیرت نہیں کہ امریکہ دنیا کی بعض بدترین غیر جمہوری حکومتوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔
عراق امریکی قابض فوجوں کی موجودگی کو انسانی واخلاقی جواز دینے کی غرض سے وہ ایک نا معلوم عراقی خاتون کا حوالہ دیتے ہیں جس نے مبینہ طور پر ایک جمہوری معاشرے کے روزوشب کو دیکھنے کے لیے امریکہ کا دورہ کیا اور وائٹ ہاؤس میں صدر بش سے ملاقات کے دوران میں کہا کہ ’’اگر امریکی افواج قربانی نہ دیتیں تو عراقی خواتین کو کبھی جمہوریت سے متعلق جاننے کا موقع میسر نہ آتا۔‘‘ یہاں نہ ان ہزاروں عراقیوں کا کوئی ذکر ہے جنھیں امریکی پابندیوں کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑے، نہ دس سال پر محیط عراق ایران جنگ میں عراق کی امریکی حمایت کا ، اور نہ ان ہزاروں عراقیوں کو جو امریکی حملے کے بعد سے اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ ولفووٹز ’’عراق میں امریکی فوجیوں کے عظیم کارناموں‘‘ کا ذکر تو بڑی فصاحت وبلاغت سے کرتے ہیں جو ان کے بیان کے مطابق اسکول قائم کر رہے ہیں، لوگوں کوان کے گھروں میں آباد کر رہے ہیں، حتیٰ کہ صرف پانچ پانچ ڈالر کی سائیکلیں عراقی بچوں میں تقسیم کر رہے ہیں، لیکن امریکی قبضے کے نتیجے میں مسلسل ہلاک ہونے والے ہزاروں عراقیوں سے متعلق انھوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
یہ بات نہیں کہ رینڈ رپورٹ کے مصنفین، جو سب کے سب اچھے عہدوں پر فائز اور پوری ط رح باخبر ہیں، اتنے ہی سادہ لوح، جاہل یا نرے احمق ہیں جتنے کہ وہ اپنی تحقیقی کاوشوں سے نظر آتے ہیں۔ بالکل واضح ہے کہ ان تجزیہ اور تجویز کردہ حل امریکی اور صہیونی غلبے کا تسلسل قائم رکھنے اور امریکی واسرائیلی مفادات کو لاحق کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ اگرچہ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مذہب سے پھوٹنے والی تشدد پسندی اور دہشت گردی بہرحال ایک بہت نازک سوال ہے، لیکن رینڈ رپورٹ کے مصنفین اس معاملے کو صرف مسلم گروہوں تک محدود کرتے ہیں جو کہ سراسر حقائق کے منافی ہے۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ مذہبی انتہا پسندی مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں ہے اور اگر ہم اس کا مقابلہ کرنے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں اس طرح کے تمام گروہوں کی طرف توجہ مبذول کرنی ہوگی۔ مسلمانوں کے علاوہ مسیحی، ہندو، یہودی اور دوسرے گروہ بھی ہیں جو مذہب کے نام پر نفرت اور دہشت پھیلا رہے ہیں۔ اسی طرح ریاستی دہشت گردی کو بھی، جس کو رینڈ رپورٹ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا عنوان دے کر جائز قرار دیتی ہے، مساوی درجے کا سنگین خطرہ سمجھنا ہوگا اور اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ مزید برآں مذہبی انتہا پسندی کو محض نظریاتی اصطلاحات میں نہیں سمجھا جا سکتا، جیسا کہ رینڈ رپورٹ میں کیا گیا ہے، بلکہ عالمی سطح پر امریکی بالادستی قائم کرنے کی کوششوں اور مغربی بالادستی کے نمائندہ سرمایہ دارانہ نظام کے تناظر میں اس کے پیچھے کار فرما پیچیدہ معاشی، ثقافتی اور سیاسی وجوہ و عوامل بھی زیر غور آنے چاہییں ۔ تب ہی ہم درست سوالات اٹھانے اور ان کے صحیح جواب دینے کے قابل ہوں گے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسا کام ہے جو رینڈ کارپوریشن کے ماہرین اور اس قبیل کے لوگوں کو نہیں سونپا جا سکتا۔

تدوین فقہ اور امام ابو حنیفہؒ کی خدمات

عاصم نعیم

بیسویں صدی مسلمانوں کے عروج و انحطاط کی مختلف داستانوں کو سمیٹتے ہوئے رخصت ہوچکی ہے۔ موجودہ صدی اسی تسلسل میں متعدد نئے منظر نامے پیش کر رہی ہے۔ نو آبادیاتی دور کے بعدمسلم دنیا اپنے دینی اور تہذیبی تشخّص کی حفاظت کے لیے جو کاوشیں کر رہی ہے، وہ مقدار اور معیار میں کم ہوتی محسوس ہو رہی ہیں ۔تہذیبوں اور تمدنوں کاتصادم بالکل عیاں ہو چکا ہے۔ اندریں حالات مسلم امّہ ایک ہمہ جہت بحران کا شکار ہے۔ سیاسی ،معاشی ،تعلیمی ،سماجی ،اور عسکری میدانوں میں اپنے نظریات وافکار کے بقا اور احیا کے احساس میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔تعلیم وتربیت اور ثقافت کے مسائل کے ساتھ ساتھ قیام عدل کے لیے فقہ وقانون ،عدالتی طریق کار اور نظام عدل کو موثر طور پر فعال بنانے ،قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے اور ان کے موثر نفاذ کے مسائل کو بنیادی اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔
عامّتہ المسلمین جہاں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق تشکیل دینے میں مصروف ہیں، وہیں ادارتی سطح پر وہ اپنے تعلیمی ،سیاسی ،اقتصادی،قانونی ،اور عدالتی نظام کو بھی اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔مسلم اہل دانش اس مقصد کے لیے اجتہاد وبصیرت اور اپنی باثروت روایات سے کام لے کر پیش آمدہ چیلنجوں کا حل تلاش کر رہے ہیں۔ (۱) ان میں قرآن وسنت کے مصادرِ اصلیہ کے ساتھ ساتھ صحابہؓ اور ازمنہ وسطیٰ کے ائمہ مجتہدین اور علما، فقہا اور اصحاب دانش کے لازوال علمی سرمایوں میں ہمارے لیے معاونت وراہ نمائی کا بیش بہا ذخیرہ موجود ہے۔یہ علمی سرمایہ ہمہ پہلو اور ہمہ جہت ہے ،جس کا آغاز تاریخی طور پر دیکھا جائے تو رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مسعود سے ہوتاہے۔آپؑ کے عہد میں اس وقت کی موجود دنیامیں نظام ہائے حیات بالکل مختلف تھے۔صاحب قرآن ؑ نے ہدایت رّبانی کے نچوڑ اور صحیفہ فطرت ،قرآن حکیم کی روشن تعلیمات سے اور اپنے حسنِ عمل سے عقائد وافکار، معاشرت،معیشت ،قانون وسیاست، تعلیم وتربیت غرض یہ کہ ہر شعبہ حیات میں جو تاریخی اور مثالی عظیم انقلاب برپا کیا، وہ کسی بھی صاحب علم ودانش سے مخفی نہیں۔ اغیار بھی حضورؑ کے مشن کی عظیم کامیابی کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم روحانی اعتبار سے بھی اور دینوی اعتبار سے بھی پوری تاریخ عالم میں سب سے کامیاب شخصیت ہیں۔(۲)
اس تمہید سے مقصود یہ ہے کہ قرآن حکیم اور سنت رسولؑ میں جو راہ نمااور زریں اصول موجود ہیں،وہ قیامت تک آنے والی نسل انسانی کے لیے ہر شعبہ حیات میں کامل راہ نمائی کے لیے کافی ووافی ہیں۔ہاں زمانے کی گردش، مختلف تہذیبوں اور تمدنوں کے امتزاج یا تصادم سے نئے ابھرنے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے حضورؑ کے فرمودہ طریق کے مطابق اجتہاد سے کام لینا ہو گا۔(۳)
احادیث کے معتبر ومستند مجموعوں میں بکثرت ایسی روایات ملتی ہیں کہ حضورؑ نے نہ صرف ذاتی اجتہاد سے ایک مسئلے کو واضح فرمایا، بلکہ علت ومعلول کے باہمی ربط اور ان وجوہ واسباب کی نشان دہی بھی فرما دی جو اس مسئلے میں بنیاد واساس کی حیثیت رکھتے ہیں۔(۴) یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ آپ کے عہد میں سر زمین حجاز کے باشندے تہذیب وثقافت اور معاملات ومعاشرت کے ضمن میں فطری سادگی کے حامل تھے، لہٰذا پیچیدہ مسائل کا بہت کم سامنا ہوا ۔تاہم سلطنت اسلامی کی روز بروز وسعت کے ساتھ جب بے شمار ممالک اور علاقے اسلام کی نورانیت سے منور ہو گئے اور مختلف ومتنوع تہذیبوں وتمدنوں سے تعلق رکھنے والے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تو نئے پیچیدہ مسائل سامنے آئے جنہیں یا خلافت راشدہ میں اجتماعی طور پر صحابہ کرام کی مشاورت سے حل کیا گیا یا پھر انفرادی سطح پر فتوے دیے گئے۔ (۵) مختلف وجوہ واسباب کی بنا پر کبار صحابہؓ کے فتووں میں کہیں کہیں اختلاف بھی نظر آتا ہے۔(۶) یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ عہد نبوی یا خلافت راشدہ کے دور میں بلکہ عہد عباسی کے ابتدائی دور تک اسلامی قانون کا سرکاری سطح پر تدوین نہیں ہوئی ۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے سلطنت اسلامی کا دائرہ وسیع ہوتا چلاگیااور اس دوسرے مرحلے میں پہلے سے کہیں ذیادہ پیچیدہ مسائل سامنے آئے جنہیں حل کرنے میں ائمہ اربعہ یعنی امام اعظم امام ابو حنیفہ، ؒ امام مالکؒ ،امام شافعیؒ ،اور امام احمد بن حنبل ؒ کے علاوہ امام جعفر صادقؒ ، امام سفیان ثوریؒ ،عبد الرحمن ابن ابی لیلیؒ ،لیث بن سعدؒ ،اسحاق بن راہویہؒ ، عبد الرحمن اوزاعیؒ اور داود ظاہریؒ وغیرھم کے اسما قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے بڑی گراں قدر خدمات انجام دیں اور شب وروز محنت اور ان تھک کوششوں سے فقہ اسلامی کے پودے کی آب یاری کی۔ تاہم مذاہب فقہ میں سب سے زیادہ مقبولیت اور شہرت فقہ حنفی کو حاصل ہوئی ۔چنانچہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے امام ابو حنیفہ ؒ کا تعارف کراتے ہوئے تحریر کیا ہے:
Abu Hanifa (d-767) founder of the Hanafi school of law, to which almost 80 percent of the Muslims in the world adhere. (7) 
ڈاکٹر صبحی محمصانی نے فقہ حنفی کی ابتدا کا ذکر اور امام کا مختصر تعارف ان الفاظ میں پیش کیا ہے : 
’’مذہب حنفی کوفہ میں پیدا ہوا جس کے بانی امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابتؒ ہیں جوامام اعظم کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ کی علمی زندگی کی ابتدا علم کلام کے مطالعے سے ہوئی۔ پھر آپ نے اہل کوفہ کی فقہ اپنے استاذ حماد بن ابی سلیمان (م ۱۲۰ھ) سے پڑھی ۔عملی زندگی کے لحاظ سے آپ ریشمی کپڑوں کے تاجر تھے۔علم کلام اور پیشہ تجارت نے آپ میں عقل ورائے سے استصواب کرنے ،احکام شرعیہ کو عملی زندگی میں جاری کرنے اور مسائل جدیدہ میں قیاس واستحسان سے کام لینے کی صلاحیت تامہّ پیدا کر دی تھی ۔‘‘ (۸)
کوفہ کا شہر عہد صحابہؓ میں وقیع علمی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ اور حضرت علیؓ کے تلامذہ کا مستقر تھا۔اسی شہر میں ۸۰ ؁ھ میں امام ابو حنیفہ ؒ کی پیدائش ہوئی اور ۱۵۰ھ ؁ میں بغداد میں وفات پائی ۔(۹) آپ کی پرورش ایک خالص اسلامی گھرانے میں ہوئی ۔ (۱۰) الدکتور محمد یوسف موسیٰ نے آپ کی ابتدائی زندگی کے حالات اور تجارت میں آپ کی امانت ودیانت کا ذکر کرنے کے بعد علم فقہ کی طرف آپ کے میلان کی مختلف روایات بیان کی ہیں ۔(۱۱) امام ابو حنیفہ ؒ کی پوری زندگی ایک طرف زہد وتقویٰ سے مزینّ ،اخلاق فاضلہ سے آراستہ اور امانت ودیانت کی آئینہ دار ہے(۱۲) تو دوسری طرف علم وتحقیق،تدوین فقہ اور شب وروز نئے مسائل میں غور وفکر اور بحث وتمحیص اور اجتہادی مساعی کی عکاسی کرتی ہے اور بقول ڈاکٹر صبحی محمصانی وفورِعلم کی بنا پر انہیں امام اعظم کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔(۱۳) خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد (۱۴) اور خیر الدین زرکلی نے الاعلام (۱۵) میں امام شافعی ؒ کے مختلف اقوال ذکر کیے ہیں کہ لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ ؒ کے محتاج ہیں۔ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے صدر الائمہ الموفق المکّی کے حوالے سے محمد بن ابی مطیع کے والد کا واقعہ نقل کیا ہے کہ انھوں نے کوئی چار ہزار مشکل سوالات مرتب کیے جو مختلف فنون وواقعات سے متعلق تھے۔امام صاحب نے رفتہ رفتہ ان کے تمام سوالات کے کافی وشافی جوابات دے دیے۔ (۱۶) ابن خلدون نے مقدمہ میں امام صاحب کی اجتہادی بصیرت کوان الفاظ میں ہدیہ تحسین پیش کیا ہے : ’’ اہل عراق کے امام اور مذہبی پیشوا ابو حنیفہؒ النعمان بن ثابت،جن کا مقام فقہ میں اتنا ارفع اور اعلیٰ ہے کہ کوئی اس تک نہیں پہنچ سکا۔‘‘( ۱۷)

فقہ اسلامی کی تدوین کی ضرورت

امام ابو حنیفہ ؒ کے زمانہ سے قبل جلیل القدر تابعین حضرت علقمہ ؒ ،حضرت اسودؒ ،حضرت حمادؒ ،حضرت ابراہیم نخغیؒ وغیرہم اور اہل علم صحابہ کرام کے ہاں علم حدیث کی طرح فقہی مسائل کے استخراج واستنباط اور اجتہاد کو بھی اہمیت حاصل تھی اور فقہ واجتہاد کے بہت سے مسائل اور احکام مدوّن بھی ہو چکے تھے، مگر یہ باقاعدہ اور منظم تدوین نہ تھی اور نہ اسے ایک مستقل فن Science)) کی حیثیت حاصل تھی اور نہ ابھی تک استدلال واستنباط مسائل کے قواعد مقرر ہوئے تھے۔فقہ واجتہاد جو اپنے وسیع اور ہمہ گیرنظام اور جامع فن ہونے کی وجہ سے جزئیات مسائل پر حاوی ہے ،اس کو باقاعدہ ایک دستور اور قانون کے مرتبہ تک پہنچانے کے لیے ابھی بہت سے مرحلے باقی تھے ۔ہجرت کا ایک سو بیسواں سال تھا ۔امام ابو حنیفہؒ کے استاذ حمادؒ وفات پاچکے تھے ۔یہ وہ زمانہ تھا کہ جب تمدن میں وسعت کی وجہ سے عبادات ومعاملات میں کثرت مسائل کے واقعات پیش آنے لگے ۔تعلیم وتعّلم میں ترقی اور تنوّع ،تجارت کا فروغ ،ملکی تعلقات اور بین الاقوامی مسائل ومعاملات میں بے انتہا وسعتوں کے پیش نظر استفتا واستفسارِمسائل کی کثرت ہونے لگی ۔سرکاری قضاۃ وحکام شرعی کے قضایاوفیصلوں میں غلطی کے پیش نظر امام ابو حنیفہؒ کے دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ احکام ومسائل کے کثیر اور وسیع جزئیات کو اصولوں کے ساتھ ترتیب دے کر ایک فن بنایا جائے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا دستور العمل مرتب کر دیا جائے جس میں تمام چیزوں کی رعایت ہو۔یہ کام فقہ اسلامی کی مکمل تدوین اور اصولوں کی تعیین کے بغیر ممکن نہیں تھا۔چنانچہ امام ابو حنیفہؒ کی مجتہدانہ طبیعت اور متقیانہ مزاج نے ان کوخود اس فن کی ترتیب پر آمادہ کیا۔ظاہر ہے فقہ اسلامی کی تدوین اور ترتیب میں فقہ واجتہاد کے تمام پہلو شامل ہونے تھے، لہٰذا یہ ایک پر خطر اور حزم واحتیاط کا کام تھا۔

مجلس اجتہاد کی تشکیل اور اجتہادِ اجتماعی کا طریقہ کا ر

امام ابو حنیفہ ؒ نے دیگر مجتہدین کے برعکس اجتہاد واستخراج کا یہ پر خطر کام انفرادی واستبدادی اندازمیں تنہا انجام نہیں دیا، بلکہ اس مقصد کے لیے اپ نے اپنے خاص الخاص تلامذہ کو، جو حدیث وفقہ میں ماہر ہونے کے ساتھ امام صاحب کے فیضِ صحبت کے باعث زاہد وعبادت گزار اور انتہائی متقی لوگ تھے ،منتخب کر کے ایکمجلس اجتہاد تشکیل دی جو حریت فکر اور اظہار رائے میں اپنی مثال آپ تھی۔ (۱۸)
الامام الموفق المکی کے مطابق امام ابو حنیفہ ؒ کے شاگرد اور فیض یافتہ افراد کی تعداد یوں تو ہزاروں سے متجاوز ہے، تاہم بقول ابن حجرؒ ان میں آٹھ سو زیادہ مشہور ہوئے اور ان آٹھ سو میں سے ساٹھ کے قریب افراد خاص علمی مرتبے کے حامل اور اجتہاد کے درجے پر فائز تھے ۔امام ابو حنیفہ ؒ ان کو بہت عزیز رکھتے تھے اور انہیں پر مشتمل مجلس اجتہاد وفقہ انھوں نے قائم کی۔ ان میں یہ لوگ ممتاز تھے : ابو یوسفؒ ،زفر، ؒ داود الطائیؒ ،اسد بن عمرؒ ، یوسف بن خالد ؒ التمیمی، یحییٰ بن ابی زائدہ ؒ ،حسن بن زیادؒ ،محمد بن حسنؒ ،عافیہ بن یزید الاودیؒ ،قاسم بن معن ؒ ،عبداللہ ابن مبارکؒ ،نضر بن عبد الکریم ؒ ،عبد الرزاق بن ہمامؒ وغیرہم ۔
مشہور محدث وکیع بن الجراحؒ کے حالات میں، جو امام ابو حنیفہ ؒ کے شاگرد اور امام شافعی ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کے استاد تھے، خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ ایک موقع پر چند اہل علم وکیعؒ کے پاس جمع تھے۔ ان میں سے کسی نے کہا : امام ابو حنیفہ ؒ نے فلان مسئلے میں غلطی کی ہے ۔وکیع بولے : ابو حنیفہ ؒ کیسے غلطی کر سکتے ہیں؟ جس شخص کے ساتھ قیاس ودرایت میں ابویوسف ؒ وزفر، ؒ حدیث میں یحییٰ بن زائدہ ،حفص بن غیاث ،حبان اور مندل ،لغت وعربیّت میں قاسم بن معن اور زہدوتقویٰ میں داود الطائی او ر فضیل بن عیاض کے رتبے کے لوگ ہوں ،وہ کیسے غلطی کر سکتا ہے اورکرتا بھی ہے تو یہ لوگ اس کو کب غلطی پر رہنے دیتے ہیں ؟
امام ابو حنیفہ ؒ کو کار اجتہاد اور تدوین فقہ وقانون کے لیے جن جن علوم کے ماہروں کی ضرورت تھی، انھوں نے فقہ اسلامی کے مختلف ابواب ومباحث کو ذہن میں رکھتے ہوئے نہایت کامیابی سے ان علوم میں مہارت رکھنے والے افراد کو نہ صرف جمع کیا بلکہ سالہا سال ان کی علمی اور مادی سر پرستی کرکے امت کو ایک بے مثال مجموعہ قوانین وفقہ کا تحفہ دیا۔ڈاکٹر محمد حمیداللہ لکھتے ہیں :
’’ایک اور مشکل یہ تھی کہ فقہ، زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ہے اور قانون کے ماخذوں میں قانون کے علاوہ لغت، صرف ونحو،تاریخ وغیرہ ہی نہیں، حیوانات ،نباتات بلکہ کیمیا کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔قبلہ معلوم کرنا جغرافیہ طبعی پر موقوف ہے۔ نماز اور افطار وسحری کے اوقات علم ہیئت وغیرہ کے دقیق مسائل پر مبنی ہیں۔ رمضان کے لیے رؤیت ہلال کو اہمیت ہے اور بادل وغیرہ کے باعث ایک جگہ چاند نظر نہ آئے تو کتنے فاصلے کی رویت اطراف پر موثر ہو گی وغیرہ وغیرہ۔مسائل کی طرف اشارے سے اندازہ ہو گا کہ نماز روزہ جیسے خالص عباداتی مسائل میں بھی علوم طبعیہ سے کس طرح قدم قدم پر مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کاروبار،تجارت، معاہدات ،آب پاشی ،صرافہ ،بنک کاری وغیرہ کے سلسلے میں قانون سازی میں کتنے علوم کے ماہروں کی ضرورت ہو گی۔امام ابو حنیفہ ہر علم کے ماہروں کو ہم بزم کرنے اور اسلامی قانون یعنی فقہ کو ان سب کے تعاون سے مرّتب ومدون کرنے کی کو شش میں عمر بھر لگے رہے اور بہت کچھ کامیاب ہوئے‘‘۔(۱۹)
آج کے دور میں علوم کی مختلف شاخوں نے اپنی مستقل حیثیت اختیار کر لی ہے اور ان میں تخصص کے لیے ساری عمر صرف کرنا پڑتی ہے،لیکن فقہ اسلامی کے طلبہ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ ان میں سے کئی ایک علوم مثلاً معاشیات، سیاسیات ،قانون بین الاقوام وغیرہ براہ راست علم فقہ کے ابواب ہیں۔ ان علوم سے متعلق جو قوانین مدون کیے گئے ہیں، ان کے لیے صرف کتاب ،سنت ،اجماع اور قیاس سے ہی کام نہیں لیا گیا بلکہ قانون سازی کے لیے دیگر علوم سے بھی بھر پور استفادہ کیا گیا۔ (۲۰)
الامام الموفق المکی ،امام ابو حنیفہ ؒ کے مجموعہ قوانین کے بارے میں لکھتے ہیں: 
’’وہ مجموعہ نحو اور حساب کے ایسے دقیق مسائل پر مشتمل تھا جن کو سمجھنے کے لیے عربی زبان وادب اور الجبرا وغیرہ میں مہارت تامّہ کی ضرورت تھی۔‘‘ (۲۱)
موفق، امام ابو بکر الجصاص کی تالیف ’شرح جامع صغیر‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ میں نے مدینۃ السلام (بغداد) میں ایک بہت بڑے نحوی حسن بن عبد الغفار کو اس کتاب کے بعض مسائل سنائے جن کا تعلق نحو ولغت کے ذریعے استخراج مسائل سے تھا تو جیسے جیسے وہ مسائل سنتے جاتے تھے، حیرت سے میری طرف دیکھتے ۔ آخر میں بولے،ان نتائج کا استنباط وہی کر سکتا ہے جو علوم نحو میں خلیل اور سیبویہ کاہم پلّہ ہو۔ (۲۲)

طریقہ بحث وتحقیق

امام ابو حنیفہ ؒ کی مجلس فقہ واجتہاد کے ارکان کے ناموں کی تلاش کے لیے آپ کے سوانح نگاروں نے بلاشبہ سخت جگر کاوی کی ہے۔ آپ کی تدوین فقہ کے تیس سالوں میں ہزاروں نہیں تو سیکڑوں طالب علموں نے ان سے کسب فیض کیا ۔ان میں سے بعض غیر معمولی قابلیت کے حامل تلامذہ کو امام اپنی مجلس فقہ میں شامل کر لیتے تھے جبکہ اکثریت ایک خاص مدت تک امام ابو حنیفہ ؒ کے طریقہ استدلال اور منہج اجتہاد میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اپنے شہروں کو روانہ ہو جاتی تھی ،جیسا کہ شیخ محمد ابو زہرہ نے لکھا ہے :
لقد کان لابی حنیفہؒ تلامذۃ کثیرون منھم من کان یرحل الیہ ویستمع امرا ثم یعود الی بلدہ بعد ان یاخذ طریقتہ ومنھاجہ ومنھم من لازمہ۔
’’امام ابو حنیفہؒ کے بہت سے شاگرد تھے۔ ان میں سے کچھ تو وہ تھے جو آپ کے پاس آکر کچھ عرصہ گزارتے، آپ کا طریقہ استنباط سیکھتے، اسے اپنا کر واپس وطن لوٹ جاتے ، اور ان میں سے کچھ نے آپ کی صحبت اختیار کر لی تھی ۔‘‘
مذکورہ حضرات مختلف علوم وفنون کے ماہر ،غیر معمولی قابلیتوں اور علمی حیثیتوں کے مالک تھے ۔ (۲۳)
مجلس میں مسائل پر بحث وگفتگو کے طریقے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے الموفق لکھتے ہیں :
کان یلقی مسئلۃ مسئلۃ یقلبھم ویسمع ماعندھم ویقول ماعندہ ویناظرھم شھرا او اکثر من ذلک حتی یستقر احد الا قوال فیھا۔ (۲۴)
’’ایک ایک مسئلہ کو پیش کرتے، لوگوں کے خیالات کو الٹتے پلٹتے ،اراکین مجلس کی آرا اور دلائل سنتے۔اپنی رائے اور دلائل سے اہل مجلس کو آگاہ کرتے اور ان سے مناظرہ کرتے ۔کبھی ایک ایک مسئلہ پر بحث ومناظرہ کا سلسلہ ایک ماہ یا اس سے بھی زیادہ مدت تک چلتا تاآنکہ مسئلے کا کوئی پہلو متعین ہو جاتا۔‘‘

بامقصد اور آزادانہ بحث

امام ابو حنیفہؒ نے مشاورت کو بامقصد ،بحث ومناظرہ کو آزادانہ اور مجلس اجتہاد کو بے تکلف بنانے کی شعوری کوشش کی تھی تاکہ ادب آداب اور عقیدت ولحاظ کے باعث قانون سازی میں کسی قسم کا سقم نہ رہ جائے ۔ مشہور محدث عبد اللہ ابن مبارک کہتے ہیں :
’’میری موجودگی میں ایک مسئلہ بحث کے لیے پیش ہوا۔ مسلسل تین دن تک ارکان مجلس اس پر غور وخوض اور بحث ومباحثہ کرتے رہے ۔‘‘
کوفہ کے اہل علم امام ابو حنیفہ ؒ کے قانون سازی اور حل مسائل کے اس اچھوتے انداز کو حیرت واستعجاب سے دیکھتے اور پسند کرتے تھے ۔ (۲۵)
مشہور محدث اعمش نے مجلس کے طریق کار کو بیان کرتے ہوئے کہا: جب اس مجلس کے سامنے کوئی مسئلہ آتا ہے تو حاضرین اس مسئلے کو اس قدر گردش دیتے ہیں اور الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ بالآخر اس کاحل روشن ہوجاتا ہے ۔ (۲۶)

ہم عصر علمی مجالس سے استفادہ

امام ابو یوسف کی روایت سے معلوم ہوتاہے کہ جب کوئی مسئلہ زیر تحقیق ہوتا تو کوفہ کی دوسری علمی مجالس سے بھی مراجعت کی جاتی کہ آیا اس مسئلے میں ان کے پاس کوئی حدیث ہے ۔ابو یوسف کہتے ہیں کہ مجھے تلاش سے جو احادیث ملتیں، میں لے کر امام صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا تو وہ بتاتے کہ ان میں سے فلاں حدیث صحیح ہے اور فلاں صحیح نہیں ہے، اور ہم نے جو رائے اختیار کی ہے، وہ حدیث صحیح کے مطابق ہے ۔میں پوچھتا کہ آپ کو ان احادیث کا کیسے علم ہوا ؟تو جواب دیتے کہ کوفہ میں جتنا علم ہے، وہ سارا میرے پاس ہے۔ (۲۷)

اہم عصری مباحث وموضوعات پر اجتہاد

امام ابو حنیفہؒ کی مجلس اجتہاد میں بعض اہم عصری موضوعات زیر تحقیق لائے گئے۔ امام ابو حنیفہؒ پہلے شخص ہیں جنہوں نے کتاب الفرائض اور کتاب الشروط وضع کیں۔قانون بین المالک، جو تاریخ کا حصہ سمجھا جاتاتھا، اس کو تاریخ سے الگ کرکے مستقل فقہی چیز قرار دیا گیااور کتاب السیر مرتب ہوئی جس میں صلح اور جنگ کے قوانین مدون ہوئے۔ اس طرح ایک ضخیم مجموعہ قوانین تیار ہو ا جو متعدد کتب کی شکل میں اس دور میں موجود رہا۔بعد میں ان تالیفات کو امام محمد بن حسن شیبانی نے مزید منقح کرکے مدون کیا اور یہی مجموعے فقہ حنفی کی اساسی کتب ہیں۔

اہم اصولِ اجتہاد

امام ابو حنیفہؒ کی قائم کردہ مجلس اجتہاد کا طریق اجتہاد تقریباً وہی تھا جو اصحاب رسول ؑ نے اختیار کیا تھا ۔ اس مجلس کے طریق میں بھی صحابہ کرامؓ کے اختیار کردہ اصول کار فرما نظر آتے ہیں ۔ڈاکٹر صبحی محمصانی اس طریق کا ر کے ضمن میں امام صاحب کا اپنا ایک قول نقل کرتے ہیں :
اذا لم یکن فی کتاب اللہ ولا فی سنۃ رسول اللہ نظرت فی اقاویل اصحابہ ولا اخرج عن قولھم الی غیرھم فاذا انتھی الامر الی ابراھیم والشعبی وابن سیرین والحسن وعطاء وسعید بن جبیر فقوم اجتھدوا فاجتھد کما اجتھدوا۔ (۲۸ )
’’ اگر کتاب اللہ اور سنت رسول ؑ دونوں میں مسئلہ نہ مل سکے تو اقوال صحابہؓ سے اخذ کرتا ہوں۔ جس کا قول چاہتا ہوں، لے لیتا ہوں اور جس کا قول چھوڑنا چاہوں، ترک کر دیتا ہوں اور ان کے اقوال سے کسی دوسرے کے قول کی طرف تجاوز نہیں کرتا، لیکن جب معاملہ ابراہیم نخعی ،شعبی ،ابن سیرین ،حسن بصری ،عطا اور سعید بن جبیرتک پہنچتاہے تو وہ اجتہاد کرنے والے لوگ تھے، ہمیں بھی ان کی طرح اجتہاد کرنے کا حق حاصل ہے ۔‘‘
اس طرح علامہ عبد البر کی ’’ الانتقاء ‘‘ میں نیز موفق المکی کی ’’ المناقب ‘‘ میں مذکور ہے:
’’آپ معتبر قول کو لیتے، قبیح سے دور بھاگتے، لوگوں کے معاملات میں غوروفکر کرتے ۔جب لوگوں کے احوال اپنی طبعی رفتار سے جاری رہتے تو قیاس سے کام لیتے ۔مگر جب قیاس سے کسی فساد کا اندیشہ ہوتا تو لوگوں کے معاملات کا فیصلہ استحسان سے کرتے۔ جب اس سے بھی معاملات بگڑ تے نظر آتے تو مسلمانوں کے تعامل کی طرف رجوع کرتے۔ جس حدیث پر محدثیں کا اجماع ہوتا، اس پر عمل پیرا ہوتے ۔ پھر جب تک مناسب سمجھتے، اس پر اپنے قیاس کی بنیاد کھڑی کرتے ۔پھر استحسان کا رخ کرتے ۔ قیاس اور استحسان میں سے جو زیادہ موافق ہوتا، اس کی طرف رجوع کرتے ۔سہل کہتے ہیں : امام ابو حنیفہؒ کا علم عوام کی سمجھ میں آنے والا علم ہے۔‘‘
نیز اسی کتاب میں ہے :
’’ابو حنیفہؒ ناسخ منسوخ احادیث کی بہت چھان بین کرتے ہیں۔جب کوئی حدیث مرفوع یا اثر صحابی آپ کے نزدیک ثابت ہو جاتا تو اس پر عمل کرتے۔ آپ اہل کوفہ کی احادیث سے خوب آگاہ تھے اور ان پر بڑی سختی سے عامل رہتے تھے۔‘‘
گویا مجلس اجتہاد میں پیش آمدہ مسائل کا حل پہلے قرآن وسنت سے تلاش کیا جاتا ۔سنت دوسرا بڑا ماخذ ہے جس پر مدار استنباط تھا۔ قرآن حکیم شریعت کا اصل الاصول اور اس کا سر چشمہ ہے جس کا ثبوت قطعی ہے جب کہ حدیث کا ثبوت ظنّی ہے۔ جو اوامر قرآن میں ہوں، وہ ’’فرض ‘‘ اور جو ’’حدیث ‘‘ سے ثابت ہوں، ان کو ’’واجب ‘‘ کہا جاتا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ دلائل میں اسی تقدیم وتاخیر کے قائل تھے۔ آپ فرماتے ہیں : ’’ ہم پہلے کتاب اللہ سے استدلال کرتے ہیں، پھر سنت نبوی ؑ سے، پھر قضایا صحابہؓ سے۔ صحابہؓ جس بات پر متفق ہوں، ہم اس پر عمل کرتے ہیں ۔اگر صحابہؓ میں اختلاف پایا جاتا ہو تو ہم علت جامعہ کی بنا پر ایک حکم کو دوسرے حکم پر قیاس کرتے ہیں ۔یہاں تک کہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے ۔‘‘(۳۰)
امام ابو حنیفہؒ نے علوم نبوی ؑ کے خزانے سے کما حقہ فائدہ اٹھایا۔اخذ وقبولِ حدیث کے اصول متعین فرمائے ۔فقہ الحدیث میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مہارت تامّہ عطا فرمائی تھی۔آپ کے جلیل القدر شاگرد اور محدث امام ابو یوسف ؒ فرماتے ہیں: 
’’مارایت احدا اعلم بتفسیر الحدیث ومواضع النکت التی فیہ من الفقہ من ابی حنیفہؒ .....وکان ھو ابصر بالحدیث الصحیح منی‘‘ (۳۱)
’’میں نے امام ابو حنیفہؒ سے بڑھ کر کسی کو حدیث سمجھنے اور اس سے فقہی جزئیات اخذ کرنے والا نہیں دیکھا۔ آپ صحیح حدیث کی مجھ سے زیادہ بصیرت رکھنے والے تھے ۔‘‘
علاوہ ازیں مجلس اجتہاد میں صحابہ خصوصاً سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ، سیدنا علی،ؓ قاضی شریح، ابراہیم نخعی اور دیگر ہم عصر فقہا ومجتہدین کے فیصلوں اور قضایاکو کافی اہمیت دی جاتی ۔
اس طرح قانون سازی کے سلسلے میں مذکورہ بالا اجتماعی اجتہادی کاوشوں کی بنا پر جو قانونی سرمایہ وجود میں آیا ،اس کی مثال دنیا کی دیگر اقوام میں عنقا ہے۔ سیکڑوں متون (texts)، ہزاروں شروح وحواشی کے علاوہ وقائع اور حوادث وفتاویٰ کی حیثیت وہی ہے جو اج کل عدالتوں میں نظائر precedents)) کی ہے۔
آج عالم اسلام جن فکری، تہذیبی،تعلیمی اور قانو نی مسائل سے دور چار ہے، ان کے حل کے سلسلے میں امام ابو حنیفہؒ کا اجتماعی اجتہاد کا طریق کار چراغ راہ کا کام دے گا ۔قر آن وسنت ،اقوال صحابہؓ اور قدیم علمی فقہی سرمایہ کو سامنے رکھتے ہوئے علمائے اسلام کی نمائندہ کونسلیں پیش آمدہ مسائل پر غورفکر کریں۔مسائل کے فنی اور شرعی پہلووں پر خوب غوروفکر کرکے مسائل کا حل سامنے لائیں۔ اس کام کے لیے اللہ رب العزّت سے دعا واستعانت ،خلوص نیت اور عزم صمیم کی ضرورت ہے ۔

حوالہ جات

(۱) ادارہ تحقیقات اسلامی ، اسلام آباد کے زیر اہتمام ۱۹ سے ۲۲ مارچ ۲۰۰۵ منعقد ہونے والا اجتماعی اجتہاد پر بین الاقوامی سیمینار اسی مقصد کے لیے بلایا گیا تھا۔
( ۲)
 Micheal Heart: "The 100 - A Rankin of The Most Influential Persons in History", New York ,1978, P. 33
( ۳) علامہ محمد الخضری نے اپنی کتاب ’’ تاریخ التشریع الاسلامی ‘‘میں حضور ؑ کے ذاتی اجتہاد ات کی مختلف مثالیں پیش کی ہیں۔ (محمد الخضری :تاریخ التشریع الاسلامی ،طبع مصر ، ۱۹۶۰م،ص۲۶تا ۳۹)
(۴) یہ شواہد بھی موجود ہیں کہ حضور ﷺ نے بعض صحابہؓ کو اپنے عہد مسعود میں اجتہاد کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ (ڈاکٹر حمید اللہ : ’’امام ابو حنیفہؒ کی تدوین قانون اسلامی‘‘ ،کراچی ،N.Dََََََِص ۱۳)
( ۵) ڈاکٹر صبحی محمصانی :’’فلسفۃ التشریع فی الاسلام‘‘ ،بیروت ،۱۹۶۱۔ص۳۳ ،۳۴
(۶) ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں، شاہ ولی اللہ نے ’حجۃ اللہ البالغۃ‘ میں اور عصر حاضر میں علامہ محمد الخضری نے صحابہ کرامؓ کے فتووں میں اختلاف کاذکر کیا ہے اور ان کے اسباب پر روشی ڈالی ہے ۔ملاحظہ ہو :ابن خلدون ،مقدمہ (اردو ترجمہ )،ص ۴۶۹۔ شاہ ولی اللہ :حجۃ اللہ البالغۃ(اردو ترجمہ )،لاہور ،حصہ اول ،ص ۳۷۵۔ محمد خضری:تاریخ التشریع الاسلامی ،مصر ۔۱۹۶۰م ص۱۱۷ تا ۱۲۷۔
( ۷)
 Dr. Hamidullah :"Introduction to Islam", Lahore, 1974, P. 267
( ۸) صبحی محمصانی :’’فلسفہ التشریع فی الاسلام ‘‘،بیروت ،۱۹۶۱،ص ،۴۱۔
( ۹) خیرالدین زرکلی :’’ الاعلام‘‘ ،الجزء التاسع ،ص ۴۔
( ۱۰) ابو زہرہ : ’’ابو حنیفہؒ حیاتہ وعصرہ وآراء ہ وفقہہ‘‘ ( اردو ترجمہ ) المکتبہ السلفیہ،لاہور ۱۹۶۲،ص ۴۶۔
( ۱۱) الدکتور محمد یوسف موسیٰ :’’ محاضرات فی تاریخ الفقہ الاسلامی‘‘ ،الجزء الثالث ،ص ۳۶۔
( ۱۲) المصدر السابق۔
(۱۳) فلسفۃ التشریع فی الاسلام ،ص۴۲۔
( ۱۴) ج ۱۳،ص ۳۴۶۔
( ۱۵) ج ۹ ص ۵۔
(۱۶) امام ابو حنیفہ ؒ کی قانون تدوین اسلامی ،ص ۳۴۔
( ۱۷) ابن خلدون :مقدمہ (اردو ترجمہ ) کراچی ،ص ۴۶۸۔
(۱۸) ابو زہرہ : ص ۲۲۱۔
( ۱۹) امام ابو حنیفہؒ کی سیاسی زندگی ، (پیش لفظ)۔
( ۲۰) محمد طفیل ہاشمی : ’’امام ابو حنیفہؒ کی مجلس تدوین فقہ‘‘ ، علمی مرکز وملت پبلی کیشنز،اسلام آباد ۱۹۹۸، ص۹۰۔
( ۲۱ ) الموفق المکی الامام : ’’مناقب الامام ابی حنیفہ‘‘ؒ ،دائرۃ المعارف حیدر اباد(س ن) ،۲/۱۲۷۔
( ۲۲) المصدر السابق :۲/ ۱۳۸۔
( ۲۳) الشیخ ابو زہرہ : ’’ابو حنیفہؒ حیا تہ وعصرہ‘‘ ،(مترجم اردو) ،المکتبہ السلفیہ ،لاہور،۱۹۶۲ ،ص ۱۸۲ ۔
( ۲۴) الموفق المکی : المصدر السابق ،۲/۱۳۳ ۔
( ۲۵) المصدر السابق ، ۱/۵۴۔
( ۲۶) کردری : مناقب اما م ابو حنیفہؒ ،۲/۳۰۔
( ۲۷) الموفق المکی : ۲/۱۵۲ ۔
( ۲۸) صبحی محمصانی :’’ فلسفۃ التشریع فی الاسلام‘‘ ،۱۹۶۱،ص ۴۲۔
( ۲۹) ابن عبد البر :’’ الانتقاء فی فضائل الثلاثۃ الفقہاء‘‘، ص ۱۴۳۔
( ۳۰) عبد الوہاب الشعرانی : ’’المیزان الکبریٰ ‘‘،طبع مصر ،۱۳۴۴ھ ص ۶۱۔
( ۳۱) الدکتور ابو یوسف موسیٰ :’’ محاضرات فی تاریخ الفقہ الاسلامی‘‘ (۳) ،ص ۶۶۔

قرآنی علمیات اور معاصر مسلم رویہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

دنیا کی کوئی فکر، کوئی فلسفہ یا کوئی نظامِ حیات ، معاشرتی سطح پر اپنے نفوذ کی خاطر متعلقہ معاشرت اور کلچر کا لحاظ کیے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ۔ یہ آدھا سچ ہے ۔ بقیہ آدھا سچ یہ ہے کہ متعلقہ معاشرت اور کلچر کا لحاظ اگر حدود سے تجاوز کر جائے تو وہ نظامِ حیات یا فلسفہ اپنے مخصوص اور منفرد منہج سے ہٹ کر محدودیت اور تنگ نظری کو فروغ دینے والی معاشرتی کہاوتوں کو بھی، جن کے پیچھے اصلاً نفسیاتی عوارض کار فرما ہوتے ہیں، اپنی بنیادی صداقتوں میں شمار کرنے لگتا ہے اور انہیں ازلی سچ گردانتے ہوئے اپنی علمیات (Epistemology) سے کچھ اس طرح خلط ملط کرتا ہے کہ نہ صرف جھوٹ اور سچ میں تفریق مشکل ہو جاتی ہے، بلکہ وہ نظام حیات فی نفسہ اپنی ڈگر سے ہٹ جاتا ہے ۔ اگر قرآن کا موضوع انسان ہے اور انسان معاشرے میں ہی زندہ رہ سکتا ہے تو قرآنی علمیات بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اس طرح ہماری آئندہ گفتگو کم از کم دو جہتوں میں منقسم ہو گی: (ا) قرآنی علمیات (ب) قرآنی علمیات سے روگردانی ۔
سب سے پہلے ہم قرآنی علمیاتی اساس کو دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت قرآن مجید میں فرماتے ہیں : 
 الم o ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ o الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْْبِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ o (البقرہ: ۱۔۳)
’’ الف، لام، میم ۔ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ نہیں کوئی شک اس (کے کتابِ الہٰی ہونے ) میں۔ ہدایت ہے (اللہ سے ) ڈرنے والوں کے لیے۔ جو ایمان لاتے ہیں غیب پر، قائم کرتے ہیں نماز اور اس میں سے جو رزق ہم نے دیا ہے، خرچ کرتے ہیں۔ ‘‘ 
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کی تصریح فرمائی ہے:
(۱) کتابِ الٰہی میں شک کرنے کی گنجائش موجود نہیں۔
(۲) یہ متقین ( اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ) کے لیے ہدایت ہے ۔ 
(۳) اس کے بعد اللہ رب العزت متقین کے گروہ کو متعین کرتے ہیں کہ حقیقت میں متقین کون لوگ ہیں؟ یعنی کن صفات کے حامل لوگوں کے لیے ’الکتاب‘ ہدایت کا سر چشمہ ثابت ہو سکتی ہے ؟ ان میں ’’ ایمان بالغیب ‘‘ کو اللہ رب العزت سب سے پہلی صفت یا ناگزیر لازمہ قرار دیتے ہیں ۔ اس کے بعد اقامتِ صلوۃ اور انفاق کا ذکر کرتے ہیں ۔ 
اب ذرا غور فرمائیے کہ ’’الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْْبِ‘‘ کے بعد حرفِ عطف ’ و ‘ موجود ہے ۔ یہ حرفِ عطف اشارہ کر رہا ہے کہ ایمان ، غیب کے ساتھ مخصوص ہے۔ آیت کا بعد والا حصہ یعنی اقامتِ صلوۃ اور انفاق اپنی اپنی جگہ الگ اہمیت رکھتے ہیں (کیونکہ ان کے درمیان بھی حرفِ عطف موجود ہے)، ان کا ایمان کے ساتھ کوئی براہ راست تعلق نہیں بنتا، البتہ متقین کی صفات کے ذیل میں ان کا مقام دوسری اور تیسری سطح پر ضرور آتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ متقین کی پہلی صفت ایمان بالغیب ہے اور انہی کے لیے یہ الکتاب ( جس میں کوئی شک نہیں) ذریعہ ہدایت ہے ۔ 
قرآن کی ان ابتدائی آیات کا فہم قرآن کی جس علمیاتی اساس کی جانب اشارہ کرتا ہے، وہ کچھ یوں ہے :
(۱) قرآنی علمیاتی اساس تشکیک کی نفی کرتی ہے ، یعنی علم کی بنیاد شک پر نہیں رکھی جا سکتی ۔ 
(۲) علمیاتی اساس ’’ لا ریب ‘‘ یعنی شک نہ کرنے میں پنہاں ہے ۔ 
(۳) جس علم میں شک نہ کیا جا سکے، ایسا علم صرف متقین کے لیے ہدایت ہے ( سب کے لیے نہیں ) ۔ 
(۴) متقین وہ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں۔
اگر مذکورہ چاروں نکات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لاریب اور بالغیب میں گہرا تعلق ہے ۔ لاریب یعنی شک نہ کرنے کی صراحت کے بعد ، ایمان بالغیب کا ذکر ( وہ بھی کچھ اس طرح متصل الفاظ کے ساتھ کہ درمیان میں کہیں بھی حرفِ عطف نہیں آتا) خاصا معنی خیزہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شک نہ کرنے کے باوصف ایسے انسان کا ذہنی سانچہ کس قسم کا ہونا چاہیے جو متقین میں شامل ہوکر ہدایت پانا چاہتا ہے؟ قرآن اس کا پہلا جواب ایمان بالغیب سے دیتا ہے ۔ یہاں غیب کے وہ معنی مراد نہیں جومختلف مذہبی حلقوں میں معروف ہیں ۔ یہاں غیب سے مراد ’’نامعلوم ‘‘ہے، لیکن اس کا مطلب لا ا دریت بھی ہرگز نہیں ۔ نامعلوم ہونا ایک اور چیز ہے اور نہ جان سکنا چیزے دگر است ۔ نہ جان سکنے کی روش اپنانا ایک منفی رویہ ہے اور یہ تشکیک کے قریب ترین ہے جس کی قرآن ابتدا ہی میں نفی کرتا ہے ۔ اس کے برعکس نامعلوم ہونا ایک مثبت رویہ ہے جس میں جان سکنے کی خواہش اور یقین دونوں پائے جاتے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ( الکتاب میں ) تشکیک کرنے کے بجائے ( یعنی وہ امکانات جو مستور ہونے کے باعث شک میں ڈال دیتے ہیں، حالانکہ خدا کے ہاں موجود ہیں ) نامعلوم یعنی امکانات کو چھونے کی خواہش اور سکت ، ایمان بالغیب ہے۔ اس طرح واضح ہو جاتا ہے کہ قرآنی علمیاتی اساس کسی بھی قسم کی فکری موضوعیت یا تشکیک کے بجائے ’’نامعلوم پر ایمان‘‘ یعنی امکانات کو چھونے کی سکت پر موقوف ہے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دنیا کی کوئی فکر، کوئی فلسفہ یا کوئی نظامِ حیات ، قرآنی علمیاتی اساس کی مانند نامعلوم پر قائم نہیں ہے، حتیٰ کہ ریاضی جیسی مجرد فکر بھی ’’ فرض کیا ‘‘ سے شروع ہوتی ہے یعنی اس میں بھی موضوعیت در آتی ہے ۔ 

قرآنی علمیات کا راہنمایانہ منہاج

قرآنی علمیات کی اساس کی دریافت کے بعد اب ہم اس کا راہنمایانہ منہاج (Directive Discourse) تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں : 
وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَۃِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَن یُفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ o ( البقرۃ : ۳۰)
’’اور یاد کرو جب کہا تیرے رب نے فرشتوں سے کہ یقیناًمیں بنانے والا ہوں زمین میں ایک خلیفہ ۔ تو انھوں نے کہا تھا کہ کیا تو مقرر کرے گا زمین میں اس کو جو فساد برپا کرے گا اس میں اور خون ریزی کرے گا؟ جبکہ ہم تسبیح کرتے ہیں تیری حمدو ثنا کے ساتھ اور تقدیس کرتے ہیں تیری ۔ اللہ نے فرمایا یقیناًمیں جانتا ہوں وہ کچھ جو تم نہیں جانتے۔‘‘
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرشتوں کو اس بات کا علم کیسے ہوا کہ خلیفہ زمین میں فساد اور خون ریزی برپا کرے گا ؟ کیا فرشتے بھی ایک حد تک ’ علیم ‘ ہیں ( خدا سے کم تر درجے میں ہی سہی )؟ اس آیت سے متصل آیات جہاں اس نکتے کی وضاحت کرتی ہیں، وہاں اس امر پر بھی دال ہیں کہ ان کو متصل پڑھنے سے ہی قرآنی منشا زیادہ وضاحت کے ساتھ مشخص ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَۃِ فَقَالَ أَنبِئُوْنِیْ بِأَسْمَاء ہَؤُلاء إِن کُنتُمْ صَادِقِیْن o قَالُواْ سُبْحَانَکَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْم o (البقرہ: ۳۱، ۳۲)
’’اور سکھائے اللہ نے آدم ؑ کو نام سب چیزوں کے ، پھر پیش کیا ان کو فرشتوں کے سامنے اور فرمایا بتاؤ مجھے نام ان کے ، اگر ہو تم سچے۔ انھوں نے عرض کیا پاک ہے تیری ذات، نہیں ہمیں علم مگر اسی قدر جتنا تو نے سکھایا ہمیں ۔ بے شک تو ہی ہے سب کچھ جاننے والا ، بڑی حکمت والا ‘‘ 
آیت نمبر ۳۲ میں یہ الفاظ کہ ’’ نہیں ہمیں معلوم مگر اسی قدر جتنا تو نے سکھایا ہمیں ‘‘ صاف بتا رہے ہیں کہ فرشتے ادنیٰ درجے میں بھی علیم نہیں ہیں ۔ خلیفہ کے بارے میں فرشتوں کی یہ جان کاری کہ وہ زمین میں فساد اور خون ریزی برپا کرے گا، خدا ہی کی عطا کردہ تھی ۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ فرشتوں نے کسی ’شک ‘ کا اظہار نہیں کیا بلکہ اپنے معلوم کی مدد سے ایک ’یقینی اور امکانی‘ بات کی( یقینی ان معنوں میں کہ علم خدا کا عطا کردہ تھا اور امکانی ان معنوں میں کہ ابھی وقوع نہیں ہوا تھا ) کہ خلیفہ بھی آخر رب ذوالجلال کی تسبیح و تقدیس کرے گا اور وہ ہم پہلے ہی کر رہے ہیں۔ پھر چونکہ وہ فساد اور خون ریزی بھی کرے گا، لہٰذا اس کی تخلیق میں رب کی کیا حکمت ہے ؟ اس کے بعد آیت کا اسلوب بتاتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے عطا کردہ علم کے یقینی و امکانی اظہار پر فرشتوں سے ناراضی کا اظہار نہیں فرمایا ( کہ تشکیک کے بر عکس یقینی اور امکانی علم کا اظہار خدا کے ہاں مقبول ہے ) ۔ آیت پر غور فرمائیے :
قَالَ یَا آدَمُ أَنبِئْہُم بِأَسْمَآئِہِمْ فَلَمَّا أَنبَأَہُمْ بِأَسْمَآئِہِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّکُمْ إِنِّیْ أَعْلَمُ غَیْْبَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُون o (البقرہ: ۳۳)
’’ اللہ نے فرمایا ، اے آدم ؑ بتاؤ ان کو نام ان کے ، پھر جب بتا دیے آدم ؑ نے فرشتوں کو نام ان سب کے ، تو فرمایا : کیا نہیں کہا تھا میں نے تم سے کہ بیشک میں ہی جانتا ہوں سب راز آسمانوں کے اور زمین کے بھی اور جانتا ہوں ہر اس چیز کو جو تم ظاہر کرتے ہو اور وہ بھی جو تم چھپا رہے ہو ‘‘ 
اس آیت میں کہیں بھی ناراضی کا شائبہ نہیں ملتا، سوائے ان آخری الفاظ کے ’’ اور وہ بھی جو تم چھپا رہے ہو ‘‘۔ اگر ان الفاظ کے مخاطب فرشتے ہیں تو اس کی مزید صراحت اگلی آیت میں ہو جاتی ہے :
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَءِکَۃِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِیْسَ أَبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْن o (البقرہ: ۳۴)
’’ اور جب حکم دیا ہم نے فرشتوں کو کہ سجدہ کرو آدم ؑ کو ، تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ۔ اس نے انکار کیا اور گھمنڈ کیا اور وہ تھا ہی کافروں میں سے ‘‘ 
یقین سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ امکانی بات یہ ہے کہ جب فرشتے فساد اور خون ریزی کا تذکرہ کر رہے تھے تو فرمانِ ربانی کے مطابق ’’ جو تم ظاہر کرتے ہو ‘‘ کے مصداق ابلیس بھی ان کا ہم نوا تھا۔ اس وقت تک ابلیس نے اپنے انکار اور گھمنڈ کو چھپایا ہوا تھا ، اسی چھپانے کو اللہ رب العزت نے آیت ۳۳ میں ’’ اور وہ بھی جو تم چھپا رہے ہو ‘‘ کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے ۔ آیت ۳۴ میں یہ نکتہ اہم ہے کہ ابلیس کا انکارکرنا اور اس کا گھمنڈ کرنا اسے دیگر فرشتوں سے ( عمومیت کے دائرے سے ) الگ کر دیتا ہے ۔ 
طوالت سے بچنے کی خاطر اس بحث کو یہیں منقطع کر کے ہم اصل بات کی طرف لوٹتے ہیں ۔ ذرا غور کیجئے کہ اللہ رب العزت پہلے فرشتوں کی زبان سے ’’ فساد اور خون ریزی ‘‘ کا ذکر کرتے ہیں، پھر اس کی نفی کرنے کے بجائے آدم ؑ کو سب چیزوں کے نام سکھلا کر فرشتوں سے مخاطب ہوتے ہیں کہ کیا تم یہ نام بتا سکتے ہو؟ پھر آدم ؑ کو حکم دیتے ہیں کہ فرشتوں کو یہ سارے نام بتا دو۔ اس آگاہی کے بعد فرشتے کوئی سوال نہیں کرتے بلکہ خدائی حکم کی تعمیل میں آدم ؑ کو سجدہ کرتے ہیں، سوائے ابلیس کے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان آیات کی متصل تلاوت ایک بہت واضح اشارہ کر رہی ہے کہ خلیفۃ الارض اگرچہ فساد اور خون ریزی برپا کرے گا، لیکن اسی فساد اور خون ریزی کو کنٹرول کرنے کے لیے اس کے پاس ’’ الاسماء کلھا ‘‘ کا ہتھیار بھی ہو گا ، اسی لیے فرشتے ( خدائی پروگرام کے مطابق ) مزید سوال کرنے کے بجائے چپ سادھ لیتے ہیں ۔ ہماری رائے میں قرآنی علمیات کا راہنمایانہ منہاج یہی ہے کہ انسان ’’فساد اور خون ریزی کو مغلوب کرنے والے علوم و فنون ‘‘ کی عظیم عمارت قائم کرے ۔ اس کی مزید تصریح اس آیت سے ہو جاتی ہے :
مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً (المائدہ: ۳۲)
’’ جس شخص نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا، الا یہ کہ قصاص میں یا زمین میں فساد کا ارتکاب کرنے کی پاداش میں اس کی جان لی جائے ‘‘۔
یہاں اس امر کی وضاحت بر محل ہو گی کہ قرآنی علمیات میں راہنمایانہ منہاج کی باقاعدہ موجودگی، مجرد علمیات (Abstract Epistemology) کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی۔ در حقیقت ، مجرد علمیات اور تشکیک کے بجائے یقین اور امکان کے دائرے میں آنے والے علوم و فنون ہی راہنمایانہ منہاج کی چھتری تلے قابلِ قبول گردانے جائیں گے۔ 

راہنمایانہ علمیاتی منہاج کی ثانوی جہتیں 

قرآنی علمیات کے راہنمایانہ منہاج کے مختصر ذکر کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ثانوی جہتوں پر بھی سرسری نظر ڈال لی جائے ۔ 
ہم سمجھتے ہیں کہ فساد اور خون ریزی کا باقاعدہ تذکرہ ہونے سے ان کو براہ راست مغلوب کرنے والے علوم و فنون ’’ یقین ‘‘ کے دائرے میں آئیں گے ( جیسا کہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر فساد اور خون ریزی کے ذکر کے ساتھ ان پر غالب آنے کے لوازمات کا بھی ذکر موجود ہے ) ، جبکہ فساد اور خون ریزی کی ایسی پرتیں جو قرآن مجید میں اگرچہ کھولی نہیں گئیں لیکن چونکہ امکانی سطح پر موجود ہیں ، لہٰذا ان پر غلبہ پانے والے علوم و فنون منطقی طور پر ’’امکان ‘‘ کے دائرے میں شمار ہوں گے۔ اس طرح معلوم ہوا کہ قرآنی راہنمایانہ علمیاتی منہاج کی ثانوی جہتیں بنیادی طور پر ان امکانات سے عبارت ہیں جو مرورِ زمانہ سے فساد اور خون ریزی کی نئی صورتوں کے ظہور کے جواب میں مسیحائی کردار ادا کریں گے ۔ مثلاً ، خون ریزی کے حوالے سے ایٹمی ، کیمیائی اور دیگر ہتھیاروں کو دیکھ لیجئے ۔ اسی طرح خود کش حملوں کو دیکھیے کہ کیا یہ دفع فساد یا دفع خون ریزی کے لیے اس امکانی علم یا امکانی فن کے دائرے میں آتے ہیں جو فساد اور خون ریزی کی نئی صورتوں کے ظہور کے بعد راہنمایانہ علمیاتی منہاج کی ثانوی جہت گردانے جاسکتے ہیں، یا ایسے خود کش حملے بنفسہ ، فساد اور خون ریزی کی امکانی صورتوں میں سے کسی ایک صورت کا ظہور ہیں ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات کچھ ایسے ہی ہے جیسے ہمیں قرآن مجید میں جہاد وقتال سے متعلق آیات ملتی ہیں جو قرآن مجید سے ناآشنا فرد کے لیے جنگ سے متعلق ہی شمار ہوں گی کہ جنگ اور جہاد وقتال کی ظاہری صورت میں زیادہ فرق موجود نہیں، لیکن قرآن مجید کا فہم رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ جنگ اور جہاد وقتال کی نہ صرف ظاہری صورت میں کافی فرق ہے بلکہ جہاد وقتال کی داخلی یا باطنی صورت ، جنگ سے یکسر مختلف ہے ( بقول شخصے ، جنگیں پہلے اذہان میں جنم لیتی ہیں ) ۔ لہذا جنگ اور جہاد وقتال کی داخلی ، باطنی اور ذہنی حالتوں میں جو فرق پایا جاتا ہے، وہ اپنی نوعیت میں زیادہ بنیادی ہے کہ اسی کی وجہ سے ظاہری صورتوں میں فرق رونما ہوتا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خود کش حملوں کے بارے میں بھی کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اسی بنیادی فرق کا لحاظ رکھنا شاید زیادہ سود مند ثابت ہو گا ۔ 

قرآنی علمیات سے روگردانی 

اب ہم دیکھیں گے کہ معاصر مسلم رویہ فکری و عملی اعتبار سے قرآنی علمیات سے ہم آہنگ ہے کہ نہیں ؟ بنظرِ غائر ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ خارجی دنیا کے جبر اور داخلی معاشرتی تقاضوں کے باعث مسلمانوں میں مختلف النوع رویے سامنے آ رہے ہیں۔ اب کوئی جدت پسند ہے تو کوئی روایت پسند ،اور ان دو انتہاؤں کے درمیان مزید رویے معلق ہیں جنھیں بمشکل ہی روایت پسند یا جدت پسند ٹھہرایا جا سکتا ہے۔اگرچہ اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں کہ مسلمانوں کی اس داخلی فکری تقسیم کے ڈانڈے ماضی کے نوآبادیاتی نظام اورمغرب کے حالیہ متعصب رویے میں پنہاں ہیں، لیکن اس تقسیم میں جہاں جہاں قرآنی علمیات سے روگردانی شامل ہوئی ہے، وہاں صورتِ حال زیادہ سنگین ہو جاتی ہے ۔ 
مسلمانوں کی داخلی تقسیم کئی جہتوں میں پھیلی ہوئی ہے ۔ امہ کا تصور مفقود تو نہیں لیکن کم از کم دھندلا ضرور ہے ۔ روایت پسند مسلم گروہ نے بعض خامیوں اور کمیوں کے باوجود ، مسلم ذہن سے امہ کا تصور محو نہیں ہونے دیا ۔یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ جدت پسند مسلم گروہ نے بحیثیت مجموعی ، امہ کے تصور سے انکار نہیں کیا ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ روایت پسند گروہ ، تصورِ امت کے متشکل ہونے میں علاقائی ، جزوی اور معروف تقاضوں کو حائل ہونے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ۔ جدت پسند گروہ ان تقاضوں کی اہمیت اور ناگزیریت کو سمجھتے ہوئے ان پر گفت و شنید چاہتا ہے ۔ دونوں گروہوں کے موازنے سے یہ عجیب بات بھی سامنے آتی ہے کہ جدت پسند گروہ داخلی اعتبار سے اتنا منقسم نہیں جتنا کہ روایت پسند گروہ ۔ حالانکہ اس کے برعکس ہونا چاہیے تھا کہ جدت پسندوں کی آزاد روی تقسیم در تقسیم کا سبب بنتی اور روایت پسندوں کا استقلال ، وحدتی رجحان کا باعث ہوتا ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ ہماری رائے میں روایت پسندوں کے ہاں مسلسل تقسیمی عمل میں ’’جوازات کی حامل ہٹ دھرمی ‘‘ کا کردار بنیادی ہے ۔ اس ہٹ دھرمی کے باعث ہی کوئی شخص یا کوئی چھوٹا سا گروہ ، بڑے گروہ سے بغاوت کرتے ہوئے الگ ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد دونوں کا ملاپ ناممکن ہوجاتا ہے، کیونکہ نئے الگ ہونے والے چھوٹے گروہ کی بنیادی ساخت بھی ہٹ دھرمی میں گندھی ہوتی ہے۔اگر اس میں لچک کا عنصر ہوتا تو بڑے گروہ سے الگ ہی کیوں ہوتا ؟ہماری رائے میں سنیوں کی داخلی تقسیم اسی نوعیت کی ہے۔ بنیادی عقائد میں یکسانی کے باوجود ، وحدتی رجحان کی بجائے تقسیمی عمل کی شدت کو آخر کیا نام دیا جا سکتا ہے ؟ اسلامی تعلیمات پر شخصی و علاقائی خصائل کی ملمع کاری کے بعد تعلیمات و اقدار کے صرف اسی ایڈیشن کو عین اسلام قرار دینا ہٹ دھرمی کے اعصابی خلل کے سوا اور کیا ہے ؟ ہر روایت پسند گروہ کی ذہنی ساخت اور افتادِ طبع ایسی ہے کہ وہ اپنے فہمِ اسلام کو ہی عین اسلام سمجھتے ہوئے ، اسی کے مطابق تصورِ امہ کے متشکل ہونے کا تمنائی ہے۔ صاف الفاظ میں اس کا مطلب یہی ہے کہ صرف وہی اسلام کا سچا پیروکار ہے۔ لہٰذا ہر گروہ کا ایک طرف امہ کے تصور پر زور اور دوسری طرف کسی بھی دوسرے گروہ (جس کی ساخت کسی دوسری شخصیت یا علاقے کی پروردہ ہو) کو accommodate کرنے سے انکار ، کتنا بڑا تضاد ہے؟ ہماری رائے میں امہ کے تصور کے متشکل ہونے کے بنیادی تقاضے جدت پسندوں کی نظر میں ہیں کہ وہ نہ صرف علاقائی و شخصی اثرات کو بنیادی اسلامی تعلیمات سے الگ کر کے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ ان کے اسلامیانے کی ناگزیریت کو بھی سمجھتے ہیں ۔ 
روایت پسند گروہ کی دو بڑی شاخوں اہل الرائے اور اہلِ حدیث کو بنظرِ غائر دیکھیں تو اہلِ حدیث زیادہ جامد اور بے لچک محسوس ہوتے ہیں ۔ مخالف شاخ انھیں عام طور پر لفظ پرست ہونے کا طعنہ دیتی ہے۔ (اس طعنے کی صداقت پر ہمارے زیادہ تحفظات نہیں ہیں) دلچسپ بات یہ ہے کہ نام نہاد اہل الرائے شاخ بھی، جو اپنے تئیں الفاظ کے بجائے ان کے فہم پر زور دینے کی دعوے دار ہے ، حقیقتاً لفظ پرست ہے۔جی ہاں ! اکابر ین کے فہمِ اسلام کی پرستش اس کے ایمان کا جزو لاینفک ہے۔ زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ یہ شاخ ، اکابرین کے اس فہمِ اسلام کی پیروی کرتی ہے جو لفظوں میں زندہ ہے ، یعنی یہ شاخ بھی اپنی اپروچ میں اہلِ حدیث شاخ سے مختلف نہیں ہے ۔ چھوٹے پیمانے اور نچلی سطح پراہل الرائے کی شاخ میں بظاہرزندگی کا رنگ نظر آتا ہے اور اسلام کی نامیاتی خصوصیت کے اظہار کی امنگ بھی، لیکن وسعتِ نظری سے کام لیتے ہوئے اگر وسیع تر تناظر اور اعلیٰ سطح پر اس شاخ کی اپروچ کو جانچا جائے تو یہ اہلِ حدیث شاخ سے بھی زیادہ لفظ پرست محسوس ہوتی ہے ، کیونکہ اہلِ حدیث شاخ بہر حال قرآن و حدیث کے الفاظ کی پیروی کرتی ہے جبکہ نام نہاد اہل الرائے شاخ، اکابرین کے الفاظ کو تقدس کا جامہ پہنانے پر مصر ہے ۔فہم دوستی سے مغایرت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج کی اہل الرائے شاخ اپنی درخشندہ روایت کے برعکس معروف کی منکر ہے ۔ کسی ستم ظریف نے صحیح کہا ہے کہ’’ بدی ہمیشہ مذہب کے لبادے میں مستور ہوکر نیکی کا منہ چڑانے آ موجود ہوتی ہے‘‘۔ ( چاہے مکے کو بھلا کر مدینے کی گلیوں میں خاک چھاننے کے خواہش مندوں کی شکل میں ہو یا دنیا کو تج دے کر بستر بند اٹھائے آخرت میں کامیابی کی اسناد بانٹنے والے خدائی فوجداروں کے روپ میں ) روایت پسند گروہ کی ایسی مخدوش داخلی حالت کے پیشِ نظر جدت پسند گروہ سے اصلاحِ احوال کی امیدیں مزید بڑھ جاتی ہیں ۔
اس سارے عمل میں عجیب بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی مذکورہ داخلی تقسیم ایک وحدتی رجحان بھی رکھتی ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ وحدتی رجحان قرآنی علمیات سے روگردانی سے عبارت ہے۔ روایت پسند ہوں کہ جدت پسند ، دونوں گروہ اپنے اپنے مخصوص انداز میں ایسے تاریخی و خارجی جبر اور معاشرتی لوازمات کومسلم فکر و عمل میں شامل کر رہے ہیں جو قرآنی علمیات سے براہ راست متصادم ہیں۔ معاشرت اور کلچر کا لحاظ حدود سے متجاوز ہونے کے باعث معاصر مسلم رویہ نفسیاتی عوارض کا شکار ہو کر قرآنی علمیات سے کس قدر دور ہوتا جا رہا ہے، اس کی فکری وواقعاتی شہادت کے لیے ہم قربانی سے متعلق واقعہ کا رائج الوقت فہم بطور کیس سٹڈی (Case Study) پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ شدید باہمی اختلاف رکھنے والے گروہ بھی ، اس واقعے کی قرآنی علمیات کے بر عکس تعبیر کرنے میں کس قدر ہم خیال ہیں۔ 

حضرت ابراہیم ؑ اور قربانی کا واقعہ 

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: 
قَالَ یَا بُنَیَّ إِنِّیْ أَرَی فِیْ الْمَنَامِ أَنِّیْ أَذْبَحُکَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ إِن شَاء اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ o  فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنo وَنَادَیْْنَاہُ أَنْ یَا إِبْرَاہِیْمُ o قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْن o (الصافات: ۱۰۲۔۱۰۵)
’’کہا ، اے میرے بیٹے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں ،سوچ کر بتاؤ ، تمھاری رائے کیا ہے ؟ بیٹے نے کہا، والد محترم! آپ وہ کام کر گزریے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ پھر جب سرِ تسلیم خم کر دیا ان دونوں نے اور لٹا دیا اسے ماتھے کے بل ، ندا دی ہم نے اسے، اے ابراہیم ؑ ، بلا شبہ سچ کر دکھایا تم نے اپنا خواب۔‘‘
ان آیات کی تشریح و تعبیر میں متقدمین کے اسلوب سے جداگانہ روش اختیار کرتے ہوئے متاخرین کے ہاں وہ انتہا پسندی نظر آتی ہے جو یہودیوں کے تاریخی نسلی رویے کے متوازی چلتے ہوئے قرآنی علمیاتی نہج کو تہس نہس کر دیتی ہے۔ شبلی نعمانی ؒ کے مطابق ( سیرت النبی ﷺ ج ۱ ، ص ۹۲) اگر ذبیح حضرت اسماعیل ؑ ہیں تو اقبال ؒ کے ہاں بھی حضرت اسماعیل ؑ ہی ذبیح قرار پاتے ہیں :
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی 
سکھائے کس نے اسماعیل ؑ کو آداب ِ فرزندی 
یہاں ’فیضانِ نظر‘ اور ’آدابِ فرزندی‘ کی تراکیب اور الفاظ کی نشست و برخاست میںِ اقبال نے اپنی فکر کی اس جہت کے اظہار کی کوشش کی ہے جس کے سبب اقبال کو قرآن فہمی کے اعتبار سے حکیم الامت کہا جاتا ہے ، لیکن دوسرے مصرعے میں ’’ اسماعیل ؑ ‘‘ کے نام سے اقبالی فکر کا وہ پہلو بری طرح مجروح ہوتا ہے جسے قرآنی کہا جاتا ہے اور جس کی بنیاد پر بعد میں ’’ اہلِ قرآن ‘‘ کا ایک گروہ بھی سامنے آیا ۔
شبلی ؒ اور اقبال ؒ کے موقف سے مماثل رائے مفتی محمد شفیع ؒ کی ہے ۔ (ملا حظہ کیجئے معارف القرآن جلد ۷ ، ص ۴۵۸) یہی رائے پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ کی ہے۔ ( دیکھئیے ضیاء القرآن جلد ۴ ، ص ۲۱۱) سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ (تفہیم القرآن جلد ۴ ، ص ۳۰۰)، ابوالکلام آزاد ؒ (ترجمان القرآن جلد ۳ ، ص ۲۶۳) اور عبدالماجد دریاآبادی (تفسیر ماجدی ص ۹۰۱) بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔ شبیر احمد عثمانی ؒ کی تفسیرِ عثمانی (ص ۵۹۹) اور حافظ صلاح الدین یوسف کے تفسیری حاشیے ’احسن البیان‘(ص ۱۲۶۳ ) کے مندرجات بھی یہی ہیں ۔ ا لبتہ خواجہ احمدالدین امرتسری کے مطابق (تفسیر بیان للناس جلد ۶ ، ص ۳۳) ذبیح حضرت اسحاق ؑ تھے ۔ ہم زیادہ حوالوں سے گریز کرتے ہوئے امین احسن اصلاحی کی ’’ تدبرِ قرآن ‘‘ (جلد اول، صفحہ ۳۳۰) سے یہ اقتباس نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، کیونکہ معروف معاصر تفاسیر میں اسے متاخر (latest) ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ملا حظہ کیجئے : 
’’یہ مسئلہ ہمارے اور یہود کے درمیان ایک بڑا نزاعی مسئلہ ہے ۔ یہود نے خانہ کعبہ اور مروہ کی قربان گاہ سے حضرت ابراہیم ؑ کا تعلق بالکل کاٹ دینے کے لیے واقعہ قربانی میں بھی اور ان کی سرگزشت ہجرت میں بھی نہایت بھونڈی قسم کی تحریفات کر دی ہیں اور اس طرح انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے جس بیٹے کی قربانی کی، وہ حضرت اسحاق ؑ ہیں نہ کہ حضرت اسماعیل۔ جس جگہ قربانی کی، وہ جبل یروشلم ہے نہ کہ مروہ۔ خدا کی عبادت کے لیے انھوں نے جو گھر بنایا، وہ بیت المقدس ہے نہ کہ بیت اللہ ۔ انھوں نے جس جگہ ہجرت کے بعد سکونت اختیار کی، وہ کنعان ہے نہ کہ جوارِ خانہ کعبہ ۔ ان بیانات کی تصدیق یا تردید کا واحد ذریعہ چونکہ تورات ہی ہے اور تورات میں یہود نے اپنے حسبِ منشا، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، تحریف کر ڈالی ، اس وجہ سے اصل حقائق سے پردہ اٹھانا بڑا مشکل کام تھا، لیکن ہمارے استاذ مولانا فراہی ؒ نے یہود کی ان تمام تحریفات کا پردہ خود تورات ہی کے دلائل سے اپنے رسالہ ذبیح میں بالکل چاک کر کے رکھ دیا ہے۔ انھوں نے تورات ہی کے بیانات سے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے وطن سے نکلنے کے بعد حضرت اسحاق ؑ کی والدہ کو تو کنعان میں چھوڑا اور خود حضرت اسماعیل ؑ اور ان کی والدہ کے ساتھ بیر سبع کے بیابان میں قیام کیا۔ یہ جگہ ایک غیر آباد جگہ تھی، اس وجہ سے انھوں نے یہاں سات کنوئیں کھودے اور درخت لگائے ، یہیں ان کو خواب میں اکلوتے بیٹے کی قربانی کا حکم صادر ہوا اور وہ حضرت اسماعیل ؑ کو لے کر مروہ کی پہاڑی کے پاس آئے اور اس حکم کی تعمیل کی۔ اسی پہاڑی کے پاس انھوں نے حضرت اسماعیل ؑ کو آباد کیا ، پھر یہاں سے لوٹ کر وہ بیر سبع گئے اور اپنے قیام کے لیے ایسی جگہ منتخب کی جو خانہ کعبہ سے قریب بھی ہو اور جہاں سے وقتاً فوقتاً حضرت اسحاق ؑ کو دیکھنے کے لیے بھی جانا آسانی سے ممکن ہو سکے۔
مولانا ؒ نے یہ ساری باتیں تورات کے نہایت ناقابلِ تردید دلائل سے ثابت کر دی ہیں۔ ہر سوال پر اصل کتاب کے اقتباسات پیش کرنے میں طوالت ہے، اس وجہ سے ہم نے صرف خلاصہ بحث اپنے الفاظ میں پیش کر دیا ہے ۔ جو لوگ تفصیل کے طالب ہوں، وہ مولانا کے مذکورہ رسالہ کا مطالعہ کریں ۔ ‘‘
ہم نے حمیدالدین فراہی ؒ کی اصل تحریر سے عمداً اجتناب کیا ہے کہ کہیں ہم پر ان کے موقف کو بگاڑنے یا نہ سمجھنے کا الزام نہ دھر دیا جائے ۔ امین احسن اصلاحی ؒ ان کے شاگردِ رشید ہیں، اس لیے یہ احتمال باقی نہیں رہتا کہ انھوں نے حمیدالدین فراہی ؒ کو سمجھنے میں خطا کی ہو۔
اس واقعہ کی مذکورہ تصریح ان سوالات کو جنم دیتی ہے : 
(۱) قربانی سے متعلق قرآنی آیات میں حضرت اسماعیل ؑ کا نام کہیں نہیں آیا ، نہ ہی اس بارے میں کوئی مستند حدیث موجود ہے ۔
(۲) حضرت اسماعیل ؑ کا نام اسرائیلیات کی مدد سے ’’ تحقیق ‘‘ کر کے شامل کیا گیا ہے ۔
(۳) کیا اسرائیلیات کو انھی حدود کے اندر استعمال کیا گیا ہے جو قرآن و سنت نے مقرر کی ہیں ؟ 
(۴) قرآن کے مطابق قرآن، سابقہ آسمانی کتب کی تصدیق کرتا ہے ، لیکن سابقہ آسمانی صحائف میں تحریف ہو چکی ہے ، لہٰذا قرآن ہی کسی حکم کے بارے میں اساس ، پیمانہ اور اتھارٹی قرار پاتا ہے ۔ مثلاً اگر کسی آسمانی کتاب میں زیرِ بحث واقعہ حضرت ابراہیم ؑ کے بجائے کسی اور نبی سے منسوب کیا جائے تو قرآن اس کی تکذیب کرے گا اور حضرت ابراہیم ؑ کی طرف منسوب کرنے پر تصدیق کرے گا۔ اسی طرح اگر کسی آسمانی صحیفے میں حضرت ابراہیم ؑ کے بیٹے کے بجائے کسی اور شخص کو ’’ ذبیح ‘‘ کہا جائے تو قرآن اس کی تکذیب کرے گا اور اس کے برعکس ہونے پر اس کی تصدیق ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تورات یا کسی اور سابقہ آسمانی صحیفے کی مدد سے حضرت اسحاق ؑ یا حضرت اسماعیل ؑ کو ذبیح ثابت کرنا کیا ’’ اسرائیلیات کے جائز استعمال ‘‘ کے دائرے کے اندر اندر آتا ہے ؟ اس بحث کے نتیجے میں قرآن ’’ اساس ‘‘ قرار پاتا ہے یا کوئی اور آسمانی کتاب ؟ 
(۵) ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ذبیح کو( اسرائیلی روایات کے ذریعے ) اسماعیل ؑ سے منسوب کرنے کے پیش نظر یہ باور کرانا مقصود ہے کہ اگر ذبیح ، اسحاق ؑ ہوتے تو وہ ابراہیم ؑ کو کوئی مختلف جواب دیتے؟ یقیناًنہیں ۔ پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن اپنے اسلوب میں بیٹے کے معاملے میں بیٹے کے جواب ( آدابِ فرزندی ) پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ بیٹا کون ہے ، اس کی حیثیت قرآن کے نزدیک اضافی ہے ۔ آخر ہم ایک اضافی چیز کو کھینچ تان کر یقین کے زمرے میں کیوں لانا چاہتے ہیں ؟ 
(۶) ذبیح کون ہے، اس کو ثابت کرنا ایک طرف رہا ، بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بحث قرآنی علمیات کے راہنمایانہ منہاج کے مطابق بھی ہے ؟ 
(۷) کیا اس بحث ( یعنی حضرت اسحاق ؑ یا حضرت اسماعیل ؑ کا تذکرہ ذبیح کے طور پر کرنا ) میں وہ فسادی شائبہ نہیں ملتا جس پر قابو پانے کے لیے ہی اللہ رب العزت نے خلیفۃالارض کو ’’الاسماء کلھا ‘‘ سے نوازا تھا؟ ذبیح کی نسبت اسحاق ؑ کی طرف کرنا یہودیوں کی مجبوری ہوسکتی ہے کہ وہ نسل پرست ہیں ، آخر ہم مسلمانوں کی کیا مجبوری ہے ؟ ہمارے لیے تو اسحاق ؑ بھی اسی طرح محترم ہیں جس طرح اسماعیل ؑ ہیں ، بلکہ ہمارا ایمان تو اسحاق ؑ کو تسلیم کیے بغیر مکمل ہی نہیں ہوسکتا ۔
(۸) اس بحث کا بنیادی محرک کیا ہے ؟ کیا قرآن کے کسی حکم کا فہم مطلوب ہے یا کچھ اور ؟ کیا یہ بحث کئے بغیر قرآنی منشا مستور رہتی ہے ؟ حقیقت یہی ہے کہ اس بحث کے پیچھے بنیادی طور پر ’’جواب دینے کی نفسیات ‘‘ کار فرما ہے کیونکہ ’’مدبر ‘‘ کے اپنے الفاظ بھی اس کی صاف چغلی کھا رہے ہیں کہ ’’ یہ مسئلہ ہمارے اور یہود کے درمیان ایک بڑا نزاعی مسئلہ ہے ‘‘ ۔ 
(۹) جب اسرائیلیات کی رو میں بہہ کر ’’ مدبرین ‘‘ قربانی جیسے مسئلے پر یہودیوں کے ’’ فریق ‘‘ بن کر سامنے آتے ہیں تو اس کے نتیجے میں نہ صرف ’’ باپ کے فیضانِ نظر اور آدابِ فرزندی‘‘ سے توجہ ہٹ جاتی ہے بلکہ پیغام کی عمومیت ختم ہونے سے قربانی جیسے مسئلے کی بنفسہ قدرو قیمت سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ کیا قربانی اسی چیز کا نام ہے کہ ہم عمومیت کے دائرے سے نکل کر اپنے گرد ایک ایسا دائرہ کھینچ لیں جو قربانی کی اصل روح کو تج دے کر محض تفاخر کا باعث بن جائے؟ ( ابلیس کے گھمنڈ کی مانند کہ وہ بھی فرشتوں کی عمومیت کے دائرے سے باہر ایک الگ نفسانی دنیا بسا بیٹھا ) ۔ 
اگر ہم اسرائیلیات کی مدد لینے کے بجائے قرآنی علمیات کے راہنمایانہ منہاج کے تحت زیرِ نظر قرآنی واقعہ پر غور و فکر کریں تو مترشح ہو گا کہ : 
(۱) باپ( ابراہیم ؑ ) کا تذکرہ باقاعدہ اس کے نام کے ساتھ ہوا ہے ۔ 
(۲) بیٹے کا ذکر اس کا نام لیے بغیر عمومیت کے انداز میں ہوا ہے کہ کوئی خاص بیٹا مراد نہیں ، بلکہ ابراہیم ؑ کا کوئی بھی بیٹا ہو سکتا ہے ۔ 
(۳) اگر یہاں اسماعیل ؑ یا اسحاق ؑ میں سے کوئی ایک بیٹا خصوصیت کے ساتھ مراد ہوتا تو قرآن مجید میں ’’بیٹے ‘‘ کی عمومیت کے بجائے اس بیٹے کا نام بھی لازماً موجود ہوتا، کیونکہ ہمیں قرآن مجید میں دیگر اہم مقامات پر ’ اسماعیل ؑ ‘ کا باقاعدہ نام کے ساتھ تذکرہ ملتا ہے ۔
(۴) مستشرقین کا قرآن مجید پر ایک مستقل اعتراض یہ ہے کہ اس میں تکرار موجود ہے ۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ الکتاب میں اگر بعض احکامات کا اعادہ موجود ہے تو یہاں اسماعیل ؑ یا اسحاق ؑ کا باقاعدہ نام لینے میں کیا چیز مانع تھی ؟ کیا ایک لفظ کا اضافہ خدا کے لیے مشکل تھا ؟ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے ’’ خاص حکمت ‘‘کے تحت ہی بیٹے کا ذکر عمومیت کے انداز میں کیا ہے ۔ 
(۵) زیرِ نظر واقعہ کے اسلوب سے جو نکتہ زیادہ وضاحت کے ساتھ مشخص ہو کر سامنے آتا ہے، اس کے مطابق قرآنی منشا ’’ باپ کے فیضانِ نظر اور آدابِ فرزندی ‘‘ کے زیادہ قریب ہے نہ کہ یہودیوں کے نسلی تفاخر کی تردید میں انھی کی تقلید مقصود ہے ۔
(۶) ان آیات کے قرآنی اسلوب میں ایسے قرائن موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر خدا کے ہاں بیٹے کا تشخص مطلوب ہوتا تو بیٹے کا نام لازماً موجود ہوتا ۔ مثلاً قرآن کا یہ کہنا کہ ’’ندا دی ہم نے اسے اے ابراہیم ! بلاشبہ سچ کر دکھایا تم نے اپنا خواب ‘‘ کچھ اس طرح سے بھی ہو سکتا تھا ، ’’ندا دی ہم نے اسے اے ابو اسماعیل‘‘ یا ’’اے ابو اسحاق‘‘۔اس طرح کے اسلوب میں باپ اور بیٹا، دونوں کا نام سامنے آسکتا تھا لیکن قرآن نے کسی خاص حکمت کے تحت ہی بیٹے کو مشخص نہیں کیا۔ ہمیں وہ حکمت تلاش کرنی چاہیے نہ کہ بیٹے کو مشخص کرنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگائیں ۔ 
(۷) حضرت ابراہیم ؑ کا بیٹے سے استفسار کرنا ’’فانظر ما ذا تری‘‘  کہ ’’سوچ کر بتاؤ تمھاری رائے کیا ہے ؟‘‘ کافی اہم معلوم ہوتا ہے ۔ پھر بیٹے کے اس جواب کے بعد کہ ’’آپ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘ ، ابراہیم ؑ کا بیٹے کو لٹا دینا اور اس کے بعد اللہ رب العزت کا یہ فرمانا کہ ’’اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا‘‘ ، ایک اہم نکتہ سامنے لاتے ہیں کہ خواب کو سچ کر دکھانے میں بیٹے کا کردار بنیادی ہے کہ اس نے ’فانظر ما ذا تری‘ کے جواب میں سرِ تسلیم خم کیا ، لیکن اللہ رب العزت مخاطب ابراہیم ؑ کو ہی کرتے ہیں کہ تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے آخر بیٹے کو مخاطب کر کے کیوں نہیں کہا کہ تو نے خواب ( یا اپنے باپ کا خواب ) سچ کر دکھایا ؟ قرائن یہی بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بیٹے کے بجائے باپ کی طرف متوجہ رکھنا چاہتے ہیں کہ کہیں ہم یہ نہ سمجھ لیں کہ بیٹا اور اس کا عمل اس واقعہ میں کلیدی اہمیت رکھتے ہیں ۔ باپ کی طرف ہماری توجہ مرکوز رکھنے کی خاطر ہی اللہ رب العزت نہ صرف باپ کو مخاطب کرتے ہیں بلکہ اس کے بعد آیت ۱۰۹ میں ابراہیم علیہ السلام کا باقاعدہ نام لینے کے علاوہ تمام ضمیریں بھی صرف انھی کو مشخص کرتی ہیں۔ ہماری نظر میں اقبال ؒ جب یہ کہتے ہیں کہ ’’ یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی ‘‘ تو قرآن کے ایک واضح اور مشخص نکتے کو مجرد بنا ڈالتے ہیں ۔ مکتب کی کرامت پر وہ طنز کرتے ہوئے فیضانِ نظر کا کچھ یوں ذکر کرتے ہیں جیسے وہ ( فیضانِ نظر ) باقاعدہ باپ کے ساتھ مشخص نہ ہو بلکہ عمومیت کی حامل کوئی ترکیب ہو جس سے مراد باپ کے علاوہ بھی کوئی اور ہو سکتا ہے ۔ حالانکہ قرآنی اسلوب کے قرائن بڑی وضاحت کے ساتھ فیضانِ نظر کو محض باپ کے ساتھ منسلک کرتے ہیں ۔ لہذا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے نہایت لطیف اور بلیغ پیرایے میں بیٹے کے آدابِ فرزندی کے فروغ کے لئے باپ ( نسلی تعلق کے لحاظ سے نہ کہ کوئی معنوی باپ جیسے استاد وغیرہ ) کے کردار کو اجاگر کر کے باپ بیٹے کے دائمی( نسلی) رشتے میں ذمہ داری کے مدارج کے ذیل میں ( خاص طور پر بیٹے کی تربیت کے حوالے سے ) باپ کو بنیادی ذمہ دار قرار دیا ہے ۔ اقبال اس تعلق کو ، جو نسلی اعتبار سے ذمہ داری کے ذیل میں مشخص ہو کر سامنے آیا ہے ، عمومیت کا جامہ پہنا دیتے ہیں اور پھر دوسرے مصرعے میں اسماعیل ؑ کا نام لے کر قرآنی منشا کے برخلاف عمومیت کو مشخص کر لیتے ہیں۔ 
(۸) ’’و ترکنا علیہ فی الاخرین‘‘ (الصافات: ۱۰۸) پر غور کرنے سے ایک اور اہم نکتہ سامنے آتا ہے ۔ قرآن نے ’’ الاخرین ‘‘ کے ذکر سے ایک امکانی بات کی گنجائش چھوڑدی کہ’’ الاخرین ‘‘ (پچھلے لوگوں میں) جن کے ہاں قربانی پائی جائے گی، ان کی نسبت سے ان کے جدِ امجد کو تلاش کرکے ذبیح کو مستقبل میں مشخص کیا جا سکے گا ۔ اس سے ایک تو یہ قرآنی منشا ظاہر ہورہی ہے کہ ذبیح لازماً مشخص ہو ، دوسرا یہ کہ قرآن اس امکانی علم کی طرف بھی توجہ دلا رہا ہے جو وقت آنے پر مشہود ہو کر نہ صرف ذبیح کون ؟کی بحث چھیڑے بلکہ بحث کو منطقی انجام تک بھی پہنچا دے ۔ لیکن ٹھہریے ، ذرا توقف کر کے ایک بار پھر قرآنی اسلوب پر غور فرمائیے کہ قرآن مجید نے ’’وترکنا علیہ فی الاخرین‘‘ میں نہایت بلیغ انداز میں ’’علیھما ‘‘ کے بجائے ’’علیہ‘‘ کو ترجیحاً استعمال کر کے حقیقت میں اس بحث کے لیے ہر قسم کی گنجائش مکمل طور پر ختم کر دی ہے۔ ’’علیہ‘‘ سے مراد ابراہیم ؑ ہیں، لہذا ’’الاخرین‘‘ سے مراد بھی ابراہیم ؑ کے پچھلے لوگ ہیں نہ کہ ابراہیم ؑ اور ذبیح دونوں کے ۔ اسی لئے مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے بھی قربانی کے واقعہ کو ’’سنتِ ابراہیمی ؑ ‘‘ کا نام دیا ہے نہ کہ سنتِ اسماعیلی کا۔ لہذا ’’و ترکنا علیہ فے الاخرین‘‘ میں مضمر قرآنی منشا یہی ہے کہ پچھلے لوگ ابراہیم ؑ کے بیٹے (اسماعیل ؑ ہوں یا اسحاق ؑ) کے بجائے خود ابراہیم ؑ سے ، اپنا تعلق جوڑیں (بالخصوص قربانی کے حوالے سے)۔ اس واضح قرآنی منشا کے بعد کہ مستقبل (الاخرین) میں بھی ذبیح کے بجائے ابراہیم ؑ کو ہی قربانی کے واقعہ میں مرکز و محور سمجھا جائے ، ذبیح کون کی بحث کرنا، کیا امکانی فساد کی صورت پذیری نہیں ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ جہاں کہیں ذبیح کو مشخص کرنے کی گنجائش نکلتی تھی، وہاں قرآن نے ’’سکوتِ حکیمانہ‘‘ کا اظہار کیا ہے ۔ ’’سلم علی ابراہیم‘‘ ۔ 
(۹) اگر ہم روحِ قربانی پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اسحاق ؑ یا اسماعیل ؑ میں سے کسی ایک کے نام کا باقاعدہ ذکر ایسے نظامِ تناسبات کو سامنے نہیں لا سکتا تھا جس میں مختلف انسانی گروہوں کے نفسیاتی مدارج کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اسلام کی عالمگیریت کی ایک زندہ علامت ( سنتِ ابراہیمی ؑ ) قائم ہوسکتی ۔ کون نہیں جانتا کہ حج اسلام کی عالمگیریت کا مظہر ہے اور حج اور قربانی میں گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ یہ تعلق ، قربانی کو کسی نسلی تعصب کا شکار بنانے کے بجائے آفاقی معنی پہنانے کا اشارہ کرتا ہے ۔اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں :
وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاہِیْمَ مَکَانَ الْبَیْْتِ أَن لَّا تُشْرِکْ بِیْ شَیْْئاً وَطَہِّرْ بَیْْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَالْقَائِمِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ o وَأَذِّن فِیْ النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالاً وَعَلَی کُلِّ ضَامِرٍ یَأْتِیْنَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ o (الحج:۲۶،۲۷)
’’اور جب مقرر کی تھی ہم نے ابراہیم ؑ کے لئے جگہ اس گھر کی اس ہدایت کے ساتھ کہ نہ شریک بنانا میرے ساتھ کسی چیز کو اور پاک رکھنا میرے گھر کو طواف کرنے والوں کے لئے، قیام کرنے والوں کے لئے اور رکوع وسجود کرنے والو ں کے لیے۔ اور اعلان کر دو انسانوں میں حج کا ، آئیں گے وہ تمھارے پاس پیدل چل کر اور دبلے دبلے اونٹوں پر جو چلے آرہے ہوں گے تمام دور دراز راستوں سے ‘‘ 
مقامِ غور و فکر ہے کہ اللہ تعالی نے یہاں بھی حضرت ابراہیم ؑ کو باقاعدہ مشخص کیا ہے ۔ اب اگر ان آیات اور قربانی کے واقعہ میں قرآنی منشاکو سورۃ آل عمران کی اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو اسلام کی حقانیت اور عالمگیریت کی چند نا گزیر جہتیں منکشف ہوتی ہیں :
قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَی کَلَمَۃٍ سَوَاء بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللّہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْْئاً وَلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّہِ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ اشْہَدُواْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ o (آل عمران ، آیت ۶۴) 
’’ کہہ دیجئے اے اہلِ کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں کوئی اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو اپنا رب نہ قرار دے پھر اگر وہ اعراض کریں تو تم ان سے کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم نے تو ( اللہ ) کی فرمانبرداری اختیار کر لی ‘‘ ۔
اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے ایک دوسرے مقام پراگرچہ ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ دونوں کا باقاعدہ نام لے کر طواف اور اعتکاف کا حکم جاری کیا ہے لیکن اس حکم میں کہیں بھی ’’ حج ‘‘کا ذکر نہیں کیا اور جہاں کہیں حج کی طرف اشارہ ملتا ہے وہاں قطعیت کے ساتھ صرف ابراہیم ؑ کا نام ملتا ہے ۔ غور فرمائیے :
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی وَعَہِدْنَا إِلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ أَن طَہِّرَا بَیْْتِیَ لِلطَّاءِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُود o (البقرہ: ۱۲۵)
’’اور جب بنایا ہم نے بیت اللہ کو مرکز لوگوں کے لئے اور امن کی جگہ اور ( حکم دیا کہ ) بناؤ مقامِ ابراہیم ؑ کو نماز پڑھنے کی جگہ اور تاکید کی ہم نے ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کو ، یہ کہ پاک رکھنا تم دونوں میرے اس گھر کو طواف کرنے والوں کے لئے ، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے ‘‘ ۔
احباب جانتے ہیں کہ بیت اللہ میں طواف و اعتکاف اور رکوع و سجود ، اس سطح پر اسلام کی عالمگیریت کے مظاہر نہیں ہیں جس سطح پر حج ایک بڑا مظہر ہے ۔ 
( ۱۰) حج اور قربانی جہاں اسلام کی عالمگیریت کے بڑے مظاہر ہیں وہاں ایک خاص پہلو سے ان کی نوعیت دعوتی بھی ہے ۔ حج اور قربانی ، مدعی نہیں بلکہ داعی ہیں ۔جب ہم غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں تو اسلام کے نظری پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس کی عملی مثالیں بھی پیش کرنی پڑتی ہیں ۔ وحدتِ انسانی اور عالمگیریت ، اسلام کی امتیازی صفات میں سے ایک ہیں۔ اب جہاں ہم اس صفت کے نظری پہلوؤں پر روشنی ڈالتے رہتے ہیں وہاں اس کی چند عملی مثالیں پیش کرنا بھی ناگزیر ہو جاتا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایامِ حج صرف مسلمانوں کے لئے ہی اہمیت نہیں رکھتے ، بلکہ اتنے بڑے مظہر کو پوری دنیا بڑی دلچسپی سے دیکھتی ہے ۔ اس طرح یہ مظہر خود اپنی ذات میں داعی بن جاتا ہے ۔ یہی صورتِ حال قربانی کی ہے ، یہ عمل بھی پوری مسلم دنیا میں وسیع پیمانے پر منعقد ہوتا ہے، غیر مسلم اسے بھی نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ لہذا جب ہم قربانی کے واقعہ میں ذبیح کون کی بحث چھیڑتے ہیں تو قربانی اپنی نوعیت کے لحاظ سے داعی کے منصبِ جلیلہ سے اتر کر مدعی کی انتہائی پست سطح پر آ جاتی ہے ۔کیا یہ دین کی خدمت ہے ؟ 
(۱۱) اگر ہم قرآنی اساطیری سطح سے قربانی پر غور کریں تو یہ ’’ فدیہ ‘‘ معلوم ہوتی ہے: ’’وفدینا بذبح عظیم‘‘، ان خون ریزیوں کا فدیہ جو ’’ویسفک الدماء‘‘ کے مصداق انسان نے اس زمین پر آکر برپا کرنی تھیں۔ قرآنی اساطیری سطح سے خود قربانی کا واقعہ ہی اس کا شاہد ہے ۔ ظاہر ہے خدا کا مقصود کسی انسان کو قربان کرنا نہیں تھا بلکہ اس سلیقے سے قربانی کے مظہر کو پیش کرنا خدائی مطلوب تھا کہ قربانی کرنا انسانی نفسیات کا لازمہ بن جائے تا کہ خون ریزیوں کا ’’ فدیہ ‘‘ جاری و ساری رہے ۔ اس طرح قربانی وہ ’’ علم و فن ‘‘ ہے جو خون ریزیوں کو مغلوب کر سکتا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم قربانی کو خون کے فدیہ کے مقام سے گرا کر خون ریزی میں بدلنا چاہتے ہیں ؟ ۔ ذبیح کون ؟ کی بحث خون کے فدیہ کی طرف لے جائے گی یا خون ریزی کی طرف ؟
(۱۲) قرآن مجید کی یہ آیت بھی ہماری رائے کو تقویت دیتی ہے:
یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِیْ إِبْرَاہِیْمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاۃُ وَالإنجِیْلُ إِلاَّ مِن بَعْدِہِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَo ....... مَا کَانَ إِبْرَاہِیْمُ یَہُودِیّاً وَلاَ نَصْرَانِیّاً وَلَکِن کَانَ حَنِیْفاً مُّسْلِماً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْن o (آل عمران: ۶۵۔۶۷)
’’اے اہلِ کتاب ، کیوں حجت بازی کرتے ہو تم ابراہیم ؑ کے بارے میں جبکہ نہیں نازل ہوئی تورات اور انجیل مگر ابراہیم ؑ کے بعد۔ کیا تم نہیں سمجھتے ؟ ......نہ تھا ابراہیم ؑ یہودی اور نہ نصرانی، بلکہ تھا وہ سب سے لا تعلق، اللہ کا فرمانبردار، اور نہ تھا وہ مشرکوں میں سے۔‘‘ 
یہاں منطقی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ابراہیم ؑ کو ’اسماعیلی‘ بنانا چاہتے ہیں ؟ ایک دوسرے مقام پر قرآن مجید کا دل پذیر اسلوب صحیح راہ کی اس طرح نشاندہی کرتا ہے :
أَمْ کُنتُمْ شُہَدَاء إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِیْ قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَہَکَ وَإِلَہَ آبَائِکَ إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ إِلَہاً وَاحِداً وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ o (البقرہ: ۱۳۳)
’’ کیا تھے تم حاضر اس وقت جب قریب آیا یعقوب ؑ کی موت کا وقت ۔ جب پوچھا تھا اس نے اپنے بیٹوں سے کہ کس کی عبادت کرو گے تم میرے بعد ؟ ان سب نے کہا عبادت کریں گے ہم تیرے معبود کی اور تیرے آباؤ اجداد ابراہیم ؑ ، اسماعیل ؑ اور اسحاق ؑ کے معبود کی ، جو الہ واحد ہے اور ہم سب اسی کے فرمانبردار ہیں ‘‘ 
ذرا غور فرمائیے کہ کیا اس آیت میں اللہ تعالی نے چار جلیل القدر نبیوں کے نام گنوائے ہیں ۔ کیا صرف یعقوب ؑ کے نام سے کام نہیں چل سکتا تھا ؟ یا پھر آباؤ اجداد کا ذکر انھیں مشخص کئے بغیر بھی ہو سکتا تھا ۔۔۔۔تیرے معبود کی اور تیرے آباؤ اجداد کے معبود کی ۔۔۔۔لیکن قرآن نے یہاں یہ اسلوب نہیں اپنایا بلکہ عمومیت ’’ ابائک ‘‘ کے ساتھ باقاعدہ نام بھی لئے ہیں ۔ اس میں کیا حکمت ہے ؟ یہ ایک الگ بحث ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قربانی کے واقعہ میں بیٹے کا تشخص خدا کے ہاں ا تنا ہی ضروری ہوتا جتنا ہمارے ہاں سمجھ لیا گیا ہے تو کیا اللہ رب العزت بیٹے کو باقاعدہ مشخص نہ کرتے ؟ یا پھر کم از کم کوئی واضح اشارہ ہی ضرور فرمادیتے ۔ خود قرآن مجید اپنے آپ کو ’تبیانا لکل شء‘ اور ’تفصیلا لکل شء‘ قرار دیتا ہے جس میں ہر ضروری پہلو کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہم لوگ قرآنی الفاظ اور روح قربانی کی پیروی میں بیٹوں ( نسلوں ) کی بحث میں الجھے بغیر ابراہیم ؑ پر فوکس کریں کہ دونوں بیٹے انھی کے تھے اور دونوں ہی جلیل القدر پیغمبر تھے ۔ قربانی کے واقعہ میں قرآنی اسلوب در حقیقت خاندانی نظام کی بقا اور خاندانی نظام میں باپ بیٹے کے تعلق میں ذمہ داری کے ذیل میں باپ کے فیضانِ نظر کی جانب توجہ مبذول کراتا ہے ہمیں اسی فیضانِ نظر کی کھوج لگا کر عالمی سطح پر خاندانی نظام کے دوام اور اس سے وابستہ تقدس کی حفاظت کرنی چاہیے ۔ 

حرفِ آخر

جوں جوں وقت گزرتا گیا ہے ، ہم مسلمانوں کے ہاں قرآن و سنت کے فہم اوراس پر عمل کے حوالے سے تاریخی و خارجی جبر اور معاشرتی تقاضوں کا لحاظ حدود سے متجاوز ہوتا گیاہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ لحاظات اپنے مقام سے ہٹتے ہوئے ہمارے لیے نفسیاتی عوارض کی شکل اختیار کرتے گئے ہیں ۔ قربانی کے مسئلے ہی کو لیجئے اور غور کیجئے کہ ہم نے قرآنی علمیات سے صریحاً پہلوتہی کرتے ہوئے اس میں حضرت اسماعیل ؑ کا نام اس طرح شامل کر دیا ہے کہ اب یہ نام قربانی کے حوالے سے ہمارے ہاں بنیادی صداقتوں میں شمار ہوتا ہے ۔ معاشرے میں کسی فرد سے پوچھ لیجیے، وہ قربانی کے ذکر میں ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کو اس طرح ڈسکس کرے گا جیسے اسماعیل ؑ کا نام قرآن نے باقاعدہ اس واقعہ میں لیا ہو ۔ اور تو اور، سکولوں اور کالجوں کی نصابی کتب میں بھی اسماعیل ؑ کا تذکرہ اسی انداز میں ہوتا ہے۔ مقامِ غور و فکر یہ ہے کہ ایسی افراط و تفریط بنیادی طور پر اس حلقے کی پیدا کردہ ہے جو اپنے ’’تدبر ‘‘ کے دائرے کو قرآنی قرار دینے پر اس قدر مصر ہے کہ حدیث کی حجیت کو طوعاً وکرہاً ہی تسلیم کرتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایسے’’ مدبرین‘‘ محض اسرائیلیات کے بل بوتے پر( تاریخ و معاشرت اور کلچر کے بے جا اثبات کا شکار ہو کر) ایسا علمی و فکری رویہ پروان چڑھارہے ہیں جس سے قرآنی علمیاتی منہج اور قرآنی منشا پسِ پشت چلے گئے ہیں، حالانکہ نبی خاتم ﷺ کا مستند ارشاد موجود ہے کہ اہلِ کتاب کی نہ تصدیق کرو، نہ تکذیب۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ذبیح کون کی بحث میں مبتلا لوگوں کا طرِ عمل سورۃ البقرۃ میں گائے کے واقعہ میں یہودیوں کے طرزِ عمل سے مشابہ ہے۔ یہودی بھی خوامخواہ کی بحث کر رہے تھے کہ گائے کی عمر کتنی ہو ؟ اس کا رنگ کیسا ہو ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ قرآن نے یہ فرما کر ’’آخر ذبح کر دیا انہوں نے اسے ، اگرچہ نہ لگتا تھا کہ وہ ایسا کریں گے ‘‘ یہودی رویے پر گرفت کی ہے ۔ اب اگر ہم بھی ذبیح کون کی لایعنی بحث کے بعد( بلکہ اسی بحث کی اساس پر ) قربانی کر ہی لیتے ہیں تو غور فرمائیے قرآن کی نظر میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ 
ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جہاں بہتر سمجھا، وہاں اسماعیل ؑ کا ذکر باقاعدہ نام لے کر کیا ، مثلاً بیت اللہ کی تعمیر کے ذکر میں ان کا نام موجود ہے ۔ ذرا غور کیجئے کہ اگر قربانی کے واقعہ میں بھی ان کا نام شامل ہوتا تو معترضین کو پھبتی کسنے کا موقع ملتا کہ اسلام دعویٰ تو عالمگیریت کا کرتا ہے لیکن اصلاً اسماعیلی ہے۔ اسی طرح اگر اسحاق ؑ کا نام شامل ہوتا تو یہودیوں کی نسل پرستی کو مزید شہ ملتی۔ قرآن نے نہایت حکیمانہ اسلوب میں بیٹے کا ذکر عمومیت کے انداز میں کر کے توازن اور جامعیت کی روش اپنائی ہے ۔ مقامِ افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیرت کے مورخین بھی ( بشمول شبلی نعمانی) نبی خاتم ﷺ کا نسلی تعلق حضرت اسماعیل ؑ کے ساتھ ثابت کرنے کے لیے باقاعدہ الگ ابواب اور فصلیں باندھتے ہیں حالانکہ قرآن نے کسی بھی مقام پر آپ ﷺ کو ذریتِ اسماعیل ؑ کے حوالے سے مخاطب نہیں کیا، بلکہ حضرت ابراہیم ؑ کو ہی پیشِ نظر رکھا ہے۔ مثلاً سورۃ آل عمران میں ہے کہ 
إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُ وَہَذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوا (آیت ۶۸)
’’بے شک لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ابراہیم ؑ کے وہ لوگ ہیں جنھوں نے پیروی کی ان کی، نیز یہ نبی اور وہ لوگ جو ایمان لائے۔‘‘
بہر حال ! یہودیوں کی طرز پر نسلی ( نفسیاتی) عوارض کا شکار ہو کر کسی خاص بیٹے کو ذبیح قرار دینے سے ( چاہے اسماعیل ؑ کو ثابت کیا جائے یا اسحاق ؑ کو ) نہ صرف قرآنی متن اور قرآنی منشا سے تصادم ہوتا ہے بلکہ دینِ اسلام کی عالمگیریت ( اور عالمگیریت کی بنیادی اکائی یعنی خاندانی نظام )بھی اس کی زد میں آ جاتے ہیں ۔ہم درود شریف پر اپنی بات کو ختم کرتے ہیں کہ اس کی معنویت پر غور و فکر گہری بصیرت سے نواز سکتا ہے:
اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی ابراہیم انک حمید مجید اللہم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی ابراہیم انک حمید مجید۔

آفتاب عروج صاحب کے خیالات پر ایک نظر

محمد شکیل عثمانی

ماہنامہ الشریعہ اکتوبر ۲۰۰۵ میں اہل تشیع کی تکفیر کے سلسلے میں آفتاب عروج صاحب کا مضمون پڑھا۔ موصوف غلام احمد پرویز صاحب کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور منیر رپورٹ سے استدلال، بحیثیت مجموعی طبقہ علما کی مذمت اور صرف قرآن کو اتحاد ملت کی اساس قرار دینا اس گروہ کی خاص تکنیک ہے۔ 
آفتاب عروج صاحب نے منیر رپورٹ کے حوالے سے علما پر یہ گھسا پٹا اعتراض دہرایا ہے کہ وہ فسادات پنجاب (۱۹۵۳) کی تحقیقاتی عدالت کے سامنے مسلمان کی متفقہ تعریف پیش نہیں کر سکے تھے۔ منیر رپورٹ سیکولر اور نام نہاد روشن خیال اعتدال پسندوں، منکرین سنت ، قادیانیوں اور مستشرقین کی بائبل ہے۔ اسلام، اسلامی ریاست اور علما پر جب بھی انھیں اعتراض کرنا ہوتا ہے، وہ اسی رپورٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ شاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ میرے سرہانے دو کتابیں رکھی رہتی ہیں، ایک لیڈی چیٹرلیز لور (ایک فحش ناول) اور دوسری منیر رپورٹ۔
منیر رپورٹ کے مرتبین کا کہنا ہے کہ دو علما بھی ایسے نہ تھے جو مسلمان کی تعریف پر متفق ہوں اور اگر وہ اپنی طرف سے مسلمان کی تعریف کریں جو ان تعریفوں سے مختلف ہوں جو دوسروں نے پیش کی ہیں تو انھیں متفقہ طور پر خارج از اسلام قرار دیا جائے گا اور اگر وہ علما میں سے کسی ایک کی تعریف کو اختیار کر لیں تو اس عالم کے نزدیک تو مسلمان رہیں گے لیکن دوسرے تمام علما کی تعریف کی رو سے کافر ہو جائیں گے۔ یہ عذر پیش کر کے مرتبین نے اپنی طرف سے مسلمان کی کوئی تعریف پیش کرنے سے جان چھڑا لی ہے، حالانکہ اسی رپورٹ میں اسلام، اسلامی ریاست اور فنون لطیفہ کے بارے میں فاضل جج صاحبان نے اپنی آرا بیان کی ہیں۔ اگر وہ مسلمان کی تعریف بھی بیان کر دیتے تو اہل علم کو رہنمائی ملتی۔ فاضل مرتبین نے علما سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ انھیں ۵ مارچ ۱۹۵۳ کو لاہور کے بپھرے ہوئے عوام کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو جانا چاہیے تھا، خواہ لوگ ا ن کی تکا بوٹی کر ڈالتے، جبکہ خود مرتبین نے مسلمان کی تعریف اس رپورٹ میں شامل کرنے سے اس بنا پر تامل کیا کہ ’’ہم باتفاق خارج از اسلام قرار پائیں گے۔‘‘
اب آئیے اس افسانے کی طرف کہ دو علما بھی مسلمان کی تعریف پر متفق نہ تھے۔ اس موضوع پر جناب نعیم صدیقی اور جناب سعید ملک نے اپنی کتاب ’’فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ‘‘ میں عمدہ بحث کی ہے۔ یہاں اس کا ایک اقتباس نقل کریں گے:
’’صحت، ریاست اور بغاوت کی تعریف مختلف اہل علم نے مختلف الفاظ میں کی ہے مگر یہ اختلافات زیادہ تر تعبیر کے اختلافات ہیں۔ ایسا ہی حال ’’مسلمان‘‘ کی تعریف کا بھی ہے کہ ایک ہی حقیقت کو مختلف اہل علم نے مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے۔ ان کے درمیان حقیقت شے میں نہیں، انداز بیان میں اختلاف ہے۔
ایک شخص کہتا ہے کہ جو کوئی قرآن اور ما جاء بہ محمد (جو کچھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں) کو مانتا ہے، وہ مسلمان ہے۔ دوسرا کہتا ہے جو خدا کی توحید، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء سابقین کی نبوت، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم المرسلینی، قرآن اور آخرت کو مانے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو واجب الاطاعت تسلیم کرے، وہ مسلمان ہے۔ تیسرا کہتا ہے مسلمان وہ ہے جو کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا قائل ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع قبول کر لے۔ چوتھا کہتا ہے جو توحید اور انبیا اور کتب الٰہی اور ملائکہ اور یوم آخر کو مانے، وہ مسلمان ہے۔ پانچواں کہتا ہے مسلمان ہونے کے لیے ایک شخص کو خدا کی توحید اور انبیا اور آخرت پر ایما ن اور خدا کی بندگی اختیار کرنی چاہیے اور ہر اس چیز کو ماننا چاہیے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔ چھٹا کہتا ہے توحید، نبوت اور قیامت کو ماننا اور ضروریات دین (مثلاً احترام قرآن اور وجوب نماز، وجوب روزہ، وجوب ح مع الشرائط کو تسلیم کرنا مسلمان ہونا ہے۔ ساتواں کہتا ہے کہ جو پانچ ارکان اسلام اور رسالت محمدیہ کو تسلیم کر لے، اس کو مسلمان مانتا ہوں۔ آٹھواں کہتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی اطاعت کرتے ہوئے جو ضروریات دین کو تسلیم کرے، میرے نزدیک وہ مسلمان ہے۔ (مندرجہ بالا تعریفوں کے لیے ملاحظہ ہو منیر رپورٹ صفحہ ۲۱۵ تا ۲۱۷)
ان مختلف تعریفات کا تقابل اور تجزیہ کر کے دیکھیے۔ کیا ان کے درمیان مسلمان کی نفس حقیقت میں کوئی فرق ہے؟ ضروریات دین وہی تو ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوں۔ اسی چیز کے لیے دوسرے الفاظ ما جاء بہ محمد ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو مان لینے میں قرآن، توحید، رسالت، آخرت ، ملائکہ، انبیا اور کتب آسمانی سب کا مان لینا آپ سے آپ شامل ہو جاتا ہے اور یہی کچھ قرآن کو مان لینے کا نتیجہ بھی ہے۔ کوئی شخص خواہ قرآن کو مان نے کا اعلان کرے یا یہ کہے کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت مان لی یا ایک ایک چیز کا الگ الگ نام لے کر اس کے ماننے کا اقرار کرے، تینوں صورتوں میں لازماً ایک ہی اسلام کو قبول کرنے کا اعلان واقرار ہوگا اور محض کلمہ لا الہ الا الہ محمد رسول اللہ کو مان لینے کا حاصل بھی اس سے ذرہ برابر مختلف نہ ہوگا۔ لہٰذا ان آٹھوں آدمیوں نے مختلف الفاظ میں جس حقیقت کو بیان کیا ہے، وہ بعینہ ایک حقیقت ہے۔ مسلمان کے تصور اور اس کے معنی میں ان کے درمیان ایک بال کے برابر بھی فرق نہیں ہے۔ آپ جب چاہیں، ان آٹھوں آدمیوں میں سے کسی ایک کی بیان کی ہوئی تعریف دنیا کے کسی عالم دین کے سامنے رکھ دیں، وہ بلا تکلف کہہ دے گا یہ مسلمان کی صحیح تعریف ہے۔ خود ان آٹھوں آدمیوں سے پوچھ کر دیکھیے، ان میں سے ہر ایک تسلیم کرے گا کہ دوسرے کی بیان کردہ تعریف غلط نہیں ہے۔ (ص ۱۲۰ تا ۱۲۲)
محترم آفتاب عروج صاحب کا یہ ارشاد کہ صرف قرآن ہی اتحاد ملت کی اساس ہے، پرویز صاحب کے دعوے کی صدائے بازگشت ہے جنھوں نے فرمایا کہ ’’بے شک آیات قرآنی کے معنی سمجھنے میں بھی اختلافات ہو سکتے ہیں مگر یہ اختلافات چونکہ الفاظ وعبارات کے نہ ہوں گے بلکہ صرف فہم کے ہوں گے اس لیے مزید غور وفکر سے مٹ جائیں گے۔‘‘ (مقام حدیث جلد اول ص ۱۹۷) گزشتہ پچھتر سال کی تاریخ اس کی گواہ ہے کہ ’’قرآنی فکر‘‘ کے علم برداروں کے تعبیری اختلافات بجائے مٹنے کے بڑھے ہیں۔ مثلاً دیکھیے قرآنی فکر کے علم بردار ایمان بالرسل کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق لکھتے ہیں کہ کسی بھی نبی پر ایمان کافی ہے۔ جزوی ایمان چاہیے۔ ایمان بر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ضروری نہیں۔ (ایک اسلام) واضح رہے کہ برق صاحب نے اس کتاب سے لاتعلقی کا آخر وقت تک اظہار نہیں کیا اور ’’دو اسلام‘‘ سے بھی ان کا اظہار لا تعلقی محض دفع الوقتی تھا۔ یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر ڈاکٹر عبد العزیز ساحر نے ’’ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے خطوط‘‘ کے دیباچے میں بڑی نفیس بحث کی ہے۔
جناب غلام احمد پرویز اور حافظ اسلم جیراج پوری کے نزدیک رسول پر محض ایمان لانا ضروری ہے۔ اس کے انتقال کے بعد اس کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے، اس لیے کہ اطاعت بالمشافہہ ہوتی ہے اور اب کوئی زندہ نبی نہیں ہے جس کی بالمشافہہ اطاعت کی جائے۔ اب اطاعت مرکز ملت کی ہوگی۔ (اسلامی نظام ص ۱۲۲۔ مقام حدیث جلد اول ص ۱۹)
مولوی احمد الدین امرتسری لکھتے ہیں کہ حضور ﷺ پر ایمان تو ضرور لانا چاہیے مگر ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھنا چاہیے کہ رسول خدا قرآن مجید کا تمام فہم نہیں رکھتے تھے اور یہ کہ حضور سے قرآن کے فہم میں بکثرت غلطیاں ہوئیں۔ (برہان القرآن)
یہی حال ایمان بالملائکہ، ایمان بالکتاب، ایمان بالآخرۃ، صلوٰۃ، روزے، درود وغیرہ کی تعبیر وتشریح میں ہے۔ چند سال پہلے علامہ محمد حسین عرشی، جو پچاس کی دہائی میں طلوع اسلام کے صفحات پر پرویز صاحب کی خدمات قرآنی کو خراج تحسین پیش کیا کرتے تھے، پرویز صاحب کی کتاب مفہوم القرآن کی اشاعت کے بعد ۲۰ جون ۱۹۸۴ کو محمد اقبال سلمان کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’.... لفظ آدم پر مفصل مقالہ صحت یاب ہو کرلکھیں ...... آپ نے پرویز صاحب کامفہوم القرآن شاید نہیں دیکھا۔ میرے خیال میں ان کو ایسی جسارت نہیں کرنی چاہیے تھی، لیکن اس کے مطالعے کے لیے قاری کو اپنی بصیرت کی بھی ضرورت ہے کیونکہ انھوں نے اپنی رائے اور میلان کو خواہ مخواہ گھسیڑ دیا ہے۔‘‘ (نوادرات عرشی مرتبہ ڈاکٹر تصدق حسین راجا، ص ۸۸)
علامہ تمنا عمادی جو ۵۰ کی دہائی میں پرویز صاحب کو علامہ پرویز لکھتے تھے اور جن کی قرآنی بصیرت پر طلوع اسلام کو بڑا اعتماد تھا، ۶۰ کی دہائی میں پرویز صاحب کی تصنیف لغات القرآن کے سب سے بڑے ناقد بن گئے۔ ماہر القادری لکھتے ہیں:
’’علامہ تمنا عمادی نے غلام احمد پرویز کی لغات القرآن پر بڑی کس کر تنقید کی۔ ان کے کئی مضامین فاران میں بھی چھپ چکے ہیں۔ اس موضوع پر نہ جانے کتنے مضامین غیر مطبوعہ ہی رہے۔ علامہ نے اپنے مضامین میں اعلیٰ علمی استدلال کے ساتھ ثابت کیا کہ لغات القرآن کا لکھنے والا نہ قرآنی علوم سے واقف ہے اور نہ عربی زبان وادب سے باخبر ہے۔ قرآن کی یہ عجیب لغت ہے جس میں قرآن ہی کی مخالفت کی گئی ہے۔‘‘ (ماہنامہ فاران، فروری ۱۹۷۳)
قرآنی فکر کے علم بردار دو اداروں، طلوع اسلام اور بلاغ القرآن کے تعبیر قرآن کے اختلافات ایک مستقل مضمون کے متقاضی ہیں۔ کسی مناسب موقع پر ان شاء اللہ ان پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔

ناقدین کی خدمت میں (۱)

طالب محسن

(دسمبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کے مضمون ’’اسلام اور تجدد پسندی‘‘ کے جواب میں ہمیں ’المورد‘ کے ایسوسی ایٹ فیلو جناب طالب محسن اور ’دانش سرا‘ گکھڑ منڈی کے رفیق محمد عثمان صاحب کی طرف سے تحریریں موصول ہوئی ہیں۔ اس موضوع پر مزید بحث مباحثے کے لیے یہ صفحات حاضر ہیں۔ مدیر)

(۱)
استاد محترم جناب جاوید احمد غامدی کے افکار وآرا پر بہت سی تنقیدیں لکھی گئی ہیں اور آئندہ بھی لکھی جائیں گی۔ عام طور پر یہ تنقیدیں محض دشنام طرازی، طعن وتشنیع اور تضحیک واستہزا پر مبنی ہوتی ہیں۔ کچھ اندیشوں اور خدشات کو بنیاد بنا جاتا ہے۔ کچھ اندازے قائم کیے جاتے ہیں جو سراسر سوء ظن پر مبنی ہوتے ہیں۔ کچھ مقاصد طے کیے جاتے ہیں جن کا کوئی ثبوت کسی قول وتحریر میں نہیں ہوتا۔ اور اس طرح صاحب تنقید اپنے لیے قلمی جہاد کا جواز فراہم کرتااور نوک قلم سے اپنے ہی علم وتقویٰ کا خون کر ڈالتا ہے۔
’المورد‘ میں، چھپنے والی ان تنقیدوں کو غور سے پڑھا جاتا ہے اور اگر کوئی صحیح تنقید ہو تواسے شکر کے جذبے کے ساتھ قبول بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسی تنقیدوں کی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ چنانچہ ہم بالعموم ان تنقیدوں کے جواب میں خاموش رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تنقیدوں میں کوئی قابل جواب نکتہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ ہماری اصولی پالیسی یہ ہے کہ اگر کوئی علمی تنقید ہو تو اس کا نوٹس لینا چاہیے، اس لیے کہ یہ تنقید علمی نکات کی تنقیح میں معاون ہوتی اور بہت سی باتیں سمجھنے اور سمجھانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ میں استاد محترم کو برس ہا برس سے جانتا ہوں، وہ اپنی غلطی کو مان لینے میں پس وپیش نہیں کرتے اور ان کی طرف سے اس طرح کا ردعمل بھی کبھی سامنے نہیں آیا کہ انھوں نے جو کچھ کہہ دیا ہے، وہ حرف آخر ہے اور ان کے افکار وآرا میں کوئی غلطی نہیں ہو سکتی یا اس میں اصلاح کی گنجایش نہیں ہے۔چنانچہ ہم نے انھیں سچی تنقید کا خیر مقدم کرتے ہی دیکھا ہے۔باقی رہیں سوء ظن اور الزام تراشی پر مبنی تحریریں تو ان کے بارے میں وہ خاموشی ہی کو اولیٰ سمجھتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ تنقیدیں اس سے بہتر کسی سلوک کی مستحق نہیں ہوتیں۔
ہمارے ہاں، بالعموم مختلف رائے رکھنے والے کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے اور اس کا نتیجہ بالعموم اسی کے حق میں نکلتا ہے، اس لیے کہ اس طرح کی تنقیدیں تنقید کرنے والوں کی علمی بے مایگی کا ثبوت ہوتی ہیں اوراپنے اندر موجود صحیح نکات کو بھی اکارت کر دیتی ہیں۔میں جب یہ سوچتا ہوں کہ ممکن ہے یہ تنقید کرنے والے اپنے تعصب کی وجہ سے قلم زن نہ ہوئے ہوں، بلکہ حق ہی کو سمجھنا اور سمجھانا چاہتے ہوں تو میرے دل میں ان کے لیے ایک ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ یہ سطور ایسے ہی ناقدین کے لیے لکھ رہا ہوں۔ میرے پیش نظر یہ ہے کہ ایسے ناقدین کو تجویز کروں کہ حقیقی علمی تنقید کیا ہوتی ہے اور اس کے مشمولات کیا ہوتے ہیں۔
ہمارا موضوع دین ہے۔ دین میں حق وناحق کا فیصلہ نصوص کے فہم سے ہوتا ہے۔ نصوص کے فہم میں غلطی دو سبب سے ہو سکتی ہے۔ ایک یہ کہ وہ اصول غلط ہو جس کی روشنی میں نص کے معنی طے کیے جا رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اصول تو ٹھیک ہو، لیکن اس کے اطلاق میں غلطی ہو رہی ہو۔ چنانچہ دین سے متعلق موضوعات میں تنقید واصلاح کا دائرہ بہت معین ہو جاتا ہے۔ امت میں رائج علمی مکاتب فکر کے اصولوں کے تحت کسی رائے پر تنقید کا دائرہ اور بھی محدود ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بحث صرف کسی نحوی، کلامی، تفسیری یا فقہی اصول کے اطلاق کی غلطی واضح کرنے پر موقوف ہوتی ہے۔ استاد محترم غامدی صاحب کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ استاد محترم نے اصول میں بھی تحقیقی کام کیا ہے اور مولانا فراہی علیہ الرحمۃ کے منہج استدلال کو آگے بڑھاتے ہوئے مآخذ کے فہم کے قواعد کو نئے سرے سے مرتب کیا ہے۔ اب ناقدین کے لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ اگر انھیں استاد محترم کے کسی نقطہ نظر میں غلطی محسوس ہوتی ہے تو وہ یہ دیکھیں کہ جس نص پر یہ رائے مبنی ہے، اس کے سمجھنے میں کیا غلطی ہوئی ہے اور اگر انھیں محسوس ہوکہ یہ نتیجہ کسی غلط اصول کے سبب سے ہے تو انھیں چاہیے کہ اس اصول کی غلطی متعین کریں اور اسے واضح کرنے کے لیے قلم اٹھائیں۔ 
استاد محترم کے ناقدین اگر یہ رویہ اختیار کریں تو مجھے قوی امید ہے کہ وہ اپنے اور ہمارے لیے خیروفلاح کا باعث بنیں گے اور آخرت میں بھی بہتر اجر کے حق دار قرار پائیں گے۔
طالب محسن 
’المورد‘۔ 51-K
ماڈل ٹاؤن ۔لاہور

ناقدین کی خدمت میں (۲)

حافظ محمد عثمان

(دسمبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کے مضمون ’’اسلام اور تجدد پسندی‘‘ کے جواب میں ہمیں ’المورد‘ کے ایسوسی ایٹ فیلو جناب طالب محسن اور ’دانش سرا‘ گکھڑ منڈی کے رفیق محمد عثمان صاحب کی طرف سے تحریریں موصول ہوئی ہیں۔ اس موضوع پر مزید بحث مباحثے کے لیے یہ صفحات حاضر ہیں۔ مدیر)

’الشریعہ‘ کے دسمبر کے شمارے میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کا مضمون ’اسلام اور تجدد پسندی‘ پڑھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں مغربی تہذیب کے حوالے سے تین رویوں کا ذکر کیا ہے اور ان میں سے دوسرے رویے پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’دوسرے وہ حلقہ فکر جو فکری مرعوبیت کا شکار ہو گیا اور ا س نے مغربی تہذیب اور اس کے اصولوں کی ’بڑائی‘ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور وہ اس چیز کا علم بردار بن گیا کہ اپنے نظام فکر وعمل کو بدل کر اسے اس نئی اور غالب تہذیب سے ہم آہنگ کر دے۔‘‘
اس دوسرے نقطہ نظر کے حاملین میں ڈاکٹر صاحب نے جاوید احمد غامدی صاحب کو بھی شامل کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک غامدی صاحب مغربی تہذیب سے مرعوب ہیں اور مغربی تہذیب کے فکری چولے کو اسلام پر فٹ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اگر اس دعوے کے حق میں کچھ دلائل وشواہد پیش کر دیتے تو قارئین بھی بہتر طور پر ان کے دعوے کا تجزیہ کر پاتے اور ڈاکٹر صاحب سے اختلاف رکھنے والوں کو بھی دلائل کی بنیاد پر بات کرنے میں آسانی ہوتی، لیکن افسوس ہے کہ انھوں نے سارا مضمون ایک جذباتی اور تاثراتی کیفیت میں لکھا ہے اور اس میں استدلال نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ میرا گزشتہ کئی سالوں سے غامدی صاحب سے تعلق ہے، ان کی کم وبیش تمام تحریریں میں نے پڑھ رکھی ہے، اور ان کی فکر کے امتیازی خط وخال سے بھی میں آگاہ ہوں۔ غامدی صاحب دین وشریعت کی تعبیر وتشریح میں رائج علمی آرا سے تو بے شک بہت سے اختلافات رکھتے ہیں، لیکن ان کے زاویہ نگاہ میں مغرب سے مرعوبیت یا مغرب پرستی کا کوئی شائبہ بھی میں نے کبھی محسوس نہیں کیا۔ اس کے برعکس جب میں فکر وفلسفہ اور تہذیب وثقافت کی سطح پر مغرب کے پیدا کردہ چیلنج اور پھر ان کے حوالے سے غامدی صاحب کی آرا وافکار کا جائزہ لیتا ہوں تو وہ اسلامی شریعت اور اسلام کی تہذیبی اقدار کے ساتھ وابستگی کے حوالے سے بالکل یکسو دکھائی دیتے ہیں۔ مغربی فکر، نظام حیات کے کسی بھی دائرے میں، خواہ وہ سیاست ہو یا معیشت، معاشرت ہو یا قانون، انسانی عقل وتجربہ سے بالاتر کسی ذریعہ ہدایت کو ماخذ ماننے کے لیے تیار نہیں، جبکہ غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’میزان‘ میں ان تمام دائروں سے متعلق قرآن وسنت کی ہدایات کی نہ صرف باقاعدہ تشریح کی ہے بلکہ مسلم دانش وروں میں پھیلے ہوئے بہت سے غلط افکار (مثلاً سود کا جواز، اسلامی حدود کو سنگین اور وحشیانہ سمجھتے ہوئے ان سے دست برداری، مرد اور عورت کی ہر پہلو سے مساوی قانونی حیثیت، مقاصد شریعت کو ابدی جبکہ متعین شرعی قوانین کو وقتی اور عارضی قرار دینا وغیرہ) کی واضح طور پر تردید کی ہے اور فطرت انسانی اور علم وعقل کی روشنی میں اسلامی شریعت کے احکام وہدایات کا دفاع کیا ہے۔ 
اپنی کتاب ’مقامات‘ کے مضمون ’تہذیب کی جنگ‘ میں معاصر تہذیبی جنگ کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
’’یہ تہذیب اگرچہ پچھلے تین سو سال سے روبہ زوال ہے، اس کا فطری ارتقا بند ہو چکا ہے، اس پر مسلمانوں کی اسلام سے عملی بے پروائی کے اثرات بھی نمایاں ہیں، امتداد زمانہ سے جاہلیت کے بہت سے اجزا بھی اس میں شامل ہو چکے ہیں اور یہ بلاشبہ بہت کچھ اصلاح کی متقاضی ہے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود یہ بہرحال میری تہذیب ہے۔ میں اس میں ہر وقت اصلاح کے لیے تیار ہوں، لیکن اس کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کو اختیار کر لوں، یہ میرے لیے کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ مغربی تہذیب اس وقت دنیا کی غالب تہذیب ہے اور میری قوم کے کارفرما عناصر اس سے اس قدر مرعوب ہو چکے ہیں کہ ان کی ساری جدوجہد اب اس کو پوری طرح اپنا لینے ہی میں لگی ہوئی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ انھیں یہ بات اب بہت آسانی کے ساتھ نہیں سمجھائی جا سکتی کہ دین اگر اپنی تہذیبی شناخت سے محروم ہو جائے تو اس کی حیثیت پھر آفتاب کی سی ہوتی ہے جو آسمان پر نمودار تو ہوا لیکن گہرے بادلوں کے پیچھے سے اپنی شعاعیں ہماری زمین تک پہنچانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔‘‘ (ص ۹۰)
اسی مضمون میں آگے چل کر وہ لکھتے ہیں:
’’مجھے ان سب باتوں پر اصرار ہے اور میں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اسلام کی جنگ اگر تہذیب کے میدان میں ہار دی گئی تو پھر اسے عقائد ونظریات کے میدان میں جیتنا بھی بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس وجہ سے میں اپنے ان دوستوں کی خدمت میں جو اردو اور شلوار قمیض اور اس طرح کی دوسری چیزوں پر میرے اصرار کو دیکھ کر چیں بہ چیں ہوتے ہیں، بڑے ادب کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں صرف فکر مغرب ہی کو نہیں، اس تہذیب کو بھی اپنے وجود کے لیے زہر ہلاہل سمجھتا ہوں۔ چنانچہ میں جس طرح اس کے فکری غلبہ کے خلاف نبرد آزما ہوں، اسی طرح اس کے تہذیب استیلا سے بھی برسر جنگ ہوں۔ میں نہیں جانتا اس معرکہ میں فتح کس کی ہوگی، لیکن یہ میرے ایمان کا تقاضا ہے کہ میں اسی طرح پوری قوت کے ساتھ اس سے لڑتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو جاؤں۔‘‘ (ص ۹۱)
میں نے غامدی صاحب سے جب بھی یہ پوچھا کہ معاشرے میں تبدیلی لانے کا طریقہ کیا ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ اس کا طریقہ نہ انقلاب ہے نہ انتخاب، بلکہ یہ ہے کہ آپ عوام کی تربیت کریں اور ان کا ذہنی وفکری شعور بلند کریں ۔ انھوں نے کہا کہ اسلام کے صحیح اور پائیدار نفاذ کا طریقہ یہ ہے کہ اسلام کو تہذیب بنا کر نافذ کریں۔ اسلام کو زبردستی قانون بنا کر نافذ نہیں کیا جا سکتا اور ایسا کیا بھی گیا تو اس کے نتائج نہ اچھے ہوں گے اور نہ دیرپا۔ 
میری ناقص رائے میں جو صاحب علم مغرب کے فکری وتہذیبی استیلا کے جواب میں مذکورہ رویے کا حامل ہو، اس کو مغرب سے ذہنی مرعوبیت کا طعنہ دینا نہ قرین انصاف ہے اور نہ قابل فہم۔ جہاں تک شریعت کی تعبیر وتشریح کا تعلق ہے تو اس میں علمی اختلاف، جیسا کہ خود ڈاکٹر صاحب نے واضح کیا ہے، کوئی نئی اور معیوب بات نہیں۔ اس صورت حال میں ڈاکٹر صاحب سے یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ اگر انھوں نے غامدی صاحب کی آرا وافکار میں مغرب پرستی کی بو پائی ہے تو ازراہ کرم میری طرح کے عام قارئین کی سہولت کے لیے وہ قابل اعتراض نکات کو واضح طور پر متعین فرمائیں اور ان پر تنقید کر کے نہ صرف ان کا علمی نقص واضح کریں، بلکہ اس بنیادی سوال پر بھی روشنی ڈالیں کہ آیا علمی اختلافات کے دائرے میں ان کے لیے کوئی گنجایش نہیں اور کیا وہ ہر حال میں مغربی فکر وتہذیب سے مرعوبیت ہی کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں؟
محمد عثمان 
سلطان پورہ۔ گلی نمبر ۵۔ گکھڑ منڈی

مکاتیب

ادارہ

محترم جناب رئیس التحریر صاحب ماہنامہ ’الشریعہ‘
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا مجلہ ملتا ہے۔ عمدہ مضامین ہوتے ہیں جو حق پسندی، خود اعتمادی، اپنی اقدار پرپختگی کا درس دیتے ہیں۔ مگر افسوس کہ دسمبر ۲۰۰۵ء کے سمارے میں ڈاکٹر محمد آصف اعوان کے مقالے ’’ڈارون کا تصور ارتقا اور اقبال‘‘ میں علامہ اقبالؒ کے ساتھ بڑی ناانصافی برتی گئی ہے۔ میں نے پہلے بھی نوٹ کیا ہے کہ آپ کے مجلے میں مسلمانوں کے اس محبوب شاعر ومفکر اور پاکستان کے اولین محسن کے بارے میں ناروا انداز فکر کا پرچار کیا گیا ہے۔ کافی پہلے لندن میں بیٹھے ہوئے ایک ’’دیوبندی مولانا‘‘ نے اپنے ایک مضمون نما خط میں اقبال کو ’’سر محمد اقبال اور .....‘‘ کے طنز سے یاد کیا تھا۔ اب ان تازہ مضمون نگار صاحب نے ان کو ڈارون (Darwin) کا ہم نوا بلکہ مقلد بتانے کی کوشش کی ہے۔
کیا دیوبندی مکتب فکر کے لیے ضروری ہے کہ علامہ اقبال کے خلاف مہم جاری رکھی جائے؟ شاید آپ کو معلوم ہو کہ بیسویں صدی کے عظیم مفکر اسلام، داعی الی اللہ، محقق اور اہل اللہ مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے اقبال کو شاعر الاسلام کے لقب سے دنیاے عرب میں معروف کرایا۔ ان کی عربی کتاب ’’من روائع اقبال‘‘ میں، جو اس ناچیز نے دمشق سے ۱۹۵۷ء میں شائع کرائی تھی اور جو اردو میں ترجمہ ہو کر ’’نقوش اقبال‘‘ کے نام سے چھپ چکی ہے، مولانا مرحوم کا وہ مقالہ موجود ہے جو شاعر الاسلام کے نام سے انھوں نے قاہرہ یونیورسٹی میں پڑھا تھا۔ غضب خدا کا! وہ بندۂ خدا جس کی ساری شاعری، سارا سوز وتڑپ اسلام اور اس کی سربلندی کے لیے تھا، جس کا ماخذ علم قرآن تھا، جس نے قرآنی آیات اور جملوں کو اپنے اشعار (مثنوی، اسرار خودی ورموز بے خودی) میں اس طرح سمو دیا ہے کہ ایک غیر حافظ قرآن یا غیر مولوی کو ان کا سمجھنا بھی مشکل ہے، اسی شاعر قرآن واسلام کو ایک دینی مدرسہ سے شائع ہونے والا مجلہ ڈارون کا پیرو وہم نوا بتاے۔ ان ہذا الا افک مبین۔
ڈاکٹر آصف صاحب کے ذہن میں اقبالؒ کے یہ اشعار تو ہوں گے:
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جوہر کردار
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن
وہ عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو برابر کہتا رہا:
در دل مومن مقام مصطفی است
آبروے ما ز نام مصطفی است

محمد عربی کابروئے ہر دو سرا است
کسے کہ خاک درش نیست خاک بر سر او
تو پھر کیا قرآن اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ’’تصور ارتقا‘‘ کی تعلیم دی ہے جس کا سہرا ملحد ومادہ پرست ڈارون کے سر ہے؟ پھر یہ کہ مغربی فکر وتہذیب پر جتنی کڑی اور برمحل تنقید علامہ اقبال نے کی ہے، اس کی کہیں نظیر نہیں ملتی۔ 
یہ باتیں تو میں نے تمہیداً اس افترا کے رد عمل میں کہی ہیں جو ڈاکٹر آصف صاحب نے علامہ اقبال پر کیا ہے، لیکن ان کے اٹھائے ہوئے نقاط کے جواب میں عرض ہے کہ:
۱۔ وہ کس طرح یہ فرماتے ہیں کہ ’’اقبال کی فکر کا بنیادی نکتہ (یہاں صحیح ’نقطہ‘ ہے) اس کا فلسفہ خودی ہے، تاہم اگر بنظر عمیق دیکھا جاے تو معلوم ہوگا کہ ان کی فکر پر اول تا آخر فلسفہ ارتقا کی چھاپ ہے، یہاں تک کہ تصور خودی بھی اسی بنیادی اور بڑے فلسفے کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘
حیرت ہے کہ وہ کسی بھی دلیل کے بغیر کس طرح یہ بے جا الزام لگا رہے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے تو اپنے فلسفہ خودی کی بنیاد لا الٰہ الا اللہ کو کہا ہے:
خودی کا سر نہاں لا الٰہ الا اللہ
خودی ہے تیغ، فساں لا الٰہ الا اللہ
یا پھر:
نقطہ نورے کہ نام او خودی است
زیر خاک ما شرار زندگی است
ڈارون کے یہاں ’’نقطہ نور‘‘ کا ذکر کہاں ملتا ہے؟ وہ تو ظلمت حیوانی کا نقیب تھا اور مغرب کی آج کی فحاشی اور جنسی ہوس وآزادہ روی ڈارون کے فلسفہ ارتقا کی مرہون منت ہے کہ جب انسان بندر (چمپانزی) سے ترقی کر کے انسان بنا ہے تو اس میں وہی خصائص ہونے چاہییں جو بندر میں ہوتے ہیں۔
اس موقع پر جو حوالہ ڈاکٹر آصف صاحب نے ارتقاے خودی کے ضمن میں اسرار خودی سے دیا ہے، اس کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ارتقا تو زندگی کے ہر مرحلے میں بلکہ نطفہ سے پیدایش طفل اور پھر طفولت سے بلوغت وکہولت تک جاری وساری ہے۔ انسان جاہل ہوتا ہے، پڑھ لکھ کر عالم بنتا ہے، خطیب بنتا ہے، مصنف بنتا ہے، مخترع بنتا ہے وغیرہ۔ ڈارون ا س ارتقا کی نشان دہی کے لیے مشہور نہیں۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ آگے چل کر وہ تضاد بیانی کا شکار ہوتے ہیں جب یہ فرماتے ہیں کہ: ’’اقبال اور ڈارون کا ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک تمام مادہ کی حقیقت روحانی ہے۔‘‘ (مزید تضاد کے لیے ملاحظہ ہو ص ۴۰، ۴۱۔۴۳)
مضمون کے آخر میں پروفیسر انعام الرحمن صاحب نے بھی ایسا ہی ظلم اقبالؒ پر روا رکھا ہے، بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔ وہ فرماتے ہیں: 
’’اقبال نے جہاں جمود زدہ مسلم فکر میں حرکت پیدا کر کے مسلم معاشرے کی مردہ رگوں میں زندگی کی لہر دوڑا دی، وہاں نطشے اور ڈارون کے افکار کی اسلای تعلیمات سے تطبیق کی کوشش میں مسلم معاشرے کی روایتی فکر کو بری طرح مجروح کیا۔‘‘
علامہ اقبال کے خلاف ایسا زہر آلود اور جاہلانہ جملہ آج تک نہیں پڑھا۔ تقسیم ہند سے قبل ملحدانہ فکر رکھنے والے یا لادین ترقی پسند مصنفین اقبال کی فکر کے ڈانڈے نطشے، بائرن، ہیگل، کارل مارکس وغیرہ سے ملاتے تھے اور ان کی اس تمام شاعری سے آنکھیں بند کر لیتے تھے جس میں قرآنی حقائق کی ترجمانی ہے۔ مولانا رومی سے اخذ واقتباس ہے، فکر فرنگ پر بے لاگ کڑی تنقید ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ کے پیغام سے محبت کا بے پناہ اظہار ہے، یا پھر میاں انعام الرحمن صاحب کا یہ مفتریانہ جملہ میں نے اب پڑھا ہے۔ کیا انھوں نے علامہ مرحوم کی نظم ’’ایک فلسفہ زدہ سید زادہ سے خطاب‘‘ نہیں پڑھی؟ ضرب کلیم میں اب پڑھ لیں، اور خاص طور سے یہ اشعار:
تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا
زناری برگساں نہ ہوتا
ہیگل کا صدف گہر سے خالی
ہے اس کا طلسم سب خیالی
دیں مسلک زندگی کی تقویم
دیں سر محمد وبراہیم
اے پو زعلی ز بوعلی چند
دل در سخن محمدی بند
چوں دیدہ راہ بیں نداری
قائد قرشی بہ از بخاری
(ابو علی سینا بخارا کا رہنے والا تھا)
اب جہاں تک ڈارون کا تعلق ہے تو علامہ اقبالؒ نے پیام مشرق میں یورپ کے بہت سے فلسفیوں اور سائنس دانوں، ہیگل، کارل مارکس، شوپن ہار، نیٹشہ، آئن سٹائن وغیرہ کے بارے میں اشعار وقطعات لکھے ہیں، لیکن انھوں نے ڈارون کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے اور جہاں تک نیٹشہ کا تعلق ہے، وہ فرماتے ہیں:
حریف نکتہ توحید ہو سکا نہ حکیم
نگاہ چاہیے اسرار لا الٰہ کے لیے 
اور اس کے بارے میں ان کا یہ فارسی مصرع تو بہت مشہور ہے : قلب او مومن دماغش کافر است۔
اور جہاں تک ان کی انگریزی کتاب The Reconstruction of Religious Thought in Islam کا تعلق ہے تو اس میں صرف دو جگہ ڈارون کا نام ہے اور دونوں جگہ تنقیدی انداز میں۔ ڈارون کے نیچرل ہسٹری کے بارے میں ڈاکٹر آصف نے اس کے Concept of Mechanism کا ذکر تو انگریزی اقتباس میں دے کر کیا، لیکن اس کے فوراً بعد علامہ اقبال کا دوسرا جملہ، جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اس Concept (نظریہ) کے حامی نہیں تھے، نقل نہیں کیا جو یہ ہے:
And the battle for and against mechanism is still being fiercely fought in the domain of biology. (p. 41)
اپنی پوری کتاب میں علامہ اقبال نے کہیں بھی ڈارون کے نظریہ ارتقاء حیوانی کو قبول (endorse) نہیں کیا ہے۔ یہ علمی دیانت داری کے خلاف بات تھی کہ ڈاکٹر آصف صاحب نے اقبال کے جملہ مکملہ کو نہیں لکھا۔ یہی نہیں، وہ آگے چل کر اسی کتاب میں نیٹشہ اور ڈارون دونوں کے بارے میں اپنی رائے کا بے لاگ اظہار اس طرح کرتے ہیں:
Yet Neitzsche was a failure; and his failure was mainly due to his intellectual progenitors such as Schopenhauer, Darwin, and Lange whose influence completely blinded him to the real significance of his vision. (p. 195)
(اس کے باوجود نیٹشہ ایک ناکام شخص تھا اور اس کی ناکامی کا سبب اس کے فکری مربی تھے جیسے شوپنہار، ڈارون اور لینج جن کے اثرات نے اس کو اس کی بصیرت کی امتیازی شان سے اندھا کر دیا)۔
آگے اسی صفحہ پر نٹشہ پر مزید کڑی تنقید ہے۔ علاوہ ازیں اہل نظر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اقبال کی بنیادی فکر وفلسفہ ان کے نو فارسی واردو دواوین میں ہے، ان کی انگریزی نثری کتاب میں نہیں۔
امید ہے کہ ’الشریعہ‘ ایسے مضامین کی اشاعت سے گریز کرے گا جو حقائق مسخ کر دیں۔
خاکسار
(ڈاکٹر) سید رضوان علی ندوی
5۔ گلی P خیابانِ سحر فیز6
ڈیفنس کراچی
(۲)
گرامی قدر مکرمی جناب مولانا عمار خان صاحب زید ت درجاتکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
بلاطلب استحقاق آپ کاموقر جریدہ مسلسل کئی ماہ سے مل رہا ہے۔ یہ آپ کا کرم بالائے کرم ہے۔ جزاک اللہ تعالیٰ۔ بوجوہ رسید کی اطلاع کر سکا ن ہی ا س نعمت غیر مترقبہ کا شکریہ ادا کر سکتا۔ معذرت ومغفرت کی درخواست ہے۔
متفق علیہ نکات پر امت کو مجتمع کرنے کی ضرورت ہے۔ مختلف نقطہ ہائے نظر کی اشاعت سے فکری انتشار بڑھے گا۔ براہ کرم آپ اس کو چوراہا یا دھوبی گھاٹ بنائیے۔ آپ کا قلم، آپ کی جملہ توانائیاں امت کی امانت ہیں جسے آپ امت مسلمہ کے مجموعی مفاد میں استعمال کیجیے۔ اللہ آپ کے قلم کو رواں اور ہمت کو جواں رکھے۔ آمین
بہرکیف یہ تاثر ہے جو عرض کر دیا۔ امید ہے کہ خاطر عاصر پر گراں نہ گزرے گا۔
والسلام علیکم
حبیب الرحمن ہاشمی
جامع مسجد نشتر میڈیکل کالج
ملتان
۱۳؍ اکتوبر ۲۰۰۵

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’تاریخ ختم نبوت‘‘

تیرہویں صدی ہجری کے اواخر میں قادیان، پنجاب سے مرزا غلام احمد کی نبوت کا فتنہ پیدا ہوا تو علماء حق نے تحریر وتقریر کے ذریعے سے پوری قوت کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا۔ کم وبیش پون صدی کی محنت کے بعد ۱۹۷۴ء میں آئینی سطح پر مرزا غلام احمد اور ان کے پیروکاروں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ اس جدوجہد میں یوں تو برصغیر کے طول وعرض میں علما اور اہل حق شریک رہے، لیکن علماء لدھیانہ کی خدمات اس ضمن میں خاص طور پر ناقابل فراموش ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس فتنہ کی نشان دہی کی۔ ۱۸۸۴ء میں جب مرزا صاحب نے ’’ براہین احمدیہ ‘‘ تحریر کی تو مولانا محمد عبد اللہ لدھیانوی اور مولانا عبد العزیز لدھیانوی نے اس کتاب میں مرزا صاحب کے فاسد عقائد کی نشان دہی کی اور دور اندیشی سے کا م لیتے ہوئے بر وقت بلکہ قبل از وقت ان کے خلاف کفر کا فتوی جاری کیا۔ بعض دوسرے علماء کرام نے مرزا قادیانی کے نظریات سے پوری طرح آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ابتداءً فتواے تکفیر سے گریز کیا لیکن بعد میں یہ حضرات بھی مرزا ئیوں کے کفر پر متفق ہو گئے۔ 
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قادیانیوں کے خلاف کفر کا فتوی سب سے پہلے علماء لدھیانہ نے دیا تھا۔ علماے لدھیانہ کے تاریخی کردار کی وضاحت کے لیے اسی خاندان کے چشم وچراغ جناب ابن انیس حبیب الرحمن صاحب نے ۱۹۹۷ء میں ایک کتاب ’’سب سے پہلا فتوی تکفیر علماء لدھیانہ نے دیا ‘‘تحریر کی جس میں فتواے تکفیر اور علماء لدھیانہ کی جدوجہد کی پوری تفصیل بیان کی گئی ہے۔ تاہم کچھ دوسرے لوگوں نے اس کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کی اور مذکورہ کتاب کے جوا ب میں ڈاکٹر بہاؤ الدین صاحب نے ۲۰۰۱ میں ’’تحریک ختم نبوت‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ قادیانیوں کے خلاف سب سے پہلا فتوی غیر مقلد علما نے دیا تھا ۔زیر تبصرہ کتاب اسی کا جواب ہے جس میں مولف موصوف نے محققانہ انداز میں دلائل کے ساتھ بہاؤ الدین صاحب کے دعووں کا رد کیا ہے۔ کتاب کا اسلوب تحریر مناظرانہ ہے اور کہیں کہیں سخت کلامی بھی در آئی ہے جس سے گریز مناسب تھا ۔ تاہم تاریخی ریکارڈ کی درستی کے لیے یہ مجموعی طور پر ایک مفید کاوش ہے جس کے لیے مولف داد کے مستحق ہیں۔
بہترین ورق ،مضبوط جلد اور دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ ۴۸۴ صفحات کی یہ کتاب رئیس الاحرار اکادمی خالصہ کالج فیصل آباد نے شائع کیا ہے ۔قیمت درج نہیں ۔
(محمد شفیع خان عقیل)

’’خطبات شورش‘‘

شورش کاشمیری مرحوم کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ شعر وادب، تاریخ و صحافت ،مذہب و سیاست، اور تصنیف وتالیف کی دنیاؤں کے بھی شہسوار تھے، لیکن خطابت کے شعبے میں اللہ تعالی نے انہیں خصوصی مہارت عطاکر رکھی تھی ۔ شورش ایک وسیع المطالعہ خطیب تھے۔ منفرد اسلوب بیاں اور علمی وادبی لطائف ان کی خطابت کے نمایاں محاسن تھے۔ انھیں مشکل سے مشکل بات بھی فصاحت وبلاغت کے ساتھ بیان کرنے کی خداداد قدرت حاصل تھی۔ انہیں اپنی فکر اور رائے کی صحت پرکامل یقین تھا اور وہ اپنے کمال خطابت سے متضاد ومتخالف نظریات رکھنے والے سامعین کے ہجوم کو وحدت کے رشتے میں پرو کر انہیں فکروخیال کی کسی بھی مخصوص رو میں بہا لے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ موقع ومحل کی مناسبت سے خطیبانہ نکتے بیان کرنا اور الفاظ کے زیر وبم سے عوامی جذبات کو شعلوں میں تبدیل کر دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اور ان کے شدید ترین مخالفین بھی ان کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔
زیر نظر کتاب میں شیخ مجیب الر حمن بٹالوی صاحب نے شورش مرحوم کی بعض معرکہ آرا تقاریر کو بڑے سلیقے سے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔ یہ ایک محنت طلب کا م تھا جس سے موصوف عمدگی سے عہدہ برآ ہوئے ہیں۔ ان خطبات کے مطالعے سے آج کے قاری کو شورش کے انداز خطابت، مختلف النوع خیالات کو بیان کرنے کی صلاحیت اور مترادفات وتشیہات کے استعمال پر ان کی قدرت کا ایک حد تک اندازہ ہو سکے گا۔ 
کتاب دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ اور عمدہ کاغذ پر طبع ہوئی ہے اور اسے احرارفاوندیشن پاکستان نے شائع کیا ہے ۔ 
(فضل حمید چترالی)

کوروٹانہ (عقب واپڈا ٹاؤن، گوجرانوالہ) میں عظیم دینی تعلیمی مرکز کا قیام

ادارہ

اس مرکز کے لیے کھیالی گوجرانوالہ کے جناب محمد بشیر اور ان کے فرزند جناب ثناء اللہ طیب جنجوعہ نے آٹھ کنال زمین وقف کی ہے اور الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کو متولی اور منتظم کی حیثیت سے تمام اختیارات تفویض کر دیے ہیں۔ یہ معاملہ حضرت مولانا مفتی محمد اویس، مولانا محمد نواز بلوچ، جناب عثمان عمر ہاشمی اور جناب ڈاکٹر محمد نواز صاحب آف کھیالی کے مخلصانہ تعاون، توجہ اور محنت سے پایہ تکمیل کو پہنچا، جس پر ہم مذکورہ سب حضرات کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ 
اس مرکز میں علاقہ کے عوام کے لیے جامع مسجد خورشید اور فری ڈسپنسری کے علاوہ مندرجہ ذیل شعبوں کا قیام پیش نظر ہے:
  1. مدرسہ طیبہ برائے تحفیظ القرآن، جس میں پرائمری پاس بچوں کو حفظ قرآن کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ مڈل کا باضابطہ امتحان دلایا جائے گا۔
  2. شریعہ کالج، جس میں مڈل پاس طلبہ کو بی اے تک عصری تعلیم کے ساتھ موقوف علیہ تک درس نظامی کے مضامین کی تعلیم دی جائے گی۔
  3. اسلامک سنٹر، جس کے تحت عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے علمی، تحقیقی اور دعوتی منصوبے تیار کیے جائیں گے۔

احباب سے درخواست ہے کہ اس عظیم دینی وتعلیمی منصوبہ کی تکمیل اور کامیابی کے لیے خصوصی دعا فرمائیں، اپنے مفید مشوروں اور راہ نمائی سے نوازیں اور درمے، قدمے، سخنے تعاون فرمائیں۔

فروری ۲۰۰۶ء

ڈاکٹر یوگندر سکند کے خیالاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
علوم القرآن کی مختصر تاریخ و تدوینمحمد جنید شریف اشرفی
بعثتِ نبوی ﷺ کے عصری مکاشفےپروفیسر میاں انعام الرحمن
خطبات کی روشنی میں اقبال کے افکار کا مختصر جائزہپروفیسر عابد صدیق
سر سید احمد خان اور تاریخی افسانےیوسف خان جذاب
کیا ’قارون‘ اور ’قورح‘ ایک ہی شخصیت ہیں؟محمد یاسین عابد
ماہنامہ ’الشریعہ‘ اور جناب جاوید احمد غامدیآصف محمود ایڈووکیٹ
مکاتیبادارہ
تعارف و تبصرہادارہ
انا للہ و انا الیہ راجعونادارہ

ڈاکٹر یوگندر سکند کے خیالات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بھارت کے معروف دانش ور ڈاکٹر یوگندر سکند گزشتہ دنوں پاکستان آئے۔ چند روز لاہور میں قیام کیا۔ حیدر آباد اور دیگر مقامات پر بھی گئے۔ دو دن ہمارے ہاں گوجرانوالہ میں قیام کیا، الشریعہ اکادمی کی ایک نشست میں سرکردہ علماے کرام اور اساتذہ وطلبہ سے بھارت کی مجموعی صورت حال، خاص طور پر مسلمانوں کے حالات پر گفتگو کی اور مختلف حضرات سے ملاقاتوں کے بعد بھارت واپس چلے گئے۔ ڈاکٹر یوگندر سکند کے والد سکھ تھے اور والد ہ کا تعلق ہندو خاندان سے ہے۔ خود اپنے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ خدا کی ذات پر یقین رکھتے ہیں اور انسانی سوسائٹی کے لیے مذہب کے رفاہی پہلووں کے قائل ہیں، مگر خود کو کسی خا ص مذہب کے دائرے میں پابند نہیں سمجھتے، البتہ ان کے مطالعہ وتحقیق اور تحریروں کا سب سے زیادہ موضوع مسلمان ہیں اور انھوں نے اب تک جو کچھ لکھا ہے، زیادہ تر اسی حوالے سے لکھا ہے۔ تبلیغی جماعت کے آغاز وارتقا اور اس کے سماجی اثرات ، ہندوستان میں بین المذاہب مکالمہ، اسلام، ذات پات اور مسلم دلت تعلقات، اور بھارت کے دینی مدارس کے عنوانات پر انھوں نے مستقل کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ ڈاکٹر یوگندر سکند نے اسلام انٹرفیتھ کے عنوان سے ایک ویب سائٹ بھی بنا رکھی ہے جس پر ’’قلندر‘‘ کے نام سے ان کا ویب میگزین شائع ہوتا ہے ۔
عزیزم محمد عمار خان ناصر کا انٹر نیٹ کے ذریعے سے ڈاکٹر یوگندر سکند سے کافی عرصے سے رابطہ ہے اور ’الشریعہ‘ میں ان کی بعض تحریروں کا ترجمہ شائع ہوتا رہتا ہے۔ اسی حوالے سے وہ پاکستان آمدکے موقع پر گوجرانوالہ بھی آئے اور دو روز ہمارے مہمان رہے۔ میں نے اس دوران میں ایک نشست میں کچھ امور پر گفتگو کی جس کی روشنی میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں۔
یونیورسٹی کی تعلیم کے زمانے میں ڈاکٹر یوگندر سکند لیفٹ کے فکری حلقے سے وابستہ ہو گئے اور انھوں نے ان کے ساتھ سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ ا ن کا کہنا ہے کہ بھارت میں لیفٹ کی پارٹیاں ہمیشہ فرقہ واریت کے خلاف فعال اور متحرک رہی ہیں اور اسی کے زیر اثر انھوں نے فرقہ واریت، خاص طور پر ہندو فاشزم کے خلاف لکھنا شروع کیا۔ ان کے خیالات، فکری ترجیحات اور تجزیوں میں بائیں بازو کی چھاپ صاف نمایاں ہے۔
مذہب کے بارے میں لیفٹ کے دیگر دانش وروں کی طر ح ان کا خیال ہے کہ یہ سماج کی پیداوار ہے اور اس کے صرف وہ پہلو قابل استفادہ ہیں جو انسانیت کی فلاح وبہبود سے تعلق رکھتے ہیں اور جو حقو ق العباد کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مذہب کی ایسی تشریح نہیں ہونی چاہیے جو لوگوں کے درمیان منافرت کا باعث بنتی ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی تگ ودو زیادہ تر دو پہلووں پر ہے۔ ایک یہ کہ بھارت میں مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان مفاہمت کو کس طرح فروغ دیا جا سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ مذہب کی انسانیت مخالف تشریح کا راستہ کیسے روکا جا سکتا ہے۔ بھارت کے تناظر میں ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان برداشت اور مفاہمت کے فروغ میں جمعیت العلماء ہند کا کردار ہمیشہ سے نمایاں چلا آ رہا ہے، جماعت اسلامی بھی اب اس رخ پر آگے بڑھ رہی ہے ، جبکہ مسلم بزرگان دین کی وہ درگاہیں اس سلسلے میں بہت نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں جہاں حاضر ہونے والوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کی بھی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم صوفیا کا خانقاہی نظام اب خانقاہی نہیں رہا بلکہ درگاہی بن گیا ہے، لیکن مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان میل جول میں ان کا کردار بہت نمایاں ہے۔
ڈاکٹر یوگندر سکند چونکہ لیفٹ کے فکری حلقے سے متاثر ہیں، اس لیے معاشرے کی مذہبی تقسیم یا کلچر کے حوالے سے تقسیم سے زیادہ طبقاتی تقسیم پر یقین رکھتے ہیں۔ ہندوستان کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اصل تقسیم طبقاتی ہے، کیونکہ اعلیٰ ذات کے مسلمانوں کا طرز عمل نچلی ذاتوں کے مسلمانوں کے ساتھ وہی ہے جو ہندووں کی اعلیٰ ذات کے لوگوں کا نچلی ذاتوں کے ہندووں کے ساتھ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح ہندووں میں برہمن ذات کے لوگ نچلی ذات کے ہندووں کے ساتھ رشتے ناتے نہیں کرتے، اسی طرح مسلمانوں میں مغل، سید، پٹھان اور شیخ برادریوں کے لوگ دوسری ذاتوں کے مسلمانوں کے ساتھ رشتے ناتے سے گریز کرتے ہیں۔ اسی طر ح اعلیٰ ذات اور طبقے کے ہندووں اور اعلیٰ ذات اور طبقے کے مسلمانوں کے سماجی مسائل ملتے جلتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس نچلی ذاتو ں کے ہندووں اور نچلی ذاتوں کے مسلمانوں کے مسائل بھی آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ ڈاکٹر یوگندر سکند کا خیال ہے کہ بھارت میں ۱۵ فی صد مسلمان ہیں اور ۱۵ فیصد ہی دلت (اچھوت) ہندو ہیں۔ ان دونوں طبقوں کی مشکلات، مسائل اور پریشانیاں ایک جیسی ہیں، لیکن جس طرح برہمن ہندو مسلمانوں اور دلتوں کے درمیان میل جول اور اشتراک واتحاد میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں، اسی طرح اعلیٰ طبقے کے مسلمانوں کو بھی عام مسلمانوں اور دلتوں کا میل جول اچھا نہیں لگتا۔ بالادست طبقہ اس تفریق اور تضاد کو قائم رکھنا چاہتا ہے کیونکہ اس کا مفاد اسی میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دلتوں یعنی نچلی ذاتوں کے ہندووں کو اب یہ سبق پڑھایا جا رہا ہے کہ ان کی پس ماندگی اور تحقیر کے اصل ذمہ دار مسلمان ہیں کیونکہ وہ بہادر لوگ تھے، انھوں نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا تھا، اس لیے مسلمانوں نے اپنے دور اقتدار میں انھیں اچھوت بنا دیا اور جان بوجھ کر پس ماندہ رکھا۔ اس طرح برہمن ہندو دلتوں کو مسلمانوں سے متنفر کرنے کے لیے پوری تاریخ تبدیل کر رہا ہے۔
عالمی سطح بھی ڈاکٹر یوگندر سکند تہذیبی کشمکش اور سولائزیشن وار کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل کشمکش امیر اقوام اور غریب اقوام کے درمیان ہے۔ دولت مند اقوام وممالک ڈبلیو ٹی او اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے سے پوری دنیا کے وسائل پر کنٹرول حاصل کرتے جا رہے ہیں اور گلوبل اجارہ داری کی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں، لیکن دنیا کو انھوں نے اسلام اور مسیحیت کی کشمکش اور سولائزیشن وار کے تصورات میں الجھا رکھا ہے۔
مسلمانوں کے دینی مدارس کے بارے میں یوگندر کا کہنا ہے کہ ایک عرصے سے ان مدارس کے خلاف عالمی سطح پر الزامات عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے جس میں نائن الیون کے بعد بہت تیزی آئی ہے، اس لیے انھوں نے ایک مستقل کتاب میں اس صورت حال کا جائزہ لیا ہے اور بھارت کے مختلف مکاتب فکر کے دینی مدارس کے نظام ونصاب کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کر کے یہ بات واضح کی ہے کہ بھارت میں پائے جانے والے دینی مدارس کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ ان میں دہشت گردی یا منافرت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ انھوں نے اس سلسلے میں بھارت کے مسلم دینی مدارس ہی کا جائزہ لیا تھا، اس لیے اپنی کتاب میں انھی کے حوالے سے بات کی ہے اور سوسائٹی پر دینی مدارس کے مثبت اثرات کو بھی اجاگر کیا ہے۔
اپنے دورۂ پاکستان کے تاثرات کو بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ یہاں آتے ہوئے ڈر رہے تھے کہ خدا جانے انھیں کس قسم کے طرز عمل کا سامنا کرنا پڑے، لیکن پاکستان میں انھیں جس محبت اور مہمان نوازی کے ساتھ ڈیل کیا جا رہا ہے، وہ یوں سمجھ رہے ہیں جیسے اپنے ہی ملک میں ہوں اور انھیں کسی قسم کی اجنبیت کا قطعاً احساس نہیں ہو رہا، البتہ یہاں کا سسٹم اورنظام دیکھ کر انھیں افسوس ہو رہا ہے کہ اقتصادیات، تعلیم، قانون کی عمل داری اور کسی منظم سسٹم کے حوالے سے کوئی ترقی نہیں ہو رہی اور عام لوگوں کی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ 
ڈاکٹر یوگندر سکند جنوبی ایشیا کی نئی نسل کے دانش ور ہیں اور آج کی دنیا سے پوری طرح باخبر ہیں۔ وہ صرف حالات معلوم کر کے ان کے بارے میں رائے قائم نہیں کرتے، بلکہ اپنی رائے عالمی سطح پر لوگوں تک پہنچا کر انھیں متاثر بھی کرتے ہیں۔ ان کے خیالات اور مختلف امور پر ان کی رائے سے اتفاق ضروری نہیں، مگر آج کے ان ملٹی نیشنل دانش وروں کے خیالات سے آگاہی بہت ضروری ہے، بالخصوص ان علماے کرام اور ارباب دانش کے لیے تو یہ آگاہی ایک ناگزیر ضرورت کا درجہ رکھتی ہے جو آج کے گلوبل ماحول میں مسلم امہ کی راہنمائی کا دعویٰ رکھتے ہیں اور اس کے لیے کسی بھی درجے میں محنت اور کوشش کر رہے ہیں۔

علوم القرآن کی مختصر تاریخ و تدوین

محمد جنید شریف اشرفی

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کی بعثت با سعادت کے جو مقاصد بیان فرمائے ہیں، ان میں امت کو آیات قرآنیہ کی تلاوت کے ساتھ ساتھ ان کے معانی کے بارے میں تعلیم دینا بھی شامل تھا۔ آج ہمارے پاس جس طرح قرآن صامت موجود ہے، اسی طرح قرآن ناطق یعنی آپ ﷺ کی بتلائی ہوئی تشریحات بھی اسی طرح محفوظ ہیں جس طرح آپﷺامت کو دے کر گئے تھے۔ آپ ﷺ کے بعد صحابہؓ نے اور پھر تابعین اور تبع تابعین نے قرآن مجید اور اس کی تعلیمات کو دنیا کے کونے کونے میں اس طرح پھیلایا جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ انسانی قاصر ہے۔ 
قرآن حکیم نے جہاں اہل عرب کو اپنے جیسا کلام پیش کرنے سے عاجز کر دیا، وہاں ما فرطنا فی الکتاب شئ (الانعام /۳۸) اور ونزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شئ و ھدی و رحمۃ و بشری للمسلمین (النحل/۸۹)کہہ کر اقوا م عالم کو علوم و معارف کے ان پوشیدہ خزانوں سے روشناس کرایا جس کے بعد کرہ ارض کی جاہل ترین قوم کا شمار مہذب ترین قوموں میں ہونے لگا اور وہ کرہ ارض کے تخت و تاج کے وارث بھی بنے۔
علوم و فنون اور معارف قرآنیہ کی نشرو اشاعت آپ ﷺ کے ارشادات مبارکہ کی بدولت ہوئی جن میں علم کے حصول اور نشرو اشاعت کو فضیلت اور برتری کا معیار قرار دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: خیرکم من تعلم القرآن و علمہ (۱) (تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس نے قرآن کو سیکھا اور دوسروں کو سکھایا)۔ آپ ﷺکا ارشاد گرامی ہے:
’’سیکھو قرآن اور اس کو پڑھو۔ قرآن پڑھنے اور سیکھنے والے کے لیے قرآن کی مثال ایسے ہے جیسے مشک بھری ہوئی تھیلی کہ اس کی خوشبو تمام مکا ن میں پہنچتی ہے۔ اس شخص کی مثال جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا اور وہ اس کے سینے میں محفوظ ہے، اس تھیلی کی مانند ہے جو مشک پر باندھی گئی ہے‘‘ (۲)
آپ ﷺ کے ان ارشادات کی بدولت علمائے اسلام نے قرآن حکیم کو اپنی تحقیق کا مرکز و محور بنایا اور بہت سے علوم و فنون کی بنیادڈالی۔ قرآن حکیم اور اس سے متعلقہ علوم مثلاً اسباب نزول آیات ،جمع قرآن ، ترتیب قرآن ، علم ترجمہ ، علم تفسیر، علم الخط والرسم،علم النحو والصرف ، تلاوت وتجوید،محکم و متشابہ ، ناسخ و منسوخ ، معرفت سور مکیہ و مدنیہ وغیرہ پر اس قدر لکھا گیا کہ کسی دوسری آسمانی کتاب پر نہیں لکھا گیا۔
آپ ﷺکے اولین مخاطب صحابہ کرامؓ تھے جو خالص عرب اور اہل زبان ہونے کی وجہ سے قرآن کے اسلوب اور اس کی دلالات کو اچھی طرح جانتے تھے۔ مزید یہ کہ نزول قرآن کے وقت خود صحابہ کرامؓ موجود تھے اور قرآن ان کے سامنے نازل ہو رہا تھا، لہٰذا نزول قرآن کی کیفیت، آیات کے سبب نزول اور ناسخ و منسوخ وغیرہ امور سے جس درجے میں صحابہؓ واقف تھے، بعد کا کوئی شخص ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ تفسیر قرآن کے سلسلے میں نبی کریمﷺ کی احادیث کے بعد قول صحابیؓ پر اعتماد کیا جاتا ہے ۔علامہ ابن تیمیہ نے لکھا ہے : 
’’و حینئذ اذا لم نجد التفسیر فی القرآن ولا فی السنۃ رجعنا فی ذلک الی اقوال الصحابۃ فانھم ادری بذلک لما شاھدوہ من القران والاحوال التی اختصوا بھا ولما لھم من الفھم التام والعلم الصحیح‘‘۔ (۳)
صحیح بخاری میں حضرت ابن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضور ﷺ کے ساتھ مدینے کے ایک باغ میں تھا اور آپﷺ کھجور کی ایک شاخ کا سہارا لیے کھڑے تھے۔ یہودیوں کا ایک گروہ اس طرف سے گزرا۔ ان میں سے کسی نے کہا کہ آپ سے روح کے متعلق دریافت کیا جائے۔ بعض نے کہا کہ ان سے مت پوچھو۔ وہ کوئی ایسی بات فرمائیں گے جو تمھیں ناگوار گزرے گی، مگر وہ لوگ آپ کے سامنے آگئے اور کہا، اے ابو القاسم! ہمیں روح کے بارے میں بتائیے۔ آپ ﷺ نے سنا اور کچھ دیر خاموش دیکھتے رہے۔ میں سمجھ گیا کہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ پس میں پیچھے ہو گیا یہاں تک کہ وحی ختم ہوئی۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: یسئلونک عن الروح قل ھو امر ربی (الاسرا/۸۵) (لوگ آپ سے روح سے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے) (۴) 
اس سے معلوم ہو اکہ جب آپ ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی، اس وقت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بنفس نفیس موجود تھے اور ان سے بہتر اس آیت کے سبب نزول کو کوئی نہیں جان سکتا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے بھی بعد میں یہ دعویٰ کیا۔ صحیح مسلم میں روایت ہے:
’’عن عبداللہ قال والذی لا الہ غیرہ ما من کتاب اللہ سورۃ الا انا اعلم حیث نزلت وما من آیۃ الا انا اعلم فیم انزلت و لو اعلم احدا ھو اعلم بکتاب اللہ منی تبلغہ الابل لرکبت الیہ‘‘ (۵)
اس طرح جب بھی قرآنی آیات کو سمجھنے میں صحابہ کرام کو مشکل پیش آتی تو نبی ﷺ اس کی تبیین فرما دیتے، کیونکہ آپ پر اللہ کی طرف سے تبیین کتاب کا فریضہ عائد کیا گیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم (النحل/۴۴)
مفسرین نے لتبین للناسکی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس سے مراد آپﷺ کا قرآن میں مجمل مقامات کی وضاحت اور اس میں وارد ہونے والے اشکالات کو دور کرنا ہے۔ (۶)
خلاصہ کلام یہ کہ عہد نبوی میں علوم القرآن کو نبیﷺ کے بنفس نفیس موجود ہونے کی وجہ سے تحریری صورت میں لانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی اور جہاں کہیں کوئی دشواری صحابہ کرام کوپیش آتی، نبی کریم ﷺ خود اس کا حل فرمادیتے۔
علوم قرآنیہ کے تدریجی ارتقا اور اس ضمن میں علمائے اسلام کی مساعی اور عرق ریزی کااگر سرسری جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں قرآن با ضابطہ طور پر جمع ہوا اور جس خط میں وہ لکھا گیا، وہ رسم عثمانی کے نام سے مشہور ہوا۔ اس طرح خط کوفی ، خط نسخ ، خط ثلث، خط نستعلیق وغیرہ کی ترویج ہوئی اور کتابت نے ایک مستقل فن کی شکل اختیار کر لی (۷)۔ جب حضرت علیؓ کا دور آیا تو انہوں نے قرآن حکیم کو عجمی اثرات سے محفوظ رکھنے اور تلاوت قرآن میں سہولت کے پیش نظر ابوالاسوالدؤلی سے نحو کے قواعد مرتب کروا کر اعراب القرآن کی بنیاد ڈالی۔ اس کو ابتدائے علم اعراب قرآنی کہہ سکتے ہیں۔(۸)
رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں ہی صحابہؓ ایک دوسرے سے معانی قرآن اور تفسیری مطالب دریافت کرتے تھے ۔ قرب رسول اور ذکاوت طبعی کے تفاوت کی بنا پر فہم قرآن میں تمام صحابہ کرام برابر نہ تھے، لہٰذا جن صحابہ کرامؓ کو معانی و معارف میں دسترس حاصل تھی، وہ دوسروں کو قرآن حکیم سمجھاتے تھے۔ ان میں خلفائے راشدین کے علاوہ عبداللہ بن مسعودؓ، عبداللہ بن عباسؓ، ابی بن کعبؓ ، ابو موسیٰ الاشعریؓ ، اور عبداللہ زبیرؓ شامل ہیں۔(۹)
صحابہؓ کے بعد تا بعین کا طبقہ ہے جنھوں نے مشاہیر صحابہ کرامؓ سے قرآن اور اس کے علوم و معارف کو سیکھا۔ ان میں سعید بن جبیر (م۹۵ ھ)،مجاہد بن جبر (م ۱۰۳ھ)، عکرمہ مولیٰ ابن عباس( م ۱۰۷ھ)، قتادہ بن دعامۃ السدوسی ( م۱۱۷ھ)، عبداللہ بن عامر الیحصبی (۱۱۸ھ، عطاء بن ابی مسلم خراسانی (م۱۳۵ھ) نے علم تفسیر ، علم اسباب نزول ، علم مقطوع و موصول قرآن ، علم ناسخ و منسوخ اور علم غریب قرآن کی اساس فراہم کی ۔(۱۰)
اس کے بعد علما نے باقاعدہ تفاسیر ترتیب دیں جن میں تفسیر ابن جریر طبری ، تفسیر زمخشری ، تفسیر فخرالدین رازی ، تفسیر نسفی ، تفسیر الخازن ، تفسیر ابن حیان ، تفسیر بیضاوی ، تفسیر الجلالین ،تفسیر قرطبی، تفسیر آلوسی قابل ذکر ہیں۔(۱۱)
علوم القرآن کی مختلف انواع پر مستقل تالیفات کا سلسلہ دوسری صدی ہجری میں شروع ہو چکا تھا۔ ابو عبید قاسم بن سلام (م۲۲۴ھ)نے فضائل قرآن ، ناسخ و منسوخ اور قراآت پر تالیفات رقم کیں ، علی بن مدینی ( م ۲۳۴ھ)،نے اسباب النزول پر کتاب لکھی ، ابن قتیبہ ( م ۲۷۶ھ)نے مشکل القرآن پر کتاب تالیف کی ، محمدبن خلف بن المرزبان ( م ۳۰۹) نے ’’الحاوی فی علوم القرآن ‘‘ستائیس اجزاء میں لکھی (۱۲)۔ غالباً یہ پہلی کتاب ہے جس کے عنوان میں پہلی مرتبہ علوم القرآن کی اصطلاح استعمال ہوئی لیکن اس میں علوم القرآن کی کون سی کون سی انواع تھیں، اس کے بارے میں معلومات میسر نہیں، کیونکہ یہ کتاب مفقود ہے۔ اس کا تذکرہ کتابوں ہی میں ملتا ہے ۔ابو بکر محمد بن قاسم الانباری (م۳۲۸ھ)نے ’’عجائب علوم القرآن ‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کا موضوع قرآن کے فضائل اور اس کا سات حروف پر نازل ہونا ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں مصاحف کی کتابت اور آیات و کلمات اور سورتوں کی تعداد کا بھی ذکر ہے۔ اس کتاب کا ایک نسخہ اسکندریہ کے مکتبہ البلادیہ میں موجود ہے (۱۳)۔ محمد بن عزیز ابو بکر سجستانی ( م۳۳۰ھ)نے ’’ غریب القران ‘‘کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب یوسف مرعشلی کی تحقیق سے بیروت سے ۱۹۸۹ میں شائع ہوئی ۔ اس دور میں احمد بن جعفر ابن المناری ( م ۳۳۶ھ)نے علوم القرآن پر بہت سی کتابیں لکھیں۔ ابن الجوزی( م ۵۹۷ھ) نے ان کے متعلق لکھا ہے: ’’میں نے ابو یوسف قزوینی کی تحریر سے نقل کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ابوالحسین بن المناری جید قاریوں اور بڑے محدثین میں سے تھے۔ علوم القرآن پر ان کی ۴۰سے زائد کتب ہیں۔ ان میں سے تقریباً ۲۱کتب سے تو میں واقف ہوں اور باقی کتب کے متعلق میں نے سنا ہے۔‘‘ ابن الجوزی کا کہنا ہے کہ ان کی تصنیفات میں سے ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے چند ٹکڑے میری نظر سے گزرے۔ ان میں مجھے ایسے فوائد ملے جو اس دور کی کسی دوسری کتاب میں نہیں پائے جاتے ۔(۱۴)
محمد بن علی الا دفوی ( م ۳۸۸ھ)نے ’’الاستغناء فی علوم القرآن ‘‘ تالیف کی۔ ابو بکر باقلانی ( م ۴۰۳ھ)نے ’’اعجازالقرآن‘‘کے نام سے کتاب لکھی جو کہ سید احمد صقر کی تحقیق سے ۱۹۶۴ء میں قاہرہ سے شائع ہوئی ہے۔ عبدالجبار ہمدانی (م ۴۱۵ھ) نے ’’المغنی فی اعجاز القرآن‘‘ تالیف کی۔ یہ کتاب قاہرہ سے ۱۹۷۶ء میں شائع ہوئی ۔ علی بن ابراہیم ابن سعید الحوفی ( ۴۳۰ھ) نے ’’اعراب القرآن‘‘تالیف کی۔ اس کے علاوہ ’’ البرہان فی علوم القرآن‘‘ کے نام سے قرآن کی ایک تفسیر بھی لکھی جو کہ تیس جلدوں میں تھی۔ ان میں سے ۱۵ جلدیں غیر مرتب مخطوطے کی شکل میں موجود ہیں۔ دراصل یہ قرآن کی تفسیر ہے، مگر اس میں مصنف نے ابتدائے قرآن سے آخر تک ایک ایک آیت پر علوم قرآن کی روشنی میں بحث کی ہے۔ نحو ، لغت ، اعراب ، نزول ، ترتیب ، قراء ت ، معانی ،تفسیر، معقول ، غرض کوئی زاویہ تشنہ نہیں چھوڑا۔(۱۵) ابن الجوزی (م ۵۹۷ھ) نے علوم القرآن پر الحوفی کے انداز میں ’’فنون الافنان فی عجائب علوم القرآن ‘‘ لکھی۔ اس کی تحقیق ڈاکٹر حسن ضیاء الدین تمر نے کی ہے اور یہ بیروت سے ۱۹۸۷ء میں شائع ہوئی ہے۔ عبدالعزیز بن عبدالسلام ( م ۶۶۰ھ)نے’’ مجاز القرآن ‘‘تحریر کی۔ علم الدین سخاوی (م۶۴۳ھ) نے ’’جمال القراء و کمال القراء‘‘ تالیف کی۔ اس کتاب میں قراء ت کے علاوہ علوم القرآن کے دیگر مباحث کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ کتاب عبدالکریم زبیدی کی تحقیق سے بیروت سے ۱۹۹۳ء  میں شائع ہوئی۔ ابو شامہ مقدسی کی تالیف ’’المرشد الوجیز الی علوم تتعلق بالکتاب العزیز ‘‘ہے۔ اس میں نزول قرآن اور جمع قرآن کے علاوہ قرا ء ت سے متعلق جامع اور مفصل بحث ہے ۔ طیار آلتی فولاج کی تحقیق سے ۱۹۷۵ء میں بیروت سے شائع ہوئی ہے۔ علامہ بدرالدین زرکشی ( م ۷۹۴ھ)کی ’’البرہان فی علوم القرآن‘‘  کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے موضوع پر پہلی ایسی جامع کتاب ہے جس میں علوم القرآن کی سینتالیس انواع سے بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کی یہ خصوصیت اس کو علوم القرآن پر لکھی گئی تمام کتابوں سے ممتاز کرتی ہے۔
علامہ جلال الدین بلقینیؓ ( ۸۲۴ھ) کی کتاب ’’ مواقع العلوم من مواقع النجوم ‘‘ہے۔ اس کے چھ باب تھے جن میں علوم القرآن کی تقریباً ۱۵۰ انواع پر بحث کی گئی ہے۔ (۱۶) علامہ سیوطی نے اپنی کتاب الاتقان کے مقدمہ میں اس کتاب کاذکر کیا ہے، لیکن یہ کتاب مفقود ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی کی کتاب’’ الاتقان فی علوم القرآن‘‘ ہے۔ علامہ سیوطی نے اتقان کے علاوہ بھی علوم القرآن کی مختلف انواع پر مستقل کتب لکھی ہیں جن میں ’’تناسق الدرر فی تناسب السور‘‘، ’’لباب النقول فی اسباب النزول‘‘ ، ’’ مفہمات الاقران فی مبہما ت القرآن‘‘ وغیرہ شامل ہیں ۔ علامہ کی تمام تالیفات میں سے ’الاتقان‘ ایک نمایاں اور منفرد تالیف ہے۔ اس کتاب میں علامہ سیوطی نے زرکشی کی ’البرہان‘ میں مذکور انواع پر ۳۳ انواع علوم کا اضافہ کیا اور علوم القرآن کی ۸۰ ۱ نواع سے بڑی مفصل بحث کی ہے ۔ علوم القرآن کے موضوع پر اس کتاب کوایک اہم ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔اس کے بعد علوم القرآن پر جتنا بھی کام ہوا، بیشتر اس کی شرح و اختصار کے زمرے میں آتا ہے ۔
’’اعجاز القرآن ‘‘از مصطفی الرافعی ،’’ المعجزۃ الکبری ۔۔۔القرآن‘‘ از محمد ابو زہرہ ، ’’التبیان فی علوم القرآن‘‘ از طاہر الجزائری،’’ منہج الفرقان فی علوم القرآن‘‘ از محمد علی سلامہ ، ’’مناہل العرفان فی علوم القرآن‘‘ از محمد عبد العظیم زرقانی ، ’’مباحث فی علوم القرآن‘‘ از ڈاکٹر صبحی الصالح ، ’’مباحث فی علوم القران‘‘ از مناع القطان ، علوم قرآن سے متعلق موجودہ دور کی مشہور کتب ہیں۔ 
کرہ ارض کا وہ حصہ جو آج ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش پر مشتمل ہے، تاریخ میں برصغیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کی وجہ سے اقوام عالم کی نظریں تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں اس خطے پر مرکوز رہیں ۔ بالخصوص اہل عرب جن کی معیشت کا انحصار زیادہ تر تجارت پر تھا، اسلام کی آمد سے بہت پہلے اس خطے کے ساتھ تجارتی روابط قائم کر چکے تھے ۔ اسلام کی آمد کے بعد بھی یہ تعلقات اسی طرح برقرا ررہے اور اس خطے میں اسلام کی ابتدائی اشاعت بھی انہیں عرب تاجروں کی بدولت ممکن ہوئی ۔ عہد خلافت راشدہ میں اسلامی سلطنت کی حدود دور دور تک پھیل گئیں اور عہد فاروقی ہی میں صحابہ کرامؓ برصغیر میں داخل ہو گئے۔ 
محمد بن قاسم نے جب سندھ پر حملہ کیا تو یہ وہ زمانہ تھا جب اسلامی سلطنت کی حدود ایشیا، روس ، اور اسپین تک پہنچ چکی تھیں۔ لہٰذا فطری طور پر ان علاقوں کے لوگ نہ صرف قرآن کی تعلیمات سے متاثر ہوئے بلکہ انہوں نے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے پر اپنی زندگیاں صرف کر دیں ۔ کتب اسماء الرجال میں ہمیں بہت سے سندھی مسلمانوں کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے تحصیل علم کی خاطر دور دراز کے سفر کیے اور سندھ میں قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کیں۔عبدالر حیم دیبلی سندھی کے متعلق حافظ ابن حجر لسان المیزان میں لکھتے ہیں: 
’’قال العقیلی قال لی جدی قدم علینا من السند شیخ کبیر کان یحدث عن الاعمش ‘‘ (۱۷)
’’عقیلی کہتے ہیں کہ میرے دادا نے بیان کیا کہ ہمارے ہاں ( بصرہ میں ) سندھ سے ایک بہت بڑے شیخ آئے جو اعمش سے حدیث کی روایت کرتے تھے ۔‘‘
سندھ کے علما کی علوم اسلامیہ میں خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عبداللہ الطرازی لکھتے ہیں :
’’و فی العصر العباسی نجد علماء الدیبل بالکثرۃ ومعظمھم ھاجروا الی البلاد العربیۃ والاقلیۃ بقوا فی بلاد السند وانشغلوا بنشرالعلوم الاسلامیۃ‘‘ (۱۸)
’’دور عباسی میں ہم کثرت سے ایسے علما پاتے ہیں جنہوں نے بلاد عرب کی طرف ہجرت کی اور بہت کم ایسے تھے جو سندھ میں رہے اور علوم اسلامیہ کی اشاعت میں مشغول ہوئے۔‘‘
علامہ سمعانی ؒ چوتھی صدی ہجری کے ایک ہندی عالم کی تفسیر میں دلچسپی اور اخذ روایات میں ذوق و جستجو کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ابو جعفر محمد بن ابراھیم الدیبلی (الھندی )المکی العالم المفسر یروی کتاب التفسیر عن ابی عبداللہ سعید بن عبدالرحمن المخزومی روی عنہ ابو الحسن احمد ابن فراس المکی و ابو بکر بن محمد ابراھیم بن علی ‘‘ (۱۹)
’’ابو جعفر محمد بن ابراہیم الدیبلی ہندی مکی جو عالم و مفسر تھے انہوں نے ابو عبداللہ عبدالرحمن مخزومی سے کتاب التفسیر روایت کی ہے اور ان سے ابو الحسن احمد بن ابراہیم بن فراس مکی اور ابوبکر محمد بن ابراہیم بن علی نے روایت کی ہے ۔‘‘
ڈاکٹر عبداللہ الطرازی نے سندھ اور پنجاب کی تاریخ پر مشتمل اپنی کتاب میں ایک عربی عالم ’’العراقی ‘‘(متوفی ۲۷۰ھ)کے متعلق لکھا ہے کہ ہ منصورہ کے شاندار عالم اور شاعر تھے ۔ جنہوں نے فن تفسیر میں دو شاندار کتابیں تصنیف کیں ۔ ایک ’’فی تفسیر القرآن‘‘ اور دوسری ’’ترجمۃ القرآن بالسندیہ‘‘۔(۲۰)
قاضی زاہد الحسینی اپنی کتاب ’’تذکرۃ المفرین ‘‘ میں برصغیر کے پہلے مفسر قرآن ’’الکشی ‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ ’’گچھ ‘‘کے مقام پر دوسری صدی ہجری میں پیدا ہوئے۔ طلب علم کے لیے ارض عرب کا سفر کیا۔ حدیث میں دو مسندیں تالیف فرمائیں۔ اس کے علاوہ قرآن مجید کی ایک تفسیر بھی لکھی جس کو ہر زمانے میں مقبولیت حاصل رہی ۔ (۲۱)
کچھ لوگوں نے ’’گچھ ‘‘ کو سمرقند کا علاقہ قرار دیا ہے، لیکن یاقوت الحموی اس کے متعلق لکھتے ہیں :
’’کس ایضا مدینۃ بارض السند مشھورۃ ذکرت فی المغازی و ممن ینسب الیھا عبد بن حمید بن نصر واسمہ عبدالحمید الکسی صاحب المسند‘‘ (۲۲)
’’کس سندھ کاایک مشہور شہر ہے جس کا ذکر مغازی میں ملتاہے اور اس شہر کی طرف عبد بن حمید بن نصر منسوب ہیں جن کا اصل نام عبدالحمید الکسی ہے جنہوں نے مسند تالیف کی ۔‘‘
جہاں تک برصغیر پاک و ہند کی مقامی زبانوں میں علوم قرآنیہ کی آبیاری کاتعلق ہے تو اس ضمن میں قاضی اطہر مبارکپوری نے اپنی کتاب’’ رجال السند و الہند ‘‘ میں عجائب الہند مصنفہ بزرگ بن شہریار کے حوالہ سے ایک روایت تفصیلاً بیان کی ہے۔ 
’’اکبر ملوک قشمر مھروک بن رایق (ملک الور)کتب فی سنۃ سبعین و مئتین الی صاحب المنصورۃ و ھو عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز لیسئلہ ان یفسر لہ شریعۃ الاسلام بالھندیۃ ۔۔۔وکا ن فیما حکا ہ عنہ انہ سالہ ان یفسر لہ القرآن بالھندیۃ ففسرلہ‘‘ (۲۳)
’’کشمیر کے راجہ مہروک نے ۲۷۰ھ میں منصورہ( سندھ) کے حاکم امیر عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیزکو لکھاکہ میرے لئے( ایک آدمی بھیجا جائے ) جو میرے لیے ہندی میں شریعت اسلامی کی و ضاحت کرے ۔ اس کے متعلق یہ بھی حکایت ہے کہ اس نے ہندی زبان میں قرآن مجید کی تفسیر کرنے کے لیے کہا تو اس نے کر دی ۔‘‘
خلیق احمد نظامی نے اپنی کتاب ’’حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی ‘‘میں، جمیل نقوی نے ’’اردو تفاسیر‘‘ میں، ڈاکٹر صالحہ عبدالحکیم شرف الدین نے ’’قرآن حکیم کے اردو تراجم ‘‘میں اور عبدالصمد صارم نے ’’تاریخ التفسیر‘‘میں مذکورہ بالا روایت سے اسی بات کو ثابت کیا ہے کہ علوم قرآنیہ کے حوالے سے برصغیر کی مقامی زبان میں لکھا جانے والا یہ اولین ترجمہ ہے ۔(۲۴)
لاہور میں قرآن و حدیث کے علوم کی اشاعت کا سہرا شیخ اسماعیل لاہوری کے سر ہے۔ تذکرہ علماء ہند میں ان کے متعلق لکھا ہے کہ شیخ اسماعیل (م۴۴۸ھ)لاہوری عالم محدث اور مفسر تھے۔ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے لاہور میں علم تفسیر و حدیث کی اشاعت کی ۔(۲۵)
قاضی اطہر مبارکپوری ان کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’کان من اعاظم المحدثین و اکابر المفسرین و ھو اول من جاء بالحدیث والتفسیر الی لاہور‘‘ (۲۶)
’’یہ عظیم محدثین اور اکابر مفسرین میں سے تھے۔ یہ پہلے آدمی ہیں جو لاہور میں تفسیر و حدیث کو لائے۔‘‘
عہد تغلق میں علوم قرآنیہ کی نشرو اشاعت کے حوالے سے صاحب تفسیر ملتقط سید محمد حسن (۸۲۵ھ) کا نام، جو گیسو دراز کے لقب سے مشہور ہیں، خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے بارے میں علامہ شریف عبدالحئی فرماتے ہیں:
’’کان عالما کبیر ا ولہ مصنفات کثیرۃ منھا تفسیرالقرآن الکریم علی لسان المعرفۃ و تفسیر القرآن علی منوال الکشاف ‘‘ (۲۷)
’’یہ بہت بڑے عالم تھے جن کی تصانیف بے شمار ہیں جن میں سے ایک’’ تفسیر القرآن الکریم علی لسان المعرفۃ‘‘ اور دوسری ’’تفسیر القرآن علی منوال الکشاف‘‘ ہے ۔‘‘
اس عہد کے نامور مفسر قرآن علاء الدین بن احمد المہائمی ہیں جن کی تفسیر ’’تبصیر الرحمن و تیسیر المنان ‘‘ ہے۔ مولوی عبدالرحمن ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ ان کی تصانیف میں سے تفسیر رحمانی بھی ہے جس کو تفسیر مہائمی بھی کہتے ہیں۔ا نہوں نے آیت مبارکہ ’الم ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین‘ میں بارہ کروڑ تراسی لاکھ چوالیس ہزارپانچ سو چوبیس وجوہ اعراب بیان کی ہیں۔(۲۸)
ڈاکٹر زبیر احمد رقمطراز ہیں کہ اس میں قرآنی قصص اختصار کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔۔۔نیز یہ کہ ایک آیت سے پہلے اور اس کے بعد جو آیتیں ہیں، ان میں باہمی ربط کی وضاحت بھی کی گئی ہے ۔(۲۹)
برصغیر میں علوم قرآنیہ کی فارسی اور اردو زبان میں نشرو اشاعت کا آغاز باقاعدہ طور پر بارھویں صدی ہجری میں ہوا۔ جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے تو اس ضمن میں جمیل نقوی اپنی کتاب ’’اردو تفاسیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’بہرحال شمالی ہند میں پہلی باقاعدہ اور معیاری اردو تفسیرنگاری کی ابتداء بارھویں صدی ہجری کے اواخر سے ہوئی ۔ شمالی ہند کی مقبول عام تفسیر شاہ مراد اللہ انصاری سنبھلی کی تفسیر ’’خدائی نعمت المعروف تفسیر مرادی ‘‘ہے (۳۰)۔شاہ مراد اللہ پہلے اردو مفسر ہیں جنھوں نے اپنی تفسیر ’’تفسیر مرادی ‘‘ میں روز مرہ زبان اختیار کی ہے۔ (۳۱)
قلی بن پادشاہ قلی (م۱۱۱۱ھ)کی کتاب ’’مجمع الفوائد ‘‘ میں ضبط الفاظ قرآنی ، اعراب قرآت مشہورہ ، ائمہ سبع اور بیان معانی و تفسیر پر مشتمل ہے اور متعلقات قرآن مجید پر اس انداز میں بحث کی گئی ہے کہ تمام ضروری باتیں سمجھ میں آجائیں۔ یہ کتاب ۱۱۱۱ہجری میں اورنگ زیب کے عہد میں تصنیف ہوئی ۔
’’انوار الفرقان و ازھار القرآن ‘‘، شیخ غلام نقشبندی لکھنوی (م۱۱۲۶ھ)کی تصنیف ہے۔ اس کے دو نسخے رام پور لائبریری میں موجو دہیں۔ اس کے مقدمے میں تفسیر کی ضرورت و اہمیت اور شان نزول پر بحث کی گئی ہے ۔
علامہ احمد بن ابی سعید الامیٹھوی المعروف بہ ملا جیون نے احکا م ا لقرآن کے موضوع پر ایک تصنیف’’ تفسیرات احمدیہ‘‘ کے عنوان سے لکھی جو کہ قرآنی احکام کے حوالے سے ایک مستند تفسیر ہے۔ اس میں قرآن حکیم سے ساڑھے چار سو آیتیں منتخب کر کے ان سے اخذ ہونے والے احکام کو شرح و بسط کے ساتھ ذکر کیا گیاہے ۔اس تفسیر کو احکام القرآن کے موضوع پر برصغیرمیں لکھی جانے والی سب سے پہلی تفسیر کا درجہ حاصل ہے۔ 
’’ نجوم الفرقان ‘‘، مصطفی بن محمد سعید جونپوری کی تصنیف ہے جو کہ قرآن مجید کی آیات کی تخریج کے لیے اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں لکھی گئی ۔اس کا قلمی نسخہ رام پور کی لائبریری میں موجود ہے ۔
ملاّعلی اصغر بن عبدالصمد قنوجی (م۱۱۴۰) نے اپنی تفسیر’’ ثواقب التنزیل فی انارۃ التاویل‘‘میں اعجاز القرآن سے متعلق سات مسائل پر بحث کی ہے۔ پہلا مسئلہ نزول قرآن کا ہے ،دوسرا مسئلہ جبرئیل کتنی آیات لے کر آئے ، تیسرا نزول وحی کی کیفیت ، چوتھا مکی اور مدنی آیات کے بیان میں، پانچواں ترتیب نزول ، چھٹا جمع قرآن اور ترتیب قرآن ، اور ساتواں مسئلہ ان سات حروف سے متعلق ہے جن کی بنیاد نبی اکرم ﷺ کی روایت ’انزل القرآن علی سبعۃ احرف‘ پر ہے۔ اس کے علاوہ حروف مقطعات کے متشا بہات میں سے ہونے پربڑی مدلل بحث ہے ۔
برصغیر میں علوم القرآن کے حوالے سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ (م۱۱۷۶ھ)کی خدمات نا قابل فراموش ہیں۔ برصغیر میں سب سے پہلے جامع انداز میں افادہ عام کے لیے قرآنیات پر آپ ہی نے لکھا۔ (۳۲) علوم القرآن پر آپ کی کتاب’’ الفوزالکبیر فی اصول ا لتفسیر‘‘ بہت معروف کتاب ہے جس کے اردو ،عربی ، انگریزی میں بھی تراجم ہو چکے ہیں۔ علوم قرآنیہ کے حوالے سے آپکی دوسری تصنیف ’’فتح الخبیرِ ‘‘ ہے جس میں شان نزول کے حوالے سے عمدہ بحث کی گئی ہے۔’’تاویل الاحادیث ‘‘اور’’المقدمۃ السنیۃ‘‘ کے عنوان سے بھی آپ کی تصنیفات ہیں ۔ اول الذکر کتاب میں معجزات انبیا کے اسرار و رموز اور ان کی حکمتیں بیان کی گئی ہیں جبکہ ثانی الذکر میں، جو کہ فارسی زبان میں ہے، ترجمہ اور تفسیر کے اصول و ضوابط بیان کیے گئے ہیں۔
خلیق احمد نظامی نے ’’حیات شیخ عبدالحق ‘‘ اور ڈاکٹر سالم قدوائی نے ’’ہندوستانی مفسرین اور ان کی عربی تفسیریں‘‘ میں ’یاد ایام‘ مصنفہ سید عبدالحئی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ’’میرے نزدیک ہندوستان کے ہزار سالہ دور میں حقائق نگاری میں شاہ ولی اللہ دہلوی کا کوئی نظیر نہیں۔‘‘ (۳۳)
ناصر بن حسین حسنی(م ۱۲۰۰ھ)کی تصنیف ’’الجداول النورانیہ فی استخراج آیات القرآنیہ ‘‘ تخریج آیات قرآنیہ کے سلسلے میں لکھی گئی تمام کتابوں سے خاصی مختلف ہے۔ اس کتاب میں آیت یا جزء آیت کے استخراج کو مدنظر رکھا گیا ہے اور اس کی ترتیب حروف تہجی کے اعتبار سے ہے۔ کتاب کے مقدمے سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف نے ایک کتاب اسی فن کی اور لکھی تھی جس میں اواخر آیات سے استخراج ہوتا تھا۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا خاندان اس اعتبار سے مسلمانانِ برصغیر کا محسن ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کا رشتہ قرآنِ پاک اور حدیث نبوی سے جوڑا ۔ آپ کے بیٹے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (م۱۲۲۳ھ )نے اپنے والد محترم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے تدریس قرآن کا فریضہ سر انجام دیا اور تقریباًساٹھ سال تک دہلی میں درس قرآن دیتے رہے ۔
تیرہویں صدی ہجری میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے تفسیرِعزیزی کے نام سے ایک شاندار تفسیر لکھی۔ یہ ایک نامکمل تفسیر ہے جو سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کے تقریباً نصف یعنی آیت ’وعلی الذین یطیقونہ‘ تک کے حصے پر اور پھر آخر سے انتیسویں اور تیسویں پارے کی تفسیر پر مشتمل ہے ۔ باقی اجزا کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی کہ آیا شاہ صاحب نے ان کی تفسیر لکھی ہی نہیں تھی یا وہ لکھنے کے بعد ناپید ہو گئی۔ نامکمل ہونے کے باوجود اس تفسیر کے جو اجزا دستیاب ہیں، وہ علوم قرآنیہ کے بیش بہا ذخائر پر مشتمل ہیں۔ مختلف قرآنی موضوعات پر شاہ عبدالعزیز ؒ کے خیالات کوکتابی شکل میں آپ کے شاگرد شاہ رفیع الدین مراد آبادی نے مرتب کر لیا تھا جس کا نام انہو ں نے ’’الافادات العزیزیہ‘‘ رکھا۔ یہ خیالات شاہ صاحب ہی کی عبارت سے تھے جو انہوں نے شاہ رفیع الدین صاحب کو خطوط کی شکل میں لکھے تھے۔ ان میں ربط آیات، متشابہات قرآن،اسرار قصص و احکام اور لطائف نظم قرآن وغیرہ پر بحث ہے ۔
’’مقدمہ تفسیر فتح العزیز‘‘، ڈاکٹر زبید احمدنے اپنی کتاب ’’ہندوستانی مفسرین اور ان کی عربی تفسیریں‘‘ میں اس کو شاہ عبدالعزیز صاحب کی تصنیف کہا ہے، مگر شاہ صاحب کی کتابوں میں اس کا نام نہیں ملتا۔ یہ کتاب مندرجہ ذیل دس مبحثوں میں تقسیم ہے: (۱)مبحث الکلام (۲)مبحث الوحی و کیفیۃ(۳)مبحث الانزال والتنزیل(۴)مبحث التفسیر والتاویل (۵)مبحث الموضوع و شرفہ و شرف الغا نیہ (۶)مبحث نزول القرآن علی سبعۃ احرف(۷)مبحث القراءۃ المتواترۃوالمشہورۃ والشاذۃ (۸)مبحث تحریف القرآن والفرقان والمصحف والسورۃ والآیۃ (۹)مبحث فضائل القرآن (۱۰)مبحث وجہ اعجاز القرآن۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے تفسیر قرآن پر ہی اکتفا نہیں فرمائی بلکہ انہوں نے سب سے پہلے برصغیر میں عوامی سطح پر درس قرآن بھی شروع کیا جس سے نہ صرف عامۃ الناس کی علوم قرآنیہ میں رغبت میں اضافہ ہوا بلکہ ان کے اعمال و کردار کی اصلاح بھی ہوئی ۔
’’نثر المرجان فی رسم نظم القرآن‘‘ شیخ محمد غوث بن ناصرالدین ارکاٹی مدراسی (م۱۲۳۸ھ)کی تصنیف ہے۔ اس میں قرآن مجید کے رسم الخط کی وضاحت کی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں یہ کتاب موجود ہے اور پورے قرآن کے تمام الفاظ کواس میں بیان کیا گیا ہے۔ ہر لفظ کو الگ الگ کر کے دکھایا ہے کہ کس طرح لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ ’’تعداد الاسماء فی القرآن‘‘مصنفہ غلام حسین (م۱۲۴۱ھ)اکیس صفحوں پر مشتمل مختصر رسالہ ہے جس میں ان ناموں کا ذکر ہے جو قرآن مجید میں مختلف جگہوں پر استعمال ہوئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نام انبیا کے ہیں۔’’رسالہ رسم خط کلام اللہ ‘‘ مصنفہ محمد کامل چڑیا کوٹی، اس رسالے میں قرآن مجید کے مختلف الفاظ کے رسم الخط کو واضح کیا گیا ہے ۔
’’تقریب الافھام فی آیات الاحکام ‘‘مصنفہ مفتی محمد قلی کنشوری بن محمد حسین متوفی ۱۲۶۰ھ کی کتاب ہے جو قرآنی احکام کی ایک عمدہ تفسیر ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی متوفی ۱۲۹۷ھ کی تصانیف میں علوم قرآنیہ کے حوا لے سے ’’اسرار قرآنی ‘‘ کے نام سے ایک مختصر رسالہ ہے جس میں علوم قرآنیہ کے مختلف موضوعات پر بحث کی گئی ہے ۔
’’اوضح البیان فی بیان اسامی القرآن‘‘ ، سید ابو تراب جعفری ( م۱۲۷۸ھ) کی تصنیف ہے۔ اس میں قرآن مجید کے ان تمام ناموں کی توجیہات بیان کی گئی ہیں جن کا ذکر امام رازی اور سیوطی وغیرہ نے اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ ’’السبع المثانی‘‘ ، سید محمد بن دالدار علی لکھنوی (۱۲۸۴ھ)کی تصنیف ہے جو کہ شیعہ عالم ہیں۔ انہوں نے یہ رسالہ قرا ء ۃ و تجوید سے متعلق لکھا ہے اور اس فن کی ضروری باتوں کی طرف اشارے کیے ہیں۔ اس میں پچیس ورق ہیں ۔عبدالکریم ٹونکی کا رسالہ ’’سبیل الرسوخ فی علم الناسخ والمنسوخ ‘‘ چار ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں ترتیب نزول سور کی تفصیل ہے ، دوسرے باب میں اقسام سور بہ اعتبار ناسخ و منسوخ کا بیان ہے ، تیسرے میں احکام نسخ ، اس کی قسمیں اور آیات ناسخہ و منسوخہ کا ذکر ہے ، چوتھے باب میں آیات مخصوصہ کا ذکر ہے جن سے خاص خاص احکام مستنبط ہوتے ہیں ۔ ’’آیات الاعجاز‘‘، مولانا عبدالرشید کشمیری (م ۱۲۹۸ھ) کی تصنیف ہے جو کہ تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلی فصل حد الاعجاز و وجوہہ پر ہے، دوسری فصل فی ما نزل من القرآن علی لسان بعض الصحابۃ، تیسری فصل فی قدر المعجزمن القرآن پر مشتمل ہے ۔
چودھویں صدی ہجری میں علامہ صدیق حسن بھوپالی متوفی۱۳۰۷ ؁ھ کی کتابیں علوم القرآن کے حوالے سے مشہور ہیں جن میں ’’افادۃ الشیوخ بمقدارالناسخ والمنسوخ‘‘ اور ’’الاکسیر فی اصول التفسیر ‘‘ شامل ہیں۔
’’مرآۃ التفسیر‘‘،ذوالفقار احمد نقوی بھوپالی (م ۱۳۱۶ھ) کی تصنیف ہے۔ اس رسالے میں مصنف نے تفسیر اور متعلقات تفسیر کا ذکر کیا ہے ۔ یہ ایک قسم کا انڈیکس ہے جس سے مفسرین اور علم تفسیر پر جو کچھ بھی کام ہوا ہے، اس کا پتہ چلایا جا سکتا ہے ۔
’’الفاظ القرآن مسمی بہ نجوم الفرقان جدید لتخریج آیات القرآن‘‘ مولانا اہل اللہ فقیراللہ (م۱۳۳۱ھ ) کی تصنیف ہے۔ یہ قرآن کریم کے الفاظ کی فہرست ہے جس کی مدد سے کسی بھی آیت کو آسانی کے ساتھ تلاش کیا جا سکتا ہے ۔’’ملخص التفاسیر ‘‘سید محمد ہارون زنگی پوری ( م۱۳۳۷ھ) کی تصنیف ہے جو کہ مختلف ابواب میں منقسم ہے۔ ان ابواب کو مقدمہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ۔ 
’’مفردات القرآن ‘‘ مولانا حمید الدین الفراہی ؒ (م۱۳۴۹ھ) کی تصنیف ہے۔ اس میں مصنف نے اہم قرآنی الفاظ کے معانی بیان کیے اور ان کا صحیح مفہوم واضح کیا ہے ۔ یہ بھی بیان کیا ہے کہ قرآن مجید غریب الفاظ سے خالی، ضبط و نظم میں لاثانی، اور عربوں کے خطبوں اور ان کے اشعار و محاورات سے کہیں زیادہ آسان ہے ۔ علامہ حمید الدین فراہی ؒ متوفیٰ ۱۳۴۹ ؁ھ نے علوم القرآن کی مختلف انواع پر کئی کتابیں لکھی ہیں جن میں اسالیب القرآن ، اقسام القرآن، امعان فی اقسام القرآن ، تفسیر نظام القرآن ، التکمیل فی اصول التاویل ، دلائل النظام ، مفردات القرآن وغیرہ آپکی گراں قدر تالیفات ہیں۔
’’کنز المتشابہات ‘‘ کے مصنف حافظ محمد محبوب علی ہیں یہ کتاب دائرۃ المعارف سے ۱۳۴۱ ؁ھ میں شائع ہوئی ۔ اس میں مصنف نے ایسی آیتوں کو جمع کیا ہے جو ایک دوسرے سے مشابہت رکھتی ہیں ۔ اس کتاب کے شروع میں انہوں نے ایک مقدمہ لکھا ہے جو عربی اور اردو دونوں ہی زبانوں میں ہے ۔یہ کتاب حفاظ کے لیے بہت مفید ہے ۔
’’مشکلات القرآن ‘‘مولانا محمد انور شاہ کشمیری ؒ (۱۳۵۲ھ)کی تصنیف ہے۔ اس میں ان آیا ت کی توضیح کی گئی ہے جن کو مشکل تصور کیا جاتا ہے ۔ یہ توضیحات بیشتر عربی میں اور چند جگہوں پر فارسی میں ہیں ۔ کتاب کے شروع میں تفصیلی مقدمہ مولانا محمد یوسف بنوری کا ہے جس میں انہوں نے مصنف کے حالات زندگی لکھے ہیں ۔ نیز تفسیر کے ضروری قواعد و ضوابط ، اہل حق اور اہل باطل کی تفسیروں کا فرق اور اسی قسم کی بہت سی اہم باتوں کو بیان کیا ہے ۔
’’وجوہ المثانی مع توجید الکلمات والمعانی ‘‘ مولانااشرف علی تھانوی (م۱۳۶۲ھ)کی تصنیف ہے۔ اس میں قرآن مجید کی سات قراء توں کا بیان ہے اور قرآت کے تمام اختلافات کو بیان کیا گیا ہے ۔ آخر میں اس فن سے متعلق کچھ اصول بھی بیان کر دیے ہیں ۔ اسی طر ح ’’سبق الغایات فی نسق الآیات ‘‘بھی مولانا تھانوی کی تصنیف ہے۔ یہ ایک مختصر سی کتاب ہے جس میں آیات قرآنی کا ربط اور مطالب اختصار کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ سورتوں کا خلاصہ اور شان نزول بھی لکھ دیا گیا ہے ۔ ’اشرف السوانح‘ میں علوم قرآنیہ پر آپ کی تصانیف کی تعداد پچیس بیان کی گئی ہے جن میں ’’ تنشیط الطبع ‘‘، ’’وجوہ المثانی‘‘ ،’’ تجوید القرآن ‘‘، ’’جمال القرآن‘‘ ،’’ یادگار حق القرآن ‘‘ وغیرہ شامل ہیں ۔
جہاں تک تجوید و قرآت کا تعلق ہے، اس ضمن میں برصغیر میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں’’شرح سبعہ‘‘ شیخ القراء مولانا قاری ابو محمد محی الاسلام ؒ کی تصنیف ہے۔ اس میں قراء سبعہ اور ان کے رواۃ کے مختصر حالات نہایت دلچسپ پیرایے میں درج ہیں۔ اس کے بعد قرا ء ا ت سبعہ کے اصولی اور فرعی مسائل نہایت تحقیق کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ ’’افضل الدرر‘‘ علامہ شاطبی کے قصیدہ رائیۃ کی نہایت نفیس اور محققانہ شرح ہے جو کہ قاری عبدالرحمن ابن محمد بشیر خاں صاحب مکی ثم الہ آبادی کی تصنیف ہے ۔ مولانا قاری ضیاء الدین صاحب ؒ الہ آبادی کی کتاب’’ خلاصۃ البیان ‘‘(عربی ) اور ’’ضیاء القراء ت‘‘(اردو) عمدہ کتابیں ہیں۔ مولانا قاری عبدالوحید صاحب الہ آبادی کی ’’ہدیۃ الوحید ‘‘ اور مولانا قاری عبدالخالق صاحب علی گڑھی کی ’’تیسیر التجوید‘‘ بھی ایک عمدہ اضافہ ہیں۔’’توضیح العشرفی طیبۃ النشر‘‘ اردو زبان میں مختصر، جامع اور محققانہ کتاب ہے۔ اس کے علاوہ ’’المعانی الجلیلہ شرح عقیلہ ‘‘رائیہ کی شرح ہے۔ یہ دونوں کتابیں مولانا حافظ قاری عبداللہ صاحب گنگوہی ثم مرادآبادی کی تصنیف ہیں ۔قاری فتح محمد صاحب پانی پتی کی کتاب ’’عنایات رحمانی ‘‘قصیدہ شاطبیہ کی اردو شرح، ’’اسہل الموارد‘‘ قصیدہ رائیہ کی شرح ، اور’’ کاشف العسر‘‘ شرح ناظمۃ الزہر عمدہ کتابیں ہیں۔ ’’تیسیر الطبع فی اجراء لسبع‘‘( اردو) ، ’’مفید الاطفال ‘‘، اور تحفۃ الاطفال کی شرح اور اردو میں ’’مفید الاقوال‘‘ یہ تینوں کتابیں قاری محمد حسین صاحب مالیگانوی کی تصنیف ہیں۔ 
’’کاشف الابہام‘‘ ، یہ حمزہ اور ہشام کی ان وقفی وجوہ میں ہے جو کلمات مہموز میں بوقت وقف پیدا ہوتی ہیں ۔ ’’ضیاء البرہان فی الجواب علی خط القرآن‘‘قرآن کے رسم قیاسی پر ایک مدلل رسالہ ہے ۔ یہ دونوں کتابیں مولانا قاری ابن ضیاء محب الدین احمد صاحب الہ آبادی کی تصنیف کردہ ہیں ۔’’ احیاء المعانی‘‘ کے نام سے علم قراء ت میں ایک نہایت جامع اور مفید ترین کتاب حضرت مولانا حافظ قاری ظہیر الدین صاحب معروفی اعظمی کی تالیف ہے ۔ 
سر سید احمد خان ، علامہ اسلم جیراجپوری ، علامہ تمنا عمادی ، عبداللطیف رحمانی وغیرہ نے علمائے جمہور سے اختلاف کرتے ہوئے جمع و تدوین قرآن ، ناسخ و منسوخ آیات جیسے اہم قرآنی موضوعات پر جداگانہ افکار و نظریات پیش کیے۔ علامہ اسلم جیراجپوری کی ’’تاریخ القرآن ‘‘ ، ’’ارض القرآن ‘‘ اور ’’نکات القرآن‘‘ جبکہ علامہ تمنا عمادی کی’’ جمع القرآن ‘‘ اور ’’اعجاز القرآن و اختلاف قراء ات ‘‘اس موضوع پر نئی فکر کی عکا سی کرنے والی اہم کتب ہیں۔
ماضی قریب میں مولانا شمس الحق افغانی ، مولانا مالک کاندھلوی، قاضی مظہر الدین بلگرامی ،مولانا گوہر رحمن ،مولانا تقی عثمانی،مولانامفتی عبدالشکور ترمذی،مولانا عبدالشکور لکھنوی نے علوم قرآنیہ کے سلسلے میں انتہائی گراں قدر خدمات سر انجام دیتے ہوئے اس موضوع پر کتابیں تصنیف فرما کر اردو زبان میں علوم القرآ ن پر جامع کتب کے خلا کو پر کیا ہے۔
علمائے برصغیر کے تعارف اور خدمات کے باب میں نزھۃالخواطر، حدائق الحنفیۃ ، ماثر الکرام ، الثقا فۃ الاسلامیہ فی الہند،تذکرہ علمائے ہند ،علماء ہند کا شاندار ماضی ،تذکرہ مشائخ دیو بند،تذکرہ علماء پنجاب،تاریخ المفسرین،تذکرہ قاریان ہند ،ہندوستانی مفسرین اور ان کی عربی تفسیریں، وغیرہ گراں قدر تالیفات موجود ہیں جن سے علماء پاک و ہند کی وہ علمی بصیرت و حکمت آشکارا ہو تی ہے جس کا اعتراف عرب کی علمی دنیا بھی ہر دور میں کرتی چلی آ رہی ہے۔

حوالہ جات

(۱) صحیح البخاری ، کتاب فضائل القرآن ، باب خیرکم من تعلم القرآن 
(۲) خطیب تبریزی، مشکوۃ المصابیح، کتاب فضائل القرآن
(۳) ابن تیمیہ، مقدمہ فی اصول التفسیر، ۳۰، مکتبہ العلمیۃ 
(۴) بخاری، کتاب الاعتصام،
(۵) صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ
(۶)ابو حیان اندلسی ، البحر المحیط، ج:۶،ص:۵۳۴، بیروت ، ۱۹۹۲، آلوسی ، روح المعانی ،ج:۸،ص:۲۲، بیروت ۱۹۹۷
(۷)صالحہ عبدالحکیم ، قرآن حکیم کے اردو تراجم، ص۵۴، قدیمی کتب خانہ، کراچی
(۸)الزرقانی، مناھل العرفان فی علوم القرآن، ج:۱، ص:۲۸
(۹)قرآن حکیم کے اردو تراجم،ص:۵۵
(۱۰)ابن ندیم ، الفہرست، ص:۵۱تا ۵۷، مصر ۱۳۴۸
(۱۱)قرآن حکیم کے اردو تراجم،ص:۵۶
(۱۲)الداؤدی ، طبقات المفسرین، ج:۱،ص:۱۴۱، تحقیق علی محمد عمر ، مصر۱۹۷۶
(۱۳)صبحی صالح ، مباحث فی علوم القرآن ، ص:۱۲۲،بیروت ۱۹۶۸
(۱۴)ابن الجوزی ، کتاب المنتظم ، ج:۶،ص:۳۸۸،حیدر آباد دکن۱۳۵۷ھ
(۱۵)قرآن حکیم کے اردو تراجم، ص: ۵۷، مناھل العرفان ،ج:۱،ص:۲۸
(۱۶)مباحث فی علوم القرآن ۱۷۶
(۱۷)ابن حجر ، لسان المیزان،ج:۴، ص:۵
(۱۸)عبداللہ الطرازی ،موسوعۃ التاریخ الاسلامی والخصارۃ الاسلامیۃ لبلادالسند والبنجاب فی العھد العرب،ج:۱،ص:۴۶۹
(۱۹)سمعانی،الانساب ،ج:۵،ص:۵۴۰
(۲۰)عبداللہ الطرازی ،موسوعۃ التاریخ الاسلامی والخصارۃ الاسلامیۃ لبلادالسند والبنجاب فی العھد العرب،ج:۱،ص:۴۶۹
(۲۱)تذکرۃ المفسرین،ص:۵۴
(۲۲)معجم البلدان، ج:۴،ص:۴۶۰
(۲۳)رجال السند والھند :ص۲۵۴، عرب وہند کے تعلقات، ص:۲۱۵
(۲۴)حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی ، ص: ۳۴، جمیل نقوی ، اردو تفاسیر ص:۲۲، عبدالصمد صارم ،تاریخ تفسیر ،ص:۴
(۲۵)مولوی رحمان ،تذکرۃ علماء ہند ، ص:۱۱۱، حدائق حنفیہ ص:۱۹۴
(۲۶)قاضی اطھر مبارکپوری ، رجال السند والھند ص۷۹
(۲۷)نزہۃ الخواطر ، ج:۳،ص۱۶۳
(۲۸)تذکرہ علماء ہند، ص۳۵، حدائق حنفیۃ ،ص:۳۱۷
(۲۹)عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ، ص:۴۵۵
(۳۰)اردو تفاسیر ، ص ۲۵
(۳۱)المرجع السابق 
(۳۲)زاہد الحسینی ، تذکرۃ المفسرین ، ص:۱۷۰
(۳۳)حیات شیخ عبدالحق دہلوی، ص:۳۵،ہندوستانی مفسرین اور انکی عربی تفسیریں، ص:۳۷

بعثتِ نبوی ﷺ کے عصری مکاشفے

پروفیسر میاں انعام الرحمن

کم ہی لوگوں کو اس بات سے اختلاف ہو گا کہ اسلام کے ظہور کی صدی تاریخی ادوار کی تقسیم کے لحاظ سے زرعی دور میں شامل کی جا سکتی ہے۔ یہ ساتویں صدی کے بہت عرصہ بعد ہوا کہ صنعتی انقلاب جیسے طاقتور خارجی مظہر سے نوعِ انسانی کا واسطہ پڑا۔ اس انقلاب نے جہاں معاشی اعتبار سے ترقی کا راستہ ہموار کیا، وہاں انسانی زندگی کی ان قدروں کو بھی اتھل پتھل کر دیا جن کی بنیادیں زرعی دور کے انسانی رویوں میں پوشیدہ تھیں۔ اقدار کی تبدیلی سے طرزِ زندگی میں تبدیلی رونما ہوئی اور پھر نئے طرزِ زندگی نے انسانی رویوں کی ایک ایسی صورت کو جنم دیا جس سے آج ہمارا اپنا عہد (اکیسویں صدی ) نبردآزما ہے۔ قرآن مجید کو ناسخِ کتب الٰہیہ اور محمد رسول اللہ ﷺ کو نبی خاتم تسلیم کرتے ہوئے اگر ہم کتاب و سنت سے اس سلسلے میں راہنمائی لینے کی کوشش کریں تو یہ بنیادی سوال جنم لیتا ہے کہ بعثتِ نبوی ﷺ کے لیے خدائے ذوالجلال نے انسانی تاریخ کے زرعی دور اور خطہ عرب کو کیوں منتخب کیا؟ خدا غیب کا علم رکھنے والا ہے، مستقبل اس کی آنکھ سے پوشیدہ نہیں۔ آخر تاریخ کے زرعی دور میں ایسی کیا بنیادی خصوصیت ہے کہ ربِ کائنات نے آخری نبی مبعوث کرنے کے لیے صنعتی و اطلاعاتی انقلاب کے ادوار پر اسے ترجیح دی؟ نبی خاتم ﷺ کی بعثت اٹھارہویں یا اکیسویں صدی کے بجائے آخر ساتویں صدی میں اور خطہ عرب ہی میں کیوں ہوئی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ آج نوعِ انسانی جن مسائل کے سامنے مضطرب اور حیران و پریشان کھڑی ہے، ان کے دیرپا اور جامع و سنجیدہ حل کی اساس ، مذکورہ سوالات کے جوابات میں پوشیدہ ہے ۔ 
جہاں تک زرعی دور کا تعلق ہے، اس کی ایک خصوصیت، زمین سے وابستگی اور آسمان سے شکستگی میں پنہاں ہے ۔ اس دور کا انسان کسی زرخیز خطہ زمین سے اپنے تعلق کی مضبوطی کا خواہاں رہتا تھا۔ آسمان سے شکستگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے ایسی دیو مالا تخلیق کر ڈالی جس میں اپنی کمزوری اور آسمان کی قدرت کا فراخدلانہ اعتراف تھا ۔ دیو مالائی مظاہر کی انواع سے قطع نظر ، زرعی معاشروں کی مجموعی نفسیات آج بھی اسی صورت حال کی عکاسی کرتی ہے۔ بہر حال! زمین سے وابستگی کے آفاقی مظہر نے طرزِ معاشرت میں خاندان سے پیوستگی کو لائف سٹائل کی بنیادی قدر کے طور پر ابھارا ۔ خاندانی اقدار کی پیروی کیے بغیر کسی فرد کے لیے بھی خوشگوار بقا کا تصور محال تھا۔ کھیتوں میں محنت و مشقت کرتے پسینے میں شرابور ماں، باپ، بیٹے، بیٹیاں ، خاندان کی معاشی طاقت کی علامت سمجھے جاتے اور معاشرتی بود و باش میں خاندان کے اعلیٰ سماجی رتبے کا سبب بھی بنتے۔ یوں خاندان کی یکجائی زرعی دور کے طرزِ زندگی کا نمایاں وصف بنتی چلی گئی ۔ معاشی تگ و دو کے لیے کسی اور آپشن کی عدم موجودگی یا کمی کے باعث اولاد کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ ایسے طرزِ زندگی کی بابت سوچ بھی سکے جو والدین سے جدائی ، دوری اور معاشی خود کفالت جیسی اقدار پر مبنی ہو۔ لہٰذا یہ خاندانی نظام انتہاپسندانہ رجحانات رکھتا تھا اور اس میں باپ کی حیثیت ڈکٹیٹر کی سی تھی۔ خطہ عرب میں صورتِ حال قدرے مختلف تھی۔ یہاں کی صحرائی آب وہوا نے اپنے باشندوں کی زندگی میں زراعت کے ساتھ ساتھ ایک اہم ذریعہ معاش کے طور پر تجارت کو بھی داخل کر دیا تھی ۔ زراعت و تجارت کے امتزاج نے عرب معاشرت میں خاندانی نظام کو اس طرح پنپنے کا موقع نہیں دیا کہ باپ ڈکٹیٹر بن سکے ، اگرچہ زرعی عنصر نے اپنی فطری طاقت کے باعث خاندان کو ہی طرزِ زندگی کی بنیادی قدر قرار دلوایا۔ غالباً اسی معتدل و میانہ رو خاندانی نظام سے پھوٹنی والی معاشرتی نفسیات نے صحابہ کرامؓ کے لیے شاید آسانی پیدا کی کہ وہ خاندان سے بغاوت کر کے دینِ اسلام قبول کریں اور اپنے بھائی بندوں اور خاندان کے مقابل کھڑے ہوسکیں۔ اس کے برعکس ہندوستان میں انتہاپسندانہ خاندانی نظام نے مقامی باشندوں کے قبولِ اسلام کی راہ میں معاشرتی و نفسیاتی رکاوٹیں کھڑی کیں۔شاید اسی لیے اس علاقے کی اکثریت ابھی تک مشرف بہ اسلام نہیں ہو سکی۔ مسلمانوں کے ہاں، بالخصوص برِ صغیر میں، حالیہ جمود کی ایک بڑی وجہ بھی خاندانی نظام کے تحفظ اور بقا کے نام پر بے لچک ’والدینی‘ رویہ ہے ، جس نے فکرِ نو کی تمام راہیں مسدود کر رکھی ہیں۔ بہر حال ! خدائے ذوالجلال نے بعثتِ نبی خاتم ﷺ کے لیے جہاں زرعی دور کا انتخاب کیا، وہاں زمین کا بھی ایک ایسا ٹکڑا چنا جس میں زرخیزی کی قدرتی کمی کے باعث، ارضی وابستگی کی وہ انتہاپسندانہ روش نہیں پنپ سکتی تھی جو آسمان سے شکستگی پر ختم ہوتی تھی۔ مذکورہ الٰہیاتی حکمت کے مطابق خاتم النبیےین محمد مصطفی ﷺ نے ہجرت کا نہایت معنی خیز سفر اختیار کیا۔ ہجرت کے عمل نے جہاں واقعاتی حوالے سے زمین اور خاندان سے نسبت کی اس منفی رمق کا بھی قلع قمع کر دیا جو اسلام قبول کرنے والوں کے اذہان کے کونوں کدروں میں کہیں چھپی بیٹھی تھی، وہاں فکری لحاظ سے ایک نئے معاشرتی رویے کی بنیاد بھی رکھی کہ زمین اور خاندان سے وابستگی، انسانی زندگی کا محور نہیں ہے۔ لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ بعثتِ نبی خاتم ﷺ کے لیے تاریخ کے زرعی دور اور خطہ عرب کا انتخاب اپنے اندر یہ الہٰیاتی پیغام رکھتا ہے کہ انسانی زندگی کی معاشرتی بود و باش میں ( غیر ارضی اساس کے ساتھ) متوازن خاندانی نظام ، شجرِ سایہ دار کی مانند ہمیشہ موجود رہے۔ 
چونکہ قرآن مجید نے رسالت مآب ﷺ کو رحمت للمسلمین کے بجائے رحمت للعالمین ﷺ کی انتہائی جامع صفت سے موصوف کیا ہے، اس لیے اسی صفت کی واقعاتی و مکانی تصریح کی خاطر آپ کی بعثت ایک ایسے علاقے میں کی گئی جو اسلام کی عالمگیریت میں نہ صرف رکاوٹ نہ بن سکے بلکہ اسلامی عالمگیریت کے پھیلاؤ کے چند ناگزیر تقاضوں کی طرف واضح اشارہ بھی کر سکے۔ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ اسلام کے ظہور کے وقت خطہ عرب کی کوئی نمایاں سیاسی حیثیت نہیں تھی۔ یہاں بت پرستوں کی اکثریت تھی، لیکن یہودی اور عیسائی وغیرہ بھی آباد تھے ۔ روم اور ایران اس دور کی سپر پاورز تھیں۔ رومی، عیسائی تھے اور اہلِ فارس، مجوسی و آتش پرست تھے ۔ اب ذرا غور فرمائیے کہ اسلام کا ظہور اگر ایران یا روم میں سے کسی ایک خطے میں ہوتا تو دوسرا خطہ اسلام کو سیاسی حریف کے طور پر لیتا اور اسلام کی دعوت ایک خطے تک ہی محدود رہتی ۔ اگر اسلام اپنی داخلی خصوصیات کے بل بوتے پر دوسرے خطے میں سرایت کر بھی جاتا تو بھی اس خطے کے لوگوں کی نفسیات میں یہ تحفظات لازماً موجود رہتے کہ اسلام کی علاقائی توسیع کے پیچھے سامراجی عزائم کارفرما ہیں۔ اس کے بعد اس خطے کی لوک داستانوں میں اسلام کو حملہ آور اور مخالف فریق کے طور پر بیان کیا جاتا، جبکہ دوسری طرف جس خطے میں اسلام کا ظہور ہوا ہوتا، اس خطے کی سلطنت مذہبی تقدس کا لبادہ اوڑھ کر نہ صرف اپنے لوگوں کا جینا حرام کر دیتی بلکہ ساری دنیا کی نا م نہاد اصلاح کا بیڑہ اٹھا کر اقوام عالم کو اپنی چیرہ دستیوں اور ریشہ دوانیوں سے تباہ حال کر دیتی ( جیسا کہ آج کل امریکہ ، انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام پر پوری دنیا میں فساد برپا کیے ہوئے ہے) مدینے کے یہودیوں میں آپ ﷺ کی بعثت کی صورت میں اسلام کی حیثیت نسلی مذہب کی سی ہوتی۔ اس طرح اندازہ ہوتا ہے کہ رب العالمین نے رحمت للعالمین ﷺ کو کسی خاص حکمت کے تحت ہی خطہ عرب میں مبعوث فرمایا ۔ اس سلسلے میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ اسلام اپنے ظہور کے فوراً بعد اہلِ کتاب کے بجائے بت پرستوں کے مقابلے میں ’’ فریق ‘‘ کے طور پر سامنے آتا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد یہو د و نصاریٰ کے ساتھ اس کا ’’ تقابل و موازنہ ‘‘ شروع ہو جاتا ہے ۔ اب اگر اسلام کی ان دو حیثیتوں کو پیشِ نظر رکھا جائے کہ اسلام ’ فریق ‘ ہے اور اسلام کا ’ تقابل و موازنہ ‘ کیا جارہا ہے تو ہر دو کی بابت اسلام کا داخلی جواب کافی چونکا دینے والا معلوم ہوتا ہے۔ یہ جواب ’’ اقرا ‘‘ سے شروع ہوتا ہے ۔ جوں جوں اس جواب کی تفصیلات عرش سے نازل ہوتی رہیں ، توں توں اس وقت کی مسلم سوسائٹی میں ایک رویے کی آبیاری بھی ہوتی رہی۔ اس لیے جب نزولِ وحی کا سلسلہ ختم ہوا، اس وقت تک مسلم سوسائٹی کے بدن میں ایک خاص سماجی رویہ خون کی طرح سرایت کر چکا تھا ۔ 
اب مذکورہ نکات کے ایک پہلو پر ذرا گہری نظر ڈالیے کہ اسلام کا ظہور ایسے خطے میں ہوا جہاں وہ نہ صرف ’فریق‘ بنا بلکہ اس نے تقابل و موازنے کی راہ بھی ہموار کی ۔ روم و ایران میں سے کسی ایک خطے میں اسلام کے ظہور کی صورت میں اسلام صرف ’فریق‘ کے طور پر سامنے آتا اور اس کے لیے تقابل و موازنے کی علمی روایت قائم کرنا قطعی طور پر نا ممکن ہوتا۔ جو بھی نام نہاد علمی روایت قائم ہوتی، اس کی بنیادوں میں الزام تراشی، قومی عصبیت اور دوسروں پر لعن طعن جیسی خصوصیات لازماً شامل ہوتیں ۔ اور اگر اسلام کا ظہور کسی ایسے خطے میں ہوتا جہاں یہ کسی بھی قوم یا فکر کا فریق بن کر سامنے نہ آتا تو پھر اسلام، محرف عیسائیت کی مانند محض چند اخلاقی تعلیمات کا عنوان ہوتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خطہ عرب میں اس وقت کی واقعاتی صورتِ حال اس امتزاج کو مہمیز دینے والی تھی جو اسلام کو مطلوب و مقصود تھا ۔ یہ امتزاج ’’ مجادلہ اور مکالمہ ‘‘ جیسی خصوصیات سے عبارت تھا اور اس کا محور ’’ اقرا ‘‘ یعنی علم تھا ۔ یوں خطہ عرب میں ، ایک خاص زمانے میں، اسلام کے ظہور کی صورت میں ایک ایسی علمی روایت کی بنیاداستوار ہوئی جو امتزاجی خصوصیات سے مالا مال تھی۔ بت پرستوں کے مقابل میں ’اقرا‘ صرف ایک لفظ نہیں، بلکہ ان کے جہل کا حریف ایک ’ فریق ‘ ہے۔ یہ اقرا اسی طرح اپنی لفظی حیثیت سے ماورا ہوتے ہوئے ، اہلِ کتاب کی تحریفات کو رد کر کے ، تقابل و موازنے کی خالص علمی روایت کی بنیادیں استوار کرتا ہے ۔ اقرا بت پرستوں سے مجادلہ و محاکمہ کرتا ہے اور اہلِ کتاب سے مکالمہ کرتا ہے۔ یہی اقرا بدر و احد میں تلوار سونت کر میدان میں آ جاتا ہے، یہ بتانے کے لیے کہ جہاد بذاتِ خود مقصود نہیں، بلکہ حقیقت میں ایک ذریعہ ہے جسے ’ اقرا ‘ کی روشنی میں ہی اختیار کیا جاتا ہے ۔ یوں اقرا کبھی مجادلہ کی راہ دکھاتا ہے، کبھی محاکمہ کا طرز اپنانے کا درس دیتا ہے، اور کبھی مکالمہ کی طرف اشارہ کرتا ہے، وعلیٰ ہذا القیاس ۔ 
اسلام کے ظہور میں ’زمانی انتخاب ‘میں کیا حکمت پوشیدہ تھی ؟ اس حکمت کے بعض عظیم پہلو اور مظاہر ، اسماء الرجال اور علم حدیث میں موجود ’’علمی اپروچ ‘‘میں تلاش کیے جا سکتے ہیں ۔ کون نہیں جانتا کہ مسلم معاشرے کے اجتماعی ضمیرنے خاص سماجی رویے سے شہ پا کر قرونِ اولیٰ میں ہی ، مذکورہ بالا علمی روایت کی تطبیق میں ایک ایسے علم کی بنیاد رکھی جس کے دو بڑے ستون ’حافظہ‘ اور ’تحقیق‘ تھے ۔ ان دونوں ستونوں کے پیچھے نبی خاتم ﷺ کے مبارک زمانے میں تشکیل پانے والا سماجی رویہ پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھا ، کیونکہ ایک خاص سماجی رویے کے بغیر ، محض آلاتِ کار کے بل بوتے پر کسی ٹھوس علمی روایت کی بنیادیں استوار ہی نہیں کی جا سکتیں۔ بہرحال حافظہ انسان کی داخلی خوبی ہے اور تحقیق کا تعلق خارجی مظاہر کی بابت انسانی رویے میں پوشیدہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تحقیقی انسانی رویہ، انسان کی داخلی خوبی یعنی حافظہ پر ہی انحصار کرتا ہے۔ ذرا سوچیے کہ جس انسان کا حافظہ ہی نہ ہو ، کیا وہ تحقیقی کام کر سکتا ہے، بالخصوص ایسے دور میں جب حافظے کے متبادل ذرائع مثلاً پرنٹنگ پریس، سی ڈی وغیرہ بھی موجود نہ ہوں؟اس طرح معلوم ہو تا ہے کہ ربِ کائنات نے زمان کی وسعتوں میں سے ایک خاص زمانے کا انتخاب شاید اس لیے کیا کہ انسانی دنیا میں’’حافظہ و تحقیق پر مبنی علمی روایت‘‘ کی بنیاد جڑ پکڑ سکے۔ اگر نبی خاتم ﷺ کی بعثت ساتویں صدی کے بجائے بعد کی صدیوں میں ہوئی ہوتی تو حافظے کے متبادل ذرائع کی ایجادات کے باعث ایسی علمی روایت پروان نہیں چڑھ سکتی تھی جو ایک طرف انسان کی داخلی خوبی کی مرہونِ منت ہوتی اور دوسری طرف اس خوبی کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ تحقیق کو اپنا شعار قرار دیتی۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ قبل از اسلام کے عربی ادب میں شاعری پربہت زیادہ زور تھا ، جبکہ بعد از اسلام کے عربی ادب میں علم حدیث کے طفیل ہی صنف نثر کو پذیرائی ملی۔ اہل علم جانتے ہیں کہ شاعری ، تحقیقی صنف نہیں ہے بلکہ عقل و منطق کے اسالیب اور تحقیقی رویے نثر میں ہی پنپ سکتے ہیں۔ ( اقبال کی شاعری کو اقبالی فکر کا محور سمجھنے والے بھی اس نکتے کو پیشِ نظر رکھیں) صنفِ شاعری میں البتہ یہ خوبی ضرور موجود ہے کہ یہ انسانی حافظے سے خاص لگاؤ رکھتی ہے۔ دیوان کے دیوان لوگوں کو ازبر ہوتے ہیں ۔ صنفِ شاعری کی یہی خاصیت انسانی حافظے کو تقویت پہنچانے کا سبب بنتی ہے۔ اللہ رب العزت نے انسانی حافظے کی حفاظت کا اہتمام شاعری کے بجائے ’’ حفظِ قرآن ‘‘ کی روایت سے فرمایا اور اسی روایت کو علمی اسلوب عطا کرتے ہوئے علم حدیث کے لیے کشادہ راہ ہموار کر دی۔ حفظِ قرآن، بنفسہ علمی رویہ نہیں ہے لیکن یہ ایک عظیم علمی رویے کی اساس ضرور بنتا ہے ۔اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ قرآنی متن کا فہم شانِ نزول کی تفہیم سے مشروط نہیں ہے، لیکن اس کے بر عکس کسی حدیثِ رسول ﷺ کے متن کے فہم میں ، اس کے سیاق و سباق سے آگاہی کافی اہم اور ناگزیر ہو جاتی ہے ۔
اس بحث کا ایک قابلِ اعتنا پہلو یہ ہے کہ ربِ کائنات نے نبی خاتم ﷺ کی بعثت کے لیے جہاں ایک خاص زمانے کو باقی ادوار پر اور ایک خاص خطے کو دیگر خطوں پر ترجیح دی، وہاں ایک خاص زبان کا انتخاب کر کے اسے بھی دائمیت سے نوازا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عربی زبان میں داخلی لحاظ سے وہ کیا خوبی ہے جو اس کے انتخاب کا سبب بنی ؟ ہماری رائے میں وہ بنیادی سبب ’’ خاص ماحول ‘‘ ہے جس میں یہ زبان پلی بڑھی اور پھلی پھولی ۔ ذرا غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے صحرائی خطہ میں خارجی مظاہر کی نہ تو کثرت ہے اور نہ تنوع۔ خارجی مظاہر کی یہی قلت اور کم یابی اس امر کا سبب بنی کہ اس زمین کے باسی اپنی توجہ کا مرکز سوسائٹی اور انسان کو بنا سکیں۔ اگرچہ جھلستا ہوا ریگستان ان کی توجہ منتشر کرنے کو موجود تھا لیکن یہ اتنا بڑا چیلنج بن کر ان کے سامنے نہیں آیا تھا کہ وہ اسے exclusively توجہ کا مرکز و محور بنا ڈالتے ۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ ریگستان کے باسیوں نے انسانی زندگی میں پانی کی قدرو قیمت کی اہمیت کا بخوبی اندازہ کر لیا ۔ یوں خارجی ماحول سے ایک حد تک بے اعتنائی نے ، لسانی ارتقا کے دوران میں زبان کی بنیادی ساخت میں انسان ، سوسائٹی اور پانی کو قابلِ اعتنا بنا دیا ۔ اس لیے عربی زبان میں داخلی اعتبار سے اس خصوصیت نے جنم لیا کہ اس میں انسان، سوسائٹی اور پانی سے متعلق امور دیگر زبانوں کی بہ نسبت زیادہ فصاحت اور معنویت کے ساتھ بیان ہو سکیں ۔ چونکہ قرآن مجید کاموضوع انسان ہے اور انسان سوسائٹی ہی میں رہتا ہے اور نسل انسان کی بقا و ارتقا پانی کے بغیر محال ہے ، اسی لیے اللہ رب العزت نے اپنا وہ کلام جو قیامت تک رہنے والا ہے، عربی زبان میں نازل فرمایا۔ اگرچہ قرآن مجید میں خارجی مظاہر کا خاصا تذکرہ پایا جاتا ہے، لیکن یہ ایک تو دیگر امور کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ دوسرے، جہاں کہیں ان مظاہر کا ذکر موجود ہے، وہاں انھیں انسان سے relate کیا گیا ہے ، یہ بتانے کے لیے کہ ان کی اہمیت انسان کے مقابلے میں ثانوی اور انسان ہی کی نسبت سے ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلام ستاروں پر ایسی کمندیں ڈالنے کے حق میں نہیں ہے جو انسان سے related نہ ہوں۔ ہماری رائے میں دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد انسانی حقوق کی تحریکوں میں مسلسل اضافہ اور فلسفہ وجودیت کا اثرو نفوذ ،در حقیقت انسان کی ایسی بے وقعتی اور بے بضاعتی کے خلاف احتجاج اور ردِ عمل ہے جس میں انسان سائنسی ایجادات کا رکھیل بن کر رہ گیا ہے اور مظاہر فطرت کی تسخیر کے بعد خود بحیثیت نوع ، مفتوح ہو گیا ہے ۔ بے وقعتی اور بے بضاعتی کے اس کرب سے چھٹکارا ایک ایسی کتاب میں موجود ہے جس کی فقط زبان ہی انسان ، سوسائٹی اور پانی سے متعلق امور بیان کرنے کا غالب رجحان رکھتی ہے۔اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان جب تک زندہ ہے ، عربی زبان اور اس میں نازل ہونے والے شاہکار کلام یعنی قرآن مجید بھی زندہ ہے ۔

تتمہ 

کہا جا رہا ہے کہ دنیا میں تیسری عالمی جنگ چھڑنے میں پانی کے بحران کو کلیدی حیثیت حاصل ہو گی۔ آج ہمارا عہد جس طرح پانی کے بحران کے سامنے بے بس کھڑا ہے، اس سے نبی خاتم ﷺ کی ریگستانی علاقے میں بعثت خاصی معنی خیز ہو جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر مسلم تہذیب میں ، چاہے اس کا تعلق کسی بھی زمانے یا علاقے سے ہو ، داخلی اعتبار سے ایسی خصوصیات لازماً ہونی چاہییں جو انسانی زندگی میں پانی کی قدرو قیمت سے مزین ہوں۔ ہمیں اس پہلو سے اپنے تہذیبی لٹریچر کا تنقیدی مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ معاصرمسلم رویے پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے کہ اس کے ہاں انسان، سوسائٹی اور پانی سے متعلق اپروچ درست نہج پر ہے یا نہیں ۔ ہماری رائے میں کم از کم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس حوالے سے معاصر رویہ ، غیر ذمہ دارانہ اور غیر تسلی بخش ہے۔

خطبات کی روشنی میں اقبال کے افکار کا مختصر جائزہ

پروفیسر عابد صدیق

علامہ اقبالؔ نے مدراس مسلم ایسوسی ایشن کی دعوت پر ۳۰۔۱۹۲۹ء میں اِلٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیلِ جدید کے سلسلے کے چھہ خطبے تحریر کِیے، جن میں سے تین مدراس اور تین علی گڑھ میں پڑھے۔ میسور اور حیدرآباد دکن میں بھی بعض خطبات کا اعادہ کیا۔ پہلی بار یہ خطبے ۱۹۳۰ء میں لاہور سے شائع ہوئے۔ دوبارہ یہ خطبات بعض لفظی ترامیم اور ایک مزید خطبے کے اضافے کے ساتھ ۱۹۳۴ء میں انگلستان میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے ’’Reconstruction of Religious Thought in Islam‘‘ کے عنوان سے چھپے۔ یہ ساتواں خطبہ حضرت علامہ نے ارسطو سوسائٹی لندن (Aristotelian Society) کی دعوت پر ۱۹۳۲ء میں پڑھا۔
علامہ اقبالؔ کے یہ خطبات اسلامی حکمت اور مغربی فلسفہ کا نچوڑ ہیں۔ اِن خطبات میں حضرت علامہ نے موجودہ زمانے کے فکری مسائل اور فلسفیانہ موضوعات پر اسلامی حکمت کے حوالے سے تنقید بھی کی ہے اور مغرب کے جدید علوم کی روشنی میں حکمتِ اسلامیہ کے بعض اہم مسائل کی تشریح کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اور اپنے یقین کی حد تک حضرت علامہ نے کامیاب کوشش کی ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ کسی سوال کا قطعی جواب دینا فلسفہ کی حدود سے خارج اور اُس کی روح کے منافی ہے، البتہ فلسفہ موجود سوالات کو زیادہ قابلِ فہم انداز میں پیش کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے، اور مسائل کی تفہیم میں نئے ربط اور نئی ترتیب کے ذریعے اُن کے نئے رخ اور نئی جہات کی تلاش اس کے منصب میں داخل ہے۔ چناں چہ حضرت علامہ نے خطبات کے مقدمے میں فلسفے کی حدود اور طریقِ کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ: 
’..... فلسفیانہ افکار میں کوئی قطعیّت موجود نہیں ہوتی..... میرے پیش کردہ نظریات سے ممکن ہے بہتر اور مناسب نظریات پیش کِیے جائیں۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم فکرِانسانی کی روزافزوں ترقی کا بنظرِغائر مطالعہ کرتے ہوئے آزادانہ تنقید کا طریقِ کار اختیار کریں۔‘
حضرت علامہ نے اِن خطبات کی تیاری میں یہی طریقِ کار اختیار کرتے ہوئے انسانی فکر کا جو سرمایہ اُن تک پہنچا، اُس کی تنقید اور تنقیح کرکے مختلف فلسفیانہ مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، اور ایک مرتَّب نظامِ فکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو اسلامی اِلٰہیات کی جدید تعبیر پر مبنی ہے۔ علومِ جدیدہ کی اصطلاحات کی روشنی میں مذہبی واردات کے حوالے سے اسلامی اِلٰہیات کی یہ تشریح بذاتِ خود بہت مشکل کام تھا۔ مزید برآں یہ کہ حضرت علامہ نے اِس کام کے لیے نہایت ادَق اسلوب اختیار کیا۔ اِن خطبات کے اِس قدر مشکل انگریزی زبان میں تحریر کرنے کا سبب جب حضرت علامہ سے دریافت کیا گیا تو ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب کی روایت کے مطابق حضرت علامہ نے فرمایا: 
’مسلمانوں میں دین والا آدمی جب فلسفے کی اصطلاحوں میں بات کرتا ہے تو اُس کی بات میں وقار اور وزن پیدا ہوجاتا ہے۔ مگر محض فلسفے والا آدمی جب دین کی بات کرتا ہے تو اُس کی نہ فلسفیانہ حیثیت ہوتی ہے اور نہ دینی لحاظ سے اُس میں وزن۔‘
حضرت علامہ بلاشبہہ دین والے آدمی تھے۔ وہ مغربی فلسفیانہ افکار، جدید نظریات اور سائنسی انکشافات سے قطعاً مرعوب نہ تھے، اور وہ دنیا کے تمام نظام ہائے حیات پر دینِ اسلام کی فوقیت کا یقینِ کامل رکھتے تھے۔ اور وہ دانشِ برہانی کے ذریعے ہی دانشِ قرآنی کی عظمت، فوقیت اور قطعی صداقت کے صدقِ دل سے قائل ہوئے۔ حضرت علامہ کے ارشاد کے مطابق اِن خطبات کا ترجَمہ ’تشکیلِ جدید اِلٰہیاتِ اسلامیہ‘ کے نام سے کیا گیا۔ اِس نام کی وضاحت کرتے ہوئے سید نذیر نیازی لکھتے ہیں کہ: 
’’..... ’تشکیل‘ ایک نئی فکر کی تشکیل ہے۔ ’اِلٰہیات‘ عقل اور ایمان کا وہ نقطۂ اتصال ہے جس کی بناء، علم پر ہے۔ اور ’اسلام‘ محسوس حقائق کی اِس دنیا میں زندگی کا راستہ ہے۔‘‘ 
عنوان کی اِس تشریح سے علامہ کے اِن خطبات کے موضوع پر روشنی پڑتی ہے۔ فکر کی اِس نئی تشکیل کے مَباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ عقل کی بنیاد علم باالحواس ہے اور ایمان کی بنیاد علم بالوحی ہے۔ اور اسلام انسان کے فکری اِرتقا میں استقرائی عقل کا ظہور ہے۔ اقبالؔ عقل و فکر اور وجدان و ایمان کو ایک دوسرے کا معاون قرار دیتے ہیں۔
اسلامی فلسفے کی دنیا میں اِن خطبات کے مقام کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر اینماری شمل (Dr Annemarie Schimmel) نے Gabrial's Wing میں اور ڈاکٹر سید حسین نصر نے خطبات کے فارسی ترجَمے کے مقدمے میں اِن خطبات کو دوسری احیائے علوم الدین کہا ہے۔ یعنی جس طرح حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ نے احیائے علوم الدین میں اپنے زمانے کے تمام فلسفوں کا جائزہ لیتے ہوئے عقلی اور فلسفیانہ بنیادوں پر اسلام کی برتری ثابت کی تھی، وہی کام اِس دور میں حضرت علامہ نے کیا ہے۔ مذہب کو چند غیر عقلی اعتقادات و تبرکات کا مجموعہ سمجھنے کی جس غلطی میں مادہ پرست فکر کے حامل فلسفی اکثر گرفتار ہوجاتے ہیں، علامہ نے اُن کے افکار پر کڑی تنقید کی ہے اور بتایا ہے کہ دین یا اسلام ایک فعال تمدنی قوت کا نام ہے، جو انسانی زندگی کی تمام عملی و فکری ضروریات میں اُس کی رہنمائی کا فرض ادا کرتا ہے۔ اور اِسی بحث کے دوران میں وہ وسیع پیمانے پر فلسفہ، مابعدالطبیعیات، تاریخ، نفسیات، طبیعیات اور ریاضیاتی سائنس کے مشہور نظریات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اِن مَباحث میں اُن کا رویہ آزادانہ تنقید کا ہے۔ اِن علوم کے معلوم کی نفی کرنا اُن کا مقصود نہیں بلکہ معقول تفہیم و تشریح کے ذریعے اُس کی حدود کا تعین ہے۔ تلاشِ حقیقت کے سفر میں جدید علوم کا یہ معلوم جب فکرِانسانی کو خلاؤں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے تو علم بِالوحی انسان کی رہنمائی کے لیے آتا ہے۔ اِس طرح حضرت علامہ ذات و کائنات کے مسائل کے حل کے لیے روحانی واردات، مذہبی تجربہ اور وجدانی حقائق سے بحث کرتے ہیں، اور مختلف عنوانات کے تحت اِن مَباحث کو اپنے ساتوں خطبوں پر پھیلاکر نوعِ انسانی کی فکری رہنمائی کی کوشش کرتے ہیں،جس کے لیے ۱۹۰۸ء میں یورپ سے واپسی کے بعد سے ۱۹۳۸ء میں انتقال تک کے پورے عرصے میں وہ مسلسل بے تاب رہتے ہیں۔ اردو شاعری، پھر فارسی شاعری، اور پھر انگریزی کے یہ خطبات-- سب اُسی حکیمانہ شعور کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی کوشش ہیں جو اقبالؔ کو مسلسل غور و تدبر اور فکر و ذکر سے حاصل ہوا۔ اِن خیالات کی ترتیب و اظہار میں حضرت علامہ نے کس قدر دکھ اُٹھایا اور کیسے کیسے یاس انگیز لمحات میں اُنھوں نے اپنے دل میں جلنے والے اِس الاؤ کو سرد ہونے سے بچانے کے لیے جدوجہد جاری رکھی، اِس کا کچھ اندازہ ۱۹۰۹ء سے ۱۹۲۰ء تک کے اُن خطوط سے ہوسکتا ہے جو اُنھوں نے اِس عرصے میں اپنے دوستوں کو لکھے۔ ۱۹۰۹ء کے ایک خط میں لکھتے ہیں: 
’..... وہ خیالات جو میری روح کی گہرائیوں میں ایک طوفان بپا کِیے ہوئے ہیں، عوام پر ظاہر ہوں توپھر مجھے یقینِ واثق ہے کہ میری موت کے بعد میری پرستش ہوگی۔ دنیا میرے گناہوں کی پردہ پوشی کرے گی اور مجھے اپنے آنسوؤں کا خراجِ عقیدت پیش کرے گی۔‘ 
خیالات کے اظہار کی یہ تڑپ بالآخر ۳۰۔۱۹۲۹ء میں اِن خطبات کے لکھنے کا سبب بنی۔
اب اِن خطبات کے مَباحث کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے۔
پہلے خطبے ’’علم اور مذہبی مشاہدات‘‘ میں کائنات کی حقیقت، اور کائنات کی تغیرپذیری میں انسان کا منصب، کائنات اور خدا، کائنات اور انسان، انسان اور خدا کے باہمی رشتوں کا ذکر کرتے ہوئے اقبالؔ کائنات کے بارے میں فلسفہ اور مذہب کے رویہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ فلسفہ اور مذہب کے مشترک اور غیرمشترک امور سے بحث کرتے ہیں۔ پھر ظاہر اور باطن یعنی مرئی اور غیرمرئی حقائق یا عالمِ محسوسات اور عالمِ اَقدار و اَرواح کے بارے میں مختلف مذاہب کا طرزِعمل بیان کرکے بتاتے ہیں کہ قرآن مطالعۂ انفس و آفاق پر کیوں زور دیتا ہے۔ پھر حقیقت تک رسائی کے ذرائع کی حیثیت سے عقل و وجدان پر بحث کرتے ہیں۔ اِن مَباحث کے ذیل میں وہ بتاتے ہیں کہ ایمان محض جذبے یا تأثر ہی کا نام نہیں بلکہ اِس میں عقل کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مذہبی اصولوں کا انحصار معقولیت پسندی پر ہے۔ لیکن دین و ایمان کو عقل کی روشنی میں دیکھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اُن پر فلسفے اور عقل کے تفوق کو تسلیم کرلیا جائے۔ فکر اور وجدان ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک ہی سرچشمے سے فیض یاب ہیں۔ برگساں (Bergson) کا یہ کہنا درست ہے کہ وجدان عقل ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سقراط اور افلاطون محسوسات کے علم کو غیرحقیقی خیال کرتے ہیں، اِس لیے اعیانِ نامشہود (Invisible ideas) پرستار ہیں، جب کہ اسلام باطن کے ساتھ ساتھ ظاہر کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ اشاعرہ ۱؂ (Asharite Thinkers) کا نصب العین اسلام کے معتقدات اور اصولوں کی یونانی جدلیات (Dialectics) کی مدد سے حمایت کرنا تھا۔ کانٹ (Kant) نے انسانی عقل کی حدود واضح کیں، جب کہ غزالی عقلیت کی بھول بھلیوں سے نکل کر صوفیانہ واردات تک پہنچتے ہیں، جن سے عقل و فکر کی محدودیت اُن پر واضح ہوئی۔ البتہ وہ اِس حقیقت کو نہ پاسکے کہ عقل و وجدان آپس میں مربوط ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسلام کے اساسی تصورات کو فلسفیانہ انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اگر انسان ترقی پذیر زندگی کی حرکت کو محسوس نہ کرے تو اُس کی روح پتھر کی مانند سخت ہوجاتی ہے، اور انجامِ کار انسان بے جان مادے کی سطح پر آجاتا ہے۔ اِس لیے حقیقتِ مطلَقہ کے کلّی اِدراک کے لیے ہمیں حسّی علم کے علاوہ علمِ باطن بھی سیکھنا چاہیے۔ اگرچہ ہمارے پاس کوئی ایسا مؤثر سائنسی طریقِ کار نہیں ہے جس کی وساطت سے ہم صوفیانہ شعور کے عناصرِترکیبی کا تجزیہ کرسکیں۔ جب کہ صوفیانہ مشاہدہ ہی حقیقت کے کلّی علم کے حصول کا باعث بنتا ہے۔
دوسرے خطبے کا عنوان ’’مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار‘‘ ہے۔ اِس میں اُنھوں نے ہستی کے تین مدارج یعنی مادہ، حیات اور شعور پر مفصل بحث کی ہے۔ مادیت کی بحث میں اُنھوں نے نیوٹن (Newton)، زینو (Zeno)، اشاعرہ، ابنِ حزم، برٹرینڈ رسل (Bertrand Russell)، برگساں (Bergson)، آئن سٹائن (Einstein)، اور اوس پنسکی (Ouspensky) کے تصوراتِ زمان و مکان کا ذکر کیا ہے، اور پھر قرآنی تصورِزمان و مکان کا موازنہ ارسطو، آئن سٹائن اور میک ٹیگرٹ (McTaggart) کے نظریات سے کیا ہے۔ خدا کے وجود کے بارے میں کائناتی استدلال، غائتی استدلال اور وجودی استدلال کا جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ ہستیِ مطلق کے یہ تینوں ثبوت لائق تنقید ہیں۔ صرف قرآنِ حکیم ظاہر و باطن کی خلیج کو پاٹ کر اور وجود کی ثَنَویت (Dualism) کو ختم کرکے اُس حقیقتِ کاملہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بیک وقت ظاہر بھی ہے باطن بھی، اوّل بھی ہے آخر بھی۔
مادے کے قدیم نظریے یعنی زمان و مکان میں اُس کے مستقل بالذات ہونے کو آئن سٹائن نے باطل ٹھہرادیا۔ اقبالؔ وہائٹ ہیڈ (Whitehead) کے اِس نظریے سے اتفاق کرتے ہیں کہ فطرت کوئی جامد حقیقت نہیں بلکہ واقعات و حوادث کا ایسا مجموعہ ہے جو مسلسل تخلیقی رو کا مالک ہے۔ جب کہ نیوٹن کا نقطۂ نظر خالص مادی تھا۔ وہ مکان کو ایک آزاد خلا قرار دیتا ہے جس میں چیزیں معلق ہیں۔ زینو مکان کو لاتعداد ناقابلِ تقسیم نقاط پر مشتمل سمجھتا تھا۔ وہ حرکتِ مکانی کو ناممکن قرار دیتے ہوئے تیر کی مثال دیتا ہے کہ تیر حرکت کے دوران میں بھی جگہ کے کسی نہ کسی نقطے پر ٹھہرا ہوا ہوتا ہے۔ برگساں، ابنِ حزم، برٹرینڈرسل اور کینٹر (Cantor) وغیرہ نے زینو کے دلائل کو رد کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اقبالؔ اُن کی کوششوں کو کامیاب تصور نہیں کرتے بلکہ آئن سٹائن کے نظریۂ زمان کی وضاحت کرتے ہوئے اُس کے مکان کو حقیقی تصور کرنے کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن وہ اُسے دیکھنے والے کے مطابق اضافی خیال کرتا تھا۔ اِن پیچیدہ بحثوں کے بعد وہ شعور کی تعریف کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ شعور کا کام ایک ایسا نقطۂ نوری مہیّا کرنا ہے جو زندگی کی آگے بڑھنے والی حرکت کو منور کرسکے۔ شعور زندگی کے روحانی تنوع کا نام ہے۔ یہ مادہ نہیں بلکہ ایک تنظیمی اصول اور طریقِ عمل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سائنس حقیقتِ مطلَقہ کے جزئی اِدراک میں سرکھپاتی ہے جب کہ مذہب کلّی حقیقت کا مطالبہ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ زمان و مکان کی اِن نہایت مشکل بحثوں میں وہ بتاتے ہیں کہ شعوری زندگی حیات فی الزمان ہے۔ اور مکانی زمان میں بسر ہونے والی زندگی غیر حقیقی زندگی ہے۔ وہ اِن بحثوں میں کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شأن اور اَنَا الدَّھر کے حوالوں سے اسلامی تصورِزمان و مکان کی وضاحت کرتے ہیں، اور فطرت کو سُنَّتُ اللّٰہ قرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اِس کی نشوونما کی کوئی حد نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ فطرت کا علم دراصل خدا کے طریقِ عمل کا علم ہے۔ وہ مسئلۂ زمان و مکان پر مفصل بحث کرتے ہوئے آخر میں کہتے ہیں کہ وقت کے رازِسربستہ کو حل کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ خطبے کے اختتام پر وہ فلسفے کو پستی سے نکالنے کے لیے ذکر اور قربِ الٰہی کی ضرورت بیان کرتے ہیں، جسے مذہب کی اصطلاح میں دعا کہا جاتا ہے۔ وہ فکر و ذکر کے امتزاج پر زور دیتے ہیں۔
تیسرے خطبے ’’ذاتِ الٰہیہ کا تصور اور حقیقتِ دعا‘‘ میں وہ فرد کی تعریف اور انائے مطلق کی صفات پر بحث کرتے ہوئے سورۂ اخلاص اور سورۂ نور کا حوالہ دیتے ہوئے نورِایزدی کی مطلقیت کا ذکر کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ارادۂ تکوین اور فعلِ آفرینش ایک ہی ہیں۔ اس طرح وہ ثابت کرتے ہیں کہ کائنات کی اصل روحانی ہے۔ پھر زمان و مکان کے بارے میں وہ ملا جلال الدین دَوّانی، عین القضاۃ الھمدانی عراقی، برگساں اور پروفیسررائس (Royce) وغیرہ کے تصورات کا جائزہ لیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ زمانِ ایزدی زمانِ متسلسل سے بہتر ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مذہبی واردات عقلی معیار پر پوری اترتی ہے۔ اِس واردات کی اساس ایک تخلیقی مشیئیت ہے، جسے انائے مطلق کہا جاسکتا ہے۔ اور قرآن اِس انائے مطلق کی انفِرادیت ظاہر کرنے کے لیے اِسے ’اللہ‘ کا خاص نام دیتا ہے۔ توالد کا رجحان انفِرادیت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ چوں کہ انسانوں کے لیے توالد و تناسل ضروری ہے اِس لیے وہ افرادِکامل نہیں بن سکتے۔ فردِکامل صرف خدا ہی ہے۔ پھر وہ بتاتے ہیں کہ زمان و مکان، انائے مطلق کی تخلیقی سرگرمی کی فکری تعبیرات ہیں اور ہم انائے مطلق کے امکانات کو اپنے ریاضیاتی زمان و مکان کی شکل میں جزوی طور پر محسوس کرسکتے ہیں۔ خدا کے لیے کائنات کوئی ایسا واقعہ نہیں جو ماقبل اور مابعد پر مشتمل ہو۔ یعنی ارادۂ تخلیق اور فعلِ تخلیق دو مختلف چیزیں نہیں۔ وہ اشاعرہ کے اِس خیال کا جائزہ لیتے ہیں کہ لاتعداد جواہر مل کر مکان کی وسعت اور تخلیق کا باعث بنتے ہیں، اور جوہری اعمال کے مجموعے کا نام شے ہے۔ مکان میں سے جوہر کے گزر کو حرکت کہا جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اشاعرہ ابتدا اور انتہا کے درمیان واقع ہونے والے نقاط میں سے کسی چیز کے مرور کو اچھی طرح واضح نہیں کرسکے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جوہر صفتِ حیات کے حصول کے بعد مکانی نظر آتا ہے۔ اِس کی ماہیت روحانی ہے۔ نفس عملِ خالص ہے لیکن جسم ایک دیدنی اور پیمایش پذیر عمل ہے۔ زمانِ الٰہی مرور، تغیر، تواتر اور تقسیم پذیری سے عاری ہے۔ اِس ساری بحث کے آخر میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ جہاں تک وقت کی ماہیت اور اصلیت کا تعلق ہے، میں کوئی قطعی اور درست بات دریافت نہیں کرسکا۔
پھر وہ خیر و شر کا ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ ہستی جس کی حرکات و سکنات مکمل طور پر مشین کی طرح ہوں، نیکی کے کام نہیں کرسکتی۔ نیکی کے لیے آزادی شرط ہے۔ خدا نے انسانی خودی کو آزادیِ عمل کی نعمت سے سرفراز کیا ہے۔ اِس کے بعد وہ دعا کی وضاحت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خارجی دنیا سے بے زار ہوکر باطن میں پناہ لیتے ہوئے ہستیِ مطلق کا قرب حاصل کرنا دعا ہے۔ دعا کی بدولت ہماری شخصیت کا چھوٹا سا جزیرہ ایک دم بحرِبے کراں بن جاتا ہے۔ تلاشِ حقیقت میں فلسفہ بہت سست رفتار ہے جب کہ دعا برق خرام ہے۔
چوتھے خطبے ’’خودی، جبروقدر، حیات بعد الموت‘‘ میں حضرت علامہ خودی کی بحث کرتے ہیں اور انسان کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن کے مطالعے سے تین باتیں بالکل واضح دکھائی دیتی ہیں۔ پہلی یہ کہ انسان خدائی برگُزیدہ مخلوق ہے۔ دوسری یہ کہ انسان اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود زمین پر خدا کا نائب ہے۔ تیسری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ انسان آزاد شخصیت کا امین ہے جسے اُس نے خطرہ مول لے کر قبول کیا تھا۔ اِس خطبے میں وہ ماضی سے رشتہ منقطع کِیے بغیر اسلامی تعلیمات کو جدید علوم کی روشنی میں بیان کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، اور پھر خودی کی وضاحت کی طرف آجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خودی وابَستۂ مکان نہیں ہے۔ مثلاً یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ تاج محل کے حسن و جمال کے بارے میں میرا جذبۂ تحسین آگرہ سے مَسافت کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ اِسی طرح زمان بھی خارجی دنیا میں ماضی، حال اور مستقبل کی صورت اختیار کرنے کے باوجود اندرونی دنیا میں ناقابلِ تقسیم ہوتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ خلوت پسندی خودی کی یکتائی کا اظہار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شعوری تجربہ خودی کے روحانی جوہر کا صحیح سراغ نہیں دے سکتا لیکن اِس کے باوجود شعوری تجربے کی تعبیر ہی وہ شاہراہ ہے جس پر چل کر ہم خودی کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ پھر وہ بتاتے ہیں کہ نماز یا دعا دراصل خودی کا میکانیت یا جبر سے آزادی کی طرف گریز ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ تکرارِعمل مشین کا خاصہ ہے نہ کہ انسان کا۔ اگر ہر واقعہ نیا نہیں تو ہمارے لیے زندگی میں کوئی جاذبیّت باقی نہیں رہتی۔ بقائے ذات ہمارا پیدایشی حق نہیں بلکہ ہمیں اپنی ذاتی کوششوں سے اِسے حاصل کرنا پڑے گا۔ انسان صرف اِس کے لیے امیدوار ہے۔
پانچویں خطبے ’’اسلامی ثقافت کی روح‘‘ میں حضرت علامہ اسلامی کلچر کی روح کا ذکر کرتے ہیں ، اور نبوت اور ولایت کا فرق واضح کرتے ہیں۔ ولی کا منتہائے مقصود صرف ذاتِ ربّانی سے وصال ہے لیکن نبی اِس صعود کے بعد ہدایتِ عامہ کے لیے نزول کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پیغمبرِاسلام دنیائے قدیم اور دنیائے جدید کے درمیان کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے اِلہام کے سرچشمے کی بدولت عالمِ قدیم سے متعلق ہیں، لیکن اپنی اِلہامی سپرٹ کی وجہ سے عصرِحاضر سے مربوط ہیں۔ اُن کی بدولت زندگی نے اپنی نئی سمتوں کے مناسب علوم اور نئے سرچشمے دریافت کِیے۔ دراصل اسلام کا ظہور استقرائی عقل کا ظہور ہے۔ وہ فقہ کو اسلام کا اصولِ حرکت قرار دیتے ہیں جو اُسے سب زمانوں کے لیے کافی بنادیتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ قرآن کی رو سے حصولِ علم کے تین ذرائع ہیں: باطنی مشاہدہ، مطالعۂ فطرت اور تاریخ۔ وہ بتاتے ہیں کہ جس ثقافت کا نقطۂ نظر یہ ہو، زمان و مکان اُس کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ابنِ خلدون نے سب سے پہلے اسلام کی ثقافتی تحریک کی روح کو شدت کے ساتھ محسوس کرکے اُسے منظم طور پر بیان کیا ہے۔
خطبۂ ششم ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ میں حضرت علامہ اسلام کے اصولِ حرکت یعنی فقہ کا تفصیلی ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ملتِ اسلامیہ ہی کو قیادتِ عالم سزاوار ہے۔ اسلام اپنے حرکی نظریۂ حیات اور تصورِتوحید کی وجہ سے تمام زمانوں کو محیط اور بنی نوعِ انسان کی وحدت کا ذمہ دار ٹھہرتا ہے، اِس لیے اسلام ہی کسی قوم کو قیادتِ اقوام کا اہل بناتا ہے۔ وہ فقہی جمود کا جائزہ لیتے ہیں اور اِس کے اسباب میں عقل پرستی کی تحریکوں، راہبانہ تصوف اور سیاسی انتشار کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دین اور سیاست دو مختلف حقیقتیں نہیں بلکہ اسلام کی واحد حقیقت کے شُءُون ہیں۔ وہ عقیدۂ توحید کو بنی نوعِ انسانی کی وحدت کا ذریعہ قرار دیتے ہیں، جو مصنوعی امتیازاتِ رنگ و نسل وغیرہ کو مٹاکر ساری انسانیت کو ملتِ واحدہ بناسکتا ہے۔ پھر وہ قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس-- یعنی اَدِلّہ شرعیہ پر بحث کرتے ہیں، جن کی وجہ سے اسلام کا ہر زمانے اور کل انسانیت کے لیے منبعِ ہدایت ہونا ممکن ہے۔
آخری خطبے ’’کیا مذہب کا امکان ہے؟‘‘ میں حضرت علامہ مشرق و مغرب کی اقوام کی زبوں حالی کا تذکرہ کرتے ہوئے مذہب کو اِس تمام تشتت و افتراق سے نکلنے کا واحد ذریعہ قرار دیتے ہیں اور خودی کا نصب العین واضح کرتے ہوئے خودی کی حامل جماعت کا نائبِ حق ہونا ظاہر کرتے ہیں، اور فرسودہ تصوف اور لادین اشتراکیت و قومیت کی بے سوادی اور ناکامی کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ خودی کا مقصد اثباتِ ذات قرار دیتے ہیں اور نائبِ حق جماعت کا فریضہ اور زمانی نصب العین یہ بتاتے ہیں کہ وہ خدا کی وحدانیت و حاکمیت کی ترجُمانی کرتی رہے۔

سر سید احمد خان اور تاریخی افسانے

یوسف خان جذاب

ماہنامہ الشریعہ کے ستمبر ۲۰۰۵ءکے شما رے میں ’’تا ریخی افسا نے اور اُ ن کی حقیقت ‘‘ کے عنوا ن سے میرا ایک تا ثر اتی مضمو ن شا ئع ہوا تھا جو دراصل پر وفیسر شا ہد ہ قا ضی صاحبہ کے مضمو ن (الشریعہ، مئی ۲۰۰۵) سے شروع والے سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اکتوبر ۲۰۰۵ ء کے شمارے میں ضیا ء الد ین لا ہوری صاحب نے میر ے مضمو ن کے جواب میں ایک تحریر لکھی ہے، تا ہم ان کا جوا ب میر ے مضمو ن کے فقط ایک حصے سے متعلق تھا، اسی لیے انھو ں نے اسے ’’سر سید کے بار ے میں تار یخی افسا نو ں کی حقیقت‘‘ کا عنو ان دیا ۔ اگر چہ لا ہور ی صا حب کو سید صا حب کے بار ے میں میر ی رائے سے اختلا ف ہے، تاہم مضمون کے بنیادی مدعا سے انھوں نے اتفاق ظاہر کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں
’’سر سید کے بار ے میں ایسی با تو ں کو بھی حقیقت کے روپ میں پیش کر نے کی کو شش کی گئی ہے جو خود تا ریخی افسانوں کے ضمن میں آ تی ہیں۔‘‘ ( الشر یعہ ،اکتو بر ۲۰۰۵، صفحہ۲۱) 
بلاشبہ سید صا حب کی شخصیت کے گر د عقید ت کا ایک خو ل چڑھا دیا گیاہے، لیکن ایسا خول کس ’’مسلم شخصیت‘‘ کے گر د مو جود نہیں؟ یہ تو مسلما نو ں کی موروثی بیما ری ہے کہ عقید ت کے زیر اثر وہ اپنی پسندیدہ شخصیات کی اجتہا دی لغزشوں کو بھی بڑ ھا چڑ ھا کر پیش کر تے ہیں۔ یہ اس امت کا المیہ ہے ۔ ان شخصیتو ں نے خو د کبھی اپنے آپ کو تنقید سے بالاتر قرار نہیں دیا۔ یہ ہم ہیں جو انھیں زمین سے اٹھا کر آ سمان پر بٹھا دیتے اُور اُ ن کی ہر با ت کو وحی کا درجہ دے دیتے ہیں ۔ عظیم شا عر رحمان با باؒ نے اس رویے کی عکاسی یوں کی ہے : ’’میں نے اُن درویشو ں کی پرواز کا مشا ہد ہ کیا ہے جو ایک قد م اُ ٹھا کر عر ش کو چھو لیتے ہیں ۔ ‘‘
میں نے اپنے مضمو ن میں صو فیا ئے کر ام کے حوالے سے اس حقیقت کی طر ف اشار ہ کیا تھا ، تاہم صو فیا ئے کر ام پر بس نہیں، ہمار ے علما ے کرا م کا حال بھی یہی ہے کہ اند ھی تقلید اور عقید ت کے گہر ے جذبات کے تحت ائمہ کر ام کی ہر با ت کو حر ف آ خر تصور کر تے ہیں اور مولانا مفتی محمد شفیع کے الفاظ میں حد یث کو بھی ’حنفی‘ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف سید صاحب ہی کی شخصیت کو بڑ ھا چڑ ھا کر پیش نہیں کیا گیا، یہ ملمع کار ی ہر بڑی مسلم شخصیت پر ہو ئی ہے۔ سید صاحب تو ماضی قریب کی شخصیت ہیں اور اُن کی شخصیت پر چڑھایا جانے والا گرد وغبار نسبتاًکم ہے۔ ور نہ جو ں جو ں ہم ما ضی میں سفر کرتے جاتے ہیں، مسلم شخصیتو ں کے گرد عقیدت وتقدس کے افسانوی ہا لے نمایا ں ہو تے چلے جا تے ہیں۔ میں دوسر ی مسلم شخصیتو ں کی ملمع کار ی کو سید صا حب کے حوالے سے وجہ جو از نہیں بنا رہا، میرا مد عا صرف یہ ہے کہ سید صاحب کا معاملہ کو ئی استثنا ئی معاملہ نہیں ۔ 
سیدصا حب ایک ذہین انسا ن تھے اور انسا نی دماغ سے لغز شیں اور خطا ئیں سر زد ہو تی ہیں، اس لیے انہو ں نے جو کچھ کہا اور لکھا، اسے حر ف آ خر کا در جہ نہیں دیا جا سکتا ۔ اُ ن کی با تیں درست بھی ہو سکتی ہیں اور غلط بھی۔ تاہم ایک نقاد کا فر ض بنتا ہے کہ جب وہ کسی شخصیت پر قلم اُٹھا ئے تو پہلے اس کے موقف اور فکر کی اس کے زاویہ نگاہ سے دیانت دارانہ طریقے سے وضاحت کرے اور پھر دلائل کی روشنی میں اُس کی درستی یا نا درستی کو واضح کر ے۔ کسی کے موقف کی استدلالی غلطی کو واضح کرنے کے بجائے اس کی نیت اور ذا ت پر حملہ آور ہو نا ایک غیر علمی اور غیر سنجیدہ رویہ ہے اور نقاد کے دائر یہ کا ر سے با ہر ہے۔ کو ئی شخص کوئی کا م کس محرک کے تحت کر تا ہے، اس کا تعلق نیت جاننے سے ہے اور نیتوں سے خدا ہی واقف ہے۔ خد ا سے ڈرنے والے عا لم کبھی اس دائرے میں قدم رکھنے کی جسارت نہیں کرتے۔ اسی لیے حضر ت مو لا نا قا سم نانوتوی نے سر سید کے خلا ف کفر کے فتو ے پر دستخط نہیں کیے۔ محترم لا ہور ی صا حب نے اپنی تنقید میں اس اصو ل کا خیا ل نہیں رکھا ۔ انہوں نے اپنے مضمو ن میں اور خصو صاً سر سید کے متعلق اپنی کتا بو ں میں اُ ن کی شخصیت کے متعلق بعض قطعی فیصلے صادر کیے ہیں ، حالانکہ انھیں کو چاہیے تھا کہ وہ سید صاحب کے مذکورہ موقف کے پس منظر میں کارفرما ان کے بنیادی فکری استدلال کو واضح کر کے اس پر تنقید کرتے اور پھر قار ی کو مو قع دیتے کہ وہ ان سے اتفاق یا اختلا ف کر ے۔ 
میں نے لکھا تھا کہ سید صا حب پر انگر یز وں کی وفاداری اور مجا ہد ین آزادی کی مخبر ی کا الزا م لگا نا سر اسر ظلم اور نا انصا فی ہے۔ اس کے جو اب میں لا ہور ی صا حب نے مکتو با ت سر سید سے یہ فقرے نقل کیے ہیں کہ 
’’بڑا شکر خد ا کا ہے کہ اس نا گہا نی آ فت میں جو ہندو ستا ن میں ہوئی، فد وی بہت نیک نا م اور سر کار دولت مدار انگر یزی کا طر ف دار اور خیر خواہ رہا ۔‘‘ ( الشریعہ ، اکتو بر ۲۰۰۵،صفحہ ۲۱ ) 
پھر بتاتے ہیں کہ انہیں اس خیر خواہی کا صلہ انعا م وا کرام کی صور ت میں ملا۔ لاہور ی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ علی گڑ ھ تحر یک کا واحد مقصد انگر یز وں کی و فادار ی تھا۔ اس کے حق میں انھوں نے سید صاحب کا درج ذیل اقتباس نقل کیا ہے :
’’ہندوستان میں برٹش گورنمنٹ خد ا کی طرف سے ایک رحمت ہے۔ اس کی اطا عت اور فر ما نبر داری او ر پور ی وفاداری اور نمک حلالی، جس کے سا یہ عا طفت میں ہم امن و اما ن کی زند گی بسر کرتے ہیں ۔ خدا کی طر ف سے ہمار ا فر ض ہے۔ میر ی یہ رائے آ ج کی نہیں بلکہ پچا س ساٹھ بر س سے میں اس رائے پر قا ئم اور مستقل ہوں۔ ‘‘ ( ص ۲۲) 
میں نے اپنے مضمو ن میں اگر سرسید صاحب پر انگریزوں کی وفاداری کے الز اما ت کو’’ظلم اور نا انصا فی‘‘ قرار دیا تو اس سے میرا مطلب یہ تھا کہ ان الزاما ت کے حوالے سے سر سید کا موقف صحیح تناظر میں پیش نہیں کیا گیا۔ تنقید میں پس منظر کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اگر تنقید میں فقط ’’مجر د حقا ئق‘‘ پیش کیے گئے ہوں اور ان ’’حقا ئق‘‘ کا رشتہ تاریخی وواقعاتی سیا ق و سبا ق سے کاٹ دیا گیا ہو تو ایسی تنقید علمی لحاظ سے کوئی وزن نہیں رکھتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر لکھنے والے والے کا اپنا ایک زاویہ نگاہ ہو تا ہے جس کے تحت وہ لکھتا ہے۔ سید صا حب بھی باقا عد ہ ایک فکر ی نظام کے تحت لکھ رہے تھے۔ انگر یزوں کے حوالے سرسید صاحب کا موقف ان کے رائے میں ایک مذ ہبی اساس رکھتا تھا، جیسا کہ ’’ہمارا مذ ہبی فر ض ہے ‘‘ اور ’’ خد ا کی طرف سے ہمارا فر ض ہے‘‘ کی قسم کے جملو ں سے واضح ہے۔ اپنی ’’تفسیر القرآن‘‘ میں وہ لکھتے ہیں : 
’’ اسلام فساد اور دغا اور غدروبغا وت کی اجا زت نہیں دیتا۔ جس نے اُن کو امن دیا ہو، مسلما ن ہو یا کا فر، اس کی اطا عت اور احسان مندی کی ہد ایت کر تا ہے ۔ کا فرو ں کے سا تھ بھی جو عہد و اقرار ہوئے ہو ں، ان کو نہا یت ایما ن داری سے پورا کر نے کی تا کید کر تا ہے ۔ خود کسی پر ملک گیر ی اور فتو حا ت حا صل کر نے کو فو ج کشی اور خو نر یز ی کی اجا زت نہیں دیتا ۔ کسی قو م یا ملک کو اس غر ض سے کہ اس میں با لجبر اسلام پھیلا یا جا وے، حملہ کر کے مغلو ب و مجبور کر نے کو پسند نہیں کر تا ، یہا ں تک کہ کسی ایک شخص کو بھی اسلام قبو ل کر نے پر مجبور کر نا نہیں چا ہتا ۔ صرف دو صورتوں میں اسے تلوار پکڑ نے کی اجازت دی ہے ۔ ایک اس حالت میں جبکہ کافر اسلام کی عد اوت سے اور اسلا م کو معد وم کر نے کی غر ض سے ، نہ کسی ملکی اغر اض سے ، مسلما نو ں پر حملہ آور ہوں۔ کیو نکہ ملکی اغر اض سے جو لڑ ائیا ں واقع ہو ں، خواہ مسلما ن مسلما نو ں میں ، خواہ مسلما ن و کا فرو ں میں ، و ہ دنیا وی با ت ہے ۔ مذ ہب سے کچھ تعلق نہیں ہے ۔ دوسر ے جبکہ اس ملک یا قوم میں مسلما نو ں کو اس وجہ سے کہ وہ مسلما ن ہیں ، ان کی جان و ما ل کو امن نہ ملے اور فر ائض مذ ہبی کے ادا کر نے کی اجا ز ت نہ ہو ۔۔مگر اس حا لت میں بھی اسلا م نے کیا عمدہ طر یقہ ایما نداری کا بتا یا ہے کہ جو لو گ اس ملک میں جہا ں بطور رعیت کے رہتے ہو ں، یا امن کا علا نیہ یا ضمناً اقرار کیا ہو اور گو صر ف بو جہ اسلام ان پر ظلم ہو تا ہو تو بھی ان کو تلوار پکڑ نے کی اجا زت نہیں دی ۔ یا اس ظلم کو سہیں یا ہجر ت کر یں یعنی اس ملک کو چھو ڑ کر چلے جا ویں ۔ ہا ں جو لو گ خو د مختار ہیں اور اس میں امن لیے ہو ئے یا بطور رعیت کے نہیں ہیں، بلکہ دوسر ے ملک کے با شند ے ہیں، ان کا ان مظلو م مسلمانوں کے بچا نے کی جن پرصر ف اسلا م کی وجہ سے ظلم ہو تا ہے یا ان کے لیے امن اور ان کے لیے ادائے فر ض مذ ہبی کی آ زادی حا صل کر نے کو ، تلوار پکڑ نے کی اجاز ت دی ہے۔لیکن جس وقت کو ئی ملکی یا دنیا وی غر ض اس لڑا ئی کا با عث ہو، اس کو مذ ہب کی طرف نسبت کر نے کی کسی طر ح اسلام اجا ز ت نہیں دیتا۔‘‘ ( بحوالہ نقش سر سید، ضیا ے الدین لا ہور ی ، صفحہ ۶۹)
سید صا حب ایک دور اند یش آ دمی تھے ۔ انہیں انگر یزی استعمار کی طا قت کا علم تھا ۔ اس لیے وہ معروضی حالات میں ان کی اطا عت کا مشور ہ دیتے تھے۔ زما نہ دراز تک انگر یزی حکومت کے دوام کی خواہش سے بھی ان کا مقصد مسلما نو ں اور انگر یزوں کے در میان بے اعتمادی کی خلیج کو پا ٹنا اور فا تح ومفتو ح کے در میان اعتماد کی فضا کو بحا ل کر نا تھا ۔ انہیں مسلمانوں کی پسما ند گی کی درست وجہ معلو م تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ انہو ں نے زیا دہ زور مسلما نو ں کی تعلیم پر دیا۔ علی گڑ ھ تحریک حقیقی معنو ں میں ایک علمی تحر یک تھی۔ سید صا حب عقل پر ست تھے ۔ اس عقل پر ستی نے انہیں دور اند یش بنا دیا۔ اپنے مذ ہبی مطا لعے نے انہیں اس نتیجے پر پہنچا دیا کہ کام نتیجہ رخی (Result Oriented) ہو نا چا ئیے ۔ بے نتیجہ ٹکراؤ کا کو ئی فائدہ نہیں۔ چنا نچہ اس جذ بے کے تحت انہو ں نے مسلما نو ں کو اطا عت فر نگ کا مشورہ دیا اور ان کی توجہ کا رُ خ تعلیم کی طر ف مو ڑنے کی کوشش کی۔ 
مولانا خلیل احمد سہارنپوری، جو دیوبندی مکتب فکر کے ایک جید عالم دین اور حدیث کی مشہور کتاب سنن ابو داؤد کے شارح ہیں، اسی طرح کے ایک اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’آپ نے انگریزوں کی نسبت اعتراض فرمایا ہے کہ ابتداے سلطنت سے انگریزوں کا مطمح نظر حرارت ایمانی کا قلوب سے سلب کرنا تھا جو انھوں نے متعدد اور مختلف طریقوں سے اپنے مقصود کے حاصل کرنے کی تدبیریں کیں اور اس میں کامیاب ہو گئے اور من جملہ ان تدبیروں کے علی گڑھ کالج کی بنا بھی ہے کہ جس کے بانی نے حب مال وجاہ کی آڑ میں ترقی دنیا کا سبز باغ دکھلا کر مسلمانوں کے دلوں سے وہ تنفر اور توحش عن النصاریٰ بالکل نکال دیا جو اسلام کے لیے روح رواں تھا۔ اس کے متعلق مجھ کو اسی قدر عرض کرنا ہے کہ آپ غور فرماویں کہ یہ قصور کس کا ہے۔ نصرانیوں کا قصور ہے یا آپ کا؟ اجی صاحب وہ تو تمھارے دین کے دشمن ہیں، وہ جو کچھ کریں تھوڑا ہے۔ اس میں تو آپ اپنی شکایت کیجیے کہ آپ نے کیوں ان کا اثر قبول کر لیا۔ اور اگر غور کر کے دیکھو تو فی الحقیقت جس زمانہ میں انگریز ہندوستان میں آتے ہیں، اس وقت اسلامی سلطنت ہندوستان میں برائے نام رہ چکی تھی اور پنجاب میں سکھوں کا نہایت تسلط ہو گیا تھا۔ اگر انگریز ان کا قلع قمع نہ کرتے تو آج تمام ہندوستان میں سکھوں کا ڈنکا بجتا۔ ان کا طرز حکومت جو کچھ تھا اور جو کچھ وہ اسلام اور اسلامیات کی مزاحمت کرتے تھے، وہ آپ سے مخفی نہیں۔ اگر خدا نخواستہ ہندوستان پر ان کی سلطنت ہو جاتی تو آج مسلمانوں سے بھنگیوں اور چماروں کی طرح بیگار لی جاتی۔
میرے خیال میں تو خدا کی رحمت مسلمانوں پر ہوئی کہ انگریز آئے اور انھوں نے سکھوں کا قلع قمع کیا اور ایک مہذب سلطنت قائم ہو گئی جس نے مذہب کی آزادی کو اپنا اولیں فرض قرار دیا۔ یہ تو آپ کو بھی معلوم ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں کے دماغ سلطنت کے قابل نہ رہے تھے اور اگر عام مسلمانوں نے کچھ قلیل سی کوشش کی بھی ، کیونکہ تقدیر موافق نہیں تھی، کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔ علاوہ ازیں آپ الزام انگریزوں کے سر لگاتے ہیں کہ انھوں نے تدبیریں کر کے ہندوستانیوں سے حرارت وغیرت ایمانی کو سلب کر دیا۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ترکی ومصر میں جہاں مسلمانوں کی بڑی زور کی سلطنت تھی، وہاں کس نے غیرت ایمانی کو سلب کر دیا تھا؟ کیا ہم نے ہی تم کو یہ تعلیم کیا تھا کہ تم ہمارے برے اوصاف تو لے لیجیو او رخبردار ہمارے بھلے اوصاف کو مت چھونا۔
رہا بانی علی گڑھ کا قصہ، ا س کا جواب بھی اس ہی تقریر سے پیدا ہو سکتا ہے۔ بانی علی گڑھ کی نیت کا علم خدا ہی کو ہے کہ اس نے اس کالج کی بنا کس نیت پر ڈالی۔ اگر اس کی نیت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں میں سے حرارت وغیرت ایمانی سلب ہو جاوے تو اس کا محاسبہ خدا تعالیٰ شانہ کے یہاں ہے اور اگر اس کی یہ نیت نہیں تھی بلکہ اس کی نیت محض دنیاوی ترقی تھی جس طرح میں گزشتہ تقریر میں عرض کر آیا ہوں تو پھر فرمائیے کہ یہ ہمارا ظن کیا ظن فاسد نہیں ہوگا؟‘‘ (ماہنامہ الصیانہ، لاہور دسمبر ۲۰۰۲، ص ۹۱، ۲۰)
دیوبندی مکتب فکر کے ایک دوسرے جید عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں:
’’سید احمد بڑے حوصلے کا آدمی تھا، مگر انھوں نے خواہ مخواہ دین میں ٹانگ اڑا کر اپنے آپ کو بدنام کیا، ورنہ ان کو تو لوگ دنیا کا تو ضرور ہی پیشوا بنا لیتے۔ بڑے محب قوم تھے۔ دین میں رخنہ اندازی کرنے کی وجہ سے لوگ ان سے نفرت کرنے لگے تھے۔ اسی سے نقصان ہوا۔ ....... یہ جو مشہور ہے کہ وہ انگریزوں کا خیر خواہ تھا، یہ غلط ہے بلکہ بڑا دانش مند تھا۔ یہ سمجھتا تھا کہ انگریز برسر حکومت ہیں۔ ان سے بگاڑ کر کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ ان سے مل کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات حکیم الامت، ج ۱۱، ص ۲۶۷۔ ۲۶۹)
جہا ں تک اس با ت کا تعلق ہے کہ سر سید مجا ہد ین آزادی کی مخبر ی کر تے رہے تو لا ہور ی صا حب کے دلا ئل سے یہ با ت ثا بت نہیں ہو تی۔ ان ئل سے زیا دہ سے زیا دہ یہ با ت سا منے آ تی ہے کہ سرسید مسلما نو ں کی ان مسلح کا روائیو ں کو بنظر حقار ت دیکھتے تھے ۔ خفیہ خط و کتا بت سے ہر گز یہ مطلب اخذ نہیں ہو تا کہ وہ جاسو سی کے مجر م تھے۔ وہ ہر حا ل میں انگر یزی حکو مت کے خیر خواہ تھے اور یہ وفادار ی اورخیر خواہی ، جیسا کہ اوپر بیا ن کیا گیا ، ان کی مسلما نیت اور مذ ہبیت کا ثمر ہ تھا۔ سر سید صا ف اور کھر ے انسا ن تھے۔ وہ اس با ت کو اپنی مذ ہبیت اور مسلما نی کے خلا ف تصور کر تے تھے کہ ایک طر ف حکو مت کی نو کر ی کریں اور دوسر ی طرف در پر دہ ا ن کے خلا ف سر گرم عمل ر ہیں ۔ لفظ ’’ نمک حر ام‘‘ سے واضح ہو تا ہے کہ بغاوت کرنے والے دوغلی پا لیسی اختیار کیے ہو ئے تھے۔ بد قسمتی سے دور انحطاط میں مسلما ن اغیار کو دھو کا دینے کو بھی اخلا قیا ت میں شمار کر تے ہیں۔ سر سید اس قسم کی اخلا قیا ت کی مخا لف تھے چنا نچہ لکھتے ہیں:
’’ جہاد مسلما نو ں کا ایک مذ ہبی مسئلہ ہے۔اس کے قواعد ایسے قا عد ے پر مبنی ہیں جس میں ذرا بھی دغا اور فر یب اور غدر و بغاوت اور بے ایما نی نہیں۔‘‘ ( بحو الہ افکار سر سید، از ضیا ء الد ین لا ہور ی ، صفحہ ۲۲۳)
سر سید نے جن لو گو ں کو باغیوں سے بچا یا، دو جو ہ کی بنیا د پر ان کو بچانا صحیح تھا ۔ اول یہ کہ سر سید ان کے نوکر تھے اور دوم یہ کہ یہ لو گ سول انتظا میہ سے متعلق تھے اور مسلما نو ں کے سا تھ حا لت جنگ میں نہیں تھے ، اس لیے ان پر ہا تھ اٹھا نا اسلا می جنگی اخلا قیا ت کے منا فی تھا۔ تاہم یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ سر سید احمد خان نے مجا ہد ین آ زادی کو جو گا لیا ں دی ہیں، وہ ناقابل دفاع ہیں اور اس کے لیے وہ ہ رب العزت کی بارگاہ میں جواب دہ ہو ں گے ۔ 
لا ہور ی صا حب نے علما کی طرف سے سر سید کی مخالفت کا سبب واضح کرتے ہوئے شیخ اکر ام کا مند رجہ ذیل پیر اگراف نقل کیا ہے:
’’ان کی سب سے زیا دہ مخا لفت اس وقت ہو ئی جب انہوں نے تہذ یب الا خلا ق جا ری کیا اور ان مذ ہبی عقا ئید کا اظہار کیا ، جنہیں عا م مسلما ن تعلیم اسلا می کے خلا ف اور ملحدانہ سمجھتے تھے۔ مثلاًشیطا ن ، اجنہ اور ملا ئیک کے و جو د سے انکار، حضر ت عیسیٰ ؑ کے بن با پ پید ا ہو نے یا زند ہ آسمان پر جا نے سے انکار ، حضر ت عیسیٰ ؑ اور حضر ت مو سیؑ کے معجز ات سے انکار وغیرہ وغیرہ۔‘‘ (الشریعہ، اکتوبر ۲۰۰۵، ص ۲۴)
یہ درست ہے کہ مذکورہ امور سے متعلق سرسید کی را ئے جمہور علما ے کر ام سے جد ا ہے اور انہوں نے ان مخلو قا ت اور معجزا ت کے حوالے سے عقلی طور پر تاویل کی راہ اختیار کی ہیں ، تاہم شیخ اکرا م کی اس بات سے مکمل اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ علما نے سر سید کی مخا لفت فقط مذ ہبی نظر یا ت کی بنا پر کی۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہے کہ اِ ن نظریات کی بنا پر انھوں نے ان کی مخالفت کی۔ اس کے علاوہ علما مغربی تعلیم کے بھی مخالف تھے۔ اُنھوں نے لوگوں کو اِس حد تک اس سے برگشتہ کیا تھا کہ وہ انگریز وں کے مادی فوائد کی چیزوں سے بھی نفرت کرتے تھے۔ اکبر الہ آبادی کی شاعری مسلمانوں کے اِ س رجحان کی غمازی کرتی ہے۔ مولانا وحیدالدین خان نے لکھا ہے کہ جب ہندوستان میں ریل کی پٹڑیاں بچھائی جانے لگیں تو اس دور کے لو گوں نے اسے لو ہے کی زنجیر یں پھیلا نے کے مشا بہ قرار دیا۔ پچھلے دنو ں میر ے ایک سا تھی نے وزیر ستا ن کے چند سفید ریشو ں کا حال بیا ن کیا کہ وہ بجلی کے تارو ں کوانگر یز وں کی چا ل با زی سمجھتے تھے اور وہ سڑ کو ں اور ہر قسم کے ترقی یا فتہ کا مو ں کے دشمن تھے۔ اکابر اور معاملہ فہم علما کا موقف ممکن ہے مختلف ہو، لیکن انگر یز ی تعلیم کے بار ے میں علما کے عمومی رویے کی عکاسی پشتو کے ان اشعار سے ہوتی ہے جو سینہ بسینہ ایک نسل سے دوسر ی نسل کو منتقل ہو رہے ہیں۔ ان کا ترجمہ یہ ہے: ’’ جو کوئی سر کار ی مدرسے میں سبق پڑ ھے گا، وہ دوزخ میں غوطے کھا ئے گا اور جو کوئی درس نظا می کا طا لب علم ہے، وہ جنت میں شہد کھا ئے گا۔‘‘
اس کے علاو ہ سرسید اپنے سیاسی نظریات کے لحاظ سے کانگرس کے سخت مخالف تھے جبکہ علما ے کر ام مذکورہ پارٹی کی لیڈ ر شپ کا دم بھر تے تھے۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی رقم طراز ہیں : 
’’ علما کی طرف سے سر سید احمد خان کی مخا لفت کی سب سے بڑ ی و جہ انڈین نیشنل کانفر نس اور کا نگر س میں مسلمانوں کی شر کت کے خلا ف سر سید احمد خان کا مو قف تھا ۔ سر سید احمد خان مسلما نو ں کو علیحدہ قو م سمجھتے تھے ۔ ۱۸۸۳ء میں بلد یا تی اداروں کی نما ئند کے مسلہ پر جد ا گا نہ انتخا ب کا پہلا نعرہ سر سید ہی نے لگا یا تھا ۔ جبکہ دیو بند کے علما ء نے وطنی قو میت کی بنیاد پر مسلما نوں کی کا نگر س میں شر کت کو از روئے اسلام جا ئز قرار دیا تھا ۔ ۱۸۸۷ء میں علما ئے لدھیا نہ نے انڈین نیشنل کا نفر نس میں مسلما نو ں کی شرکت کے حق میں علما ے کر ام سے بڑ ے پیما نہ پر فتو یٰ حا صل کیا ۔ اس فتو یٰ کی تفصیلا ت ر سالہ نعر ہ الا برار (۱۸۹۰ ) میں در ج ہیں۔ اس فتو یٰ پرسو علما ء کے دستخط ہیں " ( ا حیا ئے علو م ، لا ہو ر، نو مبر ۲۰۰۵ ء صفحہ ۲۷)
سر سید کے سب سے بڑ ے مخا لف مو لا نا ابو الکلا م آ زاد کی ۱۹ فروری ۱۹۴۹ ؁ء کی تقر یر کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے جس میں وہ سر سید کی سیا سی فکر کا گلہ یو ں کر تے ہیں :
’’ مسلما نو ں کے اس سیاسی تعطل کے لیے اگر چہ مختلف اسبا ب جمع ہو گئے تھے لیکن اس کی سب سے بڑ ی ذمہ داری مر حو م سر سید احمد خان کی سیا سی رہنما ئی پر تھی جواس تعلیمی ادارے کے با نی اول تھے۔ انہو ں نے ۱۸۸۶ ؁ء میں مسلما نا ن ہند کو نہ صرف کا نگر س سے علیحد ہ رہنے کا مشور ہ دیا بلکہ سیا سی حقو ق کے تما م مطا لبو ں کی مخا لفت پر آمادہ کر دیا۔‘‘( بحوالہ مو لانا آ زاد ، سر سید اور علی گڑ ھ از محمد ضیا الدین انصار ی ، صفحہ ۶۷) 
سر سید کی اس سیا سی فکر کی ایک کڑ ی ترکی کی خلا فت تھی جس کے وہ مخا لف تھے ۔ ڈاکٹر علی صدیقی نے لکھا ہے:
" علما ے دیوبند کے لیے سر سید احمد خان کی مخا لفت کی ایک و جہ عثمانی خلیفہ کو عا لم اسلام کا روحا نی سر براہ ما ننے سے انکار بھی ہے۔‘‘ ( احیا ئے علوم ، لا ہو ر ، نو مبر ۲۰۰۵ء، صفحہ ۲۷ ) 
مند ر جہ با لا بحث سے پتہ چلتا ہے ۔ کہ سر سید کی مذ ہبی نظر یا ت کے علا وہ کچھ دیگر عو امل بھی تھے ۔ جس کی و جہ سے وہ علما ء کی نظر میں بمثل خار تھے۔ شیخ محمد اکرام کی یہ با تیں چو نکہ وز ن دار نہیں تھیں اس لیئے مو ج کوثر کے بعد کے ایڈ یشنو ں میں نہیں ملتی ہیں۔

کیا ’قارون‘ اور ’قورح‘ ایک ہی شخصیت ہیں؟

محمد یاسین عابد

’الشریعہ‘ دسمبر ۲۰۰۵ء میں ’’اسلام کا نظریہ مال ودولت قصہ قارون کی روشنی میں‘‘ کے زیر عنوان ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی صاحب کا مضمون نظر سے گزرا۔ اس مضمون کے بعض مندرجات ہمارے نزدیک محل نظر ہیں جن کی وضاحت درج ذیل سطور میں کی جا رہی ہے۔
بہت سے علما کی طرح ڈاکٹر صاحب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر (القصص ۷۶۔۷۹، العنکبوت ۳۹، المومن ۲۴) قارون نامی جس سرمایہ دار کا ذکر ہے، وہ وہی شخصیت ہے جس کا نام بائبل میں (گنتی ب ۱۶ و ۲۶:۱۰، خروج ۶: ۲۱، ۱۔تواریخ ۶:۲۲) قورح بتایا گیا ہے۔ یہ بات درست نہیں۔ بائبل کے معروف عالم جناب محمد اسلم رانا مرحوم نے ماہنامہ ’المذاہب‘ لاہور (جون ۱۹۹۰) میں اس کی تفصیلی وضاحت فرمائی ہے۔ 
ڈاکٹر ندوی اپنے مذکورہ مضمون میں لکھتے ہیں:
’’تورات میں بھی قارون کا ذکر ہے، لیکن اس میں اس کا ذکر بالکل مختلف انداز سے ہے۔ اس میں اس کی فراوانی دولت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو متنبہ (Challenge) کیا تھا اور کہا تھا کہ تم اپنے آپ کو اللہ کا برگزیدہ بندہ کہتے ہو اور میں بھی برگزیدہ ہوں کیونکہ مال ودولت میں تم سے زیادہ ہوں۔ (تورات، کتاب گنتی، اصحاح ۱۶)‘‘
ہماری گزارش یہ ہے کہ ’قارون‘ نام پوری بائبل میں کہیں بھی درج نہیں۔ گنتی کے باب ۱۶ میں قورح کا ذکر ضرور ہے، لیکن جیسا کہ ہم واضح کریں گے، اس کا قارون سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب قورح بن اضہار بن قہات بن لاوی بن یعقوب کو ہی قارون قرار دے رہے ہیں تو بھی تورات میں اس کی فراوانی دولت کا کوئی ذکر نیں اور نہ کبھی قورح نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مخاطب ہو کر یہ کہا کہ ’’میں مال ودولت میں تم سے زیادہ ہوں۔‘‘ معلوم نہیں ڈاکٹر صاحب نے یہ بات تورات کی طرف کیسے منسوب کر دی۔
ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’تورات کی مذکورہ کتاب اور اسی فصل میں قارون کے خزانے کی تفصیل میں ہے کہ ’’اس کے خزانے کی کنجیاں چمڑے کی تھیں اور تین سو اونٹوں پر لادی جاتی تھیں۔......... یہاں تورات کا بیان غلط معلوم ہوتا ہے کہ چمڑے کی کنجیوں میں اتنا وزن نہیں ہوتا۔‘‘
یہ عبارت بھی گنتی باب ۱۶ میں نہیں ہے بلکہ ہمیں تو پوری کوشش کے باوجود پوری بائبل میں کہیں نہیں مل سکی۔ غالباً ڈاکٹر صاحب نے کبھی بائبل کھول کر نہیں دیکھی اور سنی سنائی اور غیر مستند معلومات کی بنیاد پر مذکورہ عبارت تورات کی طرف منسوب کر دی۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کا قارون اور بائبل کا قورح دو الگ الگ شخصیتیں ہیں۔ علما کو مغالطہ غالباً اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ دونوں شخص حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد میں تھے، دونوں کا تعلق آپ کی قوم سے تھا، دونوں ہی خطاکار تھے اور دونوں کو زمین میں دھنسا دیا گیا ہے۔ تاہم اس کے مقابلے میں متعدد قرائن ایسے ہیں جو ہمارے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد محترم کا نام عمرام تھا (خرج ۶:۲۰) جبکہ قورح، اضہار کا بیٹا تھا۔ (خروج ۶:۲۲) اضہار، عمرام کا چھوٹا بھائی تھا اور دونوں قہات بن لاوی بن یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ (خروج ۶:۱۶۔۱۸ و ۱۔تواریخ ۲:۱) گویا قورح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر ایمان رکھتا تھا، یہی وجہ تھی کہ اس نے مصر میں اپنا گھربار اور شہری حقوق وسہولیات چھوڑ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہجرت کی او ربحر قلزم کو عبور کیا۔ تمام بنی اسرائیل کی نشست وبرخاست خدا اور اس کے نبی حضر ت موسیٰ کے زیرفرمان ہی ہوتی تھی۔ (گنتی ۹:۲۳) قورح، داتن، ابیرام،اون اور ان کے دوسرے ساتھی بھی ہر عمل میں اپنی قوم کے ساتھ تھے۔ بچھڑے کی پوجا کے واقعے میں یہ اشخاص شرک میں مبتلا ہونے والے گروہ کے خلاف اور حضرت موسیٰ وہارون کے ساتھ تھے۔ اس واقعے میں بنی لاوی نے تمام مشرکین کو قتل کیا تھا۔ (خروج ۳۲:۲۸) اسی وجہ سے بنی لاوی کو بنی اسرائیل میں ایک ممتاز حیثیت حاصل ہو گئی تھی (گنتی ۸:۱۴) اور ہو خدا کے چنے ہوئے لوگ ٹھہرے۔ یہاں تک قورح ایک گم نام شخص ہے۔
اس کے بعد ایک اہم واقعے میں قورح کی شخصیت نمایاں ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بنی لاوی میں سے بنی ہارون کو ایک ایسا اعزاز سونپ دیا گیا جو دوسرے لاویوں کو حاصل نہیں تھا۔ (خروج ۲۸: ۲ و ۳ و ۴۰۔۴۲، ۲۹:۱۔۹، گنتی ۱۸:۱۔۷) خیمہ اجتماع کی خدمت کا حق تو لاویوں کو مل گیا، لیکن مذبح اور پردہ کے اندر کی خدمت صرف بنی ہارون انجام دے سکتے تھے۔ تورات میں ہے:
’’کہانت کی خدمت کا شرف میں تم کو بخشتا ہوں اور جو غیر شخص نزدیک آئے، وہ جان سے مارا جائے۔‘‘ (گنتی ۱۸:۷) 
ہارون اور بنی ہارون کی اس عزت افزائی پر قورح حسد میں مبتلا ہو گیا اور اس نے ۲۵۰ آدمیوں کی جماعت کو اپنے ساتھ ملا کر بنی ہارون کی کہانت پر اعتراض کیا۔ اس نے کہا:
’’تمھارے تو بڑے دعوے ہو چلے۔ کیونکہ جماعت کا ایک ایک آدمی مقدس ہے اور خداوند ان کے بیچ رہتا ہے سو تم اپنے آپ کو خداوند کی جماعت سے بڑا کیونکر ٹھہراتے ہو؟‘‘ (گنتی ۱۶:۳)
بنی اسرائیل میں خاندان کی سرداری پہلوٹھے بیٹے کو ملتی تھی۔ (پیدایش ۲۵:۳۱۔۳۴، استثنا ۲۱:۱۷، خروج ۲۲:۲۹) روبن حضرت یعقوب کو پہلوٹھا ہونے کی وجہ سے سرداری کا حق دار تھا (پیدایش ۳۷:۲۲) لیکن اپنی سوتیلی ماں سے زنا کی پاداش میں ا س حق سے محروم کر دیا گیا۔ (پیدایش ۴۹:۳۔۴، ۱۔تواریخ ۵:۱۔۲) بنی روبن کو اس سے بڑی خجالت کا سامنا تھا، اس لیے وہ بنی لاوی کی تقدیس پر تو خاموش رہے لیکن جب بنی لاوی میں سے قورح کو بنی ہارون کے خلاف باغی پایا تو بنی روبن میں سے الیاب کے دونوں بیٹے داتن اور ابیرام اور پلت کا بیٹا اون بھی مخالفت میں پیش پیش ہو گئے۔ انھوں نے مصر کو دودھ اور شہد کی سرزمین قرار دیا اور حضرت موسیٰ وہارون پر اعتراض کیا کہ انھوں نے بنی اسرائیل کو دودھ اور شہد کی سرزمین یعنی کنعان میں پہنچانے کا جھانسا دے کر یہاں ویرانوں اور بیابانوں میں لا پھینکا ہے۔ (گنتی ۱۶:۱۳۔۱۴) اس پر قورح ، ابیرام، داتن اور اون کو زمین نگل گئی اور ۲۵۰ باغیوں کو آگ نے بھسم کر دیا۔ (گنتی ۱۶:۳۱۔۳۵) 
اب ہم قرآن مجید کے قارون کو دیکھتے ہیں۔
قرآن مجید کے بیان کے مطابق قارون قوم موسیٰ میں سے تھا اور بے انتہا دولت کا مالک تھا۔ اس نے اپنی دولت کی حفاظت، قرضوں کے لین دین اور سودکے حساب کتاب کے لیے منشیوں، خزانچیوں، مسلح پہرے داروں، سپاہیوں اور عاملوں ایک پورا نیٹ ورک بنا رکھا تھا۔ (۲۸:۷۶) جبکہ بقیہ قوم بنی اسرائیل غلامی، مفلسی اور بیگار میں پس رہی تھی۔ قارون اپنی قوم کے خلاف ہو کر فرعون کے مصاحبوں میں شامل ہو گیا۔ وہ اپنی قوم کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا اور زیب وزینت والے شاہانہ لباس پہن کر اور سواریوں پربیٹھ کر غریب اسرائیلیوں کے سامنے اتراتا تھا۔ جب قوم اسے اللہ کے احسانات پر اس کا شکر ادا کرنے اور غربا پر احسان کر کے اپنی آخرت سنوارنے کا مشورہ دیتی تو وہ شیخی بگھار کر کہتا کہ یہ سب مال دولت اس نے اپنے علم اور منصوبہ بندی سے حاصل کیا ہے۔ (القصص ۷۸) قرآن کے بیان کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون اور ہامان کے ساتھ ساتھ قارون کی طرف بھی مبعوث کیے گئے تھے۔ (۲۹:۳۹)
قارون نے کبھی حضرت موسیٰ کی نبوت کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ اس نے فرعون اور ہامان کی ہم نوائی میں حضرت موسیٰ کو ساحر اور کذاب کہا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قارون کا ذکر کافروں میں کیا ہے۔ (۴۰:۳۲۔۲۵) اپنے اسی تکبر اور کفر کی وجہ سے قارون اللہ کے غضب کا شکار ہوا اور اسے اس کے سارے خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ (۲۸:۸۱)
اس تقابل سے واضح ہے کہ قورح نے تو ہجرت کی، جنگلوں اور بیابانوں کی خاک چھانی، بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کے خلاف جہاد کیا، لیکن آخر بنی ہارون کی تقدیس سے حسد کا شکار ہو کر اللہ کے نبی کا گستاخ ہو گیا اور برابری کا دعویٰ کرنے لگا جس کی پاداش میں اسے جیتے جی زمین میں دھنسا دیا گیا۔ اس کے برعکس قارون نہ ایمان لایا نہ اس نے ہجرت کی، بلکہ مصر ہی میں حالت کفر میں زمین میں دھنس کر آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بن گیا۔ دونوں مجرم تھے، دونوں خداکے غضب کا شکار ہوئے اور دونوں کو زمین میں دھنسا دیا گیا، لیکن ان مشابہتوں کے باوجود بہرحال یہ دونوں الگ الگ شخصیتیں تھیں۔ ان کو ایک قرار دینا کسی طرح درست نہیں۔

ماہنامہ ’الشریعہ‘ اور جناب جاوید احمد غامدی

آصف محمود ایڈووکیٹ

(۱)
کیا جناب جاوید احمد غامدی مرزا غلام احمد قادیانی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور کیا تعبیر دین میں وہ مرزا غلام احمد کی متعین کردہ راہوں کے راہی ہیں؟ جناب مولانا زاہد الراشدی جیسے جید عالم دین کی زیر نگرانی شائع ہونے والے ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے مطابق اس کا جواب اثبات میں ہے۔
چھڑکے ہے شبنم آئینہ برگ گل پر اب
اے عندلیب وقت وداع بہار ہے
’’الشریعہ ‘‘کسی دوسرے درجے کے رسالے کا نام نہیں، بلکہ مبالغہ نہ ہو تو میں اسے پاکستان کے چند نمایاں ترین علمی جرائد میں شمار کروں گا۔ جناب عمار خان ناصر بڑی محبت سے ہر ماہ مجھے اس کا شمارہ بھیجتے ہیں جسے میں پورے اہتمام کے ساتھ پڑھتاہوں۔ عمار خان ناصر اس کے مدیر بھی ہیں اور یہی بات میرے لیے باعث حیرت ہے کہ جو جریدہ عمار خان ناصر جیسے سنجیدہ نوجوان کی زیر ادارت شائع ہوتاہو، جس کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی ہوں اور جس کی سرپرستی مولانا سرفراز خان اور مولانا عبد الحمید سواتی جیسی شخصیات کررہی ہوں، اس میں اتنی سطحی چیز کس طرح شائع ہوگئی جو اگر شام کو شائع ہونے والے کسی اخبار کے مدیر کو بھیجی جاتی تو وہ بھی اسے شائع کرنے کی بجائے ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کرتے۔
مذہبی طبقے کے ہاں اختلاف کبھی بھی حدود کے اندر نہیں رہ سکا۔ جہاں فہم دین کا اختلاف ہو، وہیں کفر کے فتوے سامنے آگئے۔ مولانا مودودی جیسے جید عالم دین تک کو نہیں بخشا گیا اور ایک ’مودودی سو یہودی‘ جیسے نعرے اس ملک کی سڑکوں پر لگائے گئے۔ ’’شکوہ‘‘ لکھنے پر اقبال کو دین سے خارج کردیا گیا اور قائد اعظم جیسی شخصت کو بھی ’کافر اعظم‘ کے خطابات سے نوازا گیا۔ دین کی محبت کا یہ اظہار جب اپنے جوبن پر ہوتاہے تو پھر فکری زوال اتنا شدید ہوجاتاہے کہ ہمیں ہر چیز سازش نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ پھر اسرار عالم جیسی شخصیت دعویٰ کرتی ہے کہ لڑکی کا کار ڈرائیو کرنا یہودی سازش ہے اور ’الشریعہ‘ میں شائع ہوتاہے کہ جاوید غامدی ،مرزا غلام احمد کے راستے پر چل رہے ہیں۔
دلیل کبھی ہمارا سرمایہ ہوتی تھی اور ہمارے اہل علم کے درمیان اختلاف بھی اسی وجہ سے رونما ہوتا تھا۔ آج بھی ہم ائمہ اربعہ کے اختلافات کو پڑھیں تو گاہے دونوں جانب سے اتنے مضبوط دلائل ملتے ہیں کہ آدمی حیرت زدہ ہو کر سوچتاہے کہ کس کو اختیار کرے اور کس کو نہ کرے۔ جاوید غامدی صاحب پر یہ الزام پڑھ کر میں نے فوری طور پر صاحب مضمون کے دلائل جاننے کی کوشش کی۔ میری خوش قسمتی کہ صاحب مضمون نے اہتمام کے ساتھ لکھا کہ ان ان دلائل کی وجہ سے وہ جملہ متجددین کو مرزا قادیانی کی راہ کا راہی سمجھتے ہیں۔ ذرا یہ چارج شیٹ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے:
یہ متجددین حدود قوانین پر تنقید کرتے ہیں۔ یہ سیکولر سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور اداروں کی مدد کرتے ہیں۔جو تنظیمیںآزادی نسواں کی تحریکیں چلاتی ہیں، ان کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ اہل مغرب سے ہمیں مفاہمت کرنی چاہیے کیونکہ وہ اہل کتاب ہیں۔ آخر حضر ت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام ہمارے بھی تو پیغمبر ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ مغرب نے اسلامی اصول اپنا لیے ہیں، اس لیے وہ غالب اور بالادست ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ حدیث اور سنت میں فرق ہے ۔یہ خاندانی منصوبہ بندی کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ موسیقی کی حمایت کرتے ہیں ۔ان کے مطابق مسلمانوں کے انحطاط کی وجہ ان کی مادی انحطاط ہے۔
اگر اس چارج شیٹ کی وجہ سے جناب غامدی پر یہ الزام عائد کیا جا سکتاہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی راہوں کے راہی ہیں تو پھر اطمینان رکھیے آپ نے دین کی خدمت کا حق ادا کردیا۔ آج صرف جاوید احمد غامدی نہیں، اس ملک کی غالب اکثریت کے یہی خیالات ہیں۔ خود میرے جیسا طالب علم کہتاہے کہ حدود آرڈیننس صحیفہ جہالت ہے۔ میرے اسلامی یونیورسٹی اسلام آبادکے کئی پروفیسر حضرات حدیث وسنت کے فرق سے لے کر خاندانی منصوبہ بندی تک اسی موقف کے قائل ہیں جس کی پاداش میں جاوید صاحب سمیت جملہ متجددین کو مرزا غلام احمد قادیانی کی راہوں کا راہی قرار دیا گیا ہے۔ جرم اگر یہی ہے تو اس ملک کی تقریباً ۵۰فیصد آبادی اس کا ارتکاب کرتی ہے، اور ہم جیسے طالب علم تو ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔ تو کیا ہم سب غلام احمد قادیانی کے پیروکار ہیں؟ میں اپنی بات ایک بار پھر دہرادوں کہ اس ملک میں کبھی سیکولرازم آیا تو اس کے ذمہ دار اہل مذہب ہوں گے جن کا فہم دین اتنا ناقص ہوجائے گا کہ معاشرے کے سنجیدہ لوگ اسے قبول نہیں کرپائیں گے۔
(بشکریہ روزنامہ ’جناح‘ لاہور)
(۲)
(’الشریعہ‘ بحث ومباحثہ اور آرا وافکار کے تبادلہ کے لیے ایک فورم ہے جس میں مختلف نقطہ ہائے نظر اور ان پر تنقید وتبصرہ شائع ہوتا رہتا ہے اور خود ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر ، مدیر اورمجلس ادارت کے دیگر ارکان کی آرا پر بھی سخت اور تیز وتند تبصرے اس کے صفحات پر چھپتے رہتے ہیں۔ بطور ایک ادارے کے’ الشریعہ‘ جناب جاوید احمد غامدی کے بہت سے افکار وخیالات سے اختلاف رکھتا ہے، تاہم قارئین جانتے ہیں کہ ’الشریعہ‘ کے نقطہ نظر کی ترجمانی کرنے والی کسی بھی تنقید میں کبھی طعنہ بازی اور الزام تراشی کا پست اسلوب اختیار نہیں کیا گیا۔ ۲۰۰۱ میں مولانا زاہد الراشدی اور جناب جاوید احمد غامدی کے حلقہ فکر کے اہل قلم کے مابین روزنامہ ’جنگ‘، روزنامہ ’اوصاف‘ اور روزنامہ ’پاکستان‘ کے صفحات پر بعض اہم مباحث پر ایک سنجیدہ علمی مکالمہ ہوا تھا جو بعد میں مزید اضافوں کے ساتھ ماہنامہ ’اشراق‘ اور ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں بھی شائع ہوا۔ اس مکالمے میں مولانا زاہد الراشدی کے رویے اور اسلوب تحریر کو خود جناب غامدی صاحب اور ان کی ترجمانی کرنے والے اہل قلم نے سراہا تھا اور اسے علمی بحث ومباحثہ کا ایک مثالی نمونہ قرار دیا تھا۔ ذیل میں بعض تحریروں کے اقتباسات نقل کیے جا رہے ہیں۔ غامدی صاحب کے طرز فکر پر بطور ایک ادارے کے ’الشریعہ‘ کی رائے وہی ہے جو ان تحریروں میں بیان ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ’الشریعہ‘ کے صفحات پر شائع ہونے والی دیگر تنقیدوں کے ذمہ دار خود ان کے مصنفین ہیں۔ مدیر)

’’جاوید احمد غامدی صاحب ہمارے محترم اور بزرگ دوست ہیں۔ صاحب علم ہیں، عربی ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں، وسیع المطالعہ دانش ور ہیں اور قرآن فہمی میں حضرت مولانا حمید الدین رحمہ اللہ تعالیٰ کے مکتب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ..... حضرت مولانا حمید الدین فراہی برصغیر پاک وہند کے سرکردہ علماے کرام میں سے تھے۔ مولانا شبلی نعمانی کے ماموں زاد تھے۔ ان کے اساتذہ میں مولانا شبلی کے علاوہ مولانا عبد الحئ فرنگی محلی، مولانا فیض الحسن سہارن پوری اور پروفیسر آرنلڈ شامل ہیں۔ دینی درسیات کی تکمیل کے بعد انھوں نے جدید تعلیم بھی حاصل کی اور بیک وقت عربی، اردو، فارسی، انگلش اور عبرانی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ حیدر آباد دکن کے دار العلوم کے پرنسپل رہے جسے بعد میں ’’جامعہ عثمانیہ‘‘ کے نام سے یونیورسٹی کی شکل دے دی گئی اور کہا جاتا ہے کہ دار العلوم کو ’’جامعہ‘‘ کی شکل دینے میں مولانا فراہی کی سوچ اور تحریک بھی کارفرما تھی۔ بعد میں حیدر آباد کو چھوڑ کر انھوں نے لکھنو کے قریب سرائے میر میں ’’مدرسۃ الاصلاح‘‘ کے نام سے درس گاہ کی بنیاد رکھی اور قرآن فہمی کا ایک نیا حلقہ قائم کیا جو اپنے مخصوص ذوق اور اسلوب کے حوالے سے انھی کے نام سے منسوب ہو گیا۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، ان کے نزدیک قرآن فہمی میں عربی ادب، نزول قرآن کے دور کے عربی لٹریچر اور روایات اور اس کے ساتھ عرف وتعامل کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ وہ حدیث وسنت کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں مگر ’’خبر واحد‘‘ کو ان کے ہاں وہ مقام حاصل نہیں ہے جو ’’محدثین‘‘ کے ہاں تسلیم شدہ ہے اور وہ احکام میں ’’خبر واحد‘‘ کو حجت تسلیم نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے بعض علمی معاملات میں ان کی اور ان کے تلامذہ کی رائے جمہور علما سے مختلف ہو جاتی ہے۔ مولانا فراہی کے بعد ان کے فکر اور فلسفہ کے سب سے بڑے وارث اور نمائندہ حضرت مولانا امین احسن اصلاحی تھے جنھوں نے کچھ عرصہ قبل وفاقی عدالت میں شادی شدہ مرد وعورت کے لیے زنا کی سزا کے طور پر ’’رجم‘‘ کے شرعی حد نہ ہونے پر دلائل فراہم کیے تھے اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ رجم اور سنگ سار کرنا شرعی حد نہیں ہے۔ اس کے پیچھے بھی ’’خبر واحد‘‘ کے احکام میں حجت نہ ہونے کا تصور کارفرما تھا۔ یہ ایک مستقل علمی بحث ہے کہ احکام وقوانین کی بنیاد شہادت پر ہے یا خبر پر، اور خبر اور شہادت کے نصاب ومعیار میں کیا فرق ہے؟ اس میں فقہا کے اصولی گروہ میں سے بعض ذمہ دار بزرگ ایک مستقل موقف رکھتے ہیں جبکہ جمہور محدثین اور علمی فقہا کا موقف ان سے مختلف ہے اور ہمارے خیال میں مولانا حمید الدین فراہی کا موقف جمہور فقہا اور محدثین کے بجائے ’’بعض اصولی فقہا‘‘ سے زیادہ قریب ہے۔ اسی وجہ سے ہم اسے ان کے ’’تفردات‘‘ میں شمار کرتے ہیں اور ’’تفردات‘‘ کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ ہر صاحب علم کا حق ہے جس کا احترام کیا جانا چاہیے بشرطیکہ وہ ان کی ذات یا حلقے تک محدود رہے۔ البتہ اگر کسی ’’تفرد‘ کو جمہور اہل علم کی رائے کے علی الرغم سوسائٹی پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ فکری انتشار اور ایک نئے مکتب فکر کے قیام کا سبب بنتا ہے اور یہی وہ نکتہ اور مقام ہے جہاں ہمارے بہت سے قابل قدر اور لائق احترام مفکرین نے ٹھوکر کھائی ہے اور امت کے ’’اجتماعی علمی دھارے‘‘ سے کٹ کر جداگانہ فکری حلقوں کے قیام کا باعث بنے ہیں۔ بہرحال محترم جاوید احمد صاحب اور ان کے شاگرد رشید خورشید احمد ندیم صاحب کا تعلق اسی علمی حلقے سے ہے اور مولانا امین احسن اصلاحی کے بعد اس حلقہ علم وفکر کی قیادت غامدی صاحب فرما رہے ہیں۔‘‘ 
(الشریعہ مئی ۲۰۰۱، ص ۷، ۸)
’’جہاں تک غامدی صاحب کو جہاد کے بارے میں قادیانیوں کے موقف کا موید ظاہر کرنا ہے تو یہ سراسر زیادتی ہے اس لیے کہ ان کا موقف قطعاً وہ نہیں ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی نے پیش کیا ہے۔ مرزا قادیانی نے جہاد کے سرے سے منسوخ ہونے کا اعلان کیا تھا بلکہ اس نے جھوٹی نبوت کا ڈھونگ ہی جہاد کی منسوخی کے پرچار کے لیے کیا تھا، جبکہ غامدی صاحب جہاد کی فرضیت اور اہمیت کو پوری طرح تسلیم کرتے ہیں البتہ جہاد کے اعلان کی مجاز اتھارٹی کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔ مگر اس بارے میں ان کی رائے امت کے جمہور اہل علم سے مختلف ہے جس پر ہم تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کر چکے ہیں۔ میر ااختلاف غامدی صاحب کے ساتھ یہ نہیں ہے۔ اپنے سابقہ مضامین میں عرض کر چکا ہوں کہ میں انھیں حضرت مولانا حمید الدین فراہی کے علمی مکتب فکر کا نمائندہ سمجھتا ہوں اور حضرت مولانا فراہی کے بارے میں میری رائے وہی ہے جو حضرت مولانا عبید اللہ سندھی اور حضرت مولانا سید سلیمان ندوی کی ہے، البتہ امت کے جمہور اہل علم کے علی الرغم ان کے تفردات کو میں قبول نہیں کرتا اور غامدی صاحب سے میں نے یہی عرض کیا ہے کہ علمی تفردات کو اس انداز سے پیش کرنا کہ وہ امت کے اجتماعی علمی دھارے سے الگ کسی نئے مکتب فکر کا عنوا ن نظر آنے لگیں، امت میں فکری انتشار کا باعث بنتا ہے اور اگر اس پر اصرار کیا جائے تو اسے عالمی فکری استعمار کی ان کوششوں سے الگ کر کے دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے جو ملت اسلامیہ کو ذہنی انتشار اور فکری انارکی سے دوچار کرنے کے لیے ایک عرصہ سے جاری ہیں۔‘‘ 
(الشریعہ، مئی ۲۰۰۱، ص ۵۸)
’’مختلف دینی اور علمی موضوعات پر ان کا ایک مستقل نقطہ نظر اور اسلوب فکر ہے جس کا اظہار ان کے مضامین کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ان کے ہر نتیجہ فکر سے اتفاق کیا جائے اور ہم بھی جہاں ضرورت محسوس کرتے ہیں، ان کے فکر واسلوب سے بلاتامل اختلاف کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ مختلف پیش آمدہ دینی وملی مسائل پر دیگر مکاتب فکر کی طرح ان کے نقطہ نظر سے بھی آگاہی حاصل کی جائے اور علمی بحث ومباحثہ اور مکالمہ کی صورت میں بحث وتمحیص کے سلسلے کو آگے بڑھایا جائے۔‘‘ 
(الشریعہ، جون ۲۰۰۴، ص ۵۰)

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم جناب ابو عمار زاہد الراشدی صاحب حفظہ اللہ ورعاہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آپ کی زیر ادارت شائع ہونے والا مجلہ ’الشریعہ‘ پڑھنے کو ملتا ہے۔ یہ امت مسلمہ کو درپیش مسائل پر بے لاگ تجزیہ اور آزادئ رائے کے ساتھ جامع تبصرہ کرتا ہے۔ اس کی خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ اجتہاد جیسی عظیم نعمت کے فروغ کے لیے فکری ومذہبی جمود وسکوت پر تیشہ ابراہیمی چلاتا ہے اور دلائل وبراہین کی زبان پر یقین رکھتا ہے۔
الشریعہ کے بعض مضامین ومقالات مثلاً بیت المقدس پر یہودیوں کے حق تولیت وغیرہ پر میں بھی مولانا ارشاد الحق اثری صاحب کی طرح تحفظات رکھتا ہوں، لیکن بحیثیت مجموعی الشریعہ محاسن کا مجموعہ ہے جس پر آپ اور آپ کی ادارتی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔ امید ہے کہ فکری جمود اور تقلید کے خلاف محاکمہ کا سلسلہ آپ جاری رکھیں گے اور شریعت مطہرہ کے دائرے میں وسعت نظر کی دعوت فکر دیتے رہیں گے۔
ایک مجلس میں طلاق ثلاثہ کے وقوع اور موجودہ دور میں اس کے تباہ کن معاشرتی اثرات کے حوالے سے پروفیسر محمد اکرم ورک صاحب نے جو پرمغز تحریر لکھی ہے اور جسے بہت سے جویان حق نے سراہا ہے، وہ یقیناًایک جرات مندانہ اور مستحسن اقدام ہے۔ آج کی دنیا دلائل وبراہین کی زبان کو سمجھتی ہے اور دعووں کو دلائل کی روشنی میں پرکھنے کا رجحان بھی پروان چڑھا ہے۔ وراثتاً ملے ہوئے عاری از دلائل آرا کو خیر باد کہنے کی تحریک دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی ہے۔ جو شخص جتنا زیادہ عالم اور بالغ نظر ہے، وہ مذہبی جمود اور فکری تعصب کو اتنا ہی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات اور بہتر نتائج کا پیش خیمہ ہے۔ 
امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ کا فتح کردہ ایران اور عراق کا خطہ آج شیعہ مکتب فکر کا مرکز ہے، حالانکہ کوفہ وعراق امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ جیسے بانیان مذہب کا مسکن ومرکز تھا۔ ایسا کیونکر ہوا، یہ ایک سوالیہ نشان ہے جس کا جواب طلاق ثلاثہ سے متعلق پیرمحمد کرم شاہ الازہری اور مولانا سلمان الحسینی کی رائے پر چیں بہ چیں ہونے والوں کے ذمے ہے۔ اسلامی تاریخ کی انتہائی معتوب ومظلوم شخصیت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے منہاج السنۃ کے مقدمے میں اس امر کی وضاحت کی ہے۔ خود ائمہ اربعہ علیہم الرحمۃ بھی اجتہاد کو تابندہ وپائندہ رکھنے کے حق میں تھے۔ ان کے اپنے واضح ارشادات اور ان کے تلامذہ امام ابو یوسف وامام محمد کے اپنے استاذ گرامی سے دو تہائی کے قریب مسائل میں اختلاف کرنا اسی وسعت نظر کا غماز ہے۔ 
ہفت روزہ ضرب مومن ۳۱؍اکتوبر ۲۰۰۳ کے مطابق طالبان کے دور حکومت میں سپریم کورٹ نے افغانستان کی جنگ آزادی اور بعد کی خانہ جنگی کے دوران میں لاپتہ ہو جانے والے لوگوں کے بارے میں علما سے رجوع کر کے یہ فیصلہ صادر کیا تھا کہ ایسے لوگوں کی بیویاں چار سال تک انتظار کرنے کے بعد دوسری شادی کر سکتی ہیں۔ 
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے طلاق ثلاثہ آرڈیننس تک نہ کوئی مستقل فقہی مذاہب وجود میں آئے تھے اور نہ ان کے بانیوں میں سے کوئی پیدا ہوا تھا ۔ اس آرڈیننس سے قبل ایک ہی طلاق واقع مانی جاتی تھی اور یہی اس وقت کے ائمہ مجتہدین کا مسلک تھا۔ اسی فقہی مسلک کی ترجمانی بعد میں امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم نے کی اور موجودہ دور میں اہل حدیث مکتبہ فکر اسی کا ترجمان ہے۔ اس رائے کے حاملین کو امام ابن تیمیہ کامقلد قرار دینا قرین انصاف نہیں۔ اسی طرح ائمہ اربعہ کی رائے کے برعکس ہونے کو بھی کسی فقہی مسلک کو کلیتاً مسترد کر دینے کے لیے وجہ جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ بہت سے مسائل میں امام ابو یوسف، امام محمد، امام ثوری، لیث بن سعد اور ابن حزم جیسے اہل علم نے جمہور کی رائے سے ہٹ کر رائے قائم کی ہے۔ اگر یہ اہل علم اس بنیاد پر مورد الزام نہیں ٹھہرتے تو آج کے دور میں ان کی رائے کو اختیا ر کرنے والے کیوں گردن زدنی قرار دیے جاتے ہیں؟ زیر بحث مسئلے میں امام ابن تیمیہ سے بھی بڑھ کر مختلف رائے فقہاے امامیہ نے اختیار کی ہے جن کے نزدیک اس طرح کی طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی بلکہ لغو قرار پاتی ہے جس کی شریعت میں کوئی تاثیر نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق بات کہنے اور جہاں سے حق ملے، وہاں سے لے لینے کی توفیق عطا فرمائے۔
ابو عبد اللہ نادم
غواڑی ۔ بلتستان
(۲)
واجب الاحترام مدیر ’ الشریعہ‘
سلام مسنون
’’قرآنی علمیات اور معاصرمسلم رویہ‘‘ کے عنوان سے پروفیسر میاں انعام الرحمٰن صاحب کی کاوش ،اندازِ تحریر کے حوالہ سے قابلِ داد ہے، تاہم میاں صاحب کے مضمون کے Theme اور اس کی بعض جزئیات سے کلیتاً اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی ذریت میں صرف سرکارِ دوعالم ﷺ بحثیت پیغمبر مبعوث ہوئے، جبکہ یہودی علما حضرت اسحٰق علیہ السلام کو ذبیح قرار دینے پر اس لیے مصر ہوئے کہ رحمتِ دوجہاں ﷺ کی آمد سے متعلق توراۃ وانجیل میں موجود بشارتوں کی نفی کی جا سکے۔ ’ذبیح کون؟‘ کی بحث مسلم فکر کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کا آغاز یہودی علما کی طرف سے ہوا اور مسلم محققین نے توراۃ وانجیل اور دیگر تاریخی وجغرافیائی شواہد سے یہ ثابت کیا کہ ذبیح درحقیقت اسمٰعیل علیہ السلام ہی تھے۔ میاں صاحب مسلم رویے کو موردِ الزام ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ اگر تاریخی تناظر میں یہودی شدت پسندی کا بھی ذکر فرماتے تو ان کا مضمون ایک معتدل تحقیق متصور ہوتا۔ مزید برآں حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں ’ذبیح کون؟‘ جیسی ابحاث پر قلم کشائی بذاتِ خود ’فکری تشدد پسندی‘ کے احیا کی کوشش ہے جبکہ اس سے احتراز معاصر مسلم رویہ کو بہتر ومعتدل بنانے میں معاون ہو گا۔ (اللہم ثبت قلوبنا علی دین الاسلام۔ آمین)
حافظ محمد سمیع اللہ فراز
پی ایچ ڈی سکالر، لیکچرار شعبہ علومِ اسلامیہ 
ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان۔ لاہور
(۳)
باسمہ تعالیٰ
مکرمی جناب مولانا ابو عمار زاہد الراشدی صاحب 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
امید ہے ایمان وصحت کی بہترین حالت میں دین مبین کی ترقی وترویج کے کاموں میں مصروف ہوں گے۔
آپ کے زیر ادارت شائع ہونے والا ماہنامہ ’الشریعہ ‘ہر ماہ باقاعدگی سے ملتا ہے۔تمام مضامین عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اور مسائل کے حل کے لیے تیر بہدف ہوتے ہیں۔ماہنامہ ’الشریعہ‘ کا ہر ماہ بندہ کو شدت سے انتظار رہتاہے، لیکن بندہ اپنی کمزوری کا اعتراف کرتاہے کہ ابھی تک شکریہ کے طور بھی کوئی خط ارسال نہیں کر سکا۔ اس پر بندہ معذرت خواہ ہے ۔
نومبر کا شمارہ بندہ کے سامنے پڑا ہے۔ اول سے آخر تک مطالعہ کرنے کے بعد کچھ لکھنے کی جسارت کررہاہوں۔ صفحہ ۴۴ پر عبد الجلیل نقوی صاحب کا خط شائع ہوا ہے۔ اس سے پہلے شیعہ سنی مسئلہ اور اختلاف کے عوامل پر ’الشریعہ‘ میں کافی لکھا گیا ہے اور ’الشریعہ‘ نے اپنی روایت کے مطابق ہر فریق کو کھل کر اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا ہے ۔عبد الجلیل نقوی صاحب نے اپنے خط میں ’’نہ مانوں‘ ‘والا رویہ اختیار کیا ہے ۔یہ مسئلہ ایجنسیوں یا متعصب گروہ کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ شیعہ مسلک کے ان مصنفین کاپیدا کردہ ہے جنھوں نے اپنی کتابوں میں اہل سنت کے اکابر پر تنقید کا بیہودہ طرز اختیار کیا ہے۔ یہ کتابیں اس وقت لکھی گئی تھیں جب ’متعصب‘ گروہ کے قائدین کے آباواجداد بھی پیدا نہیں ہوئے تھے ۔کیا محمد بن یعقوب کلینی نے ’اصول کافی‘ میں نہیں لکھا کہ کفر کی تین جڑیں ہیں:ایک شیطان، دوسرا قابیل اور تیسری (معاذاللہ) حضرت آدم؟ کیا باقر مجلسی نے اپنی کتاب ’حق الیقین ‘میں حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کو (معاذاللہ )شیطان سے بڑا کافر نہیں لکھا؟ کیا اسی باقر مجلسی نے اپنی کتاب ’عین الیقین ‘میں تین صحابہ یعنی مقدادؓ ،سلمانؓاور ابوذرؓکے سوا باقی تمام صحابہؓکو نعوذباللہ کافر اور مرتد نہیں لکھا؟ کیا اسی کتاب میں باقر مجلسی نے نہیں لکھا کہ امام جعفر صادقؒ نماز کے بعد جب تک خلفاے ثلاثہؓ اور پیغمبر علیہ السلام کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہؓ پر لعنت نہیں کرتے تھے، اپنے مصلے سے نہیں اٹھتے تھے؟ جب ایسے خیالات ظاہر اور شائع کیے جائیں گے تو ان کا رد عمل ضرور ہو گا۔ رد عمل میں دہشت گردی ،خود کش حملوں اور قتل وغارت گری سے بندہ بھی اتفاق نہیں کرتا اور نہ کوئی سنجیدہ انسان ایسے اقدامات کی حمایت کر سکتاہے ۔دیوبندی مکتب فکر کے سنجیدہ اور دانش ور افرادنے اگر اہل تشیع کے طرز عمل کے خلاف قلم اٹھایا ہے تو یہ اقدام ایجنسیوں یا ایک متعصب گروہ کے پروپیگنڈا کا نتیجہ ہر گز نہیں۔ آپ اس متعصب گروہ کو چھوڑ کر دیوبندی ،بریلوی اور اہل حدیث مکاتب فکر کے کسی سنجیدہ عالم ،دانش ور اور مفتی سے ان کتابوں کے مصنفین یا ان عقائد کے حامل افراد کے بارے میں پوچھ لیں کہ اسلام کے ساتھ ان کا کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ حقیقت حال واضح ہو جائے گی۔
عبد الجلیل نقوی صاحب کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ ’نہ مانوں‘ کا رویہ چھوڑ کر حقائق کو تسلیم کریں اور اس مسئلے کے واقعی حل کے لیے مدد کریں۔ پاکستان جیسا ترقی پزیر ملک اس اختلاف اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔ دونوں فریق باہم اتحاد واتفاق پیدا کریں تاکہ درپیش مسائل کا یک جان ہو کر مقابلہ کیا جا سکے۔
امید ہے کہ ماہنامہ ’الشریعہ‘ مسائل ومباحث کے حوالے سے ہماری معلومات میں اضافہ کرتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ’الشریعہ‘ کو مزید ترقی نصیب فرمائے۔آمین 
سید عنایت اللہ ہاشمی 
نائب مہتمم دارالعلوم مصباح الاسلام 
مٹہ مغل خیل ۔ شبقدر فورٹ۔ ضلع چارسدہ 
(۴)
باسمہ سبحانہ
بخدمت گرامی حضرت علامہ راشدی صاحب مدظلہ
سلام مسنون
الشریعہ میں شیعہ کی تکفیر کے موضوع پر بحث جاری ہے۔ احقر کی نظر میں عملی طور پر یہ بحث بے فائدہ ہے اس لیے کہ اس پر کوئی مثبت نتیجہ مرتب ہونے کی امید نہیں ہے۔ اگر قارئین شوق رکھتے ہوں تو شیعہ سنی مسئلہ کے حل میں حکومتی انداز فکر، شیعہ سنی تنازع کی وجوہ اور اس کے سدباب کی تجاویز وغیرہ موضوعات پر قلم اٹھائیں۔ شیعہ سنی حوالے سے تاریخی وادبی بہت سے موضوعات تشنہ بحث ہیں۔ ان پر طبع آزمائی کریں۔
شیعہ سنی مسئلہ میں حکومت جس افراط وتفریط کا شکار ہے، اس کے پیش نظر کچھ لکھنا اور چھاپنا ایک مستقل مسئلہ ہے۔
(مولانا) مشتاق احمد
جامعہ عربیہ۔ چنیوٹ

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’الامام زید‘‘

۱۹۸۷ء میں علماے کرام کے ایک وفد کے ساتھ ایران جانے کا اتفاق ہوا اور ایرانی راہ نماؤں سے مختلف امور پربات چیت ہوئی تو اس وقت یہ بات سامنے آئی کہ ایران کے دستور میں زیدی فرقہ کے اہل تشیع کو اثنا عشری اہل تشیع کے ساتھ شمار کرنے کے بجائے احناف، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کے ساتھ فقہی اقلیتوں میں شامل کیا گیا ہے۔ اس سے قبل ہم زیدیوں کو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اثنا عشریوں کے ساتھ ہی سمجھا کرتے تھے مگر ایرانی دستور کی اس دفعہ نے تجسس پیدا کیا کہ اس فرق کی تحقیق کرنی چاہیے۔ چنانچہ اس کے کچھ عرصہ بعد لندن کی ایک لائبریری میں امام زید بن علیؓ کے بارے میں مصر کے نامور محقق الاستاذ ابو زہرہ کی تصنیف نظر سے گزری تو اندازہ ہوا کہ زیدی مذہب اور اثنا عشری مذہب میں واقعتا اتنا فرق موجود ہے کہ اثنا عشری اہل تشیع کے لیے انھیں اپنے ساتھ شامل کرنا آسان نہیں ہے۔
حال ہی میں مجھے پیر طریقت حضرت مولانا سید نفیس الحسینی مدظلہ کی خدمت میں حاضری دینے کا موقع ملا تو انھوں نے مجھے اپنی طرف سے الاستاذ ابو زہرہ کی یہ کتاب ہدیہ کے طور پر مرحمت فرمائی اور معلوم ہوا کہ یہ کتاب اب حضرت شاہ صاحب مدظلہ کی نگرانی میں لاہور سے طبع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں امام زیدؒ کی حیات مبارکہ، جدوجہد، خدمات، علمی مقام ومرتبہ، اعتقادی وفقہی موقف اور شہادت کے بارے میں محققانہ انداز میں بحث کی گئی ہے۔
امام زید، حضرت امام زین العابدینؒ کے فرزند اور حضرت امام باقرؒ کے بھائی تھے۔ انھوں نے اموی خلافت کے خلاف خروج کیا اور شہادت سے ہم کنار ہوئے۔ زیدی فرقہ کی نسبت انھی سے ہے اور الاستاذ ابو زہرہ نے حضرت امام زیدؒ کے افکار وخیالات میں دوسرے اہل تشیع کے ساتھ جس فرق کی نشان دہی کی ہے، اس کے مطابق امام زید بن علی رحمہما اللہ تعالیٰ فرماتے تھے کہ:
  • حضرت علیؓ کو دوسرے تمام صحابہ کرام پر فضیلت حاصل ہے، لیکن خلافت حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا حق تھی اور ان کے نزدیک مفضول کے مقابلے میں افضل کی امامت جائز ہے۔
  • حضرت علیؓ کے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امامت کی وصیت اور نص نہیں کی تھی۔
  • امام کے لیے عادل اور فاطمی ہونا افضل ہے، شرط نہیں۔
  • اما م معصوم نہیں ہوتا اور اس کے فیصلوں میں دوسرے ائمہ کی طرح خطا وصواب، دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔
  • ایک وقت میں مختلف مقامات پر دو امام بھی ہو سکتے ہیں اور دونوں واجب الاتباع ہوں گے۔
  • اہل بیت میں سے امام وہی ہوگا جو خود داعی ہو۔ دوسرے لفظوں میں تقیہ درست نہیں ہے۔
  • امام کے غائب ہونے اور دوبارہ واپس آنے کا تصور ان کے ہاں نہیں ہے۔
  • امام کا علم القائی نہیں، بلکہ دوسرے لوگوں کی طرح درسی اور تعلیمی ہوتا ہے۔
  • امام کے لیے معجزہ کا بھی کوئی تصور نہیں ہے۔
مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ زیدی فرقہ کے بارے میں یہ تحقیقی تعارفی کتاب حضرت سید نفیس شاہ صاحب مدظلہ کی نگرانی اور سرپرستی میں ’’دار النفائس‘ کریم پارک، راوی روڈ لاہور کی طرف سے شائع ہوئی ہے۔ اس سے علماے کرام کو اس فرقہ کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔

’’تعلیمات نبوی اور آج کے زندہ مسائل‘‘

معروف روحانی پیشوا اور محقق عالم دین حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے خانوادہ کے چشم وچراغ مولانا سید عزیز الرحمن کو اللہ تعالیٰ نے اس دور میں سیرت نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مطالعہ وتحقیق اور عصر حاضر کی ضروریات اور تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے سیرت طیبہ علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کے مختلف پہلووں کو اجاگر کرنے کا خصوصی ذوق مرحمت فرمایا ہے اور وہ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت واسوہ کو موضوع بنا کر خاصا وقیع کام کر رہے ہیں۔ ان کی ادارت میں ’السیرۃ عالمی‘ کے عنوان سے ایک ضخیم علمی شش ماہی مجلہ سال میں دو مرتبہ ارباب ذوق کی فکری وعلمی تسکین کا سامان فراہم کرتا ہے اور اس کے علاوہ مختلف عنوانات پر ان کے مقالات حالات حاضرہ کے تناظر میں سیرت نبوی کے متنوع پہلووں کی تشریح واشاعت کا ذریعہ بنتے ہیں۔
زیر نظر کتاب ان کے سات وقیع مقالات کا مجموعہ ہے جو اس موضوع پر ان کے ایوارڈ یافتہ مقالات ہیں۔ ان میں خاص طور پر انسانی حقوق، اسلامی ریاست وحکومت، عدم برداشت کا بین الاقوامی رجحان، معاشرتی احتساب، نظام تعلیم، نیا عالمی نظام اور مذہبی انتہا پسندی جیسے مسائل کو انھوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ وسیرت کی روشنی میں واضح کیا ہے جو آج کے دور کی اہم ضرورت ہے۔
ہم ایک عرصہ سے گزارش کر رہے ہیں کہ دینی اداروں میں آج کے عالمی حالات کے تناظر میں سیرت نبوی کے ازسرنو مطالعہ کا ذوق بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ مولانا سید عزیز الرحمن اس سمت میں موثر پیش رفت کر رہے ہیں اور ہم ان کی اس جدوجہد کی کامیابی اور قبولیت کے لیے دعاگو ہیں۔
چار سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب القلم، فرحان ٹیرس، ناظم آباد نمبر ۲، کراچی ۱۸ نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۲۴۰ روپے ہے۔
(ابو عمار زاہد الراشدی)

انا للہ و انا الیہ راجعون

ادارہ

  • جمعیۃ علماء اسلام (س) کے ضلعی امیر مولانا علی احمد جامی طویل علالت کے بعد عید الاضحی سے دو روز قبل انتقال کر گئے۔ انھوں نے ساری زندگی دینی جدوجہد میں گزاری اور جمعیۃ علماء اسلام میں ہمیشہ سرگرم رہے ۔ متحدہ مجلس عمل ضلع گوجرانوالہ کے صدر رہے اور تحریک ختم نبوت میں بھی ان کا کردار نمایاں رہا۔ مولانا جامی مرحوم نے تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی فعال کردار ادا کیا اور متعدد بار قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ خوش الحان واعظ اور بے باک خطیب تھے۔ ان تھک سیاسی کارکن تھے اور دینی معاملات میں غیرت وحمیت سے بہرہ ور راہ نما تھے۔ 
  • جمعیۃ علماء اسلام (س) کے صوبائی نائب امیر ڈاکٹر غلام محمد بھی عید الاضحی کے بعد جمعہ کے روز دار فانی سے رخصت ہو گئے۔ وہ کافی عرصے سے بستر علالت پر تھے۔ وفات سے چند روز قبل ان پر تیسری بار فالج کا حملہ ہوا جس سے وہ جانبر نہ ہو سکے۔ ڈاکٹر صاحب ۷۲ میں جمعیۃ علماء اسلام میں آئے اور ضلعی جمعیت کے مبلغ کی حیثیت سے سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ انھوں نے ضلع بھر میں گاؤں گاؤں گھوم کر جمعیت کو منظم کیا، پھر انھیں جمعیۃ کا ضلعی سیکرٹری جنرل چن لیا گیا اور ایک مدت تک وہ اسی حیثیت سے سرگرم عمل رہے۔ ضلع کی دینی سیاست میں انھوں نے اہم اور فعال کردار انجام دیا۔ ہومیو پیتھک معالج تھے اور جمعیت کی قائم کردہ فری ڈسپنسری میں خدمات سرانجام دیتے تھے۔ جرگہ اور پنچایت کے آدمی تھے۔ کم وبیش ربع صدی تک ضلع امن کمیٹی میں جمعیت کی نمائندگی کی۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی بڑے حوصلہ اور اعتماد کے ساتھ معاملات کو ڈیل کرتے اور اکثر سرخ رو ہوتے۔ فرقہ وارانہ تنازعات کو سلجھانے میں ان کی فراست پر اعتماد کیا جاتا تھا اور مشکل معاملات ان کے سپرد کیے جاتے تھے۔ ساری زندگی تنگی وترشی میں گزاری لیکن کبھی اپنے چند مخصوص دوستوں کے سوا کسی کے سامنے اس کا اظہار نہیں کیا۔ 
  • الشریعہ کی مجلس مشاورت کے رکن شبیر احمد خان میواتی کے بہنوئی مولانا قاری محمود احمد میواتی گزشتہ ماہ قصور میں انتقال کر گئے۔ 
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات کو بلند فرمائے، تقصیرات سے درگزر فرمائے، اور پس ماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔ آمین (ادارہ)

مارچ ۲۰۰۶ء

مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
نسلی و مذہبی منافرت اور یورپی و عالمی قوانینآغا شاہی
عظمتِ رسول ﷺ اور انسانی حقوقابو محمد عبادہ
طباعتِ قرآن میں رسمِ عثمانی کا التزامحافظ محمد سمیع اللہ فراز
بائبل کا قورح ہی قرآن کا قارون ہےڈاکٹر سید رضوان علی ندوی
مکاتیبادارہ
تعارف و تبصرہادارہ
الشریعہ اکادمی میں فکری نشستادارہ

مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

یورپ کے بعض اخبارات کی طرف سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی پر عالم اسلام میں اضطراب مسلسل بڑھتا جا رہا ہے اور پاکستان کی کم وبیش تمام دینی وسیاسی جماعتوں نے ۳؍ مارچ کو ملک گیر ہڑتال کی کال دے دی ہے جس کی تیاریاں ملک بھر میں ہر سطح پر جاری ہیں۔ قوم کا مطالبہ یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا اہتمام کرنے والے اخبار کے ملک ڈنمارک کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کیے جائیں اور مغربی میڈیا کی اسلام دشمن مہم اور سرگرمیوں کا اسلامی سربراہ کانفرنس کی سطح پر نوٹس لیا جائے۔ وزیر اعظم جناب شوکت عزیز نے ایک بیان میں اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ ڈنمارک کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے مسئلے کا او آئی سی کے فورم پر جائزہ لیا جائے گا۔
ڈنمارک کے اخبار ’’جلینڈ پوسٹ‘‘ نے جناب سرور کائنات ﷺ کے یہ گستاخانہ کارٹون محض اتفاق کے طورپر شائع نہیں کیے تھے بلکہ اس کے لیے کار ٹونسٹوں میں باقاعدہ مقابلہ کرایا گیا اور دعوت دے کر بہت سے خاکے بنوائے گئے اور ان میں سے بارہ منتخب خاکے شائع کیے گئے۔ پھر اسی پر بس نہیں، ان توہین آمیز کارٹونوں پر مسلمانوں کاردعمل دیکھ کر بھی فرانس، نار وے، اسپین اور دوسرے ملکوں کے اخبارات نے ان خاکوں کودوبارہ شائع کیا اور بہت سی انٹرنیٹ سائٹس پر ان کی تشہیر کی گئی۔ یہ واضح طور پر مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے اور ان کے رد عمل کی سطح اور کیفیت کوجانچنے کی ایک منظم کوشش ہے جس پر دنیا بھر کے مسلمان بجا طورپر اپنے ایمانی جذبات اور غیرت وحمیت کا مظاہرہ کررہے ہیں اور ان کی رد عمل کی شدت میں اضافہ ہو رہاہے۔
جہاں تک مغرب کا تعلق ہے تو وہ اپنے ذہن سے وحی اور پیغمبر دونوں کو اتار چکاہے اور اس کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ مغرب کے پاس نہ وحی اصل حالت میں موجود ہے اور نہ ہی پیغمبروں کے حالات وتعلیمات کاکوئی مستند ذخیرہ اسے میسر ہے۔ اس لیے اس نے سرے سے ان دونوں سے پیچھا ہی چھڑا لیا ہے اوراب وہ مسلمانوں سے یہ توقع اور پر زور مطالبہ کررہا ہے کہ وہ بھی وحی اور پیغمبر کو اپنے ذہن سے اتار دیں اور اپنے جذبات اور احساسات کے دائرے میں انہیں کوئی جگہ نہ دیں، لیکن مغرب یہ توقع اور مطالبہ کرتے ہوئے یہ معروضی حقیقت بھول جاتاہے کہ مسلمانوں کے پاس یہ دونوں چیزیں اصلی حالت میں موجود ومحفوظ ہیں۔ قرآن کریم بھی اصلی حالت میں ہے اور جناب نبی کریمﷺ کے حالات زندگی، تعلیمات اورارشادات بھی پورے استناد اور تفصیل کے ساتھ مسلمانوں کے پاس موجود ہیں، اور صرف لائبریریوں کی زینت نہیں بلکہ یہ دونوں چیزیں پڑھی جاتی ہیں، پڑھائی جاتی ہیں، لکھی جاتی ہیں ،شائع ہوتی ہیں اوردنیا کے کسی بھی خطے کے مسلمان ان دونوں یا ان میں سے کسی ایک سے محروم نہیں ہیں۔ اس لیے مسلمانوں سے مغرب کی یہ توقع اور مطالبہ کہ وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے دست بردار ہوجائیں گے، ایک سراب کے پیچھے بھاگنے کے سوا کوئی معنویت نہیں رکھتا۔ ورلڈ میڈیا، بین الاقوامی لابیوں ،مغربی فکروفلسفہ کی برتری کا مسلسل ڈھنڈورا پیٹنے والے نام نہاد مسلمان دانشوروں اور مغرب نواز مسلمان حکومتوں کی تمام تر منفی کارروائیوں ،پروپیگنڈے اور پالیسیوں کے باوجود دنیا بھر کے عام مسلمان آج بھی جناب نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ بے لچک کمٹمنٹ رکھتے ہیں اور اس کمٹمنٹ کوکمزور کرنے کی کوئی کوشش کسی بھی حوالے سے کامیاب نہیں ہو رہی جو جناب نبی کریم ﷺ کے اعجاز کاآج کے دور میں کھلا اظہارہے۔
بعض اخباری اطلاعات کے مطابق ڈنمارک کے جس اخبار نے جناب نبی کریم ﷺ کے گستاخانہ خاکے اور کارٹون شائع کرکے دنیائے اسلام کے غیظ وغضب کودعوت دی ہے، اس اخبار کے مالکان نے مسلمانوں کے اس غصے کوٹھنڈا کرنے کے لیے اپنے طورپر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس اخبار میں سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھی اتنے ہی خاکے اور کارٹون شائع کیے جائیں گے جتنے جناب نبی کریم ﷺ کے حوالے سے شائع کیے گئے ہیں۔ اگر ڈنمارک کے گستاخ رسول اخبار کے مالکان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سیدنا حضرت عیسیٰ کے گستاخانہ خاکے شائع کرکے صورت حا ل کو بیلنس کرسکیں گے تو یہ ان کی بھول ہے اور وہ شدید غلط فہمی کا شکارہیں۔ اس سے مسلمانوں کے غصے میں کمی نہیں ہوگی بلکہ ان کے رنج وغصہ میں اضافہ ہوگا، اس لیے کہ مسلمان سیدنا حضرت عیسیٰ کابھی اسی طرح احترام کرتے ہیں جیسے سیدنا محمد ﷺ کی عقیدت واحترام ان کے دل میں ہے، اور جس طرح سیدنا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی ان کے لیے ناقابل برداشت ہے، اسی طرح سیدنا حضرت عیسیٰ بلکہ اللہ تعالی کے کسی بھی سچے پیغمبر کی شان اقدس میں گستاخی ناقابل برداشت ہے اور قرآن وسنت میں اسی بات کاحکم دیاگیاہے۔ البتہ اس سے یہ دلچسپ صورت حال ضرور پیداہوجائے گی کہ مسیحی کہلانے والے لوگ حضرت عیسیٰ کی شان میں گستاخی کررہے ہوں گے اور حضرت محمد ﷺ کی امت کے غیرت مند لوگ حضرت عیسیٰ کے ناموس و تحفظ کاپرچم اٹھائے اس بے ہودگی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہوں گے۔ 
ہم اس حوالہ سے پاکستان کی سیاسی ودینی جماعتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے تمام تر سیاسی اختلافات کوبالائے طاق رکھتے ہوئے ’قومی مجلس مشاورت‘ کی صورت میں متحد ہوکر مغرب سے دوٹوک کہہ دیا ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ کی حرمت وناموس کے مسئلہ پر کوئی مصالحت نہیں ہوسکتی اور مغرب کو بہرحال اپنے گستاخانہ اور معاندانہ طرز عمل سے دست بردار ی کاکوئی واضح راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ’قومی مجلس مشاورت‘ نے ۳؍ مارچ کوملک گیر ہڑتال کا جو اعلان کیا ہے، اسے منظم طریقے سے کامیاب بنانے کی ضرورت ہے اور وقت کا یہ تقاضاہے کہ سارے ملک میں ہر سطح پر’’ قومی مجلس مشاورت ‘‘کے مطالبات کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے اور ہر جماعت اور ہر طبقہ کوساتھ لے کر چلنے کا اہتمام کیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ مظاہروں کو ہرقیمت پر، پرامن رکھا جائے او ر اس بات سے ہر وقت چوکنا رہا جائے کہ کوئی شرپسند عنصر اس موقع سے ناجائز فائدہ اٹھا کر تحریک کارخ تشدد کی طرف نہ موڑ سکے ،کیونکہ تحریکیں تشدد کا رخ اختیا ر کر لیں تو ناکام ہو جایا کرتی ہیں۔ 

نسلی و مذہبی منافرت اور یورپی و عالمی قوانین

آغا شاہی

یورپی اخبارات میں شائع ہونے والے پیغمبر اسلامؑ کے توہین آمیز اور اشتعال انگیز کارٹونوں نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کو مشتعل اور غضب ناک کردیا ہے۔ متعلقہ اخبارات کے مدیران آزادی اظہار کو اس ناپاک جسارت کا جواز قرار دیتے ہیں، جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان کے خیال میں یہ فعل ’’جلتی پر تیل‘‘ انڈیلنے کے مترادف ہے۔ مذکورہ کارٹون ڈنمارک کے روزنامہ ’’جلینڈ پوسٹنز‘‘ میں شائع ہوئے۔ مبینہ طورپر اس اخبار کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ ’’حساب برابر ‘‘ کرنے کے لیے جتنی تعداد میں رسول خداکے کارٹون چھاپے گئے ،اتنی ہی تعداد میں حضرت عیسیٰ کے کارٹون چھاپے جائیں گے۔ ان کارٹونوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کی تضحیک کاپہلو نمایاں ہو گا۔ یہ (حل یا طریق معذرت) مسلمانوں کے لیے ہرگز قابل قبول نہیں،کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ کو بھی خدا کا پیغمبر اور نبی مانتے ہیں۔
آزادئ اظہار رائے کاحق لامحدود ہرگز نہیں اور شہری وسیاسی حقوق پر عالمی قانون (International Covenant on Civil and Political rights-ICCPR) کے ذریعے اس حق کو محدود کیا گیا ہے۔ امنِ عامہ اور اخلاقی اقدار کو برقرار رکھنے کے لیے مذکورہ معاہدے کا احترام ضروری ہے۔ان توہین آمیز کارٹونوں کو دیکھ کرکسی بھی مسلمان کے غم وغصے کا عروج پر پہنچ جانا فطری سی بات ہے۔ دنیا کارٹونوں کی اس بات کو ’’تہذیبوں کے تصادم ‘‘(Clash of Civilisations) کا تمہیدی منظر قرار دے رہی ہے، یعنی ’’مغرب بمقابلہ اسلام‘‘ کے دور کا (ایک بار پھر)آغاز ہو چکا ہے۔
زیر بحث کارٹون پیغمبر اسلام ؑ سے یا دوسرے لفظوں میں اسلام سے نفرت کااظہار ہیں۔ ان کارٹونوں کو شائع کرکے ’’ہمہ قسم کے نسلی امتیاز (یاتعّصبات) کے خاتمے پر عالمی کنونشن‘‘کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی ہے ۔یہ کنونشن نسلی برتری، نفرت انگیز تقاریر اور نسلی تعصب کو ابھارنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیتاہے۔ اس کی رو سے اقوام متحدہ کی ہر رکن ریاست پر لازم ہے کہ وہ اس قسم کے قابل تعزیر اقدامات کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دے۔ لہٰذا یہ ثابت ہوگیا کہ ان کارٹونوں کو شائع کرکے دراصل ایک عالمی قانون کی نفی اور خلاف ورزی کی گئی ہے۔ آزادی اظہار کی آڑ میں عقیدہ اسلام کے حاملین یعنی مسلمانوں کے جذبات کو جس طرح مجروح کیا گیا ہے، اس کے بعد ضروری ہوگیا ہے کہ ان ملکوں میں موجود اسلامی تنظیمیں اور مسلمان قانونی ماہرین متعلقہ ملکوں کی بااختیار عدالتوں سے ’’محکم فیصلہ ‘‘(Ruling)حاصل کریں بلکہ ترجیحاً ’’انسانی حقوق کی یورپی عدالت‘‘  (European Court of Human Rights) سے رابطہ کریں تاکہ مسلمانوں کے زخموں کا کسی حد تک مداوا ہوسکے۔
CCPR اور ICERD جیسے معاہدوں سے ثابت ہو جاتاہے کہ آزادی اظہار رائے کا مطلب بے لگام آزادی ہرگز نہیں، بلکہ اس کی حدود وقیود کا باقاعدہ تعین کیا گیا ہے۔ان معاہدوں پر اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی واضح اکثریت نے دستخط کررکھے ہیں اور یورپی عدالتیں ان حدود وقیودکی توثیق کرتی ہیں۔ ICERDپر عمل درآمد کا جائزہ لینے اور اسے مانیٹر کرنے کے لیے باقاعدہ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو ’’نسلی تعصبات کے خاتمے کی کمیٹی‘‘کے نام سے موسوم ہے۔ قانون کی رو سے نسلی برتری یا نسلی تعصب یا نسلی برتری کے نام پر نفرت پھیلانے کو مستوجب سزا قرار دیا گیا ہے۔نسلی تفاخر کے نتیجے میں پید ہونے والی نسلی منافرت تشدد کو جنم دیتی ہے ،لہٰذا یہ فعل قانوناً ممنوع ہے اوراس کی سزا اظہار رائے کی آزادی سے ہم آہنگ ہے۔ اس حوالے سے صرف موزوں اور مناسب قانون سازی ہی کافی نہیں ،بلکہ قانون کا موثر نفاذبھی ضروری ہے ۔جو شہری آزادی اظہار کے حق سے استفادہ کرتے ہیں ،ان پر بعض خصوصی فرائض اورذمہ داریاں (خود بخود ) جاری ہو جاتی ہیں۔ (CERD کی عمومی سفارش xv)
اسلامی عقائد کے حامل افراد (مسلمان) جن کی توہین کی گئی ہے ،وہ گوروں کے اس طبقے سے مختلف طبقہ ہیں جس نے توہین کا آغازکیا یا جو توہین کے ذمہ دار ہیں، جسے ICERD اور CERD جرم قرار دیتے ہیں۔ شہریوں کو جو بنیادی آزادیاں اور انسانی حقوق ICCPR کے توسط سے حاصل ہیں، ’’انسانی حقوق کی کمیٹی ’’ان سے متعلقہ قوانین کی مفصل اور سیر حاصل توجیہ وتوضیح کرتی ہے۔ اس کمیٹی نے ’’فاریسن بنام فرانس‘‘ کیس میں دیے جانے والے عدالتی فیصلے کی توثیق کی تھی۔ اس عدالتی فیصلے کے تحت ’’یہودی مخالف کی دل جوئی اور انہیں سہارا دینے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے بیانات کے اجرا پر پابندی عائد کر دی جائے جو یہودمخالف ہوں یا جن سے یہودیوں کے جذبات کوٹھیس پہنچتی ہو ۔ اس طرح یہودیوں کو مذہبی منافرت کی دفعہ (۲) ۲۰ کے پس منظر میں کار فرما اصول بھی مذکور ہ پابندی کی حمایت کرتاہے ۔آزادی اظہار کے حق سے استفادہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بعض فرائض اور ذمہ داریاں اپنے ذمے لے لی جائیں ‘‘۔
’’ انسانی حقوق کی کمیٹی‘‘ (HRC)نتیجہ اخذ کرچکی ہے کہ اس نوعیت کی پابندی ICCPR کی دفعہ ۱۹ کی خلاف ورزی نہیں کرتی۔ سوال یہ ہے کہ یورپی عدالتیں یہودیوں کو تو حق دیتی ہیں کہ ان کے خلاف بیانات جاری نہ کیے جائیں اور بڑے پر جوش انداز میں یہ اہتمام کیا جاتاہے کہ ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔پھر مسلمانوں کو یہ حق دینے میں لیت ولعل سے کیوں کام لیاجاتاہے ؟’’انسانی حقوق کی عالمی عدالت‘‘ کے فیصلوں پر نظر ڈالی جائے تو مندرجہ ذیل نتائج سامنے آتے ہیں:
’’ اظہار رائے کی آزادی کا اطلاق ان معلومات ونظریات پر بھی برابر ہوتاہے ،جو ریاست میں انتشار یاعوام کے کسی طبقے میں اشتعال کا سبب بن سکتے ہوں۔ اجتماعیت اور برداشت کے یہی تقاضے ہیں ،جن کے بغیر کسی معاشرے کو جمہوری معاشرہ نہیں کہا جاسکتا۔‘‘ (ہینڈی سائڈکیس)
ڈائی چنڈ ودیگر بنام آسٹریا، کرتاس بنام ترکی، بیلڈٹ ٹرامز بنام ناروے جیسے مقدمات میں یورپی عدالتوں نے صحافیوں کو اشتعال انگیز حد تک مبالغے کی اجازت دے دی، تاہم ایک یورپی عدالت نے ’’ونگروو بنام برطانیہ‘‘نام کے مقدمے میں مذکورہ بالا مقدمات کے فیصلوں سے مختلف فیصلہ بھی دیا،جس کے تحت ’’جب دفعہ (۲)۱۰ کے تحت سیاسی تقاریر اور قابل اعتراض ومتنازعہ سیاسی مباحث پر پابندی عائد نہ کی جاسکے تو عوامی مفاد کے پیش نظر آزادی اظہار کے حق کومحدود کیا جاسکتاہے، بالخصوص جو مباحث ذاتی ،اخلاقی یا مذہبی عقائد سے متعلق ہوں‘‘۔
’’اوٹوپریمنگر انسٹی ٹیوٹ بنام آسٹریا‘‘ نام کے مقدمے میں بھی اسی اصول کی پیروی کرتے ہوئے عدالت نے لکھا کہ ’’دفعہ ۹ کے تحت مذہبی جذبات کے احترام کی جو ضمانت فراہم کی گئی ہے، اس کے مطابق کسی بھی مذہب کی توہین پر مبنی اشتعال انگیز بیانات کو بد نیتی اور مجرمانہ خلاف ورزی قرار دیا جاسکتاہے۔جمہوری معاشرے کے اوصاف میں یہ وصف بھی شامل ہے کہ اس نوعیت کے بیانات، اقوال یا افعال کو تحمل، بردباری اور برداشت کی روح کے منافی خیال کیا جائے اور دوسروں کے مذہبی عقائد کے احترام کوصد فی صد یقینی بنایا جائے‘‘۔
اگر کوئی کسی دوسرے کے مذہبی عقائد کی مخالفت کرے یا انہیں جھٹلائے تو عدالت ان پر پابندی عائد کرسکتی ہے کہ وہ ممکنہ حد تک ایسی گفتگو سے پرہیز کرے جو کسی دوسرے عقیدے یا مذہب کے ماننے والے کی دل آزاری کا باعث بنتی ہو۔ ’’ڈیوبوسکا اورسکپ بنام پولینڈ ۴۰‘‘ کیس میں اسی سوچ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے عدالت نے لکھا کہ:
’’جن باتوں کو مذہب یا عقیدے کی رو سے مقدس یا قابل تعظیم سمجھا جاتاہو ،ان کی متشدد اور اشتعال انگیز تصویر کشی کو دفعہ ۹ کے تحت حاصل شدہ حقوق کی نفی اور خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔حکومت کا یہ مثبت فرض یا مثبت ذمہ داری ہے کہ اقلیتوں کے پختہ مذہبی عقائد کے تحفظ کااہتمام کرے اور انہیں ہر قسم کے حملوں سے بچائے ۔قانون کے تحت حاصل شدہ کسی بھی مذہبی حق کا استعمال ،اگر کسی فرد کے عقائد کی توہین کرتاہو تو اس کی حدود کا تعین کرنے کے لیے ریاست کی مداخلت جائز ہو گی۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ شہریوں کے باہمی تعلقا ت میں مذہبی عقائد کی آزادی کے حق کے احترام کو بھی یقینی بنائے اور عوام اور ریاستی حکام کے باہمی مراسم کے تناظر میں بھی آزادی مذہب کے حق کو محترم جانے۔اس ریاستی فرض کا ادراک برطانیہ میں اقلیتوں کے مذاہب کے فروغ میں (یورپی)کنونشن کو ممد بنا سکتاہے۔مطلب یہ کہ مذکورہ فروغ کے عمل میں (یورپی )کنونشن کو اہم کردار سونپا جاسکتاہے ‘‘۔ (دی اوٹو پریمنگر کیس)
انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کی معاہداتی تنظیموں (CERD اور HRC ) اور یورپی عدالتوں کے علاوہ فرانس، جرمنی، آسٹریا، اٹلی اور بعض دوسرے ممالک کی قانون ساز اسمبلیوں کے منظور شدہ قوانین نے ایک مخصوص فلسفہ قانون کومتشکل کرنے میں اہم کردار اداکیا ۔ ان ممالک کی قوانین کی روسے ’’ہولو کاسٹ‘‘(ہٹلر کے ہاتھوں جرمنی میں تقسیم یہودیوں کا قتل عام) سے انکار اور اسے خلاف واقعہ قرار دینا جرم ہے۔ (اس طرح اظہار رائے کی آزادی پر پابندی عائد کرکے اس حق کو محدود کردیا گیا ہے) اندریں حالات پیغمبر اسلام سے نفرت (نعوذباللہ )پر مبنی مواد یا تصاویر (کارٹونوں) کی اشاعت کامتعلقہ ممالک کی حکومتوں، قانون ساز اسمبلیوں اور عدالتوں نے نوٹس کیوں نہیں لیا؟(بے نیازی،سرد مہری اور لاتعلقی) کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کو عیسائیوں اور یہودیوں سے کمتر سمجھا جاتاہے ۔کیا یہ امتیاز عدم مساوات کی نشاندہی نہیں کرتا؟
اگر اشتعال انگیز اور نفرت آمیز تصاویر کا کوئی نوٹس نہ لیا جائے اور انہیں نظر انداز کردیا جائے تو نتیجتاً انتہائی سنگین اور متشدد تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔ گزشتہ ایک عشرے کے دورانیے میں روانڈا اور بوسنیا کے انکوائری کمیشنوں او ر ہیگ اور اروشا میں ’’جرائم کے عالمی ٹربیو نلز ‘‘نے کئی مفصل شواہد ریکارڈ کیے جن سے ثابت ہوتاہے کہ نفرت پر مبنی خیالات واحساسات کا اظہار زبان سے کیا جائے یا تحریر سے یا تصویر کشی کا سہارا لیا جائے اور میڈیا ان خیالات اور احساسات کوپھیلانے اور عام کرنے میں بھر پور (مگر منفی)کردار ادا کرے تو ہم انہیں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کی علامات قرار دے سکتے ہیں۔اگر یورپی ممالک نے اپنے میڈیا کے توسط سے کیے جانے والے نفرت کے اظہار کی روک تھام نہ کی تو مغربی اور اسلامی تہذیبوں کے تصادم کے جانبدارانہ اور متعصبانہ نظریات سچ ثابت ہوجائیں گے اور اس طرح ان نظریات کے داعی اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہریں گے ،لہٰذا آزادی اظہار کے حق کا استعمال کرتے وقت ضروری ہے کہ اسے اخلاقی حدود وقیود میں رکھا جائے۔ یہی ’’روشن خیال اعتدال پسندی ‘‘کااولین تقاضاہے ۔عوامی مفاد کے پیش نظر بھی ایسا کرنا ضروری ہے ۔
محولہ بالا فلسفہ ہائے قوانین کی روشنی میں یورپی ممالک میں موجود سماجی، فلاحی اور معاشرتی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ ریاستی حکام، قانون ساز اسمبلی اور عدالتوں کی توجہ اس جانب مبذول کروائیں تاکہ یورپی یونین میں مقیم ڈیڑھ کروڑ مسلمان تارکین وطن توہین سے بچ جائیں اور ان کا مذہبی تقدس بھی مجروح نہ ہو۔ ڈنمارک کے وزیر اعظم راس مسن سے خصوصی درخواست کی جائے کہ وہ انسانی حقوق کے قوانین کے حوالے سے اپنے عالمی فرائض سے عہدہ برآہوں ۔امریکہ کا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور یورپی اخبارا ت زیر بحث کارٹونوں کی اشاعت کی مذمت کرچکے ہیں۔مزید برآں امریکی اور برطانوی اخبارات نے ان کی دوبارہ اشاعت سے اجتناب برتنے کا جو عندیہ دیا ہے ،وہ بھی خوش آئند ہے ۔یہ طرز عمل اسلامی دنیا کے مذہبی جذبات کے احترام کے مترادف ہے۔
مغرب میں بعض اوقات یہ سوال اٹھایا جاتاہے کہ اسلامی اقدارمغر ب کی معاشرتی اقدار سے ہم آہنگ ہیں یا نہیں؟ ہاں! اساسی اعتبارسے دونوں ایک ہیں، لیکن دونوں میں بعض نمایاں اور واضح اختلافات بھی پائے جاتے ہیں ۔مثلاً مغربی معاشرے میں شہریوں کواظہار رائے کی مادرپدر آزادی حاصل ہے، وہ دوسروں کے عقائد کا جس طرح چاہیں، مضحکہ اڑا سکتے ہیں،لیکن اسلامی معاشروں میں اس چیز کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
انسانی حقوق کے متعدد معاہدوں میں مسلمان ممالک فریق کی حیثیت رکھتے ہیں۔شہری ،سیاسی ،اقتصادی ،سماجی اور ثقافتی حقوق کے عالمی معاہدات ،عورتوں کے ساتھ منفی امتیاز کے امتناع کامعاہد ہ ،ہر قسم کے نسلی امتیاز (تعصبات)کے خاتمے کاعالمی معاہدہ، بچوں کے حقوق کاعالمی معاہدہ اور بعض دیگر معاہداتی دستاویزات کے ذریعے ’’انسانی حقوق کے بین الاقوامی اعلامیے‘‘کے پس پردہ کارفرما اصولوں کوقانونی ضوابط کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔اسی طرح ریاستوں کو پابند کردیا گیا ہے کہ وہ اپنے انتظامی ،قانونی اور تعزیری قوانین کے نفاذ میں بھی عالمی معیار ہی کوپیش نظر رکھیں ۔
یہ درست ہے کہ بعض ممالک ان دستاویزات کی کئی شقوں کے بارے میں تحفظات کاشکار ہیں ۔ان میں مغرب، ایشیا ،افریقہ ،لاطینی امریکہ کے کچھ ممالک شامل ہیں۔ ان معیارات پر عمل درآمد کے وقت بعض ممالک اپنے فرائض کی کماحقہ ادائیگی میں قاصر رہتے ہیں۔ یہ CERD یا HRC جیسے نگران اداروں اور یا پھر ان مانیٹرنگ کمیٹیوں کا کام ہے جن کا انتخاب جغرافیائی اعتبار سے مساویانہ ہونا چاہیے۔
صرف یہ کہہ دینا اختلافات کو ہوا دینے اور سنگین تر کرنے کے مترادف ہے کہ دونوں تہذیبوں اور دونوں ثقافتیں ہم آہنگی کے فقدان کا شکار ہیں۔ اس نوعیت کے اظہار رائے میں اس مسئلے کاحل مضمر نہیں۔ مسلمان ریاستوں پر یہ تنقید بے جا اور غیرحقیقت پسندانہ ہے کہ وہ مغربی اقدار سے مکمل سمجھوتہ نہیں کر رہیں۔دو مختلف تہذیبوں کے ساتھ ان کی تاریخی وابستگی کوپیش نظر رکھا جائے تو مطالبہ احمقانہ نظر آئے گا۔ مثال کے طور پر اگر مغرب مسلمان ممالک سے یہ توقع کرے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کو کاملاً قبول کر لیں اور اس بات کو پیش نظر نہ رکھیں کہ وہ آزادی ان کے مذہبی شعور واحساس کو کتنے شدید دھچکوں سے دوچار کرتی ہے ،حتیٰ کہ وہ ایسی ہستیوں کی توہین بھی برداشت کرلیں جو ان کے نزدیک مقدس ترین اور حد درجہ قابل احترام ہیں تو ناقدین آگاہ رہیں کہ کوئی اسلامی ریاست اس نوعیت کی آزادی سے استفادہ نہیں کرے گی اور پھر مغربی معاشرت میں بھی اس قسم کی آزادی تضادات کا شکارہے اور مغربی ممالک نے اس حوالے سے دو ہرے معیار اپنا رکھے ہیں۔
اسلام کے خلاف دریدہ دہنی کے چیلنج سے نمٹنا مقصود ہے تو مسلمان دنیا کوچاہیے کہ اپنے جائز غم وغصے کومتشدد انداز میں ظاہرکرنے کی بجائے مغرب کے ساتھ دانشورانہ مباحث کی راہ اپنائے۔ مسلمانوں کی اپنے نبی ﷺ کے ساتھ وابستگی اور عقیدت کسی سے ڈھکی چھپی ہرگز نہیں، جنہوں نے متعدد ستم اٹھائے، کئی صعوبتیں برداشت کیں ،لیکن اپنے نیک مقاصد کوترک نہ کیا اور بالآخر مکہ میں ایک فاتح کے طورپر داخل ہوئے اور انتقام کی راہ سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے بدترین دشمنوں کوبھی معاف کر دیا۔ ایک عظیم الشان فاتح ہو کر بھی انہوں نے عفو درگزر کی ایسی مثال قائم کردی جس کی ماضی قریب یا بعید میں کوئی نظیر دستیاب نہ تھی۔ لہٰذا امت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ دلی،ذہنی اور جذباتی وابستگی کا اظہار کرتے وقت ان کی سنت کو ترک نہ کریں اور اگر انتہائی غیر ذمہ دارانہ انداز میں توہین آمیز اور لڑنے مرنے پر اکسانے والے حملے کیے جائیں تو بھی وہ اپنی صفوں میں اتحاد اور نظم وضبط کی کمی نہ آنے دیں۔
(بشکریہ روزنامہ ’پاکستان‘ لاہور)

عظمتِ رسول ﷺ اور انسانی حقوق

ابو محمد عبادہ

’’موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد(ﷺ)اس دُنیاکے حکمران (رہنما ) بنیں۔‘‘
یہ مشہور مغربی مفکر جارج برناڈ شا کا قول ہے اور یہ نبی اکرم ﷺ کی ذات والاصفات کے بارے میں غیر متعصب اورغیر مسلم محققین اور مفکرین کی بے شمار آرا میں سے ایک ہے۔ جارج برناڈ شا اُن لوگوں میں سے ہے جونبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کی نبوت پر ایمان نہیں لائے، پھر بھی وہ آپ ﷺ کی عظمت کو تسلیم کرتا دکھائی دیتا ہے۔آپ ﷺ کی سچائی اور صداقت کااعتراف صرف عرب تک محدود نہیں رہا بلکہ ساری دنیا کے دانشور اور مفکر جو اسلام کے ماننے والے بھی نہیں ہیں، وہ بھی حضور ﷺ کی عظمت و رفعت کابرملا اعتراف کرنے اور آپ ﷺ کی حمد وتعریف پر مجبور ہیں۔کارلائل، نپولین،والٹر، روسو، ویلز، ٹالسٹائی، گوئٹے، لین پول اور دیگر بے شمار دانشور آپ ﷺ کی شان میں رطب اللسان ہیں۔ 
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حقوق انسانی یا آزادی صحافت کی آڑ میں،عالمی سطح پر ایک معتبر اور تسلیم شدہ ہستی، بے داغ کرداروالی شخصیت اور انسان کامل کا سوقیانہ انداز میں ذکر اورکسی بھی استہزائی پیرایے میں اس پر اظہار خیال کیا جاسکتاہے ؟ اورکیا کسی ایسی قبیح حرکت کو محض چند نام نہاد اصطلاحوں کے پردے میں سند جواز دی جا سکتی ہے ؟ بالخصوص ایسی صورت میں جب کہ ہرمذہب وفکر ونظریہ کے غیر متعصب عالمی دانشور اس شخصیت کو انسانیت کانجات دہندہ ، بہترین انسان اور رہنما تسلیم کرنے میں ہچکچا تے نہ ہوں اورایسی شخصیت نبی کی ہو، اربوں انسان اس کے پیروکار ہوں اور اس ذات گرامی سے غیر مشروط وابستگی ، عشق اور شیفتگی رکھتے ہوں؟ 
عظمتِ رسول ﷺ کا تصور امّتِ مسلمہ کے ہر فرد کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے۔ مسلمانوں کا یہی جذبہ اور اپنے نبی ﷺ سے والہانہ لگاؤ ہی غیرمسلم اقوام کے دلوں میں کانٹا بن کر چُبھتا چلا آرہا ہے۔غیر مسلم اقوام کسی نہ کسی طریقے اور مختلف حیلوں اور بہانوں سے امت مسلمہ کے افراد کے دلوں میں حُبِّ رسول ﷺکوکم سے کم کرنے کے درپے رہتی ہیں۔ دُور نہ جائیے، گزشتہ چند سالوں کے عالمی واقعات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آ ج کے مہذب دور میں خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ اور دین اسلام کے بارے میں ایک نیا عالمی انسانی اور مذہبی روّیہ تخلیق کرنے کی سازش ہورہی ہے۔ غیر مسلم ذرائع ابلاغ اسلام کے خلاف میڈیائی جارحیت سے مسلح نظر آتے ہیں۔ 
آج کادانشور یہ کہہ رہاہے کہ انسانی حقوق ، انسانوں کی برابری کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ انسانی برادری اور انسانوں کے مابین تفریق کو ختم کرنے کا مسئلہ ہے۔کسی دوسرے انسان کے حقوق کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قدر وقیمت اس کے انسانی اوصاف کی بناپرہونی چاہیے نہ کہ اس کی شخصیت کی بنا پر۔اس میں ظاہری حد بندیوں،اختلافات اور نظریاتی کشمکش کی عمل داری نہیں ہونی چاہیے۔ حقوق انسانی کے علم برداروں کی یہی دلیل برملا تقاضاکرتی ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ دُنیا کی سب سے بلند ، اعلیٰ اور بہترین ہستی ہیں اورآپ کے انسان کامل اور سب سے بہترین انسان ہونے پر دُنیاکااجماع اور اتفاق ہے تو پھروہ کون سی بات ہے جو مخالفین اور اسلام دُشمنوں کوآپ ﷺ کی توہین پر آمادہ کرتی ہے؟ اور کیاایسے بدبخت اشخاص کسی قسم کی رعایت کے مستحق ہوسکتے ہیں؟ظاہرہے کسی کا استحقاق ملحوظ خاطرنہ رکھنے والوں کا نہ کوئی استحقاق ہوسکتاہے اور نہ ہی کوئی حق۔ایسے افراد ملعون ہوتے ہیں اورانسانیت کے نام پردھبہ۔ 
اس ضمن میں اپنوں کی کوتاہیوں اور بھول پن کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے لیے خوشی، غمی اور اپنے جذبات کے اظہار کا بھی ایک طریق کار ہے جو ہمیں تعلیمات اسلام اور نبی پاک ﷺ کے عمل اوراسوہ مبارکہ سے حاصل ہوا ہے۔ اس کابرملاتقاضاہے کہ امت مسلمہ اپنے نقطہ نظر کوپیش کرتے وقت حکمت اور موعظہ حسنہ سے کام لے اور بہترین انداز اور طریقہ اختیار کرے۔ یہی سنت رسول ﷺ اور حکمِ رسول ﷺ ہے۔ مسلم ممالک کی حکومتوں ، دانش مندوں ، اہلِ علم و فکر اور مقتدر طبقات کی ذمہ داریوں کا تقاضا ہے کہ وہ انسان کامل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عزت اور تقدس مآبی پر انگشت نمائی کرنے والوں کے ہوش، نہایت حکمت اور تدبر سے ٹھکانے پرلانے کا اہتمام کریں۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ آج علم اور دلیل کی دُنیا اور جمہوریت کا دور ہے۔ ایسے میں ہم مسلمانوں کو جوش کے ساتھ ساتھ ہوش کی بھی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ 
ہمیں نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی کو مغرب اور غیر مسلم دُنیاکے سامنے پیش کرتے وقت اعلیٰ اسلامی تعلیمات کو اجاگر کرناہوگا۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام ایک مکمل دین ہے۔ اسلام میں حقوق انسانی کا جس انداز میں خیال رکھاگیا ہے ،دوسرے مذاہب اور نظریات اور نام نہادخود ساختہ اصطلاحات اس سے عاری دکھائی دیتی ہیں۔ مادر پدر آزادی نہ انسان کاحق ہے اور نہ ہی حیوانوں جیسی آزادی سے اس کو منزلِ مقصود حاصل ہو سکتی ہے۔اسلام سلامتی ، خیر خواہی ، محبت واخوت اور امن وسکون کا دین ہے۔ تعلیمات قرآن اور نبی پاک ﷺ کی سیرت مطہرہ اس کا عملی مظہر ہیں۔ ذات رسول ﷺ جسے خالقِ کائنات نے تمام جہانوں اور سب دنیاؤں کے لیے رحمت قرار دیا ہے ، وہ بنیادی کلید ہے جو گلوبلائزیشن کے دَور سے گزرتی ہوئی انسانیت کے لیے راہبری و رہنمائی کا کام دے سکتی ہے۔ 

طباعتِ قرآن میں رسمِ عثمانی کا التزام

حافظ محمد سمیع اللہ فراز

کلماتِ قرآنیہ کی کتابت کا ایک بڑا حصہ تلفظ کے موافق یعنی قیاسی ہے،لیکن چند کلمات تلفظ کے خلاف لکھے جاتے ہیں۔ کیا مصاحف کی کتابت وطباعت میں رسمِ عثمانی کے قواعد وضوابط کی پابندی واجب ہے اور کیا رسمِ قرآنی اور رسمِ قیاسی کے مابین یہ فرق و اختلاف باقی رہنا چاہیے ؟ اس سوال کے حوالے سے علماےِ رسم اور مورخین کے ہاں دو زاویہ ہائے فکر پائے جاتے ہیں:
جمہور علما کا نقطہ نظر یہ ہے کہ قرآنی رسم کی قدامت کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس میں کسی تبدیلی کی گنجایش نہیں اور طباعتِ مصاحف میں اِسی کی پابندی لازمی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام ث نے رسم عثمانی کو اختیار کرنے پر اتفاق کیا ہے اور صحابہ کا اتفاق اُسی معاملہ پر ممکن ہو ہے جو اُن کے ہاں متحقق ہو کر واضح ہو چکا ہو۔ (۱)
فکر کا دوسرا زاویہ یہ ہے کہ عوام کے لیے رسمِ عثمانی کے مطابق لکھے ہوئے مصاحف میں قراء تِ قرآن کے لحاظ سے کئی مفاسد ہیں، اس لیے عوامی سطح پر اس رسم الخط کو تر ک کر دینا چاہیے، البتہ خواص کے لیے اس کی گنجایش باقی رہنی چاہیے۔ 
ذیل میں ہم ان دونوں نقطہ ہائے نظر اور ان کے استدلالات کا ایک مطالعہ پیش کریں گے۔

رسمِ عثمانی کا اِلتزام

رسمِ عثمانی کے مُجمع علیہ ہونے میں کسی کا اختلاف منقول نہیں کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ مصاحفِ عثمانیہ کی کتابت کرتے ہوئے بارہ ہزار ۱۲۰۰۰ صحابہ ثنے اتفاقِ رائے سے اِس رسم کو صحیح اور درست قرار دیا(۲)۔ مصرکے شیخ القرا ء محمد بن علی حداد نے اپنے رسالہ’’النصوص الجلیلۃ‘‘ میں رسمِ عثمانی کے اتباع کو بارہ ہزار صحابہ کرامثکے اجماع سے ثابت کیا ہے۔ (۳)
رسول اللہا کے ارشاد کے مطابق خلفاے راشدین ثکی سنت بھی قابلِ اتباع ہے اور اس کی پیروی ہر مسلمان پر لازم ہے۔ دلیل مذکور کی بنیاد پر چونکہ رسمِ عثمانی صحابہ ث کا مجمع علیہ ہے، لہٰذا اِس کی اتباع اور اقتدا کا حکم تمام دیگر نظریات کے مقابلہ میں راجح ہے۔ علامہ ابوطاہر السندی ؒ رسمِ عثمانی پر لوگوں کے تعامل کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’۔۔۔ وتقلدت الأمۃ رسمہا ، واشتہرت کتابتہا بالرسم العثماني، وأجمع الصحابۃ رضی اﷲ عنہم علی ذلک الرسم ولم ینکر أحد منہم شیئا منہ وإجماع الصحابۃ واجب الإتباع۔ ثم استمرّ الأمر علی ذلک، والعمل علیہ فی عصور التابعین والأئمۃ المجتہدین، ولم یر أحد منہم مخالفۃ وفی ذلک نصوص کثیرۃ لعلماء الأئمۃ‘‘۔(۴)
یعنی امت نے اسی رسم کی تقلید کی ہے اور اسی میں مصحف کی کتابت کا عام رواج ہوا۔ صحابہ کرام ثکا اس رسم پر اجماع ہوا اور ان میں سے کسی نے اس کا انکار نہیں کیااور صحابہ کرامث کااِجماع واجب الاتباع ہے۔ پھر یہی طریقہ رائج رہا اور تابعین اور ائمۂ مجتہدین کے ادوار میں اسی پر عمل رہا اور کسی نے اس معاملہ میں اختلاف کا خیال بھی نہیں کیا۔ اس پر علماے امت کے بہت سے اقوال موجود ہیں۔
رسول اللہا کی زیر نگرانی ہونیوالی کتا بت ہی صحابہ کرام ث کے لیے قابلِ عمل تھی ۔اُنہی خصوصیاتِ رسم کے ساتھ عہدِ صدیقی اور پھر عہدِ عثمانی میں مصاحف تیار کروائے گئے۔ چنانچہ اسلام کے ابتدائی دور میں لوگوں کے لیے کتابتِ مصحف کا معیار رسمِ عثمانی تھااور اکثر صحابہث ،تابعینؒ اور تبع تابعینؒ نے ہمیشہ رسمِ عثمانی کی موافقت کو ہی معیار سمجھا۔ابن قتیبہؒ لکھتے ہیں:
’’ولولا اعتیاد الناس لذلک فی ھذہ الأحرف الثلاثۃ (الصلوٰۃ، الزکوٰۃ والحیٰوۃ) وما فی مخالفۃ جماعتھم لکان أحب الأشیاء إلی أن یکتب ھذا کلہ بالألف‘‘۔(۵)
یعنی اگر ان تین کلمات صلوٰۃ، زکوٰۃ اور حیٰوۃ کا واؤ کے ساتھ املا لوگوں میں رائج نہ ہوتا اور ان کے اتفاق کی خلاف ورزی کا خدشہ نہ ہوتا تو میں ان کلمات کو الف سے لکھنا زیادہ پسند کرتا۔
ایک عرصہ تک اِسی طرح معاملہ چلتا رہا یہاں تک کہ علماے لغت نے فنِ رسم کے لیے ضوابط کی بنیاد رکھی اور قیاساتِ نحویہ و صرفیہ اِس غرض سے وضع کر دیے گئے تاکہ نظامِ کتابت اور تعلیمی سلسلہ میں کسی غلطی یا شبہ کا احتمال باقی نہ رہے۔ قواعدِ ہجا ، قواعدِ املا ، علم الخط القیاسی و الاصطلاحی، یہ وہ سب نام تھے جو اِن قواعد کے لیے وضع کیے گئے ۔ لوگوں نے عام لکھنے میں کلمات کے پرانے ہجا کو رفتہ رفتہ ترک کر دیا، لیکن مصاحف میں موجود الفاظ اپنی اُسی ہیئت و صورت میں رہے جس میں اُنہیں عہدِ عثمان صمیں لکھا گیا تھا۔

ِ مذاہب اربعہ کا موقف

مذاہبِ اربعہ کے تمام فقہاؒ نے مصحف کی کتابت اور طباعت میں رسمِ عثمانی کے التزام کی ضرورت پر زور دیا ہے اور اس کی مخالفت کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔ اِس پر علما کا اِجماع منقول ہے کہ رسمِ عثمانی کی مخالفت جائز نہیں: ’’ولا مخالف لہ فی ذلک من علماءِ الأئمۃ‘‘ (۶)۔ علامہ الحدادؒ کے بقول علما کا ہمیشہ رسمِ عثمانی پر اجماع رہا ہے اور اِس کی مخالفت کو اجماع سے روگردانی تصور کیاہے: 
’’وما دام قد انعقد الإجماع علی تلک الرسوم فلا یجوز العدول عنہا الی غیرہا، إذ لا یجوز خرق الإجماع بوجہ‘‘۔(۷)
علامہ جعبریؒ نے ’روضۃ الطرائف فی رسم المصاحف فی شرح العقیلۃ‘ میں ائمۂِ اربعہ کا یہی موقف نقل کیا ہے۔(۸)
مکاتب اربعہ کے فتاویٰ کی تفصیل حسب ذیل ہے
۱۔ امام مالک ؒ کا مسلک:وقت کے گزرنے کے ساتھ کتابتِ مصحف میں جب رسمِ عثمانی سے مختلف کلمات کا دخول شروع ہوا تو امام مالکؒ (۹۵ھ۔۱۷۹ھ) سے اس ضمن میں استفتا کیا گیا جس کو علامہ دانی ؒ نے اِن الفاظ میں نقل کیا ہے:
’’۔۔۔ فقیل لہ : أریت من استکتب مصحفًا الیوم أتری أن یکتب علیٰ ما أحدث الناس من الھجاء الیوم ؟ فقال: لا أری ذلک ، ولکن یکتب علی الکتبۃ الاولیٰ‘‘۔(۹)
یعنی امام مالک ؒ سے پوچھا گیا کہ کہ کیا کوئی شخص لوگوں میں مروّج ہجا پر مصحف کی کتابت کر سکتا ہے تو آپؒ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ نہیں، بلکہ اسے پہلے طریقے پر ہی لکھنا چاہیے۔ امام مالک ؒ کے اِ س قول کے متصل بعد علامہ دانی ؒ نے لکھا ہے کہ امام مالکؒ کے اِس قول سے کسی نے اختلاف نہیں کیا: ’’ولا مخالف لہ فی ذلک من علماء الامۃ‘‘۔امام سخاوی ؒ نے امام مالک ؒ کے قول پر ’’والذی ذہب الیہ مالک ہو الحق‘‘ کے الفاظ میں تبصرہ کیا ہے۔(۱۰)
۲۔ رسمِ عثمانی کے التزام کے بارے میں امام احمد بن حنبلؒ (۱۶۴ھ۔۲۴۱ھ) کا موقف بیان کرتے ہوئے علامہ زرکشیؒ لکھتے ہیں:
’’تحرم مخالفۃ مصحف الإمام فی واوٍ أو یاءٍ أو ألفٍ أو غیر ذلک‘‘۔(۱۱)
ڈاکٹر عبد الوہاب حمّودہ ،امام مالک ؒ اور امام احمد ؒ کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’فإذا عرفنا أن الإمام مالکاً ولد سنۃ ۹۳ھ وتوفی سنۃ ۱۷۹ھ علی الصحیح، وأن الإمام أحمد ولد سنۃ ۱۶۴ھ وتوفی سنۃ ۲۴۱ھ فہمنا أن الأمۃ فی القرنین قد أدرکت مخالفۃ الرسم العثمانی لقواعد کتاباتہم ، ورغبوا فی کتابۃ المصاحف علی القواعد الکتابیۃ، فاستفتوا الإمام مالکا فلم یفتہم بجواز ذلک ، وما علینا إلا اتباعہم والإقتداء بہم‘‘۔(۱۲)
یعنی ہم جانتے ہیں کہ امام مالک ؒ ۹۳ہجری میں پیدا ہوئے اور ۱۷۹ھ میں وفات ہوئی اور امام احمد ؒ ۱۶۴ھ میں پیدا جبکہ۲۴۱ھ میں فوت ہوئے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی اور دوسری صدی ہجری میں ہی لوگوں نے قواعدِ کتابت میں رسمِ عثمانی کی مخالفت شروع کر کے عام قواعدِ کتابت پر مصاحف کی کتابت کی طرف رغبت کی۔جب امام مالکؒ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے عام قواعدِ کتابت کے جواز کا فتویٰ نہیں دیا۔ اب ہمارے اوپر ان کا اتباع اور ان کے قول کی پیروی لازم ہے۔
۳۔ شافعی فقہا کا مسلک یہ ہے:
’’وجاء فی حواشی المنہج فی فقہ الشافعیۃ مانصہ: کلمۃ الربا تکبت بالواو والألف کما جاء فی الرسم العثمانی، ولا تکتب فی القرآن بالیا أو الألف لأن رسمہ سنۃ متبعۃ‘‘۔ (۱۳)
یعنی ’ربوا‘ کا لفظ اسی طرح واؤ اور الف سے لکھنا چاہیے جیسے رسم عثمانی میں لکھا جاتا ہے۔ اس کو یا، یا الف سے نہیں لکھنا چاہیے کیونکہ رسم عثمانی کی پیروی ہمیشہ سے کی جا رہی ہے۔
۴۔ احناف کی رائے یہ ہے:
’’وجاء فی المحیط البرہانی فی فقہ الحنفیۃ مانصہ: إنہ ینبغی ألّا یکتب المصحف بغیر الرسم العثمانی‘‘۔(۱۴)
یعنی رسم عثمانی سے ہٹ کر مصحف کی کتابت درست نہیں۔ 
مذکورہ بالا اقوال اس بات کے شاہد ہیں کہ مسالک اربعہ کے تمام فقہا رسمِ عثمانی کے التزام کے بارے میں متفقہ موقف رکھتے ہیں۔

التزامِ رسم پر سلفؒ کے اقوال

علامہ عبد الواحدبن عاشر الاندلسیؒ اپنی تصنیف ’’تنبیہ الخلّان علی الأعلان بتکمیل مورد الظمآن‘‘کا آغاز درجِ ذیل خطبہ سے فرماتے ہیں:
’’الحمد ﷲ الذی رسم الآیات القرء انیۃ علی نحو ما في المصاحف العثمانیۃ، الواجب اتباعہا في رسم کل قراء ۃ متواتر عن خیر البریۃ‘‘۔(۱۵)
قولِ باری تعالیٰ (وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ (۱۶)) کی تفسیر میں علامہ زمخشریؒ لکھتے ہیں:
’’وقعت اللام فی المصحف مفصولۃ عن ھٰذَا خارجۃ عن أوضاع الخط العربی وخط المصحف سنۃ لا تغیر‘‘۔(۱۷)
یعنی مصحف میں حرفِ لام(ل) ،کلمہ ’ھٰذا‘ سے علیحدٰہ لکھا گیا ہے جو عام رسم الخط کے خلاف ہے، لیکنِ مصحف کے رسم الخط کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔علامہ سیوطی ؒ نے امام بیہقیؒ (م۴۵۸ھ) کا ’’شعب الایمان‘‘ میں وارد قول اِن الفاظ میں نقل کیا ہے:
’’من کتب مصحفاً فینبغی أن یحافظ علی الہجاء الذی کتبوا بہ ہذہ المصاحف، ولا یخالفھم فیہ ولا یغیر مما کتبوا شیئا، فإنہم کانوا أکثر علماً، وأصدق قلباً ولساناً، وأعظم أمانۃ مِنّا فلا ینبغی أن نظن بأنفسنا استدراکا علیھم‘‘۔(۱۸)
یعنی جو شخص بھی مصحف لکھے تو اسے چاہیے کہ وہ سلف صحابہث و تابعینؒ کے ہجا کا لحاظ رکھے، اُن کی مخالفت نہ کرے ، کسی چیز کو اُن کی کتابت کے ساتھ تبدیل نہ کرے، کیونکہ وہ علم، قلب ولسان کی سچائی اور ایمانداری میں ہم سے بدرجہا بڑھ کر ہیں۔
محمد غوث الدین ارکاٹی ؒ نے رسمِ عثمانی کے التزام کے بارے میں مُلّا علی القاری ؒ کا حسبِ ذیل قول نقل کیا ہے:
’’والذی ذہب الیہ مالک ہو الحق، إذ فیہ بقاء الحالۃ الأولی، إلی أن تعلَّمہا الطبقۃ الأخری بعد الأخری، ولا شک أن ہذا ہو الأحری، إذ فی خلاف ذلک تجہیل الناس بأولیۃ ما فی الطبقۃ الأولی‘‘۔(۱۹)
علامہ نظام الدین نیشاپوریؒ التزامِ رسم کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’إن الواجب علی القراء والعلماء وأہل الکتاب أن یتبعوا ہذا الرسم فی خط المصحف، فإنہ رسم زید بن ثابت، وکان أمین رسول اﷲ ﷺ وکاتب وحیہ، وعَلِم من ہذا العلم ، بدعوۃ النبی ﷺ ما لم یعلم غیرہ، فما کتب شیئا من ذلک إلا لعلّۃ لطیفۃ وحکمۃ بلیغۃ‘‘۔(۲۰)
یعنی مصحف لکھنے کے لیے قرّ ا اور علما پر اِ س رسم کا اتباع لاز م ہے کیونکہ یہی وہ رسم ہے جس کو امینِ رسول اور کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابتصنے اختیار کیا تھا اور وہ رسول اللہ ا کے ارشاد کے مطابق ہر کسی کی نسبت اس سے مکمل طور پر واقف تھے۔چنانچہ انہوں نے جوبھی لکھا، وہ کسی لطیف علت اور بلیغ حکمت کی بنیاد پر ہی لکھاہے۔
علامہ ابو طاہر السندی نے رسمِ عثمانی کے التزام کی چار وجوہ بیان فرمائی ہیں:
’’الراجع من ذلک قول الجمہور، وذلک لوجوہ: ۱۔إن ہذا الرسم الذی کتب بہ الصحابۃ القرآن الکریم حظي بإقرار الرسول ﷺ، واتباع الرسول ﷺ واجبٌ علی الأمۃ۔ ۲۔أجمع علیہ الصحابۃ ولم یخالفہ أحد منہم ،وکان ہذا الانجاز الکبیر الأمۃ لقولہﷺ:(علیکم بسنتیوسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین من بعدی) ۔ ۳۔ أجمعت علیہ الأمۃ منذ عصور التابعین، وإجماع الأمۃ حجۃ شرعیۃ، وھو واجب الاتباع لأنہ سبیل المومنین، قال تعالیٰ: (وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدیٰ وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَاءَ تْ مَصِیرًا)۔ ۴۔ للرسم العثمانی فوائد مہمۃ، ومزایا کثیرۃ، خاصۃ أنہ یحوی علی القراء ات المختلفۃ، والأحرف المنزلۃ ، ففي مخالفتہ تضییع لتلک الفوائد وإہمال لہا‘‘۔(۲۱)
یعنی جمہور کا مذہبِ التزام راجح ہے اور اس کی حسبِ ذیل وجوہ ہیں:
اولاً، رسول اللہا کی تقریر کے باعث صحابہ کرام ثنے اسی رسم میں قرآن مجید کی کتابت کی اور رسول اللہ ا کا اتباع امت پر واجب ہے۔ ثانیاً، اسی رسم پرعہدِ خلفا میں جماعت صحابہث کا اجماع منعقد ہوا ،کسی ایک صحابی سے بھی اس کی مخالفت منقول نہیں۔چنانچہ خلفاے راشدین کا اتباع بھی امت پر واجب ہے کیونکہ رسول اللہا کا ارشاد ہے کہ ’’تم پر میری اور میرے بعد میرے خلفاءِ راشدین مہدیین کی سنت لاز م ہے‘‘۔ ثالثاً،زمانۂِ تابعینؒ سے امت کا اسی رسم پر اجماع ہے ۔ امت کا اجماع حجتِ شرعی اورمسلمانوں کے لیے واجب العمل ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس نے ہدایت واضح ہونے کے بعد رسول اللہ اکی نافرمانی کی اور مومنین کے راستے سے ہٹ کر چلاتو ہم اس کو اسی طرف پھیر دیں گے اور اس کو جہنم میں ڈالیں گے،اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔رابعاً، رسمِ عثمانی کے بہت سے فوائد ہیں، خصوصاً یہ کہ اس میں مختلف قراء ات اور منزل من اللہ حروف شامل ہو سکتے ہیں۔ اس رسم کی مخالفت سے یہ تمام فوائدمتروک ہو جاتے ہیں۔
التزامِ رسمِ عثمانی کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ کردیؒ لکھتے ہیں:
’’فخلاصۃ ما تقدم أن الواجب علینا اتباع رسما المصحف العثماني وتقلید أئمۃ القراء ات خصوصاً علماء الرسم منہم ، والرجوع إلی دواوینہم العظام کالمقنع لأبی عمرو الدانی والعقیلۃ للشاطبی، فإن ائمۃ القراء ات المتقدمین قد حصروا مرسوم القرآن الکریم کلمۃ کلمۃ علی ہیءۃ ما کتبہ الصحابۃ فی المصاحف العثمانیۃ، ونقلوا ذلک بالسند المتصل عن الثقات العدول الذین شاہدوا تلک المصاحف‘‘۔(۲۲)
یعنی رسمِ مصحفِ عثمانی کے ساتھ ساتھ ائمۂِ قراء ات خصوصاً علمایرسم کا اتباع ہم پر واجب ہے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ اس معاملہ میں ہم ان کی عظیم تصانیف کی طرف رجوع کریں جیسے علامہ دانی ؒ کی المقنع اور علامہ شاطبی ؒ کی تصنیف العقیلہ وغیرہ۔بے شک متقدمین ائمۂِ قراء ات نے قرآنی کلمات میں سے ایک ایک کلمہ کارسم اور اس کے احکام بیان کیے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام ثنے مصاحفِ عثمانیہ میں اِن کلمات کو کتابت فرمایا۔ مزید برآں قرّ ا نے ثقہ وعادل اور مصاحفِ عثمانیہ کے عینی شاہدین سے سندِ متصل کے ساتھ اِس رسم کو نقل فرمایا ۔
فقہا اور مفسرین کے علاوہ اہلِ لغت نے بھی ہمیشہ رسمِ عثمانی کے التزام کو اختیار کیا ہے اور اسی کا حکم دیا ہے ۔ ڈاکٹرلبیب السعید نے ’’دار الکتب والوثائق القومیۃ قاہرہ‘‘ میں موجودعلامہ ابو البقاء العکبریؒ کے مخطوط ’’اللباب فی علل البناء والإعراب‘‘ کے ورق:۳۰ سے اُن کا ایک اقتباس نقل کیا ہے کہ اہلِ لغت کی ایک جماعت بھی یہی سمجھتی ہے کہ کلمہ کی کتابت اُس کے تلفظ کے مطابق ہونی چاہیے لیکن قرآنی رسم اس سے مستثنیٰ ہے :
’’ذھب جماعۃ من أہل اللغۃ إلی کتابۃ الکلمۃ علی لفظہا إلا فی خط المصحف ، فإنہم اتبعوا فی ذلک، ما وجدوہ فی الإمام ۔ والعمل علی الأول‘‘۔(۲۳)
رسمِ عثمانی کے التزام کے بارے میں محقق مناع القطان کی رائے حسبِ ذیل ہے:
’’والذی أراہ أن الرأي الثانی ہو الرأي الراجح، وأنہ یجب کتابۃ القرآن بالرسم العثمانی المعہود في المصحف۔۔۔ولو أبیحت کتابتہ بالاصطلاح الأملاءي لکل عصر لأدی ہذا إلی تغییر خط المصحف من عصر لآخر، بل إن قواعد الإملاء نفسہا تختلف فیہا وجہات النظر في العصر الواحد، وتتفاوت في بعض الکلمات من بلد آخر‘‘۔(۲۴)
یعنی میرے خیال میں التزامِ رسمِ عثمانی کی رائے راجح ہے اور اب قرآن مجید میں رسمِ عثمانی کے مطابق کتابت ہونی چاہیے۔ اگر مروّجہ املائی کتابت کے ساتھ قرآن مجید لکھنے کی اجازت دے دی جائے تو ہر زمانہ میں قرآن مجید کا رسم دوسرے زمانہ سے مختلف ہو گا، بلکہ قواعدِ املائی خود ایک ہی زمانہ میں مختلف جہات سے متغیر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ایک شہر کے مصاحف کے کلمات دوسرے شہر کے مصاحف سے مختلف ہوں گے۔
مذکورہ اقوال کے علاوہ یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ جس طرح دیگر اسلامی علوم اورورثہ کی حفاظت مسلم معاشرہ پر ضروری ہے، اسی طرح قرآن مجید سے منسوب ایک رسم اور طرزِ کتابت کی حفظ وصیانت بطریقِ اولیٰ لازمی امر ہوگا۔ (۲۵)

دورِ جدید کے علما کے فتاویٰ جات

مصری تحقیقی جریدے ’’المنار‘‘ نے ۱۹۰۹ء میں محمد رشید رضا کا فتویٰ شائع کیا جس میں ملا صادق الایمانقولی القزانی نے،جو کہ روسی ممالک میں طباعتِ مصاحف کے سلسلہ میں رسمِ مصاحف کی کمیٹی کے تفتیشی سربراہ تھے، حسبِ ذیل استفتا کیا:
’’ھل یجب اتباع الرسم العثمانی فی کتابۃ المصحف؟ أم ھل تجوز مخالفتہ للضرورۃ التی من أمثلہا: کلمۃ (ء اتٰن) فی الآیۃ ۳۶ من سورۃ النمل، حیث کُتبتْ فی المصحف العثمانی بغیر یاء بعد النون۔ وکلمات: (الأعلام)و(الأحلام)و(الأقلام)و(الأزلام)و(الأولاد)، حیث کُتبت ایضًا فی بعض المصاحف بحذف (الألف) بعد اللام؟‘‘۔(۲۶)
یعنی کیا مصحف کی کتابت کے دوران رسمِ عثمانی کی اتباع واجب ہے ؟کیا کسی ضرورت کے تحت اس کی مخالف جائز ہے؟ مثلاً:کلمہ (ء اتٰن) مصحفِ عثمانی میں نون کے بعد بغیر یاء کے لکھا ہے۔ اسی طرح دیگر کلمات مثلاً: (الأعلام) و(الأحلام) و(الأقلام) و(الأزلام) و(الأولاد)وغیرہ بعض مصاحف میں الف کے بعد لام کے حذف کے ساتھ مرسوم ہیں۔
اس کے علاوہ سائل نے محولہ بالا الفاظِ قرآنی میں الف کے بارے میں یہ وضاحت پیش کی کہ روسی شہر پیٹرزبرگ (بترسبورج) کے’’مکتبۂِ امبراطوریہ‘‘ میں محفوظ مصحفِ عثمانی میں اِن تمام الفاظ(الأعلام)،(الأحلام)، (الأقلام)، (الأزلام)اور(الأولاد) میں ’الف‘ محذوف ہیں۔(۲۷)
رسمِ مصحف کے متعلق صفر ۱۳۶۸ھ کے مجلّہ الازہر ۱۹۳۷ء میں صادر ہونے والے مصری فتویٰ میں حسبِ ذیل الفاظ بھی تھے:
’’أن المصاحف وخاصۃ فی العصر الحدیث مضبوطۃ بالشکل التام، ومذیلۃ ببیانات إرشادیۃ تیسّر للنّاس إلی حدّ ما قراء ۃ الکلمات المخالفۃ فی رسمہا للإملاء العادیّ، ثم إن رسم المصحف العثمانی لا یخالف قواعد الإملاء المعروفۃ إلا فی کلمات لا یصعب علی أحد إذا لقنہا أن ینطق بہا صحیحۃ‘‘۔(۲۸)
یعنی دورِ حاضر میں خصوصاً تمام مصاحف حرکات واعراب کے لحاظ سے مکمل ہیں اورعام املا سے مخالف کلماتِ قرآنیہ کے بارے میں لوگوں کی آسانی کے لیے ممکنہ وضاحتی بیانات سے پُر ہیں۔ مزید برآں مصحفِ عثمانی کا رسم سوائے چند کلمات کے عام قواعدِ املا کے موافق ہے،تو اِن چند کلمات کا کسی سے سیکھ کر ادا کرنا کچھ مشکل نہیں۔
علامہ محمد بن حبیب اللہ الشنقیطیؒ لکھتے ہیں:
’’ والذی اجتمعت علیہ الأمۃ: أن من لا یعرف الرسم المأثور یجب علیہ أن لا یقرأ فی المصحف ، حتی یتعلم القراء ۃ علی وجہہا ، ویتعلم مرسوم المصاحف‘‘۔(۲۹)
یعنی اِ س بات پر علماے امت کا اتفاق ہے کہ جو شخص قدیم رسمِ قرآنی سے واقفیت نہ رکھتا ہو، وہ مصحف سے دیکھ کر تلاوت نہ کرے یہاں تک کہ وہ قراء ت کے ساتھ ساتھ مصاحف کے رسم کے بارے میں بھی تعلیم حاصل کرے۔
حافظ احمد یار ؒ جامعۃ الازہر کی مجلسِ فتویٰ کا ذکران الفاظ میں کرتے ہیں:
’’الازہر کی مجلس فتوی کی طرف سے ۱۳۵۵ھ میں (بذریعہ مجلۃ الازہر) یہ فتویٰ جاری ہوا تھا کہ رسمِ عثمانی کی پابندی کے بغیر قرآن کریم کی طباعت ناجائز ہے ۔اس کے بعد سے طباعتِ مصاحف میں اس التزام کے بارے میں ایک تحریک سی پیدا ہوگئی ہے‘‘۔(۳۰)
مفتیٔ ہند مولانا محمد غنیؒ (معدنی) نے ایک استفتا کاجواب حسبِ ذیل الفاظ سے ارشاد فرمایا:
’’فإن الکتابۃ بخلاف المصاحف العثمانیۃ بدعۃ مذمومۃ وفعل شنیع باتفاق الأمۃ ‘‘۔(۳۱)
یعنی مصاحفِ عثمانیہ کے خلاف (مصاحف کی )کتابت، باتفاقِ اُمت قابلِ مذمت بدعت اور برا کام ہے ۔ 
الغرض علماے سلف کی طرح دورِ جدید کے جیّد علما ومحققین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ دورِ حاضر میں مصاحف کی کتابت وطباعت کے دوران رسمِ عثمانی کا اتباع ہی لازمی وضروری ہے ۔ 

رسم عثمانی کے عدم التزام کا موقف

عربی زبان سمیت دنیاکی ہر زبان ارتقا کا سفر جاری رکھتے ہوئے اپنے اندر کئی تبدیلیوں کی متحمل رہتی ہے اور اس کا رسم الخط بھی جدّت کا متقاضی رہتا ہے۔ مرورِ زمان کے ساتھ زبانو ں اور ان کے رسم الخط کی تبدیلی کالوگوں کے مزاج وفہم پر اثر انداز ہونا ایک لازمی امر ہے۔ اِ س پہلو کے پیش نظر بعض اہل علم نے یہ رائے اختیار کی ہے کہ مصاحف کی طباعت و کتابت میں رسمِ عثمانی کی پابندی کو ترک کرتے ہوئے بعد کے ادوار میں منضبط ہونے والے عربی قواعدِ املا پر عملدرآمد ہونا چاہیے، کیونکہ کیونکہ قرآن کی تلاوت میں لوگوں کی آسانی کے لیے قدیم رسمِ قرآنی میں تبدیلی لازم ہے۔ 
علماے سلف میں سب سے پہلے سلطان العلماء العز بن عبد السلامؒ (م۶۶۰ھ) نے اسی بنیاد پر رسمِ عثمانی سے اجتناب کی تلقین کی(۳۲)۔علامہ العزبن عبدالسلامؒ کے اِ س موقف کو علامہ قسطلانی ؒ (۳۳)اور علامہ الدمیاطی ؒ (۳۴) کے علاوہ علامہ زرکشی ؒ نے اِن الفاظ میں ذکر کیاہے:
’’قال الشیخ عزالدین بن عبد السلام : لا تجوز کتابۃ المصحف الآن علی الرسوم الأولیٰ باصطلاح الأئمۃ لئلا یوقع فی تغییر الجھال‘‘۔ (۳۵)
یعنی اب قرآن مجید کی کتابت ائمۂِ رسم کے اختیار کردہ رسم الخط پر جائز نہیں کیونکہ اس سے جاہل لوگوں کے سنگین غلطی میں مبتلاہونے کا اندیشہ ہے۔ واضح رہے کہ علامہ عزالدین بن عبد السلامؒ امت کے معاملہ میں تیسیر وسہولت کے قائل تھے۔ جیسا کہ علامہ غانم نے اس کا ذکر کیا ہے:
’’ولیس غریبا علی الإمام العز مثل ھذا الرأي الذی تفرد بہ فھو صاحب نظریۃ المصالح، فالشریعۃ ’’کلہا مصالح ، إمّا تدرا مفاسد أو تجلب مصالح‘‘، وقد أداہ اجتہادہ أن فی مذہبہ مصلحۃ وتیسیراً علی الأمۃ‘‘۔(۳۶)
یعنی امام عزالدین بن عبد السلامؒ کی یہ منفرد رائے باعث تعجب نہیں کیونکہ وہ نظریۂ مصالح کے علمبردار ہیں جس کی رو سے شریعت تمام کی تمام مصالح پر مبنی ہے، خواہ وہ مفاسد کو دور کرنے کا معاملہ ہو یا کسی مصلحت کے حصول کا۔انہوں نے اپنے مذہب کے مطابق مصلحت اور امت پر آسانی کے پیش نظر اجتہاد ی موقف اختیارکیا ہے۔ تاہم علما میں کوئی قابلِ ذکر نام ایسا نہیں جس نے اِس رائے سے اتفاق کیا ہو۔ چنانچہ رسمِ عثمانی سے پرہیز اور اس کے عدمِ التزام کا نظریہ صرف علامہ عزالدین بن عبد السلام کے ایک قول کے سہارے پر کھڑا ہے جو کہ علماءِ امت کے اجماع کے مقابلے میں متروک العمل ٹھہرتا ہے۔
مذکورہ زاویہ نگاہ کے حامل بعض افراد نے قدرے اعتدال کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسم عثمانی کی خلاف ورزی کو ’ضروری‘ کے بجائے صرف ’جائز ‘قرار دیا ہے۔ اِس ضمن میں سب سے پہلے قاضی ابو بکر الباقلانیؒ نے مستعمل طریقۂِ املا میں مصاحف کی کتابت کے جواز کا فتویٰ دیا۔ ان کے نزدیک کسی دلیلِ قطعی سے امّت کے لیے کوئی متعین رسم الخط مخصوص ومشروع نہیں کیا گیا۔ علامہ زرقانی ؒ نے الانتصار کے حوالے سے قاضی ابوبکر الباقلانی ؒ کادرجِ ذیل قول نقل کیا ہے:
’’وأما الکتابۃ فلم یفرض اﷲ علی الأمۃ فیہا شیئا، إذ لم یأخذ علی کُتّاب القرآن وخُطّاط المصاحف رسماً بعینہ دون غیرہ أوجبہ علیہم وترک ما عداہ۔۔۔ وکان الناس قد أجازوا ذلک وأجازو أن یکتب کل واحد منہم بما ہو عادتہ ، وما ہو أسہل وأشہر وأولیٰ، من غیر تاثیم ولا تناکر، علم أنہ لم یؤخذ فی ذلک علی الناس حدٌّ مخصوص کما أخذ علیہم فی القراء ۃ والأذان۔ والسبب فی ذلک أن الخطوط إنما ھی علامات ورسوم تجری مجری الإشارات والعقود والرموز، فکل رسم دالٌّ علی الکلمۃ مفیدٍ لوجہ قراء تہا تجب صحتہ وتصویب الکاتب بہ علی أی صورۃ کانت۔ وبالجملۃ فکل من ادّعی أنہ یجب علی الناس رسم مخصوص وجب علیہ أن یقیم لحجۃ دعواہ۔ وانی لہ ذلک‘‘۔ (۳۷)
علامہ زرقانی، مذکورہ رائے پر مناقشہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذکورہ رائے کئی وجوہ سے قابلِ قبول نہیں۔ مثلاً علامہ باقلانی ؒ کی رائے کے مقابلہ میں سنت اور اجماعِ صحابہث کے علاوہ جمہور علما کے اقوال موجودہیں۔قاضی ابو بکر ؒ کا یہ دعویٰ بھی درست نہیں کہ یہ سنت سے ثابت نہیں، کیونکہ رسول اللہ انے کتّابِ وحی کو اسی رسم الخط کو اختیار کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت صنے جمعِ ابی بکرص اور پھر جمعِ عثمانی میں اسی رسم کے موافق قرآن کی کتابت کی جس کو وہ عہدِ نبوی میں استعمال کرتے تھے۔ مزید برآں اس رائے کے خلاف اجماعِ صحابہ ث کا انعقاد ہو چکا ہے اور اجماعِ صحابہث کے خلاف کسی بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔(۳۸)
عبد العزیز دباغ ؒ نے قاضی ابوبکرؒ کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’قاضی ابو بکر کا یہ کہنا کہ رسم الخط کے اتباع کا وجوب نہ کتا ب اللہ سے ثابت ہے، نہ کلام رسول سے، نہ اجماع سے، نہ قیاس سے،(لہٰذا اختیار ہے کہ جس طرح چاہے لکھے)،صحیح نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:جو کچھ بھی تم کو رسول ادیں، وہ لو اور جس سے منع فرمائیں، اس سے باز آؤ۔ اور یہ واضح ہو چکا کہ رسم الخط توقیفی ہے ،صحابہ ثکا وضع کردہ نہیں(لہٰذا رسول اکا دیا ہوا ہے اور اس کا لینا واجب ہے)۔ اور اگر یہ شبہ کرو کہ حضرت ؐنے اس طریق پر کتابتِ قرآن کا حکم نہیں فرمایا ،تو آپ کے زمانہ میں صحابہ ثکا اس طریق پر لکھنا اور حضرت ؐ کا اس کو قائم وبرقرار رکھنا ہی ]سنتِ تقریری کے ذریعے[حکم کے درجہ میں ہے‘‘۔ (۳۹)
جامعۃ الازہر کی مجلسِ فتویٰ نے بھی علامہ ابو بکر الباقلانی ؒ کی رائے کو ضعیف قرار دیتے ہوئے کتابتِ مصحف میں رسمِ عثمانی کے التزام کا حکم دیا ہے:
’’أما ما یراہ أبو بکر الباقلانی من أن الرسم العثماني لا یلزم أن یتبع فی کتابۃ المصحف فھو رأي ضعیف۔ لأن الأئمۃ في جمیع العصور المختلفۃ درجوا علیٰ التزامہ في کتابۃ المصحف، ولأن سدّ ذرائع الفساد مہما کانت بعیدۃ أصل من أصول الشریعۃ الإسلامیۃ التي تبني الأحکام علیہا وما کان موقف الأئمۃ من الرسم العثماني إلا بدافع ہذا الأصل العظیم مبالغۃ في حفظ القرآن وصونہ‘‘۔(۴۰)
یعنی ابو بکر الباقلانی ؒ کی کتابتِ مصحف میں رسمِ عثمانی کا اتباع لازم نہ ہونے کی رائے ضعیف ہے کیونکہ تمام ادوار میں علماے امت نے کتابت مصحف کے لیے رسمِ عثمانی کے التزام کو ہی ترجیح دی ہے۔ ممکنہ فساد کے اسباب کا تدارک ہی شریعت کا اصل الاصول ہے، جس پر احکام کا مدار ہے۔ رسمِ عثمانی کے بعینہ التزام کے بارے میں ائمہ کا موقف بھی قرآن کی حفظ وصیانت کے اسی مقصدِ عظیم کے لیے ہے ۔
قاضی ابو بکر الباقلانی ؒ کے علاوہ علامہ ابن خلدون نے بھی رسمِ عثمانی کی مخالفت کو جائز قرار دیا ہے۔مقدمہ میں رقمطراز ہیں:
’’ولا تلتفتن فی ذلک إلی ما یزعُمہ بعض المغفّلین من أنہم کانوا محکمین لصناعۃ الخط، وأن ما یُتخیل من مخالفۃ خطوطہم لأصول الرسم لیس کما یُتخیّل، بل لکلہا وجہ۔۔۔الخ‘‘۔ (۴۱)
لیکن علماے رسم نے علامہ ابن خلدون کی رائے سے بھی اتفاق نہیں کیا۔ علامہ المارغنی ؒ لکھتے ہیں:
’’لا یجوز لأحد أن یطعن في شئ مما رسمہ الصحابۃ فی المصاحف، لأنہ طعن في مجمع علیہ، ولأن الطعن في الکتابۃ کالطعن في التلاوۃ وقد بلغ التہور ببعض المؤرخین الی أن قال في مرسوم الصحابۃ ما لا یلیق بعظیم علمہم الراسخ وشریف مقامہم الباذخ فإیاک أن تغتر بہ‘‘۔ (۴۲)
قاضی ابو بکر الباقلانی ؒ اور علامہ ابن خلدون کے اقوال کی بنیا د پر بعض علما کا موقف ہے کہ خواص اور اہلِ علم کے لیے تو اس کا التزام ضروری ہے لیکن عوام کے لیے رسمِ عثمانی کی بجائے مروّجہ رسم میں مصاحف کی کتابت وطباعت جائز ہے۔ (۴۳)
علامہ ابو طاہر السندیؒ اس نظریہ کے قائلین کا موقف نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وذھب بعض المتأخرین وبعض المعاصرین الی وجوب کتابۃ المصاحف للعامۃ بالقواعد الإملائیۃ، ولکن تجب المحافظۃ عندھم علی الرسم العثماني القدیم کأثر من الآثار الإسلامیۃ النفیسۃ الموروثۃ عن السلف الصالح، فمن ثَمّ تکتب مصاحف لخواص الناس بالرسم العثماني‘‘۔ (۴۴)
یعنی بعض متاخرین اور دورِ حاضر کے محققین نے املا کے عام قواعد کے تحت مصاحف کی کتابت کو ضروری قرا ردیا ہے،لیکن ان کے نزدیک قدیم رسمِ عثمانی کی حفاظت بھی ضروری ہے کیونکہ وہ ماثور اور پرانے اسلامی آثار میں سے سلفِ صالح کی ایک نفیس علامت ہے۔ چنانچہ خاص لوگوں کے لیے رسمِ عثمانی کے مطابق ہی مصاحف لکھے جائیں۔ 
علامہ عبد العظیم الزرقانی ؒ اس رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’وہذا الرأي یقوم علی رعایۃ الاحتیاط للقرآن من ناحیتین:
۱۔ ناحیۃ کتابتہ فی کل عصر بالرسم المعروف فیہ إبعاد للناس عن اللبس والخلط فی القرآن۔
۲۔ وناحیۃ إبقاء رسمہ الأول المأثور، یقرؤہ العارفون بہ ومن لا یخشی علیہم الإلتباس‘‘۔(۴۵) 
غالباً اسی نظریہ سے متاثر ہونے اور اسی رفعِ التباس کی بنا پر ہی اہلِ مشرق(ایشائی ممالک) میں رسمِ عثمانی کی عملاً خلاف ورزی کا رواج ہو گیا ہے، جبکہ اہلِ مغرب (افریقہ) میں رسمِ عثمانی کا التزام تاحال موجود ہے کیونکہ وہ مسلکِ مالکی کے پیروکار ہیں اور اس بارے میں امام مالک ؒ کا واضح قول ثابت ہے اور افریقہ اور مغرب میں زیادہ تر فقہ مالکی کا اتباع کیا جاتا ہے۔ (۴۶)
اہل مشرق (خصوصاً برصغیر پاک وہند)میں کتابتِ مصاحف کے حوالے سے رسمِ عثمانی کی خلاف ورزی کی مثالیں زیادہ ملتی ہیں جس کی بڑی وجہ نقل صحیح کا التزام کرنے کے بجائے حافظہ و قیاس سے کام لینا ہے۔ پیشہ ورانہ عجلت بھی اس کاباعث بنتی ہے جس کابڑاسبب کاتبین کی رسمِ عثمانی سے ناواقفیت اور کتابت کی ماہرانہ نگرانی اور پڑتال کا فقدان ہے۔ مصاحف کی تصحیح کرنے والے حضرات بھی رسم کی اغلاط سے یا تو خود بے خبر ہوتے ہیںیا رسم کے بجائے حرکات کی اغلاط پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ نظری حد تک لوگ ہمیشہ رسمِ عثمانی کے التزام کے قائل رہے ہیں، بلکہ محتاط کاتب نقل صحیح کی پابندی بھی کرتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ منقول عنہ نسخہ میں ہی اغلاط موجود ہوں۔(۴۷)
دورِ حاضر میں رسمِ عثمانی کے بجائے رسمِ املائی میں کتابتِ مصاحف کے جواز کی سب سے بڑی وجہ عوامی سہولت بیان کی جاتی ہے، لیکن جن لوگوں نے دورِ حاضر میں عوام کی سہولت کی خاطر جدید رسمِ املائی کے مطابق مصاحف کی کتابت و طباعت کو ضروری قرار دیا ہے، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ التباس و اشتباہ عوام کے بجائے پڑھے لکھے طبقہ کے مسائل میں سے ہے کیونکہ عوام کے لیے کسی استاد سے زبانی طور پر قرآن سیکھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر عام آدمی رسمِ املائی کو بھی غلط طریقہ پر ادا کر سکتا ہے۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ احمد یارؒ لکھتے ہیں:
’’عوام کے بجائے عرب ممالک کے خواندہ لوگوں کے لیے رسم الخط کی ثنویت (روز مرہ میں رسمِ قیاسی اور تلاوت میں رسمِ عثمانی سے واسطہ پڑنا) التباس اور صعوبت کا باعث بنتی ہے ۔ ورنہ دنیا میں لاکھوں (بلکہ شاید) کروڑوں ایسے مسلمان ہیں جو اسی رسم عثمانی کے مطابق لکھے ہوئے مصاحف سے اپنے علاقے میں رائج علاماتِ ضبط کی بنا پر ہمیشہ درست تلاوت کرتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں ’’عوام‘‘ کا نام تو محض ایک نعرہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، ورنہ ضرورت تو پڑھے لکھے عربی دانوں کو رسمِ قرآن سے شناسا کرنے کی ہے ۔ رسمِ قرآنی کو ترک کر دینا اس کا کوئی علاج نہیں بلکہ اس کے مفاسد بہت زیادہ ہیں جبکہ رسمِ عثمانی کے التزام میں متعدد علمی اور دینی فوائد کا امکان غالب ہے‘‘۔(۴۸)
لہٰذا مناسب یہ ہے کہ عوام الناس کو رسمِ عثمانی اور اس کے رموز وفوائد اور خصوصیات سے روشناس کرایا جائے اور سرکاری سرپرستی میں اس کے التزام کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں۔ (۴۹)
رسمِ عثمانی کے متعلق مذکورہ دونوں نظریہ ہائے عدمِ التزام کا ردّ کرتے ہوئے علامہ السندیؒ لکھتے ہیں:
’’أما ما ذہب إلیہ أصحاب المذہبین الآخرین ، فیمکن الرد علیہم:
۱۔ فیہما مخالفۃ لإجماع الصحابۃ والتابعین وأہل القرون المفضلۃ۔
۲۔ القواعد الإملائیۃ العصریۃ عرضۃ للتغییر والتبدیل فی کل عصر، وفی کل جیل، فلو أخضعنا رسم القرآن الکریم لتلک القواعد لأصبح القرآن عرضۃ للتحریف فیہ۔
۳۔ الرسم العثماني لا یُوقع الناس في الحیرۃ والإلتباس، لأن المصاحف أصبحت منقوطۃ مشکلۃ بحیث وُضعت علامات تدل علی الحروف الزائدۃ، أو الملحقۃ بدل المحذوفۃ، فلا مخافۃ علی وقوع الناس فی الحیرۃ والإلتباس‘‘۔(۵۰)
یعنی مؤخر الذکر دونوں مذاہب اس لیے ناقابل قبول ہیں کہ اوّلاً، رسمِ عثمانی کی مخالفت میں صحابہث ،تابعینؒ اور قرون مقدّسہ کے اجماع کی مخالفت لازم آتی ہے۔ ثانیاً،جدید قواعدِ املائیہ ہر زمانہ اور ہر نسل میں تغیروتبدل کا شکار رہے ہیں۔ اگر ہم قرآنی رسم کو اِن قواعد کے مطابق لکھنے کی اجازت دے دیں تو اس سے قرآن میں تحریف کا باب کھل جائے گا۔ ثالثاً،التباس اور لوگوں کی پریشانی کا باعث رسمِ عثمانی نہیں کیونکہ اب مصاحف منقوط ہیں اور ایسی علامات وضع ہو چکی ہیں جو کہ زائدیا محذوف حروف کے بدلے اضافی حروف پر دلالت کرتی ہیں۔لہٰذا اب لوگوں کی پریشانی اور التبا س کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔
مفتی محمد شفیع ؒ عوام الناس کی اس مشکل کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’الغرض اوّل تو یہ مشکلات محض خیالی ہیں۔ ان کو مشکل تسلیم کرنا ہی غلطی ہے اور بالفرض تسلیم بھی کیا جائے تو ہر مشکل کا ازالہ ضروری نہیں۔ یوں تو نماز روزہ وغیرہ ،ارکانِ اسلام سب ہی کچھ نہ کچھ مشکل اپنے اندر رکھتے ہیں‘‘۔ (۵۱)

رسمِ عثمانی کے مخا لف متجددین

علماے سلف میں سے جن لوگوں نے رسمِ عثمانی کے التزام اور عدمِ التزام کے معاملہ میں جمہور علما کی رائے سے اختلاف کیا ہے، انہوں نے اپنا موقف علم و استدلال کے دائرے میں رہتے ہوئے پیش کیا ہے اور رسمِ عثمانی پر طعن وتشنیع کی روش نہیں اپنائی۔ لیکن بد قسمتی سے بعض متجددین نے رسمِ عثمانی میں خامیوں کی تلاش شروع کی اور اس کو ناقص قراردینے کے ساتھ صحابہ کرام ثکی طرف بھی ناگفتہ بہ باتیں منسوب کی ہیں۔(۵۲) اِن متجددین میں دو نام سرِ فہرست ہیں:
مصری متجدد عبد العزیز فہمي نے ’’الحروف اللاتینیۃ لکتابۃ العربیۃ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی جس کو مطبعۂ مصر نے ۱۹۴۴ء میں قاہرہ سے شائع کیا۔مذکورہ کتاب میں مصنف نے رسمِ مصحف پر کثرت سے اعتراضات کیے ہیں اور رسمِ مصحف کو ’’بدائیۃ سقیمۃ قاصرۃ‘‘(ص۲۱) (ابتدائی درجے کا، بیمار اور ناقص) جیسے الفاظ سے ذکر کیا ہے۔صفحہ ۲۳ پر رسمِ عثمانی کو غیرمعقول قرار دیتے ہوئے ’’سخیف‘‘ (بعید از عقل؍کمزور)کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس کے الفاظ ہیں:
’’ أقرر بأنی لست مکلفًا باحترام رسم القرآن، ولست الغی عقلی لمجرد أن بعض الناس أو کلہم یریدون إلغاء عقولہم، ولا یمیزون بین القرآن العظیم کلام اﷲ القدیم وبین رسمہ السخیف الذی ھو من وضع المؤمنین القاصرین‘‘۔(۵۳)
یعنی مجھے اعتراف ہے کہ میں رسم قرآنی کے احترام کا مکلف نہیں ہوں، اور اگر بعض یا سب لوگوں نے اپنی عقل سے کام لینا چھوڑ دیا ہے تو میں ایسا نہیں کر سکتا۔ یہ لوگ کلام الٰہی کے مابین جو قدیم ہے اور اس کے رسم الخط کے مابین فرق نہیں کرتے جسے ناقص اور کوتاہ صلاحیت کے اہل ایمان نے تشکیل دیا ہے۔
مزید برآں عبد العزیز فہمي نے رسمِ عثمانی کو نعوذ باللہ ایک بیماری قرار دیا ہے جس نے جدید عربیت کے حُسن کو تباہ وبرباد کر دیا ہے ۔ اس کے الفاظ ہیں:
’’إنہ سرطان أزمن، فشوہ منظر العربیۃ، وغشّی جمالہا ، ونفّر منہا الولی القریب والخاطب الغریب، وإذ أقول (سرطان) فإنی أعنی ما أقول ، کالسرطان حسّا ومعنی‘‘۔(۵۴)
یعنی یہ مزمن سرطان ہے جس نے عربی زبان کے ظاہری حسن وجمال کو بد شکل بنا دیا ہے اور اس سے دوستوں اور دشمنوں، دونوں کو متنفر کردیا ہے۔ میں نے اس کے لیے سرطان کا لفظ استعمال کیا ہے تو اس سے میری مراد سرطان ہی ہے، کیونکہ یہ ظاہری اور معنوی ہر لحاظ سے ایک سرطان ہے۔
رسمِ مصحف کے جدید معترضین میں سے دوسرا بڑا نام ابن الخطیب محمد محمد عبد اللطیف کا ہے جس نے ’’الفرقان‘‘ نامی کتاب تصنیف کی۔جس کوپہلی بار دارالکتب المصریہ نے قاہرہ سے ۱۹۴۸ء میں شائع کیا۔ موصوف لکھتے ہیں:
’’لما کان أہل العصر الأول قاصرین فی فن الکتابۃ ، عاجزین في الإملاء، لأمیتہم وبدواتہم، وبعدہم عن العلوم والفنون ، کانت کتابتہم للمصحف الشریف سقیمۃ الوضع غیر محکمۃ الصنع، فجاء ت الکتبۃ الأولی مزیجاً من أخطاء فاحشۃ ومناقضات متباینۃ في الھجاء والرسم‘‘۔(۵۵)
یعنی عصرِ اول کے لوگ ،اپنے اَن پڑھ اور بدوی ہونے کے لحاظ سے، فنِ کتابت سے قاصر اور علوم وفنون سے بے بہرہ تھے۔ مصحف میں کی گئی ان کی کتابت، وضع کے اعتبار سے سقیم اور مہارت کے اعتبار سے غیر محکم ہے۔ لہٰذا پہلی کتابت کے ہجا ورسم میں فاحش اغلاط اور متباین مناقضات شامل ہیں۔
ڈاکٹر لبیب السعید، ابن الخطیب کا ایک اقتباس یوں نقل کرتے ہیں:
’’(إنہ) یقلب معانی الألفاظ ، ویشوھہا تشویہا شنیعاً، ویعکس معناہا بدرجۃ تکفّر قاریہ، وتحرّف معانیہ، وفضلاً عن ہٰذا ، فإن فیہ تناقضاً غریباً وتنافراً معیباً لا یمکن تعلیلہ، ولا یستطاع تأویلہ‘‘۔ (۵۶)
یعنی یہ رسم الفاظ کے معانی کو بدلنے کا سبب ہے ، شکل و صورت کے لحاظ سے بُرا، معنی کو اِس حد تک بدلنے والا کہ اس کا پڑھنے والا کافر ٹھہرے اور اس کے معنی بدل جائیں۔ مزید برآں اس رسم میں عجیب وغریب قسم کا تناقض و اختلاف پایا جاتا ہے جو اتنا معیوب ہے کہ اس کی توجیہ وتاویل کسی طرح ممکن نہیں۔
جولائی ۱۹۴۸ء میں صدرجامعۃالازہر کی زیر نگرانی تین علما کی قائمہ کمیٹی نے اکتالیس (۴۱)صفحات پر مشتمل ایک فیصلہ صادر فرمایا جس میں مذکورہ کتب پر پابندی عائد کرنے اور ان کو ضبط کرنے کاحکم دیا گیا۔کیونکہ وہ اسلامی اصول جن پر احکام کا مدار ہے، ان کی پاسداری اور اِ س کی مخالفت کا سدِّ باب ضروری ہے۔(۵۷)

حواشی

(۱) القسطلانی،لطائف الاشارات لفنون القرء ات: ۱؍۲۸۵
(۲) غانم قدوری،رسم المصحف :ص۱۹۹۔۔۔و۔۔۔الکردی: تاریخ القرآن وغرائب رسمہ وحکمہ:ص۱۰۳
(۳) ’’اجمع المسلمون قاطبۃ علی وجوب اتباع رسم مصاحف عثمان ومنع مخالفتہ (ثم قال) قال العلامۃ ابن عاشر ووجہ وجوبہ ما تقدم من اجماع الصحابۃ علیہ وھم زہاء اثنی عشر الفاً والإجماع حجۃ حسبما تقرر فی اصول الفقہ (النصوص الجلیلۃ:ص۲۵)‘‘۔(مفتی محمد شفیعؒ :جواہر الفقہ:۱؍۸۵)
(۴) صفحات فی علوم القراء ات:ص۱۷۸
(۵) ابن قتیبہؒ الدینوریؒ ،ابو محمد عبد اللہ بن مسلم(م۲۷۶ھ): ادب الکاتب:ص۲۵۳،ط۲،دارِ احیاء التراث العربی ، بیروت، ۱۹۷۰ء
(۶) السیوطیؒ : الاتقان فی علوم القرآن: ۴؍۱۴۶،ط۱،مکتبہ ومطبعۃ المشہد الحسینی،قاہرہ،۱۹۶۷ء،تحقیق:محمد ابوالفضل ابراہیم) ۔۔۔صفحات فی علوم القراء ات:ص۱۷۸۔۔۔’’والفقہاء مجمعون ، أو کالمجمعین علی ہذا الرسم‘‘۔(الجمع الصوتی الاول:ص۲۹۸)
(۷) الحدادؒ :محمد بن علی بن خلف الحسینی: إرشاد الحیران إلی معرفۃ ما یجب فی رسم القرآن:ص۴۱،مطبعۃ المعاہد بالجمالیۃ، قاہرہ، ۱۳۴۲ھ
(۸) احمد بن المبارک: الإبریز: ص۵۹، ط۱، المطبعۃ الازہریۃ،مصر،۱۳۰۶ھ۔۔۔ الکردی:تاریخ القرآن:ص۱۰۴۔۔۔التھانوی:اظہار احمد ،الاستاذ الجلیل(م ۱۴۱۲ھ):ایضاح المقاصد شرح عقیلۃ اتراب القصائد فی علم الرسم:ص۱۱،قراء ت اکیڈمی، لاہور۔ س ۔ن۔۔۔ابو طاہر السندی،صفحات فی علوم القراء ات:ص۱۷۹
(۹) الدانی:ابو عمرو عثمان بن سعیدؒ (م ۴۴۴ھ): المقنع فی رسم مصاحف الامصار:ص۹ ۔۱۰،تحقیق: محمدالصادق قمحاوی، مکتبۃ الکلیات الازہریۃ، قاہرہ
(۱۰) الزرقانی ،مناہل العرفان:۱؍۳۷۲
(۱۱) مرجعِ سابق۔۔۔الزرکشی،البرہان فی علوم القرآن:۱؍۳۷۹
(۱۲) حمودہ،عبدالوہاب: القراء ات واللہجات:ص۱۰۲،ط۱،مکتبۃ النہضۃ المصریۃ،قاہرہ،۱۳۶۸ھ؍۱۹۴۸ء 
(۱۳) الزرقانی،مناہل العرفان:۱؍۳۷۲
(۱۴) مرجعِ سابق
(۱۵) الشیخ عبد الواحد بن عاشر الاندلسیؒ :تنبیہ الخلان علی الاعلان بتکمیل مورد الظمآن :ص۱،ط۱،دارالکتب العلمیۃ،بیروت، ۱۴۱۵ھ؍۱۹۹۵ (نوٹ:مذکورہ کتاب علامہ المارغنیؒ کی تصنیف ’’دلیل الحیران‘‘ کے آخر میں بھی منسلک ہے)
(۱۶) سورۃ الفرقان:۷
(۱۷) جار اللہ ابو القاسم محمود بن عمر الزمخشریؒ (م۵۳۸ھ) : الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل وعیون الاقاویل فی وجوہ التأویل: ۳؍۲۰۹، ط۲، المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ، القاہرۃ، ۱۹۵۳ء
(۱۸) الاتقان فی علوم القرآن:۴؍۱۴۶۔۔۔البرہان فی علوم القرآن:۱؍۳۷۹۔۔۔الکردی :تاریخ القرآن وغرائب رسمہ وحکمہ:ص۱۰۳ ۔۔۔لطائف الاشارات لفنون القراء ات:۱؍۲۷۹
(۱۹) محمد غوث ناصر الدین محمد نظام الدین النائطی الارکانی: نثر المرجان فی رسم نظم القرآن:۱؍۱۰، مطبعۃ عثمان پریس،حیدرآباد دکن،۱۳۱۳ھ
(۲۰) غرائب القرآن ورغائب الفرقان:۱؍۴۰۔۔۔الزرکشی،البرہان فی علوم القرآن:۱؍۳۸۰میں بھی اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔
(۲۱) صفحات فی علوم القراء ات:ص۱۸۰و۱۸۱
(۲۲) تاریخ القرآن وغرائب رسمہ وحکمہ:ص۱۱۱
(۲۳) الجمع الصوتی الاول:ص۲۹۸
(۲۴) مباحث فی علوم القرآن:ص۱۴۹
(۲۵) ’’یہ’حفاظتِ ورثہ‘ والی بات جذباتی ہی نہیں اپنے اندر ایک تہذیبی بلکہ قانونی اہمیت بھی رکھتی ہے۔ برسبیل تذکرہ مصر کے ایک ناشر کے خلاف رسمِ قیاسی کے ساتھ لکھا ہوا ایک مصحف چھاپنے پر مقدمہ چلا۔ عدالت نے ناشر کے خلاف فیصلہ دیا اور نسخہ کی ضبطی کاحکم جاری کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں ایک ’نقطۂِ توجہ‘ یہ لکھا کہ((آثارِ سلف کی حفاظت ترقی یافتہ اقوام کا فریضۂ اولین ہے))۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز شیکسپئر (یا دوسرے قدیم شعراء مثل چوسروغیرہ) کا کلام انہی کے زمانے کے ہجاء وغیرہ کے ساتھ چھاپنا ضروری خیال کرتے ہیں اور وہ کسی طابع یا ناشر کو اس کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ تین چار سو سال میں انگریزی زبان بدل کر کچھ سے کچھ ہو چکی ہے تو پھر قرآن کے بارے میں یہ اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟‘‘۔(قرآن وسنت چند مباحث(۱):ص۹۵و۹۶)
(۲۶) الجمع الصوتی الاول:ص۳۰۲
(۲۷) فتاویٰ امام محمد رشید رضا:۲؍۷۸۹ تا۷۹۴۔۔۔بحوالہ:مرجعِ سابق
امام محمد رشید رضا نے پانچ نکات پر مشتمل جو جواب صادر فرمایا اس کامتن یوں ہے:
’’(۱) أن الاسلام یمتاز علی جمیع الادیان بحفظ أصلہ منذ الصدر الأول، وأن التابعین وتابعیہم وائمۃ العلم أحسنوا باتّباع الصحابۃ فی رسم المصحف، وعدم تجویز الکتابتہ بما استحدث الناس من فنّ الرسم ، وإن کان أرقی مما کان علیہ الصحابۃ، إذ لو فعلوا لجاز أن یحدث اشتباہ فی بعض الکلمات باختلاف رسمہا وجہل أصلہا۔
(ب) وأن الاتباع فی رسم المصحف یفید مزید ثقۃ واطمئنان فی حفظہ کما ہو، وفی إبعاد الشُبہات أن تحوم حولہ، وفی حفظ شئ من تاریخ الملۃ وسلف الأمۃ کما ہو۔
(ج) وأنہ کنصّ الفتویٰ لو کان لمثل الأمۃ الإنکلیزیۃ ہذا الأثر لما استبدلت بہ ملک کسری وقیصر، ولا أسطول الألمان الجدید الذی ہو شغلہا الشاغل الیوم۔
(د) وأن ما احتج بہ العز بن عبد السلام لما رآہ من (عدم جواز کتابۃ المصاحف الآن علی المرسوم الاول خشیۃ الالتباس، ولئلا یوقع فی تغییر من الجہّال) لیس بشئ ، لأن الاتباع إذا لم یکن واجباً فی الأصل وھو ما لا ینکرہ فترک الناس لہ لا یجعلہ حرامًا أو غیر جائز لما ذکرہ من الالتباس۔
(ھ) وأن الحلّ لکل العُقد فی مشکلات الرسم التی تواجہ السائل ہو فی الرجوع إلی طبعۃ المصحف الصّادرۃ فی سنۃ ۱۳۰۸ھ من مطبعۃ محمد أبی زید بمصر، فقد توقف علی تصحیح ہذہ الطبعۃ وضبطہا الشیخ رضوان بن محمد المخلانی أحد علماء ہذا الشأن وصاحب المصنفات فیہ، والذی وضع للطبعۃ مقدمۃ شارحۃ ونافعۃ‘‘۔
(۲۸) نفس المصدر:ص۳۰۳
(۲۹) محمد بن حبیب اللہ الشنقیطیؒ : إیقاظ الأعلام لوجوب اتباع رسم المصحف الإمام:ص۱۶، ط۱، مطبعۃ المعاہد بالجمالیۃ قاہرہ،مصر،۱۳۴۵ھ
(۳۰) قرآن وسنت چند مباحث(۱):ص۹۷
(۳۱) بحوالہ:جواہر الفقہ از مفتی محمد شفیعؒ :۱؍۹۳
(۳۲) قاضی عبد الفتاح نے الشیخ حسین والی اؒ ور احمد حسن زیات ؒ کو بھی اِسی نظریہ کے قائلین میں شمار کیا ہے۔۔۔۔ملاحظہ ہو:القاضی عبدالفتاح: تاریخ المصحف الشریف:ص۸۲، مطبعۃ المشہد الحسینی، القاہرۃ
(۳۳) القسطلانی :شہاب الدین احمد بن محمدبن ابی بکر: لطائف الاشارات لفنون القراء ات: ۱؍۲۷۹،المجلس الاعلیٰ للشؤن الاسلامیہ، قاہرہ، ۱۹۷۲ء
(۳۴) الدمیاطی البناء،اتحاف فضلاء البشر:ص۹
(۳۵) مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو:الزرکشیؒ ،بدرالدین محمد بن عبد اللہ بن بہادر(م۷۹۴ھ): البرہان:فی علوم القرآن :۱؍۳۷۹،دار احیاء الکتب العربیۃ ،قاہرہ، ۱۹۵۷ء:
(۳۶) غانم قدوری الحمد: رسم المصحف دراسۃ لغویۃ تاریخیۃ: ص۲۰۱،ط۱، اللجنۃ الوطنیۃ للأحتقال، بغداد، عراق، ۱۴۰۲ھ؍ ۱۹۸۲ء
(۳۷) الزرقانی:الشیخ محمد عبد العظیم : مناہل العرفان فی علوم القرآن: ۱؍۳۷۳۔۳۷۴،دار احیاء الکتب العربیۃ عیسیٰ البابی الحلبی،قاہرہ،۱۹۴۳ء 
(۳۸) مرجعِ سابق
(۳۹) احمد بن المبارک: الإبریز: ص۱۱۶، ط۱، المطبعۃ الازہریۃ،مصر،۱۳۰۶ھ
(۴۰) الدکتور احمد مختار عمر،الدکتور عبد العال سالم مُکرم:معجم القراء ات القرآنیۃ:۱؍۴۲و۴۳،ط۱، انتشارات اسوہ (التابعۃ لمنظمۃ الاوقاف والشؤون الخیریۃ)، ایران،۱۴۱۲ھ؍۱۹۹۱ء
(۴۱) ابن خلدونؒ :عبد الرحمن المغربی(م۸۰۸ھ): کتاب العبر ودیوان المبتداء والخبرمسمّیٰ بتاریخ ابن خلدون:۱؍۷۴۷وما بعد، دارالکتاب،بیروت،۱۹۵۶ء:
(۴۲) المارغنیؒ التونسی،الشیخ ابراہیم بن احمد : دلیل الحیران علیٰ مورد الظمآن فی فنّی الرسم والضبط:ص۲۶،ط۱، دارالکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۱۵ھ؍۱۹۹۵ء
(۴۳) جیسا کہ علامہ الدمیاطی ؒ نے اِس رائے کو اِن الفاظ میں نقل کیا ہے:
’’ورأی بعضہم قصر الرسم بالاصطلاح العثمانی علی مصاحف الخواصّ، وإباحۃ رسمہ للعوامّ، بالاصطلاحات الشائعۃ بینہم‘‘۔ (اتحاف فضلاء البشر:ص۹)
(۴۴) السندیؒ ، ابو طاہر عبد القیوم: صحفات فی علوم القراء ات: ص۱۸۰،ط۱، المکتبۃ الامدادیہ ،مکہ مکرمہ، ۱۴۱۵ھ
(۴۵) الزرقانی، مناہل العرفان:۱؍۳۸۵
(۴۶) ملخص از: احمد یارؒ ، پروفیسرحافظ:قرآن وسنت۔ چند مباحث:ص۸۵،شیخ زاید اسلامک سنٹر،جامعہ پنجاب لاہور،جون ۲۰۰۰ء 
(۴۷) مرجعِ سابق
(۴۸) نفس المصدر:ص۸۷
(۴۹) اس پر حافظ احمد یار مرحوم ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ مگر جدید اور قیاسی املاء کے عادی خواندہ لوگوں کے لئے رسمِ قرآنی میں کیسے سہولت پیدا کی جائے ؟ اس سوال کا ایک جواب تو دقت نظر سے اختیار کردہ علاماتِ ضبط کا نظام ہے۔ دوسرا علاج اس کا الازہر والوں نے ۱۳۶۸ھ میں ایک دوسرے فتوی کی صورت میں دیا جس کی رو سے یہ جائز قرار دیا گیا کہ اصل متن تو رسمِ عثمانی کے مطابق ہی رہے مگر نیچے ذیل(فٹ نوٹ) کے طور پر ’’مشکل‘‘ کلمات کو جدید املاء یا رسمِ معتاد کی شکل میں الگ بھی لکھ دیا جائے۔ چنانچہ عبدالجلیل عیسیٰ کے حاشیہ کے ساتھ ’’المصحف المیسر‘‘ اسی اصول پر علماء الازہر کی نگرانی میں تیار ہو کر شائع ہوا تھا۔یہ بھی اس مسئلہ کا ایک عمدہ حل ہے ۔ تاہم غالباً پاکستان میں اس کی ضرورت نہیں یہ پڑھے لکھے عربوں کا مسئلہ کا حل ہے۔ہمارے ہاں رسمِ عثمانی کا مکمل التزام درکار ہے‘‘۔ (نفس المصدر:ص۹۷و۹۸)
(۵۰) السندی ابو طاہر،صفحات فی علوم القراء ات:ص۱۸۲
(۵۱) حضرت مولانا محمد شفیع ؒ :جواہر الفقہ:۱؍۷۶،ط۱، مکتبہ دارالعلوم کراچی،جمادی الاولیٰ۱۳۹۵ھ
(۵۲) اِ س کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ غانم قدّوری لکھتے ہیں:
’’۔۔۔فإن طائفۃ من المحدثین تنسب إلی العلم أطلقت ألسنتھا تصف الرسم بما نجل الرسم والصحابۃ الذین کتبوہ عن مجرد ذکرہ، وھو إن دل علی شء، فإنما یدل علی الجہالۃ فی العلم والبلادۃ في الذہن والقصور في الادراک، إن لم یدل علی سوء النیۃ وخبث القصد والعداء لکتاب اﷲ العزیز‘‘۔(رسم المصحف:ص۲۱۱۔۲۱۲)
(۵۳) مرجعِ سابق
(۵۴) مرجعِ سابق
(۵۵) الفرقان:ص۵۷۔۔۔بحوالہ:مرجعِ سابق
(۵۶) لبیب السعید:الدکتور: الجمع الصوتی الاول للقرآن(المصحف المرتل): ص۲۹۳، ط۲، دارالمعارف القاہرۃ،س۔ن
(۵۷) غانم قدوری:رسم المصحف:ص۲۱۲۔۔۔و۔۔۔الجمع الصوتی الاول:ص۳۰۱

بائبل کا قورح ہی قرآن کا قارون ہے

ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی

محمد یاسین عابد صاحب نے ’الشریعہ‘ کے فروری ۲۰۰۶ کے شمارے میں میرے ایک مضمون’’قرآن کا نظریہ مال ودولت قصہ قارون کی روشنی میں‘‘ (الشریعہ، دسمبر ۲۰۰۵) کو تنقید سے نوازا ہے اور متعدد سوالات اٹھائے ہیں۔ افسوس کہ ان کا اندازبیاں بڑا جارحانہ اور علمی حیثیت سے گرا ہواہے ۔وہ فرماتے ہیں: ’’غالباً ڈاکٹر صاحب نے کبھی بائبل کھول کر نہیں دیکھی اور سنی سنائی اور غیر مستند معلومات کی بنیاد پر مذکورہ عبارت تورات کی طرف منسوب کر دی۔‘‘
اب میں تو کوئی جارحانہ اسلوب اختیار نہیں کرتا،ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ وہ کبھی کراچی آئیں اور میرانسخہ بائبل دیکھیں جو بیسیوں تنقیدی حواشی سے بھرا ہوا ہے۔ بائبل جس کو وہ بہت مستند اور لائق اعتماد کتاب قرار دے رہے ہیں، اس کے کچھ عجائب وغرائب شرافت ونبوت ہی کے منافی نہیں ، انسانیت کی پیشانی پر کلنک کاٹیکہ ہیں۔ ساتھ ہی یہ نسخہ ایسے حواشی سے بھرا ہو ا ہے جو بعض انبیاء علیہم السلام اور خاص طور پر موسیٰ علیہ السلام وفرعون کے قصے کے حوالے سے قرآنی بیانات سے متعلق ہیں۔ پہلی قسم کے حواشی سے قرآن کے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہود نے توراۃ میں تحریف کی ہے ،اور دوسرے قسم کے حواشی سے توراۃ کے بارے میں قرآن کے بیان ’’مصدق لما بین یدیہ‘‘ کی تصدیق ہوتی ہے۔
جناب ناقد نے یہودی قورح کے دفاع میں جو کچھ لکھا ہے اور جس طرح خود بائبل کے بیانات سے تجاہل برتاہے، اس کی امید کسی یہودی ہی سے کی جاسکتی تھی۔ اس سب کی تردید تو اپنی جگہ آئے گی،لیکن پہلا سوال یہ ہے کہ جناب ناقد نے اپنے مضمون کی ابتدا میں محمد اسلم رانا مرحوم کے پندرہ سال قبل شائع ہونے والے مضمون کو، جو قارون وقورح سے متعلق ہے، اپنی تنقید کی بنیاد بنایا ہے، جو ان کے بیان کے مطابق کسی ’’المذاہب‘‘میں چھپا تھا۔ یہ ظاہر نہ ہوسکا کہ قورح کے متعلق جوبیانات موصوف کے مضمون میں ہیں، یا اس میں بائبل کے جو حوالے ہیں، وہ مرحوم اسلم رانا صاحب کا فیضان قلم ہے ،یا جناب ناقد کی اپنی تحقیق انیق ہے۔ بہرحال انھوں نے جو سوالات اٹھائے، ان کی وضاحت ضروری ہے جو ترتیب وار عرض ہے:
ا۔ جناب ناقد کا اعتراض یہ ہے کہ میں نے قارون کو توراۃ کاقورح سمجھ رکھا ہے ،جو ان کی دانست میں غلط ہے۔ اس بارے میں عرض ہے کہ قارون کو قورح میں نے ہی نہیں سمجھ رکھاہے، بلکہ ہمار ے تمام قدیم مفسرین اور عصر حاضر کے بعض ممتاز پاکستانی وہندوستانی مترجمین ومفسرین نے بھی یہی لکھا ہے۔ جس قورح کا شجرہ نسب جناب ناقد نے بائبل سے نقل کرنے میں بڑی سر مغزی کی ہے ،یا مرحوم اسلم رانا کے مذکورہ بالا مضمون سے حرف بحرف نقل کیا ہے ،یہی شجرہ نسب ہمارے قدیم ترین عظیم مفسر، تیسری صدی ہجری کے امام طبری نے اپنی تفسیر میں سورۃ قصص کی متعلقہ آیت کے ضمن میں قارون کا دیا ہے: ’’قارون بن یصہر بن قاہث بن لاوی بن یعقوب‘‘اور یہی اپنی مشہور ومعروف تاریخ کی پہلی جلد میں قارون کے ذکر میں بیان کیا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے صحابی رسول ﷺ اور مشہور مفسر قرآن عبداللہ ابن عباسؓ اور ان کے شاگردوں مجاہد وغیرہ کے اقوال نقل کیے ہیں ،اور وضاحت کی ہے کہ یہ قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اور ان کے شاگرد تابعین کے بیانات (یعنی قارون ہی توراۃکا قورح ہے) اس لیے مستند ہیں کہ ان کا ماخذ ان یہودی علما کے اقوال وبیانات ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے، جیسے عبد اللہ بن سلام، کعب بن مالک، اور وہب بن منبہ وغیرہ۔ مزید یہ کہ انہی تابعین میں ایک مشہور تابعی ابن جریج (عبد اللہ بن عبد العزیز) ہیں جو امام ابو حنیفہ ؒ کے معاصر تھے اور جن کے دادا جریج ایک رومن عیسائی تھے۔ انہوں نے قارون کا وہی شجرہ دیاہے جو قورح کا ہے۔
یہی بات مفسر زمخشری اور قرطبی وغیرہ نے لکھی ہے ،اور بائبل کے بیانات کے مطابق قورح ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ قدیم عرب مفسرین ومورخین کے علاوہ عہد حاضر کے انگریزی مترجم ومفسر قرآن عبد اللہ یوسف علی، مولانا عبد الماجد دریابادی (انگریزی تفاسیر) اور مولانا مودودی نے بھی قارون کو بائبل کا قورح لکھا ہے۔
اب کہیں یاسین عابد صاحب یہ اعتراض نہ کر بیٹھیں کہ توراۃ کے شجرۂ نسب میں قورح کے باپ کا نام اضہار اور اس کے دادا کا نام قہات ہے، جبکہ دونوں کے نام طبری وغیرہ اسلامی ماخذ میں علی الترتیب یصہر اور قاہث ہیں۔ اس بے بنیاد ممکنہ شبہہ کے جواب میں عرض ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام توراۃ کی کتاب پیدایش میں مسلسل چھ اصحاح ( ۱۱ تا۱۶) میں ’ابرام‘ مذکور ہے اور طرفہ تماشایہ کہ اصحاح ۱۷:۵ کے بعد سے وہ ننانوے سال کی عمر میں ’’ابرام‘‘سے ’’ابراہام‘‘ ہوگئے اور اللہ نے ان کا یہ نام بدلا۔ علاوہ ازیں بائبل میں حضرت اسحاق علیہ السلام کا نام اضحاق، یونس علیہ السلام کا نام یوناہ اور یحییٰ علیہ السلام کا نام یوحنا ہے، اور انگریزی بائبل میں تو یہ نام بہت ہی مختلف ہیں۔ لوط، یعقوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون علیہم السلام کے نام علی الترتیبLot, Jacob, Joseph, Moses, Aaron لکھے ہیں۔اب یاسین عابد صاحب بتائیں کہ کیا قرآن میں مذکور انبیا اور بائبل میں مذکور یہ انبیا ایک دوسرے سے مختلف ہیں؟ ایں خیال است ومحال است وجنوں۔ قارون وقورح کے شجرۂ نسب کے ایک ہی ثابت ہونے کے بعد اس میں کوئی شک نہیں رہتا کہ قارون بائبل کاقورح ہے۔ ’قارون‘ نام، شمعو ن، شیرون کے اوزان پر عبرانی نام ہی معلوم ہوتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جیسے حضرت ابراہیم کے والد کانام قرآن میں آذر (سورۃالانعام، آیت ۷۴) اور بائبل کی کتاب پیدایش میں تارح ہے، جن کے مابین توفیق علما نے اس طرح کی ہے کہ ایک ان کا اصلی نام ہوگااور ایک عرف یا لقب، اسی طرح قارون اور قارح بھی ایک ہی شخص کے دو مختلف نام ہوں ، خاص طورپر یہ کہ ان کا شجرہ نسب ایک ہی ہے۔ یہی معاملہ قرآن کے طالوت (سورۃ البقرۃ۲۴۳) اور بائبل کے ساؤل کا ہے۔ 
قرآن کریم کے صریح بیانات کے مطابق توراۃ واناجیل اربعہ وغیرہ (بائبل ،عہد قدیم وعہد جدید) تحریف شدہ کتابیں ہیں: ’فَوَیْْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُونَ الْکِتَابَ بِأَیْْدِیْہِمْ ثُمَّ یَقُولُونَ ہٰذَا مِنْ عِندِ اللّہِ لِیَشْتَرُواْ بِہِ ثَمَناً قَلِیْلاً‘ (البقرۃ،۷۹) یعنی ’’ہلاکت ہے ان (یہودیوں) کے لیے جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھ لیتے ہیں، پھر کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس طریقے سے کچھ پیسے حاصل کرسکیں۔‘‘ اور دوسری جگہ ہے: ’یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَن مَّوَاضِعِہ‘ (النساء،۴۶) یعنی ’’وہ لوگ جو اپنے آپ کو یہودی کہنے لگے، ان میں سے کچھ لوگ (اللہ کے) کلمات ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں۔‘‘ یہ بھی ممکن ہے کہ قورح کے بارے یہودیوں نے بائبل میں تحریف کی ہو۔
قارون اور قورح کے ایک ہی شخص ہونے کے بارے میں مزید ایک بات یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مصر کے بادشاہ کا لقب قرآن وبائبل میں ’فرعون‘ مذکور ہے ۔یہ مصری لقب جو مصر کے تمام بادشاہوں کا لقب تھا،اصل میں ’’پر+عو‘‘ یا ’’فر+عو‘‘ دو لفظوں سے مرکب تھا ، جس کا معنی ہے ’’عظیم محل ‘‘یا قصر اعظم۔ انگریزی نام Pharoahمیں لفظ کی اصل مصری صورت بڑی حد تک باقی ہے۔ لفظ فرعون کی یہ تشریح مصر قدیم سے متعلق کتابوں اور خاص طورپر موسسہ فرانکلین کی طرف سے شائع ہونے والی یک جلدی ضخیم انسائیکلوپیڈیا ’الموسوعۃ العربیۃ المیسرۃ‘ میں ہے جو ممتاز مصری مورخین ومحققین وماہرین آثار کے قلم سے ہے۔ اس میں لفظ کی مذکورہ بالا تشریح کے بعد لکھا ہے کہ یہ لفظ ’’پرعو‘‘ شاہی قصر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ پھر خود مصر کے بادشاہوں کے لیے استعمال ہونے لگا، جس طرح ’’الباب العالی‘‘ (بلند دروازہ، Sublime Porte) کا اطلاق ترکی سلاطین پر ہوتاہے۔ (المو سوعۃ العربیۃ المیسرۃ، قاہرہ ۱۹۶۵ء، ص ۱۲۹۰)
۲۔ قورح کی فراوانی دولت سے متعلق میں نے ایک اقتباس بائبل کا حوالہ دے کر نقل کیا تھا۔ اس پر جناب ناقد صاحب کا ارشا د ہے: ’’یہ عبارت بھی گنتی باب ۱۶ میں نہیں ہے بلکہ ہمیں تو پوری کوشش کے باوجود پوری بائبل میں کہیں نہیں مل سکی۔ غالباً ڈاکٹر صاحب نے کبھی بائبل کھول کر نہیں دیکھی اور سنی سنائی اور غیر مستند معلومات کی بنیاد پر مذکورہ عبارت تورات کی طرف منسوب کر دی۔‘‘
میری عربی، انگریزی واردو تصانیف پڑھنے والے جانتے ہیں کہ میں سنی سنائی معلومات درج کرنے کا خوگر نہیں۔ یاسین عابد صاحب بھی میری دو اردو کتب ’’ تحقیقات وتاثرات‘‘ اور ’’خانوادہ نبوی وعہد بنی امیہ ‘‘میں میرے انداز تحقیق کو دیکھ سکتے ہیں۔ میرا زیر بحث مضمون دروس قرآن کے ضمن میں ایک دعوتی واصلاحی نوعیت کی کاوش ہے۔ یہ قارون (قورح) سے متعلق کوئی تحقیقی مقالہ نہیں اور اہل علم میں قارون کے متعلق جو باتیں معروف ہیں (ان میں یہ بھی ہے کہ وہی بائبل کا قورح ہے) میں نے بغیر حوالے کے لکھ دی تھیں، کیونکہ بنیادی طورپر اس لیکچر (درس قرآن) میں آنے والے عام تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ اب اگر مضمون نگار صاحب نے اپنے انتہائی محدود مطالعے اور صرف بائبل یا توراۃ (جو قرآن کے مطابق تحریف شدہ ہے) پر کلی اعتماد کرتے ہوئے میری بات کو سنی سنائی اور غیر مستند سمجھا ہے تو ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ قورح کی فراوانی دولت کا بیان پہلی صدی عیسوی کے ممتاز یہودی مورخ یوسفوس (Josephus) نے اپنی مشہور کتاب Antiquities of the Jewsمیں کیا ہے جس کو مرحوم مولانا عبد الماجد دریابادی نے اپنی انگریزی تفسیر ماجدی (جلد ۳، ص ۳۵۳) میں نقل کیا ہے۔ یہ اقتباس درج ذیل ہے :
"Corah, an Hebrew of principal account, both by his family and by his wealth, saw that Moses was in an exceedingly great dignity, and was uneasy at it, and envied him at that account (he was of the same tribe with Moses, and of kin to him) being particularly grieved, because he thought he better deserved that honourable post on account of his great riches, and as not inferior to him in his birth." 
’’قورح ایک ممتاز حیثیت کا یہودی تھا، اپنی خاندانی حیثیت سے بھی اور اپنی دولت کے سبب سے بھی۔ اس نے دیکھا کہ موسیٰ علیہ السلام کو انتہائی بلند عظمت حاصل تھی۔ وہ اس بات سے ناخوش تھا اور اس وجہ سے اس نے حسد کرنا شروع کردیا (وہ موسیٰ کے قبیلے ہی سے تھااور ان کا ایک قرابت دار تھا) اس کو خاص طور پر شکایت یہ تھی کہ وہ اپنی بے انتہا دولت کے سبب اور اس وجہ سے بھی کہ وہ خاندانی وجاہت میں موسیٰ سے کم نہ تھا، اس معزز منصب کا زیادہ مستحق تھا جو موسیٰ کو حاصل تھا۔‘‘(Antiquities iv.2:2) 
یوسفوس کے اس بیان میں قورح کی فراوانی دولت کی طرف واضح اشارہ ہے اور وہ یہ بھی یقین کے ساتھ کہتاہے کہ خاندانی وجاہت کے ساتھ وہ اپنی کثیر دولت کے سبب اپنے آپ کو اس عالی مقام (نبوت )کا زیادہ اہل سمجھتاتھا جو موسیٰ علیہ السلام کو حاصل تھا۔ اس اقتباس میں قورح کی فراوانی دولت کا واضح ومکر ر ذکر ہے۔ یاد رہے کہ قدیم یہودی تاریخ کے بارے میں یوسفوس انتہائی مستند ماخذہے۔ اس کا پورا نام فلا فیوس یوسفوس تھا اور اس کا زمانہ ۳۷ء تا ۹۵ء ہے۔ یہودیوں نے اس کو ۶۶ء میں فلسطین کے شہر جلیلی Galili)) کا گورنر مقر ر کیا تھا۔ اس کے رومن حکومت سے اچھے تعلقات تھے۔ یہ رومابھی گیاتھا ،اور اس کو پورے رومنRoman)) شہری حقوق حاصل تھے۔ اس نے مذکورہ بالا کتاب کے علاوہ یہودیوں اور ان کی جنگوں کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ وہ یہودیوں کا ایک مذہبی رہنما (کاہن) اور مورخ وسیاستدان تھا۔اس نے یہودیوں کی مدافعت میں بہت کچھ لکھا اور ان کی تعریف میں رطب اللسان رہاہے۔ (الموسوعۃ العربیۃ المیسرۃ ،ص ۱۹۹۲)
اس سب کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ یہودی مورخ اپنے ہم قوم یہودیوں کا دشمن تھا۔یوسفوس کی یہ کتاب آسانی سے دستیاب نہیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے مولانا عبدالماجد دریابادی مرحوم کو جنہوں نے کتاب کا یہ اقتباس اپنی انگریزی تفسیر میں محفوظ کر لیا ہے۔ تما م انگریز ی تفاسیر میں ان کی یہ انگریزی تفسیر اس حیثیت سے ممتاز ہے کہ اس میں بیسیوں ایسی کتابوں کے حوالے ہیں جو ان کے ذاتی مکتبہ میں تھیں۔ اب یاسین عابد صاحب بتائیں کہ نزول قرآ ن کے پانچ سو سال پیشتر کے اس یہودی مذہبی رہنما اور مورخ نے بھی قرآنی قارون کو ذہن میں رکھ کر سنی سنائی اور غیر مستند معلومات نقل کی تھیں؟
جہاں تک تین سو بار بردار جانوروں پر قارون (قورح) کے خزانوں کی کنجیاں لادنے کاتعلق ہے تو یہودی دائرۃالمعارف Jewish Encyclopaedia(جلد ۷ ص ۵۵۶) میں مذکورہے کہ’’قورح کے خزانون کی کنجیاں تین سو خچروں پر لادی جاتی تھیں‘‘ (تفسیر ماجدی ، انگریزی vol. III, p. 353، تفہیم القرآن ،جلد سوم،ص۶۶۲)
میرا جومضمون قارون سے متعلق ’’الشریعہ ‘‘میں شائع ہوا تھا، وہ دروس قرآن کے ضمن میں ٹیپ سے نقل کردہ Transcribed)) ایک لیکچر تھا جو ہمارے دفتر کے ایک سیکرٹری نے ٹیپ سے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا تھا۔ ان کے سہو قلم سے تین سو خچروں کے بجائے تین سو اونٹ کتابت ہوگیااور چونکہ توراۃ کا ذکر اوپر چل رہاتھا، اس وجہ سے اسی کانام بجائے جیوش انسائیکلوپیڈیا کے انہوں نے لکھ دیا۔ بہر حال مصنف اس پر معذرت خواہ ہے، لیکن کتابت کی اس غلطی کے باوجود یہ حقیقت فراموش نہیں کی جاسکتی کہ مذکورہ بالادو اہم یہودی حوالوں کے پیش نظر قورح بے انتہا دولت کا مالک تھا ،خواہ اس کے خزانوں کی کنجیاں تین سو خچروں پر لادی جائیں یا تین سو اونٹوں پر، اور خواہ اس کا ذکر جیوش انسائیکلو پیڈیا میں ہو اوربائبل میں نہ ہو، کیونکہ قرآنی تاکیدات کے پیش نظر بائبل ایک تحریف شدہ کتاب ہے۔ پھر اہل علم سے یہ بات بھی پوشیدہ نہیں کہ یہودی مذہب اور تاریخ سے متعلق بعض انتہائی اہم بیانات وتفاصیل توراۃ کی شرح تلمود میں موجود ہیں جو یہودیوں کے نزدیک ایک مقدس کتاب ہے۔
جوبات میں نے Josephusکی مذکورہ بالا کتاب کے پیش نظر قورح سے متعلق لکھی تھی، وہی بات برصغیر کے عظیم عالم ومفسرّ قرآن مولانا شبیر احمد عثمانی نے سورۃ القصص کی متعلقہ آیت ۷۶ پر اپنے تفسیری حاشیے نمبر ۸ میں کہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’وہ حضرت موسیٰ وہارون کی خداداد عزت ووجاہت کو دیکھ کر جلتا اور کہتا کہ آخر میں بھی ان ہی کے چچا کا بیٹاہوں۔یہ کیا معنی کہ وہ دونوں تو نبی اورمذہبی سر دار بن جائیں ،مجھے کچھ بھی نہ ملے ۔ کبھی مایوس ہوکر شیخی مارتا کہ انہیں نبوت مل گئی تو کیا ہوا، میرے پاس مال ودولت کے اتنے خزانے ہیں جو کسی کو میسر نہیں۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے اس کی ناپاک سرشت کے اور واقعات بھی، جن کاتعلق موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اس کے حسد سے تھا، طبری ، زمخشری، رازی اور قرطبی سے نقل کیے ہیں جن سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ قارون بائبل کاقورح ہی تھا۔
۳۔ میرے مضمون میں قورح سے متعلق بیانات پر اعتراضات کے بعد، جن کا جواب دیا جا چکاہے، موصوف نے قورح کی شخصیت پر ایک صفحہ سیاہ کیا ہے۔ سب سے پہلے تو توراۃ کے حوالوں کے ساتھ اس کے باپ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا شجرہ نسب حضر ت یعقوب علیہ السلام تک دیا ہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ قورح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ اس کی چنداں ضرورت نہ تھی، کیونکہ ہمارے سب قدیم مفسرین ومورخین نے لکھاہے کہ قارون (قورح) موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ یاسین عابد صاحب چونکہ قارون اور قورح کو دو علیحدہ علیحدہ اشخاص سمجھتے ہیں، تو اب وہ قارون کا شجرہ نسب بھی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ثابت کریں، یا پھر یہ ثابت کریں کہ مورخ ومفسر امام طبری نے ،جن کے زمانے میں بغداد میں کافی یہود آباد تھے او ر جن سے مسلمانوں کامیل جول تھا، قارون کاوہ شجرہ غلط نقل کیا ہے جو بالکل قورح کے شجرہ نسب کی طرح ہے اور لاوی بن یعقوب علیہ السلام سے جاملتاہے۔ وہ تو ہرگز ان دونوں میں سے کوئی بات ثابت نہیں کرسکیں گے ،لیکن میں بائبل کے ان حافظ صاحب کو دکھاتاہوں کہ اس قورح کے شجرہ نسب میں خود بائبل میں کتنا تضاد ہے۔
موصوف نے قورح کا جو شجرہ نسب دیا ہے، وہ توراۃ کی کتاب خروج سے لیا گیا ہے۔ اس میں وہ اضہار بن قہات کا بیٹا ہے، لیکن اسی بائبل کی کتاب ۱۔ تواریخ، ۶:۲۲،۲۳ میں ہے: ’’قہات کا بیٹا عمینداب۔ عمینداب کا بیٹا قورح‘‘۔ لیجیے، توراۃ کی کتاب خروج میںیہ قورح، اضہار بن قہات کا بیٹاتھا،اب دوسری کتاب ۱۔ تواریخ میں عمینداب کا بیٹاہو گیا۔ کیا بائبل کے حافظ یاسین عابد کی نظر سے بائبل کا یہ باب اور یہ فقرہ نہیں گزرا، یا انہوں نے جان بوجھ کر تغافل کیا ہے؟ پھر یہ کہ موصوف نے قورح کے شجرہ نسب کے لیے بائبل کی کتاب خروج کے علاوہ ۱۔تواریخ ۲:۱ کاحوالہ بھی دیا ہے۔ اس مقام پر اضہار اور قہات بن لاوی یعنی قورح کے باپ کا بالکل ذکر نہیں۔ اس اصحاح کے فقرہ ۲ میں ’’دان، یوسف اور بنیمین، نفتالی، جد اور آشر‘‘ کاذکر ہے۔ اس فقرے سے پہلے فقرے میں ہے: ’’یہ بنی ا سرائیل ہیں۔ روبن، شمعون، لاوی، یہوداہ،اشکار اور زبولون۔‘‘ اس طرح ۱۔تواریخ ۲:۱،۲ میں بنی اسرائیل یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں کا ذکر ہے۔ پھر ہر بیٹے کی نسل کا ذکر ہے، اور بنی لاوی کا ذکر، جن میں سے قورح تھا، اصحاح۶میں ہے۔
اب جناب ناقد، بائبل کے حافظ بتائیں کہ بائبل سے سنی سنائی باتیں کون نقل کررہاہے؟ میں یاموصوف؟ اگر وہ انصاف پسند انسان ہیں تو یقیناًیہاں وہ مشہور مصرع پڑ ھیں گے:’’ میں الزام ان کو دیتاتھا، قصور اپنا نکل آیا‘‘۔اور قورح کے باپ کے بارے میں بائبل کے بالکل متضاد بیان پر میں کہوں گا، وصدق اللہ العظیم: ’یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَن مَّوَاضِعِہ‘ یعنی یہ (یہودی) کلمات کو ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں۔ توراۃ بلکہ پوری بائبل میں بیسیوں اور مواقع پر میں تحریف ثابت کر سکتاہوں،لیکن یہاں بائبل پرقرآن سے زیادہ اعتماد کرنے والے ناقد صاحب سے کہوں گا کہ وہ اس موضوع پر مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کی بے نظیر کتاب’’اظہار الحق‘‘ کی پہلی جلد میں دوسرا باب’’ فی اثبات التحریف‘‘ ص۳۳۵۔۵۰۸ پڑھ لیں (جدید عربی ایڈیشن، تحقیق الاستاذ عمر الدسوقی) ان کو عربی نہ آتی ہو تو اس کاترجمہ مولانا تقی عثمانی کے قلم سے بہ عنوان ’’بائبل سے قرآن تک ‘‘ پڑھ لیں، اگر چہ مجھے علم نہیں کہ انہوں نے اس کاپور ا ترجمہ کیا ہے یا ناقص۔
۴۔ قورح (سب مسلمان اہل علم کے نزدیک قرآن کاقارون) سے وہ بہت زیادہ حسن ظن رکھتے ہیں ،اور اس کی تعریف میں رطب اللسان ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں : ’’ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر ایمان رکھتا تھا، یہی وجہ تھی کہ اس نے مصر میں اپنا گھربار اور شہری حقوق وسہولیات چھوڑ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہجرت کی او ربحر قلزم کو عبور کیا۔ تمام بنی اسرائیل کی نشست وبرخاست خدا اور اس کے نبی حضر ت موسیٰ کے زیرفرمان ہی ہوتی تھی۔‘‘ (گنتی ۹:۲۳)
جو حوالہ موصوف نے بائبل کی کتاب گنتی کادیا ہے ،اس میں کہیں بھی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ قورح کی مصر سے ہجرت کا ذکر نہیں، نہ اس کے مصر میں شہری حقوق وسہولیات چھوڑنے اور نہ بحر قلزم عبور کرنے اور جنگلوں میں مارے مارے پھرنے کا ذکر ہے۔ اس مقام (گنتی ۹:۲۳) پر تو صرف یہ درج ہے کہ ’’وہ (بنی اسرائیل) خداوند کے حکم سے قیام کرتے اور خداوند ہی کے حکم سے کوچ کرتے تھے۔‘‘ بلکہ اس پورے اصحاح یا باب میں مصر سے براہ بحر قلزم ہجرت بنی اسرائیل کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ اب لمبی زبان والے جناب ناقد صاحب یہ بتائیں کہ سنی سنائی باتیں کون کر رہاہے اور کیا اب میرا یہ کہنا درست ہوگا کہ موصوف نے کبھی بائبل کھول کر دیکھی ہی نہیںیا دیکھی ہے تو وہ جان بوجھ کرغلط بیانی کررہے ہیں اور قارئین کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ یاپھر یہ علامہ صاحب یہ تو بتائیں کہ قورح، جو ان کے بقول حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لایا اور پکا اسرائیلی تھا ، اس کو مصر میں شہری حقوق کیسے مل گئے؟ اسر ائیلی تو مصر میں مبتلائے عذاب (Persecuted) تھے۔ فرعون کے دربار میں اس کے اعلیٰ مقام کا ذکر تو ہمارے مفسرین ومورخین نے کیا ہے، اس بنیادپر کہ یہ قورح وہی قارون تھا جو اپنی قوم کے خلاف فرعون کے ساتھ ہو گیا تھا، لیکن شہری حقوق حاصل ہونے کا کیا ثبوت ہے؟
۵۔ جناب ناقد بائبل (توراۃ) کی کتاب خروج ۳۲:۲۸ کے حوالے سے لکھتے ہیں: 
’’قورح، داتن، ابیرام،اون اور ان کے دوسرے ساتھی بھی ہر عمل میں اپنی قوم کے ساتھ تھے۔ بچھڑے کی پوجا کے واقعے میں یہ اشخاص شرک میں مبتلا ہونے والے گروہ کے خلاف اور حضرت موسیٰ وہارون کے ساتھ تھے۔ اس واقعے میں بنی لاوی نے تمام مشرکین کو قتل کیا تھا۔ (خروج ۳۲:۲۸) ‘‘
اس کے فوراً بعد تحریر کرتے ہیں: ’’اسی وجہ سے بنی لاوی کو بنی اسرائیل میں ایک ممتاز حیثیت حاصل ہو گئی تھی (گنتی ۸:۱۴) اور وہ خدا کے چنے ہوئے لوگ ٹھہرے۔ یہاں تک قورح ایک گم نام شخص ہے۔‘‘
اب میں پھر بائبل کے ان بزعم خود حافظ صاحب سے کہتاہوں کہ انہوں نے سنی سنائی باتیں لکھی ہیں، اور بائبل کھول کر بھی نہیں دیکھی (بلکہ شاید بغیر کھولے بھی نہیں) یہ انہیں کے الفاظ میں نے دہرائے ہیں۔ اگر ان کے پاس واقعی بائبل ہے تو وہ اسے کھول کردیکھیں۔ کتاب خروج کے مندرجہ بالا باب اور فقرے میں سرے سے قورح وداتن وغیرہ کانام ہی نہیں بلکہ اس پورے باب (اصحاح ) میں کہیں ان کا نام نہیں، یہ بات تو علیحدہ رہی کہ انہوں نے ان مرتدین ومشرکین کی مخالفت کی تھی جنہوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی۔ 
میں ان کی او رقار ئین کی اطلاع کے لیے وضاحت کیے دیتاہوں کہ کتاب خروج ۳۲:۲۸ میں صرف یہ لکھا ہے: 
’’اور بنی لاوی نے موسیٰ کے کہنے کے موافق عمل کیا۔ چنانچہ اس دن لوگوں میں سے قریبا تین ہزار مرد کھیت آئے‘‘۔
اس کا اظہار بھی ضروری ہے کہ اس سے قبل لکھا ہے: 
’’اور اس( موسیٰ) نے ان (بنی لاوی ) سے کہا کہ خداوند اسرائیل کا خدایوں فرماتاہے کہ تم اپنی ران سے تلوار لٹکا کر پھاٹک پھاٹک گھوم کر سارے لشکر گاہ میں اپنے اپنے بھائیوں اور اپنے اپنے ساتھیوں اور اپنے اپنے پڑوسیوں کو قتل کرتے پھرو‘‘۔
یاسین عابد صاحب ان حوالوں سے کس کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ وہ قارئین جن کی نظر سے کبھی بائبل نہیں گزری، وہ تو اس سے مرعوب ہوجائیں گے اور دھوکہ کھا جائیں گے اور ایسے بہت سے ہیں، لیکن وہ جن کی نظر بلکہ تنقیدی نظر اس تحریف شدہ کتاب پر ہے، وہ اس سے دھوکہ نہیں کھا ئیں گے۔ اس موقع پر مجھے پندرہ سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے ،کہ کراچی ٹیلی ویژن کے ایک مشہور خطیب اور میلاد خواں نے میرے ایک تحقیقی مضمون پر، جو شجرہ خاندان نبوت سے متعلق تھا، ایک تنقیدی مضمون لکھا جس میں ہفت روزہ تکبیر کے قارئین کو مرعوب کرنے کے لیے کچھ عربی کتابوں کے جھوٹے حوالے بھی لکھے۔ پھر اس کا جواب میں نے اسی ہفت روزے میں شائع کیا تو انہوں نے اپنے ہمہ دانی کے زعم میں تاریخ بنی امیہ سے متعلق کچھ سوالات اٹھائے جن میں ناصبیت کارنگ تھا، اور اسی طرح کا جارحانہ انداز بیاں اختیار کیا جو یاسین عابد صاحب کا ہے، اورپھر ساتھ ہی مزید جھوٹے حوالے ۔ میں نے اس کا بھی مفصل ومدلل جواب دیا، الحمد للہ کہ اہل علم نے میری تحریروں کو پسند کیا۔ بعض بزرگ میرے پاس تشریف بھی لائے۔ اس طرح وہ تحریری مناظرہ ایک کتابی شکل اختیار کرگیا اور دو سال قبل ’’خانوادہ نبوی وعہد بنی امیہ ‘‘ کے نام سے میرے یہاں سے ہی اشاعت پزیر ہوا۔ اب یہ ایڈیشن تقریباً ختم ہو چکاہے۔
۶۔ آخر میں موصوف نے قارون کی دولت پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’اس نے اپنی دولت کی حفاظت، قرضوں کے لین دین اور سودکے حساب کتاب کے لیے منشیوں، خزانچیوں، مسلح پہرے داروں، سپاہیوں اور عاملوں کا ایک پورا نیٹ ورک بنا رکھا تھا۔ (۲۸:۷۶) ‘‘
مضمون نگار صاحب بائبل کے انداز حوالہ جات سے متاثر ہیں، چنانچہ انھوں نے اس عبارت کے لیے سورۃ القصص کی آیت نمبر ۷۶ کا حوالہ بائبل کے انداز پر دیا ہے ۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن کریم کے حوالے سورتوں کے نام اور آیات کے نمبروں سے ہوتے ہیں۔ یہی وہ اسلوب ہے جو اہل علم میں رائج ہے ۔اسی اسلوب پر عصر کی مشہور مجمع اللغۃ العربیہ(عرب لسانیات اکیڈمی) کی ضخیم کتاب ’’معجم الفاظ القرآن الکریم‘‘(دوجلدیں) مرتب کی گئی ہے۔ بہرکیف ان کی بیان کردہ تفصیلات کا مذکورہ آیت میں کوئی ذکر نہیں۔ پھر یہ خیالی گھوڑے کس لیے دوڑائے گئے ہیں؟
انہوں نے اس موقع پر پھر دہرایا ہے کہ قارون کاذکر بائبل میں نہیں۔ کوئی شک نہیں کہ قارون کانام نہیں لیکن قورح اور قارون اسی طرح تقریبی مشابہت رکھتے ہیں جس طرح مصری تاریخ کا’’ فرعو‘‘ اور بائبل اور قرآن کا’’فرعون‘‘۔ ایسی قریبی مشابہت بنی اسرائیل کے بہت سے قرآنی اور توراتی ناموں میں بھی نظر آتی ہے۔ دونوں جگہ مکمل یکسانیت نہیں ۔ہم قارون اور قورح کے ایک ہی شجرہ نسب اور تقریباً دو ہزار سال قبل کے یہودی مورخ یوسفوس کی کتاب کے حوالے سے ثابت کر چکے ہیں کہ قارون اور قورح ایک ہی شخص ہے۔ اب آخر میں بائبل کے نئے حوالوں سے، جن سے یاسین عابد صاحب یا تو غافل ہیں یا انہوں نے قصداً ان کو چھپا یا ہے ، ہم یہ ثابت کرتے ہیں کہ قورح، موصوف کے بیان کے برخلاف، صحرائے سینا میں نہیں بلکہ مصر میں اپنے محل کے ساتھ زمین میں دھنسا دیاگیا ،جس کی تصدیق قدیم مصری تاریخ کے ماہرین اور علماے آثار قدیمہ کے بیانات سے بھی ہوتی ہے۔
بائبل (توراۃ ) کی پانچویں کتاب التثنیہ یا استثنا Deuteronomy)) میں ہے کہ جب بنی اسرائیل مصر سے نکل کر سینا میں دشت نوردی کررہے تھے تو اس دور میں حضرت موسیٰ کے مخالفین ’’داتان اور ابیرام کو جو الیاب بن روبن کے بیٹے تھے ...... سب اسرائیلیوں سمیت زمین نے اپنا منہ پسار کران کے گھرانوں، خیموں اور ہرذی نفس جو ان کے ساتھ تھا، نگل لیا۔‘‘(استثنا ۱۱:۶) یہاں ان زمین میں دھنسائے جانے والوں میں قورح کانام نہیں ،جبکہ کتاب گنتی ۱۶:۳۱،۳۲ میں قورح کانام ہے۔ یہ اسی طرح کا ایک تضاد ہے جس کاذکرہم قورح کے باپ کے نام کے سلسلے میں کر چکے ہیں ، اور اس کاسبب یہ ہے کہ بابل کے کلدانی بادشاہ نبو خذ نصر نے (بائیل کا نبو کدنضر) جو عربی کے اثر سے اردو میں بخت نصر مشہور ہے، یروشلم کو اپنے دوسرے حملے ۵۸۶ قبل مسیح میں بالکل تباہ کردیا تھا، ہیکل سلیمانی کو مسمار کر دیاتھا اور توراۃ کے سارے نسخے جلا دیے تھے۔ تقریباً پچاس سال بعد ایران کے پہلے ہخا منشی (اکمینی) بادشاہ کو روش (بائبل خوروس، کتاب عزرا، انگلش Cyrus) نے یہودیوں کو فلسطین واپس جانے اور دوبارہ ہیکل (معبد) بنانے کی اجازت دی جو دوسرے ہخامنشی شاہ ایران خوشایارخوش (بائیبل، عزرا: ارتخششتا، یونانی و انگریزی Xraxes) کے زمانے میں ۵۱۵ قبل مسیح میں بن سکا اور اسی عہد میں عزرا کاہن نے اپنی یادداشت سے توراۃ (بائیبل عہد قدیم )کو دوبارہ لکھا جس کی وجہ سے اس میں کافی اغلاط اورتضادات پائے جاتے ہیں۔ پھر موجودہ بائبل میں تو اس کے بعد بھی تحریف ہوئی ہے جس کی تفصیل کی یہاں گنجایش نہیں، لیکن اس موضوع اور یہودی تاریخ پر ڈاکٹر احمد شلبی (مصری) کی بہترین کتاب ’الیہودیۃ‘ (قاہرہ، ۱۹۸۴ ) دیکھی جاسکتی ہے۔
بہر حال قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس طرح بائیبل کی کتاب استثنا میں داتن اور ابیرام کے ساتھ قور ح کے زمین میں دھنسائے جانے کاذکر نہیں ،اسی طرح بائبل کی ایک دوسری اہم کتاب زبور میں، جہاں داتن اور ابیرام کے زمین میں دھنسائے جانے کا ذکر ہے، وہاں بھی قورح کانام نہیں۔ زبور ہی بائبل کی وہ کتاب ہے جس میں کوئی تحریف نہیں ہوئی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا اور بنی اسرائیل کے اظہار بندگی کے ترانے ہیں اور ان کے لیے اپنے گناہوں کا اعتراف بھی ان ترانوں میں ہے جن کو بآسانی حفظ کیا جا سکتاہے۔ یہی وہ زبو ر ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام کو عطاکی گئی تھی۔
زبور کے مزمور ۱۰۶ میں ہے: ’’ انہوں (بنی اسرائیل ) نے خیمہ گاہ میں موسیٰ اور خدا وند کے مقدس مرد ہارون پر حسد کیا ۔ سو زمین پھٹی اور داتن کو نگل گئی اور ابیرام کی جماعت کو کھاگئی ۔‘‘ (مزمور ۱۰۶:۱۶،۱۷) زبور کی تصریح (یہی مزمور، فقرات ۶تا ۱۵) کے مطابق یہ واقعہ سینا میں پیش آیا ،اور حسد کرنے والے روبن بن یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے جبکہ موسیٰ علیہ السلام، ہارون علیہ السلام اور قورح (قارون) لاوی بن یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ اسی لیے داتن اور ابیرام ودیگر جو اولاد روبن سے تھے، موسیٰ علیہ السلام سے ان کی نبوت کے سبب حسد کرتے تھے۔
قورح کے خسف فی الارض (زمین میں دھنسائے جانے) کا واقعہ اس سے قبل مصر میں ہو چکا تھا۔ قرآن کریم نے کتاب استثنا اور زبور کی روایت کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ مصر میں تھے کہ قارون (قورح ) اور اس کامحل زمین میں دھنسائے گئے ۔ ورنہ سینا میں تو سارے اسرائیلی خیموں میں رہتے تھے۔ وہاں قورح نے کون سا محل اور کہاں تعمیر کیا تھا؟ اسی لیے بائبل کی مذکورہ بالا دونوں روایتوں میں داتن اور ابیرام کے گھروں کاذکر نہیں، بلکہ خیموں کاذکر ہے۔
مصر میں قارون (قورح) اور اس کے محل کے زمین میں دھنسنے کاذکر توراۃ کی ایک قدیم شرح مدراش (Midrash) کی روایت میں بھی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ایک بہت بڑا خسف فی الارض رعمسیس اور پتوم میں ہوا جو مصر کے مشہور شہر تھے۔ اس حادثے میں بنی اسرائیل بھی ہلا ک ہوئے۔ (مقالہ قارون، تعلیقہ، دائرۃ المعارف الاسلامیہ ، پنجاب یونیورسٹی (جلد۱۶/۱) بقلم جناب عبد القادر) اس شہر رعمسیس (یا بر رعمسیس ) اور بتوم کا ذکر عظیم مصری مورخ وماہر علم الآثار سلیم حسن کی کتاب ’’مصر القدیمۃ‘‘ (جلد ۶) میں بھی ہے۔ اردو دائرۃ المعارف الاسلامیہ ،پنجاب یونیو رسٹی میں مقالہ ’قارون‘ پر تعلیقہ (نوٹ)لکھنے والے عبدالقادر صاحب کاCommentory on the Bible, Peake 1952 کے حوالے سے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ قارون کے بارے میں دو الگ الگ کہانیوں کو کسی بعد کے مرتب نے یکجا کر دیا۔ بنی اسرائیل کی تاریخ میں اس قسم کے دو حادثے ہوئے تھے۔ مرور زمانہ کے باعث قورح (قارون) کی کہانی داتن اور ابیرام کے حادثے کے ساتھ جوڑدی گئی۔
یہ ہے وہ بائبل اور قورح سے متعلق اس کے متضاد بیانات جن کو یاسین عابد صاحب نے مستند مانا ہے اور صرف کتاب گنتی وخروج کے حوالے دے کر قارئین کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہم نے قدیم وجدید عرب وغیر عرب مفسرین کے اقوال اور بائبل کی دوسری کتابوں (استثنا اور زبور) کے حوالوں سے ثابت کردیا ہے کہ قرآن کاقارون ہی بائبل کا قورح تھا۔ جناب ناقد کی غلط بیانیوں کابھانڈا بھی پھوٹ گیا ہے ،اور ساتھ ہی بائبل جس کو ’کتاب مقدس‘ کانام دیا جاتاہے، اس کی حقیقت بھی سامنے آگئی ہے۔ 

مکاتیب

ادارہ

(۱)
مکرمی جناب پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب!
آ پ پر سلا متی ہو !
ماہنامہ ’الشریعہ‘ جنوری ۲۰۰۶ ء میں آ پ کا فکر انگیز مضمون’’ قرآ نی علمیات اور معاصر مسلم رویہ‘‘ پڑھا۔ یقین جا نیے اس قسم کے مضا مین کو میں اپنے لیے فکر ی غذا تصور کر تا ہوں۔ داخلی انتشار کے اس پرآشوب دورمیں مسلم مذ ہبی فکر کے حوالے سے حق کی تلا ش جتنی ضروری ہے، اسی قدر مشکل بھی ہے۔ گروہی اور مسلکی تعصبا ت کے اند ھیر وں میں حق کے اجا لے کی سحر شب گز یدہ بن گئی ہے۔ اس کے با وجو د تلا ش حق فر ض عین ہے۔ اس عظیم سفر کی ہر تکلیف کلفت نہیں، نعمت ہے۔ اپنا یہ عقیدہ ہے کہ جادۂ مستقیم کا طالب ہر حال میں کامیاب ہے، خواہ اسے منزل نہ ملے۔ دوسرے لفظوں میں حق کی تلاش ہی اصل منزل ہے۔ زیر بحث مضمون کے بعض نکات سے اگرچہ مجھے اختلاف ہے، لیکن میں آپ کے’’سفر‘‘کو مبارک تصور کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اصابت اور لغزش، ہر دو صورتوں میں آپ کو اجر دے۔
قرآن کی علمیاتی اساس میں آپ نے غیب کی تشریح یوں کی ہے:
’’یہاں غیب سے مراد’’نامعلوم ‘‘ہے، لیکن اس کا مطلب لاادریت بھی ہر گز نہیں۔ نامعلوم ہوناایک اور چیز ہے اور نہ جان سکنا چیزے دیگر است۔ نہ جان سکنے کی روش اپنانا ایک منفی رویہ ہے اور یہ تشکیک کے قریب ترین ہے جس کی قرآن ابتدا ہی میں نفی کرتاہے۔ اس کے برعکس نامعلوم ہونا ایک مثبت رویہ ہے جس میں جان سکنے کی خواہش اور یقین دونوں پائے جاتے ہیں۔‘‘ 
اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ بالغیب سے ’’نامعلوم‘‘مراد لے کر ایما ن بالغیب کا مطلب’’نامعلوم پر ایمان‘‘ہوگا، جیسا کہ آپ نے لکھا بھی ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ’بالغیب‘ پر داخل ’’با‘‘ کو ظرفیت کے مفہوم میں لینے کے بجائے آپ نے ’بالغیب‘ کو مفعول کیوں مان لیا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ ایمان بالغیب سے ’’نامعلوم پر ایمان‘‘مرادلے کر آیت میں اس کا مفہوم کیا بنتا ہے؟ اور تیسری بات یہ کہ خود’’نامعلوم‘‘کی وضاحت کیا ہے؟ یہاں میں تیسرے اور دوسرے سوال کی نوعیت پر بحث کرتا ہوں۔ نامعلوم کو غیب کا مترادف قراردے کر آپ ایک سانس میں دوباتیں کہہ ڈالتے ہیں۔ وہ یوں کہ غیب نامعلوم بھی ہے اور اس کا مطلب لاادریت بھی نہیں۔ آپ کے نامعلوم کا چہرہ کچھ کچھ ’’ادریت‘‘کے غازے سے سرخ ہے۔ میرے خیال میں آپ اردو زبان کی تنگ دامنی کا گلہ کررہے ہیں۔
کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیان کے لیے
آپ کا یہ شکوہ اس وقت اور پرشکوہ لگتا ہے جب آپ لکھتے ہیں: ’’نہ جان سکنے کی روش اپنانا ایک منفی رویہ ہے اوریہ تشکیک کے قریب ترین ہے۔‘‘(ایضاً ص۲۰)
’’سکنے‘‘کے لفظ سے ایک قسم کی معذوری ٹپکتی ہے۔ اگر ایساہی ہے تو پھر یہ رویہ کس طرح ایک منفی رویہ قراردیا جا سکتا ہے؟ اگر میں کچھ نہیں سیکھ سکتا تو میرا یہ رویہ منفی کس طرح ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ شاید ’’نہ جاننے کی روش اپنانا‘‘ اس مفہوم کے لیے درست تعبیر ہو۔ یوں لگتا ہے کہ آپ کی اس پیچیدگی نے آپ کو ’یومنون بالغیب‘ کا ترجمہ’’جو غیب پر ایمان لاتے ہیں‘‘ کرنے پر مجبور کیا اور بعد میں آپ کو وضاحت کرنا پڑی کہ ’’امکانات کو چھونے کو خواہش اور سکت ایمان بالغیب ہے۔‘‘ اگر میں آپ کی بات سمجھ سکا ہوں تو غالباً آپ کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے واقعات کے متعلق Positivelyسوچنا اور شک میں نہ مبتلا ہو جانا، ہی اس کا بالغیب ہے۔آپ کے ایمان بالغیب کی یہ تعبیر صرف ’’ایمان بالغیب‘‘میں مقید ہونے کا نتیجہ ہے ،حالانکہ یہ ایک طرف اس سورۃ سے پہلی سورہ ’الفاتحہ کے الفاظ ’الحمد اللہ رب العلمین الر حمن الر حیم ملک یو م الدین‘ کے ساتھ منسلک ہے تودوسری جانب اس کا تعلق اسی سورہ میں مذکور ایمان کی تفصیلات وجزئیات سے ہے۔ میں یہاں صرف ایک مثال پیش کروں گا جو بنی اسرائیل کی ظاہر پرستی سے متعلق ہے: ’’وَإِذْ قُلْتُمْ یَا مُوسَی لَن نُّؤْمِنَ لَکَ حَتَّی نَرَی اللَّہَ جَہْرَۃً‘‘ (البقرہ، آیت ۵۵)
اس لیے ایمان بالغیب کا تعلق اللہ پر ایمان سے لے کر یوم آخرت تک، تمام چیزوں سے ہے۔آپ کی بات بذات خود درست ہے، لیکن ایسا رویہ اپنانا متقین کی صفا ت میں سے ایک ہے، نہ کہ مجردایمان بالغیب کا تقاضا ۔
قرآنی علمیات کے رہنمایانہ منہاج کے حوالے سے آپ نے حضرت آدمؑ اور فرشتوں کے جس واقعہ کا ذکر کیا ہے، اس کا تعلق ایمان بالغیب کے اس تصور سے نہیں جسے آپ نے پیش کیا ہے۔ اس میں بھی آپ سے لغزش ہوئی ہے جس کی نشان دہی میں ابھی کروں گا۔ آپ یقیناًمیرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ یہ سورہ، بنی اسرائیل کے لیے ایک چارج شیٹ ہے اور اس میں ان پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ حضرت آدمؑ اور فرشتوں کے اس واقعہ سے پہلے اور بعد میں بنی اسرائیل کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ ا ٹھیک اس واقعے سے پہلے کی آیت یہ ہے : ’’ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُم مَّا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْْءٍ عَلِیْم‘‘۔ کیا فرشتوں والا Positiveرویہ اپنانے کے لیے ضروری نہیں کہ سب سے پہلے ایمان بالغیب میں پوشیدہ اس عظیم المرتبت خداکی وحدانیت کا اقرارکیا جائے؟ مطلب یہ ہے کہ زندگی اور موت کے مسئلے پر غور کیا جائے اور کائنات کی تخلیق کے متعلق سوچا جائے تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ انسان اعتراف کر لے کہ اے خدا! میں نے اگرچہ تجھ کو نہیں دیکھا، لیکن میری عقل تسلیم کرتی ہے کہ تو ہی بلا شرکتِ غیرے اس کائنات کا ر ب ہے اور علم کے سارے خزانے تیرے ہی پاس ہیں۔ 
اب ذرااس واقعے کے بعد کی آیات (۴۰،۴۶) پر غور کیجیے۔ آیت ۴۰ میں بنی اسرائیل کو’’َ أَوْفُواْ بِعَہْدِیْ‘‘ یاد دلایا گیا ہے۔ آیت ۴۱ میں اس چیز پر ایمان لانے کو کہا گیا ہے جسے خدائے عزوجل نے ’’أَنزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَکُمْ‘‘  کہا ہے ۔آیت نمبر۴۲ میں کتمان حق سے منع کیا گیا ہے۔ آیت نمبر۴۳میں نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے او رپھر آیت نمبر۴۶ میں ’’أَنَّہُمْ إِلَیْْہِ رَاجِعُونَ‘‘ کی یاددہانی کرائی گئی ہے ۔ میاں صاحب! بنی اسرائیل کویہاں آیت ۴۰ تا۴۶میں براہ راست جو کچھ کہا جا رہا ہے، کیا یہی باتیں ان متقین کی صفات نہیں ہیں جن کاتذکرہ سورۃ البقرۃ کے بالکل ابتدائی آیات میں ہوا ہے: ’’الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْْبِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَo والَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ وَبِالآخِرَۃِ ہُمْ یُوقِنُون‘‘۔
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ان صفات کی حامل متقی شخصیت یہی ملکوتی رویہ اپنائے گی اور حق کے سامنے سرنگوں (Surrender)ہوگی۔
جیسا کہ میں نے پہلے اشارہ کیا، قرآنی علمیات کے رہنما یا نہ منہاج میں آپ سے لغزش ہوئی ہے۔رہنمایانہ منہاج کے لیے آپ نے حضرت آدم ؑ اور فرشتوں کے واقعے سے متعلق آیات کا انتخاب کیا ہے۔ پہلی آیت یہ ہے:
’’وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَءِکَۃِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَن یُفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُون‘‘
یہاں ایمان بالغیب کی تعبیر امکانات کو چھو نے کی خواہش اور سکت کے نظریے سے Pre-Minded ہوتے ہوئے آپ نے لکھا ہے: ’’خلیفہ کے بارے میں فرشتوں کی یہ جانکاری کی وہ زمین میں فساد اور خونریزی برپا کرے گا ،خداہی کی عطا کردہ تھی۔‘‘ (ایضاً ص ۲۱)اوراس کے لیے آپ نے آیت نمبر۳۲کے الفاظ ’’لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا‘‘سے استدلال کیا ہے۔ اگر آیت نمبر ۳۰ میں ’’إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ‘‘ کے الفاظ نہ ہوتے تو آپ کا مذکورہ استدلال درست ہوتا ۔ا س آیت سے صریحاً واضح ہے کہ فرشتوں نے لفظ ’’خلیفہ‘‘کی بنا پرایک امکانی بات کی جو ادھورے سچ کے مترادف تھی، یعنی وہ انسانی تخلیق کی مکمل اسکیم سے واقف نہیں تھے ۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ میں جانتا ہوں وہ کچھ جو تم نہیں جانتے۔ اگر اللہ نے فرشتوں کو بتادیا تھا کہ انسان زمین میں فساد اور خون ریزی کرے گا جیسا کہ آپ نے لکھا ہے تو پھر ’’إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ‘‘ کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ شاید آپ اس کا جواب یہ دیں کہ انہیں انسان کے اسی خاص پہلو کے متعلق بتایا گیا تھا۔ میری گزارش ہوگی کہ اس مفروضے کی بنیاد کیا ہے؟اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ ان کے ساتھ مذاق تو نہیں کررہا تھاکہ آدھی بات بتا دی اور آدھی رہنے دی۔صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو زمین پر انسان کے خلیفہ بنائے جانے سے آگاہ کیا۔ ’خلیفہ‘ (یعنی صاحب اختیار) کے لفظ سے فرشتوں نے ایک امکانی بات اخذ کی جو معاملے کے سارے پہلووں کو محیط نہ تھی، یعنی یہ کہ یہ صاحب اختیار مخلوق زمین میں فساد برپا کرے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ اس کے بعد اللہ نے فرشتوں کے نہ جاننے کو جاننے میں تبدیل کرنے کے لیے پہلے حضرت آدمؑ کو ان کی ’’صالح ذریت‘‘کی فہرست دکھائی (یا ان نیک بندوں کی صورتیں دکھائیں )پھر ان نیک بندوں کی بابت فرشتوں سے دریافت کیا کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو توان لوگوں کے متعلق، جو سب کے سب نیک اور متقی ہوں گے، تمھاری کیا رائے ہے؟ فرشتوں نے اللہ کی مکمل سکیم کی نوعیت کو سمجھنے سے معذوری ظاہر کی اور شک کرنے سے گریز کیا اور کہا کہ اے خدا! جس امکانی بات کا علم تو نے ہمیں بخشا ہے، اسے کل سمجھتے ہوئے ہم نے ٹھوکر کھائی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ امکانی بات کرنا بذات خود غلط نہیں، بلکہ اچھی چیز ہے لیکن مزید امکانات کا اندازہ کرنے کے بعد صرف اپنے’’امکانی علم‘‘پر ہٹ دھرمی اختیار کرنا اور اس پر اڑے رہنا غیر مستحسن رویہ ہے۔ اب اللہ نے حضرت آدمؑ سے کہا کہ ان لوگوں سے فرشتوں کا تعارف کرا دیں۔ اس کے بعد اللہ نے کہا کہ اب کہو، کیا میں نے تمہیں نہیں بتایا تھا کہ غیب کا علم میرے پاس ہے، اور میں اس چیز کو بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو او رجو تم چھپاتے ہو۔ (۲،۳۳)
میاں صاحب ! ’’وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ‘‘ کے بارے میں آپ کی رائے بہت صائب ہے یعنی یہ کہ ’’اس وقت تک ابلیس نے اپنے انکاراور گھمنڈ کو چھپایاہوا تھا‘‘، لیکن اس آیت مبارکہ میں ’’الاسماء‘‘سے علوم و فنون مراد لینا ، جو قتل و خونریزی کو مغلوب کرنے والے ہوں گے، میرے خیال میں قرآن پاک کے Contextکے خلاف ہے۔آپ نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ’’االأَسْمَاء کُلَّہَا‘‘ سے علوم وفنون مراد لینے کی کیا دلیل ہے؟ا ن علوم وفنون کو ان امکانات تک پھیلانا جو مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ فساداور خونریزی کی نئی نئی صورتوں کے ظہور کے جواب میں مسیحائی کردارادا کریں گے، ایک پر تکلف بات لگتی ہے۔ اگر آپ ’’اسماء‘‘کے لیے استعمال کی جانے والی ضمائر پر غورکریں تو واضح ہوگا کہ اس سے مراد ذریت آدم ہی کے نام ہو سکتے ہیں۔
قرآنی علمیات سے روگردانی کے ضمن میں حضرت ابراہیم ؑ اور قربانی کے واقعے کی بحث کافی فکر انگیز ہے۔اس سے قطع نظر کہ ذبیخ اسماعیلؑ تھے یا اسحق، آپ نے ’’باپ کے فیضان نظر‘‘ کا بہت پر حکمت مقام دریافت کیا ہے جس کاتعلق علم سے زیادہ متقین کے رویہ سے ہے۔ اس سلسلے میں آپ کے دلائل کافی مضبوط اوردعوتی مزاج کے حامل ہیں۔ابن ابراہیم ؑ کے بجائے ابراہیمؑ ہی کی شخصیت کو نمایاں کرنا یہاں قرآن پاک کا مطمح نظر دکھائی دیتا ہے۔ البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ آپ ’’مدبرین‘‘ کی تحقیق و تفسیر پر تبصرہ کرتے ہوئے دعوتی مزاج کی بلندی کو برقرارنہ رکھ سکے۔ ’ذبیح کون‘ کی بحث کوامکانی فساد سے تعبیر کرنامیرے خیال میں ضرورت سے زیادہ سخت تبصرہ ہے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ نے فراہی مکتب فکر کونسلی تفاخر جیسی بیماری میں مبتلا بتایا ہے جبکہ یار لوگ انھیں ’’اغیار دوستی‘‘ کا طعنہ دیتے ہیں۔
زاہد تنگ نظرنے مجھے کافر جا نا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
اللہ ہمیں پندار کا صنم کدہ ویراں کرنے اور حق کے کوئے ملامت کا طواف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آپ کا خیر اندیش 
یوسف خان جذاب
GHS، نارشکر اللہ، بنوں 
(۲)
بخدمت گرامی قدر مخدومی حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب مد ظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الشریعہ جنوری ۲۰۰۶ء کاشمارہ پڑھنے کاموقع ملا۔ ’’آرا وافکار ‘‘ کے تحت محترم میاں انعام الرحمن صاحب کامضمون پڑھا،بہت کوفت ہوئی۔ ابتدائی پانچ چھ صفحات لکھنے کے بعد میا ں صاحب پٹڑی سے اتر گئے ہیں اور سارا زور قلم اس پر صرف کیا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کوذبیح قرار دینا قرآنی علمیات سے روگردانی ہے۔ انہوں نے سطحی قسم کی باتیں تحریر کرکے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح اللہ ماننے سے انکار کیا ہے۔مزید فرمایا ہے کہ حضرت اسماعیل کو ذبیح ماننے سے معترضین کو پھبتی کسنے کاموقع ملتا ہے کہ اسلام دعویٰ تو عالمگیریت کاکرتاہے، لیکن اصلاً اسماعیلی ہے ۔نیز یہ کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح اللہ قرار دینا یہودیانہ رویہ ہے۔
مخدومی! یہ سمجھ نہیں آئی کہ میاں صاحب کو حضرت اسماعیل کوذبیح اللہ قرار دینے پر اعتراض کیا ہے؟ اس سے دین اسلام کے وقار پر کیا حرف آتاہے؟ اگر اقبال نے یہ کہہ دیا ’’ سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی ‘‘ تو کس جرم کاارتکاب کیا ہے؟
محترم میاں صاحب کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ مولانا فراہی ؒ اور مفتی محمد شفیع ؒ سمیت اکثر مفسرین نے ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ہی کو قرار دیا ہے اور اس پر آثار وقرائن بھی ذکر کیے ہیں۔ وہ دور نہ جائیں، معارف القرآن ہی دیکھ لیں ۔ آثار وقرائن حضرت اسماعیل ہی کو متعین کرتے ہیں اور اس سے اسلام کی عالمگیریت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ معترضین سے مرعوب ہو کر اسماعیل علیہ السلام کے ذبیح ہونے سے انکار کر نے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
حضرت سلمان فارسیؓ پر کسی یہودی نے اعتراض کیا کہ سنا ہے تمھیں تمھارا پیغمبر ﷺ استنجا کرنے کا طریقہ بھی بتاتاہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے فخریہ طور پر کہا کہ ہاں، ہمیں انہوں نے استنجا کاطریقہ بھی بتایا ہے۔ (جامع ترمذی) میاں صاحب سے معذرت کے ساتھ، اگر ان جیسا کوئی مرعوبیت کاشکار شخص ہوتاتو یہی کہتا کہ نہیں نہیں، خدا کی قسم! حضورﷺ نے ہمیں کوئی ایسی بات ارشاد نہیں فرمائی ۔ محترم میاں صاحب سے گزارش ہے کہ مستشرقین ودیگر کفار کے اعتراضات کے جواب میں گھبرا کراپنااصل موقف چھوڑ دینا اوریہود ونصاریٰ سے موافقت کے راستے تلاش کرنا دین کی کوئی خدمت نہیں ہے۔
میاں صاحب نے’’حرف آخر‘‘ کے زیر عنوان ایک حدیث نقل کی ہے: ’’اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو نہ تکذیب ‘‘۔ میرا ان سے سوال ہے کہ کیا حضور ﷺ کا یہ فرمان مطلق ہے یا اس میں کوئی قید بھی ہے؟ مفسرین اور محدثین کیا فرماتے ہیں ؟اگر وہ اس سوال کا جواب تلاش کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے موقف پر نظر ثانی پر مجبور ہو جائیں گے۔
میاں صاحب سے یہ بھی التماس ہے کہ آج کے دور میں فکری انتشار بہت زیادہ ہے، ایسے میں مزید انتشار پیدا کرنا، خواہ وہ کتنی ہی نیک نیتی سے کیوں نہ ہو، دین کی کوئی خدمت نہیں ہے۔ اس سے احتراز فرمائیں۔اور بے شک کم لکھیں، لیکن علمی پختگی کے ساتھ لکھیں۔ اپنے فکری انتشار پر پختہ فکر علما سے گفتگو کریں ۔
مخدومی! آپ سے بھی گزارش ہے کہ آرا وافکار کے زیر عنوان فکری انتشار میں اضافہ کرنے والے مضامین شائع نہ کریں۔ حدود قیود متعین فرمائیں۔ آپ کایہ طرز فکر ’’جماعت کولازم پکڑو‘‘ (الحدیث) کے منشا کے خلاف ہے ۔واللہ اعلم بالصواب ۔
میاں صاحب کو کوئی بات ناگوار گزرے تومعذرت خواہ ہوں۔
(مولانا) مشتاق احمد 
استاذ جامعہ عربیہ، چنیوٹ
(۳)
گرامی قدر نقوی صاحب 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ میں تکفیر شیعہ پر جوبحث چل رہا ہے، اس میں میرے موقف پر آپ کاتبصرہ بصورت خط شائع ہوا ہے۔ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ:
۱۔لاہور میں علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر صاحب (ادارہ منہاج الحسین) سے میرا رابطہ تھا۔ ’’الشریعہ ‘‘میں مذکورہ مضمون لکھنے سے پیشتر میں کئی ماہ تک ان کو خط لکھتا اور فون کرتا رہا کہ جن تین امور کی وجہ سے مولانا سرفراز صفدر صاحب اور دیگر بعض سنی علما اہل تشیع کی تکفیر کرتے ہیں، اگر وہ وضاحت کردیں کہ یہ سارے شیعہ کے اجتماعی مسائل نہیں ہیں تو میرا موقف مضبوط ہو جاتا کہ سارے اہل تشیع کی تکفیر نہیں کی جاسکتی،لیکن علامہ صاحب ٹالتے رہے اور انہوں نے جواب نہیں دیا اور بالآخر میں نے اس کے بغیر ہی مضمون ’’الشریعہ‘‘ کو بھجوادیا۔ میر ی اب بھی یہ خواہش ہے کہ آپ اہل تشیع کاکوئی ذمہ دار عالم اس بات کی تصدیق کردے تاکہ میرا کیس مضبوط ہوجائے۔ (یاد رہے کہ میرا یہ مضمون تھااس مضمون پر جو اس سے پہلے شمارے میں مولانا زاہد الراشدی صاحب نے لکھا تھا اور جس میں مذکورہ تین نکات کاذکر تھا)۔
۲۔ اگر آپ یہ کنفرم کردیں کہ آپ کی جماعت کے پیش نظر پاکستان میں فقہ جعفریہ کانفاذ نہیں تھا اور نہیں ہے بلکہ آپ اہل تشیع کے دیگر جائز قانونی حقوق کے لیے کوشاں تھے اور ہیں تو مجھے کیا پڑی ہے کہ اس موقف کو آپ کے سر منڈھوں جو درحقیقت آپ کا موقف نہیں ہے اور بقول آپ کے ایجنسیوں کاموقف ہے؟
۳۔میں ایک سیدھا سادہ کھلے دل کامسلمان ہوں اور کسی خاص مسلک سے وابستہ نہیں ہوں، بس طبیعت صلح جو ہے، اتحاد امت کا درد دل میں ہے کہ شیعہ سنی منافرت کم ہوجائے اور امت ایک دوسرے کے قریب آجائے۔
والسلام۔ مخلص 
(ڈاکٹر) محمدامین 
سینئر ایڈیٹر، اردو دائرہ معارف اسلامیہ
جامعہ پنجاب۔ لاہور
(۴)
محترم جناب ڈاکٹر امین صاحب
السلام علیکم ، مزاج گرامی
ماہنامہ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ میں آپ کے مضمون کی وضاحت میں ہمارے خط کی اشاعت کے بعد آپ کاگرامی نامہ موصول ہوا۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ :
تکفیر کے ذیل میں آپ نے جو کچھ فرمایا، ہم نے اسے چھیڑنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ جن عقائد کو بنیاد بنا کر تکفیر کی بحث کی گئی ہے، وہ شیعہ عقائد کاحصہ نہیں ہیں۔ گزشتہ دو عشروں میں مرتب ہونے والے مختلف ضابطہ اخلاق، بالخصوص متحدہ مجلس عمل کے اعلامیہ وحدت، اسلام آباد میں ہماری شمولیت اس بات کی بین دلیل ہے کہ ہم ان مسائل میں واضح، روشن اور دوٹوک ہیں۔
اسی بنا پر ’’شیعہ سنی تنازع کا حل‘‘ کے ذیل میں تنازع کے وجوہ اور علل واسباب پر ہم نے عرض کیا تھاکہ ہمارے خلاف یہ موقف پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے جاری کیا گیا اوربعد میں سپاہ صحابہؓ کی زبان سے دہرایا جاتارہا اور تاحال دہرایا جارہاہے۔ اس ضمن میں آپ نے جن دو گروہوں کے بر سر پیکار ہونے کا ابتدا میں ذکر کیا ہے اور آخر میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’اب دونوں گروہ ایک دوسرے کے آدمی مارے جارہے ہیں‘‘، بہتر ہوگا کہ ان دونوں گروہوں کی شناخت پر پوری توجہ دی جائے تاکہ کہیں ایسانہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا دیا جائے اور پھر نادم ہونا پڑے۔
جہاں تک تحریک جعفریہ کے اہداف کاتعلق ہے تو شاید آپ تک ہمار ا موقف نہیں پہنچ سکا۔ بار ہا واضح کرچکے ہیں کہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ (تحریک جعفریہ) کا مقصد پاکستان کے تمام عوام پر فقہ جعفریہ کو مسلط کرنا ہرگز نہیں بلکہ آئینی دائرہ کار میں رہ کر پاکستان کے شیعہ عوام کے لیے فقہ جعفریہ کا نفاذ اور ان کے قانونی حقوق کاتحفظ ہی ہدف ہے۔
وحدت امت کے قیام اور شیعہ سنی منافرت کے خاتمے کے حوالے سے آپ نے جن خیالات کااظہار فرمایا ہے، ہم انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آپ کی جدوجہد لائق تحسین ہے ۔ہم سنجیدہ اور متین کوششوں پر تعاون پر آمادہ ہیں۔ 
نیک خواہشات کے ساتھ
والسلام
سید عبد الجلیل نقوی
مسؤل روابط
قائد تحریک نفاذ فقہ جعفریہ
(۵)
محترم ومکرم حضرت مولانا دامت الطافکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
........
میں تقریباً تین ماہ کے بعد گزشتہ ہفتہ لندن واپس پہنچا ہوں۔ ’’ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق‘‘ کے مطابق آنے کے ساتھ ہی ڈنمارک کی چھوڑی ہوئی پھلجڑی کا منحوس نظارہ ہے۔ اور پھر وہی رد عمل جس کے بارے میں اس بار تو ذرا شبہہ کی گنجایش نہ ہونی چاہیے تھی کہ عمل سے مقصود ہی اس رد عمل کا حصول ہے۔ سب سے زیادہ افسوس حماس کے پایہ تخت غزہ کے رد عمل کا ہے اور جس طرح وہاں کے رد عمل کی خبروں کو نمایاں تر کیا جا رہا ہے، اس سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے عمل کا اصل نشانہ فلسطین ہی تھا۔ اور وہ کامیاب رہا۔
.........
(مولانا) عتیق الرحمن (سنبھلی)
لندن
(۶)
گزشتہ دنوں ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘ فروری ۲۰۰۶ء ؁ کاشمارہ موصول ہوا ۔جناب پروفیسر اکرم وِرک صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے دعاؤں میں یاد رکھا اور مجھے اعزازی شمارہ ارسال کیا۔ اسا ل اللہ لہ کل مایحبہّ ویرضاہ۔
یوسف خان جذاب کا مضمون پسند آیا۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ ’’ماہنامہ الشریعہ اور جناب جاوید احمد غامدی ‘‘ کے نام سے جو مضمون آصف محمود ایڈوکیٹ صاحب نے تحریر کیاہے ،اس میں انہوں نے بڑی عمدہ بات کہی ہے کہ’’شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور ‘‘ کے مصداق ہمیں بلا جواز تنقید نہیں کرنی چاہیے ۔جاوید احمد غامدی صاحب کے جو افکار ونظریات ہیں، وہ اسلاف میں بہت سے بزرگوں کے بھی رہے ہیں، اس لیے غلام احمد قادیانی کے ساتھ ان کی مطابقت اور مماثلت کے حوالے سے گفتگو کرنا قیاس مع الفارق ہے۔ فاضل دوست کی یہ مثبت سوچ ہے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے حدود آرڈیننس کو ’’صحیفہ جہالت ‘‘قرار دیاہے۔ قانون کے ماہر کے لیے ایسی سخت زبان استعمال کرنا ناقابل فہم ہے۔ میں اپنے فاضل دوست سے بحیثیت مجموعی اتفاق کرتاہوں، تاہم ایک نقاد کا فرض بنتاہے کہ جب وہ کسی فکر اور زاویہ نگاہ کو تنقید کانشانہ بنائے تو پہلے دیانت دارانہ طریقے سے اس فکر کی وضاحت کرے اور پھر دلائل کی روشنی میں اس کی درستی یا نادرستی کو واضح کرے۔ فاضل دوست کے مذکورہ الفاظ ایک غیر علمی اور غیر سنجیدہ رویہ پر دلالت کرتے ہیں۔ حدود آرڈیننس میں جہاں کہیں سقم پایا جاتاہے، اگر فاضل دوست ان مقامات کی نشاندہی کرتے اور اس میں حذف واضافہ تجویز کرتے تویہ ان کی علمی خدمت ہوتی۔ ماہنامہ ’الشریعہ‘ کی وساطت سے فاضل دوست اگر اب بھی اس سلسلے کو شروع کریں اور حدود آرڈیننس کی تمام دفعات کاقرآن وسنت کی روشنی میں شرعی جائزہ لے کر واضح کر دیں تو راقم الحروف اور دیگر احباب ان کے ممنون ہوں گے۔
عبد الغفار
لیکچرر اسلامیات

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’الشرح الثمیری علی مختصر القدوری‘‘

پانچویں صدی ہجری کے حنفی بزرگ امام ابو الحسن احمد بن ابی بکر القدوری رحمہ اللہ تعالیٰ کی تصنیف ’المختصر للقدوری‘‘ کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت کے اس مقام سے نوازا ہے کہ یہ حنفی فقہ کے متن کے طور پر سب سے زیادہ پڑھائی جانے والی کتاب ہے اور جس اختصار اور جامعیت کے ساتھ امام قدوریؒ نے حنفی فقہ کے مسائل اور جزئیات کو اس میں سمو دیا ہے، اس کی اور کوئی مثال نہیں ملتی۔ درس نظامی کے نصاب میں اسے فقہ حنفی کی تعلیم کے لیے بنیادی حیثیت حاصل ہے اور ہزاروں مدارس میں اس وقت بھی یہ کتاب زیر درس ہے۔
ہمارے محترم اور فاضل دوست حضرت مولانا ثمیر الدین قاسمی فاضل دیوبند نے، جو ایک عرصہ سے برطانیہ میں مقیم ہیں، سالہا سال کی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ اردو میں ’’قدوری‘‘ کی شرح مندرجہ بالا عنوان کے ساتھ تحریر کی ہے جو چار ضخیم جلدوں میں اٹھارہ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں انھوں نے نہ صر ف قدوری کے مسائل کی آسان اردو میں تشریح کی ہے بلکہ قرآن وسنت اور آثار صحابہؒ سے ان مسائل کے دلائل اور مآخذ کو بھی حسن ترتیب کے ساتھ بیان کیا ہے اور مسائل کو نمبر وار ترتیب کے ساتھ درج کر کے ان کے سمجھنے میں مزید آسانی پیدا کر دی ہے۔
مولانا ثمیر الدین قاسمی کے ساتھ ہمارا پرانا تعلق ہے اور میں نے مانچسٹر میں ان کی قیام گاہ پر انھیں اس علمی خدمت میں کئی بار سراپا منہمک دیکھا ہے۔ اس دور میں بھی انھوں نے اس کا زیر ترتیب مسودہ متعدد بار دکھایا اور میری ہمیشہ دعا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اس کام کو مکمل کرنے کی توفیق دیں۔ اپنے مشمولات کے حوالہ سے یہ کتاب صرف قدوری کی شرح نہیں ہے بلکہ فقہ حنفی کے مسائل وجزئیات اور ان کے دلائل ومآخذ کا اردو زبان میں عظیم الشان ذخیرہ ہے جو طلبہ، اساتذہ اور تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے یکساں مفید ہے۔
ہمارے ایک اور محترم دوست الحاج عبد الرحمن باوا نے ’’ختم نبوت اکیڈمی لندن‘‘ کی طرف سے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے اور صحت، خوب صورتی اور معیار کا یکساں لحاظ رکھا ہے۔ پاکستان میں یہ کتاب اسلامی کتب خانہ ، علامہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دار الکتاب، غزنی اسٹریٹ، اردو بازار لاہور سے طلب کی جا سکتی ہے۔

’’اذکار سیرت‘‘

معروف ماہر تعلیم پروفیسر سید محمد سلیم مرحوم کے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر مختلف مضامین کا مجموعہ مذکورہ بالا عنوان کے ساتھ زوار اکیڈمی پبلی کیشنز ، اے۔۴/۱۷ ناظم آباد ۴، کراچی ۱۸ نے شائع کیا ہے جس میں مختلف عنوانات کے تحت سیرت طیبہ کے حوالے سے مفید معلومات پیش کی گئی ہیں۔ ۲۴۰ صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت درج نہیں ہے۔

’’مقالات سیرت‘‘

فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ کے سیرت نبوی کے موضوع پر مختلف مضامین کو ان کے لائق فرزند مولانا قاری خلیل احمد تھانوی نے مرتب کیا ہے اور اسے ادارۃ اشرف التحقیق دار العلوم الاسلامیہ، کامران بلاک ، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور نے شائع کیا ہے۔ پونے دو سو صفحات کی مجلد کتاب کی قیمت درج ہے۔

’’تعلیمات اسلام‘‘

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس اللہ سرہ العزیز کے خلیفہ اعظم حضرت مولانا شاہ مسیح اللہؒ نے اسلامی تعلیمات کو تعلیم وتدریس کے لیے سوال وجواب کی صورت میں مرتب فرمایا ہے جو عقائد و عبادات سے لے کر معاملات واخلاق تک تمام ضروری پہلووں کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کا یہ گراں قدر مجموعہ مولانا وکیل احمد شیروانی کی نگرانی میں مکتبہ فیض اشر ف، بیت الاشرف، ۷۸۔ اے ماڈل ٹاؤن، لاہور نے شائع کیا ہے جو سکولوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے بطور خاص مفید ہے۔ اس کے پانچ حصے ایک جلد میں یکجا شائع کیے گئے ہیں اور قیمت درج نہیں ہے۔

’’مفتی محمودؒ سے ملیے‘‘

کراچی کے جناب مولانا قطب الدین عابد نے حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کے افکار وخیالات اور ارشادات وتعلیمات کو خوب صورت ترتیب کے ساتھ اس کتاب میں جمع کیا ہے جن میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے حالات وخدمات کے ساتھ ساتھ ان کے اکیس کے لگ بھگ بھی شامل ہیں جو انھوں نے مختلف اوقات میں اہم جرائد کو دیے اور یہ انٹرویوز بلاشبہ اس دور کی دینی جدوجہد اور قومی سیاست کی عکاسی کرتے ہیں۔
ساڑھے چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب مفتی محمود اکیڈمی، کراچی نے شائع کی ہے جس کی قیمت اڑھائی سو روپے ہے اور اسے جمعیۃ پبلی کیشنز متصل مسجد پائلٹ ہائی اسکول، وحدت روڈ لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
(ابو عمار زاہد الراشدی)

الشریعہ اکادمی میں فکری نشست

ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا عیسیٰ منصوری اور ابراہیم کمیونٹی کالج لندن کے پرنسپل مولانا مشفق الدین اپنے ر فقا مولانا شمس الضحٰی اور مولانا بلال عبد اللہ کے ہمراہ ۳ ؍جنوری ۲۰۰۶ء کو الشریعہ اکادمی میں تشریف لائے۔ اس موقع پر ایک خصوصی فکری نشست کااہتمام کیا گیا جس سکول وکالج، دینی مدارس کے اساتذہ اور دیگر اہل علم نے شرکت کی۔ تقریب کی صدارت ایچی سن کالج لاہور کے پروفیسر جناب ظفر اللہ شفیق صاحب نے فرمائی۔ افتتاحی کلمات میں الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے معزز مہمانوں کاشکریہ ادا کیااور اکادمی کے قیام کو مولاناعیسیٰ منصوری کے ساتھ اپنی فکری رفاقت کا نتیجہ قرار دیا۔ مہمان خصوصی مولانا عیسیٰ منصوری نے ’’زوال امت کے اسباب‘‘ جیسے فکر انگیز موضوع پر تفصیلی اظہار خیال کیا اور دینی و عصری علوم سے دوری نیز دعوت وتبلیغ کے فریضہ کو نظر انداز کرنے کو زوال امت کی بڑی وجہ قرار دیا۔ پروفیسر ظفر اللہ شفیق صاحب نے صدارتی خطبے میں اس بات پر زور دیاکہ امت مسلمہ کے زوال کے اسباب کے تدارک کے لیے بھر پو ر عملی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ پر وقار تقریب مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے استاذ حدیث مولاناعبد المالک شاہ کے دعائیہ کلمات کے ساتھ اختتام پزیر ہوئی۔
نماز مغرب کے بعد الشریعہ اکادمی کے اساتذہ اور ابراہیم کمیونٹی کالج لندن کے پرنسپل جناب محمد مشفق الدین اور ان کے رفقا جناب بلال عبد اللہ اور شمس الضحی کے درمیاں ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں اکادمی کے ناظم مولانا محمد یوسف نے اکادمی کے اساتذہ پروفیسر میاں انعام الرحمن اور پروفیسر محمد اکرم ورک کے ہمراہ معزز مہمانوں کو اکادمی کے نظام اور نصاب تعلیم ، اہداف اور طریقہ کار پر تفصیلی بریفنگ دی۔ یہ جوان فکر اساتذہ پر مشتمل یہ ٹیم ان دنوں برصغیر پاک وہند کے ایسے اداروں کا دورہ کر رہی ہے جو درس نظامی کے روایتی نصاب کی بجائے قدیم اور عصری علوم کے امتزاج پر مبنی نئے نصابی تجربات کر رہے ہیں ۔ ابراہیم کمیونٹی کالج لندن اپنے ادارے کے لیے ایسا نصاب مدون کرنا چاہتا ہے جو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہو تاکہ اس کے ذریعے سے ایسے علما اور مبلغین پیدا کئے جاسکیں جو اقوام مغرب میں بہتر انداز میں دعوت وتبلیغ کاکام کر سکیں۔
(رپورٹ:فضل حمید چترالی)

اپریل ۲۰۰۶ء

دینی مدارس: علمی وفکری دائرے میں وسعت کی ضرورتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
آزادی رائے، مغرب اور امت مسلمہمحمد عمار خان ناصر
سیرت نبوی اور ہجرت: ایک معنویاتی مطالعہپروفیسر میاں انعام الرحمن
قرآنی علمیات، یہودیوں کا کتمانِ حق اور مسئلہ ذبیحاسلم میر
قورح، قارون اور کتاب زبورمحمد یاسین عابد
مکاتیبادارہ

دینی مدارس: علمی وفکری دائرے میں وسعت کی ضرورت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے زیر اہتمام دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے دس روزہ تربیتی پروگرام میں ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر نے ۱۲؍مارچ کو دینی مدارس کو درپیش مسائل اور چیلنجز کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔ ان کی گفتگو کا ایک حصہ یہاں نقل کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

داخلی نصاب ونظام کے حوالے سے دینی مدارس کو ایک اورچیلنج یہ درپیش ہے کہ اسلامی ثقافت واقدار کاتحفظ ان کے اہداف میں شامل ہے، لیکن جس مغربی ثقافت اور فلسفہ سے اسلامی اقدار وثقافت کوخطرہ درپیش ہے، اس سے واقفیت کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی۔ مغربی فکرو فلسفہ کیاہے اور مغربی ثقافت واقدار کا پس منظر کیاہے؟ اس سے دینی مدارس کے اساتذہ او رطلبہ کی غالب اکثریت ناواقف ہے اور یہ افسوس ناک صورت حال ہے کہ جس دشمن سے ہم لڑرہے ہیں، اس کی ماہیت، طریقہ کار، ہتھیاروں اور دائرہ کار سے ہمیں شناسائی تک حاصل نہیں ہے۔مغربی فلسفہ ونظام اور ثقافت واقدار کا ایک تاریخی پس منظر ہے، اس کی اعتقادی بنیادیں ہیں، اس کاایک عملی کردار ہے اور اس کاوسیع دائرۂ اثر ہے، مگر دینی مدارس کے نصاب میں اس سے آگاہی کا کوئی حصہ شامل نہیں ہے، حالانکہ ہمارے سامنے اسلاف کی یہ عظیم روایت موجودہے کہ جب ہمارے معاشرے میں یونانی فلسفہ نے فروغ حاصل کیاتھا اور ہمارے عقائد کے نظام کو متاثر کرنا شروع کیاتھا توہمارے اکابر مثلاً امام ابو الحسن اشعری، ؒ امام ابو منصور ماتریدیؒ ، امام غزالیؒ ، امام ابن رشد ؒ اور امام ابن تیمیہؒ نے یونانی فلسفہ پر عبور بلکہ برتری حاصل کی تھی او ر اسی زبان اور اصطلاحات میں یونانی فلسفہ کے پیداکردہ اعتراضات وشبہات کاجواب دے کر اسلامی عقائد کی حقانیت اور برتری ثا بت کی تھی، ورنہ ایک دور میں یونانی فلسفہ ہمارے عقائد کے نظام میں اتھل پتھل کی کیفیت پیدا کرنے میں کامیاب دکھائی دے رہاتھا۔ اس حوالے سے دینی مدارس سے بجا طور پر یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ مغربی فکر وفلسفہ کو بطور فن اپنے نصاب کاحصہ بنائیں، اس کے ماہرین پیدا کریں اور اسی کی زبان اور اصطلاحات میں شکوک وشبہات کے ازالہ اور اسلامی عقائد وثقافت کے تحفظ ودفاع کا اہتمام کریں۔ 
دینی مدارس کو درپیش ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ عالمی ماحول تو رہا ایک طرف، ہم عام طور پر اپنے ارد گرد کے ماحول سے بھی باخبر نہیں ہوتے۔ میرے خیال میں اب ارد گرد کے ماحول اور عالمی ماحول میں فرق کرنا مشکل ہوتا جا رہاہے اور مزید مشکل ہوجائے گا۔ یہ معلومات کی وسعت کادور ہے، ہر چیز سے باخبر رہنے کادورہے اور حالات پر نظر رکھنے کا دور ہے۔ اس ماحول میں دینی مدارس کواپنے اس طرز عمل اور ترجیحات پر نظر ثانی کرناہوگی جو اپنے اساتذہ اور طلبہ کو بہت سے معاملات میں بے خبر رکھنے کے لیے ان کی پالیسی کا حصہ ہے۔مثلاً:
  • معاصرمذاہب کا تعارفی مطالعہ انتہائی ضروری ہے، بالخصوص وہ چھ سات مذاہب جن کے پیروکار اس وقت دنیا میں وسیع دائرے میں پائے جاتے ہیں او ر ان کے مستقل ممالک اور حکومتیں قائم ہیں، مثلاً یہودی، عیسائی، ہندو، بدھ مت اور سکھ وغیرہ۔ ان کا تعارفی بلکہ اسلام کے ساتھ تقابلی مطالعہ دینی مدارس کے فضلا کے لیے ضروری ہے ۔
  • مسلم امہ کاحصہ سمجھے جانے والے اعتقادی اور فقہی مذاہب مثلاً اہل سنت، اہل تشیع، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری، سلفی، جعفری، زیدی وغیرہ کاتعارفی مطالعہ اور ان کے اصول اور تاریخ سے واقفیت ضروری ہے ۔ اس کے ساتھ ہی عصری مسلم فکری تحریکات، جو روایتی دائرے سے ہٹ کر ہیں، ان کے بارے میں ضروری معلومات سطحی اور نامکمل نہ ہوں بلکہ اصل ماخذ سے صحیح معلومات ہونی چاہییں۔
  • طب، سائنس، ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ وغیرہ کی عملی کارفرمائی سے بہت سے مسائل کی نوعیت تبدیل ہوگئی ہے اور ہوتی رہتی ہے۔ ان سے آگاہ ہوئے بغیر فتویٰ دینا یا مسئلہ بیان کرنا شرعی اصولوں کے منافی ہے، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ فن کو حاصل کرنا اور چیز ہے، اور اس کے بارے میں ضروری معلومات رکھنا اس سے مختلف امر ہے۔
  • عالمی اور علاقائی زبانو ں سے واقفیت اور ان پر عبور ایک مستقل مسئلہ ہے۔ دینی مدارس میں انگریزی کی تعلیم کا ایسا اہتمام کہ کوئی فاضل انگلش میں تقریر کر سکے یا معیاری مضمون لکھ سکے، سرے سے موجود نہیں ہے ۔ ہمار ی عربی، کتاب فہمی تک محدود ہے اور سالہا سال کی تعلیم اور تدریس کے بعد بھی ہم عربی زبان میں اس سے زیادہ عبور حاصل نہیں کر پاتے کہ کتاب کو سمجھ لیں اور اس کو پڑھا سکیں۔ بول چال، فی البدیہہ تقریر اورمضمون نویسی کی صلاحیت حاصل کرنا ہمارے اہداف میں شامل نہیں ہے، بلکہ اپنی قومی زبان اردو میں بھی ہماری حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ ہمارے اکثر فضلا اچھی اردو نہیں بول سکتے اور نہ ہی اردو میں ڈھنگ کا کوئی مضمون تحریر کرسکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا افسوس ناک خلا ہے جس نے ہمیں ابلاغ کے شعبے میں بالکل ناکارہ بنا رکھا ہے ۔
  • ابلاغ کے جدید ذرائع مثلاً کمپیوٹر، انٹر نیٹ، ویڈیو وغیرہ تک ہماری رسائی محل نظر ہے اور نہ صرف یہ کہ ز بان اور ذرائع عام طور پر ہماری دسترس سے باہر ہیں، بلکہ اسلوب کے حوالے سے بھی ہم آج کے دور سے بہت پیچھے ہیں۔ ہماری زبان ثقیل او راسلوب فتویٰ اور مناظرہ کاہوتاہے، جبکہ یہ تینوں باتیں اب متروک ہوچکی ہیں۔ آج کی زبان سادہ اور اسلوب لابنگ اور بریفنگ کاہے، مگر ہم ان دونوں سے نا آشنا ہیں جس کی وجہ سے ہم خود اپنے معاشرہ اور ماحول میں ہی بسااوقات اجنبی ہو کر رہ جاتے ہیں اور ابلاغ کی ذمہ داری پوری نہیں کرپاتے۔
  • ہمارے ہاں عمرانی اور معاشرتی علوم کاارتقا مسلم اسپین کے دور تک رہاہے۔ اس کے بعد ایسی بریک لگی ہے جیسے ہمارے ہاں معاشرت اور عمرانیات کاارتقا ہی رک گیا ہو۔ تب سے ا س شعبہ میں ہم پر جمود طاری ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کے اجتہادی کام کے علاوہ اس دوران میں کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی او ر شاہ صاحب ؒ کے بعد بھی تین صدیوں سے سناٹا طاری ہے ۔ معاشرت کاارتقا تو ظاہر ہے، رک نہیں سکتا مگر معاشرت وتہذیب کے حوالہ سے ہماری سوئی ابھی تک مسلم اسپین پر اٹکی ہوئی ہے اور ہم اس سے آگے بڑھتے نظر نہیں آرہے ۔ اس جمود کو توڑے بغیر ہم معاشرت وتمدن اور ثقافت وعمرانیات کے بارے میں دنیا کی راہ نمائی کامقام آخر پھر سے کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ مگر دینی مدارس میں عمرانی علوم کے حوالے سے کوئی اجتہادی کام اور علمی پیش رفت تو رہی ایک طرف، ان علوم تک ہمارے فضلااور اساتذہ کی رسائی بھی ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے ۔
  • دینی مدارس میں ہمارے اعتقادی اور فقہی مباحث اور اختلافات پر خوب کام ہوتاہے اوریہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ہماری توانائیوں اور صلاحیتوں کا بڑ ا حصہ صرف ہوتاہے۔ مجھے اس کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں، لیکن اختلافات کی درجہ بندی اور تر جیحات کا ہمارے ہاں کوئی تصور نہیں۔ بسااوقات اولیٰ اور غیر اولیٰ کے مسائل اورفروعی اختلافات کفر واسلام کے معرکے کا روپ دھار لیتے ہیں اور کبھی اصولی اور بنیادی مسائل بھی نظر انداز ہونے لگ جاتے ہیں۔ اعتقادی مسائل اور فقہی اختلافات پر ضروربات ہونی چاہیے اور طلبہ کو ان سے متعارف کرانا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ان اختلافات کی درجہ بندی اور ترجیحات بھی ان کے سامنے واضح ہونی چاہیے اور انہیں اس با ت کا علم ہونا چاہیے کہ کون سی بات کفر واسلام کی ہے اور کون سی بات اولیٰ اور غیر اولیٰ کی ہے، کس اختلاف پر سخت رویہ اختیار کرنا ضروری ہے او ر کون سے اختلاف کو کسی مصلحت کی خاطر نظر انداز بھی کیا جاسکتاہے ۔
  • تحقیق کے حوالے سے ہمارے ہاں صرف تین شعبوں میں کام ہوتاہے: (۱) اعتقادی وفقہی اختلافات پر خوب زور آزمائی ہوتی ہے، (۲) افتا میں ضرورت کے مطابق تحقیق ہوتی ہے، (۳) دینی جرائد میں عام مسلمانوں تک اپنے اپنے ذوق کے مطابق دینی معلومات پہنچانے کے لیے تھوڑی بہت محنت ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ امت کی اجتماعی ضروریات اور ملت اسلامیہ کے عالمی ماحول کی مناسبت سے کسی تحقیقی کام کا ہمارے ہاں کوئی تصور نہیں ہے۔ کچھ افراد اپنے ذوق اور محنت سے ایسا ضرور کررہے ہیں، لیکن بحیثیت ایک ادارہ اور نیٹ ورک کے دینی مدارس کے پروگرام میں یہ چیز شامل نہیں ہے۔
  • معلومات کی وسعت، تنوع اور ثقاہت کا مسئلہ بھی غور طلب ہے۔ کسی بھی مسئلہ پر بات کرتے ہوئے ہم میں سے اکثر کی معلومات محدود، یک طرفہ اور سطحی ہوتی ہیں۔ الاّ یہ کہ کسی کا ذوق ذاتی محنت اورتوجہ سے ترقی پاجائے اور وہ ا س سطح سے بالا ہو کر کوئی کام کر دکھائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تحقیق، مطالعہ اور استدلال واستنباط کے فن کو ایک فن اور علم کے طور پر دینی مدارس میں پڑھایا جائے اور طلبہ کو اس کام کے لیے باقاعدہ طور پر تیار کیاجائے۔
  • دینی مدارس کی لائبریریوں کا حال بھی ناگفتہ بہ ہے۔ گنتی کے چند بڑے مدارس کے استثنا کے ساتھ عمومی طور پر دینی مدارس کی لائبریریوں میں درسی کتابوں سے ہٹ کر جو کتابیں پائی جاتی ہیں، وہ کیف مااتفق کے اصول پر کسی منصوبہ بندی اور ہدف کے بغیر ہوتی ہیں۔ ان تک طلبہ کی رسائی اوراستفادہ کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں حتیٰ کہ بعض مدارس میں تو روزانہ اخبارات کاداخلہ بھی بندہوتاہے اور طلبہ پر پابندی ہوتی ہے کہ وہ اخبارات وجرائد کا مطالعہ نہیں کریں گے۔ خدا جانے اپنے طلبہ کو دنیا، اپنے ملک اورارد گرد کے ماحول سے بے خبر رکھ کر یہ مدارس انہیں کون سے ماحول میں کام کرنے کی تربیت دے رہے ہوتے ہیں۔
  • مذاہب اورتہذیبوں کے درمیان مکالمہ کی ضرورت بھی دن بدن عالمی سطح پر بڑھتی جارہی ہے اور اس کی طرف بین الاقوامی حلقے متوجہ ہورہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس مکالمہ کے اصل فریق کون ہیں اورمکالمہ کا ایجنڈا کیا ہے۔یہ ایک مستقل موضوع ہے جس پر الگ سے گفتگو ہونی چاہیے، لیکن مذاہب کے درمیان مکالمہ جس انداز سے آگے بڑھ رہاہے، اس سے دینی مدارس کے اساتذہ اورطلبہ کابے خبر اور لاتعلق رہنا سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ اس مکالمہ کے پس منظر، ضرورت، دائرہ کار اور مضرت ومنفعت سے دینی مدارس کے اساتذہ اورطلبہ کا آگاہ ہونا ضروری ہے، بلکہ اس مکالمے کے تو اصل فریق ہی دینی مدارس ہیں اور انہیں اس سلسلہ میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔

آزادی رائے، مغرب اور امت مسلمہ

محمد عمار خان ناصر

ڈنمارک کے ایک اخبار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور گستاخی پر مبنی خاکوں کی اشاعت سے عالم اسلام میں احتجاج کی جو طوفانی لہر پیدا ہوئی تھی، جذبات کا کتھارسس ہو جانے کے بعد حسب توقع مدھم پڑتی جا رہی ہے۔ مذہبی قائدین کی توجہ فطری طور پر دوسرے مسائل نے حاصل کر لی ہے اور خدا نخواستہ اس نوعیت کے کسی آئندہ واقعے کے رونما ہونے تک، عوامی سطح پر پائے جانے والے مذہبی جذبات بھی بظاہر پرسکون ہو چکے ہیں۔ اس طرح کے کسی بھی بحران میں امت مسلمہ کی جانب سے اختیار کردہ حکمت عملی کا تجزیہ، غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشان دہی، مستقبل کی پیش بینی اور اس حوالے سے کسی ٹھوس لائحہ عمل کی تیاری اگرچہ ہماری روایت کے خلاف ہے، تاہم اس میں کوئی حرج نہیں کہ تازہ واقعے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات وواقعات سے صورت حال کے جو توجہ طلب پہلو ابھر کر سامنے آئے ہیں، ان پر کم سے کم ایک نظر ہی ڈال لی جائے۔ 
مغرب اور عالم اسلام کے مابین پرامن تعلقات کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ قرآن مجید، پیغمبر اسلام، یا مسلمانوں کے مذہبی شعائر کی توہین پر مبنی اس طرح کے واقعات ظہور پذیر نہ ہوں۔ اس ضمن میں بنیادی الجھن یہ ہے کہ مغربی معاشرہ چونکہ ایک خاص فکری ارتقا کے نتیجے میں مذہبی معاملات کے حوالے سے حساسیت کھو چکا ہے، نیز وہاں ریاستی نظم اور معاشرے کے مابین حقوق اور اختیارات کی بھی ایک مخصوص تقسیم وجود میں آ چکی ہے، اس وجہ سے مغربی حکومتیں قانونی سطح پر ایسے واقعات کی روک تھام کی کوئی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس صورت حال میں امت مسلمہ کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں اختلاف رائے موجود ہے۔ ایک مکتب فکر کی رائے یہ ہے کہ معروضی حالات میں دعوتی اسپرٹ کے تحت اس طرح کے واقعات کے حوالے سے صبر واعراض سے کام لیا جائے اور اسلام کا پیغام مثبت طریقے سے مغربی دنیا تک پہنچانے پر اکتفا کی جائے۔ دوسرا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ اس ضمن میں امت مسلمہ کی حساسیت کو مغرب اور اسلام کے مابین تعلقات کے حوالے سے باقاعدہ ایشو بننا چاہیے اور مغرب کو عالم اسلام کا موقف سننے، اس پر غور کرنے اور اس کو وزن دینے پر حتی الوسع مجبور کرنا چاہیے۔ ہم اس اختلاف کو حکمت عملی کا اختلاف سمجھتے اور اس حوالے سے دونوں نقطہ ہائے نظر کے مابین تفصیلی مباحثے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تاکہ دونوں لائحہ ہائے عمل کے مضمرات پوری طرح سامنے آ سکیں۔ تاہم ہماری ناقص رائے میں دوسری اپر وچ زیادہ عملی اور امت مسلمہ کے جذبات ونفسیات کے زیادہ قرین ہے۔
اگر عالم اسلام سیاسی واقتصادی لحاظ سے اس پوزیشن میں ہوتا کہ مغرب کو اپنا موقف ’’سمجھا‘‘ سکے تو معاملہ نسبتاً آسان ہو جاتا، لیکن جیسا کہ واضح ہے، یہ حل سردست میسر نہیں۔ حالیہ واقعات نے، البتہ، مسئلے کے ایک اور پہلو کو نمایاں کیا ہے اور وہ یہ کہ مغربی معاشرے کے نمایاں اور فہیم طبقات نے، بالعموم، اس مسئلے کے حوالے سے امت مسلمہ کے ساتھ اخلاقی ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور مغربی ذرائع ابلاغ پر زور دیا ہے کہ وہ کسی بھی مذہبی گروہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے گریز کریں۔ اس ضمن میں یورپی پارلیمنٹ کی منظور کردہ قرارداد کو ہمارے خیال میں اہل مغرب کے عمومی زاویہ نگاہ کا ترجمان قرار دیا جا سکتا ہے۔ یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد میں ذرائع ابلاغ سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ آزادی رائے کے حق کو انسانی ومذہبی حقوق کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے استعمال کریں۔ قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ آزادی رائے کے حق کے استعمال کے نتیجے میں اگر کسی فرد یا گروہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے تو اس کی تلافی کے لیے اسے عدالت کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اس مقصد کے لیے (قرارداد کے بقول) یورپی ممالک میں نافذ موجودہ قوانین کافی ہیں۔ 
یہ رد عمل بدیہی طور پر اس رد عمل سے مختلف ہے جو مغربی دنیا نے سلمان رشدی کے معاملے میں ظاہر کیا تھا۔ غور کیا جائے تو اس کا سبب خود ہماری حکمت عملی میں پوشیدہ ہے۔ سلمان رشدی کے معاملے میں مغرب کی اخلاقی حس کو اپیل کرنے کے بجائے اس کے قانونی دائرۂ اختیار کو چیلنج کرتے ہوئے رشدی کے قتل کا فتویٰ صادر کیا گیا تھا، جبکہ حالیہ واقعے میں ہم نے عالمی فورم پر یہ مسئلہ اصلاً اخلاقی سطح پر اٹھایا۔ یہ اسی کا اثر تھا کہ بعد میں رونما ہونے والے پرتشدد واقعات کے باوجود مغربی دنیا معاملے کو اخلاقی زاویے ہی سے دیکھنے پر مجبور ہوئی اور امت مسلمہ کا موقف اور جذبات ایک حد تک اہل مغرب تک پہنچ سکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اہل مغرب کی عمومی اخلاقی حس اور عالم اسلام کے ساتھ پرامن تعلقات کے قیام کی خواہش کو، جو وسیع پیمانے پر پائی جاتی ہے، حکمت اور دانش کے ساتھ وسیلہ بنایا جائے تو مغربی معاشرے میں مذہبی نوعیت کی نہ سہی، سیاسی ومفاداتی نوعیت کی سہی، وہ حساسیت پیدا کی جا سکتی ہے جس کا فقدان اس وقت عالم اسلام کے احساسات وجذبات کی کماحقہ رعایت میں مانع ثابت ہو رہا ہے۔
تازہ صورت حال کا ایک اور مثبت اور قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ اس نوعیت کے گزشتہ واقعات کی طرح، اس واقعے کے بعد بھی مغربی عوام میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں مزید جاننے اور بہتر واقفیت حاصل کرنے کے جذبے کو مہمیز ملی ہے۔ امریکی مسلمانوں کی تنظیم ’’کیر‘‘ (Council for American-Islamic Relationship) کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ بحران کے بعد جب کونسل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صحیح معلومات فراہم کرنے کی ایک مہم کا آغا زکیا تو صرف ۴۸ گھنٹے کے اندر امریکا اور کینیڈا سے ۱۶۰۰ پیغام موصو ل ہوئے جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی گئی تھی۔ گزشتہ سال مئی ۲۰۰۵ میں امریکی فوجیوں کی جانب سے گوانتانامو بے میں قرآن مجید کی بے حرمتی کے واقعات سامنے آئے تو اس موقع پر بھی ’’کیر‘‘ نے قرآن مجید کے مترجم نسخے پھیلانے کی مہم شروع کی اور ہزاروں امریکیوں نے قرآن مجید کا نسخہ حاصل کرنے کے لیے کونسل کے ساتھ رابطہ کیا۔ امت مسلمہ اور بالخصوص دیار مغرب کے مسلمانوں کو مغربی دنیا میں پیدا ہونے والے اس تجسس اور جذبہ جستجو کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور اس فضا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمت اور دانش کے ساتھ اسلام اور پیغمبر اسلام کی اصل تصویر اہل مغرب کے سامنے پیش کرنی چاہیے۔ 
یہ تو وہ پہلو ہیں جن کا تعلق اسلام اور مغرب کے باہمی روابط سے ہے۔ اس کے علاوہ امت مسلمہ کی داخلی صورت حال اور رویے کے حوالے سے بھی چند امور قابل توجہ، بلکہ درست تر الفاظ میں قابل اصلاح ہیں: 
پہلی چیز ہے کہ دنیا کو اخلاقیات کا درس دینے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنے گھر کا جائزہ لے کر یہ دیکھیں کہ دوسرے مذہبی گروہوں کے جذبات کے احترام کے حوالے سے خود ہماری اخلاقی صورت حال کیا ہے۔ افسوس ہے کہ اس ضمن میں کوئی اچھی مثال دینے کے لیے بالعموم ماضی ہی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ہماری تاریخ کے دور اول نے یہ منظر بھی دیکھا کہ فتح اسکندریہ کے موقع پر جب کسی مسلمان سپاہی کے پھینکے ہوئے تیر سے سیدنا مسیح علیہ السلام کی تصویر کی ایک آنکھ پھوٹ گئی تو اسلامی لشکر کے سپہ سالار عمرو بن العاص نے ’قصاص‘ کے لیے اپنی آنکھ پیش کر دی، اور اب دور زوال میں ہم نے اس ’’اجتماعی اخلاقیات‘‘ کا مظاہرہ بھی کیا کہ خالص سیاسی محرکات کے تحت دنیا کے ایک بڑے مذہب کے بانی گوتم بدھ کے مجسمے تباہ کیے گئے تو اسے بت شکنی کی روایت کا احیا قرار دے کر اس پر داد وتحسین کے ڈونگرے برسائے گئے۔ ہمارے ہاں ایک مذہبی گروہ کے ’’پیغمبر‘‘ کے بارے میں تضحیک، تمسخر اور توہین پر مبنی جو لٹریچر شائع ہوتا اور مذہبی جلسوں میں جو زبان معمول کے طور پر استعمال کی جاتی ہے، وہ ہماری اخلاقی سطح کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔
دوسری چیز، جو اہمیت کے لحاظ سے کسی طرح بھی پہلی سے کم نہیں، یہ ہے کہ اہل اسلام نے، کم از کم مغرب میں رونما ہونے والے واقعات پر رد عمل ظاہر کرنے کے حوالے سے، توہین رسالت کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تک محدود کر رکھا ہے۔ مغرب میں سیدنا مسیح علیہ السلام اور دوسرے پیغمبروں کے بارے میں بھی توہین اور گستاخی کا رویہ موجود ہے اور اس کا اظہار مختلف واقعات کی صورت میں ہوتا رہتا ہے، لیکن ہمارے علم میں ایسا کوئی واقعہ نہیں کہ امت مسلمہ نے، امت کی سطح پر نہ سہی، انفرادی یا اداراتی سطحوں پر ہی اس حوالے سے غم وغصے کے جذبات اہل مغرب تک پہنچانے کی کوشش کی ہو۔ اللہ کے پیغمبروں کے مابین یہ تفریق اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے اور اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہود ونصاریٰ کے ساتھ مذہبی وسیاسی مخاصمت ہماری نفسیات پر اس درجے میں اثر انداز ہو چکی ہے کہ ہم نے ’’اپنے‘‘ پیغمبر اور ’’ان کے‘‘ پیغمبروں کے مابین بھی حد فاصل قائم کر لی ہے۔
تیسری چیز یہ ہے کہ ہمیں توہین وتضحیک اور تنقید کے مابین فرق کو ہر حال میں ملحوظ رکھنا ہوگا۔ توہین وتمسخر کا جواب تو یقیناًاعراض یا پرامن احتجاج ہے، لیکن اسلام یا پیغمبر اسلام پر کی جانے والی کوئی تنقید اگر علمی یا استدلالی پہلو لیے ہوئے ہے تو اس کو اسی زاویے سے دیکھنا چاہیے۔ ہماری رائے میں قرآن کے مقابلے میں کسی کا ’الفرقان‘ پیش کرنا قرآن کی توہین نہیں بلکہ اس پر تنقید ہے، اور اس پر احتجاج کرنا ایک بے معنی بات ہے۔ اپنے جیسا کلام پیش کرنے کا چیلنج خود قرآن نے جن وانس کو دے رکھا ہے اور اگر کوئی شخص اس چیلنج کے جواب میں کوئی کاوش کرتا ہے یا کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ اگر ہمارا قرآن مجید کے ایک معجز کلام ہونے کا دعویٰ محض اعتقادی نہیں ہے تو پھر کسی کو اس میں کوئی شبہہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس طرح کی کوئی بھی کوشش قرآن کے چیلنج کو مزید موکد کرنے کے سوا اور کوئی خدمت انجام نہیں دے سکے گی۔

سیرت نبوی اور ہجرت: ایک معنویاتی مطالعہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

ہجرت، قدیم دور سے ہی انسانی زندگی کا لازمہ رہی ہے۔ تاریخ عالم کی کسی بھی کتاب کی ورق گردانی کر لیجیے، اس میں آپ کو حضرت انسان بار بار رختِ سفر باندھتا دکھائی دے گا۔ کہیں انسان کی بے بسی کے دل دوز مناظر ملیں گے تو کہیں عزم و ہمت کی تاریخ ساز داستانوں سے واسطہ پڑے گا۔ لیکن یہ صرف انسان ہی نہیں ہے جس کے نصیب میں مسلسل سفر لکھا ہے، بلکہ ہجرت کا مظہر چرند پرند سے لے کر نباتات اور جمادات تک پھیلا ہوا ہے۔ تند و تیز ہوائیں ، نباتاتی بیجوں اور پرندوں کو زبردستی اٹھا کر کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہیں۔ بعض جانور اور پرندے خود بھی صحرا نوردی اور جہاں گردی کا مزہ چکھتے ہیں اور ایک ماحول سے دوسرے ماحول میں ہجرت کر جاتے ہیں۔ ارضیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ دریا اپنے رخ بدل لیتے ہیں، چشمے خود پیاسے ہو جاتے ہیں، اور زمینیں کٹاؤ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ کہیں پہاڑ اپنا وجود کھو دیتے ہیں اور کہیں نئے ٹیلے ابھر آتے ہیں۔ ساحلی علاقے سمندر بن جاتے ہیں اور سمندر میں ہی چند نئے جزیرے سر نکال کر آسمان کو تکنے لگتے ہیں۔ کہیں جنگلات معدوم ہو جاتے ہیں اور کہیں جنگلات کی تازہ بستیاں آباد ہو نا شروع ہو جاتی ہیں۔ زلزلے ، طوفان اور سیلاب، قیامت تو برپا کرتے ہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ منجمد زندگی کو بھی ایسی مہاجرت سے نوازتے ہیں جس میں زمین کی زرخیزی اور انسانی عزم جیسے عناصر گھل مل کر بو قلمونی کا سماں پیدا کر دیتے ہیں۔ یوں ہجرت ، انسانی زندگی کا نہیں ، بلکہ خود زندگی کا ایک آفاقی مظہر بن جاتی ہے۔ 

مذہبی قصوں میں ہجرت کا تذکرہ 

تاریخِ عالم کے وہ ابواب جن میں مذہبی قصوں کا ذکر ہے، ہجرت کے تذکرے سے خالی نہیں ہیں۔ مذہبی قصوں میں ہجرت کی روداد، اساطیری روپ دھار لیتی ہے ۔ آدم و ابلیس کا قصہ ، جسے ہر الہامی مذہب کے قصوں میں کلیدی اہمیت حاصل ہے ، ایک خاص پہلو سے ہجرت ہی کی داستان ہے۔ قرآن کے مطابق شیطان کے بہکاوے میں آ کر آدم ؑ وحوا نے ایک غلطی کی اور اسی غلطی کی پاداش میں انھیں جنت سے نکال دیا گیا۔ چونکہ ہبوطِ آدم ؑ میں خود آدم ؑ کا اپنا اختیار شامل نہیں تھا، اس لیے زمین پر انسانی زندگی ایک پہلو سے، جلاوطنی کے مانند محسوس ہوتی ہے، لیکن یہ صرف جلاوطنی بھی نہیں، کیونکہ آدم ؑ کو توبہ کرنے کی توفیق دی گئی تھی اور اللہ رب العزت نے توبہ قبول کرنے کے علاوہ آدم ؑ کو ہدایت بھی بخش دی تھی۔ (قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْن / فَتَلَقَّی آدَمُ مِن رَّبِّہِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْْہِ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ / ثُمَّ اجْتَبَاہُ رَبُّہُ فَتَابَ عَلَیْْہِ وَہَدَی) اس قصے میں توبہ کا عنصر، جلاوطنی کے سزا والے پہلو کو ختم کر کے جنت کی طرف واپسی کا مژدہ سناتا ہے۔ ( وَلَکُمْ فِیْ الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَی حِیْنٍ/ قَالَ فِیْہَا تَحْیَوْنَ وَفِیْہَا تَمُوتُونَ وَمِنْہَا تُخْرَجُون ) واپسی کا یہ مژدہ نہایت اہم ہو جاتا ہے، کیونکہ اس سے قصہ آدم و ابلیس میں جلاوطنی کے بجائے نہ صرف ہجرت کا پہلو در آتا ہے بلکہ ہجرت کی ایک بڑی خصوصیت ’’ واپسی ‘‘ نہایت وضاحت کے ساتھ مشخص ہو جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ ہجرت ، اساطیری سطح پر جلاوطنی کا نام نہیں ہے ، بلکہ اس کے ساتھ جنت کی طرف واپسی اور واپسی کی شرائط پوری کرنے کا ایک عظیم چیلنج منسلک ہے۔ وَلَقَدْ عَہِدْنَا إِلَی آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہُ عَزْماً کے مصداق عہد کی پاسداری کی خاطر ، گم گشتہ عزم کی بازیافت ہی اس چیلنج کا جواب ہے اور اس کے مقابل ابلیس کو قَالَ فَإِنَّکَ مِنَ الْمُنظَرِیْنَ إِلَی یَومِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ / قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِیْ إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ قَالَ فَإِنَّکَ مِنَ الْمُنظَرِیْنَ کے مصداق، عزم پر مسلسل وار کرنے کی مہلت بھی دے دی گئی ہے۔ قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَیْْتَنِیْ لأُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِیْ الأَرْضِ وَلأُغْوِیَنَّہُمْ أَجْمَعِیْنَ إِلاَّ عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ / قَالَ فَبِمَا أَغْوَیْْتَنِیْ لأَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ثُمَّ لآتِیَنَّہُم مِّن بَیْْنِ أَیْْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ أَیْْمَانِہِمْ وَعَن شَمَآءِلِہِمْ وَلاَ تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِیْنَ۔ لہٰذا انسانوں میں سے جو کوئی پر عزم ہو گا، وہ فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقَی/ إِنَّ عِبَادِیْ لَیْْسَ لَکَ عَلَیْْہِمْ سُلْطَانٌ إِلاَّ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِیْنَ کے مطابق سرخرو ہو کر جنت کا مستحق ہو گا اور جس کا عزم ( عہد شکنی کے باعث ) ابلیس کے ہاتھوں منتشر ہو گا، وہ وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنکاً وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَی / إِلاَّ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِیْنَ کے مطابق ذلیل و رسوا ہو کر جہنم کا ایندھن بنے گا۔ لَأَمْلَأَنَّ جَہَنَّمَ مِنکَ وَمِمَّن تَبِعَکَ مِنْہُمْ أَجْمَعِیْنَ / وَإِنَّ جَہَنَّمَ لَمَوْعِدُہُمْ أَجْمَعِیْنَ۔ لہٰذا قرآنی اساطیری تناظر میں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انسان ایک بار شکستہ عزم کے باعث ، عہد شکنی کاارتکاب کر کے، بے لباس ہو کر (بَدَتْ لَہُمَا سَوْءَ اتُہُمَا) جنت سے زمین پر اتر آیا ہے۔ اس کی دوبارہ بے عزمی اسے بے لباس کر کے تحت الثریٰ تک لے جائے گی۔ (یَا بَنِیْ آدَمَ لاَ یَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْْطَانُ کَمَا أَخْرَجَ أَبَوَیْْکُم مِّنَ الْجَنَّۃِ یَنزِعُ عَنْہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوْءَ اتِہِمَا) جبکہ عہد کی پاسداری کرتے ہوئے گم گشتہ عزم کی بازیافت، جو لباسِ تقویٰ کی صورت میں رونما ہو گی، یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْءَ اتِکُمْ وَرِیْشاً وَلِبَاسُ التَّقْوَیَ ذَلِکَ خَیْْرٌ ، جنت کی طرف واپسی کا مژدہ سنائے گی ۔ 

سیرت نبوی میں ہجرت کی معنویت

انسانی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سوسائٹی کی آلودگی اور اس کی تطہیر ایسا phenomenon ہے جو بار بار وقوع پذیر ہوتا رہتا ہے ۔ایک بار تطہیر کے بعد، مرورِ ایام سے مختلف اقسام کی جزوی اور وقتی آلائشوں سے ، سوسائٹی آلودہ ہوتی رہتی ہے اور اس کی بار بار تطہیر کی ضرورت پڑتی رہتی ہے ۔سوسائٹی کی آلودگی کے پیچھے عموماََ انسان کی ( فرد اور گروہ کی سطح پر ) سرکشی (کَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَیَطْغَی ) کار فرما ہوتی ہے اس سرکشی کی بنیادی وجہ انسان کی ( فرد اور گروہ کی سطح پر ) بے نیازی ( أَن رَّآہُ اسْتَغْنَی) ہے ۔نفسی ہجرت ،فرد اور گروہ کی سطح پر انسان کو ایسی بے نیازی سے ہی بے نیاز کرنے کا کام کرتی ہے ۔ نفسی ہجرت کے طفیل ، انسان ( فرد اور گروہ کی سطح پر ) اپنے وجود کو ، سماجی بندشوں کے وقتی اور عارضی سیاق و سباق میں دیکھنے کے بجائے آغاز و انجام کے وسیع تر تناظر میں دیکھتا ہے ۔وہ اپنے آغاز سے آگاہ ہو جاتا ہے ( خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَق) ، اسے اپنے انجام کی بھی خبر ہو جاتی ہے ( إِنَّ إِلَی رَبِّکَ الرُّجْعَی ) ۔ یہ آگہی انسان کو ایسی جرات مندانہ ذمہ داری ( عزم ) سے نوازتی ہے جس کے سامنے سوسائٹی کے آلودہ عارضی بندش ، خس و خاشاک کی طرح بکھر جاتے ہیں۔
الہامی مذاہب میں اسلام آخری مذہب ہے، اس لیے اسلام کے پیغمبر کو بھی رسالت و نبوت کے خاتم ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی یہ حیثیت بجا طور پر تقاضا کرتی ہے کہ تاریخِ انسانی میں ہجرت کی بے پایاں اہمیت کے پیشِ نظر ، ہجرت اپنی تمام تر معنوی ابعاد کے ساتھ قرآن و سنت میں جلوہ افروز ہو ۔ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی اسی خاتمیت کے پیشِ نظر ، اسلام نے نفسی ہجرت کا تسلسل (continuity) نبی خاتم ﷺ کی امت میں باقی رکھا ہے تاکہ امت کے افراد شخصی (اور گروہی) حیثیت میں، سوسائٹی کی سرکشی اور بے نیازی کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے اپنے محدود ماحول کی قیود سے بالاتر ہوکر ، اپنے نبی ﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سماجی تطہیر کی ذمہ داری ، عزم کے ساتھ پوری کر سکیں ۔
اس سلسلے میں ہم آئندہ سطور میں نبی خاتم ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ہجرت کے معنوی ابعاد تلاش کرنے کی سعادت حاصل کریں گے ۔

نفسی ہجرت اور گم گشتہ عزم کی باز یافت

ہجرت کی پہلی بُعد غارِ حرا میں نبی خاتم ﷺ کے استغراق و انہماک اور محویت کی صورت میں سامنے آتی ہے ۔ غارِ حرا میں آپ ﷺ کے تشریف لے جانے میں دو بنیادی حقائق پوشیدہ ہیں۔ اول یہ کہ سوسائٹی سے الگ ہو کر اس ’’عزم‘‘ میں پختگی پیدا کی جائے جو سوسائٹی کی روحانی واخلاقی آلودگی کے پیشِ نظر سوسائٹی سے علیحدگی کا سبب بنا ہے ۔ دوم یہ کہ زندگی کے ایسے آفاقی اصول جو سوسائٹی کی بندشوں اور آلائشوں سے بالاتر ہیں لیکن سوسائٹی کے لیے ہی ہیں، ان تک رسائی حاصل کی جائے۔ بلاشبہ ایسے اصولوں کا ادراک اپنے ماحول سے اٹھ کر ہی کیا جا سکتا ہے، اپنے ماحول کا حصہ بن کر نہیں۔ صرف اسی صورت میں انسانی زندگی کے وقتی، جزوی اور سفلی پہلوؤں کے بجائے علویت ، آفاقیت ، کلیت اور ابدیت پر مبنی حقائق منکشف ہوتے ہیں: 
’’ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ۔ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ‘‘ 
اگر کوئی فرد اپنے ماحول سے اٹھ کر ( سو سائٹی کا چیلنج قبول کرتے ہوئے) اس قسم کے تجربے سے بہرہ مند ہوتا ہے اور پھر واپس سوسائٹی کا رخ نہیں کرتا یا سوسائٹی میں واپس آکر باقی ماندہ زندگی بغیر کسی سرگرمی کے گزار دیتا ہے تو اس کا اپنے ماحول سے اٹھ کر علویت و آفاقیت اور کلیت کو پا لینا چیلنج کو قبول کرنے کے بجائے لایعنیت اور لہو و لعب کے زمرے میں آتا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس تجربے کے بعد سوسائٹی کی طرف فعال واپسی اسی قدر ناگزیر ہے جس قدر علویت و آفاقیت پانے کے لیے اپنے ماحول سے اٹھنا ضروری ہے۔لہٰذا چیلنج قبول کرتے ہوئے ایسے داخلی عزم کے ساتھ سوسائٹی سے علیحدگی اختیار کرنا کہ نہ صرف سوسائٹی کی طرف واپسی ہو گی بلکہ یہ واپسی ایک فعال واپسی ہوگی ، نفسی ہجرت کی ایک قسم ہے ۔ نبی خاتم ﷺ الہیاتی حکمت کے عین مطابق غارِ حرا میں نفسی ہجرت کے ایسے ہی بیش بہا تجربے سے سرفراز ہوئے ۔ جلد ہی نفسی ہجرت کے بے مثال ثمر ’’ عزم کا شخصی اظہار‘‘ شروع ہو گیا ۔محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کو حکم دیا گیا : وَأَنذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ۔ حکم کی تعمیل میں آپ ﷺ نے اپنے قرابت داروں کو دینِ حق کی دعوت دی، لیکن آپ ﷺ کے چچا ابولہب نے درمیان میں لقمے دے کر حاضرین کو منتشر کر دیا۔ اب ایک طرف نبی مکرم ﷺ کا عزم تھا اور دوسری طرف ابلیسی قوتیں اس عزم کو منتشر کرنے کے درپے تھیں۔ آپ ﷺ نے دوبارہ دعوتِ حق دی۔ لوگ منہ پھیر کر اپنی راہ لینا چاہتے تھے کہ حضرت علیؓ نے (جو اس وقت طفلِ نا بالغ تھے) آپ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا۔ اس پر آپ ﷺ کے قرابت دار ہنستے قہقہے لگاتے چلے گئے ۔ اس کے باوجود آپ ﷺ کے عزم میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا ۔ آپ ﷺ کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور حق کی دعوت دی ۔ ابلیسی قوتوں نے، جن کا سرخیل ابولہب تھا، آپ ﷺ کے عزم کو یہ کہہ کر ملیا میٹ کرنے کی ناکام کوشش کی : تبا لک سائر الایام الہذا دعوتنا؟ ’’ تو ہمیشہ ہلاکت و رسوائی کا منہ دیکھے ۔ کیا تو نے اسی غرض سے ہم کو جمع کیا تھا ‘‘۔
نفسی ہجرت کے بعد ، اللہ رب العزت سے عہد کی پاسداری میں وَأَوْفُواْ بِعَہْدِ اللّہِ إِذَا عَاہَدتُّمْ ، نبی خاتم ﷺ نے کفارِ مکہ کے حوصلہ شکن اقدامات کے مقابل جس عزم کا مظاہرہ کیا، تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ یہ عزم در حقیقت آدم ؑ کے گم گشتہ عزم کی باز یافت ہے : فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ( مایوسی کے بجائے صبر کرنا عزم پر دلالت کرتا ہے ) چونکہ آپ ﷺ نبی خاتم ﷺ ہیں، اس لیے عزم کی اس بازیافت میں کاملیت موجود ہے ۔ اس حوالے سے نبی خاتم ﷺ کی حیاتِ مطہرہ ، بلا شبہ عظیم معجزہ ہے ۔ اس کامل عزم کی تفصیلات سیرت کی مختلف کتب میں تفصیلاً منقول ہیں ۔ یہاں ہم نبی مکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں سے صرف ایک واقعہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کریں گے۔ 
آپ ﷺ کے معاون و پشت پناہ، مونس و غم خوار چچاحضرت ابو طالب نے جب قریش کی دھمکیوں سے مرعوب ہو کرآپ ﷺ سے کہا کہ اے جانِ عم ! میرے اوپر اتنا بوجھ نہ ڈال کہ میں اٹھا بھی نہ سکوں، تو جواب میں نبی خاتم ﷺ نے جو کلمات ارشاد فرمائے ، عہد کی پاسداری کی تاریخ میں وہ بلاشبہ عزم کی معراج ہیں :
’’ قسم ہے رب العزت کی ، اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند لا کر رکھ دیں ، تب بھی میں اپنے اس فریضے سے باز نہیں آؤں گا۔ اگر آپ میری حمایت نہیں کر سکتے تو بھی پرواہ نہیں ۔ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ کام سر انجام دے رہا ہوں ، اسی کی حفاظت میرے لیے کافی ہے ۔ اللہ تعالیٰ یا تو اس کام کو پورا کرے گا یا میں اس کے لیے اپنی جان قربان کر دوں گا ‘‘۔ 
حضرت ابوطالب اس جواب سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ا ن کی زبان سے بے ساختہ نکلا ، جا! کوئی شخص تیرا بال بیکا نہیں کر سکے گا۔ 
یہاں اس امر کا بیان بر محل ہو گا کہ شیطان نے آدم ؑ کے عزم پر اس ترغیب سے وار کیا تھا : قَالَ یَا آدَمُ ہَلْ أَدُلُّکَ عَلَی شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلَیٰ/َ قَالَ مَا نَہَاکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ہَذِہِ الشَّجَرَۃِ إِلاَّ أَن تَکُونَا مَلَکَیْْنِ أَوْ تَکُونَا مِنَ الْخَالِدِیْنَ وَقَاسَمَہُمَا إِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِیْنَ فَدَلاَّہُمَا بِغُرُورٍ ، اور آدم ؑ ، فرشتگی و ہمیشگی اور سلطنتِ لا زوال کے چکر میں اپنے عہد سے غافل ہوگئے اور پھسل گئے۔ ا س کے برعکس نبی خاتم ﷺ خود پیش قدمی کرتے ہوئے ترغیبات کا رد ایسے اسلوب میں کرتے ہیں جس سے( رب العزت سے ایفائے عہد کی خاطر) آپ ﷺ کا عزم ،پختگی کے اعتبار سے ابدیت تک پھیلتا چلاجاتا ہے۔ (۱)

گروہی ہجرت اور اس کے بنیادی لازمے

آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں نفسی ہجرت کے بعد گروہی ہجرت کا مرحلہ آتا ہے۔ گروہی ہجرت اسی وقت ممکن تھی جب ایک باقاعدہ گروہ موجود ہوتا۔ نبی خاتم ﷺ کی مکی زندگی کے ابتدائی ایام میں چندہی صالح نفوس نے اسلام قبول کیا تھا اور تقریباً ان سب کو اپنے اپنے متعلقین کی طرف سے معاندانہ رویے کا سامنا تھا ۔ کفارِ مکہ کے ظلم و ستم کے مقابل ان نفوسِ صالح نے نبی خاتم ﷺ کے تتبع میں بے مثال ’’ شخصی عزم ‘‘ کا مظاہرہ کیا اور کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے صاف انکار کر دیا۔ (۲) یہ صالح نفوس ، مکہ کی مشرک سوسائٹی کے مقابل آہستہ آہستہ ایک الگ گروہی حیثیت اختیار کرتے چلے گئے ۔
ایک گروہ کے تشکیل پاتے ہی یہ بنیادی تقاضا پیدا ہوا کہ کفارِ مکہ کے خلاف شخصی عزم کے ساتھ ساتھ’’ گروہی عزم‘‘ کا بھی اظہار کیا جائے ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے گروہی عزم کا’ تشکیلی مرحلہ ‘ آتا ہے جس کی خشتِ اول ، نبی خاتم ﷺ نے خود رکھی اور فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْن کے الٰہی حکم کی تعمیل میں بیت اللہ میں جاکر ببانگِ دہل کلمہ حق کہا ۔ کفارچاروں طرف سے آپ ﷺ پر ٹوٹ پڑے ، حضرت حارث بن ابی ہالہ کو اس کی خبر ہوئی ، وہ دوڑے چلے آئے اور آپ ﷺ کو بچانے کی کوشش میں ’’ شہیدِ اول ‘‘ کے قابلِ رشک مقام سے سرفراز ہوئے۔ (مسند احمد)
اس خشتِ اول کے بعد صدیقِ اکبرؓ نے گروہی عزم کے تشکیلی مرحلے میں جو کردار ادا کیا ، اس کی روداد حضرت عائشہ صدیقہؓ نے یوں بیان فرمائی ہے :
’’جب رسول اللہ ﷺ کے مرد صحابہ کی تعداد اڑتیس ہوگئی تو صدیق اکبرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اصرار کیا کہ اب کھل کر اسلام کی دعوت دی جائے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے ابوبکر ! ابھی ہم لوگ تھوڑے ہیں ، لیکن حضرت ابوبکرؓ اصرار کرتے رہے ، جس پر رسول اللہ ﷺ نے کھلم کھلا دعوت و تبلیغ کی اجازت دے دی۔ چنانچہ مسلمان مسجد حرام کے مختلف حصوں میں بکھر گئے اور ہر آدمی اپنے قبیلے میں جا کر بیٹھ گیااور حضرت ابوبکرؓ لوگوں میں بیان کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے جبکہ رسول اللہ ﷺ بھی تشریف فرما تھے ۔ حضرت صدیقِ اکبرؓ اسلام میں سب سے پہلے خطیب ہیں جنھوں نے اللہ اور رسول ﷺ کی طرف لوگوں کو علانیہ دعوت دی ۔ مشرکینِ مکہ ، ابوبکرؓ اور دوسرے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور مسجد حرام کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کو خوب مارا، جبکہ ابوبکرؓ کو خوب مارا گیا اور پاؤں تلے بھی روندا گیا۔‘‘ (۳)
حضرت صدیقِ اکبرؓ کے علاوہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے بھی گروہی عزم کے تشکیلی مرحلے میں صحابہ کرامؓ کی نمائندگی کی ۔ سیرت نگار ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد مکہ میں جس شخص نے سب سے پہلے پکار کر قرآن شریف پڑھا، وہ عبداللہ بن مسعودؓ تھے۔ ایک روز رسول اللہ ﷺ کے اصحابؓ نے صلاح کی کہ آج تک قریش نے بآوازِ بلند قرآن شریف نہیں سنا۔ کوئی ایسا شخص ہو جو ان کو بآوازِ بلند قرآن شریف سنائے ۔ عبداللہ بن مسعود نے کہا ، میں سناؤں گا ۔عبداللہ بن مسعود نے حجرِ اسود کے پاس آکر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر بآوازِ بلند سورۃ الرحمان کی تلاوت شروع کر دی ۔ قریشِ مکہ ان کی طرف دوڑے اور خوب طمانچے رسید کیے۔ عبداللہ بن مسعودؓ کی واپسی پر صحابہؓ نے ان کے چہرے پر طمانچوں کے نشان دیکھ کر کہا ، ہمیں یہی اندیشہ تھا ۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا ، میں دشمنانِ خدا سے خوف نہیں کھاتا ، کل جا کر انھیں پھر سناؤں گا ۔ اصحابؓ نے فرمایا، نہیں، بس یہی کافی ہے جو تم آج سنا آئے ہو۔
گروہی عزم کے تشکیلی مرحلے میں حضرت ابوذرؓ کے قبولِ اسلام کا واقعہ بھی اہمیت رکھتا ہے ۔ ان کے قبولِ اسلام کے بعد رسالت مآب ﷺ نے انھیں واپس اپنی قوم میں جانے اور دینِ حق کی دعوت دینے کا حکم دیا ۔ حضرت ابوذر غفاریؓ نے نبی خاتم ﷺ سے استدعا کی : 
’’ والذی نفسی بیدہ لاصرخن بھا بین ظھرانیھم‘‘ ( صحیح بخاری، حدیث نمبر ۳۸۶۱) 
’’ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ، میں اس کلمہ توحید کا اعلان کافروں میں پورے زور سے کروں گا۔‘‘
اس کے بعد حضرت ابوذرؓ نے بیت اللہ میں جا کر لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دی ۔ مشرکینِ مکہ نے آپؓ کو خوب مارا۔ حضرت عباسؓ نے (جو ابھی غیر مسلم تھے ) آپ کے اوپر لیٹ کرآپؓ کو کفار سے بچایا ۔دبنے کے بجائے ، اگلے دن حضرت ابوذرؓ نے پھر دین کی دعوت دی ۔ کفار نے آپؓ کو دوبارہ زدوکوب کیا اور حضرت عباسؓ نے مداخلت کر کے آپؓ کی جان بچائی۔ ( صحیح بخاری ، حدیث ۳۸۶۱) 
ایسے واقعات اگر ایک طرف صحابہ کرامؓ کے شخصی عزم کی پختگی پر دال ہیں تو دوسری طرف گروہی عزم کے تشکیلی مرحلے کی بھی نشاندہی کرتے ہیں ۔ اس لیے جلد ہی لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنکے مصداق، مکہ میں دو گروہ آمنے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک گروہ آبا پرستی کو اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے تھا اور دوسرا گروہ توحید ، وحدتِ انسانی ، صلہ رحمی اور ایثار جیسی خصوصیات سے مزین تھا۔ (۴)

ہجرتِ حبشہ: ایک اقدامی تجربہ

دعوتِ حق کے اس مرحلے پر آپ ﷺ نے اپنے قائد ہونے کا تاثر دینا شروع کیا، کیونکہ گروہ اور قیادت لازم و ملزوم ہیں۔ جیسے گروہ کے بغیر قیادت کا تصور محال ہے، اسی طرح قیادت کے بغیر کوئی گروہ بھی تشکیل نہیں پا سکتا ۔ چنانچہ ایک الگ گروہ کے تشکیل پاتے ہی اس کی قیادت کی ذمہ داری بھی آپ ﷺ کو سنبھالنی پڑی ۔ کفارِ مکہ کے معاندانہ ومتشددانہ رویے کے باعث، ایک قائد ہونے کے ناتے آپ ﷺ نے بھانپ لیا تھا کہ آخر کار آپ کو اپنے پورے گروہ سمیت ہجرت کرنی پڑے گی، کیونکہ آپ ﷺ سے قبل بھی بہت سے انبیا کو اس عمل سے گزرنا پڑا تھا۔ (۵) اس سلسلے میں آپ ﷺ نے ایک مدبر قائد ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ، عجلت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے تجربی و اقدامی فیصلے کیے۔ نبی خاتم ﷺ نے اپنے رفقا کو دو بار حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا ۔آپ ﷺ کا یہ اقدام وسیع بنیاد پر سماجی تبدیلی (Large Scale Social Change) کا آغاز ثابت ہوا۔ نبی مکرم ﷺ نے تین سطحوں پر ان دو تجرباتی ہجرتوں کے اثرات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جو مکہ کی سوسائٹی ، حبشہ کی سوسائٹی اور مہاجرین پر مرتب ہوئے ۔ 
ہجرت کے لیے حبشہ ہی کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ اس سلسلے میں ابن ہشام نے آپ ﷺ کا انتہائی معنی خیز ارشاد نقل کیا ہے: 
’’ اگر تم سر زمین حبشہ کو نکل جاؤ تو بہتر ہے، کہ وہاں کے بادشاہ کے ہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا اور وہ سر زمین صدق ہے ، یہاں تک کہ جس تنگئ حیات میں تم ہو، اس میں اللہ تعالیٰ تمھارے لیے فراخی پیدا کر دے ‘‘۔ 
فرمانِ رسول ﷺ کے مطابق حبشہ کی مذکورہ حیثیت کو ، نومسلموں کی حالتِ زار کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے ایک تو تنگئ حیات میں گرفتار مسلمانوں کے ’’ شخصی عزم ‘‘ کو شکستہ ہونے سے بچانے کی تدبیر کی، اور انھیں مصائب کے گڑھ سے نکل کر سر زمینِ صدق (۶) کی طرف چلے جانے کا حکم دیا۔ دوسرا یہ کہ آپ ﷺ نے ’’ گروہی عزم میں پختگی‘‘ پیدا کرنے اور اسے جانچنے کی راہ ہموار کی۔تاریخ بتاتی ہے کہ ہجرتِ حبشہ نے مجموعی طور پر ، نومسلموں کے شخصی عزم کو شکستگی سے بچانے کے علاوہ گروہی عزم کی پختگی پر بھی مہرِ تصدیق ثبت کر دی ۔ قریش نے عبداللہ بن ابی ربیعہ اور عمرو بن العاص کو بحیثیت سفارت کار حبشہ بھیجا جنھوں نے نجاشی سے درخواست کی کہ ہمارے ’’مجرم‘‘ ہمارے حوالے کیے جائیں۔ نجاشی نے مسلمانوں کو بلا بھیجا کہ تم نے نصرانیت اور بت پرستی دونوں کے مخالف کون سا نیا دین ایجاد کر لیا ہے ؟ معاملہ نازک تھا، کیونکہ نجاشی کی مخالفت کی صورت میں ’’ مجرم ‘‘ کے طور پر مکہ واپسی اپنے اوپر قیامت ڈھانے والی بات تھی ۔ نجاشی اس وقت عیسائی تھا، لہٰذا بدیہی خطرہ موجود تھا کہ وہ بھڑک اٹھے اور مسلمانوں کو خود تختہ مشق بنائے یا قریش کے حوالے کر دے۔ اس بحرانی حالت میں صحابہ کرامؓ نے باہمی مشاورت کے بعد جو متفقہ فیصلہ کیا، وہ ان کے ’’ گروہی عزم ‘‘ کا آئینہ دار ہے : 
’’نقول واللہ فیہ ما قال اللہ و ما جاء بہ نبینا کائنا فی ذالک ما ھو کائن ‘‘ (مسند احمد)
’’اللہ کی قسم ! ہم وہی کہیں گے جو اللہ نے کہا ہے اور جس کی ہمارے نبی نے تعلیم دی ہے۔ اس معاملہ میں جو ہوتا ہے، ہو جائے‘‘۔
اس کے بعد حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نے تاریخ ساز خطاب کیا اور کلامِ الٰہی کی آیات تلاوت کیں جنھیں سن کر نجاشی اور اس کے درباریوں پر رقت طاری ہو گئی اور انھوں نے مسلمانوں کو، سفراے قریش کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ نجاشی کے دربار میں پہلے دن کی پسپائی کے بعد ، عمرو بن العاص ( جو ابھی غیر مسلم تھے ) دوسرے دن دربار میں حاضر ہوئے اور نجاشی کو مشتعل کرنے کی خاطر اس سے کہا کہ مسلمانوں سے حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق ان کا عقیدہ معلوم کیجیے ۔ حضرت امِ سلمہ ؓ فرماتی ہیں، جس قدرفکر وتردد ہمیں اس روز لاحق ہوا، ویسا کبھی نہیں ہوا تھا ۔سب صحابہؓ جمع ہوئے اور مشورہ ہوا ۔ پھر حضرت جعفر طیارؓ نے مہاجرہوتے ہوئے بھی، اجنبی سرزمین پر اپنے گروہ کی نمائندگی ( گروہ کی مشاورت سے ) کرتے ہوئے گروہی عزم کا بلا خوف اظہار کیا : ’’ قرآن مجید میں ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ بن مریم ، اللہ تعالیٰ کے بندے ، اس کے رسول اور اس کی روح ہیں ‘‘۔ ( سیرت ابنِ ہشام / المسند ) 
نجاشی نے صحابہ کرامؓ کے کلمہ حق پر لبیک کہا اور ایک تنکا اٹھا کر یوں گویا ہوا :
’’واللہ ! جو کچھ تم نے کہا ، حضرت عیسیٰ ؑ اس سے سرِ مو زیادہ نہیں ہیں ‘‘۔( سیرت ابنِ ہشام / المسند )
ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح نبی خاتم ﷺ کے شخصی عزم کو پختہ کرنے کے لیے فترۃ الوحی کا ایک دور گزرا جس کے بعد متواتر وحی کا آغاز ہوا، اسی طرح ہجرتِ حبشہ نے صحابہ کرامؓ کے گروہی عزم کو پختہ کرنے کا کام کیا اور یہ گروہی عزم اس کے بعد متواتر ہجرتِ مدینہ، غزوات، صلح حدیبیہ اور فتح مکہ جیسے مراحل طے کرتا چلا گیا ۔مثال کے طور غور کیجیے کہ حبشہ میں مسلم گروہی عزم کو مسیحیت جیسی عظیم مذہبی روایت سے مکالمہ کرنا پڑا۔ اس مکالمے میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور نجاشی کے قبولِ اسلام کے ساتھ ہی اسلام حبشہ میں پھیلتا چلا گیا۔ یہ مکالمہ بعد میں، ہجرتِ مدینہ کے بعد یہودیت جیسی سخت نسل پرست مذہبی روایت کے محاکمے میں بہت ممدومعاون ثابت ہوا ۔قرآن کے الفاظ پر غور فرمائیے: 
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُواْ الْیَہُودَ وَالَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُواْ الَّذِیْنَ قَالُوَاْ إِنَّا نَصَارَی ذَلِکَ بِأَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُہْبَاناً وَأَنَّہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُونَ (المائدہ۵:۸۲ )
’’ایمان والوں کی عداوت میں تم سب سے زیادہ شقی یہودیوں کو پاؤ گے، نیز مشرکوں کو ۔ اور ایمان والوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان لوگوں کو پاؤ گے جو کہتے ہیں ہم نصاریٰ ہیں، اس لیے کہ ان میں پادری اور تارک الدنیا ہیں اور اس لیے کہ ان میں گھمنڈ اور خود پرستی نہیں ہے‘‘۔
اس لیے مشرکینِ مکہ کے مصائب جھیلنے کے بعد اگر ہجرتِ حبشہ کے تجربی اقدام کے بغیر ہجرتِ مدینہ عمل میں لائی جاتی تو یہودیت جیسی سخت گیر روایت سے مسلم گروہی عزم کا براہ راست ٹکراؤ کافی مشکلات پیدا کر سکتا تھا ۔ خود مسیحیت کے ساتھ مکالمے میں بھی ایک منفی پہلو سامنے آیاتھا۔مکے کے مہاجرین میں سے عبیداللہ بن جحش ، حبشہ میں مرتد ہوگئے اور انھوں نے عیسائیت اختیار کر لی تھی ۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا ۔یقیناًاس سے صحابہ کرامؓ کو شدید جذباتی اور نفسیاتی دھچکا لگا ہو گا ۔ اس دھچکے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت نظر آتی ہے ، کیونکہ نبی خاتم ﷺ کے وصال کے فوراً بعد ارتداد کا مسئلہ سامنے آیا تھا ، جس کے مقابل صدیقِ اکبرؓ کی قیادت میں صحابہ کرامؓ نے’’ گروہی عزم ‘‘ کا بے مثال مظاہرہ کیا تھا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عبیداللہ بن جحش کے ارتداد کے پیچھے، مستقبل کے سنگین مسئلے سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ، صحابہ کرامؓ کی نفسیاتی تیاری اللہ رب العزت کو مطلوب و مقصود تھی۔ ارتداد کے اس واقعہ نے یقیناًصحابہ کرامؓ کے ’’ گروہی عزم ‘‘ کو کندن بنا ڈالا ۔ صحابہ کرامؓ اگر اس جذباتی و نفسیاتی دھچکے سے نہ گزرے ہوتے تو بعد میں ایک تو آپ ﷺ کے وصال کا صدمہ اور پھر اوپر سے ارتداد کا فتنہ، صحابہ کرامؓ کویقیناًمفلوج کر کے رکھ دیتا۔ اس پہلو سے دیکھیے تو ہجرتِ حبشہ کی نوعیت ’’ اقدامی ‘‘ ہو جاتی ہے ۔

ہجرتِ حبشہ اور حبشی سماج

ڈاکٹر محمد حمیداللہ ، خطباتِ بہاولپور میں ’’ عہدِ نبوی ﷺ میں تبلیغِ اسلام اور غیر مسلموں سے برتاؤ‘‘ کے زیرِ عنوان فرماتے ہیں: 
’’اب چونکہ تبلیغ کی آزادی تھی، اس لیے یہ مسلمان ( مکے کے نو مسلم مہاجر ) حبشہ میں تبلیغ کرنے لگے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چند سالوں وہاں کافی تعداد میں یعنی کم ازکم چالیس پچاس حبشی مسلمان ہو گئے‘‘ ۔ (ص ۳۶۱) 
ابن ہشام کی سیرت النبی ﷺ میں بھی ابنِ اسحاق کے حوالے سے رقم ہے کہ حبشہ سے بیس یا بیس کے قریب نصاریٰ آپ ﷺ کی خبر سن کر محض آپ ﷺ کو دیکھنے کے لیے مکہ آئے ۔ آپ ﷺ مسجد الحرام میں تشریف فرما تھے ۔ انھوں نے آپ ﷺ سے چند سوالات کیے ۔ قریش دور کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے ۔ آپ ﷺ نے ان نصاریٰ کو قرآن کریم پڑھ کر سنایا اور اسلا م کی دعوت دی ۔ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور و ہ تمام لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے ۔ان لوگوں نے نبی خاتم ﷺ کو ان اوصاف کے مطابق پہچان لیا تھا جو ان کی کتابوں میں مذکور تھے ۔ جب وہ مسلمان ہو کر واپس جانے لگے تو ابوجہل اور قریش کے چند لوگوں نے ان سے کہا کہ تم بڑے بیوقوف اور احمق ثابت ہوئے ہو ، تمھاری قوم نے تمھیں اس شخص کی خبر دریافت کرنے بھیجا تھا اور تم نے اس کا دین اختیار کرکے اس کی تصدیق کر دی ، تم سے زیادہ نالائق ہم نے کوئی نہیں دیکھا ۔ انھوں نے جواب میں کہا ’سلام علیکم‘ ،ہم تم سے جہالت نہیں کرتے ، ہمارے واسطے ہمارے کام ہیں اور تمھارے واسطے تمھارے کام ہیں۔ ( ۷) اس کے بعد مکے کے مہاجرین کے ساتھ نو مسلم حبشیوں نے بھی حبشہ میں دعوتی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ 
مرتد عبیداللہ بن جحش کے مرنے کے بعد آپ ﷺ نے اس کی بیوی ام حبیبہؓ بنت ابی سفیانؓ سے شادی کر لی ۔ ابنِ ہشام کی سیرت النبی ﷺ کے مطابق ، آپ ﷺ نے شادی کے پیغام کے لیے حضرت عمرو بن ؟؟ ضمری کو نجاشی بادشاہ حبشہ کے پاس بھیجا تھا۔ نجاشی نے حضرت ام حبیبہؓ کا نکاح نبی مکرم ﷺ کے ساتھ کر کے چار سو دینار مہر مقرر کیا۔ نکاح میں حضرت ام حبیبہؓ کے وکیل خالد بن سعید بن عاص تھے جنھوں نے ان کو حضور ﷺ کے نکاح میں دیا ۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ نجاشی نے اوائل ایام میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا جس سے مسلمانوں کو حبشہ میں دعوت دینے میں آسانی پیدا ہوئی ا ور ان کا ’’گروہی عزم ‘‘ پختہ تر ہوتا چلا گیا ، دوسرا یہ کہ کثرتِ ازواج کے حوالے سے آپ ﷺ پر مستشرقین کے اعتراضات کا ایک جواب بھی اس نکاح سے مل جاتا ہے ۔ ذرا غور کیجئے کہ اس وقت اسلام، حبشہ کے عیسائیوں میں پھل پھول رہا تھا ، ایسے حالات میں کسی مہاجر مسلم کا عیسائی ہونا اس نومسلم سوسائٹی کے لیے اچنبھے کی بات تھی ۔ اب اس ’’ مرتدِ اول ‘‘ کی بیوی کے بارے میں عمومی مسلم رویہ کیا ہو سکتا تھا؟ ظاہر ہے، ان کے لیے قدرے مشکلات پیدا ہو سکتی تھیں ۔ پھر یہ احتمال بدیہی طور پر موجود تھا کہ مسلمانوں میں ایسا سماجی رویہ پروان چڑھتا جس کے سبب مستقبل میں کسی کے مرتد ہونے پر اس کی بیوی کو کوئی بھی مسلم اپنے نکاح میں لینے پر تیار نہ ہوتا اور اس خاتون کو مستقلا بیوگی کی زندگی گزارنی پڑتی ۔ آپ ﷺ نے یہ نکاح کر کے حقیقت میں مسلم سوسائٹی کو یہ عظیم پیغام دیا کہ ہر فردصرف اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے ، کسی کی بد اعمالی یا بے ایمانی کی سزا کسی دوسرے نہیں دی جا سکتی ، چاہے معاملہ خاوند بیوی کا ہی کیوں نہ ہو ۔ آپ ﷺ کے وصال کے بعد ارتداد کا جو فتنہ اٹھا ، اس میں ایسی مسلم خواتین، جن کے شوہر مرتد ہوگئے تھے ، ان کی بابت مسلم سوسائٹی کے عمومی رویے کو پیشِ نظر رکھ کر آپ ﷺ کے حضرت امِ حبیبہؓ سے نکاح کی حکمت سمجھی جا سکتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم سوسائٹی نے نبی خاتم ﷺ کے اس پیغام پر لبیک کہا ہو گا اورایسی خواتین کو نہایت تعظیم کے ساتھ، مسلمان مردوں نے نکاح کا پیغام بھیجا ہو گا ۔ (۸) 
نجاشی کے قبولِ اسلام سے اگرچہ مہاجرین کے لیے آسانی پیدا ہوئی اور دعوتِ حق کا کام بھی سہل ہو گیا لیکن حبشہ کی سوسائٹی میں بے چینی بھی بڑھتی چلی گئی۔ ابنِ ہشام نے ابنِ اسحاق سے روایت کیا ہے کہ ایک دفعہ تمام اہلِ حبش نے نجاشی سے سرکشی کی اور کہا کہ تم ہمارے دین ( مسیحیت ) سے علیحدہ ہو گئے ہو ۔ جب یہ لوگ فساد پر آمادہ نظر آئے تو نجاشی نے حضرت جعفر بن ابی طالبؓ سمیت تمام مہاجرین سے کہلا بھیجا اور ان کے لیے کشتیوں کا انتظام کر دیا کہ ان میں سوار ہو جاؤ اور میری خبر کے منتظر رہو ۔ اگر مجھے شکست ہوئی تو تم لوگ جہاں جا سکو، چلے جانا اور اگر میرا غلبہ ہوا تو یہیں رہنا ۔ نجاشی نے نہایت تدبر اور خوش اسلوبی سے فسادیوں کو سنبھال لیا اور ان کی مخالفت ختم ہوگئی۔ (۹) اس واقعہ سے اتنا ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ حبشہ کے مسیحیوں نے سماجی اور سیاسی میدان میں اسلام کی بھر پور مدافعت کی ۔ 

ہجرتِ حبشہ اور مکی سماج 

مکہ کی سوسائٹی کے لیے بھی ہجرتِ حبشہ سماجی زلزلہ ثابت ہوئی ۔ ظاہر ہے ان دنوں مکہ کی آبادی بہت زیادہ نہیں تھی ۔ اس آبادی میں سے سو (۱۰۰) کے لگ بھگ انھی کے بھائی بندوں کا علاقہ چھوڑ جانا ایسا معمولی واقعہ نہیں تھا جس کے سماجی اور نفسیاتی اثرات سے اہلِ مکہ محفوظ رہ سکتے۔ ابنِ ہشام کی سیرت النبی ﷺ میں ابنِ اسحاق نے حضرت امِ عبداللہؓ بنت ابی حثمہ سے روایت کیا ہے ، وہ کہتی ہیں کہ جس وقت ہم حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا سامان کر رہے تھے اور میرے شوہر عامرؓ اس وقت کسی کام کو گئے ہوئے تھے ، یکایک عمرؓ بن خطاب میری طرف آ نکلے ۔ وہ اس وقت کفر ہی کی حالت میں تھے اور ہم کو سخت اذیتیں اور تکلیفیں پہنچاتے تھے ۔ وہ کہنے لگے ، اے امِ عبداللہؓ ! کیا اب تمھارا کوچ ہے ؟ میں نے کہا ، ہاں ! واللہ ہم کیا کریں، جب تم ہم کو بے حد تکلیفیں اور ایذائیں پہنچاتے ہو ، اس لیے ہم خدا کے ملک میں سفر کرتے ہیں ، یہاں تک کہ خدا ہمارے لیے کشادگی پیدا کردے ۔ عمرؓ بن خطاب نے کہا ، خدا تمھارا حافظ ہے ۔ میں نے دیکھا کہ عمرؓ کے دل کو ہمارے جانے سے رنج ہوا۔ پھر وہاں سے عمرؓ چلے آئے ، جب عامرؓ آئے تو میں نے ان سے کہا ، اے ابو عبداللہ ! تم نے دیکھا اس وقت عمرؓ آئے تھے اور ہمارے جانے سے وہ غمگین ہوئے ۔ عامرؓ نے کہا ، کیا تم کو امید ہو سکتی ہے کہ عمرؓ اسلام قبول کرے ۔ میں نے کہا، ہاں۔ عامرؓ نے کہا ، ہر گز نہیں ۔ اگر خطاب کا گدھا اسلام لے آئے تو میں جانوں کہ عمرؓ بھی مسلمان ہو جائے گا ۔ امِ عبداللہؓ کہتی ہیں کہ عامرؓ کا یہ کلام اس سبب سے تھا کہ وہ عمرؓ کی سختی اور ان کی اسلام دشمنی کو دیکھ کر ناامید ہو گئے تھے ۔( خیال رہے، عامرؓ اور امِ عبداللہؓ ، حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے پہلے گروپ میں شامل تھے )
لہٰذا ہجرتِ حبشہ نے مکی سوسائٹی میں عمرؓ بن خطاب جیسی شخصیات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا ۔ یہ خیال کرتے ہوئے کہ محمد ﷺ ہمارے بھائی بندوں کو ہم سے جدا کر رہے ہیں، عمرؓ بن خطاب بر افروختہ ہوئے اور تلوار حمائل کیے نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحابؓ کے قصد سے چل پڑے۔ راستے میں ان کی ملاقات نعیم بن عبداللہ سے ہو گئی ۔ انھیں عمرؓ بن خطاب کے ارادے کا پتہ چلا تو کہا، پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمھاری بہن اور بہنوئی اسلام قبول کر چکے ہیں ۔عمرؓ جیسی سخت اسلام دشمن شخصیت کے لیے یہ خبر بہت بڑا نفسیاتی دھچکا تھی۔ ان کا رخ بہن کے گھر کی طرف ہو گیا، جہاں وہ غصے میں بہنوئی کے ساتھ باہم دست و گریباں ہو گئے۔ بہن فاطمہ چھڑانے کو آگے بڑھیں تو عمرؓ نے ان کے سر پر ضرب لگائی ، فاطمہؓ بنت خطاب کے سر سے خون بہنا شروع ہو گیا ۔ تب ان کی بہن اور بہنوئی نے ڈٹ کر کہا ، ہاں بے شک ہم اسلام لے آئے ہیں ، دیکھیں تم ہمارا کیا کرتے ہو۔ بہن کے سر سے خون بہتا دیکھ کر عمرؓ بہت شرمندہ ہوئے ۔ ظاہر ہے یہ کوئی جائیداد کی تقسیم کا معاملہ نہیں تھاجس کی خاطر یہ لوگ اپنے بھائی بندوں سے الگ ہو رہے تھے، بلکہ یہ لوگ تو ہر دنیاوی آسائش کو تج دے کر بے آسرا و بے سروسامان ہو چکے تھے۔ عمرؓ بن خطاب کی داخلی دنیا میں مہاجرینِ حبشہ کی وجہ سے پہلے ہی اضطراب پیدا ہو چکا تھا، اسی اضطراب نے جھنجھناہٹ کی شکل اختیار کی تھی ۔ ان کا دل پسیج گیا ، وہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جس کی خاطر یہ لوگ اپنی جائیداد ، علاقہ اور رشتہ داریاں تک چھوڑنے کو تیار ہیں ، حالانکہ عمومی دستور یہی ہے کہ لوگ انھی اشیا کی خاطر لڑنے مرنے کو تیار ہوجاتے ہیں ۔ مشیتِ الہٰی کے مطابق ، ابو حکم بن ہشام ( ابوجہل ) کے بجائے عمرؓ بن خطاب کے حق میں نبی خاتم ﷺ کی دعا قبول ہو چکی تھی ، کیونکہ آپ ﷺ ان میں سے کسی ایک کے ذریعے سے تائیدِ اسلام کی دعا فرما ئی تھی ۔ عمرؓ نے کہا مجھے وہ کاغذ دو ، جس پر کلام لکھا ہے ، دیکھوں تو سہی ، محمد ﷺ پر کیا نازل ہوا ہے ؟ بہن نے انھیں غسل کرنے کو کہا تا کہ وہ پاک ہو جائیں ۔ عمرؓ نے اسی وقت غسل کیا ، بہن نے وہ کاغذ دے دیا جس پر سورۃ طہٰ لکھی ہوئی تھی ۔ عمرؓ پڑھے لکھے تھے ، دیکھتے ہی کہنے لگے ، یہ کلام اچھا ہے اور کیسا بزرگ ہے ۔ اس کے بعد عمرؓ بارگا ہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا ۔ فاروقِ اعظمؓ کے قبولِ اسلام سے کفار کمزور پڑ گئے ۔حضرت عمرؓ بن خطاب جیسی عظیم شخصیت، مسلم گروہی عزم کے مرکزی دھارے mainstream میں نہ صرف فوراً شامل ہوگئی بلکہ گروہی عزم کو اقدامی بنانے میں ممدو معاون ثابت ہوئی۔ ( ۱۰) آپؓ کے قبولِ اسلام کے بعد مسلمانوں نے کعبہ میں پہلی بارسرِ عام نماز ادا کی ۔(اوپر گزر چکا ہے کہ صدیقِ اکبر نے حرم میں سب سے پہلے خطاب کیا ) ڈاکٹر محمد حسین ہیکل کے مطابق ہجرتِ مدینہ کے بعد اسلام کو جو سیاسی اقتدار نصیب ہوا، اس کا پیش خیمہ حضرت عمرؓ کا قبولِ اسلام ہی ہے ۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہجرتِ حبشہ ، حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کا پیش خیمہ ہے، اس طرح دونوں ہجرتیں ، فاروقِ اعظمؓ کی زندگی میں بہت اہمیت اختیار کر جاتی ہیں ۔
ہجرتِ حبشہ سے مکی سوسائٹی جن اضطرابی کیفیات سے گزر رہی تھی، اس کا سماجی سطح پر اظہار ’’ معاشرتی مقاطعہ ‘‘ کی صورت میں ہوا ۔ قریش نے باہم اتفاق کرکے ایک عہد نامہ لکھ لیا کہ ہم بنی ہاشم اور بنی مطلب سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے ۔ اس وقت کے مخصوص عرب کلچر کے تناظر میں یہ ایک انتہائی اقدام تھا ( ۱۱) اور ظاہر ہے اس کے پیچھے انتہا درجے کی تلملاہٹ اور ذہنی شکستگی کارفرما تھی۔اہم بات یہ ہے کہ اس موقع پر ابولہب عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب کے سوا آپ ﷺ کے تمام قرابت داروں نے آپ ﷺ کا ساتھ دیا۔ یوں ، ابولہب نے عرب کلچر کی زندہ روایات سے بھی روگردانی کرکے آپ ﷺ سے قطع تعلق اختیار کر لیا اور معرکہ خیر و شر میں،ابلیس کی مانند شر کی ابدی علامت بن گیا(۱۲) ۔ ہجرتِ حبشہ کے سماجی اثرات سے بوکھلا کر، عہد نامہ لکھ تو لیا گیا تھا اور اس پر عمل درآمد بھی ہو رہا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی مکی سماج میں اس ظلم کے خلاف ردِ عمل بھی ابھرنا شروع ہوا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ معاشرتی مقاطعہ کا عہد نامہ لکھنے میں ہی کچھ لوگ متردد تھے ۔ وہ اسے صریحاً ظلم تصور کرتے تھے ۔ جس طرح ہجرتِ حبشہ پر مکی سماج سوچ بچار پر مجبور ہو گیا تھا ، اسی طرح اب مکی سماج کے اپنے ردِ عمل نے لوگوں کو انفرادی حیثیت میں غورو فکر پر مجبور کردیا۔ اس طرح معاشرتی مقاطعہ ایک لحاظ سے ’’ داعی ‘‘ کی صورت اختیار کر گیا ۔ ابنِ ہشام کی سیرت النبی ﷺ میں ہشام بن عمرو کی ان کوششوں کا تذکرہ موجود ہے جو اس نے معاشرتی مقاطعہ کے خاتمہ کے لیے زہیر بن ابی امیہ ، مطعم بن عدی ، ابوالبختری بن ہشام اور زمعہ بن الاسود کے ساتھ مل کر کیں ۔ 
حضرت ابوبکرؓ نے بھی قریش کے مظالم سے تنگ آکر نبی پاک ﷺ سے ہجرت کی اجازت طلب کی۔ اجازت مل گئی۔ صدیقِ اکبرؓ ہجرت کے ارادے سے مکہ سے ابھی دو منزل ہی باہر نکلے تھے کہ ان کی ملاقات احابیش کے سردار ابن الدغنہ سے ہوئی۔ اس نے پوچھا ،اے ابوبکر ! کہاں جاتے ہو ؟ آپؓ نے فرمایا، میری قوم نے مجھے سخت تکلیفیں پہنچائی ہیں اور نکلنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ ابنِ دغنہ نے کہا ، کیوں ؟ اس کی وجہ؟ واللہ تم تو اپنی قوم کے لیے باعث زینت ہو، مصائب میں لوگوں کی مدد کرتے ہو، بھلائی کے کام کرتے ہو اور ناداروں کو ضروریات فراہم کرتے ہو۔ تم چلو ، میں تمھیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں۔ چنانچہ صدیقِ اکبرؓ ، ابن دغنہ کے ہمراہ مکہ واپس آ گئے ۔ کچھ عرصہ بعد حضرت ابو بکرؓ نے پناہ واپس کر دی۔ ( تفصیل کے لیے دیکھیے، سیرت النبی ﷺ، ابنِ ہشام )
ہم سمجھتے ہیں کہ ہجرتِ حبشہ سے مکی سماج کو سنگین فکر لاحق ہو گئی تھی کیونکہ اس کے صاحبِ حیثیت افراد مکہ چھوڑ چھوڑ کر جا رہے تھے۔ ( ۱۳) مثلاً حضرت عثمانؓ بن عفان، حضرت زبیرؓ بن العوام ، حضرت مصعبؓ بن عمیر ، حضرت ابوسبرۃؓ بن رہم اور حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف ایسے مہاجرین تھے جن کی مکی سوسائٹی میں ممتاز حیثیت تھی اور یہ اصحابؓ حبشہ ہجرت کرنے والے پہلے مسلم گروپ میں شامل تھے ۔ ایسے میں صدیقِ اکبرؓ جیسی عظیم شخصیت کے چلے جانے سے مکی سماج ، اخلاقی دیوالیہ کا شکار ہو جاتا۔ ابنِ دغنہ کے ان الفاظ پر ذرا غور کیجیے جو اس نے صدیقِ اکبرؓ کی شان میں کہے ۔ کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ان کا کردار ’’ داعی ‘‘ بن کر سامنے آیا ہے ، کیونکہ ان کا شخصی عزم کاملیت کے قریب پہنچاہوا تھا ۔حقیقت تو یہ ہے کہ دوسرے صحابہؓ نے کردار کے جو مراتب ہجرت کرکے حاصل کیے، نبی خاتم ﷺ کے یا رِ غار نے وہ مراتب فقط دو منزل طے کرکے حاصل کر لیے (۱۴) المختصر، ہجرتِ حبشہ نے جہاں ایک طرف نفسیاتی کچوکے لگا کر مکی سوسائٹی کو جھنجھوڑ ڈالا ، وہاں یہ مختلف سطحوں پر شخصی و گروہی عزم کو تقویت دیتے ہوئے داعی کی حیثیت اختیار کرتی چلی گئی ۔ 
ہجرت حبشہ کے حوالے سے سطور بالا میں مذکور توضیح سے اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ نبی خاتم ﷺ نے خود ہجرتِ حبشہ کیوں نہیں کی؟ ہم واضح کر چکے ہیں کہ یہ ہجرت تجربی واقدامی تھی اور اس سے پیش نظر ہجرت مدینہ کے لیے زمین کو ہموار کرنا تھا۔ 

ہجرت مدینہ کے تمہیدی مراحل

حبشہ کی تجربی و اقدامی ہجرت کے گوناگوں اثرات پر نظر رکھتے ہوئے ، مشیتِ الٰہی کے مطابق نبی خاتم ﷺ گروہی ہجرت کے تتماتی لازمے finishing requirements پورے کرتے ہیں ۔ اس سلسلے میں آپ ﷺ کو حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہؓ کی رحلت کے سانحات سے گزرنا پڑتا ہے ۔ حضرت خدیجہؓ گھر کے اندرآپ ﷺ کی غم گسار تھیں تو حضرت ابوطالب گھر کے باہر کفار کے مظالم کے خلاف ڈھال بنے ہوئے تھے ۔ اس لیے ان دوہستیوں کے داغِ مفارقت دے جانے سے رسولِ پاک ﷺ جن مشکل حالات سے دوچار ہوئے ، اس سے آپ ﷺ کا شخصی عزم کاملیت کے اعلیٰ ترین درجے تک پہنچ گیا۔ سیرت النبی ﷺ ابنِ ہشام میں رقم ہے کہ جب ایک گستاخ نے آپ ﷺ کے سر مبارک پر خاک ڈالی اور آپ ﷺ گھر تشریف لائے تو آپ ﷺ کی صاحبزادیوں میں سے ایک صاحبزادی اس کو دھونے لگی اور رونے لگی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا، بیٹی کیوں روتی ہو ؟ اللہ تمھارے باپ کا حافظ ہے ۔ اس وقت آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جب تک ابو طالب زندہ تھے ، قریش مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچا سکے ۔ 
حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد ابولہب بنو ہاشم کا سردار بن گیا ۔ اس نے آپ ﷺ کو ’’کنبہ بدر‘‘ کرنے کا اعلان کر دیا ۔ یہ انتہائی اقدام تھا ۔ حضرت ابوطالب نے قریش کی دھمکیوں ، دباؤ اور معاشرتی مقاطعہ کے باوجود ایسا منفی قدم نہیں اٹھایا تھا لیکن ابولہب نے بغیر کسی دباؤ کے ، آپ ﷺ کی مخالفت میں اپنے طور پر یہ انتہائی قدم اٹھا لیا ۔ اس کے نتیجے میں آپ ﷺ اپنے خانوادے کی حمایت سے محروم ہو گئے ۔ کنبہ بدری کی اس دشوار اور صبر آزما میں نبی پاک ﷺ نے طائف کا سفر کیا تاکہ وہاں سے حمایت و تعاون مل سکے اور دعوتِ اسلام کا فریضہ جاری رہ سکے، لیکن وہاں آپ ﷺ پر جس طرح آوازے کسے گئے ، سنگ باری کی گئی، قلم اس کو بیان کرنے سے قاصر ہے ۔ ذرا غور کیجیے کہ ایک کنبہ بدر فرد پر ایسے حالات بیتیں تو اس پر کیا گزرتی ہے؟ یہ آپ ﷺ کا کامل شخصی عزم ہی تھا کہ آپ ﷺ نے مایوس ہونے کے بجائے اہلِ طائف کے لیے بھی دعا کی۔ یہ محض حسنِ اتفاق نہیں کہ آپ ﷺ طائف سے واپسی پر ’’ غارِ حرا ‘‘ میں ٹھہرے جہاں سے آپ ﷺ نے آدم ؑ کے گم گشتہ عزم کی بازیافت کا آغاز کیا تھا۔ پھر آپ ﷺ مطعم بن عدی کی پناہ میں مکہ واپس آئے کیونکہ کنبہ بدری کے بعدکسی کی پناہ میں آئے بغیر مکہ میں قدم رکھنا نا ممکن ہو چکا تھا۔ یہ وہی مطعم بن عدی ہے جس نے معاشرتی مقاطعہ کے خاتمے میں بھی اپنا کردار ادا کیا تھا۔ اسی لیے حضرت حسان بن ثابتؓ نے اس کے انتقال پر مرثیہ کہا تھا ۔ خیال رہے مطعم کا انتقال کفر کی حالت میں ہوا تھا۔ مکہ واپسی پر آپ ﷺ نے حج کے موقع پر قبائلِ عرب کو اسلام کی دعوت دی ۔ خاتم الانبیاء ﷺ کی پوری مکی زندگی میں ، آپ ﷺ کے اپنے خاندان کو دعوت دینے سے لے کر قبائلِ عرب کو اسلام کی طرف راغب کرنے تک کے سارے دور میں ابولہب سائے کی طرح آپ ﷺ کے پیچھے لگا رہا اور لوگوں کو بدظن کرنے کی کوشش کرتا رہا ۔ سیرت النبی ﷺ / ابنِ ہشام میں مرقوم ہے :
’’ربیعہ بن عباد سے روایت ہے کہ میں نوجوان شخص تھا اور اپنے باپ کے ساتھ حج میں شریک تھا ۔ میں نے دیکھا کہ منیٰ کے مقام پر نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور قبائلِ عرب کے پاس کھڑے ہو کر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے بنی فلاں ! میں تمھاری طرف خدا کا رسول ہوں تم کو اس بات کا حکم دیتا ہوں کہ تم سوا خدا کے کسی کی پرستش نہ کرو اور بت پرستی چھوڑ دو اور مجھ پر ایمان لا کر میری تصدیق کرو اور احکامِ الہی کے جاری کرنے میں میرے شریک ہو جاؤ ۔ 
جب حضور ﷺ یہ فرما چکے تو ایک شخص آپ ﷺ کے پیچھے سے بولا ، جو آنکھ سے بھینگا اور عدن کا حلہ پہنے ہوئے تھا کہ اے بنی فلاں ! یہ شخص تم سے کہتا ہے کہ لات اور عزیٰ کے بت اپنی گردنوں سے نکال کر پھینک دو اور جنوں کی پرستش چھوڑ دو ۔ پس اس بدعت اور گمراہی جس کی طرف یہ تم کو بلاتا ہے ، ہرگز نہ مانو اور نہ اس کی بات سنو ۔ ربیعہ کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے پوچھا یہ کون شخص ہے ؟ انھوں نے کہا یہ آپ ﷺ کا چچا ابولہب بن عبدالمطلب ہے ۔‘‘ 
اس طرح ابولہب نے آپ ﷺ کی مخالفت مسلسل جاری رکھی اور کنبہ بدر کرنے کے بعد آپ ﷺ کو مکہ سے نکال کر ہی دم لیا۔ اس لیے اس کے متعلق یہ سخت وحی اتری : 
تَبَّتْ یَدَا أَبِیْ لَہَبٍ وَتَبَّ () مَا أَغْنَی عَنْہُ مَالُہُ وَمَا کَسَبَ () سَیَصْلَی نَاراً ذَاتَ لَہَبٍ () وَامْرَأَتُہُ حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ () فِیْ جِیْدِہَا حَبْلٌ مِّن مَّسَدٍ (سورۃ اللھب /۱۱۱)
’’ ٹوٹ گئے دونوں ہاتھ ابولہب کے اور نامراد ہو گیا وہ ، نہ کام آیا کچھ اس کے مال اس کا اور ( نہ ) وہ جو اس نے کمایا ، عنقریب جا پڑے گا وہ لپٹیں مارتی آگ میں ، اور اس کی بیوی اٹھائے پھرنے والی ایندھن ، اس کی گردن میں ( ہوگی ) رسی مونجھ کی ۔‘‘ 
اب ایک طرف چراغِ مصطفوی ﷺ تھا، اور دوسری طرف شرارِ بو لہبی۔ ایک طرف عزمِ کامل تھا اور دوسری طرف عزم کو شکستہ کرنے کے حیلے ۔لیکن زمین پر ابلیس کی زندہ علامت ، ابولہب ، دائیں بائیں آگے پیچھے سے حملہ آور ہونے کے باوجود آپ ﷺ کے عزم کاکچھ بھی نہ بگاڑ سکا ۔ آپ ﷺ دینِ حق کی دعوت مسلسل دیتے رہے۔ 
بہرحال حج کے موقع پر قبائل عرب کو دعوت دینے کا عمل نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ بعض روایات کے مطابق مدینہ کے قبائل اوس و خزرج کے درمیان ’’ جنگِ بعاث ‘‘ سے پہلے سوید بن صامت اور ایاس بن معاذ نے مکہ آ کر اسلام قبول کر لیا ۔ اس جنگ میں اوس و خزرج کے کمزور پڑ جانے سے یہودِ مدینہ نے اپنا کھویا ہوا اقتدار حاصل کر لیا ۔ اورس و خزرج اس بات سے آگاہ چکے تھے کہ یہودی انھیں کمزور کرنے کی خاطر آپس میں لڑا رہے ہیں۔ اسی دوران میں خزرج کی ایک جماعت حج کے موسم میں مکہ آئی ۔ آپ ﷺ نے اسے اسلام کی دعوت دی ۔ یہ خزرجی لوگ آپ ﷺ کی ممکنہ بعثت سے آگاہ تھے کیونکہ یہودی انھیں اکثر کہا کرتے تھے کہ عنقریب ایک نبی آنے والا ہے، ہم اس کی اتباع کر کے تم لوگوں کا قلع قمع کر دیں گے ۔ انھوں نے خیال کیا، کہیں یہودی ہم سے سبقت نہ لے جائیں، اس لیے ان لوگوں نے آپ ﷺ کی دعوت پر فوراً لبیک کہا ۔ ان خزرجیوں نے آپ ﷺ سے گزارش کی کہ ہماری قوم اوس و خزرج کے مابین اتنی سخت عداوت اور نفاق ہے کہ شاید ہی کسی دوسری قوم میں ہو ۔ اگر آپ ﷺ اوس و خزرج کو ایک لڑی میں پرو دیں تو پھر آپ ﷺ سے زیادہ ذی عزت شخص کوئی نہیں ہو گا ۔ مدینہ واپس جا کر ان لوگوں نے اپنے عزیزوں اور دوستوں کو قبولِ اسلام کی روداد سنائی اور اسلام لانے کی دعوت دی ۔ پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ اوس و خزرج میں کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس میں نبی خاتم ﷺ کا تذکرہ نہ ہوتا ہو۔
پھراگلے موسمِ حج میں مدینہ سے بارہ اشخاص مکہ آئے اور آپ ﷺ کی بیعت کی ۔ سیرت النبی ﷺ ابنِ ہشام کے مطابق ، عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ ہم نے حضور ﷺ سے عورتوں کی بیعت جیسی [بیعت النساء ]بیعت کی ( کیونکہ ابھی جہاد وقتال کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے )۔ نبی خاتم ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو ان کے ساتھ مدینہ روانہ کیا تاکہ وہ انھیں احکامِ اسلام کی تعلیم دیں اور قرآن شریف پڑھائیں ۔ ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت مصعبؓ ہی ان لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے کیونکہ اوس و خزرج ایک دوسرے کے امام بننے سے خوش نہیں تھے ۔ یہاں پر ہجرتِ حبشہ کا ایک اور ’’اقدامی پہلو‘‘ عیاں ہوتا ہے ۔ حضرت مصعبؓ حبشہ ہجرت کرنے والے پہلے مسلم گروپ میں شامل تھے ۔ حبشہ میں مسلمان جن نا مساعد حالات سے گزرے اور انھیں ایک اجنبی ماحول میں دعوتِ حق کا کام کرنا پڑا، اس سے ان میں صبر اور متانت جیسی خصوصیات پیدا ہوئیں اور دبے بغیر حق بات کو ، مخاطب کی ذہنی سطح کے مطابق کہنے کا سلیقہ آیا ۔اہم بات یہ ہے کہ حبشہ میں ایک تو نجاشی کی ہمدردیاں مسلمانوں کے ساتھ تھیں، دوسرا خود عیسائیت کی مذہبی روایت بھی نرم خو تھی ۔ مدینہ میں حالات اس کے برعکس تھے ، کیونکہ ایک طرف اوس و خزرج کے مابین اختلافات موجود تھے اور دوسری طرف کینہ پرور یہودی اعلیٰ سماجی مقام کے حامل تھے۔ اس لیے اگر حضرت مصعبؓ کو ہجرتِ حبشہ کے تجربے سے گزارے بغیر براہ راست مدینہ بھیجا جاتا تو انھیں وہاں شدید مشکلات پیش آ سکتی تھیں۔ نبی پاک ﷺ کسی ایسے صحابی کو بھی مدینہ جانے کا حکم دے سکتے تھے جنھوں نے حبشہ ہجرت نہیں کی تھی ۔ مصعبؓ کے انتخاب کے پیچھے یقیناًان کی ہجرتِ حبشہ ، آپ ﷺ کے پیشِ نظر تھی ۔اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مدینہ میں حضرت مصعبؓ کی کامیابیوں میں ان کی ہجرتِ حبشہ کے تجربے کا خاطر خواہ حصہ تھا۔ اسید بن حضیرؓ اور سعد بن معاذؓ جو اپنی قوم کے سردار تھے، مصعبؓ کے تدبر کی بدولت بات سننے کے روادار ہوئے اور ان کے اسلوبِ دعوت سے متاثر ہو کر اسلام لے آئے ۔ اس کے بعد ان کی پوری قوم دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی ۔ ابنِ ہشام کے مطابق سوائے بنی اوس کے چند قبائل کے، کچھ عرصہ بعد انصار میں کوئی ایسا گھرانہ باقی نہ بچا تھا جس کے سب مردو عورت مسلمان نہ ہو چکے ہوں ۔
ابنِ ہشام کے مطابق ، حضرت مصعبؓ حج کے موقع پرمدینے سے انصار کے ہمراہ بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے۔ تہتر (۷۳) مرد وں اور دو (۲) عورتوں نے آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ اس موقع پر حضرت عباسؓ نے (جو ابھی غیر مسلم تھے ) فرمایا ، اے گروہِ خزرج ! محمد ﷺ ہمارے اندر جو وقعت اور عزت رکھتے ہیں، تم اس کو خوب جانتے ہو اور ہم ان کے مخالفین سے ان کے محافظ اور ان کو بچانے والے ہیں ۔ مگر ان کا خود یہ ارادہ ہے کہ اس شہر کو چھوڑ کر تمھارے شہر میں چلے چلیں اور تم سے مل جائیں ، اگر تم سمجھتے ہو کہ تم جس بات کی طرف ان کو بلاتے ہو، اس کو پورا کر سکو گے اور ان کے دشمنوں سے ان کو محفوظ رکھو گے تو اس کام کو کرو اور اگر تم سے یہ بات نہ ہو سکے تو بہتر ہے کہ تم اسی وقت جواب دے دو کیونکہ محمد ﷺ اس وقت ہماری حفاظت میں ہیں۔ ایسا نہ ہوکہ تم یہاں سے ان کو لے جا کر پھر ان کے دشمنوں کے سپرد کر دو ۔ ابنِ ہشام کے مطابق کعبؓ کہتے ہیں، ہم نے عباسؓ سے کہا کہ ہم نے آپؓ کی پوری گفتگو سن لی ، پھر ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی ، آپ ﷺ ارشاد فرمائیں اور خدا کے احکام کے متعلق یا اپنی ذات کے متعلق جو کچھ ’’عہد ‘‘ ہم سے لینا ہو، وہ لے لیں۔ رسول پاک ﷺ نے پہلے قرآن شریف پڑ ھ کر سنایا اور خدا کی طرف رغبت دلائی ۔ بعد ازاں فرمایا کہ میں تم سے اس بات کی بیعت لیتا ہوں کہ میری ایسی حمایت کرو گے جیسا کہ تم اپنی عورتوں اور بچوں کی حمایت کرتے ہو ۔ کعبؓ کہتے ہیں یہ سنتے ہی براء بن معرورؓ نے آپ ﷺ کا دستِ مبارک تھام لیا اور عرض کیا ، ہاں بے شک اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، ہم آپ ﷺ کی ایسی ہی حمایت کریں گے جیسی اپنے اہل وعیال کی کرتے ہیں ۔ پھر سب نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی اور عرض کی کہ ہم جنگجو لوگ ہیں اور حرب و پیکار ہماری وراثت میں بزرگوں سے چلی آرہی ہے ۔ پھر ابوالہیثمؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! ہمارے اور یہودیوں کے درمیان قدیمی عداوت ہے ، ہمیں یہ خدشہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو غلبہ دے دے تو آپ کہیں ہمیں چھوڑ کر اپنی قوم کے پاس واپس نہ چلے جائیں ۔ آپ ﷺ نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا: نہیں، اس بات کا تم اطمینان رکھو ، جس سے تم لڑو گے اس سے میں لڑوں گااور جس سے تم صلح کرو گے، اس سے میں صلح کروں گا۔ تمھارا ذمہ میرا ذمہ ہے اور تمھاری حرمت میری حرمت ہے ۔ 
ابنِ ہشام کی ایک روایت کے مطابق جب مقامِ عقبہ میں انصار نبی پاک ﷺ سے بیعت کرنے کے لیے تیار ہوئے تو عباس بن عبادہ بن نضلہ انصاریؓ نے کہا، اے معشر خزرج ! تم جانتے بھی ہو کہ کس بات پر بیعت کر رہے ہو ؟ سب نے کہا، ہاں ہم جانتے ہیں ۔ کہا ، یہ اس بات کی بیعت ہے کہ ہر ایک سرخ و سیاہ آدمی سے تم کو لڑنا ہوگا۔ اگر تمھیں لگتا ہے کہ جب تمھارے مال برباد ہو ں گے اور تمھارے اشراف قتل ہو جائیں گے، اس وقت تم ان سے پھر جاؤ گے تو اسی وقت اس بیعت کو ترک کر دو۔ واللہ ! اگر اُس وقت تم نے ایسا کیا تو دنیا و آخرت کی ذلت تم کو نصیب ہو گی۔ اور اگر تم سمجھتے ہو کہ چاہے کیسی ہی مصیبت تم کو پہنچے ، مال برباد ہو کہ اشراف قتل ہوں، تم اپنی بیعت پر قائم رہو گے تو پھر بسم اللہ ، بیعت کرو کیونکہ اس میں تمھارے لیے دین و دنیا کی خیر و خوبی ہے ۔ سب نے کہا، ہم ان سب باتوں کی بیعت کرتے ہیں۔ (اس بیعت کو اس لیے ’ بیعتِ حرب ‘ بھی کہتے ہیں)۔ پھر عرض کیا ، یا رسول اللہ ﷺ ! جب ہم اس عہد پر پورا اتریں گے تو ہمارے واسطے کیا بدلہ ہے؟ نبی خاتم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جنت ۔ بیعت کے بعد نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے لوگوں میں سے بارہ آدمی میرے سامنے پیش کرو تاکہ میں ان کو ان کی قوم پر نقیب بناؤں ۔ چنانچہ بارہ شخص آپ ﷺ کے سامنے پیش کیے گئے ، جن میں نو خزرج اور تین اوس سے تھے ۔ 
ہم سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور انصارِ مدینہ کے درمیان مذکورہ مکالمے کی کم ازکم تین سطحیں ہیں :
(ا) یہ مکالمہ درحقیقت انصار کا نبی پاک ﷺ کے ساتھ ’’عہد ‘‘ تھا جس پر انصار ہمیشہ کاربند رہے ۔ 
(ب) یہ مکالمہ قیادت (نبی پاک ﷺ )اور گروہ ( انصارِ مدینہ ) کے درمیان معاہدہ تھا جس میں فریقین کی ذمہ داریوں کا تعین موجود تھا ۔ 
(ج) یہ مکالمہ میثاقِ مدینہ کا پیش رو تھا کیونکہ اس کے مندرجات میثاقِ مدینہ میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ انصارِ مدینہ ’’ مکی ‘‘ نہیں تھے، اس لیے انھیں ہجرتِ حبشہ اور ہجرتِ مدینہ کی سعادت بھی نہ مل سکی، اس کے باوجود انھوں نے اس مکالمے میں ’’بے مثال گروہی عزم ‘‘ کا مظاہرہ کیا، ایسا کیونکر ہو سکا ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سوال مطالعہ سیرت کا ایک اہم اور قابلِ اعتنا پہلو ہے جو ہنوز تشنہ ہے ۔ اس سوال کا ایک جواب تو حضرت مصعبؓ کی دعوتی مساعی کے تجزیے میں پوشیدہ ہے۔ (۱۵) اور دوسرا جواب خود انصار کی ان داخلی خوبیوں سے آگاہی میں مستور ہے جو قبل از اسلام بھی ان کی ذات کا حصہ تھیں ۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ :
’’لولاالھجرۃ ، لکنت امرء ا من الانصار ، و لو اندفع الناس فی شعب ، او فی واد ، والانصار فی شعب لاندفعت مع الانصار فی شعبھم‘‘ (صحیفہ ہمام بن منبہ عن ابی ہریرہؓ / تحقیق ڈاکٹر محمد حمیداللہ ؒ )
’’ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی کا ایک آدمی ہوتا ، اگر لوگ ایک گھاٹی یا ایک وادی میں جاتے اور انصار ایک دوسری گھاٹی میں ، تو میں انصار کے ساتھ ان کی گھاٹی میں جاتا ‘‘ ۔
گروہی ہجرت کے تتماتی لازمے کے طور پر اس ’’ تجربی مواخات ‘‘ کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جو مکہ میں سولہ افراد کے درمیان کرائی گئی۔ سیرت کی عام کتب میں اس کا تذکرہ مفقود ہے لیکن محمد بن حبیب ( المتوفیٰ ۲۴۵ھ ) کی کتاب ’المحبر‘ میں اس پر بحث کی گئی ہے (۱۶) ۔ حبشہ کی تجربی و اقدامی ہجرت کے نتائج و عواقب سے آپ ﷺ نے بھانپ لیا تھا کہ ہجرت کے ذریعے سے ایک جاری و ساری سماجی عمل میں اضطرابی لہریں تو برپا کی جا سکتی ہیں ، لیکن ایک نئے سماجی رویے کی آبیاری کے لیے ہجرت ، بنفسہٖ ناکافی ہے۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے ہجرتِ حبشہ کے بعد مکی زندگی میں ہی ، گروہی عزم کو صحیح خطوط پر ایک سماجی رویے میں ڈھالنے کی خاطر ، مواخات کا کامیاب تجربہ کیا ۔ یہ تجربہ ، ہجرتِ مدینہ کے بعد ایک نئے سماج کی تشکیل میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوا ۔ 

گروہی ہجرت کا واقعہ 

تجربی واقدامی اور تتماتی لوازمات کی تکمیل کے بعد آخرکار گروہی ہجرت کا وقت آ پہنچتا ہے :
وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّیْ مِن لَّدُنکَ سُلْطَاناً نَّصِیْراً (بنی اسرائیل ۱۷/۸۰) 
’’ اور دعا کرو کہ اے میرے مالک ! لے جا تو مجھے جہاں بھی لے جائے صدق کے ساتھ اور نکال مجھے جہاں سے بھی نکالے صدق کے ساتھ اور بنا دے تو میرے لیے اپنی جنابِ خاص سے کسی اقتدار کو میرا مددگار ‘‘۔
خیال رہے، حبشہ کے متعلق آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ وہ سر زمین صدق ہے ، اسی طرح نبی پاک ﷺاب صدق کے ساتھ داخل ہونے کے مقام کی وضاحت کرتے ہیں :
امرت بقریۃ تاکل القری یقولون یثرب وھی المدینۃ تنفی الناس کما ینفی الکیر خبث الحدید (صحیح بخاری )
’’مجھے ایک ایسے شہر میں ( ہجرت ) کا حکم ہوا ہے جو دوسرے شہروں کو مغلوب کرے گا۔ اسے یثرب کہتے ہیں لیکن وہ مدینہ ہے ، برے لوگوں کو اس طرح باہر کر دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو‘‘۔
ایسا نہیں کہ گروہی ہجرت کا لمحہ یک دم آ گیا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے لیے نفسیاتی تیاری کافی پہلے سے ہو رہی تھی۔ آپ ﷺ کے تجربی و اقدامی فیصلوں کے علاوہ احکاماتِ قرآنی کے ذریعے مسلمانوں کو ہجرت کی فضیلت ، جواز اور حکمت سے آگاہ کر دیا گیا تھا :
وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُواْ فِیْ اللّہِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُواْ لَنُبَوِّءَنَّہُمْ فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَلَأَجْرُ الآخِرَۃِ أَکْبَرُ لَوْ کَانُواْ یَعْلَمُونَ (النحل ۱۶/۴۱) 
’’ اور وہ لوگ جنھوں نے ہجرت کی اللہ کی خاطر، اس کے بعد کہ ان پر ظلم ہو چکا تھا، ضرور ٹھکانہ دیں گے ہم انھیں دنیا میں بھی اچھا اور اجرِ آخرت تو بہت ہی بڑا ہے ‘‘۔
ثُمَّ إِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ہَاجَرُواْ مِن بَعْدِ مَا فُتِنُواْ ثُمَّ جَاہَدُواْ وَصَبَرُواْ إِنَّ رَبَّکَ مِن بَعْدِہَا لَغَفُورٌ رَّحِیْمٌ (النحل۱۶/۱۱۰) 
’’ جنھوں نے ہجرت کی اس کے بعد کہ وہ آزمائش میں ڈالے گئے پھر انھوں نے جہاد کیا اور صبر کیا ، بے شک تیرا رب ان آزمائشوں کے بعد یقیناًہے بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ‘‘۔
آخر کار نبی خاتم ﷺ مسلمانوں کو حکم دیتے ہیں کہ مدینہ کی طرف ہجرت کر جاؤ ، کیونکہ آپ ﷺ وہاں ’’ مستقر و متاع ‘‘ کا ظاطر خواہ انتظام کرچکے تھے ۔اب ہم گروہی ہجرت کے واقعات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف ان اثرات کا سرسری جائزہ لیتے ہیں جو مکہ اور مدینہ کی سوسائٹیوں پر مرتب ہوئے ۔ 

ہجرت کے لیے مدینہ کا انتخاب

نبی خاتم ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں مدینہ کی اہمیت کے پیشِ نظر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت مدینہ منورہ میں ہی کیوں نہ ہوئی ؟ اس طرح آپ ﷺ کو ہجرت کی جاں گسل کیفیات سے بھی نہ گزرنا پڑتا ۔ہماری رائے میں جہاں تک ہجرت کا تعلق ہے یہ آپ ﷺ کی حیاتِ مطہرہ کا لازمی جزو معلوم ہوتی ہے ۔ ظاہر ہے خدا کے لیے یہ امر مشکل نہ تھا کہ آپ ﷺ کو ہجرت کیے بغیر مکہ میں کامیابی و کامرانی سے سرفراز فرماتا ۔ اب اگر مدینہ میں آپ ﷺ مبعوث ہوتے تو بھی اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو ہجرت کے عمل سے گزارنا تھا ( دنیا کے تاریخی و تکوینی تقاضے بھی بڑے بڑے مصلحوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کرتے رہے ہیں ) ، پھر مدینہ سے آپ ﷺ کے ہجرت کرنے کے بعد آپ ﷺ کے مدینہ پر فتح پانے سے وہ حکمت ظاہر نہیں ہوسکتی تھی جو مکہ فتح کرنے سے مشہود ہوئی ۔ کیونکہ اگر مکہ مفتوح ہونے کے بجائے دارالہجرت قرار پاتا، تو آپ ﷺ ابلیس کی شیطانیت کے مقابل اولادِ آدم ؑ میں سے مخلصین کی حتمی فتح کی علامت نہیں بن سکتے تھے ( جیسا کہ بیان ہو چکا ) ۔ 
مدینہ کے بجائے مکہ میں آپ ﷺ کے مبعوث ہونے میں ایک اور حکمت پوشیدہ ہے اور یہ بھی ہجرت سے منسلک ہے ۔ مدینہ کے باسی بنیادی طور پر زراعت پیشہ تھے اور اہلِ مکہ کی اکثریت تجارت پیشہ تھی ۔ یہ بڑی واضح بات ہے کہ تجارت پیشہ لوگوں کے لیے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہونا ( چاہے دلی رضامندی یا مجبوری کی صورت میں ہو ) نسبتاََ آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے مال و اسباب کے ساتھ نقل مکانی کر سکتے ہیں جبکہ زراعت پیشہ افراد ظاہر ہے زمین اٹھا کر کہیں اور نہیں لے جا سکتے ۔ پھرتجارت سے منسلک افراد عام طور پر نہ صرف نقل مکانی کے مضر اثرات پر جلد قابو پا لیتے ہیں بلکہ نئے ماحول میں اپنی سابقہ ہنر مندی کے ذریعے تیزی سے ترقی کرتے ہیں جبکہ زراعت پیشہ لوگ نہ صرف اپنی زمین سے جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں بلکہ نئے علاقے میں جا کر کاشت کاری ان کے لیے خاصی دوبھر ہوتی ہے ۔اس لیے اگر آپ ﷺ مدینہ میں مبعوث ہوتے تو مدنی لوگوں کو ہجرت کرنے میں کافی دشواری محسوس ہوتی ، اور مکہ کی طرف ہجرت کرنے سے مزید مسائل پیدا ہوتے کیونکہ وہاں قابلِ کاشت زمین ناکافی ہے ، اور اس پر مستزاد تجارت پیشہ لوگ وسیع پیمانے پر اپنی تجارت میں کاشت کاروں کو بھی نہ کھپا سکتے ۔ مکہ میں آپ ﷺ کے مبعوث ہونے اور مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے معکوس عمل وقوع پذیر ہوا ۔ زراعت پیشہ افراد کو اپنی قابلِ کاشت زمین چھوڑنے کے توبہ شکن عمل سے نہ گزرنا پڑا اور تجارت پیشہ مہاجر نئے ماحول میں بوجھ بننے کے بجائے زراعت پیشہ افراد کا ہاتھ بٹاتے ہوئے تجارت کو روز افزوں ترقی دینے لگے ۔ 
ہمارے ہاں کیونکہ عام طور پر ہجرت کے عمل کو romanticise کیا جاتا ہے اور معروضی حقائق اور انسانی فطرت کی مقتضیات سے چشم پوشی کی جاتی ہے اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں چند اہم واقعات کا ذکر کر دیا جائے ۔ 
سیرت النبی ﷺ / ابنِ ہشام کے مطابق حضرت عمرؓ اور حضرت عیاشؓ بن ابی ربیعہ نے اکھٹے ہجرت کی ۔ قباء کے مقام پر ابوجہل بن ہشام اور حرث بن ہشام ، حضرت عیاشؓ کو تلاش کرتے آ پہنچے ، یہ دونوں ان کے چچا زاد اور ماں شریک بھائی تھے ۔ انھوں نے کہا کہ تمھاری ماں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک تمھیں نہ دیکھے گی نہ سر میں کنگھی کرے گی اور نہ سایہ میں بیٹھے گی۔ حضرت عمرؓ نے انھیں بہت سمجھایا کہ یہ تمھیں لے جانے کے لیے ایک چال ہے ۔ مگر وہ کہنے لگے کہ اول تو مجھے ماں کی قسم پوری کرنی ہے دوسرے یہ کہ میرا مال بھی وہاں ہے اس کو لے کر چلا آؤں گا ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ، تمھاری ماں کو جب جوئیں ستائیں گی تو وہ ضرور کنگھی کرے گی اور جب مکہ کی دھوپ اسے بے چین کرے گی تو وہ خودبخود سایہ میں بھاگ آئے گی اور جس مال کا تم کو خیال ہے تو سمجھو کہ تمھارا مال میرے مال کے نصف کے برابر بھی نہیں ہے جو میں چھوڑ آیا ہوں اور میں اس کا خیال تک نہیں کرتا ، حالانکہ میں قریش میں اول درجے کا مال دار ہوں ۔ المختصر ! حضرت عیاشؓ نے حضرت عمرؓ کی نصیحت نہ مانی اور ابوجہل اور حرث کے جھانسے میں آگئے ، انھوں نے مکہ لے جاکر عیاشؓ کو گھر میں قید کر لیا ۔
اسی طرح حاطبؓ بن ابی بلتعہ نے جب اہلِ مکہ کو حضور ﷺ کی روانگی کی اطلاع کا خط ایک عورت کو دے کر بھیجا اور حضرت عمرؓ نے انھیں خائن قرار دے کر آپﷺ سے ان کی گردن اڑانے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے فرمایا : 
یا حاطب ما حملک علی ما صنعت ؟ 
’’ حاطب ، تم نے ایسا کیوں کیا تھا؟ ‘‘
حاطبؓ کا جواب بہت اہم ہے :
’’ حاطبؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ایسا نہیں ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں رکھتا ، بات صرف اتنی ہے کہ میں نے چاہا تھا کہ مکہ کے لوگوں پر میرا احسان ہو جائے اور اس کے بدلہ میں وہ میرے اہلِ خاندان اور میرے مال کی حفاظت کریں ، آپ ﷺ کے جتنے مہاجر صحابہؓ ہیں ان میں ایسا کوئی نہیں جس کے مکہ میں ان کی قوم میں ایسے لوگ نہ ہوں جو ان کے اہلِ و عیال اور مال کی حفاظت نہ کرتے ہوں ( جبکہ میرا وہاں کوئی ایسا شخص نہیں تھا )‘‘ 
حضور ﷺ نے فرمایاکہ سچ کہا ، بھلائی کے سوا ان کے متعلق اور کچھ نہ کہو ، بیان کیا عمرؓ نے دوبارہ کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں سے خیانت کی ہے مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس کی گردن ماروں ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ جنگِ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے نہیں ہیں ؟ تمھیں کیا معلوم اللہ تعالی ان کے اعمال سے واقف تھا اور پھر فرایا کہ جو چاہو کرو میں نے جنت تمھارے لیے لکھ دی ہے ۔ اس پر عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور عرض کی ، اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے ‘‘ ۔ ( صحیح بخاری )
اب ذرا حاطبؓ کے ’’ جواز ‘‘ پر غور فرمائیے ۔کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ نہ صرف مکہ کے مہاجرین کو تجارت پیشہ ہونے کے ناتے مدینہ میں قابلِ انتقال اشیاء لے جانے کی سہولت حاصل تھی بلکہ پیچھے چھوڑے ہوئے مال و اسباب و عزیز رشتے داروں کی حفاظت کا بھی قدرے انتظام موجود تھا ، کیونکہ آپ ﷺ نے بھی حاطبؓ کے جواز پر فرمایا ’’ سچ کہا ، بھلائی کے سوا ان کے متعلق اور کچھ نہ کہو ‘‘۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ ’’ مال و اولاد ‘‘ کے متعلق انسانی فطرت کی مقتضیات سے پوری طرح آگاہ تھے اور اس سلسلے میں خدائی احکامات کی روشنی میں ہر ممکن گنجائش دینے پر تیار تھے، جبکہ فاروقِ اعظمؓ مذکورہ دونوں واقعات میں اپنے شخصی مزاج کا برملا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ 
صدیقِ اکبر کے متعلق نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے :
’’سب سے زیادہ میں جس کی دولت اور صحبت کا ممنون ہوں ، وہ ابوبکرؓ ہیں ۔ اگر میں دنیا میں کسی کو اپنی امت میں سے اپنا خلیل بنا سکتا تو ابوبکرؓ کو بناتا لیکن اسلام کا رشتہ دوستی کے لے کافی ہے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے پاس اکٹھا کر دے۔’‘
لیکن یہی صدیقِ اکبرؓ جو ایک غزوہ کی تیاری کی خاطر گھر کا سارا سامان اٹھا لائے تھے اور آپ ﷺ کے استفسار پر جواب دیا تھا کہ گھر میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو چھوڑ آیا ہوں ، انھوں نے غزوہ بدر کے موقع پر اپنے بیٹے عبدالرحمان کو ، جو مشرکین کے ساتھ آیا تھا ، انسانی فطرت کی طرف اشارہ کر نے کی خاطر اس طرح مخاطب کیا : اے خبیث میرا مال کہاں ہے؟ عبدالرحمن نے جواب دیا :
لم یبق غیر شکۃ ویعبوب وصارم یقتل ضلال الشیب ( سیرت النبی / ابنِ ہشام ) 
’’ ہتھیار اور طرارے بھرنے والے گھوڑے اور اس تلوار کے سوا جو بوڑھے گمراہوں کو قتل کرتی ہے اور کچھ باقی نہیں رہا ۔‘‘ 
اسی طرح ابو احمدؓ نے بھی فتح مکہ کے موقع پر حضور ﷺ سے اپنے اس مکان کے بارے میں عرض کیا جسے ابوسفیان( ان کی ہجرت کے دوران ) فروخت کر چکا تھا۔ یہ تمام واقعات اس امر پر شاہد ہیں کہ زراعت پیشہ لوگوں کی ہجرت سے انسانی فطرت کی مقتضیات کے پیشِ نظر کافی زیادہ پیچیدگیاں جنم لے سکتی تھیں ، اس لیے اللہ رب العزت نے خاص حکمت کے تحت ہی آپ ﷺ کو مدینہ کے بجائے مکہ میں مبعوث فرمایا اور مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا ۔ (۱۷)

ہجرتِ مدینہ اور مکی سماج

آپ ﷺ نے مسلمانوں کو مدینہ کوچ کرنے کا حکم ایک ایسے وقت میں دیا جبکہ مکی سماج ابھی ہجرتِ حبشہ کی پیدا کردہ اضطرابی لہروں سے پوری طرح سنبھل نہ پایا تھا۔ اس سلسلے میں ہجرتِ حبشہ اور ہجرتِ مدینہ کے درمیانی زمانے کا ’’دورانیہ‘‘ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ کسی بھی سطح پر سماجی تبدیلی کے خواہاں ہیں، انھیں اس دورانیے میں مضمر حکمت کا احاطہ کرنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ فرض کریں اگر ہجرتِ حبشہ کے فوراً بعد یا کچھ عرصہ بعد ہی آپ ﷺ مدینہ ہجرت کرنے کا حکم دے دیتے تو دونوں ہجرتوں کا ’’ دورانیہ ‘‘ کم ہونے کے باعث مکی سماج لازماً ’’اضطرابِ محض ‘‘ سے دوچار ہوتا۔ یہ حقیقت میں ’’ دورانیہ ‘‘ ہی ہے جس کی وجہ سے پہلی ہجرت کی اضطرابی لہریں پھیلتی چلی گئیں اور ان کے پیدا کردہ اثرات پورے امکانات سمیت منصہ شہود پر آئے۔ اگر یہ دورانیہ بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہوتا تو پہلے دھچکے کے بعد لگاتار دوسرا دھچکا فکروتردد پیدا کرنے کے بجائے سماجی حواس باختگی اور نفسیاتی بے حسی کا باعث بنتا۔اگر یہ دورانیہ زیادہ طویل ہو جاتا تو پہلے دھچکے کی پیدا کردہ اضطرابی لہریں بالکل معدوم ہو چکی ہوتیں اور دوسرا دھچکا انھیں مہمیز کرنے کے بجائے پرانے عمل کو نئے سرے سے شروع کر دیتا اور چونکہ مکی سماج اس عمل سے گزرنے کے باعث اس سے مانوس ہو چکا تھا، اس لیے اس کے لیے کوئی نئے مسائل پیدا نہ کرتا۔ لہٰذا دونوں ہجرتوں کے درمیانی زمانے کا دورانیہ آپ ﷺ کے اعلیٰ تدبر پر دلالت کرتا ہے ۔ 
سیرت النبی ﷺ ابنِ ہشام کے مطابق مدینہ کی طرف سب سے پہلے ہجرت کرنے والے صحابی حضرت ابو سلمہؓ تھے۔ یہ حبشہ جا کر مکہ واپس آئے تھے اور انھوں نے عقبہ کی بیعت سے ایک سال قبل انصار کے اسلام لانے کی خبر سن کر مدینہ جانے کا قصد کیا۔ یہ اپنی بیوی حضرت ام سلمہؓ اور بچے کو اونٹ پر بٹھا کرابھی روانہ ہی ہوئے تھے کہ حضرت امِ سلمہؓ کے قبیلے کے لوگوں نے انھیں آگھیرا کہ ہماری لڑکی کو کہاں کہاں لیے پھرو گے؟ یہ لوگ حضرت امِ سلمہؓ کو زبردستی چھین کر لے گئے ۔ اس پر حضرت ابو سلمہؓ کے قبیلے کے لوگ بہت خفا ہوئے ، انھوں نے بچے کو یہ کہہ کر حضرت امِ سلمہؓ سے چھین لیا کہ یہ بچہ ابوسلمہؓ کا ہے ۔ اس طرح میاں، بیوی اور بچہ ، تینوں الگ الگ ہو گئے ۔ حضرت ابوسلمہؓ مدینہ چلے گئے ۔ حضرت امِ سلمہؓ ایک سال تک بچے کے بغیر تنہا رہیں۔ پھر ایک روز ان کے چچا کے بیٹوں میں سے کسی نے انھیں روتے دیکھ کر ان کی رہائی کی کوشش کی۔ حضرت ابوسلمہؓ کے خاندان نے بچہ بھی واپس دے دیا ۔ بچہ لینے کے بعد حضرت امِ سلمہؓ تنِ تنہا مدینے کے لیے روانہ ہو گئیں۔ مقامِ تنعیم پر (مکہ سے چند میل کے فاصلے پر ایک مقام) انھیں عثمان بن طلحہ ملا ۔ کہنے لگا ، قسم ہے خدا کی ، میں تمھیں تنہا نہیں جانے دوں گا ۔ اس نے اونٹ کی مہار پکڑی اور چل پڑا ۔ حضرت امِ سلمہؓ کہتی ہیں کہ مہاجرین میں سے جو مصیبت ہم کو پہنچی اور جیسا نیک دل اور بامروت میں نے عثمان بن طلحہ کو پایا، ایسا اور کسی کو نہیں پایا ۔ کہتی ہیں کہ جب ہم کسی منزل پر پہنچتے تو عثمان ، اونٹ کو بٹھا کر خود دور ہٹ جاتے ، جب میں بچے کو لے اتر آتی تو وہ اونٹ کو کسی درخت سے باندھ دیتے اور مجھ سے دور کسی درخت کے نیچے جا لیٹتے۔ جب چلنے کا وقت آتا تو وہ اونٹ کو لا کر بٹھاتے ۔ الگ ہٹ کر کھڑے ہو جاتے اور مجھ سے کہتے سوار ہو جاؤ، میرے سوار ہونے کے بعد اونٹ کی نکیل تھام کر چل پڑتے ۔ جب قبا کی بستی نظر آئی ، تو کہنے لگے تمھارے شوہر وہاں ہیں ، چلی جاؤ ، اللہ تمھیں برکت دے ۔ اس کے بعد جیسے پیدل آئے تھے، ویسے ہی پیدل مکہ کی طرف چل پڑے ۔ 
اس واقعہ کو پیشِ نظر رکھ کر ذرا تھوڑی دیر مکہ کے ان با سیوں کے متعلق سوچیے ، جنھیں ہم آج کے محاورے میں ’’خاموش اکثریت‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ سیاسی سطح پر جتنا بھی منفی ردِ عمل سامنے آیا ہو اور سیاسی فرعونوں نے جتنے بھی منفی حربے استعمال کیے ہوں، اس کے باوجود ایک بات بہت واضح ہے کہ کم از کم مکی سماج، ہجرت اور ہجرت کے اسباب کی بابت کافی حساس ہو چکا تھا اور اپنی روایتی وضع داری کی آڑ میں مہاجرین کے لیے نرم گوشہ رکھے ہوئے تھا۔ مثال کے طور پر سیرت النبی ﷺ ابنِ ہشام میں مذکور اس واقعہ کو لیجیے کہ غزوہ احد میں حضرت عمرؓ کا مقابلہ ضرارؓ سے ( جو ابھی کافر تھے ) ہوا، ضرارؓ نے حضرت عمرؓ کو نیزے کی ڈانڈلگا کر کہا ، اے ابنِ خطاب ! تم چلے جاؤ، میں تم کو قتل نہیں کروں گا ۔ اسی طرح حضرت عبدالرحمن بن ابوبکرؓ جب مسلمان ہوئے تو اپنے عظیم باپ سے کہنے لگے ، بدر کے میدان میں آپؓ میری تلوار کی زد میں آگئے تھے لیکن میں نے والد سمجھ کر چھوڑ دیا ۔ صدیقِ اکبرؓ نے جواب دیا ، بیٹا اگر تم میری تلوار کی زد میںآجاتے تو میں تمھیں کبھی نہ چھوڑتا ۔ باپ بیٹے کے اس مکالمے پر کئی پہلوؤں سے بات ہو سکتی ہے، لیکن عبدالرحمن بن ابوبکرؓ کے الفاظ اور عمل میں ہجرتِ مدینہ کے سماجی اثرات کی تھرتھراہٹیں پوری طرح محسوس کی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح جب بنی جحش نے ہجرت کی اور عتبہ بن ربیعہ ، حضرت عباسؓ جو ( ابھی غیر مسلم تھے ) اور ابوجہل کا ان کے مکانوں کی طرف گزر ہوا تو عتبہ بن ربیعہ نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر یہ شعر پڑھا :
و کل دار و ان طالت سلامتھا
یوما ستدرکھا النکباء والحوب
’’ کوئی گھر کتنا ہی زمانہ دراز تک سلامت رہے، آخر ایک روز اس کے واسطے زوال اور ویرانی ضروری ہے ‘‘ ۔
پھر عتبہ نے کہا دیکھو ، بنی جحش کا گھر بھی رہنے والوں سے خالی ہو گیا ۔ ابوجہل نے کہا ، یہ ساری کارروائی میرے بھتیجے محمد ﷺ کی ہے ، اسی نے ہماری جماعتوں کو متفرق کیا ہے ہمارے درمیان جدائی ڈالی ہے اور تفرقہ اندازی کی ہے ۔اس باہمی گفتگو میں عتبہ بن ربیعہ کی حسرت اور ابوجہل کی تلملاہٹ صاف چغلی کھا رہی ہیں کہ ہجرتِ مدینہ سے مکی سماج متزلزل ہو گیا تھا۔ اس کے بعد میدانِ بدر میں شکستِ فاش سے مکی سماج کو ایک اور زبردست دھچکا لگا ۔ اس غزوہ میں کفار کے بڑے بڑے جنگی سورما قتل ہوئے اور باقی قیدی بنا لیے گئے۔ 
یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بدر میں کفار کی عبرت ناک شکست کے بعد اسلامی لشکر نے (اگر اسے لشکر کہنا مناسب ہو) پیش قدمی کرکے آخر مکہ پر قبضہ کیوں نہیں کر لیا ؟ اس وقت میثاقِ مدینہ کی وجہ سے پشت پر یہود کے حملے کا خطرہ بھی فی الحال موجود نہیں تھا ۔ ہماری رائے میں مکہ کی طرف پیش قدمی نہ کرنے کی چند وجوہات یہ ہو سکتی ہیں :
(ا) اسلامی معاشرہ ابھی تشکیلی دور (Formative Phase) میں تھا اس لیے فتح مکہ کی صورت میں مکی سماج کو پیش کرنے کے لیے متبادل نظامِ اقدار(Alternative System of Norms & Values) موجود نہیں تھا۔ 
(ب) اسلام ایک عسکری قوت کے طور پر ابھی اتناطاقتور نہیں تھاکہ محض طاقت کے بل بوتے پر تادیر مکہ پر قبضہ برقرار رکھ سکتا۔
(ج) سیاسی و عسکری میدان میں شکست کھانے کے باوجود مکہ میں سماجی سطح پر اسلام مخالف خیالات و جذبات لازماً موجود ہوتے، کیونکہ کسی کا بھائی، کسی کا بیٹا، اور کسی کا باپ بدر میں قتل ہوا تھا یا قید ہوا تھا (۱۸) ۔ اور یہ حقیقت نوشتہ دیوار ہے کہ فاتح قوم کو اگر مفتوح قوم کا ’’سماج‘‘ قبول نہ کرے تو بغاوتیں برپا ہوتی رہتی ہیں ۔ اس لیے اندریں حالات مکہ پر قبضہ ایک پرآشوب دور کا آغاز ہوتا ، جس کا اسلامی معاشرہ اپنے تشکیلی دور میں ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا تھا ۔ بغاوتوں کا قلع قمع کرنے کے چکر میں اسلامی معاشرے کے اندر ( تشکیلی دور میں ہونے کی وجہ سے) ظلم و بربریت جیسے عناصر سرایت کر جاتے اور مستقبل میں اسلامی معاشرہ نظامِ اقدارکے بجائے بربریت کی علامت(Symbol of Barbarism) سمجھا جاتا ۔ 
(د) اسلام کی عسکری فتح کے خلاف اہلِ مکہ کی سماجی مدافعت(Social Resistance) بڑھتی چلی جاتی اور مسلمانوں کو بالآخر پسپائی اختیار کرنی پڑتی ، اس طرح مکہ پر قبضہ عارضی ثابت ہوتا ۔ اس سے کفار کو تقویت ملتی اور مسلمانوں کو ہزیمت اٹھانی پڑتی ، جس کے نتیجے میں اسلام کے بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے ۔ 
اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ بدر کے میدان میں شاندارعسکری کامیابی کے بعد مسلمانوں کی مدینہ واپسی نبی خاتم ﷺ کے اعلیٰ تدبر پر دلالت کرتی ہے۔ مکی سماج کی سیاسی قیادت نے بدر میں شکستِ فاش پر پیچ و تاب کھاتے ہوئے احد و احزاب کے میدان لگائے اور پھر شکست سے دوچار ہوئے ۔ مسلمانوں کی ان پے در پے فتوحات کے متوازی اسلامی معاشرہ بھی ارتقائی منازل طے کر رہا تھا اور گروہی عزم ’’ سماجی کردار ‘‘ میں مسلسل ڈھل رہا تھا ۔اس کے برعکس مکی سماج جو دو ہجرتوں سے پہلے ہی داخلی توڑ پھوڑ کا شکارتھا، عسکری میدان میں مسلسل پسپائی اور نامور سرداروں کے قتل ہونے سے مزید شکست خوردہ اور ذہنی خجالت کا شکار ہوتا چلا گیا۔ اس دوران میں اہلِ مکہ کو مسلم گروہی عزم کے چشم کشا سماجی کردار سے بھی مسلسل واسطہ پڑ رہا تھا ۔ آپ ﷺ نے جب قحط کے زمانے میں مکہ میں غلہ بھیجنے کی پابندی اٹھا لی اور پانچ سو اشرفیاں بھی غربا کی امداد کی خاطر بھیجیں تو یقیناًاس سے مکی سماج متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔امداد بھیجنے کا آپ ﷺ کا یہ فیصلہ صرف سیاسی فیصلہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے گروہی عزم کا سماجی کردار بدرجہ اتم موجود تھا۔ اسی طرح صلح حدیبیہ بھی آپ ﷺ کی مدبرانہ قیادت ، مسلم گروہی عزم اور سماجی کردار کی آئینہ دار ہونے کے ناتے ایک مکمل نظامِ اقدار کی حامل تھی، اسی لیے اسے ’فتح مبین‘ کہا گیا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غزوہ بدر کے بعد سے ۸ ہجری تک کے حالات و واقعات ، مکی سماج کے باطل نظامِ اقدار کو تہس نہس کر چکے تھے ۔ آپ ﷺ حضرت امِ حبیبہؓ سے نکاح کر چکے تھے جن کے شوہر عبیداللہ بن جحش حبشہ جاکر مرتد ہو گئے تھے اور وہ مکہ کے سردار ابوسفیانؓ کی بیٹی تھیں، اس لیے جب مسلمانوں نے نبی خاتم ﷺ کی قیادت میں مکہ کی طرف پیش قدمی کی تو اہلِ مکہ کی سیاسی قیادت ( ابو سفیانؓ ، جو ابھی غیر مسلم تھے ) بے دست و پا ہو چکی تھی کیونکہ خالد بن ولیدؓ اور عمرو بن عاصؓ جیسے حربی نابغے اسلام قبول کر چکے تھے جن کے متعلق نبی پاک ﷺ نے مسلمانوں سے فرمایا تھا کہ مکے نے تمھارے سامنے اپنے جگر کے ٹکڑے ڈال دیے ہیں۔ لہٰذا جب مکہ فتح ہوا تو مکی سماج اسلامی نظامِ اقدار کو قبول کرنے کے لیے پوری طرح تیار کھڑا تھا کیونکہ اس وقت تک خود اسلامی معاشرہ بھی اپناتشکیلی دور پورا کر چکا تھا ۔ اس لیے فتح مکہ کے موقع پر کوئی سماجی ردِ عمل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی فتح مکہ کے بعد سماجی سطح پر کوئی منفی صورتِ حال پیدا ہوئی ۔ اگر ہم دیگر اقوام کی فتوحات کا فتح مکہ سے موازنہ کریں تو معلوم ہو گا کہ مفتوح قومیں سیاسی و عسکری میدانوں میں شکست کھا نے کے باوجود سماجی سطح پر فاتح قوم کے غلبے کو اکثر و بیشتر قبول نہیں کرتی تھیں، جس کی وجہ سے فاتح قوم کو بسا اوقات سماجی ہم آہنگی کی خاطر اپنی اساسی اقدار پر بھی سمجھوتہ کرنا پڑتا تھا ، جس کے نتیجے میں وہ حقیقتاً خود مفتوح ہو جاتی تھی ۔اگر فاتح قوم سماجی ہم آہنگی کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتی تو اس کا لازمی نتیجہ فاتح اور مفتوح، دو فریقوں کی صورت میں رونما ہوتا تھا ، جو ہمیشہ ایک دوسرے کے حریف بنے رہتے تھے ۔ لیکن فتح مکہ کے بعد ایسی کوئی صورتِ حال پیدا نہیں ہوئی ، فاتح و مفتوح کے کسی تصور نے جنم نہیں لیا اور نہ ہی اسلامی اساسی اقدار پر کوئی سمجھوتہ کیا گیا۔ (۱۹) 

ہجرتِ مدینہ اور مدنی سماج 

ہجرتِ مدینہ کے بعد چند برسوں کے اندر ہی مدنی سماج میں جو دیرپا انقلابی تبدیلی رونما ہوئی ، تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ مدینہ کسی ایک قبیلے کا شہر نہیں تھا ، اس میں اوس ا ور خزرج رہائش پذیر تھے جبکہ مکہ میں صرف قریش اور طائف میں صرف ثقیف بستے تھے۔ اسی طرح مکہ اور طائف کے برعکس مدینے کے تمام باشندے عرب نہیں تھے ، ان میں کافی بڑی تعداد میں یہودی بھی موجود تھے۔ اس لیے مسلمانوں کی ہجرتِ مدینہ سے قبل ہمیں ایک طرف اوس و خزرج باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں تو دوسری طرف یہود کے ساتھ ان کی کشمکش و چپقلش کے مناظر دکھائی دیتے ہیں ۔ نسل در نسل مخاصمت کی وجہ سے اوس و خزرج اور یہود ایک دوسرے کی قیادت قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ مدینے کے ایسے بحرانی حالات میں آپ ﷺ کی تشریف آوری کو قریشِ مکہ کی دھمکیوں کے باوجود غیر جانبدارانہ انداز میں لیا گیا اور ایک چوتھا گروہ مہاجرین کے روپ میں مدنی معاشرت کے مجموعی دھارے میں شامل ہو گیا۔ سیرت النبی ﷺ ابنِ ہشام کے مطابق نبی خاتم ﷺ نے مدینہ تشریف آوری کے بعد اپنے دوسرے خطبے میں مسلمانوں کو خدا سے کیے گئے ’’ عہد ‘‘ کی پاسداری کا درس دیا ، آپ ﷺ نے فرمایا :
’’ اور خدا سے جو عہد کیا ہے، اس کو سچا کر دکھاؤ اور آپس میں اس روحِ ایمانی کے ساتھ جو تمھارے اندر داخل ہوئی ہے، ایک دوسرے سے محبت کرو ۔ بے شک اللہ اس بات سے غضب ناک ہوتا ہے کہ اس کا عہد توڑا جائے ‘‘ ۔
نبی پاک ﷺ نے مدنی دور کے آغاز میں جس طرح عہد پر زور دیا، اتنی وضاحت کے ساتھ یہ امر ہمیں مکی دور میں نظر نہیں آتا، مثلاً مکی دور کی یہ آیت دیکھیے :
وَأَوْفُواْ بِعَہْدِ اللّہِ إِذَا عَاہَدتُّمْ وَلاَ تَنقُضُواْ الأَیْْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِہَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّہَ عَلَیْْکُمْ کَفِیْلاً إِنَّ اللّہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ ( النحل ۱۶/۹۱)
’’ اور پورا کرو اللہ کا عہد جب بھی تم نے اس سے کوئی عہد کیا ہو اور مت توڑو قسمیں بعد ان کو پختہ کرنے کے اور جب کہ بنا چکے ہو تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ ، بے شک اللہ جانتا ہے اس کو جو تم کرتے ہو ‘‘ ۔
مدنی دور میں ’عہد‘ کے ساتھ ساتھ ’ میثاق ‘ کے لفظ کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا اور اس کا رسول ﷺ ’’پختہ عہد‘‘ لینے سے قبل عہد نبھانے کے لیے لازم ’’عزم‘‘ کی پختگی چاہتے تھے ۔ہجرتِ مدینہ تک کے عرصہ میں مسلمانوں کا شخصی و گروہی عزم پختہ ہو چکا تھا۔ یہ عزم ایک مرحلہ شوق طے کر کے مسلم معاشرت کے بنیادی خاکے کی تشکیل کر چکا تھا ۔ اب وقت آ گیا تھا کہ ارتقا پذیر مسلم معاشرے سے ’’ پختہ عہد ‘‘ لے لیا جائے کہ پختہ عزم اب اسے پختہ عہد سے مکمل غافل نہیں ہونے دے گا :
الَّذِیْنَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللَّہِ مِن بَعْدِ مِیْثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّہُ بِہِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِیْ الأَرْضِ أُولَءِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ ( البقرۃ ۲ / ۲۷)
’’جو توڑ دیتے ہیں اللہ کے عہد کو مضبوط کرنے کے بعد اور قطع کرتے ہیں ان ( رشتوں ) کو کہ حکم دیا ہے اللہ نے جن کے جوڑنے کا اور فساد برپا کرتے ہیں زمین میں ، یہی لوگ ہیں حقیقت میں نقصان اٹھانے والے۔‘‘ 
بَلَی مَنْ أَوْفَی بِعَہْدِہِ وَاتَّقَی فَإِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ ( آٰل عمران ۳/۷۶ )
’’ہاں ! جس نے پورا کیا اپنا عہد اور اللہ سے ڈرا تو بے شک اللہ محبوب رکھتا ہے تقویٰ اختیار کرنے والوں کو‘‘۔
چونکہ میثاقِ مدینہ میں مسلم اور غیر مسلم دونوں گروہ شامل تھے ، اس لیے اس وحدت کے باوجود معاشرت و سیاست میں اسلامی تشخص (Islamic Identity) کی امتیازی حیثیت کا اظہار ’’ایفا‘‘ جیسی اہم قدر سے ہوتا رہا ۔ اس کے برعکس غیر مسلم تشخص (Non Muslim Identity) کا اظہار عہد شکنی سے منسلک رہا ۔ 
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللّہِ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ فَہُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ () الَّذِیْنَ عَاہَدتَّ مِنْہُمْ ثُمَّ یَنقُضُونَ عَہْدَہُمْ فِیْ کُلِّ مَرَّۃٍ وَہُمْ لاَ یَتَّقُون ( الانفال ۸ /۵۵،۵۶)
’’بے شک سب سے برے زمین میں چلنے والی مخلوق میں سے ، نزدیک اللہ کے وہ لوگ ہیں جنھوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا۔ سو یہ ( اب ) ایمان نہ لائیں گے۔ ( خصوصاً) وہ لوگ کہ معاہدہ کیا تھا تم نے ان سے، پھر توڑ دیتے رہے وہ اپنے عہد کو ہر موقع پر اور وہ ( اللہ سے ذرا ) نہیں ڈرتے‘‘۔
الَّذِیْنَ عَاہَدتَّ مِنْہُمْ ثُمَّ یَنقُضُونَ عَہْدَہُمْ فِیْ کُلِّ مَرَّۃٍ وَہُمْ لاَ یَتَّقُون ( الانفال ۸/۵۶)
’’ ( خصوصاً ) وہ لوگ کہ عہد کیا تھا تم نے ان سے، پھر توڑ دیتے رہے وہ اپنے عہد کو ہر موقع پر اور وہ ( اللہ سے ذرا) نہیں ڈرتے‘‘ ۔
أَوَکُلَّمَا عَاہَدُواْ عَہْداً نَّبَذَہُ فَرِیْقٌ مِّنْہُم بَلْ أَکْثَرُہُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ ( البقرۃ ۲/۱۰۰)
’’ کیا ( ایسا نہیں ہوتا رہا کہ) جب بھی انھوں نے کوئی عہد کیا تو اٹھا کر پھینک دیا اس کو ایک گروہ نے ان ہی میں سے ، حقیقت تو یہ ہے کہ ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے ‘‘۔
بہت جلد ہی مدنی معاشرت کی ساخت میں بنیادی تبدیلی رونما ہونی شروع ہوئی ۔ میثاقِ مدینہ اور مواخات کے ذریعے مدنی معاشرے کی ایک نئی تقسیم عمل میں آئی۔ مواخات کے باعث اوس و خزرج اور مہاجر مسلمان ایک معاشرتی وحدت میں ڈھلتے چلے گئے اور میثاقِ مدینہ میں مسلمانوں کے باہمی حقوق و فرائض کے علاوہ یہودیوں کا مقام متعین ہونے سے معاشرتی و سیاسی نظم ، تنوع آشنا ہوتا گیا۔ (۲۰) اس وقت مدینے کی دس ہزار (۱۰۰۰۰) آبادی میں مسلمان صرف پانچ سو ( ۵۰۰) کی تعداد میں تھے ۔ اس لیے Demographic Balance واضح طور پر یہودیوں کے حق میں تھا ۔ یہ یقیناًتشویش ناک صورتِ حال تھی اور ا س میں مزید نزاکت اس طرح پیدا ہوئی کہ ہجرت کے بعد کچھ عرصہ تک مہاجرین کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا، جس کا یہودیوں نے خوب منفی پراپیگنڈا کیا۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے رسولِ پاک ﷺ نے خدائی حکم کی اتباع میں مدینہ کو دارالہجرت قرار دے کر اسلام کی قبولیت کو ہجرت کے ساتھ مشروط کر دیا:
وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ وَلَمْ یُہَاجِرُواْ مَا لَکُم مِّن وَلاَیَتِہِم مِّن شَیْْءٍ حَتَّی یُہَاجِرُواْ ( الانفال ۸/۷۲)
’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے لیکن انھوں نے ہجرت نہیں کی ، نہیں ہے تمھیں ان کی رفاقت سے کچھ بھی (تعلق ) جب تک کہ ( نہ ) ہجرت کر آئیں وہ بھی۔ ‘‘ 
وَدُّواْ لَوْ تَکْفُرُونَ کَمَا کَفَرُواْ فَتَکُونُونَ سَوَاء فَلاَ تَتَّخِذُواْ مِنْہُمْ أَوْلِیَاء حَتَّیَ یُہَاجِرُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَخُذُوہُمْ وَاقْتُلُوہُمْ حَیْْثُ وَجَدتَّمُوہُمْ وَلاَ تَتَّخِذُواْ مِنْہُمْ وَلِیّاً وَلاَ نَصِیْراً ( النساء ۴/۸۹)
’’دل سے چاہتے ہیں (یہ منافق ) کہ کاش تم بھی کافر ہو جاؤ جیسے کافر ہو گئے ہیں وہ تاکہ ہو جاؤ تم ( اور وہ ) ایک جیسے ، لہٰذا مت بناؤ تم ان میں سے کسی کو دوست جب تک کہ نہ ہجرت کریں وہ اللہ کی راہ میں ، پھر روگردانی کریں وہ ( ہجرت سے) تو پکڑو انھیں اور قتل کرو جہاں کہیں پاؤ تم انھیں اور نہ بناؤ تم ان میں سے کسی کو دوست اور نہ مددگار ‘‘ ۔
ایمان کو ہجرت کے ساتھ منسلک کرنے کے علاوہ ترہیبی احکامات سے ہجرت کے عمل کو تیز کیا گیا :
إِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفَّاہُمُ الْمَلآئِکَۃُ ظَالِمِیْ أَنْفُسِہِمْ قَالُواْ فِیْمَ کُنتُمْ قَالُواْ کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِیْ الأَرْضِ قَالْوَاْ أَلَمْ تَکُنْ أَرْضُ اللّہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُواْ فِیْہَا فَأُوْلَئِکَ مَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَسَاءتْ مَصِیْراً () إِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ لاَ یَسْتَطِیْعُونَ حِیْلَۃً وَلاَ یَہْتَدُونَ سَبِیْلاً (النساء ۴ / ۹۷، ۹۸) 
’’بے شک وہ لوگ کہ روح قبض کریں گے ان کی فرشتے اس حال میں کہ وہ ظلم کر رہے تھے اپنی جانوں پر ، پوچھیں گے ان سے فرشتے ، تم کیا کرتے رہے ؟ وہ کہیں گے ، تھے ہم کمزور اور بے بس اپنی سر زمین میں ۔ فرشتے کہیں گے کیا نہیں تھی اللہ کی زمین وسیع کہ ہجرت کر جاتے تم اس میں؟ سو یہی وہ لوگ ہیں کہ ٹھکانہ ہے ان کا جہنم اور وہ بہت بری جگہ ہے ‘‘ ۔
اس کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا اور مدینے کے باہر کے نو مسلموں کے مدینہ میں بسنے سے مسلم آبادی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مسلم آبادی میں اضافے کے باوجود ایک بڑا خطرہ مدینے کی وباؤں کی شکل میں موجود تھا ، مدینے کو یثرب( ہلاکت کی جگہ ) بھی غالباً انھی وباؤں کی وجہ سے کہا جاتا تھا ۔حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں :
’’ جب ہم مدینہ آئے تو یہ خدا کی سب سے زیادہ وبا والی سر زمین تھی ، انھوں نے ( اس کی وجہ بتائی ) کہ وادی بطحان ( مدینہ کی ایک وادی ) سے متعفن اور بد بودار پانی بہا کرتا تھا ‘‘ ۔ ( صحیح بخاری ) 
اب مہاجرین کے دل ایک طرف غریب الوطنی سے چھلنی تھے اور دوسری طرف وباؤں نے ان کا جینا دوبھر کر دیا تھا ۔ بلا لؓ کا جب بخار اترتا تو وہ بلند آواز سے یہ شعر پڑھتے : 
الا لیت شعری ہل ابیتن لیلۃ بواد وحولی اذخر وجلیل
وہل اردن یوما میاہ مجنۃ وہل یبدون لی شامۃ وطفیل
’’ کاش ! ایک رات میں مکہ کی وادی میں گزار سکتا اور میرے چاروں طرف اذخر اور جلیل( گھاس ) ہوتیں۔ کاش! ایک دن میں مجنہ کے پانی پر پہنچتا اور کاش میں شامہ اور طفیل ( پہاڑوں ) کو دیکھ سکتا۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی، اے اللہ ! شیبہ بن ربیعہ ، عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف کو اپنی رحمتوں سے دور کر دے جس طرح انھوں نے ہمیں اپنے وطن سے اس بیماری کی زمین میں نکالا ہے ۔‘‘ ( صحیح بخاری ) 
نبی پاک ﷺ نے مہاجرین کے قدم جمانے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی :
اللھم حبب الینا المدینۃ کحبنا مکۃ او اشد اللہم بارک لنا فی صاعنا وفی مدنا وصححہا لنا وانقل حما ھا الی الحجفۃ ( صحیح بخاری )
’’ اے اللہ ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اسی طرح پیدا کردے جس طرح مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ، اے اللہ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما اور اسے ہمارے مناسب کر دے ، یہاں کے بخار کو حجفہ منتقل کردے ‘‘ ۔
اس سنگین صورتِ حال میں بعض نو مسلم دینِ حق سے برگشتہ ہونے پر تلے ہوئے تھے، ان کی برگشتگی کے مضر اثرات کا تدارک بھی بہت ضروری تھا۔ ایک اعرابی نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام پر بیعت کی ، دوسرے دن آیا تو اسے بخار چڑھا ہوا تھا ، کہنے لگا کہ میری بیعت فسخ کر دیجیے ، آپ ﷺ نے تین مرتبہ تو انکار فرمایا ، پھر کہا :
انھا تنفی الرجال کما تنفی النار خبث الحدید (صحیح بخاری)
’’ مدینہ ( برے لوگوں ) کو اس طرح دور کرتا ہے جس طرح آگ لوہے کا میل کچیل دور کر دیتی ہے ‘‘۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مصائب میں گھرے مہاجرین کی بابت فرمایا : 
وَمَن یُہَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ یَجِدْ فِیْ الأَرْضِ مُرَاغَماً کَثِیْراً وَسَعَۃً وَمَن یَخْرُجْ مِن بَیْْتِہِ مُہَاجِراً إِلَی اللّہِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُہُ عَلی اللّہِ وَکَانَ اللّہُ غَفُوراً رَّحِیْما (النساء ۴/ ۱۰۰) 
’’ اور جو شخص ہجرت کرے گا اللہ کی راہ میں ، پائے گا وہ زمین میں ٹھکانے بہت سے اور فراخی اور جو نکلا اپنے گھر سے ہجرت کر کے اللہ اور رسول ﷺ کی طرف ، پھر آ لیا اس کو موت نے تو ہو گیا اس کا اجر اللہ کے ذمہ ، اور ہے اللہ بے حد معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ‘‘ ۔
رسول اکرم ﷺ نے بھی ارشاد فرمایا:
من استطاع ان یموت بالمدینۃ فلیمت بھا فمن فات بالمدینۃ کنت لہ شفیعا یوم القیامۃ ( ترمذی، مسند احمد ) 
’’ جو شخص مدینہ میں وفات پا سکتا ہو، اسے مدینہ میں وفات پانا چاہیے اور جو شخص مدینہ میں وفات پائے گا، قیامت کے دن میں اس کی سفارش کروں گا ‘‘ ۔
خدا اور اس کے رسول ﷺ کے ان احکامات سے یقیناًمسلمانوں کو بہت حوصلہ ہوا اور ہجرت کرنے اور مدینہ میں رہنے کی مزید ترغیب ملی ۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ صرف غیر مدنی نو مسلموں کو ہی مدینہ میں رہنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ مدینہ میں پہلے سے موجود مسلمانوں کو بھی ان کی نصرت پر ابھارا گیا ، جس کے نتیجے میں یہ دوطرفہ عمل تیزی سے ثمر آور ہوتا گیا : 
وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ وَہَاجَرُواْ وَجَاہَدُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالَّذِیْنَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُولَئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقّاً لَّہُم مَّغْفِرَۃٌ وَرِزْقٌ کَرِیْمٌ ( الانفال ۸/ ۷۴ ) 
’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اللہ کی راہ میں اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی ( ان کو ) اور مدد کی ، یہی لوگ ہیں جو مومن ہیں سچے ان کے لیے ہے بخشش اور روزی عزت کی ‘‘ ۔
اس کے باوجود مکہ کے مقابلے میں مدینہ کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں تھی۔ مکہ صدیوں سے عالمِ انسانیت کا مرکز چلا آرہا تھا اور اس وقت بھی لوگوں کے اذہان میں مکہ کی یہی اہمیت جا گزیں تھی ۔ آپ ﷺ نے مدینے کی فضیلت اجاگر کرنے کے لیے دعا فرمائی : 
اللہم ان ابراہیم عبدک وخلیلک ونبیک وانی عبدک ونبیک وانہ دعاک لمکۃ وانی ادعوک للمدینۃ بمثل ما دعاک للمدینۃ ومثلہ معہ ( صحیح مسلم ) 
’’ اے اللہ ! ابراہیم ؑ تیرے خاص بندے ، تیرے دوست اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں ۔ انھوں نے مکہ کی خیروبرکت کے لیے تجھ سے دعا کی تھی اور میں بھی مدینہ کی خیر و برکت کے لیے تجھ سے دعا کرتا ہوں بلکہ اتنی ہی اور زیادہ ۔‘‘ 
اللھم اجعل بالمدینۃ ضعفی ما جعلت بمکۃ من البرکۃ ( صحیح بخاری )
’’ اے اللہ ! جتنی آپ نے مکہ میں برکت عطا فرمائی ہے مدینہ میں اس سے دوگنی برکت نازل فرمائیے ‘‘ 
اور مکہ کی طرح مدینہ کو بھی آپ ﷺ نے حرم قرار دیا :
المدینۃ حرم ما بین عیر و ثور ( صحیح مسلم )
’’مدینہ عیر سے ثور تک حرم ہے ‘‘ ۔
ان ابراہیم حرم مکۃ وانی حرمت المدینۃ (صحیح مسلم)
’’ ابراہیم ؑ نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں ۔‘‘ 
ما بین لا بتیھا حرام ( صحیح بخاری ) 
’’مدینہ کے دو پتھریلے علاقے کے درمیان حرم ہے‘‘۔
اس طرح خدا اور اس کے رسول ﷺ کے واضح فرمودات سے نو مسلموں کی ہجرت کا سلسلہ جاری رہا اور غیر مسلموں کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد بڑھنے سے مدینہ میں اسلامی معاشرہ ارتقائی منازل طے کرتا چلا گیا ۔ایک اندازے کے مطابق ۲ہجری تک مسلمانوں کی تعداد تقریباً پندرہ سو (۱۵۰۰ ) کے لگ بھگ ہو گئی تھی۔ (۲۱) خیال رہے کہ مکی مہاجرین کے علاوہ دیگر مہاجرین کے’’ عزم کی تشکیل اور پختگی ‘‘کا اہتمام مدینے کی مضرِ صحت آب و ہوا سے ہو گیا تھا۔ یہ سب مسلمان مدینے کی بھٹی سے گزر کر جوہر کی صورت میں سامنے آئے تھے، اس لیے کسی قسم کی شخصی میل کچیل، اسلامی معاشرے کی بنیادی ساخت میں کسی طور شامل نہ ہو سکی۔ مدینہ میں رہنے کے لیے مہاجرین کی دلی آمادگی کے بعد ، طرزِ معاشرت کا رخ متعین کرنے کے لیے عورتوں کے متعلق رویہ اس طرح سامنے آیا :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا جَاء کُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوہُنَّ اللَّہُ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِہِنَّ فَإِنْ عَلِمْتُمُوہُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوہُنَّ إِلَی الْکُفَّارِ لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلُّونَ لَہُنَّ وَآتُوہُم مَّا أَنفَقُوا وَلَا جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ أَن تَنکِحُوہُنَّ إِذَا آتَیْْتُمُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ وَلَا تُمْسِکُوا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنفَقْتُمْ وَلْیَسْأَلُوا مَا أَنفَقُوا ذَلِکُمْ حُکْمُ اللَّہِ یَحْکُمُ بَیْْنَکُمْ وَاللَّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (الممتحنۃ ۶۰/۱۰ ) 
’’ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب آئیں تمھارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے تو ان کی خوب جانچ پڑتال کر لو ، اللہ بہتر جانتا ہے ان کے ایمان کو ، پس اگر تمھیں معلوم ہو جائے کہ وہ ایمان والی ہیں تو نہ واپس کرو تم انھیں کافروں کی طرف ، نہ وہ عورتیں حلال ہیں ان کافروں کے لیے اور نہ وہ کافر مرد حلال ہیں ان عورتوں کے لیے ، اور دے دو تم ان کافروں کو جو مہر انھوں نے ادا کیے تھے اور نہیں ہے کچھ گناہ تم پر اس میں کہ نکاح کر لو تم ان سے بشرطیکہ ادا کردو تم ان کو مہر ان کے ، اور مت روکے رکھو ( اپنی زوجیت میں) کافر بیویوں کو اور مانگ لو جو (مہر) تم نے دیے تھے اور چاہیے کہ کافر بھی مانگ لیں وہ مہر جو انھوں نے ادا کیے تھے ، یہ اللہ کا حکم ہے جس کے مطابق وہ فیصلہ کر رہا ہے تمھارے درمیان ، اور اللہ ہے سب کچھ جاننے والا اور بڑی حکمت والا ‘‘۔
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِیْ آتَیْْتَ أُجُورَہُنَّ وَمَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّا أَفَاء اللَّہُ عَلَیْْکَ وَبَنَاتِ عَمِّکَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِکَ وَبَنَاتِ خَالِکَ وَبَنَاتِ خَالَاتِکَ اللَّاتِیْ ہَاجَرْنَ مَعَکَ وَامْرَأَۃً مُّؤْمِنَۃً إِن وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِیُّ أَن یَسْتَنکِحَہَا خَالِصَۃً لَّکَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِیْنَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْْہِمْ فِیْ أَزْوَاجِہِمْ وَمَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُمْ لِکَیْْلَا یَکُونَ عَلَیْْکَ حَرَجٌ وَکَانَ اللَّہُ غَفُوراً رَّحِیْما ( الاحزاب۳۳/۵۰ ) 
’’ اے نبی ﷺ ! بے شک ہم نے حلال کر دی ہیں تمھارے لیے تمھاری وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کر دیے ہوں اور وہ لونڈیاں بھی جو تمھاری ملک میں آئیں اس ( مالِ غنیمت ) میں سے جو عطا کیا ہے اللہ نے تمھیں اور ( حلال کر دی ہیں ) تمھاری چچا زاد ، پھوپھی زاد اور ماموں زاد اور خالہ زاد جنھوں نے ہجرت کی ہے تمھارے ساتھ اور کوئی مومن عورت اگر ہبہ کرے اپنے نفس کو نبی ﷺ کے لیے اگر نبی ﷺ بھی چاہے ( تو حلال ہے ) اس سے نکاح کرنا ، ( یہ رعایت ) خالصتاً تمھارے لیے ہے، دوسرے مومنوں کے لیے نہیں ، ہمیں خوب معلوم ہے کہ کیا فرض کیا ہے ہم نے مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں، ( تمھیں ان حدود سے مستثنیٰ کر دیا ) تاکہ نہ رہے تم پر کوئی تنگی اور ہے اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ‘‘ ۔
اگرچہ مہاجرین کی اکثریت نے مدینہ آکر تجارت وغیرہ شروع کر دی اور ان کے قدم جم گئے تھے لیکن انسانوں کے مزاجوں اور صلاحیتوں میں تفاوت ہونے کے باعث ایسے مہاجرین بھی مدینہ میں موجود تھے جو بالکل مفلوک الحال تھے اور انھی کے مانند مدینہ کے چند مقامی مسلمان بھی سفید پوشی کی زندگی بسر کر رہے تھے ۔ ان مقامی و مہاجر لوگوں کے ’’عزم‘‘ پر کسی کو کلام نہیں تھا ۔ لیکن سوال پیدا ہوتا تھا کہ ایسے لوگوں کو’’ نو خیز اسلامی معاشرہ‘‘ کس طرح لے گا ۔ اس حوالے سے اللہ رب العزت نے اس طرح راہنمائی فرمائی : 
لِلْفُقَرَاء الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیْارِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَاناً وَیَنصُرُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَءِکَ ہُمُ الصَّادِقُونَ وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالْإِیْمَانَ مِن قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْْہِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِیْ صُدُورِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون (الحشر ۵۹/ ۸،۹)
’’ ( نیز وہ مال ) ان مفلس مہاجروں کے لیے ہے جو نکال باہر کیے گئے ہیں اپنے گھروں سے اور اپنی جائیدادوں سے ، جو تلاش کرتے ہیں فضل اللہ کا اور اس کی خوشنودی اور مدد کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی ، یہی لوگ ہیں سچے ۔ اور یہ ( ان لوگوں کے لیے بھی ہے ) جو مقیم تھے دارالہجرت میں اور ایمان لا چکے تھے مہاجرین کی آمد سے پہلے ، محبت کرتے ہیں ان لوگوں سے جو ہجرت کر کے آئے ان کے پاس، اور نہیں پاتے اپنے دلوں میں کوئی حاجت تک بھی اس چیز کی جو انھیں دی جائے اور ترجیح دیتے ہیں دوسروں کو اپنی ذات پر اگرچہ ہوں خود حاجت مند ، اور جو بچا لیے گئے اپنے دل کے لالچ سے ، سو وہی ہیں درحقیقت فلاح پانے والے ‘‘۔
مسلمانوں کے باہمی تعاون میں ایک لطیف توازن قائم کرنے کا بھی حکم دیا گیا : 
وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ مِن بَعْدُ وَہَاجَرُواْ وَجَاہَدُواْ مَعَکُمْ فَأُوْلَءِکَ مِنکُمْ وَأُوْلُواْ الأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلَی بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّہِ إِنَّ اللّہَ بِکُلِّ شَیْْءٍ عَلِیْمٌ (الانفال ۸/ ۷۵) 
’’ اور وہ لوگ جو ایمان لائے ( ان کے ) بعداور جنھوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا تمھارے ساتھ مل کر، سو یہ لوگ بھی تم میں سے ہیں اور خونی رشتے دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں اللہ کی کتاب کی رو سے، بے شک اللہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے ‘‘ ۔
اسلامی معاشرے کے تشکیلی رویے میں ’’ عمل اور فعالیت ‘‘ کو بطورِ خاص اہمیت دی گئی کیونکہ گروہی عزم کی بازیافت کے بعد تجرد ، بے عملی ، رہبانیت اور کسی قسم کی لاتعلقی کی گنجائش باقی نہیں تھی ۔ عزم میں پختگی کے بعد ، عہد کی پاسداری کا تقاضا یہ تھا کہ سماجی فعالیت کا بھر پور مظاہرہ کیا جائے ۔ اس سلسلے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا گیا ۔ اہم بات یہ ہے کہ مردوعورت میں فعالیت کے ثمرات کے لحاظ سے مساوات کا ذکر ، عسکریت کے بیان کے ساتھ کیا گیا ۔ اس طرح جہاد و قتال اور عسکریت، عمرانی مظہر ہونے کے ناتے اسلامی معاشرے کی بنیادی ساخت کا جزو لا ینفک بن گئے: 
فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ أَنِّیْ لاَ أُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنکُم مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی بَعْضُکُم مِّن بَعْضٍ فَالَّذِیْنَ ہَاجَرُواْ وَأُخْرِجُواْ مِن دِیَارِہِمْ وَأُوذُواْ فِیْ سَبِیْلِیْ وَقَاتَلُواْ وَقُتِلُواْ لأُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّءَاتِہِمْ وَلأُدْخِلَنَّہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ ثَوَاباً مِّن عِندِ اللّہِ وَاللّہُ عِندَہُ حُسْنُ الثَّوَاب (اٰل عمران۳/ ۱۹۵ )
’’ پس قبول فرما لی ان کی دعا ان کے رب نے ( اور جواب دیا ) کہ بلاشبہ میں نہیں ضائع کرتا عمل کسی عمل کرنے والے کا تم میں سے، مرد ہو یا عورت ، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔ سو وہ لوگ جنھوں نے ہجرت کی ، نکالے گئے اپنے گھروں سے اور ستائے گئے میری راہ میں اور جنگ کی انھوں نے اور شہید ہوئے ، ضرور کفارہ بناؤں گا میں ان کی طرف سے ( ان عملوں کو) ان کے گناہوں کا اور ضرور داخل کروں گا میں ان کو جنتوں میں، بہتی ہیں جن کے نیچے نہریں ، یہ ہے اجر اللہ کی جنابِ خاص سے اور اللہ کے پاس ہے بہترین اجر ‘‘ ۔
المختصر! ہجرت کے بعد چند برسوں کے اندر ہی مدنی سماج کو ایک نئی اور آفاقی شناخت حاصل ہوئی ۔ اس شناخت کی تشکیل میں منفی اور مثبت دونوں کرداروں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ جو کردار عزم والے تھے، انھوں نے زندگی کے ہر پہلو میں ، خدا اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ کیے گئے عہد کی پاسداری میں انتہا درجے کی پختگی کا عملی مظاہرہ کیا ۔ اس کے برعکس عہد شکنی کے مرتکب ہونے والے کردار اصلاً بے عزم تھے ، اس لیے زندگی کا ہر پہلو تو درکنار ، ایسے لوگ بقائے باہمی کے عہد کی پاسداری کر نے سے بھی قاصر رہے ۔ یوں مثبت اور منفی ہر دو کرداروں نے مدنی معاشرت کے روایتی اسلوب کو بدل کر اسے ایک نئی شناخت سے بہرہ مند کر دیا اور مدینہ نبی خاتم ﷺ کی دعاؤں کے مصداق ہو گیا ۔
اس ضمن میں صلح حدیبیہ کا واقعہ خاص طور قابل مطالعہ ہے۔ 
قریشِ مکہ کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر معاہدہ اور پھر قریش کی اس معاہدے کی خلاف ورزی سے مدنی سماج کی اسلامائزیشن میں دومزید اہم عناصر شامل ہو گئے۔ ان دونوں عناصر کی سماج کاری (Sociality) میں کلیدی کردار ، خود سماج کے بجائے قائد کا نظر آتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ بات مسلم ہے کہ صحابہ کرامؓ، معاہدہ حدیبیہ کی بعض شقوں پر مطمئن نہیں تھے، لیکن اس معاہدے سے متعلق آپ ﷺ کے فیصلے کو قرآن مجید نے فتح مبین قرار دیا۔ غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس معاہدے سے مسلمانوں کو کم از کم دو فائدے حاصل ہوئے۔ ایک تو یہ کہ مکی سماج پر واضح ہو گیا کہ مکہ کی سیاسی قیادت کی جارحیت (بدر، احد، احزاب) کے باوجود مسلمان بنیادی طور پر امن کے خواہاں ہیں ، اس لیے اگر جنگ ان پر مسلط نہ کی جائے تو وہ خود جنگی عزائم نہیں رکھتے۔ مکہ /مدینہ باہمی چپقلش کے تناظر میں امن کا یہ پیغام مکی سماج کے لیے درحقیقت بہت بڑا پیغام تھا۔ اس معاہدے کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو کفارِ مکہ کے کسی متوقع حملے سے بے نیاز ہو کر یہودیوں کی بیخ کنی کا موقع ملا اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوراً خیبر کو فتح کر لیا گیا۔ ان دو فوائد کو پیشِ نظر رکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کا حدیبیہ کے مقام پر معاہدہ کرنا کسی قسم کی شکست کا آئینہ دار نہیں تھا، بلکہ اس معاہدے کے پیچھے زمینی حقائق کا ادراک اور واقعیت پسندی جھلملا رہی تھی۔ اس لیے معاہدہ حدیبیہ کی بظاہر مسلم مخالف شقوں کے باوجود وقتی پسپائی کا حتمی فائدہ مسلمانوں کو حاصل ہوا۔ اسی لیے آپ ﷺ کے معاہدہ کرنے کے بعد آپ ﷺ کی قائدانہ بصیرت کے اعتراف میں قرآن نے اسے ’’فتح مبین‘‘ سے تعبیر کیا ۔
جب کچھ عرصے کے بعد قریش نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی اور قریشِ مکہ کا قائد ابوسفیان گفت و شنید اور تجدیدِ عہد کے لیے مدینہ منورہ آیا تو اسے ناکام واپس لوٹنا پڑا ۔ بعض لوگ اس واقعے کو بنیاد بنا کر اعتراض کرتے ہیں کہ جب اہل مکہ امن چاہتے تھے اور تجدیدِ عہد کے لیے تیار تھے تو آپ ﷺ نے امن کا معاہدہ دوبارہ کیوں نہیں کیا؟ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان اب عسکری اعتبار سے طاقت ور ہو چکے تھے، جبکہ امن کا خواہاں کمزور فریق ہی ہوتا ہے ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات بنیادی طور پر غلط ہے ۔ جیسا کہ ذکر ہوا، صلح حدیبیہ مسلمانوں کی کمزوری کی آئینہ دار نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے زمینی حقائق کے ادراک اور واقعیت پسندی پر مبنی آپ ﷺ کی قائدانہ بصیرت کارفرما تھی ۔ بالکل اسی طرح ابوسفیان کی ناکامی کے پیچھے نہ تو اس کی کمزوری کا ہاتھ تھا اور نہ ہی مسلمانوں کی عسکری قوت کا کوئی کردار تھا ۔ یہاں بھی آپ ﷺ نے بنیادی طور پر واقعیت پسندی اور زمینی حقائق کے ادراک کا ثبوت دیا ۔ اسے ہم Threat Perception (خطرے کی پیش بینی) کے نام سے موسوم کر سکتے ہیں ۔ آپ ﷺ بھانپ لیتے ہیں کہ اہلِ مکہ کی تجدیدِ عہد کی پالیسی کے پیچھے time gaining factor اور عہد شکنی کی خواہش کارفرما ہے ، کیونکہ یہ پہلے بھی معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو چکے ہیں اور اب بھی اپنی طاقت کی بحالی کے لیے امن و معاہدہ کو بطور ’’ہتھیار‘‘ استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کے بعد مسلمانوں سے حساب چکایا جا سکے ۔ ہماری اس رائے کو سیرت نگار ابنِ ہشام کے اس بیان سے مزید تقویت ملتی ہے کہ آپ ﷺ کے وصال کے بعد اہلِ مکہ نے بغاوت کی اور مکہ کے مسلم گورنر عتاب بن اسید کو پہاڑوں میں روپوش ہونا پڑا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چونکہ اس بغاوت کے پیچھے سماجی منظوری (Social Approval) موجود نہیں تھی، اس لیے یہ کوئی بڑا خطرہ بنے بغیر ہی دم توڑ گئی، لیکن یہ بغاوت بہرحال آپ ﷺ کی Threat Perception پر مہرِ تصدیق ثبت کر دیتی ہے ۔ اس طرح مدنی سماج کی اسلامائزیشن اور ریاستی پالیسی میں Retreat اور Threat Perception جیسی اقدار بھی شامل ہو جاتی ہیں۔ چونکہ ان دونوں قدروں کے پیچھے بنیادی طور پر ایک ہی اصول یعنی واقعیت پسندی اور زمینی حقائق کا ادراک کارفرما نظر آتا ہے، اس لیے یہ اصول، معاشرت و ریاست کی اسلامی شناخت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے حضرت خالد بن ولید نے غزوہ موتہ میں مسلمانوں کو مزید جانی نقصان سے بچانے کے لیے پسپائی اختیار کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انھیں ملامت کرنے کے بجائے اس کی تحسین کی۔ وصال نبوی کے بعد صدیق اکبر نے بھی Threat Perception کو بروے کار لاتے ہوئے منکرین زکوٰۃ اور مرتدین کو کوئی رعایت دینے کے بجائے ان کے خلاف فوری اقدام پر اصرار کیا۔ بعد کے ادوار میں بھی جب تک اسلامی معاشرے اور ریاستی قیادت نے زمینی حقائق کے ادراک اور واقعیت پسندی پر مبنی Retreat اور Threat Perception کا بر محل مظاہرہ کیا ، اس وقت تک مسلمان مغلوب ہونے سے بچے رہے ۔ 

فتح مکہ اور ہجرت

۸ ہجری میں نبی پاک ﷺ اسی شہر میں فاتحانہ داخل ہوئے جہاں سے انھیں نکلنے پر مجبور کر دیا گیا تھا ۔ فتح مکہ کے بعد آپ ﷺ واپس مدینہ تشریف لے آئے ، حالانکہ مکہ میں بیت اللہ بھی ہے اور اسے آپ ﷺ کے آبائی وطن ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔ آپ ﷺ جب مکہ سے نکلنے پر مجبور ہوئے تھے تو فرمایا تھا :
واللہ انک لخیر ارض اللہ واحب ارض اللہ الی اللہ ولولا انی اخرجت منک ما خرجت (ترمذی)
’’ خدا کی قسم ! تو اللہ کی سب سے بہتر زمین ہے اور اللہ کی نگاہ میں سب سے بڑھ کر محبوب ہے ۔ اگر مجھے یہاں سے نہ نکالا جاتا تو میں کبھی نہ نکلتا‘‘۔ 
سوال پیدا ہوتا ہے کہ فتح یاب ہونے کے بعد آپ مکہ میں رہائش پذیر کیوں نہیں ہوئے ؟ اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ نے انصار سے ’ عہد ‘ کیا تھا کہ کامیاب ہونے کے بعد آپ ﷺ انھیں چھوڑ کر اپنی قوم سے نہیں جا ملیں گے۔ ( بیعتِ عقبہ ثانی) پھر فتح مکہ کے بعد ایک موقع پر مالِ غنیمت کی تقسیم ہوئی اور قریشِ مکہ کو نوازا گیا تو اس سے بعض انصار ملولِ خاطر ہوئے ۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تمھیں یہ پسند نہیں کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے جائیں اور تم محمد ﷺ کو لے کر اپنے گھر جاؤ؟ انصار بے ساختہ پکار اٹھے! ہمیں اور کچھ نہیں ، صرف محمد ﷺ چاہیے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہاں بھی آپ ﷺ کا مدینہ واپسی کا فیصلہ سابقہ عہد کی پاسداری کی خاطر تھا؟ اگر جواب اثبات میں دیا جائے تو یہ ایک سطحی جواب ہو گا کیونکہ آپ ﷺ نے غلبہ پانے کے بعد انصار کا ساتھ نہ چھوڑنے کا عہد کیا تھا، نہ کہ ان کے ساتھ مستقل رہائش پذیر ہونے کا۔ فتح مکہ کے بعد ، مکہ میں رہتے ہوئے بھی آپ ﷺ انصار کا ساتھ دینے کی پوزیشن میں تھے کیونکہ اب مکہ اور مدینہ دونوں، اسلامی ریاست کا باقاعدہ حصہ تھے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ مدینہ میں رہنے کا فیصلہ آپ ﷺ کی قیادت کا ناگزیر تقاضا تھا ۔ اگر آپ ﷺ مکہ میں رہنے کا فیصلہ کر لیتے تو مہاجرین کی ایک لمبی قطار آپ ﷺ کی اتباع کے لیے تیار کھڑی ہوتی ، جس سے نہ صرف مکہ اور مدینہ میں نئے مسائل جنم لیتے بلکہ آئندہ بھی ہر زمانے کے مہاجر اپنے سابق علاقے اور املاک وغیرہ پر اپنا حق جتانے کی کوشش کرتے۔ ظاہر ہے اس کے نتیجے میں ہر دور میں شدید پیچیدگیاں پیدا ہوتیں ۔ اس سلسلے میں سیرت النبی ﷺ ابنِ ہشام میں درج یہ واقعہ کافی اہم معلوم ہوتا ہے کہ جب بنی جحش نے ہجرت کی تو ابوسفیان نے ان کا مکان بنی عامر بن لوئ کے ایک شخص عمرو بن علقمہ کے ہاتھ فروخت کر دیا ۔ جب عبداللہؓ بن جحش کو اس کی خبر مدینہ میں پہنچی تو انھوں نے نبی پاک ﷺ سے عرض کیا ۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ خدا اس کے بدلے تم کو جنت میں ایک محل عنایت کرے ؟ عبداللہ نے عرض کیا ، ہاں میں راضی ہوں ۔ آپﷺ نے فرمایا، بس وہ محل تمھارے لیے ہے ۔ فتح مکہ کے بعد ابو احمد نے حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں اس مکان کے بارے میں سوال کیا جس کو ابوسفیان نے فروخت کر دیا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے کوئی جواب نہ دیا ۔ لوگوں نے کہا اے ابو احمد ! آپ ﷺ ان چیزوں کے بارے میں جو کفار کے تصرف میں چلی گئیں، کلام کرنا پسند نہیں فرماتے ۔ پس ابواحمد بھی خاموش ہو رہے۔ 

ہجرتِ نبوی کی توسیعی معنویت 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہجرت کا واقعہ ظاہری لحاظ سے زمان ومکان میں محدود ہونے کے باوجود معنوی لحاظ سے ابدی اور آفاقی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی علاقے سے دوسرے علاقے میں ہجرت کرنا ، اپنی نوعیت کے اعتبار سے اضافی ہے کہ اس کے پیچھے ارضی تقاضے کارفرما ہوتے ہیں۔ اصل ہجرت ، رویے کی ہجرت ہے: 
فَآمَنَ لَہُ لُوطٌ وَقَالَ إِنِّیْ مُہَاجِرٌ إِلَی رَبِّیْ إِنَّہُ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (العنکبوت۲۹ / ۲۶)
’’سو ایمان لائے اس پر صرف لوط ؑ اور انھوں نے کہا میں ہجرت کرتا ہوں اپنے رب کی طرف ، بے شک وہی ہے زبردست اور حکمت والا ‘‘ ۔
یہ درحقیقت رویے کی ہجرت ہی ہوتی ہے جو انسان کو مقابل قوتوں کو مغلوب کرنے کے لیے علاقہ چھوڑنے کی ’’حکمتِ عملی‘‘ اپنانے کا درس دیتی ہے ۔ علاقے سے ہجرت ، رویے کی غیر اضافی ہجرت کی آبیاری کا مزید سامان فراہم کرتی ہے ۔ ان معنوں میں انسان کی بہشت سے بے دخلی کوئی سزا نہیں ، بلکہ ربِ کائنات کی بیش بہا حکمت کا اظہار ہے ۔ یہ بے دخلی کسی کمی ( بے عزمی ) کی بیش تلافی (Over Compensation) کی علامت ہے اور ابلیس کی شیطانیت کو سزاوار چیلنج بھی ۔ اس تناظر میں ہم اس مضمون کے اختتام پر ان پہلووں کی طرف خاص طور پر اشارہ کرنا چاہیں گے جن سے ہجرت نبوی کا یہ معنوی اور آفاقی پہلو خاص طور پر اجاگر ہوتا ہے۔ 
۱۔ جب تک حضرت ابو طالب سردار تھے ، آپ ﷺ نے ہجرت نہیں کی، بلکہ مشیتِ الٰہی کے مطابق ابولہب کے سردار بننے کا انتظار کیا۔ اس سے نبی خاتم ﷺ کی حیاتِ مطہرہ کا ایک خاص پہلو سامنے آتا ہے، کیونکہ ابولہب کا سردار بننا اور اس کے دور میں آپ ﷺ کا ہجرت کرنا ، آپ ﷺ کی خاتمیت کا اہم تقاضا تھا۔ ابوطالب اگرچہ، معروف تاریخی روایت کے مطابق آپ پر ایمان نہیں لائے، لیکن بہرحال وہ متکبر نہیں تھے۔ اس کے برعکس ابولہب اپنی کنیت کے مصداق ایسا دہکتا ہوا شعلہ تھا جو ناحق متکبر تھا ، ابلیس کی مانند اور ابلیس کا پیرکار ۔ اگر ابلیس نار تھا تو ابولہب اسی کا معنوی مشتق اور پر تو تھا ۔ اس لیے ابولہب کے سردار بننے کے بعد نبی خاتم ﷺ کی ہجرت خاصی معنی خیز ہو جاتی ہے ۔ ابولہب کی سرداری کے دور میں آپ ﷺ کی مدینہ کی طرف ہجرت سے مدینہ کی حیثیت ایک پہلو سے پوری زمین کے مثل ہو جاتی ہے۔ جس طرح آدم ؑ مہاجر بنا کر زمین پر اتارے گئے تھے ، ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ مخصوص وقت تک کے لیے، اسی طرح آپ ﷺ بھی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ مخصوص وقت کے لیے کرتے ہیں، جہاں سے نکالے گئے تھے وہاں جانے کا سامان پیدا کرنے کے لیے، کہ ہجرت وسیع تر مفہوم میں کسی کمی کی تلافی کا ہی نام ہے ۔ آپ ﷺ کی ہجرتِ مدینہ کا مخصوص وقت فتح مکہ پر ختم ہو جاتا ہے ، لیکن کیونکہ مدینہ کی ایک حیثیت پوری زمین کے بھی مثل ہے، وہ زمین جہاں اولادِ آدم ؑ کو اپنا مخصوص وقت گزارنا ہے ، اس لیے اس وقت کے خاتمے تک، نبی خاتم ﷺ ہونے کے ناتے اولادِ آدم ؑ کی راہنمائی کے لیے آپ ﷺ اپنی مہاجرت کا تسلسل فتح مکہ کے بعد بھی مدینہ ( پوری زمین کے مثل ) میں جاری رکھتے ہیں ۔ 
۲۔ اس ضمن میں واقعہ معراج بھی قابل توجہ ہے۔ ابنِ ہشام کے مطابق واقعہ معراج کے موقع پر بعض لوگ مرتد ہو جاتے ہیں، جبکہ حضرت ابوبکرؓ ، صدیقِ اکبرؓ بن جاتے ہیں۔ اس واقعے پر کفار کے استہزا اور تمسخر کے مقابلے میں صحابہ کرامؓ انفرادی حیثیت میں شخصی عزم اور اجتماعی حیثیت میں گروہی عزم کی پختگی کا بے مثال مظاہرہ کرتے ہیں ۔ چنانچہ اللہ رب العزت انھیں ایسے بے پایاں ، گراں قدر، بیش بہا اور انمول تحفے سے نوازتے ہیں جو اپنی نوعیت میں بیک وقت شخصی اور گروہی ہے ۔ ہماری مراد نماز سے ہے ۔ گروہی ہجرت سے قبل، معراج کے موقع پر نماز کی فرضیت کے احکامات کا اترنا بہت معنی خیز ہے۔ اللہ رب العزت نے رویے کی ہجرت کی طرف واضح اشارہ کرنے، اسے مطلوب و مقصود ٹھہرانے اورعلاقائی ہجرت کی اضافیت کے مقابلے میں رویے کی ہجرت کی غیر اضافیت کے پیشِ نظر ہی ہجرتِ مدینہ کے بعد نہیں بلکہ اس سے قبل نماز کی فرضیت کے احکامات نازل فرمائے ۔ حقیقت میں نماز کی پانچ وقت با جماعت فرضیت، سماج اور ہجوم کے جبر کے خلاف مخلصین کی صف آرائی ہے۔ یہ سماجی شیطانیت کی شناخت کی جیتی جاگتی علامت ہے۔ یہ سوسائٹی کے ظاہری و باطنی فواحش اور ظلم و استحصال کے مقابل ، افراد کی گروہی ہجرت ہے۔ ایسا سماج جہاں نماز کی پانچ وقت با جماعت ادائیگی کا پورا اہتمام کیا جاتا ہو ، وہاں کے افراد کا دنیاوی مال و اسباب کو تج دے کر شیطانی قوتوں کے مقابل آنا اور اس مقابلے میں ’’حکمت عملی‘‘ کے طور پر بعض اوقات اپنا علاقہ تک چھوڑ جانا نا ممکن نہیں ہوتا ، کیونکہ ایسے افراد سوسائٹی کے لازموں سے کنارہ کشی کا عمل ہر روز پانچ بار دہرا چکے ہوتے ہیں ۔
۳۔ فتح مکہ کے بعد آپ ﷺ کی مدینہ واپسی میں بھی لطیف حکمت پوشیدہ ہے ۔ فتح مکہ کے بعد آپ کی مہاجرت ظاہری اعتبار سے ختم ہوگئی تھی، اس لیے کہ جس وجہ سے آپ ﷺ کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا ، وہ وجہ ختم ہو گئی ۔ باطل مٹ گیا اور حق چھا گیا۔ آپ ﷺ کا یہ ارشاد اسی پہلو کو واضح کرتا ہے : 
لا ہجرۃ بعد الفتح (صحیح بخاری) 
’’ فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے ۔‘‘
تاہم قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فتح ، جو مہاجرت کے بعد ملی، درحقیقت اس فتح کی ارضی علامت ہے جو آپ ﷺ کی خاتمیت کے پیشِ نظر آپ ﷺ کے توسط سے اولادِ آدم ؑ میں سے ’’ مخلصین ‘‘ کو ابلیس کے چیلنج کے جواب میں ملنی ہے اور یہ مخلصین اس بہشتِ بریں پر دوبارہ قدم رکھیں گے ، جہاں سے انھیں ابلیس کی شیطانیت کے سبب مہاجر بنا کر زمین پر بھیج دیا گیا تھا ۔ یہ مکمل فتح ، آپﷺ کی خاتمیت کے وجوہ جواز میں سے ایک وجہ بھی ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ بیت اللہ کو مشرکین سے پاک کر نے کے بعد ، اپنی مہاجرت کو جاری رکھتے ہوئے فتح مکہ کو معرکہ خیر و شر کے تناظر میں ’’ علامتی فتح ‘‘ کے طور پر لیتے ہیں اور مکہ میں مستقل طور پر نہ ٹھہرنے کا فیصلہ فرماتے ہیں، کیونکہ اگر مکہ میں قیام فرماتے تو آپ کی مہاجرت مکمل طور پر ختم ہو جاتی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے ہجرت کی اسی ابدی معنویت کو یوں واضح فرمایا :
والمہاجر من ہجر الخطایا والذنوب (ابن ماجہ)
’’اور مہاجر درحقیقت وہ ہے جو اپنے گناہوں اور خطاؤں سے کنارہ کشی کر لے ‘‘۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت ، رویے میں ہجرت ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ فتح مکہ کے بعد بھی، مہاجرین کی ہجرت کا اختتام نہیں ہوا ، بلکہ یہ مہاجرت جاری ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ نبی خاتم ﷺ کی سر گزشتِ حیات ، ایک پہلو سے آدم ؑ کے گم گشتہ عزم کی بازیافت سے عبارت ہے۔ وہی عزم ، جس کی شکستگی کے سبب آدم ؑ اپنے عہد سے غافل ہو گئے تھے۔ یوں نبی خاتم ﷺ کی قیادت میں اولادِ آدم ؑ میں سے مخلصین کے ایک گروہ نے ابلیس کی شیطانیت کے مقابل، خدا سے کیے گئے عہد کی پاسداری میں مصمم عزم کا اظہار کر کے اس فتح کا علامتی اظہار کر دیا ہے جو نوعِ انسانی کے مخلصین کا حتمی مقدر ہے ۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ صحابہ کرام نے آپ کے وصال کے بعد حضرت عمرؓ کے دور میں اسلامی کیلنڈر کا آغاز ہجرت مدینہ سے کیا، حالانکہ بعثت نبوی، غزوہ بدر، صلح حدیبیہ اور فتح مکہ وغیرہ جیسے اہم واقعات بھی موجود تھے جن سے اسلامی سنہ کا آغاز کیا جا سکتا تھا۔ صحابہ کے مابین اس ضمن میں بحث مباحثہ بھی ہوا، لیکن باہمی اتفاق سے ہجرت مدینہ کو ہی اسلامی کیلنڈر کا نقطہ آغاز قرار دیا گیا۔ معنوی لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کے خاتمے تک سن ہجری بھی جاری ہے اور اس واقعے میں مضمر حکمت بھی تسلسل کی حامل ہے۔ لہٰذا جب تک انسان اس زمین پر موجود ہے، نبی خاتم ﷺ کی مہاجرت اسے پورے عزم کے ساتھ ابلیسی تکبر کے ساتھ نبرد آزماہونے کی دعوت دیتی رہے گی۔ 

حواشی 

(۱) فترۃ الوحی کے دوران میں آپ ﷺ انتہائی صبر آزما کیفیات سے گزر رہے تھے ۔ بعض روایات کے مطابق آپ ﷺ اس قدر رنجیدہ خاطر ہوتے کہ کئی بار خود کو گرانے کے ارادے سے پہاڑ پر چڑھتے۔ اس وقت جبریل ؑ ظاہر ہوتے اور فرماتے : ’’ محمد ! بلاشبہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں ‘‘ ۔ یہ الفاظ سن کر آپ ﷺ کا اضطراب رفع ہو جاتا اور دل مطمئن ہو جاتا ۔ 
ہمیں ایسی روایات کو قبول کرنے میں تامل ہے، کیونکہ خود کو پہاڑ سے گرانے کے ارادے کی بات عزم کی اس ’’ کاملیت ‘‘ سے لگا نہیں کھاتی جو غارِ حرا میں نفسی ہجرت کے بعد آپ ﷺ کو عطا کی گئی تھی۔ آپ ﷺ فترۃ الوحی کے زمانے میں یقیناًبے قراری کی کیفیات سے گزرے اور اسی سے آپ ﷺ کا عزم کامل ہوا اور آپ ﷺ سے عہد لیا گیا ، لیکن اس دوران بے قراری سے مغلوب ہو کر آپ ﷺ کبھی بھی خود کو گرانے کے ارادے سے پہاڑ پر نہیں چڑھے ۔ بالفرض ایسی روایات کو قابل اعتنا سمجھا جائے تو یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ فترۃ الوحی کے زمانے تک اللہ رب العزت نے آپ ﷺ سے کوئی ’’ عہد ‘‘ نہیں لیا تھا۔ شاید وحی کا انقطاع ( آپ ﷺ سے عہد لینے کے پیشِ نظر ) آپ ﷺ کے عزم کی کاملیت کی خاطر ہی کیا گیا۔ چنانچہ عہد لیے جانے سے قبل آپ ﷺ کے عزم کا مضمحل ہونا ، کسی قسم کی عہد شکنی کے زمرے میں نہیں آتا ۔ اس کے برعکس آدمؑ ، شجرِ ممنوعہ کے قریب نہ جانے کا عہد کر کے ، بے عزم ہوئے اور بھولے تھے۔ فترۃ الوحی سے قبل اور بعد کی آیات پر اس حوالے سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ 
(۲) حضرت زبیر بن العوامؓ ، سابقون میں سے تھے اور غالباً پانچویں مسلمان تھے۔ اپنے چچا کے مظالم کا شکار ہوئے ۔ حضرت سعید بن زیدؓ کو ان کے چچازاد بھائی حضرت عمر نے، جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے، مشکیں باندھ کر خوب پیٹا ۔ حضرت عثمانؓ بھی تختہ مشق بنے۔ حضرت بلال حبشیؓ کی زبان سے جس کیفیت میں ’’ احد ، احد ‘‘ کا کلمہ حق جاری ہوا ، تاریخ کا ہر طالب علم اس سے آگاہ ہے۔ اسی طرح حضرت خبابؓ ، حضرت عمارؓ ، حضرت یاسرؓ ، حضرت صہیبؓ ، حضرت ابو فکیعہؓ ، حضرت لبینہؓ ، حضرت زنیرہؓ ، حضرت نہدیہؓ ، حضرت امِ عبیسؓ کی عزیمت کی داستانِ خونچکاں بھی تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ حتیٰ کہ حضرت ابوبکر صدیق بھی، جنھیں قریش میں اعلیٰ مرتبہ و مقام حاصل تھا ، کفار کے جور و ستم کا نشانہ بنے ۔ 
( ۳) پروفیسر محمد اکرم ورک نے ’’ صحابہ کرامؓ کا اسلوبِ دعوت و تبلیغ ‘‘ کے صفحہ ۸۴ پر اس روایت کو البداےۃ ۳/۲۹،۳۰ کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔ 
(۴) آبا پرستی اور اکابر پرستی ایسا مرض ہے جو نوعِ انسانی کے ہاں ہر دور اور ہر علاقے میں موجود رہا ہے اور حق بات کی قبولیت میں بنیادی رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔ قرآن مجید نے اسی لیے مختلف مقامات پر اس پر سخت گرفت کی ہے ۔ (البقرہ۲/ ۱۷۰، المائدہ ۵/۱۰۴، الاعراف۷/ ۲۸، یونس۱۰/ ۷۸، الانبیاء۲۱/ ۵۲۔۵۴، لقمان۳۱/ ۲۱، الزخرف۴۳/۲۲۔۲۴ ، سبا۳۴/۴۳) قابلِ غور بات یہ ہے کہ قصہ آدم و ابلیس میں اللہ رب العزت کے اس استفسار پر کہ ابلیس کو کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا، ابلیس کا جواب اپنے اندر ہمارے لیے ایک پیغام رکھتا ہے۔ ابلیس نے کہا کہ میں آدم سے بہتر ہوں، کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم ؑ کو مٹی سے ۔ ( قَالَ یَا إِبْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ أَسْتَکْبَرْتَ أَمْ کُنتَ مِنَ الْعَالِیْنَ ۔ قَالَ أَنَا خَیْْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَہُ مِن طِیْنٍ / قَالَ یَا إِبْلِیْسُ مَا لَکَ أَلاَّ تَکُونَ مَعَ السَّاجِدِیْنَ ۔ قَالَ لَمْ أَکُن لِّأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہُ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ) ذرا غور کیجئے کہ ابلیس ، اللہ رب العزت کو خالق تسلیم کر رہا ہے اور ام کنت من العالین کے جواب میں یہی کہتا ہے کہ میں آدم ؑ سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے سڑی ہوئی مٹی سے۔ پھر ابلیس کو دوبارہ اٹھائے جانے کا بھی یقین ہے قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِیْ إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ اسی آیت میں وہ اللہ رب العزت کو ’’ اے میرے رب ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور پھر قسم بھی اللہ کی عزت کی کھاتا ہے: قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَأُغْوِیَنَّہُمْ أَجْمَعِیْنَ إِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کو مردود ( رجیم ) قرار دینے ، روزِ جزا تک اس پر لعنت بھیجنے (وَإِنَّ عَلَیْْکَ لَعْنَتِیْ إِلَی یَوْمِ الدِّیْنِ) اور جہنم کو اس سے اور اس کے پیروکاروں سے بھرنے کے پیچھے (َأَمْلَأَنَّ جَہَنَّمَ مِنکَ وَمِمَّن تَبِعَکَ مِنْہُمْ أَجْمَعِیْنَ ) آخر کون سی غلطی کارفرما ہے؟ قرآن کے مطابق اس کی غلطی، خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے آدم ؑ کو سجدہ نہ کرنا اور سجدہ نہ کرنے کا یہ جواز بیان کرنا ہے کہ میں آگ سے پیدا کیے جانے کی بنا پر آدم ؑ سے بہتر ہوں۔ قرآن ، نافرمانی اور برتری کے ابلیسی منہج کو تکبر پر محمول کرتے ہوئے اسے کفر گردانتا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کی ان آیات کا فہم، ایسے آبا پرست اور نسل پرست لوگوں کے لیے سخت انتباہ ہے جو ابلیس کی مانند اگرچہ اللہ رب العزت کو خالق تسلیم کرتے ہیں، دوبارہ اٹھائے جانے پر یقین رکھتے ہیں لیکن ابلیس کے تتبع میں اپنی پیدائشی حیثیت کو دوسروں پر برتری کی سند سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ ۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ پہلی وحی کے نزول کے بعد جب نبی خاتم ﷺ گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہؓ کو نزولِ وحی کا سارا ماجرا سنایا تو حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے آپ ﷺ کی جس پہلی صفت کا ذکر کیا، وہ صلہ رحمی ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام نسل پرستی کی تہذیب کر کے صلہ رحمی کو انتہائی پسندیدہ عمل قرار دیتا ہے۔ جہاں تک تفوق و برتری کا تعلق ہے، قرآن کے نزدیک اس کا مدار پیدایشی حیثیت کے بجائے شخصی خصوصیات پر ہے ۔ ملاحظہ کیجئے الزخرف۴۳/ ۳۲ ، الاحقاف۴۶/ ۱۹ ، آل عمران۳/ ۱۶۲۔۱۶۳ ، الانعام۶/ ۱۳۲ و۶/ ۱۶۵ ، الحدید۵۷/ ۱۰ ، النحل۱۶/۷۶ ، المومن۴۰/ ۵۸ ، القلم۶۸/ ۳۵، الحشر۵۹/ ۲۰، الزمر۳۹/ ۰۹، ہود۱۱/ ۲۴۔ 
(۵) یقیناًنبی خاتم ﷺ کے ذہنِ مبارک میں ورقہ بن نوفل کے یہ الفاظ بھی ہوں گے جو اس نے کعبہ کے نزدیک ملاقات کے موقع پر آپ ﷺ سے کہے تھے :
’’ خدا کی قسم ! آپ ﷺ اس امت کے پیغمبر ہیں اور جو ناموس موسیٰ پر نازل ہوا تھا، وہی آپ ﷺ پر نازل ہوا ہے ۔ لوگ آپ ﷺ کی تکذیب کریں گے ، اذیتیں پہنچائیں گے، اپنے شہر سے جلاوطن کر دیں گے ، اور آپ ﷺ کے ساتھ ان کی لڑائیاں ہوں گی۔ اگر میں اس وقت تک بقیدِ حیات رہا تو حق کی حمایت کروں گا ۔‘‘
(۶) اس سلسلے میں یہ واقعہ بھی اہم ہے : ’’ ابنِ اسحاق کہتے ہیں، مجھ سے بعض اہلِ علم نے بیان کیا کہ حضرت حلیمہؓ جب دودھ چھڑانے کے بعد آپ ﷺ کو واپس لائیں تو اس کا سبب یہ تھا کہ حبشہ کے چند نصاریٰ نے حضور ﷺ کو حلیمہؓ کے پاس دیکھ کر کہا کہ اس لڑکے کو ہم اپنے شہر لے جاتے ہیں، کیونکہ یہ لڑکا صاحبِ ظہور معلوم ہوتا ہے ۔ پس اس شخص نے مجھ سے بیان کیا کہ اسی اندیشے سے حضرت حلیمہؓ حضور ﷺ کو آپ کی والدہ کے پاس پہنچا گئیں ‘‘۔ (سیرت النبی ﷺ /ابنِ ہشام )
(۷) ا ن نصاریٰ کے بارے میں ابنِ اسحاق یہ بھی کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کے مطابق ان کا تعلق قصبہ نجران سے تھا ۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآنی آیات ( القصص۲۸: ۵۲ تا ۵۵ ) انہی لوگوں کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے ابنِ شہاب زہری سے ان آیات کی نسبت سوال کیا کہ یہ کن لوگوں کی شان میں نازل ہوئی ہیں تو انھوں نے کہا ، ہم اپنے استادوں سے سنتے چلے آئے ہیں کہ یہ آیات نجاشی شاہ حبش اور اس کے لوگوں کی شان میں نازل ہوئی ہیں اور سورۃ ( مائدہ ۵:۸۳) بھی انہی کی شان میں نازل ہوئی ۔
(۸) نبی کریم ﷺ کا حضرت عائشہ کے ساتھ عقد مکی دور میں ہو گیا تھالیکن رخصتی بعد میں ہوئی ۔ اسی دور میں آپ ﷺ نے حضرت سودہؓ سے نکاح کر لیا تھا جو ایک مسلمان کی بیوہ تھیں ۔ ان کے شوہر حبشہ سے واپسی پر مکے میں انتقال کر گئے تھے ۔ تقریباً انہی ایام میں واقعہ معراج ہوا۔ سیرت ابنِ ہشام کے مطابق واقعہ معراج کے متعلق شکوک میں مبتلا ہو کر بعض نو مسلم مرتد ہو گئے تھے۔ حضرت امِ حبیبہ کے ساتھ آپ کا نکاح غالباً واقعہ معراج کے بعد مدنی دور میں ہوا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ واقعہ معراج اور آپ ﷺ کے وصال کے کے درمیانی عرصے میں آپ ﷺ کا عقد حضرت امِ حبیبہؓ سے ہوا ۔ اس لیے اگر تاریخی شواہد میسر آ سکیں تو تقابلی انداز میں معلوم ہو سکتا ہے کہ واقعہ معراج کے بعد کے مرتدین کی بیویوں کے ساتھ صحابہ کرامؓ کا طرزِ عمل کیا تھا۔ (کیونکہ ابھی آپ ﷺ نے حضرت امِ حبیبہؓ سے عقد نہیں کیا تھا ) اور پھر آپ ﷺ کے وصال کے بعد مرتدین کی بیویوں سے اصحابؓ نے کیا رویہ اختیار کیا۔ ( ظاہر ہے کہ اس وقت آپ ﷺ کا عقد ہو چکا تھا ) اس حوالے سے اسلامی تاریخ کے تنقیدی مطالعے کی ضرورت ہے۔ بعض شواہد کے مطابق مدنی دور میں بھی بہت سے لوگ مرتد ہو گئے تھے ۔ ایسے لوگ مدینے کی آب و ہوا کے ہاتھوں بیماری کا شکار ہوئے اور صبر نہ کرنے کے باعث اسلام سے منحرف ہو گئے ۔ انھی کے متعلق رسول پاک ﷺ کا ارشاد ہے:
انما المدینۃ کالکیر تنفی خبثھا و تصنع طیبھا ( بخاری و مسلم )
’’مدینہ ایک بھٹی کی طرح ہے جو گندگی کو نکال دیتا ہے اور پاکیزگی کو صیقل کر دیتا ہے۔‘‘
سورۃ الممتحنۃ کی آیت ۱۰ سے مذکورہ موضوع پر کام کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے ۔ 
(۹) سیرت النبی ﷺ / ابنِ ہشام کے مطابق نجاشی نے ایک کاغذ پر لکھا ، میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور بے شک محمد ﷺ اس کے بندہ اور رسول ہیں اور عیسیٰ بن مریم ؑ اس کے بندہ اور رسول ہیں اور اس کی روح اور اس کے کلمہ ہیں جو اس نے مریم کی طرف ڈالا۔ پھر اس کاغذ کو نجاشی نے اپنے کرتے کے اندر دائیں شانہ کے پاس رکھ لیا اور حبشیوں کے مقابلے میں جنگ کی صفیں آراستہ کیں ۔ پھر ان سے مخاطب ہو کر کہا ، اے گروہِ حبشہ ! کیا میں تم میں سلطنت کا زیادہ حق دار نہیں ہوں ؟ سب نے کہا ، بے شک ہو ۔ نجاشی نے کہا تم نے میری سیرت اور عادات کیسی دیکھیں ؟ سب نے کہا ، بہت اچھی ۔ نجاشی گویا ہوا ، پھر کیا وجہ ہوئی کہ تم مجھ سے یکدم بغاوت پر آمادہ ہوگئے ہو ؟ سب نے کہا ، چونکہ تم نے ہمارے دین کو چھوڑ دیا اور تم کہتے ہو کہ عیسیؑ بندے تھے ، اسی لیے ہم تمھارے مخالف ہیں ۔ نجاشی نے کہا ، پھر تم عیسی ؑ کے متعلق کیا کہتے ہو ؟ حبشیوں نے کہا ، ہم ان کو خدا کا فرزند کہتے ہیں ۔ نجاشی نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ عیسیٰ نے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا ، میں اس پر گواہی دیتا ہوں ۔ نجاشی نے تو اپنے دل میں اس کاغذ کی طرف اشارہ کیا تھا جو اس نے لکھ کر کرتے کے اندر رکھا ہوا تھا، جبکہ حبشیوں نے یہ سمجھا کہ اس نے ہمارے قول کی تصدیق کی ہے ۔ سب خوش ہو گئے اور ان کی مخالفت ختم ہو گئی ۔ راوی کہتا ہے کہ پھر یہ خبر حضور ﷺ کو بھی پہنچی ۔ اس کے بعدجب نجاشی شاہ حبش کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی ( غائبانہ ) نماز جنازہ پڑھی اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی۔
(۱۰) ابنِ اسحاق کہتے ہیں ، حضرت عمرؓ کے گھر والوں میں سے ایک شخص سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ فرماتے تھے ، جب میں اسلام لایا تو اسی رات کو میں نے خیال کیا کہ قریش میں سے جو شخص رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ عداوت رکھتا ہو، جا کر پہلے اس کو اپنے اسلام لانے کی خبر بتاؤں۔ میں نے دل میں کہا کہ ابوجہل سے بڑھ کر کوئی شخص حضور ﷺ کا دشمن نہیں ہے ۔ چنانچہ صبح ہوتے ہی میں ابوجہل کے گھر گیا (ابوجہل ، حضرت عمرؓ کا سگا ماموں تھا) اور دروازہ کھٹکھٹایا ۔ ابوجہل نے آکر دوازہ کھولا ، اور مجھے دیکھ کر کہا ، آؤ میرے بھانجے آؤ، خوب آئے ، کیونکر آئے؟ میں نے کہا ، میں اس واسطے آیا ہوں کہ تم کو بھی اپنے اسلام لانے کی خبر کردوں ۔ میں خدا اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ پر ایمان لے آیا ہوں اور ان کی تصدیق کی ہے ۔ میرے یہ کہتے ہی ابوجہل نے دروازہ بند کر لیا اور کہا، خدا تجھ کو خراب کرے اور اس خبر کو بھی جو تو لے کر آیا ہے۔ ( سیرت النبی ﷺ / ابنِ ہشام ) 
اس سلسلے میں یہ بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایک افواہ پھیلی کہ قریش نے نبی مکرم ﷺ اور ان کے اصحابؓ کی دل آزاری ترک کر دی ہے۔ اس کے نتیجے میں حبشہ سے مہاجرین واپس آنا شروع ہو گئے۔ واپسی پر انھیں معلوم ہوا کہ حالات اتنے اچھے نہیں ہیں تو کچھ واپس حبشہ چلے گئے اور کچھ مکہ میں ہی رہنے لگے۔ اس افواہ کو عام طور پر ’’داستانِ غرانیق‘‘ سے منسلک کیا جاتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مستشرقین کے علاوہ بعض مسلم مصنفین نے بھی داستانِ غرانیق کو درست تسلیم کیا ہے، حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ جہاں تک حبشہ کے ان مہاجرین کا تعلق ہے جو حالات کی بہتری کا سن کر مکہ واپس آ گئے تو اس کے اسباب حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام میں تلاش کیے جانے چاہییں، کیونکہ ان کے اسلام لانے کے بعد مسلمانوں کو یکدم تقویت ملی اور کفار کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ فاروقِ اعظمؓ کے قبولِ اسلام سے کفار جس جذباتی و نفسیاتی دھچکے کا شکار ہوئے، اس سے نکلنے میں انھیں کچھ وقت لگا۔ اسی عرصے میں ان کے مظالم میں کمی واقع ہوئی ہوگی اور اس سے غلط طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہوگا کہ آپ ﷺ کاقریش کے ساتھ کوئی ’’ سمجھوتہ ‘‘ ہو گیا ہے ۔ 
(۱۱) عرب کلچر میں ’’ پناہ ‘‘ دینے کا عام رواج تھا ۔ دشمن بھی پناہ مانگتا تو وہ اس سے انکار نہیں کرتے تھے ۔ اس لیے پورے مکی دور میں ہمیں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں جن میں مشرکوں نے نو مسلموں کو پناہ دی ۔ حتیٰ کہ خود نبی پاک ﷺ بھی سفرِ طائف کے بعد ، معاشرتی مقاطعہ کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے مطعم بن عدی کی پناہ میں رہے ۔ ذرا غور کیجئے کہ ایسا کلچر جس میں پناہ دینے جیسی روایات موجود ہوں اور لوگ ان پر سختی سے کاربند بھی ہوں ، وہاں معاشرتی مقاطعہ کیا ایک انتہائی اقدام نہیں تھا ؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ مکی سوسائٹی اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ اور داخلی لحاظ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی تھی ۔ 
(۱۲) اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ حبشہ سے جو مہاجرین واپس مکہ آئے ، ان میں سے ابوسلمہ بن عبدالاسد نے اپنے ماموں حضرت ابوطالب کی پناہ لی۔ بنی مخزوم کے کچھ لوگ حضرت ابو طالب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تم نے اپنے بھتیجے محمد ﷺ کو تو خیر سے پناہ دے ہی رکھی ہے، مگر ہمارے بھائی ابوسلمہ کو تم نے پناہ کیوں دی ہے ؟ حضرت ابوطالب نے کہا ، وہ میرا بھانجا ہے ۔ اگر بھتیجے کو پناہ نہ دیتا تو بھانجے کو بھی پناہ نہ دیتا۔ اس پر ابولہب نے ان مخزومیوں سے کہا کہ تم ہمیشہ ہمارے بزرگ ابوطالب کو ستاتے ہو اور طرح طرح کی باتیں کہتے ہو ، اگر تم لوگ باز نہ آئے تو یاد رکھو، میں بھی ہر ایک کام میں ان کے ساتھ شریک ہوجاؤں گا۔ ابولہب کے یہ کہنے سے وہ لوگ متنبہ ہوئے اور کہنے لگے ہم کچھ نہیں کہتے، ہم جاتے ہیں ۔ اس کے بعد حضرت ابوطالب نے چند شعر کہے ، جن میں ابولہب کی تعریف کی ہے اور اسے حضور ﷺ کی امداد پر آمادہ ہونے کو کہا ہے۔ ( سیرت النبی ﷺ / ابنِ ہشام ) 
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرتِ حبشہ سے ابولہب بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور وہ معاشرتی مقاطعہ سے قبل ، کم ازکم قبائلی عصبیت کی بنا پر اپنے قبیلے کے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے تیار ہو سکتا تھا،لیکن معاشرتی مقاطعہ میں اپنے قبیلے کے مقابل کھڑے ہو کر اس نے آپ ﷺ کے ساتھ بالواسطہ تعلق و حمایت کی راہ بھی مسدود کر دی ۔
(۱۳) عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہجرت کرنے والے مسلمان مکی سماج کے بے حیثیت لوگ تھے، اسی لیے انھیں ہجرت پر مجبور ہونا پڑا۔ ہمیں اس سے اختلاف ہے کیونکہ جو مسلمان سب سے زیادہ پسے ہوئے تھے، مثلاً حضرت یاسرؓ ، حضرت بلالؓ اور حضرت عمارؓ وغیرہ، انھوں نے ہجرت نہیں کی ۔ اس کی وجہ ان کی بے سروسامانی بھی ہوسکتی ہے لیکن ہماری نظر میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان اصحابؓ کے ہجرت کرنے سے مکی سماج میں بھونچال نہیں آسکتا تھا، کیونکہ اس وقت کے مخصوص مکی کلچر میں ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اس کے برعکس صاحبِ حیثیت افراد کی ہجرت سے ایک تو مکی سماج کو زبردست دھچکا لگا ، دوسرا خود یہ اصحابؓ بھی ہجرت کی سنگلاخ راہوں سے گزر کر کندن بن گئے۔ حقیقت میں کفارِ مکہ کی دست درازیاں جب صاحبِ حیثیت لوگوں تک پہنچیں تو آپ ﷺ نے ان اصحابؓ کے شخصی عزم کو شکستگی سے بچانے اور گروہی عزم میں پختگی لانے کی خاطر ہجرت کا حکم دیا۔ وہ اصحابؓ جو سماجی اعتبار سے بے حیثیت ہونے کے باوجود کفار کے مظالم کے خلاف ڈٹے ہوئے تھے ، وہ تو ہجرت کے بغیر ہی شخصی عزم کی دولت سے مالامال تھے ۔
(۱۴) یہاں ایک اہم نکتہ یہ سامنے آتا ہے کہ صدیقِ اکبرؓ نے ہجرت کی بھی اور نہیں بھی کی ۔ اس طرح وہ مہاجرین اور غیر مہاجرین، دونوں گروہوں میں بیک وقت شامل کیے جا سکتے ہیں ۔ 
(۱۵) پروفیسر محمد اکرم ورک کی تحقیقی کاوش ’’ صحابہ کرامؓ کا اسلوبِ دعوت و تبلیغ ‘‘ یقیناًایک قابلِ تحسین کام ہے اور اس میں حضرت مصعبؓ کی دعوتی مساعی کا جائزہ بھی لیا گیا ہے، لیکن جو پہلو اس وقت ہمارے پیشِ نظر ہے، اس حوالے سے اس میں تفصیلی تجزیہ مفقود ہے ۔
(۱۶) پروفیسر ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی نے ’’عہدِ رسالت ﷺ میں مواخاۃ کا ادارہ‘‘ کے زیرِ عنوان اپنے مقالے میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ ان کے مطابق درج ذیل اصحابؓ کے مابین مواخات کرائی گئی تھی : 
حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب اور رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثؓ ۔
حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بن الخطاب ۔
حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمان بن عوف ۔
حضرت زبیر بن عوامؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود۔ 
حضرت عبیدہ بن حارثؓ اور حضرت بلال بن رباحؓ۔
حضرت مصعب بن عمیر ؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاص۔ؓ 
حضرت عبیدہ بن جراحؓ اور حضرت سالم مولی ابی حذیفہؓ ۔
حضرت سعید بن زیدؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ ۔
اس موقع پر حضرت علیؓ نے نبی خاتم ﷺ سے عرض کی کہ آپ ﷺ نے ان سب کے درمیان تو مواخات کرا دی ہے ، میرا بھائی کون ہو گا؟ میں تو اکیلا رہ گیا ہوں ۔ چونکہ حضرت علیؓ ، سرکارِ دوعالم ﷺ کے ساتھ رہتے تھے ، اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمھارا بھائی ہوں۔( ملاحظہ کیجئے، شش ماہی السیرۃ عالمی، / شمارہ ۶ / نومبر ۲۰۰۱) 
(۱۷) اسلام کے تصورِ ہجرت کے ایک عجیب و غریب اطلاق کی مثال ہمیں بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ملتی ہے ۔ برِ صغیر میں تحریکِ خلافت کے دوران میں بعض علما نے ایک فتویٰ جاری کیا جس کے مطابق مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ ہندوستان سے ہجرت کر جائیں ۔ چنانچہ بیس ہزار کے لگ بھگ مسلمان، جن میں زیادہ تر سندھ اور پنجاب جیسے زرعی علاقوں سے سے تھے، اپنی جائیدادوں کو اونے پونے بیچ کر افغانستان کی طرف روانہ ہوئے ۔ یہ فتوی ہر پہلو سے اسلامی تصورِ ہجرت سے مغایرتalienation کا حامل تھا، اس لیے انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور غیر دانشمندانہ تھا ۔ نہ تو ہجرت سے قبل افغانستان میں ’’مستقر و متاع‘‘ کا انتظام کیا گیا تھا اور نہ ہی سندھ اور پنجاب کے مسلمانوں کی پیشہ وارانہ صلاحیت ( زراعت سے وابستگی ) کو ملحوظِ خاطر رکھا گیاتھا ۔ اس لیے اس نام نہاد تحریکِ ہجرت کے انتہائی مضر اثرات برآمد ہوئے اور نامساعد حالات کا شکار مسلمان ، جانی و مالی نقصان اٹھا کر مزید مشکلات میں گھِر گئے ۔ 
(۱۸) مرد تو ایک طرف رہے ، بدر میں شکست کے بعد قریش کی عورتیں بھی منتقم المزاج ہو چکی تھیں۔ حضرت عمیرؓ کی مشرک ماں حناس ، صفوان بن امیہ کی بیوی برزہ ، عمرو بن عاص کی بیوی ریطہ ، ابوسفیان کی بیوی ہند، خالد بن ولید کی بہن اور ابوجہل کے بھائی حارث بن ہشام کی بیوی فاطمہ ، ابوجہل کی بھتیجی اور عکرمہ بن ابوجہل کی بیوی امِ حکیم بنت حارث وغیرہ احد کے میدان میں لشکر کفار کے ساتھ آئی تھیں ۔ 
(۱۹) اس کے برعکس برِ صغیر کے مسلم دورِ حکومت میں ہمیں کبھی فاتح و مفتوح کا تصور ملتا ہے اور کبھی اسلام کی اساسی اقدار پر سمجھوتے کے روح فرسا مناظر سے سامنا ہوتا ہے ۔ پہلے رویے کی مثال اورنگ زیب کا دور ہے جبکہ دوسرا رویہ اکبر کے دور میں سامنے آیا۔
(۲۰) میثاقِ مدینہ کا حوالہ دے کر عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اسلامی ریاست ہجرتِ مدینہ کے بعد قائم ہو چکی تھی۔ یہ بات مکمل طور پر درست نہیں ہے ، کیونکہ اس سے یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ ہجرتِ مدینہ کے وقت تک اسلامی معاشرہ تشکیل پا چکا تھا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت تک اگرچہ مسلم گروہی عزم پختہ ہو چکا تھا اور مختلف حوالوں سے اپنا اظہار بھی کر رہا تھا لیکن ہجرتِ مدینہ کے وقت تک اسلامی معاشرہ بہرحال قائم نہیں ہوا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہجرتِ مدینہ کے بعد، ریاست اور معاشرہ ، بیک وقت اور متوازی انداز میں ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے تکمیل آشنا ہوئے۔ اس لیے یہ بات طے کرنا خاصا مشکل ہو گا کہ ہجرتِ مدینہ کے بعد معاشرتی حدود کہاں ختم اور ریاستی حدود کہاں شروع ہوئیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ باہم شیر و شکر ہیں ، اس لیے ہم یہ کہنے میں شاید حق بجانب ہیں کہ آپ ﷺکے وصال تک ( یا کم از کم فتح مکہ تک ) اسلامی معاشرے اور ریاست کا ارتقا مسلسل جاری رہا اور ان کے خط و خال آہستہ آہستہ واضح ہوتے گئے۔ 
خلافتِ راشدہ کے دور میں بھی معاشرے اور ریاست کی یکجائی قائم رہی۔ اس لیے جو لوگ فاروقِ اعظمؓ کے دور کی فتوحات کو ریاستی توسیع کے طور پر لیتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں ۔ یہ فتوحات درحقیقت ، بیک وقت ریاستی و سماجی توسیع سے عبارت ہیں۔مثلاً عہدِ فاروقی میں فلسطین کی فتح کو اگرچہ ریاستی توسیع میں شمار کیا جا سکتا ہے، لیکن حضرت عمرؓ جس ’’ شان و شوکت ‘‘ سے وہاں تشریف لے گئے، اسے سماجی توسیع کے علاوہ آخر اور کیا نام دیا جائے گا؟ حضرت عمرو بن عاصؓ نے اگر مصر کو فتح کرکے ریاست کو وسیع کیا تھا تو فاروقِ اعظمؓ نے ان کی رپورٹ کے انداز پر شدید برہمی کا اظہار کر کے سماجی توسیع کی نیو رکھی اور جلد ہی ان کا ایلچی عمرو بن عاصؓ کی نصف جائیداد ضبط کرنے کے احکامات لے کر مصر پہنچ گیا۔ عمرو بن عاصؓ نے ’’ خراب زمانے ‘‘ کا شکوہ کیا کہ ایک معزز شخص سے یہ سلوک کیا جا رہا ہے تو خلیفہ کے ایلچی نے ریاستی توسیع کے متوازی سماجی توسیع کی علامت بن کر کہا :
’’ اگر یہ دور نہ ہوتا جس سے تمھیں اتنی نفرت ہے تو تم اپنے گھر کے آنگن میں اپنی بکری کے پاؤں کے پاس اکڑوں بیٹھے ہوتے ، اگر اس کا دودھ زیادہ ہوتا تو تم خوش ہوتے اور اگر قلیل ہوتا تو تمھیں فکر مندی دبوچ لیتی ۔‘‘
فاتح مصر عمرو بن عاصؓ کو آخر ایک موقع پر کہنا پڑا کہ میری مثال تو اس شخص کی سی ہے جو گائے کے سینگ پکڑے کھڑا ہو ، مگر اس کے دودھ سے کوئی اور ہی مستفید ہو رہا ہو، کیونکہ ان کے ہاتھوں میں مالیات کا کنٹرول نہیں تھا۔ فاروقِ اعظمؓ کا ایلچی ایک خط لے کر فاتح عراق ، سعدؓ کے پاس بھی پہنچا، جس میں لکھا تھا :
’’ میں نے سنا ہے کہ تم نے ایک شاندار محل تعمیر کر لیا ہے اور اس میں لوگوں کے اور اپنے درمیان دروازہ بنا لیا ہے ۔اس میں سے نکل آؤ اور آئندہ کبھی دروازہ لگا کر لوگوں کو نہ روکنا، نہ ان کے حقوق پامال کرنا ۔ دروازہ لگانے سے تمھارا مقصد یہ ہے کہ لوگ تم سے ملنے کے لیے اس وقت کا انتظار کریں جب تک کہ تم ان سے ملنے کے لیے تیار نہ ہو جاؤ ۔‘‘
مذکورہ اقتباسات کی روشنی میں ذرا غور کر کے بتائیے کہ عہدِ فاروقی کی فتوحات کیا محض ’’ریاستی توسیع‘‘ کے زمرے میں شامل کی جا سکتی ہیں یا ان کے متوازی’’ سماجی توسیع‘‘ بھی جھلملا رہی ہے ؟ ہاں، یہ ضرور تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ خلافتِ راشدہ کے بعد ریاست اور معاشرہ دو الگ الگ دھاروں میں بٹتے چلے گئے اور ہم مسلمان آج تک انھی کے درمیان ربط و تعلق قائم کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی ایک ’’ امیر المومنین ‘‘ نے اپنی اسلامیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے سائیکل پر سواری کو رواج دینے کی کوشش کی اور ساتھ ہی ایک عدد ’’ قصرِ صدارت ‘‘ کی بنیاد بھی رکھ دی ، جس کی غلام گردشوں سے گزرنا ، ظاہر ہے ، کسی عام بندے کے حقوق میں شامل نہیں تھا ۔ 
(۲۱) بیسویں صدی میں یہودیوں نے بھی فلسطین میں Demographic Balance کو اپنے حق میں کرنے کے لیے دنیا بھر کے یہودیوں کو اس خطے میں آباد کرنا شروع کیا جس سے ان کی عددی اقلیت ، اکثریت میں بدلتی چلی گئی ۔ اس آباد کاری کی کامیابی کے پیچھے ان کے مواخاتی رویے کو بہت عمل دخل حاصل ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہودیوں کے خلاف چیختی چلاتی مسلم دنیا کو اپنے رویے پر نظر ثانی کر کے اس گم گشتہ مواخات کو تلاش کرنا چاہیے جو اسلامی معاشرے اور ریاست کی اساس ہے۔ اسلامی نظامِ اقدارصرف ’’ مسلمین ‘‘ کے لیے نہیں ہے۔ اسلام کا خدا رب العالمین ہے ، اسلام کا نبی رحمت للعالمین ﷺ ہے اور اسلام کی اساسی کتاب ، قرآن بھی عالمین کے لیے ہے : إِنْ ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعَالَمِیْن ( ص ۳۸/ ۸۷) ’’ نہیں ہے یہ قرآن مگر ایک یاد دہانی تمام جہان والوں کے لیے ‘‘ ۔


تصحیح 

الشریعہ کے اپریل ۲۰۰۶ء کے شمارے میں میاں انعام الرحمن صاحب کے مقالہ ’’سیرت نبوی اور ہجرت: ایک معنویاتی مطالعہ‘‘ میں ’’اے اللہ! شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ، اور امیہ بن خلف کو اپنی رحمتوں سے دور کر دے‘‘ کے الفاظ میں ایک دعا غلطی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو گئی ہے۔ (ص ۳۴ ، سطر ۴) یہ الفاظ حقیقت میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں۔ ادارہ اس فروگزاشت پر معذرت خواہ ہے۔ (مدیر)

قرآنی علمیات، یہودیوں کا کتمانِ حق اور مسئلہ ذبیح

اسلم میر

جناب پروفیسر میاں انعام الرحمن میرے چند پسندیدہ لکھنے والوں میں سے ہیں۔ میں ان کی فکر انگیز تحریروں کا بے تابی سے انتظار کرتاہوں، اگر چہ بعض اوقات ان کی تحریر کی تیزی وتندی کھلتی ہے۔ ان کے بعض استدلالات سے اختلاف کے باوجود میں ان کامداح ہوں۔ ایسی ہی ایک فکر انگیز تحریر ’’قرآنی علمیات اور معاصر مسلم رویہ‘‘ کے زیر عنوان الشریعہ کے جنوری ۲۰۰۶ء کے شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ اس کے بعض مندرجات سے اتفاق نہ ہونے کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ انعام الرحمن صاحب نے اس میں بعض بہت ہی لطیف نکات اور سوالات اٹھائے ہیں ۔
میں یہاں اس تحریر کے پہلے حصے سے جو ’’قرآنی علمیات ‘‘سے متعلق ہے، تعرض نہیں کروں گا ۔اس حصے میں انعام صاحب نے سورۃ بقرۃ کے بعض اجزا کی جو تشریح کی ہے، وہ میرے خیال میں سورۃ بقرۃ کے مجموعی نظم اور سیاق وسباق سے لگاّنہیں کھاتی، تاہم اس کو چھیڑنے سے بحث اپنے موضوع سے ہٹ جائے گی۔ ان سطور میں، میں انعام صاحب کے مضمون کے صرف دوسرے حصے یعنی ’ذبیح کون ہے؟‘ کو موضوع بحث بنا ؤں گا ۔
(۱) انعام صاحب یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’ذبیح کون ہے؟‘ کی بحث کابنیادی محرک کیاہے؟کیا اس سے قرآن کے کسی حکم کافہم مطلوب ہے؟کیایہ بحث کیے بغیر قر آنی منشا مستور رہتی ہے؟ 
میرے خیال میں ذبیح اور اسی ضمن میں مروہ اور موریا ،بیت اللہ اور بیت ایل کی بحث قرآن کی بعض آیات اور خاص طور پر سورہ بقرۃ کو اس کے صحیح تناظر میں سمجھنے کے لیے نہ صرف مفید بلکہ ناگزیر ہے اور اس سلسلے میں امام فراہی ؒ کی تحقیق ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔سورۃ بقرۃ اور قرآن کی بعض دیگر آیات کی تفہیم کے لیے یہود کی تحریفات اور کتمان حق کاپردہ چاک کرنا ضروری ہے ۔اگر ان تحریفات اور کتمان حق کاپس منظر قرآن کے قاری کے ذہن میں نہ ہو تو وہ نہیں سمجھ سکتا کہ اللہ جل شانہ یہود پر حق کو مسخ کرنے اور چھپانے کا الزام بار بار کیوں عائد کرتے ہیں اور حضرت محمد ﷺ اور قرآن کے بارے میں ان کے حاسدانہ رویے پر ان کواتنی سختی سے کیوں مخاطب کرتے ہیں۔ کم از کم میرا ذا تی تجربہ تو یہی رہاہے ۔ میں تقریباً گزشتہ ڈھائی سال سے سورۃ بقرۃ کا انتہائی غور سے مطالعہ کررہاہوں ۔جب تک میں نے یہود کی تحریفات اور کتمانِ حق کی اصل حقیقت اور پس منظر کو نہیں سمجھ لیاتھا، مجھے سورۃ بقرۃ کی بہت سی آیات کو سمجھنے میں سخت مشکل پیش آرہی تھی۔
قرآن مجید یہود کے کتمانِ حق اور کتمانِ شہادت کاذکر بار بار کرتاہے (سورۃ بقرۃ ۴۲، ۷۵، ۱۴۰، ۱۴۶، ۱۷۶، ۱۵۹۔ المائدہ۱۳۰، ۱۵) اور انھیں ’البینات والھدیٰ‘ (البقرۃ ۱۵۹) کو چھپانے کامجرم ٹھہراتاہے۔ قرآن مجید اس کتمان کی تفصیل بیان نہیں کرتا، لیکن یہ ضرور بتاتا ہے کہ ان کے اس کتمان کاتعلق ان کی کتابوں میں موجود واضح حقائق ہی سے ہے۔(البقرۃ ۱۴۰، ۱۵۹) 
ذیل میں، میں سورۃ بقرۃ میںیہود کے کتمانِ حق کے حوالے سے موجود اشارات کا تجزیہ کروں گا۔
البقرۃ آیت ۱۲۴ میں حضرت ابراہیم ؑ کی ابتلاؤں او رآزمائشوں کاذکر ہے۔ ان آزمائشوں میں سے کھلی اور واضح آزمائش (البلاء المبین) بیٹے کی قربانی تھی۔ (الصافات،۱۰۶) اللہ تعالیٰ نے ان آزمائشوں کے اختتام پر حضرت ابراہیمؑ کو ’اماما للناس‘ بنا نے کی خوشخبری دی۔ (البقرۃ، ۱۲۴) حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی اولاد میں بھی یہ امامت جاری رکھنے کی درخواست کی۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ میرے اس عہد میں ظالمین شامل نہیں ہو سکتے۔ (البقرۃ ۱۲۴) یعنی آپ کی اولاد میں سے ظالم لوگ امام نہیں بن سکتے۔ البقرۃ آیت۱۴۵ میں کتمان شہادت کرنے والوں کو سب سے بڑا ظالم کہاگیاہے۔ اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ کتمان شہادت کے مجرم یہود اور نصاریٰ، دونوں ہیں۔ مزید برآں ’شہادۃ عندہ من اللہ‘ کے الفاظ سے واضح ہوتاہے کہ یہ شہادت اور حق ان کی کتابوں میں موجود ہے۔
البقرۃ کی آیات ۱۲۴ اور ۱۴۰ کو ملانے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے کتمان شہادت کرنے والے ظالم ہیں اور امامت ناس کے اہل نہیں۔ اسی مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وہ تحویل قبلہ کی صورت میں (آیت ۱۴۲ ) اس ظالم اولاد (یہود ونصاریٰ) سے امامت کا منصب واپس لے کر امت وسط یعنی حضور ﷺ کے پیروکاروں (آیت ۱۴۳) کوسونپ رہا ہے۔ 
آیت ۱۲۴ میں ابراہیم ؑ کی قربانی اورآزمائشوں کے ذکر کے بعد آیت ۱۲۵ اوربعد میں آنے والی آیت میں بیت اللہ کے ذکر سے میرے خیال میں یہ بتانا مقصود ہے کہ ابراہیم ؑ کی قربانیوں اور آزمائشوں کا زیادہ تر تعلق اسی بیت اللہ سے ہے۔ آیت ۱۲۵ میں ابرہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کابیت اللہ کی تطہیر سے تعلق واضح کیا گیاہے، جبکہ آیت ۱۲۷ میں بیت اللہ کی تعمیر سے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ ساتھ حضرت اسماعیل علیہما السلام کا ذکر کرنے سے اللہ تعالیٰ خانہ کعبہ کی تعمیر وتطہیر میں حضرت اسماعیل ؑ کے کردار کو واضح کرنا چاہتے ہیں ۔اس سلسلے میں البقرۃ ۱۲۸ اورالصافات ۱۰۳ میں واحد یا جمع کے بجائے تثنیہ کے صیغے ’مسلمین ‘اور ’اسلما‘ بھی قابل غور ہیں۔ 
آیت ۱۲۹ میں رسول اللہ ﷺ کاحضرت ابراہیم ؑ اور اسماعیل علیہما السلام سے تعلق ظاہر کیا گیا ہے۔ آیت ۱۳۰ میں اس طرف اشارہ کیا گیاہے کہ حضور ﷺ ملت ابراہیم ؑ کے اصلی وارث ہیں اور اس ملتِ ابراہیم ؑ (یعنی رسالتِ محمدی ؑ ) سے اعراض کرنے والے بے وقوف ہی ہو سکتے ہیں۔ (ومن یرغب عن ملۃ ابراہیم الا من سفہ نفسہ ) آگے آیت ۱۴۲ میں ملتِ ابراہیم ؑ کا مرکز خانہ کعبہ کو قرار دیے جانے اور اس بیت اللہ کے قبلہ مقرر کیے جانے پر اعتراض کرنے والوں کو کھلم کھلا ’السفھاء‘ (بے وقوف ) کہا گیاہے۔ اب اگرآیت۱۴۲ میں ’السفھاء‘ کے لفظ کو آیت ۱۳۰ کے الفاظ ’الا من سفہ نفسہ‘سے ملایا جائے تو یہ حقیقت سا منے آتی ہے کہ بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف قبلہ کی تبدیلی پر احتجاج کرنے والے ملتِ ابراہیم ؑ سے منہ موڑ رہے ہیں۔ 
آیت ۱۲۸ سے لے کر ۱۳۶ تک سارے تعصبات اور نسل پرستی کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے (اسلام ) پر زور دیاگیاہے اوریہ واضح کیاگیاہے کہ یہی اسلام ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد اسماعیل ؑ واسحاق اور یعقوب علیہم السلام کا دین تھا اور اسی کی وصیت انہوں نے اپنے اولاد کو کی تھی ۔یہ حضرات کبھی نسل پرستی اور تعصب کاشکار نہیں ہوئے۔ آیت ۱۳۶ میں مسلمانوں کواس تعصب اور نسل پرستی سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ’لانفرق بین احدِِ من منہم‘ (البقرۃ ۱۳۶) میں یہودیوں اور عیسائیوں پر بھی لطیف تعریض ہے کہ وہ تفریق بین الرسل میں مبتلا ہیں۔ آیت ۱۳۷ میں بتایاگیاہے کہ اہل کتاب کے حق سے اعراض کی وجہ بے جا ضد ومخالفت (شقاق) ہے۔ ظاہر ہے کہ اس شقاق کی بنیاد نسل پرستی اور گروہی تعصب پر تھی۔ 
آیت ۱۴۰ میں اہل کتاب کو اس بات پر سر زنش کی گئی ہے کہ وہ ابراہیم ؑ اور ان کی ذریت کو یہود ونصاریٰ ثابت کرنے پر اصرار نہ کریں اور ان کی کتابوں میں (عندہ من اللہ) جو شہادت ہے، اس کو نہ چھپائیں۔ اگر آیت ۱۳۷ اور ۱۴۰ کو ماسبق سے جوڑا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس شقاق اورکتمان کاتعلق بیت اللہ اور حضرت محمدﷺ کے ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام کے ساتھ نسبت سے ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کتمان اور شقاق کی اصل نوعیت قرآن پاک سے نہیں، بلکہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے پاس جو کتاب الٰہی موجود ہے، اسی سے معلوم ہوگی۔ 
البقرۃ آیت ۱۴۲ سے آیت ۱۵۰ تک قبلہ کی تبدیلی اور اس پر یہود کارد عمل زیر بحث ہے ۔واضح رہے کہ قبلہ کی تبدیلی اس بات کاعلامتی اظہار تھا کہ اب امامت ناس، کتمان حق کے مرتکب یہود سے لے کر حضرت ابراہیم ؑ کے اصل وارث حضرت محمدﷺ کے پیروکاروں کو سونپی جانے والی ہے ۔اس لیے آیت ۱۴۲ کے فوراً بعد ’وکذلک جعلناکم امۃ وسطاً‘ کے الفاظ سے مسلمانوں کو مخاطب کیاجارہا ہے اور ان کو بتایا جارہاہے کہ اب شہادت علی الناس کی ذمہ داری تمھارے کندھوں پر ڈالی جاتی ہے۔ آیت ۱۴۲ سے ۱۵۰ تک خانہ کعبہ کاہی اصلی بیت اللہ ہونا مختلف پیرایوں میں جتایا گیاہے۔آیت ۱۴۴ میں بتایاگیاہے کہ مسجد حرام کابیت اللہ ہونا اہل کتاب کو اچھی طرح معلوم ہے، کیونکہ یہی حق ہے لیکن یہ اس حق کو چھپاتے ہیں۔ آیت ۱۴۵ میں رسول اللہ کو بتایا گیا ہے کہ خواہ آپ کوئی بھی نشانی ،ثبوت یاحجت پیش کر دیں ،اہل کتاب آپ کے قبلے کو حسد اور ضد کی وجہ سے قبول کرنے والے نہیں، حالانکہ خانہ کعبہ کااصلی قبلہ اور بیت اللہ ہونا ان پر اس طرح واضح ہے جس طرح اپنے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ (یعرفونہ کمایعرفون ابنآء ھم) آیت ۱۴۶ کے آخر میں بتایا گیاہے کہ ان میں سے ایک گروہ اس حق (خانہ کعبہ کابیت اللہ ہونا ) کے بارے میں کتمان حق کاجاننے بوجھتے مرتکب ہو رہاہے (وان فریقا منھم لیکتمون الحق وھم یعلمون) اس کے بعد اگلی آیت ۱۴۷ اور۱۴۹ میں اس حکم کے خدا کی طرف سے حق ہونے کو تاکیداً دوبارہ جتایا گیاہے۔
آیت ۱۵۵ میں مسلمانوں کو ہر قسم کی قربانیوں کے لیے تیار رہنے کااشارہ دیاگیاہے۔ آیت ۱۵۵ کے الفاظ ’لنبلونکم‘ (ہم تمھیں ضرور آزمائیں گے) کو آیت ۱۲۴ کے الفاظ ’واذ ابتلیٰ ابراہیم ربہ‘ (اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے آزمایا) سے ملایئے۔ وہاں ابراہیم ؑ کو ان کی قربانیوں کے نتیجے کے طور پر امام الناس اور خانہ کعبہ کے لوگوں کے لیے مرجع ومرکز (مثابۃ للناس) بنائے جانے کی نوید سنائی گئی تھی، جبکہ یہاں قبلہ کی بازیابی کے لیے متوقع قربانیوں اور قتال کی طرف اشارہ ہے (آیت ۱۵۴ اور۱۵۵) اور پھراسی سلسلے میں صفا ومروہ (آیت ۱۵۸) کاذکر کیا گیاہے ۔
اللہ جل شانہ نے سب سے شدیدتہدید صفا ومروہ کے بارے میں کتمان حق پر کی ہے اور ایسا کرنے والوں کو اللہ، فرشتوں اور سارے انسانوں کی لعنت کا مستحق قرار دیا ہے۔ (البقرۃ ۱۵۹ تا ۱۶۲) صفا ومروہ کاشعائر اللہ میں سے ہونے کو جتانا( آیت ۱۵۸) اور اس با ت کی تردید کہ ان کا طواف کرنا گناہ ہے، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ صفا ومروہ کے بارے میں بہت ہی گھناؤنا کتمان حق ہوا ہے اور یہ کوشش کی گئی ہے کہ ان کاتعلق شعائر اللہ اور ابراہیم ؑ سے کاٹ دیاجائے ۔ آیت ۱۵۹ میں بتایا گیاہے کہ اس سلسلے میں واضح نشانیاں (البینت و الھدیٰ) الکتاب یعنی توراۃ میں موجود ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کھول کھول کربیان کیاہے (بینہ للناس فی الکتب)۔ 
انعام صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ یہودی نسل پرست ہیں ۔ان کی نسل پرستی کی بنیاد کیاہے؟ دوسرے الفاظ میں ان کی نسل پرستی کا ظہور کس انداز میں ہوا ہے؟ وہ خود کوبنی ابراہیم کہلانا پسند کرتے ہیں یا بنی اسرائیل؟انہوں نے ابراہیم سے ناتا توڑ کر اسحاق سے ناطہ جوڑ لیا اور یہی ’’بنی اسحاق‘‘ ان کے لیے قبول حق میں رکاوٹ بنا۔ان کا یہی پندار ان کے ’’بنی اسماعیل ‘‘کے ساتھ بغض وحسد کا سبب بنا جس کے حوالے قر آن نے بار بار دیے ہیں۔ اسی پندار، غروراور’’بنی سماعیل‘‘کے خلاف حسد نے ان کوان تحریفات اور التباسات پر اکسایا جن کی قرآن نے مذمت کی ہے اور جن کو فراہی ؒ نے تحقیق کرکے اور ان پر پڑی ہوئی دبیز تہوں کو جھاڑ کردنیا کے سامنے آشکارا کر دیا ہے۔ (مولانا فراہی رحمہ اللہ کی اس کتاب کا انگریزی ترجمہ نادر عقیل انصاری صاحب نے کیاہے جوابھی تک شائع نہیں ہو سکا۔ اس موضوع پر سلسلہ تحقیق کو ’المورد‘ کے فیلو جناب عبد الستار غوری نے آگے بڑھایا ہے اور اپنی کتاب ’’The Only Son Sacrificed‘‘ میں یہود کے کتمانِ حق کو مزید مبرہن کردیاہے۔) ان تحریفات والتباسات کاعلم ہونے کے بعد قرآن کامطالعہ کرنے والے پر قرآن کایہ دعویٰ روز روشن کی طرح واضح ہوجاتاہے کہ یہود حق کو حسد اور ضد کی وجہ سے قبول نہیں کررہے تھے ۔ان حقائق کے بعد کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتاہے کہ ذبیح کی بحث کاقرآنی آیات یا منشا کی تفہیم سے کوئی تعلق نہیں؟
(۲) انعام الرحمن صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں بہتر سمجھا، وہاں اسماعیل ؑ کاذکر باقاعدہ نام لے کر کیا۔ مثلاً بیت اللہ کی تعمیر کے ذکر میں ان کانام موجود ہے۔ذرا غور کیجئے کہ اگر قربانی کے واقعہ میں بھی ان کا نام شامل ہوتا تو معترضین کوپھبتی کسنے کاموقع ملتا کہ اسلام دعویٰ تو عالمگیریت کاکرتاہے لیکن اصلاً اسماعیلی ہے۔ اس طرح اسحاق کانام شامل ہوتا تو یہودیوں کانسل پرستی کو مزید شہ ملتی۔‘‘ 
انعام الرحمن صاحب کے اس تبصرے پر درج ذیل سوال پیدا ہوتے ہیں:
۱۔بیت اللہ کی تعمیر وتطہیر کے سلسلے میں (البقرۃ آیات ۱۲۵۔۱۲۷ ) میں اسماعیل ؑ کے ذکر میں کیا حکمت ہے؟ کیا وہاں صرف ابراہیم ؑ کاذکر کافی نہیں تھا؟اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ بیت اللہ کی تعمیر کے سلسلے میں اسماعیل ؑ کے ذکر پر تو یہود کو پھبتی کسنے سے کوئی چیز مانع تھی لیکن اگر اللہ تعالیٰ قربانی کے واقعے میں اسماعیل ؑ کاذکر کردیتے تو وہ فورا پھبتیاں کسنے لگتے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کعبے کے سلسلے میں اسماعیل ؑ کانام ذکر کرنے پر تووہ اللہ تعالیٰ کو معاف کر دیتے لیکن قربانی کے معاملے میں معاف نہ کرتے؟
۲۔کیا یہود کے قبلے کو چھوڑ کر خانہ کعبہ کوقبلہ بنانے سے یہود کو پھبتی کسنے کاموقع نہ ملتا؟ اور اگر قرآن نے بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ کے مرکز ابراہیمی ہونے کے مسئلے کو پورے زور اور اصرار کے ساتھ چھیڑا ہے تو کیا اس سے اسلام کی عالمگیریت پر حرف نہیں آتا؟ اور جب اس پست ذہنیت کے ساتھ کیے جانے والے کتمان حق پر یہود کوڈانٹ پلائی گئی تو کیا یہ داعی کے منصب جلیل سے اتر کر مدعی کی سطح پر اترنے کے مترادف تھا؟ اگر نہیں تو ایک مرد خدا نے اگر ہمت کرکے ذبیح کے حوالے سے یہود کے کتما ن کے پردوں کو چاک اور ان کی تحریفات والتباسات کو بے نقاب کر دیاہے تو اس پر یہ الزام کیوں دھرا جاتاہے کہ وہ نسلی اور نفسیاتی عوارض کاشکار ہے، اس کی یہ تحقیق قرآنی منشا سے متصادم ہے اور اس سے اسلام کی عالمگیریت پر حرف آتا ہے؟
(۳) میاں صاحب لکھتے ہیں: 
’’قرآن مجید اپنے آپ کو تبیاناً لکل شئی اور تفصیلاً لکل شئ قر ار دیتاہے جس میں ہر ضروری پہلو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔‘‘ 
ہمارا سوال یہ ہے کہ قرآن نے اہل کتاب کے کتمان حق کی طرف صر ف لطیف اشارات کر کے ان کی مکمل نوعیت کیوں بیان نہیں کی؟ کیا یہ قرآن کے تبیانا لکل شئی ہونے کے خلاف نہیں؟انعام صاحب کی بات کواگرہم تھوڑا سا آگے بڑھائیں تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قر آن نے آدم کو سکھائے گئے ناموں کی وضاحت کیوں نہیں کی؟ اللہ تعالیٰ نے تو ’الاسماء کلھا‘  کی نوعیت نہیں بتائی، لیکن انعام صاحب نے ان کی تشریح قرائن اور سیاق وسباق کی روشنی میں کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر اللہ نے ان ’’الاسماء ‘‘ کومشخص نہیں کیا تو پھر انعام صاحب کیوں ’’الاسماء‘‘ کو معلوم کرنے کی’’لایعنی بحث ‘‘ میں پڑے اور اس طرح قر آنی علمیات سے روگردانی کے مرتکب ہوئے؟ اصل بات یہ ہے کہ قرآن انتہائی بلیغ کتاب ہے اور وہ ہر چیز کو لازماً الفاظ کا جامہ نہیں پہناتی۔ اس میں بہت سی چیزوں کو قرائن، سیاق وسباق او ر قرآن پر ایک مجموعی نظر ڈال کر کھولنا پڑتا ہے۔
(۴) اب ہم سورۃ الصٰفٰت کی متعلقہ آیات کے حوالے سے چند گزارشات پیش کریں گے۔
انعام صاحب لکھتے ہیں :
’’قر ائن یہی بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بیٹے کے بجائے باپ کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
یہ بات ایک حد تک درست ہے، لیکن اس سلسلے میں آیت ۱۰۳ میں واحد کے بجائے تثنیہ کا صیغہ ’ اسلما‘ بھی قابل غور ہے ۔’’ یہ کالفظ یہ بتارہاہے کہ قربانی باپ اور بیٹے، دونوں سے مطلوب تھی اور اسی تقاضے کے جواب میں ان دونوں نے سرِتسلیم خم کیا۔ جہاں تک خواب کاتعلق ہے تو وہ چونکہ ابراہیم ؑ ہی نے دیکھا تھا، اس لیے خواب کے سچا کر دکھانے کاتعلق بھی انھی سے ہوسکتا تھا۔
انعام صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’کتنی عجیب بات ہے کہ ایسے ’’مدبرین‘‘ محض ’’ اسرائیلیات ‘‘ کے بل بوتے پر (تاریخ ومعاشرت وکلچر کے بے جااثبات کاشکارہوکر )ایسا عملی وفکری رویہ پروان چڑھا رہے ہیں جس سے قرآنی علمیاتی منہاج اور قرآنی منشا پسِ پشت چلے گئے ہیں۔‘‘ 
حقیقت یہ ہے کہ امام فراہی نے تحقیق کے یہ سارے پاپڑ قرآنی منشا ہی کواجاگر کرنے کے لیے بیلے ہیں اور انھوں نے اس تحقیق کی بنیاد ہرگز ’’اسرائیلیات‘‘ کی بنیاد پر نہیں رکھی۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
’’ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اگرقرآن مجید میں ایسے روشن دلائل نہ ہوتے جو پوری تصریح کے ساتھ ذبیح کی شخصیت کومتعین کر رہے ہوتے تو یقیناًہم اس باب میں سکوت کامسلک اختیار کرتے اور ایک ایسی بات کو کریدنا پسند نہ کرتے جس کی تصریح سے قرآن نے سکوت اختیار کیا ہے۔‘‘  (ذبیح کون ہے؟شائع کردہ انجمن خدام القرآن۔لاہور ۱۹۷۵ء، صفحہ ۴۰)
’ذبیح کون ہے‘ کی بحث میں مولانا فراہی ؒ نے قر آن مجید سے استدلال کے لیے ایک پورا باب وقف کیاہے ۔اس سلسلے میں انہوں نے قرآن مجید سے تیرہ دلائل پیش کیے ہیں۔ ان میں سے ایک دلیل حسب ذیل ہے:
سورۃ الصافات کے الفاظ ’فلما بلغ معہ السعی‘ اور ’یبنی‘ کے الفاظ ظاہر کررہے ہیں کہ جو بیٹا قر بان ہوا، وہ قربانی کے وقت کم سن تھا۔ سورۃ ہود کی آیت ۷۱  ’فبشرنھاباسحاق ومن ورآء اسحاق یعقوب‘ سے واضح ہوتاہے کہ ابراہیم کوبیٹے (اسحاق) کی خوشخبری کے ساتھ ساتھ پوتے (یعقوب )ؑ کی خوشخبری بھی دے دی گئی تھی۔ ظاہر بات ہے کہ ابوّت fatherhood)) کی صفت اسحاق کے ذبیح ہونے میں مانع ہے،کیونکہ ایک طرف اسحاق کی بشارت کے ساتھ ہی ان کے باپ بننے کی بشارت (پوتے کی بشارت) دے دینا اور دوسری طرف ابراہیم سے یہ کہنا کہ وہ انھیں قربانی کے لیے پیش کریں، ناقابل فہم بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک ایسے بیٹے کو ذبح کرنے کاحکم یا اشارہ کیسے فرما سکتے تھے جس کی نسل سے وہ ابراہیمؑ کو پوتا (یعقوب) عطا کرنے کا وعدہ فرما چکے تھے؟ علاوہ ازیں قربانی کا واقعہ ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق کی بشارت کا الگ سے ذکر کیا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ ’’ غلام حلیم‘‘ سے مراد حضرت اسماعیل ؑ ہیں، ورنہ آخر میں حضرت اسحاق ؑ کاالگ سے ذکر کرنا بلاوجہ قرار پائے گا۔
مولانا فراہی نے اس بات پر بھی مفصل بحث کی ہے کہ قرآن نے ذبیح کومشخص کیوں نہیں کیا۔ اس سلسلے میں ایک اقتباس پیش خدمت ہے :
’’ تورات میں بکثرت دلائل اس بات کے موجود تھے کہ ذبیح اسماعیلؑ ہی ہوسکتے ہیں۔ وہی اکلوتے بیٹے ہیں۔وہی اس دائمی برکت سے نوازے گئے جس میں سے تمام قومیں حصہ پانے والی تھیں۔ علاوہ ازیں دوسر ے فضائل بھی ان کے بیان ہوئے تھے۔ نیز یہ امر بھی مخفی نہ تھا کہ یہود حضرت اسماعیل اور ان کی اولاد کے دشمن ہیں۔ ان حالات کی موجود گی میں بہتر یہی تھا کہ قرآن صرف انہی دلائل کے بیان پر اکتفا کرے جوان کے دشمنوں کے پاس موجود ہیں اور خود اپنی طرف سے تصریح اس بارے میں نہ کرے۔ 
الفضل ماشہدت بہ الاعداء (اصلی شرف وہی ہے جس کی مخالف گواہی دے )
بالخصوص اس وقت تواس شہادت کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ دلائل یہود کی خواہش کے بالکل خلاف اور ان کی تحریف اور کتمانِ حق کی عام کوششوں کے علی الرغم بچ رہے۔‘‘  (ذبیح کون ہے؟ ،صفحہ ۵۶)
ان اقتباسات کی موجودگی میں مولانا فراہی پر ’’اسرائیلیات‘‘ سے خوشہ چینی کا الزام لگانا، ان کے’’مدبر قرآن‘‘ ہونے پر پھبتیاں کسنا یا یہ کہنا کہ’’ محض اسرائیلیات کے بل بوتے پر ‘‘ اسماعیل ؑ کوذبیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، صریح ناانصافی ہے۔ 
اس بحث سے اس سوال کاجواب بھی مل جاتا ہے کہ کہ آیا ہم مسلمانوں کو ’ذبیح کو ن ہے؟‘ کی بحث میں پڑنا چاہیے یا نہیں۔ اگر ہم اس بحث کو اس زاویے سے چھیڑیں کہ اسحاق ؑ یا اسماعیل میں سے کسی ایک کی برتری دوسرے پر ثابت کی جائے تویہ ہر گزمستحسن نہیں ،لیکن اگر بحث اس زاویے سے ہو کہ یہودیوں کے کتمانِ حق کاپردہ چاک کیاجائے یا اس کتمانِ حق کوصحیح طور پر سمجھا جائے تو پھر یہ بحث بہت اہم ہے۔ اس کے بغیر، جیسا کہ ہم نے واضح کیا، قرآن کی بہت سی آیات کی تفہیم بہت مشکل ہے۔

قورح، قارون اور کتاب زبور

محمد یاسین عابد

ماہنامہ الشریعہ کے دسمبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی صاحب نے دعویٰ کیا تھا کہ :
’’توراۃ میں بھی قارون کا ذکر ہے لیکن اس میں اس کا ذکر بالکل مختلف انداز سے ہے۔ اس میں اس کی فراوانی دولت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو متنبہ (Challenge) کیا تھا اور کہا تھا کہ تم اپنے آپ کو اللہ کا برگزیدہ بندہ کہتے ہو اور میں بھی برگزیدہ ہوں کیونکہ مال ودولت میں تم سے زیادہ ہوں۔ (توراۃ، کتاب گنتی، اصحاح ۱۶) .......’’توراۃ کی مذکورہ کتاب اور اسی فصل میں قارون کے خزانے کی تفصیل میں ہے کہ ’’اس کے خزانے کی کنجیاں چمڑے کی تھیں اور تین سو اونٹوں پر لادی جاتی تھیں۔‘‘
چونکہ مذکورہ بالا عبارات پوری بائبل میں کہیں بھی درج نہیں، ا س لیے راقم نے فروری ۲۰۰۶ کے شمارے میں قارئین کو اس غلطی پر مطلع کرنے کے ساتھ ساتھ شک ظاہر کیا کہ ’’غالباً ڈاکٹر صاحب نے کبھی بائبل کھول کر نہیں دیکھی اور سنی سنائی اور غیرمستند معلومات کی بنیاد پر مذکورہ عبارت تورات کی طر ف منسوب کر دی ہے۔‘‘ 
اگر میری تنقید غلط تھی تو ڈاکٹر صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ بائبل میں مذکورہ عبارات کی نشان دہی کر کے میری اور قارئین کی معلومات میں اضافہ کرتے۔ اور اگر تنقید درست تھی تو ڈاکٹر صاحب کو غلطی کا اعتراف کر کے اپنے بڑے پن کا ثبوت دینا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس کہ میرے اس جملے سے ڈاکٹر صاحب کے پندار کو سخت چوٹ لگی اور انھوں نے مارچ ۲۰۰۶ کے شمارے میں اس غلطی کی نشان دہی پر میرے انداز کو جارحانہ اور علمی حیثیت سے گرا ہوا قرار دیتے ہوئے نہ صرف مجھے بائبل پر قرآن سے زیادہ اعتماد کرنے کا طعنہ دیا ہے بلکہ لمبی زبان والا، یہودی، جاہل، غافل اور دھوکے باز جیسی گالیوں سے بھی نوازا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں غلط حوالے درج کیے جانے کی جو توجیہ کی ہے، وہ دلچسپ ہے ۔ فرماتے ہیں:
’’میرا زیر بحث مضمون دروس قرآن کے ضمن میں ایک دعوتی واصلاحی نوعیت کی کاوش ہے۔ یہ قارون (قورح) سے متعلق کوئی تحقیقی مقالہ نہیں اور اہل علم میں قارون کے متعلق جو باتیں معروف ہیں (ان میں یہ بھی ہے کہ وہی بائبل کا قورح ہے) میں نے بغیر حوالے کے لکھ دی تھیں، کیونکہ بنیادی طورپر اس لیکچر (درس قرآن) میں آنے والے عام تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ ‘‘
’’ میرا جومضمون قارون سے متعلق ’’الشریعہ ‘‘میں شائع ہوا تھا، وہ دروس قرآن کے ضمن میں ٹیپ سے نقل کردہ Transcribed)) ایک لیکچر تھا جو ہمارے دفتر کے ایک سیکرٹری نے ٹیپ سے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا تھا۔ ان کے سہو قلم سے تین سو خچروں کے بجائے تین سو اونٹ کتابت ہوگیااور چونکہ توراۃ کا ذکر اوپر چل رہاتھا، اس وجہ سے اسی کانام بجائے جیوش انسائیکلوپیڈیا کے انہوں نے لکھ دیا۔‘‘
واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے مضمون میں مذکورہ دونوں اقتباس کسی حوالے کے بغیر نہیں، بلکہ باقاعدہ کتاب گنتی کے باب ۱۶ کے حوالے سے درج کیے گئے ہیں۔ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے تو اپنے درس میں کوئی بات کسی حوالے کے بغیر بیان کی ہو اور ان کا سیکرٹری درس کو مرتب کرتے وقت ازخود ایک اقتباس کے ساتھ کتاب گنتی کے ایک باب کا حوالہ دے دے جہاں اس بات کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہ ہو اور دوسرے اقتباس کے ساتھ ’’توراۃ کی مذکورہ کتاب اور اسی فصل‘‘ کے الفاظ کا اضافہ کر دے، حالانکہ وہ بات بائبل کے بجائے ’’جیوش انسائیکلو پیڈیا‘‘ میں لکھی ہو؟ ڈاکٹر صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ اس غلطی کو غریب سیکرٹری کے سر تھوپنے کے بجائے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود اس کی ذمہ داری قبول کرتے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے کسی تحریر کو سمجھے بغیر اس پر تنقید کرنے اور کتابوں کو پڑھے بغیر ان کا حوالہ دینے کے متعدد نمونے اپنی موجودہ تحریر میں بھی پیش کیے ہیں۔ چنانچہ دیکھیے:
۱۔ میں نے قورح ، داتن، ابیرام اور ان کے ۲۵۰ ساتھیوں کے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے، ہجرت کرنے اور حکم الٰہی کے تحت جہاد اور نشست وبرخاست کا ذکر کیا تھا اور یہ بتایا تھا کہ یہ سارا معاملہ ان کے بغاوت (گنتی ب ۱۶) کرنے سے قبل ہوا، لیکن بعد میں مذکورہ اشخاص باغی بن کر خدا کے غضب کے مستحق ٹھہرے۔ اس سے واضح ہے کہ بغاوت سے قبل قورح کے ایمانی کارناموں کے ذکر کا مقصد اس کی حمایت یا دفاع نہیں، بلکہ محض بائبل میں بیان ہونے والی متعلقہ تفصیلات کا اجمالی ذکر تھا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں: ’’جناب ناقد نے یہودی قورح کے دفاع میں جو کچھ لکھا ہے اور جس طرح بائبل کے بیانات سے تجاہل برتا ہے، اس کی امید کسی یہودی سے ہی کی جاسکتی تھی۔‘‘
۲۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: ’’موصوف نے قورح کے شجرہ نسب کے لیے کتاب خروج کے علاوہ ۱۔ تواریخ ۲:۱ کا حوالہ بھی دیا ہے۔ اس مقام پر اضہار اور قہات بن لاوی یعنی قورح کے باپ کا بالکل ذکر نہیں۔‘‘
میں نے لکھا تھا: ’’اضہار، عمرام کا چھوٹا بھائی تھا اور دونوں قہات بن لاوی بن یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ (خروج ۶: ۱۶۔۱۸ و ۱۔ تواریخ ۲:۱)‘‘ چونکہ قورح کا شجرہ نسب حضرت یعقوب تک لکھنا مقصود تھا، اس لیے مذکورہ دونوں حوالے لکھے گئے۔ کیونکہ خروج ۶:۱۶ تا ۱۸ تک قورح سے لاوی تک اور ۱۔ تواریخ ۲:۱ میں لاوی سے حضرت یعقوب علیہ السلام تک شجرے کا ذکر ہے۔ دونوں حوالے درج کرنے ہمارا مقصد یہی تھا جسے غصے کے غلبے کے باعث محترم ڈاکٹر صاحب سمجھ نہ پائے۔ 
۳۔ ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’اس مقام (گنتی ۹:۲۳) پر تو صرف یہ درج ہے کہ ’’وہ (بنی اسرائیل) خداوند کے حکم سے قیام کرتے اور خداوند ہی کے حکم سے کوچ کرتے تھے۔‘‘ بلکہ اس پورے اصحاح یا باب میں مصر سے براہ بحر قلزم ہجرت بنی اسرائیل کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ اب لمبی زبان والے جناب ناقد صاحب یہ بتائیں کہ سنی سنائی باتیں کون کر رہاہے اور کیا اب میرا یہ کہنا درست ہوگا کہ موصوف نے کبھی بائبل کھول کر دیکھی ہی نہیںیا دیکھی ہے تو وہ جان بوجھ کرغلط بیانی کررہے ہیں اور قارئین کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ ‘‘
میں نے گنتی ۹:۲۳ کا حوالہ اس ضمن میں دیا تھاکہ ’’تمام بنی اسرائیل کی نشست وبرخاست خدا اور اس کے نبی حضرت موسیٰ کے زیر فرمان ہی ہوتی تھی۔‘‘ اس عبارت کے فوراً بعد مذکورہ حوالہ لکھا گیا، لیکن ڈاکٹر صاحب کی محققانہ مہارت کو داد دیں کہ انھوں نے حوالے سے متصل پہلے کی عبارت کو پھلانگ کر اس سے پچھلی عبارتوں کو مذکورہ حوالے سے متعلق سمجھ لیا۔ 
۴۔ ڈاکٹر صاحب نے بائبل کے حوالے سے اپنی زندگی بھر کے مطالعہ کا نچوڑ یوں پیش کیا ہے:
’’زبور ہی بائبل کی وہ کتاب ہے جس میں کوئی تحریف نہیں ہوئی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور بنی اسرائیل کے اظہار بندگی کے ترانے ہیں اور ان کے لیے اپنے گناہوں کا اعتراف بھی ان ترانوں میں ہے جن کو بآسانی حفظ کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ زبور ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام کو عطا کی گئی تھی۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کے اس دعوے کی روشنی میں کہ یہ وہی زبور ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام کو دی گئی، اب ذرا زبور کے درج ذیل اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:
’’کاش کہ اسرائیل کی نجات صیون میں سے ہوتی! جب خداوند اپنے لوگوں کو اسیری سے لوٹا لائے گا تو یعقوب خوش اور اسرائیل شادمان ہوگا۔‘‘ (زبور ۱۴: ۷ و ۵۳: ۶)
’’اے خدا! قومیں تیری میراث میں گھس آئی ہیں۔ انھوں نے تیری مقدس ہیکل کو ناپاک کیا ہے۔ انھوں نے یروشلم کو کھنڈر بنا دیا ہے۔ اے ہمارے نجات دینے والے خدا! اپنے نام کے جلال کی خاطر ہماری مدد کر۔ اپنے نام کی خاطر ہم کو چھڑا اور ہمارے گناہوں کا کفارہ دے۔‘‘ (زبور ۷۹: ۱ )
’’اے خداوند، جنوب کی ندیوں کی طرح ہمارے اسیروں کو واپس لا۔‘‘ (زبور ۱۲۶:۴)
’’ہم بابل کی ندیوں پر بیٹھے اور صیون کو یاد کر کے روئے۔ وہاں بید کے درختوں پر ان کے وسط میں ہم نے اپنی ستاروں کو ٹانگ دیا، کیونکہ وہاں ہم کو اسیر کرنے والوں نے گانے کا حکم دیا، اور تباہ کرنے والوں نے خوشی کرنے کا، او ر کہا صیون کے گیتوں میں سے ہم کو کوئی گیت سناؤ۔ ہم پردیس میں خداوند کا گیت کیسے گائیں؟ اے بابل کی بیٹی جو ہلاک ہونے والی ہے، وہ مبارک ہوگا جو تجھے اس سلوک کا جو تو نے ہم سے کیا، بدلہ دے۔ وہ مبارک ہوگا جو تیرے بچوں کو لے کر چٹان پر پٹک دے۔‘‘ (زبور ۱۳۷: ۱۔۴، ۸ و ۹)
’’اوپر سے ہاتھ بڑھا۔ مجھے رہائی دے اور بڑے سیلاب یعنی پردیسیوں کے ہاتھ سے چھڑا۔‘‘ (زبور ۱۴۴:۷)
زبور کے مذکورہ مقامات اس بات کے ناقابل تردید داخلی شواہد ہیں کہ یہ وہ زبور نہیں جو حضرت داؤد علیہ السلام کو دی گئی، بلکہ اس کا زمانہ تصنیف حضرت داؤد کے چار سو سال بعد بخت نصر کے دور میں بابل کی اسیری کا دور ہے۔ اب کیا کوئی شخص ڈاکٹر صاحب سے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ انھوں نے زبور واقعی کھول کر دیکھی ہے اور زبور کے بارے میں وہ اپنے نتیجہ تحقیق تک اس کے مطالعہ کے بعد ہی پہنچے ہیں؟
۵۔ پڑھے بغیر کتابوں کے حوالے دینے کی ایک اور مثال ملاحظہ کیجیے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک طرف یہ فرمایا ہے کہ زبور ہی وہ واحد کتاب ہے جس میں کوئی تحریف نہیں ہوئی، اور دوسری طرف مجھے مشورہ دیا ہے کہ میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی کتاب ’اظہار الحق‘ کا مطالعہ کروں۔ افسوس کہ اس مشورے پر انھوں نے خود عمل نہیں کیا۔ مولانا کیرانوی نے اپنی اسی کتاب میں زبور کے مختلف مقامات پر تحریف کی مثالیں پیش کی ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’’زبور ۴۰:۶ میں ہے کہ ’’تو نے میرے کان کھول دیے ہیں۔‘‘ پولس نے عبرانیوں ۱۰:۵ میں زبور کا یہ جملہ نقل کیا ہے، مگر اس میں اس کی جگہ یوں ہے کہ ’’بلکہ میرے لیے ایک بدن تیار کیا۔‘‘ اس لیے یقیناًایک عبارت غلط اور محرف ہے۔ مسیحی علما حیران ہیں۔ ہنری واسکاٹ کی تفسیر کے جامعین کہتے ہیں: ’’یہ فرق کاتب کی غلطی سے ہوا اور ایک ہی مطلب صحیح ہے۔‘‘ غرض ان جامعین نے تحریف کا اعتراف کر لیا، لیکن وہ کسی ایک عبارت کی جانب تحریف کی نسبت کرنے میں توقف کرتے ہیں۔ آدم کلارک اپنی تفسیر کی جلد ۳ میں زبور کی عبارت کے ذیل میں کہتا ہے ’’متن عبرانی جو مروج ہے، وہ محرف ہے۔‘‘ غرض تحریف کی نسبت زبور کی عبارت کی جانب کرتا ہے۔‘‘ (بائبل سے قرآن تک، ۲/۲۴)
ایک دوسری مثال ملاحظہ فرمائیے:
’’زبور ۱۴ کی آیت ۳ کے بعد لاطینی ترجمہ میں اور ایتھوبک ترجمہ میں اور عربی ترجمہ میں اور یونانی ترجمہ کے ویٹی کن والے نسخہ میں یہ عبارت موجود ہے کہ ’’ان کا گلا کھلی ہوئی قبر ہے، انھوں نے اپنی زبانوں سے فریب دیا، ان کے ہونٹوں میں سانپوں کا زہر ہے، ان کا منہ لعنت اور کڑواہٹ سے بھرا ہے، ان کے قدم خون بہانے کے لیے تیز رو ہیں، ان کی راہوں میں تباہی اور بد حالی ہے، اور وہ سلامتی کی راہ سے واقف نہ ہوئے۔ ان کی آنکھوں میں خدا کا خوف نہیں۔‘‘ یہ عبارت عبرانی نسخہ میں موجود نہیں، بلکہ پولس کے خط رومیوں ۳:۱۳ تا ۱۸ میں پائی جاتی ہے۔ اب یا تو یہودیوں نے یہ عبارت عبرانی نسخہ سے ساقط کر دی ہے، تب تو یہ تحریف بالنقصان ہے، یا عیسائیوں نے اپنے ترجموں میں اپنے مقدس پولس کے کلام کی تصحیح کے لیے بڑھائی ہے، تب یہ تحریف بالزیادۃ کی صورت ہوگی۔ اس لیے کسی نہ نہ کسی ایک نوع کی تحریف ضرور لازم آئے گی۔‘‘ (بائبل سے قرآن تک، ۲/۸۹، ۹۰)
۶۔ اب اس ضمن کا سب سے دلچسپ نمونہ ملاحظہ فرمائیے۔ اپنے مضمون نما درس (الشریعہ، دسمبر ۲۰۰۵) میں ڈاکٹر صاحب نے قرآن کے قارون کو بائبل کا قورح قرار دیتے ہوئے تورات کی کتاب گنتی، باب ۱۶ کا حوالہ دیا تھا جس میں قورح اور اس کے ساتھیوں داتن اور ابی رام وغیرہ کے زمین میں دھنسائے جانے کا ذکر ہے۔ بائبل کے مذکورہ مقام کی رو سے یہ مصر سے ہجرت کرنے کے بعد بنی اسرائیل کے بیابان میں سرگردانی کے دور کا واقعہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ تسلیم کر لیا کہ قورح ، داتن اور ابی رام وغیرہ اکٹھے زمین میں دھنسائے گئے تھے اور یہ واقعہ مصر میں نہیں، بلکہ ہجرت مصر کے بعد رونما ہوا۔ 
اس کے بالکل برعکس اپنے جوابی مضمون (الشریعہ، مارچ ۲۰۰۶) میں، جو ظاہر ہے کہ انھوں نے اصل مضمون کے دفاع ہی میں لکھا ہے، وہ اس بات سے صاف انکار کرتے ہیں کہ قورح کو ابی رام اور داتن وغیرہ کے ساتھ زمین میں دھنسایا گیا تھا۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’’قورح کے خسف فی الارض (زمین میں دھنسائے جانے) کا واقعہ اس سے قبل مصر میں ہو چکا تھا۔ قرآن کریم نے کتاب استثنا اور زبور کی روایت کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ مصر میں تھے کہ قارون (قورح) اور اس کا محل زمین میں دھنسائے گئے۔ ورنہ سینا میں تو سارے اسرائیلی خیموں میں رہتے تھے۔ وہاں قورح نے کون سا محل اور کہاں تعمیر کیا تھا؟ اسی لیے بائبل کی مذکورہ بالا دونوں روایتوں میں داتن اور ابیرام کے گھروں کا ذکر نہیں، بلکہ خیموں کا ذکر ہے۔‘‘
اگر یہی بات تھی تو ڈاکٹر صاحب نے اصل مضمون میں کتاب گنتی کے باب ۱۶ کا حوالہ کیوں دیا جو قورح، داتن اور ابی رام وغیرہ کے اکٹھے دھنسائے جانے کا ذکر کرتا ہے؟ گمان غالب یہی ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون کے دفاع کے لیے قلم اٹھایا تو خود اپنے ہی مضمون کو پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
پھر اگر اب ڈاکٹر صاحب ان دونوں واقعات کو الگ الگ تسلیم کر رہے ہیں تو میری گزارش بھی یہی تھی کہ قارون اور قورح، دو الگ الگ شخصیتیں ہیں اور دونوں کے ساتھ الگ الگ واقعات پیش آئے۔ قارون کا مصر کے اندر ہی اپنے محلات سمیت زمین مین دھنسا دیا جانا اور ماہرین آثار قدیمہ کا اس کی تصدیق کرنا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک بھی مسلم ہے، جبکہ قورح کے صحرائے سینا میں بغاوت کرنے اور خیمہ اجتماع کے سامنے ۲۵۰ ساتھیوں سمیت زمین میں دھنسائے جانے کا واقعہ بائبل میں بیان ہوا ہے۔ یہاں سوال بائبل کی تصدیق کا نہیں، بلکہ بائبل کے بیان کو قرآن کے بیان سے متعلق قرار دینے کا ہے۔ اگر بائبل اس ضمن میں محرف ہے تو پھر ڈاکٹر صاحب بائبل کے مشکوک کردار قورح کو قرآن کے قارون کے ساتھ نتھی کرنے کا تکلف ہی کیوں فرما رہے ہیں؟
سخن نافہمی کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں اعتراض برائے اعتراض کا طریقہ بھی اختیار فرمایا ہے۔ میں نے مشرکین ومرتدین کی ہلاکت بنی لاوی کے ہاتھوں ثابت کرنے کے لیے خروج ۳۲:۲۸ کا حوالہ دیا تھا۔ چونکہ قورح بنی لاوی میں سے تھا، اس لیے مرتدین کے خلاف جہاد میں قورح کی شمولیت یا رضامندی ایک لازمی چیز ہے کیونکہ بائبل نے اس کارخیر میں ’’سب بنی لاوی‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ (خروج ۳۲:۲۶) لیکن ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: ’’کتاب خروج کے مندرجہ بالا باب اور فقرے میں سرے سے قورح وداتن وغیرہ نام ہی نہیں۔‘‘ 
میری گزارش یہ ہے کہ اگر خروج ۳۲:۲۸ میں قورح کا نام درج نہیں تو باقی بنی لاوی کے نام کہاں درج ہیں؟ جب سب بنی لاوی نے جہاد کیا تھا تو قورح ان سے کیونکر باہر رہا؟
ڈاکٹر صاحب مزید رقم طراز ہیں: ’’ مضمون نگار صاحب بائبل کے انداز حوالہ جات سے متاثر ہیں، چنانچہ انھوں نے اس عبارت کے لیے سورۃ القصص کی آیت نمبر ۷۶ کا حوالہ بائبل کے انداز پر دیا ہے ۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن کریم کے حوالے سورتوں کے نام اور آیات کے نمبروں سے ہوتے ہیں۔ یہی وہ اسلوب ہے جو اہل علم میں رائج ہے ۔‘‘
میں نے اپنے مضمون میں قرآن مجید کے بیشتر حوالے ڈاکٹر صاحب ہی کے بیان کردہ طریقے کے مطابق درج کیے ہیں، البتہ مذکورہ مقام پر سورۃ القصص کی آیت ۷۶ کا حوالہ ۲۸:۷۶ کے انداز میں دیا ہے۔ قرآن کے حوالہ جات دینے کے مختلف طریقے اہل علم میں رائج ہیں۔ مثلاً ’نجوم الفرقان فی علوم القرآن‘ میں پارہ نمبر اور رکوع نمبر کا طریقہ استعمال کیا گیا ہے، جبکہ علامہ محمد فواد عبد الباقی کی ’المعجم المفہرس‘ میں سورتوں کے نام کے ساتھ ساتھ سورتوں اور آیات کے نمبر بھی درج کیے ہیں۔ علامہ محمد شریف اشرف نے ’فکر الفرقان‘ کے عنوان سے قرآن مجید کے اشاریے میں محض متعلقہ سورت اور آیت کا نمبر درج کرنے پر اکتفا کی ہے۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر صاحب کا یہ اعتراض محض برائے اعتراض ہے اور یہی ان کی اصل قابلیت ہے۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترمی مولانا زاہد الراشدی دامت الطافکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مارچ کا ’الشریعہ‘ ملے ہفتہ سے اوپر ہو گیا۔ اس میں اپنا خط دیکھ کر خیال ہوا کہ جو کچھ بھی لکھا جائے، یہ سوچ کر لکھا جائے کہ یہ شائع ہوگا، ورنہ تین سطری خط تو ایسا نہیں تھا کہ اس کی اشاعت کا اندیشہ گزرتا۔ اس قدر اجمال اور اختصار تھا کہ بس آپ کے ذاتی ملاحظہ کے لیے موزوں سمجھا جا سکتا تھا۔ خیر، کوئی شکایت نہیں، بلکہ قارئین سے معذرت ہے۔ لیکن اسی (کارٹون پر رد عمل کے) حوالے سے اداریہ میں ۳؍ مارچ کی ملک گیر ہڑتال کی حمایت میں آپ کی اپیل اس قدر خلاف توقع لگی کہ اب کس سے شکوہ کرے کوئی؟آپ نے اس کے لیے پاکستان کی سیاسی اور دینی جماعتوں کو ’’خراج تحسین‘‘ پیش کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، البتہ دینی جماعتوں پر اس معاملے میں کچھ کہتے نہیں بنتا۔ مارچ کے ’الفرقان ‘ میں میرے اس سلسلہ کے تاثرات شاید نظر سے گزر چکے ہوں۔ یہ ۲۰؍۲۱ فروری کے احتجاجی پروگراموں سے متعلق تھے جن کا یہ پہلو انتہائی رنج دہ تھا کہ تحفظ ناموس مصطفی کے عنوان کو سو فی صدی مقامی سیاست کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ اور ۳؍ مارچ کا پروگرام تو اس کا نقطہ عروج تھا۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ کے الفاظ میں ایک مقدس عنوان کی اس سے بڑھ کر ’’بد خدمتی‘‘ مذہبی لوگوں کے ہاتھوں اور کیا ہو سکتی تھی؟ 
گستاخی معاف۔ والسلام
نیاز مند
(مولانا) عتیق الرحمن سنبھلی
لندن
(۲)
برادر عزیز ومحترم زاہد الراشدی صاحب،
سلام مسنون
آپ کی عنایت سے ’الشریعہ‘ باقاعدگی سے مل رہا ہے۔ اپنے علمی اور دینی معیار کے اعتبار سے اور موضوعات کے تنوع کے لحاظ سے بلاشبہ ’الشریعہ‘ صف اول کا جریدہ ہے۔ افراط وتفریط کے اس دور میں آپ کے اداریوں کا معروضی تجزیہ اور متوازن لہجہ بہت خوش آیند چیز ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اردو (اور انگریزی) صحافت میں ابھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو قلم کی اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس رکھتے ہیں۔ ’الشریعہ‘ وہ واحد اردو جریدہ ہے جسے اول تا آخر پڑھتے ہوئے خوشی ہوتی ہے۔
میں آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ دسمبر اورجنوری میں پاکستان آنے کے باوجود آپ سے رابطے کی کوئی صورت نہ نکل سکی۔ دسمبر کا آخری ہفتہ ذاتی مصروفیات کی نذر ہو گیا اور پھر ۲۸ دسمبر سے ۱۰ جنوری تک بنگلہ دیش میں قیام رہا۔ بنگلہ دیش سے واپسی پر جو چند دن اسلام آباد میں گزرے، وہ بھی مصروفیت میں گزرے۔ میری بڑی خواہش تھی کہ گوجرانوالہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا، خاص کر جبکہ میرا ’’بھتیجا‘‘ یوگی سکند بھی آپ کے ہاں آیا ہوا تھا۔ یوگی بہت ہی عمدہ اسکالر اور اس سے بھی عمدہ انسان ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ میرے بیٹے جنید احمد کو معلوم تھا کہ وہ ان دونوں میں پاکستان میں ہے اور جنید نے اس سے فون پر دوچار بار بات بھی کی تھی لیکن مجھے اس بات کی اس نے ہوا نہیں لگنے دی۔ خیر، اب مئی میں ان شاء اللہ پاکستان آنا ہوگا تو آپ سے ملاقات ہوگی۔
میں نے اپنے گزشتہ مراسلے میں مدارس پر اپنے جس مضمون کا ذکر کیا تھا، وہ آپ کے ملاحظے کے لیے حاضر ہے۔ اپنی رائے دیجیے گا۔
دعاؤں کا طالب
(ڈاکٹر) ممتاز احمد
ہیمپٹن یونیورسٹی، ہمپٹن (امریکہ)
(۳)
بخدمت جناب مدیر ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں ’’قارون اور قورح بحران‘‘ پر پچھلے تین شماروں سے ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی صاحب اور جناب محمد یاسین عابد صاحب کے درمیان مکالمہ جاری ہے۔ مارچ کے شمارے میں ڈاکٹر صاحب کو یاسین عابد صاحب سے شکوہ ہے کہ ’’ان کا انداز بیاں بڑا جارحانہ اور علمی حیثیت سے گرا ہوا ہے۔‘‘ مانا کہ جناب محمد یاسین عابد کی تنقید جارحانہ تنقید تھی، مگر جناب ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی بھی ’’جارحانہ مزاج‘‘ سے معصومیت کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ اپنے مضمون کی ابتدائی سطور میں ڈاکٹر صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ ’’اب میں تو کوئی جارحانہ اسلوب اختیار نہیں کرتا‘‘، لیکن ان کا مضمون پڑھنے کے بعد ہر قاری یہی فیصلہ کرے گا کہ موصوف نے تحریری جارحیت کی ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ 
انھوں نے جابجا یاسین عابد صاحب کو ’’بائبل کا حافظ‘‘ کے خطاب سے نوازا ہے۔ یہ نہایت نامعقول انداز بیاں ہے، اور کسی مسلمان کو قرآن سے زیادہ بائبل پر اعتماد کرنے کا طعنہ دینا اس سے بھی زیادہ خطرناک طرز بیاں ہے۔ یہ نہ صرف فرمان نبوی ’’مومن کے ساتھ اچھا گمان رکھو‘‘ کے منافی ہے، بلکہ اس سے خود ڈاکٹر صاحب کی کمزور نفسیات کی عکاسی بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مضمون پر تنقید سے اتنے اشتعال میں آ گئے کہ ایک مسلمان کو اس طرح کے طعنے دینے پر اتر آئے۔ علمی متانت کے تمام تقاضوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے طنزیہ انداز میں لکھتے ہیں ’’لمبی زبان والے جناب ناقد صاحب‘‘۔ اس طرح کے جملوں کا جتنا ڈاکٹر صاحب کے قلم سے صادر ہونا ہمارے لیے باعث حیرت ہے، اس سے کہیں زیادہ ’الشریعہ‘ جیسے سنجیدہ رسالے میں اس کا شائع ہونا ناقابل فہم ہے۔
بہرحال جب دانش وران ملت کی ذہنی کیفیت یہ ہو تو اور کس سے امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں؟ امت مسلمہ کے بہی خواہوں سے ہماری عاجزانہ التماس ہے کہ اپنی علمی وفکری توانائیاں ایسے امور پر صرف کریں جن کے کچھ عملی ثمرات بھی سامنے آئیں اور امت مسلمہ کی زبوں حالی کا کچھ مداوا ہو سکے۔ ’ذبیح کون ہے‘ اور ’قارون اور قورح کون ہیں‘ جیسے مسائل پر خامہ فرسائی سے فکری تشدد کے پروان چڑھنے اور ذہنی عیاشی کے علاوہ اور کیا ہاتھ آ سکتا ہے۔ اللہ کرے ہمارے دانش وروں میں متانت، حوصلہ مندی، تحمل وبرداشت اور انانیت سے دوری جیسے اوصاف پیدا ہوں ۔ 
امید ہے کہ ’الشریعہ‘ امت مسلمہ کے مسائل کے حل کے سلسلے میں اپنی فکری ذمہ داری کا احساس کرے گا اور اس کے قابل قدر صفحات کو محض تخیلاتی مشقوں کے لیے میدان نہیں بنایا جائے گا۔ 
محمود خارانی
دار العلوم، کراچی ۱۴
(۴)
برادرم محمد عمار ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے ہاں بحث کا معیار بہت پست ہے۔ کیا کیا جائے، مجبوری ہے۔ بہرحال میرا خیال ہے عمدہ تنقیدی بحث کے کچھ مضامین بطور نمونہ شائع کریں تاکہ بحث کرنے والوں میں علو پیدا ہو۔ اس سلسلے میں بطور نمونہ ایک مضمون ارسال ہے۔
فقط والسلام
ملک نواز احمد اعوان
کراچی
(۵)
مکرمی جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماہنامہ ’الشریعہ‘ جنوری کے شمارے میں ’’تاریخ ختم نبوت‘‘ نامی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے محترم مبصر صاحب نے نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمد قادیانی کا ذکر ایسے اسلوب میں کیا ہے جس میں اس کی تعظیم کا شائبہ پایا جاتا ہے۔ مثلاً ’’مرزا غلام احمد اور ان کے پیروکاروں‘‘، ’’مرزا صاحب نے براہین احمدیہ تحریر کی‘‘، اور ’’اس کتاب میں مرزا صاحب کے فاسد عقائد‘‘ وغیرہ۔ آنجناب سے گزارش ہے کہ کسی متنازعہ شخصیت کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب کیا جائے جن سے اس کی تعظیم وتکریم کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔
حافظ خرم شہزاد
کامونکی ۔ گوجرانوالہ

مئی ۲۰۰۶ء

تہذیبی چیلنج ۔ سیرت طیبہ سے رہنمائی لینے کی ضرورتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
یورپی یونین اور عالم اسلامشادابہ اسلام
اسلامی تحریکات کا ہدف، ریاست یا معاشرہ؟مولانا محمد عیسٰی منصوری
اتحاد امت کا مفہوم اور اس کے تقاضےمحمد وحید خراسانی
غامدی صاحب کے اصولوں کا ایک تنقیدی جائزہحافظ محمد زبیر
مکاتیبادارہ
تعارف و تبصرہادارہ
علامہ محمد احمد لدھیانویؒ کا انتقالادارہ

تہذیبی چیلنج ۔ سیرت طیبہ سے رہنمائی لینے کی ضرورت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ربیع الاول کا مہینہ ہر سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی تذکرہ اور یاد کے ساتھ منایا جاتاہے اور اگرچہ اس کا کوئی شرعی حکم نہیں، لیکن اس ماہ میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے تذکرہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہتمام زیادہ ہوتاہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے مختلف طبقات اپنے اپنے انداز اور طریقہ کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ، حالات مبارکہ اور ارشادات مقدسہ کے تذکرہ کے لیے تقاریب کا انعقاد کرتے ہیں۔ اس سال یہ تقاریب اس حوالے سے پہلے سے زیادہ اور منفرد اہمیت کی حامل ہیں کہ یورپ کے بعض اخبارات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالی اور توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد مسلمانان عالم میں اضطراب واحتجاج کی جولہر اٹھی ہے، اس کے مناظر ابھی ذہنوں میں تازہ ہیں اور ربیع الاول کے یہ اجتماعات بھی اسی تسلسل کا حصہ دکھائی دے رہے ہیں ۔
اس وقت عالمی سطح پر فکرو فلسفہ اور تہذیب وثقافت کے مختلف رویوں کے درمیان کشمکش اور تصادم کے بڑھتے ہوئے امکانات کی جوصورت حال پید اہوگئی ہے اور اس میں اسلام ایک واضح فریق کے طور پر سامنے آرہاہے، اس کے پیش نظر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وتعلیمات کے زیادہ سے زیادہ تذکرہ کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے، اس لیے کہ اس تہذیبی اور فکری کشمکش میں قرآن کریم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ہم صحیح سمت کی طرف رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں اور فکرو فلسفہ اورتہذیب وثقافت کے ان رویوں کا سامنا کرسکتے ہیں جو اسلام کوعالمی منظر سے اس حوالے سے ہٹا دینے کے لیے سرگرم عمل ہیں اور جن کا تقاضاہے کہ جس طرح بہت سے دوسرے مذاہب سوسائٹی کی فکری رہنمائی اور ثقافتی ومعاشرتی قیادت سے دست بردار ہوگئے ہیں، اسی طرح اسلام کو بھی معاشرتی قیادت کے منظر سے ہٹ جانا چاہیے اور دوسرے مذاہب کی طرح اپنی سرگرمیوں اور ہدایات کو شخصی اور پرائیویٹ دائروں تک محدود کر لینا چاہیے۔
آج کے عالمی منظر میں مسلمانوں کو فکروفلسفہ اورتہذیب وثقافت کے حوالے سے یہی سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے اور آج نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وتعلیمات کا اس پس منظر میں مطالعہ کرنے او ر اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جس حوالے سے بھی تذکرہ کیاجائے، اجروثواب، رہنمائی اور برکات کاذریعہ ہے۔ وہ تو سراپا رحمت وبرکت ہیں اور اجر وثواب کا سرچشمہ ہیں، لیکن ہمیں اپنی ضروریات کو دیکھناہے، اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنی ہے اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ پھر ان ضروریات،کمزوریوں اورکوتاہیوں کا ایک دائرہ ہمارا داخلی دائرہ ہے، اس کے تقاضے مختلف ہیں، اور ایک دائرہ عالمی اور بین الاقوامی ہے جو ہمارے داخلی دائرے سے الگ ہونے کے باوجود تیزی سے بڑھتے ہوئے گلوبل ماحول کی وجہ سے اپنے فاصلے کم کرتا جا رہا ہے اور دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔
اس پس منظر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وتعلیمات کے ان پہلوؤں کو ترجیحی بنیاد پر سامنے لانے کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے جن کا تعلق موجودہ ضروریات سے ہے، کمزوریوں سے ہے اور کوتاہیوں سے ہے۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیمات وارشادات کے ان حصوں کو زیادہ اہمیت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنا ضروری ہوگیاہے جو آج کے عالمی مسائل سے تعلق رکھتے ہیں اور جن میں ان اشکالات وشبہات کا جواب پایا جاتاہے جو آج کی دنیا کی طرف سے اسلام کے بارے میں نمایاں کیے جارہے ہیں اور جن کا جواب دینے کی مختلف اطراف سے کوششیں جاری ہیں۔ بدقسمتی سے ہم اس حوالے سے بھی افراط وتفریط کا شکار ہیں اور ہماری طرف سے ان معاملات میں دو مختلف بلکہ متضاد رویے سامنے آرہے ہیں جو کنفیوژن کا باعث بن رہے ہیں اور مسائل کے حل کی بجائے ان میں اضافے کا سبب بنتے جارہے ہیں۔ مثلاً ایک رویہ یہ ہے کہ آج کی دنیا کو درپیش مسائل ومشکلات اور اس کے حل کے لیے منطقی اور فطری ضروریات کی نفی کرتے ہوئے اور ان سے آنکھیں بند کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد وتعلیمات کو اسی انداز اور ماحول میں پیش کیا جاتا ہے جس کا ہمیں اب سے دو سو سال یا تین سو سال قبل سامنا تھا۔ ہم جب آج کے ماحول اور تناظر میں تین سو سال قبل کے ماحول اور تناظر کے مطابق مسائل اور احکامات کو پیش کرتے ہیں تو اس سے منطقی طور یہ سمجھ لیاجاتاہے کہ اسلام میں معاشرتی ارتقا کے ساتھ ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں ہے اور وہ تبدیل ہونے والے حالات اور تقاضوں کو اپنے اندر ضم کرنے یا اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کا ذوق نہیں رکھتا۔ اب سے تین سو سال قبل یورپ میں مسیحیت کو اس قسم کی صورت حال درپیش تھی ۔مذہب کے علمبردار اپنے احکام وقوانین کی تعبیر وتشریح میں زمانے کے تغیرات اور ماحول کی تبدیلی کا لحاظ رکھنے کے لیے تیار نہ ہوئے تو یورپ کے عوام نے فیصلہ کرلیا کہ معاشرتی ارتقا کا راستہ روکا نہیں جاسکتااور نہ ہی ان کی تمدن کی ترقی پر قد غن لگائی جاسکتی ہے، اس لیے اگر مذہب ارتقا اور ترقی کے ساتھ ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہے تو اسے اپنی جگہ کھڑا رہنے دیاجائے او ر سوسائٹی کو اپنی رفتار کے ساتھ آگے بڑھنے دیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب اور سوسائٹی کاباہمی رشتہ ٹوٹ گیا اور مذہب کی رہنمائی اور اس کی حدود کی پابندی سے آزادہوکر سوسائٹی نے ’’مادرپدر آزادی‘‘کاراستہ اختیار کرلیا جس کے خوفناک نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ بد قسمتی سے آج اسلام کے بارے میں بھی یہی سوچ نمایاں کی جارہی ہے اور اس تاثر کو عام کیا جارہاہے کہ اسلام میں جدیددور کے تقاضوں کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور اس لیے اسے مسجد کے دائرہ میں رہنے دیا جائے اور شخصی زندگی میں اس کے کردار کی نفی نہ کی جائے، البتہ سوسائٹی کو مذہب کی رہنمائی اور اس کے احکام وحدود کی پابندی سے آزاد کردیا جائے۔ اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے بہت سے ارباب دانش جو اس صورت حال سے پریشان ہیں اور اس سوال کا اپنے اپنے طور پر جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں، ان میں سے کچھ دوست دوسری انتہا کی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ان کے معاشرت وتمدن کے جدید مسائل ومشکلات اور ان کے بارے میں موجودہ انسانی سوسائٹی نے جو حل سوچ لیاہے یا ان سے نکلنے کے لیے جو راستہ طے کر لیاہے، اسی کو حتمی معیار سمجھ لیاجائے اور اس کے مطابق قرآن کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات وتعلیمات کی نئی تعبیر وتشریح کرلی جائے تاکہ ہم یہ کہہ سکیں کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، وہ قرآن وسنت کی روشنی میں کر رہے ہیں، اگرچہ وہ تعبیر وتشریح ہماری خود ساختہ ہی کیوں نہ ہو ۔
ہمارے نزدیک یہ دونوں رویے غلط ہیں اور انتہاپسندانہ ہیں۔ اصل راستہ ان دونوں کے درمیان ہے جو اگر چہ بہت نازک اور حساس ہے لیکن اس کی ضرورت کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح نئی ضروریات اور ان کے بارے میں زمانے کی سوچ کو معیار تسلیم کرکے قرآن و سنت کی اس کے مطابق نئی تعبیر وتشریح کرنا غلط اور گمراہ کن طرز عمل ہے، اسی طرح نئی ضروریات کو نظر انداز کر دینا اور ان کا کوئی نہ کوئی حل نکالنے کی ضرورت محسوس نہ کرنا بھی غلط ہے اور اسلام کے مزاج کے خلاف ہے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قرآن کریم کی جمع وترتیب اور تدوین وکتابت کے بارے میں حضرت ابو بکرؓ ،حضرت عمرؓ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کے درمیان جو مکالمہ ہوا تھا ،وہ ہماری اس گزارش کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ مختلف جنگوں میں قرآنِ کریم کے حفاظ کی کثرت کے ساتھ شہادتوں کی خبر سن کر حضرت عمرؓ کو تشویش ہوئی اور انہوں نے ضرورت محسوس کی کہ قرآن کریم کو مرتب انداز میں لکھ کر محفوظ کر لینا چاہیے۔ یہ ایک نئی ضرورت تھی جو حالات کے تحت پیدا ہوگئی تھی،جسے حضرت عمرؓ نے محسوس کیا اور انہوں نے خلیفۃالمسلمین حضرت صدیق اکبرؓ کے سامنے اس ضرورت کا تذکرہ کیا۔حضرت صدیق اکبرؓ نے ابتدا میں یہ کہہ کر اس کام سے انکار کردیا کہ ایک کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں ہوا تھا،میں کیسے کر سکتاہوں؟لیکن جب حضر ت عمرؓنے باربار ا س کی ضرورت واہمیت کا احساس دلایا تو اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے حضرت ابو بکرؓ نے قرآن کریم کی جمع وترتیب اور تدوین وکتابت کا اجتہادی فیصلہ کرلیا، لیکن جب انہوں نے جنا ب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی کاتب حضرت زید بن ثابتؓ کو بلا کر یہ کام ان کے سپرد کرنا چاہا تو انہوں نے بھی پہلے مرحلہ میں وہی بات کہی جو حضرت صدیق اکبرؓ نے حضرت عمرؓ سے کہی تھی کہ جو کام جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں ہوا تھا وہ کام مجھے کرنے کے لیے آپؓ کیسے کہہ رہے ہیں؟ان دونوں بزرگوں نے انہیں اس کی ضرورت واہمیت کا احساس دلایا تو وہ اس کے لیے تیار ہوئے۔
ان بزرگوں کا یہ مکالمہ اور پھر فیصلہ ہمارے لیے اسوہ کی حیثیت رکھتاہے اور ایک اصول اور بنیاد ہے کہ کوئی نئی اجتماعی ضرورت پیش آجائے تو اسے نظر انداز کر دینا دانش مندی نہیں ہے بلکہ اس ضرورت کو تسلیم کرنا ،اس کی اہمیت کو سمجھنا اور اس کا حل نکالنا اہل علم کی دینی ذمہ داری ہے۔ 
کوئی ضرورت اپنے حل سے زیادہ دیر تک محروم نہیں رہتی کیونکہ یہ قانون فطرت کے خلاف ہے ۔البتہ یہ ضرور ہوگا کہ اہل علم اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس کا کوئی حل نکالیں گے تو وہ شرعی اصولوں کی روشنی میں ہوگا اور دین کے دائرے میں ہوگا لیکن اگر اہل علم اپنی ذمہ داری پوری نہیں کریں گے تو لوگ خود اس کا کوئی نہ کوئی حل نکالیں گے جو ظاہر ہے کہ دینی اصولوں اور تقاضوں کے دائرہ کا پابند نہیں ہوگا اور اس سے دین سے انحراف کی حوصلہ افزائی ہوگی۔اس حوالے سے ایک اور تاریخی اور اجتہادی فیصلے کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور پہلے دونوں خلفا حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے دور میں لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرنا بیت المال کی ذمہ داری تھی اور بیت المال کے نمائندے ہر قسم کے اموال کی زکوٰۃ سرکاری طور پر وصول کیا کرتے تھے، لیکن امیر المومنین حضرت عثمانؓ نے اپنے دور خلافت میں یہ محسوس کیا کہ لوگوں کے پاس جو ذاتی اور پرائیویٹ رقم ہوتی ہے، سرکاری طورپر اس کی زکوٰۃ وصول کرنے کی صورت میں ان کی’’پرائیویسی‘‘متاثر ہوتی ہے اور لوگوں کے ذاتی معاملات میں سرکاری اہل کاروں کا تجسس بڑھتا ہے، اس لیے انہوں نے ’’اموال ظاہرہ‘‘اور ’’اموال باطنہ‘‘ کافرق کرکے لوگوں کی ذاتی اور پرائیویٹ رقوم کو زکوٰۃ کے سرکاری وصولی کے حکم سے مستثنیٰ کر دیا اور کہا کہ اس قسم کے اموال کی زکوٰۃ لوگ اپنی ذمہ داری پر خود ادا کیا کریں تاکہ ان کی پرائیویسی متاثر نہ ہو اور سرکاری اہل کار خواہ مخواہ لوگوں کی ذاتی وپرائیویٹ رقوم او ر اموال کا کھوج نہ لگاتے پھیریں۔ 
اس نوع کی بیسیوں مثالیں آپ کو اسلامی تاریخ میں ملیں گی۔ خلفاے راشدین کے دور میں،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں اور ان کے بعد کم وبیش ہر دور میں آپ اس کی مثالیں دیکھیں گے کہ کوئی اجتماعی ضرورت پیدا ہوئی ہے، کسی نئے معاشرتی تقاضے نے سر اٹھایاہے تو اہل علم نے اس کا بروقت نوٹس لیا ہے ،اس کاحل نکالا ہے اور شریعت اسلامیہ کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اگر کہیں اجتہادی دائروں میں تعبیروتشریح اور تطبیق وتنفیذ کے زاویے تبدیل کرنا پڑے ہیں تو ان سے گریز نہیں کیا۔ اسی کا نام اجتہاد ہے، اسی کو زمانے کے بدلتے ہوئے اور بڑھتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے سے تعبیر کیا جاتاہے، لیکن اس بنیادی فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ شریعت کو زمانے کے تقاضوں کے سانچے میں ڈھالنا اور چیز ہے اور زمانے کے تقاضوں کاادراک واحساس کرتے ہوئے شریعت کے اصولوں کے دائرے میں ان کوپورا کرنے کی کوشش کرنااس سے بالکل مختلف امر ہے ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ آج نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ، حالات مبارکہ اور ارشادات مقدسہ کوپیش کرتے ہوئے زمانے کی اس ضرورت کو سامنے رکھنا ضرور ی ہے اور اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو فکروفلسفہ اور تہذیب وثقافت کے جدید چیلنج سے نمٹنا کوئی زیادہ مشکل امر نہیں ہے، لیکن اس کے لیے ارباب عزم وہمت اور اصحاب فہم وادرا ک کی ضرورت ہے جو آگے بڑھیں اور جدید تہذیب وفلسفہ کے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے وقت کے فکری دھارے کارخ موڑ دیں۔

یورپی یونین اور عالم اسلام

شادابہ اسلام

ہو سکتا ہے کہ ساری کوشش کے نتیجے میں محض چند ’’نرم اور مہذب الفاظ‘‘ کے علاوہ کوئی چیز وجود میں نہ آئے، تاہم یورپی یونین کے پالیسی سازوں نے،جو مسلم ممالک کے ساتھ مضبوط تر تعلقات قائم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں، اپنے سر ایک نئی ذمہ داری لے لی ہے، یعنی ایسی گائیڈ لائنز کی تیاری جو اسلام کے حوالے سے تحقیر آمیز اصطلاحات کے استعمال کو ممنوع قرار دیں۔ اس کوشش کا اصل ہدف یورپی بلاک کے سرکاری عہدے داروں کے بیانات اور دستاویزات میں ایسے الفاظ کے استعمال سے اجتناب برتنا ہے جن سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہو یا یہ تاثر پیدا ہوتا ہو کہ دہشت گردی کے خلاف یورپ کی جدوجہد کا ہدف خاص طور پر مسلمان ہیں۔ 
اس مہم کا آغاز گزشتہ سال دسمبر میں کیا گیا تھا اور موجودہ حالات میں اس کی اہمیت اور فوری نوعیت (urgency) اس اعتبار سے بڑھ گئی ہے کہ حالیہ سال کے آغاز میں متعدد یورپی اخبارات میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شائع ہونے والے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد یورپی یونین مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ان خاکوں کی وجہ سے بہت سے مسلم ممالک میں غم وغصے کی ایک لہر پھیل گئی جس کا نتیجہ پر تشدد مظاہروں، بہت سے مظاہرین کی ہلاکت اور یورپی سفارت خانوں پر حملوں کی صورت میں نکلا۔ یورپی یونین نے ذرا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنے اور بہت سے ایسے بیانات جاری کرنے کے بعد جن میں آزادئ صحافت اور آزادی رائے کے تقدس پر زور دیا گیا تھا، بالآخر اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ان خاکوں سے بہت سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ یورپی یونین کے کمشنر برائے خارجہ تعلقات بینٹا فیریرو والڈنر (Benita Ferrero-Waldner) نے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ ’’آزادی رائے کے حق پر کوئی پابندی خارج از بحث ہے ، لیکن آزادئ مذہب کا حق اور ایک دوسرے کا احترام ملحوظ رکھنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’ہمیں مختلف ثقافتوں اور مذاہب کے مابین، چاہے وہ یورپی یو نین کے اندر ہوں یا دنیا میں کہیں بھی، افہام وتفہیم کی فضا کو بہتر بنانے کے لیے مسلسل محنت کرنا ہوگی۔‘‘
خاکوں کی وجہ سے مسلم دنیا کے ساتھ پیدا ہونے والا یہ بحران واقعات کے اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی تھا جس کا آغاز گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ کو امریکہ پر حملوں سے ہوا تھا اور جس کی وجہ سے مغربی دنیا کی توجہ عالم اسلا م پر مرکوز ہو گئی۔ تاہم اسلام سے متعلق آگاہی کی اس نئی فضا کے باوجود یورپ کے اندر اور باہر بہت سے یورپی لوگ ہنوز اسلام کے بنیادی عقائد تک سے ناواقف ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ مسلسل اپنے قارئین کے سامنے اسلام کی ایک بالکل سیدھی اور یک طرفہ تصویر پیش کر رہے ہیں جس سے بالعموم یہ تاثر ابھرتا ہے کہ عالم اسلام جنونیوں اور انتہا پسندوں سے بھرا ہوا ہے اور تمام مسلمان خواتین پردے میں محبوس اور محکومیت اور جبر کا شکار ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ سال فرانس کے بعض نواحی علاقوں میں بے اطمینانی کا شکار افریقی اور عرب نوجوانوں کی طرف سے کیے جانے والے فسادات کے بعد یورپی حکومتوں میں یورپ کی مسلم اقلیتوں کی بڑھتی ہوئی بے چینی کا ادراک بھی بہتر ہو رہا ہے۔ یہ اقلیتیں عام طور پر یورپی معاشرے میں غیر مساوی حیثیت کی حامل ہیں۔ 
یورپی یونین کے ذمہ دار حضرات کا کہنا ہے کہ اسلام کے حوالے سے درست اصطلاحات کی تلاش کی حالیہ کوشش ۲۵ ملکوں پر مشتمل یورپی بلاک میں داخلی طور پر جاری اس بحث ومباحثے کا ایک حصہ ہے جس کا عنوان یہ ہے کہ مسلم ممالک کے ساتھ گہرے تعلقات کیسے استوار کیے جائیں اور یورپ میں مقیم ۲۰ ملین مسلمانوں کے ساتھ کیسے بہتر روابط قائم کیے جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے حصول کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ یہ بات واضح کر دی جائے کہ اہل یورپ اسلام اور دہشت گردی کو مترادف نہیں سمجھتے۔ تازہ گائیڈ لائنز میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت کے مابین، جو امن پسند ہے، اور مرکزی دھارے سے کٹی ہوئی اس اقلیت کے مابین، جو اپنے مقاصد کے لیے غلط طور پر اسلام کا نام استعمال کر رہی ہے، واضح طور پر فرق ملحوظ رکھا جائے۔ یورپی یونین کے ایک عہدے دار کے بقول ’’ہمارا مقصد اسلام کے حوالے سے یورپی یونین کے موقف کو واضح کرنا اور اس امر کویقینی بنانا ہے کہ دہشت گردی کا رشتہ کسی مخصوص مذہب کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔‘‘ مذکورہ عہدے دار نے مزید کہا کہ حالیہ کوشش کا مقصد ’’ایسے الفاظ کو فروغ دینا ہے جن سے غلط فہمی پیدا نہ ہو اور خیالات کی غلط ترجمانی سے بچا جا سکے۔‘‘
یورپی یونین کے واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس کوشش کے نتیجے میں ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ اور ’’بنیاد پرستی‘‘ جیسی اصطلاحات کو ترک کر دیا جائے گا جنھیں ناقدین کے بقول یورپی یونین کے عہدہ داراران مسلم دنیا میں رہنے والے یا وہاں سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ ’’عوامی سطح پر بیانات کے لیے مبینہ غیر جذباتی زبان‘‘ کی رو سے عہدہ داروں کو جہاد سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بھی احتیاط برتنی ہوگی۔ اگرچہ اس وقت مسلم دنیا کی بعض انتہا پسند تنظیمیں اس لفظ کو ’’غیر مسلموں کے خلا ف جنگ‘‘ کے مفہوم میں استعمال کرتی ہیں، تاہم بہت سے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب ایک ’’داخلی اور روحانی جدوجہد‘‘ ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ نئی اصطلاحات کی پابندی لازم تو نہیں ہوگی لیکن جون کے دوران برسلز میں ملاقات کے موقع پر یورپی بلاک کے قائدین اس کی تائید کر دیں گے۔
تاہم یورپی پارلیمنٹ کے برطانوی رکن سجاد کریم اور ان کے ہم خیال لوگوں کے نزدیک اسے کوئی فوری اقدام نہیں کہا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے عہدے داروں کو اسلام کا لبادہ اوڑھنے والے دہشت گرد گروہوں سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سجاد کریم کا کہنا ہے کہ ’’اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یورپ میں لوگ مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والے تشدد کے بارے میں بات کر تے ہوئے اسلامی دہشت گردی کا لفظ استعمال کرتے ہیں ‘‘ حالانکہ فلسطین میں رونما ہونے والے واقعات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا باعث تو زیادہ تر فلسطینی عوام کی بے چینی اور اضطراب ہے۔ سجاد کریم کو اصرار ہے کہ ’’گزشتہ سال فرانس کے مسلم نوجوانوں کا احتجاج بھی دراصل اس حقیقت کی عکاسی کر رہا تھا کہ یہ نوجوان یورپی معاشرے میں گھل مل نہیں سکے۔ اس سارے معاملے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘‘
یورپی یونین کے عہدہ دار، جن میں کمشنر برائے خارجہ تعلقات Benita Ferrero-Waldner اور سکیورٹی پولیس چیف Javier Solana شامل ہیں، جہاں اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا سیاسی سطح پر درست اصطلاحات کے استعمال سے یورپ اور مسلم ممالک کے مابین موجودہ تناؤ کو کم کرنے میں کوئی مدد ملتی ہے یا نہیں، وہاں وہ اپنے طور پر بھی اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان دونوں عہدے داروں نے گزشتہ ماہ Salzburg میں یورپی یونین کے وزراے خارجہ سے کہا کہ یورپی یونین کو اقوام متحدہ، عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس تنظیم کے ساتھ مل کر مسلم ممالک کے ساتھ اعتماد کے رشتے کو بحال کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ان کی طرف سے یورپی دار الحکومتوں کو ارسال کی جانے والی مجوزہ حکمت عملی میں بھی کہا گیا ہے کہ خارجہ پالیسی کے تحت کیے جانے والے اقدامات کی مزید تائید داخلی سطح پر سخت قانون سازی کے ذریعے سے کی جانی چاہیے جس کے تحت اسلام کے بارے میں پائے جانے والے خوف کا تدارک کیا جا سکے اور یورپ میں مقیم مسلمانوں کے ساتھ مکالمہ کی فضا کو بہتر بنایا جا سکے۔
یہ اقدامات اور نئی اصطلاحات کا استعمال سالوں پر محیط غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔ یورپی یونین کے کارپردازان کو اعتراف ہے کہ مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کو ازسرنو بحال کرنے کی جدوجہد طویل اور کٹھن ہوگی اور یورپی مسلمانوں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے بھی صبر وحوصلہ اور ثابت قدمی سے کام لینا ہوگا۔ تاہم متفکر یورپی پالیسی ساز اس بات سے بھی خبردار کرتے ہیں کہ آغاز کہیں نہ کہیں سے کرنا ہی ہوگا۔ بہت سے لوگوں کو امید ہے کہ الفاظ اور اصطلاحات میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ اہل یورپ کے اسلام اور مسلمانوں سے متعلق فرسودہ اور بالعموم تعصب پر مبنی خیالات میں بھی تبدیلی رونما ہوگی۔ 
(بشکریہ ’ڈان‘۔ ترجمہ: ابو طلال)

اسلامی تحریکات کا ہدف، ریاست یا معاشرہ؟

مولانا محمد عیسٰی منصوری

اسلام اور قرآن کا مطلوب اسٹیٹ ہے یا انسانی بہبود کے لیے سرگرم معاشرہ؟ یہ اس وقت مسلم دنیائے فکر وفلسفہ کا ایک بڑا سوال ہے۔ دونوں میں سے جس کو بھی نصب العین قرار دیا جائے، ذہن وفکر سعی وجہد اور نتائج بالکل مختلف اور جداگانہ ہوں گے۔ نزول قرآن کے بعد تقریباً ۱۳سو سال تک یہ سوال پیدا نہیں ہوا تھا ۔یہ سوال گزشتہ صدی کے اوائل میں دنیا میں مغرب کے عالمی اقتدار، سیاسی غلبہ اور فکروفلسفے کی حاکمیت کی دین ہے ۔اس سے پہلے مسلم معاشرہ ہر دور میں قر آن وسنت اور سیرت نبویﷺ سے غذا وطاقت اور ہدایت وراہنمائی حاصل کرکے بنی نوع انسان کی فلاح وبھلائی کے نصب العین کی طرف رواں دواں رہا۔ مسلمانوں کے سیاسی عروج وزوال اور عسکری فتح وشکست سے قطع نظر مسلم معاشرے کی اندرونی توانائی اور طاقت اس کے خیر امت ہونے میں پنہاں تھی۔ اس کے خمیر میں ایسی قوت وتوانائی رکھ دی گئی تھی جو اسے انسانیت کی بہبود کے لیے جدوجہد میں مصروف رکھتی تھی او رمعاشرے کی یہ اندرونی طاقت سیاسی وعسکری شکست وزوال کا فی الفور مداوا کرکے اسے دوبارہ کارگاہ حیات میں انسانیت کی راہنمائی اور اس کی بہبود کی راہ پر گامزن کر دیتی تھی۔ رسول خدا ﷺ اور قرآن نے مسلم معاشرے میں ایسی اسپرٹ پید ا کردی تھی جو اسے دنیوی نفع وضرر سے بے نیاز ہو کر پوری انسانیت کی سرفرازی، بہتری اور نفع کے لیے سرگرم رکھتی تھی۔
قرآن حکیم نے مسلم معاشرے کو خالق کی وحدت اور انسانی اخوت ومساوات کے عقیدے پر استوار کیا تھا۔ قرآن پاک کی چھ ہزار چھ سو آیات میں سے کوئی ایک آیت بھی کسی خاص ملک وقوم، نسل یا عرب وعجم سے خطاب نہیں کرتی، بلکہ نوع انسانی سے خطاب کرتی ہے۔ قرآن کا نقطہ نظر قبائلی نہیں بلکہ عالمی ہے۔ وہ پوری انسانیت کی بہبود اور فلاح کی دعوت دیتاہے اور اس کا مقصد ایک ایسا معاشرہ قائم کرناہے جو کسی نسل اور قوم کے بجائے پوری انسانیت کے نفع اور بہتری کے تصور پر مبنی ہو ۔قرآن کے نزدیک مسلم معاشرہ اسی وقت صحیح معاشرہ ہوگاجب وہ پوری نوع انسانی کی بھلائی کے لیے سرگرم عمل ہو ۔قرآن کے نزدیک مسلمان خیر امت یعنی بہترین گروہ اسی لیے ہیں کہ وہ نوع انسانی کی بہبود اور فلاح کے لیے برپا کیے گئے ہیں۔ وہ انسانی سوسائٹی میں معروفات یعنی اچھائیاں اور بھلائیاں عام کرتے ہیں اور منکرات یعنی برائیوں اور ضرر سے بچاتے ہیں اور یہ سب کام کسی دنیوی غرض کے لیے نہیں بلکہ محض خالق کی خوشنودی کے لیے کرتے ہیں۔ یہی چیز مسلم معاشرے کی توانائی اور زندگی تھی جو ہر زخم کو مندمل اور ہر شکست کا مداوا کرتی رہتی تھی۔ 
نزول قرآن کے بعد تقریباً دوسوسال تک مسلم معاشرہ خدا کے ساتھ مستحکم تعلق اور بنی آدم کے ساتھ بھلائی کی بنیاد پر قائم رہا۔ ہر معاشرے کی طرح اچھے برے لوگ یہاں بھی تھے، باہم خونریزیاں بھی چلتی رہتی تھیں، اقتدار اور وسائل کے لیے رسہ کشی اور لذات وشہوات کے لیے تگ ودو بھی جاری رہتی تھی، مگر مجموعی طور پر مسلم معاشرہ اللہ ورسول ﷺکے ساتھ مستحکم تعلق اور نوع انسانی کی وحدت اور بہبود کے دو پہیوں پر آگے بڑھتا رہا۔ یہ معاشرہ انسانیت کی خدمت کے لیے ہر قسم کے علوم وفنون، ایجادات واختراعات، ادارے، شعبے اور افراد مہیا کرتارہا حتیٰ کہ بنی امیہ کے زوال کے وقت جب ہر عربی بولنے والے کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کیا جارہاتھا، عین انھی حالات میں احادیث اور دیگر اسلامی علوم کی تدوین بھی ہورہی تھی ،اجتہاد بھی ہورہاتھا اور مسلمان انسانیت کے بہتری کے لیے نئے نئے علوم وفنون کی ایجاد اور نئے نئے تجربات میں مصروف تھے۔ اسپین میں مسلم حکومتیں اکثر باہم برسرپیکار اور خانہ جنگی میں مبتلا رہیں، مگر مسلم معاشرہ برابر اپنا کام کرتارہا۔ طبیعیات، کیمسٹری، طب ،ارضیات، فلکیات،تاریخ، جغرافیہ اور انسانیت کو نفع پہنچانے والے دیگر علوم وفنون سے مالا مال کرتارہا۔ معاشرے کی یہی اندرونی روح وطاقت اسے ہر دور میں انسانی بہبود کے لیے متحرک رکھتی تھی۔بقول سر آرنلڈ کے جب کبھی مسلمانوں کی تلوار نے شکست کھائی، معاشرے میں پنہاں روح وتوانائی نے بہت جلد اس شکست کو فتح میں بدل دیا۔ تاتاریوں جیسے سفاک اورجابر دشمن سے شکست فاش کے بعد ایسا لگتاتھا کہ اب اسلام کا دم واپسیں ہے ،مگر چند ہی سالوں میں معاشرے کی اندرونی طاقت نے تاتاریوں کو حلقہ بگوش اسلام کردیا۔
مسلم معاشرے کی یہ قوت وروح ہر دور میں برقرار رہی، تاآنکہ مغرب کے مکار وعیار دشمن نے مسلم معاشرے کی اس اندرونی توانائی وقوت ہی کو ڈائنا مائٹ کردیا اور نقب لگاکراس میں پنہاں انسانی بہبود کے جوہر کو برباد کردیا اور مسلم معاشرے کو خود غرضی ،نفس پرستی ،حرص وآز، خواہشات وشہوات اور فلسفہ لذّت وہوس پرستی کے حیوانی وشیطانی خطوط پر استوار کردیا جس کی وجہ سے مسلم معاشرے کی روح نکل گئی اور اصل بنیاد منہدم ہوگئی۔ معاشرے سے انسانیت کی بہبود کی فکر وجذبہ نکلنے سے معاشرہ بے جان لاش بن کر رہ گیا۔ گزشتہ دو تین سو سال میں مسلم معاشرے نے انسانیت کی بہبود کے لیے نہ کوئی علم ایجادکیا ہے اور نہ کوئی سائنسی دریافت کی ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں نے جہاں کہیں عسکری وسیاسی شکست کھائی، اس کا کوئی مداو انہیں ہوسکا کیونکہ معاشرے کی روح اور زندگی نکل چکی تھی۔ اب ایک شکست دوسری کی اور دوسری شکست تیسری کی راہ ہموار کرتی رہی۔ اس پے درپے شکست وریخت کے ماحول میں بیسویں صدی کے کچھ ملت کا درد رکھنے والے مفکرین نے جب دیکھا کہ پوری دنیا کا مسلم معاشرہ مغرب کی یلغار کے سامنے ہمہ جہت شکست وریخت سے دوچار ہے اور ایک طرف کمیونزم اور دوسری طرف مغربی فکروفلسفے اور تمدن وکلچر کی یلغار کے سامنے مسلم معاشرہ دن بدن سپر انداز ہوتاجارہاہے تو انہوں نے فکری ونظریاتی طور اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی۔ علمی طور پر کمیونزم کے فلسفے کا پوسٹ مارٹم کیا اور مغربی کے سیاسی واجتماعی نظریات کا تنقیدی جائزہ لے کر ان دونوں کو نوع انسانی کے بجائے محض مغرب کے طبقہ امرا واشراف کے مفادات واقتدار کے تحفظ کا ذریعہ ثابت کیا۔ مگر مسلم معاشرے کی اندرونی طاقت وروح نکلنے کی وجہ سے جو تنزل وزوال پید ا ہوگیا تھا، وہ دن بدن تیز ہوتا گیا اور مغرب کے خونی پنجے کی گرفت مزید مضبوط ہوتی رہی۔ ان حالات میں مسلم مفکرین کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کمیونزم کے نظریے اور مغربی تمدن وکلچر کے نفوذ کا اصل سبب ان کی پشت پر عظیم الشان اسٹیٹ کا ہونا ہے ۔ایک کی پشت پر رشین امپائر ہے تو دوسرے کی پشت پر طاقتور مغربی حکومتیں، جبکہ مسلمانوں کی سیاسی قوت ٹوٹ پھوٹ کر بکھر رہی تھی جو بالآخر ۱۹۲۴ میں اختتام کو پہنچ گئی۔ ان مایوسی کے حالات میں تاریخ میں پہلی بار بیسویں صدی میں بعض اسلامی مفکرین نے اسلامی اسٹیٹ کے قیام کو قرآن اور اسلام کا نصب العین قر ار دے کر پورے قرآن واسلام کو اس فکری محور کے گرد اس طرح سے گھمایا کہ قرآن کی ایک بالکل نئی تعبیر سامنے آئی جسے بجا طور پر ایک ’’سیاسی تعبیر‘‘ کہا جاسکتاہے۔ مسلم نوجوانوں کی آنکھوں میں ہزار بارہ سو سال کی اسلامی امپائر کی شان وشوکت کا نقشہ اور کانوں میں مسلم اسٹیٹ کی عظمت وبالادستی کی پرشکوہ داستانیں گونج رہی تھیں۔ انہوں نے اسلام کی اس نئی تعبیر کو درد کا درمان اور عظمت رفتہ کے حصول کا واحد طریقہ جانا، چنانچہ مسلم نوجوانوں، خاص طور پر جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں نے جوق درجوق ان مفکرین کی آواز پر لبیک کہہ کر اسلامی اسٹیٹ کے قیام وحصول کو مقصد حیات بنایا۔اس نئے نصب العین کی خاطر ان مفکرین کو اسلام کی پوری ترتیب بدلنی پڑی، یعنی عقائد، عبادات، اخلاق، معاملات او رسیاست کی ترتیب کو برعکس کرکے سیاست کو مقدم کرنا پڑا او ر اس تعبیر کے لیے انسان اورخدا کے مابین عبدیت کے گہرے رشتہ وتعلق کو حاکم ومحکوم کا رسمی رشتہ قرار دینا پڑا، جبکہ لفظ اللہ کے لفظی معنی ہی اس ہستی کے ہیں جس سے بے انتہا محبت کی جائے، جسے قرآن نے ’والذین آمنوا اشد حباّ للہ‘ سے تعبیر کیا ہے۔ 
یاد رہے بیسویں صدی کے ان عظیم مفکرین نے، جن میں شیخ حسن البناء، سید ابو الاعلیٰ مودودی اور فلسطین کے شیخ تقی الدین نبھانی وغیرہ شامل ہیں، اپنے کام کی ابتدا معاشرے کی اصلاح وتربیت اور اس کی توانائی وروح کی بازیافت ہی سے شروع کی تھی اور چند سال میں اس کام کے نہایت مفید نتائج سامنے آئے۔ باصلاحیت اور مخلص تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک ٹیم وجود میں آگئی، مگر حالات کے دباؤ، کام کی کٹھنائی، اس کے صبر طلب ہونے اور مغر ب کی طاغوتی طاقتوں کے ظلم وستم کی آندھیوں اور ان کی پوری دنیا پر تسلط وغلبے کے حالات نے ان مفکرین کو مختصر راستے (شارٹ کٹ) پر ڈال دیا۔ پھر ان جماعتوں اور اس فکر سے وابستہ بعض افراد نے جب دیکھا کہ یہ نصب العین (اسٹیٹ کا قیام) دنیا کے مروجہ معروف اور متداول طریقوں سے حاصل نہیں ہو پا رہا تو انہوں نے جلد بازی میں انتہا پسندی کا راستہ اختیار کیا، چنانچہ اخوان ہی سے جماعت الہجرۃ والتکفیر (جس سے احمد الظواہری اور صدر سادات کے قاتل خالد کا تعلق ہے ) جیسی انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والی جماعتیں وجود میں آئیں۔ اگر چہ بعد میں اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی نے ان سے باضابطہ طور پر اظہار لاتعلقی کیا مگر یہ نہ بھولنا چاہیے کہ یہ تنظیمیں اسی نصب العین یعنی اسلامی اسٹیٹ کے جلد حصول کی خواہش میں پید ا ہوئیں اور یہ لوگ دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کی بدنمائی اور بدنامی کا اور انسانیت کو اسلام سے وحشت زدہ کرنے کا سبب بنیں۔
جب ہم اسٹیٹ کے قیام کے نصب العین کے لیے قرآن وسنت اورحضرات انبیا کی زندگیوں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو قرآن کی ایک آیت بھی براہ راست ہم سے اسٹیٹ کے قیام کا مطالبہ نہیں کرتی اور نہ کوئی واضح حدیث ہمیں اس کام کا مکلف بناتی ہے، البتہ قرآن نے عمل صالح پر استخلاف فی الارض کا وعدہ کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ جب اہل ایمان کو اقتدا ر ملتاہے تو وہ نماز وزکوٰۃ کو قائم کرتے ہیں ،معروفات کو پھیلاتے ہیں اور منکرات سے روکتے ہیں اور یہ بھی کہ اہل اقتدار حکومت کے قائم ہو جانے کے بعد اگر اللہ اور رسول ﷺ کے احکامات کے مطابق فیصلے نہ کریں تو قرآن انہیں ظالم، فاسق بلکہ کافر تک قرار دیتاہے ۔قرآن نے تین انبیاء سابقین ،حضرت یوسف ؑ ،حضرت داؤدؑ ،اور حضرت سلیمانؑ کا تذکرہ صاحبان اقتدار کے طور پر کیاہے۔ وہیں واضح طور پر یہ بتا دیا کہ یہ اقتدا ر ان کی کسی کوشش کے بغیر محض اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا تھا۔ مقام غورہے کہ جو قرآن سینکڑوں جگہ پر پیرایے اور اسلوب بدل بدل کر نماز ،زکوٰۃ ،اللہ کی راہ میں جان ومال کے خرچ کرنے، تقویٰ، احسان ،صبر اوردیگر اوصاف واعمال کی تلقین کرتا اور تاکیدی حکم بیان کرتاہے اور انہیں ایک مسلمان کا مقصود ومطلوب قرار دیتاہے، ایک جگہ بھی واضح طور پر اسلامی اسٹیٹ کے قیام کا مطالبہ نہیں کرتا۔
اسی طرح ہزارہا احادیث میں سے کوئی ایک حدیث بھی واضح طور پر اسٹیٹ کے قیام کا مطالبہ نہیں کرتی بلکہ اس کے برعکس نفسانیت اور شروفساد کے دور میں بہت سی احایث اقتدار اورحکومت کے جھمیلوں سے دور ہو کراللہ ورسول ﷺ کی اطاعت، عبادات واعمال اور معاشرے کی تعمیر میں لگ جانے کی طرف راہنمائی کرتی ہیں اورقرب قیامت میں جب معاشرہ فساد کی انتہاکو پہنچ کر خیر کو قبول کرنے کی استعداد کھو دے گا، اس وقت معاشرے کی فکر کے بجائے اپنی ذات کو اللہ ورسول ﷺکے حکم اور ذکر وعبادات پر جمانے کی ہدایت کرتی ہے۔ یہ بات بھی محل غور ہے کہ اسلام کے چودہ سو سالہ دور میں کسی صحابی،ؓ تابعیؒ ،مجتہد ،محدث، عالم یا فقیہ اور بزرگ وولی نے قرآن وسنت او رسیرت سے اسلام کا نصب العین اسٹیٹ کا قیام نہیں سمجھا جس پر بیسویں صدی کے بعض مفکرین نے لٹریچر کے ڈھیر لگادیے۔ ہمارے نزدیک اسلام جیسے واضح نصب العین رکھنے والے مذہب کے متعلق یہ تصور ہی ناقابل فہم اور گمراہ کن ہے کہ اس کی صحیح حقیقت ومعنویت یا نصب العین بیسویں صدی تک پردۂ خفا میں رہا۔
اگر اسلام پوری انسانیت کا مذہب ہے اور قرآن ’ہدی للناس‘ اور ’بلاغ للناس‘ ہے،یعنی تمام انسانیت کے لیے پیغام ہے اور پیغمبر اسلام ﷺ ’کافۃ للناس بشیرا ونذیرا‘ ہیں اور ساری نوع انسانی آپ کی امت دعوت ہے تو جس طرح ایک تاجر اپنا مال بیچنے کی خاطر بعض اوقات خرید ار کی طرف سے ناگوار باتوں کو بھی گوارا کرلیتاہے، اسی طرح داعی کو مدعو کے رویے سے صرف نظر کرکے اور صبر وتحمل کا دامن تھام کر اپنا پیغام پہنچانا ہوگا۔ یہی کام مسلم معاشرہ ہر دور میں خاموشی سے کرتارہا حتیٰ کہ برصغیر میں مسلم اسٹیٹ کے اختتام کے وقت مسلم آبادی کا تناسب بمشکل دس فیصد رہاہوگا جوایک صدی بعد کل آبادی کے ایک تہائی کے قریب جاپہنچا ۔اگر حالات نارمل رہتے اور معاشرہ اپنا کام کرتارہتا تو قیاس کہتاہے کہ مزید ایک صدی میں برصغیر کے مسلمانوں کو واضح اکثریت میں بدل جانے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی تھی، مگر دعوتی کام کے بجائے سیاسی ذہن وفکر اور اقتدار کی خواہش نے برصغیر کے معاشرے میں منافرت، دوری اور تلخی گھول کر اسلام کے سمجھنے کے امکانات ختم نہیں تو نہایت محدود ضرور کردیے۔ اسلام جیسے آفاقی اور پوری انسانیت کے لیے پیغام رکھنے والے مذہب کو اسٹیٹ کی تنگ نائے میں بند کرنا ناقابل فہم ہے۔ جس دین کی تعریف خود پیغمبر اسلام ﷺ نے ’النصیحہ‘ یعنی خیر خواہی کے لفظ سے کی ہو اور بتایا ہوکہ یہ اللہ ورسول ﷺ، مسلمانوں اور پوری انسانیت کے ساتھ بھلائی اور خیر خواہی کا نام ہے، ا س کا اولین تقاضا انسانیت کے درمیان ہر قسم کی غلط فہمیوں کو ختم کرکے ان کو پیغام سننے کے مواقع مہیا کرناہونا چاہیے، جبکہ اسٹیٹ اور اقتدار کا لفظ ہی اقوام عالم کے درمیان تناؤ، فاصلوں اور بدگمانیوں کے ڈھیر لگا دیتاہے۔ اگر اسلام کا نصب العین کسی اسٹیٹ کا قیام ہوتا تو مسلمانوں کے اسلامی اسٹیٹ کو چھوڑ کر برصغیر، چین، انڈونیشیا او ر دنیا بھر میں پھیل کر دعوت اسلام کی تگ ودو بے معنی ہوجاتی ہے۔ برصغیر میں موجود تقریباً پچاس کروڑ مسلمانوں میں ننانوے فی صد یہاں کی مقامی آبادی سے ہیں۔ یہی حال دنیا بھر کے مسلم معاشروں کا ہے۔ یہ سب سے بڑی شہادت اور دلیل ہے جو قائد اعظم اور علامہ اقبال ؒ کے دو قومی نظریے پر سوالیہ نشان قائم کر دیتی ہے، کیونکہ اسلام پوری انسانیت کا مذہب ہے نہ کہ ایک قومی یا قبائلی مذہب جو کہ جغرافیے کی تنگ نائے میں محدود ہو کر رہ جائے ۔
آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک انڈونیشیا کسی فوج یا اسٹیٹ کے بغیر مسلم ملک بنا اور دوسرا بڑا ملک بنگلہ دیش مسلم اسٹیٹ کے دور میں نہیں بلکہ برٹش امپائر کے عین دور شباب میں مسلم اکثریت کاخطہ بنا، اسلام اپنی اشاعت میں کبھی اسٹیٹ کامرہون منت نہیں رہا۔ دنیا میں مسلم اسٹیٹس بنتی بگڑتی رہیں، اس سے اسلام کی رفتار پر کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ وہ اپنی اندرونی توانائی واسپرٹ سے برابر نئی نئی فتوحات حاصل کرتارہا کیونکہ
؂ نشہ مے کوتعلق نہیں پیمانے سے
برصغیر میں اسلام کا نام استعمال کرکے ۵۸ سال پہلے ایک اسٹیٹ وجود میں آگئی مگر اسلام کبھی اسلام آباد کے ائیر پورٹ پر نہیں اتر سکا اور نہ مستقبل میں کبھی اترنے کا امکان نظر آتاہے۔ اسلام تو خیر بہت بڑی چیز ہے، اگر اگلے ۵۸ سال میں صحیح معنی میں مغربی ڈیموکریسی اور سوشل جسٹس (سماجی انصاف ) ہی آجائے تو ہم اسے بھی اس نظریے کی کامیابی سمجھیں گے، مگر اس کا بھی دور دور تک کوئی امکا ن نظر نہیں آتا۔ غور کیاجائے تو مسلمانوں کی سوچ وفکر کا رخ انسانی بہبود اور معاشرے کی تعمیر کے بجائے اسٹیٹ کے قیام اور حصول اقتدار کی طرف مڑجاناہی موجودہ پریشانیوں کا بنیادی اور اصل سبب ہے۔ مثلاً امریکہ میں مسلمان تیزی سے اپنے قدم جماتے جارہے تھے اور عددی اعتبارسے دوسری بڑی کمیونٹی بن چکے تھے۔ مسلم معاشرت خاموشی سے اپنا کام کر رہی تھی کہ مسٹر بش کے پہلے الیکشن کے موقع پر مسلمانوں نے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہر ہ کردیا جس پر صہیونی طاقتوں کے کان کھڑے ہوگئے جن کا عرصہ سے امریکہ ومغرب پر ہمہ جہت اقتدار قائم ہے کہ مسلمانوں کی یہ جرات کہ ہماری حدود میں دخل دیں، یہاں یہ طے کرنا کہ اقتدار پر کون فائز ہو، صرف ہماراحق ہے، اور اس کے بعد نائن الیون کا ڈرامہ رچایا گیا اور امریکہ میں مسلمانوں کا وہ حشر کیا گیا کہ جان کے لالے پڑگئے ۔
مسلم معاشرہ کی اندرونی روح وتوانائی کے خاتمہ کا ایک بہت بڑا سبب تو خود اہل دین کا اعتقادی وفقہی مسالک کے جھگڑوں میں مشغول ہو کر انسانیت کے تئیں اپنے فریضے سے غافل ہو جانا ہے۔ صدیوں سے مذہبی طبقے کا دائرہ کا ر عقائد وعبادات اور نیک بننے کی مشق رہ گیا ہے۔ ان کے پاس انسانیت کی بہبود کے لیے سوچنے کی فرصت نہیں ہے۔ دوسرا سبب مغربی اقوام بالخصوص برطانیہ وفرانس کا عالم اسلا م پر قائم ہونے والا سیاسی اور علمی وفکری غلبہ ہے۔ برطانیہ نے برصغیر میں اپنے نظام تعلیم، افکار ونظریات اور تمدن وکلچر کے ذریعے ایک ایسی نسل پیدا کردی جس کی نشوونما خواہشات ،خود غرضی ،نفس پرستی اور حیوانیت کے خصائص پر ہوئی۔برصغیر میں برٹش امپائر پنجاب کی فوج، پولیس اور انٹیلی جنس کے بل بوتے پر قائم رہا۔ اس نے ایک طبقے کو ملک وملت سے غداری کے عوض زمینیں وجاگیریں دے کر عوام پر تسلط وغلبہ بخشا۔ جب برطانیہ نے محسوس کیا کہ اس کی پروردہ نسل اس کے منشا کے مطابق اس خطے کو سنبھال سکتی ہے تو سیاسی اقتدار اس ٹولے کے حوالے کرکے واپس آگیا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ طبقہ گزشتہ ۵۸ سال سے بلاشرکت غیر ے ملک کا مالک ومختار بنا ہواہے۔ فوجی حکومت ہو یا جمہوری، اصل اقتدار انھی مراعات یافتہ غدار خاندانوں کا رہا جو ہر دور میں ملک کے وسائل کواپنی ذاتی جاگیر جان کر لوٹ کھسوٹ کرتے رہے ۔ بینکوں سے کروڑوں اربوں روپے ہڑپ کرکے معا ف اور قیمتی زمینیں کوڑیوں کے دام اپنے نام الاٹ کرواتے رہے۔ پاکستا ن کے حالیہ زلزلے میں بیرونی ممالک کی امداد کا ایک بڑا حصہ یہ طبقے ہڑپ کرچکے ہیں۔ یہ اسلام اور قرآن کو اپنے لیے پیغام موت سمجھتاہے ۔ مغرب نے تقریباً ہر ملک میں ایسا طبقہ پیدا کرکے اقتدار واختیارات اور ملک کی باگ ڈور اس کے ہاتھ سونپ رکھی ہے جو امریکہ وبرطانیہ کا خادم بن کر ان کے چشم ابرو کے اشارے پر کام کر رہا ہے۔ 
غرض مسلم معاشرے کی تباہی کا اصل وبنیادی سبب معاشرے کی روح کا نکل جانا ہے اور قرآن نے انسان کی بہبود کے لیے جو اسپرٹ پید ا کی تھی، اس سے محروم ہوجانا ہے۔ یہی مسلم مفکرین کے لیے وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے کہ اس جاں بلب معاشرے کی روح وتوانائی کس طرح واپس لوٹے، نہ یہ کہ اقتدار اور حکومت کے ایوانوں تک علما و مفکرین کی رسائی کیسے ہو۔اول تومغرب کی پروردہ نسل کبھی خدا ورسول ﷺ پر ایمان رکھنے والوں کو اقتدارتک پہنچنے نہیں دے گی۔ یہ حقیقت دن بدن واضح ہوتی جارہی ہے کہ مغرب مسلم ممالک میں جمہوریت کے نام پر عراق اور افغانستان کی طرح اپنے فرمانبردار اہلکاروں کی حکومت کا خواہاں ہے۔ بفرض محال دینی جماعتیں اگر کسی مسلم ملک میں الیکشن کے ذریعے اوپر آبھی گئیں تو عالمی طاقتوں نے، جو گزشتہ کئی صدیوں سے صہیونی شیطانوں کی غلام وآلہ کار بن چکی ہیں، انہیں بے بس وبے اثر کرنے کے لیے دوسرا انتظام کررکھا ہے۔ وہ یہ کہ دوسری جنگ عظیم کے فاتحین امریکہ وبرطانیہ وغیرہ نے اپنی فتح کو دائمی بنانے اور پوری انسانیت پر نافذ ومسلط کرنے کے لیے اقوام متحدہ کو وجود بخشا،اور یو این او کے ذریعے دنیائے انسانیت پر اپنا اقتدار مستحکم کرلیا۔ دنیا کے سارے ممالک بشمول مسلم ممالک یواین او کے چارٹر پر دستخط کر کے اس بات کا عہد کر چکے ہیں کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں یواین او کے مطالبات کو نافذ کریں گے اور اپنے ملکی وقومی آئین وقوانین کو بدل کر ان کے مطابق بنائیں گے ۔
یواین او کا یہ دستور اور چارٹر مغربی طاقتوں کے مفادات، خواہشات اور تمدن کے مطابق اور آسمانی تعلیمات کے متوازی بلکہ برعکس ہے۔ مثلاً اس کی ایک دفعہ یہ ہے کہ بالغ عمر کے مرد وعورت رنگ ونسل، جغرافیہ اور مذہب کی تفریق کے بغیر شادی کرسکیں گے۔ اب آپ کسی مسلمان لڑکی کو غیر مسلم سے شادی کرنے سے نہیں روک سکتے ۔ایک دفعہ یہ ہے کہ کسی مجر م کو ایسی سزا نہیں دی جائے گی جس سے اس کی تذلیل ہو یا اسے اذیت ہو، یعنی قرآن کے حدود وقصاص کے تمام قوانین یک لخت ختم۔ ایک دفعہ یہ ہے کہ مرد وعورت ہر اعتبار سے مساوی ہوں گے۔ اس سے قرآن کے تمام معاشرتی وعائلی قوانین ختم ہو جاتے ہیں، مثلاً طلاق دینے کا حق جس طرح مرد کو ہے، عورت کو بھی دینا ہوگا۔ اسی طرح قرآن کے وراثت کے تمام قوانین منسوخ ہو جاتے ہیں۔ لڑکے کے دو حصے اور لڑکی کا ایک حصہ نہیں، بلکہ مساوی حق ہوگا۔ چندسال پہلے مصری عدالت نے دو لڑکوں کو جنسی تعلق قائم کرنے کی وجہ سے سزادی تو اس پر حسنی مبارک کو یہ کہہ کر مغرب سے معافی مانگنا پڑی کہ ابھی معاشرے میں قرآن کا کچھ (فرسودہ) اثر باقی ہے اس لیے یہ غلطی ہوئی ،ورنہ یہ ان ملزمین کا بنیادی حق ہے۔ یو این او پہلے ہی طے کرچکی ہے کہ دنیا میں نیوکلیر پاور بننے کا حق صرف پانچ بڑی طاقتوں ہی کا ہے تاکہ مغرب کی دہشت پوری دنیا پر طاری رہے۔ غرض پوری دنیا پر اقوام متحدہ کے نام سے مغرب کا عالمی ا قتدار قائم ہوچکاہے اور یو این او کا یہ حق دنیا کے تمام ملک تسلیم کرچکے ہیں کہ اس کے آئین وقوانین اورقراردادوں کی خلاف ورزی کرنے والی حکومتوں پر یواین او کو فوج کشی کرکے ان حکومتوں کو ختم کرنے کا حق ہے، جیسا کہ افغانستان میں ہوچکاہے۔
موجودہ حالات میں اقوام متحدہ کے قوانین اور چارٹر کی خلاف ورزی کرنے کی جرات چین اور بھارت جیسے ملک بھی اپنے میں نہیں پاتے تو مسلم ممالک کس شمار میں ہیں؟یہ آج کی دنیا کے زمینی حقائق ہیں۔ اب ان کو سامنے رکھ کر بتائیے، اگر دینی جماعتیں کسی خطے یا ملک میں انتخابات کے ذریعے اقتدار تک پہنچ بھی گئیں تو وہ کیا کچھ کر پائیں گی اور کس طرح اسلام کا نفاذ کریں گی؟ موجودہ حالات میں ہمارے پاس واحد آپشن (راستہ) یہی رہ جاتاہے کہ قرآن واسلام نے پوری انسانیت کی بہبود کا جو پیغام اور پروگرام دیا ہے، اس سے دنیائے انسانیت کو روشناس کرائیں ،اور خود عملی نمونہ بن کر جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے دعوت کا امپائر قائم کرکے تمام انسانیت کو ان کی دنیا وآخرت کی سرخروئی وسرفرازی کی یقینی راہ کی طرف بلائیں، نہ کہ اقتدار کے حصول کی دوڑ میں شامل ہوکر اقوام عالم کے حریف بن جائیں۔ پوری تاریخ شاہد عدل ہے کہ جب کبھی معاشرہ وافراد پر ایمان واسلام کا رنگ چڑھا تو خود بخود اسلامی اسٹیٹ قائم ہوگئی۔ پوری تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اسٹیٹ کے ذریعے معاشرہ وافراد میں ایمان واسلام قائم ہوا ہو۔غرض وقت کا سب سے بڑا چیلنج اور بنیادی سوال ہے، اسٹیٹ یا سوسائٹی؟ ہر مسلمان خاص طور پر مسلم مفکرین وزعما اور قرآن وسنت کا علم رکھنے والوں کے لیے یہ سوال وقت کی سب سے بڑی آزمائش اور ان کے فہم وبصیرت کا امتحان ہے۔ اس سوال کا جواب یا فیصلہ امت مسلمہ بلکہ پوری انسانیت کا مستقبل طے کرے گا۔

اتحاد امت کا مفہوم اور اس کے تقاضے

محمد وحید خراسانی

امت اسلام کے بنیادی اور ضروری اصولوں میں سے ایک چیز یہ ہے کہ مسلمان ’’ایک امت‘‘ ہیں جیسا کہ آیت کریمہ ’’ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون‘‘ (بیشک تنہا تمھاری امت ،امت واحدہ ہے اور میں تمھارا پروردگارہوں، پس میری عبادت کرو) یا دوسری آیت شریفہ ’’ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاتقون‘‘ سے ظاہر ہے۔ عبارتیں دو ہیں، مگر دونوں کا مطلب یہ ہے کہ امت اسلامی ایک ہی امت ہے۔ ....... اسلام ’’امت ‘‘ تشکیل دینے کے لیے آیا ہے۔ امت کا مطلب ہے ایسی جماعت جو ایک رہبرکی پیروی کرتی ہو۔ جو جماعت ایک راہ پر گامزن نہ ہو، اس کو امت نہیں کہتے ۔قرآن کریم نے امتوں کو دین اور عمل کے اعتبار سے ایک دوسرے سے الگ کیاہے اور ہرایک کو اپنے عمل کا جو اب دہ گرداناہے: ’’تلک امۃ قدخلت لھا ماکسبت ولکم ماکسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعملون‘‘۔ ......
شیخ طوسی تفسیر تبیان میں رقم طراز ہیں: ’’والامۃ اہل الملۃ الواحدۃ کقولھم امۃ موسیٰ،امۃ عیسیٰ،وامۃ محمد‘‘ امت ایک دین کی پیروی کرنے والوں کو کہتے ہیں، جیسے امت موسیٰ ،امت عیسیٰ ،امت محمدﷺ۔ اسی مقام پر لکھتے ہیں: ’’والملۃ والنحلۃ والدیانۃ نظائر‘‘ یعنی ملت، دین اور آئین کے ایک معنی ہیں۔ اور ملت کا ایک معنی جانا پہچانا اور معین راستہ ہے۔ پس ملت ابراہیمؑ کا معنی ہے وہ جانا پہچانا اور معین راستہ جس کو ابراہیم نے جملہ انسانوں اور اپنے ماننے والوں کے لیے بنایا ہے، جس سے مراد دین ابراہیم ہے ۔اس بنا پر امت اور ملت ،معنی میں مشترک ہیں اور ایک ہی نقطے پر ختم ہوتے ہیں اور امت وامام ایک ہی مادہ سے ہیں۔ پس وہ جماعت اور جمعیت جو اسلام کے نام پر ایک امام یعنی لغوی اعتبار سے ایک پیشوا کی،جو سرکاررسالت مآب ﷺ ہیں، پیروی کرنے والے ہیں ،ایک امت ہیں، اور دوسری قومیں ،جن کا پیغمبر ایک ہے، وہ بھی بذات خود امت ہیں۔ مسلمان گورے ہوں یا کالے ،سرخ پوست ہوں یا زرد پوست، مشرقی نسل کے ہوں یامغربی نژاد کے، کسی بھی زبان میں کلا م کرتے ہوں اور کسی بھی قوم و قبیلہ سے تعلق رکھتے ہوں، سب کے سب ایک امت ہیں’’ ایک اسلامی امت ‘‘۔ .......
قرآن مجید میں ارشادہے: ’’ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ‘‘۔ سیاق کے اعتبارسے اس آیت کے دو معنی کیے گیے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ آیت کا خطاب تمام انبیاے کرام کے ماننے والوں سے ہے۔ چونکہ اس آیت سے پہلے قرآن مجید نے دوسرے انبیائے کرام کاذکرکیا ہے اور اس کے بعد فرمایا: ’’ وان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون‘‘ اس کے بعد بھی اختلاف ہی کابیان ہے، یہ ارشاد فرمانے کے بعد کہ تم سب ایک امت ہو اور میں تمھارا پروردگارہوں ،تمھیں میر ی عبادت کرنا چاہیے، ارشادہوتاہے کہ انہوں نے آپس میں اختلاف کیا اور ان کے اس اختلاف کی بنیاد ’’بغیا بینھم‘‘ ہے، یعنی انھوں نے ایک دوسرے کے خلاف بغاوت کی بنیاد پر اختلاف کیا۔ اگر آیت کے یہ معنی کیے جائیں تو آیت کا تعلق ’’اتحاد ادیان ‘‘ سے ہوگا، چونکہ ارشاد ہوتاہے ’’اے خدا کی عبادت کرنے والو! اے ان انبیائے کرام کے ماننے والو جن کاہم نے پہلے ذکر کیا ہے ،تم سب کے سب ایک امت ہو اور تمھارے امت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تم سب خدا کی عبادت کرتے ہو: ’’ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون‘‘۔ عبادت، یکتا پرستی اورتوحید ،ادیان آسمانی کے اتحاد کامعیار ہے۔ آیت کے ذیل سے بھی اسی معنی کی تائید ہوتی ہے ،لیکن بعض مفسرین کہتے ہیں کہ نہیں ، بلکہ قرآن مجید نے دوسرے انبیائے کرام کا ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کومخاطب قراردے کرارشاد فرمایا کہ ان کی حالت تویہ تھی، اب تم بتاؤ کہ تم کیسے ہو؟ تم بذات خود ایک امت ہو۔ ’’ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون‘۔‘ اور دوسری آیت میں ارشاد ہوتاہے ’’فاتقون‘‘۔ اس معنی کی بنیاد پر ایک امت ہونے کا معیار ہمارے ہاتھ آجاتاہے۔ ہم امت اسلام ہیں، اس لیے کہ موحد ،خدا پرست اور ایک پیغمبر وشریعت کے ماننے والے ہیں۔ پس مسلمان سب کے سب ’’ایک امت ‘‘ہیں۔
اسلامی اتحاد کے بارے میں تعبیریں متعدد ہیں۔ ایک تعبیر اور بھی ہے اور وہ ہے ’’اخوت اسلامی‘‘ اسلامی بھائی چارہ۔ اتحاد اسلامی یا اتحاد مسلمین کا زیادہ تر تعلق سیاسی اور اجتماعی پہلو سے ہے او ر اسلامی اخوت وبرادری کاتعلق جذباتی پہلو سے ہے۔ ( قرآن مجید) کہتا ہے کہ تمھیں جذباتی لگاؤ کے اعتبار سے ایک دوسرے کا بھائی ہونا چاہیے۔ ’’واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ‘‘ اس میں ارشاد ہوتاہے کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، خدا نے تمھارے دلوں کو ایک دوسرے کے نزدیک کیا، تم ایک دوسرے کے بھائی ہوگئے۔ اخوت دلوں کے قرب اور جذبات کی ہم آہنگی کانام ہے۔ بھائی چارہ کا تعلق اسلامی جذبات سے ہے ،مسلمانوں کو میدان سیاست واجتماع ،میدان اقتصاد ،کلی مسائل، احکام وشریعت اور اپنی تقدیر میں ایک دوسرے کے شریک اور ایک امت ہونے کے علاوہ جذبات کی دنیا میں بھی ایک دوسرے کا بھائی ہونا چاہیے۔
قر آن مجید نے اس سلسلے میں تفصیل سے بحث کی ہے اور آیات کریمہ میں ایسے لطیف وظریف مضامین ہیں کہ انسان کو یہ یقین ہوجاتاہے کہ ہر وہ چیز جس سے مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہو سکتاہے اور ان کے لیے مایہ سعادت وخوش بختی ہو سکتی ہے، اسے بیان کردیا گیاہے لیکن مسلمان اس سے غافل ہیں۔ ہم قرآن مجید سے کوسوں دور ہیں۔ قرآن مجید کو پڑھتے ہیں ،اس کی تفسیر بھی سنتے ہیں، لیکن میں نے آج تک کسی شخص کو نہیں دیکھا جس نے اسلامی اتحاد اور اسلامی اخوت میں فرق رکھا ہو اور کوئی ایسا شخص بھی نظر سے نہیں گزرا جس نے ’’مسلمانوں کے اتحاد‘‘ اور ’’تقریب مذاہب ‘‘ میں فرق رکھا ہو (جبکہ) اسلامی اتحاد ایک مسئلہ ہے اور تقریب مذاہب دوسرا مسئلہ ہے ،البتہ ان کاآپس میں ربط ہے۔ مذاہب کو ایک دوسرے کے قریب کرنا، مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے کا پیش خیمہ ہے۔ 
معلوم ہوا کہ مسلمان ایک امت ہیں اور یہ چیز اسلام کے ضروریات میں سے ہے ۔ایک امت ہونے کامطلب یہ ہے کہ اپنے درمیان اتحاد قائم رکھیں۔اتحاد کیسے قائم رہے گا ؟اس کے بارے میں قرآن مجیدنے ارشاد فرمایا ہے’’واعتصموا بحبل للہ جمیعا ولا تفرقوا‘‘ یہ اتحاد نہیں ہے کہ سب مسلمان ایک صف میں کھڑے ہوں بلکہ سب ایک سلسلے سے متمسک ہوں، ایک رسی کو پکڑے رہیں اور وہ رسی خدا کی رسی ہے۔ وہ رسی کیاہے؟ تفسیریں مختلف ہیں۔ قرآن ہے ،دین ہے، اسلام ہے ،احکام ہیں اور بعض شیعہ روایات کہتی ہیں کہ اس سے ’’ولایت ‘‘ مراد ہے اور اس میں کوئی مانع نہیں ہے، اس لیے کہ اسلام کاباطن ’’ولایت ‘‘ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو ایک ’’اصل‘‘ سے متمسک ہو جانا چاہیے اور اصل ہے اصل توحید، اصل نبوت، اور اصل معاد (قیامت ) اور یہی ہے ہر وہ چیز جو کتاب میں ہے اور جسے رسول لے کر آئے۔ وہ مشترک جامع اصل ،عقیدہ کا اشتراک ہے۔ اسلامی اتحاد کے دو ستون ہیں۔ ایک پر عقیدہ کی عمارت اور دوسرے پر عمل کی عمارت کھڑی ہے ۔
مشترک جامع اصل سے ہماری مراد اسلام کے وہ قطعی اصول ہیں جن پر تمام مسلمانوں کااتفاق ہے ،جو کتاب وسنت سے قطعی طور پر ثابت ہیں اور تمام مسلمان ضرورتاً انہیں مانتے ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ سب مسلمان یکتا پرست ہوں، پیغمبر کو پیغمبر سمجھیں، قیامت کا عقیدہ رکھتے ہوں، نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، زکوٰۃ دیں، حج بجا لائیں، نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں،یعنی وہی چیزیں جو اصول وفروع کے نام سے ہمیں یاد کرائی جاتی ہیں۔ 
کہتے ہیں کہ اصول دین تین ہیں : ۱۔توحید ، ۲۔نبوت ، ۳۔قیامت۔ اور دوسری چیزیں جن میں مذاہب کے درمیان اختلاف ہے، وہ اصول مذاہب ہیں ۔ہر مذہب کے اپنے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ ہم شیعوں کے پانچ اصول ہیں جن میں تین مشترک اسلامی اصولوں کے علاوہ عدل اور امامت بھی شامل ہیں۔ معتزلیوں کے بھی مشترک اسلامی اصولوں کے علاوہ پانچ اصول ہیں اور وہ یہ ہیں: ۱۔توحید (جس کے معنی خدا کی صفتیں اس کی ذات سے الگ نہیں ہیں) ۲۔عدل، ۳۔وعدہ اور وعید (جس کے معنی ہیں خدا کے لیے اپنے وعدہ اور وعید پر عمل کرنا لازمی ہے) ۴۔منزلۃ بین المنزلتین ( یعنی گناہ کبیرہ کرنے والا نہ کافر ہے اور نہ مومن) ۵۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ۔دوسرے مذاہب کے بھی اپنے اصول ہیں۔ 
اس بنا پر اتحاد کی پہلی شرط ،اصول سے متمسک ہونا۔ وہ اصول جن کو ’’حبل اللہ ‘‘ سے تعبیر کیاگیاہے۔ قرآن مجید سے متمسک ہونا یعنی ہر اس چیز سے متمسک ہونا جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے، دین سے متمسک ہونا ،یعنی اصل دین سے اور اس کے قطعی مشترکات سے وابستہ ہونا ہے، وگرنہ دین جب مجتہدوں کو دے دیاجائے حتیٰ کہ ایک مذہب کے مجتہدوں کو تو اس کے بال وپر نکل آتے ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔ اختلاف ہے لیکن اختلافی احکام ایک مذہب کے احکام ہیں، دین کے احکام نہیں ۔یہ صحیح بھی ہے اورخود دین نے اس کو جائز قرار دیاہے کہ اس قسم کے مسائل میں مجتہد حضرات اجتہاد کریں اور ان کے اختلاف کو دین نے پسندکیاہے: ’’للمصیب اجران وللمخطئ اجر واحد‘‘۔ جو مجتہد اپنے اجتہاد کے ذریعہ خدا کے واقعی حکم کو معلوم کرلے، اس کے لیے دو اجر ہیں اور جو اجتہاد میں غلطی کرے، اس کے لیے ایک اجر ہے۔
یہ تھی ایک بات اورپہلا رکن ،یعنی قطعی اور مشترک اصول سے متمسک ہونا ۔ اس وقت تما م مسلمانوں کے پیغمبر، پیغمبر اسلام ہیں، سب کے سب یکتا پرست ہیں، نماز پڑھتے ہیں، سب کا قبلہ ایک ہے ،تمام اسلامی ممالک اور مختلف اسلامی مذاہب کو دیکھ ڈالیے ،آیا کعبہ کے علاوہ ان کا کوئی دوسرا قبلہ ہے ؟نہیں ہے۔ سب کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کے قوانین کی پابندی کرنا چاہیے۔ سیاست، معاملات، احکام قضا، قصاص اوردیات میں اجمالی طور پر سبھی متفق ہیں۔ ہاں، جب فقہ کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو مختلف مذاہب کے فقہا کے نظریات کی بنا پر مختلف فرعیں وجود میں آتی ہیں۔ یہ ہے ایک رکن ،یعنی ’’حبل اللہ‘‘ سے متمسک ہونا،جس سے مراد ،اصل دین یعنی مسلّمات ،محکمات،قطعیات اور متفق علیہ مسائل ہیں۔
ایک رکن اور بھی ہے او ر وہ ہے ’’مشترک ذمہ داری‘‘ کو پوراکرنا۔ مسلمان جو ایک امت ہیں، ایک دین رکھتے ہیں، انہیں چاہیے کہ مشترکہ ذمہ داری کو قبول کریں۔ میں دو حدیثیں آپ کے سامنے پیش کرتاہوں۔ سرکار رسالت فرماتے ہیں: ’’من اصبح لا یبالی بامور المسلمین فلیس بمسلم‘‘ (کافی؍ کتاب الایمان والکفرباب ۷۰ ؍حدیث ۵۔۱) ’’جو شخص یوں صبح کرے کہ امور مسلمین کو اہمیت نہ دیتاہو، وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘ رسالت مآبﷺ کیا فرماتے ہیں؟ ہم نیندسے اٹھے ہیں، درس وبحث کی فکر میں ہیں، تاجر اپنی تجارت کی فکر میں ہے، مزدور کے سر میں مزدوری کا خیال ہے، سیاست دان سیاست میں الجھاہوا ہے، وہ چیز جو کسی کے دل ودماغ میں نہیں ہے، شاید پورادن یا ہفتہ دو ہفتہ یا ایک مہینہ تک،وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ کے اس جمع عظیم کے سلسلہ میں وہ بھی ذمہ دار ہے۔قرآن واسلام یہ کہہ رہے ہیں کہ مشرق میں بسنے والے مسلمان کے کندھوں پر مغرب میں رہنے والے مسلمان کی کچھ ذمہ داریاں ہیں، چاہے کسی بھی مذہب کا ہو، مسلمان ہو،اسلام کے مسلمہ اصول کو مانتاہو ،یکتا پرست ہو، اس کا دین اسلام ہو،پیغمبر ،نماز ،قبلہ اوران مشترکات کو جنہیں ہم نے عرض کیاہے، تسلیم کرتا ہو، ایسے شخص کے سلسلے میں ہم بھی ذمہ دار ہیں۔ ذمہ داری ماننے کی شرط اس کا اہتمام ہے، ہمہ تن متوجہ رہے کہ فلاں واقعہ کا کیا ہوا اور میں اپنی ذمہ داری کو کس طرح سے نبھاؤں۔ یہ تھی ایک حدیث ۔
دوسری حدیث جو ہمیں اپنے مطلب سے نزدیک ترکرتی ہے، وہ سرکار رسالت ﷺ کی مشہور ومعروف حدیث ہے: ’’من سمع رجلا ینادی یا للمسلمین فلم یجبہ فلیس بمسلم‘‘ (کافی ؍کتاب الایمان والکفر باب ۷۰؍حدیث ۵) ’’جو شخص دنیا کے کسی بھی گوشہ سے کسی مسلمان کی فریاد سنے جو پکار رہاہے کہ اے مسلمانو! میری فریاد سنو!اور وہ ا س کا مثبت جواب نہ دے، وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘
جنا ب والا!آپ کیسے مسلمان ہیں کہ ایک مسلمان آپ کو مدد کے لیے پکار رہاہے مگر آپ اس کی مددنہیں کرتے ! سرکار رسالت ﷺ ،اس سے زیادہ واضح اور کھلے لفظوں میں اور کیا فرماتے ؟
اسلامی اتحاد یعنی اللہ کی رسی کو تھامنا او ر مشترکہ ذمہ داری کو قبول کرنا، ناگزیر واجبات میں سے ہے ۔جس طرح نماز ہمارے اوپر واجب ہے، اسی طرح اس معنی میں اتحاد کہ جو میں عرض کر رہاہوں یعنی سیاسی اور اجتماعی اتحاد ،مسلمانوں کے امور کو اہمیت دینا اور اسلام وقرآن کی عائد کردہ مشترکہ ذمہ داری کو قبول کرنا بھی واجبات میں سے ہے۔ جس طرح آپ پر نماز پڑھنا ،روزہ رکھنا ،حج کرنا واجب ہے اور جس طرح کھانا کھانا واجب ہے، اسی طرح مسلمانوں کے امور کو اہمیت دینا بھی واجب ہے تاکہ اسلام کا دامن آپ کے ہاتھ سے نہ چھوٹے اور مسلمان ظلم وستم کی چکی میں نہ پسیں۔
آیا اب تک ’’ بینی وبین اللہ ‘‘ ہم نے اس فریضہ پر عمل کیاہے ؟مسلمان اس فریضہ پر عمل کررہے ہیں ؟ہر معاشرہ میں شاذ ونادر ایسے افراد پیدا ہوتے ہیں جن کا دل عالم اسلام کے لیے دھڑکتاہے ،دوسرے یا تو کانوں میں انگلیاں دھرلیتے ہیںیا ان میں سے کچھ ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ہم سے کیا مطلب کہ فلاں جگہ کیا بیت رہی ہے۔ مسئلہ فلسطین ،جس کے بارے میں امام مرحوم ؒ نے کھلے لفظوں میں فرمایا ہے کہ اسلامی مسائل میں سرفہرست ہے، میں نے خود لوگوں کو کہتے ہوئے سنا ہے’’عرب ،یہودیوں سے برسرِپیکار ہیں ،ہم سے کیا مطلب ہے؟‘‘ جنا ب والا! یہ عربوں اور یہودیوں کامسئلہ نہیں ہے، اسلام کا مسئلہ ہے، انہوں نے مسلمانوں کے قبلہ اول پر قبضہ جمالیاہے، تین سو کلو میٹر یا اس سے کچھ زیادہ (مجھے صحیح معلوم نہیں) دوسرے قبلہ (کعبہ) سے دور نہیں ہیں، جب بھی چاہیں اس پر قبضہ جماسکتے ہیں، خاص کر ان کی اس طاقت کو دیکھتے ہوئے۔ اور وہ حکومت جو اس ملک پر حکمران ہے، دونوں امریکہ کے نوکر ہیں۔یہ ہے مسلمانوں کی حالت زار ،ہم کیوں اس کے علاج کی فکر نہیں کرتے؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بچپن سے ہمارے اعتقادی مسائل میں اس کو رکھ کر ہمیں صورت سے آگاہ کرتے۔
مسئلہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں یہی چیزیں آتی ہیں۔ جب انسان ذمہ داری قبول کر لے تو وہ آنکھیں کھلی رکھتاہے کہ کہاں غلطی ہو رہی ہے، انفرادی اور اجتماعی غلطی تاکہ اس کا سدِباب کر سکے، کہاں معروف نہیں ہے تاکہ اس کا حکم دے،کمر ہمت باندھ کر اٹھ کھڑا ہو اور اتحاد کامنادی بن جائے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج چاروں طرف سے دشمن نے اسلام پرحملوں کی بھر مار کر رکھی ہے، مسلّم ہے کہ ان کا ایک ہی منصوبہ ہے اور میرا عقیدہ ہے کہ اس منصوبہ کا تانا بانا اسرائیل یا امریکہ میں بنا جاتاہے تاکہ اسلام کو چاروں طرف سے کاٹ کررکھ دیں اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیں۔
میری گزارش یہ ہے کہ اگر مسلمان اس مشترکہ ذمہ داری کو جس کے بارے میں ،میں نے عرض کیاہے، اسلام کے عملی اصولوں کے ساتھ متمسک ہوتے ہوئے، جو بذات خود ایک ضابطہ اور اصل ہے، نبھائیں تو اس کی شرط یہ ہے کہ 
۱۔مسلمان ہوں اور کم سے کم ان بنیادی اصول کو جانیں اور ان پر عمل کریں ۔
۲۔تمام مسلمانوں کے حالات سے باخبر ہوں۔
پچھلے سال ایام حج میں البانیہ سے کچھ لوگ مقام معظم رہبری کے بعثہ میں آئے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم کمیونزم زدہ البانیائی ،ستر سال کے بعد آزاد ہوئے ہیں، ہمارے نوجوانوں کو صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ مسلمان ہیں ،اسلامی جذبات کے دیپ ان کے اندر روشن ہو رہے ہیں، لیکن اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ یہ ایک مصیبت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی اکثریت ایسی ہے جن کا ابھی تک ختنہ نہیں ہوا ہے، حرام وواجب کا شعور سرے سے ان کے دماغ میں پیدا نہیں ہوا ہے، انہیں معلوم نہیں کہ واجب وحرام کیاہے ،یہ مصیبت ہے جس سے ہم بے خبر ہیں۔ بوسنیا ہرز گوینا میں پارٹی کانائب رئیس، جو اس ملک کا نائب صدر بھی تھا، اپنے ایک عالم سے جو عربی اچھی طرح بول لیتا تھا، اپنا درد دل بیان کررہا تھا کہ جناب ہماری فریاد کو پہنچیے۔یہ واقعہ ۱۹۹۲ء کے حج کاہے، جب جنگ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ ایک روز آپ سنیں گے کہ انہوں نے ہمارا قتل عام کردیاہے۔ دوسری جنگ عظیم میں ،جب ساری دنیا جنگ کی لپیٹ میں تھی، عیسائیوں کے مختلف فرقے ’’کیتھولک‘‘ او ’ر’آرتھوڈکس‘‘(یعنی سرب اور کروٹس)آپس میں متحد ہوگئے ،انہوں نے ہمارا قتل عام کیا لیکن مسلمانوں کو کانوں کان خبر نہ ہوسکی۔
اس وقت مسلمان صومالیہ کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟علاوہ ان لوگوں کے جنہوں نے مدرسہ دیکھا ہے ،کالج گئے ہیں، جغرافیائی نقشہ کو جانتے ہیں، کیا کوئی اور یہ بتاسکتاہے کہ صومالیہ کہاں ہے ؟ صومالیہ افریقہ کے ایک کونے میں واقع ہے۔ چند ماہ پہلے میں افریقہ میں تھا، مجھے بتایا گیا کہ مسلمانوں کے دوقبیلے یا ان کی دو پارٹیاں آپس میں لڑ پڑیں اور انہوں نے ہر چیز کو تباہ وبرباد کردیا ۔دونوں مسلمان ہیں ،لیکن جتنی عمارتیں ،جتنے کارخانے اور کھیت تھے، سب تہس نہس ہوگئے اور اب وہ لوگ قحط کی لپیٹ میں ہیں جبکہ ہم بے خبر ہیں۔ (بعد میں امریکہ نے مداخلت کی تھی )۔
اس ذمہ داری کو نبھانے کی شرط ،دو چیزیں ہیں :
پہلی شرط یہ ہے کہ اسلام کو اجمالی طور پر پہچانیں کہ کون مسلمان ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کے حالات سے باخبر رہیں ۔
ایک بار کسی اخبار کے ایڈیٹر نے مجھ سے پوچھا کہ میں اسلام کے بارے میں کس قسم کا مقالہ تحریر کروں ؟میں نے کہا دنیائے اسلام کا تعارف ،دنیائے اسلام کو پہچنواؤ۔ چند سال پہلے محمود شاکر نامی مصر کے ایک دانشور نے عربی زبان میں اسلامی ممالک کے بارے میں چھوٹی چھوٹی کتابیں لکھیں ،ہر ملک کے بارے میں ایک چھوٹی سی کتاب لکھی ،میں نے ان کتابوں کو مصر سے خریدا۔ایک کتاب تنزانیا کے بارے میں تھی۔ تنزانیا ایک اسلامی ملک تھا جس کے عوام مسلمان اور کچھ ان میں سے شیعہ تھے۔ بعد میں وہاں انقلاب آیا اور ایک عیسائی ان کا صدر بن گیا ،یعنی ایک اسلامی ملک نے عیسائیت کارنگ اختیار کر لیا اور مسلمانوں کو خبر تک نہ ہوئی۔قصہ یہ ہے ۔
پس اس مشترکہ ذمہ داری کو نبھانے کی شرط مسلمانوں کے حالات سے آگاہی ہے۔ یہاں ایک طرف عوامی خبر رساں ایجنسیوں ،اخباروں ،مقرروں، خبر نگاروں اور ریڈیو وٹیلویژن کی ذمہ داریاں ہیں اور دوسری طرف وزارت ارشاد اور وزارت خارجہ کی ذمہ داری اہم ہوجاتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے حالات کے بارے میں موثق ذرائع سے مکمل اطلاعات حاصل کریں اور دوسرے مسلمانوں کو ان سے آگا ہ کریں اور مسلمان جب باخبر ہوجائیں گے تو وہ ان کو اہمیت دیں گے، اپنی ذمہ داری کا احساس کریں گے اور انہیں راتوں کو نیند نہیں آئے گی۔ ایک عالم نے مجھ سے چند دن پہلے کہا کہ بوسنیا وہرز گوینا کے حالات سوچ کر مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی،یہی وہ حقیقت ہے جس کے بارے میں رسالت مآب ﷺ نے فرمایا ہے: ’’من اصبح لا یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم‘‘۔ بوسنیا ہرز گوینا میں مسلمانوں کے قتل عام کی خبر سن کر مسلمانوں کو نیند نہیں آنی چاہیے اور وہ اپنی ہرچیز کو قربان کردیں ،مال وجان آبرو کیاہے؟ہرچیز کو قربان کردیں تاکہ مسلمانوں کو اس ظلم وستم سے چھٹکارا دلاسکیں۔

غامدی صاحب کے اصولوں کا ایک تنقیدی جائزہ

حافظ محمد زبیر

’الشریعہ‘ کے جنوری ۲۰۰۶ کے شمارے میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کے مضمون کے جواب میں غامدی صاحب کی تائید میں لکھی جانے والی دو تحریریں نظر سے گزریں ، جن کے حوالے سے کچھ گزارشات اہل علم کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
جناب طالب محسن صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ انھوں نے اپنے خط میں ایک بڑی اچھی بات کہی ہے کہ غامدی صاحب پر کی جانے والی تنقیدیں عام طور پر طعن وتشنیع اور تضحیک و استہزا پر مبنی ہوتی ہیں اور صاحب تنقید اپنے لیے قلمی جہاد کا جوازفراہم کرتے ہوئے نوک قلم سے اپنے ہی علم و تقویٰ کا خون کر ڈالتا ہے ۔لیکن کاش کہ طالب محسن صاحب جناب غامدی صاحب کو بھی یہ نصیحت کر سکتے کیونکہ ان کی کتاب ’برہان‘ میں اسی نوع کی تنقیدیں جا بجا موجود ہیں ،خصوصا ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور پروفیسر طاہر القادری صاحب پر تنقید کے ضمن میں دلیل و تحقیق کی بجائے زبان و ادب کے جوہر زیادہ دکھائے گئے ہیں جسے علمی تنقید و تحقیق کی بجائے ادبی تنقید کا نام دیا جائے تونامناسب نہ ہوگا ۔اگر طالب محسن صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ غامدی صاحب کے ساتھ اس قسم کی تحریروں سے زیادتی ہوئی ہے تو خود غامدی صاحب نے بھی دوسروں پر تنقید کرتے ہوئے طعن و تشنیع اور تضحیک و استہزا سے کم پر اکتفا نہیں کیا ۔ اصولی طور پر طالب محسن صاحب کی بات سے کس کو اختلاف ہو سکتا ہے کہ مسلم معاشرے میں بحث ومباحثے کے دوران کسی مسئلے میں حق بات معلوم کرنے کے لیے ادبی و ذاتی تنقید کی بجائے علم و تحقیق کی روشنی میں متعین دلائل کو مثبت تنقیدکی بنیاد بنایا جائے ،لیکن دوسروں کو حق بات کی نصیحت کرنے سے پہلے انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود بھی اس پر عمل پیرا ہو۔ اس لیے میرا طالب محسن صاحب اور ان کے ممدوح غامدی صاحب کو عاجزانہ مشورہ یہی ہے کہ وہ دوسروں پر برہان قائم کرنے کے لیے تضحیک و استہزا پر مبنی ادبی و اخباری کالموں کو ’برہان ‘نہ بنائیں بلکہ مسلمہ اصول تحقیق و دلائل کی روشنی میں مثبت تنقید کرتے ہوئے لوگوں کے لیے ایک نمونہ قائم کریں تا کہ ان کے فکر و فلسفہ کی مخالفت کرنے والوں کے لیے قولی حجت کے ساتھ ساتھ فعلی حجت بھی قائم ہو جائے ۔غامدی صاحب کی ’برہان‘جس قسم کی تنقیدوں سے بھری پڑی ہے، کیا یہ اصولی تنقیدیں ہیں؟قرآن کی کسی ایک آیت کے ترجمے کوبنیاد بناکریا ’مسئلہ بیعت‘ پرتنقید کرکے اگر غامدی صاحب کے متبعین یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اصولی تنقید کا حق ادا کر دیا ہے تو یہ ان کا زعم باطل ہے۔ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ جیسی تنقید انہوں نے دوسروں پر کی ہے، ویسی ہی تنقید ان پر ہو رہی ہے۔ غامدی صاحب کی موجودہ ’برہان ‘جب تک موجو د رہے گی ان کے مخالفین کو اس قسم کی ادبی، جذباتی اور بقول ان کے جزوی تنقید کا جواز فراہم کرتی رہے گی ۔

غامدی صاحب اور اہل سنت کے اصولی اختلافات

جہاں تک طالب محسن صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ غامدی صاحب پر کوئی علمی یا اصولی تنقید نہیں ہوئی تو ان کایہ کہنا قطعاً درست نہیں ہے ۔اصل مسئلہ غامدی صاحب پرعلمی و اصولی تنقیدکے ہونے یا نہ ہونے کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ اصول تنقید کا ہے ۔اگر غامدی صاحب علمائے اہل سنت کے ان ا صولوں ہی کو نہیں مانتے جن کی بنیاد پر تنقید ہوئی ہے توظاہرہے کہ ان کے نزدیک واقعی ابھی تک ان پر تنقید ہوئی ہی نہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ جن اصولوں کی روشنی میں علما نے ان پر تنقید کی ہے، وہ ان اصولوں ہی کے قائل نہیں۔غامدی صاحب اہل سنت سے الگ ہیں، ان کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں ۔اس کی اہم وجوہات درج ذیل ہیں :
۱) اہل سنت کے ہاں اعتزال (قرآن سنت کے نصوص سے استدلا ل کرتے وقت اہل علم کے ہاں معروف طریق کار کو نظر انداز کرنا اور اس کے برعکس کسی انداز کو اختیار کرنا)ایک طرح کی گالی ہے جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک یہی نادر انداز فخر کا باعث ہے۔اس اصول کے تحت وہ آئے روز نت نئی تحقیقات پیش کرتے رہتے ہیں ۔
۲) اہل سنت اجماع کو حجت سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف رائے دینے کو ’اتباع غیر سبیل المؤمنین‘ شمار کرتے ہیں جبکہ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ اجماع دلیل ہے لیکن حجت نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ پوری امت گمراہی پر اکٹھی ہو سکتی ہے اور یہ ممکن ہے کہ گزشتہ چودہ صدیوں میں کوئی شرعی مسئلہ کسی عالم یا فقیہ کی سمجھ میں نہ آیا ہو اور پہلی دفعہ ان پر یا ان کے امام صاحب پرمنکشف ہوا ہو ۔اس اصول کے تحت انہوں نے بہت سے اجماعی مواقف کے برعکس اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
۳) اگر کسی مسئلہ میں اہل سنت کے علما کہتے ہیں کہ اس مسئلے کی دلیل حدیث ہے تو غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث سے دین ثابت نہیں ہوتا، یعنی حدیث سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہر گز کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔جبکہ علمائے اہل سنت کے نزدیک قرآن کی طرح حدیث سے بھی دین ثابت ہوتا ہے ۔اس اصول کے تحت انہوں نے شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کا انکار کیا ہے۔
۴) اہل سنت کہتے ہیں کہ قرآن کی طرح حدیث بھی دین اور اللہ کی شریعت کو ثابت کرنے والی ہے کیونکہ یہ وحی خفی ہے۔ جس طرح قرآن وحی جلی ہے اسی طرح حدیث بھی وحی کی ایک قسم ہے اور اسے وحی خفی کہتے ہیں ۔لیکن غامدی صاحب حدیث کو وحی کی حیثیت دینے سے انکاری ہیں۔ غامدی صاحب کہتے ہیں حدیث وحی نہیں، ہاں حجت ہو سکتی ہے۔اس اصول کے تحت انہوں نے استخفاف حدیث کے فتنے کی بنیاد رکھی۔
۵) اہل سنت کے موقف کے مطابق اسلام کے بنیادی مآخذ کتاب اللہ ( قرآن مجید) اور سنت رسول ﷺ ہیں جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک کتاب اللہ سے مراد صرف قرآن نہیں بلکہ کتاب الٰہی ہے یعنی تورات ، انجیل ،اور صحف ابراہیم بھی اس میں شامل ہیں ۔ جہاں تک سنت کا معاملہ ہے تو غامدی صاحب کا مؤقف یہ ہے کہ سنت رسولﷺ کی نہیں ہوتی بلکہ سنت سے مراد سنت ابراہیمی ہے یعنی دین کی وہ روایت جو حضرت ابراہیم سے جاری ہوئی۔ 
راقم نے سطوربالا میں یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اب تک غامدی صاحب پرکتاب و سنت اور حدیث واجماع کے اصولوں کی روشنی میں علما نے جو تنقید کی ہے، اس کو غامدی صاحب کے پیروکار علمی تنقید شما ر کیوں نہیں کرتے ؟وجہ صاف ظاہر ہے کہ اہل سنت اور ان کے مابین اصولی اختلاف ہے اس سے بھی آگے بڑھ کران کے مآخذ دین علیحدہ ہیں ،ان کے نصوص علیحدہ ہیں ۔ اہل سنت کے ہاں کتاب و سنت حضرت محمد ﷺ سے شروع ہوتی ہے اور انہی پر ختم ہو جاتی ہے یعنی اہل سنت کے نزدیک کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جو آپ پر نازل ہو ا اور سنت سے ان کی مراد آپؐ کی سنت ہوتی ہے ، جبکہ غامدی صاحب کی کتاب وسنت حضرت ابراہیم ؑ سے شروع ہوتی ہے اور(ان کے بعد کے تمام اسرائیلی انبیاء کو شامل کرکے)محمد ﷺ پر ختم ہوتی ہے ۔
اہل سنت کے علما حضرت ابراہیم سے لے کر رسول ﷺ تک آنے والے تمام انبیا و رسل کو مانتے ہیں اور ان پر نازل ہونے والی اصل کتب مثلاً تورات ، انجیل اور صحف ابراہیم کو بھی کلام الٰہی مانتے ہیں لیکن جب وہ کتاب و سنت کو اپنی کتب میں بطور مآخذ شریعت بیان کرتے ہیں تو کتاب سے ان کی مراد ’قرآن مجید ‘اور سنت سے مراد ’سنت رسولﷺ‘ ہوتی ہے ۔لہٰذا اہل سنت اور فرقہ غامدیہ کا اختلاف ایسا ہی ہے جیسا کہ اہل سنت اور اہل تشیع کا،کیونکہ دونوں کی کتاب و سنت علیحدہ ہے۔
یہاں تک ہم نے طالب محسن صاحب کی خدمت میں یہ بات پیش کی ہے کہ انہیں علما کی طرف سے غامدی صاحب پر ہونے والی تنقید ،تنقید کیوں نہیں نظر آتی۔ غامدی صاحب کے فہم دین کے اصولوں پر جامع بحث ان شاء اللہ کسی اور موقع پر کی جائے گی ۔ فی الحال ہم قدرے تفصیل کے ساتھ ان کے صرف ایک اصول پربحث کرنا چاہتے ہیں ، اور وہ ہے ان کا تصور کتاب۔

غامدی صاحب کا فلسفہ کتاب

جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ہے، غامدی صاحب کے وضع کردہ اصول اہل سنت کے اصولوں سے بالکل مختلف ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے مسائل میں غامدی صاحب نے خود اپنے وضع کردہ اصولوں سے بھی کلیتاً انحراف کیا ہے ۔اس کی بعض مثالیں ذیل کی بحثوں میں سامنے آئیں گی ۔غامدی صاحب کے نزدیک قرآن میں لفظ کتاب سے مراد کلام الٰہی ہے، چاہے یہ تورات و انجیل کی شکل میں ہو یاقرآن و زبور کی صورت میں۔ان کے مآخذ دین میں منسوخ شدہ آسمانی کتابیں تورات و انجیل وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اسی لیے فکر غامدی کی روشنی میں خود ان کی طرف سے یا ان کے مریدین کی طرف سے جب بھی کوئی نئی تحقیق سامنے آتی ہے اس میں اکثر و بیشتر کتب سابقہ سے استدلال کیا جاتاہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک سابقہ کتب سماویہ پر عمل کرنے کی علت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کی نبوت میں اللہ کے بندوں کے لیے بھیجی گئی شریعت کے احکامات بہت حد تک ایک واضح سنت کی شکل اختیار کرگئے تھے اور حضرت ابراہیم سے لے کر حضرت محمد تک جتنی بھی شریعتیں آئیں، ان میں نسخ بہت کم ہے، اس لیے امت محمدیہ اللہ کے رسول ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے ساتھ ساتھ ان تمام شرائع سابقہ کی مخاطب و متعبد ہے، بشرطیکہ کتاب مقدس کی تعلیمات محفوظ ثابت ہو جائیں۔ان کے نزدیک سابقہ شرائع کے اکثر و بیشتر احکامات اب بھی دین اسلام میں قانون سازی کا ایک بہت بڑا ماخذ ہیںَ، اگرچہ سابقہ شرائع کے بعض احکامات میں نسخ کے وہ قائل ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :
ْ’قرآن مجید دین کی آخری کتاب ہے ۔ دین کی ابتدا اس کتاب سے نہیں،بلکہ ان بنیادی حقائق سے ہوتی ہے جو اللہ نے روز اول سے انسا ن کی فطرت میں ودیعت کر رکھے ہیں ۔اس کے بعد وہ شرعی احکام ہیں جو وقتاً فوقتاً انبیا کی سنت کی حیثیت سے جاری ہوئے اور بالآخر سنت ابراہیمی کے عنوان سے بالکل متعین ہو گئے ۔ پھر تورات ، زبور اور انجیل کی صورت میں آسمانی کتابیں ہیں جن میں ضرورت کے لحاظ سے شریعت اور حکمت کے مختلف پہلووں کو نمایاں کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد نبی ﷺ کی بعثت ہوئی اور قرآن مجید نازل ہوا ۔ چنانچہ قرآن دین کی پہلی نہیں بلکہ آخری کتاب ہے اور دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق ، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں ۔‘‘
اسی لیے سابقہ کتب سماویہ کی تعلیمات جب ان کے خودمعین کردہ معیار صدق و کذب پر پوری اترتی ہوں تو وہ ان کتابوں کی آیات سے قرآنی آیات کی طرح کثرت سے استدلال کرتے ہیں۔ہم یہ کہتے ہیں کہ اصل میں غامدی صاحب نے علت متعین کرنے میں غلطی کی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی بعثت کے بعد اور قرآن کے نزول کے بعد امت محمدیہؐ سابقہ شرائع کی متعبد نہیں ہے اللہ کے رسول ﷺ کا لایا ہوا دین اور شریعت جامع اورکامل و اکمل ہے۔ بالفرض اگر پچھلی شریعتیں محفوظ بھی ثابت ہو جائیں پھر بھی ان پر عمل نہیں ہو گا الاّ یہ کہ کوئی حکم پچھلی شریعتوں میں موجودہونے کے ساتھ ساتھ ہماری شریعت میں بھی ثابت رکھا گیا ہو یا اس کی تصدیق مذکور ہو ، یعنی اس پر عمل اس وجہ سے کیا جائے گا کہ وہ ہماری شریعت میں ثابت یا مذکو رہے نہ کہ اس پر عمل پچھلی شریعت کی بنا پر ہو گا ۔ غامدی صاحب کے نزدیک حضرت ابراہیم کے بعد آنے والی تمام شریعتیں تقریباًً کامل تھیں اور ہر دور کی تہذیب و تمدن کے لیے رہنمائی کی صلاحیت رکھتی تھیں ،جبکہ ہم صرف اس پہلو سے تمام سابقہ شرائع کو کامل مانتے ہیں کہ وہ خاص ادوار کے لیے کامل ہدایت تھیں جبکہ زمان و مکان کی تخصیص کے بغیر رہتی دنیا تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے علاوہ باقی تمام شریعتیں ناقص ہیں۔ پچھلی آسمانی کتابیں اپنے مخصوص دور کے لیے تھیں اور قرآن کے آنے کے بعد ان کی تشریعی نقطہ نظر سے ضرورت بھی باقی نہیں رہی ۔
اللہ کے رسول ﷺ کی بعثت اور قرآن مجید کے نزول کے بعد امت مسلمہ کے لیے اصل مآخذ و مصادرقرآن و سنت ہی ہیں ۔سابقہ کتب سماویہ اپنے اپنے ادوار میں اپنی قوموں کے لیے ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ تھیں ۔کتاب مقدس قانون سازی میں ہمارے لیے ماخذ ومصدر کی حیثیت نہیں رکھتی۔ہاں اس حد تک کہنا ٹھیک ہے کہ ’ حدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج ‘ جیسی تعلیمات کے مصداق کے طور پر قوم بنی اسرائیل سے متعلقہ قرآنی واقعات اخبار و قصص کی تفہیم کے لیے ہم کتاب مقدس کی عبارات سے استفادہ کر سکتے ہیں لیکن کسی قرآنی واقعے کی تفہیم کے لیے کتاب مقدس سے کیے جانے والے اس استفادے کی بنا پر کوئی حتمی رائے قائم کر لینا ’لاتصدقوا اہل الکتاب و لا تکذبوھم ‘ کے منافی ہے۔ جہاں تک عقائد و احکام میں کتاب مقدس سے استدلال کرنے کا معاملہ ہے تو اس کی کوئی دلیل نقل و عقل میں نہیں ملتی ۔ 

غامدی صاحب اور سابقہ شرائع سے استدلال 

سابقہ شرائع سے استدلال کے لیے غامدی صاحب کا اصل اصول ان کی تحریروں میں اس طرح مذکور ہے: 
’’بائبل تورات ،زبور، انجیل اور دیگر صحف سماوی کا مجموعہ ہے ۔ اپنی اصل کے لحاظ سے یہ اللہ ہی کی شریعت اور حکمت کا بیان ہے ۔ اس کے مختلف حاملین نے اپنے اپنے مذہبی تعصبات کی بنا پر اگرچہ اس کے بعض اجزا کو ضائع کر دیا اور بعض میں تحریف کر دی ، تا ہم اس کے باوجود اس کے اندر پروردگار کی رشد و ہدایت کے بے بہا خزانے موجود ہیں ۔اس کے مندرجات کو اگر اللہ کی آخری اور محفوظ کتاب قرآن مجید کی روشنی میں سمجھا جائے تو فلاح انسانی کے لیے اس سے بہت کچھ اخذ و استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس کتاب مقدس میں موسیقی اور آلات موسیقی کا ذکر متعدد مقامات پر موجود ہے ۔ان سے بصراحت یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پیغمبروں کے دین میں موسیقی یا آلات موسیقی کو کبھی ممنوع قرار نہیں دیا گیا۔‘‘ 
غامدی صاحب کے مذکورہ استدلال کا تجزیہ کیا جائے تو ان کا اصول تین نکات کی صورت میں سامنے آتا ہے: 
۱) اگر کسی مسئلے کے بارے میں قرآن میں صریح راہنمائی موجود نہ ہو لیکن اشارات موجود ہوں توقرآن میں وارد شدہ ان اشارات کو بنیاد بنا کر اسی مسئلے کے بارے میں کتب سماویہ کی تفصیلات کی تصدیق کی جاسکتی ہے ۔اس اصول کے تحت غامدی صاحب نے مسئلہ موسیقی کو ثابت کیاہے ۔
غامدی صاحب کے بقول کتا ب مقدس سے موسیقی اور آلات موسیقی کا جواز معلوم ہوتا ہے اور اس کے لیے انھوں نے زبور کا حسب ذیل اقتباس نقل کیا ہے :
’’اے خداوندمیں تیرے لیے نیا گیت گاؤں گا۔دس تار والی بربط پر میں تیری مدح سرائی کروں گا۔‘‘
کتاب مقدس کا ایک اور اقتباس انھوں نے یوں نقل کیا ہے:
’’تو ایسا ہوا کہ جب نرسنگے پھونکنے والے اور گانے والے مل گئے تا کہ خداوند کی حمد اور شکر گزاری میں ان سب کی آواز سنائی دے اور جب نرسنگوں اور جھانجھوں اور موسیقی کے سب سازوں کے ساتھ انھوں نے اپنی آواز بلند کر کے خداوند کی ستایش کی کہ وہ بھلا ہے۔‘‘
جب ہم غامدی صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ کتاب مقدس کی یہ آیات محفوظ ہیں یا منسوخ نہیں ہیں تو غامدی صاحب یہ جواب دیتے ہیں کہ قرآن میں موسیقی کے جواز کے بارے میں اشارات موجود ہیں اور قرآن میں موجود یہ اشارات کتاب مقدس کی مذکورہ آیات کی اس پہلو تصدیق کر رہے ہیں کہ یہ آیات نہ تو منسوخ ہیں اور نہ ہی غیر محفوظ، بلکہ ہمارے لیے شریعت کا درجہ رکھتی ہیں ۔ایک جگہ لکھتے ہیں: 
’’جہاں تک موسیقی کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں قرآن مجید اصلاً خاموش ہے۔ اس کے اندر کوئی ایسی آیت موجود نہیں ہے جو موسیقی کی حلت و حرمت کے حوالے سے کسی حکم کو بیان کر رہی ہو ۔البتہ، اس میں بعض ایسے اشارات موجود ہیں جن سے موسیقی کے جواز کی تائید ہوتی ہے ۔ان کی بنا پر قرآن سے موسیقی کے جواز کا یقینی حکم اخذ کرنا تو بلاشبہ کلام کے اصل مدعا سے تجاوز ہو گا۔‘‘
گویا غامدی صاحب کے نزدیک قرآن میں ،ان کے بقول ،موسیقی کے حوالے سے وارد شدہ اشارات اس بات کی دلیل ہیں کہ موسیقی کے حوالے سے کتاب مقدس کی آیات محفوظ ہیں ۔ 
۲) اگر کسی مسئلہ کے بارے میں قرآن کے الفاظ میں سابقہ شرائع کے حوالے سے کوئی رہنمائی موجود ہو اور یہ الفاظ مجمل ہوں تو ان الفاظ قرآنیہ کی تفصیل کتاب مقدس کی آیات سے کی جا سکتی ہے۔ اس اصول کے تحت غامدی صاحب نے قرآن میں موجود لفظ ’تماثیل‘ کی بائبل کی آیات کی روشنی میں تفصیل کی ہے اور شیر ،بیل اور ملائکہ کی تصاویر کو بھی کتاب مقدس کی روشنی میں صحیح قرار دیا ہے۔بائبل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے:
’’اور ان حاشیوں پر جو پڑوں کے درمیان تھے ،شیر اور بیل اور کروبی(فرشتے) بنے ہوئے تھے۔‘‘
ایک اور جگہ ہیکل کی تعمیر کے ضمن میں لکھا ہے: 
’’اور الہام گاہ میں اس نے زیتون کی لکڑی کے دو کروبی(فرشتے)دس دس ہاتھ اونچے بنائے۔‘‘
جب ہم غامدی صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ توارت کی ان آیات کے محفوظ ہونے کی کیا دلیل ہے تو وہ جواب میں فرماتے ہیں کہ قرآن میں حضرت سلیمان کے حوالے سے تماثیل کا ذکر موجود ہے۔ گویا قرآن کے اجمالی الفاظ تورات کی ان تفصیلات کی تائید کر رہے ہیں ۔
۳) قرآن کے مبہمات کی وضاحت کے لیے بھی غامدی صاحب کتاب مقدس سے رہنمائی لیتے ہیں۔ اس اصول کے تحت انہوں نے قرآن میں موجود یاجوج و ماجوج کا مصداق مغربی اقوام کو قرار دیا ہے۔ یاجوج ماجوج سے متعلقہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یاجوج ماجوج کی اولاد ، یہ مغربی اقوام ، عظیم فریب پر مبنی فکر و فلسفہ کی علم بردار ہیں اور اسی سبب سے نبی ﷺ نے انھیں دجال (عظیم فریب کار) قرار دیا ہے۔‘‘
جب ہم غامدی صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ قرآن میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جن یاجوج ماجوج کاذکر کیا ہے، اس سے مراد مغربی اقوام ہیں ،تو جواب میں غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ تورات سے اس بات کی تعیین ہوتی ہے کہ یاجوج ماجوج سے مراد مغربی اقوام ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے بائبل کا حسب ذیل اقتباس نقل کیا ہے: 
’’اور خداوندکا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم زاد جوج کی طرف جو ماجو ج کی سرزمین کا ہے اور روش (روس) مسک (ماسکو) اور توبل(توبالسک)کا فرماں روا ہے ،متو جہ ہو اور اس کے خلاف نبوت کر۔‘‘
غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’اپنے اس علاقے سے قدیم زمانوں میں یہی لوگ یورپ میں جا کر آباد ہوئے اور وہاں سے پھر صدیوں کے بعد تاریخ کی روشنی میں امریکہ اور آسٹریلیا پہنچے، اور اب دنیا کے سارے پھاٹک انھی کے قبضے میں ہیں۔‘‘
جب ہم غامدی صاحب سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ تورات کی یہ آیات محفوظ ہیں تو وہ جواب میں فرماتے ہیں کہ قرآن میں موجود یاجوج ماجوج کا ذکر تورات کی ان آیات کی تصدیق کر رہا ہے۔

مذکورہ اصول کا تنقیدی جائزہ

قدیم صحائف سے استدلال کا جو اصول غامدی صاحب نے وضع کیا ہے، وہ بوجوہ غلط ہے۔ 
۱) پہلی بات تو یہ ہے کہ غامدی صاحب کے بقول اشارات قرآنی سے کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق ہوتی ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے غامدی صاحب کی بات مان بھی لیں تو پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اس بات کا تعین کون کرے گا کہ فلاں مسئلے کے بارے میں قرآن میں اشارات موجود ہیں؟ کیونکہ اشارات ایک ایسی غیر واضح اصطلاح ہے کہ جو چاہے جب چاہے قرآن سے کوئی بھی مسئلہ’ اشارات ‘کی شکل میں نکال سکتا ہے۔ مثال کے طور پرصوفیا کی تفسیر اشاری دیکھی جاسکتی ہے جس میں انھوں نے ’اشارات ‘ کے نام پر قرآن سے عجیب و غریب قسم کے مسائل نکالے ہیں۔
غامدی صاحب کے نزدیک قرآن میں موسیقی کے جواز کے بارے میں اشارات موجود ہیں جبکہ ہمارے نزدیک یہ بات غلط ہے۔ قرآن میں مروجہ موسیقی کے جواز کے بارے میں کسی قسم کے اشارات موجود نہیں۔ ہیں جس قسم کے اشارات سے غامدی صاحب نے مسئلہ موسیقی میں استدلال کیاہے، اس قسم کے اشارات سے توہر مسئلہ قرآن سے نکالا جاسکتا ہے۔ غامدی صاحب کے بقول قرآن مجید کی آیات کا صوتی آہنگ اور قرآن کی آیت مبارکہ ’وسخرنا مع داود الجبال یسبحن والطیر‘ میں یہ اشارات موجود ہیں کہ موسیقی جائز ہے۔ یہ ایک نادرطرز استدلال ہے اور عقل عام بھی فیصلہ کرسکتی ہے کہ یہ نادر استدلال کس قدر بودا ہے۔کہاں قرآن کا صوتی آہنگ اور کہاں بینڈ باجے، ڈھول بانسریاں ،گٹار اور پیانو جیسے آلات موسیقی! کہاں حضرت داؤد کا خوبصورت آواز میں اللہ کی تسبیح بیان کرنا ،جس کا ذکر مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں ہو رہا ہے، اور کہاں کسی عورت کا رقص وسرود کی محفلوں میں محبو ب سے متعلق جذبات کا اظہار کرنا! اگر قرآن کا صوتی آہنگ اور حضرت داؤد کاخوبصورت آواز میں اللہ کی تسبیح بیان کرنا موسیقی ہے تو ہم بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ قرآن میں موسیقی موجود ہے لیکن قرآن سے جو موسیقی غامدی صاحب ثابت کرنے چلے ہیں یا قرآن کے ان اشارات کی تطبیق میں غامدی صاحب ہمارے معاشروں میں موجود رقص وسرود کی جن محفلوں کی تائید کرنا چاہتے ہیں، ان کی تائید کسی طرح سے بھی ان اشارات قرآنی سے ثابت نہیں ہو تی ۔ان اشارات قرآنی سے یہ بھی ثابت نہیں ہو رہا کہ حضرت داؤد کے پاس ’’دس تاروں والی بربط‘‘ تھی جس پر وہ اللہ کی حمد و ثنا کیا کرتے تھے۔ قرآن نے صرف حمد و ثنا کا تذکرہ کیا ہے ،دس تاروں والی بربط کا بیان صرف کتاب مقدس کا ہے جس کے بارے میں ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ بیان محفوظ ہے یا نہیں ۔
۲) دوسری بات یہ کہ غامدی صاحب نے قرآن میں وارد شدہ لفظ ’تماثیل‘ کو بنیاد بنا کرکتاب مقدس کی آیات کی تصدیق کی ہے ۔حالانکہ قرآن نے تو صرف اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حضرت سلیمان کے زمانے میں اللہ کے حکم سے جنات ان کے لیے ’تماثیل‘ بنایا کرتے تھے۔ اب یہ ’تماثیل‘ کیا تھیں؟ اس کے بارے میں قرآن خاموش ہے۔قرآن نے تماثیل کی تصدیق کی ہے، نہ کہ شیر ، بیلوں اور فرشتوں کی تصاویر کی۔ قرآن کے الفاظ میں اجمال ہے اور قرآن کتاب مقدس کی اس حد تک تو تصدیق کر رہا ہے کہ حضرت سلیمان کے دور میں تماثیل تھیں لیکن قرآن قطعاً ان تفصیلات کی تصدیق نہیں کررہا جو کہ کتاب مقدس میں موجود ہیں۔ اس لیے قرآن کے اجمالی بیان سے کتاب مقدس کے اجمال کی تو تصدیق ہوتی ہے لیکن قرآن کے مجمل الفاظ کتاب مقدس کی تفصیلی آیات کی تصدیق نہیں کر رہے۔ اس لیے قرآن سے یہ بالکل بھی واضح نہیں ہوتاکہ کتاب مقدس کا یہ تفصیلی بیان محفوظ ہے یا اس میں بھی کمی بیشی ہو چکی ہے۔یہ بات تو واضح ہے کہ قرآن کے اجمال سے کتاب مقدس کا اجمال اور قرآن کی تفصیل سے کتاب مقدس کی تفصیل محفوظ ثابت ہوتی ہے لیکن قرآن کے اجمال سے کتاب مقدس کے تفصیلی بیان کو محفوظ ثابت کرنا عقل و نقل کے خلاف ہے۔ قرآن میں واردشدہ لفظ ’تماثیل ‘کسی طرح بھی کتاب مقدس کے لفظ ’کروبی‘ کی تصدیق نہیں کر رہا اور نہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان کے زمانے میں جنات فرشتوں کی بھی تصاویر بناتے تھے ۔ غامدی صاحب کے استاذ مولانا امین احسن اصلاحی نے صاف طور پر بائبل کے مذکورہ بیان کو تحریف پر مبنی قرار دیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’جاندار چیزوں، بالخصوص فرشتوں کی مورتوں کا معاملہ سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو کس طرح جائز سمجھا۔ ..... یہ چیزیں پہلے بھی ناجائز تھیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ انھوں نے تورات کے کسی حکم کی خلاف ورزی کی۔ اس وجہ سے ہمارا خیال یہ ہے کہ انھوں نے اسی قسم کی تماثیل بنوائی ہوں گی جن کا تعلق مجرد آرٹ سے ہے اور مذہبی تقدس کا جن کے اندر کوئی شائبہ نہیں تھا۔ لیکن جب یہود میں مورت پرستی کا رواج ہوا ہوگا تو اس قسم کی چیزیں ان کے بادشاہوں نے بنوائی ہوں گی اور ان کو سند جواز دینے کے لیے ان کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کر دیا گیا ہوگا۔‘‘
۳) تیسری بات یہ کہ قرآن میں یاجوج ماجوج کا ذکر ہے لیکن قرآن نے اس بات کو واضح نہیں کیا کہ یاجوج ماجوج کا مصداق کون سی اقوام ہیں۔ البتہ کتاب مقدس نے یاجوج ماجوج کا تذکرہ بھی کیا ہے اور ان کا تعین بھی کیا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قرآن سے تو صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ کتاب مقدس میں یاجوج ماجوج کا جو تذکرہ ہے، وہ صحیح ہے لیکن قرآن ہر گز بھی کتاب مقدس کی ان آیات کی تصدیق نہیں کر رہا جو یاجوج ماجوج کی تعیین کر رہی ہیں، اس لیے اس سے اس بات کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ کتاب مقدس کی یہ آیات محفوظ ہیں یانہیں یا یہ آیات کلام الٰہی ہیںیا نہیں۔ بہرحال قرآن کسی طور بھی کتاب مقدس کی ان آیات کی تصدیق نہیں کر رہا جو کہ یاجوج ماجوج کی تعیین سے متعلق ہیں ۔ 
۴) چوتھی بات یہ کہ غامدی صاحب کتاب مقدس سے استدلال کا اپنا شوق ضرور پورا کریں لیکن ہم ان سے اتنی گزارش کرتے ہیں کہ پہلے کتاب مقدس کی ان آیات کو محفوظ تو ثابت کریں جن سے استدلال کر رہے ہیں۔ چند موہوم اشارات قرآنیہ کو بنیا دبنا کرکتاب مقدس کی آیات کومحفوظ ثابت کرنا اور ان سے کسی شرعی مسئلے میں استدلال کرنا،کسی محقق کے شایان شان نہیں ہے۔غامدی صاحب کے بقول:
’ ’پیغمبروں کے دین میں موسیقی یا آلات موسیقی کو کبھی ممنوع نہیں قرار دیا گیا۔بیش تر مقامات پر اللہ کی حمد و ثنا کے لیے موسیقی کے استعمال کا ذکر آیا ہے۔ ‘‘
ہم غامدی صاحب سے پوچھتے ہیں کہ اس بات کی دلیل کیا ہے اور وہ جواب میں دلیل کے طور پر کتاب مقدس کی آیات پیش کر دیتے ہیں ۔جب ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ کیا کتاب مقدس کی یہ آیات محفوظ ہیں تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ قرآن سے کتاب مقدس کی ان آیات کی تائید ہو رہی ہے۔ جب قرآن کتاب مقدس کی ان آیات کی تائید نہیں کر رہا تو کتاب مقدس کی یہ آیات بھی محفوظ ثابت نہیں ہوئیں ۔جب کتاب مقدس کی یہ آیات محفوظ ثابت نہیں ہوئیں تویہ بھی ثابت نہ ہوا کہ پیغمبروں کے دین میں موسیقی جائز رہی ہے لہذا غامدی صاحب کا دعویٰ باطل ہوا ۔ 
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ غامدی صاحب کے مذکورہ اصول کے حوالے سے ان کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے بھی یہاں نقل کر دی جائے۔ سجدہ تعظیمی سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا اصلاحی لکھتے ہیں :
’’سوال یہ ہے کہ قرآن میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں یا بعض جگہ پچھلی شریعتوں کے جو حوالے آ گئے ہیں ، کیا وہ مجرد اتنی بات سے کہ وہ قرآن میں مذکور ہیں ، اس امت کے لیے شریعت کی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں ، یا اس امت کے لیے ان کے شریعت بننے کے لیے کچھ اور شرطیں بھی ہیں ۔میرا نقطہ نظر اس طرح کے تمام واقعات اور حوالوں سے متعلق یہ ہے کہ یہ مجرد قرآن میں مذکور ہو جانے کی وجہ سے امت محمدیہ کے لیے شریعت نہیں بن سکتے ...قرآن میں حضرت آدم کے ایک بیٹے کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ جب ان کو ان کے بھائی نے قتل کرنے کی دھمکی دی تو انھوں نے کہا کہ میں تو تم پر قتل کے ارادے سے ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا ، خواہ تم مجھے قتل ہی کر ڈالو ، ،میں تو اللہ رب العلمین سے ڈرتا ہوں ۔حضرت شعیب علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹی کا نکاح حضرت موسیٰ علیہ السلام سے محض اس خدمت کے معاوضے میں کر دیا کہ وہ ایک خاص مدت تک ان کی بکریاں چرائیں ۔حضرت لوط علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ ان کی قوم کے غنڈوں نے جب ان کے مہمان کی فضیحت کرنی چاہی تو انھوں نے ان کو مخاطب کر کے کہا اگر تمھیں کچھ کرنا ہے تو میری لڑکیوں کے ساتھ کرو، خدا را میرے مہمانوں کے بارے میں8 مجھے رسوا نہ کرو ۔حضرت سلیمان کے بارے میں ہے کہ ایک مرتبہ فوج کی پریڈ کے موقع پر ان کی نماز عصر قضا ہو گئی تو انھوں نے شدت جذبات سے مغلوب ہو کر گھوڑوں ہی کو قتل کرنا شروع کر دیا ۔سورہ کہف میں ایک نیک بندے کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ انھوں نے اس بنا پرایک بچے کو قتل کر دیا تھا کہ انھیں یہ علم ہو گیا تھا کہ وہ بڑا ہو کر اپنے ماں باپ کا نافرمان ہو گا، اور ایک کشتی میں اس بنا پر سوراخ کر دیا کہ انھیں اندیشہ ہوا کہ اس دیا ر کا بادشاہ کہیں اس کشتی کو قبضے میں نہ کر لے ۔یہ اور اس طرح کے جو واقعات قرآن میں بیان ہوئے ہیں اور بطریق مذمت نہیں بیان ہوئے بلکہ بطریق مدح بیان ہوئے ہیں،اب بتائیے کہ کیا مجرد اس بنا پر کہ یہ واقعات قرآن میں بیان ہوئے ہیں، یہ اس امت کے لیے قانون اور شریعت بن جائیں گے اور ایک شخص کے لیے یہ بات جائز ہو جائے گی کہ اگر وہ اپنے کشفی علم سے کسی بچے کے بارے میں یہ معلوم کر لے کہ یہ نافرمان اٹھے گا تو اسے قتل کر ڈالے یا کوئی شخص اس پر حملہ آور ہو تو اپنے آپ کو بے چون و چرا اس کے حوالے کر دے؟...ان ضمنی طور پر بیان شدہ واقعات سے اگر کوئی تعلیم نکلتی ہے تووہ اس امت کے لیے اس صورت میں ہدایت اور شریعت کا درجہ اختیار کرسکتی ہے،جب کتاب وسنت کی دوسری تصریحات سے بھی اس بات کی تائید ہو جائے کہ اس تعلیم کو اس امت کے اندر بھی باقی رکھنا شارع کو مطلوب ہے ، یا کم ازکم یہ کہ کوئی بات اس کے خلاف نہ پائی جائے لیکن اگر دوسری تصریحات اس کے خلاف ہوں تو اس کے صاف معنی یہ ہوں گے کہ اس امت میں اس تعلیم کوباقی رکھنا شارع کو مطلوب نہیں ہے۔ اگر اس قسم کی کوئی تصریح خود قرآن میں ہو تو وہ تصریح اس اشارہ پر مقدم ہو گی ... اور اگر یہ تصریح قرآن کے بجائے حدیث میں ہو تو بھی اس کو تقدم حاصل ہو گا ... جو کچھ موجود ہے اس کی حیثیت محض ایک واقعہ کی ہے جو پچھلی امتوں میں سے کسی امت میں یا سابق انبیا میں سے کسی نبی کی زندگی میں پیش آیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ اس امت میں یہ بات بعینہ اس شکل میں مطلوب ہے یا نہیں ، تو اس کی وضاحت قرآن بھی کر سکتا ہے اور حدیث بھی کر سکتی ہے ۔قرآن کے کسی واضح حکم کو منسوخ کرنے کے لیے تو بلاشبہ حدیث ناکافی ہے لیکن پچھلی امتوں یا سابق انبیاء میں سے کسی کی تعلیم کو یا کسی روایت کو منسوخ کرنے کے لیے تو حدیث بالکل کافی ہے۔ بے شمار معاملات ہیں جن میں ہم جانتے ہیں کہ سابق انبیا کی تعلیم کچھ او ر تھی اور ہمارے نبی نے ہمیں اس کی جگہ کوئی اورہدایت فرمائی اور ہم بے چون و چرا اس کو تسلیم کرتے ہیں ، یہ عذر نہیں پیش کرتے کہ کسی سابق نبی کی تعلیم کو حدیث کس طرح منسوخ کر سکتی ہے۔‘‘
مولانا اصلاحی کی اس عبارت سے درج ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں :
۱) کتاب مقدس کی وہ تعلیمات جو قرآن میں اشارتاً، اجمالاً یا تفصیلاً بیان ہوئی ہیں، اس وقت تک ہمارے لیے دلیل نہیں بن سکتیں جب تک کہ خود قرآن یا حدیث سے ان تعلیمات کا اثبات نہ ہو۔گویا کہ اصل دلیل قرآن و سنت ہے نہ کہ سابقہ شرائع،جبکہ غامدی صاحب سابقہ شرائع کو مستقل طور پر مآخذ دین میں سے شمار کرتے ہیں اور ان سے بھی مسائل کا اثبات کرتے ہیں ۔
۲) قرآن کے علاوہ اللہ کے رسول ﷺ کی احادیث بھی کتب سابقہ کی تعلیمات کی منسوخی کے لیے کافی ہیں ، یعنی قرآن کی کسی آیت کی تفسیریا اس کے علاوہ کسی مسئلے میں اگر کتاب مقدس اور احادیث میں اختلاف ہو جائے تو حجت احادیث ہوں گی ۔جبکہ غامدی صاحب قرآن کی کسی آیت کی تفسیر میں احادیث کے بالمقابل کتاب مقدس کی آیات کو ترجیح دیتے ہیں ، جیسا کہ بہت سارے معاملات میں ان کی آرا سے ظاہر ہے ۔
۳) بہت سے احکامات جو پچھلی شریعتوں میں جائز تھے، ہمارے لیے ان پر عمل کرنایا ان سے اپنے عمل پر دلیل پکڑنا جائز نہیں ۔جبکہ غامدی صاحب اس کے قائل نہیں ہیں کہ ایک فعل کسی شریعت میں جائز رہا ہو اور بعد میں اسے کسی دوسری شریعت میں شارع کی طرف سے ناجائز قرار دے دیا گیا ہو۔
غامدی صاحب نے جس طرح موسیقی، یاجوج ماجوج اور تصویر وغیرہ کے مسئلے میں کتاب مقدس سے استدلال کیا ہے، و ہ خود ان کے اپنے اس اصول کے خلاف ہے جو انھوں نے اپنی کتاب ’میزان‘ میں بیان کیا ہے۔ غامدی صاحب’ میزان‘ میں ایک جگہ تدبر قرآن کے اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
’’سوم یہ کہ الہامی لٹریچر کے خاص اسالیب ،یہود و نصاری کی تاریخ، انبیائے بنی اسرائیل کی سرگزشتوں اور اس طرح کے دوسرے موضوعات سے متعلق قرآن کے اسالیب و اشارات کو سمجھنے اور اس کے اجمال کی تفصیل کے لیے قدیم صحیفے ہی اصل ماخذ ہوں گے ۔‘‘
اس عبارت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک قدیم صحائف کویہود و نصاریٰ کے اخبار و واقعات اور قصص وتاریخ سے متعلقہ قرآنی آیات کو سمجھنے کے لیے ماخذ بنایا جائے گا نہ کہ احکام و عقائد کے لیے۔ یہ نہایت موزوں موقع تھا کہ غامدی صاحب اس مسئلے پر اصولی بحث کرتے ہوئے اپنی اس عبارت میں احکام اور عقائد کا بھی تذکرہ کر دیتے لیکن ان کا یہاں پر احکام و عقائد کا تذکرہ نہ کرنا لیکن اپنی تحقیقات میں احکام اور عقائد سے متعلق مسائل کے لیے قدیم صحائف کو بنیاد بنانا ذہن میں کچھ سوالات ضرورپیدا کرتا ہے ۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ موسیقی اور تصویر کا تعلق احکام سے ہے اور یاجوج ماجوج کا تعین عقیدے کا مسئلہ ہے ۔ عقیدے اور احکام کے بارے میں غامدی صاحب کے ہاں ایک انتہاتو یہ ہے کہ حدیث سے کسی بھی حکم اور عقیدے کو ثابت نہیں کیا جاسکتا، لیکن دوسری طرف تحریف شدہ کتاب مقدس سے وہ کس سہولت و آسانی سے احکام و عقائد کا اثبات کر رہے ہیں۔ غامدی صاحب کے نزدیک حدیث سے کوئی نیا حکم یا عقیدہ توثابت نہیں ہو سکتا، البتہ وہ قرآن میں موجود کسی حکم یا عقیدے کی تفہیم و تبیین میں دلیل بن سکتی ہے۔ جبکہ یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ غامدی صاحب کتاب مقدس سے ایک نئے حکم (موسیقی کا جواز) کو ثابت کر رہے ہیں کیونکہ بقول ان کے، قرآن کے الفاظ میں اس مسئلہ کی حلت و حرمت کے بارے میں کوئی یقینی حکم نہیں ہے۔ گویا کہ غامدی صاحب کے نزدیک کتاب مقدس صرف قرآنی آیات و احکام کی تفہیم و تبیین ہی نہیں کرتی بلکہ اس سے نئے احکام کا اثبات بھی کیا جا سکتا ہے ۔ 

غامدی صاحب کا اپنے اصولوں سے انحراف

ہم نے شروع میں واضح کیا تھا کہ غامدی صاحب کے اصول بھی غلط ہیں اور ان سے ان اصولوں کے اطلاق میں بھی غلطی ہوئی ہے ۔یہاں ہم ان کے اصول کے اطلاق کی غلطی واضح کریں گے اور ان مسائل کا تذکرہ کریں گے جو کہ ہماری شریعت میں بھی ثابت ہیں اور پچھلی شریعتوں میں بھی ان کا تذکرہ ملتا ہے، لیکن غامدی صاحب یا تو ان کو ماننے میں متامل ہیں یا انکاری ہیں اور اس کی وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ قرآن میں ا ن کا ذکر واضح طور پر نہیں ملتا ۔ان مثالوں کے بیان کرنے سے مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ محترم غامدی صاحب کتاب مقدس کو دلیل صرف ان مسائل میں بناتے ہیں جو ان کے متجددانہ نظریات کے موافق ہوں ۔
۱۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کا تذکرہ قرآن میں بھی موجود ہے اور بکثرت احادیث مبارکہ میں بھی ملتا ہے۔ امت کا اس مسئلے پر اجماع ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ دوبارہ اس دنیامیں اللہ کے رسول ﷺ کے ایک امتی کی حیثیت سے واپس آئیں گے۔ دوسری طرف کتاب مقدس بھی اس بات کی تائید کرتی نظر آتی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ دوبارہ اس دنیا میں آئیں گے ۔لیکن غامدی صاحب اس عقیدے کو ماننے میں اس لیے متامل ہیں کہ ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد ثانی کا قرآن میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی سے متعلقہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حضرت عیسیٰ ؑ کی آمدثانی کے بارے میں نہ صرف یہ کہ قرآن مجید بالکل خاموش ہے ،بلکہ اس سے جو قرائن سامنے آتے ہیں، وہ حضرت عیسیٰ ؑ کی دوبارہ آمد کے بارے میں کچھ سوالات ضرور ذہن میں پیدا کرتے ہیں۔مثلاً یہ کہ قران نے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دنیا سے اٹھا لیے جانے کا تذکرہ کیا ہے ، وہاں حضرت عیسیٰ ؑ کے متبعین کے قیامت تک یہودپر غلبے کی پیشین گوئی بھی کی ہے۔ یہ نہایت موزوں موقع تھا کہ آپ کی آمدثانی کا تذکرہ کر دیا جاتااور اس غلبے کی پیشین گوئی بھی کر دی جاتی جس کا ذکر حضرت عیسیٰ ؑ کی دوبارہ آمد کے حوالے سے روایات میں ہوا ہے...پھر حدیث کی سب سے پہلے مرتب ہونے والی کتاب ’’موطا امام مالک‘‘ میں حضرت مسیح کی آمدثانی سے متعلق کوئی روایت موجود نہیں۔یہ چیز بڑی اہمیت کی حامل ہے۔حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ امام مالکؒ کا اس سے عدم تعرض سمجھ میں نہیں آتا۔ایک روایت میں ،البتہ نبی ﷺکا خواب بیان ہوا ہے جس میں آ پ نے حضرت مسیح کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا۔ ہمیں یہ خیال ہوتا ہے کہ کہیں یہی مضمون بڑھتے بڑھتے حضرت مسیح کی آمدثانی میں تو نہیں بدل گیا؟ یہ قرائن اس بات کاتقاضا کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد ثانی سے متعلق احادیث کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے اور بطور خاص، قرآن کے محولہ بالا مقامات سے سامنے آنے والے عقدے کو حل کیا جائے۔جب تک ان سوالات کا قابل اطمینان جواب نہیں ملتا،اس باب میں کوئی حتمی بات کہنا ممکن نہیں ۔‘‘
جس عقیدے کی صرف امت مسلمہ ہی نہیں بلکہ پوری عیسائی دنیا بھی قائل ہے، غامدی صاحب ابھی تک اس میں سوچ بچار کر رہے ہیں ۔یہ غامدی صاحب کی دس سال پہلے کی تحریر ہے میرے خیال میں اب تک تو ان کی طرف سے ہا ں یا ناں میں کوئی واضح موقف سامنے آجانا چاہیے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ قرآن میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے بارے میں کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے تو یہ بات بالکل غلط ہے ۔قرآن میں واضح طور پر حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا تذکرہ موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقَوْلِہِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُولَ اللّہِ وَمَا قَتَلُوہُ وَمَا صَلَبُوہُ وَلَکِن شُبِّہَ لَہُمْ وَإِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُواْ فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَہُم بِہِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوہُ یَقِیْناًo بَل رَّفَعَہُ اللّہُ إِلَیْْہِ وَکَانَ اللّہُ عَزِیْزاً حَکِیْماً o وَإِن مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکُونُ عَلَیْْہِمْ شَہِیْداً o (النساء ۱۵۷۔۱۵۹)
’’اور ان یہودیوں کا یہ کہنا کہ ہم نے اللہ کے رسول عیسیٰ ابن مریم کو قتل کر دیا، حالانکہ انھوں نے نہ تو حضرت عیسیٰ کو قتل کیا اور نہ ان کو سولی چڑھایالیکن معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیااور جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کیاوہ بھی البتہ اس کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں ،ان کے پاس اس معاملے کا کوئی علم نہیں ہے سوائے گمان کی پیروی کے ، اور انھوں نے حضرت عیسیٰ کو یقیناًقتل نہیں کیا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیااور اللہ تعالی غالب ہے حکمت والا ہے ۔اور اہل کتاب میں کوئی ایسا نہ رہے گاجو حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لے آئے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہی دیں گے ۔‘‘
ترجمان القرآن حضرت ابن عباس ،اما م المفسرین علامہ ابن جریر طبری ، امام المتکلمین امام رازی ،امام الفقہا علامہ قرطبی اورامام اللغۃ علامہ زمخشری کے نزدیک اس آیت میں ’لیومنن بہ‘ کی ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ ؑ ہیں جبکہ ’موتہ ‘ کی ضمیر کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ ؑ کی طرف لوٹ رہی ہے یا ’کتابی‘کی طرف۔بہرحال یہ اختلاف تنوع کا اختلاف ہے۔ ’موتہ ‘کی ضمیر جس طرف بھی لوٹائی جائے، اس آیت سے حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد ثانی کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ قرآن فعل مضارع میں لام تاکید با نون ثقیلہ کے ساتھ اس بات کی خبر دے رہا ہے کہ ہر کتابی حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات سے پہلے یا اپنی وفات سے پہلے حضرت عیسیٰ ؑ پر ایمان لے کر آئے گا۔ اور ہر کتابی کا مستقبل میں حضرت عیسیٰ ؑ پر ایمان لانا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ حضرت عیسیٰ ؑ اس دنیا میں دوبارہ تشریف نہ لے آئیں ۔
کتاب مقدس کی درج ذیل آیات سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کے علاوہ خود حضرت مسیح نے بھی اپنی آمد ثانی کے بارے میں اپنے اصحاب کو بتلایا۔کتاب مقدس کے الفاظ ہیں :
’’اورجب وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھا تھا، اس کے شاگردوں نے الگ اس کے پاس آ کر کہاہم کو بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی؟اور تیرے آنے اور دنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہو گا؟یسوع ؑ نے جواب میں ان سے کہا خبردار!کوئی تم کو گمراہ نہ کر دے۔کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے۔‘‘
ایک جگہ کتاب مقدس میں ہے : 
’’انہوں نے اس سے پوچھاکہ اے استاد ! پھر یہ باتیں کب ہوں گی؟اور جب وہ ہونے کو ہوں اس وقت کا نشان کیا ہے ؟۔اس نے کہا خبردار!گمراہ نہ ہوناکیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور وہ کہیں گے کہ وہ میں ہی ہوں اور یہ بھی کہ وقت نزدیک آ پہنچا ہے ۔‘‘
ایک اور جگہ ہے :
’’میں تیرے پاس جلد آنے کی امید کرنے پر بھی یہ باتیں تجھے اس لیے لکھتا ہوں ۔کہ اگر مجھے آنے میں دیر ہو تو تجھے معلوم ہو جائے کہ خدا کے گھر یعنی زندہ خدا کی کلیسامیں جوحق کا ستون اور بنیاد ہے کیونکر برتاؤ کرنا چاہیے۔‘‘
غامدی صاحب نے جس طرح مسئلہ موسیقی میں قرآن میں موجود موہوم اشارات کو بنیاد بنا کر کتاب مقدس کی آیات کی صحت کی تصدیق کی اور ان سے موسیقی کے جواز پر استدلال کیا کاش کہ وہ قرآن کے حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد ثانی کے بارے میں واضح بیان کو کم از کم اشارات کا درجہ تودے دیتے اور اس آیت کی تفسیرمیں جلیل القدر مفسرین سے نہ سہی کتاب مقدس سے ہی استفادہ کر لیتے یا صاحب قرآن کی احادیث کو بنیاد بناکرکتاب مقدس کی ان آیات کی صحت کی تصدیق کرتے ،اور حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی پر اور کہیں سے نہ سہی، انہی آیات کتاب مقدس سے استدلال کر لیتے اور ایک غلط اصول کو ہی استعمال کرتے ہوئے ایک صحیح عقیدے تک پہنچ جاتے۔ غامدی صاحب سے ہمارا سوال یہ ہے کہ اگرقرآن کے اشارات سے کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق ہو سکتی ہے تو قرآن میں تو حضرت عیسیؑ ٰ کی آمد کے بارے میں ان اشارات سے کہیں زیادہ قوی اشارات موجود ہیں جو کہ غامدی صاحب موسیقی کے جواز کے حق میں قرآن سے پیش کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ اگر قرآن کے بیان سے کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق ہو جاتی ہے توکیا صاحب قرآن کے بیان سے کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق نہیں ہوتی؟ اگر صاحب قرآن کے فرامین سے بھی کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق ہوتی ہے تو غامدی صاحب کو چاہیے کہ حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے بارے میں مروی روایات کو بنیاد بنا کر وہ کتاب مقدس کی ان آیات کی تصدیق کریں جو حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد ثانی کے بارے ہیں اور کتاب الہٰی سے حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد ثانی کو ثابت مانیں۔اگر ان کے نزدیک صاحب قرآن کے فرامین سے کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق نہیں ہوتی تو انہیں اپنے اس اصول کے بارے میں کوئی شرعی دلیل پیش کرنی چاہیے کہ قرآن کے بیان سے تو کتاب مقدس کے محفوظ اور کلام الہٰی ہونے کی تصدیق ہو جاتی لیکن صاحب قرآن کے فرامین سے کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق نہیں ہوتی ۔ 
۲۔ اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ رجم بھی زنا کی سزاؤں میں سے ایک سزا ہے ۔شریعت محمدیہ میں بھی شریعت موسوی کی طرح زناکی مختلف صورتوں کے اعتبار سے مختلف سزائیں مقرر کی گئیں ہیں شریعت محمدیہ میں زنا کی تین سزائیں ہیں: سو کوڑے ،تغریب عام (ایک سال کی جلاوطنی) اور رجم کی سزا۔واقعے کی نوعیت اورصورت حال کے اختلاف کے لحاظ سے مختلف احوال میں مختلف سزائیں بیان کی گئیں ہیں اور بعض اوقات زناکے کسی واقعے میں جبر اکراہ،ظلم وزیادتی ،قباحت اور شناعت کے بڑھ جانے کی وجہ سے دو سزاؤں کو جمع بھی کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ بعض احادیث میں زناکی حد کے طور پر دو سزاؤں کو بھی جمع کیا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ فقہ الواقع کا اختلاف ہے ۔ زنا کی سزا کے حوالے سے یہی وہ اختلاف ہے جو کہ ہمیں مختلف روایات میں ملتا ہے اور شریعت موسوی سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ زنا کی سزا کے حوالے سے فقہ الواقع کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور مختلف احوال میں واقعے کی قباحت اور شناعت کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ شریعت محمدیہ اور شریعت موسوی دونوں میں زنا کی ایک مخصوص صورت کی سزا رجم بیان ہوئی ہے اور و ہ صورت یہ ہے کہ زنا کا ارتکاب کرنے والا مرد یا عورت شادی شدہ ہو۔ لیکن غامدی صاحب نے شادی شدہ زانی مرد وعورت کے لیے رجم کی سزا کا انکار کیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں یہ قرآن سے ثابت نہیں ہے، حالانکہ شادی شدہ زانی کے لیے یہ سزا قرآن سے بھی ثابت ہے، حدیث سے بھی ثابت ہے اورفطر ت صحیحہ وعقل سلیم سے بھی ثابت ہے۔ کتاب مقدس سے بھی شادی شدہ کے لیے رجم کی سزاثابت ہوتی ہے اوریہ حکم اب بھی کتاب مقدس میں موجود ہے ۔ چنانچہ لکھا ہے :
’’پر اگر یہ بات سچ ہو کہ لڑکی میں کنوارے پن کے نشان نہیں پائے گئے تو وہ اس لڑکی کو اس کے باپ کے گھر کے دروازہ پر نکال لائیں اور اس کے شہر کے لوگ اسے سنگسار کریں کہ وہ مر جائے کیونکہ اس نے اسرائیل کے درمیان شرارت کی کہ اپنے باپ کے گھر میں فاحشہ پن کیا۔یوں تو ایسی برائی کو اپنے درمیان سے دفع کرنا۔اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں یعنی وہ مرد بھی جس نے اس عورت سے صحبت کی اور وہ عورت بھی ، یوں تو اسرائیل سے ایسی برائی کو دفع کرنا۔اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسوب ہو گئی ہو اور کوئی دوسرا آدمی اسے شہر میں پا کر اس سے صحبت کرے تو تم ان دونوں کواس شہر کے پھاٹک پر باہرنکال لانااور ان کو تم سنگسار کر دینا کہ وہ مر جائیں‘لڑکی کو اس لیے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہیں چلائی اور مرد کو اس لیے کہ اس نے اپنے ہمسایہ کی بیوی کو بے حرمت کیا ، یوں تو ایسی برائی کو اپنے درمیان سے دفع کرنا...اگر کسی آدمی کو کوئی کنواری لڑکی مل جائے جس کی نسبت نہ ہوئی ہو اور وہ اسے پکڑ کر اس سے صحبت کرے اور دونوں پکڑے جائیں تو وہ مرد جس نے اس سے صحبت کی ہو لڑکی کے باپ کو چاندی کی پچاس مثقال دے اور وہ لڑکی اس کی بیوی بنے کیونکہ اس نے اسے بے حرمت کیا اور وہ اسے اپنی زندگی بھر طلاق نہ دینے پائے۔‘‘
زنا کی سزاؤں میں سے رجم بھی ایک سزا ہے اس پر آسمانی کتابوں کا اجماع ہے ،چونکہ فطرت صحیحہ بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ زناکی بعض صورتوں میں بد ترین بے حیائی اور انسانیت سے خروج پایا جاتاہے۔ ا س لیے تما م مذاہب میں زنا کی سزاوں میں سے ایک سزا شدید ترین رہی ہے ۔
اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث ہے :
عن البراء بن عازب قال مر علی النبی ﷺ بیھودی محمما مجلودا فدعا ہم فقال ھکذا تجدون حد الزانی فی کتابکم؟ فقالوا نعم، فدعا رجلا من علماءھم فقال انشدک باللہ الذی انزل التوراۃعلی موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام اھکذا تجدون حد الزانی فی کتابکم؟ قال لا ولولا انشدتنی بھذا لم اخبرک، نجدہ الرجم و لکنہ کثر فی اشرافنا فکنا اذا اخذنا الشریف ترکناہ و اذا اخذنا الضعیف اقمنا علیہ الحد قلنا تعالوا فلنجتمع علی شیء نقیمہ علی الشریف و الوضیع فجعلنا التحمیم و الجلد مکان الرجم فقال رسول اللہ ﷺاللہم انی اول من احیی امرک اذ اماتوہ فامر بہ فرجم فانزل اللہ عز وجل یا ایھا الرسول لا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر الی قولہ تعالی ان اوتیتم ھذا فخذوہ وان افتاکم بالرجم فاحذروا فانزل اللہ ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظلمون ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفسقون فی الکفار کلھا ۔
حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے سے ایک یہودی کو گزارا گیاجو کوئلے سے کالا کیا گیااور کوڑے کھائے ہوئے تھاتو آپؐ نے یہودیوں کو بلا بھیجااور کہا کہ کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزا پاتے ہو۔تو انھوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ پھر آپؐ نے ان کے عالموں میں سے ایک شخص کوبلایااور اس سے کہا میں تمھیں اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے تورات کو حضرت موسیٰ ؑ پر نازل کیا،کیا تم اس طرح زانی کی حد اپنی کتاب تورات میں پاتے ہو؟اس یہودی عالم نے جواب دیا نہیں ،اور اگر آ پؐ مجھے یہ قسم نہ دیتے تو میں آپ کو اس کی خبر نہ دیتا،ہماری کتاب میں تو رجم کی سزا ہے، لیکن جب زنا ہمارے عزت دار آدمیوں میں پھیل گیاتو جب ہم کسی امیر آدمی کو اس جرم میں پکڑلیتے توچھوڑ دیتے تھے اور جب کسی کمزور آدمی کو اس جرم میں پکڑ لیتے تو اس پر رجم کی حد جاری کر دیتے ۔تو اس وقت ہم نے کہا کہ ہم سب جمع ہو جائیں اورایک سزا ایسی مقرر کر لیں جو کہ ہم امیر کو بھی دیں اور غریب کو بھی ،تو ہم نے منہ کو کالا کرنا اور کوڑوں کی سزا رجم کے مقابلے میں مقرر کی۔تو اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا، اے اللہ! میں سب سے پہلے تیرے اس حکم کو زندہ کرتا ہوں جس کو انھوں نے ختم کر دیا تھا۔ پھر آپؐ نے اس یہودی کے بارے میں حکم دیا اور اس کو رجم کیا گیا۔ اس موقعے پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: ’یا ایھا الرسول لا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر‘ سے لے کر ’ان اوتیتم ھذا فخذوہ‘ تک۔یہود یہ کہتے تھے کہ کہ تم محمد ﷺ کے پاس آو اگر وہ تمہیں منہ کالا کرنے اور کوڑے مارنے کا حکم دیں تو ان کی بات مان لینااور اگر وہ تمہیں زانی کے بارے میں رجم کا فتویٰ دیں تو قبول نہ کرنا۔پھر اللہ تعالی نے یہ آیات اتاریں ’ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون، ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظلمون، ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفسقون‘ یہ سب آیات کافروں کے بارے میں اتریں۔ 
اس حدیث سے درج ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں :
۱) قرآن نے ’ومن لم یحکم بما انزل اللہ‘ کی آیات نازل کرکے تورات کے حکم رجم کی تصدیق فرمائی ہے کہ تورات میں یہ حکم موجود ہے اور یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
۲) حکم رجم کو ’ما انزل اللہ‘ کہہ کرقرآن نے خود بھی حکم رجم کا اثبات کیا۔
ہم غامدی صاحب سے عرض کریں گے کہ ان کے بقول اگرچہ قرآن میں محصن زانی کے لیے رجم کی سزا نہیں ہے لیکن اس حدیث کو سامنے رکھیں تو کم از کم اتنا ضرور واضح ہوتا ہے کہ موسیقی کے جواز کے اشارات سے زیادہ قوی اور یقینی اشارات قرآن میں رجم کی سزا کے لیے موجود ہیں۔کاش کہ غامدی صاحب اپنے اصول ہی کا اطلاق کرتے ہوئے ان اشارات قرآنی کی روشنی میں تورات میں موجود زنا کی مختلف سزاؤں میں سے ایک سزا، حد رجم کا بھی اثبات کرتے ۔جس کتاب اللہ کے غامدی صاحب قائل ہیں، اس میں اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں بھی اور آج بھی رجم کی سزا کو زنا کی حدودمیں سے ایک حد کے طور پر بیان کیا گیا ہے ۔اوراللہ کے رسول ﷺ کی حدیث سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تورات کی یہ آیات اس اعتبار سے محفوظ ہیں کہ زنا کی سزاؤں میں سے ایک سزا ر جم بھی ہے۔ لیکن غامدی صاحب کے نزدیک زانی چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ،دونوں صورتوں میں اس کی سزاسو کوڑے ہے۔ یہ موقف قرآن ، کتاب مقدس ، احادیث ، اجماع امت ،فطرت صحیحہ کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ عقل کے بھی خلاف ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر کوئی غیر شادی شدہ عورت کسی غیر شادی شدہ مرد کے ساتھ زناکی مرتکب ہوتی ہے تو اللہ کی نافرنی اور معصیت کی وجہ سے ان کی ایک سزامقرر کی گئی ہے، لیکن اگر کوئی شادی شدہ عور ت یا مرد زنا کا مرتکب ہوتا ہے تواب ایک طرف تو اللہ کی نافرمانی ہوئی ہے، دوسرااپنی خواہش پورا کرنے کے لیے جائز راستہ ہونے کے باوجود ناجائز راستہ اختیار کیا گیا ہے، تیسراخاوند یا بیوی کے حقوق تلف ہوئے اور جذبات مجروح ہوئے، چوتھا خاندان کا شیرازہ بکھر گیا۔ ان مفسدات کی وجہ سے جرم زنا پہلی صورت سے کہیں زیادہ شنیع ہو جاتا ہے، اسی لیے دوسری صورت کی سزا مختلف رکھی گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مغربی ممالک کے قوانین میں بھی، جن کی بنیاد سراسر انسانی عقل و مشاہدہ وتجربات پر ہے، زنا کی سزا کے حوالے سے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ میں فرق کیا گیا ہے ۔
۳۔ تیسرا مسئلہ جو کہ غامدی کے اصولوں کے مطابق درست ہے لیکن انہوں نے اس کا انکار کیا ہے ، دجال کی تعیین کا ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک دجال کوئی شخص نہیں ہے بلکہ ایک اسم صفت ہے اور اس کا مصداق یاجوج ماجوج یعنی موجودہ مغربی اقوام ہیں۔ دجال سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: 
’’ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ نبی ﷺ نے قیامت کے قریب ، یاجوج ماجوج ہی کے خروج کو دجال کے خروج سے تعبیر کیا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یاجوج ماجوج کی اولاد، یہ مغربی اقوام،عظیم فریب پر مبنی فکرو فلسفہ کی علمبردار ہیں اور اسی سبب سے نبی ﷺ نے انھیں دجال(عظیم فریب کار ) قرار دیا۔‘‘
غامدی صاحب نے دجال کے شخص ہونے کا انکار کیا حالانکہ دجال کا ایک شخص ہونا اور حضرت عیسیٰ ؑ کا اس کوہلاک کرنا واضح طور پر احادیث اور کتاب مقدس میں موجود ہے ۔کتاب مقدس میں ہے :
’’کسی طرح کسی کے فریب میں نہ آنا کیونکہ وہ دن نہیں آئے گا جب تک کہ پہلے برگشتگی نہ ہو اور وہ گناہ کا شخص یعنی ہلاکت کا فرزند ظاہر نہ ہوجو مخالفت کرتا ہے اور ہر ایک سے جو خدا یا معبود کہلاتا ہے، اپنے آپ کو بڑا ٹھہراتا ہے،یہاں تک کہ وہ خدا کے مقدس میں بیٹھ کر اپنے آپ کو خدا ظاہر کرتا ہے ۔کیا تمھیں یاد نہیں کہ جب میں تمھارے پاس تھا توتم سے یہ باتیں کہا کرتا تھا ؟اب جو چیزاسے روک رہی ہے تا کہ وہ اپنے خاص وقت پر ظاہر ہو، اس کو تم جانتے ہو ۔کیونکہ بے دینی کا بھید تو اب بھی تاثیر کرتا جاتا ہے مگر اب ایک روکنے والا ہے اور جب تک کہ وہ دور نہ کیا جائے گا روکے رہے گا ۔اس وقت وہ بے دین ظاہر ہو گا جسے خداوند یسوع اپنے منہ کی پھونک سے ہلاک اور اپنی آمد کی تجلی سے نیست کرے گا۔اور جس کی آمد شیطان کی تاثیر کے موافق ہر طرح کی جھوٹی قدرت اور نشانوں اور عجیب کارناموں کے ساتھاور ہلاک ہونے والوں کے لیے ناراستی کے ہر طرح کے دھوکے کے ساتھ ہوگی۔‘‘
اگر ہم ذیل میں دی گئی دو احادیث پر غور کریں تویہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بھی دجال کے بارے میں اسی قسم کی تعلیمات دی ہیں جو کہ کتاب مقدس میں موجود ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ صحابہ کرام کو خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کی جیسے کہ وہ اس کے لائق ہے پھر آپ نے دجال کا تذکرہ کیا اور فرمایا :
انی انذرکموہ و ما من نبی الا انذر قومہ لقد انذرہ نوح قومہ و لکن سا قول لکم فیہ قولا لم یقل نبی لقومہ تعلمون انہ اعور و ان اللہ لیس باعور۔
’’میں تمہیں اس (دجال)سے ڈراتا ہوں اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو دجال سے نہ ڈرایا ہو۔یقیناًحضرت نوح نے بھی اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا تھا لیکن میں تمھیں دجال کے بارے میں ایک ایسی بات بتا رہا ہوں جو کہ کسی بھی نبی نے اس سے پہلے اپنی قوم کو نہیں بتائی،تم جان لو کہ دجال کانا ہے اور(معاذاللہ) اللہ سبحانہ وتعالیٰ کانا نہیں ہے ۔‘‘
یہ حدیث دجال کے بارے میں کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق کر رہی ہے کیونکہ حدیث میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایااور حضرت عیسیٰ ؑ بھی اس میں شامل ہیں ۔ایک دوسری حدیث کے، جو حضرت مجمع بن جاریہ سے مروی ہے، الفاظ یہ ہیں :
سمعت رسول اللہ ﷺ یقول یقتل ابن مریم الدجال بباب لد ۔
’’میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم مسیح الدجال کو مقام ’لد ‘ پر قتل کریں گے۔‘‘
یہ حدیث بھی کتاب مقدس کے اس بیان کی تصدیق کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ بن مریم دجال کو قتل کریں گے ۔ کتاب مقدس کی مذکورہ بالاآیات اور احادیث مبارکہ سے قطعی طور پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دجال ایک شخص معین کا نام ہے جو قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔
حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ آپ نے ہمیں ایک دن دجال کے بارے میں ایک لمبی حدیث بیان فرمائی ۔اس میں آپ نے فرمایا کہ دجال ایک دن مدینہ کا رخ کرے گا لیکن اس کے لیے شہر مدینہ میں داخلہ ممکن نہ ہوگا اور وہ مدینہ کے باہر قیام کرے گا تو ایک دن اہل مدینہ میں سے ایک انتہائی نیک آدمی اس کے پاس آئے گااور وہ آدمی دجال سے کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو دجال ہے‘تو اس وقت دجال لوگوں سے کہے گا :
ارایتم ان قتلت ھذا ثم احییتہ اتشکون فی الامر فیقولون لا فیقتلہ فیقول حین یحییہ واللہ ما کنت فیک قط اشد بصیرۃ منی الآن قال فیرید الدجال ان یقتلہ فلا یسلط علیہ
’’بھلاتم دیکھو اگر میں اس شخص کو قتل کرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دوں تو کیا تم پھر بھی میرے بارے میں شک کرو گے تو وہ لوگ کہیں گے نہیں ،تو اس وقت دجال اس نیک آدمی کو قتل کر دے گا اور جب دجال اس نیک آدمی کودوبارہ زندہ کرے گاتو وہ نیک آدمی اس سے کہے گااللہ کی قسم اب تو مجھے تیرے بارے میں حد درجے یقین ہو گیا ہے کہ توو ہی مسیح الدجال ہے۔ پس دجال اس آدمی کو دوبارہ قتل کرنا چاہے گا لیکن کامیاب نہ ہو گا ۔ ‘‘
یہ حدیث بھی کتاب مقدس کی درج بالاآیت کی تصدیق کر رہی ہے کہ دجال ایک بہت بڑا شعبدہ باز ہو گا۔ بہرحال احادیث ،دجال کے بارے میں کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق کرتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کے علاوہ عیسائی دنیا بھی جس دجال کو اپنی کتابوں کے حوالے سے جانتی ہے وہ ایک معین شخص ہے نہ کہ ایک ’اسم صفت ‘یا ’یاجوج ماجوج ‘یا امریکہ۔ ہمارے خیال میں صاحب قرآن کی کتاب مقدس کی آیات کی اس تصدیق کے بعد غامدی صاحب کو شخص دجال کی آمد کا اقرار کر لینا چاہیے ....احادیث کی بنیاد پر نہ سہی ،کتاب مقدس کی آیات کی بنیاد پر ہی سہی۔ 

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم مدیر الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
میں گزشتہ دو سال سے ماہنامہ’’الشریعہ ‘‘کا خریدار ہوں۔ یہ رسالہ دینی جرائد ورسائل میں خصوصی نوعیت کا حامل ہے۔اس کے مضامین میں دور جدید کے تقاضوں کا شعور جھلکتا ہے۔ روایتی مذہبی طرز فکر کے ماحول میں یہ تازہ خوشگوار ہوا کے جھونکے کے مانند ہے۔ اللہ تعالیٰ اس رسالے کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔
مدیر شہیر مولانا زاہد الراشدی عالمی اور بین الاقوامی حالات کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ اس وقت مغرب اور اس کی تہذیب چو طرفہ انداز سے اسلام اور مسلمانوں پر حملہ آور ہے۔ ان حالات میں ہماری قومی دفاعی پالیسی کیا ہونا چاہیے؟ ہم کس حد تک مغربی فکروتہذیب سے اشتراک کرسکتے ہیں اور کہاں کہاں ہم ان سے بہتر ہیں؟ ان سوالات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور طبقہ علما میں بھی ایسے لوگوں کی تعداد بڑھنی چاہیے جو مغربی طرز تکلم میں نئی نسل سے ہم کلام ہوں اور انہیں اسلام اور مشرقی تہذیب کی خوبیاں سمجھائیں اور اپنے دین کی جدوجہد کا قائل کریں۔
محمد عبد اللطیف الانصاری 
مکان نمبر ۱۶۲۲ ۔ اقبال کالونی 
یونٹ نمبر ۱۲ ۔ لطیف آباد ۔ حیدر آباد
(۲)
محترم ومکرم زاہد الراشدی صاحب،
تسلیمات،
میں اس شخصیت کا ازحد ممنون احسان ہوں جس نے اس فہرست میں میرا نام درج کیا جو اعزازی طور پر ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ وصول کرنے والوں کے لیے آپ نے ترتیب دی ہے ۔
میں ایک گنہ گار آدمی ہوں اور ہمیشہ اس تگ ودومیں رہتاہوں کہ اپنے گنہ کم کرنے کے لیے اور کچھ نہیں تو دین سے زیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل کرلوں۔یقین جانیے کہ میرے جیسے دنیا پرست انسان کے لیے آپ کا جریدہ علم وآگہی ،عرفان دین، شعور انسانیت ، اور اغیار کی اسلام دشمن سرگرمیوں سے واقفیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ آپ کے جریدے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ روایتی نہیں ہے، بلکہ اس میں چھپنے والے مضامین کی بنیاد جدید سائنسی اور تحقیقی مواد ہے۔خصوصاً مغرب کو مغرب کے انداز میں جواب دینے کا اسلوب بے پناہ تعریف کے قا بل ہے۔ آپ کے جریدے میں بہت سے نام ایسے نظر آتے ہیں جن کی نیاز مندی کا شرف مجھے حاصل ہے۔ میں ان شاء اللہ بہت جلد حاضر ہوں گا تاکہ آپ کا نیاز مند کہلانے کا اعزاز بھی حاصل کرسکوں۔
نیاز حسین لکھویرا 
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر
پاکستان آرٹس کونسل۔ گوجرانوالہ
(۳)
محترم ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم
ماہنامہ ’الشریعہ‘ کا تازہ شمارہ ملا۔ اس نوازش اور کرم نوازی کا بے حد شکریہ۔ یہ مختصر سا رسالہ علمی وادبی جرائد میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ مباحثہ ومکالمہ کے مضامین نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک خط میں جناب شبیر احمد میواتی صاحب نے ڈاکٹر یوگندر سکند صاحب کا ذکر کیا تھا۔ اس شمارے میں ان کے بارے میں پڑھنے کو ملا۔ ماشاء اللہ دیکھا جائے تو الشریعہ میں سب کچھ ہی پڑھنے کے قابل ہے۔ یاد فرمائی کا شکریہ!
اللہ تعالیٰ آپ کو صحت اور سلامتی کے ساتھ قائم رکھے۔
جاوید اختر بھٹی
۱/۵۱۷ ،ریلوے روڈ ملتان
(۴)
باسمہ سبحانہ
بخدمت گرامی قدر جناب حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب مدظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مزاج گرامی؟
چند ماہ یا شاید سال پہلے ’الشریعہ‘ میں احقر کا ایک خط چھپا تھا جس میں احقر نے کسی حوالے سے (تفصیل یاد نہیں) کہا تھا کہ اس موضوع پر جماعت اسلامی کی بعض مطبوعات پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ خط کیا چھپا، اعتراضات کا طوفان برپا ہو گیا۔ ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بندہ کی ایک نہ سنی۔ مفتی نہ ہونے کے باوجود فتویٰ کی زبان استعمال کرتے چلے گئے۔ احقر ان کے خلوص وجذبات کے احترام میں چپ رہا۔ کئی احتجاجی خطوط بھی آئے۔ تب احقر کو اندازہ ہوا کہ آپ ’الشریعہ‘ میں مختلف افکار کے حامل مضامین شائع کر کے کس قدر تنقید کا سامنا کرتے ہوں گے۔ ایک صاحب نے تو باقاعدہ جماعت اسلامی کی مطلوبہ کتب کی فہرست بھی طلب کر ڈالی۔
اس خط کے ذریعے تمام قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ
۱۔ احقر الحمد للہ مسلک دیوبند پر پوری طرح کاربند ہے اور مولانا مودودیؒ کے متنازعہ افکار میں اکابر علماے دیوبند پر پوری طرح کاربند ہے۔ یہ بات تو آپ ذاتی طور پر بھی جانتے ہیں۔
۲۔ احقر کو ہر ماہ مفت میں ’ترجمان القرآن‘ پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ ایک طالب علم ہونے کے ناتے اور کچھ پڑھوں نہ پڑھوں، لیکن تبصرۂ کتب کو ضرور پڑھتا ہوں۔ نئی نئی کتب کا علم ہوتا رہتا ہے۔ احقر نے اپنے مخصوص حالات کے سبب کوئی فہرست نہیں بنائی، نہ ہی ارادہ ہے، لیکن بعض کتب جو کہ ملکی وعالمی تناظر میں لکھی گئی ہیں، وہ بہرحال اچھی لگتی ہیں۔ نام سے ہی انداز ہ ہو جاتا ہے۔ کسی صاحب کو ضرورت ہو تو ’ترجمان القرآن‘ کے کچھ شمارے دیکھ لیں۔
آخر میں یہ لکھے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ’الشریعہ‘ جیسے فکری جریدہ کے ان معترض قارئین کی سخن فہمی وسخن شناسی کا یہ عالم حیران کن ہے۔ کم از کم ’الشریعہ‘ کے قارئین سے اس کی توقع نہ تھی۔
والسلام
(مولانا) مشتاق احمد
استاذ جامعہ عربیہ، چنیوٹ
(۵)
محترمی ومکرمی جناب مدیر ماہنامہ الشریعہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کی خصوصی نوازش سے ماہنامہ ’الشریعہ‘ باقاعدگی سے موصول ہو رہا ہے۔ رئیس التحریر کا ’کلمہ حق‘ فکر ونظر کے کئی نئے زاویے لیے ہوتا ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
حالیہ شمارے میں آپ کا مضمون یقیناًسادگی اور ندرت فکر کا نمونہ تھا۔ پروفیسر میاں انعام الرحمن کی قلمی کاوشیں قابل داد ہیں، تاہم بعض مضامین میں غیر ضروری مبالغہ اور تصنع سے کام لیا جاتا ہے۔ 
خواہش ہے کہ آپ کے تحت چلنے والے مدارس کے فضلا وطلبا کی علمی مضامین بھی مجلہ کی زینت بنیں۔ مسلکی اعتدال وقت کی ضرورت ہے، تاہم اعلاے کلمہ اللہ، حق کا اظہار اور باطل کی تردید آپ کی بزرگوں کی علمی روایت ہے۔ اسے برقرار رکھا جانا چاہیے۔
والسلام
عاصم نعیم
شعبہ علوم اسلامیہ۔ یونیورسٹی آف سرگودھا

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’تبلیغی جماعت کا آغاز وارتقا‘‘

The Origins and Development of the Tablighi Jamaat (1920-2000)
مصنف: یوگندر سکند
صفحات: ۳۱۰+۱۲۔ قیمت ۵۹۵ روپے۔ پہلا ایڈیشن ۲۰۰۲ پیپر بیک۔ 
ناشر: 
Oriental Longman Pvt. Ltd. 1/24 Asaf Ali Road, New Delhi-110002
یوگندر سکند ہمارے ملک میں اور کسی حد تک دنیا میں ایک نوجوان ’’ماہر اسلامیات‘‘ مانے جاتے ہیں۔ تبلیغی جماعت کی ابتدا اور ترقی کے بارے میں ان کی زیر تبصرہ کتاب دراصل وہ تحقیق ہے جو انھوں نے لندن یونیورسٹی کے ایک ماتحت ادارے سے اس موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے پیش کی تھی۔ لندن یونیورسٹی کے پروفیسر تاریخ جنوب ایشیا فرانسس رابنسن کا خیال ہے کہ سکند آگے چل کر بین الاقوامی منظر پر اس صدی کے نصف اول کے ایک سرکردہ ماہر اسلامیات بن کر ابھرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تبلیغی جماعت پر اب تک انگریزی میں اس سے پہلے صرف تین مصنفوں کی کاوشیں ہی عام طور سے لوگوں کے علم میں تھیں۔ یہ ڈاکٹر انوار الحق، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اور خالد مسعود کی تصنیفات ہیں۔
یوگندر سکند نے تبلیغی جماعت کے بارے میں اپنی اس تحقیق کو معتبر اور مدلل بنانے کے لیے محنت شاقہ صرف کی ہے اور ان کے دل کے کسی گوشے میں تعصب کی کارفرمائی بالعموم نظر نہیں آتی۔ اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک ایسے دور میں جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں اور اس بنیاد کے حامل مسلم اداروں تک کے بارے میں من گھڑت باتیں پھیلائی جا رہی ہیں، تبلیغی جماعت کے پھیلاؤ کی انھوں نے جو تصویر کشی کی ہے، وہ مغربی دنیا کو ہیبت زدہ کر سکتی ہے۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے ڈیڑھ سو سے زیادہ ملکوں میں تبلیغی جماعت کا وجود ہے۔
مصنف نے تمہیدی صفحات کے بعد کتاب کے ابتدائی حصہ میں دکھایا ہے کہ کس طرح تبلیغ کی اس تحریک نے ۱۹۲۰ کے عشرہ میں شدھی کی شرانگیز اور زہریلی مہم کے پس منظر میں جنم لیا جو کہ برطانوی حکومت کی اس حکمت عملی کے بطن سے پیدا ہوئی تھی کہ عوام میں مذہبی بنیاد پر تفریق پیدا کی جائے۔ اس حکمت عملی کے تحت پہلی مرتبہ مذہب پر مبنی مردم شماری شروع کی گئی۔ شدھی مہم کا مقصد متحدہ پنجاب کے میوات اور دوسرے علاقوں میں ہندووں کی تعداد مسلمانوں سے کہیں زیادہ دکھانا تھا کیونکہ مردم شماری ہندووں اور مسلمانوں کے مابین واضح خط فاصل کھینچ رہی تھی جو کہ پہلے رسوم ورواج کے اعتبار سے بڑی حد تک باہم خلط ملط تھے۔
تبلیغی تحریک کی بنیادیں ہندوستان میں علما کے نئے فکری، یعنی عوامی رجحانات تک پہنچتی ہیں جن کو ۱۸ویں صدی عیسوی کے آغاز سے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے شروع کیا۔ یہ رجحانات مغلیہ زوال کے حالات میں عوام کے اندر اسلام کی افادیت باقی رکھنے کے لیے وجود میں آئے تھے۔ صرف انھی دو حقائق کا کتاب میں تذکرہ ظاہر کر دیتا ہے کہ مصنف نے سنجیدہ تحقیق وجستجو کی کوشش ضرور کی ہے، خواہ اس میں مکمل کامیابی نہ حاصل ہوئی ہو۔ مغربی دنیا میں اسلامی تنظیموں اور تحریکوں کے بارے میں مطالعات کا عام ڈھرہ یہ ہے کہ پہلے سے طے کر لیا جاتا ہے کہ کسی کتاب، فلم یا دوسری کاوش کے ذریعہ ناظرین کو کیا پیغام دینا اور کیا ثابت کرنا ہے۔ پھر اس نہج پر لکھنے کے لیے من مانے اور قطع وبرید شدہ حقائق، واقعات یا بیانات اکٹھا کر کے ان کو بطور شواہد پیش کیا جاتا ہے۔ زیر تبصرہ تصنیف اس راستے سے الگ ہے۔ اس میں صرف یہ کیا گیا ہے کہ مولانا الیاس کاندھلوی کا تبلیغی مشن اور تبلیغی جماعت کی سن ۲۰۰۰ تک کی معروضی روداد بیان کر دی گئی ہے اور اس کو مصدقہ بنانے کے لیے معروف اسلامی عالموں ومصنفوں کے حوالے ہر صفحہ پرموجود ہیں۔
اس کے باوجود یوگندر سکند کی اس کوشش کو بے عیب نہیں کہا جا سکتا۔ تبلیغی جماعت کی ابتدا کس سن میں ہوئی، کیا یہ ایک جماعت یا تنظیم ہے یا صرف تحریک (یہاں جماعت، تبلیغ کے لیے نکلنے والی ٹولی کو بھی کہتے ہیں) حضرت مولانا الیاس کی پیدایش کس سن میں ہوئی، ان تمام سوالات کے حوالے سے معلومات کا ابہام اتنی کدو کاوش کے بعد بھی موجود ہے۔ کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے کہ تبلیغی جماعت کا وجود ۱۹۲۰ سے ہے لیکن کئی معتبر کتابوں میں ان تبلیغی جماعتوں یا اسفار کا آغاز اس کے کئی سال بعد بتایا گیا ہے۔ ندوۃ العلماء سے مولانا ابو الحسن علی ندوی کی نگرانی میں مولانا محمد یوسف کی زندگی پر شائع ہونے والی کتاب (مولف: مولانا سید محمد رابع ثانی حسنی) میں مولانا الیاس کا سن پیدایش ۱۳۰۳ ہجری اور ان کا پیدایشی نام الیاس اختر بتایا گیا ہے۔ سکند نے سن پیدایش ۱۸۸۵ اور نام اختر الیاس بتایا ہے۔ دونوں میں سے ایک یا پھر دونوں ہی مشکوک ہیں۔ مذکورہ سن عیسوی اول الذکر سن ہجری سے مطابقت نہیں رکھتا۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ تبلیغی جماعت کیا حضرت مولانا الیاس کے اس مشن میں کامیاب ہے کہ مسلمانوں کے کردار اور ذہن کو قرآن وسنت کے سانچے میں ڈھالا جائے؟ کیا وہ گزشتہ ۶۰، ۶۲ برسوں میں اس منزل کی طرف آگے بڑھی ہے؟ کیا ڈیڑھ سو یا جتنے بھی ملکوں میں اس کا وجود ہے، وہاں کے معاشرے کے کسی قابل لحاظ حصے میں اس نے اپنے اثرات چھوڑے ہیں؟ کتاب ان سوالات کے جوابات دینے سے قاصر ہے۔ تاہم مصنف کی اس تحقیقی کاوش کی ستایش کی جانی چاہیے۔
(تبصرہ نگار: ریاض قدوائی۔ بشکریہ ’اردو بک ریویو‘ دہلی)

’’تذکرۃ المصنفین المعروف بہ تراجم العلماء‘‘

حضرت مولانا مفتی ابو القاسم محمد عثمان قاسمی رحمہ اللہ تعالیٰ ہمارے پرانے بزرگوں میں سے تھے۔ ان کا تعلق چھچھ کے علاقہ سے تھا اور دار العلوم دیوبند کے ممتاز فضلا میں سے تھے۔ آپ کے دادا حضرت مولانا فضل حق شمس آبادیؒ ترک وطن کر کے مکہ مکرمہ چلے گئے تھے اور مدرسہ صولتیہ کے بانی حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ سے شرف تلمذ حاصل کیا تھا۔ انھوں نے وہاں شادی بھی کر لی تھی مگر علاقہ چھچھ کے علماء کرام اور احباب کے اصرار پر واپس آئے اور شمس آباد میں دینی تعلیم وتدریس کا سلسلہ شروع کر دیا جسے ان کے فرزند حضرت مولانا مفتی محمد عمر شمس آبادیؒ اور پوتے حضرت مولانا مفتی محمد عثمان شمس آبادیؒ نے آگے بڑھایا اور اب اس دینی وعلمی سلسلہ کو ہمارے محترم دوست حضرت مولانا قاری امداد اللہ قاسمی زید مجدہم برمنگھم برطانیہ کے معروف دینی مرکز ’’مسجد حمزہؓ‘‘ میں قائم رکھے ہوئے ہیں۔ حضرت مولانا مفتی محمد عثمان شمس آبادی نے ساری زندگی درس وتدریس میں گزاری اور انھیں پورے علاقہ میں ایک ثقہ اور معتمد مفتی کا مقام حاصل تھا۔
انھوں نے اپنے زمانہ تدریس میں درس نظامی کے نصاب میں زیر درس رہنے والی کتابوں کے مصنفین کے تعارف پر ایک کتاب تصنیف کی جو ان کی زندگی میں طبع نہ ہو سکی اور اب مولانا قاری محمد امداد اللہ قاسمی کی نگرانی میں القاسم اکیڈمی، جامعہ ابو ہریرہ، خالق آباد، ضلع نوشہرہ نے اسے شائع کیا ہے جو بہت سے مصنفین اور علماے کرام کے ترجمہ وتعارف کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر علمی نکات کا مجموعہ بھی ہے۔
بڑے سائز کے پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس مجلد کتاب کی قیمت اڑھائی سو روپے ہے اور اسے مندرجہ بالا پتہ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
(ابو عمار زاہد الراشدی)

’’خانوادۂ نبوی وعہد بنی امیہ‘‘

ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی ہمارے ملک کے ممتاز محققین میں سے ہے۔ تاریخ ان کا خصوصی موضوع ہے اور تاریخ کے مختلف عنوانات پر ان کے گراں قدر مقالات اہل علم سے داد وتحسین وصول کر چکے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں انھوں نے بنو امیہ کے عہد حکومت میں خاندان نبوت کے حالات اور ان کے باہمی تعلقات پر روشنی ڈالی ہے اور بعض اہل علم کے پیش کردہ اشکالات واعتراضات کا جواب دیا ہے۔ بہت سے امور میں ان کے پیش کردہ نتائج سے اختلاف کی گنجایش موجود ہے مگر ان کی محنت اور تحقیق بہرحال قابل داد ہے۔ 
اڑھائی سو سے زائد صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت دو سو روپے ے اور اسے مکتبہ سید احمد شہیدؒ ، الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’قرآن کریم کی روشنی میں‘‘

یہ محترم ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو انھوں نے مختلف مسائل اور موضوعات پر قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں دیے۔ ان موضوعات میں جہاد، پردہ، ازدواجی زندگی، بین الاقوامی معاملات، اسلام کا نظریہ مال ودولت اور آداب معاشرت جیسے اہم مسائل بھی شامل ہیں۔
ساڑھے چار سو سے زائد صفحات کا یہ مجلد مجموعہ مرکز فہم القرآن ۱۴۔۱۵ فرسٹ فلور، ڈیلا والا سنٹر، شون چورنگی بلاک ۹، کلفٹن کراچی نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت دو سو پچاس روپے ہے۔

’’تفسیر گوہر بیان‘‘ (جلد اول)

جامعہ اویسیہ گوہریہ (پکا گڑھا) بونکن روڈ سیالکوٹ کے بانی علامہ محمد شاہد جمیل اویسی نے مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کے ترجمہ قرآن کریم ’’کنز الایمان‘‘ کے ساتھ اسی ذوق کے مطابق مختلف تفاسیر قرآن کریم سے تفسیری اقوال ونکات کی تلخیص کا مندرجہ بالا عنوان کے تحت آغاز کیا ہے۔ اس کی پہلی جلد ہمارے سامنے ہے جو قرآن کریم کے پہلے پارے پر مشتمل ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے قرآن کریم کے حروف والفاظ اور دیگر متعلقہ امور کے حوالے سے بہت سی معلومات اور اعداد وشمار بھی مرتب کر دیے ہیں۔
پہلی جلد ساڑھے چار سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی قیمت تین سو روپے ہے اور اسے مندرجہ بالا پتہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

’’اذکار سیرت‘‘

معروف ماہر تعلیم پروفیسر سید محمد سلیم مرحوم کے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر مختلف مضامین کا مجموعہ مذکورہ بالا عنوان کے ساتھ زوار اکیڈمی پبلی کیشنز ، اے۔۴/۱۷ ناظم آباد ۴، کراچی ۱۸ نے شائع کیا ہے جس میں مختلف عنوانات کے تحت سیرت طیبہ کے حوالے سے مفید معلومات پیش کی گئی ہیں۔ ۲۴۰ صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت درج نہیں ہے۔

’’مقالات سیرت‘‘

فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ کے سیرت نبوی کے موضوع پر مختلف مضامین کو ان کے لائق فرزند مولانا قاری خلیل احمد تھانوی نے مرتب کیا ہے اور اسے ادارۃ اشرف التحقیق دار العلوم الاسلامیہ، کامران بلاک ، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور نے شائع کیا ہے۔ پونے دو سو صفحات کی مجلد کتاب کی قیمت درج ہے۔

’’تعلیمات اسلام‘‘

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس اللہ سرہ العزیز کے خلیفہ اعظم حضرت مولانا شاہ مسیح اللہؒ نے اسلامی تعلیمات کو تعلیم وتدریس کے لیے سوال وجواب کی صورت میں مرتب فرمایا ہے جو عقائد و عبادات سے لے کر معاملات واخلاق تک تمام ضروری پہلووں کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کا یہ گراں قدر مجموعہ مولانا وکیل احمد شیروانی کی نگرانی میں مکتبہ فیض اشر ف، بیت الاشرف، ۷۸۔ اے ماڈل ٹاؤن، لاہور نے شائع کیا ہے جو سکولوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے بطور خاص مفید ہے۔ اس کے پانچ حصے ایک جلد میں یکجا شائع کیے گئے ہیں اور قیمت درج نہیں ہے۔

’’مفتی محمودؒ سے ملیے‘‘

کراچی کے جناب مولانا قطب الدین عابد نے حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کے افکار وخیالات اور ارشادات وتعلیمات کو خوب صورت ترتیب کے ساتھ اس کتاب میں جمع کیا ہے جن میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے حالات وخدمات کے ساتھ ساتھ ان کے اکیس کے لگ بھگ انٹرویوز بھی شامل ہیں جو انھوں نے مختلف اوقات میں اہم جرائد کو دیے اور یہ انٹرویوز بلاشبہ اس دور کی دینی جدوجہد اور قومی سیاست کی عکاسی کرتے ہیں۔
ساڑھے چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب مفتی محمود اکیڈمی، کراچی نے شائع کی ہے جس کی قیمت اڑھائی سو روپے ہے اور اسے جمعیۃ پبلی کیشنز متصل مسجد پائلٹ ہائی اسکول، وحدت روڈ لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’تذکار محمود رحمہ اللہ تعالیٰ‘‘

۱۹۹۶ء کے دوران بنوں میں حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ کی یادمیں منعقد ہونے والے سیمینار میں پڑھے جانے والے مقالات ومضامین کو ہمارے فاضل دوست محمد فاروق قریشی نے حسن ذوق کے ساتھ مرتب کیا ہے جو حضرت مفتی صاحب کی زندگی، خدمات اور تعلیمات کے مختلف گوشوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ سوا تین سو کے لگ بھگ صفحات کا یہ مجلد مجموعہ مفتی محمود اکیڈمی کراچی نے شائع کیا ہے۔ اس کی قیمت دو سو روپے ہے اور مندرجہ بالا پتہ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

سیرت نبوی پر القاسم اکیڈمی کی مطبوعات

خیر القرون سے اب تک سیرت طیبہ پر مختلف زبانوں میں ہزاروں کتب شائع ہو چکی ہیں، لیکن اپنی کم مائیگی کا احساس ہر سیرت نگار کو دامن گیر رہتاہے اور خاتمہ کلام کے لیے اسے ’’ بعد از خدا بزرگ تو ئی قصہ مختصر‘‘ ہی کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ مولانا عبد القیوم حقاّنی ملک کے معروف مصنف ہیں اور مختلف موضوعات پر بیسیوں تصانیف ان کے حسن علم وقلم کا ثبوت ہیں۔ مولانا نے سیرت نبوی پر معروف ومتداول کتاب ’شمائل ترمذی‘ کی ضخیم شرح تقریباً ۱۶۰۰ صفحات میں تالیف کی ہے، تاہم عوام الناس کی سہولت کے پیش نظر اس کے بعض اجزا کو مستقل عنوانات کے تحت الگ شائع کیا گیا ہے۔ زیر تبصرہ تین کتب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ 
پہلی کتاب کا عنوان ’’جمال محمد ﷺ کا دلربا منظر ‘‘ ہے اور اس میں نبی کریم ﷺ کے جسم اطہر کے تمام اعضا ء کا ۲۲ احادیث کی روشنی میں مفصل ومدلل ذکر کیا گیاہے۔ ابتدا میں قاری کی سہولت کی خاطر حدیث کے متعلق چند ضروری اصطلاحات کی وضاحت کی گئی ہے جبکہ بعض مقامات پر مشکل الفاظ کا مفہوم سہل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ۲۰۶صفحات پر مشتمل مجلد کتاب کی قیمت ۱۲۰ روپے ہے ۔
دوسری کتاب حصہ’’روئے زیبا ﷺ کی تابانیاں ‘‘ کے خوبصورت نام سے معنون ہے اور اس میں آپﷺ کی زلفوں،مانگ، تیل،کنگھی اور مسنون لباس سے متعلق شمائل کی ۴۸ ؍احادیث کی عالمانہ توضیح وتشریح کی گئی ہے۔ ۱۵۶ صفحات پر مشتمل اس مجلد کتاب کی قیمت ۹۹ روپے ہے ۔
’’آفتاب نبوت ﷺ کی ضیا ء پاشیاں ‘‘ کے عنوان سے تیسری کتاب میں مولف نے حضور نبی کریم ﷺ کے پسندیدہ کھانے، مرغوب مشروبات، پسندیدہ پھل، کھانے پینے اور مہمان نوازی کے مسنون آدا ب کے ضمن میں شمائل کی ۱۷۷؍ احادیث کی سلیس تشریح کی ہے۔
مصنف کا انداز بیان عمدہ اور عشق نبوی ﷺ سے بھر پور ہے اور یہ کتب مجموعی لحاظ سے عوام وخواص اورطلبا، سب کے لیے یکساں مفید ہیں۔ رنگین اوردیدہ زیب سرورق نے کتب کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کردیاہے۔ تینوں کتب القاسم اکیڈمی ،جامعہ ابو ہریرہؓ خالق آباد نوشہرہ نے شائع کی ہیں۔
(ادارہ)

علامہ محمد احمد لدھیانویؒ کا انتقال

ادارہ

’الشریعہ‘ کی مجلس ادارت کے رکن پروفیسر میاں انعام الرحمن کے والد محترم اور گوجرانوالہ کے بزرگ عالم دین علامہ محمد احمد لدھیانویؒ گزشتہ دنوں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی عمر کم وبیش پچھتر برس تھی اور وہ کچھ عرصہ سے صاحب فراش تھے۔
علامہ صاحب مرحوم کا تعلق علماے لدھیانہ کے اس معرو ف خاندان سے تھا جس نے برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف برصغیر کی تحریک آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا اور خطہ پنجاب میں دینی جدوجہد کی ایک عرصہ تک قیادت کی۔ رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمہ اللہ تعالیٰ، علامہ محمد احمد لدھیانوی مرحوم کے خالو تھے جبکہ علامہ صاحب کے والد محترم حضرت مولانا محمد عبد اللہ لدھیانویؓ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے تلامذہ میں سے تھے۔ 
علامہ صاحب مرحوم کے بڑے بھائی حضرت مولانا عبد الواسع لدھیانویؒ مجلس احرار اسلام کے سرگرم راہ نماؤں میں شمار ہوتے تھے، جبکہ خود علامہ صاحب نے مجلس احرار اسلام اور پھر جمعیۃ علماے اسلام کے پلیٹ فارم پر دینی وسیاسی تحریکات میں سرگرم کردار ادا کیا۔ وہ ایک عرصہ تک جمعیۃ علماے اسلام گوجرانوالہ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے حضرت مولانا مفتی عبد الواحد رحمہ اللہ تعالیٰ کے دست راست رہے۔ انھوں نے تحریک ختم نبوت اور اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد میں متعدد بار جیل یاترا کی۔ وہ ایک جری اور بے باک خطیب تھے۔ کم وبیش ربع صدی تک ضلعی امن کمیٹی کے رکن رہے، مگر وزرا اور سرکاری حکام کے سامنے بلاتکلف اظہار حق کے عادی تھے اور کسی جھجھک کے بغیر دوٹوک بات سب کے سامنے کہہ دیا کرتے تھے۔
علامہ صاحب ’الشریعہ‘ اور الشریعہ اکادمی کے پروگراموں سے خصوصی دل چسپی رکھتے تھے اور وقتاً فوقتاً مشوروں اور نصائح سے نوازتے تھے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔


جون ۲۰۰۶ء

اسلام، جمہوریت اور پاکستانی سیاستمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مسئلہ کشمیر: تازہ صورت حال اور کشمیری رائے عامہہمایوں خان
اسلامی تحریکیں اور مغربی تحقیقاتحافظ محمد سمیع اللہ فراز
پاکستان میں اسلامی نظام کی جدوجہد اور اس سے وابستہ اصولی اور اخلاقی تصوراتمولانا عتیق الرحمن سنبھلی
آلودگی، دین فطرت اور ہمپروفیسر شیخ عبد الرشید
مسئلہ طلاق ثلاثہ اور فقہائے امتمولانا افتخار تبسم نعمانی
غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکممفتی نایف بن احمد الحمد
تبلیغی جماعت اور دین کا معاشرتی پہلو (۱)سید جمال الدین وقار
تبلیغی جماعت اور دین کا معاشرتی پہلو (۲)اوریا مقبول جان
اعتذارادارہ
مکاتیبادارہ
کسرِ کعبہ کی حضوریپروفیسر میاں انعام الرحمن
الشریعہ اکادمی کی سرگرمیاںادارہ

اسلام، جمہوریت اور پاکستانی سیاست

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو صاحب کے درمیان طے پانے والا ’’میثاق جمہوریت‘‘ اس وقت نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی حلقوں میں زیر بحث ہے اور اس کے مثبت اور منفی پہلووں پر مسلسل اظہار خیال کیا جا رہا ہے، توقعات کا اظہار بھی ہو رہا ہے اور خدشات کا تذکرہ بھی جاری ہے۔
میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو دو دفعہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ ہر بار ایسا ہوا ہے کہ ایک نے دوسرے کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے ہر ممکن جتن کیا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں، جس کا بڑا حصہ فوج ہے، اپنے حریف کی اقتدار سے محرومی پر خوشی منائی ہے۔ ہر بار ایسا ہوا ہے کہ اپوزیشن نے یہ طے کر لیا ہے کہ برسر اقتدار پارٹی کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دینا اور ایسے حالات ہر حال میں پیدا کرنے ہیں کہ فوج مداخلت پر آمادہ ہو اور براہ راست یا بالواسطہ دخل دے کر اسے اقتدار سے محروم کر دے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے چاروں ادوار حکومت میں یہی کھیل کھیلا گیا ہے اور دونوں محترم لیڈر دو دو بار وزیر اعظم بننے کے باوجود اپنی ٹرم پوری نہیں کر پائے۔ اس مکروہ کھیل کا نتیجہ آج نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ عالم اسلام بھگت رہا ہے اور ہمارے پاس اپنے زخم چاٹنے کے سوا اور کوئی راستہ باقی نہیں رہ گیا۔
۱۹۴۷ء میں جب پاکستان وجود میں آیا تھا تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اسلام اور جمہوریت کو پاکستان کی بنیاد قرار دیا تھا اور اس عزم اور وعدے کے ساتھ قیام پاکستان کی جدوجہد کو منزل مقصود تک پہنچایا تھا کہ پاکستان ایک جمہوری ریاست ہوگی جو اسلامی اصولوں کے دائرے میں کام کرے گی اور نئے دور میں دنیا کو اسلامی اصولوں کے تحت ایک جمہوری ریاست اور فلاحی معاشرے کا عملی نمونہ دکھائے گی، لیکن قیام پاکستان کے بعد سے اب تک اسلام اور جمہوریت دونوں کے ساتھ مسلسل گلی ڈنڈا کھیلا جا رہا ہے اور یہ دونوں سنہری اصول ہمارے مقتدر حلقوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش میں سینڈوچ بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد یہ خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ مولوی لوگ جمہوریت پر صاد نہیں کریں گے اور مسٹر لوگوں کو مولوی کا پیش کردہ اسلام قبول نہیں ہوگا، اس لیے یہ نوزائیدہ ریاست پہلے مرحلے میں خدانخواستہ ناکامی کا شکار ہو سکتی ہے، لیکن بحمد اللہ ایسا نہیں ہوا۔ مولوی لوگوں نے قرآن وسنت کی پاسداری کی شرط پر جمہوریت کو حکومت کی بنیاد تسلیم کر لیا اور مسٹر لوگوں نے جمہوریت کی پاسداری کی شرط پر اسلام کی بالادستی پر صاد کر دیا جس کی دستاویزی شہادت قرارداد مقاصد، تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماے کرام کے ۲۲ متفقہ دستوری نکات اور ۱۹۷۳ کے دستور پر سب کے اتفاق کی صورت میں موجود ہے جن کے ذریعے یہ بات طے پا گئی کہ حکومت عوام کے منتخب نمائندے کریں گے، لیکن وہ مملکت کی پالیسیوں کے تعین میں قرآن وسنت کے احکام کے پابند ہوں گے۔ اس طرح جس بڑی کشمکش کا خطرہ تھا، وہ ہمیشہ کے لیے ٹل گئی، لیکن اس کی جگہ پاور پالیٹکس نے لے لی اور اقتدار کے سرچشمہ پر کنٹرول کی ہوس نے اسلام اور جمہوریت دونوں کو گزشتہ نصف صدی سے اس ملک میں سوالیہ نشان بنا رکھا ہے۔
ہم نے اسلام اور جمہوریت کے لیے اس سے قبل بھی بہت اعلانات کیے ہیں، بڑے وعدے کیے ہیں، قوم کو بڑے سبز باغ دکھائے ہیں، ہم نے قرارداد مقاصد کی صورت میں قوم سے وعدہ کیا، ہر دستور میں اسلام اور جمہوریت کی پاسداری کا عہد کیا، ہر الیکشن کے موقع پر ہر سیاسی پارٹی نے اپنے اپنے انتخابی منشور میں ان دو سنہری اصولوں کو اپنا نصب العین قرار دیا اور سب سے بڑھ کر ۷۳ کے دستور میں ہم نے اسلام، جمہوریت، وفاقیت، فلاحی ریاست اور رفاہی پاکستان کے تقاضوں کو خوب صورت انداز میں سمویا۔ ۷۳ کے دستو رمیں کون سی بات نہیں ہے؟ اور اسلام، جمہوریت، صوبائی خود مختاری اور فلاحی ریاست کے تقاضوں میں ہم آہنگی اور توازن کا کون سا پہلو تشنہ ہے؟ لیکن اس دستور کا ہم نے اپنے ہاتھوں جو حشر کیا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ دستور ہمیں سیدھے راستے پر چلانے کے بجائے اپنے وجود اور بقا کے حوالے سے ہمارے رحم وکرم پر ہے۔ ہم ملک کے اقتدار پر مکمل کنٹرول کرنے کے بعد اس دستور کو باقی رہنے دیتے ہیں تو سمجھا جاتا ہے کہ ہم نے اس غریب کی رحم کی اپیل منظور کر لی ہے اور اسے مزید کچھ دیر زندہ رہنے کا حق دے دیا ہے، خواہ اسے کئی سال ’’کومے‘‘ میں ہی گزارنا پڑیں۔
ہمیں محترم میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ’’میثاق جمہوریت‘‘ کے مندرجات سے اختلاف نہیں ہے۔ ہم ان کے جذبے کی قدر کرتے ہیں کہ بدیر سہی، لیکن انھیں جمہوریت کے اعلیٰ اصولوں کی پاسداری کا خیال تو آیا، انھیں احساس تو ہوا کہ جمہوریت صرف اقتدار کے حصول کے لیے سیڑھی یا اس کے تحفظ کے لیے بیساکھی کا نام نہیں ہے، بلکہ اپنے کچھ اصول رکھتی ہے، اس کے کچھ قواعد وضوابط ہوتے ہیں، اس کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں، کچھ لوازمات ہوتے ہیں اور وہ آگے بڑھنے کے لیے سیاست دانوں سے ایک مخصوص ماحول اور کچھ قربانیوں کا تقاضا کرتی ہے۔ ہم دونوں لیڈروں کے اس ادراک اور احساس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اسے خوش آمدید کہتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان اصولوں پر پہلے کبھی اختلاف رہا ہے؟ کیا ان دونوں پارٹیوں کے انتخابی منشوروں اور ۷۳ کے دستور میں یہ باتیں شامل نہیں ہیں؟ اگر یہ سب کچھ پہلے سے موجود ہے اور ان کے ساتھ کمٹ منٹ کا پہلے بھی کئی بار اظہار ہو چکا ہے تو انھیں ایک نئے میثاق کی شکل دینے کی ضرورت کیوں پیش آ گئی؟
اصل بات اصولوں، میثاقوں اور الفاظ کی نہیں بلکہ طرز عمل کی ہے، سیاسی مزاج کی ہے اور مستقبل کے عزائم کی ہے۔ اگر ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہے تو یہ ’’میثاق جمہوریت‘‘ ۷۳ کے دستور سے زیادہ مقدس دستاویز نہیں ہے۔ حالات کی ناہمواری انسان کو ایک رخ پر لے آتی ہے، وہ رخ کبھی مستقل نہیں ہوتا اور اصل صورت حال کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب حالات نارمل ہوتے ہیں اور پھر دیکھا جاتا ہے کہ ناہموار حالات میں ایک رخ اختیار کرنے والوں کا اصل رخ کیا ہے؟ مزاج او رجبلت کبھی نہیں تبدیل ہوتے ۔ اس پر ایک کہاوت کا حوالہ دینا شاید نامناسب نہ ہو کہ کسی بادشاہ کا اپنے وزیر کے ساتھ اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ فطرت تبدیل ہو سکتی ہے یا نہیں؟ بادشاہ کا موقف تھا کہ تربیت اور ماحول کے ساتھ فطرت تبدیل ہو جاتی ہے مگر وزیر اس سے متفق نہیں تھا اور وہ بضد تھا کہ فطرت کسی حالت میں نہیں بدلتی۔ بادشاہ نے وزیر کو قائل کرنے کے لیے چند بلیاں پالیں، انھیں اس طرح تربیت دلوائی کہ وہ بڑے ادب اور ترتیب کے ساتھ اگلے ہاتھوں میں جلتی ہوئی شمعیں اٹھائے دو پاؤں پر چلتی ہوئی دربار میں آتیں اور بادشاہ کے گرد گھیرا ڈال کر باادب کھڑی ہو جاتیں۔ وزیر کو یہ منظر دکھا کر بادشاہ نے وزیر سے دریافت کیا کہ کیا خیال ہے، فطرت تبدیل ہوتی ہے یا نہیں؟وزیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت! اس کا جواب کل دوں گا۔ دوسرے روز وزیر چند چوہے آستین میں چھپا کر دربار میں لے آیا اور جونہی بلیاں اپنی ٹریننگ کے مطابق باادب چلتے ہوئے بادشاہ کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑی ہوئیں، وزیر نے چپکے سے چوہوں کو دربار میں کھلا چھوڑ دیا۔ بلیوں نے چوہوں کو دوڑتے دیکھا تو جلتی ہوئی شمعیں وہیں پھینکیں اور چوہوں کے پیچھے دوڑ لگا دی۔ شمعیں قالینوں پر گرنے سے بہت سی جگہوں سے قالین جل گئے اور آگ کو پھیلنے سے بڑی مشکل سے روکا گیا۔ وزیر نے بادشاہ سے کہا کہ حضور! یہ بلیو ں کی اصل فطرت ہے اور آپ نے دیکھ لیا ہے کہ فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔
اس لیے اس ’’میثاق جمہوریت‘‘ کی اصلیت اس وقت سامنے آئے گی جب دونوں لیڈر ملک میں ہوں گے (خدا کرے کہ وہ جلدی آ جائیں)، اقتدار کا چوہا ان کے سامنے ہوگا اور دونوں کی یکساں دسترس میں ہوگا۔ تب پتہ چلے گا کہ ’’میثاق جمہوریت‘‘ کا کون سا جملہ ان میں سے کس کو یاد رہ گیا ہے اور کون سا لندن اور دوبئی کی فضاؤں میں تحلیل ہو چکا ہے۔ ویسے ہمارے خیال میں اتنے لمبے چوڑے ’’میثاق جمہوریت‘‘ کے تکلف کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر دونوں لیڈر صرف اتنا اعلان کر دیتے کہ دونوں دستور کی پاسداری کریں گے، ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں گے، ایک دوسرے کا احترام کریں گے، ایک دوسرے کو جمہوری اصولوں کے مطابق آگے آنے کا موقع دیں گے اور اقتدار میں آنے کی صورت میں ٹرم پوری ہونے تک اس کے لیے مشکلات کھڑی نہیں کریں گے تو یہ چند جملے شاید بھاری بھرکم میثاق جمہوریت سے زیادہ وزنی ثابت ہوتے۔

مسئلہ کشمیر: تازہ صورت حال اور کشمیری رائے عامہ

ہمایوں خان

۱۹۸۰ء کی دہائی کے وسط میں، جب میں بھارت میں پاکستان کا سفیر تھا، میرے لیے جموں اور کشمیر جانے کا کوئی موقع نہیں تھا۔ دہلی یا اسلام آباد میں سے کوئی بھی اس کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ تقریباً ۲۰ سال کے بعد مجھے واہگہ سے جموں تک زمینی اور وہاں سے سری نگر تک فضائی سفر کا موقع ملا، اور کسی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
میرا یہ سفر دہلی کے مرکز برائے مکالمہ ومصالحت (Centre for Dialogue and Reconciliation) کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ایک سیمینار کے سلسلے میں تھا جس میں لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف سے مختلف کشمیری گروپوں کو جمع کیا گیا تھا تاکہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں باہم گفت وشنید کریں۔ یہ سیمینار کشمیریوں کے مابین باہمی مکالمہ کے فروغ اور اس کی حوصلہ افزائی کے لیے مسلسل جاری کوششوں کا ایک حصہ تھا۔ ان کوششوں کا مقصد کشمیریوں کے مابین ایک واضح اتفاق رائے کو وجود میں لانا ہے تاکہ بھارت اور پاکستان کی طرف سے ’نیک دلی‘ کے ساتھ کشمیری عوام کی خواہشات کے احترام کے جو دعوے کیے جاتے ہیں، ان کی صداقت کو آزمایا جا سکے۔
کشمیر میں استصواب رائے کی تجویز کے خارج از بحث ہو جانے کے بعد قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی کشمیری عوام کی مرضی کیسے معلوم کی جائے؟ اب تک ساری توجہ وادی پر مرکوز رہی ہے جو کہ سابقہ ریاست کا سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ ہونے کے باوجود کل علاقے کی آبادی کے صرف پانچویں حصے پر مشتمل ہے۔ پھر جموں اور لداخ، آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کی کیا حیثیت ہے؟ ایک چھوٹے سے حصے پر توجہ مرکوز کرنا اور اسے خصوصی حیثیت دینا یقیناًایک امتیازی رویہ ہے۔ سیمینار کے شرکا اس پر متفق تھے کہ کشمیری عوام کی امنگوں کو پورا کرنا مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کا ایک ناگزیر عنصر ہے اور کشمیری عوام سے مراد سابقہ ریاست کے حدود میں بسنے والے تمام باشندے ہیں۔
اگلا سوال یہ تھا کہ بحیثیت مجموعی کشمیری عوام کی نمائندگی کا حق کس کے پاس ہے؟ اب تک مزاحمت کرنے والی کشمیری قیادت صرف وادی کی ترجمانی کرتی ہے۔ اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ آل پارٹیز حریت کانفرنس جیسی تنظیمیں اس مفہوم میں پورے کشمیر کی نمائندہ نہیں ہیں۔ مطلوبہ کشمیری قیادت کا تعین کیسے کیا جائے؟ اس سوال کے جواب میں مختلف تجویزیں پیش کی گئیں لیکن کسی پر اتفاق رائے نہ ہو سکا۔
اس بات کی ضرورت بھی محسوس کی گئی کہ دو طرفہ مکالمہ میں تنوع کے حامل کشمیری نقطہ ہائے نظر کو بھی مستقل بنیاد پر شامل کیا جائے۔ اس ضمن میں موجودہ کشمیری قیادت اور بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے مابین روز افزوں روابط کا خیر مقدم کیا گیا۔ شرکا نے دونوں ملکوں کے مابین جامع گفت وشنید کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کی بھی ایک عمومی تائید کی۔ 
سیمینار کے شرکا کشمیری رائے عامہ کے ایک وسیع اور متنوع دائرے کی ترجمانی کر رہے تھے۔ یہ بات خوش کن تھی کہ بہت سے مسائل کے حوالے سے ان کے مابین اتفاق رائے موجود تھا۔ سب سے اہم نکتہ، جس پر زور دیا گیا، یہ تھا کہ تشدد کو ختم ہونا چاہیے، خواہ اس کا ارتکاب دہشت پسند عناصر کر رہے ہوں یا بھارتی سکیورٹی فورسز۔ یہ بات بھی محسوس کی گئی کہ اس بات کو موثر طور ثابت کرنا ابھی پاکستان کے ذمے ہے کہ وہ سرحد پار سرگرمیوں کو روکنے کے لیے فعال اقدامات کر رہا ہے۔ نیز بھارت کو نہ صرف سکیورٹی فورسز کی زیادتیوں کا سدباب کرنا ہے، بلکہ ان کے ہاتھوں معصوم عوام کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی بھی کرنی ہے۔ شرکا کا عمومی مطالبہ یہ تھا کہ بھارت کو غیر فوجی علاقوں سے پولیس کے علاوہ تمام مسلح افواج کو نکال لینا چاہیے۔
اتفاق رائے کا دوسرا اہم نکتہ یہ تھا کہ ریاست کو ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ء کے نقشے کے مطابق دوبارہ متحد کر دیا جائے۔ بعض لوگوں کے نزدیک اس کا مطلب یہ تھا کہ بھارت او رپاکستان کی ضمانت کے تحت ایک خود مختار کشمیر قائم ہو جائے، تاہم عملیت پسندانہ رائے یہ تھی کہ یہ صورت دونوں ملکوں میں سے کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہوگی۔ اس کے بعد بہترین متبادل صورت یہ تھی کہ زمینی صورت حال کے لحاظ سے کشمیر کے تمام علاقوں کو اس طرح یکساں بنا دیا جائے کہ اس کے اثرات کشمیریوں کے طرز زندگی پر مرتب ہوں۔ اس مقصد کے لیے ہر قسم کی پابندیوں کو ختم کرتے ہوئے لوگوں کو حق دیا جائے کہ کشمیر کے کسی بھی حصے میں سفر کر سکیں، آزادانہ تجارت اور اشیا کے نقل وحمل کی اجازت دی جائے، رسمی نوعیت کی انتظامی کارروائیوں کو سادہ بنا دیا جائے تاکہ ریاست کا شہری ہونے کی بنیاد پر شناختی کارڈ کے حامل ہر شخص کو لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب سفر اور تجارت کرنے کی آزادی ہو، اور دونوں حصوں کے مابین تمام روایتی سڑکیں بحال کر دی جائیں۔ سیاحت کے فروغ کے لیے مشترکہ منصوبے بنانے کے سلسلے میں لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کے باشندوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انھیں سہولیات فراہم کی جائیں، نیز جنگلات، پانی کے استعمال، بجلی کی پیداوار، ماحولیاتی مسائل اور اس نوعیت کے دیگر امور سے متعلق ریاست کی سطح پر ایک مشاورتی نظم قائم کر دیا جائے۔ 
اگر بھارت اور پاکستان کے مابین جامع گفت وشنید کے عمل کو پوری قوت سے آگے بڑھایا جائے اور دونوں اطراف میں باہمی تعاون کی فضا موجود ہو تو مذکورہ تمام تجاویز قابل عمل ثابت ہوں گی۔ معروضی طور پر دیکھا جائے تو سیمینار میں پیش کردہ تجاویز میں سے کوئی بھی ناقابل عمل نہیں ہے۔ بھارت اور پاکستان، دونوں لائن آف کنٹرول کی موجودہ حیثیت کو عملاً ختم کرنے کا علانیہ عزم رکھتے ہیں۔ اگر یہ عزم حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے تو دہشت پسندی اپنا جواز کھو دے گی۔ اس وقت کشمیر میں قریب قریب غصے کی سی کیفیت پائی جاتی ہے، کیونکہ کشمیری عوام کو بے حد دکھوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں مشکل ہی سے کوئی ایسا خاندان ملے گا جو دہشت پسندوں یا سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں اپنے کسی عزیز یا گھر بار سے محروم نہ ہو چکا ہو۔ پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش یا اشتیاق کا کوئی اظہار نہیں پایا جاتا۔ اسی طرح بھارت کے حوالے سے بھی اجنبیت اور دوری کا ایک گہرا احساس موجود ہے۔
کشمیریوں کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ امن وامان اور معمول کی صورت حال کا ایک طویل عرصہ ہے جو بیرونی مداخلت سے پاک ہو۔ اگر یہ میسر ہو جائے اور اس کے ساتھ بامعنی اقتصادی ترقی شامل ہو جائے تو دکھوں کے مداوا کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔ اس سے کشمیریوں کو ٹھنڈے دل ودماغ اور سکون کے ساتھ آپس میں گفت وشنید کرنے اور اس کے نتیجے میں شاید واضح اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کرنے کا موقع ملے گا کہ آخرکار وہ کیا چاہتے ہیں۔ انھیں یہ بھی احساس ہوگا کہ انھیں بعض عملی حقیقتوں کو ملحوظ رکھنا ہے اور اگر ان میں جبر کا کوئی پہلو نہیں پا یا جاتا تو ہو سکتا ہے کہ وہ انھیں گوارا بھی کر لیں۔ 
اس ساری گفتگو کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں کشمیر کے حل کو ایک واقعے کے طور پر نہیں بلکہ ایک ارتقائی عمل کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ جب تک اس مسئلے کو بھارت اور پاکستان کی باہمی مخاصمت میں ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کا ایک ذریعہ (Bargaining Issue) سمجھا جاتا رہے گا، یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ کوئی بھی پیش رفت تبھی ممکن ہوگی جب اسے ایک مشترک مسئلہ سمجھا جائے جس کا حل فریقین کو مطلوب ہو۔ اس ضمن میں پہلے قدم کے طور پر اس سے بہتر کوئی کام نہیں ہو سکتا کہ کشمیری عوام فوری طور پر جن خواہشات کا اظہار کر رہے ہیں، ان کا احترام کیا جائے۔ بات کو نئے رخ پر آگے بڑھانے کے لیے ڈاکٹر من موہن سنگھ کا متوقع دورۂ پاکستان ایک اچھا موقع ہوگا۔
(بشکریہ ’ڈان‘۔ ترجمہ: ابو طلال)

اسلامی تحریکیں اور مغربی تحقیقات

حافظ محمد سمیع اللہ فراز

موجودہ دور کو بجا طور پر مغربی فلسفہ وفکر اور علوم وفنون کی بالا دستی کا دور کہا جا سکتا ہے۔ آج پورے کرۂ ارضی پر مغربی افکار ونظریات اورانسان وکائنات کے بارے میں وہ تصورات پوری طرح چھائے ہوئے ہیں جن کی ابتدا آج سے تقریباً دوسو سال قبل یورپ میں ہوئی تھی اور جو اس کے بعد مسلسل مستحکم ہوتے اور پروان چڑھتے چلے گئے۔ آج کی دنیا سیاسی اعتبار سے خواہ کتنے ہی حصوں میں منقسم ہو، فکر اور سوچ کے دائرے میں ایک ہی طرز فکر اورنقطۂ نظر پوری دنیا پر حکمران ہے۔ بعض سطحی اور غیر اہم اختلافات سے قطع نظر، ایک ہی تہذیب اورایک ہی تمدن کا سکہ پوری دنیا میں جاری ہے۔ مغربی تہذیب وتمدن اور فلسفہ کا یہ تسلط اس قدر شدید اورہمہ گیر ہے کہ بسا اوقات یوں دکھائی دیتا ہے کہ خود جدید مسلم فکر اور اسلامی تحریکات بھی، جو اصلاً مغربی فکر کے استیلا کے مقابلے کے لیے وجود میں آئیں، مغرب کے فکری اثرات سے بالکلیہ محفوظ نہیں ہیں اور خود ان کا طرزِ فکر بہت حد تک مغربی ہے۔
گزشتہ صدی میں عموماً اور خلافتِ عثمانیہ کے سقوط (۱۹۲۴ء) کے بعد خصوصاً، مغرب کا یہ استیلا نہ صرف سیاسی وعسکری بلکہ ذہنی وفکری دائروں میں بھی عالم اسلام پر قائم ہوا، تاہم مسلم دنیا پر مغرب کی یورش چونکہ اصلاً سیاسی تھی، اس لیے عالمِ اسلام میں اس کے خلاف پیدا ہونے والے رد عمل میں بھی اسی کا احساس غالب نظر آتا ہے۔ ڈاکٹراسرار احمد صاحب کے بقول ملتِ اسلامی کے اس تلخ احساس نے کہ یورپ نے کہیں براہِ راست تسلط اورقبضے اورکہیں انتداب وتحفظ کے پردے میں اسے اپنا محکو م بنا لیا ہے اوراسے چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر کے اس کی وحدتِ ملی کو پارہ پارہ کر دیا ہے، بارہا دردانگیز نالوں کی صورت اختیار کی اور اپنے شاندار ماضی کی حسرت بھری یاد، اپنی عمرِ رفتہ اورعظمت وسطوتِ گزشتہ کی بازیافت کی شدید تمنا اور گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف لوٹانے کی بے پناہ خواہش نے کبھی جمال الدین افغانی کی انقلاب پسند شخصیت کا روپ دھارا اور کبھی تحریکِ خلافت کی صورت اختیار کی، لیکن حقائق نے ہر بار جذبات وخواہشات کا منہ چڑایا اور مغرب کی سیاسی بالا دستی رفتہ رفتہ ایک تسلیم شدہ واقعہ کی صورت اختیار کرتی چلی گئی۔
مغربی فلسفہ وفکر اورتہذیب وتمدن کے مقابلے میں عالم اسلام کی جانب سے مدافعت کی کوششیں ہونا بھی ناگزیر تھا۔ اسی احساسِ تحفظ نے ’احیائے اسلام‘، ’قیامِ حکومتِ الٰہیہ‘ اور ’نفاذِ نظامِ اسلامی‘ کی تحریکیں مختلف مسلمان ملکوں میں منظم کیں، جن میں کچھ اصلاحی طریقہ کار پر گامزن ہو کر پرامن ماحول میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں رہیں اور کچھ تحریکوں نے شدت پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے مغرب کی ہر پالیسی کا نہ صرف انکار کیا بلکہ منظم گروہوں کی شکل میں مغربی یورش کے مقابلہ ومزاحمت کی کوشش بھی کی۔ تحفظ ومدافعت کی یہ کوششیں دو طرح کی تھیں: ایک وہ جن میں محض تحفظ پر قناعت کی گئی اور دوسری وہ جن میں مدافعت کے ساتھ ساتھ مصالحت اورکسروانکسار کی روش اختیار کی گئی۔ 
مغربی مفکرین ومستشرقین نے اسلامی تحریکات کے مزاج کا گہرا فہم حاصل کرنے اور ان کے بارے میں اپنے لائحۂ عمل کو ترتیب دینے کے لیے ان کو اپنے خصوصی مطالعہ کا موضوع بنایا اور دونوں قسم کی تحریکوں کی طبقہ بندی کر کے اس کے موافق پالیسیاں تشکیل دیں۔ 
اسلامی تحریکات کے حوالے سے مستشرقین میں تین طرز فکر پائے جاتے ہیں۔ اول، وہ جنھوں نے اسلامی تحریکات کو انتہا پسند اور ریڈیکل قرار دیتے ہوئے اُن پر تنقید کی ہے اور مغربی پالیسی سازوں کو ان کے خلاف اقدامات کی سفارشات کی ہیں۔ دوسرے، وہ طبقہ جس نے اسلامی تحریکوں اور گروپوں کے بارے میں مثبت رویہ اختیار کرتے ہوئے ان کی خدمات اور اسلامی معاشروں پر ان کے اثرات کو تسلیم کیا ہے۔ تیسرا وہ طبقہ جس نے معتدل انداز میں اسلامی تحریکات اورشدت پسند گروہوں کے نقصانات اور ان کے ممکنہ خطرات کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے فوائد، مجبوریوں اور ان کے پس منظر میں کارفرما عوامل کا بھی ذکر کیا ہے اورساتھ ہی مغربی حکومتوں کو یہ تجویز دی ہے کہ ان کے تحفظات کو دور کیا جائے تاکہ امنِ عالم کے قیام میں حائل رکاوٹوں کا تدارک ہو سکے۔
اسلامی تحریکات کے بارے میں استشراقی افکار کاجائزہ اس تحقیقی ورثہ کی روشنی میں لیا جاسکتا ہے جس میں تاریخِ اسلامی، اسلامی سیاست اور معاشرت پر بحث کی گئی ہے اور اسی ضمن میں اسلامی تحریکات کا بھی ذکر کر دیاگیا ہے۔ مشہور مستشرق John L. Espositoنے اپنی متعدد تصانیف مثلاً The Islamic Threat: Myth or Reality ( آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، نیویارک 1999ء) میں اسلامی تحریکات کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے مغرب کو ان کے عزائم سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی مصنف کی ایک دوسری کتاب World Religions Today (آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 2002ء) میں بھی انھی خیالات کی عکاسی ہوتی ہے۔ Espositoکی تصنیف Unholy War: Terror in the name of Islam (آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 2002ء) میں بھی اسلامی مکاتبِ فکر اورتحریکات سے متعلق استشراقی مفروضات وخدشات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ 2002ء ہی میں شائع ہونے والی ان کی کتاب What Everyone Needs to Know about Islam میں بھی اسلامی تحریکات کو موضوع بحث بنایاگیا ہے۔ Espositoکی ایسی ہی ایک اورتصنیف Makers of Contemporaty Isalmہے جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام 2001ء میں شائع ہوئی ہے۔
Bernard Lewis طبقۂ استشراق میں اعلیٰ پایہ کے محقق شمار ہوتے ہیں۔ اسلامی تاریخ ان کا مستقل موضوع ہے جس کے تحت انہوں نے مختلف خطوں میں قائم اسلامی ریاستوں کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کو ایک تحریک کانام دیا ہے۔ ان کی تصنیف The Emergence of Modern Turkey (آکسفورڈ پریس، 2002ء) اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اسی طرح ان کی تصنیفات Crises of Islam: The Holy War and Unholy Terrorاور The Arabs in Historyبھی قابلِ ذکر ہیں۔
امریکی مفکر Shireen T. Huntsکی کتاب The Future of Islam and The Westکو The Center for Strategic and International Studiesنے امریکہ سے شائع کیا جس میں موجودہ اسلامی تحریکوں کی اصلاح پر زوردیاگیا ہے۔ 
بعض مغربی مفکرین نے اسلامی تحریکات کو اسلامی مذہب کا المیہ قرار دیا ہے جن کے باعث اسلام کا امیج مغرب میں قابلِ قبول نہیں رہا۔ ایسی ہی ایک تصنیف Ernest Gellnerکی Islamic Dilemmas: Reforms, Nationalists and Industrialistsہے جو برلن، جرمنی سے Walter de Gruyterکے زیر اہتمام 1985ء میں شائع ہوئی۔
چند مستشرقین کے ہاں خالصتاً اسلامی تحریکات پر بھی تصانیف ملتی ہیں، مثلاً: Shaul Mishalاور Avraham Selaکی متفقہ کاوش The Palestinian Hamas ( Columbia University Press New York, 2000ء) میں فلسطینی شدت پسند تنظیم ’حماس‘ کے پس منظر اورمقاصد پر بحث کی گئی ہے۔ اسی طرح بعض تصانیف قومیتوں اوراسلامی ریاستوں کو بنیاد بنا کر لکھی گئیں اور ان میں سرگرم اسلامی تحریکات کے کردار کا جائزہ لیاگیا ہے جیسا کہ Arab Awakening and Islamic Revival (Transaction Publishers, New Jersey, 1996)میں اس کے مصنف Martin Kramerنے مشرقِ وسطی میں پائے جانے والے سیاسی افکار کا جائزہ پیش کرتے ہوئے مغرب سے اِن تحریکوں اورقومیتوں کے تحفظات کو دورکرنے کی درخواست کی ہے۔ ایسی ہی ایک تحقیق Raywond HirnnebuschاورAnoushiravan Ehtishamiنے مشترکہ طور پر The Foriegn Policies of Middle East Statesکے نام سے کی ہے جس کو Lymme Rienner Publishers Colorado, USAنے 2002ء میں شائع کیا ہے۔ ایسی ہی ایک کاوش The Middle East and Islamic World Reorderکے نام سے Morvin E. Gettlemanاور Stuart Schearنے کی ہے جس کو Grove Press, 841 Broadway New Yorkنے 2003ء میں شائع کیا۔
ازمنہ وسطیٰ میں اسلامی تحریکات اوران کے کردار سے متعلق R. Stephen Humphreysنے اپنی تصنیف The Middle Age in a Trouble Age, Between Memory and Desire (یونیورسٹی آف کیلیفورنیا پریس لندن، 1999ء) میں سیر حاصل بحث کی ہے۔
اسلامی مکاتب فکر اور تحریکات کے بارے میں جدید استشراقی رجحانات کو سمجھنے کے لیے S.N.Eisenstadlکی کتاب Fundamentalism, Sectarianism and Revolutions (کیمبرج یونیورسٹی پریس برطانیہ، 1999ء) ایک سنگِ میل ہے۔ اسی طرح Mark Juergensmeyerکی کتاب Terror in the Mind of God (یونیورسٹی آف کیلیفورنیا پریس، لندن 2003ء) میں استشراقی سوچ واضح ہوتی ہے۔ Shaul Shayنے The Redsea Terror Triangle (The Interdisciplinary Centre, USA, 2005) میں سوڈان، صومالیہ اور یمن کی مثلث کے علاوہ دیگر خطوں میں اسلامی وجہادی گروپوں کے بارے میں بحث کی ہے۔ Dore Goldنے Hat Red's Kingdom (Renery Publishing Inc. Washington DC, 2003) میں عالمی دہشت گردی کا ذمہ دار سعودی حکومت کو ٹھہرایا ہے۔ Power in Movementکے نام سے Sidney Tarrowکی کتاب (کیمبرج یونیورسٹی پریس یوکے، 1998ء) میں اسلامی تحریکات کی جدوجہد کا جائزہ لیا گیا اوران کی قوت کا اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ 
اسلامی ریاستوں میں اسلامی تحریکات کے کردار کے بارے میں Arye Odedکی کتاب Islam & Politics in Kenya (Lynne Rienner Publishers Inc. USA, 2000) کا مقدمہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ اس ضمن میں Hugh Roberts کی کتاب The Battlefield Algeria (1988-2002) جو 6-Meard Streat Londonسے 2003ء میں شائع ہوئی)، Ceasar E. Farahکی ISLAM جو Barran's Educational Sciences Inc. NYنے 2003ء میں شائع کی، Fereydoun Hoveydaکی The Broken Cresent (Praeger Publishers, USA, 1998) اور Encyclopedia of Terrorismشائع شدہ Sage Publishers Inc. USA, 2003بھی نہایت اہم اضافے ہیں جن سے استشراقی فکر کا اندازہ لگانا آسان ہوجاتا ہے۔
مکالمہ بین المذاہب کے حامی مستشرقین نے بھی اپنی تحریرات میں اسلامی تحریکات کے کردار کا ذکر کیا ہے اور اسلامی مملکتوں کو ان کی اصلاح کی تجاویز دیتے ہوئے اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ اس کے بعد بین المذاہب مکالمہ میں حائل رکاوٹیں کم ہو سکتی ہیں۔ دی اسلامک فاؤنڈیشن امریکہ نے 1998ء میں ایسی ہی ایک رپورٹ Christian Mission and Islamic Dawahکے نام سے شائع کی۔
Karen Armstrongکا شمارمستشرقین کے اعتدال پسند طبقہ میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلام کو قریب سے دیکھا اور پھر اس کی حقانیت کا اقرار اپنی تحریرات میں بجا طور پر کیا ہے۔ انہوں نے Muhammad: A Western Attempt to Understand Islamمیں بھی اسلامی تحریکات کی خصوصیات ذکر کی ہیں۔یہ کتاب Victor Gollanczنے 1992ء میں لندن سے شائع کی۔ انہی اعتدال پسند مستشرقین میں سے Cragg Kennethکی Call of Minaretہے جس کو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے نیویارک سے 1956ء میں شائع کیا تھا۔ اسی طبقہ سے Morman Daniel بھی ہے جس کی تصانیف Islam and the West: The Making of an ImageاورThe Arabs and the Medieval Europe بالترتیب آکسفورڈ سے 1960ء اور Longman Londonسے 1979ء میں شائع ہوئیں۔
Albert Houraniنے بھی اسلامی تحریکات وسیاست کا جائزہ لیا ہے- اس کی ایک تصنیف Europe and Middle East کے عنوان سے لندن سے 1980ء میں شائع ہوئی۔ اس کی دوسری تصنیفWestern Attitudes towards Islamیونیورسٹی آف ساؤتھ ایمپٹن سے 1974ء میں شائع ہوئی۔ Houraniکی کتاب Islam in European Thoughtبھی مغربی فکر کا اندازہ لگانے میں مددگار ہے۔ مؤخر الذکر کو کیمبرج یونیورسٹی پریس نے 1989ء میں شائع کیا۔
1957ء میں Princeton University Pressنے Wilfred Smithکی کتاب Islamic Movements in Modern Historyطبع کی۔1962ء میں ہارورڈیونیورسٹی پریس نے R.W.Southern کی Western Views of Islam in Middle Agesشائع کی۔ اسی طرح مشہور مستشرق Montgomery Wattکی تصنیف Islamic Fundamentalism and Modernity میں بھی، جو لندن سےKen Paulنے 1988ء میں شائع کی، اسلامی تحریکات کو بنیاد پرست اور دہشت گرد کہا گیا ہے۔ ایسے ہی خدشات وتحفظات کا اظہار اس نے اپنی کتاب Ultimate Vision and Ultimate Truthمیں کیا ہے جس کو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے 1995ء میں شائع کیا۔
اسلامی انقلاب کے خطرے پر لکھی گئی تصانیف میں Quintan Wiktorowiczکی Islamic Activisim: A Social Movement Theory Approach (شائع کردہ Indiana University Press, 2004ء )، Will Wagnerکی How Islam Palns to Change the World (شائع کردہ Kregel Publications, USA 2004)، Zachary Abuzaکی تصنیف Militant Islam in Southeast Asia (شائع کردہ Lynne Rienner Publishers USA 2003)، Barry Rubinکی Revolutioneries and Reforms: Contemporary Isalmist Movements in the Middle East (شائع کردہ State University of New York Press USA, 2003)، Yoram Schweitzerاور Shaul Shay کی مشترکہ تحقیق The Globalization of Terror (شائع کردہ The interdisciplinary Center USA) اور Max.Taylor اور John Horganکی مشترکہ تحقیق The Future of Terrorism (شائع کردہ Frank Cass Publishers London 2000) قابل ذکر ہیں۔
امتِ مسلمہ کی طبقاتی تقسیم بھی استشراق کا ایک اہم ہدف رہا ہے چنانچہ 2003ء میں Rand Corporation USA کی طرف سے82صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ میں مسلمانوں کو (۱)بنیاد پرست(۲)روایت پسند(۳)جدت پسند اور(۴)سیکولر طبقوں میں تقسیم کر کے ہر ایک طبقہ کی تنظیموں کے بارے میں ایک تفصیلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے اور ان کے حسبِ حال پالیسیاں ترتیب دینے کی سفارشات کی گئی ہیں۔یہ رپورٹ Civil Democratic Islamکے نام سے شائع کی گئی ہے۔
اسلامی تحریکات ومکاتبِ فکر کے بارے میں قدیم وجدید استشراقی فکر ورجحانات کے دفاع میں مسلم محققین نے بھی اپنی تصانیف میں جزوی طور پر بحث کی ہے۔ اس ضمن میں سید حسین نصر نے اپنی کتاب ’’جدید دنیا میں روایتی اسلام‘‘ میں، جو ادارہ ثقافتِ اسلامیہ لاہور نے 1996ء میں اردوزبان میں شائع کی، روایتی اسلام اور اس کے احیا کے لیے مصروفِ عمل تحریکات ومکاتبِ فکر پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی ہے۔ تاہم یہ کتاب جدید استشراقی رجحانات کے پروان چڑھنے سے پہلے تصنیف کی گئی۔
Muhammad M. Hafeezکی تصنیف Why Muslims Rebel?قابل ذکر ہے جو Lynne Rienner Publishersنے امریکہ سے 2004ء میں شائع کی۔ اسی طرح پروفیسرخورشید احمد کی کتاب Islam and the West میں بھی، جو اسلامک پبلی کیشنز لاہور نے 1979ء میں شائع کی، جزوی طور پر مغربی افکار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ڈاکٹر غراب احمد عبدالحمیدنے ’رؤیۃ اسلامیۃ للاستشراق‘ میں جس کو دارالاصالۃ للثقافۃ والنشر والاعلام الریاض نے ۱۹۸۸ء میں شائع کیا، دین اسلام کے بارے میں استشراقی افکار پر بحث کی ہے۔ ڈاکٹر زقزوق محمود حمدلی نے ’الاستشراق والخلفیۃ الفکریۃ للصراع الحضاری‘ نامی تصنیف میں جدید مغربی استعمار اور دیگر تہذیبوں پر اس کے حملوں کے متعلق تفصیل بیان کی ہے۔ اس کتاب کو دارالمنار القاہرۃ مصرنے ۱۹۹۹ء میں شائع کیا۔ ڈاکٹر اسماعیل سالم عبد العال کی تصنیف ’المستشرقون والاسلام‘ استشراقی افکار کو سمجھنے میں اہم ماخذ ہے جس کو رابطۃ العالم الاسلامی،مکہ مکرمہ نے ۱۹۹۰ء میں شائع کیا۔ ڈاکٹر دیاب محمد احمدنے ’اضواء علی الاستشراق والمستشرقین‘ میں استشراقی اہداف ومقاصد کو مرکز بحث بناتے ہوئے ان کے اندازِ فکر پر کلام کیا ہے۔اس کو دارالمنار قاہرۃ مصرنے ۱۹۹۹ء میں شائع کیا۔ زکریا ہاشم زکریاکی ’الاسلام والمستشرقون‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس کو المجلس الاعلی للشؤن الاسلامیۃ، مصرنے ۱۹۶۵ء میں شائع کیا۔ اسی سلسلہ میں حسب ذیل تصنیفات بھی اہمیت کی حامل ہیں:
ڈاکٹرمصطفی السباعی، ’الاستشراق والمستشرقون‘، مکتبۃ دارالبیان، الکویت،س۔ن۔
شلبی عبدالجلیل، ’صورٌ استشراقیۃ‘، مجمع البحوث الاسلامیہ ،۱۳۹۸ھ۔
المطعنی عبدالعظیم محمد الدکتور، ’افتراء ات المستشرقین علی الاسلام‘، المکتبۃ الوہبۃ قاہرہ مصر، ۱۹۹۲ء۔
نجیب العقیقی، ’المستشرقون‘ :دارالمعارف ،قاہرہ، ۱۹۶۵ء۔
مغربی مفکرین نے اسلامی تحریکات کے لیے عموماً اور شدت پسند تنظیموں کے لیے خصوصاً ایک مخصوص رجحان کو ترقی دی کہ ایسی تحریکات انسانیت کی بقا کے لیے خطرہ ہیں لہٰذا ان کا سدّباب ضروری ہے۔ انسانی کمزوریوں کو نظر انداز کر دینے کی یہی وہ خطرناک سوچ تھی جس سے نہ صرف مستشرقین بلکہ بعض جدت پسند مسلم مفکرین نے بھی اِن تحریکات کے خلاف جانبدارانہ بلکہ متعصبانہ رویہ اپنایا۔ اگرچہ اس حقیقت سے انکار کی گنجایش نہیں کہ ان تحریکات میں بھی بعض نے خلافِ مصلحت حد سے زیادہ شدت کا مظاہرہ کیا جس کے نتائج دیگر اصلاحی تحریکات کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں کو بھی بھگتنا پڑے، تاہم ہمیں مغربی طرزِ فکر اوررجحان کو بھی انصاف پسندی کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ زاویہ نگاہ مزید ایسے رجحانات کو جنم دینے کا ذمہ دار ہے جو امنِ عالم کے لیے ہرگز موزوں نہیں۔ درحقیقت دوسری جنگِ عظیم اور اس کے بعدپیدا ہونے والے حالات مغربی تسلط کی مخالف اسلامی تحریکات کے دوبارہ احیا کا باعث بنے۔ 
گزشتہ صفحات میں ذکر کی گئی کتب کے علاوہ اور بھی بہت سی استشراقی کتب سے اسلامی تحریکات ومکاتبِ فکر کے بارے میں مغربی طرزِ فکر واضح ہوتا ہے اور اسی طرزِ فکر کی روشنی میں مغربی ریاستوں کو مسلم ممالک کے متعلق پالیسیاں ترتیب دینے کی سفارشات کی جاتی ہیں۔ بدقسمتی سے مسلم دانشور شعوری یا غیر شعوری طور پر اس سے غفلت برت رہے ہیں جس سے مغرب میں اسلام کا امیج بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے اورنتیجتاً مسلم ممالک پر مغربی یورش میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہورہا ہے۔
دورِ حاضر میں مسلم امہ کا یہ المیہ ہے کہ وہ اپنی عظمتِ رفتہ کی بحالی اور نشاۃ کے لیے کسی مجموعی لائحہ عمل اوراجتماعی طرزِ فکر کو اختیار کرنے سے گریزاں ہے۔ اس کے برعکس مغرب ایک طرف اپنی ہمہ جہت صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مزید سے مزید برتری پیداکرتا چلا جارہا ہے اور دوسری طرف عالم اسلام کی تحریکوں اور مغرب کے فکری یا تہذیبی چیلنج کے مقابلہ کا پیغام کرنے والے گروہوں کے بارے میں متنوع اسالیب سے مصروفِ عمل ہے۔ ایسی صورتحال میں پہلے قدم کے طور پر مسلم امہ میں ذہنی وفکری بیداری کا پیدا ہونا ازبس ضروری ہے ۔ چنانچہ اولاً ہمیں ان فکری رجحانات ومیلانات کا جائزہ لینا ہوگا جو مغربی مفکرین ومستشرقین اسلامی دنیا اور اس کی تحریکات کے بارے میں اپنے ذہنوں میں رکھتے ہیں اور جن کی اصلاح ہونے کے بجائے ان میں مزید شدت آرہی ہے۔ گیارہ ستمبر کے واقعے نے اس میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس کے بعد اسلام کو ’دہشت گرد اسلام‘ اور ’امن پسند اسلام‘ کے خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ ثانیاً ان فکری رجحانات کا جائزہ لے کر مغرب میں اسلام کی درست صورت گری کی جائے تاکہ مغرب کے ساتھ افہام وتفہیم کا راستہ آسان تر ہوسکے جس کے نتیجہ میں گلوبلائزیشن کے عمل کو مثبت انداز میں تقویت پہنچے۔ مزید براں مسلم دانشوروں اور حکومتوں کو اس امر کا احساس ہونا چاہیے کہ وہ اسلامی تحریکات کے کردار کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیں اور ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کرتے ہوئے ان کے بارے میں غلط پروپیگنڈے کی تحقیقی انداز میں مذمت اور ان کے مثبت پہلوؤں اورتحفظات کو اجاگر کرنے کے بعد مغربی اندازِ فکر کو تبدیل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ 
مغربی سوچ اورفکر کا جائزہ لے کر اس کے نقائص سے تحقیقی دنیا کو روشناس کرانا اور اس کے بعد مسلم تھنک ٹینکس کو درست سمت میں پالیسی سازی کے لیے راہنمائی فراہم کرنا محققین اور علما کی بھی ذمہ داری ہے۔ اس کے بعد ہی اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ ہم اسلام کے بارے میں مغربی سوچ اور طرزِ فکر کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے اور اسلام کی حقیقی صورت گری ممکن ہوسکے گی۔ تبھی اس قابل ہوں گے کہ مغرب کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرسکیں اور یہی ہماری نشاۃ ثانیہ کا نقطۂ آغاز ہوگا۔ ان شاء اللہ

پاکستان میں اسلامی نظام کی جدوجہد اور اس سے وابستہ اصولی اور اخلاقی تصورات

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

پاکستان کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ یہ بنا اسلام کے نام پہ۔ پر پہلے دن سے وہاں اسلامی نظامِ حکومت کے لیے اس انداز کی جدوجہد چل رہی ہے جیسے حکمرانوں کے لیے یہ نظام ایک ناقابلِ قبول چیز ہو! ابتدائی دنوں کی سخت جد و جہد کے بعد اتنی کامیابی اس سلسلہ میں ملی کہ دستور ساز اسمبلی نے’’قراردادِ مقاصد‘‘ نام کی ایک قرارداد پاس کردی۔ یہ گویا ملک کے لیے اسلامی دستور کا سنگِ بنیاد ہوا۔ مگر پھر دستور بننے میں وہ لوہے لگے کہ کہیں ۱۹۷۳ء میں جا کے یہ ہو سکا۔یعنی پاکستان کے قیام پر ایک چوتھائی صدی گزرنے کے بعد۔ یہ دستور بہر حال ایسا بن گیا کہ جو طبقہ اسلامی نظامِ حکومت کی جد و جہد کر رہا تھا، اس نے بھی ضرورت کی حد تک اسے قابلِ قبول مان لیا۔لیکن جتنی بھی حکومتیں اس دستور کے ماتحت بنیں، ان میں سے کسی کا بھی طرزِ حکومت اس طبقہ کے لیے اطمینان بخش نہیں رہا ۔ اسلامی نظام (یا نظامِ مصطفےٰ ) کے نام پر آویزش کا ایک سلسلہ حکومتِ وقت کے ساتھ آج مزید ایک چوتھائی صدی گزرجانے پر بھی برابر قائم ہے۔ اور اس آویزش میں وہ نئے نئے طریقے برتنے کا تجربہ یہ اسلام پسند طبقہ کرتا نظر آرہاہے کہ اس کے مقصد سے ہمدردی کے ساتھ یہ طریقے کسی طرح اس کے مقصد سے ہم آہنگ نہیں دکھائی دیتے۔ نظر ایسا آنے لگا ہے جیسے ،کم از کم فی الحال ،یہ لوگ اسلامی حکومت کے بارے میں اپنے اصل نظریہ کی کامیابی سے مایوس ہو چکے۔ اب مسئلہ کسی نہ کسی طرح بس برِ سرِ حکومت آجانے کا ہے۔ پس وقت ہے کہ اس اسلام پسند طبقہ کو معاملہ کے اس پہلو پر توجہ دلائی جائے۔ 
نیت نیک ہو سکتی ہے، اُس سے بحث نہیں۔ مگر ذرا غور کرنے کی بات ہے ، جنرل مشرف نے نواز شریف کا تخت اُلٹا تو اس پورے اسلام پسند طبقہ کو اس پر نہایت خوش ہوتے دیکھا گیا۔ وقت بدل گیا اور جنرل مشرف سے بات بننے کے بعد بگڑ گئی اور بظاہر وہاں پہنچ گئی کہ اب پھر بننے والی نہیں، تو اس طبقہ کے نمائندے لندن میں انھیں نواز شریف صاحب سے یکجہتی کا اظہار کرنے پہنچ رہے ہیں۔ (معلوم ہے کہ شریف برادران آج کل لندن میں ان ارادوں کے اظہار کے ساتھ فروکش ہیں کہ وہ اب پاکستانی سیاست میں حصہ لینے کے لیے واپس آرہے ہیں۔)نواز شریف کا تخت اُلٹ جانے پر خوشی کا سب سے اہم باعث ،یا حوالہ، ان کی وہ مخالفِ اُسامہ و طالبان پالیسی تھی جوکارگل قصہ کے سلسلہ میں واشنگٹن سے واپسی پربالکل ایک یو(U) ٹرن کے ا نداز میں موصوف نے اپنائی۔ اور پھر یہی پالیسی جب جنرل مشرف نے امریکہ کی معاونت میں ۲۰۰۱ء میں اپنالی تو اس طبقہ کے سب عناصر نے مل کر آنے والے الیکشن کے لیے ایک مشرف مخالف محاذ ’’متحدہ مجلسِ عمل‘‘ کے نام سے بنا یا اور اسی ( امریکہ دوست اُسامہ دشمن) پالیسی کے حوالہ سے ۲۰۰۲ء میں جنرل مشرف کی مسلم لیگ کے خلاف الیکشن لڑکرکامیابی کاوہ درجہ حاصل کیا کہ دوسروں کو تو اس کا اندیشہ کیا، خود کو بھی اتنی امید نہ رہی ہو گی۔پیپلز پارٹی تک پیچھے رہ گئی۔ لیکن اس کامیابی کے فوراً بعد کیا دیکھنے میں آیا؟ یہ کہ یہ کوشش شروع ہوئی کہ امریکہ اور مغربی ممالک اِن لوگوں کو اسامہ اور طالبان کی نظر سے نہ دیکھیں۔محاذ کی قیادت نے جماعتِ اسلامی کے مرکز منصورہ میں ان ممالک کے سفرا کو اس مقصد کے لیے مدعو کیا ۔اس اجتماعِ سفرا کی جو رپورٹ اخبارات میں آئی، وہ سوائے اس کے کوئی دوسرا تأثر اس کے مقصد کے بارے میں نہیں دیتی تھی۔ تو کیا یہ ابن الوقتانہ(ان الفاظ کے لیے معذرت) طور طریقے ذرا ایک بھی بے نظیر اور نواز شریف جیسے خالص سیاسی لوگوں کے طور طریقوں سے مختلف ہیں؟ اور کیا ان خالص سیاسی لوگوں کے مقاصد کی راہ اور کاروانِ نظامِ مصطفےٰ کے مقصد کی راہ ایک بھی ہو سکتی ہے؟ اور اسی ایک راہ سے منزلیں دونوں کوالگ الگ بھی مل سکتی ہیں؟
اچھا توپاکستان جو اسلام کے نام پر بنا، اس میں’’ اسلام کی حکومت ‘‘قائم نہ ہو سکنے کا آخر وہ مسئلہ کیا ہے کہ اس حکومت کے علمبرداراپنی جد و جہد میں ہرڈھنگ آزماتے آزماتے وہاں نکل گئے ہیں جہاں اس قافلہ کے ایک سالار کو غالب کا یہ شعر حسبِ حال نظر آنے لگ گیاتھا: 
ہاں اہلِ طلب کون سنے طعنۂ نا یافت 
دیکھا کہ وہ ملتا نہیں اپنے ہی کو کھو آئے 
اللہ جانے کیوں لوگوں کی نظر نہیں جاتی ،یا جان کر انجان بنا جارہا ہے ۔بات تو بالکل سامنے کی ہے! اسلام کے نام پہ بے شک یہ ملک بنا تھا۔ مگر کون سا اسلام؟ مولانا محمد قاسم نانوتوی والا؟مولانا مودودی والا؟یا سر سید اور مسٹرمحمد علی جناح والا اسلام؟ اگر یہ پہلے دو میں سے کسی کا ’’اسلام‘‘ ہوتاتو حضرت مولانا حسین احمد مدنی یہ نہ کہہ رہے ہوتے کہ پاکستان کا رقبہ تو بہت چیز ہے، ہمیں اگراس کے کسی ایک شہر اور کوچہ کے بارے میں بھی یقین ہو کہ لیگی قیادت وہاں اسلام قائم کرے گی تو ہم خیمہ بردار ہو کے چلیں، اور نہ مولانا مودودی اپنے ان لوگوں سے جو پٹھانکوٹ میں اُنھیں سمجھانا چاہ رہے تھے کہ پاکستان بننے سے تو ہمارا کام بڑا آسان ہو جائے گا پس ہم اس کی تائید کریں، یہ فرماتے کہ تم نیبو کے درخت سے آم کھانے کی توقع کرتے ہو! وہاں اسلام کی بات کرنے والوں کو پھانسیاں ملیں گی۔ (اور مولیٰنا تو واقعی پھانسی سے بس بال بال بچے)۔
پاکستان بنوانے والی اصل طاقتیں دو تھیں۔ ایک قائدِ اعظم مسٹر جناح کی ذات ،دوسرے علی گڑھ ۔ دوسرے الفاظ میں کلیدی رول ان کا تھا، باقی بس حمایت یا زینت۔ اور یہ ان دونوں کے تصورِ اسلام ہی کا قصہ تھا جس نے حضرت مدنی اور مولا نا مودودی سے وہ باتیں کہلوائیں ،( یہاں یہ نہ بھولیے کہ یہ ۱۹۴۷ ء سے پہلے کا علی گڑھ تھا ،کوئی آج کے علی گڑھ پہ نہ جائے، آج تو وہاں کی دنیا ہی بدلی ہو ئی ہے۔ پریہ بدلا ہوا علی گڑھ ہندوستان کے حصہ میں آیا ہے۔) خیر،مگر اس کو کیا کیجئے ! کہ دو ہی سال کے اندر جب پاکستان وجود میں آگیا اور مولانا مودودی کو پٹھانکوٹ سے ہجرت کرکے وہاں آنا پڑگیا تواس پاکستان نے ان سے خود ان کی بات کا یقین چھین لیا۔ اور جو کچھ وہ اس نیبو کے درخت سے آم کھانے کی کوشش میں کر سکتے تھے، اس میں کوئی دقیقہ اُٹھا کے انھوں نے نہیں رکھا۔ اسی میں ان کا ساتھ چھوڑتے ہوئے غالب کا وہ اوپر کا شعر مولانا امین احسن اصلاحی کو یاد آیا تھا۔ پر خوشی کی بات ہے کہ بالآخر(اگرچہ ذرا بعد ازوقت) مولیٰنا مودودی کو بھی احساس ہوگیا کہ وہ سراب کے پیچھے دوڑتے اور لوگوں کو دوڑاتے رہے اور اب ان کا فرض ہے کہ اس کا اظہار کردیں۔ اس قابلِ تحسین واقعہ سے ہم باہر لوگوں کو واقف کرانے کی نیکی مولانا کے ایک زمانہ کے پیرو جناب ارشاد احمد حقانی کے قلم سے انجام پائی۔یہ موصوف کے ایک قسط وار کالم کا حصہ تھا جو یکم تا ۵ نومبر۲۰۰۰ء روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔ مولانا نے اس کے مطابق اپنی جماعت کی شوریٰٗ میں اس مضمون کی ایک قرار داد پاس کرانی چاہی تھی کہ ہم پاکستان بننے کے بعد سے ایک غلط راستہ پر چلتے رہے۔ اب ضرورت ہے کہ اپنی صحیح راہ پر واپس جائیں۔مگر یہ وہ وقت (۷۲ء) تھاکہ مولانا کے قویٰ جواب دے رہے تھے۔ وہ اَمارت بھی چھوڑ چکے تھے۔ ۵۷ ء ؁ کا ماچھی گوٹھ والا رول اب وہ ادا نہیں کرسکتے تھے۔ رفقا حامی نہ ہوئے اور وہ بے بس ہوکے رہ گئے۔اللہ مغفرت فرمائے۔
الغرض مسئلہ میں ایک تویہ بنیادی عامل(فیکٹر) علی گڑھ والے اور قائدِ اعظم والے اسلام کا ہے۔ آپ اس سے تجاہل برت کر اس کو کالعدم نہیں کر سکتے۔ یہ ایک گہرا فکری عامل ہے۔ یہ پاکستان کی جڑوں میں پلایا ہوا ہے۔یہ آپ کے والے (یعنی’’ ملّا ‘‘والے) اسلام کی ہر قیمت پر مخالفت کرے گا۔ اس تصورِ اسلام کے لو گ آ پ کی جد و جہد کو اپنے حق پر ڈاکہ ڈالنے کی ایک کوشش سمجھیں گے۔ اس کے ما سوا ایک دوسرا بڑا مخالف عامل پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی اور دَرآیا تھا۔ اور یہ وہ ہے جس کا کھلا اعتراف خود اس اسلامی محاذ نے منصورہ کا مذکورۂ بالا اجتماعِ سفراء بلاکر کر لیا۔یعنی پاکستان کے معاملات میں مغرب اور بالخصوص امریکہ کا فیصلہ کُن عمل دخل۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ پاکستان کے ایک ابتدائی قدم نے اُسے ایسا امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا تھاکہ کوئی حکومت وہاں امریکہ کی مرضی کے بغیر جب سے نہیں بنتی اور نہیں چلتی۔مثالیں اتنی ہیں اور آئے دن دہرائی جا تی ہیں کہ اس اشارہ سے وہ یکایک ذہنوں میں آجائیں گی ۔پس علی گڑھ اور قائدِ اعظم کے تصور اسلام والے لوگ اگراز خود یا کسی دباؤ سے کچھ نرمی بھی اس مسئلہ پر برتنا چاہیں تو مغرب انھیں اجازت نہیں دینے والا۔ اور یہ غریب کہاں سے مزاحمت کاحوصلہ لا سکتے ہیں جب امریکہ دشمنی کے نعروں پر الیکشن جیتنے والے بھی اس کوشش میں لگے نظر آئیں کہ ان کے نعرے بھلا دیے جائیں؟ 
یقین ہے کہ یہ نعرے بھلا دیے جانے کی کوشش محض ایک سیاسی مجبوری کے طور پر تھی نہ کہ دل سے۔اورکسی کو اگر شبہ رہا ہو تو ابھی مارچ کے مہینہ میں کارٹونوں کے مسئلہ پر احتجاج کو ان حضرات نے کارٹونوں سے زیادہ ا مریکہ و یورپ کی سیاست کے خلاف فضا بنانے کے لیے جس زور شور سے استعمال کیا، اس کے بعدکسی کا شبہ بھی قائم نہیں رہنا چاہئے، مگر یہ بات بہر حال طے ہو جاتی ہے اور اس کے ماننے سے مفر نہیں کہ پاکستان میں فی الحال(اور یہ ’’فی الحال‘‘مختصر قسم کی چیز بظاہر نہیں) امریکہ اور یورپ کی رضا کے بغیر کوئی حکومت کا خواب دیکھے گا تو وہ خود کو دھوکہ دے گا۔اور ان کی مرضی سے آکر اسلام نافذ کرنے کا خواب دیکھنے والا اس سے بھی بڑھ کر دھوکہ کھانے کا شوقین ہوگا۔ پس ایک طرف باہرکی ان غیر مسلم طاقتوں کانفوذ اور دوسری طرف پاکستان کی تأسیس میں پلایا ہوا لبرل اسلام، اِن دو اندرونی اور بیرونی مزاحم عوامل (مزید برآں وڈیرے اور جاگیرداران) کے ہوتے ہوئے سیاست کی راہ سے اسلام کو سیاسی طاقت بنانے کی کوشش صرف اپنی قوتوں کاضیاع ہی نہیں، اسلامی جد و جہد کے نام سے وابستہ اعلیٰ اصولی اور اخلاقی تصورات کو بھی لازماً مجروح کرکے رکھ دینے والا عمل ہے۔
دنیا میں رہ کر سیاست سے مفر یقیناً نہیں ہے، خاص کر جب کہ ملک کی سیاست انتخابی ہو۔ مضائقہ جو کچھ ہے وہ (مذکورہ قسم کی صورتِ حال میں) اسلام کو اس میدان میں لے کے آ نے میں ہے۔آخر کیوں ضروری ہے کہ ہم اسلامی نظام کا علم لے کر ہی سیاست میںآئیں؟مگر نہیں ،یہاں ہمیں متحدہ مجلسِ عمل کی اکائیوں میں سے جماعتِ اسلامی کو اس سوال سے باہر رکھنا ہوگا۔ وہ اسلام کی اس تعبیر پر ایمان رکھتی ہے جو اسے مولانا مودودی سے ملی۔اوروہاں اس معاملہ میں شدت کا یہ عالم تھا کہ مصر کے کاروبارِ حکومت میں حضرت یوسف علیہ السلام کی شرکت کو ہمارے مفسرین نے جو بغیراس مفروضہ کے لے لیا کہ آپ نے سلطنت کے ہول سول اختیارات حاصل کر لیے تھے، اس پر مولانا نے اِن مفسرین کے بارے میں جو تبصرہ اپنی تفسیر میں رقم فرمایا ہے، اس پریقین اس کے بغیر آنا مشکل ہے کہ بعینہٖ الفاظ نقل کر دیے جائیں۔مولیٰنا کے الفاظ یہ ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ اس مقام کی تفسیر میں دورِ انحطاط کے مسلمانوں نے کچھ اسی ذہنیت کا اظہار کیا ہے جو کبھی یہودیوں کی خصوصیت تھی۔ یہ یہودیوں کا حال تھا کہ جب وہ ذہنی و اخلاقی پستی میں مبتلا ہوئے توپچھلی تاریخ میں جن جن بزرگوں کی سیرتیں ان کو بلندی پر چڑھنے کا سبق دیتی تھیں، ان سب کو وہ نیچے گراکر اپنے مرتبہ پر اتار لائے تاکہ اپنے لیے اور زیادہ نیچے گرنے کابہانہ پیدا کریں۔۔۔۔‘‘ (تفیہم القرآن، حاشیہ آیت ۵۵) 
پس ٹھیک ہے جماعت کو تو عذر ہو سکتا ہے۔ مگر باقی لوگوں ،خاص کرمجلسِ عمل کی سب سے بڑی اکائی جو جمعیۃ علمائے اسلام سے عبارت ہے،اس کے لیے کو ئی دقت نظر نہیں آتی۔ وہ جن بزرگوں کی دینی تشریح کے ماننے والے ہیں، وہ توایک زمانہ تک صد فی صداسلامی حکومت کے سوا سیاست کا کوئی تصورنہ رکھنے اور اس کی راہ میں ہر بازی کھیلنے والوں میں سے ہونے کے باوجود جس دن اس نتیجہ پر پہنچے کہ فی الحال یا کم پر راضی ہوجانا ورنہ تن بہ تقدیر گوشہ میں بیٹھ جا نا ہے، اسی دن وہ شرحِ صدر کے ساتھ اس پر تیار ہوئے کہ ملک (ہند) میں ایسے نظامِ حکومت کی جد وجہد کریں جس میں اسلامی احکام اگرچہ نافذ نہ ہوں، مگر مسلمانوں کواپنی انفرادی اور معاشرتی زندگی اسلام کے مطابق رکھنے،اسلام کا پیغام پھیلانے اور ان کاموں کے لیے ضروری ادارے قائم کر نے کی آزادی ہو۔اور پھریہ جدو جہد ان کی نگاہ میں ایسا فریضہ ٹھیری کہ گو وہ جانتے تھے مسلم لیگ کے اسلامی حکومت کے نعرہ کے مقابلہ میں وہ جیت نہیں پاویں گے اور بحیثیت علمائے دین کے جو وقار انھیں حاصل رہا ہے، اس کو بھی وہ خطرہ میں ڈالیں گے، ہندو سے پیسے لینے کا ذلیل الزام بھی ان پر لگا، اور ہاں مولانا مودودی کا حکومتِ الٰہیہ کی جد و جہد والا فکر بھی انھیں چیلنج کرنے کو سامنے آچکا تھا، مگران میں سے کسی بات کا خوف اور دباؤ ان کے پاؤں میں لغزش نہیں پیدا کرسکا۔ اورآج حالات ببانگِ دُہل شہادت دے رہے ہیں کہ یہ سوچ بالکل صحیح تھی۔فکرِ مودودی کے جو وارثین بھارت میں رہ گئے تھے، چالیس برس تک اسی فکر کا پرچار کرتے رہنے کے بعد عملاً اس حقیقت سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ وہاں سیاست کی راہ سے اسلام کو غالب کرنے کی جد وجہد محض اُلٹا نتیجہ پیداکرنے والا(Counter Productive) عمل ہے ۔پس پاکستان میں بھی جب حالات کی زبان مسلسل پکار رہی ہے کہ دین کو سیاست میں لانے کے لیے وقت سازگار نہیں توبغیر اسلامی نظام کے نعرے کے سیاست میں حصہ لیجئے اور اس قدر ضرور لیجئے کہ دین مخالف عناصر کوبالکل بے مہار ہونے کا موقع نہ ملے، دینی عناصر سیاسی لحاظ سے بے دست و پا نہ پائے جائیں اور اپنے علاقوں میں خدمتِ خلق کے لیے کسی درجہ کا عمل داخل سیاست کے ایوان میں رہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام اور مصر کے کارو بارِ حکومت میں شرکت کی جو بات اوپرآگئی، اُسے غورسے دیکھا جائے تو وہ بھی بالکل صاف صاف بس ایک آنے والی قدرتی آفت اور خلقِ خداکے بیچ میں کھڑے ہوجانے کا رول تھا جس کا موقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو مہیّا کیا جارہا تھا۔اور اس میںیہ راز بھی تھا کہ خدمت کے اس فریضہ کی ادائیگی سے آپ کے لیے اپنے اُس کارِ نبوّت کی وسیع تر انجام دہی کی راہ اس دیارِ کفر میں کھلے گی جس کی ابتدا آپ نے جیل خانہ میں کردی تھی۔ اور پھر بات آگے بڑھ کر بچپن کے خواب ( ’’اِنّی رَأیْتُ الشَّمْسَ والْقمَرَ لی ساجِدِین‘‘) کے حقیقت کے سانچہ میں ڈھل جانے تک پہنچے گی۔ فَصَدَقَ اللہُ العظیم ۔شاہِ مصر کو اپنے ڈراؤنے خواب کی جو دل لگتی تعبیر صرف اپنے یہاں کے قیدی یوسفؑ سے ملی، اس نے اُس کے دل میں آپ کی وہ عظمت و منزلت قائم کی کہ کل تک جو قیدی تھا، اس سے بلا کسی درمیانی مرحلہ کے کہا جاتاہے ’’ اَنّکَ الْیَوْمَ لَدَےْنامَکِینُٗ اَمینُٗ ‘‘ (تم آج سے ہمارے یہاں صاحبِ منزلت اور صاحبِ اعتماد ہو !) تویہ محض تلافئ مافات نہیں تھی، شاہی خواب کے پس منظر میں یہ صاف طورپر بادشاہ کی (بادشاہانہ انداز میں) ایک درخواست بھی تھی کہ آنے والی قحط سالی کے مسئلہ سے نپٹنے کی ذمہ داری تم قبول کرلو !کیا اس پر اللہ کے نبی کو یہ جواب دے کرکہ ہاں ضرور، مگر پہلے گدّی خالی کردو، بادشاہ کے اس نہایت قیمتی اعتماد اور قدر و منزلت کو تباہ کردیناتھا (کہ اچھا ہم توکوئی مردِ خدا رسیدہ سمجھے تھے، پر آپ تو تخت و تاج کی تاک میں نکلے !) یا بے تأمل یہ پیشکش قبول کرتے ہوئے بس اس ذمہ داری کی ضرورت کے مطابق اپنے دائرۂ اختیار کی بات کرنا تھی؟ 
لاریب کہ اللہ کے نبی(علیہ الصلاۃ والسلام) کو یہ دوسری بات ہی زیبا تھی اور اسی مفہوم میں اس کو کہناتھا کہ: اِجْعَلْنی عَلیٰ خَزائِنِ الْاَرْضِ اِنِّی حَفیْظُٗ عَلیمُٗ! ہر گز ہر گز بادشاہ کا کفر اس سے مانع نہیں تھا کہ خلق خداکی ایک غیر معمولی آزمائش کو اپنی اہلیت کے بقدر ہلکا کرنے کا جو موقع اس سلطنت میں اس اعزاز و اعتماد کے ساتھ مل رہا ہے، اسے قبول کریں۔ مگر ہاں، مولانا مودودی کی مجبوری ان کا وہ فہمِ دین تھا جس کی ترجمان ان کی کتاب’’ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ ہے۔ اس فہم کی رو سے واقعی حضرت یوسفؑ کو پہلے اسلامی نظامِ حکومت کااختیار مانگنا تھا، پھر چاہے خدمت کا موقع رہتا نہ رہتا۔

آلودگی، دین فطرت اور ہم

پروفیسر شیخ عبد الرشید

آج کا دور آلودگی کا دور ہے۔ اس آلودگی کی تباہ کاریوں سے دنیا کو روشناس ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ پھر بھی جگہ جگہ اور بار بار یہ کہاجارہاہے کہ حضرت انسان کی طرف سے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کیے جانے والے نت نئے تجربات کے باعث زمین کی فضا اس قدر زہریلی اور خطرناک ہورہی ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہاتو جلد ہی فضا اس قدر مکدر ہوجائے گی کہ کرہ ارض پر حیاتیاتی زندگی کا امکان باقی نہ رہے گا۔ بعض سائنس دان تو اس حد تک مایوس ہوچکے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ کرہ ارض پر زندگی چند برس کی مہمان ہے۔ زندگی کی مختلف جہتوں میں آلودگی کا زہر جس طرح سرایت کرگیا ہے، اس کے پیش نظر کئی ماہرین حیاتیات کا خیال ہے کہ اتنا آلودہ فضا اور کثیف حالات میں انسان کا زندہ رہ جانا ہی ایک معجزہ ہے، تاہم وہ اس معجزے کے باوجود مستقبل کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں ہیں۔ چنانچہ اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ انسان کو مکمل تباہی سے کیسے باز رکھا جائے؟ بظاہر یہ بڑا سیدھا سا سوال ہے لیکن اگر اس سوال کو محض تکنیکی یا سائنسی سمجھا جائے تو یہ ایک ایسی غلطی ہوگی جس کے نتائج کا تحمل شاید نہ کیا جا سکے۔ سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ آلودگی پیدا کرنے والا انسان کس قسم کی حیاتیاتی، طبیعیاتی ،نفسیاتی اور جذباتی حالت میں ہے اور کیا آج کے انسان پر بھروسہ کیا جاسکتاہے کہ وہ زمین کو اس ممکنہ عذاب سے بچالے جو خود اسی کے ہاتھوں ظہور میں آنے ہے؟ 
تہذیب انسانی کے ہر دور میں جن باتوں کو تبدیلی کے طور پر محسوس کیاجاتاہے، ابتدا میں اکثر انہیں ترقی سمجھاجاتاہے، لیکن بعد میں انہیں مراجعت تصور کیاجاتاہے۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آجاتاہے کہ مبالغہ آمیزی شروع ہوجاتی ہے۔ آج سے پانچ چھ دہائیاں قبل نیوکلیر پاور کا پہلی بار تذکرہ ہوا تو یہ خیال کیا جانے لگا کہ اس ایجاد کی بدولت بجلی کی کوئی کمی نہیں رہے گی۔ بعض مغربی ممالک نے تو اس کے ذریعے سے پانی کو منجمد کرکے اسے افریقہ کے صحرائے اعظم تک پہنچانے کے دعوے شروع کردیے تھے۔ یہ پہلی منزل تھی، جسے ترقی کا نام دیا گیا، لیکن جب نیوکلیر پاور پلانٹ لگائے گئے تو پتہ چلا کہ انہیں ٹھنڈا کرنے کے لیے پانی کی بہت بڑی مقدار درکار ہوگی اور جب یہی گرم پانی خارج ہوگا تو وہ اس قدر زہر آلود ہوچکا ہوگا کہ پانی میں رہنے والی ہر جاندارشے تباہ ہوجائے گی۔ یہ دوسری یعنی مراجعت کی منزل تھی۔ چنانچہ اس کے پیش نظر کئی ناقدین ومخالفین نے یہ مطالبہ کرنا شروع کردیا کہ نیو کلیر پاور کے ذریعے سے بجلی پیدا کرنے کاسلسلہ ختم کردیا جائے۔ یہ تیسری منزل یعنی رد عمل کی انتہا تھی، ضرورت اس امر کی تھی کہ پانی کو ٹھنڈا کرنے کا کوئی نعم البدل تلاش کر کے نیوکلیر ری ایکٹر سے جو فائدہ ہوسکتاہے، اسے تو حاصل کیاجائے مگر اس کی وجہ سے جو آلودگی پیدا ہوتی ہے، اس سے بچاجاسکے۔
اسی مسئلے کو ایک اور تناظر میں دیکھا جائے تو واضح ہوگا کہ عصر حاضر میں اگر ایک طرف علم اور سائنس عروج پر ہے تو دوسری طرف مذہبی، روحانی اوراخلاقی اقدار زوال پزیر ہیں۔ اس اخلاقی وروحانی انحطاط نے آج کے انسان کو نفسیاتی مریض بنادیاہے۔ اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ مادی ترقی کی دوڑ میں اندھا دھند بھاگتے ہوئے انسان کے ذوق جمالیات میں تیزی سے کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ درحقیقت انسان کی جمالیاتی حس کی کمزوری ہی ذہنی، باطنی، فضائی اور ماحولیاتی بلکہ تمام اقسام کی آلودگیوں کا کلیدی سبب ہے۔ لہٰذا اگر ہم حقیقی معنوں میں کرہ ارض کو بچانے کے خواہش مند اور آلودگی کے خاتمے کے آرزو مند ہیں تو ہمیں انسانی روح کے اس روز بروز بڑھتے ہوئے سرطان کا علاج کرنا ہوگا جس نے ہمارے دلوں سے فطرت کے حسن وجمال کی قدر وقیمت اور احترام کو ختم کر دیاہے، کیونکہ محض سائنسی معلومات اور مادی وسائل کے سہارے تسکین قلب کا حصول ممکن نہیں۔ مشہور انگریز شاعر لارڈ ٹینی سن نے اپنی ایک نظم میں کیا خوب بات کہی تھی: 
Let knowledge flow from more to more
But more of reverence in us dwell 
یعنی علم میں جتنابھی اضافہ ہوتاجائے، وہ تو اچھاہے لیکن اس سے بھی زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں احترام کا جذبہ جاگزیں ہو۔ بلاشبہ ہمارے پاس بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم ممکنہ تباہی اورہولناکیوں سے محفوظ رہنے کے لیے آج کے انسان میں جمالیاتی حسن کو بیدار کرکے فطرت کے احترام کا جذبہ پیدا کریں۔ دنیا جب سے قائم ہے، دانش مندوں، مفکروں، فلسفیوں، علما، حکما اور پیغمبروں نے فطرت کے حسن وصداقت اور فضیلت کے اعتراف واحترام کے ذریعے سے ہی روح کے سرطان اورذوق جمالیات کے فقدان کا علاج کیاہے۔
لاریب! فطرت کی رنگینی حسن کامل کے جن اصولوں پر کار فرمارہتی ہے، ان کے بارے میں فکر وتدبر سے کام لیا جائے توہمارا دل دائمی احساس احترام پر مجبور ہوجاتاہے۔ صاحب بصیرت وبصارت جانتے ہیں کہ یہ کائنات جو بظاہر مادی دکھائی دیتی ہے، عملی اعتبارسے روحانی ہے۔ یہ درخشاں آسمان، زرخیز زمین، پہاڑوں کے تکیے، مہکتے ہوئے پھولوں کی گل کاریاں، شگفتہ غنچوں کی کیاریاں، بدلتے ہوئے موسم ومناظر، لہراتی ہوئی ندیاں،بل کھاتے دریا، اور شور مچاتی آبشاریں محض مفید ہی نہیں، ان کی خوبصورتی اور حسن ہمیں سرشار بھی کرتاہے۔ اسی لیے تو جان کیٹس کو کہنا پڑا کہ خوبصورت چیز دائمی مسرت کاباعث ہوتی ہے۔ فطرت کا حسن جہاں دل کو سکون اور راحت بخشتاہے، وہاں قلب ونظر کو تمام آلودگیوں اور گردوغبار سے بھی پاک کرتاہے۔ ممتاز قلمکار وکٹر ہیو گو نے اپنے عظیم شاہکار Les Miserablesمیں ایک پادری کاتذکرہ کیاہے جو اپنے علاقے کادورہ کرتے کرتے ایک ایسے مکان پر پہنچ گیا جو ایک پہاڑ کی چوٹی پر تھا اور وہاں سے ایک وادی نظر آتی تھی۔ جس شخص کا یہ مکان تھا، اس کے بارے میں گاؤں والوں نے پادری سے شکایت کی کہ یہ شخص اتنا غیر دیندار ہے کہ اتوار کے روز بھی گرجا گھر نہیں جاتا۔ چنانچہ پادری نے موقع پا کر اپنے میزبان سے اس سلسلے میں گفتگو کی اور پوچھا کہ تم آخر اتوار کے دن عبادت میں کیوں شریک نہیں ہوتے۔ اس پر اس شخص نے پشیمانی کا ا ظہار کرتے ہوئے کہاکہ ’’جناب! ہر رو زصبح کو جب میں اٹھتاہوں اور اپنے کی چھت سے سورج کو نکلتے دیکھتاہوں تو میرے دل سے بے ساختہ ایک آہ نکل جاتی ہے اور میں چپ چاپ کافی دیر تک قدرت کا یہ کرشمہ دیکھتا رہتا ہوں۔ ‘‘ یہ سن نے پادری نے اس شخص کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا اور بولا، میرے دوست جتنی بکواس میں کرتا رہتا ہوں، اس کے بجائے کاش میں بھی اس طرح خدا کی پرستش کرسکتا، جس جذبہ احترام کے ساتھ تم طلوع آفتاب کے منظر کو دیکھتے ہو۔‘‘ اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے مجھے عالمی شہرت یافتہ شاعر فطرت ورڈز ورتھ کے یہ خوبصورت خیالات یاد آرہے ہیں :
"Nature never did betray 
The heart that loved her; 'tis her privilege,
Through all the years of this our life, to lead
From joy to joy; for she can so inform
The mind that is within us, so impress
With quietness and beauty, and so feed
With lofty thoughts, that neither evil tongues,
Rash judgements, nor the sneers of selfish men,
Nor dreary intercourse of daily life
Shall ever prevail against us, or disturb
Our cheerful faith, that all which we behold
Is full of blessing."
’’فطرت نے کبھی اس دل سے بے وفائی نہیں کی جس نے اس سے محبت کی۔ صرف فطرت ہی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہمیں زندگی بھر مسرتوں سے ہمکنار کرتی رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہمارے دل ودماغ کو اس طرح سکون اور خوبصورتی سے متاثر کردیتی ہے اور ہمارے خیالات کو اتنا بلند کردیتی ہے کہ پھر کوئی بات بھی ہمارے اس عقیدے کو متزلزل نہیں کرپاتی کہ ہمارے گرد وپیش جوکچھ بھی دکھائی دیتاہے، ا س میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ پھر نہ تو لوگوں کی بدزبانی دل پر اثر کر پاتی ہے اور نہ خود غرض لوگوں کی طنز وحقارت۔ پھر زندگی کی بے کیفی بھی دل کو مغموم نہیں کر پاتی۔‘‘
صرف مغربی ادب ہی نہیں، خود ہماری مقدس آفاقی کتاب قرآن مجید میں غور کرنے والوں کے لیے چالیس ابواب میں فطرت اور حسن فطرت کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ سورۃ رحمن میں تو دریاؤں ،سمندروں ،پہاڑوں، ریگستانوں کی جانب اور ان سب چیزوں کے درمیان جو کچھ ہے، ان کی جانب اشارہ کیا گیاہے۔ ان چیزوں کودیکھتے ہوئے انسان ۲۳ مرتبہ ’’فبایّ الآء ربکما تکذبٰن‘‘ پکار اٹھتاہے۔ سنسکرت کی ایک کہاوت ہے ’’پنڈے سو برہمن ڈے‘‘ جس کا مطلب ہے کہ جو کچھ کائنات میں ہے، وہی تمھارے جسم میں ہے۔ اسی لیے تو ہمیں بار بار یہ بتایا جاتاہے اور بالکل صحیح بتایا جاتاہے کہ اسلام دین فطرت ہے اور ہاں،اگر اسلام دین فطرت ہے تو پھر احترام فطرت عین اسلام ہے۔ یہ بات ہم تمام بنی نوع انسان کو نہ سہی، صرف امت مسلمہ کو ہی باور کرانے میں کامیاب ہوجائیں تو یقین جانیے کہ ہرقسم کی آلودگی میں بے حد کمی واقع ہوجائے۔ جس دین کے پیغمبر اعظمﷺ نے صفائی کونصف ایمان قرار دیاہو، اس کے پیروکاروں کا جسم ،گھر، گلیاں اور محلہ غلیظ کیوں کرہوسکتاہے؟ اگر اسلام دین فطرت ہے تو پھر کیا دھویں او رغلاظت سے فضا اور پہاڑوں، ندیوں، نالوں اور حسن فطرت کو نقصان پہنچانے والے سچے مسلمان ہوسکتے ہیں؟ ہر مسلمان کے دل میں احترام فطرت کاجذبہ جاگزیں ہونا لازم ہے۔ ہمیں اپنی تعلیم وتبلیغ میں اسلام کے اس خوبصورت پہلو کاتذکرہ خوب کرناہوگا۔ ہم سب کا فرض ہے کہ یہ جذبہ پید ا کرکے ایمان کومضبوط بنائیں اور آلودگی کا خاتمہ کریں، کیونکہ دھیرے دھیرے ہمارے جسم میں دوڑتے ہوئے خون کی طرح آلودگی ہمارے ماحول کا حصہ بنتی جارہی ہے۔ یہ لکڑی میں دیمک کی طرح ہمار ے ماحول کو کھوکھلا کررہی ہے۔ اسے روکنا، اس کے خلاف جہاد کرنا ہم سب کا سماجی ودینی فریضہ ہے اور اگر ہم خدانخواستہ اسے روکنے میں ناکام رہے تو پھر وہ دن دور نہیں جب اس کرہ ارض پر آلودگی تو ہوگی، مگر انسان نہیں ہوگا۔

مسئلہ طلاق ثلاثہ اور فقہائے امت

مولانا افتخار تبسم نعمانی

اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بیک دفعہ تین طلاقیں دے دے تو کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟ اس مسئلے میں علماے اہل سنت میں ہمیشہ سے اختلاف رہا ہے۔ جمہور علما کے نزدیک یہ فعل (بیک وقت تین طلاق دینا) حرام ہے، تاہم اگر کسی نے ایسا کیا تو تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔ اس کے برعکس فقہا اور محدثین کی ایک قابل لحاظ تعداد اس کی قائل ہے کہ اس صورت میں ایک ہی طلاق واقع ہو گی ۔ تمام اہل علم ہمیشہ سے اس مسئلے کو ایک اختلافی مسئلے کے طور پر نقل کرتے آئے ہیں اور کسی نے اس پر اجماع کا یا اس میں اختلاف کی گنجایش نہ ہونے کا دعویٰ کبھی نہیں کیا۔ اکابر اہل علم کے حوالہ جات حسب ذیل ہیں:
امام طحاوی حنفیؒ اس مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فذہب قوم الی ان الرجل اذا طلّق امراتہ ثلاثا معا فقد وقعت علیھا واحدۃ اذا کانت فی وقت سنّتہ وذلک ان تکون طاہرا فی غیر جماع واحتجّوا فی ذالک بھذا الحدیث (شرح معانی الاثار ج ۲ ص۳۵)
’’ ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ مرد جب اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے تو ایک ہی طلاق واقع ہوگی جبکہ وقت سنت میں یعنی اس وقت دی گئی ہو کہ عورت پاک ہو اور اس سے ہم بستری نہ کی گئی ہو اور دلیل ان کی یہی حدیث ہے۔‘‘
امام صاحب کی مراد صحیح مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں وضاحت کی گئی ہے کہ عہد رسالت مآب ﷺ، عہد صدیقیؓ اور حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔
امام عینی حنفیؒ لکھتے ہیں :
وفیہ اختلاف فذھب طاوس و محمد بن اسحاق والحجاّج بن ارطاۃ والنخعی وابن مقاتل والظاہریۃ الی ان الرجل اذا طلق امراتہ ثلاثا معا فقد وقعت علیھا واحدۃ ،واحتجّوا بحدیث ابی الصہباء۔ (عمدۃ القاری ج ۲۰ ،ص ۲۳۳ طبع جدیدمصر) 
’’اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ امام طاوس ،محمد بن اسحاق، حجاج بن ارطاۃ، نخعی، محمد بن مقاتل اور ظاہریہ اس طرف گئے ہیں کہ جب آدمی اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے تو وہ ایک ہی شمار ہوں گی اور نہو ں نے مسلم شریف کی حدیث ابی الصہباء ؒ سے استدلال کیاہے۔‘‘
امام نووی شافعی ؒ لکھتے ہیں :
قد اختلف العلماء فیمن قال لامراتہ انتِ طالق ثلاثا ..... وقال طاؤس وبعض اہل الظاہر لا یقع بذلک الاّ واحدۃ وھو روایۃ عن الحجاّج بن ارطاۃ ومحمد بن اسحاق۔ (شرح صحیح مسلم ، ج ۱۰، ص ۷۰)
’’ اس میں اختلاف ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینے کاکیا حکم ہے ..... اور امام طاوس (تابعی) اور بعض اہل ظاہر اس کے قائل ہیں کہ اس طرح ایک ہی طلاق واقع ہوگی، اور یہی حجاج بن ارطاۃ ؒ اور محمد بن اسحاق بن یسار المدنیؒ سے مروی ہے‘‘۔
امام رازی شافعیؒ لکھتے ہیں:
ثم القائلون بھذا القول اختلفوا علی قولین، الاوّل وھو اختیارکثیر من علماء الدین انہ لو طلقہا اثنین او ثلاثا لا یقع الاّ الواحدۃ وھذا القول ھو الاقیس لان النھی یدل علی اشتمال المنھی عنہ علی مفسدۃ راجحۃ والقول بالوقوع سعی فی ادخال تلک المفسدۃ فی الوجود وانہ غیر جائز فوجب ان یحکم بعدم الوقوع (تفسیر کبیر، ج ۶ ،ص ۱۰۳،طبع جدید)
’’پھر اس قول کے قائلین میں اختلاف ہو گیا اور ان کے دو قول ہیں۔ ایک قول جو بہت سے علماے دین کا اختیار کردہ ہے، یہ ہے کہ اگر اس نے بیک وقت دو یا تین طلاقیں دیں تو صرف ایک واقع ہوگی۔اور یہی قول قیاس کے زیادہ موافق ہے کیونکہ کسی چیز کی ممانعت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ممنوع چیز میں فساد اور خرابی کا پہلو غالب ہے، جبکہ تین طلاقوں کو واقع مان لینے سے اس مفسدہ اور خرابی کو وجود میں لانے کی کوشش ہے جو جائز نہیں، لہٰذا عدم وقوع (یعنی بیک وقت تین طلاقوں کے نہ ہونے)کا حکم لگانا واجب اور ضروری ہے۔‘‘
امام فخرالدین رازی ؒ کے اس بیان سے دو باتیں واضح ہوئیں۔ ایک یہ کہ یہ مسلک زیادہ قرین قیاس ہے ۔دوسرے یہ کہ یہ مسلک شاذ مسلک نہیں بلکہ بہت سے علماے دین کا اختیار کردہ ہے۔
قاضی ابو الولیدابن رشد مالکی اندلسی ؒ لکھتے ہیں:
جمہور فقہاء الامصار علی ان الطلاق بلفظ الثلاث حکمہ حکم الطلقۃ الثالثۃ وقال اہل الظاہر وجماعۃ حکمہ حکم الواحدۃ ولا تاثیر للفظ فی ذالک (بدایۃ المجتہد ج ۲،ص،۶۱)
’’ جمہور فقہاے امصارکا کہنا یہ ہے کہ تین کے لفظ سے جو طلاق دی جائے گی، اس کا حکم تیسری طلاق کاہے، جبکہ اہل ظاہر اورایک جماعت کاقول ہے کہ اس کا حکم ایک طلاق کا حکم ہے اور تین کا لفظ یہاں غیر موثر ہے۔‘‘
اس بحث کے آخر میں لکھتے ہیں : 
کانّ الجمہور غلبوا حکم التغلیظ فی الطلاق سدّا للذریعۃ ولکن تبطل بذلک الرّخصۃ الشرعیّہ والرفق المقصود۔
’’ جمہور نے اس صورت میں گویا سدّ ذریعہ کے طور پر سختی کے پہلو کا زیادہ لحاظ رکھا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس سے وہ شرعی رخصت اور سہولت اور نرمی فوت ہو جاتی ہے جو کہ مطلوب ہے۔‘‘
یعنی بیک وقت تین طلاقوں کو تین شمار کرلینے سے وہ رخصت وسہولت ختم ہو جاتی ہے جو متعدد ومتفرق مواقع پر دینے میں ہے۔ اس سے قاضی ابن رشد ؒ کااپنا رحجان بھی معلوم ہوتاہے کہ بیک وقت تین طلاقوں کا حکم ایک ہی طلاق کاہونا چاہیے تاکہ شرعی رخصت وسہولت باطل نہ ہو۔
امام قرطبیؒ اپنی شہرہ آفاق تفسیر میں آیت کریمہ ’الطلاق مرّتن‘ کے تحت لکھتے ہیں:
ذکر احمد بن محمد بن مغیث الطلیطلیّ ھذہ المسئلۃ فی وثائقہ ثم اختلف اھل العلم بعد اجماعھم علی انہ مطّلِق کم یلزمہ من الطلاق، فقال علی بن ابی طالب وابن مسعودؓ یلزمہ طلقۃ واحدۃ وقالہ ابن عباؓس،... و قال الزؓبیر بن العوامّ وعبد الرحمن بن عوفؓ وروینا ذلک کلہ عن ابن وضاّح وبہ قال من شیوخ قر طبۃ ابن زنباع شیخ ھدی ومحمد بن تقی بن مخلد ومحمد بن عبد السلام الحسنی فرید وقتہ وفقیہ عصرہ واصبغ بن الحباب وجماعۃ سواھم (الجامع لاحکام القرآن، ج ۳،ص۱۲۹،۱۳۲ طبع مصر)
’’اور امام احمد بن محمد بن مغیث طلیطلی اندلسی نے یہ مسئلہ کتاب الوثائق میں ذکر کیا ہے۔ .... پھر اہل علم اس بات پر اجماع کے بعد کہ طلاق بدعت واقع ہو جائے گی، اس میں مختلف الرائے ہوئے کہ کتنی طلاقیں واقع ہوں گی ۔تو حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ایک طلاق کو واقع مانتے ہیں اوریہی بات حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے ارشاد فرمائی ہے اور یہی رائے حضرت زبیر بن عوّام اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کی ہے۔ یہ سب باتیں ہم نے امام محمد بن وضاّح سے نقل کی ہیں، اور یہی موقف شیوخ قرطبہ میں سے ابن زنباع شیخ ہدی، محمد بن تقی بن مخلد اور یگانہ روزگار وفقیہ دوراں محمد بن عبد السلام الحسنی اور اصبغ بن حباب اور ان کے علاوہ ایک جماعت کاہے۔‘‘ 
مشہور مفسر اور نحوی امام ابو حیاّن ’الطلاق مرّتن‘ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد دو الگ الگ اور متفرق اوقات میں طلاق دینا ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ قرآن مجید کے الفاظ ’الطلاق مرّتن‘ سے میرے دل میں ہمیشہ یہی بات آتی ہے کہ طلاق دینے والا مرد اگر ایک مجلس اور ایک وقت میں دو یا تین طلاقیں دے تو ایک ہی طلاق واقع ہونی چاہیے۔ (البحر المحیط، ص۱۹۲، ج ۲)
امام نظام الدین ؒ نیشاپوری اپنی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں :
ثم من ھولاءِ من قال لو طلقہا ثنتین او ثلاثا لایقع الاّ واحدۃ وھذا ھو الاقیس واختارہ کثیر من علماء اھل البیت لان النھی یدل علی اشتمال المنھی عنہ علی مفسدۃ راجحۃ والقول بالوقوع سعی فی ادخال تلک المفسدۃ فی الوجود ( تفسیر نیشابوری علیٰ ہامش ابن جریر ص۳۶۱ ج ۲)
’’پھر ان میں سے وہ ہیں جنہوں نے کہا کہ بیک وقت دو یا تین طلاقیں دینے کی صورت میں ایک ہی طلاق واقع ہوگی اوریہی قول قیاس کے سب سے زیادہ موافق ہے اور اسے کثیر علماے اہل بیت نے اختیار کیا ہے کیونکہ کسی چیز سے منع کرنا اس پر دلالت کرتاہے کہ وہ چیز کسی بڑے مفسدے اور خرابی پر مشتمل ہے اور بیک وقت تین طلاقوں کو تین شمار کرلینا اس مفسدے اور خرابی کو وجود میں لانے کاسبب ہے۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ حنبلی لکھتے ہیں :
وقد ثبت فی الصحیح عن ابن عباسؓ عنھما قال کان الطلاق علی عہد رسول اللہ ﷺ وابی بکرؓ وصدرا من خلافۃ عمرؓ طلاق الثلاث واحدۃ وثبت ایضا فی مسند احمد انّ رکانۃ بن عبد یزید طلق امراتہ ثلاثا فی مجلس واحد فقال النبی ﷺ ھی واحدۃ ولم یثبت عن النبی ﷺ خلاف ھذہ السنۃ بل ما یخالفھا اماّ انہ ضعیف بل مرجوح واما انہ صحیح لا یدل علی خلاف ذلک کما قد بسط ذلک فی موضعہ ٖ واللہ اعلم۔ (فتاویٰ ج ۲ ص ۸۶) 
’’مسلم شریف کی صحیح حدیث میں حضرت ابن عباسؓ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کے عہد میں اور خلافت عمرؓ کے ابتدائی دور میں تین طلاقیں ایک ہی سمجھی جاتی تھیں۔ اور مسند احمد کی روایت سے ثابت ہے کہ حضرت رکانہ بن عبد یزیدؓ نے اپنی بیوی کو مجلس واحد میں تین طلاقیں دیں لیکن نبی ﷺنے فرمایا کہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے۔ نبی ﷺ سے اس سنت کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہے۔اس کے خلاف جو کچھ مروی ہے، وہ یاتو ضعیف بلکہ مرجوح ہے، اور یا صحیح ہے لیکن اس سے اس کے خلاف بات ثابت نہیں ہوتی، جیسا کہ دوسرے مقام پر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاچکا ہے۔ واللہ اعلم۔‘‘
امام حافظ ابن قیّم حنبلی نے اپنی کتب اِغاثۃ اللہفان، زاد المعاد اور اعلام الموقعین میں طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر بہت مفصّل، جامع اور مدلّل گفتگو کی ہے۔ چنانچہ اجماع صحابہؓ کی نسبت حافظ ابن القیم ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ ، حضرت علی بن ابی طالبؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے متعلق دونوں طرح کی روایات ہیں۔ بعض میں ہے کہ وہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے ایک ہونے کا فتویٰ دیتے تھے اور بعض روایات میں اس کے برعکس یہ ہے کہ وہ طلاق مغلظ ہونے کا فتویٰ دیتے تھے، لیکن حضرت زبییر بن عواّم، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ،عکرمہ مولیٰ ابن عباسؓ، طاؤس، محمد بن اسحاق، فلاس بن عمرو، حارث عکلی،داؤد بن علی اور ان کے اکثر اصحاب ،بعض اصحاب مالک ،بعض اصحاب حنفیہ اور ،بعض اصحاب احمد بن حنبل ان سب کافیصلہ یہ تھا کہ طلاق ثلاثہ کاحکم ایک طلاق کاہے۔ (اعلام الموقعین ج ۲،ص۱۴تا۳۲ )
اغاثۃ اللہفان میں لکھتے ہیں : امام ابو حنیفہؒ سے اس مسئلے میں دوروایتیں منقول ہیں۔ ایک تووہی جو مشہور ہے۔ دوسری یہ کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق ہوتی ہیں، جیسا کہ امام محمد بن الحسن الشیبانی ( ۱۳۲ھ۔۱۸۹ھ)کے تلمیذ رشید امام محمد بن مقاتل الرازی الحنفیؒ نے امام ابو حنیفہؒ سے نقل کیا ہے۔ (ص۱۵۷، طبع مصر)
امام مازری ؒ نے بھی اپنی کتاب ’’المعلم‘‘ میں محمد بن مقاتل حنفی ؒ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ طلاق ثلاثہ جو ایک ساتھ ہوں، وہ ایک رجعی طلاق کے حکم میں ہیں او ر امام ابو حنیفہؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کابھی ایک قول یہی ہے۔ 
امام حافظ ابن حجر صحیح بخاری کے ’’باب من جوزّالطلاق الثلاث‘‘ (جس نے تین طلاق کو جائز قرار دیا) کی تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
وفی الترجمۃ اشارۃ الی انّ من السلف من لم یجز وقوع الطلاق الثلاث۔ (فتح الباری ج ۹ ص۲۸۹) 
’’اس عنوان میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سلف میں ایسے لوگ بھی ہیں جو تین طلاق کے وقوع کو جائز قرار نہیں دیتے۔‘‘ 
اس رائے پر اعتراض نقل کر کے اس کے جواب میں فرماتے ہیں:
الرابع انہ مذہب شاذ فلا یعمُل بہ واجیب بانہّ نقل عن علیِِِّ وابن مسعودؓ وعبد اللہ بن عوفؓ والزبیرؓ مثلہ نقل عنہ ذلک ابن مغیث فی کتاب الوثائق لہ وعزاہ لمحّمد بن وضاّح ونقل الغنوّی ذلک عن مشائخِ قرطبۃ کمحمد بن تقی بن مخلد ومحمد بن عبد السلام الحسینی ؒ وغیرھما ونقلہ ابن المنذرعن اصحاب ابن عباسؓ کعطاء وطاوس وعمر وبن دینارِِ ویتعّجب من ابن التیّن حیث جزم باّن لزوم الثلاث لا اختلاف فیہ و انما الاختلاف فی التحریم مع ثبوت الاختلاف کما تریٰ (فتح الباری،جلد،۹،ص۲۹۰) 
’’چوتھی بات یہ کہی گئی ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق کے ایک ہونے کی بات شاذ مسلک ہے، اس لیے اس پر عمل نہ ہوگا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ رائے حضرت علی،ؓ ابن مسعودؓ ،حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ اور حضرت زبیرؓ سے منقول ہے ۔اسے ابن مغیث نے اپنی کتاب الوثائق میں نقل کی ہے اور اسے امام محمد بن وضاّح کی طرف منسوب کیا ہے۔ اور غنوی نے اس مسلک کو قرطبہ کے مشائخ کے ایک گروہ مثلاً محمد بن تقی بن مخلد اور محمد بن عبد السلام الحسینیؒ وغیرہ سے نقل کیا ہے۔اورابن المنذر نے اسے حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ عنہما کے اصحاب مثلاً عطا، طاؤس ،اور عمرو بن دینار سے نقل کیاہے۔ اور ابن التین پر حیرت ہے کہ انہوں نے اس یقین کااظہارکیا کہ تین طلاق کے لازم ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، بلکہ اختلاف صرف اس کے حرام ہونے میں ہے، حالانکہ جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، تین طلاق کے لازم ہونے یا نہ ہونے میں بھی اختلاف ثابت ہے ‘‘۔
محدث شہیر امام شوکانی ؒ نے مذکورہ اہل علم کے علاوہ یہی مسلک جابر بن زید ،ہادی ،قاسم ،باقر،ناصر ،احمد بن عیسیٰ،عبد اللہ بن موسیٰ بن عبد اللہ اور ایک روایت کے مطابق امام زید بن علی بن حسینؓ کا بھی نقل کیا ہے۔ (نیل الاوطار‘ جلد ۶ ص ۲۴۵)
مولانا ابو الحسنات عبد الحی فرنگی محلی تحریر فرماتے ہیں: 
والقول الثانی انہ اذا طلق ثلاثا تقع واحدۃ رجعیۃ وھذا ھو المنقول عن بعض الصحابۃ وبہ قال داود الظاہری واتباعہ وھو احد القولین لمالک ولبعض اصحاب احمد (عمدۃ الرعایہ ج ۲ ص،۷۱ مطبع انوار محمدی لکھنو)
’’( اس مسئلے میں اختلاف ہے) اور دوسرا قول یہ ہے کہ جب ایک ساتھ تین طلاقیں دی جائیں تو ایک رجعی طلاق ہوگی۔اور یہ رائے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے اور اسی کے قائل امام داؤد ظاہریؒ اور ان کے اتباع ہیں۔ اور ایک قول کے مطابق یہی مذہب امام مالک ؒ اور امام احمد بن محمد بن حنبل ؒ کے بعض اصحاب کاہے۔‘‘
مفتی اعظم قطر علامہ شیخ عبداللہ بن زید آل محمود، شیخ الازہر علامہ شیخ محمود شلتوت مرحوم (الفتاویٰ ص۳۰۶)، علامہ سید رشید رضا مصریؒ (تفسیر ’ المنار‘ ج ۹ ص ۶۸۳ ) اور عہد حاضر کے جلیل القدر عرب عالم اور مفسّر شیخ جمال الدین قاسمی (الاستیناس لتصحیح انکحۃ الناس) طلاق کے مسئلہ پر نہایت مفّصل گفتگو کے بعد یہی رائے ظاہر کرتے ہیں کہ جو تین طلاقیں بیک دفعہ دی جائیں، ان سے ایک طلاق رجعی ہی واقع ہوگی۔
سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ کافتویٰ حسب ذیل ہے : 
’’اس مسئلہ میں درست بات یہ ہے کہ اگر مرد ایک کلمہ سے اپنی عورت کو تین طلاقیں دے تو وہ ایک ہی شمار ہو گی، ،جیساکہ امام مسلم ؒ نے اہل علم کی ایک جماعت سے نقل کیا ہے، اورکئی دوسروں نے بھی اس بات کو اختیار کیا ہے اور امام محمد بن اسحاق صاحب السیرہ بھی اسی بات کے قائل ہیں اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ اور ان کے شاگرد علامہ ابن القیمّ رحمہ اللہ نے بھی یہی بات اختیار کی ہے۔‘‘ 
علماے دیوبند میں سے مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ ، مولانا محمد محفوظ الرحمن قاسمی اور مولانا عمر احمد تھانویؒ بھی طلقات ثلاث بیک مجلس کو ایک طلاق رجعی قرار دیتے ہیں۔ علماے بریلی میں سے جسٹس پیر کرم شاہ ازہری رحمہ اللہ بھی علماے مصر اور علماے جامع ازہر کے فتویٰ کے مطابق عمل کرنے کو ارجح قرار دیتے ہیں۔
ان حوالہ جات سے واضح ہے کہ تین طلاقوں کو ایک قرار دینے کا موقف اہل علم کی ایک بڑی تعداد نے اختیار کیا ہے۔ اصول فتویٰ کی رو سے اگر کوئی رائے ائمہ اربعہ نے اختیار نہ کی ہو لیکن وہ ضرورت اور مصلحت کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہو تو اس پر فتویٰ دیا جا سکتا ہے۔ بحر العلوم عبد العلی حنفیؒ ’التحریر‘ لابن الہمام ؒ کی شرح میں فرماتے ہیں :
واما المجتہدون الذین اتبعوھم باحسان فکلھم سواء فی صلاحھم فان وصل فتویٰ سفیان بن عیینہ ؒ او مالک بن دینار یجوز الاخذ بہ کما یجوز الاخذ بفتویٰ الائمۃ الاربعۃ الاّ انہ لم یبق عن الائمۃ الاخرین نقل صحیح الا اقلّ القلیل ولذا منع من التقلید ایاّھم فان وجد نقل صحیح منھم فی مسئلۃ فالعمل بہ والعمل بفتویٰ الائمۃ الاربعۃ سواء ۔
’’وہ مجتہدین جو صحابہ کرام کے اچھے پیرو ہیں، وہ سب کے سب صلاحیتِ تقلید میں برابر ہیں (یعنی ائمہ اربعہ علیہم الرحمہ کی تخصیص نہیں) اگر سفیان بن عیینہ ؒ یامالک بن دینار ؒ کا فتویٰ مل جائے تو اس پر بھی اسی طرح عمل کیا جا سکتاہے جس طرح کہ ائمہ اربعہ کے فتوے پر عمل کرنا جائز ہے۔اتنی بات ضرور ہے کہ ائمہ اربعہ کے علاوہ دیگر ائمہ کے اقوال نقل صحیح کے ساتھ کم تر ہی مہیاہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں نے ان کی تقلید سے روکا ہے، تاہم اگر کسی مسئلے میں نقل صحیح کے ساتھ ان کی رائے مل جائے تو اس پر عمل کرنا اور ائمہ اربعہ کے فتوے پر عمل کرنا دونوں برابر ہیں۔‘‘ 
فواتح الرحموت شرح مسّلم الثبوت میں بھی بحر العلوم ؒ نے یہی بات تحریر کی ہے۔ (ص ۶۳۰،طبع نول کشور ۱۸۷۸ء ) 
شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں امام محمد رحمہ اللہ کی امالی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اگر کوئی فقیہ کو طلاق بتہ دے دے اور اس کے نزدیک طلاق بتہ سے مراد طلاق ثلاثہ ہو، لیکن کوئی قاضی یہ فیصلہ کر دے کہ طلاق رجعی ہوئی ہے تو طلاق دینے والے فقیہ کے لیے جائز ہے کہ اپنے مسلک کے برخلاف قاضی کے فتوے پر عمل کرے اور اپنی بیوی کے ساتھ زندگی بسر کرے۔ (ج ۱، ص ۳۹۰)
مولانا عبد الحی فرنگی محلیّ (م ۱۳۰۴ھ) نے اسی اصول پر حسب ذیل فتویٰ دیا ہے: 
’’ اس صورت میں حنفیہ کے نزدیک تین طلاقیں ہوں گی اور بغیر تحلیل کے نکاح درست نہ ہوگا مگر بوقت ضرورت کہ اس عورت کا علیحدہ ہونا اس سے دشوار ہو اور احتمال مفاسد زائدہ کاہو تو کسی اور امام کی تقلید کرے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ نظیر اس کی مسئلہ نکاح زوج مفقود اورعدّت ممتدّۃ الطہرُ موجود ہے کہ حنفیہ عندالضرورۃ قول امام مالک ؒ پر عمل کرلینے کو درست رکھتے ہیں، چنانچہ ’’ردّ المحتار ‘‘ میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔‘‘  (مجموعہ فتاویٰ ص ۳۴۷)
مفتی حبیب المرسلین ؒ ( دارالافتاء مدرسۃ امینیہ دہلی) فتویٰ دیتے ہیں:
’’ بوجہ شدید ضرورت اورخوف مفاسد اگر طلاق دینے والا ان بعض علما کے قول پر عمل کرے گا جن کے نزدیک اس واقعہ مرقومہ میں ایک ہی طلاق ہوتی ہے تو وہ خارج از مذہب حنفی نہ ہوگا، کیونکہ فقہاے حنفیہ نے بوجہ شدّت ضرورت کے دوسرے امام کے قول پر عمل کر نے کو جائز لکھاہے۔‘‘ (بحوالہ الجواہر العالیہ، الاعظمی مدظلہ)

غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم

مفتی نایف بن احمد الحمد

سوال

 گزشتہ ہفتے میں نے اپنی حاملہ بیوی کو طلاق دے دی تھی اور یہ ہماری شادی کے بعد کی تیسری طلاق تھی۔ چند روز کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ شدید غصے کی حالت میں طلاق دینے والے کے بارے میں علماے کرام نے بتایا ہے کہ ایسا شخص غصے کی شدت کے لحاظ سے تین قسم کے حالات سے ہو سکتا ہے:
۱۔ غصے کی ایسی حالت جس میں طلاق دینے والا وقتی طور پر آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور یہ احساس کھو بیٹھتا ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ ایسی حالت میں دی جانے والی طلاق نافذ نہیں ہوتی۔ 
۲۔ غصے کی ایسی حالت جو اول الذکر سے کم ہو لیکن بہت ہی شدید غصے کی حالت ہو، اس کیفیت میں دی جانے والی طلاق کی بابت علماے کرام اور ائمہ عظام اختلاف کرتے ہیں کہ آیا یہ طلاق نافذ ہوگی یا نہیں ۔ جن ائمہ کرام نے اس طلاق کے نافذ نہ ہونے کا فتویٰ دیا ہے، ان میں ہمارے ملک کے مفتی اعظم ابن باز، دوسرے بزرگ عالم ابن عثیمین اور سلف میں سے حافظ ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ شامل ہیں۔
۳۔ مذکورہ بالا دو کیفیات سے کم درجے کا غصہ۔ اس حالت میں تمام علماے کرام کے نزدیک طلاق نافذ ہو جائے گی۔
میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دو برس پہلے جب میں نے اپنی بیوی کو پہلی طلاق دی تھی تو میری کیفیت دوسری قسم کے غصہ کی حالت تھی اور اس وقت مجھے طلاق کے مفصل احکام کا علم نہیں تھا اور میں نے پہلی طلاق کو ایک طلاق شمار کیا تھا۔ کیا اب جبکہ مجھے اس بابت معلوم ہو گیا ہے کہ حالت دوم میں بعض علماے کرام طلاق کو نافذ نہیں مانتے تو میرے لیے یہ باور کرنا جائز ہے کہ دو برس پہلے جو میں نے پہلی طلاق دی تھی، وہ نافذ نہیں ہوئی؟ طلاق دیتے ہوئے میں نے اس فرق کو بہرحال ملحوظ خاطر رکھا تھا جسے علماے کرام طلاق شرعی اور طلاق بدعی کہتے ہیں، اور میں نے دو یا تین طلاقیں سنت طریقے کے مطابق دی تھیں۔ اب میں چاہتا ہوں کہ اپنی مطلقہ بیوی سے رجوع کر لوں مگر حلال طریقے سے اور سنت نبوی کی رو سے۔ تو کیا ایسا کرنا ازروئے شریعت میرے لیے جائز ہے؟

جواب

الحمد للہ وحدہ وبعد۔
غصے کی تین کیفیات علماے کرام نے بیان کی ہیں: (۱) ایسا غصہ جس میں انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے اور اسے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اس حالت میں تمام علماے کرام کے نزدیک طلاق نافذ نہیں ہوتی۔ (۲) ایسا غصہ جس میں طلاق دینے والا شخص اپنے ہوش وحواس میں ہوتا ہے اور جو الفاظ وہ ادا کرتا ہے، وہ بھی اور اس کے نتیجے سے بھی آگاہ ہوتا ہے، اگرچہ وہ غصے میں ہی ہوتا ہے تو ایسی طلاق بالاتفاق نافذ ہو جاتی ہے۔ (۳) غصے کی تیسری حالت ایک ایسی حالت ہے کہ اس میں طلاق دینے والا اگرچہ مکمل طور پر اپنے ہوش وحواس نہیں کھو بیٹھتا مگر یہ غصہ اس پر حاوی ہو جاتا ہے اور اس کے الفاظ اور نیت کا رابطہ وقتی طور پر منقطع ہو جاتا ہے اور غصہ کافور ہو نے کے بعد اسے اپنے فعل پر ندامت ہوتی ہے اور اب اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ غصے میں آپے سے باہر ہو گیا تھا۔ ایسی حالت میں جو طلاق دی جائے، اس کے نافذ ہونے یا نافذ نہ ہونے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے اور ہمارے نزدیک ایسی حالت میں طلاق کا وقوع پذیر نہ ہونا زیادہ راجح ہے۔ امام ابن قیم اغاثۃ اللہفان میں فرماتے ہیں کہ ’والادلۃ الشرعیۃ تدل علی عدم نفوذ طلاقہ‘۔ شریعت کے احکام اس طلاق کے عدم وقوع پر دلالت کرتے ہیں اور یہی قول ہمارے استاذ محترم ابن تیمیہؒ کا بھی ہے۔
ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ’ان غیرہ الغضب ولم یزل عقلہ لم یقع الطلاق‘  کہ اگر ایسا غصہ ہو کہ اس سے ہوش وحواس مکمل طور پر معطل نہ ہوئے ہوں تو طلاق وقوع پذیر نہ ہوگی، کیونکہ غصے کی شدت نے اس سے یہ حرکت کرائی ہوتی ہے۔ وہ بہرحال اس بات کو ناپسند کرتا تھا کہ اپنی بیوی سے گلو خلاصی کرا لے۔ اس حالت میں وہ کوئی صحیح فیصلہ کرنے کی حالت میں نہیں رہتا اور اس کا حکم اس شخص کا ہے جو طلاق دینے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے، یعنی طلاق المکرہ۔ امام ابن تیمیہؒ مزید لکھتے ہیں کہ یہ وہی حالت ہے جس میں اس کی بد دعا بھی قبول نہیں ہوتی جبکہ وہ اپنی یا مال کے لیے ہلاکت کی دعا کرتا ہو۔ اسی طرح اس حالت میں اگر وہ نذر مانتا ہے، کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی بظاہر اطاعت مقصود ہوتی ہے، تو یہ نذر بھی پوری کرنا اس پر واجب نہیں ہے۔
اسی رائے پر ہمارے معزز استاد مکرم ابن باز کا بھی فتویٰ ہے۔ یہی حکم مسند احمد، ابو داؤد اور حاکم کی احادیث سے ثابت ہوتا ہے جسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’لا طلاق فی اغلاق‘ کہ اغلاق کی حالت میں طلاق نافذ نہیں ہوتی۔ لفظ اغلاق کا معنی امام احمد اور ابو داؤدؒ نے غضب (غصہ) کیا ہے۔ ابن قیمؒ کی اس موضوع پر ایک جامع تالیف موجود ہے جس میں وہ قرآن مجید کی آیات، احادیث مبارکہ اور صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؓ کے اقوال جمع کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ عدم وقوع ہی زیادہ قرین قیاس اور اصول شریعت کے موافق ہے۔ ہمارے نزدیک بھی امام ابن قیمؒ کے دلائل مضبوط اور قابل اطمینان ہیں۔ جسے توفیق ہو، وہ ان کی تالیفات سے رجوع کر سکتا ہے۔ 
بنا بریں آپ کی پہلی طلاق مذکورہ بالا اقسام میں سے اگر تیسری قسم سے تعلق رکھتی ہے اور آپ کی بیوی بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہو کہ واقعتا وہ طلاق انتہائی غصے کی حالت میں دی گئی تھی، مزید برآں اس پہلی طلاق کی توثیق مملکت کی کسی عدالت نے بھی نہیں کی ہے تو پہلی طلاق نافذ نہیں سمجھی جائے گی۔ ہاں اگر آپ کی زوجہ محترمہ آپ کے اس دعویٰ کی تصدیق نہیں کرتی ہیں یا مسلمان قاضی نے اس طلاق کی توثیق کر دی ہے تو یہ طلاق نافذ ہو گئی، کیونکہ اختلافی (شخصی) مسائل میں (حاکم) نامزد قاضی کا فیصلہ نافذ العمل ہوتا ہے (دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی)۔
(بشکریہ سہ ماہی ایقاظ، ملتان۔ جولائی تا ستمبر ۲۰۰۵)

تبلیغی جماعت اور دین کا معاشرتی پہلو (۱)

سید جمال الدین وقار

تبلیغی جماعت کو کارکنوں کی تعداد اور جغرافیائی پھیلاؤ کے لحاظ سے اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اسلامی تحریک کہا جاتا ہے۔ یہ جماعت ہر اس ملک میں متحرک ہے جہاں مسلمان کسی بھی قابل لحاظ تعداد میں بستے ہیں۔ اس کی بنیاد ۱۹۲۰ء میں شمالی بھارت کے علاقے میوات میں رکھی گئی تھی اور اس نے عامۃ الناس کی سطح پر اسلامی تعلیمات سے آگاہی اور شعور کو فروغ دینے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ چند سال قبل بمبئی میں میری ملاقات چند تبلیغی بھائیوں سے ہوئی جنھوں نے مجھے تبلیغی کام کے لیے کچھ وقت نکالنے کی ترغیب دی۔ آئندہ سالوں میں، میں نے کئی تبلیغی دورے کیے اور دور دراز دیہات اور قصبوں کا سفر کیا جہاں میں نے ایسی مسلمان برادریاں بھی دیکھیں جو اسلام کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتی تھیں۔ کچھ ایسے مسلمان بھی مجھے ملے جو اقرار شہادت کے بنیادی عقیدے یعنی ’اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمدا رسول اللہ‘ سے بھی واقف نہیں تھے۔ تبلیغی بھائیوں کے زیر اثر ان مسلمانوں کو بنیادی عقائد مثلاً کلمہ شہادت، نماز اور روزے وغیرہ کے طریقے کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ چنانچہ مجھے اس قابل قدر کردار کا احساس ہوا جو تبلیغی جماعت مسلمانوں کے ان طبقات میں اسلامی شعور پھیلانے کے سلسلے میں ادا کر رہی ہے جن تک کسی دوسری مسلمان تنظیم نے ابھی تک رسائی حاصل نہیں کی۔
تبلیغی جماعت جس بے حد اہم کام میں مصروف ہے، میں اب بھی اس کی بے حد تحسین کرتا ہوں۔ البتہ مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ یہ تحریک اگر اپنے طریق کار میں چند معمولی تبدیلیاں پیدا کر لے تو یہ مسلمان کمیونٹی کے معاملات میں پہلے سے زیادہ تعمیری کردار ادا کر سکتی ہے۔ تاہم میں اس بات کو بھی جانتا ہوں کہ تبلیغی قیادت کے کچھ حلقے کسی بھی قسم کی تبدیلی کے خلاف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کے مخصوص مفادات پر زد پڑے گی۔
تبلیغی جماعت کا نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ جماعت کے کارکن بھارت کے اندر اور بیرون ملک مسلسل متحرک رہتے ہیں اور اپنے کام کے دوران میں ان کا لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد سے رابطہ قائم ہوتا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ کارکنوں کے اس نیٹ ورک کو اگر بنیادی اسلامی عقائد اور اعمال کے ساتھ ساتھ عمومی معاشرتی شعور، جدید تعلیم خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم اور معاشرتی ہم آہنگی کے تصورات کے فروغ کے لیے بھی استعمال کیا جائے تو کس قدر عظیم الشان اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ لیکن جماعت کے کارکن، اس کے برخلاف، ایسا کوئی کام نہیں کرتے۔ بنیادی عقائد کی تبلیغ کے علاوہ ان کے پاس اپنی گرفت میں آنے والے سامعین کو تخیلاتی کہانیاں اور من گھڑت قصے، جن کی نسبت وہ بے بنیاد طور پر رسول اللہ ﷺ کی طرف کر دیتے ہیں، بے تکان سناتے چلے جانے کے سوا کوئی کام نہیں۔ ’’فضائل اعمال‘‘ کے نام سے تبلیغی جماعت کی بنیادی نصابی کتاب جسے ممتاز تبلیغی عالم مولانا محمد زکریا نے تصنیف کیا ہے، کمزور اور موضوع روایات سے بھری پڑی ہے اور بہت سے مسلمان علما اس کے متعلق تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔
’’فضائل اعمال‘‘، جسے بہت سے تبلیغی حضرات زبانی نہیں تو عملاً ضرور قرآن مجید سے زیادہ بڑی اتھارٹی سمجھتے ہیں، عمومی طور پر اس دنیا سے نفرت اور کراہت کا پیغام دیتی ہے۔ تبلیغی کارکنوں کی زبان سے یہ بات اکثر سننے میں آتی ہے کہ ’’دنیا کی مثال ایک بیت الخلا یا قید خانے کی ہے۔‘‘ وہ بڑے فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ ’’ان کی گفتگو کا موضوع یا تو وہ چیزیں ہوتی ہیں جو اوپر آسمان پر ہیں اور یا وہ جو زمین کے نیچے قبر میں ہیں۔ درمیان کی دنیا کے بارے میں وہ کوئی بات نہیں کرتے۔‘‘ دوسرے لفظوں میں تحریک کا عمومی جذبہ ایسا ہے جو دنیا سے بے زار رہبانیت کو فروغ دیتا ہے جس کی قرآن مجید میں صریحاً ممانعت کی گئی ہے۔
دنیا سے نفرت اور کراہت کا نتیجہ تحریک سے وابستہ افراد میں دوسرے لوگوں کی تکلیفوں کے بارے میں بے حسی کی صورت میں نکلتا ہے۔ تبلیغی کارکن جماعت کے پیدا کردہ مزاج کے باعث لوگوں کی تکالیف اور پریشانیوں کو اللہ کی طرف سے ان کے گناہوں کی سزا قرار دے کر انسانی مصائب کو کم کرنے میں ہر قسم کی ذمہ داری سے بآسانی بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ نیز اس طریقے سے معاشرتی ظلم اور جبر کے اصل اسباب سے بھی توجہ ہٹا دی جاتی ہے اور اس طرح ظلم وجبر کرنے والوں کے ہاتھ مضبوط تر کر دیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر میں نے بہت سے تبلیغی حضرات سے سنا ہے کہ وہ فلسطین میں مسلمانوں کے وحشیانہ قتل وغارت کو اسلامی تعلیمات سے انحراف کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ صہیونی توسیع پسندانہ عزائم کے مقابلے کے لیے تبلیغی کارکنو ں کے پاس ایک ہی سادہ سا حل ہے: ’’اگر فلسطینی مسلمان نمازیں ادا کرنا، سنت کے مطابق مسواک سے دانت صاف کرنا اور تبلیغی دوروں پر باقاعدگی سے جانا شروع کر دیں تو ان کے سارے دلدر فوراً دور ہو جائیں گے۔‘‘ چنانچہ اس پر کوئی تعجب نہ ہونا چاہیے کہ جہاں اسرائیل میں دوسری اسلامی تحریکوں کو سختی سے دبایا جاتا ہے، اسرائیلی حکومت تبلیغی جماعت سے چشم پوشی کرتی ہے جو غالباً نادانستہ طور پر مسلمانوں کے مابین بے حسی اور باہمی لا تعلقی کو فروغ دے رہی ہے۔
یہ رویہ اس قدر گہرا ہے کہ بالکل مقامی سطح پر بھی، جہاں مصائب کے ازالہ کے لیے مداخلت سے کسی کی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا، میں نے تبلیغی کارکنوں کو مکمل طور پر الگ تھلگ اور لا تعلق پایا ہے۔ استثنائی مثالیں موجود ہیں، لیکن ان سے عمومی صورت حال ہی کی توثیق ہوتی ہے۔ میں اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے نئی دہلی کی بستی نظام الدین میں واقع تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز کی مثال دوں گا۔ اس مرکز کے باہر جسمانی معذوروں، کوڑھ کے مریضوں اور نشے کے عادی لوگوں کا ایک جم غفیر درد انگیز طور پر بھیک مانگ رہا ہوتا ہے۔ میں نے ایک ممتاز تبلیغی رہنما سے، جو اپنا زیادہ تر وقت مرکز میں گزارتے ہیں، پوچھا کہ تبلیغی رہنما اپنے دروازے پر پڑے تکلیف سے بے حال ان لوگوں کی مدد کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ انھوں نے مجھے یوں دیکھا جیسے میں بالکل ہی بدھو ہوں اور کہا: ’’کیسا احمقانہ سوال ہے! تم دیکھتے نہیں کہ ہم ان لوگوں کو دنیا کی سب سے قیمتی دولت سے بہرہ یاب کر رہے ہیں؟ ہم انھیں اسلام کی بنیادی تعلیمات سکھا رہے ہیں جو انھیں مرنے کے بعد جنت میں لے جائیں گی۔ وہاں انھیں ہر قسم کی نعمتیں میسر ہوں گی، وہ بڑے بڑے محلات میں بے شمار خادموں کے ساتھ رہیں گے اور ہزاروں حوریں ان کے حبالہ نکاح میں ہوں گی۔ اس سے بڑی دولت انھیں کوئی کیا دے سکتا ہے؟‘‘
میں نے ان کی جوش اور غضب سے بھرپور تقریر کو اطمینان سے سنا اور پھر انھیں قرآن مجید کی چند آیات اور دو تین حدیثیں یاد دلائیں جن میں کہا گیا ہے کہ غریبوں کو آسمانی نعمتوں کا مژدہ سنانا اور جنت میں خالی تخیلاتی محل بنانا کافی نہیں بلکہ مادی لحاظ سے ان کی مدد کرنا ضروری ہے۔ انھوں نے بے لحاظی سے میری بات کاٹ دی اور کہا: ’’تم چاہتے ہو کہ ہم ان کے لیے سکول کھول لیں؟ انھیں کاروبار شروع کرنے میں مدد دیں؟ یہ سب کام مسیحی مشنریاں کرتی ہیں لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ ان سب چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہم انھیں اگلے جہان کی دولت سے نواز رہے ہیں جس کے مقابلے میں وہ سب کچھ جس کی مسیحی مشنریاں پیش کش کرتی ہیں، محض ترس کھا کر کچھ مدد امداد کر دینے (pathetic pittance) کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ حقیقی دنیا میں غریبوں کے مصائب سے مکمل بے حسی کا جواز ثابت کرنے کے لیے اس سے زیادہ ذہانت آمیز کوئی دلیل نہیں گھڑی جا سکتی۔
تبلیغی حضرات میوات کے علاقے کو، جہاں سے تحریک کا آغاز ہوا، اپنی کامیاب ترین تجرباتی زمین سمجھتے ہیں۔ میوات جو کہ میو قبیلے کا علاقہ ہے، ثقافتی لحاظ سے ایک منفرد علاقہ ہے جس میں ہریانہ کے دو ضلعوں گرگاوں اور فرید آباد اور راجھستان کے دو ضلعوں الور اور بھارت پور کے کچھ حصے شامل ہیں۔ اس علاقے میں تبلیغی جماعت ۱۹۲۰ء کی دہائی سے متحرک ہے۔ جماعت کی محنت کے نتیجے میں میو قوم میں کافی تبدیلی آ چکی ہے۔ وہ بے حد نمایاں غیر اسلامی رسم ورواج اور اعتقادات کو ترک کر چکے ہیں اور علاقے میں بہت سی مسجدیں اور مدرسے قائم ہو چکے ہیں۔ یہ سب اچھے نتائج ہیں اور بے شمار تبلیغی کارکنوں کی طویل، صبر آزما اور ان تھک جدوجہد کا نتیجہ ہے۔
تاہم تبلیغی تحریک اگر میو قوم میں مذہبی سطح پر بعض بڑی اصلاحات لانے میں کام یاب ہوئی ہے تو سماجی سطح پر اس کی کام یابیاں کم متاثر کن ہیں۔ میو عورتیں آج بھی کھیتوں میں مویشیوں کی جگہ کام کرتی ہیں، کم وبیش تمام میو عورتیں جائیداد میں اپنے جائز حق سے محروم رہتی ہیں، جہیز کی لعنت عام ہے، میو قوم میں شرح خواندگی ۱۰ فیصد ہے اور سو میں سے صرف ۲ میو لڑکیاں خواندہ ہیں۔ پوری کمیونٹی مجموعی لحاظ سے بے حد غربت زدہ ہے۔ اس قوم کی قابل رحم حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرنے کے بجائے تبلیغی حضرات نے دنیاوی معاملات سے اپنی نفرت کی وجہ سے اسے مزید خراب ہی کیا ہے۔ حالیہ سالوں میں محدود تعداد میں کچھ این جی اوز نے تو میوات میں خواندگی اور معاشی ترقی کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے، لیکن تبلیغی کارکنوں نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ میوات کے تبلیغی کارکن اکثر یہ بات کہتے سنائی دیتے ہیں کہ جب میو لوگ غریب اور ناخواندہ تھے تو اس وقت نیک اور پرہیزگار تھے لیکن اب جبکہ ان میں سے کچھ لوگوں نے اپنی مالی صورت حال بہتر بنا لی ہے، وہ خدا کو بھول گئے ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہوگی اور مجھے اس سے کوئی اختلاف نہیں لیکن اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ تبلیغی حضرات دین کو کوئی ایسی چیز سمجھتے ہیں جو بنیادی طور پر دنیا کے مخالف ہے، جبکہ یہ خیال میری رائے میں خود اسلام اور عام دنیاوی معاملات کو دیکھنے کا قطعی طور پر غیر اسلامی زاویہ نگاہ ہے۔
میرے فہم کے مطابق اسلام غریبوں کی خدمت پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ صرف یہ نہیں کہ انھیں اسلام کی خوبیاں اور جنت کی نعمتیں سنا دی جائیں، خاص طور پر حوریں جن سے تبلیغی حضرات کو خبط کی حد تک دل چسپی ہے، بلکہ مادی لحاظ سے بھی ان کی مدد کی جائے۔ یہ اپنے پیروکاروں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اللہ کے حقوق بھی پورے کریں اور بندوں کے حقوق بھی ادا کریں۔ مجھے یقیناًاعتراف کرنا چاہیے کہ تبلیغی حضرات حقوق اللہ کی تبلیغ میں زبردست خدمت انجام دے رہے ہیں، لیکن حقوق العباد کو انھوں نے مکمل طور پر نظر انداز کر رکھا ہے۔ زیادہ سے زیادہ وہ دوسروں کی مدد کرنے کے فضائل بیان کر دیتے ہیں، لیکن عملاً اس قسم کی کوئی خدمت سرانجام نہیں دیتے۔ آپ تصور کریں کہ اگر نظام الدین دہلی مرکز میں تبلیغی حضرات ایک ماڈل سکول قائم کر لیں اور اس میں اسلامی اور عصری تعلیم دینا شروع کر دیں یا غریبوں کے لیے ایک ہسپتال قائم کر دیا جائے یا بے روزگار لوگوں کے لیے صنعتی تربیت کا کوئی مرکز بنا دیا جائے تو یہ ایک تجربہ عالمی سطح پر کن اثرات ونتائج کا حامل بن سکتا ہے۔ وہ لاکھوں تبلیغی کارکن جو ہر سال نظام الدین مرکز میں آتے ہیں، اسلام کی سماجی اخلاقیات کو عملی صورت میں دیکھیں گے اور اس سے ان کو ترغیب ملے گی کہ وہ واپس اپنے علاقوں میں جا کر اسی طرح کے منصوبے شروع کریں۔ تاہم جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا ہے، نظام الدین کے تبلیغی رہنما اس کام میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان پر اپنے بالکل قریب تڑپتی اور سسکتی انسانیت کے دکھوں کا سرے سے کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ 
جہاں تک میں نے قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کیا ہے، میں اس بات کا شدت سے قائل ہوں کہ جنت کا راستہ صرف مسلسل دعاؤں اور (تبلیغی انداز میں) مناجات کرنے میں نہیں ہے بلکہ فرض رسوم کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ غریبوں اور ضرورت مندوں کی مادی اور روحانی ضروریات کے لیے جدوجہد کرنے میں ہے۔ اس سے میری مراد یہ نہیں کہ غریبوں کو خیرات دے دی جائے۔ یہ طریقہ غربت کے خاتمے میں بالکل معاون نہیں بلکہ اس کو مزید پختہ کر دیتا ہے۔ غریبوں کی حقیقی خدمت یہ ہے کہ ان کے ساتھ تعاو ن کر کے انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی جائے تاکہ وہ مستقبل میں اپنے سے زیادہ ضرورت مند لوگوں کی خدمت کے قابل ہو سکیں۔ لیکن یہ منطق تبلیغی جماعت کے ذہنی مزاج کے لیے بالکل اجنبی ہے۔ جیسا کہ بہت سے تبلیغی سمجھتے ہیں، اگر کوئی شخص پابندی سے تبلیغی دورے کرتا ہے، لمبی ڈاڑھی رکھ لیتا ہے، مسلسل تسبیح کے دانے گھماتا رہتا ہے اور سنت کے مطابق مسواک سے دانت صاف کرتا ہے تو جنت میں اس کا داخلہ پکا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ذاتی پسند اور ناپسند کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں رسول اللہ ﷺ کی سنت کے چند ظاہری اعمال کی نقل کر کے وہ جنت میں اپنی جگہ پکی کر رہے ہیں۔ ایک مثال لیجیے۔ حال ہی میں مجھے پاکستان کے ایک تبلیغی مصنف کی ایک کتاب دیکھنے کا موقع ملا جس میں انھوں نے کسی ثبوت کے بغیر یہ بلند بانگ دعویٰ کیا ہے کہ اگر کوئی شخص پابندی سے تبلیغی جماعت کے دوروں پر نکلتا رہے تو جنت میں اس کا داخلہ یقینی ہے جہاں، دوسری لذتوں کے علاوہ، اسے تین لاکھ حوروں سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی ملے گا۔ اس طرح کی گھٹیا ذہنی رشوتیں تبلیغی جماعت سے وابستہ ہونے والے لوگوں کو باقاعدگی سے دی جاتی رہتی ہیں اور ایک لحاظ سے دیکھیں تو اس سے جماعت کے اس قدر وسیع پیمانے پر فروغ کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے۔
تبلیغی حضرات کے نزدیک بنیادی فرائض کی ظاہری رسوم کی مسلسل ادائیگی سے جنت میں داخلہ یقینی ہو جاتا ہے۔ جنت جب اس طرح آسانی سے مل رہی ہو تو فطری طور پر بہت کم لوگ غریبوں اور مجبور ومقہور لوگوں کے لیے کچھ کرنے میں دلچسپی لیں گے جو کہ میری رائے میں دونوں جہانوں میں اللہ کی رحمت حاصل کرنے کا حقیقی ذریعہ ہے۔ قرآن مجید بار بار اہل ایمان سے یہ کہتا ہے کہ نجات پیغمبر ﷺ کے طریقے کی اتباع میں مضمر ہے۔ تبلیغی حضرات اس سے اختلاف نہیں کرتے لیکن وہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کو محض چند ظاہری اعمال تک محدود کر دیتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ بس ان کی پیروی کرنے سے آدمی سیدھا جنت میں جا سکتا ہے۔ چنانچہ تبلیغی پمفلٹوں اور کتابچوں میں اس بات کی اہمیت بے تکان اجاگر کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کھاتے کیسے تھے، مسکراتے کیسے تھے، دھوتے کیسے تھے، دانت کیسے صاف کرتے تھے، جوتے کیسے پہنتے اور اتارتے تھے، مونچھیں کیسے تراشتے اور ڈاڑھی کو کیسے بڑھاتے تھے وغیرہ۔ یوں جیسے رسول اللہ ﷺ کی سنت کے دائرے میں صرف یہی چند شخصی اعمال آتے ہیں۔ سنت کو ان اعمال تک محدود کر کے اور اس کی محض ظاہری شکل میں محصور کر کے وہ سنت کو اس کی اصل اور حقیقی روح سے محروم کر دیتے ہیں۔
میں نہیں سمجھتا کہ موجودہ تبلیغی قیادت میں خود تنقیدی اور خود احتسابی یا اپنا طرز عمل تبدیل کرنے پر آمادگی کی کوئی علامات پائی جاتی ہیں۔ چونکہ جماعت کا طریق تبلیغ اور اس کا بنیادی نصاب یعنی ’’فضائل اعمال‘‘ اس کی تعارفی خصوصیات بن چکی ہیں اور انہوں نے جماعت کا ایک مخصوص امتیازی تشخص قائم کیا ہے، اس لیے بالکل واضح طور پر تبلیغی قیادت جماعت کے تشخص کے کمزور پڑنے کے ڈر سے اس میں کسی قسم کی تبدیلی قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ اس سے مآل کار خود ان کی اتھارٹی کا دعویٰ کمزور ہو جائے گا۔ تبلیغی کارکن اور واعظ باصرار یہ کہتے ہیں کہ یہ طریق تبلیغ کسی انسان کی ایجاد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے الہام کے ذریعے سے براہ راست بانی جماعت مولانا محمد الیاس علیہ الرحمہ کو سمجھایا گیا۔ اس وجہ سے ان کا اصرار ہے کہ اس میں کسی تبدیلی کا مشورہ دینا اللہ کی مرضی اور حکم کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ اس طریقے سے وہ ہر قسم کی تنقید، اور اصلاح کی دعوت سے پیچھا چھڑا لینا چاہتے ہیں۔
اپنے بے حد مخلص اور محنتی تبلیغی بھائیوں کو میرا مشورہ ہے کہ آپ مسلمانوں کو اسلام کے بنیادی عقائد کی تعلیم دینے کے زبردست کام میں بے شک لگے رہیں کیونکہ بہت کم مسلمان یہ ذمہ داری انجام دے رہے ہیں، لیکن جیسا کہ قرآن مجید ہمیں بار بار ترغیب دیتا ہے، اپنی عقل وفہم کو بھی استعمال کیجیے اور کوئی کام صرف اس وجہ سے نہ کرنا شروع کر دیجیے کہ اسے آپ کے بڑے (تبلیغی اصطلاح میں ’’بزرگ ‘‘) کرتے ہیں۔ اس کی صحت کو قرآن مجید کی روشنی میں پرکھیے۔ اپنی رہنمائی کا ماخذ قرآن مجید کو بنائیے نہ کہ کسی انسان کی لکھی ہوئی کتاب کو (خواہ وہ ’’فضائل اعمال‘‘ کے مصنف کی طرح کوئی شیخ الحدیث ہی کیوں نہ ہو)۔ تب آپ پر واضح ہوگا کہ اللہ کی رحمت کے حصول کا صحیح طریقہ دعا اور عبادات کا ذوق وشوق بھی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنا بھی، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، خدا کی رحمت کے حصول کا ذریعہ ہے۔
(ترجمہ : ابو طلال۔ بشکریہ    http://www.islaminterfaith.org)

تبلیغی جماعت اور دین کا معاشرتی پہلو (۲)

اوریا مقبول جان

عصر کی نماز کے بعد یا مغرب کی نماز سے ذرا پہلے گھروں کے دروازوں پر دستک دیتے قرون وسطیٰ کے مسلمانوں کی طرح کے چہرے جن کے ماتھوں پر محراب، سر پر عمامہ، ٹوپی یا رومال، لباس کی وضع قطع شریعت کے قواعد وضوابط کے مطابق اور گفتگو میں تحمل پایا جاتا ہے، آپ کو یقیناًنظر آتے ہوں گے۔ اپنے لڑکپن سے آج تک میں دین کی محنت میں لگے ہوئے لوگوں کو دیکھتا آ رہا ہوں۔ آپ چاہے ناگواری کا اظہار کریں، تمسخر اڑائیں یا توجہ سے بات نہ سنیں، ان کی جبین پر شکن تک نہیں آتی۔ یہ لوگ بلا کے ہیں۔ ایسے لگتا ہے ان کو اپنے پڑوس کی، شہر کی، ملک کی بلکہ پوری دنیا کے عوام کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ ان کا تردد ان کو جہنم کی آگ سے بچانا ہے۔ یہ اپنی محنت سے اور مسلسل گفتگو سے چند لوگوں کو قائل کر لیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ اس بیان میں شریک ہوں جو مسجد میں عموماً مغرب کی نماز کے بعد منعقد ہوتا ہے۔ پھر وہاں سے ایسے ہی چند مزید گروہ گلیوں اور محلوں میں نکل جاتے ہیں۔ اپنی اس تگ ودو اور محنت کو یہ لوگ ’’گشت‘‘ کہتے ہیں۔ یہ گشت صرف اپنی گلی یا محلے تک محدود نہیں رہتا بلکہ ملکوں ملکوں پھیلا ہوا ہوتا ہے۔
ان لوگوں کی زندگیوں کی ظاہری آب وتاب ایسے لگتی ہے جیسے عبادت کے تمام سلیقے ان کو ازبر ہیں۔ آداب نماز سے لے کر روزہ، تراویح اور اعتکاف سب اس انہماک سے ادا کرتے ہیں کہ ان پر رشک آتا ہے۔ ان کی گفتگو آخرت کے خوف سے پر اور جنت کی لذتوں سے آراستہ ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی ادارے میں کام کر رہے ہیں یا کسی کاروبار کی اساس ان کے ہاتھ میں ہے، ان کا رنگ ڈھنگ دور سے پہچانا جاتا ہے۔ لوگ ان سے محبت بے شک نہ کریں، لیکن نفرت نہیں کرتے۔ ایک طویل عرصے تک یہ ’’گشت‘‘ صرف ایک گروہ تک محدود تھا لیکن اب ایسے ہی گشت کچھ اور لوگوں نے بھی اختیار کر لیے اور اب میرے ملک میں لوگوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے بے چین لوگ جابجا نظر آئیں گے۔
مجھے ان لوگوں کی بود وباش، فقر وغنا اور سینے کی تڑپ اچھی لگتی ہے۔ یہ لوگ کتنے دردمند ہیں کہ دوسرے کی آخرت بچانے کے لیے بے چین ومضطرب ہیں، لیکن میں اس سارے پس منظر میں ایک عجیب وغریب بات سوچتا رہتا ہوں اور پھر ان سوچوں کے بھنور سے نکل نہیں پاتا۔ یہ لوگ جس مملکت خدادا پاکستان کی گلیوں اور محلوں میں خدائے واحد کا فرمان لیے گھوم رہے ہوتے ہیں، وہاں ۱۴ کروڑ کی آبادی میں ۵ کروڑ کے قریب ایسے گھرانے بھی آباد ہیں جنھیں اتنا بھی رزق میسر نہیں کہ ان کی زندگی کی گاڑی چل سکے۔ یہ لوگ ہو سکتا ہے کسی ایسے دروازے پر دستک دے دیں جہاں ماں نے بچوں کو پانی میں نمک مرچ گھول کر سوکھی روٹی کے ساتھ پیٹ بھر کر سلایا ہو اور باپ اس فکر میں غلطاں ہو کہ کل اس گھر میں پیٹ کے ایندھن کا سامان کہاں سے آئے گا۔ ہو سکتا ہے ان لوگوں نے راہ چلتے ایک ایسے شخص کو روکا ہو کہ جو دن رات دہاڑی دار مزدوروں کے اڈے پر ہر رکتی ہوئی گاڑی کے پاس التجا والے چہرے کے ساتھ لپکا ہو، لیکن دن کا سورج ڈھلنے تک اسے مزدوری کے لیے کوئی اپنے ساتھ نہ لے کر گیا ہو۔ بوجھل قدموں سے یہ شخص اپنے گھر کی سمت کس پریشانی کے عالم میں لوٹ رہا ہوگا۔ ان بندگان خدا کی دستک ایسے دروازوں پر بھی ہو سکتی ہے جہاں چند دن پہلے کسی باپ نے بازار سے زہر خریدا اور بھوک سے بے تاب، کھانے کی آرزو میں تڑپتے بچوں کی خوراک میں ڈالا اور پھر ان کے ساتھ کھانا کھا کر موت کی نیند سو گیا ہو۔ یہ کسی بے روزگار نوجوان، کسی بے کس، محروم اور بے آسرا کے سامنے بھی اپنی بات بیان کرتے ہوں گے۔ یہ اس باپ کے سامنے بھی جاتے ہوں گے جس نے رزق حلال سے اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم وتربیت کی ہو، لیکن وہ روزگار سے اس لیے محروم رہے کہ ان کی رسائی کسی سیاست دان، کسی جرنیل یا کسی اعلیٰ افسر کی دہلیز تک نہ تھی اور آج ان کو غربت وافلاس کی زندگی میں صرف سفارش اور رشوت کے خلاف بد دعائیں ہی یاد آتی ہوں گی۔
انھی خیالوں میں گم میں ایک محفل میں جا نکلا جہاں ایسا ہی شخص لوگوں کو ترغیب دے رہا تھا کہ کیا تم نے کبھی جا کر دیکھا کہ تمھارا پڑوسی نماز پڑھتا ہے کہ نہیں۔ وہ جہنم کی آگ کی طرف جا رہا ہے اور تم اسے بچانے کے لیے کیوں نہیں دوڑتے۔ میں سر سے پاؤں تک کانپ گیا اور مجھے سرکار دو عالم کی وہ احادیث یاد آنے لگیں۔ آپ نے فرمایا ’’جو اپنے بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلاتا ہے اور پانی پلاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ سے سات خندق دور فرما دیتا ہے۔ دو خندقوں کا درمیانی فاصلہ پانچ سو سال کی مسافت ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا ’’بھوکے کو کھانا کھلانا مغفرت واجب کرنے والے اعمال میں سے ہے۔‘‘ آپ نے ابن عباس سے فرمایا ’’جو مسلمان کسی مسلمان کو کپڑا پہناتا ہے تو جب تک پہننے والے کے بدن پر اس کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی رہتا ہے، پہنانے والا اللہ کی حفاظت میں رہتا ہے۔‘‘ ایک جگہ فرمایا ’’مسکین کو اپنے ہاتھ سے دینا بری موت سے بچاتا ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا ’’آگ سے بچنے کی کوشش کرو، چاہے آدھی کھجور ہی دے کر کرو۔‘‘ حضرت عائشہ کہتی ہیں ’’میرے پاس ایک سائل آیا۔ میں نے اسے کچھ دینے کو کہا۔ پھر بلایا اور دیکھا کہ اسے کیا دیا۔ آپ نے فرمایا، تم یہی چاہتی ہو نا کہ گھر میں جتنا آئے اور جتنا خرچ ہو، اس کا تمھیں علم ہو۔ فرمایا جی ہاں۔ فرمایا، حساب کتاب کے پھیر میں نہ پڑو۔ گن گن کر نہ دو، ورنہ اللہ تمھیں بھی گن گن کر دے گا۔‘‘
میں خواب دیکھنے والا شخص ہوں۔ خواب دیکھتا رہتا ہوں کہ شاید ایک دن ایک ایسا ’’گشت‘‘ بھی نکلے گا، اپنے کندھوں پر اپنا مال ودولت لادے ہوئے، اور مسجدوں کے دروازے سے نکل کر گھروں پر دستک دیں گے: ہے کوئی بھوکا، ہے کوئی نادار، ہے کوئی مسکین، ہم سے کھانا کھالو اور ہمیں جہنم کی آگ سے بچا لو، ہماری پوشاک پہن لو اور ہمیں اللہ کی حفاظت میں جانے دو۔ ہمارے ہاتھ سے بغیر گنے سب کچھ لے لو تاکہ اللہ ہمیں بے حساب عطا کرے۔ عصر کے بعد، مغرب سے پہلے، ماتھوں کے محراب، سروں پر عمامے اور کندھوں پر مال ومتاع لادے کوئی ایک گشت تو ایسا نکلے!
(بشکریہ روزنامہ جنگ۔ ۲۵ جون ۲۰۰۵)

اعتذار

ادارہ

(الشریعہ کے مئی ۲۰۰۶ کے شمارے میں ’’غامدی صاحب کے اصولوں کا ایک تنقیدی جائزہ‘‘ کے زیر عنوان حافظ محمد زبیر صاحب کا مقالہ شائع ہوا تھا جس میں نقل کردہ اقتباسات کے حوالہ جات ہماری کوتاہی کی وجہ سے درج نہ کیے جا سکے۔ مصنف اور قارئین، دونوں سے بے حد معذرت کے ساتھ یہ حوالہ جات یہاں شائع کیے جا رہے ہیں۔ مدیر)

ص ۲۵
ْ’قرآن مجید دین کی آخری کتاب ہے ۔ ...... سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں ۔‘‘
ماہنامہ اشراق، مارچ ۲۰۰۴، ص ۱۱

ص ۲۶
’’بائبل تورات ،زبور، انجیل اور دیگر صحف سماوی ....... آلات موسیقی کو کبھی ممنوع قرار نہیں دیا گیا۔‘‘ 
ایضاً، ص ۱۶

ص ۲۶
’’اے خداوند .....میں تیری مدح سرائی کروں گا۔‘‘
ایضاً، ص ۱۸

ص ۲۶
’’تو ایسا ہوا .....خداوند کی ستایش کی کہ وہ بھلا ہے ۔‘‘
ایضاً، ص ۱۷

ص ۲۶، ۲۷
’’جہاں تک موسیقی کا تعلق ہے .....کلام کے اصل مدعا سے تجاوز ہو گا۔‘‘
ایضاً، ص ۱۲

ص ۲۷
’’اور ان حاشیوں پر .....(فرشتے) بنے ہوئے تھے ۔‘‘
اشراق، جون ۲۰۰۰، ص ۳۴

ص ۲۷
’’اور الہام گاہ میں ......دس دس ہاتھ اونچے بنائے ۔‘‘
ایضاً

ص ۲۷
’’اس میں کوئی شبہ نہیں ......نبی ﷺ نے انھیں دجال (عظیم فریب کار) قرار دیا ہے ۔‘‘
اشراق، جنوری ۹۶، ص ۶۱

ص ۲۷
’’اور خداوندکا کلام ....اور اس کے خلاف نبوت کر ۔‘‘
اشراق، اکتوبر ۱۹۹۰، ص ۵

ص ۲۷، ۲۸
’’اپنے اس علاقے سے ....انھی کے قبضے میں ہیں۔‘‘
ایضاً، ص ۱۰

ص ۲۹
’’جاندار چیزوں .......منسوب کر دیا گیا ہوگا۔‘‘
تدبر قرآن، ج ۶، ص ۳۰۴

ص ۲۹، ۳۰
’ ’پیغمبروں کے دین میں .....استعمال کا ذکر آیا ہے۔ ‘‘
اشراق، مارچ ۲۰۰۴، ص ۱۶

ص ۳۰، ۳۱
’’ سوال یہ ہے کہ قرآن میں.....حدیث کس طرح منسوخ کر سکتی ہے۔‘‘
اشراق، نومبر ۱۹۸۹، ص ۳۶۔۳۸

ص ۳۱، ۳۲
’’سوم یہ کہ .....قدیم صحیفے ہی اصل ماخذ ہوں گے ۔‘‘
میزان، ص ۵۲

ص ۳۲، ۳۳
’’حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد ...... حتمی بات کہنا ممکن نہیں۔‘‘
اشراق، جنوری ۱۹۹۶، ص ۶۰، ۶۱

ص ۳۴
’’اورجب وہ زیتون ..... گمراہ کریں گے۔‘‘
متی، ۲۴: ۳۔۵

ص ۳۴
’’انہوں نے اس سے ......نزدیک آ پہنچا ہے ۔‘‘
لوقا، ۲۱: ۷۔۹

ص ۳۴
’’میں تیرے پاس ......کیونکر برتاؤ کرنا چاہیے۔‘‘
تیمتھیس، ۳: ۱۴، ۱۵

ص ۳۵، ۳۶
’’پر اگر یہ بات سچ ہو ..... طلاق نہ دینے پائے۔‘‘
استثنا، ۲۲: ۲۰۔۲۴، ۲۸، ۲۹

ص ۳۶
’’عن البراء بن عازب قال ..... فی الکفارکلھا‘‘
صحیح مسلم، کتاب الحدود، باب حد الزنا

ص ۳۸
’’ہمارا نقطہ نظر .....دجال(عظیم فریب کار ) قرار دیا۔‘‘
اشراق، جنوری ۹۶، ص ۶۱

ص ۳۸
’’کسی طرح کسی کے فریب .... .... ساتھ ہوگی۔‘‘
تھسلینکیوں، ۲: ۳۔۱۰

ص ۳۸
’’انی انذرکموہ .... ان اللہ لیس باعور‘‘
صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب کیف یعرض الاسلام علی الصبی

ص ۳۹
’’سمعت رسول اللہ ﷺ یقول یقتل ابن مریم الدجال بباب لد‘‘
سنن الترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی قتل عیسی بن مریم الدجال

ص ۳۹
’’ارایتم ان قتلت ..... فلا یسلط علیہ‘‘
صحیح مسلم، کتاب الفتن، 
باب فی صفۃ الدجال

مکاتیب

ادارہ

(۱)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
برادرم محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم! امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔
ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں اپنا مضمون دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اس پر میں آپ کا تہ دل سے شکر گزار ہوں۔ اس مضمون کے حوالے سے راقم کو ذاتی طور پر مختلف اصحاب علم کی طرف سے تبصرے بھی موصول ہوئے جن میں چند باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی۔ ان میں کچھ باتیں غلط فہمی کا نتیجہ تھیں جن کا ازالہ میں ضروری سمجھتا ہوں۔
۱۔ ’الشریعہ‘ میں میرا تعارف صحیح شائع نہ ہو سکا۔ میں نے آپ کی طرف جو خط لکھا تھا، اس میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ میں ریسرچ سنٹر، قرآن اکیڈمی میں بطور ریسرچ ایسوسی ایٹ کے کام کر رہا ہوں۔ مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔
۲۔ بعض اہل علم نے اعتراض کیا ہے کہ مضمون میں حوالے نہیں تھے، جبکہ میں نے جو مضمون ’الشریعہ‘ میں شائع کروانے کے لیے بذریعہ ڈاک بھیجا تھا، اس میں تمام حوالہ جات باقاعدہ موجود تھے۔
۳۔ بعض اہل علم نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اہل سنت کے تصور ’شرائع من قبلنا‘ کے حوالے سے مضمون میں کوئی بحث نہیں آئی۔ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ میں نے جو مضمون ’الشریعہ‘ میں شائع ہونے کے لیے بھیجا تھا، اس میں تقریباً آٹھ صفحات پر مشتمل دو ابحاث، ایک تو ’’غامدی صاحب کے تصور کتاب کا رد، شرعی دلائل (احادیث) کی روشنی میں‘‘ اور دوسری بحث ’’غامدی صاحب کے تصور کتاب اور اہل سنت کے تصور شرائع من قبلنا میں فرق‘‘ کے بارے میں تھیں جن کو مدیر ’الشریعہ‘ نے شائع نہیں کیا۔ اگر مضمون کے شروع میں مدیر ’الشریعہ‘ کی طرف سے ایک پیراگراف میں اس بات کی وضاحت آ جاتی کہ ہم نے فلاں فلاں ابحاث کسی حکمت کے تحت مضمون سے نکال دی ہیں تو اچھا تھا۔
قارئین کی معلومات کے لیے اگر یہ خط ’الشریعہ‘ میں بھی شائع ہو جائے تو میں آپ کا شکر گزار ہوں گا۔
حافظ محمد زبیر
ریسرچ ایسوسی ایٹ، قرآن اکیڈمی
36/K ماڈل ٹاؤن لاہور
(۲)
محترم المقام زاہد الراشدی صاحب
سلام خلوص!
امید ہے کہ آپ خیر یت سے ہوں گے۔ طویل مدت سے ’الشریعہ‘، ’شاداب‘ کے تبادلہ میں موصول ہورہاہے۔ دیگر اسلامی جرائد بھی موصول ہوتے ہیں، لیکن الشریعہ کا فکری رنگ ہی منفرد اور جداگانہ ہے۔ میں ہرشمارہ بڑی توجہ سے پڑھتاہوں اور کئی مرتبہ اس کے روشن خیالی اور شعور انسانیت پر مبنی فکر انگیز مضامین اپنے ہم خیال مسلم دوستوں کو بھی پڑھنے کے لیے دیتاہوں۔ خصوصاً بنی اسرائیل کے متعلق آپ کے مضامین نے بے حد متاثرکیا جو عصر حاضر کی سوچ کے غماز تھے۔ البتہ احمدیوں کے بارے میں مضامین خاصے ’’دل آزار‘‘لگے۔ بہر کیف مسیحیت کے بارے میںآپ کا نقطہ نظر اور انداز فکر قدرے فراخ دلانہ ہے۔ آج مناظرے کا دور نہیں رہا، لہٰذا ہمیں بین المذاہب یعنی انٹر فیتھ مکالمہ کو فروغ دینا چاہیے تاکہ مختلف مذاہب وادیان او ر مسالک کے درمیان نہ صرف غلط فہمیوں اور کج بحثیوں کا خاتمہ ہو بلکہ باہمی رواداری ،یگانگت ،ہم آہنگی، محبت ،اخوت اور برداشت کی ثقافت کو فروغ حاصل ہو۔
مئی ۲۰۰۶ء کے سرورق پر ’’آراوافکار‘‘ کے حوالے سے عبارت اسی فکر کی نمائندہ اور ترجمان ہے۔ خاص طور پر یہ فقرے: ’’صدیوں سے مذہبی طبقے کا دائرہ کارعقائد، عبادات اور نیک بننے کی مشق رہ گیاہے۔ ان کے پاس انسانیت کی بہبود کے لیے سوچنے کی فرصت نہیں ہے۔ ‘‘ اس فکرکی جتنی بھی ترویج واشاعت کی جائے اور اس کی جتنی بھی تحسین کی جائے، وہ فی زمانہ کم ہوگی۔ رب کائنات آپ کو اپنے حفظ واما ن میں رکھے۔ کارِلائقہ سے یاد فرمائیں ۔
اس شعر کے ساتھ اجازت دیں :
دین کوئی بھی اختیار کرے 
آدمی آدمی سے پیار کرے
نوٹ: ایک ضروری بات رہ گئی۔ آراوافکار کے مفکر اورآپ کے دست راست مولانا محمد عیسیٰ منصوری چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم لندن سے لندن میں ملاقات ہوئی تھی جہاں ہم دونوں نے وکٹون ٹیلی وژن پر بین المذاہب مکالمہ اور لندن میں بم دھماکہ کی صورت حال پر گفتگو اور اظہاررائے کے لیے live پروگرام میں حصہ لیا جو تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا۔ میں نے مسیحیوں او ر مولانا نے مسلم حلقوں کی نمائندگی کی۔ یہ پروگرام تین مرتبہ پورے یورپ میں دکھایاگیا ۔
والسلام
ڈاکٹر کنول فیروز
477 جہانزیب بلاک
علامہ اقبال ٹاؤن ۔ لاہور
(۳)
محترم جناب عمار خان ناصر صاحب 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ ماہنامہ ’الشریعہ‘ باقاعدگی سے ملتاہے۔ اپریل کے مہینے میں آپ نے توہین رسالت کے نتیجے میں عالم اسلام میں جو صورت حال پیدا ہو ئی ہے، اس پر نہایت سنجیدگی سے بحث کی ہے اور صورت حال کا نہایت عمدہ طریقے سے تجزیہ کیاہے، لیکن امت مسلمہ کی داخلی صورت حال اور رویے کے ضمن میں جن امورکی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے، ان پر کچھ عرض کرنا چاہتاہوں ۔
بدھ کے مجسموں کو مسمار کرنے کے واقعہ کو آپ نے سیاسی محرکات کے تحت داخل کیاہے اور اس کو اخلاقیات کے منافی قراردیاہے، حالانکہ یہ واقعہ کوئی سیاسی پس منظر نہیں رکھتا۔ ہمارے فقہا او ر علماے کرام نے تصویر سازی اور مجسمہ سازی کو حرام قراردیاہے۔ اکثریت کے نزدیک یہ حرمت علی الاطلاق ہے، لیکن جو تصویر سازی، مجسمہ سازی اور فنون لطیفہ کو اصلاً مباح قرار دیتے ہیں، ان کوبھی میرے خیال میں اس واقعہ پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ان کے نزدیک بھی اگر یہ فنون فواحش یا مشرکانہ افعال یاعقائد سے وابستہ ہوں تو پھر سد ذرائع کے طور پر انھیں حرام قرار دیاجاسکتاہے۔ گوتم بدھ کو آج بھی کروڑوں لوگ پوجتے ہیں اور اس کے مجسمے کو عبادت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پس یہ اقدام مذہبی تعلیمات کی رو سے کیا گیا، سیاست سے اس کا تعلق جوڑنا صحیح نہیں ہے۔ 
دوسری اہم بات جس کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے،یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک مذہبی گروہ کے پیغمبر کے بارے میں تضحیک اورتمسخر پر مبنی لٹریچر شائع ہوتاہے اور مذہبی جلسوں میں ان لوگوں کے بارے میں ناشائستہ زبان استعمال ہوتی ہے۔ یقیناًیہ ایک اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے جس پر ہمیں اپنے رویے اور اخلاقی حالت کا جائزہ لینا چاہے تاکہ افراط وتفریط سے بچا جائے اور صحیح بات کی طرف پیش رفت ممکن ہو، لیکن اگر کوئی مذہبی گروہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو گمراہ کر رہا ہو، اس کی سرگرمیاں مسلمانوں کے دین وایمان کے لیے خطرہ ہوں، اور خود ان کے پیغمبر کی کتابوں میں اسلامی شخصیات اور مسلمانوں کے حوالے سے تضحیک اور تمسخر پر مبنی مواد موجود ہو تو کیا ایسی باتوں کی نشان دہی کو اسلام کے دفاع کے لیے استعمال کرنا بھی اسلامی تعلیمات کے منافی ہوگا؟
تیسری اہم بات توہین رسالت کو رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی تک محدود رکھنے سے متعلق ہے۔ یقیناًمذہبی لیڈروں کو دیگر پیغمبروں کی توہین اور گستاخی کے رویے کا نوٹس لینا چاہیے اور اس حوالے سے بھی لوگوں کو متحرک کرنا چاہیے ،کیونکہ تمام انبیا کا احترام لازمی ہے اور ان میں سے کسی ایک کی توہین بھی نبوت اور رسالت کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ توہین رسالت کو کسی نے بھی رسول اللہ کی ذات گرامی تک محدود اور مخصوص نہیں کیا۔ مسلمانوں کے اس پر احتجاج نہ کرنے کو یہود ونصاریٰ کے ساتھ مذہبی مخاصمت کے رویے سے نہیں جوڑا جا سکتا۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عبدالحمید 
گاؤں سرڈھری (قلعہ) 
ضلع چارسدہ

کسرِ کعبہ کی حضوری

پروفیسر میاں انعام الرحمن

پروفیسر منیرالحق کعبی بطور مصنف ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں ۔ نثر ، تنقید ، شاعری ...... غرض اردو ادب کی تقریباََ تمام اصناف پر موصوف نے خامہ فرسائی کی ہے اور خوب کی ہے ۔ ان کا موجودہ حمدیہ کلام بعنوان ’’ حریمِ حمد ‘‘ اس وقت پیشِ نظر ہے ۔ کعبی جیسے شخص کا حمد کی طرف اس قدر جھکاؤ کہ پوری تصنیف منظرِ عام پر آجائے ، حیرت انگیز نہیں ہے بالخصوص اس تناظر میں کہ پچھلے چند سالوں سے ان کی طبع پٹڑی بدلتی دکھائی دیتی ہے ۔ان کے سابقہ مجموعہ ہائے کلام ’’ رگِ خواب‘‘ اور ’’ قربِ گریزاں ‘‘ کی غزلیات سے کسی بھی قاری پر آشکارا ہو جاتا ہے کہ انھوں نے غمِ دنیا کے حوادث کے مقابل غمِ یار کا خیمہ ڈال رکھا ہے اور حسنِ یار کی مالا جپنا ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے ۔ شاید ڈھلتی عمر میں بابِ وصال وا نہ ہونے سے احساسِ زیاں نے انھیں آ گھیرا ہے اور عاقبت سنوارنے کے پیشِ نظر ہمارے شاعرنے مجاز سے حقیقت تک کی مسافت طے کر لینے میں ہی عافیت جانی ہے ۔ حریمِ حمد کے اس شعر سے صورتِ حال کا کچھ اندازہ ہو جاتا ہے :
جسے اندر چھپا کر بھول بیٹھا 
اسی کی جستجو کرنے لگا ہوں 
’’ قربِ گریزاں‘‘ کا درج ذیل شعر بھی کعبی کے بدلتے رجحانِ طبع کی کی چغلی کھاتا ہے ، اس کے بعد درج بالا شعر آخر کہنا ہی تھا ۔
عذاب ٹھہرا ہر اک سے یہ سلسلہ رکھنا 
خدا کے ساتھ بتوں سے معاملہ رکھنا 
حریمِ حمد کے مذکورہ شعر کی معنوی اعتبار سے بہت سی پرتیں ہیں ۔ ’’ اندر چھپا کر ‘‘ انسانی نفسیات کے ایک عمومی پہلو کی طرف اشارہ ہے ۔ یہ فطرتِ انسانی ہے کہ وہ اپنی سب سے پسندیدہ اور محبوب چیز کو بہت سنبھال کر ، دھیان اور احتیاط سے ’’محفوظ‘‘ کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ کعبی کے اس مصرعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے سابقہ مجموعہ ہائے کلام میں غمِ یار کا بیان اصلی نہیں بلکہ مصنوعی اور بناوٹی ہے ۔ مخصوص طرزِ معاشرت یا خارجی جبر سے دب کر ہمارا شاعر ’’ نیلم آنکھوں ‘‘ کا اسیر رہا ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ کعبی کی ’’ اصل ‘‘ نے حسنِ ازل کو احتیاطاً چھپا کر رکھ دیا اور ...... بھلا دیا ۔ خود کعبی نے ’’ حریمِ حمد ‘‘ میں اس کا ذکر یوں کیا ہے : 
یہ نیلم بیلم کچھ بھی نہیں اس حسنِ ازل کی بات کریں 
اگرچہ ناقدین کہہ سکتے ہیں کہ’’ انگور کھٹے ہیں‘‘ لیکن راقم کی رائے میں کعبی ’’ مجاز ‘‘ کی بے ثباتی سے آشنا ہو گیا ہے اور اسی لمحے حسنِ مطلق بھی ’’ چھو کر حصارِ جسم کو جاں تک اتر گیا ‘‘ جس سے یہ شعر سامنے آیا : 
رگ و پے میں سرایت کر رہا ہے 
خود اپنی آبرو کرنے لگا ہوں 
جی ہاں ! حسنِ ازل کی قربت سے ہی وہ خود شناسی جنم لیتی ہے جس سے انسان اپنی آبرو خود کرنے لگتا ہے ۔ اس شعر کے دوسرے مصرعے میں ایک اور لطیف نکتہ مضمر ہے کہ انسان تو خوامخواہ دوسروں کی شکایتیں کرتا پھرتا ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان خود اپنی آبرو نہیں کرتا ۔ 
کعبی کے حمدیہ کلام میں بھی تغزل کا رنگ بہت گہرا ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غزل ان کی محبوب ترین صنف ہے ۔ ان کی غزل میں زبان کا رچاؤ اور اظہارِ بیان کا رکھ رکھاؤ ملتا ہے ۔ ’’حریم حمد ‘‘میں تغزل کی آمیزش سے نہ صرف شعریت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اثر انگیزی بھی روٹین سے ہٹ کر ہے مثلاََ :
جلا گئی ہے مرے دشت کی ہوا مجھ کو 
نہ اور آتشِ ہجراں میں اب جلا مجھ کو 
تو بار بار بلاتا رہا مجھے لیکن 
بچھڑ کے یاد نہ عہدِ وفا رہا مجھ کو 
اگر ان اشعار کی بابت ذکر نہ کیا جائے کہ یہ حمد کے اشعار ہیں تو شاید قاری کا دھیان بھی اس سمت نہ جائے ۔ راقم کی رائے میں حمدیہ کلام میں ایسا اسلوب لائقِ تحسین ہے کیونکہ اس سے جیتے جاگتے زندہ خدا کا تصور ابھرتا ہے اور تجرد دم توڑتا دکھائی دیتا ہے ۔ ورنہ اکثر اوقات حمدیہ کلام میں خدا کی ذات کو ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے اس کا انسان سے کوئی تعلق ہی نہ ہو ۔ راقم کو تجرد اور ماورائیت کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن صرف انھی پر فوکس کرنا ، شاید بہتر نہیں ہے ۔ یہاں یہ بیان کرنا بے محل نہیں ہو گا کہ ’’ حریمِ حمد ‘‘ میں بھی بعض مقامات پر تجرد اور ماورائیت کے سے انداز میں حمدیہ کلام موجود ہے لیکن درج ذیل شعر میں کعبی نے تغزل کی لطافت اور حمد کے تقدس کو یکساں اور کمال خوبی سے نبھایا ہے : 
تیر و نشتر ہیں ہمسفر آنکھیں 
نام تیرا سپر سپر، مولا 
اسی طرح یہ شعر بھی قابلِ غور ہے :
رت جگے اس کی ہی قسمت میں لکھے جاتے ہیں 
جان کر اپنا جسے آہِ رسا دیتا ہے
احباب جانتے ہیں کہ غزل کہنے والے غمِ یار میں غمِ دنیا بھی شامل کر لیتے ہیں جس سے تغزل کا نیا آہنگ ابھرتا ہے ۔ کعبی نے اس آہنگ کو بھی اپنے حمدیہ کلام میں جگہ دے کر معتبر بنا دیا ہے : 
ہمارا وقت ہے گویا خلا میں آویزاں 
مرے کریم ! کسی بھی افق اترتا نہیں 
’’ حریم حمد ‘‘ میں ایک دو مقامات پر تضاد سے بھی واسطہ پڑتا ہے مثلاََ :
بشر ہو اور بشر سے وہ خوف خوردہ ہو 
یقین مان وہ بندہ خدا کا بندہ نہیں

یہ میری ذات کا اک المیہ ہے کس سے کہوں 
کہ آدمی ہوں مگر آدمی سے ڈرتا ہوں 
’’ ذات کا المیہ ‘‘ کہہ کر ہمارے شاعر نے جہاں اپنی شخصیت کو گھمبیر بنا دیا ہے ، وہیں مذکورہ تضاد سے گلوخلاصی پانے کی ناتمام کوشش کی ہے ۔ یقیناََ کعبی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس نے اظہار و بیان میں تصنع ، بناوٹ اور لیپا پوتی سے کام نہیں لیا ، لہذا اس کی شخصیت کے تضاد کھل کر سامنے آسکتے ہیں ، اس لیے اس شعر سے ہمارا سابقہ پڑتا ہے :
مرے خدا یہ مری شخصیت تو چاک ہوئی 
مری انائے فگاراں کو اندمال ملے 
’’ حریمِ حمد ‘‘ میں دعائیہ انداز بھی ملتا ہے جس میں خاصا اچھوتا پن ہے :
اپنی نورانیت سے بکھرا دے 
سرکشی کی تنی گھٹا ہوں، خدا 
اہلِ محفل سے بن نہ پائی کچھ 
اور محفل سے آگیا ہوں، خدا 
کعبی کے اس حمدیہ کلام میں فکری اعتبار سے ایک بات کھٹکتی ہے کہ انھوں نے اشتراکی فلسفہ کو دور سے ہی سلام بھیج دیا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیوں کے بیان سے پہلو تہی برتی ہے ۔ شاید کعبی کی فکری نشوونما اس عہد میں ہوئی تھی جب چہار سو اشتراکیت کے خلاف محاذ گرم تھا اور وطنِ عزیز میں بھی سرمایہ دارانہ معیشت کا طوطی بولتا تھا .... اب بھی بولتا ہے اور زیادہ شدت سے بولتا ہے ۔ گلوبلائزیشن کی صورت میں سرمایہ دارانہ نظام کی موجودہ توسیع انسانیت کش ہے ۔ بہتر ہوتا ، کعبی اس پر بھی سلام بھیج دیتے ..... دور سے نہ سہی کم از کم قریب سے ہی سہی ۔ 
’’ حریمِ حمد ‘‘ کے ابھی بہت سے پہلو ہیں جن پر بات ہو سکتی ہے ۔ تاریخی واقعات کی خوبصورت منظر کشی سے لے کر اچھوتی تراکیب تک ، سب کچھ اس میں جا بجا بکھرا ہوا ملتا ہے ۔ ایک اختراع سے اس شعر میں واسطہ پڑتا ہے :
کچھ مجھ کو ہی دنیا کا چلن راس نہیں ہے 
کچھ دوست مرے مجھ سے ہیں ساڑو ، مرے مولا 
لفظ ’’ ساڑو ‘‘ بڑی مہارت سے فٹ کیا گیا ہے شعر کی روانی متاثر ہوتی نظر نہیں آتی ۔ 
کعبی جب مدحِ رسالت مآب ﷺ کی طرف آتے ہیں تو شعریت چھلک چھلک جاتی ہے ، ملاحظہ کیجیے: 
کچھ اور عالمِ کیف و سرور ہوتا ہے 
رسولِ پاک ﷺ کی یادوں میں جب اترتا ہوں 
درود پڑھتا ہوں اور اس کے فیض سے کعبی 
غبار ِ نور میں ڈوبا ہوا ابھرتا ہوں 
’’ رسول پاک ﷺ کی یادوں میں اترنا ‘‘ اور ’’ غبارِ نور میں ڈوبا ہوا ابھرنا ‘‘ ......... کہنا ہی پڑتا ہے کہ ، ایں سعادت بزورِ بازو نیست ۔ 
آخر میں یہ بیان کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ حمدیہ کلام ، بندے اور خدا کا مکالمہ ہے ....... خلوت میں مکالمہ ۔ اس پر تبصرہ کرنا ، شاید مخل ہونے کے مترادف ہے ۔ راقم یقیناََ مخل نہ ہوتا ، لیکن یہ جناب کعبی کا حکم تھا جس کی تعمیل کے ضمن میں دخل در معقولات کی جسارت کر سکا۔ 

الشریعہ اکادمی کی سرگرمیاں

ادارہ

  • پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی ۲۸؍ اپریل ۲۰۰۶ کو گوجرانوالہ تشریف لائے اور دیگر مصروفیات کے علاوہ کوروٹانہ میں الشریعہ اکادمی کے زیر تعمیر دینی تعلیمی مرکز میں ’’دار القرآن‘‘ کا سنگ بنیاد رکھا اور مغرب کی نماز کے بعد جہانگیر کالونی،کھوکھرکی گوجرانوالہ میں الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام جامع مسجد ابو ذر غفاریؓ میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں جلسہ سے خطاب کیا۔
  • حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نواسے اور جامعہ امام ولی اللہ مراد آباد (انڈیا) کے مہتمم مولانا مفتی محمد اسعد قاسم گزشتہ دنوں گوجرانوالہ تشریف لائے اور الشریعہ اکادمی میں فضلاے درس نظامی کی کلاس کو علوم قرآنی کے موضوع پر خصوصی لیکچر دینے کے علاوہ مولانا زاہد الراشدی، حافظ محمد عمار خان ناصر، پروفیسر میاں انعام الرحمن، مولانا حافظ محمد یوسف اور پروفیسر محمد اکرم ورک کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں مختلف دینی وتعلیمی امور پر تبادلہ خیالات کیا۔ انھوں نے مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ۱۹؍ مئی کو جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب بھی کیا۔
  • ۷؍ مئی ۲۰۰۶ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام ایک خصوصی فکری نشست میں شعبہ علوم اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی کے سابق سربراہ ڈاکٹر حافظ محمود اختر نے ’’حفاظت قرآن اور مستشرقین‘‘کے موضوع پر اہل علم اور اساتذہ سے خطاب کیا اور تحریک استشراق اور اس کے اہداف ومقاصد کا مختصر تعارف کروانے کے علاوہ قرآن مجید کے حوالے سے مستشرقین کے ہاں پائے جانے والے مختلف زاویہ ہائے نگاہ اور اعتراضات پر گفتگو کی۔ تقریب میں ڈاکٹر ممتاز احمد اعوان (کنٹرولر امتحانات گوجرانوالہ بورڈ) بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ 
  • الشریعہ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے شش ماہی امتحان کی تعطیلات کے موقع پر دو ہفتے کے لیے برطانیہ روانہ ہو گئے ہیں۔ وہ ۲۸؍ مئی ۲۰۰۶ کو جامعۃ الہدیٰ شیفیلڈ کے سالانہ جلسہ میں شرکت کے علاوہ لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کی مرکزی کونسل کے اجلاس میں شریک ہوں گے اور لندن، مانچسٹر، گلاسگو، برمنگھم، نوٹنگھم، کراؤلی، برنلے اور دیگر مقامات میں مختلف دینی اجتماعات سے خطاب کے بعد ۹؍ جون کو جمعۃ المبارک کے موقع پر گوجرانوالہ واپس پہنچ جائیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

جولائی ۲۰۰۶ء

حدود آرڈیننس اور اس پر اعتراضاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بین المذاہب مکالمہ کی اہمیت، ترجیحات اور تقاضےپروفیسر محمد اکرم ورک
مذہبی انتہا پسندی اور اس کا تدارکپروفیسر اختر حسین عاصم
تین طلاقوں کے بارے میں جمہور علماء کا موقفمولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
اصولوں پر تنقیدطالب محسن
’’قرآنی علمیات اور معاصر مسلم رویہ‘‘ ۔ تنقیدات پر ایک نظرپروفیسر میاں انعام الرحمن
نئی نسل کے ذہنوں میں گردش کرتے حساس سوالاتآصف محمود ایڈووکیٹ
مکاتیبادارہ
تعارف و تبصرہادارہ

حدود آرڈیننس اور اس پر اعتراضات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’حدود آرڈنینس‘‘ ایک بار پھر ملک بھر میں موضوع بحث ہے اور وہ لابیاں از سر نو متحرک نظر آرہی ہیں جو اس کے نفاذ کے ساتھ ہی ا س کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئی تھیں اور قومی اور عالمی سطح پر حدود آرڈنینس کے خلاف فضا گرم کرنے میں مسلسل مصروف چلی آرہی ہیں۔ اس سے قبل ہم متعدد بار اس مسئلے کے بارے میں معروضات پیش کرچکے ہیں، لیکن موجودہ معروضی صورت حال میں ایک بار پھر اس سوال کا جائزہ لینا ضروری ہو گیاہے کہ ’’حدود آرڈنینس ‘‘کیاہے ؟ اس کے نفاذ کی مخالفت میں کون کون سے طبقے پیش پیش ہیں اور وہ اس کے خاتمہ کے لیے کیوں سرگرم عمل ہیں؟
’’حدود‘‘ اسلامی فقہ کی ایک اصطلاح ہے اور حدود کا لفظ ان سزاؤں پر بولا جاتاہے جو مختلف معاشرتی جرائم میں قرآن وسنت میں طے کی گئی ہیں۔ سزاؤں کا وہ حصہ جن کے تعین اور ان میں کمی بیشی میں اسلامی حکومت ،مقننہ او ر عدلیہ کو اختیار حاصل ہے، تعزیرات کہلاتاہے لیکن چند سزائیں طے شدہ ہیں جن میں کمی بیشی یا معافی کا حکومت ،مقننہ یا عدلیہ میں سے کسی کو شرعاً اختیار حاصل نہیں ہے، اور یہ ’’حدود ‘‘کہلاتی ہیں۔ مثلاً چوری کی سزا قرآن کریم نے ہاتھ کاٹنا بیان کی ہے اور جناب نبی کریم ﷺ نے بھی قرآن کریم کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے چور کو ہاتھ کاٹنے کی سزا دی ہے۔ اس لیے شریعت اسلامیہ میں یہ بات طے شدہ ہے کہ جب کسی عدالت میں کسی شخص پر چوری کا الزام ثابت ہوجائے تو عدالت اس بات کی پابند ہے کہ اسے وہی سزا دے جو قرآن وسنت نے بیان کی ہے۔ اسے تبدیل کرنے، معاف کرنے یا اس میں لچک پیدا کرنے کا عدالت کو اختیار نہیں ہے ۔
معاشرتی جرائم کی یہ سزائیں قرآن کریم سے پہلے توراۃ اور بائبل کے احکام میں بھی شامل رہی ہیں اور اسلام نے ان سزاؤں کو باقی رکھ کر دراصل بائبل کے احکام کے تسلسل کو بحال رکھاہے، اس لیے اگر آج کے عالمی ماحول میں ہاتھ کے کاٹنے اور سنگسار کرنے کی سزاؤں کو سخت اور معاذاللہ وحشیانہ قراردیا جا رہا ہے تو یہ الزام صرف قرآن کریم پر یا شریعت اسلامیہ پر عائد نہیں ہوتا بلکہ بائبل بھی اس ’’جرم ‘‘ میں برابر کی شریک ہے اور اسے اس میں قرآن کریم پر سبقت حاصل ہے۔ 
جہاں تک پاکستان میں ان ’’حدوداللہ ‘‘کے نفاذ کا تعلق ہے، اس کا مطالبہ تو قیام پاکستان کے وقت سے ہی ہورہا تھا کہ یہ نفاذ اسلام کا ایک اہم تقاضا تھا، لیکن اس کی عملی نوبت جنرل ضیاء الحق شہید ؒ کے دور صدارت میں آئی اور انہوں نے ایک آرڈیننس کی صورت میں اسے ملک میں نافذ کردیا جو ’’حدود آرڈیننس‘‘ کہلاتاہے اور مسلسل مخالفت اور اعتراضات کا ہدف ہے۔ اس کی متعدد دفعات کو نہ صرف وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کردیا گیا ہے بلکہ اس کی منسوخی کے لیے قومی اسمبلی میں باقاعدہ بل لانے کی تیاریاں بھی ہورہی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق شہیدؒ کے نافذ کردہ اس حدود آرڈیننس پر پاکستان میں اور عالمی سطح پر دو طبقوں کو اعتراض ہے اور وہی ا س کے خاتمے کے لیے مسلسل تگ ودو کررہے ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے جو سرے سے’’حدود اللہ ‘‘ کے نفاذ کے خلاف ہے۔ وہ چور کا ہاتھ کاٹنے، زانی کو سنگسار کرنے، جھوٹی تہمت پر کوڑے لگانے یا قصاص میں عضو کے بدلے عضو کاٹنے کو بھی غلط سمجھتا ہے۔ وہ قرآن کریم کی بیان کردہ سزاؤں کو اس دور کے قبائلی معاشرہ کی ضرورت سمجھتے ہوئے آج کے دو ر میں ان کے نفاذ کو غیر ضروری بلکہ غلط قراردیتاہے اور یہ طبقہ اس معاملے میں مغرب کے فکرو فلسفہ سے مکمل طور پر متفق اور ہم آہنگ ہے۔
دوسرا طبقہ وہ ہے جو ان حدود کے اسلامی ہونے کاقائل ہے، لیکن اسے شکایت ہے کہ ان حدود کی تعبیرو تشریح کے لیے ’’حدود آرڈیننس ‘‘ مرتب کرنے والوں نے ان حضرات کے موقف اور تعبیرات کو معیار تسلیم کرنے کی بجائے امت مسلمہ کے جمہور فقہاے کرام کی تعبیرات کو کیوں بنیاد بنایا ہے اور حدود شرعیہ بلکہ اسلامی احکام وقوانین کی جدید تعبیر وتشریح کرنے والے ان دانش وروں کے نقطہ نظر کو توجہ کے قابل کیوں نہیں سمجھا؟ اس پر یہ حضرات اس قدر سیخ پا ہیں کہ سرے سے حدود آرڈیننس کو منسوخ اور ختم کرانے کے لیے پہلے طبقہ کے شانہ بشانہ جاکھڑے ہوئے ہیں، حالانکہ ان حضرات کی یہ شکایت بجائے خود محل نظر ہے اور اپنی تعبیرات کو ہر حال میں امت سے قبول کرانے کے لیے ا ن کی ضد اور ہٹ دھرمی کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک دوست سے میرا اس مسئلہ پر مکالمہ ہوا۔ان صاحب کا کہنا تھا کہ کیا حدود کی تعبیر وتشریح میں فقہائے امت کی تعبیرات حرف آخر ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ کیا آپ کی تعبیرات حرف آخر ہیں؟ اس پر وہ چپ ہوگئے۔ میں نے گزارش کی کہ کسی بھی سلیم العقل اور صاحب انصاف کو یہ صورت حال پیش آجائے کہ ایک طرف امت کے جمہور فقہا کی تعبیرات ہوں اور دوسری طرف چند دانش ور حضرات اپنی تعبیرات کو اس کے مقابلے پر پیش کررہے ہوں تو ایک انصاف پسند شخص امت کے چودہ سو سالہ تعامل اور تمام دینی و علمی مکاتب فکر کے جمہور علما کی اجتماعی تعبیرا ت کو چند دانش وروں کی آرا پر قربان کرنے کے لیے کسی طرح بھی تیار نہیں ہوگا ۔ایسے اصحاب دانش کی حالت انتہائی قابل رحم ہے جو مولوی پر یہ الزام لگاتے ہوئے نہیں تھکتے کہ وہ ضدی ہے، ہٹ دھرم ہے اور دوسروں کے نقطہ نظر کا احترام نہیں کرتا، لیکن خود ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ امت کے چودہ سو سالہ اجتماعی تعامل اور آج کے جمہور علماے امت کے اتفاقی موقف کے سامنے چند افراد اس بات پر مصر ہیں کہ قرآن وسنت کے احکام ومسائل میں ان کی تعبیرات وتشریحات کو ہر حال میں قبول کیاجائے اور صرف انہی کو ’’معیار حق‘‘ قرار دے کر احادیث نبویہ ؑ اور فقہ اسلامی کے پورے ذخیرے کو ان کے سامنے ’’سرنڈر ‘‘ کرا دیاجائے، ورنہ وہ مغرب کے ساتھ ہیں اور سرے سے اسلامی احکام وقوانین کے نفاذ کو غیر ضروری قرار دینے والوں کی صف میں کھڑے ہیں ۔
یہ بات درست ہے کہ حدود آرڈیننس کا وہ حصہ جس کا تعلق تطبیق ونفاذ کی عملی صورتوں سے ہے، حرف آخر نہیں ہے اور موجودہ عدالتی نظام کے پس منظر میں ان میں سے بعض باتوں پر نظر ثانی ہوسکتی ہے لیکن یہ یکطرفہ بات ہے، اس لیے ’’حدود‘‘ کے نفاذ کو جس عدالتی نظام کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاگیاہے، وہ بجائے خود محل نظر ہے اور نیچے سے اوپر تک اس کی ہر سطح اور ماحول چیخ چیخ کر نظر ثانی کا مطالبہ کر رہاہے۔ حدود آرڈیننس کے نفاذ سے جو مشکلات او ر شکایات عملی طور پر سامنے آئی ہیں، ان میں سے بعض کا تعلق آرڈیننس کی بعض شقوں سے ہوسکتاہے، لیکن ان میں سے بیشتر شکایات اور مشکلات کا تعلق موجودہ عدالتی سسٹم اور اس کے پیچ درپیچ نظام سے ہے اور یہ شکایات صرف حدود کے حوالے سے نہیں بلکہ ملک کا ہر قانون اس عدالتی سسٹم کی پیچیدگی اور تہہ درتہہ الجھنوں کا نوحہ کناں ہے، مگر ہمارے یہ دانش ور اس سارے ملبہ کو حدود آرڈیننس پر ڈال کر اس سے پیچھا چھڑانے کی فکر میں ہیں۔ کچھ عرصہ قبل توہین رسالت ؑ کی سزا کے قانون کے حوالہ سے سوال اٹھا تھا کہ اس کاغلط استعمال ہورہاہے، اس لیے اسے ختم کردیاجائے۔ ہم نے گزارش کی تھی کہ کون سا قانون ملک میں ایسا ہے جس کا غلط استعمال نہیں ہورہا؟ اگر کسی قانون کو ختم کردینے کے لیے صرف یہی جواز کافی ہو کہ ا س کے غلط استعمال ہونے کا امکان موجود ہے تو ملک کے پورے قانونی نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینا ہوگا، اس لیے کہ ملک میں کوئی قانون بھی ایسا نہیں ہے جس کا غلط استعمال نہ ہو رہاہو اور جس کے غلط استعمال کا امکان موجود نہ ہو مگرا س کاتعلق قانون سے نہیں بلکہ قانونی نظام اور معاشرتی ماحول سے ہوتاہے۔
اس پس منظر میں ہمیں ان حضرات سے کوئی شکوہ نہیں ہے جو ا س حوالہ سے مغرب کی نمائندگی کررہے ہیں اور سرے سے حدود کے نفاذ ہی کے مخالف ہیں، اس لیے کہ ان کا موقف واضح ہے لیکن جو لوگ اسلام کا نام لے کر مغرب کے موقف اور ایجنڈے کی تقویت کا باعث بن رہے ہیں، ان سے شکوے کا حق ہم ضرور رکھتے ہیں کیونکہ جسٹس(ر) دراب پٹیل اور عاصمہ جہانگیر کے ساتھ جب ہم محترم جاوید احمد غامدی صاحب اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کو ایک ہی صف میں کھڑ ادیکھتے ہیں تو بہرحال ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔

بین المذاہب مکالمہ کی اہمیت، ترجیحات اور تقاضے

پروفیسر محمد اکرم ورک

(مرکزِ تحقیق ،فیصل آباد کے زیر اہتمام دوسرے قومی سیرت سیمینار منعقدہ ۳۔۴ جون ۲۰۰۶ کے لیے لکھا گیا۔)

بسم اللّٰہ الرحمن الر حیم۔
الحمدللّٰہ رب العالمین والصلوۃ والسلا م علی جمیع الانبیاء والمرسلین خصوصا علی سید الرسل وخاتم النبین وعلی اٰلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین،اما بعد! 
مرکزِ تحقیق ،فیصل آباد کے زیر اہتمام دوسرے قومی سیرت سیمینار میں میری گفتگو کا عنوان ہے ’’باہمی تعلقات کے لیے بین المذاہب مکالمہ کی اہمیت وضرورت، ترجیحات اور تقاضے ‘‘ ۔سب سے پہلے تو میں مرکزِ تحقیق کے منتظمین اور ذمہ داران کو مبارک باد پیش کرنا چاہوں گا جنھوں نے آج کے معروضی حالات اور تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اس اہم موضوع پراس پروقار تقریب کا انعقاد کیاہے، اوران تما م احباب کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھ جیسے طالب علم کو اس اہم اور فکر انگیز موضوع پر اظہارِ خیال کاموقع فراہم کیا۔
معزز حاضرین!
اربابِ دانش سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ گلوبلائزیش(Globalization) کے اس دورمیں بین المذاہب مکالمہ (Inter-Faith Dialogue) کی ضرورت و اہمیت پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے،باہمی مکالمہ ہی وہ واحد آپشن ہے جس سے کسی بھی مذہب کا داعی مخاطب کو اپنی دعوت کی طرف متوجہ کرسکتا ہے ، باہمی مکالمہ دعوت کا ایک ایسا اسلوب ہے جس کے ذریعے مخاطب کو زیادہ گہرائی اور سنجیدگی کے ساتھ سوچنے پر مجبورکیا جا سکتاہے، گفتگو کایہ ایسا اسلوب ہے جس میں متکلم اور سامع کے درمیان براہ راست گفتگو ہوتی ہے اور حقائق پوری طرح نکھر کر سامنے آتے ہیں، اب یا تو مخاطب مدِّ مقابل کے موقف کو قبول کرلیتاہے یا پھر دلائل کی بنیاد پر رد کر دیتاہے، یہ مکالمہ افراد کے درمیان بھی ہوسکتاہے، تہذیبوں اور مختلف مذاہب کے درمیان بھی۔

سیرت طیبہﷺ کی روشنی میں بین المذاہب مکالمہ کی اہمیت 

بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپﷺ کی امت آخری امت ہے اس لئے امت اجابت ہونے کی حیثیت سے دنیا کے تمام انسانوں تک پیغامِ الٰہی کا پہنچانا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے ۔قرآن و حدیث کے متعدد نصوص سے واضح طور پرامت محمدیہﷺ پر انفرادی اور اجتماعی سطح پریہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ شاہانِ عالم کے نام رسول اللہ ﷺکے دعوتی و تبلیغی خطوط جہاں معاصر مذاہب اور تہذیبوں سے آپ ﷺ کے مکالمہ کی ایک خوب صورت مثال ہیں وہی یہ خطوط اس بات کی بھی دلیل ہیں کہ اسلام اصلاً دینِ دعوت ہے اور اس کی دعوت کا دائرہ کار تمام عالم کو محیط ہے ،اس لئے اس کے عالمی پیغام کو دوسروں تک منتقل کرنا مسلمانوں کادینی فریضہ ہے۔ مذاہبِ عالم میں اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے نہ صرف عالمگیر سطح پر دعوت وتبلیغ کا حکم دیاہے بلکہ دوسری تہذیبوں، قوموں اور افراد کے ساتھ گفتگو اور مکالمے کے باقاعدہ اصول بھی بیان کیے ہیں ۔قرآن مجید نے ایک داعی کے لئے مکالمے کے جو بنیادی اصول بیان کئے ہیں وہ یہ ہیں :
(اُدْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ) (النحل ،۱۶،۱۲۵)
’’آپ ﷺلوگوں کو اپنے پروردگارکی طرف حکمت اوراچھی نصیحت سے بلائیے اوران کے ساتھ پسندیدہ طریقہ سے بحث کیجئے۔‘‘ 
اسلام کی یہ ایک ایسی انفرادیت ہے جو اسے تمام الہامی اور غیر الہامی مذاہب سے ممتاز کرتی ہے۔ علامہ سید سلمان ندویؒ (م ۱۹۵۳ھ) لکھتے ہیں:
’’یہ نکتہ کہ کس طرح لوگوں کو سچائی قبول کرنے کی دعوت دینی چاہیے دنیامیں پہلی دفعہ محمد رسول اللہﷺ کی زبان وحی ترجمان سے اداہوا، وہ مذہب بھی جو الہامی اور تبلیغی ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے صحیفوں نے ان کے لیے تبلیغ کے اہم اصول کی تشریح کی ہے، لیکن صحیفہ محمدیﷺ نے نہایت اختصار لیکن پوری تشریح کے ساتھ اپنے پیرووں کو یہ بتایا کہ پیغامِ الٰہی کو کس طرح لوگوں تک پہنچایا جائے اور ان کو قبولِ حق کی دعوت کس طرح دی جائے۔‘‘(1)
مذا ہبِ عالم میں عملی طور پر صرف عیسائیت اور اسلام ہی تبلیغی مذاہب ہیں ،دیگر تمام مذاہب کا دائرہ کار کسی خاص علاقے یا نسل تک محدود ہے ،جبکہ عیسائیت کی عالم گیر دعوت اور اشاعت بھی حضرت عیسیٰ ؑ کی تعلیمات کے منافی ہے کیونکہ ان کی بعثت خاص بنی اسرائیل کی طرف ہوئی تھی۔حضرت عیسیٰ ؑ کا بیان ہے:
’’میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجاگیا ۔‘‘ (انجیل متّی ،۱۵:۲۴)
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب بارہ نقیب مقرر فرمائے اور ان کو مختلف علاقوں کی طرف دعوت وتبلیغ کے لیے روانہ فرمایا تو بطور خاص ان کوتلقین فرمائی :
’’غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔‘‘ ( انجیل متی، ۱۰:۶)
الغرض یہ صرف اسلام ہی ہے جس نے اپنے پیروکاروں کو نہ صرف دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کا حکم دیا ہے بلکہ دیگر مذاہب اور تہذیبوں کے ساتھ مکالمے کے بنیادی اصولوں کی تعلیم بھی دی ہے ۔ داعی اعظم ﷺنے مختلف اقوام اور تہذیبوں کے ساتھ جو مکالمہ فرمایا ،سیرتِ طیبہ سے اس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ ایک طرف حضورﷺنے عرب کی مشرکانہ تہذیب کے نمائندہ افراد ، سردارانِ قریش اور ان کے وفود سے انفرادی اور اجتماعی سطح پر مکالمہ کیا ، اور دوسری طرف ورقہ بن نوفل سے لے کر نجران کے عیسائی علماء سے آپ ﷺکا مکالمہ گویا عیسائیت سے انفرادی اور اجتماعی سطح پر مکالمہ تھا، اسی طرح مدنی دور میں میثاق مدینہ ،جس کے بڑے فریق یہودی قبائل تھے،یہود سے مکالمہ ہی کی ایک صورت تھی۔

ہم زبانی ،بین المذاہب مکالمے کا بنیادی اصول

حضورﷺ کے نزدیک مکالمہ بین المذاہب کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپﷺ نے مختلف صحابہ کرامؓ کودوسری قوموں کی زبانیں سیکھنے کا حکم دیا ،کیونکہ دعوت وتبلیغ اور باہمی مکالمہ میں تاثیر اور قوت اسی وقت پیداہوسکتی ہے جب پیغام کی زبان آسان،نرم اورقابل فہم ہو،ہم زبانی سے اُنسیت میں اضافہ ہوتاہے،اجنبیت دور ہوجاتی ہے اور گفتگو کا مقصد آسانی سے سمجھا اور سمجھایا جا سکتاہے ۔اسی ضرورت کے پیشِ نظر رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن ثابتؓ (م ۴۴ھ) کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا ،تاکہ یہود سے انہی کی زبان میں گفتگو کی جاسکے اور انہی کی زبان میں ان کے خطوط کا جواب دیاجاسکے۔حضرت زید بن ثابتؓ کا بیان ہے:
’’فتعلّمت کتابھم مامرّت بی خمس عشرۃ لیلۃ حتی حذقتہ وکنت اقراء لہ کتبھم اذا کتبوا الیہ واجیب عنہ اذا کتب‘‘(2)
’’پس میں نے ان کی زبان میں لکھنا سیکھ لیا۔ ابھی پندرہ دن نہیں گزرے تھے کہ میں اس میں ماہر ہو گیا۔ جب یہودی کوئی خط آپ ﷺ کی طرف لکھتے تو میں آپ ﷺ کو پڑھ کر سنا دیتا اور اگر آپ ﷺ کو جواب لکھنا ہوتا تو میں وہ لکھ دیتا۔‘‘
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ایک ایرانی عورت حضرت ابو ہریرہؓ (م ۵۸ھ) کی خدمت میں استغاثہ لے کر آئی کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اب مجھ سے میرا بیٹا بھی چھینا چاہتاہے اس عور ت نے یہ ساری گفتگو فارسی زبان میں کی اور ابو ہریرہؓ نے بھی اس سے اسی زبان میں گفتگو کی اور پھر آپؓ نے بچہ عورت کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔(3)
ان واقعات سے معلوم ہوتاہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ نے دوسری قوموں کی زبانیں صرف اس غرض سے سیکھ رکھی تھیں تاکہ ان سے براہ راست تبادلہ خیال کرکے اس کے مسائل کو حل کیاجاسکے۔ بعض روایات سے تو یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے قرآن مجید کے بعض اجزا کادوسری زبانوں میں ترجمہ بھی کیا تھا تاکہ عربی زبان سے ناواقف لوگ اسلام کی حقیقی روح اور تعلیمات سے محروم نہ رہ جائیں ۔چنانچہ علامہ سرخسیؒ (م ۴۹۰ھ) لکھتے ہیں:
’’روی ان الفرس کتبوا الی سلمانؓ ان یکتب لھم الفاتحۃ بالفارسیۃ فکانوا یقرء ون ذالک فی الصلوۃ حتیٰ لانت السنتھم للعربیۃ‘‘ (4) 
’’بیان کیا جاتاہے کہ بعض نو مسلم ایرانیوں نے حضرت سلمانؓ کی خدمت میں لکھا کہ ان کے لیے سورۃ الفاتحہ کو فارسی میں نقل کردیاجائے ،چنانچہ وہ لوگ (اسی ترجمہ کو)نماز میں پڑھتے تھے یہاں تک کہ وہ عربی سیکھ گئے۔‘‘
اسی واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ایک اوربڑے فقیہ نے اپنی کتاب ’’النہایۃ حاشیۃ الھدایۃ ‘‘ میں مزید تفصیل درج کی ہے کہ حضرت سلمان فارسیؓ (م ۳۳ھ) نے رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے یہ کام انجا م دیا اور ان کے ترجمے کا ایک جز بھی نقل کیاہے ،’’بنام خداوند بخشا یندہ مہربان ‘‘ یہ بسم اللہ کا ترجمہ ہے ۔(5) 
شاہانِ عالم کی طرف بھیجے جانے والے نبوی سفراء کا معجزانہ طور پر انہیں قوموں کی زبان میں گفتگو کرنے لگ جانا بھی دعوت وتبلیغ اور مکالمے میں زبان کی یکسانیت کی اہمیت کو واضح کرتاہے۔(6)
ا س کے علاوہ جن صحابہ کرامؓ کو رسول اللہﷺ نے مختلف قوموں کی طرف داعی اور مبلغ بنا کر روانہ فرمایا اس میں بھی یہ چیز آپ ﷺ کی حکمتِ عملی کا حصہ نظر آتی ہے کہ وہ مبلغ اسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں بصورتِ دیگروہ اس قوم کی زبان، رسم ورواج اور کلچر سے آگاہ ہوں ۔ بہر حال آپﷺ کے طرزِ عمل سے واضح ہوتا ہے کہ آپﷺ کی نظر میں بین المذاہب مکالمے کو اس قدر اہمیت حاصل تھی کہ آپ ﷺ نے اس مقصد کے لئے صحابہ کرامؓ کی باقائدہ تربیت فرمائی۔ 

اسلام کی ترجیح : امن اور مکالمہ

سیرتِ طیبہ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب بھی آپﷺ کو جنگ اور امن میں سے کسی ایک پہلو کو اختیار کرنے کا موقع ملا تو آپﷺنے ہمیشہ امن کو ترجیح دی ،یہی وجہ ہے کہ صلح حدیبیہ 6 ھ کے موقع پر آپﷺ نے جنگ پر امن کو ترجیح دی اور ایسی شرائط پر بھی صلح کو قبول کر لیا جن سے بظاہر مسلمانوں کی پسپائی کا واضح تاثر ملتا تھا ،اگرچہ ان شرائط کے قبول کرنے سے مسلمانوں کی دل شکنی ہوئی اور صحابہؓ نے اس پر احتجاج بھی کیا، لیکن آپ ﷺ نے جنگ پر امن کو ترجیح دی کیونکہ آپﷺ اپنے نورِ بصیرت سے دیکھ رہے تھے کہ امن کی صورت میں جب اسلامی اور مشرکانہ تہذیب کے درمیان آزادانہ ماحول میں مکالمہ ہوگا تو قریش اور دیگر قبائل کو مسلمانوں کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی اوریہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب مسلمان اور قریش باہم ایک دوسرے سے آزادانہ طور پر ملنے لگے اور انہیں ایک دوسرے کے موقف کو سننے اور سمجھنے کا موقع ملا تو صرف دوسال کے عرصہ یعنی فتح مکہ 8ھ تک اتنے کثیر لوگ مسلمان ہوئے جتنے پہلے تمام عرصے میں نہیں ہوئے تھے ۔امام زہری ؒ (م ۱۲۵ھ) کا بیان ہے:
’’فما فتح فی الاسلام فتح قبلہ کان اعظم منہ،انما کان القتال حیث التقی الناس ،فلما کانت الھدنۃ ،ووضعت الحرب وآمن الناس بعضھم بعضا ،التقوا فتفاوضوا فی الحدیث المنازعۃ، فلم یکلم احد بالاسلام یعقل شیئا الادخل فیہ، ولقد دخل فی تینک السنتین مثل من کان فی الاسلام قبل ذلک او اکثر‘‘(7)
’’صلح حدیبیہ سے پہلے اسلام میں اتنی بڑی فتح حاصل نہیں ہوئی تھی ۔لوگ جہاں بھی ملتے جنگ ہوکر رہتی تھی ،لیکن جب صلح ہوگئی ،جنگ موقوف ہوگئی اور لوگ ایک دوسرے سے بے خوف ہوگئے باہم ملے جلے باتیں ہوئیں تو کوئی عقل مند ایسا نہیں تھا جس سے اسلام کے متعلق گفتگو ہوئی اور اس نے قبول نہ کرلیا۔چنانچہ جتنے لوگ ابتداء سے اب تک مسلمان ہوئے تھے صر ف ان دو برسوں میں ان کے برابر بلکہ ان سے زیادہ تعداد میں لوگ مسلمان ہوگئے۔‘‘
یہاں ضمناً ایک اور بات کا ذہن نشین رہنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے ہاں اسلام کی امن پسندی پر استدلال کے لئے صلح حدیبیہ کا حوالہ جس انداز سے دیا جاتا ہے اس سے اس عظیم تاریخی واقعے کی حیثیت محض ایک منفی سمجھوتے کی سی ہو کر رہ جاتی ہے حالانکہ کوئی بھی تاریخی واقعہ یک دم وقوع پذیر نہیں ہوجاتا بلکہ اس کا ایک پورا پس منظر ہوتا ہے۔صلح حدیبیہ کو بھی اگر اس کے تاریخی پسِ منظر میں دیکھا جائے تو صاف معلوم ہو تا ہے کہ سن 6 ھ سے قبل کے واقعات اسلام کے متعلق ہر قسم کے مفعولی تاثر کو ختم کر چکے تھے، اس پسِ منظر میں صلح کا معاہدہ مسلمانوں سے زیادہ خود قریش کی ضرو رت تھا، یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے خونِ عثمانؓ کا بدلہ لینے کے لئے مسلمانوں سے مشہور بیعت’’ بیعتِ رضوان‘‘ لی اور مسلمان جنگ کے لئے تیار ہو گئے تو قریش نے عافیت اسی میں جانی کہ صلح کے موقع کو ضائع نہ کیا جائے، تاہم آپﷺ نے جن شرائط پر صلح کی اس سے آپﷺ کی امن پسندی کا واضح ثبوت ملتا ہے۔
معزز حاضرین!
اسلام میں دعوت اصل ہے اور جہاد ضرورتاََ،جہاد کی اگر اجازت ہے تو وہ صرف اسلامی تہذیب و تمدن کے دفاع اور استحکام کے لئے ہے،اس لئے لا محالہ اسلام کی ترویج و اشاعت کا تمام تر انحصار صرف دعوت و تبلیغ اور باہمی مکالمہ پر ہے اس لئے ایک سچے داعی کی حیثیت سے ہمارے لئے بین المذاہب مکالمہ کی ضرورت واہمیت کو تسلیم کرنا دینِ اسلام کا بنیادی تقاضہ بن جاتا ہے۔جب اسلام کی ترویج واشاعت کا تمام تر انحصار دعوت و تبلیغ اور باہمی مکالمہ پر ہی ہے تو اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ باہمی مکالمہ اور امن وامان کا ماحول اسلام کی ضرورت ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب بھی دلائل کی بنیاد پر گفتگو ہو گی تو میدان ہمیشہ اسلام اور اہلِ اسلام کے ہاتھ ہی رہے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُون) (التوبۃ ،۹:۳۳)
’’وہ اللہ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو کیسا ہی ناگوار ہو۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں اکثرمفسرین نے یہی لکھا ہے کہ اسلام کا غلبہ تمام ادیان پر عقل واستد لال کی رو سے تو مطلق ہے اور وہ کسی زمانہ اور وقت کے ساتھ مخصوص نہیں البتہ مادی غلبہ اہلِ اسلام کی اہلیت اور صلاحیت کے ساتھ مشروط ہے ،کیونکہ آزادانہ مباحثے اور مکالمے میں آخر کار جو چیز باقی رہے گی وہ سچائی ہے جبکہ کامل اور بے داغ سچائی اسلام کے علاوہ کسی او ر کے پاس نہیں ہے ،اسلام کے پاس طاغوت کو شکست دینے کے لیے دلائل وبراہین کی ہرگز کمی نہیں ہے اور مکالمے کی میز پر یہی ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے ۔
معزز حاضرین !
حقیقت یہ ہے کہ جب دلیل ہار جائے تو انسان اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتاہے توہین آمیز خاکوں سمیت اہل مغر ب کی اسلام کے خلاف موجودہ آویزش در اصل دلیل کی شکست کا اعتراف ہی تو ہے اس وقت جبکہ مغر ب دلیل کی زبان میں اسلام کا مقابلہ کرنے سے پہلو تہی کر رہاہے اور اپنی برتر ٹیکنالوجی کی بنیاد پر مسلمانوں کا مقابلہ جنگ کے میدان میں کرنا چاہتا ہے ، مسلمان اہلِ دانش کا کام یہ ہے کہ وہ اہلِ مغرب کو مکالمے کی اس کی میز پر کھینچ لائیں جہاں انہیں مدِّ مقابل پر فیصلہ کن برتری حاصل ہے، کیونکہ یہی وہ میدان ہے جس میں اسلام کی کامیابی کے امکانات سو فیصد ہیں بشرطیکہ ہم اسلام کو صحیح طور پر اپنے مخاطبین کے سامنے پیش کرسکیں۔
اس موقف کی ایک دلیل وہ مکالمہ بھی ہے جو نجران کے عیسائی علماء اور حضورﷺ کے درمیان ہوا ، جب عیسائی علماء حضور ﷺ کے دلائل کے سامنے بالکل عاجز آ گئے تو انھوں نے جزیہ دینے کی شرط پر آپ ﷺکے ساتھ صلح کرلی۔ عیسائی علماء کا دلیل اور استدلال کو چھوڑ کر جزیہ پر صلح کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس حقیقت کو جان چکے تھے کہ اسلام کا مقابلہ مکالمے اور استدلال کی زبان میں ممکن نہیں ۔
اہل علم واقف ہیں کہ ولیم میور نے جب Life of Muhammad لکھ کررسول اللہ ﷺ کے مقام اور مرتبہ کو کم کرنے کی کوشش کی تو علامہ شبلی نعمانی ؒ (م ۱۹۱۴ء) نے اپنے قلم کو جنبش دی، اپنے شعورکو مجتمع کیا اور اپنے فہم وادراک کو کام میں لاتے ہوئے’’ سیرت النبی ﷺ ‘‘جیسی معرکۃ الآراء کتاب سے مستشرق موصوف کا منہ بند کر دیا۔دورِ حاضر میں’’ضیاء النبیﷺ ‘‘ کی صورت میں پیر محمد کرم شاہ الازھری ؒ ( م ۱۹۹۸ء) نے بھی یہی خدمت انجام دی ہے۔

عصر حاضر میں اسلام کا مکالمہ کس مذہب سے ہے؟ 

اس وقت مختلف سطحوں پر بین المذاہب مکالمے کی ضروت و اہمیت پر زور دیا جارہا ہے جون ؍۲۰۰۴ء میں اوسلو (ناروے ) میں پہلی بین المذاہب کانفرنس منعقد ہوئی جس میں گورنمنٹ آف ناروے اور نارویجن چرچ کی دعوت پر مولانا محمد حنیف جالندھری ،مفتی منیب الرحمن، ریاض حسین نجفی اور بشپ سموئیل عزرایاہ وغیرہ نے شرکت کی۔ عالمی سطح کی اس بین المذاہب کانفرنس میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے بین المذاہب ہم آہنگی اور محبت کی فضا کو فروغ دینے پر زور دیا’’اعلانِ اوسلو‘‘کے تحت پاکستان میں بھی ’’ورلڈ کونسل آف ریلیجنز برائے عالمی امن وعدل اجتماعی ‘‘کے زیر اہتمام ۱۶؍ستمبر ۲۰۰۴ء کو نیشنل لائبریری ہال، اسلام آبا د، میں پہلی بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا گیا ۔اس کے بعد سے یہ سلسلہ مسلسل جاری وساری ہے۔ یقیناًیہ ساری کوششیں لائقِ صد تحسین اور قابلِ قدر ہیں ،لیکن اس ساری تگ ودو کے مثبت اور دور رس نتائج اسی وقت حاصل ہو سکتے ہیں جب ہم بعض باتیں طے کرلیں سب سے پہلی بات تو ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ آج کی عالمی صورتِ حال میں اس مکالمے کے اصل فریق کون ہیں؟اور دوسرا، یہ کہ اس مکالمے کاایجنڈا کیاہے؟اس طرح ہمارے لئے یہ ممکن ہو گا کہ ہم علمی حلقوں میں اپنا موقف بہتر طور پر پیش کرسکیں ۔
معزز حاضرین!
فی الوقت دنیا میں اسلام کے علاوہ عیسائیت،یہودیت،ہندو مت،بدھ مت، جین مت وغیرہ ہی کو دنیا کے بڑے اور زندہ مذاہب کی صف میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔وحی ،الہام اور خدا پریقین رکھنے والے زیادہ تر لوگوں کا تعلق انھی مذاہب سے ہے، اپنی غیر فطری اور غیر عقلی تعلیمات کی وجہ سے ان مذاہب کا ماضی میں بھی انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے کوئی زیادہ تعلق نہیں رہا ہے، لیکن عقل پرستی (Rationalism) کے موجودہ دور میں مذہب کا لوگوں کی ذاتی زندگی سے عمل دخل بھی بڑی تیزی کے ساتھ ختم ہو رہا ہے۔ اور اس وقت عملی طور پر مسلمانوں کے علاوہ انسانوں کی غالب اکثریت لا دین اور سیکولر ہے اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ اسلام کے بعد اس وقت بلا امتیاز رنگ ونسل پوری دنیا میں مغربی سیکولر ازم مقبول ترین مذہب کی حیثیت اختیا کر چکا ہے ،تو غلط نہ ہوگا۔ اس وقت جبکہ دنیا کے تمام مذاہب ایک تاریخی یاد گار کی حیثیت اختیار کرتے جارہے ہیں، یہ کہنا درست معلو م ہوتا ہے کہ دورِ حاضر میں مغربی فکرو فلسفہ کی بنیاد پر پروان چڑھنے والا سیکولر ازم ہی اسلام کا اصل مدِّ مقابل ہے۔ 
حالات کے سرسری جائزے سے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس وقت مغرب اور مسلمانوں کے درمیان جو علمی ،فکری اور تہذیبی کشمکش جاری ہے اس کے اصل فریق مغرب کے مذہب سے منحرف سیکولر حلقے اور مذہب پر پختہ یقین رکھنے والے مسلمان ہیں ،جبکہ عیسائی علما اس مکالمے کے اصل فریق نہیں ہیں کیونکہ مغرب کے عیسائی رہنماجس مذہب کی نمائندگی کرتے ہیں اس کا مغرب کی اجتماعی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ، اس لئے موجودہ کشمکش میں عیسائی علماء سے مکالمہ کی افادیت محدود ہے۔
اس واضح حقیقت کے باوجود ہمیں عیسائیت اور دیگر مذاہب سے گفتگو اور مکالمے سے انکار نہیں ہے تاہم روایتی عیسائی حلقے سے ہماری گفتگو اس موضوع پر ہونی چاہیے کہ عیسائی مذہبی رہنما اپنے معاشرے کو وحی الہٰی اور آسمانی تعلیمات کی طرف واپس لانے کے لیے کیا کردار اد اکرسکتے ہیں ؟ جبکہ وہ اصولی طور یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور انسان کی اجتماعی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس وقت جبکہ پوری دنیا میں صرف مسلمان ہی بنی نوع انسان کی وحی الٰہی اور مذہب کی طرف واپسی کی کوشش کررہے ہیں، سوال یہ ہے کہ مغرب کے مذہبی حلقے اس حوالے سے مسلمانوں کی کیا مدد کرسکتے ہیں ؟۔
مسلمانوں کو اپنے عیسائی مخاطبین پر یہ حقیقت واضح کرنی چاہیے کہ وہ دونوں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں جو الحاد اور لادینیت کے خوفناک طوفان کے اندر گھری ہوئی ہے اور الحادو لا دینیت کے اس عالم گیر طوفان کے خلاف مسلمان، مسیحی اور دیگر مذہبی علماء ایک دوسرے کے فطری اتحادی ہیں۔ عیسائی علما ء کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ اگر و ہ واقعی وحی اور آسمانی تعلیمات کی صداقت پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور انسانی معاشرے پر اس کی علمبرداری کے خواہش مند ہیں تو انہیں سیکولر حلقے کی تائید کی بجائے وحی اور آسمانی تعلیمات کے معاشرتی کردار کی کوشش کرنی چاہیے۔ 

روایتی مذہبی حلقے سے مکالمے کے بنیادی اصول

بحیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ نسلِ انسانی کی فلاح اور بہتری کے لئے ہم مسیحیت کے ساتھ مکالمہ میں مشترک صفات پہ زور دیں ،دینِ ابراہیمی کی مشترک روایت حضرت عیسیٰؑ اور مریم علیہا السلام کا احترام اور ہمارے مشترک سماجی بندھن وغیرہ عیسائیت کے ساتھ مکالمے کی بنیاد بن سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میںآپﷺ کے شاہانِ عالم کے نام خطوط ہمارے لئے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ہرقل اور دیگر عیسائی حکمرانوں سے رسول اللہﷺ کا بذریعہ خطوط جو مکالمہ ہوا اس میں درج ذیل آیت مقدسہ کا مکرر استعمال ہمارے لئے قابلِ توجہ ہے:
(قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَی کَلَمَۃٍ سَوَاء بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللّہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْْئاً )(آل عمران ،۳:۶۴)
’’آپﷺ کہہ دیجیے کہ اے اہلِ کتاب ایسے قول کی طرف آ جاو جو ہم میں اور تم میں مشترک ہے وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اورکسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں۔‘‘ 
اسی طرح شاہانِ عالم کے نام خطوط لے جانے نبوی سفراء جن کی رسول اللہﷺ نے خاص اسی مقصد کے لئے تربیت فرمائی تھی، نے جس طرح اپنے مخاطبین سے مکالمہ کیاوہ اسلوب بھی ہمارے لئے بین المذاہب مکالمے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ حضورﷺ نے حاطب بن ابی بلتعہؓ (م ۳۰ھ) کو مقوقس ،شاہِ مصر کی طرف دعوتی خط دے کر روانہ فرمایا،ابنِ اثیر(م ۶۳۰ھ) نے حضرت حاطبؓ اور شاہِ مصرکے درمیان ہونے والے مکالمے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب شاہِ مصر نے حضرت حاطبؓ سے یہ کہا کہ اگر تمہارے صاحب اللہ کے رسول ہیں تو پھر تمہارے نبیﷺ نے اس وقت اپنی قوم کے خلاف بد دعا کیوں نہ کی جب ان کی قوم نے ان کو ان کے اپنے شہر سے نکالا ؟تو حضرت حاطبؓ نے فرمایا: عیسیٰؑ بن مریم کی نسبت توآپ خود کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول تھے پھر جب ان کو ان کی قوم نے سولی دینے کا ا رادہ کیا تو انہوں نے ان کو بددعا کیوں نہ دی ؟ یہاں تک کہ اللہ نے ان کوآسمان پر اٹھالیا۔ مقوقس اس برجستہ جواب سے بڑا متاثر ہو ااور کہنے لگا :
’’احسنت!انت حکیم جاء من عند حکیم ‘‘(8)
’’تم نے اچھا جواب دیا تم حکیم ہو او ر حکیم کے پاس سے آئے ہو ۔‘‘
امام ابنِ قیم ؒ ( م ۷۵۱ھ) نے مقوقس اور حضرت حاطبؓ کے باہمی مکالمے کی جو روایت نقل کی ہے وہ حسب ذیل ہے: 
حاطبؓ:’’(اس زمین پر )تم سے پہلے ایک شخص (فرعون) گزرا ہے جو اپنے آپ کو ربِ اعلیٰ سمجھتا تھا ۔اللہ نے اسے آخر واوّل کے لیے عبرت بنا دیا ۔پہلے تو اس کے ذریعے لوگوں سے انتقام لیا پھر خود اس کو انتقام کا نشانہ بنا یا لہٰذا دوسروں سے عبرت پکڑو ،ایسانہ ہو کہ دوسرے تم سے عبرت پکڑیں ۔‘‘
مقوقس :’’ہمارا ایک دین ہے جسے ہم چھوڑنہیں سکتے جب تک کہ اس سے بہتر دین نہ مل جائے ۔‘‘
حاطبؓ:ہم تمھیں اسلام کی د عوت دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے تمام ماسوا (ادیان) کے بدلے کافی بنا دیا ہے ۔دیکھو ! اسی نبیﷺ نے لوگوں کو (اسلام کی) دعوت دی تو اس کے خلاف قریش سب سے زیادہ سخت ثابت ہوئے، یہود نے سب سے بڑھ کر دشمنی کی اور نصاریٰ سب سے زیادہ قریب رہے ۔میری عمر کی قسم! جس طرح موسیٰ ؑ نے عیسیٰ ؑ کے لیے بشارت دی تھی،اسی طرح حضرت عیسی ؑ نے محمد ﷺ کے لیے بشار ت دی ہے ،اور ہم تمھیں قرآنِ مجید کی دعوت اسی طرح دیتے ہیں جیسے تم اہلِ تورات کو انجیل کی دعوت دیتے ہو ۔جو نبی جس قوم کو پاجاتاہے وہ قوم اس کی امت ہوجاتی ہے اور اس پر لازم ہوجاتاہے کہ وہ اس نبی کی اطاعت کرے او ر تم نے اس نبی کا عہد پالیا ہے ،اور پھر ہم تمھیں دینِ مسیح سے روکتے نہیں ہیں بلکہ ہم تو اسی کا حکم دیتے ہیں۔‘‘
مقوقس : میں نے اس نبی ﷺ کے معاملہ پرغور کیا تو میں نے دیکھا کہ وہ کسی ناپسندیدہ بات کا حکم نہیں دیتے اور کسی پسندیدہ بات سے منع نہیں کرتے وہ نہ گمراہ جادوگر ہیں نہ جھوٹے کاہن ،بلکہ میں دیکھتاہوں کہ ان کے ساتھ نبوت کی یہ نشانی ہے کہ وہ پوشیدہ کو نکالتے ہیں اور سرگوشی کی خبر دیتے ہیں ،میں مزید غورکروں گا۔‘‘(9)
حضر ت حا طبؓ (م ۳۰ھ) اور مقوقس کے باہمی مکالمہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ر سول اللہ ﷺ نے جن اصحابؓ کو دوسری قوموں کی طرف دعوت وتبلیغ کے لیے ر وانہ فرمایا،ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دی اور خاص طور پر اس بات کا اہتمام فرمایا کہ جو صحابیؓ جس قوم کی طرف جائے ایک تو وہ اس قوم کی زبان سے اچھی طرح واقف ہو، دوسرا، وہ ان کے کلچر اور رسم ورواج سے واقف ہو، تیسرا ،وہ ان کے دین سے جس کو وہ اختیار کیے ہوئے ہیں آگاہ ہو اور چوتھا یہ کہ وہ اس سر زمین کے پورے جغرافیہ سے بھی مکمل واقفیت رکھتاہو ،تاکہ باہمی مکالمہ میں اسے ان معلومات کی بنا پراپنے مخاطب پر علمی برتری حاصل رہے ۔ ہم نے اختصار کے پیشِ نظر محض ایک مثال ذکر کی ہے اگر تمام نبوی سفراء کے احوال کاتفصیلی جائزہ لیا جائے تو بین المذاہب مکالمے کے لئے کئی راہنمااصول اخذ کئے جا سکتے ہیں۔(10) 

مغرب کے تحفظات پر مکالمے کا اسلوب 

جو لوگ خدا ،رسول اور آخرت پر اعتقاد رکھتے ہوں ان کے ساتھ مکالمہ نسبتاً آسان ہے، اگر چہ اہل مغرب کا اب بھی چرچ کے ساتھ کمزور سا تعلق باقی ہے لیکن مغرب کی اکثریت بالخصوص اہلِ یورپ عیسائیت کی بنیادی تعلیمات سے دست بردار ہو چکے ہیں اس لئے مسلمان مبلغین کو مغرب میں تمام خرابیوں کی ذمہ داری عیسائیت کے سر نہیں ڈال دینی چاہیے،بلکہ ان کے ساتھ مکالمے میں ان کے موجودہ نظریات ہی کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے ،جیسا کہ میں نے عرض کیا موجودہ علمی اور فکری کشمکش میں اسلام کے ساتھ مکالمے کا اصل فریق اور مدِّ مقابل مغرب کا موجودہ دانش ور اور سیکولر طبقہ ہے، لیکن اس کے ساتھ ہمارا مکالمہ اسی وقت مفیدہوسکتا جب ہم مغربی فکر وفلسفہ کے تاریخی ارتقا، پس منظر اور اس کے اصل فکری سر چشموں سے آگاہی رکھتے ہوں اور مغربی افکار کا تنقیدی جائزہ لینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس حوالے سے جن پہلووں پر خصوصی غور وفکر کی ضرورت ہے وہ درج ذیل ہیں۔
ایک تو اس پہلو کا جائزہ لیناضروری ہے کہ مغرب مسیحیت کو چھوڑ کر موجودہ سیکولر ازم تک کیوں اور کیسے پہنچا؟اس لئے ہمارے لئے اس تاریخی حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ کہ سولہویں صدی تک مغرب میں قدیم عیسائیت ہی غالب تھی،طاقت اور اختیار پوپ کے ہاتھ میں تھا۔ مارٹن لوتھر (Martin Luther) (م ۱۵۴۶ء) وہ پہلا شخص تھا جس نے پوپ کے اختیار کو چیلنج کیا اور ساتھ ہی عقلِ انسانی کو وحی کی تعبیر کاواحد ذریعہ قرار دیا ، یہی وہ دور ہے جس کے بعد مغربی معاشرے پر عیسائیت کی گرفت آہستہ آہستہ کمزور پڑنے لگی، لیکن جس فکر نے بالآخر عیسائیت کو مکمل پسپائی اور شکست پر مجبور کیا وہ اٹھارویں صدی عیسوی میں پروان چڑھنے والی تحریکِ تنویر(Enlightenment Movement)اورتحریکِ رومانیت (Romanticism) ہے۔مغرب کی موجودہ روشن خیالی کی تحریک کا یہ وہ مختصر پس منظر ہے جس کا پوری تفصیل کے ساتھ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسرا پہلو جس کا جائزہ لینا ضروری ہے وہ تحریکِ استشراق (Orientalism) ہے۔ اہلِ مغرب میں اسلام کے بارے میں پائی جانے والی ان بے شمار غلط فہمیوں کو ہم ا س وقت تک نہیں سمجھ سکتے جب تک تحریکِ استشراق کے مقاصد ،محرکات اور عالمِ مغرب پر اس کے اثرات کا بھر پور تجزیہ نہ کرلیں، کیونکہ بد قسمتی سے مستشرقین کی مرتب کردہ تاریخ نہ صرف زندہ ہے بلکہ ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر سمجھی جاتی ہے۔اس وقت بھی پوری دنیا میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ اسلام کی جو تصویر کشی کی جارہی ہے اس کا بڑا ماخذ مستشرقین کی وہی تحقیقات ہیں جن کا اسلام کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ۔
مغرب کے ساتھ باہمی مکالمہ کی صورت میں تیسری بات جس کا لحاظ رکھنا ضرو ری ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں قرآن وحدیث سے راہنمائی تو ضرور لینی چاہیے تاہم مغرب کی نفسیات کے مطابق ہمیں سب سے پہلے اسلامی تعلیمات کے عقلی جواز پر بات کرنا ہوگی اور مغرب کے موجودہ سماجی علوم کے ساتھ تقابلی مطالعہ کے بعداسلامی احکام کی افادیت پر دلائل پیش کرنا ہوں گے اور اسلامی تعلیمات کی سماجی اور معاشرتی اہمیت واضح کر نا ہو گی۔بدقسمتی سے اسلامی احکام کے اسرار وحکم پر حضرت شاہ ولی اللہ ؒ (م ۱۱۷۶ھ) کی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے بعد کوئی بھی قابلِ قدر کتاب سامنے نہیں آئی۔
مغرب، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو تحفظات رکھتا ہے وہ دو طرح کے ہیں۔ مغرب کے پہلی قسم کے تحفظات تو وہ ہیں جن کا تعلق اسلامی تاریخ اورنظامِ معاشرت سے ہے۔ اسلامی تعلیمات کا یہ وہ حصہ ہے جس کا براہِ راست ٹکراو مغرب کے موجودہ طرزِ معاشرت سے ہے۔ دوسری قسم کے تحفظات وہ ہیں جن کا تعلق دین کی اساس اور بنیاد سے ہے۔ مغرب کے ساتھ ہمارا مکالمہ اس وقت تک مفید نہیں ہو سکتا جب تک ہم کھلے ذہن اور مکمل تیاری کے ساتھ ان کے تمام تحفظات پربات کرنے کے لئے تیار نہ ہوں۔سب سے پہلے تو ہمیں مغرب سے اس موضوع پر مکالمہ کرنا ہو گا کہ وہ دینِ اسلام پر ایک نظامِ حیات اور طرزِ معاشرت کے طورغور کرے۔

انسانی حقوق اور اسلام 

اس وقت مغرب میں مساوات ،آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے بڑی حساسیت پائی جاتی ہے بدقسمتی سے اسلام کے بارے میں یہ غلط تاثر پھیل گیاہے کہ اسلام میں بنیادی انسانی حقوق اور خاص طور پر عورتوں کے حقوق کو بری طرح پامال کیا گیا ، ہمیں اہلِ مغرب پر واضح کرنا ہوگا کہ اسلام تمام انسانی حقوق کا تحفظ کرتاہے اور اس کے عطا کردہ حقوق ہی فطری بنیادوں پر مبنی ہیں۔ مثلاًجب اسلام ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتاہے تو کیا یہ حرمتِ انسان کا بہترین قانون قرار نہیں پائے گا؟ اسی طرح اسلام کی بیان کردہ دوسری تمام سزائیں بھی ’’انسانی حق‘‘ کے اثبات ہی کے لیے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کے حقوق میں بھی ان کے فطری دائرہ کار اور نفسیات کو مدِ نظر رکھا گیا ہے ۔
ایک داعی کی حیثیت جو بات ہماری خصوصی توجہ کی مستحق ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ انسانی حقوق کے عالمی منشور، (Universal Declaration of Human Rights) جو بجا طور پر آج کا عالمی قانون ہے، کی تمام شقوں کو قبول کرناہمارے لیے ممکن نہیں ہے تاہم ہمیں اس بحث میں زیادہ مثبت اور تعمیری انداز میں حصہ لینا چاہیے اور اگر باہمی مکالمہ میں کسی جگہ لچک کی گنجائش موجود ہو تو اس کا لحاظ کیا جانا چاہیے۔اس حوالے سے سیرت طیبہﷺ سے کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ کئی مواقع پر رسول اللہﷺ نے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے بھی بین الاقوامی قانون ،عرف اور قبائلی رسم ورواج کا احترام کیا ۔مثلاً :
جب حضور ﷺ کا مسیلمہ کذّاب کے سفیروں سے مکالمہ ہوا تو آپﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم مجھے اللہ کا رسول تسلیم کرتے ہو ؟ انھوں نے اقرار کیا، پھر آپﷺ نے سوال کیا کہ کیاتم مسیلمہ کو بھی نبی مانتے ہو تو انھوں نے کہا :ہاں ،اس پر آپﷺ نے فرمایا: اگر سفیروں کا قتل جائز ہوتا تو میں تمہیں قتل کروادیتا۔ دیکھئے اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے لیکن آپﷺ نے ان پر یہ حد جاری نہیں کی بلکہ فرمایا کہ چونکہ عالمی قانون یہ ہے کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا اس لئے میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں ورنہ میں تمہیں قتل کروادیتا۔ 
سن ۹ہجری میں اقرع بن حابسؓ کی زیرِ قیادت بنوتمیم کا وفد اسلام قبول کرنے کے لیے بارگاہ رسالت ﷺمیں حاضر ہوا،لیکن ان لوگوں نے قبولِ اسلام کے لیے بڑی عجیب شرط لگائی کہ آپﷺ پہلے ہمارے ساتھ مفاخرت کریںآپﷺ کا خطیب ہمارے خطیب کا اور آپ کا شاعر ہمارے شاعر کا مقابلہ کرے تب ہم اسلام قبول کریں گے ۔آپ ﷺ نے ان کے اس مطالبہ کو قبول کیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺکے حکم پر حضرت حسان بن ثابتؓ نے ان کے شاعر زبر قان بن بدر کا مقابلہ کیا اور ثابت بن قیسؓ نے ان کے خطیب عطارد ابن حاجب کا مقابلہ کیا ،بنو تمیم نے با لآ خر حضورﷺ کے شاعر اور خطیب کی برتری کو تسلیم کر تے ہوئے اسلام قبول کرلیا ۔
دیکھا جائے تو وفدِ بنی تمیم کا مطالبہ بالکل لایعنی تھا ،بالفرض اگر مسلمانوں کا شاعر اور خطیب مقابلے میں شکست بھی کھا جاتے تو پھر بھی اسلام کی حقانیت میں کوئی شک نہ تھا،لیکن اس کے باوجود آپﷺنے ان کے رسم ورواج کا احترام کیا۔اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے دوسری قوموں کے ساتھ مکالمے کی اتنی زبردست تیاری کر رکھی تھی کہ بنو تمیم نے جب قبولِ اسلام کی یہ عجیب وغریب شرط رکھی تو آپﷺ نے بلا جھجک اپنے ان ساتھیوں کو طلب کیا جن کی خاص اسی مقصد کے لئے تربیت کی گئی تھی۔ 
اسی طرح جب آپﷺ نے شاہانِ عالم کے نام دعوتی خطوط روانہ کرنے کا پروگرام بنایا تو واقفانِ حال نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! حکمرانوں میں یہ اصول ہے کہ وہ ان خطوط پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے جن پر کوئی مہراور سیل(Seal) وغیرہ نہ ہو،چنانچہ اسی وقت آپﷺ نے خطوط کوُ مہر بند کرنے کے لیے مُہر بنانے کا حکم دیا ۔
رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کے کردار سے کون واقف نہیں؟ اس کی شر انگیزیوں کی وجہ سے اسلام کو کئی دفعہ نقصان اٹھانا پڑا۔صحابہ کرامؓ نے بارہا اس کے قتل کا ارادہ کیا حتی کہ ایک دفعہ تو خود ان کے اپنے صاحب زادے، جو مخلص مومن تھے، نے بھی حضور ﷺسے اپنے باپ کے قتل کی اجازت طلب کی ، لیکن نبیﷺ نے صحابہ کرامؓ کو ایسے کسی بھی عمل سے سختی کے ساتھ منع کر دیا اور فرمایا کہ میں اس چیز کو پسند نہیں کرتا کہ لوگ یہ کہیں کہ محمدﷺ اپنے ساتھیوں کے قتل کادیتے ہیں ۔اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو عبداللہ بن ابی سخت ترین سزا کا مستحق تھا لیکن آپﷺنے ا س سے پھر بھی در گزر فرمایا صرف اس وجہ سے کہ کہیں عام لوگوں کے ذہن میں اسلام کے بارے میں کوئی منفی تاثر پیدا نہ ہو جائے گویا آپﷺ کی نظر اصولی حکم کے نفاذ کے علاوہ اس کے نتائج اور عملی اثرات پر بھی تھی۔ 
ان مثالوں سے واضح ہوتاہے کہ ایک داعی کے لیے نہ صرف عالمی قانون، رسم ورواج اور عرف سے واقفیت ضروری ہے بلکہ اگر دعوت اور مکالمہ کے مثبت نتائج کی توقع ہو تو دیگر اقوام کے قوانین اور رسم ورواج کا ممکن حد تک لحاظ اور احترام بھی کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح اگر کسی اسلامی حکم کا نفاذوقتی مصلحت کے خلاف ہو تو اس کے نفاذ میں توقف بھی کیا جاسکتا ہے۔عصرِ حاضر میں مسلمان قانون دانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کا سیرتِ طیبہﷺ کی روشنی میں مطالعہ کریں اور ان پہلوؤں کا جائزہ لیں جہاں باہمی گفتگو اور مکالمہ میں لچک کے پہلو کو مد نظر رکھا جا سکتا ہے۔

اسلام کا تصورِ جہاد 

اسلام کے بارے میں اہلِ مغرب کو جو غلط فہمیاں ہیں ان میں سے ایک اسلام کا تصورِ جہاد ہے ، مدنی دور میں رسول اللہ ﷺ نے چھوٹی بڑی تقریباً ستاسی (۸۷) مہمات ترتیب دیں ان تمام مہمات کے مقاصد ،محرکات اور اہداف مختلف تھے ، ان میں سے بعض مہمات انسدادی نوعیت کی تھیں تو بعض دفاعی نوعیت کی تھیں جبکہ بعض خالص دعوتی اور تبلیغی نوعیت کی تھیں، لیکن محدثین اور مسلمان سیرت نگاروں نے ان تمام مہمات کو جن میں ترتیب اور تنظیم کا معمولی سا بھی خیا ل رکھا گیا تھا کتا ب المغازی اور غزوات وسرایاکے عنوان سے ذکر کر دیا جس سے اس غلط پروپیگنڈا نے جڑ پکڑی کہ اسلام جنگ وجدال کا دین ہے۔مغرب میں یہ تاثر عام ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے اور اگر اب بھی مسلمانوں کو موقع ملا تو وہ بزورِ شمشیر اسلام کو تمام دنیا پر غالب کرکے دم لیں گے۔ 
اسلام کے تصورِ جہاد کے حوالے سے اہلِ مغرب کے ساتھ ہمارا مکالمہ دو پہلووں پر ہونا چاہیے ، پہلی بات تو ہمیں یہ واضح کرنا ہوگی کہ ابتدائی ایک دو صدیوں میں اسلام کے اسپین ،وسطی ایشیاء اور برصغیر تک پھیلنے کی بڑی وجہ اسلامی تعلیمات کی کرشمہ سازی اور مسلمان مبلغین کی انتھک کوششیں ہیں ، دنیا کے کتنے ہی علاقے ایسے ہیں جہاں اسلامی فوجوں کا کبھی بھی داخلہ نہیں ہوا لیکن اسلام وہاں بھی موجود ہے ، انڈو نیشیا اور ملا ئیشیاپر بھلا کون سی اسلامی فوجیں حملہ آور ہوئی تھیں ؟ لیکن کیا وہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں ؟۔ اس لئے تاریخ کا کوئی بھی سنجیدہ طالب علم اس حقیقت کو تسلیم کر نے کے لئے تیار نہیں کہ اسلامی تاریخ کے کسی بھی دور میں اسلام کو دوسری اقوام پر ٹھونسنے کے لئے تلوار سے کبھی مدد نہیں لی گئی۔
اس موضوع پرعلامہ اقبالؒ کے استاذ پروفیسر ٹی ۔ڈبلیو آرنلڈ کی کتاب( The Preaching of Islam) ہمارے لئے بنیادی حوالے کی حیثیت رکھتی ہے، بدقسمتی سے جہاد کے بارے میں ہم اسلامی نقطہ نذر کو اہلِ مغر ب پر پوری طرح واضح نہیں کر سکے ، عام لوگ اب بھی اسی پرانی غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ ہمیں اہلِ مغرب کو قائل کرنا ہوگاکہ اسلام کے پھیلاؤ کی وجوہات دیگر بھی ہیں۔مثلاً ہمیں دلائل کے ساتھ بتانا ہوگا کہ بہت سے عیسائی جن سے ابتدائی دور میں اسلام کا مکالمہ ہوا وہ بھی مسلمانوں کی طرح حضرت عیسیٰ ؑ کی الوہیت کے قائل نہیں تھے۔ اس لئے عقائد کی یکسانیت ابتدائی دور کے مسیحیوں کے قبولِ اسلام کا بڑا سبب بنی ہے، ڈاکٹر حمید اللہ ؒ (م ۲۰۰۱ء) لکھتے ہیں :
’’نجاشی فرقہ طبیعت واحد کا (یعنی مانو فرائٹ) عیسائی تھا ۔اور ان دنوں اس فرقے اور یونان کے عیسائیوں میں بڑے سخت اختلافات تھے ،آخر الذکر اس بات کے قائل تھے کہ حضرت عیسیٰ میں بوقت واحد دو طبیعتیں تھیں،انسانی اور خدائی بھی ۔ابرہہ جو (یمن میں ) نجاشی کا نائب تھا ۔حضرت عیسی ٰ کو ابن اللہ نہیں مانتاتھا بلکہ صرف مسیح اللہ ۔غالباً نجاشی کے بھی یہی عقائد ہوں گے ۔اور یہ مسلمانوں کے عقائد کے بہت مماثل ہیں ‘‘(11)
اسی طرح روم اور ایران کے لوگوں نے قیصر وکسریٰ کی نسبت مسلمانوں کے کم جارحانہ اندازِ حکمرانی اور مناسب اور قانونی ٹیکسوں کے نفاذ کو خوش آمدید کہا اور یہی چیز ان کے قبولِ اسلام کا بنیادی سبب بنی ۔
دوسرا، ہمیں اہلِ مغرب کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ جنگ ، انسانی نفسیات کا لازمی جزوہے ۔ اس لیے دنیا کی ہر تہذیب میں جنگ بہر طور موجود رہی ہے ۔ اہلِ مغرب جو اس وقت امن کے سب سے بڑے داعی ہیں ان کا موجودہ رویہ اس حقیقت کازندہ ثبوت ہے ۔ اسلام نے انسانی نفسیات کے اس پہلو سے آنکھیں بند نہیں کیں بلکہ انسان کے جنگی جنون کی تہذیب و تطہیر کرکے اس کو جہاد کے روپ میں پیش کیا ہے ، اس سلسلے میں جہاد و قتال کے اسلامی قواعدو ضوابط ، جنگی جنون کی منفیت عیاں کرنے کو کافی ہیں ۔ 

خلافت اور جمہوریت

اسلام کے حوالے سے مغرب میں ایک اور غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ اگر مسلمان طاقت میں آگئے تو وہ پوری دنیا میں خلافت کا نظام نافذ کریں گے اور طالبان طرز کا کوئی نظامِ حکومت نافذ کرکے لوگوں کی شخصی آزادیاں اور حقوق سلب کر لیں گے۔ برطانیہ کے موجود ہ وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ مسلمان خلافت کا نظام واپس لانا چاہتے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔
اسلامی نظامِ خلافت کے خلاف اہلِ مغرب کے اس شدید ردِ عمل کی اصل وجہ اور پسِ منظر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مغرب کی اس غلط فہمی کی بڑی وجہ مغرب کا وہ دور ہے جسے قرونِ مظلمہ (Dark Ages) کہاجاتا ہے،جس میں پوپ ہی طاقت کا اصل سر چشمہ اور وہی فائنل اتھارٹی(Final Authority) تھا۔ پوپ نے ہمیشہ اربابِ حل وعقد کا ساتھ دیا اور حکمرانوں کو مذہبی تحفظ فراہم کیا،دوسری طرف عوام کو کسی قسم کے سیاسی حقوق حاصل نہ تھے ۔ اصل میں مغرب نے اسلام کے نظامِ خلافت کو بھی یورپ کے د ورِ تاریک میں اپنے ہاں پائی جانے والی مذہبی حکومتوں پر قیاس کر رکھا ہے۔ مغرب نے صدیوں کی کشمکش کے بعد جو سیاسی اور شخصی آزادیاں حاصل کیں ہیں وہ اب انہیں کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا۔
اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم مغرب پر یہ بات واضح کریں کہ اسلام کے تصورِ خلافت کو پاپائیت کے ساتھ کوئی نسبت نہیں کیونکہ مسلما نوں کاخلیفہ عیسائیوں کے پوپ کی طرح خدا کا نمائندہ نہیں ہے، جس کی کسی بات کو نہ تو چیلنج کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی دلیل کا پابند ہے ایک دفعہ جب حضرت صدیق اکبرؓ (م ۱۳ھ) کو ایک شخص نے خلفیۃ اللہ کہا تو آپؓ نے فوراً ا س کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اللہ کا خلیفہ نہیں بلکہ اس کے رسول ﷺ کا خلیفہ ہوں۔پوپ کے بر عکس مسلما نوں کاخلفیہ خدا کی بجائے رسول اللہ ﷺ کا نمائندہ ہے ، جو مطلق العنان نہیں بلکہ دلیل کا پابند ہوتاہے ، جس سے اختلاف بھی کیاجاسکتاہے، اور جو ایک خاص دائرے میں رہ کر ہی اپنے فرائضِ منصبی ادا کر سکتا ہے،چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ خلفاء راشدین سے دیگر مسلمانوں نے نہ صرف اختلاف کیا بلکہ بسااوقات ان کو اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور بھی کیا۔یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ حضرت عمرؓ (م ۲۳ھ)جب مسلمان عورتوں کے لئے مہر کی ایک خاص مقدار مقرر کرنا چاہی توایک خاتون نے ان کو بر سرِممبر ٹوک دیا اور پھر حضرت عمرؓ کو اپنی رائے سے رجوع کرنا پڑا۔ 
تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان علماء نے ہمیشہ دلیل اور حق کا ساتھ دیا ہے اور ہمیشہ عوام کے شانہ بشانہ مذہبی اور سیاسی حقوق کی جنگ لڑی ہے پوری اسلامی تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ ،(م ۱۵۰ھ) امام احمد بن حنبل ؒ (م ۲۴۱ھ) اور کتنے ہی جلیل القدرآئمہ نے وقت کے حکمرانوں کو چیلنج کیا اور اپنی جانوں تک کی پرواہ نہ کی۔ ہمیں مغرب کو قائل کرنا ہو گا ہمارا ماضی ان کے ماضی سے بالکل مختلف ہے ،اس لئے مغرب کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنا تاریک ماضی دکھا کر ہمیں ہمارے روشن ماضی سے محروم کر دے۔
اگر ہم اہلِ مغرب کو اس بات پر قائل کرلیں کہ اسلام کا معاشرتی ،معاشی اور سیاسی نظام انسانی سوسائٹی کے لئے زیادہ مفید اور بہترہے تو پھر شاید ہمارے لئے ان کے ان تحفظات کو دور کرنا مشکل نہیں ہوگا جن کا تعلق دین اور مذہب کی اساس سے ہے۔ اہلِ مغرب کے وہ تحفظات جن کا تعلق اسلام کے بنیادی اور اساسی تصو رات سے ہے وہ درج ذیل ہیں: 

خدا کے وجود کا اثبات

یہاں بھی ہمیں اہلِ مغرب سے مکالمہ کرتے وقت اس ماحول کو پیشِ نظر رکھناہو گا جس میں مغربی ذہن پر وان چڑھتا ہے اور شعور کی منازل طے کرتا ہے۔ اہل مغرب، جو ہر چیز کو عقل (Reason) کی بنیاد پر پرکھنے کے عادی ہیں ان کے سامنے خدائی کتاب کی بنیاد پر اپنے دلائل شروع کرنے سے پہلے خود خدا کے وجود کو زیر بحث لانا ہوگا ورنہ مغرب کی خطرناک حدتک آزاد سوچ ہمیں غیر سنجیدہ قرار دے گی ۔ سائنسی امکان اور عقل کی بنیاد پر اگر خدا کے وجود کے لیے فطرت کے مشاہدے پر زور دیا جائے تو شاید ہمیں کامیابی حاصل ہو۔ جیسا کہ مکی عہدِ نبوت میں رسول اللہﷺ نے اہلِ مکہ کو عقل اور مشاہدہ فطرت کی بنیاد پر اسلام کی طرف متوجہ کیا تھا۔

اسلام ،عیسائیت اور یہودیت کی نئی صورت گری ہے؟

مغرب میں اسلام کے بارے صرف عوام ہی نہیں بلکہ خواص کے ذہن میں بھی یہ تصور راسخ ہے کہ اسلام کوئی مستقل دین نہیں بلکہ یہ عیسائیت اور یہودیت ہی کا نیا روپ ہے اس خیال کی ترویج میں بنیادی کردار تحریکِ استشراق کا ہے۔دوسری صدی ہجری کے مشہور عیسائی عالم یوحنا دمشقی (John of Damascus)کوتحریکِ استشراق کا بانی قرار دیا جاتا ہے ،اس نے ’’محاورۃ مع المسلم‘‘ اور ’’ارشادات النصاریٰ فی جدل المسلمین ‘‘  نامی کتب سے اسلام کے خلاف جس منفی پروپیگڈے اور قلمی مناظرے کا آغاز کیا تھا ،مغرب میں اس کے اثرات آج بھی موجود ہیں ۔ پیر محمد کرم شاہ الازھری ؒ نے اپنی قابل قدر تصنیف ’’ضیاء النبی ﷺ‘‘ کی چھٹی اور ساتویں جلد میں تحریکِ استشراق کا بھر پور جائزہ لیا ہے۔
اہلِ مغرب جو سماجی ،معاشرتی اور سائنسی علوم کی معراج کو پہنچے ہوئے،میں آج بھی اسلام کے بارے میں نہ جاننا کم علمی کی دلیل نہیں ہے ، مغرب میں یہ تاثر اب بھی عام ہے کہ اسلام، عیسائیت اور یہودیت ہی کی مسخ شدہ تعلیمات پر مبنی ہے اوراسلامی قوانین یہودیوں کی فقہ’’ تالمود ‘‘سے اخذ شدہ ہیں جن کا زیادہ زور ان کے ظاہری الفاظ پر ہے نہ کہ مقاصد پر۔ مشہورمستشرق ول ڈیورانٹ(Will Durant)(م ۱۹۸۱ء)نے اپنی کتاب The Age of Faithمیں،فلپ کے ہٹی(Philip K Hitti)نے اپنی کتابIslam and the West میں اور مستشرق موریس سیل(Morris S Seale)نے اپنی کتاب(Muslim Theology)میںیہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن وحدیث کا بڑا حصہ یہودی اور عیسائی روایات ہی سے ماخوذ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام اور عیسائیت کے تقابلی مطالعہ سے اہل مغرب کی ا س غلط فہمی کو دورکیا جائے۔(12)

قرآن وحی الٰہی ہے 

رسول اللہ ﷺ کی رسالت کے انکار کی وجہ سے مغرب میں قرآن کو آسمانی صحیفے کے بجائے محمدﷺ کی ذاتی تصنیف سمجھا جاتا ہے ۔اس غلط فہمی کی بڑی وجہ بھی ماضی کا پروپیگنڈا ہی ہے جس کو زائل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ گذشتہ کئی صدیو ں سے کئی یورپی زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کیا جا رہا ہے لیکن ان تراجم کے اسلوب پر ایک نظر ڈالنے سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان مترجمین کے پیش نظر اسلام کا تعارف کروانے کی نسبت مسیحی جنگوؤں کو مقدس جنگ (Sacred War) کے لیے مسلمانوں کے خلاف تیار کرنا تھا ،بعد کے دور میں قرآ ن مجید کے تراجم میں یہی اسلوب کسی نہ کسی انداز میں غالب رہا ہے، اسی پروپیگنڈے کے زیر اثر مسلمانوں کو محمڈن (Muammadan) پکارا گیا اور اسی سے محمڈن لا (Muhammadan Law)کی اصطلاح وجود میں آئی ۔
قرآن مجید ہر دور کے لیے نبی کریم ﷺ کا زندہ وجاوید معجزہ ہے عہدِ رسالت میں بھی لوگوں نے قرآنِ مجید کو جب حضورﷺ کی اخترا ع قرار دیاتو آپ ﷺ نے قر آن مجید کی فصاحت وبلاغت، اس کے اسلوبِ بیان اورہر قسم کے تناقض سے مبرّا ہونے کو اس کے کلام الٰہی ہونے پر دلیل کے طور پر پیش کیا ۔ عقل پرستی کے موجودہ دور میں قرآن مجید کا معجزانہ پہلو اس کی تعلیمات کے علاوہ وہ سائنسی اور تاریخی حقائق ہیں جن کو قر آن نے بیان کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قر آ نِ مجید کے اس پہلو پر توجہ دیں اور اہلِ مغرب کو یہ بتائیں کہ کتنے ہی ایسے تاریخی اور سائنسی حقائق ہیں جن تک مغرب صدیوں کی محنت او ر تجربات کے بعد پہنچاہے لیکن قرآنِ مجید نے صدیوں پہلے ان حقائق کو بیان کردیا جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن کسی انسان کا نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے ڈاکٹر موریس بوکائے کی کتاب The Bible, The Quran and Science اوراس کے بعد اس موضوع پر شائع ہونے والی دیگر کتب اس حوالے سے ہماری توجہ کی خصوصی مستحق ہیں۔

اسلامی دنیا میں مذہبی تکثیر یت کا وجود

اہل مغر ب میں اسلام کے بارے یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ اسلامی سوسائٹی میں اقلیتو ں کے حقوق کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس لئے مغرب سے مکالمہ میں اس نکتہ کو اجاگر کرنا ضروری ہے کہ عہدِ رسالتﷺ اور اس کے بعد کی اسلامی دنیا بالخصوص مصر، لبنان ،انڈیا اور عثمانی ترکوں کے دور میں ہمیشہ قرآنی اصول کے مطابق لوگوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل رہی ہے ۔اسلامی دنیا میں مذہبی تکثیر یت کا وجود ہمارے موقف کی واضح شہادت مہیا کرتاہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن مجید کی اصولی تعلیم:
(لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّّ)(البقرۃ،۲:۲۵۶)
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں،ہدایت تو گمراہی سے صاف صاف کھل چکی ہے‘‘ 
کی نظری اور عملی تبلیغ اور اشاعت کی جائے۔اس کے علاوہ عہدِ رسالت ﷺ، عہدِ خلافتِ راشدہ اور مسلم عروج کے ان تاریخی معاہدات سے بھی استشہاد کیا جا سکتا ہے ،جن میں مذہبی آزادی کے تحفظ کا وعدہ کیا گیاہے۔

اسلام ایک حقیقی متبادل

اہلِ مغرب میں اعلیٰ ترین سطح پر اب یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ مذہب سے مکمل دستبرداری ان کے معاشرتی اور تہذیبی زوال کا باعث بن رہی ہے اور موجودہ مغربی فلسفہ ان کے تمام مسائل کا حل نہیں ہے اس وقت اہلِ مغرب جو روحانی خلا محسوس کر رہے ہیں اس کی بنا پر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا فی الوقت مغربی سیکولر ازم کو ایک خاص مفہوم میں بحران کا سامنا ہے اس حوالے سے ماہنامہ’’ الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ (بابت ماہ اگست ۲۰۰۵ء) میں پروفیسر میاں انعام الرحمن کاتجزیاتی مضمون ’’مغرب کی ابھرتی ہوئی مذہبی شناخت‘‘قابل مطالعہ ہے۔ پروفیسر موصوف کا تجزیہ یہ ہے کہ آج کی عالمی صورتِ حال میں مذہب ایک بار پھراہلِ مغرب کی زندگی میں دبے پاؤں داخل ہورہاہے ، اس لئے مسلمان اہلِ علم کے لیے یہ مناسب وقت ہے کہ وہ اہلِ مغرب کے سا منے اسلام کو بہتر انداز میں پیش کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر مغرب کی نفسیات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اسلام کوآج کے جدید اسلوب ،تکنیک اور زبان میں پیش کیا جائے کوئی وجہ نہیں کہ اسلا م اپنی فطری تعلیمات کی وجہ سے مغرب کے اعلیٰ ذہن کو متاثر نہ کرے۔

ضروری گزارش

کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے رجالِ کار کی تیاری بڑی اہمیت رکھتی ہے ،چونکہ اسلام کی اشاعت کا تمام انحصار دعوت وتبلیغ اور دوسری قوموں سے مکالمے پر ہے اس لیے رسول اللہ ﷺنے نہ صرف بین المذاہب مکالمے کی عملی مثال قائم کی بلکہ ایسے افراد بھی تیار کیے جو دوسری قوموں سے مکالمے کی صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے اب جبکہ حالات کے جبر نے ہمیں بین المذاہب مکالمے کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کر دیا ہے، ہمارے پاس ایسے افراد کی شدید کمی ہے جن کی مغربی فکرو فلسفہ پر تنقیدی نظر ہو اور جو اہلِ مغرب کی ذہنی ساخت ان کی نفسیات، پسِ منظراور تکنیک سے واقف ہوں،اس وقت ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو لوگ علمی رسوخ رکھتے ہیں وہ مغربی زبان وادب اور مغرب کی نفسیات سے واقف نہیں اور جو لوگ مغربی زبان اور محاورے کو جانتے ہیں وہ علمی طور پر کمزور ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی مدارس اور جامعات کے نصابِ تعلیم میں مغربی فکروفلسفہ کو بطور لازمی مضمون کے شاملِ نصاب کیا جائے ،تاکہ ایسے رجالِ کار کی تیاری ممکن ہو جو مغرب کے دا نش ور طبقے سے پورے اعتماد کے ساتھ بات کرسکیں ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یونانی فکر وفلسفہ کے عروج کے دور میں مسلمان اہل علم نے یونانی علم کلام اور فلسفہ پر مکمل عبور حاصل کیا اور پھر یونانی فکروفلسفہ کے علمی اور تحلیلی جائزے کے بعد اسلامی فکر کی برتری کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا۔ دورِ حاضر میں مسلمان اہل علم پر لازم ہے کہ وہ اپنے اسلاف کی تاریخ کو دہراتے ہوئے جدید علمِ کلام اور مغربی فکروفلسفہ پر عبور حاصل کریں ،تاکہ مغربی فکر کابھر پور تنقیدی جائز ہ لے کر اربابِ دانش پر اس کی کمزوریوں اور کھوکھلے پن کو واضح کیا جا سکے۔
پاکستان میں ماہنامہ’’ ساحل ‘‘کراچی ، ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ اورسہ ماہی’’مغرب اور اسلام ‘‘ اسلام آباد ، کے علاوہ کئی دیگر رسائل میں مغربی فکر پر تنقیدات شائع ہوتی رہتی ہیں ، لیکن ان کوششوں کو زیادہ مربوط بنانے کی ضرورت ہے۔میری معلومات کے مطابق علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ،اسلام آباد اور مولانا زاہد الراشدی کے زیر نگرانی قائم ’ الشریعہ اکادمی ‘گوجرانوالہ کے علاوہ شاید چند ہی ایسے ادارے ہوں گے جہاں پر مغربی فکروفلسفہ کا تعارفی اور تنقیدی جائزہ مستقل مضمون کے طور پر داخلِ نصاب ہو۔
ایک اور چیز جس کا ہمیں خاص طورسے لحاظ رکھنا چاہے وہ یہ ہے کہ مغرب کے ساتھ مکالمہ میں ہمارا رویہ معذرت خواہانہ اور دفاعی کی بجائے اقدامی ہونا چاہیے، ہمیں اسلام کے بنیادی عقائد اور نظریات کی ایسی تاویل سے اجتناب کرنا چاہیے جس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو۔معروف روایت کے مطابق جب قریشی وفد حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپﷺ کے سامنے مختلف آپشنز(Options) ر کھے کہ آپﷺ جو پیش کش بھی چاہیں قبول کر لیں اور دعوت وتبلیغ سے باز آجائیں تو آپﷺ نے اس وقت جو الفاظ ارشاد فرمائے وہ ذہنی مرعوبیت کے شکار لوگوں کے لئے خاص طور پر قابلِ توجہ ہیں ، آپﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند بھی رکھ دیں تب بھی میں اپنے مشن سے پیچھے ہٹنے والا نہیں۔
اسی طرح جب شاہِ حبشہ نے مسلمانوں کو دربار میں طلب کیا تاکہ وہ حضرت عیسیٰ ؑ اورعیسائی مذہب کے بارے اپنا موقف بیان کریں ، تو مسلمانوں سخت پریشان ہوئے کیونکہ سچ کہنے کی صورت میں نجاشی اور درباریوں کے ناراض کا خطرہ تھا ،لیکن آپﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ نے باہمی مشاورت کے بعد یہ متفقہ فیصلہ کیا :
’’نقول واللّٰہ ماقال اللّٰہ وماجاء نابہ نبینا‘‘(13)
’’اللہ کی قسم ہم وہی کہیں گے جو اللہ کا حکم اور رسول اللہﷺ کی تعلیم ہے ‘‘ 
اس لئے ہمیں کسی قسم کی ذہنی مرعوبیت کے بغیر پورے اعتماد کے ساتھ مغرب کو قائل کرنا ہوگا کہ اسلام ہی ایک ایسا تریاق ہے جو مغرب کی تہذیب کو ہر قسم کے نقائص سے پاک کرکے زندہ وجاوید کر سکتاہے۔ مغرب کے تمام مسائل ،خاندانی نظام کی شیرازہ بندی ،بچوں میں بڑوں کا احترام پیدا کرنا،باہمی اخو ت ،نسلی تفاخر کا خاتمہ ،نفسیاتی استحکام ،احترامِ آدمیت ،تحمل ،ایڈز جیسی بیماریوں کے خلاف سماجی مدافعت وغیرہ کاحل صرف اسلام کے پاس ہے ۔

حوالہ جات

(1)شبلی نعمانی ،ؒ علامہ( م ۱۹۱۴ء) ’’سیرۃ النبیﷺ‘‘، ۴؍۹۱ (الفیصل ناشران وتاجران کتب اردو بازار ،لاہور،) 
(2)احمد بن حنبل ؒ ،ابو عبداللہ الشیبانی، الامام (م ۲۴۱ھ) ’’المسند‘‘ ،حدیث زید بن ثابتؓ،ح:۱۱۰۸،۶؍۲۳۸(دار احیاء التراث العربی،بیروت،۱۹۹۱)
(3)ابو داودؒ ،سلیمان بن الاشعث بن اسحاق السجستانی (م ۲۷۵ھ) ’’سننِ ابی داود‘‘،کتاب الطلاق،باب من احق بالولد،ح:۲۲۷۷،ص:۲۳۰(دارالسلام للنشر والتوزیغ ،الریاض،۱۹۹۹ء)
(4) سرخسی ،ابو بکر محمد بناحمد بن ابی سھل ،(م ۴۹۰ھ) ’’المبسوط ‘‘ کتاب الصلوٰۃ ،۱/۳۷،(دار المعرفۃ ،بیروت ،۱۹۷۸ء)
(5) حمید اللہ ،ڈاکٹر ،(م ۲۰۰۲ء) ’’صحیفہ ہمام بن منبہ‘‘ ص ۱۹۳،(ناشر رشید اللہ یعقوب ،کلفٹن ،کراچی ،۱۹۹۸ء)
(6)ابن سعد ،ابو عبد اللہ محمد،(م ۴۵۶ھ) ’’الطبقات الکبری ‘‘ذکر بعثۃ رسول اللّٰہ ﷺ الرسل بکتبہ الی الملوک ، ۱/۲۵۸،(دار صادر ،بیروت،۱۹۸۵ء)
(7)ابن ہشام ،ابو محمد عبدالمالک(م ۲۱۸ھ) ’’السیرۃ النبویۃ‘‘ امر الھدنۃ ،۳/۳۵۱ (دار احیاء التراث العربی ،بیروت، ۱۹۹۵ء)
(8)ابنِ اثیر،ابو الحسن علی بن ابی البکرمحمد ابن اثیر الجزری (م ۶۳۰ھ) ’’اسد الغابۃ ‘‘تذکرۃ حاطب بن ابی بلتعۃؓ ،۱/۳۶۲ (دار احیاء التراث العربی ،بیروت)
(9)ابنِ قیم الجوزیہ،ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر(م ۷۵۱ھ) ’’زاد المعاد ‘‘۳؍۶۹۱،۶۹۲ (موسسۃ الرسالۃ،بیروت،۱۹۷۹ء) 
(10)مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو: راقم الحروف کی کتاب’’صحابہ کرام کا اسلوبِ دعوت و تبلیغ‘‘ صفحہ ۱۷۷۔۱۸۷ ، (ناشر ،مکتبہ جمال کرم،لاہور، ۲۰۰۴ء)
(11)حمید اللہؒ ،ڈاکٹر ،(م ۲۰۰۱ء) ’’رسول اکرمﷺ کی سیاسی زندگی ‘‘، ص:۱۲۷(دار الاشاعت ،کراچی،۱۹۸۷ء) 
(12)راقم الحروف نے اپنے پی ایچ ۔ڈی کے زیرِ تکمیل مقالے ’’صحاح ستہ کی احادیث پر منکرینِ حدیث اور مستشرقین کے اعتراضات کا علمی جائزہ‘‘ میں مستشرقین کے ان اعتراضات کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ 
(13)ابنِ ہشام ،۱/۳۷۳

مذہبی انتہا پسندی اور اس کا تدارک

پروفیسر اختر حسین عاصم

(ڈاکٹر ہمایوں عباس (شعبہ اسلامیات جی سی یونیورسٹی) کی کتاب ’’مذہبی انتہا پسندی اور اس کاتدارک تعلیمات نبوی ؑ کی روشنی میں‘‘ کی تقریب رونمائی منعقدہ ۶؍ مئی ۲۰۰۶ء بمقام ہمدرد سنٹر لاہور میں پڑھا گیا۔)

جناب صدر اور حاضرین محترم!
صاحب کتاب جناب ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس نے اپنی کتاب’’مذہبی انتہا پسندی اور اس کا تدارک تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں‘‘ میں اس دور کا ایک انتہائی حساس موضوع چھیڑا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موضوع پر خوب غوروفکر کیاجائے اور امت کا صاحب دانش اورصاحب علم طبقہ بالخصوص اجتماعی طور پر اس عمل میں شریک ہو۔اس موضوع کے مختلف پہلو سامنے لائے جائیں اور ایک ٹھوس لائحہ عمل تجویز کیاجائے۔یہ بات خوش آئندہے کہ ہمارے نوجوان اسکالر نے اس سلسلے میں قلم اٹھایا ہے۔ ہوسکتاہے کہ ان کی یہ تحریر اس عمل کے لیے مہمیز کا کام دے جائے۔
مصنف نے اپنی اس کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کیاہے ۔پہلے باب میں انہوں نے مذہبی انتہا پسندی کے مفہوم اور محرکات پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ باب اس اعتبارسے بہت اہم ہے کہ اس میں مذہبی انتہا پسندی کا مفہوم متعین کیاگیاہے ،کیونکہ جب تک بنیادی مسئلے کا تعین نہ ہو،بات آگے نہیں بڑھ سکتی ۔
انتہا پسندی دراصل ایک طرز عمل کا نام ہے۔ اگرکوئی شخص پرامن بقائے باہمی پر یقین رکھتاہے ،دوسرے لوگوں کو اپنے اپنے دائرے میں اپنی رائے پر عمل کرنے دیتاہے، باہمی تعلقات اور باہمی مکالمہ پر یقین رکھتاہے ،افہام وتفہیم سے کام لیتاہے تو اس کایہ طرز عمل اس بات کی شہادت ہے کہ وہ انتہا پسند نہیں ۔لیکن اگر وہ کسی دوسری رائے کو برداشت کرنے پر بھی تیارنہیں، اگر وہ مخالفین کو زندہ رہنے کا حق دینے پر آمادہ نہیں، اگر وہ باہمی مکالمہ اور باہمی رواداری پر یقین نہیں رکھتا تو بلاشبہ اس کا یہ ر ویہ انتہا پسندانہ کہلائے گا۔
میری رائے میں اصل مسئلہ کسی عقیدے یا نظریے کا حامل ہونا نہیں، بلکہ ایک تربیت کا ہے ۔ہم نے اپنے معاشرے میں افراد کی اس سطح پر تربیت کی ہی نہیں۔ ہمیں یہ درس نہیں دیاجاتا کہ ہم دوسروں کے ساتھ رائے کے اختلاف کے باوجود معاشرتی سطح پر خوشگوار تعلقات رکھ سکتے ہیں۔ ان سے انسانی سطح پر اور پھر وسیع ترا سلامی اخوت کی سطح پر باہمی احترام کا رشتہ قائم کرسکتے ہیں۔ہمیں گھروں میں بڑوں کی طرف سے اور منبر ومحراب سے علمائے کرام کی طرف سے جب پکڑ لو ،پکڑ لو اور مار دو ماردو کا سبق ملے گا تو اس کے منفی اثرات تو لامحالہ ہمیں بھگتنے پڑیں گے۔ افہام وتفہیم کا راستہ کھلا رکھاجائے ،دوسروں کی بات کو اگر وہ دلائل کے ساتھ ہے ،سننے کا حوصلہ پیدا کیا جائے اور ایک دوسرے کو برداشت کیاجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرہ انتہاپسندی سے پاک نہ ہوجائے۔
اس مسئلے کے تدارک کے حوالے سے جو یہ حکمت عملی اپنائی جاتی ہے کہ ہر قسم کی اختلافی تحریروں پر پابندی لگادی جائے ،ا س میں کچھ حدوں کی نشان دہی ضروری ہے۔ اگر تو کوئی تحریر محض دشنام طراز ی پر مشتمل ہے اور اس میں مار دو پکڑ لو کا درس ہے، اس کی زبان اخلاق سے گری ہوئی ہے تو ایسی کتابوں کی اشاعت کا کوئی جواز نہیں اور ایسی کتابوں کی اشاعت پر سختی سے پابندی ہونی چاہیے۔ اس باب میں دوآرا ممکن ہی نہیں۔ لیکن شائستگی ،علمی وقار اوردیانت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے لکھی جانے والی اختلافی تحریروں اور بحث مباحثے کی راہ کھلی رکھنی چاہیے، ورنہ معاشرے میں ایسی گھٹن پیداہوگی کہ پورا معاشرہ یا تو ایک مردہ معاشرے بن جائے گا اور یا پھر پریشر ککر کی طرح اس میں پریشر جمع ہوتا جائے گا اور پھر ایک دن ایک دم پھٹے گا اورپورے معاشرے کو انارکی Anarchy)) کا شکار کردے گا۔
صاحب صدر!
مذہبی انتہا پسندی کی دو سطحیں ہیں۔ ایک، کسی بھی دین کے اندر موجود مختلف مسالک اور مذاہب کے درمیان نفرت اور دشمنی اور دوسرے، مختلف ادیان کے ماننے والوں کے درمیان نفرت اور دشمنی۔ان میں سے ہر ایک سطح پر مسئلہ کی نوعیت کچھ مختلف ہوجاتی ہے لیکن ایک پہلو جو بڑا عجیب ہے، میں اس کی نشان دہی کرنا چاہتاہوں۔نرالا قصہ یہ ہے کہ عقلی طور پر تو مختلف ادیان کے ماننے والوں کے درمیان مناقشت، نفرت یادوری زیادہ ہونی چاہیے اور ایک کلمے اور ایک دین کے ماننے والوں کے درمیان نفرت یادوری کا اصلاً تو جواز ہی نہیں ،لیکن اگر ہو تو اس میں شدت نہیں ہونی چاہیے ۔لیکن یہ عجیب قصہ ہے کہ مسلمانوں کی پوری تاریخ میں مسلمانوں نے آپس کے تنازعات میں تو شدت پسندی سے کام لیا ہے ،لیکن دوسرے ادیان ومذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ ان کا رویہ عام طورپر رواداری اور برداشت کا ہی رہاہے۔
معاشرے میں انتہا پسندی کی بڑی وجوہات کا اگر تجزیہ کیاجائے تو اس میں جہالت ایک بڑے عنصر کے طور پر سامنے آتی ہے۔ دین سے بے خبری، خود قرآن وحدیث سے بے خبری۔ قرآن کی تلاوت مفہوم سمجھے بغیر کی جاتی ہے ۔اس عمل کے ثواب اور اس کی برکات سے انکار نہیں،لیکن قرآن کتاب ہدایت ہے ۔ہدایت پر عمل کرنے کے لیے پہلے اسے سمجھنا ضروری ہوتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم قرآن مجید کا مطالعہ مطالب اور مفاہیم کو سمجھ کر کریں تو اس سے کئی معاملات سلجھ سکتے ہیں اور انتہاپسندی میں کمی آسکتی ہے۔ ہمارے ہاں ہر کس وناکس حساس سے حساس مسئلے پر بڑی قطعیت سے رائے دینے کا عادی ہے ،حالانکہ اکثر ان کے پاس قرآن اور حدیث کا علم سرے سے ہوتا ہی نہیں۔ اس قطعیت میں ایک بے جا ضد شامل ہوجاتی ہے۔
دوسرا عنصر برداشت اور رواداری کی عدم موجودگی ہے۔ ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر برداشت سے محروم ہوتاجارہاہے، عجلت پسندی ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر طیش میں آجانا ،ہتھیار اٹھا لینا ،مرنے مارنے پر تیار ہوجانا ہمار ا معمول بن چکاہے۔ اس رویے کی تہذیب اور اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔انسان کو مخالفانہ رائے کو حوصلے سے سننے کی تربیت کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ اختلافی بات کو بڑے مہذب طریقے اور سلیقے سے کرنے کا فن بھی سیکھنا چاہیے۔
مصنف نے بجا طور پر نشان دہی کی ہے کہ ایک دوسرے پر کفر اور شرک کے فتوے لگانے سے انتہا پسندی کو فروغ مل رہاہے۔یہ بات اصولی طور پر طے ہوجانی چاہیے کہ تمام کلمہ گو جو رسول عربی ﷺ کو اللہ کا آخری رسول اور پیغمبر مانتے ہیں، مسلمان ہیں اور ان کے درمیان فقہی اختلافات کے باوجود کسی کو کسی پرکفر اورشرک کا فتویٰ نہیں لگانا چاہیے۔ جہاں تک فقہی اختلافات کا تعلق ہے، اس ضمن میں توسع سے کام لینا چاہیے۔
اس کتاب کے دوسرے باب میں انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نبوی تعلیمات سے جورہنمائی ملتی ہے، اسے واضح کیاگیاہے۔ اس باب میں مصنف نے ایسی بہت سی مثالیں نقل کی ہیں جن سے امت کے سلف صالحین اور بزرگوں کا اس معاملے میں طرز عمل سامنے آتاہے۔ مثال کے طور پر حضرت ابن عمرؓ خارجیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے ۔ امام احمد بن حنبلؒ کا یہ قول سامنے آتاہے کہ جو شخص جمعہ کی نماز کسی کے پیچھے پڑھنے کے بعد دوبارہ پڑھے گا، وہ بدعتی ہے ۔ابن حزمؓ نے فاسق کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں صحابہؓ کا موقف او ر عمل واضح کیاہے اور مثالیں دی ہیں کہ وہ فاسق کے پیچھے بھی نمازپڑھ لیا کرتے تھے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ فتاوی ٰ عام ہیں کہ فلاں کے پیچھے نماز نہیں ہوتی اور اکثر ایسی صورتوں میں ہمارے علمائے کرام نماز کو لوٹانے یا دوبارہ پڑھنے کا حکم دیتے ہیں۔
مصنف نے تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں انسانی جان کی حرمت واضح کی ہے ۔اس حرمت کی خلاف ورزی کی صورت میں جو سخت وعید یں آئی ہیں ،ان کو بیان کیاہے۔ ایک شخص رسول اللہ ﷺ پر ایمان بھی رکھتاہو لیکن انسانی جان اور مومن کی جان کے بارے میں آپ کی اتنی صریح تعلیمات کو پس وپشت ڈالتاہو، اسے اپنے ایمان کے متعلق از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہی نہیں، اسلام تو کسی بھی دین کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں کو چھیڑنے یا ان سے تعرض کرنے سے بھی سختی سے منع کرتاہے۔ انسانی جان کے تحفظ کے ساتھ ساتھ عزت نفس کے تحفظ پر خصوصی زور دیتاہے ۔ایک دوسرے پر عیب لگانا، طعنے دینا، اشاروں کنایوں یا واضح لفظوں میں کسی کی اہانت کرنا، کسی کو کم قدر یا حقیر جاننا، ان سب سے سختی سے منع کرتا ہے۔ ایسا دین ،قتل وغارت گری کی کیوں کر اجازت دے سکتاہے۔
تیسرے باب میں فاضل مصنف نے اتحاد کی تلقین کی ہے۔اس باب میں انہوں نے انتشار کے مفہوم اور اس کے محرکات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔قرآن کے اندر نہ صرف اتحاد کی تلقین موجود ہے بلکہ اس کی بنیاد بھی واضح کی گئی ہے ۔حبل اللہ سے تمسک اور فرقہ واریت کی سخت ممانعت ’ولا تفرقوا‘ کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ انتشار کسی بھی صورت میں پسندیدہ نہیں قراردیاگیا۔ہمیں کتاب میں ایک دلچسپ بحث ۷۳ فرقوں والی مشہور حدیث کے مفہوم سے متعلق ملتی ہے ۔مختلف علمائے امت کے موقف کی روشنی میں اس روایت کے صحیح مفہوم کو متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مصنف نے مختلف ادیان کے ماننے والوں میں انتہا پسندی کے موضوع پر بھی آخر میں تین صفحات میں روشنی ڈالی ہے،لیکن لگتاہے کہ یہ پہلو مصنف کی بحث کے دائرے سے خارج تھا اور اس میں تشنگی کا احساس ہوتاہے ۔اس کتاب کی کسی اگلی اشاعت میں اس باب میں مفصل بحث آنی چاہیے۔
مجموعی طورپر مصنف کی یہ کوشش قابل قدر ہے۔کتا ب کے مختلف مباحث پر نظر ڈالنے سے یہ خوشگوار حقیقت سامنے آتی ہے کہ انہوں نے جن علمائے کرام کی آرا نقل کی ہیں، وہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں ۔اس سے مصنف کا توسع سامنے آتاہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس روایت کو آگے بڑھایا جائے۔
ہم منتظر رہیں گے کہ مصنف اس سلسلے کو آگے بڑھائیں اور رواداری اور توسع کے جذبے کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اگر امت کے علما اس طرز عمل کو اپنالیں تو ہمارامعاشرہ ایک حقیقی اسلامی معاشرہ بن سکتا ہے۔

تین طلاقوں کے بارے میں جمہور علماء کا موقف

مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

(ایک مجلس میں یا ایک جملے میں تین طلاقوں کے وقوع کے بارے میں بحث ایک عرصے سے ’الشریعہ‘ کے صفحات میں جاری ہے اور مختلف حضرات کے مضامین اس سلسلے میں شائع ہو چکے ہیں۔ ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاے امت کا موقف یہ ہے کہ ایک مجلس میں یا ایک جملے سے دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی واقع ہو تی ہیں، جبکہ مستند اہل علم کا ایک گروہ جس کی نمایاں ترجمانی شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے رفقا کرتے ہیں، اس صورت میں ایک طلاق کے واقع ہونے کا قائل ہے۔ اس مسئلے پر جمہور علما کے موقف کی وضاحت کے لیے شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے ’’عمدۃ الاثاث فی حکم الطلقات الثلاث‘‘ کے نام سے ایک مستقل کتابچہ تصنیف کیا ہے جس کے باب اول میں انھوں نے جمہور کے موقف کے دلائل ذکر کیے ہیں۔ اس باب کا خلاصہ قارئین کی معلومات کے لیے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔  یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ فروعی فقہی اور مسلکی اختلافات اور ان پر روایتی طرز کا بحث مباحثہ ’الشریعہ‘ کے دائرۂ موضوعات میں شامل نہیں۔ ان صفحات میں تین طلاقوں کے مسئلے کی طرف توجہ اصلاً معاشرتی صورت حال کے تناظر میں دلانے کی کوشش کی گئی ہے جو اپنی سنگینی کے پیش نظر اہل علم کی توجہ اور اجتہاد کی متقاضی ہے۔ اس بحث میں مزید حصہ لینے کے خواہش مند اہل قلم اگر اس نکتے کو ملحوظ رکھیں تو بحث زیادہ مفید اور نتیجہ خیز ہوگی۔ مدیر)

۱۔ اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کا قاعدہ اور ضابطہ یہ بیان فرمایا ہے کہ دو طلاقوں کے بعد خاوند کو رجوع کا حق حاصل ہے اور اسی طر ح بیوی کو حبالہ عقد اور نکاح میں نہ رکھنے کا حق بھی اسے پہنچتا ہے، لیکن اگر دو مرتبہ طلاق دے چکنے کے بعد تیسری طلاق دے دے تو اب وہ عورت اس مرد کے لیے حلال نہیں تاوقتیکہ وہ شرعی قاعدہ کے مطابق کسی اور مرد سے نکاح نہ کر لے اور پھر وہ اپنی مرضی سے طلاق دے اور عدت گزر جائے۔
فَإِن طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِن بَعْدُ حَتَّیَ تَنکِحَ زَوْجاً غَیْْرَہُ (البقرہ ۲۳۰)
’’پھر اگر شوہر اس کو (تیسری مرتبہ) طلاق دے دے تو اب وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں، تاآنکہ وہ اس کے علاوہ کسی دوسرے خاوند سے نکاح کر لے۔‘‘
یہاں حرف فا ہے جو اکثر تعقیب بلا مہلہ کے لیے آتا ہے جس کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ دو طلاق کے بعد اگر فی الفور تیسری طلاق بھی کسی نادان نے دے دی تو اب اس کی بیوی اس کے لیے حلال نہیں ہے جب تک کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے۔ اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ایک ہی مجلس اور ایک ہی جگہ میں تین طلاقیں دی جائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت کریمہ کی تفسیر اور مفہوم میں دفعۃً تین طلاقیں دینا بھی داخل ہے اور یہ متفرق طور پر تین طلاقوں کے لیے ہی متعین نہیں اور نہ اس میں یہ نص ہے کہ دفعۃً تین طلاقوں کو شامل نہ ہو۔
۲۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ سو اس نے کسی اور مرد سے نکاح کیا اور اس نے (ہم بستری سے پہلے) اسے طلاق دے دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال ہے تو آپ نے فرمایا کہ نہیں، جب تک کہ دوسرا خاوند اس سے ہم بستری نہ کر لے (اور لطف اندوز نہ ہو جائے) (بخاری ۲/۷۹۱، مسلم ۱/۴۶۳، السنن الکبریٰ ۷/۳۳۴)
اس حدیث میں ’طلق امراتہ ثلاثا‘ کے جملہ کی تشریح میں حافظ ابن حجر عسقلانی اور حافظ بدر الدین عینی فرماتے ہیں کہ یہ جملہ ظاہراً اسی کو چاہتا ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی اور دفعۃً دی گئی تھیں۔ (فتح الباری ۹/۴۹۵، عمدۃ القاری ۹/۵۳۷)
۳۔ حضرت عائشہؓ سے سوال کیا گیا کہ کوئی شخص ایک عورت سے نکاح کرتا ہے اور اس کے بعد اس کو تین طلاقیں دے دیتا ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ عورت اس شخص کے لیے حلال نہیں ہے جب تک کہ دوسرا خاوند اس سے لطف اندوز نہ ہو جائے جس طرح کہ پہلا خاوند اس سے لطف اٹھا چکا ہے۔ (مسلم ۱/۴۶۳، السنن الکبریٰ ۷/۳۷۴)
اس حدیث میں بھی لفظ ’ثلاثا‘ بظاہر اسی کا مقتضی ہے کہ تین طلاقیں دفعۃً اور اکٹھی دی گئی ہوں۔
۴۔ حضرت محمود بن لبیدؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں تو آپ غصے میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جا رہا ہے؟ حتیٰ کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ حضرت! کیا میں اس شخص کو قتل نہ کر دوں؟ (نسائی ۲/۸۲)
اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ دفعۃً تین طلاقیں دینا پسندیدہ امر نہیں ہے ورنہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو اس کارروائی پر سخت ناراض ہوتے اور نہ یہ ارشاد فرماتے کہ میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جا رہا ہے۔ ہاں آپ نے باوجود ناراضی کے ان تینوں کو اس پر نافذ کر دیا۔ چنانچہ قاضی ابوبکر ابن العربی مذکورہ روایت کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین طلاقوں کو رد نہیں کیا بلکہ ان کو نافذ فرما دیا۔ حافظ ابن القیم نے قاضی ابن العربی کا یہ قول نقل کیا ہے اور اس کو رد نہیں کیا۔ (تہذیب سنن ابی داؤد ۳/۱۲۹ طبع مصر)
۵۔ حضرت سہل بن سعدؓ کی روایت ہے کہ حضرت عویمرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں اور آپ نے ان کو نافذ کر دیا۔ (ابوداؤد ۱/۳۰۶) 
اگر دفعۃً تین طلاقیں حرام ہوتیں اور تین کا شرعاً اعتبار نہ ہوتا اور تین طلاقیں ایک طلاق تصور کی جاتیں تو آپ ضرور اس کا حکم ارشاد فرماتے اور کسی طرح خاموشی اختیار نہ فرماتے۔ 
۶۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے بحالت حیض اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی۔ پھر ارادہ کیا کہ باقی دو طلاقیں بھی باقی دو حیض (یا طہر) کے وقت دے دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے حضرت ابن عمر سے فرمایا کہ تجھے اللہ تعالیٰ نے اس طرح حکم تو نہیں دیا۔ تو نے سنت کی خلاف ورزی کی ہے۔ سنت تو یہ ہے کہ جب طہر کا زمانہ آئے تو ہر طہر کے وقت اس کو طلاق دے۔ وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ تو رجوع کر لے، چنانچہ میں نے رجوع کر لیا۔ پھر آپ نے مجھ سے فرمایا کہ جب وہ طہر کے زمانہ میں داخل ہو تو اس کو طلاق دے دینا اور مرضی ہوئی تو بیوی بنا کر رکھ لینا۔ اس پر میں نے آپ سے عرض کیا، یا رسول اللہ، یہ تو بتلائیں کہ اگر میں اس کو تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لیے حلال ہوتا کہ میں اس کی طرف رجوع کر لوں؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں، وہ تجھ سے جدا ہو جاتی اور یہ کارروائی معصیت ہوتی۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۳۴، دارقطنی ۲/۴۳۸، مجمع الزوائد ۴/۳۳۶، نصب الرایہ ۳/۲۲۰)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ تین طلاقیں دے چکنے کے بعد پھر رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔
۷۔ حضرت نافع بن عجیرؓ فرماتے ہیں کہ حضرت رکانہ بن عبد یزیدؓ نے اپنی بیوی سہیمہ کو بتہ (تعلق قطع کرنے والی) طلاق دی تو اس کے بعد انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی اور کہا، بخدا میں نے صرف ایک ہی طلاق کا ارادہ کیا ہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی قسم، تو نے صرف ایک ہی طلاق کا ارادہ کیا ہے؟ رکانہ نے کہا، اللہ تعالیٰ کی قسم، میں نے صرف ایک ہی طلا ق کا ارادہ کیا ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بی بی اسے واپس دلوا دی۔ دوسری طلاق رکانہ نے اس کو حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں اور تیسری طلاق حضرت عثمانؓ کے زمانے میں دی۔ (ابو داؤد ۱/۳۰۰، المستدرک ۲/۱۹۹، دارقطنی ۲/۳۹، موارد الظمآن ۳۲۱)
اگر لفظ ’بتہ‘ سے دفعۃً تین طلاقیں پڑنے کا جواز ثابت نہ ہوتا تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت رکانہ کو کیوں قسم دیتے؟ چونکہ کنایہ کی طلاق میں نیت کا دخل بھی ہوتا ہے اور لفظ بتہ تین کا احتمال بھی رکھتا ہے، اس لیے آپ نے ان کو قسم دی۔ اگر تین کے بعد رجوع کا حق ہوتا اور تین ایک سمجھی جاتی تو آپ ان کو قسم نہ دیتے۔
۸۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں نے بحالت حیض اپنی بیوی کو بتہ (تعلق قطع کرنے والی اور یہاں مراد تین طلاقیں ہیں) طلاق دے دی ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ تو نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے بالکل الگ ہو گئی۔ اس شخص نے کہا کہ عبد اللہ بن عمرؓ کے ساتھ بھی تو ایسا ہی معاملہ پیش آیا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ان کو رجوع کا حق دیا تھا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اسے فرمایا کہ بلاشبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کی طرف رجوع کر لے، مگر اس لیے کہ اس کی طلاق باقی تھی اور تیرے لیے تو اپنی بیوی کی طرف رجوع کا حق نہیں (کیوں کہ تیری طلاق باقی نہیں)۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۳۴، مجمع الزوائد ۴/۳۳۵)
چونکہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تھی، اس لیے ان کے رجوع کا حق تو محفوظ تھا، مگر اس شخص نے اپنے حق رجوع کا ترکش بالکل خالی کر دیا تھا جس سے یہ صراحتاً ثابت ہوتا ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں اس لیے حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ تم رجوع نہیں کر سکتے۔
۹۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے جب اسی قسم کے مسئلے کے بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ فرماتے کہ تم نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی ہیں تو بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس صورت میں) مجھے رجوع کا حکم دیا تھا اور اگر تم نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو یقیناًوہ تم پر حرام ہو گئی ہے، جب تک کہ وہ تیرے بغیر کسی اور مرد سے نکاح نہ کر لے اور اس طرح تو نے اپنی بیوی کو طلاق دینے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی بھی کی ہے۔ (مسلم ۱/۴۷۶، بخاری ۲/۸۰۳، السنن الکبریٰ ۷/۳۳۱، دارقطنی ۲/۴۳۶)
۱۰۔ حضرت زید بن وہب سے روایت ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک مسخرہ مزاج آدمی تھا۔ اس نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دے دیں۔ جب اس کا یہ معاملہ حضرت عمرؓ کے ہاں پیش کیا گیا اور ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ میں تو محض دل لگی او رخوش طبعی کے طور پر یہ طلاقیں دی ہیں ، یعنی میرا قصد اور ارادہ نہ تھا تو حضرت عمرؓ نے درہ سے اس کی مرمت کی اور فرمایا کہ تجھے تو تین طلاقیں ہی کافی تھیں۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۳۴)
اس روایت سے ثابت ہوا کہ حضرت عمرؓ بھی ایک کلمہ اور ایک مجلس میں دی گئی طلاقوں کا اعتبار کرتے تھے، مگر چونکہ تین طلاقوں سے زائد کا شریعت میں ثبوت نہیں، اس لیے ایک ہزار میں سے تین کے وقوع کا تو انھوں نے حکم صادر فرمایا اور باقی کو لغو قرار دے دیا۔
۱۱۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کو ہم بستری سے پہلے تین طلاقیں دے دیں، فرمایا کہ تین ہی طلاقیں متصور ہوں گی اور وہ عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں تا وقتیکہ وہ کسی اور شخص سے نکاح نہ کرے اور حضرت عمرؓ کے پاس جب ایسا شخص لایا جاتا تو آپ اس کو سزا دیا کرتے تھے۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۳۴)
۱۲۔ حضرت عبد الرحمن ابن ابی لیلیٰ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی نے فرمایا کہ جو شخص اپنی بیوی کو ہم بستری سے پہلے تین طلاقیں دے ے تو وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں، یہاں تک کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کر لے۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۳۴)
ایک اور روایت میں یوں آتا ہے کہ ایک شخص حضرت علیؓ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دے دی ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ تین طلاقیں تو اس کو تجھ پر حرام کر دیتی ہیں اور باقی ماندہ طلاقیں اپنی دوسری بیویوں میں تقسیم کر دے۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۳۵)
معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ بھی ایک کلمہ اور ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی قرار دیتے تھے، اسی لیے تو انھوں نے فرمایا کہ تین طلاقیں تو تیری بیوی پر واقع ہو چکی ہیں اور ہزار میں سے باقی نو سو ستاونوے اپنی باقی ماندہ بیویوں پر بانٹ دے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ نے انتہائی خفگی اور ناراضی کا اظہار فرمایا۔
۱۳۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ اب اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ تیرے چچا نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے اور اب اس کی کوئی صورت نہیں بن سکتی۔ وہ شخص بولا کہ کیا حلالہ کی صورت میں بھی جواز کی شکل نہیں پید اہو سکتی؟ اس پر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دھوکہ کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو اس کا بدلہ دے گا۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۳۷، طحاوی ۲/۲۹)
ایک روایت یوں آتی ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ نے اس پر سکوت اختیار کیا۔ ہم نے خیال کیا کہ شاید وہ اس عورت کو واپس اسے دلانا چاہتے ہیں، مگر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ تم خود حماقت کا ارتکاب کرتے ہو اور پھر کہتے ہو اے ابن عباس، اے ابن عباس؟ بات یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ سے نہ ڈرے تو اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکل سکتی۔ جب تم نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے تو اب تمھارے لیے کوئی گنجایش ہی نہیں۔ تمھاری بیوی اب تم سے بالکل علیحدہ ہو چکی ہے۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۳۱)
۱۴۔ حضرت معاویہ بن ابی عیاش انصاریؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ اور عاصم بن عمرو کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں حضرت محمد بن ایاس بن بکیر تشریف لائے اور پوچھنے لگے کہ ایک دیہاتی گنوار نے اپنی غیر مدخول بہا بیوی کو (جس سے ابھی تک ہم بستری نہیں کی گئی) تین طلاقیں دے دی ہیں۔ اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے فرمایا، جا کر عبد اللہ بن عباسؓ اور ابو ہریرہؓ سے پوچھو۔ میں ابھی ان کو حضرت عائشہ کے پاس چھوڑ کر آیا ہوں۔ مگر جب ان سے سوال کر چکو تو واپسی پر ہمیں بھی مسئلہ سے آگاہ کرنا۔ جب سائل ان کے پاس حاضر ہوا اور دریافت کیا تو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہؓ، فتویٰ دیجیے، لیکن سوچ سمجھ کر بتانا کہ مسئلہ پیچیدہ ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ ایک طلاق اس سے علیحدگی کے لیے کافی تھی اور تین طلاقوں سے وہ اس پر حرام ہو گئی ہے، الا یہ کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح کرے۔ اور حضرت ابن عباسؓ نے بھی یہی فتویٰ دیا۔ (موطا امام مالک ۲۰۸، طحاوی ۲/۲۹، السنن الکبریٰ ۷/۳۳۵)
۱۵۔ ایک شخص نے حضرت ابن مسعودؓ سے سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو دو سو طلاق دے دی ہے، اب کیا حکم ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ تجھے کیا فتویٰ دیا گیا ہے؟ اس نے کہا کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ عورت اب مجھ سے بالکل الگ اور جدا ہو گئی ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ لوگوں نے سچ کہا ہے۔ (موطا امام مالک ۱۹۹)
۱۶۔ حضرت عمران بن حصینؓ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے یہ سوال کیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی ہیں ، اب وہ کیا کرے؟ حضرت عمران نے فرمایا کہ اس نے رب تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے اور ا س کی بیوی اس پر حرام ہو گئی ہے۔ سائل وہاں سے چل کر حضرت ابو موسیٰ الاشعری کے پاس پہنچا اور اس خیال سے اس نے ان سے بھی سوال کیا کہ وہ شاید اس کے خلاف فتویٰ صادر فرمائیں گے، مگر حضرت ابو موسیٰ نے حضرت عمران بن حصینؓ کی تائید کی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہم میں ابو نجید جیسے آدمی مزید پیدا کرے۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۳۲، مستدرک ۳/۴۷۲)
۱۷۔ ایک شخص حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ سوال کیا کہ ایک شخص نے ہم بستری سے قبل اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، وہ کیا کرے؟ اس پر حضرت عطاء بن یسار نے فرمایا کہ کنواری کی طلاق تو ایک ہی ہوتی ہے۔ حضرت ابن عمر نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تو قصہ گو ہے۔ ایک طلاق ایسی عور ت کو جدا کر دیتی ہے اور تین اس کو حرام کر دیتی ہیں تاوقتیکہ وہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرے۔ (مسند امام شافعی ۳۶، طحاوی ۲/۳۰)
۱۸۔ ایک شخص نے اپنی غیر مدخول بہا بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ پھر اس کا خیال ہوا کہ وہ اس سے نکاح کر لے۔ اس نے حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت ابن عباسؓ سے فتویٰ طلب کیا۔ ان دونوں بزرگوں نے فرمایا کہ تم اس سے نکاح نہیں کر سکتے تاوقتیکہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کر لے۔ اس شخص نے کہا کہ اس کے لیے میری طرف سے تو ایک ہی طلاق ہے (یعنی تین سے مراد ایک ہے) تو انھوں نے فرمایا کہ تم نے اپنا وہ اختیار کھو دیا ہے جو تمھارے ہاتھ اور بس میں تھا۔ (مسند امام شافعی ۳۶)
۱۹۔ حضرت عطا فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ اب کیا صورت ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور تجھ پر تمھاری بیوی حرام ہو گئی حتیٰ کہ وہ تمھارے بغیر کسی اور مرد سے نکاح کرے۔ (جامع المسانید ۲/۱۴۸)
۲۰۔ حضرت مسلمہ بن جعفر الاحمسیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے امام جعفر بن محمد سے سوال کیا کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جس شخص نے جہالت میں مبتلا ہو کر اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو ان کو سنت کی طرف لوٹایا جائے گا اور ا س صورت میں ایک ہی طلاق واقع ہوگی، اور لوگ اس کو آپ حضرات کے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ معاذ اللہ تعالیٰ، ہمارا یہ قول نہیں ہے۔ جس شخص نے تین طلاقیں دے دیں، وہ تین ہی ہوں گی۔ (السنن الکبریٰ ۷/۳۴۰)
اس سے ثابت ہو اکہ اہل بیت کی طرف تین طلاقوں کے ایک ہونے کی جو نسبت کی جاتی ہے، وہ قطعاً غلط اور یقیناًبے بنیاد ہے اور حضرات اہل بیت بھی دیگر حضرات کے ہم نوا ہیں اور تین طلاقوں کو تین ہی سمجھتے اور اسی کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔
الغرض اندرونی اور بیرونی دلائل وبراہین اور قرائن وشواہد اس امر کو متعین کر دیتے ہیں کہ آزاد مرد طلاق دے یا غلام، تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں یا دو، ان کا شرعاً اعتبار کیا جائے گا اور دو کو دو اور تین کو تین ہی سمجھا جائے گا۔ تقریباً سو فی صدی حضرات صحابہ کرام، اکثر تابعین، ائمہ اربعہ اور جمہور سلف وخلف اسی کے قائل ہیں اور ظاہر قرآن کریم اور صحیح وصریح احادیث بھی یہی کچھ بتاتی ہیں اور یہی حق وصواب ہے، لہٰذا جن بعض حضرات کے اقوال اور فتوے اس مسئلے میں جمہور کے اجماع کے خلاف نقل کیے جاتے ہیں، ان کی کوئی وقعت نہیں ہے اور وہ سب کے سب شاذ ہیں جو قابل عمل نہیں۔ چنانچہ علامہ احمد بن محمد القسطلانی الشافعی تین طلاقوں کو ایک سمجھنے والوں کے مذہب کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ مذہب شاذ اور منکر ہے اور اس پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ (ارشاد الساری ۸/۱۵۷ طبع مصر)

اصولوں پر تنقید

طالب محسن

حافظ زبیر صاحب کا ایک طویل مضمون ’الشریعہ‘ (مئی ۲۰۰۶) میں شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں حافظ صاحب نے استاد محترم جناب جاوید احمد صاحب غامدی کے ’’اصولوں‘‘ پر تنقید کی ہے اور بعض اطلاقی مسائل کو بھی بطور مثال زیر بحث لائے ہیں۔ ہم ان اطلاقی مسائل مثلاً رجم کی سزا، حضرت مسیح کی دوبارہ آمد اور دجال وغیرہ پر بحث کو اس وقت تک کے لیے مؤخر کر رہے ہیں جب تک اصول کی بحث مکمل نہیں ہوجاتی۔ 
حافظ صاحب کے مضمون کا اصولوں سے متعلق حصہ، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ استاد محترم کی کتاب ’’اصول ومبادی‘‘ کے مندرجات پر تنقید نہیں ہے، بلکہ انھوں نے بعض غیر متعلق اقتباسات سے، جن میں سے اہم اقتباسات استاد محترم کی تحریر بھی نہیں ہیں، خود کچھ اصول اخذ کیے ہیں اور پھر ان پر تنقید کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حافظ صاحب کا مضمون واضح طور پر علمی دھاندلی کا نمونہ ہے۔ انھیں اگر استاد محترم کے اصول پر تنقید کرنا تھی تو انھیں ’’اصول ومبادی ‘‘میں بیان کردہ اصولوں پر تنقید کرنی چاہیے تھی اور اگر وہ دوسری آرا کو زیر بحث لانا چاہتے تھے تو ان آرا سے متعلق نصوص کو زیر بحث لاتے اور یہ واضح کرتے کہ استاد محترم متعلقہ نص کا مفہوم طے کرنے میں کہاں غلط ہیں۔ حافظ صاحب نے اصل میں کچھ تحقیقی نتائج کو سامنے رکھا ہے۔ ان نتائج تک پہنچنے کے اصول خود دریافت کیے ہیں اور انھیں استاد محترم کی طرف منسوب کرکے اپنے تئیں اصولی تنقید کی مثال قائم کر ڈالی ہے۔بہرحال اگر ہم ان خود دریافتہ اصولوں کا جائزہ لیں تو تین بنیادی نکات سامنے آتے ہیں:
۱۔ تصور کتاب
۲۔ سنت کی تعریف
۳۔ مقام حدیث
حافظ صاحب کے نزدیک استاد محترم کا تصور کتاب غلط ہے۔ انھوں نے لکھا ہے:
’’غامدی صاحب کے نزدیک کتاب اللہ سے مراد صرف قرآن نہیں بلکہ کتاب الٰہی ہے یعنی تورات، انجیل اور صحف ابراہیم بھی اس میں شامل ہیں۔ ‘‘ ۱ ؂
ہم یہ بات عرض کر چکے ہیں کہ حافظ صاحب کا استاد محترم سے منسوب کردہ یہ تصور کتاب ان کا خود ساختہ ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ استاد محترم نے اپنی کتاب ’’اصول ومبادی ‘‘میں کتاب اللہ سے ان کی کیا مراد ہے، واضح الفاظ میں بیان کی ہے۔لکھتے ہیں:
’’یہ وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی ہے، اور اپنے نزول کے بعد سے آج تک مسلمانوں کے پاس ان کی طرف سے بالاجماع اس صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ یہی وہ کتاب ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی اور جسے آپ کے صحابہ نے اپنے اجماع اور قولی تواتر کے ذریعے سے پوری حفاظت کے ساتھ بغیر کسی ادنیٰ تغیر کے دنیا کو منتقل کیا ہے۔‘‘ ۲ ؂
حافظ کہہ سکتے ہیں کہ اس اقتباس سے تو ان کی بات کی نفی نہیں ہوتی۔ اگر وہ اس سے پہلے ماخذ کے حوالے سے لکھا گیااصل الاصول پیش نظر رکھیں تو یہ بات کہنا ممکن نہیں۔ استاد محترم نے لکھا ہے:
’’دین کاتنہا ماخذ اس زمین پر اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔ یہ انھی کی ہستی ہے جس سے قیامت تک بنی آدم کو اس کے پروردگار کی ہدایت میسر ہو سکتی اور یہ صرف انھی کا مقام ہے کہ اپنے قول وفعل اور تقریر وتصویب سے وہ جس چیز کو دین قرار دیں، وہی رہتی دنیا تک دین حق قرارپائے‘‘۔۳؂
اس اقتباس کے شروع میں تنہا ماخذ اور اس کے آخری جملے میں قول وفعل اور تقریر وتصویب کے الفاظ حافظ صاحب کے دریافت کردہ اصول کی ہر پہلو سے تغلیط کر دیتے ہیں۔یہاں یہ بیان کردینا بھی مفید مطلب ہے کہ استاد محترم کے نزدیک یہود ونصاریٰ کی الہامی کتب کی افادیت کیا ہے۔ اپنی کتاب اصول ومبادی میں لکھتے ہیں:
’’الہامی لٹریچر کے خاص اسالیب، یہود ونصاریٰ کی تاریخ، انبیاے بنی اسرائیل کی سرگزشتوں اور اس طرح کے دوسرے موضوعات سے متعلق قرآن کے اسالیب واشارات کو سمجھنے اور اس کے اجمال کی تفصیل کے لیے قدیم صحیفے ہی اصل ماخذ ہوں گے۔‘‘ ۴؂
اس اقتباس میں صریح الفاظ میں صرف یہ بات بیان ہوئی ہے کہ قرآن مجید کے کن موضوعات کو سمجھنے میں یہ کتب فائدہ مند ہیں۔ ان الفاظ سے جو شخص کتاب الٰہی کا ایک مختلف تصور درآمد کرتا ہے، اس کی خدمت میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے: 
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
حافظ صاحب نے قرآن ہی کی طرح سنت کی ایک تعریف بھی استاد محترم سے منسوب کی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’جہاں تک سنت کا معاملہ ہے تو غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہوتی بلکہ سنت سے مراد سنت ابراہیمی ہے، یعنی دین کی وہ روایت جو حضرت ابراہیم سے جاری ہوئی۔‘‘ ۵؂
ہمیں نہیں معلوم کہ حافظ صاحب نے یہ نتیجہ کیسے نکالا ہے۔ اس لیے کہ استاد محترم کے الفاظ ہی سے واضح ہے کہ سنت ابراہیمی کا ذکر صرف تاریخی پہلو کو بیان کرنے کے لیے ہے، ماخذکی حیثیت سے نہیں ہے۔ استاد محترم نے لکھا ہے:
’’سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایاہے۔‘‘ ۶؂
اس تعریف میں تجدید واصلاح اور جاری فرمانے کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے۔ اوپر ہم استاد محترم کا ایک اقتباس نقل کرچکے ہیں جس میں واحد ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کو قرار دیا گیا ہے۔ ان دونوں عبارتوں کو ملا کر پڑھیں تو اس بات سے انکار ناممکن ہو جاتا ہے کہ استاد محترم کے نزدیک ہمارے لیے ماخذ صرف وہی ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری کیا ہو۔ یہ بات کہ وہ عمل حضور سے پہلے بھی موجود تھا، ایک اضافی اطلاع ہے، شرط یا تعریف کا حصہ نہیں ہے۔ حافظ صاحب اس بیان سے غالباً قارئین کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ سنت کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر امت سے ہٹ کر ہے۔ استاد محترم کے اقتباسات سے واضح ہے کہ ہم دین لینے کے معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری کردہ قرآن وسنت ہی کو ماخذ مانتے ہیں۔ البتہ حافظ صاحب استاد محترم کے ان بیانات میں کوئی غلطی پاتے ہیں تو ہم ان کی تنقید کا خیر مقدم کریں گے۔
تیسرا نکتہ مقام حدیث سے متعلق ہے۔ حافظ صاحب نے لکھا ہے:
’’غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث سے دین ثابت نہیں ہوتا، یعنی حدیث سے دین میں کسی عقیدہ وعمل کا ہر گز کوئی اضافہ نہیں ہوتا جبکہ علمائے اہل سنت کے نزدیک قرآن کی طرح حدیث سے بھی دین ثابت ہوتا ہے۔ اس اصول کے تحت انھوں نے شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کا انکار کیا ہے۔‘‘ ۷؂
حافظ صاحب نے اگر اتنا ہی لکھا ہوتاکہ غامدی صاحب کے نزدیک حدیث سے دین ثابت نہیں ہوتا یعنی حدیث سے دین میں کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ نہیں ہوتا تو ہم اسے نامکمل بیان قرار دیتے اور ان سے درخواست کرتے کہ وہ اصول ومبادی کے ابتدائی دو صفحات ذرا دقت نظر سے دیکھیں اور پھر فیصلہ کریں کہ حدیث کے بارے میں جو موقف اختیار کیا گیا ہے، وہ کس پہلو سے غلط ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ’’ اس اصول کے تحت انھوں نے شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کا انکار کیا ہے‘‘۔ اس اضافے نے یہ بات واضح کردی ہے کہ حافظ صاحب استاد محترم کی بات سمجھے بغیر اس کی غلطی بتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس جملے کے دونوں اجزا غلط ہیں۔ یہ بھی کہ رجم کا انکار کیا گیا ہے اور یہ بھی کہ وہ حدیث کے بارے میں کسی نقطہ نظر کا نتیجہ ہے۔ ہمارے ناقدین کے ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ علمی تنقید کا پہلا تقاضا ہی پورا نہیں کرتے۔ حافظ صاحب پڑھنے لکھنے والے آدمی ہیں۔ کیا وہ یہ بات نہیں جانتے کہ جس نقطہ نظر کو غلط قرار دیا جارہا ہے، اس کی غلطی کا صحیح تعین ضروری ہے۔ اگر غلطی صحیح طور پر متعین نہیں کی گئی یا قائل کا نقطہ نظر پوری طرح نہیں سمجھا گیا تو یہ عمل علمی دیانت کے خلاف ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ناقدین کچھ اسباب کے تحت ہماری تغلیط تو کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ اس کے لیے بالعموم یہ بنیادی تقاضا پورا نہیں کرتے، جس کے باعث ان کے قلم تہمت جیسے قبیح جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ 
حافظ صاحب نے رجم کو یہاں بطور مثال بیان کیا ہے، اس لیے ہم اس کو باقاعدہ موضوع بنانے کے بجائے محض یہ وضاحت کر دینا کافی سمجھتے ہیں کہ اصل سوال کیا ہے؟امت میں یہ سوال ہمیشہ سے زیر بحث ہے کہ رجم کے واقعات کا مبنی قرآن میں کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں زنا کی سزا صریح الفاظ میں بیان ہوئی ہے اور وہ سو کوڑے ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کے صریح حکم کو چھوڑ کر کوئی اور رائے اختیار کر سکتے ہیں؟ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہے۔ مولانا حمید الدین فراہی مرحوم نے اس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کی سزا آیت محاربہ کے تحت دی ہے۔ یہ نقطہ نظر صریح طور پر رجم کی سزا کا اثبات ہے۔ اسے کسی طرح بھی انکار قرار دینا درست نہیں۔ ہم حافظ صاحب سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس نقطہ نظر کو رجم کی سزا کے انکار پر محمول کرنے کے بعد وہ کس طرح مطمئن ہیں کہ ان سے ناانصافی نہیں ہوئی جبکہ قرآن مجید کا صریح حکم ہے کہ تمھیں ہر حال میں عدل کی بات کہنی ہے، خواہ معاملہ دشمن ہی کا کیوں نہ ہو۔
اب ہم حدیث کے مسئلے کو لیتے ہیں۔ یہاں بھی استاد محترم کے نقطہ نظر کو غلط رنگ دیا گیا ہے۔ استاد محترم کے نزدیک: 
’’دین کاتنہا ماخذ اس زمین پر اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔ یہ انھی کی ہستی ہے جس سے قیامت تک بنی آدم کو اس کے پروردگار کی ہدایت میسر ہو سکتی اور یہ صرف انھی کا مقام ہے کہ اپنے قول وفعل اور تقریر وتصویب سے وہ جس چیز کو دین قرار دیں، وہی رہتی دنیا تک دین حق قرار پائے‘‘۔ 
ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود نہیں ہیں۔ لہٰذا ہم ان سے براہ راست یہ دین نہیں لے سکتے۔ ہمارے لیے اس دین کا ماخذ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب استاد محترم ان الفاظ میں دیتے ہیں: 
’’اس کے ماخذ کی تفصیل ہم اس طرح کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی وعملی تواتر سے منتقل ہوا۔‘‘ ۸؂ 
یہ جملہ ایک واضح نکتہ بیان کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا سارا دین بے کم وکاست صحابہ کے اجماع وقولی وعملی تواتر کے ماخذ سے دستیاب ہے۔ استاد محترم کے اس بیان کی روشنی میںیہ بیان ناقص ہے کہ ان کے نزدیک حدیث سے دین ثابت نہیں ہوتا۔ البتہ اگر کوئی یہ کہے کہ ان کے نزدیک دین کا کوئی مستقل بالذات جزو خبر واحد پر منحصر نہیں ہے تو یہ بات درست ہے۔چنانچہ حدیث کے مشمولات کے بارے میں انھوں نے لکھا ہے: 
’’دین سے متعلق جو چیزیں ان (احادیث ) میں آتی ہیں، وہ درحقیقت، قرآن وسنت میں محصور اسی دین کی تفہیم وتبیین اور اس پر عمل کے اسوۂ حسنہ کا بیان ہے۔‘‘ ۹؂
حافظ صاحب اگر تنقید کرنا چاہتے ہیں تو اس بات پر تنقید کریں اور اس کی غلطی دلائل سے واضح کریں۔ انھوں نے جو بات لکھی ہے، اس کو غامدی صاحب کا نقطہ نظر قرار دینا بات کو الجھانے کا باعث تو ہو سکتا ہے، لیکن اسے کوئی علمی خدمت قرار دینا ممکن نہیں۔ 

استدراک

حافظ صاحب کے مضمون کا بڑا حصہ رجم کی سزا، یاجوج ماجوج کے مصداق کے تعین اور حضرت مسیح کی دوبارہ آمد کے حوالے سے استاد محترم کی غلطیوں اور حافظ صاحب کے قراردادہ اصولوں سے استاد محترم کے انحراف کی وضاحت بر مبنی ہے۔ ہم نے ان بحثوں میں پڑنے سے اس وجہ سے احتراز کیا ہے کہ پہلے بنیادی باتیں طے ہوجائیں ۔ اگر ان میں حافظ صاحب استاد محترم سے موافقت کر لیتے ہیں یا غلطی واضح ہونے کی صورت میں ہم اپنی اصلاح کر لیتے ہیں تو اگلی بحثوں کے فیصل ہونے میں بہت آسانی ہو جائے گی۔ چنانچہ ہماری حافظ صاحب سے گزارش ہے کہ اگر وہ ہمارے مضمون کے جواب میں قلم اٹھائیں تو استاد محترم کے بیان کردہ ان بنیادی اصولوں کی غلطی بیان کرنے تک محدود رہیں تاکہ بحث ایک رخ پر چلتے ہوئے کسی ٹھوس نتیجے تک پہنچ سکے۔
ایک دوسری چیز کو بھی ہم نے اپنے اس مضمون میں موضوع نہیں بنایا۔ میرے جس مضمون کے جواب میں حافظ صاحب نے یہ مضمون لکھا ہے، اس میں مرکزی بات یہ نصیحت تھی کہ تنقید لکھنے میں طعن وتشنیع اور محرکات کے درپے ہونے سے گریز کرنا چاہیے۔ حافظ صاحب نے اس حوالے سے یہ لکھاہے کہ خود استاد محترم کی تحریریں بھی طعن وتشنیع سے خالی نہیں ہوتیں۔ اگرچہ اس حوالے سے یہ بیان کیا جا سکتا ہے کہ استاد محترم کی تنقید نگاری اور ہمارے ناقدین کے اسلوب بیان میں بہت فرق ہے۔ مزید یہ کہ استاد محترم کی تحریروں میں شاید ہی ایسی کسی تنقید کی مثال مل سکے جو سوئے ظن یا تنابز بالالقاب جیسی اخلاقی قباحت کا مظہر ہو۔ ہمارے نزدیک اصل خرابی یہ ہے۔ اس سے ہمیں بھی انکار نہیں ہے کہ تنقید وتجزیہ کرتے ہوئے قلم میں سختی آہی جاتی ہے۔ سخت تنقید اور چیز ہے اور دین کی سکھائی ہوئی اخلاقیات میں کمزوری دوسری چیز ہے۔لیکن ہم حافظ صاحب کی اس نصیحت کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ اگر استاد محترم کے قلم سے کوئی غلط بات نکلی ہے تو اس کی بھی اصلاح ہونی چاہیے۔

حوالہ جات

۱ ؂ ماہنامہ الشریعہ مئی ۲۰۰۶ ص۲۴
۲ ؂ اصول مبادی، ص۱۰
۳ ؂ ایضا، ص۹
۴ ؂ اصول ومبادی صفحہ۵۲ 
۵ ؂ ماہنامہ الشریعہ مئی ۲۰۰۶، ص۲۴
۶ ؂ اصول ومبادی،ص۱۰
۷ ؂ ماہنامہ الشریعہ مئی ۲۰۰۶، ص۲۳
۸ ؂ اصول ومبادی، ص۹
۹ ؂ اصول ومبادی، ص۱۱

’’قرآنی علمیات اور معاصر مسلم رویہ‘‘ ۔ تنقیدات پر ایک نظر

پروفیسر میاں انعام الرحمن

ماہنامہ الشریعہ کے جنوری ۲۰۰۶ کے شمارے میں ہمارے شائع شدہ مضمون ’’ قرآنی علمیات اور معاصر مسلم رویہ ‘‘ پر چند تنقیدی آرا سامنے آئی ہیں۔ مارچ ۲۰۰۶ کے شمارے میں یوسف جذاب صاحب نے اپنے خط میں مضمون کے پہلے حصے پر ناقدانہ نظر ڈالی ہے، لیکن زیادہ تر احباب کی تنقید ہمارے مضمون کے دوسرے حصے کے متعلق ہے جس میں بطور کیس سٹڈی ’’ ذبیح کون ‘‘ کی بحث پر قرآنی سیاق میں نقد اور قرآنی منشا کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اختلاف کا حق محفوظ رکھتے ہوئے ہم یہاں یوسف صاحب کی تنقید سے صرفِ نظر کرتے ہیں اور ’’ذبیح کون‘‘ کی بحث کی ضرورت اور افادیت پر مبنی آرا کا اختصار سے جائزہ لیتے ہیں ۔ 
اس سلسلے میں سب سے پہلے گزارش یہ ہے کہ چند احباب نے ’’قورح اور قارون ‘‘ کی بحث کے سے انداز میں ’’ ذبیح کون ‘‘ کی بحث کو لیا ہے کہ یہ بحث لا یعنی ہے۔ ہم ان کی خدمت میں عرض کریں گے کہ خود ہمارا موقف بھی تقریباً یہی ہے ۔ اپنے مضمون میں ہم نے اسی بات کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ ’’ذبیح کون ‘‘ کی بحث نہ صرف لایعنی ہے بلکہ استدلالات کے ذریعے ذبیح کو مشخص کرنے سے قرآنی متن اور قرآنی منشا بھی مجروح ہوتے ہیں ۔ اب اگر اس بات پر تنقید کی جائے کہ ہم نے ذبیح کون کی ’’بحث پر تنقید‘‘ کیوں کی ہے اور یہ کہ ایسی تنقید ’’ قورح اور قارون ‘‘ کی بحث کے مانند لایعنی ہے، تو ہماری نظر میں یہ بات انصاف پر مبنی نہیں ہے ۔ ’’قورح اور قارون‘‘ اور ’’ذبیح کون‘‘ دونوں مباحث میں محرکات اور نتائج کے اعتبار سے بنیادی فرق موجود ہے ۔ قورح اور قارون والی بحث کا محرک علمی تفاخر ہے اور نتیجہ کچھ بھی نہیں (ہم خود ایسی ذہنی عیاشیوں کے قائل نہیں ہیں) ۔ جہاں تک ذبیح کون والی بحث کا تعلق ہے، اس کے محرکات و نتائج کے مطالعے کے لیے اپریل ۲۰۰۶ کے شمارے میں اسلم میر صاحب کا مضمون کفایت کرتا ہے ۔ لیکن چونکہ یہ محرکات و نتائج ہماری نظر میں قرآنی منشا سے متصادم ہیں، اسی لیے ہم نے بعض تحفظات کا اظہار کرنے کے علاوہ اپنے تئیں درست راہ کی بھی نشاندہی کی تھی ۔ 
جن اصحاب نے ’’ ذبیح کون ‘‘ کی بحث میں حصہ لیتے ہوئے جذباتی انداز میں حضرت اسماعیل ؑ کو ذبیح قرار دینے پر اصرار کیا ہے، ہم شکریے کے ساتھ ان کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے اسلم میر صاحب کے مضمون پر نظر ڈالنا چاہیں گے ، لیکن اس گزارش کے ساتھ کہ ہماری نیت مناظرہ بازی کی نہیں ہے۔ اسی لیے ہم نے اب تک، تنقیدی آرا پر کسی تبصرے سے گریز کیا تھا، لیکن ا ب اپنے موقف کی وضاحت کے ارادے سے یہاں چند سطریں تحریر کر رہے ہیں ۔ 
اسلم میر صاحب کی تنقید کا لبِ لباب ان کے مضمون کی ان آخری سطروں میں موجود ہے :
’’اس بحث سے اس سوال کاجواب بھی مل جاتا ہے کہ کہ آیا ہم مسلمانوں کو ’ذبیح کو ن ہے؟‘ کی بحث میں پڑنا چاہیے یا نہیں۔ اگر ہم اس بحث کو اس زاویے سے چھیڑیں کہ اسحاق ؑ یا اسماعیل میں سے کسی ایک کی برتری دوسرے پر ثابت کی جائے تویہ ہر گزمستحسن نہیں ،لیکن اگر بحث اس زاویے سے ہو کہ یہودیوں کے کتمانِ حق کاپردہ چاک کیاجائے یا اس کتمانِ حق کوصحیح طور پر سمجھا جائے تو پھر یہ بحث بہت اہم ہے۔ اس کے بغیر، جیسا کہ ہم نے واضح کیا، قرآن کی بہت سی آیات کی تفہیم بہت مشکل ہے۔‘‘ (الشریعہ، اپریل ۲۰۰۶، ص ۵۶)
جہاں تک ہم سمجھے ہیں ، اسلم میر صاحب ( اور یوسف جذاب صاحب ) بعض قرآنی آیات کی تفہیم کے لیے یہودیوں کے کتمانِ حق کا پردہ چاک کرنا ناگزیرخیال کرتے ہیں اور اس سلسلے میں قرآنی متن اور احادیث نبوی ﷺ کی منشا کو پیشِ نظر رکھنے کے بجائے تاریخی آثار اور اسرائیلیات کو اساسی انداز میں لیتے ہیں ۔ ہمیں اس بنیادی نکتے سے ہی اختلاف ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمان قرآن کی موجودہ ترتیب کے مکلف ہیں کہ اسی ترتیب کے ساتھ نبی خاتم محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ نے وصال سے قبل جبریل ؑ کے ساتھ قرآن کا دور کیا تھا ۔ اب اگر نزولی ترتیب کو پیشِ نظر رکھا جائے تو بلاشبہ یہودیوں کے کتمانِ حق کا پردہ چاک کر نے جیسے امور کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔ لیکن جس قرآنی ترتیب کا ہمیں مکلف ٹھہرایا گیا ہے، اس کی معنویت کتمانِ حق کا پردہ چاک کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ مسلمانوں اور عالمِ انسانیت کے لیے عبرت کا سامان مہیا کرنے تک بڑھی ہوئی ہے ۔ لہٰذا قرآن جس ترتیب سے تلاوت کیا جاتا ہے، یہ ترتیب خود ایسی انتہا پسندی کے فروغ میں مانع ہے جس کا اظہار اسلم میر صاحب نے مولانا حمید الدین فراہی ؒ کے اقتباسات کی مدد سے کیا ہے ۔ 
اہم بات یہ ہے کہ ذبیح کون کی بحث کے محرکات کو اگر طوعاً وکرہاً درست بھی مان لیا جائے تو اس کے نتائج حسبِ منشا برآمد نہیں ہوتے ، کیونکہ لامحالہ حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت اسحاق ؑ کا تقابل و موازنہ شروع ہو جاتا ہے جو بڑھتے بڑھتے بہت بڑھ جاتا ہے ، لیکن ہمیں اول تو اس بحث کے محرکات کی درستی پر ہی شک ہے ۔ 
میر صاحب نے ہمارے دلائل کے رد میں بعض دلچسپ نکات اٹھائے ہیں۔مثلاً ہم نے عرض کیا تھا کہ اگر قربانی کے واقعہ میں بھی حضرت اسماعیل ؑ کا نام شامل ہوتا تو معترضین کو پھبتی کسنے کا موقع ملتا کہ اسلام دعویٰ تو عالم گیریت کا کرتا ہے لیکن اصلاً اسماعیلی ہے (کہ بیت اللہ کی تعمیر کے ذکر میں ان کا نام موجود ہے)، اسی طرح اگر اسحاق ؑ کا نام شامل ہوتا تو یہودیوں کی نسل پرستی کو مزید شہ ملتی۔ میر صاحب نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ :
’’بیت اللہ کی تعمیر و تطہیر کے سلسلے میں ( البقرۃ آیات ۱۲۵۔۱۲۷ ) میں اسماعیل ؑ کے ذکر میں کیا حکمت ہے ؟ کیا وہاں صرف ابراہیم ؑ کا ذکر کافی نہیں تھا ؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ بیت اللہ کی تعمیر کے سلسلے میں اسماعیل ؑ کے ذکر پر تو یہود کو پھبتی کسنے میں کوئی چیز مانع نہیں تھی، لیکن اگر اللہ تعالیٰ قربانی کے واقعے میں اسماعیل ؑ کا ذکر کر دیتے تو وہ فوراً پھبتیاں کسنے لگتے ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کعبے کے سلسلے میں اسماعیل ؑ کا نام ذکر کرنے پر تو وہ اللہ تعالیٰ کو معاف کر دیتے لیکن قربانی کے معاملے میں معاف نہ کرتے ؟‘‘ (الشریعہ، اپریل، ص ۴۳، ۵۴)
ہم گزارش کریں گے کہ میر صاحب کے زرخیز ذہن پر یہودیوں کے کتمانِ حق کا پردہ چاک کرنے کا جنون سمایا ہوا ہے، اسی لیے وہ ایک خاص زاویے سے ہی ہر بات کو لے رہے ہیں ۔ ہم نے ’’ معترضین ‘‘ کا ذکر کیا تھا جسے میر صاحب نے ’’یہودیوں‘‘ پر محمول کیا ، اس سے ان کے mindset کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ جہاں تک ابراہیم ؑ کے ذکر کے کافی ہونے کا تعلق ہے ، ہم نے خود اسی قسم کی مثال اپنے مضمون میں بھی دی تھی اور عرض کیا تھا کہ یہ ایک الگ بحث ہے ( الشریعہ جنوری ۲۰۰۶، ص ۳۲) 
ہمارے دیگر دلائل کے رد میں بھی میر صاحب کے اعتراضات اسی نوعیت کے ہیں۔ طوالت سے بچنے کی خاطر ہم ایک بنیادی بات عرض کریں گے کہ کسی موقف کے اثبات کے لیے پیش کیے گئے دلائل اپنی حیثیت کے اعتبار سے اضافی ہوتے ہیں۔ کسی دلیل کے رد ہونے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ موقف غلط ہو گیا۔ ہمیں تاریخ سے ایسی کئی مثالیں مل سکتی ہیں جن سے معلوم ہو گا کہ کسی یکساں بات کو منوانے کے لیے مختلف اوقات میں مختلف دلائل پیش کیے گئے ۔ بات وہی ہوتی ہے لیکن مخاطب کی استعداد اور دیگر امور کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دلائل مختلف ہو جاتے ہیں۔قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑ کا مکالمہ ہماری رائے کو مزید تقویت دیتا ہے۔ ابراہیم ؑ نے کہا تھا کہ میرا رب زندگی اور موت دیتا ہے تو مخاطب نے بھی کہا کہ میں زندگی اور موت دیتا ہوں۔ ذرا غور کیجیے کہ ابراہیم ؑ کے مخاطب کی بات سراسر غلط ہے، لیکن ابراہیم ؑ اس کی ذہنی ساخت کو سمجھتے ہوئے اپنی دلیل کے دفاع کے بجائے فرماتے ہیں کہ: فَإِنَّ اللّہَ یَأْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِب (البقرہ ۲۵۸) ’’بے شک اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو مغرب سے نکال کر دکھا۔‘‘ ہم نے اپنے مضمون کا اختتام اسی لیے درود شریف پر کیا تھا کہ یہ ایک قطعی دلیل ہے جس سے ذبیح کون کی بحث کی لایعنیت واضح ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی آنکھوں پر کسی خاص فکر کا چشمہ لگا کر معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرے گا تو ظاہر ہے، اسے کوا سفید ہی نظر آئے گا۔ 
اسلم میر صاحب نے ہمارے بنیادی موقف کی تائید کی ہے لیکن اس تحفظ کے ساتھ کہ یہودیوں کے کتمانِ حق کا پردہ چاک کرنے اور قرآن کی بہت سی آیات کی تفہیم کے لیے ذبیح کون کی بحث ضروری ہے اور حضرت اسماعیل ؑ کو ذبیح ثابت کرکے ہی حق ادا کیا جا سکتا ہے۔ ہم لمبی چوڑی بحث میں پڑے بغیر ابنِ قتیبہ ؒ کی تاریخ الانساب (کتاب المعارف) کے حوالے سے عرض کریں گے کہ حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب نے فرمایا تھا کہ ذبیح اسحاق ؑ تھے اور یہ کہ اکثر علما کا یہی قول ہے، البتہ کچھ لوگ اسماعیل ؑ کے ذبیح ہونے کے قائل ہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ ، حضرت اسماعیل ؑ کے ذبیح ہونے پر متفق کیوں نہیں تھے؟ حالانکہ اس خاص ماحول میں صحابہ کرامؓ کا یہودیوں کے ساتھ براہ راست ٹکراؤ موجود تھا اور پھر قرآن مجید کی نزولی ترتیب کو مدِ نظر رکھا جائے تو واضح طور پر بہت سی آیات انھی یہودیوں کے متعلق نازل ہوئی تھیں۔ آخر صحابہ کرامؓ نے یہودیوں کے کتمانِ حق کا پردہ چاک کرنے کی خاطر یکساں رویہ کیوں نہیں اختیار کیا ؟ اور انھیں قرآن مجید کی بہت سی آیات کا فہم، کتمانِ حق کا پردہ چاک کیے بغیر کیسے حاصل ہوگیا ؟ ہم عرض کریں گے کہ عہدِ نبوی ﷺ اور عہدِ صحابہ کرامؓ کے آثار واضح طور پر نشاندہی کرتے ہیں کہ اول تو اصحابؓ کسی کے ذبیح ہونے پر متفق نہیں تھے اور دوم یہ کہ انھوں نے ذبیح کو مشخص کرنے کی خاطر کسی قسم کے بحث و مباحثہ کی داغ بیل بھی نہیں ڈالی ( اسماعیل ؑ یا اسحاق ؑ کو ذبیح قرار دینے کی آرا ، اصل میں صحابہ کرامؓ کے راہ چلتے اقوال ہیں) ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے یہ بحث کیوں نہیں چھیڑی ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ 
حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی بات کرتے وقت یا کوئی بحث چھیڑتے وقت ہمیں اپنے ’’ مقام ‘‘ سے آگاہ ہو نا چاہیے ۔ اگر ہم اپنے مقام سے آگاہ نہیں ہوں گے تو لازماً مخاطب کے ساتھ بھی انصاف نہیں کر سکیں گے ۔ ہم مسلمان ، نبی خاتم ﷺ کی امت ہونے کے ناطے آخری امت ہیں۔ اس لیے ہم پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ حتی الامکان اپنے مقام سے گرنے نہ پائیں ۔ نبی خاتم ﷺ کے تربیت یافتگان اپنے مقام سے گر ہی نہیں سکتے تھے اس لیے انھوں نے حق ادا کرتے ہوئے کتمانِ حق کا پردہ چاک کرنے کی ’’آڑ ‘‘ لینے کے بجائے قرآنی متن اور قرآنی منشا کو پیشِ نظر رکھا اور قرآنی آیات کے موضوعی فہم سے اجتناب کیا۔ہم سمجھتے ہیں کہ آج اگر صحابہ کرامؓ کے عمل کے برعکس رویہ اپنایا جائے گا تو نہ صرف کسی کے خلاف خوامخواہ کی محاذ آرائی کی فضا پیدا ہوگی ، بلکہ قرآن مجید کا مطلوب و مقصود بھی ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو جائے گا۔

نئی نسل کے ذہنوں میں گردش کرتے حساس سوالات

آصف محمود ایڈووکیٹ

(روزنامہ جناح اسلام آباد کے کالم نگار آصف محمود ایڈووکیٹ صاحب ’’ترکش‘‘ کے عنوان سے ۱۹؍ جون ۲۰۰۶ کو شائع ہونے والے اپنے کالم میں بعض اہم سوالات اور اشکالات کی طرف توجہ دلائی ہے جو اس وقت عالمی ماحول، مغربی تعلیم اور جدید فکر وفلسفہ کے حوالے سے بے شمار مسلمان نوجوانوں کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔ ان سوالات پر قرآن وسنت اور دیگر مسلمات کی روشنی میں بحث ومکالمہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور اہل علم ودانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ نئی نسل کے ذہنوں میں پرورش پانے والے ان شکوک وشبہات کے ازالہ کی طرف فوری اور سنجیدہ توجہ دیں۔ ان سوالات پر ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی کا تبصرہ آئندہ شمارے میں پیش کیا جا رہا ہے، اور دیگر اہل علم ودانش کو بھی اس سلسلے میں اظہار خیال کی دعوت دی جاتی ہے۔ مدیر)

میرے ماموں طاہر چوہدری ایک عرصے سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ شادی بھی وہیں کی، صاحب اولاد ہیں ، آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ چند روز قبل میں ان سے ملنے گاؤں آیا تو ان سے تفصیلی نشست رہی جس میں انھوں نے تفہیم دین کے حوالے سے چند سوالات اٹھائے۔ ان میں کچھ سوالات ایسے تھے جن پر میں نے انھیں مطمئن کر دیا، تاہم ایسے سوالات بھی تھے جن کا جواب میرے جیسے طالب علم کے پاس نہ تھا اور میں نے ان سے وعدہ کیا کہ ان سوالات کو میں صاحبان علم کے سامنے رکھوں گا اور ان کے جوابات آپ تک پہنچا دوں گا۔ ہماری گفتگو ایک نجی گفتگو تھی تاہم اس نشست میں جو سوالات اٹھائے گئے، ان کی نوعیت ایسی ہے کہ میں اپنے قارئین کو بھی ان کا مخاطب بنانا چاہتا ہوں اور میں جملہ صاحبان علم سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ان سوالات کے حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔
جناب طاہر چوہدری کے سوالات کچھ یوں تھے:
۱۔ میں نے ایک اہل کتاب خاتون سے شادی کی ہے۔ میرا ایک بیٹا ہے جس کا نام علی ہے۔ علی ابھی نابالغ ہے۔ فرض کریں، اس کا نام علی نہیں، کچھ اور ہے اور وہ اہل کتاب میں سے ہے۔ ایسی صورت میں کیا میں اس کو حق وراثت سے محروم کر دوں گا؟ جب اہل کتاب سے شادی جائز ہے تو اہل کتاب بیٹے کو وراثت میں سے حصہ کیوں نہیں دیا جاتا؟
۲۔ عورت کا حق وراثت نصف کیوں ہے؟ مجھے عمومی طور پر جواب دیا جاتا ہے کہ چونکہ گھر کی معاشی ذمہ داریاں مرد کے کندھوں پر ہوتی ہیں، اس لیے عورت کا وراثت میں سے حصہ مرد کا نصف ہے۔ اگر یہ جواب درست ہے تو پھر یہ بتائیں کہ میں ایک ایسے معاشرے میں ہوں جہاں عورت معاشی ذمہ داریوں میں مرد کے شانہ بشانہ ہے۔ ہم دونوں مل کر یہ معاشی ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔ کیا ہمارے معاشرے میں عورت کا حق وراثت مرد کے برابر نہیں ہو جائے گا؟
۳۔ عورت کی دیت مرد کا نصف کیوں ہے؟ مجھے بتایا گیا ہے کہ چونکہ اس کی گواہی مرد کا نصف ہے اور اس کا حق وراثت مرد کا نصف ہے، اس لیے اس کی دیت بھی نصف ہے۔ یہاں ایک سوال تو یہ ہے کہ کیا واقعتا وہ ناقص العقل ہے اور اس کی گواہی ادھوری ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ہم وراثت اور گواہی پر کفایت کرتے ہوئے یہ قانون اخذ کر لیں کہ اس کی دیت بھی آدھی ہے تو پھر اس اصول کا اطلاق دیگر معاملات پر کیوں نہیں کیا جاتا؟ مثلاً یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ عورت رمضان کے آدھے روزے رکھے گی اور آدھی نمازیں پڑھے گی؟ مزید یہ کہ اگر وہ ناقص العقل ہے، ادھوری ہے، وراثت آدھی ہے، دیت آدھی ہے تو اس نقص عقل کو جواز بنا کر یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ ا س کو جرم پر سزا بھی آدھی ملے گی؟ آپ کہتے ہیں کہ وہ ناقص العقل ہے، گواہی آدھی ہے، پھر اس کی بنیاد پر آپ دیت بھی آدھی بنا دیتے ہیں تو کیا یہ انصاف نہیں ہوگا کہ پھر اسے جرم میں سزائیں بھی آدھی دی جائیں؟ ایک صحیح عقل والا مرد گناہ کرے تو اسے بھی وہی سزا اور ایک ناقص العقل عورت گناہ کرے تو اسے بھی وہی سزا، یہ بات ناقابل فہم نہیں ہے؟
۴۔ نکاح میں عورت کی مرضی ضروری ہے، لیکن میں پاکستان آکر دیکھتا ہوں کہ اکثر نکاح بے جوڑ ہیں اور اسلام کے اصول کفو کو ان میں مد نظر نہیں رکھا گیا۔ ہمارا معاشرہ اور پھر ہمارا خاندان اس طرح کا ہے کہ یہاں لڑکیوں کو بے زبان مخلوق کی طرح بڑوں کے فیصلے تسلیم کرنا ہوتے ہیں۔ ان سے کچھ پوچھا نہیں جاتا۔ عملاً ان پر جبر ہوتا ہے اور انھیں بے بس بے زبان مخلوق کی طرح زندگی کے دن گزارنا ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے نکاحوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ زنا بالجبر کے زمرے میں آتی ہیں؟
۵۔ شادی کو اسلام نے عقد کہا ہے۔ عقد کا مطلب ہے Contract۔ اب معاہدہ وہ لوگ کر سکتے ہیں جو اس کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن اسلام میں نابالغ بچی کی شادی کا تصور موجود ہے۔ کیا یہ درست ہے؟ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ایک نابالغ بچی کی شادی کیوں کی جائے؟ ا س کے بالغ ہونے کا انتظار کیوں نہ کیا جائے؟ ہو سکتا ہے وہ بالغ ہو تو اس کے احساسات کچھ اور ہوں، اس کا دل کسی اور کے لیے دھڑکے لیکن اس کو پتہ چلے کہ اس کی شادی ہو چکی ہے۔ کیا یہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی نہیں؟ میرا سوال یہ ہے کہ اس بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟
۶۔ اہل کتاب سے شادی جائز ہے تو دوستی کیوں منع ہے؟ دوستی ممنوع ہے تو شادی کیوں جائز ہے؟
۷۔ کیا یہ درست ہے کہ مرتد کی سزا موت ہے؟ ایک آدمی اسلام میں نہیں رہنا چاہتا تو اسے مرتد کی سزا کا خوف دلا کر ساتھ رکھنا بہتر ہے یاایسے ناسور کو کاٹ کر الگ پھینک دینا زیادہ مناسب ہے؟
۸۔ لونڈی کا تصور کیا اسلامی ہے؟ کیا آج کے دور میں لونڈی رکھی جا سکتی ہے؟ مجھے امریکہ میں سب سے زیادہ اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ لونڈی ایک زندہ وجود ہے، کوئی اس کا مالک بن جائے، اس کی مرضی کے خلاف اس سے جنسی تعلقات قائم رکھے، اسے بیچے یا رکھے، میرا دل نہیں مانتا کہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہو۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ میں ایک پہاڑ کے اوپر ایک بستی میں رہتا ہوں۔ وہاں میری منگیتر رہتی ہے۔ ایک دن اسلامی لشکر آتا ہے، جنگ ہوتی ہے، ہم ہار جاتے ہیں، وہ جیت جاتا ہے اور لشکر کا سپہ سالار میری منگیتر کو مونگ پھلی کے پیکٹ کی طرح لونڈی بنا کر کسی سپاہی کے حوالے کر دیتا ہے تاکہ وہ اسے لے جائے، اس سے خدمت کرائے، اس سے جنسی بے گار لے۔ میں نہیں سمجھتا کہ نبی رحمت کے دین میں اس کی کوئی گنجایش ہو۔ اس بارے میں اسلام کا حقیقی موقف کیا ہے؟ یہ سوال مجھے امریکہ میں لاجواب کر دیتا ہے۔
۹۔ اسلام دین فطرت ہے اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ موسیقی ممنوع ہے۔ میں نے یہ بھی سن رکھا ہے کہ راگ کو زنا کا منتر کہا گیا ہے۔ ہمارا موقف ہے کہ موسیقی ناجائز ہے اور یہ اخلاق کو تباہ کر دیتی ہے۔ اب میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ بعض گانے قطعاً اخلاق کو متاثر نہیں کرتے بلکہ ان کو سن کر روح کو سکون ملتا ہے۔ میں آج بھی پردیس میں جب اداس ہو جاتا ہوں تو گانا گنگناتا ہوں کہ ’’ہم تو ہیں پردیس میں، دیس میں نکلا ہوگا چاند‘‘۔ میری احتیاج ہوتی ہے کہ میں اس گانے کو سنوں۔ کیا ایسا گانا بھی منع ہے؟ میرا تجربہ یہ ہے کہ موسیقی مجھے تروتازہ کر دیتی ہے اور میرے اخلاق پر کوئی برا اثر نہیں پڑتا۔ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے؟
۱۰۔ مرد اگر نیک بن کر رہے گا تو اس کو جنت میں حور ملے گی۔ حور کا یہ تصور مرد کی Sexual Containment کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن ایسا ہی جذبہ عورت میں بھی ہوتا ہے تو اس کے لیے ایسا ہی کوئی تصور کیوں نہیں ہے؟ نیک مرد کو حور ملے گی، نیک عورت کے لیے کوئی انسینٹو کیوں نہیں ہے؟ کیا اس سے یہ مراد لی جائے کہ ہمارا مذہب مرد کو محور سمجھتا ہے اور عورت کو ایک حقیر اور تیسرے درجے کی مخلوق تصور کرتا ہے؟
۱۱۔ میں جب چھوٹا ہوتا تھا ، تب سے یہی سنتا آیا ہوں کہ مرد کو کہا گیا ہے اگر اس کی بیوی میں کوئی عیب ہے تو اس سے صرف نظر کرے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس میں کوئی اور خوبی بھی ہو، لیکن ایسا کوئی حکم عورت کے بارے میں نہیں ہے۔ وہ بھی تو احساسات رکھتی ہے۔ کیا صرف مرد کا حق ہے کہ اس کی بیوی خوبیوں کا مجموعہ ہو؟ کیا عورت مرد کے بارے میں کوئی معیار نہیں رکھ سکتی جس پر مرد بھی پورا اترے؟
۱۳۔ امریکہ میں دہریے اور عیسائی مجھ کو اکثر جس سوال سے لاجواب کرتے ہیں، وہ آقاے دو جہاں کے بارے میں ہے اور میری اپنی معلومات چونکہ نہ ہونے کے برابر ہیں، اس لیے میں اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہوں اور ان کو جواب نہیں دے پاتا۔ مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ ایک عام مسلمان چار شادیاں کر سکتا ہے۔ یہ اسلامی قانون ہے تو نبی کریم نے چار سے زیادہ شادیاں کیوں کیں؟ مجھے اس سوال کا شافی جواب چاہیے تاکہ میں وہاں جا کر وضاحت کر سکوں۔ یہ بات میری کنپٹیاں سلگا دیتی ہے کہ مجھ سے میرے نبی کی ذات کے بارے میں کیے گئے سوال کا جواب نہ بن پائے۔
سوالات میں نے اہل علم کے سامنے رکھ دیے۔ مجھے جواب کا انتظار رہے گا۔ جناب جاوید غامدی، مفتی تقی عثمانی، مولانا زاہد الراشدی، قاضی حمید اللہ خان، مولانا حسن جان اور جناب سرفراز نعیمی اور ان کے شاگردوں میں سے کوئی صاحب کیا ہماری رہنمائی فرمائیں گے؟

مکاتیب

ادارہ

(۱)
مکرمی جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
سلام و رحمت، مزاج شریف؟
جون کے شمارے میں میثاق جمہوریت کے حوالے سے آپ کا کلمہ حق نظر نواز ہوا۔ کلمہ حق واقعی کلمہ حق ہے۔ آپ نے جس حسن توازن سے اظہار فرمایا، وہ آپ ہی کا حصہ ہے۔ پڑھنے کے لائق ہر تحریر کو پورے غور سے پڑھتا ہوں اور ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ اس میں سے کوئی بات لائق توجہ ہو تو قلم اٹھایا جائے۔ مدت سے حسرت تھی کہ آپ کی تحریر میں سے کوئی ایسی بات پکڑ لوں، ہمیشہ ہی ناکام رہا۔ آپ کی ہر تحریر نے پہلے سے زیادہ خراج لیا اور آپ کے لیے نیازمندی کے احساسات میں اضافے کا باعث ہوئی۔ زیر بحث تحریر سے بھی میرے احساسات تو وہی رہے مگر لکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ راہ نکل آئی ہے۔ 
آپ نے جو کچھ بھی لکھا، درست اور سچ سچ لکھا۔ مگر ایک بات کو پس منظر میں رہنے دیا گیا جو میرے نقطہ نظر میں کھل کر سامنے آنا چاہیے تھی۔ شاید آپ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ بات جمہوری اقدار ہی کی کافی ہے۔ دیانت داری کی بات کرنے کا زمانہ ہی نہیں رہا۔ مگر جمہوری اقدار پر ہمارے قائدین جتنا ایمان اور عمل کر سکتے ہیں، اس پر تاریخ کی شہادت موجود ہے۔ ان سے آئندہ بھی کسی خیر کی توقع، پرلے درجے کی حماقت ہے۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے، اس کا منشا بھی یہی ہے مگر مذکورہ جمہوری اقدار سے بھی زیادہ ضروری دیانت داری ہے۔ میثاق پر دستخط کرنے والے ’’بہن ‘‘اور ’’بھائی ‘‘نے ملک کو اپنی لوٹ کھسوٹ سے دیوالیہ پن سے دوچار کرنے میں کون سی کسر اٹھا رکھی تھی؟ ایک صاحب وزیر اعظم بنے اور ان کے والد محترم حقیقی حکمران اور چھوٹے بھائی، سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ۔ محترمہ وزیر اعظم بنیں تو ان کے شوہر، والدہ، سسر اور کئی رشتہ دار مرکزی کابینہ میں وزیر بنے۔ دنیا کے کسی جمہوری ملک میں اس طرح کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ بات دیانت داری کی تھی۔ یہ اولین قدر ہے۔ کسی مذہب، دین، جماعت اور نظریے سے پہلے دیکھا یہ جانا چاہیے کہ دیانتداری کا کوئی معیاری کردار موجود ہے۔ مسلمان تو دور کی بات ہے، جو دیانت دار کے کم سے کم معیار سے نیچے ہے، اس کا دین، مذہب، عقیدہ اور نظریہ محض منافقت اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال نے اسی لیے تو کہا تھا: ’چو می گویم مسلمانم بلرزم‘۔
لیکن دیانت داری کا نام تک لینے کو بھی کوئی تیار نہیں۔ آپ نے بھی اس کا ذکر گول کر دیا ہے۔ سب کو یاد ہو گا کہ ’’باجی ‘‘اور ’’باجے ‘‘کے اس جوڑے سے تھوڑا عرصہ قبل، کم از کم ہماری صف اول کی (قومی) قیادت اس صفت سے مالا مال تھی۔ ۵۸ء سے پہلے کے کسی قائد، فیلڈ مارشل ایوب خان، آغا یحییٰ خان، خود ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق پر مالی بد دیانتی کا کوئی الزام نہیں لگا۔ ضیا کی شہادت پر تو اس کا اپنا مکان تک نہیں تھا۔ (چھوڑ دیجیے اس بات کو کہ ضیا کے فرزندان ارجمند نے کیا کچھ کیا، یہ حقیقت ہے کہ ان کے صاحبزادوں کو مرحوم کی شہادت سے پہلے کوئی جانتا تک نہ تھا) بھٹو صاحب کے بارے میں، میں کبھی مثبت رائے رکھنے پر قادر نہیں مگر ان پر کبھی کسی نے مالی بد دیانتی کا الزام نہیں رکھا۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ آج اس کم سے کم معیار پر پورا اترنے والا کوئی شخص کسی صف میں نظر نہیں آتا۔ آخر کہیں تو کوئی حد قائم کرنا پڑے گی۔ 
اوپر جس جوڑے کا ذکر کیا گیا ہے، ان کے ما بین طے پانے والے میثاق کو کیسے ایک میثاق جیسے مقدس لفظ اور ترکیب سے موسوم کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ دو دو ’’باریوں‘‘ کے بعد بھی اعتبار دلوانے کی باتیں کرنے والے کتنے سادہ ہیں اور لوگوں کو کس قدر بے وقوف بنانے پر مشاق ہیں۔ بہرحال ان کے دفاع میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کے خلاف بد دیانتی کے الزامات ثابت نہیں ہوئے۔ میں یہ کہوں گا کہ ہم کسی پر کوئی تعزیر کا فیصلہ کرنے کے لیے عدالت جمائے ہوئے نہیں بیٹھے کہ کم سے کم عدالتی معیار کی شہادت کی ضرورت ہو۔ رائے عامہ کی عدالت میں شہرت عامہ کو بھی سیاست میں ایک مقام ملنا چاہیے۔ طاقت ور سیاسی نظاموں میں بڑی مضبوط روایات ہوتی ہیں۔ اس امر پر بہر صورت اجماع لازم ہے کہ بددیانتی اور لوٹ مار کی شہرت عامہ کی زد میں آنے والوں کے لیے قیادت و سیادت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو گی۔ لہٰذا یہ ضروری تھا کہ آپ قوم کی جانب سے بہن اور بھائی کے اس جوڑے سے معافی کے طلب گار ہوتے۔ متحدہ مجلس عمل کے لوگوں سے بھی اپیل کی جاتی کہ وہ بھی آئندہ کے سمجھوتوں میں کم از کم اس جوڑے سے معافی ہی طلب کریں۔ ملکی معیشت اور وجود تک کو تباہ کرنے والوں کے ساتھ سمجھوتے کے امکانات کی جستجو کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس کے لیے گنجائش کی جستجو کرنے والے بہرحال اپنی دیانت و امانت کے بارے میں موجود امیج کو مشکوک بنائیں گے (بشرطیکہ ایسا امیج موجود ہو)۔ 
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
گلی نمبر ۱ عابد جہانگیر کالونی گوجرانوالہ
(۲)
محترم جناب ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کافی عرصہ پہلے آپ کے مجلے میں آپ کا نام پڑھ کر میں نے ایک خط کے ذریعہ دریافت کیا تھا کہ کیا آپ وہی زاہد الراشدی صاحب ہیں جو تقسیم سے قبل اور اس کے بعد بھی جماعت اسلامی کے ایک نوجوان عالم کارکن ہوتے تھے۔ آپ کا جواب نفی میں آیا تھا۔ بہرحال کچھ ماہ سے ’الشریعہ‘ میںآپ کے افکار پڑھتا رہا۔
فروری کا شمارہ جو مجھے بہت دیر سے ملا، یعنی ابھی مئی میں چند روز قبل، تو اس میں شیخ ابو زہرہ کی کتاب کے حوالے سے ’تعارف وتبصرہ‘ کالم کے تحت امام زیدؒ کا بہت ہی مختصر ذکر اور ان کے مذہب کا تعارف پڑھا۔ ساتھ ہی اس تعارف میں اپنے برادر ارشاد سید نفیس شاہ صاحب کا ذکر پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ کا ان سے تعلق ہے۔ شاہ صاحب گزشتہ آٹھ نو برس سے جب بھی کراچی تشریف لاتے ہیں تو اس ناچیز کے گھر بھی قدم رنجہ فرماتے ہیں، اور وہی ۱۹۹۹ میں مجھے اپنے ساتھ مرشدی حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری کے مزار لے گئے تھے۔ یہ جان کر حیرت ہوئی کہ آپ کو ایران جانے سے قبل امام زید اور ان کے مذہب کا علم نہ تھا۔ امام زید تو سیدنا حسینؓ سے کم مظلوم نہیں ہیں۔ شیعہ حضرات مخصوص اسباب کے تحت ان کا ذکر نہیں کرتے۔ یہ ان کا بڑا ظلم ہے۔ ان کی تو لاش کو جلا کر ہشام اموی نے اس کی راکھ بکھروا دی تھی اور سر کا کوفہ ودمشق میں گشت کرایا تھا۔ یمن میں ۱۹۶۱ کے انقلاب سے قبل جن امام احمد بن یحییٰ کی حکومت تھی، وہ زیدی ہی تھے۔ اب بھی یمن میں شوافع کے ساتھ کافی بڑی تعداد زیدی مذہب کے لوگوں کی ہے۔ آپ کو پسند ہو تو میں امام زید پر ایک تفصیلی مضمون لکھ سکتا ہوں۔
میں نے آپ کے مجلے کو اپنی دو سال قبل کی کتاب ’’خانوادۂ نبوی وعہد بنی امیہ‘‘ بھیجی تھی جو شاید آپ کے مطالعے میں آئی ہو۔ یہ کتاب حضرت سید نفیس شاہ صاحب کو بہت پسند ہے۔ اس میں ناصبیوں کے پیدا کردہ مسائل کا بڑی حد تک شافی رد ہے اور فرقہ پرستی کی مذمت۔ ایک اور کتاب ’’قرآن کی روشنی میں‘‘ بھی بھیجی تھی۔ افسوس کہ تبصرے کے بجائے صرف مختصر نوٹس مجلہ میں شائع ہوئے، اور اس میں بھی غلطی یہ کہ موخر الذکر کتاب کو ساڑھے چار سو سے زائد صفحات کی کتاب کہا گیا، جبکہ اس کے صرف ۳۶۶ صفحات ہیں۔
(ڈاکٹر) رضوان علی ندوی
5۔ گلی P خیابانِ سحر فیز 6
ڈیفنس کراچی
(۳)
مکرمی ومحترمی جناب محمد عمار خان ناصر
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
امید ہے آپ ’الشریعہ‘ کی پوری ٹیم کے ساتھ بخیر وخوبی ہوں گے۔ ماہنامہ ’الشریعہ‘ نے قلیل مدت میں دینی مجلات ورسائل میں جو قابل قدر انفرادی مقام حاصل کیا ہے، اس پر مجلہ کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔ جون ۲۰۰۶ کا ماہنامہ ’الشریعہ‘ راقم کے پیش نظر ہے۔ شمارہ مجموعی طور پر مفید اور دل چسپ ہے۔ رئیس التحریر کے پر مغز اداریہ میں ملک کی حالیہ سیاسی صورت حال کا نہایت حقیقی اور غیر جانب دارانہ تجزیہ پیش کیا گیا ہے جو عوام وخواص، ہر دو طبقات کے لیے قابل غور ہے۔ دیگر مضامین بھی اختصار اور جامعیت کی خوبیاں لیے، لائق مطالعہ ہیں۔
مولانا افتخار تبسم نعمانی کے مضمون ’’مسئلہ طلاق ثلاثہ اور فقہاے امت‘‘ کے حوالے سے چند گزارشات حسب ذیل ہیں:
نہایت حیرت ہوئی کہ مضمون نگار نے ایک نہایت اہم فقہی وعلمی مسئلے پر مناظرانہ، غیر تحقیقی اور غیر علمی انداز اختیار کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ موقف کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بیک دفعہ تین طلاقیں دینے سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے۔ فاضل مضمون نگار نے چند نامور فقہا کی کتب سے چند اقتباسات نقل کیے ہیں۔ مذکور فقہاے کرام جیسے امام طحاوی حنفی، امام عینی حنفی، امام نووی شافعی، امام رازی شافعی، قاضی ابو الولید ابن رشد مالکی، امام محمد حنفی وغیرہم تمام کے تمام فقہا طلاق ثلاثہ کے مسئلے میں تین طلاق کے نافذ ہونے کے قائل ہیں۔ انھوں نے اپنی اپنی کتب میں اس رائے کو بدلائل قطعیہ ثابت کیا ہے۔ مضمون نگار نے مذکورہ فقہا کی عبارات سے جو اقتباسات نقل کیے ہیں، وہ صر ف مخالف آرا کی نقل کی غرض سے تحریر کیے گئے ہیں نہ کہ ان آرا کی حمایت وتوثیق کے لیے۔ فاضل مضمون نگار نے مذکورہ اقتباسات نقل کر کے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ فقہا بیک دفعہ تین طلاق دینے کو ایک طلاق سمجھنے کی رائے کی تحسین کرتے ہیں، حالانکہ ایسا تاثر پیدا کرنا علم وتحقیق کے اصولوں کے منافی ہے۔ صحابہ کرام، تابعین عظام اور فقہاے کرام کی جمہوریت واکثریت اس بات کی قائل ہے کہ تین طلاقیں واقع ہوں گی، جبکہ اہل ظاہر اور چند فقہا جیسے علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم اور عصر حاضر میں اہل حدیث مکتب فکر کا موقف یہ ہے کہ ایک طلاق رجعی ہوگی۔ اہل قلم اہم منصب ومقام کے حامل ہیں۔ انھیں علمی وتحقیقی اخلاقیات کی پابندی کرنی چاہیے۔
عاصم نعیم
لیکچرر شعبہ علوم اسلامیہ، یونیورسٹی آف سرگودھا
(۴)
محترم عمار خان ناصر صاحب، مدیر الشریعہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں گزشتہ دو سال سے ماہنامہ الشریعہ کا باقاعدہ قاری ہوں۔ الشریعہ معاصر جرائد میں ایک وقیع مقام رکھتا ہے اور آزادانہ بحث وتمحیص کا علم بردار ہے، لیکن مئی ۲۰۰۶ کے شمارے نے راقم کو خلجان میں مبتلا کیے رکھا، کیونکہ میں الشریعہ کے علاوہ دوسرے علمی ودینی رسائل وجرائد کو بھی دیکھتا ہوں۔ حافظ زبیر صاحب کا نام میں نے کسی جگہ پڑھا تھا اور میری یادداشت کے مطابق وہ قرآن اکیڈمی سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے ہاں ان کو ’’مجلس التحقیق الاسلامی‘‘ لاہور کا ریسرچ اسسٹنٹ لکھا گیا۔ ماہ جون کے الشریعہ سے معلوم ہوا کہ یہ غلط ہے، بلکہ وہ قرآن اکیڈمی لاہور سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ 
ماہ جون کے الشریعہ میں آپ کے اعتذار اور حافظ زبیر صاحب کے خط کو پڑھنے کے بعد میں نے ذاتی طور پر محسوس کیا کہ آپ نے اپنے آزادانہ بحث وتمحیص کے دعوے کے مطابق عمل نہیں کیا، بلکہ جاوید احمد غامدی صاحب کی بے جا محبت میں آپ نے حافظ صاحب کا مضمون مسخ کیا جو انصاف پر مبنی نہیں۔ میری ناقص رائے میں جو کچھ آپ نے کیا، اس کا آپ کو حق حاصل نہیں تھا۔ آپ کا حق یہ تھا کہ ۱۔ آپ مضمون سرے سے شائع ہی نہ کرتے یا مسترد کر دیتے، ۲۔ مقالہ نگار کی رضامندی سے جتنا ممکن ہوتا، مختصراً شائع کرتے، ۳۔ قسط وار مکمل مضمون شائع کرتے۔ لہٰذا راقم آپ سے ملتمس ہے کہ آپ دوبارہ اس مضمون کو کسی کتر بیونت کے بغیر من وعن شائع کیجیے ۔ فقط اعتذار شائع کر دینے سے حق ادا نہیں ہوا۔
شمس الرحمن
۸/۵۰ شکار پور کالونی، ایم اے جناح روڈ
نزد اسلامیہ کالج، کراچی ۷۴۸۰۰
(۵)
جناب محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ماہ مئی کے شمارے میں اکثر مضامین بہت جاندار اور علمی وقعت کے حامل ہیں۔ خاص طور پر حافظ محمد زبیر صاحب کا غامدی کے نظریات پر تحقیقی مضمون بہت ہی پسند آیا۔ غامدی صاحب کے متجددانہ نظریات کے خلاف بہت سے علما اور بزرگوں سے بہت کچھ سنا ہے، لیکن علمی انداز میں ایسی گرفت اب سے پہلے نظر سے نہیں گزری۔ اگر ممکن ہو تو حافظ زبیر صاحب کا تعارف آئندہ کسی شمارے میں ضرور شامل فرما دیں۔
قاسم رضوان
چیف انسٹرکٹر، گورنمنٹ کالج آف کامرس
علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’انکشاف حقیقت‘‘

ایک اہل حدیث عالم نے ’’احناف کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی جس میں انھوں نے بزعم خویش یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ فقہ حنفی کے بیشتر مسائل احادیث نبویہ کے خلاف ہیں، حالانکہ اہل علم جانتے ہیں کہ فقہ حنفی کی بنیاد قرآن کریم، سنت نبوی اور آثار صحابہ پر ہے اور احناف کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کی بنیاد ان مآخذ پر نہ ہو۔ استنباط واستدلال یا احادیث وآثار میں ترجیحات میں اختلاف کی بات ہو سکتی ہے اور یہ ہر فقہ میں موجود ہے، لیکن یہ کہنا کہ فقہ حنفی یا دوسرے ائمہ کرام کی فقہیں نعوذ باللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف پر مبنی ہیں، نری جہالت اور ہٹ دھرمی کی بات ہے۔
مولانا عبد القدوس قارن، استاذ الحدیث مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ نے زیر نظر کتاب میں اسی جہالت کو بے نقاب کیا ہے اور دلائل وتحقیق کے ساتھ مذکورہ بالا کتاب کے مصنف کے اعتراضات کا مسکت جواب دیا ہے۔ 
چار سو سے زائد صفحات کی یہ مجلد کتاب عمر اکادمی، نزد مدرسہ نصرۃ العلوم فاروق گنج گوجرانوالہ نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۱۵۰ روپے ہے۔

’’فتنہ قادیانیت کو پکڑیے‘‘

قادیانیت کے تعاقب کے حوالے سے مختلف ارباب علم کی نگارشات کو محمد طاہر عبد الرزاق صاحب نے مرتب کیا ہے جو اس بارے میں مفید معلومات اور ہدایا ت پر مشتمل ہے۔ 
دو سو سے زائد صفحات کی یہ کتاب عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ روڈ ملتان نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۹۰ روپے ہے۔

’’فلسفہ اذان مع فضائل ومسائل‘‘ 

زیر نظرکتاب مولانا شمس الحق مشتاق کی تالیف ہے جس میں انھوں نے اذان کی اہمیت ،فضائل، مسائل واحکام اور مختلف واقعات کو جمع کیا ہے۔ عام قارئین کے لیے کتاب کا مطالعہ مفید ہوگا۔
ناشر: مکتبہ معہد القرآن متصل جامع مسجد اللہ والی، پرانا گولیمار، کراچی ۱۶۔ صفحات ۱۸۵۔ قیمت درج نہیں۔

اگست ۲۰۰۶ء

اسلام کا قانون ازدواج اور جدید ذہن کے شبہاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دین کی جامعیت اور ہمارا عمومی مذہبی رویہمولانا محمد یوسف
معاصر تہذیبی تناظر میں مسلم علمی روایت کی تجدیدپروفیسر میاں انعام الرحمن
اچھے استاد کے نمایاں اوصافپروفیسر شیخ عبد الرشید
مسئلہ رجم اور مولانا اصلاحیؒ کا تفسیری موقفمولانا عتیق الرحمن سنبھلی
قورح، قارون: ایک بے محل بحثڈاکٹر سید رضوان علی ندوی
مکاتیبادارہ
ذکر ندیمپروفیسر میاں انعام الرحمن
’’انکار رجم: ایک فکری گمراہی‘‘محمد عمار خان ناصر
لبنان کی صورت حال اور مسلم حکمرانوں کی ذمہ داریمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلام کا قانون ازدواج اور جدید ذہن کے شبہات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(’’الشریعہ‘‘ کے گزشتہ شمارے میں روزنامہ جناح اسلام آبادکے کالم نگار جناب آصف محمود ایڈووکیٹ کے حوالے سے چند سوالات شائع کیے گئے جن کا تعلق دورحاضر کے معروضی حالات، مغربی فکرو فلسفہ کی یلغار اور بین الاقوامی میڈیا کے پھیلائے ہوئے شکوک وشبہات کے ماحول میں اسلام کے مختلف احکام وقوانین کی تفہیم کے بارے میں نوجوانوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والی الجھنوں سے ہے۔ ہم نے اس کے ساتھ گزارش کی تھی کہ ان سوالات پر ایک تبصرہ ’الشریعہ ‘ کے زیر نظر شمارے میں پیش کیاجائے گا، لیکن جب اس کے بعد ان سوالات کا جائزہ لیاگیاتو محسوس ہوا کہ سرسری تبصرہ سے بات نہیں بنے گی بلکہ ان میں سے ہر سوال کا تفصیلی طور پر جائزہ لیا جانا ضروری ہے، اور اس کے ساتھ ان سوالات اور شکوک وشبہات کے جدید تعلیم یافتہ حضرات کے ذہنوں میں جنم لینے کے اسباب کا تجزیہ بھی اس موضوع کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اس لیے ہماری کوشش ہوگی کہ اس بحث کو تسلسل کے ساتھ آگے بڑھایا جائے اور ایسے سوالات اور ان کے اسباب ومحرکات کا ترتیب کے ساتھ جائزہ لیاجائے جس کے آغاز کے طورپر ان میں سے صرف ایک سوال کے بارے میں ہم اپنی گزارشات اس شمارے میں پیش کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم ملک کے دینی حلقوں، علمی مراکز اور قرآن وسنت کی تعلیمات سے تعلق رکھنے والے ارباب وعلم دانش سے گزارش کریں گے کہ وہ ان سوالات کو نظر انداز کرنے اور نئی نسل کو اس کے حال پر چھوڑ دینے کی بجائے اس بحث میں شریک ہوں اور ان اشکالات وشبہات کے ازالہ کے لیے اپنا علمی ودینی فریضہ اداکریں۔ آئندہ شمارے میں ہم ان شکوک وشبہات اور سوالات واعتراضات کے حوالے سے ایک اصولی بحث کریں گے اور اس کے بعد ا ن سوالات کا ترتیب وار جائزہ لیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ رئیس التحریر)

جناب نبی اکرم ﷺ کی گیارہ شادیاں اور قرآن کریم میں مسلمانوں کو چار تک شادیاں کرنے کی اجازت ایک عرصہ سے مغربی حلقوں میں زیر بحث ہے اور اعتراض وطعن کا عنوان بنی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی سامنے آجاتاہے کہ جب ایک مرد کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے تو عورت کو بیک وقت چارشادیاں کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ حدود آرڈیننس پر گزشتہ دنوں چھیڑی جانے والی بحث کے دوران مختلف حلقوں کی طرف سے یہ سوالات میڈیا کے ذریعے اٹھائے گئے ہیں اور ان پر لوگ اپنے اپنے انداز میں اظہار خیال کررہے ہیں۔
صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں جب ایک موقع پر مغربی پاکستان اسمبلی میں عائلی قوانین پر بحث ہورہی تھی تو اسمبلی کی ایک خاتون ممبرنے یہ سوال کیا تھا کہ مرد کو چار بیویاں کرنے کا حق ہے تو عورت کو چار خاوند کرنے کا حق کیوں نہیں ہے؟ حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ بھی اسمبلی کے رکن تھے او ر ان کے جواب دینے کا مخصوص انداز ہوتاتھا۔ انہوں نے مذکورہ خاتون کو مخاطب کرکے کہا کہ ’’بیگم صاحبہ!آپ بیس کریں، آپ کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ممانعت تو قرآن کریم کا حکم ماننے والوں کے لیے ہے۔ نہ ماننے والوں کے لیے کوئی پابندی نہیں ہے ‘‘۔
چند روز قبل ایک قومی اخبار میں یہی سوال سامنے آنے پر مولانا ہزاروی ؒ کا یہ جواب ذہن میں تازہ ہوگیا، مگر یہ سوالات جس انداز سے نیشنل میڈیا میں اٹھائے جارہے ہیں اور انہیں اسلامی احکام وقوانین کے بارے میں شکوک وشبہات پھیلانے کا ذریعہ بنایا جارہاہے، اس کے پیش نظر ان سوالات کا قدرے سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔
ایک سے زائد شادیوں کے بارے میں سوالات کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے :
۱۔مسلمانوں کو چار سے زائد شادیاں کرنے کاحق قرآن کریم میں کیوں دیاگیاہے ؟
۲۔جب قرآن کریم نے بیک وقت چار سے زائد نکاح کرنے کی اجازت نہیں دی تو جناب نبی کریم ﷺ کی کل گیارہ اور بیک وقت نو شادیاں کیوں تھیں؟
۳۔مرد کو چار شادیاں کرنے کی اجاز ت ہے تو عورت کو ایک سے زیادہ نکاح بیک وقت کرنے کا حق کیوں نہیں دیاگیا؟
جہاں تک چارشادیاں کرنے کی اجازت کاتعلق ہے، یہ بلاشبہ قرآن مجید میں موجودہے لیکن اس کے صحیح مفہوم کو سمجھنے کے لیے اس کے پس منظر اور مقصد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔یہ حکم سورۃ النساء کی آیت نمبر ۳میں ا س طرح ہے کہ ’’اگر تم خوف کھاؤ کہ یتیموں کے بارے میں انصاف نہیں کرسکوگے تو جو عورتیں تمہیں پسند ہوں، ان سے نکاح کرو، دو دو، تین تین، اور چار چار۔ اور اگر تم خوف کرو کہ انصاف نہیں کرسکوگے تو پھر ایک ہی کافی ہے ۔‘‘
بخاری شریف کی روایت کے مطابق ام المومنین حضرت عائشہؓ نے اس کا پس منظر یہ بیان کیاہے کہ جاہلیت کے دور میں بہت سے لوگ اپنے خاندان کی یتیم اور بے سہارا بچیوں کو ان کے حسن یا مال کی وجہ سے اپنی بیوی بنالیتے تھے اور ان کے ساتھ انصا ف نہیں کرتے تھے۔شادیوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں تھی، کوئی بھی شخص جتنی شادیاں چاہتاتھا، کر لیتاتھا اور اس طرح عورتیں خاص طورپر یتیم لڑکیاں ظلم او ر حق تلفی کا نشانہ بنتی تھیں۔ اس پراللہ تعالیٰ نے اس آیت کی رو سے دو پابندیاں عائد کر دیں: ایک یہ کہ خاندان کی کسی یتیم لڑکی کو بیوی بنانے کی صورت میں اگر اس کے حقوق پورے نہیں کرسکتے او ر انصا ف مہیا نہیں کرسکتے تو اس کے ساتھ شادی مت کرو، اوردوسری یہ کہ چار سے زیادہ بیویاں بیک وقت رکھنے کی ممانعت کردی گئی۔ اس طرح بنیادی طور پر یہ حکم چار تک شادیاں کرنے کے آرڈر کے طور پر نہیں بلکہ چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کی ممانعت کے طورپر ہے اور اسے بھی آیت کریمہ میں مشروط کردیاگیاہے کہ اگر انصاف اور حقوق کے تقاضے پورے کرسکو تو اس کی اجازت ہے، ورنہ ایک پر ہی قناعت کرو۔
ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت کو اگر معاشرتی مسائل اور ضروریات کے حوالہ سے دیکھا جائے تو اسے سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے اور یہ مرد اور عورت دونوں کے حوالے سے ہے۔ مرد کے حوالے سے اس لیے کہ بسا اوقات ایک مرد اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے ایک عورت پر قناعت نہیں کرتا تو اس کے لیے یہ راستہ رکھا گیاہے کہ وہ ناجائز صورتیں اختیار کرنے کے بجائے باقاعدہ نکاح کرے تاکہ جس عورت کے ساتھ وہ یہ تعلق قائم کرے، اس کی ذمہ داری بھی قبول کرے۔ اسلام کا مزاج یہ ہے کہ وہ کسی بھی مرد کو کسی بھی عورت کے ساتھ جنسی تعلق کی اس وقت تک اجازت نہیں دیتا جب تک وہ اس عورت کے مالی اخراجات اور جنسی تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کی پرورش اور اخراجات کی ذمہ داری باقاعدہ طور پر قبول نہ کرے۔ اسلام مغرب کے موجودہ فلسفہ اور کلچر کی طرح جنسی تعلقات کو اس طرح آزاد نہیں چھوڑتا کہ مرد تو اپنا جنسی تقاضا پورا کرکے چلتا بنے اور عورت اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تنہا رہ جائے ۔
عورت کے حوالے سے اس لیے کہ معاشرے میں بسااوقات ایسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے کہ عورت کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ جاتا کہ وہ یا تو تنہائی کی زندگی گزارے او ر یا کسی شادی شدہ مرد کی دوسری یا تیسری بیوی بن کر اپنی زندگی کو بامقصد بنالے۔ اس صورت میں اسلام نے جائز نکاح کا راستہ بند کرکے بہت سے ناجائز راستے کھولنے کے بجائے ایسی عورت کو زندگی بسر کرنے کا باوقار راستہ دیاہے، اور ظاہر ہے کہ نکاح تو عورت کی اجازت اورمرضی سے ہی ہوتاہے اور اگر کوئی عورت اس کے لیے سوچ سمجھ کر تیار ہوتی ہے تو اس کی معاشرتی ضروریات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
جناب نبی کریم ﷺ کے حوالے سے یہ سوال اس طرح ہے کہ جب قرآن کریم نے چار سے زیادہ شادیوں کی ممانعت کردی او ر اس کے مطابق نبی اکرم ﷺ نے بہت سے صحابہ کرامؓ کو چار سے زائد بیویوں سے دست برداری کاحکم دیاتو جن کی چار سے زائد بیویاں تھیں، انہوں نے باقی بیویوں کو الگ کردیا مگر خود نبی اکرم ﷺ نے اپنی چار سے زائد بیویوں کو فارغ نہیں کیا حتیٰ کہ جناب نبی اکرم ﷺ کے وصال کے وقت آپ کی نو بیویاں تھیں۔ سوال یہ ہے کہ جس قانون کی دوسرے مسلمانون سے پابندی کرائی گئی، خود نبی اکرم ﷺ نے ا س پر عمل کیوں نہیں کیا اور چار سے زائد بیویاں مسلسل اپنے نکاح میں کیوں رکھیں؟
اس کے جواب میں عرض ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چار سے زیادہ بیویاں قرآن کریم کی طرف سے عائد کردہ پابندی کے بعد نہیں کیں بلکہ ان میں سے اکثر اس سے پہلے اس دور سے آپ کی بیویاں چلی آرہی تھیں جب شادیوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں تھی، البتہ چار کی تعداد کی پابندی عائد ہو جانے کے بعد نبی اکرم ﷺ نے زائد بیویوں کو الگ نہیں کیا بلکہ دو مزید نکاح بھی کیے اور یہی سب سے بڑا نکتہ اعتراض ہے۔ اس کی وجہ سمجھنے کے لیے ہمیں قرآن کریم کے دو دیگر حکموں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ ایک حکم سورۃ االاحزاب کی آیت نمبر ۵ میں ہے جس میں نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطّہرات کو تمام مسلمانوں کی مائیں قرار دیا گیا ہے اور اسی بنیاد پر ان میں سے ہر خاتون ’’ام المومنین‘‘کہلاتی ہے۔ اوردوسرا حکم اسی سورۃ کی آیت نمبر ۵۳ میں ہے جس میں کہا گیاہے کہ رسول اللہ ﷺکی کسی بیوی کے ساتھ ان کے بعد کوئی مومن نکاح نہیں کرسکتا۔ گویا ازواج مطہرات کے لیے مومنوں کی ماں ہونے کا لقب محض اعزاز میں نہیں ہے بلکہ اس کے کچھ عملی پہلو بھی ہیں۔ اس صورت میں یہ الجھن سامنے آرہی تھی کہ باقی جن لوگوں نے چار سے زائد بیویوں کو فارغ کردیاتھا، ایسی خواتین کے لیے نئے نکاح میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی مگر ازواج مطہرات نبی اکرم ﷺ کے گھر سے فارغ ہونے کے بعد کسی دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی تھیں، اس لیے خود ان کے وقار،مستقبل اور تحفظ ومفاد کا تقاضا تھا کہ انہیں فارغ نہ کیاجائے اوروہ بدستور نبی اکرم ﷺ کے نکاح میں رہیں۔
یہاں ایک بات اور پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جناب بنی اکرم ﷺ کی ایک سے زیادہ شادیوں کا تعلق (نعوذ باللہ) جنسی جذبے اور خواہش سے نہیں بلکہ دینی ومعاشرتی مصالح سے تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے۲۵ سال سے ۵۰ سال تک کی عمر ایک بیوہ خاتون ام المومنین حضر ت خدیجہ الکبریٰؓ کے ساتھ بسر کی جو کسی بھی انسان کی جنسی خواہش اور جذبے کی اصل عمر ہوتی ہے۔ اس دوران حضرت خدیجہ آپ کے نکاح میں رہیں اور حضرت ابرہیمؓ کے علاوہ باقی ساری اولاد بھی انہی کے بطن سے ہوئی، جبکہ عمر میں وہ نبی اکرم ﷺ سے پندرہ سال بڑی تھیں۔اس کے بعد حضرت سودہ بنت زمعہؓ آنحضرت ﷺکے نکاح میں آئیں اور پھر حضرت عائشہؓ سے نکاح ہوا۔ چنانچہ حضرت سودہؓ کے بعد جتنے نکاح بھی ہوئے، ان کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی دینی ومعاشرتی مصلحت موجود نظر آتی ہے جبکہ حضرت عائشہؓ سے نکاح کی مصلحت ان کی عظیم دینی وعلمی جدوجہد کے حوالہ سے دیکھی جائے تو واضح طور پر محسوس ہوتاہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ کی گھریلو زندگی اور سنت نبوی کا چار دیواری کے اندر کا علم محفوظ رکھنے اور پورے تفقہ وتیقن کے ساتھ امت تک پہنچانے کے لیے کسی ایسی خاتون کا جناب نبی اکرم ﷺ کی ازواج میں شامل ہونا ضروری تھا جو ذہین وفطین ہونے کے ساتھ ساتھ عمر کے اس مرحلہ میں ہو جسے تعلیم وتعّلم کی عمر کہاجاتاہے تاکہ وہ پورے اعتماد واطمینان کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کی ذاتی اور خاندانی زندگی اور چاردیواری کے اندر کے ارشادات ومصروفیات کا علم حاصل کرے اور امت تک پہنچائے۔ اسی لیے حضرت عائشہؓ کا نکاح جناب نبی اکرم ﷺ کے ساتھ بچپن میں ہواجو تعلیم وتعلّم کا فطری دور ہوتاہے اور نو سال سے اٹھارہ سال تک کی عمر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزار کرحضرت عائشہؓ نے جوکچھ سیکھا، اس کے بعد کم وبیش نصف صدی تک وہ امت کو سکھاتی اور پڑھاتی رہیں ۔اس لیے یہ شادی اور اس کا بچپن میں ہونا امت کی بڑی علمی اوردینی ضرورت کے لیے تھا۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی باقی شادیوں کی دینی ومعاشرتی مصلحتوں تک بھی رسائی حاصل کی جاسکتی ہے ۔
اس پس منظر میں جناب نبی اکرم ﷺ کا چار سے زیادہ بیویوں کو بدستور اپنے نکاح میں رکھنا دینی ومعاشرتی مصالح کے پیش نظر تھا اور خود ان معزز خواتین کے احترام اور مفاد کا تقاضا تھا، ا س لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی نبی اکرم ﷺ کو بطور خاص اجازت مرحمت فرمادی تھی۔
تیسراسوال یہ ہے کہ مرد چاربیویاں کرسکتاہے تو عورت چار خاوند کیوں نہیں کرسکتی؟اس کا بھی سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیاجائے تو اس کی وجہ کو سمجھا جاسکتاہے ۔
خاندان کو نہ صرف اسلام نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور اسے سوسائٹی کا بنیادی یونٹ قراردیاہے بلکہ دنیا کے ہر مہذب فلسفہ میں خاندان کی اہمیت کو تسلیم کیاگیاہے۔ خاندان کے قیام واستحکام کی بنیاد نسب کے تحفظ پر ہے اور نسب کے تحفظ پر ہی خاندان کی تشکیل اور بقا کا دارومدار ہے،کیونکہ جب تک نسب کا تعین اور تحفظ نہ ہو، ان رشتوں کا تعین بھی نہیں ہوسکتا جن سے ایک خاندان تشکیل پاتاہے۔ ایک مرد جتنی زیادہ عورتوں سے جنسی تعلق رکھے، جائز وناجائز کی بحث سے قطع نظر اگر وہ اپنے اس جنسی تعلق کو تسلیم کرتاہے تو نسب کے تعین میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی اور نسب کے ساتھ ساتھ متعلقہ رشتوں کا تعین بھیّ آسان ہوجاتاہے لیکن عورت ایک مرد سے زیادہ لوگوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرے گی تو پیدا ہونے والے بچے کے نسب کا تعین مشکل ہوجائے گا۔ 
یہ مسئلہ جاہلیت کے دور میں بھی تھا جب زنا کی کھلی اجازت تھی، لیکن ان لوگوں نے اس مسئلہ کا حل نکال رکھا تھا۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جاہلیت کے دورمیں عام طور پر بہت سی عورتیں متعدد مردوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کر لیتی تھیں، لیکن بچہ پیدا ہونے کی صورت میں وہ عورت ایسے مردوں کا تعین کرکے انہیں طلب کرتی تھی اور سب کی موجود گی میں ان میں سے کسی ایک کو مخاطب کرکے کہتی تھی کہ یہ بچہ تمہارا ہے۔کسی شخص کو اس فیصلے سے انکار کی جرات نہیں ہوتی تھی اور اسے بچے کی ذمہ داری قبول کرنا پڑتی تھی، جبکہ اس سے زیادہ اشتباہ کی صورت میں قیافہ شناس کو بلایا جاتاتھا جو عورت کی طرف سے جنسی تعلق کے حوالے سے نامزد کیے جانے والے مردوں میں سے قیافہ کی بنیاد پر کسی ایک کا تعین کردیتاتھا اور اس مرد کو بچے کے باپ کے طورپر ذمہ داری قبول کرنا پڑتی تھی۔
آج مغرب کو بھی اس صورت حال کا سامناہے کہ شادی کے بغیر بچوں کی پیدایش بڑھتی جارہی ہے اور بہت سے بچو ں کے باپوں کا تعین ممکن نہیں رہا، مگر مغرب نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ ’’سنگل پیرنٹ‘‘کے قانون کے تحت باپ اور نسب کے تعین کو ہی غیر ضروری قراردے دیاہے اور بچے کی پیدایش کی ذمہ داری میں ماں کو تنہا چھوڑدیاہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ عورت پر صریح ظلم ہے کہ جنسی تعلق میں تو مرد اس عورت کے ساتھ برابر کا شریک ہو مگر اس کے نتائج بھگتنے کے لیے عورت کو اکیلا چھوڑدیاجائے۔ مغرب کو آج ’’فیملی سسٹم‘‘ کی تباہی اور رشتوں کی پامالی کے حوالے سے جس بحران کا سامناہے، اس کا سب سے بڑا سبب ’’زنا‘‘ہے کہ مغرب نے مرد اور عورت کے جنسی تعلق کے حوالے سے آسمانی تعلیمات سے دستبردار ہوکر فیملی سسٹم کی تباہی کا دروازہ خود کھولا ہے اور اس کے نتائج کو روکنے کااس کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
اس لیے اگر خاندان کو انسانی سوسائٹی کے بنیادی یونٹ کی حیثیت حاصل ہے اور اس کا تحفظ وبقا ضروری ہے تو اس لیے نکاح وطلاق کے وہی قوانین فطری اور ناگزیر ہیں جوقرآن پاک پیش کرتاہے اور سابقہ آسمانی تعلیمات بھی انہی کی تائید کرتی ہے ا س لیے کہ ان کی بنیاد فطرت پر ہے۔

دین کی جامعیت اور ہمارا عمومی مذہبی رویہ

مولانا محمد یوسف

حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ کسی ایک انسانی شعبہ میں دینی جدوجہد اور محنت آپ کو زندگی کے دوسرے شعبوں سے قطعاً غافل نہ کرسکی۔ آپ نے ایک ہی وقت میں مبلغ، معلم، مجاہد، قاضی، شارع، حاکم و فرماں روا، سماجی کارکن، ماہر اقتصادیات، معلم اخلاق اور ماہر نفسیات کی حیثیت سے امت کی راہنمائی فرمائی۔ ایک طرف اگر آپ نے داعی کی حیثیت سے بھٹکی اور گم کردۂ راہ انسانیت کو پستی اور ذلت کے گڑھے سے نکال کر ایمان اور اخلاق وکردار کی بلندیوں پر فائز کیا تو دوسری طرف سماجی کارکن کی حیثیت سے لوگوں کا بوجھ بھی اٹھایا۔ آپ نے محروم لوگوں کو کما کرکھلایا، مہمانوں کی مہمان نوازی کی، حق کے معاملات میں دوسروں سے بھر پور تعاون کیا اور بہت سے غریب اور مقروض انسانوں کے قرض کی ادائیگی کی ذمہ داری اٹھائی۔ دین کے معاملے میں آپ نے ایسا معتدل رویہ پیش کیا کہ خالق کی عبادت آپ کو مخلوق کی خدمت سے بے نیاز نہ کرسکی۔ آپ نے امت کو بھی یہی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
ان لجسدک علیک حقا وان لعینک علیک حقا وان لزوجک علیک حقا وان لزورک علیک حقا (صحیح بخاری)
’’تمھارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمھاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے، تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمھارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے۔‘‘
جب نبی مکرم نے انسانی فلاح وبہبود کے لیے حیات انسانی کے تمام دائروں کو اپنی محنت اور تگ ودو کامیدان بنایا تو آپ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد بدیہی طورپر آپ کی تمام ترجدوجہد اور محنت کا تسلسل قائم رکھنے کی ذمہ داری اس امت پر عائد ہوتی ہے۔ اس صورت میں کسی ایک خاص شعبے ہی میں کام کرنے والا فرد یا جماعت حضور ﷺ کی وراثت کا حق ادا کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اس لیے اعتدال کی راہ یہ ہے کہ امت آپ ﷺ کی محنت اور تگ ودو کے تمام پہلوؤں کو لے کر آگے بڑھے نہ یہ کہ انسانی زندگی کے کسی ایک شعبہ سے متعلق آپ کی تعلیمات تک محدود ہو کر رہ جائے۔ لیکن افسوس ہے کہ ہمارا عمومی رویہ یہ ہے کہ جو فرد یاجماعت جس دائرہ میں کام کررہی ہے، وہ یہی گمان کیے ہوئے ہے کہ دین کا کام بس اسی کے ہاتھوں انجام پا رہا ہے اور بس۔ حضورﷺ کی ہمہ گیر کاوشوں کو ہم اپنے اپنے دائرے میں محدود کرکے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ہی حضورﷺ کے نائب ہیں ۔ 
دین کی خدمت چاہے جہاد کی صورت میں ہو یا دعوت وتبلیغ کی صورت میں، تصنیف وتالیف کی شکل میں ہو یا تعلیم وتدریس کے رنگ میں،حضور ﷺ کی ہمہ گیر تگ ودو کو کسی ایک دائرے میں محصور کرنا اور خود کوہی آپ کا وارث قرار دینا یقیناًبے اعتدالی کی راہ ہے۔ جب دین کے کسی ایک شعبہ میں غلو اور بے اعتدالی آئے گی تو وہ صرف اس شعبے کے لیے نہیں، بلکہ تمام شعبہ جات کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگی۔ جب بے اعتدالی کی جڑ مضبوط ہونے لگتی ہے تو یہ رویہ امت میں اجتماعیت کے بجائے انفرادیت کو جنم دیتاہے اور دینی حلقے اس صورت میں آگے بڑھنے کے بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کو بھی خدمت دین ہی خیال کرنے لگتے ہیں ۔
دعوت وتبلیغ دین کی محنت کا ایک وسیع میدان ہے اور اس میدان میں تبلیغی جماعت اصلاح وتربیت کا عظیم فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ جماعت کی محنت کے اثرات کا مشاہد ہ ہر ذی شعور انسان کھلی آنکھوں سے کرسکتاہے کہ جن لوگوں کے لیل ونہار نائٹ کلبوں کے اسٹیج پر لہوو لعب کی محفلوں میں گزرتے تھے، آج وہ منبر رسول ﷺ پر بیٹھے خود کو وارث انبیا کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ الحمد للہ جماعت کی دعوت مسجدوں اور گلی محلوں سے آگے نکل کر کرکٹ کے میدانوں اور سینماؤں تک پہنچ گئی ہے۔ اللھم زد فزد۔یہ جماعت کی محنت کا ایک روشن اور قابل تقلید پہلو ہے جس سے فائدہ اٹھانے اور رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ راقم الحروف یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ ہر انسانی کوشش اور محنت کی طرح تبلیغی تحریک بھی خامیوں اور کوتاہیوں سے مبرا نہیں اور اس میں بے اعتدالی کے بعض ایسے پہلو پائے جاتے ہیں جن کی طرف توجہ دلانے اور ان کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ 
مثلاً دعوت کے عظیم کام کے ساتھ ساتھ اگر دین کے معاشرتی پہلو کی طر ف مقدور بھر توجہ دی جائے تو یہ ہر طرح سے مناسب ہوگا۔ جماعت سے منسلک افراد انفرادی سطح پر کسی نہ کسی حد تک یہ کام کرتے بھی ہیں، لیکن جس طرح حالیہ زلزلے میں زلزلہ زدہ علاقوں میں جماعت نے منظم طور پر جماعتی نظم کے تحت متاثرہ افراد کے ساتھ عملی تعاون کا فریضہ انجام دیا ہے، وہ انتہائی قابل قدر اور قابل تقلید ہے اور اسی رخ پر رفاہی کاموں میں شرکت کے عمل کو جماعتی سطح پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے بس ایک فیصلے کی ضرورت ہے۔ الحمد للہ نہ افراد کی کمی ہے اور نہ وسائل کی۔ یہ کام خواہ محدود سطح پر ہی ہو، لیکن بہر حال توجہ کا متقاضی ہے۔ ملک بھر میں پھیلے ہوئے سیکڑوں تبلیغی مراکز کے انتظام میں غربا اور مستحق افراد کے لیے فری ڈسپنسریوں ،بے روزگاروں کے لیے صنعتی تربیتی مراکز اوراسلامی وعصری تعلیم کے لیے اسکولوں اور کالجوں کا قیام کچھ مشکل نہیں، بشرطیکہ اس کام کو بھی دین کا کام سمجھ لیاجائے۔ ایسی عبادتیں جو حقوق العباد کی ادائیگی سے غافل کردیں، کیسی ہی سرور انگیز اور تسلی بخش کیوں نہ ہوں، قرب الٰہی کا وسیلہ نہیں بن سکتیں۔ طبیعت کے مبالغوں کو قرب الٰہی نہیں سمجھنا چاہیے۔ دعوت سے منسلک افراد میں انفرادی سوچ کے بجائے اجتماعی سوچ کو پروان چڑھانا چاہیے۔ آخر آ پ کا امت سے تعلق صرف دعوت وتبلیغ کے حوالے سے تو نہیں، تعلقات کے کچھ اور بھی پہلو ہیں ۔ 
اس کے ساتھ ساتھ راقم الحروف یہ گزارش کرنا بھی مناسب سمجھتا ہے کہ تبلیغی جماعت سے یہ توقع وابستہ کرنا بھی درست نہیں کہ جماعت دعوت کے میدان میں بھی کام کرے اور خدمت خلق، جہاد اور سیاست وحکومت کی کشمکش کے میدان میں بھی بھرپور کردار ادا کرے۔ تمام تر کاموں کی ذمہ داری جماعت پر ڈالنا کسی طور پر بھی درست نہیں ہے ۔آخر تبلیغی جماعت ہی تو حضورﷺ کی نائب نہیں، بلکہ پوری امت حضورﷺ کی نائب ہے۔ اگر جماعت کسی ایک دینی شعبہ میں متحرک کردار ادا کررہی ہے تو دوسرے شعبوں میں موثر کردار ادا کرنے کے لیے باقی طبقات کو بھی قدم آگے بڑھانا چاہیے۔ جب درج بالا تمام کاموں کی توقع جماعت سے کی جاتی ہے تو مجھے استاذ محترم مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کی بیان کردہ ایک مثال یاد آجاتی ہے جس کا حوالہ وہ عموماً دینی مدارس کے حوالے سے دیا کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں اگر ایک گھر میں پانچ چھ بیٹے ہوں اور ان میں سے کوئی ایک بیٹا ایسا ہو جو اپنا کام تندہی سے کرے اور دوسروں سے بہتر کارکردگی دکھائے تو آہستہ آہستہ گھر کے تمام افراد اسی سے اپنی ساری توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔ اس کو ہمارے ہاں عموماً ’’کاما پُتر ‘‘کہا جاتاہے اور یہ اس کا اعزاز ہوتاہے۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ شاید امت مسلمہ میں تبلیغی جماعت کی حیثیت بھی اس کامے پُتر کی ہے جس سے ساری ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توقع وابستہ کرلی جاتی ہے۔ 
تبلیغی جماعت کے رویے میں بے اعتدالی کا ایک اور پہلو بھی بے حد باعث تشویش اور قابل اصلاح ہے، اور وہ ہے خدمت دین کے دیگر شعبوں کو ناقص، کم تر اور بے فائدہ سمجھنے کا رویہ۔ تبلیغی جماعت کی جدوجہد اور تگ ودو خدمت دین کے مختلف اور متنوع شعبہ جات میں سے ایک ذیلی شعبہ ہے۔ دین کے کسی بھی شعبے کی اہمیت کو اس انداز سے بیان کرنا کہ دیگر شعبوں کی اہمیت کم ہوتی نظر آئے یا دھندلا جائے، یقیناًبے اعتدالی پر مبنی رویہ ہے۔ علماے حق نے، خواہ وہ کسی بھی شعبے سے متعلق ہوں، اس رویے کی کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ بانی جماعت مولانا محمد الیاس ؒ نے اس تحریک کا اصل مقصد بیان کرتے ہوئے کیسا معتدل رویہ اختیار فرمایا، اس کا ا ظہار درج ذیل عبارت سے بخوبی ہوتاہے۔ فرماتے ہیں :
’’ہماری اس تحریک کا اصل مقصد ہے مسلمانوں کو ماجاء بہ النبی ﷺ سکھانا یعنی اسلام کے پورے علمی وعملی نظام سے امت کو وابستہ کردینا۔ یہ تو ہے ہمارا اصل مقصد ،رہی یہ قافلوں کی چلت پھرت اور تبلیغی گشت، سویہ اس مقصد کے لیے ابتدائی ذریعہ ہے اور کلمہ ونما ز کی تعلیم وتلقین گویا ہمارے پورے نصاب کی الف، ب، ت ہے ۔‘‘  (ملفوظات مولانا محمد الیاس، مرتبہ مولانا محمد منظور نعمانی)
بانی جماعت حضرت مولانا الیاس ؒ کے اس فرمان کی روشنی میں راقم کو نہایت دکھ ہوتاہے جب تبلیغی احباب ابتدائی ذریعے ہی کو کامل دین سمجھتے ہیں اور تبلیغی گشت، قافلوں کی چلت پھرت، اور چلّہ اور چار مہینوں کو ہی سارے حروف تہجی قرار دیتے ہیں، کیونکہ یہ رویہ نہ صرف تبلیغی جماعت کے لیے بلکہ دیگر دینی حلقوں کے لیے بھی مضرہے۔ بالخصوص عامۃ الناس میں اس رویے کا پیدا ہوجانا اور بھی تشویش کا باعث ہے، اس لیے کہ کوئی صاحب علم اس قسم کا رویہ اپناتا ہے تو وہ غور وفکر کا دروازہ کھلا رکھتا ہے اور صحیح بات سامنے آنے پر بے اعتدالی کو چھوڑ کر معتدل رویہ اختیار کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا جبکہ عامۃ الناس جس رویے کو دین سمجھتے ہوئے اپناتے ہیں، اس میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور ان کی اصلاح بہت مشکل ہو جاتی ہے۔
استاذ محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے دوران سبق میں قرآن کریم کی آیت ’ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینہون عن المنکر‘ کے تحت یہ واقعہ سنا یا کہ حضرت مولانا مفتی زین العابدین ؒ جو تبلیغی جماعت کے اکابر میں سے تھے، ایک بار ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ حضرت، میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتاہوں۔ آپ کو معلوم ہے کہ تبلیغ کا کام امت پر فرض عین ہوچکاہے۔ استاذ محترم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مفتی صاحب کی طرف غور سے دیکھا اور عرض کیا کہ حضرت، مجھے آپ سے یہ توقع نہ تھی کہ آپ یہ بات ارشاد فرمائیں گے۔ کیا آپ نے تفسیر مظہری، ابن کثیر اور روح المعانی کا مطالعہ نہیں فرمایا؟ یہ مفسرین اور ان کے علاوہ دیگر مفسرین کرام قرآن کی اس آیت (ولتکن منکم امۃ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ تبلیغ کا کام پوری امت پر بحیثیت امت فرض کفایہ ہے۔ اگر یہ فرض عین ہوتا تو بیوی کو شوہر سے اور غلام کوآقا سے اجازت لینے کی ضرورت نہ تھی۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے کے لیے مسلمانوں میں سے ایک مخصوص جماعت کو اس منصب پر مامور کیا گیاہے۔فرمایا کہ حضرت مفتی صاحب میری یہ بات سن کر خاموش ہوگئے۔ اصحاب علم کا یہی رویہ ہوتا ہے کہ جب ان کے سامنے صحیح بات آتی ہے تو وہ مجادلہ نہیں کرتے۔ 
ایک مرتبہ فرمایا کہ میں ترمذی شریف پڑھایا کرتاتھا ۔تبلیغی جماعت کے ایک ضعیف العمر ساتھی روزانہ میرے ساتھ بیٹھ کر سبق سنا کرتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے حضرت، آپ بھی جماعت میں کچھ وقت لگائیں۔ میں نے عرض کیا باباجی! یہ طلبا اتنی دور دراز سے علم حاصل کرنے آئے ہیں۔ اگر میں جماعت میں چلا گیا تو ان کو سبق کون پڑھائے گا؟ باباجی کہنے لگے استاذ جی فکر نہ کریں، ان کو اللہ تعالیٰ پڑھائیں گے۔ میں نے عرض کی، باباجی! اللہ تعالیٰ اس طرح براہ راست نہیں پڑھایا کرتے۔ 
استاذ محترم جماعت کے مثبت پہلووں کی تحسین بھی فرمایا کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ عزیزو! یہ بڑا عظیم کام ہے۔ تبلیغی جماعت کے احباب بعض ایسے علاقوں تک بھی دین کی دعوت لے کر پہنچے ہیں جہاں تک ہم نہ پہنچ سکے، لیکن اس کام میں غلو بڑا نقصان دہ ہے۔
ملتان سے ایک عالم دین تشریف لائے اور استاذ محترم سے پوچھا کہ جماعت کے ساتھ وقت لگانا کیسا ہے؟ حضرت شدید بیماری کی حالت میں تھے اور بولنا بھی دشوار تھا۔ یہ بات سن کر کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کے بعد قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی: ’ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ وعمل صالحا وقال اننی من المسلمین‘۔ (اس سے اچھی کس کی بات ہوسکتی ہے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے، اچھے عمل کرے اور کہے کہ میں فرماں برداروں میں سے ہوں) ۔
بعض احباب جماعت کی محنت کو کشتی نوح کے مانند قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو اس میں سوار ہوجائے گا، بچ جائے گا اور جو رہ جائے گا، ڈوب جائے گا۔ کیا عوام میں اس قسم کے رویے کا پیدا ہوجانا خطرے سے خالی ہے؟ بعض دفعہ تو ایسی تکلیف دہ صورت حال پیدا ہوجاتی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ الشریعہ اکادمی میں ترجمہ قرآن کریم کی کلاس میں شریک ایک تاجر نے ایک دن مجھ سے سیرت کے موضوع پر کسی ایسی کتاب کے بارے میں استفسار کیا جس میں نبی کریم ﷺ کے شب وروز کے معمولات لکھے ہوں۔ میں نے ان کو عارف باللہ ڈاکٹر عبد الحی عارفی ؒ (خلیفہ مجاز مولانا اشرف علی تھانویؒ ) کی کتاب ’’اسوہ رسول اکرمﷺ‘‘ مطالعہ کے لیے دی۔ وہ صاحب کتاب گھر لے گئے، مطالعہ کیا، اس کے بعد انہوں نے وہ کتاب اپنی مسجد کی تبلیغی جماعت کے امیر صاحب کو دکھائی۔ امیر صاحب اس کتاب کی ورق گردانی کرتے ہی بول اٹھے کہ یہ کیا ظلم ہے، اس کتاب میں آپﷺ کے معمولات میں گشت کا تو کہیں ذکر ہی نہیں۔ پھر خود ہی منصف کا فریضہ انجام دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ مولوی ہی کام خراب کرتے ہیں۔ جب تک یہ صحیح نہیں ہوں گے، کام نہیں بنے گا۔ دیکھو آپﷺ کے معمولات میں گشت کا کہیں ذکر نہیں کیا۔
اس ضمن میں بانی جماعت حضرت مولانا الیاس ؒ کا ایک واقعہ یہاں نقل کرنا چاہوں گا جو شاید ہمارے عمومی رویے کی اصلاح کا سبب بن سکے۔ یہ واقعہ مولانا محمد رفیع عثمانی نے نقل کیا ہے اور اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔ فرماتے ہیں کہ حضرت مولانا الیاس شدید علیل تھے اور میرا بچپن کا زمانہ تھا۔ میرے والد محترم حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ حضرت کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے گئے اور مجھے بھی ساتھ لے لیا۔ اس ملاقات کے موقع پر حضرت مولانا الیاس ؒ نے فرمایا کہ مفتی صاحب، میں تو آپ کا انتظار کررہاتھا۔ میں پریشانی میں مبتلا ہوں اور آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا چاہتاہوں۔ پھر فرمایا کہ دعوت وتبلیغ کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا، وہ وسیع پیمانے پر پھیلتا جارہاہے۔ اس پر میں اللہ سے ڈرتاہوں کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے استدراج تو نہیں (استدراج سے مراد ہے ڈھیل دینا، یعنی اللہ تعالیٰ باطل کو بھی ابتدا میں ڈھیل دے دیتے ہیں) حضرت مفتی محمد شفیع ؒ نے فرمایا، حضرت یہ ڈھیل نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور اعانت ہے۔ مولانا الیاس ؒ نے پوچھا، حضرت مفتی صاحب ! آپ کس بنیا د پر فرمارہے ہیں کہ یہ استدراج نہیں بلکہ اعانت ہے؟ حضرت مفتی صاحب نے فرمایا، حضرت جب باطل کو ڈھیل دی جاتی ہے تو اس کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ اس کے دل میں خوف کا یہ احساس پیدا نہیں ہوتا۔ آپ کے دل میں اس احساس کا پیدا ہوجانا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کام کا وسیع پیمانے پر پھیل جانا استدراج نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت ہے۔ یہ سن کر مولانا الیاس ؒ کا چہرہ کِھل اٹھا۔
دعوت وتبلیغ سے یا کسی بھی دینی شعبہ سے منسلک افراد کی طرف سے جب بھی کوئی غیر معتدل رویہ سامنے آتا ہے تو مجھے مولانا سعید احمد خان صاحب کی شخصیت شدت سے یاد آتی ہے۔ اس رجل مومن نے پوری زندگی دعوت الی اللہ کے عظیم مشن میں کھپا دی۔حرم پاک کو اپنا دعوتی وتبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ پھر اس راہ وفا میں خود ہی نہیں تڑپے اوروں کو بھی تڑپایا اور عمر بھر انسانیت کی اصلاح کے لیے کوشش فرماتے رہے۔ ان کے دو تین واقعات میں یہاں نقل کرنا چاہوں گا۔ شاید یہ واقعات ہمارے دل میں یہ احساس پید اکردیں کہ دین کے سبھی شعبہ جات قابل قدر ہیں اور کسی بھی دینی شعبہ کی ناقدری نہیں کرنی چاہیے۔ مولانا عیسیٰ منصوری حفظہ اللہ اپنے کتابچے ’’مولاناسعید احمد خان شخصیت ،احوال اور دینی خدمات‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’حضرت مولانا کے مزاج میں عجیب جامعیت تھی۔ آپ کسی بھی دینی شعبے کی ناقدری یا اس کی اہمیت کم کرنے کو برداشت نہیں فرماتے تھے۔ فرماتے اگر اخلاص ہو تو دین کا کوئی کام بھی چھوٹا نہیں ہے۔ ساتھیوں کے بیان میں اگر کوئی ایسی بات محسوس فرماتے تو فوراً تنبیہ فرماتے۔ ایک بار ایک مولوی صاحب نے دعوت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے غیر شعوری طور پر علم یا ذکر کے شعبے کا اس طرح ذکر کر دیا جس سے ان کے دعوت سے کم تر ہونے کا پہلو نکل سکتا تھا۔ فوراًبلا کر فرمایا کہ بعض مقررین حضور ﷺ کی سیرت اس طرح بیان کرتے ہیں کہ آپ کے فضائل میں حضرات انبیاء علیہم السلام سے تقابل کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر حضورؐ کی سیرت وفضیلت کے بیان میں کسی بھی نبی میں نقص کا شائبہ بھی پیدا ہوا تو اس کے یہ معنی ہوا کہ نعوذ باللہ ہمارے نبیؐ ناقص نبیوں کے سردار وامام تھے۔ چاہئے کہ ہر نبی کا کمال وفضیلت ثابت کر کے پھر یہ ثابت کریں کہ ہمارے نبی ایسے کاملین اور فضیلت مآب گروہ کے سردار اور امام ہیں۔ اسی طرح بعض مقررین دعوت کی اہمیت اس طرح بیان کرتے ہیں جس سے علم یا ذکر کی تنقیص مترشح ہوتی ہے۔ انہیں چاہئے کہ علم وذکر کی پوری اہمیت وفضیلت بیان کریں پھر کہیں کہ ایسے اوصاف والے لوگ دعوت میں لگیں تو نور علیٰ نور ہو جائے گا۔ دعوت کے کام کے اصل حق دار تو یہی لوگ ہیں۔‘‘
اس واقعے میں نہ صرف جماعت سے وابستہ افراد کے لیے بلکہ ہر دینی شعبہ کے ہر کارکن کے لیے غور وفکر کے بے حد سامان موجود ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر تنقید کو تنقیص ہی سمجھا جاتاہے۔ کیا مجال کہ کوئی ہماری جد وجہد اور دائرہ کار پر کوئی تنقید ی رائے دے یا اس کی کوئی خامی بتائے۔ یہ رویہ ہرگز درست نہیں۔ ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے جون ۲۰۰۶ء کے شمارے میں سید جمال الدین وقار صاحب کے مضمون ’’تبلیغی جماعت اوردین کا معاشرتی پہلو‘‘ کا شائع ہونا تھا کہ مختلف حلقوں میں چہ میگوئیوں شروع ہو گئیں اور مختلف احباب نے اپنی اپنی ذہنی سطح کے مطابق اس پر تبصرہ کیا۔ تبلیغی مرکز گوجرانوالہ سے جماعت سے وابستہ دو عالم دین میرے پاس تشریف لائے اور گوجرانوالہ کے تبلیغی مرکز میں علما کے جوڑ میں شرکت کی دعوت دی جسے راقم الحروف نے اپنی سعادت سمجھتے ہوئے قبول کر لیا۔ بعد ازاں مذکورہ مضمون کے حوالے سے بحث چل پڑی اور خاصی طول پکڑ گئی۔ دونوں احباب نے اس سلسلے میں ’الشریعہ‘ کا موقف دریافت کیا تو میں نے عرض کیا کہ ماہنامہ ’الشریعہ‘ ایک فورم ہے جہاں مختلف اصحاب فکرو دانش اپنی اپنی آرا وافکار کا اظہار کرتے ہیں، چنانچہ یہ ضروری نہیں کہ الشریعہ میں شائع ہونے والی ہر تحریر سے ادارہ متفق ہو، اسی لیے ان آرا وافکار پر جو تنقیدی مضامین اور آرا موصول ہوتی ہیں، ان کو بھی من وعن شائع کردیا جاتاہے ۔ ضروری نہیں کہ ہر تنقید حقیقت پر ہی مبنی ہو، مگر یہ تو ایک حقیقت ہے کہ تنقیدی آرا کسی بھی کام اور جدوجہد کی کوتاہیوں کا جائزہ لینے اور بہتر منصوبہ بندی کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ 
مولانا منصوری نے اپنے مندرجہ بالا کتابچہ میں ہی حسب ذیل واقعہ نقل کیا ہے:
’’حضرت مولانا کی تواضع اور کسرِ نفسی کا یہ عالم تھا کہ چھوٹے سے چھوٹے آدمی کی تنقید بھی قبول فرماتے۔ اس دو رمیں یہ چیز بالکل نایاب ہو گئی ہے۔ چند سال پہلے کی بات ہے، لندن تبلیغی مرکز کے خصوصی کمرے میں بندہ ملاقات کے لیے پہنچا۔ دیکھا مولانا کی پاکستانی جماعت کے رفقا اورانگلینڈ کے متعدد اہل شوریٰ تشریف فرما ہیں اور کوئی چیز پڑھی جا رہی ہے۔ سنا تو پتہ چلا کہ کسی بیاض (کاپی) میں سے مبشرات پڑھے جا رہے ہیں یعنی کسی جماعت نے حضور اکرم ﷺ کی خواب میں زیارت کی۔ خواب میں حضرت مولانا کو حضور کے ہمراہ دیکھا وغیرہ وغیرہ۔ چند منٹ بعد بندہ نے عرض کیا حضرت آپ کی مجلس میں اس طرح مبشرات سننا سنانا مناسب نہیں۔ آپ یہ مبشرات بعض بزرگوں کے لیے خلفا کے لیے چھوڑ دیں۔ یہ بزرگ الٹے سیدھے خواب دیکھتے ہیں اور انہیں چھاپ کریہاں ہمیں ابتلا میں ڈالتے ہیں۔ سنا ہے حضرت مولانا الیاسؒ نے دعا مانگی تھی اے اللہ ہمارے اس کام کو مبشرات اور کرامات پہ مت چلانا۔ یہ سننا تھا کہ اسی وقت حضرت مولانا نے بیاض بند کر دی۔ فرمایا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان مبشرات سے دل کو تقویت پہنچتی ہے مگر یہ پہلو بھی قابل لحاظ ہے بلکہ زیادہ اہم ہے۔ اس سے کئی فتنے پیدا ہو سکتے ہیں اس لیے عمومی طور پر مبشرات کے سننے سنانے سے احتیاط کرنی چاہئے۔ 
اسی طرح ایک بار انگلینڈ کے سالانہ اجتماع کے اختتام پر ڈیوزبری میں مختلف شہروں کی مساجد والی جماعتوں (روزانہ ڈھائی گھنٹے فارغ کرنے والے) احباب جمع تھے۔ ان میں حضرت مولانا نے بیان شروع فرمایا۔ کچھ دیر کے بعد فرمایا ہمیں اپنی قربانی کی مقدار کو بڑھانا چاہئے۔ روزانہ اڑھائی گھنٹے سے بڑھا کر آٹھ گھنٹے فارغ کرنے چاہئیں۔ بندہ بیان کے درمیان بول پڑا، حضرت یہ آ پ رہبانیت کی دعوت دے رہے ہیں۔ اگر ایک شخص روزانہ آٹھ گھنٹے فارغ کر لے، اس کے ساتھ عصر سے اشراق تک جمعرات کا اجتماع، مہینے کے تین دن، سال کا چلہ، جماعتوں کی نصرت یہ سب ملا کر نصف سے زیادہ ہو جاتا ہے اور یہ رہبانیت ہے۔ ہم میں سے ہر شخص اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچے اگر یہ واقعہ ہمارے ساتھ بھرے مجمع میں پیش آتا تو ہمارا کیا رد عمل ہوتا؟ بندہ کم از کم اپنی بابت کہہ سکتا ہے کہ میرا نفس تو اسے برداشت نہ کرتا۔ نہ جانے کیا کہہ دیتا۔ مگر حضرت مولانا نے مجھ جیسے معمولی طالب علم کی بات توجہ سے سنی اور قبول فرمائی۔ بعد میں مجھے اپنی اس حماقت پر سخت ندامت وافسوس ہوا کہ مجھے یہ اشکال تنہائی میں عرض کرنا چاہئے تھے مگر واہ مولانا سعید احمد خان، کیا بے نفسی کی انتہا ہے کہ پورے سکون وبشاشت سے اشکال سن رہے ہیں اور قبول فرما رہے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ کیا مولانا کے بعد اس کی مثال مل سکے گی؟
؂اس کوہ کن کی بات گئی کوہ کن کے ساتھ‘‘
راقم الحروف باربار یہ سوچتا ہے کہ ہم ایسے معتدل رویے پر قائم کیوں نہیں رہتے اور غلو کا شکار کیوں ہوجاتے ہیں؟ ہمارا رویہ تو یہ ہونا چاہیے کہ دین کے کسی بھی شعبے میں کام کرنے والا کارکن اپنے دائرے میں کام کرتے ہوئے دین کے دوسرے شعبہ جات میں کی جانے والی محنت کی حوصلہ افزائی کرتارہے اور حتی الوسع اس میں حصہ ڈالنے کی کوشش کرے۔ امید اور خوف کے ساتھ اپنے کام میں مگن رہے اور کوئی بھی اپنی مقبولیت کا یقینی دعویٰ نہ کرے اس لیے کہ مقبولیت کا یقینی دعویٰ اس جہان میں کیا ہی نہیں جاسکتا۔ یہ دار العمل ہے اور یہاں کے اعمال کا نتیجہ آخرت میں ظاہر ہوگا جو دار الجزا ہے۔ 

معاصر تہذیبی تناظر میں مسلم علمی روایت کی تجدید

پروفیسر میاں انعام الرحمن

مسلم دانش وروں کے علاوہ غیر مسلم اہلِ قلم کے ہاں بھی آج کی مسلم دنیا کی سیاسی و معاشی میدانوں میں پس ماندگی اور زبوں حالی دلچسپی کا باعث اور موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ لیکن ایسے صائب الرائے افراد انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جو مسلم دنیا کی سیاسی و معاشی پس ماندگی کے اسباب تلاش کرتے کرتے اس کے تہذیبی انحطاط تک جا پہنچیں ۔اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ سوشلزم کے زوال کے بعد مغربی دانش وروں کے ایک مخصوص حلقے نے پچھلے تقریباََ ایک عشرے سے اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کے تصادم کا نظریہ گھڑ کر ایک طرف مسلم دنیا کی سیاسی و معاشی پس ماندگی کی ان وجوہات کو چھپانے کی کوشش کی ہے جن کے ڈانڈے مغربی استحصالی رویے میں پیوست ہیں اور دوسری طرف مسلم دنیا میں داخلی اعتبار سے ایسے منفی رویے کی آبیاری کی ہے جس کی وجہ سے مسلم دنیا اپنے تہذیبی زوال سے آگاہ ہونے اور اس کی وجوہات تلاش کرنے کے بجائے تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ اپنا کر انتہائی کھوکھلے انداز میں مغرب کے مقابل آ کھڑی ہوئی ہے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تہذیب اساسی اعتبار سے، دنیا کی کسی بھی تہذیب سے زیادہ بہتر انداز میں ،ایک خاص علمی روایت پر استوار ہے ۔ اس لیے اسلامی تہذیب کی موجودہ صورتِ حال کے صحیح اور کماحقہ ادراک کی کوئی بھی کوشش مسلم علمی روایت کے عمیق جائزے کے بغیر نامکمل اور ادھوری ہی سمجھی جا سکتی ہے ۔ لیکن تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ ، جس کے اثبات کے لیے اب واقعاتی شواہد پیدا کیے جا رہے ہیں ، مسلم علمی روایت کے بے لاگ اور غیر جانبدارانہ تجزیے کے بجائے جانبدارانہ اور ردِ عمل پر مبنی ایسا تہذیبی رویہ پروان چڑھا رہا ہے جو کئی پہلوؤں سے اسلامی علمی روایت سے مغایرت alienation کا حامل ہے ۔ درج ذیل سطور میں ہم اسلامی علمی روایت کی روشنی میں مسلم علمی روایت کا تنقیدی جائزہ لیں گے تاکہ امت کے تہذیبی زوال کی اساس کسی حد تک سامنے آ سکے ۔
مسلم علمی روایت کے تنقیدی مطالعے سے قبل اسلامی علمی روایت کا تعین ناگزیر اور ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ اسلامی علمی روایت دو ستونوں پر استوار ہے۔ ان میں سے ایک ستون قرآن مجید اور دوسرا ستون سنتِ رسول اللہ ﷺ ہے ۔ ان دو ستونوں کے علاوہ دیگر ایسے عناصر، جو بنیادی طور پر تاریخی آثار اور قرآن و سنت کی تعبیرات سے عبارت ہیں، اپنی نوعیت میں اساسی نہیں بلکہ اضافی ہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اضافی عناصر اہمیت و افادیت کے اعتبار سے لائقِ اعتنا نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ قرآن و سنت جب سماجی سطح پر آکر ایک منفرد تہذیب کی تشکیل وشناخت میں اساسی کردار ادا کرتے ہیں تو اپنی نوعیت میں اساسی سطح سے اتر کر اضافی سطح پر آ جاتے ہیں ، کیونکہ سماج میں ان کا اثرو نفوذ بعینہٖ نہیں ہو سکتا بلکہ تعبیر و تشریح کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے ۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اسلامی تہذیب اپنے عملی احوال میں قرآن سنت کا نعم البدل نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس تہذیب کی عمارت براہ راست قرآن و سنت ( اسلامی علمی روایت ) پر استوار نہیں ہوتی، بلکہ اس کی تعبیر و تشریح ( مسلم علمی روایت ) پر قائم ہوتی ہے۔ چونکہ قرآن و سنت کی تعبیر، اضافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خاص زمانے اور ایک خاص سماج میں ظہور پذیر ہوتی ہے اس لیے وہ اس مخصوص زمانے اور مخصوص سماج کی سیاسی ، معاشی ، عسکری اور نفسیاتی ضروریات کو بطریقِ احسن پورا کرتی ہے ۔زمانی ارتقا اور مکانی تبدیلیوں کے فطری عوامل کے باعث ، مسلم علمی روایت (قرآن و سنت کی تعبیر ) کو اسلامی علمی روایت ( قرآن و سنت ) کے ساتھ ایک مسلسل اور زندہ تعلق قائم رکھنا پڑتا ہے تاکہ زمانی ارتقا اور مکانی تبدیلیوں کے بوجھ تلے دب کر مسلم علمی روایت خلط ملط نہ ہو سکے اور مسلم تہذیب کا ارتقا، مسلم علمی روایت کے ارتقا کی بنیاد پر جاری و ساری رہ سکے ۔ لیکن اگر مسلم علمی روایت ( قرآن و سنت کی تعبیر ) ، اسلامی علمی روایت (قرآن و سنت) سے اپنا زندہ ربط و تعلق منقطع کر لے ، تو وہ نہ صرف داخلی لحاظ سے بے روح ہو جاتی ہے بلکہ آہستہ آہستہ اسلامی علمی روایت کی قائم مقام بن جاتی ہے اورپھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ، مسلم علمی روایت کو اسلامی علمی روایت کی روشنی میں مسلسل پرکھنے اور ارتقا پذیر رکھنے کے بجائے اساسی تسلیم کر لیا جاتا ہے ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ اسلامی تہذیب، کسی خاص زمانے کی تعبیر و تشریح کو قرآن و سنت کے مساوی و متوازی کھڑا کر کے ، اسلامی علمی روایت سے زندہ تعلق کھو بیٹھتی ہے اور زوال پذیر ہو جاتی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ آج کی اسلامی تہذیب ، اگرچہ مسلم علمی روایت پر قائم ہے لیکن یہ روایت ، اسلامی علمی روایت سے روگردانی کے باعث ، زمانی ارتقا اور مکانی تبدیلیوں کا ساتھ نہیں دے سکی ، اور المیہ تو یہ ہے کہ یہ مردہ روایت ، اسلامی علمی روایت کی قائم مقام بن چکی ہے ۔ اب اگر کوئی فرد اسلامی علمی روایت سے زندہ تعلق قائم کرنے کی بات کرتا ہے تو اس کی کوشش کو فکری انتشار پھیلانے کا الزام دیا جاتا ہے ۔ 

قرآن مجید کی ترتیب سے استشہاد

نبی خاتم ﷺ کی بعثت سے لے کر آپ ﷺ کے وصال تک کے زمانے میں اسلامی علمی روایت اور مسلم علمی روایت کے درمیان مذکورہ فرق دکھائی نہیں دیتا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید نازل ہو رہا تھا اور چونکہ قرآن مجید ایک ہی وقت میں نازل نہیں ہوا بلکہ تقریباََ ۲۳برس کے عرصہ میں درجہ بدرجہ نازل ہوا ، اس لیے مسلم سماج کا قرآن مجید کی نزولی ترتیب کے ساتھ براہ راست زندہ تعلق موجود تھا ۔ یہی بات سنت رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے بھی ہے کیونکہ آپ ﷺ اس سماج میں خود موجود تھے ۔ اس طرح کہ عہدِ نبوی ﷺ کی اسلامی تہذیب نہ صرف اسلامی علمی روایت پر قائم تھی بلکہ اس کا اس روایت کے ساتھ زندہ تعلق بھی موجود تھا ۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ نبی خاتم ﷺ نے وصال سے کچھ عرصہ قبل جبریل ؑ کے ساتھ قرآن مجید کا جو دور کیا ، اس میں قرآن مجید کی ترتیب، نزولی ترتیب سے مختلف ہے ۔( اس ترتیب کو ہم آئندہ سطروں میں ’’ حتمی ترتیب ‘‘ کا نام دیں گے ) ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن مجید کی آیات وہی ہیں جو درجہ بدرجہ نبی خاتم ﷺ پر نازل ہوئیں تو پھر ان کی ترتیب بدلنے میں آخر کیا حکمت پنہاں ہے؟ آخر نزولی ترتیب کو ہی برقرار کیوں نہیں رکھا گیا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سوال کا جواب ، اسلامی علمی روایت اور مسلم علمی روایت کے درمیان فرق کی نشاندہی کرتا ہے ۔ 
اگر قرآن مجید کی نزولی ترتیب کو مدِ نظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ :
(۱) قرآنی احکامات ارتقائی مراحل سے گزرے ہیں ۔
(۲) تمام آیات کسی خاص پس منظر میں نازل ہوئی ہیں، اس لیے خاص سیاق کی حامل ہیں ۔
(۳) نزولِ آیات کا خاص سیاق ، ایک مخصوص زمانے، مخصوص علاقے، مخصوص عوامل اور مخصوص ثقافت کے ارد گرد ہی گھومتا ہے ۔
اگر نزولی ترتیب کے بجائے حتمی ترتیب کو مدِ نظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ :
(۱) قرآنی احکامات میں ارتقا کا عنصر کلیدی نہیں ہے بلکہ امدادی ہے ۔
(۲) آیات کا خاص سیاق بھی امدادی ہے ، کلیدی نہیں ہے ۔ خاص سیاق سے ہٹ کر بھی آیات کی تفہیم ممکن ہے ۔ 
(۳) خاص سیاق ، ایک مخصوص زمانے مخصوص علاقے مخصوص عوامل اور مخصوص ثقافت کے ارد گرد ہی گھومتا ہے، اس لیے اس کے اثبات کے لیے نزولی ترتیب ناگزیر ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ قرآن مجید ، نبی خاتم ﷺ کے زمانے سے نزولی ترتیب کے بجائے حتمی ترتیب کے مطابق تلاوت کیا جاتا ہے ، اس لیے خاص سیاق اور اس کے لوازمات بے اصل ہو جاتے ہیں ۔ 
(۴) قرآن مجید کی حتمی ترتیب جہاں اس طرف واضح اشارہ کرتی ہے کہ نزولی ترتیب اور اس کے متعلقات کی حیثیت امدادی ، اضافی اور تاریخی عناصر کی ہے ، وہاں دوسری طرف اس امر پر بھی شاہد ہے کہ کسی بھی خاص زمانے، خاص علاقے، خاص عوامل اور خاص ثقافت کے تناظر میں فہمِ قرآن کی کوشش اگرچہ درست ہے ، لیکن حتمی نہیں ہے ۔ حتمی حیثیت صرف قرآن مجید کی حتمی ترتیب کے متن کی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نبی خاتم ﷺ نے الہیاتی حکمت کے مطابق ، قرآن مجید کو نزولی ترتیب کے بجائے حتمی ترتیب میں اس لیے ڈھالا تاکہ نزولی ترتیب کے ساتھ منسلک علائق قرآن مجید کی آفاقیت اور معنویت کو محدود نہ کر سکیں ۔یہیں سے اسلامی علمی روایت( قرآن و سنت ) اور مسلم علمی روایت( قرآن و سنت کی تعبیر ) میں فرق بھی واضح ہو جاتا ہے ۔ آپ ﷺ کے عہد میں چونکہ قرآن خاص سیاق میں نازل ہوا تھا اور وہ سیاق، خاص زمانی و مکانی اور ثقافتی تقاضوں سے عبارت تھا ، اس لیے قرآنی آیات کو مخصوص زمان و مکان اورمخصوص ثقافت سے مبرا کر نے کے لیے آپ ﷺ نے خدائی حکم کے مطابق قرآن مجید کو حتمی ترتیب دی ۔ اس طرح قرآن مجید کے لیے ممکن ہو سکا کہ وہ نزول آیات کے خاص سیاق سے بالاتر ہوکر زمان و مکان کے تسلسل اور ثقافتی متغیرات پر غالب ہوسکے ۔ افسوس ! ہم مسلمان حکمتِ نبوی ﷺ کے برعکس ،( دورِ نبوی ﷺ تو کجا ) دورِ نبوی ﷺ کے بعد کے علائق کوبھی ، جن کی حیثیت اب سراسر تاریخی آثار کی ہے ، قرآن مجید کی حتمی ترتیب کے متن کے حتمی فہم کا مقام دیے بیٹھے ہیں ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ ہم لوگ مسلم علمی روایت ( قرآن و سنت کی تعبیر ) اور اسلامی علمی روایت ( قرآن و سنت ) کے درمیان فرق کرنے کے روادار نہیں ہیں ۔ یہی عدم رواداری ہمارے تہذیبی زوال کا بنیادی سبب ہے ، کیونکہ ہم لوگ خاص زمانے خاص علاقے اور خاص ثقافتی متغیرات سے چمٹے ہوئے ہیں، حالانکہ زمانہ بدل چکا ہے اسلام نئے خطوں میں قدم رکھ رہا ہے جس سے ثقافتی تنوع کی نئی نئی جہتیں سامنے آ رہی ہیں ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم علمی روایت ( قرآن و سنت کی وہ تعبیر جو معاصر سماجی و ثقافتی تقاضوں سے لگا نہیں کھاتی ) پر استوار تہذیب سے چمٹے رہنے اور اسے ہی اسلامی قرار دینے کے بجائے اسلامی علمی روایت ( قرآن و سنت ) سے زندہ تعلق قائم کیا جائے ، تب ہی ہم معاصر تقاضوں کے مطابق مسلم علمی روایت کی تشکیلِ نو کرکے صحیح معنوں میں تہذیبی بیداری کی راہ ہموار کر سکتے ہیں ۔ اگر ہم مسلم علمی روایت کو اسلامی روایت سمجھنے پر مصر رہے تو یاد رکھنا چاہیے کہ مسلم علمی روایت( اپنے مخصوص پس منظر کے باعث ) ہر زمانے ہر علاقے اور ہر ثقافت کے تقاضوں سے نبھا نہیں کر سکتی۔ نتیجے کے طور پر ( مسلم علمی روایت کے بجائے ) اسلامی علمی روایت کو ہی فرسودہ اور دقیانوسی قرار دے کر مسترد کر دیا جائے گا ۔ 

فہمِ قرآن میں حتمی ترتیب کی اہمیت 

فہمِ قرآن کے لیے مسلمانوں نے جن علوم و فنون کی داغ بیل ڈالی ، ان میں سرِ فہرست تفسیر نویسی ہے ۔ نبی خاتم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے ادوار میں تفسیر نویسی کی ایسی مثال نہیں ملتی ، جو ہمارے ہاں رائج ہو چکی ہے ۔ اگرچہ بعض قرآنی آیات کی معنویت کی بابت اکابر صحابہؓ کی آرا موجود ہیں ، لیکن یہ آراء جزوی اور بکھری ہوئی ہیں ، ان میں قرآنی آیات کی درجہ بدرجہ تشریح و توضیح اس انداز میں نہیں کی گئی ، جس طرح آجکل کے مفسرین کرتے ہیں ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے قرآن مجید کی تفسیر بالرائے یا تفسیر بالروایت کی طرف توجہ کیوں نہیں دی ؟ حالانکہ تفسیر بالروایت کرنے کی صورت میں انھیں سنت و احادیث تک براہ راست رسائی کی سہولت حاصل تھی ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے قرآن کی تفسیر کرنے سے عمداََ احتراز کیا ، کیونکہ آنے والے ا دوار میں ایک تو ان کی تفسیر کو قرآنی متن کے متوازی سمجھنے کا احتمال موجود تھا ، دوسرا تفسیر نویسی اصولاََ ممکن ہی نہیں تھی ۔ 
دوسرے نکتے کی وضاحت یہاں ضروری معلوم ہوتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر قرآن مجید کی فقط نزولی ترتیب ہی رائج ہوتی تو تفسیر نویسی ممکن اور سہل کام تھا ، کیونکہ قرآن مجید مسلم سماج کی تشکیل و ارتقا کے ساتھ ساتھ بتدریج نازل ہو رہا تھا ، اس لیے نزولی ترتیب میں وہ خاص نظم تلاش کیا جا سکتا تھا جو تفسیر نویسی کا انتہائی ناگزیر لازمہ ہے ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی حتمی ترتیب میں ایسا نظم نہیں پایا جا تا، جس کے پیچھے کسی زندہ سماج کی تشکیل و ارتقا کارفرما ہو اور حتمی ترتیب میں ایسے نظم کی غیر موجودگی ، قرآن کی کسی بھی ایسی تشریح کوعملاً غیر ممکن بنا دیتی ہے جو محض اس کے نزول کے سیاق میں ترتیب وار کی گئی ہو۔ اس لیے اول تو ایسے مذہبی حلقوں کی کوششیں جو قرآن مجید کی حتمی ترتیب کے متن کی تفسیر ’’ نظم ‘‘ میں کرنے کا خواہش مند ہے ، کافی عجیب و غریب اور بے اصل معلوم ہوتی ہیں۔ دوم ، ایسے مذہبی حلقے جوکسی نظم کی غیر موجودگی کے اعتراف کے باوجود تفسیر نویسی پر خواہ مخواہ تلے ہوئے ہیں ، اسلامی علمی روایت کی اساس سے ناواقف معلوم ہوتے ہیں ۔ مثلاً، قصہ آدم و ابلیس کو ہی لیجیے ۔ یہ قصہ کسی نظم کے بغیر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر بکھرا ہوا ہے ، اس کی تفسیر کرتے ہوئے اگر سورۃ بقرہ کی آیات کو ہی مدِ نظر رکھا جائے گا تو اس واقعے کے بہت سے پہلو نگاہوں سے اوجھل رہنے کے باعث خدائی منشا واضح نہیں ہو سکے گی اور اگر سورۃ بقرہ میں ہی رہتے ہوئے دیگر قرآنی مقامات سے اس واقعے کے متعلقات سے استفادہ کیا جائے گا تو پھر قرآن مجید کی ترتیب وار تفسیر کا جواز باقی نہیں رہتا ۔ اس مثال کے علاوہ دیگر قرآنی موضوعات پر نظر دوڑائیے ، اسی قسم کی صورتِ حال سے واسطہ پڑے گا ۔ 
ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کی نزولی ترتیب کے بجائے حتمی ترتیب بنفسہٖ اور اس کی ساخت و نوعیت ، اس امر پر شاہد ہیں کہ قرآن مجید میں نظم کے بجائے وحدت کا عامل کارفرما ہے ۔ قرآن مجید کا یہ وحدتی رجحان ، قرآنی آیات کو مختلف زاویوں سے ایک لڑی میں ضرور پروتا ہے لیکن انھیں ارتقائی نظم سے بہرہ مند ہر گز نہیں کرتا ۔قرآن مجید کی حتمی ترتیب ، اپنے موضوعاتی بکھراؤ کے سبب ، ایک ہی موضوع کو ارتقائی انداز میں دیکھنے کے بجائے ایسے وحدتی رخ میں دیکھنے کا بنیادی سامان فراہم کرتی ہے جس میں کسی زمانے، کسی علاقے اور کسی ثقافت کی مقتضیات کو بآسانی سمویا جا سکتا ہے ۔ اس لیے قرآن مجید سے جو قرآنی نظامِ فکر اخذ کیا جا سکتا ہے ، ضروری نہیں کہ وہ ہر زمانے ، ہر علاقے اور ہر ثقافت میں یکساں اور یک رنگ ہی ہو ، بلکہ یہ ایک ہی زمانے ایک ہی علاقے اور ایک ہی ثقافت میں بھی مختلف اور امتیازی نوعیت کا ہو سکتا ہے ۔ 
خیال رہے کہ قرآن مجید کا وحدتی رجحان کوئی نیا مظہر نہیں ہے ، بلکہ قرآن مجید کے نزول کے ساتھ ہی اس کا وحدتی رجحان بھی واضح ہوتا گیا ۔ ایسا ہر گز نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی موضوع کے متعلق تمام احکامات بتدریج نازل کر دیے اور ان کے درمیان کسی دوسرے موضوع کے متعلق کوئی آیت نہ اتاری ۔مثال کے طور پر یہ نہیں ہوا کہ سب سے پہلے نماز کے متعلق تمام آیات نازل کر دی گئیں ، اس کے بعد جہاد کے متعلق اور پھر اس کے بعد سود ( وغیرہ ) کے متعلق تمام احکامات دے دیے گئے، بلکہ ایسا ہوا کہ ایک موضوع کے متعلق حکم کے بعد کسی دوسرے موضوع کے متعلق آیات نازل کی گئیں، اس طرح ایک ہی موضوع کے متعلق احکام ، دیگر موضوعات کے متوازی ، ارتقائی منازل طے کرتے رہے ۔ موضوعاتی احکامات کی اس ترتیب سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کسی سماج کی تشکیل ، تبدیلی اور ارتقا کے پیچھے کوئی ایک عامل کارفرما نہیں ہوتا ، بلکہ کئی عوامل بیک وقت اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔ اس لیے قرآن مجید کے نزول کے وقت بھی کسی ایک عامل کے متعلق تمام احکام کے بجائے مختلف النوع عوامل کے متعلق متفرق احکامات نازل ہوتے رہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نزولِ قرآن کے وقت موضوعاتی ارتقا کی مذکورہ ترتیب ، قرآن مجید کے وحدتی رجحان پر دال ہے ۔ یہی وحدتی رجحان ، قرآن مجید کی حتمی ترتیب میں بھی جھلملا رہا ہے ۔ 
جس مذہبی حلقے کے نزدیک قرآن مجید کی حتمی ترتیب میں’’ نظم ‘‘موجود ہے اس کے مطابق اسی نظم کو ملحوظ رکھتے ہوئے قرآن مجید کا فہم ممکن ہے اور اس سے اصول بھی اخذ کیے جا سکتے ہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن مجید کی حتمی ترتیب کے نظم سے ایسے اصول اخذ کیے جا سکتے ہیں جو کسی سماج ( بلکہ ہر سماج ) کے تقاضوں کو نبھانے پر قادر ہوں تو پھر قرآن مجید اسی ترتیب سے نازل کیوں نہیں کیا گیا ؟ آخر قرآن مجید کی حتمی ترتیب میں ایسا کون سا عجیب و غریب نظم پنہاں ہے جو ہر دور کے لیے اصول اخذ کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے لیکن عہدِ نبوی ﷺ میں یہ ایسے اصول فراہم کرنے سے قاصر تھا ؟ اور اسی لیے نزولی ترتیب اور حتمی ترتیب میں فرق روا رکھا گیا ؟حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کی حتمی ترتیب میں اول تو ایسا نظم موجود ہی نہیں ،( نزولی ترتیب میں ایسا نظم موجود ہے، کیونکہ اس کے پیچھے ایک زندہ سماج موجود تھا ) ، لیکن ایسا نظم اگر طوعاً و کرہاً ، حتمی ترتیب سے منسوب بھی کر دیا جائے تب بھی اس نظم سے ایسے اصول اخذ نہیں کیے جاسکتے جو ایک زندہ سماج کے تقاضوں سے نمٹنے پر قادر ہوں ۔ درحقیقت کسی زندہ سماج کے تناظر میں ہی نظم تشکیل پاتا ہے اور زندہ سماج کہیں پڑاؤ نہیں ڈالتا ، بلکہ اس کا سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے ۔ اس لیے ایک مستقل سماجی تقاضے کے پیشِ نظر ، نزولی ترتیب میں موجود نظم کو تغیر آشنا کرنے کے لیے قرآن مجید کی حتمی ترتیب کا اجرا کیا گیا ۔ 

قرآن مجید کی موضوعاتی اور حتمی ترتیب 

بعض اہلِ علم نے فہمِ قرآن کے سلسلے میں قرآن مجید کو موضوع وار ترتیب دیا ہے۔ اگرچہ ایسے طریقہ کار کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ، لیکن اس سے قرآن مجید کی حتمی ترتیب کی حکمت کا مکمل احاطہ نہیں ہوتا ۔یہاں یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب عہدِ نبوی ﷺ میں قرآن مجید کی نزولی ترتیب کے بجائے حتمی ترتیب کو اپنایا گیا تو اسے موضوعاتی اعتبار سے ترتیب کیوں نہ دیا گیا ؟ آخر موضوعاتی بکھراؤ میں اللہ رب العزت نے کیا حکمت رکھی ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ :
(۱) قرآنی موضوعات کا انتخاب بنفسہٖ کسی شخص، کسی ادارے، کسی زمانے، کسی علاقے، کسی ثقافت یا دیگر عوامل سے اثر پذیر ہونے کے سبب ، حتمی کے بجائے اضافی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ یوں ، موضوعاتی بکھراؤ ، موضوعاتی چناؤ کے لحاظ سے تنوع کا باعث بنتا ہے ، یہ تنوع قرآنی امکانات کا اشاریہ بن کر قرآن کے آفاقی پہلوؤں کا گواہ بن جاتا ہے ۔ 
(۲) اگر قرآن مجید کی حتمی ترتیب کے بجائے موضوعاتی ترتیب ہوتی ، تو قاری کسی موضوع کی تلاوت کرکے اسی موضوع کے سیاق میں قرآنی حکمت دریافت کرنے کی کوشش کرتا ۔ ایسی کوشش پورے قرآنی سیاق سے محرومی کے باعث ، قرآنی منشا تک رسائی کے تقاضوں سے عہدہ برآ نہ ہو سکتی ۔ لیکن قرآن مجید کی حتمی ترتیب میں ایک ہی موضوع سے متعلق آیات کے درمیان والی آیات موضوع کے مکمل ادراک کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے وحدتی رجحان کو موضوع میں سمونے کا سبب بنتی ہیں ۔ یہ وحدتی رجحان ، ایک موضوع کا دیگر موضوعات سے ربط و تعلق قائم کرکے فہمِ قرآن کا بنیادی تقاضا پورا کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر جہاد و قتال سے متعلق آیات کو اگر کتاب الجہاد کے عنوان سے ایک الگ باب میں جمع کر دیا جائے اور فقط انھی آیات کو پیشِ نظر رکھ کر جہاد وقتال کے متعلق احکام اخذ کیے جائیں تو پورے قرآنی سیاق سے غفلت کے باعث بھٹکنے کا احتمال موجود رہے گا ،کیونکہ قرآن مجید کا وحدتی رجحان ایسی تخصیص کی نفی کرتا ہے ۔ لیکن بر عکس صورت میں جہادوقتال کے قرآنی احکامات ان تمام پہلوؤں سمیت سامنے آ سکیں گے جس حد تک بشر ی استعداد میں ممکن ہے ۔

فقہ اور قرآن مجید کی حتمی ترتیب 

اگر قرآن مجید کی حتمی ترتیب کی حکمت کو ذہن میں رکھتے ہوئے فقہ کی مسلم روایت پر نظر ڈالی جائے تو کئی سوالات پیداہوتے ہیں ۔ جیسا کہ ہم نے اوپر کی سطروں میں واضح کیا، نزولی ترتیب کے بجائے حتمی ترتیب کا اجرا ، قرآن کو نزولِ قرآن کے خاص سیاق سے الگ کرنے کی علامت بنتا ہے اور یہ کہ وہ خاص سیاق ، ایک خاص ثقافت خاص علاقے اور خاص زمانے کے ارد گرد گھومتا ہے ۔ اگر فقہ ، قرآن و سنت کے ایسے فہم پر موقوف ہے جس کی بنت و بافت اسی زمین پر ایک خاص علاقے ایک خاص زمانے اور ایک خاص ثقافت میں ہوئی ہے تو پھر کسی خاص زمانے، خاص علاقے اور خاص ثقافت کی فقہ ، ہر زمانے، ہر علاقے اور ہر ثقافت کے تقاضوں کو کیونکر محیط ہو سکتی ہے ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ فقہ کسی خاص ثقافتی سیاق میں ہی ترتیب پاتی ہے۔ چونکہ یہ خاص ثقافتی سیاق ، اپنی اصل میں اضافی ہے ، اس لیے فقہ بھی اضافی ٹھہرتی ہے ۔ جہاں تک قرآن و سنت کا تعلق ہے، وہ اپنی جگہ پر بطور اسلامی علمی روایت مستقلاً موجود رہتے ہیں ، صرف ان کا خاص ثقافتی فہم ہی مرورِ ایام کے ساتھ ، امدادی اور اضافی ہوتا چلا جاتا ہے ، اگرچہ کسی خاص وقت تک سماجی تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے باعث یہ خاص ثقافتی فہم ، قرآن و سنت کی تعبیر بن کر تہذیب اسلامی کی شناخت بنتا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ آئمہ اربعہ کی خدمات اسی دائرے میں آتی ہیں ۔ 
اگر ائمہ اربعہ کی خدمات کی انسانی محدودیتوں کو نظر انداز کر دیا جائے جائے اور اصرار کیا جائے کہ ان کے اخذ کردہ اصول، قرآن و سنت کی تعبیر اور ان کی فقہی آرا حتمی ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آئمہ اربعہ نے قرآن و سنت کی ایسی ’’اصولی اور معروضی تعبیر ‘‘ کر دی ہے جس کی معنویت قرآن و سنت کے متوازی ، ان کے امکانات پر محیط اور ہمیشگی کی حامل ہو؟ اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ دور جس میں فقہ ترتیب دی گئی ، دورِ نبوی ﷺ سے زیادہ اہم اور مقدس ہے ، کیونکہ ایسی ہی کسی حتمی تعبیر سے گریز کی خاطر قرآن کو اس کے نزول کے خاص سیاق سے الگ کیا گیا تھا ۔ اگر مذکورہ سوال کا جواب نفی میں ہے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ آئمہ اربعہ بشر تھے ، سماج میں رہتے تھے اور ان کی ذہنی ساخت کی تشکیل میں ان کے ہم عصر مخصوص ثقافتی ماحول کا بہت عمل دخل تھا ۔ اس لیے ان کی تعبیروتشریح ، ان کے زمانے علاقے اور خاص ثقافت کی انعکاس ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک خاص دور میں ائمہ اربعہ کی سماجی مقبولیت خود اس بات کی آئینہ دار ہے کہ ائمہ اربعہ سماجی مقتضیات سے بخوبی آگاہ تھے ، اپنے وقت کے زمانی احوال اور ثقافتی متغیرات پر ان کی گہری نظر تھی ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ائمہ اربعہ سماجی تقاضوں سے مکمل غافل رہ کر ایسی فقہ ترتیب نہیں دے سکتے تھے جو اسلامی علمی روایت کی زندہ علامت بن کر تہذیبِ اسلامی کے تسلسل کو برقرار رکھ سکتی ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب فقہ کی مسلم روایت ، اپنے مخصوص ثقافتی سیاق کے باعث ، اسلامی علمی روایت کی نمائندگی کے منصب سے دستبردار ہو کر اضافی سطح پر آچکی ہے اور اپنی عملی افادیت کھو بیٹھی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے ماحول کا گہرا مطالعہ کیا جائے اور ماضی کی فقہی روایت کو امدادی حیثیت میں لیتے ہوئے قرآن و سنت کی تعبیروتشریح آج کے ثقافتی متغیرات اور سماجی مقتضیات کے تناظر میں کی جائے کہ ایسی زندہ علمی روایت ہی تہذیبِ اسلامی کے تسلسل کی ضامن ثابت ہو سکتی ہے ۔ 

قرآن مجید کی حتمی ترتیب سے ماخوذ ایک بنیادی اصول 

اگر ہم تہذیبِ اسلامی کا تعلق مردہ علمی روایت کے بجائے زندہ علمی روایت سے قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہم عصر ماحول سے مکمل باخبری اور واقفیت کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی حتمی ترتیب میں پنہاں ایک بنیادی اصول کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہو گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ معاصر ثقافتی سیاق میں اس اصول کی آمیزش سے نہ صرف پیچیدہ مسائل سے بطریقِ احسن نمٹا جا سکتا ہے بلکہ قرآن مجید کی حتمی ترتیب کی معنویت مزید اجاگر ہوسکتی ہے ۔
ابھی تک یہ اصول مسلمہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک ہی موضوع پر قرآنی احکامات ، اپنی نزولی ترتیب کے اعتبار سے جن مراحل سے گزرے ہیں ، وہ مراحل بعینہ ، مستقل نوعیت کے حامل ہیں اور ایک ہی موضوع پر آخری حکم ، حتمی حکم کا درجہ رکھتا ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ اصول اتنا درست نہیں ہے جتنا سمجھا جا تا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کی حتمی ترتیب نے نزولی ترتیب کے احکامات کا ’’ ارتقائی نظم ‘‘ گڈ مڈ کر دیا ہے۔ اب حتمی ترتیب میں ایک ہی موضوع پر احکامات ، اس ترتیب کے ساتھ نہیں پائے جاتے جس ترتیب کے ساتھ یہ نازل ہوئے تھے ۔ نزول کے وقت چونکہ وہ خاص سماج مخاطب تھا ، اس لیے اس کے مخصوص تقاضوں کے مطابق ایک خاص ترتیب کے ساتھ احکامات نازل ہوئے اور بتدریج آخری حکم دے دیا گیا ۔ بعد میں نزولی ترتیب کے خاتمے اور حتمی ترتیب کے اجرا سے ، ارتقا و تدریج کے اس اصول کو بھی خیر باد کہہ دیا گیا۔ جیسا کہ اوپر کی سطروں میں ذکر ہوا، حتمی ترتیب میں ارتقا کے بجائے وحدتی رجحان دکھائی دیتا ہے ۔ یہ وحدتی رجحان اپنے موضوعاتی بکھراؤ کے جلو میں ایک ہی موضوع کے متعلق مختلف احکامات کو ارتقاوتدریج کے بجائے نئے زمانی احوال ، سماجی مقتضیات اور ثقافتی متغیرات کے حوالے سے دیکھتا ہے ۔ اس کاایک مطلب یہ ہے کہ کسی موضوع پر کوئی آخری حکم ، سابقہ احکامات کی تنسیخ نہیں کرتا ، کیونکہ قرآن کی حتمی ترتیب کے مطابق کسی حکم کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ آخری حکم ہے۔ آخری حکم نزولی ترتیب کے ساتھ منسلک ہے جبکہ ہم حتمی ترتیب کے مکلف ہیں ۔ قرآن مجید کی حتمی ترتیب سے ماخوذ اس اصول کے تحت ممکن ہے کہ : 
(۱) ایک ہی موضوع سے متعلق تمام احکامات کی ارتقائی درجہ بندی کے بجائے نئے زمانی احوال ، سماجی مقتضیات اور ثقافتی متغیرات کے تناظر میں ترجیحی درجہ بندی کر لی جائے ۔ 
(۲) ترجیحی درجہ بندی میں ایک ہی موضوع سے متعلق تمام احکامات میں سے کوئی ایک حکم بھی منسوخ نہ کیا جائے ۔ ایک ہی موضوع کے ہر حکم کا اپنا محل تسلیم کیا جائے ، جس کا سماج میں نفاذ ، اس موضوع کے علاوہ دیگر موضوعات کی بابت سماجی مقتضیات کے پیشِ نظر کیا جائے ۔ 
(۳) ترجیحی درجہ بندی میں ہر حکم کا اپنا محل تسلیم کرنے کے علاوہ ،ایک ہی موضوع کے تمام احکامات کی مجموعی منشا کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے۔ در حقیقت اسی مجموعی منشا کا حصول ، ترجیحی درجہ بندی کے جواز کو تقویت دیتا ہے اور اس مجموعی منشا کے حصول کی خاطر ہی احکامات کی درجہ بندی میں ترجیحات کے لحاظ سے ردو بدل بھی کیا جا سکتا ہے ۔ 
(۴) ایک ہی موضوع پر تمام احکامات کی مجموعی منشا کے حصول میں قرآن مجید کے وحدتی رجحان یعنی قرآنی سیاق سے بھی غفلت نہ برتی جائے ۔ 
ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک قرآن مجید کی حتمی ترتیب کا اجرا نہیں ہوا تھا اس وقت تک مذکورہ اصول سے واقفیت اور اس سے اخذ واستنباط بھی ممکن نہیں تھا ۔ لیکن جب قرآن مجید کی حتمی ترتیب کا اجرا ہو گیا تو یہ اجرا اپنی ذات میں خود اس بات کا شاہد بن گیا کہ عہدِ نبوی ﷺ کا مسلم سماج تغیر آشنا ہو گیا ہے اور چونکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر نیا سماج اپنے پیش رو سماج جیسے مراحل سے اور اسی ترتیب سے گزرے ، اس لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ پیش رو سماج کی بابت جو احکامات بتدریج نازل ہوئے ہوں یا اپنائے گئے ہوں، وہ اسی ترتیب کے ساتھ جانشین سماج کے لیے لازم قرار دیے جائیں ۔ نبی خاتم ﷺ کے وصال کے بعد خلافتِ راشدہ اور صحابہ کرامؓ کے ادوار میں مسلمانوں کی عسکری فتوحات کے ساتھ ہی نبوی ﷺ عہد کی اسلامی تہذیب ، اپنے مخصوص ثقافتی سیاق سے نکل کر نئے زمانی احوال ، سماجی مقتضیات اور ثقافتی متغیرات سے ہم کنار ہوئی ، اس لیے ان ادوار کے سنجیدہ مطالعے سے ایسے نظائر و شواہد دستیاب ہو سکتے ہیں جو مذکورہ اصول کی اسلامیت اور افادیت پر مہرِ تصدیق ثبت کر سکیں ۔ اس سلسلے میں ایک مثال یہ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ، قحط کی وجہ سے ، ہاتھ کاٹنے کی حد ساقط قرار دی تھی ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت عمر فاروقؓ نے محض ایک خارجی مظہر سے دب کر ایک حد کو ساقط قرار دے دیا ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا سمجھنا قرینِ قیاس نہیں ہے ۔ حضرت عمرؓ کسی خارجی مظہر سے دب کر ایک صریح حد کو ساقط قرار نہیں دے سکتے تھے۔ قرینِ قیاس یہ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے قحط کے زمانے میں ہاتھ کاٹنے کی حد کو ساقط قرار دیتے وقت ، قرآن مجید کے وحدتی رجحان ( یعنی ایک حکم کو پورے قرآنی سیاق میں سمجھنا ) کو پیشِ نظر رکھا ۔ اگر غور کیاجائے تو فاروقِ اعظمؓ کا یہ فیصلہ ہمارے اخذ کردہ مذکورہ بالا اصول سے بھی ایک قدم بڑھ کر ہے ، کیونکہ انھوں نے احکامات کی ترجیحی درجہ بندی کرکے بر محل حکم کے نفاذ کے بجائے قرآن مجید کے محض وحدتی رجحان سے استفادہ کیا۔ 
یہاں پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ فاروقِ اعظمؓ کا یہ فیصلہ استثنائی، ہنگامی اور عارضی نوعیت کا تھا جسے ہم خوامخواہ پھیلا کر دیکھ رہے ہیں ۔ ہم گزارش کریں گے کہ فاروقِ اعظمؓ نے یہ فیصلہ ایک ایسے خارجی مظہر ( قحط ) کے پیدا کردہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا تھا جو اپنی نوعیت میں عشروں اور صدیوں پر محیط نہیں ہوتا ۔ جس حد تک اس مظہر ( قحط ) کے مسائل پھیلے ہوئے تھے ، اسی حد تک ایک استثنائی و ہنگامی حکم بھی جاری کر دیا گیا اور وہ بھی قرآن مجید کے وحدتی رجحان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جاری کیا گیا ۔ لہٰذا ایسے مظاہر جو اپنی نوعیت میں برسوں نہیں ، بلکہ کئی عشروں اور کئی صدیوں پر محیط ہوتے ہیں (سماجی، ثقافتی وغیرہ وغیرہ ) ان کے پیدا کردہ مسائل کو حل کرنے کے لیے استثنائی و ہنگامی حکم نہیں بلکہ اصولی حکم جاری کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ نئے زمانی احوال ، سماجی مقتضیات اور ثقافتی متغیرات کا حقیقت پسندانہ سامنا کرنے کے لیے ، کسی موضوع پر قرآنی احکامات کی ترجیحی درجہ بندی کر کے ، پورے قرآنی سیاق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ، برمحل حکم کا نفاذ کیا جا سکتا ہے کہ ہر قرآنی حکم ، اصولی حکم ہوتا ہے۔ 

حرفِ آخر 

اختتامی کلمات کی طرف بڑھتے ہوئے ہم گزارش کریں گے کہ سیاسی و معاشی میدانوں میں مسلمانوں کی موجودہ بد حالی درحقیقت مسلم تہذیبی زوال کا منطقی نتیجہ ہے اور تہذیبی زوال کی تہہ میں ایک علمی روایت سے ایسی غیر مشروط وابستگی موجود ہے جس پر انگلی اٹھانے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اسلامی علمی روایت اور مسلم علمی روایت میں فرق نہیں کیا جاتا ۔ تہذیبِ اسلامی کا وہ طبقہ ، جو اپنے تئیں اسلام کا صحیح نمائندہ ہے ، مسلم علمی روایت کو ہی اسلامی علمی روایت سمجھنے پر مصر ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی و معاشی میدانوں میں مسلمانوں کی ترقی و خوش حالی کے لیے زوال پذیر تہذیبی رویے کی اصلاح انتہائی ناگزیر ہے اور یہ اصلاح ، مردہ علمی روایت کو چیلنج کیے بغیر نا ممکن ہے ۔صحیح احادیث کے مطابق قرآن مجید کی نزولی ترتیب کو بدل دیا گیا تھا ، آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سنتِ رسول اللہ ﷺ میں پوشیدہ حکمت کو تلاش کیا جائے اور اس حکمت کے مطابق اسلامی علمی روایت ( قرآن و سنت ) سے براہ راست تعلق قائم کیا جائے ،زوال پذیر تہذیبِ اسلامی کی پشت پر موجود مسلم علمی روایت کو اساسی و بنیادی حیثیت دینے کے بجائے امدادی و اضافی حیثیت میں لیا جائے ۔ قرآن مجید کی حتمی ترتیب کی حکمت کے مطابق، آج کے زندہ سماج کے تقاضوں اور ثقافتی متغیرات کے تناظر میں ، اصولِ تفسیر اور اصولِ فقہ پر نظر ثانی کر کے ایسی زندہ مسلم علمی روایت قائم کی جائے جواسلامی علمی روایت ( قرآن و سنت ) کی نمائندہ بن کر ہماری زوال پذیر تہذیب کو عروج آشنا کر سکے۔

اچھے استاد کے نمایاں اوصاف

پروفیسر شیخ عبد الرشید

لگ بھگ ڈیڑھ ہزار سال قبل افلاطون نے کہاتھا کہ بہترین معاشرہ تشکیل دینے کے لیے بہترین نظام تعلیم ضروری ہے، لیکن دوسری طر ف کسی بھی معاشرے کاتعلیمی نظام اس معاشرے کے مجموعی ثقافتی معیار سے مشروط ہے، چنانچہ مختلف معاشروں کے ثقافتی معیار کے مطالعے کے بعد ممتاز مورخ ایچ۔ جی ویلز یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ ’’انسانی تاریخ، تعلیم اور تباہی کے مابین روز بروز ایک دوڑ بنتی جارہی ہے۔‘‘
کسی بھی نظام تعلیم میں خود تعلیم کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور نصاب تعلیم اس نظام کے مقاصد کی تکمیل کاتحریری ذریعہ ہوتاہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ متعلم کی شخصیت پر سب سے قوی اور فوری اثر نہ نظام تعلیم کا مرتب ہوتاہے اور نہ اسس نصاب کا۔ اس جادو کاسرچشمہ استاد کی ذات ہے۔ کوئی بھی انسان بالخصوص نوخیز انسان جس قدر گہرا اثر خود انسان سے قبول کرتاہے، ایسا اثر وہ کسی اور ذریعے سے قبول نہیں کرتا اور انسانوں میں متاثر کرنے کا کام شعوری طور پر استاد ہی انجام دیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ اور متحرک معاشرے استاد کو ایک ممتاز اور محترم فرد تصور کرتے ہیں۔مسلم معاشرے میں استاد نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا۔ قدیم یونان اور چین میں تو استاد کی گویا پوجا ہوتی تھی۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے بعد سے استاد مغربی معاشروں میں بھی بڑی قدر ومنزلت کا حامل ہوگیا۔ جرمنی میں بھی استاد کی بے حد تکریم ہے۔ استاد ہر کہیں واجب الاحترام ہے۔ اس کے کام اور مرتبے کا ہرکوئی معترف ہے، مگر اس کے رتبے کی پہچان اگر کہیں کم ہے تو وہ ہماراملک ہے۔
استاد کی تحقیرسامراجی حکمت عملی کا اہم جز وتھی، مگر قیام پاکستان کے بعدبھی ہماری سیاسی قیادت ودانش کو نہ فرصت ملی اور نہ توفیق نصیب ہوئی کہ معماران قوم کو بھی کوئی مقام دیاجائے۔ چنانچہ استاد کو بے مقام کرکے ہم خود بحیثیت قوم بے وقار ہوکر رہ گئے ہیں۔ قوم اور حکمرانوں کا رویہ اپنی جگہ، مگر استاد کی بدحالی اور تذلیل کی اصل وجہ خود ہمارا استاد ثابت ہوا۔ اس نے اپنے خلاف ہونے والی تقریباً دو سو سالہ سازش کو اس کے صحیح تناظر میں نہیں دیکھا۔ اگر دیکھا تو اسے سنجیدگی کا مستحق خیال نہیں کیا جو اس کے لیے ’’ازالہ حیثیت عرفی‘‘ کاسبب بن سکتی۔ حالات نے استاد کو اس کے مقام سے ناآشنا کرنا چاہا تو وہ خود اپنے مقام سے بیگانہ ہوگیا اور اب تو ایسا لگتاہے کہ اسے خود آشنائی کے لیے بھی کافی وقت درکار ہوگا۔
استاد کے معاشرتی مرتبے کی بحالی کے لیے تعلیم وتدریس کے میدان میں اچھے اور برے یا کامیاب اور ناکام استاد کا ایک واضح تصور اجاگر کرنا ناگزیر ہے۔ اچھے استاد کے لیے ترقی کرنے اور اپنی پوری قامت کو پہنچنے کے معیار اور ضوابط مقرر کیے جائیں۔ ایک طرف تو تعلیمی پالیسی سازوں کو اساتذہ کی شرائط ملازمت،ان کی سہولتوں اور مراعات، ترقی اور اعزاز کے معاملات کے حوالے سے موثر اور مثبت اقدامات اٹھانے ہیں تو دوسری طرف استاد کو بھی خود آگاہ اور مقام آشنا ہونا ہوگا۔ لازم ہے کہ استاد خود بھی محاسبہ کریں کہ کیا وہ خود اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے صحیح معنوں میں عہدہ برآ ہورہے ہیں۔ 
ہم یہاں مختصراً اچھے استاد کی چند خصوصیات کا تذکرہ کریں گے جنہیں دیکھ کر استاد خود اندازہ لگا سکتاہے کہ کیا وہ استادہے یا نظام تعلیم کا ایک بیکار پرزہ؟ اس حوالے سے ہمارے پاس ایک کامل راہنمائی معلم انسانیت حضرت محمد ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی صورت میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے جو سب کے سب معلم تھے۔ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ۱۵۱ کی روشنی میں دیکھیں تو واضح ہوتاہے کہ معلم کاسب سے بڑا منصب تدریس ہے، کیونکہ اس نے لوگوں کو کتاب کی علمی وضاحتیں دینی ہوتی ہیں، حکمت سکھانا ہوتی ہے۔ حکمت دراصل اسی کتاب کو لوگوں پر applyکرنے کانام ہے۔ یہ کتاب کی عملی شکل ہے۔ پھر تزکیہ نفس کرناہے۔حضورﷺ نے فرمایا کہ’’مجھے معلم اخلاق بنا کر بھیجا گیاہے‘‘۔ تعمیر کردار کے لیے معلم سمعی اور بصری دونوں صورتوں کو استعمال میں لاتاہے۔ اچھی تدریس کی اولین شرط یہ ہے کہ استاد مطمئن ہو اور اس کی عزت نفس محفوظ ہو۔ تعلیم محض نصابی کتابیں پڑھانے اور طالب علموں کے ذہنوں میں بعض معلومات جاگزیں کرنے ہی کا نام نہیں بلکہ یہ ایک تخلیقی عمل ہے جس میں استاد کی شخصیت، اس کا وقار، اس کی علمیت اور اس کا اپنے پیشے کے ساتھ آزادانہ شغف مرکزی اہمیت رکھتاہے۔استاد کو جب اور جہاں یہ احساس ہوا کہ وہ ایک حقیر ملازم ہے یا ایسے لوگ جو علم وذوق میں اس کے برابر نہیں، ا س پر حکمران ہیں، ا س کی روح فناہوجاتی ہے۔ عمل تدریس عزت نفس اور ایک خاص احساس ووقار یا احساس تفاخر کے بغیر ممکن نہیں ۔
درس وتدریس کے لیے سب سے اول چیز کتاب ہے۔ جو علم بھی آپ متعلم تک پہنچانا چاہتے ہیں، اس کتاب یا نصاب سے استاد کی گہری وابستگی اور اس سے پوری واقفیت لازم ہے۔ پیغمبرآخرالزمان ﷺ اپنی کتاب کو عملی صورت تھے۔ تعلیم وتدریس کا سارا عمل کتاب کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ جس قوم کے استاد اچھی اورعمدہ کتاب پیدا کرنے سے قاصر ہوں، وہ تعلیم وتدریس کے میدان میں پس ماندہ اور غیروں کی دستِ نگر ہوکررہ جاتی ہے۔استاد اصل میں صاحب کتاب ہوتاہے، کیونکہ کتاب زندگی کے حقائق کو جاننے اور اس جانکاری کو دوسروں تک پہنچانے کانام ہے تاکہ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے۔ کتا ب علم کی حفاظت، ترسیل اورتوسیع کانام ہے۔ کتاب ہی وہ وسیلہ ہے جس کے ذریعے سے پہلی نسلوں کی محنت وکاوش، دانش وبنیش اور حکمت وبصیرت نئی نسلوں تک منتقل ہوتی ہے۔لیکن جب یہ عمل رک جاتاہے تو اس کے نتیجے میں درحقیقت زندگی کاعمل رک جاتاہے۔ اچھی کتاب نہ لکھ سکنا محض کوتاہی نہیں بلکہ ایک اجتماعی جرم ہے۔ خود علمی کتابیں نہ لکھ پانا دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔استاد کسی قوم کی نظریاتی سرحدوں کامحافظ ہوتاہے مگر افسوس کہ آج کے استاد کو ٹیوشن کے سرطان نے اس قدر ناکارہ بنا دیا ہے کہ تحقیق وتحریر سے اس کاتعلق شرمناک حد تک کمزور ہوچکاہے۔
اچھے استاد کی دوسری اہم صفت غوروفکر ہے، کیونکہ سوچے اور غور کیے بغیر اور فکر کی نئی راہیں تراشے بغیرتدریس مہمل ہوجاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے قبل بھی غار حرا میں تشریف لے جاتے اور غور وفکرکرتے تھے۔ یہ کسی بھی معلم کے لیے لازمی ہے۔غور وفکر کے بغیر کسی نے زمانے کو کچھ نہیں دیا۔ عقل صرف تدبر وتفکر سے بڑھتی ہے۔ اس کے بغیر کوئی استاد اچھا استاد نہیں بن سکتا۔ معلم انسانیت کی زندگی کا یہ معمول تھا ۔اسی غور وفکر سے آپ ﷺ نے لوگوں سے ان دیکھے خدا کو تسلیم کروا کے زمانے کی تقدیر بدل دی۔ ہر اچھے استاد کے لیے اس سنت رسول کی اتباع ضروری ہے۔ بڑا استاد مسلسل تفکر ،تحقیق اور اشاعت میں مصروف عمل رہتاہے مگر آج ہمارا استاد ٹیوشن کے جبر میں کولہو کے بیل کی طرح جت گیا ہے۔ اب اس کے پاس غور وفکر اورمطالعہ کتا ب کے لیے وقت ہی نہیں۔
فکر وتدبر کے ساتھ کام کی لگن کے بغیر بھی اچھے استاد کا مقام حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ رسول اکرم ﷺ کے ذمے جب پروردگار عالم نے کام لگایا تو پھر آپ نے پوری لگن سے کام کیا۔ شب وروز کی پروا نہیں کی۔ معاشی مجبوریوں، ذاتی خواہشات، بھوک اور دھوپ کونہیں دیکھا۔ مسائل ووسائل کی شکایت نہ کی، یہاں تک کہ سفر طائف کے موقع پر حضرت زید بن حارثہؓ کو ہمراہ پیدل گئے، نہ کہ مشن کی تکمیل کے لیے وسائل کے حصول تک کام روک دیا۔ایسا نہیں ہوا کہ اللہ کے رسول ﷺ کویہ علم ہوا ہو کہ فلاں شخص اللہ کی بات سننا چاہتاہے اور آپ ﷺنے اسے کل پر ٹال دیاہو۔ چنانچہ اچھے استاد کے لیے ضروری ہے کہ اس میں لگن یعنیDevotionہو۔
لگن کے بغیر استقامت بے ثمر رہتی ہے۔ چنانچہ استاد کے لیے استقامت واستحکام کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ایسا نہیں کہ آج رویہ کچھ اور ہے اور کل کچھ اور ہے۔ آج آپ کے علم کے بڑے متلاشی اور ہر لمحہ مصروف عمل ہیں، مگر پھر سال سال بھر کتا ب کوہاتھ نہیں لگاتے۔معلم ہونا پیغمبروں کا منصب ہے۔ رب العزت نے سب سے زیادہ عزت ،احترام اور توقیر اہل علم کودی ہے۔اسوہ حسنہ پرنظر ڈالیں تو عیاں ہوگا کہ حالات نے آپﷺ کو مشن سے روکنے کے لیے کتنا جبر کیا، دباؤ ڈالا، پریشان کیامگر آپ کے پائے استقامت میں ذرا لغزش نہیں آئی۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ ’’اگر تم میرے ایک ہاتھ پر چاند اوردوسرے ہاتھ پر سورج لاکر رکھ دو تو بھی میں اپنے کام سے باز نہیں آؤں گا‘‘۔ یہ استحکام واستقامت کاعمل ہے۔
اچھا استادہونے کے لیے ایک خوبی یہ ہے کہ آپ کو time managment آتی ہو۔ دنیا میں اسوہ حسنہ کے علاوہ کہیں یہ مثال نہیں ملتی کہ اتنے کم وقت میں کسی نے اتنی بڑی تبدیلی لائی ہو۔ آپﷺ نےtime کو manageکیا، انرجی کو manageکیا، human resources کو manage کیا۔ چنانچہ اچھا استاد بننے کے خواہش مندوں کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ وقت کے استعمال کی صلاحیت پیدا کریں۔ وقت کو ضائع کیے بغیر ہی کم وقت میں بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہاہے کہ اگر آپtime managmentنہیں جانتے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ کے رسول ﷺکی حیات مبارکہ سے آپ کچھ نہیں سیکھا۔جی ہاں،ایک ایک لمحے سے فائدہ اٹھائے بغیر آپ علم نہیں بانٹ سکتے، اچھے استاد نہیں بن سکتے کیونکہ اس طرح آپ کی ترجیحات ضائع ہوجاتی ہیں ۔
اچھے استاد کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ متعلم کی صلاحیتوں کا ادراک حاصل کرنے کے بعد اس کے ٹیلنٹ کو مثبت انداز میں اجاگر کرے۔ استاد اپنے طالب علم کی ضرورتوں کاتعین کرے اور پھر جہاں ہے، وہاں سے مطلوبہ تعلیمی حاصل تک پہنچنے میں اس کی مدد کرے۔ استاد متعلمین کے تنوع کو ملحوظ رکھ کر، ان کے اکتساب کو تقویت دے کر، تعلیمی حاصلات کو مخصوص اطلاقات میں ڈھال کر اور تاحیات قابل استعمال تعلیمی مہارتوں کو ترتیب دے کر یہ مقصد حاصل کرتا ہے۔ اچھا استاد مثبت زاویے کا حامل ہوتاہے۔ سادہ الفاظ میں اچھا استاد اچھا مردم شناس ہوتاہے۔ وہ شخصیت کی نشوونما میں رکاوٹیں پیدا نہیں کرتا ۔وہ منفی فکر کاحامل نہیں ہوتا۔آنحضرت ﷺکی حیات طیبہ سے ظاہر ہوتاہے کہ مردم شناسی کی اسی صفت سے آپ نے دنیا کا سب سے بڑا معاشرتی انقلاب برپاکیا۔ وحشی وجنگلی معاشرے کو سنجیدہ، بردبار اور بااخلاق بنا دیا۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوا کہ آپ نے کسی پر اعتراض کرنے کے بجائے اس کے جوہر خاص کو پروان چڑھایا۔ ہر فر د کے پوشیدہ ٹیلنٹ کو تبدیلی کے لیے استعمال کیا۔ حضرت انس بن مالکؓ دس سال آپ ﷺ کے خادم رہے۔ انہوں نے بھی برملا کہا ’’دس سال میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اللہ کے رسول ﷺنے کسی کام پر مجھے ڈانٹاہو۔ ‘‘ہر اچھے معلم کے لیے ضروری ہے کہ وہ منفی اپروچ کو ترک کرکے یہ دیکھے کہ متعلمین میں سے کس میں کیا خوبی ہے اور اس کو ابھارے ۔نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کی مثبت قوتیں ابھار کرہی ایک فلاحی معاشرے کی تشکیل کی۔ سیرت طیبہ کی روشنی میں دیکھیں کہ مدینہ پہنچنے کے بعد آپ کی حیات مبارکہ غزوات کی نذر ہے، مگر تلواروں کے سائے تلے حضرت حسان بن ثابتؓ جیسے صحابی ؓ بھی موجود ہیں جنہوں نے کبھی تلوار کو ہاتھ نہیں لگایا، مگر رحمت للعالمین کی زبان مبارک سے کبھی نہ نکلا کہ حسانؓ تم تلوار نہیں اٹھاتے۔ بلکہ معلم انسانیت نے یہ دیکھا کہ حضرت حسانؓ میں شاعری کا جوہر موجود ہے تو اسے لوگوں میں جو ش وجذبہ پیدا کرنے، امید دلانے اور قوت ارادی بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ اچھے استاد کے لیے سیرت پاک سے یہ راہنمائی ملتی ہے کہ وہ مثبت انداز میں اپنے شاگردوں کے جو ہرتلاش کرکے انہیں جلا بخشے۔ استاد کو اس قابل ہونا چاہے کہ وہ نصاب کو متعلم کی حقیقی زندگی سے جوڑ کر اور معاشرتی معاملات کی آگاہی پیدا کرکے نصاب کے ساتھ بچوں کا انفرادی تعلق قائم کرے۔
ایک اچھے استاد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حقائق کی باز آفرینی پر توجہ دینے کے بجائے مسئلہ حل کرنے کی مہارتیں پیدا کرنے پر زور دے۔ استاد کو جستجو کے عمل سے متعلق مہارتوں اورتعین قدر کے عمل سے متعلق مہارتوں کے ذریعے سے متعلم کی سرگرم شرکت کو فروغ دینا چاہیے۔
ایک اچھے استاد کی ایک اور نمایاں صفت جس کا اداراک ہمیں سیرت طیبہ ﷺ کے ذریعے سے بھی ہوتاہے، یہ ہے کہ معلم کو تکبر وامتیاز کا حامل نہیں ہونا چاہیے۔ آپ ﷺنے کبھی امتیازی رویے کو نہیں اپنایا، نہ بیٹھنے کے لیے جگہ مخصوص کی، نہ لباس مخصوص، نہ خوراک مخصوص، نہ الگ تھلگ بیٹھنے کا طریقہ۔ ظاہر ہے جب تک استاد طلبہ سے گھلے ملے گا نہیں، اس کی ذہنی مطابقت نہیں ہوگی، ذہنی لگاؤ نہیں ہوگا تو مطلوبہ سطح پر مکالمہ بھی نہیں ہوسکے گا ۔بغیر گھلے ملے استاد صحیح معنوں میں علم مہیا نہیں کرسکتا۔ استاد کا متعلمین سے mixupہونا ضروری ہے۔ امتیاز علم دشمن رویہ ہے ۔
اچھا اور بڑا استاد خود اعتماد ہوتا ہے۔ خود اعتمادی کو کامیابیوں کی کنجی سمجھا جاتاہے۔ ایک استاد اسی صورت میں کامیاب قوم کی تعمیر کرسکتاہے جب وہ اس میں خود اعتمادی بانٹ سکے، لیکن کچھ بانٹنے سے پہلے اس کا استاد کے پاس ہونا بھی ضروری ہے۔ پر اعتماد استاد کی زندگی ابہام سے پاک ہوتی ہے۔ آپ نے جو سیکھا ہے، اگر اس سے متعلق خود کنفیوژڈ ہیں تو پھر اپ اسے دوسروں کو بھی نہیں سکھا سکتے ۔
خود اعتماد استاد ہی طلبہ میں سوال کرنے کی جرات پیدا کرسکتاہے۔ سوال وجواب کی صلاحیتوں کو پیدا کیے بغیر کوئی قوم وقت کے تقاضوں کامقابلہ نہیں کرسکتی۔ سوال علم کی ماں ہے مگر صدا فسوس کہ آج سوال ہی ہم سے چھین لیاگیاہے۔ اس سے علم کے دروازے بند ہوگئے ہیں۔ سوال وجواب اللہ کے رسول اللہ ﷺ کا وصف تدریس تھا۔ نبی کریمﷺ وعظ فرمارہے ہوتے، جمعہ کا خطبہ دے رہے ہوتے تو لوگ کھڑے ہو کرسوال پوچھتے اور آپ جو اب دیتے۔آج سیکھنے سکھانے کے عمل میں ہم دوسروں کے دست نگر ہیں کیونکہ ہم سے سوال چھین لیاگیاہے ۔نالائق استاد سوال کو گستاخی سمجھتاہے حالانکہ یہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ مبارک تھا۔سوال کا مطلب ہے کہ اس میں متعلم کی طلب، توجہ اور مکمل حاضری شامل ہے۔
اچھا استاد اپنے شاگردوں کا’’ محبوب ‘‘ہوتاہے۔ استاد کا انداز حیات اور اس کی گفتار وکردار طالب علم پر اثر انداز ہوتی ہے۔ استاد کی عادات، اظہار، اعتدال، عالی ظرفی، وقار ومتانت اور علم وتحقیق ہی اسے محبوب بنا سکتے ہیں۔ اگر استاد کی شخصیت میں محبوبیت کا فقدان ہو تووہ اچھا استاد نہیں بن سکتا۔ محبوب راہنما واستاد ہی تعلیم وتطہیر کافریضہ بحسن وخوبی ادا کرسکتاہے، چنانچہ استاد کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے postureکو، اپنے مزاج کو، اپنے ڈھنگ کو بھی متوازن رکھے۔
اچھا استاد وعدے کا پکا اورپاسدار ہوتاہے۔یہی چیز اسے لوگوں میں محترم بناتی ہے۔ وہ امین وصادق ہوکر ہی انقلاب کا داعی ہوسکتاہے۔ اگر استاد معاشرے میں معززنہ ہوگا تو اس کابانٹا ہوا علم تاثیر کا حامل نہ ہوگا۔ایک اچھا استاد غیبت کرنے والا، جھوٹ بولنے والا، دروغ گو، کھوکھلے دعوے کرنے والا نہیں ہوتا۔ چنانچہ اپنے کردار کا محاسبہ کیے بغیر اچھا معلم نہیں بنا جاسکتا۔ بدکردار استاد معاشرے میں صلاح وفلاح پھیلانے کے بجائے فساداور مایوسی پھیلانے والا بن جائے گا۔ اچھا استاد ہمیشہ آسانیاں پیدا کرنے والااور علم کو خوشخبری کے انداز میں دینے والا ہوتاہے۔جب تک آپ طلبہ کی ضرورتوں کاخیال نہیں رکھیں گے، آپ بڑے معلم نہیں بن سکتے ۔استاد کو تبدیلی کا مقابلہ کرنے اور اس پر دسترس حاصل کرنے میں شاگردوں کی مدد کے قابل ہونا چاہیے۔ بلوغت اور بے روز گاری کے خلاف طلبہ کی تگ ودواساتذہ سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ انہیں کمانے، زندہ رہنے اورسماجی تحفظ کے مٹتے ہوئے گوشوں، نسلی ومذہبی تشدد، معلوماتی انقلاب یاسرمایہ دارانہ معاشروں میں موجو د طمع سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کرے۔
اچھا استاد ہمیشہ اچھا طالب علم رہتاہے۔ وہ ہمیشہ نئے علم اور نئی روشنی کو اپنانے والا ہوتا ہے۔ خندق کھودنا اہل فارس کاطریقہ تھا۔ آپ ﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے سے اسے اختیار کیا۔ ایک شخص آیا اور اس نے آپ ﷺ کو پاجامہ پیش کیا تو آپ ﷺ نے اسے پسند کیاحالانکہ عرب پاجامہ استعمال نہیں کرتے تھے۔ آپ نے یمن کی طرف بعض صحابہ کرامؓکو بھیجا کہ جاؤ اور قلعوں پر چڑھنے کی ترکیب سیکھ کر آؤ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کے علاوہ دیگر علوم کو حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔
بڑے استاد کی ایک اورمثالی صفت قوت برداشت ہے۔ وہ رد عمل ظاہر نہیں کرتا۔ استاد جتنا reactionary ہوگا، ہ علم میں اتنا ہی چھوٹا ہوگا ۔استاد اقدار کے تصادم سے نبردآزما ہوسکتاہے۔ اساتذہ کو یہ علم ہونا چاہیے کہ غفلت کرنے والے بچوں کے ساتھ کس طرح کام کرنا ہے۔ غور کریں کہ لوگ مشرک ہیں، بتوں کو پوجتے ہیں، چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ فوری reactکرتا اور نافرمانوں کی گردنیں توڑ دیتا، مگر اللہ عالی ظرف ہے اس لیے اللہ کے رسول ﷺ نے کبھی reactنہیں کیا اور کسی سے ذاتی بدلہ نہیں لیا۔ شاگرد گستاخ ہوسکتاہے، مگر بڑا ستاذ عالی ظرف ہوتاہے۔ معاف اور درگزر کرنا ہی اس کے بڑے پن کا ثبوت ہے۔
مذکورہ بالا صفات وخصوصیات کے حامل اچھے استاد پید اکیے بغیر کوئی بھی نظام تعلیم اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتا۔ اگر ایک طرف اساتذہ کی تربیت، ان کی مراعات اور باعزت مقام حکومت اور عوام کی ذمہ داری ہے تو دوسری طرف خود استاد پر بھی بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ آج مادی طمع وحرص کے شکار معاشرے میں استاد خود زمانے کی روکا شکار ہوکر معمار قوم کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔ سرمایہ دارانہ نظام اور زوال پزیر معاشرے میں استاد کو پہلے خود آشنا ہوکر اپنی اصلاح کرنی ہے، اس کے بعد ہی وہ تعمیر کردار وسیرت کا فریضہ انجام د ے سکتاہے۔ استاد خود کوپیغمبروں کی میراث معلمی کے وارث کہتے ہیں، لہٰذا انہیں معلم انسانیت وفخر انسانیت کے اسوہ حسنہ سے راہنمائی حاصل کرکے اپنی کردار سازی کرنی ہے۔ پیغمبروں کا وارث ہونے کا دعوے دار استاد ہی اگر سیرت طیبہ کا پیروکار نہ ہو تو اس سے زیادہ نالائق اور کون ہوسکتا ہے۔

مسئلہ رجم اور مولانا اصلاحیؒ کا تفسیری موقف

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

مولانا مرحوم کی تفسیر ’تدبّر قرآن‘ کا حوالہ الفرقان میں باربار آیاہے۔مولانا کو والد مرحوم سے ایک قدیم تعلق تھا۔ عمر میں بھی دونوں کی بس ایک سال کا فرق تھا۔ تدبر کی پہلی ہی جلد نکلی تو مولانا کی طرف سے ہدیہ ہمارے ہاں آئی اور تہدیہ کے الفاظ تھے: ’’ہدیہ اخلاص بخدمت مولانا محمد منظور نعمانی صاحب زاد لطفہ‘‘۔ پھر مزید جلدیں بھی آتی رہیں۔ راقم سطور کو الفرقان میں جو لکھنا لکھانا ہوتاتھا، جس کا سلسلہ ۱۹۵۳ء سے شروع ہوا، اس میں اکثر قرآنی آیات بھی کسی استدلال واستشہاد میں آتیں اور ضرورت ہوتی کہ آیت جس مفہوم کے ساتھ اپنے ذہن میں آئی ہے اس کی توثیق کسی تفسیر سے بھی کر لی جائے۔ اس عمل میں کہیں کہیں الجھاؤ بھی درپیش ہوجاتا یا تشنگی رہتی۔ مولانا کی تفسیر آئی تو ایسی ضرورت کے موقع پر اس کے استعمال سے یہ مرحلہ نسبتاً آسان ہونے لگا ۔حضرت والد ماجد کا سلسلہ درس قرآن بھی اس زمانہ میں چل رہاتھا۔ آپ سے بھی یہی احساس سننے میں آیا کہ بہت سے مشکل مقامات کی گرہ کشائی میں اس سے بڑی مدد ملی ہے۔ ادھر کئی سال سے ’محفل قرآن‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ فہم قرآن اس کم علم کے قلم سے بہت ڈرتے ڈرتے محض والد ماجد کی خواہش کے احترام میں چل رہاہے۔ اس سلسلہ میں بھی یہ کہنا کچھ مبالغہ نہ ہوگا کہ مولانا اصلاحی کی کتاب نہ ملی ہوتی تو قرآنی مشکلات کے آگے اس سلسلہ کو جاری رکھنا شاید اس سے زیادہ ہمت طلب ہوتا جتنا اب تک ثابت ہوتارہا ۔ اور اس لیے اگر اس سلسلہ میں کچھ خیر ہے تو اس میں مولانا کا بھی حصہ ہے اور دعاہے کہ اللہ اس کے لیے مرحوم کو بہترین جزا دے۔ اسی کے ساتھ کتاب میں کچھ باتیں ایسی بھی نظر پڑتی رہیں کہ مولانا کی وفات پر جو تعزیتی سطور الفرقان میں لکھی گئیں، ان میں بھی ان کی کتاب کے بارے میں یہ لکھے بغیر نہیں رہا جاسکا کہ کاش فلاں فلاں قسم کی باتیں اس میں نہ ہوتیں،کہ اس کے نہایت مفید پہلووں سے استفادہ کا حلقہ وسیع تر ہوسکتا اور جو ’خذ ما صفا ودع ماکدر‘ کی صلاحیت نہیں رکھتے، ان کے لیے کوئی خطرہ اس میں نہ سمجھا جاتا۔
ان فلاں فلاں باتوں میں سے سب سے نمایاں بات مسئلہ رجم پر ظاہر کئے گئے خیالات ہیں جو سورہ نور کی آیت حد زنا کے ذیل میں آئے ہیں۔ اس مقام کو کئی بار پڑھا اور اس میں کوئی مضبوط استدلال نہ دیکھتے ہوئے یہ بات ایک معمہ بنی رہی کہ آخر وہ کیا چیز تھی جس نے مولانا کو امت کے (بجز خوارج ) ایک مسلمہّ اور سنت رسول ﷺ وخلفائے راشدینؓ سے ثابت مسئلہ میں اشکال ہی نہیں، شدّومد سے اختلاف پر آماد ہ کیا؟ پھر لطیفہ یہ کہ اس اختلاف کا اظہار مولانا نے رجم کو رد کرنے کے عنوان سے نہیں بلکہ ان لوگوں کے مقابلے میں اسے ثابت کرنے کے عنوان سے کیا ہے جو قرآن سے اس کی دلیل مانگتے ہیں۔ بالفاظ دیگر وہ رجم کے منکر نہیں، البتہ اس رجم کے قائل ہیں جو انہیں قرآن میں (سورہ مائدہ کی ایک آیت میں) ملتاہے اور سنت سے ثابت جس رجم کی بات کی جاتی ہے، مولانا اس کی اصل حقیقت بھی وہی ٹھہراتے ہیں جسے وہ قرآن میں پاتے ہیں۔ اس کے ثبوت میں وہ عہد نبویﷺ کے ایک واقعہ رجم پر گفتگو کرتے ہوئے،جو ماعز اسلمیؓ کے نام سے آتاہے، جو شکل اس کی بیان کرتے ہیں، وہ ان کے خیال میں سورہ مائدہ کی آیت پر منطبق ہوجاتی ہے۔ رہیں اس سلسلہ کے کچھ اور واقعات کی روایتیں، ان کے بارے میں مولانا یہ فرما کر آگے بڑھ گئے ہیں کہ :’’آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں رجم کے ایک آدھ اور واقعات جو پیش آئے، ان کی تفصیلات روایات میں نہیں ملتیں ۔ .....اگر ان کے مقدمات کی صحیح نوعیت معلوم ہوسکتی تو ان شاء اللہ یہ بات واضح ہوجاتی کہ ان کے واقعات کی نوعیت بھی وہی ہے جو ماعز کے واقعہ کی ہے۔‘‘ (جلد چہارم، طبع اول)
رجم کا انکار تو تھا ہی، ماعز اسلمیؓ کے واقعہ کی جو نوعیت مولانا نے بیان فرمائی، وہ خود کچھ کم نرالی اور وحشت انگیز نہ تھی۔ پھر بغیر کسی متعین حوالہ کے مجرد یہ کہہ کر کہ ’’کتابوں میں جو روایات ملتی ہیں ان میں .....‘‘ حالانکہ اس واقعہ کی متعدد روایات حدیث میں سے کسی بھی اس طرح کی بات کا، جو مولانا بے نام کی کتابوں کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں، کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا۔
یہ بحث تدبرقرآ ن کی چوتھی جلد میں آئی ہے جو ۱۹۷۶ء میں نکلی۔ یہ وہ سال تھا کہ اسی میں راقم کا آب ودانہ لکھنو سے لندن منتقل ہوا۔ یعنی یہ جلد جب لکھنو آئی ہوگی تو وہ زمانہ میرے لندن میں ہونے کا تھا۔یاد نہیں یہاں آکر کب میں نے تدبر کی جلدیں پاکستان سے منگوائیں اورکب رجم کے اس قصہ پر نظر پڑی۔ لیکن ایک بات ذہن میں اس معا ملہ کے حوالہ سے یہ پڑی رہی کہ مولانا نے حدیث کے میدان میں بھی کچھ خدمت کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے مزید تحقیقی گفتگو اس کے لیے اٹھا رکھی ہے۔ پس انتظار رہا کہ وہ دن آئے۔ پھر تفسیر کی تکمیل سے مولانا کی فراغت کے کچھ عرصہ بعد یہ بات علم میں آگئی کہ ’تدبر حدیث‘ کا بھی ایک سلسلہ مولانا نے شروع کر دیاہے ۔ مگر کوئی ایسا رابطہ مولانا یا ان کے حلقہ سے نہ رہتاتھا کہ رفتار کار یا تکمیل کا علم ہوتا۔ اب گزشتہ جنوری میں لکھنو جانا ہوا جہاں ایک اردو میلہ لگا ہوا تھا، ایک دن ادھر جانا ہوا تو ایک بک اسٹال پر مولانا کی کتاب ’تد بر حدیث‘ نظر آئی۔ یہ موطا امام مالکؒ کے منتخب ابواب کی تشریح پر مشتمل بتائی گئی تھی۔شوق سے اٹھا کے ورق گردانی کی کہ اس پر و ہ بحث بھی شاید آئی ہو ،اور وہ نکل آئی۔ کتاب ویسے ہی لینی ہی تھی، اب تو لازم ہوئی ۔مگر متعلقہ حصہ پڑھنے سے جو نتیجہ نکلا، اس کے لیے کوئی تعبیر ،بصد افسوس ،اس کے سوا نہیں ملتی کہ مولانا نے تو خود ہی اپنے اوپر حجت تمام کرلی۔
مسئلہ سے متعلق موطاکی تمام روایتیں اس کتاب میں آئی ہیں اور ان سے نہ تو ماعز اسلمیؓ کے بارے میں مولانا کے بیان کی ذرہ برابر تائید ہوتی ہے اور نہ اس خیال کی جو کہ عہد نبویﷺ میں پیش آنے والے دیگر واقعات رجم کی بابت مولانا نے ظاہر فرمایاتھا، بلکہ یہاں تمام تر مولانا کی تردید کا (نہیں، مولانا کی خیالات کی تصحیح کا) سامان ہے۔لیکن کوئی حد حیرت کی نہیں رہتی کہ مولاناان سب روایات سے بھی اپنے اسی خیال کے ساتھ باطمینان گزرتے چلے گئے ہیں !پھر یہ کتاب تصنیف نہیں بلکہ مولانا نے اپنے حلقہ تدبر قرآن وحدیث میں موطا کے درس کا سلسلہ قائم فرمایا تھا، یہ انہیں دروس پر مبنی کتاب ہے۔ تو کیا مولانا کے حلقہ درس کے ذہین وفطین اور نئے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بھی کوئی ایسا نہ تھا جو اس تناقض کو محسوس کرتا اور مولانا کو توجہ دلانے کی جرات کرجاتا؟ یا پھر اللہ کو یہ منظورتھا کہ خود مولانا ہی کے ذریعہ موطا جیسی معتبر کتاب کے حوالہ سے وہ روایتیں سامنے آجائیں جن سے رجم کی شرعی حقیقت میں مولانا کی تفسیر سے پیدا شدہ شکوک کا ازالہ ہو۔
تفصیل میں نہیں جانا، بس ان لوگوں کے لیے جنہوں نے ’تدبر قرآن‘ سے استفادہ کیاہے یا کرتے ہیں، اتنا کہنا ہے کہ مولانا کا جو کہناوہاں یہ ہے کہ رجم کی سزا فقط ان عادی مجرموں کے لیے ہے ’’جو معاشرہ کی عزت وناموس کے لیے خطرہ بن جائیں‘‘ ورنہ عام زنا کی سزا فقط وہی سو کوڑے والی ہے‘ ’’قطع نظر اس کے کہ مرتکب جرم شادی شدہ ہے یا غیر شادی شدہ‘‘، موطاکی تمام روایتیں اس سے اختلاف کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ ماعز اسلمیؓ جن کی تصویر تدبر قرآن میں، اللہ مولانا کو معاف کرے، ایک ننگ ملت، ننگ دین ،عادی مجرم کے طور پر آئی ہے ،ان کے واقعہ کی روایت بھی اس تصویر کا شائبہ تو کیا دیتی، بالکل اس کے برعکس تصویر دکھاتی ہے۔ خود مولانا کے ترجمہ کا دیکھ لینا کافی ہے :
’’سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص حضرت ابو بکرؓ کی خدمت میں آیا۔ اس نے کہا کہ گنہ گار بندہ کمینہ سے زنا کا گناہ صادر ہوا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا کہ اس کا میرے سوا کسی اور سے بھی ذکر کیا ہے؟اس نے کہا نہیں ۔حضرت ابو بکرؓ نے کہا، تو اللہ سے توبہ کر اور اللہ کے پردہ میں چھپ کہ اللہ اپنے بندے کی توبہ قبول کرتاہے، لیکن اس کا دل اس پر نہ ٹھکا۔ پھر حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہی بات کہی جو حضرت ابوبکرؓ سے کہی تھی ۔حضرت عمرؓ نے بھی اس کو اسی طرح کا جواب دیا جو حضرت ابوبکرؓ نے دیا تھا ۔اس پر بھی اس کا دل نہ ٹھکا ۔یہاں تک کہ وہ رسول اللہ ﷺکی خدمت میںآیا اور ان سے کہا کہ اس بندہ کمینہ نے زنا کیاہے۔سعید کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منہ پھیر لیا ۔تین مرتبہ اس نے کہا اور ہر مرتبہ حضورﷺ نے اس سے منہ پھیر لیا ۔جب وہ بہت مصر ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے گھر والوں کے پاس آدمی بھیجا اور پوچھا کہ یہ شخص مریض تو نہیں یا اس کو جنون تو نہیں؟ گھر والوں نے کہا، یا رسول اللہ ﷺ یہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ رسول اللہ نے پوچھا کہ یہ کنوارہ ہے یا شادی شدہ ؟لوگوں نے کہا کہ شادی شدہ ہے۔ رسول اللہ نے حکم دیا تو اس کا رجم کردیا گیا ۔‘‘ (ص ۲۱۳)
اس کی بھی صراحت یہ روایت کررہی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے رجم کا حکم کرنے سے پہلے ان کے شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہونے کی تحقیق فرمائی۔ تو رجم کی بنیاد شادی شدہ ہونا ٹھیری اور گنہگار کی جو تصویر یہاں سامنے آرہی ہے، اس کے لیے کچھ کہنے کی ضرورت کہاں۔ یہ موطا کی روایت نمبر ۲ ہے۔ آگے پانچویں نمبر کی روایت جس کا تعلق ایک ایسے کیس سے ہے جس میں مرد اور عورت دونوں کی سزا مذکور ہوئی ہے، وہاں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کے حکم کی تفریق اور کھل کر سامنے آتی ہے۔ مرد کو جو کنوارا جوان تھا، کوڑوں کی سزا ملی اور عورت جو شوہر والی تھی، اسے رجم کیا گیا ۔یہ عورت عادی مجرم تھی یا کچھ اور؟ اس کا فیصلہ روایت کے ترجمے کے یہ الفاظ کردیتے ہیں (جن کو پڑھنے سے یہ جان لینا چاہیے کہ یہ مقدمہ حضورﷺ کے پاس زانی کا باپ اور زانیہ کا شوہر لائے تھے) ’’آپ نے اس کے بیٹے کو سو کوڑے لگوائے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کردیا اور انیس اسلمی کو حکم دیا کہ وہ دوسرے شخص کی بیوی کے پاس جائیں۔اگر وہ اعتراف کرے تو اس کو رجم کریں ۔اس عورت نے اعتراف کیا اوررجم کردی گئی ۔‘‘(ص ۲۱۸)
موطا کی ان تمام ہی روایتوں کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کسی ایک سے بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ رجم کی سزا پانے والا خطا کار کوئی عادی قسم کا مجرم تھا۔ کئی ایک تو ان میں خود عورتیں نظر آرہی ہیں جن کے ناموس کے حوالہ سے کوئی مجرم معاشرہ کا عضوِ فاسد بنتاہے۔
’تدبر قرآن‘ تک بات دوسری تھی۔مولاناکو کسی غلط فہمی کے شبہے یا کسی خاص تاثر کے امکان کا فائدہ دے کر رہا جاسکتاتھا۔ اب اس ’تدبر حدیث‘ سے معاملہ کی جو صورت سامنے آتی ہے، وہ سنجیدگی سے تقاضاکرتی ہے کہ اس سبب کی تلاش کی جانی چاہیے جو مرحوم کو یہاں تک لیے چلا گیاہے۔اسلام پر مغرب کے حملوں سے خم کھانے والی کوئی شخصیت ہوتی تو سوچ لیا جاتا کہ یہ اسی مرعوبیت کا شاخسانہ ہے، مگر مولانا کی تفسیر کی آٹھ جلدوں میں کہیں، شاید کہیں بھی اس تاثر کی گنجایش نہیں ملتی،نہ ہی اس سوچ کی گنجایش اس تفسیر کے پڑھنے والے کو ملتی ہے کہ خدانخواستہ خوفِ خدا سے دل خالی رہاہو اور تفسیر کا مشغلہ کسی کج فکری کی خدمت کو اپنانا ہو۔ پھر یہ سنت ثابتہ سے معارضہ اوراس پر اصرار ،آخر کیاہے؟ اور یہ تلاش ایسے لوگوں کا کام ہے جو مولانا سے کافی قریب رہ کر مستفید ہوئے ہوں۔اس زمرہ کا سب سے نمایاں نام ’تدبر حدیث‘ کے مرتب خالد مسعود کا تھا ،مگر وہ اب اس دنیا میں نہیں۔ دوسرا ایسا نام ہمارے علم میں ڈاکٹر اسرار صاحب کا ہے اورتدبر قرآن کی متعلقہ جلد کی اولین اشاعت بھی انہیں کے ادارہ انجمن خدام القرآن لاہورسے ہوئی ہے،کیا وہ اس کام کی ضرورت سمجھیں گے؟ کاش کوئی عذر مولانا کے حق میں ہاتھ آجائے۔ (۱)

حاصل مطالعہ

یہاں تک جو کچھ لکھا گیا، وہ کچھ خوشگوار چیز نہ تھی۔ ہم نے مولانا کی تفسیر سے طالب علمانہ استفادہ کیاہے اوراسی باعث اس کتاب ’تدبر حدیث‘ کے حوالہ سے نہایت قدرِ ضرورت پر اکتفا کرتے ہوئے اور جو بہت کچھ کہنے کا تھا، اس سے بہ تقاضائے ادب اعراض کیاہے، مگر اس ناخوشگوار کام کے ضمن میں روایات موطا کے مطالعہ سے ایک اس چیز پر دماغ متنبہ ہوا ہے کہ وہی اس مطالعہ کا حاصل ٹھہرتی ہے۔پتہ چلا کہ وہ تمام مرد اور خواتین جن سے بہ تقاضائے بشریت یہ گناہ ہوگیا، ان میں سے کوئی ایک بھی کسی کی رپورٹ پر پکڑ کے نہیں لایا گیا تھا ،بلکہ بعض تو خود احساس گناہ سے مغلوب ہوکر دربار رسالت میں حاضر ہوئے تھے تاکہ اللہ کی ٹھیرائی ہوئی پوری سزاپا کے آخرت کے مواخذہ کی طرف سے مطمئن ہوجائیں۔اور حاضری ہی لکھانے پر اکتفا ان میں سے کسی نے نہیں کیا تھا کہ پاک نہادی کا درہ جم جائے۔آنحضرت ﷺ شبہات کے پہلو نکال کر چھوڑ دینے کی کوشش فرماتے تھے اور یہ ہر شبہ کو رد کرکے ’’پھانسی ‘‘پانے پر اصرار کرتے تھے ۔کیا چیز اللہ اللہ نبوت محمدی میں تھی! کیا شان اس فیض نگاہ کے معجزات کی تھی! مگر کون ہم نام لیواؤں کا حال دیکھ کے یقین کرے گا کہ یہ ’’دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں‘‘ والا حال جو اس کے فیض یافتہ گنہگاروں کا بھی کتابوں میں آیا ہے، وہ حق ہے؟ اللھم صلی علیہ وعلی الہ واصحابہ وسلم تسلیما! 
(۱) یہاں اس بات کا اظہار مناسب ہوگا کہ مولانا سے تعلق رکھنے والے ایک لاہوری دوست (مصطفی صادق صاحب ) نے دو تین سال پہلے لندن کی ایک ملاقات میں حضرت والد ماجد کے بارے میں بتایا کہ اس مسئلہ پر آپ کا بھی ایک خط مولانا اصلاحی کو پہنچا تھا ۔اس کا کوئی جواب مولانا اصلاحی نے دیا ہو ،اس کا علم ان کو نہ تھا ۔
(بشکریہ ماہنامہ ’الفرقان‘ لکھنؤ)

قورح، قارون: ایک بے محل بحث

ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی

(زیر نظر مضمون کے ساتھ اس سلسلہ بحث کو ختم کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

دسمبر ۲۰۰۵ ء کے ’الشریعہ‘ میں میرا ایک دعوتی واصلاحی نوعیت کا مضمون ’’قرآن کا نظریہ مال ودولت قصہ قارون کی روشنی میں‘‘ شائع ہو اتھا جس میں ضمناً قارون کو بائبل (توراۃ) کا قورح بتایا گیا تھا اور اس کے لیے کوئی حوالہ ضروری نہیں سمجھا گیا تھا، کیونکہ عصر حاضر کے متعدد مترجمین ومفسرین قرآن مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ، مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ اور عبد اللہ یوسف علی نے اپنی تفاسیر میں قارون کو بائبل کا قورح کہا ہے اور یہی عبدالوہاب النجار ازہری علما نے اپنی کتاب قصص الانبیاء میں لکھا ہے۔ (ص ۱۹۲) البتہ میں نے توراۃ کی کتاب ’’گنتی‘‘کے اصحاح ۱۶ کی نشان دہی صرف اس مقصد کے لیے کردی تھی کہ اس میں قورح کا ذکر متعدد بار آیا ہے۔ یاد رہے کہ اس اصحاح میں ۵۰ فقرے یا آیات ہیں،اور میں نے حوالے کے لیے کسی فقرے کی نشان دہی نہیں کی تھی۔ مقصود صرف یہ دکھانا تھا کہ قورح کا نام کتاب گنتی باب ۱۶ میں آیاہے۔
میرے اس مضمون کے مذکورہ بالا ضمنی نقطے (قارون بائبل کا قورح ہے) کے ردّ میں ایک صاحب (محمد یاسین عابد) کا مضمون ’’کیا بائبل کا قورح ہی قرآنی قارون ہے‘‘ الشریعہ کے فروری ۲۰۰۶ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ میں نے جواباً ایک مضمون ’’بائبل کا قورح ہی قرآن کا قارون ہے‘‘ (الشریعہ، مارچ۲۰۰۶ء) لکھنا ضروری سمجھا کیونکہ اس مضمون میں ایک طرف میر ی تشہیر تھی اور دوسری طرف مستند اور محترم علماے کرام اور مفسرین عظام کی تجہیل وتغلیط اور اپنی شہرت واظہار علم کا پہلو نمایاں تھا۔ اگر وہ یہ مضمون صرف مجھے بھیجتے تو قرآنی حکم کے مطابق ’..... قالوا سلاما‘ (الفرقان:۶۳) اور ’سلام علیکم ......‘ (القصص :۵۵) کہہ کر میں خاموش ہوجاتا یا اپنے نقطہ نظر کی توضیح ایک خط میں کردیتا۔
اگر یہ سلسلہ یہیں ختم ہوجاتاتو بہتر تھا، لیکن مذکورہ بالا مضمون نگار صاحب نے ایک اور تنقیدی وتردیدی مضمون ’’قورح ،قارون اور کتاب زبور‘‘ لکھ ڈالا جو الشریعہ کے شمارہ اپریل ۲۰۰۶ میں اشاعت پزیر ہوا جس کو پڑھ کربہت افسوس ہوا اور محسوس ہوا کہ یہ صاحب مناظرہ بازی کے شوقین اور مناظرہ بازوں کاانداز رکھتے ہیں، یعنی فریق مخالف کے الفاظ اور جملوں سے غلط استخراج معانی اور الفاظ کی غلط صورت گری کرکے اشتعال انگیزی ۔مولانا اسماعیل شہیدؒ اور بعد میں مولانا قاسم ناناتویؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کی عبارت کے ساتھ مناظرہ بازوں نے یہی کیاہے ۔
اس انداز بیان کی ایک جھلک موصوف کے شمارہ اپریل کے مضمون کے چند جملوں سے لگا ئی جاسکتی ہے جویہ ہیں: ’’لیکن افسوس کہ میرے اس جملے سے ڈاکٹر صاحب کے پندار کو سخت چوٹ لگی اور انہوں نے مارچ ۲۰۰۶ء کے شمارے میں اس غلطی کی نشان دہی پر میرے انداز کو جارحانہ اور علمی حیثیت سے گرا ہوا قرار دیتے ہوئے نہ صرف مجھے بائبل پر قرآن سے زیادہ اعتماد کرنے کا طعنہ دیاہے بلکہ لمبی زبان والا، یہودی، جاہل، غافل اور دھوکے باز جیسی گالیوں سے بھی نوازا ہے‘‘۔
میرا جوابی مضمون مارچ کے شمارے میں ہے۔ ہر انصاف پسند انسان اسکو پڑھ کریہی کہے گا کہ میں نے ان مضمون نگار صاحب کو کہیں بھی یہودی، جاہل، غافل اور دھوکے باز نہیں کہاہے۔ البتہ میں نے ان کے بائبل پر زیادہ اعتماد کا اشارہ ضرور دیاتھا اوران کو بائبل کا حافظ لکھا تھا ،کیونکہ ان کا پہلا تنقیدی مضمون اور پھر دوسرا بھی (اپریل ۲۰۰۶ء) بائبل کے مختلف کتابوں کے حوالوں سے بھرا ہوا تھا۔ معلوم نہیں اس میں کون سی غلط بیانی اور تنقیص یا گالی ہے! میں قارئین کی یاد دہانی کے لیے عرض کرتاہوں کہ موصوف نے قورح کے شجرہ نسب اور دیگر اوصاف پر ایک صفحہ سے زیادہ سیاہ کیا تھا۔ بھلا اس کا میرے مضمون ’’قرآن کا نظریہ مال ودولت‘‘ سے کیا تعلق؟ یہ تعالم (اظہار علمیت) نہیں تو کیاہے ؟
پھر موصوف کے بائبل پر حد سے بڑ ے ہوئے اعتماد کے سلسلے میں، میں نے اس قورح کے شجرہ نسب سے متعلق بائبل کے متضاد ومتناقض بیانات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ بائبل کی کتاب خروج میں وہ ان کے مطابق اضہار بن قہات کا بیٹا ہے، جبکہ اسی بائبل کی کتاب ۱۔ تواریخ ۶: ۲۲،۲۳ میں قورح عمینداب کا بیٹا ہے (قہات کا بیٹا عمینداب، عمینداب کا بیٹا قورح) اس موقع پر میں نے لکھاتھا کہ ’’کیا بائبل کے حافظ یاسین عابد صاحب کی نظر سے بائبل کا یہ باب اور یہ فقرہ نہیں گزرا یا انہوں نے جان بوجھ کر تغافل کیاہے‘‘۔ اب بتایا جائے کہ ان الفاظ میں کون سی گالی ہے؟ گالی تو اسے کہتے ہیں جو حضرت ابوبکرؓ نے عمرو بن سہیل کو اس کی رسول اللہ سے بدتمیزی اور گستاخانہ مطالبے پر صلح حدییبہ کے موقع پر دی تھی۔مجھے تو ایسا لگتاہے کہ مناظرہ بازی کے شوقین یہ مضمون نگار صاحب الفاظ کی نزاکت اور ان کے صحیح استعمال سے بھی واقف نہیں ۔اگر قارون وقورح سے متعلق یہ سب باتیں ’الشریعہ‘ جیسے موقر مجلے کے صفحات پر نہ آتیں تو میں ہر گز ان کی باتوں کا جواب نہ دیتا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یاسین عابد صاحب نے اپنے جوابی حالیہ مضمون ( اپریل) میں بائبل کے اس متناقض بیان کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی۔ کرتے بھی کیسے، انہوں نے تو اپنے فروری ۲۰۰۶ء کے مضمون میں بڑے دھڑلے سے قورح کا نسب نامہ حضرت یعقوب علیہ السلام تک لکھتے ہوئے اس کو اضہاربن قہات کا بیٹا لکھا تھا، جبکہ اسی بائبل کی ایک دوسری کتاب ۱۔ تواریخ کے مطابق وہ عمینداب کا بیٹا تھا۔
قرآن نے کہا ہے: ان قارون کان من قوم موسیٰ (قارون ،موسیٰ کی قوم میں سے یعنی اسرائیلی تھا) ہمارے قدیم مستند ائمہ تفسیر طبری، قرطبی، زمخشری وغیرہ نے لکھا ہے کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی قورح بن یصہر بن لاوی بن یعقوب تھا۔ بات ختم ہوئی کہ یہ ائمہ تفسیر توراۃ (بائبل) سے بخوبی واقف تھے۔مزید یہ کہ ہمارے عصر حاضر کے لائق اعتنا ثقہ مفسرین نے بھی یہی لکھا ہے۔ اگر آپ اس سے متفق نہیں ہیں تو بائبل کو کھنگالنے کی کیاضرورت ہے اور اگر کھنگالتے ہیں تو ٹھیک طرح سے اور دیانت داری کے ساتھ کھنگالیے۔ ایسے ہی ایک سیاق میں، میں نے لکھا تھا کہ انہوں نے مجھے تو یہ طعنہ دیا تھا کہ میں نے کبھی بائبل کھول کر بھی نہیں دیکھی بلکہ سنی سنائی باتیں لکھ دی ہیں، ’’کیا اب میرا یہ کہنا درست ہوگا کہ موصوف نے کبھی بائبل کھول کر دیکھی ہی نہیں، یا دیکھی ہے تووہ جان بوجھ کر غلط بیانی کررہے ہیں اور قارئین کودھوکہ دے رہے ہیں۔‘‘
اب خدارا بتایا جائے کہ اس میں کون سی گالی ہے جس پر انہوں نے دہائی دی ہے؟ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اپریل کے اسی شمارے میں جس میں یاسین عابد صاحب نے گالیوں کی بے دہائی دی ہے، مولوی محمود خارانی صاحب کا ایک خط شائع ہوا ہے جس میں موصوف نے اس ناچیز کو تنقید کا نشانہ بنایاہے۔ ان صاحب کو یہ بات بہت بری لگی ہے کہ میں نے یاسین عابد صاحب کو ’’بائبل کا حافظ ‘‘کہاہے۔ وہ یقیناًبائبل کا بہت وسیع مطالعہ رکھتے ہیں۔ یہ بات ان کے پہلے اور دوسرے مضمون (فروری واپریل ) اور پھر تیسرے خط نما مضمون (غیر شائع شدہ) سے آشکاراہے کہ ان مضامین میں انہوں نے بائبل کی مختلف کتابوں کے بکثرت حوالے دیے ہیں بلکہ اپنے تیسرے خط نما مضمون میں (جو انتہائی انفعالی اور مبالغانہ انداز میں لکھا گیاہے) تو آنجناب نے فارسی، عربی،بلکہ گورگھی بائبل کے حوالے بھی دیے ہیں۔ اب ایسے شخص کو اگر بائبل کاحافظ نہ کہا جائے تو کیا کہاجائے؟ اس لیے دارالعلوم کورنگی کے ان مولوی محمود خارانی صاحب (جن کو صاحب مضمون نے حضرت مولانا محمود خارانی صاحب کے نام سے یاد کیاہے) کی شکایت بیجا ہے۔ موصوف نے مجھے جو فرمان نبویﷺ یاد دلایاہے کہ ’’مومن کے ساتھ اچھا گمان رکھو ‘‘ تو کیا موصوف نے اس ناچیز کو کافر سمجھ رکھاہے کہ انہوں نے یاسین عابد صاحب کو مجھ سے بدگمانی بلکہ مجھ پر زبان طعن دراز کرنے کی اجازت دیدی۔ کیا انہوں نے یاسین عابد صاحب کا یہ جملہ نہیں پڑھا کہ’’ ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی صاحب بہادر نے کبھی بائبل کھول کر بھی نہیں دیکھی‘‘۔ کیا یہ بدگمانی جائز ہے ؟ مزید یہ کہنا کہ ’’ڈاکٹر صاحب نے شاید قرآنی قارون کو پیش نظر رکھ کر خیالات کے گھوڑے دوڑائے ہیں‘‘ کیا یہ بد گمانی نہیں؟ اور کیا یاسین عابد صاحب کے پاس وحی آگئی تھی کہ میں نے بائبل کبھی کھول کر بھی نہیں دیکھی اور قورح کے بارے میں خیالات کے گھوڑے دوڑائے ہیں؟ محمود خارانی صاحب بتائیں کہ یہ سب لانبی زبان کی باتیں نہیں ہیں توکیاہیں۔ (۱)
(۱) اس مضمون کے لکھنے کے بعد ۱۷؍ مئی کو مجھے مکرر تقاضے پر الشریعہ کا فروری کا شمارہ ملا جس میں دیکھا کہ مجلہ کے ادارہ نے یہ سب جارحانہ جملے حذف کر دیے تھے اور ان کے مضمون کے زبان کے پہلو سے نوک پلک درست کر دیے تھے اور غالب کا ایک ٹوٹا پھوٹا طنزیہ مصرع بھی حذف کر دیا تھا۔ مولوی محمود خارانی مدرس دار العلوم کراچی نے چونکہ یہ جارحانہ جملے نہیں پڑھے تھے، اس لیے انھوں نے مجھے مطعون کیا۔ سامحہ اللہ)
میں نے اپنے مارچ ۲۰۰۶ء کے جوابی مضمون میں بتایا تھا کہ مولانا عبد الماجد دریابادی ،مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور عبداللہ یوسف علی نے اپنی تفاسیر میں قارون کو بائبل کا قورح ہی کہاہے۔ ان مایہ ناز علمائے تفسیر ومحققین کے حوالوں کے بعد یاسین عابد صاحب کو خاموش ہوجانا چاہیے تھا مگر’’ ملّا آں باشد کہ خاموش نشود‘‘۔ اب انہوں نے اپریل کے شمارے میں میری حرف گری کرتے ہوئے ایک نیا مسئلہ زبور سے متعلق کھڑا کردیاہے اور انہوں نے قورح کی توصیف میں جو کچھ لکھا تھا اور اس بارے میں بائبل کے جو غلط حوالے دیے تھے، وہ بھول گئے ہیں ،او ر موضوع کا رخ چابک دستی سے دوسری طرف پھیر دیا ہے، لیکن میں قارئین کی توجہ اس اصلی مضمون کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے قورح پر بحث کرتے ہوئے لکھا تھا کہ 
’’وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پرایمان رکھتاتھا۔ یہی وجہ تھی کہ قورح نے مصر میں موجود اپنے گھر بار،اور شہری حقوق وسہولیات کوچھوڑ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سربراہی میں ہجرت کی اور جنگلوں میں مارے مارے پھرنا قبول کرلیا، تمام قوم بنی اسرائیل کی نشست وبرخاست خدا اور اس کے نبی موسیٰ علیہ السلام کے زیر فرمان ہی ہوتی تھی ‘‘( گنتی ۹:۲۳) 
میں نے اس پر گرفت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ بائبل کی اس کتاب گنتی میں قورح کے مصر میں اپنے گھر بار اور شہری حقوق وسہولیات چھوڑنے کا مطلقاً ذکر نہیں اور یہ بھی عرض کیاتھا کہ اگر قورح حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لایا ہوتا تو مصر میں اس کے شہری حقوق وسہولیات چہ معنی دارد؟ اسرائیلی تو وہاں غلامی اور ذلت کی زندگی بسر کررہے تھے۔ پھر قورح کو حضرت موسیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے یہ حقوق کیسے مل گئے؟ جس پر مضمون نگار صاحب نے کم فہمی کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ گنتی (بائبل) کے اس حوالے سے ان کا مقصد صرف آخری جملہ تھا، لیکن مضمون مذکورہ بالا میں ساری عبار ت کے بعد ہی بائبل کی کتاب گنتی کا حوالہ تھا، اس لیے عبارت کا پہلا جز یعنی قورح کا مصر کے شہری حقوق وسہولیات چھوڑنا اسی کتاب گنتی سے ماخوذ سمجھا جائے گا جس کے موصوف انکاری ہیں۔ یہی سہی ،پھر یہ بتایا جائے کہ قورح کے بارے میں ان کی یہ معلومات بائبل کی کتاب سے ماخوذ نہیں تو کہاں سے ان کو ان باتوں کا علم ہوا؟ اور پھر صحرائے سینا میں جنگل کہاں سے آگئے جہاں قورح جنگلوں میں مارا مارا پھر رہا تھا؟ اگر وہاں جنگلات ہوتے تو اللہ تعالیٰ قرآن اور بائبل دونوں کے مطابق وہاں سایہ کے لیے بادل کیوں بھیجتا؟ (وظللنا علیکم الغمام ) ایسے ہی موقع کے لیے شاعر نے کہاہے :
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ 
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
یہ تو مرے ناقد ومعترض کی بائبل فہمی ہے جس کا ان کا بہت ادعا ہے اور جس کے وہ بکثرت حوالے دیتے ہیں، خواہ ناقص ہی ہیں۔موصوف کی قرآن فہمی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے اپنے فروری کے مضمون میں ذیلی عنوان قارون کے تحت لکھا تھا ’’ قرآن عزیز کے مطابق قارون قوم موسیٰ سے تھا۔ .... قرضوں کا لین دین کرتاتھا اور سود در سود منافع خوری کے حساب کے لیے منشیوں، خزانچیوں، مسلح پہرے داروں، سپاہیوں اور عاملوں پر مبنی ایک بڑی جماعت کا نیٹ ورک بنا رکھا تھا۔‘‘ (القرآن ۲۸:۷۶)
بائبل کی کتاب گنتی کے ایک غیر متعلق مضمون میں غلط حوالے پر میری گرفت کرنے والے مضمون نگار صاحب یہ تو بتائیں کہ سورۃ القصص ۲۸: ۷۶ کی مذکورہ بالا آیت میں قارون کے ’’سود در سود منافع خوری، منشیوں، خزانچیوں، مسلح پہرے داروں، سپاہیوں اور عاملوں پر مبنی نیٹ ورک ‘‘ کا ذکر انہوں نے کہاں سے نکال لیا؟ اب بتایاجائے کہ قرآن کریم کی ایک آیت کا ذکرکرکے ’’خیالات کے گھوڑے‘‘ کون دوڑارہا ہے؟ میں یا فاضل ناقد ؟قرآن میں تو صرف اتنا ہے: واٰتینا ہ من الکنوز ماان مفاتحہ لتنوء بالعصبۃ اولی القوۃ (اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دیے تھے کہ اس کی کنجیاں ہی اٹھاتے ہوئے ایک طاقتور جماعت (بوجھ سے )جھکی جاتی تھی) ۔
عجیب لغو ولایعنی بحث شروع کردی ہے ان صاحب نے۔ قورح کا شجرہ نسب، اس کے کارنامے،اس کے ساتھ داتن بہرام اور اس کے ساتھی، ۲۵۰ آدمیوں کی موسیٰ علیہ السلام کے خلاف بغاوت، بائبل کی مختلف کتابوں کے حوالے، آخر اس سب کا میرے اصلاحی ودعوتی مضمون ’’اسلام کا نظریہ مال ودولت قصہ قارون کی روشنی میں ‘‘سے کیا تعلق ہے؟
جہاں تک زبور کا مسئلہ ہے، میں اس پر اس وقت تفصیل سے بحث کرنا نہیں چاہتا، لیکن اتنا عرض کروں گا کہ قرآن کریم نے انبیائے بنی اسرائیل پر نازل کردہ صرف تین کتابوں کا ذکر کیاہے: توراۃ ،زبور ،انجیل۔ سب مسلمانوں کا ان تین کتابوں کے وجود پر ایمان ہے، لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی ایمان رکھتے ہیں کہ ان میں مختلف عہود میں تحریف کی گئی ہے، کچھ کم کرکے، کچھ بڑھا کر اور کچھ بدل کر۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ آخری کتاب قرآن کے بارے میں فرمایا ہے: ’مصدقا لما بین یدیہ من الکتاب ومھیمنا علیہ‘ (المائدہ :۴۸) یعنی قرآن تصدیق کرنے والا ہے سابقہ کتب آسمانی کی اور ان پر نگران ہے، جس کامقصد جمہور علما کے نزدیک یہ ہے کہ توراۃ وزبور کی جن باتوں کی قرآن تصدیق کرتاہے، وہ مان لی جائیں۔ (آیت بالا میں ’الکتاب‘ کی تفسیر علماے تفسیر نے کتب آسمانی کی ہے) زبور ایک ایسی کتاب ہے جس میں توراۃ کی پانچ کتابوں (پیدائش ،خروج ،احبار ،گنتی ،تثنیہ) کے برخلاف جن میں بیشتر باتیں تاریخ اوراحکام سے متعلق ہیں، زیادہ تر مناجا تیں ہیں ،اللہ کی حمدو ثنا کے نغمے ہیں، اس لیے یہ بڑی حد تک تحریف سے پاک ہے ،البتہ اس میں بھی چند مقامات پر تحریف ہوئی ہے لیکن اتنی نہیں جتنی توراۃ کی مذکورہ بالا کتابوں میں، جن میں نوح اور لوط علیہما السلام کی طرف انتہائی گندی باتیں منسوب کی گئی ہیں اور جس کی کتاب خروج میں حضرت ہارون علیہ السلام کو گائے کے بچھڑے کا بت بنانے اور اس کی پوجا کرنے والا بتایا گیاہے۔نعوذ باللہ من ذالک۔
ہم ان تحریفات کے سبب اس پوری توراۃ کا انکار نہیں کرتے بلکہ جہاں جہاں اس کے بیانات قرآن کے مطابق ہیں، ان سے قرآن کی حقانیت کا استدلال کرتے ہیں۔ اسی طرح زبور کا جو بیان قرآن کی تصدیق کرتاہے ،یا اس سے قرآنی مجمل کی کوئی تفصیل معلوم ہوتی ہے، ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں۔ اور پھر زبو رکے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ وہ ساری کتاب زبور جو بائبل میں شامل ہے، وہ سب داؤد علیہ السلام سے منسوب نہیں۔ بائبل کے اردو ترجمہ میں تو اس کا ذکرنہیں، نہ فارسی، عربی اور گورمکھی بائبل میں اس کا ذکرہوگا، لیکن اس مستند انگریزی بائبل میں جسے Authorised King James Version کہا جاتاہے، اس کے نیویارک کے طبع شدہ ایڈیشن میں عہد قدیم کی کتاب Pslams (زبور) کی پانچ فصول کے بارے میں ہے کہ ان میں سے صرف پہلی کتاب یا فصل کی تصنیف داؤد علیہ السلام سے منسوب کی جاتی ہے، یعنی مزمور ا تا ۴۱۔ باقی میں سے دوسری بنی قورح کی، تیسری آصف کی، چوتھی عہد قیدو بند سے قبل کی مجہول المولف اور پانچویں اس (بابلی) عہد قیدوبند سے واپس کے بعد کی تصانیف ہیں۔ (Holy Bible, New York, page viii)
جو حوالے جناب معترض نے ز بور کے دیے ہیں اس استدلال کے لیے کہ زبور عہد قید وبند کے بعد کی لکھی ہوئی ہے، وہ تو خود عیسائی اہل کتاب، جب کہ ابھی عرض کیا گیا، تسلیم کرتے ہیں۔ ان میں سے صرف ایک حوالہ مزمور ۱۴:۷ کا وہ ہے جوبائبل کے ماننے والوں کے نزدیک حضرت داؤد علیہ السلام کی زبان سے ہے اور جس میں بنی اسرائیل کی اسیری کا ذکر ایک سطر میں ہے۔ ہو سکتاہے کہ یہ جملہ الحاقی ہو یا اس زمانے سے متعلق ہو جب داؤد علیہ السلام کے خلاف ان کے بیٹے نے بغاوت کی تھی اور وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ یروشلم چھوڑ کرچلے گئے تھے اور ان کے دیگر ساتھی اسیر ہوگئے تھے۔ ابی سلوم نے یروشلم پر قبضہ کرلیاتھا۔ (۲۔سموئیل: ۱۵،۱۶) 
بہرحال ہمارا اس موضوع سے تعلق نہیں۔ موضوع یہ تھا کہ زبور میں جہاں داتن اور ابیرام کے زمین میں دھنسائے جانے کا ذکرہے ( جو خروج مصر کے بعد سینا میں پیش آیا) وہاں قورح کا نام نہیں۔ اس کے ساتھ ہی میں نے توراۃ کی کتاب استثنا (Deutronomy) ۱۱: ۶ کا حوالہ بھی دیا تھا کہ وہاں داتن اور ابیرام کے زمین میں دھنسائے جانے کا ذکرہے لیکن ان کے ساتھ قورح کا ذکر نہیں ۔اس طرح بائبل کی دوکتابوں میں جہاں بنی روبن میں سے داتن اور ابیرام کو زمین میں دھنسائے جانے کا ذکر ہے، وہاں بنی لاوی میں سے قورح کانا م نہیں۔ اس کے برخلاف کتا ب گنتی ۱۶:۳۱،۳۲ میں اس واقعہ میں قورح کا نام بھی شامل ہے۔ اس طرح بائبل کی کتابوں کے بیانات باہم متضاد ہیں اور شہادتیں یہ ہیں کہ سینا میں کچھ اسرائیلوں کے زمین میں دھنسائے جانے کے وقت قورح ان میں شامل نہ تھا جس سے ثابت ہوتاہے کہ وہ مصر میں زمین میں دھنسایا جاچکاتھا اور جسے قرآن کریم نے قارون کے نام سے یادکیاہے۔ اگر یاسین عابد صاحب اپنے پیشرو محمد اسلم رانا صاحب کی تقلید میں اس کو ہٹ دھرمی کرتے ہوئے نہیں مانتے تو نہ مانیں، عہد حاضر کے انتہائی مشہور ومستند مذکورہ بالا مفسرین قرآن نے تو یہی کہا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر زبور محرّف ہے تو بائبل کی کتاب گنتی کا غیر محرّف ہونا کہاں سے ثابت ہے کہ اس پر یہ مضمون نگار صاحب اتنا اعتماد کررہے ہیں؟ یہ بھی بائبل کی دیگر کتب کی طرح تحریف شدہ اور ساقط الاعتبار ہے اور اس کے حوالے سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ قورح کو مصر میں نہیں بلکہ سینا میں زمین میں دھنسایا گیا۔ 
یہ بحث بائبل کے بکثرت مطالعہ کرنے والے ایک صاحب کے اعتراضات کی بنا پر کافی طویل ہوگئی۔ بہرحال شاید اس میں قارئین کی دلچسپی کے لیے بعض مفید باتیں بھی آگئی ہیں۔ اب آخر میں عرض ہے کہ مصنفین سے بلکہ مشاہیر مصنفین سے کسی نہ کسی سبب سے ا غلاط ہو ہی جاتی ہیں۔ ایک نیک نیت اور صاحب لیاقت ناقد ایسی غلطی پر طنز وتشنیع او رمصنف کی تشہیر اختیار نہیں کرتا ہے ۔ ایسا ایک کم ظرف انسان ہی کرتاہے جس کو اپنا نام چھپوانا مقصودہوتاہے۔ سلیم الفطرت ناقد ادب ولیاقت وحسن ظن کے ساتھ مصنف کو ذاتی طور پر یا بطورتحریر مطلع کرتاہے جیسا کہ چند سال قبل ’’تجدید واحیا ے دین‘‘ کے مطالعہ کے دوران میں نے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی ایک تاریخی غلطی دیکھی تھی جو انہوں نے شاہ ولی اللہ صاحب جیسے عظیم وعبقری مصنف سے نقل کی تھی، جو یہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد کسی خلیفہ نے اپنی قیادت میں حج نہیں کرایا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ ان دو عظیم مصنفین کے ناموں کے سبب لو گ اس غلط بات کا اعادہ کرتے رہیں گے، اس لیے میں نے نو دس سال قبل ایک مضمون اس موضوع پر لکھا جو اعظم گڑھ انڈیا میں دارالمصنفین کے مشہور ومعروف رسالے میں چھپا اور جس میں نے مستند کتب تاریخ طبری، یعقوبی، مسعودی، ذہبی اور سب سے بڑھ کر امام بخاری کے استاد خلیفہ بن خیاط کی تاریخ کے حوالوں سے ثابت کیا کہ شاہ ولی اللہ صاحب اور ان کے تتبع میں مولانا مودودیؒ کی با ت درست نہیں۔ حضرت عثمان کے بعد پانچ اموی خلفا اور تین عباسی خلفا نے اپنی قیادت میں حج کرایا جن کے نام حضرت معاویہ،عبدالملک بن مروان، ولید بن مالک، سلیمان بن عبد المالک، ہشام بن عبد الملک، ابو جعفر المنصور العباس، المہدی العباسی، ہارون الرشید۔ اور اس مشہور ترین عباسی خلیفہ نے تو نو بار مکہ مکرمہ جاکر حج کی قیادت کی۔ میرا یہ مضمون ’’بعض مشاہیر مصنفین کی ایک اہم تاریخی غلطی ‘‘ کے عنوان سے میری کتاب ’’تحقیقات وتاثرات‘‘ ص ۳۱۰،۳۱۸ میں موجود ہے۔ (مطبوعہ کراچی ۲۰۰۰ء) جہاں تفصیل دیکھی جاسکتی ہے ۔
لیکن میں نے اس فاش غلطی کی نشان دہی اور تصحیح کرتے ہوئے یہ نہیں لکھا کہ مولانا مودودی صاحب اور شاہ ولی اللہ صاحب ؒ نے کبھی تاریخ اسلام کی کوئی کتاب کھول کر نہیں دیکھی یا یہ کہ انہوں نے خیالات کے گھوڑے دوڑائے ہیں کہ یہ آداب تنقید کے خلاف ہے اور طنزوتشنیع کا پہلو رکھتی ہے ،بلکہ میں نے ان دونوں کی طرف سے عذرداری ہی کی ہے کہ ان دونوں عظیم مصنفین ومحققین کا میدان فکرو تحقیق تفسیر وحدیث وفقہ وغیرہ دینی علوم ہیں، اس لیے ان سے یہ سہو ہوا ۔
یہاں میںیہ بھی عرض کردو ں کہ معترض نے غلط کہا، میرا زندگی بھر کا مطالعہ بائبل کا نہیں بلکہ تفسیر قرآن، اسلامی تاریخ وتمدن اور عربی زبان وادب واسلامی ثقافت کا ہے۔البتہ میں نے اردو وانگریزی بائبل پر نظر ضرور ڈالی ہے ،بلکہ تنقید ی نظر ڈالی ہے اور نوٹ لکھے ہیں۔ خاص طور پر بائبل کی ا بتدائی پانچ کتابوں پر جنھیں توراۃ (Torah)کہا جاتاہے او ر کتاب سلاطین پر، اور یہ بھی صرف قر آن میں مذکور انبیا کے حالات زندگی معلوم کرنے کی غرض سے ۔میں نے اپنے آپ کو بائبل کا ایک اسٹوڈنٹ نہیں کہتاہوں، البتہ میں بائبل کی کتاب زبور میں جو مناجات ہیں یا اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے جو ترانے ہیں، ان سے بہت محظوظ ہوتاہوں اور میں سمجھتاہوں کہ یہ تنزیل الٰہی ہیں۔ صحیح حدیث نبوی میں بھی ان اثر انگیز فریادوں،دعاؤں اور مناجاتوں کا ذکرہے کہ آپ ﷺ نے ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کا ،ان کے جانے بغیر، خوش الحانی سے قرآن پڑھنے پر ان کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا: ’اعطیت مزمارا من مزامیر داود‘ (انہیں داؤد علیہ السلام کے ترانوں میں سے ایک ترانہ دیاگیاہے) ( صحیح بخاری)مزید یہ کہ قرآن کریم میں ’ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصالحون‘ (ہم نے زبور میں یہ لکھ دیاہے نصیحت/ ذکر کرنے کے بعد کہ زمین کے وارث (حکمران ) میرے نیک بندے ہوں گے) (الانبیاء ۱۰۵) زبور ،۳۷:۳۶ میں ہے ’’صادق زمین کے وارث ہوں گے‘‘۔ اوراس سے قبل سطر ۱۱ میں ہے ’’لیکن حلیم ملک کے وارث ہوں گے ۔‘‘
’الشریعہ ‘ ایک موقر علمی مجلہ ہے۔ا س کو عام لوگوں کے علاوہ اہل علم ودانش زیادہ پڑھتے ہیں، اس لیے اس قدر تفصیل سے یہ سب کچھ لکھنا پڑا ،تاکہ موضوع اور اٹھائے ہوئے اعتراضات سے متعلق تمام پہلو واضح ہوجائیں۔ وما توفیقی الا باللہ۔ 

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم مدیر الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
’الشریعہ‘ ما شاء اللہ فکری اعتبار سے کافی اہم رول ادا کر رہا ہے اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے بنیادیں فراہم کر رہا ہے اور مسالک اور مذاہب کے مابین افہام وتفہیم کو فروغ دے رہا ہے۔
جون ۲۰۰۶ کے شمارے میں ڈاکٹر کنول فیروز نے بجا کہا ہے کہ’’یہ دور مناظرے کا نہیں بلکہ انٹر فیتھ مکالمہ (Interfaith dialogue) کا ہے تاکہ مختلف مذاہب وادیان اور مسالک کے درمیان نہ صرف غلط فہمیوں اور کج بحثیوں کا خاتمہ ہو بلکہ باہمی رواداری، یگانگت، ہم آہنگی، محبت اور برداشت کی ثقافت کو فروغ حاصل ہو۔‘‘ 
اسی حوالے سے راقم نے بھی انتہا پسندی، بین المذاہب ہم آہنگی اور مکالمہ پر کافی لکھا ہے۔ "Interfaith relationship: Islamic Perspective" کے عنوان سے ایک مضمون HSSRD کے رسالہ Science-Religion Dialogue میں شائع ہوا ہے جو ہماری ویب سائٹ www.hssrd.org پر بھی موجود ہے۔ علاوہ ازیں اردو میں ایک تفصیلی مقالہ اسلام آباد میں منعقد ہونے والی سیرت کانفرنس ۲۰۰۶ کے لیے لکھا گیا تھا جسے سرحد کی طرف سے پہلا انعام بھی دیا گیا۔ اگر آپ چاہیں تو راقم ’الشریعہ‘ میں اشاعت کے لیے بھیج سکتا ہے۔
جون ہی کے شمارے میں محمد سمیع اللہ فراز صاحب کا مضمون ’’اسلامی تحریکیں اور مغربی تحقیقات‘‘ مستشرقین کی کتب کے overview پر مشتمل ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نے جن کتابوں کے نام پبلشرز اور سن اشاعت کی تفصیلات کے ساتھ درج کیے ہیں، ان کا خود مطالعہ نہیں کیا، ورنہ وہ مشہور اسکالر اور اسلام اور عیسائیت کے مابین مکالمہ اور ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کام کرنے والے مستشرق John L. Esposito کی تقریباً ساری اچھی کتابوں کے نام گنوانے کے بعد یہ نہ لکھتے کہ ’’انھوں نے اسلامی تحریکات کو ہدف تنقید بناتے ہوئے مغرب کو ان کے عزائم سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ اگر وہ صرف ان کی کتاب "The Islamic Threat: Myth of Reality" کا مطالعہ کرتے تو انھیں معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اسپوسیٹو نے تو امریکہ اور مغرب کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ چند اسلامی تحریکات کے طرز عمل کی بنیاد پر اسلام یا تمام مسلمانوں پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کا لیبل نہیں لگانا چاہیے بلکہ اسلام اور عالم اسلام کے اس کے حقیقی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ مذکورہ کتاب کے چند جملے ملاحظہ ہوں:
The selective analysis fails to tell the whole story, to provide the full context for Muslim attitudes events and actions, or fails to account for the diversity of Muslim practice. While it sheds some light, it is a partial light that obscures or distorts the full picture." (p. 1973)
آگے لکھتے ہیں:
Selective and therefore biased analysis adds to our ignorance rather than our knowledge, narrows our perspective rather than broadening, reinforces the problem rather than opening the way to new solutions." (p. 173)
اسپوسیٹو نے اسی صفحہ پر پروفیسر برنارڈ لیوس کے طرز فکر سے سخت اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ برنارڈ لیوس نے اپنی تحریروں میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے متعصبانہ رویہ اختیار کیا ہے جو مغرب اور امریکہ کے تعصب میں مزید اضافہ کرنے کا ذریعہ ہے۔ (صفحہ ۱۷۳، ۱۷۴)
کتاب کے آخری پیرا گراف میں اسپوسیٹو نے لکھا ہے:
"Our challenge is to better understand the history and realities of the Muslim World. Recognizing the diversity and many faces of Islam counters our image of a unified Islamic threat. It lessens the risk of creating self-fulfilling prophecies about the battle of the West against a radical Islam." (p. 215)
’’ہمارے (امریکہ اور مغرب کے) لیے یہ چیلنج ہے کہ ہم عالم اسلام کی تاریخی اور حقائق کو بہتر انداز میں سمجھیں۔ اسلام کی تعبیرات میں تنوع اور اس کے مختلف (وسیع النظر) پہلوؤں کو سمجھنا ہی کسی یک رنگ اسلامی خطرے کے بارے میں ہمارے تصور کو ختم کر سکتا ہے اور اس سے مستقبل میں انتہا پسند اسلام کے ساتھ مغرب کے تصادم کے بے بنیاد نظریات گھڑنے کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے۔‘‘
جان اسپوسیٹو نے Muslim and the Westکے نام سے ایک کتاب ادارۂ تحقیقات اسلامی اسلام آباد کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کے ساتھ مل کر مرتب کی ہے۔ یہ کتاب بھی مسلمانوں اور اہل مغرب کے مابین غلط فہمیوں کو کم کرنے کے سلسلے میں ایک اہم کوشش ہے۔ 
ان سطور سے راقم کا مقصود مستشرقین کا دفاع نہیں، کیونکہ بالعموم ان کی تحریروں سے واقعی تعصب اور عناد کی بو آت ہے۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ تمام مستشرقین کو ایک نظر سے دیکھنا صحیح نہیں، بلکہ قرآنی آیات کی روشنی میں اہل کتاب یعنی مسیحیوں میں مسلمانوں سے مودت اور ہمدردی رکھنے والے بھی ہیں جن کے نقطہ نظر کی تعریف کرنی چاہیے۔ 
پروفیسر عبد الماجد
چنار روڈ، مسلم ٹاؤن، مانسہرہ
(۲)
جناب رئیس التحریر ماہنامہ ’الشریعہ‘
سلام مسنون۔ مزاج گرامی؟
موجودہ حالات میں ’الشریعہ‘ کی جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہے، اس لیے کہ معاصر مذہبی رسالہ جات زیادہ تر پرانے واقعات کو دہرانے کا کام کرتے ہیں، جبکہ تحقیقاتی کام کم ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ، جن میں نوجوان طبقہ خاص طور پر شامل ہے، مذہبی ٹائٹل کے حامل رسالوں سے کوسوں دور بھاگتے ہیں۔ لیکن مجھے اس بات پر تکلیف ہوئی ہے کہ جولائی کے شمارے میں حدود آرڈیننس پر تبصرے کے دوران میں آپ نے تعریفی طور پر جنرل ضیاء الحق کو نعوذ باللہ ’شہید‘ لکھ دیا۔ وہ شخص جس نے اس ملک کے قانون، آئین اور اسلامی روح کو برباد کیا، جو اپنے ہی ملک کے شہریوں پر ظلم کرتا رہا اور جو لسان، مذہبی اور علاقائی تقسیم کا چیمپئن تھا، اسے شہید اور پھر رحمۃ اللہ علیہ کس بنیاد پر کہا جاتا ہے؟
کبھی میر جعفر بھی حکومت میں ہوتے ہوئے لالچیوں اور سازشیوں کا لیڈر تھا۔ آج میسور (انڈیا) میں ٹیپو سلطان اور حیدر علی کا مقبرہ ملکی وغیر ملکی سیاحوں کی آماج گاہ ہے، لیکن چند کلومیٹر دور میر جعفر کی قبر چند ٹوٹی پھوٹی اینٹوں کے سوا کچھ نہیں اور کوئی وہاں نہیں جاتا۔ جنرل ضیاء الحق فیصل مسجد کے باہر دفن ہے، لیکن وہاں چڑیوں اور کووں کا بسیرا ہے۔ خود ضیا کے حامی، جماعت اسلامی اور نواز شریف وغیرہ اس کا نام لینا چھوڑ گئے ہیں۔ 
آپ کے ہاتھ میں قلم ہے، لیکن اسے انفرادی خواہش اور پسندیدگی کی نذر نہ کیجیے بلکہ واقعات کو بیان کر کے فیصلہ عوام پر چھوڑ دیجیے۔ خدا آپ کا حامی وناصر ہو۔
محمد سعید اعوان
موضع اروپ۔ ضلع گوجرانوالہ
(۳) 
محترمی ومکرمی ،السلام علیکم 
امیدہے بخیر وعافیت ہوں گے۔
برادرِمکرم شبیر احمد خان میواتی کے وسیلہ سے گزشتہ چند ماہ سے ’’الشریعہ‘‘سے استفادہ کا موقع مل رہاہے۔ کم علمی کے سبب مندرجات پر اظہار رائے کا اہل تو میں خود کو نہیں سمجھتا لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ دینی اور علمی جرائد میں الشریعہ کونہ صرف بے تعصبی اور وسعت فکر کے حوالے سے انفرادیت حاصل ہے، بلکہ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کے لیے جس تحمل کی ضرورت ہوتی ہے، وہ بھی الشریعہ ہی میں نظر آتاہے ۔یہ تحمل اور حوصلہ جملہ فکری مباحث کے لیے شرطِ اول ہے لیکن مجھے تو علمی اور دینی حلقوں میں کم کم نظر آیاہے ۔
سید امتیاز احمد
۱۰۷۔ عرفان چیمبرز
۱۳۰ ؍ ٹمپل روڈ ۔ لاہور

ذکر ندیم

پروفیسر میاں انعام الرحمن

بیسویں صدی سامراجی اقوام کے غلبے کے خلاف بغاوت کی صدی تھی۔ بغاوت اور انقلاب کے لیے محکوم اقوام کو جس سطح کے جوش و جذبے اور اعتماد کی ضرورت تھی، ادیبوں اور شاعروں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے سے اسی سطح کے جوش و جذبے اور حریت پسندی کو محکوم اقوام کا شعار بنا دیا۔ بیسویں صدی کے پہلے نصف کا اردو ادب بھی ایسی تخلیقی کاوشوں کا آئینہ دار ہے۔ اسی صدی کے دوسرے نصف میں نو آزاد اقوام کے سامنے اپنی آزادی کی بقا کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت کی دریافت کا مہیب مسئلہ آ کھڑا ہوا تو ادیبوں اور شاعروں نے گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرنے کے بجائے ایک بار پھر اپنا کردار نہایت سرگرمی سے ادا کیا۔ اردو ادب میں جن شعرا اور ادبا نے اس سلسلے میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں، احمد ندیم قاسمی ان میں بہت بڑا اور نہایت معتبر نام ہے۔ واضح ترقی پسند رجحانات کے باوجود احمد ندیم قاسمی اپنے ہم عصر ترقی پسندوں کے مانند خارجیت کے اسیر نہیں رہے۔اس لیے ندیم کی شاعری اور نثر میں حقیقت نگاری کے ہمراہ تخیل کی طلسمی فضا بھی موجود ہے ۔ احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کے موضوعات ، اور پھر جس طرح انھوں نے ان موضوعات کے ساتھ انصاف کیا ، اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ وہ جہاں مقتضیاتِ فن سے آگاہ تھے، وہاں انھیں ادیب اور شاعر کے منصب کے سماجی تقاضوں کا بھی بھر پور ادراک حاصل تھا۔ ندیم جانتے تھے کہ نوآزاد اقوام کی بقا اور ان کی مقامی ثقافت کی دریافت کے لیے جوش و جذبے کی نہیں بلکہ ہوش، متانت اور تحمل کی ضرورت ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ندیم کی شاعری اور افسانے ، نعروں میں نہیں ڈھل سکے۔ المیہ یہ ہے کہ سنگ زنی کرنے والے یار لوگ، شاعری اور نثر کی اس سطح کو ہی معیار مانے ہوئے ہیں جو نوآبادیاتی دور کی پیداوار اور ضرورت تھی، حالانکہ اب اسے اعزاز کے ساتھ دفنا دیا جانا چاہیے ۔ 
احمد ندیم قاسمی کے مخالفین انھیں ترقی پسندوں کی صف میں کھڑا کرکے ان کی تخلیقات کو ایک خاص زاویے سے دیکھتے ہیں، اس لیے دنیا اور زندگی میں کوئی فرق قائم کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ندیم کی شاعری اور افسانوں میں دنیا نہیں بلکہ زندگی کا بیان ہے۔ زندگی سے یہی رغبت ان کے تخلیقی رویے کی اصل روح ہے ۔ دیہات اور اس سے وابستہ ایک خاص ثقافت حقیقت میں زندگی کی علامات ہیں ۔ یہ علامات ندیم کے قاری کو ڈھونڈنی نہیں پڑتیں ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ زندگی ہر دم ، شہیدِ التفات نہیں رہتی۔ یہ درد اور چوٹیں بھی پہنچاتی ہے۔ انسان کو آنسوؤں کے مزار پر بھی لا بٹھاتی ہے ۔ ایسے مزار کی مجاوری کے لیے ترقی پسند ہونا شرط نہیں، انسان ہونا کافی ہوتا ہے ۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ احمد ندیم قاسمی جیسا ترقی پسند انسان ، انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال اور پھر اس استحصال کو فنکارانہ سطح پر داد وتحسین کی خاطر فنی معانی پہنائے جانے پر قدرے تلخ ہو کر کچھ یوں کہہ سکتا ہے :
کب تک میں روایات کی بات کرتا 
فاقوں میں کرامات کی بات کرتا 
تم زخم کو بھی پھول سمجھ لیتے ہو 
کب تک میں کنایات کی بات کرتا
زندگی اور زندگی کے حقائق کو دھیمے، متین، سنجیدہ اور شائستہ لہجے میں بیان کرنے والا اردو ادب کا یہ عظیم شاعر اور ادیب ۱۰ جولائی ۲۰۰۶ کے سورج کی شعاعوں سے الجھتے ہوئے اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
دن شعاعوں سے الجھتے گزرا 
رات آئی تو کرن یاد آئی

’’انکار رجم: ایک فکری گمراہی‘‘

محمد عمار خان ناصر

شریعت کی مقرر کردہ سزاؤں میں ’رجم‘ کی حیثیت اور نوعیت کیا ہے؟ یہ سوال معاصر علمی بحثوں میں ایک اہم بحث کا عنوان ہے۔ برصغیر کے جلیل القدر عالم اور مفسر مولانا حمید الدین فراہی علیہ الرحمہ نے قرآن مجید کی تاویل وتفسیر کے باب میں قرآن کے الفاظ کے قطعی الدلالت ہونے اور تاویل وتفسیر کے تمام معاون ذرائع مثلاً احادیث وآثار اور تاریخی روایات پر قرآن کے اپنے الفاظ کی حاکمیت کو ہر حال میں قائم رکھنے کے جن علمی اصولوں کو اختیار کیا تھا، اس کے ایک لازمی نتیجے کے طور پر ان کے نتائج فکر نہ صرف فروعی امور میں بلکہ بعض بے حد اہم اور بنیادی نوعیت کے مسائل میں بھی عام فکری رجحانات سے مختلف قرار پائے۔ زنا کی سزا کا مسئلہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ قرآن مجید نے زنا کی سزا صریح طور پر اور کسی قسم کی تخصیص کے بغیر صرف سو کوڑے بیان کی ہے، جبکہ روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زنا کے بعض مجرموں کو رجم کرنے اور شادی شدہ اور غیر شادی شدہ ہونے کی بنیاد پر زانی کی سزا میں فرق کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ اس ضمن میں بنیادی ماخذ کی حیثیت اس روایت کو حاصل ہے: ’البکر بالبکر جلد ماءۃ ونفی سنۃ والثیب بالثیب جلد ماءۃ والرجم‘ (کنوارا مرد اور کنوری عورت زنا کریں تو ان کو سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے جلا وطن کر دیا جائے۔ شادی شدہ مرد اور عورت زنا کریں تو ان کو سو کوڑے لگائے جائیں اور رجم کر دیا جائے)۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ کے اصول کے مطابق چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول وفعل کے ذریعے سے قرآن مجید کے مدعا میں کسی قسم کا کوئی تغیر پیدا نہیں کرتے، بلکہ آپ کے تمام استنباطات اور اجتہادات قرآن ہی پر مبنی اور اسی کے تحت ہوتے ہیں، اس وجہ سے انھوں نے رجم کی سزا کا ماخذ قرآن مجید ہی میں متعین کرنے کی کوشش کی اور یہ رائے ظاہر کی کہ رجم کی سزا آیت محاربہ پر مبنی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرموں کے لیے عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے (جس کی ایک صورت مولانا کی رائے میں ’رجم‘ بھی ہے)، سولی چڑھانے، ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے اور جلا وطن کر دینے کی سزائیں بیان کی ہیں۔ اس تناظر میں مولانا کی یہ رائے زیر بحث مسئلے میں ایک پہلو سے احناف ہی کی رائے کی توسیع ہے۔ احناف اپنے اصول کے مطابق رجم کی روایات کی کثرت اور شہرت کی بنا پر شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق کے تو قائل ہیں اور سورۂ نور کے حکم ’فاجلدوا کل واحد منہما ماءۃ جلدۃ‘ کو صرف غیر شادی شدہ زانیوں کے حق میں قابل عمل مانتے ہیں، تاہم وہ اس پر ’البکر بالبکر جلد ماءۃ ونفی سنۃ‘ میں بیان ہونے والے اضافے یعنی ایک سال کی جلا وطنی کو سزا کا لازمی حصہ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی رائے میں قرآن نے جس سزا کے بیان پر اکتفا کیا ہے، وہی اصل سزا ہے اور اس پر کوئی اضافہ کرنا قرآن کے نسخ کو مستلزم ہے جو خبر واحد سے نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے نزدیک زانی کو جلا وطن کرنا محض ایک صواب دیدی سزا ہے جو قاضی اگر مناسب سمجھے تو حالات کی رعایت سے مجرم کو دے سکتا ہے۔ مولانا فراہی چونکہ قرآن سے باہر کی کسی بھی چیز سے، چاہے وہ خبر مشہور ہی کیوں نہ ہو، قرآن کے حکم میں تبدیلی کے قائل نہیں، اس لیے انھوں نے اسی اصول کا اطلاق روایت کے دوسرے حصے یعنی ’الثیب بالثیب جلد ماءۃ والرجم‘ پر کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شادی شدہ زانی کے لیے بھی اصل سزا سو کوڑے ہی ہے، جبکہ رجم کی سزا اس صورت میں دی جائے گی جب مجرم زنا کے ساتھ ساتھ فساد فی الارض کا بھی مرتکب ہو۔
یہ اس بحث کا اصل علمی پس منظر ہے۔ جہاں تک آیت محاربہ کو رجم کی سزا کا ماخذ قرار دینے کا تعلق ہے تو اس رائے پر یقیناًبہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں جن میں دو سوال بنیادی نوعیت کے ہیں۔ ایک یہ کہ کیا آیت محاربہ اپنے الفاظ، سیاق وسباق اور علت کی رو سے رجم کا ماخذ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ اور دوسرا یہ کہ کیا رجم سے متعلق احادیث اور روایات اس توجیہ کو قبول کرتی ہیں؟ یہ سوالات علمی استدلال کے ساتھ زیر بحث لائے جا سکتے ہیں اور مولانا فراہی کی رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اس بحث کے علمی نکات پر اپنا نقطہ نظر تو ہم کسی مناسب موقع پر تفصیل کے ساتھ پیش کریں گے، یہاں ہم صرف اس نکتے کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ کسی بھی نقطہ نظر پر تنقیدی گفتگو اسی وقت تک ’علمی بحث‘ کے دائرے میں رہتی ہے جب تک اس کو اس کے اصل علمی پس منظر میں دیکھا جائے اور اس کے استدلال کی صحت یا سقم کو دیانت دارانہ طریقے سے متعین کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر علمی مباحث میں طعن وتشنیع اور تفسیق وتضلیل کا رویہ در آئے تو تنقید فکر ونظر کی آبیاری کرنے کے بجائے محض ’بغیا بینہم‘ کا ایک نمونہ بن کر رہ جاتی ہے۔ 
بہرحال مولانا فراہی کی مذکورہ رائے کو صاحب ’تدبر قرآن‘ مولانا امین احسن اصلاحی نے زیا دہ وضاحت کے ساتھ موضوع بحث بنایا تو فطری طور پر علمی حلقوں میں ایک بحث پیدا ہو گئی اور طرفین سے مباحثہ واستدلال کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسی تناظر میں فراہی اسکول کے معروف عالم مولانا عنایت اللہ سبحانی نے ’’حقیقت رجم‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی جس میں انھوں نے مولانا فراہیؒ کے نقطہ نظر کے حق میں دلائل وشواہد پیش کیے۔ ’’انکار رجم: ایک فکری گمراہی‘‘ کے عنوان سے زیر نظر کتاب ڈاکٹر ابو عدنان سہیل صاحب نے مولانا سبحانی کی اسی تصنیف کے جواب میں لکھی ہے۔ مصنف نے بحث کے اہم نکات کے حوالے سے جمہور اہل علم کے موقف کے حق میں دلائل پیش کیے ہیں اور بعض مقامات پر منفرد توجیہات کرنے کوشش بھی کی ہے۔ لب ولہجہ اور طرز استدلال بالعموم متوازن ہے، تاہم موضوع اصولی نوعیت کے علمی مباحث اور متعلقہ علمی مواد پر جس سطح کی گرفت کا متقاضی ہے، ا س کے لحاظ سے کتاب میں بہتری کی کافی گنجایش موجود ہے۔ اسی طرح مخالف استدلالات پر جن متنوع پہلوؤں سے تنقید کی جا سکتی ہے، ان سب کا احاطہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ مجموعی اعتبار سے ایک عام قاری کتاب کے مطالعے سے اختلافی نکات کا مناسب تعارف حاصل کر سکتا ہے۔ 
۱۲۸ صفحات پر مشتمل اس کتاب کو مکتبہ قدوسیہ، رحمان مارکیٹ، غزنی اسٹریٹ، اردو بازار لاہور نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت ۵۰ روپے ہے۔

لبنان کی صورت حال اور مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

لبنان کے خلاف اسرائیلی جارحیت نے ایک بار پھر پورے علاقے کے لیے جنگی صورت حال پیدا کر دی ہے اور بعض حلقوں کی طرف سے نئی عالم گیر جنگ کے خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے، لیکن عالم اسلام ابھی تک خواب خرگوش میں ہے اور مسلم دار الحکومتوں پر ’’سکوت مرگ‘‘ طاری ہے۔ اسرائیل نے لبنان پر چڑھ دوڑنے کے لیے اسی طرح کا بہانہ تراشا ہے جس طرح کا بہانہ افغانستان اور عراق پر فوج کشی کے لیے امریکہ نے تراشا تھا، لیکن یہ بات طے نظر آ رہی ہے کہ بہانہ کوئی بھی ہو، لبنان پر حملے کا پروگرام طے تھا۔ البتہ اس بار امریکہ نے خود کوئی کارروائی کرنے کے بجائے اپنے ’’لے پالک‘‘ اسرائیل کو آگے کر دیا ہے، جبکہ باقی سب وہی کچھ ہو رہا ہے جو اس سے قبل افغانستان اور عراق میں ہو چکا ہے اور نتیجہ بھی وہی سامنے آ رہا ہے جو وہاں برآمد ہوا تھا کہ اس بہانے نیٹو کی فوج کو لبنان میں اتارنے کی تیاریاں کی جا رہی ہے اور روزنامہ جنگ کراچی ۲۴؍ جولائی ۲۰۰۶ کی خبر کے مطابق ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے اس انداز سے یہ اطلاع دنیا تک پہنچائی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل لبنان میں نیٹو کی فوجیں تعینات کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں۔ گویا یہ بھی امریکہ اور اسرائیل کا لبنان اور عالم عرب پر احسان ہوگا کہ وہ وہاں خود قبضہ کرنے کے بجائے نیٹو کی فوج بھیج کر اس کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کریں گے۔
لبنان، شام اور ایران سے امریکہ اور اسرائیل کو یہ شکایت ہے کہ وہ ان فلسطینی حریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں شریک نہیں ہو رہے بلکہ ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں جو اسرائیل کی ننگی جارحیت اور کھلی دہشت گردی کے مقابلے میں ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں، فلسطینیوں کے لیے باوقار آزادی اور خود مختاری سے کم کسی بات پر راضی نہیں ہو رہے اور اپنی جانوں کا مسلسل نذرانہ دے کر دنیا کو اپنے وجود اور زندگی کا احساس دلا رہے ہیں۔ اسی بنا پر لبنان کے عوام کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور دوسرے ممالک کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ یہ صورت حال دنیا بھر کے ہر مسلمان کے لیے پریشان کن ہے، اضطراب انگیز ہے اور اذیت ناک حد تک تکلیف دہ ہے، لیکن مسلم دنیا کے حکمرانوں کو ابھی تک اس بات کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اجتماعی طور پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کر سکیں او رمل بیٹھ کر فلسطین اور لبنان کے عوام کو کم از کم الفاظ کی صورت میں ہی یہ تسلی دے سکیں کہ ان کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، وہ مظلوم ہیں اور ہم اگر ان کے لیے عملاً کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم دعائیں ضرور دے رہے ہیں۔
اس صورت حال میں ہم اپنے لبنانی بھائیوں کے ساتھ ہم دردی اور ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہوئے ان پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہیں اور دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ زبانی جمع خرچ اور گول مول باتیں کرنے کے بجائے اسلامی سربراہ کانفرنس کا ہنگامی سربراہی اجلاس بلا کر فلسطینی عوام اور ان کے ساتھ لبنان کے عوام کو اس وحشیانہ دہشت گردی سے بچانے کے لیے جرات مندانہ موقف اختیار کریں، کیونکہ مسلم ممالک کے حکمران ہونے کے ناتے سے ان کی ملی، انسانی اور اخلاقی ذمہ داری یہی بنتی ہے۔

ستمبر ۲۰۰۶ء

عقل کی حدود اور اس سے استفادہ کا دائرہ کارمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مجلس عمل کی سیاسی جدوجہد ۔ چند سوالاتچوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
غامدی صاحب کے تصور سنت کا تنقیدی جائزہحافظ محمد زبیر
حدود آرڈینینس ۔ جناب جاوید احمد غامدی کا موقفسید منظور الحسن
حدود اللہ اور حدود آرڈیننس ۔ جناب ڈاکٹر طفیل ہاشمی کا مکتوب گرامیڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی
محترم جاوید غامدی اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کی توضیحاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مکاتیبادارہ
ویڈیو کیمرے کی فقہی حیثیتادارہ

عقل کی حدود اور اس سے استفادہ کا دائرہ کار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’الشریعہ‘ کے گزشتہ شمارے میں ہم نے روزنامہ جناح اسلام آباد کے کالم نگار آصف محمود ایڈووکیٹ صاحب کے پیش کردہ سوالات میں سے ایک کا مختصراً جائزہ لیا تھا۔ آج کی محفل میں ہم اس قسم کے سوالات کے حوالے سے چند اصولی گزارشات پیش کریں گے اور اس کے بعد باقی ماندہ سوالات میں سے اہم امور پر کچھ نہ کچھ عرض کرتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
سب سے پہلے اس حقیقت کو سمجھنا اور پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جب ہم ایک مسلمان کے طورپر اللہ تعالیٰ کو اس کائنات کا خالق ومالک، رازق ومدبر اور حکیم وحاکم یقین کرتے ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا نمائندہ اور احکام وقوانین میں اس کی طرف سے مجاز اتھارٹی سمجھتے ہیں تو اس یقین وایمان کی رو سے ہم اس امر کے پابند ہو جاتے ہیں کہ ان کی طرف سے جو حکم بھی آئے اور جو بات بھی کہی جائے، اسے حتمی تصور کریں اور اگر کوئی بات ہماری سمجھ میں نہ آتی ہو تو بھی اللہ تعالیٰ اور ان کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو صحیح اور برحق مانتے ہوئے سمجھ میں نہ آنے کو اپنی عقل کی کوتاہی پرمحمول کریں۔ بات وہاں بگڑتی ہے اور اشکال وہیں پیدا ہوتا ہے جب کچھ لوگ یہ طے کر لیتے ہیں کہ ہماری عقل اور سمجھ کسی بات کے صحیح اور حتمی ہونے کا واحد معیار ہے۔ کوئی بات اس کے دائرے میں آئے گی تو ہم قبول کریں گے اور اگر کوئی بات ہماری سمجھ اور عقل کے دائرے میں نہیں آ رہی تو نہ صرف یہ کہ اس کو تسلیم نہیں کریں گے بلکہ اس کی نفی کرنا اور اس کا مذاق اڑانا بھی ضروری سمجھیں گے۔
عقل ایک عمدہ صلاحیت اور قدرت کے عطا کردہ ایک بہترین آلہ کا نام ہے جس کے ذریعے سے ہم ارد گرد کے ماحول کو سمجھتے ہیں، اپنی ضروریات کا ادراک حاصل کرتے ہیں، اپنے نفع ونقصان کو پہچانتے ہیں اور علم ودانش میں ارتقا حاصل کرتے ہیں، لیکن یہ محض ایک آلہ ہے جو حاصل شدہ معلومات میں سے ایک اچھی ترتیب اور عمدہ نتیجہ نکالنے کے کام آتا ہے۔ خود اس کے اندر سے کوئی چیز برآمد نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایک کمپیوٹر کی سی سمجھ لیجیے کہ اس میں جو پروگرام فیڈ کریں گے، وہ اس کے دائرے میں کام کرے گا، اپنی طرف سے کسی پروگرام کا اضافہ نہیں کرے گا۔ آپ اسے جو پروگرام مہیا کریں گے، اسی کے مطابق اس سے کا م لے سکیں گے اور اگر آپ چاہیں کہ فیڈ کیے ہوئے پروگرام سے ہٹ کر کمپیوٹر اپنی طرف سے بھی آپ کو کچھ دے تو کوئی عمدہ سے عمدہ کمپیوٹر بھی ایسا نہیں کر سکے گا۔ اسی طرح کی ایک مثال ملک شیک بنانے والی مشین کی بھی ہے۔ اس کے اندر صرف یہ صلاحیت ہے کہ جو کچھ اس میں ڈالا جائے، اسے مکس کر کے آپ کو ان چیزوں کا جو س پیش کر دے۔ اپنی طرف سے کوئی چیز وہ اس میں شامل نہیں کرے گا۔ آپ نے جتنی چیزیں اس میں ڈالی ہیں اور جس مقدار میں ڈالی ہیں، وہ ان کے مطابق آپ کو نتیجہ دے گا اور اگر آپ کی خواہش ہو کہ وہ اپنی طرف سے بھی اس میں کوئی چیز شامل کر دے تو یہ آپ کا بھول پن ہوگا۔
بالکل یہی صورت حال عقل کی ہے۔ وہ ایک عمدہ صلاحیت اور بہترین آلہ ہے۔ اس کو جو معلومات، مشاہدات، مدرکات اور محسوسات فراہم ہوں گے، وہ ان کے مطابق نتائج فراہم کرے گی۔ معلومات ومشاہدات کا دائرہ محدود ہوگا تو نتیجہ بھی محدود ہوگا اور جوں جوں معلومات ومشاہدات اور محسوسات ومدرکات کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا، نتیجہ بھی مختلف ہوتا چلا جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ جوں جوں انسان کے مشاہدات اور معلومات میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کی عقل کے فیصلے بھی بدلتے جا رہے ہیں۔ ایک دور تھا جب انسان کی زبان سے صادر ہونے والی گفتگو کے بارے میں یہ محاورہ زبان زد عوام تھا کہ ’اذا تلفظ تلاشی‘، جب کوئی بات منہ سے نکل جاتی ہے تو معدوم ہو جاتی ہے، اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہتا اور اسی وجہ سے عقل کی بنیاد پر ہر بات کا فیصلہ کرنے والے حضرات مسلمانوں کے اس عقیدہ پر معترض ہوا کرتے تھے کہ قیامت کے روز انسان کی باتوں کا بھی حساب ہوگا اور اقوال کو بھی میزان پر تولا جائے گا۔ وہ یہ کہتے تھے کہ جب ایک چیز کا وجود ہی باقی نہیں رہا اور وہ فضا میں تحلیل ہو گئی ہے تو ا س کا وزن کیسے ہوگا اور وزن کے لیے وہ قابو میں کیسے آئے گی؟ ان کے اس اعتراض کا درست یا غلط ہونا اپنی جگہ پر، مگر یہ اس دور کے معقولات ومشاہدات کی بنیاد پر تھا جب انسانی مشاہدے کی رو سے الفاظ منہ سے نکل کر معدوم ہو جایا کرتے تھے، لیکن اب تو منہ سے نکلتے ہی ایک ایک لفظ ریکارڈ ہو جاتا ہے، محفوظ ہو جاتا ہے اور کسی بھی وقت دوبارہ سنا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انسان کے اعمال کی بات ہے کہ جب یہ ریکارڈ میں نہیں آتے تھے تو یہی سمجھا جاتا تھا کہ انسان سے کوئی عمل صادر ہو کر فضا میں تحلیل ہو گیا ہے اور اسے دوبارہ وجود میں لانا مشاہدہ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس لیے قرآن کریم کے اس ارشاد پر بھی اعتراض ہوتا تھا کہ انسان قیامت کے روز اپنے اعمال کو دیکھے گا، لیکن اب انسان کے قول کے ساتھ ساتھ اس کا ہر عمل ریکارڈ میں آ جاتا ہے، محفوظ ہو جاتا ہے اور اسے کسی بھی وقت دوبارہ دیکھا جا سکتا ہے۔
اس مثال سے ہم یہ نکتہ اپنے قارئین کے ذہن میں لانا چاہتے ہیں کہ عقل کا کوئی فیصلہ بھی حتمی نہیں ہوتا۔ عقل کا ہر فیصلہ اس وقت تک اسے میسر آنے والی معلومات ومشاہدات کی روشنی میں ہوتا ہے اور چونکہ معلومات ومشاہدات اور مدرکات ومحسوسات میں وسعت وتنوع کا امکان ہر لمحہ موجود رہتا ہے، اس لیے عقل کے ہر فیصلے میں تبدیلی اور تغیر کا امکان بھی ہر وقت موجود رہتا ہے اور عقل کے کسی فیصلے کو کسی وقت بھی آخری اور فائنل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 
پھر اس حوالے سے ایک اور پہلو پر بھی نظر ڈال لینی چاہیے کہ عقل عام جسے ’’کامن سنس‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، نہ زمانے کے لحاظ سے ایک رہتی ہے اور نہ علاقے کے اعتبار سے ہی اس میں یکسانی پیدا ہو سکتی ہے۔ ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ عقل محض ایک آلہ ہے اور ایک کمپیوٹر ہے جو اس میں فیڈ کیے ہوئے پروگرام کے مطابق ہی نتیجہ دے گا او رپروگرام کی یہ فیڈنگ سوسائٹی کرتی ہے۔ ایک بچہ جب سوچنے سمجھنے کے قابل ہوتا ہے تو اس کے کمپیوٹر کی خالی سی ڈی میں ارد گرد کا ماحول اپنا پروگرام فیڈ کرنا شروع کر دیتا ہے جو اس کے سن بلوغ تک پہنچتے پہنچتے مکمل ہو جاتا ہے اور پھر عام طور پر وہ ساری زندگی اسی فیڈ کیے ہوئے پروگرام کے مطابق گزار دیتا ہے۔
ایک انسان کے ذہن کے کمپیوٹر میں پروگرام کی فیڈنگ کا یہ کام سب سے پہلے گھر کی چار دیواری میں ماں باپ کی حرکات وسکنات کی صورت میں ہوتا ہے اور وہی بچے کی ذہنی نشوونما میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں جسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ارشاد میں یوں بیان فرمایا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے (یعنی خالی کیسٹ اور نیو سی ڈی ہوتا ہے) اسے اس کے ماں باپ یہودی بناتے ہیں، عیسائی بناتے ہیں اور مجوسی بناتے ہیں، یعنی اس خالی کیسٹ اور سی ڈی میں کسی پروگرام کی فیڈنگ کا کام سب سے پہلے ماں باپ کرتے ہیں۔ پھر بچہ اسی سانچے میں ڈھلتا چلا جاتا ہے۔ یہ بات عام مشاہدے میں ہے کہ مسیحی ماحول میں پرورش پانے والا بچہ یقیناًیہودی ماحول میں تربیت حاصل کرنے والے بچے سے مختلف ہوتا ہے اور ہندو خاندان میں جوان ہونے والے بچے کی نفسیات مسلمان خاندان میں جنم لینے والے بچے سے قطعاً مختلف ہوتی ہیں۔ اسی طرح امریکہ کے ماحول میں پرورش پانے والے بچے کی نفسیات اور افتاد طبع افریقی بچے سے مختلف ہوگی اور عرب ماحول میں نشوونما حاصل کرنے والے نوجوان کی نفسیات اور معقولات چینی ماحول میں نشوونما پانے والے نوجوان سے الگ ہوگی۔
یہ تنوع اور اختلاف اس امر کی واضح دلیل ہے کہ ہر انسان کی عقل نہ صرف یہ کہ میسر آنے والی معلومات اور مشاہدات کی پابند ہے بلکہ اپنے اپنے ماحول کی بھی اسیر ہے اور ان دوباتوں کے موجود ہوتے ہوئے یہ بات کم از کم ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ’’عقل عام‘‘ کا کوئی ایسا معیار بھی ہو سکتا ہے جو تمام زمانوں اور تمام علاقوں کے لیے یکسانی کا حامل ہو اور جسے پوری نسل انسانی کے لیے کسی ضابطہ وقانون اور فلسفہ ونظام کی بنیاد بنایا جا سکے۔
آج مغرب کے پاس اپنے فکر وفلسفہ کو دنیا سے منوانے کے لیے سب سے بڑی دلیل یہی ’’عقل عام‘‘ اور ’’کامن سنس‘‘ ہے لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ جس عقل عام او رکامن سنس کو واحد عالمی معیار قرار دے کر دنیا سے منوانے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ صرف مغرب کی عقل عام ہے اور اسی کا کامن سنس ہے، اس کے معلومات ومشاہدات کا دائرہ باقی دنیا سے مختلف ہے، اس کے مدرکات ومحسوسات کی سطح باقی دنیا سے الگ ہے اور اس کے تاریخی پس منظر اور تجربات کا ماحول دوسری دنیا سے مطابقت نہیں رکھتا مگر وہ صرف سائنس اور ٹیکنالوجی، عسکری قوت اور معیشت ومیڈیا کی بالادستی کی قوت پر اپنا مخصوص ’’کامن سنس‘‘ پوری دنیا پر مسلط کرنے کے درپے ہے ۔ میڈیا، لابنگ اور ذہن سازی کے تمام ہتھیار اور ذرائع اس کے کنٹرول میں ہیں اور وہ منہ زور ہاتھی کی طرح دنیا کی ہر ثقافت، فکر اور فلسفہ کو روندتا چلا جا رہا ہے۔
ا س لیے ہم اگر اسلامی احکام وقوانین کو ان کے اصل تناظر میں سمجھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں مغرب کے پھیلائے ہوئے فکر وفلسفہ کے جال کا ادراک حاصل کرنا ہوگا، اس کے وسیع تر پروپیگنڈے کے فریب سے نکلنا ہوگا اور اس ابدی حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ انسانی عقل کا اصل مقام کیا ہے اور عقل عام کی اصل حدود اور دائرہ کار کیا ہے ، اس لیے کہ اگر ہم اپنے عقائد اور بنیادی احکام کے فیصلے اس عقل خاص یا عقل عام کی بنیاد پر کرنے بیٹھ جائیں تو ہر سو سال کے بعد عقائد میں تبدیلی لانا ہوگی اور ہر صدی کے بعد احکام وقوانین میں رد وبدل کرنا ہوگا۔ پھر مختلف علاقوں کے لیے مختلف قوانین ہوں گے اور یہ تصور باقی نہیں رہے گا کہ عقائد واحکام کا کوئی ایسا درجہ اور معیار بھی ہے جو عقل کے آئے دن بدلتے ہوئے فیصلوں سے ماورا ہے اور سب زمانوں کے لیے یکساں طور پر قابل قبول ہے۔
ہمیں عقل اور عقل عام کی افادیت اور کارفرمائی سے انکار نہیں ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری کا سوچ بھی نہیں سکتے، لیکن وہ اپنے دائرۂ کار میں رہے گی تو نعمت ہوگی اور اسے اس کے حدود سے نکال کر وحی سے بالاتر قرار دے دیا جائے گا اور وحی کی تعبیر وتشریح اور تفہیم وتوضیح میں بھی اسے حتمی معیار اور اتھارٹی تصور کر لیا جائے گا تو یہی نعمت آزمایش اور عذاب کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے۔ اس لیے اصولی گفتگو کے آغاز میں ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہیں گے کہ ان سوالات کا ضرور سامنا کریں اور انھیں سمجھنے اور سمجھانے کی ضرور کوشش کریں لیکن اس سے پہلے اپنے ایمان ویقین کی بنیاد کا ضرور جائزہ لے لیں کہ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کو اپنی عقل یا دنیا کی عقل عام پر پرکھنا ضروری ہے؟ اور کیا یہ راستہ فطرت کا راستہ نہیں ہے کہ جو بات سمجھ میں آ جائے، اس پر خدا کا شکر ادا کریں اور جو بات ہم نہ سمجھ سکیں، اس پر یہ کہتے ہوئے ایمان قائم رکھیں کہ جس طرح بہت سی باتیں پہلے سمجھ میں نہیں آتی تھیں مگر اب سمجھ میں آ رہی ہیں، اسی طرح مشاہدات ومعلومات کا دائرہ مزید وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ یہ باتیں بھی ہماری سمجھ میں آ جائیں گی؟

مجلس عمل کی سیاسی جدوجہد ۔ چند سوالات

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

مجلس عمل کی پارلیمانی جد و جہد کے چار سال پورے ہو چکے ہیں۔ ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ کے جون ۲۰۰۶ء کے شمارے میں ایک مفصل رپورٹ میں مجلس کی کاردکردگی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ رپورٹ کی ترتیب بالکل ایسے ہے جیسے سرکاری ترجمانی کا حق ادا کیا جا رہا ہو۔ رپورٹ پڑھ کر میں نے ’ترجمان القرآن‘ کے مدیر کے نام خط لکھا اور رپورٹ کے بارے میں چند سوالا ت اٹھائے۔ مذکورہ جریدہ نے میرا خط شائع نہیں کیا۔ میں نے وجہ دریافت کی تو کوئی واضح جواب نہیں ملا۔ غالباً ارباب ترجمان اپنے قارئین کو اندھے، بہرے اور گونگے خیال کرتے ہیں۔ وہ اپنے صفحات قارئین کے لیے صرف اتنا ہی کھولنا چاہتے ہیں کہ بحث کا کوئی راستہ پیدا نہ ہو۔ بہر صورت وہ اپنی پالیسی کے مالک ہیں۔ میں اپناخط معمولی تصرف کے ساتھ یہاں پیش کر رہا ہوں۔
تازہ شمارے میں ’’مجلس عمل کی پارلیمانی جد و جہد کے چار سال‘‘ ملاحظہ کیے۔ ’ترجمان‘ کے حوالے سے بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا اس پرچے میں پروپیگنڈے اور یک طرفہ رپورٹ کی سطح کی چیزوں کے لیے گنجایش موجود ہے؟ میں پینتالیس سال سے ’ترجمان‘ کا قاری ہوں۔ یہ ماہنامہ یقینی طور پر ایک علمی، دینی اور نظریاتی پرچہ ہے۔ اس کا مقام رہنمائی کا ہے۔ اگر کسی وجہ سے پروپیگنڈے اور رپورٹ نوعیت کی چیزوں کو جگہ دینا ناگزیر ہو تو ان کو کھلے اور عام مباحثے کی دعوت کے ساتھ پیش کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہاں تو صورت یہ ہے کہ ایک سو سولہ صفحات کے پرچے میں قارئین کے خطوط کے لیے دو صفحے ہیں۔ تین سطروں سے گیارہ سطروں پر مشتمل چھ خطوط ان دو صفحات میں کھپائے گئے ہیں۔ معاف فرمائیے، اسے نرم ترین الفاظ میں قارئین کے استحصال کی بد ترین مثال ہی کہا جا سکتا ہے۔ پرچے کی توسیع اشاعت کی لگا تار اپیلیں سر آنکھوں پر، مگر پرچے کو کم از کم معیار اور مقصدیت پر قائم و استوار کرنا تو ارباب ترجمان کی ذمہ داری ہے۔ بھرتی کی خاطر صفحات سیاہ کرنے کا کوئی امکان باقی نہیں ہونا چاہیے۔
اس تمہید کو چھوڑتے ہوئے آٹھ صفحات کی مفصل اور چار سالہ کارکردگی رپورٹ پر مفصل تبصرے سے آپ کی تنگ دامانی کے پیش نظر گریز کی خاطر صرف چند سوالات پیش کر دینا چاہتا ہوں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ مجلس میں چار بڑے قائدین، مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق، پروفیسر سینیٹر ساجد میر اور قاضی حسین احمد کے ما بین چار سال بعد بھی نمائشی یکجہتی کے سوا کیا سامنے آیا ہے؟ قاضی صاحب محترم ان کو جمع کر کے ٹوکرے تلے یکجا کرتے کرتے بوڑھے ہو گئے ہیں۔ (۲ جون کومحترم قاضی صاحب نے گوجرانوالہ کے عام جلسہ میں فرمایا کہ ان کی ٹانگیں قبر میں ہیں)۔ مجلس عمل کے جس اتحاد کی بات رپورٹ میں بڑے کرو فر کے ساتھ کی گئی ہے، آئندہ چند مہینے میں اس کی حقیقت سامنے آنے میں کوئی کسر رہ گئی ہے؟ ۱۹۶۳ء کے سی اوپی، پھر پی ڈی ایم، ڈی اے سی، پھر بھٹو دور میں یو ڈی ایف، پی این اے، ضیاکے عہد میں ملی یکجہتی کونسل اور شریعت محاذ، بے نظیر دور میں آئی جے آئی کو بنتے بگڑتے ان گنہگار آنکھوں نے دیکھا ہے۔ ہر بار آخر دم تک اتحاد کے پختہ تر ہونے کے اعلانات سامنے آتے رہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ہر چار سال بعد اتحاد کے نام پر لوگوں کودھوکہ دینے کا سلسلہ تواتر سے جاری رہا اور جاری ہے۔ نہ معلوم ایسے ایسے تماشے ہمیں دیکھنے کو کب تک ملیں گے۔ کیا ان تجربات سے اعلیٰ کردار اور نظریہ اور مسائل کی جانب پیش رفت ہوئی ہے یا ترقی معکوس؟ کیا ترجمان ایسے کھلے مباحثے کا اہتمام کر سکتا ہے جس میں ہم اتنے طویل سیاسی عمل کا بالکل اسی طرح جائزہ لیں جس طرح مولا نا مرحوم نے ’’خلافت و ملوکیت‘‘ میں مسلمانوں کی تاریخ کا لیا ہے؟ اگر ایسا اہتمام آپ کریں تو یہ عظیم خدمت ہو گی۔ بحث و مباحثے سے سٹیٹس کو اور جمود ٹوٹے گا ، ذہن کھلیں گے، راہیں پیدا ہوں گی، سفر پیچھے کے بجائے منزل کی جانب استوار ہو گا اور واقعتاسفر ہوگا۔ صرف ہو گا ہی نہیں، ہوتا نظر بھی آئے گا۔
چار سال میں پبلک کے مسائل پر ہماری پارلیمانی پارٹی نے، جو تاریخی لحاظ سے ہماری سب سے بڑی اور سب سے زیادہ باصلاحیت نمائندگان پر مشتمل پارٹی ہے، کوئی ترجیحات طے کیں اور ان کے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا ہے؟ وردی کے سوال پر قریباً سال بھر بینچ بجانے کے سوا کیا کیا اور نتائج کیا رہے؟ آغا خان بورڈ جیسے قوانین کو جس طرح آنکھیں بند کر کے تحفظ دیا گیا، آخر اس کی ذمہ داری کس پر آئے گی؟ کہا جائے گا کہ جرنیل نے دھوکہ دیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ دھوکہ کھانے پر فخر کرنے کا کوئی مقام ہے؟ جرنیلوں کو ہم نے کبھی دیکھا نہیں؟ ضیا کی وردی میں تو ہم کابینہ میں بیٹھ کر بھی دیکھ چکے تھے۔
علما و فضلا اور ڈاکٹروں پر مشتمل اتنی بڑی پارٹی چار سال میں کیا کارنامہ انجام دے سکی؟ قائد حزب اختلاف کے منصب پر فائز ہونے کے لیے بھی ہمیں ۲۵ مئی ۲۰۰۴ء تک انتظار کرنا پڑا۔ اس کامیابی کے لیے کیا قیمت ادا کرنا پڑی؟ ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا طعنہ تاریخ میں پہلی بار ہمارے حصے ہی آنا تھا۔ کیا اپوزیشن ہمیں اپنا حصہ سمجھتی ہے؟
اتنی بھاری بھرکم پارلیمانی پارٹی نے کوئی ایک دو پارلیمینٹیرین ایسے تیار کیے ہوں جو ہاؤس پر پورے عرصے میں چھائے محسوس ہوتے ہوں؟ جو بزنس رولز پر کمانڈ کے ساتھ ساتھ پورے ہوم ورک کے ساتھ ہاؤس میں اپنا مقام تسلیم کرائیں؟ میری مراد حاجی سیف اللہ، حمزہ، خواجہ صفدر، ملک اختر جیسے کسی ایک کی ہے۔
اس مرحلے پر یہ سوال بھی محل نظر ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مجلس عمل کے نمائندوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اپنے خرچ سے انتخابی مہم چلا کر منتخب ہوا ہو۔ لوگوں یا جماعتوں نے ان کی انتخابی مہم کے اخراجات بھی برداشت کیے اور اپنی توانائیاں اور قیمتی اوقات بھی قربان کیے۔ مجھے یقین ہے کہ ان میں شاید ہی کوئی ایسا نمائندہ ہوگا جس نے جیت کی خوشی میں مبارکباد دینے کا منہ لہی میٹھا اپنی جیب سے کرایا ہو۔ ان میں ایسے درویش بھی منتخب ہوئے کہ جب وہ اپنے کاغذات نامزدگی اور ان کے ساتھ شامل جائیداد اور اثاثوں کے گوشواروں کی پڑتال کے لیے ریٹرننگ افسروں کے سامنے پیش ہوئے تو افسران اثاثوں سے خالی گوشواروں کو دیکھ کر حیران ہو گئے اور اپنی حیرانی دور کرنے کے لیے طرح طرح کے سوالات کرتے رہے۔ امیدواروں کے جوابات سے ریٹرننگ افسران کی حیرانی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا رہا۔ آخر کار چشم فلک نے ایسا منظر بھی دیکھا کہ سراپا درویش قسم کے لوگوں کی بڑی تعداد قانوں ساز اداروں میں پہنچی۔ سوال یہ ہے کہ ایسے درویشوں کو اپنی نمائندہ حیثیت میں قومی خزانے سے مشاہرے وصول کرنے کا کیا حق ہے؟ درویشی کا تقاضا یہ نہیں کہ یہ لوگ دیگر جماعتوں کے لوگوں سے مختلف اور مثالی طرز عمل اختیار کرتے؟ وہ اپنے قیام وغیرہ کا انتظام کسی نہ کسی طرح فیصل مسجد ہی میں کر لیتے، اس طرح کم سے کم اخراجات میں اپنے فرائض ادا کرتے اور قومی خزانے پر بوجھ نہ ڈالتے؟ کم سے کم اخراجات کا انتظام ان کی جماعتوں کی طرف سے کیا جاسکتا تھا۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی تھی کہ وہ یہ مشاہرے وصول کر کے ایک فنڈ کی شکل میں جمع کر کے کم سے کم اخراجات کے بعد بچنے والی رقوم کو پبلک مقاصد کے لیے خرچ کر دیتے۔
رپورٹ کے صفحہ ۵۳ پر جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں، ان کے ساتھ یہ بھی بتا دیا جاتا کہ قریباً پینسٹھ ارکان قومی اسمبلی اور چھبیس سینیٹرز نے چار سال کے عرصے میں غریب مملکت کے قومی خزانے سے کس قدر مجموعی مشاہرہ وصول کیا۔ ارکان نے ہاؤس میں مجموعی دورانیے میں سے کس نسبت سے حاضری دی اور کتنا وقت فلور پر بات کی۔ اس طرح فی منٹ گفتگو کے لیے خزانے سے کتنی ادائیگی ہوئی۔
وردی کو سب سے بڑا مسئلہ بنایا گیا، یہ بہر صورت عوام کا مسئلہ نہیں۔ سیاسی لیڈرز کے لیے بھی یہ مسئلہ صرف اس وقت ہوتا ہے جب وردی والے صاحب براہ راست اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی گرفت قائم کر لیتے ہیں۔ عوام کے چند مسائل میں سرسری طور پر ترجیحات قائم کی جائیں تو اردو کو سرکاری سطح پر دستوری میعاد گزرنے کے باوجود رواج نہ دینا، انصاف کی فراہمی میں کورٹ فیس کا خاتمہ، امن و امان، مہنگائی وغیرہ ہیں۔ 
سیاسی جد و جہد میں عوامی مسائل پر عملی اور موثر جد و جہد اہم ترین ہوتی ہے۔ اس پر مناسب سنجیدہ ترجیحات کے ساتھ موثر لائحہ عمل،تسلسل اور تواتر سے جد و جہد کی جاتی ہے۔ مگر ہم نے کبھی اس بارے میں سوچا بھی نہیں۔ مثلاً چینی اور سیمنٹ کی بلا جواز اور آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں کو ہی لے لیں۔ ہمارے لیڈرز کے طرز عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے لیے یہ مسائل کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ چینی چالیس روپے کے بجائے ایک ہزار روپے کلو بھی ہو تو قاضی حسین احمد اور فضل الرحمن صاحب کے لیے مسئلہ نہیں ہوگی۔ وہ اس مسئلہ پر عوام کو میدان میں نہیں لائیں گے، منافع خور جو مرکزی کابینہ میں بیٹھے ہوں گے، ان کے خلاف دھرنا اور گھیراؤ کی بات آخر کیوں نہیں ہو تی؟ ان کے خلاف قومی اسمبلی میں کوئی ہنگامہ ہو گا اور نہ ہی تواتر سے ڈیسک بجا کر ان کا کافیہ تنگ کیا جائے گا۔
نظریاتی اعتبار سے شریعت یا دستور کی بالا دستی کے بجائے پارلیمنٹ کی بالا دستی کا ڈھنڈورا خوب پیٹا گیا۔ کیا ہمارے پاریلیمینٹیرینزنہیں جانتے کہ پارلیمنٹ کی بالا دستی بالکل ہی لا یعنی بات ہے۔ مملکت کے ہر ادارے کو دستور میں متعینہ دائرے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ کوئی ادارہ بھی بالا دست نہیں ہو سکتا۔ بالا دستی صرف اور صرف دستور کی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح آئندہ جو صورت در پیش ہے، اس میں ایسے سمجھوتوں اور میثاقوں کی بات ہو رہی ہے جس میں آرٹیکل ۲۔الف، شریعت کورٹس، اسلامی حدود اورِ ’’بی بی‘‘ ’’بیبا‘‘ کے مزید وزیر اعظم بننے پر پابندی کو چلتا کر کے ہماری قومی تاریخ کے بدعنوان ترین وزرائے اعظم کو دوبارہ تخت اقتدار پر بٹھانے کے راستے کھولے جائیں۔مجلس عمل کے نمائندگان، ’’بفضلہ تعالیٰ ‘‘ کرپشن کے الزامات سے بچے ہوئے ہیں مگر ملک کو دیوالیہ کر دینے والوں کی واپسی کے لیے ہماری بے چینی بڑی تعجب خیز ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سمجھوتوں کی سیاست پر نظر ثانی کر کے اصولوں کی بنیاد پر اعلیٰ کردار کی مدد سے واضح ترجیحات اور موثر لائحہ عمل کے ساتھ مثالی نوعیت کی جد و جہد کی ابتدا کی جائے۔ اس کے لیے سیر حاصل، عام اور کھلی بحث کی شدید ضرورت ہے۔
اس مرحلہ میں ایک سوال مجلس کے بجائے جماعت کے حوالے سے پیش خدمت ہے کہ موروثیت کی روایت کس اصول کے تحت قائم کی گئی؟ محترم امیر جماعت کی بیٹی، قیم جماعت کی زوجہ محترمہ کا قومی اسمبلی کے لیے کس میرٹ پر انتخاب ہوا؟ علیٰ ہذالقیاس ضلعی ناظم کے طور پرمحترم قاضی صاحب اپنے بیٹے کے لیے یا اپنی قومی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر کتنے ہفتے نوشہرہ میں قیام پذیررہے؟ اس موقع پر جوڑ توڑ اور خرید و فروخت کے تمام امور ریکارڈ کا حصہ ہی نہیں، لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہو کرہمارے جدید امیج کومرتب کر چکے ہیں۔ 
آخر میں دینی مدارس کے سلسلے میں مجلس نے جوکردار ادا کیا ہے، اس کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔
ایسے ہی سوالات کارکنوں اور لوگوں کے ذہنوں میں جاگزیں ہیں۔ کوئی موقع ایسا نہیں کہ ان پر کھل کر بات ہو سکے۔ ترجمان میں ان سوالات کی وضاحت کے ساتھ کھلے عام مباحثے کا اہتمام کرایا جائے، ورنہ رپورٹ کی اشاعت پر معذرت کر کے آئندہ اس طرح کی کوتاہی نہ کرنے کا یقین دلایا جانا چاہیے۔ ’ایشیا‘ اور ’ترجمان‘ میں بہر صورت فرق باقی رکھا جانا چاہیے۔ 

غامدی صاحب کے تصور سنت کا تنقیدی جائزہ

حافظ محمد زبیر

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہر دور اور ہر قوم میں اپنے انبیا و رسل بھیجے اور ان کی رہنمائی کے لیے وحی کا سلسلہ جاری فرمایا ۔اس وحی کے نزول کے دو طریقے ہیں : 
۱) بعض اوقات یہ وحی لفظاً ہوتی ہے یعنی اس میں الفاظ بھی اللہ کے ہوتے ہیں اور معنی بھی اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ ’وحی لفظاً‘ تحریری صورت میں ہی انبیا پر نازل ہوتی تھی یا بعد میں اسے تحریر کی شکل دے دی جاتی تھی۔ وحی لفظاً کی مثالیں صحف ابراہیم ،تورات ،انجیل ،زبور اور قرآن وغیرہ ہیں۔
۲) اکثر اوقات یہ وحی معناً نازل ہوتی یعنی اس میں الفاظ اللہ کے نہیں ہوتے تھے، لیکن پیغام اللہ ہی کی طرف سے ہوتا تھا۔ مثلاً حضرت جبرائیل کا آپ کو نمازوں کے اوقات، اسلام ،ایمان ،احسان اور قیامت کی علامات کے بارے میں تعلیم دینا، حضرت ابراہیم کو خواب میں بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دینا،اللہ تعالیٰ کا کسی نبی کے دل میں کوئی بات ڈال دیناوغیرہ 
وحی کی پہلی قسم کو وحی متلو کہتے ہیں یعنی یہ وہ وحی ہے جس کی تلاوت کی جاتی ہے جبکہ وحی کی دوسری قسم کو وحی غیر متلو کہتے ہیں۔ بعض اوقات علما وحی متلو کو ’وحی جلی‘ اور وحی غیر متلو کو ’وحی خفی‘ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ وحی متلو ’قرآن‘ ہے جبکہ ’سنت وحی غیر متلو ہے۔ صحابہ کرام نے وحی کی ان دونوں قسموں کو محفوظ کیا اور امت تک پہنچایا۔قرآن کی روایت کو ’قراآت‘ اور سنت کی روایت کو ’حدیث‘ کہتے ہیں ۔یعنی سنت (وحی خفی) کو جب کو ئی صحابی اللہ کے رسول سے اخذ کر کے آگے نقل کرتا ہے تو صحابی کے اس نقل کرنے کو ’حدیث‘ کہتے ہیں۔سنت اگر وحی خفی ہے تو حدیث اس وحی کی روایت ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سنت اور حدیث میں کچھ فرق نہیں ہے۔ حدیث میں اللہ کے رسول پر اتاری جانے والی وحی کے حوالے سے جو کچھ بیان ہو رہا ہے، وہ سنت ہے ،یہی وجہ ہے کہ حدیث کی امہات الکتب میں سے اکثر کے نام سنن سے شروع ہوتے ہیں، مثلاً سنن ابی داؤد ،سنن نسائی ،سنن ابن ماجہ وغیرہ ۔

غامدی صاحب کے نزدیک سنت کی تعریف

غامدی صاحب اپنی کتاب اصول و مبادی میں سنت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی ﷺ نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے ۔قرآن میں اس کا حکم آپ کے لیے اس طرح بیان ہوا ہے :
ثُمَّ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (النحل۱۶:۱۲۳)
’’پھر ہم نے تمھیں وحی کی کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یک سو تھا اورمشرکوں میں سے نہیں تھا ۔‘‘
اس ذریعے سے جو دین ہمیں ملا ہے ،وہ یہ ہے :
۱۔اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا۔ ۲۔ملاقات کے موقع پر’ السلام علیکم‘ اور اس کا جواب۔ ۳۔چھینک آنے پر ’الحمد للہ ‘ اور اس کے جواب میں ’یرحمک اللہ‘۔ ۴۔نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت۔ ۵۔مونچھیں پست رکھنا۔ ۶۔ زیر ناف کے بال مونڈنا۔ ۷۔بغل کے بال صاف کرنا۔ ۸۔ لڑکوں کا ختنہ کرنا۔ ۹۔بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا۔ ۱۰۔ناک ،منہ اور دانتوں کی صفائی۔ ۱۱۔استنجا۔ ۱۲۔حیض و نفاس میں زن و شو کے تعلق سے اجتناب۔ ۱۳۔حیض و نفاس کے بعد غسل۔ ۱۴۔غسل جنابت۔ ۱۵۔میت کا غسل۔ ۱۶۔تجہیز و تکفین۔ ۱۷۔تدفین۔ ۱۸۔عید الفطر۔ ۱۹۔عید الاضحی۔ ۲۰۔اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ۔ ۲۱۔نکاح و طلاق اور ان کے متعلقات۔ ۲۲۔زکوٰۃ اور اس کے متعلقات۔ ۲۳۔نماز اور اس کے متعلقات۔ ۲۴۔روزہ اور صدقہ فطر۔ ۲۵۔اعتکاف۔ ۲۶۔قربانی۔ ۲۷۔حج وعمرہ اور ان کے متعلقات۔
سنت یہی ہے اور اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے،یہ اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآ ن ہی کی طرح ہر دور میں امت کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے، لہٰذا اس کے بارے میں اب کسی بحث و نزاع کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔ دین لاریب، انھی دو صورتوں میں ہے۔ ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے اور نہ اسے دین قرار دیا جا سکتا ہے ۔‘‘ (میزان:ص۱۰)
ہمار ے نزدیک غامدی صاحب کا یہ تصور سنت بھی غلط ہے اور اس کے اطلاق میں بھی ان سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ ہم نے اپنی بحث کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے میں ہم ان کے تصور سنت کی غلطیوں کو واضح کریں گے۔ دوسرے حصے میں ہم سنت کے ذریعہ روایت یعنی ’تواتر عملی ‘ پر بحث کریں گے۔تیسرے حصے میں ہم ان کے اس اصول کی اطلاقی غلطیوں کی نشاندہی کریں گے کہ کہاں کہاں انھوں نے اپنے ہی بنائے ہوئے اصول کی مخالفت کی ہے ۔ 
غامدی صاحب کا یہ تصور سنت بوجوہ غلط ہے۔ ہم اس تصور سنت کی غلطی پر دو اعتبارات سے بحث کریں گے۔ پہلی بحث میں ہم عقلی، منطقی اور شرعی دلائل کی روشنی میں غامدی صاحب کے تصور سنت کا جائزہ لیں گے۔دوسری بحث میں ہم غامدی صاحب کی کتاب ’’اصول ومبادی‘‘ میں بیان کردہ ان کے اصولوں کی روشنی میں ان کے تصور سنت کا جائزہ لیں گے اور اس بات کو واضح کریں گے کہ ان کی کتاب ’’اصول و مبادی‘‘ درحقیقت تناقضات کا پلندہ ہے جس میں بیان کردہ اصولوں میں سے ہر ایک اصول ان کے کسی دوسرے اصول کا رد کر رہا ہوتا ہے ۔ 
تمام اہل سنت کے نزدیک ’سنت‘ کی تعریف میں اللہ کے رسول ﷺ کے اعمال کے ساتھ ساتھ آپ کے اقوال اور تقریرات بھی شامل ہیں، اسی لیے اصول فقہ کی کتب میں جب علمائے اہل سنت، سنت پر بطور مصدر شریعت بحث کرتے ہیں تو سب اسی بات کا اثبات کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول وﷺکے اعمال کے علاوہ آپ کے اقوال اور تقریرات بھی مصدر شریعت ہونے کی حیثیت سے سنت کی تعریف میں شامل ہیں۔ جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک اللہ کے رسول ﷺ کے جمیع اقوال اور تقریرات سنت نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک سنت وہ ہے جس کا تعلق عمل سے ہو۔ غامدی صاحب اصول و مبادی میں لکھتے ہیں :
’’دوسرا اصول یہ ہے کہ سنت کا تعلق تمام تر عملی زندگی سے ہے ،یعنی وہ چیزیں جو کرنے کی ہیں ‘‘۔  (میزان: ص۶۵)
جس طرح غامدی صاحب اللہ کے رسو لﷺ کے اقوال اور تقریرات کو سنت نہیں مانتے، اسی طرح وہ اللہ کے رسولﷺکے جمیع اعمال کو بھی سنت نہیں مانتے۔ وہ صرف انہی اعمال کو سنت مانتے ہیں جو عملی تواتر سے امت میں چلے رہے ہوں اور ان کے بارے میں امت میں کوئی اختلاف نہ ہو۔ اگر اللہ کے رسول ﷺ کا کوئی عمل حدیث سے ثابت ہو مگر تواتر عملی سے ثابت نہ ہو تو وہ عمل بھی ان کے نزدیک سنت نہیں ہے۔ مثلاً رفع الیدین کو وہ اس لیے سنت ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ یہ حدیث سے ثابت ہے، لیکن پوری امت کا اس پر عمل نہیں ہے ۔ رفع الیدین سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے غامدی صاحب فرماتے ہیں :
’’میرے نزدیک صرف وہی چیز سنت کی حیثیت رکھتی ہیں جو صحابہ کرام کے اجماع سے ہم تک منتقل ہوئی ہو۔ ہم انھی چیزوں پر اصرار کرسکتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی پر لوگوں کو توجہ بھی دلا سکتے ہیں۔جن امور میں صحابہ کرام کا اجماع نہیں ہے، انھیں نہ سنت کی حیثیت سے پیش کیا جا سکتا ہے اور نہ ان پر عمل کے لیے اصرار کیا جا سکتا ہے۔ میری تحقیق کے مطابق رفع یدین بھی ان چیزوں میں شامل ہے جن پر صحابہ کرام کا اجماع نہ ہو سکا، اس وجہ میں اسے سنت نہیں سمجھتا۔ اس کے بعد چاہے ساری دنیا متفق ہو کر اسے سنت قرار دینے لگے تو میرے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں۔‘‘ (ماہنامہ اشراق : جون ۲۰۰۲،ص۲۹)
غامدی صاحب کے اس تصور سنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ احادیث میں بیان شدہ اللہ کے رسول ﷺ کی ہزاروں سنن ستائیس اعمال پر مشتمل اس فہرست تک محدود ہو کر رہ گئیں جس کو غامدی صاحب کے حوالے سے ہم اوپربیان کر چکے ہیں ۔
غامدی صاحب نے سنت کی تعریف میں یہ لکھا ہے کہ سنت صحابہ کے اجماع سے ثابت ہوتی ہے اور ہر دور میں امت کے اجماع سے ثابت قرار پاتی ہے ۔
ہم غامدی صاحب سے یہ کہتے ہیں کہ سنت کے ثبوت کی بحث تو بعد میں کریں گے، پہلے خود ’سنت کی تعریف‘ تو صحابہ اور امت کے اجماع سے ثابت کر دیں۔ غامدی صاحب کا دعویٰ ہے کہ کسی چیز کے سنت بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحابہ اور امت کے اجماع سے ثابت ہو۔ہم کہتے ہیں کہ اپنے اسی اصول پر غامدی صاحب اپنی بیان کردہ سنت کی تعریف کو پرکھ لیں، خود غامدی صاحب کی اس بات سے ہی ان کے تصور سنت کا رد ہو رہا ہے۔کیونکہ جب کسی چیز کے سنت بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحابہ اور امت کے اجماع سے ثابت ہو تو سنت کی تعریف کے لیے توبدرجہ اولیٰ یہ بات ضروری ہونی چاہیے کہ وہ بھی صحابہ اور امت کے اجماع سے ثابت ہو، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غامدی صاحب کی بیان کردہ یہ تعریف سنت، نہ توصحابہ کے اجماع سے ثابت ہے اور نہ امت کے اجماع سے ، بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ان کی یہ تعریف، صحابہ کی سنت کی اجماعی تعریف کے خلاف ہے۔ جب تعریف سنت ہی اس معیار پر پوری نہیں اتر رہی جو کہ سنت کے ثبوت کے لیے غامدی صاحب نے مقرر کیا ہے تو اگلی بحث کرنا ہی فضول ہے۔ 
الفاظ و معانی کا رشتہ لازم و ملزوم کا ہے۔ہر زبان میں یہ طریقہ کار ہے کہ اہل زبان اپنے احساسات، جذبات، معانی، مفاہیم اور افکار کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے کچھ الفاظ مقرر کرتے ہیں۔ اس کو اہل علم یوں تعبیر کرتے ہیں کہ فلاں لفظ کو اہل زبان نے فلاں معنی کے لیے وضع کیا ہے۔ جب اہل زبان ایک لفظ ایک خاص معنی یا تصور کی ادائیگی کے لیے متعین کر لیتے ہیں تو لفظ کے اس معنی کو لغوی مفہوم کہتے ہیں۔مثلاً عربی زبان میں لفظ ’أب‘ ایک خاص معنی یعنی ’باپ ‘کی ادائیگی کے لیے وضع کیا گیا ہے۔لیکن آج کل کے زمانے میں کوئی عرب شاعر یا ادیب یہ بات کہے کہ میں جب ’أب ‘ کا لفظ اپنی نثر یا نظم میں استعمال کروں گا تو اس کا معنی میرے نزدیک ’بیٹا‘ہو گا تو یہ جائز نہیں ہے۔ تمام اہل زبان اس کی مخالفت کریں گے کیونکہ اس سے زبان میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرح اہل علم بعض اوقات ان وضع شدہ الفاظ کو اپنے مختلف تصورات کی ادائیگی کے لیے مخصوص کر لیتے ہیں جس کو اصطلاحی مفہوم کہتے ہیں۔ لفظ ’اصطلاح‘ کا مادہ ’صلح‘ہے۔یعنی اصطلاح سے مراد یہ ہے کہ اہل علم یا اہل فن کے ایک طبقے کی اس بات پر صلح ہو گئی ہے کہ آئندہ جب وہ یہ لفظ استعمال کریں گے تو ان کی مراد کوئی مخصوص تصور ہو گا ۔اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اصطلاح فرد واحد کی نہیں ہوتی بلکہ جماعت کی ہوتی ہے ۔فرد واحد کی تعبیر کو شاذ کا نام تو دیا جاسکتا ہے، اصطلاح نہیں کہا جا سکتا۔ مثلاً علما نے اس بات پر اتفاق کر لیا ہے کہ جب ہم لفظ ’کتاب اللہ ‘بولیں گے تو اس سے ہماری مرادقرآن ہو گی۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں جب یہ لفظ اپنی تحریروں میں استعمال کروں گا تو اس سے میری مراد ’کتاب مقدس‘ ہوگی تویہ جائز نہیں ہے،کیونکہ اس سے ذہنی اور فکری انتشار پیدا ہوتا ہے۔ لفظ سنت کا بھی ایک لغوی مفہوم ہے اورایک اصطلاحی مفہوم ہے۔ جس طرح سنت کے لغوی مفہوم کی مخالفت جائز نہیں، اسی طرح سنت کے اصطلاحی مفہوم کی مخالفت کر کے اس سے ایک نیا مفہوم مراد لینا بھی جائز نہیں ہے ۔غامدی صاحب نے سنت کا لغوی مفہوم ’پٹا ہوا راستہ بیان کیا ہے۔ گویا لفظ سنت کالغوی مفہوم بیان کرتے وقت تو انھوں نے اہل زبان کے ہی بیان کردہ مفہوم کو لیا ہے، لیکن جب سنت کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہیں تو اہل فن کے مقرر کردہ اصطلاحی مفاہیم کو نظر انداز کرتے ہوئے بالکل ایک نیا مفہوم مراد لیتے ہیں۔ غامدی صاحب کے حلقہ احباب کے علاوہ اگر امت مسلمہ کے کسی فرد سے یہ سوال کیا جائے کہ سنت سے کیا مراد ہے یا جب لفظ سنت بولتے ہیں تو اس وقت تمہارے ذہن میں کیا تصور اجاگر ہو تا ہے تو اس کا جواب یقیناًیہی ہو گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جمیع اعمال، اقوال اور تقریرات یا آپ کی ساری زندگی۔ خلاصہ کلام یہ کہ جب بھی لفط’ سنت‘ استعمال ہوتا ہے تو اس وقت ہر مسلمان کے ذہن میں ایک ہی تصور آتا ہے اور وہ محمد ﷺ کا تصور ہوتاہے نہ کہ حضرت ابراہیم کا ،اور سنت کا یہ اصطلاحی تصور اتنا عام ہو گیا ہے کہ وہ اس کے لغوی تصور پر بھی غالب آ گیا ہے، اس لیے اس کی مخالفت جائز نہیں ہے ۔اگر اصطلاحی مفاہیم کی مخالفت جائز ہے تو پھر یہ صرف غامدی صاحب کے لیے بلکہ ہر کسی کے لیے جائز قرار پائے گی ۔اگر کل کو کوئی یہ کہے کہ ’سنت سے میری مراد دین آدم کی وہ روایت ہے...‘ تو یہ بھی جائز ہو گا اور کوئی دوسرا یہ کہے کہ’ سنت سے میری مراددین موسوی کی وہ روایت ہے... ‘ تو یہ بھی جائز ہو گا۔ اس طرح امت مسلمہ کو سوائے ذہنی اور فکری انتشار کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔اس طرح ہر آدمی سنت کا اپنا مفہوم لے کر بیٹھا ہو گا اور زبان کا جو مقصد تھا کہ الفاظ کو استعمال کر کے دوسروں تک اپنے تصورات کو پہنچایا جائے، وہ مقصد فوت ہو جائے گا۔
اگر غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ہم سے پہلے اہل علم حضرات نے اگر ایک لفظ کو ایک خاص تصور کی ادائیگی کے بطور اصطلاح مقرر کر لیا تھا تو ہمارے پاس بھی یہ حق ہے کہ ہم بھی اپنے لیے اصطلاحات وضع کریں ، تو ہم اس کا انکا ر نہیں کرتے ۔ غامدی صاحب اپنے تصورات کی ادائیگی کے لیے ضرور اصطلاحات بنائیں لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ غامدی صاحب اپنے تصورات اور اپنی مراد واضح کرنے کے لیے سلف صالحین کی اصطلاحات استعمال نہ کریں۔ہوتا یہ ہے کہ غامدی صاحب کی مرادتو اپنی ہوتی ہے اور اس کے لیے اصطلاحات علما کی استعمال کر لیتے ہیں جس سے مغالطے پیدا ہوتے ہیں۔ اب سنت کا لفظ اہل علم میں، اللہ کے رسول ﷺ کے حوالے سے مخصوص ہے۔اب اگر غامدی صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ ’سنت‘ کا تعلق در اصل حضرت ابراہیم سے ہے تو انھیں چاہیے کہ اپنے اس تصور کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے کوئی نئی اصطلاح وضع کریں۔ اپنے اس تصور کی ادائیگی کے لیے لفظ ’سنت ‘ کو استعمال نہ کریں ۔جب کچھ الفاظ اصطلاحی طور پر ایک خاص تصور کی ادائیگی کے لیے مخصوص ہو جائیں تو ان الفاظ کو استعمال کر کے اپنی مرضی کا مفہوم مراد لینا علمی خیانت ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جب علما کی طرف سے غامدی صاحب پر یہ تنقید ہوتی ہے کہ غامدی صاحب سنت کو نہیں مانتے تو جواب میں غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ہم تو سنت کو مآ خذ دین میں شمار کرتے ہیں اور سنت سے ان کی مراد وہ ستائیس چیزیں ہوتی ہیں جنہیں ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ غامدی صاحب کو چاہیے کہ جب بھی وہ لکھیںیا بات کریں تو یوں نہ کہیں کہ ’ہمارے نزدیک اصل دین قرآن اور سنت ہے ‘بلکہ وہ یوں کہیں کہ ہمارے نزدیک ’اصل دین قرآن اور سنت ابراہیمی ہیں‘۔ کیونکہ لفظ سنت ،محمد وﷺ کے تصور کے حوالے سے امت مسلمہ میں رائج ہو چکا ہے، اس لیے مجرد اس لفظ کو استعمال کر کے حضرت ابراہیم کی سنت مراد لینا صحیح نہیں ہے ۔
غامدی صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ کے نزدیک سنت وہ ہے جس کا منبع حضرت ابراہیم ہوں۔ آپ نے جن ستائیس سنن کو بیان کیا ہے، پہلے ان کو حضرت ابراہیم تک تواتر عملی سے ثابت تو کریں ۔کیونکہ خود آپ کے بیان کردہ اصول کے مطابق سنت خبر سے ثابت نہیں ہوتی بلکہ تواترعملی سے ثابت ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کسی شے کو اخذ کرنے کا ذریعہ یا تو براہ راست مشاہدہ ہے یا بالواسطہ مشاہدہ۔ یہ بات تو واضح ہے کہ غامدی صاحب نے اپنی بیان کردہ سنن کا حضرت ابراہیم سے براہ راست مشاہدہ نہیں کیا۔ رہی دوسری صورت یعنی بالواسطہ مشاہدہ تو اس کا ذریعہ خبر ہے۔ غامدی صاحب خبر سے ثابت کر دیں کہ یہ حضرت ابراہیم کی سنن ہیں تو ہم پھر بھی مان لیں گے ۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ غامدی صاحب خبر کے ذریعے بھی حضرت ابراہیم کی طرف اپنی بیان کردہ سنن کی فہرست کی نسبت ثابت کرنے سے عاجز اور قاصرہیں۔ غامدی صاحب نے یہ لکھ تو دیا ہے کہ سنت کامنبع و سرچشمہ حضرت ابراہیم ہیں اور سنت تواتر عملی سے ثابت ہوتی ہے، لیکن ہمیں حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم کی طرف ان اعمال کی نسبت تواتر عملی سے کیسے ثابت کریں گے ؟ چلیں تواترعملی نہ سہی، خبرصحیح سے ثابت کر دیں کہ ان اعمال کو حضرت ابراہیم نے بطوردین جاری کیا تھا۔ جب تک غامدی صاحب اپنی بیان کردہ سنن کی فہرست کے بارے میں یہ ثابت نہ کر دیں کہ ان اعمال کو حضرت ابراہیم نے دین کی حیثیت جاری کیا، اس وقت تک اس بات کا کوئی جواز نہیں بنتاکہ وہ ان اعمال کو دین ابراہیمی کی روایت کے نام سے پیش کریں، کیونکہ یہ اعمال ان کی تعریف کے مطابق اسی وقت سنت بنیں گے جب ان کی نسبت حضرت ابراہیم سے صحیح ثابت ہو جائے۔ اور حضرت ابراہیم کی طرف ان اعمال کی نسبت صحیح ثابت کرنے کا واحد ذریعہ اب ان کے پاس خبر ہے اور خبر سے ان کے نزدیک سنت ثابت نہیں ہوتی بلکہ سنت تو ان کے نزدیک تواتر عملی سے ثابت ہوتی ہے۔ غامدی صاحب کی بیان کردہ سنن کی نسبت حضرت ابراہیم سے ثابت کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ جب کسی عمل کے بارے میں یہ ثابت کرنا ہی ممکن نہیں ہے کہ ان اعمال کوحضرت ابراہیم نے بطور دین جاری کیا تھا، تو پھر کسی عمل کے بارے میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ سنت ابراہیمی ہے ۔ صرف تین اعمال ایسے ہیں جن کی نسبت احادیث میں حضرت ابراہیم کی طرف کی گئی ہے۔ ایک قربانی کا عمل ہے ۔حدیث میں قربانی کے عمل کے بارے میں یہ الفاظ ہیں: 
سنۃ أبیکم ابراہیم (سنن ابن ماجہ)
’’یہ تمھارے باپ ابراہیم کی سنت ہے ۔‘‘
لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ اس کی سند میں دو راوی ’عائذ اللہ‘ اور’ ابوداؤد‘ ضعیف ہیں بلکہ’ ابو داؤد‘ کو تو بعض ائمہ جرح وتعدیل نے کذاب بھی کہا ہے۔
دوسرا عمل جس کی حضرت ابراہیم کی طرف نسبت کی گئی ہے، ختنہ ہے اور تیسرا مونچھوں کا تراشناہے۔ مؤطا امام مالک کی ایک روایت ہے:
عن سعید ابن المسیب أنہ قال کان ابراہیم أول الناس ضیف الضیف و أول الناس اختتن وأول الناس قص الشارب (مؤطا امام مالک )
’’حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا، حضرت ابراہیم وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے مہمان نوازی کی ،اور ختنہ کیا اور مونچھوں کو تراشا۔‘‘
لیکن یہ روایت مقطوع ہونے کے علاوہ ان صحیح روایات کے بھی خلاف ہے جن میں آپ نے ختنے اور مونچھوں کے تراشنے کو انسانی فطرت قرار دیا ہے ۔ہم یہاں یہ بھی واضح کر دیں کہ غامدی صاحب کے تصور سنت کا اصل مأخذ ڈاکٹر جواد علی کی کتاب ’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘ ہے ۔ہم تو یہ کہتے ہیں کہ غامدی صاحب کے لیے یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ اس کتاب کو ہی بنیاد بنا کر اپنی بیان کردہ ستائیس سنتوں کو دین ابراہیمی کے شعائر کی حیثیت سے ثابت کر سکیں ۔
مذکورہ بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غامدی صاحب کی تعریف سنت ،مجرد تعریف ہی ہے، اس کا کوئی مسمیٰ نہیں ہے جس پر اس تعریف کا اطلاق کیا جا سکے۔ اگر غامدی صاحب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جو ستائیس چیزیں ہم نے بیان کی ہیں، وہ اس تعریف کا مسمیٰ ہیں تو ہم ان سے یہ سوال کریں گے کہ پہلے کسی شرعی دلیل سے ثابت تو کیجئے کہ ان اعمال کامنبع حضرت ابراہیم ہیں۔ اہل سنت کے شرعی دلائل سے نہ سہی، اپنے مزعومہ شرعی دلائل سے ہی ثابت کر دیں کہ ان اعمال کا آغاز حضرت ابراہیم سے ہوا ہے ۔ اس فہرست میں بیان کردہ تمام اعمال نہ سہی، کچھ کے بارے میں تو ثابت کر دیں کہ ان کوحضرت ابراہیم نے جاری کیا۔
غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنت کی تعریف میں حضرت ابراہیم کا تذکرہ ایک تاریخی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کیا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ تاریخی حقیقت تو یہ کہتی ہے کہ غامدی صاحب کو سنت کی تعریف میں حضرت ابراہیم کی بجائے حضرت آدم کا نام شامل کرنا چاہیے۔ غامدی صاحب کی بیان کردہ اکثر و بیشتر سنن وہ ہیں جو حضرت آدم کے زمانے سے چلی آ رہی ہیں۔ مثلاً غامدی صاحب کی بیان کردہ دو سنن قربانی اور تدفین کو ہی لے لیں ۔ ان سنن کی تاریخ اس بات کی طرف اشارہ کر تی ہے کہ ہم ان کی نسبت حضرت آدم کی طرف کریں۔ قرآن کے مطابق قربانی اور تدفین کی سنن کی ابتدا حضرت آدم کے زمانے ہی سے ہو گئی تھی۔ قرآن میں حضرت آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا:
إِذْ قَرَّبَا قُرْبَاناً فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَرِ (المائدہ:۲۷)
’’جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی قبول نہیں کی گئی‘‘ 
اسی طرح آگے یہ ذکربھی موجود ہے کہ جب نوع انسانی میں پہلا قتل ہوا، اس وقت سے تدفین کی ابتدا ہوئی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَبَعَثَ اللّہُ غُرَاباً یَبْحَثُ فِیْ الأَرْضِ لِیُرِیَہُ کَیْْفَ یُوَارِیْ سَوْء ۃَ أَخِیْہِ قَالَ یَا وَیْْلَتَا أَعَجَزْتُ أَنْ أَکُونَ مِثْلَ ہَذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِیَ سَوْء ۃَ أَخِیْ فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِیْنَ (المائدہ:۳۱)
’’پھر اللہ تعالیٰ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تا کہ اسے بتائے کہ کیسے وہ اپنے بھائی کی لاش کو چھپائے۔ اس نے کہا افسوس مجھ پر کہ میں اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ میں اپنے بھائی کی لاش کو چھپاتا،تو وہ ہو گیا ندامت کرنے والوں میں سے۔‘‘
ان آیات سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ قربانی اور تدفین ،سنت ابراہیمی نہیں ،بلکہ سنت آدم ہیں۔ اسی طرح غامدی صاحب کا نکاح و طلاق، نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، حیض و نفاس میں زن و شو کے تعلق سے اجتناب، حیض و نفاس کے بعد غسل، غسل جنابت اور اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ کرنے کو سنت ابراہیم کہنے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ معاذاللہ حضرت ابراہیم سے پہلے انبیا میں زن و شو کے تعلقات کے لیے نکاح و طلاق کا کوئی تصور نہ تھا، حیض و نفاس کی حالت میں انبیا اپنی بیویوں سے مباشرت کرتے تھے اور مباشرت کے بعد غسل کا بھی کوئی حکم ان کی شریعت میں موجود نہ تھا۔ حضرت ابراہیم سے پہلے گزر جانے والے انبیا کی امتوں میں جانوروں کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیا جاتا تھااور نہ حیض و نفاس کے بعد عورتیں غسل ہی کرتی تھیں۔ مزید برآں پچھلے انبیا میں نہ نماز تھی نہ روزہ نہ حج نہ زکوٰۃ۔ اگر یہ سب کچھ پچھلے انبیا کی شریعتوں میں نہیں تھاتو پھر ان کی شریعت کیا تھی جس کے بارے میں قرآن نے ہمیں حکم دیا ہے:
قُلْ آمَنَّا بِاللّہِ وَمَا أُنزِلَ عَلَیْْنَا وَمَا أُنزِلَ عَلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِیَ مُوسَی وَعِیْسَی وَالنَّبِیُّونَ مِن رَّبِّہِمْ (آل عمران:۸۴)
’’آپ کہہ دیں کہ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور جو شریعت ہم پر نازل کی گئی، اس کو بھی مانتے ہیں اور جو حضرت ابراہیم، حضرت اسمعیل، حضرت اسحق، حضرت یعقوب اور اولاد یعقوب پر نازل کی گئی، اس کو بھی مانتے ہیں اور جو شریعت حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کو دی گئی، اس کو بھی مانتے ہیں اور جو ان کے علاوہ دوسرے انبیا کو دی گئی، اس کو بھی مانتے ہیں ۔‘‘
ہماری اس تنقیح پر اگر غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ان احکامات کے بارے میں ہمارا بھی نقطہ نظر یہی ہے کہ یہ حضرت ابراہیم سے ماقبل شریعتوں میں بھی موجود تھے تو پھر غامدی صاحب کی یہ بیان کردہ سنن،سنن ابرہیمی نہ رہیں گی بلکہ سنن آدم ہوں گی ۔ غامدی صاحب کوچاہیے کہ جس عمل کی ابتدا جس نبی سے پہلی مرتبہ ثابت ہو رہی ہے، اس عمل کی نسبت اسی نبی کی طرف کریں اور اس کو اس نبی کی سنت کے نام سے پیش کریں۔ پھر دیکھیں کہ حضرت ابراہیم کے حوالے سے جو سنن انہوں نے بیا ن کی ہیں، ان میں سے کتنی ان کی تعریف سنت کا صحیح مصداق بنتی ہیں۔
آخر میں ہم غامدی صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ اپنی سنت( ستائیس چیزوں) کو وحی شمار کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر غامدی صاحب یہ جواب دیتے ہیں اور یقیناًان کا جواب یہی ہو گا کہ ہمارے نزدیک سنت( ستائیس چیزیں) وحی نہیں ہے تو پھرہمارا سوال ہے کہ جب آپ کے نزدیک آپ کی سنت وحی نہیں ہے تو پھر وہ دین کیسے بن گئی؟ اگر غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک سنت (ستائیس چیزیں) وحی ہے تو ہم یہ سوال کریں گے کہ اس کی دلیل کیا ہے کہ یہ وحی ہیں؟ اور یہ وحی کس پیغمبر پر اتری تھی ؟پھر اس کی دلیل کیا ہے کہ یہ فلاں پیغمبر پر اتری تھی؟
غامدی صاحب نے اپنی بیان کردہ تعریف سنت کے ثبوت کے لیے درج ذیل آیت کو بطور دلیل بیان کیا ہے :
ثُمَّ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (النحل۱۶:۱۲۳)
’’پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ آپ حضرت ابراہیم کی ملت کی پیروی کریں جو با لکل یکسو تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘
غامدی صاحب بحث ’سنت‘ کی کر رہے ہیں اور دلیل ایک ایسی آیت کو بنا رہے ہیں جس میں لفظ ’ملت ‘استعمال ہوا ہے، حالانکہ یہاں پر’ملت ابراہیم ‘ سے مراد ہرگز سنت ابراہیمی (وہ ستائیس چیزیں جو کہ غامدی صاحب نے بیان کی ہیں) نہیں ہے۔ ملت کا لفظ قرآن میں معمولی سے فرق کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ۔ اس آیت میں ’ملت ابراہیم ‘ سے مراددین اسلام کی وہ اساسی تعلیمات ہیں جو کہ حضرت ابراہیم کی شخصیت میں نمایاں تھیں یعنی ہر قسم کے شرک سے اجتناب کرنااور اللہ کا انتہائی درجے میں فرمانبردار ہو جانا۔ہماری اس تفسیر کی تائید درج ذیل قرائن سے ہو رہی ہے :
۱) شرک سے اجتناب اور اللہ کی فرمانبرداری، یہ حضرت ابراہیم کی وہ امتیازی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے وہ باقی تمام پیغمبروں میں نمایاں ہیں۔ علاہ ازیں حضرت ابراہیم کی قرآن میں جہاں بھی مدح بیان کی گئی ہے، انہی دو اوصاف کے حوالے سے بیان کی گئی ہے۔
۲) ملت ابراہیم کا یہ مفہوم نظم قرآن سے بھی واضح ہو رہا ہے،کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس آیت میں بھی اور اس کے علاوہ بھی قرآن میں جہاں کہیں حضرت ابراہیم کی ملت کی اتباع کا حکم ہے ،وہاںیہ حکم شرک کے بالمقابل یا اطاعت کے پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ درج ذیل آیات سے واضح ہو رہا ہے :
وَقَالُواْ کُونُواْ ہُوداً أَوْ نَصَارَی تَہْتَدُواْ قُلْ بَلْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (البقرۃ :۱۳۵)
اس آیت میں اللہ کے رسول ﷺ کو کہا گیا ہے کہ آپ ان یہود و نصاریٰ سے کہہ دیں کہ ہم تو حضرت ابراہیم کی پیری کرتے ہیں جو کہ یکسو تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے ۔یعنی ان کو بتا دیں کہ ہم تودین ابراہیمی پرہیں ۔اور دین ابراہیمی کیا ہے ؟اللہ کے بارے میں یکسو ہو جانا اور اس کے ساتھ شرک نہ کرنا۔
قُلْ صَدَقَ اللّہُ فَاتَّبِعُواْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (آل عمران :۹۵)
اس آیت میں بھی یہودیوں سے خطاب کر کے فرمایا جارہا ہے کہ اپنی بدعات (مثلاً اونٹ کے گوشت کو حرام قرار دیناوغیرہ) کو دین ابراہیم کے نام سے پیش نہ کرو، بلکہ حضرت ابراہیم کے اس دین کی پیروی کرو جو کہ بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ اللہ کے لیے یکسوہو جاؤ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔
وَمَنْ أَحْسَنُ دِیْناً مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْہَہُ للہ وَہُوَ مُحْسِنٌ واتَّبَعَ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً (النساء :۱۲۵)
اس آیت مبارکہ میں اہل کتاب اور مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ تمہاری خواہشات سے کچھ نہیں حاصل ہوگا۔ اصل چیز عمل ہے اور سب سے اچھا دین اس کا ہے جس نے اپنے آپ کو اللہ کے احکامات کے سامنے اس طرح جھکا دیا جیسا کہ حضرت ابراہیم نے جھکا دیا تھااور اللہ کے معاملے میں یکسو ہوگیا۔حضرت ابراہیم کا اصل دین نہ یہودیت تھا نہ عیسائیت، بلکہ ان کا اصل دین اسلام اللہ کی فرمانبرداری اور اطاعت تھا، اس لیے جو اللہ کا مطیع اور فرمانبردار ہے اور اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتا، وہ دین ابراہیمی پر ہے اور جو اللہ کا مطیع اور فرمانبردار نہیں ہے اور اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، وہ دین ابراہیم پر نہیں ہے۔ 
وَمَن یَرْغَبُ عَن مِّلَّۃِ إِبْرَاہِیْمَ إِلاَّ مَن سَفِہَ نَفْسَہُ وَلَقَدِ اصْطَفَیْْنَاہُ فِیْ الدُّنْیَا وَإِنَّہُ فِیْ الآخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِیْنَ ۔ إِذْ قَالَ لَہُ رَبُّہُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ (البقرۃ : ۱۳۰، ۱۳۱)
و من یرغب عن ملۃ ابراہیم الا من سفہ نفسہ ‘ سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر ہم ملت ابراہیم کی اتباع سے جزئیات میں ان کی اتباع مراد لیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ جن انبیا نے جزئیات میں حضرت ابراہیم کی اتباع نہیں کی، معاذ اللہ وہ بے وقوف ہیں۔حضرت ابراہیم کی ملت کی اتباع سے مراد یہاں بھی ان کے اس رویے کی پیروی ہے جو انہوں نے اللہ کی اطاعت کے معاملے میں پیش کیا، یعنی اللہ کے لیے انتہائی درجے میں فرمانبرداری اختیار کرنا۔آگے جا کر اسی کو ’الدین ‘ کہا گیا ہے، کیونکہ دین بھی دراصل اطاعت ہی کو کہتے ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَوَصَّی بِہَا إِبْرَاہِیْمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللّہَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ (البقرہ: ۱۳۲)
چونکہ دین بھی اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کو کہتے ہیں جیسا کہ ’ولا تموتن الا و انتم مسلمون ‘ سے ظاہر ہو رہا ہے، اسی لیے اکثر مفسرین نے ملت کا ترجمہ دین یعنی اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کیا ہے ۔
ان سب آیات کا سیاق و سباق یعنی نظم قرآنی اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ ملت ابراہیمی کی اتباع سے مرادہر قسم کے شرک سے اجتناب اور اللہ کے لیے انتہائی درجے میں فرمانبردار ہو جانے میں حضرت ابراہیم کے اسوہ کی پیروی کرنا ہے ۔
۳) اسی معنی کو جلیل القدر مفسرین مثلاً امام طبری ، امام قرطبی وغیرہ نے اپنی تفاسیر میں اختیار کیا ہے ۔
۴) غامدی صاحب کی تعریف کے مطابق سنت، اعمال کا نام ہے اور عقیدہ اس میں شامل نہیں ہوتا جبکہ قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ملت میں عقیدہ بھی شامل ہے جیسا کہ درج ذیل آیت سے معلوم ہو رہا ہے: 
أَجَعَلَ الْآلِہَۃَ إِلَہاً وَاحِداً إِنَّ ہَذَا لَشَیْْءٌ عُجَابٌ ۔ وَانطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْہُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَی آلِہَتِکُمْ إِنَّ ہَذَا لَشَیْْءٌ یُرَادُ ۔ مَا سَمِعْنَا بِہَذَا فِیْ الْمِلَّۃِ الْآخِرَۃِ إِنْ ہَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ (ص: ۵تا۷)
۵) لفظ ملت کا ترجمہ ’دین ‘ تو کیا جاسکتا ہے(جیسا کہ امام راغب اصفہانی نے المفرادات میں، ابن الاثیر الجزری نے النہایہ میں، علامہ ابن الجوزی نے تذکرۃ الأریب میں، ابن المنظور الافریقی نے لسان العرب میں اور ابو بکر السجستانی نے غریب القرآن میں لکھا ہے) اس کی وجہ یہ ہے کہ دین کا اصل معنی بھی اطاعت اور فرمانبرداری ہی ہے، لیکن ملت کا ترجمہ’سنت ‘ کسی طرح نہیں بنتا۔
۶) اگر ملت ابراہیمی سے مراد وہ ستائیس اعمال لے بھی لیے جائیں جو کہ غامدی صاحب بیان کر رہے ہیں تو بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دین ابراہیمی کی بنیادی عبادات نماز اور مناسک حج وغیرہ بھی محفوظ نہ تھیں چہ جائیکہ باقی اعمال محفوظ رہے ہوں۔ جب دین ابراہیمی ہی محفوظ نہ تھا تواللہ تعالیٰ کا اپنے رسول ﷺ کواس کی اتباع کا حکم دینا کچھ معنی نہیں رکھتا ۔
مذکورہ بالا بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملت اور سنت میں فرق ہے ۔لفظ ملت کا ترجمہ’ سنت‘ کرنا عربی زبان سے جہالت اور قرآنی اصطلاحات سے ناواقفیت کی دلیل ہے ۔

غامدی صاحب کے تصور سنت کی تردید ان کے اپنے اصولوں کی روشنی میں

غامدی صاحب نے استنجاکرنے، بڑھے ہوئے ناخن کاٹنے، ناک،منہ اور دانتوں کی صفائی، مونچھیں پست رکھنے، زیر ناف کے بال مونڈنے اور بغل کے بال صاف کرنے کوسنت ابراہیمی میں شمار کیا ہے،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ چیزیں انسانی فطرت میں شامل ہیں، ان کی نسبت حضرت ابراہیم کی طرف کرنے کامطلب یہ بنتا ہے کہ حضرت ابراہیم سے پہلے لوگوں کے ہاں نہ توکسی قسم کے استنجے کا تصور تھا، نہ ہی وہ اپنی مونچھیں پست رکھتے تھے، نہ زیر ناف کے بال مونڈتے تھے، نہ بغل کے بال صاف کرتے تھے اور نہ ناک، منہ اور دانتوں کی صفائی کرتے تھے۔یہ تصور قطعاً غلط ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ جسم کی صفائی سے متعلق یہ سارے احکامات فطرت انسانی کا حصہ ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
الفطرۃ خمس أو خمس من الفطرۃ الختان و الاستحداد و نتف الابط و تقلیم الأظافر و قص الشارب (صحیح بخاری)
’’فطرت پانچ چیزیں ہیں یا پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں، ختنہ کرنا،زیر ناف کے بال مونڈنا،بغل کے بال اکھیڑنا،ناخنوں کو کاٹنا،اور مونچھوں کو پست کرنا۔‘‘
اس کے علاوہ علما بھی جب ان احکامات کو بیان کرتے ہیں تو ’سنن الفطرۃ ‘ کے نام سے بیان کرتے ہیں۔ مثلاً السید سابق اپنی کتاب’ فقہ السنہ ‘اور شیخ محمد بن ابراہیم التویجری اپنی کتاب ’مختصر الفقہ الاسلامی ‘ میں اس بحث کو اسی عنوان کے تحت لے کر آئے ہیں۔ جب ثابت ہو گیا کہ یہ اعمال انسانی فطرت کا حصہ ہیں تو ان اعمال کی نسبت حضرت ابراہیم کی طرف کرناصحیح نہیں ہے۔ غامدی صاحب کو چاہیے کہ ان اعمال کو’ سنت ابراہیمی‘ کے تحت بیان کرنے کی بجائے اپنے اصول ’دین فطرت کے حقائق ‘کے تحت بیان کریں ۔غامدی صاحب کے بیان کردہ اصول فطرت کی رو سے بھی یہ بات درست نہیں کہ ان اعمال کی نسبت حضرت ابراہیم کی طرف کی جائے۔غامدی صاحب اصول و مبادی میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’پانچواں اصول یہ ہے کہ وہ چیزیں جو محض بیان فطرت کے طور پر آئی ہیں، وہ بھی سنت نہیں ہیں‘‘۔ (میزان:ص۶۶)
غامدی صاحب کے اس اصول سے ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک فطرت کی بنیاد پر ثابت شدہ اعمال کو سنن کہنا صحیح نہیں ہے اور یہاں وہ خود اپنے اس بنائے ہوئے اصول کی مخالفت کر رہے ہیں اور جسم کی صفائی کے احکامات کو، جو کہ بیان فطرت ہیں، بیان سنت بنا کر پیش کررہے ہیں۔ اس سے ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ کسی طرح اپنی تعریف سنت کے ثبوت کے لیے کھینچ تان کر کوئی مسمیٰ نکال لائیں۔ 
علاوہ ازیں غامدی صاحب نے قرآن پر تدبر کے جواصول بیان کیے ہیں، ان میں پہلا اصول ’عربی معلی ‘ہے جس کی بنیاد ہی یہ ہے کہ اہل زبان کے محاورہ کی مخالفت جائز نہیں ہے اور قرآن جن پر نازل ہوا، اسے انہی کی زبان کے محاورے میں سمجھنا چاہیے۔ غامدی صاحب کے نزدیک جب قرآن، جو کہ دین ہے اور قطعی الدلالۃ ہے، اس پر تدبر کے لیے اہل زبان کے محاورے کی پابندی ضروری ہے تو سنت جو کہ قرآن ہی کی طرح دین ہے اور قطعی الدلالۃ ہے اور اس پر مزید یہ کہ وہ قرآن سے بھی پہلے ہے، تو اس کو سمجھنے کے لیے اہل زبان(صحابہ کرام) کے محاورے کی پابندی کیوں ضروری نہیں ؟ تصور سنت کی تفہیم میں خود غامدی صاحب اہل زبان کے محاورے کی مخالفت کر رہے ہیں ۔بیسیوں احادیث ایسی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل زبان (صحابہ کرام)کے محاورے میں سنت سے مراد اللہ کے رسول ﷺ کی سنت ہے، نہ کہ حضرت ابراہیم کی، جبکہ غامدی صاحب نے اہل زبان(صحابہ کرام) کے محاورے کے برعکس سنت کے مفہوم میں حضرت ابراہیم کا تصور بھی ڈال دیا۔

سنت اور تواتر عملی 

اہل سنت کے نزدیک سنت سے مراد وحی خفی ہے اور اس کی روایت حدیث کہلاتی ہے یعنی اس سنت کے ہم تک پہنچنے کا ذریعہ’حدیث ‘ہے ، جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک سنت وہ ستائیس چیزیں ہیں جن کی فہرست ہم اوپر بیان کر چکے ہیں اور یہ سنت ہم تک تواتر عملی سے پہنچی ہے۔ ہمارے نزدیک غامدی صاحب کے تصور تواتر عملی میں درج ذیل غلطیاں ہیں:
غامدی صاحب کے نزدیک اللہ کے رسول ﷺ کا وہ عمل جو تواتر عملی سے ہم تک پہنچاہو، سنت ہے ،اور سنت دین ہے، گویا کہ ان کے نزدیک تواتر عملی سے ایک عمل دین بن جاتا ہے اوراللہ کے رسول ﷺ کا ایک دوسراعمل جو تواتر عملی سے منقول نہ ہو بلکہ خبر واحد سے مروی ہو،وہ دین نہیں ہے۔غامدی صاحب کے نزدیک اللہ کے رسول ﷺ کے کسی عمل کے دین بننے میں اصل حیثیت تواتر عملی کی ہے۔گویایہ تواتر عملی ہی ہے جو کہ آپ کے کسی عمل کو دین بنا دیتا ہے اور کسی دوسرے عمل کو دین نہیں بناتا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب آپؐ کے کسی عمل کے دین بننے کے لیے اصل معیار تواتر عملی ٹھہرا تو معاذ اللہ تواتر عملی کی حیثیت آپؐ سے بڑھ کر ہو گئی جو اللہ کے رسول ﷺ کے بعض اعمال کو دین بنا دیتا ہے اور بعض کو دین نہیں بناتا۔ نتیجتاً اصل شارع تولوگ ہوئے ،نہ کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ۔اللہ کے رسول وﷺکے جس عمل کو لوگوں نے تواتر سے نقل کر دیا، وہ دین بن گیا اور جس عمل کو تواتر سے نقل نہ کیا، وہ دین نہ بن سکا،یعنی اصل حیثیت اللہ کے رسول ﷺکے اعمال کی نہیں ہے بلکہ اصل حیثیت لوگوں کے آپؐ کے اعمال پر عمل کی ہے ۔آپؐ کے جس عمل پر لوگوں نے تواتر سے عمل کیا ہے، وہ دین ہے اور جس پر تواترسے عمل نہیں کیا، وہ دین نہیں ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ دین اور چیز ہے اور اس کو آگے نقل کرنے کے ذرائع اورچیز ہیں ۔دونوں میں فرق ہے ۔دین کو روایت اور نقل کرنے کے ذرائع ،نہ تو دین ہیں اورنہ ان کو کسی چیز کے دین قرار دینے کے لیے معیار بنایا جا سکتا ہے۔ تواتر عملی دین کو پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے، نہ کہ کسی چیز کے دین بننے کا معیار ،اگر غامدی صاحب کا یہ نقطہ نظر مان لیاجائے کہ تواتر عملی سے ایک چیز دین بن جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ صحابہ کے لیے دین اور تھا اور ہمارے لیے دین اور ہے کیونکہ غامدی صاحب کے بقول ہمارے لیے تو اللہ کے رسول ﷺ کے وہ اعمال دین قرار پائیں گے جو کہ تواتر عملی سے نقل ہوئے ہوں جبکہ صحابہ کے لیے اللہ کے رسول ﷺ کا ہر عمل دین ہو گاکیونکہ وہ تو اللہ کے رسول ﷺ کے ہر عمل کا براہ راست مشاہدہ کر رہے تھے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ایک عمل جو کہ خبر واحدسے ثابت ہے، غامدی صاحب کے نزدیک وہ ہمارے لیے دین نہیں ہے کیونکہ وہ تواترعملی سے ثابت نہیں ہے، تو کیا وہ عمل صحابہ کے لیے بھی دین نہیں ہوگاجو کہ دیکھتی آنکھوں اس کا مشاہدہ کر رہے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ تواتر عملی کسی چیز کو دین ٹھہرانے کا کوئی معیار نہیں ہے۔ دین وہ ہے جسے اللہ اور اس کا رسول ﷺ دین قرار دیں، چاہے وہ خبر واحدسے ہمیں ملے یاقولی یا عملی تواتر سے۔’ذریعے‘ سے کوئی چیز دین نہیں بنتی ،بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے دین بنانے سے ایک چیز دین بنتی ہے اور بعد میں کسی ذریعے سے ہم تک پہنچتی ہے ۔یعنی دین پہلے موجود ہے، پھر وہ ذریعہ ہے جس سے وہ ہم تک پہنچا ہے۔جبکہ غامدی صاحب کے بقول ذریعہ پہلے ہے اور دین بعدمیں ہے۔ ذریعے نے ہی کسی چیز کو دین بنانا اور کسی چیز کو دین سے خارج کرنا ہے۔ 
جس زمانے میں بیٹھ کر غامدی صاحب تواترعملی کی بات کر رہے ہیں، اس سے بدعات تو ثابت ہو سکتی ہیں لیکن دین کسی طور ثابت نہیں ہو سکتا۔ خلافت راشدہ کے بعد سے امت مسلمہ کا سواد اعظم جس کو دین کے نام سے پیش کرتا رہا ہے یا کررہا ہے، اسے ہر گز دین کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ شرک و بدعات کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ نوع انسانی کی، اس لیے یہ سمجھنا کہ بدعات تو اٹھارویں یا انیسویں صدی کی ایجاد ہیں ،محض خیال باطل ہے ۔
غامدی صاحب کے نزدیک سنت کی روایت کا ذریعہ تواتر عملی ہے۔ ہم غامدی صاحب سے یہ سوال کرتے ہیں کہ جس زمانے میں آپ موجود ہیں، اس کے تواتر عملی کو توآپ ثابت کر دیں گے ،لیکن اللہ کے رسول ﷺ کی سنت کو جاری ہوئے چودہ صدیاں گزر چکی ہیں،ہرصدی میں اللہ کے رسول ﷺ کی ہر ایک سنت کے حوالے سے تواتر عملی کو آپ کیسے ثابت کریں گے؟ کسی مسئلے کے بارے میں یہ جاننے کے لیے کہ یہ امت میں تواتر سے چلا آرہا ہے ،اس کا واحد ذریعہ خبر ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ جس خبر واحد سے جان چھڑانے کے لیے غامدی صاحب نے تواتر عملی کا فلسفہ گھڑا تھا ،خود تواترعملی کا ثبوت اس خبرکے بغیر ممکن نہیں ہے۔کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ غامدی صاحب کے بقول جس طرح سنن تواتر عملی سے نقل ہوتی چلی آرہی ہیں، اسی طرح بدعات بھی تواتر عملی سے ہی نقل ہوتی رہی ہیں ۔اب ایک عمل کے بارے میں یہ فیصلہ کیسے کیا جائے گا کہ وہ سنت ہے یا بدعت ؟ اس کاجواب دیتے ہوئے غامدی صاحب فرماتے ہیں :
’’ تواتر ایک ٹھوس حقیقت ہے ،یہی کسی عمل کے محکم اساس پر قائم ہونے کی دلیل ہے ۔بے شک بہت سی بدعات رائج ہو گئیں، بے عملی بڑھ گئی ،لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس امت کی ساری تاریخ کا واضح ریکارڈ موجود ہے ۔حضور کا زمانہ ،صحابہ کا دور اور تابعین کے عہد سے لے کر آج تک کیا کچھ اصل ہے، کیا کچھ اختراع کیا گیا، یہ سب امت کے سامنے ہے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق:نومبر۱۹۹۹،ص۵۳)
غامدی صاحب کے بقول جب کسی چیز کے بارے میں یہ اختلاف ہو جائے گا کہ یہ سنت ہے یا بدعت تو امت مسلمہ کی تاریخ اس بارے میں فیصلہ کرے گی کہ یہ عمل واقعتا اللہ کے رسولﷺ کے زمانے سے چلا آرہا ہے یا بعد کے کسی زمانے کی ایجاد ہے۔ غامدی صاحب کی حالت تو اس شخص کی سی ہے جس کے بارے میں عربی زبان میں ایک کہاوت معروف ہے: فر من المطر و قام تحت المیزاب (بارش سے بچنے کے لیے بھاگا اور پرنالے کے نیچے آ کے کھڑا ہو گیا)۔
غامدی صاحب خبر واحد سے بھاگے تھے اور تاریخ ان کے گلے پڑ گئی ،جو ایسی اخبار پر مشتمل ہے جن کی نہ تو کوئی سند ہے، نہ اسماے رجال اور نہ اس کے پرکھنے کے لیے اصول الروایۃموجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ کی چودہ صدیوں کی تاریخ میں کسی عمل کے بارے میں تواتر عملی کو ثابت کرنا بغیر خبر کے ممکن نہیں ہے ۔جن ستائیس چیزوں کے بارے میں غامدی صاحب یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ ہمیں تواتر عملی سے ملی ہیں ،ان مسائل کو وہ ذرا مذاہب اربعہ کی کتابیں کھول کردیکھیں تو ان پر واضح ہو جائے گا کہ ائمہ کے مابین ان مسائل میں کس قدر اختلاف موجود ہے۔مثال کے طور پر نماز کو ہی لے لیں، ارکان اسلام میں سب سے اہم رکن اور اس کی ہیئت تک میں اختلاف موجود ہے ۔ہاتھ چھوڑے جائیں یا باندھے جائیں؟ اگر باندھے جائیں تو کہاں باندھے جائیں؟ رکوع میں جاتے وقت او ر اس سے اٹھتے وقت رفع الیدین کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ جلسہ استراحت کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ تشہد میں تورک کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ یہ اختلافات آج کے دور کی پیدوار نہیں ہیں بلکہ یہ اختلافات ائمہ أربعہ سے چلے آرہے ہیں اور مذاہب اربعہ کی ہر دور کی کتب فقہ میں ان مسائل کے بارے میں تفصیلی ابحاث موجود ہیں جن کو دیکھ کر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ائمہ أربعہ نے ان مسائل میں اختلاف تواتر عملی کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ اپنے مؤقف کی تائید کے لیے خبر کو پیش کیاجس یہ ثابت ہوتا ہے کہ اوائل اسلام میں بھی دین کے ثبوت کے لیے تواتر عملی کوئی دلیل نہ تھی، بلکہ اصل دلیل خبر تھی ۔جہاں تک مالکیہ کے اصول ’تعامل اہل مدینہ‘ کا معاملہ ہے جسے امین احسن اصلاحی صاحب نے’ تدبرحدیث‘ میں تواتر عملی کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ اس اصول کی نسبت امام مالک سے ثابت ہی نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ مالکیہ کے اصول ’تعامل اہل مدینہ ‘ اور فکر اصلاحی کے تصور ’تواتر عملی ‘میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جس تعامل کو وہ حجت سمجھتے ہیں، اس سے ان کی مرادمدینہ کے صحابہ کا تعامل ہے نہ کہ بعد کی نسلوں کا ۔
آج تواترعملی سے یہ بات ثابت ہے کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا نماز کا حصہ ہے،وتر کی نماز عشا کی نماز کاحصہ ہے نہ کہ تہجد کی نماز کا،نماز تراویح اور ہے اور نماز تہجد اور ہے ۔کیا غامدی صاحب ان سب اعمال کوایسے ہی مانتے ہیں جیسا کہ تواترعملی سے ثابت ہے؟ اگر نہیں تو کس بنیاد پر ؟خبر واحد کی بنیاد پر یا تاریخ کی بنیاد پر ؟ 

غامدی صاحب کا اپنے اصول سے انحراف

جس طرح ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ غامدی صاحب کا اصول سنت غلط ہے، اسی طرح اس اصول کے اطلاق میں بھی غامدی صاحب سے بعض مسائل میں غلطی ہوئی ہے ۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب ڈاڑھی کو سنت میں شمار نہیں کرتے جیسا کہ ان کی بیان کردہ سنن کی فہرست سے واضح ہے،حا لانکہ ڈاڑھی حضرت ابراہیم سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا کی سنت رہی ہے۔ دور جاہلیت میں اہل عرب ڈاڑھی رکھتے تھے، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ڈاڑھی رکھی ،اس کا حکم بھی دیا اور تمام صحابہ کی ڈاڑھی تھی ۔ ڈاڑھی غامدی صاحب کی تعریف سنت پر سو فی صد پورا اترتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ تمام انبیا کی سنت رہی ہے۔ یہ دین ابراہیم کی وہ روایت ہے جس پردور جاہلیت میں بھی اہل عرب قائم تھے اور آپ نے دین ابراہیمی کی اس روایت کو عملاً برقراررکھا اور اس کا امت کو حکم بھی جاری فرمایا۔ بعد میں یہ سنت صحابہ کرام کے اجماع سے ثابت ہوئی اور امت کے عملی تواتر سے ہم تک منتقل ہوئی۔ اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث ہے: 
خالفوا المشرکین وفروا اللحی و أحفوا الشوارب (صحیح بخاری)
’’مشرکین کی مخالفت کرو، ڈاڑھیوں کو چھوڑ دو اور مونچھوں کو پست کرو۔‘‘
ابن حجر عسقلانی ’خالفوا المشرکین‘  کی شرح میں لکھتے ہیں :
فی حدیث أبی ھریرۃ عند مسلم خالفوا المجوس و ھو المراد فی حدیث ابن عمر فانھم کانوا یقصون لحاھم ومنھم من کان یحلقھا
’’حضرت ابوہریرہ کی حدیث جو مسلم میں ہے، اس میں ’خالفوا المشرکین‘ کی جگہ ’خالفوا المجوس‘ کے الفاظ ہیں اور اس حدیث میں بھی یہی مراد ہے کیونکہ مجوسیوں کی یہ عادت تھی کہ وہ اپنی ڈاڑھیاں کاٹتے تھے اور ان میں سے بعض اپنی ڈاڑھیاں مونڈتے تھے ۔‘‘
ابن حجر کی اس تشریح اور تاریخ و سیر کی کتب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین مکہ بھی اپنی ڈاڑھیوں کو چھوڑتے تھے ۔ 
مسلم کی روایت میں الفاظ ہیں: 
جزوا الشوارب و أرخوا اللحی خالفوا المجوس (صحیح مسلم)
’’مونچھوں کو پست کرو اور داڑھی کو چھوڑ دو۔ مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘
اللہ کے رسول ﷺ کے ان فرامین سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے دین ابراہیمی کی اس روایت کو بطور دین اس امت میں جاری کیا اور ڈاڑھی منڈانے کو مجوسیوں کی تہذیب قرار دیا۔ 
ایک دوسری مثال لیجیے۔ صحابہ کرام اور امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورت کے سر کے بال اس کے ستر میں داخل ہیں اور تواتر عملی سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ عورتیں ہمیشہ سے ایک بڑی چادر لے کر گھر سے باہر نکلتی ہیں جس سے وہ اپنے سارے جسم کو ڈھانپ لیتی ہیں ۔لیکن غامدی صاحب عورت کے ہاتھ ،پاؤں اور چہرے کے ساتھ ساتھ سر کے بالوں کوبھی ستر شمار نہیں کرتے ۔دوپٹے سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اصل میں ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ ان کی تہذیب و ثقافت کیا ہے اور انھیں کن حدود کا پابند رہ کر زندگی بسر کرنی چاہیے۔دوپٹا ہمارے ہاں مسلمانوں کی تہذیبی روایت ہے، اس بارے میں کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔ دوپٹے کو اس لحاظ سے پیش کرنا کہ یہ شرعی حکم ہے ،اس کا کوئی جواز نہیں۔ البتہ اسے ایک تہذیبی شعار کے طور پر ضرور پیش کرنا چاہیے۔ اصل چیز سینہ ڈھانپنا اور زیب و زینت کی نمائش نہ کرنا ہے۔ یہ مقصد کسی اور ذریعے سے حاصل ہو جائے تو کافی ہے ۔اس کے لیے دوپٹا ہی ضروری نہیں ہے ۔‘‘ (ماہنامہ اشراق:مئی ۲۰۰۲،ص۴۷)
غامدی صاحب کس سادگی سے کہہ رہے ہیں کہ دوپٹے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کوئی حکم جاری نہیں کیا۔ سبحان اللہ عما یصفون۔ حالانکہ دوپٹہ تو سنت کی اس تعریف سے بھی ثابت ہوتاہے جو غامدی صاحب نے اختراع کی ہے۔ عورت کے ہاتھ ،پاؤں اور چہرے کے بارے میں تو علما کا اختلاف ہے کہ یہ عورت کے ستر میں داخل ہیں یا نہیں ،لیکن عورت کے سر کے بالوں کے بارے میں امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ یہ عورت کا ستر ہیں اور عورت کے لیے ان کو چھپانا لازم ہے۔ علاوہ ازیں امت مسلمہ میں تواترعملی سے یہ بات ثابت ہے کہ مسلمان عورتیں ،صحابیات کے زمانے سے لے آج تک جب بھی کسی کام سے گھر سے باہر نکلتی ہیں توایک بڑی چادر لے کر باہرنکلتی ہیں جس سے اپنے سارے جسم کو ڈھانپ لیتی ہیں۔ اس تواتر عملی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام غزالی لکھتے ہیں :
لسنا نقول أن وجہ ا لرجل فی حقھا عورۃ کوجہ المرأۃ بل ہو کوجہ الأمرد فی حق الرجل فیحرم النظر عند خوف الفتنۃ فقط و ان لم تکن فتنہ فلا، اذ لم تزل الرجال علی ممر الزمان مکشوفی الوجوہ و النساء یخرجن منتقبات فلو استووا لأمر الرجال با لتنقب أو منعن من الخروج (احیاء العلوم،کتاب النکاحِ ، باب آداب المعاشرۃ)
’’ ہم یہ نہیں کہتے کہ مرد کا چہرہ عورت کے لیے ستر ہے جیسا کہ عورت کا چہرہ مرد کے لیے ستر ہے ،بلکہ مر د کا چہرہ (عورت کے لیے) ایسا ہی ہے جیسا کہ بے ریش بچے کا چہرہ مرد کے لیے ہے ۔یعنی اگر فتنے کا اندیشہ ہوگا تو اس (مرد)کی طرف دیکھنا حرام ہو گا اور اگر فتنہ نہ ہو تو پھر اس ( مرد ) کی طرف دیکھنا جائز ہے، کیونکہ ہمیشہ سے یہ بات چلی آرہی ہے کہ مرد ہر زمانے میں کھلے چہرے کا ساتھ باہر نکلتے ہیں ،جبکہ عورتیں نقاب پہن کر باہر نکلتی ہیں۔ اگر مرد بھی اس مسئلے میں عورتوں کے برابر ہوتے تو ان کو نقاب پہننے کاحکم دیا جاتا یا عورتوں کو باہر نکلنے سے منع کر دیا جاتا۔‘‘
یہاں امام غزالی ،عورت کے بال تو چھوڑیے ،نقاب یعنی چہرے کے پردے کے بارے میں اپنے زمانے کے مشاہدے کے سا تھ ساتھ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ وہ تواتر عملی سے ثابت ہے۔ اسی تواتر عملی کو علامہ ابو حیان اندلسی نے ’البحر المحیط‘ میں، ابن حجر عسقلانی نے ’فتح الباری ‘ میں اورامام شوکانی نے ’نیل الأوطار‘ میں نقل کیا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ عورت کے بال بھی ستر میں داخل ہیں۔ اس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے اور صحابیات کے زمانے سے لے کر آج کل کے بگڑے ہوئے اور بے عمل مسلمان معاشروں میں بھی یہ دوپٹہ تواترعملی سے ثابت ہے ۔تہذیب کا مسئلہ آج کل کا مسئلہ توہو سکتا ہے لیکن آج سے چودہ صدیاں پہلے مروجہ معنوں میں تہذیب کا کوئی نام بھی نہیں جانتا تھا ۔اس وقت صحابیات کا اپنے سراور چہرے کو ڈھانپ کر رکھنا تہذیبی روایت نہیں تھی، بلکہ وہ اس پر عمل ،اسے اللہ کا دین سمجھ کرکرتی تھیں نہ کہ تہذیبی روایت!

خلاصہ کلام

غامدی صاحب کا تصور کتاب ہو یا تصور سنت، اس کے پیچھے ایک ہی بنیادی محرک نظر آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی طرح دین اسلام کی ایسی جامع تعبیر پیش کی جائے جو تمام مذاہب سماویہ کو ایک بنا دے ۔اسی تصور کے تحت انھوں نے لفظ’کتاب‘ کے مفہوم میں تورات، انجیل اورزبورکو بھی شامل کر دیا [غامدی صاحب نے کتاب کا یہ مفہوم اپنے استاذ امام امین احسن اصلاحی صاحب سے لیا ہے۔ لفظ کتاب کے اس نادر مفہوم کو غامدی صاحب کی تفسیر’ البیان ‘اور ان کے استاذ امام کی تفسیر’ تدبر القرآن‘ میں ’ذلک الکتاب لا ریب فیہ‘ کی تشریح میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ ’اصول ومبادی‘ کے حوالے سے بھائی طالب محسن نے غامدی صاحب کی کتاب کی جو تعریف بیان کی ہے، اس میں ان کو غلط فہمی ہوئی ہے ۔غامدی صاحب نے ’اصول ومبادی‘ میں کسی جگہ کتاب کی تعریف بیان نہیں کی۔ انہوں نے اصول و مبادی کے آغاز میں قرآن کی تعریف بیان کی ہے جس کو بھائی طالب محسن نے کتاب کی تعریف کے طور پر پیش کر دیا۔ غامدی صاحب کے نزدیک قرآن کتاب الٰہی کا ایک حصہ ہے، کل کتاب نہیں ہے۔ کتاب کے مفہوم میں ان کے نزدیک تورات ،انجیل اور زبور وغیرہ بھی شامل ہیں۔غامدی صاحب کے اس تصور کتاب کو ’اصول ومبادی ‘ کے صفحہ ۴۷ پر’ دین کی آخری کتاب‘ کے عنوان کے تحت دیکھا جاسکتا ہے۔] اور اسی تصور کے تحت انھوں نے ’سنت ‘کی نسبت حضرت ابراہیم کی طرف کی ،کیونکہ حضرت ابراہیم ہی وہ واحدشخصیت ہیں جن کی طرف اپنی نسبت کرنے میں یہودی ،عیسائی اور مسلمان فخر محسوس کرتے ہیں۔غامدی صاحب نے کتاب وسنت کی اصطلاحات کا اہل سنت کے ہاں معروف معنی لینے کی بجائے اپنا نیا معنی متعارف کروایا تا کہ وہ مذاہب سماویہ کو ایک جامع تصور اور فکر کے تحت جمع کر سکیں۔ لیکن ہمیں افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ غامدی صاحب نے مذاہب سماویہ کو اکٹھا کرنے کے چکرمیں امت مسلمہ کو تفرقے میں ڈال دیا۔ وہ امت جو آپ ؐسے لے کر آج تک اس تصور پر متفق تھی کہ کتاب سے مراد قرآن ہے جو آپؐ پر نازل ہوا اور سنت سے مراد آپؐ کی سنت ہے جو بذریعہ وحی خفی آپؐ کو ملی ،غامدی صاحب نے وحدت مذاہب سماویہ کے مقصد کے تحت کتاب وسنت کی ایسی تعریف بیان کی جو امت مسلمہ کے اس اجماعی تصور کے مخالف ہے جو آپؐ کے زمانے سے لے کر آج تک ان کے ہاں معروف ہے۔
غامدی صاحب اپنی فکر کو عالمی فکربنانے کے لیے کوشاں ہیں ،جبکہ صورت حال یہ ہے کہ شاید یہودی اور عیسائی تو ان کے تصورات کتاب و سنت کو تسلیم کر لیں، لیکن پورا عالم اسلام توکیا ،خوف خدا رکھنے والا کوئی ایک عالم بھی ان کے اس تصور کتاب وسنت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو گاجو کہ چودہ صدیوں سے امت میں رائج تصور کے خلاف ہے۔ غامدی صاحب کا خلوص اپنی جگہ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہود و نصاریٰ بھی غامدی صاحب کے تصور کتاب وسنت کو اسی وقت قبول کرنے کے لیے تیار ہوں گے جب غامدی صاحب اپنے اصولوں کی طرح فروع میں بھی ایسے تصورات پیش کریں جو کہ ان کے لیے قابل قبول ہوں اور غامدی صاحب خود نہ سہی، لیکن ان سے مستفید ہونے والے سکالرز بخوبی یہ فریضہ بھی سر انجام دے رہے ہیں اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ غامدی صاحب کی سر پرستی میں شائع ہونے والے انگریزی رسالے Rennaisance  میں ہم جنس پرستی کو فطرت انسانی قرار دیا جا رہا ہے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَن تَرْضَی عَنکَ الْیَہُودُ وَلاَ النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ (البقرۃ :۱۲۰)
’’اے نبی ﷺ یہود و نصاریٰ آپ سے اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کے دین کی پیروی نہ کریں ۔‘‘
لہٰذا غامدی صاحب کو چاہیے کہ مذاہب سماویہ کو جمع کرتے کرتے امت مسلمہ میں انتشار پیدا نہ کریں ۔اگر وہ مذاہب سماویہ کو اکٹھا کرنا ہی چاہتے ہیں تو اس بنیاد پر اکھٹا کریں جو کہ خود قرآن نے پیش کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَی کَلَمَۃٍ سَوَاء بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللّہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْْئاً وَلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّہِ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ اشْہَدُواْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمران:۶۴)
’’اے نبی ﷺ کہہ دیں، اے اہل کتاب، آؤایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں بعض ،بعض کو رب نہ بنا لیں اللہ کو چھوڑ کر،پس اگر تم پھر جاؤ گے (یعنی یہ ہمارے تمہارے درمیان جو اتحاد کی بنیاد ہے، اگر تم اس بنیاد پر ہم سے اتحاد کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گے) تو گواہ رہو کہ ہم تو مسلمان ہیں ۔‘‘

حدود آرڈینینس ۔ جناب جاوید احمد غامدی کا موقف

سید منظور الحسن

حدود کے بارے میں جناب جاوید احمد غامدی کا موقف یہ ہے کہ یہ اسلامی شریعت کا جزو لازم ہیں۔ جان، مال، آبرو اور نظم اجتماعی سے متعلق تمام بڑے جرائم کی یہ سزائیں قرآن مجید نے خود مقرر فرمائی ہیں۔ چنانچہ ان کی حیثیت پروردگار عالم کے قطعی اور حتمی قانون کی ہے۔ عالم اور محقق ہوں یاقاضی اور فقیہ، ان میں ترمیم و اضافے یا تغیر و تبدل کاحق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ شریعت کے دیگر اجزا کی طرح یہ بھی ابدی، اٹل اور غیر متبدل ہیں۔ زمانہ گزرا ہے اور مزید گزر سکتا ہے، تہذیب بدلی ہے اور مزید بدل سکتی ہے،تمدن میں ارتقا ہوا ہے اور مزید ہو سکتا ہے، مگر ان کی قطعیت آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے قائم تھی۔ ان کا انکار قانون خدا وندی کا انکار ہے اور انھیں چیلنج کرنا حکم الٰہی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ان کی تعمیل ہمارے ایمان کا تقاضا اور ان کے نفاذ کی جدوجہد ہمارا اجتماعی فریضہ ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انھیں من و عن نافذ کریں۔ وہ اگر اس سے گریز کرتے ہیں تو انھیں آگاہ رہنا چاہیے کہ:
’’جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، وہی ظالم ہیں، وہی فاسق ہیں۔‘‘  (المائدہ)
حدود اللہ کے بارے میں یہ جناب جاوید احمد غامدی کا موقف ہے۔ جہاں تک ان کی تعبیر و تشریح کا تعلق ہے تو ان کے نزدیک اس کا حق ہر صاحب علم کو حاصل ہے۔ اس معاملے میں جو چیز فیصلہ کن ہے، وہ کسی تعبیر کا قدیم ہونا یا مشہور و مقبول ہونا نہیں ہے، بلکہ مبنی بر دلیل ہونا ہے۔ عقلی اور نقلی دلائل ہی کو یہ حیثیت حاصل ہے کہ ان کی بنا پر کسی رائے کے رد وقبول کا فیصلہ کیا جائے۔ سلف وخلف کے علما نے حدود اللہ اور دیگر احکام الٰہی کی تعبیر و تشریح کا جو کام گزشتہ چودہ سو سال میں کیا ہے، وہ بلاشبہ گراں قدر اور وقیع ہے ، مگراس کے باوجود بہرحال انسانی کام ہے اور انسانوں میں سے صرف پیغمبروں ہی کو یہ حق حاصل ہے کہ لوگ ان کی بات کے سامنے سر تسلیم خم کریں۔ باقی انسانوں کے کام سے، خواہ وہ ابو حنیفہ،مالک، شافعی، احمد بن حنبل ، ابن تیمیہ ، غزالی، شاہ ولی اللہ ، فراہی اور اصلاحی جیسے جلیل القدر ائمۂ امت ہی کیوں نہ ہوں، اختلاف کیا جا سکتا اور ان کی آرا کے مقابل میں نئی رائے کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
’’جرم زنا کا آرڈی نینس۱۹۷۹ء ‘‘ بھی حدود اللہ کی تعبیر و تشریح پر مبنی ایک انسانی کاوش ہے۔ اس کے بارے میں جناب جاوید احمد غامدی کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس کی بعض دفعات شریعت کے مطابق نہیں ہیں۔ لہٰذا اس کی تدوین جدید ہونی چاہیے اور اسے ایک الگ ضابطے کے طور پر قائم رکھنے کے بجائے مجموعۂ تعزیرات پاکستان اور ضابطۂ فوج داری کا حصہ بنا دینا چاہیے۔ ان کے نزدیک اس میں پانچ بنیادی مسائل ہیں جن پر قرآن و سنت کی روشنی میں از سر نو غور ہونا چاہیے۔
ٰٓایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس میں زنا اور زنا بالجبرکی سزا میں فرق قائم نہیں کیا گیا۔ دفعہ ۵ زنا کی سزا کو بیان کرتی ہے اور اس کے تحت درج ہے کہ اس جرم کا مرتکب اگر ’’محصن‘‘ یعنی شادی شدہ ہے تو اسے سنگ سار کر کے ہلاک کر دیا جائے گا اور اگر ’’غیر محصن‘‘ یعنی غیر شادی شدہ ہے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں گے۔ بعینہٖ یہی سزا دفعہ ۶ کے تحت زنا بالجبرکے زیر عنوان بیان کی گئی ہے۔ گویا زناکی سزا میں اگر کوئی فرق قائم ہے تو وہ ازدواجی حیثیت کی بنا پرہے، اس کے بالرضا یا بالجبر ہونے کی بنا پر نہیں ہے۔
غامدی صاحب کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ زنا اور زنا بالجبر، دونوں الگ الگ جرم ہیں اور شریعت کی رو سے ان کی سزا بھی الگ الگ ہے۔ ان میں وہی فرق ہے جوچوری اور ڈکیتی میں ہے۔ زنا میں مجرم سے ایک جرم کا صدور ہوتاہے، جبکہ زنا بالجبر کا مجرم دو جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔ایک زنا اور دوسرا ظلم و جبر۔یہ دوہرا جرم زنا بالجبر کو زنا کے مقابلے میں زیادہ سنگین بنا دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شریعت میں ان دونوں کے لیے الگ الگ سزامقرر کی گئی ہے۔زنا کی سزا سو کوڑے ہے جو سورۂ نور میں ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے کہ: ’’زانی مرد ہو یا عورت، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔‘‘ جہاں تک زنا بالجبر کا تعلق ہے تویہ اور اس نوعیت کے دیگر سنگین جرائم کی سزائیں سورۂ مائدہ میں ’محاربہ‘ اور ’ فساد فی الارض‘ کے جامع عنوانات کے تحت بیان کی گئی ہیں۔انھی میں سے ایک سزا عبرت ناک طریقے سے قتل ہے۔ ’رجم‘ یعنی لوگوں کی ایک جماعت کا مجرم کو پتھر مار کر ہلاک کرنا بھی اسی سزا کی ایک صورت ہے۔
زنا اور زنا بالجبر کے جرائم کی نوعیت اور ان کی سزا کا فرق اتنا بدیہی ہے کہ جب اس آرڈی نینس کے مصنفین نے خود ان کی تعزیری سزائیں طے کی ہیں تو ان میں فرق قائم کیا ہے ۔ چنانچہ دیکھیے، دفعہ ۱۰ کے تحت درج ہے کہ زنا کی تعزیری سزا قید بامشقت ہو گی جس کی حد ۱۰ سال تک ہے اور زنا بالجبر کی تعزیری سزا قید بامشقت ہو گی جس کی حد ۲۵ سال تک ہے۔مزید براں یہ بھی درج ہے کہ جب زنا بالجبر اجتماعی آبرو ریزی کی صورت اختیار کر جائے تو مرتکبین میں سے ہر ایک کو سزا ئے موت دی جائے گی۔
اس آرڈی نینس میں دوسرا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ سزا میں ثبوت کی بنیاد پر فرق کرتا ہے۔آرڈی نینس کی دفعات ۸ اور ۹ زنااور زنا بالجبر کے ثبوت کو بیان کرتی ہیں۔ ان میں بیان ہوا ہے کہ ان جرائم کے ثبوت کے لیے اگرچار مسلمان مردگواہ میسر ہوں تو حدنافذ ہوگی یعنی سو کوڑے یا سنگ ساری کی سزا دی جائے گی اور اگر گواہوں کی تعداد چار سے کم ہو گی تو تعزیر نافذ ہو گی یعنی قید کی سزا دی جائے گی۔گویا مثال کے طور پر اگر کسی نے زنا بالجبر کا ارتکاب کیا ہے اور اس کے خلاف چار گواہ میسر آ گئے ہیں توجرم پورا ثابت قرار پائے گا اور مجرم پر حد کی سزا نافذ کر کے اسے سنگ سار کر دیا جائے گااور اگر گواہی دینے والوں کی تعداد چار سے کم ہے یعنی دو یا تین ہے تو ثبوت جرم مکمل نہیں سمجھا جائے گا، لہٰذا اس پر حد کے بجائے تعزیر نافذ ہو گی اور اس کی سزا کچھ مدت کی قید بامشقت قرار پائے گی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جرم کے ثبوت کے درجات ہیں ۔جرم اگر کم درجے میں ثابت ہو گا تو سزا کی مقدار کم ہوگی اورزیادہ درجے میں ثابت ہو گا تو سزا کی مقدارزیادہ ہو گی۔
غامدی صاحب کے نزدیک ثبوت جرم کے لیے شریعت نے کسی خاص طریقے کی پابندی لازم نہیں ٹھہرائی ہے۔ چنانچہ اسلامی قانون میں جرم ان تمام طریقوں سے ثابت ہوتا ہے جو اخلاقیات قانون میں مسلمہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اخلاقیات قانون کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ جرم یا ثابت ہوتا ہے یا ثابت نہیں ہوتا ۔ ثبوت اور عدم ثبوت کے درمیان کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ یعنی جرم کبھی پچاس فی صد، ستر فی صد یا نوے اورننانوے فی صد ثابت نہیں ہوتا۔ ہمیشہ سو فی صد ثابت ہوتا ہے یا بالکل ثابت نہیں ہوتا۔کوئی جج اگر کسی مجرم پر سزا نافذ کرتا ہے تو اس یقین کے ساتھ کرتا ہے کہ مقدمہ پایۂ ثبوت کو پہنچ گیا ہے۔ مقدمہ اگر پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچا ، اس میں ابہام یا شک و شبہ پایا جاتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جرم ثابت نہیں ہوا اور ملزم سزا کا مستحق نہیں ہے۔ لہٰذا اس پر نہ حد نافذ ہو گی نہ تعزیر۔سوال یہ ہے کہ اگر جرم ثابت نہیں ہوا تو پھر تعزیر کیوں اور اگر ثابت ہو گیا ہے تو پھر حد کیوں نہیں؟ چنانچہ عقل و فطرت اور دین و شریعت کی رو سے اس بات کی کوئی گنجایش نہیں ہے کہ ثبوت اور عدم ثبوت کے درمیان کسی حالت کا تصور کیا جائے اور اس بنا پر یہ قانون بنایا جائے کہ اگر جرم اتنا ثابت ہو تو حد نافذ ہو گی اور اتنا ثابت ہو تو تعزیر کی سزا دی جائے گی۔ 
جہاں تک سورۂ نور کی آیات ۴۔۵ میں چار گواہوں اور سورۂ نساء کی آیت ۱۵ میں چار مسلمان گواہوں کی شرط کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ یہ شہادت کا کوئی عمومی قانون نہیں ہے، بلکہ دو استثنائی صورتوں کا بیان ہے۔ایک صورت وہ ہے جسے اسلامی شریعت میں’ قذف‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی پاک دامن پر زنا کی تہمت لگائے تو اسے کہا جائے گا کہ اس الزام کی تائید میں چار عینی گواہ پیش کرو ۔ اس سے کم کسی صورت میں الزام ثابت نہیں ہو گا۔حالات و قرائن اور طبی معاینہ جیسی شہادتوں کی اس معاملے میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ نہ انھیں طلب کیا جائے گا اور نہ قبول کیا جائے گا۔ الزام لگانے والا اگرچار گواہ پیش نہیں کرتا تو اسے اسی کوڑے مارے جائیں گے اور ہمیشہ کے لیے ساقط الشہادت قرار دے دیا جائے گا۔ قذف کے اس قانون سے اللہ تعالیٰ کا مقصود یہ ہے کہ اگر کسی شخص کی حیثیت عرفی مسلم ہے اور وہ ایک شریف آدمی کے طور پر پہچانا جاتاہے تو اسے توبہ و انابت کا موقع دیا جائے اور معاشرے میں رسوا نہ کیا جائے۔چار گواہوں کی شرط کی دوسری صورت ان عورتوں سے متعلق ہے جو قحبہ گری کی عادی مجرم ہوں۔ حکومت ان سے نمٹنے کے لیے چار مسلمان گواہوں کو طلب کرسکتی ہے جو اس بات کی گواہی دیں گے کہ فلاں زنا کی عادی ایک قحبہ عورت ہے اور ہم اسی حیثیت سے اسے جانتے ہیں۔ ان دو مستثنیٰ صورتوں کے سوا اسلامی شریعت ثبوت جرم کے لیے عدالت کو کسی خاص طریقے کا پابند نہیں کرتی۔
تیسرابنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ آرڈی نینس گواہوں کے معاملے میں جنس اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کرتا ہے۔ چنانچہ اس کی دفعہ ۸ کے الفاظ ’’چار بالغ مسلمان مرد‘‘ سے واضح ہے کہ اس کی رو سے جرم زنا اسی صورت میں لائق حد قرار پائے گاجب جرم کے عینی گواہ بالغ مرد ہوں اور مسلمان ہوں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس جرم میں نہ عورت کی گواہی قبول کی جائے گی اور نہ غیر مسلم مرد کی۔
غامدی صاحب کے نزدیکیہ چیز بھی اخلاقیات قانون کے خلاف ہے۔ شریعت اسلامی اس سے پاک ہے کہ اس طرح کی غیر عقلی اور خلاف عدل باتوں کو اس کی نسبت سے بیان کیا جائے۔ اس کی رو سے جرم ان تمام طریقوں سے ثابت ہوتا ہے جو علم و فن اور تہذیب و تمدن کے ارتقا کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئے ہیں اور جنھیں انسان کے اجتماعی ضمیر نے ہمیشہ قبول کیا ہے ۔ چنانچہ حالات و قرائن ، طبی معاینہ یا اس نوعیت کے دیگر شواہد کی بنا پر اگر جرم کے ارتکاب اور مجرم کا پوری طرح تعین ہو جاتا ہے تو جرم ثابت قرار پائے گا اور مجرم سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔تاہم قذف کے معاملے میں چار گواہوں اور قحبہ عورتوں کے معاملے میں چار مسلمان گواہوں کی شرط کا استثنا بہرحال قائم رہے گا۔
اس آرڈی نینس کے مولفین کی توجہ شاید اس بات کی طرف نہیں ہوئی کہ جرم کے وقت گواہ کا موجود ہونا سرتاسر ایک اتفاقی امر ہے۔کسی جرم کے موقع پر کوئی مردبھی موجود ہو سکتا ہے اور کوئی عورت بھی، مسلمان بھی ہو سکتا ہے اور غیر مسلم بھی، بچہ بھی ہو سکتا ہے اور بوڑھا بھی اور ایک فرد بھی ہو سکتا ہے اور زیادہ افراد بھی اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ مظلوم اور مجرم کے علاوہ کوئی فرد بشر موجود ہی نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کا قانون یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی معصوم بچی ماں کے سامنے درندگی کا شکار ہوئی ہو اور عدالت ماں کی گواہی محض عورت ہونے کی بنا پر رد کر دے یا کسی پاک دامن کی آبرو ریزی کا گواہ مذہباً عیسائی ہو اور اس کی گواہی غیر مسلم ہونے کی وجہ سے قبول نہ کی جائے ؟ اسلام اس سے بری ہے کہ اس پر اس طرح کی تہمت لگائی جائے۔ قذف اور قحبہ عورتوں کی سرکوبی کے معاملے کے سوا یہ گواہوں کے حوالے سے کوئی شرط عائد نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک ثبوت جرم کی اصلاًایک ہی شرط ہے اور وہ عدالت کا اطمینان ہے۔ یہ اطمینان اگر کسی عورت کی گواہی سے ہوتا ہے تو جرم ثابت قرارپائے گا، کسی غیر مسلم کی گواہیسے ہوتا ہے تو جرم ثابت قرارپائے گا ، کسی بالغ کی گواہی سے ہوتا ہے تو جرم ثابت قرارپائے گا، کسی بچے کی گواہی سے ہوتا ہے تو جرم ثابت قرارپائے گا ، یہاں تک کہ اگر کوئی فرد بطور گواہ میسر نہیں ہے اور عدالت فقط میڈیکل رپورٹ کی بنا پر مطمئن ہو جاتی ہے تو جرم ثابت قرارپائے گا اور مجرم پر پوری سزا نافذ ہوگی۔ یہی اخلاقیات قانون کا تقاضا ہے اور یہی شریعت اسلامی کا منشا ہے۔
چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ اس آرڈی نینس میں جرم کی نوعیت اور مجرم کے حالات کی رعایت کا جو اصول شریعت میں ثابت ہے ، اسے قانون میں شامل نہیں کیا گیا۔
غامدی صاحب کے نزدیک قرآن مجید سے واضح ہے کہ چوری اور زنا کے جرائم میں قطع ید اور سو کوڑوں کی سزائیں درحقیقت ان جرائم کی انتہائی سزائیں ہیں۔یہ صرف انھی مجرموں کے لیے ہیں جن سے جرم بالکل آخری درجے میں سرزد ہو اور وہ اپنے حالات کے لحاظ سے کسی رعایت کے مستحق نہ ہوں۔ چنانچہ عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اگر چاہے توجرم کی نوعیت اور مجرم کے حالات کی رعایت سے ان سزاؤں میں تخفیف کر سکتی ہے۔ یہ اصول سورۂ نور کی آیت ۳۳ اور سورۂ نساء کی آیت ۲۵ سے معلوم ہوتا ہے۔سورۂ نور میں قرآن مجید نے ان لونڈیوں کے لیے اللہ کی رحمت اور مغفرت کا اعلان کیا ہے جن کے مالک انھیں پیشہ کرنے پر مجبور کرتے تھے ۔ سورۂ نسا میں زنا کی مرتکب ان لونڈیوں کی سزاعام عورتوں کے مقابلے میں آدھی مقرر کی گئی ہے جنھیں ان کے مالکوں نے عقد نکاح میں لا کرپاک دامن رکھنے کی پوری کوشش کی تھی۔گویا ایک موقع پر مجبوری کو تسلیم کرتے ہوئے پوری سزا معاف کردی گئی ہے اور دوسرے موقع پر ناقص اخلاقی تربیت کا عذر مانتے ہوئے سزا میں کمی کر دی گئی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کے ان مقامات سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ حالات کی رعایت سے سزا میں تخفیف شریعت کا عین منشا ہے۔
پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ اس آرڈی نینس میں شریعت کی مقرر کردہ بعض سزاؤں کو شامل نہیں کیا گیا۔ 
غامدی صاحب کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ سورۂ مائدہ کی آیات ۳۳۔ ۳۴ میں ’محاربہ‘ اور ’فساد فی الارض‘ کے زیر عنوان جو سزائیں بیان ہوئی ہیں ، وہ شریعت کا حصہ ہیں اور انھیں لازماً اس قانون میں شامل ہونا چاہیے۔ ان آیات میں جرائم کے لیے ’ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان کے معنی اللہ اور رسول سے جنگ کرنے اور زمین میں فساد برپا کرنے کے ہیں۔ یہ ایک جامع تعبیر ہے اور اس کا اطلاق قتل و غارت گری، زنا بالجبر، اجتماعی آبرو ریزی، ڈکیتی ، دہشت گردی اور اس نوعیت کے ان جرائم پر ہوتا ہے جو معاشرے میں فساد کا باعث ہوں اور ریاست کے لیے امن و امان کا مسئلہ پیدا کر دیں۔ان جرائم کے لیے شریعت نے چار سزائیں مقرر کی ہیں۔ ایک یہ کہ ان کا ارتکاب کرنے والوں کو عبرت ناک طریقے سے قتل کیا جائے، دوسرے یہ کہ انھیں عبرت ناک طریقے سے سولی کی سزا دی جائے، تیسرے یہ کہ انھیں اس طرح زندہ رکھا جائے کہ ان کے ہاتھ اور پاؤں بے ترتیب کاٹ دیے جائیںیعنی دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ اور دایاں پاؤں کاٹا جائے اور چوتھے یہ کہ انھیں جلاوطن کر دیا جائے۔ یہ سزائیں بھی اسی طرح شریعت کا حصہ ہیں جس طرح قتل، زنا، چوری اور قذف کی سزائیں شریعت کا حصہ ہیں۔ خاص زنا کے حوالے سے دیکھیں تو اس کی اصل سزا توسورۂ نور کے مطابق سو کوڑے ہی ہے ، لیکن کوئی شخص اگر زنا بالجبر کا ارتکاب کرے یا بدکاری کو پیشہ بنا لے یا کھلم کھلا اوباشی پر اتر آئے اور شرفا کی عزت و ناموس کے لیے خطرہ بن جائے تو وہ فساد فی الارض کا مجرم اور محاربہ کی انھی سزاؤں میں سے کسی سزا کا مستحق قرار پائے گا۔رجم یعنی لوگوں کے ایک گروہ کا مجرم کو پتھرمار کر ہلاک کرناعبرت ناک طریقے سے قتل ہی کی ایک صورت ہے۔چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا کے بعض عادی مجرموں پر رجم کی جو سزا نافذ کی، وہ اصل میں فساد فی الارض ہی کی سزا تھی ۔ اسے کوئی الگ سزا تصور کرنا قرآن و سنت کے مسلمات اور حدیث کے نظائر کے خلاف ہے۔
حدود اللہ اور اس کے جملہ مباحث کے حوالے سے یہ جناب جاوید احمد غامدی کا موقف ہے۔ ملک کے اہل دانش اور ارباب حل و عقد کے استفسار پر انھوں نے اسی کا اظہار کیا ہے۔ یہ ان کا کوئی حالیہ موقف نہیں ہے ، وہ اسے پندرہ بیس سال سے بیان کر رہے ہیں۔ اس کی تفصیل ان کی تصانیف میں ’’حدود و تعزیرات‘‘، ’’رجم کی سزا‘‘، ’’قانون شہادت‘‘ اور’’ اخلاقیات‘‘ کے زیر عنوان دیکھی جا سکتی ہے۔غامدی صاحب کے اس موقف کو بعض مذہبی حلقوں نے ہدف تنقید بنایاہے اور اخبارات و جرائد میں مختلف مضامین شائع کیے ہیں۔انھی میں سے ایک مضمون مولانا زاہد الراشدی کا ہے جو ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے جولائی ۲۰۰۶ کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔مولانا زاہد الراشدی دیوبندی مکتب فکر کے نمائندہ عالم دین ہیں۔ روایتی علما میں شاید وہ واحد شخصیت ہیں جو اگر چہ بلند آہنگ ہیں، مگر تہذیب اور شایستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔بالعموم مکالمے اور اصولی گفتگو تک محدود رہتے ہیں اورمناظرے سے گریز کرتے ہیں۔تنقید بھی کرتے ہیں، اختلاف بھی کرتے ہیں اور قلم رواں ہو تو طنز و تعریض بھی کرتے ہیں، مگر نہ محرکات طے کرتے ہیں اور نہ کفر کے فتوے صادر کرتے ہیں۔ مختلف نقطۂ نظر کے حامل مسلمان کو مسلمان کہتے ہیں اور اس سے میل جول کو جائز سمجھتے ہیں۔ کسی پر نقد و تبصرہ مقصود ہو تو ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اس کی بات کو اسی کے ماخذ سے اور اسی کے مفہوم کے مطابق لیا جائے۔ اس بنا پر ہمارا احساس یہ ہے کہ ان کا وجود مذہبی حلقے کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔ 
مولانا کے بارے میں ہمارے اس تبصرے پر کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ ان اوصاف میں ایسی کون سی خاص بات ہے؟ یہ تو وہ بنیادی اخلاقیات ہیں جوہر مسلمان میں ہونی چاہییں، بلکہ مسلمان تو بڑی بات ہے ، انھیں توہر انسان کے طرز عمل کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس سوال کے جواب میں رومی کے اس شعر کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ: 
دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر
کزدام و دد ملولم و انسانم آرزوست
بہرحال، مولانا کا یہی طرز عمل اور یہی مقام و مرتبہ ہمارے لیے اس امر کا داعی ہوا ہے کہ ان کے مضمون کامطالعہ کیا جائے اور اگر کوئی اشکال یا اختلاف ہوتو بصد احترام ان کی خدمت میں پیش کیا جائے۔
مولانا نے اپنے مضمون میں حدود آرڈی نینس کی نوعیت ، اہمیت اور تاریخی پس منظر کو بیان کرنے کے بعد دو طبقات کی نشان دہی کی ہے جو اس آرڈی نینس پر اعتراض رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایک طبقہ وہ ہے جو سرے سے حدود اللہ کے نفاذ کے خلاف ہے۔ یہ طبقہ ان قوانین کو موجودہ زمانے کے لحاظ سے غیر ضروری ،بلکہ غلط قرار دیتا ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو ان کے اسلامی ہونے کا تو قائل ہے، مگر عملاًاسلام کا نام لے کر مغرب کے موقف اور ایجنڈے کی تقویت کا باعث بن رہا ہے۔ اس طبقے کے بارے میں مولانا نے لکھا ہے :
’’دوسرا طبقہ وہ ہے جو ان حدود کے اسلامی ہونے کا قائل ہے، لیکن اسے شکایت ہے کہ ان حدود کی تعبیر و تشریح کے لیے ’’حدود آرڈی نینس‘‘ مرتب کرنے والوں نے ان حضرات کے موقف اور تعبیرات کو معیار تسلیم کرنے کی بجائے امت مسلمہ کے جمہور فقہاے کرام کی تعبیرات کو کیوں بنیاد بنایا ہے اور حدود شرعیہ بلکہ اسلامی احکام و قوانین کی جدید تعبیر و تشریح کرنے والے ان دانش وروں کے نقطۂ نظر کو توجہ کے قابل کیوں نہیں سمجھا؟ ...کسی بھی سلیم العقل اور صاحب انصاف شخص کو یہ صورت حال پیش آ جائے کہ ایک طرف امت کے جمہور فقہا کی تعبیرات ہوں اور دوسری طرف چند دانش ور حضرات اپنی تعبیرات کو اس کے مقابلے پر پیش کر رہے ہوں تو ایک انصاف پسند شخص امت کے چودہ سو سالہ تعامل اور تمام دینی و علمی مکاتب فکر کے جمہور علما کی اجتماعی تعبیرات کو چند دانش وروں کی آرا پر قربان کرنے کے لیے کسی طرح بھی تیار نہیں ہو گا۔ ایسے اصحاب دانش کی حالت انتہائی قابل رحم ہے جو مولوی پر یہ الزام لگاتے ہوئے نہیں تھکتے کہ وہ ضدی ہے، ہٹ دھرم ہے اور دوسروں کے نقطۂ نظر کا احترام نہیں کرتا، لیکن خود ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ امت کے چودہ سو سالہ اجتماعی تعامل اور آج کے جمہور علما ے امت کے اتفاقی موقف کے سامنے چند افراد اس بات پر مصر ہیں کہ قرآن و سنت کے احکام و مسائل میں ان کی تعبیرات و تشریحات کو ہر حال میں قبول کیا جائے اور صرف انھی کو معیار حق قرار دے کر احادیث نبویہ اور فقہ اسلامی کے پورے ذخیرے کو ان کے سامنے ’’سرنڈر‘‘ کرا دیا جائے، ورنہ وہ مغرب کے ساتھ ہیں اور سرے سے اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ کو غیر ضروری قرار دینے والوں کی صف میں کھڑے ہیں۔‘‘ 
مولانا کی اس تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض اہل دانش اس پر مصر ہیں کہ قرآن و سنت کے احکام و مسائل میں انھی کی تعبیرات کو ہرحال میں قبول کیا جائے۔ یہ اصرار عقل و انصاف کے خلاف ہے۔ احکام شریعہ کی تعبیر و تشریح میں قرین عقل و انصاف یہی ہے کہ عصر حاضر کے کسی صاحب دانش کی رائے کے مقابلے میں انھی آرا کو قبول کیا جائے جو امت کے چودہ سو سالہ تعامل کا نتیجہ ہیں اور جن پر قدیم و جدید دور کے جمہورعلما و فقہا کا اتفاق ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ مولاناکی اس تقریر کا مصداق کون کون لوگ ہیں، تاہم انھوں نے چونکہ جناب جاوید احمد غامدی کا ذکر بھی اسی طبقے کی نسبت سے کیا ہے، اس لیے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں بھی ہماری وضاحت سامنے آ جائے۔ 
غامدی صاحب کے نزدیک قرآن و سنت کی تعبیر کا مسئلہ ہو یا کسی ایسے معاملے میں اجتہاد کا جس میں شریعت خاموش ہے، یہ مسلمانوں کے منتخب نمائندے ہیں جن کے فیصلے سے کوئی رائے اسلامی ریاست میں قانون کا درجہ حاصل کر سکتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کی ریاست میں شوریٰ یاپارلیمنٹ کے علاوہ کسی کو قانون سازی کا حق حاصل نہیں ہے۔ اصحاب علم کو پارلیمنٹ کی اختیار کردہ کسی تعبیر سے اختلاف تو ہو سکتا ہے اور وہ اس کا اظہار کر سکتے اور رائے عامہ کو اس کے لیے ہموار بھی کر سکتے ہیں، مگر ان کے لیے اس کا کوئی جواز نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے کو معیار حق قرار دیں اور اس کے نفاذ پر اصرار کریں اور غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر جمہوری طریقوں کو اختیار کر کے اس کے نفاذ کی جدوجہد کریں۔ غامدی صاحب نے ان طریقوں کو نہ کبھی صحیح سمجھا ہے اور نہ کبھی اختیار کیا ہے ۔ اس کے برعکس انھوں نے ہمیشہ ان کی مذمت کی ہے اور انھیں ہر لحاظ سے ناروا قرار دیا ہے۔چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک اگر پارلیمنٹ ان کی رائے کے بالکل برعکس قانون سازی کرتی ہے اور مثال کے طور پر شہادت کے باب میں جنس اور مذہب کی بنیاد پر تفریق قائم کرتی اور عورت اور غیر مسلم کی گواہی قبول کرنے سے انکار کرتی ہے، زنا کے جرم میں حد کا نفاذ اسی صورت میں جائزٹھہراتی ہے جب چار مسلمان مرد عینی گواہوں کے طور پر پیش ہوں، زنا اور زنا بالجبر کی سزا میں کوئی فرق نہیں کرتی اور ان میں سے ہر جرم کے لیے سنگ ساری ہی کی سزا کو قرآن و سنت کا منشا قرار دیتی ہے تو اس کی اختیار کردہ یہی تعبیرات ریاست کا قانون قرار پائیں گی اور شہریوں پر ان کی تعمیل واجب ہو گی۔ مگر اس کے معنی یہ ہر گز نہیں ہیں اور نہیں ہو سکتے کہ ان قوانین کے نفاذ کے بعد ان سے نظری اختلاف کا حق بھی یک قلم ختم ہو جائے گا۔ نقطۂ نظر کا اظہارہر شخص کا فطری حق ہے ۔ ہر صاحب علم کونہ صرف یہ حق حاصل ہے، بلکہ اس کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے کہ اگر وہ کسی قانون کو خلاف دین سمجھتا ہے تو اس سے برملا اختلاف کرے اوررائے عامہ کو اس کے لیے ہموار کرے۔
مولانا نے اس طبقے کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ لوگ اسلام کا نام لے کر مغرب کے موقف اور ایجنڈے کی تقویت کا باعث بن رہے ہیں۔ اگر مولانا کا روے سخن ہماری طرف ہے تو ہمارا احساس یہ ہے کہ مولانا کے ذہن میںیہ تاثر ہمارے کام کی نوعیت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ہمارے خیال میں اسلامائزیشن کے حوالے سے ہمارے اور روایتی مذہبی طبقے کے مابین ایک بنیادی فرق ہے۔ روایتی مذہبی طبقہ ملک میں اسلامائزیشن کے عمل اور اس میں اپنے کردارکو سیاسی زاویے سے دیکھتا ہے۔ چنانچہ اسے اپنی رائے کے اظہاراور لائحۂ عمل کے تعین میں اپنے سماجی تشخص ، اپنی مذہبی شناخت ، روز مرہ سیاست میں اپنے کردار اور اس طرح کے مختلف خارجی عوامل کو ملحوظ رکھنا پڑتا اور اس بنا پربہت سی چیزو ں کے بارے میں رد و قبول اور ترک و اختیار کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔
ہمارا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ اسلامائزیشن کے عمل کو ہم خالصتاً دین کی شرح و وضاحت اور اس کی دعوت کے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک قومی و ملی مصالح کا لحاظ دعوت دین کے پہلو سے توضروری ہے، مگر اس کے سوا کسی اور پہلو سے انھیں ملحوظ رکھنا خود دین کے لیے ضرر رسانی کا باعث ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ہمارا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہماری رائے حکومت کی حمایت یا مخالفت پر منتج ہوتی ہے، کسی طبقے کی خوشی یا ناراضی کاسبب بنتی ہے، کسی تحریک کو تقویت دینے یا کمزور کرنے کا باعث بنتی ہے۔ ہمارا مسئلہ صرف اور صرف فہم دین اور اس کا ابلاغ ہے۔ علما کی ذمہ داری ہمارے نزدیک یہی ہے کہ وہ دین میں بصیرت پیدا کریں اور اپنی قوم کو ’انذار‘ کریںیعنی اسے حیات اخروی کی تیاریوں کے لیے بیدار کریں۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں:
’’جو بدعت و ضلالت کے تہ بہ تہ اندھیروں میں اپنے چراغ کی لو تیز کر کے سر راہ کھڑے ہو جاتے ہیں اور دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز ہو کر لوگوں کو حق کی راہ دکھاتے ہیں ۔وہ اس بات کی کوئی پروا نہیں کرتے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں اور کن چیزوں کا تقاضا کرتے ہیں ۔ ان کی ساری دل چسپی بس حق ہی سے ہوتی ہے اور وہ اسی کے تقاضے دنیا کو بتانے کے لیے اپنے دل و دماغ کی ساری قوتیں صرف کر دیتے ہیں ۔وہ لوگوں سے کچھ نہیں مانگتے ، بلکہ اپنے پروردگار سے جو کچھ پاتے ہیں ، بڑی فیاضی کے ساتھ ان کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں ۔ چنانچہ ہر دور میں وہ ہستی کا ضمیر ، وجود کا خلاصہ اور زمین کا نمک قرار پاتے ہیں اور اس طرح غربت کے اس مقام پر فائز ہو جاتے ہیں جس کے بارے میں پیغمبر کا ارشاد ہے کہ : ’بدأ الاسلام غریباً، ثم یعود غریباً کما بدأ، فطوبی للغرباء الذین یصلحون اذا فسد الناس‘ (اسلام کی ابتدا ہوئی تو وہ اجنبی تھا ۔ وہ پھر اسی طرح اجنبی ہو جائے گا ۔ پس مبارک ہیں وہ اجنبی جو لوگوں کی اصلاح کے لیے اٹھ کھڑے ہوں جب وہ فساد میں مبتلا ہو جائیں )‘‘ (جاوید احمد غامدی، قانون دعوت ۳۴)
ہمیں امید ہے کہ مولانا ہماری ان معروضات پر ضرور غور فرمائیں گے۔ مولانا دین کے عالم اور داعی ہیں ، اگر التفات فرمائیں تو چلتے چلتے چند طالب علمانہ سوال ان کی اوران کے توسط سے دیگر علما کی خدمت میں پیش کرنے کی اجازت چاہیں گے۔ 
ایک سوال یہ ہے کہ کیا دین کے ایک داعی کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ دین و شریعت اور ملک و ملت کے بارے میں جس موقف کو مبنی بر حق سمجھتا ہے ،اسے کسی آمیزش اور کسی خوف وطمع میں مبتلا ہوئے بغیر بلا کم و کاست بیان کرے؟
ہمیں یقین ہے کہ مولانا اس سوال کا مثبت جواب دیں گے۔مولانا کا اپنا طرز عمل بھی یہی ہے۔ہمارے طرز عمل میں اس سے اگر کوئی مختلف چیز پائی جاتی ہے تو امید ہے کہ مولانا اس کی نشان دہی کریں گے۔ 
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا دین کی تعبیر و تشریح کے معاملے میں عقل و نقل کی بنا پر اختلاف کی گنجایش ہے؟
ہمیں یقین ہے کہ مولانااس سوال کا جواب بھی اثبات میں دیں گے ، کیونکہ اگر انھوں نے اس کاجواب نفی میں دیا تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ امت کے جلیل القدر علما نے اپنے اسلاف اور معاصرین سے اختلاف کا جو طرز عمل اختیار کیے رکھا، وہ سراسر غلط تھا۔مولانا کے لیے یہ کہنا ظاہر ہے کہ بہت مشکل ہو گا۔البتہ ،ہو سکتا ہے کہ اس کے جواب میں وہ یہ کہیں کہ علما کی منفرد آرا سے تو اختلاف کی گنجایش ہے، مگر ان آرا سے اختلاف کی کوئی گنجایش نہیں ہے جن پر جمہور علما متفق ہیں۔ اگر وہ یہ کہیں گے تو اس پر ہمارا سوال یہ ہو گا کہ اختلاف کا اصول اگر عقل و نقل ہے اور اس اصول کی بنا پر احناف شوافع سے، مالکیہ حنابلہ سے ، دیوبندی بریلوی سے اوراہل حدیث شیعہ سے اختلاف کر سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اسی اصول کی بنا پر ان سب سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا؟ 
تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا دین و اخلاق کی رو سے یہ جائز ہے اور کیا کسی صاحب علم کے شایان شان ہے کہ وہ کسی مصنف پر تنقید کے لیے قلم اٹھائے اور اس کی تحریر کو دیکھنا بھی گوارا نہ کرے،اس کی تنقیدات شواہد پر نہیں، بلکہ تاثرات اور سنی سنائی باتوں پر مبنی ہوں اور وہ دلائل پیش کرنے کے بجائے تبصروں پر اکتفا کرے ؟
اس کے جواب میں ہمیں یقین ہے کہ مولانا یہی کہیں گے کہ یہ رویہ نہ دین و اخلاق کی رو سے جائز ہے اور نہ علما کے شایان شان ہے۔ چنانچہ ہم مولانا جیسے صاحب علم اور سنجیدہ فکر سے یہی توقع رکھتے ہیں اور ایک داعی کی حیثیت سے اسی کو ان کے شایان شان سمجھتے ہیں کہ وہ غامدی صاحب کی تالیفات میں سے ان کے موقف کو نقل کر کے یہ بتائیں گے کہ ان کی آرا میں عقل و نقل کے اعتبار سے کیا غلطی پائی جاتی ہے؟ اس ضمن میں اگر وہ قرآن کی آیت نقل کرتے ہیں، حدیث کا حوالہ دیتے ہیں، لغت کے نظائر رقم کرتے ہیں، عقل و فطرت سے استدلال کرتے ہیں توانھیں سننا اور ان کی روشنی میں اپنی آرا پر نظر ثانی کرنا ہم پر واجب ہے، لیکن اگر وہ گمان اور تاثر ہی کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں تو پھرہم سب کے لیے پروردگار کی یہ ہدایت ہے:
’’ایمان والو، بہت سے گمانوں سے بچو، کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں۔‘‘ (الحجرات۴۹:۱۲ )

حدود اللہ اور حدود آرڈیننس ۔ جناب ڈاکٹر طفیل ہاشمی کا مکتوب گرامی

ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی

باسمہ تعالیٰ
اسلام آباد
۱۴؍ اگست ۲۰۰۶
گرامی قدر حضرت مولانا زاہد الراشدی، زیدت معالیکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ مزاج گرامی؟
آپ کا موقر ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ بلا مبالغہ پاکستان کے فکری افلاس کے تپتے ہوئے صحرا میں زلال صافی ہے جو جرعہ کشان علم وتحقیق کی سیرابی کا سامان مہیا کرتا ہے۔ اگر کبھی اس میں درد تہ جام کی مقدار زیادہ ہو جائے تو بھی ہم تشنگان محبت اسے اسی ذوق وشوق سے پی جاتے ہیں، تاہم خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے۔
آپ نے الشریعہ کے جولائی ۲۰۰۶ کے شمارے میں نیاز مند کو بھی یاد فرمایا اور اپنے علمی مقام ومنصب، فکری بلند پروازی، بین الاقوامی امتیاز اور استاذ حدیث ہونے کے تقاضوں کے برعکس ’’صحافتی طریقہ واردات‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے اپنی ثقاہت کو لابی کے مفادات پر قربان کر دیا۔ اگر آپ اسی شمارے کے سرورق پر شائع ہونے والے اقتباس یا صفحہ ۲۶ پر موجود ’’صدق جدید‘‘ کے اقتباس کو درخور اعتنا سمجھتے تو یقیناًآپ کا طرز عمل مختلف ہوتا۔ مجھے معلوم ہے کہ انتخابات کی آمد آمد ہے اور لابی سے غیر مشروط وفاداری مجبوری اور ضرورت ہے، لیکن کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے ایک دیرینہ نیازمند کو مصلوب کر کے اپنے قدوقامت میں اضافہ کریں؟ اللہ نے آپ کو پہلے سے دراز قامتی سے نوازا ہوا ہے۔ اگر آپ ایسے مفکر، محقق، محدث اور فقیہ کی طرف سے میری حقیر کاوش پر علمی تنقید ہوتی تو مجھے اپنے نتائج بحث کو ازسرنو جانچنے اور ان میں اصلاح کرنے کا موقع ملتا اور میں اسے انتہائی خوش دلی سے خوش آمدید کہتا، کیونکہ میں جن اسلاف کے دامن سے وابستہ ہوں، انھیں اپنی غلطی تسلیم کرنے اور اپنی تحقیقات سے رجوع کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی۔ میں بلاناغہ مرشد تھانویؒ کی ’’تربیت السالک‘‘ کا مطالعہ کر کے اپنی اصلاح کے لیے کوشاں رہتا ہوں، لیکن آپ نے اپنے علمی خانوادے کی تابندہ روایات کے بجائے زرد صحافت والوں کی راہ کو پذیرائی بخشی، فالی اللہ المشتکیٰ۔
مولانا، کیا یہ دیانت داری کا تقاضا ہے کہ آپ نے ایک دوست کے ساتھ اپنے مکالمے کی روداد لکھی، ان کی اوٹ پٹانگ گفتگو نقل کی اور ’’کلمہ حق‘‘ کے آخر میں میرا نام لکھ کر یہ تاثر دیا کہ یہ سب کچھ میری ہفوات ہیں، جبکہ اس موضوع پر آپ کی میری کبھی کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ نیز میری تالیف کی ایک ایک سطر گواہ ہے کہ میں نے کہیں بھی کتاب وسنت، اقوال صحابہ، ائمہ مجتہدین، فقہاے امت اور اسلام کی نامور علمی شخصیات کا دامن نہیں چھوڑا۔ میری کتاب تمام تر ’’منقول‘‘ پر مشتمل ہے۔ البتہ فقہی اقوال واختلافات کی خوب صورتی اور افادیت یہی ہے کہ پیش آمدہ حالات کی تاریکی کو سورج کی کسی بھی کرن سے دور کیا جا سکتا ہے۔
بدم گفتی وخور سندم عفاک اللہ نکو گفتی
جواب تلخ مے زیبد لب لعل شکر خا را
تاہم اگر ایسا کسی غلط فہمی کی بنا پر ہوا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ میرا فرض ہے کہ میں حتی المقدور اسے دور کرنے کی کوشش کروں۔ نیز آپ کی تحریر پر اعتماد کر کے کچھ لوگوں نے مجھے دراب پٹیل اور عاصمہ جہانگیر سے بریکٹ کیا ہوگا، میرا یہ حق ہے کہ ان کی غلط فہمی دور کروں، اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ میرے اس مکتوب کو ’’الشریعہ‘‘ میں شائع کر کے ممنون فرمائیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے دینی حلقوں نے فکری، فقہی اور جدید مسائل پر سوچنے کی ذمہ داری دو ایک افراد کے سپرد کر دی ہے اور باقی لاکھوں فضلا اعتماد کی مسرتوں سے سرشار ہو کر دماغی آسودگی کے مزے لوٹتے ہیں۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ حدود، اللہ نے مقرر کی ہیں اس لیے حدود آرڈیننس لازماً کتاب وسنت پر مبنی ہے، اسی اعتماد کا شاخسانہ ہے۔ میں نے بھی جب تک خود اس کا مطالعہ نہیں کیا تھا، یہی سمجھتا تھا کہ اہل علم کا تیار کردہ قانون ہے، کتاب وسنت کے مطابق ہی ہوگا۔ مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ پاکستان کا بڑا دینی طبقہ اسی اعتماد کی پر کیف فضا میں محو خرام ہے۔
حدود آرڈیننس پر تنقید کرنے والے افراد دو طرح کے تھے۔ ایک وہ طبقہ جو حدود آرڈیننس کی خرابیوں کو اجاگر کر کے سابقہ قانون فوج داری بحال کروانا چاہتا ہے، تاکہ وہ اس ملک میں یورپ اور امریکہ کی طرح فری سیکس (free sex) کا کلچر پروان چڑھا سکے۔ چونکہ وہ صاف الفاظ میں اپنے اس مقصد کا اظہار نہیں کر سکتا تھا، اس لیے انھوں نے اس کے لیے حدود آرڈیننس کا سہارا لیا اور اسے منسوخ کر کے سابقہ قوانین بحال کرنے کی مہم چلائی۔ یہ مہم بلاشبہ شرف انسانیت، انسان کے فطری شرم وحیا اور عزت وغیرت کے خلاف ایک گھناؤنی سازش ہے لیکن بعض اہل علم نے حدود آرڈیننس کو قرآن وسنت کا قانون قرار دے کر ایسے افراد کو موقع فراہم کیا کہ وہ اس کی آڑ میں اسلامی حدود اور اللہ کے قانون کے خلاف ہرزہ سرائی کریں۔
دوسرا طبقہ ایسے لوگوں کا تھا جو ناجائز طور پر حدود کے مقدمات میں ماخوذ ہوئے یا جو لوگ قانون کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے، وہ اس پر انگشت بدنداں تھے کہ اگر حدود آرڈیننس اللہ کا قانون ہے تو اس کے نفاذ سے عدل قائم کیوں نہیں ہوتا؟ اس میں بے گناہ کو سزا کیوں ہو جاتی ہے اور بڑے بڑے مجرم کیوں چھوٹ جاتے ہیں؟ کیا اللہ کا قانون اپنی تاثیر کھو چکا ہے؟
اس پس منظر میں، میں نے فیصلہ کیا کہ حدود آرڈیننس کا کتاب وسنت کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تاکہ اسلام دشمن، اسلام کو گالی دینے کے لیے حدود آرڈیننس کی آڑ نہ لے سکیں اور اسلامی نظام عدل کے بارے میں شک میں مبتلا ہونے والوں کے ایمان کی حفاظت کی جائے۔ لیھلک من ہلک عن بینۃ ویحییٰ من حی عن بینۃ۔ میں نے اپنے مطالعے کے نتائج بے کم وکاست پیش کر دیے۔ مجھے معلوم تھا کہ اسلام کے نام پر سیاست کا بازار گرم کرنے والی لابی اسے پسندنہیں کرے گی او ر مجھے افسوس ہوا کہ ایک ٹی وی چینل نے اسے ناپسندیدہ طریقے سے اپنی ناشایستہ مہم کا حصہ بنایا لیکن میرے سامنے سیدنا صدیق اکبرؓ کا ارشاد تھا کہ ’’اینقص الدین وانا حی‘‘ لہٰذا میں نے لومۃ لائم کے خوف کے بغیر وہ بات کہہ دی جسے میں حق سمجھتا تھا۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
میرے نتائج یہ تھے کہ حدود آرڈیننس کی ایک سو ایک دفعات میں سے صرف اٹھارہ دفعات کا تعلق حدود سے ہے اور ان اٹھارہ میں سے صرف چار دفعات کتاب وسنت کے مطابق ہیں۔ درحقیقت صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ فلاں فلاں سزائیں کتاب وسنت میں ہیں، اس لیے یہ قانون کتاب وسنت پر مبنی ہے۔ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس قانون کے تحت جس فرد کو آپ سزا دینے جا رہے ہیں، وہ کتاب وسنت کی رو سے اس جرم کا مرتکب بھی ہے یا نہیں؟ حدود آرڈیننس کے تحت شرعی نکاح کرنے والوں پر حد زنا جاری کرنا ٹھیک اسی طرح ہے جیسے اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو دہشت گردی کا مجرم قرار دے کر سزاے موت دی جائے۔ کیا آپ سزا کے اس جواز سے متفق ہیں؟
مجھے افسوس ہے کہ آپ نے اپنے ’’کلمہ حق‘‘ میں دلیل سے تہی دامن لوگوں کی دلیل کا سہارا لیا ہے۔ بالعموم جب کوئی فریق دلیل کی بازی ہار جاتا ہے تو وہ اجماع اور تعامل امت کی دہائی دیتا ہے۔ اگر اجماع سے آپ کی مراد امت کا اجماع ہے تو میں نے امت کے اجماع کے خلاف دانستہ ایک لفظ بھی نہیں لکھا اور اگر آپ جنرل ضیاء الحق کے دور میں حدود آرڈیننس مدون کرنے والوں کے اجماع کو اجماع امت قرار دیتے ہیں تو مجھے معاف فرمائیں، میں اس کے ماننے سے ابا کرتا ہوں۔ اگر آپ کو ناگوار نہ گزرے تو میں حدود آرڈیننس کی چند دفعات کے بارے میں مختصراً عرض کروں کہ کیا میں نے اجماع کے خلاف کہا یا آپ کا اجماع کا دعویٰ بے بنیاد ہے؟
۱۔ میں نے لکھا ہے کہ وہ تمام دفعات جن کا تعلق تعزیرات سے ہے، وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ نہیں ہیں بلکہ تمام امت کا اجماع ہے کہ تعزیری سزائیں مفوض الیٰ رای الامام (دور حاضر کے مطابق مقننہ یا عدلیہ کے سپرد) ہیں۔ اس بنا پر میں نے کہا کہ حدود آرڈیننس کی ایک سو ایک میں سے تراسی دفعات کا کتاب وسنت سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے، انھیں خدائی قوانین قرار دینا غلط ہے۔ آپ ہی فرمائیں کہ میری رائے اجماع کے مطابق ہے یا حدود آرڈیننس کا preamble جو تعزیرات کو بھی کتاب وسنت کی سزائیں قرار دیتا ہے؟
۲۔ جہاں تک حدود کی دفعات کا تعلق ہے تو حد زنا دفعہ ۴ میں دی گئی زنا کی تعریف پورے فقہی لٹریچر میں آج تک کسی نے نہیں کی۔ یہ تعریف تاریخ میں پہلی بار حدود آرڈیننس میں آئی ہے جس کی بنا پر تقریباً ایک درجن سے زائد ایسے نکاح ہیں جو مختلف فقہی مکاتب فکر کے نزدیک شرعی نکاح ہیں لیکن حدود آرڈیننس کی رو سے زنا ہیں۔ تمام فقہا کا اجماع ہے کہ جو نکاح کسی بھی مکتب فکر کے نزدیک جائز ہو، وہ زنا موجب حد نہیں ہے، جبکہ حدود آرڈیننس کی دفعہ ۴، اس اجماع کے خلاف ہے۔
۳۔ زنا بالجبر کو بالعموم فقہا ’’اکراہ‘‘ کے باب میں زیر بحث لائے ہیں، کتاب الزنا میں نہیں۔ اس لیے اس کا ثبوت اور اس کی سزا اسی حوالے سے متعین ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے عدالتی فیصلے اور متعدد فقہا کی تصریحات اسے زنا بالرضا سے الگ جرم قرار دیتی ہیں۔ اس کا معیار ثبوت اور اس کی سزا مختلف ہے۔ رہی یہ بات کہ اس پر حد جاری ہوگی یا تعزیر، اس کا دار ومدار فقہا کے اس اختلاف پر ہے کہ حرابہ کی سزا حد ہے یا تعزیر؟ تاہم حدود آرڈیننس میں زنا بالجبر کے معیار ثبوت اور اس کی سزا میں ظالم ومظلوم کا عدم امتیاز قرآن، سنت اور اجماع امت کے خلاف ہے۔
۴۔ زنا کے اقرار کے بعد انکار کرنے پر یا گواہوں کی تعداد کم ہونے پر ازسرنو تحقیق کرنا اور تعزیری سزا دینا کتاب اللہ، سنت نبوی اور اجماع امت کے خلاف ہے۔ کیا سنت نبوی، اجماع صحابہ اور تمام فقہا اس امر پر متفق نہیں ہیں کہ جس طرح اقرار معتبر ہے، اسی طرح انکار معتبر ہے؟ کیا قرآن کی نص نہیں کہ چار گواہ نہ ہوں تو تہمت لگانے والوں پر حد قذف جاری کرو؟ آخر وہ کون سا تعامل امت ہے جس کا آپ نے ’’کلمہ حق‘‘ میں حوالہ دیا ہے؟
۵۔ سنگ سار کرنے کی سزا سنت نبوی سے صراحتاً ثابت ہے۔ اس پر جو بحث کی گئی ہے ، وہ بہت مختصر اور اس حوالے سے ہے کہ اس کی اصل قرآن میں موجود ہے۔ مولانا، آپ کو اندازہ نہیں کہ کچھ لوگ اس پر کس قدر سیخ پا ہیں کہ ہم رجم سے جان چھڑانا چاہتے تھے، لیکن ڈاکٹر ہاشمی نے حضرت عمر کے خطبے میں جس آیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس کی نشان دہی کر کے ہمارے لیے مزید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ لیکن مولانا، مجھے آپ پر حیرت ہے کہ آپ، جنھوں نے مولانا مفتی محمود کے حوالے سے رجم کا دفاع کرتے ہوئے اپنے ایک اخباری کالم میں لکھا تھا کہ اس میں مجرم کے بھاگ کر جان بچانے کے مواقع ہوتے ہیں، اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا کہ حدود آرڈیننس میں یہ ہے کہ مجرم کو آخر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا جائے۔ کیا یہ دفعہ اجماع امت کے منافی نہیں ہے؟
۶۔ کیا قرآن، سنت اور اجماع امت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ اگر تہمت لگانے والے قرآن کا مقرر کردہ ثبوت نہ پیش کر سکیں تو ان پر عدالت حد قذف جاری کر دے؟ جبکہ حدود آرڈیننس کے تحت ایسے ملزم کے خلاف ازسرنو تحقیق کر کے اسے تعزیری سزا دی جائے گی اور اگر وہ کئی سال جیل میں رہنے کے بعد عدالت سے ’’باعزت‘‘ بری ہو جاتا ہے اور تہمت لگانے والوں کو سزا دلوانا چاہتا ہے تو ازسرنو عدالت میں کیس لے جائے۔ حدود آرڈیننس کی یہ دفعہ کون سے اجماعی تعامل اور کس فقیہ کی تعبیر وتشریح کے مطابق ہے؟
۷۔ راقم کی معروضات میں سے زیادہ سے زیادہ جن امور سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، وہ چند اصولی مباحث ہیں جو کتاب کے باب اول میں ہیں۔ ان میں، میرے تمام مباحث کا دار ومدار ’’منقول‘‘ پر ہے۔ ان مباحث میں، میں نے ائمہ مجتہدین، شیخ الاسلام ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ، مولانا انور شاہ کاشمیری اور حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن کی آرا کو ترجیح دی ہے۔
شنیدم ہر چہ از پاکان امت
ترا با شوخی رندانہ گفتم
اگر ان اساطین امت کی آرا اجماع کے خلاف تھیں تو میرے لیے ایسے کسی ’’اجماع‘‘ کو ماننا ممکن نہیں جس میں ایک شخص رائے دے، دو خاموش رہیں اور پھر وہ رائے ساری امت کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دلیل قطعی قرار پائے۔ میں اپنی آخرت کو ان ’’مخالفین اجماع‘‘ سے وابستہ کرنا اپنے لیے باعث سعادت اور موجب مغفرت سمجھتا ہوں۔ آپ بھی اگر لابی کا چشمہ اتار کر علم وتحقیق کی جو نعمت وافر مقدار میں اللہ نے آپ کو دی ہے، اس کی نظر سے دیکھیں توآپ کو طفیل ہاشمی، دراب پٹیل اور عاصمہ جہانگیر کے ساتھ نہیں، بلکہ امام الہند شاہ ولی اللہ اور خاتم المحدثین انور شاہ کاشمیری کے پیچھے مودب کھڑا نظر آئے گا۔
ہم جور پرستوں پہ گماں ترک وفا کا
یہ وہم کہیں تجھ کو گنہ گار نہ کر دے
تاہم اگر وہ سب کچھ جو باب اول میں لکھا گیا ہے، سراسر غلط بھی ہو، تب بھی حدود آرڈیننس کی دفعات پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا، ان کا بڑا حصہ بہرحال قرآن، سنت اور اجماع امت کے خلاف ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے لیکچر کے بعد، جسے اسلام آباد سے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے شائع کیا ہے اور جس میں مولانا نے حدود آرڈیننس کی کئی خرابیوں کی نشان دہی اور اصلاحات تجویز کرنے کے بعد کہا ہے کہ تعزیرات حدود کا حصہ نہیں ہیں او ریہ اللہ کا قانون نہیں بلکہ مقننہ اور عدلیہ کا بنایا ہوا قانون ہے، نیز ایسا کوئی زنا نہیں ہوتا جو موجب تعزیر ہو، آپ کی لابی کی رائے بھی تبدیل ہو جانا چاہیے، کیونکہ اب تو
لو، وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ ونام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں
مولانا، میری معروضات میں اگر کوئی بات آپ کو ناگوار گزری ہو تو معاف فرما دیں۔ آپ صاحب علم ہیں اور میں ہمیشہ سے آپ کا نیاز مند ہوں۔ آپ میری غلطیوں کی اصلاح کیا کریں۔ دھکا دے کر نکال دینا اور کسی دوسری لابی کی طرف منسوب کر دینا اس ذات ستودہ صفات صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں جس کی نظر کرم کے بغیر کہیں آسودگی ہے نہ جائے پناہ۔ دعاؤں میں یاد رکھیں۔
نیاز کیش
ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی
مکان ۱۰۴، گلی ۱۰، گلشن خداداد
E-11/1، (گولڑہ شریف) اسلام آباد

محترم جاوید غامدی اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کی توضیحات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’الشریعہ‘ کے جولائی ۲۰۰۶ کے ادارتی صفحات میں حدود آرڈیننس پر ملک میں ایک عرصہ سے جاری بحث ومباحثہ کے حوالے سے حدود آرڈیننس پر معترض حلقوں کے موقف پر اظہار خیال کرتے ہوئے راقم الحروف نے اپنے دو محترم دوستوں، محترم جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کا بھی تذکرہ کیا تھا اور اس بات پر دکھ کا اظہار کیا تھا کہ حدود آرڈیننس کے حوالے سے ان حضرات کا جو موقف پبلک کے سامنے آ رہا ہے، وہ ان حلقوں کی تقویت کا باعث بن رہا ہے جو حدود آرڈیننس کی تکنیکی خامیوں یا فقہی کمزوریوں کو دور کرنے کے بجائے سرے سے پاکستان میں شرعی قوانین کے نفاذ ہی کے خلاف ہیں اور اسی وجہ سے وہ حدود آرڈیننس کو منسوخ کرانے کے درپے ہیں۔ راقم الحروف نے اپنے اس مضمون کا اختتام ان جملوں پر کیا تھا کہ:
’’جو لوگ اسلام کا نام لے کر مغرب کے موقف اور ایجنڈے کی تقویت کا باعث بن رہے ہیں، ان سے شکوے کا حق ہم ضرور رکھتے ہیں کیونکہ جسٹس(ر) دراب پٹیل اور عاصمہ جہانگیر کے ساتھ جب ہم محترم جاوید احمد غامدی صاحب اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کو ایک ہی صف میں کھڑ ادیکھتے ہیں تو بہرحال ہمیں تکلیف ہوتی ہے ۔‘‘
مجھے خوشی ہے کہ دونوں بزرگوں نے اس ’’تکلیف‘‘ کا نوٹس لیا ہے جس سے میری گزارشات کا ایک مقصد بحمد اللہ تعالیٰ پورا ہو گیا ہے۔ مجھے پہلے سے معلوم تھا کہ ان حضرات کا موقف وہ نہیں ہے جو بعض ذرائع ابلاغ کی مخصوص پلاننگ کی وجہ سے عام حلقوں میں سمجھا جانے لگا ہے مگر میں یہ چاہتا تھا کہ اس کی وضاحت کسی دوسرے کو نہیں، بلکہ خود ان حضرات کو کرنی چاہیے۔ چنانچہ میرا تیر نشانے پر لگا ہے اور دونوں حضرات نے اپنے موقف او رپوزیشن کی وضاحت کی ضرورت محسوس فرمائی ہے جس پر میں اپنے ان دونوں بزرگ دوستوں کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔
محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے حسب روایت خود کچھ نہیں لکھا مگر ان کے معتمد رفیق کار جناب منظور الحسن نے ماہنامہ ’’اشراق‘‘ لاہور کے اگست ۲۰۰۶ کے ادارتی صفحات میں میری گزارشات پر اظہار خیال کیا ہے جو چونکہ جاوید غامدی صاحب کے ترجمان ’’اشراق‘‘ کے اداریہ کے طور پر شائع ہوا، اس لیے میں اسے غامدی صاحب کی طرف سے ہی تصور کر رہا ہوں۔
منظور الحسن صاحب ایک صاحب علم، صاحب مطالعہ اور فاضل دوست ہیں اور غامدی صاحب کے زیر سایہ علمی خدمات میں مصروف ہیں، مگر ابھی چند روز قبل ان کے ساتھ یہ المناک سانحہ پیش آیا ہے کہ غامدی صاحب کے علمی مرکز ’’المورد‘‘ ماڈل ٹاؤن لاہور کے قریب رات کے اندھیرے میں ان پر فائرنگ ہوئی ہے جس سے شدیدزخمی ہو کر وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اگرچہ حملہ آوروں کا سراغ ابھی تک نہیں لگایا جا سکا مگر یہ حرکت جس نے بھی کی ہے، انتہائی مذمت کے قابل ہے اور ہم منظور الحسن صاحب کے ساتھ اس المناک سانحہ میں ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں صحت کاملہ وعاجلہ سے نوازیں اور ان کے حملہ آوروں کو بے نقاب کر کے ان کے قانونی انجام تک پہنچائیں۔ آمین یا رب العالمین۔ 
منظور الحسن صاحب کا مذکورہ مضمون اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی صاحب کا تفصیلی مکتوب گرامی آپ ’الشریعہ‘ کے زیر نظر شمارے میں ملاحظہ کر رہے ہیں اور ان دونوں مضامین کی اشاعت سے میرا مقصد ایک حد تک پورا ہو گیا ہے۔
میں ان دنوں مدارس دینیہ کے سالانہ اجتماعات کی وجہ سے مسلسل اسفار میں ہوں، اس لیے ان دونوں مضامین پر تفصیلی گفتگو کا حق کسی اور موقع کے لیے محفوظ رکھتے ہوئے سردست صرف اس حوالے سے کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جناب منظور الحسن صاحب نے لکھا ہے اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی صاحب نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ان کا موقف ان کی کتابوں میں موجود ہے جسے دیکھے بغیر ان کی کسی رائے پر جرح کرنا درست نہیں ہے۔ مجھے اس بات سے اتفاق نہیں ہے، اس لیے کہ کتابوں کی دنیا پبلک میڈیا کی دنیا سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ پبلک میڈیا میں کتابوں کے حوالے نہیں دیکھے جاتے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ آپ کس موقع پر کن کے سامنے کون سی بات کہہ رہے ہیں، کون سے تنازعے میں کس فریق کے ساتھ کھڑے ہیں، اور کسی مسئلہ پر عمومی کشمکش کے تناظر میں آپ کی بات کا فائدہ کسے پہنچ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں الیکٹرانک میڈیا کے ایک چینل نے حدود آرڈیننس پر جس کج بحثی کا اہتمام کیا، ا س کے بارے میں خود ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی صاحب کا تاثر یہ ہے کہ :
’’مجھے افسوس ہوا کہ ایک ٹی وی چینل نے اسے ناپسندیدہ طریقے سے اپنی ناشایستہ مہم کا حصہ بنایا۔‘‘
اس ٹی وی چینل نے ہمارے ان دو محترم بزرگوں کے موقف کو جس انداز سے پیش کیا، ہمارے لیے اصل تکلیف کا باعث وہی تھا اور اگر ان دوستوں کو ہماری یہ تکلیف کسی لابی کے ساتھ ہمدردی یا اس کی ہمدردیاں حاصل کرنے کا سبب نظر آتی ہے تو وہ ملک کے کسی شہر میں جا کر کسی گلی میں کھڑے ہو جائیں اور مذکورہ ٹی وی چینل دیکھنے والے آٹھ دس افراد کو روک کر ان سے ان کا تاثر معلوم کریں کہ وہ حدود آرڈیننس کے حوالے سے عاصمہ جہانگیر اور ہمارے ان محترم دوستوں کے موقف میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
جہاں تک حدود آرڈیننس کے بارے میں ہمارے موقف کا تعلق ہے تو وہ بھی یہی ہے کہ حدود اللہ جو قرآن وسنت کی طے کردہ ہیں، قطعی طور پر ناقابل ترمیم ہیں اور قیامت تک کسی کو اس کا حق حاصل نہیں ہے، مگر حدود سے ہٹ کر حدود آرڈیننس کی باقی تمام باتوں پر نظر ثانی ہو سکتی ہے۔ فقہی مباحث کا دروازہ کھلا ہے اور ضرورت کے مطابق اجتہاد واستنباط کی گنجایش بھی موجود ہے، البتہ اس فرق اور وضاحت کے ساتھ کہ اجتہاد کے اصول وقواعد وہی ہوں گے جو امت مسلمہ کے اجماعی تعامل کے ساتھ چلے آ رہے ہیں۔ قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح اور اجتہاد واستنباط کے مسلمہ قواعد واصول کی نفی کرتے ہوئے نئے اصول وضوابط کا دروازہ کھولنے کو ہم فتنے کا دروازہ سمجھتے ہیں اور گمراہی کا راستہ تصور کرتے ہیں۔
حدود آرڈیننس ہوں یا کوئی بھی مسئلہ اور قانون، مسلمات کے دائرے میں رہتے ہوئے بحث ومباحثہ ہمارے نزدیک نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ وقت کا ایک ناگزیر تقاضا اور ضرورت بھی ہے جس کی طرف ہم روایتی علمی حلقوں کو مسلسل توجہ دلاتے رہتے ہیں او رمختلف حوالوں سے بعض دوستوں کی ناراضی کا خطرہ مول لیتے ہوئے بھی اس کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں، البتہ اس کے ساتھ ہم پورے شعور کے ساتھ اس بات کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ ہماری زبان اور قلم سے کوئی ایسا جملہ نہ نکلنے پائے جو اسلامی تعلیمات کی نفی کرنے والوں اور مسلمان ممالک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا راستہ روکنے والوں کی تقویت کا باعث ہو اور دوسرے دوستوں سے بھی ہمارا یہی تقاضا ہوتا ہے۔
اپنے گھر کے نقشے میں رد وبدل اور ضرورت کے مطابق ترمیم واضافہ کے لیے رائے دینا اور اس کے لیے کوشش کرنا تمام بھائیوں کا یکساں حق ہوتا ہے لیکن اگر دشمن اس گھرپر حملہ آور ہو تو پہلے گھر کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ کوشش اسی گھر کے لیے ہوتی ہے جو جیسا کیسا بھی ہے مگر موجود ہے۔ گھر کو دشمن کے حملے کا سامنا ہو تو ترمیم اور رد وبدل کے نقشے نہیں پھیلائے جاتے بلکہ اس کے تحفظ کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے، البتہ کسی دوست کو اسلام پر، اسلامی احکام وقوانین پر، اسلامی ثقافت وتمدن پر، اسلامی اقدار وروایات پر اور مسلمانوں کے اسلامی تشخص وامتیاز پر دشمن کی یلغار کی ہمہ گیری اور سنگینی کا پوری طرح ادراک واحساس نہ ہو تو ہم اس کے لیے اقبال کی زبان میں یہ دعا ہی کر سکتے ہیں کہ
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

مکاتیب

ادارہ

(۱)
برادرِ مکرم جناب عمار خان ناصر 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گزشتہ شمارے میں جناب پروفیسر عبدالماجد نے میرے کالم ’’اسلامی تحریکیں اور مغربی تحقیقات‘‘ پر تبصرہ فرمایا جو اس لحاظ سے میرے لیے انتہائی خوشی کا باعث ہے کہ ہمارے قارئین کس باریک بینی سے ’الشریعہ‘ کامطالعہ کرتے اور ہر قابل بحث بات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ میں جناب پروفیسرعبدالماجد کا ممنون ہوں کہ انہوں نے میرے کالم کو بغور پڑھنے کے بعد اپنا تبصرہ ارسال فرمایا۔ اس کے متعلق عرض ہے کہ گزشتہ پانچ سال سے ’استشراق‘ میرے زیرمطالعہ ہے اور دیگر مستشرقین کی تحریرات کے علاوہ اسپوزیٹو کی تحریرات بھی میری نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔یہ بات تسلیم ہے کہ جان ایل اسپوزیٹو طبقۂ مستشرقین میں قدرے معتدل درجہ کے محقق ہیں، لیکن اس کے باوجود اسلامی تاریخ اور اس کے حقائق کے حوالے سے اسپوزیٹو کی بہت سی ایسی تحریرات ایک مستقل مقالہ کی صورت میں جمع کی جاسکتی ہیں جو قابل گرفت ہیں۔ میں ان شاء اللہ آئندہ کسی موقع پر انھیں قارئین کے سامنے پیش کروں گا۔ پروفیسر عبدالماجد صاحب نے اپنے مکتوب میں لکھا ہے :
’’۔۔۔ڈاکٹر اسپوسیٹو نے تو امریکہ اور مغرب کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ چند اسلامی تحریکات کے طرزِ عمل کی بنیاد پر اسلام یا تمام مسلمانوں پر انتہا پسندی اوردہشت گردی کا لیبل نہیں لگانا چاہیے۔۔۔‘‘۔
اس عبارت میں پروفیسر موصوف نے خود اعتراف کیا ہے کہ ڈاکٹر اسپوزیٹو نے ’’چند اسلامی تحریکات‘‘ کو ہدفِ تنقید بنایا ہے اور میری مراد بھی یہی تھی کہ اسپوزیٹو نے ایک سے زائد جہادی گروپس کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ مزید گزارش ہے کہ ایک لمحہ کے لیے تمام ’اعتدال پسندانہ حکمتوں‘سے قطع نظر، محض ایک مسلمان کی حیثیت سے یہ بات ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ حالیہ صیہونی وصلیبی یلغار سے قبل، مسلمانوں کی طرف سے خصوصاً، کبھی بھی تاریخِ اسلامی میں کسی جہادی جماعت کے طرزِ عمل کو نشانۂ تنقید نہیں بنایاگیا اور نہ ایسے کسی موقف کی کلی یا جزوی تائیدکی گئی ہے بلکہ اس کے برعکس جہاد کے لیے ہرممکنہ تعاون کی کوشش کی گئی، لیکن بدقسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ استعماری یلغار کے منحوس اثرات سے امت کی فکری بنیادیں بھی محفوظ نہیں رہ سکیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں سب سے بڑی نعمت فکری بنیادوں پر ثابت قدمی اورسب سے بڑی ذمہ داری اغیار کی عدمِ تقلید ہے۔ ہمیں صرف اس بات پر خوش نہیں ہوجانا چاہیے کہ مائیکل ہارٹ نے محمدﷺکو تاریخ کے سو بڑے آدمیوں میں سرفہرست رکھا ہے، بلکہ اس کی وجوہات اور پس پردہ مقاصد پر بھی غور کرنا چاہیے۔
حافظ محمدسمیع اللہ فراز
شعبہ علومِ اسلامیہ 
ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان، لاہور
(۲)
مکرمی حافظ محمد عمار خان صاحب، مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے آپ جملہ اراکین مجلس ادارت ومشاورت کے ہمراہ بخیریت ہوں گے۔ پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب قارون اور قورح کے موضوع سے اکتاہٹ کے اظہار میں اسے لایعنی اور علمی تفاخر پر مبنی بحث قرار دے چکے ہیں، لیکن حیرت ہے کہ اگست ۲۰۰۶ ء کے شمارے میں پھر اسی باسی کڑھی میں ابال آیااور مارچ والے مضمون کی گالیوں اور طعنوں کا اعادہ کیاگیاہے۔ بدقسمتی سے میں تو جو شیلے مقالہ نگار کے زیر عتاب تھا ہی، اس بار علامہ محمود خارانی صاحب کو بھی تختہ مشق بنایا گیاہے اور افسوس کہ شرفا کی پگڑیاں اچھالنے کے بعد اس سلسلہ بحث کے لیے ’الشریعہ‘ کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کردیے گئے ہیں تاکہ محترم جنگجو بزرگ مصنف کی ٹوہر ( اکڑ، انا) بنی رہے۔ یہ شخصیت پرستی نہیں تو اور کیاہے ؟
اگر اس لایعنی اور غیر معقول وبے محل بحث کی اشاعت محترم ڈاکٹر صاحب کی انا کی تسکین کے لیے ناگزیر ہوچکی تھی تو گالیوں کے ہمراہ یہ بھی لکھ دیاہوتا کہ بائبل میں قارون کے خزانے کی کنجیوں کا چمڑے کی ہونا اور چمڑے کی کنجیوں کا تین سو اونٹوں یا خچروں پر لادے جانا فلاں جگہ لکھاہے، لیکن یاد رکھیے، قیامت کاسورج طلوع ہو جائے گا، آسمان لپیٹ دیے جائیں گے، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑ نے لگیں گے، لیکن عزت مآب ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی مدظلہ چمڑے کی کنجیاں اوران کا تین سو اونٹوں یا خچروں پر لادے جانا بائبل میں نہیں دکھا سکتے، نہیں دکھا سکتے، نہیں دکھا سکتے،اور بس۔ 
مذکورہ مذموم مضمون ’’قورح ،قارون: ایک بے محل بحث‘‘ میں محترم مصنف نے کون سا کدو میں تیر مارا ہے؟ صرف کوڑھ پر کھاج کے سوا کچھ بھی نہیں، چنانچہ مذکورہ جنگ نامہ کی ابتدائی سطر میں فرماتے ہیں: ’’ اس لیے کوئی حوالہ ضروری نہیں سمجھاگیاتھا ۔‘‘ پھر پانچویں سطر میں ہی کتاب گنتی باب ۱۶ کی نشان دہی کا اعتراف کرتے ہیں اور مزید یہ کہ مارچ ۲۰۰۶ء کے شمارے میں دعویٰ کرتے ہیں: ’’زبو رہی بائبل کی وہ کتاب ہے جس میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ‘‘ لیکن اپریل کے شمارے میں جب احقر نے زبور میں تحریف کثیرثابت کرکے ان کے مضحکہ خیز دعوے کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے تو اب اگست ۲۰۰۶ء کے شمارہ میں درج جنگ نامہ میں فرماتے ہیں: ’’ البتہ ا س میں بھی چند مقامات پر تحریف ہوئی ہے ‘‘۔ مارچ کے شمارے میں فرمایا تھا کہ: ’’ یہی وہ زبور ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام کو عطا کی گئی تھی‘‘ لیکن جب میں نے عظیم سکالر صاحب کی علمیت کا بھانڈا سر بازار پھوڑتے ہوئے مروجہ زبو ر کے بہت سے لکھاری ثابت کردیے تو اب جنگ نامہ میں فرماتے ہیں ’’ اور پھر زبو رکے سلسلہ میں ایک اہم با ت یہ ہے کہ وہ ساری کتاب زبور جو بائبل میں شامل ہے، وہ سب داؤد علیہ السلام سے منسوب نہیں، بائبل کے اردو ترجمہ میں تو اس کا ذکر نہیں۔ ‘‘ حالانکہ اردو بائبل میں بھی ہر مزمور کے سرنامہ میں اس کے مصنف کا نام درج ہے۔ اندریں حالات کیا میں نے غلط کہہ دیا کہ ڈاکٹر صاحب کو بائبل کھول کر دیکھنے کی توفیق میسرنہیں اور خیالات کے گھوڑے خوب دوڑاتے ہیں؟
حیرت ہے، مسلمان ڈاکٹر صاحب زبو ر میں درج حمد وثنا کے ترانوں سے بہت ہی زیادہ محظوظ ہوتے ہیں۔ ’’تیرے نتھنوں کے دم کے جھو کے سے پانی کی تھاہ دکھائی دینے لگی‘‘ (زبور۱۸:۱۵) ’’اس کے نتھنوں سے دھواں اٹھا اور اس کے منہ سے آگ نکل کر بھسم کرنے لگی، کوئلے اس سے دہک گئے‘‘( زبور ۱۸:۸) ’’وہ کروبی پر سوار ہوکر ا ڑا بلکہ تیزی سے ہوا کے بازووں پر اڑا ‘‘ ( زبور ۱۸:۱) ’’اے خداوند !جاگ، تو کیوں سوتا ہے‘‘ (زبور ۴۴:۲۳) حضرت داؤد علیہ السلام سے منسوب مزمور میں لکھاہے: ’’خداوند نے مجھ سے کہا تومیرا بیٹاہے، آج تو مجھ سے پیدا ہوا ‘‘ (زبور ۲:۸) قرآ ن سے متصادم ان ترانوں کو تنزیل الٰہی کی سند دینے والے جنگجو مصنف کو، جبکہ وہ قبر میں لاتیں لٹکائے بیٹھے ہیں، ایسے مشرکانہ ترانوں سے محظوظ ہونے کی بجائے قرآن پاک کی آیات مقدسہ سے محظوظ ہوکر اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے تھی، لیکن چونکہ وہ اپنی فطرت سے مجبور ہیں، اس لیے ہمیں ان سے اب کوئی شکایت نہیں۔ ہمیں تو پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب کی خدمت میں اپیل کرنی ہے کہ خواہ مخواہ کسی موضوع کو فضول یا لایعنی نہ کہہ دیاکریں۔ اگر کہہ ہی بیٹھے تو کم از کم اپنے کہے کی لاج رکھ لیا کیجئے۔ جس بحث کو آپ بار بار لایعنی اور بے محل فرماتے رہے، پھر اسی بحث کے تحت لکھے گئے مذموم جنگ نامہ کو شائع کرکے ’الشریعہ‘ کے تقدس کو پامال کیوں کردیا؟ اپنے ہی اصولوں کی دھجیاں بیچ چورا ہے کیوں بکھیر دیں؟ ایک ہم فرقہ جنگجو کی انا کی تسکین کے لیے کسی دوسرے کے شیشہ دل کی کتنی کرچیاں کر ڈالیں۔ اس کا احساس ہے آپ کو؟ مجھے احساس ہے کہ آپ جواب نہیں دیں گے، بلکہ شاید میرا خط بھی شامل اشاعت نہ کیا جائے، لیکن میرا یہ خط آپ بھول نہیں پائیں گے۔ ان شاء اللہ ۔
تمام احباب تک آداب اورسلام ۔
محمد یاسین عابد 
علی پور چٹھہ ۔ ضلع گوجرانوالہ
(۳)
بخدمت گرامی قدر علامہ زاہد الراشدی صاحب مدظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
’الشریعہ‘ کے تازہ شمارے میں تبلیغی جماعت کے حوالے سے محترم مولانا محمد یوسف صاحب کا مضمون شائع ہوا۔ مولانا موصوف کامضمون کافی متوازن تھا اور احقر کے دل کی آواز اور ترجمان تھا۔ مولانا یوسف صاحب کے مضمون کی تائید میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں:
۱۔ آج فضا یہ بن چکی ہے کہ جو شخص تبلیغی جماعت کی اصلاح کی بات کرتا ہے، اسے جماعت کامخالف سمجھ لیا جاتا ہے۔
۲۔ تبلیغی کارکن بکثرت ضعیف وموضوع روایات پیش کرتے ہیں اور سامعین میں کئی علما ومفتی صاحبان موجود ہوتے ہیں، وہ اصلاح نہیں کرتے۔ جماعت کی مجموعی کارکردگی بہت اچھی ہونے کے باوجود احقر ایسے صاحبان کی بدولت جماعت میں نہیں جاتا۔ جامعہ عربیہ چنیوٹ میں کسی تبلیغی کارکن نے بیان کیا کہ فلاں نیک کام کرو گے تو جنت میں ۴۵ ہزار حوریں ملیں گی اور اس بات کو حدیث بنا کر پیش کیا۔ ایک صاحب نے اپنے بیان کا آغاز اس جملے سے کیا کہ ’’صحابہ کرام ہمارے لیے حجت نہیں ہیں۔‘‘
۳۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جماعت میں کم یا زیادہ ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو علماے کرام کے کام کو بنظر حقارت دیکھتا ہے۔ ہمارے استاد محترم مولانا محمد ابراہیم صاحب فیصل آباد کے ایک مدرسہ میں دورۂ تفسیر کے طلبہ کو سبق پڑھا رہے تھے کہ جماعت والے آئے اور کہا کہ کیا آپ نے کوئی دین کا کام بھی کیا ہے؟ ایک تبلیغی نے احقر کے متعلق کہا، وہ دین کا ٹھیکیدار بن کر مدرسہ میں بیٹھا ہوا ہے، وقت نہیں لگاتا۔ غالباً چھ سات سال پہلے کی بات ہے، تبلیغی مرکز فیصل آباد میں وفاق المدارس کے امتحانات کے لیے آئے ہوئے نگران حضرات کو جمع کیا گیا۔ ایک صاحب کارگزاری بیان کرنے لگے۔ مولانا عبد الرحمن شاہ صاحب شیخ الحدیث جامعہ محمودیہ جھنگ نے بیان رکوا کر جھنگ کی آپ بیتی سنائی کہ فلاں مسجد میں مولوی صاحب نے درس قرآن شروع کیا، جماعت والوں نے بند کرا دیا کہ یہ فتنہ ڈال رہا ہے۔ یہ کیا ہے؟ 
احقر نے چنیوٹ چھوڑنے سے دو ماہ پہلے روزانہ درس قرآن شروع کیا۔ جماعت والوں نے بہت مخالفت کی۔ اگر درس قرآن کے حامی صبر وتحمل سے کام نہ لیتے تو سر پھٹول ہو جاتی۔ ایسا ہی ایک واقعہ مولانا محمد ابراہیم صاحب کے ساتھ پیش آیا۔ مولانا چنیوٹی مرحوم کے سمجھانے کے باوجود جماعت والوں نے درس قرآن نہ سنا۔ المیہ یہ ہے کہ سارا دین چھ نمبروں، گشت اور سہ روزوں اور چلوں میں منحصر سمجھ لیا گیا ہے۔ احقر کے درس قرآن کی مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ بزرگوں نے عشا کے بعد مشورہ کرنے کا کہا ہوا ہے۔ درس قرآن سے ہمارا مشورہ متاثر ہوتا ہے۔ چنانچہ احقر کے درس قرآن کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔ استاذ مکرم مولانا چنیوٹی مرحوم ہمیشہ جماعت والوں کو ’ہی‘ اور ’بھی‘ کا فرق سمجھایا کرتے تھے کہ تبلیغی کام ہی دین کا کام نہیں ہے، یہ بھی دین کا کام ہے۔
آخر میں یہ عرض ہے کہ تبلیغی کام بہت شاندار کام ہے۔ دوسرے حضرات جس شخص کو دس سال میں دین دار نہیں بنا سکتے، یہ حضرت ہفتہ چلہ میں بنا لیتے ہیں۔ شاندار نتائج سے انکار نہیں، لیکن مذکورہ کوتاہیوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ رائے ونڈ میں مقیم تبلیغی بزرگ بالخصوص جماعت کے ترجمان مولانا طارق جمیل صاحب کیا اس طرف بھی توجہ فرمائیں گے؟
مشتاق احمد
مدرس جامعہ اسلامیہ کامونکی

ویڈیو کیمرے کی فقہی حیثیت

ادارہ

(ویڈیو کیمرے سے بنائی جانے والی تصویر کا مسئلہ ہمیشہ سے اختلافی رہا ہے۔ اہل علم کا ایک گروہ اسے ناجائز قرار دینے پر مصر ہے جبکہ دوسرا طبقہ فی نفسہ اس کے مباح ہونے کا قائل ہے۔ اس ضمن میں شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ کے نقطہ نظر کی وضاحت پر مبنی ایک تحریر یہاں شائع کی جا رہی ہے۔ مدیر)

استفسار

گرامی قدر حضرت والد صاحب دام مجدہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کچھ عرصہ سے یہ بات گردش کر رہی ہے کہ آپ شادی کی کسی ایسی تقریب میں شریک تھے جہاں ویڈیو کیمرہ سے تصویریں بنائی جا رہی تھیں۔ اس میں آپ کی تصاویر بھی بنائی گئیں۔ آپ نے ان کو منع نہیں کیا۔ اس سے کچھ لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ حضرت کے نزدیک ویڈیو کیمرہ سے بنائی گئی تصویر کی گنجایش ہے۔ براہ کرم اس بارے میں اپنے نظریہ کی وضاحت کسی سے لکھوا کر اپنے دستخط یا کم از کم اپنی مہر ثبت فرما کر بھیجیں تاکہ اس کے مطابق ساتھیوں کو تصویر کے بارے میں آپ کے نظریہ سے آگاہ کیا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ صحت وعافیت کے ساتھ تادیر ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ آمین۔
(مولانا) عبد القدوس قارن
مدرس مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ

حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کا جواب

میری لاعلمی میں کسی نے ایسی حرکت کی ہے۔ مجھے اس بات کا کوئی علم نہیں۔ باقی رہا مسئلہ فوٹو لینے کا تو ویڈیو کیمرہ سے یا خالی کیمرہ سے فوٹو لینا ناجائز ہے۔ میں اس کام کو حرام سمجھتا ہوں۔
ابو الزاہد محمد سرفراز خان صفدر

اکتوبر ۲۰۰۶ء

حدود آرڈیننس اور تحفظ حقوق نسواں بلمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
پاکستان کے سیاسی بحرانوں میں نظریہ ضرورت کا استعمالپروفیسر محمد شریف چوہدری
غلامی کے مسئلہ پر ایک نظرمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
سی پی ایس انٹرنیشنل ۔ کسی نئے فتنے کی تمہید؟محمد عمار خان ناصر
تحفظ حقوق نسواں بل ۲۰۰۶ء ۔ ایک تنقیدی جائزہمحمد مشتاق احمد
مصارف زکوٰۃ میں ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی مدڈاکٹر عبد الحئی ابڑو
مکاتیبادارہ
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی سالانہ رپورٹادارہ
جہاد کے بارے میں پوپ بینی ڈکٹ کے ریمارکسمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حدود آرڈیننس اور تحفظ حقوق نسواں بل

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حدود شرعیہ کا نفاذ ایک اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور مسلم معاشرہ میں جرائم کا تعین اور روک تھام انھی حدود کے حوالے سے ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے دینی حلقوں کا یہ مطالبہ چلا آ رہا تھا کہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں اسلامی قوانین واحکام کے نفاذ کے ساتھ ساتھ معاشرتی جرائم کی روک تھام کے لیے ان شرعی حدود کا نفاذ بھی عمل میں لایا جائے جو قرآن وسنت میں بعض سنگین جرائم کے لیے متعین صورت میں بیان کی گئی ہیں، مگر اس کی نوبت اس وقت آئی جب ۱۹۷۷ کی تحریک نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں عوام کی بے پناہ قربانیوں کے بعد جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کی حکومت نے ا س سمت میں پیش رفت کی اور پاکستان قومی اتحاد کی معاونت سے دیگر چند شرعی آئینی اقدامات کے علاوہ حدود آرڈیننس کے عنوان سے شرعی سزاؤں اور حدود کے نفاذ کا بھی اعلان کیا گیا۔
حدود آرڈیننس کے نفاذ کو ربع صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، مگر ان پر عمل درآمد کی کوئی ایسی خوشگوار صورت حال اب تک سامنے نہیں آئی جسے حدود شرعیہ کے موثر نفاذ سے تعبیر کیا جا سکتا ہو اور نہ ہی معاشرہ میں جرائم کی کمی اور ان پر کنٹرول کا مقصد حاصل ہو سکا ہے، حالانکہ یہی حدود شرعیہ سعودی عرب میں نافذ ہیں اور جرائم پرموثر کنٹرول کا ذریعہ ثابت ہوئی ہیں اور انھی حدود شرعیہ کے ذریعے سے افغانستان میں طالبان نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں اپنی حدود کار میں جرائم پر کنٹرول کا ایسا نقشہ پیش کیا تھا جس کا طالبان کے شدید ترین مخالف بھی اعتراف کرتے ہیں اور متعدد بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں میں اسے تسلیم کیا گیا ہے، لیکن پاکستان میں حدود شرعیہ کا قانونی نفاذ ان مقاصد ونتائج کا ذریعہ ابھی تک نہیں بن سکا جو مقاصد واہداف اسی دور میں افغانستان اور سعودی عرب میں عملاً حاصل ہو چکے ہیں، جبکہ اس کے برعکس حدود آرڈیننس کے خلاف بین الاقوامی او رملکی سطح پر پراپیگنڈا اور لابنگ کی مہم ایک عرصہ سے جاری ہے اور حکومت پاکستان پر مختلف اطراف سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ ان قوانین کو سرے سے ختم کر دیا جائے یا کم از کم ان میں ایسی ترامیم کر دی جائیں جن سے اس کی برائے نام بھی کوئی حیثیت باقی نہ رہے۔ چنانچہ روزنامہ پاکستان لاہور میں ۱۷؍ ستمبر ۲۰۰۶ کو این این آئی کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ اس کی طرف سے پاکستان میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے سلسلے میں قوانین، توہین رسالت کی سزا کے قانون اور حدود آرڈیننس کو ختم کرنے کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور اس کے لیے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ پاکستانی پارلیمنٹ کے ارکان اور حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے۔
مغربی معاشرہ اور قوانین میں رضامندی کا زنا سرے سے جرم ہی تصور نہیں ہوتا اور اس سلسلے میں کوئی بھی امتناعی قانون انسانی حقوق کے منافی سمجھا جاتا ہے جبکہ اسلام اسے سنگین ترین جرم قرار دیتا ہے اور سنگسار کرنے اور سو کوڑوں کی سخت ترین سزا اس جرم پر تجویز کرتا ہے۔ اس واضح تضاد کو مغربی سوچ کے مطابق دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حدود آرڈیننس کے اس حصے کو یا تو بالکل ختم کر دیا جائے اور اگر اسے کلیتاً ختم کرنا ممکن نہ ہو تو اسے ایسے قانونی گورکھ دھندوں میں الجھا دیا جائے کہ ایک ’’شو پیس‘‘ سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت باقی نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں تحفظ حقوق نسواں بل کے عنوان سے حدود آرڈیننس میں ترامیم کا مسودہ پیش ہوا تو ان ترامیم کا سب سے زیادہ نشانہ زنا سے متعلق قوانین بنے اور بہت سی قانونی موشگافیوں کی آڑ میں بنیادی تبدیلیاں یہ کی گئیں کہ زنا بالجبر کے جرم کو سرے سے حدود شرعیہ کے دائرہ سے ہی نکال دیا گیا ہے اور اسے تعزیرات کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی زنا بالرضا پر شرعی حد (سنگسار یا سو کوڑوں) کو باقی رکھتے ہوئے اس کے ساتھ جو تعزیری قوانین حدود آرڈیننس میں شامل کیے گئے تھے، انھیں بالکل ختم کر دیا گیا ہے جس کا عملی نتیجہ یہ ہوگا کہ رضامندی کے زنا کے کیس میں اگر چار گواہوں کی عینی شہادت شرعی قوانین کے مطابق میسر نہ آ سکے تو زنا سے کم درجہ کے جو جرائم (مثلاً دواعی زنا وغیرہ) جو اسی کیس میں ریکارڈ پر آ چکے ہیں، ان پر مجرموں کو کوئی سزا نہیں دی جا سکے گی اور وہ بالکل بری ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ حدود شرعیہ کے قوانین کے دیگر قوانین پر بالاتر ہونے کی دفعہ حذف کر دی گئی ہے اور بہت سی دیگر ایسی ترامیم بھی نئے مسودہ میں شامل کی گئی ہیں جو حدود آرڈیننس کو کلیتاً غیر موثر بنانے کے علاوہ اور کوئی افادیت نہیں رکھتیں۔
اس پر ملک بھر میں شدید احتجاج کی لہر اٹھی اور قومی اسمبلی سے باہر اور اندر اس پر سخت اضطراب کا اظہار کیا گیا۔ متحدہ مجلس عمل نے اس ترمیم شدہ مسودہ کی قومی اسمبلی میں بعینہ منظوری کی صورت میں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا اور ملک کے دینی حلقوں نے مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے کا عندیہ دیا۔ اس تناظر میں حکمران مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن کے درمیان ایک ملاقات میں طے پایا کہ تحفظ حقوق نسواں کے عنوان سے پیش کیے جانے والے نئے بل پر کچھ ایسے علما سے بھی رائے لے لی جائے جو عملی سیاست میں شریک نہ ہوں اور موجودہ سیاسی کشمکش میں فریق کی حیثیت نہ رکھتے ہوں اور وہ علما جو رائے دیں، اسے فریقین قبول کر لیں۔ اس مقصد کے لیے جن علما کے ناموں پر اتفاق ہوا، ان میں جسٹس (ریٹائرڈ) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، شیخ الحدیث مولانا حسن جان آف پشاور، مولانا مفتی منیب الرحمن آف کراچی، مولانا مفتی غلام الرحمن آف پشاور، مولانا ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی آف لاہور اور مولانا قاری محمد حنیف جالندھری آف ملتان کے علاوہ راقم الحروف (ابو عمار زاہد الراشدی آف گوجرانوالہ) کا نام بھی شامل تھا۔ مجھے خود چودھری شجاعت حسین صاحب نے فون کر کے اس بات سے آگاہ کیا اور اس طرح ہم سات حضرات پر یہ ذمہ داری آ گئی کہ ہم اس نئے مسودہ کا جائزہ لیں اور اس میں جو باتیں صراحتاً قرآن وسنت سے متصادم ہوں، ان کی نشان دہی کر کے اصلاحات تجویز کریں۔
اس سلسلے میں ہمارا پہلا اجلاس ۶ ستمبر ۲۰۰۶ کو قومی اسمبلی کے کمیٹی روم میں عشا کی نماز کے بعد ہوا جس میں محترم چودھری شجاعت حسین، وفاقی وزرا اور دیگر معاونین کی ایک ٹیم کے ساتھ ہمارے ساتھ اجلاس میں شریک تھے۔ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اس وقت بیرون ملک دورے پر تھے اور ہم نے قومی اسمبلی میں پیش ہونے والا بل اور اس پر قومی اسمبلی کی طرف سے سردار نصر اللہ خان دریشک کی سربراہی میں قائم کی جانے والی سلیکٹ کمیٹی کی رپورٹ اسی اجلاس میں پہلی بار دیکھی تھی، اس لیے اس کے باوجود کہ چودھری شجاعت حسین صاحب اور ان کے رفقا کی طرف سے فوری طور پر اسی شب اس کے بارے میں رائے دینے کے لیے اصرار کیا جا رہا تھا، مگر ہم نے یہ کہہ کر معذرت کر دی کہ جب تک مسودہ قانون اور ا س کے بارے میں سلیکٹ کمیٹی کی رپورٹ کا بغور مطالعہ نہ کر لیں، ہم کوئی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، چنانچہ یہ اجلاس کسی نتیجے کے بغیر اختتام پذیر ہوا۔ 
ہماری دوسری نشست ۱۰ ستمبر کو پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں ہوئی جس میں مذکورہ ساتوں علماے کرام شریک ہوئے، جبکہ چودھری شجاعت حسین صاحب کے ساتھ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی، سردار نصر اللہ دریشک اور وفاقی وزارت قانون کے اعلیٰ ترین افسران (لا سیکرٹری، ایڈیشنل لا سیکرٹری اور اٹارنی جنرل) شریک تھے جس کی درج ذیل رپورٹ فریقین کے مشترکہ دستخطوں کے ساتھ جاری کی گئی:

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم
قومی اسمبلی میں ’’تحفظ حقوق نسواں‘‘ کے عنوان سے حدود آرڈیننس میں ترامیم کا جو بل زیر بحث ہے، اس کے بارے میں پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد مولانا فضل الرحمن کے درمیان ملاقات میں طے کی جانے والی خصوصی علما کمیٹی کا اجلاس آج اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا مفتی منیب الرحمن، مولانا حسن جان، مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی، مولانا زاہد الراشدی، مولانا اخلاق احمد اور حافظ محمد عمار یاسر نے شرکت کی جبکہ پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کے ہمراہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھر ی پرویز الٰہی، سردار نصر اللہ دریشک اور وزارت قانون کے بعض ذمہ دار حکام نے شرکت کی۔
چودھری شجاعت حسین نے علماے کرام سے کہا کہ ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کے بارے میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اس میں قرآن وسنت کے منافی باتیں بھی شامل ہیں، اس لیے ہم نے آپ حضرت کو زحمت دی ہے کہ آپ حضرات بل کا جائزہ لے کر قرآن وسنت کی روشنی میں ہماری راہنمائی کریں، کیونکہ ہم کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جو حدود شرعیہ اور قرآن وسنت کے منافی ہو، بلکہ ہم ایسا سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اس پر علماء کرام اور ماہرین قانون نے بل کی متعدد دفعات کا تفصیلی جائزہ لیا جو ۱۰ ستمبر ۲۰۰۶ بروز اتوار صبح نو بجے سے کھانے اور نماز کے وقفے کے ساتھ رات تین بجے تک جاری رہا اور اگلے روز ۳ بجے سہ پہر تک بھی یہ مشاورت جاری رہی اور متعدد اصولی امور پر اتفاق رائے ہو گیا جس کے مطابق مندرجہ ذیل معاملات طے پائے۔
۱۔ زنا بالجبر اگر حد کی شرائط کے ساتھ ثابت ہو جائے تو اس پر حد زنا جاری کی جائے گی۔
۲۔ حدود آرڈیننس میں زنا موجب تعزیر کی بجائے ’’فحاشی‘‘ کے عنوان سے ایک نئی دفعہ کا تعزیرات پاکستان (PPC) میں اضافہ کیا جائے گا جس کا متن درج ذیل ہے:
A man and a woman are said to commit lewdness if they willfully have sexual intercourse with one another and shall be punished with imprisonment which may extend to five years and shall also be liable to fine. 
۳۔ زنا آرڈیننس کی دفعہ تین کی جگہ مندرجہ ذیل دفعہ تحریر کی جائے گی:
In the interpretation and application of this Ordinance the injunctions of Islam as laid down in the Holy Quran and Sunah shall have effect notwithstanding any thing contained in any other law for the time being in force. 
اجلاس میں شریک علماے کرام نے کہا کہ حقوق نسواں بل کے بارے میں قرآن وسنت کے حوالے سے اصولی امور پر اتفاق رائے ہو گیا ہے اور اب اس بل میں اصولی طور پر قرآن وسنت کے منافی کوئی بات باقی نہیں رہی، تاہم بعض ذیلی امور پر اگر ہمیں مزید وقت دیا گیا تو تفصیلی سفارشات پیش کر دی جائیں گی۔ اجلاس میں علماے کرام نے عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں بعض اہم سفارشات پیش کی ہیں جو منسلک ہیں۔‘‘
اس دستاویز پر مندرجہ ذیل حضرات کے دستخط ہیں:
مولانا محمد تقی عثمانی، مولانا مفتی منیب الرحمن، مولانا حسن جان، مولانا زاہد الراشدی، ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی، مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا اخلاق احمد، حافظ عمار یاسر، جناب چوہدری شجاعت حسین صاحب، جناب چوہدری پرویز الٰہی صاحب، جناب سردار نصر اللہ دریشک صاحب۔
اس کے ساتھ ہی علماے کرام کی خصوصی کمیٹی کی طرف سے حکومت کو اس امر کی طرف توجہ دلانے کا فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں عورتوں کی مظلومیت کے حقیقی مسائل وہ نہیں ہیں جن کے حوالے سے بل مرتب کیا گیا ہے، بلکہ معروضی صورت حال میں عورتوں کے حقیقی مسائل کے بارے میں قانون سازی کی ضرورت ہے اور اگر حکومت پاکستان واقعی پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے عملی پیش رفت کرنا چاہتی ہے تو اسے مندرجہ ذیل قانونی اقدامات کرنے چاہییں:
۱۔ خواتین کو عملاً وراثت سے عام طور پر محروم رکھا جاتا ہے۔ اس کے سد باب کے لیے مستقل قانون بنایا جائے۔
۲۔ بعض علاقوں میں خواتین کو ان کی مرضی کے خلاف نکاح پر مجبور کیا جاتا ہے، اس کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جائے اور اسے قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔
۳۔ بیک وقت تین طلاقیں دینے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے اور ایسی دستاویز لکھنے والے نوٹری پبلک اور وثیقہ نویس کو بھی شریک جرم قرار دیا جائے۔
۴۔ قرآن کریم کے ساتھ نکاح کی مذموم رسم کاسدباب کیا جائے۔
۵۔ جبری وٹہ سٹہ یعنی نکاح شغار کو قانوناً جرم قرار دیا جائے۔
۶۔ عورتوں کی خرید وفروخت اور انھیں میراث بنانے کے غیر شرعی رواج اور رسوم کا قانونی سدباب کیا جائے۔
یہ تجاویز مندرجہ ذیل علماے کرام کے دستخطوں کے ساتھ الگ یادداشت کے طور پر چودھری شجاعت حسین صاحب کو پیش کی گئیں:
مولانا محمد تقی عثمانی، مولانا مفتی منیب الرحمن، مولانا حسن جان، مولانا زاہد الراشدی، ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی، مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا اخلاق احمد، حافظ عمار یاسر۔
اس سلسلے میں حکومتی پارٹی اور وزارت قانون کے ذمہ دار حضرات کے علاوہ متحدہ مجلس عمل کے راہ نماؤں مولانا فضل الرحمن، مولانا حافظ حسین احمد، جناب لیاقت بلوچ، مولانا عبد المالک، مولانا سید نصیب علی شاہ، جناب اسد اللہ بھٹو ایڈووکیٹ، سینٹر پروفیسر ساجد میر، مولانا عبد الجلیل نقوی اور دیگر حضرات کے ساتھ ہماری بات چیت ہوتی رہی اور ان حضرات نے بھی ہماری ترمیمات اور سفارشات سے اتفاق کیا، جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے راہ نماؤں جناب فاروق ستار، ڈاکٹر عامر لیاقت اور جناب حیدر رضوی کے ساتھ ایک طویل نشست میں اس بل سے متعلقہ مسائل پر تبادلہ خیالات ہوا اور ہم نے ایک دوسرے کے نقطہ نظر سے واقفیت حاصل کی۔
بعد میں مذکورہ تین نکات کو موثر بنانے اور ان کے عملی نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے علماء کمیٹی نے مزید پانچ ترامیم تجویز کرتے ہوئے حکومت سے انھیں مجوزہ بل میں شامل کرنے کی سفارش کی، چنانچہ علماء کمیٹی کے رکن مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے ۱۷؍ ستمبر ۲۰۰۶ کو اسلام آباد میں محترم چوہدری شجاعت حسین صاحب سے ملاقات کر کے انھیں کمیٹی کی طرف سے درج ذیل تحریر پیش کی:
’’مورخہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۶ کو علما کمیٹی نے ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کے بارے میں جن تین بنیادی نکات پر دستخط کیے تھے، ان کے آخر میں یہ بات بھی واضح کر دی تھی کہ اصولی طور پر ان نکات پر اتفاق رائے کے بعد کچھ ذیلی امور اور ہیں جن پر اگر کمیٹی کو وقت دیا گیا تو کمیٹی ان پر اپنی رائے ظاہر کرے گی۔ نیز زبانی طور پر یہ طے ہوا تھا کہ ان تین نکات کو مسودے میں سمونے کے لیے بل میں تبدیلیوں کے بعد اسے ہمیں دکھایا جائے گا، چنانچہ ۱۳ ستمبر ۲۰۰۶ کو اس غرض کے لیے جب کمیٹی کو دوبارہ اسلام آباد طلب کیا گیا تو ہم نے نئے مسودے کا جائزہ لے کر یہ محسوس کیا کہ اگرچہ وہ تین نکات اس مسودے میں شامل کر لیے گئے ہیں لیکن اس کے ساتھ کچھ ایسے امور کا اضافہ کر دیا گیا ہے جن کے بعد ان تین نکات کے عملاً موثر ہونے میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔ اس سلسلے میں ہم نے اپنی تشویش سے حکومت کے نمائندہ حضرات کو نہ صرف زبانی طور پر آگاہ کر دیا بلکہ ان پر تفصیلی گفتگو بھی ہوئی۔ ہمیں آخر وقت تک یہ امید تھی کہ کم از کم ان میں سے چند اہم نکات پر ہماری تجویز مان لی جائے گی لیکن آخر وقت میں جو مسودہ انتہائی شکل میں سامنے لایا گیا، اسے دیکھ کر واضح ہوا کہ ان میں سے کوئی بات مسودے میں شامل نہیں کی گئی۔ اگرچہ اس وقت ہم نے زبانی طور پر اپنا یہ تاثر واضح کر دیا تھا، لیکن ان نکات کو تحریری طور پر مرتب کرنے کا وقت نہیں مل سکا تھا۔ اب ہم ذیل میں ان نکات کو تحریری شکل میں پیش کر رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ بل کو بامعنی اور موثر بنانے کے لیے ان تجاویز پر عمل کیا جائے گا:
۱۔ تعزیرات پاکستان میں دفعہ ۴۹۶۔بی کا جو اضافہ کیا جا رہا ہے، اس کے عنوان اور متن میں Fornication کا لفظ طے شدہ لفظ Lewdness کے بجائے بدل دیا گیا ہے۔ اسے بدل کر Lewdness یا Siyahkari کرنا ضروری ہے کیونکہ Fornication صرف غیر شادی شدہ افراد کے ’’زنا‘‘ کو کہتے ہیں۔ اس بات سے زبانی طور پر اتفاق کر لیا گیا تھا، مگر آخری مسودے میں اس کو یقینی بنانا ضروری ہے۔
۲۔ کمیٹی نے جب اپنی سابقہ سفارش میں یہ کہا تھا کہ زنا بالجبر پر بھی حد نافذ کی جائے تو اس کا مطلب واضح طور پر یہ تھا کہ حدود آرڈیننس کی دفعہ ۶ میں ’’زنا بالجبر ‘‘ موجب حد کی جو تعریف اور جو احکام درج ہیں، انھی کو بحال کیا جائے لیکن نئے مسودے میں اس کے بجائے وہاں دوسری تعریف درج کی گئی ہے اور اس کے نتیجے میں سولہ سال سے کم عمر لڑکی کو نابالغ قرار دے کر اس کی مرضی کو غیر معتبر قرار دیا گیا ہے، حالانکہ شرعاً بلوغ کے لیے علامات بلوغ (Puberty) کافی ہیں اور اس کے بعد اس کی رضامندی شرعاً معتبر ہے، لہٰذا ہمارے نزدیک زنا آرڈیننس کی دفعہ ۶ کو جوں کا توں بحال کر دینا ضروری ہے اور اگرموجودہ دفعہ برقرار رہے تو مجوزہ مسودے کی دفعہ ۱۲۔اے کی ذیلی دفعہ v اس طرح بنائی جائے:
With or without her consent when she is nonadult
۳۔ مجوزہ مسودے کی دفعہ ۱۲۔بی کے ذریعے جرم زنا (نفاذ حدود) آرڈیننس ۱۹۷۹ میں دفعہ ۶۔اے کا اضافہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو ہمارے نزدیک بالکل غلط ہے اور اس سے وہ متفقہ امور غیر موثر ہو جائیں گے جن پر ہماری نشست میں اتفاق رائے ہوا تھا۔ تمام فوجداری قوانین میں یہ بات مسلم رہی ہے کہ اگر ملزم پر بڑا جرم ثابت نہ ہو سکے تو وہی عدالت ملزم کو کمتر جرم کی سزا دے سکتی ہے، بشرطیکہ وہ کمتر جرم اس پر ثابت ہو جائے۔ لیکن نہ جانے کیوں جرم زنا بالجبر اور زنا بالرضا کو اس اصول سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر کسی خاتون نے ملزم کے خلاف زنا بالجبر موجب حد کا مقدمہ درج کرایا ہو لیکن عدالت کے سامنے موجب حد جرم ثابت نہ ہو سکا تو عدالت اس خاتون کی فریاد رسی کے لیے ملزم کو تعزیری سزا نہیں دے سکتی۔ اس کے لیے اس کو یا دوبارہ مقدمہ دائر کرنا ہوگا یا پھر ظلم پر صبر کر کے بیٹھ جانا ہوگا۔
لہٰذا ہمارے نزدیک آرڈیننس میں دفعہ ۶۔اے کا اضافہ کرنے کی جو تجویز دی گئی ہے، وہ قطعی غیر منصفانہ اور غلط ہے اور اسے حذف کرنا ضروری ہے اور اسے حذف کرنے کے نتیجے میں جرم زنا (نفاذ حدود) آرڈیننس کی دفعہ ۲۰ کی پہلی Proviso کو بحال رکھنا بھی ضروری ہے جسے مجوزہ بل میں حذف کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
۴۔ مجوزہ مسودے کے پیرا گراف نمبر ۳ میں ۲۰۳۔سی کا اضافہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور ا س کی ذیلی دفعہ ۲ میں استغاثہ درج کرانے کے لیے یہ شرط لگائی گئی ہے کہ مستغیث دو عینی گواہ پیش کرے۔ اول تو یہ تعزیری جرم ہے اور اس کے لیے مناسب یہ ہوتا کہ اسے قابل دست اندازی پولیس (Cognizable) قرار دے کر اس کے غلط استعمال سے بچنے کے لیے کم از کم ایس پی کے درجے کے پولیس آفیسر کو تفتیش کا اختیار دیا جاتا اور عدالت کے وارنٹ کے بغیر گرفتاری کو ممنوع کر دیا جاتا، لیکن اگر کسی وجہ سے اس کو استغاثہ (Complaint) ہی کا کیس بنانا ضروری سمجھا جائے تو دو عینی گواہوں کی شہادت پیش کرنا یہاں غیر ضروری ہے کیونکہ تعزیر کے ثبوت کے لیے دو عینی گواہ ضروری نہیں ہوتے، بلکہ ایک قابل اعتماد گواہ یا قرائنی شہادت (Circumstantial Evidence) بھی کافی ہوتی ہے، لہٰذا ہماری نظر میں اس دفعہ میں At least two eye witnesses کے بجائے Evidence available as such لکھنا چاہیے۔
۵۔ جرم زنا (نفاذ حدود) آرڈیننس ۱۹۷۹ کی دفعہ ۷ کو زیر نظر مسودے سے حذف کر دیا گیا ہے۔ اس کی بھی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔
ہمارے نزدیک جن امور پر اتفاق رائے ہوا تھا، ان کے موثر نفاذ کے لیے مندرجہ بالا پانچ ترامیم نہایت ضروری ہیں اور ان کے بغیر ان متفقہ امور کے غیر موثر ہو جانے کا قوی خدشہ ہے، لہٰذا مذکورہ اتفاق رائے کے بعد زیر نظر مسودے سے ہمارا اتفاق ان ترمیمات پر موقوف ہے۔ امید ہے کہ مسودے کو بامعنی بنانے کے لیے یہ ترمیمات مسودے میں شامل کی جائیں گی۔ اس کے علاوہ ہم نے زیر نظر بل کے بارے میں شروع ہی میں عرض کیا تھا کہ اس کا نام تو تحفظ حقوق نسواں بل ہے مگر اس میں ساری بحث زنا آرڈیننس سے متعلق ہے اور خواتین کے حقیقی مسائل اور حقوق کو اس میں نہیں چھیڑا گیا۔ چنانچہ ہم نے خواتین کے حقیقی مسائل سے متعلق جو سفارشات پیش کی تھیں، ان کے بارے میں بھی ہم دوبارہ تاکید کرتے ہیں کہ ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اللہ تعالیٰ صحیح فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین‘‘
یہاں علما کی مذکورہ کمیٹی کے حوالے سے اس اعتراض کا تذکرہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حدود آرڈیننس میں مجوزہ ترامیم کی شرعی حیثیت کے حوالے سے اس کمیٹی سے رائے طلب کرنا آئینی اور جمہوری اصولوں کے منافی ہے ۔ یہ اعتراض مختلف حلقوں کی جانب سے سامنے آیا ہے اور محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے گزشتہ دنوں اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت سے احتجاجی استعفا دیتے ہوئے اس کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ تحفظ حقوق نسواں بل پر مشاورت کے لیے حکومت نے علماے کرام کی جو کمیٹی بنائی تھی، وہ ان کے نزدیک اسلامی نظریاتی کونسل کو بائی پاس کرنے کی ایک صورت تھی جس سے ان کے خیال میں ایک آئینی ادارے کا وقار مجروح ہوا ہے اور وہ اس کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت برقرار رکھنے میں کوئی افادیت نہیں سمجھتے۔ میں چونکہ اس ’’خصوصی علما کمیٹی‘‘ کا ایک ممبر ہوں، اس لیے اس وضاحت کا حق رکھتا ہوں کہ اسے خواہ مخواہ مسئلہ بنا لیا گیا ہے۔ اس سے قبل ایم کیو ایم اور بعض دیگر حلقوں نے علما کی خصوصی کمیٹی کو قومی اسمبلی کی سلیکٹ کمیٹی کے متوازی قرار دے کر یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اس کمیٹی کے ذریعے قومی اسمبلی کی سلیکٹ کمیٹی کو بائی پاس کیا گیا ہے جو جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔ خود ہمارے ساتھ مذاکرات کے دوران ایم کیو ایم کے راہ نماؤں جناب فاروق ستار اور ان کے دیگر رفقا نے یہی بات کی تو ہم نے ان سے عرض کیا کہ علما کی یہ کمیٹی قومی اسمبلی کی سلیکٹ کمیٹی کی متبادل یا اس کے متوازی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اختیارات اور پراسس کی نفی کر رہی ہے۔ اسی طرح علما کی خصوصی کمیٹی کو مشورہ کے لیے بلانے سے اسلامی نظریاتی کونسل کے دائرۂ کار یا اختیارات پر کوئی اثر نہیں پڑا اس لیے کہ جیسے ہماری کمیٹی قومی اسمبلی کی سلیکٹ کمیٹی کے متوازی یا متبادل نہیں ہے، اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل کے متوازی اور متبادل بھی نہیں ہے۔ ہم نے چودھری شجاعت حسین صاحب کے کہنے پر صرف ایک نکتہ پر اپنی رائے دی ہے اور انھی کے کہنے پر وزارت قانون کے اعلیٰ افسران کو اس بات پر مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہم جو رائے دے رہے ہیں، قرآن وسنت کی تعلیمات کا منشا وہی ہے۔ اس سے زیادہ ہمارا کوئی کردار نہیں ہے اور نہ ہماری رائے کو کوئی آئینی اور قانونی درجہ حاصل ہے۔ یہ بل ہماری رائے سمیت دوبارہ سلیکٹ کمیٹی میں جا سکتا ہے بلکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن صاحب کا یہ مطالبہ اخبارات میں آ چکا ہے کہ تحفظ حقوق نسواں بل کو علما کمیٹی کی سفارشات کے ساتھ سلیکٹ کمیٹی میں دوبارہ بھیجا جائے۔ اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل بھی اس پر غور کر سکتی ہے او رمیری معلومات کے مطابق کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ حکومت اس کے پاس بل نہ بھی بھیجے تو وہ اپنے کسی رکن کی تحریک پر ایسا کر سکتی ہے۔ اس لیے اس کمیٹی کو اسلامی نظریاتی کونسل کے متوازی قرار دے کر اسے احتجاجی استعفا کی بنیاد بنانا میرے خیال میں درست طریق کار نہیں ہے اور محترم جاوید احمد غامدی صاحب کو اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
حدود آرڈیننس کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت کے بارے میں ایک اجمالی رپورٹ مذکورہ سطور میں قارئین کی خدمت میں پیش کی گئی ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ رمضان المبارک کے خصوصی اوقات میں اس دعا کا بطور خاص اہتمام فرمائیں کہ اللہ رب العزت ہم سب کو دین کی سربلندی، قومی وحدت، ملکی سا لمیت اور ملت کی بہتری کے لیے باہمی افہام وتفہیم کے ساتھ بہتر فیصلوں کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

پاکستان کے سیاسی بحرانوں میں نظریہ ضرورت کا استعمال

پروفیسر محمد شریف چوہدری

طب کی اصطلاح میں ’’بحران‘‘ مرض کی شدت اور بیماری کے زور کو کہتے ہیں۔ (۱) گویا نازک حالت، تعطل اور "Crisis"کو بحران کہتے ہیں۔ بحران مختلف النوع ہوتے ہیں، جیسے انتظامی، عدالتی، معاشی اور سیاسی بحران وغیرہ۔ اگر ملک میں سیاسی عدم استحکام ہو، ادارے آئین کے مطابق کام نہ کر رہے ہوں، ملک میں ابتری، انتشار، بے چینی اور بے یقینی کی کیفیت ہو، معاشرے میں امن وامان کے مسائل پیدا ہوجائیں اور ملکی سا لمیت خطرے میں پڑ جائے تو ایسے بحران کو سیاسی بحران کہا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں کسی ایسی مقتدر قوت کی ضرورت ہوتی ہے جو پھر سے ملک کو آئین کے مطابق چلاسکے۔
آزادی کے بعد اس ملک میں متعدد سیاسی بحران آئے اور کسی نہ کسی طریقے سے ان تمام بحرانوں کو آئینی خلاؤں سے پر کرنے کی کوشش کی گئی۔
۱۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلا سیاسی بحران اس وقت پیدا ہوا جب گورنر جنرل غلام محمد نے ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۵۴ کو آئین ساز اسمبلی کو معطل کردیا۔ آئین ساز اسمبلی نے ۲۰ ستمبر ۱۹۵۴ کو پروڈا *((PRODA کو منسوخ کردیا تھا۔ منسوخ شدہ ایکٹ کے تحت حکومت کو بدعنوان وزرا اور سیاست دانوں کے خلاف کارروائی کا حق حاصل تھا۔ اس کے ایک روز بعد اسمبلی نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵کی دفعات۹، ۱۰، ۱۰۔اے، اور ۱۰۔بی کو منسوخ کردیا۔ ان دفعات کے تحت گورنر جنرل کابینہ توڑ سکتا تھا۔ اسمبلی کے ان اقدامات کا مقصد گورنر جنرل کے اختیارات کو محدود کرنا تھا تاکہ وہ ماضی کی طرح کابینہ نہ توڑ سکے اور خواجہ ناظم الدین والی داستان نہ دہرائی جائے۔ یہ سب کچھ گورنر جنرل کے علم میں لائے بغیر ایسے وقت میں کیا گیا جب وہ دارالحکومت سے باہر تھے۔ مذکورہ آئینی ترمیم کو اسمبلی میں منظور کروانے کے لیے غیر معمولی عجلت سے کام لیا گیا اور ایک دن کے اندر اندر منظور ہو نے والی یہ ترمیم اسی روزگزٹ میں بھی شائع کردی گئی۔ یہ اقدام انتقامی کارروائی کے مترادف تھا۔ گورنر جنرل فوری طورپر کراچی واپس پہنچے اور انہوں نے بیزار وبدگمان رائے عامہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی کے خلاف اقدام کرنے کافیصلہ کرلیا۔ چنانچہ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۵۴کو ایک حکم نامے کے ذریعے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کرکے اسمبلی توڑنے کا اعلان کردیا گیا۔ (۲)
ڈیڑھ برس کے مختصر عرصے میں غلام محمد کی طرف سے کیا جانے والا یہ دوسرا اقدام تھا۔ (اس سے پیشتر وہ خواجہ ناظم الدین کی کا بینہ توڑ چکے تھے)۔ غلام محمد کے ان دونوں اقدامات نے ملک میں جمہوری اداروں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ (۳) 
تحلیل کی جانے والی دستور ساز اسمبلی کے صدر مولوی تمیزالدین نے گورنر جنرل کے اس اقدام کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔ انہوں اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ آزادی ہند ایکٹ مجریہ ۱۹۴۷کی دفعہ ۶ کی ذیلی دفعہ ۳ کی روسے قانون سازی کے لیے گورنر جنرل کی منظوری کی ضرورت نہیں۔ مولوی تمیزالدین نے برطانیہ کے ایک وکیل مسڑ ڈی این پرٹ * کو بھی اپنی معاونت کے لیے بلایا۔ چیف کورٹ آف سندھ کے فل بنچ نے مقدمے کی سماعت کی اور متفقہ طور پر گورنر جنرل کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا۔ فل بنچ نے لکھا:
’’آئین ساز اسمبلی ایک خود مختارادارہ ہے۔ اور یہ کہ اسے اس وقت تک نہیں توڑا جاسکتا جب تک کہ وہ مقصد، جس کے لیے اسمبلی وجودمیں آئی تھی، حاصل نہ کرلیا جائے۔‘‘ (۴)
چیف کورٹ آف سندھ کے فل بنچ کے فیصلے کے خلاف وفاقِ پاکستان نے فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر کردی جس نے طویل سماعت کے بعد گورنر جنرل کے اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت میں فیصلہ دیا۔ چیف جسٹس نے قرار دیا:
’’وہ واحد بنیاد جس پر غیر قانونی امور کو قانونی قرار دیاجا سکتا ہے، وہ ضرورتِ حالات ہے۔ .... گورنر جنرل نے ایک فوری تباہی کو روکنے کے لیے، ریاست اور معاشرے کو سقوط سے بچانے کے لیے یہ عمل کیا۔ ‘‘ (۵)
جسٹس منیر نے قرار دیا:
’’یہ امر واضح ہے کہ آزادی ایکٹ ۱۹۴۷ اور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی روسے پاکستان کو جو عبوری آئین ملا، دستور ساز اسمبلی کو ایک قانون کے ذریعے اسے عبوری آ ئین میں تبدیل کرنے کا فریضہ سونپا گیا تھا۔ لہٰذایہ استدلال بے معنی ہے کہ دستور ساز اسمبلی کو غیر معینہ مدت تک فرائض انجام دینے کا اختیار مل گیاہے۔ اس ادارے کو مستقل حیثیت حاصل نہیں اور وہ قابل تحلیل ہے۔ آزادی ایکٹ کے سیکشن ۸کے سب سیکشن (i) کے تحت دستور ساز اسمبلی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایکٹ کی رو سے عائد ہونے والے فرائض انجام دے۔ اس ایکٹ میں اسمبلی کو دائمی حیثیت نہیں دی گئی ۔ گورنر جنرل کو جب یہ باور ہو گیا کہ دستور ساز اسمبلی ملک کو آئین دینے میں ناکام ہوگئی ہے تو اسمبلی توڑنے کا اختیار ، جو اس سے پہلے التوا میں رکھا گیا تھا، دوبارہ مؤثر ہو گیا۔ آزادی ایکٹ کا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ دستور ساز اسمبلی، آئین کی تیاری کی آڑ میں ریاست کی مقننہ کے طور پر غیر معینہ عرصے کے لیے فرائض انجام دیتی رہے، یہاں تک کہ اسے انقلاب کے ذریعے ہٹانا ضروری ہو جائے۔‘‘ (۶)
۲۔ پاکستان کے وزیر اعظم چودھری محمد علی ملک کے لیے ایسا دستور تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے جو ۲۳مارچ ۱۹۵۶ کونافذ ہو گیا، مگراس وقت کے سیاستدانوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے ملک میں ایسے حالات پیدا کر دیے جن کی وجہ سے اس وقت کے آرمی چیف محمد ایوب خان نے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
ملک میں عوامی لیگ اور ری پبلکن کی مخلوط حکومت قائم ہوئی، مگر یہ حکومت ایک سال سے زیادہ عرصہ برسراقتدار نہ رہ سکی۔ اس کے بعد ملکی سیاست میں جوڑ توڑ اور عدم استحکام کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ فلور کراسنگ* کا معاملہ اتنا عام تھاکہ ہر نئی وزارت کچھ عرصے بعدہی عدم استحکام کا شکار ہو کر دم توڑ جاتی۔ ایک طرف خان عبدالقیوم خان (مسلم لیگ کے نو منتخب صدر) نے زورو شور سے صدر سکندر مرزا کی مخالفت شروع کر دی اور دوسری طرف ون یونٹ کے خلاف اور علاقائی خود مختاری کی حمایت میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ زور پکڑ گیا۔ سیاست کی اس غیر یقینی کیفیت نے ترقیاتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ امنِ عامہ کی صورتِ حال کو بھی متاثر کیا۔ چنانچہ ملک کی اس بحرانی کیفیت میں ۸؍اکتوبر ۱۹۵۸ کو سکندر مرزا کی صدارت میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کر دیا گیا اورایوب خان چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ اس اعلان سے وزارتیں اور اسمبلیاں ختم ہو گئیں۔ جنرل محمد ایوب خان نے۱۰؍ اکتوبر ۱۹۵۸کو کہا:
’’انجام کار یہ ذمہ داری ہمیشہ فوج پر ہی عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کے حقوق کی حفاظت کرے۔‘‘ (۷)
۲۷؍ اکتوبر ۱۹۵۸کو جنرل محمد ایوب خان نے ملک کی زمام اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لی اور سکندر مرزا کو ہٹاکر خود صدر بن گئے۔ ۳۰؍ اکتوبر کو جنرل ایوب خان نے بیان دیا:
’’ لوگ اس بات پر مضطرب تھے کہ اگر تمام اختیارات دو افراد کے پاس رہے تو پالیسی میں ابہام کاامکان پیدا ہوتا رہے گا۔‘‘ (۸)
ایوب خان کے اس مارشل لا کو دو سو ((Dosso کیس میں چیلنج کر دیا گیا۔ مقدمے کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ جب ملک میں کوئی بدامنی نہیں تھی تو مارشل لا کا کوئی جوازنہ تھا، لیکن مسڑمحمد منیر چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے جنرل ایوب خان کے اس اقدام کو قانونِ ضرورت Law of Necessity)) کے تحت قانونی حیثیت دے دی ۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا :
’’ ایک جیتا ہوا انقلاب یا کامیاب تختہ الٹنا بین الاقوامی طور پر آئین تبدیل کرنے کا تسلیم شدہ قانونی طریقہ ہے۔ قانون کی اس شاخ کی تعریف سول یا ریاستی ضرورت ہے۔ ..... ایک کامیاب فوجی انقلاب از خود ایک نیا نظام قانون ہوتا ہے۔ جج اور عدالتیں اس نئے قانون کی پابند ہوتی ہیں، لہٰذا اس کے خلاف عدالت کسی رٹ کی سماعت نہیں کرسکتی۔‘‘ (۹)
۳۔ ۲۵مارچ ۱۹۶۹ کو صدر ایوب خان نے صدارت سے استعفا دے کر ملک کا نظام چلانے کے لیے اقتدارجنرل یحییٰ خان کو سونپ دیا جنہوں نے آتے ہی ملک میں ایک بار پھر مارشل لا نافذ کردیا اور مرکزی اور صوبائی اسمبلیاں اور وزارتیں توڑدیں۔ آرمی چیف جنرل عبد الحمید خان ،وائس ایڈمرل ایس ایم احسن اور ایئر مارشل نور خان نے اپنے عہدوں کے علاوہ نائب ناظمین اعلیٰ مارشل لا کے عہدے سنبھال لیے ۔ مغربی پاکستان میں جنرل عتیق الرحمن اور مشرقی پاکستان میں جنرل مظفر الدین کو گورنر مقرر کردیا گیا۔ (۱۰)
۲۶ مارچ کو چیف مارشل لا ایڈمسٹریٹر جنرل یحییٰ خان نے کہا کہ آئینی حکومت کی بحالی کے لیے وہ ساز گار ماحول مہیا کریں گے۔ مغربی پاکستان کو ۷ زونوں میں تقسیم کردیا گیا۔ پورے ملک میں صدر ایوب خان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوگئی۔ (۱۱)
۳۱مارچ کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان نے ۲۵ مارچ سے صدر مملکت کا عہدہ سنبھا ل لیا۔ (۱۲)
مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے حکم کے تحت ملک غلام جیلانی ، ممبر قومی اسمبلی اور مسڑ الطاف گوہر، ایڈیٹر انچیف روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی کو ۲۲دسمبر ۱۹۷۱ کو گرفتار کرلیا گیا اور ۵ فروری ۱۹۷۲ کو انہیں نظر بند کردیا گیا۔ اس پر مس عاصمہ جیلانی دختر ملک غلام جیلانی اور زرینہ گوہر زوجہ الطاف گوہر نے ان کی نظر بندی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ عدالت نے ان کی درخواست کو مسترد کردیا۔ مذکورہ خواتین اپنا مقدمہ سپریم کورٹ میں لے گئیں اور ایک ہی طرح کی دو رٹ پیٹشنز میں عاصمہ جیلانی بنام حکومت پنجاب و دیگر میں سپریم کورٹ نے جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کو ناجائز قرار دے دیا۔چیف جسٹس حمود الرحمن نے دوسو کیس میں پیش کردہ کیلسن کے نظر یے سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا:
’’ میں فاضل چیف جسٹس (محمد منیر ) کا مکمل احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انہوں نے کیس کے نظریہ کی تاویل میں اور اپنے سامنے پیش آمدہ حالات و واقعات پر اس کے انطباق میں غلطی کی۔ انہوں نے جس اصول کو پیش کیا، اسے بالکل حق بجانب قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ....مارشل لا کے نفاذ کا تقاضایہ نہیں کہ غیر فوجی عدالتیں بند ہو جائیں اور غیر فوجی (سیاسی) حکومت کا اختیار ختم ہو جائے۔ .... یہ کہنا درست نہیں کہ مارشل لاکے اعلان کے ساتھ ہی از خود لازماً مسلح افواج کے کمانڈرکو یہ اختیار مل جاتا ہے کہ وہ اس دستور کو منسوخ کر دے جس کا تحفظ اس کا فرض تھا۔‘‘ (۱۳)
۴۔ ۱۹۷۳ کا آئین پاکستان کے تمام صوبو ں کا متفقہ آئین تھا اور اسے قومی اسمبلی میں موجود ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے تسلیم کیا تھا۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیر اعظم تھے۔بعد میں ان کی حکومت کی کارکردگی اور بعض پالیسیاں بڑی حد تک آئین سے متصادم رہیں جس کی وجہ سے ملک کی سیاسی وجمہوری فضا مکدر ہو گئی۔ ۱۹۷۳کے آئین کے تحت پہلے عام انتخابات مارچ ۱۹۷۷ میں منعقد ہوئے۔ حکمران جماعت (پاکستان پیپلز پارٹی) پر انتخابات کے نتائج کااعلان کرنے میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام لگایا گیا جس کے نتیجے میں ملک بھر میں زبردست احتجاجی تحریک چلی جس کی وجہ سے ملکی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ کئی ماہ پر محیط عوامی احتجاج اور حکمرانوں کے سخت رویے نے ملک کو ایک سنگین سیاسی بحران سے دوچار کردیا تو اس وقت کے بری فوج کے سربراہ جنرل محمد ضیاء الحق نے ۱۹۷۳کے آئین کو معطل کرکے ۵ جولائی ۱۹۷۷ کو اقتدار پر قبضہ کر لیا اور ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا۔ (۱۴)
آئین کی رو سے فوجی حکمران پر آئین توڑنے کے الزام میں مقدمہ چلایا جا سکتا تھا، اس لیے فوجی حکمران نے انقلاب کے آغاز میں یقین دلایا کہ آئین کو منسوخ نہیں بلکہ اسے وقتی طور پر معطل کیا گیا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کی طرف سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے اس میں ضروری ترمیم کی جائے گی - (۱۵)
بیگم نصرت بھٹو نے آئین کی خلا ف ورزی پر فوجی حکمران کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کردیا۔
سپریم کورٹ نے ۱۰ نومبر ۱۹۷۷ء کو اپنے فیصلے میں بیگم نصرت بھٹو کی طرف سے دائرکردہ حبس بے جا کی درخواست متفقہ طور پر مسترد کردی۔ اس طرح ۵ جولائی ۱۹۷۷ کو نافذ ہونے والے مارشل لا کو آئینی ضرورت قرار دیتے ہوئے ایک ’’مؤ ثر العمل ‘‘ حکومت قرار دیا۔ اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محمد انوار الحق نے اپنے فیصلے کے آخر میں لکھا:
’’عدالت واشگاف الفاظ میں بیان کرتی ہے کہ وہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹرکے اقدام کو جائز قرار دیتی ہے۔ اور یہ صرف اس وجہ سے نہیں کہ اس نے گھمبیرماورائے آئین قسم کے قومی اور آئینی بحران کے موقع پر ملک کو بچایا بلکہ اس کی طرف سے ایک سنجیدہ وعدہ بھی کیا گیا کہ آئینی تعطل کو جتنا جلد ممکن ہو سکا، ختم کردیا جائے گا۔‘‘(۱۶)
۵۔ ۱۹۸۸ء میں جنرل محمدضیاء الحق نے اپنے نامزد وزیر اعظم محمد خان جونیجوکو برطرف کر دیا اور قومی اسمبلی توڑدی۔
۲۹ مئی ۱۹۸۸ کو جنرل محمد ضیاء الحق نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کرکے قوم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ جونیجو حکومت کو ختم کیا جارہا ہے اور قومی اسمبلی کو آئین کی دفعہ ۵۸۔۲ (بی) کے تحت تحلیل کیا جا رہا ہے۔ صدر کا موقف یہ تھا کہ قومی اسمبلی اپنی تفویض کردہ ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ نفاذ اسلام کی کوششوں میں پیش رفت نہیں ہوسکی اور پاکستان کے عوام کے جان ومال کا تحفظ بھی نہیں کیا جاسکا۔ (۱۷)
جنرل محمد ضیاء الحق نے ۳۰ مئی ۱۹۸۸ کو ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم مکمل طور پر سیا سی دباؤ کا شکار ہو چکے تھے جس سے کرپشن، اقربا پروری اور بدنظمی عام ہوئی اور ملک میں امن و امان کی صورت حال بگڑگئی۔ (۱۸)
جب تک صدر ضیاء الحق بقید حیات رہے، کسی نے بھی حکومت کو برطرف کرنے اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اقدام کو عدالت میں چیلنج نہ کیا۔
۱۷؍اگست ۱۹۸۸ء کو صدر ضیاء الحق ایک فضائی حادثے میں ہلاک ہو گئے تو یہ معاملہ عدالتوں میں اُٹھایا گیا ۔چنانچہ حاجی سیف اﷲکیس میں عدالت عالیہ لاہورنے ۲۷ ستمبر ۱۹۸۸کو اپنے فیصلے میں لکھا کہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی جو وجوہات بیان کی گی تھیں‘ وہ اتنی غیر واضح‘ سطحی اور ناپید تھیں کہ قانون کی نظرمیں ان احکامات کی کوئی حیثیت نہیں بنتی۔ (۱۹) 
لاہور ہائی کو رٹ نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے حکم کو غیر قانونی قرار دیا ۔تا ہم حالات و واقعات کے تناظر میں تحلیل شدہ اسمبلیوں کو بحال نہ کیا اور یہ فیصلہ دیا کہ اب جمہوری عمل کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔لہٰذ ا قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پروگرام کے مطابق ۱۶نومبر ۱۹۸۸ء کو ہوں گے اورمنتخب نمائندوں کو آئین کے مطابق اقتدار منتقل ہوگا۔ (۲۰)
۱۵؍اکتوبر ۱۹۸۹ء کو ملک کی عدالت عظمیٰ نے حکومت اور حاجی سیف اللہ کی طرف سے دائر کردہ ایک ہی طرح کی متعدد اپیلوں کا فیصلہ سناتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو بحال رکھا اور قراردیا کہ آئین اور قانون کے مطابق قومی امور کا فیصلہ کرتے وقت عدالتیں ہمیشہ ملک کے مفاد کو مقدم رکھتی ہیں، کیونکہ نجی مفادات اور انفرادی حقوق پر قومی مفادات کو ترجیح دینا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ اب جبکہ انتخابات قریب ہیں تو عوام کو آئین میں دیے گئے حقوق کے مطابق جماعتی بنیادوں پر قومی اسمبلی کے لیے اپنے نمائندگان منتخب کرنے کی اجازت دینا بہت ضرروی ہے۔ (۲۱)
۶۔ نومبر ۱۹۸۸ میں ملک میں جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات ہوئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی میں ا کثریت حاصل کر لی۔ اس طرح ا کثریتی سیاسی جماعت کی سربراہ ہونے کی حیثیت سے انھوں نے ۲دسمبر ۱۹۸۸ء کوبحیثیت وزیر اعظم پاکستان حلف اٹھایا ۔ بے نظیر بھٹو کو مرکز میں ایک مضبوط حزبِ مخالف کا سامنا تھا۔ ملک کے بڑے صوبے پنجاب میں بھی حزب مخالف کی حکومت تھی۔ وفاق اور صوبہ پنجاب کی حکومت کے مابین جلد ہی اختلافات پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ حزب مخالف نے حکومت کی اس شدت سے مخالفت کی کہ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی۔ وزیرِ اعظم نے اپنی حکومت کو بچانے کے لیے اسمبلی کے ارکان کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے بدعنوانی کا سلسلہ شروع کردیا۔ حزب مخا لف نے بھی ایسے ہی کیا۔ اسے ’’ ہارس ٹریڈنگ ‘‘ کا نام دیا گیا۔ عوام الناس نے اس کام کی مذمت کی اور بیرونِ ملک یہ عمل تضحیک کا باعث بنا۔ اس طرح دنیابھر میں ملکی وقار کو سخت دھچکا لگا۔ (۲۲)
حکومت کی برطرفی اور اسمبلیوں کی تحلیل کے خلاف خواجہ احمد طارق رحیم نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کردی۔ بحث کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ جن الزامات کے تحت اسمبلی توڑی گئی ہے، ان کا آئین کی دفعہ ۵۸۔۲ (بی) کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ چنانچہ مقدمہ کی سماعت کے بعد ۱۴؍ اکتوبر ۱۹۹۰ء کوسپریم کورٹ نے حکومت بحال کرنے کی یہ درخواست مسترد کردی اور یہ فیصلہ دیا کہ حکومت کی برطرفی دفعہ ۵۸۔۲ (بی)کے مطابق ہو ئی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلہ میں حکو متی برطرفی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا کہ حکومت آئین کے مطابق کام نہیں کررہی تھی، وفاقی حکومت نے صوبہ سندھ کے اندرونی معاملات میں غیر آئینی مداخلت کی، سینٹ اور اعلیٰ عدالتوں جیسے باوقار اور اہم اداروں کا عوام میں تمسخر اڑا یا گیا، سیکرٹ سروس فنڈز کے کروڑوں روپے قومی اسمبلی کے ارکان پر خرچ کردئے گئے اور تحریک عدم اعتماد کے موقع پر PAFاور PIA کے جہازوں کا غیر قانونی استعمال کیا گیا اور سول سروس میں میرٹ کے بغیر بھرتیاں کی گئیں اور قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔ عدالت نے تحریر کیا:
’’محولہ بالا حقائق کی روشنی میں صدرِ پاکستان حق بجانب تھے کہ دستور کی دفعہ ۵۸۔۲ (بی) کا براہ راست استعمال کرتے۔‘‘ (۲۳)
۷۔ ۱۹۹۳ میں قومی اسمبلی تحلیل کیے جانے کے ضمن میں جو واقعات رونما ہوئے، وہ ذیل میں بالا ختصار بیان کئے جاتے ہیں۔وزیراعظم دائیں بازو کے اتحاد کے سربراہ تھے جو ۱۹۹۲ء کے آخر تک کمزور ہو چکا تھا۔ اتحاد کے کئی ارکان نے قومی اسمبلی کے سپیکر کے نام استعفے لکھ کر انہیں صدر پاکستان تک پہنچا دیا۔ اخبارات میں ان استعفوں کی خوب تشہیر ہوئی۔ اس سے وزیر اعظم شدید اعصابی تناؤ کا شکار ہو گئے۔ ان حالات میں ۱۷؍ اپریل ۱۹۹۳ کو انہوں نے قوم سے خطاب کیا اور ملک کے سیاسی حالات میں بگاڑ کا ذمہ دار صدر کو ٹھہرایا اور اعلان کیا کہ وہ استعفا نہیں دیں گے، اسمبلیاں نہیں توڑیں گے، اور ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔
اس تقرر پر صدر نے بڑے غصے کا اظہار کرتے ہوئے اگلے ہی روز یعنی ۱۸؍ اپریل کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔ صدر نے بلخ شیر مزاری کو نگران وزیر اعظم مقرر کر دیا۔
اس طرح پاکستان کے عوام نے محسوس کر لیا کہ صدر کو حاصل اختیارات کی موجودگی میں صدر اور پارلیمانی نظامِ جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔ اس سوچ کی وجہ سے لوگوں کی ہمدردیاں معزول وزیر اعظم کے ساتھ ہوگئیں
معزول وزیر اعظم نے آئین کے آرٹیکل ۱۸۴ (۳) کے تحت صدر کے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔
صدرِ پاکستان نے نواز شریف حکومت پر جو بڑے بڑے الزامات عائد کئے تھے ان میں پیداواری وسائل پر چند من پسند افراد کی اجارہ داری، اندھا دھند اقربا پروری مشترکہ مفادات کی کونسل کا عضو معطل بن کر رہ جانا، قومی مالیاتی کمیشن کی ناقص کارکردگی اور ناکام خارجہ پالیسی شامل تھے۔ (۲۴) تاہم عدالت نے قرار دیا کہ صدر پاکستان نے ۲۲ دسمبر ۱۹۹۲ کے اپنے خطاب میں حکومتی معاملات کی تعریف کی جبکہ ۱۸؍اپریل ۱۹۹۳ ء کو حکومتی معاملات کی تنقیص کی ۔ اس طرح صدر کے خطابات میں تضاد پایا جاتا ہے۔ (۲۵) یوں عدالت نے نواز شریف حکومت کو بحال کر دیا۔
۸۔ ۵ نومبر ۱۹۹۶ء کو صدر مملکت فاروق احمد لغاری نے دستور کی دفعہ ۵۸۔۲ (بی) کا استعمال کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو حکومت کو ختم کردیا۔ قومی اسمبلی توڑدی اور ملک معراج خالد کی سربراہی میں نگران حکومت قائم کردی۔بے نظیر بھٹو کی حکومت دوسری مرتبہ تحلیل کیے جانے کی وجوہات میں سے عدلیہ کے ساتھ چپقلش اور خصوصاً چیف جسٹس آف پاکستان کی ناراضی ، صدر مملکت کے ساتھ بے نظیر بھٹو اور اس کے خاوند آصف زرداری کااہا نت آمیز سلوک ، حکمران جوڑے کے خلاف بدعنوانی کے الزامات اور بدعنوان عناصر کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی زیادہ اہم تھیں۔
علاوہ ازیں ملک بھر میں لاقانونیت کا اس قدر دور دورہ ہو گیا کہ وزیر اعظم کے حقیقی بھائی پر مرتضٰی بھٹو کو پولیس نے ان کے آٹھ ساتھیوں سمیت اس وقت گولیاں مارکر ہلاک کردیا جب وہ اپنے گھرسے چند میڑ کے فاصلے پرتھے۔ وزیراعظم کی طرف سے اس خون ریزی کی پشت پناہی کا الزام صدر اور دیگر اہم اداروں پر لگا یا گیا۔
اس کے علاوہ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انتظامیہ اور عدلیہ کے بعض افسران کو ان کے عہدوں سے مقررہ مدت کے اندر تبدیل نہ کیاگیا،عدلیہ کے بعض ججوں، اعلی فوجی اور سول افسران کی ٹیلی فون کا لز غیر آئینی طور پر ٹیپ کی گئیں، رشوت ستانی اس حد تک بڑھ گئی کہ ملکی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ (۲۶)
۵ نومبر ۱۹۹۶ ء کے صدر پاکستان کے اقدام کو برطرف وزیراعظم نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ سات ججوں پر مشتمل عدالت کے فل بنچ نے صدر فاروق احمد لغاری کی طرف سے سابقہ وزیر اعظم پرلگائے گئے الزامات کا جائزہ لیا۔صد ر نے اپنے الزامات کے حق میں ٹھوس شواہد پیش کیے۔ عدالت نے بے نظیر بھٹو کے وکیل مسٹراعتزاز احسن کے اس موقف کو قبول نہیں کیا کہ قومی اسمبلی توڑنے کے لئے آرٹیکل ۵۸۔۲ (بی) صرف اسی ضرورت میں استعمال ہوسکتاہے جب حالات اس قدر خراب ہو جائیں کہ ملک میں مارشل لاء لگنے کا امکان پیدا ہوجائے۔ مختلف جج صاحبان کے تقرر کے سلسلے میں آئین کے آرٹیکل ۱۹۰ اور ۲۔اے سے صرف نظر کرنے کے بارے میں خاصا مواد پیش کیا گیا۔ پھر جج صاحبان کے بارے میں بھی صدر نے وزیراعظم کی قومی اسمبلی میں کی جانے والی تقریر میں تضحیک آمیز رویے کے بارے میں خاصا مواد مہیا کیا، تاکہ جج صاحبان کے لیے خوف وہراس پیدا کیاجائے۔ پھر پارلیمنٹ میں پندرہویں ترمیم کابل پیش کیا ،تاکہ جج صاحبان سے جوابدہی کی جاسکے اور انہیں جبری رخصت پر فارغ کیا جاسکے ، بشرطیکہ بل پندرہ فیصد ارکان کی طرف سے پیش کیا جائے۔عدلیہ کو انتظامیہ سے مکمل طور علیحدہ کرنے کے اقدام کو بھی جان بوجھ کر مؤخر کیا گیا اور انتظامیہ کے مجسڑیٹوں کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ ملزموں کو تین سال تک قید کی سزا دے سکیں گے جو انصاف کے منافی تھا۔ 
عدالت نے کہا کہ اس بات کا کافی ثبوت عدالت موجود ہے جو یہ ثابت کرسکے کہ وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کے جج صاحبان، سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں ، ملٹری اور سول سروس کے اعلیٰ عہدیداروں کی ٹیلی فون کالز ریکارڈ کیں اور اس مواد کا مسودہ برائے مطالعہ مدعیہ کوبھی مہیا کیا گیا۔
مدعیہ کے خلاف بدعنوانی، اقراباپروری اور قوانین کی خلاف ورزیوں پر مشتمل کافی مواد مہیا کیا گیا۔ ۲۹ جنوری ۱۹۹۷ کو عدالت نے قرار دیا کہ درج بالا وجوہات کی بنا پر ۵ نومبر کے صدر کے قومی اسمبلی کے تحلیل کرنے کے اقدام کو جائز قرار دیا جاتا ہے اور اس اقدام کے خلاف مدعیہ کی درخواست کو مسترد کیا جاتا ہے۔ (۲۷)
۹۔ ۱۹۹۷ء کے عام ا نتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نے قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر لی جس کے نتیجے میں مسلم لیگ کے سربر اہ میاں نو از شریف ملک کے وزیر اعظم بن گئے ۔میاں نواز شریف نے حصول اقتد ار کے ساتھ ہی جمہوریت کے خول میں مطلق العنان حکمرانی کے لیے اقدامات شروع کر دیے اور کئی ایسے اقدامات کیے جن سے قومی معیشت تباہی کی طرف رواں دواں ہو گئی۔ ملک میں کر پشن عام ہوگئی اور حکمران جماعت کے ارکان کی اکثریت اس برائی میں پیش پیش تھی۔تھوڑے ہی عرصے میں عوام خود کوبے اطمینانی اور انتشار کے ماحول میں محسوس کر نے لگے ۔
میاں نواز شریف نے اپنی ذات میں اختیارات کے ارتکاز کے عمل کو جاری رکھااور اسی تسلسل میں انہوں نے آرمی چیف جنرل پر ویزمشرف کو برطرف کردیا (جو اس وقت سری لنکا کے دورے پر تھے) اور سینیارٹی کے اصول کو ملحوظ رکھے بغیر جنرل ضیاء الدین کو آرمی چیف مقرر کر دیا۔بری فوج کے سینئرجنرلز نے وزیر اعظم کے اس اقدام کو سخت نا پسند کیااور نئے آرمی چیف کے تقررکو مسترد کر دیا۔ اسی اثنا میں ہنگامی طور پر جنرل مشرف سری لنکا کے دورے سے واپس آگئے اور انہوں نے ردِعمل کے طور پر ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کو دیگر آرمی آفیسرز کے تعاون سے نواز شریف حکومت کوختم کر دیا۔ وزیراعظم ،ان کے مقرر کردہ آرمی چیف جنرل ضیاء الدین، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف اور ان کے کئی دیگر معتمدساتھیوں کو اپنی حراست میں لے لیا گیا۔ ۱۴؍اکتوبر کو فوج کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا:
’’نواز شریف طویل عرصے سے فوج کے خلاف منظم سازشوں میں مصروف تھے۔جنرل مشرف کو وطن واپسی پر گرفتار کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور سازش کے تحت جنرل ضیاء الدین کو آرمی چیف قرار دیا گیا۔‘‘ (۲۸) 
و ز یر ا عظم نو ا ز شر یف کی حکو مت کے خاتمے پر ا ن کے نما ئند ے ظفر علی شا ہ نے مسلح افو ا ج کے اقدام کے خلا ف سپریم کو رٹ میں رٹ دائر کر دی ۔ اس وقت ملک میں ہنگامی حالت نافذ تھی ۔اعلیٰ عدالتوں اور عدلتِ عظمیٰ کے منصفیں (Judges) کے لیے لازمی قرار دیا گیا کہ وہ ۱۹۹۹ کے نئے PCO No.1*کے تحت نئے سرے سے حلف اٹھائیں کیونکہ ۱۹۷۳ کے آئین کے بعض حصے معطل کر دیے گئے تھے جس کے تحت وہ اس سے قبل کام کر رہے تھے ۔ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کی افادیت کی وضاحت یوں کی گئی کہ ملک میں بدامنی تھی اور عوام میں بہت زیادہ بے چینی پائی جاتی تھی اور مسلح افواج کے سربراہ کے بقول ملکی حالات سدھارنے کے لیے ۱۹۷۳ کا آئین ناکام ہوچکا تھا ۔ اس لیے درج بالا نئے ضابطے کی ضرورت پیش آئی ۔ اس ضابطے میں بعض انسانی حقوق سلب کر لیے گئے جو ۱۹۷۳کے آئین میں عوام کو حاصل تھے۔ سابق وزیر اعظم کی طرف سے سپریم کورٹ میں جو رٹ دائر کی گئی وہ منظو ر تو کر لی گئی مگر منصفین حضرات PCO No.1,1999کے تحت آزاد انہ فیصلے کرنے سے عاجز تھے ۔ 
PCONo.1,1999کے نفاذ کے بعد عدلیہ کے سامنے تین راستے تھے : 
۱۔ تمام منصفین حضرات اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جائیں اور ہر پاکستانی شہری کو جو انصاف کسی بھی ذریعے سے ملتا ہے ، اس کا راستہ بند کر دیا جائے ۔ 
۲۔ نئی حکومت کے احکامات کو مانتے ہوئے، وزیر اعظم کے عہد ے کی بحالی کے لیے دائر کر دہ رٹ یا اسی طرح کی کسی دوسری رٹ کو مسترد کردیاجائے ۔ 
۳۔ معروضی حالات میں رٹ منظو ر کر لی جائے اور باقی ماندہ عدالتی ادا رتی اقدام کو بچا لیا جائے۔(۲۹) 
ان پیش آمدہ حالات میں ملکی مفادات اور عوام کے باقی ماندہ حقوق کو محفوظ کرنے کے لیے اکثر منصفین حضرات نے طے کیا کہ1999 ء PCO NO.1کے حکم کے تحت نئے سرے سے حلف اٹھایا جائے تاکہ مستقبل میں جہاں تک ممکن ہو سکے جمہوری اداروں کی بحالی کے لئے کوشش جاری رکھی جائے ۔ اس سطرح نئے حلف کے تحت منصفین حضرات فوجی حکمران کے احکامات ماننے پر مجبور تھے ۔اس طرح نظرےۂ ضروریات کے تحت عدالت عظمیٰ کے منصفین حضرات نے یہ قرار دیا کہ ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ ء کو جو صو رت حال پیش آئی، ۱۹۷۳ کا آئین اس کا کوئی حل پیش نہیں کر سکا تھا، ا س لیے مسلح افواج نے ماورائے آئین ملکی سیاسی امور میں جو مداخلت کی ،وہ ناگزیرتھی۔ عدالت نے کہا کہ ۱۹۷۳ کا آئین بڑے قانون کی صورت میں اب بھی موجود ہے تاہم اس کے بعض اجزا ملکی ضرورت کے لیے منسوخ ہیں اور یہ کہ ملک کی اعلٰیٰ عدالتیں آئین کے تحت کام کر تی رہیں گی ۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ سپر یم کورٹ کے جج صاحبان نے ۲۰۰۰ کے حکم نمبر ۱کے تحت حلف اٹھایا ہوا ہے جس کی وجہ سے جج صاحبان اس حکم سے انحراف کرتے ہوتے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے ۔اگر چہ عدالتیں بنیادی طورپر ۱۹۷۳ کے آئین کے تحت ہی قائم کی گئی تھیں، تاہم گاہے گاہے چیف ایگزیکٹو دیگر عدالتی وقانونی احکامات بھی صادر کر تے رہتے ہیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ جنرل پر ویز مشرف، جوکہ چیف آف آرمی سٹاف اور جائینٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چےئرمین ہیں، آئینی عہدے کے حامل ہیں ،ان کی واضح اور آمر انہ طور پر بر طرفی جو سینیارٹی کے حوالے سے بے قاعدہ تھی، غیر قانونی ہو گئی ہے۔ عدالت نے مذکورہ معالات کو پیش نظر رکھتے ہو ئے چیف ایگز یگٹو کو فوج کی مداخلت کے دن یعنی ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ سے لے کر تین سال کا عرصہ دیا تاکہ وہ اپنے اعلان کردہ مقاصد حاصل کر لیں ۔
عدالت نے کہا کہ چیف ایگزیکٹو کو ایک تاریخ مقرر کرنا ہو گی جو اوپر بیان کردہ تین سال کی مدت کے بعد ۹۰ دن سے زیادہ کی تاخیرسے نہ ہو، تاکہ اس تاریخ کو قومی اسمبلی ،صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے عام انتخابات کرائے جائیں ۔ (۳۰)

حوالہ جات

(۱) لویئس معلوف ، المنجد، ص ۲۵
(۲) (PLD 1955, Vol VII, Page 142, 143 (Sind و صفدر محمود ، ’’پاکستان۔ تاریخ و سیاست‘‘،ص 53،54
(۳) صفدر محمود ، ’’پاکستان۔ تاریخ و سیاست‘‘،ص 54
(۴) PLD 1955 V. II, 106 Sind
(۵) Ibid
(۶) PLD 1955 FC 435 Vol. 1 
(۷) سید نور احمد ’’،مارشل لا سے مارشل لا تک‘‘،ص۵۱۹
(۸) ایضاً، ص ۵۲۲
(۹) PLD 1958 SC 533 Vol 1
(۱۰، ۱۱، ۱۲) رضی الدین رضی، ’’پاکستان، ۵۳ سال‘‘، ص ۴۴۹، ۴۵۰
(۱۳) PLD 1972, SC 130, 183, 187, 190
(۱۴) Dr. Tanzeel-ur-Rahman, "Islamization of Pakistan Law", P.4
(۱۵) اداریہ روزنامہ نوائے وقت لاہور، ۷ جولائی ۱۹۷۷
(۱۶) PLD 1977, vol. xxlx SC 725
(۱۷) The Daily Dawn, Karachi, 30 May 1988
(۱۸) Ibid, 31 May 1988
(۱۹) PLD 1988 Lahore 725
(۲۰) Ibid
(۲۱) PLD 1989 SC 166
(۲۲) عابد تہامی، ’’انتخابات ۱۹۹۰ کا وائٹ پیپر‘‘ ص ۲۳
(۲۳) PLD 1990 Lahore 507
(۲۴) PLD 1993 SC 753
(۲۵) PLD 1993 SC 894
(۲۶) زاہد حسین انجم، ’’الیکشن ۱۹۷۷‘‘، ص ۲۹ تا ۳۷
(۲۷) PLD 1998 SC 471
(۲۸) روزنامہ جنگ لاہور، ۱۵؍ اکتوبر ۱۹۹۹، روزنامہ نوائے وقت لاہور، ۱۵؍ اکتوبر ۱۹۹۹
(۲۹) PLD 2000 Part II SC 1215
(۳۰) PLD 2000 Part II SC 1213, 1214

حواشی

* PRODA: Public and Representative Offices Disqualification Act, 1949

غلامی کے مسئلہ پر ایک نظر

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’الشریعہ‘ جولائی ۲۰۰۶ کے شمارے میں شائع شدہ روزنامہ جناح اسلام آباد کے کالم نگار جناب آصف محمود ایڈووکیٹ کے مضمون میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں، ان میں ایک سوال غلامی کے بارے میں بھی ہے جس میں انھوں نے انتہائی استہزا اور تمسخر کے انداز میں اسے موضوع بحث بنایا ہے، تاہم چونکہ یہ بھی ایک اہم سوال ہے جو جدید تعلیم یافتہ ذہنوں کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہے، اس لیے ا س کے بارے میں کچھ ضروری گزارشات پیش کی جا رہی ہیں۔
غلامی کا رواج قدیم دور سے چلا آ رہا ہے۔ بعض انسانوں کو اس طور پر غلام بنا لیا جاتا تھا کہ وہ اپنے مالکوں کی خدمت پر مامور ہوتے تھے، ان کی خرید وفروخت ہوتی تھی، انھیں آزاد لوگوں کے برابر حقوق حاصل نہیں ہوتے تھے اور اکثر اوقات ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا تھا۔ جدید دنیا میں بھی ایک عرصے تک غلامی کا رواج رہا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں، جسے جدید دنیا کی علامت کہا جاتا ہے، غلامی کو باقاعدہ ایک منظم کاروبار کی حیثیت حاصل تھی۔ افریقہ سے بحری جہازوں میں ہزاروں افراد کو بھر کر لایا جاتا تھا اور امریکہ کی منڈیوں میں فروخت کر دیا جاتا تھا۔ غلامی کے جواز اور عدم جواز پر امریکی دانش وروں میں صدیوں تک بحث جاری رہی حتیٰ کہ شمال اور جنوب کی تاریخی خانہ جنگی کے اسباب میں بھی ایک اہم مسئلہ غلامی کا تھا۔ یہاں تک کہ ۱۸۶۵ء میں امریکہ میں قانونی طور پر غلامی کے خاتمہ کا فیصلہ کیا گیا۔ برازیل میں ۱۸۸۸ء میں غلامی کو ممنوع قرار دیا گیا۔ نیپال نے ۱۹۲۶ء میں غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا اور ۱۹۴۹ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دنیا بھر میں غلامی کی مکمل ممانعت کا اعلان کیا جس کے بعد اب دنیا میں غلامی کی کوئی صورت قانونی طور پر باقی نہیں رہی۔
قدیم دور میں غلامی کی دو صورتیں ہوتی تھیں۔ ایک یہ کہ کسی بھی بے سہارا شخص کو طاقت ور لوگ پکڑ کر قیدی بنا لیتے تھے اور پھر اسے غلام بنا کر بیچ دیتے تھے، جیسا کہ ابتداے اسلام میں حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ کے ساتھ واقعہ پیش آیا۔ دونوں آزاد گھرانوں کے آزاد افراد تھے، لیکن سفر کی حالت میں انھیں تنہا پا کر کچھ لوگوں نے قیدی بنا لیا اور غلام کی حیثیت سے آگے فروخت کر دیا۔ یہ غلامی ان حضرات کے لیے خوش قسمتی کا باعث بنی کہ ایک مکہ مکرمہ میں اور دوسرے مدینہ منورہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گیا اور بالآخر آزادی کے ساتھ ساتھ دونوں صحابیت کے شرف سے بھی ہم کنار ہوئے۔ اسے ’’بیع الحر‘‘ یا آج کی اصطلاح میں ’’بردہ فروشی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسلام نے اس کی مکمل ممانعت کر دی اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی آزاد شخص کو غلام بنانے یا اسے فروخت کرنے کو قطعی طور حرام قرار دے دیا، جبکہ مغربی ممالک میں یہ بردہ فروشی اس کے بعد ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ تک جاری رہی اور اسے قانونی تحفظ حاصل رہا۔ 
غلامی کی دوسری صورت یہ تھی کہ باہمی جنگوں میں جو لوگ قیدی بنتے تھے اور انھیں قتل کرنا، چھوڑ دینا یا فدیہ لے کر آزاد کرنا فاتحین کی مصلحت میں نہیں ہوتا تھا، انھیں غلام بنا لیا جاتا تھا اور باقاعدہ قید خانوں میں ڈالنے کے بجائے افراد اور خاندانوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا جنھیں گھر کے دوسرے درجے کے افراد کا درجہ حاصل ہوتا تھا، ان کی خرید وفروخت ہوتی تھی اور ان مین جو خواتین ہوتی تھیں، ان کے ساتھ جنسی تعلق کا ان کے مالکوں کو حق حاصل ہوتا تھا۔ یہ جنگی قیدیوں کے بارے میں مختلف عملی صورتوں میں سے ایک صورت اور آپشن سمجھا جاتا تھا اور اس کا عام رواج تھا۔
اسلام نے اس آپشن کو ختم کرنے کے بجائے باقی رکھا، البتہ اس صورت میں غلام یا لونڈی بن جانے والوں کے حقوق کا تعین کیا، ان کے ساتھ معاملات کو باقاعدہ قوانین وضوابط کی شکل دی، ان کے حقوق وفرائض کی وضاحت کی اور مختلف حوالوں سے مثلاً اجر وثواب کے حصول کے لیے، بعض گناہوں کے کفارات میں اور بعض جرائم کی سزاؤں میں ان کی آزادی کے مختلف راستے کھولے۔ اسلام نے اس دور میں جبکہ پوری دنیا میں غلاموں کو جانوروں کی طرح سمجھا جاتا تھا، ان کے لیے سہولت اور حقوق کی کیا صورتیں پیدا کیں، ان کا ہلکا سا اندازہ دو تین امور سے لگایا جا سکتا ہے:
  • زید بن حارثہؓ جنھیں آزاد حالت میں پکڑ کر غلام بنا لیا گیا تھا اور فروخت کر دیا گیا تھا، بالآخر مکہ مکرمہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام بنے اور آپ نے انھیں آزاد کر کے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ اس دوران ان کے اہل خاندان کو ان کے بارے میں پتہ چلا تو وہ انھیں لینے کے لیے مکہ مکرمہ آئے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہؓ کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا، مگر زید بن حارثہؓ نے خاندان والوں کے ساتھ واپس جانے سے انکار کر دیا۔
  • مسلم شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر حکم دیا کہ یہ غلام تمھارے بھائی ہیں، جو خود کھاؤ انھیں وہی کھلاؤ، جو خود پہنو ، وہی انھیں پہناؤ اور ان کی طاقت سے زیادہ ان سے کام نہ لو۔
  • ایک صحابی نے اپنی لونڈی کو اس بات پر تھپڑ رسید کیا کہ وہ بکریاں چرا رہی تھی اور اس کی بے پروائی کی وجہ سے بھیڑیا ایک بکری لے گیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی کو اس طرح تھپڑ مارنے پر سخت ناراضی کا اظہار فرمایا تو اس صحابی نے لونڈی کو آزاد کر دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمھیں لپیٹ میں لے لیتی۔
اس طرح کے بیسیوں واقعات اور روایات پیش کی جا سکتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ان غلاموں اور لونڈیوں کو کس طرح زندگی کی سہولتوں سے بہرہ ور کیا، ان کے لیے علم کے دروازے کھولے اور انھیں زندگی کے مختلف شعبوں میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے، حتیٰ کہ خاندان غلاماں کے حکمرانوں کی ایک پوری تاریخ ہے اور علم وفضل اور حکمت ودانش کے ساتھ ساتھ دولت واقتدار میں وافر حصہ لینے والے مسلم مشاہیر کی تاریخ مرتب کی جائے تو ایسے غلاموں کی ایک بڑی فہرست سامنے آئے گی جن کے لیے یہ غلامی ہی ان سعادتوں کے حصول کا ذریعہ ثابت ہوئی، لیکن اس سب کچھ کے باوجود جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی یہ بات بہ طور حکم کے نہیں بلکہ مختلف آپشنوں میں سے ایک آپشن کے طور پر تھی اور میری طالب علمانہ رائے کے مطابق اسے برقرار رکھنے کی ایک حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس زمانے میں باقاعدہ قید خانے اس انداز سے نہیں ہوتے تھے کہ ان میں ہزاروں افراد کو منظم طور پر سالہا سال تک قید میں رکھا جا سکتا، اس لیے جن قیدیوں کو قید میں رکھنا ضروری ہوتا تھا، ان کے لیے عملی صورت یہی ممکن تھی کہ انھیں تقسیم کر دیا جائے اور وہ ریاست کے قیدی بننے کے بجائے افراد اور خاندانوں کے قیدی رہیں۔
جن لوگوں نے زندگی بھر قید میں رہنا ہے، خود ان کے لیے بھی بہتر صورت یہ تھی کہ انھیں قید خانوں میں ڈالنے کے بجائے افراد اور خاندانوں میں تقسیم کر دیا جائے تاکہ وہ قیدی ہونے کے باوجود زندگی کی مناسب سہولتوں اور حقوق سے کسی حد تک بہرہ ور ہو سکیں۔ اس کی عملی شکل آج کے دور میں دیکھنی ہو تو جیل خانوں میں بند قیدیوں اور اچھا کردار رکھنے والے قیدیوں کو پیرول پر مختلف خاندانوں میں نیم قیدیوں کی صورت میں تقسیم کیے جانے والے قیدیوں کا موازنہ کر لیا جائے۔ یہ بات واضح ہو جائے گی کہ خود ان قیدیوں کے لیے بہتر صورت کون سی ہے۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ اعتراض قیدی خواتین کے ساتھ جنسی تعلق کو روا قرار دیے جانے پر کیا جاتا ہے، لیکن اس حوالے سے دیکھا جائے کہ ایک ایسی خاتون جس کی واپسی کے اس دور میں تمام راستے مسدود تھے اور اس نے عمر بھر قیدی ہی رہنا تھا، اس کے لیے ایک عورت کے طور پر کیا صور ت مناسب اور بہتر تھی۔ اسلام نے اس زمانے کے عالمی عرف کے مطابق اس کو ایک آپشن کے طور پر قبول کیا، لیکن اس کے ساتھ حقوق ومفادات کا ایک ایسا نظام بھی قانونی طو رپر قائم کر دیا کہ اس جنسی تعلق اور اولاد کی صورت میں وہ عورت آزادی اور دیگر حقوق کی مستحق بھی قرار پاتی ہے۔ 
چنانچہ میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ اسلام نے غلام اور لونڈی بنانے کا حکم نہیں دیا بلکہ اس دور کے عالمی عرف کے مطابق اسے جنگی قیدیوں کے لیے ایک آپشن کے طور پر برقرار رکھتے ہوئے اس کی اصلاح اور بہتری کے لیے احکام وقوانین کا ایک پورا نظام فراہم کر دیا جیسا کہ آج کے عالمی عرف کے مطابق جنگی قیدیوں کے بارے میں جنیوا کنونشن کو عالم اسلام نے بھی قبول کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان وفلسطین سمیت جن مقامات پر جہاد کے عنوان سے جنگیں ہوئی ہیں یا ہو رہی ہیں، وہاں مجاہدین نے کسی قیدی کو غلام یا لونڈی کا درجہ نہیں دیا اور انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دیے جانے والے مجاہدین نے بھی جنگی قیدیوں کے بارے میں عالمی عرف اور قوانین کا عملاً احترام کیا ہے۔ البتہ یہ وضاحت ضروری ہے کہ اگر کسی دور میں یہ عالمی عرف بھی تبدیل ہو گیا اور پہلے کی طرح کے حالات دوبارہ پیدا ہو گئے تو اسلام کا یہ آپشن بطور آپشن کے باقی رہے گا اور اس سلسلے میں قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کے احکام دوبارہ نافذ العمل ہو جائیں گے۔
اس لیے محترم آصف محمود ایڈووکیٹ اور دیگر دوستوں سے یہ گزارش کروں گا کہ وہ اسلام کے کسی حکم یا قانون کے بارے میں مغربی پراپیگنڈے متاثر ہو کر استہزا اور طنز کا لہجہ اختیار کرنے کے بجائے اس کے پس منظر سے واقفیت حاصل کریں اور اسلامی احکام کو مغربی فلسفہ وثقافت اور مغربی معاشرہ کے معروضی تناظر پر پرکھنے کے بجائے ان کے حقیقی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کریں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ویسٹرن سوسائٹی کو تہذیب وثقافت اور سولائزیشن کا حتمی معیار تصور نہ کیا جائے اور اسلامی قوانین واحکام کو انسانی سوسائٹی کے حقیقی مسائل اور ضروریات کے حوالے سے دیکھا جائے تو قرآن وسنت کا کوئی بھی حکم ناقابل فہم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا صحیح شعور عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

سی پی ایس انٹرنیشنل ۔ کسی نئے فتنے کی تمہید؟

محمد عمار خان ناصر

مولانا وحید الدین خان کا شمار بلاشبہ اس وقت عالم اسلام کی چند بڑی شخصیات میں ہوتا ہے۔ مولانا محترم نے دین کے صحیح تصور، اس کے اجزا اور عناصر کے باہمی تعلق، دین کی حقیقی روح اور اس کے مطالبات کے صحیح رخ کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ امت میں پیدا ہونے والے فکری وعملی رویوں اور بالخصوص معاصر دنیا میں مسلمانوں کے فکری اور ذہنی مزاج کے تجزیے کی خدمت جس خوبی ، گہرائی او ربصیرت کے ساتھ انجام دی ہے، اس میں کسی کو ان کا ثانی قرار دینا مشکل ہے۔ ان کی فکری اور دعوتی جدوجہد لگ بھگ نصف صدی کے عرصے کو محیط ہے، اور اپنے موقف اور استدلال پر استقامت اور اس کے فروغ کے لیے ان تھک محنت کے نتیجے میں پوری دنیا میں ان کا ایک وسیع حلقہ فکر وجود میں آ چکا ہے۔ نہ صرف مسلم امہ میں ان کی شخصیت دعوت اسلام کا عنوان سمجھی جاتی ہے، بلکہ غیر مسلم حلقوں میں بھی وسیع پیمانے پر ان کے ذریعے سے اسلام کا پیغام پہنچا ہے۔ 
تاہم تمام اہل فکر کی طرح مولانا محترم کی شخصیت اور طرز فکر کے بہت سے پہلو بھی ارباب فکر ونظر کے ہاں موضوع بحث رہے ہیں، جن میں سے ایک پہلو کی طرف ہم ان سطور میں توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ مولانا کے زاویہ نگاہ سے اصولی طور پر اتفاق رکھنے والے اہل فکر کا ایک حلقہ یہ محسوس کرتا ہے کہ مخالف فکری زاویوں اور شخصیات پر تنقید کے لیے ان کا اختیار کردہ لب ولہجہ اور اسلوب ’رایی صواب یحتمل الخطا ورایہم خطا یحتمل الصواب‘ کے ذہنی رویے کے بجائے حتمیت کی عکاسی کرتا ہے اور وہ اپنے زاویہ نگاہ کو ’ایک نقطہ نظر‘ سمجھنے کے بجائے ’واحد درست طرز فکر‘ قرار دینے پر اصرار میں حد اعتدال سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ یہ طرز فکر ایک عمومی فکری دائرے کے اندر رہے تو انسانی نفسیات میں کسی حد تک اس کا جواز تلاش کیا جا سکتا ہے، لیکن افسوس ہے کہ اس ذہنی رویے نے اب ایک ایسا رخ اختیار کر لیا ہے جس سے ہماری رائے میں نہ صرف مولانا کی پوری جدوجہد کی افادیت پر ایک سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے بلکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ وہ خود دین کے حوالے سے ایک بے حد خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے۔ ایک عرصے کی عمومی دعوت اور ذہن سازی کے بعد مولانا نے چند سال قبل اپنے فہم کے مطابق دعوت اسلام کو عالمی سطح پر پھیلانے کے لیے سی پی ایس انٹرنیشنل کے نام سے ایک فورم تشکیل دیا ہے جس میں شامل افراد کی ایک مخصوص ٹیم براہ راست مولانا محترم سے ذہنی اور فکری تربیت حاصل کرتی ہے۔ ایک تازہ تحریر میں مولانا محترم نے دعوت اسلام میں اس ٹیم کا کردار اور اس کے ’’فضائل ومناقب‘‘ یوں بیان فرمائے ہیں:
’’ماضی اور حال کے تمام قرائن تقریباً یقینی طور پر یہ بتاتے ہیں کہ سی پی ایس کی ٹیم ہی وہ ٹیم ہے جس کی پیشین گوئی کرتے ہوئے پیغمبر اسلام نے اس کو اخوان رسول کا لقب دیا تھا۔ اصحاب رسول کوئی عجیب الخلقت لوگ نہ تھے بلکہ وہ عام انسانوں کی طرح انسان تھے۔ اسی طرح اخوان رسول بھی کوئی عجیب الخلقت لوگ نہ ہوں گے بلکہ وہ بھی عام انسانوں کی طرح انسان ہوں گے۔ ان کی پہچان یہ نہ ہوگی کہ وہ انوکھے جسم والے ہوں گے یا یہ کہ وہ کرامتیں دکھائیں گے۔ ان کی پہچان صرف یہ ہوگی کہ وہ دعوت حق کے اس ربانی مقصد کے لیے کھڑے ہوں گے جس پر رسول اور اصحاب رسول کھڑے ہوئے تھے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے درمیان بہت سی تحریکیں اٹھی ہیں مگر وہ اخوان رسول کا درجہ نہیں پا سکتیں۔ اس لیے کہ اخوان رسول کا درجہ صرف وہ لوگ پا سکتے ہیں جو ما انا علیہ واصحابی کا مصداق ہوں۔ موجودہ زمانے میں اٹھنے والی تمام تحریکیں رد عمل کی تحریکیں تھیں۔ ان میں سے کوئی بھی تحریک ایسی نہیں جس کا یہ کیس ہو کہ اس کے رہنما نے رد عمل کی نفسیات سے مکمل طور پر خالی ہو کر قرآن اور سنت کا مطالعہ کیا اور پھر خالص مثبت بنیادوں پر اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ یہ خصوصیت صرف سی پی ایس انٹرنیشنل کی تحریک میں پائی جاتی ہے۔
تاریخ میں اہل حق کے لیے جو بڑے بڑے امکانات رکھے گئے تھے، اب وہ سب امکانات ختم ہو چکے ہیں۔ پیغمبروں کا ساتھ دینا، مسیح کا حواری بننا، پیغمبر آخر الزماں کے اصحاب میں شامل ہونا۔ اب صرف ایک بڑا درجہ باقی رہ گیا ہے، یہ درجہ اخوان رسول کے گروپ کا حصہ بننا ہے۔ اس کے بعد جو چیز ہے، وہ تاریخ کا خاتمہ (end of history) ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تاریخ کا آخری مبارک موقع ہے۔ جس نے اس موقع کو پالیا، اس نے سب کچھ پا لیا اور جس نے اس موقع کو کھو دیا، اس نے سب کچھ کھو دیا۔‘‘  (ماہنامہ تذکیر، ستمبر ۲۰۰۶، ص ۴۲)
ہم مولانا محترم کے تمام تر شخصی احترام اور ان کی کاوشوں کی قدر وقیمت کے پورے اعتراف کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مذکورہ دعویٰ ایک بے حد سطحی، خطرناک اور بے بنیاد دعویٰ ہے۔ مولانا محترم نے ا س پیشین گوئی کے لیے جس روایت کو ماخذ بنایا ہے، وہ حسب ذیل ہے:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک موقع پر قبرستان تشریف لے گئے اور فرمایا: ’وددت انا قد راینا اخواننا‘ (میری خواہش ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھ لیتے) صحابہ نے کہا، یا رسول اللہ، کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’انتم اصحابی واخواننا الذین لم یاتوا بعد‘ (تم تو میرے اصحاب ہو، ہمارے بھائی تو وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے)۔ (مسلم، رقم ۳۶۷)
ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں کسی مخصوص گروہ کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں فرمائی۔ آپ نے اپنے دور کے اہل ایمان کو اپنے اصحاب جبکہ اپنے بعد آنے والے اہل ایمان کو اپنے بھائی کہا ہے۔ یہاں کسی مخصوص گروہ کا ذکر اور اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا مقصود ہی نہیں۔ اس سادہ بیان کو کسی مخصوص گروہ کے بارے میں پیشین گوئی قرار دے کر اس گروہ کی علامات اور خصوصیات کا تعین اور پھر پورے یقین اور دعوے کے ساتھ سی پی ایس انٹر نیشنل کو اس کا مصداق قرار دینا محض مولانا محترم کی ذہنی اختراع ہے۔ اپنے لائحہ عمل کی صحت اور اپنی تیار کردہ ٹیم کی صلاحیتوں کے بارے میں مولانا محترم کا ایمان ویقین کتنا ہی پختہ کیوں نہ ہو، اس کا مذکورہ تحریر میں نظر آنے والے ادعا کی حد تک پہنچ جانا ایک بے حد خطرناک بات ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تقدس اور خدائی انتخاب کے زعم کے ساتھ اٹھنے والی اس طرح کی تحریکیں بالعموم کسی نہ کسی مذہبی فتنے پر ہی منتج ہوتی ہیں۔ اول تو عام فکری، سماجی یا سیاسی تحریکوں میں بھی دعوت فکر دینے والی شخصیت، آہستہ آہستہ اصل فکر کی جگہ لے لیتی ہے اور بجاے خود تعلق اور وابستگی کا معیار بن جاتی ہے۔ اس کے ساتھ اگر کام دینی ومذہبی نوعیت کا ہو تو اپنی حکمت عملی اور جماعت کے بارے میں ’تقدس‘ اور ’الٰہی انتخاب‘ کے غرے میں مبتلا ہو جانا بھی ایک عام انسانی کمزوری ہے۔ ان دونوں چیزوں کو وجود میں لانے کے لیے کسی خاص تگ ودو کی ضرورت نہیں پڑتی، لیکن اگر مولانا وحید الدین خان کی سطح کے راہنما بھی خود انگلی پکڑ کر پیروکاروں کو اس راستے پر چلنے کی دعوت دینے لگیں تو: ’اب کسے رہنما کرے کوئی‘۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
لا یقلدن احدکم دینہ رجلا، فان آمن آمن، وان کفر کفر، وان کنتم لا بد مقتدین فاقتدوا بالمیت، فان الحی لا یؤمن علیہ الفتنۃ (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم ۸۷۶۴)
’’تم میں سے کوئی شخص دین کے معاملے میں اپنی باگ کسی دوسرے آدمی کے ہاتھ میں نہ دے دے کہ اگر وہ ایمان لائے تو یہ بھی ایمان لے آئے اور اگر وہ کفر کرے تو یہ بھی کفر پر راضی ہو جائے۔ اور اگر تمھیں ضرور کسی کی اقتدا ہی کرنی ہے تو اس کی کرو جو دنیا سے رخصت ہو چکا ہے، کیونکہ کوئی زندہ شخص اس بات سے مامون نہیں کہ وہ کسی بھی وقت فتنے میں مبتلا ہو جائے۔‘‘
اگر خدا نخواستہ، خدا نخواستہ سی پی ایس انٹرنیشنل کسی نئے مذہبی فتنے کا پیش خیمہ ہے اور امت مسلمہ اور بالخصوص پوری دنیا میں پھیلے ہوئے مولانا کے معتقدین کا دین وایمان کسی نئے امتحان سے دوچار ہونے والا ہے تو ہم اس سے پناہ مانگتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اپنے اور مولانا اور ان کے معتقدین کے ایمان کی حفاظت کی دعا کرتے ہیں: اللہم انا نستودعک دیننا وامانتنا وخواتیم اعمالنا۔ آمین

تحفظ حقوق نسواں بل ۲۰۰۶ء ۔ ایک تنقیدی جائزہ

محمد مشتاق احمد

حدود قوانین میں ترامیم کے لئے حکومت کی جانب سے ’’تحفظ قانون نسواں بل ‘‘ کے نام سے جو بل قومی اسمبلی میں ۲۱ اگست ۲۰۰۶ ء کو پیش کیا گیااس کے خلاف متحدہ مجلس عمل کے ممبران قومی اسمبلی نے شدید احتجاج کیا اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ حکومتی ارکان نے ان کے اس اقدام کو قرآن و سنت اور آئین کی توہین قرار دیا ، جبکہ متحدہ مجلس عمل کے اراکین اس بل کو حدود اللہ میں تبدیلی قرار دے کر اپنے تئیں ایمانی غیرت کا مظاہرہ کررہے تھے ۔بات اصل میں وہی ہے جو اس کتابچے کے پیش لفظ میں کہی گئی ہے کہ فریقین معاملے کا غیر جذباتی انداز میں جائزہ نہیں لے رہے ۔ ہم کسی کی نیت پر شک نہیں کررہے ۔ ہمارے خیال میں دونوں فریق قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی کرنا چاہتے ہیں مگر حدود قوانین کے پیچیدہ امور کے متعلق قرآن وسنت کے تفصیلی احکام سے بے خبری کے باعث ایک دوسرے پر تنقید کررہے ہیں ۔ ہماری اس رائے کی وجہ یہ ہے کہ اس ترمیمی بل کی کئی دفعات ہماری تحقیق کی رو سے صحیح ہیں اور حدود قوانین کو اسلامی قانون سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ان میں تجویز کردہ یہ ترامیم ضروری ہیں ۔ دوسری طرف اس ترمیمی بل کی چند شقیں ہمارے نزدیک قابل اعتراض ہیں اور اگر ان کو قانونی شکل دے دی گئی تو حدود کا پورا نظام متاثر ہوسکتا ہے ۔ یہاں تفصیل کی گنجائش تو نہیں البتہ اس لیے اس سلسلے میں مختصر اشارات دیے جاتے ہیں ۔ پہلے بل کی مثبت دفعات لے لیجئے : 
۱۔ اس ترمیمی بل کے ذریعے حد زنا آرڈی نینس اور حد قذف آرڈی نینس کی وہ دفعات جو تعزیر سے تعلق رکھتی ہیں، انہیں حدودآرڈی نینس سے نکال کر مجموعۂ تعزیرات پاکستان میں شامل کیا جائے گا ۔ (بل کی دفعات ۲ تا ۹ ) اس پر شرعی لحاظ سے کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا بلکہ ہمارے نزدیک یہ ایک مستحسن امر ہے ۔ دراصل حدود قوانین میں شامل تعزیری سزائیں اسلامی قانون کے بجائے انگریزوں کے وضع کردہ ’’مجموعۂ تعزیرات ہند ‘‘ (جو پاکستان میں اب ’’مجموعۂ تعزیرات پاکستان‘‘ کہلاتا ہے ) سے ماخوذ ہیں ، بلکہ اکثر تو مجموعۂ تعزیرات کی دفعات کو بعینہ اسی طرح درج کردیاگیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں قانون ساز اداروں اور شعبۂ قانون سے وابستہ بہت سے افراد کا موقف یہ ہے کہ جو قوانین قرآن وسنت سے ’’متصادم‘‘ نہیں ہیں وہ از خود صحیح ہیں ۔ اس سلسلے میں نہ صرف یہ کہ اسلامی قانون کے قواعد عامہ نظر انداز کردیے جاتے ہیں بلکہ ’’عدم تصادم ‘‘کو ’’مطابقت‘‘ کے مترادف سمجھ لیا جاتا ہے ۔ مزید برآں پاکستان میں حدود قوانین کے تحت جو سزائیں اب تک نافذ کی گئی ہیں، وہ ساری کی ساری تعزیری ہیں اور ان میں تقریبا تمام سزائیں مجموعۂ تعزیرات پاکستان سے لی گئی ہیں ۔ پس اگر خامی ہے تو مجموعۂ تعزیرات پاکستان میں ہے نہ کہ حدود میں لیکن اس کے باوجود مورد الزام حدود قوانین ٹھہرتے ہیں ۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ تعزیری سزاؤں کو مجموعۂ تعزیرات پاکستان میں ہی رکھا جائے ۔ 
اسی طرح ہماری ناقص رائے یہ ہے کہ حدود قوانین نے جرم کو مستوجب حد اور مستوجب تعزیر میں تقسیم کرکے جو دوہرے معیار قائم کیے ہیں، وہ اسلامی قانون حدود کی صحیح تعبیر پر مبنی نہیں ۔ مثلاً قرآن وسنت اور فقہا کی تشریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ زنا یا تو مستوجب حد ہے یا اگر وہ مستوجب حد نہیں تو پھر وہ زنا نہیں ۔ اگر الف الزام لگائے کہ ب نے زنا کا ارتکاب کیا ہے تو اس پر لازم ہوگا کہ وہ متعلقہ نصاب شہادت پر جرم ثابت کرے ، بصورت دیگر الف پر قذف کی حد جاری ہوگی۔ (ملاحظہ ہو : سورۃ النور ، آیت ۴ و ۱۳ ) پس اگر الف اپنے دعوے کے ثبوت میں قرائن اور واقعاتی شہادتوں کا انبار بھی لگائے تو ا س سے جرم زنا ثابت نہیں ہوگا، بلکہ وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ثابت ہوگا اور اس پر حد قذف عائد ہوگی ۔ اس کے برعکس حد زنا آرڈی نینس میں قرار دیا گیا ہے کہ بعض حالات میں چار گواہ پیش نہ کرنے کے باوجود ایسا ہوسکتا ہے کہ مدعی کو قذف کی سزا نہ دی جائے۔ ایسی صورتوں میں ریکارڈ پر موجود شہادت اور ثبوت کی بنیاد پر عدالت مدعا علیہ کو مناسب تعزیری سزا سنا سکتی ہے۔ گویا یہ جرم زنا مستوجب تعزیر ہوجائے گا۔ آرڈی نینس نے زنا مستوجب تعزیر کی جو صورتیں ذکر کی ہیں، ان پر فقہا کی اصطلاح میں لفظ زنا کا اطلاق ہی نہیں ہوتا ۔ اسی طرح حد قذف آرڈی نینس میں قذف مستوجب تعزیر کی جو صورتیں ذکر ہوئی ہیں، انہیں فقہا کی اصطلاح میں جرم قذف کہا ہی نہیں جاسکتا ۔ یہی بات سرقہ مستوجب تعزیر ، حرابہ مستوجب تعزیر اور شرب خمر مستوجب تعزیر کے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے ۔ 
دراصل حدود قوانین کا مسودہ بنانے والے بھی اس الجھن کا شکار ہوگئے تھے کہ حد کے اثبات کے لیے درکار نصاب شہادت پورا ہونا عام حالت میں ممکن نہیں ہوتا ، جبکہ جرم کے اثبات کے لیے عام قانون شہادت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ یقینی ہوتا ہے کہ مدعا علیہ نے جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔ تو کیا اس صورت میں مجرم کو آزاد چھوڑ دیا جائے گا ؟ چنانچہ انہوں نے جرم کے ثبوت کے لیے دوہرا معیار قائم کردیا کہ اگر ایک معیار پر ثابت ہوا تو حد کی سزا دی جائے گی اور اگر دوسرے معیار پر ثابت ہوا تو تعزیر کی سزا دی جائے گی ۔ اس کے برعکس صحیح طریقہ یہ ہے کہ جرم زنا کو صرف مستوجب حد قرار دیا جائے اور اس کے لیے ایک ہی معیار ثبوت ہو ۔ باقی رہیں بے حیائی کی دیگر اقسام تو ان کو الگ جرائم قرار دے کر ان کے لیے الگ معیار ثبوت مقرر کردیا جائے ۔ لیکن اگر کوئی شخص کسی پر زنا کا الزام لگائے اور وہ اس جرم کے درکار نصاب شہادت پورا نہ کر سکے تو اس کی جانب سے اور کسی ثبوت کو قبول نہ کیا جائے ، بلکہ اسے قذف کا مرتکب ٹھہرایا جائے۔ یہی اصول حد سرقہ ، حد حرابہ ، حد قذف اور حد شرب کے لیے بھی ہے ۔ 
تعزیرات کو حدود قوانین سے ختم کرنے کے اثرات کے بارے میں ایک شبہہ یہ پیش کیا جارہا ہے کہ اس طرح معاشرے میں بے حیائی کی راہ کھل جائے گی کیونکہ زنا کا جرم مستوجب تعزیر نہیں رہے گا اور حد کے لیے درکار نصاب شہادت کا پورا ہونا عام حالات میں ممکن نہیں ہوتا ۔ ہمارے نزدیک یہ شبہ بے بنیاد ہے ۔ اولاً تو زنا سے کم تر بے حیائی ویسے بھی تعزیری جرم ہے ، لیکن اسے زنا مستوجب تعزیر نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ مجموعۂ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۴کے تحت نازیبا حرکات پر سزا دی جاسکتی ہے اور یہ جرم قابل دست اندازئ پولیس ہے۔ ثانیاً حدود اور بالخصوص حد زنا کے متعلق شریعت کے احکام کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ان جرائم کا تذکرہ ہی نہ ہو ، حتی الامکان اس پر پردہ ڈالا جائے۔ البتہ اگر کوئی جوڑا اتنا ہی بے حیا ہو کہ وہ کھلے عام زنا کا ارتکاب کرے (ظاہر ہے کہ چار عینی گواہ کامیسر ہونا عام حالات میں صرف اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب زنا کا ارتکاب کھلے عام کیا جائے ) تو پھر ان کو لازماً حد کی سزا دی جائے اور کھلے عام دی جائے ۔ پس زنا مستوجب تعزیر کی قسم ختم کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کوئی شخص کسی پر زنا کا جھوٹا الزام لگانے کی جرات نہیں کرسکے گا۔ یہی شریعت کا مقتضی ہے۔ ثالثاً تعزیری جرائم کو حدود قوانین سے نکال کر مجموعۂ تعزیرات پاکستان میں شامل کیا جارہا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ امور بدستور جرائم ہی رہیں گے، البتہ کاروائی کے لئے حدود کا مخصوص ضابطہ لاگو نہیں ہوگا ۔ اس کے ساتھ لازمی تھا کہ حد قذف آرڈی نینس میں قذف کی تعریف سے ’’نیک نیتی پر مبنی الزام ‘‘ کا استثنا بھی حذف کردیا جاتا، کیونکہ اس استثنا کی وجہ سے حد قذف کا سارا نظام درہم برہم ہوگیا ہے اور اس قانون سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے ہیں ۔ 
۲ ۔ اسی طرح تعزیرات سے متعلق جرائم میں کوڑوں کی سزا ختم کردی جائے گی ۔ یہ بھی حکومت کے جائز اختیار کا استعمال ہے ۔ کیونکہ ان جرائم میں جرم کی تعریف ، اس کے اثبات کے طریق کار اور اس کے لئے سزا کا تعین جیسے سارے امور حکومت کے اختیار میں ہیں ۔ 
۳ ۔ زنا کے مقدمے کے متعلق قرار دیا گیا ہے کہ اس میں پولیس کا کردار نہ ہونے کے برابر ہوگا ، استغاثہ براہ راست متعلقہ جج کے پاس دائر ہوگا اور وہی ملزم کی گرفتاری اور دیگر امور سے متعلق کاروائی کا مجاز ہوگا ۔ (بل کی دفعہ۹) ہمارے نزدیک یہ ترمیم بھی ضروری ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پولیس ان قوانین کا حد درجہ غلط استعمال کرتی ہے اور اس کا سارا طریق کار حدود کے باب میں شریعت کے نظام سے متصادم ہے ۔ اس ترمیم پر ایک شبہہ یہ پیش کیا جارہا ہے کہ اس طرح پولیس بے حیائی کے روک تھام میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکے گی ، حالانکہ روک تھام سے متعلق پولیس کے اختیارات بدستور موجود ہیں ۔ صرف اتنا ہوجائے گا کہ پولیس کسی کو چار عینی گواہوں کی عدم موجودگی میں زنا کے الزام کے تحت گرفتار نہیں کرسکے گی ، اور پولیس کی زیادتیوں کے سدباب کے لیے یہ نہایت ضروری ہے ۔ 
۴ ۔ قذف کے متعلق قرار دیا گیا ہے کہ اگر عدالت میں زنا کا الزام غلط ثابت ہوجائے تو قذف کے لیے نئے استغاثے کی ضرورت نہیں ہوگی ، بلکہ زنا کا الزام لگانے والے اور گواہوں کے خلاف قذف کی کاروائی کی جاسکے گی ۔ (بل کی دفعہ۲۲ ) قذف آرڈی نینس میں اس شق کا شامل کرنا بھی ہماری تحقیق کے مطابق فقہا کی تصریحات کی رو سے نہایت ضروری ہے ۔ 
قذف کے ماسوا تمام حدود کو فقہاء نے خالص ’حق اللہ‘ کہا ہے ۔ قذف البتہ ’حق مشترک‘ ہے ، اگرچہ ا س میں بھی حق اللہ غالب ہے ۔ پس حق اللہ کے غالب ہونے کی وجہ سے اسے حد قرار دیاگیا ہے اور اس پر حد کے دیگر اوصاف کا اطلاق کیا گیا ہے ۔ تاہم چونکہ اس میں حق العبد بھی مغلوب شکل میں موجود ہے، اس لیے اس پر حق العبد کے چند اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ان اثرات میں ایک اہم اثر یہ ہے کہ اس کے مقدمے کی کاروائی کے لئے مقذوف کی جانب سے کاروائی کا آغاز ضروری ہے ، بشرطیکہ مقذوف خود زندہ ہو ۔ اگر کسی نے کسی مردہ شخص پر زنا کا الزام لگایا تو اس کے ورثا کاروائی کا آغاز کریں گے ۔ اگر کسی نے ایک زندہ شخص پر زنا کا الزام عائد کیا اور وہ مقذوف کاروائی شروع کرنے سے پہلے فوت ہوگیا تو اب اس کے ورثا کاروائی شروع نہیں کرسکتے ۔ 
تاہم یہ اصول اس صورت میں ہے جب قاذف قذف کا ارتکاب قاضی کے سامنے نہ کرے ۔ اگر اس نے قذف کاارتکاب قاضی کے سامنے کیا تو قذف کی کاروائی کے لئے مقذوف کی جانب سے دعویٰ ضروری نہیں ہے ۔ چنانچہ امام سرخسی نے تصریح کی ہے کہ اگر کسی شخص پر زنا کا الزام لگایا گیا اور عدالت میں چار گواہ پیش کیے گئے تو ان گواہوں میں ہر ایک کی گواہی تنہا قذف ہے لیکن چاروں کی گواہی مل کر ملزم کے خلاف حجت بن جاتی ہے ۔ پس اگر یہ حجت پوری نہ ہو تو عدالت گواہوں کو بھی قذف کی سزا دے گی اور اس کے لیے مقذوف کی جانب سے از سر نو مقدمے کا اندراج ضروری نہیں ہوگا۔
۵۔ ترمیمی بل کی دفعہ۲۴میں قرار دیا گیا ہے کہ قذف کا مقدمہ اگر مستغیث واپس لے تو مقدمہ از سر نو شروع نہیں کیا جائے گا ، نہ ہی تعزیری سزا دی جائے گی ۔ اسی طرح بل کی دفعہ ۱۶ میں قرار دیا گیا ہے کہ زنا کا ملزم اقرار جرم پھر جائے تو اس پر حد جاری نہیں کی جائے گی خواہ اس کا کچھ حصہ پہلے سے جاری ہوچکا ہو ۔ ہمارے نزدیک یہ بات قرآن وسنت کے عین مطابق ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حد کے مقدمے میں قضا یعنی عدالتی کارروائی (Trial) کی تکمیل سزا سنائے جانے پر نہیں ، بلکہ استیفا یعنی سزا کے جاری کرنے ( Enforcement) پر ہوتی ہے ، اور سزا کی استیفاء اس کے مکمل طور پر نافذ ہونے پر ہوتی ہے ۔ پس عدالتی کارروائی (Trial) کا اختتام اسی وقت ہوگا جب سزا مکمل طور پر نافذ ہوجائے۔ اسی وجہ سے سزا کے مکمل نفاذ سے پہلے اگر گواہ گواہی سے پھر جائیں ، یا جب جرم صرف اقرار سے ثابت ہو اور ملزم اقرار سے رجوع کرے ، تو حد کی سزا یا اس کا بقیہ حصہ نافذ نہیں کیا جائے گا ۔ ایسی صورت میں مقدمے کی کاروائی از سر نو شروع نہیں کی جائے گی ، بلکہ حد کا مقدمہ اسی وقت ختم ہوجائے گا ، کیونکہ ایسی صورت میں ’شبہہ‘ پیدا ہوجاتا ہے اور ’شبہہ‘ کی وجہ سے حد کی سزا ساقط ہوجاتی ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ ’شبہہ‘ سے مراد ’’شک کا فائدہ‘‘ (Benefit of the Doubt) نہیں ہے ، جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے ، بلکہ مراد امر قانونی یا امر واقعی کے سمجھنے میں خطا (Mistake of Law or of Fact ) ہے جو فعل کے مرتکب کو لاحق ہوتا ہے ۔ جرم کے ثبوت کے متعلق اگر جج کے ذہن میں کوئی شک ہے تو اس کا فائدہ تو لازماً ملزم کو دینا چاہیے ، اسلامی قانون کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ تاہم امر قانونی کے سمجھنے میں خطا کو انگریزی قانون کوئی عذر نہیں سمجھتا ، جبکہ اسلامی قانون نے حدود سزاؤں میں ، جو کہ حقوق اللہ سے متعلق ہیں ، اسے عذر مانا ہے اور اس کی بنا پر حد کی سزا ساقط ہوجاتی ہے ۔ 
۶۔ شاید اس ترمیمی بل میں سب سے زیادہ قابل اعتراض بات یہی محسوس کی جارہی ہے کہ اس کے ذریعے زنا بالجبر کو حد زنا آرڈی نینس سے نکال کر مجموعۂ تعزیرات پاکستان میں شامل کر دیا جائے گا ۔ (بل کی دفعہ۵ ) ہماری تحقیق کے مطابق یہ بھی نہایت صحیح اقدام ہے ، کیونکہ زنا بالجبر ہماری ناقص رائے کے مطابق حد نہیں بلکہ جرمِ سیاسۃ ہے (جسے اس بل میں تعزیر قرار دیاگیا ہے ) ۔
فقہاء کے وضع کردہ ڈھانچے میں ہر قانون کا تعلق یا تو اللہ کے حق سے ہوتا ہے ، یا بندے کے حق سے ، جسے حق العبد کہتے ہیں ۔ بعض اوقات قانون کا تعلق ریاست یا معاشرے کے حق سے ہوتا ہے جسے حق السلطان یا حق السلطنۃ کہتے ہیں ۔ عصر حاضر میں اسلامی قانون پر تحقیق کرنے والوں نے بالعموم حقوق اللہ اور حقوق السلطان کو مترادف سمجھا ہے اور اس وجہ سے بہت ساری غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں۔حق جس کا ہوتاہے اسے جرم کی معافی کا بھی اختیار ہوتا ہے ۔ اگر حقوق اللہ اور حقوق السلطان ایک ہی ہوتے تو پھر جن جرائم کو حقوق اللہ سے متعلق سمجھا جاتاہے (حدود) ان میں ریاست کے پاس معافی کا اختیارہوتا۔ اسی طرح حق کے مختلف ہونے کی وجہ سے جرم کے ثبوت اور بعض دیگرمتعلقہ مسائل (مثلاً ’شبہہ‘ کااثر) بھی تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ 
فقہاء نے تمام حدود سزاؤں کوبالعموم حقوق اللہ سے متعلق قراردیا ہے ۔ ( حد قذف کوفقہائے احناف نے بندے اور خدا کا مشترک حق قرار دیا ہے ، تاہم ساتھ ہی یہ بھی قرار دیا ہے کہ ا س میں اللہ کا حق غالب ہے ۔ گویا نتیجہ یہ ہے کہ حد قذف میں بھی کسی کے پاس معافی کا اختیار نہیں ہے ۔) تعزیری سزاؤں کو احناف نے خالص حق العبد قرار دیا ہے ۔تعزیری سزا حد سے زیادہ نہیں ہوسکتی ۔ایسے جرائم جن کا تعلق حق السلطان سے ہے اور جن کی سزا کی مقدار کا تعین بھی اولوالامر کے ذمے ہے ، ان کوفقہائے احناف ’’سیاسۃ‘‘ جرائم کہتے ہیں ۔ ان جرائم میں معیار ثبوت کا تعین بھی حکومت کے پاس ہے اور معافی کا اختیار بھی وہ رکھتی ہے ۔ جرم کی نوعیت کے مطابق سزا کا تعین حکومت کرتی ہے اور اس سلسلے میں ایسی کوئی قید نہیں ہے کہ سزا حد کی مقدار سے زائد نہ ہو ۔ چنانچہ بعض حالات میں سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے ۔اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی فوجداری قانون صرف حدود سزاؤں تک ہی محدود نہیں ہے۔ جب بعض مخصوص جرائم مخصوص شرائط کے ساتھ اور مخصوص ضابطے کے تحت ثابت ہو جائیں تویہ مخصوص سزائیں دی جاتی ہیں ۔ ظاہر ہے ایسا صرف استثنائی صورتوں میں ہی ممکن ہوتا ہے ۔ عام حالات کے لئے اسلامی قانون نے تعزیر اور سیاسۃ کے نظریات کے تحت نظام وضع کیا ہے ۔ ان میں بالخصوص سیاسۃ کے تحت آنے والے جرائم کے سلسلے میں ریاست کے پاس بہت سارے اختیارات ہیں ۔ ان جرائم کی تعریف ، ان کے اثبات کے طریق کار اور ان کے لئے سزاؤں کا تعین سب کچھ ریاست کے اختیار میں ہے ۔ البتہ ریاست پر یہ پابندی ہوگی کہ وہ اسلامی قانون کے قواعد عامہ کی روشنی میں قانون سازی کرے اور ان قواعد کی خلاف ورزی کسی صورت نہ کرے ۔
حد زنا آرڈی نینس نے دو لحاظ سے زنا اور زنا بالجبر کو یکساں قرار دیا ہے ۔ ایک سزا کے لحاظ سے (دونوں صورتوں میں غیر محصن کی سزا سو کوڑے اور محصن کی سزا رجم ہے ۔) اور دوسرے ثبوت جرم کے لحاظ سے ( دونوں صورتوں میں حد کی سزا کے لیے ضروری ہے کہ یا تو مدعا علیہ اقرار کرے یا چار عینی گواہ اس کے جرم کی گواہی دیں ۔ ) یہ آخر الذکر بات بالخصوص تنقید کا باعث بنی ہے ۔ بعض لوگوں نے بیچ کی راہ یہ نکالی ہے کہ زنا بالجبر کو حرابہ قرار دینے کی تجویز دی ہے ۔ یہ رائے مولانا امین احسن اصلاحی نے پہلے پیش کی اور اس کی بنیاد یہ بات ہے کہ حرابہ صرف ڈکیتی تک محدود نہیں ہے ۔اس قول کے قائلین مزید قرار دیتے ہیں کہ حرابہ کی سزا میں قرآن نے تقتیل کا ذکر کیا ہے ، جس سے مراد محض قتل نہیں بلکہ عبرتناک طریقے سے قتل ہے ، جس کی ایک مثال رجم ہے ۔ گویا رجم زانی محصن کی سزا نہیں بلکہ زنا بالجبر کے مرتکب کی سزا ہے ۔حدود قوانین کے ناقدین زنا بالجبر کو حرابہ قرار دے چکنے کے بعد یہ بھی قرار دیتے ہیں کہ اس کے ثبوت کے لئے میڈیکل رپورٹس ، واقعاتی شہادتوں اور قرائن سے بھی کام لیا جاسکتا ہے ، حالانکہ اسے حد قرار دے چکنے کے بعد ضروری ہے کہ اس پر حد کی تمام خصوصیات لاگو ہوں ۔ حد زنا کے سوا تمام حدود کے ثبوت کے لئے فقہاء نے دو مسلمان مرد عینی گواہوں کی شہادت ضروری قرار دی ہے ۔ گویا زنا بالجبر کو حد حرابہ قرار دینے کے بعد مدعی یا مدعیہ کو صرف اتنی سہولت ملے گی کہ اسے چار کے بجائے دو عینی گواہ پیش کرنے ہوں گے ! لیکن دوسری طرف ملزم کو وہ تمام رخصتیں بدستور میسر رہیں گی جو حد کے ملزم کو میسر ہوتی ہیں ، جن میں سب سے اہم ’شبہہ‘کا اثر ہے ۔ یہاں ایک دفعہ پھر یہ بات یاد کیجیے کہ ’شبہہ‘ سے مراد ’’شک کا فائدہ ‘‘ نہیں ہے ۔ جرم کے ثبوت کے متعلق اگر جج کے ذہن میں کوئی شک ہے تو اس کا فائدہ تو لازماً ملزم کوہر صورت میں ملے گا خواہ جرم حد کا ہو یا غیر حد کا ۔ یہاں ’شبہہ‘ سے مراد امر قانونی یا امر واقعی کے سمجھنے میں خطا (Mistake of Law or of Fact ) ہے جو فعل کے مرتکب کو لاحق ہوتا ہے ۔ اسلامی قانون نے حدود سزاؤں میں ، جو کہ حقوق اللہ سے متعلق ہیں ، اسے عذر مانا ہے۔ اس عذر کی بنا پر حد کی سزا ساقط ہوجاتی ہے ۔ جو سزائیں حقوق اللہ سے متعلق نہیں ہیں ان میں ’شبہہ‘کا یہ اثر نہیں ہوتا۔ جو لوگ حدود کے معیار ثبوت ، حدود پر ’شبہہ‘کے اثر اور اس طرح کے دیگر اصول بھی تبدیل کرنا چاہتے ہیں، وہ دراصل اسلامی قانون کا حلیہ بگاڑنا چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں سے ، جو پہیہ نئے سرے سے ایجاد کرناچاہتے ہیں ، بحث کا کوئی فائدہ نہیں ۔ البتہ اسلامی قانون کے ڈھانچے کو ڈھائے بغیر اس مسئلے کا حل یوں نکالاجاسکتاہے کہ اسے جرم سیاسۃ قرار دیا جائے۔ اس طرح زنا بالجبر سے متعلق قانون کی خامیاں بھی دور ہوجائیں گی اور اسلامی قانون حدود کی کسی شق کی خلاف ورزی بھی نہیں کرنی پڑے گی ۔ لیکن اس کے لئے ضروری یہ ہوگا کہ زنا بالجبر کو الگ مستقل جرم قرار دیا جائے اور اسے ’’زنا‘‘ کی قسم نہ قرار دیاجائے ۔ اس کے لئے زنا بالجبر کے بجائے ’’جنسی تشدد‘‘ یا اس قسم کا کوئی اور نام رکھا جائے ۔ انگریزی میں تو Rape کا لفظ ہی مناسب ہوگا ۔ 
عہد رسالت میں زنا بالجبر کے ایک مقدمے کی روداد روایات میں اس طرح بیان ہوئی ہے : 
’’رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ایک عورت نماز پڑھنے کے لئے گھر سے نکلی ۔ ایک شخص نے اسے پاکر پکڑ لیا اور اس سے زبردستی اپنی حاجت پوری کی ۔ وہ چلائی تو وہ شخص بھاگ کھڑا ہوا اور ایک اور شخص وہاں سے گزرا تو اس عورت نے کہا کہ اس شخص نے میرے ساتھ یہ یہ کیا ۔ وہاں سے مہاجرین کے چند لوگ گزرے تو اس عورت نے ان سے کہا کہ اس شخص نے میرے ساتھ یہ یہ کیا ۔ انہوں نے جاکر اس شخص کو پکڑ لیا جس کے متعلق اس عورت کا خیال تھا کہ اس نے اس کے ساتھ زیادتی کی تھی ۔ تو اس عورت نے کہا کہ ہاں یہی ہے وہ ۔ وہ اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے ۔ پھر جب آپ نے اس کے رجم کرنے کا حکم دیا تو وہ شخص اٹھ کھڑا ہوا جس نے درحقیقت اس عورت کے ساتھ زیادتی کی تھی ۔ اس نے کہا کہ یا رسول اللہ میں نے اس کے ساتھ زیادتی کی تھی ۔ آپ نے اس عورت سے کہا کہ جاؤ اللہ نے تمہاری خطا بخش دی ہے اور اس پہلے شخص سے بھی اچھی بات کہی ۔ پھر جس شخص نے زیادتی کی تھی اس کے متعلق حکم دیا کہ اسے رجم کردو ۔ اور اس کے متعلق فرمایا کہ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ توبہ سب اہل مدینہ کرتے تو ان کے لئے کافی ہوتی ۔‘‘
اس واقعے کی تفصیلات اور جزئیات کے متعلق روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔تاہم چند باتیں ایسی جو یقینی طور پر معلوم ہوجاتی ہیں: 
اولاً: یہ کہ ایک خاتون کے ساتھ زنا بالجبر کیا گیا ۔ 
ثانیاً : یہ کہ خاتون نے جب زنا بالجبر کا دعویٰ کیا تو اس سے یہ مطالبہ نہیں کیا گیا کہ وہ چار گواہ پیش کرے ۔ 
ثالثاً : یہ کہ حدود کے اثبات کے لئے مخصوص ضابطے پر عمل نہیں کیا گیا ۔ مثلا شبھۃ کے اثر کے متعلق کچھ نہیں کہا گیا ۔ 
رابعاً : واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پر مجرم کو رجم کی سزا سنائی گئی ۔ 
بعض لوگوں نے اس واقعے سے یہ استدلال کیا ہے کہ حدود میں واقعاتی شہادتیں بھی قبول کی جاسکتی ہیں اور حدود کے متعلق دیگر قیود بھی اٹھائی جاسکتی ہیں ۔ لیکن جب حدود کی شرائط پوری نہیں کی گئیں تو یہ سزا سرے سے حد کی سزا تھی ہی نہیں ، بلکہ سیاسۃ کے تحت یہ سزا سنائی گئی۔ عہد سالت اور عہد صحابہ میں فساد کے مرتکب مختلف افراد کو اسی اصول پر عبرتناک سزائیں دی گئیں ، مثلاً عرنیین کا واقعہ ، یا لواطت کی سزا ۔ پس اسلامی قانون حدود کا ڈھانچہ ڈھادینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بغیر بھی پیش آمدہ تمام مسائل کا حل مل سکتا ہے ۔ 
اگر زنا بالجبر کو جرم سیاسۃ قرار دیا جائے تو اس جرم کی تعریف ، اس کے لئے معیار ثبوت کا تعین ، اور اس کے لئے سزا کا تعین ، سب کچھ حکومت کے اختیار میں ہوتا ہے ۔ مثلاً حکومت زنا بالجبر کے اثبات کے لئے میڈیکل رپورٹ ، ڈی این اے ٹسٹ اور دیگر واقعاتی شہادتوں اور قرائن کو بھی قابل قبول قرار دے سکتی ہے ۔ البتہ حکومت کو قانون سازی کرتے ہوئے اسلامی قانون کے قواعد عامہ کا لحاظ رکھنا ہوگا۔چنانچہ زنا بالجبر کی جو تعریف اس بل میں پیش کی گئی ہے اس پر ہمیں یہ اعتراض ہے کہ اس کے تحت اس جرم کا ارتکاب ہمیشہ کوئی مرد ہی کرتا ہے ، (بل کی دفعہ ۵) حالانکہ ایک مفروضے کے طور پر ہی سہی ، اس کا امکان بہر حال ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کوئی عورت کرے اور اس کا شکار کوئی مرد ہو ۔ 
۷۔ جہاں تک حد زنا آرڈی نینس میں ’’نکا ح صحیح‘‘کے الفاظ کو ’’نکاح ‘‘ میں تبدیل کرنے کی بات ہے(بل کی دفعہ۱۳ ) اس کے متعلق عرض ہے کہ اصولاً یہ بات صحیح ہے کہ نکاح ’’صحیح ‘‘نہ بھی ہو تو ملزم کو شبھۃ کا فائدہ مل جاتا ہے ۔ اس ترمیم کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ دیہاتوں میں عام طور پر نکاح اور طلاق کی رجسٹریشن مسلم فیملی لاز آرڈی نینس کے تحت نہیں ہوتی ، اس لئے سابقہ شوہر اپنی بیوی پر زنا کا دعویٰ دائر کردیتا ہے۔ اگر واقعی مسئلہ یہ ہے تو مسلم فیملی لاز آرڈی نینس میں ترمیم وقت کی ضرورت بن جاتی ہے ۔ واضح رہے کہ اس آرڈی نینس کے بنائے جانے کے وقت سے علما کی جانب سے اس پر مسلسل یہ اعتراض کیا جاتا رہا ہے ، مگر ارباب اقتدار نے اس پر کبھی کان نہیں دھرا ۔ اب جبکہ یہ صدا ایوان اقتدار ہی سے بلند ہوئی ہے تو مسلم فیملی لاز آرڈی نینس میں ترمیم میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے ۔ 
ہمارے نزدیک اس بل کی قابل اعتراض شقیں درج ذیل ہیں:
۱ ۔ ترمیمی بل کی دفعہ ۱۳کے تحت قراردیاگیاہے کہ حدزنا آرڈینینس میں زنا کی تعریف (دفعہ ۴) سے وضاحت حذف کردی جائے گی۔ اس وضاحت میں قرار دیاگیاہے کہ زنا کے جرم کے لئے محض دخول کا واقع ہونا کافی ہے۔ ہمارے نزدیک حد زنا آرڈی نینس کی یہ وضاحت قرآن وسنت اور فقہائے اسلام کی تشریحات کے مطابق ہے۔ دخول سے کم تر کی بے حیائی کو شرعاً زناقرار نہیں دیاجاسکتا۔ اور دخول ہوجائے تو اس کے بعد انزال ہویانہ ہو، زنا کا جرم وقع پذیرہوجاتاہے۔ اس لئے اس وضاحت کے حذف کرنے سے زنا کا پورا تصور ہی تبدیل ہوجائے گا۔
۲۔ ترمیمی بل کی دفعات ۱۹(۱)اور ۲۸(۱)کے تحت قرار دیاگیاہے کہ حدزنا آرڈینینس کی دفعہ ۲۰ اور حد قذف آرڈینینس کی دفعہ ۱۷ سے پہلاproviso ختم کردیاجائے گا ۔ ان دفعات میں قرار دیاگیاہے کہ اگر ان آرڈینینسز کے تحت مقدمہ قائم کردیا جائے مگر جج کی رائے میں مجرم نے کسی اور جرم کا ارتکاب کیاہو اور اس جرم کی سزا دینے کا اختیار وہ جج رکھتاہو تو وہ مجرم کو وہ سزا سناسکتاہے۔ہمارے نزدیک یہ ترمیم غیر ضروری ہے۔ اگر ان شقوں کو ختم کیا گیا تواس کا ایک نتیجہ یہ ہوگا کہ یا تو مجرم جرم کی سزا پائے بغیر بری ہو جائے گا ، یا اس کے خلاف نیا مقدمہ قائم کرنا ہوگا۔ ان دونوں صورتوں کی قباحتیں واضح ہیں۔ 
۳۔ ترمیمی بل کی دفعہ ۱۸ کے تحت قرار پایاگیاہے کہ حدزنا کی دفعہ کی دفعہ ۱۷ سے ’’یا دفعہ ۶‘‘ کے الفاظ حذف کردیے جائیں گے۔ آرڈینینس کی متعلقہ دفعہ رجم کے طریق کار کے متعلق ہے اور دفعہ ۶ زنا بالجبر کے بارے میں ہے جسے آرڈینینس سے نکال کر مجموعہ تعزیرات پاکستان میں شامل کرنے کاکہاگیاہے۔ اس لئے دفعہ ۱۷ سے ان الفاظ کا حذف کرنا ضروری ہے۔تاہم قابل توجہ بات یہ ہے کہ حکومت نے دفعہ ۱۷ میں رجم کے طریق کار کو قرآن وسنت کے مطابق کردینے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ اس دفعہ میں قرار دیاگیاہے کہ جب مجرم کو پتھرمارے جائیں گے تو اسی دوران میں اسے گولی ماردی جائے گی۔ ہماری ناقص رائے میں اس کے لئے قرآن وسنت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور آرڈینینس کی اس دفعہ میں ترمیم ضروری ہے۔
۴۔ لعان سے متعلق دفعات کو قذف آرڈی نینس سے نکال کر Dissolution of Muslim Marriages Act میں شامل کرنے کا کہا گیا ہے ۔ (بل کی دفعہ ۳۰ ) اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ لعان کا تعلق سزاؤں سے زیادہ تنسیخ نکاح کے طریقوں سے ہے ، اس لئے اس کے لئے مناسب جگہ وہی ایکٹ ہے ۔ دوسری طرف ترمیمی بل کی دفعہ ۲۶ میں قرا ر دیا گیا ہے کہ حد قذف آرڈی نینس میں لعان سے متعلقہ دفعہ ۱۴ کی ذیلی دفعات ۳ اور ۴ حذف کردی جائیں گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ لعان خالصتاً تنسیخ نکاح کا ذریعہ بن جائے گا اور حد زنا و حد قذف سے اس کا تعلق بالکل ہی ختم ہوجائے گا ۔ حالانکہ لعان تنسیخ نکاح کا ایک ذریعہ صرف اسی صورت میں بنتا ہے جب شوہر اپنے دعوے کے حق میں اور بیوی اس کے خلاف قسمیں کھائے ۔ اگر عورت اس الزام کو تسلیم کرلے تو اس پر حد زنا جاری کی جائے گی ، جیسا کہ حد قذف آرڈی نینس کی دفعہ ۱۴ ذیلی دفعہ ۴ کا کہنا ہے ۔ اسی طرح اگر شوہر الزام لگائے مگر قسم کھانے سے انکار کرے ، یا عورت الزام مسترد کردے مگر قسم نہ کھائے تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے گا ؟ قرآن کریم کا تو صریح فرمان ہے کہ شوہر قسم کھائے تو اس کے بعد عورت سے زنا کی حد صرف اسی صورت میں ٹل سکتی ہے جب وہ بھی چار مرتبہ الزام کے جھوٹا ہونے کے متعلق قسم کھائے اور پانچویں دفعہ جھوٹے پر اللہ کی لعنت بھیجے ۔ (سورۃ النور ، آیت ۸ ۔ ۹ ) اسی لئے فقہا نے قرار دیا ہے کہ قسم نہ کھانے والے فریق کو اس وقت تک قید میں رکھا جائے گا جب وہ قسم نہ کھائے یا اپنے جرم کا اقرار نہ کرے۔ یہی حد قذف آرڈی نینس کی دفعہ ۱۴ ذیلی دفعہ ۳ میں قرار دیا گیا ہے ۔ اسی بنا پر لعان کا تعلق صرف تنسیخ نکاح سے ہی نہیں ، بلکہ حد زنا اور حدقذف سے بھی قائم ہوجاتا ہے ۔ اس لئے ہمارے نزدیک ترمیمی بل کی یہ دفعہ قرآن وسنت اور فقہائے اسلام کی تصریحات سے عین متصادم ہے ۔ 
۵ ۔ ترمیمی بل کی دفعہ ۹کے تحت زنا کے مقدمے کے گواہوں کے لئے صرف یہ شرط رکھی گئی ہے کہ وہ ’’بالغ ‘‘ ہوں ؛ بہ الفاظ دیگر گواہ کا مرد ہونا اور مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے ۔ ہماری ناقص رائے بھی یہ ہے کہ حد کے مقدمے میں گواہ کا عاقل بالغ مرد ہونا ضروری ہے اور حد زنا آرڈی نینس کی دفعہ ۸میں بھی یہی قرار دیا گیا ہے ۔ ترمیمی بل کی دفعہ۹ کے تحت ضابطۂ فوجداری میں یہ نئی دفعہ ۲۰۳ ۔ الف شامل کی جائے گی ۔ ترمیمی بل نے حد زنا آرڈی نینس کی دفعہ ۸ کی منسوخی کے متعلق کچھ نہیں کہا ہے ، مذکورہ دفعہ بدستور نافذ العمل رہے گی ۔ اگر یہ ترمیم منظور ہوگئی تو صورتحال یہ ہوگی کہ ضابطۂ فوجداری کی نئی دفعہ ۲۰۳ ۔ الف کے تحت گواہ کا صرف بالغ ہونا ہی ضروری ہوگا اور حد زنا آرڈی نینس کی دفعہ ۸کے تحت اس کا بالغ مسلمان مرد ہونا ضروری ہوگا ۔ کیا اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ضابطۂ فوجداری کی نئی دفعہ کے بعد حد زنا آرڈی نینس کی دفعہ غیر مؤثر (redundant) ہوجائے گی ؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو یقیناًیہ ترمیم قرآن و سنت اور فقہائے اسلام کی تصریحات سے متصادم ہے ۔ تاہم ہمارے نزدیک اس سوال کا جواب نفی میں ہی ہوگا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حد زنا آرڈی نینس ایک خصوصی قانون ( Special Law) ہے اور وہ عام قانون پر بہر حال بالادست حیثیت رکھتا ہے خواہ اس بالادستی کو صراحتاً نہ ذکر کیا جائے ۔ پس ضابطۂ فوجداری میں اس نئی دفعہ۲۰۳ ۔ الف کو شامل بھی کیا جائے تو اس کی تعبیر و تشریح حد زنا آرڈی نینس کی دفعہ ۸کے تحت ہی کی جائے گی ۔ (’حمل المطلق علی المقید‘ کا قاعدہ بھی یہی کہتا ہے ۔ ) پس اگر غیر مسلم یا کسی خاتون گواہ کی گواہی پر مقدمہ درج کیا گیا تو اور حد زنا آرڈی نینس میں مذکور نصاب شہادت پورا نہ ہو تو اس خاتون اور غیرمسلم سمیت دیگر بالغ مسلمان مردوں کو بھی قذف کی سزا دی جائے گی ، اور اس کے لئے نئے استغاثے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی ، جیسا کہ ترمیمی بل کی دفعہ ۲۲ کے تحت قرار دیا گیا ہے ۔ تاہم ترمیمی بل کی یہ دفعہ حدود کے طریق کار کو تبدیل کرنے کے لئے ایک چور دروازہ ثابت ہوسکتی ہے ، بالخصوص جبکہ حکومت حدود قوانین کی دیگر قوانین پر بالادستی ختم کرنے کی (ناکام !) کوشش بھی کررہی ہے ۔ اس لئے اس دفعہ کا ختم کرنا ضروری ہے ۔ 
۶ ۔ ہمارے نزدیک ترمیمی بل کی سب سے زیادہ قابل اعتراض بات یہ ہے کہ اس کے ذریعے کوشش کی گئی ہے کہ حدود آرڈی نینس کو دیگر قوانین پر جو بالادست حیثیت (overriding effect) دی گئی ہے وہ ختم کر دی جائے ۔ چنانچہ بل کی دفعات ۱۲ اور ۲۹ میں قرار دیا گیا ہے کہ حد زنا آرڈی نینس کی دفعہ ۳ اور حد قذف آرڈی نینس کی دفعہ ۱۹ حذف کردی جائیں گی ۔ ہمارے نزدیک یہ ترمیم اس وجہ سے غیر ضروری ہے کہ اس کے باوجود حدود قوانین کو خصوصی قانون (Special Law) کی حیثیت حاصل رہے گی اور تعبیر قوانین کا عام قاعدہ یہ ہے کہ خصوصی قانون کو عام قانون پر بالادستی حاصل ہوتی ہے اور تصادم کی صورت میں خصوصی قانون پر ہی عمل ہوتا ہے ۔ لیکن اس ترمیم سے مسودہ بنانے والوں کے ارادوں کا کچھ اندازہ بہر حال ہوجاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب دستور میں طے کیا گیا ہے اور حکومت کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ قانون سازی قرآن وسنت کے مطابق کی جائے گی تو پھر حدود قوانین کو دیگر قوانین پر بالادست قرار دینے میں کیا قباحت ہے ، بالخصوص جب ان قوانین سے تعزیرات ختم کر دی جائیں گی اور یہ صرف حدود پر ہی مبنی ہوں گے ؟ کیا اس طرح حکومت حدود اللہ میں تبدیلی کے امکان کو قبول کر رہی ہے؟

مصارف زکوٰۃ میں ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی مد

ڈاکٹر عبد الحئی ابڑو

ماہنامہ ’’حکمت قرآن‘‘ لاہور نے اپنی اشاعت خاص (جولائی ۲۰۰۶ء) میں ’’مصارف میں ’’فی سبیل اللہ ‘‘کی مد اور مسئلہ تملیک‘‘ حصہ دوم میں مصارف زکوٰۃ کے حوالے سے ایک استفتا کے جواب میں فتویٰ کے دو اہم مراکز کے جوابات شائع کیے ہیں جو حصہ اول میں دیے گئے مضامین کے بالکل برعکس ہیں۔ اس لیے گھوم پھر کر مسئلہ پھر وہیں آجاتاہے جہاں سے شروع ہوتاہے۔ اس سے یہ احساس خود بخود ابھرتاہے کہ ہمارے برصغیر کے مفتیان کرام اپنے تمام تر اخلاص اور دینی دررمندی کے باوجود دینی تقاضوں کو پیش نظر رکھنے اور ان کی اہمیت کا احساس کرکے اس کا حل ڈھونڈ نکالنے کے بجائے (بصد ادب عرض کرنے کی جسارت کی جاتی ہے) بسا اوقات محض متقدمین مولفین کی عبارتوں اور الفاظ تک ہی محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس عالم عر ب کے ارباب افتا چیزوں کو وسیع تناظر میں اور شریعت کی روح اور اس کے عمومی مقاصد ومصالح کو پیش نظر رکھ کر افتا وارشاد کی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔
یہاں ضروری معلوم ہوتاہے کہ ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی مداور ’’تملیک‘‘ کے حوالے سے عرب علما کے فتاویٰ بھی قارئین کے سامنے رکھ دیے جائیں تاکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے آجائے۔

مجلس المجمع الفقہی الاسلامی کا فیصلہ

سب سے پہلے عالم اسلام کے فتویٰ کے ایک نمائندہ ادارے ’’مجلس مجمع الفقہی الاسلامی ‘‘ کے فیصلہ کا ذکر مناسب معلوم ہوتاہے۔ اس مجلس میں پوری اسلامی دنیا کے چیدہ چیدہ علما کی نمائندگی موجود ہے۔یہ مجلس ہر سال نئے پیش آمدہ مسائل پر غور وفکر کے لیے اپنے اجلاس منعقد کرتی اور اس سلسلے میں ایک اجماعی یا اکثریتی رائے دیتی رہتی ہے۔ ’’فی سبیل اللہ ‘‘کی مد کے حوالے سے فقہی مجلس نے مورخہ ۲۷؍۴؍۱۴۰۸ھ تا ۸؍۵؍۱۴۰۵ھ کو مکہ مکرمہ میں ہونے والے اپنے اجلاس میں درج ذیل فیصلہ کیا ہے:
’’المجمع الفقہی الاسلامی ‘‘ کی مجلس نے مکہ مکرمہ میں مورخہ ۲۷؍ ۴؍۱۴۰۵ھ ۔ ۸؍۵؍۱۴۰۵ ھ کوہونے والے اپنے آٹھویں اجلاس میں مصارف زکوٰۃ کی آیت میں ذ کر کردہ مصرف ’’فی سبیل اللہ ‘‘ کے معنی پر غور وخوض کیا اور بحث ومباحثہ کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس مسئلہ میں فقہا کی دو آرا ہیں:
۱۔آیت مبارکہ کے الفاظ ’فی سبیل اللہ‘ کا مفہوم قتال کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔یہ جمہورعلما کی رائے ہے لہٰذا ان کا کہنا ہے کہ ’فی سبیل اللہ‘ کی مد سے زکوٰۃ کے معنی صرف اللہ کی راہ میں بالفعل قتال کرنے والے مجاہدین ہی ہوں گے۔
۲۔ ’سبیل اللہ ‘ نیکی اور رفاہ عامہ کے ہر کام کو شامل ہے جس سے مسلمانوں کو دینی یا دنیوی لحاظ سے فائدہ پہنچے، جیسے مساجد کی تعمیر اور مرمت، مدارس اور سرائے، مسافر خانوں کا قیام اور سڑکوں کی تعمیر وغیرہ۔ یہ قول چند متقدمین علما کا ہے مگر اسے بہت سے متاخرین نے اختیار کیا ہے۔ تبادلہ خیالات اور دونوں فریقوں کے دلائل کا جائزہ لینے کے بعد مجلس نے اکثریت سے درج ذیل فیصلہ کیا:
۱۔چونکہ دوسری رائے بھی علما کی ایک گروہ کی ہے اور بعض آیات مبارکہ سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے، جیسے ارشادباری ہے:
(الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ ثم لا یتبعون ما انفقوا منّا ولا اذی لھم اجرہم عند ربہم) (البقرہ :۲۶۲) 
نیز بعض احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، جیسا کہ سنن ابی داؤدکی روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنا اونٹ فی سبیل اللہ ( اللہ کی راہ میں وقف) کردیا اور اس کی بیوی حج پر جانا چاہتی تھی تو حضور ﷺ نے اسے فرمایا :’’ تو نے اس اونٹ پر سفر کیوں نہیں کیا، ا س لیے کہ حج بھی فی سبیل اللہ ( اللہ کی راہ میں) ہی ہے‘۔‘ (کتاب المناسک، حدیث ۱۹۸۹)
۲۔ مزید یہ کہ اسلحہ سے جہاد وقتال، اللہ کے کلمہ کا بول بالا کرنے کے لیے اور داعیان دین کی تیاری اور انہیں ان کے فرائض کی ادائیگی میں تعاون فراہم کرنے سے بھی دین کی نشرواشاعت ہی پیش نظر ہوتی ہے، لہٰذا دونوں چیزیں جہاد میں شامل ہیں، جیساکہ امام احمد او ر نسائی نے حضرت انسؓ سے روایت کیاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’مشرکین سے اپنے مال، جان، زبان، ہرذریعے سے جہاد کرو۔ ‘‘ (مسند احمد حدیث ۱۱۸۳۷، نسائی حدیث ۳۰۹۶، ابو داؤد، حدیث ۲۵۰۴)
۳۔ او رجیسا کہ نظریہ وعقیدہ کے میدانوں میں اہل الحاد، یہود نصاریٰ او ردیگر دشمنا ن دین اسلام سے برسر پیکار ہیں اور انہیں بھر پور مادی اور معنوی پشت پناہی حاصل ہے، لہٰذا مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ان کا اسی اسلحہ سے بلکہ اس سے شدید اسلحہ سے مقابلہ کریں جس سے وہ اسلام پر حملہ آور ہورہے ہیں۔
۴۔مزید یہ کہ اسلامی ممالک میں جنگ اور دفاع کے لیے الگ شعبے اور وزارتیں قائم ہیں اور ہر ملک میں اس کے لیے بجٹ میں رقم مخصوص کی جاتی ہے،جبکہ دعوت دین کے میدان جہاد کے لیے اکثر اسلامی ممالک کے بجٹ میں کوئی رقم نہیں رکھی جاتی۔
ان تمام باتوں کے پیش نظر مجلس نے بھاری اکثریت سے یہ طے کیا کہ دعوت الی اللہ اور اسے قوت وطاقت بہم پہنچانے والے امور اور سرگرمیاں (فی سبیل اللہ ) کے قرآنی الفاظ میں شامل ہیں۔
اس فیصلے پر مجلس کے ایک ممبر، سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ محمد بن ابراہیم نے یہ اضافہ فرمایا :’’ یہاں ایک ضروری چیز ہے جس پر رقم کی زکوۃ خرچ کی جاسکتی ہے، اور وہ ہے دعوت الی اللہ اور دین کے حوالے سے شکوک وشبہات رفع کرنے کے لیے مالی قوت فراہم کرنا۔ بلاشبہ یہ بات جہاد میں شامل ہے بلکہ سب سے بڑی اللہ کی راہ (اعظم سبیل اللہ ) ہے‘‘۔
سعودی عرب کی سپریم علماء کونسل کے ممبر الشیخ عبداللہ جبر ین سے فقہی مجلس کے اس فیصلے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا : 
’’ان معروف علما نے بالکل ٹھیک کیاہے اوردرست رائے دی ہے۔ اس سے مسلمانوں کی مشکلات حل ہوں گی، دعوت وارشاد کا کام کرنے والوں کو تائید ومدد حاصل ہوگی، دین کی دعوت کو فروغ ملے گا اور مشرکین کا زور ٹوٹے گا۔
بلاشبہ سبیل اللہ سے مراد وہ راستہ ہے جو اللہ کی طرف لے جاتاہے جیساکہ ارشاد ہے:
(یھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلام)(المائدہ :۱۶)
یعنی اللہ تعالیٰ وہ راہ دکھاتاہے جو اس پر چلنے والے کو سلامتی (جنت ) کی طرف لے جاتی ہے ،چنانچہ ہر وہ نیک عمل جو اللہ کے قریب کردے اور اس کی رضا مندی اور جنت کی طرف لے جائے، وہ سبیل اللہ کی قبیل سے ہے۔ اللہ سبحانہ نے مصارف زکوٰۃ کی آیت میں پہلے ان لوگوں کے اوصاف گنوائے جو اپنی ذاتی ضرورت کی بنا پر زکوٰۃ کے مستحق ہیں جیسے فقیر ، نادار، مقروض، مولفۃ القلوب اور مسافر وغیرہ۔ پھر باقی مصارف کو ’فی سبیل اللہ‘ کے عمومی الفاظ سے ذکر کردیا ۔اللہ تعالیٰ نے ہجرت کو بھی ’’اپنے راستہ میں ‘‘قرار دیا ہے۔
(ومن یھاجر فی سبیل اللہ یجد فی الارض مراغما کثیرا وسعۃ) (النساء :۱۰۰)
بلاشبہ اللہ کے دین کی دعوت، دین کی خوبیان بیان کرنے اورپھیلانے، اہل الحاد اور باطل پرستوں کا رد اور کفار ومنافقین کی طرف سے پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات کا ازالہ اورتوڑ، یہ باتیں اللہ کی مدد کرنے اوراس کے پسندیدہ دین کی نشرواشاعت کرنے میں شامل ہیں۔ اگر یہ محاذ بے توجہی کا شکار ہوجائے اور لوگ اس پر خرچ نہ کریں اور اسے آگے نہ بڑھائیں او رداعیان حق کی کفالت کا انتظام نہ کریں تو ان مدّات پر زکوٰۃ کی رقم لگانا ضروری ہوجاتاہے ،بلکہ ان مدّات پر زکوٰۃ کی رقم دینا بعض دیگر مدات (جیسے مکاتب، مولفۃ القلوب اور مسافر) سے زیادہ اہم ہوجاتاہے۔ ان مدات میں قرآن مجید اور دینی کتب کی طباعت واشاعت، کیسٹوں اور انٹر نیٹ کے پروگرامات کی تیاری وغیرہ شامل ہیں (جن کے متعلق سائل نے پوچھا ہے (فتاویٰ علماء البلد الحرام ،مرتب :خالد الجریسی ،موسسہ الجریسی الریاض ۱۹۹۹۔ص۲۶۷۔۲۷۲)

جامعۃ الازہر کا فتویٰ

جامعۃ الازہر کی فتویٰ کمیٹی سے پوچھا گیا کہ مصر کے ایک علاقہ میں جہاں مسلمان بڑی تعدا د میں بستے ہیں اوروہاں مساجد کی قلت ہے، ایک مخیر شخص زکوٰۃ کی رقم سے مسجد کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں، کیا وہ ایسا کرسکتے ہیں؟ اس استفتا کا جواب اس وقت کے شیخ الازہر عبد المجید سلیم نے دیا جو درج ذیل ہے:
’’مسجد وغیر ہ کی تعمیر اورا س طرح کے دیگر رفاہ عامہ کے ایسے کاموں کے لیے بعض فقہا کی رائے میں زکوٰۃ کی رقم استعمال کی جاسکتی ہے جن میں تملیک نہیں ہوتی۔ ان فقہا نے اس کے جواز کے لیے آیت کے لفظ (وفی سبیل اللہ) کے عموم سے استدلال کیاہے، اگر چہ ائمہ اربعہ کی رائے یہ نہیں ہے۔ مگر جو رائے ہم اختیار کررہے ہیں، وہ تفسیر رازی میں یوں مذکور ہے :
’’یہ جان لو کہ ’وفی سبیل اللہ‘ کے ظاہر الفاظ سے مال زکوٰۃ کا صرف قتال کرنے والے مجاہدین تک محدود کردینا لازم نہیں آتا، اسی لیے قفّال نے اپنی تفسیر میں بعض فقہا کی یہ رائے نقل کی ہے کہ وہ مردوں کی تکفین وتدفین ،قلعوں اور مساجد کی تعمیر وغیرہ جیسے کاموں پر خرچ کرنے کو جائز قراردیتے ہیں، اس لیے کہ (وفی سبیل اللہ) کے الفاظ میں عموم پایاجاتاہے اوراس میں یہ تما م چیزیں شامل ہیں ‘‘۔ (بدائع الصنائع کے مولف امام کاسانی حنفی نے بھی ’’سبیل اللہ ‘‘کا مفہوم نیکی کے تمام کام ‘‘بیان کیاہے)۔
’’ابن قدامہ المغنی میں پہلے تویہ بیان کرتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے جن مصارف کی صراحت فرمائی ہے، ان کے علاوہ کسی اور مد جیسے مساجد، پلوں اور سٹرکوں کی تعمیر پر زکوٰۃ کی رقم نہیں لگائی جاسکتی ‘‘پھر کہتے ہیں :’’مگر حضرت انس اور حضرت حسن بصری ؒ کہتے ہیں کہ پلوں اور سٹرکوں کی تعمیر پر جو رقم خرچ کی جائے گی، وہ تو دیرپا رہنے والی زکوٰۃ اور صدقہ جاریہ ہے، مگرپہلی رائے زیادہ درست ہے ،اس لیے کہ (انما الصدقات للفقراء والمساکین) میں ’انما‘ حصر اور اثبات کے لیے ہے، اس سے مذکورہ مصارف کا اثبات اور ان کے علاوہ دیگر کی نفی ہوتی ہے‘‘۔ ابن قدامہ کی عبارت سے یہ ثابت ہوتاہے کہ حضرت انسؓ اور حسن بصریؒ رفاہ عامہ کے کاموں (مساجد او ر سٹرکوں اور پلوں کی تعمیر وغیرہ) پر زکوٰۃکی رقم کے استعمال کو جائز سمجھتے ہیں۔ ابن قدامہ نے اس کا جو رد کیاہے وہ وقیع نہیں ،اس لیے کہ رفاہ عامہ کے ان کاموں کا مصارف زکوٰۃ میں شامل ہونا ’وفی سبیل اللہ‘ کے الفاظ کے عموم کی وجہ سے خود اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتاہے۔ اسی لیے کتاب ’’الروض النضیر‘‘ کی شرح کے مولف نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے۔وہ کہتے ہیں جن فقہا نے میت کی تکفین وتدفین اور مسجد کی تعمیر (جیسے رفاہ عامہ کے کاموں) پر زکوٰۃ کے مال میں سے خرچ کرنے کی اجازت دی ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ چیزیں سبیل اللہ کی صنف میں شامل ہیں، اس لیے کہ سبیل اللہ کا مفہوم ہر نیک کا م کو شامل ہے ،اگر چہ آغاز اسلام میں بکثرت پیش آنے کی وجہ سے وہ اپنے وسیع تر مدلولات کے فقط ایک ہی فرد یعنی جہاد وقتال کے لیے زیادہ بولا جانے لگا تھا ، جیسا کہ اس طرح کی کئی مثالیں ہیں مگر اس معنی ومفہوم نے حقیقت عرفی کی حیثیت اختیار نہیں کرلی، چنانچہ اس لفظ کا اپنا اصل مفہوم باقی ہے اوراس میں ان تمام اقسام کی نیکی کے کام شامل ہیں جس کا مصلحت عامہ یا خاصہ تقاضا کرتی ہو، الا یہ کہ کوئی مخصوص دلیل اس میں استثناء کردے۔‘‘
حاصل کلام یہ کہ ہمیں جو رائے زیادہ راجح نظر آتی ہے، وہ وہ رائے ہے جو بعض فقہا نے دی ہے کہ زکوٰۃ کی رقم مسجد کی تعمیر اور اس طرح کے دیگر نیکی اوررفاہ عامہ کے کاموں پر خرچ کی جاسکتی ہے اور ایسا کرنے سے زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے او راسے پورا ثواب ملتاہے۔ (فتاویٰ الذکوۃ، بیت الذکوۃ کویت ۱۹۸۸۔ع ،ص ۱۵۰ ۔۱۵۱ بحوالہ الفتاویٰ الاسلامیۃ ۔الازہر)

فتویٰ کمیٹی کویت کی رائے

سوال :زکوٰۃ کا ایک مصرف ’’فی سبیل اللہ‘‘ہے ، کیا اس کا مفہو م صر ف جہاد بمعنی قتال اور مجاہدین کو سازو سامان کی فراہمی تک محدود ہے یا اس میں ہر وہ چیز شامل ہے جس میں دین کا بھلا ہو؟
جواب: کمیٹی کی رائے ہے کہ ’’سبیل اللہ ‘‘سے مراد نیکی کی راہ ہے۔ بعض علماے متاخرین کی رائے میں نیکی کا ہر کام مصارف زکوٰۃ میں شامل ہے، مگر کتاب اللہ او رسنت رسول اللہ ﷺ کا جو شخص جائزہ لے گا، اسے یہ نظر آئے گا کہ یہ لفظ جہاد ہی کے حوالے سے استعمال ہوا ہے مگر جہاد جیسا کہ اسلحہ سے ہو سکتا ہے، معاشرہ کی ضرورت کے لحاظ سے دعوت الی اللہ کے ذریعے بھی ہوسکتاہے۔ فتویٰ کمیٹی نے اس حوالے سے پوچھے جانے والے تمام استفسارات کے بارے میں اسی رائے کو اختیار کیاہے، چنانچہ ہر وہ سرگرمی جو دعوت دین یا دفاع اسلام کے حوالے سے ہو، چاہے اسلحہ کے ذریعے سے ہو یاکسی اور ذریعے سے، وہ ’’فی سبیل اللہ ‘‘ اور مصارف زکوٰۃ میں شامل ہے۔ (فتاویٰ الزکوٰۃ حوالہ مذکورہ ،ص ۱۶۰ لجنۃ الفتویٰ وزارۃ الاوقاف والشوؤن الاسلامیۃ ،الکویت ،فتویٰ نمبر ۸؍ ۸۲)۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)

Prof. Mian Ina'am ur Rahman,
Assalam o alaikum wa Rahmatullah
I am wirting these lines to express my appreciation of your paper in al-Shariah, August 2006. Even though some of the concepts are not quite clear to me, e.g. Quran majeed ka wahdati rujhan (p.19), I broadly agree with your stand. You have a good point in the last para on page 19. It deserves further elaboration. What attracts me most is not the conceptual but the prescriptive implications of this paper, the operational implications.
I wish to have some feedback on what I have been writing in FIKR O NAZAR, Islamabad, under the general title of Maqasid al-Shariah. 3 papers appeared in June 2004, December 2005 and June 2006 respectively. Three more are in the pipeline.

With warm regards
Muhammad Nejatullah Siddiqi
mnsiddiqi@hotmail.com
(۲)
محترم جناب مدیر ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
’الشریعہ‘ ماشاء اللہ علمی بحث ومکالمہ کے لیے ایک بہترین فورم ہے جس میں اہل علم حضرات مختلف جدید وقدیم موضوعات پر بحث ومباحثہ میں حصہ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ گراں قدر علمی وفکری مقالات بھی پیش فرماتے ہیں۔ ان میں حضرت رئیس التحریر مدظلہ، پروفیسر میاں انعام الرحمن اور پروفیسر محمد اکرم ورک کی نگارشات قابل ذکر ہیں۔ لیکن بسا اوقات اس علمی فورم میں علمی وقار ومتانت سے بے خبر ایسے ’’اہل علم‘‘ شرکت کرتے نظر آتے ہیں جن کے انداز تحریر سے ایسا لگتا ہے کہ وہ مکالمہ اور مجادلہ میں فرق سے ناواقف ہیں۔ ہماری گزارش ہے کہ اس مکالمہ گاہ کو روایتی مناظرہ بازی اور جدال ونزاع سے محفوظ رکھا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ادارہ پر اعتماد میں اضافہ کے لیے ضروری ہے کہ صاحب مضمون کی تحریر من وعن شائع کی جائے، البتہ زبان وبیان کے حوالے سے نوک پلک کی درستی میں ادارہ حق بجانب ہے، تاہم خیال رہے کہ دونوں فریقوں کی زبان کو شایستہ بنایا جائے۔
گزشتہ شماروں میں بعض حضرات نے مجھے ’’مولوی، حضرت مولانا ‘‘اور ’’مدرس دار العلوم کراچی‘‘ کے القاب سے یاد کیا ہے۔ واضح رہے کہ میں جامعہ میں پڑھنے والا ایک طالب علم ہوں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ’الشریعہ‘ کو مادی وروحانی وسائل کی فراوانی کے ساتھ مزید دینی وعلمی خدمات کی توفیق سے نوازے۔ آمین
محمود خارانی
جامعہ دار العلوم کراچی ۱۴
(۳)
بخدمت جناب محترم مدیر الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ کے بعد عرض ہے کہ آپ کا ماہنامہ ہمارے مدرسے میں آ رہا ہے جس کوپڑھنے کا خادم مدرسہ کو بھی موقع ملا، مگر آپ حضرات کے بارے میں اس لیے فکر ہے کہ آپ کے ماہنامے میں کوئی اور تبلیغ سے اختلاف کرے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ دوسرے لوگوں نے اظہار خیال کیا ہے، مگر اگست کے شمارے میں مولانا محمد یوسف صاحب نے ’الشریعہ‘ کے سرپرست کے حوالے سے جو مضمون لکھا ہے، اسے پڑھ کر بڑی ہی حیرت ہوئی۔ اور آخر میں حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کے اظہار خیال نے تو کمال ہی کر دیا۔ تبلیغی جماعت کے ساتھ مصروف عوام الناس آپ کی ایسی باتوں سے فکرمند تو ہوتے ہوں گے۔ جن لوگوں نے اس کو پڑھ کر تبلیغ سے دوری اختیار کی ہوگی، ان لوگوں کی دنیا وآخرت کا معاملہ آپ ہی کی وجہ سے خراب ہوگا۔ اس کی قیامت میں اللہ پاک کے ہاں آپ کی پیشی ہو سکتی ہے۔ آپ حضرات احساس ذمہ داری کے ساتھ تبلیغ اسلام میں وقت لگا لیتے تو کبھی ایسی باتیں اپنے رسالے میں شائع نہ کرتے۔ ہماری تو سب حضرات کے لیے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دین کی محنت کو سیکھنے کے لیے ہم سب کی جان، مال اور وقت کو قبول فرمائیں۔ الحمد للہ ۳ ستمبر سے رائے ونڈ مرکز میں علماے کرام کا جوڑ ہو رہا ہے، آپ بھی اس میں شامل ہو کر شفقت فرماویں۔ 
آپ نے بڑی بڑی کتابیں پڑھی ہیں، مگر ’’فضائل اعمال‘‘ کو پڑھ کر تنہائی میں بیٹھ کر غور وفکر تو کریں۔ اب تو ’’فضائل اعمال‘‘ کا بے شمار زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ آپ حضرات دعوت وتبلیغ کے کام میں معاون بننے کی بجائے اس کی مخالفت کے لیے اپنے رسالے کو استعمال کر رہے ہیں۔ کیا آپ کی یہی تبلیغ ہے؟ 
دعوت وتبلیغ کی برکت سے الحمد للہ بہت سے لوگوں کی زندگی میں اسلامی انقلاب آ رہا ہے جس کی وجہ سے اچھے خاندانوں کے لوگ اپنی اولاد کو مدرسوں میں داخل کر رہے ہیں جس کی وجہ سے آپ حضرات کے مدرسے آباد ہو رہے ہیں، ورنہ پہلے تو مدرسوں میں غریب لوگوں کے بچے یا جسمانی طور پر معذور بچے ہی داخل ہوتے تھے۔ آپ کبھی طالب علموں سے پوچھ کر دیکھیں۔ الحمد للہ تبلیغ والے ہی مدرسوں میں داخل کرانے کی ترغیب دیتے ہیں۔
آپ حضرات ہی بتائیں، جتنی نافرمانیاں سرعام ہو رہی ہیں، سڑکوں پر عورتوں کی تصویریں عام نظر آ رہی ہیں، عورتیں بے پردہ ہو کر بازاروں اور فیکٹریوں میں آ جا رہی ہیں، کیا ان لوگوں کو سمجھانے کے لیے مدرسے کی جماعت بنا کر تبلیغ کے لیے جانا آپ کی سمجھ میں نہیں آتا؟ اس وقت ۶؍ ارب انسان ہیں جس میں ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں۔ ان سب مسلمانوں کے ذمے، جن میں سب لوگ شامل ہیں، غیر مسلموں کو تبلیغ کر کے مسلمان بنانا فرض عین ہے۔ اگر ہماری تبلیغ کے بعد غیر مسلم، مسلمان نہیں ہوتے تو قیامت میں ان کا کوئی عذر قبول نہیں ہوگا، ورنہ ہم سب سے تبلیغ نہ کرنے کی بازپرس ہوگی۔ سب انبیاے کرام نے اپنے گھروں سے نکل کر ہی تبلیغ کی ہے، بلکہ اس تبلیغ میں تکلیفیں بھی آئی ہیں۔ 
یہ ساری باتیں اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے کے لیے آپ حضرات کی خدمت میں عرض کی ہیں۔ جب تک آپ حضرات تبلیغ میں وقت نہیں لگائیں گے، ایسے ہی مخالفت کرتے رہیں گے جو آپ کی دنیا وآخرت خراب ہو جانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس وقت کاغذ ختم ہونے کو ہے، ورنہ اور بھی باتیں ہوتیں۔ باقی باتیں قرآن وحدیث سے پڑھ کر فکر فرماویں۔ آپ حضرات کے لیے اللہ پاک سے ہم لوگ دعا بھی کرتے رہیں گے اور آپ کو بتاتے بھی رہیں گے۔
خادم مدرسہ مشتاق احمد
مدرسۃ الحسنین للبنات 122/B
گلستان کالونی فیصل آباد
(۴)
محترم جناب مدیر اعلیٰ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ مزاج شریف؟
الحمد للہ ماہنامہ ’الشریعہ‘ پاکستان کے دیگر دینی وعلمی رسائل وجرائد میں منفرد صفات وخصوصیات کاحامل جریدہ ہے جس میں متنوع قسم کے علمی وفکری مضامین ومقالات علمی ذوق کے حامل قارئین کی پیاس بجھاتے ہیں۔ خاص طور پر مولانا زاہد الراشدی صاحب کا ’’کلمہ حق‘‘ اور دیگر مقالات ومضامین تو حرز جاں بنانے کے قابل ہوتے ہیں۔ موجودہ زمانہ کے متجددین کی فکری غلطیوں کی نشان دہی کے لیے ’الشریعہ‘ کا کارنامہ لائق صد تحسین ہے، خاص طور پر غامدی صاحب محترم کے نظریات کا رد تو ’الشریعہ‘ کا جرات مندانہ اقدام ہے جس کے ذریعے سے میرے جیسے بہت سے قارئین کو غامدی صاحب کے نظریات وافکار سے آگاہی حاصل ہوئی۔
البتہ بعض اوقات ’الشریعہ‘ میں ایسے مضامین بھی شائع ہو جاتے ہیں جو ’’وحدت امت کے داعی‘‘ کے بجائے مزید فکری انتشار کا باعث بنتے ہیں اور بعض تو تضییع اوقات کا بھی سبب بنتے ہیں۔ ایسے مضامین اول تو شائع نہ کیے جائیں، اور اگر ایسا کرنا ضروری ہو تو ادارے کی طرف سے ایک نوٹ لکھا جائے تاکہ عام قارئین کو اصل حقیقت حال معلوم ہو جائے اور ادارہ کی رائے بھی۔
اللہ تعالیٰ مزید ترقیات سے نوازے۔ آمین
محمد اصغر غفرلہ
جامعہ اسلامیہ امدادیہ۔ فیصل آباد

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی سالانہ رپورٹ

ادارہ

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ ۱۹۸۹ء سے اسلام کی دعوت وتبلیغ، اسلام مخالف لابیوں کی نشان دہی اور ان کی سرگرمیوں کے تعاقب، اسلامی احکام وقوانین پر کیے جانے والے اعتراضات وشبہات کے ازالہ، دینی حلقوں میں باہمی رابطہ ومشاورت کے فروغ اور نوجوان نسل کی فکری وعلمی تربیت وراہ نمائی کے لیے مصروف کار ہے۔ سال رواں (شعبان المعظم ۱۴۲۶ھ تا رجب ۱۴۲۷ھ ۔ ستمبر ۲۰۰۵ء تا اگست ۲۰۰۶) میں اکادمی کی سرگرمیوں کی ایک مختصر رپورٹ حسب ذیل ہے:

اکادمی کے زیر اہتمام دینی مراکز

  • ۱۹۹۹ ء سے جی ٹی روڈ گوجرانوالہ پر کنگنی والا بائی پاس کے قریب سرتاج فین کے عقب میں ہاشمی کالونی میں ایک کنال زمین پر اکادمی کی تین منزلہ عمارت زیر تعمیر ہے جو اس وقت اکادمی کی بیشتر تعلیمی اور علمی وفکری سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ 
  • کینال ویو واپڈا ٹاؤن کے عقب میں کوروٹانہ کے مقام پر کھیالی کے مخیر دوست حاجی ثناء اللہ طیب نے الشریعہ اکادمی کے لیے ایک ایکڑ (آٹھ کنال) زمین وقف کی ہے جہاں چار دیواری کی بنیادی بھر دی گئی ہیں اور مدرسہ طیبہ تحفیظ القرآن کے لیے ایک بلاک کی تعمیر کا کام تیزی سے ہو رہا ہے۔ رمضان المبارک کے بعد وہاں پرائمری پاس طلبہ کے لیے حفظ قرآن کریم مع مڈل کی چار سالہ کلاس شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
  • کھوکھرکی گوجرانوالہ کے مخیر بزرگ حاجی مہر عبد العزیز صاحب نے جہانگیر کالونی میں ایک کنال رقبہ پر دو منزلہ جامع مسجد ابو ذر غفاریؓ تعمیر کر کے اس کا انتظام الشریعہ اکادمی کے سپرد کر دیا ہے اور اب اس کا انتظام اکادمی چلا رہی ہے۔ مولانا مجاہد اختر (فاضل درس نظامی) کو مسجد ابوذرؓ کا خطیب اور امام مقرر کیا گیا ہے۔ وہ خطابت وامامت کے ساتھ محلہ کے بچوں اور بچیوں کو قرآن کریم کی تعلیم دے رہے ہیں اور علاقہ کے نوجوانوں کے لیے فہم دین کورس بھی جاری ہے۔

تعلیمی سرگرمیاں

  • فضلاے درس نظامی کے لیے ایک سالہ خصوصی تربیتی کورس میں اس سال درج ذیل آٹھ علماے کرام شریک ہوئے:
    ۱۔ مولانا مطیع اللہ فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ، ۲۔ مولانا عبد القادر فاضل دار العلوم کراچی، ۳۔ مولانا عبید اللہ فاضل دار العلوم کراچی، ۴۔ مولانا مسعود فاضل دار العلوم کراچی، ۵۔مولانا محمد ارشد فاضل جامعہ اشرفیہ لاہور، ۶۔ مولانا عمر فاروق فاضل جامعہ خالد بن ولید وہاڑی، ۷۔ مولانا محمد احمد فاضل جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی، ۸۔ مولانا محمد سلیمان فاضل جامعہ امدادیہ فیصل آباد۔
  • مذکورہ طلبہ نے ایک سالہ کورس میں شامل مضامین : حجۃ اللہ البالغہ کے منتخب ابواب ، انسانی حقوق کا بین الاقوامی چارٹر، تاریخ اسلام ، تقابل ادیان ومذاہب ، سیاسیات، معاشیات اور نفسیات کا تعارفی مطالعہ، حالات حاضرہ ، انگریزی وعربی بول چال اور کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ مطالعہ اور تحقیق وتصنیف کی تربیت حاصل کی اور مختلف عنوانات پر تحقیقی مقالات بھی تحریر کیے۔
  • علاقہ کے عوام کے لیے تین ماہ کے دورانیے پر مشتمل ’’فہم دین کورس‘‘ تین بار مکمل ہوا جس میں مجموعی طور پر ۱۱۲ ؍افراد نے شرکت کی۔
  • عربی گریمر کے ساتھ ترجمہ قرآن کریم کی کلاس مسلسل جاری ہے جس میں ۱۵؍ افراد شریک ہیں اور سورۃ المائدہ تک ترجمہ قرآن کی تعلیم مکمل ہو چکی ہے۔
  • طالبات کے لیے عربی گریمر کے ساتھ ترجمہ قرآن کریم اور دیگر ضروریات دین پر مشتمل کورس جاری ہے جس میں اس سال ۱۳ طالبات شریک ہیں، جبکہ اس کے علاوہ تین ماہ کے ’’فہم دین کورس‘‘ میں چالیس خواتین نے شرکت کی۔
  • اکادمی کے ناظم مولانا حافظ محمد یوسف نے اسکولوں اور کالجوں کی سالانہ تعطیلات میں ڈھائی ماہ کے دورانیے میں ۶؍ افراد پر مشتمل کلاس کو درس نظامی کے درجہ اولیٰ کا نصاب پڑھایا۔

دعوت وابلاغ

  • علمی وفکری جریدہ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ پابندی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے جس میں ملت اسلامیہ کو درپیش مسائل ومشکلات اور جدید علمی وفکری چیلنجز کے حوالہ سے ممتاز اصحاب قلم کی نگارشات شائع ہوتی ہیں۔
  • اردو زبان میں اسلامی ویب سائٹ www.alsharia.org  کام کر رہی ہے جس پر ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے علاوہ مختلف اہم عنوانات پر منتخب مقالات ومضامین ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • حالات حاضرہ کے حوالے سے اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کے معلوماتی اور فکر انگیز ہفتہ وار کالم روزنامہ اسلام کراچی میں ’’نوائے حق‘‘ اور روزنامہ پاکستان لاہور میں ’’نوائے قلم‘‘ کے عنوان سے شائع ہوتے ہیں۔ 

علمی وفکری نشستیں

  • اس سال عالم اسلام کی موجودہ صورت حال، اسلامائزیشن اور دیگر علمی وفکری مسائل پر مولانا زاہد الراشدی کے ہفتہ وار خصوصی لیکچرز کا اہتمام کیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت مولانا راشدی نے مختلف موضوعات پر بائیس لیکچر دیے جنھیں کیسٹ میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔ 
  • ۳ ؍جنوری ۲۰۰۶ء کو ورلڈاسلامک فورم کے چیئرمین مولانا عیسیٰ منصوری اور ابراہیم کمیونٹی کالج لندن کے پرنسپل مولانا مشفق الدین اپنے ر فقا مولانا شمس الضحٰی اور مولانا بلال عبد اللہ کے ہمراہ الشریعہ اکادمی میں تشریف لائے۔ اس موقع پر ایک خصوصی فکری نشست کااہتمام کیا گیا جس سکول وکالج، دینی مدارس کے اساتذہ اور دیگر اہل علم نے شرکت کی۔ مہمان خصوصی مولانا عیسیٰ منصوری نے ’’زوال امت کے اسباب‘‘ جیسے فکر انگیز موضوع پر تفصیلی اظہار خیال کیا اور دینی و عصری علوم سے دوری نیز دعوت وتبلیغ کے فریضہ کو نظر انداز کرنے کو زوال امت کی بڑی وجہ قرار دیا۔ 
  • ۶؍ جنوری ۲۰۰۶ء کو الشریعہ اکادمی میں بھارت کے معروف دانش ور ڈاکٹر یوگندر سکند ایک نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں سرکردہ علماے کرام اور اساتذہ وطلبہ نے شرکت کی اور بھارت کی مجموعی صورت حال اور خاص طور پر مسلمانوں کے حالات کے حوالے سے ڈاکٹر یوگندر سکند کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔
  • پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی ۲۸؍ اپریل ۲۰۰۶ کو گوجرانوالہ تشریف لائے اور دیگر مصروفیات کے علاوہ کوروٹانہ میں الشریعہ اکادمی کے زیر تعمیر دینی تعلیمی مرکز میں ’’دار القرآن‘‘ کا سنگ بنیاد رکھا اور مغرب کی نماز کے بعد جہانگیر کالونی،کھوکھرکی گوجرانوالہ میں الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام جامع مسجد ابو ذر غفاریؓ میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں جلسہ سے خطاب کیا۔
  • حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نواسے اور جامعہ امام ولی اللہ مراد آباد (انڈیا) کے مہتمم مولانا مفتی محمد اسعد قاسم گزشتہ دنوں گوجرانوالہ تشریف لائے اور الشریعہ اکادمی میں فضلاے درس نظامی کی کلاس کو علوم قرآنی کے موضوع پر خصوصی لیکچر دینے کے علاوہ مولانا زاہد الراشدی، حافظ محمد عمار خان ناصر، پروفیسر میاں انعام الرحمن، مولانا حافظ محمد یوسف اور پروفیسر محمد اکرم ورک کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں مختلف دینی وتعلیمی امور پر تبادلہ خیالات کیا۔ 
  • ۷؍ مئی ۲۰۰۶ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام ایک خصوصی فکری نشست میں شعبہ علوم اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی کے سابق سربراہ ڈاکٹر حافظ محمود اختر نے ’’حفاظت قرآن اور مستشرقین‘‘کے موضوع پر اہل علم اور اساتذہ سے خطاب کیا اور تحریک استشراق اور اس کے اہداف ومقاصد کا مختصر تعارف کروانے کے علاوہ قرآن مجید کے حوالے سے مستشرقین کے ہاں پائے جانے والے مختلف زاویہ ہائے نگاہ اور اعتراضات پر گفتگو کی۔ 
  • ۱۱؍جولائی ۲۰۰۶ کو اکادمی کے زیر اہتمام ایک علمی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں ادارۂ علوم اسلامیہ پنجاب کے استاذ پروفیسر ڈاکٹر محمد سعد صدیقی نے ’’فقہاے اربعہ کے سنت سے استنباط مسائل کے اسالیب‘‘ کے عنوان پر علما اور طلبہ سے خطاب کیا۔ 
  • ۱۱؍ اگست ۲۰۰۶ بروز جمعۃ المبارک الشریعہ اکادمی میں خصوصی تربیتی کورس برائے فضلاے درس نظامی کی اختتامی تقریب کا انعقاد ہوا۔ اس موقع پر شہر کے علماء اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ تقریب میں مہمان خصوصی مولانا عبد الرؤف فاروقی کے علاوہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی، اکادمی کے ناظم مولانا محمد یوسف اور چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ نے بھی اظہار خیال کیا۔ اس موقع پر خصوصی تربیتی کورس کے فضلا کو سندیں اور انعامات بھی تقسیم کیے گئے۔

رفاہ عامہ

  • الشریعہ اکادمی کے زیر انتظام ہاشمی کالونی میں فری ڈسپنسری روزانہ عصر تا عشا کام کرتی ہے اور روزانہ اوسطاً ۶۰ تا ۸۰ مریض اس سے استفادہ کرتے ہیں۔
  • رمضان المبارک (نومبر ۲۰۰۵) کے دوران میں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ناظم مولانا حافظ محمد یوسف کی سربراہی میں اکادمی کے عملہ کا ایک گروپ جس میں الشریعہ فری ڈسپنسری کے انچارج ڈاکٹر محمود احمد بھی شامل تھے، زلزلہ زدگان کے لیے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے بالاکوٹ گیا اور زلزلہ سے متاثر ہونے والے افراد اور خاندانوں کو میڈیکل ایڈ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ الشریعہ اکادمی کی طرف سے کچھ امدادی رقوم تقسیم کیں۔ 

جہاد کے بارے میں پوپ بینی ڈکٹ کے ریمارکس

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

کیتھولک مسیحیوں کے عالمی راہ نما پوپ بینی ڈکٹ شانزدہم نے ۱۲؍ ستمبر کو جرمنی کے دورہ کے موقع پر یونیورسٹی آف ریجنز برگ میں کم وبیش ڈیڑھ ہزار طلبہ کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بار ے میں جو ریمارکس دیے، ان پر دنیاے اسلام میں ایک بار پھر احتجاج واضطراب کی لہر اٹھی ہے اور ان ریمارکس کو توہین آمیز قرار دے کر پاپاے روم سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان گستاخانہ ریمارکس پر معافی مانگیں۔ پاپاے روم کے ا س خطاب کا بنیادی موضوع یہ تھا کہ مغرب نے مختلف سائنسی اور سماجی علوم کو بنیاد بنا کر خدا کی راہ نمائی اور مذہب کو ایک طرف کر رکھا ہے جو درست نہیں ہے، کیونکہ مغرب جب خدا کو ایک طرف کر کے ثقافتوں کے مابین مکالمے کی بات کرتا ہے تو دنیا دوسری ثقافتوں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے عقیدہ وایمان کی نفی کی جا رہی ہے، اس لیے ایسی عقل جو خدا کی کی راہ نمائی سے بے بہرہ ہو اور جو مذہب کو محدود ثقافتی دائرے میں محصور کر دیتی ہو، وہ ثقافتوں کے مابین مکالمہ شروع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پوپ بینی ڈکٹ نے قرآن کے تصور جہاد کو بھی گفتگو کا موضوع بنایا اور چودھویں صدی کے ایک بازنطینی مسیحی حکمران عمانویل دوم پیلیو لوگس کے ایک مکالمہ کے حوالے سے ایسی باتیں کہہ دیں جو نہ صرف یہ کہ جہاد کے جذبہ وتصور کو غلط رنگ میں پیش کرنے کے مترادف ہیں۔ مذکورہ مکالمے میں مسیحی حکمران نے کہا تھا :
’’مجھے دکھاؤ کہ محمد نے نئی چیز کیا پیش کی ہے؟ تمھیں صرف ایسی چیزیں ملیں گی جو بری اور غیر انسانی ہیں، جیسا کہ محمد کا یہ حکم کہ جس مذہب کی انھوں نے تبلیغ کی ہے، اسے تلوار کے ذریعے سے پھیلایا جائے۔‘‘
ان ریمارکس پر عالم اسلام کے سخت احتجاج کے جواب میں پاپاے روم نے یہ وضاحت پیش کی ہے کہ ان کی تقریر کے جن الفاظ سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے، وہ ان کے اپنے نہیں ہیں اور نہ ان کے ذاتی خیالات کی عکاسی کرتے ہیں، بلکہ یہ عمانویل دوم کے الفاظ ہیں جنھیں ان کے لیکچر میں محض ایک اقتباس کے طور پر نقل کیا گیا ہے، تاہم پوپ کا خطاب اس تاویل کو قبول نہیں کرتا۔ ان کے خطاب کا متعلقہ حصہ درج ذیل ہے:
’’اس لیکچر میں، میں صرف ایک نکتے پر، جو کہ بذات خود مکالمہ کے حوالے سے بنیادی اہمیت نہیں رکھتا، بحث کرنا چاہوں گا جسے ایمان اور عقل کے مسئلے کے تناظر میں، میں دلچسپ خیال کرتا ہوں اور جو موضوع سے متعلق میرے خیالات کے لیے نکتہ آغاز کا کام دے سکتا ہے۔
پروفیسر خوری کے مدون کردہ ساتویں مکالمے میں، بادشاہ جہاد کے موضوع کو چھیڑتا ہے۔ بادشاہ کو یقیناًسورہ ۲:۲۵۶ کے بارے میں معلوم ہوگا جو کہتی ہے کہ ’’دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔‘‘ یہ ابتدائی دور کی سورتوں میں سے ہے جب محمد ابھی طاقت سے محروم اور خطرے کی زد میں تھے۔ تاہم فطری طور پر بادشاہ کو وہ احکام بھی معلوم ہوں گے جو مقدس جنگ سے متعلق بعد کے حالات میں دیے گئے اور جو قرآن میں درج ہیں۔ اہل کتاب اور مشرکین کے بارے میں تجویز کیے گئے طرز عمل کے مابین امتیاز جیسی تفصیلات میں الجھے بغیر، وہ ذرا بے لحاظی سے مذہب اور تشدد کے مابین عمومی تعلق کا مرکزی سوال اپنے شریک مکالمہ کے سامنے ان الفاظ میں رکھ دیتا ہے: ’’مجھے دکھاؤ کہ محمد نے آخر نئی چیز کیا پیش کی؟ تمھیں بس ایسی چیزیں ملیں گی جو بری اور غیر انسانی ہیں، جیسا کہ اس کا یہ حکم کہ جس مذہب کی اس نے تبلیغ کی ہے، اسے تلوار کے ذریعے سے پھیلایا جائے۔‘‘
بادشاہ تفصیل کے ساتھ بدلائل اس بات کی وضاحت کو جاری رکھتا ہے کہ تشدد کے ذریعے سے ایمان کو پھیلانا کیوں ایک غیر معقول بات ہے۔ تشدد خدا کے مزاج اور روح کی فطرت سے لگا نہیں کھاتا۔ ’’خدا خون سے خوش نہیں ہوتا اور عقل کے مطابق عمل نہ کرنا خدا کی فطرت کے مخالف ہے۔ ایمان روح سے پیدا ہوتا ہے، نہ کہ جسم سے۔ جو شخص بھی کسی کو ایمان تک لے جانا چاہتا ہے، اسے کسی تشدد یا دھمکی کے بغیر، عمدہ طریقے سے بات کرنے اور درست طریقے سے استدلال کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے، .... کسی عقل پسند روح کو قائل کرنے کے لیے کسی کو مضبوط بازو یا کسی قسم کے ہتھیاروں یا کسی شخص کو موت کے خوف میں مبتلا کرنے کے کسی دوسرے ذریعے کی ضرورت نہیں۔‘‘
اس استدلال میں تشدد کے زور پر تبدیلی مذہب کے خلاف فیصلہ کن بیان یہ ہے کہ عقل کے مطابق عمل نہ کرنا خدا کی فطرت کے خلاف ہے۔ مکالمے کے تدوین کار تھیوڈور خوری نے اس پر تبصرہ کیا ہے کہ ’’بادشاہ کے لیے، جو ایک بازنطینی تھا جس کی ذہنی تربیت یونانی فلسفے کے تحت ہوئی تھی، یہ بیان کسی استدلال کا محتاج نہیں۔ لیکن مسلم تعلیمات کی رو سے خدا (عقل واستدلال سے) مکمل طور پر ماورا ہے۔ اس کا ارادہ ہماری categories میں سے کسی کا پابند نہیں، حتیٰ کہ عقلی طر ز عمل کا بھی نہیں۔ یہاں خوری نے معروف فرانسیسی ماہر اسلامیات R. Arnaldes  کی تحریر کا حوالہ دیا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ ابن حزم نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ خدا خود اپنے کہے ہوئے الفاظ کا بھی پابند نہیں، اور کوئی چیز اس کو پابند نہیں کرتی کہ وہ حق کو ہم پر واضح کرے۔ اگر خدا کی مرضی ہوتی تو ہمیں بت پرستی کو بھی اختیار کرنا پڑتا۔‘‘
اس اقتباس سے واضح ہے کہ پوپ بینی ڈکٹ نے عمانویل دوم کے مکالمہ کا صرف اقتباس پیش نہیں کیا بلکہ سیاق اور سباق میں اپنے تبصرے کے ساتھ اس کی تائید بھی کی ہے، اس لیے یہ بات طے شدہ ہے کہ پوپ بینی ڈکٹ کے بیان کی جو وضاحتیں پیش کی جا رہی ہیں اور جن توجیہات کے ذریعے ان کے خطاب کے اس حصے کو گول کر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ محض لیپا پوتی ہے اور اصل بات وہی ہے کہ پاپاے روم نے اسلام کے تصور جہاد کو اپنے خطاب کا ہدف بنایا ہے اور وہی بات مذہب کے نام پر کی ہے جو مغرب کے سیاست دان اور حکمران لا مذہبیت اور سیکولر ازم کے نام پر کر رہے ہیں۔
جہاں تک پاپاے روم یا عمانویل دوم کی اس بات کا تعلق ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کو تلوار کے ذریعے سے پھیلانے کا حکم دیا تھا تو یہ اسلامی تعلیمات اور تاریخی حقائق دونوں کے یکسر منافی ہے، اس لیے کہ قرآن کریم نے یا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں بھی کسی شخص کو زبردستی کلمہ پڑھانے کا حکم نہیں دیا۔ قرآن کریم نے تو صراحت کے ساتھ اس بات کا حکم دیا ہے کہ ’لا اکراہ فی الدین‘، دین کے قبول کرنے میں کوئی جبر نہیں۔ ’من شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر‘، جس کا جی چاہے، ایمان لائے اور جس کا جی چاہے، کفر اختیار کرے۔ ایمان یا کفر میں سے کوئی راستہ اختیار کرناخالصتاً کسی بھی شخص کا ذاتی اختیار ہے اور اس کے لیے جبر کی کوئی بھی صورت اختیار کرنے کو اسلام جائز نہیں سمجھتا، لیکن کسی فرد کا اسلام قبول کرنا یا نہ کرنا اور بات ہے، اور انسانی سوسائٹی میں اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کی بغاوت اور ظلم وجبر کے خلاف صف آرا ہونا اور عدل وانصاف کی آسمانی تعلیمات کے فروغ کے لیے جہاد کرنا اس سے بالکل مختلف امر ہے اور اسی کو جہاد کہتے ہیں۔ اسلام کے نزدیک جہاد کا یہی تصور ہے اور یہ جہاد بنی اسرائیل میں بھی موجود رہا ہے۔ قرآن کریم نے بیت المقدس کی فتح کے لیے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی جنگ اور جالوت کے مقابلے میں طالوت اور حضرت داؤد علیہ السلام کی جس جنگ کا ذکر کیا ہے، وہ جہاد ہی تھے اور بائبل نے بھی ان جنگوں کے واقعات قدرے مختلف انداز میں بیان کیے ہیں۔ یہ جنگیں شریعت موسوی کی بالادستی اور اس دور کے ظالموں، جابروں اور غاصبوں کو زیر کرنے کے لیے تھیں۔
الغرض کیتھولک مسیحیوں کے عالمی راہ نماز پوپ بینی ڈکٹ کے یہ ریمارکس خلاف حقیقت ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور چند ماہ قبل جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت سے پیدا ہونے والی صورت حال کے تسلسل کو باقی رکھنے کی ایک افسوس ناک کوشش بھی ہے جس کی پاپاے روم کے منصب پر فائز کسی شخصیت سے قطعاً توقع نہیں تھی۔ یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو مزید مشتعل کرنے کی بات ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ پاپاے روم بین المذاہب مکالمہ اور ثقافتوں کے مابین مکالمہ کی ضرورت پر زور دینے کے ساتھ ساتھ اس طرح کی اشتعال انگیزی کے ذریعے اس کے راستے میں رکاوٹیں بھی کھڑی کر رہے ہیں۔ کیا پوپ بینی ڈکٹ خود بھی اپنے اس غیر منطقی اور غیر معقول طرز عمل پر نظر ثانی اور اس کی اصلاح کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟

نومبر ۲۰۰۶ء

اقبالؒ کا تصور اجتہاد: چند ضروری گزارشاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
لاس اینجلز ٹائمز کے نمائندے سے ایک گفتگومولانا عتیق الرحمن سنبھلی
علامہ اقبال کے تصورات تاریخپروفیسر شیخ عبد الرشید
نطشے کا نظریہ تکرارِ ابدی اور اقبالڈاکٹر محمد آصف اعوان
اسلامی تہذیب کی تاریخی بنیادپروفیسر میاں انعام الرحمن
اقبال کا خطبہ اجتہاد: ایک تنقیدی جائزہالطاف احمد اعظمی
مکاتیبادارہ

اقبالؒ کا تصور اجتہاد: چند ضروری گزارشات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علامہ محمد اقبالؒ جنوبی ایشیا میں امت مسلمہ کے وہ عظیم فکری راہ نما تھے جنھوں نے اس خطے پر برطانوی استعمار کے تسلط اور مغربی فکر وثقافت کی یلغار کے دور میں علمی، فکری اور سیاسی شعبوں میں ملت اسلامیہ کی راہ نمائی کی اور ان کی ملی جدوجہد کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کی نئی نسل اور جدید تعلیم یافتہ طبقے کو مغرب کے فکر وفلسفہ اور تمدن وثقافت سے مرعوب ہونے اور اس کے سامنے فکری طور پر سپر انداز ہونے سے محفوظ رکھنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ انھوں نے تہذیب مغرب کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ بے لچک وفاداری، اپنے ماضی کے ساتھ وابستگی اور اپنی اسلامی شناخت کو باقی رکھنے کا سبق دیا اور پھر اس اسلامی شناخت کے جداگانہ وجود کے لیے ایک الگ مسلم ریاست کے قیام کی طرف جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی عملی راہ نمائی کی جس کے نتیجے میں ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے نام سے ایک مستقل ملک دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔
یہ اسلام کے اعجاز کا اظہار تھا کہ جب یورپ کو مذہب کے ساتھ ریاست کا تعلق ختم کیے ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا، صدیوں سے چلی آنے والی اسلامی خلافت کے مرکز ترکی نے ریاست اور مذہب کی علیحدگی کے اس تصور کو قبول کر کے سیکولر ہونے کا اعلان کر دیا تھا اور کم وبیش ساری دنیا میں مذہب کو ریاستی معاملات سے بے دخل کر نے کا عمل تیزی سے جاری تھا۔ اس طوفانی دور میں جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے اس آندھی کے مخالف سمت سفر کا آغاز کیا اور خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے صرف دو عشروں کے بعد اسلام کے نام پر اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ایک نیا ملک قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے جسے بلاشبہ علامہ محمد اقبالؒ کی فکری راہ نمائی کا کرشمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
علامہ محمد اقبال ایک عظیم فلسفی، مفکر، دانش ور اور شاعر تھے جنھوں نے اپنے دور کی معروضی صورت حال کے کم وبیش ہر پہلو پر نظر ڈالی اور مسلمانوں کو ان کے مستقبل کی صورت گری کے لیے اپنی سوچ اور فکر کے مطابق راہ نمائی مہیا کی۔ وہ پیغمبر اور معصوم نہیں تھے کہ ان کی ہر بات کو الہام اور وحی کے طور پر آنکھیں بند کر کے قبول کر لیا جائے اور نہ ہی اس دور کے معروضی حالات جامد وساکت تھے کہ ان کی بنیاد پر قائم کی جانے والی کسی رائے اور موقف کوحتمی قرار دے دیا جائے، البتہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنی دانست اور علمی بساط کی حد تک امت مسلمہ کو ملی معاملات میں بھرپور راہ نمائی مہیا کرنے کی کوشش کی اور بہت سے امور میں امت کے مختلف طبقات نے اس راہ نمائی سے عملی فائدہ اٹھایا۔
علامہ محمد اقبالؒ نے اجتماعی زندگی کے جن میدانوں کو اپنی فکری تگ وتاز کی جولان گاہ بنایا، ان میں ملت اسلامیہ کی تہذیبی، معاشرتی اور ثقافتی زندگی کا وہ فکری خلا بھی تھا جو مسلمانوں کے علمی وسیاسی زوال اور اس کے پہلو بہ پہلو مغرب کے سائنسی وصنعتی عروج اور دنیا پر اس کی سیاسی وعسکری بالادستی کے پس منظر میں بہت زیادہ نمایاں دکھائی دینے لگا تھا۔ مسلمانوں کے دور عروج میں جہاں وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات یعنی قرآن وسنت کے علوم کی تحقیقات وتشریحات اور انسانی معاشرت کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ ان کے انطباق کا علمی سفر مسلسل جاری تھا، وہاں سائنسی وعمرانی علوم میں ارتقا اور پیش رفت بھی گاڑی کے دوسرے پہیے کا کردار ادا کر رہی تھے لیکن بدقسمتی سے اندلس کے مغرب کے سامنے سپر انداز ہو جانے کے بعد قائم ہونے والی دو بڑی مسلم سلطنتوں خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت کو عمرانیا ت اور سائنس وٹیکنالوجی کے ساتھ وہ دل چسپی نہیں تھی جو معاصر اقوام کے ساتھ زندگی کے سفر میں برابری اور توازن قائم رکھنے کے لیے ضروری تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم ’’ون ویلنگ‘‘ کرتے ہوئے جتنی دیر چل سکے، چلتے رہے اور جب اس مسابقت کا دوسرا فریق بہت زیادہ آگے نکل گیا تو ہم آہستہ آہستہ لڑھکتے ہوئے غلامی کے کھڈے میں جا گرے۔
یہ بھی اسی المیہ کا ایک حصہ ہے کہ وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کے انسانی زندگی اور معاشرت کے ساتھ انطباق کے حوالے سے بھی ہم نے اس وقت تک ہو جانے والے علمی کام پر قناعت کر لی اور مزید پیش رفت کی رفتار اس قدر کم کر دی کہ اس کے مقابل دوسری طرف نظر آنے والی تیز رفتاری کے سامنے وہ بالکل جمود اور سکتہ کا منظر پیش کرنے لگی۔ علامہ محمد اقبالؒ نے اجتہاد کے بند ہونے کے حوالے سے اپنے خطبے میں جو کچھ کہا ہے، وہ اسی خلا کی نشان دہی ہے لیکن وہ خود مجتہد اور فقیہ نہیں تھے اور نہ ہی اجتہاد اور فقہ سے ان کا کبھی عملی واسطہ رہا ہے، اس لیے ایک مفکر اور فلسفی کے طور پر خلا کی نشان دہی اور اسے پر کرنے کی ضرورت کا احساس دلانے کی حد تک ان کی بات بالکل درست ہے، مگر اس کے عملی پہلووں، ترجیحات اور دائرۂ کار کا تعین چونکہ ان کے شعبہ کا کام نہیں تھا، اس لیے اس باب میں ان کے ارشادات پر گفتگو کی خاصی گنجایش موجود ہے اور یہ گفتگو اس موضوع کا تقاضا بھی ہے۔
بعض روایات کے مطابق علامہ محمد اقبالؒ نے اس حوالے سے علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ ، علامہ سید سلیمان ندویؒ ، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اور دیگر اہل علم سے جو توقعات وابستہ کر لی تھیں اور ا س سلسلے میں بعض رابطوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے، میرے خیال میں اس کا پس منظر یہی تھا اور اس ضمن میں ایک روایت مجھ تک پہنچی ہے جس کا اس مرحلہ پر ذکر کرنا چاہتا ہوں۔
گوجرانوالہ کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ صاحب ۱۹۴۴ سے ۱۹۸۲ تک خطیب رہے اور اس کے بعد سے یہ ذمہ داری میرے سپرد ہے۔ وہ حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کے شاگرد تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کا دار العلوم دیوبند کی انتظامیہ سے اختلاف ہوا اور شاہ صاحبؒ نے دار العلوم سے الگ ہو جانے کا فیصلہ کیا تو علامہ محمد اقبال نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ شاہ صاحب لاہور آ جائیں کیونکہ فقہ اسلامی کی تجدید کا جو کام ان کے ذہن میں ہے، وہ ان کے خیال میں علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ اور وہ یعنی علامہ اقبالؒ مل کر کر سکتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کے کہنے پر لاہور ریلوے اسٹیشن کے سامنے اس مقصد کے لیے مسجد اور اس کے ساتھ ایک علمی مرکز تعمیر کرایا گیا جو لاہور کے ایک تاجر خواجہ محمد بخش مرحوم نے، جو آسٹریلیا میں تجارت کرتے تھے، علامہ اقبال کے کہنے پر تعمیر کیے۔ اسی حوالے یہ آسٹریلیا مسجد اور اس کے ساتھ ’’آسٹریلیا وقف بلڈنگ‘‘ کہلاتا ہے ، مگر علامہ انور شاہ کاشمیری اس کے لیے تیار نہ ہوئے او رمولانا مفتی عبد الواحدؒ کے بقول اس کی وجہ یہ تھی کہ شاہ صاحبؒ کے لاہور میں ڈیرہ لگانے کی صورت میں دار العلوم دیوبند کو نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا جو وہ کسی حالت میں نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے لاہور آنے سے انکار کر دیا اور پھر ان کے کہنے پر انھی کے ایک شاگرد حضرت مولانا عبد الحنان ہزارویؒ کو آسٹریلیا مسجد کا خطیب مقرر کیا گیا۔ یہ حالات کے جبر کا ایک پہلو تھا کہ علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ لاہور آنے پر آمادہ نہ ہوئے، ورنہ اپنے وقت کی یہ دو عبقری شخصیات مل کر اس کام کے لیے بیٹھ جاتیں تو آج کی علمی اور فقہی دنیا کا منظر بالکل مختلف ہوتا۔
میرا یہ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ علامہ محمد اقبال فکری اور نظری طور پر اجتہاد کی ضرورت کا ضرور احساس دلا رہے تھے اور ان کی یہ بات وقت کا ناگزیر تقاضا تھی، لیکن اس کے عملی پہلوؤں کی تکمیل کے لیے ان کی نظر ان علماے کرام پر تھی جو قرآن وسنت کے علوم سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور اجتہاد کی اہلیت سے بہرہ ور تھے، چنانچہ اجتہاد کے بارے میں اپنے خطبہ میں پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق دینے کی بات کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ کسی جدید مسلم مجلس آئین کی قانون سازی کے بارے میں جس کی ترکیب کم از کم موجودہ حالات میں ایسے ہی اشخاص سے ہو سکتی ہے جنھیں زیادہ تر قانون اسلام کی باریکیوں کا علم نہیں ہے۔ ایسی مجلس آئین ساز قانون کی تشریح کرتے وقت بڑی سخت غلطیوں کی مرتکب ہو سکتی ہے۔ ہم کسی طرح ایسی تشریحی غلطیوں کے امکانات کی مکمل پیش بندی یا کم از کم انھیں گھٹانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ۱۹۰۶ء کے ایرانی دستور میں دنیاوی امور سے واقف علماے مذہب کی ایک علیحدہ کمیٹی بنا دی گئی ہے جسے مجلس کے عمل قانون سازی کی نگرانی اور دیکھ بھال کا اختیار ہوگا۔ میری رائے میں یہ خطرناک التزام شاید ایرانی نظریہ قانون کی رو سے ضروری سمجھ کر کیا گیا ہے۔ ا س نظریہ قانون کی رو سے بادشاہ ملک وسلطنت کا محض امین ہے جو درحقیقت امام غائب کی ملک ہے۔ علما، امام غائب کے نمائندوں کی حیثیت سے پوری زندگی کی نگرانی اور دیکھ بھال اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اگرچہ میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ امام غائب کے اس سلسلہ جانشینی کی غیر موجودگی میں وہ کس طرح نیابت امام کا حق ثابت کر سکتے ہیں، بہرحال ایران کا دستوری نظریہ چاہے کچھ ہی ہو، یہ التزام خطرے سے خالی نہیں۔ اگر حنفی ممالک میں اس تجربہ کو دہرایا بھی جائے تو وہ محض عارضی اور وقتی ہونا چاہیے۔ ۔ علما کو خود مجلس آئین ساز کا نہایت اہم اور مرکزی عنصر ہونا چاہیے تاکہ قانون سے متعلقہ مسائل پر آزادانہ مباحث کی معاونت وراہ نمائی کر سکیں۔ غلط تشریحات کو روکنے کا موثر علاج صرف یہی ہے کہ اسلامی ممالک میں قانون کے رائج الوقت نظام تعلیم کی اصلاح کی جائے، اس کا دائرہ وسیع کیا جائے اور اس کی تحصیل کے ساتھ جدید اصول قانون کا گہرا مطالعہ بھی شامل کر دیا جائے۔‘‘
خطبہ اجتہاد کے اس اقتباس کے دیگر بہت سے پہلوؤں سے قطع نظر یہاں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک عملی اجتہا دکا تعلق ہے اور قرآن وسنت کی جدید تعبیر وتشریح کا سوال ہے، وہاں علامہ اقبالؒ علماے کرام ہی کو اس کا بنیادی کردار سمجھتے ہیں اور اسلامی علوم سے بے بہرہ افراد پر مشتمل پارلیمنٹ سے قرآن وسنت کی تشریح میں بڑی سخت غلطیوں کے ارتکاب کے خطرہ سے وہ نہ صرف پوری طرح آگاہ ہیں بلکہ اس کے علاج کے طور پر علماء کرام کو مجلس آئین ساز کے ’’نہایت اہم اور مرکزی عنصر‘‘ کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
جہاں تک ’’اجتہاد مطلق‘‘ کا تعلق ہے کہ اجتہاد کے لیے اصول وضوابط ازسرنو وضع کیے جائیں، اس ضمن میں علامہ محمد اقبالؒ اپنے مذکورہ خطبہ میں فرماتے ہیں:
’’اس مقالے میں مجھے اجتہاد کے پہلے درجے یعنی اجتہاد مطلق کے متعلق کچھ کہنا ہے۔ اہل سنت اس درجہ اجتہاد کے نظری امکانات کے تو قائل ہیں لیکن جب سے مذاہب فقہ کی ابتدا ہوئی ہے، عملی طور پر اسے اس لیے نہیں مانتے کہ مکمل اجتہاد کے لیے جن قیود وشرائط کی حصار بندی کر دی گئی ہے، ان کا کسی ایک فرد واحد میں مجتمع ہونا قریب قریب ناممکن ہے۔‘‘
میرے خیال میں اگر اس مسئلے کا ایک اور پہلو سے جائزہ لے لیا جائے تو شاید اہل سنت کے موقف پر اس اعتراض کی ضرورت باقی نہ رہے۔ وہ یہ کہ ’’اجتہاد مطلق‘‘ کا دروازہ بند ہو جانے کا تعلق اہلیت وصلاحیت کے فقدان یا شرائط کے مجتمع نہ ہونے سے نہیں بلکہ ضرورت مکمل ہو جانے سے ہے، اس طور پر کہ جس طرح ہر علم اور فن میں بنیادی اصول وضوابط طے ہونے کا تاریخ میں ایک بار ہی موقع آتا ہے اور جب وہ ایک بار طے ہو جاتے ہیں تو پھر وہ علم ہمیشہ کے لیے انھی بنیادی ضوابط کے حصار کا پابند ہو جاتا ہے اور اس کے لیے بنیادی اصول بار بار وضع نہیں کیے جاتے۔ کسی بھی علم وفن کو دیکھ لیجیے، اس کے چند اساسی قوانین ایسے ہوتے ہیں جو متبدل نہیں ہوتے اور اس علم اور فن کا تمام تر ارتقا انھی اساسی قوانین کی روشنی میں ہوتا رہتا ہے۔ ان اساسی قوانین کی دوبارہ تشکیل کا دروازہ اس لیے بند نہیں ہوتا کہ کسی نے اسے بند کر دیا ہے یا اب کسی میں اس کی صلاحیت نہیں رہی، بلکہ اس دروازے کے بند ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔ اسی طرح قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح اور اجتہاد کے اصول وضع ہونے کا ایک دور تھا جب دو چار نہیں بلکہ بیسیوں فقہی مذاہب وجود میں آئے مگر ان میں سے پانچ چھ کو امت میں قبول حاصل ہوا اور باقی تاریخ کی نذر ہو گئے۔ اب کسی نئے فقہی مذہب کے اضافے کی گنجایش نہیں ہے، اس لیے نہیں کہ اس کا دروازہ کسی نے بند کر دیا ہے یا اس کی صلاحیت واہلیت ناپید ہو گئی ہے، بلکہ اس لیے کہ یہ کام ایک بار مکمل ہو جانے کے بعد اب اس کی ضرورت نہیں رہی اور ان مسلمہ فقہی مذاہب کے اصول وقوانین میں وہ تمام تر گنجایشیں اور وسعتیں موجود ہیں جن کی روشنی میں ہر دور کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
علامہ محمد اقبالؒ کے مذکورہ خطبہ کے حوالے سے ایک اور بات کو پیش رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس خطبے کا بیشتر حصہ ترکی کی فکری اور دستوری نشاۃ ثانیہ کے پس منظر میں ہے جس کے بارے میں علامہ اقبالؒ کا یہ خیال اس خطبے میں صاف طور پر جھلکتا ہے کہ شاید یہ اجتہاد کا عمل تھا جس کے ذریعے ترکی اسلام اور مسلمانوں کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہتا تھا، لیکن وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ علامہ محمد اقبالؒ کا یہ خیال اور تاثر درست نہ تھا، اس لیے کہ جدید ترکی کا یہ عمل اسلام میں اجتہاد کا نہیں بلکہ اس سے انقطاع اور یورپ کی طرح مذہب کو ریاستی معاملات سے کلیتاً بے دخل کر دینے کا تھا جس کا رد عمل خود ترکی میں سامنے آ چکا ہے اور جس کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ یورپی یونین کی جس رکنیت کے لیے ترکی نے یہ ساری قربانیاں دی تھیں، پون صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ اس کے لیے ابھی تک ایک موہوم خواب ہی کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس مرحلے میں اس تاریخی حقیقت کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب علماے کرام کو نئی ریاست کی دستوری حیثیت کا تعین کرنے کے لیے فیصلہ کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے ماضی کی روایات سے بے لچک طو رپر بندھے رہنے کے بجائے وقت کے تقاضوں اور علامہ اقبالؒ کی فکر کا ساتھ دیا جس کی واضح مثال قرارداد مقاصد اور تمام مکاتب فکر کے ۲۲ سرکردہ علماے کرام کے ۳۱ متفقہ دستوری نکات میں خلافت عثمانیہ کے خاندانی اور موروثی نظام کی بحالی پر زور دینے کے بجائے عوام کی رائے اور مرضی کو حکومت کی تشکیل کی بنیاد تسلیم کرنے کی صورت میں موجود ہے۔ اسی طرح عقیدۂ ختم نبوت کے منکر قادیانیوں کو مرتد کا درجہ دے کر فقہی احکام کے مطابق گردن زدنی قرار دینے کے بجائے علامہ اقبالؒ کی تجویز کی روشنی میں غیر مسلم اقلیت کی حیثیت دے کر ان کے جان ومال کے تحفظ کے حق کو تسلیم کرنا بھی ملک کے علما کا ایک ایسا اجتہادی فیصلہ ہے جس کے پیچھے علامہ محمد اقبالؒ کی فکر کارفرما دکھائی دیتی ہے، جبکہ ۷۳ء کے دستور میں پارلیمنٹ کو قرآن وسنت کے اصولوں کی پابندی کی شرط پر قانون سازی کی حتمی اتھارٹی تسلیم کیے جانے کو بھی اسی تسلسل کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
آخر میں علامہ اقبالؒ کے خطبہ اجتہاد کے حوالے سے ایک بات اور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس میں یہ سبق دیا گیا ہے کہ ماضی کے اجتہادات کو حتمی نہ سمجھا جائے اور ان کے بارے میں نظر ثانی کا دروازہ کھلا رکھا جائے۔ اگرچہ اس بارے میں ہم تحفظات رکھتے ہیں، کیونکہ اس بحث کی خاصی گنجایش موجود ہے کہ ماضی کے کون سے اجتہادات میں نظر ثانی کی ضرورت ہے اور کون سے اجتہادات میں یہ ضرورت موجود نہیں ہے، مگر ایک بات کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس ’’خطبہ اجتہاد‘‘ پر بھی تو پون صدی گزر چکی ہے۔ اس پون صدی میں دنیا کے ماحول اور عالم اسلام کے حالات میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں، ان پلوں کے نیچے سے بہت سے مزید پانی بہہ چکا ہے اور یقیناًآج کے معروضی حالات اور ضروریات کا نقشہ وہ نہیں ہے جو پون صدی پہلے کا تھا۔ اس لیے کیا ضروری ہے کہ ہمارے ذہنوں کی سوئیاں ۱۹۳۰ء پر ہی رکی رہیں اور کیا ہم ۲۰۰۶ کے عالمی تناظر اور بین الاقوامی ماحول میں اپنی ضروریات اور ترجیحات کا ازسرنو جائزہ نہیں لے سکتے؟

لاس اینجلز ٹائمز کے نمائندے سے ایک گفتگو

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

اس ماہِ اگست کی ۱۲ تاریخ تھی، ایک فون کسی انگریزی بولنے والے کا آیا۔ میں اپنی سماعت کی کمزوری سے، جو غیر زبان کے معاملے میں زیادہ ہی کمزور پڑجاتی ہے ( خاص کر ٹیلیفون پر) اس سے زیادہ کچھ نہ سمجھ پایا کہ کوئی مجھ سے ’’جہادیوں‘‘ کے بارے میں رائے جاننا چاہتا ہے۔ جب پتہ نہ ہو کہ کون شخص ہے اور کیا تعلق اس کا اس تفتیش و تحقیق سے ہے، تو معذرت کے سوا اور کیا مناسب؟ پس اُدھر سے اصرار کے باوجود معذرت کرکے پیچھا چھڑایا۔ دوسرے دن مفتی برکت اللہ صاحب کا فون آیا کہ لاس اینجلز ٹائمز (امریکہ) کے نمائندہ کو میں نے آپ کا فون نمبر دیا تھا۔ وہ مجھ سے موجودہ حالات پر علماء و ائمّہ کے خیالات جاننے کے سلسلہ میں ملا تھا۔ میں نے اس سے گفتگو کے ضمن میں گذشتہ ماہ کی ابراہیم کمیونٹی کالج والی ۸؍ جولائی کی نشست کا اور اس میں آپ کے خطاب کا ذکر کیا جس کی رپوٹ جنگ میں بھی نکل چکی ہے۔ اس پراس نے خواہش ظاہر کی کہ آپ سے بھی ملے۔ آج اس نے مجھے فون کرکے بتایا کہ آپ اسے وقت دینے کو تیار نہیں ہوئے۔میرے خیال میں توبات کرنا اچھا ہے ۔
اب یہ معلوم ہوجانے پر کہ کون صاحب ہیں، مجھے کوئی عذر نہ رہا ۔مفتی صاحب کو اپنے عذر کا قصہ بتاکر کہا کہ ٹھیک ہے، وہ صاحب اب آنا چاہیں تو فلاں سے فلاں وقت کے درمیان آجائیں۔ اگلے ہی دن صبح ۸ بجے فون آگیا کہ وہ ساڑھے دس بجے آرہے ہیں۔ آئے تو بارہ بجے، جبکہ میرا دیا ہوا وقت ختم ہو چکا تھا، تاہم خوش آمدید کہا اور آدھے گھنٹے کی گنجایش ان کے لیے نکالی، وہ تو اگرچہ زیادہ ہی کے موڈ میں تھے۔ میں نے ۸ جولائی کی میٹنگ اور اپنے خطاب کی تصدیق کی۔ موصوف کی اصل جستجو ’’جہادیوں‘‘ کے بارے میں رائے، مجھے گذشتہ دن کے فون ہی سے معلوم ہو چکی تھی۔اس لیے خود ہی پیش قدمی کرکے کہا کہ ’’جہادی‘‘ کارروائیوں کے نام سے جو کچھ یہاں میڈیا میں آتا ہے،خاص کر برطانیہ کے حوالہ سے، وہ اگر سچ مچ واقعات ہیں،جبکہ ثابت اکثر غلط ہو رہے ہیں، تو بلاشبہ افسوسناک اور قابلِ مذمت۔ اور ہم یقیناً چاہیں گے ایسے واقعات کا سدِّ باب ہو اور جو کچھ ہمارے کرنے کا ہو گا، وہ ہم ضرور کرنا چاہیں گے۔ اور یہی جاننا کہ ہم کیا اس سلسلہ میں کر سکتے ہیں، ۸ جولائی کی ہماری میٹنگ کا اصل مقصد تھا۔ مگرصورتِ حال یہ ہے ،اور یہی اُس دن کی میٹنگ میں میں نے کہا تھا، کہ ہماری حکومت نے ہمارے کچھ کرسکنے کے لیے مشکل ہی سے گنجایش چھوڑی ہے۔ 
یہاں ایسے لوگوں کو اپنے خیالات پھیلانے کی کھلی چھوٹ دی گئی جو اپنے ملکوں سے صرف اس لیے بھاگے تھے کہ وہاں کے ماحول کے اعتبار سے ریڈیکل ازم پھیلا نے کے ملزم بن رہے تھے۔ ’’اسلامی خلافت‘‘ ان کا نعرہ تھا جس کی رو سے سارے عالم پر اسلامی قانون کا پرچم لہرائے اور کفر سرنگوں ہو۔ یہ قصہ تقریباً بیس سال پہلے شروع ہوا اور کسی نہ کسی شکل میں اب تک چلتا رہا ہے۔ اور ہماری مشہورِ عالم فنسبری پارک مسجد کا نام تو تم نے ضرور سن رکھا ہوگاجس کا ایک خود ساختہ امام تمھارے ملک میں ٹرائل کے لیے مطلوب ہے۔ اکتوبر ۱۰۰۲ء میں افغانستان پر تمھارے حملے کے بعد سے وہ برابر ’’جہادی‘‘ خطبات اس مسجد میں دیتا رہا۔ ایم آئی فائیو کے مخبر اطلاعات بھی پہنچاتے رہے مگر مسجد کی انتظامیہ تک سے نہیں کہا گیا کہ اس کو روکیں۔ پھر ایک وقت خود ہی کسی مصلحت سے اس مسجد کو لاک کیا تو اس شخص کو اس دن تک جس دن تمھارے یہاں سے مطالبہ پر اسے گرفتار کیا گیا، پولیس پروٹیکشن کے ساتھ چھوٹ دی جاتی رہی کہ مسجد کے سامنے کی سڑک بلاک کرکے وہاں خطبہ دے اور نماز پڑھائے۔ مسجد کے علاوہ برٹش میڈیا میں اس کواتنا کوریج دیا گیا کہ خواہ مخواہ ایک ہیروکی حیثیت حاصل کرے۔ Mr Frammolino! پلیز، بتاؤ ان حالات کے اس پس منظر میں کہ بالکل جھوٹے جواز بناکر عراق پر چڑھائی کی گئی ہو، ہزارہا بے گناہ، عورتوں بچوں تک کی تفریق کے بغیر، دن رات وہاں بمباری سے مارے جارہے ہوں ، آبادیاں قبرستانوں میں بدلی جا رہی ہو ں، پھر افغانستان کے ایسے ہی مظالم کی یاد الگ اس سے تازہ ہورہی ہو، اور فلسطین کے مظالم تو ایک معمول کا مسئلہ، بتاؤ کہ ایسے میں کچھ مسلم نوجوانوں کا غم و غصہ اگر اُس انتہا پسندی میں تبدیل ہو جس کی یہ مذکورہ بالا افراد تبلیغ کرتے رہے تھے تواس کا ذمہ دار کون ہے؟
ہم سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اپنے نوجوانوں کو قابو کرو لیکن ان نوجوانوں کو اشتعال دلانے والی اپنی روش کے سلسلہ میں بے نیازی اور بے پروائی کا یہ عالم کہ ساری دنیا کے مقابلہ میں تنہا برطانیہ اور امریکہ ہیں جو اسرائیل کو اپنے کمزور پڑوسی لبنان اور لبنانیوں پر قیامت توڑے جانے کے لیے یو این او میں تحفظ دینے پرذرا نہیں شرما رہے ۔ اس روش سے بازآنے کے بجائے جو کچھ کیا جا رہا ہے، وہ صرف یہ کہ اس کے ردِّ عمل کو قطعًا بے جواز اورخالص اسلامی انتہا پسندی اور دہشت گردی ٹھیرا کرایسے نئے نئے سخت قانون وجود میں لا ئے جارہے ہیں جن پر عملدرآمد اس اشتعال کے حلقہ کو وسیع تر کیے دے رہا ہے۔ پوری مسلم آبادی ان قوانین کی زد میں آ پڑی اور احساسِ تحفّظ سے محروم ہوئی جارہی ہے۔اس Draconian قانون سازی کے لیے کہا جاتا ہے کہ’’ رولز آف دی گیم چینج‘‘ ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ وہ استدلال ہے جو اپنے نوجوانوں کے اشتعال کو حدود میں رکھنے کی ہماری کوششوں کو اور بھی بے اثر کردے۔ ’’گیم‘‘ کے قواعد وضوابط کو تبدیل کرنا کسی کااجارہ دارانہ حق تو نہیں ہو سکتا ہے۔ قابو سے باہر جانے کو بجا سمجھنے والے نوجوان بھی پلٹ کر ہم سے یہی کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات اور جمہوری نظام کے حدود و قیود کے حوالہ سے آپ جو کچھ کہتے ہیں، سب بجا ۔مگر کچھ حالات ایسے بھی ہوجاتے ہیں کہ’’ رولز آف دی گیم ‘‘چینج کردینا پڑیں! اور سچ یہ ہے کہ جب تک یہ رولز آف دی گیم چینج ہونے کی بات اپنے پرائم منسٹر کی زبان سے نہیں سنی تھی، تب تک یہ سمجھنے میں دقت ہو رہی تھی کہ مسلمانوں کا کوئی طبقہ سیوسائڈ بومبنگ جیسے وہ اقدامات کیسے روا رکھ رہا ہے جس میں بے گناہ بھی نشانہ بنتے یا بن سکتے ہیں۔ پرائم منسٹر بلیر کے اس اعلان نے یہ دقّت حل کردی ۔ اندازہ ہوا کہ ہو نہ ہو، یہ بالکل اسی طرح رولز آف دی گیم میں چینج جائزسمجھنے کا نتیجہ ہے جس طرح مسٹر بلیر نے اسے جائز سمجھا ہے۔ مسٹر بلیر نے جب اسے جائز سمجھ لیا تو اس پر عملدرآمد کا راستہ روکنے کو شہری آزادی کی پہریدار انجمنیں جو زور لگا سکتی تھیں، لگاکے رہ گئیں۔ برطانوی عدلیہ جو کچھ مزاحمت کر سکتی تھی، کرکے ناکام ہوگئی۔ ہاؤس آف لارڈز کے پاس جتنی پاور اس کی راہ میں حائل ہونے کی تھی، سب آزما کے ہار گیا۔ پرائم منسٹر کسی کے روکے نہ رکے۔ہم اماموں اور علماء کے پاس وہ کون سااختیا ر واقتدار ہے کہ ہمارے روکے یہ دوسری طرف کی ’’رولز چینجڈ‘‘ کی سوچ رُک کے رہ جائے ،جبکہ پرائم منسٹر اپنی روش میں تبدیلی کی سوچ کو تیار نہ ہوں؟ ہم برطانیہ کے اندر رہنے والے کسی شخص کے لیے روا نہیں رکھتے کہ حکومت کی کسی پالیسی پر احتجاج میں تشدّد کی حد تک چلا جائے۔ جو ایسا کرے گا، جرم کرے گا، مگر جب اس کے اسباب کے تجزیہ کا سوال آئے گا تو حکومت کی پالیسی کو زیرِ بحث نہ لایا جانابے انصافی ہوگی! 

یہ باتیں جس دن مسٹر فرامولینو سے کی جا رہی تھیں، اس سے دو دن قبل برطانیہ کے مسلم نمائندگان، بشمول مسلم پارلیمینٹیرینز، کا کھلا خط بنام پرائم منسٹر اسی مسئلہ پر شائع ہوا تھا اور دوسرے دن اس پر پرائم منسٹر کے کابینی ساتھیوں کا نہایت تلخ ردِّعمل آگیا تھا۔ یہ خط اس لحاظ سے بہت اہم تھا کہ پرائم منسٹر کے اس مسلسل اصرار کے باوجود کہ اس معاملہ میں ان کی خارجہ پالیسی کی طرف بھی انگلی اُٹھانا تشدد اور دہشت گردی کو جواز دینا ہے، ملک کے سات مسلم پارلیمینٹیرینز میں سے پورے چھ نے مسلم رائے عامہ سے ہم آواز ہو کر اس اصرار کو بالکل صاف طور سے، اگرچہ دانشمندانہ ڈھنگ سے، مسترد کردیاتھا۔ خط پرحکومت کا رد عمل اور جو کچھ نت نئے ’’حفاظتی‘‘ قوانین پر عملدرآمد کی صورت میں مسلسل ہورہا ہے، وہ اگر ایک طرف اس ملک میں مسلم کمیونٹی کے مستقبل پر چھاتے ہوئے خطرات کا بھر پور اظہار کرتا ہے، جس پر نہایت سنجیدہ ہو نے کی ضرورت ہے، تو دوسری طرف یہاں کے مسلم پارلیمینٹیرینز کی مسلم رائے عامہ کے ساتھ ہم آہنگی ایک بڑی نیک فال ہے۔ ان حضرات نے یہ قدم یقینًا بہت دورتک سوچ کر اُٹھایا ہوگا۔ اللہ اس راستہ کی تمام ضرورتوں کے ساتھ ان کی مددفرمائے اور ملّی اکائیوں کے نمائندہ حضرات نے ان کی تائید میں اپنے دستخطوں سے جس یکجہتی اور یک زبانی کا اظہار کیا ہے، اس یکجہتی کو استقامت نصیب ہو۔ آمین 

علامہ اقبال کے تصورات تاریخ

پروفیسر شیخ عبد الرشید

عصر حاضر کے عالم اسلام میں حکیم الامت علامہ اقبال اپنی بصیرت حکیمانہ، تبحر علمی، وسعتِ فکر، لطافت خیال اور فلسفیانہ ژرف نگاہی کی بنا پر ایک منفرد مقام اور مسند امتیاز وافتخار کے حامل ہیں۔ ملت اسلامی کی فکری وادبی تاریخ میں کوئی ایسا شاعر اور مفکر دکھائی نہیں دیتا جس کی فکر اقبال کی طرح جامع اور ہمہ گیر ہو۔ اپنے ہمہ جہت افکار کی وجہ سے ان کے بارے میں اتنا کچھ کہا اور لکھا گیاہے کہ وہ ایک پورے کتب خانے کا سرمایہ ہوسکتاہے۔ ان کا فلسفہ اور شاعری لاتعدار ارباب قلم کا موضوع نگارش بنا، لیکن تاحال ان کے تصور تاریخ پر کوئی جامع کام سامنے نہیں آیا۔ علامہ اقبال کا کلام انسانی تاریخ کا آئینہ دار ہے اور ان کی تالیفات بڑی حد تک انسان کے فکر وعمل کا درست تجزیہ ہیں۔ ’’فکر انسانی کی تشکیل نو‘‘ میں پروفیسر محمد عثمان رقمطراز ہیں کہ:
’’علامہ اقبال کی زندگی کے آخری سالوں میں جہاں علمی دنیا پر پروفیسر وائٹ ہیڈ اور آئن سٹائن کی تحریروں کے باعث زمان ومکان کی حقیقت وماہیت میں غیر معمولی دلچسپی لے رہی تھی وہاں کارل مارکس اور بعض نامور پورپی تاریخ دانوں کی بدولت نظریہ تاریخ کا موضوع بھی خاص اہمیت کرگیا تھا ۔۔۔چنانچہ علامہ کے تاریخ کے اسلامی تصور پر بھی گراں قدر خیالات کا اظہار کیا‘‘(۱)
اس مضمون میں ہم علامہ اقبال کے تصور تاریخ کو اختصار سے بیان کرنے کی ناچیز سعی کریں گے۔
سادہ الفاظ میں انسانی معاشرے میں پیش آنے والے واقعات اور حوادث ،اور انسان کے اعمال وافعال کے سلسلے کو انسانی تاریخ کہتے ہیں اور جب ہم لفظ تاریخ مجر د استعمال کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد انسانی تاریخ ہوتی ہے۔ تاریخ کا لغوی معنی تحریرکرنا، قلم بند کرنا، رجسٹر میں اندراج کرنا وغیرہ ہے، او ر اصطلاحی معنوں میں یہ عہد گزشتہ کی داستان ہے جس کا تعلق انسان سے ہے۔ آرنلڈ ٹائن بی زیادہ تخصیص سے کہتاہے What we call histroy is the histroy of man in civilized society.(2) یعنی تاریخ کا نقطہ آغاز وہ دور ہے جب انسان نے ایک مہذب معاشرے کے فرد کی حیثیت اختیار کی۔ تاریخ منبع علوم ہے۔ عمرانی علوم کی ایسی کوئی شاخ نہیں جس کا سلسلہ نسب تاریخ سے نہ ملتاہو۔ یہ تاریخ ہی ہے جس نے انسانوں کے اجتماعی تجربات کو اپنے سینے میں محفوظ رکھا۔
ممتاز دانشور ومورخ البدر حسین الاہدل علم تاریخ کے حوالے سے کہتاہے کہ 
’’یہ بڑا مفید علم ہے۔ اس کے ذریعے سے خلف کو سلف کے حالات معلوم ہوتے ہیں اور راست باز لوگ ظالموں سے ممتاز ہوجاتے ہیں،مطالعہ کرنے والے کو یہ فائدہ ہوتاہے کہ وہ عبرت حاصل کرتاہے اور گزشتہ لوگوں کی عقل ودانش کی قدر پہچانتاہے اور بہت سے دلائل کا پتہ لگالیتاہے۔ اگر یہ علم نہ ہوتاتو تمام حالات، مختلف حکومتیں، حسب ونسب اور سبھی علل واسباب نامعلوم رہتے اور جاہلوں اور عقل مندوں کے مابین تمیز ہی باقی نہ رہتی۔‘‘ (۳) 
یہی نہیں کہ مطالعہ تاریخ اسلاف کے بارے میں معلومات فراہم کرتاہے بلکہ انسان کا مرقوم ماضی تحقیق ودانش کے لیے ایک چیلنج ہوتاہے۔ سیسرو نے کہا تھا کہ تاریخ زمانہ کی مشاہد، صداقت کی روشنی اور زندگی کی ملکہ ہے لہٰذا اس کا مطالعہ غوروفکر کا متقاضی ہے۔ جرمن مفکر ہیگل کا کہنا ہے کہ ’’فلسفہ تاریخ یہی ہے کہ تاریخ کا مطالعہ غوروفکر کے ساتھ کیا جائے۔‘‘ (۴) فلسفہ تاریخ کا بانی ابن خلدون بھی یہی بات زور دے کر کہتاہے۔
علم تاریخ کی اس اہمیت وافادیت کے پیش نظر قرآن مجید نے اس پر خاص زور دیاہے اور بار بار ہمیں دعوت دی ہے کہ ہم اپنے سے پہلی قوموں کے حالات اور ان کے عروج وزوال کے اسباب پر غور کریں اور ان سے سبق وعبرت حاصل کریں، کیونکہ ہمارا حال ہمار ے ماضی کا مجموعہ برائے عمل ہے اورہمارا ماضی سمجھنے کے لیے پھیلا ہواہے۔ اسی حوالے سے ابن خلدون لکھتاہے کہ ’فالماضی اشبہ بالاتی من الماء بالماء‘ (۵) یعنی عہد گزشتہ، عہد آئندہ سے اس قدر مشابہ ہے کہ پانی بھی اس قدر پانی سے مشابہ نہیں ہوتا ‘‘۔
قرآن مجید میں تاریخ کو ’عبرۃ لاولی الالباب‘ اور ’موعظۃ للمتقین‘ کے گراں پایہ اور موزون ترین خطابات سے سرفراز کیاگیاہے۔ ایک آفاقی الہامی کتاب ہونے کے ناتے قرآن مجید کا ایک اپنا نظریہ تاریخ ہے۔ قرآن کریم کا تصور تاریخ ہی تھا جس کے زیر اثر ابن اسحاق، طبری اورمسعودی جیسے شہرۂ آفاق مورخ پیداہوئے اور جس کی بدولت مسلمانوں نے اپنے آخری دور میں ابن خلدون جیسے فلسفی مورخ کو جنم دیا۔ علامہ اقبال کو بھی قرآن حکیم سے گہرا شغف تھا۔ ان کی فکر کا منبع ومرکز بھی قرآن حکیم ہی ہے۔ اس کتاب مقدس نے اپنے پیروکاروں کے خیالات وافکار پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، جیسا کہ فقیر سید وحید الدین لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر صاحب (علامہ اقبال) اپنی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں قیام فرماتھے۔ اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کی قیام گاہ پر ایک نئے ملاقائی آئے۔ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ اتنے میں انہو ں نے ڈاکٹر صاحب سے ایک سوال کردیا۔ کہنے لگے: آپ نے مذہب، اقتصادیات، سیاسیات، تاریخ اور فلسفہ وغیرہ علوم پر جو کتابیں اب تک پڑھی ہیں، ان میں سب سے بلند پایہ اور حکیمانہ کتاب آپ کی نظر میں کون سی گزری ہے؟ ڈاکٹر صاحب اس سوال کے جواب میں کرسی میں سے اٹھے اور نووارد ملاقاتی کی طرف ہاتھ کا اشارہ کیا کہ تم ٹھہرو، میں ابھی آتاہوں۔ یہ کہہ کر وہ اندر چلے گئے۔ دو تین منٹ بعد واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ اس کتاب کو انہوں نے اس شخص کے ہاتھوں پر رکھتے ہوئے فرمایا ’’ قرآن مجید‘‘۔ (۶) 
یہ بات بلا تامل لکھی جاسکتی ہے کہ فکر اقبال کا سب سے بڑا ماخذ قرآن حکیم ہی ہے۔ قرآن پاک سے بڑا صحیفہ دانش وفکر اور رہنمائے صراط مستقیم اور کوئی نہیں۔ اس کتا ب الٰہی کا ورق ورق الٹیے تو یہ ماضی کی گم کردہ راہ قوموں، جابر وقاہر بادشاہوں، فرعونوں، ہامانوں، عاد وثمود، آل شعیب، اہل مدین، قوم لوط، بنی اسرائیل اور ان کی گمراہیوں کے قصے بار بار دہراتی ہے اور اس لیے دہراتی ہے کہ محمد ﷺ کو ہادی ورہبر ماننے والی قوم گزشتہ قوموں کی غلطیوں سے عبرت پکڑے اور سیدھی راہ پر چلنے کا سلیقہ سیکھے۔ مسلم مفکرین قرآنی تصور تاریخ سے بہت متاثر ہوئے۔ علامہ اقبال ان مسلم مفکرین میں سے ہیں جو فلسفہ تاریخ کے بانی علامہ ابن خلدون کے تاریخی شعور کے حوالے سے اپنے خطبات میں یہ کہہ گئے کہ ’’بہ نگاہ حقیقت دیکھا جائے تو ابن خلدون کا مقدمہ سرتاسر اس روح سے معمور ہے جو قرآن کی بدولت اس میں پیدا ہوئی۔ وہ اقوام وامم کے عادات وخصائل پر حکم لگاتاہے تو اس میں بھی زیادہ تر قرآن کریم سے ہی استفادہ کرتاہے‘‘۔ اقبال کی اپنی فکر خود قرآن مجید ہی سے متاثر تھی، چنانچہ انہوں نے قومی زندگی کے لیے تاریخ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مستقبل کی صحت مند تعمیر اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تعمیر کرنے والے اپنی تاریخ، اپنے ماضی سے پوری طرح باخبر نہ ہوں اور اس کی صحت مند روایات کو تعمیر نو کے ڈھانچے میں اچھی طرح محفوظ نہ کرلیں۔
اقبال کے تصور تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے یہ خیال رہے کہ وہ کوئی پروفیشنل مورخ یا فلسفئ تاریخ نہ تھے۔ بنگالی دانشور ڈی ایم اظرف اپنے ایک مضمون "Iqbal and the process of history" کی ابتدا میں لکھتے ہیں:
Iqbal is not a philosopher of history in the technical sense of the term. For he has not attempted an explanation of the process of history as had been done by Ibne khuldun, Kant, Herder, Hegel, Comte, Karl Marks and Spengler. Yet his writings in prose and poetry make it abundantly clear that he has a single principle which is the key to unlock the door of the mystery of historical process."(7)
بلا شبہ اقبال تکنیکی معنی میں فلاسفر آف ہسٹری نہیں تھے مگر ان کی تاریخ فہمی سے انکار ممکن نہیں۔ تصور تاریخ کے حوالے سے ان کا کوئی کام جامع صورت میں موجود نہیں، مگر اقبال کی نثرو نظم میں جابجا اس تصور کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ وہ کچھ عرصہ تاریخ پڑھاتے بھی رہے۔ ایم اے کرنے کے بعد علامہ اقبال بی او ایل کے سال اول اور سال دوم کی جماعتوں کو J .R. Seeleyکی کتاب Expantion of England  پڑھانے کے علاوہ ہندوستان اور انگلستان کی تاریخ کے متعلق نوٹس لکھواتے تھے اور انھوں نے Stults W.کی کتاب کا اردو ترجمہ کیا اور اس کا خلاصہ بھی لکھا۔ (۸) علامہ اقبال نہ صرف معلم تاریخ رہے بلکہ ممتحن تاریخ بھی رہے۔ خود لکھتے ہیں کہ ’’ایف اے کے امتحان کے پرچے مضمون تاریخ یونان وروم کے دیکھ رہاہوں۔ سامنے بنڈل رکھا ہواہے ‘‘(۹) علم تاریخ سے علامہ اقبال کی دلچسپی تاریخ کا معلم اور ممتحن ہونے کے علاوہ مورخ کی حیثیت سے بھی ظاہر ہوئی۔ فقیر وحید الدین لکھتے ہیں کہ علامہ نے اردو زبان میں تاریخ ہند لکھی تھی جو ۱۴؍۱۹۱۳ء میں مڈل کی جماعتوں کو پڑھائی جاتی تھی۔ اس کتاب کا خلاصہ امرتسر کے ایک پبلشرنے ۱۹۱۴ء میں شائع کیا تھا۔ رسمی صورت میں تاریخ پڑھانے سے ۱۹۰۵ء میں قطع تعلق ہوا، جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے، لیکن غیر رسمی صورت میں وہ تمام عمر تاریخ کے فلسفے، کسی قوم یا ملک کی تاریخ کے مختلف ادوار اور پہلوؤں سے متعلق اظہار خیال کرتے رہے۔ ماحول اور محرکات مختلف ہونے کی وجہ سے اظہار خیال کی صورتوں میں تبدیلی رونما ہوتی رہی اور اقبال اپنے کلام اور کام میں تاریخ کے معلم، مورخ اور فلسفی ہونے کی جھلکیاں دکھاتے رہے۔ فلسفہ تاریخ اور اس کے فنی تقاضوں کے حوالے سے علامہ کی وہ تحریر یں خاص طورپر قابل ذکر ہیں جو ان کی ذاتی ڈائری میں ملتی ہیں۔ علامہ نے اپنی ذاتی ڈائری ۱۹۱۰ء میں لکھی تھی او ر ’’شذرات فکر اقبال‘‘ کے نام سے اردو میں بھی چھپ چکی ہے ۔
علامہ نے اپنی ڈائری میں تاریخ کی تعریف ان خوبصورت الفاظ میں کی ہے کہ ’’تاریخ ایک طرح کا ضخیم گرامو فون ہے جس میں قوموں کی صدائیں محفوظ ہیں۔‘‘ (۱۰) اقبال کا خیال ہے کہ ماضی کے واقعات وحوادث کو محض تاریخ واردیکھنے یا ترتیب وار لکھنے کا نام تاریخ نہیں ہے بلکہ واقعات وحوادث کے اسباب وعلل کو سمجھنے اور ان کے ربط باہمی کو جاننے اور ان کی روشنی میں قوموں کے عروج وزوال کے اصول اخذ کرنے کا مفہوم بھی شامل ہے، اسی لیے وہ لکھتے ہیں: 
’’تاریخ محض انسانی محرکات کی توجیہ وتفسیر ہے، لیکن جب ہم اپنے معاصرین بلکہ روز مرہ زندگی میں گہرے دوستوں اور رفیقوں کے محرکات کی بھی غلط توجیہیں کر بیٹھتے ہیں تو جو لو گ ہم سے صدیوں پہلے گزرے ہیں، ان کے محرکات کی صحیح تعبیر وتوجیہ اس سے کہیں زیادہ دشوار ہے، لہٰذا تاریخ کی روداد کو بڑے احتیاط سے تسلیم کرنا چاہیے۔‘‘ (۱۱)
انفرادی نقطہ نظر سے تاریخ کی اہمیت زیادہ ترعلمی ونظری ہے، لیکن قومی زاویے سے تاریخ بقاکی ضامن اور استحکام وتسلسل کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کے چوتھے لیکچر ’’اسلامی ثقافت کی روح‘‘ میں اقبال نے تاریخ کی اہمیت عیاں کرنے کے لیے اس حقیقت کا بڑے موثر انداز میں اظہار کیاہے کہ قرآن کریم نے جو علم کے تین ذرائع بتائے ہیں، ان میں سے ایک تاریخ ہے۔ قرآن مجید جب باربار یہ فرماتاہے کہ ’سیرو فی الارض ثم انظرو کیف کان عاقبۃ المکذبین‘ تو اس بات کا اعلان کررہا ہوتاہے کہ گزرے ہوئے واقعات اور بیتی ہوئی سرگزشتیں علم وبصیرت کا منبع ہیں۔ علامہ کے خیال میں تاریخ وہ آئینہ ہے جس میں دیکھنے سے انسان اپنے آپ کو جانتا پہچانتاہے اور اس کے ربط سے اعلیٰ مقاصد ونصب العین حاصل کرتاہے اور ان تک پہنچنے کا راستہ پاسکتاہے۔ مورخ ابو بکر شبلی (متوفیٰ ۹۴۶ھ) کا قول تھا کہ ’’عام لوگ کہانی سن کر اپنا دل بہلاتے ہیں، اس کے برعکس خواص ان کہانیوں سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔‘‘ (۱۲) اسی پس منظر میں اقبال نے اپنے خطبات میں تاریخ کے اسلامی تصور پر گراں قدر خیالات کا اظہار کیا ہے۔قرآن حکیم نے تاریخ کو ’’ایام اللہ‘‘ سے تعبیر کیاہے۔ اس کی بنیادی تعلیم یہی ہے کہ اقوام کا محاسبہ انفرادی اور اجتماعی دونوں لحاظ سے کیاجاتاہے۔ مزیدیہ کہ انہیں بداعمالیوں کی سزا دنیا میں بھی ملتی ہے اور اس کے لیے قرآن بار بار تاریخ کا حوالہ دیتاہے۔ اقبال کہتے ہیں :
’’عالم اسلام میں تاریخ کی پرورش جس طرح ہوئی، وہ بجائے خود ایک بڑا دلچسپ موضوع ہے۔ یہ قرآن کا بار بار حقائق پر زور دینا اور اس کے ساتھ ساتھ پھر اس امر کی ضرورت کہ آنحضرت ﷺ کے ارشادات صحت کے ساتھ متعین ہوں، علیٰ ہذا مسلمانوں کی آرزو کہ اس طرح ان کی آئندہ نسلوں کو اکتساب فیض کے دوامی سرچشمے مل جائیں، یہ عوامل تھے جن کے زیر اثر ابن اسحاق، طبری، مسعودی ایسی ہستیاں پیدا ہوئیں‘‘(۱۳) 
یعنی نہ صرف یہ کہ قرآن تاریخی واقعات بیان کرتاہے بلکہ وہ ہمیں تاریخی انتقاد کے بنیادی اصول بھی عطا کرتاہے جن پر عمل پیرا ہوکر مسلمانوں نے نہ صرف تاریخ نویسی میں عظیم سرمایہ جمع کیا بلکہ اس سے کا م لے کر جمع حدیث اور اسماء الرجال کے وہ علوم پیدا کیے جو صدیوں سے ان کے لیے ہدایت اور فیضان کا سرچشمہ ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے ’’اے مسلمانو! جب کوئی جھوٹا شخص تمھارے پاس کوئی خبر لائے تو تم اس کی خوب چھان بین کر لیا کرو‘‘۔ (۴۹:۶)
اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی تاریخ فہمی کے غیر جانبدار مطالعے سے دو تصورات نمایاں نظر آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ تمام زندگی کا مبدا ومنبع ایک ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے: ’’ اور ہم نے تمھیں نفس واحد سے پیدا کیا ‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام سے قبل عیسائیت نے دنیا کو پیغام مساوات دیاتھا، لیکن اہل کلیسا وحدت انسانی کے تصور کو پوری طرح محسوس نہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ مساوات ان کے ہاں مجرد فکر کی شکل میں رہی۔ اس اصول کو اگر کسی ثقافت نے عملاً سچ کردکھایا تو وہ مسلمان ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس امر کا نہایت گہرا احساس کہ زمانہ ایک حقیقت ہے لہٰذا زندگی مسلسل اور مستقل حرکت سے عبارت ہے، زمانے کا یہی تصور ابن خلدون کے نظریہ تاریخ میں خصوصی دلچسپی کا سبب ہے۔ ابن خلدون کے نظریہ تاریخ میں مندرجہ بالااسلامی نظریات تاریخ پوری طرح جلوہ گرہیں۔ وہ بھی قرآنی تصور کے زیر اثر اقوام عالم کی اجتماعی زندگی کاجائزہ لیتے ہوئے واقعات نقل کرنے والوں کے شخصی خصائل وعادات کو نظر انداز نہیں کرتا۔ وہ بھی ملتوں کی حیات وممات کا قائل ہے۔ قرآن کی طرح ابن خلدون بھی کائنات کو متحرک، متغیر اور ارتقا پذیر سمجھتاہے۔ وہ افلاطون اور زینو کی طرح وقت کو بے حقیقت قرار نہیں دیتا اور نہ ہی وہ بعض یونانی فلاسفروں کی طرح یہ مانتاہے کہ وقت ایک ہی دائرے میں حرکت کرتارہتاہے۔ اس حوالے سے اقبال کہتے ہیں کہ یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ہمیں ابن خلدون کی فکری اپج سے انکار ہے۔ اسلامی تہذیب وتمدن نے اپنے اظہار کے لیے جو راستہ اختیار کیا، اس پر نظر رکھیے تو یہ کسی مسلمان ہی کا کام ہوسکتاتھا کہ تاریخ کا تصور بطور ایک مسلسل اور مجموعی حرکت کے کرتا۔ گویا ہمیں ابن خلدون کے نظریہ تاریخ سے دلچسپی ہے تو اس کی وجہ بھی ابن خلدون کا وہ تصور ہے جو اس نے تغیر کے باب میں قائم کیاہے اور یہ تصور بڑا اہم ہے کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ تاریخ چونکہ، زمانے کے اندر، ایک مسلسل حرکت ہے، لہٰذا یہ ماننا ضروری ہے کہ اس کی نوعیت فی الواقع تخلیقی ہے۔ بالفاظ دیگر یہ وہ حرکت نہیں جس کا راستہ پہلے سے متعین ہو۔ اب اگر چہ ابن خلدون کو مابعد الطبیعیات سے چنداں دلچسپی نہ تھی بلکہ ایک طرح سے وہ اس کا مخالف تھا، بایں ہمہ اس نے زمانے کا تصور جس رنگ میں پیش کیا، اس کے پیش نظر ہم اس کا شمار برگساں کے پیشروؤں میں کریں گے۔ (۱۴) عزیز احمد رقمطراز ہیں:
’’تاریخ میں حرکت واقعتا آگے بڑھنے کی حرکت ہے۔ اقبال، نطشے کے نظریہ تواتر تاریخی کو باطل قراردیتے ہیں، اگرچہ وہ جرمن فلسفی کی فکر کے بعض عناصر سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ اقبال کے نزدیک تاریخ ترقی پذیر زندگی کے نمونے پر تیار ہوتی ہے اور زندگی میں تواتر کے عمل کے لیے نہ کوئی جگہ ہے او رنہ وہ کوئی معنی رکھتاہے۔‘‘ (۱۵) 
رموز بے خودی کے ایک باب میں اقبال نے اس کی بڑی وضاحت کی ہے اور اس کو ذہن نشین کرانے کے لیے ایک پرزور اورروشن تمثیل سے کام لیا ہے۔ فرماتے ہیں، جو مقام ایک فرد کی زندگی میں حافظے کا ہے، وہی قوم کی زندگی میں تاریخ کو حاصل ہے۔ اگر حافظے میں خلل واقع ہو جائے تو فرد اپنا دماغی توازن قائم نہیں رکھ سکتا۔ وہ پگلا اور دیوانہ کہلاتاہے۔ اسی طرح جو قوم اپنی تاریخ سے ناآشنا ہوتی ہے، جس نے ماضی سے اپنا رشتہ توڑ لیا، جو اپنی روایات سے بیگانہ ہوگئی، وہ بحیثیت قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی، اسے کبھی عظمت ورفعت نہیں حاصل ہوتی۔ عزیز احمد لکھتے ہیں کہ تاریخ بھی ایک قوم کی اجتماعی یادداشت ہوتی ہے جو اسے محفوظ وزندہ رکھتی ہے اور شناخت کرنے کی حس کا تسلسل برقرار رکھتی ہے۔ (۱۶) لیکن بقول برگساں ’’حافظہ محض ماضی بعید کی یادوں کو تازہ کرنے کا عمل نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حافظے سے مراد ماضی کا ہمارے ساتھ شامل ’’حال ‘‘ہونا اور ہمارے حال کو متاثر کرنا ہے۔ (۱۷) اقبال بھی یہی کہتے ہیں :
سرزند از ماضئِ تو حالِ تو
خیزد از حالِ تو استقبالِ تو 
مشکن از خواہی حیاتِ لازوال
رشتہءِ ماضی از استقبال وحال 
یعنی تیرا حال تیرے ماضی سے پھوٹتاہے اور حال سے استقبال سر نکالتاہے، اگر تو حیات لاوزال کا خواہاں ہے تو پھر اپنے ماضی کا رشتہ اپنے حال واستقبال سے قطع نہ کر۔ اس طرح تاریخ، اولاد آدم کا اجتماعی حافظہ بن جاتی ہے۔ یعقوبی نے نویں صدی عیسوی میں اپنی تاریخ کا منفرد نام رکھ کر تمام ہم عصروں پر سبقت لے لی۔ اس کی تاریخ کا نام تھا: ’’مشاقت الناس لزمانہم‘‘ یعنی انسان نے اپنے آپ کو زمانے کے سانچے میں کس طرح ڈھالا؟ تاریخ دراصل یہی بتاتی ہے کہ زمانہ کس طرح بدلتارہا۔ جو لوگ تقاضائے زمانہ کے مطابق اپنے آپ کو نہ بدل سکے، ان کوزمانے نے مٹادیا۔ علم تاریخ کی اس اہمیت کے پیش نظر امام شافعی ؒ نے کہاتھا کہ علم تاریخ ذہن انسانی کو جلا دیتاہے۔ (۱۸) ابن جوزی کے نزدیک تاریخ اور سوانح حیات دل ودماغ کے لیے مفرح اور روحانی غذا ہیں ۔ (۱۹) رموز بیخودی میں اقبال بتاتے ہیں کہ تاریخ کوئی فرضی داستان یا افسانہ نہیں ہے، یہ خود آگاہی اور کار کشائی کی ضمانت دیتی ہے۔ وہ یوں بیان کرتے ہیں:
چیست تاریخ اے از خود بیگانہ 
داستانے؟ قصہ؟ افسانہ؟
ایں ترا از خویشتن آگہ کند
آشنائے کارو مرد رہ شو 
ضبط کن تاریخ را پائندہ شو 
از نفسہائے رمیدہ زندہ شو 
یا پھر یوں فرماتے ہیں :
زندہ فرد از ارتباطِ جان وتن 
زندہ قوم از حفظِ ناموسِ کہن
مرگِ فرد از خشکئ رودِ حیات 
مرگِ قوم از ترکِ مقصودِ حیات 
قوم روشن از سوادِ سرگزشت
خود شناس آمد ز یادِ سرگزشت 
سرگزشتِ او گر از یارش دود 
باز اندر نیستی گم می شود
یعنی اقبال اپنے ذہن ووجدان کے ذریعے سے ماضی کو حاضر میں پیوست کردینا چاہتے تھے تاکہ زندگی کی وحدت میں قوت وتاثیر پیدا ہو اور اس کی جڑیں زیادہ گہری اور مضبوط ہوجائیں۔ اقبال اپنی کاوش کو کھوئے ہووؤں کی جستجو سے تعبیر کرتے ہیں، اس لیے کہ ہم ایک سے زیادہ زمانوں کی مخلوق ہیں، جن میں ماضی کی بیسیوں صدیاں سوئی ہوئی ہیں :
میں کہ میری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ 
میری تمام سرگزشت کھوئے ہووؤں کی جستجو
ڈاکٹر یوسف حسین کے خیال میں زندگی کے لق ود ق بیابان میں مسافر حیات جن منزلوں سے گزرچکاہے، ان کی یاد کبھی کبھی اس کے دل کو گدگداتی ہے او رغم منزل کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس طرح ماضی او ر مستقبل کا رشتہ ایک دوسرے سے جڑ جاتاہے :
کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو 
کھٹک سی تھی جو سینے میں ،غم منزل نہ بن جائے
یوسف حسین کا کہناہے کہ ’’تاریخ عالم سب سے زیادہ محسوس شکل ہے جس میں زندگی کی حقیقت ہمارے شعور پر بے نقاب ہوتی ہے۔ یہ فطرت اور زمانے کا قطعی فیصلہ ہے۔ ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ ہم قوموں کی زندگی کا تصور ان کی تاریخ سے الگ رہ کر صحیح طور پر کرسکیں۔‘‘ (۲۰)
نومبر ۱۹۲۹ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے سپاس نامے کا جواب دیتے ہوئے اقبال نے اپنے تصورتاریخ کو یوں بھی بیان کیا کہ:
’’ایک دوسری بات جس پر میں زور دینا چاہتاہوں، ہمارا انکشاف ماضی ہے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو صرف اپنے ماضی سے محبت کرتے ہیں۔ میں تو اپنے مستقبل کا معتقد ہوں۔ ماضی کی ضرورت مجھے اس لیے ہے کہ میں حال میں ہوں۔ اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ سرچشمہ تہذیب وشائستگی کو سمجھا جائے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آج دنیائے اسلام میں کیا ہورہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں چاہتاہوں کہ آپ ماضی کو سمجھیں۔ چونکہ ہم جدید تہذیب وشائستگی کے اصولوں سے ناواقف ہیں، اس لیے ہم علوم جدیدہ کو حاصل کرنے میں دیگر اقوام سے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ میں چاہتاہوں کہ آپ ان گم گشتہ رشتوں پر نظر ڈالیں جن کے ذریعے ہم ماضی ومستقبل سے وابستہ ہیں۔‘‘ (۲۱)
علامہ اقبال کے مذکورہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر منور مرزا نے درست کہاہے کہ :
’’تاریخ کی حیثیت اہل نظر افراد کے لیے ایک لائحہ عمل،ایک جولانگاہ امکان، ایک تازیانہ عبرت اور ایک جرات آموز درس ہے تاکہ آدمی ہر لحظہ اپنے کردار اور اپنے رویے کا جائزہ لیتارہے،، دم بدم دیکھتارہے کہ وہ ترقی ہے ،ٹھہراؤ کا شکار ہے، یا زوال کے رخ رواں ہے۔ اگر اس طرح آدم خود آگاہ رہے تو یقیناًپھر وہ خو ب سے خوب تر کی خواہش سے محروم نہیں رہ سکتا۔ زندہ تمنا حرکت پر آمادہ کیے رکھتی ہے۔ اگر زمان کو ایک زندہ حقیقت کے طورپر تسلیم اور قبول نہ کیا جائے تو حضرت علامہ کا فلسفہ خودی سرتاسر بے مدار ہوکر رہ جاتاہے۔‘‘ (۲۲) 
یقیناًتکمیل خودی کسی بے نمو وبے حرکت آفاق میں بے معنی بات ہے۔ انسانی خودی اپنے وجود کو استقلال بخشنے کے لیے تاریخ کی کشمکش میں سے گزرتی ہے۔ انسانی خودی کا زمانے سے جو تعلق ہے، اس کا اظہار تاریخ میں ہوتاہے ۔علامہ اقبال نے اپنے فارسی کلام میں یہ ’’اسرار ورموز‘‘بڑی چابک دستی سے سمجھائے ہیں کہ تاریخ تجھے خود آگاہ کرتی ہے اور تیرے خنجر خودی کے لیے فساں کاکام دیتی ہے۔ وہ ایسی شمع ہے جو امتوں کے لیے ستارے کاکام دیتی ہے، ماضی کو سامنے لابٹھاتی ہے اور اس طرح ماضی کا رشتہ حال سے اور پھر حال کے واسطے سے استقبال سے جوڑ دیتی ہے۔
’’اسلام کا فلسفہ تاریخ‘‘ نامی کتاب کے مصنف عبدالحمید صدیقی نے جنوری ۱۹۴۹ء میں ایک رسالہ ’’سلسبیل ‘‘کی اشاعت خاص میں علامہ اقبال سے یہ تصور منسوب کیا کہ ’’تاریخ خود کو دہراتی ہے۔‘‘ یہ بیان درست نہیں کیونکہ علامہ اقبال کے نزدیک عمل تاریخ ایک خاص منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ ایک نقاد محمد عثمان رمز، اقبال کے فلسفہ تاریخ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ :
’’اقبال کے فلسفہ تاریخ کی صحیح روح یہ تعلیم دیتی ہے کہ تاریخ کسی قوم کے اجتماعی ذہن کا اظہار ہے۔ یہ ایک مسلسل تخلیقی قوت ہے جس کی مدد سے ہم زندگی، قوانین اور اقدار کی قدروقیمت کا تعین کرتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک یہ قوت جامد نہیں۔ عزیز احمد کے خیال میں اقبال کے فلسفہ تاریخ میں ’’تاریخ اپنے عمل حرکت میں، زندگی کی طرح، ایک ایسے مستقبل کی سمت بڑھنے کی کوشش میں مصروف رہتی ہے جس کی تعمیر میں وہ سخت جدوجہد کرتی ہے ۔.....اس عمل میں وہ ان اقدار کا تحفظ کرتی ہے جنہوں نے ثقافت کی بنیادی شکل متعین کی ہے ۔..... ثقافت کے سفر دراز میں ان اقدار کو تازہ اور زند رکھنا چاہیے‘‘۔(۲۳)
ڈاکٹر محمد شمس الدین صدیقی کا خیال ہے کہ گویا اقبال کے خیال میں تاریخ کی حرکت اس سمت میں ہے کہ صفات حسنہ سے متصف افراد سے عبارت ایک وسیع معاشرہ وجود میں آئے جو سارے عالم انسانیت کے لیے ایک ایسی مثال قائم کردے کہ اس کی تقلید ہر قوم کرنے لگے۔ عالم انسانیت کی تعمیر بالآخر ایک ایسے نظریے کی بنیاد پر عمل میں آئے گی جو انسان کو محض حیوان ناطق نہیں قراردیتا بلکہ اشر ف المخلوقات مان کر اسے خلیفۃ الارض کے منصب پر فائز دیکھنا چاہتاہے۔ (۲۴) اقبال انسان کو مجبور نہیں بلکہ مختار مانتے ہیں، اس لیے تاریخ کے مطالعے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ تقدیر کے روایتی مفہوم میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ جو کچھ ہونے والا ہے، وہ پہلے سے طے شدہ ہے۔ اپنے خطبات میں اقبال کہتے ہیں کہ ’’دراصل تقدیر عبارت ہے اس زمانے سے جس کے امکانات کے انکشافات ابھی باقی ہیں۔‘‘ اقبال پوری تاریخ کو حق وباطل کی آویزش کے پس منظر میں دیکھتے ہیں:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز 
چراغ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
یعنی انسانی تاریخ خیروشر کی کشمکش ہے، تاہم ان کے نزدیک انسان کی اجتماعی زندگی امن وسلامتی سے ہم کنار ہوسکتی ہے، جب وہ شر کی قوتوں پر غالب آکر حق وخیر کی بنیاد پر اپنی تعمیر کرے۔ شمس الدین صدیقی کہتے ہیں کہ ’’اقبال نے تاریخ کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ جو قوم یاجو معاشرہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نیابت کرنے کی نیت یااہلیت نہیں رکھتا، وہ فنا ہوجاتاہے۔‘‘ (۲۵) علامہ اقبال کو اعتماد کامل ہے کہ تاریخ کا عمل آخر انسان کو راہ راست پر ضرور لے آئے گا۔ تاریخ کی حرکت بے مقصد، بے منزل اور اٹکل پچو نہیں ہے۔ ازروئے قرآن اللہ تعالیٰ نے کائنات اور انسانوں کو تفریحاً کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا جیسا کہ سورۃ انبیا میں ہے : ’وما خلقنا السماء والارض وما بینھما لٰعبین‘۔
علامہ کا خیال ہے کہ عمل تاریخ ایک خاص منزل کی جانب رواں ہے۔ علامہ اقبال کا تصور تاریخ اخلاقی اطلاقیت کا حامل ہے۔ اقبال کے تصور تاریخ کا مطالعہ واضح کرتاہے کہ جس طرح کارل مارکس کے نظریہ تاریخ کو تاریخ انسانی کی مادی تعبیرکا نام دیاگیاہے، اسی طرح علامہ اقبال کے نظریہ تاریخ کو بآسانی تاریخ انسانی کی اخلاقی تعبیر کا نام دیا جا سکتا ہے۔ مشہور مفکر ڈایونی سیوس نے کہاتھا کہ تاریخ حکمت ہے جو مثال سے سکھاتی ہے۔ اقبال نے بھی اخلاقی تعبیر کے لیے تاریخ سے ا ستفادہ کیا۔ ان کا کلام تاریخی تلمیحات، استعارات اور اشارات سے پرُہے۔ اسکندرو چنگیز، خسرو پرویز اور محمود وایاز ایسے نام اس کا ثبوت ہیں۔ کئی شخصیات، مقامات اور واقعات براہ راست ان کی شاعری کی بنیاد بنے۔ انھوں نے فاطمہ بنت عبداللہ، عبدالرحمن اول، بلال حبشی، سلطان ٹیپو، ہارون الرشید، طارق بن زیاد کو موضوع بنایا۔ مولائے یثرب، صدیق اکبر، مجدد الف ثانی کو موضوع بناکر حکیمانہ شاعری کی، نیز کئی مقامات، ساحل، نیل، کنارہ دریائے کبیر، خاک کا شغر، خاک بخارا، خاک نجف، سر زمین حجاز، سرزمین سمر قند وبدخشاں، مسجد قرطبہ، مسجد قوت الاسلام، قسطنطنیہ، صقلیہ، بغداد اور دہلی ایسے حوالے ان کے کلام میں عام ہیں۔ ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ میں تاریخی حالات وواقعات سے ہی استدلال پیش کیاگیاہے۔
تاریخ اسلام سے ان کو خاص دلچسپی تھی۔ اس کا واضح ثبوت علامہ اقبال کا وہ خطبہ صدارت ہے جو ۱۳؍جون ۱۹۳۲ء کو ’’انقلاب‘‘ میں شائع ہوا۔ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ کا مضمون ۱۹۲۳ء میں شروع ہوا لیکن یونیورسٹی میں ہندو عنصر غالب ہونے کی وجہ سے یہ توجہ سے محروم رہا۔ ۱۹۲۹ء میں جب پروفیسر جے، ایف، بروس تاریخ کے پروفیسر کی حیثیت سے یونیورسٹی میں آئے تو انہوں نے ہندووں کے زیر اثر سینٹ میں یہ تجویز پیش کی کہ اسلامی تاریخ کو بی اے کے کورس سے خارج کردیاجائے۔ یہ تجویز کثرت رائے سے منظور ہوگئی تو مسلمانان پنجاب نے احتجاج کیا۔ اسی سلسلے میں ۱۱؍جون ۱۹۳۲ء کو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ایک جلسہ باغ بیرون موچی دروازہ لاہور منعقد ہواجس کی صدارت سر محمد اقبال نے کی اور خطبہ صدارت میں بی اے پاس کورس سے اخراج کے حوالے سے گفتگو کے بعد تاریخ کے مضمون کے حوالے سے کہا کہ :
’’مسٹر بروس کا استدلال یہ ہے کہ ہندوستان کے لوگوں کو ہندوستان کی تاریخ پڑھنی چاہیے۔ میرے نزدیک یہ دعویٰ غلط ہے کہ کسی قوم کی تاریخ کو اس قوم کی تاریخ نہ سمجھا جائے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ اجتماعی حیثیت سے انسانی روح کی ایک حرکت ہے۔ روح انسانی کا کوئی ماحول نہیں بلکہ تمام عالم اس کا ماحول ہے۔ اگر اسے کسی قوم کی ملکیت سمجھا جائے تویہ تنگ نظری کا ثبوت ہے۔ ....جب میں اٹلی گیا تو مجھے ایک شخص پرنس کتانی ملا۔ وہ اسلامی تاریخ کا بہت دلدادہ ہے۔ اس نے تاریخ پر اتنی کتابیں لکھی ہیں اور اس قدر روپیہ خرچ کیا ہے کہ کوئی اسلامی سلطنت اس کے ترجمے کا بندوبست بھی نہیں کرسکتی۔ اس نے لاکھوں روپے صرف کرکے تاریخی مواد جمع کیاہے۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو اسلامی تاریخ سے دلچسپی کیوں ہے تو انہوں نے کہا کہ اسلامی تاریخ عورتوں کو مرد بنادیتی ہے۔ ‘‘(۲۶) 
اقبال تاریخ کی اہمیت کے اس حد تک قائل ہیں کہ وہ تاریخ کو فلسفہ پر ترجیح دیتے ہیں۔ سید نذیر نیازی ’’مکتوبات اقبال‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ جب علامہ نے ۴؍جون ۱۹۲۹ء کو خط میں انہیں یہ مشورہ دیا کہ ’’بہتر ہو کہ آپ کسی اچھے ہنر کی تلاش میں ولایت جائیں‘‘تو نذیر نیازی نے جواب میں عرض کیا ’’کسی سائنس یا صنعت کی تحصیل تو اب میری استطاعت سے باہر ہے، فلسفہ تاریخ کا موضوع کیا تصوف اسلام سے بہتر نہیں رہے گا؟‘‘ اس کے جواب میں علامہ اقبال نے تحریر فرمایا کہ ’’میں تصوف پر تاریخ کو ترجیح دیتاہوں ‘‘۔ غلام قادر فصیح نے جب اپنا تاریخی نوعیت کا رسالہ شائع کرنا شروع کیا تو اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے یہ تک لکھا کہ ’’ میرے نزدیک یہ رسالہ نہایت مفید ہے اور ہر مسلمان کو اس کا پڑھنا ضروری ہے۔ عام مسلمانوں میں اخلاق حسنہ پیدا کرنے کے لیے اس سے اچھا ذریعہ اور کوئی نہیں کہ اس قسم کے تاریخی رسالے شائع کیے جائیں جن سے ان کو اسلاف کے حالات معلوم ہوں اور ان کے طرز عمل کا ان پر اثر پڑے۔ قوموں کی بیداری کا اندازہ اس سے ہوسکتاہے کہ ان کو اپنی تاریخ سے کہاں تک دلچسپی ہے۔ (۲۷) کلام اقبال میں وہ خود تاریخی واقعات کو بیان کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سید محمد اکرم اکرام کہتے ہیں کہ تاریخی حوادث سے نتائج اخذ کرنے میں ان کی بصیرت اتنی عمیق اور مستحکم ہے کہ انہوں نے مستقبل کے بارے میں جو کچھ کہا، وہ بہت جلد اہل نظر کے سامنے مجسم ہوگیا۔ (۲۸) طویل تاریخی واقعات کو ایک یا چند اشعار میں پیش کرنے میں بھی علامہ کو ید طولیٰ حاصل تھا۔ انیسویں صدی کے وسط میں برطانوی سامراج نے جب کشمیر کو گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ فروخت کردیا تو علامہ نے فرمایا:
باد صبا اگر بہ جنیوا گزر کنی 
حرفے زما بہ مجلس اقوام باز گوی
دہقاں وکشت وجوی وخیاباں فروختند
قومے فرو ختند وچہ ارزاں فروختند 
برصغیر پاک وہند میں آج کون ایسا ہے جو میر جعفر اور میر صادق کے نام سے واقف نہ ہو۔ علامہ نے ’’جاوید نامہ‘‘ میں ان کے متعلق جو یہ ایک شعر کہاہے، وہ تاریخ کے سینکڑوں صفحات پر بھاری ہے:
جعفر از بنگال وصادق از دکن
ننگِ آدم ،ننگ دین، ننگِ وطن
غلام قادر روہیلہ کی فتح اور تیمور یوں کی شکست کا بیان کسی تاریخ میں پڑھ کر ممکن ہے قاری بھول جائے، لیکن بانگ درا میں شامل نظم بعنوان ’’غلام قادر روہیلہ ‘‘کو شاید فراموش کرنا ناممکن ہے۔ واقعہ کربلا کو علامہ اقبال نے ’’رموز بے خودی ‘‘ میں جس طرح تاریخی حقیقت کو برقرار رکھتے ہوئے انتہائی دلنشیں اور موثر صورت میں پیش کیاہے، وہ تاریخ اور شاعری کے حسین امتزاج کی ایک لاجواب کوشش ہے۔ یہ معنوی اعتبار سے قصیدہ کے شعر ہیں لیکن ان میں مبالغہ بالکل نہیں ہے، تاریخی حقائق بیان کیے گئے ہیں۔
علامہ اقبال کے نظریہ تاریخ، فلسفہ تاریخ، تاریخ نویسی اور معلم تاریخ کے کردار کے مذکورہ پہلوؤں کے مختصر جائزے کے بعد کہاجاسکتاہے کہ ڈی ایم اظرف کایہ خیال کہ اقبال فنی مفہوم میں فلسفئ تاریخ نہیں ہیں کیونکہ یہ تسلیم شدہ ہے کہ اقبال نے فلسفہ تاریخ کے حوالے سے وسیع یا جامع کام نہیں کیا اور تصور تاریخ کے حوالے سے محض ایک خاکہ پیش کیاہے، تاہم کئی دانشور اقبال کے تصور تاریخ کے حوالے سے دوسری رائے رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین نے اس حوالے سے ایک پمفلٹ کی صورت میں شائع شدہ مضمون میں لکھاہے کہ ’’عمل تاریخ کی سمت اور غرض وغایہ کے بارے میں اقبال کے خیالات نہایت واضح ہیں۔‘‘ قطع نظر اس بحث سے کہ حقیقی تکنیکی اور صحیح فنی مفہوم میں علامہ اقبال فلسفئ تاریخ ہیں یا نہیں، یہ بات بغیر کسی تردد کے کہی جاسکتی ہے کہ وہ گہرے تاریخی شعور کے مالک فلسفی تھے۔ جرمن فلسفی کارلائل نے کہا تھا کہ ہمیں ماضی کوزیادہ سے زیادہ تلاش کرنا چاہیے۔ تما م انسانوں کو لازم ہے کہ وہ ماضی کو علم کا ایک حقیقی سرچشمہ تصور کریں جس کی روشنی میں دانستہ یا نا دانستہ حال ومستقبل کی تعبیر وتعمیر ہوسکتی ہے۔ اقبال نے یہی بات سمجھانے کے لیے نظم ونثر میں بنی اسرائیل کی پختہ خیالی اور اپنی تاریخ سے محکم وابستگی کی داد دی ہے اور مثال کے طور پر بیان کیاہے کہ بنی اسرائیل کے ابتدائی زمانے کی تمام معاصر قومیں اور تہذیبیں مٹ گئی ہیں، مگر یہودی ہیں کہ بے پنا ہ آلام ومصائب برداشت کرنے کے باوجود چارہزار سال سے زندہ وسلامت ہیں اور وقت کا فنا آفریں ہاتھ ان کو مٹا نہیں سکا۔ اقبال کے نزدیک ان کا استقرار اور بقا کا راز اپنی تاریخ کے ساتھ بے پناہ شیفتگی اور وابستگی میں مضمر ہے۔ ’’رموز بے خودی‘‘ میں یہ باتیں نظم میں بیان کی ہیں اور اپنے ایک مضمون ’’قومی زندگی‘‘ میں جو ۱۹۰۶ء کے ’’مخزن ‘‘ میں شائع ہوا، انہوں نے اس تاثر کو بہ طرز نثر بیان کیا اور دونوں مقامات پر مقصود مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ دیکھنا، کہیں اپنی تاریخ نہ بھول جانا ،کہیں اپنے ماضی سے غافل نہ ہوجانا، کیونکہ جو قومیں تاریخ کو فراموش کردیتی ہیں، تاریخ انہیں فراموش کردیتی ہے: 
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم 
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

حوالہ جات

(۱) فکر اسلامی کی تشکیل نو ،پروفیسر محمد عثمان ،سنگ میل لاہور ،ص ۱۴۴۔۱۴۳
(۲) A Study of History (abridged edition), vol .1, USA, p.6
(۳) الاعلان بالتوبیخ،اردو ترجمہ ،مرکزی اردو بورڈ ،لاہور ،ص ۸۹
(۴) Philosophy of History, Dower Publications, N.Y., p.8
(۵) مقدمہ ،المکتبہ التجاریہ ،شارع محمد علی ،مصر ،ص ۱۰
(۶) رو ز گار فقیر ،فقیر وحیدا لدین ،کراچی ،۱۹۹۶ء
(۷) اقبال ریویو ،جلد ۳،شمارہ ۳،اکتوبر ۱۹۶۲ء ،ص ۲۶
(۸) مطالعہ اقبال ،گوہر شاہی بزم اقبال لاہور ،ص ۵۷۔۴۷
(۹) اقبال نامہ ،مرتبہ شیخ عطاء اللہ ،شیخ محمد اشرف ،لاہور ،ص ۹،۸
(۱۰) شذرات فکر اقبال ،مترجم ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ،مجلس ترقی ادب ،لاہور ،ص ۱۴۰
(۱۱) ایضا ،ص ۱۳۰
(۱۲) سرگزشت تاریخ ،امتیاز محمد خان،کراچی،ص،۲۲۱
(۱۳) تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ،مترجم سید نذیر نیازی ،بزم اقبال ،لاہور ،ص ۲۱۴۔۲۱۳
(۱۴) فکر اسلامی کی تشکیل نو ،ایضا ،ص ۱۴۷
(۱۵) برصغیر میں اسلامی جدیدیت ،عزیز احمد ،سنگ میل ،لاہور ،ص ۲۰۸
(۱۶) ایضاً
(۱۷) Masterpieces of the World Philosophy, N.Y., p. 768
(۱۸) سرگزشت تاریخ ،ایضا ،ص ۲۳۲
(۱۹) ایضاً 
(۲۰) روح اقبال ،یوسف حسین خان ،اعظم پریس ،حیدر اباد ،دکن ،ص ۔
(۲۱) گفتار اقبال ،محمد رفیق افضل ،دانش گاہ پنجاب ،لاہور ،ص ۱۰۵۔۱۰۴
(۲۲) برہان اقبال ،منور مرزا ،اقبال اکادمی ،لاہو ر،ص ۱۷
(۲۳) برصغیر میں اسلامی جدیدیت ،ایضاً 
(۲۴) نقوش،اقبال نمبر ،شمارہ ،۱۲۱،ستمبر ۱۹۷۷ء ،لاہور ،ص ۲۳۰
(۲۵) ایضاً ،ص ۲۲۷
(۲۶) روزنامہ انقلاب ،لاہور ،۱۳؍جون ۱۹۳۲ء
(۲۷) اقبال نامہ ،ایضاً، جلد دوم ،ص ۲۶۴
(۲۸) سہ ماہی ،اقبال ،جلد ۵۱،شمارہ ،۴،اکتوبر ،دسمبر ۲۰۰۴ء ،ص ،۵

نطشے کا نظریہ تکرارِ ابدی اور اقبال

ڈاکٹر محمد آصف اعوان

جدید مغربی مفکرین میں نطشے ایک بہت بڑا نام ہے۔ اقبال نے اپنے کلام اور خطبات میں نطشے کے افکار وتصورات کا کئی جگہ ذکر کیاہے۔خاص طور پر نطشے کا نظریہ بقائے دوام یعنی تکرارِ ابدی Eternal Recurrence)) اقبال کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اقبال کے خیال میں اس نظریے کے ابتدائی خط وخال ہربرٹ اسپنسر (Spencer, Herbert 1820-1903) کے ہاں ملتے ہیں(۱)۔ ہر برٹ اسپنسر مادی نظریہ ارتقا کے بانیوں میں شامل ہے۔ یہی وہ مفکر ارتقا ہے جس کی فراہم کی ہوئی فکری بنیادوں پر چارلس ڈارون (1809-1882) نے اپنے نظریہ ارتقا کی بنیاد رکھی۔ ڈارون کا نظریہ ارتقا مادیت پسندجدید مغربی ذہن کا محبوب تصور ہے۔ اقبال جب نطشے کے تصورِ تکرار ابدی کو ہربرٹ اسپنسر کی ابتدائی فکر کی ترقی یافتہ صورت قرار دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نطشے کا تصور مغربی مادی فکری روایت کی ہی ترقی یافتہ صورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نطشے جدید مغربی ذہن کا حقیقی نمائندہ بن کر سامنے آتاہے۔ چنانچہ اقبال نطشے کے تصور بقائے دوام یعنی تکرار ابدی کا جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ نطشے کا نظریہ تکرار ابدی کیاہے؟ نطشے کے نظریہ تکرار ابدی کے اہم ترین نکات کو مختصراً یوں بیان کیا جاسکتاہے:
۱۔ کائنات میں توانائی کی مقدار محدود ہے اور توانائی کے مراکز بھی محدود ہیں۔
۲۔ مکان کا تصور محض ذہنی اختراع ہے، چنانچہ کائنات کے متعلق یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کسی خلائے محض میں واقع ہے۔
۳۔ زمانے کا وجود خارجی اور حقیقی ہونے کے ساتھ ساتھ زمانی عمل لامتناہی بھی ہے، چنانچہ کائنات میں توانائی کی محدود مقدار کے ہوتے ہوئے لامحدود زمانی عمل کامطلب یہی ہے کہ کائنات میں ہمیشہ یا ابدی طورپر واقعات وحوادث کی تکرار ہوتی رہتی ہے اور ایک جیسے واقعات اپنے آپ کو دہراتے رہتے ہیں۔ گویا کائنات کے اندر ایک میکانکی عمل کارفرما ہے۔ نطشے کا نظریہ تکرار ابدی اسی میکانکی عمل کا فلسفیانہ اظہار ہے۔ فریڈرک کوپلسٹن (Frederick Copleston) نظریہ تکرار ابدی پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے:
"The theory is presented as an empirical hypothesis, and not merely as a disciplinary thought or test of inner strength. Thus, we read that the principle of conservation of energy demands the eternal recurrence. If the world can be looked at as a determinate quantum of force of energy and as a determinate number of centres of force, it follows that the world process will take the form of successive combinations of there centres, the number of these combinations being in principle determinate, that it, finite. And in an infinite time every possible combination would have realized at some point. Further, it would be realized an infinite number of time." (2)
فریڈرک کو پلسٹن کی رائے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نطشے کی نظر موجودہ کائنات سے ماورا واقعا ت پر نہیں بلکہ اسی کائنات میں حوادث وواقعات کے میکانکی عمل پر مبنی تکرار ابدی پر ہے۔
خطبات میں اقبال کی نطشے کے نظریہ تکرار ابدی پر زیادہ تر تنقید ٹسناف (R.A. Tsanoff) کی کتاب (The Problem of Immortality) کے پانچویں باب’’تکرار ابدی کا نظریہ ‘‘( The Doctrine of Eternal Recurrence)کے حوالے سے ملتی ہے۔ علامہ اقبال کی نجی لائبریری میں اس کتاب کا ایک نسخہ موجود تھا۔ اس نسخہ کو دیکھنے سے پتہ چلتاہے کہ اقبال نے اس کتاب کے مذکورہ پانچویں باب کے آخر میں نطشے کے نظریہ تکرار ابدی کے متعلق چند تنقیدی اشارات ثبت کیے ہیں۔
۱۔ توانائی کا غلط تصور (Wrong view of energy)
۲۔ زمان کا غلط تصور ۔دوری یا مستقیم (Wrong view of time__circular or straight)
۳۔ لامتناہیت کا غلط تصور ۔لامتناہیت کو دوری ہونا چاہیے۔(Wrong view of infinity__ Infinite process must be periodic)
۴۔ نطشے کا تضاد۔ آرزوئے دوام اور تکرار دوام کا تضاد (Nietzsche inconsistent__ Eternal aspiration and Eternal Recurrence inconsistent)
۵۔ بدترین قسم کا تقدیر پرستی (Involves Fatalism of the wrost type) (۳)
اقبال کے ان تنقیدی اشارات کی وضاحت ان کے خطبات اور خصوصاً چوتھے خطبے میں ملتی ہے۔
سائنسی اصطلاح میں توانائی سے مراد قوتِ کار ہے۔ فلسفیانہ زبان میں اقبال کے نزدیک توانائی خدا کی تخلیقی فعالیت کا نام ہے۔ چونکہ خدا کی تخلیقی فعالیت مسلسل اور لامتناہی ہے، اس لیے کائنات میں توانائی کی مقدار کو متناہی اور محدود قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اقبال کے نزدیک سینہ کائنات سے صداے دما دم کن فیکون بلند ہورہی ہے اور ہر لحظہ حوادث وواقعات جدت وندرت کے نئے پیراہن کے ساتھ وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ نطشے مقام کبریا سے آشنا نہ تھا، اس لیے وہ زمانے کے ظاہری اور خارجی لامتناہی تسلسل میں تکرار ابدی کے نظریہ کو ہی پیش کرسکتاتھا کیونکہ بقول فریڈرک کو پلسٹن:
"According to Nietzsche, if we say that the universe never repeats itself but is constantly creating new forms, this statement betrays a hankering after the idea of God. For the universe itself is assimilated to the concept of a creative deity. And this assimilation is excluded by the theory of the eternal recurrence." (4)
اقبال کہتے ہیں کہ نطشے کی نگاہ، کائنات میں زمان کے خارجی پہلوتک ہی محدود رہی اور زمان کی اس باطنی حالت تک رسائی حاصل نہ کرسکی جس میں زمان کی ساخت دوری ( Periodic) نہیں بلکہ ایک ایسے خطہ کی سی ہے جو مسلسل کھینچا جارہاہے۔چنانچہ ایک ایسی کائنات جس میں مقدار توانائی محدود اور زمانی حوادث وواقعات کا تسلسل لامحدود ہو، تکرار حوادث ناگزیرعمل بن جاتاہے کیونکہ محدود توانائی آخر کب تک جدت وندرت کو قائم رکھتے ہوئے تخلیقی عمل کو نباہ سکتی ہے۔ اقبال رقمطراز ہیں :
"In his view of time, however, Nietzsche parts company with Kant and Schopenhaver. Time is not a subjective form, it is a real and infinite process which can only be conceived as 'peridic'. Thus, it is clear that there can be no dissipation of energy in an infinite empty space. The centres of this energy are limited in number and their combination perfectly calculated. There is no beginning or end of his ever active energy, no equilibrium, no first or last change. Since time is infinite, there fore, all possible combinations of energy centres have already been exhausted. There is no new happening in the universe; whatever happens now has happened before an infinite number of times and will continue to happen an infinite number of times in the future." (5)
نطشے کے نظریہ تکرار ابدی پراقبال کی تنقید کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ نطشے کے ہاں ایک تسلسل کے مسلسل آگے بڑھنے اور نئے سے نئے مراحل میں قدم رکھنے کے تصور کے بجائے ایک جیسے واقعات کے تکرار کا تصور کار فرما ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک جیسے واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے بعد بعینہ اسی قسم کے دوسرے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں اور مابعد پھر اسی قسم کے واقعات اپنے آپ کو دہراتے ہیں۔ یہی حال شخصیات کا ہے۔ ایک شخصیت اپنا عرصہ حیات ختم کرکے ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتی ہے، پھر اسی قسم کی دوسری شخصیت جنم لیتی ہے اور یوں تکرار کا یہ عمل کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی سطح پر چلتارہتاہے۔اسی لیے اقبال کہتے ہیں کہ:
"Eternal Recurrence is not eternal creation, it is eternal repetition."(6)
اقبال کے ہاں بقائے دوام کے تصور کا مطلب ایک جیسے واقعات کا تکرار نہیں بلکہ شخصی حیات اور تاریخی تسلسل کا نئے سے نئے مراحل اور ایک سطح سے دوسری بلند ترسطح میں قدم رکھناہے۔ خودی کا سفر ہمیشہ بلندیوں کی طرف جاری رہتا ہے۔ موت خودی کے ارتقائی مراحل میں محض ایک مرحلہ ہے۔ موت کے بعد بھی خودی نہ صرف اپنا تشخص برقرار رکھے گی بلکہ اس کا ارتقائی سفر بھی جاری رہے گا۔ یوں اقبال تاریخ کے ارتقائے دوام اور شخصی بقائے دوام کا ایسا تصور پیش کرتاہے جس کا تسلسل موت کے ظاہر ی حادثے سے بھی نہیں ٹوٹتا۔
یا جہانے تازۂ یا امتحانے تازۂ 
می کنی تاچند با ما آنچہ کردی پیش ازیں
بجانم رزم مرگ وزندگانی است
نگاہم بر حیاتِ جاودانی است 
ضمیر زندگانی جاودانی است
بچشمِ ظاہری بینی، زمانی است
بپایاں نارسیدن زندگانی است 
سفر مارا حیاتِ جاودانی است
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی 
ہے یہ شام زندگی، صبح دوامِ زندگی
موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
خوگر پرواز کو پرواز میں ڈرکچھ نہیں
موت اس گلشن میں جز سنجیدن پر کچھ نہیں
جوہرِ انساں عدم سے آشنا ہوتانہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتاہے فنا ہوتانہیں 
اقبال کے تصور ارتقاکی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ انسان کے مادی اور سطحی اندازِ نظر کو مابعد الطبیعیاتی نقطہ نظر میں بدل کر اس کے دل سے موت کا خوف زائل کر دیتاہے اور اس کی روح کو حیات جاوید کی تڑپ سے یوں آشنا کردیتاہے کہ اس کے بدن کی مشت خاک مانع پرواز نہیں بنتی۔ اقبال خطبات میں رقمطراز ہیں:
"Philosophically speaking, therefore, we can not go further than this that in view of the past history of man, it is highly improbable that his career should come to an end with the dissolution of his body." (7)
چونکہ نطشے کی نظر صرف مادی دنیا تک محدود ہے، اس لیے حیات بعد الموت کے حوالے سے مابعد الطبیعیاتی تصور کی اس کے ہاں گنجائش نہیں۔اس کی نظر صرف حیات ارضی پر ہے۔ کولیئرز انسائیکلوپیڈیا(Collier's Encyclopedia)میں درج ہے :
"In fact, Nietzsche urges man to remain faithful to the earth, not to entertain other worldly hopes which constitute a slander of this earth." (8)
پروفیسر سید وحید الدین اپنی کتاب ’’اقبال اورمغربی فکر‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’نٹشے کی ارضیت کسی قسم کی مصالحت کو قبول نہیں کرتی۔ وہ تو غیب کا سرے سے انکار کرتی ہے۔‘‘ (۹)
یہی وجہ ہے کہ اقبال اور نطشے کاتصورِ بقائے دوام ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں۔ اقبال روحانی ارتقا (Spiritual Evolution) پر یقین رکھتاہے جب کہ نطشے ایسے حیاتیاتی ارتقا (Biological Evolution)کی بات کرتاہے جسے انسان کے معنوی فروغ او رشخصی بقا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔چنانچہ فریڈرک کو پلسٹن ،نطشے کے نظریہ تکرار ابدی کے متعلق لکھتاہے:
"The theory also excludes, of course, the idea of personal immortality in a beyond." (10)
اقبال ،ڈاکٹر نکلسن کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’نٹشے بقائے شخصی کا منکر ہے۔ جو لوگ حصول بقاکے آرزو مند ہیں، وہ ان سے کہتاہے ،کیا تم ہمیشہ کے لیے زمانے کی پشت کا بوجھ بنے رہنا چاہتے ہو۔ اس کے قلم سے یہ الفاظ اس لیے نکلے کہ زمانے کے متعلق اس کا تصور غلط تھا ۔‘‘ (۱۱)
نٹشے کا المیہ یہ ہے کہ اس کی نظر اس دنیا کے پیچ وخم میں الجھ کر رہ گئی اور مابعد الطبیعیاتی حقائق تک رسائی حاصل نہ کر سکی۔ اس کی نگاہ میں یہ دنیا سمندر حیات کے لیے آخری کنارہ ہے، چنانچہ اس کے نزدیک بقائے دوام کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ کائنات میں واقعات وحوادث کا ایک دوری (Periodic)تسلسل کار فرما ہے اور فوق البشر (Superman) بھی اس تکرار مسلسل کی زد میں ہے۔ وہ مٹتا، پیدا ہوتا، پھر جنم لیتا، فنا ہوتا اور بار بار ایک ہی رنگ وروپ میں جلوہ نما ہوتادکھائی دیتاہے ۔
اقبال کے نزدیک یہ ارتقا اور بقائے دوام کا درست تصور نہیں، کیونکہ اگر خودی اپنے بے مثل نقش (یعنی اپنے تشخص) کو قائم رکھ کر آگے نہ بڑھ سکے تو ایک ابدی چکر میں اس کے باربار ظہور سے کیافائدہ؟
ہو نقش اگر باطل ،تکرار سے کیاحاصل 
کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی
ایک ایسا فوق البشر جس کا ظہور باربار ہوچکاہو اور جس کی آئندہ بھی باربار پیدائش یقینی ہو،اس کی خودی یقیناًاس لذت یکتائی سے محروم رہتی ہے جو علامہ اقبال کے نزدیک مرکزی نکتہ ہے آرزوئے بقائے دوام کا۔ (۱۲)
اقبال خطبات میں لکھتے ہیں:
"Such is Nietzsche's eternal recurrence. It is only a more rigid kind of mechanism." (13)
مختصر یہ کہ اقبال کے نزدیک بقائے دوام ایسے ابدی چکر کا نام نہیں جو گردش مدام کے ناقابل برداشت اور سوزِ آرزو سے بیگانہ میکانکی عمل کو ظاہر کرے بلکہ بقائے دوام سے مراد خودی کی وہ ارتقائی لگن ہے جس کے باعث وہ اپنی ہستی کی وحدت، انفرادیت اور یکتائی کی صفات اور خوبیوں سمیت ہر لحظہ مستقبل کے لامحدود امکانات کی طرف اپنی اندرونی بہجت عمل کی بدولت قدم آگے بڑھاتی اور حیات کے بلند تر مدارج طے کرتی ہوئی نعرہ مستانہ کی زندہ تصویر بنی نظر آتی ہے:
ایں یک دو آنے، آںیک دوآنے
من جاو دانے، من جاو دانے 

حوالہ جات

1- Muhammad Iqbal, "The Reconstruction of Religious Thought in Islam", Sh. Muhammad Ashraf, Lahore: 1962, p:113
2- Copleston, S.T. Frederick, "A History of Philosophy" (vol:11) Image Book, Doubleday, New York: April 1985, p. 415.
3۔ مظفر حسین، مضمون ’’اقبال کا تصور بقائے دوام‘‘مشمولہ ’’متعلقات خطبات اقبال‘‘ :سید عبداللہ ،اقبال اکادمی پاکستان، لاہور:۱۹۷۷ ص۲۱۷۔
4- Copleston, S.T. Frederick, "A History of Philosophy", p:416
5- Muhammad Iqbal, "The Reconstruction of Religious Thought in Islam", p:114,115.
6- As Alione, p:142
7- As Alione, p:122,123.
8- Bernard Johnston (Ed),"Collier's Encyclopedia", Macmillan Educational Company, New York: 1991, p:532.
9۔وحید الدین ،پروفیسر سید:’’اقبال اور مغربی مفکرین‘‘ اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونیورسٹی ،سرینگر :سن ندارد،ص:۳۳۔
10- Copleston, S.T. Frederick, "A History of Philosophy" vol:11, p:416
11۔محمد اقبال ’’اقبال نامہ (حصہ اول) ‘‘مرتبہ:شیخ عطاء اللہ، شیخ محمد اشرف ،لاہور:سن ندارد ،ص:۳۶۵۔
12۔مظفر حسین ،مضمون ’’اقبال کا تصور بقائے دوام‘‘مشمولہ’’متعلقات خطبات اقبال‘‘ مرتبہ :سید عبداللہ ،ص:۲۰۳۔
13- Muhammad Iqbal, "The Reconstruction of Religious Thought in Islam", p:115.

اسلامی تہذیب کی تاریخی بنیاد

پروفیسر میاں انعام الرحمن

انسانی زندگی گونا گوں پہلووں سے عبارت ہے اور ان تمام پہلووں پر تاریخ کی بسیط چادر تنی ہوئی ہے ۔ صرف اسی ایک فقرے کو بغور دیکھیے کہ اس کے دو ٹکڑے ہیں۔ ’’ اور ‘‘ نے ان ٹکڑوں میں ربط اور معانی پیدا کیے ہیں ۔ اگر ’’ اور ‘‘ کے بعد والا ٹکڑا بے معنی ہے تو اس کا ذمہ دار ’’ اور ‘‘ سے پہلے والا ٹکڑا ہے کیونکہ اس کی بنیاد پر ہی دوسرے ٹکڑے کی تخلیق ممکن ہوئی ہے ، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ دوسرا ٹکڑا ’’ تخلیق ‘‘ ہوتے ہوئے بھی، پہلے ٹکڑے سے الگ، اپنی ذات میں کوئی آزاد معنی نہیں رکھتا ۔ اسی طرح اگر ’’ اور ‘‘ کے بعد والا ٹکڑا ہمیں نئے مفاہیم سے روشناس کراتا ہے تو اس کا کریڈٹ بھی اصلاً ’’اور ‘‘ سے پہلے والے ٹکڑے کو ملنا چاہیے کہ اس نے بہت فراخی سے بامعنی بنیاد فراہم کی ہے۔ یہ صورتِ حال صرف اسی فقرے یا مجموعی طور پر کسی بھی تحریر کے لیے مخصوص نہیں ہے ، بلکہ اس کا دائرہ کار گفتگو اور اعمال تک پھیلا ہوا ہے ۔مثلاً ، اگر کوئی فر د دورانِ گفتگو میں ، اپنے ہی بیان کیے ہوئے نکات بھول جائے تو خالی الذہن ہونے اور بے بنیاد ہو جانے کے باعث اس کی آئندہ گفتگو مجہول اور انتہائی بے معنی ہو جائے گی ۔ اگر کوئی فرد، بھول اور نسیان کا شکار نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود اس کی بات دانش و حکمت سے تہی اور بے معنی معلوم ہو تو سمجھ لیا جانا چاہیے کہ اس کی گفتگو کی بنیاد ہی انتہائی ناقص ہے اور اس ناقص بنیاد پر وہ کوئی حکیمانہ نکات اٹھانے سے معذور اور قاصر ہے۔ یہی بات فرد کے اعمال کی بابت بھی سچ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی زندگی کا ’’حال‘‘ اپنے ماضی سے جدا اور الگ وجود نہیں رکھتا۔ اپنے متصل ماضی کے ساتھ حال کا گہرا اور با معنی تعلق ہوتا ہے۔ ماضی کے ساتھ اسی تعلق اور تعلق کی نوعیت سے انسانی زندگی کے ’’حال‘‘ کی نہ صرف تعمیر ممکن ہوتی ہے بلکہ حال کے رخ اور سمت کا تعین بھی ماضی سے ہوتا ہے ۔ 
اگر مذکورہ گفتگو پر گہری نظر ڈالی جائے تو انسانی زندگی کے دو پہلو نمایاں ہو جاتے ہیں : (۱) حافظہ ، جس کا معکوس بھول اور نسیان ہے ۔ (۲) معقول بنیاد، جس کا معکوس ناقص اور لایعنی بنیاد ہے ۔ اب اگر انہی نکات کو توسیع دیتے ہوئے، گروہی زندگی پر منطبق کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ گروہی زندگی کے اعمال، گفتگو اور تحریری سرمایے کے معیار و ساخت میں ’’حافظے اور معقول بنیاد‘‘ کی حیثیت کلیدی ہے۔ جہاں تک حافظے کا تعلق ہے، کسی گروہ کی تاریخ اس کا حافظہ ہے اور معقول بنیاد اس کی تاریخ کا سرِ آغاز ہے ( اگر وہ دستیاب ہو سکے ) ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ گروہی زندگی کے اعمال ، گفتگو اور تحریری سرمائے میں اگر کوئی گڑ بڑ پائی جائے تو موردِ الزام ، تاریخ ( اور سرِ آغازِ تاریخ) کو ہی ٹھہرایا جانا چاہیے، کیونکہ اس کے پیچھے یہی عوامل کار فرما ہیں۔ اسی طرح اگر گروہی زندگی کے اعمال مثبت جہات لیے ہوئے ہیں، گفتگو میں ادب آداب اور شائستگی کے اسالیب مستور ہیں اور تحریری کاوشیں حسن وخوبصورتی اور تخیل آفرینی کی بوقلمونی سے مالا مال ہیں تو اس کا کریڈٹ بھی ’’تاریخ اور سرِ آغازِ تاریخ ‘‘ کو دیا جانا چاہیے۔
اب اگر ہم دنیا کی مختلف تہذیبوں کی گروہی زندگی پر سرسری نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ ان کے ’’حال‘‘ کی تعمیر و بنیاد کے پیچھے ان کا اجتماعی حافظہ (تاریخ) کارفرما ہے ۔ مغرب کی موجودہ مادی ترقی اور سیکولر اخلاقیات، صنعتی انقلاب کی مرہونِ منت ہے اور صنعتی انقلاب کے پیچھے روشن خیالی کی تحریکات جیسے ٹھوس عوامل موجود ہیں۔ اب اکیسویں صدی کا مغرب، اگر دنیا کی راہنمائی کرنے کی استعداد رکھتا ہے تو اس کا کریڈٹ بجا طور پر اس کی تاریخ اور اس کے سرِ آغازِ تاریخ کو ملنا چاہیے۔ یہ نکتہ اگرچہ قابلِ بحث ہو گا کہ مغرب کا سرِ آغازِ تاریخ کیا ہے؟ اپنے موضوع کے بنیادی نکتے پر توجہ مرکوز رکھنے کی خاطر ہم یہاں اس بحث سے صرف نظر کریں گے۔ لیکن اگر مغرب دنیا کی راہنمائی کرنے کا ’’ دعویٰ ‘‘ کرتا ہے اور دنیا کی دیگر تہذیبیں اس کے دعوے کی بابت تحفظات رکھتی ہیں تو ان تحفظات کی ضرب، مغربی تہذیب کے حال کے بجائے اس کی تاریخ پر پڑنی چاہیے کیونکہ اس کے حالیہ دعوے کی بنیاد اس کی اپنی تاریخ پر ہے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ کیا مغرب کا دعویٰ مکمل طور پر غلط ہے یا اس میں کہیں کہیں سچائی کی لہریں بھی بل کھاتی دکھائی دیتی ہیں؟ ظاہر ہے کہ مغرب کا تہذیبی برتری کا دعویٰ مکمل طور پر غلط نہیں ہے کیونکہ اس کی بعض تہذیبی اقدار ایسی مثبت جہات کی حامل ہیں جن کے متعلق دیگر تہذیبوں نے انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کی۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ مغربی تہذیب کی بنیاد ( یعنی اس کی تاریخ اور سرِ آغازِ تاریخ ) مکمل طور پر اگرچہ لایعنی اور منفی نہیں ہے، لیکن مکمل طور پر بامعنی اور مثبت بھی نہیں ہے ۔ 
اب ہم ایک دوسری تہذیب کی گروہی زندگی پر سرسری نظر ڈالیں گے جسے ’اسلامی تہذیب‘ کہا جاتا ہے ۔ اس تہذیب کی صورتِ حال انتہائی عجیب و غریب ہے۔ یہ تہذیب ایک طرف داخلی و خارجی اعتبار سے ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت کا شکار ہے تو دوسری طرف دنیا کی راہنمائی کرنے کی بھی دعوے دار ہے۔ مذکورہ بالا اصول کے مطابق، اس کی اس متضاد حالت کی بنیاد اس کی اپنی تاریخ میں مضمر ہے۔ اس تہذیب کی تاریخ دو عملی پر مشتمل ہے جو متوازی اور یکساں طور پر اس کے حال پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ’’ دو عملی ‘‘کیا ہے ؟ ہماری رائے میں اس تہذیب کے حال کی بنیاد میں ایک طرف ’’ تاریخی اسلام ‘‘ کارفرما ہے اور دوسری طرف ’’ دینِ اسلام ‘‘ اس کے حال کی تعمیر کر رہا ہے۔ اس لیے مذکورہ دو عملی یا اس کے حال میں موجود تضاد، حقیقت میں تاریخی اسلام اور دینِ اسلام کی باہمی آویزش کا نتیجہ ہے۔ یہاں یہ نکتہ البتہ قابلِ بحث ہے کہ کون سا اسلام اس تہذیب کی ٹوٹ پھوٹ کا ذمہ دار ہے اور کون سا اسلام اس کے راہنمائی کے دعوے کے پیچھے کارفرما ہے ۔ سرِ دست ہم اس نکتے پر بحث نہیں کریں گے ۔
جہاں تک اسلامی تہذیب کے ’’ حال‘‘ کی تعمیر کرنے والی تاریخ کے تعین کا تعلق ہے، وہ حال کی متضاد صورتِ حال سے متعین ہو کر، دو عملی کی صورت میں سامنے آتی ہے ۔ یہاں منطقی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو عملی کی صورتِ حال کیونکر پیدا ہوئی؟ اس سوال کا ایک سطری جواب یہ ہے کہ تاریخی اسلام (Historical Islam) کو دینِ اسلام کے متوازی اور یکساں مقام سے نواز اگیا، شاید (بلکہ یقینا) دینِ اسلام سے بھی بڑھ کر مقام دیا گیا۔ اب اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاریخی اسلام (Historical Islam) سے کیا مراد ہے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مختلف زمانوں، مختلف خطوں، مختلف ثقافتوں، مختلف اداروں اور مختلف افراد کی تعبیرات و تشریحات اور تاریخی عمل (Historical Process) وغیرہ سے درجہ بدرجہ اسلام کی جو صورت سامنے آتی رہی، وہ صورت زمانی ترتیب سے ارتقا پذیر ہوتے ہوئے تاریخی اسلام (Historical Islam) کی تشکیل کا باعث بنی۔ یہ تعبیرات و تشریحات اور تاریخی عمل وغیرہ ، اگرچہ کہیں کم کہیں زیادہ ، دینِ اسلام سے مَس کرتے ہیں، لیکن ان کی بنت و بافت میں کلیدی حصہ ، زمانی و مکانی عْرف اور افراد کے فہم کا ہے ۔ یہ بات بحث طلب نہیں ہے کہ زمانی و مکانی عْرف نہ صرف تغیر پذیر رہتا ہے بلکہ افراد کے فہم کی تشکیل میں بھی اس کا بنیادی کردار ہوتا ہے ، لہٰذا افراد کا فہم بھی غیر متغیر اور ابدی نہیں رہتا۔ اب ذرا غور کیجیے کہ اگر اسلامی تہذیب کسی بھی زمانے میں اور کسی بھی خطے میں اپنا ’’حال‘‘ تاریخی اسلام (Historical Islam) کی بنیادپر تعمیر کرے گی تو اس کا کیا نتیجہ برآمد ہو گا؟ ظاہر ہے، اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ کسی مخصوص زمانی و مکانی عْرف کو زبردستی اس تہذیب کے حال پر مسلط کیا جائے گا اور حال کے زمانی ومکانی عْرف سے صرفِ نظر کیا جائے گا، اقدار کے آفاقی، کلی اور ابدی نظام کے بجائے کسی ( زمانے یا شخص) کے فہمِ اسلام کو (جو ابدی نہیں ہو سکتا، بلکہ اضافی اور تغیر پذیر ہوتا ہے) ابدی گردانتے ہوئے اسلامی تہذیب کے حال پر منطبق کیا جائے گا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ معاصر اسلامی تہذیب کی تعمیر میں تاریخی اسلام (Historical Islam) کے بنیادی کردار اور تاریخی اسلام کی منفیت نے اس تہذیب کے ’’حال‘‘ کو المیے سے دوچار کر دیا ہے۔ اسلامی تہذیب کے ’’حال‘‘ کی بنیادوں میں اب کہیں تصوف کی روایات ہیں، کہیں ائمہ اربعہ و جمہور فقہا کی فنی موشگافیاں ہیں اور کہیں بادشاہوں و سلاطین کی وہ پالیسیاں ہیں جن پر اسلامیت کا ٹھپہ لگایا گیا۔ ان تمام سلسلوں کا تعلق، حقیقت میں تاریخی اسلام (Historical Islam) کے ساتھ ہے، جبکہ دینِ اسلام کا وجود ان سے الگ تھلگ قائم ہے ۔ 
اب اس سوال کو لیجیے کہ اسلامی تہذیب، مغربی تہذیب (اور دیگر تہذیبوں) سے کن معنوں میں مختلف ہے ؟ کیونکہ اسلامی تہذیب کے حال کی تعمیر، دیگر تہذیبوں کے مانند، اپنی تاریخ پر ہوئی ہے، اس لیے لامحالہ ہمیں اسلامی تہذیب کے حال کی تعمیر کرنے والی اس تاریخ کا سراغ لگانا ہو گا جو تاریخ ہوتے ہوئے بھی تاریخ کے روایتی تصور سے مختلف اور ممتاز ہو ۔ اب اگر تاریخی اسلام (Historical Islam) کو اسلامی تہذیب کے حال کی بنیاد تسلیم کر لیا جائے (اور وہ حقیقتاً ہے بھی) تو پھر دیگر تہذیبوں سے اسلامی تہذیب کو ممیز کرنا تقریباً نا ممکن ہو جائے گا۔ اگرچہ اس نکتے کی صراحت ضروری معلوم ہوتی ہے، لیکن طوالت سے بچنے کی خاطر ہم فقط یہی کہنے پر اکتفا کریں گے کہ تاریخی اسلام (Historical Islam) اور دیگر تہذیبوں کی تاریخ (History) کے مابین ساختیاتی اعتبار سے کوئی بنیادی فرق قائم کرنا مشکل کام ہے، کیونکہ ہر دو کے ہاں تاریخی ارتقا (Historical Evolution) کا اصول کارفرما ہے ۔ جب کوئی اصولی اور بنیادی فرق موجود ہی نہیں ہے تو پھر ہر دو تہذیبوں کے حال کا فرق اور ایک دوسرے پر برتری کا دعویٰ بھی غیر اہم اور بے معنی ہو جاتا ہے ۔ یہاں منطقی طور پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلامی اور غیر اسلامی تہذیبوں کے درمیان کوئی اساسی فرق موجود نہیں ہے تو پھر مغربی تہذیب خوشحالی اور ترقی کی شاہراہ پر کیوں گامزن ہے ؟ اور اسلامی تہذیب انحطاط و زوال کا کیونکر شکار ہے؟ اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ جس طرح آج کی مغربی تہذیب اپنے متصل ماضی سے منسلک ہے، اسی طرح اسلامی تہذیب بھی اپنے متصل ماضی سے جدا نہیں ہے۔ متصل ماضی سے تعلق کا یہ اصول دونوں تہذیبوں کو اساسی اعتبار سے یکساں قرار دیتا ہے ، لیکن ظواہر میں فرق اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ تاریخی ارتقا کے دوران میں تاریخی عوامل کے مقابل میں اپنایا گیا رویہ دونوں تہذیبوں کے ہاں منفرد اور جدا جدا رہتا ہے۔ یکساں تاریخی عوامل کے مقابل میں دونوں تہذیبوں نے کس قسم کے رویے کا اظہار کیا اور منفرد تاریخی عوامل کے مقابل میں کیا طرزِ عمل اختیار کیا؟ یہ ایک طویل بحث ہے اور سرِ دست ہمارے بنیادی موضوع سے خارج ہے ۔
بہرحال، موجودہ زمینی حقائق کے مطابق اسلامی تہذیب کا مذکورہ داخلی تضاد اسے مغربی تہذیب (اور دیگر تہذیبوں) سے ممیز کرتا ہے۔ جیسا کہ ذکر ہوا، یہ تضاد یا دو عملی، بنیادی طور پر تاریخی اسلام اور دینِ اسلام کی باہمی آویزش کا نتیجہ ہے ۔ ہم یہ کہنے کی جسارت تو نہیں کر سکتے کہ اپنے آغاز سے لے کر دورِ حاضر تک یہ تہذیب ’’دو عملی‘‘ کا شکار رہی ہے، لیکن یقیناًپچھلی کئی صدیوں سے یہ دو عملی ایک تہذیبی قدر کی صورت اختیار کر چکی ہے۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ اسلامی تہذیب کے ’’حال‘‘ کی تعمیر میں ایک طرف ( تاریخی جبر سے ماورا) دینِ اسلام کی آفاقی اقدارسر گرمِ عمل ہیں، مثلاً صبر ، شکر ، ایثار ، عدل، احسان، رحم دلی، خیر خواہی، تقویٰ، دیانت، امانت، ایفائے عہد، اخلاص، تواضع، شرم و حیا، توبہ و استغفار اور توکل علی اللہ وغیرہ، اور دوسری طرف اس تہذیب کا ’’حال‘‘ تاریخی اسلام (Historical Islam) کی جولان گاہ بنا ہوا ہے ، مثلاً بے صبری، عجلت، ناشکری، خود غرضی، ظلم، بد خواہی، بے خوفی، بد دیانتی، خیانت، عہد شکنی، بغض و عناد، ریا، خود ستائی، غصہ، بے حیائی، لہوو لعب، غرور و تکبر، حسد، بہتان، جھوٹ، رشوت خوری اور بد اخلاقی وغیرہ جیسی اقدار اس تہذیب کے عملی احوال کی نمائندہ بن گئی ہیں۔ ہمیں اعتراف کر لینا چاہیے کہ اسلامی تہذیب کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں جھوٹ، ملاوٹ، رشوت خوری اور بد دیانتی جیسی منفی اقدار سرایت کر گئی ہیں، کیونکہ یہ اعتراف اس حقیقت کی نفی نہیں کرتا کہ اس تہذیب کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے کہیں کونے کھدرے میں سچ، خلوص، دیانت اور صبروشکر جیسی آفاقی اور غیر متغیر اقدار بھی سر اٹھاتی رہتی ہیں۔ یہ صورتِ حال ایک ایسی تہذیبی قدر کو جنم دیتی ہے جسے ہم نے دو عملی یا تضاد کا نام دیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ یہی تضاد ، داخلی اعتبار سے اسلامی تہذیب کے لیے اور خارجی اعتبار سے عالمِ انسانیت کے لیے، مثبت جہات کا اشاریہ بن گیا ہے ۔ خیال رہے کہ یہ تضاد بنیادی طور پر دینِ اسلام کا پیدا کردہ ہے، اس کے بر عکس تاریخی اسلام (Historical Islam) اسلامی تہذیب کی انفرادی و گروہی زندگی کو ( دیگر تہذیبوں کی تاریخ کے مانند) تاریخی جبر کا مطیع کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ 
بحث کے اس مقام پر اب واضح ہو رہا ہے کہ اصولی اعتبار سے، اسلامی تہذیب کے حال کی تعمیر کرنے والی تاریخ، مغربی تہذیب (اور دیگر تہذیبوں) کے حال کی تعمیر کرنے والی تواریخ سے کن معنوں میں مختلف ہے ۔ اس بنیادی نکتے کی تنقیح سے نہ صرف اسلامی تہذیب کی دو عملی یا تضاد کو ختم کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے قدری نظام کو بھی ساختیاتی اعتبار سے دیگر تہذیبوں سے ممتاز کیا جا سکتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی زمانے اور کسی بھی خطے میں اسلامی تہذیب کے حال کو تعمیر کرنے والی تاریخ، دینِ اسلام ہونا چاہیے۔ دینِ اسلام سے مراد تاریخی اسلام نہیں، بلکہ قرآن و سنت ہے ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ اسلامی تہذیب اپنے حال کی تعمیر میں، مغربی تہذیب (اور دیگر تہذیبوں) کے بر خلاف زمانی ارتقا پر مبنی تاریخ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی، کیونکہ ایسی تاریخ میں اگرچہ کچھ نہ کچھ حکمت و دانش کے اسرار و رموز پوشیدہ ہو سکتے ہیں، لیکن یہ اسرار و رموز، تاریخی عمل میں انسانی کردار کے مختلف اسالیب کا اظہار ہونے کی وجہ سے، ابدی صداقتوں اور غیر متغیر جہات کے حامل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے ان کی بنیاد پر تعمیر کیا گیا کوئی بھی ’’حال‘‘ اپنی ساخت کے لحاظ سے ناقص اور یک رخا ہی ہو سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تہذیب اپنے ’’حال‘‘ کی تعمیرتاریخی اسلام کے بجائے ہمیشہ دینِ اسلام کی بنیاد پر قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ( موجودہ دو عملی یا تضاد اسی کوشش کا اظہار ہے) یہاں ایک بہت اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی تہذیب کے حال کی تعمیر کرنے کے اعتبار سے دینِ اسلام، تاریخی اسلام اور دیگر تہذیبوں کی تاریخ سے کن معنوں میں مختلف ہے؟ اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کا غیر متغیر انداز میں، کئی صدیوں سے سندِ مسلسل کے ساتھ ہم تک پہنچنا، اسے دیگر تاریخی بنیادوں (تاریخی اسلام وغیرہ) سے نہ صرف بہت ممتاز کر دیتا ہے بلکہ انتہائی ٹھوس انداز میں آشکارا کر دیتا ہے کہ قرآن مجید، تاریخی عمل میں انسانی کردار کے مختلف اسالیب کا اظہار نہیں ہے، یعنی تاریخ کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ تاریخ کو درست سمت میں گامزن کرنے کا ایک مستقل ذریعہ ہے۔ اس کے بر عکس ، تاریخی اسلام و دیگر تہذیبوں کی تواریخ ، حقیقت میں تاریخ کی پیداوار ہیں، اس لیے متغیر اور غیر ابدی ہیں۔ اب ذرا غور کیجیے کہ جو نام نہاد بنیاد، خود تاریخ کی پیداوار ہو، وہ کسی ایسے حال کی تعمیر کیونکر کر سکتی ہے جو تاریخی جبر سے ماورا ہو؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اسلامی تہذیب کے حال کی تعمیر میں سے دینِ اسلام کے کردار کو منہا کر دیا جائے تو نہ صرف اسلامی تہذیب بلکہ عالمِ انسانیت بھی تاریخی قوتوں کی اس طرح مطیع ہو جائے گی جس طرح کسی مشین کے کل پرزے ہوتے ہیں ۔ 
یہاں پر یہ دلچسپ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا قرآن مجید، جو دینِ اسلام کی بنیاد ہے، خود تاریخ کی پیداوار نہیں ہے؟ یہ سوال بلاشبہ بہت منطقی اور بر محل معلوم ہوتا ہے۔ قرآن مجید کے تاریخ کی پیداوار ہونے کے دو نمایا ں پہلو ہو سکتے ہیں : (۱) قرآن مجید، اپنے سے قبل کی تاریخ کا نتیجہ ہے۔ (۲) قرآن مجید، اپنے نزول کے زمانے کی ضرورت ہے۔ 
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے، اس کا جواب خدا، رسول، ملائکہ اور آخرت وغیرہ جیسے مباحث کے بغیر ادھورا اور نامکمل رہے گا۔ چونکہ یہ مباحث سرِ دست ہمارے موضوع سے خارج ہیں، اس لیے اتنا عرض کرنا کفایت کرے گا کہ قرآن مجید کا اعجاز پہلے سوال کی نفی کردیتا ہے اور پھر قرآن مجید کے بعد کی تاریخ میں کسی ایسی ہی کتاب کی عدم موجودگی، جو اس تاریخی سلسلے کو جاری و ساری رکھتی، اس امر پر دال ہے کہ قرآن مجید، تاریخ کی پیداوار نہیں ہے۔ جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے، وہ قدرے اہم معلوم ہوتا ہے کیونکہ خود مسلم مفسرین، مکی ومدنی آیات کی تقسیم اور شانِ نزول وغیرہ پر خاصا زور دیتے ہیں جس سے یقیناًقرآن مجید اپنے نزول کے زمانے اور حالات سے مخصوص ہو جاتا ہے۔اس کے باوجود ایک اہم نکتہ قرآن مجید کو اس کے نزول کے سیاق سے بالاتر کرکے اس کی ابدیت پر مہرِ تصدیق ثبت کردیتا ہے۔ مسلم مفسرین کی آرا اپنی جگہ اہم ہو سکتی ہیں، لیکن نبی پاک ﷺ کے زمانے میں ہی قرآن مجید کی ترتیب کا بدل دیا جانا اور اس بدلی ہوئی ترتیب کے ساتھ قرآن مجید کا ہم تک پہنچنا ، قرآن مجید کو اپنے نزول کے زمانے اور ضروریات سے ماورا کر دیتا ہے۔ ( مزید تفصیل کے لیے ماہنامہ الشریعہ اگست ۲۰۰۶ میں ہمارا مضمون ’’ معاصر تہذیبی تناظر میں مسلم علمی روایت کی تجدید‘‘ ملاحظہ کیجیے) ۔
ابتدائی سطروں میں ہم نے ’’حافظے اور معقول بنیاد ‘‘ کی بات کی تھی اور گزارش کی تھی کہ کسی قوم یا تہذیب کا حافظہ ، اس کی تاریخ ہوتی ہے جس کی بنیاد پر ہی اس کے حال کی تعمیر ہوتی ہے۔ تاریخ سے کٹ کر کوئی قوم یا تہذیب ، اپنے حال کی تعمیر کر ہی نہیں سکتی۔ غور طلب مقام ہے کہ اسلامی تہذیب کی تا ریخ ، یعنی دینِ اسلام کی ثقاہت وابدیت کا کوئی دوسری تہذیب مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس تہذیب کے حال کی تعمیر کرنے والی یہ قوت یعنی دینِ اسلام اٹکل پچو نہیں ۔ یہ نہ صرف تاریخی عمل کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ اس میں زمانی و مکانی آلایشوں کی شمولیت کا ایک فی صد بھی امکان نہیں ہے ، حالانکہ مغربی تہذیب (اور دیگر تہذیبوں کی تاریخ) کا اس نقص سے بچ نکلنا نا ممکن امر ہے۔ایک طرف حفظِ قرآن کی روایت ہمیں بے تاریخ ہونے کے کسی بھی خدشے سے بے نیاز کر دیتی ہے اور دوسری طرف علمِ حدیث میں تعدیل و جرح کے اصول ، خود تاریخ کو کسی بھی قسم کے بگاڑ کا شکار ہونے سے بچا لیتے ہیں۔ اگر مسلمان ہونے کی حیثیت سے بات کی جائے تو وہ تاریخ ، جس کی بنیاد پر (ہر زمانے اور ہر خطے میں) اسلامی تہذیب کے حال کی تعمیر ہونی ہے، اس کی حفاظت کا ذمہ خود خدا نے اٹھایا ہو تو وہ کیونکربگاڑ کا شکار ہوکر اس تہذیب کے حال کی غلط تعمیر کر سکتی ہے؟ بلاشبہ اسلامی تہذیب کو اپنے حال کی تعمیر کے لیے، دنیا کی کسی بھی تہذیب سے بہت بڑھ کر ، بہت ہی مضبوط، ٹھوس اور پائیدار بنیاد حاصل ہے جو تاریخی جبر سے ماورا ہے ۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس تہذیب کی تاریخ کا سرِ آغاز بھی انتہائی بامعنی ہے : ’الست بربکم‘ (اعراف ۷: ۱۷۲)
بہر حال ، جب دینِ اسلام کو اسلامی تہذیب کے ’’حال ‘‘کی بنیاد تسلیم کر لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ تاریخی اسلام (Historical Islam) کا کیا مقام ہے؟ اگر دیگر تہذیبوں کی تواریخ صرف منفی اقدار کو جنم نہیں دیتیں توکیا تاریخی اسلام (Historical Islam) صرف منفی اقدار کا حامل ہے؟ یقیناًنہیں،کیونکہ تاریخی ارتقا (Historical Evolution) اور تاریخی عمل کے دوران میں دینِ اسلام کا کردار ہمیشہ موجود رہا ہے ، چاہے یہ بہت بنیادی نوعیت کا ہو جس طرح ہمارے اسلاف کے ہاں تھا، یا یہ دوعملی یا تضاد پیدا کرنے تک محدود ہو، جس طرح معاصر اسلامی تہذیب میں کارفرما ہے۔ تو کیا پھر غزالیؒ ، ابن تیمیہؒ ، شاہ ولی اللہؒ ، ائمہ اربعہ، جمہور فقہا اور صوفیا کرام ؒ وغیرہ کا ہماری تہذیب کے ’’حال‘‘ کی تعمیر میں کوئی کردار ہو سکتا ہے؟ہماری نظر میں ان کا کردار ’’پیشوائیت‘‘ والا ہرگز نہیں ہے جیسا کہ عملی طور پرتسلیم کر لیا گیا ہے۔ ہماری تہذیب کے ’’حال‘‘ کے ساتھ ان کا تعلق ’’ہم سفری‘‘ کا ہے ۔ وہ ہمارے ہم سفر ہیں اور ہم ان کے ہم سفر ہیں، ہم ایک دوسرے کے پیشوا ہرگز نہیں ہیں۔ ہم سفری کے اثبات اور پیشوائیت کی نفی کی یہ منطق بظاہر عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ دو مختلف زمانوں میں ہوتے ہوئے ہم لوگ کیسے ہم سفر ہو سکتے ہیں؟ اور پھر وہ لوگ تو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں، اس لیے ان کی بابت ہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہمارے پیشوا ہیں یا نہیں ہیں، لیکن یہی بات معکوس انداز میں کیسے کہی جا سکتی ہے ؟ ہم گزارش کریں گے کہ اوپر کی سطروں میں واضح ہو چکا ہے کہ اسلامی تہذیب اپنے حال کی تعمیر میں’’ تاریخ کا تعین‘‘ کرتے وقت ارتقا پر مبنی زمانی ترتیب کی تاریخ کو ملحوظ نہیں رکھتی، بلکہ اس کی بنیاد اصولاً اور اصلاً دینِ اسلام پر ہوتی ہے ۔ اب اگر کسی بھی دور میں اسلامی تہذیب اپنے حال کی تعمیر، دینِ اسلام پر قائم کرتی ہے تو وہ کسی بھی دوسرے دور میں کسی ایسی ہی تہذیب کی ہم سفر قرار پاتی ہے، کیونکہ دونوں کے ’’حال ‘‘ کی تعمیر کی پشت پر یکساں اصول موجود ہوتے ہیں۔یہ یکساں اصول یعنی قرآن و سنت، ایک طرف زمان و مکان کا لحاظ کیے بغیر، ہم سفر تہذیبوں کو ملت یا امت کے عظیم اجتماعی دھارے سے منسلک کر دیتے ہیں اور دوسری طرف کسی کی پیشوائیت کی ہر گنجایش کا بھی خاتمہ کر دیتے ہیں۔
اختتامی کلمات کی طرف بڑھتے ہوئے ہم گزارش کریں گے کہ آج ہمارے سامنے دو بنیادی سوال سینہ تانے کھڑے ہیں کہ کیا معاصراسلامی تہذیب کے حال کی تعمیروبنیاد، دینِ اسلام پر ہے، جس طرح ہمارے اسلاف نے اپنے زمانے میں اسلامی تہذیب کے حال کی بنیاد، دینِ اسلام پر رکھی تھی؟ اور کیا ہم نے تاریخی اسلام (Historical Islam) کو اپنے اسلاف کے مانند ہم سفری کے درجے میں رکھا ہے یا پھر اسے پیشوائیت کی مسند پر براجمان کر دیا ہے؟ ہمارے جوابات ہمیں مغربی تہذیب و دیگر تہذیبوں سے ممتاز کر کے داعیانہ مقام بھی عطا کر سکتے ہیں اور انہی تہذیبوں کی ہم سفری کے’’ شرف ‘‘ سے بھی نواز سکتے ہیں۔

اقبال کا خطبہ اجتہاد: ایک تنقیدی جائزہ

الطاف احمد اعظمی

(’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ میں) اقبال نے اسلامی قانون کے بنیادی مآخذکا بھی جائزہ لیا ہے۔ اسلامی مآخذ کاپہلا ماخذ قرآن حکیم ہے۔ اس میں تفصیلی قوانین کی جگہ اصول وکلیات زیادہ ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس نے انسانی فکر کے لیے پوری گنجائش رکھی ہے۔ چنانچہ مسلم فقہا نے ان اصولوں کی بنیادپر ایک نظام قانون وضع کیا جو قدرقیمت کے لحاظ سے کسی طرح بھی رومی قانون سے کم نہیں بلکہ فائق ہے، لیکن یہ بہر حال انسانی تشریحات ہیں، اس لیے ہم اس کو حرف آخر نہیں کہہ سکتے ہیں۔اگر عہد حاضر کے مسلمان قرآن مجید کے اصولوں کی روشنی میں اسلامی نظام کی نئی تشریح کریں تو وہ کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ہے، اور اس عمل پر متقدمین کے کام اور ان کی آرا کو حائل نہیں ہونا چاہیے۔ (۱)
اسلامی قانون کا دوسرا ماخذ حدیث ہے۔ حدیث کے بارے میں ہر دور کے علما میں اختلاف رہاہے، اس لیے اقبال نے اس نزاع سے بچتے ہوئے صرف ان احادیث تک اپنی بات محدود رکھی ہے جن کی حیثیت قانونی ہے یعنی جن کاتعلق معاملات زندگی سے ہے۔اس سلسلے میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ نبی ﷺنے قانون سازی کے عمل میں عربوں کے کن عادات ورسوم کو باقی رکھا اور کن عادات ورسوم میں جزئی ترمیمات کے بعد ان کو اسلامی قانون کا درجہ دیا۔ اس سلسلے میں اقبال نے شاہ ولی اللہ کے حوالے سے لکھاہے کہ جو پیغمبر بھی آتاہے، وہ کار رسالت کی انجام دہی میں مخاطب قوم کی عادات، طریقے اور نفسیات کا پورا لحاظ رکھتاہے۔ اس اعتبار سے وہ جو قوانین بناتاہے، وہ دائمی نہیں ہوتے بلکہ اسی قوم کے ساتھ مختص ہوتے ہیں۔ ان کو جوں کاتوں دوسری قوموں پر نافذ نہیں کیا جاسکتاہے، مثلاً جرائم کی سزا وغیرہ۔یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے فقہ اسلامی کی تدوین میں اس نوع کی حدیثوں سے بہت کم تعرض کیاہے۔ انہوں نے استحسان (۲) کا جو اصول وضع کیا، اس سے صاف ظاہر ہے کہ احادیث کی طرف ان کی توجہ زیادہ کیوں نہیں تھی۔ وہ جانتے تھے کہ قانون سازی کے عمل میں حالات زمانہ پر غور وفکر نہایت ضروری ہے۔ مخصوص قسم کے حالات میں بنائے گئے قانون کو اس سے مختلف حالات میں نافذ کرنا قانون کے مقصد وغایت کو نظر انداز کرنا ہے۔(۳)
بعض علما کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ کے عہد میں حدیث کے مجموعے مرتب نہیں ہوئے تھے اورمعاملات کی بہت سی حدیثیں ان تک نہیں پہنچی تھیں، اس لیے انہوں نے احادیث سے بہت کم تعرض کیاہے۔یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ امام مالکؒ اورزہری ؒ کے قانونی مجموعے موجود تھے۔ امام ابو حنیفہؒ خود بھی حدیث کے جید عالم تھے۔ اگر وہ چاہتے تو حدیث کا ایک مجموعہ تیار کر سکتے تھے۔ اقبال کاخیال ہے کہ حدیث کے باب میں امام ابوحنیفہؒ کاطرز عمل بالکل درست تھا۔ احادیث دراصل نبی ﷺ کے اجتہادا ت ہیں۔ ہم ان کی مدد سے یہ جان سکتے ہیں کہ آپﷺ نے وحی کی تشریح کس طرح کی۔ (۴)
اسلامی قانون کاتیسرا ماخذ اجماع ہے۔ اقبال نے لکھا ہے کہ علما نے اس سلسلے میں نظری بحثیں تو بہت کیں لیکن اس خیال کو ایک مستقل ادارے کی شکل میں تبدیل نہ کرسکے۔ اجماع کے سلسلے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا صحابہؓ کا اجماع ہر دور میں قابل اتباع ہے؟ اقبال کا خیال ہے کہ جن امور کا تعلق واقعات (facts) سے ہو مثلاً معوذتین جزو قرآن ہیں یا نہیں، ان میں صحابہؓ کی اتباع واجب ہے کیونکہ صحیح حالات سے وہی لوگ واقف ہو سکتے ہیں، لیکن جن امور کاتعلق قانون سے ہے، ان میں صحابہؓ کا فیصلہ ہر دور کے مسلمانوں کے لیے واجب الاطاعت نہیں ہے کیونکہ اس کا تعلق کسی حکمی آیت کی تشریح سے ہے اور یہ تشریح اپنے عہد کے حالات اور تقاضوں کے لحاظ سے ہوگی۔ اقبال نے تائید میں کرخی ؒ کا حوالہ دیا ہے۔ انہوں نے لکھاہے کہ جن امور کا تعلق قیاس سے نہیں ہے، ان میں صحابہؓ کی سنت واجب العمل ہے لیکن قیاسی امور میں یہ واجب نہیں ہے۔ (۵)
اقبال نے اس خیال کی تردید کی ہے کہ اجماع قرآن کا ناسخ ہے۔ اجماع تو درکنار، حدیث رسول ﷺ کو بھی یہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔(۶) اجماع سے مراد علما کے ایک بڑے گروہ کاکسی شرعی معاملے میں اتحاد رائے ہے۔اقبال کے نزدیک عہد حاضر میں اجماع کی صحیح ترین صورت عوامی نمائندوں کی مجلس ہے، لیکن اس کے ساتھ قانون دان علما کی ایک جماعت بھی ہو جو وضع قانون میں مجلس کی مدد کرے اور اس کے ذریعے بنائے گئے قوانین کی نگران بھی ہو۔ (۷)
اسلامی قانون کا چوتھا ماخذ قیاس (Reason) ہے یعنی مماثلت علت کی بنیاد پر قانون سازی۔اصول قیاس کا سب سے زیادہ استعمال امام ابوحنیفہؒ نے کیاہے۔ اقبال نے لکھاہے کہ اس کی وجہ اس عہد کے سیاسی اور سماجی حالات تھے۔ انہوں نے شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ اسلام کے مفتوحہ ممالک میں جو سماجی اور معاشی حالات ہیں، ان کے بارے میں حدیث سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ چنانچہ انہوں نے قیاس سے کام لیا اور حالات زمانہ کے لحاظ سے نئے احکام نکالے۔ یہ طرز عمل ایک لحاظ سے درست تھا اور ایک لحاظ سے غلط۔ انہوں نے اصول قیاس پر ارسطو کی منطق کی مدد سے اسلام کاایک مکمل نظام قانون بنا ڈالا۔ جو معاملات ابھی تک پیش نہیں آئے تھے، ان کے لیے بھی قوانین بنا ڈالے ۔اس بے روح میکانکی عمل نے اسلامی قانون کے ارتقا کو متاثر کیا اور بعد کے فقہا کی تخلیقی آزادی کاراستہ بالکل مسدود ہو گیا۔ (۸)
امام مالک ؒ اور امام شافعی ؒ دونوں نے امام ابو حنیفہؒ کے اصول قیاس پر تنقیدکی ہے جو ان کے قومی مزاج کاخاصہ تھا۔ انہوں نے تصور کے بجائے عملی واقعات کواہمیت دی۔اس کے برخلاف ایرانی مزاج تجریدی تھا، وہ واقعہ سے زیادہ تصور کو اہمیت دیتاتھا۔ فقہاے حجاز نے عملی واقعات کو دائمی حیثیت دی اور قیاس سے اجتناب کیا۔ ان کا یہ طرز عمل درست نہ تھا،کیونکہ قیاس کی بنیاد عملی واقعات (concrete)کے مطالعے پر ہے اور یہ ایک درست طریقہ ہے یعنی استقرائی طریقہ۔ اس میں حالات سے ہم آہنگی اور فکری آزادی دونوں چیزیں موجود ہیں جب کہ استخراجی طریقہ میں یہ دونوں عناصر ناپید ہیں، لیکن جس طرح علماے حجاز نے عملی واقعات پر مشتمل احادیث کو دائمی حیثیت دی اور بایں طور اسلامی قانون کو ترقی اور حرکت سے محروم کر دیا، اسی طرح فقہاے عراق نے امام ابو حنیفہؒ کے اجتہادات کو ہر پہلو سے مکمل قرار دے کر مزید قیاس کا دروازہ بند کر دیا۔ (۹)
اقبال کا خیال ہے کہ متن وحی کے اندر رہتے ہوئے قیاس کا حق جس طرح متقدمین علما کو حاصل تھا، اسی طرح عہد حاضر کے علما وفضلا کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ علما کا یہ کہنا کہ اجتہاد کا دور ختم ہو چکا ہے، محض افسانہ ہے ۔اس خیال کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اسلامی قانون ایک مدون شکل (crystalized legal thoughts) میں موجو د ہے ،اور اس کی دوسری وجہ علما کی کاہلی ہے جو روحانی انحطاط کا لازمی نتیجہ ہے۔ اسی کاہلی کی وجہ سے انہوں نے متقدمین فقہا کو بت کادرجہ دے رکھا ہے اور ان کی تشریحات وآرا سے بال برابر ہٹنا خلاف عقیدت ٹھہرایا ہے، لیکن عہد جدید کے دانشور اپنی عقلی آزادی کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دسویں صدی ہجری کے نامور فقیہ سرخسی نے لکھا ہے کہ اگر اس افسانہ (یعنی یہ کہ اب اجتہاد کی ضرورت نہیں ہے)کے قائلین کاخیال ہے کہ متقدمین علما کو اجتہاد کے زیادہ مواقع اور آسانیاں دستیاب تھیں تو یہ ایک لغو خیال ہے۔ ہر شخص معمولی غورفکر سے دیکھ سکتاہے کہ متقدمین کے مقابلے میں اس عہد کے علما کے لیے اجتہاد زیادہ آسان ہے۔ قرآن وسنت پر مشتمل جو عظیم تفسیر ی اور خبری ذخیرہ اس وقت موجو دہے، وہ پہلے کے لوگوں کو حاصل نہ تھا۔اس دور کا مجتہد اس وسیع علمی ذخیرے کی مدد سے کہیں زیادہ آسانی کے ساتھ اجتہاد کے فریضے سے سبکدوش ہو سکتاہے۔ (۱۰)

اقبال کی آرا پر تبصرہ

اسلامی قانون کے چاروں مآخذ کے بارے میں اقبال نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ کلی طور پر صحیح نہیں ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قرآن مجید کتاب اصول ہے اور اس میں معاملات زندگی کے متعلق احکام کی تفصیلی صورتیں کم ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں، جیسا کہ اقبال نے سمجھاہے کہ قرآن مجید کی اصلی غایت خدا اور کائنات کا ادراک وعرفان ہے، اس لیے مسائل حیات سے اس میں زیادہ تعرض نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسانی ذہن اور اس کے مختلف سماجی ادارات دونوں ارتقا پذیر ہیں، اس لیے کوئی ایسا مجموعہ قوانین نہیں بنایا جاسکتاتھا جو ہر دور کے مختلف النوع تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہو۔ اسی لیے زیادہ تر اصولی احکام دیے گئے ہیں ۔مفصل قوانین کی تعداد نہایت قلیل ہے۔
یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ قر آن میں بعض اصولی احکام کی تفصیل کیوں کی گئی ہے؟ جس طرح نصوص قرآن کی مدد سے نبیﷺ نے بہت سے تفصیلی احکام وقوانین بنائے، اسی طرح ان اصولی احکام کی تفصیلی صورت بھی آپؑ بنا سکتے تھے۔ دوسرے بہت سے علما کی طرح اقبال بھی اس کی حقیقی وجہ سمجھنے سے قاصر رہے۔
قرآنی احکام کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک قسم ان احکام کی ہے جن کاتعلق عقائد اور عبادات سے ہے ،اور دوسری قسم میں وہ احکام آتے ہیں جن کاتعلق اجتماعی معاملات سے ہے۔ عقائد کے متعلق جو احکام قرآن مجید میں مذکور ہیں، وہ مفصل بھی ہیں اور ناقابل تغیر بھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا تعلق ناقابل تغیر کائناتی حقائق سے ہے ،لیکن عبادات کا معاملہ اس سے قدرے مختلف ہے۔ یہاں کلی اور جزئی دونوں طرح کے احکام ملتے ہیں اور ان میں بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ مثلاً عبادات میں نما ز کو لیں۔ قرآن مجید میں نماز کی تفصیلی صورت مذکور نہیں ہے، لیکن وضو کی تفصیل دی گئی ہے۔ یہ بات بظاہر بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے۔ یہ کام تو نبی ﷺ بھی کرسکتے تھے اور احادیث میں وضو کی تفصیل موجود ہے ۔ قرآن میں حکم وضو کی تفصیل سے دراصل روح عبادت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ وہ ایک عمل تطہیر ہے جس سے جسم اور نفس دونوں کی پاکی حاصل ہوتی ہے۔قرآن مجید میں فرمایا گیاہے:
إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنکَرِ (سورۃ عنکبوت: ۴۵)
’’ بے شک نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔
روح عبادت کو قرآن مجید کی اصطلاح میں تقویٰ کہا گیاہے ۔روزے کے ذکر میں ہے: ’’ اے ایمان والو، تم پر اسی طرح روزہ فرض کیاگیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر یہ فرض تھا تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو‘‘(سورۃ بقرۃ: ۱۸۳) حج کے ذکر میں ہے: ’’ اللہ تک نہ تو ان کا گوشت پہنچتاہے اور نہ ان کا خون بلکہ اس تک جو چیز پہنچتی ہے وہ تمھارا تقویٰ ہے۔‘‘ (سورۃ حج:۳۷) 
نماز کے بعد زکوٰۃ کو لیں۔ زکوٰۃ کانصاب قرآن مجید میں غیر متعین ہے، لیکن مصارف زکوٰۃ متعین کر دیے گئے ہیں۔ نصاب زکوٰۃ کے عدم تعین کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق انسان کی اقتصادی حالت سے ہے اور اقتصادی حالت ہر دور میں بدلتی رہتی ہے۔ اس کا کوئی ایسا نصا ب متعین نہیں کیاجاسکتاتھا جو ہر دور کے انسانوں کی معاشی حالت کے مطابق ہو ۔ مصارف زکوۃ کے تعین کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حالات و ظروف زمانہ کی تبدیلی کابرائے نام ہی اثر ان پر پڑ سکتاہے، پھر بھی تعین میں وسیع الاطلاق الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ مثلاً مصارف زکوٰۃ کی ایک مد ’’فی سبیل اللہ‘‘ ہے جس میں بے حد وسعت اور گنجائش ہے۔ مصارف زکوٰۃ کے تعین کی دوسری وجہ سماج کے کمزور طبقات یعنی غرباو مساکین وغیرہ کے حقوق کاتحفظ ہے۔ اس معاملے کو اللہ نے وحی کاجز اسی لیے بنایا تاکہ آئندہ اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ ہو سکے ۔
اب غیر تعبدی احکام وقوانین کی طرف آئیں۔ عائلی قوانین کی تفصیل ہم کو سورۃ بقرۃ اور دوسری سورتوں میں ملتی ہے۔ اس تفصیل کی وجہ بھی بالکل واضح ہے۔ یہاں عورتوں کے حقوق کا تحفظ مقصود ہے جو مردوں کے مقابلے میں بہر حال سماج کا ایک کمزور طبقہ ہے ۔ قرآن مجید میں عائلی زندگی سے متعلق جو احکام مذکور ہیں، وہ ہر اعتبارسے تفصیلی نہیں ہیں اور یہ بھی خالی از علت نہیں۔جن عائلی معاملا ت کاتعلق حالات کی تبدیلی سے تھا، ان کو غیر متعین حالت میں رکھا گیا ہے ،مثلاً مہر اور متاع کا تعین۔ معلوم ہے کہ مہر کاتعلق شوہر کی مالی استطاعت سے ہے اور یہ استطاعت ہر مرد میں یکساں نہیں ہوسکتی ہے اور نہ ہی ہر دور کے لیے اس کی کوئی متعین صورت ممکن ہے۔ مثال کے طور پر اگر آج کے معاشی حالات کے لحاظ سے مہر کی رقم دس ہزار یا اس سے کچھ زیادہ مقرر کی جائے توچند ہی سال کے بعد یہ رقم نہایت قلیل معلو م ہوگی۔یہی معاملہ متاع کا ہے۔ طلاق کے بعد عورت کی دل بستگی اور آیندہ کی زندگی میں اس کو پیش آنے والے معاشی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے مرد پر لازم کیا گیاہے کہ وہ اس کو مالی مدد دے۔کسی دورمیں علما نے فتویٰ دیا تھا کہ مطلقہ عورت کا متاع ایک جوڑا کپڑا ہے۔ ممکن ہے کہ اس دور کے اقتصادی حالت کے لحاظ سے متاع کی یہ شکل مناسب رہی ہو، لیکن موجودہ دور میں اس کو مناسب کون کہہ سکتاہے ؟عائلی زندگی سے متعلق دوسرے احکام کی بھی یہی نوعیت ہے۔
اس گفتگو سے ہم اس نتیجے تک پہنچے کہ قرآن مجید میں جن معاملات زندگی سے متعلق تفصیلی احکام دیے گئے ہیں، وہ ناقابل تغیر ہیں اور جہاں یہ تفصیل نہیں ہے، وہاں بالقصد تفصیل سے گریز کیا گیا ہے تاکہ ان امور میں حالات ومقتضیات زمانہ کے لحاظ سے تفصیلی احکام بنائے جائیں۔ اسی کانام اجتہاد ہے۔ اس سلسلے میں نبی ﷺ کے اجتہادات کی حیثیت نظائر کی ہے۔ نصوص قرآن اور نبی ﷺ کے اجتہادات کو سامنے رکھ کر مماثلت علت کی بنیاد پر نئے مسائل کا حل نکال لینا آسان ہے۔ اس پر مزیدگفتگو ہم آگے کریں گے ۔
اسلامی قانون کے دوسرے ماخذ یعنی حدیث پر اقبال نے جو بحث کی ہے، وہ مفید ہے لیکن جامع نہیں ہے ۔یہاں حدیث کے سلسلے میں چند اصولی باتوں کاتذکرہ مناسب ہو گا۔ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن وسنت دو علیحدہ چیزیں ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔قرآن مجید اصل اور سنت اس کی فرع ہے، دوسرے لفظوں میں سنت قرآن مجید کے اصول وکلیات کی شرح وتفسیر ہے۔
یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اس شرح وتفسیر کاتعلق معاملات سے متعلق احکام سے ہے ۔عقائد کے معاملے میں قرآن مجید کسی شرح ووضاحت کا محتاج نہیں ہے، وہ بالکل واضح اور مفصل ہیں ۔عقائد سے متعلق جب بھی کوئی اختلاف واقع ہو گا تو صرف قرآن مجید کی طرف رجوع کیا جائے گااور اس کا فیصلہ واجب العمل ہو گا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِن شَیْْءٍ فَحُکْمُہُ إِلَی اللَّہِ (سورۃ شوریٰ :۱۰)
’’ اور جس بات میں بھی تمھارا اختلاف ہو، اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے‘‘۔
دوسری جگہ فرمایا ہے:
وَمَا أَنزَلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ إِلاَّ لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِیْ اخْتَلَفُواْ فِیْہِ (سورۃ نحل:۶۴) 
’’ اور ہم نے تم پر کتاب اس لیے نازل کی ہے کہ جن امور میں وہ اختلاف کرتے ہیں، ان کی اصل حقیقت ان پر واضح کردو۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید صرف مسلمانوں کے ہی اختلافات میں حکم نہیں ہے بلکہ عقائد سے متعلق دوسرے فرقوں کے مذہبی اختلافات کے تصفیہ کابھی واحد ذریعہ یہی کتاب ہے۔ عقائد کی تشریح وتوضیح میں احادیث کو صرف تائید کے طور پر لایا جاسکتاہے۔ جہاں قرآن وحدیث کے بیان میں تعارض واقع ہوگا، وہاں اصل یعنی قرآن مجید کا حکم ہی قابل حجت ہوگا اور حدیث کے بارے میں سکوت اختیار کرنا ہوگا۔ اس وقت عقائد کے متعلق مسلمانوں کے سارے مذہبی اختلافات اصل وفرع کے اس تعلق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس میں علماء سو کی غلط تاویل وتشریح کا بھی دخل ہے۔
یہ بات کہ سنت کی حیثیت قرآن کے مجمل احکام یا نصوص قرآن کی شرح وتفصیل کی ہے، کچھ ہماری ذہنی اختراع نہیں ہے۔ تمام صالح علما وفقہا نے یہی بات لکھی ہے ۔اس سلسلے میں علامہ شاطبی ؒ لکھتے ہیں:
’’سنت اپنے معنی ومفہوم کے اعتبار سے قرآن حکیم ہی کی طر ف رجوع ہونے والی ہے۔وہ یعنی سنت قرآن حکیم کے مجمل کی تفسیر یامشکل کا بیان یا مختصر کی تشریح ہے ۔اس پر اللہ تعالی کا یہ قول دلیل ہے : ’وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم‘ (ہم نے تمہاری طرف ذکر نازل کیا ہے تاکہ جو ان کی طرف بھیجا گیا ہے، اس کو ان لوگوں پر واضح کردو) پس سنت میں کوئی ایسی بات نہیں ملے گی جس کی اجمالی یا تفصیلی بنیاد قرآن حکیم میں موجود نہ ہو ....... قرآن مجید میں ہے : ’وانک لعلی خلق عظیم‘ ( تم عظیم خلق کے مالک ہو ) حضرت عائشہؓ نے خلق کی وضاحت میں فرمایا کہ رسول ﷺ کا خلق قرآن مجید ہے۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے تمام اقوال وافعال اور اقرار سب قرآن مجید کی طرف رجوع ہونے والے ہیں، کیونکہ خلق کاتعلق انہی امور سے ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کو ’تبیانا لکل شئی‘ (سورۃ نحل:۸۹) فرمایا ہے، اس سے بھی سنت کا فی الجملہ قرآن میں ہونا لازم آتاہے ........اگر ایسا نہ ہو تو پھر اس کو قبول کرنے میں توقف ضروری ہے۔‘‘(۱۱)
سنت کے اس مفہوم کی روشنی میں دیکھیں کہ قرآن مجید میں حکم ہے کہ زکوٰۃ دو (واتو االزکوۃ ) لیکن کس مقدار میں اور کب دی جائے؟ اس کی تعیین نبی ﷺ کے قول وفعل نے کی۔ اسی طرح قرآن میں ہے کہ چور کے ہاتھ کاٹ دو، لیکن مال مسروقہ کی کس نوع میں اور کس مقدار پر ہاتھ کاٹا جائے اور یہ ہاتھ کہاں تک کٹے،اور کن حالات میں یہ حکم نافذالعمل ہے؟ ان امور کی تفصیل وتعیین نبیﷺ نے کی۔
یہاں ایک اہم سوال اٹھتاہے کہ نبی ﷺ کی تشریحات نصوص یعنی اجتہادات کی حیثیت دائمی ہے یعنی ناقابل تغیر اور ہر دور کے حالات میں خواہ وہ عہد نبویﷺ کے حالات سے یکسر مختلف ہوں،کسی ردوبدل کے بغیر واجب التعمیل ہیں؟ کم نظر علما کا خیال ہے کہ اجتہادات نبوی ﷺ دائمی ہیں اور ان میں کوئی ترمیم واضافہ جائز نہیں ہے۔اس سلسلے میں قول حق یہ ہے کہ نبی ﷺ کے وہ اعمال جو عبادات اور اخلاق سے تعلق رکھتے ہیں، ناقابل تغیر ہیں، لیکن معاملات سے متعلق احکام کی حیثیت دائمی نہیں ہے۔ حالات اور ظروف زمانہ کے لحاظ سے اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا نبی ﷺ کے اجتہادات میں مقامی حالات اور عربوں کی عادات ونفسیات کاکوئی لحاظ رکھا گیاہے؟ اس موضوع پر شاہ ولی اللہ نے نہایت عمدہ بحث کی ہے اور اس کا کچھ حصہ اقبال نے بھی نقل کیاہے جیسا کہ بیان ہوا۔شاہ صاحب لکھتے ہیں:
’’ اگر تم رسول اللہ ﷺ کی شریعت کی گہرائیوں کو سمجھنا چاہو تو پہلے عرب امیّوں کے حالات کی تحقیق کرو جن میں آپ ﷺ مبعوث ہوئے تھے۔ وہی لوگ دراصل آپ کی شریعت کا تشریعی مادہ ہیں۔ اس کے بعد اپ کی اصلاح کی کیفیت پر نظر ڈالو جو ان مقاصد کے تحت تشریعی، تیسیر احکام ملت کے باب میں آپ نے انجام دی‘‘۔ (۱۲)
حجۃ اللہ البالغہ میں ہی وہ مزید لکھتے ہیں :
’’ ان احکام ومراسم میں جو باتیں صحیح اور سیاست ملیہ کے اصول وقواعد کے موافق ہوتیں، ان میں یہ حضرات انبیا کوئی تبدیلی نہیں کرتے بلکہ اس کی طرف دعوت دیتے اور ان کی اتباع پر قوم کو ابھارتے ہیں، اور جو باتیں بری ہوتی ہیں یا ان میں تحریف داخل ہو چکی ہوتی ہے، ان میں وہ بقدر ضرورت ترمیم کرتے ہیں او رجن امور میں اضافہ کی ضرورت سمجھتے ہیں، ان میں اضافہ کرتے ہیں ‘‘ ۔( ۱۳)
ان اقتباسات سے معلوم ہوتاہے کہ رسول اللہ کے بہت سے اجتہادات مقامی نوعیت کے تھے اور ایک خاص قوم (عربوں) کی عادات ورسوم کی رعایت پر مبنی تھے۔ اس کے علاوہ بعض اجتہادات میں وقتی مصالح کا لحاظ بھی شامل تھا ۔جب صورت واقعہ یہ ہے تو پھر یہ قول کہ نبی ﷺ کے تمام اجتہادات دائمی ہیں، کیوں کر صحیح ہو سکتاہے۔
علما جب ناسخ ومنسوخ کے مسئلے پر بحث کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اسلامی شریعت نے شریعت موسوی کو منسوخ کردیاہے۔ جب سوال ہوتاہے کہ آخر اللہ نے خود اپنی بنائی ہوئی شریعت کو منسوخ کیوں کیا؟ تو اس کا جواب دیا جاتاہے کہ بنی اسرائیل کو جو احکام دیے گئے تھے، وہ ان کے تمدنی حالات اور ان کی مخصوص عادات و نفسیات کے مطابق تھے ۔چونکہ عربوں کے تمدنی کوائف اور ان کی عادات ورسوم قوم یہود سے مختلف تھے، اس لیے قانون موسوی میں ترمیم واضافہ ناگزیر تھا۔ یہ بالکل صحیح جواب ہے اور حقائق پر مبنی ہے۔پھر علما کس طرح کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے جملہ اجتہادات میں ادنیٰ تغیر بھی ممکن نہیں ہے؟ کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ جو سماجی ومعاشی اور تہذیبی احوال عہد نبوی ﷺ میں تھے، وہی احوال وکوائف آج بھی ہیں اور جو قومی عادات ورسوم اور نفسیات عربوں کے تھے، وہی ہندوستان اور دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کے بھی ہیں ؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقیناًنفی میں ہوگا تو پھر یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ معاملات کے متعلق نبی ﷺ کے کل اجتہادات دائمی نہیں ہوسکتے ہیں۔ ان میں ہر ملک کے حالات ومقتضیات کے لحاظ سے ضروری حد تک ترمیم و اضافہ نہ صرف جائز ہے بلکہ یہ عین سنت نبی ﷺ کی پیروی ہو گی۔ اس سلسلے میں قرآن مجید کی درج ذیل آیت واضح رہنمائی کرتی ہے:
وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ (سورۃنحل:۴۴)
’’اور ہم نے تمھاری طرف ذکر (قرآن حکیم) نازل کیا ہے تاکہ جو چیز لوگوں کی طرف نازل کی گئی ہے، تم ان کو ان کے سامنے کھول کر بیان کردو ،اور توقع ہے کہ وہ غور کریں گے ‘‘۔
علماے اسلام نے سنت کے اثبا ت میں اس آیت کو کثرت سے نقل کیاہے لیکن اکثر نے ’ولعلھم یتفکرون‘ کے جملے کو نظر انداز کردیا ہے۔ انہوں نے یا تو اس جملے کا صحیح مطلب نہیں سمجھا اور یا اپنے نقطہ نظر کے خلاف پاکر اس سے چشم پوشی کی ہے۔مذکورہ آیت سے بالکل واضح ہے کہ کار رسالت میںیہ بات داخل تھی کہ آپﷺ اپنے عہد کے تمدنی حالات اورمخاطب قوم کی نفسیات وعادات کا لحاظ کرتے ہوئے آیات کی قولی اور عملی تشریح کریں اور بعد کے لوگ ان تشریحات رسول ﷺ (اجتہادات) کی روشنی میں اپنے عہد کے حالات اور تقاضوں کی رعایت کرتے ہوئے جہاں ضروری ہو، وہاں اجتہاد کریں ۔یہی مطلب ہے ’ولعلھم یتفکرون‘ کا ۔
صحابہ رضی اللہ عنھم نے ’ولعلھم یتفکرون‘ کاصحیح مطلب سمجھا تھا۔ چنانچہ انہوں نے نبی ﷺ کی وفات کے بعد متعدد نئے اجتہادات کیے۔ مثلاً نبوی عہدمیں عورتوں کو اجازت تھی کہ وہ مسجد وں میں جاکر عبادت کریں، لیکن حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے عہد میںیہ اجازت منسوخ کردی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ اس حالت کو دیکھتے جو عورتوں نے ا ب پیدا کردی ہے توان کو مسجدوں میں جانے سے روک دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں۔ (۱۴) اسی طرح نبی ﷺ کے عہد میں نص قرآنی کے مطابق کتابیہ عورتوں سے نکاح کی اجازت تھی، لیکن خلیفہ ثانی نے اس اجازت کومعطل کردیا۔ معلوم ہے کہ نبی ﷺ کے دور میں ایک نشست میں تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق خیال کیا جاتا تھا، لیکن عہد فاروقی میں ان کو طلاق بائنہ قرار دے کر نافذ کر دیا جاتا تھا۔ عہد نبویﷺ اور عہد صدیقیؓ میں یہ معمول تھا کہ مفتوحہ زمین مجاہدین میں تقسیم کردی جاتی تھی، لیکن عہد فاروقی میں جب عراق فتح ہوا تو حضرت عمرؓ نے مفتوحہ اراضی کو مجاہدین میں تقسیم کرنے سے انکار کردیا۔
یہ چند مثالیں میں نے دکھانے کے لیے نقل کی ہیں کہ عہد صحابہؓ میں رسول اللہﷺ کے اجتہادات میں بقدر ضرورت تغیر کو جائز سمجھا جاتاتھا اور اس کی وجہ بدلے ہوئے حالات تھے۔ تاریخی طورپر ثابت ہے کہ خلیفہ ثانی کے اجتہادات کو جماعت صحابہؓ کی تائید حاصل تھی۔ اگر احکام نبوی میں تبدیلی خلاف ایمان ہوتی تو صحابہؓ کرام اس پر خاموش نہیں رہ سکتے تھے۔
خلیفہ ثانی کے ان اجتہادات کے پیش نظر علماے حق نے اسلامی قانون سازی میں اس بات کو ایک مسلمہ اصول کی حیثیت سے تسلیم کیاہے کہ معاملات سے متعلق شریعت کے جزئی احکام حالات اور ظروف زمانہ کی تبدیلی سے بدل جاتے ہیں، اور یہ ایک بالکل فطری بات ہے ۔قاضی بیضاوی نے لکھاہے:
وذلک لان الاحکام والا یات نزلت لمصا لح العباد وتکمیل نفوسھم فضلا من اللہ ورحمتہ وذلک یختلف باختلاف الاعصار والاشخاص کاسباب المعاش فان النافع فی عصر واحد یضر فی غیرہ (۱۵)
’’ جوا ز نسخ یہ ہے کہ اللہ کے فضل وکرم سے بندوں کے مصالح اور ان کے نفوس کی تکمیل کے لیے احکام مقرر ہوئے اور آیتیں نازل ہوئیں۔ یہ مصالح اشخاص اور ازمنہ کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں، جیسے اسباب معاش وغیرہ ۔پس ہم دیکھتے ہیں کہ ایک زمانہ میں جو چیز نافع ہوتی ہے، دوسرے زمانہ میں وہی چیز مضر بن جاتی ہے‘‘۔
اس سلسلے میں عہد حاضر کے معروف ہندی عالم مولانا قاری محمد طیب صاحب مرحوؒ م کے خیالات بھی ملاحظہ ہوں: 
’’ان قواعد کلیہ میں جو ضوابط عبادات اور عقائد کے بارے میں ہیں، ان کی عملی جزئیات بھی شریعت نے خود متعین کر دی ہیں، اس لیے ان میں تغیر وتبدیل یا کسی تشکیل جدید کاسوال پید انہیں ہوتا، البتہ معاملاتی ،معاشرتی اور سیاسی واجتماعی امور میں چونکہ زمانے کے تغیرات سے نقشے ادلتے بدلتے رہتے ہیں، اس لیے شریعت نے ان کے بار ے میں کلیات زیادہ بیان کی ہیں اور ان کی جزئیات کی تشخیص کو وقت کے تقاضوں پر چھوڑ دیا ہے جن میں اصول وقواعد کلیہ کے تحت توسعات ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے‘‘۔(۱۶)
چوتھی صدی ہجری تک مذکورہ تشریعی اصول کے مطابق اجتماعی امور سے متعلق احکام شریعت میں، خواہ ان کا تعلق نبی ﷺ کے اجتہادات سے ہو اور خواہ صحابہؓ کے اجتہادات سے، حالات زمانہ کے لحاظ سے برابر تغیر وتبدل کا عمل جاری رہا اور قیاس کے اصول پر نئے احکام وضع کیے گئے۔موجودہ مکاتب فقہ کاوجود اس تغیر کا ایک ناقابل تردید ثبوت ہے۔ لیکن چوتھی صدی ہجری کے بعد علما اور فقہا کے رویے میں واضح تبدیلی ملتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف نبی ﷺ اور صحابہؓ کے اجتہادات کو دائمی حیثیت دی بلکہ فقہا (ائمہ اربعہ) کے اجتہادات یعنی قیاسی احکام میں بھی کسی تبدیلی کو خارج از بحث قرار دیا۔
ایک زمانہ تھا کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے معاملات سے متعلق مستند احادیث کی موجودگی میں قیاس سے کام لیا اور حدیث سے صرف نظر کر گئے۔ مثال کے طورپر نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق پانچ وسق سے کم غلے اور پھلوں پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے (بخاری) لیکن امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ہر قسم کی زمینی پیداوار میں خواہ پانچ وسق سے کم ہو، زکوٰۃ واجب ہے ۔اگر آج کوئی عالم دین یہ کہنے کی جرات کرے کہ نبی ﷺ نے زکوٰۃ کا جو نصاب مقرر کیاتھا، اس میں معاشی حالات کے بدل جانے کی وجہ سے تبدیلی کی ضرورت ہے تو سب سے پہلے فقہ حنفی کے پیرو ہی تکفیر کی تلوار لیے اس غریب عالم کے پیچھے دوڑ پڑیں گے۔
اصحاب علم جانتے ہیں کہ نبی ﷺ نے زکوٰۃ کاجو نصاب بنایا تھا، وہ اس عہدکے معاشی حالات کے مطابق تھا اور اسی کو پیش نظر رکھ کر آپ ﷺ نے حد غنا کا تعین کیا تھا۔ مثلاً یہ کہ اگر کسی مسلمان کے پاس ۲۰ مثقال سونا/ ۲۰۰ درہم چاندی ہو تو وہ غنی سمجھا جائے گا اور اس پر زکوٰۃ عائد ہو گی۔ چاندی کو بنیاد بناکر غلے، پھلوں اور جانوروں وغیرہ کانصاب مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے بالکل ظاہر ہے کہ تمام اجناس زکوٰۃ میں قدر وقیمت کے لحاظ سے مساوات تھی۔ پانچ وسق غلہ یا پھل باعتبار قیمت ۲۰۰ درہم چاندی کے مساوی تھے، لیکن بعد کے ادوار میں نہ صرف سونے اور چاندی کی قیمتوں میں فرق پیدا ہوا بلکہ دوسری اجناس زکوٰۃ کی قدرو قیمت میں بھی نمایاں تبدیلی ہوئی اور بایں طور چاندی اور دیگر اجناس زکوٰۃ میں باعتبار قدر (value) جو توازن عہد نبویﷺ میں تھا، وہ باقی نہیں رہا۔
مثال کے طورپر نبی ﷺ کے عہد میں پانچ وسق غلہ یا پھل رکھنے والے شخص کوغنی سمجھا جاتاتھا اور اس پر زکوٰۃ واجب ہو جاتی تھی، لیکن آج کے دور میں پانچ وسق کو حد غنا قرار نہیں دیا جاسکتاہے۔ اس مقدار میں غلہ یا پھل رکھنے والا شخص غنی کے بجائے مفلس سمجھا جاتا ہے۔ حد غنا میں اس فرق کی وجہ غلے کی قیمت میں کمی اور دوسری اشیاے صرف کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہے۔
اسلامی قانون کا تیسراماخذ اجماع ہے، یعنی اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ کرنا۔ یہ دراصل اجتماعی اجتہاد ہے جو قرآن وسنت کی نصوص کی روشنی میں انجام پاتاہے ۔ اس کے متعلق اقبال نے جن خیالات کا اظہارکیاہے، وہ فکر انگیز ہیں ۔سنت کی طرح اجماع بھی زمانی ہے، یعنی آیندہ حالات کے لحاظ سے اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے لیکن یہ تبدیلی ایک دوسرے اجماع ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ کوئی انفرادی اجتہاد کسی اجماع کو منسوخ نہیں کرسکتا ہے ۔اقبال نے ان امور سے کوئی تعرض نہیں کیا ہے۔
اس دور میں اجماع کی مختلف صورتیں ممکن ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ امیر المسلمین کی نگرانی میں علما کی ایک مجلس یہ کام کرے جس میں شریعت کے ماہرین کے ساتھ جدید فلسفہ قانون کے علما بھی شامل ہوں۔ اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ مسلم عوام کے ذریعے منتخب مجلس یہ فریضہ انجام دے ، لیکن یہ اطمینان بخش صورت نہیں ہے کیونکہ عوامی نمائندوں کی اکثریت اسلامی قانون اور اس کے اصول استخراج سے ناواقف ہوتی ہے۔ مناسب تر صورت یہ ہے کہ اسلامی قانون کے ماہر علما کی مجلس اس کام کو انجام دے اور عوامی نمائندوں کی مجلس ضروری بحث ومباحثہ کے بعد اس کی منظوری دے ۔اگر مباحثہ کے درمیان میں کوئی مفید قانونی نکتہ ابھر کر سامنے آئے تو اس کو مجلس قانون کے پاس مزید غور وفکر کے لیے بھیجا جا سکتاہے۔ اقبال نے موخر الذکر صورت کو ترجیح دی ہے۔ 
اسلامی قانون کاچوتھا ماخذ قیاس (۱۷) ہے جو مماثلت کے اصول پر مبنی ہے۔یہ اجتہاد ہی کا دوسرا نام ہے اور کثیر الوقوع ہے۔ معلوم ہے کہ فقہ حنفی کی بنیاد اصول قیاس پر ہے۔ دوسرے مکاتب قانون کے علما، حدیث کی موجودگی میں قیاس کے قائل نہیں ہیں۔وہ ہر حال میں سنت کی پیروی کو ضروری خیال کرتے ہیں۔اس سلسلے میں اقبال نے فقہا ے حجا ز اور فقہاے عراق کے طرز فکر پر جو تنقید کی ہے، وہ بالکل صحیح ہے ۔
عام حالات میں نصوص قرآ ن وسنت کی پیروی لازمی ہے۔ پچھلے اجتہادات میں خواہ ان کا تعلق نبیﷺ کے اجتہاد سے ہو اور خواہ صحابہؓ اور تابعین کے اجتہادات سے،حذف واضافہ صرف اسی صورت میں جائز ہے جب حالات زمانہ شدت کے ساتھ اس کے متقاضی ہوں۔ البتہ نئے مسائل میں جن کے بارے میں اسلامی شریعت خاموش ہو، اصول قیاس پر عمل کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہو جاتاہے۔
فقہا نے اصول قیاس سے جو تجاوزکیا (یعنی استدلال) وہ راقم کے خیال میں صحیح نہیں ہے ۔استحسان کے بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے لکھاہے کہ وہ تحریف فی الدین ہے۔ (۱۸) حقیقت یہ ہے کہ استصلاح جیسے اصول کااستعمال کرکے کسی بھی حرام کو بلطائف الحیل حلال بنایا جاسکتاہے۔ شرعی احکام کو ہر حال میں منصوصات پر مبنی ہونا چاہیے۔نصوص قرآن سے باہر کوئی قانون سازی جائز نہیں ہے۔
یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ قیاسی احکام حالات اورظروف زمانہ کے تابع ہیں اور ان کی تبدیلی سے وہ بھی تبدیل ہوجائیں گے یا یوں کہہ لیں کہ ان کی اطلاقی صورتیں بدل جائیں گی۔ اس سلسلے میں حنفی فقہا کارویہ ماضی کی طرح آج بھی قابل اعتراض ہے۔ انہوں نے حنفی فقہ کو، جو زیادہ تر قیاسی اور استدلالی احکام پر مشتمل ہے،ناقابل تغیر سمجھ لیاہے۔یہاں یہ بات بھی واضح کردوں کہ دین کے مہمات امور میں انفرادی قیاس جائز نہیں ہے۔ضروری ہے کہ اسلامی قانون کے ماہر علما کی ایک بڑی جماعت یہ کام انجام دے۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ قیاس کوئی مستقل ماخذ قانون نہیں ہے۔وہ دراصل اجتماعی اجتہاد (اجماع) کی قانونی اساس ہے جس پر نئے احکام متفر ع ہوتے ہیں۔
اقبال نے اسلامی قانون کے فروعی مآخذ مثلاً استحسان، استصلاح (۱۹) یا مصالح مرسلہ اور عرف ورواج وغیرہ کاذکر نہیں کیا ہے۔ممکن ہے کہ وہ ان فروعی ماخذ کے قائل نہ رہے ہوں۔
اسلامی قانون کے ماخذ کی نسبت اس تفصیلی گفتگو سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مستقل بالذات ماخذ قانون کی حیثیت صرف قرآن مجید کو حاصل ہے اور وہ دائمی یعنی ناقابل تغیر ہے ۔دیگر مآخذ قانون کی یہ حیثیت نہیں ہے ۔وہ احوال ظروف زمانہ کے تابع ہیں یعنی قابل تغیر جیسا کہ بیان ہوا۔ جب صورت واقعہ یہ ہے تو پھر علما کا یہ کہنا کہ عہد حاضر میں اجتہاد مطلق ممکن نہیں ہے، کیونکر صحیح ہو سکتاہے؟ اجتہاد ہر دور میں فرض کفایہ ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کی بحث پوری طرح مدلل ہے۔ یہ با ت صحیح ہے کہ اس دور میں ایسے علما اگر نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہیں جو ائمہ اربعہ کی سی نظر اور علم رکھتے ہوں۔ اس کی تلافی اس طرح ممکن ہے کہ کسی ایک عالم کے بجائے اسلامی قانون کے فاضل علما کی ایک جماعت یہ کام کرے، بالکل اسی طرح جیسے امام ابوحنیفہؒ نے اپنے عہد میں یہ کام کیا تھا۔ یوں بھی اجتہاد مطلق کے لیے ضروری ہے کہ وہ انفرادی کے بجائے اجتماعی ہو کیونکہ اس میں خطا کا امکان بہت بعید ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ علماے سلف نے اجتہاد مطلق کے لیے کڑی شرطیں محض اس لیے رکھی ہیں تاکہ موجودہ فقہی دبستانوں کا تسلط باقی رہے اور ائمہ اربعہ کے اجتہادات سے ہٹ کر کسی نئے اجتہاد کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔یہ بھی اسلاف پرستی کی ایک شکل ہے جس میں اس وقت مسلمانوں کا سواد اعظم مبتلا ہے۔ اسی کو رانہ تقلید نے ان کے قوائے فکریہ کو مفلوج بنایا اور اسلامی قانون کی ترقی رک گئی۔
گزشتہ صفحات میں ہم نے اسلامی قانون کے مآخذ کے بارے میں اقبال کے خیالات کاجو تنقیدی جائزہ لیا ہے، اس سے بالکل واضح ہو گیا کہ وہ ان مآخذ کے بارے میں ایک واضح تصور رکھتے ہیں، لیکن اسلامی قانون کے اولین ماخذ یعنی قرآن مجید کے متعلق ان کے خیالات بہت واضح نہیں تھے۔ مثلاً ان کا خیال ہے کہ قرآن مجید کے بعض احکام مقامی نوعیت کے ہیں اور ان کا اطلاق بعد کے زمانوں پر نہیں ہوتا۔اس سلسلے میں انہوں نے جرائم کی ان سزاؤں کا ذکر کیا ہے جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں۔ انہوں نے لکھاہے کہ یہ سزائیں عربوں کے مزاج اور ان کے مخصوص تمدنی حالات کے تحت مقرر کی گئی تھیں، اس لیے مستقبل کی مسلم اقوام پر ان کو جوں کاتوں نافذ کرنا صحیح نہ ہوگا۔ ان کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
Shari'at values (ahkam) resulting from this application (e.g., rules relating to penalties for crimes) are in a sense specific to that people, and, since their observance is not an end in itself, they can not be strictly enforced in the case of future generations. (20)
اقبال کا یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ قرآن مجید میں، جیسا کہ ہم اس سے پہلے لکھ چکے ہیں، جن معاملات زندگی کے متعلق کوئی قانون واضح لفظوں میں دے دیا گیا ہے، اس کی حیثیت مقامی نہیں ہے۔ اس کا اطلاق مستقبل کی جملہ اقوام عالم پر بھی ہوگا، البتہ اس کے نفاذ میں اصول تدریج (۲۱) کالحاظ رکھا جائے گا۔ ہلکی سزاؤں کے بعد سخت سزائیں ۔مثال کے طور پر قرآن مجید میں زنا کی ایک سزا قید وبند ہے۔ (۲۲) اس سے زیادہ سخت سزا کوڑوں کی ہے۔ (سورۃنور:۲) اور اس فعل شنیع کے مکرر ارتکاب کی صورت میں سخت ترین سزا رجم کی ہے، یعنی سنگ ساری ہے اوریہ اجتہاد رسول ﷺ ہے۔
اس نوع کی بعض فکری لغزشوں کے باوجود میں کہوں گا کہ اقبال قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے اس عہد میں اجتہاد کی طرف مسلمانوں کے ارباب علم وفکر کو متوجہ کیا جب قوم کے اکثر علما وفقہا نے اس اہم ضرورت کی طرف سے مکمل طور پر چشم پوشی اختیار کررکھی تھی۔ وہ اس لحاظ سے بھی قابل ستائش ہے کہ انہوں نے اس معاملے میں جرات فکر کا مظاہرہ کیا اور کسی خوف طعن وتشنیع کے بغیر اپنے خیالات پیش کیے۔ اس جرات اظہار کی وجہ سے ان سے بعض فکری خطائیں سرزد ہوئیں جیسا کہ اوپر بیان ہوا، لیکن اس سے مسلمانوں کے فکری جمود کو توڑنے میں بہت مدد ملی۔ سر سید علیہ الرحمہ نے مسلمانوں کی تقلیدی روش کے خلاف جو اعلان جہاد کیا تھا، اقبال کی کوشش اسی کی صدائے باز گشت ہے۔ (۲۳)
اقبال زندگی کاحر کی تصور رکھتے تھے اور یہ تصور قرآن مجید سے ماخوذ ہے۔ انہوں نے اپنی نظم ونثر دونوں میں مسلمانوں کو حرکت وعمل کی دعوت دی ہے۔ اجتہاد بھی ایک فکر ی حرکت ہے۔یہی وجہ ہے کہ اقبال تقلید کے مخالف تھے جیسا کہ زیر بحث خطبے سے بالکل واضح ہے۔ اپنی مشہور نظم ’’ جاوید نامہ‘‘ میں انہوں نے لکھا ہے:
زندہ دل خلاق اعصار ودہور
جانش از تقلید گردد بے حضور
اے بہ تقلیدش اسیر، آزاد شو
دامن قرآں بگیر آزاد شو
لیکن اقبال یہ بھی کہتے ہیں کہ زمانہ انحطاط میں تقلید ہی بہتر ہے اور اسی ذریعے سے ملت کی شیرازہ بندی ممکن ہے۔ اس کی دلیل انہوں نے یہ دی ہے کہ عہد زوال میں بالغ نظر علما تقریباً ناپید ہوتے ہیں، اس لیے عالمان کم نظر کا اجتہاد دین وایمان کی تباہی کا موجب ہوگا۔ان حالات میں محفوظ تر طریقہ یہی ہے کہ اسلاف کی مکمل اقتداکی جائے۔جاوید نامہ کے اشعار ذیل ملاحظہ ہوں:
مضمحل گردد چو تقویم حیات 
ملت از تقلید می گیرد ثبات
راہ آبا رو کہ ایں جمعیت است
معنئ تقلید ضبط ملت است
در خزاں اے بے نصیب از برگ وبار 
از شجر مگسل بامید بہار
پیکرت دارد اگر جان بصیر 
عبرت از احوال اسرائیل گیر
زانکہ چوں جمعیتش از ہم شکست 
جز براہ رفتگاں محمل نہ بست
نقش بر دل معنئ توحید کن
چارۂ کارِ خود از تقلید کن
اجتہاد اندر زمانِ انحطاط 
قوم را برہم ہمی پیچد بساط
ز اجتہادِ عالمانِ کم نظر
اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر
لیکن یہ وہی دلیل ہے جو اجتہاد کے منکرین ہر دور میں دیتے آئے ہیں۔ اقبال نے اسی خطبے میں اس دلیل کی تردید کی ہے ۔ان کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
For fear of further disintegration, which is only natural in such a period of political decay, the conservative thinkers of Islam focused all their efforts on the one point of preserving a uniform social life for the people by a jealous exclusion of all innovations in the law of shariat as expounded by the early doctors of Islam ........ but they did not see, and our modern ulama do not see that the ultimate fate of a people does not depend so much on organisation as on the worth and power of individual men. (24)
’’مزید سماجی انتشار کے خوف سے، جو سیاسی زوال کے زمانے میں ایک فطری امر ہے، اسلام کے تقلید پرست علما نے اپنی ساری توجہ صرف اس بات پر مرکوز کر دی کہ کس طرح مسلمانوں کی سماجی زندگی کی وحدت کو انتشار سے محفوظ رکھا جائے۔اس غرض کے لیے انہوں نے ضروری سمجھا کہ فقہا ے سلف نے اسلامی شریعت کی جو تشریح کردی ہے، اس سے سر مو انحراف نہ کیا جائے اور نئے خیالات سے پرہیز کیا جائے، لیکن وہ یہ بات نہ سمجھ سکے اور عہد حاضر کے ہمارے علما بھی اس کو نہیں سمجھتے کہ کسی قوم کی تقدیر کافیصلہ سماج کی تنظیم سے کہیں زیادہ افراد کی لیاقت اور ان کی فکری قوت پر منحصرہے۔‘‘
زمانہ انحطاط میں اجتہاد کے جس خطرے کا ذکر اقبال نے ’’جاوید نامہ‘‘ کے اشعار میں کیا ہے، اس کا تعلق ا نفرادی طریقہ اجتہاد سے ہے۔ اجتماعی اجتہاد کی صورت میں عالمانِ کم نظر کے اجتہاد کے نقصانات سے بچا جاسکتاہے۔
کسی زوال پذیر قوم کی تجدیدواحیا کے لیے نہایت ضروری ہے کہ اس میں ایک ایسی جماعت ہو جس کی قوت فکریہ نہ صرف بیدار ہو بلکہ وہ نئے حالات ومسائل کافکر کی سطح پر مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہو جیسا کہ اقبال کا بھی خیال ہے۔ آج دنیا میں مسلمان نہ تعداد کے اعتبارسے کم ہیں اور نہ مادی اسباب ووسائل کے لحاظ سے کسی قوم سے ہیچ وپوچ ہیں۔ لیکن ذہنی وفکری اور اخلاقی قوت کے اعتبارسے وہ بہت سی قوموں سے بلاشبہ فروتر اور کم مایہ ہیں، اور یہ دونوں چیزیں بڑی حد تک تقلید اعمیٰ کے ہی برگ وبار ہیں۔ اس لیے دور انحطاط میں تقلید کی حمایت کامطلب عمل انحطاط کو مزید مستحکم اور مستمر بنانا ہوگا۔ تقلید عوام کے لیے بے شک جائز ہے، لیکن قوم کے اصحاب علم کے لیے کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے۔
(مصنف کی کتاب ’’خطبات اقبال: ایک مطالعہ‘‘ سے ماخوذ)

حوالہ جات


(۱)
 The Reconstruction of Religious Thought In Islam: The Principle of Movement in the Structure of Islam, p.169
(۲) فقہا نے اس کی تعریف یوں کی ہے کہ مسئلہ کے نظائر میں جو حکم موجود ہے، اس کو کسی قوی وجہ سے چھوڑ کراس کے خلاف حکم لگانا۔ (منہاج الاصول ) اس کا مقصد مشکل کو چھوڑ کر آسان صورت اختیار کرناہے۔اس میں ظاہری قیاس کو ترک کرکے اس چیز کو اختیار کیا جاتاہے جو لوگوں کی ضرورتوں کے زیادہ موافق ہوتی ہے۔ (المبسوط ج ۱۰، فی الاستحسان)
(۳)
 The Principle of Movement In the Structure of Islam, p.172
(۴) ایضاً ص ۱۷۳ 
(۵) ایضاً ص ۱۷۵
(۶) ایضاً ص ۱۷۴
(۷) ایضاً ص ۱۷۵
( ۸) ایضاً ص ۱۷۷
(۹)ایضاً ص ۱۷۷،۱۷۶
(۱۰) ایضاً، ص ۱۷۸
(۱۱) الموافقات، علامہ شاطبی، ج۴، المسئلۃ الثالثۃ
(۱۲) حجۃ اللہ البالغۃ، ج۱، باب ماکان علیہ حال اہل الجاہلیۃ
(۱۳) ایضاً ج۱ ،باب اسباب نزول الشرائع الخاصۃ
(۱۴)دیکھیں ،بخاری ج۱، باب خروج النساء الی المسجد
(۱۵) تفسیر بیضاوی ص ۹۸
(۱۶) فکر اسلامی کی تشکیل جدید (مقالات سیمینار، منعقدہ ۱۹۷۶ء جامعہ اسلامیہ دہلی) خطبہ مولانا قاری محمد طیبؒ ،ص ۴۴
(۱۷) فقہا نے لکھا ہے کہ دو مسئلوں میں اتحاد علت کی وجہ سے جو حکم اس مسئلے کا ہے، وہی حکم دوسرے مسئلے کا قرار دینا قیاس ہے ۔ اس کی تعریف یوں بھی کی گئی ہے کہ جب فقہا فرع (نیا مسئلہ) کا حکم اصل (سابقہ فیصلہ) سے نکالتے ہیں تو ا س کو قیاس کہتے ہیں۔ (دیکھیں حسامی ص ۹۱)
(۱۸) حجۃ اللہ البالغۃ ج ۱، ص ۱۲۰
(۱۹) فقہا کی اصطلاح میں صرف ضرورت او رمصلحت کو بنیاد بنا کر مسائل استنباط کرنے کا نام ہے، خواہ شریعت کی کوئی اصل اس کی شہادت نہ دے اور نہ ہی وہ اس کو لغو کہے، لیکن وہ حکم مصالح پر مبنی ہو اور عقل ا س کو قبول کرتی ہو۔
(۲۰)
 The Principle of Movement in the Structure of Islam, p.172
(۲۱) اسلامی شریعت میں اصول تدریج کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ پہلے مفصل کی وہ سورتیں نازل ہوئیں جن میں جنت اور دوزخ کا ذکر ہے۔ پھر جب لوگ اسلام پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوگئے تو اس وقت حلال وحرام کے احکام نازل ہوئے۔اگر اول دن ہی یہ حکم نازل ہوتا کہ لوگو، شراب نہ پیو تو لوگ کہتے کہ ہم کبھی شراب نہ چھوڑیں گے ۔اسی طرح اگر ابتدا میں زنا سے اجتناب کاحکم نازل ہوتا تو لوگ کہہ اٹھتے کہ ہم اس سے ہر گز باز نہ آئیں گے۔ (دیکھیں ،بخاری ،باب تالیف القرآن)
(۲۲)دیکھیں،سورۃ نساء :۱۵ ۔ اس قید وبند کی کوئی مدت متعین نہیں ہے۔ اس کا تعین حالات اور جرم کی نوعیت کے اعتبار سے ہوگا۔ بہت سے علما نے لکھا ہے کہ سور ہ نور میں بیان کردہ سزا نے سورۃ نسا کی سزا ئے زنا کو منسوخ کردیاہے، لیکن راقم سمجھتاہے کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہواہے۔قرآن مجید میں بیان کردہ کوئی حکم منسوخ نہیں ہوسکتا ہے۔ مخصوص حالات کی وجہ سے وہ صرف معطل ہوجاتاہے، اور جوں ہی حالات اس کے موافق ہوتے ہیں، وہ حکم دوبارہ نافذ ہوجاتاہے ۔ایک ناموافق اور ناپختہ مسلم سماج میں اسلامی قانون کے معطل احکا م کی طرف مراجعت کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ اصول تدریج کے مطابق پہلے اسلام کے ابتدائی دور کے احکام، جو بعد میں معطل ہوگئے تھے ،نافذ ہوں گے اور پھر آہستہ آہستہ دور آخر کے قوانین کی تنفیذ ہوگی۔ اصول تدریج کی عدم رعایت ہی کی وجہ سے آج اکثر مسلم ملکوں میں اسلامی شریعت کا بڑا حصہ غیر نافذ العمل ہے۔
(۲۳) بلاشبہ اسلامی عقاید کی تفہیم میں سرسید سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، لیکن اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ان کی اجتہادی مساعی نے مسلمانوں کے فکری جمود کو توڑ نے میں نمایاں رول ادا کیا ہے، اور اس کے اثرات ان کے بعد کے اہل علم کی تحریروں میں صاف طور پر دیکھے جاسکتے ہیں ۔
(۲۴)
 The Principle of Movement in the Structure of Islam, p.151

مکاتیب

ادارہ

(۱)
مکرمی و محترمی مدیر الشریعہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ستمبر کے شمارے میں آپ نے محمد یوسف صاحب کی ایک تحریر شائع کی جو ’ترجمان القرآن‘ میں شائع نہیں کی گئی تھی۔ مدیر کی حیثیت سے آپ اپنے فیصلے میں آزاد تھے، تاہم کچھ عرض ہے۔
ایک مدیر کی حیثیت سے یقیناًآپ کو ایسے افراد سے سابقہ پیش آتا ہوگا جو کسی رسالے کو کچھ لکھ کر بھیجتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ایسی چیز لکھ دی ہے جو رسالے کو لازماً شائع کرنی چاہیے۔ جب شائع نہ ہو تو وہ اپنی تحریر پہ غور نہیں کرتے، بلکہ مدیر کو قصور وار اور مجرم قرار دیتے ہیں۔ جب تحریر کی نوعیت جوابی ہو اور شائع نہ ہو تو وہ سمجھتے ہیں کہ رسالے کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں، ان کی بات اتنی مدلل اور مسکت ہے۔ ایک وکیل کی حیثیت سے محمد یوسف صاحب کو جاننا چاہیے کہ بالکل کیس نہ ہو، جب بھی تفصیلی بلکہ دلیل کی کمی پوری کرنے کے لیے زیادہ تفصیلی جواب دیا جاتا ہے۔
بہت صاف بات تھی جو آپ کو سمجھنا چاہیے تھی۔ ’ترجمان‘ اس موضوع پر بحث نہیں چلانا چاہتا تھا، اس لیے چار صفحے کی یہ تحریر شائع نہیں کی۔ اگر آپ دلچسپی رکھتے تھے تو انصاف کا تقاضا تھا کہ لیاقت بلوچ صاحب کا اصل مضمون بھی مکمل شائع کرتے جس پر یوسف صاحب کو یہ ابال آیا۔ یوں آپ کے قارئین کی حق تلفی نہ ہوتی۔
تاخیر اس لیے ہوئی ہے کہ میرا پہلا رد عمل یہ تھا کہ کوئی رد عمل نہ دوں، لیکن پھر سوچا کہ مدیر ہونے کے ناتے کچھ حق نصیحت ادا کرنا دینی فریضہ ہے، وہ تو ادا کر دوں۔
مسلم سجاد
نائب مدیر ماہنامہ ’ترجما ن القرآن‘
۵۔اے، ذیلدار پارک، اچھرہ، لاہور
(۲)
محترم مدیر ماہنامہ الشریعہ 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
’الشریعہ‘ کے اگست ۲۰۰۶ کے شمارے میں مولانا حافظ محمد یوسف صاحب کا مضمون ’’دین کی جامعیت اور ہمارا عمومی مذہبی رویہ‘‘ پڑھنے کو ملا۔ ماشاء اللہ تعریف کے پردے میں تنقید کا اچھا انداز ہے۔ حافظ صاحب سے گزارش ہے کہ ہر موضوع پر اظہار خیال کے لیے رسائل وجرائد کا سہارا لینا مناسب نہیں ہوتا۔ اس میں اگر چند خوبیاں ہوتی ہیں تو کئی جہتوں سے دین کا نقصان ہوتا ہے۔ تبلیغ کا کام اب کسی محلے تک محدود نہیں کہ اس کو کسی رسالے میں مضمون لکھ کر ترقی یا تنزل کی طرف موڑا جا سکے۔ تبلیغ کے کام میں خوبیاں غالب ہیں اور خامیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو خامیاں ہیں، وہ انفرادی ہیں، اجتماعی نہیں۔ اور انفرادی بھی اس سطح کی نہیں کہ ان پر گرفت کرتے ہوئے آدمی کا قلم اتنی دور نکل جائے۔
جناب حافظ صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت مفتی زین العابدین صاحبؒ استاذی المکرم مولانا سرفراز صفدر مدظلہ کے پاس دوران سبق حاضر ہوئے اور یوں فرمایا کہ تبلیغ کا کام فرض عین ہو چکا ہے، جس پر حضرت نے فرمایا کہ آپ سے اس بات کی توقع نہیں تھی تو حضرت مفتی صاحب خاموش ہو گئے۔ گزارش ہے کہ حضرت مفتی صاحب نے یہ بات کس انداز سے فرمائی ہوگی اور حضرت شیخ صاحب نے کیا جواب دیا ہوگا اور مفتی صاحب مرحوم کی خاموشی کا انداز کیا ہوگا، یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ بہرحال آپ کا اس واقعے کو نقل کرنا مناسب نہیں۔ تبلیغ کا کام فرض کفایہ ہے یا فرض عین، یہ ایک علمی بحث ہے۔ اگر فرض کفایہ ہی کا درجہ ہے تو بھی میں اور آپ یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے سبک دوش نہیں ہو سکتے کہ یہ فرض کفایہ ہے۔ ہم سب کو یہ کام کم از کم اتنی محنت سے ضرو رکرنا چاہیے کہ امت کا ہر فرد یہ جان لے کہ یہ کام فرض کفایہ کا درجہ رکھتا ہے اور میں اس کو زندگی میں ایک مرتبہ ضرور کروں گا۔
دوسری بات جو آپ نے فرمائی کہ ایک صاحب کو کتاب ’’اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ دی گئی اور اس پر جماعت کے امیر صاحب نے اعتراض کیا تو عرض یہ ہے کہ یہ بات بھی اول تو نقل کرنے کی نہیں تھی، دوسرے یہ کہ یہ ہماری اپنی کمزوری اور نادانی ہے کہ جس آدمی کو ہم کوئی کتاب دیتے ہیں، یہ نہیں دیکھتے کہ اس میں کتاب سمجھنے کی صلاحیت بھی ہے یا نہیں۔ کیا آپ درجہ متوسطہ کے کسی طالب علم کو اونچے درجے کی کتاب دے سکتے ہیں؟ جماعت کے عام احباب کے لیے فقط ’’فضائل اعمال‘‘ اور ’’فضائل صدقات‘‘ ہی مناسب ہیں اور ان کے ساتھ علماے کرام کا قریبی تعلق ازحد ضروری ہے۔ 
ایک واقعے پر بات کو ختم کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ رائے ونڈ میں حاجی عبد الوہاب صاحب کا عربوں میں بیان تھا تو بیان کے دوران میں ایک نوجوان عربی کھڑا ہوا اور یوں گویا ہوا جیسے کوئی جارح کسی پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اس نے بڑی سخت زبان استعمال کی اور تبلیغ کے کام پر خوب اعتراض کیے۔ حاجی صاحب نے سن کر جواب دیا کہ ایک مصور نے تصویر بنا کر چوک میں لٹکا دی اور نیچے لکھا کہ اس میں غلطیوں کی نشان دہی کریں۔ شام کوگیا تو دیکھا کہ تصویر کا حشر نشر ہو چکا ہے۔ بہت پریشان ہوا۔ پھر اسے خیال آیا اور اس نے ایک نامکمل اور ادھوری تصویر بنا کر اسی چوک میں لٹکا دی اور نیچے لکھا کہ اس کو مکمل کر دیں۔ شام کو دیکھنے کے لیے گیا تو تصویر جوں کی توں موجود تھی۔ پس بات یہ ہے کہ کسی کام میں غلطیاں تو ہم سب کو نظر آتی ہیں لیکن ہمارا اپنا حال اس پٹھان والا ہے کہ ’’خوچہ، کلمہ تو ہم کو بھی نہیں آتا۔‘‘
قاری شجاع الدین
ٹھاکر میرا۔ پڑہنہ۔ مانسہرہ

دسمبر ۲۰۰۶ء

’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کا ایک جائزہمفتی محمد تقی عثمانی
تین دن آرزوؤں اور حسرتوں کی سرزمین میںمولانا محمد عیسٰی منصوری
اسلامی پردہ کا مفہوم، اس کی روح اور مقصدمولانا عتیق الرحمن سنبھلی
حدود کی بحث اور علمائے کرامخورشید احمد ندیم
قدامت پسندوں کا تصورِ اجتہاد: ایک تنقیدی مطالعہپروفیسر میاں انعام الرحمن
مکاتیبادارہ
دینی مدارس کے اساتذہ کی تربیت کے موضوع پر ورکشاپادارہ

’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کا ایک جائزہ

مفتی محمد تقی عثمانی

حال ہی میں ’’تحفظ خواتین‘‘ کے نام سے قومی اسمبلی میں جو بل منظور کرایا گیاہے، اس کے قانونی مضمرات سے تو وہی لوگ واقف ہوسکتے ہیں جو قانونی باریکیوں کا فہم رکھتے ہوں، لیکن عوام کے سامنے اس کی جو تصویر پیش کی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ حدود آرڈیننس نے خواتین پر جو بے پناہ مظالم توڑ رکھے تھے، اس بل نے ان کا مداواکیاہے اور اس سے نہ جانے کتنی ستم رسیدہ خواتین کو سکھ چین نصیب ہوگا۔ یہ دعویٰ بھی کیا جارہاہے کہ اس بل میں کوئی بات قرآن وسنت کے خلاف نہیں ہے۔
آئیے ذراسنجیدگی اور حقیقت پسندی کے ساتھ یہ دیکھیں کہ اس بل کی بنیادی باتیں کیا ہیں؟ وہ کس حد تک ان دعووں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں؟ پورے بل کا جائزہ لیاجائے تو اس بل کی جوہری (Substantive) باتیں صرف دو ہیں :
پہلی بات یہ ہے کہ زنا بالجبر کی جو سزا قرآن وسنت نے مقرر فرمائی ہے اور جسے اصطلاح میں ’’حد‘‘ کہتے ہیں، اسے اس بل میں مکمل طور پر ختم کردیاگیاہے۔ اس کی رو سے زنا بالجبر کے کسی مجرم کو کسی بھی حالت میں وہ شرعی سزا نہیں دی جاسکتی، بلکہ اسے ہر حالت میں تعزیری سزا دی جائے گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ حدود آرڈیننس میں جس جرم کو زنا موجب تعزیر کہاگیاتھا، اسے اب ’’فحاشی‘‘ (Lewdness) کا نام دے کر اس کی سزا کم کردی گئی ہے اور اس کے ثبوت کو مشکل تر بنادیاگیاہے۔
ا ب ان دونوں جوہری باتوں پر ایک ایک کرکے غور کرتے ہیں:
زنا بالجبر کی شرعی سزا (حد) کو بالکلیہ ختم کردینا واضح طور پر قرآن وسنت کے احکام کی خلاف ورزی ہے، لیکن کہا یہ جارہاہے کہ قرآن وسنت نے زنا کی جو حد مقرر کی ہے، وہ صرف اس صورت میں لاگو ہوتی ہے جب زنا کا ارتکاب دو مرد وعورت نے باہمی رضا مندی سے کیاہو، لیکن جہاں کسی مجرم نے کسی عورت سے اس کی رضامندی کے بغیر زنا کیاہو، اس پر قرآن وسنت نے کوئی حد عائد نہیں کی۔ آئیے پہلے یہ دیکھیں کہ یہ دعویٰ کس حد تک صحیح ہے؟
(۱) قرآن کریم نے سورۂ نور کی دوسری آیت میں زنا کی حد بیان فرمائی ہے:
اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا ماِءَۃَ جَلْدَۃٍ۔
’’جو عورت زنا کرے ،اور جو مرد زنا کرے، ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگواؤ۔‘‘ (النور:۲)
اس آیت میں ’’زنا‘‘کا لفظ مطلق ہے جو ہر قسم کے زنا کو شامل ہے۔ اس میں رضا مندی سے کیا ہوا زنا بھی داخل ہے اور زبردستی کیا ہوا زنا بھی،بلکہ یہ عقل عام (Common sense)کی بات ہے کہ زنا بالجبر کا جرم رضامندی سے کیے ہوئے زناسے زیادہ سنگین جرم ہے، لہٰذا اگر رضامندی کی صورت میں یہ حد عائد ہو رہی ہے تو جبر کی صورت میں اس کا اطلاق اور زیادہ قوت کے ساتھ ہوگا۔
اگر چہ اس آیت میں ’’زناکرنے والی عورت‘‘کا بھی ذکر ہے، لیکن خود سورۂ نور ہی میں آگے چل کران خواتین کو سزاسے مستثنیٰ کردیاگیاہے، جن کے ساتھ زبردستی کی گئی ہو،چنانچہ قرآن کریم کا ارشاد ہے:
وَمَن یُکْرِہہُّنَّ فَإِنَّ اللَّہَ مِن بَعْدِ إِکْرَاہِہِنَّ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (آیت ۳۳)
’’اور جو ان خواتین پر زبردستی کرے تو اللہ تعالیٰ ان کی زبردستی کے بعد (ان خواتین کو) بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے۔‘‘ 
اس سے واضح ہوگیا کہ جس عورت کے ساتھ زبردستی ہوئی ہو، اسے سزا نہیں دی جاسکتی، البتہ جس نے اس کے ساتھ زبردستی کی ہے، اس کے بارے میں زنا کی وہ حد جو سورۂ نور کی آیت نمبر ۲ میں بیان کی گئی تھی، پوری طرح نافذ رہے گی۔
(۲) سوکوڑوں کی مذکورہ بالا سزا غیرشادی شدہ اشخاص کے لیے ہے۔ سنت متواترہ نے اس پر یہ اضافہ کیاہے کہ اگر مجرم شادی شدہ ہو تو اسے سنگسار کیا جائے گا اور نبی کریم ﷺ نے سنگساری کی یہ حد جس طرح رضامندی سے کیے ہوئے زنا پر جاری فرمائی، اسی طرح زنا بالجبر کے مرتکب پر بھی جاری فرمائی۔ چنانچہ حضرت وائل بن حجرؓ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ کے زمانے میں ایک عورت نماز پڑھنے کے ارادے سے نکلی۔ راستے میں ایک شخص نے اس سے زبردستی زنا کا ارتکاب کیا۔ اس عورت نے شور مچایا تو وہ بھاگ گیا۔ بعد میں اس شخص نے اعتراف کرلیا کہ اسی نے عورت کے ساتھ زنا بالجبر کیا تھا۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے اس شخص پر حد جاری فرمائی اور عور ت پر حد جاری نہیں کی۔ امام ترمذی ؒ نے یہ حدیث اپنی جامع میں دو سندوں سے روایت کی ہے اور دوسری سند کو قابل اعتبار قراردیاہے۔ (جامع ترمذی، کتاب الحدود، باب ۲۲، حدیث ۱۴۵۳، ۱۴۵۴)
(۳) صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک غلام نے ایک باندی کے ساتھ زنا بالجبر کا ارتکاب کیا تو حضرت عمرؓ نے مردپرحد جاری فرمائی اورعورت کو سزا نہیں دی، کیونکہ اس کے ساتھ زبردستی ہوئی تھی۔ (صحیح بخاریؒ ،کتاب الاکراہ، باب نمبر ۶)
لہٰذا قرآن کریم، سنت نبویہ علیٰ صاحبہا السلام اور خلفاے راشدین کے فیصلوں سے یہ بات کسی شبہ کے بغیر ثابت ہے کہ زنا کی حد جس طرح زضا مندی کی صورت میں لازم ہے، اسی طرح زنابالجبر کی صورت میں بھی لازم ہے اور یہ کہنے کا کوئی جواز نہیں ہے کہ قرآن وسنت نے زنا کی جو حد (شرعی سزا) مقرر کی ہے، وہ صرف رضامندی کی صورت میں لاگو ہوتی ہے، جبر کی صورت میں اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ پھر کس وجہ سے زنا بالجبر کی شرعی سزا کو ختم کرنے پر اتنا اصرار کیا گیاہے؟ اس کی وجہ دراصل ایک انتہائی غیر منصفانہ پروپیگنڈا ہے جو حدود آرڈیننس کے نفاذ کے وقت سے بعض حلقے کرتے چلے آرہے ہیں۔ پروپیگنڈا یہ ہے کہ حدود آرڈیننس کے تحت اگر کوئی مظلوم عورت کسی مرد کے خلاف زنا بالجبر کا مقدمہ درج کرائے تو اس سے مطالبہ کیا جاتاہے کہ وہ زنا بالجبر پر چار گواہ پیش کرے اورجب وہ چار گواہ پیش نہیں کرسکتی تو الٹا اسی کو گرفتارکرکے جیل میں بند کر دیا جاتا ہے۔ یہ وہ بات ہے جو عرصہ دراز سے بے تکان دہرائی جارہی ہے اور اس شدت کے ساتھ دہرائی جا رہی ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اسے سچ سمجھنے لگے ہیں اوریہی وہ بات ہے جسے صدر مملکت نے بھی اپنی نشری تقریر میں اس بل کی واحد وجہ جواز کے طورپر پیش کیاہے ۔ جب کوئی بات پروپیگنڈے کے زور پر گلی گلی اتنی مشہور کردی جائے کہ وہ بچے بچے کی زبان پر ہو تو اس کے خلاف کوئی بات کہنے والا عام نظروں میں دیوانہ معلوم ہوتاہے، لیکن جو حضرات انصاف کے ساتھ مسائل کاجائزہ لینا چاہتے ہیں، میں انہیں دل سوزی کے ساتھ دعوت دیتا ہوں کہ وہ براہ کرم پروپیگنڈے سے ہٹ کر میری آئندہ معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں۔
واقعہ یہ ہے کہ میں خود پہلے وفاقی شرعی عدالت کے جج کی حیثیت سے اور پھر سترہ سال تک سپریم کورٹ کی شریعت ایپلٹ بنچ کے رکن کی حیثیت سے حدود آرڈیننس کے تحت درج ہونے والے مقدمات کی براہ راست سماعت کرتا رہا ہوں۔ اتنے طویل عرصے میں میرے علم میں کوئی ایک مقدمہ بھی ایسا نہیں آیا جس میں زنا بالجبر کی کسی مظلومہ کو اس بنا پر سز اد ی گئی ہو کہ وہ چار گواہ پیش نہیں کرسکی، اور حدود آرڈیننس کے تحت ایسا ہونا ممکن بھی نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدود آرڈیننس کے تحت چارگواہوں یا ملزم کے اقرار کی شرط صرف زنا بالجبر موجب حد کے لیے تھی، لیکن اسی کے ساتھ دفعہ ۱۰ (۳) زنا بالجبر موجب تعزیر کے لیے رکھی گئی تھی جس میں چار گواہوں کی شرط نہیں تھی، بلکہ اس میں جرم کا ثبوت کسی ایک گواہ، طبی معائنے اور کیمیاوی تجزیہ کار کی رپورٹ سے بھی ہوجاتاتھا۔ چنانچہ زنا بالجبر کے بیشتر مجرم اسی دفعہ کے تحت ہمیشہ سزا یاب ہوتے رہے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو مظلومہ چار گواہ نہیں لاسکی، اگر اسے کبھی سزا دی گئی ہو تو حدود آرڈیننس کی کون سی دفعہ کے تحت دی گئی ہوگی؟ اگر یہ کہا جائے کہ اسے قذف (یعنی زنا کی جھوٹی تہمت لگانے) پر سزا دی گئی تو قذف آرڈیننس کی دفعہ ۳ استثنا نمبر ۲ میں صاف صاف یہ لکھاہواموجود ہے کہ جو شخص قانونی اتھارٹیز کے پاس زنا بالجبر کی شکایت لے کرجائے، اسے صرف اس بنا پر قذف میں سز ا نہیں دی جاسکتی کہ وہ چار گواہ پیش نہیں کرسکا؍کرسکی۔ کوئی عدالت ہوش وحواس میں رہتے ہوئے ایسی عورت کو سزا دے ہی نہیں سکتی۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اسی عورت کو رضامندی سے زنا کرنے کی سزا دی جائے، لیکن اگر کسی عدالت نے ایسا کیا ہو تو اس کی یہ وجہ ممکن نہیں ہے کہ وہ خاتون چار گواہ نہیں لاسکی، بلکہ واحد ممکن وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عدالت شہادتوں کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ عورت کا جبر کا دعویٰ جھوٹاہے۔ اور ظاہر ہے کہ اگر کوئی عورت کسی مرد پر یہ الزام عائد کرے کہ اس نے زبردستی اس کے ساتھ زنا کیا ہے اوربعد میں شہادتوں سے ثابت ہو کہ اس کا جبر کا دعویٰ جھوٹاہے اوروہ رضامندی کے ساتھ اس عمل میں شریک ہوئی تو اسے سزایاب کرنا انصاف کے کسی تقاضے کے خلاف نہیں ہے، لیکن چونکہ عورت کو یقینی طور پر جھوٹا قراردینے کے لیے کافی ثبوت عموماً موجود نہیں ہوتا، اس لیے ایسی مثالیں بھی اکا دکا ہیں، ورنہ ۹۹ فیصد مقدمات میں یہ ہوتاہے کہ اگرچہ عدالت کو اس بات پر اطمینان نہیں ہوتا کہ مرد کی طرف سے جبر ہوا ہے لیکن چونکہ عورت کی رضامندی کا کافی ثبوت بھی موجود نہیں ہوتا، اس لیے ایسی صورت میں بھی عورت کو شک کا فائدہ دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔
حدود آرڈیننس کے تحت پچھلے ۲۷ سال میں جو مقدمات ہوئے ہیں، ان کا جائزہ لے کر اس بات کی تصدیق آسانی سے کی جاسکتی ہے۔ میرے علاوہ جن جج صاحبان نے یہ مقدمات سنے ہیں، ان سب کا تاثر بھی میں نے ہمیشہ یہی پایا کہ اس قسم کے معاملات میں جہاں عورت کا کردار مشکوک ہو، تب بھی عورتوں کو سزا نہیں ہوتی، صرف مرد کو سزا ہوتی ہے۔
چونکہ حدود آرڈیننس کے نفاذ کے وقت ہی سے یہ شور بکثرت مچتا رہاہے کہ اس کے ذریعے بے گناہ عورتوں کو سزاہورہی ہے، اس لیے ایک امریکی اسکالرچارلس کینیڈی یہ شور سن کر ان مقدمات کا سروے کرنے کے لیے پاکستان آیا۔ اس نے حدود آرڈیننس کے مقدمات کا جائزہ لے کر اعداد وشمار جمع کیے اور اپنی تحقیق کے نتائج ایک رپورٹ میں پیش کیے جو شائع ہوچکی ہے۔ اس رپورٹ کے نتائج بھی مذکورہ بالا حقائق کے عین مطابق ہیں۔ وہ اپنی رپورٹ میں لکھتاہے:
Women fearing conviction under section 10(2) frequently bring charges of rape under 10(2) against their alleged partners.The FSC finding no circumstantial evidence to support the latter charge, convict the male accused under section 10(2). The women is exonerated of any wrong doing due to reasonable doubt rule." (Charles Cannedy: The Status of Women in Pakistan in Islamization of Laws, P. 74) 
’’جن عورتوں کو دفعہ ۱۰(۲) کے تحت (زنا بالرضا کے جرم میں) سزا یاب ہونے کا اندیشہ ہوتاہے، وہ اپنے مبینہ شریک جرم کے خلاف دفعہ ۱۰(۳) کے تحت (زنا بالجبر کا) الزام لے کر آجاتی ہیں۔ فیڈرل شریعت کورٹ کو چونکہ ایسی کوئی قرائنی شہادت نہیں ملتی جو زنا بالجبر کے الزام کو ثابت کرسکے، اس لیے وہ مرد ملزم کو دفعہ ۱۰(۲) کے تحت (زنا بالرضا ) کی سزا دے دیتاہے، اور عورت ’’شک کے فائدے ‘‘والے قاعد ے کی بنا پراپنی ہر غلط کاری کی سزا سے چھوٹ جاتی ہے۔‘‘
یہ ایک غیر جانبدار غیر مسلم اسکالر کا مشاہدہ ہے جسے حدود آرڈیننس سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اور ان عورتوں سے متعلق ہے جنہوں نے بظاہر حالات رضامندی سے غلط کاری کا ارتکاب کیا، اور گھر والوں کے دباؤ میںآکر اپنے آشنا کے خلاف زنا بالجبر کا مقدمہ درج کرایا۔ اس سے چار گواہوں کا نہیں، قرائنی شہادت (Circumstantial evidence)کا مطالبہ کیاگیا اور وہ قرائنی شہادت بھی ایسی پیش نہ کرسکیں جس سے جبر کا عنصر ثابت ہوسکے۔ اس کے باوجود سزا صرف مرد کو ہوئی اور شک کے فائدے کی وجہ سے اس صورت میں بھی ان کو کوئی سز ا نہیں ہوئی ۔ 
لہٰذا واقعہ یہ ہے کہ حدود آرڈیننس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کی رو سے زنا بالجبر کا شکار ہونے والی عورت کو چار گواہ پیش نہ کرنے کی بنا پر الٹا سزا یاب کیا جاسکے۔ البتہ یہ ممکن ہے اور شایدچند واقعات میں ایسا ہوا بھی ہو کہ مقدمے کے عدالت تک پہنچنے سے پہلے تفتیش کے مرحلے میں پولیس نے قانون کے خلاف کسی عورت کے ساتھ یہ زیادتی کی ہو کہ وہ زنا بالجبر کی شکایت لے کر آئی، لیکن انہوں نے اسے زنا بالرضا میں گرفتار کرلیا۔ لیکن اس زیادتی کا حدود آرڈیننس کی کسی خامی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس قسم کی زیادتیاں ہمارے ملک میں پولیس ہر قانون کی تنفیذ میں کرتی رہتی ہے، اس کی وجہ سے قانون کو نہیں بدلا جاتا۔ ہیروئن رکھنا قانوناً جرم ہے، مگر پولیس کتنے بے گناہوں کے سر ہیروئن ڈال کر انہیں تنگ کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہیروئن کی ممانعت کا قانون ہی ختم کردیاجائے۔
زنا بالجبر کی مظلوم عورتوں کے ساتھ اگر پولیس نے بعض صورتوں میں ایسی زیادتی کی بھی ہے تو فیڈرل شریعت کورٹ نے اپنے فیصلوں کے ذریعے اس کا راستہ بند کیاہے، اور اگر بالفرض اب بھی ایسا کوئی خطرہ موجود ہو تو ایسا قانون بنایا جاسکتاہے جس کی رو سے یہ طے کر دیا جائے کہ زنا بالجبر کی مستغیثہ کو مقدمے کا آخری فیصلہ ہونے تک حدود آرڈیننس کی کسی بھی دفعہ کے تحت گرفتار نہیں کیا جاسکتا، اور جو شخص ایسی مظلومہ کو گرفتار کرے، اسے قرار واقعی سزا دینے کا قانون بھی بنایا جاسکتاہے، لیکن اس کی بناپر ’’زنا بالجبر‘‘ کی حد شرعی کو ختم کردینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ لہٰذا زیر نظر بل میں زنا بالجبر کی حدِشرعی کو جس طرح بالکلیہ ختم کردیاگیاہے، وہ قرآن وسنت کے واضح طور پر خلاف ہے اور اس کا خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔

فحاشی

زیر نظر بل کی دوسری اہم بات ان دفعات سے متعلق ہے جو ’’فحاشی‘‘ کے عنوان سے بل میں شامل کی گئی ہیں۔ حدود آرڈیننس میں احکام یہ تھے کہ اگر زنا پر شرعی اصول کے مطابق چار گواہ موجود ہوں تو آرڈی ننس کی دفعہ ۵ کے تحت مجرم پر زنا کی حد (شرعی سزا) جاری ہوگی، اور اگر چار گواہ نہ ہوں مگر فی الجملہ جرم ثابت ہو تو اسے تعزیری سزا دی جائے گی۔ اب اس بل میں حدود آرڈیننس کی دفعہ ۵ کے تحت زنا بالرضا کی حد شرعی تو باقی رکھی گئی ہے جس کے لیے چار گواہ شرط ہیں لیکن بل کی دفعہ ۸ کے ذریعے اسے ناقابل دست اندازی پولیس قرار دے کر یہ ضروری قراردے دیاگیاہے کہ کوئی شخص چار گواہوں کو ساتھ لے کر عدالت میں شکایت درج کرائے۔ پولیس میں اس کی ایف آئی آر (FIR) درج نہیں کی جاسکتی ،اور اس طرح زنا قابل حد ثابت کرنے کے طریق کار کو مزید دشوار بنادیاگیاہے۔ اسی طرح چار گواہوں کی غیر موجودگی میں زنا کی جو تعزیری سزا حدود آرڈیننس میں تھی، اس میں مندرجہ ذیل تبدیلیاں کی گئی ہیں:
(۱) حدود آرڈیننس میں اس جرم کو ’’زنا موجب تعزیر‘‘ کہا گیا تھا۔ اب زیر نظر بل میں اس کا نام بدل کر ’’فحاشی‘‘ (Lewdness)کردیاگیاہے۔ یہ تبدیلی بالکل درست اور قابل خیر مقدم ہے کیونکہ قرآن وسنت کی رو سے چار گواہوں کی غیر موجودگی میں کسی کے جرم کو زنا قراردینا مشکل تھا، البتہ اسے ’’زنا‘‘سے کم تر کوئی نام دینا چاہیے تھا۔ حدود آرڈیننس میں یہ کمزوری پائی جاتی تھی جسے دور کرنے کی سفارش علما کمیٹی نے بھی کی تھی۔
( تاہم قومی اسمبلی کے منظور کردہ ترمیمی بل کے اردو ترجمہ میں، جو سینٹ سیکرٹریٹ کی جانب سے ۱۸ ؍نومبر ۲۰۰۶ کو جاری کیا گیا ہے، بدستور ’’زنا‘‘ کا لفظ ہی استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ ترمیمی بل کی شق نمبر ۶ کے تحت ’’ایکٹ نمبر ۴۵ بابت ۱۸۶۰ء‘‘ میں شامل کی جانے والی نئی دفعات میں دفعہ ۴۹۶۔ب کا اردو ترجمہ یوں درج ہے: ’’زنا: غیر منکوحہ مرد اور عورت اگر رضامندی سے جنسی تعلقات قائم کریں تو وہ زنا کے مرتکب ہوں گے۔‘‘ مدیر)
(۲) حدود آرڈیننس میں اس جرم کی سزا دس سال تک ہوسکتی تھی، بل میں اسے گھٹا کر پانچ سال تک کردیاگیاہے۔ بہرحال چونکہ یہ تعزیر ہے، اس لیے اس تبدیلی کو بھی قرآن وسنت کے خلاف نہیں کہا جا سکتا۔
(۳) حدود آرڈیننس کے تحت ’’زنا‘‘ ایک قابل دست اندازی پولیس (Congnizable) جرم تھا، زیر نظر بل میں اسے ناقابل دست اندازی پولیس جرم قرار دے دیاگیاہے۔ چنانچہ اس جرم کی ایف آئی آر تھانے میں درج نہیں کرائی جاسکتی، بلکہ اس کی شکایت (Complaint) عدالت میں کرنی ہوگی او ر شکایت کے وقت دوعینی گواہ ساتھ لے جانے ہوں گے جن کا بیان حلفی عدالت فوراً قلم بند کرے گی، اس کے بعد اگر عدالت کو یہ اندازہ ہو کہ مزید کارروائی کے لیے کافی وجہ موجود ہے تو وہ ملزم کو سمن جاری کرے گی اور آئندہ کارروائی میں ملزم کی حاضری یقینی بنانے کے لیے ذاتی مچلکہ کے سوا کوئی ضمانت طلب نہیں کرے گی، اور اگر اندازہ ہو کہ کارروائی کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے تو مقدمہ اسی وقت خارج کر دے گی۔
اس طرح ’’فحاشی‘‘ کے جرم کو ثابت کرنا اتنا دشوار بنا دیاگیاہے کہ اس کے تحت کسی کو سزا ہونا عملاً بہت مشکل ہے۔
اول تو اسلامی احکام کے تحت زنا اور فحاشی کا جرم معاشرے اور اسٹیٹ کے خلاف جرم ہے، محض کسی فرد کے خلاف نہیں، اس لیے اسے قابل دست اندازی پولیس ہونا چاہیے۔بلاشبہ اس جرم کو قابل دست اندازی پولیس قرار دیتے وقت یہ پہلو مدنظر رہنا چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں پولیس کا جو کردار رہاہے، اس میں وہ بے گناہ جوڑوں کو جا و بیجاہراساں نہ کرے۔ اس بارے میں فیڈرل شریعت کورٹ کے متعدد فیصلے موجود ہیں جن کے بعد یہ خطرہ بڑی حد تک کم ہوگیا تھا اور ستائیس سال تک یہ جرم قابل دست اندازی پولیس رہاہے اور اس دوران اس جرم کی بنا پر لوگوں کوہراساں کرنے کے واقعات بہت ہی کم ہوئے ہیں، لیکن اس خطرے کا مزید سدِباب کرنے کے لیے یہ کیا جا سکتا تھا کہ جرم کی تفتیش ایس پی کے درجے کا کوئی پولیس آفیسر کرے، اور عدالت کے حکم کے بغیر کسی کو گرفتار نہ کیاجائے۔ ان مقدمات سے یہ رہاسہا خطرہ ختم ہو سکتا تھا۔
دوسرے شکایت کرنے والے پر یہ ذمہ داری عائد کرنا کہ وہ فوراً حد کی صورت میں چار اور فحاشی کی صورت میں دو عینی گواہ لے کر آئے، ہمارے فوجداری قانون کے نظام میں بالکل نرالی مثال ہے۔ہمارے پورے نظام شہادت میں حدود کے سوا کسی بھی مقدمے یا جرم کے ثبوت کے لیے گواہوں کی تعداد مقررنہیں ہے،بلکہ کسی چشم دید گواہ کے بغیر صر ف قرائنی شہادت (Circumstantial evidence) پر بھی فیصلے ہوجاتے ہیں۔چنانچہ زیرنظر جرم میں طبی معائنے اور کیمیاوی تجزیہ کی رپورٹیں شہادت کا بہت اہم حصہ ہوتی ہیں۔ شرعاً تعزیر کسی ایک قابل اعتماد گواہ پربھی جاری کی جاسکتی ہے اور قرائنی شہادت پر بھی۔ لہٰذا تعزیر کے معاملے میں عین شکایت درج کراتے وقت دو گواہوں کی شرط لگانا فحاشی کے مجرموں کو غیر ضروری تحفظ فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
اسی طرح ایسے ملزم کے لیے یہ لازم کردینا کہ اس سے ذاتی مچلکے کے سواکوئی اور ضمانت طلب نہیں کی جاسکے گی، عدالت کے ہاتھ باندھنے کے مترادف ہے۔ مقدمے کے حالات مختلف ہوتے ہیں اور اسی لیے مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۴۹۶ کے تحت عدالت کو پہلے ہی یہ اختیار دیاگیا ہے کہ وہ حالات مقدمہ کے تحت اگر چاہے تو صرف ذاتی مچلکے پر ملزم کو رہا کر دے ،اور اگر چاہے تو اس سے دوسروں کی ضمانت بھی طلب کرے۔ہلکے سے ہلکے جرم میں بھی عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے، لیکن ’’فحاشی‘‘ جیسے جرم پر عدالت سے یہ اختیار سلب کرلینا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ اگر مقدمے کی کافی وجہ موجود نہ ہو تو عدالت مقدمہ خارج کردے گی، سوعدالت کو مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۲۰۳ کے تحت پہلے ہی یہ اختیار حاصل ہے۔اسے اس بل کا دوبار ہ حصہ بنانے کا مقصد غیر واضح ہے۔
(۴) حدود آرڈیننس کے تحت اگر کسی شخص کے خلاف زنا موجب حد کا الزام ہو، اور مقدمے میں حد کی شرائط پوری نہ ہوں، لیکن فی الجملہ جرم ثابت ہوجائے تو اسے دفعہ ۱۰(۳) کے تحت تعزیری سزا دی جاسکتی تھی، لیکن زیر نظر بل کی رو سے ضابطہ فوجداری میں دفعہ ۲۰۳ سی کا جو اضافہ کیا گیا ہے، اس کی شق نمبر ۶ میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جو زنا موجب حد کے الزام سے بری ہوگیا ہو، اس کے خلاف فحاشی کا کوئی مقدمہ درج نہیں کرایاجاسکتا۔
اب یہ بات ظاہر ہے کہ زنا موجب حد کے لیے جو سخت ترین شرائط ہیں، وہ بعض اوقات محض فنی وجوہ سے پوری نہیں ہوتیں۔ ایسی صورت میں جبکہ مضبوط شہادتوں سے فحاشی کا جرم ثابت ہو تو اس پر نہ صرف یہ کہ زنا کا مقدمہ سننے والی عدالت کوئی سزا جاری نہیں کرسکتی، بلکہ اس کے خلاف فحاشی کی کوئی نئی شکایت بھی درج نہیں کی جا سکتی۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایسے شخص کے خلاف فحاشی کا مقدمہ دائر کرنے پر کلی پابندی عائد کر دینا فحاشی کو تحفظ دینے کے سوا اور کیاہے؟
اسی طرح مجوزہ بل کی دفعہ ۱۱۲ ۔اے میں یہ بھی کہا گیاہے کہ اگر کسی شخص پر زنا بالجبر (موجب تعزیر یعنی ریپ) کا الزام ہو تو اس کے مقدمے کو کسی بھی مرحلے پر فحاشی کی شکایت میں تبدیل نہیں کیاجا سکتا۔ اس کا واضح نتیجہ یہ ہے کہ کسی شخص کے خلاف عورت نے زنا بالجبر کا الزام عائد کیا ہو، اور جبر کے ثبوت میں کوئی شک رہ جائے تو ملزم بری ہوجائے گا اور ا س کے خلاف فحاشی کی دفعہ کے تحت بھی کوئی کارروائی نہیں کی جاسکے گی۔
جس زمانے میں زنا بالرضا کوئی جرم نہیں تھا، اس زمانے میں زنا بالجبر کے ملزمان اپنے دفاع میں یہ موقف اختیار کرتے تھے کہ زنا بے شک ہوا ہے، لیکن عور ت کی رضا مندی سے ہوا ہے، چنانچہ اگر عورت کی رضا مندی کا عدالت کو شبہ بھی ہو جاتا تو وہ ملزم کو بری کر دیتی تھی۔ حدود آرڈی ننس میں زنا بالجبر کے ملزم کے لیے اپنے دفاع میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہی تھی، کیونکہ عورت کی رضامندی کے باوجود زنا جرم تھا اور جو عدالت زنا بالجبر کے مقدمے کی سماعت کررہی ہے، وہی اس کو زنا موجب تعزیر کے تحت سزا دے سکتی تھی، لیکن اس نئی ترمیم کے بعد تقریباً وہی صورت لوٹ آئی ہے کہ اگر ملزم دھڑلے سے یہ کہے کہ میں نے عورت کی مرضی سے زنا کیا تھا اور عورت کی مرضی کا کوئی شبہ پید اکر دے تو کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ وہ عدالت جو اس کا یہ اعتراف سن رہی ہے، وہ تو اس لیے اس کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی کہ مذکورہ بالا دفعہ نے اس کا یہ اختیار سلب کرلیا ہے کہ وہ زنا بالجبر کے مقدمے کو کسی وقت فحاشی کی شکایت میں تبدیل کرے،اور اگر اس کے خلاف از سرِنو فحاشی کا مقدمہ دائر کیاجائے تو اس امکان کے بارے میں دفعہ کے الفاظ مجمل ہیں، لیکن اگر کوئی اور وجہ بھی موجود نہ ہو تو دائر نہ کرسکنے کی یہ وجہ بھی کافی ہے کہ اس کے لیے ضروری قرار دیا گیاہے کہ کوئی شخص دو عینی گواہوں کے ساتھ جاکر عدالت میں استغاثہ (Complaint) دائر کرے، اوریہاں دو عینی گواہ موجود نہیں ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایساشخص جرم سے بالکلیہ بری ہوجائے گا اور اس کے خلاف کسی بھی عدالت میں کوئی نئی کارروائی بھی نہیں ہوسکے گی۔
سوال یہ ہے کہ جس فحاشی کو جرم قراردیاگیاہے، وہ واقعتا کوئی جرم ہے یا نہیں؟اگر جرم ہے تو اس کو تحفظ دینے اور مجرم کا اس کی سزا سے بچاؤ کرنے کے لیے یہ دنیا سے نرالے قواعد کیوں وضع کیے جا رہے ہیں؟

حدود آرڈ ننس میں کچھ مزید ترمیمات 

(۱) نبی کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق جب کسی شخص کے خلاف عدالتی کارروائی کے نتیجے میں حد کا فیصلہ ہوجائے تو اس کی سزا کو معاف یا کم کرنے کا کسی کا اختیار نہیں ہے۔ چنانچہ حدود آرڈیننس کی دفعہ ۲۰ شق ۵ میں کہا گیا تھا کہ ضابطہ فوجداری کے باب ۱۹ میں صوبائی حکومت کو سزا معطل کرنے، اس میں تخفیف کرنے یا تبدیلی کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے ،وہ حد کی سزا پر اطلاق پذیر نہیں ہوگا۔ زیر نظر بل کے ذریعے حدود آرڈیننس میں ایک اور اہم اور سنگین تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ حدود آرڈیننس کی اس دفعہ ۲ شق ۵کو ختم کردیاگیاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی عدالت کسی کو حد کی سزا دے دے توحکومت کو ہر وقت یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس سزامیں تبدیلی یا تخفیف کرسکے۔ یہ ترمیم قرآن وسنت کے واضح ارشادات کے خلاف ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے:
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَمْراً أَن یَکُونَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِہِمْ (الاحزاب :۳۶)
’’جب اللہ اور اس کا رسول ؑ کوئی فیصلہ کردیں تو کسی مومن مرد یا عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ پھر بھی اس معاملے میں ان کا کوئی اختیار باقی رہے۔‘‘ 
اور آنحضرت ﷺ کا وہ واقعہ مشہور ومعروف ہے جس میں آپ ؑ نے ایک ایسی عورت کے حق میں سفارش کرنے پر جس پر حد کا فیصلہ ہوچکاتھا، اپنے محبوب صحابی حضرت اسامہؓ کو تنبیہ فرمائی، اور فرمایا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی بھی چوری کرے گی تو میں اس کا ہاتھ ضرور کاٹوں گا۔ (صحیح بخاری ،کتاب الحدود،باب ۱۲،حدیث ۶۷۸۸)
اس بنا پر پوری امت کا اجماع ہے کہ حد کو معاف کرنے اور اس میں تخفیف کا کسی بھی حکومت کو اختیار نہیں ہے ۔ لہٰذا بل کا یہ حصہ بھی صراحتاً قرآن وسنت کے خلاف ہے۔
(۲) حدود آرڈیننس کی دفعہ ۳ میں کہاگیاتھا کہ اس آرڈ یننس کے احکام دوسرے قوانین پر بالا رہیں گے، یعنی اگر کسی دوسرے قانون اور حدود آرڈیننس میں کہیں کوئی تضادہو تو حدود آرڈی ننس کے احکام قابل پابندی ہوں گے۔زیر نظر بل میں اس دفعہ کو ختم کردیاگیاہے ۔ 
یہ وہ دفعہ ہے جس سے نہ صرف بہت سی قانونی پیچیدگیاں دور کرنا مقصود تھا، بلکہ ماضی میں بہت سی ستم رسیدہ خواتین کی مظلومیت کا سدِ باب اسی دفعہ کے ذریعے ہواتھا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عائلی قوانین کے تحت اگر کوئی مرد اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو وہ طلاق اس وقت تک موثر نہیں ہوتی جب تک اس کا نوٹس یونین کونسل کے چیئرمین کو نہ بھیجا جائے۔ اگرچہ شرعی اعتبار سے طلاق کے بعد عدت گزار کر عورت جہاں چاہے، نکاح کرسکتی ہے ،لیکن عائلی قوانین کا تقاضا یہ ہے کہ جب تک یونین کونسل کو طلاق کا نوٹس نہ جائے، قانوناً وہ طلاق دینے والے شوہر کی بیوی ہے اور اسے کہیں اور نکاح کی اجازت نہیں ہے۔ اب ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں کہ شوہر نے طلاق کا نوٹس یونین کونسل میں نہیں بھیجا، اور عورت نے اپنے آپ کو مطلقہ سمجھ کر عدت کے بعد دوسری شادی کرلی۔ اب اس ظالم شوہر نے عورت کے خلاف زنا کا دعویٰ کردیا، کیونکہ عائلی قوانین کی رو سے وہ ابھی تک اسی کی بیوی تھی۔ جب اس قسم کے بعض مقدمات آئے تو سپریم کورٹ کی شریعت بنچ نے حدود آرڈی ننس کے دوسرے امور کے علاوہ اس دفعہ ۳ کی بنیاد پر ان خواتین کو رہائی دلوائی اوریہ کہاکہ آرڈی ننس چونکہ شریعت کے مطابق بنایاگیاہے، اور شریعت میں اس عورت کا دوسرا نکاح جائز ہے، اس لیے اس کے نکاح کے بارے میں عائلی قانون کا اطلاق نہیں ہوگا، کیونکہ یہ قانون دوسرے تما م قوانین پر بالا ہے۔ 
اب اس دفعہ کو ختم کرنے کے بعد، اور بالخصوص آرڈیننس میں نکاح کی جو تعریف تھی، اسے بھی بل کے ذریعے ختم کردینے کے بعد ایک مرتبہ پھر خواتین کے لیے دشواری پیدا ہونے کا امکان پیدا ہو گیاہے ۔
علما کمیٹی میں ہم نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا اور بالآخر اس بات پر اتفاق ہواتھا کہ اس کی جگہ مندرجہ ذیل دفعہ لکھی جائے :
"In the interpretation and application of this Ordinance, the injunctions of Islam as laid down in the Holy Quran and Sunnah shall have affect, notwithstanding any thing contained in any other law for the time being in force." 
یعنی :’’اس آرڈی ننس کی تشریح اور اطلاق میں اسلام کے وہ احکام جو قرآن کریم اور سنت نے متعین فرمائے ہیں، بہرصورت موثر ہوں گے، چاہے رائج الوقت کسی قانون میں کچھ بھی درج ہو۔‘‘
لیکن اب جو بل قومی اسمبلی سے منظور کرایا گیاہے ، اس میں سے یہ دفعہ بھی غائب ہے اور اس کے نتیجے میں بہت سے مسائل پیداہونے کا اندیشہ ہے۔
(۳) قذف آرڈی ننس کی دفعہ ۱۴میں قرآن کریم کے بیان کیے ہوئے لعان کا طریقہ درج ہے، یعنی اگر کوئی مرد اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور چار گواہ پیش نہ کرسکے تو عورت کے مطالبے پر اسے لعان کی کارروائی میں قسمیں کھانی ہوں گی اور میاں بیوی کی قسموں کے بعد ان کے درمیان نکاح فسخ کردیاجائے گا۔ قذف آرڈی ننس میں کہاگیاہے کہ اگر شوہر لعان کی کارروائی سے انکار کرے تو اسے اس وقت تک حراست میں رکھا جائے گا جب تک وہ لعان پر آمادہ نہ ہو۔ زیر نظر بل میں یہ حصہ حذف کردیاگیاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر شوہر لعان پر آمادہ نہ ہو تو عورت بے بسی سے لٹکی رہے گی ۔نہ اپنی بے گناہی لعان کے ذریعے ثابت کرسکے گی اور نہ نکاح فسخ کراسکے گی۔
نیز قذف آرڈیننس میں کہاگیاہے کہ اگر لعان کی کارروائی کے دوران عورت زنا کا اعتراف کرلے تو اس پر زنا کی سزا جاری ہوگی۔ زیر نظر بل میں یہ حصہ بھی حذف کردیاگیاہے، حالانکہ اعتراف کرلینے کے بعد سزائے زنا کے جاری نہ ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں، جبکہ لعان کی کارروائی عورت کے مطالبے پر ہی شروع ہوتی ہے اور اسے اعتراف کرنے پر کوئی مجبور نہیں کرتا۔ لہٰذا بل کا یہ حصہ بھی قرآن وسنت کے احکا م کے خلاف ہے ۔
(۴) زنا آرڈیننس کی دفعہ ۲۰ میں کہا گیاتھا کہ اگر عدالت کی شہادتوں سے یہ بات ثابت ہو کہ ملزم نے کسی ایسے عمل کا ارتکاب کیاہے جو حدود آرڈیننس کے علاوہ کسی اور قانون کے تحت جرم ہے تو اگر وہ جرم عدالت کے دائرہ اختیار میں ہو تو وہ ملز م کو اس جرم کی سزا دے سکتی ہے ۔ یہ دفعہ عدالتی کارروائیوں میں پیچیدگی ختم کرنے کے لیے تھی، لیکن زیر نظر بل میں عدالت کے اس اختیار کو بھی ختم کردیاگیاہے ۔
زیر نظر بل میں صورت حال یہ ہے کہ زنا سے ملتے جلتے تمام تعزیری جرائم کو حدود آرڈیننس سے نکال کر تعزیرات پاکستان میں منتقل کردیاگیاہے اور حدود آرڈیننس میں صرف زنا بالرضا موجب حد کا جرم باقی رہ گیاہے ،لہٰذا اس ترمیم کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر کسی مرد پر زنا موجب حد کا الزام ہو لیکن شہادتوں کے نتیجہ میں یہ بات ثابت ہوجائے کہ مرد نے عورت پر زبردستی کی تھی یا زنا ثابت نہ ہو لیکن عورت کو اغوا کرنا ثابت ہوجائے تو عدالت ملزم کو ریپ کی سزا دے سکے گی نہ اغوا کرنے کی، اور عدالت یہ جانتے بوجھتے اسے چھوڑ دے گی کہ اس نے عورت کواغوا کیاتھا اور اس پر زبردستی کی تھی۔ اس کے بعد یا تو ملزم بالکل چھوٹ جائے گا یا اس کے لیے از سرِ نو اغوا کی نالش کرنی ہوگی، اور عدالتی کارروائی کا نیا چکر نئے سرے سے شروع ہوگا۔
قانون سازی بڑا نازک عمل ہے، اس کے لیے بڑے ٹھنڈے دل ودماغ اور یکسوئی اور غیر جانب داری سے تمام پہلوؤں کوسامنے رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، اور جب پروپیگنڈے کی فضا میں صرف نعروں سے متاثر اور مرعوب ہوکر قانون سازی کی جاتی ہے تو اس کا نتیجہ اس قسم کی صورت حال کی شکل میں ظاہر ہوتاہے۔ پھر عدالتیں نئے قانون کی تعبیر وتشریح کے لیے عرصہ دراز تک قانونی موشگافیوں میں الجھی رہتی ہیں۔مقدمات ایک عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل ہوتے رہتے ہیں ۔ ان مظلوموں کی داد رسی میں رکاوٹ پید اہوتی ہے۔

خلاصہ

خلاصہ یہ ہے کہ چند جزوی خامیوں کو چھوڑ کر جن کا مفصل ذکر پیچھے آگیاہے، زیر نظر بل کی اہم خرابیاں یہ ہیں :
(۱) زیر نظر بل میں ’’زنا بالجبر‘‘ کی حدکو جس طرح بالکلیہ ختم کردیاگیاہے، وہ قرآن وسنت کے احکام کے بالکل خلاف ہے۔ خواتین کے ساتھ پولیس کی زیادتی کا اگر کوئی خطرہ ہو تو اس کا سدِباب اس طرح کیا جاسکتاہے کہ زنا بالجبر کی مستغیثہ کو مقدمے کی کارروائی عدالت میں پوری ہونے تک حدود آرڈیننس کی کسی بھی دفعہ کے تحت گرفتار کرنے کو قابل تعزیر جرم قرار دے دیا جائے۔
(۲) جب ایک مرتبہ زنا کی حد کا فیصلہ ہوجائے تو صوبائی حکومت کو سزا میں کسی قسم کی معافی یا تخفیف کا اختیار دینا قرآن وسنت کے بالکل خلاف ہے، لہٰذا زیر نظر بل میں زنا آرڈیننس کی دفعہ ۲۰ شق (۵) کو حذف کرکے حکومت کو سزا میں تخفیف وغیرہ کا جو اختیار دیاگیاہے، وہ قرآن وسنت کے منافی ہے۔
(۳) ’’زنا بالرضا موجب حد‘‘ اور ’’فحاشی‘‘کو ناقابل دست اندازی پولیس قراردے کر ان جرائم کو جو مختلف تحفظات دیے گئے ہیں، وہ ان جرائم کو عملاً ناقابل سزابنا دینے کے مترادف ہیں۔
(۴) عدالتوں پر یہ پابندی عائد کرنا کہ شہادت کے مطابق مختلف جرائم سامنے آنے پر وہ دوسرے جرائم میں سزا نہیں دے سکتے، مجرموں کی حوصلہ افزائی ہے، یا اس کے نتیجے میں مقدمات ایک عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل ہوں گے اورعدالتی پیچیدگیاں بھی پیداہوں گی۔
(۵) ’’قذف‘‘ آرڈی ننس میں ترمیم کر کے مرد کو یہ چھوٹ دینا کہ وہ عورت کے مطالبے کے باوجود لعان کی کارروائی میں شرکت سے انکار کرکے عورت کو معلق چھوڑ دے، قرآن حکیم کے حکم کے منافی ہے۔
(۶) ’’قذف آرڈی ننس‘‘ میں یہ ترمیم بھی قرآن وسنت کے منافی ہے کہ عورت کے رضا کارانہ اقرار جرم کے باوجود اسے سزا نہیں دی جاسکے گی۔
ارکان پارلیمنٹ اوراربابِ اقتدار سے ہماری درد مندانہ اپیل ہے کہ وہ ان گزارشا ت پر ٹھنڈے دل سے غور کرکے بل کی اصلاح کریں، اور قوم کو اس مخمصے سے نجات دلائیں جس میں وہ مبتلا ہوگئی ہے۔

تین دن آرزوؤں اور حسرتوں کی سرزمین میں

مولانا محمد عیسٰی منصوری

بھارت کے ممتاز عالم دین، اسکالر اور مفکرِ اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی کے نواسے اور بہت سی صفات میں آپ کے جانشین مولانا سید سلمان الحسینی حسب معمول برمنگھم کی سالانہ سیرت کانفرنس میں شرکت کے لیے یکم جون ۲۰۰۶ء لندن پہنچے۔ اس بارآپ کاسفر دہلی سے براستہ استنبول تھا۔ استنبول میں معروف اسلامی رہنما نجم الدین اربکان نے جو موجودہ دینی ذہن رکھنے والی حکومت کے ایک لحاظ سے سرپرست ورہبر ہیں۔دنیا بھر کی دینی تحریکات وشخصیات کوسلطان محمدالفاتح کی فتح قسطنطنیہ (استنبول)کی سالانہ تقریب وجشن کی مناسبت سے مدعو کیا تھا۔۲۹؍مئی ۱۴۵۶ء کوسلطان محمدفاتح نے عیسائیت کے سب سے بڑے مستحکم قلعے پر اسلام کاپرچم لہرایا تھا ۔یاد رہے اتاترک کے آئین کی رو سے اللہ تعالیٰ اوررسول اللہ ا کے نام پر کوئی تقریب نہیں کی جاسکتی۔اس لیے جب سے ترکی میں دینی ذہن رکھنے والی حکومت برسراقتدار آئی ہے، اس کی کوشش ہے کہ سلطان فاتح کے ساتھ ترکی قوم کووابستہ کیا جائے۔
نجم الدین اربکان نے اس تقریب کی پور ی ایک نشست تقریباً (اڑھائی گھنٹہ)موجودہ حالات میں ملت اسلامیہ کے لیے لائحہ عمل پیش کیا کہ موجودہ حالات میں ملت اسلامیہ کو سیاسی ،اقتصادی ،عسکری ،تہذیبی طورپر کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔مثلاً انہوں نے کہا ہمارے پاس اتنے مالی وسائل نہیں ہیں کہ امریکہ کی طرح بحری بیڑے بنا سکیں۔مگر ہم ایسے میزائل ضرور بناسکتے ہیں جو ان بحری بیڑوں کوتباہ کرسکتے ہوں وغیرہ وغیرہ۔غرض فاتح استنبول کی یاد میں اس تقریب کوترکی رہنما نجم الدین اربکان نے ترکی قوم کواسلام کی درخشاں تاریخ وتہذیب سے وابستہ کرنے کاذریعہ بنایا۔مولانا سلمان الحسینی مجھے باربار کہتے رہے کہ آپ کوترکی کی اس تقریب میں ضرور ہونا چاہیے تھا۔اب اس کی تلافی یہی ہے کہ واپسی میں میرے ساتھ استنبول چلیں تاکہ وہاں کے علما، مشائخ ،اسکالر،دانشوروں اور مفکرین اور ملت کے احیاء کاجذبہ رکھنے والے حضرات سے مل کر معلوم کرلیں کہ وہ حضرات سخت پابندیوں کی فضا میں کس طرح خاموشی سے علمی ،فکری ،تصنیفی ،دعوتی اور ہرنوع کاتعمیری کام کررہے ہیں۔اس طرح لندن کے ابراہیم کمیونٹی کالج میں دینی وعصری تعلیم کی یکجائی کاجو تجربہ ہورہا ہے ‘اس میں اُن کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں ۔مولانا سلمان الحسینی صاحب کے حکم واصرار پر بندہ اور ابراہیم کالج کے لیکچرار اور نائب مدیر مولانا شمس الضحیٰ صاحب انٹرنیٹ پر ٹکٹ بک کرکے ۵جون بروزبدھ سہ پہر ساڑھے چار بجے ٹرکش ایئرویز سے روانہ ہوکر استنبول کے وقت کے مطابق رات ساڑھے دس بجے استنبول ائرپورٹ پر پہنچے ۔یہ ائر پورٹ اپنی وسعت ،شان وشوکت اور نظافت میں یورپ وامریکہ کے کسی ائر پورٹ سے کم نظر نہیں آیا۔مولانا شمس الضحیٰ کہنے لگے گویا ہم لندن ہیتھرو کے چینل فور(۴)پرہیں ۔جہاں کوئی مسلمان نظر نہیں آتا۔مولانا سلمان نے فرمایا یہ سبھی مسلمان ہیں ۔صرف اتاترک کے انقلاب کااثر ہے ۔باہر نکلے تو مولانا سلمان الحسینی ایک ترکی نوجوان سے اردو میں گفتگو کرنے لگے ۔پتہ چلا اُن ترکی نوجوان کانام اسماعیل ہے ۔چند سال پہلے ندوہ میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں اور مولانا کے شاگرد ہیں ۔تھوڑی ہی دیر میں اُن کے دو رفقاء محمدالفاتح اور محمدصفرگاڑی لے کر آموجود ہوئے ۔الغرض ہم تین ترکی میزبانوں کی رفاقت میں ائرپورٹ سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت طے کرکے اسماعیل صاحب کے گھر پہنچے ۔رات کے بارہ بج چکے تھے ۔نمازپڑھی اور کھانا کھاکر سوگئے۔

استنبول کاکائی فاؤنڈیشن

دوسرے روز ۶جون ۲۰۰۶ء کونوبجے کے قریب اپنے میزبان اسماعیل ندوی صاحب کے ہمراہ ترکی کے معروف عالم دین مفکر اور نقشبندی شیخ ‘شیخ مصطفی الجواد کے قائم کردہ ادارے کائی (Caye)فاؤنڈیشن پہنچے ۔شیخ مصطفی جواد نے یہ ادارہ ترکی کے ذہین اورغریب طلباء کواستنبول یونیورسٹی شعبہ الہٰیات اور دیگر شعبوں میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کروانے کے لیے بطور دارالاقامہ (ہاسٹل)وقف کیا ہے ۔یہاں کوشش کی جاتی ہے کہ طلباء کوعربی زبان اوربنیادی دینی علوم میں مہارت پیدا ہوجائے۔ان کااصل کام طلباء کو دینی ذہن وفکر اور اسلامی تمدن وطرز حیات سے وابستہ کرنا ہے ۔کیونکہ اتاترک کے انقلاب کے وقت سے حکومت کی بنیادی پالیسی حکومتی مناصب وعہدوں پر لبرل واسلام بیزار ذہن رکھنے وا لوں کی ترجیح رہی ہے ۔شیخ مصطفی الجواد کی کوشش ہے کہ دینی ذہن رکھنے والے طلباء میں علمی وتحقیقی طورپر اتنی زبردست قابلیت وصلاحیت پیداکریں کہ طلباء محض اپنی اہلیت (میرٹ)کی بنیاد پر حکومت کے اعلیٰ مناصب وعہدوں میں جگہ پاسکیں۔کائی فاؤنڈیشن کی سات منزلہ عمارت نہایت مستحکم کشادہ اور جدید سہولتوں سے آراستہ ہے ۔شیخ کے صاحبزادے شیخ محمود نے جو انجینئرنگ پروفیسر ہیں‘بتایا کہ یہ عمارت علاقے کی تمام عمارتوں سے زیادہ مستحکم اور جدیدتر سہولتوں سے آراستہ اور زلزلہ پروف ہے ۔ہم نے اس کی تعمیر میں نہایت باریک بینی سے جدید تعمیری قواعد کالحاظ رکھا ہے ۔تاکہ حکومت کسی تعمیری نقص کابہانہ بناکر ادارے کوبند نہ کرسکے۔عمارت کی بالائی منزل شیخ اور اُن کے دونوں صاحبزادوں کی رہائش اور بقیہ چھے منزلیں غریب ذی استعداد طلباء کے لیے وقف ہیں۔چند سال پہلے ترکی حکومت نے فیصلہ کیا کہ حکومت کے تمام شعبوں حتیٰ کہ افتاء شعبے میں بھی خواتین کوترجیحی مناصب پرفائز کیاجائے گاتوشیخ مصطفی نے کائی فاؤنڈیشن کاایک حصہ طالبات کے لیے مخصوص کردیا۔

دارالحکمت، استنبول کاایک علمی،تحقیقی و تصنیفی ادارہ

کائی فاؤنڈیشن میں شیخ مصطفی الجواد کے مہمان خانے میں سامان رکھ کر جناب اسماعیل ندوی کے ہمراہ استنبول کے تاریخی مقامات دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے۔راستے میں مولانا سلمان کے ایک دوست واسکالر جناب عمر فاروق کوبطور گائیڈ ورہبر ساتھ لیا۔جناب عمرفاروق ایک علمی ادارے دارالحکمت کے ڈائریکٹر ہیں۔یہ ایک تصنیفی ،تحقیقی وتربیتی ادارہ ہے جہاں مختلف دینی موضوعات پر ریسرچ اور تصنیفی کام ہوتا ہے ۔اکیڈمک جنرل ریسرچ کے تحت بلند پایہ معیاری کتب کی طباعت کی جاتی ہے ۔ان کاموں میں علماء اور اسکالر کی ایک ٹیم مصروف رہتی ہے ۔اس ادارے نے مولانا سلمان الحسینی کی مرتب کردہ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کے مقدمۂ علوم حدیث پر تدوین وتحقیق اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فارسی رسالے ’’الفوزالکبیر‘‘ کے عربی ترجمہ اور تدوین وتحقیق کردہ رسالے بھی شائع کیے ہیں نیز ’’دارالحکمت ‘‘کالج یونیورسٹی کے طلباء کے لیے وقتاً فوقتاً مختصر دینی کورس اور سیمینارز منعقد کرکے انہیں اسلام سے وابستہ رکھنے کے لیے کوشاں ہے ۔عمر فاروق صاحب اور اُن کی اہلیہ چند سال اسلام آباد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں گزارچکے ہیں ۔اس لیے اردو بھی سمجھ لیتے ہیں اور برصغیر کے حالات سے بخوبی واقف ہونے کی وجہ سے ہم لوگوں سے خوب مانوس رہے ۔

آیا صوفیہ دنیائے عیسائیت کاعظیم روحانی ومذہبی مرکز

ترکی کے تاریخی آثار کو د یکھنے کی ابتدا سب سے مشہور جامعہ آیا صوفیہ سے کی۔ آیاصوفیہ قسطنطنیہ (استنبول)کے سلطان محمدفاتح کے ہاتھوں فتح ہونے تک عیسائیوں کادوسرا بڑا مذہبی مرکزرہا ہے ۔پانچویں صدی عیسوی میں عیسائی دنیا دوبڑی سلطنتوں مشرقی اور مغربی میں تقسیم ہوگئی تھی۔آیا صوفیہ مشرقی عیسائیت یعنی ہولی آرتھوڈکس چرچ کاسب سے بڑا مذہبی مرکز تھا، جبکہ مغربی عیسائیت یعنی کیتھولک چرچ کامرکزروم (اٹلی)رہا ۔درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد صدیوں تک عیسائیت ‘عابدوں ،زاہدوں اور تارک دنیا درویشوں کامذہب تھا ۔جوترکِ دنیا کرکے صومعون عبادت گاہوں اور غاروں میں عبادت وریاضت کرتے تھے تاآنکہ تیسری صدی عیسوی میں رومن بت پرست شہنشاہ قسطنطین نے عیسائیت قبول کرکے اپنی عسکری طاقت کے بل بوتے پر آناً فاناً پورے یورپ کابلکہ دنیا کاسب سے بڑا مذہب بنادیا۔تاریخی حقیقت یہی ہے کہ تلوار یاطاقت سے پھیلنے والا کوئی مذہب ہے تو وہ عیسائیت ہے نہ کہ اسلام اسی نے استنبول فتح کیا تھا جواس وقت بزنطیہ(Bazantia)کہلاتاتھا اور اسے اپناپایۂ تخت بنایا اور اس کانام اپنے نام پر قسطنطنیہ رکھا۔ اُسی نے روم (اٹلی)کے چرچ کی بنیاد رکھی جو بعد میں مغربی کیتھولک عیسائیت کاعالمی مرکز بنااور اس کا مذہبی پیشوا پوپ آج بھی کیتھولک عیسائیت کاسب سے بڑا مذہبی پیشوا ہے مگرآیا صوفیہ کو اس لحاظ سے روم (اٹلی)کے کلیسا سینٹ پیٹر پرفوقیت حاصل ہے کہ اس کی بنیاد روم کے کلیسا سے پہلے یعنی ۳۱۰ عیسوی میں پڑی۔اس کی تعمیر لکڑی سے ہوئی تھی جو آگ لگنے سے جل گیا تو اس جگہ قیصر جسٹینن نے ۳۲۲ عیسوی میں عظیم الشان پختہ تعمیر کی ۔جس وقت یہ چرچ (آیا صوفیہ) تعمیرہوا۔ دنیا کی سب سے عظیم الشان عمارت تھی حتیٰ کہ جب جسٹینن پہلی بار اس میں داخل ہوا تو اس کی زبان پر یہ مغرورانہ الفاظ آگئے کہ سلیمان میں تم پر سبقت لے گیا (تعمیر وتقدس میں بیت المقدس)پر ایک ہزار سال تک آیا صوفیہ کلیسا کے طورپر ہی نہیں بلکہ پوری عیسائی دنیا کے مذہبی وروحانی مرکز کے طورپر مشہور رہی ۔حتیٰ کہ سلطان محمدفاتح نے فتح قسطنطنیہ کے موقع پر اس میں ظہر کی نماز پڑھی ۔اس وقت سے یہ جامعہ آیا صوفیہ کہلائی پھر صدیوں تک کی صیہونی صلیبی سازشوں کے نتیجے میں اتاترک نے ۱۹۳۴ء اسے بطور مسجد بند کرکے ایک میوزم بنادیااور جہاں نماز پڑھنا قانوناً ممنوع قراردیا۔اب یہاں غیر ملکی سیاح نیم برہنہ خواتین گھومتی رہتی ہیں، حتیٰ کہ محراب ومنبر میں اپنے اپنے کیمروں سے تصاویر کھینچتی پھرتی ہیں ۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔

آیا صوفیہ ایک گہری صلیبی سازش کی زد میں 

اتاترک کے انقلاب کے بعد سے اُن کے جانشین یورپ کی خوشامد ودریوزہ گری میں لگے ہیں اور اُس کی چوکھٹ پر ناک رگڑ رہے ہیں کہ مہربانی فرما کر ہمیں اپنی برادری یورپین یونین میں شامل کرلو اور اس کے لیے کچھ بھی کرنے کوتیار ہیں اور یورپ شرطوں پر شرطیں عائد کرکے ترک قوم کی تذلیل کاحظ ومزہ اٹھارہا ہے ۔اس سفر میں معلوم ہوا کہ اب یورپ کی ایک اور تازہ شرط یہ ہے کہ آیا صوفیہ اسے واپس کیا جائے تاکہ اس میں دوبارہ عیسائیت کی دعوت واشاعت کاعالمی مرکز بناسکیں۔ اب یہ دعویٰ دنیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر گونج رہا ہے اور انٹرنیٹ پر بھی تفصیلات موجود ہیں اور اس کے لیے دنیا بھر میں دستخطی مہم چل رہی ہے ۔اس تحریک کوپس پردہ امریکہ ویورپ کے حکمرانوں کی پشت پناہی حاصل ہے ۔یہی نہیں کہ یورپ کے مطالبات توآگے تک ہیں ۔مثلاً مغربی دنیا کامطالبہ ہے کہ اگر یورپین یونین میں شامل ہونا ہے تو ہمیں مساجد کے میناروں والا استنبول قبول نہیں ہوسکتا ہے کہ ان میناروں کومنہدم کرنے کے لیے یورپ کاذخیرہ ذہن جومکمل طورپر صیہونی کنٹرول میں ہے ۔ان میناروں کوڈھانے کی کوئی تخریبی کارروائی کاآغاز کرکے ورلڈ ٹریڈسنٹر کی طرح اس کاالزام کسی اسامہ کے سرمنڈ ھ دے کیونکہ استنبول پہاڑوں پرآباد ہے ۔ہربلندی پر مساجد کے اونچے اونچے مینار نظر آتے ہیں ۔ترکی مساجد میں ایک دونہیں پورے چار مینار ہوتے ہیں جوکفر کے کلیجے کو چھید کر رکھ دیتے ہوں گے ۔مغرب کے اس مطالبے سے وہاں کے دینی ذہن رکھنے والے دوست کافی فکر مند وپریشان تھے ۔ہم نے کہا آپ حضرات بھی اسپین ،مسجد قرطبہ ،الحمراء اور دیگر بے شمار مسلم دور کی عمارات کو مسلمانوں کے حوالے کرنے کامطالبہ عالمی طورپر بلند کریں۔ بقول اقبال:
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

جامعہ سلطان احمد

جامعہ آیا صوفیہ دیکھنے کے بعد مولانا سلمان نے کہا ظہر کاوقت قریب ہے ۔توپ کاپی سرائے جانے سے قبل نماز ظہر پڑھ لیتے ہیں ۔آیا صوفیہ سے نکلتے ہی سامنے مسجد سلطان احمدہے ۔یہ مسجد سلطان احمد نے سترہویں صدی عیسوی ۱۶۱۶ء میں عین آیا صوفیہ کے سامنے تعمیر کروائی تھی ۔چونکہ ترکی کی سب سے نمایاں عمارت عیسائیوں کے کلیسا کے طورپر تعمیر ہوتی تھی۔ سلطان محمدنے حکم دیا کہ ایک ایسی مسجد تعمیر کی جائے جو آیا صوفیہ سے زیادہ بلند اور پرشکوہ ہو۔چنانچہ اس مسجد کی تعمیر نے واقعی آیا صوفیہ کوگردکردیا۔یہ مسجد کیا ہے۔ترکی فن تعمیر کاایک عجوبہ ہے ۔اس میں داخل ہوتے ہی انسان اس کے شکوہ جاہ وجلال اور حسن وجمال میں کھو جاتا ہے اس طرح قدرت نے سلطان احمد کے ذریعے آج کی اہم ترین ضرورت کا انتظام کردیا ہے ۔ کیونکہ یہ جگہ ترکی کی اہم ترین تاریخی آثار اور تفریح کی جگہ ہے یہیں آیا صوفیہ توپ کاپی سرائے اور بحر فاسفورس وغیرہ غیرہ ہیں یہاں پر ہر وقت ہزار ہا سیاح ہوتے ہیں آیا صوفیہ کے میوزم بن جانے کے بعد مسلمان سیاحوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ نماز کہا ں پڑھیں؟ مسجد سلطان احمد میں ظہر کی نماز ادا کرکے مسجد کے امام سے ملاقات کی جو حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی اور تبلیغی جماعت سے نسبت کی بنا پر اسلام کے داعی ہیں ۔ آیا صوفیہ اور مسجد سلطان احمد کے درمیان وسیع پُرفضا میدان کے ایک قہوہ خانے میں کافی پی کر تازہ دم ہوئے ۔ اور ساتھ میں واقع ترکی کے مشہور میوزیم توپ کاپی دیکھنے روانہ ہوئے ۔ 
ترکی زبان میں سرائے محل کو اور کاپی دروازے کو کہتے ہیں۔یعنی توپ دروازہ محل باز نطینی دور میں سینٹ رومانوس دروازہ تھا اور فتح کے بعد سلطان احمد فاتح اسی دروازسے داخل ہوئے تھے بعد میں محل تعمیر ہوا تو سلطان فاتح کے دورسے آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید تک عثمانی سلاطین کی رہائش گاہ رہا اور آج کل ترکی کا سب سے بڑ ا موزیم ہے یہ میوزیم اسلامی دنیا کا سب سے اہم موزیم ہے اس میں داخل ہوتے ہی قصرمحمد فاتح کی عمارت نظر آتی ہے اس کے صحن کے بیچوں وبیچ فرش پربڑا سا سوراخ ہے جو عرصے سے خالی پڑاہے اس میں کبھی خلافت عثمانیہ کا سرخ ہلالی پرچم لہراتا تھا جو دنیامیں مسلمانوں کے غلبے اور عظمت و شوکت کی علامت تھا اس سے یورپ لرزہ براندام رہتا تھا ۔ اس کے اترنے کے بعد ۱۹۲۴ء سے ملت اسلامیہ کی حیثیت ایک ایسے ریوڑ کی ہوگئی ہے جس کا کوئی رکھوالا نہ ہو اب شاید حضرت مہدی ہی اس خلاء کو پُر کرسکیں ۔ اس کے بعد سلطان عبدالحمید کے افسر مہمانداری کا دفتر ہے پھر نسبتاً کچھ بڑا ۔ سلطان کی ملاقات کا کمرہ اور اس سے متصل سلطان کی خواب گاہ جہاں پرانے طرزکی مسہری بچھی ہے ‘ بڑی حیرت ہوئی ۔دنیا کے سب سے بڑے حکمران کی خواب گاہ اس قدر چھوٹی اور سادہ اس کے اندازِ تعمیرمیں ٹھاٹھ باٹھ کا شائبہ تک نہیں اس کے مقابلے میں دنیا کے چھوٹے چھوٹے بادشاہوں مغرب کے لارڈوں (جاگیرداروں) کے محل اس سے کہیں زیادہ شان و شوکت والے ہیں ۔ یہی نہیں آج کے سعودی ،کویتی حکمرانوں کے پاس اس سے کہیں زیادہ عالیشان پُر شکوہ محل یورپی ملکوں کے ہر بڑے شہرمیں موجودہیں ۔ مگرکیا کریں انگریز نے ہم لوگوں کو اپنے سلاطین کو گالی دینا سکھا دیا ہے ۔ توپ کاپی دنیاکا عظیم ترین نواردات کا میوزیم ہے یہاں سینکڑوں سال کے نواردات محفوظ ہیں ۔ دنیا بھر کے خصوصاً یورپ کے حکمران عثمان خلفاء کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نہایت بیش قیمت تحفے بھیجا کرتے تھے جس طرح آج کے سعودی و کویتی حکمران ملکۂ برطانیہ کی خدمت میں پیش کرتے رہتے ہیں۔ ہم لوگ جلدی جلدی میوز یم کے کمروں سے گزرے جہاں سلاطین عثمانیہ کے لباس ، اسلحہ، زرہیں ،برتن ،بیش قیمت ہیرے جواہرات ، ایران کے شیعی بادشاہ اسمٰعیل صفوی کا ہیرے جواہرات سے مرصع تخت وغیرہ وغیرہ دیکھتے ہوئے تبرکات کے کمرے میں پہنچے جہاں سرورِ دوعالم ا کا جُبہ مبارکہ آپ کی دو تلواریں ، آپ کا علم ( جھنڈا) جو بد رمیں استعمال ہوا تھا۔موئے مبارک ، دندان مبارک،مقوقس شاہِ مصر کے نام آپ کا مکتو ب گرامی ، مہر مبارک ، خلفاء راشدین ، حضرت خالد بن ولیدص ،حضرت جعفر طیار ص حضرت عمار بن یاسر کی تلواریں ، بیت اللہ کا لکڑی کا دروازہ حجرِ اسود کا سونے کا خول ، کعبہ شریف کا قفل اور چابیاں ، میزابِ رحمت کے ٹکڑے وغیرہ وغیرہ ہیں ۔ زیارات سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی و دل شاد کیا ۔ یہاں ہمہ وقت ایک قاری نہایت خوش الحانی سے تلاوت قرآن میں مصروف رہتا ہے ۔ 

عثمانی سلطنت کی سادگی و جفاکشی 

توپ کاپی سرائے دیکھ کر دو باتیں خاص طور پر محسوس کیں پہلی یہ کہ خلافتِ عثمانیہ کی واحد سلطنت تھی جن کی مساجد‘ شاہی محلات سے بیسیوں گُنا زیادہ پُرشکوہ ،عالشان اور مستحکم ہیں ۔ عثمانی سلاطین کا یہ محل ( قصر) اپنی شان و شوکت ،بلندی اور تعمیر کے اعتبار سے مساجد سے بدرجہا کم بلکہ مساجد کے مقابلے میں بے حیثیت محسوس ہوتا ہے ۔توپ کاپی سرائے کاایک حصہ سلاطین کے اہل خانہ کی رہائش گاہ رہا ہے ۔جوحرم کہلاتا ہے ۔حسب عادت حرم کے نام پر یورپین اقوام اسلام کوبدنام کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہیں جبکہ یورپ کے معمولی سے بادشاہ ہی نہیں جاگیردار وں (لارڈز)کے محلوں کے سامنے یہ دنیا کی سب سے بڑی امپائرکے محلات بے حیثیت نظر آتے ہیں ۔توپ کاپی سرائے کی دوسری بات یہ محسوس ہوئی کہ عثمانی سلاطین کی زندگیاں عام طورپر پروقار مگر سادگی کی حامل تھیں ۔اُن میں زیادہ نمودونمائش طمطراق اور کروفر نہیں تھا۔توپ کاسرائے کی حیثیت پرانے زمانے کے وسیع مکان یا حویلی کی ہے ۔اس کی تعمیر میں کہیں محلاتی بلند ی یا شان وشوکت نظر نہیں آتی ۔توپ کاپی کے آخری حصے میں چھوٹا صحن بحیرۂ فاسفورس کے کنارے کھلی جگہ پر ہے ۔یہاں سے عمر فاروق صاحب نے گولڈن ہارن(شاخِ زریں)کاوہ کنارہ دکھایا جن پرسلطان محمدفاتح نے اپنے جنگی جہاز چلاکر دوسری جانب سمندر میں اتارے تھے۔ یہ واقعہ کتابوں میں بارہا پڑھاتھا مگر اب آنکھوں سے دیکھا کہ بحیرۂ فاسفورس اورشاخِ زریں کے درمیان تقریباً دس میل طویل بلند وبالا پہاڑوں کاسلسلہ ہے ۔ان پہاڑوں پر سے راتوں رات جہازوں کو چڑھا کر دوسری جانب سمندر میں پہنچا دینا ‘اس قدر محیر العقول ہے جس کے تصور سے پسینہ آجاتا ہے ۔توپ کاپی دیکھنے کے بعد آیا صوفیہ مسجد سلطان احمداور بحر فاسفورس کے درمیان پرانی شہر پناہ(فصیل)پر سیاحوں سے ایک خوبصورت ریسٹورنٹ ہے۔وہاں خالص ترکی کھانے کھائے اور ترکی چائے پی کر عمرفاروق کے ساتھ اُن کے دارالحکمت میں تھوڑی دیر قیلولہ کرکے عصر کی نماز پڑھ کر حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مزار کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے ۔جوترکی میں ایک مسلمان کے لیے اہم جگہ ہے ۔

میزبانِ رسول حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر

عصر کی نماز پڑھ کر حضرت ابوایوب انصاریؓ کی زیارت کے لیے پہنچے ۔یہ استنبول کی واحد جامع ہے جس میں وسیع صحن ہے۔ مزارِ مبارک پر ہروقت ترکوں کاتانتا بندھا رہتا ہے ۔مرد ،عورتیں، بچے ،بوڑھے سب باچشم تر فاتحہ پڑھنے چلے آرہے ہیں۔ یہاں آکر محسوس ہوا کہ ترکی کے حقیقی حکمران حضرت ابوایوب انصاریؓ ہیں ‘جن کی دلو ں پر حکومت ہے۔ حضرت معاویہؓ کے دور میں جب قسطنطنیہ پر پہلا حملہ یزید بن معاویہؓ کی سرکردگی میں ہوا۔اس لشکر میں آپ شریک تھے۔ نوے سال سے زیادہ عمر تھی ‘شدید بیمارہوگئے۔وصیت فرمائی میری نعش کودشمن کی سرزمین میں جتنی دور لے جانا ممکن ہو لے جاکر دفن کرنا۔ یہاں سب کے دلو ں پر عجیب رقت طاری تھی ۔مولانا سلمان صاحب کہنے لگے :سوچئے نوے سال عمر ہے۔ اولاد پوتے پڑپوتے سب راہ دیکھ رہے ہیں ۔دیارِ رسول(ا) اور قبرِ رسول(ا) کی کشش اپنی جگہ پر مگر حضرت ابوایوب انصاریؓ وصیت فرمارہے ہیں کہ دشمن کی سرزمین میں دور سے دور دفن کیا جائے۔پتا نہیں قبر کانشان رہے گا نہیں رہے گا؟کوئی پئے فاتحہ آئے گا؟یہ قبر ہرمسلمان کوایک پیغام دے رہی ہے ۔یہاں آکر محسوس ہوا کہ اللہ کے نبی(ا) کے اس صحابی نے کمالی ظلم وجبر کے سخت ترین حالات میں بھی ترکوں کارشتہ اسلام میں محمدرسول اللہا سے ٹوٹنے نہیں دیا۔عثمانی سلطنت کی رسم تاج پوشی اسی جامعہ میں ہوتی تھی ‘وہ اس طرح کہ بانئ سلطنت عثمان خان کی تلوار نئے سلطان کی کمر میں باندھ دی جاتی۔ اب یہ پورا علاقہ ہی ایوبی کہلاتا ہے ۔باہر نکلے تو پولیس کی کار پرایوبی پولیس لکھانظر آیا ۔سامنے چوراہے پر اتاترک کامجسمہ تھا جو ایک ہاتھ میں یورپین ہیٹ اٹھائے گویا ہیٹ پہننے کی دعوت دے رہا تھا۔

جامع سلطان بن محمدفاتح میں

حسبِ پروگرام عشاء کی نماز کے لیے جامع فاتح پہنچ کر پہلے سلطان محمدفاتح کی قبر پر فاتحہ پڑھی ۔قبر کی لوح پر نہایت سفید چمکدار سلطان فاتح کاعمامہ رکھا ہوا ہے ۔معلوم ہوا کہ ترکی سلاطین کادستور تھا کہ اُن کی قبر کی لوح پر اُن کاعمامہ رکھ دیا جاتا۔عمامہ اس قدر جاذبِ نظر تھا کہ چشمِ تصور میں سلطان کی عظمت وشوکت گھوم گئی ۔اس کے بعد ہم لوگ جامع میں داخل ہوئے جہاں سب سے پہلے جامع فاتح کے امام شیخ عثمان نے جومولانا سلمان صاحب کے واقف تھے ‘نہایت پرتپاک استقبال کیا ۔ان کی اقتداء میں عشا ء کی نماز پڑھی ۔نماز کے بعد ان کی تلاوت سے محظوظ ہوئے ۔اُن کے استاد اور ترکی کی معروف علمی ودینی شخصیت شیخ امین سراج سے ملاقات ہوئی۔شیخ امین سراج ترکی کے ممتاز عالم دین اور سکالر ہیں ۔وہ اسی جامع سلطان فاتح میں بخاری شریف کادرس دیتے ہیں۔جامع کے موجودہ امام صاحب سمیت ان کے بے شمار شاگرد ترکی میں دینی وملی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔آپ مفکر اسلام حضرت مولانا سیدابوالحسن علی ندوی ؒ کے عقیدت مندوں میں ہیں۔ فرمایا کمالی دور کے جبروالحاد کے بعد ترکی طلباء کی پہلی کھیپ جامعہ ازہر میں پڑھنے کے لیے گئی ۔اُس میں ‘میں بھی تھا۔ وہاں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ ۱۹۵۱ء میں تشریف لائے ۔اُس وقت آپ کی عمر ۳۸سال تھی ۔آپ نے ترکی طلباء سے ملاقات کرنے اور ترکی احوال جاننے کی خواہش ظاہر کی تو ہم لوگ خدمت میں حاضر ہوئے ۔اُس وقت سے اب تک حضرت مولانا رحمتہ اللہ علیہ سے محبت ویقین اور عقیدت کارشتہ قائم ہے ۔حضرت مولاناؒ کی بہت سی باتیں سناتے رہے ۔شیخ سراج نے نہایت تفصیل سے جامع فاتح کامعائنہ کروایا۔تاریخی معلومات بہم پہنچاتے رہے ۔فرمایا اس جامع کے فرش کاقالین سلطان عبدالحمید کے دور کابنا ہوا ہے ۔تقریباً سوسال ہوگئے مگر نہایت شفاف اور عمدہ حالت میں ہے ۔فرش کے اس قالین پر بعینہٖ گنبد کی ڈیزائن بنائی گئی ہے۔جامع میں آیاتِ قرآنی کاایک کتبہ سلطان عبدالحمید کے ہاتھوں کالکھا ہوا ہے، دوسرا سلطان مراد کے ہاتھوں کالکھاہوا۔اس کے بعد تالاکھول کرمسجد کی بالکنی میں اُس جگہ لے گئے ‘جہاں سلطان فاتح اپنے مخصوص لوگوں کے ساتھ نماز اداکرتے تھے ۔پھر سلطان کی مخصوص ضیافت گاہ میں جہاں سلطان فاتح باہر سے آئے ہوئے وفود اور مہمانوں کوشرفِ باریابی بخشتے تھے ۔اسی جگہ شیخ امین سراج نے ہم لوگوں کے لیے ترکی مٹھائیوں، فروٹ اور مشروبات سے ضیافت کااہتمام کیا تھا۔فرمایا :اسی جگہ میرے والد محترم نے مجھے کمالی جبرواستبداد کے دور میں عربی کی ابتدائی صرف ونحو کی کتابیں پڑھائیں اور قرآن پاک حفظ کروایا۔اُس وقت یہ کام ہم اس طرح چھپ چھپ کرکرتے تھے گویا سنگین جرم کررہے ہوں۔

ترکی کے علما ،اسکالرز اور دانشوروں سے ایک اہم نشست

اسی نشست میں ترکی کے مشہور عالم شیخ حمدی ارسلان سے ملاقات ہوئی ۔آپ بھی جامعہ ازہر سے فارغ ہیں اور جامعہ سلطان فاتح میں درس دیتے ہیں ۔ترکی کے صدر وزیراعظم اورحکومتی عہدیداروں سے ذاتی تعلقات رکھتے ہیں ۔وسیع النظر عالم ہیں اور دنیا کے سیاسی تمدنی احوال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ترکی کے متعلق بڑی اہم معلومات اُن سے حاصل ہوئیں۔ آپ قدم قدم پر اپنے کیمرے سے تصاویر بھی لیتے رہے ۔فرمایا میری خواہش تھی کہ کل آپ حضرات کوترکی کے قدیم کیپٹل کے آثار دکھانے لے جاتا۔جوقدیم دارالسلطنت رہا ہے اور بہت سی تاریخی عمارت کے علاوہ بہت سے عثمانی سلاطین وہاں مدفون ہیں۔اور ترکی کی سب سے بڑے گنبد والی مسجد وہاں ہے اور میں نے ائرکنڈیشنڈ بس کاانتظام بھی کرلیا ہے ۔مگر افسوس ہمارے پاس وقت نہیں تھا ۔اسی محفل میں ترکی کے معروف اسکالرومصنف جناب ڈاکٹر خلیل ابراہیم سے ملاقات ہوئی۔آپ جامعہ ازہر کے فاضل بڑے محقق او ربہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ اب استنبول یونیورسٹی کے شعبۂ الہٰیات کے پروفیسر ہیں۔شیخ حمدی ارسلان کہنے لگے :مجھے رشک آتا ہے کہ آپ حضرات برصغیر میں آزادی سے دینی جامعات ومدارس قائم کرسکتے ہیں۔بندہ نے عرض کیا مجھے توآپ حضرات پہ رشک آرہا ہے کہ اتنی جکڑبندیوں ،سخت گیری اور پابندیوں کے باوجود آپ حضرات جوعلمی تصنیفی وتحقیقی کام کررہے ہیں اور عوام کے ذہنوں تک رسائی کے لیے جدید ذرائع ابلاغ اخبارات، رسائل، سی ڈی وغیرہ کوجس مہارت وقابلیت سے دین کی نشرواشاعت کے لیے استعمال کررہے ہیں ‘ہم توبرصغیر میں اس کاعشر عشیر بھی نہیں کرپارہے ۔غرض یہ مبارک نشست عشاء کی نماز کے بعد سے رات ساڑھے گیارہ بجے تک چلتی رہی ۔یہ محفل ترکی کی عظیم علمی ودینی شخصیات سے ملاقات اور ترکی کے جدید احوال ومعلومات کے لحاظ سے ہمارے سفر کاحاصل تھی۔ یہاں سے روانہ ہوکر رات بارہ بجے کے قریب شیخ مصطفی الجواد کے گھر یعنی کائی فاؤنڈیشن پہنچے۔جہاں شیخ کے صاحبزادے شیخ محمود نے استقبال کیا اور نہایت پرتکلف دعوت کی ۔رات اُن کے مہمان خانے میں آرام کیا۔صبح کائی فاؤنڈیشن کے طلباء کے ساتھ ناشتہ کیا ۔ناشتے پر طلباء مولانا سلمان الحسینی سے علمی سوالات پوچھتے رہے۔ یہ ناشتہ بھی نہایت پرتکلف تھا ۔اس سے اندازہ ہواکہ شیخ مصطفی الجواد نے جونقشبندی سلسلے کے جلیل القدر مشائخ میں ہیں۔ عصری علوم کے طلباء کو دین کی طرف مائل کرنے کے لیے نہ صرف فا ؤنڈیشن کی رہائش فائیوسٹار ہوٹل جیسی دی بلکہ کھانے پینے اور دیگر لوازمات کا بھی اعلیٰ معیاری انتظام کیا۔یہ سب صرف اس لیے کہ یہ طبقہ جوکل ملک کی باگ ڈور سنبھالنے اور انتظام پرفائز ہونے والا ہے ‘وہ اسلام بیزاری کے بجائے دینی ذہن کے ساتھی اپنی منزل پر پہنچے ۔اس میں برصغیر کے اہل علم وفضل کے لیے بڑی عبرت ونصیحت ہے ۔کاش کہ ہم نے پاکستان وبنگلہ دیش میں کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبا پر توجہ دی ہوتی ۔

دارالحکمت میں ترکی کے اخباری نمائندے اور علماء کے وفد سے گفتگو

کائی فاؤنڈیشن میں ہی ترکی میزبان اسماعیل ندوی اور اُن کے دوست فاتح صاحب لینے آگئے تھے ۔اُن کے ساتھ روانہ ہوکر دارالحکمت پہنچے۔ مولانا شمس الضحیٰ علمی ودینی کتب کی تلاش میں عمر فاروق صاحب کے ساتھ مختلف کتب خانے دیکھنے چلے گئے ۔بندہ مولانا سلمان الحسینی کے ہمراہ دارالحکمت میں رہا ۔جہاں مختلف علماء اور اخباری نمائندے ملنے آتے رہے ۔انہی میں علامہ شیخ یوسف قرضاوی کی تنظیم اتحاد العلماء العالمی کے منتظم حضرات بھی تھے ‘ جو مولانا سلمان صاحب کے ساتھ تبادلۂ خیالات کرتے رہے ۔اُن کااصرار تھا کہ تنظیم کاسالانہ اجلاس تین دن بعد استنبول میں ہورہا ہے ۔آپ حضرات اس کے لیے رک جائیں اور بندہ ترکی روزنامہ ’’اِکت (Akit)کے دینی ذوق رکھنے والے نمائندے توزان قسلق(Kaslaq)سے محو گفتگو رہا ۔اُن سے ترکی کے سیاسی حالات کے متعلق بیش قیمت سیاسی معلومات حاصل ہوئیں۔ اُن کااخبار روزانہ تقریباً دو لاکھ تیس ہزار چھپتا ہے ۔جس کانام Yenesafak(شفق جدید )ترکی وزیراعظم جناب طیب اردگان کی پارٹی کاروزنامہ’’ زمان‘‘ (Zaman)ایک لاکھ دس ہزار اور فضیلت پارٹی کا’’ملی گزٹ‘‘(Mille Gazatte)تیس ہزار ۔سب سے زیادہ حیرت یہ معلوم کرکے ہوئی کہ نورسی مشائخ کے صوفیا کا (Yen Asia) (نیا ایشیا) چھ لاکھ اور دوسرا اخبار اُن کاتقریباً اڑھائی لاکھ روزانہ چھپتا ہے ۔ان نامساعد حالات میں جہاں اقتدار اعلیٰ مذہب دشمن لوگوں کے پاس ہو ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فوج اورعدلیہ اسرائیلی ہیں ۔وہاں تصوف کے سلسلے کے مشائخ کرام اور علما ومفکرین ‘خاموشی وحکمت کے ساتھ عصری تقاضوں کوملحوظ رکھ کر نئی نسل کے لیے جو کام کررہے ہیں ‘وہ ہمارے لیے سبق آموز ہی نہیں‘ قابل تقلید بھی ہے ۔اسی طرح ترکی کے مرکز ی بازار میں جگہ جگہ اخبارات کی دکانوں پر ترکی کے مشائخ تصوف اور علماے کرام اور ہمارے شیخ مصطفی الجواد کے آڈیو ویڈیو ،سی ڈیز نظر آئیں ۔جب کہ برصغیر میں ابلاغ کے ان جدید شعبوں میں جن کے ذریعے سے ہرمسلمان بلکہ ہرانسان کے دل ودماغ پر دستک دی جاسکتی ہے اور اسلام کا پیغام پہنچایا جاسکتا ہے۔ ہمارا کام نہ ہونے کے برابر ہے ۔پوری نئی نسل ہمارے ہاتھوں سے نکلی جارہی ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے اُن کی فکری ونظریاتی غذا کاکوئی انتظام ہم نہیں کرسکے،بلکہ ہم اب تک جدید الیکٹرانک میڈیا کے حلت وحرمت کی بابت کوئی فیصلہ نہیں کرپائے۔ لیکن جوچیز بالاتفاق حلال وطیب ہے یعنی پرنٹ میڈیا اس میں ہماری کیا کارکردگی ہے ۔اللہ ہی ہمیں عقل وہوش نصیب فرمائے ۔آمین۔

مجلس جامع سلیمانیہ اور سلیمان اعظم کے مزار پر

ظہر کی نماز بعد اسماعیل ندوی مولانا سلمان کو لے کر ائرپورٹ روانہ ہوگئے ۔جہاں شام چھے بجے مولانا کی دہلی کے لیے فلائٹ تھی ۔بندہ اور مولانا شمس الضحیٰ صاحب مختصر سا قیلولہ کرکے تاریخی آثار دیکھنے نکل پڑے ۔پہلے چہارشبہ محلے کے مرکزی بازار کے فروٹ اور میوہ جات کے پاس سے ہوتے ہوئے ایک سادہ سے ترکی قہوہ خانے میں ترکی چائے کے ساتھ ترکی کباب کھائے ۔عمرفاروق صاحب نے بتایا کہ ترکی میں ہرنوع کے میوہ جات وفروٹ بکثرت ہوتے ہیں جو نہایت اعلیٰ کوالٹی اور نہایت ارزاں ہیں ۔لندن میں غریب خانے پر بندہ کے ناشتے میں ترکی زیتون وپنیر لازماً ہوتا ہے ۔چند منٹ کے فاصلے پر جامع شہزادہ بشیر کی زیارت کی جو ترکی کی دیگر شاہی مساجد کی طرح نہایت پرشکوہ اور حسین وجمیل تھی پھرچند منٹ چل کر عصر کی نماز جامع سلیمانیہ میں پڑھی۔جامعہ سلیمانیہ استنبول کی سب سے بڑی اور عالیشان جامع ہے جو سلیمان اعظم نے تعمیر کروائی تھی ۔سلیمان اعظم کے دور میں خلافتِ عثمانیہ اپنی وسعت ،قوت اور خوشحالی وترقی کے اوجِ کمال کو پہنچ گئی تھی۔کہا جاتا ہے کہ اس جامع کی تعمیر میں شرکت کے لیے ایران کے شیعی حکمران شاہِ طہماسپ نے بھاری رقم اور قیمتی جواہرات بھیجے تھے ۔سلیمان اعظم نے رقم فقراء میں تقسیم کرادی اور بیش قیمت جواہرات سنگریزوں کے ساتھ دیواروں میں چنوا دے کیونکہ سلیمان اعظم کے نزدیک وہ بے نمازی اور فاسق تھا ۔اُس نے اہل سنت پر بے پناہ مظالم کیے او راُن کی مساجد کومسمار کیا۔اس لیے سلیمان اعظم کی حمیت وغیرت نے اُس کی رقم مسجد میں لگانی گوارا نہیں کی۔ ہمارے میزبان عمرفاروق صاحب نے اس خط کامضمون سنایا جو سلیمان اعظم نے شاہِ ایران کولکھا تھا جس کامضمون کچھ اس طرح شروع ہوتا ہے یا شارب الیل والنہار ویاامام الزیغ والضلال (اے دن رات شراب پینے والے گمراہی وکج روی کے امام)جامع سلیمانیہ کے ساتھ ہی سلیما ن اعظم کی قبر پر فاتحہ پڑھی ۔سلیمان اعظم کے مزار کے قریب جامع سلیمانیہ کے معمارریتان کامزارہے جو فن تعمیر کاامام مانا گیا ہے۔ اس کی تعمیر کردہ تین سوساٹھ یادگاریں اُس کے بعد بھی محفوظ ہیں جس میں جامع سلیمانیہ سب سے بڑا شاہکار ہے۔تاریخ میں باالاتفاق مورخین اسے دنیا کاسب سے بڑا معمار تسلیم کیا جاتا ہے ۔

ترکی کے نورسی ونقشبندی مشائخ تصوف 

سلیمان اعظم کی قبر کے ساتھ ہی نورسی اور نقشبندی کے سلسلے کے بہت سے مشائخ مدفون ہیں ۔ترکی اور وسط ایشیاء میں زیادہ تر نقشبندی کے سلسلے کی خالدی کردنی شاخ نے کام کیا جو حضرت مجدد الف ثانیؒ کے سلسلے میں دہلی کے شاہ غلام علی نقشبندیؒ کے خلیفہ تھے ۔یہیں پرشیخ محمدزاہد کی قبر ہے جن کاچند سال پہلے انتقال ہواتھا ۔یہ ترکی کے موجودہ وزیراعظم طیب اردگان اور اُن کے رہبر اور سیاسی رہنما نجم الدین اربکان کے شیخ تھے ۔یہیں عالم اسلام کی بے مثال ہستی شیخ محمدضیاء الدین غاموش ہناوی کی قبر ہے ۔جورموز الاحادیث کے مصنف ہیں ۔غرض سلیمانِ اعظم کی قبر کے ساتھ اولیاء کرامت کاعظیم خزانہ مدفون ہے ۔ہم نے ان سب بزرگوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھی۔آج کل تصوف کاانکار واستہزاء ایک فیشن بن گیا ہے ۔مگر ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ وسط ایشیاء میں کمیونزم کی کالی آندھی ہویا اتاترک کے جبرواستبداد کے طوفان کے سخت حالات میں ان قوموں کوصرف تصوف ہی نے اسلام پر قائم رکھا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ تصوف کے سلسلے نہ ہوتے تو اُندلس کی طرح ترکی سے بھی اسلام ختم ہوگیا ہوتا۔نقشبندی نورسی تیجانی ،حلیمیہ وسلیمانیہ سلسلوں کی خانقاہوں نے اتاترک کے استبدادی دور میں بھی زیرزمین دینی واخلاقی رہنمائی جاری رکھی ۔ان سلاسلِ تصوف کے مشائخ نے اخلاقی ،سماجی ،تعلیمی میدانوں میں رہنمائی کی اور مثالی تعلیمی ادارے اسلامی ہوسٹل،کارخانے نشرواشاعت کے ادارے اور کمپنیاں قائم کیں۔نقشبندی سلسلے کے رہنما شیخ سعید کُردی، شیخ عاطف اور شیخ اسعد نے قیدوبند کی صعوبتوں اور تختہ دار کی پروانہ کرتے ہوئے دین کادامن تھامے رکھا۔شیخ سعید کُردی اور اُن کے دوسو کے قریب مریدین شہادت سے سرفراز ہوئے ہزاروں گھر منہدم کیے گئے۔ 
آٹھویں دہائی میں جب نجم الدین اربکان نے بیت المقدس کی بازیابی کے لیے ریلی نکالی تو اتاترک کی فوج نے تین ہزار سے زیادہ لوگوں کو تختہ دار پر چڑھادیا اور بے شمار لوگوں کو جیل میں ٹھونس دیا۔ پھر ۱۹۸۰ء میں ایک لاکھ تیس ہزار لوگوں کو جن میں بہت بڑی تعداد جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تھی ۔دینی ذہن رکھنے کے جرم میں گرفتارکیاگیا ۔انہیں ملازمت سے نکال دیا گیا۔ جن میں استنبول وانقرہ یونیورسٹیوں اور دیگر کالجوں کے پروفیسروں کی بڑی تعداد شامل تھی لیکن نورسی نقشبندی سلیمانیہ سلسلے برابر اپنا کام کرتے رہے۔ انہوں نے رفاہی سوسائیٹیاں قائم کیں ۔اسلامی بنیاد پر غیر سودی بینک اور سوسائیٹیاں بنائیں۔ اسلامک مالیاتی بینک ،برکہ بینک فیصل فنانس کارپوریشن جیسے غیر سودی بینکوں کی شاخیں پھیلادیں ۔پورے ترکی میں حفظ قرآن کے مکاتب کاجال پھیلادیا۔جامع سلیمانیہ کے ساتھ ہی ترکی کاسب سے بڑا تاریخی کتب خانہ سلیمانیہ ہے جہاں بے شمار نادر مخطوطات محفوظ ہیں۔ کہا جاتاہے کہ یہ دنیا میں عربی فارسی مخطوطات کاسب سے بڑا ذخیرہ ہے ۔اسے سرسری طورپر بھی دیکھنے کے لیے بھی کئی ہفتے درکار ہیں ۔حسرت کے ساتھ واپس لوٹے شاید کبھی فرصت میں حاضر ہوسکیں۔جامع سلیمانیہ سے چند منٹ کے فاصلے پر جامع سلطان بایزید ہے ۔یہ بھی ترکی کی جامع کی طرح نہایت ہی پرشکوہ اور فن تعمیر کانادر نمونہ ہے۔ جامع بایزید کے سامنے کھلا صحن غیر معمولی طورپر وسیع ہے ۔جس میں بلامبالغہ لاکھوں آدمی آسکتے ہیں ۔یہاں ہروقت ایک میلہ سا لگارہتا ہے ۔اس میدان کے کنارے عثمانی دور کاایک عظیم الشان گیٹ(دروازہ )ہے جس پر عربی میں لکھی عبارت سے معلوم ہوا کہ یہاں عثمانی دور میں عسکری وفوجی تربیت کاادارہ تھا۔اب یہاں استنبول یونیورسٹی ہے اور کسی باحجاب خاتون کواندر جانے کی اجازت نہیں۔ جامع بایزید کے متصل ہی سلطان محمدفاتح کا تعمیرکردہ مسقف بازار، گرینڈ مارکیٹ(Grand Market)ہے جو ۱۴۸۱ء کاتعمیر کردہ نہایت خوبصورت اور منقش محرابوں کی شکل میں ہے ۔اس کی چھت نہایت پختہ ومنقش ہے ۔ یہ ترکی مصنوعات کااہم مرکز ہے ۔اس میں ۳۲۰ دکانیں،۶ غسل خانے ،۵ مساجد اور پینسٹھ گلیاں ہیں ۔یہاں ہم نے تقریباً آدھ گھنٹہ گزارا۔مولانا شمس الضحیٰ صاحب نے ایک ترکی حقہ اور بندہ نے پشمینی چادریں خریدیں۔

ترکی مساجد کی خصوصیات

پوری دنیا میں ترکی کی مساجد سے زیادہ عالیشان ،بلند وبالا ،پرشکوہ مساجد کسی ملک میں نہیں ہوں گی ۔سول انجینئرنگ کے اس دور میں اس معیار کی تعمیر کے تصور سے بڑے بڑے انجینئروں کوپسینہ آجائے گا۔یہ مساجد چار نہایت ضخیم ستونوں پر قائم ہیں ۔اُن کاقطر عموماً تیس سے چالیس فٹ کے قریب ہے ۔اس کے ستونوں کے اوپر نہایت عظیم الشان بلند بڑے گنبد کے ساتھ چھے سے بارہ تک معاون گنبد ہوتے ہیں ۔اس طرح مسجد کی تقریباً پوری چھت گنبدوں پر مشتمل ہوتی ہے اور چھت کی بلندی چھے منزلہ عمارت کے برابر ہوتی ہے ۔اس میں سینکڑوں روشن دان اور کھڑکیاں ہوتی ہیں ۔دن کے وقت پوری مسجد اس طرح روشن رہتی ہیں کہ مزید کسی خارجی روشنی کی احتیاج نہیں رہتی ۔دوسرے ان گنبدوں کی تعمیر میں یہ کمال رکھاگیا ہے کہ وہ قدرتی طورپر آلہ مکبرالصوت (لاؤڈ سپیکر)کاکام دیتی ہے ۔خطیب کی آواز مسجد کے ہرگوشے میں صاف اور واضح سنائی دیتی ہے ۔ان گنبدوں کے اندرونی حصوں میں اسی طرح دیواروں پر اسی طرح حسین ودلکش میناکاری ہوتی ہے کہ انسان اس کے حسن وجمال میں گم ہوجاتا ہے ۔چاروں ستونوں اور گنبد کے جوڑوں کی جگہ خلفائے راشدین کے اسمائے گرامی واضح خط میں نمایاں لکھے ہوئے ہیں۔بعض مساجد میں مزید عشرہ مبشرہ،ؓ حضرت فاطمہؓ اور حضرات حسنینؓ کے اسماے گرامی بھی ہوتے ہیں۔ عثمانی دور کی ہرمسجد کے دالان میں چھوٹے گنبدوں پر مشتمل بے شمارکمرے ہوتے ہیں جو کسی وقت تعلیم وتعلم کی عظیم یونیورسٹیوں اورخانقاہوں کاکام دیتے تھے ۔مگر اب ان کاکوئی تعلیمی یادینی استعمال نہیں ۔البتہ بعض میں حکومت نے ان میں سرکاری انتظامی شعبے قائم کررکھے ہیں یا وہ بند پڑے ہیں ۔مساجد کے چاروں طرف سبزہ زار ہوتا ہے جس میں پچاس ہزار سے ایک لاکھ کااجتماع ہوسکتا ہے ۔ترکی کی ہرمسجد میں فرض نمازوں کے بعد امام نہایت خوش الحانی سے قرآن پاک پڑھتے ہیں اور تقریباً تمام ہی مُصلّی نہایت مؤدب ہوکرسنتے ہیں ۔یہ تلاوت اتاترک کے انقلاب کے بعد سے ترکوں کو اسلام سے وابستہ رکھنے کاذریعہ رہا ہے ۔ہرمسجد کے ممبر نہایت ہی بلند وبالا تقریباً ایک یا دو منزلہ عمارت کے برابر ہیں ۔جب خطیب کھڑا ہوتا ہے تو عظمت وشوکت اور رعب طاری ہوجاتا ہے اور ہرشخص خطیب کویکساں دیکھ رہا ہوتا ہے۔ عثمانی سلاطین نے اپنے دفن کے لیے عالیشان تاج محل تعمیر کرنے کے بجائے وہ ان ہی عظیم الشان مساجد کے زیر سایہ چھوٹے چھوٹے اور معمولی ہجروں میں آرام فرماہیں۔

قلعۂ رومیل حصار

استنبول میں کئی بار بحیرۂ فاسفورس پر بنائے گئے عظیم الشان پل سے گزرنا ہوا جو یورپ کو ایشیاء سے بذریعہ روڈ ملاتا ہے۔ یہ ایک معلق پل ہے جس کے دونوں کناروں پر دودوآہنی ستون ہیں ۔دوستون ایشیاء میں دویورپ ہیں ۔اس کوہلالی شکل میں نکلے ہوئے دولوہے کے مضبوط ستونوں نے سنبھالا ہواہے ۔اس پل کی لمبائی ایک ہزار چوہتر (۱۰۷۴)اور چوڑائی ۴۰ء ۳۳میٹر اوریہ پل سمندر سے ۶۴میٹر بلند ہے ۔اس برج پر سے گزرتے ہوئے عمر فاروق صاحب نے سلطان محمدفاتح کاتعمیر کردہ عظیم الشان قلعہ رومیل حصاربتایا جو سلطان بایزید یلدرم کے تعمیرکردہ قلعہ حصار کے بالکل سامنے یورپ کے ساحل پر واقع ہے ۔قلعہ اس طرح تعمیر کیا گیا ہے کہ فضا سے محمد (ا)لکھا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔خواہش کے باوجود وقت کی کمی کے باعث اندر جاکر نہیں دیکھ سکے ۔

ترکی قوم پر تصوف کے اثرات

رات کاکھاناایک کُردی ریسٹورنٹ میں کھایا ۔کُردی کھانوں کایہ ریسٹورنٹ ایک کُردی گاؤں کانظارہ پیش کررہا تھا۔دنیا میں کھانے اپنی لذت اور اقسام کے تنوع کے لحاظ سے فائق ان ہی ملکوں کے ہیں جو صدیوں تک عالمی امپائر رہے ہیں ۔جیسا کہ مغربی دنیا میں اٹلی کے کھانے او رایشیاء مشرق میں ترکی کھانے ‘کھانے کے بعد نمازِ عشاء چہارشنبہ کی جامع میں پڑھی ۔یہ محلہ قدیم زمانے سے نقشبندی ونورسی سلاسل تصوف کامسکن رہا ہے ۔موجودہ سب سے بڑے شیخ محمود آفندی بسترِ علالت پرزندگی کے آخری لمحات میں بتائے جاتے ہیں ۔اُن سے ملاقاتیں بند تھیں ۔اس محلے میں داخل ہوتے ہی محسوس ہوا کہ گویا صدیوں پرانے کی خالص خانقاہی ماحول میں آگئے ہوں ۔لوگوں کالباس حلیہ سب ہی متشرع خواتین بلکہ بچیاں تک پورے حجاب میں ہمیں استنبول میں یہ واحد مسجد ملی جواو پر نیچے تک پوری طرح بھری ہوئی تھی ۔اور تمام مُصلّی پوری داڑھی میں اور شرعی لباس میں تھے ۔بندہ چشم تصورمیں صدیوں پرانے دور میں پہنچ گیا۔جب ترکی میں اسلام کاغلبہ تھا اور ترکوں نے اسلام کاپرچم اٹھایا ہوا تھا۔

مفکرِ اسلام مولانا ندویؒ اور مولانا سلمان الحسینی کی مقبولیت

ترکی میں عصر حاضر کے مفکرین میں سے زیادہ مقبولیت ،محبوبیت اور رسوخ مفکرِ اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کانظر آیاکیوں کہ حنفیت اور تصوف ترکوں کے رگ وپے میں پیوست ہے ۔کسی غیر حنفی یا سلفی مفکر کاوہاں جگہ بناپانا دشوار ہے۔موجودہ حکومت کے بڑے بڑے عہدیدار اپنی ابتدائی تعلیم میں حضرت مولانا کی کتابیں قصص النبیین منشورات ومختارات پڑھے ہوئے ہیں ۔ایک ترکی فاضل صالح قراجہ نے جو ندوہ میں بھی پڑھ چکے ہیں ۔حضرت مولانا کی تقریباً تمام ہی کتب کاترکی زبان میں ترجمہ کردیاہے ۔حضرت مولانا کی کتابوں کے ترکی ایڈیشن اردو سے بھی کہیں زیادہ طبع ہوئے ہیں۔ افسوس کہ ہماری یوسف صالح قراجہ سے ملاقات نہ ہوسکی۔وہ سفر میں تھے ۔مولانا سلمان صاحب سے انہوں نے فون پر گفتگو کی اور اپنے حاضر نہ ہوسکنے پر افسوس کااظہار فرمایا۔ہمارے مکرم مولانا سلمان الحسینی کی ترکی وعلمی وفکری حلقے میں بے پناہ محبوبیت ومقبولیت دیکھی۔بڑے بڑے سکالر ومفکر ین اور علمی اداروں کے ذمہ داران ملنے آتے رہے ۔ایک ترکی عالم نے کہا: مولانا سلمان صاحب کاعربی تقریر کالہجہ خالص عربی ہے ۔کوئی عجمی اس لہجے میں تقریر کرہی نہیں سکتا۔یقیناًمولانا کی رگوں میں عربی خون ہے۔ کیوں نہ ہو ۔آپ کی شخصیت میں ساداتِ حسنی وحسینی کامبارک ا متزاج ہے ۔بندہ نے مولانا سلمان صاحب سے کہا :آپ نے مردہ لوگوں میں بہت وقت گزارلیا ۔اب باقی زندگی میں زیادہ توجہ زندہ اقوام ترک عرب وسط ایشیاء پر دیجیے ۔ترکی کے تمام طبقات بڑے بڑے علماء اور نوجوانوں میں مولانا سے جو والہانہ محبت وتعلق اور قدرومنزلت دیکھی۔ انگلینڈ وامریکہ کے برصغیر (گجرات)لوگوں میں اس کاعشرِ عشیر بھی نظر نہیں آیا۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ برصغیر کی مٹی کی خاصیت ہے کہ جتنے کنکر اُتنے شنکر۔گویا شخصیت یا پیرپرستی رگوں میں پیوست ہے اور مولانا کاطرز زندگی پیر کے بجائے ایک عالم ربانی کا ہے۔

بہ صدحسرت لندن واپسی

ہم لوگوں نے آخری رات عمر فاروق صاحب ڈائریٹر دارالحکمت کے گھر آرام کیا ۔صبح ساڑھے چار بجے نمازفجر پڑھ کر ائرپورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔ائرپورٹ پر کرغزستان کے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو تبلیغی جماعت میں پاکستان جاتے رہتے ہیں ۔کچھ اردو بھی بول لیتے ہیں ۔گھنٹہ بھر ائرپورٹ کے ریسٹورنٹ میں ناشتے کے دوران کرغزستان کے مسلمانوں کے احوال پرگفتگو رہی۔معلوم ہوا کہ وسط ایشیا کے ملکوں میں کمیونزم سے آزادی کے بعد عام لوگوں اور نئی نسل میں اسلام کی طرف کثرت سے رجوع ہے مگر ان کو دین سکھانے اور تعلیم دینے والوں کی اشد کمی ہے ۔صبح ساڑھے آٹھ بجے ترکش ائرپورٹ سے روانہ ہوکر لندن کے وقت کے مطابق ساڑھے دس بجے ہیتھرو پورٹ پر اترے ۔

ترکوں کے مستقبل پر امید وبیم کے سائے

ترکی میں گزرے تین دن بندہ کی زندگی کا اہم ترین موڑہے۔ شدت سے احساس ہورہا ہے کہ ترکی کاسفر بہت پہلے ہونا چاہیے تھا ۔یہاں ملی ودینی کام کرنے والوں کے لیے عملی نمونے اورمثالیں ہیں ۔ترکی دوبارہ انگڑائی لے کر اٹھ رہا ہے۔ ہم نے ترکی کوامید وبیم کے درمیان چھوڑا۔اتاترک کے جس ملک میں عربی میں اذان دینا جرم تھا ‘آج وہاں دوملین سے زیادہ حفاظ قرآن ہیں اور نئی نسل اسلام کے متعلق پرعزم ایمان وایقان کی دولت سے مالامال ہے۔ کبھی اندیشہ سراٹھاتا ہے کہ فوج اورعدلیہ پوری طرح دونمہ یا اسرائیلی ہے ۔آنِ واحد میں سب کو کچل کر کسی نئے اتاترک کو لے آئے گی ۔ہم نے بہت سے ترک نوجوانوں سے پوچھا: اس فوج سے نجات کی کوئی صورت ہے ؟ان کاجواب خاموشی تھا، لیکن چہروں پر کرب والم صاف جھلکتا تھا ۔صحیح احادیث میں قیامت کی علامتوں میں سے ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام ظہور کے بعد سب سے پہلے قسطنطنیہ (ترکی)فتح کریں گے ۔شاید ہماری قسمت میں ابھی مزیدانقلابِ گردشِ دوراں باقی ہے ۔مگرایمان وہ طاقت ہے جو ہرحال میں امید کی جوت جلائے رکھتی ہے ۔
عجب کیا ہے کہ یہ بیڑہ غرق ہوکرپھر اچھل جائے
کہ ہم نے انقلاب چرخِ گردوں یوں بھی دیکھے ہیں
عالمی حالات پر نظر رکھنے والے صاف محسوس کررہے ہیں کہ دنیائے کفر خاص طورپر صیہونی ،صلیبی گٹھ جوڑ سے اسلام کی جنگ اپنے آخری راؤنڈ میں ہے۔ مغرب فلسفہ و فکرکے میدان میں شکست کھاچکا ہے ۔اس کی قابل فخر چیزیں فرد کی آزادی، انسانی حقوق ،سماجی انصاف اور معاشرہ کی حریت کا ملمع نائن الیون نے اتاردہا ہے ۔اب اس کے پاس صرف ظلم وجارحیت کاسہارا رہ گیا ہے ۔جو ان شاء اللہ چند سالوں میں افغانستان کے پہاڑوں اور عراق کے ریگزاروں میں دفن ہوجائے گا اور دنیا پرا سلام کے امن وسلامتی ،انسانیت کے احترام اور فلاح وبہبودی کاسور ج طلوع ہو کررہے گا۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔

اسلامی پردہ کا مفہوم، اس کی روح اور مقصد

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

مسلم خواتین کے لیے پردہ(اس پورے معنیٰ میں کہ چہرہ بھی چھپاہو) ضروری ہویا نہ ہو ،اسلامی نقطۂ نظر سے اس کے بہتر ہونے میں کلام کی گنجائش نہیں نظر آتی۔ مسلم معاشرہ کے عادات و اطوارکے لیے مستند ترین معیار نبئ اکرم ﷺ کے دورِ مبارک کا معاشرہ ہے۔ اس معاشرہ میں ہمیں مردوں اور عورتوں کوالگ الگ(Segregated) رکھنے کا واضح رویّہ ملتا ہے۔جماعت کی نماز کے لیے مسجد میں عورتوں کو آنے کی اجازت تو رکھی تھی پر ان کے لیے زیادہ ثواب آپؐ گھر کے اندر کی نماز میں بتاتے۔مسجد میں عورتیں آتیں تو مردوں کی صف میں نہیں کھڑی ہو سکتی تھیں،ان کی صفیں مردوں کی پشت پر ہوتی تھیں۔نمازکے خاتمہ پرمسجد سے نکلنے کے سلسلہ میں ان کے لیے ارشاد تھاکہ مردوں کے ساتھ مخلوط ہوکر نہ نکلیں۔ عید کے موقع پر خود فرمایا جا تا تھا کہ عورتوں بچوں کو بھی ساتھ لیکرنکلو۔ لیکن وہاں بھی عورتوں کا حصہ مردوں والے حصہ سے جدا ہو تا اورنماز کے بعد خطبہ ارشاد فرماکر عورتوں کی طر ف الگ تشریف لیجاتے، اور وہاں مخصوص طورپران کے مناسبِ حال کچھ وعظ فرماتے ۔ 
علیحدگی (Segregation)کا یہ اہتمام، جس میں عورتوں کی صنف کے لیے بہر حال ایک تکلف اور قید و پابندی کی صورت ہے ، بے وجہ اوربے ضرورت نہیں ہو سکتا ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی لا ئی ہوئی شریعت میں بے ضرورت تکلفات اور پابندیوں کی صاف ہمت شکنی پائی جاتی ہے۔ اور کیسے نہ ہو، جبکہ آپ کو رسالت کا منصب دینے والے رب نے صاف اپنی کتابِ پاک میں فرمارکھا ہے۔ ’’اللہ کو تمھارے لیے آسانی منظور ہے وہ تمھارے حق میں سختی نہیں چاہتا۔‘‘(البقرہ۔۲:۱۸۵)۔ ارد گرد پھیلے ہوئے خداپرستی کے نمونوں میں لوگ دیکھتے آئے تھے کہ اپنے جسم وجان و نفس پر تشدُّد اور اس سلسلہ کے تکلفات کاقربِ خدا میں کچھ خصوصی دخل سمجھا جاتا ہے۔پس بعض مسلمانوں کا کچھ اس ڈھنگ کا رجحان آپ نے کبھی دیکھا یا علم میں آیا تو جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے آپ نے سختی سے تنبیہ فرمائی کہ یہ میرا طریقہ نہیں ہے۔اور اللہ کواس کی ضرورت نہیں ہے کہ تم اس کی عائد کردہ فرائض سے کچھ اور آگے جانے کی ہمت کھاؤ۔ اسی سلسلہ کی ایک حدیثِ پاک کے یہ الفاظ یاد رکھنے کے ہیں: اِنّی لَمْ اُبْعَثْ بِالْیَہُودِیَۃِ وَلا بِالنَّصْرانِیَہ وَلٰکِنّی بُعِثْتُ بِالْحَنِیفِیَۃِ السّمْحََہِ (میں یہودیت یانصرانیت دے کر نہیں بھیجا گیا ،میں سادہ و سہل ملّتِ حنیفی کے ساتھ بھیجا گیا ہوں۔مسند احمد) 
تو وہ کیا بات ہے کہ شریعتِ اسلامی نے اپنے اس مزاج کے باوجود عورتوں کے معاملہ میں کچھ ایسی قیود و حدودروا رکھیں جو انھیں مردوں کی صنف سے کچھ فاصلہ کا پابند بنائیں؟ اس کا جواب ہمیں خود قرآنِ پاک سے ملتا ہے۔قرآن کی ایک سورت (۲۴)سورۂ نور کے نام سے ہے۔اس سورہ کا اہم موضوع مسلم معاشرہ کی جنسی(Sexual) طہارت و پاکیزگی ہے۔ اس پاکیزگی کی جو اہمیت ہمارے خالق و مالک اللہ ربُّ العزت کی نظر میں ہے اس کا اظہار سورۂ مبارکہ کے بالکل آغاز ہی میں ہوجا تا ہے، کہ اس سلسلہ کی ناپاکی کے آخری حد(زنا) تک پہنچ جانے والے مرد وعورت کے لیے سو کوڑے جیسی سخت سزاکا تعیّن فرمایا گیا۔اور یہ سزا بھی خفیہ نہیں ،بلکہ برسرِ عام دیئے جانے کا حکم ہوا ۔سو اسی مطلوبہ پاکیزگی کے مقصد سے اس سورہ میں وہ ہدایات مسلم معاشرہ کو دی گئی ہیں جن کے ذریعہ ممکن حد تک یہ معاشرہ خود کو جنسی لغزشوں سے پاک رکھ سکے۔اس سلسلہ کی ہدایتوں میں ایک بیان یہ آتا ہے کہ ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا کچھ قواعد و ضوابط کی پابندی کے ساتھ ہو نا چاہئے۔یہ نہیں کہ رشتہ یا کسی دوسری نوعیت کا قریبی تعلق ہے تو بس آئے اور یوں ہی باقاعدہ و با معنیٰ اجازت یابی کے بغیر گھر میں داخل ہوتے چلے گئے۔ یہ بیان جو سورہ کی آیت ۲۷ سے شروع ہوکر آیت ۳۱ تک گیا ہے۔ اس کے احکام کا خلاصہ یوں کیا جاسکتاہے :
(۱) اہلِ ایمان جب ایک دوسرے کے گھر جائیں تو سلام اور اجازت حاصل کیے بغیر گھر میں داخل نہ ہوں۔ (۲) اگر (جواب نہیں ملتا) اور اندازہ ہوتاہے کہ شاید گھر میں کوئی ہے نہیں تو (دروازہ چاہے کھلا بھی ملے) تو اندر نہ جائیں۔یا اگرجواب اندر سے وقتی معذرت خواہی کا آئے تو (برا نہ منائیں )لوٹ آئیں۔ (۳) اجازت کے بعد داخلہ کا ادب سکھاتے ہوئے فرمایا گیا :اہلِ ایمان کو زیبا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں ذرا جھکی رکھیں اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے پاکیزگی کا راستہ ہے۔ (۴) اس کے بعد گھر والیوں کے لیے یہی حکم ہوتا ہے:مؤمن عورتیں اپنی نگاہیں ذرا جھکی رکھیں،شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اپنی کوئی زینت ظاہر نہ ہونے دیں، سوائے اس کے جو ناگزیر ہے،اوراپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں۔ (۵) ( البتہ) جو لوگ خواتینِ خانہ کے محرم ہیں ،باپ ہیں ،بھائی ہیں،بیٹے،بھتیجے ،بھانجے وغیرہ، ان کا معاملہ الگ ہے۔ ان کے سامنے نے پر زیب و زینت کے اظہار والی یہ پابندیاں نہیں ہیں۔ (گویا اوپر والی پابندیاں نا محرموں کے تعلق سے تھیں)۔مزید،وہ خدّامِ خانہ جو عورتوں کی طرف رغبت کی عمر سے گزرچکے،یا وہ بچے جو اس معاملہ میں ابھی بے شعوری کی عمر کے ہوں یا مؤمن خواتین ،ان سب کا یہی حکم ہے، کہ ان کے ساتھ وہ نامحرموں والی پابندیاں نہیں ۔
یہ بات کہ ان احکامِ و ہدایا ت کا مقصد معاشرہ کو ممکن حد تک جنسی لغزشوں سے تحفظ دینا ہے ان کے الفاظ سے پوری طرح ظاہر ہے۔’’ نگاہوں کو نیچا رکھنا ، شرمگاہوں کی حفاظت کرنا اورزیب و زینت کا اظہار حتّیٰ الامکان نہ ہونے دینا‘‘ یہ الفاظ مقصدِ احکام کے سلسلہ میں بالکل صاف طور سے جنسی پاکیزگی مقصود ہونے کا تعین کرتے ہیں۔اور احکام کی روح بالکل واضح طور پر یہ ہے کہ نامحرم مردوں اور عورتوں میں حالات کے مطابق ممکن حد تک ایک فاصلہ کی صورت رہنی چاہئے۔اُس وقت کے مدینہ میں عام طور پر گھر ایسے نہیں تھے کہ آنے جانے والوں کے لیے زنانخانہ سے بالکل الگ جگہ ہو۔ ایسے میں معاشرتی تعلقات کے تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے بس ایک علامتی ’’فاصلہ ‘‘ ہی ممکن تھا (نظریں حتّیٰ الامکان نہ ملیں)سو اس کو بھی لازمی قرار دیا گیا۔پس یہ جنسی طہارت و پاکیزگی کا مسئلہ ہے جس کے پیشِ نظر اللہ کا نازل کیا ہوا دین مسلم معاشرہ کی دونوں صنفوں کے درمیان حالات اور( Situation (کے مطابق فاصلہ رکھے جانے کو ضروری قرار دیتا ہے۔ 
الغرض ان قرآنی احکام کی اصل روح دونوں صنفوں کے درمیان فاصلہ رکھنے کی ٹھیری ،جو بھی اس کی عملی شکل سچوایشن کے مطابق ہو سکتی ہو۔مثلاً گھر سے باہر کسی ضرورت سے نکلنا ہے، جس میں وہ فاصلہ صنفِِ مخالف سے نہیں برقرار رکھا جا سکتا جو گھر میں رہتے ہوئے ہوتاہے، تو خوش قسمتی ہے کہ اس صورتِ حال کی عملی شکل کے لیے ہمیں زوجۂ نبئ اکرمؐ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) کے ایک بیان کی روایت ملتی ہے۔ فرمایا : مؤمن عورتیں فجر کے وقت اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کر کے لوٹتیں تو واپسی میں بھی ایسا اُجالا نہ ہوتا کہ پہچان لی جا ئیں (بخاری:۵۷۸۔ وقتِ فجر) تو ایک مؤمن عورت کی شان منہ اندھیرے نکلنے میں بھی یہ ہوئی کہ خود کو لپیٹ لپاٹ کر نکلنے کی شکل میں مردوں سے فاصلہ کی ایک علامتی صورت بہرحال پیدا کرے۔پس مؤمن عورتیں ،بے ضرورت شدّت پسندی کے بغیر ،جس قدر بھی اس فاصلہ کے اصول کو برت سکتی ہوں وہ لائقِ تحسین ہوگا ۔اور نقاب لینا، یعنی چہرہ کو بھی مستور رکھنا، اسی فاصلہ کے اصول کو برتنے کی ایک مکمل شکل ہے۔ اس کے ضروری ہونے نہ ہونے کی بحث میں پڑے بغیر اتنا پورے اعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ ہماری خواتین میں جو کوئی خاتون ایسا کرتی ہے زمانہ کی ’’خلافِ فاصلہ‘‘ ریت کو دیکھتے ہوئے وہ اپنی ہمت کے لیے لائقِ داد اور قابلِ تحسین ہے۔
لیکن ’’فاصلہ ‘‘کی اس مکمل شکل کا اہتمام کرتے ہوئے ایک خاتون برطانیہ جیسے کسی ’’فاصلہ ‘‘نا آشنا ملک میں پبلک نوکری کے لیے نکل پڑے، تو اس نے نقاب کا مفہوم سمجھ کر نقاب نہیں پہنا، بس اپنے گھرانے کا ایک محترم دستور جانتے ہوئے اس کی پابند ہوئی۔ پردہ کی ایسی پابند کوئی خاتون اگر اپنے حالات میں کسی پبلک جاب کے لیے مجبور ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ شرعاً اسے اس کی اجازت ہے، تو شریعت جب اِس ’’واقعی فاصلہ‘‘ کی پابندی اس پر سے اُٹھاسکتی ہے تو نقاب جواِس فاصلہ کی محض ایک علامتی شکل ہے اس کی پابندی سے تو وہ بدرجۂ اَولیٰ مستثنیٰ ہو جانی چاہئے۔ پھرچہرہ کا پردہ یوں بھی ائمّۂ فقہاء میں ایک اختلافی معاملہ ہے۔ ہم احناف کے اصل مذہب میں تو ہاتھ پاؤن کی طرح چہرہ کے لیے بھی رخصت ہے۔ یہ تو بعد میں زمانہ کا فساد دیکھ کر ہمارے علماء نے اس رخصت کو برقرار رکھنے میں مضائقہ سمجھا،اوروہی ہمارے یہاں شرعی مسئلہ بن گیا۔ پس جس کسی خاتون کو مجبوری ہے اور باہر نکل کر نوکری کرنا ہے تو اس کے لیے بے معنیٰ ہے کہ نقاب پوشی کی وجہ سے خود بھی پریشانی میں پڑے اورجوفضا اس وقت پورے مغرب میں اسلامی شعائر و علامات سے الرجی کی بنی ہوئی ہے اس کی بناپر اپنے دین اور اپنی ملت کے خلاف بھی فتنہ انگیزوں کو ایک نیا بہانہ مہیّا کردے، جیساکہ ان دنوں ایک ایسے واقعہ کی بنا پر ہو رہا ہے۔ 
پردہ کا مسئلہ تو خود اسلامی دنیا میں بھی مغرب کے عروج کے بعد سے ایک متنازع مسئلہ بن گیا ہے۔حتّیٰ کہ بڑی تعداد ایسے گھرانوں کی ہوچکی ہے جو بنیادی دینی فرائض کے ماننے اور اداکرنے والے ہیں مگر خواتین کے لیے مردوں سے فاصلہ کا تصور ان کے یہاں سے نکل چکا ہے۔ مناسب ہے کہ دو لفظ یہاں اس سلسلہ میں اور کہہ دئے جائیں ۔ اس چیز میں علاوہ اور باتوں کے کافی دخل اس بات کا ہے کہ لوگ ’’جنسی پاکیزگی‘‘ کو دو ایسے الفاظ کا مجموعہ جان کر جن کے معنیٰ معلوم ہیں خود سے اس کا مفہوم طے کر لیتے ہیں، (اسلام سے پوچھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے) اور اس مفہوم میں پاکیزگی کے لیے ان کو کوئی ضرورت ان پابندیوں کی معلوم نہیں ہوتی جن کا عنوان پردہ ہے۔جبکہ وہ جنسی پاکیزگی جو اسلام کو مطلوب ہے وہ اس کے عقیدۂ توحید کی طرح ،اس کی عبادات کی طرح اپنا ایک خاص مفہوم رکھتی ہے محض الفاظ کے معنیٰ معلوم ہونے سے وہ نہیں معلوم ہو سکتا۔ اسلام کی مطلوبہ پاکیزگی کا مفہوم جاننے کے لیے نیک نیتوں کو صرف اس حدیثِ پیمبر ﷺ پر غور کرلینا کافی ہو جانا چاہئے۔ فرمایا :آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں،ان کا زنانظر(میں چھپی شہوت) ہے۔کان بھی زنا کرتے ہیں ، ان کا زنا آواز پر(لذّت لیتے ہوئے) لگناہے۔ زبان بھی زنا کرتی ہے،اس کازنا ( شہوت آلود) بات چیت ہے۔ الخ (صحیح بخاری) کیا جنسی نا پاکی کا یہ تصور ہوتے ہوئے مسلم خواتین و حضرات کے درمیان اس فاصلہ کی ضرورت میں کلام کیا جا نا چاہئے جس سے پردہ عبارت ہے؟

حدود کی بحث اور علمائے کرام

خورشید احمد ندیم

حدود آرڈیننس اور اس ضمن میں اٹھنے والی بحث میرے لیے ایک سیاسی نہیں ‘سنجیدہ علمی و مذہبی مسئلہ ہے اور میں نے اسے ہمیشہ اس زاویے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ مذہبی سیاست دانوں کے بیانات سے مجھ پر کبھی یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ حدود آرڈیننس میں کیا چیز اسلامی ہے اور تحفظ حقوق نسواں قانون میں کیا غیر اسلامی۔ جب میں نے سنجیدہ اہل علم کی تحریروں اور بیانات سے روایتی علما کا موقف سمجھا ہے بعض ایسے امور سامنے آئے ہیں جن کی کوئی توجیہہ کرنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس ضمن میں، میں سوالات آج کے کالم میں زبر بحث لانا چاہتا ہوں۔
۱۔ ہمارے مذہبی طبقات کا یہ موقف تواتر کے ساتھ ہمارے سامنے آیا ہے کہ حدود آرڈیننس عین اسلام ہے اور اس میں تبدیلی حدود اللہ میں تبدیلی ہے۔ اس مقدمے کے حق میں جو دلائل پیش کیے جا رہے ہیں‘ ان سے صرف نظر کرتے ہوئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دین کے وہ علما جن کی علمی بصیرت پر یہ لوگ اعتماد کرتے ہیں وہ خود اس مقدمے سے متفق نہیں ہیں۔ ان میں ایک مولانا تقی عثمانی ہیں۔ مولانا علما کے اس وفد کے سرخیل ہیں جو تحفظ حقوق نسواں کے قانون پر حکومت کے ساتھ شریک مذاکرات رہا۔ مولانا محترم نے کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز میں اس موضوع پر ایک لیکچر دیا۔ اسے ا ب کتابچے کی صورت میں شائع کر دیا گیا ہے۔ مجھے یہ لیکچر براہ راست سننے کا موقع ملا اور اب پڑھنے کا بھی۔ مولانا کے اپنے ادارے کے ترجمان ’’البلاغ‘‘ نے اکتوبر کے شمارے میں اسے شامل اشاعت کیا ہے۔ 
ان قوانین میں کس نوعیت کی ترمیم ممکن ہے ، اس کے بارے میں مولانا کا کہنا ہے’’جہاں تک اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے حکم یا آپ کے عطا فرمودہ قانون کا تعلق ہے، وہ تو یقیناً اتنا مقدس ہے کہ اس پر کسی اعتراض کی گنجائش نہیں، لیکن جب اس حکم کو ایک مدون قانون کی شکل دی جاتی ہے تو یہ ایک انسانی عمل ہے جس میں غلطیوں کا بھی امکان رہتا ہے۔ قانون کی تسوید(Drafting) ایک انتہائی نازک عمل ہے۔ اس میں ممکنہ صورت حال کا پہلے سے تصور کر کے الفاظ میں اس کا احاطہ کرنا پڑتا ہے اور ظاہر ہے کہ انسانی عقل محدود ہونے کی بنا پر بعض اوقات ہر صورت حال کا احاطہ کرنے سے قاصر رہتی ہے اور اس طرح مسودۂ قانون میں کمزوریوں کا امکان ہمیشہ رہتا ہے۔’’حدود آرڈیننس‘‘ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اس میں بھی تسوید کی غلطیاں ہو سکتی ہیں‘ اس میں بھی اس نقطۂ نظر سے بعض امور قابل اصلاح ہو سکتے ہیں اور جب تک اللہ اور اللہ کے رسولﷺکے حکم میں کوئی تبدیلی نہ ہو، اس میں بھی ترمیم و اصلاح کا عمل ہمیشہ جاری رہ سکتا ہے اور جاری رہنا چاہیے ، بشرطیکہ یہ عمل معروضی تنقید کے ذریعہ ہو کسی عناد کا نتیجہ نہ ہو۔
ایک دوسرے مقام پر مولانا تقی عثمانی نے یہی بات ان الفاظ میں کہی:’’اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول ﷺ کے صریح احکام تو ہر تنقید سے بالاتر ہیں،لیکن ان احکام کو قانونی شکل دینے کے لیے جو مسودہ تیار کیا جاتا ہے وہ چونکہ ایک انسانی عمل ہے اس لیے اس میں اصلاح و ترمیم کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے ، حدود کے قوانین اگرچہ علما شریعت اور ماہرین قانون کی مشترک کاوش کے نتیجے میں بنے ہیں اور ان پر مختلف مرحلوں پر اور مختلف دائروں میں طویل غورو فکر ہوا ہے۔ اس کے باوجود نہ انہیں غلطیوں سے پاک کہا جا سکتا ہے نہ ان میں اصلاح و ترمیم کا دروازہ بند سمجھنا چاہیے۔‘‘اپنے اس لیکچر میں مولانا نے حدود آرڈیننس میں بعض تبدیلیاں بھی تجویز کی ہیں۔
اب میری گزارش یہ ہے کہ حدود آرڈیننس پر سنجیدہ اہل علم جو تنقید کر رہے ہیں اس کا تعلق اس مسودہ قانون سے ہے جو ’’انسانی عمل ہے، جس میں غلطیوں کا امکان رہتا ہے‘‘۔ وہ اصولی طور پر وہی بات کہہ رہے ہیں جو مولانا فرما رہے ہیں۔ جو لوگ اس مدون قانون میں تبدیلی کو حدود اللہ میں تبدیلی قرار دیتے ہیں‘ ان پر یہ لازم ہے کہ وہ اس پر اپنی رائے کا اظہار کریں کہ کیا ان کے اس موقف کا اطلاق مولانا تقی عثمانی صاحب پر بھی ہوتا ہے اور اگر نہیں ہوتا تو کس اصول پر؟ اگر رسوخ فی العلم رکھنے والا کوئی دوسرا آدمی یہی بات کہے تو وہ دین کے مخالف کیسے ہے؟
۲۔ تحفظ حقوق نسواں کے ابتدائی مسودہ قانون پر علما کمیٹی کا اعتراض یہ تھا کہ’’زنا بالرضا کی صورت میں اگر حد کی شرائط پوری نہ ہوں تو مجرم کو بالکل آزاد چھوڑ دیا گیا ہے حالانکہ اس صورت میں اگر بدکاری کا ثبوت گواہوں وغیرہ سے ہو جائے تو اس پر تعزیری سزا جاری ہونا ضروری ہے۔ حدود آرڈیننس میں اس کو زنا موجب تعزیر (Zina Liable to Tazir) قرار دیا گیا ہے اس میں یہ ترمیم ممکن ہے کہ اس کو زنا کانام دینے کی بجائے بدکاری یا سیہ کاری وغیرہ کا کوئی نام دیا جائے لیکن ایسے مجرموں کو کسی بھی سزا سے آزاد چھوڑنا عملاً زنا بالرضا کی قانونی اجازت کے مترادف ہو گا، کیونکہ حد تک شرائط تو شاذونادر ہی کسی مقدمے میں پوری ہوتی ہیں اور اس ترمیم سے ایسی صورت میں تعزیر کاراستہ بالکل بند ہو جائے گا۔‘‘
اس بنیاد پر علما کمیٹی نے تجویز پیش کی تھی کہ زنا کی ایک دوسری قسم اس قانون میں شامل کی جائے جسے ’’فحاشی‘‘ کہا جائے اور اس کے لیے پانچ سال تک قید اور جرمانے کی سزا دی جائے ۔ یہ تجویز موجودہ قانون میں شامل کر لی گی ہے۔
علمائے کرام کی خدمت میں، میرا مودبانہ سوال یہ ہے کہ کیا ایک جرم بیک وقت حد ہو سکتا ہے اور تعزیر بھی؟ حد کی تعریف علما نے یہ کر رکھی ہے کہ یہ وہ جرم ہے جس کی سزا قرآن یا سنت نے متعین کر دی ہے ۔ اگر زنا کی سزا قرآن و سنت نے طے کردی ہے تو کسی دوسرے کو کیا یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس میں ترمیم کرے ؟ کیا زنا کو فحاشی کا عنوان دینے سے جرم کی نوعیت بدل جائے گا؟ اگر سود، مارک اپ کا نام دینے کے باوجود سود ہی رہتا ہے تو زنا ’’فحاشی‘‘ کے عنوان سے ’’زنا‘‘ کیوں نہیں رہتا؟ علما کمیٹی کے مطابق فحاشی کی تعریف یہ ہے: ’’ اگر ایک مرد اور عورت جو میاں بیوی نہیں ہیں، بالرضا جنسی تعلق قائم کرتے ہیں تو یہ فحاشی ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ فحاشی ہے تو پھر زنا کیا ہے؟
علما نے اس بات کی ضرورت اس لیے محسوس کی ہے چونکہ حدود کی شرائط شاذو نادر کسی مقدمے میں پورا ہوتی ہیں۔ اس جرم کے لیے تعزیراً بھی سزا ہونی چاہیے۔ اس پر مذکورہ بالا سوالات کے ساتھ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر دیگر حدود میں اسی طرح فقہا کے بیان کردہ طریقہ ثبوت کے مطابق، جرم ثابت کرنا مشکل ہو جائے تو ان پر بھی تعزیراً سزا دی جا سکتی ہے؟ کیا اس کے بعد حد اور تعزیر کا کوئی فرق عملاً باقی رہ جائے گا؟ پھر یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے زنا کی ایک متعین سزا قرآن مجید میں بیان کی تو کیا معاذ اللہ وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ کل حد کے طور پر اس مقدمے کو ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا؟ میرے نزدیک سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ایک حد کی سزا کو محض لفظی کھیل کے سہارے تبدیل کرنا ‘کیا حدود اللہ میں تبدیلی نہیں ہے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا تقی عثمانی نے خود حدود آرڈیننس پر جو اعترض کیا ہے وہ یہی ہے کہ ’’زنا موجب تعزیر کیا ہوتی ہے‘‘۔وہ لکھتے ہیں:’’میرے ناقص مطالعے کی حد تک قرآن کریم و سنت کی روشنی میں ’’زنا موجب تعزیر‘‘ کوئی چیز نہیں ہوتی۔ قرآن و سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ زنا یا تو موجبِ حد ہے یا پھر وہ زنا نہیں ہے۔ اس اعتبار سے مجھے اس بات کی گنجائش نظر نہیں آتی کہ ایک شخص کے خلاف زنا موجب حد ثابت نہ ہو پھر بھی اسے زانی یا زانیہ کہا جائے۔ حدود آرڈیننس میں صورت حال یہ ہے کہ جہاں حد زنا کی شرائط پوری نہ ہوں، پھر بھی اسے زنا کہہ کر ہی تعزیر دی جاتی ہے۔ شرعی اعتبار سے یہ بات قابل اصلاح ہے۔ ایسی صورت میں ملزم کے جرم کو زنا نہیں کہا جا سکتا، اسے زنا سے کمتر کوئی اور جرم قرار دیا جا سکتا ہے، مثلاً فحاشی یا سیہ کاری وغیرہ، لیکن اسے زنا قرار دینا درست نہیں‘‘۔
کیا مولانا اس پر مطمئن ہیں کہ زنا کو فحاشی کا عنوان دینے سے وہ زنا نہیں رہے گا اور اس سے ان کا وہ اعتراض رفع ہو جائے گا جو انہوں نے مذکورہ بالا اقتباس میں اٹھایا ہے؟
اس ساری بحث کا تعلق ایک طالب علمانہ اشتیاق سے ہے۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ تحفظ حقوق نسواں کا قانون جوہری طور پر حدود آرڈیننس ہی کا نیا نام ہے۔ میں یہ نہیں جان سکا کہ جنرل پرویز مشرف صاحب اور ان کے ہم نوا کس کامیابی پر اظہار مسرت کررہے ہیں اور مذہبی طبقات کس تبدیلی پر ناراض ہیں؟

قدامت پسندوں کا تصورِ اجتہاد: ایک تنقیدی مطالعہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

’’قدامت پسندی‘‘ ایک مبہم اصطلاح ہے ،اس کی حدود قیود اور خصوصیات کے متعلق کوئی ایک رائے نہیں پائی جاتی۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ ، زندگی کے کسی ایک پہلو کے متعلق بے لچک رویے کا مظاہرہ کر رہا ہو اور کسی دوسرے پہلو کے حوالے سے اس کا رویہ نرمی اور لچک لیے ہوئے ہو ۔ لیکن اس امر سے شاید ہی کسی کو انکار ہو گا کہ ماضی کے ساتھ انسان کا فطری لگاؤ ہوتا ہے اور وہ کسی بھی پیش آمدہ اور ممکنہ تبدیلی کو فوراََ قبول نہیں کرتا بلکہ اس کی راہ میں عموماََ مزاحم ہوتا ہے ۔ اس لیے ایک خاص ذہنی سطح کے لوگ جوخود بھی طبعاََ جمود پسند ہوتے ہیں ، انسان کے عمومی جمودی رجحان کو ہائی جیک کرکے لوگوں کی اکثریت کے نمائندے اور قائد بن بیٹھتے ہیں اور قدامت پسند کہلوانا پسند کرتے ہیں ۔ 
مسلمانوں کے جو مختلف گروہ اسلام کے تصورِ اجتہاد پر بات کرتے رہتے ہیں ، ان میں ایک گروہ قدامت پسندوں کا بھی ہے۔ یہ گروہ اجتہاد کی ایسی تعریف کرتا ہے جس میں اجتہاد کے علاوہ اور سب کچھ پایا جاتا ہے ۔ اگر قدامت پسندوں کی داخلی تقسیم پر نظر دوڑائی جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض گروہ تعفن پھیلانے کی حد تک جمود کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں ۔ سرِ دست ہم ایسے گروہوں سے تعرض نہیں کریں گے ۔ اس وقت ہمارے پیشِ نظر قدامت پسندوں کا ایسا گروہ ہے ، جو اگرچہ نظری اعتبار سے جمودِ مطلق کا منکر ہے لیکن اپنی ذہنی افتادِ طبع کے باعث جمودِ مطلق کاعملاََ طواف کیے جا رہا ہے ۔ ایک معاصر قدامت پسند محمد تقی عثمانی نے اپنی تالیف ’’ تقلید کی شرعی حیثیت ‘‘ کے بین السطور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ائمہ اربعہ کے بعد کوئی مجتہدمطلق جنم نہیں لے سکتا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ موصوف، تقلید میں جمود اور غلو کو قابلِ مذمت خیال کرتے ہیں اور اس کے باوجود کچھ ایسے خیالات رکھتے ہیں : 
’’کسی امام یا مجتہد کی تقلید صرف اس موقع پر کی جاتی ہے جہاں قرآن و سنت سے کسی حکم کے سمجھنے میں کوئی دشواری ہو ، خواہ اس بنا پر قرآن و سنت کی عبارت کے ایک سے زائد معنی نکل سکتے ہوں ، خواہ اس بنا پرکہ اس میں کوئی اجمال ہو ، یا اس بنا پر کہ اس مسئلے میں دلائل متعارض ہوں ، چنانچہ قرآن و سنت کے جو احکام قطعی ہیں ، یا جن میں کوئی اجمال و ابہام ، تعارض یا اسی قسم کی کوئی الجھن نہیں ہے وہاں کسی امام و مجتہد کی تقلید کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ ( تقلید کی شرعی حیثیت ، ص ۱۰، ۱۱ ) 
اس کا مطلب یہ ہو اکہ قطعی احکام میں بھی تقلید کی’’ گنجایش‘‘ موجود ہے اگرچہ ایسی تقلید کی ’’ ضرورت ‘‘ نہیں ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہاں بھی تقلید کی گنجایش نکال لی گئی ہے تو پھر تقلیدِ محض اور کسے کہتے ہیں ؟ جمود اور غلو کی اور کیا صورتیں ہو سکتی ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسی گنجایش نکال لینا ہی تقلیدِ محض ہے ۔ چلیے ، یہاں یہ فرض کیے لیتے ہیں کہ تقی صاحب کی منشا وہ نہیں ہے جو ہم اخذ کر رہے ہیں ، حقیقت میں وہ قطعی احکام میں تقلید کے قائل نہیں ہیں ۔ اندریں صورت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ’’ قطعی احکام کا تعین ‘‘ کون کرے گا ؟ کیا یہ ذمہ داری بھی ’’ فقیہِ شہر ‘‘ کی ہو گی کہ وہ پاپائیت کے سے انداز میں خدا کا نمائندہ بن کر ’’ عوام ‘‘ کے لیے قرآن و سنت کے قطعی احکام کا تعین کرے کہ لیجیے اب بغیر تقلید کے، ان احکام کی اطاعت کر لیجیے ؟ امرِ واقعہ یہ ہے کہ قطعی احکام کے تعین میں بھی اختلاف کی خاصی گنجایش موجود ہے ، اس لیے قرآن و سنت کے احکام کی ایسی قطعی تقسیم کافی مشکل ہو گی جو مجتہد اور عام لوگوں کے اختیارات الگ الگ کر سکے ۔ تقی صاحب نے جس ’’ دشواری ‘‘ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ کافی مبہم اور غیر واضح ہے ، کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ کوئی حکم سمجھنے میں ایک فر د کو دشواری محسوس ہو اور دوسرے فرد کے محسوسات اس کے بالکل الٹ ہوں ، اس لیے یہ معاملہ اپنی نوعیت میں ’’اضافیت ‘‘ کی سرحدیں چھو لیتا ہے ۔اس سلسلے میں سب سے اہم گزارش یہ ہے کہ اگر قرآن و سنت کے کسی حکم کے ایک سے زائد معنی نکلتے ہیں ، اجمال ہے ، تعارض ہے یا ابہام ہے، تو غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ شارع نے ایسا ’’ کیوں ‘‘ کیا ہے ؟ اگر شارع نے ایسی دشواری رکھی ہے تو اس کے پیچھے لازماََ کوئی حکمت پوشیدہ ہے۔ کیا اس حکمت کے مصداق کوئی خاص مقدس لوگ ہیں ؟ کیا اس حکمت کا مصداق کوئی خاص مقدس زمانہ ہے ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ تقی صاحب کی فقہی بصیرت subjectivity سے مالامال ہے ، اس لیے ان کی نظر اپنے موقف کے ان داخلی تضادات پر نہیں گئی ۔ بہرحال ، اگر کوئی غیر جانبدار شخص مسلکی تعصبات سے بالاتر ہوکر ان کی تالیف کا جائزہ لے تو غالباََ یہی نتیجہ اخذ کرے گا کہ تقی صاحب فکری سطح پر status quo کے خواہش مند ہیں ۔ اگرکوئی ان کی خواہش کے محرک کو جاننے کی کوشش کرے گا تواسے وہ بھی اسی تالیف میں مل جائے گا ۔ وہ محرک ، بنیادی طورپر ان نتائج سے خوف زدگی سے عبارت ہے جو status quo ٹوٹنے کے بعد رونما ہوں گے ۔’’ تقلید کی شرعی حیثیت ‘‘ کے مولف ایک علمی شخصیت ہیں ، اس لیے مدرسے کے خول سے باہر تانک جھانک لیتے ہیں۔ اس تانک جھانک نے اتنا اثر ضرور دکھایا ہے کہ وہ ’’طے شدہ اصولوں کے دائرے ‘‘میں رہتے ہوئے اجتہاد کی ضرورت اور اہمیت کو تسلیم کرگئے ہیں ۔ڈاکٹر محمود احمد غازی کے بھی ایسے ہی خیالات ہیں ، ملاحظہ کیجیے :
’’جہاں تک اجتہاد کی پہلی سطح کا تعلق ہے اس کو اجتہادِ مطلق کہا جاتا ہے ۔ اس کے اجتہاد کرنے والے کو مجتہدِ مطلق کہتے ہیں ۔ مجتہدِ مطلق کا کام تقریباََ ختم ہو گیا ۔ جب فقہا نے یہ لکھا کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہو گیا ، تو ان کی مراد یہی تھی کہ اجتہاد مطلق کا دروازہ بند ہو گیا ۔ دراصل اب اس کی ضرورت نہیں رہی ۔ اس لیے کہ جو کام اجتہادِ مطلق کے ذریعہ کرنا مطلوب تھا وہ سارا کا سارا کیا جا چکا ۔ اب دوبارہ اجتہادِ مطلق کی مشق کرنا انگریزی محاورہ کے مطابق پہیہ کو دوبارہ ایجاد کرنے کے مترادف ہے ۔ اس لیے یہ دروازہ عملاََ بند ہو چکا۔‘‘ ( محاضراتِ فقہ ، ص ۳۳۷، ۳۳۸) 
ڈاکٹر صاحب نے اس عبارت سے قبل ، اجتہادِ مطلق کی تردید میں کافی دلچسپ نکات بیان کیے ہیں۔ ہم ان نکات کی تردید میں الجھے بغیر گزارش کریں گے کہ آخر ان ’’ محاضرات ‘‘ کی کیا ضرورت تھی ؟ ۔ انگریزی محاورے کے مطابق پہیے کو دوبارہ ایجاد کرنے کی انھیں یہ کیا سوجھی ؟ ۔ ڈاکٹر صاحب یہ سامنے کی بات نظر انداز کر گئے ہیں کہ ہر نئی نسل ماضی کی نسلوں کے تجربات پر انحصار نہیں کرتی ، بلکہ اسے خود ان تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ محاضرات کے روپ میں خود ڈاکٹر صاحب بھی ان تجربات سے گزرے ہیں ، اب اگر مجتہدِ مطلق کے سے مراحل سے گزرنے کی ان میں سکت نہیں ، تو اس کا یہ حل نہیں کہ وہ سرے سے اس کے انکاری ہی ہو جائیں ، انھیں کم از کم نظری اعتبار سے، اجتہادِ مطلق کی ہمیشگی کو تسلیم کر لینا چاہیے ۔جناب محمد تقی صاحب عثمانی اور جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی کے مانندجناب ابوعمار زاہد الراشدی کا بھی یہی موقف ہے ۔ زاہد صاحب لکھتے ہیں کہ : 
’’قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور اجتہاد کے اصول وضع کرنے کا ایک دور تھا ، جب دو چار نہیں بلکہ بیسیوں فقہی مذاہب وجود میں آئے ، مگر ان میں سے پانچ چھ کو امت میں قبول حاصل ہوا اور باقی تاریخ کی نذر ہو گئے ۔ اب کسی نئے فقہی مذہب کے اضافے کی گنجایش نہیں ہے ، اس لیے نہیں کہ اس کا دروازہ کسی نے بند کر دیا ہے یا اس کی صلاحیت و اہلیت ناپید ہوگئی ہے ، بلکہ اس لیے یہ کام ایک بار مکمل ہو جانے کے بعد اب اس کی ضرورت نہیں رہی اور ان مسلمہ فقہی مذاہب کے اصول و قوانین میں وہ تمام تر گنجایشیں اور وسعتیں موجود ہیں جن کی روشنی میں ہر دور کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ ، نومبر ۲۰۰۶ ، ص ۵ )
زاہد صاحب کے اس اقتباس کا پہلا فقرہ ہی کافی عجیب و غریب ہے ۔ اگر ان کی یہ بات مان لی جائے کہ قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور اجتہاد کے اصول وضع کرنے کے زمانے لد گئے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے دور میں قرآن و سنت کی کیا معنویت باقی ہے ؟ ۔ حقیقت یہ ہے کہ زاہد صاحب کا یہ فقرہ ایک پوری مدرسی ذہنیت کی نمایندگی کر رہا ہے جس کے مطابق قرآن و سنت کا ’’ نچوڑ ‘‘ ایک خاص زمانے کے خاص لوگوں نے نکال لیا ہے اور یہ عمل خدا کی منشا کے عین مطابق ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا طرزِ فکر، دین (قرآن و سنت) کی آفاقیت کے منافی اور بے ادبی کے مترادف ہے ۔ زاہد صاحب جب یہ لکھتے ہیں کہ ’’۔۔۔ مسلمہ مذاہب کے اصول و قوانین میں وہ تمام گنجایشیں اور وسعیتں موجود ہیں جن کی روشنی میں ہر دور کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے ‘‘ تو ہمارے جیسا قرآن و سنت کا طالب علم حیرت زدہ ہو جاتا ہے کہ’’ فقیہِ شہر‘‘ نے مسلمہ مذاہب کے اصول و قوانین کو کیسے اور کیونکر قرآن و سنت کے متوازی ہی نہیں بلکہ ایک قدم آگے بڑھا کر کھڑا کر دیا ہے؟ یعنی ماخوذ کو ماخذ کے سر پر سوار کر دیا ہے اورلا محدود کو محدود میں سمو دیا ہے ، آخر کیسے؟ زاہد صاحب کے مذکورہ اقتباس سے ایک واضح مطلب برآمد ہو رہا ہے کہ ہر دور میں قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور اجتہاد کے اصول وضع کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ایک خاص زمانے میں جو تعبیر و تشریح اور اصولِ اجتہاد طے کیے جا چکے ہیں ، وہ ہر زمانے کی ضرورتوں پر محیط ہیں ۔ لہذا اب زیادہ سے زیادہ یہ کیا جا سکتا ہے کہ طے شدہ تعبیر و تشریح اورطے شدہ اصولِ اجتہاد کے دائرے میں رہتے ہوئے ( جسے انھوں نے ’’ روشنی ‘‘ سے تعبیر کیا ہے ) ہر زمانے کے مسائل کا حل تلاش کر لیا جائے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس نقطہ نظر میں جس قدر سادگی پائی جاتی ہے اس کے پیشِ نظر اس پر علمی بحث کی گنجایش باقی نہیں رہتی۔ 
زیرِ بحث اقتباس کا یہ جملہ بھی اہم ہے کیونکہ اس میں ایک روایتی موقف کا اعادہ کیا گیا ہے کہ ’’بیسیوں فقہی مذاہب وجود میں آئے مگر ان میں سے پانچ چھ کو امت میں قبول حاصل ہوا اور باقی تاریخ کی نذر ہو گئے ‘‘ ۔ یہاں امت میں قبول سے مراد غالباََ تعاملِ امت ہے ، جس کی طرف توجہ دلانا اکثر قدامت پسند، فرضِ عین خیال کرتے ہیں ۔ اسی فقرے کا دوسرا حصہ ایک بار پھر مدرسی ذہنیت کی چغلی کھا رہا ہے ، ’’اور باقی تاریخ کی نذر ہو گئے ‘‘ ۔ ہم زاہد صاحب سے استفسار کریں گے کہ کیا یہ بات واقعی ایسے ہی ہے جس طرح وہ فرما رہے ہیں ؟ ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات کچھ اس طرح کہنی چاہیے کہ بیسیوں فقہی مذاہب وجود میں آئے مگر ان میں سے پانچ چھ کو تاریخ نے قبول کیا اور باقی تاریخ کی نذر ہو گئے یا یہ بات اس طرح کہی جا سکتی ہے کہ بیسیوں فقہی مذاہب وجود میں آئے مگر ان میں سے پانچ چھ کو امت میں قبول حاصل ہوا اور باقی امت میں مقبول نہ ہو سکے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اہلِ مدرسہ جب تعاملِ امت کو تاریخ سے مکمل لاتعلق اور الگ انداز میں لیتے ہیں تو گڑ بڑ کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا تعاملِ امت ( یا امت میں قبول حاصل ہونا ) میں تاریخی عوامل کی کارفرمائی نہیں ہوتی ؟ کیا تعاملِ امت ، تاریخ سے ماورا عمل ہے ؟ یعنی، کیا یہ زمان و مکان کی حدود و قیود میں واقع نہیں ہوتا ؟ اگر بعض مذاہب تاریخ کی نذر ہو گئے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان کے تاریخ کی نذر ہونے میں تاریخی عوامل کا خاطر خواہ کردار ہے ( جیسا کہ زاہد صاحب تسلیم بھی کر رہے ہیں ) ، اسی طرح جن مذاہب کو قبول حاصل ہوا ، ان کی قبولیت میں بھی تاریخی عوامل کا ایک خاص کردار ہے( زاہد صاحب یہ پہلو قبول کرنے سے گریز کر رہے ہیں ) ۔یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ تاریخی عوامل ، ہر زمانے اور ہر علاقے میں یکساں نہیں ہوتے ، بلکہ ان میں تنوع اور تغیر پایا جاتا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ قدامت پسند اہلِ مدرسہ ، جن کی نمائندگی یہاں زاہد صاحب کر رہے ہیں، ہمیشہ پورا سچ قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں اور تعاملِ امت میں کارفرما تاریخی عوامل کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ تاریخی عوامل اور تکوینی پہلووں سے مکمل چشم پوشی ، قدامت پسندوں کی جمود پسندی کا ایک بڑا سبب ہے ۔ 
اسی بات کو ایک اور رخ سے دیکھنے کی ضرورت ہے جس سے اسلام کے حرکی اور اجتہادی نظریے کا وہ پہلو نمایاں ہو جاتا ہے جس کی طرف ہم توجہ دلانا چاہتے ہیں ۔ قرآن مجید کے مطابق تمام انسان پہلے امتِ واحدہ تھے جو بعد میں قبائل اور قوموں میں تقسیم ہو گئے ( البقرۃ ۲:۲۱۳، ہود ۱۱: ۱۱۸، یونس ۱۰: ۱۹) ۔ پھر مختلف قوموں میں نبی مبعوث ہوئے جنھوں نے لوگوں کواللہ کا پیغام پہنچایا اور لوگوں نے پیغام قبول کرتے ہوئے اس پر عمل بھی کیا ( المائدہ ۵: ۴۸، البقرۃ ۲: ۶۲، الفاطر ۳۵: ۲۴، الرعد ۱۳: ۷) ۔اس امر میں کسی کو کلام نہیں کہ مرورِ ایام سے’’ پیغام اور عمل‘‘ اصل اور مقصود نہج سے ہٹتے چلے گئے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اصلاح کے لیے نبیوں کی بعثت جاری رکھی ، جس کا سلسلہ محمد مصطفی احمد مجتبی ﷺ پر آ کر ختم ہوا ۔ اہم بات یہ ہے کہ مختلف قوموں کے پاس مختلف زمانوں میں جو پیغمبر آتے رہے ہیں ، ان کے پیغام ایک جیسے تھے ۔ یہاں منطقی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کو ایک بار پیغام بھیج دیا گیا پھر اسی قوم میں دوبارہ پیغام بھیجنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ ۔ ظاہر ہے اس کا جواب یہی ہے کہ اس قوم کے فکروعمل ( تعامل ) میں بگاڑ پیدا ہو جاتا تھا ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک بار پیغام مل گیا تو پھر بگاڑ’’ کیوں‘‘ پیدا ہوتا ہے ؟ ۔ قدامت پسند اس ’’ کیوں ‘‘ کا جواب دینے سے جی کتراتے ہیں۔ حالانکہ ماضی میں( اسلام سے قبل ) اس کیوں کے جواب کی اتنی ضرورت نہیں تھی ، کیونکہ بگاڑ کی صورت میں خدا پیغمبر بھیج دیتا تھا ، اب چونکہ کوئی پیغمبر نہیں آئے گا ، اس لیے اب امتِ مسلمہ کو خود اس ’’کیوں ‘‘ کا جواب تلاش کرنا پڑے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب نبی خاتم ﷺ مبعوث ہوئے تو آپ ﷺ کی قوم کا بھی ایک تعامل تھا ، جو کسی گزرے ہوئے نبی کی تعلیمات پر مبنی صحیح فکر و عمل کا بگڑاہوا روپ تھا اور صحیح فکرو عمل کے بگاڑ میں مرورِ ایام کا بنیادی کردار تھا ۔ اب ذرا مرورِ ایام کو تحلیل کرنے کی کوشش کیجیے ، اس میں سے تکوینی پہلواور تاریخی عوامل وغیرہ برآمد ہوں گے ۔ تعاملِ امت کو حرفِ آخر سمجھنے والے ، کیا وضاحت کرنا پسند فرمائیں گے کہ کس قرآنی نص یا صحیح فرمانِ رسول ﷺ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی پاک ﷺ کی امت کا تعامل ، مرورِ ایام کی منفیت سے بے نیاز رہے گا ؟۔ حالانکہ اہم بات یہ ہے کہ نبوت کے خاتمے کے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا اور لوگ چونکہ مرورِ ایام سے بگاڑ کا شکار ہوتے رہیں گے ، اس لیے اسلام میں خاتمیت کے تصور کے تحت ، اجتہادِ مطلق ایسا متحرک اصلاحی عنصر بن جاتا ہے جو تعامل ( وغیرہ ) پر نظر ثانی کر کے بگاڑ کا قلع قمع کر دیتا ہے ۔ یوں سمجھیے کہ اسلام میں اجتہادِ مطلق کا وہی کردار ہے جو اسلام سے قبل کسی قوم میں بھیجے گئے دوسرے نبی کا ہوتا تھا ۔ دوسرے نبی کا بنیادی کردار یہی ہوتا تھا کہ وہ پہلے نبی کے پیغام کا احیا کر دیتا تھا ( جسے قوم نے بگاڑ لیا ہوتا تھا ) ۔ حیرت ہے ، قدامت پسند اہلِ مدرسہ ایسے اجتہاد کے منکر ہیں اور الٹا تعاملِ امت کو حجیت کے دائرے میں عملاََ لائے ہوئے ہیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ قدامت پسند ہی ہیں جو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ چونکہ لوگوں کا سنتِ رسول ﷺ پر عمل نہیں رہا تھا ( یعنی فکر و عمل میں بگاڑ پیدا ہو گیا تھا ) اس لیے علمِ حدیث کی داغ بیل ڈالی گئی ۔اس کا ایک مطلب یہ نکلتا ہے کہ ایک خاص دور میں تعامل میں بگاڑ پیدا ہوا ، اس کے بعد ایسے بگاڑ کی کو کوئی گنجایش موجود نہیں ، ’’دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے ‘‘ ۔ قدامت پسندوں کے تصورِ اجتہاد میں بنیادی تضاد یہی ہے کہ وہ ایک طرف تعاملِ امت اور اجماع وغیرہ ( جن کا تاریخ سے گہرا تعلق ہے ) پر اس قدرزور دیتے ہیں جس سے قرآن ( جو تاریخ سے ماورا ہے ) کی بالادستی مشکوک ہو جاتی ہے اور دوسری طرف تاریخی و تکوینی عوامل کی نفی کرکے اپنے تئیں تعاملِ امت اور اجماع وغیرہ کو تاریخ سے ماورا کرنے کی احمقانہ کوشش کرتے ہیں، اسی لیے ان کے ہاں مذکورہ بگاڑ کی گنجایش نہیں نکلتی ۔ اگر قدامت پسند، تعاملِ امت اور اجماع وغیرہ کو کلیدی حیثیت دینے پراس قدر مصر ہیں تو انھیں چاہیے کہ آدھے کے بجائے پورے سچ کو قبول کریں اور جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دینِ اسلام کے بجائے تاریخی اسلام (Historical Islam) سے وابستگی کا اعلان کریں ۔( تاریخی اسلام اور دینِ اسلام کی بحث کے لیے ماہنامہ الشریعہ نومبر ۲۰۰۶ میں ہمارا مضمون ’’ اسلامی تہذیب کی تاریخی بنیاد ‘‘ ملاحظہ کیجیے )۔
اب یہاں یہ دیکھنے کی ضرورت باقی ہے کہ قدامت پسند، اجتہادِ مطلق سے اتنا کیوں بدکتے ہیں ؟ ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی خاص نفسیاتی سرحدیں ہیں ، جنھیں عبور کرنے سے وہ معذور ہیں ۔ ابھی چند روز پیشتر ہماری نظر سے ایک تحریر گزری جس میں بڑے فخریہ انداز میں بتایا گیا تھا کہ کسی’’ حضرت‘‘ کا چند عرب نوجوانوں سے ٹاکرا ہوا ، انھوں نے حضرت سے کہا ، ہم سلفی ہیں ، آپ کون ہیں ؟ حضرت نے جواب دیا ، حنفی ہوں ۔ اس کے بعد بھی یہ مکالمہ چلا ۔ کیونکہ ہم زاہدالراشدی صاحب کو قدامت پسندوں کے نمائندے کے طور پر لے رہے ہیں اس لیے اس سلسلے میں بھی ان کی ایک تحریر کا اقتباس نذرِ قارئین کیے دیتے ہیں : 
’’میں ایک متصلب اور شعوری حنفی ہوں اور اپنے دائرہ کار میں اپنے فقہی اصولوں کی پابندی ضروری سمجھتا ہوں لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کرنا بھی میرے لیے مشکل ہے کہ جس طرح گلوبلائزیشن کے بڑھتے ہوئے عمل نے مختلف ادیان کے حوالے سے مشترکہ عالمی سوسائٹی کی تشکیل کی راہ ہموار کر دی ہے اسی طرح مسلم ممالک کے درمیان آبادی کے روزافزوں تبادلہ نے فقہی مذاہب کے حوالے سے بھی مشترکہ سوسائٹیاں قائم کر دی ہیں اور دنیا کے مختلف حصوں میں سینکڑوں جگہ ایسا ماحول موجود ہے جہاں حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی اور ظاہری مکاتبِ فکر کے حضرات مشترکہ طور پر رہتے ہیں ، اکھٹے نمازیں پڑھتے ہیں اور مل جل کو دینی تقاضے پورے کرتے ہیں ۔ انہیں فقہی اختلافات کے حوالہ سے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کیسے چلنا ہے ؟ اس کی وضاحت آج کی مستقل ضرورت ہے۔ ہمارے فقہا نے اس کی حدود بیان کی ہیں لیکن ہماری اس طرف توجہ نہیں جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ ‘‘ (عصرِ حاضر میں اجتہاد اور اس کی قابلِ عمل صورتیں / شیخ زایداسلامک سینٹر جامعہ پنجاب لاہور / ص ۳۵ ) 
کیونکہ قدامت پسند گروہ داخلی اعتبار سے کم از کم پانچ چھ بڑے گروہوں میں منقسم ہے ، اس لیے کوئی متصلب حنفی ہے، متصلب مالکی ہے، کوئی متصلب شافعی ہے ، متصلب حنبلی ہے اور کوئی متصلب سلفی ہے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سارے گروہ ’’ شعوری ‘‘ بھی ہیں ۔ اب کوئی بھی انصاف پسند انسان ان ’’ شعوری ‘‘ گروہوں سے یہ توقع نہیں کر سکتا کہ وہ ’’اپنے شعور کی سرحدیں‘‘ کراس کر جائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اجتہادِ مطلق کے لیے ( کم از کم اسے نظری سطح پر تسلیم کرنے کے لیے بھی ) نہ تو سلفی حنبلی شافعی ہو ناضروری ہے اور نہ ہی حنفی مالکی ہونا ، بلکہ اجتہادِ مطلق کے لیے ان سرحدوں کو کراس کر کے ’’ امتی ‘‘ ہو نا انتہائی ضروری اور ناگزیر ہے ۔ نفسیاتی اکائیوں میں منقسم قدامت پسندوں کوکم از کم وہ حدیث مبارک یاد رکھنی چاہیے جس کے مطابق نبی خاتم ﷺ قیامت کے روز شفاعت کے لیے سجدہ ریز ہوں گے تو اللہ کے حکم سے سر اٹھا کر فرمائیں گے ’’یا رب امتی امتی‘‘ ( صحیح بخاری ، کتاب التوحید ، ۳۶) اگر کسی روایت میں یارب سلفی سلفی ، یارب حنفی حنفی وغیرہ کے الفاظ موجود ہیں تو اہلِ علم سے درخواست ہے ہمیں مطلع کرکے شکریے کا موقع دیں ۔
زاہد الراشدی صاحب کی تحریر کا جو اقتباس ہم نے نقل کیا ہے، اس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ وہ ایک مخمصے میں گرفتار ہیں ۔سچ یہ ہے کہ ہر صاحبِ فکرغیر روایتی قدامت پسند ایسے ہی مخمصے کا شکار ہے ۔ اگر ایسے قدامت پسند ، کسی فقہی دبستان سے لا محدود وابستگی کو حدود میں لے آئیں تو ایسے مخمصے سے چھٹکارا پا سکتے ہیں اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے ، صرف اور صرف اپنے آپ کو متصلب اور شعوری امتی سمجھنا اور کہلوانا ہو گا ۔ مذکورہ اقتباس پر دوبارہ نظر ڈالیے اور آخری سطروں پر غور کیجیے ، زاہد صاحب گلوبلائزیشن کو تسلیم کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایک امر واقعہ ہے ، لیکن اس کے حوالے سے جو سوالات اٹھ رہے ہیں ، زاہد صاحب انھیں صرف فقہی ( قانونی ) تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ مسئلہ وہی ہے جو ہم نے اوپر بین السطور ڈسکس کیا کہ قدامت پسند حلقہ، تاریخی و تکوینی عوامل کی ماہیت ، سماج پر ان کے اثرات وغیرہ سے یکسر نابلد ہے اور کسی بھی معاملے کے محض قانونی و لفظی پہلووں کو پیشِ نظر رکھتا ہے ۔اس لیے یہ حلقہ ’’ کیوں ‘‘ کا خاطر خواہ احاطہ کرنے میں مکمل ناکام ہے ۔ محمد تقی صاحب عثمانی کو بھی ان کی حنفیت نے اس ’’ کیوں ‘‘ پر غور و فکر کرنے سے روکا ہوا ہے ۔ موصوف لکھتے ہیں کہ : 
’’ فقہا کرام نے محسوس فرمایا کہ لوگوں میں دیانت کا معیار روز بروز گھٹ رہا ہے ، احتیاط اور تقوی ٰ اٹھتے جا رہے ہیں ، ایسی صورت میں اگر تقلیدِ مطلق کا دروازہ چوپٹ کھلا رہا تو بہت سے لوگ جان بوجھ کر اور بہت سے غیر شعوری طور پر خواہش پرستی میں مبتلا ہو جائیں گے۔‘‘ ( تقلید کی شرعی حیثیت ، ص ۶۱ ) 
( خیال رہے تقلیدِ مطلق سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص مختلف معاملات میں مختلف مجتہدین کی پیروی کر سکتا ہے ) ذرا غور فرمایے کہ فقہا کے محسوسات کیا ہیں ؟ کہ دیانت گھٹ رہی ہے ، احتیاط اور تقویٰ اٹھ رہے ہیں ، ذرا پھر غور فرمایے کہ فقہا نے ان امراض کا حل کیا نکالا ہے؟ اب زیرِ لب مسکراہٹ کے ساتھ اس حل پر داد دے دیجیے ۔لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ تقی صاحب اس حل پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں : 
’’لیکن اللہ تعالیٰ رحمتیں نازل فرمائے ہمارے بعد کے فقہا پر جو اپنے اپنے زمانے کے نبض شناس تھے اور جنھیں اللہ تعالیٰ نے زمانے کے بدلتے ہوئے حالات پر نگاہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائی تھی ، انھوں نے بعد میں ایک زبردست انتظامی مصلحت کے تحت ’’ تقلید‘‘ کی مذکورہ دونوں قسموں میں سے صرف ’’ تقلیدِ شخصی ‘‘ کو عمل کے لیے اختیار فرما لیا اور یہ فتویٰ دے دیا کہ اب لوگوں کو صرف ’’ تقلیدِ شخصی ‘‘ پر عمل کرنا چاہیے ، اور کبھی کسی امام اور کبھی کسی امام کی تقلید کے بجائے کسی ایک مجتہد کو معین کرکے اسی کے مذہب کی پیروی کرنی چاہیے ‘‘ ( تقلید کی شرعی حیثیت ، ص ۶۰ ، ۶۱ )
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تقی صاحب تسلیم کر رہے ہیں کہ فقہا اپنے اپنے زمانے کے نبض شناس تھے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں، زمانہ کیا ہوتا ہے اور یہ کہ وہ بدلتا بھی رہتا ہے ، لیکن نجانے وہ کیوں اس امر پر مصر ہیں کہ فقہی مذاہب کے اصولوں کی تشکیل کے بعد زمانہ بدلنا بند ہو گیا ہے ۔ یہاں ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقی صاحب جس انتظامی مصلحت کا ڈھنڈورہ پیٹ رہے ہیں کیا وہ مستقل بالذات تھی ؟ یا زمانے کی ضرورت تھی ؟ ۔ آخر تقی صاحب تقلیدِ شخصی پر اس پہلو سے غور کیوں نہیں کرتے کہ یہ بعض محرکات کا نتیجہ ہے اور وہ محرکات ایک خاص زمانے کی پیداوار تھے ، لہٰذا تقلیدِ شخصی ، بالذات اصول نہیں ہے ۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ وہ عوامل ابھی تک موجود ہیں جن کی وجہ سے ’’ تقلیدِ شخصی‘‘ کا رویہ اختیار کیا گیا ، تو کیا صحیح اسلامی رویہ یہ ہے کہ تقلیدِ شخصی کے جواز کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کر دی جائیں یادین کی غایت یہ ہے کہ ان عوامل کی بیخ کنی کے لیے سرگرمی دکھائی جائے جن کی وجہ سے تقلیدِ شخصی کو اختیار کرنا پڑا ؟ ، تاکہ ان عوامل و محرکات کی بیخ کنی کے عمل کے دوران میں اور نتیجے کے طور پر بھی دین کا حرکی پہلو ہمیشہ متحرک رہے ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تقی عثمانی صاحب ان امور کو بہت مختلف زاویے سے دیکھ رہے ہیں ، وہ تو اس بات کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ تلقین بھی فرما رہے ہیں کہ کسی عام مقلد کو تقلید کرتے وقت’’ دلائل‘‘ طلب نہیں کرنے چاہییں، پھر اس پر مصر ہیں کہ ایسا کرنا ’’تقلیدِ محض ‘‘ کے زمرے میں نہیں آتا ۔اس سلسلے میں تقی صاحب نے کافی دلچسپ دلائل دیے ہیں ، مثلاً :
’’حضرت سلیمان بن یسار ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ حج کے ارادے سے نکلے ، یہاں تک کہ جب مکہ مکرمہ کے راستہ میں نازیہ کے مقام تک پہنچے تو ان کی سواریاں گم ہو گئیں ، اور وہ یوم النحر ( ۱۰ ذی الحج ) میں ( جبکہ حج ہو چکا تھا ) حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے اور ان سے یہ واقعہ ذکر کیا ، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تم وہ ارکان ادا کرو جو عمرہ والا ادا کرتا ہے ( یعنی طواف اور سعی ) اس طرح تمھارا احرام کھل جائے گا ، پھر اگلے سال جب حج کا زمانہ آئے تو دوبارہ حج کرو ، اور جو قربانی میسر ہو ، ذبح کرو ‘‘ ( موطا امام مالک ؒ ، ص ۱۴۹، ہدی من فاتہ الحج ) 
یہاں بھی نہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے مسئلے کی دلیل پوچھی اور نہ حضرت عمرؓ نے بتائی ، بلکہ حضرت عمرؓ کے علم و فہم پر اعتماد کرکے عمل فرمایا ، اسی کو تقلید کہتے ہیں ‘‘ ( تقلید کی شرعی حیثیت ، ص ۳۶ ) 
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس سے متعارض آثار بھی بطور دلیل پیش کیے جا سکتے ہیں ، پھر لازماََ تطبیق کی کوئی صورت نکالنی پڑے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ تقی صاحب نے اس روایت سے جو معنویت اخذ کی ہے ، اسے زیادہ سے زیادہ ان کا’’ فہم ‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے ، جو حجت نہیں ہو سکتا ۔ اس جملہ معترضہ سے قطع نظر یہاں ہم ان کی توجہ ایک بنیادی نکتے کی طرف مبذول کرانا چاہیں گے کہ کیا واقعی اسی نوعیت کی تقلید ، ائمہ اربعہ و دیگر مجتہدین کی، کی جانی چاہیے ؟ کیا صحابہ کرامؓ اور دیگر مجتہدین کے درجات میں عملی طور پر کوئی فرق نہیں ہے ؟ ۔معلوم ہوتا ہے کہ تقی صاحب کی رائے کے مطابق ایسا کوئی فرق موجود نہیں ہے ۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایک بنیادی فرق موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا ۔ وہ بنیادی فرق ’’دلائل کے مطالبات ‘‘ کا ہے ۔ اور یہی فرق عملی طور پر ، تقلیدِ محض اور تقلید کی اس سطح کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دیتا ہے جس تقلید کی گنجایش ہمیشہ موجود رہی ہے اور ہمیشہ موجود رہے گی ۔اگر اس فرق کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جاتا ، یعنی اگر دلائل کا تقاضا نہیں کیا جاتا تو پھر تقلید ، جائز سطح سے بلند ہوتے ہوتے دینی عقائد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ( کیونکہ دلائل کی عدم موجودگی کے باعث ایک خاص مجہولی رویہ پنپنا شروع ہو جاتا ہے ) اور نتیجے کے طور پر معاشرے کی اکثریت ، عقائد سے شعوری وابستگی کے بجائے تقلیدی وابستگی پر قانع ہو جاتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلی کئی صدیوں سے مسلم معاشرے کی یہی حالت ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ قدامت پسندوں کی نظر اس حالت کی ’’ وجوہ ‘‘ پر نہیں ہے۔ بہرحال ، تقی عثمانی صاحب کے استدلال کا ایک اور نمونہ ملاحظہ کیجیے : 
’’حضرت مصعب بن سعد ؒ فرماتے ہیں کہ میرے والد ( حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ) جب مسجد میں نماز پڑہتے تو رکوع اور سجدہ پورا تو کر لیتے مگر اختصار سے کام لیتے ، اور جب گھر میں نماز پڑہتے تو رکوع سجدہ اورنماز ( کے دوسرے ارکان) طویل فرماتے ، میں نے عرض کیا ، ابا جان ! آپ مسجد میں نماز پڑہتے ہیں تو اختصار سے کام لیتے ہیں اور جب گھر میں پڑہتے ہیں تو طویل نماز پڑہتے ہیں ؟۔۔۔حضرت سعدؓ نے جواب دیا کہ بیٹے ! ہم ( لوگوں کے ) امام ہیں ، لوگ ہماری اقتدا کرتے ہیں ( یعنی لوگ ہمیں طویل نماز پڑہتے دیکھیں گے تو اتنی لمبی نماز پڑھنا ضروری سمجھیں گے ، اور جا و بیجا اس کی پابندی شروع کر دیں گے ) ‘‘( مجمع الزوائد للہیثمیؒ ، ج ۱ ص ۱۸۲، باب الاقتداء بالسلف ) 
اس روا یت سے معلوم ہوا کہ عام لوگ صحابہ کرامؓ کے صرف اقوال ہی کی تقلید نہیں کرتے تھے ، بلکہ بڑے صحابہؓ کا صرف عمل دیکھ کر اس کی بھی تقلید کی جاتی تھی، اور ظاہر ہے کہ عمل دیکھ کر اس کی اقتدا کرنے میں دلائل کی تحقیق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اسی لیے یہ حضرات اپنے عمل میں اتنی باریکیوں کا بھی لحاظ رکھتے تھے ‘‘ (تقلید کی شرعی حیثیت، ۳۷) 
اس روایت پر ذرا غور فرمائیے ، کیا اس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ تقلید کے اثبات کے لیے اس سے ’’ اصول ‘‘ اخذ کر لیے جائیں؟ حقیقت میں یہاں پھر فقیہِ شہر کی بصیرت ، گل کھلا رہی ہے۔ جناب تقی صاحب ایک رسمی معاشرتی رویے کی نشاندہی کو اصولی و قانونی حوالے سے دیکھ رہے ہیں اور خرد کو جنوں اور جنوں کو خرد کہے جا رہے ہیں ۔اس تنقیدی مطالعے کے اختتام پر ابو عمار زاہدالراشدی کی تحریر کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے اور غور کیجیے کہ وہ کس قدر گومگو کی حالت میں گرفتا رہیں :
’’اجتہاد کے حوالے سے جو کام اس وقت ہمارے خیال میں سب سے زیادہ ضروری ہے ، بد قسمتی سے وہی سب سے زیادہ نظر انداز ہو رہا ہے اور وہ ہے اقوامِ متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اقوامِ متحدہ کے مختلف اداروں کے وہ فیصلے اور ضوابط جنہیں بین الاقوامی قوانین کا درجہ حاصل ہے اور جن کی بنیاد پر متعدد اسلامی احکام و قوانین کی عالمی سطح پر نہ صرف مخالفت ہو رہی ہے بلکہ عالمی ادارے مسلم حکومتوں پر ان اسلامی احکام و قوانین کی مخالفت میں مسلسل دباؤ ڈالتے جا رہے ہیں ، مگر ان بین الاقوامی قوانین کے بارے میں ہمارے علمی حلقوں اور دینی اداروں کا کوئی مشترکہ موقف ابھی تک سامنے نہیں آیا ۔ ‘‘ ( عصرِ حاضر میں اجتہاد اور اس کی قابلِ عمل صورتیں / ایضاً )
ہم زاہد صاحب سے گزارش کریں گے کہ علمی حلقوں اور دینی اداروں کا مشترکہ موقف دیوانے کا خواب ہے ۔ جو علمی حلقے اور دینی ادارے ’’تقلیدِ شخصی ‘‘ کی تنگنائے کے اسیر ہوں وہ مشترکہ موقف کی طرف کیسے اور کیونکر بڑھ سکتے ہیں ؟ امرِ واقعہ یہ ہے کہ بات ’’ تقلیدِ شخصی ‘‘ سے بھی بہت آگے بڑھی ہوئی ہے ۔زاہد صاحب کے اقتباس کے حوالے سے ایک بنیادی سوال کرکے ہم قدامت پسندوں کے تصورِ اجتہاد پر بات ختم کرنا چاہیں گے ۔ وہ سوال یہ ہے کہ فقہی مذاہب کے دائروں میں رہتے ہوئے کیا اس سطح کا اجتہاد ممکن ہے ، جس کا تقاضا یہ اقتباس کر رہا ہے ؟

حاصل بحث

قدامت پسندوں کا تصورِ اجتہاد مکمل طور پر غلط نہیں ہے ۔ قدامت پسند حلقہ ، بیسیوں فقہی مذاہب کے وجود کو تسلیم کرتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس حلقے کے نزدیک بھی دین کی تعبیر اور اس کا معاشرے پر اطلاق stereotype نہیں ہے کیونکہ دین کی تعبیر و اطلاق اگر stereotype ہوتے ، تو صدرِ اسلام سے اب تک بلکہ قیامت تک ، فقط ایک ہی مذہب کا اسلامی سماج میں اثرونفوذ ممکن ہوسکتا ۔امرِ واقعہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا ۔ اہم بات یہ ہے کہ دین کی ایسی تعبیری و اطلاقی proliferation اس بیج سے مشابہ ہے جواگرچہ اپنے اندرکئی امکانات لیے ہوئے ہوتا ہے ، لیکن وہ اس عمل کا محتاج ہوتا ہے کہ انسانی ہاتھ اسے مَس کریں ، زمین میں بوئیں ، دیکھ بھال کریں اور خدا بھی اس انسانی عمل کی مدد پر آمادہ ہو ، یعنی سورج کی کرنیں اور بارش کی رم جھم وغیرہ اپنا کردار ادا کر رہے ہوں ، تو پھر بیج کے امکانات ، بتدریج وجود میں آجاتے ہیں ۔ یہاں یہ حقیقت بھی سمجھ لینی چاہیے کہ بیج ارتقا کے مراحل طے کرکے تناور درخت نہیں بنتا بلکہ ارتقا کے بجائے محض اپنے امکانات ( جو پہلے سے ہی اس کے اندرموجود ہوتے ہیں ) کو سامنے لاتا ہے۔ دین کی تعبیری و اطلاقی proliferation کا بھی یہی مطلب ہے کہ اس کے اندرپہلے سے موجودامکانات، انسانی عمل اور خدائی مدد سے وجود میں آجاتے ہیں ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ دین کی تعبیری و اطلاقی proliferation کے عمل سے انسان کو خوف زدہ ہو کر گریز نہیں کرنا چاہیے ، کیونکہ اس عمل میں وہ تنہا نہیں ہوتا بلکہ خدا کی مدد ہر لمحے اس کی شریک کار ہوتی ہے ۔ اس سلسلے میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ اگر امکانات کے حامل بیج کو حضرت انسان بونے کے بجائے ویسے ہی پڑا رہنے دے تو بیج کے امکانات بیج کے اندر ہی دفن ہو جاتے ہیں ۔ بالکل یہی صورتِ حال دین کے ساتھ ہے۔ اگر دین کا حامل ہونے کے باوجود حضرت انسان اس کی تعبیری و اطلاقی حالتوں کو پیشِ نظر نہیں رکھتا ، یعنی اسے انسانی عمل سے وابستہ نہیں کرتا ، تو دین کے تعبیری و اطلاقی امکانات، کوئی اظہار پائے بغیر ختم ہوجاتے ہیں، کیونکہ یہ خودرو جھاڑیوں سے مشابہ نہیں ہیں جو محض تکوینی عمل سے اپنے اندر کے امکانات کو وجود بخشتی رہتی ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ متقدمین اس نزاکت سے بخوبی آگاہ تھے۔ بیسیوں فقہی مذاہب کا وجود اس امر پر دال ہے کہ متقدمین دین کو خود رو جھاڑی کے مانند خیال نہیں کرتے تھے بلکہ مذکورہ بیج کے مماثل سمجھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعبیری و اطلاقی proliferation کرنے میں پہل کی، اور ان کے قدم آگے بڑھانے پر خدا نے بھی ان کو راہ دکھائی : وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْن (العنکبوت ۲۹: ۶۹ )
آج کے قدامت پسند، دین کی تعبیری و اطلاقی proliferation کے انکاری نہیں ہیں کیونکہ یہ امرِ واقعہ ہے ، اس لیے فقہی مذاہب کی سب سے زیادہ اطاعت انھی کے ہاں پائی جاتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قدامت پسند ، فقہی مذاہب کی فقط مظہری تسلیمیت (phenomenal confession) کے قائل ہیں ، ان کی نظر واقعات کے اس تسلسل (continuity of incidents) پر نہیں ہے ، جن کی وقوع پذیری ، مربوط نامیاتی تعلق اورنموسے،اس مظہر کی مجموعی تشکیل ہوئی ہے، اورنتیجے کے طور پر دین کے چند تعبیری و اطلاقی امکانات سامنے آئے ہیں ۔ ہمیں حیرت ہے کہ قدامت پسندوں کی تیکھی نظروں سے یہ حقیقت کیسے چھپی رہ گئی کہ مختلف فقہی مذاہب کسی اچانک حادثے) Big Bang ( کا نتیجہ نہیں ہیں ، بلکہ ایک واقعاتی صورتِ حال (a given situation) کے چیلنج کے جواب میں اختیار کی گئی انسانی بصیرت کے باعث، جس میں خدائی مدد بھی شامل رہی، منصۂ شہود پر آئے ہیں ۔ اگر وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں توپھر ان کے جامد رویے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان کی نظراس واقعاتی صورتِ حال کے فقط ظواہر(appearances) پر ہے ، انھوں نے اس کے باطن میں جھانکنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ صرف ایک انسان کے باطن میں جھانکنے کے لیے جس درجے کی متانت ، سنجیدگی ، تعمق ، بصیرت اور مشاہداتی قوت درکار ہوتی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ بہت سے انسانوں کے باہمی تعلق سے جنم لی گئی صورتِ حال کے باطن تک رسائی کے لیے کس درجے کی ذہنی قابلیت درکار ہو گی۔ اندریں صورت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قدامت پسندوں میں ایسی ذہنی قابلیت نہیں پائی جاتی ؟ اگر اس سوال کے جواب میں ’’ہاں‘‘ کہا جائے تو ہمارے خیال میں یہ بہت زیادتی ہوگی ۔ قدامت پسند حلقہ ، ذہنی قابلیت کے اعتبار سے بانجھ نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ مسئلہ صرف یہ ہے کہ وہ فقہی مذاہب کی مظہری تسلیمیت (phenomenal confession) کو اوڑھنا بچھونا بنا چکا ہے ۔ وہ ایک غیر مستقل واقعی صورتِ حال کے سحر کا شکار ہے۔ قدامت پسند حلقہ ’’پہل‘‘ کرنے کے بشری عمل سے خوف زدہ ہے ۔ وہ موجودہ واقعاتی صورتِ حال کے چیلنج کے جواب میں قدم آگے بڑھانے کے بجائے ، دین کی اسی تعبیری و اطلاقی proliferation کو کافی خیال کرتا ہے ، جو درحقیقت ایک خاص واقعاتی صورتِ حال کے چیلنج کا جواب تھی ، یقیناًہماری مراد فقہی مذاہب سے ہے ۔ قدامت پسند حلقہ یہ غور کرنا پسند نہیں کرتا کہ جس واقعاتی صورتِ حال کے باطن سے مختلف فقہی مذاہب کی تشکیل ہوئی ، وہ صورتِ حال آخر کن معنوں میں اتنی مختلف اور متغیر تھی کہ ایک فقہی دبستان کے بجائے مختلف دبستان وجود میں آئے۔ پھروہ اصول آخر کیونکر یکساں اور غیر متغیر ہوسکتے ہیں جن کی بنیاد پرارتقائی مراحل طے کر کے فقہ کی تدوین ہوئی۔ آخر کیسے ایک خاص واقعاتی صورتِ حال کے چیلنج کے جواب میں تشکیل پائے گئے’’ اصول‘‘ اتنے مستقل اور ابدی ہو سکتے ہیں کہ ان کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی بہت مختلف واقعاتی صورتِ حال کے چیلنج کا جواب دے دیا جائے ؟یہ لحاظ کیے بغیر کہ کسی دوسری واقعاتی صورتِ حال کے باطن میں کیا کچھ پوشیدہ ہے ۔ لہٰذا ، معلوم ہوتا ہے کہ قدامت پسند حلقہ ، ایک فکری مغالطے کا شکار ہوکر اپنی ذہنی قابلیت کو خوامخواہ ضائع کر رہا ہے ۔اس حلقے کو اب اس حقیقت کا ادراک ہو جانا چاہیے کہ فقہی مذاہب کی اصولی حیثیت ، ایک خاص واقعاتی صورتِ حال میں، درحقیقت قرآن و سنت کی تعبیر و اطلاق کی ہے اور یہ لازمی امر ہے کہ کسی بھی تعبیری واطلاقی حالت سے ٹھوس غیر متغیر اصول اخذ نہیں کیے جا سکتے ۔ اس لیے لامحالہ، قرآن وسنت کی تعبیری و اطلاقی proliferation کی ہمیشگی و تسلسل کوتسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ 

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم و مکرم مولانا عمار خان ناصر صاحب، 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ کی ذات سے امید کرتا ہوں کہ آپ بخیروعافیت ہوں گے۔ 
آپ نے احسان فرمایا کہ دعوت وتبلیغ سے متعلق چند اہم مضامین کو، جو مختلف اخبارات میں شائع ہو جانے کے بعد وقت کی گرد میں گم ہورہے تھے، الشریعہ کے پچھلے کچھ شماروں میں شائع کرکے محفوظ کردیا اور اِنھیں اپنے قارئین تک پہنچانے کا بندوبست فرمادیا۔ آپ نے مزید احسان فرمایا کہ مولانا محمد یوسف صاحب، ناظم الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کا مقالہ ’’دین کی جامعیت اور ہمارا عمومی مذہبی رویہ‘‘ الشریعہ کے شمارہ اگست ۲۰۰۶ء میں شائع فرمایا۔ یہ آپ کی بے پایاں محبت ہے ۔ کوئی تعلق ہو تبھی آدمی ایسی کھکھیڑ اُٹھاتا ہے ورنہ راہ چلتوں کو کلمۂ نصیحت بھلا کون کہتا ہے؟ اِسی طرح اگلے شمارے میں کسی مشتاق احمد نامی صاحب کا خط شائع ہوا، اگرچہ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ طوطیِ پسِ آئینہ کون ہے۔ 
میں اِس مقالے کو آپ کا نمائندہ مقالہ تصور کرتے ہوئے آپ سے مخاطِب ہوں۔ آپ نے اپنے عظیم المرتبت والد مولانا زاہدالراشدی صاحب اور یکتائے روزگار دادا، استادِمحترم حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب کے اقوال بھی پیش کیے۔ (یہاں آپ کی ذات سے حفظِ مراتب کی شان دار مثال وجود میں آگئی۔ کاش کوئی اِس اہم اخلاقی قدر کو آپ سے سیکھنے کی نیت کرے۔) مفتی محمد شفیع صاحب اور مفتی زین العابدین صاحب کے حوالے بھی تحریر فرمائے گئے۔ یہ نور علیٰ نور ہے۔ پھر اِس ساری بات کو مولانا سعید احمد خاں مہاجر مدنی رحمۃاللہ علیہ جیسے اِس دور کے نادر مجسمۂ اِکرام واَخلاق عالمِ ربّانی کے اقوال پر ختم کرکے گویا ’ختٰمہ مِسک‘ والا کام کیا گیا۔ سخن کوتاہ، یہ ایک اچھا مقالہ ہے جس میں تنقید بھی ہے اور ’تنبیہ الغافلین‘ کا پہلو بھی۔ 
عرض ہے کہ آپ حضرات علمائے کرام ہمارے سروں کے تاج ہیں۔ جو کمی دیکھیں، ہمیں نہ صرف متوجہ کرنے بلکہ ٹوکنے اور اِس سے بھی بڑھ کر ہمیں ہاتھ سے پکڑ کر سیدھا کرنے میں عنداللہ مامور ہیں۔ بلکہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ کے الفاظ میں، اگر آپ حضرات ایسا نہ کریں گے تو عنداللہ گناہ گار ہوں گے۔ واللہ ہمیں کسی ذمہ دار نے یہ نہیں بتایا کہ علما کو درسِ حدیث چھوڑ کر ’’فضائلِ اعمال‘‘ پڑھنے کا حکم دیا جائے۔ اگر کسی گرم شِتاب نے کہیں ایسا کیا ہے تو نری جَہالت کی ہے۔ نصاب کی کتب پر اِکتفا تو عام احباب ہی کے لیے ہے۔ ایک خط میں مولانا محمد الیاسؒ نے علما کے لیے خاص طور سے ’’عربیت، صحابہؓ کے کلام، اعتصام بالکتاب والسنۃ، اور نشرِدین کی تحریص کے مضامین جمع کرنے کی انتہائی ضرورت‘‘ پر زور دیا ہے۔ اِسی طرح ایک جگہ تحریر فرمایا کہ ’’۔۔۔اہلِ علم خاص طور سے کتاب الاعمال، کتاب العلم والاعتقادات یا کتاب السنۃ یا کتاب الجہاد، کتاب المغازی، کتاب الفتن، کتاب الرقاق اور کتاب الامر بالمعروف مطالعے میں رکھیں۔‘‘ اِسی طرح مولانا محمد یوسفؒ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’۔۔۔پستی کا واحد علاج، فضائلِ تبلیغ، فضائلِ نماز، فضائلِ ذکر، فضائلِ قرآن، فضائلِ صدقات، حکایاتِ صحابہؓ، جزاء الاعمال عام اوقات میں عمومی مذاکرہ میں رکھی جائیں اور اِن کی تعلیمِ خصوصی کا فارغ اوقات میں ضرور اہتمام رکھا جائے۔ اور رمضان کے مہینے میں فضائلِ رمضان اور حج کے زمانے میں فضائلِ حج کی تعلیم کا اہتمام مزید بڑھالیا جائے۔ البتہ شخصی طور پر حسبِ استعداد وذوق حضرتؒ [مولانا الیاس] کی سوانح وملفوظات وغیرہ کو مطالعے میں رکھیں یا اِس کے علاوہ اور کتبِ حدیث وفقہ وسیرت اپنے ذاتی مطالعے میں رکھی جائیں۔۔۔۔‘‘ یاد رہے کہ مولانا محمد یوسفؒ نے یہ سب کچھ پڑھنا عوام کے لیے تجویز کیا ہے، اور اُن کے لیے یہی مناسب بھی ہے کہ اجتماعی تعلیم میں اِن کتابوں سے آگے نہ بڑھیں۔ خواص یعنی طبقۂ علما کے لیے اِزدیاد کا اندازہ اِس فہرست کو دیکھ کر بڑی آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ مولانا سعید احمد خاں صاحبؒ نے بھی ایک خط میں تحریر فرمایا ہے کہ دعوت کا سمجھنا قرآن کی تفسیر، احادیث، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم و سیرتِ صحابہؓ کو پڑھے بغیر ممکن نہیں۔ 
یہ بات آپ حضرات کے علم میں ہے کہ مولانا محمد الیاسؒ کے نزدیک امت کے دو ہی طبقے ہیں: علما اور عوام۔ اور امت کے اِنھی طبقوں کے درمیان جوڑ ہی اُن کے کام کا اہم ترین مقصد ہے، اور اِسی کے لیے وہ اپنی جان اور صلاحیتوں کو ایندھن کرتے رہے۔ اپنے ایک خط میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ کو تحریر فرمایا کہ: ’’۔۔۔آپ جیسے اہلِ حق کی نگرانی کا میں سخت محتاج ہوں۔ اور اپنی نگرانی کا آپ حضرات مجھے ہر وقت محتاج خیال کریں، کہ اِس میں کی خیر پر مجھے جمنے کی تاکید فرماویں اور اِس میں کے شر سے مجھے جھنجھلاہٹ سے منع کردیں۔۔۔۔‘‘ علما کا کون سا طبقہ تھا جس کی طرف مولانا الیاسؒ نے توجہ میں کمی کی ہو؟ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ فرماتے ہیں کہ: ’’ایک روز میں نے [مولانا الیاسؒ سے] عرض کیا کہ حضرت! ندوہ کے لوگوں نے اہلِ دین کی طرف ہمیشہ عقیدت کا ہاتھ بڑھایا مگر اُن کی طرف سے اِس کے جواب میں محبت کا ہاتھ نہ بڑھا۔ اِن کو ہمیشہ بیگانگی اور غیریت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ خدا کا شکر ہے، آپ نے ہمارے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا اور ہمارے ساتھ یگانگت کا معاملہ کیا۔ مولانا کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ کی جماعت تو اہلِ دین کی جماعت ہے۔ میں تو علی گڑھ والوں کو بھی چھوڑنے کا قائل نہیں۔ اُن سے بھی بُعد اور وحشت صحیح نہیں۔‘‘ اِسی کا نتیجہ ہوا کہ مولانا کی دعوت وتحریک میں باہم مختلف الخیال مدارسِ دینیہ کے ساتھ ساتھ انگریزی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ اور اساتذہ، اور تجارت پیشہ، ملازمت پیشہ اور ہر طرح کے کاروباری مسلمان دوش بدوش ہیں۔ کوئی دوسرے سے متوحش نہیں۔ مولانا مرحوم ہر ایک کے امتیازِخصوصی کی خوب داد دیتے اور تعریف فرماتے تھے۔ کسی کی دینداری کی، کسی کی سلیقہ مندی کی، کسی کی حاضردماغی اور تجربہ کاری کی۔ اُن کے نزدیک ہر ایک کی فطری صلاحیت دین کے کام میں لگنی چاہیے تھی۔ 
ذات خدا کی بے عیب ہے۔ ہم تو کام کرنے والے نہیں، کام کو بگاڑنے والے لوگ ہیں۔ ہمارے جسم کا ریشہ ریشہ رُوآں رُوآں آپ حضرات علمائے کرام کا احسان مند ہے۔ ہم دراہم و دنانیر کے بندے ہر آن، ہر گھڑی، ہر سانس، اللہ کی توفیق اور آپ حضرات کی رہنمائی کے محتاج ہیں۔ ہم میں کا کوئی بے وقوف اگر کسی حماقت کا مرتکب ہوتا ہے یعنی علما کی بے توقیری و بے اِکرامی کربیٹھتا ہے تو آپ اپنے بڑوں کے اُسوہ پر چلتے ہوئے نادانیوں سے صرفِ نظر اور اللہ سے دعا ہی میں اضافہ فرماویں۔ ایک کارگزاری میں معلوم ہوا کہ پچھلے دنوں آپ کے شہر میں چند سادہ مسلمانوں کی ایک جماعت ایک بڑے محدث، عالمِ دین کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اُن کے ایک ساتھی نے حضرت سے کہا کہ ’’آپ کو بھی دین کا کام کرنا چاہیے۔‘‘ مقام تو رونے کا تھا لیکن اِس پر ایک ساتھی نے ہنستے ہوئے تبصرہ کیا کہ اُن عالمِ دین کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ اِس مقام پر پہنچ گئے کہ اُن کے سامنے ایسی نالائقی کی بات کی گئی۔ اللہ ہر ایک سے اُ س کی حیثیت کے مطابق معاملہ فرماتا ہے۔ ہر عالمِ دین ایسے مقام پر نہیں ہوتا کہ ایسا سخت جملہ اُس کے روبرو کہا جائے۔ اِس واقعہ میں افسوس کا جو پہلو ہے، وہ تو ظاہر ہے لیکن اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ علما کے سامنے ہماری جَہالت پورے طور پر آشکارا ہوگئی۔ یعنی پہلے اگر وہ کسی حیثیت میں ہم لوگوں کے بارے میں مطمئن ہوگئے تھے تو اب اُن پر یہ کھل گیا کہ یہ لوگ کتنے محتاجِ توجہ و نگرانی ہیں۔ اِس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ دعا میں اضافے کا اہتمام اور آپ حضرات سے دعا کی اِلتجا کا مذاق بھی ہم نالائقوں کو مولانا محمد الیاسؒ کے ملفوظات ومکاتیب سے ملتا ہے۔ اپنے ایک خط میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ کو تحریر فرمایا کہ: ’’۔۔۔اِسی اثر کی بنا پر سائل و طالبِ عاجز ہوکر آپ کی بارگاہ کی طرف ملتجی ہوں کہ ۔۔۔ باستقلال و طمانیتِ تامہ اِس کام پر جمنے اور چالو ہونے کے لیے بارگاہِ ایزدی میں ملتجی و داعی بخشوع و خضوع بہت استقلال سے رہیں اور اِس کے لیے پوری ہمت صرف فرماویں۔۔۔ نیز ظاہری کوئی تدبیر اِس کی تثبیت و تنشیط کی ذہن میں آوے، اِس میں سعی کریں۔۔۔‘‘ اللہ کی توفیق سے دعوت کا یہ کام جتنا اب تک ہوا، حضرات علمائے کرام ہی کی سرپرستی میں اور توجہات کے جلو میں ہوا۔ آئندہ بھی اِس کا یہی چلن رہے گا کیوں کہ یہ چلن اللہ کے ہاں مقبول ہوچکا ہے۔ 
آپ ’الشریعہ‘ والے حضرات کی اس حکمتِ عملی کو کہ مختلف اصحابِ فکر ودانش اپنی اپنی آرا وافکار کا اظہار فرماتے رہیں، کچھ ظاہربیں لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ آپ دعوت وتبلیغ کے خلاف لکھ/لکھوارہے ہیں حالانکہ اِن افکار اور نقاطِ نظر پر جو تنقیدی مضامین اور خطوط وغیرہ موصول ہوتے ہیں، ان کو بھی آپ من وعن شائع فرماتے ہیں۔ عرض ہے کہ پایۂ وثاقت سے گرے ہوئے ایسے اعتراضات کی طرف توجہ نہیں دینی چاہیے۔ اگرچہ زیادہ مناسب یہی ہے کہ ہر تحریر کو شائع نہیں کرنا چاہیے۔ کیا معلوم کہ چند تحریریں جو آپ کسی خاص ترتیب میں شائع کرنے کے بعد معاملات کو ایک دھڑے پر لے جانا چاہ رہے ہوں، اپنی فرادہ فرادہ حیثیت میں کسی سطح بین کے لیے فوری نقصان کا سبب بن جائیں۔ جن کمیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، وہ زیادہ تر اِنفرادی نوعیت کی ہیں۔ اِن شاء اللہ اِن کو دور کرنے کی بات بھی اِسی طور سے چلائی جائے گی۔ آپ کے خانوادے کی دعوت کے کام سے محبت کی وجہ سے ہم امید کرتے ہیں کہ آپ آئندہ بھی نہ صرف قلمی طور پر اپنی توجہات سے نوازتے رہیں گے بلکہ علیٰ الترتیب السابق ہمارے نکلے ہوئے لوگوں کو اپنی براہِ راست نگرانی سے فیض یاب بھی فرماتے رہیں گے، کہ اِس گرم اِختلاط کے بغیر نہ آپ تک ہماری کمیاں پورے طور پر پہنچ سکتی ہیں اور نہ ہی اِن کا انسداد پورے طور پر ہوسکتا ہے۔ یہ لوگ جو اللہ کے دین کو سیکھنے کے لیے گھروں کو چھوڑتے ہیں، ’’نکلنے‘‘ کی اِس ایک خوبی کے علاوہ ہر ہر چیز میں ہر لحظہ آپ حضرات کی کامل، ذاتی توجہ کے محتاج ہیں۔ دین کی طلب سے زمانہ علی العموم خالی ہے۔ چوں کہ یہ نکلے ہوئے لوگ بھی مادّیت والے جراثیم کی فضا کے عمومی اثرات سے بچے ہوئے نہیں ہیں، اِس لیے آپ حضرات کے رحم، شفقت اور بلاواسطہ نگرانی کے اور بھی زیادہ محتاج ہیں۔ دعوت ایک عملی کام ہے۔ کوئی عملی کام گھر بیٹھے یا کتابوں سے یا صرف علم حاصل کرلینے سے نہیں آتا۔ غلطی کام کرنے والے ہی سے صادر ہوتی ہے۔ اَز خرداں خطا و اَز بزرگاں عطا۔ آپ سے بڑی لجاجت سے عرض ہے کہ آپ حضرات ہماری اصلاح وبہتری کی ہر ممکن کوشش فرماتے رہیں اور اللہ سے ہمارے راہِ مستقیم سے بچل جانے سے پناہ بھی مانگتے رہیں۔ اللہ ہمیں حضرات علمائے کرام کے مقام کو پہچاننے اور اُن کا شایانِ شان اِکرام کرنے والا بنادے اور ہماری کسی نالائقی کی وجہ سے ہمیں اُن کی برکات وتوجہات سے محروم نہ فرمائے۔ آمین۔ 
حافظ صفوان محمدچوہان
D-62، ٹی این ٹی کالونی ، ہری پور
(۲)
محترم مدیر ماہنامہ ’الشریعہ‘
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الشریعہ ستمبر ۲۰۰۶ء کے شمارہ میں ایک تحریر ’’مجلس عمل کی سیاسی جدوجہد۔ چندسوالات‘‘نظر سے گزری جس میں محترم چوہدری محمد یوسف ایڈوکیٹ صاحب نے مجلس عمل کی چار سالہ کارکردگی اور تاریخی خدمات پر اظہار اطمینان کرنے کے بجائے سوالات کی بوچھاڑ کردی ہے۔ خیر ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ دوسرے ناقدین کا کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں ۔
پہلا سوال انہوں نے یہ کیا ہے کہ ’’مجلس عمل میں چار بڑے قائدین ،مولانا فضل الرحمن ،مولانا سمیع الحق ،پروفیسر سنیٹر ساجد میر اور قاضی حسین احمد کے مابین چار سال بعد بھی نمائشی یکجہتی کے سوا کیا سامنے آیا ہے؟‘‘ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مجلس عمل میں کوئی نمائشی یکجہتی نہیں بلکہ مجلس عمل کے قائدین معاملہ فہم اور حالات پر گہری نظر رکھنے والے پر مغزمذہبی وسیاسی رہنما ہیں۔ وہ مجلس عمل کو ہرگز ٹوٹنے نہیں دیں گے۔
جناب ایڈوکیٹ صاحب لکھتے ہیں: ’’چار سال میں پبلک کے مسائل پر ہماری پارلیمانی پارٹی نے، جو تاریخی لحاظ سے ہماری سب سے بڑی اور سب سے زیادہ باصلاحیت نمائندگان پر مشتمل پارٹی ہے، کوئی ترجیحات طے کیں اور ان کے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیاہے ؟‘‘ اگر ایڈوکیٹ صاحب سرحدحکومت کی چار سالہ کارکردگی پر ایک نظر ڈال لیتے تو انھیں اس سوال کا جواب مل جاتا۔ سرحد حکومت نے صوبے اور عوام کے حقوق کے لیے وفاق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے۔ غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرکے وسائل کو عوام کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کیاگیا۔ سرحد کے میگا پروجیکٹ کو وفاقی حکومت سے منظور کروایا گیا جو سرحد حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔ غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرکے تعلیم اور صحت کے شعبوں کو فعال کرنا، روزگار کے مواقع کی فراوانی، امن وامان کا قیام، سماجی بہبود، شریعت ایکٹ کی منظوری، معاشی اصلاحات کمیشن، تعلیمی اصلاحات کمیشن، سرکاری دفاتر میں نظام صلوٰۃ کا قیام، شراب، جوا اور فحاشی پر پابندی، حسبہ ایکٹ کی منظوری، اسلامی بینکاری کا اجرااور حکومتی معاملات میں شفافیت اور میرٹ کے کلچر کا فروغ انتہائی احسن اقدامات ہیں۔
جہاں تک پرویز مشرف کی وردی اورسمجھوتے کی بات ہے تو یہ مجلس عمل خصوصاً مولانا فضل الرحمن پر محض ایک الزام ہے۔ پرویز مشرف جیسے سیکولر اور فوجی حکمران کو قوم کے سامنے کھڑا کر کے یہ کہلوانا کہ ’’میں دسمبر ۲۰۰۴ء کے آخر میں وردی اتاردوں گا‘‘ مجلس عمل کی بہت بڑی کامیابی او رسیاسی فتح ہے ۔ اگر مشرف نے وعدہ کرکے وردی نہیں اتاری تو اس کا الزام مجلس عمل پر لگانا اور فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ دینا محض افترا، ضداور عناد پر مبنی ہے۔ حقیقت کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
موصوف نے فرمایا کہ کوئی دو پارلیمنٹیرین ایسے تیار ہوجاتے جو ہاؤس پر پورے عرصے میں چھائے محسوس ہوتے ہوں، تو عرض یہ ہے کہ مجلس عمل کے تمام پارلیمنٹرین اور بالخصوص اس کے قائدین محترم قاضی حسین احمد صاحب، مولانا فضل الرحمن صاحب، محترم لیاقت بلوچ صاحب اور حافظ حسین احمد صاحب خوب چھائے رہے ہیں اور ان قائدین کا رعب اور دبدبہ اسمبلی کے اندر اور باہر حکمرانوں کے خلاف قائم رہا۔
رہی یہ بات کہ کون اپنے پیسوں یا لوگوں اور جماعتوں کے اخراجات برداشت کرکے اسمبلی میں پہنچا تو اس کی فکر ایڈووکیٹ صاحب کو کیوں ہے؟ کوئی جیسے بھی اپنی ہمت واستطاعت، تقویٰ یا جماعتی اخراجات پر اسمبلی میں پہنچتاہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے نہ کہ اعتراضات کے انبار لگا کر اسے مایوس کرنے کا سبب بننا چاہیے۔
آخر میں گزارش ہے کہ متحدہ مجلس عمل اس پر فتن دور میں امت مسلمہ، بالخصوص اہل پاکستان کے لیے نعمت خداوندی ہے۔ اسلامی نظا م کے نفاذ، حقیقی عدل کے قیام اورفرقہ واریت کی روک تھام کے لیے بقدر استطاعت اس سے تعاون کرنا چاہیے۔
حافظ خرم شہزاد 
کامونکی، ضلع گوجرانوالہ
(۳)
جناب مدیر الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم !
آپ کی محنت اور خلوص کی بدولت ’الشریعہ ‘وہ مقام حاصل کر چکاہے کہ اگر نہ ملے تو کمی سی محسوس ہوتی ہے۔ ’الشریعہ‘ طبقہ علما اور خواص کو نئی جہتوں سے آشنا کروا رہاہے۔ سخت تنقیدی خطوط ابھی الشریعہ میں جگہ پاتے ہیں جو معیاری صحافت کے اصولوں کی پاسداری کا ایک اچھا نمونہ ہے۔ تاہم ایک کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ طبقہ علما، عوام کی معاشرتی محرومیوں اور مسائل کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا۔ کیا انھیں انتہائی غربت کے بوجھ تلے انسانیت سسکتی دکھائی نہیں دیتی؟ کیا چوری، ڈکیتی، طلاقیں، جسم فروشی اور بے امنی سب اسی کی وجہ سے نہیں ہیں؟ لیکن افسوس، ایم ایم اے اور دیگر علما کو اسلام تو خطرے میں نظر آتاہے، لیکن انسان اور مسلمان نہیں۔ کبھی ان لوگوں نے غربت، بے روز گاری کے خلاف جلسہ کیاہو، جلوس نکالا ہو، کوئی تحریر لکھی ہو یا کوئی بیان دیاہو؟ 
میں بالمشافہہ مولانا زاہد الراشدی صاحب سے دو مرتبہ درخواست کرچکا ہوں کہ ’الشریعہ‘ میں ان مسائل کو بھی جگہ دیں۔ انھوں نے فرمایا کہ ’’اس طرح کے مسائل پر لکھنے کے لیے وقت اور مواد نہیں ہے۔ البتہ آپ لکھیں، ہم جگہ دیں گے۔ ‘‘ لیکن ہم مولانا صاحب کے قلم کی سی تاثیر کہاں سے لائیں؟ مطلب یہ ہوا کہ ان کی نگاہ میں بھی یہ مسئلہ غیر اہم ہے، ورنہ وقت اور مواد، دونوں میسر ہو سکتے ہیں۔ بہرحال میری طبقہ علما اور اصحاب قلم سے درخواست ہے کہ وہ معاشرتی مسائل کو بھی اپنی تحریروں اور تقریروں کا موضوع بنائیں کیونکہ غریب جسے دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو، اس کا نہ ایمان ہوتاہے اور نہ عقیدہ۔ اس سے اگر پوچھا جائے کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں تو اس کا جواب ہوگا: چار روٹیاں۔ 
عبد الحفیظ قریشی 
ڈائریکٹر کیوز ریز، پیپلز کالونی ، گوجرانوالہ
(۴)
مکرمی مدیر الشریعہ 
السلام علیکم !
نومبر ۲۰۰۶ء کے شمارے میں اقبالیات کے حوالے سے ایک سے بڑھ کر ایک مضامین پڑھنے کو ملے، لیکن مسلم سجاد صاحب کا مکتوب پڑھ کر میں فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ آنجناب ’ترجمان القرآن‘ کے مدیر ہیں یا نائب مدیر؟ اگر تو وہ نیابت پر اکتفا کریں تو یہ مکتوب انہوں نے یقیناًاپنے مدیر کی رضا مندی سے لکھا ہوگا، دوسری صورت میں انہیں محمد یوسف ایڈووکیٹ صاحب کی تحریر اپنے مدیر کی خدمت میں پیش کرکے ان کے تاثرات سے اپنے قارئین کو ضرور آگاہ کرنا چاہیے ۔
کچھ ایسا محسوس ہوتاہے کہ مسلم صاحب اپنا ’’رد عمل‘‘ حق نصیحت ادا کرتے ہوئے غالباً ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے بھی کئی گنا زیادہ بلند ’’مینا رتقدس‘‘ پر تشریف فرماہیں، جبھی تو وہ یہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ ’’بہت صاف بات تھی جو آپ کو سمجھنا چاہیے تھی‘‘۔ یہ کیا بوا لعجبی ہے کہ جناب مسلم صاحب ۱۰۰ سے زیادہ صفحات پر مشتمل اپنے رسالے میں اپنے ایک قاری کو صرف ۴ صفحات دینے پر آمادہ نہیں، لیکن ۵۰ سے بھی کم صفحات کے حامل ’الشریعہ‘ میں پہلے سے شائع شدہ ۸ صفحات کے مضمون کے چھپنے کے خواہشمند ہیں! ایک سیاسی جماعتی اتحاد کی کارکردگی رپورٹ کیا آسمانی صحیفہ ہے کہ اس کے متعلق ایک ووٹر، شہری اور قاری کو تبصرہ کرنے سے روکا جا رہا ہے؟ کیا ارباب ’ترجمان‘ بتاسکتے ہیں کہ صحافت اور ادارت کا یہ کون سا اعلیٰ اسلوب ہے جس کا مظاہر ہ کیا جارہاہے؟
اگر مسلم صاحب ناراض نہ ہوں تویہ کہوں گا کہ اگر یوسف صاحب کو آپ کے بقول ’’ابال‘‘آیا تھا تو آپ کے رد عمل میں ہونے والی تاخیر کی وجہ سے آپ کے مکتوب کو ’’باسی کڑھی میں ابال‘‘ بآسانی قرار دیاجاسکتاہے ۔
محمد عمر فاروق 
۱۹ ۔ گورونانک پورہ، گوجرانوالہ
(۵)
محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ مزاج گرامی!
الشریعہ کے نومبر ۲۰۰۶ کے شمارے میں محترم قاری شجاع الدین صاحب کا خط زیر نظر ہے۔ میں نے اگست کے شمارے میں مولانا محمد یوسف صاحب کا مضمون کئی بار پڑھا۔ مجھے تو اس مضمون میں تبلیغی جماعت کی تنقیص نظر نہیں آئی۔ خود قاری صاحب کی تمثیل کے بموجب حافظ یوسف صاحب تو تصویر ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
قاری شجاع الدین صاحب جیسے بزرگوں کی توجہ کے لیے چند سوالات پیش کرتا ہوں۔ ہمارے علاقہ کے دو معروف میڈیکل کالجز ہیں، نشتر ہسپتال ملتان اور قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور۔ یہاں کے پروفیسر حضرات تقریباً ساٹھ فی صد معروف تبلیغی حضرات ہیں۔ کیا ان سب حضرات میں سے کوئی ایک بھی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ گورنمنٹ کے مقرر کردہ اوقات میں آؤٹ ڈور میں کبھی پورا وقت حاضر رہا ہو؟ غریب مریض جن کے ٹیکس سے حکومت چلتی ہے، وہ تو ان حضرات کی توجہ سے محروم رہتا ہے، جبکہ جنھیں بے دین اور کمیونسٹ کہا جاتا ہے، وہ ایمان داری سے ڈیوٹی ادا کرتے ہیں۔ کیا یہ تبلیغی بھائی، تیس چالیس سال کی تبلیغی سرگرمیوں کے بعد بھی اپنی اولاد کو (جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں) اسلام کی دی ہوئی آزادی کے مطابق اپنے شریک حیات کے انتخاب کا حق دیتے ہیں؟ کیا یہ لوگ بہنوں اور بیٹیوں کو خدا کے حکم کے مطابق میراث میں سے حصہ دیتے ہیں؟ 
جماعت میں تو شہر شہر امیر جماعت بننے کے لیے سازشیں ہوتی ہیں۔ برادریاں اور گروپ بنتے ہیں۔ الغرض دین اور تبلیغ کے نام پر عجب بے ہنگم طوفان برپا ہے ۔ اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔
ڈاکٹر طاہر مسعود
فاطمہ کلنک۔ کہروڑ پکا
(۶)
محترم زاہد الراشدی صاحب 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الشریعہ کا تازہ شمارہ ملا ۔شکریہ۔ اس بار تو آپ نے اقبال نمبر شائع کردیا۔ ان دنوں خطبات اقبال پر بحث چل رہی ہے۔ ابتدا ’جریدہ‘ اور ’ساحل‘ (کراچی) نے کی تو لاہور سے اقبال اکادمی کے سہیل عمر صاحب کو ۱۰۵ صفحات کا کتابچہ ’’میارا بزم بر ساحل کہ آنجا‘‘ شائع کرنا پڑا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر خداکا شکر ادا کیا کہ ابھی علمی بحث کرنے والے دانشور باقی ہیں۔ اتنے میں ’الشریعہ‘ آگیا۔ اب اتفاق دیکھئے کہ ہر چند الشریعہ اس بحث کا حصہ نہیں، لیکن موضوع ایک ہی ہے۔ آپ نے ا س موضوع کے لیے مناسب وقت کا انتخاب کیا اور نہایت اعلیٰ علمی مضامین کو جگہ دی ہے۔
کلمہ حق میں آپ نے لکھاہے کہ :
’’علامہ محمد اقبال نے اجتہاد کے بند ہونے کے حوالے سے اپنے خطبے میں جوکچھ کہاہے، وہ اسی خلا کی نشان دہی ہے لیکن وہ خود مجتہد اور فقیہ نہیں تھے اور نہ ہی اجتہاد اور فقہ سے ان کا کبھی علمی واسطہ رہاہے۔ اس لیے ایک مفکر کے طورپر خلا کی نشان دہی اور اسے پر کرنے کی ضرورت کا احساس دلانے کی حد تک ان کی بات بالکل درست ہے مگر اس کے عملی پہلوؤں، ترجیحات اور دائرہ کار کا تعین چونکہ ان کے شعبہ کاکام نہیں تھا، اس لیے اس باب میں ان کے ارشادات پر گفتگو کی خاصی گنجائش موجود ہے اور یہ گفتگو اس موضوع کا تقاضا بھی ہے‘‘۔
ڈاکٹر وحید عشرت صاحب کو اقبال کے حوالے سے ایسی باتیں سخت ناپسند ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
’’علامہ سید سلیمان ندوی کی ذہنی اور علمی صلاحیت تھی ہی نہیں کہ وہ خطبات کے گہرے مطالب کا ادراک کرسکیں‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کا یہ خط آپ نے بھی پڑھ لیا ہوگا۔ اس پرزیادہ گفتگو کیا کی جائے۔ آپ نے بروقت یہ نمبر شائع کیا ہے۔ دیکھئے ڈاکٹر وحید عشرت صاحب آپ کے بارے میں کیا تحریر فرماتے ہیں۔ اور یہ موضوع کہاں تک جائے گا او ربحث میں کون کون شریک ہوں گے اور اگر یہ موضوع چل نکلا تو اقبال اکادمی کو کتب لکھنے اور شائع کرانے پر خصوصی گرانٹ منظور کروانی پڑے گی۔
جاوید اختر بھٹی
۱/۵۱۷، ریلوے ر وڈ، ملتان

دینی مدارس کے اساتذہ کی تربیت کے موضوع پر ورکشاپ

ادارہ

۱۴ نومبر ۲۰۰۶ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ’’دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے تربیتی نظام کی ضرورت اور تقاضے‘‘ کے عنوان پر ایک روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیاگیا جس میں مختلف دینی مدارس کے اساتذہ اور منتظمین نے شرکت کی۔ پہلی نشست کی صدارت بزرگ عالم دین مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی نے کی، دوسری نشست مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے مہتمم مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی کی زیر صدارت منعقد ہوئی جبکہ تیسری نشست کی صدارت کے فرائض اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے انجام دیے۔ ورکشاپ سے خطاب کرنے والوں میں مذکورہ بالا حضرات کے علاوہ جامعہ اسلامیہ کامونکی کے مہتمم مولانا عبدالرؤف فاروقی، پاکستان شریعت کونسل صوبہ پنجاب کے امیر مولانا عبدالحق خان بشیر، مولانا مشتاق احمد، پروفیسر حافظ منیر احمد، پروفیسر محمد اکرم ورک، پروفیسر انعام الرحمن اور دیگر حضرات کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو دائرۂ معارف اسلامیہ کے صدر ڈاکٹر محمود الحسن عارف نے بطور مہمان خصوصی خطاب کیا، جبکہ الشریعہ اکادمی کے ناظم مولانا حافظ محمد یوسف نے گزشتہ سال کی رپورٹ اور آئندہ سال کے پروگرام کی تفصیل پیش کی۔ ورکشاپ کی تیسری نشست دینی مدارس کے اساتذہ کے درمیان باہمی مشاورت کے لیے مخصوص تھی جس میں اساتذہ نے ورکشاپ میں مختلف حضرات کی طرف سے کی جانے والی گفتگو کی روشنی میں تبادلہ خیالات کیا اور متعدد سفارشات پیش کیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
  • دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے ایک مستقل تربیتی نظام کی ضرورت ہے جس کا اہتمام دینی مدارس کے وفاقوں اور ملک کے بڑے دینی اداروں کو کرنا چاہیے۔ اس نظام میں ایسا جامع کورس ترتیب دیاجائے جو فکری، روحانی، اخلاقی، علمی اور فنی حوالوں سے اساتذہ کو ضروری تقاضوں سے باخبر کرنے اور ان کے مطابق ان کی عملی تربیت پر مشتمل ہواور اس میں تعلیمی اور فنی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ حالات زمانہ اور مستقبل کی ضروریات کو بھی پیش نظر رکھا گیاہو۔
  • دینی مدارس کے مہتمم حضرات کو توجہ دلائی جائے کہ وہ کسی استاذ کے انتخاب کے لیے اپنی موجودہ اور روایتی ترجیحات کا از سرِنو جائزہ لیں اور ادارہ سے وابستگی اور علمی استعداد اور ذوقِ تدریس کے ساتھ ساتھ فکری رحجانات اور اخلاقی ودینی معیار کا بھی لحاظ رکھیں اور اجتماعی وملی سوچ اور وسیع تر دینی مفادات کو ترجیح دی جائے۔
  • بڑے دینی مدارس میں سال کے مختلف حصوں میں اساتذہ کے لیے مختصر دورانیے کے ریفریشر کورسز کا اہتمام کیا جائے جن میں انہیں تعلیم وتدریس کے فنی تقاضوں اور دینی وفکری تربیت کی ضروریات کی طرف توجہ دلائی جائے اور جدید تحقیقات ومعلومات سے انہیں آگاہ کیا جائے۔
  • دینی مدارس اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو صرف دینی مدرسہ کی چار دیواری تک محدود نہ رکھیں بلکہ ارد گرد بسنے والے عام مسلمانوں کو بھی اپنے تعلیمی نظام میں شریک کریں اور ان کے لیے ترجمہ قرآن کریم، عربی گریمراور فہم دین کورس کا اہتمام کریں۔
اس موقع پر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی طرف سے اعلان کیا گیاکہ اس سال اکادمی میں دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے تین ریفریشر کورسز کا اہتمام کیا جائے گا۔ ورک شاپ میں شریک ہونے والے اہل علم کے بیانات اور اساتذہ کے مذاکرے کی تفصیلی روداد بعد میں شائع کی جائے گی۔ ان شاء اللہ۔

’’فہم دین کورس‘‘ کی مختلف کلاسز 

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام عوام الناس کی دینی واخلاقی تربیت کے حوالے سے ’’فہم دین کورس‘‘ کے عنوان سے ایک تعلیمی سلسلہ مستقل طور پر جاری ہے۔ اس سلسلے کے تحت اب تک خواتین وحضرات کے لیے متعدد کورسز مکمل کروائے جا چکے ہیں جن میں شریک ہونے والی خواتین کی تعداد ۴۰ کے قریب جبکہ مرد شرکا کی تعداد ایک سو سے زائد ہے۔ ان تعلیمی کورسز کے فوائد وثمرات کے پیش نظر اس سلسلے کو وسیع تر کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی اور اس سال رمضان المبارک میں شہر کی مختلف مساجد کے ائمہ اور خطبا کے ساتھ مشاورت کی روشنی میں اور ان کے تعاون سے ۲۳ مساجد میں ’’فہم دین کورس‘‘ کی کلاسز کا انعقاد کیا گیا۔ ان مساجد اور ائمہ وخطبا کے نام درج ذیل ہیں:
۱۔جامع مسجد فاروقیہ، گرجاکھ (مولانا عبدالواحد رسول نگری) ، ۲۔جامع مسجد حدیبیہ ، زاہد کالونی (مولانا محمد طارق بلالی)، ۳۔جامع مسجد مریم، راناکالونی (مفتی حسین احمد)، ۴۔جامع مسجد ابو ذرؓ، جہانگیر کالونی (مولانا مجاہد اختر)، ۵۔جامع مسجد سکینہ حمیدیہ، پیپلز کالونی (مولانا مفتی محمد نعمان)، ۶و ۷۔ مسجد خدیجۃ الکبریٰ، الشریعہ اکادمی وجامع مسجد گنبد والی،ہاشمی کالونی (مولانا محمد یوسف) ، ۸۔حمیدیہ مسجد، سرفراز کالونی (مولانا عبدالرحمن) ، ۹۔جامع مسجد مکی، کوہلو والہ (حافظ محمد منیر) ، ۱۰۔جامع مسجد خالد بن ولید، اسد کالونی (مولانا محمد داؤد خان نوید) ، ۱۱۔جامع مسجد قبا، کھیالی اڈا (مولانا عبدالحمید)، ۱۲۔جامع مسجد فیصل، آفتاب مارکیٹ (مولانا عبدالکریم)، ۱۳۔ جامع مسجد سعید، فیض عالم ٹاؤن (قاری امتیاز احمد)، ۱۴۔ جامع مسجد حمیدیہ صفدریہ، لوہیانوالہ (مولانا قاری محمد ادریس)، ۱۵۔جامع عثمان غنیؓ، غازی پورہ (مولانا محمد ابراہیم خلیل)، ۱۶۔ جامع مسجد تقویٰ، ڈی سی روڈ (مولانا سیف اللہ)، ۱۷۔جامع مسجد توحیدیہ، محمد نگر کالونی، کھیالی (حافظ محمد زکریا)، ۱۸۔جامع مسجد دارالسلام، کھیالی اڈا (مولانا عبدالوکیل)، ۱۹۔جامع مسجد خاتم النبیین، شہزادہ شہید کالونی (مولانا انعام الرحمن)، ۲۰۔ جامع مسجد زبیدہ حنیف، عرفات کالونی (قاری محمد اکرم زبیری)، ۲۱۔ دارالعلوم انوریہ، اجمل ٹاؤن (مولانا مفتی غفران اللہ)، ۲۲۔جامع مسجد رشیدیہ، برتن والا بازار (قاری عقیل احمد) ۔
اس کورس کی ضرورت اور افادیت کو محسوس کرتے ہوئے اس سلسلے کو وسیع پیمانے پر عام کرنے اور زیادہ سے زیادہ عوام کو اس سے فائدہ پہنچانے کے لیے ایک منظم پروگرام کی ترتیب زیر غور ہے۔ اسی ضمن میں اکادمی کے زیر اہتمام مساجد کے ائمہ اور خطبا کی تربیت کے لیے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد بھی کیا جائے گا جس میں تجربہ کار اور سینئر علما ان کی راہنمائی کریں گے اور ائمہ وخطبا عوام کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے ایک دوسرے کے تجربات، مشوروں اور تجاویز سے بھی استفادہ کر سکیں گے۔