جنوری ۲۰۰۶ء
’الشریعہ‘ کی سترہویں جلد کا آغاز
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بحمد اللہ تعالیٰ زیر نظر شمارے کے ساتھ ہم ’الشریعہ‘ کی سترہویں جلد کا آغاز کر رہے ہیں۔ آج سے کم وبیش سولہ سال قبل اکتوبر ۱۹۸۹ء میں ’الشریعہ‘ نے ماہوار جریدے کے طور پر اپنا سفر شروع کیا تھا اور اتار چڑھاؤ کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے یہ دینی وفکری ماہنامہ اپنی موجودہ شکل میں قارئین کے سامنے ہے۔
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے اس ترجمان کی ابتدا اس عزم کے ساتھ ہوئی تھی کہ دور حاضر کے مسائل اور چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات واحکام کو جدید اسلوب اور تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی، عالم اسلام کے علمی ودینی حلقوں کے درمیان رابطہ ومفاہمت کے فروغ کی راہ ہموار کی جائے گی، اسلام دشمن لابیوں اور حلقوں کے تعاقب اور نشان دہی کا فریضہ انجام دیا جائے گا اور دینی حلقوں میں فکری بیداری کے ذریعے سے جدید دور کے علمی وفکری چیلنجز کا ادراک واحساس اجاگر کیا جائے گا۔ ان مقاصد کی طرف ہم کس حد تک پیش رفت کر پائے ہیں، اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ ہمارے لیے یہ بات بہرحال اطمینان بخش ہے کہ یہ اہداف ومقاصد بدستور ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں اور ہم اپنی بساط اور استطاعت کی حد تک ان کے لیے مسلسل مصروف عمل ہیں۔
اس دوران میں ہماری بھرپور کوشش رہی ہے کہ پیش آمدہ مسائل پر دینی حلقوں میں بحث ومباحثہ کاماحول پیدا ہو اور کسی بھی مسئلہ پر اپنا موقف پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے فریق کا موقف اور دلائل بھی حوصلہ اور اطمینان کے ساتھ سننے اور پڑھنے کا مزاج بنے، کیونکہ اس کے بغیر کسی مسئلہ پر صحیح رائے اور نتیجہ تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں تحقیق، مطالعہ، مباحثہ اور مکالمہ کی روایت ابھی تک جڑ نہیں پکڑ سکی اور چند شخصیات کے استثنا کے ساتھ عمومی ماحول یہی ہے کہ دلائل کی روشنی میں رائے قائم کرنے کے بجائے رائے قائم کر کے اس کے لیے دلائل تلاش کیے جاتے ہیں۔ ہماری کوشش رہی ہے اور آئندہ بھی ان شاء اللہ تعالیٰ رہے گی کہ دینی حلقوں، بالخصوص علماء کرام اور طلبہ کو دنیا کے معروضی حالات اور حقائق سے آگاہی حاصل کرنے اور آج کے معاصر علمی وفکری حلقوں کے موقف، دلائل اور طرز استدلال سے شناسا ہونے کے لیے آمادہ کیا جائے اور انھیں اس ضرورت کا احساس دلایا جائے کہ آج کی دنیا سے بات کرنے کے لیے آج کی زبان اور اسلوب پر دسترس ناگزیر ہے اور ہم ماضی کے اسلوب اور طرز استدلال کے ذریعے سے آج کی دنیا تک اسلام کا پیغام اور تعلیمات پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
یہ بات بھی ہمارے ایجنڈے کا حصہ چلی آ رہی ہے کہ جدید اسلوب اور طرز استدلال کی طرح ابلاغ کے جدید ذرائع اور تکنیک تک دینی حلقوں اور علماء کرام کی رسائی بھی انتہائی ضروری ہے اور ہم اس ضرورت کی طرف دینی حلقوں کو مسلسل توجہ دلا رہے ہیں۔
ہم وہی بات کہہ رہے ہیں جو تین صدیاں قبل حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے فرمائی تھی کہ آنے والے دور میں دین کو صحیح طور پر پیش کرنے کے لیے عقلی استدلال کے ہتھیار سے کام لینا ہوگا اور فکری جمود کے دائرے سے نکل کر کھلے دل ودماغ کے ساتھ مسائل کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب نے یہ بات تین سو سال قبل کے ماحول میں فرمائی تھی اور ہم اسی بات کو تین سو سال کے بعد آج کے حالات اور تناظر میں دینی حلقوں اور ارباب علم ودانش کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ممکن ہے بعض دوستوں کو ہمارا کہنے کا انداز حضرت شاہ صاحب سے مختلف دکھائی دے، مگر مقصد اور ہدف کے اعتبار سے ہم وہی کچھ عرض کر رہے ہیں جو تین صدیاں قبل امام ولی اللہ دہلویؒ پورے شرح وبسط کے ساتھ تحریر فرما چکے ہیں۔
ہمارا طریق کار یہ رہا ہے کہ بعض مسائل کو ہم از خود چھیڑتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہمارا موقف بھی وہی ہو جو کسی مسئلہ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے ’الشریعہ‘ کے صفحات میں پیش کیا گیا ہے، مگر ہماری خواہش ہوتی ہے کہ دینی حلقوں کے ارباب فکر ودانش اس طرف توجہ دیں، مباحثہ میں شریک ہوں،اپنا نقطہ نظر دلائل کے ساتھ پیش کریں، جس موقف سے وہ اختلاف کر رہے ہیں، اس کی کمزوری کو علمی انداز سے واضح کریں اور قوت استدلال کے ساتھ اپنے موقف کی برتری کو واضح کریں، کیونکہ اب وہ دور نہیں رہا کہ کسی مسئلہ پر آپ اپنی رائے پیش کر کے اس کے حق میں چند دلائل کا تذکرہ کرنے کے بعد مطمئن ہو جائیں کہ رائے عامہ کے سامنے آپ کا موقف واضح ہو گیا ہے اور آپ کی بات کو قبول کر لیا جائے گا۔ آج کا دور تقابلی مطالعہ کا دور ہے، تجزیہ واستدلال کا دور ہے اور معروضی حقائق کی تفصیلات وجزئیات تک رسائی کا دور ہے۔ آپ کو یہ سارے پہلو سامنے رکھ کر اپنی بات کہنا ہوگی اور اگر آپ کی بات ان میں سے کسی بھی حوالے سے کمزور ہوگی تو وہ پذیرائی حاصل نہیں کر سکے گی۔ ہم جب کسی مسئلے پر بحث چھیڑتے ہیں تو امکانی حد تک اس کے بارے میں تمام ضروری پہلووں کو اجاگر کرنا ہمارا مقصد ہوتا ہے اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ’الشریعہ‘ میں شائع ہونے والے کسی موقف کے حق میں یا اس کے خلاف موصول ہونے والا کوئی مضمون یا مراسلہ اشاعت سے رہ نہ جائے اور اس بحث کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہے۔
اس صورت حال سے بعض دوستوں کو الجھن ہوتی ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں، مگر ہمارے خیال میں یہ الجھن عام طور پر دو وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک اس وجہ سے کہ بہت سے دوست ہمارے اس طریق کار اور مقصد کو سمجھ نہیں پاتے جس کا سطور بالا میں تذکرہ ہو چکا ہے اور دوسرا اس وجہ سے کہ ہمارے خاندانی پس منظر کے باعث بہت سے دوست ’الشریعہ‘ کو ایک مسلکی جریدہ کے طور پر دیکھنے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ جہاں تک ہمارے مسلک ومشرب کا تعلق ہے، ہم نے سولہ برس قبل ’الشریعہ‘ کے پہلے شمارے میں ہی یہ بات دوٹوک طور پر واضح کر دی تھی کہ ہم اہل السنۃ والجماعۃ میں سے ہیں اور اہل سنت کے مسلمات کی پابندی کو اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم فقہی مذہب کے لحاظ سے حنفی ہیں اور فروع واحکام میں حنفی مذہب کے اصول اور تعبیرات کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ مسلک ومشرب کے حوالے سے دیوبندی ہیں اور اکابر علماء دیوبند کثر اللہ جماعتہم کی جدوجہد اور افکار سے راہ نمائی حاصل کرنا اپنے لیے باعث سعادت تصور کرتے ہیں، لیکن ’الشریعہ‘ کو مسلکی ترجمان کے طور پر ہم نے کبھی پیش نہیں کیا۔ مسلک کی ترجمانی کے لیے ملک میں درجنوں جرائد موجود ہیں اور ہم بھی اس مقصد کے لیے ان سے حتی الوسع تعاون کرتے ہیں، مگر ہمارا عملی میدان اس سے بالکل مختلف ہے۔ ہماری تگ وتاز کا دائرہ فقہی اور مسلکی کشمکش نہیں، بلکہ مغرب کے فکر وفلسفہ اور تہذیب وثقافت کی وسیع تر یلغار کے تناظر میں اسلامی تعلیمات واحکام کو جدید زبان اور اسلوب میں پیش کرنا ہے۔ اس کا مطلب فقہی اور مسلکی جدوجہد کی ضرورت سے انکار نہیں بلکہ یہ ایک تقسیم کار ہے کہ دینی جدوجہد کا یہ شعبہ ہم نے اپنی جدوجہد کے لیے مختص کر لیا ہے اور اسی میں اپنی صلاحیتیں صرف کرنا چاہتے ہیں۔
بعض دوستوں نے یہ شکوہ کیا ہے کہ ’الشریعہ‘ میں بسا اوقات ایک ہی مسئلہ پر متضاد مضامین شائع ہوتے ہیں اور بعض مضامین اہل سنت، حنفیت اور دیوبندیت کے حوالوں سے روایتی موقف سے متصادم ہوتے ہیں۔ ہمیں اس سے انکار نہیں ہے، مگر اس کی وجہ وہی ہے جس کا سطور بالا میں ہم تذکرہ کر چکے ہیں کہ ہم علمی وفکری مسائل میں ارباب علم ودانش کو بحث ومباحثہ کے لیے کھلا ماحول اور فورم مہیا کرنا چاہتے ہیں اور دینی حلقوں میں باہمی مکالمہ کا ذوق بیدار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ طریق کار ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی جاری رہے گا، تاہم اب اسے قدرے محدود اور معین ومشخص کیا جا رہا ہے، اس طور پر کہ ’الشریعہ‘ کے ہر شمارے کے ایک تہائی صفحات اس طرح کے کھلے مباحثے کے لیے مخصوص کیے جا رہے ہیں جن میں کسی بھی اہم مسئلہ پر مختلف نقطہ ہائے نظر پیش کیے جائیں گے اور کسی بھی نقطہ نظر کی حمایت یا مخالفت میں موصول ہونے والا ہر وہ مضمون شامل اشاعت ہوگا جو طعن وتشنیع اور مناظرانہ موشگافیوں سے گریز کرتے ہوئے افہام وتفہیم کے سنجیدہ اور علمی اسلوب میں تحریر کیا گیا ہو۔ زیر نظر شمارے سے اس سلسلے کو ’’مباحثہ ومکالمہ‘‘ کا مستقل عنوان دیا جا رہا ہے اور یہ بات اصولاً واضح رہنی چاہیے کہ اس عنوان کے تحت شائع ہونے والے کسی مضمون سے ادارہ کامتفق ہونا ضروری نہیں۔
ان گزارشات کے ساتھ ’الشریعہ‘ کی اشاعت کے سولہ سال مکمل ہونے اور سترہویں جلد کے آغاز پر میں ان رفقا کا تذکرہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں جن کی کاوش اور محنت کا ’الشریعہ‘ کو موجودہ مقام تک پہنچانے میں بہت بڑا حصہ ہے۔
’الشریعہ‘ کی ادارت اور ترتیب وغیرہ کی تمام تر ذمہ داری عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے سنبھال رکھی ہے اور وہ بحمد اللہ تعالیٰ پوری محنت اور ذوق کے ساتھ اسے نباہ رہے ہیں۔ عزیز موصوف کو اس سلسلے میں پروفیسر محمد اکرم ورک، مولانا حافظ محمد یوسف اور پروفیسر میاں انعام الرحمن کی پرخلوص رفاقت اور پروفیسر محمد یونس میو، پروفیسر حافظ منیر احمد، جناب شبیر احمد میواتی اور پروفیسر حافظ سمیع اللہ فراز کی مسلسل مشاورت حاصل ہے، جبکہ الشریعہ کی کمپوزنگ، طباعت اور اسے انٹرنیٹ اور ڈاک کے ذریعے سے قارئین تک پہنچانے میں عزیزم ناصر الدین خان سلمہ، عبد الرزاق خان، مولانا فضل حمید اور حافظ محمد آصف مہر کی محنت قابل ذکر اور قابل داد ہے۔
میں ان سب حضرات کی محنت اور قارئین کی طرف سے حوصلہ افزائی کا معترف ہوں اور سب کا شکریہ ادا کرتے ہوے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ اور ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے ذریعے سے اسلام اور ملت اسلامیہ کی علمی وفکری خدمات جاری رکھنے کی توفیق دیں اور اپنے اہداف ومقاصد میں کامیابی سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
رینڈ کارپوریشن کی حالیہ رپورٹ
ڈاکٹر یوگندر سکند
"Three Years After: Next Steps in the war on Terror" (تین سال بعد: دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آئندہ مراحل)، یہ رینڈ کارپوریشن کی تازہ ترین دستاویز کا عنوان ہے جس میں مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں سے بحث کی گئی ہے اور اس میں مناسب تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ رینڈ کارپوریشن دائیں بازو کا ایک تحقیقی ادارہ ہے جس کے امریکی حکومت اور امریکی محکمہ دفاع اور انٹیلی جنس کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ یہ ادارہ دنیا پر امریکی غلبے کے حوالے سے مشہور ہے اور، جیسا کہ اس دستاویز سے بھی نمایاں طور پر اس بات کا اظہار ہوتا ہے، اس کی تحقیقی کاوشوں کا ہدف بھی اسی مقصد کو آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ یہ امریکا کے موثر ترین نو قدامت پسند اور صہیونیت کے حامی تھنک ٹینکس میں سے ہے اور اس کی مطبوعات دہشت گردی کے خلاف جنگ سمیت، جو اس دستاویز کا موضوع ہے، بنیادی ایشوز پر امریکی حکومت کی پالیسیوں کی عکاس بھی ہوتی ہیں اور ان کی تشکیل میں بھی مددگار ہوتی ہیں۔
اگر کوئی شخص دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے امریکی انتظامیہ کا زاویہ نظر سمجھنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اس دستاویز کا مطالعہ ناگزیر ہے، جو اپنے آپ کو ’’متعدد اعلیٰ ترین اور تازہ مطالعات کا حاصل‘‘ قرار دیتی ہے۔ سرسری نظر ڈالنے سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ رپورٹ دہشت گردی کے اسباب کے ایک نہایت غلط اور ناقص فہم پر مبنی ہے۔ چنانچہ اصل اسباب کو قصداً نظر انداز کرتے ہوئے اس میں جو حل تجویز کیے گئے ہیں، ان سے صورت حال کے مزید الجھنے اور زیادہ پیچیدہ ہو جانے کا خطرہ ہے۔
دستاویز کے مصنفین رینڈ کے خود ساختہ ماہرین ہیں جو امریکی حکومت کے محکموں سے قریبی طور پرمتعلق ہیں اور ان میں سے بعض یہودی پس منظر کے حامل ہیں۔ ان کے نقطہ نظر کے مطابق دہشت گردی کی واحد قسم جو غور وفکر اور توجہ کی مستحق ہے، صرف وہ ہے جسے ذرائع ابلاغ میں عام طور پر ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ چنانچہ امریکی ریاستی دہشت گردی کا تو ذکر ہی کیا جس کا وحشیانہ اظہار آج عراق میں ہو رہا ہے، اس دستاویز میں لگے بندھے خیالات کا اظہار کرنے والے ماہرین دہشت گردی کی دوسری مختلف شکلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اسلامی دہشت گردی کو دہشت گردی کی واحد شکل سمجھتے ہیں اور اسے امریکی مفادات کے لیے ایک بنیادی چیلنج بھی قرار دیتے ہیں۔
اسلامی دہشت گردی کی تشخیص میں بھی رینڈ کے خود ساختہ ماہرین ایک ناقابل معافی جہالت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ بھی نرم الفاظ ہیں، ورنہ اس کے لیے دھوکے کا لفظ زیادہ بہتر ہے۔ متعدد مسلم ممالک میں بے اطمینانی کے اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی اسباب کو نظر انداز کرتے ہوئے، جن میں امریکی حمایت کے بل بوتے پر فلسطین پر اسرائیلی قبضہ اور مسلم ممالک میں جابر پٹھو حکمرانوں کی امریکی حمایت بھی شامل ہیں، یہ ماہرین اسلامی تشدد پسندی کو محض ایک نظریاتی مظہر سمجھتے ہیں۔ دستاویز کے ایڈیٹر داؤد ہارون ، جو امریکی حکومت کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار ہیں اور اس وقت رینڈ کارپوریشن کے ساتھ سینئر فیلو کی حیثیت سے منسلک ہیں، کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ ایک نظریاتی جنگ ہے جس میں اسلامی تشدد پسندی کا کردار وہی ہے جو کسی زمانے میں امریکی تصورات کے مطابق کمیونزم ادا کر رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی تشدد پسندی کا نظریہ عملی حالات واثرات سے بالکل مجرد ہے اور اس کا کوئی تعلق ان سماجی حقائق سے نہیں ہے جو اس کو پیدا کرنے اور اسے تسلسل دینے کے ذمہ دار ہیں۔ مسلم بے اطمینانی کے تمام اسباب اسلام کے ایک غلط اور گمراہ کن فہم کا نتیجہ ہیں اور امریکی پالیسیوں کا نہ اس سے کوئی تعلق نہیں اور نہ وہ رد عمل میں پیدا ہونے والی اسلامی انتہا پسندی کی ذمہ دار ہیں۔ اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ سرد جنگ کے زمانے میں امریکی بالادستی کی مخالف اور بائیں بازو کی قوتوں کے خلاف لڑنے کے لیے امریکہ نے اسلامی گروپوں کی امداد اور حمایت کی جو پالیسی اختیار کی تھی، وہ اب طاق نسیاں کی نذر ہو گئی ہے کیونکہ سابقہ دوست اب دشمن بن گئے ہیں۔
مسلم بے اطمینانی کے اصل وجوہ پر بحث کرنے کے بجائے، جس کے نتائج میں ایک حد تک اسلامی تشدد پسندی بھی شامل ہے، اس دستاویز کے مصنفین کے تجویز کردہ حل امریکی غلبے اور صہیونی مفادات کے تحفظ کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔ وہ اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ امریکی پالیسی بنیادی طور پر درست ہے اور امریکا کے لیے خود احتسابی یا مسلم دنیا اور اسرائیل کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چنانچہ یہ بات باعث حیرت نہیں کہ دستاویز میں مسلم بے چینی کے ممکنہ اسباب کے تحت درج ذیل حقائق کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا: اسرائیلی مظالم، عراق پر امریکہ کی عائد کردہ پابندیاں جن کی وجہ سے لاکھوں بچے موت کی وادی میں جا پہنچے، سالہا سال تک اسلامی گروپوں کی حمایت کے بعد افغانستان پر امریکی بمباری ، عراق پر امریکی اور برطانوی فوجوں پر حملہ اور اس پر کا قبضہ۔ اس طرح کی کسی چیز کا کوئی ذکر نہیں اور مسلم رد عمل کو محض ایک نظریاتی انحراف اور بے راہ روی قرار دیا گیا ہے۔ اسلامی تشدد پسندی کی توجیہ اس خلاف حقیقت تناظر میں کرنے کے باعث مصنفین نے مسئلے کے صرف دو حل پیش کیے ہیں۔ ایک، اسلام مخالف بحث ومباحثہ کے فروغ کے ذریعے انتہا پسند اسلام کا نظریاتی سطح پر مقابلہ اور دوسرا ہر طرح کی میسر طاقت کا بھرپور استعمال کر کے انتہا پسند مسلمانوں کا خاتمہ۔
پہلا حل رینڈ کارپوریشن کے ایک ماہر چیری بنارڈ نے، جو بش کے اعلیٰ سطحی معاون اور عراق میں امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کی اہلیہ ہیں، اپنے مقالے ’’اسلام میں جمہوریت: اسلامی دنیا میں جدوجہد۔ امریکہ کے لیے حکمت عملی‘‘ میں پیش کیا ہے۔ یہ مقالہ بھی اسی بنیادی مفروضے پر مبنی ہے کہ امریکی پالیسیاں مسلم بے اطمینانی یا مخالفانہ رد عمل کو جنم دینے کی ذمہ دار نہیں ہیں اور اس کے بجائے انتہا پسند اسلام کی اصل وجوہ اسلام کی چند مخصوص تعبیرات میں پائی جاتی ہیں ، جسے انھوں نے ’’اسلام کی داخلی کشمکش‘‘ کا نام دیا ہے۔ بینارڈ نے مضمون کے آغاز میں جارج بش کے اس قول کا مثبت انداز میں حوالہ دیا ہے کہ ’’فی الحقیقت ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عنوان ہی غلط رکھا ہے۔ اس کو نظریاتی انتہا پسندوں کے خلاف جدوجہد کہنا چاہیے جو آزاد معاشروں کے قیام پر یقین نہیں رکھتے اور دہشت گردی کو اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔‘‘
بینارڈ نے ایک بہت بڑا اور پرتخیل منصوبہ پیش کیا ہے جس کی امریکا کو پیروی کرنی چاہیے تاکہ اسلام کے ایک ایسے ورژن کو فروغ دیا جا سکے جو امریکی ہدایات کا فرماں بردار ہو۔ وہ اس قسم کے اسلام کو ’ماڈرنسٹ’ یعنی جدیدیت پسند اسلام کہتی ہیں اور اس سے ان کی مراد ایسا اسلام ہے جو مغربی پروٹسٹنٹ ازم سے معمولی طور پر ہی مختلف ہے اور سرمایہ دارارانہ نظام میں مطمئن رہ سکتا ہے۔ یہ نکتہ ان کے اس جملے سے، جو زیادہ گہرے تجزیے پر مبنی نہیں، واضح ہے کہ ’’جدیدیت ہی وہ چیز ہے جس نے مغرب کے لیے مفید کردار ادا کیا۔‘‘ یہ محسوس کرتے ہوئے کہ جن جدیدیت پسندوں کی حمایت کا وہ مشورہ دے رہی ہیں، ان کا اثر ورسوخ صرف اشرافیہ میں ہے اور عوامی سطح پر انھیں کوئی مقبولیت یا پیروی حاصل نہیں، بینارڈ تجویز کرتی ہیں کہ امریکہ کو جدیدیت پسندوں کے کاموں کی مختلف شکلوں میں طباعت کے لیے امداد دینی چاہیے مثلاً ویب سائٹس، نصابی کتب، پمفلٹس اور کانفرنسز وغیرہ۔ ان کی رائے میں ’’امریکہ کو جدیدیت پسندوں کو مثالی نمونے اور راہنما کے طور پر مقبول بنانا چاہیے اور ان کے پیغام کے ابلاغ کے لیے مواقع اور پلیٹ فارم مہیا کرنے چاہییں۔‘‘ ظاہر ہے کہ بینارڈ امریکہ کو جن جدیدیت پسندوں سے تعاون کا مشورہ دے رہی ہیں، انھیں امریکی تعاون اس وقت تک ہی حاصل رہے گا جب تک کہ ان کے غیظ وغضب کا رخ اسلام پسندوں کی طرف رہے گا، لیکن اگر وہ امریکی مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا چاہیں گے تو انھیں اس کی اجازت نہیں دی جائے گی، جیسا کہ تیسری دنیا کی بائیں بازو کی قوتوں کی مثال سے ظاہر ہے جنھیں کچل دینے میں امریکی تعاون اور سازباز بھی حصہ دار ہے۔
دستاویز میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے دوسرا حل عسکری قوت کا استعمال تجویز کیا گیا ہے۔ یہ بھی اس مفروضے پر مبنی ہے کہ امریکی پالیسیوں میں تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں، امریکہ بالکل معصوم ہے اور اسلامی تشدد پسندی محض مذہب کے ساتھ جنونی لگاؤ کا نتیجہ ہے۔ بش حکومت کا معیاری موقف بھی یہی ہے۔ دستاویز میں اس موقف کو سابق امریکی ڈپٹی سیکرٹری آف ڈیفنس اور ورلڈ بینک کے حالیہ صدر پال ولفووٹز نے پوری قوت سے پیش کیا ہے، جو عراق پر امریکی حملے کے بنیادی منصوبہ سازوں میں سے ایک ہیں۔ امریکہ کے ظالمانہ امپریلسٹ ماضی، افریقی غلامی کے داغ، مقامی باشندوں کی امریکی نوآباد کاروں کے ہاتھوں تباہی، اور نام نہاد تیسری دنیا میں بلامبالغہ لاکھوں انسانوں کی ہلاکت جس کا امریکہ بنیادی طور پر ذمہ دار ہے، ان تمام حقائق سے آنکھیں چراتے ہوئے ولفووٹز یہ معصومانہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور عراق پر حملہ نہ قبضے کی غرض سے ہے اور نہ امریکہ کی شہنشاہیت قائم کرنے کے لیے ، اس کے بجائے یہ ایک اصولی جنگ ہے اور اس کا محرک آزادی اور جمہوریت کے ساتھ وابستگی کا وہ تصور ہے جس نے امریکی تاریخ کے آغاز ہی سے امریکہ کو متحرک کیے رکھا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’’امریکی قوم شر کے مقابلے کے لیے ہمیشہ میدان میں رہی ہے۔‘‘ اسے ناواقفیت کہہ لیجیے یا صریح دھوکہ، لیکن اگر ولفووٹز کو یہ توقع ہے کہ ان کا یہ دعویٰ امریکہ کے دامن سے سنگین جرائم کا داغ دھو سکتا ہے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ امریکی پالیسیاں بہت بڑی حد تک مسلم بے اطمینانی کی ذمہ دار ہیں، لیکن ولفو وٹز اس کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ اس کا سبب ’’دہشت گردانہ جنونیت‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ نتیجتاً وہ عراق پر امریکی حملے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نمایاں طور پر اسی طرح جائز اور برحق قرار دیتے ہیں جس طرح سفید فام مغربی آباد کار امریکہ کی سیاہ فام آبادی پر حملہ کرنے اور ان کو محکوم وغلام بنانے کو قرار دیتے تھے۔ ان آباد کاروں کے نزدیک بھی یہ ایک مہذب مشن تھا اور پال وولفووٹز کے الفاظ میں امریکہ بھی ’’ایک منصفانہ اور پر امن دنیا‘‘ کی تشکیل کے لیے دہشت گردوں کے جبر، موت اور مایوسی کے مقابلے میں زندگی، امید اور آزادی کا وژن پیش کر رہا ہے ۔ وہ بش کی عراق پالیسی کا ذکر ’آزادی کی طاقت کی کہانی‘ کے الفاظ میں کرتے ہیں اور عراق میں امریکی فوجیوں کو ’’غیر معمولی بہادر جوان امریکی‘‘ قرار دیتے ہیں ’’جو اپنی زندگیوں کو اس لیے خطرے میں ڈال رہے ہیں تاکہ دوسرے لوگ آزادی سے مستفید ہو سکیں اور تاکہ خود ہمارے اپنے لوگ زیادہ حفاظت سے زندگی بسر کر سکیں‘‘ ۔
ولفووٹز کو اصرار ہے کہ جمہوریت عراقیوں پر نافذ کرنی چاہیے اور اگر وہ مزاحمت کریں تو انھیں موت کی دھمکی دے کر اسے قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ گویا عراق پر امریکی حملہ ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبے کے تحت کیا گیا ہے اور اس کا کوئی واسطہ سستے تیل کے حصول یا وسیع تر مسیحی بنیاد پرست صہیونی ایجنڈے سے نہیں۔ کم از کم ولفووٹز ہمیں یہی باور کرانا چاہتے ہیں۔ وہ امریکی حملے کو یوں پیش کرتے ہیں جیسے اس کا محرک جمہوریت کے فروغ کا ایک بے پایاں جذبہ ہے۔ تاہم اس نکتے پر ان کی خاموشی ہرگز باعث حیرت نہیں کہ امریکہ دنیا کی بعض بدترین غیر جمہوری حکومتوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔
عراق امریکی قابض فوجوں کی موجودگی کو انسانی واخلاقی جواز دینے کی غرض سے وہ ایک نا معلوم عراقی خاتون کا حوالہ دیتے ہیں جس نے مبینہ طور پر ایک جمہوری معاشرے کے روزوشب کو دیکھنے کے لیے امریکہ کا دورہ کیا اور وائٹ ہاؤس میں صدر بش سے ملاقات کے دوران میں کہا کہ ’’اگر امریکی افواج قربانی نہ دیتیں تو عراقی خواتین کو کبھی جمہوریت سے متعلق جاننے کا موقع میسر نہ آتا۔‘‘ یہاں نہ ان ہزاروں عراقیوں کا کوئی ذکر ہے جنھیں امریکی پابندیوں کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑے، نہ دس سال پر محیط عراق ایران جنگ میں عراق کی امریکی حمایت کا ، اور نہ ان ہزاروں عراقیوں کو جو امریکی حملے کے بعد سے اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ ولفووٹز ’’عراق میں امریکی فوجیوں کے عظیم کارناموں‘‘ کا ذکر تو بڑی فصاحت وبلاغت سے کرتے ہیں جو ان کے بیان کے مطابق اسکول قائم کر رہے ہیں، لوگوں کوان کے گھروں میں آباد کر رہے ہیں، حتیٰ کہ صرف پانچ پانچ ڈالر کی سائیکلیں عراقی بچوں میں تقسیم کر رہے ہیں، لیکن امریکی قبضے کے نتیجے میں مسلسل ہلاک ہونے والے ہزاروں عراقیوں سے متعلق انھوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
یہ بات نہیں کہ رینڈ رپورٹ کے مصنفین، جو سب کے سب اچھے عہدوں پر فائز اور پوری ط رح باخبر ہیں، اتنے ہی سادہ لوح، جاہل یا نرے احمق ہیں جتنے کہ وہ اپنی تحقیقی کاوشوں سے نظر آتے ہیں۔ بالکل واضح ہے کہ ان تجزیہ اور تجویز کردہ حل امریکی اور صہیونی غلبے کا تسلسل قائم رکھنے اور امریکی واسرائیلی مفادات کو لاحق کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ اگرچہ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مذہب سے پھوٹنے والی تشدد پسندی اور دہشت گردی بہرحال ایک بہت نازک سوال ہے، لیکن رینڈ رپورٹ کے مصنفین اس معاملے کو صرف مسلم گروہوں تک محدود کرتے ہیں جو کہ سراسر حقائق کے منافی ہے۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ مذہبی انتہا پسندی مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں ہے اور اگر ہم اس کا مقابلہ کرنے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں اس طرح کے تمام گروہوں کی طرف توجہ مبذول کرنی ہوگی۔ مسلمانوں کے علاوہ مسیحی، ہندو، یہودی اور دوسرے گروہ بھی ہیں جو مذہب کے نام پر نفرت اور دہشت پھیلا رہے ہیں۔ اسی طرح ریاستی دہشت گردی کو بھی، جس کو رینڈ رپورٹ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا عنوان دے کر جائز قرار دیتی ہے، مساوی درجے کا سنگین خطرہ سمجھنا ہوگا اور اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ مزید برآں مذہبی انتہا پسندی کو محض نظریاتی اصطلاحات میں نہیں سمجھا جا سکتا، جیسا کہ رینڈ رپورٹ میں کیا گیا ہے، بلکہ عالمی سطح پر امریکی بالادستی قائم کرنے کی کوششوں اور مغربی بالادستی کے نمائندہ سرمایہ دارانہ نظام کے تناظر میں اس کے پیچھے کار فرما پیچیدہ معاشی، ثقافتی اور سیاسی وجوہ و عوامل بھی زیر غور آنے چاہییں ۔ تب ہی ہم درست سوالات اٹھانے اور ان کے صحیح جواب دینے کے قابل ہوں گے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسا کام ہے جو رینڈ کارپوریشن کے ماہرین اور اس قبیل کے لوگوں کو نہیں سونپا جا سکتا۔
تدوین فقہ اور امام ابو حنیفہؒ کی خدمات
عاصم نعیم
بیسویں صدی مسلمانوں کے عروج و انحطاط کی مختلف داستانوں کو سمیٹتے ہوئے رخصت ہوچکی ہے۔ موجودہ صدی اسی تسلسل میں متعدد نئے منظر نامے پیش کر رہی ہے۔ نو آبادیاتی دور کے بعدمسلم دنیا اپنے دینی اور تہذیبی تشخّص کی حفاظت کے لیے جو کاوشیں کر رہی ہے، وہ مقدار اور معیار میں کم ہوتی محسوس ہو رہی ہیں ۔تہذیبوں اور تمدنوں کاتصادم بالکل عیاں ہو چکا ہے۔ اندریں حالات مسلم امّہ ایک ہمہ جہت بحران کا شکار ہے۔ سیاسی ،معاشی ،تعلیمی ،سماجی ،اور عسکری میدانوں میں اپنے نظریات وافکار کے بقا اور احیا کے احساس میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔تعلیم وتربیت اور ثقافت کے مسائل کے ساتھ ساتھ قیام عدل کے لیے فقہ وقانون ،عدالتی طریق کار اور نظام عدل کو موثر طور پر فعال بنانے ،قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے اور ان کے موثر نفاذ کے مسائل کو بنیادی اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔
عامّتہ المسلمین جہاں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق تشکیل دینے میں مصروف ہیں، وہیں ادارتی سطح پر وہ اپنے تعلیمی ،سیاسی ،اقتصادی،قانونی ،اور عدالتی نظام کو بھی اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔مسلم اہل دانش اس مقصد کے لیے اجتہاد وبصیرت اور اپنی باثروت روایات سے کام لے کر پیش آمدہ چیلنجوں کا حل تلاش کر رہے ہیں۔ (۱) ان میں قرآن وسنت کے مصادرِ اصلیہ کے ساتھ ساتھ صحابہؓ اور ازمنہ وسطیٰ کے ائمہ مجتہدین اور علما، فقہا اور اصحاب دانش کے لازوال علمی سرمایوں میں ہمارے لیے معاونت وراہ نمائی کا بیش بہا ذخیرہ موجود ہے۔یہ علمی سرمایہ ہمہ پہلو اور ہمہ جہت ہے ،جس کا آغاز تاریخی طور پر دیکھا جائے تو رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مسعود سے ہوتاہے۔آپؑ کے عہد میں اس وقت کی موجود دنیامیں نظام ہائے حیات بالکل مختلف تھے۔صاحب قرآن ؑ نے ہدایت رّبانی کے نچوڑ اور صحیفہ فطرت ،قرآن حکیم کی روشن تعلیمات سے اور اپنے حسنِ عمل سے عقائد وافکار، معاشرت،معیشت ،قانون وسیاست، تعلیم وتربیت غرض یہ کہ ہر شعبہ حیات میں جو تاریخی اور مثالی عظیم انقلاب برپا کیا، وہ کسی بھی صاحب علم ودانش سے مخفی نہیں۔ اغیار بھی حضورؑ کے مشن کی عظیم کامیابی کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم روحانی اعتبار سے بھی اور دینوی اعتبار سے بھی پوری تاریخ عالم میں سب سے کامیاب شخصیت ہیں۔(۲)
اس تمہید سے مقصود یہ ہے کہ قرآن حکیم اور سنت رسولؑ میں جو راہ نمااور زریں اصول موجود ہیں،وہ قیامت تک آنے والی نسل انسانی کے لیے ہر شعبہ حیات میں کامل راہ نمائی کے لیے کافی ووافی ہیں۔ہاں زمانے کی گردش، مختلف تہذیبوں اور تمدنوں کے امتزاج یا تصادم سے نئے ابھرنے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے حضورؑ کے فرمودہ طریق کے مطابق اجتہاد سے کام لینا ہو گا۔(۳)
احادیث کے معتبر ومستند مجموعوں میں بکثرت ایسی روایات ملتی ہیں کہ حضورؑ نے نہ صرف ذاتی اجتہاد سے ایک مسئلے کو واضح فرمایا، بلکہ علت ومعلول کے باہمی ربط اور ان وجوہ واسباب کی نشان دہی بھی فرما دی جو اس مسئلے میں بنیاد واساس کی حیثیت رکھتے ہیں۔(۴) یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ آپ کے عہد میں سر زمین حجاز کے باشندے تہذیب وثقافت اور معاملات ومعاشرت کے ضمن میں فطری سادگی کے حامل تھے، لہٰذا پیچیدہ مسائل کا بہت کم سامنا ہوا ۔تاہم سلطنت اسلامی کی روز بروز وسعت کے ساتھ جب بے شمار ممالک اور علاقے اسلام کی نورانیت سے منور ہو گئے اور مختلف ومتنوع تہذیبوں وتمدنوں سے تعلق رکھنے والے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تو نئے پیچیدہ مسائل سامنے آئے جنہیں یا خلافت راشدہ میں اجتماعی طور پر صحابہ کرام کی مشاورت سے حل کیا گیا یا پھر انفرادی سطح پر فتوے دیے گئے۔ (۵) مختلف وجوہ واسباب کی بنا پر کبار صحابہؓ کے فتووں میں کہیں کہیں اختلاف بھی نظر آتا ہے۔(۶) یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ عہد نبوی یا خلافت راشدہ کے دور میں بلکہ عہد عباسی کے ابتدائی دور تک اسلامی قانون کا سرکاری سطح پر تدوین نہیں ہوئی ۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے سلطنت اسلامی کا دائرہ وسیع ہوتا چلاگیااور اس دوسرے مرحلے میں پہلے سے کہیں ذیادہ پیچیدہ مسائل سامنے آئے جنہیں حل کرنے میں ائمہ اربعہ یعنی امام اعظم امام ابو حنیفہ، ؒ امام مالکؒ ،امام شافعیؒ ،اور امام احمد بن حنبل ؒ کے علاوہ امام جعفر صادقؒ ، امام سفیان ثوریؒ ،عبد الرحمن ابن ابی لیلیؒ ،لیث بن سعدؒ ،اسحاق بن راہویہؒ ، عبد الرحمن اوزاعیؒ اور داود ظاہریؒ وغیرھم کے اسما قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے بڑی گراں قدر خدمات انجام دیں اور شب وروز محنت اور ان تھک کوششوں سے فقہ اسلامی کے پودے کی آب یاری کی۔ تاہم مذاہب فقہ میں سب سے زیادہ مقبولیت اور شہرت فقہ حنفی کو حاصل ہوئی ۔چنانچہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے امام ابو حنیفہ ؒ کا تعارف کراتے ہوئے تحریر کیا ہے:
Abu Hanifa (d-767) founder of the Hanafi school of law, to which almost 80 percent of the Muslims in the world adhere. (7)
ڈاکٹر صبحی محمصانی نے فقہ حنفی کی ابتدا کا ذکر اور امام کا مختصر تعارف ان الفاظ میں پیش کیا ہے :
’’مذہب حنفی کوفہ میں پیدا ہوا جس کے بانی امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابتؒ ہیں جوامام اعظم کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ کی علمی زندگی کی ابتدا علم کلام کے مطالعے سے ہوئی۔ پھر آپ نے اہل کوفہ کی فقہ اپنے استاذ حماد بن ابی سلیمان (م ۱۲۰ھ) سے پڑھی ۔عملی زندگی کے لحاظ سے آپ ریشمی کپڑوں کے تاجر تھے۔علم کلام اور پیشہ تجارت نے آپ میں عقل ورائے سے استصواب کرنے ،احکام شرعیہ کو عملی زندگی میں جاری کرنے اور مسائل جدیدہ میں قیاس واستحسان سے کام لینے کی صلاحیت تامہّ پیدا کر دی تھی ۔‘‘ (۸)
کوفہ کا شہر عہد صحابہؓ میں وقیع علمی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ اور حضرت علیؓ کے تلامذہ کا مستقر تھا۔اسی شہر میں ۸۰ ھ میں امام ابو حنیفہ ؒ کی پیدائش ہوئی اور ۱۵۰ھ میں بغداد میں وفات پائی ۔(۹) آپ کی پرورش ایک خالص اسلامی گھرانے میں ہوئی ۔ (۱۰) الدکتور محمد یوسف موسیٰ نے آپ کی ابتدائی زندگی کے حالات اور تجارت میں آپ کی امانت ودیانت کا ذکر کرنے کے بعد علم فقہ کی طرف آپ کے میلان کی مختلف روایات بیان کی ہیں ۔(۱۱) امام ابو حنیفہ ؒ کی پوری زندگی ایک طرف زہد وتقویٰ سے مزینّ ،اخلاق فاضلہ سے آراستہ اور امانت ودیانت کی آئینہ دار ہے(۱۲) تو دوسری طرف علم وتحقیق،تدوین فقہ اور شب وروز نئے مسائل میں غور وفکر اور بحث وتمحیص اور اجتہادی مساعی کی عکاسی کرتی ہے اور بقول ڈاکٹر صبحی محمصانی وفورِعلم کی بنا پر انہیں امام اعظم کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔(۱۳) خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد (۱۴) اور خیر الدین زرکلی نے الاعلام (۱۵) میں امام شافعی ؒ کے مختلف اقوال ذکر کیے ہیں کہ لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ ؒ کے محتاج ہیں۔ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے صدر الائمہ الموفق المکّی کے حوالے سے محمد بن ابی مطیع کے والد کا واقعہ نقل کیا ہے کہ انھوں نے کوئی چار ہزار مشکل سوالات مرتب کیے جو مختلف فنون وواقعات سے متعلق تھے۔امام صاحب نے رفتہ رفتہ ان کے تمام سوالات کے کافی وشافی جوابات دے دیے۔ (۱۶) ابن خلدون نے مقدمہ میں امام صاحب کی اجتہادی بصیرت کوان الفاظ میں ہدیہ تحسین پیش کیا ہے : ’’ اہل عراق کے امام اور مذہبی پیشوا ابو حنیفہؒ النعمان بن ثابت،جن کا مقام فقہ میں اتنا ارفع اور اعلیٰ ہے کہ کوئی اس تک نہیں پہنچ سکا۔‘‘( ۱۷)
فقہ اسلامی کی تدوین کی ضرورت
امام ابو حنیفہ ؒ کے زمانہ سے قبل جلیل القدر تابعین حضرت علقمہ ؒ ،حضرت اسودؒ ،حضرت حمادؒ ،حضرت ابراہیم نخغیؒ وغیرہم اور اہل علم صحابہ کرام کے ہاں علم حدیث کی طرح فقہی مسائل کے استخراج واستنباط اور اجتہاد کو بھی اہمیت حاصل تھی اور فقہ واجتہاد کے بہت سے مسائل اور احکام مدوّن بھی ہو چکے تھے، مگر یہ باقاعدہ اور منظم تدوین نہ تھی اور نہ اسے ایک مستقل فن Science)) کی حیثیت حاصل تھی اور نہ ابھی تک استدلال واستنباط مسائل کے قواعد مقرر ہوئے تھے۔فقہ واجتہاد جو اپنے وسیع اور ہمہ گیرنظام اور جامع فن ہونے کی وجہ سے جزئیات مسائل پر حاوی ہے ،اس کو باقاعدہ ایک دستور اور قانون کے مرتبہ تک پہنچانے کے لیے ابھی بہت سے مرحلے باقی تھے ۔ہجرت کا ایک سو بیسواں سال تھا ۔امام ابو حنیفہؒ کے استاذ حمادؒ وفات پاچکے تھے ۔یہ وہ زمانہ تھا کہ جب تمدن میں وسعت کی وجہ سے عبادات ومعاملات میں کثرت مسائل کے واقعات پیش آنے لگے ۔تعلیم وتعّلم میں ترقی اور تنوّع ،تجارت کا فروغ ،ملکی تعلقات اور بین الاقوامی مسائل ومعاملات میں بے انتہا وسعتوں کے پیش نظر استفتا واستفسارِمسائل کی کثرت ہونے لگی ۔سرکاری قضاۃ وحکام شرعی کے قضایاوفیصلوں میں غلطی کے پیش نظر امام ابو حنیفہؒ کے دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ احکام ومسائل کے کثیر اور وسیع جزئیات کو اصولوں کے ساتھ ترتیب دے کر ایک فن بنایا جائے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا دستور العمل مرتب کر دیا جائے جس میں تمام چیزوں کی رعایت ہو۔یہ کام فقہ اسلامی کی مکمل تدوین اور اصولوں کی تعیین کے بغیر ممکن نہیں تھا۔چنانچہ امام ابو حنیفہؒ کی مجتہدانہ طبیعت اور متقیانہ مزاج نے ان کوخود اس فن کی ترتیب پر آمادہ کیا۔ظاہر ہے فقہ اسلامی کی تدوین اور ترتیب میں فقہ واجتہاد کے تمام پہلو شامل ہونے تھے، لہٰذا یہ ایک پر خطر اور حزم واحتیاط کا کام تھا۔
مجلس اجتہاد کی تشکیل اور اجتہادِ اجتماعی کا طریقہ کا ر
امام ابو حنیفہ ؒ نے دیگر مجتہدین کے برعکس اجتہاد واستخراج کا یہ پر خطر کام انفرادی واستبدادی اندازمیں تنہا انجام نہیں دیا، بلکہ اس مقصد کے لیے اپ نے اپنے خاص الخاص تلامذہ کو، جو حدیث وفقہ میں ماہر ہونے کے ساتھ امام صاحب کے فیضِ صحبت کے باعث زاہد وعبادت گزار اور انتہائی متقی لوگ تھے ،منتخب کر کے ایکمجلس اجتہاد تشکیل دی جو حریت فکر اور اظہار رائے میں اپنی مثال آپ تھی۔ (۱۸)
الامام الموفق المکی کے مطابق امام ابو حنیفہ ؒ کے شاگرد اور فیض یافتہ افراد کی تعداد یوں تو ہزاروں سے متجاوز ہے، تاہم بقول ابن حجرؒ ان میں آٹھ سو زیادہ مشہور ہوئے اور ان آٹھ سو میں سے ساٹھ کے قریب افراد خاص علمی مرتبے کے حامل اور اجتہاد کے درجے پر فائز تھے ۔امام ابو حنیفہ ؒ ان کو بہت عزیز رکھتے تھے اور انہیں پر مشتمل مجلس اجتہاد وفقہ انھوں نے قائم کی۔ ان میں یہ لوگ ممتاز تھے : ابو یوسفؒ ،زفر، ؒ داود الطائیؒ ،اسد بن عمرؒ ، یوسف بن خالد ؒ التمیمی، یحییٰ بن ابی زائدہ ؒ ،حسن بن زیادؒ ،محمد بن حسنؒ ،عافیہ بن یزید الاودیؒ ،قاسم بن معن ؒ ،عبداللہ ابن مبارکؒ ،نضر بن عبد الکریم ؒ ،عبد الرزاق بن ہمامؒ وغیرہم ۔
مشہور محدث وکیع بن الجراحؒ کے حالات میں، جو امام ابو حنیفہ ؒ کے شاگرد اور امام شافعی ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کے استاد تھے، خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ ایک موقع پر چند اہل علم وکیعؒ کے پاس جمع تھے۔ ان میں سے کسی نے کہا : امام ابو حنیفہ ؒ نے فلان مسئلے میں غلطی کی ہے ۔وکیع بولے : ابو حنیفہ ؒ کیسے غلطی کر سکتے ہیں؟ جس شخص کے ساتھ قیاس ودرایت میں ابویوسف ؒ وزفر، ؒ حدیث میں یحییٰ بن زائدہ ،حفص بن غیاث ،حبان اور مندل ،لغت وعربیّت میں قاسم بن معن اور زہدوتقویٰ میں داود الطائی او ر فضیل بن عیاض کے رتبے کے لوگ ہوں ،وہ کیسے غلطی کر سکتا ہے اورکرتا بھی ہے تو یہ لوگ اس کو کب غلطی پر رہنے دیتے ہیں ؟
امام ابو حنیفہ ؒ کو کار اجتہاد اور تدوین فقہ وقانون کے لیے جن جن علوم کے ماہروں کی ضرورت تھی، انھوں نے فقہ اسلامی کے مختلف ابواب ومباحث کو ذہن میں رکھتے ہوئے نہایت کامیابی سے ان علوم میں مہارت رکھنے والے افراد کو نہ صرف جمع کیا بلکہ سالہا سال ان کی علمی اور مادی سر پرستی کرکے امت کو ایک بے مثال مجموعہ قوانین وفقہ کا تحفہ دیا۔ڈاکٹر محمد حمیداللہ لکھتے ہیں :
’’ایک اور مشکل یہ تھی کہ فقہ، زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ہے اور قانون کے ماخذوں میں قانون کے علاوہ لغت، صرف ونحو،تاریخ وغیرہ ہی نہیں، حیوانات ،نباتات بلکہ کیمیا کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔قبلہ معلوم کرنا جغرافیہ طبعی پر موقوف ہے۔ نماز اور افطار وسحری کے اوقات علم ہیئت وغیرہ کے دقیق مسائل پر مبنی ہیں۔ رمضان کے لیے رؤیت ہلال کو اہمیت ہے اور بادل وغیرہ کے باعث ایک جگہ چاند نظر نہ آئے تو کتنے فاصلے کی رویت اطراف پر موثر ہو گی وغیرہ وغیرہ۔مسائل کی طرف اشارے سے اندازہ ہو گا کہ نماز روزہ جیسے خالص عباداتی مسائل میں بھی علوم طبعیہ سے کس طرح قدم قدم پر مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کاروبار،تجارت، معاہدات ،آب پاشی ،صرافہ ،بنک کاری وغیرہ کے سلسلے میں قانون سازی میں کتنے علوم کے ماہروں کی ضرورت ہو گی۔امام ابو حنیفہ ہر علم کے ماہروں کو ہم بزم کرنے اور اسلامی قانون یعنی فقہ کو ان سب کے تعاون سے مرّتب ومدون کرنے کی کو شش میں عمر بھر لگے رہے اور بہت کچھ کامیاب ہوئے‘‘۔(۱۹)
آج کے دور میں علوم کی مختلف شاخوں نے اپنی مستقل حیثیت اختیار کر لی ہے اور ان میں تخصص کے لیے ساری عمر صرف کرنا پڑتی ہے،لیکن فقہ اسلامی کے طلبہ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ ان میں سے کئی ایک علوم مثلاً معاشیات، سیاسیات ،قانون بین الاقوام وغیرہ براہ راست علم فقہ کے ابواب ہیں۔ ان علوم سے متعلق جو قوانین مدون کیے گئے ہیں، ان کے لیے صرف کتاب ،سنت ،اجماع اور قیاس سے ہی کام نہیں لیا گیا بلکہ قانون سازی کے لیے دیگر علوم سے بھی بھر پور استفادہ کیا گیا۔ (۲۰)
الامام الموفق المکی ،امام ابو حنیفہ ؒ کے مجموعہ قوانین کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’وہ مجموعہ نحو اور حساب کے ایسے دقیق مسائل پر مشتمل تھا جن کو سمجھنے کے لیے عربی زبان وادب اور الجبرا وغیرہ میں مہارت تامّہ کی ضرورت تھی۔‘‘ (۲۱)
موفق، امام ابو بکر الجصاص کی تالیف ’شرح جامع صغیر‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ میں نے مدینۃ السلام (بغداد) میں ایک بہت بڑے نحوی حسن بن عبد الغفار کو اس کتاب کے بعض مسائل سنائے جن کا تعلق نحو ولغت کے ذریعے استخراج مسائل سے تھا تو جیسے جیسے وہ مسائل سنتے جاتے تھے، حیرت سے میری طرف دیکھتے ۔ آخر میں بولے،ان نتائج کا استنباط وہی کر سکتا ہے جو علوم نحو میں خلیل اور سیبویہ کاہم پلّہ ہو۔ (۲۲)
طریقہ بحث وتحقیق
امام ابو حنیفہ ؒ کی مجلس فقہ واجتہاد کے ارکان کے ناموں کی تلاش کے لیے آپ کے سوانح نگاروں نے بلاشبہ سخت جگر کاوی کی ہے۔ آپ کی تدوین فقہ کے تیس سالوں میں ہزاروں نہیں تو سیکڑوں طالب علموں نے ان سے کسب فیض کیا ۔ان میں سے بعض غیر معمولی قابلیت کے حامل تلامذہ کو امام اپنی مجلس فقہ میں شامل کر لیتے تھے جبکہ اکثریت ایک خاص مدت تک امام ابو حنیفہ ؒ کے طریقہ استدلال اور منہج اجتہاد میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اپنے شہروں کو روانہ ہو جاتی تھی ،جیسا کہ شیخ محمد ابو زہرہ نے لکھا ہے :
لقد کان لابی حنیفہؒ تلامذۃ کثیرون منھم من کان یرحل الیہ ویستمع امرا ثم یعود الی بلدہ بعد ان یاخذ طریقتہ ومنھاجہ ومنھم من لازمہ۔
’’امام ابو حنیفہؒ کے بہت سے شاگرد تھے۔ ان میں سے کچھ تو وہ تھے جو آپ کے پاس آکر کچھ عرصہ گزارتے، آپ کا طریقہ استنباط سیکھتے، اسے اپنا کر واپس وطن لوٹ جاتے ، اور ان میں سے کچھ نے آپ کی صحبت اختیار کر لی تھی ۔‘‘
مذکورہ حضرات مختلف علوم وفنون کے ماہر ،غیر معمولی قابلیتوں اور علمی حیثیتوں کے مالک تھے ۔ (۲۳)
مجلس میں مسائل پر بحث وگفتگو کے طریقے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے الموفق لکھتے ہیں :
کان یلقی مسئلۃ مسئلۃ یقلبھم ویسمع ماعندھم ویقول ماعندہ ویناظرھم شھرا او اکثر من ذلک حتی یستقر احد الا قوال فیھا۔ (۲۴)
’’ایک ایک مسئلہ کو پیش کرتے، لوگوں کے خیالات کو الٹتے پلٹتے ،اراکین مجلس کی آرا اور دلائل سنتے۔اپنی رائے اور دلائل سے اہل مجلس کو آگاہ کرتے اور ان سے مناظرہ کرتے ۔کبھی ایک ایک مسئلہ پر بحث ومناظرہ کا سلسلہ ایک ماہ یا اس سے بھی زیادہ مدت تک چلتا تاآنکہ مسئلے کا کوئی پہلو متعین ہو جاتا۔‘‘
بامقصد اور آزادانہ بحث
امام ابو حنیفہؒ نے مشاورت کو بامقصد ،بحث ومناظرہ کو آزادانہ اور مجلس اجتہاد کو بے تکلف بنانے کی شعوری کوشش کی تھی تاکہ ادب آداب اور عقیدت ولحاظ کے باعث قانون سازی میں کسی قسم کا سقم نہ رہ جائے ۔ مشہور محدث عبد اللہ ابن مبارک کہتے ہیں :
’’میری موجودگی میں ایک مسئلہ بحث کے لیے پیش ہوا۔ مسلسل تین دن تک ارکان مجلس اس پر غور وخوض اور بحث ومباحثہ کرتے رہے ۔‘‘
کوفہ کے اہل علم امام ابو حنیفہ ؒ کے قانون سازی اور حل مسائل کے اس اچھوتے انداز کو حیرت واستعجاب سے دیکھتے اور پسند کرتے تھے ۔ (۲۵)
مشہور محدث اعمش نے مجلس کے طریق کار کو بیان کرتے ہوئے کہا: جب اس مجلس کے سامنے کوئی مسئلہ آتا ہے تو حاضرین اس مسئلے کو اس قدر گردش دیتے ہیں اور الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ بالآخر اس کاحل روشن ہوجاتا ہے ۔ (۲۶)
ہم عصر علمی مجالس سے استفادہ
امام ابو یوسف کی روایت سے معلوم ہوتاہے کہ جب کوئی مسئلہ زیر تحقیق ہوتا تو کوفہ کی دوسری علمی مجالس سے بھی مراجعت کی جاتی کہ آیا اس مسئلے میں ان کے پاس کوئی حدیث ہے ۔ابو یوسف کہتے ہیں کہ مجھے تلاش سے جو احادیث ملتیں، میں لے کر امام صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا تو وہ بتاتے کہ ان میں سے فلاں حدیث صحیح ہے اور فلاں صحیح نہیں ہے، اور ہم نے جو رائے اختیار کی ہے، وہ حدیث صحیح کے مطابق ہے ۔میں پوچھتا کہ آپ کو ان احادیث کا کیسے علم ہوا ؟تو جواب دیتے کہ کوفہ میں جتنا علم ہے، وہ سارا میرے پاس ہے۔ (۲۷)
اہم عصری مباحث وموضوعات پر اجتہاد
امام ابو حنیفہؒ کی مجلس اجتہاد میں بعض اہم عصری موضوعات زیر تحقیق لائے گئے۔ امام ابو حنیفہؒ پہلے شخص ہیں جنہوں نے کتاب الفرائض اور کتاب الشروط وضع کیں۔قانون بین المالک، جو تاریخ کا حصہ سمجھا جاتاتھا، اس کو تاریخ سے الگ کرکے مستقل فقہی چیز قرار دیا گیااور کتاب السیر مرتب ہوئی جس میں صلح اور جنگ کے قوانین مدون ہوئے۔ اس طرح ایک ضخیم مجموعہ قوانین تیار ہو ا جو متعدد کتب کی شکل میں اس دور میں موجود رہا۔بعد میں ان تالیفات کو امام محمد بن حسن شیبانی نے مزید منقح کرکے مدون کیا اور یہی مجموعے فقہ حنفی کی اساسی کتب ہیں۔
اہم اصولِ اجتہاد
امام ابو حنیفہؒ کی قائم کردہ مجلس اجتہاد کا طریق اجتہاد تقریباً وہی تھا جو اصحاب رسول ؑ نے اختیار کیا تھا ۔ اس مجلس کے طریق میں بھی صحابہ کرامؓ کے اختیار کردہ اصول کار فرما نظر آتے ہیں ۔ڈاکٹر صبحی محمصانی اس طریق کا ر کے ضمن میں امام صاحب کا اپنا ایک قول نقل کرتے ہیں :
اذا لم یکن فی کتاب اللہ ولا فی سنۃ رسول اللہ نظرت فی اقاویل اصحابہ ولا اخرج عن قولھم الی غیرھم فاذا انتھی الامر الی ابراھیم والشعبی وابن سیرین والحسن وعطاء وسعید بن جبیر فقوم اجتھدوا فاجتھد کما اجتھدوا۔ (۲۸ )
’’ اگر کتاب اللہ اور سنت رسول ؑ دونوں میں مسئلہ نہ مل سکے تو اقوال صحابہؓ سے اخذ کرتا ہوں۔ جس کا قول چاہتا ہوں، لے لیتا ہوں اور جس کا قول چھوڑنا چاہوں، ترک کر دیتا ہوں اور ان کے اقوال سے کسی دوسرے کے قول کی طرف تجاوز نہیں کرتا، لیکن جب معاملہ ابراہیم نخعی ،شعبی ،ابن سیرین ،حسن بصری ،عطا اور سعید بن جبیرتک پہنچتاہے تو وہ اجتہاد کرنے والے لوگ تھے، ہمیں بھی ان کی طرح اجتہاد کرنے کا حق حاصل ہے ۔‘‘
اس طرح علامہ عبد البر کی ’’ الانتقاء ‘‘ میں نیز موفق المکی کی ’’ المناقب ‘‘ میں مذکور ہے:
’’آپ معتبر قول کو لیتے، قبیح سے دور بھاگتے، لوگوں کے معاملات میں غوروفکر کرتے ۔جب لوگوں کے احوال اپنی طبعی رفتار سے جاری رہتے تو قیاس سے کام لیتے ۔مگر جب قیاس سے کسی فساد کا اندیشہ ہوتا تو لوگوں کے معاملات کا فیصلہ استحسان سے کرتے۔ جب اس سے بھی معاملات بگڑ تے نظر آتے تو مسلمانوں کے تعامل کی طرف رجوع کرتے۔ جس حدیث پر محدثیں کا اجماع ہوتا، اس پر عمل پیرا ہوتے ۔ پھر جب تک مناسب سمجھتے، اس پر اپنے قیاس کی بنیاد کھڑی کرتے ۔پھر استحسان کا رخ کرتے ۔ قیاس اور استحسان میں سے جو زیادہ موافق ہوتا، اس کی طرف رجوع کرتے ۔سہل کہتے ہیں : امام ابو حنیفہؒ کا علم عوام کی سمجھ میں آنے والا علم ہے۔‘‘
نیز اسی کتاب میں ہے :
’’ابو حنیفہؒ ناسخ منسوخ احادیث کی بہت چھان بین کرتے ہیں۔جب کوئی حدیث مرفوع یا اثر صحابی آپ کے نزدیک ثابت ہو جاتا تو اس پر عمل کرتے۔ آپ اہل کوفہ کی احادیث سے خوب آگاہ تھے اور ان پر بڑی سختی سے عامل رہتے تھے۔‘‘
گویا مجلس اجتہاد میں پیش آمدہ مسائل کا حل پہلے قرآن وسنت سے تلاش کیا جاتا ۔سنت دوسرا بڑا ماخذ ہے جس پر مدار استنباط تھا۔ قرآن حکیم شریعت کا اصل الاصول اور اس کا سر چشمہ ہے جس کا ثبوت قطعی ہے جب کہ حدیث کا ثبوت ظنّی ہے۔ جو اوامر قرآن میں ہوں، وہ ’’فرض ‘‘ اور جو ’’حدیث ‘‘ سے ثابت ہوں، ان کو ’’واجب ‘‘ کہا جاتا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ دلائل میں اسی تقدیم وتاخیر کے قائل تھے۔ آپ فرماتے ہیں : ’’ ہم پہلے کتاب اللہ سے استدلال کرتے ہیں، پھر سنت نبوی ؑ سے، پھر قضایا صحابہؓ سے۔ صحابہؓ جس بات پر متفق ہوں، ہم اس پر عمل کرتے ہیں ۔اگر صحابہؓ میں اختلاف پایا جاتا ہو تو ہم علت جامعہ کی بنا پر ایک حکم کو دوسرے حکم پر قیاس کرتے ہیں ۔یہاں تک کہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے ۔‘‘(۳۰)
امام ابو حنیفہؒ نے علوم نبوی ؑ کے خزانے سے کما حقہ فائدہ اٹھایا۔اخذ وقبولِ حدیث کے اصول متعین فرمائے ۔فقہ الحدیث میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مہارت تامّہ عطا فرمائی تھی۔آپ کے جلیل القدر شاگرد اور محدث امام ابو یوسف ؒ فرماتے ہیں:
’’مارایت احدا اعلم بتفسیر الحدیث ومواضع النکت التی فیہ من الفقہ من ابی حنیفہؒ .....وکان ھو ابصر بالحدیث الصحیح منی‘‘ (۳۱)
’’میں نے امام ابو حنیفہؒ سے بڑھ کر کسی کو حدیث سمجھنے اور اس سے فقہی جزئیات اخذ کرنے والا نہیں دیکھا۔ آپ صحیح حدیث کی مجھ سے زیادہ بصیرت رکھنے والے تھے ۔‘‘
علاوہ ازیں مجلس اجتہاد میں صحابہ خصوصاً سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ، سیدنا علی،ؓ قاضی شریح، ابراہیم نخعی اور دیگر ہم عصر فقہا ومجتہدین کے فیصلوں اور قضایاکو کافی اہمیت دی جاتی ۔
اس طرح قانون سازی کے سلسلے میں مذکورہ بالا اجتماعی اجتہادی کاوشوں کی بنا پر جو قانونی سرمایہ وجود میں آیا ،اس کی مثال دنیا کی دیگر اقوام میں عنقا ہے۔ سیکڑوں متون (texts)، ہزاروں شروح وحواشی کے علاوہ وقائع اور حوادث وفتاویٰ کی حیثیت وہی ہے جو اج کل عدالتوں میں نظائر precedents)) کی ہے۔
آج عالم اسلام جن فکری، تہذیبی،تعلیمی اور قانو نی مسائل سے دور چار ہے، ان کے حل کے سلسلے میں امام ابو حنیفہؒ کا اجتماعی اجتہاد کا طریق کار چراغ راہ کا کام دے گا ۔قر آن وسنت ،اقوال صحابہؓ اور قدیم علمی فقہی سرمایہ کو سامنے رکھتے ہوئے علمائے اسلام کی نمائندہ کونسلیں پیش آمدہ مسائل پر غورفکر کریں۔مسائل کے فنی اور شرعی پہلووں پر خوب غوروفکر کرکے مسائل کا حل سامنے لائیں۔ اس کام کے لیے اللہ رب العزّت سے دعا واستعانت ،خلوص نیت اور عزم صمیم کی ضرورت ہے ۔
حوالہ جات
(۱) ادارہ تحقیقات اسلامی ، اسلام آباد کے زیر اہتمام ۱۹ سے ۲۲ مارچ ۲۰۰۵ منعقد ہونے والا اجتماعی اجتہاد پر بین الاقوامی سیمینار اسی مقصد کے لیے بلایا گیا تھا۔
( ۲)
Micheal Heart: "The 100 - A Rankin of The Most Influential Persons in History", New York ,1978, P. 33
( ۳) علامہ محمد الخضری نے اپنی کتاب ’’ تاریخ التشریع الاسلامی ‘‘میں حضور ؑ کے ذاتی اجتہاد ات کی مختلف مثالیں پیش کی ہیں۔ (محمد الخضری :تاریخ التشریع الاسلامی ،طبع مصر ، ۱۹۶۰م،ص۲۶تا ۳۹)
(۴) یہ شواہد بھی موجود ہیں کہ حضور ﷺ نے بعض صحابہؓ کو اپنے عہد مسعود میں اجتہاد کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ (ڈاکٹر حمید اللہ : ’’امام ابو حنیفہؒ کی تدوین قانون اسلامی‘‘ ،کراچی ،N.Dََََََِص ۱۳)
( ۵) ڈاکٹر صبحی محمصانی :’’فلسفۃ التشریع فی الاسلام‘‘ ،بیروت ،۱۹۶۱۔ص۳۳ ،۳۴
(۶) ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں، شاہ ولی اللہ نے ’حجۃ اللہ البالغۃ‘ میں اور عصر حاضر میں علامہ محمد الخضری نے صحابہ کرامؓ کے فتووں میں اختلاف کاذکر کیا ہے اور ان کے اسباب پر روشی ڈالی ہے ۔ملاحظہ ہو :ابن خلدون ،مقدمہ (اردو ترجمہ )،ص ۴۶۹۔ شاہ ولی اللہ :حجۃ اللہ البالغۃ(اردو ترجمہ )،لاہور ،حصہ اول ،ص ۳۷۵۔ محمد خضری:تاریخ التشریع الاسلامی ،مصر ۔۱۹۶۰م ص۱۱۷ تا ۱۲۷۔
( ۷)
Dr. Hamidullah :"Introduction to Islam", Lahore, 1974, P. 267
( ۸) صبحی محمصانی :’’فلسفہ التشریع فی الاسلام ‘‘،بیروت ،۱۹۶۱،ص ،۴۱۔
( ۹) خیرالدین زرکلی :’’ الاعلام‘‘ ،الجزء التاسع ،ص ۴۔
( ۱۰) ابو زہرہ : ’’ابو حنیفہؒ حیاتہ وعصرہ وآراء ہ وفقہہ‘‘ ( اردو ترجمہ ) المکتبہ السلفیہ،لاہور ۱۹۶۲،ص ۴۶۔
( ۱۱) الدکتور محمد یوسف موسیٰ :’’ محاضرات فی تاریخ الفقہ الاسلامی‘‘ ،الجزء الثالث ،ص ۳۶۔
( ۱۲) المصدر السابق۔
(۱۳) فلسفۃ التشریع فی الاسلام ،ص۴۲۔
( ۱۴) ج ۱۳،ص ۳۴۶۔
( ۱۵) ج ۹ ص ۵۔
(۱۶) امام ابو حنیفہ ؒ کی قانون تدوین اسلامی ،ص ۳۴۔
( ۱۷) ابن خلدون :مقدمہ (اردو ترجمہ ) کراچی ،ص ۴۶۸۔
(۱۸) ابو زہرہ : ص ۲۲۱۔
( ۱۹) امام ابو حنیفہؒ کی سیاسی زندگی ، (پیش لفظ)۔
( ۲۰) محمد طفیل ہاشمی : ’’امام ابو حنیفہؒ کی مجلس تدوین فقہ‘‘ ، علمی مرکز وملت پبلی کیشنز،اسلام آباد ۱۹۹۸، ص۹۰۔
( ۲۱ ) الموفق المکی الامام : ’’مناقب الامام ابی حنیفہ‘‘ؒ ،دائرۃ المعارف حیدر اباد(س ن) ،۲/۱۲۷۔
( ۲۲) المصدر السابق :۲/ ۱۳۸۔
( ۲۳) الشیخ ابو زہرہ : ’’ابو حنیفہؒ حیا تہ وعصرہ‘‘ ،(مترجم اردو) ،المکتبہ السلفیہ ،لاہور،۱۹۶۲ ،ص ۱۸۲ ۔
( ۲۴) الموفق المکی : المصدر السابق ،۲/۱۳۳ ۔
( ۲۵) المصدر السابق ، ۱/۵۴۔
( ۲۶) کردری : مناقب اما م ابو حنیفہؒ ،۲/۳۰۔
( ۲۷) الموفق المکی : ۲/۱۵۲ ۔
( ۲۸) صبحی محمصانی :’’ فلسفۃ التشریع فی الاسلام‘‘ ،۱۹۶۱،ص ۴۲۔
( ۲۹) ابن عبد البر :’’ الانتقاء فی فضائل الثلاثۃ الفقہاء‘‘، ص ۱۴۳۔
( ۳۰) عبد الوہاب الشعرانی : ’’المیزان الکبریٰ ‘‘،طبع مصر ،۱۳۴۴ھ ص ۶۱۔
( ۳۱) الدکتور ابو یوسف موسیٰ :’’ محاضرات فی تاریخ الفقہ الاسلامی‘‘ (۳) ،ص ۶۶۔
قرآنی علمیات اور معاصر مسلم رویہ
پروفیسر میاں انعام الرحمن
دنیا کی کوئی فکر، کوئی فلسفہ یا کوئی نظامِ حیات ، معاشرتی سطح پر اپنے نفوذ کی خاطر متعلقہ معاشرت اور کلچر کا لحاظ کیے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ۔ یہ آدھا سچ ہے ۔ بقیہ آدھا سچ یہ ہے کہ متعلقہ معاشرت اور کلچر کا لحاظ اگر حدود سے تجاوز کر جائے تو وہ نظامِ حیات یا فلسفہ اپنے مخصوص اور منفرد منہج سے ہٹ کر محدودیت اور تنگ نظری کو فروغ دینے والی معاشرتی کہاوتوں کو بھی، جن کے پیچھے اصلاً نفسیاتی عوارض کار فرما ہوتے ہیں، اپنی بنیادی صداقتوں میں شمار کرنے لگتا ہے اور انہیں ازلی سچ گردانتے ہوئے اپنی علمیات (Epistemology) سے کچھ اس طرح خلط ملط کرتا ہے کہ نہ صرف جھوٹ اور سچ میں تفریق مشکل ہو جاتی ہے، بلکہ وہ نظام حیات فی نفسہ اپنی ڈگر سے ہٹ جاتا ہے ۔ اگر قرآن کا موضوع انسان ہے اور انسان معاشرے میں ہی زندہ رہ سکتا ہے تو قرآنی علمیات بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اس طرح ہماری آئندہ گفتگو کم از کم دو جہتوں میں منقسم ہو گی: (ا) قرآنی علمیات (ب) قرآنی علمیات سے روگردانی ۔
سب سے پہلے ہم قرآنی علمیاتی اساس کو دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت قرآن مجید میں فرماتے ہیں :
الم o ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ o الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْْبِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ o (البقرہ: ۱۔۳)
’’ الف، لام، میم ۔ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ نہیں کوئی شک اس (کے کتابِ الہٰی ہونے ) میں۔ ہدایت ہے (اللہ سے ) ڈرنے والوں کے لیے۔ جو ایمان لاتے ہیں غیب پر، قائم کرتے ہیں نماز اور اس میں سے جو رزق ہم نے دیا ہے، خرچ کرتے ہیں۔ ‘‘
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کی تصریح فرمائی ہے:
(۱) کتابِ الٰہی میں شک کرنے کی گنجائش موجود نہیں۔
(۲) یہ متقین ( اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ) کے لیے ہدایت ہے ۔
(۳) اس کے بعد اللہ رب العزت متقین کے گروہ کو متعین کرتے ہیں کہ حقیقت میں متقین کون لوگ ہیں؟ یعنی کن صفات کے حامل لوگوں کے لیے ’الکتاب‘ ہدایت کا سر چشمہ ثابت ہو سکتی ہے ؟ ان میں ’’ ایمان بالغیب ‘‘ کو اللہ رب العزت سب سے پہلی صفت یا ناگزیر لازمہ قرار دیتے ہیں ۔ اس کے بعد اقامتِ صلوۃ اور انفاق کا ذکر کرتے ہیں ۔
اب ذرا غور فرمائیے کہ ’’الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْْبِ‘‘ کے بعد حرفِ عطف ’ و ‘ موجود ہے ۔ یہ حرفِ عطف اشارہ کر رہا ہے کہ ایمان ، غیب کے ساتھ مخصوص ہے۔ آیت کا بعد والا حصہ یعنی اقامتِ صلوۃ اور انفاق اپنی اپنی جگہ الگ اہمیت رکھتے ہیں (کیونکہ ان کے درمیان بھی حرفِ عطف موجود ہے)، ان کا ایمان کے ساتھ کوئی براہ راست تعلق نہیں بنتا، البتہ متقین کی صفات کے ذیل میں ان کا مقام دوسری اور تیسری سطح پر ضرور آتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ متقین کی پہلی صفت ایمان بالغیب ہے اور انہی کے لیے یہ الکتاب ( جس میں کوئی شک نہیں) ذریعہ ہدایت ہے ۔
قرآن کی ان ابتدائی آیات کا فہم قرآن کی جس علمیاتی اساس کی جانب اشارہ کرتا ہے، وہ کچھ یوں ہے :
(۱) قرآنی علمیاتی اساس تشکیک کی نفی کرتی ہے ، یعنی علم کی بنیاد شک پر نہیں رکھی جا سکتی ۔
(۲) علمیاتی اساس ’’ لا ریب ‘‘ یعنی شک نہ کرنے میں پنہاں ہے ۔
(۳) جس علم میں شک نہ کیا جا سکے، ایسا علم صرف متقین کے لیے ہدایت ہے ( سب کے لیے نہیں ) ۔
(۴) متقین وہ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں۔
اگر مذکورہ چاروں نکات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لاریب اور بالغیب میں گہرا تعلق ہے ۔ لاریب یعنی شک نہ کرنے کی صراحت کے بعد ، ایمان بالغیب کا ذکر ( وہ بھی کچھ اس طرح متصل الفاظ کے ساتھ کہ درمیان میں کہیں بھی حرفِ عطف نہیں آتا) خاصا معنی خیزہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شک نہ کرنے کے باوصف ایسے انسان کا ذہنی سانچہ کس قسم کا ہونا چاہیے جو متقین میں شامل ہوکر ہدایت پانا چاہتا ہے؟ قرآن اس کا پہلا جواب ایمان بالغیب سے دیتا ہے ۔ یہاں غیب کے وہ معنی مراد نہیں جومختلف مذہبی حلقوں میں معروف ہیں ۔ یہاں غیب سے مراد ’’نامعلوم ‘‘ہے، لیکن اس کا مطلب لا ا دریت بھی ہرگز نہیں ۔ نامعلوم ہونا ایک اور چیز ہے اور نہ جان سکنا چیزے دگر است ۔ نہ جان سکنے کی روش اپنانا ایک منفی رویہ ہے اور یہ تشکیک کے قریب ترین ہے جس کی قرآن ابتدا ہی میں نفی کرتا ہے ۔ اس کے برعکس نامعلوم ہونا ایک مثبت رویہ ہے جس میں جان سکنے کی خواہش اور یقین دونوں پائے جاتے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ( الکتاب میں ) تشکیک کرنے کے بجائے ( یعنی وہ امکانات جو مستور ہونے کے باعث شک میں ڈال دیتے ہیں، حالانکہ خدا کے ہاں موجود ہیں ) نامعلوم یعنی امکانات کو چھونے کی خواہش اور سکت ، ایمان بالغیب ہے۔ اس طرح واضح ہو جاتا ہے کہ قرآنی علمیاتی اساس کسی بھی قسم کی فکری موضوعیت یا تشکیک کے بجائے ’’نامعلوم پر ایمان‘‘ یعنی امکانات کو چھونے کی سکت پر موقوف ہے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دنیا کی کوئی فکر، کوئی فلسفہ یا کوئی نظامِ حیات ، قرآنی علمیاتی اساس کی مانند نامعلوم پر قائم نہیں ہے، حتیٰ کہ ریاضی جیسی مجرد فکر بھی ’’ فرض کیا ‘‘ سے شروع ہوتی ہے یعنی اس میں بھی موضوعیت در آتی ہے ۔
قرآنی علمیات کا راہنمایانہ منہاج
قرآنی علمیات کی اساس کی دریافت کے بعد اب ہم اس کا راہنمایانہ منہاج (Directive Discourse) تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں :
وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَۃِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَن یُفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ o ( البقرۃ : ۳۰)
’’اور یاد کرو جب کہا تیرے رب نے فرشتوں سے کہ یقیناًمیں بنانے والا ہوں زمین میں ایک خلیفہ ۔ تو انھوں نے کہا تھا کہ کیا تو مقرر کرے گا زمین میں اس کو جو فساد برپا کرے گا اس میں اور خون ریزی کرے گا؟ جبکہ ہم تسبیح کرتے ہیں تیری حمدو ثنا کے ساتھ اور تقدیس کرتے ہیں تیری ۔ اللہ نے فرمایا یقیناًمیں جانتا ہوں وہ کچھ جو تم نہیں جانتے۔‘‘
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرشتوں کو اس بات کا علم کیسے ہوا کہ خلیفہ زمین میں فساد اور خون ریزی برپا کرے گا ؟ کیا فرشتے بھی ایک حد تک ’ علیم ‘ ہیں ( خدا سے کم تر درجے میں ہی سہی )؟ اس آیت سے متصل آیات جہاں اس نکتے کی وضاحت کرتی ہیں، وہاں اس امر پر بھی دال ہیں کہ ان کو متصل پڑھنے سے ہی قرآنی منشا زیادہ وضاحت کے ساتھ مشخص ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَۃِ فَقَالَ أَنبِئُوْنِیْ بِأَسْمَاء ہَؤُلاء إِن کُنتُمْ صَادِقِیْن o قَالُواْ سُبْحَانَکَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْم o (البقرہ: ۳۱، ۳۲)
’’اور سکھائے اللہ نے آدم ؑ کو نام سب چیزوں کے ، پھر پیش کیا ان کو فرشتوں کے سامنے اور فرمایا بتاؤ مجھے نام ان کے ، اگر ہو تم سچے۔ انھوں نے عرض کیا پاک ہے تیری ذات، نہیں ہمیں علم مگر اسی قدر جتنا تو نے سکھایا ہمیں ۔ بے شک تو ہی ہے سب کچھ جاننے والا ، بڑی حکمت والا ‘‘
آیت نمبر ۳۲ میں یہ الفاظ کہ ’’ نہیں ہمیں معلوم مگر اسی قدر جتنا تو نے سکھایا ہمیں ‘‘ صاف بتا رہے ہیں کہ فرشتے ادنیٰ درجے میں بھی علیم نہیں ہیں ۔ خلیفہ کے بارے میں فرشتوں کی یہ جان کاری کہ وہ زمین میں فساد اور خون ریزی برپا کرے گا، خدا ہی کی عطا کردہ تھی ۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ فرشتوں نے کسی ’شک ‘ کا اظہار نہیں کیا بلکہ اپنے معلوم کی مدد سے ایک ’یقینی اور امکانی‘ بات کی( یقینی ان معنوں میں کہ علم خدا کا عطا کردہ تھا اور امکانی ان معنوں میں کہ ابھی وقوع نہیں ہوا تھا ) کہ خلیفہ بھی آخر رب ذوالجلال کی تسبیح و تقدیس کرے گا اور وہ ہم پہلے ہی کر رہے ہیں۔ پھر چونکہ وہ فساد اور خون ریزی بھی کرے گا، لہٰذا اس کی تخلیق میں رب کی کیا حکمت ہے ؟ اس کے بعد آیت کا اسلوب بتاتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے عطا کردہ علم کے یقینی و امکانی اظہار پر فرشتوں سے ناراضی کا اظہار نہیں فرمایا ( کہ تشکیک کے بر عکس یقینی اور امکانی علم کا اظہار خدا کے ہاں مقبول ہے ) ۔ آیت پر غور فرمائیے :
قَالَ یَا آدَمُ أَنبِئْہُم بِأَسْمَآئِہِمْ فَلَمَّا أَنبَأَہُمْ بِأَسْمَآئِہِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّکُمْ إِنِّیْ أَعْلَمُ غَیْْبَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُون o (البقرہ: ۳۳)
’’ اللہ نے فرمایا ، اے آدم ؑ بتاؤ ان کو نام ان کے ، پھر جب بتا دیے آدم ؑ نے فرشتوں کو نام ان سب کے ، تو فرمایا : کیا نہیں کہا تھا میں نے تم سے کہ بیشک میں ہی جانتا ہوں سب راز آسمانوں کے اور زمین کے بھی اور جانتا ہوں ہر اس چیز کو جو تم ظاہر کرتے ہو اور وہ بھی جو تم چھپا رہے ہو ‘‘
اس آیت میں کہیں بھی ناراضی کا شائبہ نہیں ملتا، سوائے ان آخری الفاظ کے ’’ اور وہ بھی جو تم چھپا رہے ہو ‘‘۔ اگر ان الفاظ کے مخاطب فرشتے ہیں تو اس کی مزید صراحت اگلی آیت میں ہو جاتی ہے :
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَءِکَۃِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِیْسَ أَبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْن o (البقرہ: ۳۴)
’’ اور جب حکم دیا ہم نے فرشتوں کو کہ سجدہ کرو آدم ؑ کو ، تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ۔ اس نے انکار کیا اور گھمنڈ کیا اور وہ تھا ہی کافروں میں سے ‘‘
یقین سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ امکانی بات یہ ہے کہ جب فرشتے فساد اور خون ریزی کا تذکرہ کر رہے تھے تو فرمانِ ربانی کے مطابق ’’ جو تم ظاہر کرتے ہو ‘‘ کے مصداق ابلیس بھی ان کا ہم نوا تھا۔ اس وقت تک ابلیس نے اپنے انکار اور گھمنڈ کو چھپایا ہوا تھا ، اسی چھپانے کو اللہ رب العزت نے آیت ۳۳ میں ’’ اور وہ بھی جو تم چھپا رہے ہو ‘‘ کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے ۔ آیت ۳۴ میں یہ نکتہ اہم ہے کہ ابلیس کا انکارکرنا اور اس کا گھمنڈ کرنا اسے دیگر فرشتوں سے ( عمومیت کے دائرے سے ) الگ کر دیتا ہے ۔
طوالت سے بچنے کی خاطر اس بحث کو یہیں منقطع کر کے ہم اصل بات کی طرف لوٹتے ہیں ۔ ذرا غور کیجئے کہ اللہ رب العزت پہلے فرشتوں کی زبان سے ’’ فساد اور خون ریزی ‘‘ کا ذکر کرتے ہیں، پھر اس کی نفی کرنے کے بجائے آدم ؑ کو سب چیزوں کے نام سکھلا کر فرشتوں سے مخاطب ہوتے ہیں کہ کیا تم یہ نام بتا سکتے ہو؟ پھر آدم ؑ کو حکم دیتے ہیں کہ فرشتوں کو یہ سارے نام بتا دو۔ اس آگاہی کے بعد فرشتے کوئی سوال نہیں کرتے بلکہ خدائی حکم کی تعمیل میں آدم ؑ کو سجدہ کرتے ہیں، سوائے ابلیس کے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان آیات کی متصل تلاوت ایک بہت واضح اشارہ کر رہی ہے کہ خلیفۃ الارض اگرچہ فساد اور خون ریزی برپا کرے گا، لیکن اسی فساد اور خون ریزی کو کنٹرول کرنے کے لیے اس کے پاس ’’ الاسماء کلھا ‘‘ کا ہتھیار بھی ہو گا ، اسی لیے فرشتے ( خدائی پروگرام کے مطابق ) مزید سوال کرنے کے بجائے چپ سادھ لیتے ہیں ۔ ہماری رائے میں قرآنی علمیات کا راہنمایانہ منہاج یہی ہے کہ انسان ’’فساد اور خون ریزی کو مغلوب کرنے والے علوم و فنون ‘‘ کی عظیم عمارت قائم کرے ۔ اس کی مزید تصریح اس آیت سے ہو جاتی ہے :
مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً (المائدہ: ۳۲)
’’ جس شخص نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا، الا یہ کہ قصاص میں یا زمین میں فساد کا ارتکاب کرنے کی پاداش میں اس کی جان لی جائے ‘‘۔
یہاں اس امر کی وضاحت بر محل ہو گی کہ قرآنی علمیات میں راہنمایانہ منہاج کی باقاعدہ موجودگی، مجرد علمیات (Abstract Epistemology) کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی۔ در حقیقت ، مجرد علمیات اور تشکیک کے بجائے یقین اور امکان کے دائرے میں آنے والے علوم و فنون ہی راہنمایانہ منہاج کی چھتری تلے قابلِ قبول گردانے جائیں گے۔
راہنمایانہ علمیاتی منہاج کی ثانوی جہتیں
قرآنی علمیات کے راہنمایانہ منہاج کے مختصر ذکر کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ثانوی جہتوں پر بھی سرسری نظر ڈال لی جائے ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ فساد اور خون ریزی کا باقاعدہ تذکرہ ہونے سے ان کو براہ راست مغلوب کرنے والے علوم و فنون ’’ یقین ‘‘ کے دائرے میں آئیں گے ( جیسا کہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر فساد اور خون ریزی کے ذکر کے ساتھ ان پر غالب آنے کے لوازمات کا بھی ذکر موجود ہے ) ، جبکہ فساد اور خون ریزی کی ایسی پرتیں جو قرآن مجید میں اگرچہ کھولی نہیں گئیں لیکن چونکہ امکانی سطح پر موجود ہیں ، لہٰذا ان پر غلبہ پانے والے علوم و فنون منطقی طور پر ’’امکان ‘‘ کے دائرے میں شمار ہوں گے۔ اس طرح معلوم ہوا کہ قرآنی راہنمایانہ علمیاتی منہاج کی ثانوی جہتیں بنیادی طور پر ان امکانات سے عبارت ہیں جو مرورِ زمانہ سے فساد اور خون ریزی کی نئی صورتوں کے ظہور کے جواب میں مسیحائی کردار ادا کریں گے ۔ مثلاً ، خون ریزی کے حوالے سے ایٹمی ، کیمیائی اور دیگر ہتھیاروں کو دیکھ لیجئے ۔ اسی طرح خود کش حملوں کو دیکھیے کہ کیا یہ دفع فساد یا دفع خون ریزی کے لیے اس امکانی علم یا امکانی فن کے دائرے میں آتے ہیں جو فساد اور خون ریزی کی نئی صورتوں کے ظہور کے بعد راہنمایانہ علمیاتی منہاج کی ثانوی جہت گردانے جاسکتے ہیں، یا ایسے خود کش حملے بنفسہ ، فساد اور خون ریزی کی امکانی صورتوں میں سے کسی ایک صورت کا ظہور ہیں ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات کچھ ایسے ہی ہے جیسے ہمیں قرآن مجید میں جہاد وقتال سے متعلق آیات ملتی ہیں جو قرآن مجید سے ناآشنا فرد کے لیے جنگ سے متعلق ہی شمار ہوں گی کہ جنگ اور جہاد وقتال کی ظاہری صورت میں زیادہ فرق موجود نہیں، لیکن قرآن مجید کا فہم رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ جنگ اور جہاد وقتال کی نہ صرف ظاہری صورت میں کافی فرق ہے بلکہ جہاد وقتال کی داخلی یا باطنی صورت ، جنگ سے یکسر مختلف ہے ( بقول شخصے ، جنگیں پہلے اذہان میں جنم لیتی ہیں ) ۔ لہذا جنگ اور جہاد وقتال کی داخلی ، باطنی اور ذہنی حالتوں میں جو فرق پایا جاتا ہے، وہ اپنی نوعیت میں زیادہ بنیادی ہے کہ اسی کی وجہ سے ظاہری صورتوں میں فرق رونما ہوتا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خود کش حملوں کے بارے میں بھی کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اسی بنیادی فرق کا لحاظ رکھنا شاید زیادہ سود مند ثابت ہو گا ۔
قرآنی علمیات سے روگردانی
اب ہم دیکھیں گے کہ معاصر مسلم رویہ فکری و عملی اعتبار سے قرآنی علمیات سے ہم آہنگ ہے کہ نہیں ؟ بنظرِ غائر ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ خارجی دنیا کے جبر اور داخلی معاشرتی تقاضوں کے باعث مسلمانوں میں مختلف النوع رویے سامنے آ رہے ہیں۔ اب کوئی جدت پسند ہے تو کوئی روایت پسند ،اور ان دو انتہاؤں کے درمیان مزید رویے معلق ہیں جنھیں بمشکل ہی روایت پسند یا جدت پسند ٹھہرایا جا سکتا ہے۔اگرچہ اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں کہ مسلمانوں کی اس داخلی فکری تقسیم کے ڈانڈے ماضی کے نوآبادیاتی نظام اورمغرب کے حالیہ متعصب رویے میں پنہاں ہیں، لیکن اس تقسیم میں جہاں جہاں قرآنی علمیات سے روگردانی شامل ہوئی ہے، وہاں صورتِ حال زیادہ سنگین ہو جاتی ہے ۔
مسلمانوں کی داخلی تقسیم کئی جہتوں میں پھیلی ہوئی ہے ۔ امہ کا تصور مفقود تو نہیں لیکن کم از کم دھندلا ضرور ہے ۔ روایت پسند مسلم گروہ نے بعض خامیوں اور کمیوں کے باوجود ، مسلم ذہن سے امہ کا تصور محو نہیں ہونے دیا ۔یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ جدت پسند مسلم گروہ نے بحیثیت مجموعی ، امہ کے تصور سے انکار نہیں کیا ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ روایت پسند گروہ ، تصورِ امت کے متشکل ہونے میں علاقائی ، جزوی اور معروف تقاضوں کو حائل ہونے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ۔ جدت پسند گروہ ان تقاضوں کی اہمیت اور ناگزیریت کو سمجھتے ہوئے ان پر گفت و شنید چاہتا ہے ۔ دونوں گروہوں کے موازنے سے یہ عجیب بات بھی سامنے آتی ہے کہ جدت پسند گروہ داخلی اعتبار سے اتنا منقسم نہیں جتنا کہ روایت پسند گروہ ۔ حالانکہ اس کے برعکس ہونا چاہیے تھا کہ جدت پسندوں کی آزاد روی تقسیم در تقسیم کا سبب بنتی اور روایت پسندوں کا استقلال ، وحدتی رجحان کا باعث ہوتا ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ ہماری رائے میں روایت پسندوں کے ہاں مسلسل تقسیمی عمل میں ’’جوازات کی حامل ہٹ دھرمی ‘‘ کا کردار بنیادی ہے ۔ اس ہٹ دھرمی کے باعث ہی کوئی شخص یا کوئی چھوٹا سا گروہ ، بڑے گروہ سے بغاوت کرتے ہوئے الگ ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد دونوں کا ملاپ ناممکن ہوجاتا ہے، کیونکہ نئے الگ ہونے والے چھوٹے گروہ کی بنیادی ساخت بھی ہٹ دھرمی میں گندھی ہوتی ہے۔اگر اس میں لچک کا عنصر ہوتا تو بڑے گروہ سے الگ ہی کیوں ہوتا ؟ہماری رائے میں سنیوں کی داخلی تقسیم اسی نوعیت کی ہے۔ بنیادی عقائد میں یکسانی کے باوجود ، وحدتی رجحان کی بجائے تقسیمی عمل کی شدت کو آخر کیا نام دیا جا سکتا ہے ؟ اسلامی تعلیمات پر شخصی و علاقائی خصائل کی ملمع کاری کے بعد تعلیمات و اقدار کے صرف اسی ایڈیشن کو عین اسلام قرار دینا ہٹ دھرمی کے اعصابی خلل کے سوا اور کیا ہے ؟ ہر روایت پسند گروہ کی ذہنی ساخت اور افتادِ طبع ایسی ہے کہ وہ اپنے فہمِ اسلام کو ہی عین اسلام سمجھتے ہوئے ، اسی کے مطابق تصورِ امہ کے متشکل ہونے کا تمنائی ہے۔ صاف الفاظ میں اس کا مطلب یہی ہے کہ صرف وہی اسلام کا سچا پیروکار ہے۔ لہٰذا ہر گروہ کا ایک طرف امہ کے تصور پر زور اور دوسری طرف کسی بھی دوسرے گروہ (جس کی ساخت کسی دوسری شخصیت یا علاقے کی پروردہ ہو) کو accommodate کرنے سے انکار ، کتنا بڑا تضاد ہے؟ ہماری رائے میں امہ کے تصور کے متشکل ہونے کے بنیادی تقاضے جدت پسندوں کی نظر میں ہیں کہ وہ نہ صرف علاقائی و شخصی اثرات کو بنیادی اسلامی تعلیمات سے الگ کر کے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ ان کے اسلامیانے کی ناگزیریت کو بھی سمجھتے ہیں ۔
روایت پسند گروہ کی دو بڑی شاخوں اہل الرائے اور اہلِ حدیث کو بنظرِ غائر دیکھیں تو اہلِ حدیث زیادہ جامد اور بے لچک محسوس ہوتے ہیں ۔ مخالف شاخ انھیں عام طور پر لفظ پرست ہونے کا طعنہ دیتی ہے۔ (اس طعنے کی صداقت پر ہمارے زیادہ تحفظات نہیں ہیں) دلچسپ بات یہ ہے کہ نام نہاد اہل الرائے شاخ بھی، جو اپنے تئیں الفاظ کے بجائے ان کے فہم پر زور دینے کی دعوے دار ہے ، حقیقتاً لفظ پرست ہے۔جی ہاں ! اکابر ین کے فہمِ اسلام کی پرستش اس کے ایمان کا جزو لاینفک ہے۔ زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ یہ شاخ ، اکابرین کے اس فہمِ اسلام کی پیروی کرتی ہے جو لفظوں میں زندہ ہے ، یعنی یہ شاخ بھی اپنی اپروچ میں اہلِ حدیث شاخ سے مختلف نہیں ہے ۔ چھوٹے پیمانے اور نچلی سطح پراہل الرائے کی شاخ میں بظاہرزندگی کا رنگ نظر آتا ہے اور اسلام کی نامیاتی خصوصیت کے اظہار کی امنگ بھی، لیکن وسعتِ نظری سے کام لیتے ہوئے اگر وسیع تر تناظر اور اعلیٰ سطح پر اس شاخ کی اپروچ کو جانچا جائے تو یہ اہلِ حدیث شاخ سے بھی زیادہ لفظ پرست محسوس ہوتی ہے ، کیونکہ اہلِ حدیث شاخ بہر حال قرآن و حدیث کے الفاظ کی پیروی کرتی ہے جبکہ نام نہاد اہل الرائے شاخ، اکابرین کے الفاظ کو تقدس کا جامہ پہنانے پر مصر ہے ۔فہم دوستی سے مغایرت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج کی اہل الرائے شاخ اپنی درخشندہ روایت کے برعکس معروف کی منکر ہے ۔ کسی ستم ظریف نے صحیح کہا ہے کہ’’ بدی ہمیشہ مذہب کے لبادے میں مستور ہوکر نیکی کا منہ چڑانے آ موجود ہوتی ہے‘‘۔ ( چاہے مکے کو بھلا کر مدینے کی گلیوں میں خاک چھاننے کے خواہش مندوں کی شکل میں ہو یا دنیا کو تج دے کر بستر بند اٹھائے آخرت میں کامیابی کی اسناد بانٹنے والے خدائی فوجداروں کے روپ میں ) روایت پسند گروہ کی ایسی مخدوش داخلی حالت کے پیشِ نظر جدت پسند گروہ سے اصلاحِ احوال کی امیدیں مزید بڑھ جاتی ہیں ۔
اس سارے عمل میں عجیب بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی مذکورہ داخلی تقسیم ایک وحدتی رجحان بھی رکھتی ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ وحدتی رجحان قرآنی علمیات سے روگردانی سے عبارت ہے۔ روایت پسند ہوں کہ جدت پسند ، دونوں گروہ اپنے اپنے مخصوص انداز میں ایسے تاریخی و خارجی جبر اور معاشرتی لوازمات کومسلم فکر و عمل میں شامل کر رہے ہیں جو قرآنی علمیات سے براہ راست متصادم ہیں۔ معاشرت اور کلچر کا لحاظ حدود سے متجاوز ہونے کے باعث معاصر مسلم رویہ نفسیاتی عوارض کا شکار ہو کر قرآنی علمیات سے کس قدر دور ہوتا جا رہا ہے، اس کی فکری وواقعاتی شہادت کے لیے ہم قربانی سے متعلق واقعہ کا رائج الوقت فہم بطور کیس سٹڈی (Case Study) پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ شدید باہمی اختلاف رکھنے والے گروہ بھی ، اس واقعے کی قرآنی علمیات کے بر عکس تعبیر کرنے میں کس قدر ہم خیال ہیں۔
حضرت ابراہیم ؑ اور قربانی کا واقعہ
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
قَالَ یَا بُنَیَّ إِنِّیْ أَرَی فِیْ الْمَنَامِ أَنِّیْ أَذْبَحُکَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ إِن شَاء اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ o فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنo وَنَادَیْْنَاہُ أَنْ یَا إِبْرَاہِیْمُ o قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْن o (الصافات: ۱۰۲۔۱۰۵)
’’کہا ، اے میرے بیٹے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں ،سوچ کر بتاؤ ، تمھاری رائے کیا ہے ؟ بیٹے نے کہا، والد محترم! آپ وہ کام کر گزریے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ پھر جب سرِ تسلیم خم کر دیا ان دونوں نے اور لٹا دیا اسے ماتھے کے بل ، ندا دی ہم نے اسے، اے ابراہیم ؑ ، بلا شبہ سچ کر دکھایا تم نے اپنا خواب۔‘‘
ان آیات کی تشریح و تعبیر میں متقدمین کے اسلوب سے جداگانہ روش اختیار کرتے ہوئے متاخرین کے ہاں وہ انتہا پسندی نظر آتی ہے جو یہودیوں کے تاریخی نسلی رویے کے متوازی چلتے ہوئے قرآنی علمیاتی نہج کو تہس نہس کر دیتی ہے۔ شبلی نعمانی ؒ کے مطابق ( سیرت النبی ﷺ ج ۱ ، ص ۹۲) اگر ذبیح حضرت اسماعیل ؑ ہیں تو اقبال ؒ کے ہاں بھی حضرت اسماعیل ؑ ہی ذبیح قرار پاتے ہیں :
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل ؑ کو آداب ِ فرزندی
یہاں ’فیضانِ نظر‘ اور ’آدابِ فرزندی‘ کی تراکیب اور الفاظ کی نشست و برخاست میںِ اقبال نے اپنی فکر کی اس جہت کے اظہار کی کوشش کی ہے جس کے سبب اقبال کو قرآن فہمی کے اعتبار سے حکیم الامت کہا جاتا ہے ، لیکن دوسرے مصرعے میں ’’ اسماعیل ؑ ‘‘ کے نام سے اقبالی فکر کا وہ پہلو بری طرح مجروح ہوتا ہے جسے قرآنی کہا جاتا ہے اور جس کی بنیاد پر بعد میں ’’ اہلِ قرآن ‘‘ کا ایک گروہ بھی سامنے آیا ۔
شبلی ؒ اور اقبال ؒ کے موقف سے مماثل رائے مفتی محمد شفیع ؒ کی ہے ۔ (ملا حظہ کیجئے معارف القرآن جلد ۷ ، ص ۴۵۸) یہی رائے پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ کی ہے۔ ( دیکھئیے ضیاء القرآن جلد ۴ ، ص ۲۱۱) سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ (تفہیم القرآن جلد ۴ ، ص ۳۰۰)، ابوالکلام آزاد ؒ (ترجمان القرآن جلد ۳ ، ص ۲۶۳) اور عبدالماجد دریاآبادی (تفسیر ماجدی ص ۹۰۱) بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔ شبیر احمد عثمانی ؒ کی تفسیرِ عثمانی (ص ۵۹۹) اور حافظ صلاح الدین یوسف کے تفسیری حاشیے ’احسن البیان‘(ص ۱۲۶۳ ) کے مندرجات بھی یہی ہیں ۔ ا لبتہ خواجہ احمدالدین امرتسری کے مطابق (تفسیر بیان للناس جلد ۶ ، ص ۳۳) ذبیح حضرت اسحاق ؑ تھے ۔ ہم زیادہ حوالوں سے گریز کرتے ہوئے امین احسن اصلاحی کی ’’ تدبرِ قرآن ‘‘ (جلد اول، صفحہ ۳۳۰) سے یہ اقتباس نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، کیونکہ معروف معاصر تفاسیر میں اسے متاخر (latest) ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ملا حظہ کیجئے :
’’یہ مسئلہ ہمارے اور یہود کے درمیان ایک بڑا نزاعی مسئلہ ہے ۔ یہود نے خانہ کعبہ اور مروہ کی قربان گاہ سے حضرت ابراہیم ؑ کا تعلق بالکل کاٹ دینے کے لیے واقعہ قربانی میں بھی اور ان کی سرگزشت ہجرت میں بھی نہایت بھونڈی قسم کی تحریفات کر دی ہیں اور اس طرح انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے جس بیٹے کی قربانی کی، وہ حضرت اسحاق ؑ ہیں نہ کہ حضرت اسماعیل۔ جس جگہ قربانی کی، وہ جبل یروشلم ہے نہ کہ مروہ۔ خدا کی عبادت کے لیے انھوں نے جو گھر بنایا، وہ بیت المقدس ہے نہ کہ بیت اللہ ۔ انھوں نے جس جگہ ہجرت کے بعد سکونت اختیار کی، وہ کنعان ہے نہ کہ جوارِ خانہ کعبہ ۔ ان بیانات کی تصدیق یا تردید کا واحد ذریعہ چونکہ تورات ہی ہے اور تورات میں یہود نے اپنے حسبِ منشا، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، تحریف کر ڈالی ، اس وجہ سے اصل حقائق سے پردہ اٹھانا بڑا مشکل کام تھا، لیکن ہمارے استاذ مولانا فراہی ؒ نے یہود کی ان تمام تحریفات کا پردہ خود تورات ہی کے دلائل سے اپنے رسالہ ذبیح میں بالکل چاک کر کے رکھ دیا ہے۔ انھوں نے تورات ہی کے بیانات سے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے وطن سے نکلنے کے بعد حضرت اسحاق ؑ کی والدہ کو تو کنعان میں چھوڑا اور خود حضرت اسماعیل ؑ اور ان کی والدہ کے ساتھ بیر سبع کے بیابان میں قیام کیا۔ یہ جگہ ایک غیر آباد جگہ تھی، اس وجہ سے انھوں نے یہاں سات کنوئیں کھودے اور درخت لگائے ، یہیں ان کو خواب میں اکلوتے بیٹے کی قربانی کا حکم صادر ہوا اور وہ حضرت اسماعیل ؑ کو لے کر مروہ کی پہاڑی کے پاس آئے اور اس حکم کی تعمیل کی۔ اسی پہاڑی کے پاس انھوں نے حضرت اسماعیل ؑ کو آباد کیا ، پھر یہاں سے لوٹ کر وہ بیر سبع گئے اور اپنے قیام کے لیے ایسی جگہ منتخب کی جو خانہ کعبہ سے قریب بھی ہو اور جہاں سے وقتاً فوقتاً حضرت اسحاق ؑ کو دیکھنے کے لیے بھی جانا آسانی سے ممکن ہو سکے۔
مولانا ؒ نے یہ ساری باتیں تورات کے نہایت ناقابلِ تردید دلائل سے ثابت کر دی ہیں۔ ہر سوال پر اصل کتاب کے اقتباسات پیش کرنے میں طوالت ہے، اس وجہ سے ہم نے صرف خلاصہ بحث اپنے الفاظ میں پیش کر دیا ہے ۔ جو لوگ تفصیل کے طالب ہوں، وہ مولانا کے مذکورہ رسالہ کا مطالعہ کریں ۔ ‘‘
ہم نے حمیدالدین فراہی ؒ کی اصل تحریر سے عمداً اجتناب کیا ہے کہ کہیں ہم پر ان کے موقف کو بگاڑنے یا نہ سمجھنے کا الزام نہ دھر دیا جائے ۔ امین احسن اصلاحی ؒ ان کے شاگردِ رشید ہیں، اس لیے یہ احتمال باقی نہیں رہتا کہ انھوں نے حمیدالدین فراہی ؒ کو سمجھنے میں خطا کی ہو۔
اس واقعہ کی مذکورہ تصریح ان سوالات کو جنم دیتی ہے :
(۱) قربانی سے متعلق قرآنی آیات میں حضرت اسماعیل ؑ کا نام کہیں نہیں آیا ، نہ ہی اس بارے میں کوئی مستند حدیث موجود ہے ۔
(۲) حضرت اسماعیل ؑ کا نام اسرائیلیات کی مدد سے ’’ تحقیق ‘‘ کر کے شامل کیا گیا ہے ۔
(۳) کیا اسرائیلیات کو انھی حدود کے اندر استعمال کیا گیا ہے جو قرآن و سنت نے مقرر کی ہیں ؟
(۴) قرآن کے مطابق قرآن، سابقہ آسمانی کتب کی تصدیق کرتا ہے ، لیکن سابقہ آسمانی صحائف میں تحریف ہو چکی ہے ، لہٰذا قرآن ہی کسی حکم کے بارے میں اساس ، پیمانہ اور اتھارٹی قرار پاتا ہے ۔ مثلاً اگر کسی آسمانی کتاب میں زیرِ بحث واقعہ حضرت ابراہیم ؑ کے بجائے کسی اور نبی سے منسوب کیا جائے تو قرآن اس کی تکذیب کرے گا اور حضرت ابراہیم ؑ کی طرف منسوب کرنے پر تصدیق کرے گا۔ اسی طرح اگر کسی آسمانی صحیفے میں حضرت ابراہیم ؑ کے بیٹے کے بجائے کسی اور شخص کو ’’ ذبیح ‘‘ کہا جائے تو قرآن اس کی تکذیب کرے گا اور اس کے برعکس ہونے پر اس کی تصدیق ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تورات یا کسی اور سابقہ آسمانی صحیفے کی مدد سے حضرت اسحاق ؑ یا حضرت اسماعیل ؑ کو ذبیح ثابت کرنا کیا ’’ اسرائیلیات کے جائز استعمال ‘‘ کے دائرے کے اندر اندر آتا ہے ؟ اس بحث کے نتیجے میں قرآن ’’ اساس ‘‘ قرار پاتا ہے یا کوئی اور آسمانی کتاب ؟
(۵) ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ذبیح کو( اسرائیلی روایات کے ذریعے ) اسماعیل ؑ سے منسوب کرنے کے پیش نظر یہ باور کرانا مقصود ہے کہ اگر ذبیح ، اسحاق ؑ ہوتے تو وہ ابراہیم ؑ کو کوئی مختلف جواب دیتے؟ یقیناًنہیں ۔ پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن اپنے اسلوب میں بیٹے کے معاملے میں بیٹے کے جواب ( آدابِ فرزندی ) پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ بیٹا کون ہے ، اس کی حیثیت قرآن کے نزدیک اضافی ہے ۔ آخر ہم ایک اضافی چیز کو کھینچ تان کر یقین کے زمرے میں کیوں لانا چاہتے ہیں ؟
(۶) ذبیح کون ہے، اس کو ثابت کرنا ایک طرف رہا ، بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بحث قرآنی علمیات کے راہنمایانہ منہاج کے مطابق بھی ہے ؟
(۷) کیا اس بحث ( یعنی حضرت اسحاق ؑ یا حضرت اسماعیل ؑ کا تذکرہ ذبیح کے طور پر کرنا ) میں وہ فسادی شائبہ نہیں ملتا جس پر قابو پانے کے لیے ہی اللہ رب العزت نے خلیفۃالارض کو ’’الاسماء کلھا ‘‘ سے نوازا تھا؟ ذبیح کی نسبت اسحاق ؑ کی طرف کرنا یہودیوں کی مجبوری ہوسکتی ہے کہ وہ نسل پرست ہیں ، آخر ہم مسلمانوں کی کیا مجبوری ہے ؟ ہمارے لیے تو اسحاق ؑ بھی اسی طرح محترم ہیں جس طرح اسماعیل ؑ ہیں ، بلکہ ہمارا ایمان تو اسحاق ؑ کو تسلیم کیے بغیر مکمل ہی نہیں ہوسکتا ۔
(۸) اس بحث کا بنیادی محرک کیا ہے ؟ کیا قرآن کے کسی حکم کا فہم مطلوب ہے یا کچھ اور ؟ کیا یہ بحث کئے بغیر قرآنی منشا مستور رہتی ہے ؟ حقیقت یہی ہے کہ اس بحث کے پیچھے بنیادی طور پر ’’جواب دینے کی نفسیات ‘‘ کار فرما ہے کیونکہ ’’مدبر ‘‘ کے اپنے الفاظ بھی اس کی صاف چغلی کھا رہے ہیں کہ ’’ یہ مسئلہ ہمارے اور یہود کے درمیان ایک بڑا نزاعی مسئلہ ہے ‘‘ ۔
(۹) جب اسرائیلیات کی رو میں بہہ کر ’’ مدبرین ‘‘ قربانی جیسے مسئلے پر یہودیوں کے ’’ فریق ‘‘ بن کر سامنے آتے ہیں تو اس کے نتیجے میں نہ صرف ’’ باپ کے فیضانِ نظر اور آدابِ فرزندی‘‘ سے توجہ ہٹ جاتی ہے بلکہ پیغام کی عمومیت ختم ہونے سے قربانی جیسے مسئلے کی بنفسہ قدرو قیمت سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ کیا قربانی اسی چیز کا نام ہے کہ ہم عمومیت کے دائرے سے نکل کر اپنے گرد ایک ایسا دائرہ کھینچ لیں جو قربانی کی اصل روح کو تج دے کر محض تفاخر کا باعث بن جائے؟ ( ابلیس کے گھمنڈ کی مانند کہ وہ بھی فرشتوں کی عمومیت کے دائرے سے باہر ایک الگ نفسانی دنیا بسا بیٹھا ) ۔
اگر ہم اسرائیلیات کی مدد لینے کے بجائے قرآنی علمیات کے راہنمایانہ منہاج کے تحت زیرِ نظر قرآنی واقعہ پر غور و فکر کریں تو مترشح ہو گا کہ :
(۱) باپ( ابراہیم ؑ ) کا تذکرہ باقاعدہ اس کے نام کے ساتھ ہوا ہے ۔
(۲) بیٹے کا ذکر اس کا نام لیے بغیر عمومیت کے انداز میں ہوا ہے کہ کوئی خاص بیٹا مراد نہیں ، بلکہ ابراہیم ؑ کا کوئی بھی بیٹا ہو سکتا ہے ۔
(۳) اگر یہاں اسماعیل ؑ یا اسحاق ؑ میں سے کوئی ایک بیٹا خصوصیت کے ساتھ مراد ہوتا تو قرآن مجید میں ’’بیٹے ‘‘ کی عمومیت کے بجائے اس بیٹے کا نام بھی لازماً موجود ہوتا، کیونکہ ہمیں قرآن مجید میں دیگر اہم مقامات پر ’ اسماعیل ؑ ‘ کا باقاعدہ نام کے ساتھ تذکرہ ملتا ہے ۔
(۴) مستشرقین کا قرآن مجید پر ایک مستقل اعتراض یہ ہے کہ اس میں تکرار موجود ہے ۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ الکتاب میں اگر بعض احکامات کا اعادہ موجود ہے تو یہاں اسماعیل ؑ یا اسحاق ؑ کا باقاعدہ نام لینے میں کیا چیز مانع تھی ؟ کیا ایک لفظ کا اضافہ خدا کے لیے مشکل تھا ؟ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے ’’ خاص حکمت ‘‘کے تحت ہی بیٹے کا ذکر عمومیت کے انداز میں کیا ہے ۔
(۵) زیرِ نظر واقعہ کے اسلوب سے جو نکتہ زیادہ وضاحت کے ساتھ مشخص ہو کر سامنے آتا ہے، اس کے مطابق قرآنی منشا ’’ باپ کے فیضانِ نظر اور آدابِ فرزندی ‘‘ کے زیادہ قریب ہے نہ کہ یہودیوں کے نسلی تفاخر کی تردید میں انھی کی تقلید مقصود ہے ۔
(۶) ان آیات کے قرآنی اسلوب میں ایسے قرائن موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر خدا کے ہاں بیٹے کا تشخص مطلوب ہوتا تو بیٹے کا نام لازماً موجود ہوتا ۔ مثلاً قرآن کا یہ کہنا کہ ’’ندا دی ہم نے اسے اے ابراہیم ! بلاشبہ سچ کر دکھایا تم نے اپنا خواب ‘‘ کچھ اس طرح سے بھی ہو سکتا تھا ، ’’ندا دی ہم نے اسے اے ابو اسماعیل‘‘ یا ’’اے ابو اسحاق‘‘۔اس طرح کے اسلوب میں باپ اور بیٹا، دونوں کا نام سامنے آسکتا تھا لیکن قرآن نے کسی خاص حکمت کے تحت ہی بیٹے کو مشخص نہیں کیا۔ ہمیں وہ حکمت تلاش کرنی چاہیے نہ کہ بیٹے کو مشخص کرنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگائیں ۔
(۷) حضرت ابراہیم ؑ کا بیٹے سے استفسار کرنا ’’فانظر ما ذا تری‘‘ کہ ’’سوچ کر بتاؤ تمھاری رائے کیا ہے ؟‘‘ کافی اہم معلوم ہوتا ہے ۔ پھر بیٹے کے اس جواب کے بعد کہ ’’آپ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘ ، ابراہیم ؑ کا بیٹے کو لٹا دینا اور اس کے بعد اللہ رب العزت کا یہ فرمانا کہ ’’اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا‘‘ ، ایک اہم نکتہ سامنے لاتے ہیں کہ خواب کو سچ کر دکھانے میں بیٹے کا کردار بنیادی ہے کہ اس نے ’فانظر ما ذا تری‘ کے جواب میں سرِ تسلیم خم کیا ، لیکن اللہ رب العزت مخاطب ابراہیم ؑ کو ہی کرتے ہیں کہ تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے آخر بیٹے کو مخاطب کر کے کیوں نہیں کہا کہ تو نے خواب ( یا اپنے باپ کا خواب ) سچ کر دکھایا ؟ قرائن یہی بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بیٹے کے بجائے باپ کی طرف متوجہ رکھنا چاہتے ہیں کہ کہیں ہم یہ نہ سمجھ لیں کہ بیٹا اور اس کا عمل اس واقعہ میں کلیدی اہمیت رکھتے ہیں ۔ باپ کی طرف ہماری توجہ مرکوز رکھنے کی خاطر ہی اللہ رب العزت نہ صرف باپ کو مخاطب کرتے ہیں بلکہ اس کے بعد آیت ۱۰۹ میں ابراہیم علیہ السلام کا باقاعدہ نام لینے کے علاوہ تمام ضمیریں بھی صرف انھی کو مشخص کرتی ہیں۔ ہماری نظر میں اقبال ؒ جب یہ کہتے ہیں کہ ’’ یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی ‘‘ تو قرآن کے ایک واضح اور مشخص نکتے کو مجرد بنا ڈالتے ہیں ۔ مکتب کی کرامت پر وہ طنز کرتے ہوئے فیضانِ نظر کا کچھ یوں ذکر کرتے ہیں جیسے وہ ( فیضانِ نظر ) باقاعدہ باپ کے ساتھ مشخص نہ ہو بلکہ عمومیت کی حامل کوئی ترکیب ہو جس سے مراد باپ کے علاوہ بھی کوئی اور ہو سکتا ہے ۔ حالانکہ قرآنی اسلوب کے قرائن بڑی وضاحت کے ساتھ فیضانِ نظر کو محض باپ کے ساتھ منسلک کرتے ہیں ۔ لہذا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے نہایت لطیف اور بلیغ پیرایے میں بیٹے کے آدابِ فرزندی کے فروغ کے لئے باپ ( نسلی تعلق کے لحاظ سے نہ کہ کوئی معنوی باپ جیسے استاد وغیرہ ) کے کردار کو اجاگر کر کے باپ بیٹے کے دائمی( نسلی) رشتے میں ذمہ داری کے مدارج کے ذیل میں ( خاص طور پر بیٹے کی تربیت کے حوالے سے ) باپ کو بنیادی ذمہ دار قرار دیا ہے ۔ اقبال اس تعلق کو ، جو نسلی اعتبار سے ذمہ داری کے ذیل میں مشخص ہو کر سامنے آیا ہے ، عمومیت کا جامہ پہنا دیتے ہیں اور پھر دوسرے مصرعے میں اسماعیل ؑ کا نام لے کر قرآنی منشا کے برخلاف عمومیت کو مشخص کر لیتے ہیں۔
(۸) ’’و ترکنا علیہ فی الاخرین‘‘ (الصافات: ۱۰۸) پر غور کرنے سے ایک اور اہم نکتہ سامنے آتا ہے ۔ قرآن نے ’’ الاخرین ‘‘ کے ذکر سے ایک امکانی بات کی گنجائش چھوڑدی کہ’’ الاخرین ‘‘ (پچھلے لوگوں میں) جن کے ہاں قربانی پائی جائے گی، ان کی نسبت سے ان کے جدِ امجد کو تلاش کرکے ذبیح کو مستقبل میں مشخص کیا جا سکے گا ۔ اس سے ایک تو یہ قرآنی منشا ظاہر ہورہی ہے کہ ذبیح لازماً مشخص ہو ، دوسرا یہ کہ قرآن اس امکانی علم کی طرف بھی توجہ دلا رہا ہے جو وقت آنے پر مشہود ہو کر نہ صرف ذبیح کون ؟کی بحث چھیڑے بلکہ بحث کو منطقی انجام تک بھی پہنچا دے ۔ لیکن ٹھہریے ، ذرا توقف کر کے ایک بار پھر قرآنی اسلوب پر غور فرمائیے کہ قرآن مجید نے ’’وترکنا علیہ فی الاخرین‘‘ میں نہایت بلیغ انداز میں ’’علیھما ‘‘ کے بجائے ’’علیہ‘‘ کو ترجیحاً استعمال کر کے حقیقت میں اس بحث کے لیے ہر قسم کی گنجائش مکمل طور پر ختم کر دی ہے۔ ’’علیہ‘‘ سے مراد ابراہیم ؑ ہیں، لہذا ’’الاخرین‘‘ سے مراد بھی ابراہیم ؑ کے پچھلے لوگ ہیں نہ کہ ابراہیم ؑ اور ذبیح دونوں کے ۔ اسی لئے مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے بھی قربانی کے واقعہ کو ’’سنتِ ابراہیمی ؑ ‘‘ کا نام دیا ہے نہ کہ سنتِ اسماعیلی کا۔ لہذا ’’و ترکنا علیہ فے الاخرین‘‘ میں مضمر قرآنی منشا یہی ہے کہ پچھلے لوگ ابراہیم ؑ کے بیٹے (اسماعیل ؑ ہوں یا اسحاق ؑ) کے بجائے خود ابراہیم ؑ سے ، اپنا تعلق جوڑیں (بالخصوص قربانی کے حوالے سے)۔ اس واضح قرآنی منشا کے بعد کہ مستقبل (الاخرین) میں بھی ذبیح کے بجائے ابراہیم ؑ کو ہی قربانی کے واقعہ میں مرکز و محور سمجھا جائے ، ذبیح کون کی بحث کرنا، کیا امکانی فساد کی صورت پذیری نہیں ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ جہاں کہیں ذبیح کو مشخص کرنے کی گنجائش نکلتی تھی، وہاں قرآن نے ’’سکوتِ حکیمانہ‘‘ کا اظہار کیا ہے ۔ ’’سلم علی ابراہیم‘‘ ۔
(۹) اگر ہم روحِ قربانی پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اسحاق ؑ یا اسماعیل ؑ میں سے کسی ایک کے نام کا باقاعدہ ذکر ایسے نظامِ تناسبات کو سامنے نہیں لا سکتا تھا جس میں مختلف انسانی گروہوں کے نفسیاتی مدارج کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اسلام کی عالمگیریت کی ایک زندہ علامت ( سنتِ ابراہیمی ؑ ) قائم ہوسکتی ۔ کون نہیں جانتا کہ حج اسلام کی عالمگیریت کا مظہر ہے اور حج اور قربانی میں گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ یہ تعلق ، قربانی کو کسی نسلی تعصب کا شکار بنانے کے بجائے آفاقی معنی پہنانے کا اشارہ کرتا ہے ۔اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں :
وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاہِیْمَ مَکَانَ الْبَیْْتِ أَن لَّا تُشْرِکْ بِیْ شَیْْئاً وَطَہِّرْ بَیْْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَالْقَائِمِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ o وَأَذِّن فِیْ النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالاً وَعَلَی کُلِّ ضَامِرٍ یَأْتِیْنَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ o (الحج:۲۶،۲۷)
’’اور جب مقرر کی تھی ہم نے ابراہیم ؑ کے لئے جگہ اس گھر کی اس ہدایت کے ساتھ کہ نہ شریک بنانا میرے ساتھ کسی چیز کو اور پاک رکھنا میرے گھر کو طواف کرنے والوں کے لئے، قیام کرنے والوں کے لئے اور رکوع وسجود کرنے والو ں کے لیے۔ اور اعلان کر دو انسانوں میں حج کا ، آئیں گے وہ تمھارے پاس پیدل چل کر اور دبلے دبلے اونٹوں پر جو چلے آرہے ہوں گے تمام دور دراز راستوں سے ‘‘
مقامِ غور و فکر ہے کہ اللہ تعالی نے یہاں بھی حضرت ابراہیم ؑ کو باقاعدہ مشخص کیا ہے ۔ اب اگر ان آیات اور قربانی کے واقعہ میں قرآنی منشاکو سورۃ آل عمران کی اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو اسلام کی حقانیت اور عالمگیریت کی چند نا گزیر جہتیں منکشف ہوتی ہیں :
قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَی کَلَمَۃٍ سَوَاء بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللّہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْْئاً وَلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّہِ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ اشْہَدُواْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ o (آل عمران ، آیت ۶۴)
’’ کہہ دیجئے اے اہلِ کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں کوئی اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو اپنا رب نہ قرار دے پھر اگر وہ اعراض کریں تو تم ان سے کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم نے تو ( اللہ ) کی فرمانبرداری اختیار کر لی ‘‘ ۔
اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے ایک دوسرے مقام پراگرچہ ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ دونوں کا باقاعدہ نام لے کر طواف اور اعتکاف کا حکم جاری کیا ہے لیکن اس حکم میں کہیں بھی ’’ حج ‘‘کا ذکر نہیں کیا اور جہاں کہیں حج کی طرف اشارہ ملتا ہے وہاں قطعیت کے ساتھ صرف ابراہیم ؑ کا نام ملتا ہے ۔ غور فرمائیے :
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی وَعَہِدْنَا إِلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ أَن طَہِّرَا بَیْْتِیَ لِلطَّاءِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُود o (البقرہ: ۱۲۵)
’’اور جب بنایا ہم نے بیت اللہ کو مرکز لوگوں کے لئے اور امن کی جگہ اور ( حکم دیا کہ ) بناؤ مقامِ ابراہیم ؑ کو نماز پڑھنے کی جگہ اور تاکید کی ہم نے ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کو ، یہ کہ پاک رکھنا تم دونوں میرے اس گھر کو طواف کرنے والوں کے لئے ، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے ‘‘ ۔
احباب جانتے ہیں کہ بیت اللہ میں طواف و اعتکاف اور رکوع و سجود ، اس سطح پر اسلام کی عالمگیریت کے مظاہر نہیں ہیں جس سطح پر حج ایک بڑا مظہر ہے ۔
( ۱۰) حج اور قربانی جہاں اسلام کی عالمگیریت کے بڑے مظاہر ہیں وہاں ایک خاص پہلو سے ان کی نوعیت دعوتی بھی ہے ۔ حج اور قربانی ، مدعی نہیں بلکہ داعی ہیں ۔جب ہم غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں تو اسلام کے نظری پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس کی عملی مثالیں بھی پیش کرنی پڑتی ہیں ۔ وحدتِ انسانی اور عالمگیریت ، اسلام کی امتیازی صفات میں سے ایک ہیں۔ اب جہاں ہم اس صفت کے نظری پہلوؤں پر روشنی ڈالتے رہتے ہیں وہاں اس کی چند عملی مثالیں پیش کرنا بھی ناگزیر ہو جاتا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایامِ حج صرف مسلمانوں کے لئے ہی اہمیت نہیں رکھتے ، بلکہ اتنے بڑے مظہر کو پوری دنیا بڑی دلچسپی سے دیکھتی ہے ۔ اس طرح یہ مظہر خود اپنی ذات میں داعی بن جاتا ہے ۔ یہی صورتِ حال قربانی کی ہے ، یہ عمل بھی پوری مسلم دنیا میں وسیع پیمانے پر منعقد ہوتا ہے، غیر مسلم اسے بھی نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ لہذا جب ہم قربانی کے واقعہ میں ذبیح کون کی بحث چھیڑتے ہیں تو قربانی اپنی نوعیت کے لحاظ سے داعی کے منصبِ جلیلہ سے اتر کر مدعی کی انتہائی پست سطح پر آ جاتی ہے ۔کیا یہ دین کی خدمت ہے ؟
(۱۱) اگر ہم قرآنی اساطیری سطح سے قربانی پر غور کریں تو یہ ’’ فدیہ ‘‘ معلوم ہوتی ہے: ’’وفدینا بذبح عظیم‘‘، ان خون ریزیوں کا فدیہ جو ’’ویسفک الدماء‘‘ کے مصداق انسان نے اس زمین پر آکر برپا کرنی تھیں۔ قرآنی اساطیری سطح سے خود قربانی کا واقعہ ہی اس کا شاہد ہے ۔ ظاہر ہے خدا کا مقصود کسی انسان کو قربان کرنا نہیں تھا بلکہ اس سلیقے سے قربانی کے مظہر کو پیش کرنا خدائی مطلوب تھا کہ قربانی کرنا انسانی نفسیات کا لازمہ بن جائے تا کہ خون ریزیوں کا ’’ فدیہ ‘‘ جاری و ساری رہے ۔ اس طرح قربانی وہ ’’ علم و فن ‘‘ ہے جو خون ریزیوں کو مغلوب کر سکتا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم قربانی کو خون کے فدیہ کے مقام سے گرا کر خون ریزی میں بدلنا چاہتے ہیں ؟ ۔ ذبیح کون ؟ کی بحث خون کے فدیہ کی طرف لے جائے گی یا خون ریزی کی طرف ؟
(۱۲) قرآن مجید کی یہ آیت بھی ہماری رائے کو تقویت دیتی ہے:
یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِیْ إِبْرَاہِیْمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاۃُ وَالإنجِیْلُ إِلاَّ مِن بَعْدِہِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَo ....... مَا کَانَ إِبْرَاہِیْمُ یَہُودِیّاً وَلاَ نَصْرَانِیّاً وَلَکِن کَانَ حَنِیْفاً مُّسْلِماً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْن o (آل عمران: ۶۵۔۶۷)
’’اے اہلِ کتاب ، کیوں حجت بازی کرتے ہو تم ابراہیم ؑ کے بارے میں جبکہ نہیں نازل ہوئی تورات اور انجیل مگر ابراہیم ؑ کے بعد۔ کیا تم نہیں سمجھتے ؟ ......نہ تھا ابراہیم ؑ یہودی اور نہ نصرانی، بلکہ تھا وہ سب سے لا تعلق، اللہ کا فرمانبردار، اور نہ تھا وہ مشرکوں میں سے۔‘‘
یہاں منطقی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ابراہیم ؑ کو ’اسماعیلی‘ بنانا چاہتے ہیں ؟ ایک دوسرے مقام پر قرآن مجید کا دل پذیر اسلوب صحیح راہ کی اس طرح نشاندہی کرتا ہے :
أَمْ کُنتُمْ شُہَدَاء إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِیْ قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَہَکَ وَإِلَہَ آبَائِکَ إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ إِلَہاً وَاحِداً وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ o (البقرہ: ۱۳۳)
’’ کیا تھے تم حاضر اس وقت جب قریب آیا یعقوب ؑ کی موت کا وقت ۔ جب پوچھا تھا اس نے اپنے بیٹوں سے کہ کس کی عبادت کرو گے تم میرے بعد ؟ ان سب نے کہا عبادت کریں گے ہم تیرے معبود کی اور تیرے آباؤ اجداد ابراہیم ؑ ، اسماعیل ؑ اور اسحاق ؑ کے معبود کی ، جو الہ واحد ہے اور ہم سب اسی کے فرمانبردار ہیں ‘‘
ذرا غور فرمائیے کہ کیا اس آیت میں اللہ تعالی نے چار جلیل القدر نبیوں کے نام گنوائے ہیں ۔ کیا صرف یعقوب ؑ کے نام سے کام نہیں چل سکتا تھا ؟ یا پھر آباؤ اجداد کا ذکر انھیں مشخص کئے بغیر بھی ہو سکتا تھا ۔۔۔۔تیرے معبود کی اور تیرے آباؤ اجداد کے معبود کی ۔۔۔۔لیکن قرآن نے یہاں یہ اسلوب نہیں اپنایا بلکہ عمومیت ’’ ابائک ‘‘ کے ساتھ باقاعدہ نام بھی لئے ہیں ۔ اس میں کیا حکمت ہے ؟ یہ ایک الگ بحث ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قربانی کے واقعہ میں بیٹے کا تشخص خدا کے ہاں ا تنا ہی ضروری ہوتا جتنا ہمارے ہاں سمجھ لیا گیا ہے تو کیا اللہ رب العزت بیٹے کو باقاعدہ مشخص نہ کرتے ؟ یا پھر کم از کم کوئی واضح اشارہ ہی ضرور فرمادیتے ۔ خود قرآن مجید اپنے آپ کو ’تبیانا لکل شء‘ اور ’تفصیلا لکل شء‘ قرار دیتا ہے جس میں ہر ضروری پہلو کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہم لوگ قرآنی الفاظ اور روح قربانی کی پیروی میں بیٹوں ( نسلوں ) کی بحث میں الجھے بغیر ابراہیم ؑ پر فوکس کریں کہ دونوں بیٹے انھی کے تھے اور دونوں ہی جلیل القدر پیغمبر تھے ۔ قربانی کے واقعہ میں قرآنی اسلوب در حقیقت خاندانی نظام کی بقا اور خاندانی نظام میں باپ بیٹے کے تعلق میں ذمہ داری کے ذیل میں باپ کے فیضانِ نظر کی جانب توجہ مبذول کراتا ہے ہمیں اسی فیضانِ نظر کی کھوج لگا کر عالمی سطح پر خاندانی نظام کے دوام اور اس سے وابستہ تقدس کی حفاظت کرنی چاہیے ۔
حرفِ آخر
جوں جوں وقت گزرتا گیا ہے ، ہم مسلمانوں کے ہاں قرآن و سنت کے فہم اوراس پر عمل کے حوالے سے تاریخی و خارجی جبر اور معاشرتی تقاضوں کا لحاظ حدود سے متجاوز ہوتا گیاہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ لحاظات اپنے مقام سے ہٹتے ہوئے ہمارے لیے نفسیاتی عوارض کی شکل اختیار کرتے گئے ہیں ۔ قربانی کے مسئلے ہی کو لیجئے اور غور کیجئے کہ ہم نے قرآنی علمیات سے صریحاً پہلوتہی کرتے ہوئے اس میں حضرت اسماعیل ؑ کا نام اس طرح شامل کر دیا ہے کہ اب یہ نام قربانی کے حوالے سے ہمارے ہاں بنیادی صداقتوں میں شمار ہوتا ہے ۔ معاشرے میں کسی فرد سے پوچھ لیجیے، وہ قربانی کے ذکر میں ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کو اس طرح ڈسکس کرے گا جیسے اسماعیل ؑ کا نام قرآن نے باقاعدہ اس واقعہ میں لیا ہو ۔ اور تو اور، سکولوں اور کالجوں کی نصابی کتب میں بھی اسماعیل ؑ کا تذکرہ اسی انداز میں ہوتا ہے۔ مقامِ غور و فکر یہ ہے کہ ایسی افراط و تفریط بنیادی طور پر اس حلقے کی پیدا کردہ ہے جو اپنے ’’تدبر ‘‘ کے دائرے کو قرآنی قرار دینے پر اس قدر مصر ہے کہ حدیث کی حجیت کو طوعاً وکرہاً ہی تسلیم کرتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایسے’’ مدبرین‘‘ محض اسرائیلیات کے بل بوتے پر( تاریخ و معاشرت اور کلچر کے بے جا اثبات کا شکار ہو کر) ایسا علمی و فکری رویہ پروان چڑھارہے ہیں جس سے قرآنی علمیاتی منہج اور قرآنی منشا پسِ پشت چلے گئے ہیں، حالانکہ نبی خاتم ﷺ کا مستند ارشاد موجود ہے کہ اہلِ کتاب کی نہ تصدیق کرو، نہ تکذیب۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ذبیح کون کی بحث میں مبتلا لوگوں کا طرِ عمل سورۃ البقرۃ میں گائے کے واقعہ میں یہودیوں کے طرزِ عمل سے مشابہ ہے۔ یہودی بھی خوامخواہ کی بحث کر رہے تھے کہ گائے کی عمر کتنی ہو ؟ اس کا رنگ کیسا ہو ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ قرآن نے یہ فرما کر ’’آخر ذبح کر دیا انہوں نے اسے ، اگرچہ نہ لگتا تھا کہ وہ ایسا کریں گے ‘‘ یہودی رویے پر گرفت کی ہے ۔ اب اگر ہم بھی ذبیح کون کی لایعنی بحث کے بعد( بلکہ اسی بحث کی اساس پر ) قربانی کر ہی لیتے ہیں تو غور فرمائیے قرآن کی نظر میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟
ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جہاں بہتر سمجھا، وہاں اسماعیل ؑ کا ذکر باقاعدہ نام لے کر کیا ، مثلاً بیت اللہ کی تعمیر کے ذکر میں ان کا نام موجود ہے ۔ ذرا غور کیجئے کہ اگر قربانی کے واقعہ میں بھی ان کا نام شامل ہوتا تو معترضین کو پھبتی کسنے کا موقع ملتا کہ اسلام دعویٰ تو عالمگیریت کا کرتا ہے لیکن اصلاً اسماعیلی ہے۔ اسی طرح اگر اسحاق ؑ کا نام شامل ہوتا تو یہودیوں کی نسل پرستی کو مزید شہ ملتی۔ قرآن نے نہایت حکیمانہ اسلوب میں بیٹے کا ذکر عمومیت کے انداز میں کر کے توازن اور جامعیت کی روش اپنائی ہے ۔ مقامِ افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیرت کے مورخین بھی ( بشمول شبلی نعمانی) نبی خاتم ﷺ کا نسلی تعلق حضرت اسماعیل ؑ کے ساتھ ثابت کرنے کے لیے باقاعدہ الگ ابواب اور فصلیں باندھتے ہیں حالانکہ قرآن نے کسی بھی مقام پر آپ ﷺ کو ذریتِ اسماعیل ؑ کے حوالے سے مخاطب نہیں کیا، بلکہ حضرت ابراہیم ؑ کو ہی پیشِ نظر رکھا ہے۔ مثلاً سورۃ آل عمران میں ہے کہ
إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُ وَہَذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوا (آیت ۶۸)
’’بے شک لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ابراہیم ؑ کے وہ لوگ ہیں جنھوں نے پیروی کی ان کی، نیز یہ نبی اور وہ لوگ جو ایمان لائے۔‘‘
بہر حال ! یہودیوں کی طرز پر نسلی ( نفسیاتی) عوارض کا شکار ہو کر کسی خاص بیٹے کو ذبیح قرار دینے سے ( چاہے اسماعیل ؑ کو ثابت کیا جائے یا اسحاق ؑ کو ) نہ صرف قرآنی متن اور قرآنی منشا سے تصادم ہوتا ہے بلکہ دینِ اسلام کی عالمگیریت ( اور عالمگیریت کی بنیادی اکائی یعنی خاندانی نظام )بھی اس کی زد میں آ جاتے ہیں ۔ہم درود شریف پر اپنی بات کو ختم کرتے ہیں کہ اس کی معنویت پر غور و فکر گہری بصیرت سے نواز سکتا ہے:
اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی ابراہیم انک حمید مجید اللہم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی ابراہیم انک حمید مجید۔
آفتاب عروج صاحب کے خیالات پر ایک نظر
محمد شکیل عثمانی
ماہنامہ الشریعہ اکتوبر ۲۰۰۵ میں اہل تشیع کی تکفیر کے سلسلے میں آفتاب عروج صاحب کا مضمون پڑھا۔ موصوف غلام احمد پرویز صاحب کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور منیر رپورٹ سے استدلال، بحیثیت مجموعی طبقہ علما کی مذمت اور صرف قرآن کو اتحاد ملت کی اساس قرار دینا اس گروہ کی خاص تکنیک ہے۔
آفتاب عروج صاحب نے منیر رپورٹ کے حوالے سے علما پر یہ گھسا پٹا اعتراض دہرایا ہے کہ وہ فسادات پنجاب (۱۹۵۳) کی تحقیقاتی عدالت کے سامنے مسلمان کی متفقہ تعریف پیش نہیں کر سکے تھے۔ منیر رپورٹ سیکولر اور نام نہاد روشن خیال اعتدال پسندوں، منکرین سنت ، قادیانیوں اور مستشرقین کی بائبل ہے۔ اسلام، اسلامی ریاست اور علما پر جب بھی انھیں اعتراض کرنا ہوتا ہے، وہ اسی رپورٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ شاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ میرے سرہانے دو کتابیں رکھی رہتی ہیں، ایک لیڈی چیٹرلیز لور (ایک فحش ناول) اور دوسری منیر رپورٹ۔
منیر رپورٹ کے مرتبین کا کہنا ہے کہ دو علما بھی ایسے نہ تھے جو مسلمان کی تعریف پر متفق ہوں اور اگر وہ اپنی طرف سے مسلمان کی تعریف کریں جو ان تعریفوں سے مختلف ہوں جو دوسروں نے پیش کی ہیں تو انھیں متفقہ طور پر خارج از اسلام قرار دیا جائے گا اور اگر وہ علما میں سے کسی ایک کی تعریف کو اختیار کر لیں تو اس عالم کے نزدیک تو مسلمان رہیں گے لیکن دوسرے تمام علما کی تعریف کی رو سے کافر ہو جائیں گے۔ یہ عذر پیش کر کے مرتبین نے اپنی طرف سے مسلمان کی کوئی تعریف پیش کرنے سے جان چھڑا لی ہے، حالانکہ اسی رپورٹ میں اسلام، اسلامی ریاست اور فنون لطیفہ کے بارے میں فاضل جج صاحبان نے اپنی آرا بیان کی ہیں۔ اگر وہ مسلمان کی تعریف بھی بیان کر دیتے تو اہل علم کو رہنمائی ملتی۔ فاضل مرتبین نے علما سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ انھیں ۵ مارچ ۱۹۵۳ کو لاہور کے بپھرے ہوئے عوام کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو جانا چاہیے تھا، خواہ لوگ ا ن کی تکا بوٹی کر ڈالتے، جبکہ خود مرتبین نے مسلمان کی تعریف اس رپورٹ میں شامل کرنے سے اس بنا پر تامل کیا کہ ’’ہم باتفاق خارج از اسلام قرار پائیں گے۔‘‘
اب آئیے اس افسانے کی طرف کہ دو علما بھی مسلمان کی تعریف پر متفق نہ تھے۔ اس موضوع پر جناب نعیم صدیقی اور جناب سعید ملک نے اپنی کتاب ’’فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ‘‘ میں عمدہ بحث کی ہے۔ یہاں اس کا ایک اقتباس نقل کریں گے:
’’صحت، ریاست اور بغاوت کی تعریف مختلف اہل علم نے مختلف الفاظ میں کی ہے مگر یہ اختلافات زیادہ تر تعبیر کے اختلافات ہیں۔ ایسا ہی حال ’’مسلمان‘‘ کی تعریف کا بھی ہے کہ ایک ہی حقیقت کو مختلف اہل علم نے مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے۔ ان کے درمیان حقیقت شے میں نہیں، انداز بیان میں اختلاف ہے۔
ایک شخص کہتا ہے کہ جو کوئی قرآن اور ما جاء بہ محمد (جو کچھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں) کو مانتا ہے، وہ مسلمان ہے۔ دوسرا کہتا ہے جو خدا کی توحید، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء سابقین کی نبوت، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم المرسلینی، قرآن اور آخرت کو مانے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو واجب الاطاعت تسلیم کرے، وہ مسلمان ہے۔ تیسرا کہتا ہے مسلمان وہ ہے جو کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا قائل ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع قبول کر لے۔ چوتھا کہتا ہے جو توحید اور انبیا اور کتب الٰہی اور ملائکہ اور یوم آخر کو مانے، وہ مسلمان ہے۔ پانچواں کہتا ہے مسلمان ہونے کے لیے ایک شخص کو خدا کی توحید اور انبیا اور آخرت پر ایما ن اور خدا کی بندگی اختیار کرنی چاہیے اور ہر اس چیز کو ماننا چاہیے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔ چھٹا کہتا ہے توحید، نبوت اور قیامت کو ماننا اور ضروریات دین (مثلاً احترام قرآن اور وجوب نماز، وجوب روزہ، وجوب ح مع الشرائط کو تسلیم کرنا مسلمان ہونا ہے۔ ساتواں کہتا ہے کہ جو پانچ ارکان اسلام اور رسالت محمدیہ کو تسلیم کر لے، اس کو مسلمان مانتا ہوں۔ آٹھواں کہتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی اطاعت کرتے ہوئے جو ضروریات دین کو تسلیم کرے، میرے نزدیک وہ مسلمان ہے۔ (مندرجہ بالا تعریفوں کے لیے ملاحظہ ہو منیر رپورٹ صفحہ ۲۱۵ تا ۲۱۷)
ان مختلف تعریفات کا تقابل اور تجزیہ کر کے دیکھیے۔ کیا ان کے درمیان مسلمان کی نفس حقیقت میں کوئی فرق ہے؟ ضروریات دین وہی تو ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوں۔ اسی چیز کے لیے دوسرے الفاظ ما جاء بہ محمد ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو مان لینے میں قرآن، توحید، رسالت، آخرت ، ملائکہ، انبیا اور کتب آسمانی سب کا مان لینا آپ سے آپ شامل ہو جاتا ہے اور یہی کچھ قرآن کو مان لینے کا نتیجہ بھی ہے۔ کوئی شخص خواہ قرآن کو مان نے کا اعلان کرے یا یہ کہے کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت مان لی یا ایک ایک چیز کا الگ الگ نام لے کر اس کے ماننے کا اقرار کرے، تینوں صورتوں میں لازماً ایک ہی اسلام کو قبول کرنے کا اعلان واقرار ہوگا اور محض کلمہ لا الہ الا الہ محمد رسول اللہ کو مان لینے کا حاصل بھی اس سے ذرہ برابر مختلف نہ ہوگا۔ لہٰذا ان آٹھوں آدمیوں نے مختلف الفاظ میں جس حقیقت کو بیان کیا ہے، وہ بعینہ ایک حقیقت ہے۔ مسلمان کے تصور اور اس کے معنی میں ان کے درمیان ایک بال کے برابر بھی فرق نہیں ہے۔ آپ جب چاہیں، ان آٹھوں آدمیوں میں سے کسی ایک کی بیان کی ہوئی تعریف دنیا کے کسی عالم دین کے سامنے رکھ دیں، وہ بلا تکلف کہہ دے گا یہ مسلمان کی صحیح تعریف ہے۔ خود ان آٹھوں آدمیوں سے پوچھ کر دیکھیے، ان میں سے ہر ایک تسلیم کرے گا کہ دوسرے کی بیان کردہ تعریف غلط نہیں ہے۔ (ص ۱۲۰ تا ۱۲۲)
محترم آفتاب عروج صاحب کا یہ ارشاد کہ صرف قرآن ہی اتحاد ملت کی اساس ہے، پرویز صاحب کے دعوے کی صدائے بازگشت ہے جنھوں نے فرمایا کہ ’’بے شک آیات قرآنی کے معنی سمجھنے میں بھی اختلافات ہو سکتے ہیں مگر یہ اختلافات چونکہ الفاظ وعبارات کے نہ ہوں گے بلکہ صرف فہم کے ہوں گے اس لیے مزید غور وفکر سے مٹ جائیں گے۔‘‘ (مقام حدیث جلد اول ص ۱۹۷) گزشتہ پچھتر سال کی تاریخ اس کی گواہ ہے کہ ’’قرآنی فکر‘‘ کے علم برداروں کے تعبیری اختلافات بجائے مٹنے کے بڑھے ہیں۔ مثلاً دیکھیے قرآنی فکر کے علم بردار ایمان بالرسل کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق لکھتے ہیں کہ کسی بھی نبی پر ایمان کافی ہے۔ جزوی ایمان چاہیے۔ ایمان بر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ضروری نہیں۔ (ایک اسلام) واضح رہے کہ برق صاحب نے اس کتاب سے لاتعلقی کا آخر وقت تک اظہار نہیں کیا اور ’’دو اسلام‘‘ سے بھی ان کا اظہار لا تعلقی محض دفع الوقتی تھا۔ یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر ڈاکٹر عبد العزیز ساحر نے ’’ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے خطوط‘‘ کے دیباچے میں بڑی نفیس بحث کی ہے۔
جناب غلام احمد پرویز اور حافظ اسلم جیراج پوری کے نزدیک رسول پر محض ایمان لانا ضروری ہے۔ اس کے انتقال کے بعد اس کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے، اس لیے کہ اطاعت بالمشافہہ ہوتی ہے اور اب کوئی زندہ نبی نہیں ہے جس کی بالمشافہہ اطاعت کی جائے۔ اب اطاعت مرکز ملت کی ہوگی۔ (اسلامی نظام ص ۱۲۲۔ مقام حدیث جلد اول ص ۱۹)
مولوی احمد الدین امرتسری لکھتے ہیں کہ حضور ﷺ پر ایمان تو ضرور لانا چاہیے مگر ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھنا چاہیے کہ رسول خدا قرآن مجید کا تمام فہم نہیں رکھتے تھے اور یہ کہ حضور سے قرآن کے فہم میں بکثرت غلطیاں ہوئیں۔ (برہان القرآن)
یہی حال ایمان بالملائکہ، ایمان بالکتاب، ایمان بالآخرۃ، صلوٰۃ، روزے، درود وغیرہ کی تعبیر وتشریح میں ہے۔ چند سال پہلے علامہ محمد حسین عرشی، جو پچاس کی دہائی میں طلوع اسلام کے صفحات پر پرویز صاحب کی خدمات قرآنی کو خراج تحسین پیش کیا کرتے تھے، پرویز صاحب کی کتاب مفہوم القرآن کی اشاعت کے بعد ۲۰ جون ۱۹۸۴ کو محمد اقبال سلمان کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’.... لفظ آدم پر مفصل مقالہ صحت یاب ہو کرلکھیں ...... آپ نے پرویز صاحب کامفہوم القرآن شاید نہیں دیکھا۔ میرے خیال میں ان کو ایسی جسارت نہیں کرنی چاہیے تھی، لیکن اس کے مطالعے کے لیے قاری کو اپنی بصیرت کی بھی ضرورت ہے کیونکہ انھوں نے اپنی رائے اور میلان کو خواہ مخواہ گھسیڑ دیا ہے۔‘‘ (نوادرات عرشی مرتبہ ڈاکٹر تصدق حسین راجا، ص ۸۸)
علامہ تمنا عمادی جو ۵۰ کی دہائی میں پرویز صاحب کو علامہ پرویز لکھتے تھے اور جن کی قرآنی بصیرت پر طلوع اسلام کو بڑا اعتماد تھا، ۶۰ کی دہائی میں پرویز صاحب کی تصنیف لغات القرآن کے سب سے بڑے ناقد بن گئے۔ ماہر القادری لکھتے ہیں:
’’علامہ تمنا عمادی نے غلام احمد پرویز کی لغات القرآن پر بڑی کس کر تنقید کی۔ ان کے کئی مضامین فاران میں بھی چھپ چکے ہیں۔ اس موضوع پر نہ جانے کتنے مضامین غیر مطبوعہ ہی رہے۔ علامہ نے اپنے مضامین میں اعلیٰ علمی استدلال کے ساتھ ثابت کیا کہ لغات القرآن کا لکھنے والا نہ قرآنی علوم سے واقف ہے اور نہ عربی زبان وادب سے باخبر ہے۔ قرآن کی یہ عجیب لغت ہے جس میں قرآن ہی کی مخالفت کی گئی ہے۔‘‘ (ماہنامہ فاران، فروری ۱۹۷۳)
قرآنی فکر کے علم بردار دو اداروں، طلوع اسلام اور بلاغ القرآن کے تعبیر قرآن کے اختلافات ایک مستقل مضمون کے متقاضی ہیں۔ کسی مناسب موقع پر ان شاء اللہ ان پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔
ناقدین کی خدمت میں (۱)
طالب محسن
(دسمبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کے مضمون ’’اسلام اور تجدد پسندی‘‘ کے جواب میں ہمیں ’المورد‘ کے ایسوسی ایٹ فیلو جناب طالب محسن اور ’دانش سرا‘ گکھڑ منڈی کے رفیق محمد عثمان صاحب کی طرف سے تحریریں موصول ہوئی ہیں۔ اس موضوع پر مزید بحث مباحثے کے لیے یہ صفحات حاضر ہیں۔ مدیر)
(۱)
استاد محترم جناب جاوید احمد غامدی کے افکار وآرا پر بہت سی تنقیدیں لکھی گئی ہیں اور آئندہ بھی لکھی جائیں گی۔ عام طور پر یہ تنقیدیں محض دشنام طرازی، طعن وتشنیع اور تضحیک واستہزا پر مبنی ہوتی ہیں۔ کچھ اندیشوں اور خدشات کو بنیاد بنا جاتا ہے۔ کچھ اندازے قائم کیے جاتے ہیں جو سراسر سوء ظن پر مبنی ہوتے ہیں۔ کچھ مقاصد طے کیے جاتے ہیں جن کا کوئی ثبوت کسی قول وتحریر میں نہیں ہوتا۔ اور اس طرح صاحب تنقید اپنے لیے قلمی جہاد کا جواز فراہم کرتااور نوک قلم سے اپنے ہی علم وتقویٰ کا خون کر ڈالتا ہے۔
’المورد‘ میں، چھپنے والی ان تنقیدوں کو غور سے پڑھا جاتا ہے اور اگر کوئی صحیح تنقید ہو تواسے شکر کے جذبے کے ساتھ قبول بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسی تنقیدوں کی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ چنانچہ ہم بالعموم ان تنقیدوں کے جواب میں خاموش رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تنقیدوں میں کوئی قابل جواب نکتہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ ہماری اصولی پالیسی یہ ہے کہ اگر کوئی علمی تنقید ہو تو اس کا نوٹس لینا چاہیے، اس لیے کہ یہ تنقید علمی نکات کی تنقیح میں معاون ہوتی اور بہت سی باتیں سمجھنے اور سمجھانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ میں استاد محترم کو برس ہا برس سے جانتا ہوں، وہ اپنی غلطی کو مان لینے میں پس وپیش نہیں کرتے اور ان کی طرف سے اس طرح کا ردعمل بھی کبھی سامنے نہیں آیا کہ انھوں نے جو کچھ کہہ دیا ہے، وہ حرف آخر ہے اور ان کے افکار وآرا میں کوئی غلطی نہیں ہو سکتی یا اس میں اصلاح کی گنجایش نہیں ہے۔چنانچہ ہم نے انھیں سچی تنقید کا خیر مقدم کرتے ہی دیکھا ہے۔باقی رہیں سوء ظن اور الزام تراشی پر مبنی تحریریں تو ان کے بارے میں وہ خاموشی ہی کو اولیٰ سمجھتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ تنقیدیں اس سے بہتر کسی سلوک کی مستحق نہیں ہوتیں۔
ہمارے ہاں، بالعموم مختلف رائے رکھنے والے کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے اور اس کا نتیجہ بالعموم اسی کے حق میں نکلتا ہے، اس لیے کہ اس طرح کی تنقیدیں تنقید کرنے والوں کی علمی بے مایگی کا ثبوت ہوتی ہیں اوراپنے اندر موجود صحیح نکات کو بھی اکارت کر دیتی ہیں۔میں جب یہ سوچتا ہوں کہ ممکن ہے یہ تنقید کرنے والے اپنے تعصب کی وجہ سے قلم زن نہ ہوئے ہوں، بلکہ حق ہی کو سمجھنا اور سمجھانا چاہتے ہوں تو میرے دل میں ان کے لیے ایک ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ یہ سطور ایسے ہی ناقدین کے لیے لکھ رہا ہوں۔ میرے پیش نظر یہ ہے کہ ایسے ناقدین کو تجویز کروں کہ حقیقی علمی تنقید کیا ہوتی ہے اور اس کے مشمولات کیا ہوتے ہیں۔
ہمارا موضوع دین ہے۔ دین میں حق وناحق کا فیصلہ نصوص کے فہم سے ہوتا ہے۔ نصوص کے فہم میں غلطی دو سبب سے ہو سکتی ہے۔ ایک یہ کہ وہ اصول غلط ہو جس کی روشنی میں نص کے معنی طے کیے جا رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اصول تو ٹھیک ہو، لیکن اس کے اطلاق میں غلطی ہو رہی ہو۔ چنانچہ دین سے متعلق موضوعات میں تنقید واصلاح کا دائرہ بہت معین ہو جاتا ہے۔ امت میں رائج علمی مکاتب فکر کے اصولوں کے تحت کسی رائے پر تنقید کا دائرہ اور بھی محدود ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بحث صرف کسی نحوی، کلامی، تفسیری یا فقہی اصول کے اطلاق کی غلطی واضح کرنے پر موقوف ہوتی ہے۔ استاد محترم غامدی صاحب کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ استاد محترم نے اصول میں بھی تحقیقی کام کیا ہے اور مولانا فراہی علیہ الرحمۃ کے منہج استدلال کو آگے بڑھاتے ہوئے مآخذ کے فہم کے قواعد کو نئے سرے سے مرتب کیا ہے۔ اب ناقدین کے لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ اگر انھیں استاد محترم کے کسی نقطہ نظر میں غلطی محسوس ہوتی ہے تو وہ یہ دیکھیں کہ جس نص پر یہ رائے مبنی ہے، اس کے سمجھنے میں کیا غلطی ہوئی ہے اور اگر انھیں محسوس ہوکہ یہ نتیجہ کسی غلط اصول کے سبب سے ہے تو انھیں چاہیے کہ اس اصول کی غلطی متعین کریں اور اسے واضح کرنے کے لیے قلم اٹھائیں۔
استاد محترم کے ناقدین اگر یہ رویہ اختیار کریں تو مجھے قوی امید ہے کہ وہ اپنے اور ہمارے لیے خیروفلاح کا باعث بنیں گے اور آخرت میں بھی بہتر اجر کے حق دار قرار پائیں گے۔
طالب محسن
’المورد‘۔ 51-K
ماڈل ٹاؤن ۔لاہور
ناقدین کی خدمت میں (۲)
حافظ محمد عثمان
(دسمبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کے مضمون ’’اسلام اور تجدد پسندی‘‘ کے جواب میں ہمیں ’المورد‘ کے ایسوسی ایٹ فیلو جناب طالب محسن اور ’دانش سرا‘ گکھڑ منڈی کے رفیق محمد عثمان صاحب کی طرف سے تحریریں موصول ہوئی ہیں۔ اس موضوع پر مزید بحث مباحثے کے لیے یہ صفحات حاضر ہیں۔ مدیر)
’الشریعہ‘ کے دسمبر کے شمارے میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کا مضمون ’اسلام اور تجدد پسندی‘ پڑھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں مغربی تہذیب کے حوالے سے تین رویوں کا ذکر کیا ہے اور ان میں سے دوسرے رویے پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’دوسرے وہ حلقہ فکر جو فکری مرعوبیت کا شکار ہو گیا اور ا س نے مغربی تہذیب اور اس کے اصولوں کی ’بڑائی‘ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور وہ اس چیز کا علم بردار بن گیا کہ اپنے نظام فکر وعمل کو بدل کر اسے اس نئی اور غالب تہذیب سے ہم آہنگ کر دے۔‘‘
اس دوسرے نقطہ نظر کے حاملین میں ڈاکٹر صاحب نے جاوید احمد غامدی صاحب کو بھی شامل کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک غامدی صاحب مغربی تہذیب سے مرعوب ہیں اور مغربی تہذیب کے فکری چولے کو اسلام پر فٹ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اگر اس دعوے کے حق میں کچھ دلائل وشواہد پیش کر دیتے تو قارئین بھی بہتر طور پر ان کے دعوے کا تجزیہ کر پاتے اور ڈاکٹر صاحب سے اختلاف رکھنے والوں کو بھی دلائل کی بنیاد پر بات کرنے میں آسانی ہوتی، لیکن افسوس ہے کہ انھوں نے سارا مضمون ایک جذباتی اور تاثراتی کیفیت میں لکھا ہے اور اس میں استدلال نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ میرا گزشتہ کئی سالوں سے غامدی صاحب سے تعلق ہے، ان کی کم وبیش تمام تحریریں میں نے پڑھ رکھی ہے، اور ان کی فکر کے امتیازی خط وخال سے بھی میں آگاہ ہوں۔ غامدی صاحب دین وشریعت کی تعبیر وتشریح میں رائج علمی آرا سے تو بے شک بہت سے اختلافات رکھتے ہیں، لیکن ان کے زاویہ نگاہ میں مغرب سے مرعوبیت یا مغرب پرستی کا کوئی شائبہ بھی میں نے کبھی محسوس نہیں کیا۔ اس کے برعکس جب میں فکر وفلسفہ اور تہذیب وثقافت کی سطح پر مغرب کے پیدا کردہ چیلنج اور پھر ان کے حوالے سے غامدی صاحب کی آرا وافکار کا جائزہ لیتا ہوں تو وہ اسلامی شریعت اور اسلام کی تہذیبی اقدار کے ساتھ وابستگی کے حوالے سے بالکل یکسو دکھائی دیتے ہیں۔ مغربی فکر، نظام حیات کے کسی بھی دائرے میں، خواہ وہ سیاست ہو یا معیشت، معاشرت ہو یا قانون، انسانی عقل وتجربہ سے بالاتر کسی ذریعہ ہدایت کو ماخذ ماننے کے لیے تیار نہیں، جبکہ غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’میزان‘ میں ان تمام دائروں سے متعلق قرآن وسنت کی ہدایات کی نہ صرف باقاعدہ تشریح کی ہے بلکہ مسلم دانش وروں میں پھیلے ہوئے بہت سے غلط افکار (مثلاً سود کا جواز، اسلامی حدود کو سنگین اور وحشیانہ سمجھتے ہوئے ان سے دست برداری، مرد اور عورت کی ہر پہلو سے مساوی قانونی حیثیت، مقاصد شریعت کو ابدی جبکہ متعین شرعی قوانین کو وقتی اور عارضی قرار دینا وغیرہ) کی واضح طور پر تردید کی ہے اور فطرت انسانی اور علم وعقل کی روشنی میں اسلامی شریعت کے احکام وہدایات کا دفاع کیا ہے۔
اپنی کتاب ’مقامات‘ کے مضمون ’تہذیب کی جنگ‘ میں معاصر تہذیبی جنگ کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
’’یہ تہذیب اگرچہ پچھلے تین سو سال سے روبہ زوال ہے، اس کا فطری ارتقا بند ہو چکا ہے، اس پر مسلمانوں کی اسلام سے عملی بے پروائی کے اثرات بھی نمایاں ہیں، امتداد زمانہ سے جاہلیت کے بہت سے اجزا بھی اس میں شامل ہو چکے ہیں اور یہ بلاشبہ بہت کچھ اصلاح کی متقاضی ہے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود یہ بہرحال میری تہذیب ہے۔ میں اس میں ہر وقت اصلاح کے لیے تیار ہوں، لیکن اس کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کو اختیار کر لوں، یہ میرے لیے کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ مغربی تہذیب اس وقت دنیا کی غالب تہذیب ہے اور میری قوم کے کارفرما عناصر اس سے اس قدر مرعوب ہو چکے ہیں کہ ان کی ساری جدوجہد اب اس کو پوری طرح اپنا لینے ہی میں لگی ہوئی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ انھیں یہ بات اب بہت آسانی کے ساتھ نہیں سمجھائی جا سکتی کہ دین اگر اپنی تہذیبی شناخت سے محروم ہو جائے تو اس کی حیثیت پھر آفتاب کی سی ہوتی ہے جو آسمان پر نمودار تو ہوا لیکن گہرے بادلوں کے پیچھے سے اپنی شعاعیں ہماری زمین تک پہنچانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔‘‘ (ص ۹۰)
اسی مضمون میں آگے چل کر وہ لکھتے ہیں:
’’مجھے ان سب باتوں پر اصرار ہے اور میں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اسلام کی جنگ اگر تہذیب کے میدان میں ہار دی گئی تو پھر اسے عقائد ونظریات کے میدان میں جیتنا بھی بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس وجہ سے میں اپنے ان دوستوں کی خدمت میں جو اردو اور شلوار قمیض اور اس طرح کی دوسری چیزوں پر میرے اصرار کو دیکھ کر چیں بہ چیں ہوتے ہیں، بڑے ادب کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں صرف فکر مغرب ہی کو نہیں، اس تہذیب کو بھی اپنے وجود کے لیے زہر ہلاہل سمجھتا ہوں۔ چنانچہ میں جس طرح اس کے فکری غلبہ کے خلاف نبرد آزما ہوں، اسی طرح اس کے تہذیب استیلا سے بھی برسر جنگ ہوں۔ میں نہیں جانتا اس معرکہ میں فتح کس کی ہوگی، لیکن یہ میرے ایمان کا تقاضا ہے کہ میں اسی طرح پوری قوت کے ساتھ اس سے لڑتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو جاؤں۔‘‘ (ص ۹۱)
میں نے غامدی صاحب سے جب بھی یہ پوچھا کہ معاشرے میں تبدیلی لانے کا طریقہ کیا ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ اس کا طریقہ نہ انقلاب ہے نہ انتخاب، بلکہ یہ ہے کہ آپ عوام کی تربیت کریں اور ان کا ذہنی وفکری شعور بلند کریں ۔ انھوں نے کہا کہ اسلام کے صحیح اور پائیدار نفاذ کا طریقہ یہ ہے کہ اسلام کو تہذیب بنا کر نافذ کریں۔ اسلام کو زبردستی قانون بنا کر نافذ نہیں کیا جا سکتا اور ایسا کیا بھی گیا تو اس کے نتائج نہ اچھے ہوں گے اور نہ دیرپا۔
میری ناقص رائے میں جو صاحب علم مغرب کے فکری وتہذیبی استیلا کے جواب میں مذکورہ رویے کا حامل ہو، اس کو مغرب سے ذہنی مرعوبیت کا طعنہ دینا نہ قرین انصاف ہے اور نہ قابل فہم۔ جہاں تک شریعت کی تعبیر وتشریح کا تعلق ہے تو اس میں علمی اختلاف، جیسا کہ خود ڈاکٹر صاحب نے واضح کیا ہے، کوئی نئی اور معیوب بات نہیں۔ اس صورت حال میں ڈاکٹر صاحب سے یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ اگر انھوں نے غامدی صاحب کی آرا وافکار میں مغرب پرستی کی بو پائی ہے تو ازراہ کرم میری طرح کے عام قارئین کی سہولت کے لیے وہ قابل اعتراض نکات کو واضح طور پر متعین فرمائیں اور ان پر تنقید کر کے نہ صرف ان کا علمی نقص واضح کریں، بلکہ اس بنیادی سوال پر بھی روشنی ڈالیں کہ آیا علمی اختلافات کے دائرے میں ان کے لیے کوئی گنجایش نہیں اور کیا وہ ہر حال میں مغربی فکر وتہذیب سے مرعوبیت ہی کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں؟
محمد عثمان
سلطان پورہ۔ گلی نمبر ۵۔ گکھڑ منڈی
مکاتیب
ادارہ
محترم جناب رئیس التحریر صاحب ماہنامہ ’الشریعہ‘
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا مجلہ ملتا ہے۔ عمدہ مضامین ہوتے ہیں جو حق پسندی، خود اعتمادی، اپنی اقدار پرپختگی کا درس دیتے ہیں۔ مگر افسوس کہ دسمبر ۲۰۰۵ء کے سمارے میں ڈاکٹر محمد آصف اعوان کے مقالے ’’ڈارون کا تصور ارتقا اور اقبال‘‘ میں علامہ اقبالؒ کے ساتھ بڑی ناانصافی برتی گئی ہے۔ میں نے پہلے بھی نوٹ کیا ہے کہ آپ کے مجلے میں مسلمانوں کے اس محبوب شاعر ومفکر اور پاکستان کے اولین محسن کے بارے میں ناروا انداز فکر کا پرچار کیا گیا ہے۔ کافی پہلے لندن میں بیٹھے ہوئے ایک ’’دیوبندی مولانا‘‘ نے اپنے ایک مضمون نما خط میں اقبال کو ’’سر محمد اقبال اور .....‘‘ کے طنز سے یاد کیا تھا۔ اب ان تازہ مضمون نگار صاحب نے ان کو ڈارون (Darwin) کا ہم نوا بلکہ مقلد بتانے کی کوشش کی ہے۔
کیا دیوبندی مکتب فکر کے لیے ضروری ہے کہ علامہ اقبال کے خلاف مہم جاری رکھی جائے؟ شاید آپ کو معلوم ہو کہ بیسویں صدی کے عظیم مفکر اسلام، داعی الی اللہ، محقق اور اہل اللہ مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے اقبال کو شاعر الاسلام کے لقب سے دنیاے عرب میں معروف کرایا۔ ان کی عربی کتاب ’’من روائع اقبال‘‘ میں، جو اس ناچیز نے دمشق سے ۱۹۵۷ء میں شائع کرائی تھی اور جو اردو میں ترجمہ ہو کر ’’نقوش اقبال‘‘ کے نام سے چھپ چکی ہے، مولانا مرحوم کا وہ مقالہ موجود ہے جو شاعر الاسلام کے نام سے انھوں نے قاہرہ یونیورسٹی میں پڑھا تھا۔ غضب خدا کا! وہ بندۂ خدا جس کی ساری شاعری، سارا سوز وتڑپ اسلام اور اس کی سربلندی کے لیے تھا، جس کا ماخذ علم قرآن تھا، جس نے قرآنی آیات اور جملوں کو اپنے اشعار (مثنوی، اسرار خودی ورموز بے خودی) میں اس طرح سمو دیا ہے کہ ایک غیر حافظ قرآن یا غیر مولوی کو ان کا سمجھنا بھی مشکل ہے، اسی شاعر قرآن واسلام کو ایک دینی مدرسہ سے شائع ہونے والا مجلہ ڈارون کا پیرو وہم نوا بتاے۔ ان ہذا الا افک مبین۔
ڈاکٹر آصف صاحب کے ذہن میں اقبالؒ کے یہ اشعار تو ہوں گے:
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جوہر کردار
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن
وہ عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو برابر کہتا رہا:
در دل مومن مقام مصطفی است
آبروے ما ز نام مصطفی است
محمد عربی کابروئے ہر دو سرا است
کسے کہ خاک درش نیست خاک بر سر او
تو پھر کیا قرآن اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ’’تصور ارتقا‘‘ کی تعلیم دی ہے جس کا سہرا ملحد ومادہ پرست ڈارون کے سر ہے؟ پھر یہ کہ مغربی فکر وتہذیب پر جتنی کڑی اور برمحل تنقید علامہ اقبال نے کی ہے، اس کی کہیں نظیر نہیں ملتی۔
یہ باتیں تو میں نے تمہیداً اس افترا کے رد عمل میں کہی ہیں جو ڈاکٹر آصف صاحب نے علامہ اقبال پر کیا ہے، لیکن ان کے اٹھائے ہوئے نقاط کے جواب میں عرض ہے کہ:
۱۔ وہ کس طرح یہ فرماتے ہیں کہ ’’اقبال کی فکر کا بنیادی نکتہ (یہاں صحیح ’نقطہ‘ ہے) اس کا فلسفہ خودی ہے، تاہم اگر بنظر عمیق دیکھا جاے تو معلوم ہوگا کہ ان کی فکر پر اول تا آخر فلسفہ ارتقا کی چھاپ ہے، یہاں تک کہ تصور خودی بھی اسی بنیادی اور بڑے فلسفے کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘
حیرت ہے کہ وہ کسی بھی دلیل کے بغیر کس طرح یہ بے جا الزام لگا رہے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے تو اپنے فلسفہ خودی کی بنیاد لا الٰہ الا اللہ کو کہا ہے:
خودی کا سر نہاں لا الٰہ الا اللہ
خودی ہے تیغ، فساں لا الٰہ الا اللہ
یا پھر:
نقطہ نورے کہ نام او خودی است
زیر خاک ما شرار زندگی است
ڈارون کے یہاں ’’نقطہ نور‘‘ کا ذکر کہاں ملتا ہے؟ وہ تو ظلمت حیوانی کا نقیب تھا اور مغرب کی آج کی فحاشی اور جنسی ہوس وآزادہ روی ڈارون کے فلسفہ ارتقا کی مرہون منت ہے کہ جب انسان بندر (چمپانزی) سے ترقی کر کے انسان بنا ہے تو اس میں وہی خصائص ہونے چاہییں جو بندر میں ہوتے ہیں۔
اس موقع پر جو حوالہ ڈاکٹر آصف صاحب نے ارتقاے خودی کے ضمن میں اسرار خودی سے دیا ہے، اس کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ارتقا تو زندگی کے ہر مرحلے میں بلکہ نطفہ سے پیدایش طفل اور پھر طفولت سے بلوغت وکہولت تک جاری وساری ہے۔ انسان جاہل ہوتا ہے، پڑھ لکھ کر عالم بنتا ہے، خطیب بنتا ہے، مصنف بنتا ہے، مخترع بنتا ہے وغیرہ۔ ڈارون ا س ارتقا کی نشان دہی کے لیے مشہور نہیں۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ آگے چل کر وہ تضاد بیانی کا شکار ہوتے ہیں جب یہ فرماتے ہیں کہ: ’’اقبال اور ڈارون کا ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک تمام مادہ کی حقیقت روحانی ہے۔‘‘ (مزید تضاد کے لیے ملاحظہ ہو ص ۴۰، ۴۱۔۴۳)
مضمون کے آخر میں پروفیسر انعام الرحمن صاحب نے بھی ایسا ہی ظلم اقبالؒ پر روا رکھا ہے، بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔ وہ فرماتے ہیں:
’’اقبال نے جہاں جمود زدہ مسلم فکر میں حرکت پیدا کر کے مسلم معاشرے کی مردہ رگوں میں زندگی کی لہر دوڑا دی، وہاں نطشے اور ڈارون کے افکار کی اسلای تعلیمات سے تطبیق کی کوشش میں مسلم معاشرے کی روایتی فکر کو بری طرح مجروح کیا۔‘‘
علامہ اقبال کے خلاف ایسا زہر آلود اور جاہلانہ جملہ آج تک نہیں پڑھا۔ تقسیم ہند سے قبل ملحدانہ فکر رکھنے والے یا لادین ترقی پسند مصنفین اقبال کی فکر کے ڈانڈے نطشے، بائرن، ہیگل، کارل مارکس وغیرہ سے ملاتے تھے اور ان کی اس تمام شاعری سے آنکھیں بند کر لیتے تھے جس میں قرآنی حقائق کی ترجمانی ہے۔ مولانا رومی سے اخذ واقتباس ہے، فکر فرنگ پر بے لاگ کڑی تنقید ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ کے پیغام سے محبت کا بے پناہ اظہار ہے، یا پھر میاں انعام الرحمن صاحب کا یہ مفتریانہ جملہ میں نے اب پڑھا ہے۔ کیا انھوں نے علامہ مرحوم کی نظم ’’ایک فلسفہ زدہ سید زادہ سے خطاب‘‘ نہیں پڑھی؟ ضرب کلیم میں اب پڑھ لیں، اور خاص طور سے یہ اشعار:
تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا
زناری برگساں نہ ہوتا
ہیگل کا صدف گہر سے خالی
ہے اس کا طلسم سب خیالی
دیں مسلک زندگی کی تقویم
دیں سر محمد وبراہیم
اے پو زعلی ز بوعلی چند
دل در سخن محمدی بند
چوں دیدہ راہ بیں نداری
قائد قرشی بہ از بخاری
(ابو علی سینا بخارا کا رہنے والا تھا)
اب جہاں تک ڈارون کا تعلق ہے تو علامہ اقبالؒ نے پیام مشرق میں یورپ کے بہت سے فلسفیوں اور سائنس دانوں، ہیگل، کارل مارکس، شوپن ہار، نیٹشہ، آئن سٹائن وغیرہ کے بارے میں اشعار وقطعات لکھے ہیں، لیکن انھوں نے ڈارون کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے اور جہاں تک نیٹشہ کا تعلق ہے، وہ فرماتے ہیں:
حریف نکتہ توحید ہو سکا نہ حکیم
نگاہ چاہیے اسرار لا الٰہ کے لیے
اور اس کے بارے میں ان کا یہ فارسی مصرع تو بہت مشہور ہے : قلب او مومن دماغش کافر است۔
اور جہاں تک ان کی انگریزی کتاب The Reconstruction of Religious Thought in Islam کا تعلق ہے تو اس میں صرف دو جگہ ڈارون کا نام ہے اور دونوں جگہ تنقیدی انداز میں۔ ڈارون کے نیچرل ہسٹری کے بارے میں ڈاکٹر آصف نے اس کے Concept of Mechanism کا ذکر تو انگریزی اقتباس میں دے کر کیا، لیکن اس کے فوراً بعد علامہ اقبال کا دوسرا جملہ، جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اس Concept (نظریہ) کے حامی نہیں تھے، نقل نہیں کیا جو یہ ہے:
And the battle for and against mechanism is still being fiercely fought in the domain of biology. (p. 41)
اپنی پوری کتاب میں علامہ اقبال نے کہیں بھی ڈارون کے نظریہ ارتقاء حیوانی کو قبول (endorse) نہیں کیا ہے۔ یہ علمی دیانت داری کے خلاف بات تھی کہ ڈاکٹر آصف صاحب نے اقبال کے جملہ مکملہ کو نہیں لکھا۔ یہی نہیں، وہ آگے چل کر اسی کتاب میں نیٹشہ اور ڈارون دونوں کے بارے میں اپنی رائے کا بے لاگ اظہار اس طرح کرتے ہیں:
Yet Neitzsche was a failure; and his failure was mainly due to his intellectual progenitors such as Schopenhauer, Darwin, and Lange whose influence completely blinded him to the real significance of his vision. (p. 195)
(اس کے باوجود نیٹشہ ایک ناکام شخص تھا اور اس کی ناکامی کا سبب اس کے فکری مربی تھے جیسے شوپنہار، ڈارون اور لینج جن کے اثرات نے اس کو اس کی بصیرت کی امتیازی شان سے اندھا کر دیا)۔
آگے اسی صفحہ پر نٹشہ پر مزید کڑی تنقید ہے۔ علاوہ ازیں اہل نظر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اقبال کی بنیادی فکر وفلسفہ ان کے نو فارسی واردو دواوین میں ہے، ان کی انگریزی نثری کتاب میں نہیں۔
امید ہے کہ ’الشریعہ‘ ایسے مضامین کی اشاعت سے گریز کرے گا جو حقائق مسخ کر دیں۔
خاکسار
(ڈاکٹر) سید رضوان علی ندوی
5۔ گلی P خیابانِ سحر فیز6
ڈیفنس کراچی
(۲)
گرامی قدر مکرمی جناب مولانا عمار خان صاحب زید ت درجاتکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
بلاطلب استحقاق آپ کاموقر جریدہ مسلسل کئی ماہ سے مل رہا ہے۔ یہ آپ کا کرم بالائے کرم ہے۔ جزاک اللہ تعالیٰ۔ بوجوہ رسید کی اطلاع کر سکا ن ہی ا س نعمت غیر مترقبہ کا شکریہ ادا کر سکتا۔ معذرت ومغفرت کی درخواست ہے۔
متفق علیہ نکات پر امت کو مجتمع کرنے کی ضرورت ہے۔ مختلف نقطہ ہائے نظر کی اشاعت سے فکری انتشار بڑھے گا۔ براہ کرم آپ اس کو چوراہا یا دھوبی گھاٹ بنائیے۔ آپ کا قلم، آپ کی جملہ توانائیاں امت کی امانت ہیں جسے آپ امت مسلمہ کے مجموعی مفاد میں استعمال کیجیے۔ اللہ آپ کے قلم کو رواں اور ہمت کو جواں رکھے۔ آمین
بہرکیف یہ تاثر ہے جو عرض کر دیا۔ امید ہے کہ خاطر عاصر پر گراں نہ گزرے گا۔
والسلام علیکم
حبیب الرحمن ہاشمی
جامع مسجد نشتر میڈیکل کالج
ملتان
۱۳؍ اکتوبر ۲۰۰۵
تعارف و تبصرہ
ادارہ
’’تاریخ ختم نبوت‘‘
تیرہویں صدی ہجری کے اواخر میں قادیان، پنجاب سے مرزا غلام احمد کی نبوت کا فتنہ پیدا ہوا تو علماء حق نے تحریر وتقریر کے ذریعے سے پوری قوت کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا۔ کم وبیش پون صدی کی محنت کے بعد ۱۹۷۴ء میں آئینی سطح پر مرزا غلام احمد اور ان کے پیروکاروں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ اس جدوجہد میں یوں تو برصغیر کے طول وعرض میں علما اور اہل حق شریک رہے، لیکن علماء لدھیانہ کی خدمات اس ضمن میں خاص طور پر ناقابل فراموش ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس فتنہ کی نشان دہی کی۔ ۱۸۸۴ء میں جب مرزا صاحب نے ’’ براہین احمدیہ ‘‘ تحریر کی تو مولانا محمد عبد اللہ لدھیانوی اور مولانا عبد العزیز لدھیانوی نے اس کتاب میں مرزا صاحب کے فاسد عقائد کی نشان دہی کی اور دور اندیشی سے کا م لیتے ہوئے بر وقت بلکہ قبل از وقت ان کے خلاف کفر کا فتوی جاری کیا۔ بعض دوسرے علماء کرام نے مرزا قادیانی کے نظریات سے پوری طرح آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ابتداءً فتواے تکفیر سے گریز کیا لیکن بعد میں یہ حضرات بھی مرزا ئیوں کے کفر پر متفق ہو گئے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قادیانیوں کے خلاف کفر کا فتوی سب سے پہلے علماء لدھیانہ نے دیا تھا۔ علماے لدھیانہ کے تاریخی کردار کی وضاحت کے لیے اسی خاندان کے چشم وچراغ جناب ابن انیس حبیب الرحمن صاحب نے ۱۹۹۷ء میں ایک کتاب ’’سب سے پہلا فتوی تکفیر علماء لدھیانہ نے دیا ‘‘تحریر کی جس میں فتواے تکفیر اور علماء لدھیانہ کی جدوجہد کی پوری تفصیل بیان کی گئی ہے۔ تاہم کچھ دوسرے لوگوں نے اس کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کی اور مذکورہ کتاب کے جوا ب میں ڈاکٹر بہاؤ الدین صاحب نے ۲۰۰۱ میں ’’تحریک ختم نبوت‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ قادیانیوں کے خلاف سب سے پہلا فتوی غیر مقلد علما نے دیا تھا ۔زیر تبصرہ کتاب اسی کا جواب ہے جس میں مولف موصوف نے محققانہ انداز میں دلائل کے ساتھ بہاؤ الدین صاحب کے دعووں کا رد کیا ہے۔ کتاب کا اسلوب تحریر مناظرانہ ہے اور کہیں کہیں سخت کلامی بھی در آئی ہے جس سے گریز مناسب تھا ۔ تاہم تاریخی ریکارڈ کی درستی کے لیے یہ مجموعی طور پر ایک مفید کاوش ہے جس کے لیے مولف داد کے مستحق ہیں۔
بہترین ورق ،مضبوط جلد اور دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ ۴۸۴ صفحات کی یہ کتاب رئیس الاحرار اکادمی خالصہ کالج فیصل آباد نے شائع کیا ہے ۔قیمت درج نہیں ۔
(محمد شفیع خان عقیل)
’’خطبات شورش‘‘
شورش کاشمیری مرحوم کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ شعر وادب، تاریخ و صحافت ،مذہب و سیاست، اور تصنیف وتالیف کی دنیاؤں کے بھی شہسوار تھے، لیکن خطابت کے شعبے میں اللہ تعالی نے انہیں خصوصی مہارت عطاکر رکھی تھی ۔ شورش ایک وسیع المطالعہ خطیب تھے۔ منفرد اسلوب بیاں اور علمی وادبی لطائف ان کی خطابت کے نمایاں محاسن تھے۔ انھیں مشکل سے مشکل بات بھی فصاحت وبلاغت کے ساتھ بیان کرنے کی خداداد قدرت حاصل تھی۔ انہیں اپنی فکر اور رائے کی صحت پرکامل یقین تھا اور وہ اپنے کمال خطابت سے متضاد ومتخالف نظریات رکھنے والے سامعین کے ہجوم کو وحدت کے رشتے میں پرو کر انہیں فکروخیال کی کسی بھی مخصوص رو میں بہا لے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ موقع ومحل کی مناسبت سے خطیبانہ نکتے بیان کرنا اور الفاظ کے زیر وبم سے عوامی جذبات کو شعلوں میں تبدیل کر دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اور ان کے شدید ترین مخالفین بھی ان کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔
زیر نظر کتاب میں شیخ مجیب الر حمن بٹالوی صاحب نے شورش مرحوم کی بعض معرکہ آرا تقاریر کو بڑے سلیقے سے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔ یہ ایک محنت طلب کا م تھا جس سے موصوف عمدگی سے عہدہ برآ ہوئے ہیں۔ ان خطبات کے مطالعے سے آج کے قاری کو شورش کے انداز خطابت، مختلف النوع خیالات کو بیان کرنے کی صلاحیت اور مترادفات وتشیہات کے استعمال پر ان کی قدرت کا ایک حد تک اندازہ ہو سکے گا۔
کتاب دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ اور عمدہ کاغذ پر طبع ہوئی ہے اور اسے احرارفاوندیشن پاکستان نے شائع کیا ہے ۔
(فضل حمید چترالی)
کوروٹانہ (عقب واپڈا ٹاؤن، گوجرانوالہ) میں عظیم دینی تعلیمی مرکز کا قیام
ادارہ
اس مرکز کے لیے کھیالی گوجرانوالہ کے جناب محمد بشیر اور ان کے فرزند جناب ثناء اللہ طیب جنجوعہ نے آٹھ کنال زمین وقف کی ہے اور الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کو متولی اور منتظم کی حیثیت سے تمام اختیارات تفویض کر دیے ہیں۔ یہ معاملہ حضرت مولانا مفتی محمد اویس، مولانا محمد نواز بلوچ، جناب عثمان عمر ہاشمی اور جناب ڈاکٹر محمد نواز صاحب آف کھیالی کے مخلصانہ تعاون، توجہ اور محنت سے پایہ تکمیل کو پہنچا، جس پر ہم مذکورہ سب حضرات کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
اس مرکز میں علاقہ کے عوام کے لیے جامع مسجد خورشید اور فری ڈسپنسری کے علاوہ مندرجہ ذیل شعبوں کا قیام پیش نظر ہے:
- مدرسہ طیبہ برائے تحفیظ القرآن، جس میں پرائمری پاس بچوں کو حفظ قرآن کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ مڈل کا باضابطہ امتحان دلایا جائے گا۔
- شریعہ کالج، جس میں مڈل پاس طلبہ کو بی اے تک عصری تعلیم کے ساتھ موقوف علیہ تک درس نظامی کے مضامین کی تعلیم دی جائے گی۔
- اسلامک سنٹر، جس کے تحت عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے علمی، تحقیقی اور دعوتی منصوبے تیار کیے جائیں گے۔
احباب سے درخواست ہے کہ اس عظیم دینی وتعلیمی منصوبہ کی تکمیل اور کامیابی کے لیے خصوصی دعا فرمائیں، اپنے مفید مشوروں اور راہ نمائی سے نوازیں اور درمے، قدمے، سخنے تعاون فرمائیں۔
فروری ۲۰۰۶ء
ڈاکٹر یوگندر سکند کے خیالات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بھارت کے معروف دانش ور ڈاکٹر یوگندر سکند گزشتہ دنوں پاکستان آئے۔ چند روز لاہور میں قیام کیا۔ حیدر آباد اور دیگر مقامات پر بھی گئے۔ دو دن ہمارے ہاں گوجرانوالہ میں قیام کیا، الشریعہ اکادمی کی ایک نشست میں سرکردہ علماے کرام اور اساتذہ وطلبہ سے بھارت کی مجموعی صورت حال، خاص طور پر مسلمانوں کے حالات پر گفتگو کی اور مختلف حضرات سے ملاقاتوں کے بعد بھارت واپس چلے گئے۔ ڈاکٹر یوگندر سکند کے والد سکھ تھے اور والد ہ کا تعلق ہندو خاندان سے ہے۔ خود اپنے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ خدا کی ذات پر یقین رکھتے ہیں اور انسانی سوسائٹی کے لیے مذہب کے رفاہی پہلووں کے قائل ہیں، مگر خود کو کسی خا ص مذہب کے دائرے میں پابند نہیں سمجھتے، البتہ ان کے مطالعہ وتحقیق اور تحریروں کا سب سے زیادہ موضوع مسلمان ہیں اور انھوں نے اب تک جو کچھ لکھا ہے، زیادہ تر اسی حوالے سے لکھا ہے۔ تبلیغی جماعت کے آغاز وارتقا اور اس کے سماجی اثرات ، ہندوستان میں بین المذاہب مکالمہ، اسلام، ذات پات اور مسلم دلت تعلقات، اور بھارت کے دینی مدارس کے عنوانات پر انھوں نے مستقل کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ ڈاکٹر یوگندر سکند نے اسلام انٹرفیتھ کے عنوان سے ایک ویب سائٹ بھی بنا رکھی ہے جس پر ’’قلندر‘‘ کے نام سے ان کا ویب میگزین شائع ہوتا ہے ۔
عزیزم محمد عمار خان ناصر کا انٹر نیٹ کے ذریعے سے ڈاکٹر یوگندر سکند سے کافی عرصے سے رابطہ ہے اور ’الشریعہ‘ میں ان کی بعض تحریروں کا ترجمہ شائع ہوتا رہتا ہے۔ اسی حوالے سے وہ پاکستان آمدکے موقع پر گوجرانوالہ بھی آئے اور دو روز ہمارے مہمان رہے۔ میں نے اس دوران میں ایک نشست میں کچھ امور پر گفتگو کی جس کی روشنی میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں۔
یونیورسٹی کی تعلیم کے زمانے میں ڈاکٹر یوگندر سکند لیفٹ کے فکری حلقے سے وابستہ ہو گئے اور انھوں نے ان کے ساتھ سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ ا ن کا کہنا ہے کہ بھارت میں لیفٹ کی پارٹیاں ہمیشہ فرقہ واریت کے خلاف فعال اور متحرک رہی ہیں اور اسی کے زیر اثر انھوں نے فرقہ واریت، خاص طور پر ہندو فاشزم کے خلاف لکھنا شروع کیا۔ ان کے خیالات، فکری ترجیحات اور تجزیوں میں بائیں بازو کی چھاپ صاف نمایاں ہے۔
مذہب کے بارے میں لیفٹ کے دیگر دانش وروں کی طر ح ان کا خیال ہے کہ یہ سماج کی پیداوار ہے اور اس کے صرف وہ پہلو قابل استفادہ ہیں جو انسانیت کی فلاح وبہبود سے تعلق رکھتے ہیں اور جو حقو ق العباد کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مذہب کی ایسی تشریح نہیں ہونی چاہیے جو لوگوں کے درمیان منافرت کا باعث بنتی ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی تگ ودو زیادہ تر دو پہلووں پر ہے۔ ایک یہ کہ بھارت میں مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان مفاہمت کو کس طرح فروغ دیا جا سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ مذہب کی انسانیت مخالف تشریح کا راستہ کیسے روکا جا سکتا ہے۔ بھارت کے تناظر میں ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان برداشت اور مفاہمت کے فروغ میں جمعیت العلماء ہند کا کردار ہمیشہ سے نمایاں چلا آ رہا ہے، جماعت اسلامی بھی اب اس رخ پر آگے بڑھ رہی ہے ، جبکہ مسلم بزرگان دین کی وہ درگاہیں اس سلسلے میں بہت نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں جہاں حاضر ہونے والوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کی بھی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم صوفیا کا خانقاہی نظام اب خانقاہی نہیں رہا بلکہ درگاہی بن گیا ہے، لیکن مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان میل جول میں ان کا کردار بہت نمایاں ہے۔
ڈاکٹر یوگندر سکند چونکہ لیفٹ کے فکری حلقے سے متاثر ہیں، اس لیے معاشرے کی مذہبی تقسیم یا کلچر کے حوالے سے تقسیم سے زیادہ طبقاتی تقسیم پر یقین رکھتے ہیں۔ ہندوستان کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اصل تقسیم طبقاتی ہے، کیونکہ اعلیٰ ذات کے مسلمانوں کا طرز عمل نچلی ذاتوں کے مسلمانوں کے ساتھ وہی ہے جو ہندووں کی اعلیٰ ذات کے لوگوں کا نچلی ذاتوں کے ہندووں کے ساتھ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح ہندووں میں برہمن ذات کے لوگ نچلی ذات کے ہندووں کے ساتھ رشتے ناتے نہیں کرتے، اسی طرح مسلمانوں میں مغل، سید، پٹھان اور شیخ برادریوں کے لوگ دوسری ذاتوں کے مسلمانوں کے ساتھ رشتے ناتے سے گریز کرتے ہیں۔ اسی طر ح اعلیٰ ذات اور طبقے کے ہندووں اور اعلیٰ ذات اور طبقے کے مسلمانوں کے سماجی مسائل ملتے جلتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس نچلی ذاتو ں کے ہندووں اور نچلی ذاتوں کے مسلمانوں کے مسائل بھی آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ ڈاکٹر یوگندر سکند کا خیال ہے کہ بھارت میں ۱۵ فی صد مسلمان ہیں اور ۱۵ فیصد ہی دلت (اچھوت) ہندو ہیں۔ ان دونوں طبقوں کی مشکلات، مسائل اور پریشانیاں ایک جیسی ہیں، لیکن جس طرح برہمن ہندو مسلمانوں اور دلتوں کے درمیان میل جول اور اشتراک واتحاد میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں، اسی طرح اعلیٰ طبقے کے مسلمانوں کو بھی عام مسلمانوں اور دلتوں کا میل جول اچھا نہیں لگتا۔ بالادست طبقہ اس تفریق اور تضاد کو قائم رکھنا چاہتا ہے کیونکہ اس کا مفاد اسی میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دلتوں یعنی نچلی ذاتوں کے ہندووں کو اب یہ سبق پڑھایا جا رہا ہے کہ ان کی پس ماندگی اور تحقیر کے اصل ذمہ دار مسلمان ہیں کیونکہ وہ بہادر لوگ تھے، انھوں نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا تھا، اس لیے مسلمانوں نے اپنے دور اقتدار میں انھیں اچھوت بنا دیا اور جان بوجھ کر پس ماندہ رکھا۔ اس طرح برہمن ہندو دلتوں کو مسلمانوں سے متنفر کرنے کے لیے پوری تاریخ تبدیل کر رہا ہے۔
عالمی سطح بھی ڈاکٹر یوگندر سکند تہذیبی کشمکش اور سولائزیشن وار کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل کشمکش امیر اقوام اور غریب اقوام کے درمیان ہے۔ دولت مند اقوام وممالک ڈبلیو ٹی او اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے سے پوری دنیا کے وسائل پر کنٹرول حاصل کرتے جا رہے ہیں اور گلوبل اجارہ داری کی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں، لیکن دنیا کو انھوں نے اسلام اور مسیحیت کی کشمکش اور سولائزیشن وار کے تصورات میں الجھا رکھا ہے۔
مسلمانوں کے دینی مدارس کے بارے میں یوگندر کا کہنا ہے کہ ایک عرصے سے ان مدارس کے خلاف عالمی سطح پر الزامات عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے جس میں نائن الیون کے بعد بہت تیزی آئی ہے، اس لیے انھوں نے ایک مستقل کتاب میں اس صورت حال کا جائزہ لیا ہے اور بھارت کے مختلف مکاتب فکر کے دینی مدارس کے نظام ونصاب کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کر کے یہ بات واضح کی ہے کہ بھارت میں پائے جانے والے دینی مدارس کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ ان میں دہشت گردی یا منافرت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ انھوں نے اس سلسلے میں بھارت کے مسلم دینی مدارس ہی کا جائزہ لیا تھا، اس لیے اپنی کتاب میں انھی کے حوالے سے بات کی ہے اور سوسائٹی پر دینی مدارس کے مثبت اثرات کو بھی اجاگر کیا ہے۔
اپنے دورۂ پاکستان کے تاثرات کو بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ یہاں آتے ہوئے ڈر رہے تھے کہ خدا جانے انھیں کس قسم کے طرز عمل کا سامنا کرنا پڑے، لیکن پاکستان میں انھیں جس محبت اور مہمان نوازی کے ساتھ ڈیل کیا جا رہا ہے، وہ یوں سمجھ رہے ہیں جیسے اپنے ہی ملک میں ہوں اور انھیں کسی قسم کی اجنبیت کا قطعاً احساس نہیں ہو رہا، البتہ یہاں کا سسٹم اورنظام دیکھ کر انھیں افسوس ہو رہا ہے کہ اقتصادیات، تعلیم، قانون کی عمل داری اور کسی منظم سسٹم کے حوالے سے کوئی ترقی نہیں ہو رہی اور عام لوگوں کی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔
ڈاکٹر یوگندر سکند جنوبی ایشیا کی نئی نسل کے دانش ور ہیں اور آج کی دنیا سے پوری طرح باخبر ہیں۔ وہ صرف حالات معلوم کر کے ان کے بارے میں رائے قائم نہیں کرتے، بلکہ اپنی رائے عالمی سطح پر لوگوں تک پہنچا کر انھیں متاثر بھی کرتے ہیں۔ ان کے خیالات اور مختلف امور پر ان کی رائے سے اتفاق ضروری نہیں، مگر آج کے ان ملٹی نیشنل دانش وروں کے خیالات سے آگاہی بہت ضروری ہے، بالخصوص ان علماے کرام اور ارباب دانش کے لیے تو یہ آگاہی ایک ناگزیر ضرورت کا درجہ رکھتی ہے جو آج کے گلوبل ماحول میں مسلم امہ کی راہنمائی کا دعویٰ رکھتے ہیں اور اس کے لیے کسی بھی درجے میں محنت اور کوشش کر رہے ہیں۔
علوم القرآن کی مختصر تاریخ و تدوین
محمد جنید شریف اشرفی
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کی بعثت با سعادت کے جو مقاصد بیان فرمائے ہیں، ان میں امت کو آیات قرآنیہ کی تلاوت کے ساتھ ساتھ ان کے معانی کے بارے میں تعلیم دینا بھی شامل تھا۔ آج ہمارے پاس جس طرح قرآن صامت موجود ہے، اسی طرح قرآن ناطق یعنی آپ ﷺ کی بتلائی ہوئی تشریحات بھی اسی طرح محفوظ ہیں جس طرح آپﷺامت کو دے کر گئے تھے۔ آپ ﷺ کے بعد صحابہؓ نے اور پھر تابعین اور تبع تابعین نے قرآن مجید اور اس کی تعلیمات کو دنیا کے کونے کونے میں اس طرح پھیلایا جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ انسانی قاصر ہے۔
قرآن حکیم نے جہاں اہل عرب کو اپنے جیسا کلام پیش کرنے سے عاجز کر دیا، وہاں ما فرطنا فی الکتاب شئ (الانعام /۳۸) اور ونزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شئ و ھدی و رحمۃ و بشری للمسلمین (النحل/۸۹)کہہ کر اقوا م عالم کو علوم و معارف کے ان پوشیدہ خزانوں سے روشناس کرایا جس کے بعد کرہ ارض کی جاہل ترین قوم کا شمار مہذب ترین قوموں میں ہونے لگا اور وہ کرہ ارض کے تخت و تاج کے وارث بھی بنے۔
علوم و فنون اور معارف قرآنیہ کی نشرو اشاعت آپ ﷺ کے ارشادات مبارکہ کی بدولت ہوئی جن میں علم کے حصول اور نشرو اشاعت کو فضیلت اور برتری کا معیار قرار دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: خیرکم من تعلم القرآن و علمہ (۱) (تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس نے قرآن کو سیکھا اور دوسروں کو سکھایا)۔ آپ ﷺکا ارشاد گرامی ہے:
’’سیکھو قرآن اور اس کو پڑھو۔ قرآن پڑھنے اور سیکھنے والے کے لیے قرآن کی مثال ایسے ہے جیسے مشک بھری ہوئی تھیلی کہ اس کی خوشبو تمام مکا ن میں پہنچتی ہے۔ اس شخص کی مثال جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا اور وہ اس کے سینے میں محفوظ ہے، اس تھیلی کی مانند ہے جو مشک پر باندھی گئی ہے‘‘ (۲)
آپ ﷺ کے ان ارشادات کی بدولت علمائے اسلام نے قرآن حکیم کو اپنی تحقیق کا مرکز و محور بنایا اور بہت سے علوم و فنون کی بنیادڈالی۔ قرآن حکیم اور اس سے متعلقہ علوم مثلاً اسباب نزول آیات ،جمع قرآن ، ترتیب قرآن ، علم ترجمہ ، علم تفسیر، علم الخط والرسم،علم النحو والصرف ، تلاوت وتجوید،محکم و متشابہ ، ناسخ و منسوخ ، معرفت سور مکیہ و مدنیہ وغیرہ پر اس قدر لکھا گیا کہ کسی دوسری آسمانی کتاب پر نہیں لکھا گیا۔
آپ ﷺکے اولین مخاطب صحابہ کرامؓ تھے جو خالص عرب اور اہل زبان ہونے کی وجہ سے قرآن کے اسلوب اور اس کی دلالات کو اچھی طرح جانتے تھے۔ مزید یہ کہ نزول قرآن کے وقت خود صحابہ کرامؓ موجود تھے اور قرآن ان کے سامنے نازل ہو رہا تھا، لہٰذا نزول قرآن کی کیفیت، آیات کے سبب نزول اور ناسخ و منسوخ وغیرہ امور سے جس درجے میں صحابہؓ واقف تھے، بعد کا کوئی شخص ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ تفسیر قرآن کے سلسلے میں نبی کریمﷺ کی احادیث کے بعد قول صحابیؓ پر اعتماد کیا جاتا ہے ۔علامہ ابن تیمیہ نے لکھا ہے :
’’و حینئذ اذا لم نجد التفسیر فی القرآن ولا فی السنۃ رجعنا فی ذلک الی اقوال الصحابۃ فانھم ادری بذلک لما شاھدوہ من القران والاحوال التی اختصوا بھا ولما لھم من الفھم التام والعلم الصحیح‘‘۔ (۳)
صحیح بخاری میں حضرت ابن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضور ﷺ کے ساتھ مدینے کے ایک باغ میں تھا اور آپﷺ کھجور کی ایک شاخ کا سہارا لیے کھڑے تھے۔ یہودیوں کا ایک گروہ اس طرف سے گزرا۔ ان میں سے کسی نے کہا کہ آپ سے روح کے متعلق دریافت کیا جائے۔ بعض نے کہا کہ ان سے مت پوچھو۔ وہ کوئی ایسی بات فرمائیں گے جو تمھیں ناگوار گزرے گی، مگر وہ لوگ آپ کے سامنے آگئے اور کہا، اے ابو القاسم! ہمیں روح کے بارے میں بتائیے۔ آپ ﷺ نے سنا اور کچھ دیر خاموش دیکھتے رہے۔ میں سمجھ گیا کہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ پس میں پیچھے ہو گیا یہاں تک کہ وحی ختم ہوئی۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: یسئلونک عن الروح قل ھو امر ربی (الاسرا/۸۵) (لوگ آپ سے روح سے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے) (۴)
اس سے معلوم ہو اکہ جب آپ ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی، اس وقت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بنفس نفیس موجود تھے اور ان سے بہتر اس آیت کے سبب نزول کو کوئی نہیں جان سکتا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے بھی بعد میں یہ دعویٰ کیا۔ صحیح مسلم میں روایت ہے:
’’عن عبداللہ قال والذی لا الہ غیرہ ما من کتاب اللہ سورۃ الا انا اعلم حیث نزلت وما من آیۃ الا انا اعلم فیم انزلت و لو اعلم احدا ھو اعلم بکتاب اللہ منی تبلغہ الابل لرکبت الیہ‘‘ (۵)
اس طرح جب بھی قرآنی آیات کو سمجھنے میں صحابہ کرام کو مشکل پیش آتی تو نبی ﷺ اس کی تبیین فرما دیتے، کیونکہ آپ پر اللہ کی طرف سے تبیین کتاب کا فریضہ عائد کیا گیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم (النحل/۴۴)
مفسرین نے لتبین للناسکی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس سے مراد آپﷺ کا قرآن میں مجمل مقامات کی وضاحت اور اس میں وارد ہونے والے اشکالات کو دور کرنا ہے۔ (۶)
خلاصہ کلام یہ کہ عہد نبوی میں علوم القرآن کو نبیﷺ کے بنفس نفیس موجود ہونے کی وجہ سے تحریری صورت میں لانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی اور جہاں کہیں کوئی دشواری صحابہ کرام کوپیش آتی، نبی کریم ﷺ خود اس کا حل فرمادیتے۔
علوم قرآنیہ کے تدریجی ارتقا اور اس ضمن میں علمائے اسلام کی مساعی اور عرق ریزی کااگر سرسری جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں قرآن با ضابطہ طور پر جمع ہوا اور جس خط میں وہ لکھا گیا، وہ رسم عثمانی کے نام سے مشہور ہوا۔ اس طرح خط کوفی ، خط نسخ ، خط ثلث، خط نستعلیق وغیرہ کی ترویج ہوئی اور کتابت نے ایک مستقل فن کی شکل اختیار کر لی (۷)۔ جب حضرت علیؓ کا دور آیا تو انہوں نے قرآن حکیم کو عجمی اثرات سے محفوظ رکھنے اور تلاوت قرآن میں سہولت کے پیش نظر ابوالاسوالدؤلی سے نحو کے قواعد مرتب کروا کر اعراب القرآن کی بنیاد ڈالی۔ اس کو ابتدائے علم اعراب قرآنی کہہ سکتے ہیں۔(۸)
رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں ہی صحابہؓ ایک دوسرے سے معانی قرآن اور تفسیری مطالب دریافت کرتے تھے ۔ قرب رسول اور ذکاوت طبعی کے تفاوت کی بنا پر فہم قرآن میں تمام صحابہ کرام برابر نہ تھے، لہٰذا جن صحابہ کرامؓ کو معانی و معارف میں دسترس حاصل تھی، وہ دوسروں کو قرآن حکیم سمجھاتے تھے۔ ان میں خلفائے راشدین کے علاوہ عبداللہ بن مسعودؓ، عبداللہ بن عباسؓ، ابی بن کعبؓ ، ابو موسیٰ الاشعریؓ ، اور عبداللہ زبیرؓ شامل ہیں۔(۹)
صحابہؓ کے بعد تا بعین کا طبقہ ہے جنھوں نے مشاہیر صحابہ کرامؓ سے قرآن اور اس کے علوم و معارف کو سیکھا۔ ان میں سعید بن جبیر (م۹۵ ھ)،مجاہد بن جبر (م ۱۰۳ھ)، عکرمہ مولیٰ ابن عباس( م ۱۰۷ھ)، قتادہ بن دعامۃ السدوسی ( م۱۱۷ھ)، عبداللہ بن عامر الیحصبی (۱۱۸ھ، عطاء بن ابی مسلم خراسانی (م۱۳۵ھ) نے علم تفسیر ، علم اسباب نزول ، علم مقطوع و موصول قرآن ، علم ناسخ و منسوخ اور علم غریب قرآن کی اساس فراہم کی ۔(۱۰)
اس کے بعد علما نے باقاعدہ تفاسیر ترتیب دیں جن میں تفسیر ابن جریر طبری ، تفسیر زمخشری ، تفسیر فخرالدین رازی ، تفسیر نسفی ، تفسیر الخازن ، تفسیر ابن حیان ، تفسیر بیضاوی ، تفسیر الجلالین ،تفسیر قرطبی، تفسیر آلوسی قابل ذکر ہیں۔(۱۱)
علوم القرآن کی مختلف انواع پر مستقل تالیفات کا سلسلہ دوسری صدی ہجری میں شروع ہو چکا تھا۔ ابو عبید قاسم بن سلام (م۲۲۴ھ)نے فضائل قرآن ، ناسخ و منسوخ اور قراآت پر تالیفات رقم کیں ، علی بن مدینی ( م ۲۳۴ھ)،نے اسباب النزول پر کتاب لکھی ، ابن قتیبہ ( م ۲۷۶ھ)نے مشکل القرآن پر کتاب تالیف کی ، محمدبن خلف بن المرزبان ( م ۳۰۹) نے ’’الحاوی فی علوم القرآن ‘‘ستائیس اجزاء میں لکھی (۱۲)۔ غالباً یہ پہلی کتاب ہے جس کے عنوان میں پہلی مرتبہ علوم القرآن کی اصطلاح استعمال ہوئی لیکن اس میں علوم القرآن کی کون سی کون سی انواع تھیں، اس کے بارے میں معلومات میسر نہیں، کیونکہ یہ کتاب مفقود ہے۔ اس کا تذکرہ کتابوں ہی میں ملتا ہے ۔ابو بکر محمد بن قاسم الانباری (م۳۲۸ھ)نے ’’عجائب علوم القرآن ‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کا موضوع قرآن کے فضائل اور اس کا سات حروف پر نازل ہونا ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں مصاحف کی کتابت اور آیات و کلمات اور سورتوں کی تعداد کا بھی ذکر ہے۔ اس کتاب کا ایک نسخہ اسکندریہ کے مکتبہ البلادیہ میں موجود ہے (۱۳)۔ محمد بن عزیز ابو بکر سجستانی ( م۳۳۰ھ)نے ’’ غریب القران ‘‘کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب یوسف مرعشلی کی تحقیق سے بیروت سے ۱۹۸۹ میں شائع ہوئی ۔ اس دور میں احمد بن جعفر ابن المناری ( م ۳۳۶ھ)نے علوم القرآن پر بہت سی کتابیں لکھیں۔ ابن الجوزی( م ۵۹۷ھ) نے ان کے متعلق لکھا ہے: ’’میں نے ابو یوسف قزوینی کی تحریر سے نقل کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ابوالحسین بن المناری جید قاریوں اور بڑے محدثین میں سے تھے۔ علوم القرآن پر ان کی ۴۰سے زائد کتب ہیں۔ ان میں سے تقریباً ۲۱کتب سے تو میں واقف ہوں اور باقی کتب کے متعلق میں نے سنا ہے۔‘‘ ابن الجوزی کا کہنا ہے کہ ان کی تصنیفات میں سے ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے چند ٹکڑے میری نظر سے گزرے۔ ان میں مجھے ایسے فوائد ملے جو اس دور کی کسی دوسری کتاب میں نہیں پائے جاتے ۔(۱۴)
محمد بن علی الا دفوی ( م ۳۸۸ھ)نے ’’الاستغناء فی علوم القرآن ‘‘ تالیف کی۔ ابو بکر باقلانی ( م ۴۰۳ھ)نے ’’اعجازالقرآن‘‘کے نام سے کتاب لکھی جو کہ سید احمد صقر کی تحقیق سے ۱۹۶۴ء میں قاہرہ سے شائع ہوئی ہے۔ عبدالجبار ہمدانی (م ۴۱۵ھ) نے ’’المغنی فی اعجاز القرآن‘‘ تالیف کی۔ یہ کتاب قاہرہ سے ۱۹۷۶ء میں شائع ہوئی ۔ علی بن ابراہیم ابن سعید الحوفی ( ۴۳۰ھ) نے ’’اعراب القرآن‘‘تالیف کی۔ اس کے علاوہ ’’ البرہان فی علوم القرآن‘‘ کے نام سے قرآن کی ایک تفسیر بھی لکھی جو کہ تیس جلدوں میں تھی۔ ان میں سے ۱۵ جلدیں غیر مرتب مخطوطے کی شکل میں موجود ہیں۔ دراصل یہ قرآن کی تفسیر ہے، مگر اس میں مصنف نے ابتدائے قرآن سے آخر تک ایک ایک آیت پر علوم قرآن کی روشنی میں بحث کی ہے۔ نحو ، لغت ، اعراب ، نزول ، ترتیب ، قراء ت ، معانی ،تفسیر، معقول ، غرض کوئی زاویہ تشنہ نہیں چھوڑا۔(۱۵) ابن الجوزی (م ۵۹۷ھ) نے علوم القرآن پر الحوفی کے انداز میں ’’فنون الافنان فی عجائب علوم القرآن ‘‘ لکھی۔ اس کی تحقیق ڈاکٹر حسن ضیاء الدین تمر نے کی ہے اور یہ بیروت سے ۱۹۸۷ء میں شائع ہوئی ہے۔ عبدالعزیز بن عبدالسلام ( م ۶۶۰ھ)نے’’ مجاز القرآن ‘‘تحریر کی۔ علم الدین سخاوی (م۶۴۳ھ) نے ’’جمال القراء و کمال القراء‘‘ تالیف کی۔ اس کتاب میں قراء ت کے علاوہ علوم القرآن کے دیگر مباحث کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ کتاب عبدالکریم زبیدی کی تحقیق سے بیروت سے ۱۹۹۳ء میں شائع ہوئی۔ ابو شامہ مقدسی کی تالیف ’’المرشد الوجیز الی علوم تتعلق بالکتاب العزیز ‘‘ہے۔ اس میں نزول قرآن اور جمع قرآن کے علاوہ قرا ء ت سے متعلق جامع اور مفصل بحث ہے ۔ طیار آلتی فولاج کی تحقیق سے ۱۹۷۵ء میں بیروت سے شائع ہوئی ہے۔ علامہ بدرالدین زرکشی ( م ۷۹۴ھ)کی ’’البرہان فی علوم القرآن‘‘ کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے موضوع پر پہلی ایسی جامع کتاب ہے جس میں علوم القرآن کی سینتالیس انواع سے بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کی یہ خصوصیت اس کو علوم القرآن پر لکھی گئی تمام کتابوں سے ممتاز کرتی ہے۔
علامہ جلال الدین بلقینیؓ ( ۸۲۴ھ) کی کتاب ’’ مواقع العلوم من مواقع النجوم ‘‘ہے۔ اس کے چھ باب تھے جن میں علوم القرآن کی تقریباً ۱۵۰ انواع پر بحث کی گئی ہے۔ (۱۶) علامہ سیوطی نے اپنی کتاب الاتقان کے مقدمہ میں اس کتاب کاذکر کیا ہے، لیکن یہ کتاب مفقود ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی کی کتاب’’ الاتقان فی علوم القرآن‘‘ ہے۔ علامہ سیوطی نے اتقان کے علاوہ بھی علوم القرآن کی مختلف انواع پر مستقل کتب لکھی ہیں جن میں ’’تناسق الدرر فی تناسب السور‘‘، ’’لباب النقول فی اسباب النزول‘‘ ، ’’ مفہمات الاقران فی مبہما ت القرآن‘‘ وغیرہ شامل ہیں ۔ علامہ کی تمام تالیفات میں سے ’الاتقان‘ ایک نمایاں اور منفرد تالیف ہے۔ اس کتاب میں علامہ سیوطی نے زرکشی کی ’البرہان‘ میں مذکور انواع پر ۳۳ انواع علوم کا اضافہ کیا اور علوم القرآن کی ۸۰ ۱ نواع سے بڑی مفصل بحث کی ہے ۔ علوم القرآن کے موضوع پر اس کتاب کوایک اہم ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔اس کے بعد علوم القرآن پر جتنا بھی کام ہوا، بیشتر اس کی شرح و اختصار کے زمرے میں آتا ہے ۔
’’اعجاز القرآن ‘‘از مصطفی الرافعی ،’’ المعجزۃ الکبری ۔۔۔القرآن‘‘ از محمد ابو زہرہ ، ’’التبیان فی علوم القرآن‘‘ از طاہر الجزائری،’’ منہج الفرقان فی علوم القرآن‘‘ از محمد علی سلامہ ، ’’مناہل العرفان فی علوم القرآن‘‘ از محمد عبد العظیم زرقانی ، ’’مباحث فی علوم القرآن‘‘ از ڈاکٹر صبحی الصالح ، ’’مباحث فی علوم القران‘‘ از مناع القطان ، علوم قرآن سے متعلق موجودہ دور کی مشہور کتب ہیں۔
کرہ ارض کا وہ حصہ جو آج ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش پر مشتمل ہے، تاریخ میں برصغیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کی وجہ سے اقوام عالم کی نظریں تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں اس خطے پر مرکوز رہیں ۔ بالخصوص اہل عرب جن کی معیشت کا انحصار زیادہ تر تجارت پر تھا، اسلام کی آمد سے بہت پہلے اس خطے کے ساتھ تجارتی روابط قائم کر چکے تھے ۔ اسلام کی آمد کے بعد بھی یہ تعلقات اسی طرح برقرا ررہے اور اس خطے میں اسلام کی ابتدائی اشاعت بھی انہیں عرب تاجروں کی بدولت ممکن ہوئی ۔ عہد خلافت راشدہ میں اسلامی سلطنت کی حدود دور دور تک پھیل گئیں اور عہد فاروقی ہی میں صحابہ کرامؓ برصغیر میں داخل ہو گئے۔
محمد بن قاسم نے جب سندھ پر حملہ کیا تو یہ وہ زمانہ تھا جب اسلامی سلطنت کی حدود ایشیا، روس ، اور اسپین تک پہنچ چکی تھیں۔ لہٰذا فطری طور پر ان علاقوں کے لوگ نہ صرف قرآن کی تعلیمات سے متاثر ہوئے بلکہ انہوں نے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے پر اپنی زندگیاں صرف کر دیں ۔ کتب اسماء الرجال میں ہمیں بہت سے سندھی مسلمانوں کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے تحصیل علم کی خاطر دور دراز کے سفر کیے اور سندھ میں قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کیں۔عبدالر حیم دیبلی سندھی کے متعلق حافظ ابن حجر لسان المیزان میں لکھتے ہیں:
’’قال العقیلی قال لی جدی قدم علینا من السند شیخ کبیر کان یحدث عن الاعمش ‘‘ (۱۷)
’’عقیلی کہتے ہیں کہ میرے دادا نے بیان کیا کہ ہمارے ہاں ( بصرہ میں ) سندھ سے ایک بہت بڑے شیخ آئے جو اعمش سے حدیث کی روایت کرتے تھے ۔‘‘
سندھ کے علما کی علوم اسلامیہ میں خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عبداللہ الطرازی لکھتے ہیں :
’’و فی العصر العباسی نجد علماء الدیبل بالکثرۃ ومعظمھم ھاجروا الی البلاد العربیۃ والاقلیۃ بقوا فی بلاد السند وانشغلوا بنشرالعلوم الاسلامیۃ‘‘ (۱۸)
’’دور عباسی میں ہم کثرت سے ایسے علما پاتے ہیں جنہوں نے بلاد عرب کی طرف ہجرت کی اور بہت کم ایسے تھے جو سندھ میں رہے اور علوم اسلامیہ کی اشاعت میں مشغول ہوئے۔‘‘
علامہ سمعانی ؒ چوتھی صدی ہجری کے ایک ہندی عالم کی تفسیر میں دلچسپی اور اخذ روایات میں ذوق و جستجو کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ابو جعفر محمد بن ابراھیم الدیبلی (الھندی )المکی العالم المفسر یروی کتاب التفسیر عن ابی عبداللہ سعید بن عبدالرحمن المخزومی روی عنہ ابو الحسن احمد ابن فراس المکی و ابو بکر بن محمد ابراھیم بن علی ‘‘ (۱۹)
’’ابو جعفر محمد بن ابراہیم الدیبلی ہندی مکی جو عالم و مفسر تھے انہوں نے ابو عبداللہ عبدالرحمن مخزومی سے کتاب التفسیر روایت کی ہے اور ان سے ابو الحسن احمد بن ابراہیم بن فراس مکی اور ابوبکر محمد بن ابراہیم بن علی نے روایت کی ہے ۔‘‘
ڈاکٹر عبداللہ الطرازی نے سندھ اور پنجاب کی تاریخ پر مشتمل اپنی کتاب میں ایک عربی عالم ’’العراقی ‘‘(متوفی ۲۷۰ھ)کے متعلق لکھا ہے کہ ہ منصورہ کے شاندار عالم اور شاعر تھے ۔ جنہوں نے فن تفسیر میں دو شاندار کتابیں تصنیف کیں ۔ ایک ’’فی تفسیر القرآن‘‘ اور دوسری ’’ترجمۃ القرآن بالسندیہ‘‘۔(۲۰)
قاضی زاہد الحسینی اپنی کتاب ’’تذکرۃ المفرین ‘‘ میں برصغیر کے پہلے مفسر قرآن ’’الکشی ‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ ’’گچھ ‘‘کے مقام پر دوسری صدی ہجری میں پیدا ہوئے۔ طلب علم کے لیے ارض عرب کا سفر کیا۔ حدیث میں دو مسندیں تالیف فرمائیں۔ اس کے علاوہ قرآن مجید کی ایک تفسیر بھی لکھی جس کو ہر زمانے میں مقبولیت حاصل رہی ۔ (۲۱)
کچھ لوگوں نے ’’گچھ ‘‘ کو سمرقند کا علاقہ قرار دیا ہے، لیکن یاقوت الحموی اس کے متعلق لکھتے ہیں :
’’کس ایضا مدینۃ بارض السند مشھورۃ ذکرت فی المغازی و ممن ینسب الیھا عبد بن حمید بن نصر واسمہ عبدالحمید الکسی صاحب المسند‘‘ (۲۲)
’’کس سندھ کاایک مشہور شہر ہے جس کا ذکر مغازی میں ملتاہے اور اس شہر کی طرف عبد بن حمید بن نصر منسوب ہیں جن کا اصل نام عبدالحمید الکسی ہے جنہوں نے مسند تالیف کی ۔‘‘
جہاں تک برصغیر پاک و ہند کی مقامی زبانوں میں علوم قرآنیہ کی آبیاری کاتعلق ہے تو اس ضمن میں قاضی اطہر مبارکپوری نے اپنی کتاب’’ رجال السند و الہند ‘‘ میں عجائب الہند مصنفہ بزرگ بن شہریار کے حوالہ سے ایک روایت تفصیلاً بیان کی ہے۔
’’اکبر ملوک قشمر مھروک بن رایق (ملک الور)کتب فی سنۃ سبعین و مئتین الی صاحب المنصورۃ و ھو عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز لیسئلہ ان یفسر لہ شریعۃ الاسلام بالھندیۃ ۔۔۔وکا ن فیما حکا ہ عنہ انہ سالہ ان یفسر لہ القرآن بالھندیۃ ففسرلہ‘‘ (۲۳)
’’کشمیر کے راجہ مہروک نے ۲۷۰ھ میں منصورہ( سندھ) کے حاکم امیر عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیزکو لکھاکہ میرے لئے( ایک آدمی بھیجا جائے ) جو میرے لیے ہندی میں شریعت اسلامی کی و ضاحت کرے ۔ اس کے متعلق یہ بھی حکایت ہے کہ اس نے ہندی زبان میں قرآن مجید کی تفسیر کرنے کے لیے کہا تو اس نے کر دی ۔‘‘
خلیق احمد نظامی نے اپنی کتاب ’’حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی ‘‘میں، جمیل نقوی نے ’’اردو تفاسیر‘‘ میں، ڈاکٹر صالحہ عبدالحکیم شرف الدین نے ’’قرآن حکیم کے اردو تراجم ‘‘میں اور عبدالصمد صارم نے ’’تاریخ التفسیر‘‘میں مذکورہ بالا روایت سے اسی بات کو ثابت کیا ہے کہ علوم قرآنیہ کے حوالے سے برصغیر کی مقامی زبان میں لکھا جانے والا یہ اولین ترجمہ ہے ۔(۲۴)
لاہور میں قرآن و حدیث کے علوم کی اشاعت کا سہرا شیخ اسماعیل لاہوری کے سر ہے۔ تذکرہ علماء ہند میں ان کے متعلق لکھا ہے کہ شیخ اسماعیل (م۴۴۸ھ)لاہوری عالم محدث اور مفسر تھے۔ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے لاہور میں علم تفسیر و حدیث کی اشاعت کی ۔(۲۵)
قاضی اطہر مبارکپوری ان کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’کان من اعاظم المحدثین و اکابر المفسرین و ھو اول من جاء بالحدیث والتفسیر الی لاہور‘‘ (۲۶)
’’یہ عظیم محدثین اور اکابر مفسرین میں سے تھے۔ یہ پہلے آدمی ہیں جو لاہور میں تفسیر و حدیث کو لائے۔‘‘
عہد تغلق میں علوم قرآنیہ کی نشرو اشاعت کے حوالے سے صاحب تفسیر ملتقط سید محمد حسن (۸۲۵ھ) کا نام، جو گیسو دراز کے لقب سے مشہور ہیں، خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے بارے میں علامہ شریف عبدالحئی فرماتے ہیں:
’’کان عالما کبیر ا ولہ مصنفات کثیرۃ منھا تفسیرالقرآن الکریم علی لسان المعرفۃ و تفسیر القرآن علی منوال الکشاف ‘‘ (۲۷)
’’یہ بہت بڑے عالم تھے جن کی تصانیف بے شمار ہیں جن میں سے ایک’’ تفسیر القرآن الکریم علی لسان المعرفۃ‘‘ اور دوسری ’’تفسیر القرآن علی منوال الکشاف‘‘ ہے ۔‘‘
اس عہد کے نامور مفسر قرآن علاء الدین بن احمد المہائمی ہیں جن کی تفسیر ’’تبصیر الرحمن و تیسیر المنان ‘‘ ہے۔ مولوی عبدالرحمن ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ ان کی تصانیف میں سے تفسیر رحمانی بھی ہے جس کو تفسیر مہائمی بھی کہتے ہیں۔ا نہوں نے آیت مبارکہ ’الم ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین‘ میں بارہ کروڑ تراسی لاکھ چوالیس ہزارپانچ سو چوبیس وجوہ اعراب بیان کی ہیں۔(۲۸)
ڈاکٹر زبیر احمد رقمطراز ہیں کہ اس میں قرآنی قصص اختصار کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔۔۔نیز یہ کہ ایک آیت سے پہلے اور اس کے بعد جو آیتیں ہیں، ان میں باہمی ربط کی وضاحت بھی کی گئی ہے ۔(۲۹)
برصغیر میں علوم قرآنیہ کی فارسی اور اردو زبان میں نشرو اشاعت کا آغاز باقاعدہ طور پر بارھویں صدی ہجری میں ہوا۔ جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے تو اس ضمن میں جمیل نقوی اپنی کتاب ’’اردو تفاسیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’بہرحال شمالی ہند میں پہلی باقاعدہ اور معیاری اردو تفسیرنگاری کی ابتداء بارھویں صدی ہجری کے اواخر سے ہوئی ۔ شمالی ہند کی مقبول عام تفسیر شاہ مراد اللہ انصاری سنبھلی کی تفسیر ’’خدائی نعمت المعروف تفسیر مرادی ‘‘ہے (۳۰)۔شاہ مراد اللہ پہلے اردو مفسر ہیں جنھوں نے اپنی تفسیر ’’تفسیر مرادی ‘‘ میں روز مرہ زبان اختیار کی ہے۔ (۳۱)
قلی بن پادشاہ قلی (م۱۱۱۱ھ)کی کتاب ’’مجمع الفوائد ‘‘ میں ضبط الفاظ قرآنی ، اعراب قرآت مشہورہ ، ائمہ سبع اور بیان معانی و تفسیر پر مشتمل ہے اور متعلقات قرآن مجید پر اس انداز میں بحث کی گئی ہے کہ تمام ضروری باتیں سمجھ میں آجائیں۔ یہ کتاب ۱۱۱۱ہجری میں اورنگ زیب کے عہد میں تصنیف ہوئی ۔
’’انوار الفرقان و ازھار القرآن ‘‘، شیخ غلام نقشبندی لکھنوی (م۱۱۲۶ھ)کی تصنیف ہے۔ اس کے دو نسخے رام پور لائبریری میں موجو دہیں۔ اس کے مقدمے میں تفسیر کی ضرورت و اہمیت اور شان نزول پر بحث کی گئی ہے ۔
علامہ احمد بن ابی سعید الامیٹھوی المعروف بہ ملا جیون نے احکا م ا لقرآن کے موضوع پر ایک تصنیف’’ تفسیرات احمدیہ‘‘ کے عنوان سے لکھی جو کہ قرآنی احکام کے حوالے سے ایک مستند تفسیر ہے۔ اس میں قرآن حکیم سے ساڑھے چار سو آیتیں منتخب کر کے ان سے اخذ ہونے والے احکام کو شرح و بسط کے ساتھ ذکر کیا گیاہے ۔اس تفسیر کو احکام القرآن کے موضوع پر برصغیرمیں لکھی جانے والی سب سے پہلی تفسیر کا درجہ حاصل ہے۔
’’ نجوم الفرقان ‘‘، مصطفی بن محمد سعید جونپوری کی تصنیف ہے جو کہ قرآن مجید کی آیات کی تخریج کے لیے اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں لکھی گئی ۔اس کا قلمی نسخہ رام پور کی لائبریری میں موجود ہے ۔
ملاّعلی اصغر بن عبدالصمد قنوجی (م۱۱۴۰) نے اپنی تفسیر’’ ثواقب التنزیل فی انارۃ التاویل‘‘میں اعجاز القرآن سے متعلق سات مسائل پر بحث کی ہے۔ پہلا مسئلہ نزول قرآن کا ہے ،دوسرا مسئلہ جبرئیل کتنی آیات لے کر آئے ، تیسرا نزول وحی کی کیفیت ، چوتھا مکی اور مدنی آیات کے بیان میں، پانچواں ترتیب نزول ، چھٹا جمع قرآن اور ترتیب قرآن ، اور ساتواں مسئلہ ان سات حروف سے متعلق ہے جن کی بنیاد نبی اکرم ﷺ کی روایت ’انزل القرآن علی سبعۃ احرف‘ پر ہے۔ اس کے علاوہ حروف مقطعات کے متشا بہات میں سے ہونے پربڑی مدلل بحث ہے ۔
برصغیر میں علوم القرآن کے حوالے سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ (م۱۱۷۶ھ)کی خدمات نا قابل فراموش ہیں۔ برصغیر میں سب سے پہلے جامع انداز میں افادہ عام کے لیے قرآنیات پر آپ ہی نے لکھا۔ (۳۲) علوم القرآن پر آپ کی کتاب’’ الفوزالکبیر فی اصول ا لتفسیر‘‘ بہت معروف کتاب ہے جس کے اردو ،عربی ، انگریزی میں بھی تراجم ہو چکے ہیں۔ علوم قرآنیہ کے حوالے سے آپکی دوسری تصنیف ’’فتح الخبیرِ ‘‘ ہے جس میں شان نزول کے حوالے سے عمدہ بحث کی گئی ہے۔’’تاویل الاحادیث ‘‘اور’’المقدمۃ السنیۃ‘‘ کے عنوان سے بھی آپ کی تصنیفات ہیں ۔ اول الذکر کتاب میں معجزات انبیا کے اسرار و رموز اور ان کی حکمتیں بیان کی گئی ہیں جبکہ ثانی الذکر میں، جو کہ فارسی زبان میں ہے، ترجمہ اور تفسیر کے اصول و ضوابط بیان کیے گئے ہیں۔
خلیق احمد نظامی نے ’’حیات شیخ عبدالحق ‘‘ اور ڈاکٹر سالم قدوائی نے ’’ہندوستانی مفسرین اور ان کی عربی تفسیریں‘‘ میں ’یاد ایام‘ مصنفہ سید عبدالحئی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ’’میرے نزدیک ہندوستان کے ہزار سالہ دور میں حقائق نگاری میں شاہ ولی اللہ دہلوی کا کوئی نظیر نہیں۔‘‘ (۳۳)
ناصر بن حسین حسنی(م ۱۲۰۰ھ)کی تصنیف ’’الجداول النورانیہ فی استخراج آیات القرآنیہ ‘‘ تخریج آیات قرآنیہ کے سلسلے میں لکھی گئی تمام کتابوں سے خاصی مختلف ہے۔ اس کتاب میں آیت یا جزء آیت کے استخراج کو مدنظر رکھا گیا ہے اور اس کی ترتیب حروف تہجی کے اعتبار سے ہے۔ کتاب کے مقدمے سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف نے ایک کتاب اسی فن کی اور لکھی تھی جس میں اواخر آیات سے استخراج ہوتا تھا۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا خاندان اس اعتبار سے مسلمانانِ برصغیر کا محسن ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کا رشتہ قرآنِ پاک اور حدیث نبوی سے جوڑا ۔ آپ کے بیٹے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (م۱۲۲۳ھ )نے اپنے والد محترم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے تدریس قرآن کا فریضہ سر انجام دیا اور تقریباًساٹھ سال تک دہلی میں درس قرآن دیتے رہے ۔
تیرہویں صدی ہجری میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے تفسیرِعزیزی کے نام سے ایک شاندار تفسیر لکھی۔ یہ ایک نامکمل تفسیر ہے جو سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کے تقریباً نصف یعنی آیت ’وعلی الذین یطیقونہ‘ تک کے حصے پر اور پھر آخر سے انتیسویں اور تیسویں پارے کی تفسیر پر مشتمل ہے ۔ باقی اجزا کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی کہ آیا شاہ صاحب نے ان کی تفسیر لکھی ہی نہیں تھی یا وہ لکھنے کے بعد ناپید ہو گئی۔ نامکمل ہونے کے باوجود اس تفسیر کے جو اجزا دستیاب ہیں، وہ علوم قرآنیہ کے بیش بہا ذخائر پر مشتمل ہیں۔ مختلف قرآنی موضوعات پر شاہ عبدالعزیز ؒ کے خیالات کوکتابی شکل میں آپ کے شاگرد شاہ رفیع الدین مراد آبادی نے مرتب کر لیا تھا جس کا نام انہو ں نے ’’الافادات العزیزیہ‘‘ رکھا۔ یہ خیالات شاہ صاحب ہی کی عبارت سے تھے جو انہوں نے شاہ رفیع الدین صاحب کو خطوط کی شکل میں لکھے تھے۔ ان میں ربط آیات، متشابہات قرآن،اسرار قصص و احکام اور لطائف نظم قرآن وغیرہ پر بحث ہے ۔
’’مقدمہ تفسیر فتح العزیز‘‘، ڈاکٹر زبید احمدنے اپنی کتاب ’’ہندوستانی مفسرین اور ان کی عربی تفسیریں‘‘ میں اس کو شاہ عبدالعزیز صاحب کی تصنیف کہا ہے، مگر شاہ صاحب کی کتابوں میں اس کا نام نہیں ملتا۔ یہ کتاب مندرجہ ذیل دس مبحثوں میں تقسیم ہے: (۱)مبحث الکلام (۲)مبحث الوحی و کیفیۃ(۳)مبحث الانزال والتنزیل(۴)مبحث التفسیر والتاویل (۵)مبحث الموضوع و شرفہ و شرف الغا نیہ (۶)مبحث نزول القرآن علی سبعۃ احرف(۷)مبحث القراءۃ المتواترۃوالمشہورۃ والشاذۃ (۸)مبحث تحریف القرآن والفرقان والمصحف والسورۃ والآیۃ (۹)مبحث فضائل القرآن (۱۰)مبحث وجہ اعجاز القرآن۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے تفسیر قرآن پر ہی اکتفا نہیں فرمائی بلکہ انہوں نے سب سے پہلے برصغیر میں عوامی سطح پر درس قرآن بھی شروع کیا جس سے نہ صرف عامۃ الناس کی علوم قرآنیہ میں رغبت میں اضافہ ہوا بلکہ ان کے اعمال و کردار کی اصلاح بھی ہوئی ۔
’’نثر المرجان فی رسم نظم القرآن‘‘ شیخ محمد غوث بن ناصرالدین ارکاٹی مدراسی (م۱۲۳۸ھ)کی تصنیف ہے۔ اس میں قرآن مجید کے رسم الخط کی وضاحت کی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں یہ کتاب موجود ہے اور پورے قرآن کے تمام الفاظ کواس میں بیان کیا گیا ہے۔ ہر لفظ کو الگ الگ کر کے دکھایا ہے کہ کس طرح لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ ’’تعداد الاسماء فی القرآن‘‘مصنفہ غلام حسین (م۱۲۴۱ھ)اکیس صفحوں پر مشتمل مختصر رسالہ ہے جس میں ان ناموں کا ذکر ہے جو قرآن مجید میں مختلف جگہوں پر استعمال ہوئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نام انبیا کے ہیں۔’’رسالہ رسم خط کلام اللہ ‘‘ مصنفہ محمد کامل چڑیا کوٹی، اس رسالے میں قرآن مجید کے مختلف الفاظ کے رسم الخط کو واضح کیا گیا ہے ۔
’’تقریب الافھام فی آیات الاحکام ‘‘مصنفہ مفتی محمد قلی کنشوری بن محمد حسین متوفی ۱۲۶۰ھ کی کتاب ہے جو قرآنی احکام کی ایک عمدہ تفسیر ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی متوفی ۱۲۹۷ھ کی تصانیف میں علوم قرآنیہ کے حوا لے سے ’’اسرار قرآنی ‘‘ کے نام سے ایک مختصر رسالہ ہے جس میں علوم قرآنیہ کے مختلف موضوعات پر بحث کی گئی ہے ۔
’’اوضح البیان فی بیان اسامی القرآن‘‘ ، سید ابو تراب جعفری ( م۱۲۷۸ھ) کی تصنیف ہے۔ اس میں قرآن مجید کے ان تمام ناموں کی توجیہات بیان کی گئی ہیں جن کا ذکر امام رازی اور سیوطی وغیرہ نے اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ ’’السبع المثانی‘‘ ، سید محمد بن دالدار علی لکھنوی (۱۲۸۴ھ)کی تصنیف ہے جو کہ شیعہ عالم ہیں۔ انہوں نے یہ رسالہ قرا ء ۃ و تجوید سے متعلق لکھا ہے اور اس فن کی ضروری باتوں کی طرف اشارے کیے ہیں۔ اس میں پچیس ورق ہیں ۔عبدالکریم ٹونکی کا رسالہ ’’سبیل الرسوخ فی علم الناسخ والمنسوخ ‘‘ چار ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں ترتیب نزول سور کی تفصیل ہے ، دوسرے باب میں اقسام سور بہ اعتبار ناسخ و منسوخ کا بیان ہے ، تیسرے میں احکام نسخ ، اس کی قسمیں اور آیات ناسخہ و منسوخہ کا ذکر ہے ، چوتھے باب میں آیات مخصوصہ کا ذکر ہے جن سے خاص خاص احکام مستنبط ہوتے ہیں ۔ ’’آیات الاعجاز‘‘، مولانا عبدالرشید کشمیری (م ۱۲۹۸ھ) کی تصنیف ہے جو کہ تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلی فصل حد الاعجاز و وجوہہ پر ہے، دوسری فصل فی ما نزل من القرآن علی لسان بعض الصحابۃ، تیسری فصل فی قدر المعجزمن القرآن پر مشتمل ہے ۔
چودھویں صدی ہجری میں علامہ صدیق حسن بھوپالی متوفی۱۳۰۷ ھ کی کتابیں علوم القرآن کے حوالے سے مشہور ہیں جن میں ’’افادۃ الشیوخ بمقدارالناسخ والمنسوخ‘‘ اور ’’الاکسیر فی اصول التفسیر ‘‘ شامل ہیں۔
’’مرآۃ التفسیر‘‘،ذوالفقار احمد نقوی بھوپالی (م ۱۳۱۶ھ) کی تصنیف ہے۔ اس رسالے میں مصنف نے تفسیر اور متعلقات تفسیر کا ذکر کیا ہے ۔ یہ ایک قسم کا انڈیکس ہے جس سے مفسرین اور علم تفسیر پر جو کچھ بھی کام ہوا ہے، اس کا پتہ چلایا جا سکتا ہے ۔
’’الفاظ القرآن مسمی بہ نجوم الفرقان جدید لتخریج آیات القرآن‘‘ مولانا اہل اللہ فقیراللہ (م۱۳۳۱ھ ) کی تصنیف ہے۔ یہ قرآن کریم کے الفاظ کی فہرست ہے جس کی مدد سے کسی بھی آیت کو آسانی کے ساتھ تلاش کیا جا سکتا ہے ۔’’ملخص التفاسیر ‘‘سید محمد ہارون زنگی پوری ( م۱۳۳۷ھ) کی تصنیف ہے جو کہ مختلف ابواب میں منقسم ہے۔ ان ابواب کو مقدمہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ۔
’’مفردات القرآن ‘‘ مولانا حمید الدین الفراہی ؒ (م۱۳۴۹ھ) کی تصنیف ہے۔ اس میں مصنف نے اہم قرآنی الفاظ کے معانی بیان کیے اور ان کا صحیح مفہوم واضح کیا ہے ۔ یہ بھی بیان کیا ہے کہ قرآن مجید غریب الفاظ سے خالی، ضبط و نظم میں لاثانی، اور عربوں کے خطبوں اور ان کے اشعار و محاورات سے کہیں زیادہ آسان ہے ۔ علامہ حمید الدین فراہی ؒ متوفیٰ ۱۳۴۹ ھ نے علوم القرآن کی مختلف انواع پر کئی کتابیں لکھی ہیں جن میں اسالیب القرآن ، اقسام القرآن، امعان فی اقسام القرآن ، تفسیر نظام القرآن ، التکمیل فی اصول التاویل ، دلائل النظام ، مفردات القرآن وغیرہ آپکی گراں قدر تالیفات ہیں۔
’’کنز المتشابہات ‘‘ کے مصنف حافظ محمد محبوب علی ہیں یہ کتاب دائرۃ المعارف سے ۱۳۴۱ ھ میں شائع ہوئی ۔ اس میں مصنف نے ایسی آیتوں کو جمع کیا ہے جو ایک دوسرے سے مشابہت رکھتی ہیں ۔ اس کتاب کے شروع میں انہوں نے ایک مقدمہ لکھا ہے جو عربی اور اردو دونوں ہی زبانوں میں ہے ۔یہ کتاب حفاظ کے لیے بہت مفید ہے ۔
’’مشکلات القرآن ‘‘مولانا محمد انور شاہ کشمیری ؒ (۱۳۵۲ھ)کی تصنیف ہے۔ اس میں ان آیا ت کی توضیح کی گئی ہے جن کو مشکل تصور کیا جاتا ہے ۔ یہ توضیحات بیشتر عربی میں اور چند جگہوں پر فارسی میں ہیں ۔ کتاب کے شروع میں تفصیلی مقدمہ مولانا محمد یوسف بنوری کا ہے جس میں انہوں نے مصنف کے حالات زندگی لکھے ہیں ۔ نیز تفسیر کے ضروری قواعد و ضوابط ، اہل حق اور اہل باطل کی تفسیروں کا فرق اور اسی قسم کی بہت سی اہم باتوں کو بیان کیا ہے ۔
’’وجوہ المثانی مع توجید الکلمات والمعانی ‘‘ مولانااشرف علی تھانوی (م۱۳۶۲ھ)کی تصنیف ہے۔ اس میں قرآن مجید کی سات قراء توں کا بیان ہے اور قرآت کے تمام اختلافات کو بیان کیا گیا ہے ۔ آخر میں اس فن سے متعلق کچھ اصول بھی بیان کر دیے ہیں ۔ اسی طر ح ’’سبق الغایات فی نسق الآیات ‘‘بھی مولانا تھانوی کی تصنیف ہے۔ یہ ایک مختصر سی کتاب ہے جس میں آیات قرآنی کا ربط اور مطالب اختصار کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ سورتوں کا خلاصہ اور شان نزول بھی لکھ دیا گیا ہے ۔ ’اشرف السوانح‘ میں علوم قرآنیہ پر آپ کی تصانیف کی تعداد پچیس بیان کی گئی ہے جن میں ’’ تنشیط الطبع ‘‘، ’’وجوہ المثانی‘‘ ،’’ تجوید القرآن ‘‘، ’’جمال القرآن‘‘ ،’’ یادگار حق القرآن ‘‘ وغیرہ شامل ہیں ۔
جہاں تک تجوید و قرآت کا تعلق ہے، اس ضمن میں برصغیر میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں’’شرح سبعہ‘‘ شیخ القراء مولانا قاری ابو محمد محی الاسلام ؒ کی تصنیف ہے۔ اس میں قراء سبعہ اور ان کے رواۃ کے مختصر حالات نہایت دلچسپ پیرایے میں درج ہیں۔ اس کے بعد قرا ء ا ت سبعہ کے اصولی اور فرعی مسائل نہایت تحقیق کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ ’’افضل الدرر‘‘ علامہ شاطبی کے قصیدہ رائیۃ کی نہایت نفیس اور محققانہ شرح ہے جو کہ قاری عبدالرحمن ابن محمد بشیر خاں صاحب مکی ثم الہ آبادی کی تصنیف ہے ۔ مولانا قاری ضیاء الدین صاحب ؒ الہ آبادی کی کتاب’’ خلاصۃ البیان ‘‘(عربی ) اور ’’ضیاء القراء ت‘‘(اردو) عمدہ کتابیں ہیں۔ مولانا قاری عبدالوحید صاحب الہ آبادی کی ’’ہدیۃ الوحید ‘‘ اور مولانا قاری عبدالخالق صاحب علی گڑھی کی ’’تیسیر التجوید‘‘ بھی ایک عمدہ اضافہ ہیں۔’’توضیح العشرفی طیبۃ النشر‘‘ اردو زبان میں مختصر، جامع اور محققانہ کتاب ہے۔ اس کے علاوہ ’’المعانی الجلیلہ شرح عقیلہ ‘‘رائیہ کی شرح ہے۔ یہ دونوں کتابیں مولانا حافظ قاری عبداللہ صاحب گنگوہی ثم مرادآبادی کی تصنیف ہیں ۔قاری فتح محمد صاحب پانی پتی کی کتاب ’’عنایات رحمانی ‘‘قصیدہ شاطبیہ کی اردو شرح، ’’اسہل الموارد‘‘ قصیدہ رائیہ کی شرح ، اور’’ کاشف العسر‘‘ شرح ناظمۃ الزہر عمدہ کتابیں ہیں۔ ’’تیسیر الطبع فی اجراء لسبع‘‘( اردو) ، ’’مفید الاطفال ‘‘، اور تحفۃ الاطفال کی شرح اور اردو میں ’’مفید الاقوال‘‘ یہ تینوں کتابیں قاری محمد حسین صاحب مالیگانوی کی تصنیف ہیں۔
’’کاشف الابہام‘‘ ، یہ حمزہ اور ہشام کی ان وقفی وجوہ میں ہے جو کلمات مہموز میں بوقت وقف پیدا ہوتی ہیں ۔ ’’ضیاء البرہان فی الجواب علی خط القرآن‘‘قرآن کے رسم قیاسی پر ایک مدلل رسالہ ہے ۔ یہ دونوں کتابیں مولانا قاری ابن ضیاء محب الدین احمد صاحب الہ آبادی کی تصنیف کردہ ہیں ۔’’ احیاء المعانی‘‘ کے نام سے علم قراء ت میں ایک نہایت جامع اور مفید ترین کتاب حضرت مولانا حافظ قاری ظہیر الدین صاحب معروفی اعظمی کی تالیف ہے ۔
سر سید احمد خان ، علامہ اسلم جیراجپوری ، علامہ تمنا عمادی ، عبداللطیف رحمانی وغیرہ نے علمائے جمہور سے اختلاف کرتے ہوئے جمع و تدوین قرآن ، ناسخ و منسوخ آیات جیسے اہم قرآنی موضوعات پر جداگانہ افکار و نظریات پیش کیے۔ علامہ اسلم جیراجپوری کی ’’تاریخ القرآن ‘‘ ، ’’ارض القرآن ‘‘ اور ’’نکات القرآن‘‘ جبکہ علامہ تمنا عمادی کی’’ جمع القرآن ‘‘ اور ’’اعجاز القرآن و اختلاف قراء ات ‘‘اس موضوع پر نئی فکر کی عکا سی کرنے والی اہم کتب ہیں۔
ماضی قریب میں مولانا شمس الحق افغانی ، مولانا مالک کاندھلوی، قاضی مظہر الدین بلگرامی ،مولانا گوہر رحمن ،مولانا تقی عثمانی،مولانامفتی عبدالشکور ترمذی،مولانا عبدالشکور لکھنوی نے علوم قرآنیہ کے سلسلے میں انتہائی گراں قدر خدمات سر انجام دیتے ہوئے اس موضوع پر کتابیں تصنیف فرما کر اردو زبان میں علوم القرآ ن پر جامع کتب کے خلا کو پر کیا ہے۔
علمائے برصغیر کے تعارف اور خدمات کے باب میں نزھۃالخواطر، حدائق الحنفیۃ ، ماثر الکرام ، الثقا فۃ الاسلامیہ فی الہند،تذکرہ علمائے ہند ،علماء ہند کا شاندار ماضی ،تذکرہ مشائخ دیو بند،تذکرہ علماء پنجاب،تاریخ المفسرین،تذکرہ قاریان ہند ،ہندوستانی مفسرین اور ان کی عربی تفسیریں، وغیرہ گراں قدر تالیفات موجود ہیں جن سے علماء پاک و ہند کی وہ علمی بصیرت و حکمت آشکارا ہو تی ہے جس کا اعتراف عرب کی علمی دنیا بھی ہر دور میں کرتی چلی آ رہی ہے۔
حوالہ جات
(۱) صحیح البخاری ، کتاب فضائل القرآن ، باب خیرکم من تعلم القرآن
(۲) خطیب تبریزی، مشکوۃ المصابیح، کتاب فضائل القرآن
(۳) ابن تیمیہ، مقدمہ فی اصول التفسیر، ۳۰، مکتبہ العلمیۃ
(۴) بخاری، کتاب الاعتصام،
(۵) صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ
(۶)ابو حیان اندلسی ، البحر المحیط، ج:۶،ص:۵۳۴، بیروت ، ۱۹۹۲، آلوسی ، روح المعانی ،ج:۸،ص:۲۲، بیروت ۱۹۹۷
(۷)صالحہ عبدالحکیم ، قرآن حکیم کے اردو تراجم، ص۵۴، قدیمی کتب خانہ، کراچی
(۸)الزرقانی، مناھل العرفان فی علوم القرآن، ج:۱، ص:۲۸
(۹)قرآن حکیم کے اردو تراجم،ص:۵۵
(۱۰)ابن ندیم ، الفہرست، ص:۵۱تا ۵۷، مصر ۱۳۴۸
(۱۱)قرآن حکیم کے اردو تراجم،ص:۵۶
(۱۲)الداؤدی ، طبقات المفسرین، ج:۱،ص:۱۴۱، تحقیق علی محمد عمر ، مصر۱۹۷۶
(۱۳)صبحی صالح ، مباحث فی علوم القرآن ، ص:۱۲۲،بیروت ۱۹۶۸
(۱۴)ابن الجوزی ، کتاب المنتظم ، ج:۶،ص:۳۸۸،حیدر آباد دکن۱۳۵۷ھ
(۱۵)قرآن حکیم کے اردو تراجم، ص: ۵۷، مناھل العرفان ،ج:۱،ص:۲۸
(۱۶)مباحث فی علوم القرآن ۱۷۶
(۱۷)ابن حجر ، لسان المیزان،ج:۴، ص:۵
(۱۸)عبداللہ الطرازی ،موسوعۃ التاریخ الاسلامی والخصارۃ الاسلامیۃ لبلادالسند والبنجاب فی العھد العرب،ج:۱،ص:۴۶۹
(۱۹)سمعانی،الانساب ،ج:۵،ص:۵۴۰
(۲۰)عبداللہ الطرازی ،موسوعۃ التاریخ الاسلامی والخصارۃ الاسلامیۃ لبلادالسند والبنجاب فی العھد العرب،ج:۱،ص:۴۶۹
(۲۱)تذکرۃ المفسرین،ص:۵۴
(۲۲)معجم البلدان، ج:۴،ص:۴۶۰
(۲۳)رجال السند والھند :ص۲۵۴، عرب وہند کے تعلقات، ص:۲۱۵
(۲۴)حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی ، ص: ۳۴، جمیل نقوی ، اردو تفاسیر ص:۲۲، عبدالصمد صارم ،تاریخ تفسیر ،ص:۴
(۲۵)مولوی رحمان ،تذکرۃ علماء ہند ، ص:۱۱۱، حدائق حنفیہ ص:۱۹۴
(۲۶)قاضی اطھر مبارکپوری ، رجال السند والھند ص۷۹
(۲۷)نزہۃ الخواطر ، ج:۳،ص۱۶۳
(۲۸)تذکرہ علماء ہند، ص۳۵، حدائق حنفیۃ ،ص:۳۱۷
(۲۹)عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ، ص:۴۵۵
(۳۰)اردو تفاسیر ، ص ۲۵
(۳۱)المرجع السابق
(۳۲)زاہد الحسینی ، تذکرۃ المفسرین ، ص:۱۷۰
(۳۳)حیات شیخ عبدالحق دہلوی، ص:۳۵،ہندوستانی مفسرین اور انکی عربی تفسیریں، ص:۳۷
بعثتِ نبوی ﷺ کے عصری مکاشفے
پروفیسر میاں انعام الرحمن
کم ہی لوگوں کو اس بات سے اختلاف ہو گا کہ اسلام کے ظہور کی صدی تاریخی ادوار کی تقسیم کے لحاظ سے زرعی دور میں شامل کی جا سکتی ہے۔ یہ ساتویں صدی کے بہت عرصہ بعد ہوا کہ صنعتی انقلاب جیسے طاقتور خارجی مظہر سے نوعِ انسانی کا واسطہ پڑا۔ اس انقلاب نے جہاں معاشی اعتبار سے ترقی کا راستہ ہموار کیا، وہاں انسانی زندگی کی ان قدروں کو بھی اتھل پتھل کر دیا جن کی بنیادیں زرعی دور کے انسانی رویوں میں پوشیدہ تھیں۔ اقدار کی تبدیلی سے طرزِ زندگی میں تبدیلی رونما ہوئی اور پھر نئے طرزِ زندگی نے انسانی رویوں کی ایک ایسی صورت کو جنم دیا جس سے آج ہمارا اپنا عہد (اکیسویں صدی ) نبردآزما ہے۔ قرآن مجید کو ناسخِ کتب الٰہیہ اور محمد رسول اللہ ﷺ کو نبی خاتم تسلیم کرتے ہوئے اگر ہم کتاب و سنت سے اس سلسلے میں راہنمائی لینے کی کوشش کریں تو یہ بنیادی سوال جنم لیتا ہے کہ بعثتِ نبوی ﷺ کے لیے خدائے ذوالجلال نے انسانی تاریخ کے زرعی دور اور خطہ عرب کو کیوں منتخب کیا؟ خدا غیب کا علم رکھنے والا ہے، مستقبل اس کی آنکھ سے پوشیدہ نہیں۔ آخر تاریخ کے زرعی دور میں ایسی کیا بنیادی خصوصیت ہے کہ ربِ کائنات نے آخری نبی مبعوث کرنے کے لیے صنعتی و اطلاعاتی انقلاب کے ادوار پر اسے ترجیح دی؟ نبی خاتم ﷺ کی بعثت اٹھارہویں یا اکیسویں صدی کے بجائے آخر ساتویں صدی میں اور خطہ عرب ہی میں کیوں ہوئی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ آج نوعِ انسانی جن مسائل کے سامنے مضطرب اور حیران و پریشان کھڑی ہے، ان کے دیرپا اور جامع و سنجیدہ حل کی اساس ، مذکورہ سوالات کے جوابات میں پوشیدہ ہے ۔
جہاں تک زرعی دور کا تعلق ہے، اس کی ایک خصوصیت، زمین سے وابستگی اور آسمان سے شکستگی میں پنہاں ہے ۔ اس دور کا انسان کسی زرخیز خطہ زمین سے اپنے تعلق کی مضبوطی کا خواہاں رہتا تھا۔ آسمان سے شکستگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے ایسی دیو مالا تخلیق کر ڈالی جس میں اپنی کمزوری اور آسمان کی قدرت کا فراخدلانہ اعتراف تھا ۔ دیو مالائی مظاہر کی انواع سے قطع نظر ، زرعی معاشروں کی مجموعی نفسیات آج بھی اسی صورت حال کی عکاسی کرتی ہے۔ بہر حال! زمین سے وابستگی کے آفاقی مظہر نے طرزِ معاشرت میں خاندان سے پیوستگی کو لائف سٹائل کی بنیادی قدر کے طور پر ابھارا ۔ خاندانی اقدار کی پیروی کیے بغیر کسی فرد کے لیے بھی خوشگوار بقا کا تصور محال تھا۔ کھیتوں میں محنت و مشقت کرتے پسینے میں شرابور ماں، باپ، بیٹے، بیٹیاں ، خاندان کی معاشی طاقت کی علامت سمجھے جاتے اور معاشرتی بود و باش میں خاندان کے اعلیٰ سماجی رتبے کا سبب بھی بنتے۔ یوں خاندان کی یکجائی زرعی دور کے طرزِ زندگی کا نمایاں وصف بنتی چلی گئی ۔ معاشی تگ و دو کے لیے کسی اور آپشن کی عدم موجودگی یا کمی کے باعث اولاد کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ ایسے طرزِ زندگی کی بابت سوچ بھی سکے جو والدین سے جدائی ، دوری اور معاشی خود کفالت جیسی اقدار پر مبنی ہو۔ لہٰذا یہ خاندانی نظام انتہاپسندانہ رجحانات رکھتا تھا اور اس میں باپ کی حیثیت ڈکٹیٹر کی سی تھی۔ خطہ عرب میں صورتِ حال قدرے مختلف تھی۔ یہاں کی صحرائی آب وہوا نے اپنے باشندوں کی زندگی میں زراعت کے ساتھ ساتھ ایک اہم ذریعہ معاش کے طور پر تجارت کو بھی داخل کر دیا تھی ۔ زراعت و تجارت کے امتزاج نے عرب معاشرت میں خاندانی نظام کو اس طرح پنپنے کا موقع نہیں دیا کہ باپ ڈکٹیٹر بن سکے ، اگرچہ زرعی عنصر نے اپنی فطری طاقت کے باعث خاندان کو ہی طرزِ زندگی کی بنیادی قدر قرار دلوایا۔ غالباً اسی معتدل و میانہ رو خاندانی نظام سے پھوٹنی والی معاشرتی نفسیات نے صحابہ کرامؓ کے لیے شاید آسانی پیدا کی کہ وہ خاندان سے بغاوت کر کے دینِ اسلام قبول کریں اور اپنے بھائی بندوں اور خاندان کے مقابل کھڑے ہوسکیں۔ اس کے برعکس ہندوستان میں انتہاپسندانہ خاندانی نظام نے مقامی باشندوں کے قبولِ اسلام کی راہ میں معاشرتی و نفسیاتی رکاوٹیں کھڑی کیں۔شاید اسی لیے اس علاقے کی اکثریت ابھی تک مشرف بہ اسلام نہیں ہو سکی۔ مسلمانوں کے ہاں، بالخصوص برِ صغیر میں، حالیہ جمود کی ایک بڑی وجہ بھی خاندانی نظام کے تحفظ اور بقا کے نام پر بے لچک ’والدینی‘ رویہ ہے ، جس نے فکرِ نو کی تمام راہیں مسدود کر رکھی ہیں۔ بہر حال ! خدائے ذوالجلال نے بعثتِ نبی خاتم ﷺ کے لیے جہاں زرعی دور کا انتخاب کیا، وہاں زمین کا بھی ایک ایسا ٹکڑا چنا جس میں زرخیزی کی قدرتی کمی کے باعث، ارضی وابستگی کی وہ انتہاپسندانہ روش نہیں پنپ سکتی تھی جو آسمان سے شکستگی پر ختم ہوتی تھی۔ مذکورہ الٰہیاتی حکمت کے مطابق خاتم النبیےین محمد مصطفی ﷺ نے ہجرت کا نہایت معنی خیز سفر اختیار کیا۔ ہجرت کے عمل نے جہاں واقعاتی حوالے سے زمین اور خاندان سے نسبت کی اس منفی رمق کا بھی قلع قمع کر دیا جو اسلام قبول کرنے والوں کے اذہان کے کونوں کدروں میں کہیں چھپی بیٹھی تھی، وہاں فکری لحاظ سے ایک نئے معاشرتی رویے کی بنیاد بھی رکھی کہ زمین اور خاندان سے وابستگی، انسانی زندگی کا محور نہیں ہے۔ لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ بعثتِ نبی خاتم ﷺ کے لیے تاریخ کے زرعی دور اور خطہ عرب کا انتخاب اپنے اندر یہ الہٰیاتی پیغام رکھتا ہے کہ انسانی زندگی کی معاشرتی بود و باش میں ( غیر ارضی اساس کے ساتھ) متوازن خاندانی نظام ، شجرِ سایہ دار کی مانند ہمیشہ موجود رہے۔
چونکہ قرآن مجید نے رسالت مآب ﷺ کو رحمت للمسلمین کے بجائے رحمت للعالمین ﷺ کی انتہائی جامع صفت سے موصوف کیا ہے، اس لیے اسی صفت کی واقعاتی و مکانی تصریح کی خاطر آپ کی بعثت ایک ایسے علاقے میں کی گئی جو اسلام کی عالمگیریت میں نہ صرف رکاوٹ نہ بن سکے بلکہ اسلامی عالمگیریت کے پھیلاؤ کے چند ناگزیر تقاضوں کی طرف واضح اشارہ بھی کر سکے۔ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ اسلام کے ظہور کے وقت خطہ عرب کی کوئی نمایاں سیاسی حیثیت نہیں تھی۔ یہاں بت پرستوں کی اکثریت تھی، لیکن یہودی اور عیسائی وغیرہ بھی آباد تھے ۔ روم اور ایران اس دور کی سپر پاورز تھیں۔ رومی، عیسائی تھے اور اہلِ فارس، مجوسی و آتش پرست تھے ۔ اب ذرا غور فرمائیے کہ اسلام کا ظہور اگر ایران یا روم میں سے کسی ایک خطے میں ہوتا تو دوسرا خطہ اسلام کو سیاسی حریف کے طور پر لیتا اور اسلام کی دعوت ایک خطے تک ہی محدود رہتی ۔ اگر اسلام اپنی داخلی خصوصیات کے بل بوتے پر دوسرے خطے میں سرایت کر بھی جاتا تو بھی اس خطے کے لوگوں کی نفسیات میں یہ تحفظات لازماً موجود رہتے کہ اسلام کی علاقائی توسیع کے پیچھے سامراجی عزائم کارفرما ہیں۔ اس کے بعد اس خطے کی لوک داستانوں میں اسلام کو حملہ آور اور مخالف فریق کے طور پر بیان کیا جاتا، جبکہ دوسری طرف جس خطے میں اسلام کا ظہور ہوا ہوتا، اس خطے کی سلطنت مذہبی تقدس کا لبادہ اوڑھ کر نہ صرف اپنے لوگوں کا جینا حرام کر دیتی بلکہ ساری دنیا کی نا م نہاد اصلاح کا بیڑہ اٹھا کر اقوام عالم کو اپنی چیرہ دستیوں اور ریشہ دوانیوں سے تباہ حال کر دیتی ( جیسا کہ آج کل امریکہ ، انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام پر پوری دنیا میں فساد برپا کیے ہوئے ہے) مدینے کے یہودیوں میں آپ ﷺ کی بعثت کی صورت میں اسلام کی حیثیت نسلی مذہب کی سی ہوتی۔ اس طرح اندازہ ہوتا ہے کہ رب العالمین نے رحمت للعالمین ﷺ کو کسی خاص حکمت کے تحت ہی خطہ عرب میں مبعوث فرمایا ۔ اس سلسلے میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ اسلام اپنے ظہور کے فوراً بعد اہلِ کتاب کے بجائے بت پرستوں کے مقابلے میں ’’ فریق ‘‘ کے طور پر سامنے آتا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد یہو د و نصاریٰ کے ساتھ اس کا ’’ تقابل و موازنہ ‘‘ شروع ہو جاتا ہے ۔ اب اگر اسلام کی ان دو حیثیتوں کو پیشِ نظر رکھا جائے کہ اسلام ’ فریق ‘ ہے اور اسلام کا ’ تقابل و موازنہ ‘ کیا جارہا ہے تو ہر دو کی بابت اسلام کا داخلی جواب کافی چونکا دینے والا معلوم ہوتا ہے۔ یہ جواب ’’ اقرا ‘‘ سے شروع ہوتا ہے ۔ جوں جوں اس جواب کی تفصیلات عرش سے نازل ہوتی رہیں ، توں توں اس وقت کی مسلم سوسائٹی میں ایک رویے کی آبیاری بھی ہوتی رہی۔ اس لیے جب نزولِ وحی کا سلسلہ ختم ہوا، اس وقت تک مسلم سوسائٹی کے بدن میں ایک خاص سماجی رویہ خون کی طرح سرایت کر چکا تھا ۔
اب مذکورہ نکات کے ایک پہلو پر ذرا گہری نظر ڈالیے کہ اسلام کا ظہور ایسے خطے میں ہوا جہاں وہ نہ صرف ’فریق‘ بنا بلکہ اس نے تقابل و موازنے کی راہ بھی ہموار کی ۔ روم و ایران میں سے کسی ایک خطے میں اسلام کے ظہور کی صورت میں اسلام صرف ’فریق‘ کے طور پر سامنے آتا اور اس کے لیے تقابل و موازنے کی علمی روایت قائم کرنا قطعی طور پر نا ممکن ہوتا۔ جو بھی نام نہاد علمی روایت قائم ہوتی، اس کی بنیادوں میں الزام تراشی، قومی عصبیت اور دوسروں پر لعن طعن جیسی خصوصیات لازماً شامل ہوتیں ۔ اور اگر اسلام کا ظہور کسی ایسے خطے میں ہوتا جہاں یہ کسی بھی قوم یا فکر کا فریق بن کر سامنے نہ آتا تو پھر اسلام، محرف عیسائیت کی مانند محض چند اخلاقی تعلیمات کا عنوان ہوتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خطہ عرب میں اس وقت کی واقعاتی صورتِ حال اس امتزاج کو مہمیز دینے والی تھی جو اسلام کو مطلوب و مقصود تھا ۔ یہ امتزاج ’’ مجادلہ اور مکالمہ ‘‘ جیسی خصوصیات سے عبارت تھا اور اس کا محور ’’ اقرا ‘‘ یعنی علم تھا ۔ یوں خطہ عرب میں ، ایک خاص زمانے میں، اسلام کے ظہور کی صورت میں ایک ایسی علمی روایت کی بنیاداستوار ہوئی جو امتزاجی خصوصیات سے مالا مال تھی۔ بت پرستوں کے مقابل میں ’اقرا‘ صرف ایک لفظ نہیں، بلکہ ان کے جہل کا حریف ایک ’ فریق ‘ ہے۔ یہ اقرا اسی طرح اپنی لفظی حیثیت سے ماورا ہوتے ہوئے ، اہلِ کتاب کی تحریفات کو رد کر کے ، تقابل و موازنے کی خالص علمی روایت کی بنیادیں استوار کرتا ہے ۔ اقرا بت پرستوں سے مجادلہ و محاکمہ کرتا ہے اور اہلِ کتاب سے مکالمہ کرتا ہے۔ یہی اقرا بدر و احد میں تلوار سونت کر میدان میں آ جاتا ہے، یہ بتانے کے لیے کہ جہاد بذاتِ خود مقصود نہیں، بلکہ حقیقت میں ایک ذریعہ ہے جسے ’ اقرا ‘ کی روشنی میں ہی اختیار کیا جاتا ہے ۔ یوں اقرا کبھی مجادلہ کی راہ دکھاتا ہے، کبھی محاکمہ کا طرز اپنانے کا درس دیتا ہے، اور کبھی مکالمہ کی طرف اشارہ کرتا ہے، وعلیٰ ہذا القیاس ۔
اسلام کے ظہور میں ’زمانی انتخاب ‘میں کیا حکمت پوشیدہ تھی ؟ اس حکمت کے بعض عظیم پہلو اور مظاہر ، اسماء الرجال اور علم حدیث میں موجود ’’علمی اپروچ ‘‘میں تلاش کیے جا سکتے ہیں ۔ کون نہیں جانتا کہ مسلم معاشرے کے اجتماعی ضمیرنے خاص سماجی رویے سے شہ پا کر قرونِ اولیٰ میں ہی ، مذکورہ بالا علمی روایت کی تطبیق میں ایک ایسے علم کی بنیاد رکھی جس کے دو بڑے ستون ’حافظہ‘ اور ’تحقیق‘ تھے ۔ ان دونوں ستونوں کے پیچھے نبی خاتم ﷺ کے مبارک زمانے میں تشکیل پانے والا سماجی رویہ پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھا ، کیونکہ ایک خاص سماجی رویے کے بغیر ، محض آلاتِ کار کے بل بوتے پر کسی ٹھوس علمی روایت کی بنیادیں استوار ہی نہیں کی جا سکتیں۔ بہرحال حافظہ انسان کی داخلی خوبی ہے اور تحقیق کا تعلق خارجی مظاہر کی بابت انسانی رویے میں پوشیدہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تحقیقی انسانی رویہ، انسان کی داخلی خوبی یعنی حافظہ پر ہی انحصار کرتا ہے۔ ذرا سوچیے کہ جس انسان کا حافظہ ہی نہ ہو ، کیا وہ تحقیقی کام کر سکتا ہے، بالخصوص ایسے دور میں جب حافظے کے متبادل ذرائع مثلاً پرنٹنگ پریس، سی ڈی وغیرہ بھی موجود نہ ہوں؟اس طرح معلوم ہو تا ہے کہ ربِ کائنات نے زمان کی وسعتوں میں سے ایک خاص زمانے کا انتخاب شاید اس لیے کیا کہ انسانی دنیا میں’’حافظہ و تحقیق پر مبنی علمی روایت‘‘ کی بنیاد جڑ پکڑ سکے۔ اگر نبی خاتم ﷺ کی بعثت ساتویں صدی کے بجائے بعد کی صدیوں میں ہوئی ہوتی تو حافظے کے متبادل ذرائع کی ایجادات کے باعث ایسی علمی روایت پروان نہیں چڑھ سکتی تھی جو ایک طرف انسان کی داخلی خوبی کی مرہونِ منت ہوتی اور دوسری طرف اس خوبی کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ تحقیق کو اپنا شعار قرار دیتی۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ قبل از اسلام کے عربی ادب میں شاعری پربہت زیادہ زور تھا ، جبکہ بعد از اسلام کے عربی ادب میں علم حدیث کے طفیل ہی صنف نثر کو پذیرائی ملی۔ اہل علم جانتے ہیں کہ شاعری ، تحقیقی صنف نہیں ہے بلکہ عقل و منطق کے اسالیب اور تحقیقی رویے نثر میں ہی پنپ سکتے ہیں۔ ( اقبال کی شاعری کو اقبالی فکر کا محور سمجھنے والے بھی اس نکتے کو پیشِ نظر رکھیں) صنفِ شاعری میں البتہ یہ خوبی ضرور موجود ہے کہ یہ انسانی حافظے سے خاص لگاؤ رکھتی ہے۔ دیوان کے دیوان لوگوں کو ازبر ہوتے ہیں ۔ صنفِ شاعری کی یہی خاصیت انسانی حافظے کو تقویت پہنچانے کا سبب بنتی ہے۔ اللہ رب العزت نے انسانی حافظے کی حفاظت کا اہتمام شاعری کے بجائے ’’ حفظِ قرآن ‘‘ کی روایت سے فرمایا اور اسی روایت کو علمی اسلوب عطا کرتے ہوئے علم حدیث کے لیے کشادہ راہ ہموار کر دی۔ حفظِ قرآن، بنفسہ علمی رویہ نہیں ہے لیکن یہ ایک عظیم علمی رویے کی اساس ضرور بنتا ہے ۔اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ قرآنی متن کا فہم شانِ نزول کی تفہیم سے مشروط نہیں ہے، لیکن اس کے بر عکس کسی حدیثِ رسول ﷺ کے متن کے فہم میں ، اس کے سیاق و سباق سے آگاہی کافی اہم اور ناگزیر ہو جاتی ہے ۔
اس بحث کا ایک قابلِ اعتنا پہلو یہ ہے کہ ربِ کائنات نے نبی خاتم ﷺ کی بعثت کے لیے جہاں ایک خاص زمانے کو باقی ادوار پر اور ایک خاص خطے کو دیگر خطوں پر ترجیح دی، وہاں ایک خاص زبان کا انتخاب کر کے اسے بھی دائمیت سے نوازا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عربی زبان میں داخلی لحاظ سے وہ کیا خوبی ہے جو اس کے انتخاب کا سبب بنی ؟ ہماری رائے میں وہ بنیادی سبب ’’ خاص ماحول ‘‘ ہے جس میں یہ زبان پلی بڑھی اور پھلی پھولی ۔ ذرا غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے صحرائی خطہ میں خارجی مظاہر کی نہ تو کثرت ہے اور نہ تنوع۔ خارجی مظاہر کی یہی قلت اور کم یابی اس امر کا سبب بنی کہ اس زمین کے باسی اپنی توجہ کا مرکز سوسائٹی اور انسان کو بنا سکیں۔ اگرچہ جھلستا ہوا ریگستان ان کی توجہ منتشر کرنے کو موجود تھا لیکن یہ اتنا بڑا چیلنج بن کر ان کے سامنے نہیں آیا تھا کہ وہ اسے exclusively توجہ کا مرکز و محور بنا ڈالتے ۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ ریگستان کے باسیوں نے انسانی زندگی میں پانی کی قدرو قیمت کی اہمیت کا بخوبی اندازہ کر لیا ۔ یوں خارجی ماحول سے ایک حد تک بے اعتنائی نے ، لسانی ارتقا کے دوران میں زبان کی بنیادی ساخت میں انسان ، سوسائٹی اور پانی کو قابلِ اعتنا بنا دیا ۔ اس لیے عربی زبان میں داخلی اعتبار سے اس خصوصیت نے جنم لیا کہ اس میں انسان، سوسائٹی اور پانی سے متعلق امور دیگر زبانوں کی بہ نسبت زیادہ فصاحت اور معنویت کے ساتھ بیان ہو سکیں ۔ چونکہ قرآن مجید کاموضوع انسان ہے اور انسان سوسائٹی ہی میں رہتا ہے اور نسل انسان کی بقا و ارتقا پانی کے بغیر محال ہے ، اسی لیے اللہ رب العزت نے اپنا وہ کلام جو قیامت تک رہنے والا ہے، عربی زبان میں نازل فرمایا۔ اگرچہ قرآن مجید میں خارجی مظاہر کا خاصا تذکرہ پایا جاتا ہے، لیکن یہ ایک تو دیگر امور کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ دوسرے، جہاں کہیں ان مظاہر کا ذکر موجود ہے، وہاں انھیں انسان سے relate کیا گیا ہے ، یہ بتانے کے لیے کہ ان کی اہمیت انسان کے مقابلے میں ثانوی اور انسان ہی کی نسبت سے ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلام ستاروں پر ایسی کمندیں ڈالنے کے حق میں نہیں ہے جو انسان سے related نہ ہوں۔ ہماری رائے میں دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد انسانی حقوق کی تحریکوں میں مسلسل اضافہ اور فلسفہ وجودیت کا اثرو نفوذ ،در حقیقت انسان کی ایسی بے وقعتی اور بے بضاعتی کے خلاف احتجاج اور ردِ عمل ہے جس میں انسان سائنسی ایجادات کا رکھیل بن کر رہ گیا ہے اور مظاہر فطرت کی تسخیر کے بعد خود بحیثیت نوع ، مفتوح ہو گیا ہے ۔ بے وقعتی اور بے بضاعتی کے اس کرب سے چھٹکارا ایک ایسی کتاب میں موجود ہے جس کی فقط زبان ہی انسان ، سوسائٹی اور پانی سے متعلق امور بیان کرنے کا غالب رجحان رکھتی ہے۔اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان جب تک زندہ ہے ، عربی زبان اور اس میں نازل ہونے والے شاہکار کلام یعنی قرآن مجید بھی زندہ ہے ۔
تتمہ
کہا جا رہا ہے کہ دنیا میں تیسری عالمی جنگ چھڑنے میں پانی کے بحران کو کلیدی حیثیت حاصل ہو گی۔ آج ہمارا عہد جس طرح پانی کے بحران کے سامنے بے بس کھڑا ہے، اس سے نبی خاتم ﷺ کی ریگستانی علاقے میں بعثت خاصی معنی خیز ہو جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر مسلم تہذیب میں ، چاہے اس کا تعلق کسی بھی زمانے یا علاقے سے ہو ، داخلی اعتبار سے ایسی خصوصیات لازماً ہونی چاہییں جو انسانی زندگی میں پانی کی قدرو قیمت سے مزین ہوں۔ ہمیں اس پہلو سے اپنے تہذیبی لٹریچر کا تنقیدی مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ معاصرمسلم رویے پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے کہ اس کے ہاں انسان، سوسائٹی اور پانی سے متعلق اپروچ درست نہج پر ہے یا نہیں ۔ ہماری رائے میں کم از کم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس حوالے سے معاصر رویہ ، غیر ذمہ دارانہ اور غیر تسلی بخش ہے۔
خطبات کی روشنی میں اقبال کے افکار کا مختصر جائزہ
پروفیسر عابد صدیق
علامہ اقبالؔ نے مدراس مسلم ایسوسی ایشن کی دعوت پر ۳۰۔۱۹۲۹ء میں اِلٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیلِ جدید کے سلسلے کے چھہ خطبے تحریر کِیے، جن میں سے تین مدراس اور تین علی گڑھ میں پڑھے۔ میسور اور حیدرآباد دکن میں بھی بعض خطبات کا اعادہ کیا۔ پہلی بار یہ خطبے ۱۹۳۰ء میں لاہور سے شائع ہوئے۔ دوبارہ یہ خطبات بعض لفظی ترامیم اور ایک مزید خطبے کے اضافے کے ساتھ ۱۹۳۴ء میں انگلستان میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے ’’Reconstruction of Religious Thought in Islam‘‘ کے عنوان سے چھپے۔ یہ ساتواں خطبہ حضرت علامہ نے ارسطو سوسائٹی لندن (Aristotelian Society) کی دعوت پر ۱۹۳۲ء میں پڑھا۔
علامہ اقبالؔ کے یہ خطبات اسلامی حکمت اور مغربی فلسفہ کا نچوڑ ہیں۔ اِن خطبات میں حضرت علامہ نے موجودہ زمانے کے فکری مسائل اور فلسفیانہ موضوعات پر اسلامی حکمت کے حوالے سے تنقید بھی کی ہے اور مغرب کے جدید علوم کی روشنی میں حکمتِ اسلامیہ کے بعض اہم مسائل کی تشریح کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اور اپنے یقین کی حد تک حضرت علامہ نے کامیاب کوشش کی ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ کسی سوال کا قطعی جواب دینا فلسفہ کی حدود سے خارج اور اُس کی روح کے منافی ہے، البتہ فلسفہ موجود سوالات کو زیادہ قابلِ فہم انداز میں پیش کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے، اور مسائل کی تفہیم میں نئے ربط اور نئی ترتیب کے ذریعے اُن کے نئے رخ اور نئی جہات کی تلاش اس کے منصب میں داخل ہے۔ چناں چہ حضرت علامہ نے خطبات کے مقدمے میں فلسفے کی حدود اور طریقِ کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
’..... فلسفیانہ افکار میں کوئی قطعیّت موجود نہیں ہوتی..... میرے پیش کردہ نظریات سے ممکن ہے بہتر اور مناسب نظریات پیش کِیے جائیں۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم فکرِانسانی کی روزافزوں ترقی کا بنظرِغائر مطالعہ کرتے ہوئے آزادانہ تنقید کا طریقِ کار اختیار کریں۔‘
حضرت علامہ نے اِن خطبات کی تیاری میں یہی طریقِ کار اختیار کرتے ہوئے انسانی فکر کا جو سرمایہ اُن تک پہنچا، اُس کی تنقید اور تنقیح کرکے مختلف فلسفیانہ مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، اور ایک مرتَّب نظامِ فکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو اسلامی اِلٰہیات کی جدید تعبیر پر مبنی ہے۔ علومِ جدیدہ کی اصطلاحات کی روشنی میں مذہبی واردات کے حوالے سے اسلامی اِلٰہیات کی یہ تشریح بذاتِ خود بہت مشکل کام تھا۔ مزید برآں یہ کہ حضرت علامہ نے اِس کام کے لیے نہایت ادَق اسلوب اختیار کیا۔ اِن خطبات کے اِس قدر مشکل انگریزی زبان میں تحریر کرنے کا سبب جب حضرت علامہ سے دریافت کیا گیا تو ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب کی روایت کے مطابق حضرت علامہ نے فرمایا:
’مسلمانوں میں دین والا آدمی جب فلسفے کی اصطلاحوں میں بات کرتا ہے تو اُس کی بات میں وقار اور وزن پیدا ہوجاتا ہے۔ مگر محض فلسفے والا آدمی جب دین کی بات کرتا ہے تو اُس کی نہ فلسفیانہ حیثیت ہوتی ہے اور نہ دینی لحاظ سے اُس میں وزن۔‘
حضرت علامہ بلاشبہہ دین والے آدمی تھے۔ وہ مغربی فلسفیانہ افکار، جدید نظریات اور سائنسی انکشافات سے قطعاً مرعوب نہ تھے، اور وہ دنیا کے تمام نظام ہائے حیات پر دینِ اسلام کی فوقیت کا یقینِ کامل رکھتے تھے۔ اور وہ دانشِ برہانی کے ذریعے ہی دانشِ قرآنی کی عظمت، فوقیت اور قطعی صداقت کے صدقِ دل سے قائل ہوئے۔ حضرت علامہ کے ارشاد کے مطابق اِن خطبات کا ترجَمہ ’تشکیلِ جدید اِلٰہیاتِ اسلامیہ‘ کے نام سے کیا گیا۔ اِس نام کی وضاحت کرتے ہوئے سید نذیر نیازی لکھتے ہیں کہ:
’’..... ’تشکیل‘ ایک نئی فکر کی تشکیل ہے۔ ’اِلٰہیات‘ عقل اور ایمان کا وہ نقطۂ اتصال ہے جس کی بناء، علم پر ہے۔ اور ’اسلام‘ محسوس حقائق کی اِس دنیا میں زندگی کا راستہ ہے۔‘‘
عنوان کی اِس تشریح سے علامہ کے اِن خطبات کے موضوع پر روشنی پڑتی ہے۔ فکر کی اِس نئی تشکیل کے مَباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ عقل کی بنیاد علم باالحواس ہے اور ایمان کی بنیاد علم بالوحی ہے۔ اور اسلام انسان کے فکری اِرتقا میں استقرائی عقل کا ظہور ہے۔ اقبالؔ عقل و فکر اور وجدان و ایمان کو ایک دوسرے کا معاون قرار دیتے ہیں۔
اسلامی فلسفے کی دنیا میں اِن خطبات کے مقام کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر اینماری شمل (Dr Annemarie Schimmel) نے Gabrial's Wing میں اور ڈاکٹر سید حسین نصر نے خطبات کے فارسی ترجَمے کے مقدمے میں اِن خطبات کو دوسری احیائے علوم الدین کہا ہے۔ یعنی جس طرح حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ نے احیائے علوم الدین میں اپنے زمانے کے تمام فلسفوں کا جائزہ لیتے ہوئے عقلی اور فلسفیانہ بنیادوں پر اسلام کی برتری ثابت کی تھی، وہی کام اِس دور میں حضرت علامہ نے کیا ہے۔ مذہب کو چند غیر عقلی اعتقادات و تبرکات کا مجموعہ سمجھنے کی جس غلطی میں مادہ پرست فکر کے حامل فلسفی اکثر گرفتار ہوجاتے ہیں، علامہ نے اُن کے افکار پر کڑی تنقید کی ہے اور بتایا ہے کہ دین یا اسلام ایک فعال تمدنی قوت کا نام ہے، جو انسانی زندگی کی تمام عملی و فکری ضروریات میں اُس کی رہنمائی کا فرض ادا کرتا ہے۔ اور اِسی بحث کے دوران میں وہ وسیع پیمانے پر فلسفہ، مابعدالطبیعیات، تاریخ، نفسیات، طبیعیات اور ریاضیاتی سائنس کے مشہور نظریات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اِن مَباحث میں اُن کا رویہ آزادانہ تنقید کا ہے۔ اِن علوم کے معلوم کی نفی کرنا اُن کا مقصود نہیں بلکہ معقول تفہیم و تشریح کے ذریعے اُس کی حدود کا تعین ہے۔ تلاشِ حقیقت کے سفر میں جدید علوم کا یہ معلوم جب فکرِانسانی کو خلاؤں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے تو علم بِالوحی انسان کی رہنمائی کے لیے آتا ہے۔ اِس طرح حضرت علامہ ذات و کائنات کے مسائل کے حل کے لیے روحانی واردات، مذہبی تجربہ اور وجدانی حقائق سے بحث کرتے ہیں، اور مختلف عنوانات کے تحت اِن مَباحث کو اپنے ساتوں خطبوں پر پھیلاکر نوعِ انسانی کی فکری رہنمائی کی کوشش کرتے ہیں،جس کے لیے ۱۹۰۸ء میں یورپ سے واپسی کے بعد سے ۱۹۳۸ء میں انتقال تک کے پورے عرصے میں وہ مسلسل بے تاب رہتے ہیں۔ اردو شاعری، پھر فارسی شاعری، اور پھر انگریزی کے یہ خطبات-- سب اُسی حکیمانہ شعور کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی کوشش ہیں جو اقبالؔ کو مسلسل غور و تدبر اور فکر و ذکر سے حاصل ہوا۔ اِن خیالات کی ترتیب و اظہار میں حضرت علامہ نے کس قدر دکھ اُٹھایا اور کیسے کیسے یاس انگیز لمحات میں اُنھوں نے اپنے دل میں جلنے والے اِس الاؤ کو سرد ہونے سے بچانے کے لیے جدوجہد جاری رکھی، اِس کا کچھ اندازہ ۱۹۰۹ء سے ۱۹۲۰ء تک کے اُن خطوط سے ہوسکتا ہے جو اُنھوں نے اِس عرصے میں اپنے دوستوں کو لکھے۔ ۱۹۰۹ء کے ایک خط میں لکھتے ہیں:
’..... وہ خیالات جو میری روح کی گہرائیوں میں ایک طوفان بپا کِیے ہوئے ہیں، عوام پر ظاہر ہوں توپھر مجھے یقینِ واثق ہے کہ میری موت کے بعد میری پرستش ہوگی۔ دنیا میرے گناہوں کی پردہ پوشی کرے گی اور مجھے اپنے آنسوؤں کا خراجِ عقیدت پیش کرے گی۔‘
خیالات کے اظہار کی یہ تڑپ بالآخر ۳۰۔۱۹۲۹ء میں اِن خطبات کے لکھنے کا سبب بنی۔
اب اِن خطبات کے مَباحث کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے۔
پہلے خطبے ’’علم اور مذہبی مشاہدات‘‘ میں کائنات کی حقیقت، اور کائنات کی تغیرپذیری میں انسان کا منصب، کائنات اور خدا، کائنات اور انسان، انسان اور خدا کے باہمی رشتوں کا ذکر کرتے ہوئے اقبالؔ کائنات کے بارے میں فلسفہ اور مذہب کے رویہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ فلسفہ اور مذہب کے مشترک اور غیرمشترک امور سے بحث کرتے ہیں۔ پھر ظاہر اور باطن یعنی مرئی اور غیرمرئی حقائق یا عالمِ محسوسات اور عالمِ اَقدار و اَرواح کے بارے میں مختلف مذاہب کا طرزِعمل بیان کرکے بتاتے ہیں کہ قرآن مطالعۂ انفس و آفاق پر کیوں زور دیتا ہے۔ پھر حقیقت تک رسائی کے ذرائع کی حیثیت سے عقل و وجدان پر بحث کرتے ہیں۔ اِن مَباحث کے ذیل میں وہ بتاتے ہیں کہ ایمان محض جذبے یا تأثر ہی کا نام نہیں بلکہ اِس میں عقل کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مذہبی اصولوں کا انحصار معقولیت پسندی پر ہے۔ لیکن دین و ایمان کو عقل کی روشنی میں دیکھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اُن پر فلسفے اور عقل کے تفوق کو تسلیم کرلیا جائے۔ فکر اور وجدان ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک ہی سرچشمے سے فیض یاب ہیں۔ برگساں (Bergson) کا یہ کہنا درست ہے کہ وجدان عقل ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سقراط اور افلاطون محسوسات کے علم کو غیرحقیقی خیال کرتے ہیں، اِس لیے اعیانِ نامشہود (Invisible ideas) پرستار ہیں، جب کہ اسلام باطن کے ساتھ ساتھ ظاہر کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ اشاعرہ ۱ (Asharite Thinkers) کا نصب العین اسلام کے معتقدات اور اصولوں کی یونانی جدلیات (Dialectics) کی مدد سے حمایت کرنا تھا۔ کانٹ (Kant) نے انسانی عقل کی حدود واضح کیں، جب کہ غزالی عقلیت کی بھول بھلیوں سے نکل کر صوفیانہ واردات تک پہنچتے ہیں، جن سے عقل و فکر کی محدودیت اُن پر واضح ہوئی۔ البتہ وہ اِس حقیقت کو نہ پاسکے کہ عقل و وجدان آپس میں مربوط ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسلام کے اساسی تصورات کو فلسفیانہ انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اگر انسان ترقی پذیر زندگی کی حرکت کو محسوس نہ کرے تو اُس کی روح پتھر کی مانند سخت ہوجاتی ہے، اور انجامِ کار انسان بے جان مادے کی سطح پر آجاتا ہے۔ اِس لیے حقیقتِ مطلَقہ کے کلّی اِدراک کے لیے ہمیں حسّی علم کے علاوہ علمِ باطن بھی سیکھنا چاہیے۔ اگرچہ ہمارے پاس کوئی ایسا مؤثر سائنسی طریقِ کار نہیں ہے جس کی وساطت سے ہم صوفیانہ شعور کے عناصرِترکیبی کا تجزیہ کرسکیں۔ جب کہ صوفیانہ مشاہدہ ہی حقیقت کے کلّی علم کے حصول کا باعث بنتا ہے۔
دوسرے خطبے کا عنوان ’’مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار‘‘ ہے۔ اِس میں اُنھوں نے ہستی کے تین مدارج یعنی مادہ، حیات اور شعور پر مفصل بحث کی ہے۔ مادیت کی بحث میں اُنھوں نے نیوٹن (Newton)، زینو (Zeno)، اشاعرہ، ابنِ حزم، برٹرینڈ رسل (Bertrand Russell)، برگساں (Bergson)، آئن سٹائن (Einstein)، اور اوس پنسکی (Ouspensky) کے تصوراتِ زمان و مکان کا ذکر کیا ہے، اور پھر قرآنی تصورِزمان و مکان کا موازنہ ارسطو، آئن سٹائن اور میک ٹیگرٹ (McTaggart) کے نظریات سے کیا ہے۔ خدا کے وجود کے بارے میں کائناتی استدلال، غائتی استدلال اور وجودی استدلال کا جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ ہستیِ مطلق کے یہ تینوں ثبوت لائق تنقید ہیں۔ صرف قرآنِ حکیم ظاہر و باطن کی خلیج کو پاٹ کر اور وجود کی ثَنَویت (Dualism) کو ختم کرکے اُس حقیقتِ کاملہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بیک وقت ظاہر بھی ہے باطن بھی، اوّل بھی ہے آخر بھی۔
مادے کے قدیم نظریے یعنی زمان و مکان میں اُس کے مستقل بالذات ہونے کو آئن سٹائن نے باطل ٹھہرادیا۔ اقبالؔ وہائٹ ہیڈ (Whitehead) کے اِس نظریے سے اتفاق کرتے ہیں کہ فطرت کوئی جامد حقیقت نہیں بلکہ واقعات و حوادث کا ایسا مجموعہ ہے جو مسلسل تخلیقی رو کا مالک ہے۔ جب کہ نیوٹن کا نقطۂ نظر خالص مادی تھا۔ وہ مکان کو ایک آزاد خلا قرار دیتا ہے جس میں چیزیں معلق ہیں۔ زینو مکان کو لاتعداد ناقابلِ تقسیم نقاط پر مشتمل سمجھتا تھا۔ وہ حرکتِ مکانی کو ناممکن قرار دیتے ہوئے تیر کی مثال دیتا ہے کہ تیر حرکت کے دوران میں بھی جگہ کے کسی نہ کسی نقطے پر ٹھہرا ہوا ہوتا ہے۔ برگساں، ابنِ حزم، برٹرینڈرسل اور کینٹر (Cantor) وغیرہ نے زینو کے دلائل کو رد کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اقبالؔ اُن کی کوششوں کو کامیاب تصور نہیں کرتے بلکہ آئن سٹائن کے نظریۂ زمان کی وضاحت کرتے ہوئے اُس کے مکان کو حقیقی تصور کرنے کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن وہ اُسے دیکھنے والے کے مطابق اضافی خیال کرتا تھا۔ اِن پیچیدہ بحثوں کے بعد وہ شعور کی تعریف کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ شعور کا کام ایک ایسا نقطۂ نوری مہیّا کرنا ہے جو زندگی کی آگے بڑھنے والی حرکت کو منور کرسکے۔ شعور زندگی کے روحانی تنوع کا نام ہے۔ یہ مادہ نہیں بلکہ ایک تنظیمی اصول اور طریقِ عمل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سائنس حقیقتِ مطلَقہ کے جزئی اِدراک میں سرکھپاتی ہے جب کہ مذہب کلّی حقیقت کا مطالبہ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ زمان و مکان کی اِن نہایت مشکل بحثوں میں وہ بتاتے ہیں کہ شعوری زندگی حیات فی الزمان ہے۔ اور مکانی زمان میں بسر ہونے والی زندگی غیر حقیقی زندگی ہے۔ وہ اِن بحثوں میں کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شأن اور اَنَا الدَّھر کے حوالوں سے اسلامی تصورِزمان و مکان کی وضاحت کرتے ہیں، اور فطرت کو سُنَّتُ اللّٰہ قرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اِس کی نشوونما کی کوئی حد نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ فطرت کا علم دراصل خدا کے طریقِ عمل کا علم ہے۔ وہ مسئلۂ زمان و مکان پر مفصل بحث کرتے ہوئے آخر میں کہتے ہیں کہ وقت کے رازِسربستہ کو حل کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ خطبے کے اختتام پر وہ فلسفے کو پستی سے نکالنے کے لیے ذکر اور قربِ الٰہی کی ضرورت بیان کرتے ہیں، جسے مذہب کی اصطلاح میں دعا کہا جاتا ہے۔ وہ فکر و ذکر کے امتزاج پر زور دیتے ہیں۔
تیسرے خطبے ’’ذاتِ الٰہیہ کا تصور اور حقیقتِ دعا‘‘ میں وہ فرد کی تعریف اور انائے مطلق کی صفات پر بحث کرتے ہوئے سورۂ اخلاص اور سورۂ نور کا حوالہ دیتے ہوئے نورِایزدی کی مطلقیت کا ذکر کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ارادۂ تکوین اور فعلِ آفرینش ایک ہی ہیں۔ اس طرح وہ ثابت کرتے ہیں کہ کائنات کی اصل روحانی ہے۔ پھر زمان و مکان کے بارے میں وہ ملا جلال الدین دَوّانی، عین القضاۃ الھمدانی عراقی، برگساں اور پروفیسررائس (Royce) وغیرہ کے تصورات کا جائزہ لیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ زمانِ ایزدی زمانِ متسلسل سے بہتر ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مذہبی واردات عقلی معیار پر پوری اترتی ہے۔ اِس واردات کی اساس ایک تخلیقی مشیئیت ہے، جسے انائے مطلق کہا جاسکتا ہے۔ اور قرآن اِس انائے مطلق کی انفِرادیت ظاہر کرنے کے لیے اِسے ’اللہ‘ کا خاص نام دیتا ہے۔ توالد کا رجحان انفِرادیت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ چوں کہ انسانوں کے لیے توالد و تناسل ضروری ہے اِس لیے وہ افرادِکامل نہیں بن سکتے۔ فردِکامل صرف خدا ہی ہے۔ پھر وہ بتاتے ہیں کہ زمان و مکان، انائے مطلق کی تخلیقی سرگرمی کی فکری تعبیرات ہیں اور ہم انائے مطلق کے امکانات کو اپنے ریاضیاتی زمان و مکان کی شکل میں جزوی طور پر محسوس کرسکتے ہیں۔ خدا کے لیے کائنات کوئی ایسا واقعہ نہیں جو ماقبل اور مابعد پر مشتمل ہو۔ یعنی ارادۂ تخلیق اور فعلِ تخلیق دو مختلف چیزیں نہیں۔ وہ اشاعرہ کے اِس خیال کا جائزہ لیتے ہیں کہ لاتعداد جواہر مل کر مکان کی وسعت اور تخلیق کا باعث بنتے ہیں، اور جوہری اعمال کے مجموعے کا نام شے ہے۔ مکان میں سے جوہر کے گزر کو حرکت کہا جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اشاعرہ ابتدا اور انتہا کے درمیان واقع ہونے والے نقاط میں سے کسی چیز کے مرور کو اچھی طرح واضح نہیں کرسکے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جوہر صفتِ حیات کے حصول کے بعد مکانی نظر آتا ہے۔ اِس کی ماہیت روحانی ہے۔ نفس عملِ خالص ہے لیکن جسم ایک دیدنی اور پیمایش پذیر عمل ہے۔ زمانِ الٰہی مرور، تغیر، تواتر اور تقسیم پذیری سے عاری ہے۔ اِس ساری بحث کے آخر میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ جہاں تک وقت کی ماہیت اور اصلیت کا تعلق ہے، میں کوئی قطعی اور درست بات دریافت نہیں کرسکا۔
پھر وہ خیر و شر کا ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ ہستی جس کی حرکات و سکنات مکمل طور پر مشین کی طرح ہوں، نیکی کے کام نہیں کرسکتی۔ نیکی کے لیے آزادی شرط ہے۔ خدا نے انسانی خودی کو آزادیِ عمل کی نعمت سے سرفراز کیا ہے۔ اِس کے بعد وہ دعا کی وضاحت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خارجی دنیا سے بے زار ہوکر باطن میں پناہ لیتے ہوئے ہستیِ مطلق کا قرب حاصل کرنا دعا ہے۔ دعا کی بدولت ہماری شخصیت کا چھوٹا سا جزیرہ ایک دم بحرِبے کراں بن جاتا ہے۔ تلاشِ حقیقت میں فلسفہ بہت سست رفتار ہے جب کہ دعا برق خرام ہے۔
چوتھے خطبے ’’خودی، جبروقدر، حیات بعد الموت‘‘ میں حضرت علامہ خودی کی بحث کرتے ہیں اور انسان کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن کے مطالعے سے تین باتیں بالکل واضح دکھائی دیتی ہیں۔ پہلی یہ کہ انسان خدائی برگُزیدہ مخلوق ہے۔ دوسری یہ کہ انسان اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود زمین پر خدا کا نائب ہے۔ تیسری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ انسان آزاد شخصیت کا امین ہے جسے اُس نے خطرہ مول لے کر قبول کیا تھا۔ اِس خطبے میں وہ ماضی سے رشتہ منقطع کِیے بغیر اسلامی تعلیمات کو جدید علوم کی روشنی میں بیان کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، اور پھر خودی کی وضاحت کی طرف آجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خودی وابَستۂ مکان نہیں ہے۔ مثلاً یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ تاج محل کے حسن و جمال کے بارے میں میرا جذبۂ تحسین آگرہ سے مَسافت کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ اِسی طرح زمان بھی خارجی دنیا میں ماضی، حال اور مستقبل کی صورت اختیار کرنے کے باوجود اندرونی دنیا میں ناقابلِ تقسیم ہوتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ خلوت پسندی خودی کی یکتائی کا اظہار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شعوری تجربہ خودی کے روحانی جوہر کا صحیح سراغ نہیں دے سکتا لیکن اِس کے باوجود شعوری تجربے کی تعبیر ہی وہ شاہراہ ہے جس پر چل کر ہم خودی کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ پھر وہ بتاتے ہیں کہ نماز یا دعا دراصل خودی کا میکانیت یا جبر سے آزادی کی طرف گریز ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ تکرارِعمل مشین کا خاصہ ہے نہ کہ انسان کا۔ اگر ہر واقعہ نیا نہیں تو ہمارے لیے زندگی میں کوئی جاذبیّت باقی نہیں رہتی۔ بقائے ذات ہمارا پیدایشی حق نہیں بلکہ ہمیں اپنی ذاتی کوششوں سے اِسے حاصل کرنا پڑے گا۔ انسان صرف اِس کے لیے امیدوار ہے۔
پانچویں خطبے ’’اسلامی ثقافت کی روح‘‘ میں حضرت علامہ اسلامی کلچر کی روح کا ذکر کرتے ہیں ، اور نبوت اور ولایت کا فرق واضح کرتے ہیں۔ ولی کا منتہائے مقصود صرف ذاتِ ربّانی سے وصال ہے لیکن نبی اِس صعود کے بعد ہدایتِ عامہ کے لیے نزول کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پیغمبرِاسلام دنیائے قدیم اور دنیائے جدید کے درمیان کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے اِلہام کے سرچشمے کی بدولت عالمِ قدیم سے متعلق ہیں، لیکن اپنی اِلہامی سپرٹ کی وجہ سے عصرِحاضر سے مربوط ہیں۔ اُن کی بدولت زندگی نے اپنی نئی سمتوں کے مناسب علوم اور نئے سرچشمے دریافت کِیے۔ دراصل اسلام کا ظہور استقرائی عقل کا ظہور ہے۔ وہ فقہ کو اسلام کا اصولِ حرکت قرار دیتے ہیں جو اُسے سب زمانوں کے لیے کافی بنادیتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ قرآن کی رو سے حصولِ علم کے تین ذرائع ہیں: باطنی مشاہدہ، مطالعۂ فطرت اور تاریخ۔ وہ بتاتے ہیں کہ جس ثقافت کا نقطۂ نظر یہ ہو، زمان و مکان اُس کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ابنِ خلدون نے سب سے پہلے اسلام کی ثقافتی تحریک کی روح کو شدت کے ساتھ محسوس کرکے اُسے منظم طور پر بیان کیا ہے۔
خطبۂ ششم ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ میں حضرت علامہ اسلام کے اصولِ حرکت یعنی فقہ کا تفصیلی ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ملتِ اسلامیہ ہی کو قیادتِ عالم سزاوار ہے۔ اسلام اپنے حرکی نظریۂ حیات اور تصورِتوحید کی وجہ سے تمام زمانوں کو محیط اور بنی نوعِ انسان کی وحدت کا ذمہ دار ٹھہرتا ہے، اِس لیے اسلام ہی کسی قوم کو قیادتِ اقوام کا اہل بناتا ہے۔ وہ فقہی جمود کا جائزہ لیتے ہیں اور اِس کے اسباب میں عقل پرستی کی تحریکوں، راہبانہ تصوف اور سیاسی انتشار کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دین اور سیاست دو مختلف حقیقتیں نہیں بلکہ اسلام کی واحد حقیقت کے شُءُون ہیں۔ وہ عقیدۂ توحید کو بنی نوعِ انسانی کی وحدت کا ذریعہ قرار دیتے ہیں، جو مصنوعی امتیازاتِ رنگ و نسل وغیرہ کو مٹاکر ساری انسانیت کو ملتِ واحدہ بناسکتا ہے۔ پھر وہ قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس-- یعنی اَدِلّہ شرعیہ پر بحث کرتے ہیں، جن کی وجہ سے اسلام کا ہر زمانے اور کل انسانیت کے لیے منبعِ ہدایت ہونا ممکن ہے۔
آخری خطبے ’’کیا مذہب کا امکان ہے؟‘‘ میں حضرت علامہ مشرق و مغرب کی اقوام کی زبوں حالی کا تذکرہ کرتے ہوئے مذہب کو اِس تمام تشتت و افتراق سے نکلنے کا واحد ذریعہ قرار دیتے ہیں اور خودی کا نصب العین واضح کرتے ہوئے خودی کی حامل جماعت کا نائبِ حق ہونا ظاہر کرتے ہیں، اور فرسودہ تصوف اور لادین اشتراکیت و قومیت کی بے سوادی اور ناکامی کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ خودی کا مقصد اثباتِ ذات قرار دیتے ہیں اور نائبِ حق جماعت کا فریضہ اور زمانی نصب العین یہ بتاتے ہیں کہ وہ خدا کی وحدانیت و حاکمیت کی ترجُمانی کرتی رہے۔
سر سید احمد خان اور تاریخی افسانے
یوسف خان جذاب
ماہنامہ الشریعہ کے ستمبر ۲۰۰۵ءکے شما رے میں ’’تا ریخی افسا نے اور اُ ن کی حقیقت ‘‘ کے عنوا ن سے میرا ایک تا ثر اتی مضمو ن شا ئع ہوا تھا جو دراصل پر وفیسر شا ہد ہ قا ضی صاحبہ کے مضمو ن (الشریعہ، مئی ۲۰۰۵) سے شروع والے سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اکتوبر ۲۰۰۵ ء کے شمارے میں ضیا ء الد ین لا ہوری صاحب نے میر ے مضمو ن کے جواب میں ایک تحریر لکھی ہے، تا ہم ان کا جوا ب میر ے مضمو ن کے فقط ایک حصے سے متعلق تھا، اسی لیے انھو ں نے اسے ’’سر سید کے بار ے میں تار یخی افسا نو ں کی حقیقت‘‘ کا عنو ان دیا ۔ اگر چہ لا ہور ی صا حب کو سید صا حب کے بار ے میں میر ی رائے سے اختلا ف ہے، تاہم مضمون کے بنیادی مدعا سے انھوں نے اتفاق ظاہر کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں
’’سر سید کے بار ے میں ایسی با تو ں کو بھی حقیقت کے روپ میں پیش کر نے کی کو شش کی گئی ہے جو خود تا ریخی افسانوں کے ضمن میں آ تی ہیں۔‘‘ ( الشر یعہ ،اکتو بر ۲۰۰۵، صفحہ۲۱)
بلاشبہ سید صا حب کی شخصیت کے گر د عقید ت کا ایک خو ل چڑھا دیا گیاہے، لیکن ایسا خول کس ’’مسلم شخصیت‘‘ کے گر د مو جود نہیں؟ یہ تو مسلما نو ں کی موروثی بیما ری ہے کہ عقید ت کے زیر اثر وہ اپنی پسندیدہ شخصیات کی اجتہا دی لغزشوں کو بھی بڑ ھا چڑ ھا کر پیش کر تے ہیں۔ یہ اس امت کا المیہ ہے ۔ ان شخصیتو ں نے خو د کبھی اپنے آپ کو تنقید سے بالاتر قرار نہیں دیا۔ یہ ہم ہیں جو انھیں زمین سے اٹھا کر آ سمان پر بٹھا دیتے اُور اُ ن کی ہر با ت کو وحی کا درجہ دے دیتے ہیں ۔ عظیم شا عر رحمان با باؒ نے اس رویے کی عکاسی یوں کی ہے : ’’میں نے اُن درویشو ں کی پرواز کا مشا ہد ہ کیا ہے جو ایک قد م اُ ٹھا کر عر ش کو چھو لیتے ہیں ۔ ‘‘
میں نے اپنے مضمو ن میں صو فیا ئے کر ام کے حوالے سے اس حقیقت کی طر ف اشار ہ کیا تھا ، تاہم صو فیا ئے کر ام پر بس نہیں، ہمار ے علما ے کرا م کا حال بھی یہی ہے کہ اند ھی تقلید اور عقید ت کے گہر ے جذبات کے تحت ائمہ کر ام کی ہر با ت کو حر ف آ خر تصور کر تے ہیں اور مولانا مفتی محمد شفیع کے الفاظ میں حد یث کو بھی ’حنفی‘ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف سید صاحب ہی کی شخصیت کو بڑ ھا چڑ ھا کر پیش نہیں کیا گیا، یہ ملمع کار ی ہر بڑی مسلم شخصیت پر ہو ئی ہے۔ سید صاحب تو ماضی قریب کی شخصیت ہیں اور اُن کی شخصیت پر چڑھایا جانے والا گرد وغبار نسبتاًکم ہے۔ ور نہ جو ں جو ں ہم ما ضی میں سفر کرتے جاتے ہیں، مسلم شخصیتو ں کے گرد عقیدت وتقدس کے افسانوی ہا لے نمایا ں ہو تے چلے جا تے ہیں۔ میں دوسر ی مسلم شخصیتو ں کی ملمع کار ی کو سید صا حب کے حوالے سے وجہ جو از نہیں بنا رہا، میرا مد عا صرف یہ ہے کہ سید صاحب کا معاملہ کو ئی استثنا ئی معاملہ نہیں ۔
سیدصا حب ایک ذہین انسا ن تھے اور انسا نی دماغ سے لغز شیں اور خطا ئیں سر زد ہو تی ہیں، اس لیے انہو ں نے جو کچھ کہا اور لکھا، اسے حر ف آ خر کا در جہ نہیں دیا جا سکتا ۔ اُ ن کی با تیں درست بھی ہو سکتی ہیں اور غلط بھی۔ تاہم ایک نقاد کا فر ض بنتا ہے کہ جب وہ کسی شخصیت پر قلم اُٹھا ئے تو پہلے اس کے موقف اور فکر کی اس کے زاویہ نگاہ سے دیانت دارانہ طریقے سے وضاحت کرے اور پھر دلائل کی روشنی میں اُس کی درستی یا نا درستی کو واضح کر ے۔ کسی کے موقف کی استدلالی غلطی کو واضح کرنے کے بجائے اس کی نیت اور ذا ت پر حملہ آور ہو نا ایک غیر علمی اور غیر سنجیدہ رویہ ہے اور نقاد کے دائر یہ کا ر سے با ہر ہے۔ کو ئی شخص کوئی کا م کس محرک کے تحت کر تا ہے، اس کا تعلق نیت جاننے سے ہے اور نیتوں سے خدا ہی واقف ہے۔ خد ا سے ڈرنے والے عا لم کبھی اس دائرے میں قدم رکھنے کی جسارت نہیں کرتے۔ اسی لیے حضر ت مو لا نا قا سم نانوتوی نے سر سید کے خلا ف کفر کے فتو ے پر دستخط نہیں کیے۔ محترم لا ہور ی صا حب نے اپنی تنقید میں اس اصو ل کا خیا ل نہیں رکھا ۔ انہوں نے اپنے مضمو ن میں اور خصو صاً سر سید کے متعلق اپنی کتا بو ں میں اُ ن کی شخصیت کے متعلق بعض قطعی فیصلے صادر کیے ہیں ، حالانکہ انھیں کو چاہیے تھا کہ وہ سید صاحب کے مذکورہ موقف کے پس منظر میں کارفرما ان کے بنیادی فکری استدلال کو واضح کر کے اس پر تنقید کرتے اور پھر قار ی کو مو قع دیتے کہ وہ ان سے اتفاق یا اختلا ف کر ے۔
میں نے لکھا تھا کہ سید صا حب پر انگر یز وں کی وفاداری اور مجا ہد ین آزادی کی مخبر ی کا الزا م لگا نا سر اسر ظلم اور نا انصا فی ہے۔ اس کے جو اب میں لا ہور ی صا حب نے مکتو با ت سر سید سے یہ فقرے نقل کیے ہیں کہ
’’بڑا شکر خد ا کا ہے کہ اس نا گہا نی آ فت میں جو ہندو ستا ن میں ہوئی، فد وی بہت نیک نا م اور سر کار دولت مدار انگر یزی کا طر ف دار اور خیر خواہ رہا ۔‘‘ ( الشریعہ ، اکتو بر ۲۰۰۵،صفحہ ۲۱ )
پھر بتاتے ہیں کہ انہیں اس خیر خواہی کا صلہ انعا م وا کرام کی صور ت میں ملا۔ لاہور ی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ علی گڑ ھ تحر یک کا واحد مقصد انگر یز وں کی و فادار ی تھا۔ اس کے حق میں انھوں نے سید صاحب کا درج ذیل اقتباس نقل کیا ہے :
’’ہندوستان میں برٹش گورنمنٹ خد ا کی طرف سے ایک رحمت ہے۔ اس کی اطا عت اور فر ما نبر داری او ر پور ی وفاداری اور نمک حلالی، جس کے سا یہ عا طفت میں ہم امن و اما ن کی زند گی بسر کرتے ہیں ۔ خدا کی طر ف سے ہمار ا فر ض ہے۔ میر ی یہ رائے آ ج کی نہیں بلکہ پچا س ساٹھ بر س سے میں اس رائے پر قا ئم اور مستقل ہوں۔ ‘‘ ( ص ۲۲)
میں نے اپنے مضمو ن میں اگر سرسید صاحب پر انگریزوں کی وفاداری کے الز اما ت کو’’ظلم اور نا انصا فی‘‘ قرار دیا تو اس سے میرا مطلب یہ تھا کہ ان الزاما ت کے حوالے سے سر سید کا موقف صحیح تناظر میں پیش نہیں کیا گیا۔ تنقید میں پس منظر کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اگر تنقید میں فقط ’’مجر د حقا ئق‘‘ پیش کیے گئے ہوں اور ان ’’حقا ئق‘‘ کا رشتہ تاریخی وواقعاتی سیا ق و سبا ق سے کاٹ دیا گیا ہو تو ایسی تنقید علمی لحاظ سے کوئی وزن نہیں رکھتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر لکھنے والے والے کا اپنا ایک زاویہ نگاہ ہو تا ہے جس کے تحت وہ لکھتا ہے۔ سید صا حب بھی باقا عد ہ ایک فکر ی نظام کے تحت لکھ رہے تھے۔ انگر یزوں کے حوالے سرسید صاحب کا موقف ان کے رائے میں ایک مذ ہبی اساس رکھتا تھا، جیسا کہ ’’ہمارا مذ ہبی فر ض ہے ‘‘ اور ’’ خد ا کی طرف سے ہمارا فر ض ہے‘‘ کی قسم کے جملو ں سے واضح ہے۔ اپنی ’’تفسیر القرآن‘‘ میں وہ لکھتے ہیں :
’’ اسلام فساد اور دغا اور غدروبغا وت کی اجا زت نہیں دیتا۔ جس نے اُن کو امن دیا ہو، مسلما ن ہو یا کا فر، اس کی اطا عت اور احسان مندی کی ہد ایت کر تا ہے ۔ کا فرو ں کے سا تھ بھی جو عہد و اقرار ہوئے ہو ں، ان کو نہا یت ایما ن داری سے پورا کر نے کی تا کید کر تا ہے ۔ خود کسی پر ملک گیر ی اور فتو حا ت حا صل کر نے کو فو ج کشی اور خو نر یز ی کی اجا زت نہیں دیتا ۔ کسی قو م یا ملک کو اس غر ض سے کہ اس میں با لجبر اسلام پھیلا یا جا وے، حملہ کر کے مغلو ب و مجبور کر نے کو پسند نہیں کر تا ، یہا ں تک کہ کسی ایک شخص کو بھی اسلام قبو ل کر نے پر مجبور کر نا نہیں چا ہتا ۔ صرف دو صورتوں میں اسے تلوار پکڑ نے کی اجازت دی ہے ۔ ایک اس حالت میں جبکہ کافر اسلام کی عد اوت سے اور اسلا م کو معد وم کر نے کی غر ض سے ، نہ کسی ملکی اغر اض سے ، مسلما نو ں پر حملہ آور ہوں۔ کیو نکہ ملکی اغر اض سے جو لڑ ائیا ں واقع ہو ں، خواہ مسلما ن مسلما نو ں میں ، خواہ مسلما ن و کا فرو ں میں ، و ہ دنیا وی با ت ہے ۔ مذ ہب سے کچھ تعلق نہیں ہے ۔ دوسر ے جبکہ اس ملک یا قوم میں مسلما نو ں کو اس وجہ سے کہ وہ مسلما ن ہیں ، ان کی جان و ما ل کو امن نہ ملے اور فر ائض مذ ہبی کے ادا کر نے کی اجا ز ت نہ ہو ۔۔مگر اس حا لت میں بھی اسلا م نے کیا عمدہ طر یقہ ایما نداری کا بتا یا ہے کہ جو لو گ اس ملک میں جہا ں بطور رعیت کے رہتے ہو ں، یا امن کا علا نیہ یا ضمناً اقرار کیا ہو اور گو صر ف بو جہ اسلام ان پر ظلم ہو تا ہو تو بھی ان کو تلوار پکڑ نے کی اجا زت نہیں دی ۔ یا اس ظلم کو سہیں یا ہجر ت کر یں یعنی اس ملک کو چھو ڑ کر چلے جا ویں ۔ ہا ں جو لو گ خو د مختار ہیں اور اس میں امن لیے ہو ئے یا بطور رعیت کے نہیں ہیں، بلکہ دوسر ے ملک کے با شند ے ہیں، ان کا ان مظلو م مسلمانوں کے بچا نے کی جن پرصر ف اسلا م کی وجہ سے ظلم ہو تا ہے یا ان کے لیے امن اور ان کے لیے ادائے فر ض مذ ہبی کی آ زادی حا صل کر نے کو ، تلوار پکڑ نے کی اجاز ت دی ہے۔لیکن جس وقت کو ئی ملکی یا دنیا وی غر ض اس لڑا ئی کا با عث ہو، اس کو مذ ہب کی طرف نسبت کر نے کی کسی طر ح اسلام اجا ز ت نہیں دیتا۔‘‘ ( بحوالہ نقش سر سید، ضیا ے الدین لا ہور ی ، صفحہ ۶۹)
سید صا حب ایک دور اند یش آ دمی تھے ۔ انہیں انگر یزی استعمار کی طا قت کا علم تھا ۔ اس لیے وہ معروضی حالات میں ان کی اطا عت کا مشور ہ دیتے تھے۔ زما نہ دراز تک انگر یزی حکومت کے دوام کی خواہش سے بھی ان کا مقصد مسلما نو ں اور انگر یزوں کے در میان بے اعتمادی کی خلیج کو پا ٹنا اور فا تح ومفتو ح کے در میان اعتماد کی فضا کو بحا ل کر نا تھا ۔ انہیں مسلمانوں کی پسما ند گی کی درست وجہ معلو م تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ انہو ں نے زیا دہ زور مسلما نو ں کی تعلیم پر دیا۔ علی گڑ ھ تحریک حقیقی معنو ں میں ایک علمی تحر یک تھی۔ سید صا حب عقل پر ست تھے ۔ اس عقل پر ستی نے انہیں دور اند یش بنا دیا۔ اپنے مذ ہبی مطا لعے نے انہیں اس نتیجے پر پہنچا دیا کہ کام نتیجہ رخی (Result Oriented) ہو نا چا ئیے ۔ بے نتیجہ ٹکراؤ کا کو ئی فائدہ نہیں۔ چنا نچہ اس جذ بے کے تحت انہو ں نے مسلما نو ں کو اطا عت فر نگ کا مشورہ دیا اور ان کی توجہ کا رُ خ تعلیم کی طر ف مو ڑنے کی کوشش کی۔
مولانا خلیل احمد سہارنپوری، جو دیوبندی مکتب فکر کے ایک جید عالم دین اور حدیث کی مشہور کتاب سنن ابو داؤد کے شارح ہیں، اسی طرح کے ایک اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’آپ نے انگریزوں کی نسبت اعتراض فرمایا ہے کہ ابتداے سلطنت سے انگریزوں کا مطمح نظر حرارت ایمانی کا قلوب سے سلب کرنا تھا جو انھوں نے متعدد اور مختلف طریقوں سے اپنے مقصود کے حاصل کرنے کی تدبیریں کیں اور اس میں کامیاب ہو گئے اور من جملہ ان تدبیروں کے علی گڑھ کالج کی بنا بھی ہے کہ جس کے بانی نے حب مال وجاہ کی آڑ میں ترقی دنیا کا سبز باغ دکھلا کر مسلمانوں کے دلوں سے وہ تنفر اور توحش عن النصاریٰ بالکل نکال دیا جو اسلام کے لیے روح رواں تھا۔ اس کے متعلق مجھ کو اسی قدر عرض کرنا ہے کہ آپ غور فرماویں کہ یہ قصور کس کا ہے۔ نصرانیوں کا قصور ہے یا آپ کا؟ اجی صاحب وہ تو تمھارے دین کے دشمن ہیں، وہ جو کچھ کریں تھوڑا ہے۔ اس میں تو آپ اپنی شکایت کیجیے کہ آپ نے کیوں ان کا اثر قبول کر لیا۔ اور اگر غور کر کے دیکھو تو فی الحقیقت جس زمانہ میں انگریز ہندوستان میں آتے ہیں، اس وقت اسلامی سلطنت ہندوستان میں برائے نام رہ چکی تھی اور پنجاب میں سکھوں کا نہایت تسلط ہو گیا تھا۔ اگر انگریز ان کا قلع قمع نہ کرتے تو آج تمام ہندوستان میں سکھوں کا ڈنکا بجتا۔ ان کا طرز حکومت جو کچھ تھا اور جو کچھ وہ اسلام اور اسلامیات کی مزاحمت کرتے تھے، وہ آپ سے مخفی نہیں۔ اگر خدا نخواستہ ہندوستان پر ان کی سلطنت ہو جاتی تو آج مسلمانوں سے بھنگیوں اور چماروں کی طرح بیگار لی جاتی۔
میرے خیال میں تو خدا کی رحمت مسلمانوں پر ہوئی کہ انگریز آئے اور انھوں نے سکھوں کا قلع قمع کیا اور ایک مہذب سلطنت قائم ہو گئی جس نے مذہب کی آزادی کو اپنا اولیں فرض قرار دیا۔ یہ تو آپ کو بھی معلوم ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں کے دماغ سلطنت کے قابل نہ رہے تھے اور اگر عام مسلمانوں نے کچھ قلیل سی کوشش کی بھی ، کیونکہ تقدیر موافق نہیں تھی، کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔ علاوہ ازیں آپ الزام انگریزوں کے سر لگاتے ہیں کہ انھوں نے تدبیریں کر کے ہندوستانیوں سے حرارت وغیرت ایمانی کو سلب کر دیا۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ترکی ومصر میں جہاں مسلمانوں کی بڑی زور کی سلطنت تھی، وہاں کس نے غیرت ایمانی کو سلب کر دیا تھا؟ کیا ہم نے ہی تم کو یہ تعلیم کیا تھا کہ تم ہمارے برے اوصاف تو لے لیجیو او رخبردار ہمارے بھلے اوصاف کو مت چھونا۔
رہا بانی علی گڑھ کا قصہ، ا س کا جواب بھی اس ہی تقریر سے پیدا ہو سکتا ہے۔ بانی علی گڑھ کی نیت کا علم خدا ہی کو ہے کہ اس نے اس کالج کی بنا کس نیت پر ڈالی۔ اگر اس کی نیت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں میں سے حرارت وغیرت ایمانی سلب ہو جاوے تو اس کا محاسبہ خدا تعالیٰ شانہ کے یہاں ہے اور اگر اس کی یہ نیت نہیں تھی بلکہ اس کی نیت محض دنیاوی ترقی تھی جس طرح میں گزشتہ تقریر میں عرض کر آیا ہوں تو پھر فرمائیے کہ یہ ہمارا ظن کیا ظن فاسد نہیں ہوگا؟‘‘ (ماہنامہ الصیانہ، لاہور دسمبر ۲۰۰۲، ص ۹۱، ۲۰)
دیوبندی مکتب فکر کے ایک دوسرے جید عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں:
’’سید احمد بڑے حوصلے کا آدمی تھا، مگر انھوں نے خواہ مخواہ دین میں ٹانگ اڑا کر اپنے آپ کو بدنام کیا، ورنہ ان کو تو لوگ دنیا کا تو ضرور ہی پیشوا بنا لیتے۔ بڑے محب قوم تھے۔ دین میں رخنہ اندازی کرنے کی وجہ سے لوگ ان سے نفرت کرنے لگے تھے۔ اسی سے نقصان ہوا۔ ....... یہ جو مشہور ہے کہ وہ انگریزوں کا خیر خواہ تھا، یہ غلط ہے بلکہ بڑا دانش مند تھا۔ یہ سمجھتا تھا کہ انگریز برسر حکومت ہیں۔ ان سے بگاڑ کر کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ ان سے مل کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات حکیم الامت، ج ۱۱، ص ۲۶۷۔ ۲۶۹)
جہا ں تک اس با ت کا تعلق ہے کہ سر سید مجا ہد ین آزادی کی مخبر ی کر تے رہے تو لا ہور ی صا حب کے دلا ئل سے یہ با ت ثا بت نہیں ہو تی۔ ان ئل سے زیا دہ سے زیا دہ یہ با ت سا منے آ تی ہے کہ سرسید مسلما نو ں کی ان مسلح کا روائیو ں کو بنظر حقار ت دیکھتے تھے ۔ خفیہ خط و کتا بت سے ہر گز یہ مطلب اخذ نہیں ہو تا کہ وہ جاسو سی کے مجر م تھے۔ وہ ہر حا ل میں انگر یزی حکو مت کے خیر خواہ تھے اور یہ وفادار ی اورخیر خواہی ، جیسا کہ اوپر بیا ن کیا گیا ، ان کی مسلما نیت اور مذ ہبیت کا ثمر ہ تھا۔ سر سید صا ف اور کھر ے انسا ن تھے۔ وہ اس با ت کو اپنی مذ ہبیت اور مسلما نی کے خلا ف تصور کر تے تھے کہ ایک طر ف حکو مت کی نو کر ی کریں اور دوسر ی طرف در پر دہ ا ن کے خلا ف سر گرم عمل ر ہیں ۔ لفظ ’’ نمک حر ام‘‘ سے واضح ہو تا ہے کہ بغاوت کرنے والے دوغلی پا لیسی اختیار کیے ہو ئے تھے۔ بد قسمتی سے دور انحطاط میں مسلما ن اغیار کو دھو کا دینے کو بھی اخلا قیا ت میں شمار کر تے ہیں۔ سر سید اس قسم کی اخلا قیا ت کی مخا لف تھے چنا نچہ لکھتے ہیں:
’’ جہاد مسلما نو ں کا ایک مذ ہبی مسئلہ ہے۔اس کے قواعد ایسے قا عد ے پر مبنی ہیں جس میں ذرا بھی دغا اور فر یب اور غدر و بغاوت اور بے ایما نی نہیں۔‘‘ ( بحو الہ افکار سر سید، از ضیا ء الد ین لا ہور ی ، صفحہ ۲۲۳)
سر سید نے جن لو گو ں کو باغیوں سے بچا یا، دو جو ہ کی بنیا د پر ان کو بچانا صحیح تھا ۔ اول یہ کہ سر سید ان کے نوکر تھے اور دوم یہ کہ یہ لو گ سول انتظا میہ سے متعلق تھے اور مسلما نو ں کے سا تھ حا لت جنگ میں نہیں تھے ، اس لیے ان پر ہا تھ اٹھا نا اسلا می جنگی اخلا قیا ت کے منا فی تھا۔ تاہم یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ سر سید احمد خان نے مجا ہد ین آ زادی کو جو گا لیا ں دی ہیں، وہ ناقابل دفاع ہیں اور اس کے لیے وہ ہ رب العزت کی بارگاہ میں جواب دہ ہو ں گے ۔
لا ہور ی صا حب نے علما کی طرف سے سر سید کی مخالفت کا سبب واضح کرتے ہوئے شیخ اکر ام کا مند رجہ ذیل پیر اگراف نقل کیا ہے:
’’ان کی سب سے زیا دہ مخا لفت اس وقت ہو ئی جب انہوں نے تہذ یب الا خلا ق جا ری کیا اور ان مذ ہبی عقا ئید کا اظہار کیا ، جنہیں عا م مسلما ن تعلیم اسلا می کے خلا ف اور ملحدانہ سمجھتے تھے۔ مثلاًشیطا ن ، اجنہ اور ملا ئیک کے و جو د سے انکار، حضر ت عیسیٰ ؑ کے بن با پ پید ا ہو نے یا زند ہ آسمان پر جا نے سے انکار ، حضر ت عیسیٰ ؑ اور حضر ت مو سیؑ کے معجز ات سے انکار وغیرہ وغیرہ۔‘‘ (الشریعہ، اکتوبر ۲۰۰۵، ص ۲۴)
یہ درست ہے کہ مذکورہ امور سے متعلق سرسید کی را ئے جمہور علما ے کر ام سے جد ا ہے اور انہوں نے ان مخلو قا ت اور معجزا ت کے حوالے سے عقلی طور پر تاویل کی راہ اختیار کی ہیں ، تاہم شیخ اکرا م کی اس بات سے مکمل اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ علما نے سر سید کی مخا لفت فقط مذ ہبی نظر یا ت کی بنا پر کی۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہے کہ اِ ن نظریات کی بنا پر انھوں نے ان کی مخالفت کی۔ اس کے علاوہ علما مغربی تعلیم کے بھی مخالف تھے۔ اُنھوں نے لوگوں کو اِس حد تک اس سے برگشتہ کیا تھا کہ وہ انگریز وں کے مادی فوائد کی چیزوں سے بھی نفرت کرتے تھے۔ اکبر الہ آبادی کی شاعری مسلمانوں کے اِ س رجحان کی غمازی کرتی ہے۔ مولانا وحیدالدین خان نے لکھا ہے کہ جب ہندوستان میں ریل کی پٹڑیاں بچھائی جانے لگیں تو اس دور کے لو گوں نے اسے لو ہے کی زنجیر یں پھیلا نے کے مشا بہ قرار دیا۔ پچھلے دنو ں میر ے ایک سا تھی نے وزیر ستا ن کے چند سفید ریشو ں کا حال بیا ن کیا کہ وہ بجلی کے تارو ں کوانگر یز وں کی چا ل با زی سمجھتے تھے اور وہ سڑ کو ں اور ہر قسم کے ترقی یا فتہ کا مو ں کے دشمن تھے۔ اکابر اور معاملہ فہم علما کا موقف ممکن ہے مختلف ہو، لیکن انگر یز ی تعلیم کے بار ے میں علما کے عمومی رویے کی عکاسی پشتو کے ان اشعار سے ہوتی ہے جو سینہ بسینہ ایک نسل سے دوسر ی نسل کو منتقل ہو رہے ہیں۔ ان کا ترجمہ یہ ہے: ’’ جو کوئی سر کار ی مدرسے میں سبق پڑ ھے گا، وہ دوزخ میں غوطے کھا ئے گا اور جو کوئی درس نظا می کا طا لب علم ہے، وہ جنت میں شہد کھا ئے گا۔‘‘
اس کے علاو ہ سرسید اپنے سیاسی نظریات کے لحاظ سے کانگرس کے سخت مخالف تھے جبکہ علما ے کر ام مذکورہ پارٹی کی لیڈ ر شپ کا دم بھر تے تھے۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی رقم طراز ہیں :
’’ علما کی طرف سے سر سید احمد خان کی مخا لفت کی سب سے بڑ ی و جہ انڈین نیشنل کانفر نس اور کا نگر س میں مسلمانوں کی شر کت کے خلا ف سر سید احمد خان کا مو قف تھا ۔ سر سید احمد خان مسلما نو ں کو علیحدہ قو م سمجھتے تھے ۔ ۱۸۸۳ء میں بلد یا تی اداروں کی نما ئند کے مسلہ پر جد ا گا نہ انتخا ب کا پہلا نعرہ سر سید ہی نے لگا یا تھا ۔ جبکہ دیو بند کے علما ء نے وطنی قو میت کی بنیاد پر مسلما نوں کی کا نگر س میں شر کت کو از روئے اسلام جا ئز قرار دیا تھا ۔ ۱۸۸۷ء میں علما ئے لدھیا نہ نے انڈین نیشنل کا نفر نس میں مسلما نو ں کی شرکت کے حق میں علما ے کر ام سے بڑ ے پیما نہ پر فتو یٰ حا صل کیا ۔ اس فتو یٰ کی تفصیلا ت ر سالہ نعر ہ الا برار (۱۸۹۰ ) میں در ج ہیں۔ اس فتو یٰ پرسو علما ء کے دستخط ہیں " ( ا حیا ئے علو م ، لا ہو ر، نو مبر ۲۰۰۵ ء صفحہ ۲۷)
سر سید کے سب سے بڑ ے مخا لف مو لا نا ابو الکلا م آ زاد کی ۱۹ فروری ۱۹۴۹ ء کی تقر یر کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے جس میں وہ سر سید کی سیا سی فکر کا گلہ یو ں کر تے ہیں :
’’ مسلما نو ں کے اس سیاسی تعطل کے لیے اگر چہ مختلف اسبا ب جمع ہو گئے تھے لیکن اس کی سب سے بڑ ی ذمہ داری مر حو م سر سید احمد خان کی سیا سی رہنما ئی پر تھی جواس تعلیمی ادارے کے با نی اول تھے۔ انہو ں نے ۱۸۸۶ ء میں مسلما نا ن ہند کو نہ صرف کا نگر س سے علیحد ہ رہنے کا مشور ہ دیا بلکہ سیا سی حقو ق کے تما م مطا لبو ں کی مخا لفت پر آمادہ کر دیا۔‘‘( بحوالہ مو لانا آ زاد ، سر سید اور علی گڑ ھ از محمد ضیا الدین انصار ی ، صفحہ ۶۷)
سر سید کی اس سیا سی فکر کی ایک کڑ ی ترکی کی خلا فت تھی جس کے وہ مخا لف تھے ۔ ڈاکٹر علی صدیقی نے لکھا ہے:
" علما ے دیوبند کے لیے سر سید احمد خان کی مخا لفت کی ایک و جہ عثمانی خلیفہ کو عا لم اسلام کا روحا نی سر براہ ما ننے سے انکار بھی ہے۔‘‘ ( احیا ئے علوم ، لا ہو ر ، نو مبر ۲۰۰۵ء، صفحہ ۲۷ )
مند ر جہ با لا بحث سے پتہ چلتا ہے ۔ کہ سر سید کی مذ ہبی نظر یا ت کے علا وہ کچھ دیگر عو امل بھی تھے ۔ جس کی و جہ سے وہ علما ء کی نظر میں بمثل خار تھے۔ شیخ محمد اکرام کی یہ با تیں چو نکہ وز ن دار نہیں تھیں اس لیئے مو ج کوثر کے بعد کے ایڈ یشنو ں میں نہیں ملتی ہیں۔
کیا ’قارون‘ اور ’قورح‘ ایک ہی شخصیت ہیں؟
محمد یاسین عابد
’الشریعہ‘ دسمبر ۲۰۰۵ء میں ’’اسلام کا نظریہ مال ودولت قصہ قارون کی روشنی میں‘‘ کے زیر عنوان ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی صاحب کا مضمون نظر سے گزرا۔ اس مضمون کے بعض مندرجات ہمارے نزدیک محل نظر ہیں جن کی وضاحت درج ذیل سطور میں کی جا رہی ہے۔
بہت سے علما کی طرح ڈاکٹر صاحب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر (القصص ۷۶۔۷۹، العنکبوت ۳۹، المومن ۲۴) قارون نامی جس سرمایہ دار کا ذکر ہے، وہ وہی شخصیت ہے جس کا نام بائبل میں (گنتی ب ۱۶ و ۲۶:۱۰، خروج ۶: ۲۱، ۱۔تواریخ ۶:۲۲) قورح بتایا گیا ہے۔ یہ بات درست نہیں۔ بائبل کے معروف عالم جناب محمد اسلم رانا مرحوم نے ماہنامہ ’المذاہب‘ لاہور (جون ۱۹۹۰) میں اس کی تفصیلی وضاحت فرمائی ہے۔
ڈاکٹر ندوی اپنے مذکورہ مضمون میں لکھتے ہیں:
’’تورات میں بھی قارون کا ذکر ہے، لیکن اس میں اس کا ذکر بالکل مختلف انداز سے ہے۔ اس میں اس کی فراوانی دولت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو متنبہ (Challenge) کیا تھا اور کہا تھا کہ تم اپنے آپ کو اللہ کا برگزیدہ بندہ کہتے ہو اور میں بھی برگزیدہ ہوں کیونکہ مال ودولت میں تم سے زیادہ ہوں۔ (تورات، کتاب گنتی، اصحاح ۱۶)‘‘
ہماری گزارش یہ ہے کہ ’قارون‘ نام پوری بائبل میں کہیں بھی درج نہیں۔ گنتی کے باب ۱۶ میں قورح کا ذکر ضرور ہے، لیکن جیسا کہ ہم واضح کریں گے، اس کا قارون سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب قورح بن اضہار بن قہات بن لاوی بن یعقوب کو ہی قارون قرار دے رہے ہیں تو بھی تورات میں اس کی فراوانی دولت کا کوئی ذکر نیں اور نہ کبھی قورح نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مخاطب ہو کر یہ کہا کہ ’’میں مال ودولت میں تم سے زیادہ ہوں۔‘‘ معلوم نہیں ڈاکٹر صاحب نے یہ بات تورات کی طرف کیسے منسوب کر دی۔
ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’تورات کی مذکورہ کتاب اور اسی فصل میں قارون کے خزانے کی تفصیل میں ہے کہ ’’اس کے خزانے کی کنجیاں چمڑے کی تھیں اور تین سو اونٹوں پر لادی جاتی تھیں۔......... یہاں تورات کا بیان غلط معلوم ہوتا ہے کہ چمڑے کی کنجیوں میں اتنا وزن نہیں ہوتا۔‘‘
یہ عبارت بھی گنتی باب ۱۶ میں نہیں ہے بلکہ ہمیں تو پوری کوشش کے باوجود پوری بائبل میں کہیں نہیں مل سکی۔ غالباً ڈاکٹر صاحب نے کبھی بائبل کھول کر نہیں دیکھی اور سنی سنائی اور غیر مستند معلومات کی بنیاد پر مذکورہ عبارت تورات کی طرف منسوب کر دی۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کا قارون اور بائبل کا قورح دو الگ الگ شخصیتیں ہیں۔ علما کو مغالطہ غالباً اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ دونوں شخص حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد میں تھے، دونوں کا تعلق آپ کی قوم سے تھا، دونوں ہی خطاکار تھے اور دونوں کو زمین میں دھنسا دیا گیا ہے۔ تاہم اس کے مقابلے میں متعدد قرائن ایسے ہیں جو ہمارے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد محترم کا نام عمرام تھا (خرج ۶:۲۰) جبکہ قورح، اضہار کا بیٹا تھا۔ (خروج ۶:۲۲) اضہار، عمرام کا چھوٹا بھائی تھا اور دونوں قہات بن لاوی بن یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ (خروج ۶:۱۶۔۱۸ و ۱۔تواریخ ۲:۱) گویا قورح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر ایمان رکھتا تھا، یہی وجہ تھی کہ اس نے مصر میں اپنا گھربار اور شہری حقوق وسہولیات چھوڑ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہجرت کی او ربحر قلزم کو عبور کیا۔ تمام بنی اسرائیل کی نشست وبرخاست خدا اور اس کے نبی حضر ت موسیٰ کے زیرفرمان ہی ہوتی تھی۔ (گنتی ۹:۲۳) قورح، داتن، ابیرام،اون اور ان کے دوسرے ساتھی بھی ہر عمل میں اپنی قوم کے ساتھ تھے۔ بچھڑے کی پوجا کے واقعے میں یہ اشخاص شرک میں مبتلا ہونے والے گروہ کے خلاف اور حضرت موسیٰ وہارون کے ساتھ تھے۔ اس واقعے میں بنی لاوی نے تمام مشرکین کو قتل کیا تھا۔ (خروج ۳۲:۲۸) اسی وجہ سے بنی لاوی کو بنی اسرائیل میں ایک ممتاز حیثیت حاصل ہو گئی تھی (گنتی ۸:۱۴) اور ہو خدا کے چنے ہوئے لوگ ٹھہرے۔ یہاں تک قورح ایک گم نام شخص ہے۔
اس کے بعد ایک اہم واقعے میں قورح کی شخصیت نمایاں ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بنی لاوی میں سے بنی ہارون کو ایک ایسا اعزاز سونپ دیا گیا جو دوسرے لاویوں کو حاصل نہیں تھا۔ (خروج ۲۸: ۲ و ۳ و ۴۰۔۴۲، ۲۹:۱۔۹، گنتی ۱۸:۱۔۷) خیمہ اجتماع کی خدمت کا حق تو لاویوں کو مل گیا، لیکن مذبح اور پردہ کے اندر کی خدمت صرف بنی ہارون انجام دے سکتے تھے۔ تورات میں ہے:
’’کہانت کی خدمت کا شرف میں تم کو بخشتا ہوں اور جو غیر شخص نزدیک آئے، وہ جان سے مارا جائے۔‘‘ (گنتی ۱۸:۷)
ہارون اور بنی ہارون کی اس عزت افزائی پر قورح حسد میں مبتلا ہو گیا اور اس نے ۲۵۰ آدمیوں کی جماعت کو اپنے ساتھ ملا کر بنی ہارون کی کہانت پر اعتراض کیا۔ اس نے کہا:
’’تمھارے تو بڑے دعوے ہو چلے۔ کیونکہ جماعت کا ایک ایک آدمی مقدس ہے اور خداوند ان کے بیچ رہتا ہے سو تم اپنے آپ کو خداوند کی جماعت سے بڑا کیونکر ٹھہراتے ہو؟‘‘ (گنتی ۱۶:۳)
بنی اسرائیل میں خاندان کی سرداری پہلوٹھے بیٹے کو ملتی تھی۔ (پیدایش ۲۵:۳۱۔۳۴، استثنا ۲۱:۱۷، خروج ۲۲:۲۹) روبن حضرت یعقوب کو پہلوٹھا ہونے کی وجہ سے سرداری کا حق دار تھا (پیدایش ۳۷:۲۲) لیکن اپنی سوتیلی ماں سے زنا کی پاداش میں ا س حق سے محروم کر دیا گیا۔ (پیدایش ۴۹:۳۔۴، ۱۔تواریخ ۵:۱۔۲) بنی روبن کو اس سے بڑی خجالت کا سامنا تھا، اس لیے وہ بنی لاوی کی تقدیس پر تو خاموش رہے لیکن جب بنی لاوی میں سے قورح کو بنی ہارون کے خلاف باغی پایا تو بنی روبن میں سے الیاب کے دونوں بیٹے داتن اور ابیرام اور پلت کا بیٹا اون بھی مخالفت میں پیش پیش ہو گئے۔ انھوں نے مصر کو دودھ اور شہد کی سرزمین قرار دیا اور حضرت موسیٰ وہارون پر اعتراض کیا کہ انھوں نے بنی اسرائیل کو دودھ اور شہد کی سرزمین یعنی کنعان میں پہنچانے کا جھانسا دے کر یہاں ویرانوں اور بیابانوں میں لا پھینکا ہے۔ (گنتی ۱۶:۱۳۔۱۴) اس پر قورح ، ابیرام، داتن اور اون کو زمین نگل گئی اور ۲۵۰ باغیوں کو آگ نے بھسم کر دیا۔ (گنتی ۱۶:۳۱۔۳۵)
اب ہم قرآن مجید کے قارون کو دیکھتے ہیں۔
قرآن مجید کے بیان کے مطابق قارون قوم موسیٰ میں سے تھا اور بے انتہا دولت کا مالک تھا۔ اس نے اپنی دولت کی حفاظت، قرضوں کے لین دین اور سودکے حساب کتاب کے لیے منشیوں، خزانچیوں، مسلح پہرے داروں، سپاہیوں اور عاملوں ایک پورا نیٹ ورک بنا رکھا تھا۔ (۲۸:۷۶) جبکہ بقیہ قوم بنی اسرائیل غلامی، مفلسی اور بیگار میں پس رہی تھی۔ قارون اپنی قوم کے خلاف ہو کر فرعون کے مصاحبوں میں شامل ہو گیا۔ وہ اپنی قوم کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا اور زیب وزینت والے شاہانہ لباس پہن کر اور سواریوں پربیٹھ کر غریب اسرائیلیوں کے سامنے اتراتا تھا۔ جب قوم اسے اللہ کے احسانات پر اس کا شکر ادا کرنے اور غربا پر احسان کر کے اپنی آخرت سنوارنے کا مشورہ دیتی تو وہ شیخی بگھار کر کہتا کہ یہ سب مال دولت اس نے اپنے علم اور منصوبہ بندی سے حاصل کیا ہے۔ (القصص ۷۸) قرآن کے بیان کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون اور ہامان کے ساتھ ساتھ قارون کی طرف بھی مبعوث کیے گئے تھے۔ (۲۹:۳۹)
قارون نے کبھی حضرت موسیٰ کی نبوت کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ اس نے فرعون اور ہامان کی ہم نوائی میں حضرت موسیٰ کو ساحر اور کذاب کہا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قارون کا ذکر کافروں میں کیا ہے۔ (۴۰:۳۲۔۲۵) اپنے اسی تکبر اور کفر کی وجہ سے قارون اللہ کے غضب کا شکار ہوا اور اسے اس کے سارے خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ (۲۸:۸۱)
اس تقابل سے واضح ہے کہ قورح نے تو ہجرت کی، جنگلوں اور بیابانوں کی خاک چھانی، بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کے خلاف جہاد کیا، لیکن آخر بنی ہارون کی تقدیس سے حسد کا شکار ہو کر اللہ کے نبی کا گستاخ ہو گیا اور برابری کا دعویٰ کرنے لگا جس کی پاداش میں اسے جیتے جی زمین میں دھنسا دیا گیا۔ اس کے برعکس قارون نہ ایمان لایا نہ اس نے ہجرت کی، بلکہ مصر ہی میں حالت کفر میں زمین میں دھنس کر آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بن گیا۔ دونوں مجرم تھے، دونوں خداکے غضب کا شکار ہوئے اور دونوں کو زمین میں دھنسا دیا گیا، لیکن ان مشابہتوں کے باوجود بہرحال یہ دونوں الگ الگ شخصیتیں تھیں۔ ان کو ایک قرار دینا کسی طرح درست نہیں۔
ماہنامہ ’الشریعہ‘ اور جناب جاوید احمد غامدی
آصف محمود ایڈووکیٹ
(۱)
کیا جناب جاوید احمد غامدی مرزا غلام احمد قادیانی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور کیا تعبیر دین میں وہ مرزا غلام احمد کی متعین کردہ راہوں کے راہی ہیں؟ جناب مولانا زاہد الراشدی جیسے جید عالم دین کی زیر نگرانی شائع ہونے والے ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے مطابق اس کا جواب اثبات میں ہے۔
چھڑکے ہے شبنم آئینہ برگ گل پر اب
اے عندلیب وقت وداع بہار ہے
’’الشریعہ ‘‘کسی دوسرے درجے کے رسالے کا نام نہیں، بلکہ مبالغہ نہ ہو تو میں اسے پاکستان کے چند نمایاں ترین علمی جرائد میں شمار کروں گا۔ جناب عمار خان ناصر بڑی محبت سے ہر ماہ مجھے اس کا شمارہ بھیجتے ہیں جسے میں پورے اہتمام کے ساتھ پڑھتاہوں۔ عمار خان ناصر اس کے مدیر بھی ہیں اور یہی بات میرے لیے باعث حیرت ہے کہ جو جریدہ عمار خان ناصر جیسے سنجیدہ نوجوان کی زیر ادارت شائع ہوتاہو، جس کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی ہوں اور جس کی سرپرستی مولانا سرفراز خان اور مولانا عبد الحمید سواتی جیسی شخصیات کررہی ہوں، اس میں اتنی سطحی چیز کس طرح شائع ہوگئی جو اگر شام کو شائع ہونے والے کسی اخبار کے مدیر کو بھیجی جاتی تو وہ بھی اسے شائع کرنے کی بجائے ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کرتے۔
مذہبی طبقے کے ہاں اختلاف کبھی بھی حدود کے اندر نہیں رہ سکا۔ جہاں فہم دین کا اختلاف ہو، وہیں کفر کے فتوے سامنے آگئے۔ مولانا مودودی جیسے جید عالم دین تک کو نہیں بخشا گیا اور ایک ’مودودی سو یہودی‘ جیسے نعرے اس ملک کی سڑکوں پر لگائے گئے۔ ’’شکوہ‘‘ لکھنے پر اقبال کو دین سے خارج کردیا گیا اور قائد اعظم جیسی شخصت کو بھی ’کافر اعظم‘ کے خطابات سے نوازا گیا۔ دین کی محبت کا یہ اظہار جب اپنے جوبن پر ہوتاہے تو پھر فکری زوال اتنا شدید ہوجاتاہے کہ ہمیں ہر چیز سازش نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ پھر اسرار عالم جیسی شخصیت دعویٰ کرتی ہے کہ لڑکی کا کار ڈرائیو کرنا یہودی سازش ہے اور ’الشریعہ‘ میں شائع ہوتاہے کہ جاوید غامدی ،مرزا غلام احمد کے راستے پر چل رہے ہیں۔
دلیل کبھی ہمارا سرمایہ ہوتی تھی اور ہمارے اہل علم کے درمیان اختلاف بھی اسی وجہ سے رونما ہوتا تھا۔ آج بھی ہم ائمہ اربعہ کے اختلافات کو پڑھیں تو گاہے دونوں جانب سے اتنے مضبوط دلائل ملتے ہیں کہ آدمی حیرت زدہ ہو کر سوچتاہے کہ کس کو اختیار کرے اور کس کو نہ کرے۔ جاوید غامدی صاحب پر یہ الزام پڑھ کر میں نے فوری طور پر صاحب مضمون کے دلائل جاننے کی کوشش کی۔ میری خوش قسمتی کہ صاحب مضمون نے اہتمام کے ساتھ لکھا کہ ان ان دلائل کی وجہ سے وہ جملہ متجددین کو مرزا قادیانی کی راہ کا راہی سمجھتے ہیں۔ ذرا یہ چارج شیٹ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے:
یہ متجددین حدود قوانین پر تنقید کرتے ہیں۔ یہ سیکولر سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور اداروں کی مدد کرتے ہیں۔جو تنظیمیںآزادی نسواں کی تحریکیں چلاتی ہیں، ان کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ اہل مغرب سے ہمیں مفاہمت کرنی چاہیے کیونکہ وہ اہل کتاب ہیں۔ آخر حضر ت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام ہمارے بھی تو پیغمبر ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ مغرب نے اسلامی اصول اپنا لیے ہیں، اس لیے وہ غالب اور بالادست ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ حدیث اور سنت میں فرق ہے ۔یہ خاندانی منصوبہ بندی کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ موسیقی کی حمایت کرتے ہیں ۔ان کے مطابق مسلمانوں کے انحطاط کی وجہ ان کی مادی انحطاط ہے۔
اگر اس چارج شیٹ کی وجہ سے جناب غامدی پر یہ الزام عائد کیا جا سکتاہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی راہوں کے راہی ہیں تو پھر اطمینان رکھیے آپ نے دین کی خدمت کا حق ادا کردیا۔ آج صرف جاوید احمد غامدی نہیں، اس ملک کی غالب اکثریت کے یہی خیالات ہیں۔ خود میرے جیسا طالب علم کہتاہے کہ حدود آرڈیننس صحیفہ جہالت ہے۔ میرے اسلامی یونیورسٹی اسلام آبادکے کئی پروفیسر حضرات حدیث وسنت کے فرق سے لے کر خاندانی منصوبہ بندی تک اسی موقف کے قائل ہیں جس کی پاداش میں جاوید صاحب سمیت جملہ متجددین کو مرزا غلام احمد قادیانی کی راہوں کا راہی قرار دیا گیا ہے۔ جرم اگر یہی ہے تو اس ملک کی تقریباً ۵۰فیصد آبادی اس کا ارتکاب کرتی ہے، اور ہم جیسے طالب علم تو ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔ تو کیا ہم سب غلام احمد قادیانی کے پیروکار ہیں؟ میں اپنی بات ایک بار پھر دہرادوں کہ اس ملک میں کبھی سیکولرازم آیا تو اس کے ذمہ دار اہل مذہب ہوں گے جن کا فہم دین اتنا ناقص ہوجائے گا کہ معاشرے کے سنجیدہ لوگ اسے قبول نہیں کرپائیں گے۔
(بشکریہ روزنامہ ’جناح‘ لاہور)
(۲)
(’الشریعہ‘ بحث ومباحثہ اور آرا وافکار کے تبادلہ کے لیے ایک فورم ہے جس میں مختلف نقطہ ہائے نظر اور ان پر تنقید وتبصرہ شائع ہوتا رہتا ہے اور خود ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر ، مدیر اورمجلس ادارت کے دیگر ارکان کی آرا پر بھی سخت اور تیز وتند تبصرے اس کے صفحات پر چھپتے رہتے ہیں۔ بطور ایک ادارے کے’ الشریعہ‘ جناب جاوید احمد غامدی کے بہت سے افکار وخیالات سے اختلاف رکھتا ہے، تاہم قارئین جانتے ہیں کہ ’الشریعہ‘ کے نقطہ نظر کی ترجمانی کرنے والی کسی بھی تنقید میں کبھی طعنہ بازی اور الزام تراشی کا پست اسلوب اختیار نہیں کیا گیا۔ ۲۰۰۱ میں مولانا زاہد الراشدی اور جناب جاوید احمد غامدی کے حلقہ فکر کے اہل قلم کے مابین روزنامہ ’جنگ‘، روزنامہ ’اوصاف‘ اور روزنامہ ’پاکستان‘ کے صفحات پر بعض اہم مباحث پر ایک سنجیدہ علمی مکالمہ ہوا تھا جو بعد میں مزید اضافوں کے ساتھ ماہنامہ ’اشراق‘ اور ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں بھی شائع ہوا۔ اس مکالمے میں مولانا زاہد الراشدی کے رویے اور اسلوب تحریر کو خود جناب غامدی صاحب اور ان کی ترجمانی کرنے والے اہل قلم نے سراہا تھا اور اسے علمی بحث ومباحثہ کا ایک مثالی نمونہ قرار دیا تھا۔ ذیل میں بعض تحریروں کے اقتباسات نقل کیے جا رہے ہیں۔ غامدی صاحب کے طرز فکر پر بطور ایک ادارے کے ’الشریعہ‘ کی رائے وہی ہے جو ان تحریروں میں بیان ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ’الشریعہ‘ کے صفحات پر شائع ہونے والی دیگر تنقیدوں کے ذمہ دار خود ان کے مصنفین ہیں۔ مدیر)
’’جاوید احمد غامدی صاحب ہمارے محترم اور بزرگ دوست ہیں۔ صاحب علم ہیں، عربی ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں، وسیع المطالعہ دانش ور ہیں اور قرآن فہمی میں حضرت مولانا حمید الدین رحمہ اللہ تعالیٰ کے مکتب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ..... حضرت مولانا حمید الدین فراہی برصغیر پاک وہند کے سرکردہ علماے کرام میں سے تھے۔ مولانا شبلی نعمانی کے ماموں زاد تھے۔ ان کے اساتذہ میں مولانا شبلی کے علاوہ مولانا عبد الحئ فرنگی محلی، مولانا فیض الحسن سہارن پوری اور پروفیسر آرنلڈ شامل ہیں۔ دینی درسیات کی تکمیل کے بعد انھوں نے جدید تعلیم بھی حاصل کی اور بیک وقت عربی، اردو، فارسی، انگلش اور عبرانی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ حیدر آباد دکن کے دار العلوم کے پرنسپل رہے جسے بعد میں ’’جامعہ عثمانیہ‘‘ کے نام سے یونیورسٹی کی شکل دے دی گئی اور کہا جاتا ہے کہ دار العلوم کو ’’جامعہ‘‘ کی شکل دینے میں مولانا فراہی کی سوچ اور تحریک بھی کارفرما تھی۔ بعد میں حیدر آباد کو چھوڑ کر انھوں نے لکھنو کے قریب سرائے میر میں ’’مدرسۃ الاصلاح‘‘ کے نام سے درس گاہ کی بنیاد رکھی اور قرآن فہمی کا ایک نیا حلقہ قائم کیا جو اپنے مخصوص ذوق اور اسلوب کے حوالے سے انھی کے نام سے منسوب ہو گیا۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، ان کے نزدیک قرآن فہمی میں عربی ادب، نزول قرآن کے دور کے عربی لٹریچر اور روایات اور اس کے ساتھ عرف وتعامل کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ وہ حدیث وسنت کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں مگر ’’خبر واحد‘‘ کو ان کے ہاں وہ مقام حاصل نہیں ہے جو ’’محدثین‘‘ کے ہاں تسلیم شدہ ہے اور وہ احکام میں ’’خبر واحد‘‘ کو حجت تسلیم نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے بعض علمی معاملات میں ان کی اور ان کے تلامذہ کی رائے جمہور علما سے مختلف ہو جاتی ہے۔ مولانا فراہی کے بعد ان کے فکر اور فلسفہ کے سب سے بڑے وارث اور نمائندہ حضرت مولانا امین احسن اصلاحی تھے جنھوں نے کچھ عرصہ قبل وفاقی عدالت میں شادی شدہ مرد وعورت کے لیے زنا کی سزا کے طور پر ’’رجم‘‘ کے شرعی حد نہ ہونے پر دلائل فراہم کیے تھے اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ رجم اور سنگ سار کرنا شرعی حد نہیں ہے۔ اس کے پیچھے بھی ’’خبر واحد‘‘ کے احکام میں حجت نہ ہونے کا تصور کارفرما تھا۔ یہ ایک مستقل علمی بحث ہے کہ احکام وقوانین کی بنیاد شہادت پر ہے یا خبر پر، اور خبر اور شہادت کے نصاب ومعیار میں کیا فرق ہے؟ اس میں فقہا کے اصولی گروہ میں سے بعض ذمہ دار بزرگ ایک مستقل موقف رکھتے ہیں جبکہ جمہور محدثین اور علمی فقہا کا موقف ان سے مختلف ہے اور ہمارے خیال میں مولانا حمید الدین فراہی کا موقف جمہور فقہا اور محدثین کے بجائے ’’بعض اصولی فقہا‘‘ سے زیادہ قریب ہے۔ اسی وجہ سے ہم اسے ان کے ’’تفردات‘‘ میں شمار کرتے ہیں اور ’’تفردات‘‘ کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ ہر صاحب علم کا حق ہے جس کا احترام کیا جانا چاہیے بشرطیکہ وہ ان کی ذات یا حلقے تک محدود رہے۔ البتہ اگر کسی ’’تفرد‘ کو جمہور اہل علم کی رائے کے علی الرغم سوسائٹی پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ فکری انتشار اور ایک نئے مکتب فکر کے قیام کا سبب بنتا ہے اور یہی وہ نکتہ اور مقام ہے جہاں ہمارے بہت سے قابل قدر اور لائق احترام مفکرین نے ٹھوکر کھائی ہے اور امت کے ’’اجتماعی علمی دھارے‘‘ سے کٹ کر جداگانہ فکری حلقوں کے قیام کا باعث بنے ہیں۔ بہرحال محترم جاوید احمد صاحب اور ان کے شاگرد رشید خورشید احمد ندیم صاحب کا تعلق اسی علمی حلقے سے ہے اور مولانا امین احسن اصلاحی کے بعد اس حلقہ علم وفکر کی قیادت غامدی صاحب فرما رہے ہیں۔‘‘
(الشریعہ مئی ۲۰۰۱، ص ۷، ۸)
’’جہاں تک غامدی صاحب کو جہاد کے بارے میں قادیانیوں کے موقف کا موید ظاہر کرنا ہے تو یہ سراسر زیادتی ہے اس لیے کہ ان کا موقف قطعاً وہ نہیں ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی نے پیش کیا ہے۔ مرزا قادیانی نے جہاد کے سرے سے منسوخ ہونے کا اعلان کیا تھا بلکہ اس نے جھوٹی نبوت کا ڈھونگ ہی جہاد کی منسوخی کے پرچار کے لیے کیا تھا، جبکہ غامدی صاحب جہاد کی فرضیت اور اہمیت کو پوری طرح تسلیم کرتے ہیں البتہ جہاد کے اعلان کی مجاز اتھارٹی کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔ مگر اس بارے میں ان کی رائے امت کے جمہور اہل علم سے مختلف ہے جس پر ہم تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کر چکے ہیں۔ میر ااختلاف غامدی صاحب کے ساتھ یہ نہیں ہے۔ اپنے سابقہ مضامین میں عرض کر چکا ہوں کہ میں انھیں حضرت مولانا حمید الدین فراہی کے علمی مکتب فکر کا نمائندہ سمجھتا ہوں اور حضرت مولانا فراہی کے بارے میں میری رائے وہی ہے جو حضرت مولانا عبید اللہ سندھی اور حضرت مولانا سید سلیمان ندوی کی ہے، البتہ امت کے جمہور اہل علم کے علی الرغم ان کے تفردات کو میں قبول نہیں کرتا اور غامدی صاحب سے میں نے یہی عرض کیا ہے کہ علمی تفردات کو اس انداز سے پیش کرنا کہ وہ امت کے اجتماعی علمی دھارے سے الگ کسی نئے مکتب فکر کا عنوا ن نظر آنے لگیں، امت میں فکری انتشار کا باعث بنتا ہے اور اگر اس پر اصرار کیا جائے تو اسے عالمی فکری استعمار کی ان کوششوں سے الگ کر کے دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے جو ملت اسلامیہ کو ذہنی انتشار اور فکری انارکی سے دوچار کرنے کے لیے ایک عرصہ سے جاری ہیں۔‘‘
(الشریعہ، مئی ۲۰۰۱، ص ۵۸)
’’مختلف دینی اور علمی موضوعات پر ان کا ایک مستقل نقطہ نظر اور اسلوب فکر ہے جس کا اظہار ان کے مضامین کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ان کے ہر نتیجہ فکر سے اتفاق کیا جائے اور ہم بھی جہاں ضرورت محسوس کرتے ہیں، ان کے فکر واسلوب سے بلاتامل اختلاف کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ مختلف پیش آمدہ دینی وملی مسائل پر دیگر مکاتب فکر کی طرح ان کے نقطہ نظر سے بھی آگاہی حاصل کی جائے اور علمی بحث ومباحثہ اور مکالمہ کی صورت میں بحث وتمحیص کے سلسلے کو آگے بڑھایا جائے۔‘‘
(الشریعہ، جون ۲۰۰۴، ص ۵۰)
مکاتیب
ادارہ
(۱)
محترم جناب ابو عمار زاہد الراشدی صاحب حفظہ اللہ ورعاہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آپ کی زیر ادارت شائع ہونے والا مجلہ ’الشریعہ‘ پڑھنے کو ملتا ہے۔ یہ امت مسلمہ کو درپیش مسائل پر بے لاگ تجزیہ اور آزادئ رائے کے ساتھ جامع تبصرہ کرتا ہے۔ اس کی خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ اجتہاد جیسی عظیم نعمت کے فروغ کے لیے فکری ومذہبی جمود وسکوت پر تیشہ ابراہیمی چلاتا ہے اور دلائل وبراہین کی زبان پر یقین رکھتا ہے۔
الشریعہ کے بعض مضامین ومقالات مثلاً بیت المقدس پر یہودیوں کے حق تولیت وغیرہ پر میں بھی مولانا ارشاد الحق اثری صاحب کی طرح تحفظات رکھتا ہوں، لیکن بحیثیت مجموعی الشریعہ محاسن کا مجموعہ ہے جس پر آپ اور آپ کی ادارتی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔ امید ہے کہ فکری جمود اور تقلید کے خلاف محاکمہ کا سلسلہ آپ جاری رکھیں گے اور شریعت مطہرہ کے دائرے میں وسعت نظر کی دعوت فکر دیتے رہیں گے۔
ایک مجلس میں طلاق ثلاثہ کے وقوع اور موجودہ دور میں اس کے تباہ کن معاشرتی اثرات کے حوالے سے پروفیسر محمد اکرم ورک صاحب نے جو پرمغز تحریر لکھی ہے اور جسے بہت سے جویان حق نے سراہا ہے، وہ یقیناًایک جرات مندانہ اور مستحسن اقدام ہے۔ آج کی دنیا دلائل وبراہین کی زبان کو سمجھتی ہے اور دعووں کو دلائل کی روشنی میں پرکھنے کا رجحان بھی پروان چڑھا ہے۔ وراثتاً ملے ہوئے عاری از دلائل آرا کو خیر باد کہنے کی تحریک دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی ہے۔ جو شخص جتنا زیادہ عالم اور بالغ نظر ہے، وہ مذہبی جمود اور فکری تعصب کو اتنا ہی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات اور بہتر نتائج کا پیش خیمہ ہے۔
امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ کا فتح کردہ ایران اور عراق کا خطہ آج شیعہ مکتب فکر کا مرکز ہے، حالانکہ کوفہ وعراق امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ جیسے بانیان مذہب کا مسکن ومرکز تھا۔ ایسا کیونکر ہوا، یہ ایک سوالیہ نشان ہے جس کا جواب طلاق ثلاثہ سے متعلق پیرمحمد کرم شاہ الازہری اور مولانا سلمان الحسینی کی رائے پر چیں بہ چیں ہونے والوں کے ذمے ہے۔ اسلامی تاریخ کی انتہائی معتوب ومظلوم شخصیت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے منہاج السنۃ کے مقدمے میں اس امر کی وضاحت کی ہے۔ خود ائمہ اربعہ علیہم الرحمۃ بھی اجتہاد کو تابندہ وپائندہ رکھنے کے حق میں تھے۔ ان کے اپنے واضح ارشادات اور ان کے تلامذہ امام ابو یوسف وامام محمد کے اپنے استاذ گرامی سے دو تہائی کے قریب مسائل میں اختلاف کرنا اسی وسعت نظر کا غماز ہے۔
ہفت روزہ ضرب مومن ۳۱؍اکتوبر ۲۰۰۳ کے مطابق طالبان کے دور حکومت میں سپریم کورٹ نے افغانستان کی جنگ آزادی اور بعد کی خانہ جنگی کے دوران میں لاپتہ ہو جانے والے لوگوں کے بارے میں علما سے رجوع کر کے یہ فیصلہ صادر کیا تھا کہ ایسے لوگوں کی بیویاں چار سال تک انتظار کرنے کے بعد دوسری شادی کر سکتی ہیں۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے طلاق ثلاثہ آرڈیننس تک نہ کوئی مستقل فقہی مذاہب وجود میں آئے تھے اور نہ ان کے بانیوں میں سے کوئی پیدا ہوا تھا ۔ اس آرڈیننس سے قبل ایک ہی طلاق واقع مانی جاتی تھی اور یہی اس وقت کے ائمہ مجتہدین کا مسلک تھا۔ اسی فقہی مسلک کی ترجمانی بعد میں امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم نے کی اور موجودہ دور میں اہل حدیث مکتبہ فکر اسی کا ترجمان ہے۔ اس رائے کے حاملین کو امام ابن تیمیہ کامقلد قرار دینا قرین انصاف نہیں۔ اسی طرح ائمہ اربعہ کی رائے کے برعکس ہونے کو بھی کسی فقہی مسلک کو کلیتاً مسترد کر دینے کے لیے وجہ جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ بہت سے مسائل میں امام ابو یوسف، امام محمد، امام ثوری، لیث بن سعد اور ابن حزم جیسے اہل علم نے جمہور کی رائے سے ہٹ کر رائے قائم کی ہے۔ اگر یہ اہل علم اس بنیاد پر مورد الزام نہیں ٹھہرتے تو آج کے دور میں ان کی رائے کو اختیا ر کرنے والے کیوں گردن زدنی قرار دیے جاتے ہیں؟ زیر بحث مسئلے میں امام ابن تیمیہ سے بھی بڑھ کر مختلف رائے فقہاے امامیہ نے اختیار کی ہے جن کے نزدیک اس طرح کی طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی بلکہ لغو قرار پاتی ہے جس کی شریعت میں کوئی تاثیر نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق بات کہنے اور جہاں سے حق ملے، وہاں سے لے لینے کی توفیق عطا فرمائے۔
ابو عبد اللہ نادم
غواڑی ۔ بلتستان
(۲)
واجب الاحترام مدیر ’ الشریعہ‘
سلام مسنون
’’قرآنی علمیات اور معاصرمسلم رویہ‘‘ کے عنوان سے پروفیسر میاں انعام الرحمٰن صاحب کی کاوش ،اندازِ تحریر کے حوالہ سے قابلِ داد ہے، تاہم میاں صاحب کے مضمون کے Theme اور اس کی بعض جزئیات سے کلیتاً اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی ذریت میں صرف سرکارِ دوعالم ﷺ بحثیت پیغمبر مبعوث ہوئے، جبکہ یہودی علما حضرت اسحٰق علیہ السلام کو ذبیح قرار دینے پر اس لیے مصر ہوئے کہ رحمتِ دوجہاں ﷺ کی آمد سے متعلق توراۃ وانجیل میں موجود بشارتوں کی نفی کی جا سکے۔ ’ذبیح کون؟‘ کی بحث مسلم فکر کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کا آغاز یہودی علما کی طرف سے ہوا اور مسلم محققین نے توراۃ وانجیل اور دیگر تاریخی وجغرافیائی شواہد سے یہ ثابت کیا کہ ذبیح درحقیقت اسمٰعیل علیہ السلام ہی تھے۔ میاں صاحب مسلم رویے کو موردِ الزام ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ اگر تاریخی تناظر میں یہودی شدت پسندی کا بھی ذکر فرماتے تو ان کا مضمون ایک معتدل تحقیق متصور ہوتا۔ مزید برآں حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں ’ذبیح کون؟‘ جیسی ابحاث پر قلم کشائی بذاتِ خود ’فکری تشدد پسندی‘ کے احیا کی کوشش ہے جبکہ اس سے احتراز معاصر مسلم رویہ کو بہتر ومعتدل بنانے میں معاون ہو گا۔ (اللہم ثبت قلوبنا علی دین الاسلام۔ آمین)
حافظ محمد سمیع اللہ فراز
پی ایچ ڈی سکالر، لیکچرار شعبہ علومِ اسلامیہ
ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان۔ لاہور
(۳)
باسمہ تعالیٰ
مکرمی جناب مولانا ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے ایمان وصحت کی بہترین حالت میں دین مبین کی ترقی وترویج کے کاموں میں مصروف ہوں گے۔
آپ کے زیر ادارت شائع ہونے والا ماہنامہ ’الشریعہ ‘ہر ماہ باقاعدگی سے ملتا ہے۔تمام مضامین عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اور مسائل کے حل کے لیے تیر بہدف ہوتے ہیں۔ماہنامہ ’الشریعہ‘ کا ہر ماہ بندہ کو شدت سے انتظار رہتاہے، لیکن بندہ اپنی کمزوری کا اعتراف کرتاہے کہ ابھی تک شکریہ کے طور بھی کوئی خط ارسال نہیں کر سکا۔ اس پر بندہ معذرت خواہ ہے ۔
نومبر کا شمارہ بندہ کے سامنے پڑا ہے۔ اول سے آخر تک مطالعہ کرنے کے بعد کچھ لکھنے کی جسارت کررہاہوں۔ صفحہ ۴۴ پر عبد الجلیل نقوی صاحب کا خط شائع ہوا ہے۔ اس سے پہلے شیعہ سنی مسئلہ اور اختلاف کے عوامل پر ’الشریعہ‘ میں کافی لکھا گیا ہے اور ’الشریعہ‘ نے اپنی روایت کے مطابق ہر فریق کو کھل کر اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا ہے ۔عبد الجلیل نقوی صاحب نے اپنے خط میں ’’نہ مانوں‘ ‘والا رویہ اختیار کیا ہے ۔یہ مسئلہ ایجنسیوں یا متعصب گروہ کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ شیعہ مسلک کے ان مصنفین کاپیدا کردہ ہے جنھوں نے اپنی کتابوں میں اہل سنت کے اکابر پر تنقید کا بیہودہ طرز اختیار کیا ہے۔ یہ کتابیں اس وقت لکھی گئی تھیں جب ’متعصب‘ گروہ کے قائدین کے آباواجداد بھی پیدا نہیں ہوئے تھے ۔کیا محمد بن یعقوب کلینی نے ’اصول کافی‘ میں نہیں لکھا کہ کفر کی تین جڑیں ہیں:ایک شیطان، دوسرا قابیل اور تیسری (معاذاللہ) حضرت آدم؟ کیا باقر مجلسی نے اپنی کتاب ’حق الیقین ‘میں حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کو (معاذاللہ )شیطان سے بڑا کافر نہیں لکھا؟ کیا اسی باقر مجلسی نے اپنی کتاب ’عین الیقین ‘میں تین صحابہ یعنی مقدادؓ ،سلمانؓاور ابوذرؓکے سوا باقی تمام صحابہؓکو نعوذباللہ کافر اور مرتد نہیں لکھا؟ کیا اسی کتاب میں باقر مجلسی نے نہیں لکھا کہ امام جعفر صادقؒ نماز کے بعد جب تک خلفاے ثلاثہؓ اور پیغمبر علیہ السلام کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہؓ پر لعنت نہیں کرتے تھے، اپنے مصلے سے نہیں اٹھتے تھے؟ جب ایسے خیالات ظاہر اور شائع کیے جائیں گے تو ان کا رد عمل ضرور ہو گا۔ رد عمل میں دہشت گردی ،خود کش حملوں اور قتل وغارت گری سے بندہ بھی اتفاق نہیں کرتا اور نہ کوئی سنجیدہ انسان ایسے اقدامات کی حمایت کر سکتاہے ۔دیوبندی مکتب فکر کے سنجیدہ اور دانش ور افرادنے اگر اہل تشیع کے طرز عمل کے خلاف قلم اٹھایا ہے تو یہ اقدام ایجنسیوں یا ایک متعصب گروہ کے پروپیگنڈا کا نتیجہ ہر گز نہیں۔ آپ اس متعصب گروہ کو چھوڑ کر دیوبندی ،بریلوی اور اہل حدیث مکاتب فکر کے کسی سنجیدہ عالم ،دانش ور اور مفتی سے ان کتابوں کے مصنفین یا ان عقائد کے حامل افراد کے بارے میں پوچھ لیں کہ اسلام کے ساتھ ان کا کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ حقیقت حال واضح ہو جائے گی۔
عبد الجلیل نقوی صاحب کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ ’نہ مانوں‘ کا رویہ چھوڑ کر حقائق کو تسلیم کریں اور اس مسئلے کے واقعی حل کے لیے مدد کریں۔ پاکستان جیسا ترقی پزیر ملک اس اختلاف اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔ دونوں فریق باہم اتحاد واتفاق پیدا کریں تاکہ درپیش مسائل کا یک جان ہو کر مقابلہ کیا جا سکے۔
امید ہے کہ ماہنامہ ’الشریعہ‘ مسائل ومباحث کے حوالے سے ہماری معلومات میں اضافہ کرتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ’الشریعہ‘ کو مزید ترقی نصیب فرمائے۔آمین
سید عنایت اللہ ہاشمی
نائب مہتمم دارالعلوم مصباح الاسلام
مٹہ مغل خیل ۔ شبقدر فورٹ۔ ضلع چارسدہ
(۴)
باسمہ سبحانہ
بخدمت گرامی حضرت علامہ راشدی صاحب مدظلہ
سلام مسنون
الشریعہ میں شیعہ کی تکفیر کے موضوع پر بحث جاری ہے۔ احقر کی نظر میں عملی طور پر یہ بحث بے فائدہ ہے اس لیے کہ اس پر کوئی مثبت نتیجہ مرتب ہونے کی امید نہیں ہے۔ اگر قارئین شوق رکھتے ہوں تو شیعہ سنی مسئلہ کے حل میں حکومتی انداز فکر، شیعہ سنی تنازع کی وجوہ اور اس کے سدباب کی تجاویز وغیرہ موضوعات پر قلم اٹھائیں۔ شیعہ سنی حوالے سے تاریخی وادبی بہت سے موضوعات تشنہ بحث ہیں۔ ان پر طبع آزمائی کریں۔
شیعہ سنی مسئلہ میں حکومت جس افراط وتفریط کا شکار ہے، اس کے پیش نظر کچھ لکھنا اور چھاپنا ایک مستقل مسئلہ ہے۔
(مولانا) مشتاق احمد
جامعہ عربیہ۔ چنیوٹ
تعارف و تبصرہ
ادارہ
’’الامام زید‘‘
۱۹۸۷ء میں علماے کرام کے ایک وفد کے ساتھ ایران جانے کا اتفاق ہوا اور ایرانی راہ نماؤں سے مختلف امور پربات چیت ہوئی تو اس وقت یہ بات سامنے آئی کہ ایران کے دستور میں زیدی فرقہ کے اہل تشیع کو اثنا عشری اہل تشیع کے ساتھ شمار کرنے کے بجائے احناف، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کے ساتھ فقہی اقلیتوں میں شامل کیا گیا ہے۔ اس سے قبل ہم زیدیوں کو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اثنا عشریوں کے ساتھ ہی سمجھا کرتے تھے مگر ایرانی دستور کی اس دفعہ نے تجسس پیدا کیا کہ اس فرق کی تحقیق کرنی چاہیے۔ چنانچہ اس کے کچھ عرصہ بعد لندن کی ایک لائبریری میں امام زید بن علیؓ کے بارے میں مصر کے نامور محقق الاستاذ ابو زہرہ کی تصنیف نظر سے گزری تو اندازہ ہوا کہ زیدی مذہب اور اثنا عشری مذہب میں واقعتا اتنا فرق موجود ہے کہ اثنا عشری اہل تشیع کے لیے انھیں اپنے ساتھ شامل کرنا آسان نہیں ہے۔
حال ہی میں مجھے پیر طریقت حضرت مولانا سید نفیس الحسینی مدظلہ کی خدمت میں حاضری دینے کا موقع ملا تو انھوں نے مجھے اپنی طرف سے الاستاذ ابو زہرہ کی یہ کتاب ہدیہ کے طور پر مرحمت فرمائی اور معلوم ہوا کہ یہ کتاب اب حضرت شاہ صاحب مدظلہ کی نگرانی میں لاہور سے طبع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں امام زیدؒ کی حیات مبارکہ، جدوجہد، خدمات، علمی مقام ومرتبہ، اعتقادی وفقہی موقف اور شہادت کے بارے میں محققانہ انداز میں بحث کی گئی ہے۔
امام زید، حضرت امام زین العابدینؒ کے فرزند اور حضرت امام باقرؒ کے بھائی تھے۔ انھوں نے اموی خلافت کے خلاف خروج کیا اور شہادت سے ہم کنار ہوئے۔ زیدی فرقہ کی نسبت انھی سے ہے اور الاستاذ ابو زہرہ نے حضرت امام زیدؒ کے افکار وخیالات میں دوسرے اہل تشیع کے ساتھ جس فرق کی نشان دہی کی ہے، اس کے مطابق امام زید بن علی رحمہما اللہ تعالیٰ فرماتے تھے کہ:
- حضرت علیؓ کو دوسرے تمام صحابہ کرام پر فضیلت حاصل ہے، لیکن خلافت حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا حق تھی اور ان کے نزدیک مفضول کے مقابلے میں افضل کی امامت جائز ہے۔
- حضرت علیؓ کے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امامت کی وصیت اور نص نہیں کی تھی۔
- امام کے لیے عادل اور فاطمی ہونا افضل ہے، شرط نہیں۔
- اما م معصوم نہیں ہوتا اور اس کے فیصلوں میں دوسرے ائمہ کی طرح خطا وصواب، دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔
- ایک وقت میں مختلف مقامات پر دو امام بھی ہو سکتے ہیں اور دونوں واجب الاتباع ہوں گے۔
- اہل بیت میں سے امام وہی ہوگا جو خود داعی ہو۔ دوسرے لفظوں میں تقیہ درست نہیں ہے۔
- امام کے غائب ہونے اور دوبارہ واپس آنے کا تصور ان کے ہاں نہیں ہے۔
- امام کا علم القائی نہیں، بلکہ دوسرے لوگوں کی طرح درسی اور تعلیمی ہوتا ہے۔
- امام کے لیے معجزہ کا بھی کوئی تصور نہیں ہے۔
مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ زیدی فرقہ کے بارے میں یہ تحقیقی تعارفی کتاب حضرت سید نفیس شاہ صاحب مدظلہ کی نگرانی اور سرپرستی میں ’’دار النفائس‘ کریم پارک، راوی روڈ لاہور کی طرف سے شائع ہوئی ہے۔ اس سے علماے کرام کو اس فرقہ کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔
’’تعلیمات نبوی اور آج کے زندہ مسائل‘‘
معروف روحانی پیشوا اور محقق عالم دین حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے خانوادہ کے چشم وچراغ مولانا سید عزیز الرحمن کو اللہ تعالیٰ نے اس دور میں سیرت نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مطالعہ وتحقیق اور عصر حاضر کی ضروریات اور تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے سیرت طیبہ علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کے مختلف پہلووں کو اجاگر کرنے کا خصوصی ذوق مرحمت فرمایا ہے اور وہ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت واسوہ کو موضوع بنا کر خاصا وقیع کام کر رہے ہیں۔ ان کی ادارت میں ’السیرۃ عالمی‘ کے عنوان سے ایک ضخیم علمی شش ماہی مجلہ سال میں دو مرتبہ ارباب ذوق کی فکری وعلمی تسکین کا سامان فراہم کرتا ہے اور اس کے علاوہ مختلف عنوانات پر ان کے مقالات حالات حاضرہ کے تناظر میں سیرت نبوی کے متنوع پہلووں کی تشریح واشاعت کا ذریعہ بنتے ہیں۔
زیر نظر کتاب ان کے سات وقیع مقالات کا مجموعہ ہے جو اس موضوع پر ان کے ایوارڈ یافتہ مقالات ہیں۔ ان میں خاص طور پر انسانی حقوق، اسلامی ریاست وحکومت، عدم برداشت کا بین الاقوامی رجحان، معاشرتی احتساب، نظام تعلیم، نیا عالمی نظام اور مذہبی انتہا پسندی جیسے مسائل کو انھوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ وسیرت کی روشنی میں واضح کیا ہے جو آج کے دور کی اہم ضرورت ہے۔
ہم ایک عرصہ سے گزارش کر رہے ہیں کہ دینی اداروں میں آج کے عالمی حالات کے تناظر میں سیرت نبوی کے ازسرنو مطالعہ کا ذوق بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ مولانا سید عزیز الرحمن اس سمت میں موثر پیش رفت کر رہے ہیں اور ہم ان کی اس جدوجہد کی کامیابی اور قبولیت کے لیے دعاگو ہیں۔
چار سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب القلم، فرحان ٹیرس، ناظم آباد نمبر ۲، کراچی ۱۸ نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۲۴۰ روپے ہے۔
(ابو عمار زاہد الراشدی)
انا للہ و انا الیہ راجعون
ادارہ
- جمعیۃ علماء اسلام (س) کے ضلعی امیر مولانا علی احمد جامی طویل علالت کے بعد عید الاضحی سے دو روز قبل انتقال کر گئے۔ انھوں نے ساری زندگی دینی جدوجہد میں گزاری اور جمعیۃ علماء اسلام میں ہمیشہ سرگرم رہے ۔ متحدہ مجلس عمل ضلع گوجرانوالہ کے صدر رہے اور تحریک ختم نبوت میں بھی ان کا کردار نمایاں رہا۔ مولانا جامی مرحوم نے تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی فعال کردار ادا کیا اور متعدد بار قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ خوش الحان واعظ اور بے باک خطیب تھے۔ ان تھک سیاسی کارکن تھے اور دینی معاملات میں غیرت وحمیت سے بہرہ ور راہ نما تھے۔
- جمعیۃ علماء اسلام (س) کے صوبائی نائب امیر ڈاکٹر غلام محمد بھی عید الاضحی کے بعد جمعہ کے روز دار فانی سے رخصت ہو گئے۔ وہ کافی عرصے سے بستر علالت پر تھے۔ وفات سے چند روز قبل ان پر تیسری بار فالج کا حملہ ہوا جس سے وہ جانبر نہ ہو سکے۔ ڈاکٹر صاحب ۷۲ میں جمعیۃ علماء اسلام میں آئے اور ضلعی جمعیت کے مبلغ کی حیثیت سے سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ انھوں نے ضلع بھر میں گاؤں گاؤں گھوم کر جمعیت کو منظم کیا، پھر انھیں جمعیۃ کا ضلعی سیکرٹری جنرل چن لیا گیا اور ایک مدت تک وہ اسی حیثیت سے سرگرم عمل رہے۔ ضلع کی دینی سیاست میں انھوں نے اہم اور فعال کردار انجام دیا۔ ہومیو پیتھک معالج تھے اور جمعیت کی قائم کردہ فری ڈسپنسری میں خدمات سرانجام دیتے تھے۔ جرگہ اور پنچایت کے آدمی تھے۔ کم وبیش ربع صدی تک ضلع امن کمیٹی میں جمعیت کی نمائندگی کی۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی بڑے حوصلہ اور اعتماد کے ساتھ معاملات کو ڈیل کرتے اور اکثر سرخ رو ہوتے۔ فرقہ وارانہ تنازعات کو سلجھانے میں ان کی فراست پر اعتماد کیا جاتا تھا اور مشکل معاملات ان کے سپرد کیے جاتے تھے۔ ساری زندگی تنگی وترشی میں گزاری لیکن کبھی اپنے چند مخصوص دوستوں کے سوا کسی کے سامنے اس کا اظہار نہیں کیا۔
- الشریعہ کی مجلس مشاورت کے رکن شبیر احمد خان میواتی کے بہنوئی مولانا قاری محمود احمد میواتی گزشتہ ماہ قصور میں انتقال کر گئے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات کو بلند فرمائے، تقصیرات سے درگزر فرمائے، اور پس ماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔ آمین (ادارہ)
مارچ ۲۰۰۶ء
مغرب، توہین رسالت اور امت مسلمہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
یورپ کے بعض اخبارات کی طرف سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی پر عالم اسلام میں اضطراب مسلسل بڑھتا جا رہا ہے اور پاکستان کی کم وبیش تمام دینی وسیاسی جماعتوں نے ۳؍ مارچ کو ملک گیر ہڑتال کی کال دے دی ہے جس کی تیاریاں ملک بھر میں ہر سطح پر جاری ہیں۔ قوم کا مطالبہ یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا اہتمام کرنے والے اخبار کے ملک ڈنمارک کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کیے جائیں اور مغربی میڈیا کی اسلام دشمن مہم اور سرگرمیوں کا اسلامی سربراہ کانفرنس کی سطح پر نوٹس لیا جائے۔ وزیر اعظم جناب شوکت عزیز نے ایک بیان میں اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ ڈنمارک کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے مسئلے کا او آئی سی کے فورم پر جائزہ لیا جائے گا۔
ڈنمارک کے اخبار ’’جلینڈ پوسٹ‘‘ نے جناب سرور کائنات ﷺ کے یہ گستاخانہ کارٹون محض اتفاق کے طورپر شائع نہیں کیے تھے بلکہ اس کے لیے کار ٹونسٹوں میں باقاعدہ مقابلہ کرایا گیا اور دعوت دے کر بہت سے خاکے بنوائے گئے اور ان میں سے بارہ منتخب خاکے شائع کیے گئے۔ پھر اسی پر بس نہیں، ان توہین آمیز کارٹونوں پر مسلمانوں کاردعمل دیکھ کر بھی فرانس، نار وے، اسپین اور دوسرے ملکوں کے اخبارات نے ان خاکوں کودوبارہ شائع کیا اور بہت سی انٹرنیٹ سائٹس پر ان کی تشہیر کی گئی۔ یہ واضح طور پر مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے اور ان کے رد عمل کی سطح اور کیفیت کوجانچنے کی ایک منظم کوشش ہے جس پر دنیا بھر کے مسلمان بجا طورپر اپنے ایمانی جذبات اور غیرت وحمیت کا مظاہرہ کررہے ہیں اور ان کی رد عمل کی شدت میں اضافہ ہو رہاہے۔
جہاں تک مغرب کا تعلق ہے تو وہ اپنے ذہن سے وحی اور پیغمبر دونوں کو اتار چکاہے اور اس کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ مغرب کے پاس نہ وحی اصل حالت میں موجود ہے اور نہ ہی پیغمبروں کے حالات وتعلیمات کاکوئی مستند ذخیرہ اسے میسر ہے۔ اس لیے اس نے سرے سے ان دونوں سے پیچھا ہی چھڑا لیا ہے اوراب وہ مسلمانوں سے یہ توقع اور پر زور مطالبہ کررہا ہے کہ وہ بھی وحی اور پیغمبر کو اپنے ذہن سے اتار دیں اور اپنے جذبات اور احساسات کے دائرے میں انہیں کوئی جگہ نہ دیں، لیکن مغرب یہ توقع اور مطالبہ کرتے ہوئے یہ معروضی حقیقت بھول جاتاہے کہ مسلمانوں کے پاس یہ دونوں چیزیں اصلی حالت میں موجود ومحفوظ ہیں۔ قرآن کریم بھی اصلی حالت میں ہے اور جناب نبی کریمﷺ کے حالات زندگی، تعلیمات اورارشادات بھی پورے استناد اور تفصیل کے ساتھ مسلمانوں کے پاس موجود ہیں، اور صرف لائبریریوں کی زینت نہیں بلکہ یہ دونوں چیزیں پڑھی جاتی ہیں، پڑھائی جاتی ہیں، لکھی جاتی ہیں ،شائع ہوتی ہیں اوردنیا کے کسی بھی خطے کے مسلمان ان دونوں یا ان میں سے کسی ایک سے محروم نہیں ہیں۔ اس لیے مسلمانوں سے مغرب کی یہ توقع اور مطالبہ کہ وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے دست بردار ہوجائیں گے، ایک سراب کے پیچھے بھاگنے کے سوا کوئی معنویت نہیں رکھتا۔ ورلڈ میڈیا، بین الاقوامی لابیوں ،مغربی فکروفلسفہ کی برتری کا مسلسل ڈھنڈورا پیٹنے والے نام نہاد مسلمان دانشوروں اور مغرب نواز مسلمان حکومتوں کی تمام تر منفی کارروائیوں ،پروپیگنڈے اور پالیسیوں کے باوجود دنیا بھر کے عام مسلمان آج بھی جناب نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ بے لچک کمٹمنٹ رکھتے ہیں اور اس کمٹمنٹ کوکمزور کرنے کی کوئی کوشش کسی بھی حوالے سے کامیاب نہیں ہو رہی جو جناب نبی کریم ﷺ کے اعجاز کاآج کے دور میں کھلا اظہارہے۔
بعض اخباری اطلاعات کے مطابق ڈنمارک کے جس اخبار نے جناب نبی کریم ﷺ کے گستاخانہ خاکے اور کارٹون شائع کرکے دنیائے اسلام کے غیظ وغضب کودعوت دی ہے، اس اخبار کے مالکان نے مسلمانوں کے اس غصے کوٹھنڈا کرنے کے لیے اپنے طورپر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس اخبار میں سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھی اتنے ہی خاکے اور کارٹون شائع کیے جائیں گے جتنے جناب نبی کریم ﷺ کے حوالے سے شائع کیے گئے ہیں۔ اگر ڈنمارک کے گستاخ رسول اخبار کے مالکان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سیدنا حضرت عیسیٰ کے گستاخانہ خاکے شائع کرکے صورت حا ل کو بیلنس کرسکیں گے تو یہ ان کی بھول ہے اور وہ شدید غلط فہمی کا شکارہیں۔ اس سے مسلمانوں کے غصے میں کمی نہیں ہوگی بلکہ ان کے رنج وغصہ میں اضافہ ہوگا، اس لیے کہ مسلمان سیدنا حضرت عیسیٰ کابھی اسی طرح احترام کرتے ہیں جیسے سیدنا محمد ﷺ کی عقیدت واحترام ان کے دل میں ہے، اور جس طرح سیدنا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی ان کے لیے ناقابل برداشت ہے، اسی طرح سیدنا حضرت عیسیٰ بلکہ اللہ تعالی کے کسی بھی سچے پیغمبر کی شان اقدس میں گستاخی ناقابل برداشت ہے اور قرآن وسنت میں اسی بات کاحکم دیاگیاہے۔ البتہ اس سے یہ دلچسپ صورت حال ضرور پیداہوجائے گی کہ مسیحی کہلانے والے لوگ حضرت عیسیٰ کی شان میں گستاخی کررہے ہوں گے اور حضرت محمد ﷺ کی امت کے غیرت مند لوگ حضرت عیسیٰ کے ناموس و تحفظ کاپرچم اٹھائے اس بے ہودگی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہوں گے۔
ہم اس حوالہ سے پاکستان کی سیاسی ودینی جماعتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے تمام تر سیاسی اختلافات کوبالائے طاق رکھتے ہوئے ’قومی مجلس مشاورت‘ کی صورت میں متحد ہوکر مغرب سے دوٹوک کہہ دیا ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ کی حرمت وناموس کے مسئلہ پر کوئی مصالحت نہیں ہوسکتی اور مغرب کو بہرحال اپنے گستاخانہ اور معاندانہ طرز عمل سے دست بردار ی کاکوئی واضح راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ’قومی مجلس مشاورت‘ نے ۳؍ مارچ کوملک گیر ہڑتال کا جو اعلان کیا ہے، اسے منظم طریقے سے کامیاب بنانے کی ضرورت ہے اور وقت کا یہ تقاضاہے کہ سارے ملک میں ہر سطح پر’’ قومی مجلس مشاورت ‘‘کے مطالبات کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے اور ہر جماعت اور ہر طبقہ کوساتھ لے کر چلنے کا اہتمام کیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ مظاہروں کو ہرقیمت پر، پرامن رکھا جائے او ر اس بات سے ہر وقت چوکنا رہا جائے کہ کوئی شرپسند عنصر اس موقع سے ناجائز فائدہ اٹھا کر تحریک کارخ تشدد کی طرف نہ موڑ سکے ،کیونکہ تحریکیں تشدد کا رخ اختیا ر کر لیں تو ناکام ہو جایا کرتی ہیں۔
نسلی و مذہبی منافرت اور یورپی و عالمی قوانین
آغا شاہی
یورپی اخبارات میں شائع ہونے والے پیغمبر اسلامؑ کے توہین آمیز اور اشتعال انگیز کارٹونوں نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کو مشتعل اور غضب ناک کردیا ہے۔ متعلقہ اخبارات کے مدیران آزادی اظہار کو اس ناپاک جسارت کا جواز قرار دیتے ہیں، جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان کے خیال میں یہ فعل ’’جلتی پر تیل‘‘ انڈیلنے کے مترادف ہے۔ مذکورہ کارٹون ڈنمارک کے روزنامہ ’’جلینڈ پوسٹنز‘‘ میں شائع ہوئے۔ مبینہ طورپر اس اخبار کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ ’’حساب برابر ‘‘ کرنے کے لیے جتنی تعداد میں رسول خداکے کارٹون چھاپے گئے ،اتنی ہی تعداد میں حضرت عیسیٰ کے کارٹون چھاپے جائیں گے۔ ان کارٹونوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کی تضحیک کاپہلو نمایاں ہو گا۔ یہ (حل یا طریق معذرت) مسلمانوں کے لیے ہرگز قابل قبول نہیں،کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ کو بھی خدا کا پیغمبر اور نبی مانتے ہیں۔
آزادئ اظہار رائے کاحق لامحدود ہرگز نہیں اور شہری وسیاسی حقوق پر عالمی قانون (International Covenant on Civil and Political rights-ICCPR) کے ذریعے اس حق کو محدود کیا گیا ہے۔ امنِ عامہ اور اخلاقی اقدار کو برقرار رکھنے کے لیے مذکورہ معاہدے کا احترام ضروری ہے۔ان توہین آمیز کارٹونوں کو دیکھ کرکسی بھی مسلمان کے غم وغصے کا عروج پر پہنچ جانا فطری سی بات ہے۔ دنیا کارٹونوں کی اس بات کو ’’تہذیبوں کے تصادم ‘‘(Clash of Civilisations) کا تمہیدی منظر قرار دے رہی ہے، یعنی ’’مغرب بمقابلہ اسلام‘‘ کے دور کا (ایک بار پھر)آغاز ہو چکا ہے۔
زیر بحث کارٹون پیغمبر اسلام ؑ سے یا دوسرے لفظوں میں اسلام سے نفرت کااظہار ہیں۔ ان کارٹونوں کو شائع کرکے ’’ہمہ قسم کے نسلی امتیاز (یاتعّصبات) کے خاتمے پر عالمی کنونشن‘‘کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی ہے ۔یہ کنونشن نسلی برتری، نفرت انگیز تقاریر اور نسلی تعصب کو ابھارنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیتاہے۔ اس کی رو سے اقوام متحدہ کی ہر رکن ریاست پر لازم ہے کہ وہ اس قسم کے قابل تعزیر اقدامات کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دے۔ لہٰذا یہ ثابت ہوگیا کہ ان کارٹونوں کو شائع کرکے دراصل ایک عالمی قانون کی نفی اور خلاف ورزی کی گئی ہے۔ آزادی اظہار کی آڑ میں عقیدہ اسلام کے حاملین یعنی مسلمانوں کے جذبات کو جس طرح مجروح کیا گیا ہے، اس کے بعد ضروری ہوگیا ہے کہ ان ملکوں میں موجود اسلامی تنظیمیں اور مسلمان قانونی ماہرین متعلقہ ملکوں کی بااختیار عدالتوں سے ’’محکم فیصلہ ‘‘(Ruling)حاصل کریں بلکہ ترجیحاً ’’انسانی حقوق کی یورپی عدالت‘‘ (European Court of Human Rights) سے رابطہ کریں تاکہ مسلمانوں کے زخموں کا کسی حد تک مداوا ہوسکے۔
CCPR اور ICERD جیسے معاہدوں سے ثابت ہو جاتاہے کہ آزادی اظہار رائے کا مطلب بے لگام آزادی ہرگز نہیں، بلکہ اس کی حدود وقیود کا باقاعدہ تعین کیا گیا ہے۔ان معاہدوں پر اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی واضح اکثریت نے دستخط کررکھے ہیں اور یورپی عدالتیں ان حدود وقیودکی توثیق کرتی ہیں۔ ICERDپر عمل درآمد کا جائزہ لینے اور اسے مانیٹر کرنے کے لیے باقاعدہ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو ’’نسلی تعصبات کے خاتمے کی کمیٹی‘‘کے نام سے موسوم ہے۔ قانون کی رو سے نسلی برتری یا نسلی تعصب یا نسلی برتری کے نام پر نفرت پھیلانے کو مستوجب سزا قرار دیا گیا ہے۔نسلی تفاخر کے نتیجے میں پید ہونے والی نسلی منافرت تشدد کو جنم دیتی ہے ،لہٰذا یہ فعل قانوناً ممنوع ہے اوراس کی سزا اظہار رائے کی آزادی سے ہم آہنگ ہے۔ اس حوالے سے صرف موزوں اور مناسب قانون سازی ہی کافی نہیں ،بلکہ قانون کا موثر نفاذبھی ضروری ہے ۔جو شہری آزادی اظہار کے حق سے استفادہ کرتے ہیں ،ان پر بعض خصوصی فرائض اورذمہ داریاں (خود بخود ) جاری ہو جاتی ہیں۔ (CERD کی عمومی سفارش xv)
اسلامی عقائد کے حامل افراد (مسلمان) جن کی توہین کی گئی ہے ،وہ گوروں کے اس طبقے سے مختلف طبقہ ہیں جس نے توہین کا آغازکیا یا جو توہین کے ذمہ دار ہیں، جسے ICERD اور CERD جرم قرار دیتے ہیں۔ شہریوں کو جو بنیادی آزادیاں اور انسانی حقوق ICCPR کے توسط سے حاصل ہیں، ’’انسانی حقوق کی کمیٹی ’’ان سے متعلقہ قوانین کی مفصل اور سیر حاصل توجیہ وتوضیح کرتی ہے۔ اس کمیٹی نے ’’فاریسن بنام فرانس‘‘ کیس میں دیے جانے والے عدالتی فیصلے کی توثیق کی تھی۔ اس عدالتی فیصلے کے تحت ’’یہودی مخالف کی دل جوئی اور انہیں سہارا دینے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے بیانات کے اجرا پر پابندی عائد کر دی جائے جو یہودمخالف ہوں یا جن سے یہودیوں کے جذبات کوٹھیس پہنچتی ہو ۔ اس طرح یہودیوں کو مذہبی منافرت کی دفعہ (۲) ۲۰ کے پس منظر میں کار فرما اصول بھی مذکور ہ پابندی کی حمایت کرتاہے ۔آزادی اظہار کے حق سے استفادہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بعض فرائض اور ذمہ داریاں اپنے ذمے لے لی جائیں ‘‘۔
’’ انسانی حقوق کی کمیٹی‘‘ (HRC)نتیجہ اخذ کرچکی ہے کہ اس نوعیت کی پابندی ICCPR کی دفعہ ۱۹ کی خلاف ورزی نہیں کرتی۔ سوال یہ ہے کہ یورپی عدالتیں یہودیوں کو تو حق دیتی ہیں کہ ان کے خلاف بیانات جاری نہ کیے جائیں اور بڑے پر جوش انداز میں یہ اہتمام کیا جاتاہے کہ ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔پھر مسلمانوں کو یہ حق دینے میں لیت ولعل سے کیوں کام لیاجاتاہے ؟’’انسانی حقوق کی عالمی عدالت‘‘ کے فیصلوں پر نظر ڈالی جائے تو مندرجہ ذیل نتائج سامنے آتے ہیں:
’’ اظہار رائے کی آزادی کا اطلاق ان معلومات ونظریات پر بھی برابر ہوتاہے ،جو ریاست میں انتشار یاعوام کے کسی طبقے میں اشتعال کا سبب بن سکتے ہوں۔ اجتماعیت اور برداشت کے یہی تقاضے ہیں ،جن کے بغیر کسی معاشرے کو جمہوری معاشرہ نہیں کہا جاسکتا۔‘‘ (ہینڈی سائڈکیس)
ڈائی چنڈ ودیگر بنام آسٹریا، کرتاس بنام ترکی، بیلڈٹ ٹرامز بنام ناروے جیسے مقدمات میں یورپی عدالتوں نے صحافیوں کو اشتعال انگیز حد تک مبالغے کی اجازت دے دی، تاہم ایک یورپی عدالت نے ’’ونگروو بنام برطانیہ‘‘نام کے مقدمے میں مذکورہ بالا مقدمات کے فیصلوں سے مختلف فیصلہ بھی دیا،جس کے تحت ’’جب دفعہ (۲)۱۰ کے تحت سیاسی تقاریر اور قابل اعتراض ومتنازعہ سیاسی مباحث پر پابندی عائد نہ کی جاسکے تو عوامی مفاد کے پیش نظر آزادی اظہار کے حق کومحدود کیا جاسکتاہے، بالخصوص جو مباحث ذاتی ،اخلاقی یا مذہبی عقائد سے متعلق ہوں‘‘۔
’’اوٹوپریمنگر انسٹی ٹیوٹ بنام آسٹریا‘‘ نام کے مقدمے میں بھی اسی اصول کی پیروی کرتے ہوئے عدالت نے لکھا کہ ’’دفعہ ۹ کے تحت مذہبی جذبات کے احترام کی جو ضمانت فراہم کی گئی ہے، اس کے مطابق کسی بھی مذہب کی توہین پر مبنی اشتعال انگیز بیانات کو بد نیتی اور مجرمانہ خلاف ورزی قرار دیا جاسکتاہے۔جمہوری معاشرے کے اوصاف میں یہ وصف بھی شامل ہے کہ اس نوعیت کے بیانات، اقوال یا افعال کو تحمل، بردباری اور برداشت کی روح کے منافی خیال کیا جائے اور دوسروں کے مذہبی عقائد کے احترام کوصد فی صد یقینی بنایا جائے‘‘۔
اگر کوئی کسی دوسرے کے مذہبی عقائد کی مخالفت کرے یا انہیں جھٹلائے تو عدالت ان پر پابندی عائد کرسکتی ہے کہ وہ ممکنہ حد تک ایسی گفتگو سے پرہیز کرے جو کسی دوسرے عقیدے یا مذہب کے ماننے والے کی دل آزاری کا باعث بنتی ہو۔ ’’ڈیوبوسکا اورسکپ بنام پولینڈ ۴۰‘‘ کیس میں اسی سوچ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے عدالت نے لکھا کہ:
’’جن باتوں کو مذہب یا عقیدے کی رو سے مقدس یا قابل تعظیم سمجھا جاتاہو ،ان کی متشدد اور اشتعال انگیز تصویر کشی کو دفعہ ۹ کے تحت حاصل شدہ حقوق کی نفی اور خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔حکومت کا یہ مثبت فرض یا مثبت ذمہ داری ہے کہ اقلیتوں کے پختہ مذہبی عقائد کے تحفظ کااہتمام کرے اور انہیں ہر قسم کے حملوں سے بچائے ۔قانون کے تحت حاصل شدہ کسی بھی مذہبی حق کا استعمال ،اگر کسی فرد کے عقائد کی توہین کرتاہو تو اس کی حدود کا تعین کرنے کے لیے ریاست کی مداخلت جائز ہو گی۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ شہریوں کے باہمی تعلقا ت میں مذہبی عقائد کی آزادی کے حق کے احترام کو بھی یقینی بنائے اور عوام اور ریاستی حکام کے باہمی مراسم کے تناظر میں بھی آزادی مذہب کے حق کو محترم جانے۔اس ریاستی فرض کا ادراک برطانیہ میں اقلیتوں کے مذاہب کے فروغ میں (یورپی)کنونشن کو ممد بنا سکتاہے۔مطلب یہ کہ مذکورہ فروغ کے عمل میں (یورپی )کنونشن کو اہم کردار سونپا جاسکتاہے ‘‘۔ (دی اوٹو پریمنگر کیس)
انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کی معاہداتی تنظیموں (CERD اور HRC ) اور یورپی عدالتوں کے علاوہ فرانس، جرمنی، آسٹریا، اٹلی اور بعض دوسرے ممالک کی قانون ساز اسمبلیوں کے منظور شدہ قوانین نے ایک مخصوص فلسفہ قانون کومتشکل کرنے میں اہم کردار اداکیا ۔ ان ممالک کی قوانین کی روسے ’’ہولو کاسٹ‘‘(ہٹلر کے ہاتھوں جرمنی میں تقسیم یہودیوں کا قتل عام) سے انکار اور اسے خلاف واقعہ قرار دینا جرم ہے۔ (اس طرح اظہار رائے کی آزادی پر پابندی عائد کرکے اس حق کو محدود کردیا گیا ہے) اندریں حالات پیغمبر اسلام سے نفرت (نعوذباللہ )پر مبنی مواد یا تصاویر (کارٹونوں) کی اشاعت کامتعلقہ ممالک کی حکومتوں، قانون ساز اسمبلیوں اور عدالتوں نے نوٹس کیوں نہیں لیا؟(بے نیازی،سرد مہری اور لاتعلقی) کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کو عیسائیوں اور یہودیوں سے کمتر سمجھا جاتاہے ۔کیا یہ امتیاز عدم مساوات کی نشاندہی نہیں کرتا؟
اگر اشتعال انگیز اور نفرت آمیز تصاویر کا کوئی نوٹس نہ لیا جائے اور انہیں نظر انداز کردیا جائے تو نتیجتاً انتہائی سنگین اور متشدد تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔ گزشتہ ایک عشرے کے دورانیے میں روانڈا اور بوسنیا کے انکوائری کمیشنوں او ر ہیگ اور اروشا میں ’’جرائم کے عالمی ٹربیو نلز ‘‘نے کئی مفصل شواہد ریکارڈ کیے جن سے ثابت ہوتاہے کہ نفرت پر مبنی خیالات واحساسات کا اظہار زبان سے کیا جائے یا تحریر سے یا تصویر کشی کا سہارا لیا جائے اور میڈیا ان خیالات اور احساسات کوپھیلانے اور عام کرنے میں بھر پور (مگر منفی)کردار ادا کرے تو ہم انہیں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کی علامات قرار دے سکتے ہیں۔اگر یورپی ممالک نے اپنے میڈیا کے توسط سے کیے جانے والے نفرت کے اظہار کی روک تھام نہ کی تو مغربی اور اسلامی تہذیبوں کے تصادم کے جانبدارانہ اور متعصبانہ نظریات سچ ثابت ہوجائیں گے اور اس طرح ان نظریات کے داعی اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہریں گے ،لہٰذا آزادی اظہار کے حق کا استعمال کرتے وقت ضروری ہے کہ اسے اخلاقی حدود وقیود میں رکھا جائے۔ یہی ’’روشن خیال اعتدال پسندی ‘‘کااولین تقاضاہے ۔عوامی مفاد کے پیش نظر بھی ایسا کرنا ضروری ہے ۔
محولہ بالا فلسفہ ہائے قوانین کی روشنی میں یورپی ممالک میں موجود سماجی، فلاحی اور معاشرتی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ ریاستی حکام، قانون ساز اسمبلی اور عدالتوں کی توجہ اس جانب مبذول کروائیں تاکہ یورپی یونین میں مقیم ڈیڑھ کروڑ مسلمان تارکین وطن توہین سے بچ جائیں اور ان کا مذہبی تقدس بھی مجروح نہ ہو۔ ڈنمارک کے وزیر اعظم راس مسن سے خصوصی درخواست کی جائے کہ وہ انسانی حقوق کے قوانین کے حوالے سے اپنے عالمی فرائض سے عہدہ برآہوں ۔امریکہ کا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور یورپی اخبارا ت زیر بحث کارٹونوں کی اشاعت کی مذمت کرچکے ہیں۔مزید برآں امریکی اور برطانوی اخبارات نے ان کی دوبارہ اشاعت سے اجتناب برتنے کا جو عندیہ دیا ہے ،وہ بھی خوش آئند ہے ۔یہ طرز عمل اسلامی دنیا کے مذہبی جذبات کے احترام کے مترادف ہے۔
مغرب میں بعض اوقات یہ سوال اٹھایا جاتاہے کہ اسلامی اقدارمغر ب کی معاشرتی اقدار سے ہم آہنگ ہیں یا نہیں؟ ہاں! اساسی اعتبارسے دونوں ایک ہیں، لیکن دونوں میں بعض نمایاں اور واضح اختلافات بھی پائے جاتے ہیں ۔مثلاً مغربی معاشرے میں شہریوں کواظہار رائے کی مادرپدر آزادی حاصل ہے، وہ دوسروں کے عقائد کا جس طرح چاہیں، مضحکہ اڑا سکتے ہیں،لیکن اسلامی معاشروں میں اس چیز کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
انسانی حقوق کے متعدد معاہدوں میں مسلمان ممالک فریق کی حیثیت رکھتے ہیں۔شہری ،سیاسی ،اقتصادی ،سماجی اور ثقافتی حقوق کے عالمی معاہدات ،عورتوں کے ساتھ منفی امتیاز کے امتناع کامعاہد ہ ،ہر قسم کے نسلی امتیاز (تعصبات)کے خاتمے کاعالمی معاہدہ، بچوں کے حقوق کاعالمی معاہدہ اور بعض دیگر معاہداتی دستاویزات کے ذریعے ’’انسانی حقوق کے بین الاقوامی اعلامیے‘‘کے پس پردہ کارفرما اصولوں کوقانونی ضوابط کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔اسی طرح ریاستوں کو پابند کردیا گیا ہے کہ وہ اپنے انتظامی ،قانونی اور تعزیری قوانین کے نفاذ میں بھی عالمی معیار ہی کوپیش نظر رکھیں ۔
یہ درست ہے کہ بعض ممالک ان دستاویزات کی کئی شقوں کے بارے میں تحفظات کاشکار ہیں ۔ان میں مغرب، ایشیا ،افریقہ ،لاطینی امریکہ کے کچھ ممالک شامل ہیں۔ ان معیارات پر عمل درآمد کے وقت بعض ممالک اپنے فرائض کی کماحقہ ادائیگی میں قاصر رہتے ہیں۔ یہ CERD یا HRC جیسے نگران اداروں اور یا پھر ان مانیٹرنگ کمیٹیوں کا کام ہے جن کا انتخاب جغرافیائی اعتبار سے مساویانہ ہونا چاہیے۔
صرف یہ کہہ دینا اختلافات کو ہوا دینے اور سنگین تر کرنے کے مترادف ہے کہ دونوں تہذیبوں اور دونوں ثقافتیں ہم آہنگی کے فقدان کا شکار ہیں۔ اس نوعیت کے اظہار رائے میں اس مسئلے کاحل مضمر نہیں۔ مسلمان ریاستوں پر یہ تنقید بے جا اور غیرحقیقت پسندانہ ہے کہ وہ مغربی اقدار سے مکمل سمجھوتہ نہیں کر رہیں۔دو مختلف تہذیبوں کے ساتھ ان کی تاریخی وابستگی کوپیش نظر رکھا جائے تو مطالبہ احمقانہ نظر آئے گا۔ مثال کے طور پر اگر مغرب مسلمان ممالک سے یہ توقع کرے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کو کاملاً قبول کر لیں اور اس بات کو پیش نظر نہ رکھیں کہ وہ آزادی ان کے مذہبی شعور واحساس کو کتنے شدید دھچکوں سے دوچار کرتی ہے ،حتیٰ کہ وہ ایسی ہستیوں کی توہین بھی برداشت کرلیں جو ان کے نزدیک مقدس ترین اور حد درجہ قابل احترام ہیں تو ناقدین آگاہ رہیں کہ کوئی اسلامی ریاست اس نوعیت کی آزادی سے استفادہ نہیں کرے گی اور پھر مغربی معاشرت میں بھی اس قسم کی آزادی تضادات کا شکارہے اور مغربی ممالک نے اس حوالے سے دو ہرے معیار اپنا رکھے ہیں۔
اسلام کے خلاف دریدہ دہنی کے چیلنج سے نمٹنا مقصود ہے تو مسلمان دنیا کوچاہیے کہ اپنے جائز غم وغصے کومتشدد انداز میں ظاہرکرنے کی بجائے مغرب کے ساتھ دانشورانہ مباحث کی راہ اپنائے۔ مسلمانوں کی اپنے نبی ﷺ کے ساتھ وابستگی اور عقیدت کسی سے ڈھکی چھپی ہرگز نہیں، جنہوں نے متعدد ستم اٹھائے، کئی صعوبتیں برداشت کیں ،لیکن اپنے نیک مقاصد کوترک نہ کیا اور بالآخر مکہ میں ایک فاتح کے طورپر داخل ہوئے اور انتقام کی راہ سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے بدترین دشمنوں کوبھی معاف کر دیا۔ ایک عظیم الشان فاتح ہو کر بھی انہوں نے عفو درگزر کی ایسی مثال قائم کردی جس کی ماضی قریب یا بعید میں کوئی نظیر دستیاب نہ تھی۔ لہٰذا امت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ دلی،ذہنی اور جذباتی وابستگی کا اظہار کرتے وقت ان کی سنت کو ترک نہ کریں اور اگر انتہائی غیر ذمہ دارانہ انداز میں توہین آمیز اور لڑنے مرنے پر اکسانے والے حملے کیے جائیں تو بھی وہ اپنی صفوں میں اتحاد اور نظم وضبط کی کمی نہ آنے دیں۔
(بشکریہ روزنامہ ’پاکستان‘ لاہور)
عظمتِ رسول ﷺ اور انسانی حقوق
ابو محمد عبادہ
’’موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد(ﷺ)اس دُنیاکے حکمران (رہنما ) بنیں۔‘‘
یہ مشہور مغربی مفکر جارج برناڈ شا کا قول ہے اور یہ نبی اکرم ﷺ کی ذات والاصفات کے بارے میں غیر متعصب اورغیر مسلم محققین اور مفکرین کی بے شمار آرا میں سے ایک ہے۔ جارج برناڈ شا اُن لوگوں میں سے ہے جونبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کی نبوت پر ایمان نہیں لائے، پھر بھی وہ آپ ﷺ کی عظمت کو تسلیم کرتا دکھائی دیتا ہے۔آپ ﷺ کی سچائی اور صداقت کااعتراف صرف عرب تک محدود نہیں رہا بلکہ ساری دنیا کے دانشور اور مفکر جو اسلام کے ماننے والے بھی نہیں ہیں، وہ بھی حضور ﷺ کی عظمت و رفعت کابرملا اعتراف کرنے اور آپ ﷺ کی حمد وتعریف پر مجبور ہیں۔کارلائل، نپولین،والٹر، روسو، ویلز، ٹالسٹائی، گوئٹے، لین پول اور دیگر بے شمار دانشور آپ ﷺ کی شان میں رطب اللسان ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حقوق انسانی یا آزادی صحافت کی آڑ میں،عالمی سطح پر ایک معتبر اور تسلیم شدہ ہستی، بے داغ کرداروالی شخصیت اور انسان کامل کا سوقیانہ انداز میں ذکر اورکسی بھی استہزائی پیرایے میں اس پر اظہار خیال کیا جاسکتاہے ؟ اورکیا کسی ایسی قبیح حرکت کو محض چند نام نہاد اصطلاحوں کے پردے میں سند جواز دی جا سکتی ہے ؟ بالخصوص ایسی صورت میں جب کہ ہرمذہب وفکر ونظریہ کے غیر متعصب عالمی دانشور اس شخصیت کو انسانیت کانجات دہندہ ، بہترین انسان اور رہنما تسلیم کرنے میں ہچکچا تے نہ ہوں اورایسی شخصیت نبی کی ہو، اربوں انسان اس کے پیروکار ہوں اور اس ذات گرامی سے غیر مشروط وابستگی ، عشق اور شیفتگی رکھتے ہوں؟
عظمتِ رسول ﷺ کا تصور امّتِ مسلمہ کے ہر فرد کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے۔ مسلمانوں کا یہی جذبہ اور اپنے نبی ﷺ سے والہانہ لگاؤ ہی غیرمسلم اقوام کے دلوں میں کانٹا بن کر چُبھتا چلا آرہا ہے۔غیر مسلم اقوام کسی نہ کسی طریقے اور مختلف حیلوں اور بہانوں سے امت مسلمہ کے افراد کے دلوں میں حُبِّ رسول ﷺکوکم سے کم کرنے کے درپے رہتی ہیں۔ دُور نہ جائیے، گزشتہ چند سالوں کے عالمی واقعات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آ ج کے مہذب دور میں خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ اور دین اسلام کے بارے میں ایک نیا عالمی انسانی اور مذہبی روّیہ تخلیق کرنے کی سازش ہورہی ہے۔ غیر مسلم ذرائع ابلاغ اسلام کے خلاف میڈیائی جارحیت سے مسلح نظر آتے ہیں۔
آج کادانشور یہ کہہ رہاہے کہ انسانی حقوق ، انسانوں کی برابری کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ انسانی برادری اور انسانوں کے مابین تفریق کو ختم کرنے کا مسئلہ ہے۔کسی دوسرے انسان کے حقوق کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قدر وقیمت اس کے انسانی اوصاف کی بناپرہونی چاہیے نہ کہ اس کی شخصیت کی بنا پر۔اس میں ظاہری حد بندیوں،اختلافات اور نظریاتی کشمکش کی عمل داری نہیں ہونی چاہیے۔ حقوق انسانی کے علم برداروں کی یہی دلیل برملا تقاضاکرتی ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ دُنیا کی سب سے بلند ، اعلیٰ اور بہترین ہستی ہیں اورآپ کے انسان کامل اور سب سے بہترین انسان ہونے پر دُنیاکااجماع اور اتفاق ہے تو پھروہ کون سی بات ہے جو مخالفین اور اسلام دُشمنوں کوآپ ﷺ کی توہین پر آمادہ کرتی ہے؟ اور کیاایسے بدبخت اشخاص کسی قسم کی رعایت کے مستحق ہوسکتے ہیں؟ظاہرہے کسی کا استحقاق ملحوظ خاطرنہ رکھنے والوں کا نہ کوئی استحقاق ہوسکتاہے اور نہ ہی کوئی حق۔ایسے افراد ملعون ہوتے ہیں اورانسانیت کے نام پردھبہ۔
اس ضمن میں اپنوں کی کوتاہیوں اور بھول پن کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے لیے خوشی، غمی اور اپنے جذبات کے اظہار کا بھی ایک طریق کار ہے جو ہمیں تعلیمات اسلام اور نبی پاک ﷺ کے عمل اوراسوہ مبارکہ سے حاصل ہوا ہے۔ اس کابرملاتقاضاہے کہ امت مسلمہ اپنے نقطہ نظر کوپیش کرتے وقت حکمت اور موعظہ حسنہ سے کام لے اور بہترین انداز اور طریقہ اختیار کرے۔ یہی سنت رسول ﷺ اور حکمِ رسول ﷺ ہے۔ مسلم ممالک کی حکومتوں ، دانش مندوں ، اہلِ علم و فکر اور مقتدر طبقات کی ذمہ داریوں کا تقاضا ہے کہ وہ انسان کامل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عزت اور تقدس مآبی پر انگشت نمائی کرنے والوں کے ہوش، نہایت حکمت اور تدبر سے ٹھکانے پرلانے کا اہتمام کریں۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ آج علم اور دلیل کی دُنیا اور جمہوریت کا دور ہے۔ ایسے میں ہم مسلمانوں کو جوش کے ساتھ ساتھ ہوش کی بھی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
ہمیں نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی کو مغرب اور غیر مسلم دُنیاکے سامنے پیش کرتے وقت اعلیٰ اسلامی تعلیمات کو اجاگر کرناہوگا۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام ایک مکمل دین ہے۔ اسلام میں حقوق انسانی کا جس انداز میں خیال رکھاگیا ہے ،دوسرے مذاہب اور نظریات اور نام نہادخود ساختہ اصطلاحات اس سے عاری دکھائی دیتی ہیں۔ مادر پدر آزادی نہ انسان کاحق ہے اور نہ ہی حیوانوں جیسی آزادی سے اس کو منزلِ مقصود حاصل ہو سکتی ہے۔اسلام سلامتی ، خیر خواہی ، محبت واخوت اور امن وسکون کا دین ہے۔ تعلیمات قرآن اور نبی پاک ﷺ کی سیرت مطہرہ اس کا عملی مظہر ہیں۔ ذات رسول ﷺ جسے خالقِ کائنات نے تمام جہانوں اور سب دنیاؤں کے لیے رحمت قرار دیا ہے ، وہ بنیادی کلید ہے جو گلوبلائزیشن کے دَور سے گزرتی ہوئی انسانیت کے لیے راہبری و رہنمائی کا کام دے سکتی ہے۔
طباعتِ قرآن میں رسمِ عثمانی کا التزام
حافظ محمد سمیع اللہ فراز
کلماتِ قرآنیہ کی کتابت کا ایک بڑا حصہ تلفظ کے موافق یعنی قیاسی ہے،لیکن چند کلمات تلفظ کے خلاف لکھے جاتے ہیں۔ کیا مصاحف کی کتابت وطباعت میں رسمِ عثمانی کے قواعد وضوابط کی پابندی واجب ہے اور کیا رسمِ قرآنی اور رسمِ قیاسی کے مابین یہ فرق و اختلاف باقی رہنا چاہیے ؟ اس سوال کے حوالے سے علماےِ رسم اور مورخین کے ہاں دو زاویہ ہائے فکر پائے جاتے ہیں:
جمہور علما کا نقطہ نظر یہ ہے کہ قرآنی رسم کی قدامت کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس میں کسی تبدیلی کی گنجایش نہیں اور طباعتِ مصاحف میں اِسی کی پابندی لازمی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام ث نے رسم عثمانی کو اختیار کرنے پر اتفاق کیا ہے اور صحابہ کا اتفاق اُسی معاملہ پر ممکن ہو ہے جو اُن کے ہاں متحقق ہو کر واضح ہو چکا ہو۔ (۱)
فکر کا دوسرا زاویہ یہ ہے کہ عوام کے لیے رسمِ عثمانی کے مطابق لکھے ہوئے مصاحف میں قراء تِ قرآن کے لحاظ سے کئی مفاسد ہیں، اس لیے عوامی سطح پر اس رسم الخط کو تر ک کر دینا چاہیے، البتہ خواص کے لیے اس کی گنجایش باقی رہنی چاہیے۔
ذیل میں ہم ان دونوں نقطہ ہائے نظر اور ان کے استدلالات کا ایک مطالعہ پیش کریں گے۔
رسمِ عثمانی کا اِلتزام
رسمِ عثمانی کے مُجمع علیہ ہونے میں کسی کا اختلاف منقول نہیں کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ مصاحفِ عثمانیہ کی کتابت کرتے ہوئے بارہ ہزار ۱۲۰۰۰ صحابہ ثنے اتفاقِ رائے سے اِس رسم کو صحیح اور درست قرار دیا(۲)۔ مصرکے شیخ القرا ء محمد بن علی حداد نے اپنے رسالہ’’النصوص الجلیلۃ‘‘ میں رسمِ عثمانی کے اتباع کو بارہ ہزار صحابہ کرامثکے اجماع سے ثابت کیا ہے۔ (۳)
رسول اللہا کے ارشاد کے مطابق خلفاے راشدین ثکی سنت بھی قابلِ اتباع ہے اور اس کی پیروی ہر مسلمان پر لازم ہے۔ دلیل مذکور کی بنیاد پر چونکہ رسمِ عثمانی صحابہ ث کا مجمع علیہ ہے، لہٰذا اِس کی اتباع اور اقتدا کا حکم تمام دیگر نظریات کے مقابلہ میں راجح ہے۔ علامہ ابوطاہر السندی ؒ رسمِ عثمانی پر لوگوں کے تعامل کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’۔۔۔ وتقلدت الأمۃ رسمہا ، واشتہرت کتابتہا بالرسم العثماني، وأجمع الصحابۃ رضی اﷲ عنہم علی ذلک الرسم ولم ینکر أحد منہم شیئا منہ وإجماع الصحابۃ واجب الإتباع۔ ثم استمرّ الأمر علی ذلک، والعمل علیہ فی عصور التابعین والأئمۃ المجتہدین، ولم یر أحد منہم مخالفۃ وفی ذلک نصوص کثیرۃ لعلماء الأئمۃ‘‘۔(۴)
یعنی امت نے اسی رسم کی تقلید کی ہے اور اسی میں مصحف کی کتابت کا عام رواج ہوا۔ صحابہ کرام ثکا اس رسم پر اجماع ہوا اور ان میں سے کسی نے اس کا انکار نہیں کیااور صحابہ کرامث کااِجماع واجب الاتباع ہے۔ پھر یہی طریقہ رائج رہا اور تابعین اور ائمۂ مجتہدین کے ادوار میں اسی پر عمل رہا اور کسی نے اس معاملہ میں اختلاف کا خیال بھی نہیں کیا۔ اس پر علماے امت کے بہت سے اقوال موجود ہیں۔
رسول اللہا کی زیر نگرانی ہونیوالی کتا بت ہی صحابہ کرام ث کے لیے قابلِ عمل تھی ۔اُنہی خصوصیاتِ رسم کے ساتھ عہدِ صدیقی اور پھر عہدِ عثمانی میں مصاحف تیار کروائے گئے۔ چنانچہ اسلام کے ابتدائی دور میں لوگوں کے لیے کتابتِ مصحف کا معیار رسمِ عثمانی تھااور اکثر صحابہث ،تابعینؒ اور تبع تابعینؒ نے ہمیشہ رسمِ عثمانی کی موافقت کو ہی معیار سمجھا۔ابن قتیبہؒ لکھتے ہیں:
’’ولولا اعتیاد الناس لذلک فی ھذہ الأحرف الثلاثۃ (الصلوٰۃ، الزکوٰۃ والحیٰوۃ) وما فی مخالفۃ جماعتھم لکان أحب الأشیاء إلی أن یکتب ھذا کلہ بالألف‘‘۔(۵)
یعنی اگر ان تین کلمات صلوٰۃ، زکوٰۃ اور حیٰوۃ کا واؤ کے ساتھ املا لوگوں میں رائج نہ ہوتا اور ان کے اتفاق کی خلاف ورزی کا خدشہ نہ ہوتا تو میں ان کلمات کو الف سے لکھنا زیادہ پسند کرتا۔
ایک عرصہ تک اِسی طرح معاملہ چلتا رہا یہاں تک کہ علماے لغت نے فنِ رسم کے لیے ضوابط کی بنیاد رکھی اور قیاساتِ نحویہ و صرفیہ اِس غرض سے وضع کر دیے گئے تاکہ نظامِ کتابت اور تعلیمی سلسلہ میں کسی غلطی یا شبہ کا احتمال باقی نہ رہے۔ قواعدِ ہجا ، قواعدِ املا ، علم الخط القیاسی و الاصطلاحی، یہ وہ سب نام تھے جو اِن قواعد کے لیے وضع کیے گئے ۔ لوگوں نے عام لکھنے میں کلمات کے پرانے ہجا کو رفتہ رفتہ ترک کر دیا، لیکن مصاحف میں موجود الفاظ اپنی اُسی ہیئت و صورت میں رہے جس میں اُنہیں عہدِ عثمان صمیں لکھا گیا تھا۔
ِ مذاہب اربعہ کا موقف
مذاہبِ اربعہ کے تمام فقہاؒ نے مصحف کی کتابت اور طباعت میں رسمِ عثمانی کے التزام کی ضرورت پر زور دیا ہے اور اس کی مخالفت کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔ اِس پر علما کا اِجماع منقول ہے کہ رسمِ عثمانی کی مخالفت جائز نہیں: ’’ولا مخالف لہ فی ذلک من علماءِ الأئمۃ‘‘ (۶)۔ علامہ الحدادؒ کے بقول علما کا ہمیشہ رسمِ عثمانی پر اجماع رہا ہے اور اِس کی مخالفت کو اجماع سے روگردانی تصور کیاہے:
’’وما دام قد انعقد الإجماع علی تلک الرسوم فلا یجوز العدول عنہا الی غیرہا، إذ لا یجوز خرق الإجماع بوجہ‘‘۔(۷)
علامہ جعبریؒ نے ’روضۃ الطرائف فی رسم المصاحف فی شرح العقیلۃ‘ میں ائمۂِ اربعہ کا یہی موقف نقل کیا ہے۔(۸)
مکاتب اربعہ کے فتاویٰ کی تفصیل حسب ذیل ہے
۱۔ امام مالک ؒ کا مسلک:وقت کے گزرنے کے ساتھ کتابتِ مصحف میں جب رسمِ عثمانی سے مختلف کلمات کا دخول شروع ہوا تو امام مالکؒ (۹۵ھ۔۱۷۹ھ) سے اس ضمن میں استفتا کیا گیا جس کو علامہ دانی ؒ نے اِن الفاظ میں نقل کیا ہے:
’’۔۔۔ فقیل لہ : أریت من استکتب مصحفًا الیوم أتری أن یکتب علیٰ ما أحدث الناس من الھجاء الیوم ؟ فقال: لا أری ذلک ، ولکن یکتب علی الکتبۃ الاولیٰ‘‘۔(۹)
یعنی امام مالک ؒ سے پوچھا گیا کہ کہ کیا کوئی شخص لوگوں میں مروّج ہجا پر مصحف کی کتابت کر سکتا ہے تو آپؒ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ نہیں، بلکہ اسے پہلے طریقے پر ہی لکھنا چاہیے۔ امام مالک ؒ کے اِ س قول کے متصل بعد علامہ دانی ؒ نے لکھا ہے کہ امام مالکؒ کے اِس قول سے کسی نے اختلاف نہیں کیا: ’’ولا مخالف لہ فی ذلک من علماء الامۃ‘‘۔امام سخاوی ؒ نے امام مالک ؒ کے قول پر ’’والذی ذہب الیہ مالک ہو الحق‘‘ کے الفاظ میں تبصرہ کیا ہے۔(۱۰)
۲۔ رسمِ عثمانی کے التزام کے بارے میں امام احمد بن حنبلؒ (۱۶۴ھ۔۲۴۱ھ) کا موقف بیان کرتے ہوئے علامہ زرکشیؒ لکھتے ہیں:
’’تحرم مخالفۃ مصحف الإمام فی واوٍ أو یاءٍ أو ألفٍ أو غیر ذلک‘‘۔(۱۱)
ڈاکٹر عبد الوہاب حمّودہ ،امام مالک ؒ اور امام احمد ؒ کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’فإذا عرفنا أن الإمام مالکاً ولد سنۃ ۹۳ھ وتوفی سنۃ ۱۷۹ھ علی الصحیح، وأن الإمام أحمد ولد سنۃ ۱۶۴ھ وتوفی سنۃ ۲۴۱ھ فہمنا أن الأمۃ فی القرنین قد أدرکت مخالفۃ الرسم العثمانی لقواعد کتاباتہم ، ورغبوا فی کتابۃ المصاحف علی القواعد الکتابیۃ، فاستفتوا الإمام مالکا فلم یفتہم بجواز ذلک ، وما علینا إلا اتباعہم والإقتداء بہم‘‘۔(۱۲)
یعنی ہم جانتے ہیں کہ امام مالک ؒ ۹۳ہجری میں پیدا ہوئے اور ۱۷۹ھ میں وفات ہوئی اور امام احمد ؒ ۱۶۴ھ میں پیدا جبکہ۲۴۱ھ میں فوت ہوئے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی اور دوسری صدی ہجری میں ہی لوگوں نے قواعدِ کتابت میں رسمِ عثمانی کی مخالفت شروع کر کے عام قواعدِ کتابت پر مصاحف کی کتابت کی طرف رغبت کی۔جب امام مالکؒ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے عام قواعدِ کتابت کے جواز کا فتویٰ نہیں دیا۔ اب ہمارے اوپر ان کا اتباع اور ان کے قول کی پیروی لازم ہے۔
۳۔ شافعی فقہا کا مسلک یہ ہے:
’’وجاء فی حواشی المنہج فی فقہ الشافعیۃ مانصہ: کلمۃ الربا تکبت بالواو والألف کما جاء فی الرسم العثمانی، ولا تکتب فی القرآن بالیا أو الألف لأن رسمہ سنۃ متبعۃ‘‘۔ (۱۳)
یعنی ’ربوا‘ کا لفظ اسی طرح واؤ اور الف سے لکھنا چاہیے جیسے رسم عثمانی میں لکھا جاتا ہے۔ اس کو یا، یا الف سے نہیں لکھنا چاہیے کیونکہ رسم عثمانی کی پیروی ہمیشہ سے کی جا رہی ہے۔
۴۔ احناف کی رائے یہ ہے:
’’وجاء فی المحیط البرہانی فی فقہ الحنفیۃ مانصہ: إنہ ینبغی ألّا یکتب المصحف بغیر الرسم العثمانی‘‘۔(۱۴)
یعنی رسم عثمانی سے ہٹ کر مصحف کی کتابت درست نہیں۔
مذکورہ بالا اقوال اس بات کے شاہد ہیں کہ مسالک اربعہ کے تمام فقہا رسمِ عثمانی کے التزام کے بارے میں متفقہ موقف رکھتے ہیں۔
التزامِ رسم پر سلفؒ کے اقوال
علامہ عبد الواحدبن عاشر الاندلسیؒ اپنی تصنیف ’’تنبیہ الخلّان علی الأعلان بتکمیل مورد الظمآن‘‘کا آغاز درجِ ذیل خطبہ سے فرماتے ہیں:
’’الحمد ﷲ الذی رسم الآیات القرء انیۃ علی نحو ما في المصاحف العثمانیۃ، الواجب اتباعہا في رسم کل قراء ۃ متواتر عن خیر البریۃ‘‘۔(۱۵)
قولِ باری تعالیٰ (وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ (۱۶)) کی تفسیر میں علامہ زمخشریؒ لکھتے ہیں:
’’وقعت اللام فی المصحف مفصولۃ عن ھٰذَا خارجۃ عن أوضاع الخط العربی وخط المصحف سنۃ لا تغیر‘‘۔(۱۷)
یعنی مصحف میں حرفِ لام(ل) ،کلمہ ’ھٰذا‘ سے علیحدٰہ لکھا گیا ہے جو عام رسم الخط کے خلاف ہے، لیکنِ مصحف کے رسم الخط کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔علامہ سیوطی ؒ نے امام بیہقیؒ (م۴۵۸ھ) کا ’’شعب الایمان‘‘ میں وارد قول اِن الفاظ میں نقل کیا ہے:
’’من کتب مصحفاً فینبغی أن یحافظ علی الہجاء الذی کتبوا بہ ہذہ المصاحف، ولا یخالفھم فیہ ولا یغیر مما کتبوا شیئا، فإنہم کانوا أکثر علماً، وأصدق قلباً ولساناً، وأعظم أمانۃ مِنّا فلا ینبغی أن نظن بأنفسنا استدراکا علیھم‘‘۔(۱۸)
یعنی جو شخص بھی مصحف لکھے تو اسے چاہیے کہ وہ سلف صحابہث و تابعینؒ کے ہجا کا لحاظ رکھے، اُن کی مخالفت نہ کرے ، کسی چیز کو اُن کی کتابت کے ساتھ تبدیل نہ کرے، کیونکہ وہ علم، قلب ولسان کی سچائی اور ایمانداری میں ہم سے بدرجہا بڑھ کر ہیں۔
محمد غوث الدین ارکاٹی ؒ نے رسمِ عثمانی کے التزام کے بارے میں مُلّا علی القاری ؒ کا حسبِ ذیل قول نقل کیا ہے:
’’والذی ذہب الیہ مالک ہو الحق، إذ فیہ بقاء الحالۃ الأولی، إلی أن تعلَّمہا الطبقۃ الأخری بعد الأخری، ولا شک أن ہذا ہو الأحری، إذ فی خلاف ذلک تجہیل الناس بأولیۃ ما فی الطبقۃ الأولی‘‘۔(۱۹)
علامہ نظام الدین نیشاپوریؒ التزامِ رسم کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’إن الواجب علی القراء والعلماء وأہل الکتاب أن یتبعوا ہذا الرسم فی خط المصحف، فإنہ رسم زید بن ثابت، وکان أمین رسول اﷲ ﷺ وکاتب وحیہ، وعَلِم من ہذا العلم ، بدعوۃ النبی ﷺ ما لم یعلم غیرہ، فما کتب شیئا من ذلک إلا لعلّۃ لطیفۃ وحکمۃ بلیغۃ‘‘۔(۲۰)
یعنی مصحف لکھنے کے لیے قرّ ا اور علما پر اِ س رسم کا اتباع لاز م ہے کیونکہ یہی وہ رسم ہے جس کو امینِ رسول اور کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابتصنے اختیار کیا تھا اور وہ رسول اللہ ا کے ارشاد کے مطابق ہر کسی کی نسبت اس سے مکمل طور پر واقف تھے۔چنانچہ انہوں نے جوبھی لکھا، وہ کسی لطیف علت اور بلیغ حکمت کی بنیاد پر ہی لکھاہے۔
علامہ ابو طاہر السندی نے رسمِ عثمانی کے التزام کی چار وجوہ بیان فرمائی ہیں:
’’الراجع من ذلک قول الجمہور، وذلک لوجوہ: ۱۔إن ہذا الرسم الذی کتب بہ الصحابۃ القرآن الکریم حظي بإقرار الرسول ﷺ، واتباع الرسول ﷺ واجبٌ علی الأمۃ۔ ۲۔أجمع علیہ الصحابۃ ولم یخالفہ أحد منہم ،وکان ہذا الانجاز الکبیر الأمۃ لقولہﷺ:(علیکم بسنتیوسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین من بعدی) ۔ ۳۔ أجمعت علیہ الأمۃ منذ عصور التابعین، وإجماع الأمۃ حجۃ شرعیۃ، وھو واجب الاتباع لأنہ سبیل المومنین، قال تعالیٰ: (وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدیٰ وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَاءَ تْ مَصِیرًا)۔ ۴۔ للرسم العثمانی فوائد مہمۃ، ومزایا کثیرۃ، خاصۃ أنہ یحوی علی القراء ات المختلفۃ، والأحرف المنزلۃ ، ففي مخالفتہ تضییع لتلک الفوائد وإہمال لہا‘‘۔(۲۱)
یعنی جمہور کا مذہبِ التزام راجح ہے اور اس کی حسبِ ذیل وجوہ ہیں:
اولاً، رسول اللہا کی تقریر کے باعث صحابہ کرام ثنے اسی رسم میں قرآن مجید کی کتابت کی اور رسول اللہ ا کا اتباع امت پر واجب ہے۔ ثانیاً، اسی رسم پرعہدِ خلفا میں جماعت صحابہث کا اجماع منعقد ہوا ،کسی ایک صحابی سے بھی اس کی مخالفت منقول نہیں۔چنانچہ خلفاے راشدین کا اتباع بھی امت پر واجب ہے کیونکہ رسول اللہا کا ارشاد ہے کہ ’’تم پر میری اور میرے بعد میرے خلفاءِ راشدین مہدیین کی سنت لاز م ہے‘‘۔ ثالثاً،زمانۂِ تابعینؒ سے امت کا اسی رسم پر اجماع ہے ۔ امت کا اجماع حجتِ شرعی اورمسلمانوں کے لیے واجب العمل ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس نے ہدایت واضح ہونے کے بعد رسول اللہ اکی نافرمانی کی اور مومنین کے راستے سے ہٹ کر چلاتو ہم اس کو اسی طرف پھیر دیں گے اور اس کو جہنم میں ڈالیں گے،اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔رابعاً، رسمِ عثمانی کے بہت سے فوائد ہیں، خصوصاً یہ کہ اس میں مختلف قراء ات اور منزل من اللہ حروف شامل ہو سکتے ہیں۔ اس رسم کی مخالفت سے یہ تمام فوائدمتروک ہو جاتے ہیں۔
التزامِ رسمِ عثمانی کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ کردیؒ لکھتے ہیں:
’’فخلاصۃ ما تقدم أن الواجب علینا اتباع رسما المصحف العثماني وتقلید أئمۃ القراء ات خصوصاً علماء الرسم منہم ، والرجوع إلی دواوینہم العظام کالمقنع لأبی عمرو الدانی والعقیلۃ للشاطبی، فإن ائمۃ القراء ات المتقدمین قد حصروا مرسوم القرآن الکریم کلمۃ کلمۃ علی ہیءۃ ما کتبہ الصحابۃ فی المصاحف العثمانیۃ، ونقلوا ذلک بالسند المتصل عن الثقات العدول الذین شاہدوا تلک المصاحف‘‘۔(۲۲)
یعنی رسمِ مصحفِ عثمانی کے ساتھ ساتھ ائمۂِ قراء ات خصوصاً علمایرسم کا اتباع ہم پر واجب ہے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ اس معاملہ میں ہم ان کی عظیم تصانیف کی طرف رجوع کریں جیسے علامہ دانی ؒ کی المقنع اور علامہ شاطبی ؒ کی تصنیف العقیلہ وغیرہ۔بے شک متقدمین ائمۂِ قراء ات نے قرآنی کلمات میں سے ایک ایک کلمہ کارسم اور اس کے احکام بیان کیے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام ثنے مصاحفِ عثمانیہ میں اِن کلمات کو کتابت فرمایا۔ مزید برآں قرّ ا نے ثقہ وعادل اور مصاحفِ عثمانیہ کے عینی شاہدین سے سندِ متصل کے ساتھ اِس رسم کو نقل فرمایا ۔
فقہا اور مفسرین کے علاوہ اہلِ لغت نے بھی ہمیشہ رسمِ عثمانی کے التزام کو اختیار کیا ہے اور اسی کا حکم دیا ہے ۔ ڈاکٹرلبیب السعید نے ’’دار الکتب والوثائق القومیۃ قاہرہ‘‘ میں موجودعلامہ ابو البقاء العکبریؒ کے مخطوط ’’اللباب فی علل البناء والإعراب‘‘ کے ورق:۳۰ سے اُن کا ایک اقتباس نقل کیا ہے کہ اہلِ لغت کی ایک جماعت بھی یہی سمجھتی ہے کہ کلمہ کی کتابت اُس کے تلفظ کے مطابق ہونی چاہیے لیکن قرآنی رسم اس سے مستثنیٰ ہے :
’’ذھب جماعۃ من أہل اللغۃ إلی کتابۃ الکلمۃ علی لفظہا إلا فی خط المصحف ، فإنہم اتبعوا فی ذلک، ما وجدوہ فی الإمام ۔ والعمل علی الأول‘‘۔(۲۳)
رسمِ عثمانی کے التزام کے بارے میں محقق مناع القطان کی رائے حسبِ ذیل ہے:
’’والذی أراہ أن الرأي الثانی ہو الرأي الراجح، وأنہ یجب کتابۃ القرآن بالرسم العثمانی المعہود في المصحف۔۔۔ولو أبیحت کتابتہ بالاصطلاح الأملاءي لکل عصر لأدی ہذا إلی تغییر خط المصحف من عصر لآخر، بل إن قواعد الإملاء نفسہا تختلف فیہا وجہات النظر في العصر الواحد، وتتفاوت في بعض الکلمات من بلد آخر‘‘۔(۲۴)
یعنی میرے خیال میں التزامِ رسمِ عثمانی کی رائے راجح ہے اور اب قرآن مجید میں رسمِ عثمانی کے مطابق کتابت ہونی چاہیے۔ اگر مروّجہ املائی کتابت کے ساتھ قرآن مجید لکھنے کی اجازت دے دی جائے تو ہر زمانہ میں قرآن مجید کا رسم دوسرے زمانہ سے مختلف ہو گا، بلکہ قواعدِ املائی خود ایک ہی زمانہ میں مختلف جہات سے متغیر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ایک شہر کے مصاحف کے کلمات دوسرے شہر کے مصاحف سے مختلف ہوں گے۔
مذکورہ اقوال کے علاوہ یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ جس طرح دیگر اسلامی علوم اورورثہ کی حفاظت مسلم معاشرہ پر ضروری ہے، اسی طرح قرآن مجید سے منسوب ایک رسم اور طرزِ کتابت کی حفظ وصیانت بطریقِ اولیٰ لازمی امر ہوگا۔ (۲۵)
دورِ جدید کے علما کے فتاویٰ جات
مصری تحقیقی جریدے ’’المنار‘‘ نے ۱۹۰۹ء میں محمد رشید رضا کا فتویٰ شائع کیا جس میں ملا صادق الایمانقولی القزانی نے،جو کہ روسی ممالک میں طباعتِ مصاحف کے سلسلہ میں رسمِ مصاحف کی کمیٹی کے تفتیشی سربراہ تھے، حسبِ ذیل استفتا کیا:
’’ھل یجب اتباع الرسم العثمانی فی کتابۃ المصحف؟ أم ھل تجوز مخالفتہ للضرورۃ التی من أمثلہا: کلمۃ (ء اتٰن) فی الآیۃ ۳۶ من سورۃ النمل، حیث کُتبتْ فی المصحف العثمانی بغیر یاء بعد النون۔ وکلمات: (الأعلام)و(الأحلام)و(الأقلام)و(الأزلام)و(الأولاد)، حیث کُتبت ایضًا فی بعض المصاحف بحذف (الألف) بعد اللام؟‘‘۔(۲۶)
یعنی کیا مصحف کی کتابت کے دوران رسمِ عثمانی کی اتباع واجب ہے ؟کیا کسی ضرورت کے تحت اس کی مخالف جائز ہے؟ مثلاً:کلمہ (ء اتٰن) مصحفِ عثمانی میں نون کے بعد بغیر یاء کے لکھا ہے۔ اسی طرح دیگر کلمات مثلاً: (الأعلام) و(الأحلام) و(الأقلام) و(الأزلام) و(الأولاد)وغیرہ بعض مصاحف میں الف کے بعد لام کے حذف کے ساتھ مرسوم ہیں۔
اس کے علاوہ سائل نے محولہ بالا الفاظِ قرآنی میں الف کے بارے میں یہ وضاحت پیش کی کہ روسی شہر پیٹرزبرگ (بترسبورج) کے’’مکتبۂِ امبراطوریہ‘‘ میں محفوظ مصحفِ عثمانی میں اِن تمام الفاظ(الأعلام)،(الأحلام)، (الأقلام)، (الأزلام)اور(الأولاد) میں ’الف‘ محذوف ہیں۔(۲۷)
رسمِ مصحف کے متعلق صفر ۱۳۶۸ھ کے مجلّہ الازہر ۱۹۳۷ء میں صادر ہونے والے مصری فتویٰ میں حسبِ ذیل الفاظ بھی تھے:
’’أن المصاحف وخاصۃ فی العصر الحدیث مضبوطۃ بالشکل التام، ومذیلۃ ببیانات إرشادیۃ تیسّر للنّاس إلی حدّ ما قراء ۃ الکلمات المخالفۃ فی رسمہا للإملاء العادیّ، ثم إن رسم المصحف العثمانی لا یخالف قواعد الإملاء المعروفۃ إلا فی کلمات لا یصعب علی أحد إذا لقنہا أن ینطق بہا صحیحۃ‘‘۔(۲۸)
یعنی دورِ حاضر میں خصوصاً تمام مصاحف حرکات واعراب کے لحاظ سے مکمل ہیں اورعام املا سے مخالف کلماتِ قرآنیہ کے بارے میں لوگوں کی آسانی کے لیے ممکنہ وضاحتی بیانات سے پُر ہیں۔ مزید برآں مصحفِ عثمانی کا رسم سوائے چند کلمات کے عام قواعدِ املا کے موافق ہے،تو اِن چند کلمات کا کسی سے سیکھ کر ادا کرنا کچھ مشکل نہیں۔
علامہ محمد بن حبیب اللہ الشنقیطیؒ لکھتے ہیں:
’’ والذی اجتمعت علیہ الأمۃ: أن من لا یعرف الرسم المأثور یجب علیہ أن لا یقرأ فی المصحف ، حتی یتعلم القراء ۃ علی وجہہا ، ویتعلم مرسوم المصاحف‘‘۔(۲۹)
یعنی اِ س بات پر علماے امت کا اتفاق ہے کہ جو شخص قدیم رسمِ قرآنی سے واقفیت نہ رکھتا ہو، وہ مصحف سے دیکھ کر تلاوت نہ کرے یہاں تک کہ وہ قراء ت کے ساتھ ساتھ مصاحف کے رسم کے بارے میں بھی تعلیم حاصل کرے۔
حافظ احمد یار ؒ جامعۃ الازہر کی مجلسِ فتویٰ کا ذکران الفاظ میں کرتے ہیں:
’’الازہر کی مجلس فتوی کی طرف سے ۱۳۵۵ھ میں (بذریعہ مجلۃ الازہر) یہ فتویٰ جاری ہوا تھا کہ رسمِ عثمانی کی پابندی کے بغیر قرآن کریم کی طباعت ناجائز ہے ۔اس کے بعد سے طباعتِ مصاحف میں اس التزام کے بارے میں ایک تحریک سی پیدا ہوگئی ہے‘‘۔(۳۰)
مفتیٔ ہند مولانا محمد غنیؒ (معدنی) نے ایک استفتا کاجواب حسبِ ذیل الفاظ سے ارشاد فرمایا:
’’فإن الکتابۃ بخلاف المصاحف العثمانیۃ بدعۃ مذمومۃ وفعل شنیع باتفاق الأمۃ ‘‘۔(۳۱)
یعنی مصاحفِ عثمانیہ کے خلاف (مصاحف کی )کتابت، باتفاقِ اُمت قابلِ مذمت بدعت اور برا کام ہے ۔
الغرض علماے سلف کی طرح دورِ جدید کے جیّد علما ومحققین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ دورِ حاضر میں مصاحف کی کتابت وطباعت کے دوران رسمِ عثمانی کا اتباع ہی لازمی وضروری ہے ۔
رسم عثمانی کے عدم التزام کا موقف
عربی زبان سمیت دنیاکی ہر زبان ارتقا کا سفر جاری رکھتے ہوئے اپنے اندر کئی تبدیلیوں کی متحمل رہتی ہے اور اس کا رسم الخط بھی جدّت کا متقاضی رہتا ہے۔ مرورِ زمان کے ساتھ زبانو ں اور ان کے رسم الخط کی تبدیلی کالوگوں کے مزاج وفہم پر اثر انداز ہونا ایک لازمی امر ہے۔ اِ س پہلو کے پیش نظر بعض اہل علم نے یہ رائے اختیار کی ہے کہ مصاحف کی طباعت و کتابت میں رسمِ عثمانی کی پابندی کو ترک کرتے ہوئے بعد کے ادوار میں منضبط ہونے والے عربی قواعدِ املا پر عملدرآمد ہونا چاہیے، کیونکہ کیونکہ قرآن کی تلاوت میں لوگوں کی آسانی کے لیے قدیم رسمِ قرآنی میں تبدیلی لازم ہے۔
علماے سلف میں سب سے پہلے سلطان العلماء العز بن عبد السلامؒ (م۶۶۰ھ) نے اسی بنیاد پر رسمِ عثمانی سے اجتناب کی تلقین کی(۳۲)۔علامہ العزبن عبدالسلامؒ کے اِ س موقف کو علامہ قسطلانی ؒ (۳۳)اور علامہ الدمیاطی ؒ (۳۴) کے علاوہ علامہ زرکشی ؒ نے اِن الفاظ میں ذکر کیاہے:
’’قال الشیخ عزالدین بن عبد السلام : لا تجوز کتابۃ المصحف الآن علی الرسوم الأولیٰ باصطلاح الأئمۃ لئلا یوقع فی تغییر الجھال‘‘۔ (۳۵)
یعنی اب قرآن مجید کی کتابت ائمۂِ رسم کے اختیار کردہ رسم الخط پر جائز نہیں کیونکہ اس سے جاہل لوگوں کے سنگین غلطی میں مبتلاہونے کا اندیشہ ہے۔ واضح رہے کہ علامہ عزالدین بن عبد السلامؒ امت کے معاملہ میں تیسیر وسہولت کے قائل تھے۔ جیسا کہ علامہ غانم نے اس کا ذکر کیا ہے:
’’ولیس غریبا علی الإمام العز مثل ھذا الرأي الذی تفرد بہ فھو صاحب نظریۃ المصالح، فالشریعۃ ’’کلہا مصالح ، إمّا تدرا مفاسد أو تجلب مصالح‘‘، وقد أداہ اجتہادہ أن فی مذہبہ مصلحۃ وتیسیراً علی الأمۃ‘‘۔(۳۶)
یعنی امام عزالدین بن عبد السلامؒ کی یہ منفرد رائے باعث تعجب نہیں کیونکہ وہ نظریۂ مصالح کے علمبردار ہیں جس کی رو سے شریعت تمام کی تمام مصالح پر مبنی ہے، خواہ وہ مفاسد کو دور کرنے کا معاملہ ہو یا کسی مصلحت کے حصول کا۔انہوں نے اپنے مذہب کے مطابق مصلحت اور امت پر آسانی کے پیش نظر اجتہاد ی موقف اختیارکیا ہے۔ تاہم علما میں کوئی قابلِ ذکر نام ایسا نہیں جس نے اِس رائے سے اتفاق کیا ہو۔ چنانچہ رسمِ عثمانی سے پرہیز اور اس کے عدمِ التزام کا نظریہ صرف علامہ عزالدین بن عبد السلام کے ایک قول کے سہارے پر کھڑا ہے جو کہ علماءِ امت کے اجماع کے مقابلے میں متروک العمل ٹھہرتا ہے۔
مذکورہ زاویہ نگاہ کے حامل بعض افراد نے قدرے اعتدال کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسم عثمانی کی خلاف ورزی کو ’ضروری‘ کے بجائے صرف ’جائز ‘قرار دیا ہے۔ اِس ضمن میں سب سے پہلے قاضی ابو بکر الباقلانیؒ نے مستعمل طریقۂِ املا میں مصاحف کی کتابت کے جواز کا فتویٰ دیا۔ ان کے نزدیک کسی دلیلِ قطعی سے امّت کے لیے کوئی متعین رسم الخط مخصوص ومشروع نہیں کیا گیا۔ علامہ زرقانی ؒ نے الانتصار کے حوالے سے قاضی ابوبکر الباقلانی ؒ کادرجِ ذیل قول نقل کیا ہے:
’’وأما الکتابۃ فلم یفرض اﷲ علی الأمۃ فیہا شیئا، إذ لم یأخذ علی کُتّاب القرآن وخُطّاط المصاحف رسماً بعینہ دون غیرہ أوجبہ علیہم وترک ما عداہ۔۔۔ وکان الناس قد أجازوا ذلک وأجازو أن یکتب کل واحد منہم بما ہو عادتہ ، وما ہو أسہل وأشہر وأولیٰ، من غیر تاثیم ولا تناکر، علم أنہ لم یؤخذ فی ذلک علی الناس حدٌّ مخصوص کما أخذ علیہم فی القراء ۃ والأذان۔ والسبب فی ذلک أن الخطوط إنما ھی علامات ورسوم تجری مجری الإشارات والعقود والرموز، فکل رسم دالٌّ علی الکلمۃ مفیدٍ لوجہ قراء تہا تجب صحتہ وتصویب الکاتب بہ علی أی صورۃ کانت۔ وبالجملۃ فکل من ادّعی أنہ یجب علی الناس رسم مخصوص وجب علیہ أن یقیم لحجۃ دعواہ۔ وانی لہ ذلک‘‘۔ (۳۷)
علامہ زرقانی، مذکورہ رائے پر مناقشہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذکورہ رائے کئی وجوہ سے قابلِ قبول نہیں۔ مثلاً علامہ باقلانی ؒ کی رائے کے مقابلہ میں سنت اور اجماعِ صحابہث کے علاوہ جمہور علما کے اقوال موجودہیں۔قاضی ابو بکر ؒ کا یہ دعویٰ بھی درست نہیں کہ یہ سنت سے ثابت نہیں، کیونکہ رسول اللہ انے کتّابِ وحی کو اسی رسم الخط کو اختیار کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت صنے جمعِ ابی بکرص اور پھر جمعِ عثمانی میں اسی رسم کے موافق قرآن کی کتابت کی جس کو وہ عہدِ نبوی میں استعمال کرتے تھے۔ مزید برآں اس رائے کے خلاف اجماعِ صحابہ ث کا انعقاد ہو چکا ہے اور اجماعِ صحابہث کے خلاف کسی بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔(۳۸)
عبد العزیز دباغ ؒ نے قاضی ابوبکرؒ کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’قاضی ابو بکر کا یہ کہنا کہ رسم الخط کے اتباع کا وجوب نہ کتا ب اللہ سے ثابت ہے، نہ کلام رسول سے، نہ اجماع سے، نہ قیاس سے،(لہٰذا اختیار ہے کہ جس طرح چاہے لکھے)،صحیح نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:جو کچھ بھی تم کو رسول ادیں، وہ لو اور جس سے منع فرمائیں، اس سے باز آؤ۔ اور یہ واضح ہو چکا کہ رسم الخط توقیفی ہے ،صحابہ ثکا وضع کردہ نہیں(لہٰذا رسول اکا دیا ہوا ہے اور اس کا لینا واجب ہے)۔ اور اگر یہ شبہ کرو کہ حضرت ؐنے اس طریق پر کتابتِ قرآن کا حکم نہیں فرمایا ،تو آپ کے زمانہ میں صحابہ ثکا اس طریق پر لکھنا اور حضرت ؐ کا اس کو قائم وبرقرار رکھنا ہی ]سنتِ تقریری کے ذریعے[حکم کے درجہ میں ہے‘‘۔ (۳۹)
جامعۃ الازہر کی مجلسِ فتویٰ نے بھی علامہ ابو بکر الباقلانی ؒ کی رائے کو ضعیف قرار دیتے ہوئے کتابتِ مصحف میں رسمِ عثمانی کے التزام کا حکم دیا ہے:
’’أما ما یراہ أبو بکر الباقلانی من أن الرسم العثماني لا یلزم أن یتبع فی کتابۃ المصحف فھو رأي ضعیف۔ لأن الأئمۃ في جمیع العصور المختلفۃ درجوا علیٰ التزامہ في کتابۃ المصحف، ولأن سدّ ذرائع الفساد مہما کانت بعیدۃ أصل من أصول الشریعۃ الإسلامیۃ التي تبني الأحکام علیہا وما کان موقف الأئمۃ من الرسم العثماني إلا بدافع ہذا الأصل العظیم مبالغۃ في حفظ القرآن وصونہ‘‘۔(۴۰)
یعنی ابو بکر الباقلانی ؒ کی کتابتِ مصحف میں رسمِ عثمانی کا اتباع لازم نہ ہونے کی رائے ضعیف ہے کیونکہ تمام ادوار میں علماے امت نے کتابت مصحف کے لیے رسمِ عثمانی کے التزام کو ہی ترجیح دی ہے۔ ممکنہ فساد کے اسباب کا تدارک ہی شریعت کا اصل الاصول ہے، جس پر احکام کا مدار ہے۔ رسمِ عثمانی کے بعینہ التزام کے بارے میں ائمہ کا موقف بھی قرآن کی حفظ وصیانت کے اسی مقصدِ عظیم کے لیے ہے ۔
قاضی ابو بکر الباقلانی ؒ کے علاوہ علامہ ابن خلدون نے بھی رسمِ عثمانی کی مخالفت کو جائز قرار دیا ہے۔مقدمہ میں رقمطراز ہیں:
’’ولا تلتفتن فی ذلک إلی ما یزعُمہ بعض المغفّلین من أنہم کانوا محکمین لصناعۃ الخط، وأن ما یُتخیل من مخالفۃ خطوطہم لأصول الرسم لیس کما یُتخیّل، بل لکلہا وجہ۔۔۔الخ‘‘۔ (۴۱)
لیکن علماے رسم نے علامہ ابن خلدون کی رائے سے بھی اتفاق نہیں کیا۔ علامہ المارغنی ؒ لکھتے ہیں:
’’لا یجوز لأحد أن یطعن في شئ مما رسمہ الصحابۃ فی المصاحف، لأنہ طعن في مجمع علیہ، ولأن الطعن في الکتابۃ کالطعن في التلاوۃ وقد بلغ التہور ببعض المؤرخین الی أن قال في مرسوم الصحابۃ ما لا یلیق بعظیم علمہم الراسخ وشریف مقامہم الباذخ فإیاک أن تغتر بہ‘‘۔ (۴۲)
قاضی ابو بکر الباقلانی ؒ اور علامہ ابن خلدون کے اقوال کی بنیا د پر بعض علما کا موقف ہے کہ خواص اور اہلِ علم کے لیے تو اس کا التزام ضروری ہے لیکن عوام کے لیے رسمِ عثمانی کی بجائے مروّجہ رسم میں مصاحف کی کتابت وطباعت جائز ہے۔ (۴۳)
علامہ ابو طاہر السندیؒ اس نظریہ کے قائلین کا موقف نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وذھب بعض المتأخرین وبعض المعاصرین الی وجوب کتابۃ المصاحف للعامۃ بالقواعد الإملائیۃ، ولکن تجب المحافظۃ عندھم علی الرسم العثماني القدیم کأثر من الآثار الإسلامیۃ النفیسۃ الموروثۃ عن السلف الصالح، فمن ثَمّ تکتب مصاحف لخواص الناس بالرسم العثماني‘‘۔ (۴۴)
یعنی بعض متاخرین اور دورِ حاضر کے محققین نے املا کے عام قواعد کے تحت مصاحف کی کتابت کو ضروری قرا ردیا ہے،لیکن ان کے نزدیک قدیم رسمِ عثمانی کی حفاظت بھی ضروری ہے کیونکہ وہ ماثور اور پرانے اسلامی آثار میں سے سلفِ صالح کی ایک نفیس علامت ہے۔ چنانچہ خاص لوگوں کے لیے رسمِ عثمانی کے مطابق ہی مصاحف لکھے جائیں۔
علامہ عبد العظیم الزرقانی ؒ اس رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’وہذا الرأي یقوم علی رعایۃ الاحتیاط للقرآن من ناحیتین:
۱۔ ناحیۃ کتابتہ فی کل عصر بالرسم المعروف فیہ إبعاد للناس عن اللبس والخلط فی القرآن۔
۲۔ وناحیۃ إبقاء رسمہ الأول المأثور، یقرؤہ العارفون بہ ومن لا یخشی علیہم الإلتباس‘‘۔(۴۵)
غالباً اسی نظریہ سے متاثر ہونے اور اسی رفعِ التباس کی بنا پر ہی اہلِ مشرق(ایشائی ممالک) میں رسمِ عثمانی کی عملاً خلاف ورزی کا رواج ہو گیا ہے، جبکہ اہلِ مغرب (افریقہ) میں رسمِ عثمانی کا التزام تاحال موجود ہے کیونکہ وہ مسلکِ مالکی کے پیروکار ہیں اور اس بارے میں امام مالک ؒ کا واضح قول ثابت ہے اور افریقہ اور مغرب میں زیادہ تر فقہ مالکی کا اتباع کیا جاتا ہے۔ (۴۶)
اہل مشرق (خصوصاً برصغیر پاک وہند)میں کتابتِ مصاحف کے حوالے سے رسمِ عثمانی کی خلاف ورزی کی مثالیں زیادہ ملتی ہیں جس کی بڑی وجہ نقل صحیح کا التزام کرنے کے بجائے حافظہ و قیاس سے کام لینا ہے۔ پیشہ ورانہ عجلت بھی اس کاباعث بنتی ہے جس کابڑاسبب کاتبین کی رسمِ عثمانی سے ناواقفیت اور کتابت کی ماہرانہ نگرانی اور پڑتال کا فقدان ہے۔ مصاحف کی تصحیح کرنے والے حضرات بھی رسم کی اغلاط سے یا تو خود بے خبر ہوتے ہیںیا رسم کے بجائے حرکات کی اغلاط پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ نظری حد تک لوگ ہمیشہ رسمِ عثمانی کے التزام کے قائل رہے ہیں، بلکہ محتاط کاتب نقل صحیح کی پابندی بھی کرتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ منقول عنہ نسخہ میں ہی اغلاط موجود ہوں۔(۴۷)
دورِ حاضر میں رسمِ عثمانی کے بجائے رسمِ املائی میں کتابتِ مصاحف کے جواز کی سب سے بڑی وجہ عوامی سہولت بیان کی جاتی ہے، لیکن جن لوگوں نے دورِ حاضر میں عوام کی سہولت کی خاطر جدید رسمِ املائی کے مطابق مصاحف کی کتابت و طباعت کو ضروری قرار دیا ہے، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ التباس و اشتباہ عوام کے بجائے پڑھے لکھے طبقہ کے مسائل میں سے ہے کیونکہ عوام کے لیے کسی استاد سے زبانی طور پر قرآن سیکھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر عام آدمی رسمِ املائی کو بھی غلط طریقہ پر ادا کر سکتا ہے۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ احمد یارؒ لکھتے ہیں:
’’عوام کے بجائے عرب ممالک کے خواندہ لوگوں کے لیے رسم الخط کی ثنویت (روز مرہ میں رسمِ قیاسی اور تلاوت میں رسمِ عثمانی سے واسطہ پڑنا) التباس اور صعوبت کا باعث بنتی ہے ۔ ورنہ دنیا میں لاکھوں (بلکہ شاید) کروڑوں ایسے مسلمان ہیں جو اسی رسم عثمانی کے مطابق لکھے ہوئے مصاحف سے اپنے علاقے میں رائج علاماتِ ضبط کی بنا پر ہمیشہ درست تلاوت کرتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں ’’عوام‘‘ کا نام تو محض ایک نعرہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، ورنہ ضرورت تو پڑھے لکھے عربی دانوں کو رسمِ قرآن سے شناسا کرنے کی ہے ۔ رسمِ قرآنی کو ترک کر دینا اس کا کوئی علاج نہیں بلکہ اس کے مفاسد بہت زیادہ ہیں جبکہ رسمِ عثمانی کے التزام میں متعدد علمی اور دینی فوائد کا امکان غالب ہے‘‘۔(۴۸)
لہٰذا مناسب یہ ہے کہ عوام الناس کو رسمِ عثمانی اور اس کے رموز وفوائد اور خصوصیات سے روشناس کرایا جائے اور سرکاری سرپرستی میں اس کے التزام کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں۔ (۴۹)
رسمِ عثمانی کے متعلق مذکورہ دونوں نظریہ ہائے عدمِ التزام کا ردّ کرتے ہوئے علامہ السندیؒ لکھتے ہیں:
’’أما ما ذہب إلیہ أصحاب المذہبین الآخرین ، فیمکن الرد علیہم:
۱۔ فیہما مخالفۃ لإجماع الصحابۃ والتابعین وأہل القرون المفضلۃ۔
۲۔ القواعد الإملائیۃ العصریۃ عرضۃ للتغییر والتبدیل فی کل عصر، وفی کل جیل، فلو أخضعنا رسم القرآن الکریم لتلک القواعد لأصبح القرآن عرضۃ للتحریف فیہ۔
۳۔ الرسم العثماني لا یُوقع الناس في الحیرۃ والإلتباس، لأن المصاحف أصبحت منقوطۃ مشکلۃ بحیث وُضعت علامات تدل علی الحروف الزائدۃ، أو الملحقۃ بدل المحذوفۃ، فلا مخافۃ علی وقوع الناس فی الحیرۃ والإلتباس‘‘۔(۵۰)
یعنی مؤخر الذکر دونوں مذاہب اس لیے ناقابل قبول ہیں کہ اوّلاً، رسمِ عثمانی کی مخالفت میں صحابہث ،تابعینؒ اور قرون مقدّسہ کے اجماع کی مخالفت لازم آتی ہے۔ ثانیاً،جدید قواعدِ املائیہ ہر زمانہ اور ہر نسل میں تغیروتبدل کا شکار رہے ہیں۔ اگر ہم قرآنی رسم کو اِن قواعد کے مطابق لکھنے کی اجازت دے دیں تو اس سے قرآن میں تحریف کا باب کھل جائے گا۔ ثالثاً،التباس اور لوگوں کی پریشانی کا باعث رسمِ عثمانی نہیں کیونکہ اب مصاحف منقوط ہیں اور ایسی علامات وضع ہو چکی ہیں جو کہ زائدیا محذوف حروف کے بدلے اضافی حروف پر دلالت کرتی ہیں۔لہٰذا اب لوگوں کی پریشانی اور التبا س کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔
مفتی محمد شفیع ؒ عوام الناس کی اس مشکل کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’الغرض اوّل تو یہ مشکلات محض خیالی ہیں۔ ان کو مشکل تسلیم کرنا ہی غلطی ہے اور بالفرض تسلیم بھی کیا جائے تو ہر مشکل کا ازالہ ضروری نہیں۔ یوں تو نماز روزہ وغیرہ ،ارکانِ اسلام سب ہی کچھ نہ کچھ مشکل اپنے اندر رکھتے ہیں‘‘۔ (۵۱)
رسمِ عثمانی کے مخا لف متجددین
علماے سلف میں سے جن لوگوں نے رسمِ عثمانی کے التزام اور عدمِ التزام کے معاملہ میں جمہور علما کی رائے سے اختلاف کیا ہے، انہوں نے اپنا موقف علم و استدلال کے دائرے میں رہتے ہوئے پیش کیا ہے اور رسمِ عثمانی پر طعن وتشنیع کی روش نہیں اپنائی۔ لیکن بد قسمتی سے بعض متجددین نے رسمِ عثمانی میں خامیوں کی تلاش شروع کی اور اس کو ناقص قراردینے کے ساتھ صحابہ کرام ثکی طرف بھی ناگفتہ بہ باتیں منسوب کی ہیں۔(۵۲) اِن متجددین میں دو نام سرِ فہرست ہیں:
مصری متجدد عبد العزیز فہمي نے ’’الحروف اللاتینیۃ لکتابۃ العربیۃ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی جس کو مطبعۂ مصر نے ۱۹۴۴ء میں قاہرہ سے شائع کیا۔مذکورہ کتاب میں مصنف نے رسمِ مصحف پر کثرت سے اعتراضات کیے ہیں اور رسمِ مصحف کو ’’بدائیۃ سقیمۃ قاصرۃ‘‘(ص۲۱) (ابتدائی درجے کا، بیمار اور ناقص) جیسے الفاظ سے ذکر کیا ہے۔صفحہ ۲۳ پر رسمِ عثمانی کو غیرمعقول قرار دیتے ہوئے ’’سخیف‘‘ (بعید از عقل؍کمزور)کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس کے الفاظ ہیں:
’’ أقرر بأنی لست مکلفًا باحترام رسم القرآن، ولست الغی عقلی لمجرد أن بعض الناس أو کلہم یریدون إلغاء عقولہم، ولا یمیزون بین القرآن العظیم کلام اﷲ القدیم وبین رسمہ السخیف الذی ھو من وضع المؤمنین القاصرین‘‘۔(۵۳)
یعنی مجھے اعتراف ہے کہ میں رسم قرآنی کے احترام کا مکلف نہیں ہوں، اور اگر بعض یا سب لوگوں نے اپنی عقل سے کام لینا چھوڑ دیا ہے تو میں ایسا نہیں کر سکتا۔ یہ لوگ کلام الٰہی کے مابین جو قدیم ہے اور اس کے رسم الخط کے مابین فرق نہیں کرتے جسے ناقص اور کوتاہ صلاحیت کے اہل ایمان نے تشکیل دیا ہے۔
مزید برآں عبد العزیز فہمي نے رسمِ عثمانی کو نعوذ باللہ ایک بیماری قرار دیا ہے جس نے جدید عربیت کے حُسن کو تباہ وبرباد کر دیا ہے ۔ اس کے الفاظ ہیں:
’’إنہ سرطان أزمن، فشوہ منظر العربیۃ، وغشّی جمالہا ، ونفّر منہا الولی القریب والخاطب الغریب، وإذ أقول (سرطان) فإنی أعنی ما أقول ، کالسرطان حسّا ومعنی‘‘۔(۵۴)
یعنی یہ مزمن سرطان ہے جس نے عربی زبان کے ظاہری حسن وجمال کو بد شکل بنا دیا ہے اور اس سے دوستوں اور دشمنوں، دونوں کو متنفر کردیا ہے۔ میں نے اس کے لیے سرطان کا لفظ استعمال کیا ہے تو اس سے میری مراد سرطان ہی ہے، کیونکہ یہ ظاہری اور معنوی ہر لحاظ سے ایک سرطان ہے۔
رسمِ مصحف کے جدید معترضین میں سے دوسرا بڑا نام ابن الخطیب محمد محمد عبد اللطیف کا ہے جس نے ’’الفرقان‘‘ نامی کتاب تصنیف کی۔جس کوپہلی بار دارالکتب المصریہ نے قاہرہ سے ۱۹۴۸ء میں شائع کیا۔ موصوف لکھتے ہیں:
’’لما کان أہل العصر الأول قاصرین فی فن الکتابۃ ، عاجزین في الإملاء، لأمیتہم وبدواتہم، وبعدہم عن العلوم والفنون ، کانت کتابتہم للمصحف الشریف سقیمۃ الوضع غیر محکمۃ الصنع، فجاء ت الکتبۃ الأولی مزیجاً من أخطاء فاحشۃ ومناقضات متباینۃ في الھجاء والرسم‘‘۔(۵۵)
یعنی عصرِ اول کے لوگ ،اپنے اَن پڑھ اور بدوی ہونے کے لحاظ سے، فنِ کتابت سے قاصر اور علوم وفنون سے بے بہرہ تھے۔ مصحف میں کی گئی ان کی کتابت، وضع کے اعتبار سے سقیم اور مہارت کے اعتبار سے غیر محکم ہے۔ لہٰذا پہلی کتابت کے ہجا ورسم میں فاحش اغلاط اور متباین مناقضات شامل ہیں۔
ڈاکٹر لبیب السعید، ابن الخطیب کا ایک اقتباس یوں نقل کرتے ہیں:
’’(إنہ) یقلب معانی الألفاظ ، ویشوھہا تشویہا شنیعاً، ویعکس معناہا بدرجۃ تکفّر قاریہ، وتحرّف معانیہ، وفضلاً عن ہٰذا ، فإن فیہ تناقضاً غریباً وتنافراً معیباً لا یمکن تعلیلہ، ولا یستطاع تأویلہ‘‘۔ (۵۶)
یعنی یہ رسم الفاظ کے معانی کو بدلنے کا سبب ہے ، شکل و صورت کے لحاظ سے بُرا، معنی کو اِس حد تک بدلنے والا کہ اس کا پڑھنے والا کافر ٹھہرے اور اس کے معنی بدل جائیں۔ مزید برآں اس رسم میں عجیب وغریب قسم کا تناقض و اختلاف پایا جاتا ہے جو اتنا معیوب ہے کہ اس کی توجیہ وتاویل کسی طرح ممکن نہیں۔
جولائی ۱۹۴۸ء میں صدرجامعۃالازہر کی زیر نگرانی تین علما کی قائمہ کمیٹی نے اکتالیس (۴۱)صفحات پر مشتمل ایک فیصلہ صادر فرمایا جس میں مذکورہ کتب پر پابندی عائد کرنے اور ان کو ضبط کرنے کاحکم دیا گیا۔کیونکہ وہ اسلامی اصول جن پر احکام کا مدار ہے، ان کی پاسداری اور اِ س کی مخالفت کا سدِّ باب ضروری ہے۔(۵۷)
حواشی
(۱) القسطلانی،لطائف الاشارات لفنون القرء ات: ۱؍۲۸۵
(۲) غانم قدوری،رسم المصحف :ص۱۹۹۔۔۔و۔۔۔الکردی: تاریخ القرآن وغرائب رسمہ وحکمہ:ص۱۰۳
(۳) ’’اجمع المسلمون قاطبۃ علی وجوب اتباع رسم مصاحف عثمان ومنع مخالفتہ (ثم قال) قال العلامۃ ابن عاشر ووجہ وجوبہ ما تقدم من اجماع الصحابۃ علیہ وھم زہاء اثنی عشر الفاً والإجماع حجۃ حسبما تقرر فی اصول الفقہ (النصوص الجلیلۃ:ص۲۵)‘‘۔(مفتی محمد شفیعؒ :جواہر الفقہ:۱؍۸۵)
(۴) صفحات فی علوم القراء ات:ص۱۷۸
(۵) ابن قتیبہؒ الدینوریؒ ،ابو محمد عبد اللہ بن مسلم(م۲۷۶ھ): ادب الکاتب:ص۲۵۳،ط۲،دارِ احیاء التراث العربی ، بیروت، ۱۹۷۰ء
(۶) السیوطیؒ : الاتقان فی علوم القرآن: ۴؍۱۴۶،ط۱،مکتبہ ومطبعۃ المشہد الحسینی،قاہرہ،۱۹۶۷ء،تحقیق:محمد ابوالفضل ابراہیم) ۔۔۔صفحات فی علوم القراء ات:ص۱۷۸۔۔۔’’والفقہاء مجمعون ، أو کالمجمعین علی ہذا الرسم‘‘۔(الجمع الصوتی الاول:ص۲۹۸)
(۷) الحدادؒ :محمد بن علی بن خلف الحسینی: إرشاد الحیران إلی معرفۃ ما یجب فی رسم القرآن:ص۴۱،مطبعۃ المعاہد بالجمالیۃ، قاہرہ، ۱۳۴۲ھ
(۸) احمد بن المبارک: الإبریز: ص۵۹، ط۱، المطبعۃ الازہریۃ،مصر،۱۳۰۶ھ۔۔۔ الکردی:تاریخ القرآن:ص۱۰۴۔۔۔التھانوی:اظہار احمد ،الاستاذ الجلیل(م ۱۴۱۲ھ):ایضاح المقاصد شرح عقیلۃ اتراب القصائد فی علم الرسم:ص۱۱،قراء ت اکیڈمی، لاہور۔ س ۔ن۔۔۔ابو طاہر السندی،صفحات فی علوم القراء ات:ص۱۷۹
(۹) الدانی:ابو عمرو عثمان بن سعیدؒ (م ۴۴۴ھ): المقنع فی رسم مصاحف الامصار:ص۹ ۔۱۰،تحقیق: محمدالصادق قمحاوی، مکتبۃ الکلیات الازہریۃ، قاہرہ
(۱۰) الزرقانی ،مناہل العرفان:۱؍۳۷۲
(۱۱) مرجعِ سابق۔۔۔الزرکشی،البرہان فی علوم القرآن:۱؍۳۷۹
(۱۲) حمودہ،عبدالوہاب: القراء ات واللہجات:ص۱۰۲،ط۱،مکتبۃ النہضۃ المصریۃ،قاہرہ،۱۳۶۸ھ؍۱۹۴۸ء
(۱۳) الزرقانی،مناہل العرفان:۱؍۳۷۲
(۱۴) مرجعِ سابق
(۱۵) الشیخ عبد الواحد بن عاشر الاندلسیؒ :تنبیہ الخلان علی الاعلان بتکمیل مورد الظمآن :ص۱،ط۱،دارالکتب العلمیۃ،بیروت، ۱۴۱۵ھ؍۱۹۹۵ (نوٹ:مذکورہ کتاب علامہ المارغنیؒ کی تصنیف ’’دلیل الحیران‘‘ کے آخر میں بھی منسلک ہے)
(۱۶) سورۃ الفرقان:۷
(۱۷) جار اللہ ابو القاسم محمود بن عمر الزمخشریؒ (م۵۳۸ھ) : الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل وعیون الاقاویل فی وجوہ التأویل: ۳؍۲۰۹، ط۲، المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ، القاہرۃ، ۱۹۵۳ء
(۱۸) الاتقان فی علوم القرآن:۴؍۱۴۶۔۔۔البرہان فی علوم القرآن:۱؍۳۷۹۔۔۔الکردی :تاریخ القرآن وغرائب رسمہ وحکمہ:ص۱۰۳ ۔۔۔لطائف الاشارات لفنون القراء ات:۱؍۲۷۹
(۱۹) محمد غوث ناصر الدین محمد نظام الدین النائطی الارکانی: نثر المرجان فی رسم نظم القرآن:۱؍۱۰، مطبعۃ عثمان پریس،حیدرآباد دکن،۱۳۱۳ھ
(۲۰) غرائب القرآن ورغائب الفرقان:۱؍۴۰۔۔۔الزرکشی،البرہان فی علوم القرآن:۱؍۳۸۰میں بھی اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔
(۲۱) صفحات فی علوم القراء ات:ص۱۸۰و۱۸۱
(۲۲) تاریخ القرآن وغرائب رسمہ وحکمہ:ص۱۱۱
(۲۳) الجمع الصوتی الاول:ص۲۹۸
(۲۴) مباحث فی علوم القرآن:ص۱۴۹
(۲۵) ’’یہ’حفاظتِ ورثہ‘ والی بات جذباتی ہی نہیں اپنے اندر ایک تہذیبی بلکہ قانونی اہمیت بھی رکھتی ہے۔ برسبیل تذکرہ مصر کے ایک ناشر کے خلاف رسمِ قیاسی کے ساتھ لکھا ہوا ایک مصحف چھاپنے پر مقدمہ چلا۔ عدالت نے ناشر کے خلاف فیصلہ دیا اور نسخہ کی ضبطی کاحکم جاری کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں ایک ’نقطۂِ توجہ‘ یہ لکھا کہ((آثارِ سلف کی حفاظت ترقی یافتہ اقوام کا فریضۂ اولین ہے))۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز شیکسپئر (یا دوسرے قدیم شعراء مثل چوسروغیرہ) کا کلام انہی کے زمانے کے ہجاء وغیرہ کے ساتھ چھاپنا ضروری خیال کرتے ہیں اور وہ کسی طابع یا ناشر کو اس کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ تین چار سو سال میں انگریزی زبان بدل کر کچھ سے کچھ ہو چکی ہے تو پھر قرآن کے بارے میں یہ اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟‘‘۔(قرآن وسنت چند مباحث(۱):ص۹۵و۹۶)
(۲۶) الجمع الصوتی الاول:ص۳۰۲
(۲۷) فتاویٰ امام محمد رشید رضا:۲؍۷۸۹ تا۷۹۴۔۔۔بحوالہ:مرجعِ سابق
امام محمد رشید رضا نے پانچ نکات پر مشتمل جو جواب صادر فرمایا اس کامتن یوں ہے:
’’(۱) أن الاسلام یمتاز علی جمیع الادیان بحفظ أصلہ منذ الصدر الأول، وأن التابعین وتابعیہم وائمۃ العلم أحسنوا باتّباع الصحابۃ فی رسم المصحف، وعدم تجویز الکتابتہ بما استحدث الناس من فنّ الرسم ، وإن کان أرقی مما کان علیہ الصحابۃ، إذ لو فعلوا لجاز أن یحدث اشتباہ فی بعض الکلمات باختلاف رسمہا وجہل أصلہا۔
(ب) وأن الاتباع فی رسم المصحف یفید مزید ثقۃ واطمئنان فی حفظہ کما ہو، وفی إبعاد الشُبہات أن تحوم حولہ، وفی حفظ شئ من تاریخ الملۃ وسلف الأمۃ کما ہو۔
(ج) وأنہ کنصّ الفتویٰ لو کان لمثل الأمۃ الإنکلیزیۃ ہذا الأثر لما استبدلت بہ ملک کسری وقیصر، ولا أسطول الألمان الجدید الذی ہو شغلہا الشاغل الیوم۔
(د) وأن ما احتج بہ العز بن عبد السلام لما رآہ من (عدم جواز کتابۃ المصاحف الآن علی المرسوم الاول خشیۃ الالتباس، ولئلا یوقع فی تغییر من الجہّال) لیس بشئ ، لأن الاتباع إذا لم یکن واجباً فی الأصل وھو ما لا ینکرہ فترک الناس لہ لا یجعلہ حرامًا أو غیر جائز لما ذکرہ من الالتباس۔
(ھ) وأن الحلّ لکل العُقد فی مشکلات الرسم التی تواجہ السائل ہو فی الرجوع إلی طبعۃ المصحف الصّادرۃ فی سنۃ ۱۳۰۸ھ من مطبعۃ محمد أبی زید بمصر، فقد توقف علی تصحیح ہذہ الطبعۃ وضبطہا الشیخ رضوان بن محمد المخلانی أحد علماء ہذا الشأن وصاحب المصنفات فیہ، والذی وضع للطبعۃ مقدمۃ شارحۃ ونافعۃ‘‘۔
(۲۸) نفس المصدر:ص۳۰۳
(۲۹) محمد بن حبیب اللہ الشنقیطیؒ : إیقاظ الأعلام لوجوب اتباع رسم المصحف الإمام:ص۱۶، ط۱، مطبعۃ المعاہد بالجمالیۃ قاہرہ،مصر،۱۳۴۵ھ
(۳۰) قرآن وسنت چند مباحث(۱):ص۹۷
(۳۱) بحوالہ:جواہر الفقہ از مفتی محمد شفیعؒ :۱؍۹۳
(۳۲) قاضی عبد الفتاح نے الشیخ حسین والی اؒ ور احمد حسن زیات ؒ کو بھی اِسی نظریہ کے قائلین میں شمار کیا ہے۔۔۔۔ملاحظہ ہو:القاضی عبدالفتاح: تاریخ المصحف الشریف:ص۸۲، مطبعۃ المشہد الحسینی، القاہرۃ
(۳۳) القسطلانی :شہاب الدین احمد بن محمدبن ابی بکر: لطائف الاشارات لفنون القراء ات: ۱؍۲۷۹،المجلس الاعلیٰ للشؤن الاسلامیہ، قاہرہ، ۱۹۷۲ء
(۳۴) الدمیاطی البناء،اتحاف فضلاء البشر:ص۹
(۳۵) مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو:الزرکشیؒ ،بدرالدین محمد بن عبد اللہ بن بہادر(م۷۹۴ھ): البرہان:فی علوم القرآن :۱؍۳۷۹،دار احیاء الکتب العربیۃ ،قاہرہ، ۱۹۵۷ء:
(۳۶) غانم قدوری الحمد: رسم المصحف دراسۃ لغویۃ تاریخیۃ: ص۲۰۱،ط۱، اللجنۃ الوطنیۃ للأحتقال، بغداد، عراق، ۱۴۰۲ھ؍ ۱۹۸۲ء
(۳۷) الزرقانی:الشیخ محمد عبد العظیم : مناہل العرفان فی علوم القرآن: ۱؍۳۷۳۔۳۷۴،دار احیاء الکتب العربیۃ عیسیٰ البابی الحلبی،قاہرہ،۱۹۴۳ء
(۳۸) مرجعِ سابق
(۳۹) احمد بن المبارک: الإبریز: ص۱۱۶، ط۱، المطبعۃ الازہریۃ،مصر،۱۳۰۶ھ
(۴۰) الدکتور احمد مختار عمر،الدکتور عبد العال سالم مُکرم:معجم القراء ات القرآنیۃ:۱؍۴۲و۴۳،ط۱، انتشارات اسوہ (التابعۃ لمنظمۃ الاوقاف والشؤون الخیریۃ)، ایران،۱۴۱۲ھ؍۱۹۹۱ء
(۴۱) ابن خلدونؒ :عبد الرحمن المغربی(م۸۰۸ھ): کتاب العبر ودیوان المبتداء والخبرمسمّیٰ بتاریخ ابن خلدون:۱؍۷۴۷وما بعد، دارالکتاب،بیروت،۱۹۵۶ء:
(۴۲) المارغنیؒ التونسی،الشیخ ابراہیم بن احمد : دلیل الحیران علیٰ مورد الظمآن فی فنّی الرسم والضبط:ص۲۶،ط۱، دارالکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۱۵ھ؍۱۹۹۵ء
(۴۳) جیسا کہ علامہ الدمیاطی ؒ نے اِس رائے کو اِن الفاظ میں نقل کیا ہے:
’’ورأی بعضہم قصر الرسم بالاصطلاح العثمانی علی مصاحف الخواصّ، وإباحۃ رسمہ للعوامّ، بالاصطلاحات الشائعۃ بینہم‘‘۔ (اتحاف فضلاء البشر:ص۹)
(۴۴) السندیؒ ، ابو طاہر عبد القیوم: صحفات فی علوم القراء ات: ص۱۸۰،ط۱، المکتبۃ الامدادیہ ،مکہ مکرمہ، ۱۴۱۵ھ
(۴۵) الزرقانی، مناہل العرفان:۱؍۳۸۵
(۴۶) ملخص از: احمد یارؒ ، پروفیسرحافظ:قرآن وسنت۔ چند مباحث:ص۸۵،شیخ زاید اسلامک سنٹر،جامعہ پنجاب لاہور،جون ۲۰۰۰ء
(۴۷) مرجعِ سابق
(۴۸) نفس المصدر:ص۸۷
(۴۹) اس پر حافظ احمد یار مرحوم ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ مگر جدید اور قیاسی املاء کے عادی خواندہ لوگوں کے لئے رسمِ قرآنی میں کیسے سہولت پیدا کی جائے ؟ اس سوال کا ایک جواب تو دقت نظر سے اختیار کردہ علاماتِ ضبط کا نظام ہے۔ دوسرا علاج اس کا الازہر والوں نے ۱۳۶۸ھ میں ایک دوسرے فتوی کی صورت میں دیا جس کی رو سے یہ جائز قرار دیا گیا کہ اصل متن تو رسمِ عثمانی کے مطابق ہی رہے مگر نیچے ذیل(فٹ نوٹ) کے طور پر ’’مشکل‘‘ کلمات کو جدید املاء یا رسمِ معتاد کی شکل میں الگ بھی لکھ دیا جائے۔ چنانچہ عبدالجلیل عیسیٰ کے حاشیہ کے ساتھ ’’المصحف المیسر‘‘ اسی اصول پر علماء الازہر کی نگرانی میں تیار ہو کر شائع ہوا تھا۔یہ بھی اس مسئلہ کا ایک عمدہ حل ہے ۔ تاہم غالباً پاکستان میں اس کی ضرورت نہیں یہ پڑھے لکھے عربوں کا مسئلہ کا حل ہے۔ہمارے ہاں رسمِ عثمانی کا مکمل التزام درکار ہے‘‘۔ (نفس المصدر:ص۹۷و۹۸)
(۵۰) السندی ابو طاہر،صفحات فی علوم القراء ات:ص۱۸۲
(۵۱) حضرت مولانا محمد شفیع ؒ :جواہر الفقہ:۱؍۷۶،ط۱، مکتبہ دارالعلوم کراچی،جمادی الاولیٰ۱۳۹۵ھ
(۵۲) اِ س کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ غانم قدّوری لکھتے ہیں:
’’۔۔۔فإن طائفۃ من المحدثین تنسب إلی العلم أطلقت ألسنتھا تصف الرسم بما نجل الرسم والصحابۃ الذین کتبوہ عن مجرد ذکرہ، وھو إن دل علی شء، فإنما یدل علی الجہالۃ فی العلم والبلادۃ في الذہن والقصور في الادراک، إن لم یدل علی سوء النیۃ وخبث القصد والعداء لکتاب اﷲ العزیز‘‘۔(رسم المصحف:ص۲۱۱۔۲۱۲)
(۵۳) مرجعِ سابق
(۵۴) مرجعِ سابق
(۵۵) الفرقان:ص۵۷۔۔۔بحوالہ:مرجعِ سابق
(۵۶) لبیب السعید:الدکتور: الجمع الصوتی الاول للقرآن(المصحف المرتل): ص۲۹۳، ط۲، دارالمعارف القاہرۃ،س۔ن
(۵۷) غانم قدوری:رسم المصحف:ص۲۱۲۔۔۔و۔۔۔الجمع الصوتی الاول:ص۳۰۱
بائبل کا قورح ہی قرآن کا قارون ہے
ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی
محمد یاسین عابد صاحب نے ’الشریعہ‘ کے فروری ۲۰۰۶ کے شمارے میں میرے ایک مضمون’’قرآن کا نظریہ مال ودولت قصہ قارون کی روشنی میں‘‘ (الشریعہ، دسمبر ۲۰۰۵) کو تنقید سے نوازا ہے اور متعدد سوالات اٹھائے ہیں۔ افسوس کہ ان کا اندازبیاں بڑا جارحانہ اور علمی حیثیت سے گرا ہواہے ۔وہ فرماتے ہیں: ’’غالباً ڈاکٹر صاحب نے کبھی بائبل کھول کر نہیں دیکھی اور سنی سنائی اور غیر مستند معلومات کی بنیاد پر مذکورہ عبارت تورات کی طرف منسوب کر دی۔‘‘
اب میں تو کوئی جارحانہ اسلوب اختیار نہیں کرتا،ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ وہ کبھی کراچی آئیں اور میرانسخہ بائبل دیکھیں جو بیسیوں تنقیدی حواشی سے بھرا ہوا ہے۔ بائبل جس کو وہ بہت مستند اور لائق اعتماد کتاب قرار دے رہے ہیں، اس کے کچھ عجائب وغرائب شرافت ونبوت ہی کے منافی نہیں ، انسانیت کی پیشانی پر کلنک کاٹیکہ ہیں۔ ساتھ ہی یہ نسخہ ایسے حواشی سے بھرا ہو ا ہے جو بعض انبیاء علیہم السلام اور خاص طور پر موسیٰ علیہ السلام وفرعون کے قصے کے حوالے سے قرآنی بیانات سے متعلق ہیں۔ پہلی قسم کے حواشی سے قرآن کے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہود نے توراۃ میں تحریف کی ہے ،اور دوسرے قسم کے حواشی سے توراۃ کے بارے میں قرآن کے بیان ’’مصدق لما بین یدیہ‘‘ کی تصدیق ہوتی ہے۔
جناب ناقد نے یہودی قورح کے دفاع میں جو کچھ لکھا ہے اور جس طرح خود بائبل کے بیانات سے تجاہل برتاہے، اس کی امید کسی یہودی ہی سے کی جاسکتی تھی۔ اس سب کی تردید تو اپنی جگہ آئے گی،لیکن پہلا سوال یہ ہے کہ جناب ناقد نے اپنے مضمون کی ابتدا میں محمد اسلم رانا مرحوم کے پندرہ سال قبل شائع ہونے والے مضمون کو، جو قارون وقورح سے متعلق ہے، اپنی تنقید کی بنیاد بنایا ہے، جو ان کے بیان کے مطابق کسی ’’المذاہب‘‘میں چھپا تھا۔ یہ ظاہر نہ ہوسکا کہ قورح کے متعلق جوبیانات موصوف کے مضمون میں ہیں، یا اس میں بائبل کے جو حوالے ہیں، وہ مرحوم اسلم رانا صاحب کا فیضان قلم ہے ،یا جناب ناقد کی اپنی تحقیق انیق ہے۔ بہرحال انھوں نے جو سوالات اٹھائے، ان کی وضاحت ضروری ہے جو ترتیب وار عرض ہے:
ا۔ جناب ناقد کا اعتراض یہ ہے کہ میں نے قارون کو توراۃ کاقورح سمجھ رکھا ہے ،جو ان کی دانست میں غلط ہے۔ اس بارے میں عرض ہے کہ قارون کو قورح میں نے ہی نہیں سمجھ رکھاہے، بلکہ ہمار ے تمام قدیم مفسرین اور عصر حاضر کے بعض ممتاز پاکستانی وہندوستانی مترجمین ومفسرین نے بھی یہی لکھا ہے۔ جس قورح کا شجرہ نسب جناب ناقد نے بائبل سے نقل کرنے میں بڑی سر مغزی کی ہے ،یا مرحوم اسلم رانا کے مذکورہ بالا مضمون سے حرف بحرف نقل کیا ہے ،یہی شجرہ نسب ہمارے قدیم ترین عظیم مفسر، تیسری صدی ہجری کے امام طبری نے اپنی تفسیر میں سورۃ قصص کی متعلقہ آیت کے ضمن میں قارون کا دیا ہے: ’’قارون بن یصہر بن قاہث بن لاوی بن یعقوب‘‘اور یہی اپنی مشہور ومعروف تاریخ کی پہلی جلد میں قارون کے ذکر میں بیان کیا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے صحابی رسول ﷺ اور مشہور مفسر قرآن عبداللہ ابن عباسؓ اور ان کے شاگردوں مجاہد وغیرہ کے اقوال نقل کیے ہیں ،اور وضاحت کی ہے کہ یہ قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اور ان کے شاگرد تابعین کے بیانات (یعنی قارون ہی توراۃکا قورح ہے) اس لیے مستند ہیں کہ ان کا ماخذ ان یہودی علما کے اقوال وبیانات ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے، جیسے عبد اللہ بن سلام، کعب بن مالک، اور وہب بن منبہ وغیرہ۔ مزید یہ کہ انہی تابعین میں ایک مشہور تابعی ابن جریج (عبد اللہ بن عبد العزیز) ہیں جو امام ابو حنیفہ ؒ کے معاصر تھے اور جن کے دادا جریج ایک رومن عیسائی تھے۔ انہوں نے قارون کا وہی شجرہ دیاہے جو قورح کا ہے۔
یہی بات مفسر زمخشری اور قرطبی وغیرہ نے لکھی ہے ،اور بائبل کے بیانات کے مطابق قورح ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ قدیم عرب مفسرین ومورخین کے علاوہ عہد حاضر کے انگریزی مترجم ومفسر قرآن عبد اللہ یوسف علی، مولانا عبد الماجد دریابادی (انگریزی تفاسیر) اور مولانا مودودی نے بھی قارون کو بائبل کا قورح لکھا ہے۔
اب کہیں یاسین عابد صاحب یہ اعتراض نہ کر بیٹھیں کہ توراۃ کے شجرۂ نسب میں قورح کے باپ کا نام اضہار اور اس کے دادا کا نام قہات ہے، جبکہ دونوں کے نام طبری وغیرہ اسلامی ماخذ میں علی الترتیب یصہر اور قاہث ہیں۔ اس بے بنیاد ممکنہ شبہہ کے جواب میں عرض ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام توراۃ کی کتاب پیدایش میں مسلسل چھ اصحاح ( ۱۱ تا۱۶) میں ’ابرام‘ مذکور ہے اور طرفہ تماشایہ کہ اصحاح ۱۷:۵ کے بعد سے وہ ننانوے سال کی عمر میں ’’ابرام‘‘سے ’’ابراہام‘‘ ہوگئے اور اللہ نے ان کا یہ نام بدلا۔ علاوہ ازیں بائبل میں حضرت اسحاق علیہ السلام کا نام اضحاق، یونس علیہ السلام کا نام یوناہ اور یحییٰ علیہ السلام کا نام یوحنا ہے، اور انگریزی بائبل میں تو یہ نام بہت ہی مختلف ہیں۔ لوط، یعقوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون علیہم السلام کے نام علی الترتیبLot, Jacob, Joseph, Moses, Aaron لکھے ہیں۔اب یاسین عابد صاحب بتائیں کہ کیا قرآن میں مذکور انبیا اور بائبل میں مذکور یہ انبیا ایک دوسرے سے مختلف ہیں؟ ایں خیال است ومحال است وجنوں۔ قارون وقورح کے شجرۂ نسب کے ایک ہی ثابت ہونے کے بعد اس میں کوئی شک نہیں رہتا کہ قارون بائبل کاقورح ہے۔ ’قارون‘ نام، شمعو ن، شیرون کے اوزان پر عبرانی نام ہی معلوم ہوتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جیسے حضرت ابراہیم کے والد کانام قرآن میں آذر (سورۃالانعام، آیت ۷۴) اور بائبل کی کتاب پیدایش میں تارح ہے، جن کے مابین توفیق علما نے اس طرح کی ہے کہ ایک ان کا اصلی نام ہوگااور ایک عرف یا لقب، اسی طرح قارون اور قارح بھی ایک ہی شخص کے دو مختلف نام ہوں ، خاص طورپر یہ کہ ان کا شجرہ نسب ایک ہی ہے۔ یہی معاملہ قرآن کے طالوت (سورۃ البقرۃ۲۴۳) اور بائبل کے ساؤل کا ہے۔
قرآن کریم کے صریح بیانات کے مطابق توراۃ واناجیل اربعہ وغیرہ (بائبل ،عہد قدیم وعہد جدید) تحریف شدہ کتابیں ہیں: ’فَوَیْْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُونَ الْکِتَابَ بِأَیْْدِیْہِمْ ثُمَّ یَقُولُونَ ہٰذَا مِنْ عِندِ اللّہِ لِیَشْتَرُواْ بِہِ ثَمَناً قَلِیْلاً‘ (البقرۃ،۷۹) یعنی ’’ہلاکت ہے ان (یہودیوں) کے لیے جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھ لیتے ہیں، پھر کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس طریقے سے کچھ پیسے حاصل کرسکیں۔‘‘ اور دوسری جگہ ہے: ’یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَن مَّوَاضِعِہ‘ (النساء،۴۶) یعنی ’’وہ لوگ جو اپنے آپ کو یہودی کہنے لگے، ان میں سے کچھ لوگ (اللہ کے) کلمات ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں۔‘‘ یہ بھی ممکن ہے کہ قورح کے بارے یہودیوں نے بائبل میں تحریف کی ہو۔
قارون اور قورح کے ایک ہی شخص ہونے کے بارے میں مزید ایک بات یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مصر کے بادشاہ کا لقب قرآن وبائبل میں ’فرعون‘ مذکور ہے ۔یہ مصری لقب جو مصر کے تمام بادشاہوں کا لقب تھا،اصل میں ’’پر+عو‘‘ یا ’’فر+عو‘‘ دو لفظوں سے مرکب تھا ، جس کا معنی ہے ’’عظیم محل ‘‘یا قصر اعظم۔ انگریزی نام Pharoahمیں لفظ کی اصل مصری صورت بڑی حد تک باقی ہے۔ لفظ فرعون کی یہ تشریح مصر قدیم سے متعلق کتابوں اور خاص طورپر موسسہ فرانکلین کی طرف سے شائع ہونے والی یک جلدی ضخیم انسائیکلوپیڈیا ’الموسوعۃ العربیۃ المیسرۃ‘ میں ہے جو ممتاز مصری مورخین ومحققین وماہرین آثار کے قلم سے ہے۔ اس میں لفظ کی مذکورہ بالا تشریح کے بعد لکھا ہے کہ یہ لفظ ’’پرعو‘‘ شاہی قصر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ پھر خود مصر کے بادشاہوں کے لیے استعمال ہونے لگا، جس طرح ’’الباب العالی‘‘ (بلند دروازہ، Sublime Porte) کا اطلاق ترکی سلاطین پر ہوتاہے۔ (المو سوعۃ العربیۃ المیسرۃ، قاہرہ ۱۹۶۵ء، ص ۱۲۹۰)
۲۔ قورح کی فراوانی دولت سے متعلق میں نے ایک اقتباس بائبل کا حوالہ دے کر نقل کیا تھا۔ اس پر جناب ناقد صاحب کا ارشا د ہے: ’’یہ عبارت بھی گنتی باب ۱۶ میں نہیں ہے بلکہ ہمیں تو پوری کوشش کے باوجود پوری بائبل میں کہیں نہیں مل سکی۔ غالباً ڈاکٹر صاحب نے کبھی بائبل کھول کر نہیں دیکھی اور سنی سنائی اور غیر مستند معلومات کی بنیاد پر مذکورہ عبارت تورات کی طرف منسوب کر دی۔‘‘
میری عربی، انگریزی واردو تصانیف پڑھنے والے جانتے ہیں کہ میں سنی سنائی معلومات درج کرنے کا خوگر نہیں۔ یاسین عابد صاحب بھی میری دو اردو کتب ’’ تحقیقات وتاثرات‘‘ اور ’’خانوادہ نبوی وعہد بنی امیہ ‘‘میں میرے انداز تحقیق کو دیکھ سکتے ہیں۔ میرا زیر بحث مضمون دروس قرآن کے ضمن میں ایک دعوتی واصلاحی نوعیت کی کاوش ہے۔ یہ قارون (قورح) سے متعلق کوئی تحقیقی مقالہ نہیں اور اہل علم میں قارون کے متعلق جو باتیں معروف ہیں (ان میں یہ بھی ہے کہ وہی بائبل کا قورح ہے) میں نے بغیر حوالے کے لکھ دی تھیں، کیونکہ بنیادی طورپر اس لیکچر (درس قرآن) میں آنے والے عام تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ اب اگر مضمون نگار صاحب نے اپنے انتہائی محدود مطالعے اور صرف بائبل یا توراۃ (جو قرآن کے مطابق تحریف شدہ ہے) پر کلی اعتماد کرتے ہوئے میری بات کو سنی سنائی اور غیر مستند سمجھا ہے تو ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ قورح کی فراوانی دولت کا بیان پہلی صدی عیسوی کے ممتاز یہودی مورخ یوسفوس (Josephus) نے اپنی مشہور کتاب Antiquities of the Jewsمیں کیا ہے جس کو مرحوم مولانا عبد الماجد دریابادی نے اپنی انگریزی تفسیر ماجدی (جلد ۳، ص ۳۵۳) میں نقل کیا ہے۔ یہ اقتباس درج ذیل ہے :
"Corah, an Hebrew of principal account, both by his family and by his wealth, saw that Moses was in an exceedingly great dignity, and was uneasy at it, and envied him at that account (he was of the same tribe with Moses, and of kin to him) being particularly grieved, because he thought he better deserved that honourable post on account of his great riches, and as not inferior to him in his birth."
’’قورح ایک ممتاز حیثیت کا یہودی تھا، اپنی خاندانی حیثیت سے بھی اور اپنی دولت کے سبب سے بھی۔ اس نے دیکھا کہ موسیٰ علیہ السلام کو انتہائی بلند عظمت حاصل تھی۔ وہ اس بات سے ناخوش تھا اور اس وجہ سے اس نے حسد کرنا شروع کردیا (وہ موسیٰ کے قبیلے ہی سے تھااور ان کا ایک قرابت دار تھا) اس کو خاص طور پر شکایت یہ تھی کہ وہ اپنی بے انتہا دولت کے سبب اور اس وجہ سے بھی کہ وہ خاندانی وجاہت میں موسیٰ سے کم نہ تھا، اس معزز منصب کا زیادہ مستحق تھا جو موسیٰ کو حاصل تھا۔‘‘(Antiquities iv.2:2)
یوسفوس کے اس بیان میں قورح کی فراوانی دولت کی طرف واضح اشارہ ہے اور وہ یہ بھی یقین کے ساتھ کہتاہے کہ خاندانی وجاہت کے ساتھ وہ اپنی کثیر دولت کے سبب اپنے آپ کو اس عالی مقام (نبوت )کا زیادہ اہل سمجھتاتھا جو موسیٰ علیہ السلام کو حاصل تھا۔ اس اقتباس میں قورح کی فراوانی دولت کا واضح ومکر ر ذکر ہے۔ یاد رہے کہ قدیم یہودی تاریخ کے بارے میں یوسفوس انتہائی مستند ماخذہے۔ اس کا پورا نام فلا فیوس یوسفوس تھا اور اس کا زمانہ ۳۷ء تا ۹۵ء ہے۔ یہودیوں نے اس کو ۶۶ء میں فلسطین کے شہر جلیلی Galili)) کا گورنر مقر ر کیا تھا۔ اس کے رومن حکومت سے اچھے تعلقات تھے۔ یہ رومابھی گیاتھا ،اور اس کو پورے رومنRoman)) شہری حقوق حاصل تھے۔ اس نے مذکورہ بالا کتاب کے علاوہ یہودیوں اور ان کی جنگوں کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ وہ یہودیوں کا ایک مذہبی رہنما (کاہن) اور مورخ وسیاستدان تھا۔اس نے یہودیوں کی مدافعت میں بہت کچھ لکھا اور ان کی تعریف میں رطب اللسان رہاہے۔ (الموسوعۃ العربیۃ المیسرۃ ،ص ۱۹۹۲)
اس سب کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ یہودی مورخ اپنے ہم قوم یہودیوں کا دشمن تھا۔یوسفوس کی یہ کتاب آسانی سے دستیاب نہیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے مولانا عبدالماجد دریابادی مرحوم کو جنہوں نے کتاب کا یہ اقتباس اپنی انگریزی تفسیر میں محفوظ کر لیا ہے۔ تما م انگریز ی تفاسیر میں ان کی یہ انگریزی تفسیر اس حیثیت سے ممتاز ہے کہ اس میں بیسیوں ایسی کتابوں کے حوالے ہیں جو ان کے ذاتی مکتبہ میں تھیں۔ اب یاسین عابد صاحب بتائیں کہ نزول قرآ ن کے پانچ سو سال پیشتر کے اس یہودی مذہبی رہنما اور مورخ نے بھی قرآنی قارون کو ذہن میں رکھ کر سنی سنائی اور غیر مستند معلومات نقل کی تھیں؟
جہاں تک تین سو بار بردار جانوروں پر قارون (قورح) کے خزانوں کی کنجیاں لادنے کاتعلق ہے تو یہودی دائرۃالمعارف Jewish Encyclopaedia(جلد ۷ ص ۵۵۶) میں مذکورہے کہ’’قورح کے خزانون کی کنجیاں تین سو خچروں پر لادی جاتی تھیں‘‘ (تفسیر ماجدی ، انگریزی vol. III, p. 353، تفہیم القرآن ،جلد سوم،ص۶۶۲)
میرا جومضمون قارون سے متعلق ’’الشریعہ ‘‘میں شائع ہوا تھا، وہ دروس قرآن کے ضمن میں ٹیپ سے نقل کردہ Transcribed)) ایک لیکچر تھا جو ہمارے دفتر کے ایک سیکرٹری نے ٹیپ سے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا تھا۔ ان کے سہو قلم سے تین سو خچروں کے بجائے تین سو اونٹ کتابت ہوگیااور چونکہ توراۃ کا ذکر اوپر چل رہاتھا، اس وجہ سے اسی کانام بجائے جیوش انسائیکلوپیڈیا کے انہوں نے لکھ دیا۔ بہر حال مصنف اس پر معذرت خواہ ہے، لیکن کتابت کی اس غلطی کے باوجود یہ حقیقت فراموش نہیں کی جاسکتی کہ مذکورہ بالادو اہم یہودی حوالوں کے پیش نظر قورح بے انتہا دولت کا مالک تھا ،خواہ اس کے خزانوں کی کنجیاں تین سو خچروں پر لادی جائیں یا تین سو اونٹوں پر، اور خواہ اس کا ذکر جیوش انسائیکلو پیڈیا میں ہو اوربائبل میں نہ ہو، کیونکہ قرآنی تاکیدات کے پیش نظر بائبل ایک تحریف شدہ کتاب ہے۔ پھر اہل علم سے یہ بات بھی پوشیدہ نہیں کہ یہودی مذہب اور تاریخ سے متعلق بعض انتہائی اہم بیانات وتفاصیل توراۃ کی شرح تلمود میں موجود ہیں جو یہودیوں کے نزدیک ایک مقدس کتاب ہے۔
جوبات میں نے Josephusکی مذکورہ بالا کتاب کے پیش نظر قورح سے متعلق لکھی تھی، وہی بات برصغیر کے عظیم عالم ومفسرّ قرآن مولانا شبیر احمد عثمانی نے سورۃ القصص کی متعلقہ آیت ۷۶ پر اپنے تفسیری حاشیے نمبر ۸ میں کہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’وہ حضرت موسیٰ وہارون کی خداداد عزت ووجاہت کو دیکھ کر جلتا اور کہتا کہ آخر میں بھی ان ہی کے چچا کا بیٹاہوں۔یہ کیا معنی کہ وہ دونوں تو نبی اورمذہبی سر دار بن جائیں ،مجھے کچھ بھی نہ ملے ۔ کبھی مایوس ہوکر شیخی مارتا کہ انہیں نبوت مل گئی تو کیا ہوا، میرے پاس مال ودولت کے اتنے خزانے ہیں جو کسی کو میسر نہیں۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے اس کی ناپاک سرشت کے اور واقعات بھی، جن کاتعلق موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اس کے حسد سے تھا، طبری ، زمخشری، رازی اور قرطبی سے نقل کیے ہیں جن سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ قارون بائبل کاقورح ہی تھا۔
۳۔ میرے مضمون میں قورح سے متعلق بیانات پر اعتراضات کے بعد، جن کا جواب دیا جا چکاہے، موصوف نے قورح کی شخصیت پر ایک صفحہ سیاہ کیا ہے۔ سب سے پہلے تو توراۃ کے حوالوں کے ساتھ اس کے باپ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا شجرہ نسب حضر ت یعقوب علیہ السلام تک دیا ہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ قورح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ اس کی چنداں ضرورت نہ تھی، کیونکہ ہمارے سب قدیم مفسرین ومورخین نے لکھاہے کہ قارون (قورح) موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ یاسین عابد صاحب چونکہ قارون اور قورح کو دو علیحدہ علیحدہ اشخاص سمجھتے ہیں، تو اب وہ قارون کا شجرہ نسب بھی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ثابت کریں، یا پھر یہ ثابت کریں کہ مورخ ومفسر امام طبری نے ،جن کے زمانے میں بغداد میں کافی یہود آباد تھے او ر جن سے مسلمانوں کامیل جول تھا، قارون کاوہ شجرہ غلط نقل کیا ہے جو بالکل قورح کے شجرہ نسب کی طرح ہے اور لاوی بن یعقوب علیہ السلام سے جاملتاہے۔ وہ تو ہرگز ان دونوں میں سے کوئی بات ثابت نہیں کرسکیں گے ،لیکن میں بائبل کے ان حافظ صاحب کو دکھاتاہوں کہ اس قورح کے شجرہ نسب میں خود بائبل میں کتنا تضاد ہے۔
موصوف نے قورح کا جو شجرہ نسب دیا ہے، وہ توراۃ کی کتاب خروج سے لیا گیا ہے۔ اس میں وہ اضہار بن قہات کا بیٹا ہے، لیکن اسی بائبل کی کتاب ۱۔ تواریخ، ۶:۲۲،۲۳ میں ہے: ’’قہات کا بیٹا عمینداب۔ عمینداب کا بیٹا قورح‘‘۔ لیجیے، توراۃ کی کتاب خروج میںیہ قورح، اضہار بن قہات کا بیٹاتھا،اب دوسری کتاب ۱۔ تواریخ میں عمینداب کا بیٹاہو گیا۔ کیا بائبل کے حافظ یاسین عابد کی نظر سے بائبل کا یہ باب اور یہ فقرہ نہیں گزرا، یا انہوں نے جان بوجھ کر تغافل کیا ہے؟ پھر یہ کہ موصوف نے قورح کے شجرہ نسب کے لیے بائبل کی کتاب خروج کے علاوہ ۱۔تواریخ ۲:۱ کاحوالہ بھی دیا ہے۔ اس مقام پر اضہار اور قہات بن لاوی یعنی قورح کے باپ کا بالکل ذکر نہیں۔ اس اصحاح کے فقرہ ۲ میں ’’دان، یوسف اور بنیمین، نفتالی، جد اور آشر‘‘ کاذکر ہے۔ اس فقرے سے پہلے فقرے میں ہے: ’’یہ بنی ا سرائیل ہیں۔ روبن، شمعون، لاوی، یہوداہ،اشکار اور زبولون۔‘‘ اس طرح ۱۔تواریخ ۲:۱،۲ میں بنی اسرائیل یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں کا ذکر ہے۔ پھر ہر بیٹے کی نسل کا ذکر ہے، اور بنی لاوی کا ذکر، جن میں سے قورح تھا، اصحاح۶میں ہے۔
اب جناب ناقد، بائبل کے حافظ بتائیں کہ بائبل سے سنی سنائی باتیں کون نقل کررہاہے؟ میں یاموصوف؟ اگر وہ انصاف پسند انسان ہیں تو یقیناًیہاں وہ مشہور مصرع پڑ ھیں گے:’’ میں الزام ان کو دیتاتھا، قصور اپنا نکل آیا‘‘۔اور قورح کے باپ کے بارے میں بائبل کے بالکل متضاد بیان پر میں کہوں گا، وصدق اللہ العظیم: ’یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَن مَّوَاضِعِہ‘ یعنی یہ (یہودی) کلمات کو ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں۔ توراۃ بلکہ پوری بائبل میں بیسیوں اور مواقع پر میں تحریف ثابت کر سکتاہوں،لیکن یہاں بائبل پرقرآن سے زیادہ اعتماد کرنے والے ناقد صاحب سے کہوں گا کہ وہ اس موضوع پر مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کی بے نظیر کتاب’’اظہار الحق‘‘ کی پہلی جلد میں دوسرا باب’’ فی اثبات التحریف‘‘ ص۳۳۵۔۵۰۸ پڑھ لیں (جدید عربی ایڈیشن، تحقیق الاستاذ عمر الدسوقی) ان کو عربی نہ آتی ہو تو اس کاترجمہ مولانا تقی عثمانی کے قلم سے بہ عنوان ’’بائبل سے قرآن تک ‘‘ پڑھ لیں، اگر چہ مجھے علم نہیں کہ انہوں نے اس کاپور ا ترجمہ کیا ہے یا ناقص۔
۴۔ قورح (سب مسلمان اہل علم کے نزدیک قرآن کاقارون) سے وہ بہت زیادہ حسن ظن رکھتے ہیں ،اور اس کی تعریف میں رطب اللسان ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں : ’’ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر ایمان رکھتا تھا، یہی وجہ تھی کہ اس نے مصر میں اپنا گھربار اور شہری حقوق وسہولیات چھوڑ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہجرت کی او ربحر قلزم کو عبور کیا۔ تمام بنی اسرائیل کی نشست وبرخاست خدا اور اس کے نبی حضر ت موسیٰ کے زیرفرمان ہی ہوتی تھی۔‘‘ (گنتی ۹:۲۳)
جو حوالہ موصوف نے بائبل کی کتاب گنتی کادیا ہے ،اس میں کہیں بھی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ قورح کی مصر سے ہجرت کا ذکر نہیں، نہ اس کے مصر میں شہری حقوق وسہولیات چھوڑنے اور نہ بحر قلزم عبور کرنے اور جنگلوں میں مارے مارے پھرنے کا ذکر ہے۔ اس مقام (گنتی ۹:۲۳) پر تو صرف یہ درج ہے کہ ’’وہ (بنی اسرائیل) خداوند کے حکم سے قیام کرتے اور خداوند ہی کے حکم سے کوچ کرتے تھے۔‘‘ بلکہ اس پورے اصحاح یا باب میں مصر سے براہ بحر قلزم ہجرت بنی اسرائیل کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ اب لمبی زبان والے جناب ناقد صاحب یہ بتائیں کہ سنی سنائی باتیں کون کر رہاہے اور کیا اب میرا یہ کہنا درست ہوگا کہ موصوف نے کبھی بائبل کھول کر دیکھی ہی نہیںیا دیکھی ہے تو وہ جان بوجھ کرغلط بیانی کررہے ہیں اور قارئین کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ یاپھر یہ علامہ صاحب یہ تو بتائیں کہ قورح، جو ان کے بقول حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لایا اور پکا اسرائیلی تھا ، اس کو مصر میں شہری حقوق کیسے مل گئے؟ اسر ائیلی تو مصر میں مبتلائے عذاب (Persecuted) تھے۔ فرعون کے دربار میں اس کے اعلیٰ مقام کا ذکر تو ہمارے مفسرین ومورخین نے کیا ہے، اس بنیادپر کہ یہ قورح وہی قارون تھا جو اپنی قوم کے خلاف فرعون کے ساتھ ہو گیا تھا، لیکن شہری حقوق حاصل ہونے کا کیا ثبوت ہے؟
۵۔ جناب ناقد بائبل (توراۃ) کی کتاب خروج ۳۲:۲۸ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’قورح، داتن، ابیرام،اون اور ان کے دوسرے ساتھی بھی ہر عمل میں اپنی قوم کے ساتھ تھے۔ بچھڑے کی پوجا کے واقعے میں یہ اشخاص شرک میں مبتلا ہونے والے گروہ کے خلاف اور حضرت موسیٰ وہارون کے ساتھ تھے۔ اس واقعے میں بنی لاوی نے تمام مشرکین کو قتل کیا تھا۔ (خروج ۳۲:۲۸) ‘‘
اس کے فوراً بعد تحریر کرتے ہیں: ’’اسی وجہ سے بنی لاوی کو بنی اسرائیل میں ایک ممتاز حیثیت حاصل ہو گئی تھی (گنتی ۸:۱۴) اور وہ خدا کے چنے ہوئے لوگ ٹھہرے۔ یہاں تک قورح ایک گم نام شخص ہے۔‘‘
اب میں پھر بائبل کے ان بزعم خود حافظ صاحب سے کہتاہوں کہ انہوں نے سنی سنائی باتیں لکھی ہیں، اور بائبل کھول کر بھی نہیں دیکھی (بلکہ شاید بغیر کھولے بھی نہیں) یہ انہیں کے الفاظ میں نے دہرائے ہیں۔ اگر ان کے پاس واقعی بائبل ہے تو وہ اسے کھول کردیکھیں۔ کتاب خروج کے مندرجہ بالا باب اور فقرے میں سرے سے قورح وداتن وغیرہ کانام ہی نہیں بلکہ اس پورے باب (اصحاح ) میں کہیں ان کا نام نہیں، یہ بات تو علیحدہ رہی کہ انہوں نے ان مرتدین ومشرکین کی مخالفت کی تھی جنہوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی۔
میں ان کی او رقار ئین کی اطلاع کے لیے وضاحت کیے دیتاہوں کہ کتاب خروج ۳۲:۲۸ میں صرف یہ لکھا ہے:
’’اور بنی لاوی نے موسیٰ کے کہنے کے موافق عمل کیا۔ چنانچہ اس دن لوگوں میں سے قریبا تین ہزار مرد کھیت آئے‘‘۔
اس کا اظہار بھی ضروری ہے کہ اس سے قبل لکھا ہے:
’’اور اس( موسیٰ) نے ان (بنی لاوی ) سے کہا کہ خداوند اسرائیل کا خدایوں فرماتاہے کہ تم اپنی ران سے تلوار لٹکا کر پھاٹک پھاٹک گھوم کر سارے لشکر گاہ میں اپنے اپنے بھائیوں اور اپنے اپنے ساتھیوں اور اپنے اپنے پڑوسیوں کو قتل کرتے پھرو‘‘۔
یاسین عابد صاحب ان حوالوں سے کس کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ وہ قارئین جن کی نظر سے کبھی بائبل نہیں گزری، وہ تو اس سے مرعوب ہوجائیں گے اور دھوکہ کھا جائیں گے اور ایسے بہت سے ہیں، لیکن وہ جن کی نظر بلکہ تنقیدی نظر اس تحریف شدہ کتاب پر ہے، وہ اس سے دھوکہ نہیں کھا ئیں گے۔ اس موقع پر مجھے پندرہ سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے ،کہ کراچی ٹیلی ویژن کے ایک مشہور خطیب اور میلاد خواں نے میرے ایک تحقیقی مضمون پر، جو شجرہ خاندان نبوت سے متعلق تھا، ایک تنقیدی مضمون لکھا جس میں ہفت روزہ تکبیر کے قارئین کو مرعوب کرنے کے لیے کچھ عربی کتابوں کے جھوٹے حوالے بھی لکھے۔ پھر اس کا جواب میں نے اسی ہفت روزے میں شائع کیا تو انہوں نے اپنے ہمہ دانی کے زعم میں تاریخ بنی امیہ سے متعلق کچھ سوالات اٹھائے جن میں ناصبیت کارنگ تھا، اور اسی طرح کا جارحانہ انداز بیاں اختیار کیا جو یاسین عابد صاحب کا ہے، اورپھر ساتھ ہی مزید جھوٹے حوالے ۔ میں نے اس کا بھی مفصل ومدلل جواب دیا، الحمد للہ کہ اہل علم نے میری تحریروں کو پسند کیا۔ بعض بزرگ میرے پاس تشریف بھی لائے۔ اس طرح وہ تحریری مناظرہ ایک کتابی شکل اختیار کرگیا اور دو سال قبل ’’خانوادہ نبوی وعہد بنی امیہ ‘‘ کے نام سے میرے یہاں سے ہی اشاعت پزیر ہوا۔ اب یہ ایڈیشن تقریباً ختم ہو چکاہے۔
۶۔ آخر میں موصوف نے قارون کی دولت پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’اس نے اپنی دولت کی حفاظت، قرضوں کے لین دین اور سودکے حساب کتاب کے لیے منشیوں، خزانچیوں، مسلح پہرے داروں، سپاہیوں اور عاملوں کا ایک پورا نیٹ ورک بنا رکھا تھا۔ (۲۸:۷۶) ‘‘
مضمون نگار صاحب بائبل کے انداز حوالہ جات سے متاثر ہیں، چنانچہ انھوں نے اس عبارت کے لیے سورۃ القصص کی آیت نمبر ۷۶ کا حوالہ بائبل کے انداز پر دیا ہے ۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن کریم کے حوالے سورتوں کے نام اور آیات کے نمبروں سے ہوتے ہیں۔ یہی وہ اسلوب ہے جو اہل علم میں رائج ہے ۔اسی اسلوب پر عصر کی مشہور مجمع اللغۃ العربیہ(عرب لسانیات اکیڈمی) کی ضخیم کتاب ’’معجم الفاظ القرآن الکریم‘‘(دوجلدیں) مرتب کی گئی ہے۔ بہرکیف ان کی بیان کردہ تفصیلات کا مذکورہ آیت میں کوئی ذکر نہیں۔ پھر یہ خیالی گھوڑے کس لیے دوڑائے گئے ہیں؟
انہوں نے اس موقع پر پھر دہرایا ہے کہ قارون کاذکر بائبل میں نہیں۔ کوئی شک نہیں کہ قارون کانام نہیں لیکن قورح اور قارون اسی طرح تقریبی مشابہت رکھتے ہیں جس طرح مصری تاریخ کا’’ فرعو‘‘ اور بائبل اور قرآن کا’’فرعون‘‘۔ ایسی قریبی مشابہت بنی اسرائیل کے بہت سے قرآنی اور توراتی ناموں میں بھی نظر آتی ہے۔ دونوں جگہ مکمل یکسانیت نہیں ۔ہم قارون اور قورح کے ایک ہی شجرہ نسب اور تقریباً دو ہزار سال قبل کے یہودی مورخ یوسفوس کی کتاب کے حوالے سے ثابت کر چکے ہیں کہ قارون اور قورح ایک ہی شخص ہے۔ اب آخر میں بائبل کے نئے حوالوں سے، جن سے یاسین عابد صاحب یا تو غافل ہیں یا انہوں نے قصداً ان کو چھپا یا ہے ، ہم یہ ثابت کرتے ہیں کہ قورح، موصوف کے بیان کے برخلاف، صحرائے سینا میں نہیں بلکہ مصر میں اپنے محل کے ساتھ زمین میں دھنسا دیاگیا ،جس کی تصدیق قدیم مصری تاریخ کے ماہرین اور علماے آثار قدیمہ کے بیانات سے بھی ہوتی ہے۔
بائبل (توراۃ ) کی پانچویں کتاب التثنیہ یا استثنا Deuteronomy)) میں ہے کہ جب بنی اسرائیل مصر سے نکل کر سینا میں دشت نوردی کررہے تھے تو اس دور میں حضرت موسیٰ کے مخالفین ’’داتان اور ابیرام کو جو الیاب بن روبن کے بیٹے تھے ...... سب اسرائیلیوں سمیت زمین نے اپنا منہ پسار کران کے گھرانوں، خیموں اور ہرذی نفس جو ان کے ساتھ تھا، نگل لیا۔‘‘(استثنا ۱۱:۶) یہاں ان زمین میں دھنسائے جانے والوں میں قورح کانام نہیں ،جبکہ کتاب گنتی ۱۶:۳۱،۳۲ میں قورح کانام ہے۔ یہ اسی طرح کا ایک تضاد ہے جس کاذکرہم قورح کے باپ کے نام کے سلسلے میں کر چکے ہیں ، اور اس کاسبب یہ ہے کہ بابل کے کلدانی بادشاہ نبو خذ نصر نے (بائیل کا نبو کدنضر) جو عربی کے اثر سے اردو میں بخت نصر مشہور ہے، یروشلم کو اپنے دوسرے حملے ۵۸۶ قبل مسیح میں بالکل تباہ کردیا تھا، ہیکل سلیمانی کو مسمار کر دیاتھا اور توراۃ کے سارے نسخے جلا دیے تھے۔ تقریباً پچاس سال بعد ایران کے پہلے ہخا منشی (اکمینی) بادشاہ کو روش (بائبل خوروس، کتاب عزرا، انگلش Cyrus) نے یہودیوں کو فلسطین واپس جانے اور دوبارہ ہیکل (معبد) بنانے کی اجازت دی جو دوسرے ہخامنشی شاہ ایران خوشایارخوش (بائیبل، عزرا: ارتخششتا، یونانی و انگریزی Xraxes) کے زمانے میں ۵۱۵ قبل مسیح میں بن سکا اور اسی عہد میں عزرا کاہن نے اپنی یادداشت سے توراۃ (بائیبل عہد قدیم )کو دوبارہ لکھا جس کی وجہ سے اس میں کافی اغلاط اورتضادات پائے جاتے ہیں۔ پھر موجودہ بائبل میں تو اس کے بعد بھی تحریف ہوئی ہے جس کی تفصیل کی یہاں گنجایش نہیں، لیکن اس موضوع اور یہودی تاریخ پر ڈاکٹر احمد شلبی (مصری) کی بہترین کتاب ’الیہودیۃ‘ (قاہرہ، ۱۹۸۴ ) دیکھی جاسکتی ہے۔
بہر حال قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس طرح بائیبل کی کتاب استثنا میں داتن اور ابیرام کے ساتھ قور ح کے زمین میں دھنسائے جانے کاذکر نہیں ،اسی طرح بائبل کی ایک دوسری اہم کتاب زبور میں، جہاں داتن اور ابیرام کے زمین میں دھنسائے جانے کا ذکر ہے، وہاں بھی قورح کانام نہیں۔ زبور ہی بائبل کی وہ کتاب ہے جس میں کوئی تحریف نہیں ہوئی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا اور بنی اسرائیل کے اظہار بندگی کے ترانے ہیں اور ان کے لیے اپنے گناہوں کا اعتراف بھی ان ترانوں میں ہے جن کو بآسانی حفظ کیا جا سکتاہے۔ یہی وہ زبو ر ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام کو عطاکی گئی تھی۔
زبور کے مزمور ۱۰۶ میں ہے: ’’ انہوں (بنی اسرائیل ) نے خیمہ گاہ میں موسیٰ اور خدا وند کے مقدس مرد ہارون پر حسد کیا ۔ سو زمین پھٹی اور داتن کو نگل گئی اور ابیرام کی جماعت کو کھاگئی ۔‘‘ (مزمور ۱۰۶:۱۶،۱۷) زبور کی تصریح (یہی مزمور، فقرات ۶تا ۱۵) کے مطابق یہ واقعہ سینا میں پیش آیا ،اور حسد کرنے والے روبن بن یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے جبکہ موسیٰ علیہ السلام، ہارون علیہ السلام اور قورح (قارون) لاوی بن یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ اسی لیے داتن اور ابیرام ودیگر جو اولاد روبن سے تھے، موسیٰ علیہ السلام سے ان کی نبوت کے سبب حسد کرتے تھے۔
قورح کے خسف فی الارض (زمین میں دھنسائے جانے) کا واقعہ اس سے قبل مصر میں ہو چکا تھا۔ قرآن کریم نے کتاب استثنا اور زبور کی روایت کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ مصر میں تھے کہ قارون (قورح ) اور اس کامحل زمین میں دھنسائے گئے ۔ ورنہ سینا میں تو سارے اسرائیلی خیموں میں رہتے تھے۔ وہاں قورح نے کون سا محل اور کہاں تعمیر کیا تھا؟ اسی لیے بائبل کی مذکورہ بالا دونوں روایتوں میں داتن اور ابیرام کے گھروں کاذکر نہیں، بلکہ خیموں کاذکر ہے۔
مصر میں قارون (قورح) اور اس کے محل کے زمین میں دھنسنے کاذکر توراۃ کی ایک قدیم شرح مدراش (Midrash) کی روایت میں بھی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ایک بہت بڑا خسف فی الارض رعمسیس اور پتوم میں ہوا جو مصر کے مشہور شہر تھے۔ اس حادثے میں بنی اسرائیل بھی ہلا ک ہوئے۔ (مقالہ قارون، تعلیقہ، دائرۃ المعارف الاسلامیہ ، پنجاب یونیورسٹی (جلد۱۶/۱) بقلم جناب عبد القادر) اس شہر رعمسیس (یا بر رعمسیس ) اور بتوم کا ذکر عظیم مصری مورخ وماہر علم الآثار سلیم حسن کی کتاب ’’مصر القدیمۃ‘‘ (جلد ۶) میں بھی ہے۔ اردو دائرۃ المعارف الاسلامیہ ،پنجاب یونیو رسٹی میں مقالہ ’قارون‘ پر تعلیقہ (نوٹ)لکھنے والے عبدالقادر صاحب کاCommentory on the Bible, Peake 1952 کے حوالے سے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ قارون کے بارے میں دو الگ الگ کہانیوں کو کسی بعد کے مرتب نے یکجا کر دیا۔ بنی اسرائیل کی تاریخ میں اس قسم کے دو حادثے ہوئے تھے۔ مرور زمانہ کے باعث قورح (قارون) کی کہانی داتن اور ابیرام کے حادثے کے ساتھ جوڑدی گئی۔
یہ ہے وہ بائبل اور قورح سے متعلق اس کے متضاد بیانات جن کو یاسین عابد صاحب نے مستند مانا ہے اور صرف کتاب گنتی وخروج کے حوالے دے کر قارئین کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہم نے قدیم وجدید عرب وغیر عرب مفسرین کے اقوال اور بائبل کی دوسری کتابوں (استثنا اور زبور) کے حوالوں سے ثابت کردیا ہے کہ قرآن کاقارون ہی بائبل کا قورح تھا۔ جناب ناقد کی غلط بیانیوں کابھانڈا بھی پھوٹ گیا ہے ،اور ساتھ ہی بائبل جس کو ’کتاب مقدس‘ کانام دیا جاتاہے، اس کی حقیقت بھی سامنے آگئی ہے۔
مکاتیب
ادارہ
(۱)
مکرمی جناب پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب!
آ پ پر سلا متی ہو !
ماہنامہ ’الشریعہ‘ جنوری ۲۰۰۶ ء میں آ پ کا فکر انگیز مضمون’’ قرآ نی علمیات اور معاصر مسلم رویہ‘‘ پڑھا۔ یقین جا نیے اس قسم کے مضا مین کو میں اپنے لیے فکر ی غذا تصور کر تا ہوں۔ داخلی انتشار کے اس پرآشوب دورمیں مسلم مذ ہبی فکر کے حوالے سے حق کی تلا ش جتنی ضروری ہے، اسی قدر مشکل بھی ہے۔ گروہی اور مسلکی تعصبا ت کے اند ھیر وں میں حق کے اجا لے کی سحر شب گز یدہ بن گئی ہے۔ اس کے با وجو د تلا ش حق فر ض عین ہے۔ اس عظیم سفر کی ہر تکلیف کلفت نہیں، نعمت ہے۔ اپنا یہ عقیدہ ہے کہ جادۂ مستقیم کا طالب ہر حال میں کامیاب ہے، خواہ اسے منزل نہ ملے۔ دوسرے لفظوں میں حق کی تلاش ہی اصل منزل ہے۔ زیر بحث مضمون کے بعض نکات سے اگرچہ مجھے اختلاف ہے، لیکن میں آپ کے’’سفر‘‘کو مبارک تصور کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اصابت اور لغزش، ہر دو صورتوں میں آپ کو اجر دے۔
قرآن کی علمیاتی اساس میں آپ نے غیب کی تشریح یوں کی ہے:
’’یہاں غیب سے مراد’’نامعلوم ‘‘ہے، لیکن اس کا مطلب لاادریت بھی ہر گز نہیں۔ نامعلوم ہوناایک اور چیز ہے اور نہ جان سکنا چیزے دیگر است۔ نہ جان سکنے کی روش اپنانا ایک منفی رویہ ہے اور یہ تشکیک کے قریب ترین ہے جس کی قرآن ابتدا ہی میں نفی کرتاہے۔ اس کے برعکس نامعلوم ہونا ایک مثبت رویہ ہے جس میں جان سکنے کی خواہش اور یقین دونوں پائے جاتے ہیں۔‘‘
اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ بالغیب سے ’’نامعلوم‘‘مراد لے کر ایما ن بالغیب کا مطلب’’نامعلوم پر ایمان‘‘ہوگا، جیسا کہ آپ نے لکھا بھی ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ’بالغیب‘ پر داخل ’’با‘‘ کو ظرفیت کے مفہوم میں لینے کے بجائے آپ نے ’بالغیب‘ کو مفعول کیوں مان لیا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ ایمان بالغیب سے ’’نامعلوم پر ایمان‘‘مرادلے کر آیت میں اس کا مفہوم کیا بنتا ہے؟ اور تیسری بات یہ کہ خود’’نامعلوم‘‘کی وضاحت کیا ہے؟ یہاں میں تیسرے اور دوسرے سوال کی نوعیت پر بحث کرتا ہوں۔ نامعلوم کو غیب کا مترادف قراردے کر آپ ایک سانس میں دوباتیں کہہ ڈالتے ہیں۔ وہ یوں کہ غیب نامعلوم بھی ہے اور اس کا مطلب لاادریت بھی نہیں۔ آپ کے نامعلوم کا چہرہ کچھ کچھ ’’ادریت‘‘کے غازے سے سرخ ہے۔ میرے خیال میں آپ اردو زبان کی تنگ دامنی کا گلہ کررہے ہیں۔
کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیان کے لیے
آپ کا یہ شکوہ اس وقت اور پرشکوہ لگتا ہے جب آپ لکھتے ہیں: ’’نہ جان سکنے کی روش اپنانا ایک منفی رویہ ہے اوریہ تشکیک کے قریب ترین ہے۔‘‘(ایضاً ص۲۰)
’’سکنے‘‘کے لفظ سے ایک قسم کی معذوری ٹپکتی ہے۔ اگر ایساہی ہے تو پھر یہ رویہ کس طرح ایک منفی رویہ قراردیا جا سکتا ہے؟ اگر میں کچھ نہیں سیکھ سکتا تو میرا یہ رویہ منفی کس طرح ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ شاید ’’نہ جاننے کی روش اپنانا‘‘ اس مفہوم کے لیے درست تعبیر ہو۔ یوں لگتا ہے کہ آپ کی اس پیچیدگی نے آپ کو ’یومنون بالغیب‘ کا ترجمہ’’جو غیب پر ایمان لاتے ہیں‘‘ کرنے پر مجبور کیا اور بعد میں آپ کو وضاحت کرنا پڑی کہ ’’امکانات کو چھونے کو خواہش اور سکت ایمان بالغیب ہے۔‘‘ اگر میں آپ کی بات سمجھ سکا ہوں تو غالباً آپ کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے واقعات کے متعلق Positivelyسوچنا اور شک میں نہ مبتلا ہو جانا، ہی اس کا بالغیب ہے۔آپ کے ایمان بالغیب کی یہ تعبیر صرف ’’ایمان بالغیب‘‘میں مقید ہونے کا نتیجہ ہے ،حالانکہ یہ ایک طرف اس سورۃ سے پہلی سورہ ’الفاتحہ کے الفاظ ’الحمد اللہ رب العلمین الر حمن الر حیم ملک یو م الدین‘ کے ساتھ منسلک ہے تودوسری جانب اس کا تعلق اسی سورہ میں مذکور ایمان کی تفصیلات وجزئیات سے ہے۔ میں یہاں صرف ایک مثال پیش کروں گا جو بنی اسرائیل کی ظاہر پرستی سے متعلق ہے: ’’وَإِذْ قُلْتُمْ یَا مُوسَی لَن نُّؤْمِنَ لَکَ حَتَّی نَرَی اللَّہَ جَہْرَۃً‘‘ (البقرہ، آیت ۵۵)
اس لیے ایمان بالغیب کا تعلق اللہ پر ایمان سے لے کر یوم آخرت تک، تمام چیزوں سے ہے۔آپ کی بات بذات خود درست ہے، لیکن ایسا رویہ اپنانا متقین کی صفا ت میں سے ایک ہے، نہ کہ مجردایمان بالغیب کا تقاضا ۔
قرآنی علمیات کے رہنمایانہ منہاج کے حوالے سے آپ نے حضرت آدمؑ اور فرشتوں کے جس واقعہ کا ذکر کیا ہے، اس کا تعلق ایمان بالغیب کے اس تصور سے نہیں جسے آپ نے پیش کیا ہے۔ اس میں بھی آپ سے لغزش ہوئی ہے جس کی نشان دہی میں ابھی کروں گا۔ آپ یقیناًمیرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ یہ سورہ، بنی اسرائیل کے لیے ایک چارج شیٹ ہے اور اس میں ان پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ حضرت آدمؑ اور فرشتوں کے اس واقعہ سے پہلے اور بعد میں بنی اسرائیل کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ ا ٹھیک اس واقعے سے پہلے کی آیت یہ ہے : ’’ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُم مَّا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْْءٍ عَلِیْم‘‘۔ کیا فرشتوں والا Positiveرویہ اپنانے کے لیے ضروری نہیں کہ سب سے پہلے ایمان بالغیب میں پوشیدہ اس عظیم المرتبت خداکی وحدانیت کا اقرارکیا جائے؟ مطلب یہ ہے کہ زندگی اور موت کے مسئلے پر غور کیا جائے اور کائنات کی تخلیق کے متعلق سوچا جائے تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ انسان اعتراف کر لے کہ اے خدا! میں نے اگرچہ تجھ کو نہیں دیکھا، لیکن میری عقل تسلیم کرتی ہے کہ تو ہی بلا شرکتِ غیرے اس کائنات کا ر ب ہے اور علم کے سارے خزانے تیرے ہی پاس ہیں۔
اب ذرااس واقعے کے بعد کی آیات (۴۰،۴۶) پر غور کیجیے۔ آیت ۴۰ میں بنی اسرائیل کو’’َ أَوْفُواْ بِعَہْدِیْ‘‘ یاد دلایا گیا ہے۔ آیت ۴۱ میں اس چیز پر ایمان لانے کو کہا گیا ہے جسے خدائے عزوجل نے ’’أَنزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَکُمْ‘‘ کہا ہے ۔آیت نمبر۴۲ میں کتمان حق سے منع کیا گیا ہے۔ آیت نمبر۴۳میں نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے او رپھر آیت نمبر۴۶ میں ’’أَنَّہُمْ إِلَیْْہِ رَاجِعُونَ‘‘ کی یاددہانی کرائی گئی ہے ۔ میاں صاحب! بنی اسرائیل کویہاں آیت ۴۰ تا۴۶میں براہ راست جو کچھ کہا جا رہا ہے، کیا یہی باتیں ان متقین کی صفات نہیں ہیں جن کاتذکرہ سورۃ البقرۃ کے بالکل ابتدائی آیات میں ہوا ہے: ’’الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْْبِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَo والَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ وَبِالآخِرَۃِ ہُمْ یُوقِنُون‘‘۔
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ان صفات کی حامل متقی شخصیت یہی ملکوتی رویہ اپنائے گی اور حق کے سامنے سرنگوں (Surrender)ہوگی۔
جیسا کہ میں نے پہلے اشارہ کیا، قرآنی علمیات کے رہنما یا نہ منہاج میں آپ سے لغزش ہوئی ہے۔رہنمایانہ منہاج کے لیے آپ نے حضرت آدم ؑ اور فرشتوں کے واقعے سے متعلق آیات کا انتخاب کیا ہے۔ پہلی آیت یہ ہے:
’’وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَءِکَۃِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَن یُفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُون‘‘
یہاں ایمان بالغیب کی تعبیر امکانات کو چھو نے کی خواہش اور سکت کے نظریے سے Pre-Minded ہوتے ہوئے آپ نے لکھا ہے: ’’خلیفہ کے بارے میں فرشتوں کی یہ جانکاری کی وہ زمین میں فساد اور خونریزی برپا کرے گا ،خداہی کی عطا کردہ تھی۔‘‘ (ایضاً ص ۲۱)اوراس کے لیے آپ نے آیت نمبر۳۲کے الفاظ ’’لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا‘‘سے استدلال کیا ہے۔ اگر آیت نمبر ۳۰ میں ’’إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ‘‘ کے الفاظ نہ ہوتے تو آپ کا مذکورہ استدلال درست ہوتا ۔ا س آیت سے صریحاً واضح ہے کہ فرشتوں نے لفظ ’’خلیفہ‘‘کی بنا پرایک امکانی بات کی جو ادھورے سچ کے مترادف تھی، یعنی وہ انسانی تخلیق کی مکمل اسکیم سے واقف نہیں تھے ۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ میں جانتا ہوں وہ کچھ جو تم نہیں جانتے۔ اگر اللہ نے فرشتوں کو بتادیا تھا کہ انسان زمین میں فساد اور خون ریزی کرے گا جیسا کہ آپ نے لکھا ہے تو پھر ’’إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ‘‘ کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ شاید آپ اس کا جواب یہ دیں کہ انہیں انسان کے اسی خاص پہلو کے متعلق بتایا گیا تھا۔ میری گزارش ہوگی کہ اس مفروضے کی بنیاد کیا ہے؟اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ ان کے ساتھ مذاق تو نہیں کررہا تھاکہ آدھی بات بتا دی اور آدھی رہنے دی۔صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو زمین پر انسان کے خلیفہ بنائے جانے سے آگاہ کیا۔ ’خلیفہ‘ (یعنی صاحب اختیار) کے لفظ سے فرشتوں نے ایک امکانی بات اخذ کی جو معاملے کے سارے پہلووں کو محیط نہ تھی، یعنی یہ کہ یہ صاحب اختیار مخلوق زمین میں فساد برپا کرے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ اس کے بعد اللہ نے فرشتوں کے نہ جاننے کو جاننے میں تبدیل کرنے کے لیے پہلے حضرت آدمؑ کو ان کی ’’صالح ذریت‘‘کی فہرست دکھائی (یا ان نیک بندوں کی صورتیں دکھائیں )پھر ان نیک بندوں کی بابت فرشتوں سے دریافت کیا کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو توان لوگوں کے متعلق، جو سب کے سب نیک اور متقی ہوں گے، تمھاری کیا رائے ہے؟ فرشتوں نے اللہ کی مکمل سکیم کی نوعیت کو سمجھنے سے معذوری ظاہر کی اور شک کرنے سے گریز کیا اور کہا کہ اے خدا! جس امکانی بات کا علم تو نے ہمیں بخشا ہے، اسے کل سمجھتے ہوئے ہم نے ٹھوکر کھائی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ امکانی بات کرنا بذات خود غلط نہیں، بلکہ اچھی چیز ہے لیکن مزید امکانات کا اندازہ کرنے کے بعد صرف اپنے’’امکانی علم‘‘پر ہٹ دھرمی اختیار کرنا اور اس پر اڑے رہنا غیر مستحسن رویہ ہے۔ اب اللہ نے حضرت آدمؑ سے کہا کہ ان لوگوں سے فرشتوں کا تعارف کرا دیں۔ اس کے بعد اللہ نے کہا کہ اب کہو، کیا میں نے تمہیں نہیں بتایا تھا کہ غیب کا علم میرے پاس ہے، اور میں اس چیز کو بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو او رجو تم چھپاتے ہو۔ (۲،۳۳)
میاں صاحب ! ’’وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ‘‘ کے بارے میں آپ کی رائے بہت صائب ہے یعنی یہ کہ ’’اس وقت تک ابلیس نے اپنے انکاراور گھمنڈ کو چھپایاہوا تھا‘‘، لیکن اس آیت مبارکہ میں ’’الاسماء‘‘سے علوم و فنون مراد لینا ، جو قتل و خونریزی کو مغلوب کرنے والے ہوں گے، میرے خیال میں قرآن پاک کے Contextکے خلاف ہے۔آپ نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ’’االأَسْمَاء کُلَّہَا‘‘ سے علوم وفنون مراد لینے کی کیا دلیل ہے؟ا ن علوم وفنون کو ان امکانات تک پھیلانا جو مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ فساداور خونریزی کی نئی نئی صورتوں کے ظہور کے جواب میں مسیحائی کردارادا کریں گے، ایک پر تکلف بات لگتی ہے۔ اگر آپ ’’اسماء‘‘کے لیے استعمال کی جانے والی ضمائر پر غورکریں تو واضح ہوگا کہ اس سے مراد ذریت آدم ہی کے نام ہو سکتے ہیں۔
قرآنی علمیات سے روگردانی کے ضمن میں حضرت ابراہیم ؑ اور قربانی کے واقعے کی بحث کافی فکر انگیز ہے۔اس سے قطع نظر کہ ذبیخ اسماعیلؑ تھے یا اسحق، آپ نے ’’باپ کے فیضان نظر‘‘ کا بہت پر حکمت مقام دریافت کیا ہے جس کاتعلق علم سے زیادہ متقین کے رویہ سے ہے۔ اس سلسلے میں آپ کے دلائل کافی مضبوط اوردعوتی مزاج کے حامل ہیں۔ابن ابراہیم ؑ کے بجائے ابراہیمؑ ہی کی شخصیت کو نمایاں کرنا یہاں قرآن پاک کا مطمح نظر دکھائی دیتا ہے۔ البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ آپ ’’مدبرین‘‘ کی تحقیق و تفسیر پر تبصرہ کرتے ہوئے دعوتی مزاج کی بلندی کو برقرارنہ رکھ سکے۔ ’ذبیح کون‘ کی بحث کوامکانی فساد سے تعبیر کرنامیرے خیال میں ضرورت سے زیادہ سخت تبصرہ ہے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ نے فراہی مکتب فکر کونسلی تفاخر جیسی بیماری میں مبتلا بتایا ہے جبکہ یار لوگ انھیں ’’اغیار دوستی‘‘ کا طعنہ دیتے ہیں۔
زاہد تنگ نظرنے مجھے کافر جا نا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
اللہ ہمیں پندار کا صنم کدہ ویراں کرنے اور حق کے کوئے ملامت کا طواف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آپ کا خیر اندیش
یوسف خان جذاب
GHS، نارشکر اللہ، بنوں
(۲)
بخدمت گرامی قدر مخدومی حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب مد ظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الشریعہ جنوری ۲۰۰۶ء کاشمارہ پڑھنے کاموقع ملا۔ ’’آرا وافکار ‘‘ کے تحت محترم میاں انعام الرحمن صاحب کامضمون پڑھا،بہت کوفت ہوئی۔ ابتدائی پانچ چھ صفحات لکھنے کے بعد میا ں صاحب پٹڑی سے اتر گئے ہیں اور سارا زور قلم اس پر صرف کیا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کوذبیح قرار دینا قرآنی علمیات سے روگردانی ہے۔ انہوں نے سطحی قسم کی باتیں تحریر کرکے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح اللہ ماننے سے انکار کیا ہے۔مزید فرمایا ہے کہ حضرت اسماعیل کو ذبیح ماننے سے معترضین کو پھبتی کسنے کاموقع ملتا ہے کہ اسلام دعویٰ تو عالمگیریت کاکرتاہے، لیکن اصلاً اسماعیلی ہے ۔نیز یہ کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح اللہ قرار دینا یہودیانہ رویہ ہے۔
مخدومی! یہ سمجھ نہیں آئی کہ میاں صاحب کو حضرت اسماعیل کوذبیح اللہ قرار دینے پر اعتراض کیا ہے؟ اس سے دین اسلام کے وقار پر کیا حرف آتاہے؟ اگر اقبال نے یہ کہہ دیا ’’ سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی ‘‘ تو کس جرم کاارتکاب کیا ہے؟
محترم میاں صاحب کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ مولانا فراہی ؒ اور مفتی محمد شفیع ؒ سمیت اکثر مفسرین نے ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ہی کو قرار دیا ہے اور اس پر آثار وقرائن بھی ذکر کیے ہیں۔ وہ دور نہ جائیں، معارف القرآن ہی دیکھ لیں ۔ آثار وقرائن حضرت اسماعیل ہی کو متعین کرتے ہیں اور اس سے اسلام کی عالمگیریت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ معترضین سے مرعوب ہو کر اسماعیل علیہ السلام کے ذبیح ہونے سے انکار کر نے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
حضرت سلمان فارسیؓ پر کسی یہودی نے اعتراض کیا کہ سنا ہے تمھیں تمھارا پیغمبر ﷺ استنجا کرنے کا طریقہ بھی بتاتاہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے فخریہ طور پر کہا کہ ہاں، ہمیں انہوں نے استنجا کاطریقہ بھی بتایا ہے۔ (جامع ترمذی) میاں صاحب سے معذرت کے ساتھ، اگر ان جیسا کوئی مرعوبیت کاشکار شخص ہوتاتو یہی کہتا کہ نہیں نہیں، خدا کی قسم! حضورﷺ نے ہمیں کوئی ایسی بات ارشاد نہیں فرمائی ۔ محترم میاں صاحب سے گزارش ہے کہ مستشرقین ودیگر کفار کے اعتراضات کے جواب میں گھبرا کراپنااصل موقف چھوڑ دینا اوریہود ونصاریٰ سے موافقت کے راستے تلاش کرنا دین کی کوئی خدمت نہیں ہے۔
میاں صاحب نے’’حرف آخر‘‘ کے زیر عنوان ایک حدیث نقل کی ہے: ’’اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو نہ تکذیب ‘‘۔ میرا ان سے سوال ہے کہ کیا حضور ﷺ کا یہ فرمان مطلق ہے یا اس میں کوئی قید بھی ہے؟ مفسرین اور محدثین کیا فرماتے ہیں ؟اگر وہ اس سوال کا جواب تلاش کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے موقف پر نظر ثانی پر مجبور ہو جائیں گے۔
میاں صاحب سے یہ بھی التماس ہے کہ آج کے دور میں فکری انتشار بہت زیادہ ہے، ایسے میں مزید انتشار پیدا کرنا، خواہ وہ کتنی ہی نیک نیتی سے کیوں نہ ہو، دین کی کوئی خدمت نہیں ہے۔ اس سے احتراز فرمائیں۔اور بے شک کم لکھیں، لیکن علمی پختگی کے ساتھ لکھیں۔ اپنے فکری انتشار پر پختہ فکر علما سے گفتگو کریں ۔
مخدومی! آپ سے بھی گزارش ہے کہ آرا وافکار کے زیر عنوان فکری انتشار میں اضافہ کرنے والے مضامین شائع نہ کریں۔ حدود قیود متعین فرمائیں۔ آپ کایہ طرز فکر ’’جماعت کولازم پکڑو‘‘ (الحدیث) کے منشا کے خلاف ہے ۔واللہ اعلم بالصواب ۔
میاں صاحب کو کوئی بات ناگوار گزرے تومعذرت خواہ ہوں۔
(مولانا) مشتاق احمد
استاذ جامعہ عربیہ، چنیوٹ
(۳)
گرامی قدر نقوی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ میں تکفیر شیعہ پر جوبحث چل رہا ہے، اس میں میرے موقف پر آپ کاتبصرہ بصورت خط شائع ہوا ہے۔ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ:
۱۔لاہور میں علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر صاحب (ادارہ منہاج الحسین) سے میرا رابطہ تھا۔ ’’الشریعہ ‘‘میں مذکورہ مضمون لکھنے سے پیشتر میں کئی ماہ تک ان کو خط لکھتا اور فون کرتا رہا کہ جن تین امور کی وجہ سے مولانا سرفراز صفدر صاحب اور دیگر بعض سنی علما اہل تشیع کی تکفیر کرتے ہیں، اگر وہ وضاحت کردیں کہ یہ سارے شیعہ کے اجتماعی مسائل نہیں ہیں تو میرا موقف مضبوط ہو جاتا کہ سارے اہل تشیع کی تکفیر نہیں کی جاسکتی،لیکن علامہ صاحب ٹالتے رہے اور انہوں نے جواب نہیں دیا اور بالآخر میں نے اس کے بغیر ہی مضمون ’’الشریعہ‘‘ کو بھجوادیا۔ میر ی اب بھی یہ خواہش ہے کہ آپ اہل تشیع کاکوئی ذمہ دار عالم اس بات کی تصدیق کردے تاکہ میرا کیس مضبوط ہوجائے۔ (یاد رہے کہ میرا یہ مضمون تھااس مضمون پر جو اس سے پہلے شمارے میں مولانا زاہد الراشدی صاحب نے لکھا تھا اور جس میں مذکورہ تین نکات کاذکر تھا)۔
۲۔ اگر آپ یہ کنفرم کردیں کہ آپ کی جماعت کے پیش نظر پاکستان میں فقہ جعفریہ کانفاذ نہیں تھا اور نہیں ہے بلکہ آپ اہل تشیع کے دیگر جائز قانونی حقوق کے لیے کوشاں تھے اور ہیں تو مجھے کیا پڑی ہے کہ اس موقف کو آپ کے سر منڈھوں جو درحقیقت آپ کا موقف نہیں ہے اور بقول آپ کے ایجنسیوں کاموقف ہے؟
۳۔میں ایک سیدھا سادہ کھلے دل کامسلمان ہوں اور کسی خاص مسلک سے وابستہ نہیں ہوں، بس طبیعت صلح جو ہے، اتحاد امت کا درد دل میں ہے کہ شیعہ سنی منافرت کم ہوجائے اور امت ایک دوسرے کے قریب آجائے۔
والسلام۔ مخلص
(ڈاکٹر) محمدامین
سینئر ایڈیٹر، اردو دائرہ معارف اسلامیہ
جامعہ پنجاب۔ لاہور
(۴)
محترم جناب ڈاکٹر امین صاحب
السلام علیکم ، مزاج گرامی
ماہنامہ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ میں آپ کے مضمون کی وضاحت میں ہمارے خط کی اشاعت کے بعد آپ کاگرامی نامہ موصول ہوا۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ :
تکفیر کے ذیل میں آپ نے جو کچھ فرمایا، ہم نے اسے چھیڑنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ جن عقائد کو بنیاد بنا کر تکفیر کی بحث کی گئی ہے، وہ شیعہ عقائد کاحصہ نہیں ہیں۔ گزشتہ دو عشروں میں مرتب ہونے والے مختلف ضابطہ اخلاق، بالخصوص متحدہ مجلس عمل کے اعلامیہ وحدت، اسلام آباد میں ہماری شمولیت اس بات کی بین دلیل ہے کہ ہم ان مسائل میں واضح، روشن اور دوٹوک ہیں۔
اسی بنا پر ’’شیعہ سنی تنازع کا حل‘‘ کے ذیل میں تنازع کے وجوہ اور علل واسباب پر ہم نے عرض کیا تھاکہ ہمارے خلاف یہ موقف پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے جاری کیا گیا اوربعد میں سپاہ صحابہؓ کی زبان سے دہرایا جاتارہا اور تاحال دہرایا جارہاہے۔ اس ضمن میں آپ نے جن دو گروہوں کے بر سر پیکار ہونے کا ابتدا میں ذکر کیا ہے اور آخر میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’اب دونوں گروہ ایک دوسرے کے آدمی مارے جارہے ہیں‘‘، بہتر ہوگا کہ ان دونوں گروہوں کی شناخت پر پوری توجہ دی جائے تاکہ کہیں ایسانہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا دیا جائے اور پھر نادم ہونا پڑے۔
جہاں تک تحریک جعفریہ کے اہداف کاتعلق ہے تو شاید آپ تک ہمار ا موقف نہیں پہنچ سکا۔ بار ہا واضح کرچکے ہیں کہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ (تحریک جعفریہ) کا مقصد پاکستان کے تمام عوام پر فقہ جعفریہ کو مسلط کرنا ہرگز نہیں بلکہ آئینی دائرہ کار میں رہ کر پاکستان کے شیعہ عوام کے لیے فقہ جعفریہ کا نفاذ اور ان کے قانونی حقوق کاتحفظ ہی ہدف ہے۔
وحدت امت کے قیام اور شیعہ سنی منافرت کے خاتمے کے حوالے سے آپ نے جن خیالات کااظہار فرمایا ہے، ہم انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آپ کی جدوجہد لائق تحسین ہے ۔ہم سنجیدہ اور متین کوششوں پر تعاون پر آمادہ ہیں۔
نیک خواہشات کے ساتھ
والسلام
سید عبد الجلیل نقوی
مسؤل روابط
قائد تحریک نفاذ فقہ جعفریہ
(۵)
محترم ومکرم حضرت مولانا دامت الطافکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
........
میں تقریباً تین ماہ کے بعد گزشتہ ہفتہ لندن واپس پہنچا ہوں۔ ’’ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق‘‘ کے مطابق آنے کے ساتھ ہی ڈنمارک کی چھوڑی ہوئی پھلجڑی کا منحوس نظارہ ہے۔ اور پھر وہی رد عمل جس کے بارے میں اس بار تو ذرا شبہہ کی گنجایش نہ ہونی چاہیے تھی کہ عمل سے مقصود ہی اس رد عمل کا حصول ہے۔ سب سے زیادہ افسوس حماس کے پایہ تخت غزہ کے رد عمل کا ہے اور جس طرح وہاں کے رد عمل کی خبروں کو نمایاں تر کیا جا رہا ہے، اس سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے عمل کا اصل نشانہ فلسطین ہی تھا۔ اور وہ کامیاب رہا۔
.........
(مولانا) عتیق الرحمن (سنبھلی)
لندن
(۶)
گزشتہ دنوں ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘ فروری ۲۰۰۶ء کاشمارہ موصول ہوا ۔جناب پروفیسر اکرم وِرک صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے دعاؤں میں یاد رکھا اور مجھے اعزازی شمارہ ارسال کیا۔ اسا ل اللہ لہ کل مایحبہّ ویرضاہ۔
یوسف خان جذاب کا مضمون پسند آیا۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ ’’ماہنامہ الشریعہ اور جناب جاوید احمد غامدی ‘‘ کے نام سے جو مضمون آصف محمود ایڈوکیٹ صاحب نے تحریر کیاہے ،اس میں انہوں نے بڑی عمدہ بات کہی ہے کہ’’شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور ‘‘ کے مصداق ہمیں بلا جواز تنقید نہیں کرنی چاہیے ۔جاوید احمد غامدی صاحب کے جو افکار ونظریات ہیں، وہ اسلاف میں بہت سے بزرگوں کے بھی رہے ہیں، اس لیے غلام احمد قادیانی کے ساتھ ان کی مطابقت اور مماثلت کے حوالے سے گفتگو کرنا قیاس مع الفارق ہے۔ فاضل دوست کی یہ مثبت سوچ ہے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے حدود آرڈیننس کو ’’صحیفہ جہالت ‘‘قرار دیاہے۔ قانون کے ماہر کے لیے ایسی سخت زبان استعمال کرنا ناقابل فہم ہے۔ میں اپنے فاضل دوست سے بحیثیت مجموعی اتفاق کرتاہوں، تاہم ایک نقاد کا فرض بنتاہے کہ جب وہ کسی فکر اور زاویہ نگاہ کو تنقید کانشانہ بنائے تو پہلے دیانت دارانہ طریقے سے اس فکر کی وضاحت کرے اور پھر دلائل کی روشنی میں اس کی درستی یا نادرستی کو واضح کرے۔ فاضل دوست کے مذکورہ الفاظ ایک غیر علمی اور غیر سنجیدہ رویہ پر دلالت کرتے ہیں۔ حدود آرڈیننس میں جہاں کہیں سقم پایا جاتاہے، اگر فاضل دوست ان مقامات کی نشاندہی کرتے اور اس میں حذف واضافہ تجویز کرتے تویہ ان کی علمی خدمت ہوتی۔ ماہنامہ ’الشریعہ‘ کی وساطت سے فاضل دوست اگر اب بھی اس سلسلے کو شروع کریں اور حدود آرڈیننس کی تمام دفعات کاقرآن وسنت کی روشنی میں شرعی جائزہ لے کر واضح کر دیں تو راقم الحروف اور دیگر احباب ان کے ممنون ہوں گے۔
عبد الغفار
لیکچرر اسلامیات
تعارف و تبصرہ
ادارہ
’’الشرح الثمیری علی مختصر القدوری‘‘
پانچویں صدی ہجری کے حنفی بزرگ امام ابو الحسن احمد بن ابی بکر القدوری رحمہ اللہ تعالیٰ کی تصنیف ’المختصر للقدوری‘‘ کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت کے اس مقام سے نوازا ہے کہ یہ حنفی فقہ کے متن کے طور پر سب سے زیادہ پڑھائی جانے والی کتاب ہے اور جس اختصار اور جامعیت کے ساتھ امام قدوریؒ نے حنفی فقہ کے مسائل اور جزئیات کو اس میں سمو دیا ہے، اس کی اور کوئی مثال نہیں ملتی۔ درس نظامی کے نصاب میں اسے فقہ حنفی کی تعلیم کے لیے بنیادی حیثیت حاصل ہے اور ہزاروں مدارس میں اس وقت بھی یہ کتاب زیر درس ہے۔
ہمارے محترم اور فاضل دوست حضرت مولانا ثمیر الدین قاسمی فاضل دیوبند نے، جو ایک عرصہ سے برطانیہ میں مقیم ہیں، سالہا سال کی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ اردو میں ’’قدوری‘‘ کی شرح مندرجہ بالا عنوان کے ساتھ تحریر کی ہے جو چار ضخیم جلدوں میں اٹھارہ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں انھوں نے نہ صر ف قدوری کے مسائل کی آسان اردو میں تشریح کی ہے بلکہ قرآن وسنت اور آثار صحابہؒ سے ان مسائل کے دلائل اور مآخذ کو بھی حسن ترتیب کے ساتھ بیان کیا ہے اور مسائل کو نمبر وار ترتیب کے ساتھ درج کر کے ان کے سمجھنے میں مزید آسانی پیدا کر دی ہے۔
مولانا ثمیر الدین قاسمی کے ساتھ ہمارا پرانا تعلق ہے اور میں نے مانچسٹر میں ان کی قیام گاہ پر انھیں اس علمی خدمت میں کئی بار سراپا منہمک دیکھا ہے۔ اس دور میں بھی انھوں نے اس کا زیر ترتیب مسودہ متعدد بار دکھایا اور میری ہمیشہ دعا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اس کام کو مکمل کرنے کی توفیق دیں۔ اپنے مشمولات کے حوالہ سے یہ کتاب صرف قدوری کی شرح نہیں ہے بلکہ فقہ حنفی کے مسائل وجزئیات اور ان کے دلائل ومآخذ کا اردو زبان میں عظیم الشان ذخیرہ ہے جو طلبہ، اساتذہ اور تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے یکساں مفید ہے۔
ہمارے ایک اور محترم دوست الحاج عبد الرحمن باوا نے ’’ختم نبوت اکیڈمی لندن‘‘ کی طرف سے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے اور صحت، خوب صورتی اور معیار کا یکساں لحاظ رکھا ہے۔ پاکستان میں یہ کتاب اسلامی کتب خانہ ، علامہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دار الکتاب، غزنی اسٹریٹ، اردو بازار لاہور سے طلب کی جا سکتی ہے۔
’’اذکار سیرت‘‘
معروف ماہر تعلیم پروفیسر سید محمد سلیم مرحوم کے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر مختلف مضامین کا مجموعہ مذکورہ بالا عنوان کے ساتھ زوار اکیڈمی پبلی کیشنز ، اے۔۴/۱۷ ناظم آباد ۴، کراچی ۱۸ نے شائع کیا ہے جس میں مختلف عنوانات کے تحت سیرت طیبہ کے حوالے سے مفید معلومات پیش کی گئی ہیں۔ ۲۴۰ صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت درج نہیں ہے۔
’’مقالات سیرت‘‘
فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ کے سیرت نبوی کے موضوع پر مختلف مضامین کو ان کے لائق فرزند مولانا قاری خلیل احمد تھانوی نے مرتب کیا ہے اور اسے ادارۃ اشرف التحقیق دار العلوم الاسلامیہ، کامران بلاک ، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور نے شائع کیا ہے۔ پونے دو سو صفحات کی مجلد کتاب کی قیمت درج ہے۔
’’تعلیمات اسلام‘‘
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس اللہ سرہ العزیز کے خلیفہ اعظم حضرت مولانا شاہ مسیح اللہؒ نے اسلامی تعلیمات کو تعلیم وتدریس کے لیے سوال وجواب کی صورت میں مرتب فرمایا ہے جو عقائد و عبادات سے لے کر معاملات واخلاق تک تمام ضروری پہلووں کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کا یہ گراں قدر مجموعہ مولانا وکیل احمد شیروانی کی نگرانی میں مکتبہ فیض اشر ف، بیت الاشرف، ۷۸۔ اے ماڈل ٹاؤن، لاہور نے شائع کیا ہے جو سکولوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے بطور خاص مفید ہے۔ اس کے پانچ حصے ایک جلد میں یکجا شائع کیے گئے ہیں اور قیمت درج نہیں ہے۔
’’مفتی محمودؒ سے ملیے‘‘
کراچی کے جناب مولانا قطب الدین عابد نے حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کے افکار وخیالات اور ارشادات وتعلیمات کو خوب صورت ترتیب کے ساتھ اس کتاب میں جمع کیا ہے جن میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے حالات وخدمات کے ساتھ ساتھ ان کے اکیس کے لگ بھگ بھی شامل ہیں جو انھوں نے مختلف اوقات میں اہم جرائد کو دیے اور یہ انٹرویوز بلاشبہ اس دور کی دینی جدوجہد اور قومی سیاست کی عکاسی کرتے ہیں۔
ساڑھے چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب مفتی محمود اکیڈمی، کراچی نے شائع کی ہے جس کی قیمت اڑھائی سو روپے ہے اور اسے جمعیۃ پبلی کیشنز متصل مسجد پائلٹ ہائی اسکول، وحدت روڈ لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
(ابو عمار زاہد الراشدی)
الشریعہ اکادمی میں فکری نشست
ادارہ
ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا عیسیٰ منصوری اور ابراہیم کمیونٹی کالج لندن کے پرنسپل مولانا مشفق الدین اپنے ر فقا مولانا شمس الضحٰی اور مولانا بلال عبد اللہ کے ہمراہ ۳ ؍جنوری ۲۰۰۶ء کو الشریعہ اکادمی میں تشریف لائے۔ اس موقع پر ایک خصوصی فکری نشست کااہتمام کیا گیا جس سکول وکالج، دینی مدارس کے اساتذہ اور دیگر اہل علم نے شرکت کی۔ تقریب کی صدارت ایچی سن کالج لاہور کے پروفیسر جناب ظفر اللہ شفیق صاحب نے فرمائی۔ افتتاحی کلمات میں الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے معزز مہمانوں کاشکریہ ادا کیااور اکادمی کے قیام کو مولاناعیسیٰ منصوری کے ساتھ اپنی فکری رفاقت کا نتیجہ قرار دیا۔ مہمان خصوصی مولانا عیسیٰ منصوری نے ’’زوال امت کے اسباب‘‘ جیسے فکر انگیز موضوع پر تفصیلی اظہار خیال کیا اور دینی و عصری علوم سے دوری نیز دعوت وتبلیغ کے فریضہ کو نظر انداز کرنے کو زوال امت کی بڑی وجہ قرار دیا۔ پروفیسر ظفر اللہ شفیق صاحب نے صدارتی خطبے میں اس بات پر زور دیاکہ امت مسلمہ کے زوال کے اسباب کے تدارک کے لیے بھر پو ر عملی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ پر وقار تقریب مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے استاذ حدیث مولاناعبد المالک شاہ کے دعائیہ کلمات کے ساتھ اختتام پزیر ہوئی۔
نماز مغرب کے بعد الشریعہ اکادمی کے اساتذہ اور ابراہیم کمیونٹی کالج لندن کے پرنسپل جناب محمد مشفق الدین اور ان کے رفقا جناب بلال عبد اللہ اور شمس الضحی کے درمیاں ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں اکادمی کے ناظم مولانا محمد یوسف نے اکادمی کے اساتذہ پروفیسر میاں انعام الرحمن اور پروفیسر محمد اکرم ورک کے ہمراہ معزز مہمانوں کو اکادمی کے نظام اور نصاب تعلیم ، اہداف اور طریقہ کار پر تفصیلی بریفنگ دی۔ یہ جوان فکر اساتذہ پر مشتمل یہ ٹیم ان دنوں برصغیر پاک وہند کے ایسے اداروں کا دورہ کر رہی ہے جو درس نظامی کے روایتی نصاب کی بجائے قدیم اور عصری علوم کے امتزاج پر مبنی نئے نصابی تجربات کر رہے ہیں ۔ ابراہیم کمیونٹی کالج لندن اپنے ادارے کے لیے ایسا نصاب مدون کرنا چاہتا ہے جو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہو تاکہ اس کے ذریعے سے ایسے علما اور مبلغین پیدا کئے جاسکیں جو اقوام مغرب میں بہتر انداز میں دعوت وتبلیغ کاکام کر سکیں۔
(رپورٹ:فضل حمید چترالی)
اپریل ۲۰۰۶ء
دینی مدارس: علمی وفکری دائرے میں وسعت کی ضرورت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے زیر اہتمام دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے دس روزہ تربیتی پروگرام میں ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر نے ۱۲؍مارچ کو دینی مدارس کو درپیش مسائل اور چیلنجز کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔ ان کی گفتگو کا ایک حصہ یہاں نقل کیا جا رہا ہے۔ مدیر)
داخلی نصاب ونظام کے حوالے سے دینی مدارس کو ایک اورچیلنج یہ درپیش ہے کہ اسلامی ثقافت واقدار کاتحفظ ان کے اہداف میں شامل ہے، لیکن جس مغربی ثقافت اور فلسفہ سے اسلامی اقدار وثقافت کوخطرہ درپیش ہے، اس سے واقفیت کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی۔ مغربی فکرو فلسفہ کیاہے اور مغربی ثقافت واقدار کا پس منظر کیاہے؟ اس سے دینی مدارس کے اساتذہ او رطلبہ کی غالب اکثریت ناواقف ہے اور یہ افسوس ناک صورت حال ہے کہ جس دشمن سے ہم لڑرہے ہیں، اس کی ماہیت، طریقہ کار، ہتھیاروں اور دائرہ کار سے ہمیں شناسائی تک حاصل نہیں ہے۔مغربی فلسفہ ونظام اور ثقافت واقدار کا ایک تاریخی پس منظر ہے، اس کی اعتقادی بنیادیں ہیں، اس کاایک عملی کردار ہے اور اس کاوسیع دائرۂ اثر ہے، مگر دینی مدارس کے نصاب میں اس سے آگاہی کا کوئی حصہ شامل نہیں ہے، حالانکہ ہمارے سامنے اسلاف کی یہ عظیم روایت موجودہے کہ جب ہمارے معاشرے میں یونانی فلسفہ نے فروغ حاصل کیاتھا اور ہمارے عقائد کے نظام کو متاثر کرنا شروع کیاتھا توہمارے اکابر مثلاً امام ابو الحسن اشعری، ؒ امام ابو منصور ماتریدیؒ ، امام غزالیؒ ، امام ابن رشد ؒ اور امام ابن تیمیہؒ نے یونانی فلسفہ پر عبور بلکہ برتری حاصل کی تھی او ر اسی زبان اور اصطلاحات میں یونانی فلسفہ کے پیداکردہ اعتراضات وشبہات کاجواب دے کر اسلامی عقائد کی حقانیت اور برتری ثا بت کی تھی، ورنہ ایک دور میں یونانی فلسفہ ہمارے عقائد کے نظام میں اتھل پتھل کی کیفیت پیدا کرنے میں کامیاب دکھائی دے رہاتھا۔ اس حوالے سے دینی مدارس سے بجا طور پر یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ مغربی فکر وفلسفہ کو بطور فن اپنے نصاب کاحصہ بنائیں، اس کے ماہرین پیدا کریں اور اسی کی زبان اور اصطلاحات میں شکوک وشبہات کے ازالہ اور اسلامی عقائد وثقافت کے تحفظ ودفاع کا اہتمام کریں۔
دینی مدارس کو درپیش ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ عالمی ماحول تو رہا ایک طرف، ہم عام طور پر اپنے ارد گرد کے ماحول سے بھی باخبر نہیں ہوتے۔ میرے خیال میں اب ارد گرد کے ماحول اور عالمی ماحول میں فرق کرنا مشکل ہوتا جا رہاہے اور مزید مشکل ہوجائے گا۔ یہ معلومات کی وسعت کادور ہے، ہر چیز سے باخبر رہنے کادورہے اور حالات پر نظر رکھنے کا دور ہے۔ اس ماحول میں دینی مدارس کواپنے اس طرز عمل اور ترجیحات پر نظر ثانی کرناہوگی جو اپنے اساتذہ اور طلبہ کو بہت سے معاملات میں بے خبر رکھنے کے لیے ان کی پالیسی کا حصہ ہے۔مثلاً:
- معاصرمذاہب کا تعارفی مطالعہ انتہائی ضروری ہے، بالخصوص وہ چھ سات مذاہب جن کے پیروکار اس وقت دنیا میں وسیع دائرے میں پائے جاتے ہیں او ر ان کے مستقل ممالک اور حکومتیں قائم ہیں، مثلاً یہودی، عیسائی، ہندو، بدھ مت اور سکھ وغیرہ۔ ان کا تعارفی بلکہ اسلام کے ساتھ تقابلی مطالعہ دینی مدارس کے فضلا کے لیے ضروری ہے ۔
- مسلم امہ کاحصہ سمجھے جانے والے اعتقادی اور فقہی مذاہب مثلاً اہل سنت، اہل تشیع، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری، سلفی، جعفری، زیدی وغیرہ کاتعارفی مطالعہ اور ان کے اصول اور تاریخ سے واقفیت ضروری ہے ۔ اس کے ساتھ ہی عصری مسلم فکری تحریکات، جو روایتی دائرے سے ہٹ کر ہیں، ان کے بارے میں ضروری معلومات سطحی اور نامکمل نہ ہوں بلکہ اصل ماخذ سے صحیح معلومات ہونی چاہییں۔
- طب، سائنس، ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ وغیرہ کی عملی کارفرمائی سے بہت سے مسائل کی نوعیت تبدیل ہوگئی ہے اور ہوتی رہتی ہے۔ ان سے آگاہ ہوئے بغیر فتویٰ دینا یا مسئلہ بیان کرنا شرعی اصولوں کے منافی ہے، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ فن کو حاصل کرنا اور چیز ہے، اور اس کے بارے میں ضروری معلومات رکھنا اس سے مختلف امر ہے۔
- عالمی اور علاقائی زبانو ں سے واقفیت اور ان پر عبور ایک مستقل مسئلہ ہے۔ دینی مدارس میں انگریزی کی تعلیم کا ایسا اہتمام کہ کوئی فاضل انگلش میں تقریر کر سکے یا معیاری مضمون لکھ سکے، سرے سے موجود نہیں ہے ۔ ہمار ی عربی، کتاب فہمی تک محدود ہے اور سالہا سال کی تعلیم اور تدریس کے بعد بھی ہم عربی زبان میں اس سے زیادہ عبور حاصل نہیں کر پاتے کہ کتاب کو سمجھ لیں اور اس کو پڑھا سکیں۔ بول چال، فی البدیہہ تقریر اورمضمون نویسی کی صلاحیت حاصل کرنا ہمارے اہداف میں شامل نہیں ہے، بلکہ اپنی قومی زبان اردو میں بھی ہماری حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ ہمارے اکثر فضلا اچھی اردو نہیں بول سکتے اور نہ ہی اردو میں ڈھنگ کا کوئی مضمون تحریر کرسکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا افسوس ناک خلا ہے جس نے ہمیں ابلاغ کے شعبے میں بالکل ناکارہ بنا رکھا ہے ۔
- ابلاغ کے جدید ذرائع مثلاً کمپیوٹر، انٹر نیٹ، ویڈیو وغیرہ تک ہماری رسائی محل نظر ہے اور نہ صرف یہ کہ ز بان اور ذرائع عام طور پر ہماری دسترس سے باہر ہیں، بلکہ اسلوب کے حوالے سے بھی ہم آج کے دور سے بہت پیچھے ہیں۔ ہماری زبان ثقیل او راسلوب فتویٰ اور مناظرہ کاہوتاہے، جبکہ یہ تینوں باتیں اب متروک ہوچکی ہیں۔ آج کی زبان سادہ اور اسلوب لابنگ اور بریفنگ کاہے، مگر ہم ان دونوں سے نا آشنا ہیں جس کی وجہ سے ہم خود اپنے معاشرہ اور ماحول میں ہی بسااوقات اجنبی ہو کر رہ جاتے ہیں اور ابلاغ کی ذمہ داری پوری نہیں کرپاتے۔
- ہمارے ہاں عمرانی اور معاشرتی علوم کاارتقا مسلم اسپین کے دور تک رہاہے۔ اس کے بعد ایسی بریک لگی ہے جیسے ہمارے ہاں معاشرت اور عمرانیات کاارتقا ہی رک گیا ہو۔ تب سے ا س شعبہ میں ہم پر جمود طاری ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کے اجتہادی کام کے علاوہ اس دوران میں کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی او ر شاہ صاحب ؒ کے بعد بھی تین صدیوں سے سناٹا طاری ہے ۔ معاشرت کاارتقا تو ظاہر ہے، رک نہیں سکتا مگر معاشرت وتہذیب کے حوالہ سے ہماری سوئی ابھی تک مسلم اسپین پر اٹکی ہوئی ہے اور ہم اس سے آگے بڑھتے نظر نہیں آرہے ۔ اس جمود کو توڑے بغیر ہم معاشرت وتمدن اور ثقافت وعمرانیات کے بارے میں دنیا کی راہ نمائی کامقام آخر پھر سے کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ مگر دینی مدارس میں عمرانی علوم کے حوالے سے کوئی اجتہادی کام اور علمی پیش رفت تو رہی ایک طرف، ان علوم تک ہمارے فضلااور اساتذہ کی رسائی بھی ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے ۔
- دینی مدارس میں ہمارے اعتقادی اور فقہی مباحث اور اختلافات پر خوب کام ہوتاہے اوریہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ہماری توانائیوں اور صلاحیتوں کا بڑ ا حصہ صرف ہوتاہے۔ مجھے اس کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں، لیکن اختلافات کی درجہ بندی اور تر جیحات کا ہمارے ہاں کوئی تصور نہیں۔ بسااوقات اولیٰ اور غیر اولیٰ کے مسائل اورفروعی اختلافات کفر واسلام کے معرکے کا روپ دھار لیتے ہیں اور کبھی اصولی اور بنیادی مسائل بھی نظر انداز ہونے لگ جاتے ہیں۔ اعتقادی مسائل اور فقہی اختلافات پر ضروربات ہونی چاہیے اور طلبہ کو ان سے متعارف کرانا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ان اختلافات کی درجہ بندی اور ترجیحات بھی ان کے سامنے واضح ہونی چاہیے اور انہیں اس با ت کا علم ہونا چاہیے کہ کون سی بات کفر واسلام کی ہے اور کون سی بات اولیٰ اور غیر اولیٰ کی ہے، کس اختلاف پر سخت رویہ اختیار کرنا ضروری ہے او ر کون سے اختلاف کو کسی مصلحت کی خاطر نظر انداز بھی کیا جاسکتاہے ۔
- تحقیق کے حوالے سے ہمارے ہاں صرف تین شعبوں میں کام ہوتاہے: (۱) اعتقادی وفقہی اختلافات پر خوب زور آزمائی ہوتی ہے، (۲) افتا میں ضرورت کے مطابق تحقیق ہوتی ہے، (۳) دینی جرائد میں عام مسلمانوں تک اپنے اپنے ذوق کے مطابق دینی معلومات پہنچانے کے لیے تھوڑی بہت محنت ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ امت کی اجتماعی ضروریات اور ملت اسلامیہ کے عالمی ماحول کی مناسبت سے کسی تحقیقی کام کا ہمارے ہاں کوئی تصور نہیں ہے۔ کچھ افراد اپنے ذوق اور محنت سے ایسا ضرور کررہے ہیں، لیکن بحیثیت ایک ادارہ اور نیٹ ورک کے دینی مدارس کے پروگرام میں یہ چیز شامل نہیں ہے۔
- معلومات کی وسعت، تنوع اور ثقاہت کا مسئلہ بھی غور طلب ہے۔ کسی بھی مسئلہ پر بات کرتے ہوئے ہم میں سے اکثر کی معلومات محدود، یک طرفہ اور سطحی ہوتی ہیں۔ الاّ یہ کہ کسی کا ذوق ذاتی محنت اورتوجہ سے ترقی پاجائے اور وہ ا س سطح سے بالا ہو کر کوئی کام کر دکھائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تحقیق، مطالعہ اور استدلال واستنباط کے فن کو ایک فن اور علم کے طور پر دینی مدارس میں پڑھایا جائے اور طلبہ کو اس کام کے لیے باقاعدہ طور پر تیار کیاجائے۔
- دینی مدارس کی لائبریریوں کا حال بھی ناگفتہ بہ ہے۔ گنتی کے چند بڑے مدارس کے استثنا کے ساتھ عمومی طور پر دینی مدارس کی لائبریریوں میں درسی کتابوں سے ہٹ کر جو کتابیں پائی جاتی ہیں، وہ کیف مااتفق کے اصول پر کسی منصوبہ بندی اور ہدف کے بغیر ہوتی ہیں۔ ان تک طلبہ کی رسائی اوراستفادہ کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں حتیٰ کہ بعض مدارس میں تو روزانہ اخبارات کاداخلہ بھی بندہوتاہے اور طلبہ پر پابندی ہوتی ہے کہ وہ اخبارات وجرائد کا مطالعہ نہیں کریں گے۔ خدا جانے اپنے طلبہ کو دنیا، اپنے ملک اورارد گرد کے ماحول سے بے خبر رکھ کر یہ مدارس انہیں کون سے ماحول میں کام کرنے کی تربیت دے رہے ہوتے ہیں۔
- مذاہب اورتہذیبوں کے درمیان مکالمہ کی ضرورت بھی دن بدن عالمی سطح پر بڑھتی جارہی ہے اور اس کی طرف بین الاقوامی حلقے متوجہ ہورہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس مکالمہ کے اصل فریق کون ہیں اورمکالمہ کا ایجنڈا کیا ہے۔یہ ایک مستقل موضوع ہے جس پر الگ سے گفتگو ہونی چاہیے، لیکن مذاہب کے درمیان مکالمہ جس انداز سے آگے بڑھ رہاہے، اس سے دینی مدارس کے اساتذہ اورطلبہ کابے خبر اور لاتعلق رہنا سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ اس مکالمہ کے پس منظر، ضرورت، دائرہ کار اور مضرت ومنفعت سے دینی مدارس کے اساتذہ اورطلبہ کا آگاہ ہونا ضروری ہے، بلکہ اس مکالمے کے تو اصل فریق ہی دینی مدارس ہیں اور انہیں اس سلسلہ میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔
آزادی رائے، مغرب اور امت مسلمہ
محمد عمار خان ناصر
ڈنمارک کے ایک اخبار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور گستاخی پر مبنی خاکوں کی اشاعت سے عالم اسلام میں احتجاج کی جو طوفانی لہر پیدا ہوئی تھی، جذبات کا کتھارسس ہو جانے کے بعد حسب توقع مدھم پڑتی جا رہی ہے۔ مذہبی قائدین کی توجہ فطری طور پر دوسرے مسائل نے حاصل کر لی ہے اور خدا نخواستہ اس نوعیت کے کسی آئندہ واقعے کے رونما ہونے تک، عوامی سطح پر پائے جانے والے مذہبی جذبات بھی بظاہر پرسکون ہو چکے ہیں۔ اس طرح کے کسی بھی بحران میں امت مسلمہ کی جانب سے اختیار کردہ حکمت عملی کا تجزیہ، غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشان دہی، مستقبل کی پیش بینی اور اس حوالے سے کسی ٹھوس لائحہ عمل کی تیاری اگرچہ ہماری روایت کے خلاف ہے، تاہم اس میں کوئی حرج نہیں کہ تازہ واقعے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات وواقعات سے صورت حال کے جو توجہ طلب پہلو ابھر کر سامنے آئے ہیں، ان پر کم سے کم ایک نظر ہی ڈال لی جائے۔
مغرب اور عالم اسلام کے مابین پرامن تعلقات کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ قرآن مجید، پیغمبر اسلام، یا مسلمانوں کے مذہبی شعائر کی توہین پر مبنی اس طرح کے واقعات ظہور پذیر نہ ہوں۔ اس ضمن میں بنیادی الجھن یہ ہے کہ مغربی معاشرہ چونکہ ایک خاص فکری ارتقا کے نتیجے میں مذہبی معاملات کے حوالے سے حساسیت کھو چکا ہے، نیز وہاں ریاستی نظم اور معاشرے کے مابین حقوق اور اختیارات کی بھی ایک مخصوص تقسیم وجود میں آ چکی ہے، اس وجہ سے مغربی حکومتیں قانونی سطح پر ایسے واقعات کی روک تھام کی کوئی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس صورت حال میں امت مسلمہ کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں اختلاف رائے موجود ہے۔ ایک مکتب فکر کی رائے یہ ہے کہ معروضی حالات میں دعوتی اسپرٹ کے تحت اس طرح کے واقعات کے حوالے سے صبر واعراض سے کام لیا جائے اور اسلام کا پیغام مثبت طریقے سے مغربی دنیا تک پہنچانے پر اکتفا کی جائے۔ دوسرا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ اس ضمن میں امت مسلمہ کی حساسیت کو مغرب اور اسلام کے مابین تعلقات کے حوالے سے باقاعدہ ایشو بننا چاہیے اور مغرب کو عالم اسلام کا موقف سننے، اس پر غور کرنے اور اس کو وزن دینے پر حتی الوسع مجبور کرنا چاہیے۔ ہم اس اختلاف کو حکمت عملی کا اختلاف سمجھتے اور اس حوالے سے دونوں نقطہ ہائے نظر کے مابین تفصیلی مباحثے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تاکہ دونوں لائحہ ہائے عمل کے مضمرات پوری طرح سامنے آ سکیں۔ تاہم ہماری ناقص رائے میں دوسری اپر وچ زیادہ عملی اور امت مسلمہ کے جذبات ونفسیات کے زیادہ قرین ہے۔
اگر عالم اسلام سیاسی واقتصادی لحاظ سے اس پوزیشن میں ہوتا کہ مغرب کو اپنا موقف ’’سمجھا‘‘ سکے تو معاملہ نسبتاً آسان ہو جاتا، لیکن جیسا کہ واضح ہے، یہ حل سردست میسر نہیں۔ حالیہ واقعات نے، البتہ، مسئلے کے ایک اور پہلو کو نمایاں کیا ہے اور وہ یہ کہ مغربی معاشرے کے نمایاں اور فہیم طبقات نے، بالعموم، اس مسئلے کے حوالے سے امت مسلمہ کے ساتھ اخلاقی ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور مغربی ذرائع ابلاغ پر زور دیا ہے کہ وہ کسی بھی مذہبی گروہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے گریز کریں۔ اس ضمن میں یورپی پارلیمنٹ کی منظور کردہ قرارداد کو ہمارے خیال میں اہل مغرب کے عمومی زاویہ نگاہ کا ترجمان قرار دیا جا سکتا ہے۔ یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد میں ذرائع ابلاغ سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ آزادی رائے کے حق کو انسانی ومذہبی حقوق کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے استعمال کریں۔ قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ آزادی رائے کے حق کے استعمال کے نتیجے میں اگر کسی فرد یا گروہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے تو اس کی تلافی کے لیے اسے عدالت کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اس مقصد کے لیے (قرارداد کے بقول) یورپی ممالک میں نافذ موجودہ قوانین کافی ہیں۔
یہ رد عمل بدیہی طور پر اس رد عمل سے مختلف ہے جو مغربی دنیا نے سلمان رشدی کے معاملے میں ظاہر کیا تھا۔ غور کیا جائے تو اس کا سبب خود ہماری حکمت عملی میں پوشیدہ ہے۔ سلمان رشدی کے معاملے میں مغرب کی اخلاقی حس کو اپیل کرنے کے بجائے اس کے قانونی دائرۂ اختیار کو چیلنج کرتے ہوئے رشدی کے قتل کا فتویٰ صادر کیا گیا تھا، جبکہ حالیہ واقعے میں ہم نے عالمی فورم پر یہ مسئلہ اصلاً اخلاقی سطح پر اٹھایا۔ یہ اسی کا اثر تھا کہ بعد میں رونما ہونے والے پرتشدد واقعات کے باوجود مغربی دنیا معاملے کو اخلاقی زاویے ہی سے دیکھنے پر مجبور ہوئی اور امت مسلمہ کا موقف اور جذبات ایک حد تک اہل مغرب تک پہنچ سکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اہل مغرب کی عمومی اخلاقی حس اور عالم اسلام کے ساتھ پرامن تعلقات کے قیام کی خواہش کو، جو وسیع پیمانے پر پائی جاتی ہے، حکمت اور دانش کے ساتھ وسیلہ بنایا جائے تو مغربی معاشرے میں مذہبی نوعیت کی نہ سہی، سیاسی ومفاداتی نوعیت کی سہی، وہ حساسیت پیدا کی جا سکتی ہے جس کا فقدان اس وقت عالم اسلام کے احساسات وجذبات کی کماحقہ رعایت میں مانع ثابت ہو رہا ہے۔
تازہ صورت حال کا ایک اور مثبت اور قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ اس نوعیت کے گزشتہ واقعات کی طرح، اس واقعے کے بعد بھی مغربی عوام میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں مزید جاننے اور بہتر واقفیت حاصل کرنے کے جذبے کو مہمیز ملی ہے۔ امریکی مسلمانوں کی تنظیم ’’کیر‘‘ (Council for American-Islamic Relationship) کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ بحران کے بعد جب کونسل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صحیح معلومات فراہم کرنے کی ایک مہم کا آغا زکیا تو صرف ۴۸ گھنٹے کے اندر امریکا اور کینیڈا سے ۱۶۰۰ پیغام موصو ل ہوئے جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی گئی تھی۔ گزشتہ سال مئی ۲۰۰۵ میں امریکی فوجیوں کی جانب سے گوانتانامو بے میں قرآن مجید کی بے حرمتی کے واقعات سامنے آئے تو اس موقع پر بھی ’’کیر‘‘ نے قرآن مجید کے مترجم نسخے پھیلانے کی مہم شروع کی اور ہزاروں امریکیوں نے قرآن مجید کا نسخہ حاصل کرنے کے لیے کونسل کے ساتھ رابطہ کیا۔ امت مسلمہ اور بالخصوص دیار مغرب کے مسلمانوں کو مغربی دنیا میں پیدا ہونے والے اس تجسس اور جذبہ جستجو کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور اس فضا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمت اور دانش کے ساتھ اسلام اور پیغمبر اسلام کی اصل تصویر اہل مغرب کے سامنے پیش کرنی چاہیے۔
یہ تو وہ پہلو ہیں جن کا تعلق اسلام اور مغرب کے باہمی روابط سے ہے۔ اس کے علاوہ امت مسلمہ کی داخلی صورت حال اور رویے کے حوالے سے بھی چند امور قابل توجہ، بلکہ درست تر الفاظ میں قابل اصلاح ہیں:
پہلی چیز ہے کہ دنیا کو اخلاقیات کا درس دینے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنے گھر کا جائزہ لے کر یہ دیکھیں کہ دوسرے مذہبی گروہوں کے جذبات کے احترام کے حوالے سے خود ہماری اخلاقی صورت حال کیا ہے۔ افسوس ہے کہ اس ضمن میں کوئی اچھی مثال دینے کے لیے بالعموم ماضی ہی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ہماری تاریخ کے دور اول نے یہ منظر بھی دیکھا کہ فتح اسکندریہ کے موقع پر جب کسی مسلمان سپاہی کے پھینکے ہوئے تیر سے سیدنا مسیح علیہ السلام کی تصویر کی ایک آنکھ پھوٹ گئی تو اسلامی لشکر کے سپہ سالار عمرو بن العاص نے ’قصاص‘ کے لیے اپنی آنکھ پیش کر دی، اور اب دور زوال میں ہم نے اس ’’اجتماعی اخلاقیات‘‘ کا مظاہرہ بھی کیا کہ خالص سیاسی محرکات کے تحت دنیا کے ایک بڑے مذہب کے بانی گوتم بدھ کے مجسمے تباہ کیے گئے تو اسے بت شکنی کی روایت کا احیا قرار دے کر اس پر داد وتحسین کے ڈونگرے برسائے گئے۔ ہمارے ہاں ایک مذہبی گروہ کے ’’پیغمبر‘‘ کے بارے میں تضحیک، تمسخر اور توہین پر مبنی جو لٹریچر شائع ہوتا اور مذہبی جلسوں میں جو زبان معمول کے طور پر استعمال کی جاتی ہے، وہ ہماری اخلاقی سطح کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔
دوسری چیز، جو اہمیت کے لحاظ سے کسی طرح بھی پہلی سے کم نہیں، یہ ہے کہ اہل اسلام نے، کم از کم مغرب میں رونما ہونے والے واقعات پر رد عمل ظاہر کرنے کے حوالے سے، توہین رسالت کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تک محدود کر رکھا ہے۔ مغرب میں سیدنا مسیح علیہ السلام اور دوسرے پیغمبروں کے بارے میں بھی توہین اور گستاخی کا رویہ موجود ہے اور اس کا اظہار مختلف واقعات کی صورت میں ہوتا رہتا ہے، لیکن ہمارے علم میں ایسا کوئی واقعہ نہیں کہ امت مسلمہ نے، امت کی سطح پر نہ سہی، انفرادی یا اداراتی سطحوں پر ہی اس حوالے سے غم وغصے کے جذبات اہل مغرب تک پہنچانے کی کوشش کی ہو۔ اللہ کے پیغمبروں کے مابین یہ تفریق اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے اور اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہود ونصاریٰ کے ساتھ مذہبی وسیاسی مخاصمت ہماری نفسیات پر اس درجے میں اثر انداز ہو چکی ہے کہ ہم نے ’’اپنے‘‘ پیغمبر اور ’’ان کے‘‘ پیغمبروں کے مابین بھی حد فاصل قائم کر لی ہے۔
تیسری چیز یہ ہے کہ ہمیں توہین وتضحیک اور تنقید کے مابین فرق کو ہر حال میں ملحوظ رکھنا ہوگا۔ توہین وتمسخر کا جواب تو یقیناًاعراض یا پرامن احتجاج ہے، لیکن اسلام یا پیغمبر اسلام پر کی جانے والی کوئی تنقید اگر علمی یا استدلالی پہلو لیے ہوئے ہے تو اس کو اسی زاویے سے دیکھنا چاہیے۔ ہماری رائے میں قرآن کے مقابلے میں کسی کا ’الفرقان‘ پیش کرنا قرآن کی توہین نہیں بلکہ اس پر تنقید ہے، اور اس پر احتجاج کرنا ایک بے معنی بات ہے۔ اپنے جیسا کلام پیش کرنے کا چیلنج خود قرآن نے جن وانس کو دے رکھا ہے اور اگر کوئی شخص اس چیلنج کے جواب میں کوئی کاوش کرتا ہے یا کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ اگر ہمارا قرآن مجید کے ایک معجز کلام ہونے کا دعویٰ محض اعتقادی نہیں ہے تو پھر کسی کو اس میں کوئی شبہہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس طرح کی کوئی بھی کوشش قرآن کے چیلنج کو مزید موکد کرنے کے سوا اور کوئی خدمت انجام نہیں دے سکے گی۔
سیرت نبوی اور ہجرت: ایک معنویاتی مطالعہ
پروفیسر میاں انعام الرحمن
ہجرت، قدیم دور سے ہی انسانی زندگی کا لازمہ رہی ہے۔ تاریخ عالم کی کسی بھی کتاب کی ورق گردانی کر لیجیے، اس میں آپ کو حضرت انسان بار بار رختِ سفر باندھتا دکھائی دے گا۔ کہیں انسان کی بے بسی کے دل دوز مناظر ملیں گے تو کہیں عزم و ہمت کی تاریخ ساز داستانوں سے واسطہ پڑے گا۔ لیکن یہ صرف انسان ہی نہیں ہے جس کے نصیب میں مسلسل سفر لکھا ہے، بلکہ ہجرت کا مظہر چرند پرند سے لے کر نباتات اور جمادات تک پھیلا ہوا ہے۔ تند و تیز ہوائیں ، نباتاتی بیجوں اور پرندوں کو زبردستی اٹھا کر کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہیں۔ بعض جانور اور پرندے خود بھی صحرا نوردی اور جہاں گردی کا مزہ چکھتے ہیں اور ایک ماحول سے دوسرے ماحول میں ہجرت کر جاتے ہیں۔ ارضیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ دریا اپنے رخ بدل لیتے ہیں، چشمے خود پیاسے ہو جاتے ہیں، اور زمینیں کٹاؤ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ کہیں پہاڑ اپنا وجود کھو دیتے ہیں اور کہیں نئے ٹیلے ابھر آتے ہیں۔ ساحلی علاقے سمندر بن جاتے ہیں اور سمندر میں ہی چند نئے جزیرے سر نکال کر آسمان کو تکنے لگتے ہیں۔ کہیں جنگلات معدوم ہو جاتے ہیں اور کہیں جنگلات کی تازہ بستیاں آباد ہو نا شروع ہو جاتی ہیں۔ زلزلے ، طوفان اور سیلاب، قیامت تو برپا کرتے ہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ منجمد زندگی کو بھی ایسی مہاجرت سے نوازتے ہیں جس میں زمین کی زرخیزی اور انسانی عزم جیسے عناصر گھل مل کر بو قلمونی کا سماں پیدا کر دیتے ہیں۔ یوں ہجرت ، انسانی زندگی کا نہیں ، بلکہ خود زندگی کا ایک آفاقی مظہر بن جاتی ہے۔
مذہبی قصوں میں ہجرت کا تذکرہ
تاریخِ عالم کے وہ ابواب جن میں مذہبی قصوں کا ذکر ہے، ہجرت کے تذکرے سے خالی نہیں ہیں۔ مذہبی قصوں میں ہجرت کی روداد، اساطیری روپ دھار لیتی ہے ۔ آدم و ابلیس کا قصہ ، جسے ہر الہامی مذہب کے قصوں میں کلیدی اہمیت حاصل ہے ، ایک خاص پہلو سے ہجرت ہی کی داستان ہے۔ قرآن کے مطابق شیطان کے بہکاوے میں آ کر آدم ؑ وحوا نے ایک غلطی کی اور اسی غلطی کی پاداش میں انھیں جنت سے نکال دیا گیا۔ چونکہ ہبوطِ آدم ؑ میں خود آدم ؑ کا اپنا اختیار شامل نہیں تھا، اس لیے زمین پر انسانی زندگی ایک پہلو سے، جلاوطنی کے مانند محسوس ہوتی ہے، لیکن یہ صرف جلاوطنی بھی نہیں، کیونکہ آدم ؑ کو توبہ کرنے کی توفیق دی گئی تھی اور اللہ رب العزت نے توبہ قبول کرنے کے علاوہ آدم ؑ کو ہدایت بھی بخش دی تھی۔ (قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْن / فَتَلَقَّی آدَمُ مِن رَّبِّہِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْْہِ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ / ثُمَّ اجْتَبَاہُ رَبُّہُ فَتَابَ عَلَیْْہِ وَہَدَی) اس قصے میں توبہ کا عنصر، جلاوطنی کے سزا والے پہلو کو ختم کر کے جنت کی طرف واپسی کا مژدہ سناتا ہے۔ ( وَلَکُمْ فِیْ الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَی حِیْنٍ/ قَالَ فِیْہَا تَحْیَوْنَ وَفِیْہَا تَمُوتُونَ وَمِنْہَا تُخْرَجُون ) واپسی کا یہ مژدہ نہایت اہم ہو جاتا ہے، کیونکہ اس سے قصہ آدم و ابلیس میں جلاوطنی کے بجائے نہ صرف ہجرت کا پہلو در آتا ہے بلکہ ہجرت کی ایک بڑی خصوصیت ’’ واپسی ‘‘ نہایت وضاحت کے ساتھ مشخص ہو جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ ہجرت ، اساطیری سطح پر جلاوطنی کا نام نہیں ہے ، بلکہ اس کے ساتھ جنت کی طرف واپسی اور واپسی کی شرائط پوری کرنے کا ایک عظیم چیلنج منسلک ہے۔ وَلَقَدْ عَہِدْنَا إِلَی آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہُ عَزْماً کے مصداق عہد کی پاسداری کی خاطر ، گم گشتہ عزم کی بازیافت ہی اس چیلنج کا جواب ہے اور اس کے مقابل ابلیس کو قَالَ فَإِنَّکَ مِنَ الْمُنظَرِیْنَ إِلَی یَومِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ / قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِیْ إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ قَالَ فَإِنَّکَ مِنَ الْمُنظَرِیْنَ کے مصداق، عزم پر مسلسل وار کرنے کی مہلت بھی دے دی گئی ہے۔ قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَیْْتَنِیْ لأُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِیْ الأَرْضِ وَلأُغْوِیَنَّہُمْ أَجْمَعِیْنَ إِلاَّ عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ / قَالَ فَبِمَا أَغْوَیْْتَنِیْ لأَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ثُمَّ لآتِیَنَّہُم مِّن بَیْْنِ أَیْْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ أَیْْمَانِہِمْ وَعَن شَمَآءِلِہِمْ وَلاَ تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِیْنَ۔ لہٰذا انسانوں میں سے جو کوئی پر عزم ہو گا، وہ فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقَی/ إِنَّ عِبَادِیْ لَیْْسَ لَکَ عَلَیْْہِمْ سُلْطَانٌ إِلاَّ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِیْنَ کے مطابق سرخرو ہو کر جنت کا مستحق ہو گا اور جس کا عزم ( عہد شکنی کے باعث ) ابلیس کے ہاتھوں منتشر ہو گا، وہ وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنکاً وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَی / إِلاَّ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِیْنَ کے مطابق ذلیل و رسوا ہو کر جہنم کا ایندھن بنے گا۔ لَأَمْلَأَنَّ جَہَنَّمَ مِنکَ وَمِمَّن تَبِعَکَ مِنْہُمْ أَجْمَعِیْنَ / وَإِنَّ جَہَنَّمَ لَمَوْعِدُہُمْ أَجْمَعِیْنَ۔ لہٰذا قرآنی اساطیری تناظر میں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انسان ایک بار شکستہ عزم کے باعث ، عہد شکنی کاارتکاب کر کے، بے لباس ہو کر (بَدَتْ لَہُمَا سَوْءَ اتُہُمَا) جنت سے زمین پر اتر آیا ہے۔ اس کی دوبارہ بے عزمی اسے بے لباس کر کے تحت الثریٰ تک لے جائے گی۔ (یَا بَنِیْ آدَمَ لاَ یَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْْطَانُ کَمَا أَخْرَجَ أَبَوَیْْکُم مِّنَ الْجَنَّۃِ یَنزِعُ عَنْہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوْءَ اتِہِمَا) جبکہ عہد کی پاسداری کرتے ہوئے گم گشتہ عزم کی بازیافت، جو لباسِ تقویٰ کی صورت میں رونما ہو گی، یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْءَ اتِکُمْ وَرِیْشاً وَلِبَاسُ التَّقْوَیَ ذَلِکَ خَیْْرٌ ، جنت کی طرف واپسی کا مژدہ سنائے گی ۔
سیرت نبوی میں ہجرت کی معنویت
انسانی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سوسائٹی کی آلودگی اور اس کی تطہیر ایسا phenomenon ہے جو بار بار وقوع پذیر ہوتا رہتا ہے ۔ایک بار تطہیر کے بعد، مرورِ ایام سے مختلف اقسام کی جزوی اور وقتی آلائشوں سے ، سوسائٹی آلودہ ہوتی رہتی ہے اور اس کی بار بار تطہیر کی ضرورت پڑتی رہتی ہے ۔سوسائٹی کی آلودگی کے پیچھے عموماََ انسان کی ( فرد اور گروہ کی سطح پر ) سرکشی (کَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَیَطْغَی ) کار فرما ہوتی ہے اس سرکشی کی بنیادی وجہ انسان کی ( فرد اور گروہ کی سطح پر ) بے نیازی ( أَن رَّآہُ اسْتَغْنَی) ہے ۔نفسی ہجرت ،فرد اور گروہ کی سطح پر انسان کو ایسی بے نیازی سے ہی بے نیاز کرنے کا کام کرتی ہے ۔ نفسی ہجرت کے طفیل ، انسان ( فرد اور گروہ کی سطح پر ) اپنے وجود کو ، سماجی بندشوں کے وقتی اور عارضی سیاق و سباق میں دیکھنے کے بجائے آغاز و انجام کے وسیع تر تناظر میں دیکھتا ہے ۔وہ اپنے آغاز سے آگاہ ہو جاتا ہے ( خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَق) ، اسے اپنے انجام کی بھی خبر ہو جاتی ہے ( إِنَّ إِلَی رَبِّکَ الرُّجْعَی ) ۔ یہ آگہی انسان کو ایسی جرات مندانہ ذمہ داری ( عزم ) سے نوازتی ہے جس کے سامنے سوسائٹی کے آلودہ عارضی بندش ، خس و خاشاک کی طرح بکھر جاتے ہیں۔
الہامی مذاہب میں اسلام آخری مذہب ہے، اس لیے اسلام کے پیغمبر کو بھی رسالت و نبوت کے خاتم ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی یہ حیثیت بجا طور پر تقاضا کرتی ہے کہ تاریخِ انسانی میں ہجرت کی بے پایاں اہمیت کے پیشِ نظر ، ہجرت اپنی تمام تر معنوی ابعاد کے ساتھ قرآن و سنت میں جلوہ افروز ہو ۔ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی اسی خاتمیت کے پیشِ نظر ، اسلام نے نفسی ہجرت کا تسلسل (continuity) نبی خاتم ﷺ کی امت میں باقی رکھا ہے تاکہ امت کے افراد شخصی (اور گروہی) حیثیت میں، سوسائٹی کی سرکشی اور بے نیازی کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے اپنے محدود ماحول کی قیود سے بالاتر ہوکر ، اپنے نبی ﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سماجی تطہیر کی ذمہ داری ، عزم کے ساتھ پوری کر سکیں ۔
اس سلسلے میں ہم آئندہ سطور میں نبی خاتم ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ہجرت کے معنوی ابعاد تلاش کرنے کی سعادت حاصل کریں گے ۔
نفسی ہجرت اور گم گشتہ عزم کی باز یافت
ہجرت کی پہلی بُعد غارِ حرا میں نبی خاتم ﷺ کے استغراق و انہماک اور محویت کی صورت میں سامنے آتی ہے ۔ غارِ حرا میں آپ ﷺ کے تشریف لے جانے میں دو بنیادی حقائق پوشیدہ ہیں۔ اول یہ کہ سوسائٹی سے الگ ہو کر اس ’’عزم‘‘ میں پختگی پیدا کی جائے جو سوسائٹی کی روحانی واخلاقی آلودگی کے پیشِ نظر سوسائٹی سے علیحدگی کا سبب بنا ہے ۔ دوم یہ کہ زندگی کے ایسے آفاقی اصول جو سوسائٹی کی بندشوں اور آلائشوں سے بالاتر ہیں لیکن سوسائٹی کے لیے ہی ہیں، ان تک رسائی حاصل کی جائے۔ بلاشبہ ایسے اصولوں کا ادراک اپنے ماحول سے اٹھ کر ہی کیا جا سکتا ہے، اپنے ماحول کا حصہ بن کر نہیں۔ صرف اسی صورت میں انسانی زندگی کے وقتی، جزوی اور سفلی پہلوؤں کے بجائے علویت ، آفاقیت ، کلیت اور ابدیت پر مبنی حقائق منکشف ہوتے ہیں:
’’ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ۔ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ‘‘
اگر کوئی فرد اپنے ماحول سے اٹھ کر ( سو سائٹی کا چیلنج قبول کرتے ہوئے) اس قسم کے تجربے سے بہرہ مند ہوتا ہے اور پھر واپس سوسائٹی کا رخ نہیں کرتا یا سوسائٹی میں واپس آکر باقی ماندہ زندگی بغیر کسی سرگرمی کے گزار دیتا ہے تو اس کا اپنے ماحول سے اٹھ کر علویت و آفاقیت اور کلیت کو پا لینا چیلنج کو قبول کرنے کے بجائے لایعنیت اور لہو و لعب کے زمرے میں آتا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس تجربے کے بعد سوسائٹی کی طرف فعال واپسی اسی قدر ناگزیر ہے جس قدر علویت و آفاقیت پانے کے لیے اپنے ماحول سے اٹھنا ضروری ہے۔لہٰذا چیلنج قبول کرتے ہوئے ایسے داخلی عزم کے ساتھ سوسائٹی سے علیحدگی اختیار کرنا کہ نہ صرف سوسائٹی کی طرف واپسی ہو گی بلکہ یہ واپسی ایک فعال واپسی ہوگی ، نفسی ہجرت کی ایک قسم ہے ۔ نبی خاتم ﷺ الہیاتی حکمت کے عین مطابق غارِ حرا میں نفسی ہجرت کے ایسے ہی بیش بہا تجربے سے سرفراز ہوئے ۔ جلد ہی نفسی ہجرت کے بے مثال ثمر ’’ عزم کا شخصی اظہار‘‘ شروع ہو گیا ۔محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کو حکم دیا گیا : وَأَنذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ۔ حکم کی تعمیل میں آپ ﷺ نے اپنے قرابت داروں کو دینِ حق کی دعوت دی، لیکن آپ ﷺ کے چچا ابولہب نے درمیان میں لقمے دے کر حاضرین کو منتشر کر دیا۔ اب ایک طرف نبی مکرم ﷺ کا عزم تھا اور دوسری طرف ابلیسی قوتیں اس عزم کو منتشر کرنے کے درپے تھیں۔ آپ ﷺ نے دوبارہ دعوتِ حق دی۔ لوگ منہ پھیر کر اپنی راہ لینا چاہتے تھے کہ حضرت علیؓ نے (جو اس وقت طفلِ نا بالغ تھے) آپ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا۔ اس پر آپ ﷺ کے قرابت دار ہنستے قہقہے لگاتے چلے گئے ۔ اس کے باوجود آپ ﷺ کے عزم میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا ۔ آپ ﷺ کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور حق کی دعوت دی ۔ ابلیسی قوتوں نے، جن کا سرخیل ابولہب تھا، آپ ﷺ کے عزم کو یہ کہہ کر ملیا میٹ کرنے کی ناکام کوشش کی : تبا لک سائر الایام الہذا دعوتنا؟ ’’ تو ہمیشہ ہلاکت و رسوائی کا منہ دیکھے ۔ کیا تو نے اسی غرض سے ہم کو جمع کیا تھا ‘‘۔
نفسی ہجرت کے بعد ، اللہ رب العزت سے عہد کی پاسداری میں وَأَوْفُواْ بِعَہْدِ اللّہِ إِذَا عَاہَدتُّمْ ، نبی خاتم ﷺ نے کفارِ مکہ کے حوصلہ شکن اقدامات کے مقابل جس عزم کا مظاہرہ کیا، تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ یہ عزم در حقیقت آدم ؑ کے گم گشتہ عزم کی باز یافت ہے : فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ( مایوسی کے بجائے صبر کرنا عزم پر دلالت کرتا ہے ) چونکہ آپ ﷺ نبی خاتم ﷺ ہیں، اس لیے عزم کی اس بازیافت میں کاملیت موجود ہے ۔ اس حوالے سے نبی خاتم ﷺ کی حیاتِ مطہرہ ، بلا شبہ عظیم معجزہ ہے ۔ اس کامل عزم کی تفصیلات سیرت کی مختلف کتب میں تفصیلاً منقول ہیں ۔ یہاں ہم نبی مکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں سے صرف ایک واقعہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کریں گے۔
آپ ﷺ کے معاون و پشت پناہ، مونس و غم خوار چچاحضرت ابو طالب نے جب قریش کی دھمکیوں سے مرعوب ہو کرآپ ﷺ سے کہا کہ اے جانِ عم ! میرے اوپر اتنا بوجھ نہ ڈال کہ میں اٹھا بھی نہ سکوں، تو جواب میں نبی خاتم ﷺ نے جو کلمات ارشاد فرمائے ، عہد کی پاسداری کی تاریخ میں وہ بلاشبہ عزم کی معراج ہیں :
’’ قسم ہے رب العزت کی ، اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند لا کر رکھ دیں ، تب بھی میں اپنے اس فریضے سے باز نہیں آؤں گا۔ اگر آپ میری حمایت نہیں کر سکتے تو بھی پرواہ نہیں ۔ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ کام سر انجام دے رہا ہوں ، اسی کی حفاظت میرے لیے کافی ہے ۔ اللہ تعالیٰ یا تو اس کام کو پورا کرے گا یا میں اس کے لیے اپنی جان قربان کر دوں گا ‘‘۔
حضرت ابوطالب اس جواب سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ا ن کی زبان سے بے ساختہ نکلا ، جا! کوئی شخص تیرا بال بیکا نہیں کر سکے گا۔
یہاں اس امر کا بیان بر محل ہو گا کہ شیطان نے آدم ؑ کے عزم پر اس ترغیب سے وار کیا تھا : قَالَ یَا آدَمُ ہَلْ أَدُلُّکَ عَلَی شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلَیٰ/َ قَالَ مَا نَہَاکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ہَذِہِ الشَّجَرَۃِ إِلاَّ أَن تَکُونَا مَلَکَیْْنِ أَوْ تَکُونَا مِنَ الْخَالِدِیْنَ وَقَاسَمَہُمَا إِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِیْنَ فَدَلاَّہُمَا بِغُرُورٍ ، اور آدم ؑ ، فرشتگی و ہمیشگی اور سلطنتِ لا زوال کے چکر میں اپنے عہد سے غافل ہوگئے اور پھسل گئے۔ ا س کے برعکس نبی خاتم ﷺ خود پیش قدمی کرتے ہوئے ترغیبات کا رد ایسے اسلوب میں کرتے ہیں جس سے( رب العزت سے ایفائے عہد کی خاطر) آپ ﷺ کا عزم ،پختگی کے اعتبار سے ابدیت تک پھیلتا چلاجاتا ہے۔ (۱)
گروہی ہجرت اور اس کے بنیادی لازمے
آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں نفسی ہجرت کے بعد گروہی ہجرت کا مرحلہ آتا ہے۔ گروہی ہجرت اسی وقت ممکن تھی جب ایک باقاعدہ گروہ موجود ہوتا۔ نبی خاتم ﷺ کی مکی زندگی کے ابتدائی ایام میں چندہی صالح نفوس نے اسلام قبول کیا تھا اور تقریباً ان سب کو اپنے اپنے متعلقین کی طرف سے معاندانہ رویے کا سامنا تھا ۔ کفارِ مکہ کے ظلم و ستم کے مقابل ان نفوسِ صالح نے نبی خاتم ﷺ کے تتبع میں بے مثال ’’ شخصی عزم ‘‘ کا مظاہرہ کیا اور کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے صاف انکار کر دیا۔ (۲) یہ صالح نفوس ، مکہ کی مشرک سوسائٹی کے مقابل آہستہ آہستہ ایک الگ گروہی حیثیت اختیار کرتے چلے گئے ۔
ایک گروہ کے تشکیل پاتے ہی یہ بنیادی تقاضا پیدا ہوا کہ کفارِ مکہ کے خلاف شخصی عزم کے ساتھ ساتھ’’ گروہی عزم‘‘ کا بھی اظہار کیا جائے ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے گروہی عزم کا’ تشکیلی مرحلہ ‘ آتا ہے جس کی خشتِ اول ، نبی خاتم ﷺ نے خود رکھی اور فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْن کے الٰہی حکم کی تعمیل میں بیت اللہ میں جاکر ببانگِ دہل کلمہ حق کہا ۔ کفارچاروں طرف سے آپ ﷺ پر ٹوٹ پڑے ، حضرت حارث بن ابی ہالہ کو اس کی خبر ہوئی ، وہ دوڑے چلے آئے اور آپ ﷺ کو بچانے کی کوشش میں ’’ شہیدِ اول ‘‘ کے قابلِ رشک مقام سے سرفراز ہوئے۔ (مسند احمد)
اس خشتِ اول کے بعد صدیقِ اکبرؓ نے گروہی عزم کے تشکیلی مرحلے میں جو کردار ادا کیا ، اس کی روداد حضرت عائشہ صدیقہؓ نے یوں بیان فرمائی ہے :
’’جب رسول اللہ ﷺ کے مرد صحابہ کی تعداد اڑتیس ہوگئی تو صدیق اکبرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اصرار کیا کہ اب کھل کر اسلام کی دعوت دی جائے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے ابوبکر ! ابھی ہم لوگ تھوڑے ہیں ، لیکن حضرت ابوبکرؓ اصرار کرتے رہے ، جس پر رسول اللہ ﷺ نے کھلم کھلا دعوت و تبلیغ کی اجازت دے دی۔ چنانچہ مسلمان مسجد حرام کے مختلف حصوں میں بکھر گئے اور ہر آدمی اپنے قبیلے میں جا کر بیٹھ گیااور حضرت ابوبکرؓ لوگوں میں بیان کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے جبکہ رسول اللہ ﷺ بھی تشریف فرما تھے ۔ حضرت صدیقِ اکبرؓ اسلام میں سب سے پہلے خطیب ہیں جنھوں نے اللہ اور رسول ﷺ کی طرف لوگوں کو علانیہ دعوت دی ۔ مشرکینِ مکہ ، ابوبکرؓ اور دوسرے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور مسجد حرام کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کو خوب مارا، جبکہ ابوبکرؓ کو خوب مارا گیا اور پاؤں تلے بھی روندا گیا۔‘‘ (۳)
حضرت صدیقِ اکبرؓ کے علاوہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے بھی گروہی عزم کے تشکیلی مرحلے میں صحابہ کرامؓ کی نمائندگی کی ۔ سیرت نگار ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد مکہ میں جس شخص نے سب سے پہلے پکار کر قرآن شریف پڑھا، وہ عبداللہ بن مسعودؓ تھے۔ ایک روز رسول اللہ ﷺ کے اصحابؓ نے صلاح کی کہ آج تک قریش نے بآوازِ بلند قرآن شریف نہیں سنا۔ کوئی ایسا شخص ہو جو ان کو بآوازِ بلند قرآن شریف سنائے ۔ عبداللہ بن مسعود نے کہا ، میں سناؤں گا ۔عبداللہ بن مسعود نے حجرِ اسود کے پاس آکر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر بآوازِ بلند سورۃ الرحمان کی تلاوت شروع کر دی ۔ قریشِ مکہ ان کی طرف دوڑے اور خوب طمانچے رسید کیے۔ عبداللہ بن مسعودؓ کی واپسی پر صحابہؓ نے ان کے چہرے پر طمانچوں کے نشان دیکھ کر کہا ، ہمیں یہی اندیشہ تھا ۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا ، میں دشمنانِ خدا سے خوف نہیں کھاتا ، کل جا کر انھیں پھر سناؤں گا ۔ اصحابؓ نے فرمایا، نہیں، بس یہی کافی ہے جو تم آج سنا آئے ہو۔
گروہی عزم کے تشکیلی مرحلے میں حضرت ابوذرؓ کے قبولِ اسلام کا واقعہ بھی اہمیت رکھتا ہے ۔ ان کے قبولِ اسلام کے بعد رسالت مآب ﷺ نے انھیں واپس اپنی قوم میں جانے اور دینِ حق کی دعوت دینے کا حکم دیا ۔ حضرت ابوذر غفاریؓ نے نبی خاتم ﷺ سے استدعا کی :
’’ والذی نفسی بیدہ لاصرخن بھا بین ظھرانیھم‘‘ ( صحیح بخاری، حدیث نمبر ۳۸۶۱)
’’ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ، میں اس کلمہ توحید کا اعلان کافروں میں پورے زور سے کروں گا۔‘‘
اس کے بعد حضرت ابوذرؓ نے بیت اللہ میں جا کر لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دی ۔ مشرکینِ مکہ نے آپؓ کو خوب مارا۔ حضرت عباسؓ نے (جو ابھی غیر مسلم تھے ) آپ کے اوپر لیٹ کرآپؓ کو کفار سے بچایا ۔دبنے کے بجائے ، اگلے دن حضرت ابوذرؓ نے پھر دین کی دعوت دی ۔ کفار نے آپؓ کو دوبارہ زدوکوب کیا اور حضرت عباسؓ نے مداخلت کر کے آپؓ کی جان بچائی۔ ( صحیح بخاری ، حدیث ۳۸۶۱)
ایسے واقعات اگر ایک طرف صحابہ کرامؓ کے شخصی عزم کی پختگی پر دال ہیں تو دوسری طرف گروہی عزم کے تشکیلی مرحلے کی بھی نشاندہی کرتے ہیں ۔ اس لیے جلد ہی لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنکے مصداق، مکہ میں دو گروہ آمنے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک گروہ آبا پرستی کو اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے تھا اور دوسرا گروہ توحید ، وحدتِ انسانی ، صلہ رحمی اور ایثار جیسی خصوصیات سے مزین تھا۔ (۴)
ہجرتِ حبشہ: ایک اقدامی تجربہ
دعوتِ حق کے اس مرحلے پر آپ ﷺ نے اپنے قائد ہونے کا تاثر دینا شروع کیا، کیونکہ گروہ اور قیادت لازم و ملزوم ہیں۔ جیسے گروہ کے بغیر قیادت کا تصور محال ہے، اسی طرح قیادت کے بغیر کوئی گروہ بھی تشکیل نہیں پا سکتا ۔ چنانچہ ایک الگ گروہ کے تشکیل پاتے ہی اس کی قیادت کی ذمہ داری بھی آپ ﷺ کو سنبھالنی پڑی ۔ کفارِ مکہ کے معاندانہ ومتشددانہ رویے کے باعث، ایک قائد ہونے کے ناتے آپ ﷺ نے بھانپ لیا تھا کہ آخر کار آپ کو اپنے پورے گروہ سمیت ہجرت کرنی پڑے گی، کیونکہ آپ ﷺ سے قبل بھی بہت سے انبیا کو اس عمل سے گزرنا پڑا تھا۔ (۵) اس سلسلے میں آپ ﷺ نے ایک مدبر قائد ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ، عجلت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے تجربی و اقدامی فیصلے کیے۔ نبی خاتم ﷺ نے اپنے رفقا کو دو بار حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا ۔آپ ﷺ کا یہ اقدام وسیع بنیاد پر سماجی تبدیلی (Large Scale Social Change) کا آغاز ثابت ہوا۔ نبی مکرم ﷺ نے تین سطحوں پر ان دو تجرباتی ہجرتوں کے اثرات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جو مکہ کی سوسائٹی ، حبشہ کی سوسائٹی اور مہاجرین پر مرتب ہوئے ۔
ہجرت کے لیے حبشہ ہی کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ اس سلسلے میں ابن ہشام نے آپ ﷺ کا انتہائی معنی خیز ارشاد نقل کیا ہے:
’’ اگر تم سر زمین حبشہ کو نکل جاؤ تو بہتر ہے، کہ وہاں کے بادشاہ کے ہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا اور وہ سر زمین صدق ہے ، یہاں تک کہ جس تنگئ حیات میں تم ہو، اس میں اللہ تعالیٰ تمھارے لیے فراخی پیدا کر دے ‘‘۔
فرمانِ رسول ﷺ کے مطابق حبشہ کی مذکورہ حیثیت کو ، نومسلموں کی حالتِ زار کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے ایک تو تنگئ حیات میں گرفتار مسلمانوں کے ’’ شخصی عزم ‘‘ کو شکستہ ہونے سے بچانے کی تدبیر کی، اور انھیں مصائب کے گڑھ سے نکل کر سر زمینِ صدق (۶) کی طرف چلے جانے کا حکم دیا۔ دوسرا یہ کہ آپ ﷺ نے ’’ گروہی عزم میں پختگی‘‘ پیدا کرنے اور اسے جانچنے کی راہ ہموار کی۔تاریخ بتاتی ہے کہ ہجرتِ حبشہ نے مجموعی طور پر ، نومسلموں کے شخصی عزم کو شکستگی سے بچانے کے علاوہ گروہی عزم کی پختگی پر بھی مہرِ تصدیق ثبت کر دی ۔ قریش نے عبداللہ بن ابی ربیعہ اور عمرو بن العاص کو بحیثیت سفارت کار حبشہ بھیجا جنھوں نے نجاشی سے درخواست کی کہ ہمارے ’’مجرم‘‘ ہمارے حوالے کیے جائیں۔ نجاشی نے مسلمانوں کو بلا بھیجا کہ تم نے نصرانیت اور بت پرستی دونوں کے مخالف کون سا نیا دین ایجاد کر لیا ہے ؟ معاملہ نازک تھا، کیونکہ نجاشی کی مخالفت کی صورت میں ’’ مجرم ‘‘ کے طور پر مکہ واپسی اپنے اوپر قیامت ڈھانے والی بات تھی ۔ نجاشی اس وقت عیسائی تھا، لہٰذا بدیہی خطرہ موجود تھا کہ وہ بھڑک اٹھے اور مسلمانوں کو خود تختہ مشق بنائے یا قریش کے حوالے کر دے۔ اس بحرانی حالت میں صحابہ کرامؓ نے باہمی مشاورت کے بعد جو متفقہ فیصلہ کیا، وہ ان کے ’’ گروہی عزم ‘‘ کا آئینہ دار ہے :
’’نقول واللہ فیہ ما قال اللہ و ما جاء بہ نبینا کائنا فی ذالک ما ھو کائن ‘‘ (مسند احمد)
’’اللہ کی قسم ! ہم وہی کہیں گے جو اللہ نے کہا ہے اور جس کی ہمارے نبی نے تعلیم دی ہے۔ اس معاملہ میں جو ہوتا ہے، ہو جائے‘‘۔
اس کے بعد حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نے تاریخ ساز خطاب کیا اور کلامِ الٰہی کی آیات تلاوت کیں جنھیں سن کر نجاشی اور اس کے درباریوں پر رقت طاری ہو گئی اور انھوں نے مسلمانوں کو، سفراے قریش کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ نجاشی کے دربار میں پہلے دن کی پسپائی کے بعد ، عمرو بن العاص ( جو ابھی غیر مسلم تھے ) دوسرے دن دربار میں حاضر ہوئے اور نجاشی کو مشتعل کرنے کی خاطر اس سے کہا کہ مسلمانوں سے حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق ان کا عقیدہ معلوم کیجیے ۔ حضرت امِ سلمہ ؓ فرماتی ہیں، جس قدرفکر وتردد ہمیں اس روز لاحق ہوا، ویسا کبھی نہیں ہوا تھا ۔سب صحابہؓ جمع ہوئے اور مشورہ ہوا ۔ پھر حضرت جعفر طیارؓ نے مہاجرہوتے ہوئے بھی، اجنبی سرزمین پر اپنے گروہ کی نمائندگی ( گروہ کی مشاورت سے ) کرتے ہوئے گروہی عزم کا بلا خوف اظہار کیا : ’’ قرآن مجید میں ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ بن مریم ، اللہ تعالیٰ کے بندے ، اس کے رسول اور اس کی روح ہیں ‘‘۔ ( سیرت ابنِ ہشام / المسند )
نجاشی نے صحابہ کرامؓ کے کلمہ حق پر لبیک کہا اور ایک تنکا اٹھا کر یوں گویا ہوا :
’’واللہ ! جو کچھ تم نے کہا ، حضرت عیسیٰ ؑ اس سے سرِ مو زیادہ نہیں ہیں ‘‘۔( سیرت ابنِ ہشام / المسند )
ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح نبی خاتم ﷺ کے شخصی عزم کو پختہ کرنے کے لیے فترۃ الوحی کا ایک دور گزرا جس کے بعد متواتر وحی کا آغاز ہوا، اسی طرح ہجرتِ حبشہ نے صحابہ کرامؓ کے گروہی عزم کو پختہ کرنے کا کام کیا اور یہ گروہی عزم اس کے بعد متواتر ہجرتِ مدینہ، غزوات، صلح حدیبیہ اور فتح مکہ جیسے مراحل طے کرتا چلا گیا ۔مثال کے طور غور کیجیے کہ حبشہ میں مسلم گروہی عزم کو مسیحیت جیسی عظیم مذہبی روایت سے مکالمہ کرنا پڑا۔ اس مکالمے میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور نجاشی کے قبولِ اسلام کے ساتھ ہی اسلام حبشہ میں پھیلتا چلا گیا۔ یہ مکالمہ بعد میں، ہجرتِ مدینہ کے بعد یہودیت جیسی سخت نسل پرست مذہبی روایت کے محاکمے میں بہت ممدومعاون ثابت ہوا ۔قرآن کے الفاظ پر غور فرمائیے:
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُواْ الْیَہُودَ وَالَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُواْ الَّذِیْنَ قَالُوَاْ إِنَّا نَصَارَی ذَلِکَ بِأَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُہْبَاناً وَأَنَّہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُونَ (المائدہ۵:۸۲ )
’’ایمان والوں کی عداوت میں تم سب سے زیادہ شقی یہودیوں کو پاؤ گے، نیز مشرکوں کو ۔ اور ایمان والوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان لوگوں کو پاؤ گے جو کہتے ہیں ہم نصاریٰ ہیں، اس لیے کہ ان میں پادری اور تارک الدنیا ہیں اور اس لیے کہ ان میں گھمنڈ اور خود پرستی نہیں ہے‘‘۔
اس لیے مشرکینِ مکہ کے مصائب جھیلنے کے بعد اگر ہجرتِ حبشہ کے تجربی اقدام کے بغیر ہجرتِ مدینہ عمل میں لائی جاتی تو یہودیت جیسی سخت گیر روایت سے مسلم گروہی عزم کا براہ راست ٹکراؤ کافی مشکلات پیدا کر سکتا تھا ۔ خود مسیحیت کے ساتھ مکالمے میں بھی ایک منفی پہلو سامنے آیاتھا۔مکے کے مہاجرین میں سے عبیداللہ بن جحش ، حبشہ میں مرتد ہوگئے اور انھوں نے عیسائیت اختیار کر لی تھی ۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا ۔یقیناًاس سے صحابہ کرامؓ کو شدید جذباتی اور نفسیاتی دھچکا لگا ہو گا ۔ اس دھچکے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت نظر آتی ہے ، کیونکہ نبی خاتم ﷺ کے وصال کے فوراً بعد ارتداد کا مسئلہ سامنے آیا تھا ، جس کے مقابل صدیقِ اکبرؓ کی قیادت میں صحابہ کرامؓ نے’’ گروہی عزم ‘‘ کا بے مثال مظاہرہ کیا تھا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عبیداللہ بن جحش کے ارتداد کے پیچھے، مستقبل کے سنگین مسئلے سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ، صحابہ کرامؓ کی نفسیاتی تیاری اللہ رب العزت کو مطلوب و مقصود تھی۔ ارتداد کے اس واقعہ نے یقیناًصحابہ کرامؓ کے ’’ گروہی عزم ‘‘ کو کندن بنا ڈالا ۔ صحابہ کرامؓ اگر اس جذباتی و نفسیاتی دھچکے سے نہ گزرے ہوتے تو بعد میں ایک تو آپ ﷺ کے وصال کا صدمہ اور پھر اوپر سے ارتداد کا فتنہ، صحابہ کرامؓ کویقیناًمفلوج کر کے رکھ دیتا۔ اس پہلو سے دیکھیے تو ہجرتِ حبشہ کی نوعیت ’’ اقدامی ‘‘ ہو جاتی ہے ۔
ہجرتِ حبشہ اور حبشی سماج
ڈاکٹر محمد حمیداللہ ، خطباتِ بہاولپور میں ’’ عہدِ نبوی ﷺ میں تبلیغِ اسلام اور غیر مسلموں سے برتاؤ‘‘ کے زیرِ عنوان فرماتے ہیں:
’’اب چونکہ تبلیغ کی آزادی تھی، اس لیے یہ مسلمان ( مکے کے نو مسلم مہاجر ) حبشہ میں تبلیغ کرنے لگے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چند سالوں وہاں کافی تعداد میں یعنی کم ازکم چالیس پچاس حبشی مسلمان ہو گئے‘‘ ۔ (ص ۳۶۱)
ابن ہشام کی سیرت النبی ﷺ میں بھی ابنِ اسحاق کے حوالے سے رقم ہے کہ حبشہ سے بیس یا بیس کے قریب نصاریٰ آپ ﷺ کی خبر سن کر محض آپ ﷺ کو دیکھنے کے لیے مکہ آئے ۔ آپ ﷺ مسجد الحرام میں تشریف فرما تھے ۔ انھوں نے آپ ﷺ سے چند سوالات کیے ۔ قریش دور کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے ۔ آپ ﷺ نے ان نصاریٰ کو قرآن کریم پڑھ کر سنایا اور اسلا م کی دعوت دی ۔ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور و ہ تمام لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے ۔ان لوگوں نے نبی خاتم ﷺ کو ان اوصاف کے مطابق پہچان لیا تھا جو ان کی کتابوں میں مذکور تھے ۔ جب وہ مسلمان ہو کر واپس جانے لگے تو ابوجہل اور قریش کے چند لوگوں نے ان سے کہا کہ تم بڑے بیوقوف اور احمق ثابت ہوئے ہو ، تمھاری قوم نے تمھیں اس شخص کی خبر دریافت کرنے بھیجا تھا اور تم نے اس کا دین اختیار کرکے اس کی تصدیق کر دی ، تم سے زیادہ نالائق ہم نے کوئی نہیں دیکھا ۔ انھوں نے جواب میں کہا ’سلام علیکم‘ ،ہم تم سے جہالت نہیں کرتے ، ہمارے واسطے ہمارے کام ہیں اور تمھارے واسطے تمھارے کام ہیں۔ ( ۷) اس کے بعد مکے کے مہاجرین کے ساتھ نو مسلم حبشیوں نے بھی حبشہ میں دعوتی سرگرمیاں شروع کر دیں۔
مرتد عبیداللہ بن جحش کے مرنے کے بعد آپ ﷺ نے اس کی بیوی ام حبیبہؓ بنت ابی سفیانؓ سے شادی کر لی ۔ ابنِ ہشام کی سیرت النبی ﷺ کے مطابق ، آپ ﷺ نے شادی کے پیغام کے لیے حضرت عمرو بن ؟؟ ضمری کو نجاشی بادشاہ حبشہ کے پاس بھیجا تھا۔ نجاشی نے حضرت ام حبیبہؓ کا نکاح نبی مکرم ﷺ کے ساتھ کر کے چار سو دینار مہر مقرر کیا۔ نکاح میں حضرت ام حبیبہؓ کے وکیل خالد بن سعید بن عاص تھے جنھوں نے ان کو حضور ﷺ کے نکاح میں دیا ۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ نجاشی نے اوائل ایام میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا جس سے مسلمانوں کو حبشہ میں دعوت دینے میں آسانی پیدا ہوئی ا ور ان کا ’’گروہی عزم ‘‘ پختہ تر ہوتا چلا گیا ، دوسرا یہ کہ کثرتِ ازواج کے حوالے سے آپ ﷺ پر مستشرقین کے اعتراضات کا ایک جواب بھی اس نکاح سے مل جاتا ہے ۔ ذرا غور کیجئے کہ اس وقت اسلام، حبشہ کے عیسائیوں میں پھل پھول رہا تھا ، ایسے حالات میں کسی مہاجر مسلم کا عیسائی ہونا اس نومسلم سوسائٹی کے لیے اچنبھے کی بات تھی ۔ اب اس ’’ مرتدِ اول ‘‘ کی بیوی کے بارے میں عمومی مسلم رویہ کیا ہو سکتا تھا؟ ظاہر ہے، ان کے لیے قدرے مشکلات پیدا ہو سکتی تھیں ۔ پھر یہ احتمال بدیہی طور پر موجود تھا کہ مسلمانوں میں ایسا سماجی رویہ پروان چڑھتا جس کے سبب مستقبل میں کسی کے مرتد ہونے پر اس کی بیوی کو کوئی بھی مسلم اپنے نکاح میں لینے پر تیار نہ ہوتا اور اس خاتون کو مستقلا بیوگی کی زندگی گزارنی پڑتی ۔ آپ ﷺ نے یہ نکاح کر کے حقیقت میں مسلم سوسائٹی کو یہ عظیم پیغام دیا کہ ہر فردصرف اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے ، کسی کی بد اعمالی یا بے ایمانی کی سزا کسی دوسرے نہیں دی جا سکتی ، چاہے معاملہ خاوند بیوی کا ہی کیوں نہ ہو ۔ آپ ﷺ کے وصال کے بعد ارتداد کا جو فتنہ اٹھا ، اس میں ایسی مسلم خواتین، جن کے شوہر مرتد ہوگئے تھے ، ان کی بابت مسلم سوسائٹی کے عمومی رویے کو پیشِ نظر رکھ کر آپ ﷺ کے حضرت امِ حبیبہؓ سے نکاح کی حکمت سمجھی جا سکتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم سوسائٹی نے نبی خاتم ﷺ کے اس پیغام پر لبیک کہا ہو گا اورایسی خواتین کو نہایت تعظیم کے ساتھ، مسلمان مردوں نے نکاح کا پیغام بھیجا ہو گا ۔ (۸)
نجاشی کے قبولِ اسلام سے اگرچہ مہاجرین کے لیے آسانی پیدا ہوئی اور دعوتِ حق کا کام بھی سہل ہو گیا لیکن حبشہ کی سوسائٹی میں بے چینی بھی بڑھتی چلی گئی۔ ابنِ ہشام نے ابنِ اسحاق سے روایت کیا ہے کہ ایک دفعہ تمام اہلِ حبش نے نجاشی سے سرکشی کی اور کہا کہ تم ہمارے دین ( مسیحیت ) سے علیحدہ ہو گئے ہو ۔ جب یہ لوگ فساد پر آمادہ نظر آئے تو نجاشی نے حضرت جعفر بن ابی طالبؓ سمیت تمام مہاجرین سے کہلا بھیجا اور ان کے لیے کشتیوں کا انتظام کر دیا کہ ان میں سوار ہو جاؤ اور میری خبر کے منتظر رہو ۔ اگر مجھے شکست ہوئی تو تم لوگ جہاں جا سکو، چلے جانا اور اگر میرا غلبہ ہوا تو یہیں رہنا ۔ نجاشی نے نہایت تدبر اور خوش اسلوبی سے فسادیوں کو سنبھال لیا اور ان کی مخالفت ختم ہوگئی۔ (۹) اس واقعہ سے اتنا ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ حبشہ کے مسیحیوں نے سماجی اور سیاسی میدان میں اسلام کی بھر پور مدافعت کی ۔
ہجرتِ حبشہ اور مکی سماج
مکہ کی سوسائٹی کے لیے بھی ہجرتِ حبشہ سماجی زلزلہ ثابت ہوئی ۔ ظاہر ہے ان دنوں مکہ کی آبادی بہت زیادہ نہیں تھی ۔ اس آبادی میں سے سو (۱۰۰) کے لگ بھگ انھی کے بھائی بندوں کا علاقہ چھوڑ جانا ایسا معمولی واقعہ نہیں تھا جس کے سماجی اور نفسیاتی اثرات سے اہلِ مکہ محفوظ رہ سکتے۔ ابنِ ہشام کی سیرت النبی ﷺ میں ابنِ اسحاق نے حضرت امِ عبداللہؓ بنت ابی حثمہ سے روایت کیا ہے ، وہ کہتی ہیں کہ جس وقت ہم حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا سامان کر رہے تھے اور میرے شوہر عامرؓ اس وقت کسی کام کو گئے ہوئے تھے ، یکایک عمرؓ بن خطاب میری طرف آ نکلے ۔ وہ اس وقت کفر ہی کی حالت میں تھے اور ہم کو سخت اذیتیں اور تکلیفیں پہنچاتے تھے ۔ وہ کہنے لگے ، اے امِ عبداللہؓ ! کیا اب تمھارا کوچ ہے ؟ میں نے کہا ، ہاں ! واللہ ہم کیا کریں، جب تم ہم کو بے حد تکلیفیں اور ایذائیں پہنچاتے ہو ، اس لیے ہم خدا کے ملک میں سفر کرتے ہیں ، یہاں تک کہ خدا ہمارے لیے کشادگی پیدا کردے ۔ عمرؓ بن خطاب نے کہا ، خدا تمھارا حافظ ہے ۔ میں نے دیکھا کہ عمرؓ کے دل کو ہمارے جانے سے رنج ہوا۔ پھر وہاں سے عمرؓ چلے آئے ، جب عامرؓ آئے تو میں نے ان سے کہا ، اے ابو عبداللہ ! تم نے دیکھا اس وقت عمرؓ آئے تھے اور ہمارے جانے سے وہ غمگین ہوئے ۔ عامرؓ نے کہا ، کیا تم کو امید ہو سکتی ہے کہ عمرؓ اسلام قبول کرے ۔ میں نے کہا، ہاں۔ عامرؓ نے کہا ، ہر گز نہیں ۔ اگر خطاب کا گدھا اسلام لے آئے تو میں جانوں کہ عمرؓ بھی مسلمان ہو جائے گا ۔ امِ عبداللہؓ کہتی ہیں کہ عامرؓ کا یہ کلام اس سبب سے تھا کہ وہ عمرؓ کی سختی اور ان کی اسلام دشمنی کو دیکھ کر ناامید ہو گئے تھے ۔( خیال رہے، عامرؓ اور امِ عبداللہؓ ، حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے پہلے گروپ میں شامل تھے )
لہٰذا ہجرتِ حبشہ نے مکی سوسائٹی میں عمرؓ بن خطاب جیسی شخصیات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا ۔ یہ خیال کرتے ہوئے کہ محمد ﷺ ہمارے بھائی بندوں کو ہم سے جدا کر رہے ہیں، عمرؓ بن خطاب بر افروختہ ہوئے اور تلوار حمائل کیے نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحابؓ کے قصد سے چل پڑے۔ راستے میں ان کی ملاقات نعیم بن عبداللہ سے ہو گئی ۔ انھیں عمرؓ بن خطاب کے ارادے کا پتہ چلا تو کہا، پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمھاری بہن اور بہنوئی اسلام قبول کر چکے ہیں ۔عمرؓ جیسی سخت اسلام دشمن شخصیت کے لیے یہ خبر بہت بڑا نفسیاتی دھچکا تھی۔ ان کا رخ بہن کے گھر کی طرف ہو گیا، جہاں وہ غصے میں بہنوئی کے ساتھ باہم دست و گریباں ہو گئے۔ بہن فاطمہ چھڑانے کو آگے بڑھیں تو عمرؓ نے ان کے سر پر ضرب لگائی ، فاطمہؓ بنت خطاب کے سر سے خون بہنا شروع ہو گیا ۔ تب ان کی بہن اور بہنوئی نے ڈٹ کر کہا ، ہاں بے شک ہم اسلام لے آئے ہیں ، دیکھیں تم ہمارا کیا کرتے ہو۔ بہن کے سر سے خون بہتا دیکھ کر عمرؓ بہت شرمندہ ہوئے ۔ ظاہر ہے یہ کوئی جائیداد کی تقسیم کا معاملہ نہیں تھاجس کی خاطر یہ لوگ اپنے بھائی بندوں سے الگ ہو رہے تھے، بلکہ یہ لوگ تو ہر دنیاوی آسائش کو تج دے کر بے آسرا و بے سروسامان ہو چکے تھے۔ عمرؓ بن خطاب کی داخلی دنیا میں مہاجرینِ حبشہ کی وجہ سے پہلے ہی اضطراب پیدا ہو چکا تھا، اسی اضطراب نے جھنجھناہٹ کی شکل اختیار کی تھی ۔ ان کا دل پسیج گیا ، وہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جس کی خاطر یہ لوگ اپنی جائیداد ، علاقہ اور رشتہ داریاں تک چھوڑنے کو تیار ہیں ، حالانکہ عمومی دستور یہی ہے کہ لوگ انھی اشیا کی خاطر لڑنے مرنے کو تیار ہوجاتے ہیں ۔ مشیتِ الہٰی کے مطابق ، ابو حکم بن ہشام ( ابوجہل ) کے بجائے عمرؓ بن خطاب کے حق میں نبی خاتم ﷺ کی دعا قبول ہو چکی تھی ، کیونکہ آپ ﷺ ان میں سے کسی ایک کے ذریعے سے تائیدِ اسلام کی دعا فرما ئی تھی ۔ عمرؓ نے کہا مجھے وہ کاغذ دو ، جس پر کلام لکھا ہے ، دیکھوں تو سہی ، محمد ﷺ پر کیا نازل ہوا ہے ؟ بہن نے انھیں غسل کرنے کو کہا تا کہ وہ پاک ہو جائیں ۔ عمرؓ نے اسی وقت غسل کیا ، بہن نے وہ کاغذ دے دیا جس پر سورۃ طہٰ لکھی ہوئی تھی ۔ عمرؓ پڑھے لکھے تھے ، دیکھتے ہی کہنے لگے ، یہ کلام اچھا ہے اور کیسا بزرگ ہے ۔ اس کے بعد عمرؓ بارگا ہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا ۔ فاروقِ اعظمؓ کے قبولِ اسلام سے کفار کمزور پڑ گئے ۔حضرت عمرؓ بن خطاب جیسی عظیم شخصیت، مسلم گروہی عزم کے مرکزی دھارے mainstream میں نہ صرف فوراً شامل ہوگئی بلکہ گروہی عزم کو اقدامی بنانے میں ممدو معاون ثابت ہوئی۔ ( ۱۰) آپؓ کے قبولِ اسلام کے بعد مسلمانوں نے کعبہ میں پہلی بارسرِ عام نماز ادا کی ۔(اوپر گزر چکا ہے کہ صدیقِ اکبر نے حرم میں سب سے پہلے خطاب کیا ) ڈاکٹر محمد حسین ہیکل کے مطابق ہجرتِ مدینہ کے بعد اسلام کو جو سیاسی اقتدار نصیب ہوا، اس کا پیش خیمہ حضرت عمرؓ کا قبولِ اسلام ہی ہے ۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہجرتِ حبشہ ، حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کا پیش خیمہ ہے، اس طرح دونوں ہجرتیں ، فاروقِ اعظمؓ کی زندگی میں بہت اہمیت اختیار کر جاتی ہیں ۔
ہجرتِ حبشہ سے مکی سوسائٹی جن اضطرابی کیفیات سے گزر رہی تھی، اس کا سماجی سطح پر اظہار ’’ معاشرتی مقاطعہ ‘‘ کی صورت میں ہوا ۔ قریش نے باہم اتفاق کرکے ایک عہد نامہ لکھ لیا کہ ہم بنی ہاشم اور بنی مطلب سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے ۔ اس وقت کے مخصوص عرب کلچر کے تناظر میں یہ ایک انتہائی اقدام تھا ( ۱۱) اور ظاہر ہے اس کے پیچھے انتہا درجے کی تلملاہٹ اور ذہنی شکستگی کارفرما تھی۔اہم بات یہ ہے کہ اس موقع پر ابولہب عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب کے سوا آپ ﷺ کے تمام قرابت داروں نے آپ ﷺ کا ساتھ دیا۔ یوں ، ابولہب نے عرب کلچر کی زندہ روایات سے بھی روگردانی کرکے آپ ﷺ سے قطع تعلق اختیار کر لیا اور معرکہ خیر و شر میں،ابلیس کی مانند شر کی ابدی علامت بن گیا(۱۲) ۔ ہجرتِ حبشہ کے سماجی اثرات سے بوکھلا کر، عہد نامہ لکھ تو لیا گیا تھا اور اس پر عمل درآمد بھی ہو رہا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی مکی سماج میں اس ظلم کے خلاف ردِ عمل بھی ابھرنا شروع ہوا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ معاشرتی مقاطعہ کا عہد نامہ لکھنے میں ہی کچھ لوگ متردد تھے ۔ وہ اسے صریحاً ظلم تصور کرتے تھے ۔ جس طرح ہجرتِ حبشہ پر مکی سماج سوچ بچار پر مجبور ہو گیا تھا ، اسی طرح اب مکی سماج کے اپنے ردِ عمل نے لوگوں کو انفرادی حیثیت میں غورو فکر پر مجبور کردیا۔ اس طرح معاشرتی مقاطعہ ایک لحاظ سے ’’ داعی ‘‘ کی صورت اختیار کر گیا ۔ ابنِ ہشام کی سیرت النبی ﷺ میں ہشام بن عمرو کی ان کوششوں کا تذکرہ موجود ہے جو اس نے معاشرتی مقاطعہ کے خاتمہ کے لیے زہیر بن ابی امیہ ، مطعم بن عدی ، ابوالبختری بن ہشام اور زمعہ بن الاسود کے ساتھ مل کر کیں ۔
حضرت ابوبکرؓ نے بھی قریش کے مظالم سے تنگ آکر نبی پاک ﷺ سے ہجرت کی اجازت طلب کی۔ اجازت مل گئی۔ صدیقِ اکبرؓ ہجرت کے ارادے سے مکہ سے ابھی دو منزل ہی باہر نکلے تھے کہ ان کی ملاقات احابیش کے سردار ابن الدغنہ سے ہوئی۔ اس نے پوچھا ،اے ابوبکر ! کہاں جاتے ہو ؟ آپؓ نے فرمایا، میری قوم نے مجھے سخت تکلیفیں پہنچائی ہیں اور نکلنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ ابنِ دغنہ نے کہا ، کیوں ؟ اس کی وجہ؟ واللہ تم تو اپنی قوم کے لیے باعث زینت ہو، مصائب میں لوگوں کی مدد کرتے ہو، بھلائی کے کام کرتے ہو اور ناداروں کو ضروریات فراہم کرتے ہو۔ تم چلو ، میں تمھیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں۔ چنانچہ صدیقِ اکبرؓ ، ابن دغنہ کے ہمراہ مکہ واپس آ گئے ۔ کچھ عرصہ بعد حضرت ابو بکرؓ نے پناہ واپس کر دی۔ ( تفصیل کے لیے دیکھیے، سیرت النبی ﷺ، ابنِ ہشام )
ہم سمجھتے ہیں کہ ہجرتِ حبشہ سے مکی سماج کو سنگین فکر لاحق ہو گئی تھی کیونکہ اس کے صاحبِ حیثیت افراد مکہ چھوڑ چھوڑ کر جا رہے تھے۔ ( ۱۳) مثلاً حضرت عثمانؓ بن عفان، حضرت زبیرؓ بن العوام ، حضرت مصعبؓ بن عمیر ، حضرت ابوسبرۃؓ بن رہم اور حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف ایسے مہاجرین تھے جن کی مکی سوسائٹی میں ممتاز حیثیت تھی اور یہ اصحابؓ حبشہ ہجرت کرنے والے پہلے مسلم گروپ میں شامل تھے ۔ ایسے میں صدیقِ اکبرؓ جیسی عظیم شخصیت کے چلے جانے سے مکی سماج ، اخلاقی دیوالیہ کا شکار ہو جاتا۔ ابنِ دغنہ کے ان الفاظ پر ذرا غور کیجیے جو اس نے صدیقِ اکبرؓ کی شان میں کہے ۔ کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ان کا کردار ’’ داعی ‘‘ بن کر سامنے آیا ہے ، کیونکہ ان کا شخصی عزم کاملیت کے قریب پہنچاہوا تھا ۔حقیقت تو یہ ہے کہ دوسرے صحابہؓ نے کردار کے جو مراتب ہجرت کرکے حاصل کیے، نبی خاتم ﷺ کے یا رِ غار نے وہ مراتب فقط دو منزل طے کرکے حاصل کر لیے (۱۴) المختصر، ہجرتِ حبشہ نے جہاں ایک طرف نفسیاتی کچوکے لگا کر مکی سوسائٹی کو جھنجھوڑ ڈالا ، وہاں یہ مختلف سطحوں پر شخصی و گروہی عزم کو تقویت دیتے ہوئے داعی کی حیثیت اختیار کرتی چلی گئی ۔
ہجرت حبشہ کے حوالے سے سطور بالا میں مذکور توضیح سے اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ نبی خاتم ﷺ نے خود ہجرتِ حبشہ کیوں نہیں کی؟ ہم واضح کر چکے ہیں کہ یہ ہجرت تجربی واقدامی تھی اور اس سے پیش نظر ہجرت مدینہ کے لیے زمین کو ہموار کرنا تھا۔
ہجرت مدینہ کے تمہیدی مراحل
حبشہ کی تجربی و اقدامی ہجرت کے گوناگوں اثرات پر نظر رکھتے ہوئے ، مشیتِ الٰہی کے مطابق نبی خاتم ﷺ گروہی ہجرت کے تتماتی لازمے finishing requirements پورے کرتے ہیں ۔ اس سلسلے میں آپ ﷺ کو حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہؓ کی رحلت کے سانحات سے گزرنا پڑتا ہے ۔ حضرت خدیجہؓ گھر کے اندرآپ ﷺ کی غم گسار تھیں تو حضرت ابوطالب گھر کے باہر کفار کے مظالم کے خلاف ڈھال بنے ہوئے تھے ۔ اس لیے ان دوہستیوں کے داغِ مفارقت دے جانے سے رسولِ پاک ﷺ جن مشکل حالات سے دوچار ہوئے ، اس سے آپ ﷺ کا شخصی عزم کاملیت کے اعلیٰ ترین درجے تک پہنچ گیا۔ سیرت النبی ﷺ ابنِ ہشام میں رقم ہے کہ جب ایک گستاخ نے آپ ﷺ کے سر مبارک پر خاک ڈالی اور آپ ﷺ گھر تشریف لائے تو آپ ﷺ کی صاحبزادیوں میں سے ایک صاحبزادی اس کو دھونے لگی اور رونے لگی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا، بیٹی کیوں روتی ہو ؟ اللہ تمھارے باپ کا حافظ ہے ۔ اس وقت آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جب تک ابو طالب زندہ تھے ، قریش مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچا سکے ۔
حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد ابولہب بنو ہاشم کا سردار بن گیا ۔ اس نے آپ ﷺ کو ’’کنبہ بدر‘‘ کرنے کا اعلان کر دیا ۔ یہ انتہائی اقدام تھا ۔ حضرت ابوطالب نے قریش کی دھمکیوں ، دباؤ اور معاشرتی مقاطعہ کے باوجود ایسا منفی قدم نہیں اٹھایا تھا لیکن ابولہب نے بغیر کسی دباؤ کے ، آپ ﷺ کی مخالفت میں اپنے طور پر یہ انتہائی قدم اٹھا لیا ۔ اس کے نتیجے میں آپ ﷺ اپنے خانوادے کی حمایت سے محروم ہو گئے ۔ کنبہ بدری کی اس دشوار اور صبر آزما میں نبی پاک ﷺ نے طائف کا سفر کیا تاکہ وہاں سے حمایت و تعاون مل سکے اور دعوتِ اسلام کا فریضہ جاری رہ سکے، لیکن وہاں آپ ﷺ پر جس طرح آوازے کسے گئے ، سنگ باری کی گئی، قلم اس کو بیان کرنے سے قاصر ہے ۔ ذرا غور کیجیے کہ ایک کنبہ بدر فرد پر ایسے حالات بیتیں تو اس پر کیا گزرتی ہے؟ یہ آپ ﷺ کا کامل شخصی عزم ہی تھا کہ آپ ﷺ نے مایوس ہونے کے بجائے اہلِ طائف کے لیے بھی دعا کی۔ یہ محض حسنِ اتفاق نہیں کہ آپ ﷺ طائف سے واپسی پر ’’ غارِ حرا ‘‘ میں ٹھہرے جہاں سے آپ ﷺ نے آدم ؑ کے گم گشتہ عزم کی بازیافت کا آغاز کیا تھا۔ پھر آپ ﷺ مطعم بن عدی کی پناہ میں مکہ واپس آئے کیونکہ کنبہ بدری کے بعدکسی کی پناہ میں آئے بغیر مکہ میں قدم رکھنا نا ممکن ہو چکا تھا۔ یہ وہی مطعم بن عدی ہے جس نے معاشرتی مقاطعہ کے خاتمے میں بھی اپنا کردار ادا کیا تھا۔ اسی لیے حضرت حسان بن ثابتؓ نے اس کے انتقال پر مرثیہ کہا تھا ۔ خیال رہے مطعم کا انتقال کفر کی حالت میں ہوا تھا۔ مکہ واپسی پر آپ ﷺ نے حج کے موقع پر قبائلِ عرب کو اسلام کی دعوت دی ۔ خاتم الانبیاء ﷺ کی پوری مکی زندگی میں ، آپ ﷺ کے اپنے خاندان کو دعوت دینے سے لے کر قبائلِ عرب کو اسلام کی طرف راغب کرنے تک کے سارے دور میں ابولہب سائے کی طرح آپ ﷺ کے پیچھے لگا رہا اور لوگوں کو بدظن کرنے کی کوشش کرتا رہا ۔ سیرت النبی ﷺ / ابنِ ہشام میں مرقوم ہے :
’’ربیعہ بن عباد سے روایت ہے کہ میں نوجوان شخص تھا اور اپنے باپ کے ساتھ حج میں شریک تھا ۔ میں نے دیکھا کہ منیٰ کے مقام پر نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور قبائلِ عرب کے پاس کھڑے ہو کر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے بنی فلاں ! میں تمھاری طرف خدا کا رسول ہوں تم کو اس بات کا حکم دیتا ہوں کہ تم سوا خدا کے کسی کی پرستش نہ کرو اور بت پرستی چھوڑ دو اور مجھ پر ایمان لا کر میری تصدیق کرو اور احکامِ الہی کے جاری کرنے میں میرے شریک ہو جاؤ ۔
جب حضور ﷺ یہ فرما چکے تو ایک شخص آپ ﷺ کے پیچھے سے بولا ، جو آنکھ سے بھینگا اور عدن کا حلہ پہنے ہوئے تھا کہ اے بنی فلاں ! یہ شخص تم سے کہتا ہے کہ لات اور عزیٰ کے بت اپنی گردنوں سے نکال کر پھینک دو اور جنوں کی پرستش چھوڑ دو ۔ پس اس بدعت اور گمراہی جس کی طرف یہ تم کو بلاتا ہے ، ہرگز نہ مانو اور نہ اس کی بات سنو ۔ ربیعہ کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے پوچھا یہ کون شخص ہے ؟ انھوں نے کہا یہ آپ ﷺ کا چچا ابولہب بن عبدالمطلب ہے ۔‘‘
اس طرح ابولہب نے آپ ﷺ کی مخالفت مسلسل جاری رکھی اور کنبہ بدر کرنے کے بعد آپ ﷺ کو مکہ سے نکال کر ہی دم لیا۔ اس لیے اس کے متعلق یہ سخت وحی اتری :
تَبَّتْ یَدَا أَبِیْ لَہَبٍ وَتَبَّ () مَا أَغْنَی عَنْہُ مَالُہُ وَمَا کَسَبَ () سَیَصْلَی نَاراً ذَاتَ لَہَبٍ () وَامْرَأَتُہُ حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ () فِیْ جِیْدِہَا حَبْلٌ مِّن مَّسَدٍ (سورۃ اللھب /۱۱۱)
’’ ٹوٹ گئے دونوں ہاتھ ابولہب کے اور نامراد ہو گیا وہ ، نہ کام آیا کچھ اس کے مال اس کا اور ( نہ ) وہ جو اس نے کمایا ، عنقریب جا پڑے گا وہ لپٹیں مارتی آگ میں ، اور اس کی بیوی اٹھائے پھرنے والی ایندھن ، اس کی گردن میں ( ہوگی ) رسی مونجھ کی ۔‘‘
اب ایک طرف چراغِ مصطفوی ﷺ تھا، اور دوسری طرف شرارِ بو لہبی۔ ایک طرف عزمِ کامل تھا اور دوسری طرف عزم کو شکستہ کرنے کے حیلے ۔لیکن زمین پر ابلیس کی زندہ علامت ، ابولہب ، دائیں بائیں آگے پیچھے سے حملہ آور ہونے کے باوجود آپ ﷺ کے عزم کاکچھ بھی نہ بگاڑ سکا ۔ آپ ﷺ دینِ حق کی دعوت مسلسل دیتے رہے۔
بہرحال حج کے موقع پر قبائل عرب کو دعوت دینے کا عمل نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ بعض روایات کے مطابق مدینہ کے قبائل اوس و خزرج کے درمیان ’’ جنگِ بعاث ‘‘ سے پہلے سوید بن صامت اور ایاس بن معاذ نے مکہ آ کر اسلام قبول کر لیا ۔ اس جنگ میں اوس و خزرج کے کمزور پڑ جانے سے یہودِ مدینہ نے اپنا کھویا ہوا اقتدار حاصل کر لیا ۔ اورس و خزرج اس بات سے آگاہ چکے تھے کہ یہودی انھیں کمزور کرنے کی خاطر آپس میں لڑا رہے ہیں۔ اسی دوران میں خزرج کی ایک جماعت حج کے موسم میں مکہ آئی ۔ آپ ﷺ نے اسے اسلام کی دعوت دی ۔ یہ خزرجی لوگ آپ ﷺ کی ممکنہ بعثت سے آگاہ تھے کیونکہ یہودی انھیں اکثر کہا کرتے تھے کہ عنقریب ایک نبی آنے والا ہے، ہم اس کی اتباع کر کے تم لوگوں کا قلع قمع کر دیں گے ۔ انھوں نے خیال کیا، کہیں یہودی ہم سے سبقت نہ لے جائیں، اس لیے ان لوگوں نے آپ ﷺ کی دعوت پر فوراً لبیک کہا ۔ ان خزرجیوں نے آپ ﷺ سے گزارش کی کہ ہماری قوم اوس و خزرج کے مابین اتنی سخت عداوت اور نفاق ہے کہ شاید ہی کسی دوسری قوم میں ہو ۔ اگر آپ ﷺ اوس و خزرج کو ایک لڑی میں پرو دیں تو پھر آپ ﷺ سے زیادہ ذی عزت شخص کوئی نہیں ہو گا ۔ مدینہ واپس جا کر ان لوگوں نے اپنے عزیزوں اور دوستوں کو قبولِ اسلام کی روداد سنائی اور اسلام لانے کی دعوت دی ۔ پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ اوس و خزرج میں کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس میں نبی خاتم ﷺ کا تذکرہ نہ ہوتا ہو۔
پھراگلے موسمِ حج میں مدینہ سے بارہ اشخاص مکہ آئے اور آپ ﷺ کی بیعت کی ۔ سیرت النبی ﷺ ابنِ ہشام کے مطابق ، عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ ہم نے حضور ﷺ سے عورتوں کی بیعت جیسی [بیعت النساء ]بیعت کی ( کیونکہ ابھی جہاد وقتال کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے )۔ نبی خاتم ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو ان کے ساتھ مدینہ روانہ کیا تاکہ وہ انھیں احکامِ اسلام کی تعلیم دیں اور قرآن شریف پڑھائیں ۔ ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت مصعبؓ ہی ان لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے کیونکہ اوس و خزرج ایک دوسرے کے امام بننے سے خوش نہیں تھے ۔ یہاں پر ہجرتِ حبشہ کا ایک اور ’’اقدامی پہلو‘‘ عیاں ہوتا ہے ۔ حضرت مصعبؓ حبشہ ہجرت کرنے والے پہلے مسلم گروپ میں شامل تھے ۔ حبشہ میں مسلمان جن نا مساعد حالات سے گزرے اور انھیں ایک اجنبی ماحول میں دعوتِ حق کا کام کرنا پڑا، اس سے ان میں صبر اور متانت جیسی خصوصیات پیدا ہوئیں اور دبے بغیر حق بات کو ، مخاطب کی ذہنی سطح کے مطابق کہنے کا سلیقہ آیا ۔اہم بات یہ ہے کہ حبشہ میں ایک تو نجاشی کی ہمدردیاں مسلمانوں کے ساتھ تھیں، دوسرا خود عیسائیت کی مذہبی روایت بھی نرم خو تھی ۔ مدینہ میں حالات اس کے برعکس تھے ، کیونکہ ایک طرف اوس و خزرج کے مابین اختلافات موجود تھے اور دوسری طرف کینہ پرور یہودی اعلیٰ سماجی مقام کے حامل تھے۔ اس لیے اگر حضرت مصعبؓ کو ہجرتِ حبشہ کے تجربے سے گزارے بغیر براہ راست مدینہ بھیجا جاتا تو انھیں وہاں شدید مشکلات پیش آ سکتی تھیں۔ نبی پاک ﷺ کسی ایسے صحابی کو بھی مدینہ جانے کا حکم دے سکتے تھے جنھوں نے حبشہ ہجرت نہیں کی تھی ۔ مصعبؓ کے انتخاب کے پیچھے یقیناًان کی ہجرتِ حبشہ ، آپ ﷺ کے پیشِ نظر تھی ۔اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مدینہ میں حضرت مصعبؓ کی کامیابیوں میں ان کی ہجرتِ حبشہ کے تجربے کا خاطر خواہ حصہ تھا۔ اسید بن حضیرؓ اور سعد بن معاذؓ جو اپنی قوم کے سردار تھے، مصعبؓ کے تدبر کی بدولت بات سننے کے روادار ہوئے اور ان کے اسلوبِ دعوت سے متاثر ہو کر اسلام لے آئے ۔ اس کے بعد ان کی پوری قوم دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی ۔ ابنِ ہشام کے مطابق سوائے بنی اوس کے چند قبائل کے، کچھ عرصہ بعد انصار میں کوئی ایسا گھرانہ باقی نہ بچا تھا جس کے سب مردو عورت مسلمان نہ ہو چکے ہوں ۔
ابنِ ہشام کے مطابق ، حضرت مصعبؓ حج کے موقع پرمدینے سے انصار کے ہمراہ بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے۔ تہتر (۷۳) مرد وں اور دو (۲) عورتوں نے آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ اس موقع پر حضرت عباسؓ نے (جو ابھی غیر مسلم تھے ) فرمایا ، اے گروہِ خزرج ! محمد ﷺ ہمارے اندر جو وقعت اور عزت رکھتے ہیں، تم اس کو خوب جانتے ہو اور ہم ان کے مخالفین سے ان کے محافظ اور ان کو بچانے والے ہیں ۔ مگر ان کا خود یہ ارادہ ہے کہ اس شہر کو چھوڑ کر تمھارے شہر میں چلے چلیں اور تم سے مل جائیں ، اگر تم سمجھتے ہو کہ تم جس بات کی طرف ان کو بلاتے ہو، اس کو پورا کر سکو گے اور ان کے دشمنوں سے ان کو محفوظ رکھو گے تو اس کام کو کرو اور اگر تم سے یہ بات نہ ہو سکے تو بہتر ہے کہ تم اسی وقت جواب دے دو کیونکہ محمد ﷺ اس وقت ہماری حفاظت میں ہیں۔ ایسا نہ ہوکہ تم یہاں سے ان کو لے جا کر پھر ان کے دشمنوں کے سپرد کر دو ۔ ابنِ ہشام کے مطابق کعبؓ کہتے ہیں، ہم نے عباسؓ سے کہا کہ ہم نے آپؓ کی پوری گفتگو سن لی ، پھر ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی ، آپ ﷺ ارشاد فرمائیں اور خدا کے احکام کے متعلق یا اپنی ذات کے متعلق جو کچھ ’’عہد ‘‘ ہم سے لینا ہو، وہ لے لیں۔ رسول پاک ﷺ نے پہلے قرآن شریف پڑ ھ کر سنایا اور خدا کی طرف رغبت دلائی ۔ بعد ازاں فرمایا کہ میں تم سے اس بات کی بیعت لیتا ہوں کہ میری ایسی حمایت کرو گے جیسا کہ تم اپنی عورتوں اور بچوں کی حمایت کرتے ہو ۔ کعبؓ کہتے ہیں یہ سنتے ہی براء بن معرورؓ نے آپ ﷺ کا دستِ مبارک تھام لیا اور عرض کیا ، ہاں بے شک اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، ہم آپ ﷺ کی ایسی ہی حمایت کریں گے جیسی اپنے اہل وعیال کی کرتے ہیں ۔ پھر سب نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی اور عرض کی کہ ہم جنگجو لوگ ہیں اور حرب و پیکار ہماری وراثت میں بزرگوں سے چلی آرہی ہے ۔ پھر ابوالہیثمؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! ہمارے اور یہودیوں کے درمیان قدیمی عداوت ہے ، ہمیں یہ خدشہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو غلبہ دے دے تو آپ کہیں ہمیں چھوڑ کر اپنی قوم کے پاس واپس نہ چلے جائیں ۔ آپ ﷺ نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا: نہیں، اس بات کا تم اطمینان رکھو ، جس سے تم لڑو گے اس سے میں لڑوں گااور جس سے تم صلح کرو گے، اس سے میں صلح کروں گا۔ تمھارا ذمہ میرا ذمہ ہے اور تمھاری حرمت میری حرمت ہے ۔
ابنِ ہشام کی ایک روایت کے مطابق جب مقامِ عقبہ میں انصار نبی پاک ﷺ سے بیعت کرنے کے لیے تیار ہوئے تو عباس بن عبادہ بن نضلہ انصاریؓ نے کہا، اے معشر خزرج ! تم جانتے بھی ہو کہ کس بات پر بیعت کر رہے ہو ؟ سب نے کہا، ہاں ہم جانتے ہیں ۔ کہا ، یہ اس بات کی بیعت ہے کہ ہر ایک سرخ و سیاہ آدمی سے تم کو لڑنا ہوگا۔ اگر تمھیں لگتا ہے کہ جب تمھارے مال برباد ہو ں گے اور تمھارے اشراف قتل ہو جائیں گے، اس وقت تم ان سے پھر جاؤ گے تو اسی وقت اس بیعت کو ترک کر دو۔ واللہ ! اگر اُس وقت تم نے ایسا کیا تو دنیا و آخرت کی ذلت تم کو نصیب ہو گی۔ اور اگر تم سمجھتے ہو کہ چاہے کیسی ہی مصیبت تم کو پہنچے ، مال برباد ہو کہ اشراف قتل ہوں، تم اپنی بیعت پر قائم رہو گے تو پھر بسم اللہ ، بیعت کرو کیونکہ اس میں تمھارے لیے دین و دنیا کی خیر و خوبی ہے ۔ سب نے کہا، ہم ان سب باتوں کی بیعت کرتے ہیں۔ (اس بیعت کو اس لیے ’ بیعتِ حرب ‘ بھی کہتے ہیں)۔ پھر عرض کیا ، یا رسول اللہ ﷺ ! جب ہم اس عہد پر پورا اتریں گے تو ہمارے واسطے کیا بدلہ ہے؟ نبی خاتم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جنت ۔ بیعت کے بعد نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے لوگوں میں سے بارہ آدمی میرے سامنے پیش کرو تاکہ میں ان کو ان کی قوم پر نقیب بناؤں ۔ چنانچہ بارہ شخص آپ ﷺ کے سامنے پیش کیے گئے ، جن میں نو خزرج اور تین اوس سے تھے ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور انصارِ مدینہ کے درمیان مذکورہ مکالمے کی کم ازکم تین سطحیں ہیں :
(ا) یہ مکالمہ درحقیقت انصار کا نبی پاک ﷺ کے ساتھ ’’عہد ‘‘ تھا جس پر انصار ہمیشہ کاربند رہے ۔
(ب) یہ مکالمہ قیادت (نبی پاک ﷺ )اور گروہ ( انصارِ مدینہ ) کے درمیان معاہدہ تھا جس میں فریقین کی ذمہ داریوں کا تعین موجود تھا ۔
(ج) یہ مکالمہ میثاقِ مدینہ کا پیش رو تھا کیونکہ اس کے مندرجات میثاقِ مدینہ میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ انصارِ مدینہ ’’ مکی ‘‘ نہیں تھے، اس لیے انھیں ہجرتِ حبشہ اور ہجرتِ مدینہ کی سعادت بھی نہ مل سکی، اس کے باوجود انھوں نے اس مکالمے میں ’’بے مثال گروہی عزم ‘‘ کا مظاہرہ کیا، ایسا کیونکر ہو سکا ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سوال مطالعہ سیرت کا ایک اہم اور قابلِ اعتنا پہلو ہے جو ہنوز تشنہ ہے ۔ اس سوال کا ایک جواب تو حضرت مصعبؓ کی دعوتی مساعی کے تجزیے میں پوشیدہ ہے۔ (۱۵) اور دوسرا جواب خود انصار کی ان داخلی خوبیوں سے آگاہی میں مستور ہے جو قبل از اسلام بھی ان کی ذات کا حصہ تھیں ۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ :
’’لولاالھجرۃ ، لکنت امرء ا من الانصار ، و لو اندفع الناس فی شعب ، او فی واد ، والانصار فی شعب لاندفعت مع الانصار فی شعبھم‘‘ (صحیفہ ہمام بن منبہ عن ابی ہریرہؓ / تحقیق ڈاکٹر محمد حمیداللہ ؒ )
’’ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی کا ایک آدمی ہوتا ، اگر لوگ ایک گھاٹی یا ایک وادی میں جاتے اور انصار ایک دوسری گھاٹی میں ، تو میں انصار کے ساتھ ان کی گھاٹی میں جاتا ‘‘ ۔
گروہی ہجرت کے تتماتی لازمے کے طور پر اس ’’ تجربی مواخات ‘‘ کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جو مکہ میں سولہ افراد کے درمیان کرائی گئی۔ سیرت کی عام کتب میں اس کا تذکرہ مفقود ہے لیکن محمد بن حبیب ( المتوفیٰ ۲۴۵ھ ) کی کتاب ’المحبر‘ میں اس پر بحث کی گئی ہے (۱۶) ۔ حبشہ کی تجربی و اقدامی ہجرت کے نتائج و عواقب سے آپ ﷺ نے بھانپ لیا تھا کہ ہجرت کے ذریعے سے ایک جاری و ساری سماجی عمل میں اضطرابی لہریں تو برپا کی جا سکتی ہیں ، لیکن ایک نئے سماجی رویے کی آبیاری کے لیے ہجرت ، بنفسہٖ ناکافی ہے۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے ہجرتِ حبشہ کے بعد مکی زندگی میں ہی ، گروہی عزم کو صحیح خطوط پر ایک سماجی رویے میں ڈھالنے کی خاطر ، مواخات کا کامیاب تجربہ کیا ۔ یہ تجربہ ، ہجرتِ مدینہ کے بعد ایک نئے سماج کی تشکیل میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوا ۔
گروہی ہجرت کا واقعہ
تجربی واقدامی اور تتماتی لوازمات کی تکمیل کے بعد آخرکار گروہی ہجرت کا وقت آ پہنچتا ہے :
وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّیْ مِن لَّدُنکَ سُلْطَاناً نَّصِیْراً (بنی اسرائیل ۱۷/۸۰)
’’ اور دعا کرو کہ اے میرے مالک ! لے جا تو مجھے جہاں بھی لے جائے صدق کے ساتھ اور نکال مجھے جہاں سے بھی نکالے صدق کے ساتھ اور بنا دے تو میرے لیے اپنی جنابِ خاص سے کسی اقتدار کو میرا مددگار ‘‘۔
خیال رہے، حبشہ کے متعلق آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ وہ سر زمین صدق ہے ، اسی طرح نبی پاک ﷺاب صدق کے ساتھ داخل ہونے کے مقام کی وضاحت کرتے ہیں :
امرت بقریۃ تاکل القری یقولون یثرب وھی المدینۃ تنفی الناس کما ینفی الکیر خبث الحدید (صحیح بخاری )
’’مجھے ایک ایسے شہر میں ( ہجرت ) کا حکم ہوا ہے جو دوسرے شہروں کو مغلوب کرے گا۔ اسے یثرب کہتے ہیں لیکن وہ مدینہ ہے ، برے لوگوں کو اس طرح باہر کر دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو‘‘۔
ایسا نہیں کہ گروہی ہجرت کا لمحہ یک دم آ گیا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے لیے نفسیاتی تیاری کافی پہلے سے ہو رہی تھی۔ آپ ﷺ کے تجربی و اقدامی فیصلوں کے علاوہ احکاماتِ قرآنی کے ذریعے مسلمانوں کو ہجرت کی فضیلت ، جواز اور حکمت سے آگاہ کر دیا گیا تھا :
وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُواْ فِیْ اللّہِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُواْ لَنُبَوِّءَنَّہُمْ فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَلَأَجْرُ الآخِرَۃِ أَکْبَرُ لَوْ کَانُواْ یَعْلَمُونَ (النحل ۱۶/۴۱)
’’ اور وہ لوگ جنھوں نے ہجرت کی اللہ کی خاطر، اس کے بعد کہ ان پر ظلم ہو چکا تھا، ضرور ٹھکانہ دیں گے ہم انھیں دنیا میں بھی اچھا اور اجرِ آخرت تو بہت ہی بڑا ہے ‘‘۔
ثُمَّ إِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ہَاجَرُواْ مِن بَعْدِ مَا فُتِنُواْ ثُمَّ جَاہَدُواْ وَصَبَرُواْ إِنَّ رَبَّکَ مِن بَعْدِہَا لَغَفُورٌ رَّحِیْمٌ (النحل۱۶/۱۱۰)
’’ جنھوں نے ہجرت کی اس کے بعد کہ وہ آزمائش میں ڈالے گئے پھر انھوں نے جہاد کیا اور صبر کیا ، بے شک تیرا رب ان آزمائشوں کے بعد یقیناًہے بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ‘‘۔
آخر کار نبی خاتم ﷺ مسلمانوں کو حکم دیتے ہیں کہ مدینہ کی طرف ہجرت کر جاؤ ، کیونکہ آپ ﷺ وہاں ’’ مستقر و متاع ‘‘ کا ظاطر خواہ انتظام کرچکے تھے ۔اب ہم گروہی ہجرت کے واقعات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف ان اثرات کا سرسری جائزہ لیتے ہیں جو مکہ اور مدینہ کی سوسائٹیوں پر مرتب ہوئے ۔
ہجرت کے لیے مدینہ کا انتخاب
نبی خاتم ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں مدینہ کی اہمیت کے پیشِ نظر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت مدینہ منورہ میں ہی کیوں نہ ہوئی ؟ اس طرح آپ ﷺ کو ہجرت کی جاں گسل کیفیات سے بھی نہ گزرنا پڑتا ۔ہماری رائے میں جہاں تک ہجرت کا تعلق ہے یہ آپ ﷺ کی حیاتِ مطہرہ کا لازمی جزو معلوم ہوتی ہے ۔ ظاہر ہے خدا کے لیے یہ امر مشکل نہ تھا کہ آپ ﷺ کو ہجرت کیے بغیر مکہ میں کامیابی و کامرانی سے سرفراز فرماتا ۔ اب اگر مدینہ میں آپ ﷺ مبعوث ہوتے تو بھی اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو ہجرت کے عمل سے گزارنا تھا ( دنیا کے تاریخی و تکوینی تقاضے بھی بڑے بڑے مصلحوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کرتے رہے ہیں ) ، پھر مدینہ سے آپ ﷺ کے ہجرت کرنے کے بعد آپ ﷺ کے مدینہ پر فتح پانے سے وہ حکمت ظاہر نہیں ہوسکتی تھی جو مکہ فتح کرنے سے مشہود ہوئی ۔ کیونکہ اگر مکہ مفتوح ہونے کے بجائے دارالہجرت قرار پاتا، تو آپ ﷺ ابلیس کی شیطانیت کے مقابل اولادِ آدم ؑ میں سے مخلصین کی حتمی فتح کی علامت نہیں بن سکتے تھے ( جیسا کہ بیان ہو چکا ) ۔
مدینہ کے بجائے مکہ میں آپ ﷺ کے مبعوث ہونے میں ایک اور حکمت پوشیدہ ہے اور یہ بھی ہجرت سے منسلک ہے ۔ مدینہ کے باسی بنیادی طور پر زراعت پیشہ تھے اور اہلِ مکہ کی اکثریت تجارت پیشہ تھی ۔ یہ بڑی واضح بات ہے کہ تجارت پیشہ لوگوں کے لیے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہونا ( چاہے دلی رضامندی یا مجبوری کی صورت میں ہو ) نسبتاََ آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے مال و اسباب کے ساتھ نقل مکانی کر سکتے ہیں جبکہ زراعت پیشہ افراد ظاہر ہے زمین اٹھا کر کہیں اور نہیں لے جا سکتے ۔ پھرتجارت سے منسلک افراد عام طور پر نہ صرف نقل مکانی کے مضر اثرات پر جلد قابو پا لیتے ہیں بلکہ نئے ماحول میں اپنی سابقہ ہنر مندی کے ذریعے تیزی سے ترقی کرتے ہیں جبکہ زراعت پیشہ لوگ نہ صرف اپنی زمین سے جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں بلکہ نئے علاقے میں جا کر کاشت کاری ان کے لیے خاصی دوبھر ہوتی ہے ۔اس لیے اگر آپ ﷺ مدینہ میں مبعوث ہوتے تو مدنی لوگوں کو ہجرت کرنے میں کافی دشواری محسوس ہوتی ، اور مکہ کی طرف ہجرت کرنے سے مزید مسائل پیدا ہوتے کیونکہ وہاں قابلِ کاشت زمین ناکافی ہے ، اور اس پر مستزاد تجارت پیشہ لوگ وسیع پیمانے پر اپنی تجارت میں کاشت کاروں کو بھی نہ کھپا سکتے ۔ مکہ میں آپ ﷺ کے مبعوث ہونے اور مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے معکوس عمل وقوع پذیر ہوا ۔ زراعت پیشہ افراد کو اپنی قابلِ کاشت زمین چھوڑنے کے توبہ شکن عمل سے نہ گزرنا پڑا اور تجارت پیشہ مہاجر نئے ماحول میں بوجھ بننے کے بجائے زراعت پیشہ افراد کا ہاتھ بٹاتے ہوئے تجارت کو روز افزوں ترقی دینے لگے ۔
ہمارے ہاں کیونکہ عام طور پر ہجرت کے عمل کو romanticise کیا جاتا ہے اور معروضی حقائق اور انسانی فطرت کی مقتضیات سے چشم پوشی کی جاتی ہے اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں چند اہم واقعات کا ذکر کر دیا جائے ۔
سیرت النبی ﷺ / ابنِ ہشام کے مطابق حضرت عمرؓ اور حضرت عیاشؓ بن ابی ربیعہ نے اکھٹے ہجرت کی ۔ قباء کے مقام پر ابوجہل بن ہشام اور حرث بن ہشام ، حضرت عیاشؓ کو تلاش کرتے آ پہنچے ، یہ دونوں ان کے چچا زاد اور ماں شریک بھائی تھے ۔ انھوں نے کہا کہ تمھاری ماں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک تمھیں نہ دیکھے گی نہ سر میں کنگھی کرے گی اور نہ سایہ میں بیٹھے گی۔ حضرت عمرؓ نے انھیں بہت سمجھایا کہ یہ تمھیں لے جانے کے لیے ایک چال ہے ۔ مگر وہ کہنے لگے کہ اول تو مجھے ماں کی قسم پوری کرنی ہے دوسرے یہ کہ میرا مال بھی وہاں ہے اس کو لے کر چلا آؤں گا ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ، تمھاری ماں کو جب جوئیں ستائیں گی تو وہ ضرور کنگھی کرے گی اور جب مکہ کی دھوپ اسے بے چین کرے گی تو وہ خودبخود سایہ میں بھاگ آئے گی اور جس مال کا تم کو خیال ہے تو سمجھو کہ تمھارا مال میرے مال کے نصف کے برابر بھی نہیں ہے جو میں چھوڑ آیا ہوں اور میں اس کا خیال تک نہیں کرتا ، حالانکہ میں قریش میں اول درجے کا مال دار ہوں ۔ المختصر ! حضرت عیاشؓ نے حضرت عمرؓ کی نصیحت نہ مانی اور ابوجہل اور حرث کے جھانسے میں آگئے ، انھوں نے مکہ لے جاکر عیاشؓ کو گھر میں قید کر لیا ۔
اسی طرح حاطبؓ بن ابی بلتعہ نے جب اہلِ مکہ کو حضور ﷺ کی روانگی کی اطلاع کا خط ایک عورت کو دے کر بھیجا اور حضرت عمرؓ نے انھیں خائن قرار دے کر آپﷺ سے ان کی گردن اڑانے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے فرمایا :
یا حاطب ما حملک علی ما صنعت ؟
’’ حاطب ، تم نے ایسا کیوں کیا تھا؟ ‘‘
حاطبؓ کا جواب بہت اہم ہے :
’’ حاطبؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ایسا نہیں ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں رکھتا ، بات صرف اتنی ہے کہ میں نے چاہا تھا کہ مکہ کے لوگوں پر میرا احسان ہو جائے اور اس کے بدلہ میں وہ میرے اہلِ خاندان اور میرے مال کی حفاظت کریں ، آپ ﷺ کے جتنے مہاجر صحابہؓ ہیں ان میں ایسا کوئی نہیں جس کے مکہ میں ان کی قوم میں ایسے لوگ نہ ہوں جو ان کے اہلِ و عیال اور مال کی حفاظت نہ کرتے ہوں ( جبکہ میرا وہاں کوئی ایسا شخص نہیں تھا )‘‘
حضور ﷺ نے فرمایاکہ سچ کہا ، بھلائی کے سوا ان کے متعلق اور کچھ نہ کہو ، بیان کیا عمرؓ نے دوبارہ کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں سے خیانت کی ہے مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس کی گردن ماروں ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ جنگِ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے نہیں ہیں ؟ تمھیں کیا معلوم اللہ تعالی ان کے اعمال سے واقف تھا اور پھر فرایا کہ جو چاہو کرو میں نے جنت تمھارے لیے لکھ دی ہے ۔ اس پر عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور عرض کی ، اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے ‘‘ ۔ ( صحیح بخاری )
اب ذرا حاطبؓ کے ’’ جواز ‘‘ پر غور فرمائیے ۔کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ نہ صرف مکہ کے مہاجرین کو تجارت پیشہ ہونے کے ناتے مدینہ میں قابلِ انتقال اشیاء لے جانے کی سہولت حاصل تھی بلکہ پیچھے چھوڑے ہوئے مال و اسباب و عزیز رشتے داروں کی حفاظت کا بھی قدرے انتظام موجود تھا ، کیونکہ آپ ﷺ نے بھی حاطبؓ کے جواز پر فرمایا ’’ سچ کہا ، بھلائی کے سوا ان کے متعلق اور کچھ نہ کہو ‘‘۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ ’’ مال و اولاد ‘‘ کے متعلق انسانی فطرت کی مقتضیات سے پوری طرح آگاہ تھے اور اس سلسلے میں خدائی احکامات کی روشنی میں ہر ممکن گنجائش دینے پر تیار تھے، جبکہ فاروقِ اعظمؓ مذکورہ دونوں واقعات میں اپنے شخصی مزاج کا برملا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
صدیقِ اکبر کے متعلق نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے :
’’سب سے زیادہ میں جس کی دولت اور صحبت کا ممنون ہوں ، وہ ابوبکرؓ ہیں ۔ اگر میں دنیا میں کسی کو اپنی امت میں سے اپنا خلیل بنا سکتا تو ابوبکرؓ کو بناتا لیکن اسلام کا رشتہ دوستی کے لے کافی ہے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے پاس اکٹھا کر دے۔’‘
لیکن یہی صدیقِ اکبرؓ جو ایک غزوہ کی تیاری کی خاطر گھر کا سارا سامان اٹھا لائے تھے اور آپ ﷺ کے استفسار پر جواب دیا تھا کہ گھر میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو چھوڑ آیا ہوں ، انھوں نے غزوہ بدر کے موقع پر اپنے بیٹے عبدالرحمان کو ، جو مشرکین کے ساتھ آیا تھا ، انسانی فطرت کی طرف اشارہ کر نے کی خاطر اس طرح مخاطب کیا : اے خبیث میرا مال کہاں ہے؟ عبدالرحمن نے جواب دیا :
لم یبق غیر شکۃ ویعبوب وصارم یقتل ضلال الشیب ( سیرت النبی / ابنِ ہشام )
’’ ہتھیار اور طرارے بھرنے والے گھوڑے اور اس تلوار کے سوا جو بوڑھے گمراہوں کو قتل کرتی ہے اور کچھ باقی نہیں رہا ۔‘‘
اسی طرح ابو احمدؓ نے بھی فتح مکہ کے موقع پر حضور ﷺ سے اپنے اس مکان کے بارے میں عرض کیا جسے ابوسفیان( ان کی ہجرت کے دوران ) فروخت کر چکا تھا۔ یہ تمام واقعات اس امر پر شاہد ہیں کہ زراعت پیشہ لوگوں کی ہجرت سے انسانی فطرت کی مقتضیات کے پیشِ نظر کافی زیادہ پیچیدگیاں جنم لے سکتی تھیں ، اس لیے اللہ رب العزت نے خاص حکمت کے تحت ہی آپ ﷺ کو مدینہ کے بجائے مکہ میں مبعوث فرمایا اور مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا ۔ (۱۷)
ہجرتِ مدینہ اور مکی سماج
آپ ﷺ نے مسلمانوں کو مدینہ کوچ کرنے کا حکم ایک ایسے وقت میں دیا جبکہ مکی سماج ابھی ہجرتِ حبشہ کی پیدا کردہ اضطرابی لہروں سے پوری طرح سنبھل نہ پایا تھا۔ اس سلسلے میں ہجرتِ حبشہ اور ہجرتِ مدینہ کے درمیانی زمانے کا ’’دورانیہ‘‘ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ کسی بھی سطح پر سماجی تبدیلی کے خواہاں ہیں، انھیں اس دورانیے میں مضمر حکمت کا احاطہ کرنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ فرض کریں اگر ہجرتِ حبشہ کے فوراً بعد یا کچھ عرصہ بعد ہی آپ ﷺ مدینہ ہجرت کرنے کا حکم دے دیتے تو دونوں ہجرتوں کا ’’ دورانیہ ‘‘ کم ہونے کے باعث مکی سماج لازماً ’’اضطرابِ محض ‘‘ سے دوچار ہوتا۔ یہ حقیقت میں ’’ دورانیہ ‘‘ ہی ہے جس کی وجہ سے پہلی ہجرت کی اضطرابی لہریں پھیلتی چلی گئیں اور ان کے پیدا کردہ اثرات پورے امکانات سمیت منصہ شہود پر آئے۔ اگر یہ دورانیہ بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہوتا تو پہلے دھچکے کے بعد لگاتار دوسرا دھچکا فکروتردد پیدا کرنے کے بجائے سماجی حواس باختگی اور نفسیاتی بے حسی کا باعث بنتا۔اگر یہ دورانیہ زیادہ طویل ہو جاتا تو پہلے دھچکے کی پیدا کردہ اضطرابی لہریں بالکل معدوم ہو چکی ہوتیں اور دوسرا دھچکا انھیں مہمیز کرنے کے بجائے پرانے عمل کو نئے سرے سے شروع کر دیتا اور چونکہ مکی سماج اس عمل سے گزرنے کے باعث اس سے مانوس ہو چکا تھا، اس لیے اس کے لیے کوئی نئے مسائل پیدا نہ کرتا۔ لہٰذا دونوں ہجرتوں کے درمیانی زمانے کا دورانیہ آپ ﷺ کے اعلیٰ تدبر پر دلالت کرتا ہے ۔
سیرت النبی ﷺ ابنِ ہشام کے مطابق مدینہ کی طرف سب سے پہلے ہجرت کرنے والے صحابی حضرت ابو سلمہؓ تھے۔ یہ حبشہ جا کر مکہ واپس آئے تھے اور انھوں نے عقبہ کی بیعت سے ایک سال قبل انصار کے اسلام لانے کی خبر سن کر مدینہ جانے کا قصد کیا۔ یہ اپنی بیوی حضرت ام سلمہؓ اور بچے کو اونٹ پر بٹھا کرابھی روانہ ہی ہوئے تھے کہ حضرت امِ سلمہؓ کے قبیلے کے لوگوں نے انھیں آگھیرا کہ ہماری لڑکی کو کہاں کہاں لیے پھرو گے؟ یہ لوگ حضرت امِ سلمہؓ کو زبردستی چھین کر لے گئے ۔ اس پر حضرت ابو سلمہؓ کے قبیلے کے لوگ بہت خفا ہوئے ، انھوں نے بچے کو یہ کہہ کر حضرت امِ سلمہؓ سے چھین لیا کہ یہ بچہ ابوسلمہؓ کا ہے ۔ اس طرح میاں، بیوی اور بچہ ، تینوں الگ الگ ہو گئے ۔ حضرت ابوسلمہؓ مدینہ چلے گئے ۔ حضرت امِ سلمہؓ ایک سال تک بچے کے بغیر تنہا رہیں۔ پھر ایک روز ان کے چچا کے بیٹوں میں سے کسی نے انھیں روتے دیکھ کر ان کی رہائی کی کوشش کی۔ حضرت ابوسلمہؓ کے خاندان نے بچہ بھی واپس دے دیا ۔ بچہ لینے کے بعد حضرت امِ سلمہؓ تنِ تنہا مدینے کے لیے روانہ ہو گئیں۔ مقامِ تنعیم پر (مکہ سے چند میل کے فاصلے پر ایک مقام) انھیں عثمان بن طلحہ ملا ۔ کہنے لگا ، قسم ہے خدا کی ، میں تمھیں تنہا نہیں جانے دوں گا ۔ اس نے اونٹ کی مہار پکڑی اور چل پڑا ۔ حضرت امِ سلمہؓ کہتی ہیں کہ مہاجرین میں سے جو مصیبت ہم کو پہنچی اور جیسا نیک دل اور بامروت میں نے عثمان بن طلحہ کو پایا، ایسا اور کسی کو نہیں پایا ۔ کہتی ہیں کہ جب ہم کسی منزل پر پہنچتے تو عثمان ، اونٹ کو بٹھا کر خود دور ہٹ جاتے ، جب میں بچے کو لے اتر آتی تو وہ اونٹ کو کسی درخت سے باندھ دیتے اور مجھ سے دور کسی درخت کے نیچے جا لیٹتے۔ جب چلنے کا وقت آتا تو وہ اونٹ کو لا کر بٹھاتے ۔ الگ ہٹ کر کھڑے ہو جاتے اور مجھ سے کہتے سوار ہو جاؤ، میرے سوار ہونے کے بعد اونٹ کی نکیل تھام کر چل پڑتے ۔ جب قبا کی بستی نظر آئی ، تو کہنے لگے تمھارے شوہر وہاں ہیں ، چلی جاؤ ، اللہ تمھیں برکت دے ۔ اس کے بعد جیسے پیدل آئے تھے، ویسے ہی پیدل مکہ کی طرف چل پڑے ۔
اس واقعہ کو پیشِ نظر رکھ کر ذرا تھوڑی دیر مکہ کے ان با سیوں کے متعلق سوچیے ، جنھیں ہم آج کے محاورے میں ’’خاموش اکثریت‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ سیاسی سطح پر جتنا بھی منفی ردِ عمل سامنے آیا ہو اور سیاسی فرعونوں نے جتنے بھی منفی حربے استعمال کیے ہوں، اس کے باوجود ایک بات بہت واضح ہے کہ کم از کم مکی سماج، ہجرت اور ہجرت کے اسباب کی بابت کافی حساس ہو چکا تھا اور اپنی روایتی وضع داری کی آڑ میں مہاجرین کے لیے نرم گوشہ رکھے ہوئے تھا۔ مثال کے طور پر سیرت النبی ﷺ ابنِ ہشام میں مذکور اس واقعہ کو لیجیے کہ غزوہ احد میں حضرت عمرؓ کا مقابلہ ضرارؓ سے ( جو ابھی کافر تھے ) ہوا، ضرارؓ نے حضرت عمرؓ کو نیزے کی ڈانڈلگا کر کہا ، اے ابنِ خطاب ! تم چلے جاؤ، میں تم کو قتل نہیں کروں گا ۔ اسی طرح حضرت عبدالرحمن بن ابوبکرؓ جب مسلمان ہوئے تو اپنے عظیم باپ سے کہنے لگے ، بدر کے میدان میں آپؓ میری تلوار کی زد میں آگئے تھے لیکن میں نے والد سمجھ کر چھوڑ دیا ۔ صدیقِ اکبرؓ نے جواب دیا ، بیٹا اگر تم میری تلوار کی زد میںآجاتے تو میں تمھیں کبھی نہ چھوڑتا ۔ باپ بیٹے کے اس مکالمے پر کئی پہلوؤں سے بات ہو سکتی ہے، لیکن عبدالرحمن بن ابوبکرؓ کے الفاظ اور عمل میں ہجرتِ مدینہ کے سماجی اثرات کی تھرتھراہٹیں پوری طرح محسوس کی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح جب بنی جحش نے ہجرت کی اور عتبہ بن ربیعہ ، حضرت عباسؓ جو ( ابھی غیر مسلم تھے ) اور ابوجہل کا ان کے مکانوں کی طرف گزر ہوا تو عتبہ بن ربیعہ نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر یہ شعر پڑھا :
و کل دار و ان طالت سلامتھا
یوما ستدرکھا النکباء والحوب
’’ کوئی گھر کتنا ہی زمانہ دراز تک سلامت رہے، آخر ایک روز اس کے واسطے زوال اور ویرانی ضروری ہے ‘‘ ۔
پھر عتبہ نے کہا دیکھو ، بنی جحش کا گھر بھی رہنے والوں سے خالی ہو گیا ۔ ابوجہل نے کہا ، یہ ساری کارروائی میرے بھتیجے محمد ﷺ کی ہے ، اسی نے ہماری جماعتوں کو متفرق کیا ہے ہمارے درمیان جدائی ڈالی ہے اور تفرقہ اندازی کی ہے ۔اس باہمی گفتگو میں عتبہ بن ربیعہ کی حسرت اور ابوجہل کی تلملاہٹ صاف چغلی کھا رہی ہیں کہ ہجرتِ مدینہ سے مکی سماج متزلزل ہو گیا تھا۔ اس کے بعد میدانِ بدر میں شکستِ فاش سے مکی سماج کو ایک اور زبردست دھچکا لگا ۔ اس غزوہ میں کفار کے بڑے بڑے جنگی سورما قتل ہوئے اور باقی قیدی بنا لیے گئے۔
یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بدر میں کفار کی عبرت ناک شکست کے بعد اسلامی لشکر نے (اگر اسے لشکر کہنا مناسب ہو) پیش قدمی کرکے آخر مکہ پر قبضہ کیوں نہیں کر لیا ؟ اس وقت میثاقِ مدینہ کی وجہ سے پشت پر یہود کے حملے کا خطرہ بھی فی الحال موجود نہیں تھا ۔ ہماری رائے میں مکہ کی طرف پیش قدمی نہ کرنے کی چند وجوہات یہ ہو سکتی ہیں :
(ا) اسلامی معاشرہ ابھی تشکیلی دور (Formative Phase) میں تھا اس لیے فتح مکہ کی صورت میں مکی سماج کو پیش کرنے کے لیے متبادل نظامِ اقدار(Alternative System of Norms & Values) موجود نہیں تھا۔
(ب) اسلام ایک عسکری قوت کے طور پر ابھی اتناطاقتور نہیں تھاکہ محض طاقت کے بل بوتے پر تادیر مکہ پر قبضہ برقرار رکھ سکتا۔
(ج) سیاسی و عسکری میدان میں شکست کھانے کے باوجود مکہ میں سماجی سطح پر اسلام مخالف خیالات و جذبات لازماً موجود ہوتے، کیونکہ کسی کا بھائی، کسی کا بیٹا، اور کسی کا باپ بدر میں قتل ہوا تھا یا قید ہوا تھا (۱۸) ۔ اور یہ حقیقت نوشتہ دیوار ہے کہ فاتح قوم کو اگر مفتوح قوم کا ’’سماج‘‘ قبول نہ کرے تو بغاوتیں برپا ہوتی رہتی ہیں ۔ اس لیے اندریں حالات مکہ پر قبضہ ایک پرآشوب دور کا آغاز ہوتا ، جس کا اسلامی معاشرہ اپنے تشکیلی دور میں ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا تھا ۔ بغاوتوں کا قلع قمع کرنے کے چکر میں اسلامی معاشرے کے اندر ( تشکیلی دور میں ہونے کی وجہ سے) ظلم و بربریت جیسے عناصر سرایت کر جاتے اور مستقبل میں اسلامی معاشرہ نظامِ اقدارکے بجائے بربریت کی علامت(Symbol of Barbarism) سمجھا جاتا ۔
(د) اسلام کی عسکری فتح کے خلاف اہلِ مکہ کی سماجی مدافعت(Social Resistance) بڑھتی چلی جاتی اور مسلمانوں کو بالآخر پسپائی اختیار کرنی پڑتی ، اس طرح مکہ پر قبضہ عارضی ثابت ہوتا ۔ اس سے کفار کو تقویت ملتی اور مسلمانوں کو ہزیمت اٹھانی پڑتی ، جس کے نتیجے میں اسلام کے بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے ۔
اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ بدر کے میدان میں شاندارعسکری کامیابی کے بعد مسلمانوں کی مدینہ واپسی نبی خاتم ﷺ کے اعلیٰ تدبر پر دلالت کرتی ہے۔ مکی سماج کی سیاسی قیادت نے بدر میں شکستِ فاش پر پیچ و تاب کھاتے ہوئے احد و احزاب کے میدان لگائے اور پھر شکست سے دوچار ہوئے ۔ مسلمانوں کی ان پے در پے فتوحات کے متوازی اسلامی معاشرہ بھی ارتقائی منازل طے کر رہا تھا اور گروہی عزم ’’ سماجی کردار ‘‘ میں مسلسل ڈھل رہا تھا ۔اس کے برعکس مکی سماج جو دو ہجرتوں سے پہلے ہی داخلی توڑ پھوڑ کا شکارتھا، عسکری میدان میں مسلسل پسپائی اور نامور سرداروں کے قتل ہونے سے مزید شکست خوردہ اور ذہنی خجالت کا شکار ہوتا چلا گیا۔ اس دوران میں اہلِ مکہ کو مسلم گروہی عزم کے چشم کشا سماجی کردار سے بھی مسلسل واسطہ پڑ رہا تھا ۔ آپ ﷺ نے جب قحط کے زمانے میں مکہ میں غلہ بھیجنے کی پابندی اٹھا لی اور پانچ سو اشرفیاں بھی غربا کی امداد کی خاطر بھیجیں تو یقیناًاس سے مکی سماج متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔امداد بھیجنے کا آپ ﷺ کا یہ فیصلہ صرف سیاسی فیصلہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے گروہی عزم کا سماجی کردار بدرجہ اتم موجود تھا۔ اسی طرح صلح حدیبیہ بھی آپ ﷺ کی مدبرانہ قیادت ، مسلم گروہی عزم اور سماجی کردار کی آئینہ دار ہونے کے ناتے ایک مکمل نظامِ اقدار کی حامل تھی، اسی لیے اسے ’فتح مبین‘ کہا گیا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غزوہ بدر کے بعد سے ۸ ہجری تک کے حالات و واقعات ، مکی سماج کے باطل نظامِ اقدار کو تہس نہس کر چکے تھے ۔ آپ ﷺ حضرت امِ حبیبہؓ سے نکاح کر چکے تھے جن کے شوہر عبیداللہ بن جحش حبشہ جاکر مرتد ہو گئے تھے اور وہ مکہ کے سردار ابوسفیانؓ کی بیٹی تھیں، اس لیے جب مسلمانوں نے نبی خاتم ﷺ کی قیادت میں مکہ کی طرف پیش قدمی کی تو اہلِ مکہ کی سیاسی قیادت ( ابو سفیانؓ ، جو ابھی غیر مسلم تھے ) بے دست و پا ہو چکی تھی کیونکہ خالد بن ولیدؓ اور عمرو بن عاصؓ جیسے حربی نابغے اسلام قبول کر چکے تھے جن کے متعلق نبی پاک ﷺ نے مسلمانوں سے فرمایا تھا کہ مکے نے تمھارے سامنے اپنے جگر کے ٹکڑے ڈال دیے ہیں۔ لہٰذا جب مکہ فتح ہوا تو مکی سماج اسلامی نظامِ اقدار کو قبول کرنے کے لیے پوری طرح تیار کھڑا تھا کیونکہ اس وقت تک خود اسلامی معاشرہ بھی اپناتشکیلی دور پورا کر چکا تھا ۔ اس لیے فتح مکہ کے موقع پر کوئی سماجی ردِ عمل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی فتح مکہ کے بعد سماجی سطح پر کوئی منفی صورتِ حال پیدا ہوئی ۔ اگر ہم دیگر اقوام کی فتوحات کا فتح مکہ سے موازنہ کریں تو معلوم ہو گا کہ مفتوح قومیں سیاسی و عسکری میدانوں میں شکست کھا نے کے باوجود سماجی سطح پر فاتح قوم کے غلبے کو اکثر و بیشتر قبول نہیں کرتی تھیں، جس کی وجہ سے فاتح قوم کو بسا اوقات سماجی ہم آہنگی کی خاطر اپنی اساسی اقدار پر بھی سمجھوتہ کرنا پڑتا تھا ، جس کے نتیجے میں وہ حقیقتاً خود مفتوح ہو جاتی تھی ۔اگر فاتح قوم سماجی ہم آہنگی کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتی تو اس کا لازمی نتیجہ فاتح اور مفتوح، دو فریقوں کی صورت میں رونما ہوتا تھا ، جو ہمیشہ ایک دوسرے کے حریف بنے رہتے تھے ۔ لیکن فتح مکہ کے بعد ایسی کوئی صورتِ حال پیدا نہیں ہوئی ، فاتح و مفتوح کے کسی تصور نے جنم نہیں لیا اور نہ ہی اسلامی اساسی اقدار پر کوئی سمجھوتہ کیا گیا۔ (۱۹)
ہجرتِ مدینہ اور مدنی سماج
ہجرتِ مدینہ کے بعد چند برسوں کے اندر ہی مدنی سماج میں جو دیرپا انقلابی تبدیلی رونما ہوئی ، تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ مدینہ کسی ایک قبیلے کا شہر نہیں تھا ، اس میں اوس ا ور خزرج رہائش پذیر تھے جبکہ مکہ میں صرف قریش اور طائف میں صرف ثقیف بستے تھے۔ اسی طرح مکہ اور طائف کے برعکس مدینے کے تمام باشندے عرب نہیں تھے ، ان میں کافی بڑی تعداد میں یہودی بھی موجود تھے۔ اس لیے مسلمانوں کی ہجرتِ مدینہ سے قبل ہمیں ایک طرف اوس و خزرج باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں تو دوسری طرف یہود کے ساتھ ان کی کشمکش و چپقلش کے مناظر دکھائی دیتے ہیں ۔ نسل در نسل مخاصمت کی وجہ سے اوس و خزرج اور یہود ایک دوسرے کی قیادت قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ مدینے کے ایسے بحرانی حالات میں آپ ﷺ کی تشریف آوری کو قریشِ مکہ کی دھمکیوں کے باوجود غیر جانبدارانہ انداز میں لیا گیا اور ایک چوتھا گروہ مہاجرین کے روپ میں مدنی معاشرت کے مجموعی دھارے میں شامل ہو گیا۔ سیرت النبی ﷺ ابنِ ہشام کے مطابق نبی خاتم ﷺ نے مدینہ تشریف آوری کے بعد اپنے دوسرے خطبے میں مسلمانوں کو خدا سے کیے گئے ’’ عہد ‘‘ کی پاسداری کا درس دیا ، آپ ﷺ نے فرمایا :
’’ اور خدا سے جو عہد کیا ہے، اس کو سچا کر دکھاؤ اور آپس میں اس روحِ ایمانی کے ساتھ جو تمھارے اندر داخل ہوئی ہے، ایک دوسرے سے محبت کرو ۔ بے شک اللہ اس بات سے غضب ناک ہوتا ہے کہ اس کا عہد توڑا جائے ‘‘ ۔
نبی پاک ﷺ نے مدنی دور کے آغاز میں جس طرح عہد پر زور دیا، اتنی وضاحت کے ساتھ یہ امر ہمیں مکی دور میں نظر نہیں آتا، مثلاً مکی دور کی یہ آیت دیکھیے :
وَأَوْفُواْ بِعَہْدِ اللّہِ إِذَا عَاہَدتُّمْ وَلاَ تَنقُضُواْ الأَیْْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِہَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّہَ عَلَیْْکُمْ کَفِیْلاً إِنَّ اللّہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ ( النحل ۱۶/۹۱)
’’ اور پورا کرو اللہ کا عہد جب بھی تم نے اس سے کوئی عہد کیا ہو اور مت توڑو قسمیں بعد ان کو پختہ کرنے کے اور جب کہ بنا چکے ہو تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ ، بے شک اللہ جانتا ہے اس کو جو تم کرتے ہو ‘‘ ۔
مدنی دور میں ’عہد‘ کے ساتھ ساتھ ’ میثاق ‘ کے لفظ کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا اور اس کا رسول ﷺ ’’پختہ عہد‘‘ لینے سے قبل عہد نبھانے کے لیے لازم ’’عزم‘‘ کی پختگی چاہتے تھے ۔ہجرتِ مدینہ تک کے عرصہ میں مسلمانوں کا شخصی و گروہی عزم پختہ ہو چکا تھا۔ یہ عزم ایک مرحلہ شوق طے کر کے مسلم معاشرت کے بنیادی خاکے کی تشکیل کر چکا تھا ۔ اب وقت آ گیا تھا کہ ارتقا پذیر مسلم معاشرے سے ’’ پختہ عہد ‘‘ لے لیا جائے کہ پختہ عزم اب اسے پختہ عہد سے مکمل غافل نہیں ہونے دے گا :
الَّذِیْنَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللَّہِ مِن بَعْدِ مِیْثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّہُ بِہِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِیْ الأَرْضِ أُولَءِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ ( البقرۃ ۲ / ۲۷)
’’جو توڑ دیتے ہیں اللہ کے عہد کو مضبوط کرنے کے بعد اور قطع کرتے ہیں ان ( رشتوں ) کو کہ حکم دیا ہے اللہ نے جن کے جوڑنے کا اور فساد برپا کرتے ہیں زمین میں ، یہی لوگ ہیں حقیقت میں نقصان اٹھانے والے۔‘‘
بَلَی مَنْ أَوْفَی بِعَہْدِہِ وَاتَّقَی فَإِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ ( آٰل عمران ۳/۷۶ )
’’ہاں ! جس نے پورا کیا اپنا عہد اور اللہ سے ڈرا تو بے شک اللہ محبوب رکھتا ہے تقویٰ اختیار کرنے والوں کو‘‘۔
چونکہ میثاقِ مدینہ میں مسلم اور غیر مسلم دونوں گروہ شامل تھے ، اس لیے اس وحدت کے باوجود معاشرت و سیاست میں اسلامی تشخص (Islamic Identity) کی امتیازی حیثیت کا اظہار ’’ایفا‘‘ جیسی اہم قدر سے ہوتا رہا ۔ اس کے برعکس غیر مسلم تشخص (Non Muslim Identity) کا اظہار عہد شکنی سے منسلک رہا ۔
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللّہِ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ فَہُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ () الَّذِیْنَ عَاہَدتَّ مِنْہُمْ ثُمَّ یَنقُضُونَ عَہْدَہُمْ فِیْ کُلِّ مَرَّۃٍ وَہُمْ لاَ یَتَّقُون ( الانفال ۸ /۵۵،۵۶)
’’بے شک سب سے برے زمین میں چلنے والی مخلوق میں سے ، نزدیک اللہ کے وہ لوگ ہیں جنھوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا۔ سو یہ ( اب ) ایمان نہ لائیں گے۔ ( خصوصاً) وہ لوگ کہ معاہدہ کیا تھا تم نے ان سے، پھر توڑ دیتے رہے وہ اپنے عہد کو ہر موقع پر اور وہ ( اللہ سے ذرا ) نہیں ڈرتے‘‘۔
الَّذِیْنَ عَاہَدتَّ مِنْہُمْ ثُمَّ یَنقُضُونَ عَہْدَہُمْ فِیْ کُلِّ مَرَّۃٍ وَہُمْ لاَ یَتَّقُون ( الانفال ۸/۵۶)
’’ ( خصوصاً ) وہ لوگ کہ عہد کیا تھا تم نے ان سے، پھر توڑ دیتے رہے وہ اپنے عہد کو ہر موقع پر اور وہ ( اللہ سے ذرا) نہیں ڈرتے‘‘ ۔
أَوَکُلَّمَا عَاہَدُواْ عَہْداً نَّبَذَہُ فَرِیْقٌ مِّنْہُم بَلْ أَکْثَرُہُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ ( البقرۃ ۲/۱۰۰)
’’ کیا ( ایسا نہیں ہوتا رہا کہ) جب بھی انھوں نے کوئی عہد کیا تو اٹھا کر پھینک دیا اس کو ایک گروہ نے ان ہی میں سے ، حقیقت تو یہ ہے کہ ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے ‘‘۔
بہت جلد ہی مدنی معاشرت کی ساخت میں بنیادی تبدیلی رونما ہونی شروع ہوئی ۔ میثاقِ مدینہ اور مواخات کے ذریعے مدنی معاشرے کی ایک نئی تقسیم عمل میں آئی۔ مواخات کے باعث اوس و خزرج اور مہاجر مسلمان ایک معاشرتی وحدت میں ڈھلتے چلے گئے اور میثاقِ مدینہ میں مسلمانوں کے باہمی حقوق و فرائض کے علاوہ یہودیوں کا مقام متعین ہونے سے معاشرتی و سیاسی نظم ، تنوع آشنا ہوتا گیا۔ (۲۰) اس وقت مدینے کی دس ہزار (۱۰۰۰۰) آبادی میں مسلمان صرف پانچ سو ( ۵۰۰) کی تعداد میں تھے ۔ اس لیے Demographic Balance واضح طور پر یہودیوں کے حق میں تھا ۔ یہ یقیناًتشویش ناک صورتِ حال تھی اور ا س میں مزید نزاکت اس طرح پیدا ہوئی کہ ہجرت کے بعد کچھ عرصہ تک مہاجرین کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا، جس کا یہودیوں نے خوب منفی پراپیگنڈا کیا۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے رسولِ پاک ﷺ نے خدائی حکم کی اتباع میں مدینہ کو دارالہجرت قرار دے کر اسلام کی قبولیت کو ہجرت کے ساتھ مشروط کر دیا:
وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ وَلَمْ یُہَاجِرُواْ مَا لَکُم مِّن وَلاَیَتِہِم مِّن شَیْْءٍ حَتَّی یُہَاجِرُواْ ( الانفال ۸/۷۲)
’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے لیکن انھوں نے ہجرت نہیں کی ، نہیں ہے تمھیں ان کی رفاقت سے کچھ بھی (تعلق ) جب تک کہ ( نہ ) ہجرت کر آئیں وہ بھی۔ ‘‘
وَدُّواْ لَوْ تَکْفُرُونَ کَمَا کَفَرُواْ فَتَکُونُونَ سَوَاء فَلاَ تَتَّخِذُواْ مِنْہُمْ أَوْلِیَاء حَتَّیَ یُہَاجِرُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَخُذُوہُمْ وَاقْتُلُوہُمْ حَیْْثُ وَجَدتَّمُوہُمْ وَلاَ تَتَّخِذُواْ مِنْہُمْ وَلِیّاً وَلاَ نَصِیْراً ( النساء ۴/۸۹)
’’دل سے چاہتے ہیں (یہ منافق ) کہ کاش تم بھی کافر ہو جاؤ جیسے کافر ہو گئے ہیں وہ تاکہ ہو جاؤ تم ( اور وہ ) ایک جیسے ، لہٰذا مت بناؤ تم ان میں سے کسی کو دوست جب تک کہ نہ ہجرت کریں وہ اللہ کی راہ میں ، پھر روگردانی کریں وہ ( ہجرت سے) تو پکڑو انھیں اور قتل کرو جہاں کہیں پاؤ تم انھیں اور نہ بناؤ تم ان میں سے کسی کو دوست اور نہ مددگار ‘‘ ۔
ایمان کو ہجرت کے ساتھ منسلک کرنے کے علاوہ ترہیبی احکامات سے ہجرت کے عمل کو تیز کیا گیا :
إِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفَّاہُمُ الْمَلآئِکَۃُ ظَالِمِیْ أَنْفُسِہِمْ قَالُواْ فِیْمَ کُنتُمْ قَالُواْ کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِیْ الأَرْضِ قَالْوَاْ أَلَمْ تَکُنْ أَرْضُ اللّہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُواْ فِیْہَا فَأُوْلَئِکَ مَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَسَاءتْ مَصِیْراً () إِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ لاَ یَسْتَطِیْعُونَ حِیْلَۃً وَلاَ یَہْتَدُونَ سَبِیْلاً (النساء ۴ / ۹۷، ۹۸)
’’بے شک وہ لوگ کہ روح قبض کریں گے ان کی فرشتے اس حال میں کہ وہ ظلم کر رہے تھے اپنی جانوں پر ، پوچھیں گے ان سے فرشتے ، تم کیا کرتے رہے ؟ وہ کہیں گے ، تھے ہم کمزور اور بے بس اپنی سر زمین میں ۔ فرشتے کہیں گے کیا نہیں تھی اللہ کی زمین وسیع کہ ہجرت کر جاتے تم اس میں؟ سو یہی وہ لوگ ہیں کہ ٹھکانہ ہے ان کا جہنم اور وہ بہت بری جگہ ہے ‘‘ ۔
اس کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا اور مدینے کے باہر کے نو مسلموں کے مدینہ میں بسنے سے مسلم آبادی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مسلم آبادی میں اضافے کے باوجود ایک بڑا خطرہ مدینے کی وباؤں کی شکل میں موجود تھا ، مدینے کو یثرب( ہلاکت کی جگہ ) بھی غالباً انھی وباؤں کی وجہ سے کہا جاتا تھا ۔حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں :
’’ جب ہم مدینہ آئے تو یہ خدا کی سب سے زیادہ وبا والی سر زمین تھی ، انھوں نے ( اس کی وجہ بتائی ) کہ وادی بطحان ( مدینہ کی ایک وادی ) سے متعفن اور بد بودار پانی بہا کرتا تھا ‘‘ ۔ ( صحیح بخاری )
اب مہاجرین کے دل ایک طرف غریب الوطنی سے چھلنی تھے اور دوسری طرف وباؤں نے ان کا جینا دوبھر کر دیا تھا ۔ بلا لؓ کا جب بخار اترتا تو وہ بلند آواز سے یہ شعر پڑھتے :
الا لیت شعری ہل ابیتن لیلۃ بواد وحولی اذخر وجلیل
وہل اردن یوما میاہ مجنۃ وہل یبدون لی شامۃ وطفیل
’’ کاش ! ایک رات میں مکہ کی وادی میں گزار سکتا اور میرے چاروں طرف اذخر اور جلیل( گھاس ) ہوتیں۔ کاش! ایک دن میں مجنہ کے پانی پر پہنچتا اور کاش میں شامہ اور طفیل ( پہاڑوں ) کو دیکھ سکتا۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی، اے اللہ ! شیبہ بن ربیعہ ، عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف کو اپنی رحمتوں سے دور کر دے جس طرح انھوں نے ہمیں اپنے وطن سے اس بیماری کی زمین میں نکالا ہے ۔‘‘ ( صحیح بخاری )
نبی پاک ﷺ نے مہاجرین کے قدم جمانے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی :
اللھم حبب الینا المدینۃ کحبنا مکۃ او اشد اللہم بارک لنا فی صاعنا وفی مدنا وصححہا لنا وانقل حما ھا الی الحجفۃ ( صحیح بخاری )
’’ اے اللہ ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اسی طرح پیدا کردے جس طرح مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ، اے اللہ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما اور اسے ہمارے مناسب کر دے ، یہاں کے بخار کو حجفہ منتقل کردے ‘‘ ۔
اس سنگین صورتِ حال میں بعض نو مسلم دینِ حق سے برگشتہ ہونے پر تلے ہوئے تھے، ان کی برگشتگی کے مضر اثرات کا تدارک بھی بہت ضروری تھا۔ ایک اعرابی نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام پر بیعت کی ، دوسرے دن آیا تو اسے بخار چڑھا ہوا تھا ، کہنے لگا کہ میری بیعت فسخ کر دیجیے ، آپ ﷺ نے تین مرتبہ تو انکار فرمایا ، پھر کہا :
انھا تنفی الرجال کما تنفی النار خبث الحدید (صحیح بخاری)
’’ مدینہ ( برے لوگوں ) کو اس طرح دور کرتا ہے جس طرح آگ لوہے کا میل کچیل دور کر دیتی ہے ‘‘۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مصائب میں گھرے مہاجرین کی بابت فرمایا :
وَمَن یُہَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ یَجِدْ فِیْ الأَرْضِ مُرَاغَماً کَثِیْراً وَسَعَۃً وَمَن یَخْرُجْ مِن بَیْْتِہِ مُہَاجِراً إِلَی اللّہِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُہُ عَلی اللّہِ وَکَانَ اللّہُ غَفُوراً رَّحِیْما (النساء ۴/ ۱۰۰)
’’ اور جو شخص ہجرت کرے گا اللہ کی راہ میں ، پائے گا وہ زمین میں ٹھکانے بہت سے اور فراخی اور جو نکلا اپنے گھر سے ہجرت کر کے اللہ اور رسول ﷺ کی طرف ، پھر آ لیا اس کو موت نے تو ہو گیا اس کا اجر اللہ کے ذمہ ، اور ہے اللہ بے حد معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ‘‘ ۔
رسول اکرم ﷺ نے بھی ارشاد فرمایا:
من استطاع ان یموت بالمدینۃ فلیمت بھا فمن فات بالمدینۃ کنت لہ شفیعا یوم القیامۃ ( ترمذی، مسند احمد )
’’ جو شخص مدینہ میں وفات پا سکتا ہو، اسے مدینہ میں وفات پانا چاہیے اور جو شخص مدینہ میں وفات پائے گا، قیامت کے دن میں اس کی سفارش کروں گا ‘‘ ۔
خدا اور اس کے رسول ﷺ کے ان احکامات سے یقیناًمسلمانوں کو بہت حوصلہ ہوا اور ہجرت کرنے اور مدینہ میں رہنے کی مزید ترغیب ملی ۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ صرف غیر مدنی نو مسلموں کو ہی مدینہ میں رہنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ مدینہ میں پہلے سے موجود مسلمانوں کو بھی ان کی نصرت پر ابھارا گیا ، جس کے نتیجے میں یہ دوطرفہ عمل تیزی سے ثمر آور ہوتا گیا :
وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ وَہَاجَرُواْ وَجَاہَدُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالَّذِیْنَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُولَئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقّاً لَّہُم مَّغْفِرَۃٌ وَرِزْقٌ کَرِیْمٌ ( الانفال ۸/ ۷۴ )
’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اللہ کی راہ میں اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی ( ان کو ) اور مدد کی ، یہی لوگ ہیں جو مومن ہیں سچے ان کے لیے ہے بخشش اور روزی عزت کی ‘‘ ۔
اس کے باوجود مکہ کے مقابلے میں مدینہ کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں تھی۔ مکہ صدیوں سے عالمِ انسانیت کا مرکز چلا آرہا تھا اور اس وقت بھی لوگوں کے اذہان میں مکہ کی یہی اہمیت جا گزیں تھی ۔ آپ ﷺ نے مدینے کی فضیلت اجاگر کرنے کے لیے دعا فرمائی :
اللہم ان ابراہیم عبدک وخلیلک ونبیک وانی عبدک ونبیک وانہ دعاک لمکۃ وانی ادعوک للمدینۃ بمثل ما دعاک للمدینۃ ومثلہ معہ ( صحیح مسلم )
’’ اے اللہ ! ابراہیم ؑ تیرے خاص بندے ، تیرے دوست اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں ۔ انھوں نے مکہ کی خیروبرکت کے لیے تجھ سے دعا کی تھی اور میں بھی مدینہ کی خیر و برکت کے لیے تجھ سے دعا کرتا ہوں بلکہ اتنی ہی اور زیادہ ۔‘‘
اللھم اجعل بالمدینۃ ضعفی ما جعلت بمکۃ من البرکۃ ( صحیح بخاری )
’’ اے اللہ ! جتنی آپ نے مکہ میں برکت عطا فرمائی ہے مدینہ میں اس سے دوگنی برکت نازل فرمائیے ‘‘
اور مکہ کی طرح مدینہ کو بھی آپ ﷺ نے حرم قرار دیا :
المدینۃ حرم ما بین عیر و ثور ( صحیح مسلم )
’’مدینہ عیر سے ثور تک حرم ہے ‘‘ ۔
ان ابراہیم حرم مکۃ وانی حرمت المدینۃ (صحیح مسلم)
’’ ابراہیم ؑ نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں ۔‘‘
ما بین لا بتیھا حرام ( صحیح بخاری )
’’مدینہ کے دو پتھریلے علاقے کے درمیان حرم ہے‘‘۔
اس طرح خدا اور اس کے رسول ﷺ کے واضح فرمودات سے نو مسلموں کی ہجرت کا سلسلہ جاری رہا اور غیر مسلموں کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد بڑھنے سے مدینہ میں اسلامی معاشرہ ارتقائی منازل طے کرتا چلا گیا ۔ایک اندازے کے مطابق ۲ہجری تک مسلمانوں کی تعداد تقریباً پندرہ سو (۱۵۰۰ ) کے لگ بھگ ہو گئی تھی۔ (۲۱) خیال رہے کہ مکی مہاجرین کے علاوہ دیگر مہاجرین کے’’ عزم کی تشکیل اور پختگی ‘‘کا اہتمام مدینے کی مضرِ صحت آب و ہوا سے ہو گیا تھا۔ یہ سب مسلمان مدینے کی بھٹی سے گزر کر جوہر کی صورت میں سامنے آئے تھے، اس لیے کسی قسم کی شخصی میل کچیل، اسلامی معاشرے کی بنیادی ساخت میں کسی طور شامل نہ ہو سکی۔ مدینہ میں رہنے کے لیے مہاجرین کی دلی آمادگی کے بعد ، طرزِ معاشرت کا رخ متعین کرنے کے لیے عورتوں کے متعلق رویہ اس طرح سامنے آیا :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا جَاء کُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوہُنَّ اللَّہُ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِہِنَّ فَإِنْ عَلِمْتُمُوہُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوہُنَّ إِلَی الْکُفَّارِ لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلُّونَ لَہُنَّ وَآتُوہُم مَّا أَنفَقُوا وَلَا جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ أَن تَنکِحُوہُنَّ إِذَا آتَیْْتُمُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ وَلَا تُمْسِکُوا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنفَقْتُمْ وَلْیَسْأَلُوا مَا أَنفَقُوا ذَلِکُمْ حُکْمُ اللَّہِ یَحْکُمُ بَیْْنَکُمْ وَاللَّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (الممتحنۃ ۶۰/۱۰ )
’’ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب آئیں تمھارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے تو ان کی خوب جانچ پڑتال کر لو ، اللہ بہتر جانتا ہے ان کے ایمان کو ، پس اگر تمھیں معلوم ہو جائے کہ وہ ایمان والی ہیں تو نہ واپس کرو تم انھیں کافروں کی طرف ، نہ وہ عورتیں حلال ہیں ان کافروں کے لیے اور نہ وہ کافر مرد حلال ہیں ان عورتوں کے لیے ، اور دے دو تم ان کافروں کو جو مہر انھوں نے ادا کیے تھے اور نہیں ہے کچھ گناہ تم پر اس میں کہ نکاح کر لو تم ان سے بشرطیکہ ادا کردو تم ان کو مہر ان کے ، اور مت روکے رکھو ( اپنی زوجیت میں) کافر بیویوں کو اور مانگ لو جو (مہر) تم نے دیے تھے اور چاہیے کہ کافر بھی مانگ لیں وہ مہر جو انھوں نے ادا کیے تھے ، یہ اللہ کا حکم ہے جس کے مطابق وہ فیصلہ کر رہا ہے تمھارے درمیان ، اور اللہ ہے سب کچھ جاننے والا اور بڑی حکمت والا ‘‘۔
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِیْ آتَیْْتَ أُجُورَہُنَّ وَمَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّا أَفَاء اللَّہُ عَلَیْْکَ وَبَنَاتِ عَمِّکَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِکَ وَبَنَاتِ خَالِکَ وَبَنَاتِ خَالَاتِکَ اللَّاتِیْ ہَاجَرْنَ مَعَکَ وَامْرَأَۃً مُّؤْمِنَۃً إِن وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِیُّ أَن یَسْتَنکِحَہَا خَالِصَۃً لَّکَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِیْنَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْْہِمْ فِیْ أَزْوَاجِہِمْ وَمَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُمْ لِکَیْْلَا یَکُونَ عَلَیْْکَ حَرَجٌ وَکَانَ اللَّہُ غَفُوراً رَّحِیْما ( الاحزاب۳۳/۵۰ )
’’ اے نبی ﷺ ! بے شک ہم نے حلال کر دی ہیں تمھارے لیے تمھاری وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کر دیے ہوں اور وہ لونڈیاں بھی جو تمھاری ملک میں آئیں اس ( مالِ غنیمت ) میں سے جو عطا کیا ہے اللہ نے تمھیں اور ( حلال کر دی ہیں ) تمھاری چچا زاد ، پھوپھی زاد اور ماموں زاد اور خالہ زاد جنھوں نے ہجرت کی ہے تمھارے ساتھ اور کوئی مومن عورت اگر ہبہ کرے اپنے نفس کو نبی ﷺ کے لیے اگر نبی ﷺ بھی چاہے ( تو حلال ہے ) اس سے نکاح کرنا ، ( یہ رعایت ) خالصتاً تمھارے لیے ہے، دوسرے مومنوں کے لیے نہیں ، ہمیں خوب معلوم ہے کہ کیا فرض کیا ہے ہم نے مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں، ( تمھیں ان حدود سے مستثنیٰ کر دیا ) تاکہ نہ رہے تم پر کوئی تنگی اور ہے اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ‘‘ ۔
اگرچہ مہاجرین کی اکثریت نے مدینہ آکر تجارت وغیرہ شروع کر دی اور ان کے قدم جم گئے تھے لیکن انسانوں کے مزاجوں اور صلاحیتوں میں تفاوت ہونے کے باعث ایسے مہاجرین بھی مدینہ میں موجود تھے جو بالکل مفلوک الحال تھے اور انھی کے مانند مدینہ کے چند مقامی مسلمان بھی سفید پوشی کی زندگی بسر کر رہے تھے ۔ ان مقامی و مہاجر لوگوں کے ’’عزم‘‘ پر کسی کو کلام نہیں تھا ۔ لیکن سوال پیدا ہوتا تھا کہ ایسے لوگوں کو’’ نو خیز اسلامی معاشرہ‘‘ کس طرح لے گا ۔ اس حوالے سے اللہ رب العزت نے اس طرح راہنمائی فرمائی :
لِلْفُقَرَاء الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیْارِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَاناً وَیَنصُرُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَءِکَ ہُمُ الصَّادِقُونَ وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالْإِیْمَانَ مِن قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْْہِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِیْ صُدُورِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون (الحشر ۵۹/ ۸،۹)
’’ ( نیز وہ مال ) ان مفلس مہاجروں کے لیے ہے جو نکال باہر کیے گئے ہیں اپنے گھروں سے اور اپنی جائیدادوں سے ، جو تلاش کرتے ہیں فضل اللہ کا اور اس کی خوشنودی اور مدد کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی ، یہی لوگ ہیں سچے ۔ اور یہ ( ان لوگوں کے لیے بھی ہے ) جو مقیم تھے دارالہجرت میں اور ایمان لا چکے تھے مہاجرین کی آمد سے پہلے ، محبت کرتے ہیں ان لوگوں سے جو ہجرت کر کے آئے ان کے پاس، اور نہیں پاتے اپنے دلوں میں کوئی حاجت تک بھی اس چیز کی جو انھیں دی جائے اور ترجیح دیتے ہیں دوسروں کو اپنی ذات پر اگرچہ ہوں خود حاجت مند ، اور جو بچا لیے گئے اپنے دل کے لالچ سے ، سو وہی ہیں درحقیقت فلاح پانے والے ‘‘۔
مسلمانوں کے باہمی تعاون میں ایک لطیف توازن قائم کرنے کا بھی حکم دیا گیا :
وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ مِن بَعْدُ وَہَاجَرُواْ وَجَاہَدُواْ مَعَکُمْ فَأُوْلَءِکَ مِنکُمْ وَأُوْلُواْ الأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلَی بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّہِ إِنَّ اللّہَ بِکُلِّ شَیْْءٍ عَلِیْمٌ (الانفال ۸/ ۷۵)
’’ اور وہ لوگ جو ایمان لائے ( ان کے ) بعداور جنھوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا تمھارے ساتھ مل کر، سو یہ لوگ بھی تم میں سے ہیں اور خونی رشتے دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں اللہ کی کتاب کی رو سے، بے شک اللہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے ‘‘ ۔
اسلامی معاشرے کے تشکیلی رویے میں ’’ عمل اور فعالیت ‘‘ کو بطورِ خاص اہمیت دی گئی کیونکہ گروہی عزم کی بازیافت کے بعد تجرد ، بے عملی ، رہبانیت اور کسی قسم کی لاتعلقی کی گنجائش باقی نہیں تھی ۔ عزم میں پختگی کے بعد ، عہد کی پاسداری کا تقاضا یہ تھا کہ سماجی فعالیت کا بھر پور مظاہرہ کیا جائے ۔ اس سلسلے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا گیا ۔ اہم بات یہ ہے کہ مردوعورت میں فعالیت کے ثمرات کے لحاظ سے مساوات کا ذکر ، عسکریت کے بیان کے ساتھ کیا گیا ۔ اس طرح جہاد و قتال اور عسکریت، عمرانی مظہر ہونے کے ناتے اسلامی معاشرے کی بنیادی ساخت کا جزو لا ینفک بن گئے:
فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ أَنِّیْ لاَ أُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنکُم مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی بَعْضُکُم مِّن بَعْضٍ فَالَّذِیْنَ ہَاجَرُواْ وَأُخْرِجُواْ مِن دِیَارِہِمْ وَأُوذُواْ فِیْ سَبِیْلِیْ وَقَاتَلُواْ وَقُتِلُواْ لأُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّءَاتِہِمْ وَلأُدْخِلَنَّہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ ثَوَاباً مِّن عِندِ اللّہِ وَاللّہُ عِندَہُ حُسْنُ الثَّوَاب (اٰل عمران۳/ ۱۹۵ )
’’ پس قبول فرما لی ان کی دعا ان کے رب نے ( اور جواب دیا ) کہ بلاشبہ میں نہیں ضائع کرتا عمل کسی عمل کرنے والے کا تم میں سے، مرد ہو یا عورت ، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔ سو وہ لوگ جنھوں نے ہجرت کی ، نکالے گئے اپنے گھروں سے اور ستائے گئے میری راہ میں اور جنگ کی انھوں نے اور شہید ہوئے ، ضرور کفارہ بناؤں گا میں ان کی طرف سے ( ان عملوں کو) ان کے گناہوں کا اور ضرور داخل کروں گا میں ان کو جنتوں میں، بہتی ہیں جن کے نیچے نہریں ، یہ ہے اجر اللہ کی جنابِ خاص سے اور اللہ کے پاس ہے بہترین اجر ‘‘ ۔
المختصر! ہجرت کے بعد چند برسوں کے اندر ہی مدنی سماج کو ایک نئی اور آفاقی شناخت حاصل ہوئی ۔ اس شناخت کی تشکیل میں منفی اور مثبت دونوں کرداروں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ جو کردار عزم والے تھے، انھوں نے زندگی کے ہر پہلو میں ، خدا اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ کیے گئے عہد کی پاسداری میں انتہا درجے کی پختگی کا عملی مظاہرہ کیا ۔ اس کے برعکس عہد شکنی کے مرتکب ہونے والے کردار اصلاً بے عزم تھے ، اس لیے زندگی کا ہر پہلو تو درکنار ، ایسے لوگ بقائے باہمی کے عہد کی پاسداری کر نے سے بھی قاصر رہے ۔ یوں مثبت اور منفی ہر دو کرداروں نے مدنی معاشرت کے روایتی اسلوب کو بدل کر اسے ایک نئی شناخت سے بہرہ مند کر دیا اور مدینہ نبی خاتم ﷺ کی دعاؤں کے مصداق ہو گیا ۔
اس ضمن میں صلح حدیبیہ کا واقعہ خاص طور قابل مطالعہ ہے۔
قریشِ مکہ کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر معاہدہ اور پھر قریش کی اس معاہدے کی خلاف ورزی سے مدنی سماج کی اسلامائزیشن میں دومزید اہم عناصر شامل ہو گئے۔ ان دونوں عناصر کی سماج کاری (Sociality) میں کلیدی کردار ، خود سماج کے بجائے قائد کا نظر آتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ بات مسلم ہے کہ صحابہ کرامؓ، معاہدہ حدیبیہ کی بعض شقوں پر مطمئن نہیں تھے، لیکن اس معاہدے سے متعلق آپ ﷺ کے فیصلے کو قرآن مجید نے فتح مبین قرار دیا۔ غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس معاہدے سے مسلمانوں کو کم از کم دو فائدے حاصل ہوئے۔ ایک تو یہ کہ مکی سماج پر واضح ہو گیا کہ مکہ کی سیاسی قیادت کی جارحیت (بدر، احد، احزاب) کے باوجود مسلمان بنیادی طور پر امن کے خواہاں ہیں ، اس لیے اگر جنگ ان پر مسلط نہ کی جائے تو وہ خود جنگی عزائم نہیں رکھتے۔ مکہ /مدینہ باہمی چپقلش کے تناظر میں امن کا یہ پیغام مکی سماج کے لیے درحقیقت بہت بڑا پیغام تھا۔ اس معاہدے کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو کفارِ مکہ کے کسی متوقع حملے سے بے نیاز ہو کر یہودیوں کی بیخ کنی کا موقع ملا اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوراً خیبر کو فتح کر لیا گیا۔ ان دو فوائد کو پیشِ نظر رکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کا حدیبیہ کے مقام پر معاہدہ کرنا کسی قسم کی شکست کا آئینہ دار نہیں تھا، بلکہ اس معاہدے کے پیچھے زمینی حقائق کا ادراک اور واقعیت پسندی جھلملا رہی تھی۔ اس لیے معاہدہ حدیبیہ کی بظاہر مسلم مخالف شقوں کے باوجود وقتی پسپائی کا حتمی فائدہ مسلمانوں کو حاصل ہوا۔ اسی لیے آپ ﷺ کے معاہدہ کرنے کے بعد آپ ﷺ کی قائدانہ بصیرت کے اعتراف میں قرآن نے اسے ’’فتح مبین‘‘ سے تعبیر کیا ۔
جب کچھ عرصے کے بعد قریش نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی اور قریشِ مکہ کا قائد ابوسفیان گفت و شنید اور تجدیدِ عہد کے لیے مدینہ منورہ آیا تو اسے ناکام واپس لوٹنا پڑا ۔ بعض لوگ اس واقعے کو بنیاد بنا کر اعتراض کرتے ہیں کہ جب اہل مکہ امن چاہتے تھے اور تجدیدِ عہد کے لیے تیار تھے تو آپ ﷺ نے امن کا معاہدہ دوبارہ کیوں نہیں کیا؟ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان اب عسکری اعتبار سے طاقت ور ہو چکے تھے، جبکہ امن کا خواہاں کمزور فریق ہی ہوتا ہے ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات بنیادی طور پر غلط ہے ۔ جیسا کہ ذکر ہوا، صلح حدیبیہ مسلمانوں کی کمزوری کی آئینہ دار نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے زمینی حقائق کے ادراک اور واقعیت پسندی پر مبنی آپ ﷺ کی قائدانہ بصیرت کارفرما تھی ۔ بالکل اسی طرح ابوسفیان کی ناکامی کے پیچھے نہ تو اس کی کمزوری کا ہاتھ تھا اور نہ ہی مسلمانوں کی عسکری قوت کا کوئی کردار تھا ۔ یہاں بھی آپ ﷺ نے بنیادی طور پر واقعیت پسندی اور زمینی حقائق کے ادراک کا ثبوت دیا ۔ اسے ہم Threat Perception (خطرے کی پیش بینی) کے نام سے موسوم کر سکتے ہیں ۔ آپ ﷺ بھانپ لیتے ہیں کہ اہلِ مکہ کی تجدیدِ عہد کی پالیسی کے پیچھے time gaining factor اور عہد شکنی کی خواہش کارفرما ہے ، کیونکہ یہ پہلے بھی معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو چکے ہیں اور اب بھی اپنی طاقت کی بحالی کے لیے امن و معاہدہ کو بطور ’’ہتھیار‘‘ استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کے بعد مسلمانوں سے حساب چکایا جا سکے ۔ ہماری اس رائے کو سیرت نگار ابنِ ہشام کے اس بیان سے مزید تقویت ملتی ہے کہ آپ ﷺ کے وصال کے بعد اہلِ مکہ نے بغاوت کی اور مکہ کے مسلم گورنر عتاب بن اسید کو پہاڑوں میں روپوش ہونا پڑا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چونکہ اس بغاوت کے پیچھے سماجی منظوری (Social Approval) موجود نہیں تھی، اس لیے یہ کوئی بڑا خطرہ بنے بغیر ہی دم توڑ گئی، لیکن یہ بغاوت بہرحال آپ ﷺ کی Threat Perception پر مہرِ تصدیق ثبت کر دیتی ہے ۔ اس طرح مدنی سماج کی اسلامائزیشن اور ریاستی پالیسی میں Retreat اور Threat Perception جیسی اقدار بھی شامل ہو جاتی ہیں۔ چونکہ ان دونوں قدروں کے پیچھے بنیادی طور پر ایک ہی اصول یعنی واقعیت پسندی اور زمینی حقائق کا ادراک کارفرما نظر آتا ہے، اس لیے یہ اصول، معاشرت و ریاست کی اسلامی شناخت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے حضرت خالد بن ولید نے غزوہ موتہ میں مسلمانوں کو مزید جانی نقصان سے بچانے کے لیے پسپائی اختیار کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انھیں ملامت کرنے کے بجائے اس کی تحسین کی۔ وصال نبوی کے بعد صدیق اکبر نے بھی Threat Perception کو بروے کار لاتے ہوئے منکرین زکوٰۃ اور مرتدین کو کوئی رعایت دینے کے بجائے ان کے خلاف فوری اقدام پر اصرار کیا۔ بعد کے ادوار میں بھی جب تک اسلامی معاشرے اور ریاستی قیادت نے زمینی حقائق کے ادراک اور واقعیت پسندی پر مبنی Retreat اور Threat Perception کا بر محل مظاہرہ کیا ، اس وقت تک مسلمان مغلوب ہونے سے بچے رہے ۔
فتح مکہ اور ہجرت
۸ ہجری میں نبی پاک ﷺ اسی شہر میں فاتحانہ داخل ہوئے جہاں سے انھیں نکلنے پر مجبور کر دیا گیا تھا ۔ فتح مکہ کے بعد آپ ﷺ واپس مدینہ تشریف لے آئے ، حالانکہ مکہ میں بیت اللہ بھی ہے اور اسے آپ ﷺ کے آبائی وطن ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔ آپ ﷺ جب مکہ سے نکلنے پر مجبور ہوئے تھے تو فرمایا تھا :
واللہ انک لخیر ارض اللہ واحب ارض اللہ الی اللہ ولولا انی اخرجت منک ما خرجت (ترمذی)
’’ خدا کی قسم ! تو اللہ کی سب سے بہتر زمین ہے اور اللہ کی نگاہ میں سب سے بڑھ کر محبوب ہے ۔ اگر مجھے یہاں سے نہ نکالا جاتا تو میں کبھی نہ نکلتا‘‘۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ فتح یاب ہونے کے بعد آپ مکہ میں رہائش پذیر کیوں نہیں ہوئے ؟ اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ نے انصار سے ’ عہد ‘ کیا تھا کہ کامیاب ہونے کے بعد آپ ﷺ انھیں چھوڑ کر اپنی قوم سے نہیں جا ملیں گے۔ ( بیعتِ عقبہ ثانی) پھر فتح مکہ کے بعد ایک موقع پر مالِ غنیمت کی تقسیم ہوئی اور قریشِ مکہ کو نوازا گیا تو اس سے بعض انصار ملولِ خاطر ہوئے ۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تمھیں یہ پسند نہیں کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے جائیں اور تم محمد ﷺ کو لے کر اپنے گھر جاؤ؟ انصار بے ساختہ پکار اٹھے! ہمیں اور کچھ نہیں ، صرف محمد ﷺ چاہیے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہاں بھی آپ ﷺ کا مدینہ واپسی کا فیصلہ سابقہ عہد کی پاسداری کی خاطر تھا؟ اگر جواب اثبات میں دیا جائے تو یہ ایک سطحی جواب ہو گا کیونکہ آپ ﷺ نے غلبہ پانے کے بعد انصار کا ساتھ نہ چھوڑنے کا عہد کیا تھا، نہ کہ ان کے ساتھ مستقل رہائش پذیر ہونے کا۔ فتح مکہ کے بعد ، مکہ میں رہتے ہوئے بھی آپ ﷺ انصار کا ساتھ دینے کی پوزیشن میں تھے کیونکہ اب مکہ اور مدینہ دونوں، اسلامی ریاست کا باقاعدہ حصہ تھے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ مدینہ میں رہنے کا فیصلہ آپ ﷺ کی قیادت کا ناگزیر تقاضا تھا ۔ اگر آپ ﷺ مکہ میں رہنے کا فیصلہ کر لیتے تو مہاجرین کی ایک لمبی قطار آپ ﷺ کی اتباع کے لیے تیار کھڑی ہوتی ، جس سے نہ صرف مکہ اور مدینہ میں نئے مسائل جنم لیتے بلکہ آئندہ بھی ہر زمانے کے مہاجر اپنے سابق علاقے اور املاک وغیرہ پر اپنا حق جتانے کی کوشش کرتے۔ ظاہر ہے اس کے نتیجے میں ہر دور میں شدید پیچیدگیاں پیدا ہوتیں ۔ اس سلسلے میں سیرت النبی ﷺ ابنِ ہشام میں درج یہ واقعہ کافی اہم معلوم ہوتا ہے کہ جب بنی جحش نے ہجرت کی تو ابوسفیان نے ان کا مکان بنی عامر بن لوئ کے ایک شخص عمرو بن علقمہ کے ہاتھ فروخت کر دیا ۔ جب عبداللہؓ بن جحش کو اس کی خبر مدینہ میں پہنچی تو انھوں نے نبی پاک ﷺ سے عرض کیا ۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ خدا اس کے بدلے تم کو جنت میں ایک محل عنایت کرے ؟ عبداللہ نے عرض کیا ، ہاں میں راضی ہوں ۔ آپﷺ نے فرمایا، بس وہ محل تمھارے لیے ہے ۔ فتح مکہ کے بعد ابو احمد نے حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں اس مکان کے بارے میں سوال کیا جس کو ابوسفیان نے فروخت کر دیا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے کوئی جواب نہ دیا ۔ لوگوں نے کہا اے ابو احمد ! آپ ﷺ ان چیزوں کے بارے میں جو کفار کے تصرف میں چلی گئیں، کلام کرنا پسند نہیں فرماتے ۔ پس ابواحمد بھی خاموش ہو رہے۔
ہجرتِ نبوی کی توسیعی معنویت
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہجرت کا واقعہ ظاہری لحاظ سے زمان ومکان میں محدود ہونے کے باوجود معنوی لحاظ سے ابدی اور آفاقی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی علاقے سے دوسرے علاقے میں ہجرت کرنا ، اپنی نوعیت کے اعتبار سے اضافی ہے کہ اس کے پیچھے ارضی تقاضے کارفرما ہوتے ہیں۔ اصل ہجرت ، رویے کی ہجرت ہے:
فَآمَنَ لَہُ لُوطٌ وَقَالَ إِنِّیْ مُہَاجِرٌ إِلَی رَبِّیْ إِنَّہُ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (العنکبوت۲۹ / ۲۶)
’’سو ایمان لائے اس پر صرف لوط ؑ اور انھوں نے کہا میں ہجرت کرتا ہوں اپنے رب کی طرف ، بے شک وہی ہے زبردست اور حکمت والا ‘‘ ۔
یہ درحقیقت رویے کی ہجرت ہی ہوتی ہے جو انسان کو مقابل قوتوں کو مغلوب کرنے کے لیے علاقہ چھوڑنے کی ’’حکمتِ عملی‘‘ اپنانے کا درس دیتی ہے ۔ علاقے سے ہجرت ، رویے کی غیر اضافی ہجرت کی آبیاری کا مزید سامان فراہم کرتی ہے ۔ ان معنوں میں انسان کی بہشت سے بے دخلی کوئی سزا نہیں ، بلکہ ربِ کائنات کی بیش بہا حکمت کا اظہار ہے ۔ یہ بے دخلی کسی کمی ( بے عزمی ) کی بیش تلافی (Over Compensation) کی علامت ہے اور ابلیس کی شیطانیت کو سزاوار چیلنج بھی ۔ اس تناظر میں ہم اس مضمون کے اختتام پر ان پہلووں کی طرف خاص طور پر اشارہ کرنا چاہیں گے جن سے ہجرت نبوی کا یہ معنوی اور آفاقی پہلو خاص طور پر اجاگر ہوتا ہے۔
۱۔ جب تک حضرت ابو طالب سردار تھے ، آپ ﷺ نے ہجرت نہیں کی، بلکہ مشیتِ الٰہی کے مطابق ابولہب کے سردار بننے کا انتظار کیا۔ اس سے نبی خاتم ﷺ کی حیاتِ مطہرہ کا ایک خاص پہلو سامنے آتا ہے، کیونکہ ابولہب کا سردار بننا اور اس کے دور میں آپ ﷺ کا ہجرت کرنا ، آپ ﷺ کی خاتمیت کا اہم تقاضا تھا۔ ابوطالب اگرچہ، معروف تاریخی روایت کے مطابق آپ پر ایمان نہیں لائے، لیکن بہرحال وہ متکبر نہیں تھے۔ اس کے برعکس ابولہب اپنی کنیت کے مصداق ایسا دہکتا ہوا شعلہ تھا جو ناحق متکبر تھا ، ابلیس کی مانند اور ابلیس کا پیرکار ۔ اگر ابلیس نار تھا تو ابولہب اسی کا معنوی مشتق اور پر تو تھا ۔ اس لیے ابولہب کے سردار بننے کے بعد نبی خاتم ﷺ کی ہجرت خاصی معنی خیز ہو جاتی ہے ۔ ابولہب کی سرداری کے دور میں آپ ﷺ کی مدینہ کی طرف ہجرت سے مدینہ کی حیثیت ایک پہلو سے پوری زمین کے مثل ہو جاتی ہے۔ جس طرح آدم ؑ مہاجر بنا کر زمین پر اتارے گئے تھے ، ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ مخصوص وقت تک کے لیے، اسی طرح آپ ﷺ بھی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ مخصوص وقت کے لیے کرتے ہیں، جہاں سے نکالے گئے تھے وہاں جانے کا سامان پیدا کرنے کے لیے، کہ ہجرت وسیع تر مفہوم میں کسی کمی کی تلافی کا ہی نام ہے ۔ آپ ﷺ کی ہجرتِ مدینہ کا مخصوص وقت فتح مکہ پر ختم ہو جاتا ہے ، لیکن کیونکہ مدینہ کی ایک حیثیت پوری زمین کے بھی مثل ہے، وہ زمین جہاں اولادِ آدم ؑ کو اپنا مخصوص وقت گزارنا ہے ، اس لیے اس وقت کے خاتمے تک، نبی خاتم ﷺ ہونے کے ناتے اولادِ آدم ؑ کی راہنمائی کے لیے آپ ﷺ اپنی مہاجرت کا تسلسل فتح مکہ کے بعد بھی مدینہ ( پوری زمین کے مثل ) میں جاری رکھتے ہیں ۔
۲۔ اس ضمن میں واقعہ معراج بھی قابل توجہ ہے۔ ابنِ ہشام کے مطابق واقعہ معراج کے موقع پر بعض لوگ مرتد ہو جاتے ہیں، جبکہ حضرت ابوبکرؓ ، صدیقِ اکبرؓ بن جاتے ہیں۔ اس واقعے پر کفار کے استہزا اور تمسخر کے مقابلے میں صحابہ کرامؓ انفرادی حیثیت میں شخصی عزم اور اجتماعی حیثیت میں گروہی عزم کی پختگی کا بے مثال مظاہرہ کرتے ہیں ۔ چنانچہ اللہ رب العزت انھیں ایسے بے پایاں ، گراں قدر، بیش بہا اور انمول تحفے سے نوازتے ہیں جو اپنی نوعیت میں بیک وقت شخصی اور گروہی ہے ۔ ہماری مراد نماز سے ہے ۔ گروہی ہجرت سے قبل، معراج کے موقع پر نماز کی فرضیت کے احکامات کا اترنا بہت معنی خیز ہے۔ اللہ رب العزت نے رویے کی ہجرت کی طرف واضح اشارہ کرنے، اسے مطلوب و مقصود ٹھہرانے اورعلاقائی ہجرت کی اضافیت کے مقابلے میں رویے کی ہجرت کی غیر اضافیت کے پیشِ نظر ہی ہجرتِ مدینہ کے بعد نہیں بلکہ اس سے قبل نماز کی فرضیت کے احکامات نازل فرمائے ۔ حقیقت میں نماز کی پانچ وقت با جماعت فرضیت، سماج اور ہجوم کے جبر کے خلاف مخلصین کی صف آرائی ہے۔ یہ سماجی شیطانیت کی شناخت کی جیتی جاگتی علامت ہے۔ یہ سوسائٹی کے ظاہری و باطنی فواحش اور ظلم و استحصال کے مقابل ، افراد کی گروہی ہجرت ہے۔ ایسا سماج جہاں نماز کی پانچ وقت با جماعت ادائیگی کا پورا اہتمام کیا جاتا ہو ، وہاں کے افراد کا دنیاوی مال و اسباب کو تج دے کر شیطانی قوتوں کے مقابل آنا اور اس مقابلے میں ’’حکمت عملی‘‘ کے طور پر بعض اوقات اپنا علاقہ تک چھوڑ جانا نا ممکن نہیں ہوتا ، کیونکہ ایسے افراد سوسائٹی کے لازموں سے کنارہ کشی کا عمل ہر روز پانچ بار دہرا چکے ہوتے ہیں ۔
۳۔ فتح مکہ کے بعد آپ ﷺ کی مدینہ واپسی میں بھی لطیف حکمت پوشیدہ ہے ۔ فتح مکہ کے بعد آپ کی مہاجرت ظاہری اعتبار سے ختم ہوگئی تھی، اس لیے کہ جس وجہ سے آپ ﷺ کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا ، وہ وجہ ختم ہو گئی ۔ باطل مٹ گیا اور حق چھا گیا۔ آپ ﷺ کا یہ ارشاد اسی پہلو کو واضح کرتا ہے :
لا ہجرۃ بعد الفتح (صحیح بخاری)
’’ فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے ۔‘‘
تاہم قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فتح ، جو مہاجرت کے بعد ملی، درحقیقت اس فتح کی ارضی علامت ہے جو آپ ﷺ کی خاتمیت کے پیشِ نظر آپ ﷺ کے توسط سے اولادِ آدم ؑ میں سے ’’ مخلصین ‘‘ کو ابلیس کے چیلنج کے جواب میں ملنی ہے اور یہ مخلصین اس بہشتِ بریں پر دوبارہ قدم رکھیں گے ، جہاں سے انھیں ابلیس کی شیطانیت کے سبب مہاجر بنا کر زمین پر بھیج دیا گیا تھا ۔ یہ مکمل فتح ، آپﷺ کی خاتمیت کے وجوہ جواز میں سے ایک وجہ بھی ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ بیت اللہ کو مشرکین سے پاک کر نے کے بعد ، اپنی مہاجرت کو جاری رکھتے ہوئے فتح مکہ کو معرکہ خیر و شر کے تناظر میں ’’ علامتی فتح ‘‘ کے طور پر لیتے ہیں اور مکہ میں مستقل طور پر نہ ٹھہرنے کا فیصلہ فرماتے ہیں، کیونکہ اگر مکہ میں قیام فرماتے تو آپ کی مہاجرت مکمل طور پر ختم ہو جاتی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے ہجرت کی اسی ابدی معنویت کو یوں واضح فرمایا :
والمہاجر من ہجر الخطایا والذنوب (ابن ماجہ)
’’اور مہاجر درحقیقت وہ ہے جو اپنے گناہوں اور خطاؤں سے کنارہ کشی کر لے ‘‘۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت ، رویے میں ہجرت ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ فتح مکہ کے بعد بھی، مہاجرین کی ہجرت کا اختتام نہیں ہوا ، بلکہ یہ مہاجرت جاری ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ نبی خاتم ﷺ کی سر گزشتِ حیات ، ایک پہلو سے آدم ؑ کے گم گشتہ عزم کی بازیافت سے عبارت ہے۔ وہی عزم ، جس کی شکستگی کے سبب آدم ؑ اپنے عہد سے غافل ہو گئے تھے۔ یوں نبی خاتم ﷺ کی قیادت میں اولادِ آدم ؑ میں سے مخلصین کے ایک گروہ نے ابلیس کی شیطانیت کے مقابل، خدا سے کیے گئے عہد کی پاسداری میں مصمم عزم کا اظہار کر کے اس فتح کا علامتی اظہار کر دیا ہے جو نوعِ انسانی کے مخلصین کا حتمی مقدر ہے ۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ صحابہ کرام نے آپ کے وصال کے بعد حضرت عمرؓ کے دور میں اسلامی کیلنڈر کا آغاز ہجرت مدینہ سے کیا، حالانکہ بعثت نبوی، غزوہ بدر، صلح حدیبیہ اور فتح مکہ وغیرہ جیسے اہم واقعات بھی موجود تھے جن سے اسلامی سنہ کا آغاز کیا جا سکتا تھا۔ صحابہ کے مابین اس ضمن میں بحث مباحثہ بھی ہوا، لیکن باہمی اتفاق سے ہجرت مدینہ کو ہی اسلامی کیلنڈر کا نقطہ آغاز قرار دیا گیا۔ معنوی لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کے خاتمے تک سن ہجری بھی جاری ہے اور اس واقعے میں مضمر حکمت بھی تسلسل کی حامل ہے۔ لہٰذا جب تک انسان اس زمین پر موجود ہے، نبی خاتم ﷺ کی مہاجرت اسے پورے عزم کے ساتھ ابلیسی تکبر کے ساتھ نبرد آزماہونے کی دعوت دیتی رہے گی۔
حواشی
(۱) فترۃ الوحی کے دوران میں آپ ﷺ انتہائی صبر آزما کیفیات سے گزر رہے تھے ۔ بعض روایات کے مطابق آپ ﷺ اس قدر رنجیدہ خاطر ہوتے کہ کئی بار خود کو گرانے کے ارادے سے پہاڑ پر چڑھتے۔ اس وقت جبریل ؑ ظاہر ہوتے اور فرماتے : ’’ محمد ! بلاشبہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں ‘‘ ۔ یہ الفاظ سن کر آپ ﷺ کا اضطراب رفع ہو جاتا اور دل مطمئن ہو جاتا ۔
ہمیں ایسی روایات کو قبول کرنے میں تامل ہے، کیونکہ خود کو پہاڑ سے گرانے کے ارادے کی بات عزم کی اس ’’ کاملیت ‘‘ سے لگا نہیں کھاتی جو غارِ حرا میں نفسی ہجرت کے بعد آپ ﷺ کو عطا کی گئی تھی۔ آپ ﷺ فترۃ الوحی کے زمانے میں یقیناًبے قراری کی کیفیات سے گزرے اور اسی سے آپ ﷺ کا عزم کامل ہوا اور آپ ﷺ سے عہد لیا گیا ، لیکن اس دوران بے قراری سے مغلوب ہو کر آپ ﷺ کبھی بھی خود کو گرانے کے ارادے سے پہاڑ پر نہیں چڑھے ۔ بالفرض ایسی روایات کو قابل اعتنا سمجھا جائے تو یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ فترۃ الوحی کے زمانے تک اللہ رب العزت نے آپ ﷺ سے کوئی ’’ عہد ‘‘ نہیں لیا تھا۔ شاید وحی کا انقطاع ( آپ ﷺ سے عہد لینے کے پیشِ نظر ) آپ ﷺ کے عزم کی کاملیت کی خاطر ہی کیا گیا۔ چنانچہ عہد لیے جانے سے قبل آپ ﷺ کے عزم کا مضمحل ہونا ، کسی قسم کی عہد شکنی کے زمرے میں نہیں آتا ۔ اس کے برعکس آدمؑ ، شجرِ ممنوعہ کے قریب نہ جانے کا عہد کر کے ، بے عزم ہوئے اور بھولے تھے۔ فترۃ الوحی سے قبل اور بعد کی آیات پر اس حوالے سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
(۲) حضرت زبیر بن العوامؓ ، سابقون میں سے تھے اور غالباً پانچویں مسلمان تھے۔ اپنے چچا کے مظالم کا شکار ہوئے ۔ حضرت سعید بن زیدؓ کو ان کے چچازاد بھائی حضرت عمر نے، جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے، مشکیں باندھ کر خوب پیٹا ۔ حضرت عثمانؓ بھی تختہ مشق بنے۔ حضرت بلال حبشیؓ کی زبان سے جس کیفیت میں ’’ احد ، احد ‘‘ کا کلمہ حق جاری ہوا ، تاریخ کا ہر طالب علم اس سے آگاہ ہے۔ اسی طرح حضرت خبابؓ ، حضرت عمارؓ ، حضرت یاسرؓ ، حضرت صہیبؓ ، حضرت ابو فکیعہؓ ، حضرت لبینہؓ ، حضرت زنیرہؓ ، حضرت نہدیہؓ ، حضرت امِ عبیسؓ کی عزیمت کی داستانِ خونچکاں بھی تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ حتیٰ کہ حضرت ابوبکر صدیق بھی، جنھیں قریش میں اعلیٰ مرتبہ و مقام حاصل تھا ، کفار کے جور و ستم کا نشانہ بنے ۔
( ۳) پروفیسر محمد اکرم ورک نے ’’ صحابہ کرامؓ کا اسلوبِ دعوت و تبلیغ ‘‘ کے صفحہ ۸۴ پر اس روایت کو البداےۃ ۳/۲۹،۳۰ کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔
(۴) آبا پرستی اور اکابر پرستی ایسا مرض ہے جو نوعِ انسانی کے ہاں ہر دور اور ہر علاقے میں موجود رہا ہے اور حق بات کی قبولیت میں بنیادی رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔ قرآن مجید نے اسی لیے مختلف مقامات پر اس پر سخت گرفت کی ہے ۔ (البقرہ۲/ ۱۷۰، المائدہ ۵/۱۰۴، الاعراف۷/ ۲۸، یونس۱۰/ ۷۸، الانبیاء۲۱/ ۵۲۔۵۴، لقمان۳۱/ ۲۱، الزخرف۴۳/۲۲۔۲۴ ، سبا۳۴/۴۳) قابلِ غور بات یہ ہے کہ قصہ آدم و ابلیس میں اللہ رب العزت کے اس استفسار پر کہ ابلیس کو کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا، ابلیس کا جواب اپنے اندر ہمارے لیے ایک پیغام رکھتا ہے۔ ابلیس نے کہا کہ میں آدم سے بہتر ہوں، کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم ؑ کو مٹی سے ۔ ( قَالَ یَا إِبْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ أَسْتَکْبَرْتَ أَمْ کُنتَ مِنَ الْعَالِیْنَ ۔ قَالَ أَنَا خَیْْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَہُ مِن طِیْنٍ / قَالَ یَا إِبْلِیْسُ مَا لَکَ أَلاَّ تَکُونَ مَعَ السَّاجِدِیْنَ ۔ قَالَ لَمْ أَکُن لِّأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہُ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ) ذرا غور کیجئے کہ ابلیس ، اللہ رب العزت کو خالق تسلیم کر رہا ہے اور ام کنت من العالین کے جواب میں یہی کہتا ہے کہ میں آدم ؑ سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے سڑی ہوئی مٹی سے۔ پھر ابلیس کو دوبارہ اٹھائے جانے کا بھی یقین ہے قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِیْ إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ اسی آیت میں وہ اللہ رب العزت کو ’’ اے میرے رب ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور پھر قسم بھی اللہ کی عزت کی کھاتا ہے: قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَأُغْوِیَنَّہُمْ أَجْمَعِیْنَ إِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کو مردود ( رجیم ) قرار دینے ، روزِ جزا تک اس پر لعنت بھیجنے (وَإِنَّ عَلَیْْکَ لَعْنَتِیْ إِلَی یَوْمِ الدِّیْنِ) اور جہنم کو اس سے اور اس کے پیروکاروں سے بھرنے کے پیچھے (َأَمْلَأَنَّ جَہَنَّمَ مِنکَ وَمِمَّن تَبِعَکَ مِنْہُمْ أَجْمَعِیْنَ ) آخر کون سی غلطی کارفرما ہے؟ قرآن کے مطابق اس کی غلطی، خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے آدم ؑ کو سجدہ نہ کرنا اور سجدہ نہ کرنے کا یہ جواز بیان کرنا ہے کہ میں آگ سے پیدا کیے جانے کی بنا پر آدم ؑ سے بہتر ہوں۔ قرآن ، نافرمانی اور برتری کے ابلیسی منہج کو تکبر پر محمول کرتے ہوئے اسے کفر گردانتا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کی ان آیات کا فہم، ایسے آبا پرست اور نسل پرست لوگوں کے لیے سخت انتباہ ہے جو ابلیس کی مانند اگرچہ اللہ رب العزت کو خالق تسلیم کرتے ہیں، دوبارہ اٹھائے جانے پر یقین رکھتے ہیں لیکن ابلیس کے تتبع میں اپنی پیدائشی حیثیت کو دوسروں پر برتری کی سند سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ ۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ پہلی وحی کے نزول کے بعد جب نبی خاتم ﷺ گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہؓ کو نزولِ وحی کا سارا ماجرا سنایا تو حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے آپ ﷺ کی جس پہلی صفت کا ذکر کیا، وہ صلہ رحمی ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام نسل پرستی کی تہذیب کر کے صلہ رحمی کو انتہائی پسندیدہ عمل قرار دیتا ہے۔ جہاں تک تفوق و برتری کا تعلق ہے، قرآن کے نزدیک اس کا مدار پیدایشی حیثیت کے بجائے شخصی خصوصیات پر ہے ۔ ملاحظہ کیجئے الزخرف۴۳/ ۳۲ ، الاحقاف۴۶/ ۱۹ ، آل عمران۳/ ۱۶۲۔۱۶۳ ، الانعام۶/ ۱۳۲ و۶/ ۱۶۵ ، الحدید۵۷/ ۱۰ ، النحل۱۶/۷۶ ، المومن۴۰/ ۵۸ ، القلم۶۸/ ۳۵، الحشر۵۹/ ۲۰، الزمر۳۹/ ۰۹، ہود۱۱/ ۲۴۔
(۵) یقیناًنبی خاتم ﷺ کے ذہنِ مبارک میں ورقہ بن نوفل کے یہ الفاظ بھی ہوں گے جو اس نے کعبہ کے نزدیک ملاقات کے موقع پر آپ ﷺ سے کہے تھے :
’’ خدا کی قسم ! آپ ﷺ اس امت کے پیغمبر ہیں اور جو ناموس موسیٰ پر نازل ہوا تھا، وہی آپ ﷺ پر نازل ہوا ہے ۔ لوگ آپ ﷺ کی تکذیب کریں گے ، اذیتیں پہنچائیں گے، اپنے شہر سے جلاوطن کر دیں گے ، اور آپ ﷺ کے ساتھ ان کی لڑائیاں ہوں گی۔ اگر میں اس وقت تک بقیدِ حیات رہا تو حق کی حمایت کروں گا ۔‘‘
(۶) اس سلسلے میں یہ واقعہ بھی اہم ہے : ’’ ابنِ اسحاق کہتے ہیں، مجھ سے بعض اہلِ علم نے بیان کیا کہ حضرت حلیمہؓ جب دودھ چھڑانے کے بعد آپ ﷺ کو واپس لائیں تو اس کا سبب یہ تھا کہ حبشہ کے چند نصاریٰ نے حضور ﷺ کو حلیمہؓ کے پاس دیکھ کر کہا کہ اس لڑکے کو ہم اپنے شہر لے جاتے ہیں، کیونکہ یہ لڑکا صاحبِ ظہور معلوم ہوتا ہے ۔ پس اس شخص نے مجھ سے بیان کیا کہ اسی اندیشے سے حضرت حلیمہؓ حضور ﷺ کو آپ کی والدہ کے پاس پہنچا گئیں ‘‘۔ (سیرت النبی ﷺ /ابنِ ہشام )
(۷) ا ن نصاریٰ کے بارے میں ابنِ اسحاق یہ بھی کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کے مطابق ان کا تعلق قصبہ نجران سے تھا ۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآنی آیات ( القصص۲۸: ۵۲ تا ۵۵ ) انہی لوگوں کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے ابنِ شہاب زہری سے ان آیات کی نسبت سوال کیا کہ یہ کن لوگوں کی شان میں نازل ہوئی ہیں تو انھوں نے کہا ، ہم اپنے استادوں سے سنتے چلے آئے ہیں کہ یہ آیات نجاشی شاہ حبش اور اس کے لوگوں کی شان میں نازل ہوئی ہیں اور سورۃ ( مائدہ ۵:۸۳) بھی انہی کی شان میں نازل ہوئی ۔
(۸) نبی کریم ﷺ کا حضرت عائشہ کے ساتھ عقد مکی دور میں ہو گیا تھالیکن رخصتی بعد میں ہوئی ۔ اسی دور میں آپ ﷺ نے حضرت سودہؓ سے نکاح کر لیا تھا جو ایک مسلمان کی بیوہ تھیں ۔ ان کے شوہر حبشہ سے واپسی پر مکے میں انتقال کر گئے تھے ۔ تقریباً انہی ایام میں واقعہ معراج ہوا۔ سیرت ابنِ ہشام کے مطابق واقعہ معراج کے متعلق شکوک میں مبتلا ہو کر بعض نو مسلم مرتد ہو گئے تھے۔ حضرت امِ حبیبہ کے ساتھ آپ کا نکاح غالباً واقعہ معراج کے بعد مدنی دور میں ہوا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ واقعہ معراج اور آپ ﷺ کے وصال کے کے درمیانی عرصے میں آپ ﷺ کا عقد حضرت امِ حبیبہؓ سے ہوا ۔ اس لیے اگر تاریخی شواہد میسر آ سکیں تو تقابلی انداز میں معلوم ہو سکتا ہے کہ واقعہ معراج کے بعد کے مرتدین کی بیویوں کے ساتھ صحابہ کرامؓ کا طرزِ عمل کیا تھا۔ (کیونکہ ابھی آپ ﷺ نے حضرت امِ حبیبہؓ سے عقد نہیں کیا تھا ) اور پھر آپ ﷺ کے وصال کے بعد مرتدین کی بیویوں سے اصحابؓ نے کیا رویہ اختیار کیا۔ ( ظاہر ہے کہ اس وقت آپ ﷺ کا عقد ہو چکا تھا ) اس حوالے سے اسلامی تاریخ کے تنقیدی مطالعے کی ضرورت ہے۔ بعض شواہد کے مطابق مدنی دور میں بھی بہت سے لوگ مرتد ہو گئے تھے ۔ ایسے لوگ مدینے کی آب و ہوا کے ہاتھوں بیماری کا شکار ہوئے اور صبر نہ کرنے کے باعث اسلام سے منحرف ہو گئے ۔ انھی کے متعلق رسول پاک ﷺ کا ارشاد ہے:
انما المدینۃ کالکیر تنفی خبثھا و تصنع طیبھا ( بخاری و مسلم )
’’مدینہ ایک بھٹی کی طرح ہے جو گندگی کو نکال دیتا ہے اور پاکیزگی کو صیقل کر دیتا ہے۔‘‘
سورۃ الممتحنۃ کی آیت ۱۰ سے مذکورہ موضوع پر کام کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے ۔
(۹) سیرت النبی ﷺ / ابنِ ہشام کے مطابق نجاشی نے ایک کاغذ پر لکھا ، میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور بے شک محمد ﷺ اس کے بندہ اور رسول ہیں اور عیسیٰ بن مریم ؑ اس کے بندہ اور رسول ہیں اور اس کی روح اور اس کے کلمہ ہیں جو اس نے مریم کی طرف ڈالا۔ پھر اس کاغذ کو نجاشی نے اپنے کرتے کے اندر دائیں شانہ کے پاس رکھ لیا اور حبشیوں کے مقابلے میں جنگ کی صفیں آراستہ کیں ۔ پھر ان سے مخاطب ہو کر کہا ، اے گروہِ حبشہ ! کیا میں تم میں سلطنت کا زیادہ حق دار نہیں ہوں ؟ سب نے کہا ، بے شک ہو ۔ نجاشی نے کہا تم نے میری سیرت اور عادات کیسی دیکھیں ؟ سب نے کہا ، بہت اچھی ۔ نجاشی گویا ہوا ، پھر کیا وجہ ہوئی کہ تم مجھ سے یکدم بغاوت پر آمادہ ہوگئے ہو ؟ سب نے کہا ، چونکہ تم نے ہمارے دین کو چھوڑ دیا اور تم کہتے ہو کہ عیسیؑ بندے تھے ، اسی لیے ہم تمھارے مخالف ہیں ۔ نجاشی نے کہا ، پھر تم عیسی ؑ کے متعلق کیا کہتے ہو ؟ حبشیوں نے کہا ، ہم ان کو خدا کا فرزند کہتے ہیں ۔ نجاشی نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ عیسیٰ نے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا ، میں اس پر گواہی دیتا ہوں ۔ نجاشی نے تو اپنے دل میں اس کاغذ کی طرف اشارہ کیا تھا جو اس نے لکھ کر کرتے کے اندر رکھا ہوا تھا، جبکہ حبشیوں نے یہ سمجھا کہ اس نے ہمارے قول کی تصدیق کی ہے ۔ سب خوش ہو گئے اور ان کی مخالفت ختم ہو گئی ۔ راوی کہتا ہے کہ پھر یہ خبر حضور ﷺ کو بھی پہنچی ۔ اس کے بعدجب نجاشی شاہ حبش کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی ( غائبانہ ) نماز جنازہ پڑھی اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی۔
(۱۰) ابنِ اسحاق کہتے ہیں ، حضرت عمرؓ کے گھر والوں میں سے ایک شخص سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ فرماتے تھے ، جب میں اسلام لایا تو اسی رات کو میں نے خیال کیا کہ قریش میں سے جو شخص رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ عداوت رکھتا ہو، جا کر پہلے اس کو اپنے اسلام لانے کی خبر بتاؤں۔ میں نے دل میں کہا کہ ابوجہل سے بڑھ کر کوئی شخص حضور ﷺ کا دشمن نہیں ہے ۔ چنانچہ صبح ہوتے ہی میں ابوجہل کے گھر گیا (ابوجہل ، حضرت عمرؓ کا سگا ماموں تھا) اور دروازہ کھٹکھٹایا ۔ ابوجہل نے آکر دوازہ کھولا ، اور مجھے دیکھ کر کہا ، آؤ میرے بھانجے آؤ، خوب آئے ، کیونکر آئے؟ میں نے کہا ، میں اس واسطے آیا ہوں کہ تم کو بھی اپنے اسلام لانے کی خبر کردوں ۔ میں خدا اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ پر ایمان لے آیا ہوں اور ان کی تصدیق کی ہے ۔ میرے یہ کہتے ہی ابوجہل نے دروازہ بند کر لیا اور کہا، خدا تجھ کو خراب کرے اور اس خبر کو بھی جو تو لے کر آیا ہے۔ ( سیرت النبی ﷺ / ابنِ ہشام )
اس سلسلے میں یہ بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایک افواہ پھیلی کہ قریش نے نبی مکرم ﷺ اور ان کے اصحابؓ کی دل آزاری ترک کر دی ہے۔ اس کے نتیجے میں حبشہ سے مہاجرین واپس آنا شروع ہو گئے۔ واپسی پر انھیں معلوم ہوا کہ حالات اتنے اچھے نہیں ہیں تو کچھ واپس حبشہ چلے گئے اور کچھ مکہ میں ہی رہنے لگے۔ اس افواہ کو عام طور پر ’’داستانِ غرانیق‘‘ سے منسلک کیا جاتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مستشرقین کے علاوہ بعض مسلم مصنفین نے بھی داستانِ غرانیق کو درست تسلیم کیا ہے، حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ جہاں تک حبشہ کے ان مہاجرین کا تعلق ہے جو حالات کی بہتری کا سن کر مکہ واپس آ گئے تو اس کے اسباب حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام میں تلاش کیے جانے چاہییں، کیونکہ ان کے اسلام لانے کے بعد مسلمانوں کو یکدم تقویت ملی اور کفار کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ فاروقِ اعظمؓ کے قبولِ اسلام سے کفار جس جذباتی و نفسیاتی دھچکے کا شکار ہوئے، اس سے نکلنے میں انھیں کچھ وقت لگا۔ اسی عرصے میں ان کے مظالم میں کمی واقع ہوئی ہوگی اور اس سے غلط طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہوگا کہ آپ ﷺ کاقریش کے ساتھ کوئی ’’ سمجھوتہ ‘‘ ہو گیا ہے ۔
(۱۱) عرب کلچر میں ’’ پناہ ‘‘ دینے کا عام رواج تھا ۔ دشمن بھی پناہ مانگتا تو وہ اس سے انکار نہیں کرتے تھے ۔ اس لیے پورے مکی دور میں ہمیں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں جن میں مشرکوں نے نو مسلموں کو پناہ دی ۔ حتیٰ کہ خود نبی پاک ﷺ بھی سفرِ طائف کے بعد ، معاشرتی مقاطعہ کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے مطعم بن عدی کی پناہ میں رہے ۔ ذرا غور کیجئے کہ ایسا کلچر جس میں پناہ دینے جیسی روایات موجود ہوں اور لوگ ان پر سختی سے کاربند بھی ہوں ، وہاں معاشرتی مقاطعہ کیا ایک انتہائی اقدام نہیں تھا ؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ مکی سوسائٹی اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ اور داخلی لحاظ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی تھی ۔
(۱۲) اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ حبشہ سے جو مہاجرین واپس مکہ آئے ، ان میں سے ابوسلمہ بن عبدالاسد نے اپنے ماموں حضرت ابوطالب کی پناہ لی۔ بنی مخزوم کے کچھ لوگ حضرت ابو طالب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تم نے اپنے بھتیجے محمد ﷺ کو تو خیر سے پناہ دے ہی رکھی ہے، مگر ہمارے بھائی ابوسلمہ کو تم نے پناہ کیوں دی ہے ؟ حضرت ابوطالب نے کہا ، وہ میرا بھانجا ہے ۔ اگر بھتیجے کو پناہ نہ دیتا تو بھانجے کو بھی پناہ نہ دیتا۔ اس پر ابولہب نے ان مخزومیوں سے کہا کہ تم ہمیشہ ہمارے بزرگ ابوطالب کو ستاتے ہو اور طرح طرح کی باتیں کہتے ہو ، اگر تم لوگ باز نہ آئے تو یاد رکھو، میں بھی ہر ایک کام میں ان کے ساتھ شریک ہوجاؤں گا۔ ابولہب کے یہ کہنے سے وہ لوگ متنبہ ہوئے اور کہنے لگے ہم کچھ نہیں کہتے، ہم جاتے ہیں ۔ اس کے بعد حضرت ابوطالب نے چند شعر کہے ، جن میں ابولہب کی تعریف کی ہے اور اسے حضور ﷺ کی امداد پر آمادہ ہونے کو کہا ہے۔ ( سیرت النبی ﷺ / ابنِ ہشام )
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرتِ حبشہ سے ابولہب بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور وہ معاشرتی مقاطعہ سے قبل ، کم ازکم قبائلی عصبیت کی بنا پر اپنے قبیلے کے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے تیار ہو سکتا تھا،لیکن معاشرتی مقاطعہ میں اپنے قبیلے کے مقابل کھڑے ہو کر اس نے آپ ﷺ کے ساتھ بالواسطہ تعلق و حمایت کی راہ بھی مسدود کر دی ۔
(۱۳) عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہجرت کرنے والے مسلمان مکی سماج کے بے حیثیت لوگ تھے، اسی لیے انھیں ہجرت پر مجبور ہونا پڑا۔ ہمیں اس سے اختلاف ہے کیونکہ جو مسلمان سب سے زیادہ پسے ہوئے تھے، مثلاً حضرت یاسرؓ ، حضرت بلالؓ اور حضرت عمارؓ وغیرہ، انھوں نے ہجرت نہیں کی ۔ اس کی وجہ ان کی بے سروسامانی بھی ہوسکتی ہے لیکن ہماری نظر میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان اصحابؓ کے ہجرت کرنے سے مکی سماج میں بھونچال نہیں آسکتا تھا، کیونکہ اس وقت کے مخصوص مکی کلچر میں ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اس کے برعکس صاحبِ حیثیت افراد کی ہجرت سے ایک تو مکی سماج کو زبردست دھچکا لگا ، دوسرا خود یہ اصحابؓ بھی ہجرت کی سنگلاخ راہوں سے گزر کر کندن بن گئے۔ حقیقت میں کفارِ مکہ کی دست درازیاں جب صاحبِ حیثیت لوگوں تک پہنچیں تو آپ ﷺ نے ان اصحابؓ کے شخصی عزم کو شکستگی سے بچانے اور گروہی عزم میں پختگی لانے کی خاطر ہجرت کا حکم دیا۔ وہ اصحابؓ جو سماجی اعتبار سے بے حیثیت ہونے کے باوجود کفار کے مظالم کے خلاف ڈٹے ہوئے تھے ، وہ تو ہجرت کے بغیر ہی شخصی عزم کی دولت سے مالامال تھے ۔
(۱۴) یہاں ایک اہم نکتہ یہ سامنے آتا ہے کہ صدیقِ اکبرؓ نے ہجرت کی بھی اور نہیں بھی کی ۔ اس طرح وہ مہاجرین اور غیر مہاجرین، دونوں گروہوں میں بیک وقت شامل کیے جا سکتے ہیں ۔
(۱۵) پروفیسر محمد اکرم ورک کی تحقیقی کاوش ’’ صحابہ کرامؓ کا اسلوبِ دعوت و تبلیغ ‘‘ یقیناًایک قابلِ تحسین کام ہے اور اس میں حضرت مصعبؓ کی دعوتی مساعی کا جائزہ بھی لیا گیا ہے، لیکن جو پہلو اس وقت ہمارے پیشِ نظر ہے، اس حوالے سے اس میں تفصیلی تجزیہ مفقود ہے ۔
(۱۶) پروفیسر ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی نے ’’عہدِ رسالت ﷺ میں مواخاۃ کا ادارہ‘‘ کے زیرِ عنوان اپنے مقالے میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ ان کے مطابق درج ذیل اصحابؓ کے مابین مواخات کرائی گئی تھی :
حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب اور رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثؓ ۔
حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بن الخطاب ۔
حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمان بن عوف ۔
حضرت زبیر بن عوامؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود۔
حضرت عبیدہ بن حارثؓ اور حضرت بلال بن رباحؓ۔
حضرت مصعب بن عمیر ؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاص۔ؓ
حضرت عبیدہ بن جراحؓ اور حضرت سالم مولی ابی حذیفہؓ ۔
حضرت سعید بن زیدؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ ۔
اس موقع پر حضرت علیؓ نے نبی خاتم ﷺ سے عرض کی کہ آپ ﷺ نے ان سب کے درمیان تو مواخات کرا دی ہے ، میرا بھائی کون ہو گا؟ میں تو اکیلا رہ گیا ہوں ۔ چونکہ حضرت علیؓ ، سرکارِ دوعالم ﷺ کے ساتھ رہتے تھے ، اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمھارا بھائی ہوں۔( ملاحظہ کیجئے، شش ماہی السیرۃ عالمی، / شمارہ ۶ / نومبر ۲۰۰۱)
(۱۷) اسلام کے تصورِ ہجرت کے ایک عجیب و غریب اطلاق کی مثال ہمیں بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ملتی ہے ۔ برِ صغیر میں تحریکِ خلافت کے دوران میں بعض علما نے ایک فتویٰ جاری کیا جس کے مطابق مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ ہندوستان سے ہجرت کر جائیں ۔ چنانچہ بیس ہزار کے لگ بھگ مسلمان، جن میں زیادہ تر سندھ اور پنجاب جیسے زرعی علاقوں سے سے تھے، اپنی جائیدادوں کو اونے پونے بیچ کر افغانستان کی طرف روانہ ہوئے ۔ یہ فتوی ہر پہلو سے اسلامی تصورِ ہجرت سے مغایرتalienation کا حامل تھا، اس لیے انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور غیر دانشمندانہ تھا ۔ نہ تو ہجرت سے قبل افغانستان میں ’’مستقر و متاع‘‘ کا انتظام کیا گیا تھا اور نہ ہی سندھ اور پنجاب کے مسلمانوں کی پیشہ وارانہ صلاحیت ( زراعت سے وابستگی ) کو ملحوظِ خاطر رکھا گیاتھا ۔ اس لیے اس نام نہاد تحریکِ ہجرت کے انتہائی مضر اثرات برآمد ہوئے اور نامساعد حالات کا شکار مسلمان ، جانی و مالی نقصان اٹھا کر مزید مشکلات میں گھِر گئے ۔
(۱۸) مرد تو ایک طرف رہے ، بدر میں شکست کے بعد قریش کی عورتیں بھی منتقم المزاج ہو چکی تھیں۔ حضرت عمیرؓ کی مشرک ماں حناس ، صفوان بن امیہ کی بیوی برزہ ، عمرو بن عاص کی بیوی ریطہ ، ابوسفیان کی بیوی ہند، خالد بن ولید کی بہن اور ابوجہل کے بھائی حارث بن ہشام کی بیوی فاطمہ ، ابوجہل کی بھتیجی اور عکرمہ بن ابوجہل کی بیوی امِ حکیم بنت حارث وغیرہ احد کے میدان میں لشکر کفار کے ساتھ آئی تھیں ۔
(۱۹) اس کے برعکس برِ صغیر کے مسلم دورِ حکومت میں ہمیں کبھی فاتح و مفتوح کا تصور ملتا ہے اور کبھی اسلام کی اساسی اقدار پر سمجھوتے کے روح فرسا مناظر سے سامنا ہوتا ہے ۔ پہلے رویے کی مثال اورنگ زیب کا دور ہے جبکہ دوسرا رویہ اکبر کے دور میں سامنے آیا۔
(۲۰) میثاقِ مدینہ کا حوالہ دے کر عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اسلامی ریاست ہجرتِ مدینہ کے بعد قائم ہو چکی تھی۔ یہ بات مکمل طور پر درست نہیں ہے ، کیونکہ اس سے یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ ہجرتِ مدینہ کے وقت تک اسلامی معاشرہ تشکیل پا چکا تھا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت تک اگرچہ مسلم گروہی عزم پختہ ہو چکا تھا اور مختلف حوالوں سے اپنا اظہار بھی کر رہا تھا لیکن ہجرتِ مدینہ کے وقت تک اسلامی معاشرہ بہرحال قائم نہیں ہوا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہجرتِ مدینہ کے بعد، ریاست اور معاشرہ ، بیک وقت اور متوازی انداز میں ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے تکمیل آشنا ہوئے۔ اس لیے یہ بات طے کرنا خاصا مشکل ہو گا کہ ہجرتِ مدینہ کے بعد معاشرتی حدود کہاں ختم اور ریاستی حدود کہاں شروع ہوئیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ باہم شیر و شکر ہیں ، اس لیے ہم یہ کہنے میں شاید حق بجانب ہیں کہ آپ ﷺکے وصال تک ( یا کم از کم فتح مکہ تک ) اسلامی معاشرے اور ریاست کا ارتقا مسلسل جاری رہا اور ان کے خط و خال آہستہ آہستہ واضح ہوتے گئے۔
خلافتِ راشدہ کے دور میں بھی معاشرے اور ریاست کی یکجائی قائم رہی۔ اس لیے جو لوگ فاروقِ اعظمؓ کے دور کی فتوحات کو ریاستی توسیع کے طور پر لیتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں ۔ یہ فتوحات درحقیقت ، بیک وقت ریاستی و سماجی توسیع سے عبارت ہیں۔مثلاً عہدِ فاروقی میں فلسطین کی فتح کو اگرچہ ریاستی توسیع میں شمار کیا جا سکتا ہے، لیکن حضرت عمرؓ جس ’’ شان و شوکت ‘‘ سے وہاں تشریف لے گئے، اسے سماجی توسیع کے علاوہ آخر اور کیا نام دیا جائے گا؟ حضرت عمرو بن عاصؓ نے اگر مصر کو فتح کرکے ریاست کو وسیع کیا تھا تو فاروقِ اعظمؓ نے ان کی رپورٹ کے انداز پر شدید برہمی کا اظہار کر کے سماجی توسیع کی نیو رکھی اور جلد ہی ان کا ایلچی عمرو بن عاصؓ کی نصف جائیداد ضبط کرنے کے احکامات لے کر مصر پہنچ گیا۔ عمرو بن عاصؓ نے ’’ خراب زمانے ‘‘ کا شکوہ کیا کہ ایک معزز شخص سے یہ سلوک کیا جا رہا ہے تو خلیفہ کے ایلچی نے ریاستی توسیع کے متوازی سماجی توسیع کی علامت بن کر کہا :
’’ اگر یہ دور نہ ہوتا جس سے تمھیں اتنی نفرت ہے تو تم اپنے گھر کے آنگن میں اپنی بکری کے پاؤں کے پاس اکڑوں بیٹھے ہوتے ، اگر اس کا دودھ زیادہ ہوتا تو تم خوش ہوتے اور اگر قلیل ہوتا تو تمھیں فکر مندی دبوچ لیتی ۔‘‘
فاتح مصر عمرو بن عاصؓ کو آخر ایک موقع پر کہنا پڑا کہ میری مثال تو اس شخص کی سی ہے جو گائے کے سینگ پکڑے کھڑا ہو ، مگر اس کے دودھ سے کوئی اور ہی مستفید ہو رہا ہو، کیونکہ ان کے ہاتھوں میں مالیات کا کنٹرول نہیں تھا۔ فاروقِ اعظمؓ کا ایلچی ایک خط لے کر فاتح عراق ، سعدؓ کے پاس بھی پہنچا، جس میں لکھا تھا :
’’ میں نے سنا ہے کہ تم نے ایک شاندار محل تعمیر کر لیا ہے اور اس میں لوگوں کے اور اپنے درمیان دروازہ بنا لیا ہے ۔اس میں سے نکل آؤ اور آئندہ کبھی دروازہ لگا کر لوگوں کو نہ روکنا، نہ ان کے حقوق پامال کرنا ۔ دروازہ لگانے سے تمھارا مقصد یہ ہے کہ لوگ تم سے ملنے کے لیے اس وقت کا انتظار کریں جب تک کہ تم ان سے ملنے کے لیے تیار نہ ہو جاؤ ۔‘‘
مذکورہ اقتباسات کی روشنی میں ذرا غور کر کے بتائیے کہ عہدِ فاروقی کی فتوحات کیا محض ’’ریاستی توسیع‘‘ کے زمرے میں شامل کی جا سکتی ہیں یا ان کے متوازی’’ سماجی توسیع‘‘ بھی جھلملا رہی ہے ؟ ہاں، یہ ضرور تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ خلافتِ راشدہ کے بعد ریاست اور معاشرہ دو الگ الگ دھاروں میں بٹتے چلے گئے اور ہم مسلمان آج تک انھی کے درمیان ربط و تعلق قائم کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی ایک ’’ امیر المومنین ‘‘ نے اپنی اسلامیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے سائیکل پر سواری کو رواج دینے کی کوشش کی اور ساتھ ہی ایک عدد ’’ قصرِ صدارت ‘‘ کی بنیاد بھی رکھ دی ، جس کی غلام گردشوں سے گزرنا ، ظاہر ہے ، کسی عام بندے کے حقوق میں شامل نہیں تھا ۔
(۲۱) بیسویں صدی میں یہودیوں نے بھی فلسطین میں Demographic Balance کو اپنے حق میں کرنے کے لیے دنیا بھر کے یہودیوں کو اس خطے میں آباد کرنا شروع کیا جس سے ان کی عددی اقلیت ، اکثریت میں بدلتی چلی گئی ۔ اس آباد کاری کی کامیابی کے پیچھے ان کے مواخاتی رویے کو بہت عمل دخل حاصل ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہودیوں کے خلاف چیختی چلاتی مسلم دنیا کو اپنے رویے پر نظر ثانی کر کے اس گم گشتہ مواخات کو تلاش کرنا چاہیے جو اسلامی معاشرے اور ریاست کی اساس ہے۔ اسلامی نظامِ اقدارصرف ’’ مسلمین ‘‘ کے لیے نہیں ہے۔ اسلام کا خدا رب العالمین ہے ، اسلام کا نبی رحمت للعالمین ﷺ ہے اور اسلام کی اساسی کتاب ، قرآن بھی عالمین کے لیے ہے : إِنْ ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعَالَمِیْن ( ص ۳۸/ ۸۷) ’’ نہیں ہے یہ قرآن مگر ایک یاد دہانی تمام جہان والوں کے لیے ‘‘ ۔
تصحیح
الشریعہ کے اپریل ۲۰۰۶ء کے شمارے میں میاں انعام الرحمن صاحب کے مقالہ ’’سیرت نبوی اور ہجرت: ایک معنویاتی مطالعہ‘‘ میں ’’اے اللہ! شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ، اور امیہ بن خلف کو اپنی رحمتوں سے دور کر دے‘‘ کے الفاظ میں ایک دعا غلطی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو گئی ہے۔ (ص ۳۴ ، سطر ۴) یہ الفاظ حقیقت میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں۔ ادارہ اس فروگزاشت پر معذرت خواہ ہے۔ (مدیر)
قرآنی علمیات، یہودیوں کا کتمانِ حق اور مسئلہ ذبیح
اسلم میر
جناب پروفیسر میاں انعام الرحمن میرے چند پسندیدہ لکھنے والوں میں سے ہیں۔ میں ان کی فکر انگیز تحریروں کا بے تابی سے انتظار کرتاہوں، اگر چہ بعض اوقات ان کی تحریر کی تیزی وتندی کھلتی ہے۔ ان کے بعض استدلالات سے اختلاف کے باوجود میں ان کامداح ہوں۔ ایسی ہی ایک فکر انگیز تحریر ’’قرآنی علمیات اور معاصر مسلم رویہ‘‘ کے زیر عنوان الشریعہ کے جنوری ۲۰۰۶ء کے شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ اس کے بعض مندرجات سے اتفاق نہ ہونے کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ انعام الرحمن صاحب نے اس میں بعض بہت ہی لطیف نکات اور سوالات اٹھائے ہیں ۔
میں یہاں اس تحریر کے پہلے حصے سے جو ’’قرآنی علمیات ‘‘سے متعلق ہے، تعرض نہیں کروں گا ۔اس حصے میں انعام صاحب نے سورۃ بقرۃ کے بعض اجزا کی جو تشریح کی ہے، وہ میرے خیال میں سورۃ بقرۃ کے مجموعی نظم اور سیاق وسباق سے لگاّنہیں کھاتی، تاہم اس کو چھیڑنے سے بحث اپنے موضوع سے ہٹ جائے گی۔ ان سطور میں، میں انعام صاحب کے مضمون کے صرف دوسرے حصے یعنی ’ذبیح کون ہے؟‘ کو موضوع بحث بنا ؤں گا ۔
(۱) انعام صاحب یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’ذبیح کون ہے؟‘ کی بحث کابنیادی محرک کیاہے؟کیا اس سے قرآن کے کسی حکم کافہم مطلوب ہے؟کیایہ بحث کیے بغیر قر آنی منشا مستور رہتی ہے؟
میرے خیال میں ذبیح اور اسی ضمن میں مروہ اور موریا ،بیت اللہ اور بیت ایل کی بحث قرآن کی بعض آیات اور خاص طور پر سورہ بقرۃ کو اس کے صحیح تناظر میں سمجھنے کے لیے نہ صرف مفید بلکہ ناگزیر ہے اور اس سلسلے میں امام فراہی ؒ کی تحقیق ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔سورۃ بقرۃ اور قرآن کی بعض دیگر آیات کی تفہیم کے لیے یہود کی تحریفات اور کتمان حق کاپردہ چاک کرنا ضروری ہے ۔اگر ان تحریفات اور کتمان حق کاپس منظر قرآن کے قاری کے ذہن میں نہ ہو تو وہ نہیں سمجھ سکتا کہ اللہ جل شانہ یہود پر حق کو مسخ کرنے اور چھپانے کا الزام بار بار کیوں عائد کرتے ہیں اور حضرت محمد ﷺ اور قرآن کے بارے میں ان کے حاسدانہ رویے پر ان کواتنی سختی سے کیوں مخاطب کرتے ہیں۔ کم از کم میرا ذا تی تجربہ تو یہی رہاہے ۔ میں تقریباً گزشتہ ڈھائی سال سے سورۃ بقرۃ کا انتہائی غور سے مطالعہ کررہاہوں ۔جب تک میں نے یہود کی تحریفات اور کتمانِ حق کی اصل حقیقت اور پس منظر کو نہیں سمجھ لیاتھا، مجھے سورۃ بقرۃ کی بہت سی آیات کو سمجھنے میں سخت مشکل پیش آرہی تھی۔
قرآن مجید یہود کے کتمانِ حق اور کتمانِ شہادت کاذکر بار بار کرتاہے (سورۃ بقرۃ ۴۲، ۷۵، ۱۴۰، ۱۴۶، ۱۷۶، ۱۵۹۔ المائدہ۱۳۰، ۱۵) اور انھیں ’البینات والھدیٰ‘ (البقرۃ ۱۵۹) کو چھپانے کامجرم ٹھہراتاہے۔ قرآن مجید اس کتمان کی تفصیل بیان نہیں کرتا، لیکن یہ ضرور بتاتا ہے کہ ان کے اس کتمان کاتعلق ان کی کتابوں میں موجود واضح حقائق ہی سے ہے۔(البقرۃ ۱۴۰، ۱۵۹)
ذیل میں، میں سورۃ بقرۃ میںیہود کے کتمانِ حق کے حوالے سے موجود اشارات کا تجزیہ کروں گا۔
البقرۃ آیت ۱۲۴ میں حضرت ابراہیم ؑ کی ابتلاؤں او رآزمائشوں کاذکر ہے۔ ان آزمائشوں میں سے کھلی اور واضح آزمائش (البلاء المبین) بیٹے کی قربانی تھی۔ (الصافات،۱۰۶) اللہ تعالیٰ نے ان آزمائشوں کے اختتام پر حضرت ابراہیمؑ کو ’اماما للناس‘ بنا نے کی خوشخبری دی۔ (البقرۃ، ۱۲۴) حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی اولاد میں بھی یہ امامت جاری رکھنے کی درخواست کی۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ میرے اس عہد میں ظالمین شامل نہیں ہو سکتے۔ (البقرۃ ۱۲۴) یعنی آپ کی اولاد میں سے ظالم لوگ امام نہیں بن سکتے۔ البقرۃ آیت۱۴۵ میں کتمان شہادت کرنے والوں کو سب سے بڑا ظالم کہاگیاہے۔ اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ کتمان شہادت کے مجرم یہود اور نصاریٰ، دونوں ہیں۔ مزید برآں ’شہادۃ عندہ من اللہ‘ کے الفاظ سے واضح ہوتاہے کہ یہ شہادت اور حق ان کی کتابوں میں موجود ہے۔
البقرۃ کی آیات ۱۲۴ اور ۱۴۰ کو ملانے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے کتمان شہادت کرنے والے ظالم ہیں اور امامت ناس کے اہل نہیں۔ اسی مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وہ تحویل قبلہ کی صورت میں (آیت ۱۴۲ ) اس ظالم اولاد (یہود ونصاریٰ) سے امامت کا منصب واپس لے کر امت وسط یعنی حضور ﷺ کے پیروکاروں (آیت ۱۴۳) کوسونپ رہا ہے۔
آیت ۱۲۴ میں ابراہیم ؑ کی قربانی اورآزمائشوں کے ذکر کے بعد آیت ۱۲۵ اوربعد میں آنے والی آیت میں بیت اللہ کے ذکر سے میرے خیال میں یہ بتانا مقصود ہے کہ ابراہیم ؑ کی قربانیوں اور آزمائشوں کا زیادہ تر تعلق اسی بیت اللہ سے ہے۔ آیت ۱۲۵ میں ابرہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کابیت اللہ کی تطہیر سے تعلق واضح کیا گیاہے، جبکہ آیت ۱۲۷ میں بیت اللہ کی تعمیر سے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ ساتھ حضرت اسماعیل علیہما السلام کا ذکر کرنے سے اللہ تعالیٰ خانہ کعبہ کی تعمیر وتطہیر میں حضرت اسماعیل ؑ کے کردار کو واضح کرنا چاہتے ہیں ۔اس سلسلے میں البقرۃ ۱۲۸ اورالصافات ۱۰۳ میں واحد یا جمع کے بجائے تثنیہ کے صیغے ’مسلمین ‘اور ’اسلما‘ بھی قابل غور ہیں۔
آیت ۱۲۹ میں رسول اللہ ﷺ کاحضرت ابراہیم ؑ اور اسماعیل علیہما السلام سے تعلق ظاہر کیا گیا ہے۔ آیت ۱۳۰ میں اس طرف اشارہ کیا گیاہے کہ حضور ﷺ ملت ابراہیم ؑ کے اصلی وارث ہیں اور اس ملتِ ابراہیم ؑ (یعنی رسالتِ محمدی ؑ ) سے اعراض کرنے والے بے وقوف ہی ہو سکتے ہیں۔ (ومن یرغب عن ملۃ ابراہیم الا من سفہ نفسہ ) آگے آیت ۱۴۲ میں ملتِ ابراہیم ؑ کا مرکز خانہ کعبہ کو قرار دیے جانے اور اس بیت اللہ کے قبلہ مقرر کیے جانے پر اعتراض کرنے والوں کو کھلم کھلا ’السفھاء‘ (بے وقوف ) کہا گیاہے۔ اب اگرآیت۱۴۲ میں ’السفھاء‘ کے لفظ کو آیت ۱۳۰ کے الفاظ ’الا من سفہ نفسہ‘سے ملایا جائے تو یہ حقیقت سا منے آتی ہے کہ بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف قبلہ کی تبدیلی پر احتجاج کرنے والے ملتِ ابراہیم ؑ سے منہ موڑ رہے ہیں۔
آیت ۱۲۸ سے لے کر ۱۳۶ تک سارے تعصبات اور نسل پرستی کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے (اسلام ) پر زور دیاگیاہے اوریہ واضح کیاگیاہے کہ یہی اسلام ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد اسماعیل ؑ واسحاق اور یعقوب علیہم السلام کا دین تھا اور اسی کی وصیت انہوں نے اپنے اولاد کو کی تھی ۔یہ حضرات کبھی نسل پرستی اور تعصب کاشکار نہیں ہوئے۔ آیت ۱۳۶ میں مسلمانوں کواس تعصب اور نسل پرستی سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ’لانفرق بین احدِِ من منہم‘ (البقرۃ ۱۳۶) میں یہودیوں اور عیسائیوں پر بھی لطیف تعریض ہے کہ وہ تفریق بین الرسل میں مبتلا ہیں۔ آیت ۱۳۷ میں بتایاگیاہے کہ اہل کتاب کے حق سے اعراض کی وجہ بے جا ضد ومخالفت (شقاق) ہے۔ ظاہر ہے کہ اس شقاق کی بنیاد نسل پرستی اور گروہی تعصب پر تھی۔
آیت ۱۴۰ میں اہل کتاب کو اس بات پر سر زنش کی گئی ہے کہ وہ ابراہیم ؑ اور ان کی ذریت کو یہود ونصاریٰ ثابت کرنے پر اصرار نہ کریں اور ان کی کتابوں میں (عندہ من اللہ) جو شہادت ہے، اس کو نہ چھپائیں۔ اگر آیت ۱۳۷ اور ۱۴۰ کو ماسبق سے جوڑا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس شقاق اورکتمان کاتعلق بیت اللہ اور حضرت محمدﷺ کے ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام کے ساتھ نسبت سے ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کتمان اور شقاق کی اصل نوعیت قرآن پاک سے نہیں، بلکہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے پاس جو کتاب الٰہی موجود ہے، اسی سے معلوم ہوگی۔
البقرۃ آیت ۱۴۲ سے آیت ۱۵۰ تک قبلہ کی تبدیلی اور اس پر یہود کارد عمل زیر بحث ہے ۔واضح رہے کہ قبلہ کی تبدیلی اس بات کاعلامتی اظہار تھا کہ اب امامت ناس، کتمان حق کے مرتکب یہود سے لے کر حضرت ابراہیم ؑ کے اصل وارث حضرت محمدﷺ کے پیروکاروں کو سونپی جانے والی ہے ۔اس لیے آیت ۱۴۲ کے فوراً بعد ’وکذلک جعلناکم امۃ وسطاً‘ کے الفاظ سے مسلمانوں کو مخاطب کیاجارہا ہے اور ان کو بتایا جارہاہے کہ اب شہادت علی الناس کی ذمہ داری تمھارے کندھوں پر ڈالی جاتی ہے۔ آیت ۱۴۲ سے ۱۵۰ تک خانہ کعبہ کاہی اصلی بیت اللہ ہونا مختلف پیرایوں میں جتایا گیاہے۔آیت ۱۴۴ میں بتایاگیاہے کہ مسجد حرام کابیت اللہ ہونا اہل کتاب کو اچھی طرح معلوم ہے، کیونکہ یہی حق ہے لیکن یہ اس حق کو چھپاتے ہیں۔ آیت ۱۴۵ میں رسول اللہ کو بتایا گیا ہے کہ خواہ آپ کوئی بھی نشانی ،ثبوت یاحجت پیش کر دیں ،اہل کتاب آپ کے قبلے کو حسد اور ضد کی وجہ سے قبول کرنے والے نہیں، حالانکہ خانہ کعبہ کااصلی قبلہ اور بیت اللہ ہونا ان پر اس طرح واضح ہے جس طرح اپنے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ (یعرفونہ کمایعرفون ابنآء ھم) آیت ۱۴۶ کے آخر میں بتایا گیاہے کہ ان میں سے ایک گروہ اس حق (خانہ کعبہ کابیت اللہ ہونا ) کے بارے میں کتمان حق کاجاننے بوجھتے مرتکب ہو رہاہے (وان فریقا منھم لیکتمون الحق وھم یعلمون) اس کے بعد اگلی آیت ۱۴۷ اور۱۴۹ میں اس حکم کے خدا کی طرف سے حق ہونے کو تاکیداً دوبارہ جتایا گیاہے۔
آیت ۱۵۵ میں مسلمانوں کو ہر قسم کی قربانیوں کے لیے تیار رہنے کااشارہ دیاگیاہے۔ آیت ۱۵۵ کے الفاظ ’لنبلونکم‘ (ہم تمھیں ضرور آزمائیں گے) کو آیت ۱۲۴ کے الفاظ ’واذ ابتلیٰ ابراہیم ربہ‘ (اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے آزمایا) سے ملایئے۔ وہاں ابراہیم ؑ کو ان کی قربانیوں کے نتیجے کے طور پر امام الناس اور خانہ کعبہ کے لوگوں کے لیے مرجع ومرکز (مثابۃ للناس) بنائے جانے کی نوید سنائی گئی تھی، جبکہ یہاں قبلہ کی بازیابی کے لیے متوقع قربانیوں اور قتال کی طرف اشارہ ہے (آیت ۱۵۴ اور۱۵۵) اور پھراسی سلسلے میں صفا ومروہ (آیت ۱۵۸) کاذکر کیا گیاہے ۔
اللہ جل شانہ نے سب سے شدیدتہدید صفا ومروہ کے بارے میں کتمان حق پر کی ہے اور ایسا کرنے والوں کو اللہ، فرشتوں اور سارے انسانوں کی لعنت کا مستحق قرار دیا ہے۔ (البقرۃ ۱۵۹ تا ۱۶۲) صفا ومروہ کاشعائر اللہ میں سے ہونے کو جتانا( آیت ۱۵۸) اور اس با ت کی تردید کہ ان کا طواف کرنا گناہ ہے، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ صفا ومروہ کے بارے میں بہت ہی گھناؤنا کتمان حق ہوا ہے اور یہ کوشش کی گئی ہے کہ ان کاتعلق شعائر اللہ اور ابراہیم ؑ سے کاٹ دیاجائے ۔ آیت ۱۵۹ میں بتایا گیاہے کہ اس سلسلے میں واضح نشانیاں (البینت و الھدیٰ) الکتاب یعنی توراۃ میں موجود ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کھول کھول کربیان کیاہے (بینہ للناس فی الکتب)۔
انعام صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ یہودی نسل پرست ہیں ۔ان کی نسل پرستی کی بنیاد کیاہے؟ دوسرے الفاظ میں ان کی نسل پرستی کا ظہور کس انداز میں ہوا ہے؟ وہ خود کوبنی ابراہیم کہلانا پسند کرتے ہیں یا بنی اسرائیل؟انہوں نے ابراہیم سے ناتا توڑ کر اسحاق سے ناطہ جوڑ لیا اور یہی ’’بنی اسحاق‘‘ ان کے لیے قبول حق میں رکاوٹ بنا۔ان کا یہی پندار ان کے ’’بنی اسماعیل ‘‘کے ساتھ بغض وحسد کا سبب بنا جس کے حوالے قر آن نے بار بار دیے ہیں۔ اسی پندار، غروراور’’بنی سماعیل‘‘کے خلاف حسد نے ان کوان تحریفات اور التباسات پر اکسایا جن کی قرآن نے مذمت کی ہے اور جن کو فراہی ؒ نے تحقیق کرکے اور ان پر پڑی ہوئی دبیز تہوں کو جھاڑ کردنیا کے سامنے آشکارا کر دیا ہے۔ (مولانا فراہی رحمہ اللہ کی اس کتاب کا انگریزی ترجمہ نادر عقیل انصاری صاحب نے کیاہے جوابھی تک شائع نہیں ہو سکا۔ اس موضوع پر سلسلہ تحقیق کو ’المورد‘ کے فیلو جناب عبد الستار غوری نے آگے بڑھایا ہے اور اپنی کتاب ’’The Only Son Sacrificed‘‘ میں یہود کے کتمانِ حق کو مزید مبرہن کردیاہے۔) ان تحریفات والتباسات کاعلم ہونے کے بعد قرآن کامطالعہ کرنے والے پر قرآن کایہ دعویٰ روز روشن کی طرح واضح ہوجاتاہے کہ یہود حق کو حسد اور ضد کی وجہ سے قبول نہیں کررہے تھے ۔ان حقائق کے بعد کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتاہے کہ ذبیح کی بحث کاقرآنی آیات یا منشا کی تفہیم سے کوئی تعلق نہیں؟
(۲) انعام الرحمن صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں بہتر سمجھا، وہاں اسماعیل ؑ کاذکر باقاعدہ نام لے کر کیا۔ مثلاً بیت اللہ کی تعمیر کے ذکر میں ان کانام موجود ہے۔ذرا غور کیجئے کہ اگر قربانی کے واقعہ میں بھی ان کا نام شامل ہوتا تو معترضین کوپھبتی کسنے کاموقع ملتا کہ اسلام دعویٰ تو عالمگیریت کاکرتاہے لیکن اصلاً اسماعیلی ہے۔ اس طرح اسحاق کانام شامل ہوتا تو یہودیوں کانسل پرستی کو مزید شہ ملتی۔‘‘
انعام الرحمن صاحب کے اس تبصرے پر درج ذیل سوال پیدا ہوتے ہیں:
۱۔بیت اللہ کی تعمیر وتطہیر کے سلسلے میں (البقرۃ آیات ۱۲۵۔۱۲۷ ) میں اسماعیل ؑ کے ذکر میں کیا حکمت ہے؟ کیا وہاں صرف ابراہیم ؑ کاذکر کافی نہیں تھا؟اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ بیت اللہ کی تعمیر کے سلسلے میں اسماعیل ؑ کے ذکر پر تو یہود کو پھبتی کسنے سے کوئی چیز مانع تھی لیکن اگر اللہ تعالیٰ قربانی کے واقعے میں اسماعیل ؑ کاذکر کردیتے تو وہ فورا پھبتیاں کسنے لگتے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کعبے کے سلسلے میں اسماعیل ؑ کانام ذکر کرنے پر تووہ اللہ تعالیٰ کو معاف کر دیتے لیکن قربانی کے معاملے میں معاف نہ کرتے؟
۲۔کیا یہود کے قبلے کو چھوڑ کر خانہ کعبہ کوقبلہ بنانے سے یہود کو پھبتی کسنے کاموقع نہ ملتا؟ اور اگر قرآن نے بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ کے مرکز ابراہیمی ہونے کے مسئلے کو پورے زور اور اصرار کے ساتھ چھیڑا ہے تو کیا اس سے اسلام کی عالمگیریت پر حرف نہیں آتا؟ اور جب اس پست ذہنیت کے ساتھ کیے جانے والے کتمان حق پر یہود کوڈانٹ پلائی گئی تو کیا یہ داعی کے منصب جلیل سے اتر کر مدعی کی سطح پر اترنے کے مترادف تھا؟ اگر نہیں تو ایک مرد خدا نے اگر ہمت کرکے ذبیح کے حوالے سے یہود کے کتما ن کے پردوں کو چاک اور ان کی تحریفات والتباسات کو بے نقاب کر دیاہے تو اس پر یہ الزام کیوں دھرا جاتاہے کہ وہ نسلی اور نفسیاتی عوارض کاشکار ہے، اس کی یہ تحقیق قرآنی منشا سے متصادم ہے اور اس سے اسلام کی عالمگیریت پر حرف آتا ہے؟
(۳) میاں صاحب لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید اپنے آپ کو تبیاناً لکل شئی اور تفصیلاً لکل شئ قر ار دیتاہے جس میں ہر ضروری پہلو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔‘‘
ہمارا سوال یہ ہے کہ قرآن نے اہل کتاب کے کتمان حق کی طرف صر ف لطیف اشارات کر کے ان کی مکمل نوعیت کیوں بیان نہیں کی؟ کیا یہ قرآن کے تبیانا لکل شئی ہونے کے خلاف نہیں؟انعام صاحب کی بات کواگرہم تھوڑا سا آگے بڑھائیں تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قر آن نے آدم کو سکھائے گئے ناموں کی وضاحت کیوں نہیں کی؟ اللہ تعالیٰ نے تو ’الاسماء کلھا‘ کی نوعیت نہیں بتائی، لیکن انعام صاحب نے ان کی تشریح قرائن اور سیاق وسباق کی روشنی میں کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر اللہ نے ان ’’الاسماء ‘‘ کومشخص نہیں کیا تو پھر انعام صاحب کیوں ’’الاسماء‘‘ کو معلوم کرنے کی’’لایعنی بحث ‘‘ میں پڑے اور اس طرح قر آنی علمیات سے روگردانی کے مرتکب ہوئے؟ اصل بات یہ ہے کہ قرآن انتہائی بلیغ کتاب ہے اور وہ ہر چیز کو لازماً الفاظ کا جامہ نہیں پہناتی۔ اس میں بہت سی چیزوں کو قرائن، سیاق وسباق او ر قرآن پر ایک مجموعی نظر ڈال کر کھولنا پڑتا ہے۔
(۴) اب ہم سورۃ الصٰفٰت کی متعلقہ آیات کے حوالے سے چند گزارشات پیش کریں گے۔
انعام صاحب لکھتے ہیں :
’’قر ائن یہی بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بیٹے کے بجائے باپ کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
یہ بات ایک حد تک درست ہے، لیکن اس سلسلے میں آیت ۱۰۳ میں واحد کے بجائے تثنیہ کا صیغہ ’ اسلما‘ بھی قابل غور ہے ۔’’ یہ کالفظ یہ بتارہاہے کہ قربانی باپ اور بیٹے، دونوں سے مطلوب تھی اور اسی تقاضے کے جواب میں ان دونوں نے سرِتسلیم خم کیا۔ جہاں تک خواب کاتعلق ہے تو وہ چونکہ ابراہیم ؑ ہی نے دیکھا تھا، اس لیے خواب کے سچا کر دکھانے کاتعلق بھی انھی سے ہوسکتا تھا۔
انعام صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’کتنی عجیب بات ہے کہ ایسے ’’مدبرین‘‘ محض ’’ اسرائیلیات ‘‘ کے بل بوتے پر (تاریخ ومعاشرت وکلچر کے بے جااثبات کاشکارہوکر )ایسا عملی وفکری رویہ پروان چڑھا رہے ہیں جس سے قرآنی علمیاتی منہاج اور قرآنی منشا پسِ پشت چلے گئے ہیں۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ امام فراہی نے تحقیق کے یہ سارے پاپڑ قرآنی منشا ہی کواجاگر کرنے کے لیے بیلے ہیں اور انھوں نے اس تحقیق کی بنیاد ہرگز ’’اسرائیلیات‘‘ کی بنیاد پر نہیں رکھی۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
’’ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اگرقرآن مجید میں ایسے روشن دلائل نہ ہوتے جو پوری تصریح کے ساتھ ذبیح کی شخصیت کومتعین کر رہے ہوتے تو یقیناًہم اس باب میں سکوت کامسلک اختیار کرتے اور ایک ایسی بات کو کریدنا پسند نہ کرتے جس کی تصریح سے قرآن نے سکوت اختیار کیا ہے۔‘‘ (ذبیح کون ہے؟شائع کردہ انجمن خدام القرآن۔لاہور ۱۹۷۵ء، صفحہ ۴۰)
’ذبیح کون ہے‘ کی بحث میں مولانا فراہی ؒ نے قر آن مجید سے استدلال کے لیے ایک پورا باب وقف کیاہے ۔اس سلسلے میں انہوں نے قرآن مجید سے تیرہ دلائل پیش کیے ہیں۔ ان میں سے ایک دلیل حسب ذیل ہے:
سورۃ الصافات کے الفاظ ’فلما بلغ معہ السعی‘ اور ’یبنی‘ کے الفاظ ظاہر کررہے ہیں کہ جو بیٹا قر بان ہوا، وہ قربانی کے وقت کم سن تھا۔ سورۃ ہود کی آیت ۷۱ ’فبشرنھاباسحاق ومن ورآء اسحاق یعقوب‘ سے واضح ہوتاہے کہ ابراہیم کوبیٹے (اسحاق) کی خوشخبری کے ساتھ ساتھ پوتے (یعقوب )ؑ کی خوشخبری بھی دے دی گئی تھی۔ ظاہر بات ہے کہ ابوّت fatherhood)) کی صفت اسحاق کے ذبیح ہونے میں مانع ہے،کیونکہ ایک طرف اسحاق کی بشارت کے ساتھ ہی ان کے باپ بننے کی بشارت (پوتے کی بشارت) دے دینا اور دوسری طرف ابراہیم سے یہ کہنا کہ وہ انھیں قربانی کے لیے پیش کریں، ناقابل فہم بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک ایسے بیٹے کو ذبح کرنے کاحکم یا اشارہ کیسے فرما سکتے تھے جس کی نسل سے وہ ابراہیمؑ کو پوتا (یعقوب) عطا کرنے کا وعدہ فرما چکے تھے؟ علاوہ ازیں قربانی کا واقعہ ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق کی بشارت کا الگ سے ذکر کیا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ ’’ غلام حلیم‘‘ سے مراد حضرت اسماعیل ؑ ہیں، ورنہ آخر میں حضرت اسحاق ؑ کاالگ سے ذکر کرنا بلاوجہ قرار پائے گا۔
مولانا فراہی نے اس بات پر بھی مفصل بحث کی ہے کہ قرآن نے ذبیح کومشخص کیوں نہیں کیا۔ اس سلسلے میں ایک اقتباس پیش خدمت ہے :
’’ تورات میں بکثرت دلائل اس بات کے موجود تھے کہ ذبیح اسماعیلؑ ہی ہوسکتے ہیں۔ وہی اکلوتے بیٹے ہیں۔وہی اس دائمی برکت سے نوازے گئے جس میں سے تمام قومیں حصہ پانے والی تھیں۔ علاوہ ازیں دوسر ے فضائل بھی ان کے بیان ہوئے تھے۔ نیز یہ امر بھی مخفی نہ تھا کہ یہود حضرت اسماعیل اور ان کی اولاد کے دشمن ہیں۔ ان حالات کی موجود گی میں بہتر یہی تھا کہ قرآن صرف انہی دلائل کے بیان پر اکتفا کرے جوان کے دشمنوں کے پاس موجود ہیں اور خود اپنی طرف سے تصریح اس بارے میں نہ کرے۔
الفضل ماشہدت بہ الاعداء (اصلی شرف وہی ہے جس کی مخالف گواہی دے )
بالخصوص اس وقت تواس شہادت کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ دلائل یہود کی خواہش کے بالکل خلاف اور ان کی تحریف اور کتمانِ حق کی عام کوششوں کے علی الرغم بچ رہے۔‘‘ (ذبیح کون ہے؟ ،صفحہ ۵۶)
ان اقتباسات کی موجودگی میں مولانا فراہی پر ’’اسرائیلیات‘‘ سے خوشہ چینی کا الزام لگانا، ان کے’’مدبر قرآن‘‘ ہونے پر پھبتیاں کسنا یا یہ کہنا کہ’’ محض اسرائیلیات کے بل بوتے پر ‘‘ اسماعیل ؑ کوذبیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، صریح ناانصافی ہے۔
اس بحث سے اس سوال کاجواب بھی مل جاتا ہے کہ کہ آیا ہم مسلمانوں کو ’ذبیح کو ن ہے؟‘ کی بحث میں پڑنا چاہیے یا نہیں۔ اگر ہم اس بحث کو اس زاویے سے چھیڑیں کہ اسحاق ؑ یا اسماعیل میں سے کسی ایک کی برتری دوسرے پر ثابت کی جائے تویہ ہر گزمستحسن نہیں ،لیکن اگر بحث اس زاویے سے ہو کہ یہودیوں کے کتمانِ حق کاپردہ چاک کیاجائے یا اس کتمانِ حق کوصحیح طور پر سمجھا جائے تو پھر یہ بحث بہت اہم ہے۔ اس کے بغیر، جیسا کہ ہم نے واضح کیا، قرآن کی بہت سی آیات کی تفہیم بہت مشکل ہے۔
قورح، قارون اور کتاب زبور
محمد یاسین عابد
ماہنامہ الشریعہ کے دسمبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی صاحب نے دعویٰ کیا تھا کہ :
’’توراۃ میں بھی قارون کا ذکر ہے لیکن اس میں اس کا ذکر بالکل مختلف انداز سے ہے۔ اس میں اس کی فراوانی دولت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو متنبہ (Challenge) کیا تھا اور کہا تھا کہ تم اپنے آپ کو اللہ کا برگزیدہ بندہ کہتے ہو اور میں بھی برگزیدہ ہوں کیونکہ مال ودولت میں تم سے زیادہ ہوں۔ (توراۃ، کتاب گنتی، اصحاح ۱۶) .......’’توراۃ کی مذکورہ کتاب اور اسی فصل میں قارون کے خزانے کی تفصیل میں ہے کہ ’’اس کے خزانے کی کنجیاں چمڑے کی تھیں اور تین سو اونٹوں پر لادی جاتی تھیں۔‘‘
چونکہ مذکورہ بالا عبارات پوری بائبل میں کہیں بھی درج نہیں، ا س لیے راقم نے فروری ۲۰۰۶ کے شمارے میں قارئین کو اس غلطی پر مطلع کرنے کے ساتھ ساتھ شک ظاہر کیا کہ ’’غالباً ڈاکٹر صاحب نے کبھی بائبل کھول کر نہیں دیکھی اور سنی سنائی اور غیرمستند معلومات کی بنیاد پر مذکورہ عبارت تورات کی طر ف منسوب کر دی ہے۔‘‘
اگر میری تنقید غلط تھی تو ڈاکٹر صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ بائبل میں مذکورہ عبارات کی نشان دہی کر کے میری اور قارئین کی معلومات میں اضافہ کرتے۔ اور اگر تنقید درست تھی تو ڈاکٹر صاحب کو غلطی کا اعتراف کر کے اپنے بڑے پن کا ثبوت دینا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس کہ میرے اس جملے سے ڈاکٹر صاحب کے پندار کو سخت چوٹ لگی اور انھوں نے مارچ ۲۰۰۶ کے شمارے میں اس غلطی کی نشان دہی پر میرے انداز کو جارحانہ اور علمی حیثیت سے گرا ہوا قرار دیتے ہوئے نہ صرف مجھے بائبل پر قرآن سے زیادہ اعتماد کرنے کا طعنہ دیا ہے بلکہ لمبی زبان والا، یہودی، جاہل، غافل اور دھوکے باز جیسی گالیوں سے بھی نوازا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں غلط حوالے درج کیے جانے کی جو توجیہ کی ہے، وہ دلچسپ ہے ۔ فرماتے ہیں:
’’میرا زیر بحث مضمون دروس قرآن کے ضمن میں ایک دعوتی واصلاحی نوعیت کی کاوش ہے۔ یہ قارون (قورح) سے متعلق کوئی تحقیقی مقالہ نہیں اور اہل علم میں قارون کے متعلق جو باتیں معروف ہیں (ان میں یہ بھی ہے کہ وہی بائبل کا قورح ہے) میں نے بغیر حوالے کے لکھ دی تھیں، کیونکہ بنیادی طورپر اس لیکچر (درس قرآن) میں آنے والے عام تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ ‘‘
’’ میرا جومضمون قارون سے متعلق ’’الشریعہ ‘‘میں شائع ہوا تھا، وہ دروس قرآن کے ضمن میں ٹیپ سے نقل کردہ Transcribed)) ایک لیکچر تھا جو ہمارے دفتر کے ایک سیکرٹری نے ٹیپ سے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا تھا۔ ان کے سہو قلم سے تین سو خچروں کے بجائے تین سو اونٹ کتابت ہوگیااور چونکہ توراۃ کا ذکر اوپر چل رہاتھا، اس وجہ سے اسی کانام بجائے جیوش انسائیکلوپیڈیا کے انہوں نے لکھ دیا۔‘‘
واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے مضمون میں مذکورہ دونوں اقتباس کسی حوالے کے بغیر نہیں، بلکہ باقاعدہ کتاب گنتی کے باب ۱۶ کے حوالے سے درج کیے گئے ہیں۔ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے تو اپنے درس میں کوئی بات کسی حوالے کے بغیر بیان کی ہو اور ان کا سیکرٹری درس کو مرتب کرتے وقت ازخود ایک اقتباس کے ساتھ کتاب گنتی کے ایک باب کا حوالہ دے دے جہاں اس بات کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہ ہو اور دوسرے اقتباس کے ساتھ ’’توراۃ کی مذکورہ کتاب اور اسی فصل‘‘ کے الفاظ کا اضافہ کر دے، حالانکہ وہ بات بائبل کے بجائے ’’جیوش انسائیکلو پیڈیا‘‘ میں لکھی ہو؟ ڈاکٹر صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ اس غلطی کو غریب سیکرٹری کے سر تھوپنے کے بجائے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود اس کی ذمہ داری قبول کرتے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے کسی تحریر کو سمجھے بغیر اس پر تنقید کرنے اور کتابوں کو پڑھے بغیر ان کا حوالہ دینے کے متعدد نمونے اپنی موجودہ تحریر میں بھی پیش کیے ہیں۔ چنانچہ دیکھیے:
۱۔ میں نے قورح ، داتن، ابیرام اور ان کے ۲۵۰ ساتھیوں کے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے، ہجرت کرنے اور حکم الٰہی کے تحت جہاد اور نشست وبرخاست کا ذکر کیا تھا اور یہ بتایا تھا کہ یہ سارا معاملہ ان کے بغاوت (گنتی ب ۱۶) کرنے سے قبل ہوا، لیکن بعد میں مذکورہ اشخاص باغی بن کر خدا کے غضب کے مستحق ٹھہرے۔ اس سے واضح ہے کہ بغاوت سے قبل قورح کے ایمانی کارناموں کے ذکر کا مقصد اس کی حمایت یا دفاع نہیں، بلکہ محض بائبل میں بیان ہونے والی متعلقہ تفصیلات کا اجمالی ذکر تھا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں: ’’جناب ناقد نے یہودی قورح کے دفاع میں جو کچھ لکھا ہے اور جس طرح بائبل کے بیانات سے تجاہل برتا ہے، اس کی امید کسی یہودی سے ہی کی جاسکتی تھی۔‘‘
۲۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: ’’موصوف نے قورح کے شجرہ نسب کے لیے کتاب خروج کے علاوہ ۱۔ تواریخ ۲:۱ کا حوالہ بھی دیا ہے۔ اس مقام پر اضہار اور قہات بن لاوی یعنی قورح کے باپ کا بالکل ذکر نہیں۔‘‘
میں نے لکھا تھا: ’’اضہار، عمرام کا چھوٹا بھائی تھا اور دونوں قہات بن لاوی بن یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ (خروج ۶: ۱۶۔۱۸ و ۱۔ تواریخ ۲:۱)‘‘ چونکہ قورح کا شجرہ نسب حضرت یعقوب تک لکھنا مقصود تھا، اس لیے مذکورہ دونوں حوالے لکھے گئے۔ کیونکہ خروج ۶:۱۶ تا ۱۸ تک قورح سے لاوی تک اور ۱۔ تواریخ ۲:۱ میں لاوی سے حضرت یعقوب علیہ السلام تک شجرے کا ذکر ہے۔ دونوں حوالے درج کرنے ہمارا مقصد یہی تھا جسے غصے کے غلبے کے باعث محترم ڈاکٹر صاحب سمجھ نہ پائے۔
۳۔ ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’اس مقام (گنتی ۹:۲۳) پر تو صرف یہ درج ہے کہ ’’وہ (بنی اسرائیل) خداوند کے حکم سے قیام کرتے اور خداوند ہی کے حکم سے کوچ کرتے تھے۔‘‘ بلکہ اس پورے اصحاح یا باب میں مصر سے براہ بحر قلزم ہجرت بنی اسرائیل کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ اب لمبی زبان والے جناب ناقد صاحب یہ بتائیں کہ سنی سنائی باتیں کون کر رہاہے اور کیا اب میرا یہ کہنا درست ہوگا کہ موصوف نے کبھی بائبل کھول کر دیکھی ہی نہیںیا دیکھی ہے تو وہ جان بوجھ کرغلط بیانی کررہے ہیں اور قارئین کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ ‘‘
میں نے گنتی ۹:۲۳ کا حوالہ اس ضمن میں دیا تھاکہ ’’تمام بنی اسرائیل کی نشست وبرخاست خدا اور اس کے نبی حضرت موسیٰ کے زیر فرمان ہی ہوتی تھی۔‘‘ اس عبارت کے فوراً بعد مذکورہ حوالہ لکھا گیا، لیکن ڈاکٹر صاحب کی محققانہ مہارت کو داد دیں کہ انھوں نے حوالے سے متصل پہلے کی عبارت کو پھلانگ کر اس سے پچھلی عبارتوں کو مذکورہ حوالے سے متعلق سمجھ لیا۔
۴۔ ڈاکٹر صاحب نے بائبل کے حوالے سے اپنی زندگی بھر کے مطالعہ کا نچوڑ یوں پیش کیا ہے:
’’زبور ہی بائبل کی وہ کتاب ہے جس میں کوئی تحریف نہیں ہوئی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور بنی اسرائیل کے اظہار بندگی کے ترانے ہیں اور ان کے لیے اپنے گناہوں کا اعتراف بھی ان ترانوں میں ہے جن کو بآسانی حفظ کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ زبور ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام کو عطا کی گئی تھی۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کے اس دعوے کی روشنی میں کہ یہ وہی زبور ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام کو دی گئی، اب ذرا زبور کے درج ذیل اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:
’’کاش کہ اسرائیل کی نجات صیون میں سے ہوتی! جب خداوند اپنے لوگوں کو اسیری سے لوٹا لائے گا تو یعقوب خوش اور اسرائیل شادمان ہوگا۔‘‘ (زبور ۱۴: ۷ و ۵۳: ۶)
’’اے خدا! قومیں تیری میراث میں گھس آئی ہیں۔ انھوں نے تیری مقدس ہیکل کو ناپاک کیا ہے۔ انھوں نے یروشلم کو کھنڈر بنا دیا ہے۔ اے ہمارے نجات دینے والے خدا! اپنے نام کے جلال کی خاطر ہماری مدد کر۔ اپنے نام کی خاطر ہم کو چھڑا اور ہمارے گناہوں کا کفارہ دے۔‘‘ (زبور ۷۹: ۱ )
’’اے خداوند، جنوب کی ندیوں کی طرح ہمارے اسیروں کو واپس لا۔‘‘ (زبور ۱۲۶:۴)
’’ہم بابل کی ندیوں پر بیٹھے اور صیون کو یاد کر کے روئے۔ وہاں بید کے درختوں پر ان کے وسط میں ہم نے اپنی ستاروں کو ٹانگ دیا، کیونکہ وہاں ہم کو اسیر کرنے والوں نے گانے کا حکم دیا، اور تباہ کرنے والوں نے خوشی کرنے کا، او ر کہا صیون کے گیتوں میں سے ہم کو کوئی گیت سناؤ۔ ہم پردیس میں خداوند کا گیت کیسے گائیں؟ اے بابل کی بیٹی جو ہلاک ہونے والی ہے، وہ مبارک ہوگا جو تجھے اس سلوک کا جو تو نے ہم سے کیا، بدلہ دے۔ وہ مبارک ہوگا جو تیرے بچوں کو لے کر چٹان پر پٹک دے۔‘‘ (زبور ۱۳۷: ۱۔۴، ۸ و ۹)
’’اوپر سے ہاتھ بڑھا۔ مجھے رہائی دے اور بڑے سیلاب یعنی پردیسیوں کے ہاتھ سے چھڑا۔‘‘ (زبور ۱۴۴:۷)
زبور کے مذکورہ مقامات اس بات کے ناقابل تردید داخلی شواہد ہیں کہ یہ وہ زبور نہیں جو حضرت داؤد علیہ السلام کو دی گئی، بلکہ اس کا زمانہ تصنیف حضرت داؤد کے چار سو سال بعد بخت نصر کے دور میں بابل کی اسیری کا دور ہے۔ اب کیا کوئی شخص ڈاکٹر صاحب سے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ انھوں نے زبور واقعی کھول کر دیکھی ہے اور زبور کے بارے میں وہ اپنے نتیجہ تحقیق تک اس کے مطالعہ کے بعد ہی پہنچے ہیں؟
۵۔ پڑھے بغیر کتابوں کے حوالے دینے کی ایک اور مثال ملاحظہ کیجیے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک طرف یہ فرمایا ہے کہ زبور ہی وہ واحد کتاب ہے جس میں کوئی تحریف نہیں ہوئی، اور دوسری طرف مجھے مشورہ دیا ہے کہ میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی کتاب ’اظہار الحق‘ کا مطالعہ کروں۔ افسوس کہ اس مشورے پر انھوں نے خود عمل نہیں کیا۔ مولانا کیرانوی نے اپنی اسی کتاب میں زبور کے مختلف مقامات پر تحریف کی مثالیں پیش کی ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’’زبور ۴۰:۶ میں ہے کہ ’’تو نے میرے کان کھول دیے ہیں۔‘‘ پولس نے عبرانیوں ۱۰:۵ میں زبور کا یہ جملہ نقل کیا ہے، مگر اس میں اس کی جگہ یوں ہے کہ ’’بلکہ میرے لیے ایک بدن تیار کیا۔‘‘ اس لیے یقیناًایک عبارت غلط اور محرف ہے۔ مسیحی علما حیران ہیں۔ ہنری واسکاٹ کی تفسیر کے جامعین کہتے ہیں: ’’یہ فرق کاتب کی غلطی سے ہوا اور ایک ہی مطلب صحیح ہے۔‘‘ غرض ان جامعین نے تحریف کا اعتراف کر لیا، لیکن وہ کسی ایک عبارت کی جانب تحریف کی نسبت کرنے میں توقف کرتے ہیں۔ آدم کلارک اپنی تفسیر کی جلد ۳ میں زبور کی عبارت کے ذیل میں کہتا ہے ’’متن عبرانی جو مروج ہے، وہ محرف ہے۔‘‘ غرض تحریف کی نسبت زبور کی عبارت کی جانب کرتا ہے۔‘‘ (بائبل سے قرآن تک، ۲/۲۴)
ایک دوسری مثال ملاحظہ فرمائیے:
’’زبور ۱۴ کی آیت ۳ کے بعد لاطینی ترجمہ میں اور ایتھوبک ترجمہ میں اور عربی ترجمہ میں اور یونانی ترجمہ کے ویٹی کن والے نسخہ میں یہ عبارت موجود ہے کہ ’’ان کا گلا کھلی ہوئی قبر ہے، انھوں نے اپنی زبانوں سے فریب دیا، ان کے ہونٹوں میں سانپوں کا زہر ہے، ان کا منہ لعنت اور کڑواہٹ سے بھرا ہے، ان کے قدم خون بہانے کے لیے تیز رو ہیں، ان کی راہوں میں تباہی اور بد حالی ہے، اور وہ سلامتی کی راہ سے واقف نہ ہوئے۔ ان کی آنکھوں میں خدا کا خوف نہیں۔‘‘ یہ عبارت عبرانی نسخہ میں موجود نہیں، بلکہ پولس کے خط رومیوں ۳:۱۳ تا ۱۸ میں پائی جاتی ہے۔ اب یا تو یہودیوں نے یہ عبارت عبرانی نسخہ سے ساقط کر دی ہے، تب تو یہ تحریف بالنقصان ہے، یا عیسائیوں نے اپنے ترجموں میں اپنے مقدس پولس کے کلام کی تصحیح کے لیے بڑھائی ہے، تب یہ تحریف بالزیادۃ کی صورت ہوگی۔ اس لیے کسی نہ نہ کسی ایک نوع کی تحریف ضرور لازم آئے گی۔‘‘ (بائبل سے قرآن تک، ۲/۸۹، ۹۰)
۶۔ اب اس ضمن کا سب سے دلچسپ نمونہ ملاحظہ فرمائیے۔ اپنے مضمون نما درس (الشریعہ، دسمبر ۲۰۰۵) میں ڈاکٹر صاحب نے قرآن کے قارون کو بائبل کا قورح قرار دیتے ہوئے تورات کی کتاب گنتی، باب ۱۶ کا حوالہ دیا تھا جس میں قورح اور اس کے ساتھیوں داتن اور ابی رام وغیرہ کے زمین میں دھنسائے جانے کا ذکر ہے۔ بائبل کے مذکورہ مقام کی رو سے یہ مصر سے ہجرت کرنے کے بعد بنی اسرائیل کے بیابان میں سرگردانی کے دور کا واقعہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ تسلیم کر لیا کہ قورح ، داتن اور ابی رام وغیرہ اکٹھے زمین میں دھنسائے گئے تھے اور یہ واقعہ مصر میں نہیں، بلکہ ہجرت مصر کے بعد رونما ہوا۔
اس کے بالکل برعکس اپنے جوابی مضمون (الشریعہ، مارچ ۲۰۰۶) میں، جو ظاہر ہے کہ انھوں نے اصل مضمون کے دفاع ہی میں لکھا ہے، وہ اس بات سے صاف انکار کرتے ہیں کہ قورح کو ابی رام اور داتن وغیرہ کے ساتھ زمین میں دھنسایا گیا تھا۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’’قورح کے خسف فی الارض (زمین میں دھنسائے جانے) کا واقعہ اس سے قبل مصر میں ہو چکا تھا۔ قرآن کریم نے کتاب استثنا اور زبور کی روایت کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ مصر میں تھے کہ قارون (قورح) اور اس کا محل زمین میں دھنسائے گئے۔ ورنہ سینا میں تو سارے اسرائیلی خیموں میں رہتے تھے۔ وہاں قورح نے کون سا محل اور کہاں تعمیر کیا تھا؟ اسی لیے بائبل کی مذکورہ بالا دونوں روایتوں میں داتن اور ابیرام کے گھروں کا ذکر نہیں، بلکہ خیموں کا ذکر ہے۔‘‘
اگر یہی بات تھی تو ڈاکٹر صاحب نے اصل مضمون میں کتاب گنتی کے باب ۱۶ کا حوالہ کیوں دیا جو قورح، داتن اور ابی رام وغیرہ کے اکٹھے دھنسائے جانے کا ذکر کرتا ہے؟ گمان غالب یہی ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون کے دفاع کے لیے قلم اٹھایا تو خود اپنے ہی مضمون کو پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
پھر اگر اب ڈاکٹر صاحب ان دونوں واقعات کو الگ الگ تسلیم کر رہے ہیں تو میری گزارش بھی یہی تھی کہ قارون اور قورح، دو الگ الگ شخصیتیں ہیں اور دونوں کے ساتھ الگ الگ واقعات پیش آئے۔ قارون کا مصر کے اندر ہی اپنے محلات سمیت زمین مین دھنسا دیا جانا اور ماہرین آثار قدیمہ کا اس کی تصدیق کرنا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک بھی مسلم ہے، جبکہ قورح کے صحرائے سینا میں بغاوت کرنے اور خیمہ اجتماع کے سامنے ۲۵۰ ساتھیوں سمیت زمین میں دھنسائے جانے کا واقعہ بائبل میں بیان ہوا ہے۔ یہاں سوال بائبل کی تصدیق کا نہیں، بلکہ بائبل کے بیان کو قرآن کے بیان سے متعلق قرار دینے کا ہے۔ اگر بائبل اس ضمن میں محرف ہے تو پھر ڈاکٹر صاحب بائبل کے مشکوک کردار قورح کو قرآن کے قارون کے ساتھ نتھی کرنے کا تکلف ہی کیوں فرما رہے ہیں؟
سخن نافہمی کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں اعتراض برائے اعتراض کا طریقہ بھی اختیار فرمایا ہے۔ میں نے مشرکین ومرتدین کی ہلاکت بنی لاوی کے ہاتھوں ثابت کرنے کے لیے خروج ۳۲:۲۸ کا حوالہ دیا تھا۔ چونکہ قورح بنی لاوی میں سے تھا، اس لیے مرتدین کے خلاف جہاد میں قورح کی شمولیت یا رضامندی ایک لازمی چیز ہے کیونکہ بائبل نے اس کارخیر میں ’’سب بنی لاوی‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ (خروج ۳۲:۲۶) لیکن ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: ’’کتاب خروج کے مندرجہ بالا باب اور فقرے میں سرے سے قورح وداتن وغیرہ نام ہی نہیں۔‘‘
میری گزارش یہ ہے کہ اگر خروج ۳۲:۲۸ میں قورح کا نام درج نہیں تو باقی بنی لاوی کے نام کہاں درج ہیں؟ جب سب بنی لاوی نے جہاد کیا تھا تو قورح ان سے کیونکر باہر رہا؟
ڈاکٹر صاحب مزید رقم طراز ہیں: ’’ مضمون نگار صاحب بائبل کے انداز حوالہ جات سے متاثر ہیں، چنانچہ انھوں نے اس عبارت کے لیے سورۃ القصص کی آیت نمبر ۷۶ کا حوالہ بائبل کے انداز پر دیا ہے ۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن کریم کے حوالے سورتوں کے نام اور آیات کے نمبروں سے ہوتے ہیں۔ یہی وہ اسلوب ہے جو اہل علم میں رائج ہے ۔‘‘
میں نے اپنے مضمون میں قرآن مجید کے بیشتر حوالے ڈاکٹر صاحب ہی کے بیان کردہ طریقے کے مطابق درج کیے ہیں، البتہ مذکورہ مقام پر سورۃ القصص کی آیت ۷۶ کا حوالہ ۲۸:۷۶ کے انداز میں دیا ہے۔ قرآن کے حوالہ جات دینے کے مختلف طریقے اہل علم میں رائج ہیں۔ مثلاً ’نجوم الفرقان فی علوم القرآن‘ میں پارہ نمبر اور رکوع نمبر کا طریقہ استعمال کیا گیا ہے، جبکہ علامہ محمد فواد عبد الباقی کی ’المعجم المفہرس‘ میں سورتوں کے نام کے ساتھ ساتھ سورتوں اور آیات کے نمبر بھی درج کیے ہیں۔ علامہ محمد شریف اشرف نے ’فکر الفرقان‘ کے عنوان سے قرآن مجید کے اشاریے میں محض متعلقہ سورت اور آیت کا نمبر درج کرنے پر اکتفا کی ہے۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر صاحب کا یہ اعتراض محض برائے اعتراض ہے اور یہی ان کی اصل قابلیت ہے۔
مکاتیب
ادارہ
(۱)
محترمی مولانا زاہد الراشدی دامت الطافکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مارچ کا ’الشریعہ‘ ملے ہفتہ سے اوپر ہو گیا۔ اس میں اپنا خط دیکھ کر خیال ہوا کہ جو کچھ بھی لکھا جائے، یہ سوچ کر لکھا جائے کہ یہ شائع ہوگا، ورنہ تین سطری خط تو ایسا نہیں تھا کہ اس کی اشاعت کا اندیشہ گزرتا۔ اس قدر اجمال اور اختصار تھا کہ بس آپ کے ذاتی ملاحظہ کے لیے موزوں سمجھا جا سکتا تھا۔ خیر، کوئی شکایت نہیں، بلکہ قارئین سے معذرت ہے۔ لیکن اسی (کارٹون پر رد عمل کے) حوالے سے اداریہ میں ۳؍ مارچ کی ملک گیر ہڑتال کی حمایت میں آپ کی اپیل اس قدر خلاف توقع لگی کہ اب کس سے شکوہ کرے کوئی؟آپ نے اس کے لیے پاکستان کی سیاسی اور دینی جماعتوں کو ’’خراج تحسین‘‘ پیش کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، البتہ دینی جماعتوں پر اس معاملے میں کچھ کہتے نہیں بنتا۔ مارچ کے ’الفرقان ‘ میں میرے اس سلسلہ کے تاثرات شاید نظر سے گزر چکے ہوں۔ یہ ۲۰؍۲۱ فروری کے احتجاجی پروگراموں سے متعلق تھے جن کا یہ پہلو انتہائی رنج دہ تھا کہ تحفظ ناموس مصطفی کے عنوان کو سو فی صدی مقامی سیاست کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ اور ۳؍ مارچ کا پروگرام تو اس کا نقطہ عروج تھا۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ کے الفاظ میں ایک مقدس عنوان کی اس سے بڑھ کر ’’بد خدمتی‘‘ مذہبی لوگوں کے ہاتھوں اور کیا ہو سکتی تھی؟
گستاخی معاف۔ والسلام
نیاز مند
(مولانا) عتیق الرحمن سنبھلی
لندن
(۲)
برادر عزیز ومحترم زاہد الراشدی صاحب،
سلام مسنون
آپ کی عنایت سے ’الشریعہ‘ باقاعدگی سے مل رہا ہے۔ اپنے علمی اور دینی معیار کے اعتبار سے اور موضوعات کے تنوع کے لحاظ سے بلاشبہ ’الشریعہ‘ صف اول کا جریدہ ہے۔ افراط وتفریط کے اس دور میں آپ کے اداریوں کا معروضی تجزیہ اور متوازن لہجہ بہت خوش آیند چیز ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اردو (اور انگریزی) صحافت میں ابھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو قلم کی اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس رکھتے ہیں۔ ’الشریعہ‘ وہ واحد اردو جریدہ ہے جسے اول تا آخر پڑھتے ہوئے خوشی ہوتی ہے۔
میں آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ دسمبر اورجنوری میں پاکستان آنے کے باوجود آپ سے رابطے کی کوئی صورت نہ نکل سکی۔ دسمبر کا آخری ہفتہ ذاتی مصروفیات کی نذر ہو گیا اور پھر ۲۸ دسمبر سے ۱۰ جنوری تک بنگلہ دیش میں قیام رہا۔ بنگلہ دیش سے واپسی پر جو چند دن اسلام آباد میں گزرے، وہ بھی مصروفیت میں گزرے۔ میری بڑی خواہش تھی کہ گوجرانوالہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا، خاص کر جبکہ میرا ’’بھتیجا‘‘ یوگی سکند بھی آپ کے ہاں آیا ہوا تھا۔ یوگی بہت ہی عمدہ اسکالر اور اس سے بھی عمدہ انسان ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ میرے بیٹے جنید احمد کو معلوم تھا کہ وہ ان دونوں میں پاکستان میں ہے اور جنید نے اس سے فون پر دوچار بار بات بھی کی تھی لیکن مجھے اس بات کی اس نے ہوا نہیں لگنے دی۔ خیر، اب مئی میں ان شاء اللہ پاکستان آنا ہوگا تو آپ سے ملاقات ہوگی۔
میں نے اپنے گزشتہ مراسلے میں مدارس پر اپنے جس مضمون کا ذکر کیا تھا، وہ آپ کے ملاحظے کے لیے حاضر ہے۔ اپنی رائے دیجیے گا۔
دعاؤں کا طالب
(ڈاکٹر) ممتاز احمد
ہیمپٹن یونیورسٹی، ہمپٹن (امریکہ)
(۳)
بخدمت جناب مدیر ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں ’’قارون اور قورح بحران‘‘ پر پچھلے تین شماروں سے ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی صاحب اور جناب محمد یاسین عابد صاحب کے درمیان مکالمہ جاری ہے۔ مارچ کے شمارے میں ڈاکٹر صاحب کو یاسین عابد صاحب سے شکوہ ہے کہ ’’ان کا انداز بیاں بڑا جارحانہ اور علمی حیثیت سے گرا ہوا ہے۔‘‘ مانا کہ جناب محمد یاسین عابد کی تنقید جارحانہ تنقید تھی، مگر جناب ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی بھی ’’جارحانہ مزاج‘‘ سے معصومیت کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ اپنے مضمون کی ابتدائی سطور میں ڈاکٹر صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ ’’اب میں تو کوئی جارحانہ اسلوب اختیار نہیں کرتا‘‘، لیکن ان کا مضمون پڑھنے کے بعد ہر قاری یہی فیصلہ کرے گا کہ موصوف نے تحریری جارحیت کی ایک نئی روایت قائم کی ہے۔
انھوں نے جابجا یاسین عابد صاحب کو ’’بائبل کا حافظ‘‘ کے خطاب سے نوازا ہے۔ یہ نہایت نامعقول انداز بیاں ہے، اور کسی مسلمان کو قرآن سے زیادہ بائبل پر اعتماد کرنے کا طعنہ دینا اس سے بھی زیادہ خطرناک طرز بیاں ہے۔ یہ نہ صرف فرمان نبوی ’’مومن کے ساتھ اچھا گمان رکھو‘‘ کے منافی ہے، بلکہ اس سے خود ڈاکٹر صاحب کی کمزور نفسیات کی عکاسی بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مضمون پر تنقید سے اتنے اشتعال میں آ گئے کہ ایک مسلمان کو اس طرح کے طعنے دینے پر اتر آئے۔ علمی متانت کے تمام تقاضوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے طنزیہ انداز میں لکھتے ہیں ’’لمبی زبان والے جناب ناقد صاحب‘‘۔ اس طرح کے جملوں کا جتنا ڈاکٹر صاحب کے قلم سے صادر ہونا ہمارے لیے باعث حیرت ہے، اس سے کہیں زیادہ ’الشریعہ‘ جیسے سنجیدہ رسالے میں اس کا شائع ہونا ناقابل فہم ہے۔
بہرحال جب دانش وران ملت کی ذہنی کیفیت یہ ہو تو اور کس سے امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں؟ امت مسلمہ کے بہی خواہوں سے ہماری عاجزانہ التماس ہے کہ اپنی علمی وفکری توانائیاں ایسے امور پر صرف کریں جن کے کچھ عملی ثمرات بھی سامنے آئیں اور امت مسلمہ کی زبوں حالی کا کچھ مداوا ہو سکے۔ ’ذبیح کون ہے‘ اور ’قارون اور قورح کون ہیں‘ جیسے مسائل پر خامہ فرسائی سے فکری تشدد کے پروان چڑھنے اور ذہنی عیاشی کے علاوہ اور کیا ہاتھ آ سکتا ہے۔ اللہ کرے ہمارے دانش وروں میں متانت، حوصلہ مندی، تحمل وبرداشت اور انانیت سے دوری جیسے اوصاف پیدا ہوں ۔
امید ہے کہ ’الشریعہ‘ امت مسلمہ کے مسائل کے حل کے سلسلے میں اپنی فکری ذمہ داری کا احساس کرے گا اور اس کے قابل قدر صفحات کو محض تخیلاتی مشقوں کے لیے میدان نہیں بنایا جائے گا۔
محمود خارانی
دار العلوم، کراچی ۱۴
(۴)
برادرم محمد عمار ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے ہاں بحث کا معیار بہت پست ہے۔ کیا کیا جائے، مجبوری ہے۔ بہرحال میرا خیال ہے عمدہ تنقیدی بحث کے کچھ مضامین بطور نمونہ شائع کریں تاکہ بحث کرنے والوں میں علو پیدا ہو۔ اس سلسلے میں بطور نمونہ ایک مضمون ارسال ہے۔
فقط والسلام
ملک نواز احمد اعوان
کراچی
(۵)
مکرمی جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماہنامہ ’الشریعہ‘ جنوری کے شمارے میں ’’تاریخ ختم نبوت‘‘ نامی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے محترم مبصر صاحب نے نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمد قادیانی کا ذکر ایسے اسلوب میں کیا ہے جس میں اس کی تعظیم کا شائبہ پایا جاتا ہے۔ مثلاً ’’مرزا غلام احمد اور ان کے پیروکاروں‘‘، ’’مرزا صاحب نے براہین احمدیہ تحریر کی‘‘، اور ’’اس کتاب میں مرزا صاحب کے فاسد عقائد‘‘ وغیرہ۔ آنجناب سے گزارش ہے کہ کسی متنازعہ شخصیت کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب کیا جائے جن سے اس کی تعظیم وتکریم کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔
حافظ خرم شہزاد
کامونکی ۔ گوجرانوالہ
مئی ۲۰۰۶ء
تہذیبی چیلنج ۔ سیرت طیبہ سے رہنمائی لینے کی ضرورت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ربیع الاول کا مہینہ ہر سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی تذکرہ اور یاد کے ساتھ منایا جاتاہے اور اگرچہ اس کا کوئی شرعی حکم نہیں، لیکن اس ماہ میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے تذکرہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہتمام زیادہ ہوتاہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے مختلف طبقات اپنے اپنے انداز اور طریقہ کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ، حالات مبارکہ اور ارشادات مقدسہ کے تذکرہ کے لیے تقاریب کا انعقاد کرتے ہیں۔ اس سال یہ تقاریب اس حوالے سے پہلے سے زیادہ اور منفرد اہمیت کی حامل ہیں کہ یورپ کے بعض اخبارات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالی اور توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد مسلمانان عالم میں اضطراب واحتجاج کی جولہر اٹھی ہے، اس کے مناظر ابھی ذہنوں میں تازہ ہیں اور ربیع الاول کے یہ اجتماعات بھی اسی تسلسل کا حصہ دکھائی دے رہے ہیں ۔
اس وقت عالمی سطح پر فکرو فلسفہ اور تہذیب وثقافت کے مختلف رویوں کے درمیان کشمکش اور تصادم کے بڑھتے ہوئے امکانات کی جوصورت حال پید اہوگئی ہے اور اس میں اسلام ایک واضح فریق کے طور پر سامنے آرہاہے، اس کے پیش نظر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وتعلیمات کے زیادہ سے زیادہ تذکرہ کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے، اس لیے کہ اس تہذیبی اور فکری کشمکش میں قرآن کریم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ہم صحیح سمت کی طرف رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں اور فکرو فلسفہ اورتہذیب وثقافت کے ان رویوں کا سامنا کرسکتے ہیں جو اسلام کوعالمی منظر سے اس حوالے سے ہٹا دینے کے لیے سرگرم عمل ہیں اور جن کا تقاضاہے کہ جس طرح بہت سے دوسرے مذاہب سوسائٹی کی فکری رہنمائی اور ثقافتی ومعاشرتی قیادت سے دست بردار ہوگئے ہیں، اسی طرح اسلام کو بھی معاشرتی قیادت کے منظر سے ہٹ جانا چاہیے اور دوسرے مذاہب کی طرح اپنی سرگرمیوں اور ہدایات کو شخصی اور پرائیویٹ دائروں تک محدود کر لینا چاہیے۔
آج کے عالمی منظر میں مسلمانوں کو فکروفلسفہ اورتہذیب وثقافت کے حوالے سے یہی سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے اور آج نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وتعلیمات کا اس پس منظر میں مطالعہ کرنے او ر اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جس حوالے سے بھی تذکرہ کیاجائے، اجروثواب، رہنمائی اور برکات کاذریعہ ہے۔ وہ تو سراپا رحمت وبرکت ہیں اور اجر وثواب کا سرچشمہ ہیں، لیکن ہمیں اپنی ضروریات کو دیکھناہے، اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنی ہے اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ پھر ان ضروریات،کمزوریوں اورکوتاہیوں کا ایک دائرہ ہمارا داخلی دائرہ ہے، اس کے تقاضے مختلف ہیں، اور ایک دائرہ عالمی اور بین الاقوامی ہے جو ہمارے داخلی دائرے سے الگ ہونے کے باوجود تیزی سے بڑھتے ہوئے گلوبل ماحول کی وجہ سے اپنے فاصلے کم کرتا جا رہا ہے اور دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔
اس پس منظر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وتعلیمات کے ان پہلوؤں کو ترجیحی بنیاد پر سامنے لانے کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے جن کا تعلق موجودہ ضروریات سے ہے، کمزوریوں سے ہے اور کوتاہیوں سے ہے۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیمات وارشادات کے ان حصوں کو زیادہ اہمیت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنا ضروری ہوگیاہے جو آج کے عالمی مسائل سے تعلق رکھتے ہیں اور جن میں ان اشکالات وشبہات کا جواب پایا جاتاہے جو آج کی دنیا کی طرف سے اسلام کے بارے میں نمایاں کیے جارہے ہیں اور جن کا جواب دینے کی مختلف اطراف سے کوششیں جاری ہیں۔ بدقسمتی سے ہم اس حوالے سے بھی افراط وتفریط کا شکار ہیں اور ہماری طرف سے ان معاملات میں دو مختلف بلکہ متضاد رویے سامنے آرہے ہیں جو کنفیوژن کا باعث بن رہے ہیں اور مسائل کے حل کی بجائے ان میں اضافے کا سبب بنتے جارہے ہیں۔ مثلاً ایک رویہ یہ ہے کہ آج کی دنیا کو درپیش مسائل ومشکلات اور اس کے حل کے لیے منطقی اور فطری ضروریات کی نفی کرتے ہوئے اور ان سے آنکھیں بند کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد وتعلیمات کو اسی انداز اور ماحول میں پیش کیا جاتا ہے جس کا ہمیں اب سے دو سو سال یا تین سو سال قبل سامنا تھا۔ ہم جب آج کے ماحول اور تناظر میں تین سو سال قبل کے ماحول اور تناظر کے مطابق مسائل اور احکامات کو پیش کرتے ہیں تو اس سے منطقی طور یہ سمجھ لیاجاتاہے کہ اسلام میں معاشرتی ارتقا کے ساتھ ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں ہے اور وہ تبدیل ہونے والے حالات اور تقاضوں کو اپنے اندر ضم کرنے یا اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کا ذوق نہیں رکھتا۔ اب سے تین سو سال قبل یورپ میں مسیحیت کو اس قسم کی صورت حال درپیش تھی ۔مذہب کے علمبردار اپنے احکام وقوانین کی تعبیر وتشریح میں زمانے کے تغیرات اور ماحول کی تبدیلی کا لحاظ رکھنے کے لیے تیار نہ ہوئے تو یورپ کے عوام نے فیصلہ کرلیا کہ معاشرتی ارتقا کا راستہ روکا نہیں جاسکتااور نہ ہی ان کی تمدن کی ترقی پر قد غن لگائی جاسکتی ہے، اس لیے اگر مذہب ارتقا اور ترقی کے ساتھ ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہے تو اسے اپنی جگہ کھڑا رہنے دیاجائے او ر سوسائٹی کو اپنی رفتار کے ساتھ آگے بڑھنے دیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب اور سوسائٹی کاباہمی رشتہ ٹوٹ گیا اور مذہب کی رہنمائی اور اس کی حدود کی پابندی سے آزادہوکر سوسائٹی نے ’’مادرپدر آزادی‘‘کاراستہ اختیار کرلیا جس کے خوفناک نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ بد قسمتی سے آج اسلام کے بارے میں بھی یہی سوچ نمایاں کی جارہی ہے اور اس تاثر کو عام کیا جارہاہے کہ اسلام میں جدیددور کے تقاضوں کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور اس لیے اسے مسجد کے دائرہ میں رہنے دیا جائے اور شخصی زندگی میں اس کے کردار کی نفی نہ کی جائے، البتہ سوسائٹی کو مذہب کی رہنمائی اور اس کے احکام وحدود کی پابندی سے آزاد کردیا جائے۔ اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے بہت سے ارباب دانش جو اس صورت حال سے پریشان ہیں اور اس سوال کا اپنے اپنے طور پر جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں، ان میں سے کچھ دوست دوسری انتہا کی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ان کے معاشرت وتمدن کے جدید مسائل ومشکلات اور ان کے بارے میں موجودہ انسانی سوسائٹی نے جو حل سوچ لیاہے یا ان سے نکلنے کے لیے جو راستہ طے کر لیاہے، اسی کو حتمی معیار سمجھ لیاجائے اور اس کے مطابق قرآن کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات وتعلیمات کی نئی تعبیر وتشریح کرلی جائے تاکہ ہم یہ کہہ سکیں کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، وہ قرآن وسنت کی روشنی میں کر رہے ہیں، اگرچہ وہ تعبیر وتشریح ہماری خود ساختہ ہی کیوں نہ ہو ۔
ہمارے نزدیک یہ دونوں رویے غلط ہیں اور انتہاپسندانہ ہیں۔ اصل راستہ ان دونوں کے درمیان ہے جو اگر چہ بہت نازک اور حساس ہے لیکن اس کی ضرورت کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح نئی ضروریات اور ان کے بارے میں زمانے کی سوچ کو معیار تسلیم کرکے قرآن و سنت کی اس کے مطابق نئی تعبیر وتشریح کرنا غلط اور گمراہ کن طرز عمل ہے، اسی طرح نئی ضروریات کو نظر انداز کر دینا اور ان کا کوئی نہ کوئی حل نکالنے کی ضرورت محسوس نہ کرنا بھی غلط ہے اور اسلام کے مزاج کے خلاف ہے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قرآن کریم کی جمع وترتیب اور تدوین وکتابت کے بارے میں حضرت ابو بکرؓ ،حضرت عمرؓ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کے درمیان جو مکالمہ ہوا تھا ،وہ ہماری اس گزارش کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ مختلف جنگوں میں قرآنِ کریم کے حفاظ کی کثرت کے ساتھ شہادتوں کی خبر سن کر حضرت عمرؓ کو تشویش ہوئی اور انہوں نے ضرورت محسوس کی کہ قرآن کریم کو مرتب انداز میں لکھ کر محفوظ کر لینا چاہیے۔ یہ ایک نئی ضرورت تھی جو حالات کے تحت پیدا ہوگئی تھی،جسے حضرت عمرؓ نے محسوس کیا اور انہوں نے خلیفۃالمسلمین حضرت صدیق اکبرؓ کے سامنے اس ضرورت کا تذکرہ کیا۔حضرت صدیق اکبرؓ نے ابتدا میں یہ کہہ کر اس کام سے انکار کردیا کہ ایک کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں ہوا تھا،میں کیسے کر سکتاہوں؟لیکن جب حضر ت عمرؓنے باربار ا س کی ضرورت واہمیت کا احساس دلایا تو اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے حضرت ابو بکرؓ نے قرآن کریم کی جمع وترتیب اور تدوین وکتابت کا اجتہادی فیصلہ کرلیا، لیکن جب انہوں نے جنا ب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی کاتب حضرت زید بن ثابتؓ کو بلا کر یہ کام ان کے سپرد کرنا چاہا تو انہوں نے بھی پہلے مرحلہ میں وہی بات کہی جو حضرت صدیق اکبرؓ نے حضرت عمرؓ سے کہی تھی کہ جو کام جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں ہوا تھا وہ کام مجھے کرنے کے لیے آپؓ کیسے کہہ رہے ہیں؟ان دونوں بزرگوں نے انہیں اس کی ضرورت واہمیت کا احساس دلایا تو وہ اس کے لیے تیار ہوئے۔
ان بزرگوں کا یہ مکالمہ اور پھر فیصلہ ہمارے لیے اسوہ کی حیثیت رکھتاہے اور ایک اصول اور بنیاد ہے کہ کوئی نئی اجتماعی ضرورت پیش آجائے تو اسے نظر انداز کر دینا دانش مندی نہیں ہے بلکہ اس ضرورت کو تسلیم کرنا ،اس کی اہمیت کو سمجھنا اور اس کا حل نکالنا اہل علم کی دینی ذمہ داری ہے۔
کوئی ضرورت اپنے حل سے زیادہ دیر تک محروم نہیں رہتی کیونکہ یہ قانون فطرت کے خلاف ہے ۔البتہ یہ ضرور ہوگا کہ اہل علم اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس کا کوئی حل نکالیں گے تو وہ شرعی اصولوں کی روشنی میں ہوگا اور دین کے دائرے میں ہوگا لیکن اگر اہل علم اپنی ذمہ داری پوری نہیں کریں گے تو لوگ خود اس کا کوئی نہ کوئی حل نکالیں گے جو ظاہر ہے کہ دینی اصولوں اور تقاضوں کے دائرہ کا پابند نہیں ہوگا اور اس سے دین سے انحراف کی حوصلہ افزائی ہوگی۔اس حوالے سے ایک اور تاریخی اور اجتہادی فیصلے کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور پہلے دونوں خلفا حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے دور میں لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرنا بیت المال کی ذمہ داری تھی اور بیت المال کے نمائندے ہر قسم کے اموال کی زکوٰۃ سرکاری طور پر وصول کیا کرتے تھے، لیکن امیر المومنین حضرت عثمانؓ نے اپنے دور خلافت میں یہ محسوس کیا کہ لوگوں کے پاس جو ذاتی اور پرائیویٹ رقم ہوتی ہے، سرکاری طورپر اس کی زکوٰۃ وصول کرنے کی صورت میں ان کی’’پرائیویسی‘‘متاثر ہوتی ہے اور لوگوں کے ذاتی معاملات میں سرکاری اہل کاروں کا تجسس بڑھتا ہے، اس لیے انہوں نے ’’اموال ظاہرہ‘‘اور ’’اموال باطنہ‘‘ کافرق کرکے لوگوں کی ذاتی اور پرائیویٹ رقوم کو زکوٰۃ کے سرکاری وصولی کے حکم سے مستثنیٰ کر دیا اور کہا کہ اس قسم کے اموال کی زکوٰۃ لوگ اپنی ذمہ داری پر خود ادا کیا کریں تاکہ ان کی پرائیویسی متاثر نہ ہو اور سرکاری اہل کار خواہ مخواہ لوگوں کی ذاتی وپرائیویٹ رقوم او ر اموال کا کھوج نہ لگاتے پھیریں۔
اس نوع کی بیسیوں مثالیں آپ کو اسلامی تاریخ میں ملیں گی۔ خلفاے راشدین کے دور میں،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں اور ان کے بعد کم وبیش ہر دور میں آپ اس کی مثالیں دیکھیں گے کہ کوئی اجتماعی ضرورت پیدا ہوئی ہے، کسی نئے معاشرتی تقاضے نے سر اٹھایاہے تو اہل علم نے اس کا بروقت نوٹس لیا ہے ،اس کاحل نکالا ہے اور شریعت اسلامیہ کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اگر کہیں اجتہادی دائروں میں تعبیروتشریح اور تطبیق وتنفیذ کے زاویے تبدیل کرنا پڑے ہیں تو ان سے گریز نہیں کیا۔ اسی کا نام اجتہاد ہے، اسی کو زمانے کے بدلتے ہوئے اور بڑھتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے سے تعبیر کیا جاتاہے، لیکن اس بنیادی فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ شریعت کو زمانے کے تقاضوں کے سانچے میں ڈھالنا اور چیز ہے اور زمانے کے تقاضوں کاادراک واحساس کرتے ہوئے شریعت کے اصولوں کے دائرے میں ان کوپورا کرنے کی کوشش کرنااس سے بالکل مختلف امر ہے ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ آج نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ، حالات مبارکہ اور ارشادات مقدسہ کوپیش کرتے ہوئے زمانے کی اس ضرورت کو سامنے رکھنا ضرور ی ہے اور اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو فکروفلسفہ اور تہذیب وثقافت کے جدید چیلنج سے نمٹنا کوئی زیادہ مشکل امر نہیں ہے، لیکن اس کے لیے ارباب عزم وہمت اور اصحاب فہم وادرا ک کی ضرورت ہے جو آگے بڑھیں اور جدید تہذیب وفلسفہ کے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے وقت کے فکری دھارے کارخ موڑ دیں۔
یورپی یونین اور عالم اسلام
شادابہ اسلام
ہو سکتا ہے کہ ساری کوشش کے نتیجے میں محض چند ’’نرم اور مہذب الفاظ‘‘ کے علاوہ کوئی چیز وجود میں نہ آئے، تاہم یورپی یونین کے پالیسی سازوں نے،جو مسلم ممالک کے ساتھ مضبوط تر تعلقات قائم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں، اپنے سر ایک نئی ذمہ داری لے لی ہے، یعنی ایسی گائیڈ لائنز کی تیاری جو اسلام کے حوالے سے تحقیر آمیز اصطلاحات کے استعمال کو ممنوع قرار دیں۔ اس کوشش کا اصل ہدف یورپی بلاک کے سرکاری عہدے داروں کے بیانات اور دستاویزات میں ایسے الفاظ کے استعمال سے اجتناب برتنا ہے جن سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہو یا یہ تاثر پیدا ہوتا ہو کہ دہشت گردی کے خلاف یورپ کی جدوجہد کا ہدف خاص طور پر مسلمان ہیں۔
اس مہم کا آغاز گزشتہ سال دسمبر میں کیا گیا تھا اور موجودہ حالات میں اس کی اہمیت اور فوری نوعیت (urgency) اس اعتبار سے بڑھ گئی ہے کہ حالیہ سال کے آغاز میں متعدد یورپی اخبارات میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شائع ہونے والے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد یورپی یونین مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ان خاکوں کی وجہ سے بہت سے مسلم ممالک میں غم وغصے کی ایک لہر پھیل گئی جس کا نتیجہ پر تشدد مظاہروں، بہت سے مظاہرین کی ہلاکت اور یورپی سفارت خانوں پر حملوں کی صورت میں نکلا۔ یورپی یونین نے ذرا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنے اور بہت سے ایسے بیانات جاری کرنے کے بعد جن میں آزادئ صحافت اور آزادی رائے کے تقدس پر زور دیا گیا تھا، بالآخر اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ان خاکوں سے بہت سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ یورپی یونین کے کمشنر برائے خارجہ تعلقات بینٹا فیریرو والڈنر (Benita Ferrero-Waldner) نے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ ’’آزادی رائے کے حق پر کوئی پابندی خارج از بحث ہے ، لیکن آزادئ مذہب کا حق اور ایک دوسرے کا احترام ملحوظ رکھنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’ہمیں مختلف ثقافتوں اور مذاہب کے مابین، چاہے وہ یورپی یو نین کے اندر ہوں یا دنیا میں کہیں بھی، افہام وتفہیم کی فضا کو بہتر بنانے کے لیے مسلسل محنت کرنا ہوگی۔‘‘
خاکوں کی وجہ سے مسلم دنیا کے ساتھ پیدا ہونے والا یہ بحران واقعات کے اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی تھا جس کا آغاز گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ کو امریکہ پر حملوں سے ہوا تھا اور جس کی وجہ سے مغربی دنیا کی توجہ عالم اسلا م پر مرکوز ہو گئی۔ تاہم اسلام سے متعلق آگاہی کی اس نئی فضا کے باوجود یورپ کے اندر اور باہر بہت سے یورپی لوگ ہنوز اسلام کے بنیادی عقائد تک سے ناواقف ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ مسلسل اپنے قارئین کے سامنے اسلام کی ایک بالکل سیدھی اور یک طرفہ تصویر پیش کر رہے ہیں جس سے بالعموم یہ تاثر ابھرتا ہے کہ عالم اسلام جنونیوں اور انتہا پسندوں سے بھرا ہوا ہے اور تمام مسلمان خواتین پردے میں محبوس اور محکومیت اور جبر کا شکار ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ سال فرانس کے بعض نواحی علاقوں میں بے اطمینانی کا شکار افریقی اور عرب نوجوانوں کی طرف سے کیے جانے والے فسادات کے بعد یورپی حکومتوں میں یورپ کی مسلم اقلیتوں کی بڑھتی ہوئی بے چینی کا ادراک بھی بہتر ہو رہا ہے۔ یہ اقلیتیں عام طور پر یورپی معاشرے میں غیر مساوی حیثیت کی حامل ہیں۔
یورپی یونین کے ذمہ دار حضرات کا کہنا ہے کہ اسلام کے حوالے سے درست اصطلاحات کی تلاش کی حالیہ کوشش ۲۵ ملکوں پر مشتمل یورپی بلاک میں داخلی طور پر جاری اس بحث ومباحثے کا ایک حصہ ہے جس کا عنوان یہ ہے کہ مسلم ممالک کے ساتھ گہرے تعلقات کیسے استوار کیے جائیں اور یورپ میں مقیم ۲۰ ملین مسلمانوں کے ساتھ کیسے بہتر روابط قائم کیے جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے حصول کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ یہ بات واضح کر دی جائے کہ اہل یورپ اسلام اور دہشت گردی کو مترادف نہیں سمجھتے۔ تازہ گائیڈ لائنز میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت کے مابین، جو امن پسند ہے، اور مرکزی دھارے سے کٹی ہوئی اس اقلیت کے مابین، جو اپنے مقاصد کے لیے غلط طور پر اسلام کا نام استعمال کر رہی ہے، واضح طور پر فرق ملحوظ رکھا جائے۔ یورپی یونین کے ایک عہدے دار کے بقول ’’ہمارا مقصد اسلام کے حوالے سے یورپی یونین کے موقف کو واضح کرنا اور اس امر کویقینی بنانا ہے کہ دہشت گردی کا رشتہ کسی مخصوص مذہب کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔‘‘ مذکورہ عہدے دار نے مزید کہا کہ حالیہ کوشش کا مقصد ’’ایسے الفاظ کو فروغ دینا ہے جن سے غلط فہمی پیدا نہ ہو اور خیالات کی غلط ترجمانی سے بچا جا سکے۔‘‘
یورپی یونین کے واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس کوشش کے نتیجے میں ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ اور ’’بنیاد پرستی‘‘ جیسی اصطلاحات کو ترک کر دیا جائے گا جنھیں ناقدین کے بقول یورپی یونین کے عہدہ داراران مسلم دنیا میں رہنے والے یا وہاں سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ ’’عوامی سطح پر بیانات کے لیے مبینہ غیر جذباتی زبان‘‘ کی رو سے عہدہ داروں کو جہاد سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بھی احتیاط برتنی ہوگی۔ اگرچہ اس وقت مسلم دنیا کی بعض انتہا پسند تنظیمیں اس لفظ کو ’’غیر مسلموں کے خلا ف جنگ‘‘ کے مفہوم میں استعمال کرتی ہیں، تاہم بہت سے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب ایک ’’داخلی اور روحانی جدوجہد‘‘ ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ نئی اصطلاحات کی پابندی لازم تو نہیں ہوگی لیکن جون کے دوران برسلز میں ملاقات کے موقع پر یورپی بلاک کے قائدین اس کی تائید کر دیں گے۔
تاہم یورپی پارلیمنٹ کے برطانوی رکن سجاد کریم اور ان کے ہم خیال لوگوں کے نزدیک اسے کوئی فوری اقدام نہیں کہا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے عہدے داروں کو اسلام کا لبادہ اوڑھنے والے دہشت گرد گروہوں سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سجاد کریم کا کہنا ہے کہ ’’اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یورپ میں لوگ مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والے تشدد کے بارے میں بات کر تے ہوئے اسلامی دہشت گردی کا لفظ استعمال کرتے ہیں ‘‘ حالانکہ فلسطین میں رونما ہونے والے واقعات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا باعث تو زیادہ تر فلسطینی عوام کی بے چینی اور اضطراب ہے۔ سجاد کریم کو اصرار ہے کہ ’’گزشتہ سال فرانس کے مسلم نوجوانوں کا احتجاج بھی دراصل اس حقیقت کی عکاسی کر رہا تھا کہ یہ نوجوان یورپی معاشرے میں گھل مل نہیں سکے۔ اس سارے معاملے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘‘
یورپی یونین کے عہدہ دار، جن میں کمشنر برائے خارجہ تعلقات Benita Ferrero-Waldner اور سکیورٹی پولیس چیف Javier Solana شامل ہیں، جہاں اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا سیاسی سطح پر درست اصطلاحات کے استعمال سے یورپ اور مسلم ممالک کے مابین موجودہ تناؤ کو کم کرنے میں کوئی مدد ملتی ہے یا نہیں، وہاں وہ اپنے طور پر بھی اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان دونوں عہدے داروں نے گزشتہ ماہ Salzburg میں یورپی یونین کے وزراے خارجہ سے کہا کہ یورپی یونین کو اقوام متحدہ، عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس تنظیم کے ساتھ مل کر مسلم ممالک کے ساتھ اعتماد کے رشتے کو بحال کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ان کی طرف سے یورپی دار الحکومتوں کو ارسال کی جانے والی مجوزہ حکمت عملی میں بھی کہا گیا ہے کہ خارجہ پالیسی کے تحت کیے جانے والے اقدامات کی مزید تائید داخلی سطح پر سخت قانون سازی کے ذریعے سے کی جانی چاہیے جس کے تحت اسلام کے بارے میں پائے جانے والے خوف کا تدارک کیا جا سکے اور یورپ میں مقیم مسلمانوں کے ساتھ مکالمہ کی فضا کو بہتر بنایا جا سکے۔
یہ اقدامات اور نئی اصطلاحات کا استعمال سالوں پر محیط غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔ یورپی یونین کے کارپردازان کو اعتراف ہے کہ مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کو ازسرنو بحال کرنے کی جدوجہد طویل اور کٹھن ہوگی اور یورپی مسلمانوں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے بھی صبر وحوصلہ اور ثابت قدمی سے کام لینا ہوگا۔ تاہم متفکر یورپی پالیسی ساز اس بات سے بھی خبردار کرتے ہیں کہ آغاز کہیں نہ کہیں سے کرنا ہی ہوگا۔ بہت سے لوگوں کو امید ہے کہ الفاظ اور اصطلاحات میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ اہل یورپ کے اسلام اور مسلمانوں سے متعلق فرسودہ اور بالعموم تعصب پر مبنی خیالات میں بھی تبدیلی رونما ہوگی۔
(بشکریہ ’ڈان‘۔ ترجمہ: ابو طلال)
اسلامی تحریکات کا ہدف، ریاست یا معاشرہ؟
مولانا محمد عیسٰی منصوری
اسلام اور قرآن کا مطلوب اسٹیٹ ہے یا انسانی بہبود کے لیے سرگرم معاشرہ؟ یہ اس وقت مسلم دنیائے فکر وفلسفہ کا ایک بڑا سوال ہے۔ دونوں میں سے جس کو بھی نصب العین قرار دیا جائے، ذہن وفکر سعی وجہد اور نتائج بالکل مختلف اور جداگانہ ہوں گے۔ نزول قرآن کے بعد تقریباً ۱۳سو سال تک یہ سوال پیدا نہیں ہوا تھا ۔یہ سوال گزشتہ صدی کے اوائل میں دنیا میں مغرب کے عالمی اقتدار، سیاسی غلبہ اور فکروفلسفے کی حاکمیت کی دین ہے ۔اس سے پہلے مسلم معاشرہ ہر دور میں قر آن وسنت اور سیرت نبویﷺ سے غذا وطاقت اور ہدایت وراہنمائی حاصل کرکے بنی نوع انسان کی فلاح وبھلائی کے نصب العین کی طرف رواں دواں رہا۔ مسلمانوں کے سیاسی عروج وزوال اور عسکری فتح وشکست سے قطع نظر مسلم معاشرے کی اندرونی توانائی اور طاقت اس کے خیر امت ہونے میں پنہاں تھی۔ اس کے خمیر میں ایسی قوت وتوانائی رکھ دی گئی تھی جو اسے انسانیت کی بہبود کے لیے جدوجہد میں مصروف رکھتی تھی او رمعاشرے کی یہ اندرونی طاقت سیاسی وعسکری شکست وزوال کا فی الفور مداوا کرکے اسے دوبارہ کارگاہ حیات میں انسانیت کی راہنمائی اور اس کی بہبود کی راہ پر گامزن کر دیتی تھی۔ رسول خدا ﷺ اور قرآن نے مسلم معاشرے میں ایسی اسپرٹ پید ا کردی تھی جو اسے دنیوی نفع وضرر سے بے نیاز ہو کر پوری انسانیت کی سرفرازی، بہتری اور نفع کے لیے سرگرم رکھتی تھی۔
قرآن حکیم نے مسلم معاشرے کو خالق کی وحدت اور انسانی اخوت ومساوات کے عقیدے پر استوار کیا تھا۔ قرآن پاک کی چھ ہزار چھ سو آیات میں سے کوئی ایک آیت بھی کسی خاص ملک وقوم، نسل یا عرب وعجم سے خطاب نہیں کرتی، بلکہ نوع انسانی سے خطاب کرتی ہے۔ قرآن کا نقطہ نظر قبائلی نہیں بلکہ عالمی ہے۔ وہ پوری انسانیت کی بہبود اور فلاح کی دعوت دیتاہے اور اس کا مقصد ایک ایسا معاشرہ قائم کرناہے جو کسی نسل اور قوم کے بجائے پوری انسانیت کے نفع اور بہتری کے تصور پر مبنی ہو ۔قرآن کے نزدیک مسلم معاشرہ اسی وقت صحیح معاشرہ ہوگاجب وہ پوری نوع انسانی کی بھلائی کے لیے سرگرم عمل ہو ۔قرآن کے نزدیک مسلمان خیر امت یعنی بہترین گروہ اسی لیے ہیں کہ وہ نوع انسانی کی بہبود اور فلاح کے لیے برپا کیے گئے ہیں۔ وہ انسانی سوسائٹی میں معروفات یعنی اچھائیاں اور بھلائیاں عام کرتے ہیں اور منکرات یعنی برائیوں اور ضرر سے بچاتے ہیں اور یہ سب کام کسی دنیوی غرض کے لیے نہیں بلکہ محض خالق کی خوشنودی کے لیے کرتے ہیں۔ یہی چیز مسلم معاشرے کی توانائی اور زندگی تھی جو ہر زخم کو مندمل اور ہر شکست کا مداوا کرتی رہتی تھی۔
نزول قرآن کے بعد تقریباً دوسوسال تک مسلم معاشرہ خدا کے ساتھ مستحکم تعلق اور بنی آدم کے ساتھ بھلائی کی بنیاد پر قائم رہا۔ ہر معاشرے کی طرح اچھے برے لوگ یہاں بھی تھے، باہم خونریزیاں بھی چلتی رہتی تھیں، اقتدار اور وسائل کے لیے رسہ کشی اور لذات وشہوات کے لیے تگ ودو بھی جاری رہتی تھی، مگر مجموعی طور پر مسلم معاشرہ اللہ ورسول ﷺکے ساتھ مستحکم تعلق اور نوع انسانی کی وحدت اور بہبود کے دو پہیوں پر آگے بڑھتا رہا۔ یہ معاشرہ انسانیت کی خدمت کے لیے ہر قسم کے علوم وفنون، ایجادات واختراعات، ادارے، شعبے اور افراد مہیا کرتارہا حتیٰ کہ بنی امیہ کے زوال کے وقت جب ہر عربی بولنے والے کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کیا جارہاتھا، عین انھی حالات میں احادیث اور دیگر اسلامی علوم کی تدوین بھی ہورہی تھی ،اجتہاد بھی ہورہاتھا اور مسلمان انسانیت کے بہتری کے لیے نئے نئے علوم وفنون کی ایجاد اور نئے نئے تجربات میں مصروف تھے۔ اسپین میں مسلم حکومتیں اکثر باہم برسرپیکار اور خانہ جنگی میں مبتلا رہیں، مگر مسلم معاشرہ برابر اپنا کام کرتارہا۔ طبیعیات، کیمسٹری، طب ،ارضیات، فلکیات،تاریخ، جغرافیہ اور انسانیت کو نفع پہنچانے والے دیگر علوم وفنون سے مالا مال کرتارہا۔ معاشرے کی یہی اندرونی روح وطاقت اسے ہر دور میں انسانی بہبود کے لیے متحرک رکھتی تھی۔بقول سر آرنلڈ کے جب کبھی مسلمانوں کی تلوار نے شکست کھائی، معاشرے میں پنہاں روح وتوانائی نے بہت جلد اس شکست کو فتح میں بدل دیا۔ تاتاریوں جیسے سفاک اورجابر دشمن سے شکست فاش کے بعد ایسا لگتاتھا کہ اب اسلام کا دم واپسیں ہے ،مگر چند ہی سالوں میں معاشرے کی اندرونی طاقت نے تاتاریوں کو حلقہ بگوش اسلام کردیا۔
مسلم معاشرے کی یہ قوت وروح ہر دور میں برقرار رہی، تاآنکہ مغرب کے مکار وعیار دشمن نے مسلم معاشرے کی اس اندرونی توانائی وقوت ہی کو ڈائنا مائٹ کردیا اور نقب لگاکراس میں پنہاں انسانی بہبود کے جوہر کو برباد کردیا اور مسلم معاشرے کو خود غرضی ،نفس پرستی ،حرص وآز، خواہشات وشہوات اور فلسفہ لذّت وہوس پرستی کے حیوانی وشیطانی خطوط پر استوار کردیا جس کی وجہ سے مسلم معاشرے کی روح نکل گئی اور اصل بنیاد منہدم ہوگئی۔ معاشرے سے انسانیت کی بہبود کی فکر وجذبہ نکلنے سے معاشرہ بے جان لاش بن کر رہ گیا۔ گزشتہ دو تین سو سال میں مسلم معاشرے نے انسانیت کی بہبود کے لیے نہ کوئی علم ایجادکیا ہے اور نہ کوئی سائنسی دریافت کی ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں نے جہاں کہیں عسکری وسیاسی شکست کھائی، اس کا کوئی مداو انہیں ہوسکا کیونکہ معاشرے کی روح اور زندگی نکل چکی تھی۔ اب ایک شکست دوسری کی اور دوسری شکست تیسری کی راہ ہموار کرتی رہی۔ اس پے درپے شکست وریخت کے ماحول میں بیسویں صدی کے کچھ ملت کا درد رکھنے والے مفکرین نے جب دیکھا کہ پوری دنیا کا مسلم معاشرہ مغرب کی یلغار کے سامنے ہمہ جہت شکست وریخت سے دوچار ہے اور ایک طرف کمیونزم اور دوسری طرف مغربی فکروفلسفے اور تمدن وکلچر کی یلغار کے سامنے مسلم معاشرہ دن بدن سپر انداز ہوتاجارہاہے تو انہوں نے فکری ونظریاتی طور اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی۔ علمی طور پر کمیونزم کے فلسفے کا پوسٹ مارٹم کیا اور مغربی کے سیاسی واجتماعی نظریات کا تنقیدی جائزہ لے کر ان دونوں کو نوع انسانی کے بجائے محض مغرب کے طبقہ امرا واشراف کے مفادات واقتدار کے تحفظ کا ذریعہ ثابت کیا۔ مگر مسلم معاشرے کی اندرونی طاقت وروح نکلنے کی وجہ سے جو تنزل وزوال پید ا ہوگیا تھا، وہ دن بدن تیز ہوتا گیا اور مغرب کے خونی پنجے کی گرفت مزید مضبوط ہوتی رہی۔ ان حالات میں مسلم مفکرین کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کمیونزم کے نظریے اور مغربی تمدن وکلچر کے نفوذ کا اصل سبب ان کی پشت پر عظیم الشان اسٹیٹ کا ہونا ہے ۔ایک کی پشت پر رشین امپائر ہے تو دوسرے کی پشت پر طاقتور مغربی حکومتیں، جبکہ مسلمانوں کی سیاسی قوت ٹوٹ پھوٹ کر بکھر رہی تھی جو بالآخر ۱۹۲۴ میں اختتام کو پہنچ گئی۔ ان مایوسی کے حالات میں تاریخ میں پہلی بار بیسویں صدی میں بعض اسلامی مفکرین نے اسلامی اسٹیٹ کے قیام کو قرآن اور اسلام کا نصب العین قر ار دے کر پورے قرآن واسلام کو اس فکری محور کے گرد اس طرح سے گھمایا کہ قرآن کی ایک بالکل نئی تعبیر سامنے آئی جسے بجا طور پر ایک ’’سیاسی تعبیر‘‘ کہا جاسکتاہے۔ مسلم نوجوانوں کی آنکھوں میں ہزار بارہ سو سال کی اسلامی امپائر کی شان وشوکت کا نقشہ اور کانوں میں مسلم اسٹیٹ کی عظمت وبالادستی کی پرشکوہ داستانیں گونج رہی تھیں۔ انہوں نے اسلام کی اس نئی تعبیر کو درد کا درمان اور عظمت رفتہ کے حصول کا واحد طریقہ جانا، چنانچہ مسلم نوجوانوں، خاص طور پر جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں نے جوق درجوق ان مفکرین کی آواز پر لبیک کہہ کر اسلامی اسٹیٹ کے قیام وحصول کو مقصد حیات بنایا۔اس نئے نصب العین کی خاطر ان مفکرین کو اسلام کی پوری ترتیب بدلنی پڑی، یعنی عقائد، عبادات، اخلاق، معاملات او رسیاست کی ترتیب کو برعکس کرکے سیاست کو مقدم کرنا پڑا او ر اس تعبیر کے لیے انسان اورخدا کے مابین عبدیت کے گہرے رشتہ وتعلق کو حاکم ومحکوم کا رسمی رشتہ قرار دینا پڑا، جبکہ لفظ اللہ کے لفظی معنی ہی اس ہستی کے ہیں جس سے بے انتہا محبت کی جائے، جسے قرآن نے ’والذین آمنوا اشد حباّ للہ‘ سے تعبیر کیا ہے۔
یاد رہے بیسویں صدی کے ان عظیم مفکرین نے، جن میں شیخ حسن البناء، سید ابو الاعلیٰ مودودی اور فلسطین کے شیخ تقی الدین نبھانی وغیرہ شامل ہیں، اپنے کام کی ابتدا معاشرے کی اصلاح وتربیت اور اس کی توانائی وروح کی بازیافت ہی سے شروع کی تھی اور چند سال میں اس کام کے نہایت مفید نتائج سامنے آئے۔ باصلاحیت اور مخلص تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک ٹیم وجود میں آگئی، مگر حالات کے دباؤ، کام کی کٹھنائی، اس کے صبر طلب ہونے اور مغر ب کی طاغوتی طاقتوں کے ظلم وستم کی آندھیوں اور ان کی پوری دنیا پر تسلط وغلبے کے حالات نے ان مفکرین کو مختصر راستے (شارٹ کٹ) پر ڈال دیا۔ پھر ان جماعتوں اور اس فکر سے وابستہ بعض افراد نے جب دیکھا کہ یہ نصب العین (اسٹیٹ کا قیام) دنیا کے مروجہ معروف اور متداول طریقوں سے حاصل نہیں ہو پا رہا تو انہوں نے جلد بازی میں انتہا پسندی کا راستہ اختیار کیا، چنانچہ اخوان ہی سے جماعت الہجرۃ والتکفیر (جس سے احمد الظواہری اور صدر سادات کے قاتل خالد کا تعلق ہے ) جیسی انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والی جماعتیں وجود میں آئیں۔ اگر چہ بعد میں اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی نے ان سے باضابطہ طور پر اظہار لاتعلقی کیا مگر یہ نہ بھولنا چاہیے کہ یہ تنظیمیں اسی نصب العین یعنی اسلامی اسٹیٹ کے جلد حصول کی خواہش میں پید ا ہوئیں اور یہ لوگ دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کی بدنمائی اور بدنامی کا اور انسانیت کو اسلام سے وحشت زدہ کرنے کا سبب بنیں۔
جب ہم اسٹیٹ کے قیام کے نصب العین کے لیے قرآن وسنت اورحضرات انبیا کی زندگیوں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو قرآن کی ایک آیت بھی براہ راست ہم سے اسٹیٹ کے قیام کا مطالبہ نہیں کرتی اور نہ کوئی واضح حدیث ہمیں اس کام کا مکلف بناتی ہے، البتہ قرآن نے عمل صالح پر استخلاف فی الارض کا وعدہ کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ جب اہل ایمان کو اقتدا ر ملتاہے تو وہ نماز وزکوٰۃ کو قائم کرتے ہیں ،معروفات کو پھیلاتے ہیں اور منکرات سے روکتے ہیں اور یہ بھی کہ اہل اقتدار حکومت کے قائم ہو جانے کے بعد اگر اللہ اور رسول ﷺ کے احکامات کے مطابق فیصلے نہ کریں تو قرآن انہیں ظالم، فاسق بلکہ کافر تک قرار دیتاہے ۔قرآن نے تین انبیاء سابقین ،حضرت یوسف ؑ ،حضرت داؤدؑ ،اور حضرت سلیمانؑ کا تذکرہ صاحبان اقتدار کے طور پر کیاہے۔ وہیں واضح طور پر یہ بتا دیا کہ یہ اقتدا ر ان کی کسی کوشش کے بغیر محض اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا تھا۔ مقام غورہے کہ جو قرآن سینکڑوں جگہ پر پیرایے اور اسلوب بدل بدل کر نماز ،زکوٰۃ ،اللہ کی راہ میں جان ومال کے خرچ کرنے، تقویٰ، احسان ،صبر اوردیگر اوصاف واعمال کی تلقین کرتا اور تاکیدی حکم بیان کرتاہے اور انہیں ایک مسلمان کا مقصود ومطلوب قرار دیتاہے، ایک جگہ بھی واضح طور پر اسلامی اسٹیٹ کے قیام کا مطالبہ نہیں کرتا۔
اسی طرح ہزارہا احادیث میں سے کوئی ایک حدیث بھی واضح طور پر اسٹیٹ کے قیام کا مطالبہ نہیں کرتی بلکہ اس کے برعکس نفسانیت اور شروفساد کے دور میں بہت سی احایث اقتدار اورحکومت کے جھمیلوں سے دور ہو کراللہ ورسول ﷺ کی اطاعت، عبادات واعمال اور معاشرے کی تعمیر میں لگ جانے کی طرف راہنمائی کرتی ہیں اورقرب قیامت میں جب معاشرہ فساد کی انتہاکو پہنچ کر خیر کو قبول کرنے کی استعداد کھو دے گا، اس وقت معاشرے کی فکر کے بجائے اپنی ذات کو اللہ ورسول ﷺکے حکم اور ذکر وعبادات پر جمانے کی ہدایت کرتی ہے۔ یہ بات بھی محل غور ہے کہ اسلام کے چودہ سو سالہ دور میں کسی صحابی،ؓ تابعیؒ ،مجتہد ،محدث، عالم یا فقیہ اور بزرگ وولی نے قرآن وسنت او رسیرت سے اسلام کا نصب العین اسٹیٹ کا قیام نہیں سمجھا جس پر بیسویں صدی کے بعض مفکرین نے لٹریچر کے ڈھیر لگادیے۔ ہمارے نزدیک اسلام جیسے واضح نصب العین رکھنے والے مذہب کے متعلق یہ تصور ہی ناقابل فہم اور گمراہ کن ہے کہ اس کی صحیح حقیقت ومعنویت یا نصب العین بیسویں صدی تک پردۂ خفا میں رہا۔
اگر اسلام پوری انسانیت کا مذہب ہے اور قرآن ’ہدی للناس‘ اور ’بلاغ للناس‘ ہے،یعنی تمام انسانیت کے لیے پیغام ہے اور پیغمبر اسلام ﷺ ’کافۃ للناس بشیرا ونذیرا‘ ہیں اور ساری نوع انسانی آپ کی امت دعوت ہے تو جس طرح ایک تاجر اپنا مال بیچنے کی خاطر بعض اوقات خرید ار کی طرف سے ناگوار باتوں کو بھی گوارا کرلیتاہے، اسی طرح داعی کو مدعو کے رویے سے صرف نظر کرکے اور صبر وتحمل کا دامن تھام کر اپنا پیغام پہنچانا ہوگا۔ یہی کام مسلم معاشرہ ہر دور میں خاموشی سے کرتارہا حتیٰ کہ برصغیر میں مسلم اسٹیٹ کے اختتام کے وقت مسلم آبادی کا تناسب بمشکل دس فیصد رہاہوگا جوایک صدی بعد کل آبادی کے ایک تہائی کے قریب جاپہنچا ۔اگر حالات نارمل رہتے اور معاشرہ اپنا کام کرتارہتا تو قیاس کہتاہے کہ مزید ایک صدی میں برصغیر کے مسلمانوں کو واضح اکثریت میں بدل جانے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی تھی، مگر دعوتی کام کے بجائے سیاسی ذہن وفکر اور اقتدار کی خواہش نے برصغیر کے معاشرے میں منافرت، دوری اور تلخی گھول کر اسلام کے سمجھنے کے امکانات ختم نہیں تو نہایت محدود ضرور کردیے۔ اسلام جیسے آفاقی اور پوری انسانیت کے لیے پیغام رکھنے والے مذہب کو اسٹیٹ کی تنگ نائے میں بند کرنا ناقابل فہم ہے۔ جس دین کی تعریف خود پیغمبر اسلام ﷺ نے ’النصیحہ‘ یعنی خیر خواہی کے لفظ سے کی ہو اور بتایا ہوکہ یہ اللہ ورسول ﷺ، مسلمانوں اور پوری انسانیت کے ساتھ بھلائی اور خیر خواہی کا نام ہے، ا س کا اولین تقاضا انسانیت کے درمیان ہر قسم کی غلط فہمیوں کو ختم کرکے ان کو پیغام سننے کے مواقع مہیا کرناہونا چاہیے، جبکہ اسٹیٹ اور اقتدار کا لفظ ہی اقوام عالم کے درمیان تناؤ، فاصلوں اور بدگمانیوں کے ڈھیر لگا دیتاہے۔ اگر اسلام کا نصب العین کسی اسٹیٹ کا قیام ہوتا تو مسلمانوں کے اسلامی اسٹیٹ کو چھوڑ کر برصغیر، چین، انڈونیشیا او ر دنیا بھر میں پھیل کر دعوت اسلام کی تگ ودو بے معنی ہوجاتی ہے۔ برصغیر میں موجود تقریباً پچاس کروڑ مسلمانوں میں ننانوے فی صد یہاں کی مقامی آبادی سے ہیں۔ یہی حال دنیا بھر کے مسلم معاشروں کا ہے۔ یہ سب سے بڑی شہادت اور دلیل ہے جو قائد اعظم اور علامہ اقبال ؒ کے دو قومی نظریے پر سوالیہ نشان قائم کر دیتی ہے، کیونکہ اسلام پوری انسانیت کا مذہب ہے نہ کہ ایک قومی یا قبائلی مذہب جو کہ جغرافیے کی تنگ نائے میں محدود ہو کر رہ جائے ۔
آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک انڈونیشیا کسی فوج یا اسٹیٹ کے بغیر مسلم ملک بنا اور دوسرا بڑا ملک بنگلہ دیش مسلم اسٹیٹ کے دور میں نہیں بلکہ برٹش امپائر کے عین دور شباب میں مسلم اکثریت کاخطہ بنا، اسلام اپنی اشاعت میں کبھی اسٹیٹ کامرہون منت نہیں رہا۔ دنیا میں مسلم اسٹیٹس بنتی بگڑتی رہیں، اس سے اسلام کی رفتار پر کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ وہ اپنی اندرونی توانائی واسپرٹ سے برابر نئی نئی فتوحات حاصل کرتارہا کیونکہ
نشہ مے کوتعلق نہیں پیمانے سے
برصغیر میں اسلام کا نام استعمال کرکے ۵۸ سال پہلے ایک اسٹیٹ وجود میں آگئی مگر اسلام کبھی اسلام آباد کے ائیر پورٹ پر نہیں اتر سکا اور نہ مستقبل میں کبھی اترنے کا امکان نظر آتاہے۔ اسلام تو خیر بہت بڑی چیز ہے، اگر اگلے ۵۸ سال میں صحیح معنی میں مغربی ڈیموکریسی اور سوشل جسٹس (سماجی انصاف ) ہی آجائے تو ہم اسے بھی اس نظریے کی کامیابی سمجھیں گے، مگر اس کا بھی دور دور تک کوئی امکا ن نظر نہیں آتا۔ غور کیاجائے تو مسلمانوں کی سوچ وفکر کا رخ انسانی بہبود اور معاشرے کی تعمیر کے بجائے اسٹیٹ کے قیام اور حصول اقتدار کی طرف مڑجاناہی موجودہ پریشانیوں کا بنیادی اور اصل سبب ہے۔ مثلاً امریکہ میں مسلمان تیزی سے اپنے قدم جماتے جارہے تھے اور عددی اعتبارسے دوسری بڑی کمیونٹی بن چکے تھے۔ مسلم معاشرت خاموشی سے اپنا کام کر رہی تھی کہ مسٹر بش کے پہلے الیکشن کے موقع پر مسلمانوں نے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہر ہ کردیا جس پر صہیونی طاقتوں کے کان کھڑے ہوگئے جن کا عرصہ سے امریکہ ومغرب پر ہمہ جہت اقتدار قائم ہے کہ مسلمانوں کی یہ جرات کہ ہماری حدود میں دخل دیں، یہاں یہ طے کرنا کہ اقتدار پر کون فائز ہو، صرف ہماراحق ہے، اور اس کے بعد نائن الیون کا ڈرامہ رچایا گیا اور امریکہ میں مسلمانوں کا وہ حشر کیا گیا کہ جان کے لالے پڑگئے ۔
مسلم معاشرہ کی اندرونی روح وتوانائی کے خاتمہ کا ایک بہت بڑا سبب تو خود اہل دین کا اعتقادی وفقہی مسالک کے جھگڑوں میں مشغول ہو کر انسانیت کے تئیں اپنے فریضے سے غافل ہو جانا ہے۔ صدیوں سے مذہبی طبقے کا دائرہ کا ر عقائد وعبادات اور نیک بننے کی مشق رہ گیا ہے۔ ان کے پاس انسانیت کی بہبود کے لیے سوچنے کی فرصت نہیں ہے۔ دوسرا سبب مغربی اقوام بالخصوص برطانیہ وفرانس کا عالم اسلا م پر قائم ہونے والا سیاسی اور علمی وفکری غلبہ ہے۔ برطانیہ نے برصغیر میں اپنے نظام تعلیم، افکار ونظریات اور تمدن وکلچر کے ذریعے ایک ایسی نسل پیدا کردی جس کی نشوونما خواہشات ،خود غرضی ،نفس پرستی اور حیوانیت کے خصائص پر ہوئی۔برصغیر میں برٹش امپائر پنجاب کی فوج، پولیس اور انٹیلی جنس کے بل بوتے پر قائم رہا۔ اس نے ایک طبقے کو ملک وملت سے غداری کے عوض زمینیں وجاگیریں دے کر عوام پر تسلط وغلبہ بخشا۔ جب برطانیہ نے محسوس کیا کہ اس کی پروردہ نسل اس کے منشا کے مطابق اس خطے کو سنبھال سکتی ہے تو سیاسی اقتدار اس ٹولے کے حوالے کرکے واپس آگیا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ طبقہ گزشتہ ۵۸ سال سے بلاشرکت غیر ے ملک کا مالک ومختار بنا ہواہے۔ فوجی حکومت ہو یا جمہوری، اصل اقتدار انھی مراعات یافتہ غدار خاندانوں کا رہا جو ہر دور میں ملک کے وسائل کواپنی ذاتی جاگیر جان کر لوٹ کھسوٹ کرتے رہے ۔ بینکوں سے کروڑوں اربوں روپے ہڑپ کرکے معا ف اور قیمتی زمینیں کوڑیوں کے دام اپنے نام الاٹ کرواتے رہے۔ پاکستا ن کے حالیہ زلزلے میں بیرونی ممالک کی امداد کا ایک بڑا حصہ یہ طبقے ہڑپ کرچکے ہیں۔ یہ اسلام اور قرآن کو اپنے لیے پیغام موت سمجھتاہے ۔ مغرب نے تقریباً ہر ملک میں ایسا طبقہ پیدا کرکے اقتدار واختیارات اور ملک کی باگ ڈور اس کے ہاتھ سونپ رکھی ہے جو امریکہ وبرطانیہ کا خادم بن کر ان کے چشم ابرو کے اشارے پر کام کر رہا ہے۔
غرض مسلم معاشرے کی تباہی کا اصل وبنیادی سبب معاشرے کی روح کا نکل جانا ہے اور قرآن نے انسان کی بہبود کے لیے جو اسپرٹ پید ا کی تھی، اس سے محروم ہوجانا ہے۔ یہی مسلم مفکرین کے لیے وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے کہ اس جاں بلب معاشرے کی روح وتوانائی کس طرح واپس لوٹے، نہ یہ کہ اقتدار اور حکومت کے ایوانوں تک علما و مفکرین کی رسائی کیسے ہو۔اول تومغرب کی پروردہ نسل کبھی خدا ورسول ﷺ پر ایمان رکھنے والوں کو اقتدارتک پہنچنے نہیں دے گی۔ یہ حقیقت دن بدن واضح ہوتی جارہی ہے کہ مغرب مسلم ممالک میں جمہوریت کے نام پر عراق اور افغانستان کی طرح اپنے فرمانبردار اہلکاروں کی حکومت کا خواہاں ہے۔ بفرض محال دینی جماعتیں اگر کسی مسلم ملک میں الیکشن کے ذریعے اوپر آبھی گئیں تو عالمی طاقتوں نے، جو گزشتہ کئی صدیوں سے صہیونی شیطانوں کی غلام وآلہ کار بن چکی ہیں، انہیں بے بس وبے اثر کرنے کے لیے دوسرا انتظام کررکھا ہے۔ وہ یہ کہ دوسری جنگ عظیم کے فاتحین امریکہ وبرطانیہ وغیرہ نے اپنی فتح کو دائمی بنانے اور پوری انسانیت پر نافذ ومسلط کرنے کے لیے اقوام متحدہ کو وجود بخشا،اور یو این او کے ذریعے دنیائے انسانیت پر اپنا اقتدار مستحکم کرلیا۔ دنیا کے سارے ممالک بشمول مسلم ممالک یواین او کے چارٹر پر دستخط کر کے اس بات کا عہد کر چکے ہیں کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں یواین او کے مطالبات کو نافذ کریں گے اور اپنے ملکی وقومی آئین وقوانین کو بدل کر ان کے مطابق بنائیں گے ۔
یواین او کا یہ دستور اور چارٹر مغربی طاقتوں کے مفادات، خواہشات اور تمدن کے مطابق اور آسمانی تعلیمات کے متوازی بلکہ برعکس ہے۔ مثلاً اس کی ایک دفعہ یہ ہے کہ بالغ عمر کے مرد وعورت رنگ ونسل، جغرافیہ اور مذہب کی تفریق کے بغیر شادی کرسکیں گے۔ اب آپ کسی مسلمان لڑکی کو غیر مسلم سے شادی کرنے سے نہیں روک سکتے ۔ایک دفعہ یہ ہے کہ کسی مجر م کو ایسی سزا نہیں دی جائے گی جس سے اس کی تذلیل ہو یا اسے اذیت ہو، یعنی قرآن کے حدود وقصاص کے تمام قوانین یک لخت ختم۔ ایک دفعہ یہ ہے کہ مرد وعورت ہر اعتبار سے مساوی ہوں گے۔ اس سے قرآن کے تمام معاشرتی وعائلی قوانین ختم ہو جاتے ہیں، مثلاً طلاق دینے کا حق جس طرح مرد کو ہے، عورت کو بھی دینا ہوگا۔ اسی طرح قرآن کے وراثت کے تمام قوانین منسوخ ہو جاتے ہیں۔ لڑکے کے دو حصے اور لڑکی کا ایک حصہ نہیں، بلکہ مساوی حق ہوگا۔ چندسال پہلے مصری عدالت نے دو لڑکوں کو جنسی تعلق قائم کرنے کی وجہ سے سزادی تو اس پر حسنی مبارک کو یہ کہہ کر مغرب سے معافی مانگنا پڑی کہ ابھی معاشرے میں قرآن کا کچھ (فرسودہ) اثر باقی ہے اس لیے یہ غلطی ہوئی ،ورنہ یہ ان ملزمین کا بنیادی حق ہے۔ یو این او پہلے ہی طے کرچکی ہے کہ دنیا میں نیوکلیر پاور بننے کا حق صرف پانچ بڑی طاقتوں ہی کا ہے تاکہ مغرب کی دہشت پوری دنیا پر طاری رہے۔ غرض پوری دنیا پر اقوام متحدہ کے نام سے مغرب کا عالمی ا قتدار قائم ہوچکاہے اور یو این او کا یہ حق دنیا کے تمام ملک تسلیم کرچکے ہیں کہ اس کے آئین وقوانین اورقراردادوں کی خلاف ورزی کرنے والی حکومتوں پر یواین او کو فوج کشی کرکے ان حکومتوں کو ختم کرنے کا حق ہے، جیسا کہ افغانستان میں ہوچکاہے۔
موجودہ حالات میں اقوام متحدہ کے قوانین اور چارٹر کی خلاف ورزی کرنے کی جرات چین اور بھارت جیسے ملک بھی اپنے میں نہیں پاتے تو مسلم ممالک کس شمار میں ہیں؟یہ آج کی دنیا کے زمینی حقائق ہیں۔ اب ان کو سامنے رکھ کر بتائیے، اگر دینی جماعتیں کسی خطے یا ملک میں انتخابات کے ذریعے اقتدار تک پہنچ بھی گئیں تو وہ کیا کچھ کر پائیں گی اور کس طرح اسلام کا نفاذ کریں گی؟ موجودہ حالات میں ہمارے پاس واحد آپشن (راستہ) یہی رہ جاتاہے کہ قرآن واسلام نے پوری انسانیت کی بہبود کا جو پیغام اور پروگرام دیا ہے، اس سے دنیائے انسانیت کو روشناس کرائیں ،اور خود عملی نمونہ بن کر جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے دعوت کا امپائر قائم کرکے تمام انسانیت کو ان کی دنیا وآخرت کی سرخروئی وسرفرازی کی یقینی راہ کی طرف بلائیں، نہ کہ اقتدار کے حصول کی دوڑ میں شامل ہوکر اقوام عالم کے حریف بن جائیں۔ پوری تاریخ شاہد عدل ہے کہ جب کبھی معاشرہ وافراد پر ایمان واسلام کا رنگ چڑھا تو خود بخود اسلامی اسٹیٹ قائم ہوگئی۔ پوری تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اسٹیٹ کے ذریعے معاشرہ وافراد میں ایمان واسلام قائم ہوا ہو۔غرض وقت کا سب سے بڑا چیلنج اور بنیادی سوال ہے، اسٹیٹ یا سوسائٹی؟ ہر مسلمان خاص طور پر مسلم مفکرین وزعما اور قرآن وسنت کا علم رکھنے والوں کے لیے یہ سوال وقت کی سب سے بڑی آزمائش اور ان کے فہم وبصیرت کا امتحان ہے۔ اس سوال کا جواب یا فیصلہ امت مسلمہ بلکہ پوری انسانیت کا مستقبل طے کرے گا۔
اتحاد امت کا مفہوم اور اس کے تقاضے
محمد وحید خراسانی
امت اسلام کے بنیادی اور ضروری اصولوں میں سے ایک چیز یہ ہے کہ مسلمان ’’ایک امت‘‘ ہیں جیسا کہ آیت کریمہ ’’ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون‘‘ (بیشک تنہا تمھاری امت ،امت واحدہ ہے اور میں تمھارا پروردگارہوں، پس میری عبادت کرو) یا دوسری آیت شریفہ ’’ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاتقون‘‘ سے ظاہر ہے۔ عبارتیں دو ہیں، مگر دونوں کا مطلب یہ ہے کہ امت اسلامی ایک ہی امت ہے۔ ....... اسلام ’’امت ‘‘ تشکیل دینے کے لیے آیا ہے۔ امت کا مطلب ہے ایسی جماعت جو ایک رہبرکی پیروی کرتی ہو۔ جو جماعت ایک راہ پر گامزن نہ ہو، اس کو امت نہیں کہتے ۔قرآن کریم نے امتوں کو دین اور عمل کے اعتبار سے ایک دوسرے سے الگ کیاہے اور ہرایک کو اپنے عمل کا جو اب دہ گرداناہے: ’’تلک امۃ قدخلت لھا ماکسبت ولکم ماکسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعملون‘‘۔ ......
شیخ طوسی تفسیر تبیان میں رقم طراز ہیں: ’’والامۃ اہل الملۃ الواحدۃ کقولھم امۃ موسیٰ،امۃ عیسیٰ،وامۃ محمد‘‘ امت ایک دین کی پیروی کرنے والوں کو کہتے ہیں، جیسے امت موسیٰ ،امت عیسیٰ ،امت محمدﷺ۔ اسی مقام پر لکھتے ہیں: ’’والملۃ والنحلۃ والدیانۃ نظائر‘‘ یعنی ملت، دین اور آئین کے ایک معنی ہیں۔ اور ملت کا ایک معنی جانا پہچانا اور معین راستہ ہے۔ پس ملت ابراہیمؑ کا معنی ہے وہ جانا پہچانا اور معین راستہ جس کو ابراہیم نے جملہ انسانوں اور اپنے ماننے والوں کے لیے بنایا ہے، جس سے مراد دین ابراہیم ہے ۔اس بنا پر امت اور ملت ،معنی میں مشترک ہیں اور ایک ہی نقطے پر ختم ہوتے ہیں اور امت وامام ایک ہی مادہ سے ہیں۔ پس وہ جماعت اور جمعیت جو اسلام کے نام پر ایک امام یعنی لغوی اعتبار سے ایک پیشوا کی،جو سرکاررسالت مآب ﷺ ہیں، پیروی کرنے والے ہیں ،ایک امت ہیں، اور دوسری قومیں ،جن کا پیغمبر ایک ہے، وہ بھی بذات خود امت ہیں۔ مسلمان گورے ہوں یا کالے ،سرخ پوست ہوں یا زرد پوست، مشرقی نسل کے ہوں یامغربی نژاد کے، کسی بھی زبان میں کلا م کرتے ہوں اور کسی بھی قوم و قبیلہ سے تعلق رکھتے ہوں، سب کے سب ایک امت ہیں’’ ایک اسلامی امت ‘‘۔ .......
قرآن مجید میں ارشادہے: ’’ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ‘‘۔ سیاق کے اعتبارسے اس آیت کے دو معنی کیے گیے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ آیت کا خطاب تمام انبیاے کرام کے ماننے والوں سے ہے۔ چونکہ اس آیت سے پہلے قرآن مجید نے دوسرے انبیائے کرام کاذکرکیا ہے اور اس کے بعد فرمایا: ’’ وان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون‘‘ اس کے بعد بھی اختلاف ہی کابیان ہے، یہ ارشاد فرمانے کے بعد کہ تم سب ایک امت ہو اور میں تمھارا پروردگارہوں ،تمھیں میر ی عبادت کرنا چاہیے، ارشادہوتاہے کہ انہوں نے آپس میں اختلاف کیا اور ان کے اس اختلاف کی بنیاد ’’بغیا بینھم‘‘ ہے، یعنی انھوں نے ایک دوسرے کے خلاف بغاوت کی بنیاد پر اختلاف کیا۔ اگر آیت کے یہ معنی کیے جائیں تو آیت کا تعلق ’’اتحاد ادیان ‘‘ سے ہوگا، چونکہ ارشاد ہوتاہے ’’اے خدا کی عبادت کرنے والو! اے ان انبیائے کرام کے ماننے والو جن کاہم نے پہلے ذکر کیا ہے ،تم سب کے سب ایک امت ہو اور تمھارے امت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تم سب خدا کی عبادت کرتے ہو: ’’ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون‘‘۔ عبادت، یکتا پرستی اورتوحید ،ادیان آسمانی کے اتحاد کامعیار ہے۔ آیت کے ذیل سے بھی اسی معنی کی تائید ہوتی ہے ،لیکن بعض مفسرین کہتے ہیں کہ نہیں ، بلکہ قرآن مجید نے دوسرے انبیائے کرام کا ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کومخاطب قراردے کرارشاد فرمایا کہ ان کی حالت تویہ تھی، اب تم بتاؤ کہ تم کیسے ہو؟ تم بذات خود ایک امت ہو۔ ’’ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون‘۔‘ اور دوسری آیت میں ارشاد ہوتاہے ’’فاتقون‘‘۔ اس معنی کی بنیاد پر ایک امت ہونے کا معیار ہمارے ہاتھ آجاتاہے۔ ہم امت اسلام ہیں، اس لیے کہ موحد ،خدا پرست اور ایک پیغمبر وشریعت کے ماننے والے ہیں۔ پس مسلمان سب کے سب ’’ایک امت ‘‘ہیں۔
اسلامی اتحاد کے بارے میں تعبیریں متعدد ہیں۔ ایک تعبیر اور بھی ہے اور وہ ہے ’’اخوت اسلامی‘‘ اسلامی بھائی چارہ۔ اتحاد اسلامی یا اتحاد مسلمین کا زیادہ تر تعلق سیاسی اور اجتماعی پہلو سے ہے او ر اسلامی اخوت وبرادری کاتعلق جذباتی پہلو سے ہے۔ ( قرآن مجید) کہتا ہے کہ تمھیں جذباتی لگاؤ کے اعتبار سے ایک دوسرے کا بھائی ہونا چاہیے۔ ’’واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ‘‘ اس میں ارشاد ہوتاہے کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، خدا نے تمھارے دلوں کو ایک دوسرے کے نزدیک کیا، تم ایک دوسرے کے بھائی ہوگئے۔ اخوت دلوں کے قرب اور جذبات کی ہم آہنگی کانام ہے۔ بھائی چارہ کا تعلق اسلامی جذبات سے ہے ،مسلمانوں کو میدان سیاست واجتماع ،میدان اقتصاد ،کلی مسائل، احکام وشریعت اور اپنی تقدیر میں ایک دوسرے کے شریک اور ایک امت ہونے کے علاوہ جذبات کی دنیا میں بھی ایک دوسرے کا بھائی ہونا چاہیے۔
قر آن مجید نے اس سلسلے میں تفصیل سے بحث کی ہے اور آیات کریمہ میں ایسے لطیف وظریف مضامین ہیں کہ انسان کو یہ یقین ہوجاتاہے کہ ہر وہ چیز جس سے مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہو سکتاہے اور ان کے لیے مایہ سعادت وخوش بختی ہو سکتی ہے، اسے بیان کردیا گیاہے لیکن مسلمان اس سے غافل ہیں۔ ہم قرآن مجید سے کوسوں دور ہیں۔ قرآن مجید کو پڑھتے ہیں ،اس کی تفسیر بھی سنتے ہیں، لیکن میں نے آج تک کسی شخص کو نہیں دیکھا جس نے اسلامی اتحاد اور اسلامی اخوت میں فرق رکھا ہو اور کوئی ایسا شخص بھی نظر سے نہیں گزرا جس نے ’’مسلمانوں کے اتحاد‘‘ اور ’’تقریب مذاہب ‘‘ میں فرق رکھا ہو (جبکہ) اسلامی اتحاد ایک مسئلہ ہے اور تقریب مذاہب دوسرا مسئلہ ہے ،البتہ ان کاآپس میں ربط ہے۔ مذاہب کو ایک دوسرے کے قریب کرنا، مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے کا پیش خیمہ ہے۔
معلوم ہوا کہ مسلمان ایک امت ہیں اور یہ چیز اسلام کے ضروریات میں سے ہے ۔ایک امت ہونے کامطلب یہ ہے کہ اپنے درمیان اتحاد قائم رکھیں۔اتحاد کیسے قائم رہے گا ؟اس کے بارے میں قرآن مجیدنے ارشاد فرمایا ہے’’واعتصموا بحبل للہ جمیعا ولا تفرقوا‘‘ یہ اتحاد نہیں ہے کہ سب مسلمان ایک صف میں کھڑے ہوں بلکہ سب ایک سلسلے سے متمسک ہوں، ایک رسی کو پکڑے رہیں اور وہ رسی خدا کی رسی ہے۔ وہ رسی کیاہے؟ تفسیریں مختلف ہیں۔ قرآن ہے ،دین ہے، اسلام ہے ،احکام ہیں اور بعض شیعہ روایات کہتی ہیں کہ اس سے ’’ولایت ‘‘ مراد ہے اور اس میں کوئی مانع نہیں ہے، اس لیے کہ اسلام کاباطن ’’ولایت ‘‘ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو ایک ’’اصل‘‘ سے متمسک ہو جانا چاہیے اور اصل ہے اصل توحید، اصل نبوت، اور اصل معاد (قیامت ) اور یہی ہے ہر وہ چیز جو کتاب میں ہے اور جسے رسول لے کر آئے۔ وہ مشترک جامع اصل ،عقیدہ کا اشتراک ہے۔ اسلامی اتحاد کے دو ستون ہیں۔ ایک پر عقیدہ کی عمارت اور دوسرے پر عمل کی عمارت کھڑی ہے ۔
مشترک جامع اصل سے ہماری مراد اسلام کے وہ قطعی اصول ہیں جن پر تمام مسلمانوں کااتفاق ہے ،جو کتاب وسنت سے قطعی طور پر ثابت ہیں اور تمام مسلمان ضرورتاً انہیں مانتے ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ سب مسلمان یکتا پرست ہوں، پیغمبر کو پیغمبر سمجھیں، قیامت کا عقیدہ رکھتے ہوں، نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، زکوٰۃ دیں، حج بجا لائیں، نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں،یعنی وہی چیزیں جو اصول وفروع کے نام سے ہمیں یاد کرائی جاتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ اصول دین تین ہیں : ۱۔توحید ، ۲۔نبوت ، ۳۔قیامت۔ اور دوسری چیزیں جن میں مذاہب کے درمیان اختلاف ہے، وہ اصول مذاہب ہیں ۔ہر مذہب کے اپنے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ ہم شیعوں کے پانچ اصول ہیں جن میں تین مشترک اسلامی اصولوں کے علاوہ عدل اور امامت بھی شامل ہیں۔ معتزلیوں کے بھی مشترک اسلامی اصولوں کے علاوہ پانچ اصول ہیں اور وہ یہ ہیں: ۱۔توحید (جس کے معنی خدا کی صفتیں اس کی ذات سے الگ نہیں ہیں) ۲۔عدل، ۳۔وعدہ اور وعید (جس کے معنی ہیں خدا کے لیے اپنے وعدہ اور وعید پر عمل کرنا لازمی ہے) ۴۔منزلۃ بین المنزلتین ( یعنی گناہ کبیرہ کرنے والا نہ کافر ہے اور نہ مومن) ۵۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ۔دوسرے مذاہب کے بھی اپنے اصول ہیں۔
اس بنا پر اتحاد کی پہلی شرط ،اصول سے متمسک ہونا۔ وہ اصول جن کو ’’حبل اللہ ‘‘ سے تعبیر کیاگیاہے۔ قرآن مجید سے متمسک ہونا یعنی ہر اس چیز سے متمسک ہونا جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے، دین سے متمسک ہونا ،یعنی اصل دین سے اور اس کے قطعی مشترکات سے وابستہ ہونا ہے، وگرنہ دین جب مجتہدوں کو دے دیاجائے حتیٰ کہ ایک مذہب کے مجتہدوں کو تو اس کے بال وپر نکل آتے ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔ اختلاف ہے لیکن اختلافی احکام ایک مذہب کے احکام ہیں، دین کے احکام نہیں ۔یہ صحیح بھی ہے اورخود دین نے اس کو جائز قرار دیاہے کہ اس قسم کے مسائل میں مجتہد حضرات اجتہاد کریں اور ان کے اختلاف کو دین نے پسندکیاہے: ’’للمصیب اجران وللمخطئ اجر واحد‘‘۔ جو مجتہد اپنے اجتہاد کے ذریعہ خدا کے واقعی حکم کو معلوم کرلے، اس کے لیے دو اجر ہیں اور جو اجتہاد میں غلطی کرے، اس کے لیے ایک اجر ہے۔
یہ تھی ایک بات اورپہلا رکن ،یعنی قطعی اور مشترک اصول سے متمسک ہونا ۔ اس وقت تما م مسلمانوں کے پیغمبر، پیغمبر اسلام ہیں، سب کے سب یکتا پرست ہیں، نماز پڑھتے ہیں، سب کا قبلہ ایک ہے ،تمام اسلامی ممالک اور مختلف اسلامی مذاہب کو دیکھ ڈالیے ،آیا کعبہ کے علاوہ ان کا کوئی دوسرا قبلہ ہے ؟نہیں ہے۔ سب کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کے قوانین کی پابندی کرنا چاہیے۔ سیاست، معاملات، احکام قضا، قصاص اوردیات میں اجمالی طور پر سبھی متفق ہیں۔ ہاں، جب فقہ کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو مختلف مذاہب کے فقہا کے نظریات کی بنا پر مختلف فرعیں وجود میں آتی ہیں۔ یہ ہے ایک رکن ،یعنی ’’حبل اللہ‘‘ سے متمسک ہونا،جس سے مراد ،اصل دین یعنی مسلّمات ،محکمات،قطعیات اور متفق علیہ مسائل ہیں۔
ایک رکن اور بھی ہے او ر وہ ہے ’’مشترک ذمہ داری‘‘ کو پوراکرنا۔ مسلمان جو ایک امت ہیں، ایک دین رکھتے ہیں، انہیں چاہیے کہ مشترکہ ذمہ داری کو قبول کریں۔ میں دو حدیثیں آپ کے سامنے پیش کرتاہوں۔ سرکار رسالت فرماتے ہیں: ’’من اصبح لا یبالی بامور المسلمین فلیس بمسلم‘‘ (کافی؍ کتاب الایمان والکفرباب ۷۰ ؍حدیث ۵۔۱) ’’جو شخص یوں صبح کرے کہ امور مسلمین کو اہمیت نہ دیتاہو، وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘ رسالت مآبﷺ کیا فرماتے ہیں؟ ہم نیندسے اٹھے ہیں، درس وبحث کی فکر میں ہیں، تاجر اپنی تجارت کی فکر میں ہے، مزدور کے سر میں مزدوری کا خیال ہے، سیاست دان سیاست میں الجھاہوا ہے، وہ چیز جو کسی کے دل ودماغ میں نہیں ہے، شاید پورادن یا ہفتہ دو ہفتہ یا ایک مہینہ تک،وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ کے اس جمع عظیم کے سلسلہ میں وہ بھی ذمہ دار ہے۔قرآن واسلام یہ کہہ رہے ہیں کہ مشرق میں بسنے والے مسلمان کے کندھوں پر مغرب میں رہنے والے مسلمان کی کچھ ذمہ داریاں ہیں، چاہے کسی بھی مذہب کا ہو، مسلمان ہو،اسلام کے مسلمہ اصول کو مانتاہو ،یکتا پرست ہو، اس کا دین اسلام ہو،پیغمبر ،نماز ،قبلہ اوران مشترکات کو جنہیں ہم نے عرض کیاہے، تسلیم کرتا ہو، ایسے شخص کے سلسلے میں ہم بھی ذمہ دار ہیں۔ ذمہ داری ماننے کی شرط اس کا اہتمام ہے، ہمہ تن متوجہ رہے کہ فلاں واقعہ کا کیا ہوا اور میں اپنی ذمہ داری کو کس طرح سے نبھاؤں۔ یہ تھی ایک حدیث ۔
دوسری حدیث جو ہمیں اپنے مطلب سے نزدیک ترکرتی ہے، وہ سرکار رسالت ﷺ کی مشہور ومعروف حدیث ہے: ’’من سمع رجلا ینادی یا للمسلمین فلم یجبہ فلیس بمسلم‘‘ (کافی ؍کتاب الایمان والکفر باب ۷۰؍حدیث ۵) ’’جو شخص دنیا کے کسی بھی گوشہ سے کسی مسلمان کی فریاد سنے جو پکار رہاہے کہ اے مسلمانو! میری فریاد سنو!اور وہ ا س کا مثبت جواب نہ دے، وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘
جنا ب والا!آپ کیسے مسلمان ہیں کہ ایک مسلمان آپ کو مدد کے لیے پکار رہاہے مگر آپ اس کی مددنہیں کرتے ! سرکار رسالت ﷺ ،اس سے زیادہ واضح اور کھلے لفظوں میں اور کیا فرماتے ؟
اسلامی اتحاد یعنی اللہ کی رسی کو تھامنا او ر مشترکہ ذمہ داری کو قبول کرنا، ناگزیر واجبات میں سے ہے ۔جس طرح نماز ہمارے اوپر واجب ہے، اسی طرح اس معنی میں اتحاد کہ جو میں عرض کر رہاہوں یعنی سیاسی اور اجتماعی اتحاد ،مسلمانوں کے امور کو اہمیت دینا اور اسلام وقرآن کی عائد کردہ مشترکہ ذمہ داری کو قبول کرنا بھی واجبات میں سے ہے۔ جس طرح آپ پر نماز پڑھنا ،روزہ رکھنا ،حج کرنا واجب ہے اور جس طرح کھانا کھانا واجب ہے، اسی طرح مسلمانوں کے امور کو اہمیت دینا بھی واجب ہے تاکہ اسلام کا دامن آپ کے ہاتھ سے نہ چھوٹے اور مسلمان ظلم وستم کی چکی میں نہ پسیں۔
آیا اب تک ’’ بینی وبین اللہ ‘‘ ہم نے اس فریضہ پر عمل کیاہے ؟مسلمان اس فریضہ پر عمل کررہے ہیں ؟ہر معاشرہ میں شاذ ونادر ایسے افراد پیدا ہوتے ہیں جن کا دل عالم اسلام کے لیے دھڑکتاہے ،دوسرے یا تو کانوں میں انگلیاں دھرلیتے ہیںیا ان میں سے کچھ ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ہم سے کیا مطلب کہ فلاں جگہ کیا بیت رہی ہے۔ مسئلہ فلسطین ،جس کے بارے میں امام مرحوم ؒ نے کھلے لفظوں میں فرمایا ہے کہ اسلامی مسائل میں سرفہرست ہے، میں نے خود لوگوں کو کہتے ہوئے سنا ہے’’عرب ،یہودیوں سے برسرِپیکار ہیں ،ہم سے کیا مطلب ہے؟‘‘ جنا ب والا! یہ عربوں اور یہودیوں کامسئلہ نہیں ہے، اسلام کا مسئلہ ہے، انہوں نے مسلمانوں کے قبلہ اول پر قبضہ جمالیاہے، تین سو کلو میٹر یا اس سے کچھ زیادہ (مجھے صحیح معلوم نہیں) دوسرے قبلہ (کعبہ) سے دور نہیں ہیں، جب بھی چاہیں اس پر قبضہ جماسکتے ہیں، خاص کر ان کی اس طاقت کو دیکھتے ہوئے۔ اور وہ حکومت جو اس ملک پر حکمران ہے، دونوں امریکہ کے نوکر ہیں۔یہ ہے مسلمانوں کی حالت زار ،ہم کیوں اس کے علاج کی فکر نہیں کرتے؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بچپن سے ہمارے اعتقادی مسائل میں اس کو رکھ کر ہمیں صورت سے آگاہ کرتے۔
مسئلہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں یہی چیزیں آتی ہیں۔ جب انسان ذمہ داری قبول کر لے تو وہ آنکھیں کھلی رکھتاہے کہ کہاں غلطی ہو رہی ہے، انفرادی اور اجتماعی غلطی تاکہ اس کا سدِباب کر سکے، کہاں معروف نہیں ہے تاکہ اس کا حکم دے،کمر ہمت باندھ کر اٹھ کھڑا ہو اور اتحاد کامنادی بن جائے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج چاروں طرف سے دشمن نے اسلام پرحملوں کی بھر مار کر رکھی ہے، مسلّم ہے کہ ان کا ایک ہی منصوبہ ہے اور میرا عقیدہ ہے کہ اس منصوبہ کا تانا بانا اسرائیل یا امریکہ میں بنا جاتاہے تاکہ اسلام کو چاروں طرف سے کاٹ کررکھ دیں اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیں۔
میری گزارش یہ ہے کہ اگر مسلمان اس مشترکہ ذمہ داری کو جس کے بارے میں ،میں نے عرض کیاہے، اسلام کے عملی اصولوں کے ساتھ متمسک ہوتے ہوئے، جو بذات خود ایک ضابطہ اور اصل ہے، نبھائیں تو اس کی شرط یہ ہے کہ
۱۔مسلمان ہوں اور کم سے کم ان بنیادی اصول کو جانیں اور ان پر عمل کریں ۔
۲۔تمام مسلمانوں کے حالات سے باخبر ہوں۔
پچھلے سال ایام حج میں البانیہ سے کچھ لوگ مقام معظم رہبری کے بعثہ میں آئے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم کمیونزم زدہ البانیائی ،ستر سال کے بعد آزاد ہوئے ہیں، ہمارے نوجوانوں کو صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ مسلمان ہیں ،اسلامی جذبات کے دیپ ان کے اندر روشن ہو رہے ہیں، لیکن اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ یہ ایک مصیبت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی اکثریت ایسی ہے جن کا ابھی تک ختنہ نہیں ہوا ہے، حرام وواجب کا شعور سرے سے ان کے دماغ میں پیدا نہیں ہوا ہے، انہیں معلوم نہیں کہ واجب وحرام کیاہے ،یہ مصیبت ہے جس سے ہم بے خبر ہیں۔ بوسنیا ہرز گوینا میں پارٹی کانائب رئیس، جو اس ملک کا نائب صدر بھی تھا، اپنے ایک عالم سے جو عربی اچھی طرح بول لیتا تھا، اپنا درد دل بیان کررہا تھا کہ جناب ہماری فریاد کو پہنچیے۔یہ واقعہ ۱۹۹۲ء کے حج کاہے، جب جنگ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ ایک روز آپ سنیں گے کہ انہوں نے ہمارا قتل عام کردیاہے۔ دوسری جنگ عظیم میں ،جب ساری دنیا جنگ کی لپیٹ میں تھی، عیسائیوں کے مختلف فرقے ’’کیتھولک‘‘ او ’ر’آرتھوڈکس‘‘(یعنی سرب اور کروٹس)آپس میں متحد ہوگئے ،انہوں نے ہمارا قتل عام کیا لیکن مسلمانوں کو کانوں کان خبر نہ ہوسکی۔
اس وقت مسلمان صومالیہ کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟علاوہ ان لوگوں کے جنہوں نے مدرسہ دیکھا ہے ،کالج گئے ہیں، جغرافیائی نقشہ کو جانتے ہیں، کیا کوئی اور یہ بتاسکتاہے کہ صومالیہ کہاں ہے ؟ صومالیہ افریقہ کے ایک کونے میں واقع ہے۔ چند ماہ پہلے میں افریقہ میں تھا، مجھے بتایا گیا کہ مسلمانوں کے دوقبیلے یا ان کی دو پارٹیاں آپس میں لڑ پڑیں اور انہوں نے ہر چیز کو تباہ وبرباد کردیا ۔دونوں مسلمان ہیں ،لیکن جتنی عمارتیں ،جتنے کارخانے اور کھیت تھے، سب تہس نہس ہوگئے اور اب وہ لوگ قحط کی لپیٹ میں ہیں جبکہ ہم بے خبر ہیں۔ (بعد میں امریکہ نے مداخلت کی تھی )۔
اس ذمہ داری کو نبھانے کی شرط ،دو چیزیں ہیں :
پہلی شرط یہ ہے کہ اسلام کو اجمالی طور پر پہچانیں کہ کون مسلمان ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کے حالات سے باخبر رہیں ۔
ایک بار کسی اخبار کے ایڈیٹر نے مجھ سے پوچھا کہ میں اسلام کے بارے میں کس قسم کا مقالہ تحریر کروں ؟میں نے کہا دنیائے اسلام کا تعارف ،دنیائے اسلام کو پہچنواؤ۔ چند سال پہلے محمود شاکر نامی مصر کے ایک دانشور نے عربی زبان میں اسلامی ممالک کے بارے میں چھوٹی چھوٹی کتابیں لکھیں ،ہر ملک کے بارے میں ایک چھوٹی سی کتاب لکھی ،میں نے ان کتابوں کو مصر سے خریدا۔ایک کتاب تنزانیا کے بارے میں تھی۔ تنزانیا ایک اسلامی ملک تھا جس کے عوام مسلمان اور کچھ ان میں سے شیعہ تھے۔ بعد میں وہاں انقلاب آیا اور ایک عیسائی ان کا صدر بن گیا ،یعنی ایک اسلامی ملک نے عیسائیت کارنگ اختیار کر لیا اور مسلمانوں کو خبر تک نہ ہوئی۔قصہ یہ ہے ۔
پس اس مشترکہ ذمہ داری کو نبھانے کی شرط مسلمانوں کے حالات سے آگاہی ہے۔ یہاں ایک طرف عوامی خبر رساں ایجنسیوں ،اخباروں ،مقرروں، خبر نگاروں اور ریڈیو وٹیلویژن کی ذمہ داریاں ہیں اور دوسری طرف وزارت ارشاد اور وزارت خارجہ کی ذمہ داری اہم ہوجاتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے حالات کے بارے میں موثق ذرائع سے مکمل اطلاعات حاصل کریں اور دوسرے مسلمانوں کو ان سے آگا ہ کریں اور مسلمان جب باخبر ہوجائیں گے تو وہ ان کو اہمیت دیں گے، اپنی ذمہ داری کا احساس کریں گے اور انہیں راتوں کو نیند نہیں آئے گی۔ ایک عالم نے مجھ سے چند دن پہلے کہا کہ بوسنیا وہرز گوینا کے حالات سوچ کر مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی،یہی وہ حقیقت ہے جس کے بارے میں رسالت مآب ﷺ نے فرمایا ہے: ’’من اصبح لا یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم‘‘۔ بوسنیا ہرز گوینا میں مسلمانوں کے قتل عام کی خبر سن کر مسلمانوں کو نیند نہیں آنی چاہیے اور وہ اپنی ہرچیز کو قربان کردیں ،مال وجان آبرو کیاہے؟ہرچیز کو قربان کردیں تاکہ مسلمانوں کو اس ظلم وستم سے چھٹکارا دلاسکیں۔
غامدی صاحب کے اصولوں کا ایک تنقیدی جائزہ
حافظ محمد زبیر
’الشریعہ‘ کے جنوری ۲۰۰۶ کے شمارے میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کے مضمون کے جواب میں غامدی صاحب کی تائید میں لکھی جانے والی دو تحریریں نظر سے گزریں ، جن کے حوالے سے کچھ گزارشات اہل علم کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
جناب طالب محسن صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ انھوں نے اپنے خط میں ایک بڑی اچھی بات کہی ہے کہ غامدی صاحب پر کی جانے والی تنقیدیں عام طور پر طعن وتشنیع اور تضحیک و استہزا پر مبنی ہوتی ہیں اور صاحب تنقید اپنے لیے قلمی جہاد کا جوازفراہم کرتے ہوئے نوک قلم سے اپنے ہی علم و تقویٰ کا خون کر ڈالتا ہے ۔لیکن کاش کہ طالب محسن صاحب جناب غامدی صاحب کو بھی یہ نصیحت کر سکتے کیونکہ ان کی کتاب ’برہان‘ میں اسی نوع کی تنقیدیں جا بجا موجود ہیں ،خصوصا ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور پروفیسر طاہر القادری صاحب پر تنقید کے ضمن میں دلیل و تحقیق کی بجائے زبان و ادب کے جوہر زیادہ دکھائے گئے ہیں جسے علمی تنقید و تحقیق کی بجائے ادبی تنقید کا نام دیا جائے تونامناسب نہ ہوگا ۔اگر طالب محسن صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ غامدی صاحب کے ساتھ اس قسم کی تحریروں سے زیادتی ہوئی ہے تو خود غامدی صاحب نے بھی دوسروں پر تنقید کرتے ہوئے طعن و تشنیع اور تضحیک و استہزا سے کم پر اکتفا نہیں کیا ۔ اصولی طور پر طالب محسن صاحب کی بات سے کس کو اختلاف ہو سکتا ہے کہ مسلم معاشرے میں بحث ومباحثے کے دوران کسی مسئلے میں حق بات معلوم کرنے کے لیے ادبی و ذاتی تنقید کی بجائے علم و تحقیق کی روشنی میں متعین دلائل کو مثبت تنقیدکی بنیاد بنایا جائے ،لیکن دوسروں کو حق بات کی نصیحت کرنے سے پہلے انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود بھی اس پر عمل پیرا ہو۔ اس لیے میرا طالب محسن صاحب اور ان کے ممدوح غامدی صاحب کو عاجزانہ مشورہ یہی ہے کہ وہ دوسروں پر برہان قائم کرنے کے لیے تضحیک و استہزا پر مبنی ادبی و اخباری کالموں کو ’برہان ‘نہ بنائیں بلکہ مسلمہ اصول تحقیق و دلائل کی روشنی میں مثبت تنقید کرتے ہوئے لوگوں کے لیے ایک نمونہ قائم کریں تا کہ ان کے فکر و فلسفہ کی مخالفت کرنے والوں کے لیے قولی حجت کے ساتھ ساتھ فعلی حجت بھی قائم ہو جائے ۔غامدی صاحب کی ’برہان‘جس قسم کی تنقیدوں سے بھری پڑی ہے، کیا یہ اصولی تنقیدیں ہیں؟قرآن کی کسی ایک آیت کے ترجمے کوبنیاد بناکریا ’مسئلہ بیعت‘ پرتنقید کرکے اگر غامدی صاحب کے متبعین یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اصولی تنقید کا حق ادا کر دیا ہے تو یہ ان کا زعم باطل ہے۔ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ جیسی تنقید انہوں نے دوسروں پر کی ہے، ویسی ہی تنقید ان پر ہو رہی ہے۔ غامدی صاحب کی موجودہ ’برہان ‘جب تک موجو د رہے گی ان کے مخالفین کو اس قسم کی ادبی، جذباتی اور بقول ان کے جزوی تنقید کا جواز فراہم کرتی رہے گی ۔
غامدی صاحب اور اہل سنت کے اصولی اختلافات
جہاں تک طالب محسن صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ غامدی صاحب پر کوئی علمی یا اصولی تنقید نہیں ہوئی تو ان کایہ کہنا قطعاً درست نہیں ہے ۔اصل مسئلہ غامدی صاحب پرعلمی و اصولی تنقیدکے ہونے یا نہ ہونے کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ اصول تنقید کا ہے ۔اگر غامدی صاحب علمائے اہل سنت کے ان ا صولوں ہی کو نہیں مانتے جن کی بنیاد پر تنقید ہوئی ہے توظاہرہے کہ ان کے نزدیک واقعی ابھی تک ان پر تنقید ہوئی ہی نہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ جن اصولوں کی روشنی میں علما نے ان پر تنقید کی ہے، وہ ان اصولوں ہی کے قائل نہیں۔غامدی صاحب اہل سنت سے الگ ہیں، ان کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں ۔اس کی اہم وجوہات درج ذیل ہیں :
۱) اہل سنت کے ہاں اعتزال (قرآن سنت کے نصوص سے استدلا ل کرتے وقت اہل علم کے ہاں معروف طریق کار کو نظر انداز کرنا اور اس کے برعکس کسی انداز کو اختیار کرنا)ایک طرح کی گالی ہے جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک یہی نادر انداز فخر کا باعث ہے۔اس اصول کے تحت وہ آئے روز نت نئی تحقیقات پیش کرتے رہتے ہیں ۔
۲) اہل سنت اجماع کو حجت سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف رائے دینے کو ’اتباع غیر سبیل المؤمنین‘ شمار کرتے ہیں جبکہ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ اجماع دلیل ہے لیکن حجت نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ پوری امت گمراہی پر اکٹھی ہو سکتی ہے اور یہ ممکن ہے کہ گزشتہ چودہ صدیوں میں کوئی شرعی مسئلہ کسی عالم یا فقیہ کی سمجھ میں نہ آیا ہو اور پہلی دفعہ ان پر یا ان کے امام صاحب پرمنکشف ہوا ہو ۔اس اصول کے تحت انہوں نے بہت سے اجماعی مواقف کے برعکس اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
۳) اگر کسی مسئلہ میں اہل سنت کے علما کہتے ہیں کہ اس مسئلے کی دلیل حدیث ہے تو غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث سے دین ثابت نہیں ہوتا، یعنی حدیث سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہر گز کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔جبکہ علمائے اہل سنت کے نزدیک قرآن کی طرح حدیث سے بھی دین ثابت ہوتا ہے ۔اس اصول کے تحت انہوں نے شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کا انکار کیا ہے۔
۴) اہل سنت کہتے ہیں کہ قرآن کی طرح حدیث بھی دین اور اللہ کی شریعت کو ثابت کرنے والی ہے کیونکہ یہ وحی خفی ہے۔ جس طرح قرآن وحی جلی ہے اسی طرح حدیث بھی وحی کی ایک قسم ہے اور اسے وحی خفی کہتے ہیں ۔لیکن غامدی صاحب حدیث کو وحی کی حیثیت دینے سے انکاری ہیں۔ غامدی صاحب کہتے ہیں حدیث وحی نہیں، ہاں حجت ہو سکتی ہے۔اس اصول کے تحت انہوں نے استخفاف حدیث کے فتنے کی بنیاد رکھی۔
۵) اہل سنت کے موقف کے مطابق اسلام کے بنیادی مآخذ کتاب اللہ ( قرآن مجید) اور سنت رسول ﷺ ہیں جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک کتاب اللہ سے مراد صرف قرآن نہیں بلکہ کتاب الٰہی ہے یعنی تورات ، انجیل ،اور صحف ابراہیم بھی اس میں شامل ہیں ۔ جہاں تک سنت کا معاملہ ہے تو غامدی صاحب کا مؤقف یہ ہے کہ سنت رسولﷺ کی نہیں ہوتی بلکہ سنت سے مراد سنت ابراہیمی ہے یعنی دین کی وہ روایت جو حضرت ابراہیم سے جاری ہوئی۔
راقم نے سطوربالا میں یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اب تک غامدی صاحب پرکتاب و سنت اور حدیث واجماع کے اصولوں کی روشنی میں علما نے جو تنقید کی ہے، اس کو غامدی صاحب کے پیروکار علمی تنقید شما ر کیوں نہیں کرتے ؟وجہ صاف ظاہر ہے کہ اہل سنت اور ان کے مابین اصولی اختلاف ہے اس سے بھی آگے بڑھ کران کے مآخذ دین علیحدہ ہیں ،ان کے نصوص علیحدہ ہیں ۔ اہل سنت کے ہاں کتاب و سنت حضرت محمد ﷺ سے شروع ہوتی ہے اور انہی پر ختم ہو جاتی ہے یعنی اہل سنت کے نزدیک کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جو آپ پر نازل ہو ا اور سنت سے ان کی مراد آپؐ کی سنت ہوتی ہے ، جبکہ غامدی صاحب کی کتاب وسنت حضرت ابراہیم ؑ سے شروع ہوتی ہے اور(ان کے بعد کے تمام اسرائیلی انبیاء کو شامل کرکے)محمد ﷺ پر ختم ہوتی ہے ۔
اہل سنت کے علما حضرت ابراہیم سے لے کر رسول ﷺ تک آنے والے تمام انبیا و رسل کو مانتے ہیں اور ان پر نازل ہونے والی اصل کتب مثلاً تورات ، انجیل اور صحف ابراہیم کو بھی کلام الٰہی مانتے ہیں لیکن جب وہ کتاب و سنت کو اپنی کتب میں بطور مآخذ شریعت بیان کرتے ہیں تو کتاب سے ان کی مراد ’قرآن مجید ‘اور سنت سے مراد ’سنت رسولﷺ‘ ہوتی ہے ۔لہٰذا اہل سنت اور فرقہ غامدیہ کا اختلاف ایسا ہی ہے جیسا کہ اہل سنت اور اہل تشیع کا،کیونکہ دونوں کی کتاب و سنت علیحدہ ہے۔
یہاں تک ہم نے طالب محسن صاحب کی خدمت میں یہ بات پیش کی ہے کہ انہیں علما کی طرف سے غامدی صاحب پر ہونے والی تنقید ،تنقید کیوں نہیں نظر آتی۔ غامدی صاحب کے فہم دین کے اصولوں پر جامع بحث ان شاء اللہ کسی اور موقع پر کی جائے گی ۔ فی الحال ہم قدرے تفصیل کے ساتھ ان کے صرف ایک اصول پربحث کرنا چاہتے ہیں ، اور وہ ہے ان کا تصور کتاب۔
غامدی صاحب کا فلسفہ کتاب
جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ہے، غامدی صاحب کے وضع کردہ اصول اہل سنت کے اصولوں سے بالکل مختلف ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے مسائل میں غامدی صاحب نے خود اپنے وضع کردہ اصولوں سے بھی کلیتاً انحراف کیا ہے ۔اس کی بعض مثالیں ذیل کی بحثوں میں سامنے آئیں گی ۔غامدی صاحب کے نزدیک قرآن میں لفظ کتاب سے مراد کلام الٰہی ہے، چاہے یہ تورات و انجیل کی شکل میں ہو یاقرآن و زبور کی صورت میں۔ان کے مآخذ دین میں منسوخ شدہ آسمانی کتابیں تورات و انجیل وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اسی لیے فکر غامدی کی روشنی میں خود ان کی طرف سے یا ان کے مریدین کی طرف سے جب بھی کوئی نئی تحقیق سامنے آتی ہے اس میں اکثر و بیشتر کتب سابقہ سے استدلال کیا جاتاہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک سابقہ کتب سماویہ پر عمل کرنے کی علت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کی نبوت میں اللہ کے بندوں کے لیے بھیجی گئی شریعت کے احکامات بہت حد تک ایک واضح سنت کی شکل اختیار کرگئے تھے اور حضرت ابراہیم سے لے کر حضرت محمد تک جتنی بھی شریعتیں آئیں، ان میں نسخ بہت کم ہے، اس لیے امت محمدیہ اللہ کے رسول ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے ساتھ ساتھ ان تمام شرائع سابقہ کی مخاطب و متعبد ہے، بشرطیکہ کتاب مقدس کی تعلیمات محفوظ ثابت ہو جائیں۔ان کے نزدیک سابقہ شرائع کے اکثر و بیشتر احکامات اب بھی دین اسلام میں قانون سازی کا ایک بہت بڑا ماخذ ہیںَ، اگرچہ سابقہ شرائع کے بعض احکامات میں نسخ کے وہ قائل ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :
ْ’قرآن مجید دین کی آخری کتاب ہے ۔ دین کی ابتدا اس کتاب سے نہیں،بلکہ ان بنیادی حقائق سے ہوتی ہے جو اللہ نے روز اول سے انسا ن کی فطرت میں ودیعت کر رکھے ہیں ۔اس کے بعد وہ شرعی احکام ہیں جو وقتاً فوقتاً انبیا کی سنت کی حیثیت سے جاری ہوئے اور بالآخر سنت ابراہیمی کے عنوان سے بالکل متعین ہو گئے ۔ پھر تورات ، زبور اور انجیل کی صورت میں آسمانی کتابیں ہیں جن میں ضرورت کے لحاظ سے شریعت اور حکمت کے مختلف پہلووں کو نمایاں کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد نبی ﷺ کی بعثت ہوئی اور قرآن مجید نازل ہوا ۔ چنانچہ قرآن دین کی پہلی نہیں بلکہ آخری کتاب ہے اور دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق ، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں ۔‘‘
اسی لیے سابقہ کتب سماویہ کی تعلیمات جب ان کے خودمعین کردہ معیار صدق و کذب پر پوری اترتی ہوں تو وہ ان کتابوں کی آیات سے قرآنی آیات کی طرح کثرت سے استدلال کرتے ہیں۔ہم یہ کہتے ہیں کہ اصل میں غامدی صاحب نے علت متعین کرنے میں غلطی کی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی بعثت کے بعد اور قرآن کے نزول کے بعد امت محمدیہؐ سابقہ شرائع کی متعبد نہیں ہے اللہ کے رسول ﷺ کا لایا ہوا دین اور شریعت جامع اورکامل و اکمل ہے۔ بالفرض اگر پچھلی شریعتیں محفوظ بھی ثابت ہو جائیں پھر بھی ان پر عمل نہیں ہو گا الاّ یہ کہ کوئی حکم پچھلی شریعتوں میں موجودہونے کے ساتھ ساتھ ہماری شریعت میں بھی ثابت رکھا گیا ہو یا اس کی تصدیق مذکور ہو ، یعنی اس پر عمل اس وجہ سے کیا جائے گا کہ وہ ہماری شریعت میں ثابت یا مذکو رہے نہ کہ اس پر عمل پچھلی شریعت کی بنا پر ہو گا ۔ غامدی صاحب کے نزدیک حضرت ابراہیم کے بعد آنے والی تمام شریعتیں تقریباًً کامل تھیں اور ہر دور کی تہذیب و تمدن کے لیے رہنمائی کی صلاحیت رکھتی تھیں ،جبکہ ہم صرف اس پہلو سے تمام سابقہ شرائع کو کامل مانتے ہیں کہ وہ خاص ادوار کے لیے کامل ہدایت تھیں جبکہ زمان و مکان کی تخصیص کے بغیر رہتی دنیا تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے علاوہ باقی تمام شریعتیں ناقص ہیں۔ پچھلی آسمانی کتابیں اپنے مخصوص دور کے لیے تھیں اور قرآن کے آنے کے بعد ان کی تشریعی نقطہ نظر سے ضرورت بھی باقی نہیں رہی ۔
اللہ کے رسول ﷺ کی بعثت اور قرآن مجید کے نزول کے بعد امت مسلمہ کے لیے اصل مآخذ و مصادرقرآن و سنت ہی ہیں ۔سابقہ کتب سماویہ اپنے اپنے ادوار میں اپنی قوموں کے لیے ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ تھیں ۔کتاب مقدس قانون سازی میں ہمارے لیے ماخذ ومصدر کی حیثیت نہیں رکھتی۔ہاں اس حد تک کہنا ٹھیک ہے کہ ’ حدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج ‘ جیسی تعلیمات کے مصداق کے طور پر قوم بنی اسرائیل سے متعلقہ قرآنی واقعات اخبار و قصص کی تفہیم کے لیے ہم کتاب مقدس کی عبارات سے استفادہ کر سکتے ہیں لیکن کسی قرآنی واقعے کی تفہیم کے لیے کتاب مقدس سے کیے جانے والے اس استفادے کی بنا پر کوئی حتمی رائے قائم کر لینا ’لاتصدقوا اہل الکتاب و لا تکذبوھم ‘ کے منافی ہے۔ جہاں تک عقائد و احکام میں کتاب مقدس سے استدلال کرنے کا معاملہ ہے تو اس کی کوئی دلیل نقل و عقل میں نہیں ملتی ۔
غامدی صاحب اور سابقہ شرائع سے استدلال
سابقہ شرائع سے استدلال کے لیے غامدی صاحب کا اصل اصول ان کی تحریروں میں اس طرح مذکور ہے:
’’بائبل تورات ،زبور، انجیل اور دیگر صحف سماوی کا مجموعہ ہے ۔ اپنی اصل کے لحاظ سے یہ اللہ ہی کی شریعت اور حکمت کا بیان ہے ۔ اس کے مختلف حاملین نے اپنے اپنے مذہبی تعصبات کی بنا پر اگرچہ اس کے بعض اجزا کو ضائع کر دیا اور بعض میں تحریف کر دی ، تا ہم اس کے باوجود اس کے اندر پروردگار کی رشد و ہدایت کے بے بہا خزانے موجود ہیں ۔اس کے مندرجات کو اگر اللہ کی آخری اور محفوظ کتاب قرآن مجید کی روشنی میں سمجھا جائے تو فلاح انسانی کے لیے اس سے بہت کچھ اخذ و استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس کتاب مقدس میں موسیقی اور آلات موسیقی کا ذکر متعدد مقامات پر موجود ہے ۔ان سے بصراحت یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پیغمبروں کے دین میں موسیقی یا آلات موسیقی کو کبھی ممنوع قرار نہیں دیا گیا۔‘‘
غامدی صاحب کے مذکورہ استدلال کا تجزیہ کیا جائے تو ان کا اصول تین نکات کی صورت میں سامنے آتا ہے:
۱) اگر کسی مسئلے کے بارے میں قرآن میں صریح راہنمائی موجود نہ ہو لیکن اشارات موجود ہوں توقرآن میں وارد شدہ ان اشارات کو بنیاد بنا کر اسی مسئلے کے بارے میں کتب سماویہ کی تفصیلات کی تصدیق کی جاسکتی ہے ۔اس اصول کے تحت غامدی صاحب نے مسئلہ موسیقی کو ثابت کیاہے ۔
غامدی صاحب کے بقول کتا ب مقدس سے موسیقی اور آلات موسیقی کا جواز معلوم ہوتا ہے اور اس کے لیے انھوں نے زبور کا حسب ذیل اقتباس نقل کیا ہے :
’’اے خداوندمیں تیرے لیے نیا گیت گاؤں گا۔دس تار والی بربط پر میں تیری مدح سرائی کروں گا۔‘‘
کتاب مقدس کا ایک اور اقتباس انھوں نے یوں نقل کیا ہے:
’’تو ایسا ہوا کہ جب نرسنگے پھونکنے والے اور گانے والے مل گئے تا کہ خداوند کی حمد اور شکر گزاری میں ان سب کی آواز سنائی دے اور جب نرسنگوں اور جھانجھوں اور موسیقی کے سب سازوں کے ساتھ انھوں نے اپنی آواز بلند کر کے خداوند کی ستایش کی کہ وہ بھلا ہے۔‘‘
جب ہم غامدی صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ کتاب مقدس کی یہ آیات محفوظ ہیں یا منسوخ نہیں ہیں تو غامدی صاحب یہ جواب دیتے ہیں کہ قرآن میں موسیقی کے جواز کے بارے میں اشارات موجود ہیں اور قرآن میں موجود یہ اشارات کتاب مقدس کی مذکورہ آیات کی اس پہلو تصدیق کر رہے ہیں کہ یہ آیات نہ تو منسوخ ہیں اور نہ ہی غیر محفوظ، بلکہ ہمارے لیے شریعت کا درجہ رکھتی ہیں ۔ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’جہاں تک موسیقی کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں قرآن مجید اصلاً خاموش ہے۔ اس کے اندر کوئی ایسی آیت موجود نہیں ہے جو موسیقی کی حلت و حرمت کے حوالے سے کسی حکم کو بیان کر رہی ہو ۔البتہ، اس میں بعض ایسے اشارات موجود ہیں جن سے موسیقی کے جواز کی تائید ہوتی ہے ۔ان کی بنا پر قرآن سے موسیقی کے جواز کا یقینی حکم اخذ کرنا تو بلاشبہ کلام کے اصل مدعا سے تجاوز ہو گا۔‘‘
گویا غامدی صاحب کے نزدیک قرآن میں ،ان کے بقول ،موسیقی کے حوالے سے وارد شدہ اشارات اس بات کی دلیل ہیں کہ موسیقی کے حوالے سے کتاب مقدس کی آیات محفوظ ہیں ۔
۲) اگر کسی مسئلہ کے بارے میں قرآن کے الفاظ میں سابقہ شرائع کے حوالے سے کوئی رہنمائی موجود ہو اور یہ الفاظ مجمل ہوں تو ان الفاظ قرآنیہ کی تفصیل کتاب مقدس کی آیات سے کی جا سکتی ہے۔ اس اصول کے تحت غامدی صاحب نے قرآن میں موجود لفظ ’تماثیل‘ کی بائبل کی آیات کی روشنی میں تفصیل کی ہے اور شیر ،بیل اور ملائکہ کی تصاویر کو بھی کتاب مقدس کی روشنی میں صحیح قرار دیا ہے۔بائبل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے:
’’اور ان حاشیوں پر جو پڑوں ک